TJ Vol7

TJ Vol7

تحریک جدید ۔ ایک الٰہی تحریک (جلد ہفتم۔ 1985 تا 1987)

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

ارشادات بابت تحریک جدید


Book Content

Page 1

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بابت تحریک جدید ۱۹۸۵ء تا ۱۹۸۷ء

Page 2

تحریک جدید - ایک الہی تحریک Tahrik-e-Jadīd – A Divine Institution Volume: VII (Urdu) Speeches, Sermons & Sayings of: Hazrat Mirzā Tahir Ahmad, rht Khalifatul-Masih IV 1985-1987 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU 10 2AQ United Kingdom Printed in UK at: Raqeem Press 'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU 10 2AQ ISBN: 978-1-84880-122-6

Page 3

نمبر شمار | 01 02 8883 03 04 05 06 07 08 09 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 عناوین فہرست $1985 تاریخ فرموده صفحه نمبر جو حیرت انگیز پاک تبدیلیاں جماعت میں پیدا ہورہی ہیں، یہ تقویٰ من اللہ ہی ہے 04.01.1985 اللہ تعالیٰ کی تقدیر دشمن کو گھیر کر آخری میدان جنگ کی طرف لے آتی ہے اسلام کے نمائندے کے طور پر جماعت تمام مذاہب سے برسر پیکار ہے جماعت احمد یہ پہلے بھی قوم واحد تھی اور آج بھی قوم واحد ہے ہر دوسری چیز دعوت الی اللہ کے کردار سے پھوٹتی ہے 1985 ء مساجد کی تعمیر کا سال ہے جماعت احمدیہ کا عالمی فتح کا پروگرام آپ کے ذریعہ ایک نئی قسم کی اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے گی رسم و رواج کی بیخ کنی شریعت کے بنیادی اصولوں میں سے ہے ہر حال میں خدمت سلسلہ کی جاسکتی ہے خصوصی دعاؤں کی تحریک 01 09 16.02.1985 11 22.03.1985 19 05.04.1985 23 25 27 26.04.1985 33 10.05.1985 47 10.05.1985 51 19.05.1985 53 19.06.1985 55 57 61 63 65 69 01.07.1985 73 07.07.1985 85 12.07.1985 91 13.07.1985 93 16.07.1985 جرمنی کی قسمت تبھی بدل سکتی ہے، جب آپ میں سے ہر فرد داعی الی اللہ بن جائے 22.06.1985 اللہ تعالیٰ نے جرمن قوم میں روحانی انقلاب بر پا کرنے کے لئے آپ کو چن لیا ہے اظہار خوشنودی یورپین ممالک میں میری سب سے زیادہ امید میں جرمنی سے وابستہ ہیں احمدی کی آنکھ خصوصاً دوسرے احمدی کے لئے نگران کا کام کر رہی ہوتی ہے کسی بھی تقریب میں ریاء اور تکلفات کا دخل نہیں انصار اللہ کو جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیموں میں سب سے فعال ہونا چاہئے جماعت احمدیہ کی غیر معمولی مالی قربانیاں انگریزی زبان کے بارے میں اصولی ہدایت آسمانی بشارت کے پورے ہونے کا وقت نزدیک ہے i

Page 4

ہر احمدی تبلیغ کے ذریعہ دنیا میں انقلاب پیدا کرے جماعت احمد یہ تو نیکیوں کا ایک CEBERG ہے دنیا کے ہر ملک میں بسنے والا احمدی اپنے ماحول کو اسلامی معاشرہ کو نمونہ بنادے ہمدردی کا تقاضا ہے کہ بنی نوع انسان کی روحانی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کریں 28.07.1985 مذہبی تحریکوں کی ایک کامیابی ، دوسری کامیابی کی محرک ہوتی ہے دعوت الی اللہ کے تین ہتھیار، دعا تعلق باللہ اور علم ہر سمت میں خدا تعالیٰ ہماری زمینوں کو وسعتیں عطا فرماتا چلا جارہا ہے تبلیغ کے بغیر جماعت کی ترقی اور غلبہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا وارض الله واسعة میں آپ کے لئے اس دین کا پیغام لایا ہوں ، جو سراپا محبت ہے دکھوں اور بے اطمینانی کا علاج صرف اور صرف دین حق میں ہے امن اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ صحیح تعلق قائم کر کے ہی مل سکتا ہے یہ بھی جماعت پر ایک موسوی دور ہے 97 19.07.1985 111 26.07.1985 119 27.07.1985 125 129 15.08.1985 133 25.08.1985 137 30.08.1985 145 149 13.09.1985 163 13.09.1985 165 17.09.1985 167 18.09.1985 169 20.09.1985 179 181 23.09.1985 183 187 191 27.09.1985 205 04.10.1985 219 13.10.1985 221 18.10.1985 237 21.10.1985 241 25.10.1985 259 261 27.10.1985 265 267 08.11.1985 جماعت احمد یہ اس خالص دین حق پر یقین رکھتی ہے، جس میں جبر کی گنجائش نہیں 22.09.1985 جرمن قوم کے ساتھ دلی وابستگی اور قبولیت دعا کا ایک واقعہ مشن بنانے کا مقصد جماعت کو بڑھانا اور اسلام کا پیغام پھیلانا ہے اللہ کی رضا ہی اصل مقصود و مطلوب ہے جماعت احمدیہ کو بطور خاص آج کل غیر معمولی تبلیغ کی طرف توجہ کرنی چاہئے تبلیغ کرنی ہے تو ہر احمدی کو کرنی پڑے گی اصل عزت یہ ہے کہ خدا کی خاطر تمہاری راہ میں روکیں ڈالی جائیں دورہ یورپ کے حالات اور احیاء دین کا عزم دعا کریں کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو ہم جذب کر سکیں اور کماحقہ شکر ادا کرسکیں تحریک جدید نمی قربانیوں میں ایک نمایاں امتیاز رکھتی ہے الہی سلسلوں میں حقیقی عزت اور بڑائی کا پیمانہ ماہ و سال نہیں بلکہ تقولٰی ہوتا ہے قوم اور ملک میں جنت تبھی آتی ہے، جب مائیں خود داعیہ الی اللہ ہوں پوری طاقت کے ساتھ دعوت الی اللہ کے جہاد میں مصروف ہو جائیں ولتنظر نفس ما قدمت لغد 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48

Page 5

275 279 281 283 287 08.12.1985 295 20.12.1985 299 301 303 307 317 03.01.1986 321 31.01.1986 323 23.02.1986 325 327 21.03.1986 329 331 04.04.1986 343 25.04.1986 345 347 10.05.1986 349 09.06.1986 357 20.06.1986 361 365 25.07.1986 367 کچھ بھی ہو بند مگر دعوت اسلام نہ ہو صحابہ رضی اللہ عنہم کے نمونے پر چلنے کا وقت قریب آ گیا ہے يد الله فوق الجماعة پس آپ کو ہر سمت میں خدا کے نام پر جہاد کے لئے تیار ہونا چاہیے مجلس شوری ایک مقدس ادارہ ہے شاہراہ غلبہ اسلام پر چلنے کے لئے اپنے اختلافات ختم کرنے ہوں گے دعوت الی اللہ ہر فر د جماعت پر فرض ہے احمدیت کی ترقی اور تمام دنیا پر اس کا غلبہ ایک اہل تقدیر ہے جماعت احمدیہ قومی عصبیت اور عہدہ کی طلب سے کلیۂ پاک اور بیزار ہے دنیا کے لئے پیغام احمدیت تو امن و سلامتی کا مژدہ جاں فزا ہے $1986 نئے سال کا ایک رحمت کا پھل، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فر مایا اصلاح معاشرہ کے بغیر حقیقت میں اسلام کا غلبہ دنیا پر نہیں ہو سکتا جماعت احمدیہ کے لئے یہ سال غیر معمولی اہمیت کا سال ہے ہر بچہ اور جوان اور بوڑھا پکا نمازی بن جائے عددی اکثریت کی بجائے اپنے معیار تقویٰ کو بڑھانے کی طرف توجہ کریں نئی نسل کو خصوصا اور بڑوں کو عموماً قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی طرف توجہ دیں چندہ دینے والے اور اسے خرچ کرنے والے ہر دو اپنے معیار تقویٰ کو بلند کریں آپ نے نئی زمین اور نئے آسمان کے لئے کوشش کرنی ہے آپ نے اس ملک کی تقدیر کو بدلنا ہے اسلام میں اتمام نعمت احمدیوں کے ہاتھوں مقدر ہے خدا سارے جہاں میں اس جماعت کو غلبہ نصیب فرمائے گا سیدنا بلال فنڈ سے سو زبانوں میں قرآن کریم کے نمونہ کے ترجمے کی اشاعت نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 اللہ تعالیٰ احمدیت کو دنیا کے مظلوموں کے لئے نجات کا باعث بنائے 73 تمام انسانی تہذیب میں صرف ایک مرد نے عورت کی آزادی کی تحریک چلائی ہے 26.07.1986

Page 6

74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 ळ بہار آتی ہے اس وقت خزاں میں وقف زندگی سب سے بہترین پیشہ ہے، جو انسان اختیار کر سکتا ہے خلیفہ وقت کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی قسم کی مالی تحریک کرے مبلغ کو بھی تھکنا نہیں چاہیے اور جماعت کو مسلسل بیدار رکھنا چاہیے اشاعت قرآن، تعمیر مساجد، دعوت الی اللہ اور سیرۃ النبی کے اجلاسات کی تحریک ہم نے لازما غالب آتا ہے ، ایک ملک میں نہیں ، ہر ملک میں غالب آتا ہے پوری طاقت کے ساتھ دعوت الی اللہ کے جہاد میں مصروف ہو جائیں کینیڈا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی اولیاء اللہ بنانے کی کوشش کریں اسلام کے مستقبل کے لئے کینیڈا ایک بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے بلند پروازی اختیار کریں اور روحانی رفعتوں کو حاصل کریں آپ کا یوسف تو روحانی غلبہ ہونا چاہئے آئندہ فتح و شکست کا فیصلہ نظریات کی دنیا میں نہیں ہوگا عمل کی دنیا میں ہو گا 369 26.07.1986 375 28,29.07.1986| 29.07.1986 31.07.1986 08.08.1986 29.08.1986 403 405 20.09.1986 407 03.10.1986 413 10.10.1986 425 17.10.1986 427 17.10.1986 435 24.10.1986 439 441 443 26.10.1986 447 451 31.10.1986 463 07.11.1986 477 481 485 487 قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ امن ہے اور حصول امن کا آسان ذریعہ ذکر الہی ہے 24.10.1986 تبلیغ کا میدان آپ سب کی خاص توجہ کا متقاضی ہے مغرب سے دین کا سورج دوبارہ ابھرے گا اور سارے عالم کو روشن کر دے گا قوموں کے عروج وزوال میں عورتوں کا گہرا ہاتھ ہوتا ہے تحریک جدیدا مجمن احمد یہ وقف زندگی کے نظام کی سب سے نمایاں مظہر ہے جب تک آپ خود سید نہیں بنیں گے، آپ دنیا کی سیادت کیسے کریں گے؟ صحابہ کے نمونے آپ کا سطح نظر ہونے چاہئیں میں ہندوستان کے افق پر اسلام کے لئے ظفر مند حالات دیکھ رہا ہوں مجالس عاملہ بیٹھ کر غور کریں، مبلغین سے مشورہ کریں اور مناسب پروگرام بنا ئیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت بتدریج ترقی پذیر ہے +1987 جماعت احمدیہ کو اپنے وقت کی قیمت کا احساس کرنا چاہئے صد سالہ جو بلی فنڈ کی ادائیگی کا جائزہ اور قربانی کی تحریک 491 09.01.1987 497 23.01.1987 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 > iv

Page 7

515 517 30.01.1987 525 527 06.02.1987 539 13.02.1987 547 549 12.03.1987 551 20.03.1987 553 03.04.1987 561 10.04.1987 567 569 571 573 25.05.1987 577 12.06.1987 589 14.06.1987 603 03.07.1987 607 10.07.1987 615 24.07.1987 623 31.07.1987 627 01.08.1987 631 01.08.1987 699 05.08.1987 711 14.08.1987 721 21.08.1987 729 28.08.1987 741 V آج احمدیت فتح کے لئے آپ سے قربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہے صد سالہ جوبلی کے جشن کے لئے دعوت الی اللہ کے میدان میں تیزی پیدا کریں صحابہ کرام کے نمونہ کو زندہ کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے صد سالہ جوبلی منصوبہ کی کامیابی کے لئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے روحانی جہاد میں مبلغین کے شانہ بشانہ کام کریں تو کل، دعا اور حکمت سے کام کرنے والوں کو سینکڑوں پھل عطا ہو جاتے ہیں عالمی اسلامی برادری کے قیام کے لئے قدرے مشترک چیز تقوی ہے کامل وقف کے سوانبوت ہو ہی نہیں سکتی خدا کی تقدیر جماعت کو عظیم عالمی انقلاب کی طرف لے کے جارہی ہے مجھے جرمنی کا مستقبل بہت روشن دکھائی دیتا ہے وہ ہمیشہ رہنے والی عید ہمیں جلد نصیب ہو، جو شیخ اسلام کی عید ہے یہ عید، تمہاری عید ہے روحانی بیماریاں بھی دنیاوی بیماریوں کی طرح زندگی کا روگ ہوتی ہیں سفید فام یورپین احمدی اگر سونا تھے تو کندن بن چکے ہیں اگر آپ نے اہل یورپ کو نہ بدلا تو وہ آپ کو بدل کر رکھ دیں گے صد سالہ جوبلی کے چندہ کی طرف توجہ کریں وقف کرنے والی اولاد کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنی چاہیئے امراء کو جماعت میں وحدت پیدا کرنے کی ہدایت سوسائٹی میں ہر طرف نیک بات کی نصیحت کریں اور برائیوں سے روکیں بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت دھونڈیں گے دوران سال نازل ہونے والے الہی افضال اور جماعتی ترقیات کا تذکرہ وقف زندگی کی اہمیت اور شرائط عہدیداران کمزور اور خاموش بیٹھ رہنے والوں کو خدمت دین میں لگا ئیں ہماری سب سے زیادہ قیمتی چیز ہمارا ایمان، اصول اور اعلیٰ اخلاقی قدریں ہیں آج جماعت کی سب سے اہم ذمہ داری خدا کا پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے جماعت احمدیہ کا ہرفرد تبلیغ و اشاعت دین کو اپنی زندگی کا مقصد ونصب العین بنائے 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125

Page 8

743 18.09.1987 747 02.10.1987 755 09.10.1987 767 16.10.1987 783 23.10.1987 799 30.10.1987 813 06.11.1987 827 13.11.1987 841 20.11.1987 861 11.12.1987 867 869 877 881 883 911 917 925 جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفانہ کوششیں اور جماعت احمدیہ کا رد عمل اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کی تقدیر بدلنے کے لئے چنا ہے سیرۃ النبی کی پیروی سے امریکہ اسلام کا ایک ناقابل تسخیر قلعہ بن جائے گا احمدیت کے نزدیک خدا کے سب بندے برابر اور یکساں ہیں اگر اپنی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے آپ کو بچائیں تحریک جدید حضرت مصلح موعود نے خدا تعالیٰ کے القاء کے نتیجے میں شروع کی اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی بننا ہے تو پھر ہر احمدی پر تبلیغ فرض ہے واعتصمو بحبل الله جميعاً اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں اسلام کے غلبہ کی ہوا چل پڑی ہے غالب آنے کے ہتھیار.صبر، استغفار، انکسار تسبیح وتحمید آپ نے بھی میں امن کے پیغامبر کے طور پر کام کرنا ہے احمدیت اپنی ذات میں نہات خوبصورت چیز ہے اشاریہ آیات قرآنیہ احادیث مبارکہ کلید مضامین اسات مقامات کتابیات 126 127 128 129 130 131 132 133 134 135 136 137 138 139 140 141 142 143 vi

Page 9

سیدنا حضرت مارا ماراح اخلاق اسم الرابع حمدان شمالی اللہ (1928-2003)

Page 10

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 جنوری 1985ء جو حیرت انگیز پاک تبدیلیاں جماعت میں پیدا ہو رہی ہیں، یہ تقویٰ من اللہ ہی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 04 جنوری 1985ء قوموں پر دو قسم کے حالات آتے ہیں.ایک وہ جس میں تقویٰ محنت اور کسب سے کمایا جاتا ہے اور ایک وہ حالات جبکہ خدا کے فضل کی طرح خدا کی رحمت کی بارش کی طرح تقومی آسمان سے برستا ہے.جماعت احمد یہ اس وقت ایسے ہی دور میں داخل ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے احسانات کے جو کرشمے ہم دیکھ رہے ہیں، جو نیکیاں دلوں کو عطا ہورہی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضوان کی محبت دلوں میں بڑھ رہی ہے، جو عبادات کا ذوق و شوق پیدا ہورہا ہے، جو حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں جماعت میں، اس میں جماعت کے کسب کا کوئی حصہ نہیں.کسی انتظامی کوشش یا جد و جہد کا کوئی حصہ نہیں.یہ تقویٰ من اللہ ہی ہے.خالصہ آسمان سے خدا کے فرشتے وہ تقوی قلوب پر نازل فرمارہے ہیں، جس کے نتیجہ میں خداتعالی نئ نئی عظیم الشان عمارتوں کی خوشخبری دے رہا ہے.ایسے عظیم الشان کاموں کی بنیادیں قائم کر رہا ہے اس تقویٰ کے اوپر، جس کے نتیجہ وو میں جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بالکل نئے انقلابی دور میں داخل ہو جائے گی“.گذشتہ سال کے حالات اور واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جہت سے، ہر سمت میں جماعت احمدیہ کا قدم آگے بڑھایا ہے.کوئی ایک بھی شعبہ زندگی نہیں ہے، جس میں جماعت احمدیہ نے گذشتہ سال نمایاں ترقی نہ کی ہو.کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے، جس میں جماعت احمدیہ نے نمایاں ترقی نہ کی ہو.پاکستان جیسے ملک میں جہاں جماعت کی ہر آزادی پہ پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں، وہاں بھی جماعت کی ہر تحریک نشو نما پارہی ہے اور پہلے سے آگے بڑھ رہی ہے....جہاں تک جماعت کے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا تعلق ہے، ان کا تو شمار ممکن نہیں ہے.اور جتنے شعبے جماعت کے کام کر رہے ہیں، ان سب کا ذکر کر کے اگر خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو وہ بھی ایک خطبہ جمعہ میں تو ممکن ہی نہیں ہے.اس سے پہلے جب جلسہ سالانہ کی اجازت ہوتی تھی تو دوسرے دن کی تقریر میں جماعت احمدیہ کی مختلف جہت میں ترقیات کا ذکر ہوا کرتا تھا.اور اس میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ انتہائی کوشش کے باوجود بھی پچھلے دو سالوں کا تجربہ تو یہ ہے کہ کبھی بھی پورے واقعات نوٹس (Notes) کے مطابق بیان نہیں کر سکا.حالانکہ دو، تین گھنٹے کی کھلی تقریر 1

Page 11

لام 2 اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 04 جنوری 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم ہوتی ہے.بڑھایا بھی جاسکتا ہے.لیکن بار بار نوٹس چھوڑ کر بعض جگہوں سے آگے گذر کر جلدی میں ہی باتیں بیان کرنی پڑتی تھیں.تا کہ کچھ اور اہم نکتے جو بعد میں آنے ہوتے ہیں، وہ رہ نہ جائیں.تو یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک جمعہ کے محدود عرصہ میں، میں یہ ساری باتیں بیان کر سکوں.لیکن بعض پہلوؤں سے میں نے چند چیزیں صرف اخذ کی ہیں تا کہ جماعت احمدیہ کو جو شوق ہے، ہمیشہ سے خوشخبریاں سننے کا اللہ تعالیٰ ان کے دل راضی کرے اور ان کو بتائے کہ یہ جو گذشتہ سال گزرا ہے، یہ کسی لحاظ سے بھی پہلے سالوں سے کم نہیں آیا بلکہ بہت ہی زیادہ برکتیں لے کر آیا ہے.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تبلیغ کے معاملے میں جماعت میں ایک عظیم الشان ولولہ پیدا ہو گیا ہے پچھلے سال.اور کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے، جہاں نئے نئے داعی الی اللہ پیدا نہیں ہور ہے.اور کثرت کے ساتھ ان کی کوششوں کو پھل لگنے لگے ہیں.نئی نئی جماعتیں خدا تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں.نئے نئے ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کا پودا لگایا ہے.اور بعض ملکوں میں تو جماعتوں کے طور پر جس کو فوج در فوج کہتے ہیں، اس طرح لوگ داخل ہوئے ہیں.اور چونکہ یہ صورت حال یعنی تبلیغ میں ایک نیا ولولہ اور نیا جوش ساری دنیا میں نمایاں ہے، اس لئے کسی ایک ملک کا نام تو نہیں لیا جاسکتا.لیکن آپ چونکہ یورپ میں رہنے والے ہیں، اس لئے آپ کو آپ کے ملکوں کے متعلق میں بتاتا ہوں.اور کیونکہ آپ میرے اوّلین مخاطب ہیں کہ انگلستان میں بھی یہ پاک تبدیلی بڑے نمایاں طور پر سامنے آرہی ہے.اور یورپ کے دیگر ممالک میں بھی میرا یہ ارادہ تھا، خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق کہ کوشش کروں کہ ہر جہت سے گذشتہ سالوں کے مقابل پر اس سال دس گنازیادہ تبلیغ کی رفتار ہو جائے.تو جہاں تک یورپ کا تعلق ہے، وہاں تو اللہ تعالیٰ نے یہ فضل پوری طرح حساب سے بھی بڑھ کر عطا فرما دیا.انگلستان میں بھی گذشتہ سال کی نسبت دس گنا سے زیادہ تبلیغ میں اضافہ معلوم ہوا اور جرمنی میں بھی گذشتہ سال کے مقابل پر دس گنازیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا.اور دیگر ملکوں کی تمام تفاصیل تو میرے سامنے نہیں ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ میں ابھی یورپ کے سفر سے بھی آیا ہوں، حیرت انگیز طور پر نو جوانوں میں تبلیغ کی لگن اور جوش ہے.اور طبیعتیں مائل ہو رہی ہیں اس طرف.اس لئے میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ یہ جس کام کی بنیاد پڑگئی ہے کہ ہر احمدی تبلیغ کرے، اس کے نتائج اب انشاء اللہ تعالیٰ اس طرح نہیں آگے بڑھیں گے کہ ایک سے دو ہو جائیں اور دو سے تین اور تین سے چار بلکہ جیسا کہ میری دلی تمنا ہے اور دعا ہے، یہ آپس میں ضرب کھانے لگ جائیں گے.انشاء اللہ دو سے چار اور چار سے آٹھ اور آٹھ سے سولہ اس رفتار سے ہمیں آگے بڑھنا ہے اور اس کے بغیر ہمارا چارہ نہیں ہے.

Page 12

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 جنوری 1985ء امر واقعہ یہ ہے کہ رفتار خواہ کتنی بھی تیز ہو، رفتاروں کے ذریعہ دنیا میں انقلاب برپا نہیں ہوا کرتے بلکہ ایکسلا ریشن Acceleration کے ذریعہ انقلاب ہوا کرتے ہیں.ایکسلا ریشن (Acceleration) کہتے ہیں، ترقی پذیر رفتار کو.یعنی آج اگر دس میل کی رفتار سے آپ چل رہے ہیں تو کل دس میل کی رفتار سے نہیں بلکہ گذشتہ دس میل جمع اور دس میل یعنی میں میل کی رفتار سے آپ چل رہے ہوں اور اس سے اگلے سال میں میل کی رفتار سے نہیں چلیں بلکہ ہیں + دس میل اور تو اس تدریجی رفتار کو انگریزی میں Acceleration کہتے ہیں.اور دنیا میں جتنا بھی کارخانہ قدرت چل رہا ہے، اس کی بنیاد خدا تعالیٰ نے Acceleration پر رکھی ہے.کیونکہ بنیادی طور پر آخری انرجی کی جو صورت ہے، جو Gravitation ہے یعنی زمین کی قوت جاذ بہ یا مادہ کی قوت جاز بہ ، جس کو کشش ثقل بھی کہا جاتا ہے، اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ Acceleration پیدا کرتا ہے.اور جتنی انرجیز (Energies) کی مختلف شر ہیں، خواہ وہ بجلی ہو یا مقناطیس یا کوئی اور شکل ہو ، وہ بالآخر اسی آخری شکل کی مرہون منت ہیں اور اسی کی بدلی ہوئی مختلف صورتیں ہیں دراصل.تو جب خدا تعالیٰ نے اپنے نقشے کی بنیاد Acceleration پر رکھی ہے اور ہمیں متوجہ فرمایا ہے کہ تم قانون قدرت پر غور کرو اور اس سے نصیحت پکڑو اور میری سنت کے راز معلوم کرو اور میرے طریق سیکھو تو روحانی دنیا میں بھی نئی عظیم الشان تخلیقات کے لئے نئے نئے کارخانے شکلیں جاری کرنے کے لئے لازم ہے کہ ہم خدا کی اس جاری کردہ سنت پر غور کریں اور اسی کو اپنائیں.پس آئندہ سال کے لئے اگر یہاں انگلستان میں مثلاً ایک سال میں ساتھ ہوں اور جرمنی میں ایک سودس یا ایک سو ہیں اور ہو جائیں تو یہ تو Stagnation کی علامت ہوگی ہے، ایک مقام پر کھڑے ہو جانے والی بات ہے.اگر دس داعی الی اللہ یہاں پیدا ہوئے تھے تو اگلے سال کم سے کم نہیں ہونے چاہئیں یا اس سے بھی زیادہ.اور جرمنی میں اگر پچاس پیدا ہوئے تھے تو اگلے سال سو یا اس سے بھی زیادہ ہونے چاہئیں.اسی طرح باقی ملکوں کو بھی میں یہی پیغام دیتا ہوں کہ نئے سال میں یہ عہد کریں اپنے رب سے کہ اے خدا! تو نے اپنے فضل سے ہمیں جو تیز رفتاری بخشی ہے، اس تیز رفتاری کو Acceleration میں تبدیل فرما دے، ہمارے ہر کام میں غیر معمولی سرعت ہی نہ ہو بلکہ بڑھتی رہنے والی سرعت عطا ہو، دنیا ہر سال ہمیں ایک نئے دور میں داخل ہوتا دیکھے، تیری راہ میں قدم بڑھانے کی مزید توانائی ہمیں نصیب ہو اور تیری طرف حرکت کے لئے نئے نئے پر ہمیں عطا ہوتے رہیں.ان دعاؤں کے ساتھ ہمیں نئے سال کا آغاز کرنا چاہیے.جہاں تک اس تبلیغ کے نتائج کا تعلق ہے اور روحانی طور پر اللہ تعالیٰ نے تقویٰ عطا فر مایا ہے اور اپنی رضا بخشی ہے، ہمیں اس کا تعلق ہے.اس کے نتیجہ میں ظاہری لحاظ سے کچھ مشکلات بھی دکھائی دیتی 3

Page 13

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 جنوری 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ہیں.اور وہ مشکلات بھی دراصل اللہ کا فضل ہیں.مشکلات یہ ہیں کہ وہ مساجد، جو پہلے ہمارے لئے کافی ہوا کرتی تھیں، اب کافی نہیں رہیں.کچھ نئے آنے والے آئے ہیں، کچھ پرانے جو غافل تھے ، وہ بڑی تیزی کے ساتھ جماعت کی طرف دوبارہ پلٹے ہیں.باہر جانے کی بجائے ان کا رخ اندر کی طرف ہو گیا ہے.چنانچہ وہ مساجد، جو گذشتہ دوروں میں مجھے کافی محسوس ہوتی تھیں، اب تو بالکل اتنی چھوٹی دکھائی دی ہیں کہ حیرت ہے کہ ان سے ہمارے کام کیسے چل سکیں گے.چنانچہ میں نے تو دو یوروپین مشنز کی تحریک کی تھی لیکن اب معلوم ہو رہا ہے کہ دو تو نہیں ، یہ تو لمبا سلسلہ چلنے والا ہے.چنانچہ انگلستان کا جہاں تک تعلق ہے، خدا تعالیٰ نے آپ کو تو ایک بڑا وسیع مشن بھی عطا فر ما دیا لیکن پھر بھی جو دوسری ضروریات ہیں ، وہ پوری نہیں ہو سکتیں.اس لئے یہاں بھی ہمیں جگہ جگہ نئی جگہیں خریدنا پڑیں گی.اور اس کا ہم جائزہ لے رہے ہیں.ایک خوشخبری یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے گلاسگو میں ہمیں ایک بہت عظیم الشان عمارت خریدنے کی توفیق مل گئی ہے.جو دہاں کی جماعت کا ایک حصہ سمجھتا ہے کہ بہت دیر تک ہماری ضروریات پوری ہوتی رہیں گی.لیکن میں سمجھتا ہوں، وہ یہ باطنی کر رہے ہیں اپنے رب پر.اگر بہت دیر تک ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں گی تو پھر وہ بڑھ نہیں رہے.اس لئے میری تو دعا ہے کہ کل ضروریات ان کی پوری نہ ہو سکیں ، اتنی جلدی وہ پھیلیں اور نشو و نما پائیں اور اس تیزی سے آگے قدم بڑھا ئیں کہ ہم دیکھتے رہ جائیں کہ یہ عمارت چھوٹی ہو گئی اور جماعت اس سے بڑی ہو گئی.اس لئے اب گلاسگو کی جماعت کو میری خاص نصیحت یہ ہے کہ خدا کی اس نعمت کا شکر اس رنگ میں ادا کریں کہ اس عمارت کو بھرنے کی کوشش کریں.جلد سے جلد اور خدا کی رحمت پر توقع رکھیں کہ جب وہ بڑھیں گے تو خدا اور عمارتیں بھی عطا کر دے گا.خدا تعالیٰ نے اس لحاظ سے جماعت کو کبھی بھی محروم نہیں رکھا.جرمنی کا سفر میرا خصوصیت کے ساتھ اس لئے تھا کہ وہاں دوسرا ایوروپین مشن خریدنے کے لئے جائزہ لیا جائے.لیکن جب ہم ہالینڈ میں اترے وہاں کی مسجد کو دیکھ کر ہمیں تعجب ہوا کہ ہالینڈ کی مسجد بھی چھوٹی ہوگئی ہے.بہت سے لوگ جو پہلے تعلق نہیں رکھتے تھے، وہ کثرت کے ساتھ تعلق رکھنے لگے.نئے نئے احمدی ان میں داخل ہوئے اور اللہ کے فضل سے وہ جو پہلے بڑی کھلی جگہ دکھائی دیا کرتی تھی، بالکل چھوٹی ہو کے رہ گئی ہے.چنانچہ وہاں بھی خدا تعالیٰ نے توفیق دی.اگر چہ دو، تین دن کا قیام تھا لیکن جماعت نے بھی بڑی بھاگ دوڑ کی، نئی جگہیں تلاش کیں اور اس جگہ کو بھی نئی وسعت دینے کے لئے آرکیٹکٹ بلا کر ان کے ساتھ معاملات طے ہوئے.تو امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد خدا تعالیٰ کے.4

Page 14

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 04 جنوری 1985ء فضل کے ساتھ ہالینڈ میں بھی دو طرح ہمارے مشن وسعت پذیر ہوں گے.ایک موجودہ عمارت کی توسیع کی جائے گی اور دوسرے ایک نیا مشن وہاں قائم کرنا ہے، انشاء اللہ.جب جرمنی پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں تو ہیمبرگ میں بھی ضرورت ہے، وہاں کولن ایک جگہ ہے ، وہاں بھی ضرورت ہے اور میونخ میں بھی ضرورت ہے.وہاں تو جماعتیں شور مچار ہی تھیں کہ ہماری ضرورتیں پوری کرو.آپ ایک مشن کی بات کر رہے ہیں، یہاں تو جگہ جگہ خدا کے فضل نئے مشنوں کے تقاضے کر رہے ہیں.چنانچہ یہی فیصلہ کرنا پڑا کہ ایک تو بڑا مرکز قائم کیا جائے ، فرینکفرٹ کے قریب.اور وہاں خدا کے فضل سے ایک بہت اچھی اور با موقع جگہ پسند کر لی گئی ہے اور Negotiations کے لئے کہہ دیا ہے.بہر حال جو قیمت بھی طے ہوگی ، ہم انشاء اللہ دیں گے اس کی.اور ہیمبرگ مشن کو بھی ہدایت کر دی گئی ہے.دو، تین ان کی جو تجاویز تھیں، وہ سامنے بھی آئیں لیکن وہ بھی پوری نہیں تھیں.ان سے میں نے کہا تھا کہ بڑی جگہ بنا ئیں تو ان کے جو حوصلہ کی چھلانگ تھی، اسی وجہ سے کہ شاید اگلی پانچ سال کی یا دس سال کی ضرورتیں ہماری پوری ہو جائیں گی ، انہوں نے چھوٹی جگہ تجویز کردی.ان سے میں نے کہا ہے کہ آپ کتنے سال پھل کھاتے رہے ہیں گذشتہ لوگوں کی محنت کا.اب ان کا شکریہ ادا کرنے کا تو یہ طریق ہے کہ آئندہ ارادہ یہ کریں کہ گویا آئندہ ہیں یا تمہیں سال تک کی ضروریات کے لئے آپ نے کشادہ جگہ لینی ہے.اور دعا یہ کریں کہ خدا کرے، اگلے سال ہی ہمیں اور جگہ لینی پڑے.یہ ڈھنگ ہیں، جو قدرت نے ہمیں سکھائے ہیں.اس طریق پر خدا تعالیٰ نے دنیا میں نشو و نما فرمائی ہے.اور یہ جاری قوانین ہیں اللہ تعالیٰ کے، جن کے نتیجے میں تمام کائنات ترقی پذیر ہے.اس لئے خدا تعالی کی اس جاری سنت کو دیکھ کر ان سے جب ہم زندہ رہنے کے اسلوب سیکھتے ہیں تو پھر یہی نتائج سامنے آتے ہیں، جو میں آپ کے سامنے سنا رہا ہوں.سوئٹزر لینڈ گئے تو وہاں بھی جگہ بہت چھوٹی نظر آئی.اگر چہ وہاں بہت زیادہ مہنگائی ہے لیکن پھر بھی ہمیں جو فوری ضروریات ہماری ہیں ، وہ تو بہر حال پوری کرنی ہیں.یعنی سوئٹزر لینڈ میں انگلستان کے مقابل پر دس گنا سے بھی زیادہ قیمتیں ہیں جائیدادوں کی.بہر حال ایک جگہ تو زمین کے متعلق ان کا مطالبہ تھا کہ ہمیں جلد لے کر دی جائے.ان سے تو میں نے کہا ہے کہ آپ لوگ چونکہ تبلیغ میں سست ہیں، اس لئے ابھی آپ کا حق نہیں ہے.آپ پہلے اپنا حق قائم کریں، ہر احمدی میں ایک جذبہ اور جوش پیدا ہو، پھر انشاء اللہ تعالیٰ چاہے جہاں سے مرضی روپیہ لانا پڑے، ہم آپ کی ضرورت پوری کر دیں گے.لیکن ابھی ان کو 5

Page 15

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 جنوری 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ایک سال کی میں نے مہلت دی ہے.اس لئے فی الحال سوئٹزر لینڈ میں سوائے پرانے مشن کی کچھ توسیع کے اور کوئی پروگرام نہیں ہے.جب فرانس آئے تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی جماعت میں ایک حیرت انگیز تبدیلی ہے.ہم تو سمجھا کرتے تھے کہ وہاں دس پندرہ کی ایک کمزوری جماعت ہوگی لیکن جب جمعہ پہ ہم اکٹھے ہوئے تو صرف میر دہی پینسٹھ تھے خدا کے فضل سے اور عورتیں اس کے علاوہ بھی تھیں.اور جو خدمت کرنے والی خواتین تھیں، جو سب کا خیال رکھ رہی تھیں اور کھانا وغیرہ پکاتی تھیں اور ہر قسم کی خدمت کر رہی تھیں، ان میں ایک یوروپین خاتون بھی تھیں، جو حیرت انگیز اخلاص سے دن رات محنت کر رہی تھیں وہاں.تو وہاں تو بالکل ایک نیا نقشہ نظر آیا جماعت کا.وہاں خدا کے فضل سے پیرس کے ایک بہت اچھے علاقے میں جو صاف ستھرا اور معاشرہ کے لحاظ سے بھی صحت مند علاقہ ہے، وہاں ایک بہت اچھا مشن خرید لیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو یہ مبارک فرمائے.اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کی جو قانونی Transaction ہے، وہ بھی ایک دو مہینہ کے اندر ہو جائے گی اللہ تعالیٰ کے فضل سے.سودا ہو چکا ہے پختہ، رقم کا ایک حصہ ادا کر دیا گیا ہے اور دوسرا موجود ہے.اسی طرح ایک اور جگہ بھی وہاں جائزہ لینے کی بھی ہدایت کر دی گئی ہے تا کہ فرانس میں ایک نہیں بلکہ دوشن قائم کئے جائیں.تو جہاں تک بیرونی دنیا کا تعلق ہے ، اخلاص کا حال دیکھیں تبلیغ کا ذوق وشوق دیکھیں ،عبادتوں کا شوق دیکھیں، نئے نئے مشنز کا قیام دیکھیں، کسی لحاظ سے یہ سال برا گذرا ہے؟ امر واقع یہ ہے کہ اتنے غیر معمولی فضل ہر سمت سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئے ہیں کہ اس کا شکر ادا کرنے کی طاقت ہم نہیں رکھتے.یہ حق ادا نہیں ہوسکتا ہم سے.اس لئے خدا کی رحمت کے سامنے سر جھکاتے ہوئے پرانے سال کی دہلیز سے گذریں اور نئے سال میں داخل ہوں.اور خدا کی رحمت کے حضور یہ سر پھر بلند اٹھیں نہ کبھی.کیونکہ جو خدا کے حضور شکرانہ کے طور پر اپنے سر جھکاتے ہیں، انہی کو ہمیشہ سر بلندیاں عطا ہوا کرتی ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا کے فضلوں میں بھی اسی طرح Acceleration آئے گی انشاء اللہ جتنی آپ اپنی کوششوں میں ایکسلا ریشن (Acceleration) کریں گے.اللہ کی ہمیشہ سے یہ تقدیر جاری ہے کہ بندے کے تھوڑے کے مقابل پر اپنا بہت زیادہ ڈالتا ہے.ایک غریب آدمی کچھ تھوڑ اسا جب پیش کیا کرتا ہے کسی امیر کو تو اتنا تو ہیں لوٹایا کرتا.اتنا تواگر وہ لوٹائے تو یہ بڑا ہی گھٹیا کام سمجھا جاتا ہے اور بہت ہی حقیر بات سمجھی جاتی ہے.تو اللہ نے اپنے بندوں کو اگر یہ فطرت عطا فرمائی ہے تو آپ تصور نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ کا رد عمل کس قسم کا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریق پر ہمیں سمجھایا اور خلاصہ اس کا یہ ہے کہ آپ 6

Page 16

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 جنوری 1985ء ایک معمولی سی حرکت کرتے ہیں، اس کو خدا تعالیٰ ایک لامتناہی حرکت میں تبدیل کر دیتا ہے.اتنے فضل جاری فرماتا ہے کہ اس کو آپ گن نہیں سکتے ، ان کو آپ سمیٹ نہیں سکتے.جہاں تک پاکستان کے حالات کا تعلق ہے، ان کے فیض سے بھی یہاں آپ کے اندر روحانی تبدیلیاں ہورہی ہیں.یعنی اگر آپ غور کریں تو ان ساری ترقیات کا منبع اور مرکز پاکستان میں پیدا ہونے والا دکھ ہے.اس لئے وَعَلَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ (البقرة:217) کا ایک عجیب منظر ہے، جو ہم دیکھ رہے ہیں.جس طرح تمام دنیا کی توانائی، جو اس نظام کشی میں ہم دیکھتے ہیں، یہ سورج سے نازل ہو رہی ہے، اسی طرح ہر قسم کی توانائی کے بعض مراکز ہوا کرتے ہیں.یہ جو توانائی ساری دنیا میں جماعت احمدیہ میں پھیل رہی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کا مرکز پاکستانی احمدیوں کے دکھوں میں ہے.و ہیں فرانس میں ایک فرانس کے مقامی باشندے، جو خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہیں، انہوں نے ایک سوال کیا.جس کے نتیجہ میں، میں ان کو سمجھا رہا تھا کہ اس دور میں خدا تعالیٰ نے کس کس قسم کے فضل کئے ہیں.میں نمونے ان کو بتارہا تھا تو ایک میں نے ان کو یہ بتایا کہ بڑی کوششیں کی گئیں کبھی خدام الاحمدیہ کی طرف سے، کبھی انصار اللہ کے طرف سے مختلف نظاموں کی طرف سے لیکن کئی ایسے تھے بیچارے نوجوان جو قابو ہی نہیں آتے تھے، تربیت کے لحاظ سے کبھی نماز کے قریب نہیں پھٹکا کرتے تھے.ہر قوم میں کمزور ہوتے ہیں، ہمارے اندر بھی کمزور تھے.لیکن کوشش کے باوجود ہماری پیش نہیں جاتی تھی ان پر.میں نے ان کو بتایا کہ اب یہ دیکھیں کہ کیسے ہم یہ کر سکتے تھے ؟ ہمارا تو اختیار ہی نہیں تھا کہ ایسے ایسے نوجوان مجھے خط لکھتے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں بلکہ ہزار کے لگ بھگ اب تک خط ہو چکے ہوں گے ایسے کہ جنہوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ ہم جو نماز کے قریب بھی نہیں پھٹکا کرتے تھے ، ہم اب تہجد گزار ہو گئے ہیں.جب میں یہ واقعہ ان کو بتارہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے از دیا دایمان کا یہ سامان پیدا فرما دیا کہ میرے پہلو میں دائیں طرف جو نو جوان بیٹھا ہوا تھا، وہ ایک دم بول پڑا کہ میں بھی ان میں سے ہی ہوں ، میرا بھی یہی حال تھا، اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں تہجد پڑھتا ہوں، میں چندوں میں آگے آگیا ہوں، میں قربانیوں میں آگے ہوں، تبلیغ کا شوق مجھ میں پیدا ہو گیا ہے.حیران رہ گیا وہ فرانسیسی احمدی نوجوان یہ دیکھ کر کہ کس طرح خدا تعالیٰ فورا گواہ بھی پیدا فرما دیتا ہے.7

Page 17

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 04 جنوری 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اور پاکستان کے اندر جو تبدیلیاں ہیں، وہ اس سے بہت زیادہ ہیں.کیونکہ وہ اس توانائی کے مرکز کے قریب تر بسنے والے لوگ ہیں.غموں کی جو شدت وہ محسوس کرتے ہیں، جو تمازت ان کے دلوں پر پڑ رہی ہے، آپ تو دور سے اس کا نظارہ کر کے اپنے اندر یہ تبدیلیاں محسوس کر رہے ہیں اور تصور نہیں کر سکتے کہ ان کے دلوں پر کیا گذر رہی ہے اور کس طرح یہ آگ ان کے قلبی جو ہروں کو کندن بناتی چلی جارہی ہے.اور صرف یہی نہیں بلکہ آسمان سے کثرت کے ساتھ فضل نازل ہو کر ہر جگہ ان کے ایمان کو بڑھانے کا موجب ہور ہے ہیں.صرف کردار کی پاک تبدیلی نہیں ہے بلکہ نشانات بھی ان پر نازل ہورہے ہیں.عزم کے نئے وو نٹے پہاڑ سر کر رہے ہیں اور ہر پہاڑ پر خدا کی رحمت اور اس کی رضا کی تجلیات بھی دیکھ رہے ہیں“.بہر حال ہم نے تو ہمیشہ سے دیکھا اور اس دور میں پہلے سے بھی بڑھ کر دیکھا کہ ہر مصیبت اور ہر آفت کے وقت خدا تعالیٰ نے ہمارے دلوں کو نئی تقویت، نیا ثبات قدم ہمیں عطا فرمایا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر بلا سے محفوظ رکھا اور ہر روک ہمارے راستے سے دور کر دی اور ہمارے قدم پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتے رہے.جہاں تک ہمارے مخالفین کا تعلق ہے، ان کو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان میں مخاطب کر کے یہ کہتا ہوں کہ:.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں“.روک سکتے ہو تو روک کے دیکھ لو تمہاری کچھ پیش نہیں جائے گی.وہ سعید رو میں جو خدا کے فضل سے اس کے فرشتوں کی تحریک پر جماعت کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور پہلے سے بڑھ کر مائل ہورہی ہیں، وہ جوق در جوق اس راہ میں آتی چلی جائیں گی.اور کوئی نہیں ہے، جو ان کے قدم روک سکے....آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو.وہ تمام مکر و فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں، وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟“ اربعین نمبر 04 ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ نمبر 473) خدا کی قسم تم کچھ بھی جماعت احمدیہ کا نہیں بگاڑ سکتے.تمہاری نسلیں مخالفتوں پر ایک دوسرے کے بعد نا کامی کی موت مرتی رہیں گی لیکن جماعت احمد یہ ہمیشہ اللہ کے فضلوں اور رحمتوں کے سائے کے نیچے آگے سے آگے ، آگے سے آگے ، آگے سے آگے بڑھتی رہے گی.8 مطبوعہ خطبات طاہر جلد 04 صفحه 02 تا20 |

Page 18

تحریک جدید - ایک الہی تحریک مفہوم ارشاد فرموده 16 فروری 1985ء اللہ تعالیٰ کی تقدیر دشمن کو گھیر کر آخری میدان جنگ کی طرف لے آئی ہے ارشاد فرمودہ 16 فروری 1985ء مسجد فضل لندن میں منعقدہ مجلس عرفان کے آخر میں حضور نے انگریزی زبان میں جو نہایت اہم ارشاد فرمایا، اس کا اردو مفہوم حسب ذیل ہے:.اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے متعلق کیا ہورہا ہے.یہ تحر یک دونوں اطراف سے دن بدن شدت اختیار کرتی چلی جارہی ہے.ایک طرف احمدی یہ تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے، وہ نہ صرف کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں گے بلکہ اس کا اظہار بھی کریں گے.چنانچہ وہ اپنی ٹوپیوں پر کلمہ کے بیج اور کاروں پر کلمہ کے لیبل لگاتے ہیں.اس تحریک کے نتیجہ میں بعض مقامات پر بہت سے غیر احمدی احباب بھی اب کلمہ کے بیجوں کا مطالبہ کرنے لگے ہیں.اس کے برعکس حکومت پاکستان کا رویہ بھی دن بدن شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے.وہ احمدیوں کو صرف اس جرم میں جیلوں میں بھر رہے ہیں کہ وہ کلمہ کا بیج لگاتے ہیں.گرفتاریوں کا یہ سلسلہ فیصل آباد سے شروع ہوا، جہاں تیس سے زائد احمدی گرفتار کئے جاچکے ہیں.بعض اور مقامات پر بھی احمدیوں کو پولیس نے زود کوب کیا ہے.لیکن بعض مقامات پر پولیس نے یہ کہتے ہوئے حکومت سے تعاون کرنے سے انکار بھی کیا ہے کہ کلمہ مٹانا، ہمارے فرائض میں شامل نہیں.بعض اور مقامات پر پولیس نے احمدیوں کوز و دکوب کرنے کے علاوہ ان کی مملوکہ اشیاء چھین کر ان کو جیل میں بھیج دیا ہے.ان سب احمدیوں کا صرف یہ جرم بتایا گیا ہے کہ وہ کلمہ کے بیج لگائے ہوئے تھے.جو بات اس وقت میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اب یہ آخری میدان جنگ ہے، جس کی طرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر دشمن کو گھیر کر لے آئی ہے.اور انشاء اللہ تعالی یہاں دشمن کو کھلی کھلی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا.لیکن بیرون پاکستان کے احمدیوں کو اپنے پاکستانی احمدی بھائیوں کی جس رنگ میں مدد کرنی چاہئے ، وہ ابھی تک ان کی طرف سے ظہور میں نہیں آئی.میں نے ذمہ دار عہد یداران کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ دنیا بھر کے تمام احمدیوں کو میرا یہ پیغام پہنچائیں کہ وہ کلمہ دشمنی کی اس تحریک کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کریں.اور دنیا کو بتائیں کہ حکومت پاکستان اسلامی حکومت کے نام پر کیا کچھ کر رہی ہے.دنیا کو بتایا جائے کہ کون کلمہ 9

Page 19

مفہوم ارشاد فرموده 16 فروری 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم کی حفاظت کر رہا ہے اور کون اس پر حملہ آور ہورہا ہے.عربوں، افریقوں، یورپین اور دیگر تمام لوگوں کو اس امر سے اچھی طرح آگاہ کیا جائے.ابھی تک مجھے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ اشاعت کی یہ تحریک با قاعدہ طور پر شروع کر دی گئی ہے.دشمن سے ہماری جنگ کا یہ انتہائی اہم اور فیصلہ کن مقام ہے.یہ آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچنی چاہئے کہ یہ وہ آخری مقام ہے، جہاں دشمن پہنچ چکا ہے.اور اس کے اصلی ارادے اب کھل کر سامنے آگئے ہیں.یہ کلمہ کے محافظ نہیں بلکہ کلمہ کے دشمن ہیں.انگلستان کی جماعت کے تمام افراد بھی اس کام میں مصروف ہو جائیں اور جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، کریں.دنیا بھر کے تمام پاکستانی سفارتخانوں کو تسلسل کے ساتھ اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے.عرب لوگوں اور عرب اخبارات کو احتجاجی خطوط لکھیں.تمام عرب، افریقی اور دوسرے مسلمان سفارتخانوں کو بتائیں کہ دین اسلام اب اس حد تک تنزل کا شکار ہو چکا ہے.انہیں اس بات کی طرف متوجہ کریں کہ کلمہ سے ہی اسلام کا آغاز ہوا تھا اور یہی وہ کلمہ تھا، جس کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا.ان سے دریافت کریں کہ کیا حضرت بلال نے کلمہ کی خاطر جو قربانیاں دیں تھیں، وہ اسی مقصد کے لئے تھیں، جو آج حکوم پاکستان کر رہی ہے.کیا تمام اسلامی دنیا خاموش تماشائی بن کر یہ سب کچھ دیکھتی رہے گی.یہ ایک ایسا جرم تعظیم ہے کہ اگر انہوں نے پاکستان یا کسی بھی جگہ کے کلمہ دشمن افراد کے خلاف اپنی آواز بلند نہ کی تو وہ کبھی آسمانی سزا سے بچ نہیں سکیں گے.اگر وہ کلمہ دشمن افراد کا مادی اسباب کے ساتھ ہاتھ روک سکتے ہیں تو انہیں ضرور ایسا کرنا چاہئے.یقینا انہیں اس کی استطاعت بھی حاصل ہے.بعد ازاں اس سوال کے جواب میں کہ کیا مظاہروں اور جلوس کے ذریعہ اس کلمہ دشمن تحریک کی تشہیر کی جاسکتی ہے؟ حضور نے فرمایا:.یہ کام ایسے رنگ میں نہ ہو ، جیسے سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں.بلکہ قرآنی حدود کے اندر رہتے ہوئے اور جماعت احمدیہ کی روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے جدو جہد کریں.ہمیں سنجیدہ ، صاحب عزم محتاط اور با مقصد ہونا چاہئے.مقصد یہ ہونا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کی آڑ میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے والی ضیاء حکومت، ان کے حواریوں اور ملاؤں کا اصلی روپ ساری دنیا کو دکھایا جائے.اور بتایا جائے کہ چونکہ ان لوگوں نے کلمہ پر حملہ کیا ہے، اس لئے در حقیقت یہ لوگ خدا تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے عقیدہ پر حملہ آور ہور ہے ہیں.پس آپ کی صدا اتنی بلند ہونی چاہئے کہ اسلام آباد میں بار بارسنی جائے اور آپ کی صدا کی بازگشت سے اسلام آباد لرز اٹھے“.( مطبور ہفت روزہ النصر 22 فروری 1985ء) 10

Page 20

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مارچ 1985ء اسلام کے نمائندے کے طور پر جماعت تمام مذاہب سے برسر پیکار ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مارچ 1985ء..پس جماعت احمد یہ تو خدا کے فضل سے قیام پاکستان سے پہلے قائم ہو چکی تھی اور تمام دنیا میں پھیل چکی تھی.پاکستان بننے کے بعد تو تم نہیں پھیلے.چنانچہ امریکہ میں 1920ء میں با قاعدہ مشن قائم ہو چکا تھا.انگلستان میں 1913ء میں مشن قائم ہوا.یہ جگہ جہاں آپ اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں، 1920ء میں خریدی گئی.انگلستان کے پہلے مبلغ حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب رضی اللہ عنہ تھے.غانا اور نائیجریا، مغربی افریقہ میں 1921ء میں مشن نے کام کرنا شروع کیا.مشرقی افریقہ میں 1896ء یعنی بیسویں صدی سے بھی پہلے جماعت احمدیہ قائم ہو چکی تھی.ویسے باقاعدہ مشن 1934ء میں کھولا گیا.ہنگری، پولینڈ اور چیکوسلواکیہ میں 1930ء میں تبلیغی مراکز کھولے جاچکے تھے.اسی طرح پین ، اٹلی اور البانیہ میں بھی 1936ء میں مشن قائم ہوئے.برما میں بھی 1935ء میں تبلیغی مشن قائم کیا گیا.غرضیکہ آپ کو سارے عالم کا جائزہ لیں تو یہ امر بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے کہ جماعت احمد یہ تو خدا کے فضل سے مدتوں پہلے اکناف عالم میں پھیل بھی چکی تھی.اور دنیا میں کیا کام کر رہی تھی ؟ اب یہ حصہ رہ گیا ہے.تو اب اس کو بھی میں بیان کر دیتا ہوں.اور اس سلسلہ میں ایسے ایسے لوگوں کی رائے آپ کو سناتا ہوں، جن کی آراء پر تمہیں اعتماد کرنا پڑے گا.یہ احمدی تو نہیں مگر اس کے باوجود حق بات ان کی زبان پر جاری ہو رہی ہے.چنانچہ اخبار زمیندار نے دسمبر 1926ء میں لکھا:.ہم مسلمانوں سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں اپنے دین مقدس کو پھیلانے کے لئے کیا جد و جہد کر رہے ہیں؟ ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان آباد ہیں، کیا ان کی طرف سے ایک بھی قابل ذکر تبلیغی مشن مغربی ممالک میں کام کر رہا ہے؟ ( مگر لکھنے والے کو پتہ نہیں تھا کہ ابھی تیل دریافت نہیں ہوا.ناقل ) گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی 11

Page 21

اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 22 مارچ 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ایک جماعت ہے، جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یوروپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں.کیا ندوۃ العلماء، دیو بند، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ تبلیغ واشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں؟ کیا ہندوستان میں ایسے متمول مسلمان ہیں، جو چاہیں تو بلا دقت ایک ایک مشن کا خرچ اپنی گرہ سے دے سکتے ہیں؟ یہ سب کچھ ہے لیکن افسوس کہ عزیمت کا فقدان ہے.فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنا اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا، آج کل کے مسلمانوں کا شعار ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ اس بے راہ قوم پر رحم کرے.( زمیندار دسمبر 1926ء) اور انقلاب 02 مئی 1930ء لکھتا ہے:.دو تبلیغی مذہب والے کو اس چیز کی نشر و تبلیغ کی دھن ہوتی ہے، جس کو وہ سچا سمجھتا ہے" پھر لکھتا ہے:.د مسلمانوں کی موجودہ خوابیدہ حالت کو دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ ان کے پاس حق ایک شمہ برابر نہیں ہے.ورنہ کیا وجہ ہے، انہیں تمام عالم میں نشر واشاعت کی دھن نہیں.ان کے مقابلہ میں ایک اکیلی جماعت احمد یہ ہے، جس کے مخالف نہ صرف تمام دیگر مذاہب ہیں بلکہ مسلمانوں کی انجمنیں بھی خاص اسی جماعت کے در پئے ایزار رہتی ہیں.لیکن باوجود اس کے یہ چھوٹی سی جماعت دن رات اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ اسلام کی نعمت سے خود ہی لطف اندوز نہ ہو بلکہ ساری دنیا کو فائدہ اٹھانے کے قابل بنا دے.اب دیکھیں کس طرح ان کا جھوٹ کھل جاتا ہے.مزعومہ قرطاس ابیض میں نقشہ یہ کھینچ رہے ہیں کہ احمدی ساری دنیا میں مسلمانوں کے اندر فساد پھیلانے کے لئے پھیلے ہیں.پاکستان میں چونکہ فساد نہیں کروا سکے ، اس لئے بیرونی ملکوں میں پھیل گئے.اور 1953ء کے بعد یہ برآمد ہوئے پاکستان سے انس الله وانا اليه راجعون.نه تاریخ کا ان کو کوئی پتہ ہے، نہ دنیا کے حالات کی کوئی واقفیت ہے اور نہ عقل.یہ رسالہ ان کی جدید تحقیقی کوششوں کا نچوڑ ہے.اس کی تو دو کوڑی کی بھی حیثیت نہیں ہے.اور واقعات کیا ہیں؟ خود ان کے اخبارات، جن کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں، وہ لکھتے ہیں کہ دنیا کے سارے مذاہب جماعت احمدیہ کے دشمن ہیں.کیونکہ اسلام کے نمائندے کے طور پر جماعت تمام مذاہب سے برسر پیکار ہے.اور پھر ظلم کی 12

Page 22

تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 22 مارچ 1985ء حد یہ ہے کہ خود مسلمان بھی اس کے دشمن ہوئے جاتے ہیں.یعنی صرف دیگر مذاہب ہی جماعت احمدیہ کے مخالف نہیں بلکہ مسلمانوں کی انجمنیں بھی خاص طور پر اس جماعت کے در پئے ایذا رہتی ہیں.پس کون فساد کرا رہا ہے؟ کون ایذا دہی کے سامان بہم پہنچارہا ہے، جماعت احمد یہ یا مسلمانوں کی یہ انجمنیں؟ لیکن باوجود اس کے کہ جماعت احمد یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے، پھر بھی دن رات اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ اسلام کی نعمت سے خود ہی متمتع نہ ہو بلکہ ساری دنیا کو اس سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنائے.چنانچہ رسالہ ”حنیف نومبر 1925ء میں غازی محمود دھرم پال صاحب نے ایک مقالہ لکھا، جس میں وہ لکھتے ہیں:.”مولانا ظفر علی کے وہ مضامین میری نظر سے گزرتے تھے، جواحمدیوں کی تکفیر اور ارتداد کی تائید میں زور و شور سے زمیندار کے کالموں میں شائع ہورہے تھے تو ان میں سے ہر ایک مضمون کا ایک ایک لفظ دو دھاری تلوار کی طرح میرے دل کو کا تنا اور پارہ پارہ کرتا تھا.میں اکثر یہ اعلان کر چکا ہوں کہ احمدی نہیں ہوں اور احمدیوں کے بعض عقائد کے ساتھ دیانتداری کے ساتھ اختلاف ہے.مگر باوجود اختلاف کے میں ان کو مسلمان سمجھتا ہوں اور ہندوستان کے اندر اور باہر وہ غیر مسلموں کے حملوں سے اسلام کے تحفظ کے متعلق جو بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.کیا یہ وہ فساد ہے، جو احمدی ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں؟ پھر مغربی افریقہ کے مسلمانوں کی بیداری پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن کا رسالہ ”دی افریقن ورلڈ (The African World) اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ نائیجریا میں احمدی جماعت آزادی حقوق کی جدوجہد میں سب سے پیش پیش ہے.( یہ ہے وہ فتنہ وفساد، جو احمدیت کے نام پر پاکستان سے بقول قرطاس ابیض دساور کو بھیجا جا رہا ہے.چند سال ہی کی بات ہے کہ وہاں احمدی وکیل اور احمدی ڈاکٹر پریکٹس کرتے نظر آئیں گے.کیونکہ ان لوگوں کی رفتار نائیجریا میں روز افزوں ترقی پر ہے.یہ یقینی بات ہے کہ چند سال میں ہی افریقی مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں اس ملک کے عیسائیوں کے دوش بدوش نظر آئیں گے اور سیاست مدن کے ایک دانا مبصر کو یہ بات نظر آ رہی ہے“.13

Page 23

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 22 مارچ 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم پاکستان سے ایک دفعہ ایک وفد نائیجریا گیا.اس کا سارا خرچ حکومت پاکستان نے برداشت کیا تھا.اس وفد کو اس لئے بھجوایا گیا تھا کہ مغربی افریقہ کے ممالک میں دورہ کر کے جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت پھیلائی جائے اور ان لوگوں کو اکسایا جائے کہ وہ بھی احمدیت کے مخالفین میں شامل ہو جائیں تاکہ مل کر اس جماعت کی بیخ کنی کی جائے.یہ پرانی بات ہے.اس وقت مولانا نسیم سیفی صاحب نائیجریا میں ہمارے مبلغ انچارج ہوا کرتے تھے.تو اس وفد کے متعلق یہ دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ ان کی کسی نے پذیرائی ہی نہ کی.نہ تو ان کو ریڈیو پر موقع ملا اور نہ ہی ان کو ٹیلی ویژن میں آنے دیا گیا.اخباروں نے بھی کوئی خبر شائع نہ کی.تو احمدیت کی بیخ کنی پر مامور پاکستانی وفد ہمارے مبلغ سے درخواست کرنے پر مجبور ہو گیا اور کہنے لگا: بڑے بے عزت اور ذلیل ہورہے ہیں، خدا کے لئے ہمارا کچھ انتظام کرو، ہم واپس جا کر کیا منہ دکھائیں گے.چنانچہ ہمارے مبلغ نے اس وقت کے نائب وزیر اعظم سے درخواست کی کہ پاکستانی ہمارے بھائی ہیں، اتنا ظلم نہ کرو.خواہ کسی بھی نیت سے آئے ہیں، ان کی تھوڑی سی حوصلہ افزائی تو ضرور ہونی چاہیے.چنانچہ نائب وزیر اعظم صاحب نے کہا: ہم ان کی دعوت کرتے ہیں اور آپ بھی تشریف لائیں اور خطاب کریں.چنانچہ وفد کی دعوت کی گئی اور وہاں انہوں نے جو خطاب کیا، اس میں بھی وہ شرارت سے باز نہ آئے اور بعض ایسے فقرے استعمال کر دیئے، جن سے جماعت احمدیہ کے متعلق شکوک پیدا ہو سکتے تھے.نائب وزیر اعظم صاحب بڑے ذہین آدمی تھے، مسکرا کر سنتے رہے.آخر میں جب وہ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ میاں! آپ کسی جہان کی بات کر رہے ہیں.افریقہ پر جب دنیا کی نظر ہی کوئی نہیں تھی، کیونکہ یہ ایک تاریک براعظم تصور کیا جاتا تھا، جب افریقہ کا نام مصیبتوں اور دکھوں کے ساتھ وابستہ تھا، اس وقت آپ لوگ تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے.کس نے ہماری فکر کی یہ جماعت احمدیہ ہے، جس نے ہمیں عیسائیوں کے چنگل سے نجات دلائی.یہ جماعت احمدیہ ہے، جس نے ہمیں انسانیت کے سبق سکھائے.اس جماعت کے متعلق آج تم یہ کہنے کے لئے آگئے ہو کہ تمہارے تعلقات کی بناء پر ہم اس جماعت کی دشمنی شروع کر دیں تو یہ خیال دل سے نکال دو.یہ خیال واپس لے جاؤ اپنے ملک میں.یہ جماعت ہماری حسن ہے.اور ہم اور جو کچھ بھی ہوں محسن کش بہر حال نہیں.مگر اب یہ لوگ سارے واقعات بھول گئے ہیں اور سمجھتے ہیں، افریقہ میں پتہ ہی کچھ نہیں کیا ہو رہا ہے.بس قرطاس ابیض پڑھیں گے اور ایک دم کہ دیں گے، اوہ بڑی خراب جماعت ہے.اس کو ہلاک کر دینا چاہیے.ساری دنیا ہوش رکھتی ہے، بے عقل نہیں ہے.ان کو پتہ ہے، کیا ہورہا ہے؟ وہ نہ صرف اپنی تاریخ سے واقف ہیں بلکہ تمہاری تاریخ سے بھی واقف ہیں.14

Page 24

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 مارچ 1985ء اور پھر اور سینے.شیخو شغاری صاحب، جونا ئیجریا کے سابق صدر تھے، انہوں نے جماعت احمدیہ کی طرف سے کیا فساد دیکھا اور کس طرح اس مسئلہ کو نمٹایا، اس کا پتہ ذیل کے اقتباس سے لگ جاتا ہے.ویسے پاکستان میں تو کہتے ہیں کہ نمٹ لیا گیا ہے، ختم ہو گیا ہے یہ مسئلہ اور باہر کی دنیا میں تھے ہی تھوڑے، اس لئے بیرونی دنیا خود ہی اس مسئلہ کونمٹا چکی ہے.پس جرات دیکھیں کہ نہ صرف یہ کہ ایک سراسر جھوٹا رسالہ شائع کیا بلکہ مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر اسے ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں.پڑھنے والا ان کے متعلق کیا سوچے گا کہ جماعت احمد یہ یورپ میں بھی نہیں رہی، افریقہ میں بھی نہیں رہی، امریکہ میں بھی نہیں رہی.ہر ایک ملک میں ان کی صف لپیٹ دی گئی ہے کیونکہ یہ بالکل معمولی سی تعداد میں تھے.اس لئے ہر ملک میں بڑی عمدگی سے اس مسئلہ سے نمٹا جا چکا ہے.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جماعت احمد یہ کیا فساد مچاتی ہے.شیخو شغاری صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا:.یہ امر میرے لئے باعث سکون ہے کہ جماعت احمدیہ تبلیغ اسلام، سکولوں اور ہسپتالوں کے قیام میں بدستور بڑے عزم و ثبات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے.اس جہت میں جماعت کی مساعی انتہائی قابل تعریف اور دوسری رضا کار تنظیموں کے لئے باعث تقلید ہیں، جن پر جماعت احمد یہ بجا طور پر فخر کر سکتی ہے.یہ ہے مسئلہ، جو دساور کو بھیجا گیا تھا اور اس سے اس طرح نمٹ لیا گیا ہے.اور سیرالیون مسلم کانگریس کے صدر اور ملک کے وزیر مملکت مصطفیٰ سنوسی نے فرمایا:.احمدیت ایک سچائی ہے اور سچائی کے لئے دن رات ہماری بے لوث خدمت کر رہی ہے.12 سیکنڈری سکول اور 50 پرائمری سکول چلانا، معمولی بات نہیں.یہ کام صرف اخلاص، جذبہ، نیک نیتی جیسی خوبیوں سے آراستہ لوگ ہی سرانجام دے سکتے ہیں.جماعت احمدیہ کی تعلیمی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سیرالیون کے وزیر رسل در سائل آنریبل کا نڈے بورے نے ایک موقع پر فرمایا:.ایک بہت ہی قلیل عرصہ میں جماعت احمدیہ نے بڑے کارنامے کر دکھائے ہیں.تعلیم کے لحاظ سے بہت سے پرائمری سکولوں کے علاوہ سیکنڈری سکول بھی قائم کئے ہیں.لوگوں کی خدمت کے لئے احمدی ڈاکٹر تشریف لا رہے ہیں اور لوگوں کی روحانی اصلاح کے لئے مبلغین ملک کے تقریباً ہر حصہ میں موجود ہیں.(بحوالہ روزنامہ الفضل 18 فروری 1962 ) 15

Page 25

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 مارچ 1985ء تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد هفتم اور خود پاکستانی نمائندے، جو مختلف وقتوں میں وہاں دورہ کرتے رہے ہیں، ان میں سے ایک کی زبانی سینے کہ جماعت احمد یہ کیا ہے؟ اور کس طرح اس مسئلہ سے نمٹا جا چکا ہے؟ پاکستان ٹائمنر لاہور میں ایک مضمون شائع ہوا، جسے مشرق وسطی کے نمائندہ خصوصی فرید ایس جعفری نے لکھا تھا.جعفری صاحب حکومت پاکستان کی طرف سے بھجوائے جانے والے اس کشمیر ڈیلی گیشن کا ذکر کرتے ہیں، جو افریقہ کے دورہ پر گیا تھا.جعفری صاحب خود بھی اس وفد میں شامل تھے.انہوں نے یہ نوٹ انگریزی میں لکھا ہے، میں اس کا اردو میں ترجمہ پڑھ کر سنا دیتا ہوں :.احمدی مبلغین حیرت انگیز طور پر بہت مقبول ہیں.یہاں تک کہ صدر نکرومہ کے نزدیک بھی وہ ہر دل عزیز ہیں.مجھے بتایا گیا کہ وہ حقیقی معنوں میں انسانی خدمت کر رہے ہیں.کیونکہ وہ نانا کے نو جوانوں کو مذہبی اور دنیوی تعلیم دیتے ہیں اور کسی قسم کی تلخی یا نفرت لوگوں کے درمیان پیدا نہیں کرتے.( تم تو کہتے ہو، تلخی پیدا کرنے جاتے ہیں، نفرت پیدا کرنے جاتے ہیں.لیکن تمہارے یہ اپنے نمائندے، جو وفد کا حصہ تھے ، وہ کہ رہے ہیں کہ احمدی کسی قسم کی تلخی اور نفرت پیدا کرنے کے لئے نہیں آئے بلکہ ) وہ درحقیقت لوگوں کے درمیان اتحاد کے لئے کام کر رہے ہیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ احمدی مبلغین کا لوگوں سے رابطہ عیسائی مبلغین سے بھی بہتر ہے.انہیں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور پسند کیا جاتا ہے.مجھ سے پاکستان ٹائمنر لاہور 14 اگست 1964 ، صفحہ 14-12) اس قسم کے اور بھی بہت سے حوالے ہیں لیکن اس مضمون کا ایک اور حصہ بیان کرنا ضروری ہے، " اس لئے اس کو میں سر دست ختم کرتا ہوں“.تمہارے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ اس شخص کو قبول کرو، جسے خدا نے علم و عرفان بخشا ہے.جس کے متعلق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری ہے.وہ، جو خدا کی طرف سے تمہارے لیے ہر مصیبت، ہر بیماری کا علاج لے کر آیا تھا.اس کو تو تم نے رد کر دیا ہے.اب پیچھے اپنے لئے تم کیا چاہتے ہو.یہ جو کچھ تھا، یہ میں نے تمہیں پڑھ کر سنا دیا، اس کے سوا تمہارا اور کوئی مقدر نہیں.اگر زندگی چاہتے ہو تو ان لوگوں سے نجات حاصل کرو، جن کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام فتنوں کی آماجگاہ قرار دیا اور تمام فتنوں کا منبع و ماولی قرار دیا.یاد رکھو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کے بعد تم 16

Page 26

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 مارچ 1985ء زندگی کی راہ ہر گز نہیں دیکھ سکتے.جو مرض، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تشخیص فرما دی، اسے لا ز مامانا پڑے گا.آج نہیں مانو گے تو کل تمہاری نسلیں قبول کریں گی.اور اس مرض کا وہی علاج ہوگا ، جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا.یعنی امام مہدی، امام ربانی کو قبول کرنا پڑے گا.اس مسیح موعود کو ماننا پڑے گا، جسے خدا نے اسلام کے احیاء نو کے لئے مبعوث فرمایا ہے.اگر نہیں مانو گے تو پھر ہمیشہ کے لئے تمہارے مقدر میں ایک موت ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں“.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 14 صفحہ 245 تا 278) 17

Page 27

Page 28

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خلاصہ خطاب فرمودہ 05 اپریل 1985ء جماعت احمد یہ پہلے بھی قوم واحد تھی اور آج بھی قوم واحد ہے خطاب فرمودہ 105 اپریل 1985ء بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ انگلستان حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے پاکستان سے بے سروسامانی کی حالت میں انگلستان آنے اور پھر یہاں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے معمور جلووں کا ذکر کرتے ہوئے جماعت احمدیہ انگلستان کی بے لوث خدمات کو سراہا.نیز فرمایا کہ وو ” جماعت احمد یہ پہلے بھی قوم واحد تھی اور آج بھی قوم واحد ہے.جو اس کو منتشر کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے، وہ خود انتشار کا شکار ہو گئے.حضور نے انگلستان میں متفرق کا موں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کاموں میں جملہ افراد جماعت احمدیہ خصوصاً ڈاکٹروں تک نے بے لوث خدمت کی ہے اور کر رہے ہیں.حضور نے گذشتہ ایک سال میں افضال باری تعالیٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے دو یورپین مراکز کے قیام کا ذکر فرمایا کہ اس تحریک میں 102 کروڑ ، 03لاکھ 67 ہزار روپے جمع ہوئے.پہلے یورپین مرکز کے لئے انگلستان میں ٹل فورڈ کے مقام پر 125 ایکڑ کے رقبہ پر مشتمل ایک وسیع و عریض سکول اور اس کے ہوٹل کی عمارت خرید لی گئی ہے.اسی طرح مغربی جرمنی میں فرینکفرٹ کے نواح میں گروس گیراؤ کے مقام پر ساڑھے سولہ ایکٹر بموقع زمیں لے لی گئی ہے، جس میں بعض عمارتیں بھی موجود ہیں.نیز مغربی جرمنی کے شہر کولون میں ایک تین منزلہ عمارت خرید لی گئی ہے.جس میں دو بڑے بڑے ہال بہت سے کمرے اور دیگر ضروریات موجود ہیں.حضور نے فرمایا کہ اشاعت حق کے میدان میں نمایاں اور حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے.بڑی کثرت سے جماعتیں قائم ہوئی ہیں.( بھارتی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں 78 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.19

Page 29

خلاصہ خطاب فرمودہ 05 اپریل 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم لوگوں کے جماعت حقہ میں فوج در فوج داخل ہونے کے متعلق ایک ملک کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ وہاں ایک دن میں چار صد سے زائد افراد نے احمدیت قبول کی.اسی طرح اور ملکوں کا تذکرہ بھی فرمایا.اور فرمایا کہ تناسب کے لحاظ سے بیعتوں میں گزشتہ سالوں کی نسبت سو فیصد اضافہ ہوا ہے.پھر حضور نے نصرت جہاں اسکیم، زرعی اسکیم اور سکولوں اور ہسپتالوں کے قیام کے سلسلہ میں نمایاں ترقی اور خدا تعالیٰ کے واضح تائیدی نشانات کا ذکر فرمایا.نیز بتایا کہ لٹر پچر کے سلسلہ میں متعدد زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور حضرت بانی سلسلہ کی بعض کتب کے تراجم کے علاوہ دیگر دینی کتب اور پمفلٹ بھی کئی غیر زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں اور مزید ہو رہے ہیں.جس سے انشاء اللہ جلد ہی دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں جماعت کا لٹریچر مہیا ہو جائے گا اور جماعت کی ضروریات ایک حد تک پوری ہو جائیں گی.جہاں تک فریج ترجمہ قرآن کا تعلق ہے، یہ پریس میں جاچکا ہے اور چند ماہ تک چھپ جائے گا.اس کے ساتھ ہی دیباچہ تفسیر القرآن کا فریج ترجمہ بھی دوبارہ چھپوایا جارہا ہے.حضور نے ویڈیو اور آڈیو کیسٹس اسکیم کے بارے میں فرمایا کہ اب تک انگلش زبان میں اشاعت حق کے نقطہ نگاہ سے شائع کئے جانے والے لٹریچر کی بہت کمی تھی.جس کو سوال و جواب کی شکل میں خدا تعالیٰ نے اب پورا کرنے کے سامان کئے ہیں.اور تقریباً ہر شعبہ زندگی کے متعلق تعلیم حقہ ان کیسٹس کی صورت میں مہیا ہو چکی ہے.علاوہ ازیں دنیا کی اہم زبانوں میں کیسٹس موجود ہیں، جن کی کثرت سے اشاعت کی جارہی ہے.یورپ، ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی مقامی زبانوں میں بھی کیسٹس تیار کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے".شعبہ مال کے متعلق حضور نے جماعت احمدیہ کے اخلاص اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’84ء کا سال، جسے مخالفین اپنا سال بتاتے ہیں، اس میں صرف پاکستان میں ہی اس پر آشوب دور میں لازمی چندوں میں 2 کروڑ ، 74 لاکھ 24 ہزار روپے سے بڑھ کر 3,10,86,000 روپے تک وصولی ہوئی ہے.اور جماعت احمدیہ کے ہر قسم کے دیگر چندوں اور مالی تحریکات میں وصولی 83ء میں 12,91,00,000 سے بڑھ کر 84ء میں 20 کروڑ 87لاکھ تک پہنچ گئی.الحمد للہ علی ذالک.20

Page 30

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک حضور نے فرمایا کہ خلاصہ خطاب فرمودہ 105 اپریل 1985ء "ہم خدا تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ 1986ء اور 1987ء میں ہمارا بجٹ 25 کروڑ سے بھی زیادہ ہوگا اور اگلے ابتلاء تک انشاء اللہ یہ بجٹ اربوں میں پہنچ جائے گا“.بعد ازاں حضور نے مختلف ممالک میں مشن ہاؤسز اور دیگر جماعتی عمارتوں کی تعمیر کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ اس ایک سال میں خدا تعالیٰ کے حضور سر بسجو د ہونے کے لئے 28 خانہ ہائے خدا تعمیر ہوئے ہیں اور 05 زیرتعمیر ہیں“.اسی طرح امریکہ میں چارنئے مراکز نیو یارک، ڈیٹرائٹ، شکاگو اور لاس اینجلس کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا.بیوت الحمد سکیم کے بارے میں فرمایا کہ 1989ء میں صد سالہ جوبلی کا جشن ہم انشاء اللہ اس طرح منائیں گے کہ دوسو مکان تعمیر کر کے غرباء کو شکرانے کے طور پر دے دیں گئے.مزید فرمایا کہ اب تک 160 غرباء کی اس فنڈ سے مدد کی جاچکی ہے“.مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ مصباح اپریل 1985 ء ) 21

Page 31

Page 32

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد من پیغام بر موقع سالانہ کا نفرنس جماعت احمد یہ گیمبیا ہر دوسری چیز دعوت الی اللہ کے کردار سے پھوٹتی ہے پیغام بر موقع سالانہ کانفرنس جماعت احمد یہ گیمبیا منعقدہ 5 0 تا 107 اپریل 1985ء حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے برقی پیغام بنام امیر صاحب گیمبیا کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:.بسم الله الرحمان الرحيم میرے عزیز بھائی! السلام عليكم مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ کی جماعت گیمبیا 7 6, 5 اپریل 85ء کو اپنی سالانہ کا نفرنس منعقد کر رہی ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ احمدیت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا.احمد یہ جماعتیں ہر جگہ اسلام کی ترقی اور احمدیت کے پیغام کی اشاعت میں مصروف ہیں.سالانہ اجتماعات ہماری زندگی میں اہم واقعات کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہماری تبلیغی مساعی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں.ان اجتماعات کی اہمیت کے پیش نظر ہماری ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں.یہ ہمارے لئے اپنا محاسبہ کرنے ، ماضی کا تنقیدی جائزہ لینے اور اس سے مستقبل کے لئے زیادہ بہتر منصوبہ بنانے کے لئے مفید سبق حاصل کرنے کا موقع ہے.اب سوچنے کے لئے رکنے کا وقت نہیں.ہمیں آگے بڑھنے ،سوچنے اور منصوبہ بندی کے کام بیک وقت سر انجام دینے ہیں اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ چلنا ہے.میرے نزدیک یہ انتہائی اہم امر ہے کہ داعی الی اللہ بنے بغیر ہماری کوئی حقیقت نہیں.ہر دوسری چیز دعوت الی اللہ کے کردار سے پھوٹتی ہے.اس لئے اپنے کردار میں وسعت پیدا کریں اور اسلام اور احمدیت کی روشنی کو دعا، صبر اور تبلیغ کے ذریعہ سارے عالم میں پھیلا دیں.خدا تعالیٰ آپ کی سرگرمیوں کو کامیابی اور مقبولیت سے سرفراز کرے اور جلد ساری دنیا اسلام کی آغوش میں آجائے.23

Page 33

پیغام بر موقع سالانہ کانفرنس جماعت احمد یہ گیمبیا 24 تحریک جدید - ایک الہی تحریک تمام احمدیوں کو میرا محبت بھر اسلام پہنچا دیں.خدا کا فضل آپ کے شامل حال ہو.آمین والسلام آپ کا مخلص (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 24 مئی 1985 ء )

Page 34

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد من ارشاد بر موقع مجلس شوری برطانیہ 1985ء 1985ءمساجد کی تعمیر کا سال ہے ارشاد بر موقع مجلس شوری برطانیہ 1985ء جلسہ سالانہ برطانیہ کے بعد ایک خصوصی مجلس شوری منعقد ہوئی، جس میں 48 ممالک کے احمدی نمائندگان نے شرکت کی.اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمه الله تعالیٰ نے نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وو 1985ء مساجد کی تعمیر کا سال ہے.اس سال کے دوران تمام ایسی جماعتیں ، جن کے پاس مسجد موجود نہیں ، وہ مسجد تعمیر کرنے کی بھر پور جدو جہد کریں.حضور نے مزید فرمایا کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں 28 مساجد جماعت احمدیہ کی طرف سے تعمیر کی گئیں.مگر اس سال پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کے افضال جماعت پر نازل ہونے والے ہیں اور عنقریب لوگ گروہ در گروہ جماعت احمدیہ میں داخل ہوں گئے.حضور نے حاضرین کو تبلیغ دین کے فریضہ کی طرف بھی توجہ دلائی.( مطبوع پہفت روزہ النصر 3 مئی 1985ء، بحوال 1985 ,26 The Daily Jang London, Friaday April) 25

Page 35

Page 36

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اپریل 1985ء جماعت احمدیہ کا عالمی فتح کا پروگرام خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1985ء....وہی خدا ہے، جس نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق اور ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کے بھیجنے کا مقصد یہ بیان فرماتا ہے، الحق ليظهره على الدين كله تا که دنیا کے تمام ادیان پر اس کو غالب کر دے.پس یہ وہ سازش ہے، جس کے ہم غلام ہیں، جس میں ہم ملوث ہیں.ہم تو اقراری مجرم ہیں، اس جرم میں جو چاہو، ہم سے کرو.جماعت احمدیہ کے قیام کا تو مقصد ہی اس عزم کو پورا کرنا ہے، جسے تم سازش کہہ رہے ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے بار بار مختلف ممالک کی فتوحات کی خبریں دیں.اور ایک دو ملک کی نہیں بلکہ تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کے غالب آنے کی خبریں عطا فرما ئیں.اور آپ نے بڑی قوت اور شان کے ساتھ اسلام کے آخری غلبہ کے اعلان فرمائے.تو جو جماعت اتنے بڑے جرم کی اقراری ہے، اس کی یہ چھوٹی سے بات آپ کو کیا فائدہ دے گی کہ اس جماعت نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ کی راہ میں جب روکیں ڈالی گئیں تو آپ نے فرمایا:....مخالف ہماری تبلیغ کو روکنا چاہتے ہیں، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے میری جماعت ریت کے ذروں کی طرح دکھاتی ہے.پھر فرمایا:.( تذكرة ، صفحہ 690) کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ روس میں، میں تمہاری جماعت کو ریت کے ذروں کی طرح پھیلا دوں گا“.( تذكرة ، صفحہ 691) 27

Page 37

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اپریل 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم اب دیکھئے کہ روس کے لئے بھی جماعت احمد یہ ایک خطرہ ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے:.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.پھر فرمایا:.(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 01 صفحه 665 حاشیہ برحاشیہ نمبر 04) میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.(تذکرة ، صفحہ 260) پس کون سا ملک ہے، جو اس سازش سے باہر رہ گیا ہے.روس کو بھی جا کر انگیخت کرو کہ تمہارے خلاف بھی ایک خوفناک سازش تیار ہو رہی ہے اور امریکہ کو بھی انگیخت کرو کہ تمہارے خلاف بھی ایک خوفناک سازش تیار ہو رہی ہے اور جاپان کو بھی انگیخت کرو اور چین کو بھی انگیخت کرو.جتنے تمہارے پیارے ہیں، وہ ہم پر چڑھا لاؤ.جتنے تمہارے سوار ہیں، ہم پر چڑھا دو.مگر خدا کی قسم تمہاری ساری طاقتیں ناکام جائیں گی.کیونکہ یہ وہ منصوبہ ہے، جو قرآن کریم نے پیش فرمایا ہے.اور قرآنی منصوبہ کو دنیا کی کوئی طاقت نا کام نہیں بنا سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آخری فتح کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے خود فرماتے ہیں کہ یہ دنیاوی فتح نہیں، ملکوں اور تاجوں اور تختوں کی فتح نہیں بلکہ یہ تو ایک روحانی فتح ہے.فرماتے ہیں:.مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 141) پس اس سازش میں ہم ضرور ملوث ہیں اور رضوان یار کی خاطر ہم تمام دنیا میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور اس راہ میں کسی قربانی کو پیش کرنے سے دریغ نہیں کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وو میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے.28

Page 38

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اپریل 1985ء گویا کہ تمام عیسائی ممالک کے خلاف ایک سازش ہورہی ہے.اور ان کا یہ حال ہے کہ قوم کو فرضی خطرات میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں اور حقیقی خطرات سے بالکل نابلد ہیں.انہیں یہ نظر ہی نہیں آرہا کہ خطرہ ہے کہاں اور کس طرف سے آنے والا ہے.اور اگر علم ہے بھی تو پھر ان خطرات سے قوم کی توجہ عمداً اور مجرم کے طور پر ہٹارہے ہیں.یعنی جماعت احمد یہ جو اسلام کے لئے دنیا کو فتح کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے، وہ تو ان کے لئے شدید خطرہ ہے.اور عیسائیت، جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ بننے والا ہے اور وہ دجال بن کر تمام دنیا پر چھا جائیں گے، ان سے کلیتہ غافل ہیں بلکہ ان کے مددگار بن رہے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کی تبلیغ روک کر د یعنی روکنے کی کوشش کر کے ،روک تو کوئی نہیں سکتا ) جب انہوں نے یہ دیکھا کہ دنیا میں ان کی بدنامی ہورہی ہے اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ عجیب حکومت ہے، جو نظریات پر پابندی لگا رہی ہے اور آزادی ضمیر کا گلا گھونٹ رہی ہے.تو اس کا علاج انہوں نے یہ کیا کہ ایک طرف تو ہمارا جلسہ سالانہ تک ان سے برداشت نہیں ہو رہا تھا اور وہ بند کیا ہوا تھا اور دوسری طرف پاکستان ٹیلی ویژن پر پادری آکر با قاعده عیسائیت کی تبلیغ کر رہے تھے اور یسوع مسیح کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہے تھے.اس طریق عمل سے ان کا دوغلہ پن بھی ثابت ہو جاتا ہے اور ان کے الزامات کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب بھی انسان غلط اقدام کرے تو اس سے غلط نتیجے نکلتے ہیں.جب جماعت احمدیہ کی تبلیغ ایک خطرہ بنا کر روکنے کی کوشش کی تو ساری دنیا میں ایک شور پڑا کہ یہ کیا ظلم کر رہے ہو.تو یہ ظاہر کرنے کی خاطر کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں، ہم تو آزادی ضمیر کے محافظ ہیں.انہوں نے عیسائیوں کو چھٹی دے دی بلکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ واقعہ ہوا کہ اس (SO CALLED) نام نہاد اسلامی حکومت کے ماتحت باقاعدہ ٹیلی ویژن پر عیسائیت کی تبلیغ کی گئی اور یسوع مسیح کو بطور نجات دہندہ کے پیش کیا گیا.لیکن ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں.اگر انہوں نے ہماری پشت پر سے حملے کرنے ہیں تو کرتے چلے جائیں.ہمار ا رخ تو اسلام دشمن طاقتوں کی طرف ہے.ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دو میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنے سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے.اس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور 29

Page 39

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اپریل 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ایک مشت خاک کو رب العلمین سمجھا گیا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا، اگر میرا مولا، میرا قادر توانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدا قادر فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سواب اس نے چاہا کہ ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزہ چکھا دے.سواب دونوں مریں گے، کوئی ان کو بچا نہیں سکتا.اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی، جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے، جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں.اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت کرتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا، نہ کند ہوگا، جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دئے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه 304,305 اشتہار 14 جنوری 1897ء) یہ ہے وہ خطرناک عالمی منصوبہ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے بنایا تھا.اور اسی منصوبے پر عمل درآمد کرنے میں ہم مصروف ہیں.اس لیے بلا ؤ اپنی مدد کے لیے ساری عیسائی طاقتوں کو اور ان دہر یہ طاقتوں کو بھی، جن کے جھوٹے خدا کو پاش پاش کرنے کا عزم لے کر جماعت احمد یہ اٹھی یا ان انسانوں کو، جن کی تعلیمات کو پارہ پارہ کرنے کا عزم لے کر اٹھی ہے، جنہوں نے خدا کی تعلیم کو رد کر کے نئی انسانی تعلیموں کو نجات دہندہ تعلیم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر فرماتے ہیں کہ وو وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید، جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں، ملکوں میں پھیلے گی.اس دن 30

Page 40

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اصف اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اپریل 1985ء نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا.لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے.بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نورا تارنے سے.تب یہ باتیں، جو میں کہتا ہوں ،سمجھ میں آئیں گی.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه 305) پس یہ ہے، جماعت احمدیہ کا عالمی فتح کا پروگرام اور منصوبہ، جسے تم سازش کہہ رہے ہو.اور یہ پروگرام جماعت احمدیہ نے آج سے نہیں بلکہ تمہارے اپنے قول کے مطابق نوے سال سے زائد عرصہ سے شروع کر رکھا ہے.ایک ملک میں نہیں ، دنیا کے ہر ملک میں شروع کر رکھا ہے.اور یہ وہ پروگرام ہے، جس کا بیج قرآن کریم میں بویا گیا.بلکہ یہ تو وہ پروگرام ہے، جو انسانی پیدائش بلکہ کائنات کے وجود سے پہلے ہی جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق کا فیصلہ فرمایا گیا، اس وقت یہ پروگرام بھی ساتھ ہی منصہ شہود پر ابھرا.یہ ممکن ہی نہیں کہ محمد مصطفی کی تخلیق کا سوال پیدا ہو اور کائنات کی فتح کا منصوبہ ساتھ ہی تعمیر نہ کیا جائے.یہ دو باتیں الگ الگ ہو ہی نہیں سکتیں.پس قرآن کریم نے جب یہ وعدہ فرمایا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے ( یعنی خدا نے ( اس ) لئے مبعوث فرمایا ہے کہ دنیا کے تمام دینوں پر اس کے دین کو یا اس کو غالب کر دے، تو یہ منصوبہ تو بن چکا ہے.اور ہم اس منصوبہ کو پورا کرنے میں اپنے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں.تمہیں توفیق نہیں مل رہی کہ اس منصوبے کے لئے کوئی کام کرو تمہیں یہ توفیق نصیب نہیں ہورہی کہ اسلام کے غلبہ کے لئے ہماری طرح قربانیاں دو، اپنی جان، مال اور عزتیں پیش کرو، زندگیاں وقف کرو، اسلام اور دیگر مذاہب پر غور و فکر کرتے ہوئے نئے نئے نکات لے کر آؤ ، نئے دلائل پیش کرو، نئے براہین سے دنیا کا مقابلہ کرو اور ان کو فتح کرو.لیکن تم تو ان باتوں سے عاری ہو.تمہارے دامن میں تو سوائے گالیوں کے اور کچھ بھی نہیں.سوائے جبر اور تشدد کی تلوار کے تمہارے پاس ہے کیا ؟ ہم تو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ حالت میں پاتے ہیں.ہم تو اپنے وجود کو اس نقشہ کے اندر لکھا ہوا پاتے ہیں اور اپنے نقوش اس نقشہ میں مرتسم پاتے ہیں، جو قرآن کریم میں بنایا گیا.ہم سے زیادہ خوش نصیب اور کون سی قوم ہوسکتی ہے.اور تم خودان نقوش کو ابھار رہے ہو اور تمام دنیا میں یہ اعلان کر رہے ہو کہ یہ وہ جماعت ہے، جس نے تمام دنیا کی فتح کا منصوبہ بنایا ہے اور وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے سوا اور کوئی جماعت ہو ہی نہیں سکتی.ہم تو اس تقسیم پر راضی 31

Page 41

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اپریل 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم ہیں.تمہارا دل جو چاہتا ہے، کرو.جو زور لگتا ہے، لگا لو جتنی طاقتیں سمیٹ سکتے ہو ہمیٹ لو.اور ساری دنیا میں احمدیت کے خلاف پراپیگنڈا کرو کہ یہ جماعت تم سب کے لیے ایک خطرہ ہے.مگر ہم اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے سے باز نہیں آئیں گے.ہمارا ایک بھی قدم تمہارے خوف سے پیچھے نہیں ہٹے گا.کیونکہ ہم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور ہم نے آپ کو ہی اپنے آقا اور مولی کے طور پر پکڑا ہوا ہے.آپ کے دامن کو ہم نے نہیں چھوڑنا.آپ کے غلام پیچھے ہٹنے والے غلام نہیں تھے.آپ کے غلاموں کی فطرت کا خمیر اس مٹی سے نہیں اٹھایا گیا، جس مٹی میں بزدلی پائی جائے.پس ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس میدان میں لازماً آگے بڑھیں گے.اور ہر میدان میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے، ہر جہت میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے.ہم اور ہماری آنے والی نسلیں، ہمارے بوڑھے اور ہمارے بچے چین نہیں لیں گے، جب تک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تاج ظالموں کے سروں سے نوچ کر واپس حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش نہیں کر دیتے.وہی ہمارے لئے طمانیت کا وقت ہے، وہی ہمارے لئے چین اور آرام جاں ہے، اسی کی خاطر ہم مرتے ہیں اور اس کی خاطر ہم مرتے رہیں گے.اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اسلام کا جھنڈا جلد از جلد دنیا کی تمام بڑی سے بڑی سلطنتوں کے بڑے سے بڑے ایوانوں پر لہرایا جائے.ایک ہی جھنڈا ہو اور وہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہو.ایک ہی اعلان ہو اور وہ نعرہ ہائے تکبیر کا اعلان ہو کہ کوئی خدا نہیں، سوائے اس خدا کے، جو ایک خدا ہے.اور کوئی اور رسول باقی نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جو آخری صاحب شریعت اور صاحب حکم رسول ہے“.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 104 صفحہ 385 390) 32

Page 42

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء آپ کے ذریعہ ایک نئی قسم کی اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے گی وو خطبہ جمعہ فرمودہ 10 مئی 1985ء جماعت احمدیہ سکاٹ لینڈ کے لئے یہ جمعہ خصوصیات کے ساتھ بہت مبارک ہے کیونکہ آج ہم جس عمارت کا افتتاح کر رہے ہیں، جو ہم نے خالصہ اللہ اللہ کی رضا جوئی کی خاطر بہت مدت کے انتظار کے بعد حاصل کی ہے.جماعت احمد یہ سکاٹ لینڈ میں بڑی دیر سے یہ کمی محسوس ہوتی رہی کہ کوئی ایسا مرکز نہیں، جہاں بیٹھ کر اپنی اجتماعی زندگی کو ترتیب دے سکیں.اور اس علاقہ کو ایسی مرکزیت عطا ہو جائے ، جہاں جماعت اکٹھی ہو اور پھر مل کر خدا کی رضا کی خاطر ، اس کے دین کی ترقی کے لئے منصوبے بنائیں اور اس مرکز کے گرد ہماری اجتماعی زندگی گھومنے لگے.اس کمی کو پورا کرنے کے لئے بڑی دیر سے کوششیں کی جا رہی تھیں.مختلف جگہیں تلاش کی جاتی رہیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسا مقدر تھا کہ کی جگہیں جو ہاتھ میں آتی ہوئی نظر آتی تھیں، پھر ہاتھ سے نکل جاتی تھیں.خود اس عمارت کا بھی یہی حال رہا.شروع میں جب اس کی قیمت اسی ہزار پونڈ مقر تھی ، اس وقت بھی ہم اس کو لینے پر آمادہ تھے.لیکن کچھ ایسی وجوہات در پیش ہوئیں کہ یہ پھر ہاتھ سے نکل گئی.پھر اس کی قیمت ساٹھ ہزار پونڈ مقرر ہوئی ، اس وقت بھی ہم اس کو لینے پر آمادہ تھے بلکہ پیشکش بھی کر دی تھی.لیکن پھر بھی ہماری وہ پیشکش قبول نہ ہوئی اور بظاہر یہی سمجھا گیا کہ اب یہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئی.پھر اس کی قیمت چالیس ہزار مقرر ہوئی، اس وقت بھی ہم لینے پر آمادہ تھے.اور چالیس ہزار پونڈ ، جو ہم نے پیشکش کی تو وہ نا منظور ہوگئی.اور اس طرح پھر یہ ہاتھ سے نکل گئی.مختلف وقتوں پر جب غالباً ساٹھ ہزارتھی، اس وقت ہماری طرف سے پچپن ہزار پیشکش ہوتی تھی.مختلف وقتوں میں یہ عمارت ہمارے قریب بھی آتی رہی اور دور بھی بہتی رہی.چنانچہ ایک وقت ایسا بھی آیا، جب دوست کچھ گھبرا گئے اور انہوں نے کہا کہ اب کیا کیا جائے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.اس وقت میرے منہ سے یہی بات نکلی کہ آپ فکر نہ کریں، جتنی اس کی ابتدائی قیمت تھی، ہمیں اس سے زیادہ نہیں دینی پڑے گی، آپ انتظار کریں.چنانچہ یہ عمارت گھوم گھام کر بالآخر جماعت احمدیہ کے پاس پہنچ گئی اور اب ہمیں اس کی قیمت پچیس ہزار پونڈ (35,000) دینی پڑی ہے.33

Page 43

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اگر چہ اس کی ظاہری حالت بہت خراب ہے.آپ یہاں جس ہال میں بیٹھے ہیں، کافی وسیع کمرہ ہے.میرا خیال ہے کہ اگر بھرا ہوا ہو تو تقریباً دو سو آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں.اسی طرح کا ایک اور ہال اوپر ہے.جس ہال میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی حالت تو آپ کو خراب نہیں نظر آ رہی.امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت نے اسے بہت محنت کر کے اس قابل بنایا ہے کہ یہ اچھا دکھائی دے رہا ہے.ورنہ جس جگہ ابھی جماعت احمدیہ کے رضا کار کام نہیں کر سکے، آپ اس جگہ کو جا کر دیکھیں تو یہ عمارت بہت ہی خستہ حالت میں ہے یا خستہ حالت میں تھی.لیکن اب انشاء اللہ تعالیٰ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے رنگ بدلنے لگیں گے.اسی قسم کا ایک ہال اوپر بھی ہے.پھر اس سے اوپر بھی ایک منزل ہے.وہاں بھی بہت سے کمرے ہیں.خرج تو کرنا پڑے گا اور کچھ مزید محنت کرنی پڑے گی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ عمارت جماعت کی موجودہ فوری ضرورتوں کو بھی پوری ہو سکے گی اور آئندہ چند سال تک بھی ہماری ضرورتیں پوری کرتی رہے گی.جو انجینئر زمیں نے دیکھنے کے لئے بھجوائے تھے ، وہ یہ کہتے تھے کہ ہم نے اسے خوب اچھی طرح دیکھا ہے اور ہرفنی نقطہ نگاہ سے اس کی پڑتال کی ہے، اس کا صرف ٹھوس پتھر کا ملبہ وہی موجودہ قیمت، جو ہمیں دینی پڑ رہی ہے، اس سے زیادہ قیمت کا ملبہ ہے.اور یہ موقع اتنا اچھا ہے کہ اگر یہاں چھٹیل زمین بھی پچیس ہزار پونڈ میں مل جاتی تو وہ بھی ایک اچھا سودا تھا، اس لئے اس عمارت کو تو آنکھیں بند کر کے لے لینا چاہئے.جہاں تک جماعت کی ضروریات کا تعلق ہے.اگرچہ موجودہ حالت میں جماعت کی تعداد تھوڑی ہے اور بظاہر اتنی بڑی عمارت کی ضرورت نہیں.مگر ضرورتیں پھیلتی جاتی ہیں.اس لئے مشورہ یہی تھا کہ بہر حال اس موقع کو ہاتھ سے نہیں کھونا چاہئے.چنانچہ ان امور کے پیش نظر فیصلہ تو بہت دیر سے تھا لیکن ہر منزل پر آکر کچھ روکیں بھی پیدا ہوتی رہیں لیکن خدا تعالیٰ نے بالآخر ہر روک اٹھا دی اور آج یہ مبارک جمعہ ہے، جس میں ہم اس عمارت کا افتتاح کر رہے ہیں.جب میں افتتاح کہتا ہوں تو میری مراد وہ افتتاح نہیں، جس کی دنیا میں رسم موجود ہے.اس افتتاح کے تو کوئی بھی معنی نہیں ہوتے.اس افتتاح کی تو کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.کیونکہ اس میں تو چند آدمی اکٹھے ہو کر رنگ و روپ کا مظاہرہ کر دیتے ہیں، کچھ دکھاوے ہو جاتے ہیں، کچھ تصاویر ہو جاتی ہیں، فیتے کاٹے جاتے ہیں.لیکن جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے، حقیقت بالکل ویسی رہتی ہے، اس میں کوئی بھی فرق نہیں پڑتا.ایک آیا یا دوسرا آیا، الف نے افتتاح کروایا یاب نے افتتاح کروایا، یہ سب بے معنی اور 34

Page 44

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء حقیر چیزیں ہیں.لیکن جب میں مذہبی نقطہ نگاہ سے افتتاح کی بات کرتا ہوں تو میری مراد اس قسم کا افتتاح ہے، جس قسم کا سورہ فاتحہ نے قرآن کا افتتاح کیا.وو پیس آج ہم جس افتتاح کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، یہ اسی قسم کا افتتاح ہے، یہ ویسا ہی افتتاح ہے، جیسے سورۃ فاتحہ نے ہمیں سکھلایا کہ یوں افتتاح ہونا چاہئے.اپنے اختصار میں بھی بلند ارادوں اور بلند ہمتوں کے لامتناہی مضامین اکٹھے کر دو.اپنے اختصار میں بھی لامتناہی ترقیات کے بیج بودو.بلند ارادے لے کر ایک چھوٹی سی اینٹ کو بنیاد میں رکھو اور فیصلے یہ کرو کہ اس اینٹ سے ہم نے اتنے عظیم الشان محلات تعمیر کر دیتے ہیں کہ تمام دنیا کی قو میں جو بھی اس میں پناہ لیں تو وہ ان کے لئے چھوٹے نہ ہوسکیں.ایسے افتتاح کرو، جیسے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے افتتاح فرمائے.ایسے افتتاح کرو، جیسے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے افتتاح فرمائے.اور پھر اللہ پر توکل رکھو.پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ ان افتتاحات میں کتنی برکتیں نازل فرماتا ہے، کتنی برکتیں رکھ دیتا ہے.حضرت مصلح موعود نے بھی اسی قسم کے افتتاح کا تصور باندھا، جب یہ شعر کہا:.ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی آغاز تو میں کر دوں انجام خدا جانے (کلام محمود، صفحه 120) یہ وہی جنگیں ہیں ، جن کے میدان آج سکاٹ لینڈ میں بھی کھلے ہوئے ہیں.یہ وہی درخت ہے، جس کا بیچ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بویا تھا اور دنیا کو یہ خبر دی تھی کہ اس کی شاخیں تمام دنیا پر پھیلیں گی اور تمام دنیا اس کے رحمت والے سایہ سے فیض پائے گی.آج اس کی ایک شاخ سکاٹ لینڈ میں بھی پہنچی ہوئی ہے اور اس کو مزید طاقت دینے کے لئے ہم یہ سارے کاروبار کر رہے ہیں.اس لئے بظاہر یہ ایک معمولی سا افتتاح ہے، ایک بوسیدہ اور پرانی عمارت کا افتتاح ہے، جو دنیا کی نظر میں اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے.اور اتنی بوسیدہ ہوگئی کہ ہر نئی بار اس کی قیمت پہلے سے کم پڑتی رہی.گویا وہ اپنی عمر کے کنارے پر پہنچی ہوئی عمارت ہے.مگر یہ عجیب دیوانی جماعت ہے کہ اس کا آج افتتاح کر رہی ہے.لیکن دنیا کی نظر میں دیوانی ہے، خدا کی نظر میں نہیں.ہم نے اس عمارت میں نئی زندگی ڈالنی ہے.اس عمارت کے تن مردہ کونئی روح بخشتی ہے.ہم نے اس عمارت میں ذکر الہی کر کے اس کے بھاگ جگانے ہیں، اسے نئے نصیب عطا کرنے ہیں.یہ ہے وہ افتتاح، جو ہم آج کر رہے ہیں.اور اگر آپ اس روح کے ساتھ 35

Page 45

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اس کے درودیوار پر محبت الہی کے نقش کر دیں گے.اگر آپ ایسی روح اور انہی نیک ارادوں کے ساتھ ذکر اور درود کے ساتھ اس عمارت کی فضاؤں کو بھر دیں گے تو اس کی ساری نحوستیں اور ساری بوسیدگیاں ہمیشہ کے لئے اس کو چھوڑ دیں گی.اس عمارت پر نئی رونق آجائے گی ، اس عمارت کا چہرہ پہچانا نہیں جائے گا ، اس میں نور بس جائے گا.لوگ آئیں گے اور اس کے نور سے استفادہ کریں گے.یہ آپ ہی کے دل کا نور ہے، جس نے اس عمارت میں منتقل ہونا ہے.یہ آپ ہی کی روحانی زندگی ہے، جس نے اس عمارت کو زندگی بخشنی ہے.اور جب آپ ایسا کریں گے تو یہ عمارت پھر آپ کو ان سب نیکیوں کا بدلہ دے گی.اس عمارت کا فیض پھر آپ کو بھی پہنچے گا.وہ نور، جو آپ اس کو بخشیں گے، وہ زندگی ، جو آپ اس کو عطا کریں گے، وہ ساری جماعتی زندگی اور سارے جماعتی نور کی شکل میں پھر ابھرے گی.یہ ہے الہی نظام، جس کے ذریعہ چیزیں ایک دوسرے سے با ہمی قوت پا جاتی ہیں اور بڑھتی چلی جاتی ہیں.- پس آج ہم دعا کے ساتھ اس عمارت کا افتتاح کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عمارت کو ایک مذہبی ، روحانی عمارت میں تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس عمارت کے سارے گناہ، جو ماضی میں یہاں ہو چکے یا وہ ساری بدکاریاں یا خدا تعالیٰ سے دوری کی باتیں، جن کا کبھی اس عمارت سے تعلق رہا ہے، وہ مٹے ہوئے حرف کی طرح مٹ جائیں اور کوئی نشان ان کا باقی نہ رہے.اس عمارت پر نئی عبادتیں مرقسم ہوں.اللہ اورمحمد کے نام لکھے جائیں.اللہ اور محمد کا ذکر اس میں چلے.یہاں تک کہ اس عمارت کو بالکل ایک نئی زندگی عطا ہو جائے.پس ان ارادوں کے ساتھ ہم اس عمارت کا افتتاح کر رہے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ یہ افتتاح بظاہر معمولی ہے لیکن فی الحقیقت ہم بہت بڑے عزائم کے ساتھ، بہت بڑے نیک ارادوں کے ساتھ اس افتتاح کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں.ان میں سے ایک ارادے کا ذکر میں نے پہلے بھی کیا تھا اور وہ یہ تھا کہ جب ہم نے عمارت کی تو آپ میں سے بعض دوست کہہ رہے تھے کہ اتنی بڑی عمارت کو ہم نے کیا کرنا ہے؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے، جیسے کسی بچے نے لفافہ میں دو گولیاں ڈالی ہوں اور لفافہ اتنا بڑا ہو کہ اس میں دس کلو گولیاں پڑ سکتی ہوں.خلخل کرتا خالی کمرہ اور اس میں دو چار آدمی بیٹھے ہوں، یہ منظر بعض لوگوں کو اچھا نظر نہیں آیا.اس لئے انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ عمارت کیا کرنی ہے؟ یہ تو بری لگے گی.ہم دو چار آدمی ہیں، اتنی بڑی عمارت کیا کرتے پھریں گے؟ چنانچہ میں نے ان کو ( یعنی جس نے مجھے بتایا میں نے ) جواب دیا کہ اگر دو چار ہیں تو خدا نے آپ کو دو چار رہنے کے لئے تو نہیں بنایا.اول تو یہ کہ اگر آپ دو چار بھی ہیں تو اتنی بڑی عمارت کا حق پھر 36

Page 46

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء یوں ادا کریں کہ اس کے کونے کونے میں خدا تعالیٰ کو سجدے کریں ، کونے میں دعائیں کریں اور اللہ کا ذکر بلند کریں.پھر یہ عمارت آپ کو دو چار نہیں رہنے دے گی، یہ اپنے نمازی خود پیدا کرے گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے، جو جماعت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے.بہت بڑی چھلانگ ماری اور کوئی بہت بڑی عمارت تعمیر کر دی تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ محسوس ہوا کہ وہ عمارت چھوٹی تھی اور اس کے آباد کرنے والے اس کی وسعت سے کہیں زیادہ آگے نکل گئے.ہمیشہ سے جماعت کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے.ہمیشہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام وسع مکانک (تذکرۃ صفحہ 41) کو اس شان سے پورا ہوتے دیکھا ہے کہ کسی مکان کو وسعت دی اور پھر وہ مکان چھوٹا رہ گیا.پھر وسعت دی اور پھر چھوٹا رہ گیا.اور وسع مکانک کا حکم کہ اپنے مکان کو وسعت دیتے چلے جاؤ، یہ قائم رہا.اسی طرح کبھی ایک دفعہ بھی ایساواقعہ نہیں دفعہ ہوا کہ جماعت احمدیہ نے کوئی عمارت بنائی ہو اور وہ عمارت بڑی رہ گئی ہو بلکہ چھوٹی ہو جاتی ہے.ابھی ہم نے انگلستان میں چھپیس ایکڑ زمین اسلام آباد میں لی تو وہاں اتنی بڑی بڑی بلڈنگز ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ہم ان کو کیسے سنبھال لیں گے؟ لیکن ابھی پورا سال بھی نہیں گزرا بلکہ صرف آغاز ہی ہوا ہے کہ وہ عمارت چھوٹی نظر آنے لگی ہے.وہاں ہم نے سکول بھی کھولنا ہے.بہت سے جماعتی پروگرام ہیں، ایسے میں اب محسوس ہو رہا ہے کہ توسیع کے لیے درخواست کرنی پڑے گی.کیونکہ یہ عمارت تو ہمارے سارے کاموں کے لئے کافی نہیں ہے.پس خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے جب آپ بڑی بڑی عمارتیں لیتے ہیں یا بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے ہیں تو خدا تعالی کام اتنے بڑھا دیتا ہے اور اسے آباد کرنے والے اپنے بندے اتنے عطا کر دیتا ہے کہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ عمارتیں چھوٹی نظر آنے لگتی ہیں.تو یہ بھی میرا ایک ارادہ تھا کہ میں آپ کو یہ بتاؤں اور سمجھاؤں کہ آپ اس عمارت کو چھوٹا کر کے دکھائیں اور جلد از جلد چھوٹا کریں.پس آپ کے لئے پہلا پروگرام تو یہی ہے کہ تبلیغ میں اتنی کوشش کریں اور یہاں کے مقامی دوستوں کو اتنی جلدی اسلام سے روشناس کروائیں اور انہیں اسلام کی طرف کھینچ کر لے آئیں کہ ہمیں یہ 37

Page 47

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد ہفتم عمارت دیکھتے ہی دیکھتے حقیقتا چھوٹی دکھائی دینے لگی.مگر یہ تو پہلی منزل ہے.دوسرا قدم پھر یہ ہوگا کہ خدا تعالی اس عمارت کے نتیجہ میں آپ کو جو نئے نئے پھل عطا کرے گا، وہ خود پیج بن جائیں، وہ خود نشو ونما کا ذریعہ بن جائیں.اگر آپ کی جیبیں چھوٹی ہیں تو وہ وسیع جیبیں لے کر آپ کے پاس آجائیں.اور پھر آپ اپنے ماحول میں ارد گر دنئی عمارتیں اور نئی نئی زمینیں خریدنا شروع کر دیں.اور سکاٹ لینڈ کی فتح کے لئے اسے پیج بنا دیں.اور صرف گلاسگو فتح نہ ہو بلکہ اس عمارت میں سارے سکاٹ لینڈ کی فتح کا بیج بویا جائے.پس اگر آپ اس بلند ارادے کے ساتھ افتتاح کریں اور خدا پر توکل کریں تو آج آپ کو بظاہر یہ عجیب باتیں دکھائی دے رہی ہوں گی.آپ سوچتے ہوں گے کہ یہ بہت بڑی بڑی باتیں ہیں لیکن اس سے زیادہ بڑی بات تو نہیں کہ فاقوں کے ساتھ پتھر توڑے جارہے ہوں اور قیصر و کسری کی خوشخبریاں دی جا رہی ہوں کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے میرے ہاتھ دے دیئے گئے ہیں، ان کے محلات کی چابیاں مجھے پکڑا دی گئی ہیں.یہ دنیا کا افتتاح نہیں ہے، اس بات کو یاد رکھیں کہ یہ ایک مذہبی افتتاح ہے.اور مذہبی افتتاح اسی قسم کی باتوں سے کیا جاتا ہے.اور وہ جو خدا پر توکل رکھتے ہیں، ان کی پچھلی باتیں بھی خدا نیچی کر کے دکھا دیتا ہے.ان کی دگی باتیں بھی دنیا کے سیانوں کی باتوں سے اپنی عقل، اپنی حکمت اور اپنی معرفت میں آگے بڑھ جاتی ہیں.چونکہ یہ ایک مذہبی عمارت ہے، اس لئے اس کا افتتاح بھی مذہبی اسلوب پر ہونا چاہئے.بلند ارادوں کے ساتھ وو افتتاح کریں.اور پھر ان ارادوں کو جلد از جلد عمل کے سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کریں.بہر حال جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ سورۂ جمعہ کے ساتھ تو جماعت احمدیہ کا بہت گہرا تعلق ہے.اتنا گہرا تعلق ہے کہ کسی اور سورۃ سے جماعت احمدیہ کا براہ راست اتنا گہرا تعلق نہیں ہے.کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہوئی.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کا ذکر ہے.ان آخرین کا، جو صحابہ سے نہیں ملے تھے لیکن ایک دن انہوں نے مل جانا تھا.اس مضمون کا ذکر ہے، جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں بیان فرماتے ہیں:.صحابه ما جب مجھ کو پایا ( در ثمین صفحه 56) اس مصرعہ کی بنیاد بھی اسی سورہ جمعہ پر ہے.چنانچہ جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ سورہ جمعہ تو جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتی ہے.نہ صرف ایک عام تعلق بلکہ کئی رنگ میں تعلق رکھتے ہیں.38

Page 48

تحریک جدید - ایک ابی تحریک....جلد هفتم وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء پھر سورہ جمعہ کے ذریعے تمام دنیا کا اجتماع، جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہونا ہے، سورۂ جمعہ کے ذریعے اس کی خوشخبری بھی دے دی گئی.کیونکہ مفسرین کی بھاری اکثریت یہ تسلیم کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ دیا تھا کہ وہ تمام دنیا کے ادیان پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو غالب کر دے گا، یہ وعدہ مسیح اور مہدی کے زمانے میں پورا ہونا ہے.اور اس سورت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا ذکر آیا تو وہ مہدی کی شکل میں ہی آیا ہے.پس یہ سورت عجیب طور پر جمع کے مضمون کو جمع کر رہی ہے.مہدی کے ذریعے تمام عالم کو جمع کیا جائے گا.اور وہ جو وہ تحریک چلائے گا، اس کے ذریعہ اس کا بھی اس سورت میں ذکر موجود ہے اور زمانوں کو بھی جمع کر دیا جائے گا“.وو اس سورۃ جمعہ کا جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت ہی گہرا تعلق ہے اور اس میں ہر قسم کی خوشخبریاں عطا کر دی گئی ہیں.آپ کے ذریعے زمانے کی تقدیر بدلی جائے گی.آپ کے ذریعہ تمام دنیا کی قوموں کو ایک ہاتھ پر جمع کیا جائے گا اور ایک نئی قسم کی اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے گی.اس اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے گی ، جس کا ذکر سورہ جمعہ میں ملتا ہے.آپ کے ذریعے مختلف زمانے اکٹھے کر دیئے جائیں گے.اور انسانوں کو ہر قسم کی نعمتیں اور رحمتیں عطا کی جائیں گی.کتنی عظیم الشان سورت ہے اور کتنا اس میں ذکر ملتا ہے.لیکن ایک شرط کے ساتھ اور وہ شرط یہ ہے:.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ) کہ جب تمہیں جمعہ کے دن بلایا جائے ، جمعہ کے دن سے مراد اگر ظاہری جمعہ کا دن لیا جائے تو یہ بھی درست ہے، ہر ہفتہ آپ کو بلایا جاتا ہے.لیکن یہ سورت ، جن وسیع معانی میں جمعہ کا ذکر کر رہی ہے، اگر ان معنی میں آپ اس پر غور کریں تو اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اے ایمان والو! جب خدا کی طرف سے ایک بلانے والا تمام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی آواز دے اور جب یہ آواز دے کہ آؤ اور میرے ذریعہ زمانوں کو بھی اکٹھا ہوتے دیکھو، اس وقت تجارتوں کو ترجیح نہ دو.اس کی آواز پر دنیا کے منافع کی قدر نہ کرو.اس کی اس آواز پر دنیا کے مقابل پر ان سب کو تج کر کے اس کی طرف دوڑے چلے آؤ، اس کی آواز پر لبیک کہو.اگر تم دنیا کو اس آواز کی خاطر چھوڑ دو گے اور دنیا کو اس آواز کی خاطر چھوڑ دو گے اور دنیا کے منافع کی پرواہ نہیں کرو گے تو پھر ہم تمہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ ہم تمہیں فضلوں سے محروم نہیں کریں گے.اس آواز کو قبول کرنے کے بعد تم دنیا میں پھیل جاؤ گے.39

Page 49

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم جب تم اپنا فریضہ ادا کر دو گے، جب تم سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دو گے.پھر فرمایا: فاذا قضيت الصلوة، قضيت الصلوۃ، کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب عبادت کے تقاضے پورے ہو جائیں، جب تم اپنی نیتیں پوری کر دکھاؤ گے اور لبیک کہ دو گے، فانتشروافي الارض وابتغوامن فضل الله واذكروا الله كثير العلكم تفلحون.پھر خدا تعالی تمہیں تمام دنیا میں پھیلا دے گا.زمین کے کناروں تک تمہیں پہنچائے گا.وہاں دنیا کے لحاظ سے بھی فضل جوئی کرو گے اور دین کے لحاظ سے بھی فضل جوئی کرو گے.بظاہر تم دنیا کے کاموں کے لئے بھی نکلو گے لیکن اللہ کے ذکر کے ساتھ نکلو گے.اگر تم صناع ہو تو صناعی کے ساتھ ذکر الہی بلند کر رہے ہو گے، اگر تم تاجر ہو تو اپنی تجارتوں کے ساتھ ذکر الہی بلند کر رہے ہو گے، اگر تم ڈاکٹر ہو تو اپنی ڈاکٹری کے ساتھ ذکر الہی بلند کر رہے ہو گے، اگر تم سائنسدان ہو تو سائنس کے کاموں کے ساتھ ذکر الہی کو بلند کر رہے ہو گے.غرضیکہ تمام دنیا میں ذکر پھیلانے کا ایک ذریعہ یہ ہوگا.پس اس آیت میں کئی قسم کے وقف کا ذکر ہے.ایک وقف خاص بھی مذکور ہے کہ دنیا کے سب کام کلیۂ چھوڑ کر جب آواز آئے تو اپنی ساری زندگی خدا کے حضور پیش کر دو.دوسرا وقف عام کا بھی ذکر ہے کہ یہ فیصلہ کر لو کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.دنیا کو چھوڑ کر دین کی آواز پر لبیک کہنے کا یہ مطلب ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو شرائط بیعت ہیں ، ان میں یہ داخل ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.تو اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جب خدا کے نام پر بلانے والا تمہیں عظیم جمعہ کے لئے بلائے تو تم یہ فیصلہ کر کے اس کے حضور حاضر ہو کے ہم دنیا کو ترک کر دیں گے اور جب بھی دین کے ساتھ مقابلہ ہوگا تو دین کو ترجیح دیں گے.فرمایا: جب تم یہ عہد کر کے اس کے حضور حاضر ہو جاؤ گے، پھر تمہیں اس شرط کے ساتھ اجازت مل جائے گی کہ چونکہ تم سب کچھ خدا کو دے بیٹھے ہو، اب تمہارا کچھ نہیں رہا.اس لئے اب تم جاؤ اور پھیلو اور دنیا کے کام بھی کرو لیکن اس عزم کے ساتھ کہ دنیا کے کاموں کے ساتھ ذکر الہی کو نہیں بھولنا بلکہ اسے غالب رکھنا ہے.اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا: و ابتغوا من فضل اللہ کے فضل کو ڈھونڈو واذكروا الله كثيرًا وابتغوا کے ساتھ کثیر کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن واذكرو الله کے ساتھ کثیرا کا لفظ استعمال فرمایا.دنیا کے کام کرونگر ذکر الہی غالب رہے.اللہ کی محبت اور پیار تمہارے دنیا کے ہر ایک کام پر چھا جائے اور اسے مغلوب کر لے.چونکہ ابتغاء فضل دنیا کے معنوں میں بھی مراد ہے، اس لئے میں یہ معنی 40

Page 50

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء لے رہا ہوں کہ دنیا کے کاموں میں خدا کا فضل ڈھونڈ ولیکن کثرت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے.اس کثرت کے ساتھ کہ تمہاری دنیا کی جستجو پر غالب آجائے.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں عظیم الشان فتوحات عطا فرمائے گا.اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ دونوں قسم کے وقف پورے کر رہی ہے.ایسے بھی ہزاروں لوگ ہیں، جنہوں نے سب کام چھوڑ کر اپنے آپ کو کلیۂ خدمت دین کے لئے پیش کر دیا ہے اور اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا.اگر جماعت ان کو چپڑ اس لگاتی ہے تو وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے ، اسے بھی رحمت اور فضل کے طور پر قبول کرتے ہیں.اگر جماعت انہیں مبلغ لگاتی ہے تو اس پر بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں.اگر ماتحت لگاتی ہے تو تب بھی شکر کرتے ہیں.اگر حاکم اور افسر بناتی ہے، تب بھی شکر کرتے ہیں.شکر اس بات پر نہیں کرتے کہ انہیں کیا بنایا گیا ہے.شکر اس بات پر کرتے ہیں کہ ہر حالت میں ان کو ل کر لیا گیا ہے.اور انہیں اس فوج میں داخل کر لیا گیا، جس کا سورہ جمعہ میں ذکر ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر خدا کے حضور حاضر ہو جاؤ.اور ان میں لکھوکھا ایسے بھی ہیں، جیسا کہ آپ میں سے اکثریت یہاں ایسی ہے، جو اپنے دنیا کے کاموں پر نکلے ہوئے ہیں.اپنے وطن سے دور سکاٹ لینڈ میں کبھی آپ بچپن میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ اللہ کے فضلوں کی تلاش میں اتنی دور نکل جائیں گے.لیکن خدا نے انتظام کر دیا.آپ جیسے کروڑوں اور لوگ ہیں، جو اپنے اپنے وطنوں کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے ہیں.لیکن ان میں اور آپ میں کتنا فرق ہے؟ وہ دنیا کمانے کے لئے آئے اور دنیا کما کر واپس چلے جاتے ہیں.پھر آپ بظاہر دنیا کمانے کے لئے آئے ہیں مگر چونکہ آپ نے ہر جگہ ذکر الہی کو غالب رکھا ہوا ہے اور ہر جگہ آپ خود بھی ذکر الہی کرتے ہیں اور اس کو آگے پھیلاتے بھی جاتے ہیں ، ذکر الہی خود بھی کرتے ہیں اور ذکر الہی کرنے والے بھی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور و اذکروا اللہ کثیر ا کے اس مفہوم کو آپ ادا کر رہے ہیں.پس اس قسم کے بھی واقفین ہیں اور یہی نظام ہے، جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے رکھی گئی تھی اور جس کے نتیجہ میں سب دنیا نے فتح ہوتا ہے.پس یہ جو اشارہ ہے کہ دسویں جمعہ اور دس یعنی Friday کے معنی اگر سورہ جمعہ کے لئے جائیں اور 10th سے مراد دسویں آیت مراد لی جائے تو اس میں ایک بہت بڑی خوشخبری یہ ہمیں ملتی ہے کہ وہ وقت بطور خاص آگیا ہے، جبکہ آپ نے دنیا کو کلیہ ترک کرنے کے فیصلے کر لیتے ہیں، جب اپنے عزم دہرانے ہیں، جب اس عہد بیعت کی تجدید کرنی ہے کہ ہم ہر گز کسی قیمت پر بھی اپنی دنیا کو اپنے دین کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے.جہاں تک ہمارے 中 41

Page 51

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم نفوس کا تعلق ہے ، ہم سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہیں.اگر ہمیں اجازت ملتی ہے تو ہم دوسرے کام بھی کریں گے مگر اس عہد کے ساتھ کہ دوسرے کاموں پر ذکر الہی کو ہمیشہ غالب رکھیں گے.کثرت کے ساتھ ذکر کرتے چلے جائیں گے اور خدا کے فضل کی تلاش کرتے چلے جائیں گے.اب ذکر کے ساتھ جب آپ خدا کے فضل کے مضمون کو ملاتے ہیں تو فضل کا مضمون عام دنیاوی معنوں کے سوا دوسرے معنی بھی اختیار کر لیتا ہے.وابتغوا من فضل اللہ کا حکم عام دنیا کے انسانوں پر بھی لگتا ہے.اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا کی چیزیں تلاش کرو، دنیا کے رزق تلاش کرو، دنیا کے عہدے تلاش کرو، دنیا کی ترقیات تلاش کرو.لیکن جب خدا کے بعض بندے ذکر الہی کو ساتھ شامل کر لیتے ہیں تو واذكروا الله كثيرا کے ساتھ اس فضل کا مضمون وسیع ہو جاتا ہے.اس صورت میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس دنیا میں ہی اپنے دین کی سعادتیں بھی ڈھونڈ لو، اسی دنیا میں اپنے بلند دینی اور روحانی مراتب بھی تلاش کرو کیونکہ تم ذکر الہی ساتھ ساتھ کرتے چلے جار ہے ہو.خدا کا فضل محدود صورت میں تم پر نازل نہیں ہوگا.تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے بھی خدا کے ولی پیدا ہوں گے.تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے عظیم الشان روحانی بندے پیدا ہوں گے.تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے خدا کے ایسے ایسے پیارے پیدا ہوں گے کہ ان کو وہ ساری دنیا پر ترجیح دے گا، اپنے علاقے کے قطب و غوث اور ولی پیدا ہوں گے.اگر وہ ذکر الہی کو کثرت سے ادا کرنے کے عہد پر پورا اترتے ہیں تو ان کا فضل لامتناہی ہو جائے گا.جو فضل وہ تلاش کرتے ہیں، وہ محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کی حدیں پھیل جائیں گی.دنیا پر بھی پھیل جائیں گی اور دین پر بھی پھیل جائیں گی.اس نقطہ نگاہ سے آپ اللہ تعالیٰ کے اس منشاء کو پورا کرنے کی سعی کریں.منشائے الہی یہ ہے کہ آج جماعت جس دور میں داخل ہوئی ہے، اس میں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ کر کثرت کے ساتھ ہمیں اپنی طاقتوں کو اور اپنے ان تمام قولی کو جسمانی یا روحانی یا ذہنی قوی ہوں، ان ساری طاقتوں کو، جو خدا نے ہمیں عطا فرمائی ہیں، اللہ تعالیٰ کی خاطر وقف کر دیں.دنیا کمائیں اس شرط کے ساتھ کہ دین اس پر غالب رہے.یہ ایک خاص وقت آگیا ہے.اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ بڑی کثرت کے ساتھ جماعت کو دنیا میں پھیلا دے گا اور دنیا کی ہر قوم کے اوپر، دنیا کے ہر دین پر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم اور آپ ہی کے دین کو غالب فرمادے گا.- پس یہ جمعہ اس لحاظ سے بھی ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے کہ ہم آج اس جمعہ پر یہ عہد کریں گے.اس جمعہ پر یہ ارادے لے کر پھر دنیا میں پھیلیں گے.اگر خدا کا منشاء اس کشفی نظارے سے یہی ہے کہ 42

Page 52

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 10 مئی 1985ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد جماعت سے مزید قربانی چاہتا ہے، جماعت احمدیہ کو اپنی مزید قربانی پیش کرنے کی ہدایت فرما رہا ہے تو ہم حاضر ہیں.اس کے لئے بھی جو ہم سے چاہتا ہے، ہم حاضر ہیں.ہمارا کچھ بھی اپنا نہیں.ہم اسی کی خاطر زندہ رہیں گے اور اس کی خاطر مریں گے.لیکن اپنے اس عہد سے پیچھے نہیں نہیں گے کہ جب تک تمام دنیا پر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہی کو غالب نہ کر دیں، اس وقت تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے.اب ایک ملک نہیں ہے، جس کو ہم نے اسلام کے لئے فتح کرنا ہے.دو، چار یا پچاس یا سو ملک نہیں ہیں ، ساری دنیا میں ایک بھی ملک ایسا نہیں چھوڑنا، جہاں ہم نے اسلام کو غالب کر کے نہیں دکھانا.کوئی ملک بھی ایسا نہیں رہنے دینا، جس کے ہر حصہ پر اسلام کو غالب نہیں کرنا، اتنے بڑے کام کو ہم نے سرانجام دینا ہے.اب آپ سوچیں تو سہی کہ سکاٹ لینڈ کی وسعتوں کے نقطہ نگاہ سے ہم نے یہ کام کیا ہے.اس لئے خدا تعالی کی طرف سے تاکید کی ضرورت ہے.اس لئے آپ کو یاد دہانی کروائی جاتی ہے.بیسیوں سال سے یہاں احمدی آباد ہیں.ایک، دو، چار کم و بیش کبھی کم ہوئے، کبھی زیادہ.لیکن یہ سارا علاقہ اسی طرح پڑا ہوا ہے، جس طرح کسی زمین پر ہل نہ چلایا گیا ہو - Fallow Land کے طور پر.ابھی تک اس کی وادیاں بھی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے بے خبر ہیں، اس کے پہاڑوں کی چوٹیاں بھی بے خبر ہیں.اس کی جھیلیں بھی بے خبر ہیں اور اس کی خشکیاں بھی بے خبر ہیں.آج آپ سکاٹ لینڈ کے کسی کونے میں چلے جائیں اور ان سے پوچھیں کہ اسلام کیا ہے؟ اورمحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کیا ہے؟ تو ان کو پتہ ہی نہیں ہوگا.اس لئے یہ بلند ارادے تو بہت بابرکت ہیں.لیکن یہ بلند ارادے، جس محنت کا تقاضا کرتے ہیں، وہ محنت ہم نے ابھی شروع نہیں کی.آپ میں سے اکثریت ابھی تک ایسی ہے، جو بار بار کی یادہانیوں کے باوجود داعی الی اللہ نہیں بن سکی.اکثریت ایسی ہے، جو اگر بننا چاہتی بھی ہے تو جانتی نہیں کہ کیسے بنے؟ ان کو سلیقہ نہیں آتا، علم سے محروم ہیں.بچے ہیں، جن میں ولولہ پیدا ہوتا ہے لیکن ان کو پتہ نہیں کہ زرخیز مٹی بنانے میں بہت محنت کی ضرورت ہے.احمدی کو از سرنو زندہ احمدی بنانے کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے.اور پھر ان سب کو تبلیغ میں جھونکنا اور پھر ان سے نئے نئے کام لینا اور پھر عظیم الشان فتوحات کی توقع رکھنا اور دعائیں کرنا کہ اللہ وہ دن ہمیں دکھا بھی دے، بہت بڑے کام پڑے ہوئے ہیں.تو آج اس افتتاح پر ان سارے امور کو مد نظر رکھ کر آپ دعائیں کریں.اور یہ فیصلہ کر کے یہاں سے اٹھیں کہ سکاٹ لینڈ کو آپ نے فتح کرنا ہے.یہ درست ہے، آپ مٹھی بھر ہیں ، بہت تھوڑے ہیں.آپ کے مقابل پر بہت وسیع علاقہ ہے لیکن یہ کام 43

Page 53

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم آپ ہی کے سپرد ہے.سکاٹ لینڈ کی فتح کے لئے سکاٹ لینڈ کے احمدی نے اٹھنا ہے، انگلستان کے احمدی نے اٹھنا ہے.ہر ملک کے احمدی باشندے کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کو فتح کرے.اور یہ کام ہے، اگر آپ بلند ارادے اور ہمت کے ساتھ اس کام کو شروع کر دیں اور دعاؤں سے غافل نہ ہوں تو یہ کام آسان ہو جائے گا.بظاہر یہ بات بہت بڑی ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی متنبہ کر دیا تھا کہ اس افتتاح کے موقع پر میں نے باتیں ویسی ہی کرنی ہیں، جنہیں سن کر بعض لوگ کہتے ہیں، پاگل ہو گئے.لیکن مجھے کوئی پرواہ نہیں.کیونکہ جن آقاؤں کا میں غلام ہوں، وہ بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے.ان کو سننے والے بھی یہی کہا کرتے تھے کہ پاگل ہو گئے.لیکن پاگل ہوئے بغیر فتوحات نصیب نہیں ہوا کرتیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، جب تک اپنی دیوانگی کو اس حال تک نہ پہنچادیں کہ دنیا آپ کو پاگل کہنے لگ جائے، پاگل سمجھنے لگ جائے، اس وقت تک دنیا کی فتوحات کے خواب پورے نہیں ہوا کرتے.یا اس رستہ کو چھوڑ دیں، جس رستے پر پاگل کہلائے بغیر بات بنتی نہیں ہے اور پھر دنیا کے خزانوں کا رستہ اختیار کر لیں.اگر اس رستہ پر قائم رہنا ہے تو پھر وہ حرکتیں کریں، اپنی وہ ادائیں بنا ئیں، جن اداؤں پر پتھر پڑا کرتے ہیں، جن حرکتوں کو دیکھ کر دنیا پاگل پاگل کہا کرتی ہے.ان کے بغیر عظیم فتوحات نصیب نہیں ہوا کرتیں.آپ تو تعداد میں بہت زیادہ ہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا تھا کہ اے میرے بندے! اٹھ اور تمام دنیا میں اعلان کر دے کہ تو دنیا کا فاتح ہے.ساری دنیا تیری خاطر پیدا کی گئی ہے، تیرے دین کو تمام دنیا کے ادیان پر غلبہ نصیب ہوگا، اس وقت آپ کتنے تھے ؟ ایک تھے.ایک کو کل عالم سے جو نسبت ہو سکتی ہے، اس کے مقابل پر تو آپ کی نسبت بہت زیادہ ہے.آپ تو بیسیوں ہیں.اگر ہزاروں نہیں تو دو، اڑھائی سویا تین سو کے قریب تو ہوں گے.یہاں سکاٹ لینڈ میں بچے اور بڑے ملا کر اتنی بڑی تعداد ہے کہ سکاٹ لینڈ کی آبادی اس کے مقابل پر کچھ بھی نہیں ہے.یہ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ تو ایک ہے.عرب کے مقابل پر بھی بظاہر تیری کوئی حیثیت نہیں.مگر میں تجھے صرف شام کی فتح کے لئے کھڑا نہیں کر رہا، میں تجھے صرف عرب کی فتح کے لئے کھڑا نہیں کر رہا، تجھے میں صرف روم کی فتح کے لئے کھڑا نہیں کر رہا، میں تجھے مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب کا بادشاہ بناتا ہوں.اور اس دنیا کا بادشاہ بھی بناتا ہوں اور اُس دنیا کا بھی بادشاہ بناتا ہوں.تمام عالم کو تیرے زیرنگیں کر کے دکھاؤں گا.اٹھ اور یہ اعلان کر دے کہ تو سب دنیا کو فتح کرنے کے لئے کل عالمین کے لئے رحمت کے طور پر آیا ہے.اتنے عظیم الشان مرشد ہوں جن کے، ان کے 44

Page 54

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مئی 1985ء غلاموں کو بھی تو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ ویسی ہی باتیں کریں.اس لئے آج یہ ارادے لے کر اٹھیں کہ آپ نے ان خوابوں کو حقیقتوں میں بدل دیتا ہے.آپ میں سے ہر ایک مبلغ بن جائے.اس جگہ کو جو بظاہر آپ کو بڑی دکھائی دے رہی ہے، اس کو دیکھتے دیکھتے چھوٹا بنا کے دکھا دیں.اتنا چھوٹا کر دیں کہ آپ حیرت سے مڑ کر دیکھیں کہ اس جگہ کو ہم کسی زمانہ میں بڑا کہا کرتے تھے، یہ تو کچھ بھی نہیں.پھر نئی جگہیں تلاش کریں، نئی بستیاں تلاش کریں، نئے علاقے تلاش کریں، دیکھتے ہی دیکھتے پھیلیں اور بڑھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان روحانی فرزندوں میں داخل ہو جا ئیں، جن کے متعلق آپ نے فرمایا:.بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں کھلے ہیں پھول میرے بوستاں میں (در مشین ، صفحه 50) ہر طرف باغ و بہار لگا دیں، ہر طرف نئی انجمنیں بنادیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر کے لئے ، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے لئے ، اللہ کے ذکر کے لئے نئی نئی مجالس قائم ہوں، نئے نئے دور چلیں، اس علاقے کو نئی رونقیں نصیب ہو جائیں.یہ وہ جنتیں ہیں، جن کی تمنا لئے ہم جیتے ہیں اور جن کو دیکھنے کی تمنا لئے اس دنیا سے رخصت ہوں گے.میری دعا ہے اور آپ میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کی زندگی میں ایسی بہت سی جنتیں ہمیں دکھائے، جو کسی زمانہ میں، جو ہماری خوابوں کی بستیاں تھیں، وہ حقیقت کی بستیاں بن جائیں.وہ بڑے بڑے عظیم الشان نظارے، جن کو دیکھ کر ، جن کے تصور میں ہم راتوں کو سویا کرتے تھے کہ خدا کرے کہ یوں ہو اور خدا کرے کہ اس بستی میں بھی اسلام غالب آجائے اور اس بستی میں اسلام غالب آجائے.خدا کرے کہ یوں ہو.خدا کرے کہ ہم اپنی زندگیوں میں یہ باتیں پوری ہوتی دیکھیں اور جب خدا کی طرف سے ہمیں بلاوا آئے تو خدا کے حضور بہت راضی واپس لوٹیں.بظاہر ہماری تمنائیں تو پاگلوں والی تھیں، ہماری باتیں تو دیوانوں کی بڑوں کی طرح تھیں لیکن اے ہمارے آقا ! اے ہمارے مالک خدا! تو نے ہماری ساری تمناؤں کو پورا کر دیا.ہماری دیوانگی کی بڑوں کو بھی دنیا کے فرزانوں کی باتوں سے بھی زیادہ سچا کر کے دکھا دیا.یہ ہے وہ راضية مرضیہ کی واپسی، جس کے لئے میری دعا ہے کہ اللہ مجھے بھی نصیب فرمائے اور آپ کو بھی نصیب فرمائے.45

Page 55

اقتباس از خطبه جمعه فرمود 10 مئی 1985ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک جس دعا کا میں نے ذکر کیا تھا، وہ الگ اجتماعی دعا ہو گی بلکہ نماز جمعہ میں بھی دعا کریں اور نماز جمعہ کے بعد بھی اپنے طور پر یہ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس افتتاح کو غیر معمولی برکتیں عطا فرمائے اور ہماری توقع سے بڑھ کر پھل لگائے.ایک زمانہ تھا جب بشیر آرچرڈ صاحب بیچارے یہاں اکیلے تھے اور دعا کے لئے مجھے بھی بڑی بے چینی اور سخت گھبراہٹ کے ساتھ خط لکھا کرتے تھے کہ میں کیا کروں، کچھ بھی نہیں بنتا، کوئی توجہ نہیں دے رہا، جماعت بھی بالکل چھوٹی سی ہے ، وہ بھی نہیں آتی.اور لگتا ہے، میں تو اکیلا ہی چھوڑا گیا ہوں.اس وقت شاید وہ یہی سمجھتے ہوں گے کہ میری دعائیں قبول نہیں ہور ہیں.لیکن اب دیکھ لیں ، اللہ کے فضل کے ساتھ رونق بھی ہے، جماعت توجہ بھی کر رہی ہے بیعتیں بھی ہو رہی ہیں.ابھی میں نے سنا ہے کہ قریب زمانہ میں ہی ایک Scotish نوجوان خدا کے فضل سے احمدی ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے.لوگوں کو یونہی وہم ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں.اپنے وقت پر کرتا ہے.بعض دفعہ سمجھ بھی نہیں آتی کہ قبول ہو بھی رہی ہیں.لیکن بعد میں ایک دم لگتا ہے کہ ساری دعاؤں کو پھل تیار ہو رہا تھا.تو دعا ئیں ضرور کریں اور کثرت سے کریں اور ان سے غافل نہ ہوں اور کرتے چلے جائیں.پھر دیکھیں انشاء اللہ خدا آپ کی حقیر کوششوں کو بھی عظیم الشان پھیل عطا فرمائے گا.انشاء اللہ.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 104 صفحہ 425 ت447) 46

Page 56

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک خلاصہ خطاب فرموده 10 مئی 1985ء رسم و رواج کی بیخ کنی شریعت کے بنیادی اصولوں میں سے ہے وو خطاب فرمودہ 10 مئی 1985ء بر موقع تقریب آمین حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.جماعت احمد یہ رسوم کے خلاف ہے.اور وہ سنتیں، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری فرمائیں، وہ رسوم نہیں کہلا تیں بلکہ سنت کہلاتی ہیں.جتنی بھی رسوم بعد میں اسلام میں داخل ہوئیں، ان کے خلاف جماعت احمد یہ جہاد کرتی ہے.خواہ وہ چھوٹی کبھی جائیں یا بڑی.رسوم سے شریعت پر بہت سے ایسے بوجھ پڑ جاتے ہیں، جو خدا کی طرف سے نہیں ڈالے گئے.اور لوگوں کی طاقتیں ان راہوں پر چلنے کی بجائے جو شریعت نے مقرر کی ہیں، لوگوں کی بنائی ہوئی رسموں کی راہ پر چلنے لگتی ہیں.چنانچہ یہی حال آج امت محمدیہ کا، بڑے درد کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، ہو چکا ہے.اصل حقائق شریعت کے پس پشت جا پڑے اور قل اور چالیسویں اور گیارھویں اور اس قسم کی دیگر رسموں نے شریعت کی جگہ لے لی.رسموں کے خلاف جہاد بہت اہمیت رکھتا ہے.فرمایا:.ہمیشہ امتیں رسموں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں.چنانچہ قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات گنواتے ہوئے ، ایک یہ بات بھی گنوائی کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ بوجھ ، جو لوگوں نے اپنے اوپر ڈال لئے تھے، جو گلے کا طوق بن چکے تھے، ایسے بوجھ بھی تھے کہ گردن کا طوق بن گئے ، ان سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتار کے ایک طرف پھینک دیا اور آزاد کر دیا.یہ ہے بہت عظیم الشان احسان ایک نبی کا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل غلام حضرت مسیح موعود نے بھی بعینہ وہی احسان ہم پر فرمایا، جبکہ تیرہ سو سال کی وہ رسمیں، جو بعد میں پیدا ہوئیں ، ان سے یک طرح ہمیں آزاد کر دیا.لیکن بدقسمتی ہے قوموں کی کہ ہمیشہ رسموں کی طرف دوڑتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی رسموں کو اختیار کر کے بظاہر اپنی زندگی میں زینت پیدا کریں.Birthday ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ بڑی زینت پیدا ہو جائے گی، تجھے ملیں گے، تھنے دیے جائیں گے اور ہر سال پھونکیں مار کے بتیاں بجھائیں گے.یہ دکھاوے کی چیزیں شروع میں بڑی نرم لگتی 47

Page 57

خلاصہ خطاب فرموده 10 مئی 1985ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم ہیں لیکن جب یہ رسمیں بڑھ جاتی ہیں تو پھر شریعت کی جگہ نہیں رہتی.اب مغربی تہذیب میں شریعت کی گنجائش کہاں باقی رہ گئی ہے؟ رسموں اور دنیا پرستی نے قبضہ کر لیا ہے.لوگ کہتے ہیں، اس میں کیا حرج ہے؟ چاربیتیوں یا دس بتیوں کو پھونکیں مار کر بجھا دیا اور سب نے مل کر کیک کھالیا، بڑا مزا آتا ہے، کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن پھر کیک ہی کھاتے ہیں لوگ ، خدمت دین کے لئے کچھ باقی نہیں رہتا.صدقات کی محبت اٹھ جاتی ہے، غریب پروری اور غرباء کو کھانا کھلانے کا شوق غائب ہو جاتا ہے.ہزار قسم کی بدیاں ہزار قسم کی نیکیوں کو دھکیل دیتی ہیں." شریعت سے عدم توجہ کے نتیجے میں رسوم جگہ لیتی ہیں.ورنہ جس شخص نے شریعت کو پوری طرح ادا کیا اور اس کی روح کو سمجھا ہے، اس بے چارے کو تو ہوش ہی نہیں رہتی ، شریعت کے حق ادا کرنے سے.وہ و ہم و گمان بھی نہیں کر سکتا کہ ذمہ داریوں کو پورا کر کے پھر زائد وقت دوسری چیزوں کو دے.جب رسمیں جماعتوں میں داخل ہورہی ہوں تو سب سے بڑے خطرے کی گھنٹی یہ بجتی ہے کہ جماعت کی نیکی میں کمی آگئی ہے، اس کے رجحانات ٹیڑھے ہو رہے ہیں اور پھر وہ غلط راستوں پر قدم مارتی ہے.اس لئے رسم ورواج کی بیخ کنی بنیادی اصولوں میں سے ہے شریعت کے، اس کو ثانوی حیثیت نہ دیں.رسموں کی طرف متوجہ ہونا ہی بتا رہا ہے کہ کوئی بیماری آگئی ہے.اس لئے اس کی پوری قوت کے ساتھ جہاد کے طور پر بھی بیخ کنی ضروری ہے.اس کے بعد اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ جو سنت حضرت مسیح موعود نے بطور ایک حکم عدل کے قائم فرمائی ہے.اس لئے حکم عدل کا جو فیصلہ ہے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے.اس لئے یہ جو سنت ہے ”آمین“ کے اوپر کچھ دعوت کا اہتمام کرنا اور بچوں کی خوشی منانا، اسے ہرگز رسم قرار نہیں دیا جا سکتا.ایک شریعت کی مہر لگی ہوئی ہے اس پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی مہرلگی ہوئی ہے.اور خدا نے جس شخص کو مقررفرمایادہ معصوم عن الخطاء ہوتا ہے، وہ غلطی کر ہی نہیں سکتا.لیکن غلطیاں آگے ہوتی ہیں پھر.اور میں انہی کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.غلطیاں تو یہ ہوتی ہیں کہ جو سنت قائم کی گئی، اس سے آگے بڑھ کر مزید باتیں اس میں داخل کر دی گئیں.مثلا دیکھا ہوا ہے کہ جو لوگ برتھ ڈے پر Presents لے کے کا آتے ہیں، تو کہا کہ ٹھیک ہے، اب اجازت تو ہوگئی ، ”آمین“ منانے کی ، اب تھے لے کر چلو.چنانچہ آج بھی اور کل بھی میری بیوی نے مجھ پر بڑا زور دیا کہ بڑا تعلق ہے ان لوگوں سے، آپ ضرور تحفہ دینے دیں، ان کی خوشی ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ ”آمین“ کی اجازت ہے، تو کرنے دیں.میں نے کہا: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ایک آنہ بھی نہیں دینا تحفہ.کیونکہ تم اگر آج ایک آنہ تحفہ دو گی تو کل رسمیں بن جائیں گی اور پھر لاکھوں کے تحائف چلا کریں گے اور نمود و نمائش بن جائے گی.48

Page 58

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم خلاصہ خطاب فرموده 10 مئی 1985ء جن مصیبتوں سے، جن اندھیروں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں نکالا ہے، ہمارے قدم ہلکے کئے، سنت محمد مصطفی کو زندہ کیا اور اسی پر بس رہنے اور اسی کو کافی رہنے کی تلقین کی، اتنی نعمتوں کو حاصل کرنے کے بعد پھر آپ دوبارہ اندھیروں میں چلے جائیں، یہ تو بڑے ظلم کی بات ہے.اس لئے ہرگز اس کی اجازت نہیں ہونی چاہئے.چنانچہ آپ میں سے بعض لوگ لائے ہوں گے ضرور، مجھے اندازہ ہے، سجابنا کے پیکٹس.ان کو واپس لے جائیں گھر.اس فیملی کو کوئی ضرورت نہیں ہے، آپ کے تحفوں کی.آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے، وہ ہم مل کے یہاں کریں گے.اور میری موجودگی میں ایک سنت ہو اور پھر اس کو رسم بنا دیا جائے ، اس سے تو جماعت پھر اور کئی سبق آگے نکالے گی نئے نئے.اور آگے رسم و رواج جاری ہو جائے گا.اس لئے میں اس کی اجازت نہیں دیتا.دعا کریں، بچی کے لئے.اللہ اس کے علم و عرفان میں ترقی دے، اس خاندان کو روحانی ترقیات عطا فرمائے.اور جتنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کی غلامی میں آپ کے کسی خلیفہ برحق نے ہمارے لئے جائز قرار دیا ہے، اسی پر خوش رہیں اور اس کو کافی سمجھیں.اور وہی ہے، جو دراصل آپ کے لئے اور دین و دنیا کے لئے کافی ہونا چاہئے“.( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 07 جون 1985 ء ) 49

Page 59

Page 60

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد مف خلاصہ خطاب فرموده 19 مئی 1985ء ہر حال میں خدمت سلسلہ کی جاسکتی ہے خطاب فرمودہ 19 مئی 1985ء ناظم اعلیٰ مجلس انصاراللہ یوکے کی الوداعی تقریب کے موقع پر فرمودہ خطاب کا خلاصہ حسب ذیل ہے.حضور نے فرمایا کہ الوداع ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اب کام ختم ہو گیا.بلکہ ہر حال میں خدمت سلسلہ کی جاسکتی ہے اور دوبارہ اسی خدمت پر انسان مامور ہوسکتا ہے.نیز فرمایا کہ پہلے عہدیدار کام کو ایک سطح تک پہنچاتے ہیں اور پھر بعد میں آنے والے اپنے فرض منصبی کے طور پر اس سطح کو آگے بڑھاتے ہیں اور ایک بلند مقام تک لے جاتے ہیں اور اس طرح ہر کام ہمیشہ ترقی کی جانب رواں دواں رہتا ہے.حضور نے مکرم ہنگوی صاحب کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی خدمات کو سراہا اور دعا کرائی.مطبوعه ضمیمہ ماہنامہ مصباح جولائی 1985ء) 51

Page 61

Page 62

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خصوصی دعاؤں کی تحریک ارشاد فرموده 19 جون 1985ء ارشاد فرموده 19 جون 1985ء رمضان المبارک کی اختتامی دعا کے موقع پر قرآن کریم کی آخری تین سورتوں کے درس کے بعد حضور نے فرمایا:.وو دنیا کے بہت سے ملکوں سے رپوٹ ملی ہے کہ انہوں نے تحریک جدید کے وعدے پورے کر دیئے ہیں.ان ملکوں کی تعداد 17 ہے.پاکستان سے ابھی اعداد و شمار نہیں ملے.وقف جدید والوں نے بھی کہا ہے کہ جنہوں نے وعدے پورے کئے ، ان کے لئے دعا کی جائے.حضور نے مزید فرمایا کہ وو دعا کے لئے صدر انجمن کے اداروں، انصار اللہ کے کارکنان، خدام الاحمدیہ کے کارکنان اور دیگر اداروں کے لئے بھی دعا کی جائے.وو پاکستان کے احمدیوں کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.پاکستان کے احمدیوں کے لئے خصوصی دعائیں کریں، جو بہت مشکلات میں ہیں.ان کی تکالیف کا آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.نیز بیماروں کے لئے.ایسے والدین کے لئے ، جن کو اپنی بچیوں کی شادیاں کرانے میں مشکلات درپیش ہیں.بے اولا دلوگ ، طلباء.ایسے لوگ جن کو مالی مشکلات در پیش ہیں.مقروض لوگ گھریلو ناچاقی اور حادثات میں مبتلا لوگ.معذور بچے.ایسے لوگ جن پر مقدمات ہیں اور جنہیں بے قصور جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے.اور احمدیت کی خاطر جان قربان کرنے والوں کے یتیم بچوں کے لئے بھی دعا کریں“.6 مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ جولائی 1985 ء ) 53

Page 63

Page 64

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ہی پیغام فرموده 22 جون 1985ء جرمنی کی قسمت تبھی بدل سکتی ہے، جب آپ میں سے ہر فرد داعی الی اللہ بن جائے پیغام فرمودہ 22 جون 1985ء جماعت احمدیہ مغربی جرمنی کا دسواں سالانہ جلسہ 23, 22 جون 1985ء کو ناصر باغ میں منعقد ہوا.اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انگریزی میں جو پیغام ارسال فرمایا ، اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:.پیارے بھائیو اور بہنو!......السلام عليكم مجھے اس امر کی انتہائی خوشی ہے کہ جماعت احمدیہ مغربی جرمنی اپنا جلسہ سالانہ 22 اور 23 جون 1985ء کو منعقد کر رہی ہے.الحمد للہ.میں اللہ تعالیٰ سے اس کی نمایاں کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں.خدا کرے کہ یہ ( جلسہ ) آپ سب کے لئے اس کے ان گنت انعامات کا سر چشمہ ثابت ہو.مغربی جرمنی کے ممبران مجھے اس وجہ سے بہت عزیز ہیں کہ وہ احمدیت کا پیغام جرمنوں اور جرمنی میں رہنے والے دوسری قومیتوں کے باشندوں کو پہنچارہے ہیں.1984ء میں جرمنی اپنی بیعتوں کے ٹارگٹ سے بڑھ گیا اور خدا کے فضل سے اس عرصہ میں ایک صد سے زائد افراد نے احمدیت کو قبول کیا.الحمد للہ جرمنی سے موصول ہونے والے خطوط سے مجھے دلی خوشی محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان میں وہاں رہنے والے احمدیوں کی (دعوت الی اللہ.ناقل ) کی کاوشوں کا ذکر ہوتا ہے.اور میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ محض پنے فضل سے ان کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے.تا ہم میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی تک وہاں ایک خاصی تعداد ایسے احمدیوں کی ہے، جنہوں نے ابھی تک اپنے آپ کو داعین الی اللہ یعنی وہ، جو لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے اور بلاتے ہیں، میں تبدیل نہیں کیا.میں آپ میں سے ہر مرد، عورت، جوان اور بوڑھے کو آپ کے اس اہم فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.آپ کے ملک کی قسمت صرف اسی وقت تبدیل ہو سکتی ہے، جب آپ میں سے ہر فرد داعی الی اللہ بن جائے اور دعاؤں، صبر، محبت اور اچھے نمونے کے ذریعہ 55

Page 65

پیغام فرموده 22 جون 1985ء سلام تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم (احمدیت.ناقل ) کا پیغام اپنے ملک کے لوگوں تک پہنچانے میں مداومت اختیار کرے.ہر سال آپ کی کوششیں کئی گنا ہو جانی چاہئیں.پس اس سال اپنی کوششوں کو کم از کم دس گنا بڑھا دیں.تا کہ آپ 1985ء کا سال ختم ہونے تک ایک ہزار افراد کو احمدیت کی آغوش میں لانے کے قابل ہو سکیں.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے آپ کی کوششوں کو نمایاں کامیابی سے ہمکنار فرمائے.اور خدا کرے کہ روحانی فتح اور احمدیت کی کامیابی کا دن آپ کے ملک میں جلد طلوع ہو.آمین.سب کو محبت بھر اسلام.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمت سے نوازے.مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ لنڈن 22.06.1985 (مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ مصباح اگست 1985ء) 56

Page 66

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ مغربی جرمنی اللہ تعالیٰ نے جرمن قوم میں روحانی انقلاب برپا کرنے کے لئے آپ کو چن لیا ہے پیغام بر موقع جلسه سالانہ جماعت احمدیہ مغربی جرمنی 1985ء پیارے عزیزان! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اس وقت آپ مغربی جرمنی میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے جمع ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو ہر رنگ میں بابرکت بنائے اور اس میں شامل ہونے والوں کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے.عزیزو ! آپ خدا کے وہ خوش نصیب بندے ہیں، جنہوں نے زمانہ کے مصلح (حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ) کو پہچانا ، اس پر ایمان لائے.اور اس کی جماعت میں شامل ہو کر اس جہاد میں مصروف ہوئے ہیں، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا.آپ میں سے اکثر وہ ہیں ، جو سخت مشکل حالات میں پاکستان سے ہجرت کر کے کسب معاش کی خاطر جرمنی گئے اور جب خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ کی محنت کا پاکیزہ رزق عطافرمایا تو اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو بھولے نہیں بلکہ اس کی راہ میں مسابقت کی روح کے ساتھ مالی قربانی کی.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جرمن مشن، جو کبھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے دیگر ممالک کا محتاج ہوا کرتا تھا، نہ صرف خود کفیل ہو گیا بلکہ دوسرے ضرورت مند ممالک کا سہارا بن گیا.اور ان کی مالی ضروریات کو بھی پورا کرنے لگا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس نیکی کو قبول فرمایا اور آپ سے عفو اور درگزر اور پیار کا معاملہ فرمایا اور ہر قسم کی مشکلات میں آپ کا حامی و ناصر ہوا.اور آپ کے ساتھ ایسا معاملہ فرمایا، جو آپ کو سب دوسروں سے ممتاز کرنے والا تھا اور ہر بصیرت کی آنکھ سے دیکھنے والا یہ دیکھ سکتا تھا کہ احمدیوں کا ایک مولیٰ ہے، جو ان کو بے سہارا نہیں چھوڑتا اور ان کے ساتھ غیر معمولی محبت اور پیار کا معاملہ کرتا ہے.آپ میں سے بعض ایسے تھے ، جو عبادت کے حقوق بھی بڑی توجہ سے ادا کرتے تھے اور تہجد کو بھی انہوں نے اپنا شعار بنائے رکھا.اور بھاری اکثریت ایسی تھی کہ دنیا کے دھندوں میں پڑ کر عبادت کی طرف سے کچھ غافل تو ہوئے لیکن جہاں تک بس چلا گرتے پڑے اپنی کمزوریوں پر احساس ندامت کے 57

Page 67

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ مغربی جرمنی تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتم ساتھ پانچ نمازوں کو قائم کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے رہے.لیکن جہاں تک دعا کا تعلق ہے، شاید ہی آپ میں سے کوئی بدنصیب ایسا ہو، جو دعا سے غافل رہا ہو.ہر مشکل اور ہر مصیبت میں آپ لوگوں نے خدا کے آستانہ پر جھک کر بڑی گریہ وزاری کے ساتھ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافیاں مانگیں اور خیر کے طالب ہوئے.اور (امام) وقت کو بھی دعاؤں کے لئے لکھا اور دیگر بزرگان سلسلہ سے بھی دعاؤں کی درخواست کی.چنانچہ آپ جانتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات میں آپ کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف بخشا اور دست غیب سے آپ کی تائید فرمائی اور اپنے قرب کے نشان دکھلائے اور کچی خوابوں کے ذریعہ مشکلات کے دور ہونے کی خوشخبریاں عطا کیں.اور من و عن ان خوشخبریوں کو پورا فرما کر آپ کے ایمان و اخلاص کے دل بڑھاتا رہا.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت کریمانہ ہے کہ ایک نیکی کے بدلے دس نیکیوں کی بلکہ اس سے بھی زیادہ کی توفیق عطا فرماتا ہے.اور نیکیوں کے اجر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ تھوڑی نیکیوں کے بدلے زیادہ نیکیوں کی توفیق ملتی ہے.اور اس طرح انسان اجر اور ثواب کے ایک نہ ختم ہونے والے راستہ پر چل پڑتا ہے.جو در حقیقت اللہ کے لامتناہی فضل کا راستہ ہے.پس اللہ تعالی نے اب آپ کو اپنے تازہ فضل سے اس طرح نوازا ہے کہ آپ کو میری دعوت الی اللہ کی سکیم میں بھی مسابقت کی روح کے ساتھ ، بڑے اخلاص اور ولولے کے ساتھ حصہ لینے کی توفیق بخشی اور روز بروز پہلے سے بڑھ کر اس تحریک میں وسعت اور شدت پیدا فرماتا چلا جارہا ہے.جرمنی میں بسنے والے تمام احمدی، خواہ وہ جرمن قوم کے باشندہ ہوں، جیسے عبداللہ صاحب اور ہدایت اللہ جمیل یا امریکن نژاد احمد کی ہوں، جیسے محمودہ مبارکہ مظفر یا پاکستان سے جا کر یا دیگر ممالک سے جا کر وہاں بسے ہوں، سبھی خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق (دعوت الی اللہ ) کے میدان میں ایک دوسرے سے بڑھ کر سرگرمی دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں.یہاں تک کہ اب اکثر خطوط جو جرمنی سے میرے نام آتے ہیں، ان میں بڑی عاجزی کے ساتھ اس دعا کی درخواست ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیاب داعی الی اللہ بنادے اور توفیق بخشے کہ اپنا وعدہ جلد از جلد پورا کر سکیں.اللہ تعالیٰ جلد جلد ان کوششوں کے پھل بھی عطا فرمارہا ہے.اور نئی نئی بیعتوں کی اطلاع پا کر دل خوشی سے حمد وشکر کے ترانے گانے لگتا ہے.آپ کے نئے امیر ملک ، ملک منصور عمر سلمہ اللہ کو بھی ( دعوت الی اللہ کی خاص دھن ہے.اور وہ دن رات اسی کوشش میں مصروف رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ 58

Page 68

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ مغربی جرمنی کو ان کے ساتھ بھر پور تعاون کی توفیق حاصل ہورہی ہے اور فی سبیل اللہ، اطاعت اور تعاون على البر والتقوی کے بہترین نمونے آپ دکھا رہے ہیں.ان سب باتوں پر جب میں نظر ڈالتا ہوں تو جرمنی کی جماعت کے لئے غیر معمولی محبت اپنے دل میں پاتا ہوں.اور طبعی جوش کے ساتھ ایک پہاڑی چشمہ کی طرح جماعت احمدیہ جرمنی کے مردوزن طفل و جوان کے لئے دل سے دعاؤں کے دھارے ابلتے ہیں.اللہ آپ پر ہمیشہ اپنے فضلوں کی بارش برسائے اور آپ کا حامی و ناصر ہو.آپ کے تھوڑے کئے کو بھی بہت بنادے، آپ کی معمولی کوشش کو بھی بکثرت بہترین دائی اور شیریں انمار عطا فرمائے.آپ ہمیشہ اپنے رب سے راضی رہیں اور آپ کا رب ہمیشہ آپ سے راضی رہے.یار رکھیں کہ جرمن قوم میں ( دین حق ) کا روحانی انقلاب بر پا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آج آپ کو چن لیا ہے.اور یہ عظیم تاریخی سعادت آپ کے نصیب میں رکھ دی ہے.اگر جرمنی کی ساری جماعت ( دعوت الی اللہ ) میں منہمک ہو جائے تو دیکھتے دیکھتے اس ملک میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہونے لگیں گی.اور اپنی آنکھوں سے آپ یہ نظارہ دیکھ لیں گے کہ فوج در فوج جرمن ( دین حق) میں داخل ہورہے ہیں.یہ ایک ایسی فوز عظیم ہے کہ اس کے حصول کے لئے آپ کے دلوں میں بے قرار تمنائیں مچلنی چاہئیں.اور ( دین حق کی دعوت ) کے جوش سے دلوں میں اک آگ سی لگ جانی چاہیے.خدا کرے ایسا ہی ہو.اور خدا کرے کہ آپ کو پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی توفیق ملے.اور آپ کی دعائیں آسمان پر ایک تہلکہ مچادیں.اور آپ کی مقبول دعاؤں کا شور سرزمین جرمنی میں ایک روحانی قیامت برپا کر دے.اور وہ ماجراجو سرزمین عرب میں گزرا تھا، غلامان محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے جرمنی کی سرزمین پر بھی گزر جائے.وہ ماجرا کیا تھا؟ حضرت (بانی سلسلہ ) فرماتے ہیں:....وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یکدفہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا ؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں، جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا.اور وہ عجائب باتیں دکھلا ئیں کہ جو اس امی، بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللهم صل وسلم و 59

Page 69

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ مغربی جرمنی تحریک جدید - ایک الہی تحریک بارک علیه واله بعددهمه وغمه وحذنه لهذه الامة وانزل عليه انوار رحمتک الی الابد.( برکات المدعا، روحانی خزائن جلد 6 صفحه 10,11) اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کا دین بھی سنوار دے اور دنیا بھی.اور حسنات دارین سے آپ سب کے دامن اور برکتوں سے آپ کے گھر بھر دے.آمین! اور والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید جون 1985ء) 60

Page 70

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع جلسہ سالانہ مغربی جرمنی اظہار خوشنودی پیغام بر موقع جلسہ سالانہ مغربی جرمنی حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جماعت احمدیہ مغربی جرمنی کے دسویں جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد پر خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے ، حسب ذیل پیغام دیا:.جلسہ سالانہ مغربی جرمنی کی کامیابی پر بہت بہت مبارکباد.بہت خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1200 (بارہ صد) افراد نے شمولیت اختیار کی.اور اس میں جر من احمدی 20 تھے، جرمن عیسائی 25 اور (غیر از جماعت مسلمان احباب.ناقل ) 23 تھے.آپ نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے، اب اس تعداد کو سینکڑوں تک لے کر جائیں اور آئندہ آپ سے ہزاروں کا مطالبہ کریں گے.مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ مصباح اگست 1985ء) 61

Page 71

Page 72

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع تقریب جوبلی بیت النور فرنكفور یور چین ممالک میں میری سب سے زیادہ امید میں جرمنی سے وابستہ ہیں پیغام برموقع تقریب جو بلی بیت النور فرینکفورٹ احباب جماعت احمدیہ مغربی جرمنی السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے جماعت احمدیہ کو اس بات کی توفیق دی کہ یورپ کے مختلف ممالک میں (خانہ ہائے خدا) تعمیر کرنے اور ان کو مرکز بنا کر خدا کا نام بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے رہنے والوں کو ( دین حق ) کے نور سے منور کرے.( بیت ) نور فرینکفورٹ بھی ان میں سے ایک ہے.اور اب جبکہ اس.....کے قیام پر 25 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، ہم اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر اس کی جو بلی کا اہتمام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مغربی جرمنی کی جماعت نے (دعوت الی اللہ ) کی طرف توجہ کی ہے.اور (بیت) نور فرینکفورٹ کی جوبلی کا ساتھ اس مہم کے ساتھ منطبق ہو رہا ہے.اگر مغربی جرمنی کے سارے دوست اس طرح محنت اور دعا کرتے رہے تو مجھے امید ہے کہ جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی 1989 ء تک مغربی جرمنی کی جماعت کو ایک ہزار ٹی بیعتیں کروانے کا جو ٹارگٹ دیا گیا ہے، وہ انشاء اللہ پورا ہو جائے گا.بلکہ خدا کرے، اس سے آگے بڑھ جائے.یورپین ممالک میں میری سب سے زیادہ امیدیں جرمنی سے وابستہ ہیں.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جرمن قوم نے ہمارے نوجوانوں کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے.اللہ تعالیٰ اس قوم کے ساتھ رحمت کا سلوک کرنا چاہتا ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ اس قوم کو اس نیکی کی جزا نہ ملے.یہی وجہ ہے کہ میں جرمنی کے بارے میں زیادہ پر امید ہوں.اللہ تعالیٰ اس قوم پر توقع سے بڑھ کر فضل فرمائے اور یہ جلد از جلد احمدیت.کے نور سے منور ہوں.ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ (خدمت دین) کے کام میں جت جائے اور اس وقت تک چین نہ لے، جب تک کم از کم اپنے ایک جرمن بھائی کو احمد کی نہ بنالے.( دین حق ) اور احمدیت کے پیغام کو مغربی 63

Page 73

پیغام بر موقع تقریب جوبلی بیت النورفرینکفورٹ تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم جرمنی کے رہنے والوں تک پہنچانے کے لئے Audio Cassetes اور Video Cassets کا استعمال وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے.مغربی جرمنی کی جماعت Cassets کی تیاری اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنائے اور اس کو منظم کرے اور اس میں با قاعدگی پیدا کرے.اگر اس غرض کے لئے وسیع پیمانے پر خرچ بھی کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور آپ کو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد ( مطبوع ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید جون 1985ء) 64

Page 74

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ امریکہ احمدی کی آنکھ خصوصاً دوسرے احمدی کے لئے نگر ان کا کام کر رہی ہوتی ہے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ امریکہ منعقدہ 27 تا 29 جون 1985ء بسم الله الرحمان الرحيم میرے عزیز بھائیو ، بہنو اور بچو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یہ سن کر خوشی ہوئی کہ جماعت احمد یہ امریکہ مؤرخہ 29 28 27 احسان / جون کو جلسہ سالانہ منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو علمی، عملی، اخلاقی اور روحانی ترقی کا موجب بنائے اور اس کی برکتوں سے ہر فر د جماعت وافر حصہ پائے.آپ ایک ایسے ملک میں ہیں، جو مالی طاقت کے لحاظ سے اتنی بلندی تک پہنچ چکا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ بچائے تو یہ مال و دولت فرعونیت پیدا کر دیتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا معاشرہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے تحت الثریٰ سے باتیں کر رہا ہے.اس پہلو سے یہ معاشرہ نہ صرف بذات خود اتنا گر چکا ہے بلکہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے یہ ساری دنیا کے معاشروں اور تہذیبوں کو تباہ کرنے کا سر چشمہ بن چکا ہے.روس اور امریکہ کے حالات پر جب نظر پڑتی ہے تو سورۃ الفجر کا مضمون نظر کے سامنے آجاتا ہے اور الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِةٌ فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَةٌ کا نقشہ نظر آنے لگتا ہے.اس پہلو سے جماعت احمدیہ امریکہ پر غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اگر وہاں جماعت احمد یہ تیزی سے ترقی کرے تو اللہ کے فضل اور رحم کے ساتھ ایک عظیم الشان طاقت کے سرچشمہ سے استفادہ کر سکتی ہے.اور اس کے زہر آلود اور ہلاک کرنے والے پانی کو آب حیات میں تبدیل کر سکتی ہے.امریکہ میں جس قدر تیزی سے پھیلنے کے امکانات ہیں اور بعض طبقات میں جتنی طلب اور پیاس پیدا ہو چکی ہے، اس کے پیش نظر اگر حکمت اور تدبر اور دعا کے ساتھ کام کیا جائے تو بہت تیزی کے ساتھ جماعت کی ترقی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں.65

Page 75

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ امریکہ تحریک جدید- ایک الہی تحریک اس لئے اول پیغام تو میرا یہی ہے کہ اس طرف غیر معمولی توجہ کی جائے.دوسرے، منتشر گھرانوں کی تربیت کی فکر کی جائے ، جو لوگ جماعت کی نظر سے ہٹ کر الگ رہتے ہیں.اور اتنے وسیع ملک میں ایسا ہونا عین ممکن ہے.جبکہ اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا ہوگا کہ ان گھرانوں کی تربیت کئی طرح سے بہت بری طرح متاثر ہوئی ہوگی.احمدی کی آنکھ خصوصاً دوسرے احمدی کے لئے نگران کا کام کر رہی ہوتی ہے.اسی لئے قرآن کریم نے ساری امت کو ہی شہید قرار دیا ہے.جب یہ نگران نظر موجود نہ رہے تو ایسے لوگ ، جو غیب سے ڈرنے کے عادی نہیں ہوتے اور جن کا خدا صرف غیب کا خدا ہوتا ہے اور شہادت کا خدا نہیں ہوتا ، وہ لوگ اس نگرانی کے فقدان کی وجہ سے دنیا کی کشش میں بہکنے اور ہر قسم کی آسائشوں میں ملوث ہونے لگتے ہیں.یہاں تک کہ وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ احمدی ان سے زیادہ میل جول رکھیں.احمد یہ مراکز سے ان کا تعلق سوشل تعلق بن جاتا ہے.جو عید، بقر عید یا کسی خاص نمی خوشی پر اکٹھا ہونے کے لئے استعمال ہوتے ہیں.اس سے ایک شدید نقصان یہ پہنچتا ہے کہ باجماعت نماز کی عادت اٹھ جانے کی وجہ سے گھر میں نمازوں کی پابندی کا معیار بہت تیزی سے گرنے لگتا ہے.ایک اور شدید نقصان یہ پہنچتا ہے کہ بچے، احمدی بچوں کا ماحول نہ ملنے کی وجہ سے خالصہ دنیا داری کے ماحول میں پرورش پانے لگتے ہیں اور اپنی اقدار سے ان کی نظریں پھر جاتی ہیں اور دین میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہتی.اور ایک نگاہ تغافل پیدا ہو جاتی ہے، جو رفته رفته مکمل اجنبیت پر جا کر ختم ہوتی ہے.ایک اور نقصان یہ ہے کہ عالمگیر جماعت کے ساتھ رابطہ کٹ جانے کی وجہ سے اپنی عظمت کا احساس نہیں رہتا اور ایک غالب معاشرے میں اپنے آپ کو بالکل معمولی اور بے دست و پاد یکھتے ہوئے عزم اور ہمت کو تاہ ہو جاتے ہیں.یہاں تک کہ ایک ہاری ہوئی ذہنیت کا شکار ہو کر اسلامی اقدار کی خاطر جدو جہد ہی چھوڑ دی جاتی ہے.اور عظیم الشان قربانی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ولولہ پیدا نہیں ہوتا اور مزاج میں ایک بے مروتی سی پیدا ہونے لگتی ہے.اس قسم کے خطرات جس قدر جماعت کو امریکہ میں درپیش ہیں، دنیا میں کسی اور ملک میں نہیں.کیونکہ اس پر مستزا دوہاں کی مادی ترقی ہے، جو فلک بوس عمارتوں کی طرح انسان پر اپنی ہیبت طاری کر دیتی ہے.اور دلوں پر رعب دجال پیدا ہو جاتا ہے.جس سے بچنے کے لئے حضرت مسیح موعود نے خصوصیت سے دعا مانگی تھی کہ نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال 66

Page 76

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم پیغام برموقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ امریکہ پس ان سب امور پر نظر رکھتے ہوئے ، ان گھروں کی فکر کرنی چاہیے اور ان کے لئے چارہ جوئی کرنی چاہئے.اگر یہ جماعت کی شہادت کی آنکھ سے کٹے رہے تو دنیا کی ہلاکتوں سے کئی قسم کے خطرات انہیں درپیش رہیں گے.اور ان کی اولادوں پر خصوصیت سے سخت مہلک اثر پڑے گا.دیگر امور کے علاوہ ان سب باتوں کا علاج تبلیغ پر زور دینا ہے اور گھروں میں نماز با جماعت پر غیر معمولی توجہ دینا ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ امریکہ ان ہر دو پہلو پر خصوصی جد و جہد کرے گی.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ان کوششوں میں غیر معمولی برکت ڈالے اور اس کے فرشتے احمدی گھروں کے محافظ اور نگران بن جائیں.اور احمدی گھروں پر اس آیت کے مضمون کا بتمامہ خیر و برکت کے ساتھ اطلاق ہو.لَهُ مُعَقِّبْتٌ مِّنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللهِ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر اور معین ومددگار ہو.آمین.والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع (الرعد : 12) ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 6 جون 1986ء) 67

Page 77

Page 78

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد خلاصه ارشادات فرموده یکم جولائی 1985ء کسی بھی تقریب میں ریاء اور تکلفات کا دخل نہیں ارشادات فرمودہ یکم جولائی 1985ء آمین کی ایک تقریب کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جوارشادات فرمائے ، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:.تلاوت اور نظم کے ترجمہ کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا:.وو تلاوت اور نظم کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہونا چاہیے.اور آئندہ سے یہ اصول بن جائے اور اس پر بالالتزام عمل کیا جائے“.اس کے بعد حضور نے دینی تقریبات میں سادگی کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ و کسی بھی تقریب میں ریاء اور تکلفات کا دخل نہیں ہے.بعض مستشرق یہ کہتے ہیں کہ چونکہ اسلام صحرا کامذہب ہے، اس لئے اس کے رسم ورواج سادہ ہیں.اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اسلام ایک نہایت سادہ مذہب ہے.اس میں بہت کم مذہبی یا تمدنی رسومات پائی جاتی ہیں.ہماری تقریبات میں کسی قسم کی نمود و نمائش، ناچ گانا یا شراب نوشی نہیں ہوتی.جو کہ آج کی دنیا کے لئے موجب لطف ہوتا ہے.ہماری تقریبات دعاؤں سے بھر پور ہوتی ہیں.مثلاً عید کے روز ، جو کہ کرسمس کی طرح مسلمانوں کا ایک سالانہ تہوار ہے، ہماری دعاؤں میں کمی کی بجائے زیادتی ہو جاتی ہے.عام طور پر بھی اسلامی تعلیمات میں ہر روز 6 نمازیں ادا کی جاتی ہیں.جن میں ایک نماز تہجد ہے.کچھ مغربی سکالرز اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ مذہب ایک نہایت پسماندہ علاقے کا مذہب ہے اور وہ اسے عرب کی تہذیب قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ایک نہایت غیر ترقی یافتہ علاقے میں پیدا ہوئے ، اس لئے اسی علاقہ کی اقدار اور رسومات کو تعلیمات اسلام میں شامل کر لیا.حالانکہ یہ حقیقت سے بہت بعید ہے.حقیقت تو یہ ہے کہ عرب کی تقریبات اور تہوار ناچ گانوں، شراب نوشی ، لڑائیوں اور ایسی ہی دیگر بد رسوم پر مشتمل ہوتی تھیں، جو کہ ایک انسانی ذہن لطف اندوز ہونے کے لئے سوچ سکتا ہے..69

Page 79

خلاصه ارشادات فرموده یکم جولائی 1985 سکھر تحریک جدید - ایک البمی تحریک...جلد هفتم " اسلامی اور مغربی تہذیب کے تہواروں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ مغربی تہذیب کے تہواروں کے موقع پر عام طور پر جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے.لیکن اس کے برعکس اسلامی تہواروں مثلاً عیدین کے مواقع پر جرائم کی تعداد عام دنوں کی نسبت کم ہو جاتی ہے.باوجود اس کے کہ آج کے مسلمان اسلامی اقدار سے بہت دور جاچکے ہیں.اسلام میں ہماری انفرادی زندگیوں میں بھی ان عیدین کے تہواروں کے علاوہ چند ایک روز ہی ایسے ہیں، جو کہ منائے جاتے ہیں.مثال کے طور پر سالگرہ کی رسم مغربی تہذیب کا ایک خاصہ بن چکا ہے اور اب اکثر مسلمان ممالک بھی اس سے متاثر ہیں اور اسے رسم کے طور پر مناتے ہیں.لیکن جماعت احمد یہ جو کہ تجدید دین کے لئے وجود میں آئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والی جماعت ہے، ایسی تمام رسوم کے ناصرف خلاف ہے بلکہ قلع قمع کرتی ہے، جو کہ بعد میں اسلام میں داخل ہوئیں.اور جب بھی آپ اس قسم کی غیر اسلامی رسومات میں ملوث ہوتے ہیں تو یہ بلاوجہ غیر ضروری مالی بوجھ اور پریشانیوں کا موجب بن جاتی ہیں.اسی لئے ہم سادگی کو زیادہ پسند کرتے ہیں“.فرمایا:." آج کا روز بھی ، جسے ہم بہت اہمیت دیتے ہیں ، اس وجہ سے کہ ہمارے بچے نے قرآن کریم جو کہ خدا تعالیٰ کی الہامی کتاب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ، خدا کے فضل سے مکمل کر لی.اور اس موقع پر کوئی تصنع کوئی بناوٹ اور بے معنی خوشی نہیں ہے بلکہ بچے سے قرآن کریم کا ایک حصہ بن لیا، اجتماعی دعا کر لی اور چائے کے ساتھ کچھ مٹھائی وغیرہ کھالی.اس تقریب کا نہایت اہم اور ضروری حصہ دعا ہے ، نہ کہ تحفے تحائف دینا اور لینا.اور یہی ہم اپنے بچے کو بھی سکھانا چاہتے ہیں.آج بھی یہاں جو مہمان آئے ہیں، وہ بھی بغیر تحائف کے آتے ہیں.یہ رسم ہم میں داخل ہونا شروع ہوگئی تھی، اس لئے گزشتہ اس قسم کے ایک موقع پر میں نے جماعت کو تحائف دینے پر اس وجہ سے پابندی لگادی تا کہ ہماری سوسائٹی پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑنے شروع ہو جائیں.کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی رسوم جو بظاہر نقصان دہ نہیں لگتیں اور لوگ کہتے ہیں کہ بچے کو ایک چھوٹا سا تحفہ دینے میں کون سی قباحت ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیں اندھیروں کی طرف دھکیل دیتی ہیں.اور یہی چیز پھر تصنع میں تبدیل ہو جاتی ہے.اور خواہ کوئی اسے برداشت کر سکے یا نہ، وہ اسے ضروری سمجھنے لگ جاتے ہیں.چنانچہ میں نے اس رواج کو مزید فروغ دینے پر پابندی عائد کر دی اور مجھے یہ جان کر نہایت خوشی رواج کو دینے پر کردی اورمجھے یہ کر خوشی 70

Page 80

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتم خلاصہ ارشادات فرمودہ یکم جولائی 1985ء ہوئی کہ اس چھوٹی سی معصوم بچی نے ، جسے گزشتہ موقع پر تھے دیئے گئے ، ہنستے مسکراتے ہوئے واپس لوٹا دیئے.لہذا بجائے اس کے کہ ہم بچوں کو تحائف وغیرہ جیسی رسوم میں ملوث کر دیتے ، ان کی توجہ دعاؤں کی طرف مبذول کروادی.تا کہ وہ تحائف کی نسبت دعا کو زیادہ اہمیت دیں اور اس کی اہمیت کو سمجھنے لگیں.اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ بے صبری سے تحفوں کی امید میں ہی لگے رہتے ہیں.حضور نے مزید فرمایا:.”ہم اپنے بچوں کی توجہ دعاؤں کی طرف اس لئے مبذول کرواتے ہیں تا کہ انہیں یہ اہمیت واضح ہو کہ اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے.اور شاید ہی کوئی ایسا احمدی گھرانہ ہو، جس کے بچے نے اپنی دعاؤں کے پھل نہ پائے ہوں.اور اگر بالفرض ہم بعض اوقات ناامید بھی ہو جائیں تو ہمارے بچے ہمیں یقین دلا دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہماری دعاؤں کے نتیجہ میں ضرور فضل فرمائے گا.لہذا بجائے اس کے کہ والدین اپنے بچوں کو کہیں کہ فکر کی بات نہیں ہے، بچے اپنے والدین کی فکرمندی دور کر دیتے ہیں اور یہی چیز ایک حقیقت حال بن کر سامنے آجاتی ہے اور دعاؤں کے معجزات کی وجہ سے ان کے اندر ایک نئی قوت پیدا ہو جاتی ہے.اس موقع پر حضور نے بچوں کی دعا کی قبولیت کے بعض ایمان افروز واقعات سنائے، ان واقعات کے بعد حضور نے بتایا کہ وو ی ورثہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ایک پیغام ہے.اور یہی بات میں آپ سب کے ذہنوں میں راسخ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے بچوں کے دل میں خدا اور اس کی حقیقی محبت ڈالیں.اور پھر دیکھیں کہ ہر گھر میں کس طرح معجزات ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں.بچے کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا.وہ تو بالکل معصوم ہوتا ہے.بچہ خواہ مسلمان گھر میں پیدا ہو یا عیسائی کے گھر میں یا کسی اور کے، خدا تعالیٰ کا وجود ان سب کے لئے ایک جیسا ہوتا ہے.یہی ایک طریق ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کر سکتے ہیں.لیکن کس قدر افسوس ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو اپنے ہاتھوں اب تباہ و برباد کر رہے ہیں.مذہب سے لگاؤ کم ہوتا چلا جارہا ہے اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل بگڑتی اور ضائع ہوتی چلی جارہی ہے.اب یہی ایک فارمولا رہ گیا ہے، جو میں آپ سب کے لئے تجویز کرتا ہوں.اسی ذریعے سے آپ اپنے بچوں کو خالق حقیقی کی طرف واپس لا سکتے ہیں.اور پھر اسی پر توکل کریں اور اسی پر چھوڑ دیں کہ وہ انہیں صراط مستقیم پر چلائے.میرے نزدیک یہی ایک طریق ہے، ( دعا کا ) جس کے بہت بڑے نتائج برآمد ہو 71

Page 81

خلاصه ارشادات فرمودہ یکم جولائی 1985ء تحریک جدید- ایک البی تحریک جلد ہفتم سکتے ہیں.ایسے تمام لوگوں کے بچے اپنے مالک سے پیار کرنے والے بن جائیں گے اور خدا تعالیٰ کبھی بھی انہیں ضائع نہیں کرے گا.اس کے علاوہ تمام حربے، جو کہ انسان کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں، اس ایک کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہ رکھیں گے.آج اگر تمام دنیا اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو تمام جھوٹے قصے اور اسلحہ کے استعمال سے پیش آمدہ تباہی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے.پس اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ سے پیار کرنا سکھا ئیں اور پھر دیکھیں کہ وہ کبھی ضائع نہیں کرے گا اور یہی وقت کا اہم تقاضا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ آپ کے شامل حال ہو.آمین.( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 5 جولائی 1985 ء ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1985 ء ) 72

Page 82

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ الہی خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985ء انصار اللہ کو جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیموں میں سب سے فعال ہونا چاہئے خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985 ء بر موقع سالانہ اجتماع انصاراللہ یوں کے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی کے انگریزی خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:.فرمایا:.الحمد لله.آج ہمارا اجتماع اپنے کامیاب اختتام کو پہنچ رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان تمام احباب کو اپنے فضل سے نوازے، جنہوں نے کسی بھی حیثیت سے اس اجتماع کو کامیاب بنانے کے لئے کوشش کی ہے.اسی طرح ان کو بھی، جو اجتماع میں شرکت کے لئے حاضر ہوئے.اگر چہ انصار اللہ کی کل تعداد کے مقابلہ پر اجتماع میں شریک ہونے والے انصار کی تعداد تسلی بخش نہیں.کیونکہ انصار شر کاء کی زیادہ سے زیادہ تعداد 200 بتائی گئی ہے.اور خدام و اطفال سمیت شرکاء کی تعداد 297 ریکارڈ کی گئی ہے.اسی طرح اعداد و شمار میں گزشتہ سال کے شرکاء کی تعداد بھی نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا.حالانکہ میں جماعت احمدیہ کے تمام ذیلی اداروں کو مسلسل اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ جب بھی رپورٹ پیش کریں تو اس میں گزشتہ اعداد و شمار کے ساتھ موازنہ بھی دکھا ئیں.لہذا یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ ہم ہمیشہ ایسی صورت دکھائیں حال میں ہوں کہ اپنی ترقی کی رفتار کو پرکھ سکیں کہ ہم آگے جارہے ہیں یا پیچھے؟ اور گزشتہ اعداد و شمار کے بغیر ایسا ممکن نہیں.اب اگر چہ (رپورٹ کی روشنی میں تو میرے لئے یہ جانا ممکن نہیں کہ آپ ترقی کر رہے یا نہیں؟ تا ہم میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ ہمارا قدم ترقی کی طرف ہی ہے.مجلس انصار اللہ کے اندر غفلت کی ایک عمومی کیفیت پائی جاتی ہے، جسے ختم کرنے کے لئے میں مسلسل جدوجہد کرتا رہا ہوں.چند سال قبل جب میں انصار اللہ کا صدر تھا تو میرا یہ خاص مشن تھا کہ میں انصار اللہ کو بار بار بتاتا تھا کہ آپ اپنے اس مقام کا احساس کریں، جو جماعت احمدیہ کے اندر آپ کو حاصل ہے.اور یہ وہ مقام ہے، جو کسی اور کو حاصل نہیں.لیکن افسوس ہے کہ انصار اللہ کے لفظ سے عام طور پر یہ مفہوم سمجھا جاتا ہے کہ یہ چند بوڑھے لوگوں کا مجموعہ ہے، جو کسی کام میں حصہ لیں یا نہ لیں، کوئی فرق نہیں پڑتا.اور یہ کہ مجلس انصار اللہ ریٹائر ڈلوگوں کی تنظیم ہے، جنہیں موت کے انتظار کے علاوہ اور کچھ کام نہیں 73

Page 83

خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم ہے.یہ وہ عجیب و غریب اور غلط تصور ہے، جو انصار اللہ کی تنظیم کے ساتھ منسلک چلا آ رہا ہے.جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ آپ نے ابھی قرآن کریم کی جو آیات سنیں ہیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ آپ سب میں چنیدہ افراد ہیں.آپ وہ لوگ ہیں، جن کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح کیا گیا ہے کہ جب حضرت عیسی نے اپنے حواریوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ کون ہیں، جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے میرے مددگار ہوں گے؟ تو حواریوں نے فورا جواب دیا: " نحن انصار الله کہ ہم ہیں، جو خدا کے دین کے لئے مددگار ہوں گے.اگر چہ ان آیات میں مخصوص طور پر ایسے لوگوں کا ذکر نہیں کیا گیا، جن کی عمر 40 سال سے زائد ہے.لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے اس غرض سے انصار اللہ کی اصطلاح قرآن کریم سے لی تا آپ کو ہمیشہ یاد دہانی ہوتی رہے کہ آپ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت اور حضرت مسیح موعود کے مشن کی تحمیل کے لئے ہمیشہ صف اول میں رہنے کا عہد کیا ہے.پس آپ کو جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیموں میں سب سے فعال تنظیم ہونا چاہئے.علاوہ ازیں میں اپنے انصار بھائیوں کو اس طرف بھی بار بار متوجہ کرتارہا ہوں کہ آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی کسی نبی کو مبعوث فرماتا ہے تو سوائے شاذ کے وہ چالیس سال کی عمر والوں میں سے ہی ہوتا ہے.اب اگر چالیس سال کے بعد کام کرنے والی زندگی ختم ہو چکتی ہے اور ریٹائر منٹ کی عمر شروع ہو جاتی ہے تو پھر الہی انتخاب درست معلوم نہیں ہوتا.اور یہ بات ناممکن ہے.اصل حقیقت یہی ہے کہ سب سے زیادہ ذمہ داری کا کام انہی لوگوں کو دیا جاتا ہے، جو 40 سال کی عمر کو پہنچ چکھتے ہیں.اور انبیاء کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے کام میں کمی واقع ہونے کی بجائے اضافہ ہوتا جاتا ہے.اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جدوجہد تیز سے تیز ہوتی جاتی ہے.یہاں تک کہ موت کا وقت آجاتا ہے اور وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو جاتے ہیں.وہ آخر دم تک کام کرتے رہتے ہیں اور ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے آخری لمحہ تک کام کی توفیق پاتے رہیں.مندرجہ بالا امور کے پیش نظر اور بعض اور اسباب کے پیش نظر ، جن کو یہاں بیان کرنے کا وقت نہیں، میں یہ امر خاص طور پر آپ کے ذہن نشین کروانا چاہتا ہوں کہ آپ عمر کے ایسے حصہ سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں انسان کو سب سے زیادہ نتیجہ خیز اور سب سے زیادہ ذمہ دار ہونا چاہئے.اور آپ کو بار بار یاد دہانیوں کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے.آپ اس عمر سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں مذکرین یعنی نصیحت کرنے والے مقرر کیے جاتے ہیں اور وہ خود نصیحت کے محتاج نہیں ہوتے.پس آپ ساری احمدیت کے 74

Page 84

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985ء نگران ہیں.آپ بلا امتیاز عمر احمدیت کے تمام نوجوانوں، بچوں اور مستورات کے نگران ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اعلیٰ کردار اور اعلیٰ صفات کے محافظ ہیں.اگر آپ دیکھیں کہ بعض افراد کسی قسم کی کمزوری کی طرف مائل ہورہے ہیں تو آپ کے دل ودماغ میں فورا خطرہ کی گھنٹی بجنی چاہئے.اور اس کو دور کرنے کے لئے مجلس انصار اللہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ذمہ دار ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جماعت احمدیہ کے خلفاء بدی کو مٹانے اور نیکی کو قائم کرنے کا کام انصار اللہ کے سپرد کرتے رہے ہیں.علاوہ از میں چونکہ اکثر اوقات خاندان کے سربراہ انصار اللہ کے اراکین ہوتے ہیں اور قوموں کی اصلاح کے کام کا آغاز خاندان کی اصلاح سے ہوتا ہے، اس لئے بھی انصار اللہ زیادہ ذمہ دار بن جاتے ہیں.کسی بھی زاویہ سے دیکھیں، آپ کی عمر کے لوگ زیادہ ذمہ دار، زیادہ اثر انگیز اور زیادہ جواب دہ ثابت ہوتے ہیں.چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر زیادہ ذمہ داریاں ڈالی ہیں، اس لئے اگر آپ انہیں صحیح طور پر ادا کرنے میں ناکام ہوں گے تو زیادہ جواب دہ بن جاتے ہیں.ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مسلسل دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت کو کھینچنے کی کوشش کرتے رہو.اس پس منظر میں، میں آپ کو ایک نہایت اہم ذمہ داری کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.جس کے متعلق میرا خیال تھا کہ آپ اس ذمہ داری کو جماعت احمدیہ کی باقی تنظیموں کی نسبت زیادہ بہتر رنگ میں ادا کریں گے.وہ اہم ذمہ داری غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کو تبلیغ کرنے سے تعلق رکھتی ہے.چند سال قبل پاکستان میں جب میں نے یہ کام شروع کیا تو اس کے بہت حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے.اگر چہ کسی شخص کو ایسا مبلغ بنانا، جو دوسروں کے عقیدہ کو بدل سکے، ایک مشکل کام ہے.لیکن قوموں کی ترقی اور اعلیٰ نتائج کے حصول کے لئے صبر و استقلال سب سے اہم ہتھیار ہوتے ہیں.پس جب ہم نے کام کا آغاز کیا تو آہستہ آہستہ مجلس عاملہ کی مدد اور ان کے صبر و استقلال کے ساتھ ہم کام کو تیز تر کرنے کے قابل ہو گئے.یہاں تک کہ بہت جلد مجلس خدام الاحمدیہ نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ مجلس انصار اللہ نے انہیں اس میدان میں شکست دے دی ہے.حالانکہ پہلے مجلس خدام الاحمدیہ اس کام میں مجلس انصار اللہ سے آگے تھی.کیونکہ ان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق وہ ہر سال کچھ نہ کچھ بیعتیں کروا لیتے تھے لیکن انصار اللہ کے ریکارڈ میں کوئی بیعت نہ تھی.لیکن جب کوشش کر کے سب مجالس انصاراللہ سے مکمل رپورٹیں منگوا ئیں ، تب بھی یہی معلوم ہوا کہ کوئی شخص اس نہایت اہم کام کی طرف متوجہ نہ تھا.پس با وجود 75

Page 85

خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم اس کے کہ انصار اللہ تبلیغ کے کام میں خدام الاحمدیہ سے پیچھے تھی، پھر بھی دو، تین سالوں کے اندراندر خدا تعالی کے فضل سے مجلس انصار اللہ مجلس خدام الاحمدیہ سے آگے نکل گئی.پھر بعد میں خدام الاحمدیہ نے بھی تگ و دو کر کے کمی کو پورا کر لیا.اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ اب ان دونوں تنظیموں کے باہمی مقابلہ کی کیا حالت ہے؟ تاہم دونوں اس کام میں تسلسل کے ساتھ جد و جہد کر رہی ہیں.سے لیکن مجلس انصارالله یو کے نے اس میدان میں کوئی ایسا قابل ذکر کام نہیں کیا، جسے میں اس وقت فخر کے ساتھ پیش کر سکوں.انگلستان میں تبلیغ کا کام بالعموم مرکزی مبلغین کی تگ و دو سے ہو رہا ہے.اور ان کی کوششوں کے نتائج میں بھی باہم بہت فرق نظر آتا ہے.بعض اپنی خدا داد صلاحیتوں کی وجہ.دوسروں کی نسبت زیادہ تعداد میں رضا کار مبلغ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں.اور بعض تبلیغ کے فن میں زیادہ مہارت رکھتے تھے، لہذا انہوں نے دوسروں کی نسبت زیادہ اچھے رنگ میں تبلیغ کا فن سکھایا ہے.اور اب صورتحال یہ ہے کہ جب مبلغین کے زیر نگرانی کام کرنے والے مختلف ریجنز کے کام کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ایک نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے.کچھ بہت پیچھے ہیں اور کچھ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت آگے ہیں.اگر چہ اس جائزہ سے بعض کا کام قابل تعریف اور بعض کا قابل فکر معلوم ہوتا ہے.لیکن میرے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس جائزہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ احمد بیت، جس مادہ سے بنی ہے، وہ قابل تعریف ہے.اگر آپ کام کو منظم کریں، اگر آپ احباب جماعت کو بار بار ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں اور ٹھیک طور پر ان کی نگرانی کریں تو وہ نتیجہ خیز کام کرنے لگتے ہیں.چنانچه با وجود یہ کہ یو کے میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ تمام ریجنوں میں ایک جیسی ہے، پھر بھی جہاں کام کو منظم کرنے والے عہدیداران بہتر صفات کے مالک تھے، وہاں جماعت نے بہت بہتر نتائج پیدا کئے ہیں.مالی قربانیوں کے میدان میں بھی جماعتوں کی حالت کا موازنہ کیا جائے تو یہی امر نمایاں طور پر نظر آتا ہے.جہاں تک احمدیوں کے مقام کا تعلق ہے ، وہ اس لحاظ سے بہت اعلیٰ ہے کہ احمدی ہمیشہ نیکی کی بات کو سننے کے لئے تیار ہوتا ہے.وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے، جس میں انسان نصیحت کو قبول کرتا ہے اور بہترین رد عمل ظاہر کرتا ہے.اور یہی ترقی کے لئے سب سے ضروری امر ہے.اگر کوئی شخص نصیحت کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے مستقبل میں ترقی اور بہتری کی امید ہوتی ہے.اور جب وہ نصیحت کو قبول کرنا چھوڑ دے تب ہلاکت کا خوف ہوتا ہے.76

Page 86

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985ء اس کی مثال اسی طرح ہے، جیسے ڈاکٹر کے نزدیک یہ بات زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ بیماری کس حد تک بڑھ چکی ہے؟ اس کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو حاصل ہوتی ہے کہ آیا مریض کا جسم دوائی کے اثر کو قبول کرتا ہے یا نہیں؟ اگر کرتا ہو تو ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فضل سے صحتیابی کی امید ہوتی ہے.اگر اثر قبول کرنے کی حالت گزر چکی ہو تو خواہ آپ کچھ بھی کریں، کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا.مجھے یاد ہے، ایک دفعہ ایک مریض کو مجھے دیکھنے کا موقع ملا، جسے کسی متعدی مرض کی وجہ سے 107 یا 108 تک بخار ہو چکا تھا، ڈاکٹر نے جسم پر برف استعمال کر کے بخار کم کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فرق نہ پڑا.اپنے مخصوص شعبہ میں لاہور کا سب سے ماہر اور اچھا ڈا کٹر تھا.میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ باوجودیکہ آپ کے پاس جدید اور مؤثر ادویات موجود ہیں، پھر بھی بخار میں کمی واقع نہیں ہورہی ؟ ڈاکٹر نے جواب دیا کہ جب تک جسم دوائی کا اثر قبول نہ کرے، اس وقت تک محض دوائی کچھ نہیں کر سکتی.اگر چہ ہم نے مریض پر اینٹی بائک ادویات کا ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بوجھ ڈال دیا ہے لیکن جسم کوئی اثر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.لہذا ہم بے دست و پا ہیں، کچھ نہیں کر سکتے.اس سے قبل میرا خیال تھا کہ اگر متعدی بخار کے مریض کو اینٹی بائٹک دوائیاں دی جائیں اور یہ بیکٹیریا کے مطابق موزوں ہوں تو دوائی بہر حال اثر کرتی ہے.لیکن اس دن میری یہ غلط فہمی دور ہوگئی اور مجھے معلوم ہوا کہ اصل بات یہ ہے کہ جسم کو خود اثر قبول کرنے کے قابل ہونا چاہیے، تب کوئی مفید نتیجہ ظاہر ہوتا ہے.پس اس نقطہ نگاہ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت اپنے اندر اثر قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جہاں بھی ہم نے کام کیا، تجربہ کیا، ہر میدان میں احمدیت کو زندہ پایا.ممکن ہے، بعض اوقات کہیں نیند اور غفلت کی کیفیت طاری ہو.لیکن پھر بھی آپ احمدی کو بیدار کر کے اس سے کام لے سکتے ہیں اور وہ نیک اثر کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا.بنیادی طور پر ایک احمدی کی تربیت اچھی ہوتی ہے.ان لوگوں کی حالت ، جو کام کروانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، ان کی حالت بعض اوقات بدلتی رہتی ہے، جس کے نتیجہ میں نتائج بھی بدل جاتے ہیں.جب آپ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کینیڈایا جماعت احمدیہ امریکہ کسی دوسرے ملک سے پیچھے ہے یا آگے ہے، اس میں جماعت کا قصور نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذمہ دار جماعت کے عہدیدار ہوتے ہیں.پس مجلس انصار اللہ کی ذمہ داری تمام کی تمام ایگزیکٹو باڈی پر جا پڑتی ہے.اس لئے جب میں آپ سے خطاب کرتا ہوں تو آپ اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ آپ میں سے ہر ایک نے اپنی ذمہ داری 77

Page 87

خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ادا کرنی ہے.اور آپ انفرادی ذمہ داریوں سے کسی صورت میں سبکدوش نہیں ہو سکتے.لیکن مرکزی مجلس عاملہ اور مقامی مجالس عاملہ کے اراکین پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.انہیں اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ اگر وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ جد و جہد کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ اس کے اچھے نتائج ضرور پیدا ہوں گے.لیکن اگر عہدیداران ہی انصار اللہ کے کام کو نہ صرف اختیاری سمجھیں بلکہ غیر ضروری سمجھیں اور یہ خیال کرنے لگیں کہ کام کریں یا نہ کریں، اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا.تو پھر یہی غفلت کی کیفیت باقی انصار میں پیدا ہو جائے گی اور ان کا احساس ذمہ داری عہدیداران سے بھی کم ہو جائے گا.پس یہ وقت ہے کہ مجلس انصاراللہ یو.کے کے کام کو انقلابی جذبہ سے شروع کیا جائے اور خاص طور پر ایک میدان میں، میں آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ضرور برآمد ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں.اور وہ ہے، تبلیغ.دعوت الی اللہ یعنی لوگوں کو خدا کے نام پر خدا کی طرف بلانا.یہی کام اس وقت سب سے زیادہ ضروری ہے، جو ہم نے کرنا ہے.میں اس امر کی جتنی بھی تلقین کروں ، پھر بھی اس کی اہمیت مزید تلقین کا مطالبہ کرتی رہے گی.اگر میں متواتر آپ لوگوں کو اس کی ضرورت اور اہمیت کے متعلق تلقین کرتا رہوں، پھر بھی میں اپنے فرض کو مکمل طور پر ادا کرنے میں قاصر رہوں گا.اور نہ ہی آپ کے دل و دماغ میں اس کی حقیقی اہمیت کو نقش کر سکوں گا.زمانہ بہت تیز رفتاری سے گزر رہا ہے، پہلے ہی یہ ہمیں بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے اور دنیا میں تیزی سے تغیرات رونما ہور ہے ہیں اور اس زمانے کونئی شکل دی جارہی ہے.اور آپ سے یہ توقع کی گئی ہے کہ آپ نے دنیا کی تقدیر کو بدلنا ہے.یہ بہت اہم اور مشکل کام ہے، جو آپ کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے.مگر بدقسمتی سے ہم میں سے اکثر نیند کی حالت میں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ہم جماعت میں صرف اپنی ذاتی بیداری کا ثبوت دے دیں تو یہ کافی ہے.حالانکہ یہ ہرگز کافی نہیں.جہاد فی سبیل اللہ اللہ کے راستہ میں قربانی کرنا اللہ کے لئے بدی کے خلاف جنگ کرنا اور اللہ کے لئے دوسروں کو اسلام میں شامل کرنا ، آدھا ایمان ہے.ایمان دوحصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے.ایک حصہ کا تعلق آپ کی اپنی ذات سے ہے.یعنی آپ، آپ کے بیوی بچے اور رشتہ دار اور جماعت.دوسرے حصہ کا تعلق باقی کی دنیا سے ہے.اور یہی ہم کو قرآن کریم اور احادیث نبویہ بتاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا نمونہ بھی اس معاملہ میں نہایت واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ یعنی دوسروں کو اسلام کی دعوت دینا، اگر پہلے حصہ سے زیادہ اہم نہیں تو کو کم بھی ہر گز نہیں.اور اس کے باوجود ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ فروعی حصہ ہے اور ہم کریں یا نہ کریں، کوئی فرق نہیں پڑے گا.حالانکہ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ ہم اس مقام سے بہت پیچھے جاپڑے ہیں، جس پر ہم کو 78

Page 88

تحریک جدید رید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985ء بہت پہلے پہنچ جانا چاہیے تھا.اور ہم اس غفلت کی وجہ سے دوہرے طور پر متاثر ہورہے ہیں.اگر ایک پہیہ کمزور ہے اور دوسرے پیسے کی رفتار کا ساتھ نہیں دے رہا تو گاڑی کی رفتار کمزور پیسے کی رفتار سے ناپی جائے گی.اور گاڑی کی رفتار تیز ہونے کی بجائے کم ہوتے ہوتے آخر کار ایک وقت ایسا آئے گا کہ گاڑی آگے بڑھنے کی بجائے اپنے گرد ہی چکر لگاتی رہے گی.پس گاڑی کا توازن بگڑ جائے گا اور اس کی رفتار تیز ہونے کی بجائے کم ہوتی جائے گی.جو کہ بہت خطرناک بات ہے.یہی حال تبلیغ نہ کرنے والی جماعت کا ہوتا ہے.اور یہ ایک ایسی سزا ہوگی، جو ہم اپنے ہی ہاتھوں اٹھا ئیں گے.حقیقت یہ ہے کہ وہ جماعت، جو دوسروں کو اپنے اندر شمولیت کی دعوت دینے کے فریضے کو بھلا بیٹھے، وہ اپنی اولادوں کو بھی کھو دیتے ہیں.اور ان بلندیوں کو کھو دیتے ہیں، جو انہوں نے پہلے حاصل کی تھیں.اور ہر پہلو سے اچھائی کا معیار گرنے لگتا ہے.اسی طرح جماعت کی اندرونی تربیت کی ضامن بھی وہ تبلیغ ہے، جو بیرونی دنیا میں کی جاتی ہے.اگر آپ تبلیغ کا معیار گرا دیں تو آپ کبھی بھی اخلاق کے اس اعلیٰ معیار کو قائم نہیں رکھ سکتے ، جس کی آپ سے توقع کی جاتی ہے.وہ قوم جو اپنے اندر ہی گھومتی رہے، اس میں عبادت ، اخلاق اور قربانی کا معیار بھی گر جاتا ہے.اور کچھ عرصہ کے بعد ایسی قوم باقی دنیا سے بالکل کٹ کر رہ جاتی ہے.اور وہ اس حیثیت کو اس لئے قبول کر لیتے ہیں کہ یہ ایک آسان رستہ ہوتا ہے.مثلاً یہودیوں کو دیکھئے کہ انہوں نے بھی دوسروں کو تبلیغ کرنے کا سلسلہ بند کر دیا اور اس حیثیت کو قبول کر لیا.اس کے نتیجہ میں وہ باقی دنیا کے معاملات سے بالکل منقطع ہو گئے اور ہزاروں سال سے بیرونی دنیا میں ان کی ترقی بالکل رک گئی.اور اس امر نے خود ان کے لئے بھی اور دوسری دنیا کے لئے بھی بے شمار مسائل پیدا کر دیئے ہیں.اور آج یہ واحد سبب ہی دنیا کے بعض بڑے بڑے مصائب کا موجب بن گیا ہے.جب آپ باقی دنیا سے منقطع ہو کر رہنے لگتے ہیں تو آپ کی کیفیت وہی ہوتی ہے، جو اس چیز کی ہوتی ہے، جسے تھر موس کی بوتل میں بند کر دیا گیا ہو اور باہر کے درجہ حرارت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہ ہو.اس صورت میں نہ آپ کو باہر والے لوگوں کا کوئی احساس ہوتا ہے اور نہ باہر والوں کو آپ کا کوئی احساس ہوتا ہے.ایک دوسرے سے کلی لا تعلقی ہو جاتی ہے.ایسی صورت میں آپ اس تکلیف کو ، جو آپ کو یا آپ کی جماعت کو پہنچتی ہے، بے حد محسوس کرتے ہیں.لیکن باقی لوگوں کی تکالیف کا آپ کو ذرہ بھی احساس نہیں ہوتا.تب دونوں گروہوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے سخت دلی اور نفرت کے احساسات ترقی کرنے لگتے ہیں.اور دونوں کے درمیان ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے، جس کا مقصد ایک دوسرے کے 79

Page 89

خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم علاقے کو فتح کرنا نہیں ہوتا بلکہ دو مختلف نظریات کے ساتھ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اسلام دوسرے کے علاقے کو تباہ و برباد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا.اسلام دوسروں کے علاقے سے محبت کی تعلیم دیتا ہے، اس جذبہ کے ساتھ کہ ان میں ترقی اور اصلاح کی کوشش کی جائے.پس آج اس قسم کا تعلق یہودیوں اور باقی دنیا کے درمیان استوار ہو چکا ہے، جس کے نتیجہ میں دونوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کی کشمکش جاری ہے.یہی وجہ ہے کہ اگر غیر یہودی ہزاروں کی تعداد میں بھی ہلاک ہو جائیں تو یہودیوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی.لیکن اگر تین، چار یہودی کسی تکلیف میں گرفتار ہو جائیں تو ساری یہودی قوم اس کو اس قدر اہمیت دیتی ہے گویا ان لوگوں کی تکلیف کو باقی دنیا کی تکلیف سے کوئی نسبت ہی نہیں.اس قسم کا مظاہرہ کئی دفعہ ہو چکا ہے، مثلاً کوئی قوم یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ اپنی قوم کے چار جنگی قیدیوں کی خاطر دشمن کے 64 ہزار جنگی قیدی چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائے.لیکن یہودیوں نے ایسا ہی کیا.کیونکہ ان کے نزدیک وہ چار یہودی، جو 1956 ء میں مصر کے قبضہ میں تھے، وہ ان 64 ہزار مصری جنگی قیدیوں سے زیادہ قیمتی تھے، جن میں ان کے بڑے بڑے جرنیل اور افسران بھی شامل تھے.اس موقع پر جب کسی اخباری نمائندے نے اس شخص سے، جو یہودیوں کی طرف سے جنگی قیدیوں کے تبادلہ پر متعین تھا، خاص طور پر اس امر کے متعلق دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ ہمیں تعداد کے اس غیر معمولی فرق کا احساس ہے لیکن اصل چیز جنس ہے، تعداد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی.ہمارے نزدیک 64 ہزار کی کوئی حیثیت نہیں مگر چار یہودی بڑی اہمیت کے حامل ہیں.دنیا کے معاملات سے علیحدگی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے اور ایک غیر وسعت پذیر جماعت ہمیشہ علیحدگی پسند ہوتی ہے اور انجام کار یہ حالت لامتناہی دشمنیوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہے.بعض اوقات ایک جماعت ظلم کرتی ہے تو بعض اوقات دوسری.بعض اوقات نازی ازم کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو بعض اوقات ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے، جیسے لبنان میں یہودیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں.لیکن یہ باہمی کشمکش چلتی چلی جاتی ہے، جس سے اعلیٰ انسانی اقدار کو سخت نقصان پہنچتا ہے.پس جو قو میں علاوہ دیگر اسباب کے بنیادی طور پر تبلیغ کے ذریعہ پھیلنے کے واسطے بنائی گئی ہیں اور یہ اسباب متعدد ہوتے ہیں، جنہیں یکے بعد دیگرے بیان کیا جا سکتا ہے، ایسی قوموں کے لئے تبلیغ کرنا لازمی ہو جاتا ہے.اور اگر آپ کے لئے تبلیغ کے ذریعہ پھیلنا مقدر ہے مگر آپ اس میدان میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس کا لازمی انجام یہی ہوگا کہ باقی دنیا کے ساتھ آپ کی طرف سے ناپسندیدہ دشمنی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا.80

Page 90

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985ء اب اس صورت حال میں مسئلہ کے حل پر غور کرنا چاہیے.ایسی صورت میں دو قسم کے رد عمل ظاہر ہوا کرتے ہیں.کچھ لوگ مکمل شکست قبول کر لیتے ہیں اور اپنے مخصوص دائرہ میں ایسے بند ہو کر رہ جاتے ہیں کہ باقی دنیا کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہتا.اس قسم کے گروہ آج کل مسلمانوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور غیر مسلموں میں بھی.دوسرار د عمل یہ ہوتا ہے کہ آپ جنگ و جدل کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور آپ سوچنے لگتے ہیں کہ اب ہم پر اتنا ظلم ہو چکا ہے کہ ہمیں انتقام لینے کا حق حاصل ہے.یہی وہ رد عمل ہے، جو آج کی یہودیت نے اختیار کیا ہوا ہے، جسے صیہونیت کا نام بھی دیا جاتا ہے.لیکن یادرکھئے ، آپ کے لئے ان دونوں میں سے کوئی بھی رد عمل جائز نہیں.آپ کی تقدیر یہ ہے کہ آپ نے ساری دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا کرنا ہے لیکن اس مقصد کے لئے جس تڑپ کا ہونا ضروری ہے، وہ بہت سے احمدیوں میں پائی نہیں جاتی.بہت سے احمدی تبلیغ کی اہمیت محسوس نہیں کر رہے.بہت سے ایسے احمدی ہیں، جنہیں ابھی یہ احساس نہیں کہ وہ اس دنیا میں اس وقت تک باعزت طور پر زندہ نہیں رہ سکتے ، جب تک وہ دوسری دنیا کو پوری ذمہ داری کے ساتھ تبلیغ نہیں کرتے.تبلیغ کا کام بہت فرحت بخش ہے.یہ کوئی ایسا کام نہیں ، جو زندگی کو بدمزہ کر دے.میں آپ کو بار بار اس طرف متوجہ کر چکا ہوں کہ آپ اس کام سے ڈرتے کیوں ہیں.بے شک یہ کام مختلف قسم کی دشمنیوں کو جنم دیتا ہے لیکن وہ دشمنیاں یک طرفہ ہوتی ہیں.آپ اپنے مخالفوں کے دل جیتنا چاہتے ہیں اور وہ آپ کے دلوں کو تباہ کرنے کے درپے ہوتے ہیں.پس یہ ایک ایسی جنگ ہوتی ہے، جود و مختلف نظریوں کے ساتھ لڑی جارہی ہوتی ہے.لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی خاطر یہ کام کرو گے تو بڑی سے بڑی مخالفت اور دشمنی تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے گی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے، میں تمہاری حفاظت کروں گا تم سے محبت کروں گا اور انجام کار تمام اطراف سے تم ہی دشمن کے علاقوں کو فتح کرنے والے ہو گے.یہ وہ ضمانت ہے، جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہے.اور ہم میں سے ان لوگوں سے جنہوں نے تبلیغ کا کام کیا ہے، انہوں نے اس الہی وعدہ کو اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے ہوئے خود مشاہدہ کیا ہے.خدا تعالی ہی ہے، جو انجام کار ہر نقصان سے ہمیں محفوظ رکھتا ہے.اس وعدہ کی وجہ سے، جو اس نے تبلیغ اسلام کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا ہے.دوسری بات جو بہت اہم ہے اور آپ کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ تبلیغ کا کام کوئی بے لذت کام نہیں ہے.بلکہ اس کے بالکل برعکس ہے.جو لوگ ایک دفعہ تبلیغ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور 81

Page 91

خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم پھر ان کے ذریعہ کوئی شخص ہدایت پا جاتا ہے، کوئی یہاں، کوئی وہاں ، ایسے شخص سے ذرا دریافت تو کیجئے اور اس کی خوشی اور راحت کا مشاہدہ تو کیجئے.ایک دفعہ آپ مبلغ بن جائیں، پھر دیکھئے آپ کس طرح اس نشہ کے عادی ہو جاتے ہیں.اور پھر بڑے سے بڑا دباؤ بھی آپ کو تبلیغ سے ہر گز نہیں روک سکے گا.ایسی حالت میں آپ کو کسی یاد دہانی کروانے والے کی ضرورت نہیں ہو گی.بلکہ آپ خود دوسروں کو نصیحت کرنے لگ جائیں گے کہ آؤ اور ہمارے ساتھ تبلیغ کے جہاد میں شامل ہو جاؤ.تبلیغ کا عمل اپنے اندر مسلسل پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب ایک منظم جدوجہد کے ساتھ آپ کچھ افراد کو کامیاب طور پر مبلغ بنا دیتے ہیں تو پھر وہ آپ پر کوئی بوجھ نہیں رہیں گے.تبلیغ کی اپنی لذت ہی انہیں اس کام میں مصروف رکھے گی.اور پھر آپ اپنی توجہ مزید لوگوں کی طرف کر سکیں گے.یہی وہ بات ہے، جو میں آخر میں کہنی چاہتا ہوں اور تبلیغ کے کام کو منظم کرنے کے لئے یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے.عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جب بھی مجلس خدام الاحمدیہ مجلس انصار اللہ یا کوئی اور جماعتی تنظیم کسی کام کو منظم کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو بجائے اس کے کہ پہلے چند افراد کا انتخاب کر کے انہیں تربیت دی جائے ، ساری جماعت کو بیک وقت تربیت دینا شروع کر دیا جاتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی کوشش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی.مثلاً اگر بیک وقت تمام احمدیوں کو مبلغ بنے کی تلقین کریں گے تو نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا.کیونکہ عمومی طور پر کس کو تبلیغ کرنا یا مبلغ بننے کی تلقین کرنا کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوتا.جب تک چند راد کو منتخب کر کے باقاعدہ طور پر ان پر پوری توجہ مبذول نہ کی جائے.اصل بات یہ ہے کہ نصیحت دو طور پر کرنی چاہیے.ایک عموم نصیحت، جو سب کو کی جائے.جیسے فوج میں دور ماروالی بمباری بھی بہت ضروری ہوتی ہے لیکن فتح حاصل کرنے کے لئے سپاہیوں کی مدد سے مخصوص علاقہ پر قبضہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.یہ ایک نہایت اہم اصول ہے ، جس پر عمل کر کے میں نے اپنے جماعتی فرائض کی ادائیگی میں ہمیشہ بہت فائدہ اٹھایا ہے.بے شک آپ تمام افراد جماعت کو عمومی تلقین کریں کہ تبلیغ کا کام بہت اہم ہے.لیکن آپ خصوصی توجہ صرف اتنے ہی لوگوں پر دیں، جن کو آپ واقعی داعی الی اللہ بنا سکتے ہیں.یہ دونوں کام بیک وقت ہونے چاہئیں.نہ یہ کہ ایک کام کو دوسرے کی خاطر قربان کر دیا جائے.لیکن اگر عمومی طور پر ساری جماعت کو بار باران کے فرائض بتا کر یہ سوچنے لگیں کہ آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا اور پھر اس سے غافل ہو جائیں تو میں سب کو یہی بتایا کرتا ہوں کہ اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوگا.جماعتی تنظیم کے کاموں میں جب بھی مجھے نا کامی کا مشاہدہ کرنا پڑا، اس کا واحد 82

Page 92

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985ء سبب یہی بات ہوتی تھی کہ جب میں نے دریافت کیا کہ فلاں کام کیوں نہیں ہوا تو سوائے شاذ کے یہی جواب ملا کہ حضور ! ہم نے تمام افراد تک پیغام پہنچا دیا تھا اور ان کی ذمہ داری بھی بتادی تھی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی.کیوں کامیابی نہ ہوئی؟ اس لئے کہ آپ سب تک پیغام پہنچا کر اس کام سے لاتعلق ہو گئے ، آپ نے اس کام کا پیچھا نہیں کیا.آپ نے پیغام پہنچا کر یہ سمجھ لیا کہ آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا اور اس پر آپ خوش ہو گئے.ایسی پیغام رسانی اور ایسی نصائح کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتیں.اصل طریق یہ ہے کہ سب کو نصیحت کریں.پھر اس کام کے ساتھ ایک دلی وابستگی پیدا کر لیں.پہلے ایک حصہ جماعت کو منتخب کریں اور انہیں بطور نمونہ تیار کر دیں.علاوہ ازیں جب آپ لوگوں کو کوئی نصیحت کریں تو ایک قلبی تعلق کے ساتھ بات کریں.اور اگر بالفرض وہ اپنا فرض ادا نہ کریں تو انہیں آپ کے چہرے پر گہرے رنج کے آثار نظر آنے چاہئیں.اور جب وہ آپ کو نصیحت کرتے ہوئے سنیں تو انہیں معلوم ہو کہ آپ اپنے دل و دماغ کی گہرائیوں سے بات کر رہے ہیں.اور انہیں آپ کی قلبی کیفیت کی روشنی اور حرارت محسوس ہوئی چاہیے.اور اس کے بعد وہ مشاہدہ کریں کہ آپ نے عملی طور پر اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کر دیا ہے.اور آپ نے اپنی طرف سے انتہائی کوشش کر دی ہے.اگر آپ اس طریق سے کام کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں کو آپ کی توقع سے بھی بڑھ کر ثمر آور کر دے گا.انسان کے پاس چونکہ وقت محدود ہوتا ہے، اس لئے ایک وقت میں چند افراد کو ہی منتخب کر کے ان کی تربیت کرنی چاہیے.اور اس کام کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ لوگوں کو داعی الی اللہ بنانے کا کام ایسا نہیں کہ آپ کو مستقل طور پر ان لوگوں پر توجہ رکھنی پڑے.جب آپ نے چند لوگوں کو داعی الی اللہ بنادیا اور وہ بذات خود کام کرنے کے قابل ہو گئے تو پھر آپ پر ان کا کوئی بوجھ نہیں ہوگا.کیونکہ خواہ آپ ان کو بھول جائیں، تب بھی وہ داعی الی اللہ ہی رہیں گے.جو لوگ ایک دفعہ تبلیغ کا مزہ چکھ لیتے ہیں، پھر وہ کبھی اس کام کو ترک نہیں کر سکتے.کیونکہ وہ اس نشہ کے عادی ہو جاتے ہیں.پس یہ ایک بہت مفید اصول ہے کہ آپ صبر وتحمل سے پہلے چندلوگوں میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں تبلیغ کرنے کی امنگ پیدا کر دیں.اس کے بعد پھر اپنی توجہ چند اور افراد کی طرف منتقل کریں.کچھ لوگ یہاں، کچھ لوگ وہاں، کچھ لوگ اس سال، کچھ لوگ اگلے سال.اس طرح آپ مسلسل نتائج پیدا کرتے چلے جائیں گے.نتیجہ پانچ دس سال کے عرصہ میں انشاء اللہ تعالیٰ تمام ممبران مجلس انصار الله یو کے مؤثر طور پر اللہ کے راستہ میں تبلیغ کرنے والی ایک فوج بن سکتی ہے.اور اگر ایسا ہو، اگر چہ یہ اگر بظاہر مشکل نظر آتا 83

Page 93

خطاب فرمودہ 07 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم ہے لیکن جتنا بڑا آپ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں، در حقیقت آپ اس سے کہیں زیادہ بڑے ہیں.تبلیغ کی ذمہ واری اللہ تعالیٰ نے خود آپ پر ڈالی ہے.اس لئے یقیناً اس نے کوئی خوبی دیکھ کر ہی آپ کو اس ذمہ واری کا اہل سمجھا ہے.جو بظاہر مشکل نظر آتی ہے لیکن یہ ناممکن نہیں.اس لئے یہ اگر اتنا مشکل بھی نہیں.پس اگر ہر مجلس انصار اللہ یہ عہد کرے اور انجام کار اپنے آپ کو داعی الی اللہ میں تبدیل کرلے اور ہر ممبر کو اس بات کا احساس ہو کہ وہ کون ہے؟ اور سوسائٹی میں اس کا مقام کیا ہے؟ اور یہی پیغام وہ اپنی اولادوں اور اہل وعیال کو دے تو انشاء اللہ تعالیٰ چند سال میں انگلستان میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہو جائے گی.ذراتصور تو کریں کہ اگر تمام ممبران جماعت مؤثر داعی الی اللہ بن جائیں تو کیا یہی امر اس دنیا کو جنت بنانے کے مترادف نہ ہوگا ؟ تب آپ کی ترقیات ہر جہت میں اس قدر تیز ہوں گی کہ کوئی دشمن آپ کے سامنے آنے کی جرأت نہ کر سکے گا.اور آپ ہر قسم کی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اس قدر خوبصورتی ، جوش اور غیر معمولی جذبہ سے آگے بڑھیں گے کہ آپ کا ایسا کرنا، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا بھی باعث ہوگا اور اس کی پیار بھری نظریں بھی آپ پر پڑیں گی.وہ فرمائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جن کی کاوشیں ہر جہت میں پھل پھول رہی ہیں.اور یہ باغ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا باغ ہے، جس میں بہار اپنے پورے جوبن پر ہوگی.میں امید کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ تبلیغ کے اس نہایت اہم فریضہ کی طرف پوری توجہ کا مظاہرہ کریں گے.آج یہ فریضہ اس لئے غیر معمولی توجہ کا محتاج ہے کہ بدقسمتی سے اس وقت سب سے کم توجہ اس طرف کی جارہی ہے اور دوسری طرف دنیا ہمیں پیچھے چھوڑ کر نہایت سرعت کے ساتھ آگے بڑھتی جارہی ہے.لیکن ہم اس کا پوری طرح احساس نہیں کر رہے.آئے ، اب ہم سب مل کر دعا کر لیں.“ ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 12 جولائی 1985ء) 84

Page 94

تحریک جدید - ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 12 جولائی 1985ء جماعت احمدیہ کی غیر معمولی مالی قربانیاں خطبہ جمعہ فرمودہ 12 جولائی 1985ء یہ ہے وہ جماعت ، جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے.اور قرآن کریم کے اذکار ایک غیر معمولی مقام رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ جب اپنے بندوں کا ذکر فرماتا ہے تو لازما وہ باتیں پوری ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور قرآن کریم بار بار یہ امور بھی بیان فرماتا ہے کہ جو ہماری خاطر مالی قربانیاں پیش کرتے ہیں اور ہم پر تو کل کرتے ہیں، ہم ان کے اموال میں کمی نہیں آنے دیتے.ہم انہیں بڑھاتے ہیں اور انہیں لا وارث نہیں چھوڑا کرتے.جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں بھی قرآن کریم کی کھینچی ہوئی تصویروں کے مطابق اپنے نقوش بنا رہی ہے.اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ رہی ہے.خدا تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش پہلوں پر برسا کرتی تھی، ہم پر بھی برس رہی ہے.تو اس جماعت کی مخالفت کے نتیجہ کیسے کوئی پہلے نقصان پہنچا سکتا ہے.دشمن کے لئے اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے کہ وہ اپنے غیظ و غضب میں جلتا ر ہے اور تکلیف میں مبتلا ہوتا چلا جائے ، حسد کی آگ بھڑکتی چلی جائے ، اس کے سوا اس کے نصیبے میں کچھ نہیں ہے.جماعت احمدیہ کی ہلاکت دیکھنے والی آنکھیں لازمنا نا کامی کی آگ میں جلتی ہوئی مریں گی ختم ہو جائیں گی اور ان کے دلوں میں حسد کی آگ اور زیادہ بھڑکتی رہے گی.لیکن ان کو یہ تسکین کبھی نصیب نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے جماعت احمدیہ کو ذلیل اور نامراد اور نا کام ہوتے دیکھ لیا ہے.اس کے برعکس آپ بھی اور آپ کی آئندہ نسلیں بھی ہمیشہ نہایت خطر ناک سے خطرناک حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے اوپر پہلے سے زیادہ برستا دیکھیں گے.اور اپنے دین کے معیار کو ہمیشہ بلند تر ہوتا ہوا دیکھیں گے.قرآن کریم کے یہ وعدے ہیں جو بھی مل نہیں سکتے.ناممکن ہے کہ کوئی انہیں غلط کر کے دکھا دے.تحریک جدید کا بھی یہی حال ہوا.ہمارے وکیل المال اول ہیں، ان کو اتنی عادت نہیں ہے کہ گھبراہٹ کے خط لکھیں.لیکن اس سال وہ بھی گھبرا گئے.انہوں نے پچیس فی صد اضافہ تجویز کیا تھا، جو معمولی اضافہ نہیں ہے.گزشتہ کی کل آمد کے مقابل پر چھپیں صداضافہ کے ساتھ بجٹ رکھ لیا تھا اور سخت 85

Page 95

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم گھبراہٹ تھی کہ اضافہ اتنا، بڑی سخت گھبراہٹ تھی اور اس کے مقابل پر حالات ایسے خطر ناک تو کیا کریں گئے؟ انہوں نے بھی اطلاع دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال کے مقابل پر اب تک دس لاکھ زائد وصولی ہو چکی ہے.اور 25 فی صد کا جو اضافہ تھا، وہ پورا ہو گیا ہے.اور ابھی اللہ کے فضل سے چندہ بھیجوانے والے بھجوا ر ہے ہیں.پاکستان کے سب اضلاع سے ابھی اطلاعیں بھی نہیں پہنچیں.یہ جو اللہ کے فضلوں کی بارشیں ہیں، کسی ایک جگہ نہیں ہے.تمام دنیا میں یہی حالت ہے.ایک بھی ملک ایسا نہیں، جس کے چندوں میں کمی آئی ہو یا جس کے حالات خطرناک ہونے کے نتیجہ میں چندوں پر بداثر پڑا ہو.نائیجیریا کے حالات آپ جانتے ہیں، سیرالیون کے حالات آپ جانتے ہیں، غانا کے حالات آپ جانتے ہیں، افریقہ کے اکثر ممالک میں قحط سالیاں اور خطرناک قسم کے مالی بحران اور کئی قسم کی آزمائشیں ایسی آپڑیں کہ فاقہ کشی کے نہایت ہی دردناک مناظر دیکھنے میں آئے.ایک موقع پر ہمارے مربی نے مجھے لکھا کہ بعض دفعہ تو ایسے دردناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ باہر معمولی سا دروازہ کھٹکا ، جس میں کوئی خاص جان نہیں تھی.تو ہمارا مبلغ یوں ہی اٹھ کر چلا گیا کہ شاید کوئی عدم دلچسپی سے کر رہا ہے، خیر دیکھ لیں کون ہے؟ دورازہ کھول کر دیکھا تو ایک آدمی بے ہوش پڑا ہے اور فاقوں سے پنجر بنا ہوا تھا.اس میں اتنی بھی طاقت نہیں تھی کہ روٹی کی خاطر زور سے دروازہ ہی کھٹ کا لیتا.اس بیچارے کو اٹھا کر اندر لائے اور خدمت خاطر کی.جو کچھ ان کے پاس تھا، پیش کیا.ہوش آئی اور پھر کچھ دن کھلا پلا کر اس کو فارغ کیا.افریقہ کے اکثر ممالک میں فاقہ کشی، اقتصادی نہایت ہی دردناک حالات ہیں.وہاں کے سب مبلغین نے یہ اطلاع دی اور اللہ تعالیٰ کی حمد میں آنسو بہاتے ہوئے یہ اطلاع دی کہ جب انہوں نے چندوں کی تحریک کی تو ہر موقع پر خدا کے فضل سے پہلے سے نمایاں طور پر زیادہ چندہ وصول ہوا.اور ہم حیران ہو کر گھروں کو واپس لوٹا کرتے تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ وہ ممالک جو غیروں سے امداد لے کر زندہ رہ رہے ہیں، جب خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ اپنی سنگی، اپنے دکھ اور اپنی تکلیفوں بھول کر وہ خدا کی راہ میں قربانی میں آگے ہی قدم بڑھا رہے ہیں، پیچھے نہیں ہٹ رہے.اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کی بارش ان پر بر سارہا ہے، ان میں غیر معمولی ترقی ہو رہی ہے.خدا تعالیٰ حیرت انگیز طور پر ان کے مسائل حل کرتا ہے، ان کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے، اپنے قرب کے حیرت انگیز معجزے ان کو دکھا رہا ہے.اور افریقن جنگلوں میں بسنے والے احمدی اللہ کے قرب کے نشانات کے ایسے ایسے حیرت انگیز واقعات لکھتے ہیں کہ دل حمد سے بھر کر خدا کی راہ میں چھلکنے لگتا ہے".86

Page 96

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 12 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد میرے گزشتہ خطبہ جمعہ کے نتیجہ میں بعض لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ بے مثل ہے تو عیسائیت بھی تو بے شمار مالی قربانی کر رہی ہے.اس قربانی کو پھر بے مثل کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اصل واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ سطحی نظر سے ایک جائزہ لے لیتے ہیں، ان میں تجزیے کی توفیق نہیں ہوتی.کسی ملک میں بھی عیسائیت کی مالی قربانی کا جماعت احمدیہ کی مالی قربانی سے موازنہ کر کے دیکھیں تو اتنا نمایاں بنیادی اور امتیازی فرق ہے کہ کسی مشابہت کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.افریقہ ہے، جہاں عیسائیوں نے عیسائیت کو فروغ دینے کے لئے ارب ہا ارب روپیہ خرچ کیا ہے.مگر جو عیسائی پیدا کئے، وہ عیسائیت کے لئے خرچ نہیں کر رہے.وہ پیسے کھا کر عیسائی ہورہے ہیں.جو نتیجہ پیدا کیا ہے، وہ انسانیت کے تقاضوں کے بالکل برعکس نتیجہ پیدا کیا ہے.اور تنگی کے پیسے اور انتہائی دکھ کی حالت میں آج کے زمانے میں عیسائیت میں انفاق کا کوئی تصور ہی نہیں ہے.پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ ایک تو پرانے زمانوں میں حکومتوں میں چرچ کا بہت دخل تھا اور عیسائی چرچ غیر معمولی طور پر دولت مند ہو گیا ہے.اور دوسرے ان میں ایسی بے شمار بوڑھی عورتیں مرتی ہیں، جن کی اولاد نہیں ہوتی لیکن بے شمار دولت ہوتی ہے اور وہ مرتے وقت اپنا پیسہ چرچوں کو دے جاتی ہیں.لیکن جہاں تک ان کے عوام الناس کا تعلق ہے، نکال کے تو دکھا ئیں ، دس احمدیوں کے مقابل پر جن کی قوموں کی لاکھ تعداد وہ دس کے مقابل پر دس بھی نہیں دکھا سکتے، جن میں جماعت احمدیہ کے غرباء کی طرح مالی قربانی کی روح پائی جاتی ہو.جماعت احمدیہ نے افریقہ کو مسلمان بنایا تو چندہ دینے والا مسلمان بنایا اور قربانی کرنے والا مسلمان بنایا.اور ساری جماعت قربانی میں شامل ہو گئی.جس ملک میں بھی جماعت داخل ہو رہی ہے، وہاں خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے پیدا کر رہی ہے.اور بھی کئی فرق ہیں مگر یہ ایک ایسا بنیادی اور نمایاں فرق ہے کہ ہم بلاشبہ سر بلند کر کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی جماعت کے مقابل پر مالی قربانی میں کوئی نظیر نہیں ملتی.وو.اب میں آپ کو دو خوشخبریاں بھی دیتا ہوں اور ایک نئی تحریک کا اعلان بھی کرتا ہوں.دو خوشخبریاں یہ ہیں کہ فرانسیسی ترجمہ قرآن کریم کے بعد اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی سال روسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی پریس میں دیا جارہا ہے.صابر صدیقی صاحب، جو ہمارے رشین زبان کے ماہر ہیں اور رشین زبان کے ایک اور احمدی طالب علم خاور صاحب، ان دونوں کے سپر د میں نے نگرانی کی تھی کہ اس کو دوبارہ دیکھ لیں، ایک دفعہ.انہوں نے کل مجھے اطمینان دلایا ہے کہ خدا کے فضل سے یہ ترجمہ ہر پہلو سے 87

Page 97

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم پریس میں دیئے جانے کے لائق ہو گیا ہے.Italian ترجمہ بھی خدا کے فضل سے مکمل مل گیا ہے.اور Introduction کا ترجمہ بھی مل گیا ہے.Italian زبان میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ بھی مل گیا ہے.اب ان دوزبانوں میں نہایت ہی پیش قیمت اضافہ ہوگا.بلکہ قیمت کے لفظوں میں تو اس کو ادا ہی نہیں کیا جا سکتا.قرآن کریم کا کسی زبان میں شائع کیا جانا اور پھر ان معارف کے ساتھ ، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قرآن کے معارف عطا فرمائے، اس زمانے کی بہت بڑی خدمت ہے تو جماعت احمدیہ کو توفیق مل رہی ہے.اور اس کے لئے چندے کی ضرورت نہیں.کیونکہ پہلے سے ہی ایسے مخلصین ہیں، ان معاملات میں اپنی سیٹیں بک کروالی ہیں.پیشتر اس کے کہ میں اس بارہ میں تحریک کرتا، انہوں نے کہا ، جی ہمیں موقع دیں، ہم اپنی طرف سے اس کا سارا خرچ برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں.میں نے کہا: ٹھیک ہے، اللہ تعالی آپ کو توفیق عطا فرمائے.چنانچہ فرانسیسی اور اٹالین اور رشین زبان میں قرآن کریم کے جو تراجم شائع ہوں گے، ان کے تمام اخراجات خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے چند مخلصین پہلے سے ہی ادا کر چکے ہیں یا وعدہ کئے بیٹھے ہیں کہ جب بھی ہم مانگیں گے، وہ دے دیں گے.اس کے علاوہ جو دوسرا لٹریچر شائع ہونے والا ہے، وہ بھی بڑی کثرت سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے علاوہ تفسیر کبیر ہے اور سلسلہ کا اور بہت سالٹر بچر ہے، اس کو مختلف زبانوں میں ہم نے شائع کرنا ہے.لیکن سب سے بڑی دقت اردو میں نوری نستعلیق خط کی کتابت کی دقت ہے.اس وقت ہمیں جس تیزی کے ساتھ تمام دنیا میں لٹریچر پھیلانے کے لئے جو بے قراری ہے، اس کے مقابل پر کا تب لکھنے میں بہت سا وقت لے لیتا ہے اور اب صحت کتابت کا معیار بھی گر گیا ہے.اس لئے غلطیاں بھی اتنی کرتا ہے.پہلے اس کی کتابت ختم ہونے کا انتظار، پھر اس کی مرمتیں لگوائی جائیں اور پھر بھی وہ ٹھیک نہ لکھے تو پھر دوبارہ بھیجا جائے.اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے اس سے.پھر بھی بعض دفعہ ایسی خوفناک غلطیاں رہ جاتی ہیں.بہت تکلیف دہ صورت حال ہے.چنانچہ ہم نے یہاں انگلستان میں جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ دنیا میں کمپیوٹر کی ایک ایسی کمپنی موجود ہے، جس نے اردو نستعلیق نوری خط کا ٹائپ رائٹر تیار کر لیا ہے اور وہ ایک ایسا Computerised ٹائپ رائٹر ہے، جو نہایت ہی اعلیٰ پیمانے پر کتابت کر سکتا ہے.آپ تھوڑی سی زائد رقم دیں تو ہر زبان اس پر اس طرح ٹائپ ہو سکتی ہے، جس طرح پریس کے لئے Compose کیا جاتا ہے.اور بڑے سے بڑے لفظوں میں بھی اور چھوٹے سے چھوٹے لفظوں میں بھی تمام Computerised ہے.88

Page 98

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 12 جولائی 1985ء تو سلسلہ کا کام زیادہ انتظار نہیں کر سکتا.گوشین کی قیمت زیادہ ہے، یعنی صرف اردو نستعلیق کے لئے مکمل حالت میں اگر اس کو لیں تو ایک لاکھ پونڈ خرچ آئے گا.لیکن جو ضر در تیں ہیں، ان کے مقابل پر ایک لاکھ کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.اسی طرح جب ہم باقی اہم ضروری زبانیں اس میں داخل کر لیں گے، جواب ہمیں لاز مالینی پڑیں گی تو ڈیڑھ لاکھ پونڈ تک صرف پریس کا خرچ ہے.اس کے علاوہ اس پر ماہانہ اخراجات بھی اٹھیں گے.کیونکہ یہ بہت ہی Complex یعنی باریک اور الجھی ہوئی مشین ہے، جسے ہر آدمی آسانی سے سمجھ نہیں سکتا.بہر حال سردست میں ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی تحریک کرتا ہوں.اور میں جس طرح خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ تو فیق عطا فرماتا ہے اور شاید کوئی شکوہ بھی کرے کہ تمہیں ہر تحریک کا پہلے پتہ لگتا ہے، اس لئے تم پہل کر جاتے ہو، میں پہلا چندہ میں اپنی طرف سے لکھوا دیا کرتا ہوں.مگر ضروری نہیں کہ خدا کے ہاں میں پہلا ہی شمار ہوں.ہوسکتا ہے، کوئی اور زیادہ اخلاص میں بڑھ کر لکھوائے تو بعد میں بھی آئے اور آگے نکل جائے.اس لئے مجھے تو بہر حال اس وقت ایک فائدہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ میرے دل میں تحریک ڈالتا ہے تو بہر حال پہلا میں ہی ہوتا ہوں اس وقت.تو ایک ہزار پونڈ سے میں اس تحریک کا آغاز کرتا ہوں اور اس کے لئے کوئی شرح مقرر نہیں کرتا.مجھے علم ہے، اس وقت جماعت کی جو حالت ہے، وہ یہ ہے اگر میں پانچ آدمیوں کو کہوں کہ آپ دے دیں تو بلا تر دوہ شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ رقم فورا دے دیں گے.اگر میں ڈیڑھ سو آدمیوں کو کہوں کہ ایک، ایک ہزار پونڈ دے دو تو ڈیڑھ سو آدمی آسانی سے جماعت میں دے دے گا.لیکن اس میں کچھ فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں.ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اس طرح غرباء محروم رہ جاتے ہیں.بعض خصوصی تحریکات کو چھوڑ کر عمومی طور پر میں ایسی تحریک ہی پسند کرتا ہوں، جس میں تمام غرباء کو ضرور حصہ مل جائے.جہاں تک قرآن کریم کی اشاعت کا تعلق ہے، اس لحاظ سے بھی یہ تحریک کھلی ہے کہ یہ سلسلہ تو اب ختم ہونے والا ہے ہی نہیں.حضرت مصلح موعود نے پہلے سے جماعت میں یہ تحریک کر رکھی ہے کہ جو چاہے، اپنے سال کی پہلی آمد یا مہینے کی پہلی آمد یا اور خوشی کے موقع پر خدمت قرآن کے لئے دیتا رہے یا مساجد کی تعمیر کے لئے دیتا ر ہے.پس جہاں تک خدمت قرآن کا تعلق ہے تو ضروری تو نہیں، ہر شخص فریچ خدمت قرآن میں شامل ہو.وہ بہر حال ایک کھلی تحریک ہے.اللہ تعالیٰ اور بھی تراجم کی توفیق عطا فرمارہا ہے، اس میں انشاء اللہ عام تحریکیں بھی چلیں گی.89

Page 99

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 12 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اس لئے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں اس تحریک کو آپ تک پہنچا کرختم کرتا ہوں.کتنا دیں؟ کیسے دیں؟ اور کیا دیں؟ اس مفہوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا.آپ فرماتے ہیں:.تم اے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے، میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو“.عجیب الفاظ سے یاد کیا ہے آپ کو اور مجھے اور ہم سب کو.عجیب شان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نے کیسا جذب کا کلام عطا فرمایا ہے.کون ہے جو کہہ سکتا ہے کہ جھوٹے کی زبان کے یہ کلمات ہیں.سچ کے دل کے سرچشمے سے پھوٹنے والی صداقت ہے.فرماتے ہیں:." تم اے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت کی سرسبز شا خو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے، میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں ، تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے.اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے، دریغ نہیں کرو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عظیم مقام ، جس کا اس زمانے میں اکثر لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے.لیکن میں آپ کا ایک ادنی غلام در غلام ہوں، میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نمائندگی میں دعوے سے یہ کہتا ہوں کہ جماعت میں آج بکثرت ایسے موجود ہیں، جن پر آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فقرہ صادق آتا ہے کہ: میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں ، تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے.اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے، دریغ نہیں کرو گے.لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا.تاکہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں“.فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 34) لیکن یہ فریضہ تمام قوم میں مشترک ہے اور سب پر لازم ہے.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو اخلاص اور قربانی کی راہوں میں ہمیشہ آگے سے آگے بڑھاتا چلا جائے اور تصدیق کے نتیجہ میں خدا کی راہ میں رزق خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور اسی کے نتیجہ میں پھر فضلوں کی بارش برساتار ہے.ہم تصدیق کی کھٹی کھانے والے ہوں، تکذیب کی کھٹی کھانے والے نہ ہوں.آمین.خطبات طاہر جلد 14 صفحہ 605 تا 625 ) | 90

Page 100

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ ارشاد فرمودہ 13 جولائی 1985ء انگریزی زبان کے بارے میں اصولی ہدایت ارشاد فرمودہ 13 جولائی 1985ء لجنہ اماءاللہ کی ایک تقریب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انگریزی زبان کے بارے میں اصولی ہدایت دیتے ہوئے، ارشاد فرمایا کہ و چونکہ ہم میں انگریز احباب بھی شامل ہیں، اس لئے جہاں ایک فرد بھی انگریز ہو یا اردو نہ سمجھتا ہو، وہاں ہمیں انگریزی میں ہی بات چیت کرنی چاہیے.ہماری جماعت میں بہت سے انگریز داخل ہوئے مگر انگریزی گفتگو میسر نہ آنے کی وجہ سے وہ پیچھے ہٹتے چلے گئے.گویا ایک دروازے سے داخل ہوئے اور دوسرے دروازے سے نکل گئے.ان انگریزوں کے احمدیت میں باقی نہ رہنے کی یہ انتہائی اہم اور بنیادی وجہ ہے.اس لئے ہمیں ایسی محفلوں اور بات چیت کے مواقع پر انگریزی میں ہی بات کرنی چاہیئے.( مطبوعه ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ اگست 1985 ء) 91

Page 101

Page 102

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم پیغام فرمودہ 16 جولائی 1985ء آسمانی بشارت کے پورے ہونے کا وقت نزدیک ہے پیغام فرمودہ 16 جولائی 1985 ء بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ امریکہ the برادران احمدبیت بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت مسرت ہوئی کہ جماعت ہائے احمد یہ امریکہ کی سالانہ کنونشن 4،3،2 اگست 1985ء کو میڈیسن میں منعقد ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس میں شامل ہونے والوں کو ہر نوع کی برکات سے نوازے اور یہ کنونشن اسلام کے عالمگیر روحانی انقلاب کے لئے سنگ میل ثابت ہو.آمین میں اس مبارک موقع پر جبکہ ملک کے کونہ کونہ سے شمع احمدیت کے پروانے جمع ہیں، یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ تاریخ عالم میں انقلابی نبی صرف ہمارے آقا و مولا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جن کی قوت قدسیہ اور تا خیرات روحانیہ کی برکت سے، جس طرح پہلے زمانہ میں عظیم روحانی تغیر رونما ہوا، اسی طرح آخری زمانہ میں بھی مقدر ہے.اور حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کا مقصد بعثت بھی یہی ہے.چنانچہ آپ نے اپنے دعوی مسیحیت کی پہلی کتاب ” فتح اسلام (مطبوعہ 1891ء) میں بذریعہ الہام خبر دی کہ:.اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا، جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے.اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا، جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے".فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 10) " وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اترتی اور ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گئے“.(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 13، بقیه حاشیه ) 93

Page 103

پیغام فرمودہ 16 جولائی 1985ء وو ازاں بعد 1904ء میں فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم میں دیکھتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے دنیا میں مامور کر کے بھیجا ہے، اسی وقت سے دنیا میں ایک انقلاب عظیم ہو رہا ہے.یورپ اور امریکہ میں جو لوگ حضرت عیسی کی خدائی کے دلدادہ تھے، اب ان کے محقق خود بخود اس عقیدہ سے علیحدہ ہوتے جاتے ہیں.اور وہ قوم ، جو باپ دادوں سے بتوں اور دیوتوں پر فریفتہ تھی، بہتوں کو ان میں سے یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ بت کچھ چیز نہیں ہیں.اور گو وہ لوگ ابھی روحانیت سے بے خبر ہیں اور صرف چند الفاظ کو رسمی طور پر لئے بیٹھے ہیں.لیکن کچھ شک نہیں کہ ہزار ہا بیہودہ رسوم اور بدعات اور شرک کی رسیاں انہوں نے اپنے گلے پر سے اتاردی ہیں.اور توحید کی ڈیوڑھی کے قریب کھڑے ہو گئے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ کچھ تھوڑے زمانہ کے بعد عنایت الہی ان میں سے بہتوں کو اپنے ایک خاص ہاتھ سے دھکا دے کر سچی اور کامل توحید کے اس دارالامان میں داخل کر دے گی، جس کے ساتھ کامل محبت اور کامل خوف اور کامل معرفت عطا کی جاتی ہے.یہ امید میری محض خیالی نہیں ہے بلکہ خدا کی پاک وحی سے یہ بشارت مجھے ملی ہے.لیکچر لا ہور صفحہ 35 ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ (181) میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا کے فضل سے اس آسمانی بشارت کے پورے ہونے کا وقت نزدیک ہے.مگر امریکہ کے ہر احمدی مرد اور احمدی خاتون کو یا درکھنا چاہیے کہ اس انقلاب نو کو قریب تر لانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پر جوش داعی الی اللہ کی حیثیت سے احمدیت کی تبلیغ میں پہلے سے بڑھ کر سر گرم عمل ہو جائیں.اور دیوانہ وار امریکہ کے اصل باشندوں تک بھی پیغام حق پہنچا ئیں اور بیرونی ممالک سے آکر آباد ہونے والوں تک بھی.خصوصاً پاکستانیوں تک.کیونکہ پاکستان لاکھوں احمدیوں کا محبوب وطن ہے.اس میں احمدیت کا مرکز ہے اور اس مملکت کے قیام و استحکام کے لئے انہوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں.اور اپنے خون سے اس کی آبیاری کی ہے.مجھے امید ہے کہ ایک نئے جذبہ اور ولولہ کے ساتھ تمام ممبران جماعت احمدیہ امریکہ مرد کیا اور عورتیں کیا، بڑے کیا اور چھوٹے کیا، دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے تبلیغ اسلام میں مصروف ہو جائیں گے.یہ تبلیغ با مقصد ہونی چاہیے.اور جب تک آپ کی تبلیغ کے نتیجہ میں آپ کو روحانی اولا دعطا نہ ہونی شروع ہو جائے ، آپ کو اطمینان سے نہیں بیٹھنا چاہیے.94

Page 104

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام فرمودہ 16 جولائی 1985ء بالآخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں دعا کرتا ہوں کہ:.”اے میرے قادر خدا ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دنیا سے اٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے اور زمین تیرے راست باز اور موحد بندوں سے بھر جائے ، جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے.اور تیرے رسول کریم محد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے.آمین.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی طرف سے مجھے خوشیاں دکھائے.خدا حافظ والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ا وفاہش 16/۱۳۶۴ جولائی 1985ء +198516 ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 02 اگست 1985 ء و ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ اگست 1985 ء) 95

Page 105

Page 106

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء ہر احمدی تبلیغ کے ذریعہ دنیا میں انقلاب پیدا کرے خطبہ جمعہ فرمودہ19جولائی 1985ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: ياَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ (المائدة: 68 ) یہ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تو ضرور تبلیغ کر ، لازما لوگوں تک پیغام پہنچا.وہ پیغام، جو تیری طرف نازل کیا جا رہا ہے.یعنی من ربک تیرے رب کی طرف سے.اگر تو نے ایسا نہ کیا تو ، تو نے اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچانے کا حق ادا نہیں کیا.وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اور اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے گزند سے محفوظ رکھے گا.یقینا اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا.اس آیت کریمہ میں کئی پہلو ہیں، جو خاص طور پر آج کل جماعت احمدیہ کے پیش نظر رہنے چاہئیں.پہلی بات تو یہ کہ گو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تنہا مخاطب معلوم ہوتے ہیں اور بڑی سختی معلوم ہوتی ہے اس کلام میں، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب اور یہ فرمایا جار ہا ہے کہ اگر تونے تبلیغ نہ کی تو ، تو نے اپنی رسالت کا یا میری پیغام رسانی کا حق ہی ادا نہیں کیا.اب یہ عجیب بات ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، جو سب پیغام رسانوں سے زیادہ امانت دار تھے، جن کے متعلق خود قرآن گواہی دیتا ہے کہ وہ امانت، جس کو زمین اور آسمان اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا، یہ میرا بندہ مرد کامل آگے بڑھا اور اس امانت کو اٹھا لیا.آپ کے متعلق کوئی بعید امکان بھی نہیں ہے کہ آپ پیغام رسانی سے باز ر ہیں.شدید دکھوں، شدید مصائب کے مقابل پر آپ اس وقت جبکہ تنہا تھے، اس وقت بڑی جرات کے 97

Page 107

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ساتھ اللہ تعالیٰ کی اس امانت کا حق ادا فرماتے رہے، تو آپ کو مخاطب کر کے کیوں ایسا کہا گیا ہے؟ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بیان کیا تھا کہ یہاں در اصل امت محمدیہ کو متنبہ کرنا مقصود ہے.مخاطب حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور تنبیہ امت کو کی جارہی ہے.یہ طرز کلام عام دنیا میں بھی اختیار کی جاتی ہے اور خود اقدس حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اختیار فرمائی.جب یہ کہا کہ میری بیٹی اگر چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا.کوئی دور کا بھی احتمال نہیں تھا، حضرت سیدہ فاطمتہ الزھراء کا چوری کرنے کا.جو خاتون جنت ہیں، جو تمام خواتین میں افضل، ان کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ یہ چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا.تو یہ احتمالات ایسے نہیں ہیں ، جو ہو سکتے ہیں.یہ ایک محاورہ کلام ہے.مراد یہ ہوتی ہے کہ جو میرے سب سے زیادہ قریبی ہے، جس سے بڑھ کر کوئی وجود نظر نہیں آسکتا تمہیں، وہ بھی اگر رعایت کا مستحق نہیں تو تم جواد نی ہو تم کیسے رعایت کے مستحق ہوگے؟ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرما کر تبلیغ کی فرضیت کو امت محمدیہ پر ظاہر کرنے کا اس سے زیادہ اور کوئی قوی اور سخت ذریعہ ممکن نہیں تھا.تنبیہ ساری امت کو کی جارہی ہے.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کو کی جارہی ہے.ایک طرف یہ آواز اٹھ رہی ہے اور دوسری طرف قرآن ہمیں فرعون کی آواز بھی سنا رہا ہے، جو یہ کہتی سنائی دیتی ہے وہ آواز اِنّى أَخَافُ أَنْ تُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ (المؤمن : 27) کہ یہ تبلیغ کا کیا قصہ شروع کر دیا ان لوگوں نے.مجھے تو ڈر یہ ہے کہ جس انہماک کے ساتھ ، جس شدت کے ساتھ ، جس قوت کے ساتھ یہ لوگ تبلیغ کا کام کر رہے ہیں یا تو تمہارا مذہب تبدیل کر دیں گے، ایسے آثار نظر آ رہے تھے حضرت موسیٰ کی تبلیغ میں فرعون کو کہ اس کو پتہ لگ گیا تھا کہ اس شدت کے ساتھ ، اس حکمت کے ساتھ ، اس گہری تاثیر کے ساتھ جب قوم کو پیغام پہنچایا جائے گا تو وہ لازما قبول کر لیں گے.تو اس نے کہا: یا تو یہ تمہارا مذہب تبدیل کر دیں گے اور یا پھر سارے ملک میں فساد پھیل جائے گا.مطلب یہ تھا کہ مذہب تو ہم تبدیل نہیں ہونے دیں گے، یہ دوسری بات ہوگی تبلیغ کے نتیجہ میں فساد بر پا ہوگا.یہ تو فرعون کی بات ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تبلیغ کا فساد کے ساتھ کوئی تعلق ہے ضرور.کیونکہ جب زمین و آسمان ابھی پیدا بھی نہیں کئے گئے ، جب کہ آدم کی تخلیق کا سوال زیر غور تھا، اس وقت قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے:.98

Page 108

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ط خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّى جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا اَ تَجْعَلُ فِيهَا مَنْ تُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إلى أَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُونَ.(البقرة:31) یہ اس وقت سے سوال اٹھا ہوا ہے، جب یہ انسان پیدا ہی نہیں ہوا تھا.جب خدا نے دنیا میں خلیفہ یعنی نبی بنانے کا فیصلہ کیا اور سلسلہ انبیاء جاری کرنے کا فیصلہ فرمایا تو ملائکہ تو متکبر نہیں تھے ، ملائکہ میں تو کوئی فرعونیت نہیں تھی.لیکن اپنی لاعلمی میں ظاہری صورت میں وہ بھی اس اشتباہ میں مبتلا ہو گئے ، انہوں نے سمجھا کہ اگر وہ جا کر نیا World Order پیدا کرے گا، انقلابی باتیں کرے گا ، دلائل کے ساتھ پرانے رسم و رواج کو توڑ کر ایک نیا زمین و آسمان پیدا کرے گا تو ایسی صورت میں لوگ لازماً مخالفت کریں گے.اور فساد پھیل جائے گا.لیکن اپنی غلطی سے اور لاعلمی میں انہوں نے بھی فساد کی ذمہ داری گویا آدم پر ڈال دی اور خلیفہ اللہ پر ڈال دی.اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے صرف اتنا فرمایا:.إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ میں زیادہ جانتا ہوں تمہیں کیا پتہ؟ اب بظاہر اس بات میں بڑی تحدی تو ہے مگر دلیل کوئی نہیں.کوئی آپ سے گفتگو کر رہا ہے دلیل کے ساتھ ، آپ کہیں مجھے زیادہ پتہ ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اس میں کچھ ناراضگی کا اظہار ہے.اس طرز کلام میں.اور کچھ یہ بتانا مقصود ہے کہ تم ذمہ داری غلط ڈال رہے ہو.اگر غور کرو تو خود اس نتیجے تک پہنچ سکتے ہو، کسی ایسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، جس کا تمہیں علم ہو نہ سکتا ہو، جس تک تمہاری رسائی نہ ہو، تھوڑا سا تدبر کرو، اپنے مقام کو دیکھو، مزید غور کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ فساد تو ہو گا لیکن ذمہ داری میرے خلیفہ پر نہیں ہوگی، ذمہ داری دوسروں پر ہوگی.اب ذمہ داری کے لحاظ سے کئی قسم کے احتمالات سامنے آتے ہیں.تبلیغ اگر غلط طریقے سے کی جائے تو اس کے نتیجہ میں فساد ہو سکتا ہے.دل آزاری کی باتیں کی جائیں اور نا واجب ایسے دبا ؤ اختیار کئے جائیں کہ جس کے نتیجہ میں لوگ مجبور ہو جا ئیں مذہب تبدیل کرنے پر مثلاً پیسے دے کر، عورتوں کا لالچ دے کر، جس طرح بعض قو میں کرتی ہیں، نوکریوں کا لالچ دے کر اور دنیاوی اثرات استعمال کر کے اگر تبلیغ کی جائے تو لازماً اس کے نتیجہ میں یقینا فساد بھی ہوگا اور فساد کی ذمہ داری تبلیغ کرنے والوں پر ہوگی.اس 99

Page 109

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم لئے یہ معاملہ الجھ جاتا ہے.کیسے معلوم ہو کہ تبلیغ فی ذاتہ ایک ایسی چیز ہے، جس کے نتیجے میں لازماً اشتعال پیدا ہوگا، خواہ سو فیصدی تم معصوم ہو، یہ سوال اٹھتا ہے.جو چاہے، طریق اختیار کر لو احتیاط کا.جس طرح چاہو، حکمت سے کام لو.جتنی چاہو، قربانیاں پیش کرو.جس قدر بھی تم میں تو فیق ہے، تم صبر سے کام لو اور ایثار سے کام لو.لیکن تبلیغ فی ذاتہ اپنے اندر ایک ایسی بات رکھتی ہے کہ لازماً اس کے نتیجے میں فساد ہوگا اور تمہاری مخالفت ہو گی.یہ کیسے معلوم ہوا ؟ اس کا سب سے قطعی ثبوت اس آیت میں ہے، جو میں نے آپ کے سامنے ابھی تلاوت کی ہے.فرماتا ہے:.وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حکمت کے ساتھ تو تبلیغ کوئی کرنے والا کوئی پیدا نہیں ہو سکتا تھا.جتنے انبیاء آئے ، انہوں نے بھی حکمت سے کی.جتنے گزشتہ انبیاء تھے، انہوں نے بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا.نرمی اور ملائمت سے بات کی.اور جہاں تک ان سے ہوسکا، وہ دل آزاری کے مقامات سے بچے.لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر تبلیغ کو حکمت اور عاجزی اور انکساری اور ایثار کے ساتھ اور صبر کے ساتھ اور پیار کے ساتھ اور رحمت اور شفقت کے ساتھ کرنے کا گر تو اور کسی کو نہیں آتا تھا.پس یہ جو فرمایا مخاطب کر کے کہ اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا، اس میں یہ تنبیہ تھی کہ باوجود اس کے کہ تجھ پر کوئی حرف نہیں رکھ سکتا، تجھ پر کوئی انگلی نہیں اٹھ سکتی کہ تو نے اس رنگ میں تبلیغ کر دی کہ دنیا میں فساد پھیل گیا لیکن اس کے باوجود پھیلے گا، اس کے باوجود لوگ تمہاری مخالفت کریں گے، اس کے باوجود تمہیں دکھ دیئے جائیں گے.چنانچہ آغاز رسالت سے ہی اس کے آثار ظاہر ہو گئے تھے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور حضرت خدیجہ نے آپ کی تسلی کی خاطر اپنے چچازاد، ہم زاد کو بلایا انہوں نے سمجھایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آئے کہ یہ جو بات ہے، اس میں کوئی وہم کی بات نہیں، یہ رسالت کا مضمون ہے، آپ کو اللہ تعالیٰ رسول بنا رہا ہے.اور یہ کہنے کے بعد جب اس نے یہ کہا کہ افسوس اس وقت پر میں وہاں نہیں ہوں گا.کاش میں ہوتا تو میں تیری مدد کرتا ، جب قوم تجھے اپنے وطن سے نکال دے گی.حیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ظاہر ہوئی.تعجب سے، بڑی معصومیت سے پوچھا : مجھے نکال دے گی ؟ یعنی میں اتنا ان لوگوں کے لیے مسلسل مجسم خیر مجھ سے ہمیشہ ان کو بھلائی پہنچی ہے اور اس سے قبل حضرت خدیجہ ان باتوں کو دہرا بھی چکی تھیں کہ جن کو چپٹی پڑ جائے اور کوئی ادا نہ کر سکے ، ان کی چٹی کو وہ آپ بوجھ اٹھا لیتے ہیں، قیموں اور بیوؤں کی خبر گیری کرنے والے، وہ نوادر اخلاق، جو دنیا سے معدوم ہو چکے 100

Page 110

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہیں، ان کو آپ نے دوبارہ دنیا میں قائم کر دیا ہے.ایسے حسین اخلاق کا مالک انسان اس کو یہ کہا جائے کہ قوم تجھے نکال دے گی تو تعجب تو اسے ہوگا.پس آغا ز رسالت سے یہی مقدر تھا اور اس آیت میں حضوراکرم کو مخاطب کرنے کے نتیجہ میں یہ مسئلہ ہمیں سمجھ آیا.ورنہ اگر ساری امت کو مخاطب کیا جاتا تو ہر گز نہیں کہہ سکتے تھے کہ تبلیغ کے نتیجہ میں فساولا ز ما پیدا ہوتا ہے.یہ کہا جاسکتا ہے کہ مطلب صرف اتنا ہے کہ لوگ غلطیاں کریں گے، غلط طریق پر تبلیغیں کریں گے، دل آزاریاں کریں گے ، اس لیے فساد پھیلے گا.تو واحد کے صیغہ میں مخاطب کرنے میں ایک اور بڑا عظیم الشان مضمون ہاتھ آگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کے باوجود، باوجود اس کے کہ آپ سے زیادہ پیار اور محبت اور شفقت اور رحمت اور حکمت کے ساتھ اور کوئی تبلیغ نہیں کر سکتا، پھر بھی دنیا آپ کی مخالف ہو جائے گی اور آپ کی ایذارسانی کی کوشش کرے گی.ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر قسم کی غلطی.پاک تھے، اس لیے لازم فریق ثانی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے.فساد تو ہو گا لیکن فساد کے ذمہ داروہ ہیں، جو دکھ پہنچانے کے لیے مظالم کی راہ سے اور تعدی کی راہ سے اور جبر کی راہ سے خدا کے پیغام کو روکنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے.اس لئے جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے، ہر احمدی کو یہ دونکات خوب ذہن نشین کر لینے چاہئیں.اول یہ کے تبلیغ کوئی طوعی چندہ نہیں ہے، کوئی نفل نہیں ہے کہ نہ بھی ادا کریں گے تو آ روحانی شخصیت مکمل ہو جائے گی.فریضہ ہے اور ایسی شدت کے ساتھ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تو نے رسالت کو ہی ضائع کرد یا اگر تبلیغ نہ کی تو.آپ کی امت بھی جوابدہ ہے.ہم میں سے ہر ایک جوابدہ ہے.پیغام رسانی لازماً ایک ایسا فریضہ ہے، جس سے کسی وقت انسان غافل ہو نہیں سکتا.اجازت نہیں ہے کہ غافل رہے.اور دوسری بات یہ کہ آپ جو چاہیں کریں، جتنی چاہیں حکمت سے کام لیں اور حکمت سے کام لینا پڑے گا، نرمی کریں اور دکھ رہی سے بچیں اور پیار اور محبت کو شیوہ بنا ئیں اور ایثار سے کام لیں لیکن یہ نہ سوچ بیٹھیں کہ اس کی وجہ سے آپ کی مخالفت نہیں ہوگی.یہ تو خدا تعالیٰ نے پہلے سے متنبہ فرما دیا ہے.ابھی آپ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے، ابھی انسان پیدا نہیں ہوا تھا، ابھی کا ئنات وجود میں نہیں آئی تھی ، اس وقت ایک مکالمے کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے بنی نوع انسان کو متنبہ فرما دیا کہ جب بھی خدا کی طرف سے رسول آئیں گے تو فساد ضرور بر پا ہوں گے.لیکن فساد کی ذمہ داری کلیۂ فریق مخالف پر ہوگی ، ہمارے رسولوں پر نہیں ہوگی.101

Page 111

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم چنانچہ جب اس صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں تو اور بھی بہت سی باتیں ہمارے ہاتھ آتی ہیں فائدے کی اور بہت سے حکمت کے راز ہمیں معلوم ہوتے ہیں.اور ایک بڑا ایک دلچسپ مضمون ہے، جس میں آپ غوطے لگا ئیں تو کئی قسم کے نہایت ہی قیمتی موتی آپ کے ہاتھ آئیں گے.جب ذمہ داری فساد کی نہیں ہے تو مبلغ کو یہ بتا دیا کہ اس طرح تبلیغ کرنی ہے کہ دشمن تم پر نظر رکھے گا، دشمن تلاش کرے گا کہ تم سے ادنی سی بھی ایسی غلطی ہو کہ جس کے نتیجہ میں تم پر ذمہ داری پھینک سکے.اور بار بار متنبہ کر دیا کہ دشمن تلاش میں ہے، بہانہ جوئی کر رہا ہے، اس لئے خبر دار.چنانچہ فرعون کا ذکر فرمایا یا دیگر مخالفین انبیاء کا ذکر فرمایا، وہ یہ عذر تراشتے ہیں، تمہاری مخالفت کے.تو دراصل آپ کو متنبہ کیا جارہا ہے پہلے سے ہی.انگریزی میں کہتے ہیں: Fore Wamed is Fore Armed جس کو پہلے سے متنبہ کر دیا جائے گویا کہ اس کے ہاتھ میں دفاعی ہتھیار پکڑا دیا گیا.تو آپ کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے کئی دفاعی ہتھیار پکڑا دیئے ہیں.وہ سارے عذر جو غیر تلاش کرتے ہیں، معصوموں کو دکھ دینے کے، وہ بتا دیئے.اور فرمایا: یہاں بھی احتیاط کرنا، یہاں بھی احتیاط کرنا اور یہاں بھی احتیاط کرنا اور یہاں بھی احتیاط کرنا.یادرکھنا کہ تم سید المعصومین کے غلام ہو، اس لیے تمہارے اندر بھی لوگ عصمت کا رنگ دیکھیں گے.اور کسی قسم کی ہو تو فی سرزدنہ ہوں کسی قسم کی حماقت نہ سرزد ہو، کوئی غلطی نہ کر بیٹھنا کہ واقعہ دشمن کے ہاتھ میں کوئی بہانہ آجائے کہ اس وجہ سے ہم ان کو مارتے ہیں، اس وجہ سے ان کی مخالفت کرتے ہیں.یہ ان کی غلطی ہے.تو دیکھئے تھوڑے سے کلام میں یہ فصاحت و بلاغت کا قرآن کریم کا کمال ہے کہ کتنی باتیں ہمیں بتادیں.اور یہ بتادیا کہ دشمن تاک میں رہے گا، وہ پہلے سے ہی ارادے کیے بیٹھا ہے کہ فساد وہ کرے گا اور ذمہ داری تم پر ڈالے گا.جس طرح بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے، وہ تمہارا حال ہوگا.فرق صرف یہ ہو گا کہ زبان تمہاری اور دانت دشمن کے، جو ہر لمحہ اس انتظار میں رہیں گے کہ ذرا غلطی ہو، زبان سے حرکت الٹ ہو جائے ، بے احتیاطی اختیار کرے زبان تو جہاں تک ممکن ہے، وہ دانت اس کو کاٹ کے پھینک دیں.یہ صورت حال ہے، جس میں ہمیں تبلیغ کرنی ہے.اور اس کے باوجود یہ یقین بھی رکھنا ہے کہ تبلیغ کے نتیجہ میں دکھ دیئے جائیں گے.یہ ہے تو ازن، جس کو اپنے ذہنوں میں آپ قائم کریں گے تو ضیح مبلغ بنیں گے ورنہ غلطیاں کریں گے ٹھوکریں کھائیں گے.اب جو تبلیغ کا چرچا عام ہے احمدیوں کی طرف سے، اللہ کے فضل سے بڑی تیزی سے پھل بھی لگ رہے ہیں، نئی نئی قو میں داخل ہورہی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسی جگہ بھی تبلیغ کے انتظام فرمارہا ہے، جہاں ہماری پہنچ 102

Page 112

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک بھی نہیں تھی.جہاں ہماری تبلیغ کی کوشش کا ایک ذرہ بھی دخل نہیں تھا.اور یہ خدا تعالیٰ اس لئے نشان ظاہر فرما رہا ہے کہ وہ ہمیں مطلع کرے کہ میں محبت اور رحمت کی نظر سے تمہاری کوششوں کو دیکھ رہا ہوں.اور یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ تبلیغ تو بطور فریضہ کے تم کر رہے ہو.کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ تمہاری قربانی کا حصہ اس میں شامل ہو.لیکن میں نتیجہ نکالنے میں تمہاری تبلیغ کا محتاج نہیں ہوں ، تمہاری تبلیغ کا منتظر ضرور ہوں.کیونکہ یہ قانون قدرت ہے کہ جب تک تو میں اپنا حصہ نہ ڈالیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل کا حصہ نہیں ڈال کرتا.ایسے ایسے جزائر سے ، ایسے ایسے نئے ملکوں سے اطلاعیں آرہی ہیں بیعتوں کی کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ساؤتھ افریقہ کے دو ممالک سے کل ہی مثلاً ایک بیعت پہنچی ہے، جو ایسا باشندہ ہے، جو دو ممالک کے درمیان ایسا معلق ہے کہ اس طرف بھی قدم رکھ سکتا ہے اور اس طرف بھی قدم رکھ سکتا ہے.دونوں طرف رشتہ داریاں یا قبیلے ہیں.اور وہ بڑی سوچ اور سمجھ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پہلے عیسائیت سے مسلمان ہوا اور پھر اس نے احمدی ہونے کا فیصلہ کیا.اور مسلمان بھی احمد یہ لٹریچر کے ذریعہ ہوا.چنانچہ اس کا ایک بہت ہی عمدہ خدا کل مجھے ملا.اس نے لکھا ہے کہ میں جو احمدی ہورہا ہوں، اتنے سال کی مسلسل جہد و جہد اور تلاش کے بعد میں ہوا ہوں.اور یہ لٹریچر میرے زیر مطالعہ ہے.اور یہ یہ دلائل میں زیر نظر لایا ہوں.ان پر غور کیا ہے اور بڑی سوچ اور سمجھ کے بعد ، بڑے تحمل کے ساتھ یہ فیصلہ کر رہا ہوں.لیکن ساتھ یہ بھی فیصلہ کر رہا ہوں کہ اب میں احمدیت کے لیے وقف ہو گیا ہوں.اور ان دونوں ممالک میں، میں تبلیغ کروں گا ، انشاء اللہ.اور اس معاملہ میں آپ میری رہنمائی کریں.اور کسی احمدی سے اس کا رابطہ قائم نہیں ہوا.لٹریچر کسی ذریعے سے پہنچ گیا ، جس طرح ہم بعض دفعہ ڈاک کے ذریعہ تقسیم کرتے رہتے ہیں.اور خدا کے فضل سے وہ دل بدلا اور ان دو ممالک میں احمدیت کے قیام کا خدا تعالیٰ نے ایک ذریعہ مہیا کر دیا.اسی طرح بعض جزائر سے مختلف ایسی اطلاعات آرہی ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ جب آپ تھوڑی سی کوشش کرتے ہیں تو آسمان اس سے زیادہ کوشش شروع کر دیتا ہے اور آپ کی کوشش کو خدا رائیگاں نہیں جانے دے گا.اس لیے اس کی طرف مزید توجہ کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت سے احمدی ایسے ہیں، تقریب ہر روز کی ڈاک میں ایسے خطوط ملتے ہیں، جنہوں نے پہلے بھی تبلیغ نہیں کی تھی ، اب کی ہے تو وہ حیران رہ گئے ہیں کہ ہم کیوں غافل بیٹھے ہوئے تھے.اور بعض جن کو پھل ملے ہیں، ان کی تو کایا ہی پلٹ گئی.ایسا ان کو چسکا پڑ گیا ہے کہ گویا بعد میں جو جنت ملنی تھی ، وہ اس دنیا میں مل گئی.اور جن کو نہیں پھل لگ رہے، وہ بے چین اور بے قرار ہیں کہ ہمیں بھی خدا وہ وقت نصیب فرمائے کہ ہماری تبلیغ سے احمدی ہوں.103

Page 113

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے، وہاں بعض واقعات ایسے بھی ملتے ہیں کہ ایک پر امن جگہ ہے، جہاں کوئی مخالفت نہیں، امریکہ میں مثلاً بعض علاقوں میں، اور وہاں مبلغ نے کثرت کے ساتھ لٹریچر تقسیم کرنا شروع کر دیا اور پتے ڈھونڈے اور ان پتہ جات پر لٹریچر بذریعہ ڈاک بھجوایا.اور اس سے پہلے اس کو متنبہ کر دیا گیا کہ دیکھو، ایسی حرکت نہ کرو، یہ امن برباد ہو جائے گا، شدید مخالفت ہو گی.اور پھر جب مخالفت ہوئی، جیسا کہ ہونی تھی تو پھر مبلغ کو مطعون کیا گیا کہ دیکھا، ہم کہتے نہیں تھے کہ مخالفت ہو گی.کہتے تو تھے لیکن اس طرح کہتے تھے، جس طرح فرشتے نبوت کے بعد خدا کو کہتے کہ کیوں خدا ہم کہتے نہیں تھے کہ فساد ہوگا ؟ تم کیا کہتے ہو؟ یہ کیا کہتے تھے کہ تمہاری پیشگوئی کیا حقیقت رکھتی ہے، جو چند دن کی پیشگوئی ہے.قرآن کریم تو وہ پیشگوئی بیان فرمارہا ہے، جو تخلیق کا ئنات سے پہلے کی ایک پیشگوئی ہے.اس وقت بھی تو فرشتوں نے یہی کہا تھا کہ اے خدا! اگر رسول بھیجے گا یعنی پیغمبر تبلیغ کرنے والا تو فساد برپا ہوگا.پس کیا ان کا حق نہیں تھا کہ وہ خدا کو کہتے کہ کیوں ہم نہیں کہتے تھے ؟ یہ ہم نہ کہتے تھے کی جو کھیل ہے، یہ مذہب کے معاملات میں نہیں چل سکتی.یہ تو وہاں چلتی ہے، جہاں نادانی کی باتیں ہوں، جہاں غفلت کی حالت میں غلط انداز سے لگا کر کوئی فعل کیا جائے.اور ایک متنبہ کرنے والا پہلے متنبہ کر چکا ہو لیکن اگر خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کوئی قدم اٹھایا ہو، علم ہو کہ کیا نتیجہ نکلے گا تو پھر دوسرے کا یہ حق نہیں رہا کرتا کہ ہم نہیں کہتے تھے.پس تبلیغ کا معاملہ اس دنیا سے تعلق رکھتا ہے، جہاں سب کچھ پہلے سے علم ہے.اور علم ہونا چاہئے کہ یہ ہو گا.پھر آپ اس میدان میں قدم رکھتے ہیں.پھر دوسرے یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ کہے، کیوں جی ہم نہیں کہتے تھے کہ یہ ہوگا.اب کہتے ہیں تم کیا کہتے تھے ؟ ہم بھی یہی کہتے تھے ، ہمارے باپ دادا بھی یہی کہتے آئے ہیں، آدم بھی یہی کہتے تھے اور آدم کی پیدائش سے پہلے فرشتے بھی یہی کہا کرتے تھے.تم ہمیں کیا نئی بات بتاتے ہو؟ یہ دراصل لاعلمی کی بات ہے.حقیقت میں فساد کی ذمہ داری کا انتقال دو طرح سے قرآن کریم میں ملتا ہے.ایک تو تکبر اور فرعونیت کے نتیجہ میں ماریں گے ہم، ذمہ دار تم ہو، یہ ہے وہ اعلان اور یہ اعلان کرنے والے تو خدا کی نظر میں شدید مجرم ٹھہرتے ہیں لیکن کچھ معصوم لوگ بھی ہیں، چنانچہ فرشتہ صورت ان کو دکھایا گیا ہے.پس یہ جو احمدی ہیں بیچارے، یہ فرشتوں کی ذیل میں آتے ہیں کہ معصومیت اور لاعلمی کی بناء پر یہ بات کر رہے ہیں.میں ان کو قصور وار نہیں سمجھتا.لیکن کہتے غلط ہیں بہر حال.اور اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ کیوں جی ہم نے متنبہ کر دیا تھا تو ان کی تو پھر مثال ویسی ہی ہے، جیسے پنجابی کی کہاوت میں کہتے ہیں کہ ایک طوطا با وجود اس تنبیہ کے کہ اس نگری میں نہ جانا، وہاں پکڑے جاؤ 104

Page 114

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی گے.وہ کسی نگری میں چلا گیا اور پکڑا گیا.اور تنبیہ چونکہ طوطی کی طرف سے آئی تھی ، اس لیے طوطی پھر اڑ کر وہاں پہنچی اور جب وہ پنجرہ میں قید تھا تو پنجابی کی کہاوت ہے کہ وہ دیوار کے کنارے بیٹھ کر یہ گیت گانے لگی کہ طوطیا منمونیا میں آکھ رہی میں ویکھ رہی کہ ایس نگری نہ جا.ایس نگری دے لوگ برے تے لیندے کھائیاں پا.اے طوطے ! میں تجھے کہ بھٹی، تجھے بار بار تنبیہ کی کہ ایس نگری نہ جا، اس بستی میں نہ جانا، اس نگری کے لوگ برے ہیں ، یہ پھائیاں ڈال لیا کرتے ہیں، یہ پھندے ڈال لیا کرتے ہیں اور پھنسا لیا کرتے ہیں.اور اسی طرح ایک شاعر کہتا ہے کہ زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں کے طوطے کا پھنسنا تو ہی توفی کے نتیجہ میں تھا لیکن خدا کے انبیاء جب ان پھندوں میں پھنستے ہیں تو بیوقوفی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس علم کے باوجود کہ ہم جہاں جائیں گے، وہاں ضرور ہم سے یہ سلوک کیا جائے گا، دیکھتے ہوئے ، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے ، وہ قدم آگے بڑھاتے ہیں.اس لیے ان کو کوئی بیوقوف نہیں کہہ سکتا.اگر کوئی احمدی یہ کہتا ہے اور مربی کو چھیڑتا ہے کہ دیکھا ہم نہیں کہتے تھے کہ فساد ہوگا تو اس کو پھر مذہب کی حقیقت کا علم ہی کوئی نہیں.وہ تو پھر گڑیوں کی کہانیوں میں بسنے والا شخص ہے.قصص انبیاء سے اس کو کوئی واقفیت نہیں.مگر جب ہم مذہب کی دنیا میں سنجیدگی سے ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو ہم قصص انبیاء کی باتیں کر رہے ہیں.یہ طوطا مینا کے قصے نہیں سنار ہے.اور قصص انبیاء کا مضمون تو یہی ہے کہ تبلیغ کے ساتھ لازماً ایک فساد لگا ہوا ہے.اور لازما اس فساد کی ذمہ داری دشمن پر عائد ہوتی ہے، تم پر عائد نہیں ہوتی.اگر تم تبلیغ کو اس طرح کرو گے، جس طرح کہ تبلیغ کرنے کا حق ہے، جس طرح کہ گذشتہ زمانوں میں انبیاء کرتے چلے آئے اور جس طرح سب انبیاء سے بڑھ کر حکمت اور پیار اور بالغ نظری کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کی.پس تبلیغ ہمیں کرنی ہے، ہم تو مجبور ہیں.اور ساتھ ہی ایک اور عظیم الشان بات اس آیت میں بیان فرمائی گئی.وہ یہ ہے کہ ان دو شرطوں کو پورا کرنے والے تم بنو تبلیغ کرو اور ضرور کرو.تبلیغ اس طرح کرو، جس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ کرتے ہیں:.وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اللہ تعالیٰ تو ہر شخص جو یہ دو شرطیں پوری کرتا ہے یا ہر قوم جو یہ دوشرطیں پوری کرتی ہے، اللہ تعالیٰ رماتا ہے کہ میں ذمہ دار ہوں، اس بات کا، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہارا دنیا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے 105

Page 115

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم یعنی مخالفت تو ہوگی لیکن ہم دنیا کو یہ توفیق نہیں دیں گے کہ تمہارا نقصان کر سکے، تمہیں کم کر کے دکھا دے تمہیں چھوٹا بنا کے دکھا دے.پس جب ہم ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو ایک احمدی کے لئے یہ تینوں امور پیش نظر رہنے چاہئیں.نہ صرف یہ کہ وہ احتیاط اور حکمت کے ساتھ ، پیار اور محبت کے ساتھ تبلیغ کرے.محبتوں کو ابھارتا ہوا تبلیغ کرے، نفرتوں کو انگیخت کرتا ہوا تبلیغ نہ کرے.اور تبلیغ اس طرح کرے، جس طرح حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ فرمایا کرتے تھے.دشمن کے لیے بھی دل ہلاک ہو رہا ہوتا تھا غم سے کہ نادان مخالفت کر رہا ہے لاعلمی کے نتیجہ میں.دشمن کی مخالفت کے نتیجہ میں آنکھوں سے شعلے نہیں برسا کرتے تھے بلکہ محبت کے پانی بہتے تھے.دعاؤں کے وقت آنسو برسا کرتے تھے ان کے لئے.یہ ہے تبلیغ کا رنگ، اگر اس رنگ کو اختیار کریں گے تو خدا کا یہ وعدہ لازماً آپ کے حق میں پورا ہوگا:.وَاللهُ يَعْصِكَ مِنَ النَّاسِ اللہ حفاظت کرنے والا ہے، اسی پر توکل کریں ، وہ ضرور آپ کو بچالے گا.إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ یہ آخری ٹکڑا ہے، اس آیت کا.اب یہ بھی بڑا تعجب انگیز ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ اتنا زور دے رہا ہے کہ ضرور کرنی ہے تبلیغ اور اس طرح کرنی ہے ، جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے ہیں، مخالفت کے باوجود کرنی ہے، اللہ پر توکل کرتے ہوئے کرنی ہے.اور ساتھ اعلان کر دیا:.اِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ کہ اللہ کافروں کو ہدایت دیتا ہی نہیں.کبھی ہدایت نہیں دیتا.اگر ہدایت دیتا ہی نہیں تو اس مصیبت میں کیوں ڈال دیا.پھر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو، آپ کے سب غلاموں کو قیامت تک کے لیے حکم دے دیا کہ تبلیغ کرتے چلے جاؤ.اور اعلان یہ کر دیا:.إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ اللہ تعالیٰ کا فروں کو ہدایت نہیں دیتا.یہاں لا يهدى القوم الکافرین میں دو باتیں خاص طور پر پیش نظر ہے.کسی کا فر کو ہدایت یہ تو اس کا ترجمہ ہے ہی غلط.قوم الکافرین ہے اور ایک صفت کے ساتھ باندھا گیا ہے ان کو.دراصل ہر انبیاء کے مخاطب لوگوں کا یہ حال ہوا کرتا ہے کہ بعض پیشہ ور مکفرین بن جایا کرتے ہیں اور قوم کا یہ 106

Page 116

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک محاورہ عرب میں اسی لئے استعمال ہوتا ہے.ہم جاہلوں کی قوم میں سے نہیں ہیں، جب یہ کہتے ہیں عرب تو مراد یہ نہیں کہ ہم اس قبیلے میں سے نہیں ہیں، جو جاہل ہے یا ظاہری لحاظ سے اس قوم میں سے نہیں ہیں.یہ عربی محاورہ ہے، جب قوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو مراد یہ ہے، وہ لوگ، جو اس چیز کے لیے مخصوص ہو چکے ہیں، اس زمرے میں ہم شمار نہیں ہو سکتے ، جس زمرے میں یہ بد بخت لوگ ہیں.تو القوم الکافرین فرمایا گیا ہے.یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ کسی کا فر کونعوذ باللہ خدا ہدایت ہی نہیں دیتا.اگر ہدایت ہی نہیں دیتا تو اس مصیبت کو کھڑا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.خواہ مخواہ کا ہنگامہ برپا کیا، فساد ہوئے اور نتیجہ یہ کہ ہدایت ملنی کسی کو نہیں.اس لیے غلط ترجمہ ہے، اگر کوئی یہ ترجمہ کرتا ہے.القوم الکافرین سے خاص معنی مراد ہے.وہ لوگ جن کا پیشہ بن گیا ہے، مخالفت کرنا، وہ لوگ جن کے مقدر میں انکار ہے.وہ ہمیشہ ہر حال میں تمام انبیاء کے مخاطب میں ضرور کچھ نہ کچھ لوگ رہتے ہیں، جن کو آئمة الكفر فرمایا گیا ہے دوسری جگہ اور آئمة التکفیر بھی کہا جاتا ہے.تو القوم الکافرین سے مراد یہ ہے کہ تمہارے مقابلہ پر ایک جماعت لازماً ایسے شدید مخالفین کی رہے گی، جن کو تمہارا حسن خلق تبدیل نہیں کر سکے گا.اور کوئی بھی تم طریق کار اختیار کرو، وہ تبلیغ ان پر اثر نہیں کرے گی.لیکن ان کی وجہ سے باقی قوم کومحروم نہیں ہونے دیا جائے گا.اس لیے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ باوجود ایسے شدید ٹولے کو اپنے سامنے صف آراء دیکھتے ہوئے ، ایسے شدید معاندین کو اپنے سامنے ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ہر قسم کی ایذاء دہی پر آمادہ پاتے ہوئے تم جب صف آراء دیکھو گے تو حوصلہ نہیں ہارنا.ہمیں پتہ ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں، ہمیں علم ہے خدا نے ہدایت دینی ہوتی ہے.خدا جانتا ہے کہ ان لوگوں کو وہ ہدایت نہیں دے گا.اس کے باوجود یہ حکم ہے کہ تم نے تبلیغ سے باز نہیں آنا.کیونکہ قوم کی جو دوسری اکثریت ہے بھاری، جس کو القوم الکافرین نہیں کہا جا سکتا، نادان ہیں، لاعلم ہیں، جاہل ہیں، ان کو ہدایت نصیب ہو جائے گی.پس اس لئے یہ مضمون اس شکل میں مکمل ہوتا ہے.تبلیغ میں حسن خلق کو بھی بہت دخل ہے اور جتنا آپ کے دل میں نرمی ہوگی ، بنی نوع انسان کی ہمدردی ہوگی ، سچائی سے پیار ہوگا، تقویٰ ہوگا، خدا کا خوف ہو گا دل میں اور حسن خلق اس کے علاوہ بھی ہوگا.اگر چہ انہی چیزوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن عام بنی نوع انسان نہ تقویٰ کو دیکھ سکتے ہیں ، نہ خوف خدا کو دیکھ سکتے ہیں دوسرے رنگ میں، نہ آپ کے دل کے اندر جھانک کر آپ کی خوبیوں کو دیکھ سکتے ہیں لیکن انہی جڑوں میں سے کچھ شاخیں پھوٹتی ہیں، جس کو عرف عام میں اخلاق کہتے ہیں.اور تقویٰ کی بنیاد پر جو اخلاق قائم ہوتے ہیں، وہ عام دنیا کے اخلاق سے بہت بہتر ہوتے ہیں، بہت گہرے اور بہت مستقل 107

Page 117

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ہوتے ہیں.تو جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے، حسن خلق بہت ہی ضروری ہے.لیکن صرف حسن خلق کافی نہیں.یہ غلط فہمی بھی دل سے نکال دیں.کئی احمدی کہتے ہیں کہ ہم اپنے اخلاق سے تبلیغ کر رہے ہیں.اور جو شکایت مجھے معلوم ہوئی، اس میں یہ بھی محاورہ شامل کیا گیا تھا کہ فلاں مبلغ نے علاقے میں اچھا بھلا امن بر باد کر دیا، آگ لگادی وہاں، حالانکہ ہم نے اسے متنبہ بھی کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ ہم بہت حسن خلق سے خاموش تبلیغ کر رہے ہیں اور کسی مزید شور ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے.حسن خلق کا انکارت ممکن ہی نہیں ہے.ایک بہت ہی بڑا اور موثر ہتھیار ہے، جس کے ذریعہ تبلیغ پھل لاتی ہے.اس میں کوئی شک نہیں.لیکن محض حسن خلق اور زبان سے خاموشی، یہ تونہ انبیاء کا دستور ہے، نہ کوئی معقول آدمی اسے تسلیم کر سکتا ہے کہ اس طرح تبلیغ پھیل جائے گی.اگر خدا تعالیٰ نے صرف حسن خلق سے کام لینا ہوتا اور بلغ کے حکم کی ضرورت نہ ہوتی تو آپ کے خلق کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق سے کیا نسبت ہے.چه نسبت خاک را به عالم پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حسن اخلاق لے کر آپ دنیا میں تبلیغ کریں گے؟ تمام انبیاء حسن خلق سے آراستہ تھے اور اپنے اپنے زمانے میں اپنے اپنے عالم میں اخلاق میں بہترین تھے، سب سے بلند تر مقام پر فائز تھے.ان کو خدا نے کیوں نہیں کہہ دیا کہ حسن خلق لے کر چلو اور کسی تبلیغ کی ضرورت نہیں.اس لیے یہ بات درست نہیں ہے آپ کی کہ خالی حسن خلق کافی ہوا کرتا ہے.یہ تو ایک بزدلی کا بہانہ ہے ، یہ تو ایک گریز کی راہ ہے، جو بعض لوگ اختیار کرتے ہیں.پس جو کمزور ہیں اور جو بزدل ہیں، وہ ایک طرف ہٹ جائیں.جماعت تو لازما آگے بڑھے گی.کتنی دیر ہوگئی ہے آپ کو اس ذلت اور رسوائی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہوئے.جب تک آپ تھوڑے رہیں گے، آپ کو ہر وقت کا فرعون حقیر گردانے گا اور آپ پر ظلم کرے گا.اور سب سے بڑا آپ پر ظلم یہ کرے گا کہ آپ کے مقدس اور پیارے بزرگوں کو گندی گالیاں دے گا اور آپ کچھ کر نہیں سکیں گے.کرنا چاہیں گے بھی تو خدا کی تعلیم آپ کو کچھ نہیں کرنے دے گی.دکھ آپ کا بڑھتا رہے گا اور آپ حیران ہوں گے کہ ہمیں اس دکھ میں کیوں مبتلا کیا گیا ہے؟ کیوں اس دکھ کو دور کرنے کی راہ ہمارے لیے بند کر دی گئی ہے؟ جب ہم تیار ہیں اپنی گردن کٹوانے کے لیے اور دوسروں کی گردن کاٹنے کے لیے اور خدا کے نام پر اور خدا کی غیرت کی خاطر ہم یہ چاہتے ہیں تو اس سے کیوں روکا گیا ہے؟ اور اگر اس سے روکا گیا ہے تو خدا ان لوگوں کو کیوں کھلی چھٹی دے رہا ہے؟ اس لیے دے رہا ہے کہ آپ کو دکھوں میں مبتلا کر کے آپ کو یاد 108

Page 118

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1985ء کروائے کہ آپ دنیا کی تقدیر بدلنے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں.جب تک آپ تبلیغ کے ذریعہ عالمی انقلاب برپا نہیں کر لیتے ، آپ کو لازماً اس دکھ کی زندگی میں سے گزرنا پڑے گا.اور ہم کوئی چارہ نہیں رہنے دیں گے تمہارے لئے ، کوئی راستہ نہیں چھوڑیں گے تمہارے لئے.یا ہمیشہ کے لیے دکھوں اور ذلت کی زندگی قبول کر لو یا تبلیغ کرو اور دنیا میں انقلاب برپا کر دو، تیسری راہ ہی کوئی نہیں.پس یہ ہے جماعت احمدیہ کا منصب اور جماعت احمدیہ کا مقام.پس اگر دکھ ہیں دنیا میں ، اگر دکھ پہنچانے کی اجازت دے رہا ہے خدا تعالیٰ تو آپ کو یاد دہانی کرواتا ہے.اور ہر دفعہ جب یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے تو قرآن کریم آپ کو متنبہ کر رہا ہوتا ہے، ہم نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ فرعون نے یہ کہا تھا كه يه لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ ہیں، یہ ہمارے لئے غیظ دلانے والے ہیں.تو جب تک تم تھوڑے ہو تم غیظ دلاتے رہو گے.تمہارا تھوڑا ہونا تمہارا کمزور ہونا ہی غیظ کا موجب ہے.ورنہ تم میں قصور کوئی نہیں ہے.جو قصور دشمن کو نظر آرہا ہے، وہ تو یہی ہے.تو اس قصور کو درست کرو.اور وہ تبلیغ کے سوا درست نہیں ہوسکتا.اس لیے ایک ہی راہ ہے ہمارے لئے ، جو احمدی جہاں تک بس پاتا ہے، جہاں تک اس کی پیش جاتی ہے، اپنے گرد و پیش، اپنے ماحول میں، ہر جگہ انقلابی رنگ میں ایک وقف کی صورت میں تبلیغ شروع کر دے.تب وہ اپنی غیرت کے اظہار میں سچا ہو گا.تب وہ کہہ سکے گا خدا سے کہ اے خدا! اب تو ہمیں ان کے دکھ سے بچا.تیری خاطر جو کچھ ہم سے ہوسکتا تھا، وہ ہم کر رہے ہیں.جس کی تو نے اجازت نہیں دی تھی ، وہ ہم نہیں کر رہے.اب تو ہمیں اس دل آزاری سے محفوظ رکھ.پھر خدا دیکھیں کس طرح آپ کی تبلیغ میں برکت دیتا ہے.کس طرح آپ کے کمزور بھی ان کے بڑے بڑے طاقتوروں پر غالب آجائیں گے.آپ کے جاہل بھی ان میں سے بڑے بڑے عالموں کے منہ بند کر دیں گے.ایک نیا مضمون تبلیغ کا آپ کے لیے ظاہر ہوگا.زمین بھی آپ کے لیے نرم کر دی جائے گی اور آسمان بھی آپ پر رحمتوں کی بارش برسائے گا.اور ایسی نشو و نما ہوگی آپ کی تبلیغ میں کہ دشمن کے لیے سوائے حسد میں جل جانے کے اور کچھ نہیں باقی رہے گا.آپ دن کو بھی پھولیں گے اور پھلیں گے اور رات کو بھی پھولیں گے اور پھلیں گے.اور صبح کو بھی پھولیں اور پھلیں گے اور شام کو بھی پھولیں گے اور پھلیں گے.کوئی نہیں، جو آپ کی نشو و نما کو روک سکے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اور خدا کرے آپ اپنے منصب اور مقام کو سمجھنے والے ہوں“.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 14 صفحہ 627 تا 640 109

Page 119

Page 120

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 1985ء جماعت احمد یہ تو نیکیوں کا ایک ICEBERG ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 1985ء چنانچہ یہ للہ تعالی کی شان ہے کہ جب سے انہوں نے یہ حرکتیں شروع کی ہیں، باہر نکل کر جماعت کا مقابلہ، اس کثرت سے پاکستانی غیر احمدی احمدیت کی طرف متوجہ ہوئے ہیں کہ بعض تلاش کر کر کے احمدیوں کے پاس پہنچتے ہیں کہ بھئی ہمیں تو لوگ یہ بتا رہے ہیں تمہارے متعلق ، بتاؤ کیا بات ہے؟ کیا قصہ ہے؟ ہر سطح پر جہاں داعی الی اللہ بننے میں لوگوں نے سستی کی تھی ، وہاں ان مولویوں کی کوششوں کے نتیجہ میں جن کو تبلیغ کرنی ہے، وہ خود پہنچ رہے ہیں، احمدیوں کے پاس.ان کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر داعی الی اللہ بنا رہے ہیں.چنانچہ مجھے روز مرہ ایسی اطلاعیں ملتی ہیں.ہم سفر کر رہے تھے، پتہ لگا کہ ہم احمدی ہیں، ہمیں پکڑ لیا کہ بتاؤ ہمیں کچھ کیا مذہب ہے؟ کیا بات ہے؟ کیا اختلاف ہے؟ ہمارے گھر پر آئے ، ہم سے پوچھا.مجلس میں ملے ، ہم سے پوچھا.تو جو تبلیغ نہیں کرتے تھے ، ان سے تبلیغ کروائی جارہی ہے اب.اور اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ میں ایک نیا حوصلہ پیدا ہورہا ہے، نیا ولولہ پیدا ہورہا ہے، علم کا ایک نیا شوق پیدا ہو رہا ہے اور پھر جب وہ ہمیں لکھتے ہیں کہ یہ یہ اعتراض ہیں تو لٹریچر کی ایک طلب پیدا ہو جاتی ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ فلاں فلاں جگہ خلاء ہیں، اس قسم کا لٹریچر تیار ہونا چاہئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لٹریچر کی تیاری کی طرف غیر معمولی توجہ پیدا ہوگئی ہے اور ہر زبان کا یہی حال ہے.کثرت کے ساتھ ترکی زبان کے جاننے والے، یوگوسلاوین جاننے والے، اٹالین جاننے والے، جرمن جاننے والے، ہر زبان کے بولنے والے یہ بھنک سن چکے ہیں کہ کوئی واقعہ گذر رہا ہے.کچھ احمدیت کے اوپر جو مظالم ہوئے ہیں، پاکستان میں کچھ اس کے نتیجہ میں، کچھ علماء کے شور کے نتیجہ میں، کچھ حکومت پاکستان نے جولٹریچر تقسیم کروایا، اس کے نتیجہ میں.اور یہ بھی لوگ بڑے تعجب سے مجھے لکھ رہے ہیں کہ ہم EMBASSIES میں مختلف سفارت خانوں میں مختلف بڑے بڑے افسروں کو جب ملنے جاتے ہیں تو ان کو سب پہلے سے ہی پتہ ہوتا ہے.اس کثرت سے جماعت کا پروپیگنڈا ہوا ہے دنیا میں کہ آپ ارب ہا ارب روپیہ بھی خرچ کرتے تو کبھی اتنے عظیم الشان، اتنے وسیع پرو پیگنڈا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے.111

Page 121

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک عربوں کو جو توجہ پیدا ہوئی ہے، وہ حیرت انگیز ہے.اور مختلف طبقات کو جو پہلے بالکل خالی تھے ہماری تبلیغ سے ، بعض قو میں ہیں، جو خالی تھیں.ان طبقات کو ، ان قوموں کو توجہ پیدا ہوگئی ہے، خدا کے فضل سے.اور ایک عجیب EXCITEMENT کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے احمدیوں میں.اب تو کہتے ہیں کہ اب جلدی ہو، جو کچھ بھی ہوتا ہے.ہمارا علم بڑھے ہمیں کتا بیں زیادہ ملیں ، نئے نئے ذرائع ہاتھ آئیں اور EXCITEMENT کی حالت میں ذہن پھر تدبیریں بھی بڑی سوچتا ہے.چنانچہ عام طور پر جو لوگ خاموش طبیعت کے تھے ، ان کے ذہن میں کوئی ترکیب آیا ہی نہیں کرتی تھی، اب خط آتے ہیں.ایسی ایسی باتیں اللہ تعالیٰ ان کو سمجھاتا ہے کہ پڑھتے ہوئے مزہ آجاتا ہے.ہر آدمی دنیا کے کونے میں بیٹھا ہو، ایک تدبیر کر رہا ہے.اور وہ سوچ رہا ہے کہ کس طرح ان کو شکست دی جائے ؟ اور کس طرح ان سے اس ظلم کا نیکی کے ذریعہ سے انتقام لیا جائے؟ کس طرح ان کو ہر میدان میں مایوس اور نامراد کر دیا جائے.ساری دنیا کا جواحمدی ذہن ہے، جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے ہی چکا ہوا ہے اور صیقل ہے، اس کی ترکیبیں یہاں اکٹھی ہوتی جارہی ہیں اور اس کا نام خلافت ہے.تمام جماعت کا اجتماعی فکر، تمام جماعت کا اجتماعی دل، تمام جماعت کی اجتماعی قوت، تمام جماعت کے اجتماعی احساسات اور ولولے جب یہ ایک دماغ میں اکٹھے ہو جاتے ہیں، جب ایک دل میں دھڑکنے لگتے ہیں، جب ایک خون کی رگوں میں دوڑنے لگتے ہیں تو اس کا نام خلافت ہے.یہ چیز بنائے سے نہیں بن سکتی.کوئی مصنوعی ذریعہ خلافت پیدا ہی نہیں کر سکتا.یہ تو اللہ تعالیٰ کی دین ہے، اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے، جو نبوت کے ذریعہ خلافت کو جاری کرتی ہے.اور پھر ایک وجود بنادیتی ہے لاکھوں کو، جو کروڑوں بھی ہو جا ئیں تو ایک وجودرہتے ہیں.اور ان کی ساری استعداد میں پھر اکٹھی ہوکر مجتمع ہوتی ہیں.ایک مرکز پر اور پھر مزید صیقل ہوکر، دعاؤں کے ساتھ چمک کر پھر وہ انتشار اختیار کرتی ہیں، پھیلتی ہے.ایسی جماعت کو یہ لوگ ہرانے کے لئے نکلے ہیں.جب اپنے محفوظ قلعوں میں بھی لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے.قوانین کی دیوار میں کھڑی کر لیں اپنے ارد گرد اور اس کے باوجود روتے رہے اور آج تک رور ہے ہیں کہ پھر بھی ہم احمدیت کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہے.ہماری دیواروں میں دراڑیں ڈال دی ہیں ان لوگوں نے ، آج بھی تبلیغ جاری ہے.اسی طرح آج بھی Defy کر رہے ہیں ایک آمر کے احکام کو آج بھی اپنے اسلام پر بر ملا عمل کر رہے ہیں، یہ اعلان بھی ساتھ ساتھ ہو رہا ہے.112

Page 122

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 1985ء...پس جب میں نے تحریک کی تو ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی تحریک کی پریس کے لئے اور وہ بھی ضرورت در اصل احمدیت کی فتح کا ایک نشان تھا.ان کی کوششیں، ان کی جہدوجہد مخالفانہ ، جس قدر بھی یہ زور مار سکتے تھے.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کثرت کے ساتھ لٹریچر کی طلب پیدا ہوئی کہ اب ہمارے لیے کہ ممکن نہیں تھا کہ عام جو رسمی ذرائع ہیں، ان کے ذریعہ ہم اس ضرورت کو پورا کر سکیں.ہر روز نئے خیالات دل میں اٹھتے ہیں.ہر روز نئے نئے مضامین اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے، ساری جماعت کے اجتماعی دماغ کو.اور اس کے نتیجہ میں جس طرح ہمیں پہنچنا چاہیے لوگوں تک اس کے لئے لازمی تھا کہ ہم اپنا ایک جدید پریس، اگر پریس نہیں تو جدید کمپیوٹر سے خط و کتابت کا نظام اپنا اختیار کر لیں.کیونکہ زیادہ دیر اسی میں لگا کرتی ہے.میں نے یہ سوچ کر کہ پہلے یورپین تحریک ہے اور بہت غیر معمولی جماعت نے قربانی کی ہے، ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی تحریک کی تھی.اور یہ تو یقین تھا کہ ڈیڑھ لاکھ پونڈ پورا ہو جائے گا.لیکن یہ خیال نہیں تھا کہ اس تیزی سے جماعت اس طرح فدائیت کے ساتھ پیش کرے گی کہ ابھی دو تین ملکوں کا بھی پورا چندہ نہیں ملا.یعنی وعدے نہیں ملے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ، سات ہزار پونڈ کے وعدے ہو چکے ہیں.صرف لندن کے امیر صاحب نے لندن کی جماعت کی طرف سے پچاس ہزار پونڈ کا وعدہ کیا.اور اس میں سے تفصیلی انفرادی وعدے اب تک چونتیس ہزار پاؤنڈ کے مل چکے ہیں.اور ابھی لندن کی بھاری اکثریت حصہ لینے والی باقی ہے.اور انگلستان کی جماعتوں کو چونکہ خطبہ دیر سے پہنچا، ابھی وہاں سے پوری Response نہیں ہوئی.اور ان کے غالباً چودہ ہزار پونڈ کے صرف ابھی تک آئے ہیں وعدے اور صرف انگلستان کے ہی گویا کہ چونسٹھ ہزار پونڈ کے وعدے ہو چکے ہیں.اور باقی جیسا کے میں نے بیان کیا ہے، ابھی آنے والے ہیں.امریکہ پڑا ہوا ہے، کینیڈا پڑا ہوا ہے، پاکستان پڑا ہوا ہے، بہت سے Gulf (خلیج) کے علاقے خالی پڑے ہوئے ہیں ، ابھی تک آسٹریلیا ہے، انڈونیشیا ہے، تمام افریقن ممالک ہیں.تو ابھی تو جماعت کا ایک بہت ہی معمولی جزو ہے، جس نے حصہ لیا ہے.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ایک لاکھ پونڈ سے اوپر وعدے ہو چکے ہیں.اور وصولی بھی تیزی کے ساتھ جاری ہے.اس لیے اس میں تو کوئی وہم کا سوال ہی نہیں کہ ڈیڑھ لاکھ پورا ہوگا یا نہیں ہوگا ؟ مجھے توقع ہے کہ انشاء اللہ ڈیڑھ لاکھ بھی پورا ہوگا اور آگے جو یہ فکر تھی کہ اس کے RUNNING EXPENSES، ماہانہ اخراجات کیسے چلیں گے، وہ بھی انشاء اللہ مزید تحریک کی ضرورت نہیں پڑے گی.اس تحریک سے ہی اللہ تعالیٰ ان کا بھی انتظام فرما دے گا.113

Page 123

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 26 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک یہ ساری برکتیں ہیں اسی مخالفت کی.یعنی ویسے تو اللہ کے فضل کی برکتیں ہیں مگر مخالفت نے بھی ایک حصہ لیا ہے، اس میں.کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کے نام پر آپ کو دکھ دے کر رزق کما رہے ہوں اور ہمارا رزق ساتھ نہ بڑھ رہا ہو.اس لیے ہمارا رزق تو بڑھنا ہی بڑھنا ہے.جب یہ اپنا نا پاک رزق بڑھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمارا پاک رزق بڑی شدت کے ساتھ بڑھانے لگتا ہے.اور یہ ہو نہیں سکتا کہ رزق کی دوڑ میں اللہ تعالی جماعت کے طیب رزق کو ان کے غیر طیب رزق سے پیچھے رہنے دے.اس رزق نے آگے آگے بڑھنا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.اب ایک حصہ رہتا ہے، اس سلسلہ میں، جس کی میں تحریک کرنی چاہتا ہوں.اور وہ ہے اچھی قسم کے Typist (ٹائپسٹ ) کا وقف کرنا.یہ جو Computerise پریس نہیں کہنا چاہئے ، یہ جو لکھنے کا نظام ہم خرید رہے ہیں، ٹائیپنگ کا، اس میں دنیا کی تقریبا تمام زبانیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ Cover ہو جائیں گی.اور جاپانی بھی ، انڈو نیشین بھی Finnish، رشین بھی ، اٹالین ، اردو، ہندی، گورمکھی ہر چیز اس میں cover ہو سکتی ہے.نہایت اعلیٰ ٹائپ ہے اور Computerise ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی اس میں سہولت سیٹنگ (setting) کی غلطیاں نکالنے کی ہر چیز موجود ہے.اور معمولی سی رقم مزید خرچ کرنے پر ایک پوری نئی زبان کے لیے جو مشینری کی ضرورت ہے، وہ ساتھ Attach ہو سکتی ہے.اس لیے اس میں ہمیں اب اچھے کارکنوں کی ضرورت پیش آئے گی.ان سے ہم نے جو جائزہ لیا ہے، ماہرین سے ، وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے ٹائپ میں یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ انسان زبان جانتا ہو.ہم سے یہ فن سیکھ لے اور ہم خود سکھا دیں گے ، اس کو کسی زبان کا ٹائپسٹ ہو، صرف وہ Letters سے، جو حروف لکھے ہوتے ہیں ان سے شناسائی کرلے اور اس کو زبان کے معنی آنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے.یعنی یہاں بیٹھے ہم جو آدمی ٹرینڈ (Trained) کرلیں گے، وہ Finnish زبان میں اس کو دیں کتابیں، وہ تب بھی وہ ٹائپ کرلیں گے، رشین زبان میں دیں، تب بھی ٹائپ کر لیں گے اور کم و بیش اسی رفتار کے اوپر نکال سکتے ہیں.حروف کی شناسائی بس اتنی کافی ہے.تو اس کے لئے بہر حال جماعت احمدیہ کے اندر یہ ہمیشہ دونوں پہلو متوازن رہے ہیں.انفس یعنی نفوس کی قربانی اور اموال کی قربانی.اور یہ ایسی جماعت ہے، جس میں یہ توازن بھی اس کے ایک امتیاز کی علامت ہے.یعنی کبھی آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کی تحریک کی گئی ہو اور 114

Page 124

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 1985ء وہی کافی سمجھی گئی ہو.جان کی قربانی، وقت کی قربانی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ تمام اقدار کی قربانی ساتھ چلتی ہے.اور یہی متوازن شکل ہے روحانی جماعتوں کی ، جو قرآن کریم پیش کرتا ہے.اگر یہ چیزیں ساتھ نہ ہوں تو پھر تو Mercenaries قسم کے لوگ بن جائیں گے.یعنی پیسے کے ذریعہ کام چلانے والے یا پیسے کے ذریعہ اپنی خدمات پیش کرنے والے.اور اس کے نتیجہ میں یہ چونکہ روح ہے جماعت کی کہ وقف ساتھ چل رہا ہے، وقت کا وقف خواہ وہ جزوی ہو، خواہ وہ ساری عمر کا ہو.اس کے نتیجہ میں ایک مخفی دولت ہے جماعت کی ، جو اعداد وشمار میں ظاہر کی ہی نہیں جاسکتی.کروڑوں روپیہ کا اگر چندہ ہے تو کروڑہا کروڑ روپیہ کا وقت ہے جماعت احمدیہ کا اور ان کی صلاحیتیں ہیں، جو دنیا کے معاوضے کے بغیر استعمال ہو رہی ہیں.اگر ان ساری صلاحیتوں کو آپ خریدیں تو کم سے کم تین گنا زیادہ روپے کی ضرورت ہے.اور یہ جو میرا اندازہ ہے، یہ محفوظ اندازہ ہے.پس جماعت احمد یہ تو نیکیوں کا ایک ICEBERG، جس کا 1/3 ظاہر ہو رہا ہوتا ہے اور 2/3 سمندر میں چھپا ہوا ہوتا ہے.دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بس اتنی سی چوٹی ہے.حالانکہ قانون قدرت نے اس کے 2/3 حصہ کو چھپایا ہوا ہوتا ہے، نظر سے.تو بعض لوگ بدیوں کے ICEBERG ہوتے ہیں، وہ جتنا ظاہر کرتے ہیں، اس سے زیادہ بدیاں دل میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے:.وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ (آل عمران: 119) ایسے لوگوں کے دلوں نے جو بدیاں چھپائی ہوئی ہیں، وہ ان سے زیادہ ہوتی ہیں، جو منہ سے بول رہے ہوتے ہیں.اور کچھ لوگ نیکیوں کے ICEBERG ہوتے ہیں، وہ خدا کی راہ میں جتنا پیش کرتے ہیں، اس سے بہت زیادہ ہے، جو مخفی طور پر دے رہے ہوتے ہیں.اور دنیا کو پتہ نہیں لگ سکتا کہ وہ کیا واقعہ ہورہا ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کی ساری تاریخ میں ہر خدمت میں یہ حصہ ایک نمایاں حصہ ہے.جو دراصل برکتوں کا ضامن ہے.اور علاوہ اس وقف کے ساری جماعت مسلسل اپنے وقت کو خرچ کر رہی ہے، خدا تعالیٰ کی خاطر.اور ان ان گنت قطرات کی ہر لمحہ ہونے والی یا ہر روز ہونے والی قربانیوں کو اگر آپ شمار کر لیں اور Convert کرلیں پیسوں میں تو جماعت ایک بہت ہی عظیم الشان دنیا کی طاقت کے طور پر ابھر سکتی ہے.اور یہی وجہ ہے کہ لوگ رعب کھاتے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ بڑا پیسہ ہے جماعت کے پاس.اور احمدی بیچارے سادگی میں کہتے ہیں کہ نہیں، ہم تو بڑی غریب جماعت ہیں، ہمارے پاس کہاں 115

Page 125

اقتباس از خطبه جمعه فرمود 0 26 جولائی 185 *1985 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم سے پیسہ.بھئی تم کہاں سے غریب جماعت ہو گئے تمہاری ساری مجموعی طاقت جو ہے، وہ ایک عظیم طاقتور جماعت کی طاقت ہے.اور اس پر مستزاد یہ کہ اللہ تمہارا ضامن ہے.خدا کی رحمت اور حفاظت کا سایہ تمہارے سروں پر ہے.تم سے زیادہ امیر جماعت دنیا میں ہو ہی کوئی نہیں سکتی.اس لیے کہا کرو کہ ہاں ہم ہیں لیکن اس سے زیادہ ہیں، جتنا تم سمجھ رہے ہو.ہمارے پیچھے تمام دنیا کے خزانوں کے مالک کی طاقتیں بھی شامل ہیں.دنیا کے سب سے قوی ہستی بلکہ کائنات کی سب سے قوی ہستی، وہ جو قوتوں کا سر چشمہ ہے، جس نے سب کچھ پیدا کیا ہے، وہ ہماری پشت پناہی کر رہی ہے.اس لئے نہ ہم غریب جماعت ہیں، نہ کمز ور جماعت ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم نے لازماً آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے.کوئی دشمن نہیں پیدا ہوا اور نہ ہوگا آپ کے دیکھنے میں، نہ آپ کی اولادیں ایساد شمن دیکھیں گی، جو آپ پر غالب آسکے یا آپ کی اولادوں پر غالب آسکے.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، قیامت تک یہی ہے تقدیر خدا کی ، جو جاری ہو چکی ہے اور جاری رہے گی.آپ نے بہر حال بڑھنا ہے، ہر حالت میں بڑھنا ہے.دکھوں میں بھی بڑھنا ہے، سکھوں میں بھی بڑھنا ہے، اندھیروں میں بھی بڑھنا ہے، روشنیوں میں بھی بڑھنا ہے، تکلیف میں بھی بڑھنا ہے، راحت و آرام بھی بڑھنا ہے.بڑھنا آپ کا مقدر ہے اور یہ وہ مقدر ہے، جسے دشمن اب تبدیل نہیں کر سکتا.پس وقف کی یہ چھوٹی سی تحریک بھی میں کرتا ہوں کہ اگر ایسے دوست ہوں، جو ٹائپ کا کام جانتے ہوں اور بے شک ریٹائر ہو چکے ہوں، ان کے اندر خدا تعالیٰ نے صلاحیت بخشی ہو محنت کی تو ایسے دوست وقف کریں.اور ان کو پھر ہم ٹریننگ دیں گے خود.اور میرے ذہن میں یہ نقشہ ہے، جس قسم کا کام جماعت کا پھیل رہا ہے لٹریچر میں کہ ہمیں آٹھ گھنٹے کی شفٹ کی بجائے بہت جلد چوبیس گھنٹے کام لینا پڑے گا اس مشین سے.تو کم از کم ہمیں تین شفٹیں چاہئیں.ایک ٹائپسٹ آئے جگہ چھوڑے تو دوسرا اس کی جگہ آ جائے، پھر اس کی جگہ تیسرا آجائے.اور اس طرح تین یا چار یا جتنی دیر بھی ہم معلوم کر لیں گے زیادہ EFFICIENCY کے ساتھ کوئی شخص ٹائپ کر سکتا ہے، اتنے آدمی ہم رکھیں گے.ضروری نہیں کہ آٹھ گھنٹے کی ہی شفٹ ہو.اگر تین گھنٹے میں بھر پور کام ملتا ہے تو تین تین گھنٹے کے بعد بدلنا پڑے گا.تو ہمیں ایک ٹیم چاہئے.اور ایک کمپوٹرکا ماہر بھی چاہیے، جو Over all نگرانی کرے، اس کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر دیکھیں آپ کس طرح ساری دنیا میں لٹریچر پھیلتا ہے.اب آپ تیاری کریں، اپنی دعوت الی اللہ 116

Page 126

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 1985ء میں بھر پور حصہ لینے کی.پہلے جو یہ شکوے ہوا کرتے تھے کہ جی ہمارے پاس ہے کچھ نہیں دینے کے لیے تو دینے کے لیے بہت کچھ خدا نے تیار کروا دیا ہے اور ہورہا ہے.پس اب تبلیغ شروع کر دیں.جس قوم کا آدمی آپ کو ملے گا، انشاء اللہ اس قوم کا لٹریچر آپ کو مہیا کر دیا جائے گا.جس قوم کی زبان جاننے والا آدمی آپ کو ملے گا ، اس قوم کی کیسٹ بھی مہیا کر دی جائے گی ، اس قوم کی وڈیو بھی مہیا کر دی جائے گی.اور خدا کے فضل سے ان چیزوں کا حالانکہ ابھی آغاز ہے، ابھی سے بہت ہی اچھا پھل ہمیں ملنا شروع ہو گیا ہے اور بیعتوں میں ساری دنیا میں بہت نمایاں اضافہ ہے.الحمد لله رب العلمین (مطبوعہ خطبات طاہر جلد 14 صفحہ 641 تا 653) 117

Page 127

Page 128

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد من خلاصه خطاب فرمودہ 27 جولائی 1985ء دنیا کے ہر ملک میں بسنے والا احمدی اپنے ماحول کو اسلامی معاشرہ کا نمونہ بنادے خطاب فرمودہ 27 جولائی 1985ء حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے احمد یہ سمر سکول اسلام آباد یو کے برائے طالبات کا افتتاح فرماتے ہوئے انگریزی زبان میں جو خطاب فرمایا، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.حضور نے کلاس کے کامیاب آغاز پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کلاسوں کی یورپ میں ایک لمبے عرصہ سے شدید ضرورت محسوس ہو رہی تھی لیکن ہمارے پاس کوئی مناسب جگہ نہ تھی.تربیت کا مسئلہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے.کیونکہ ہم جس تہذیب اور معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس کی بعض باتیں ایسی ہیں کہ یا تو ہمیں ان باتوں کو مغربی تہذیب پر مقدم رکھنا ہوگایا شکست تسلیم کرنی ہوگی.اس میں کسی موافقت کی گنجائش نہیں.پس موزوں جگہ میسر نہ ہونے کہ وجہ سے یہاں ہم اسلامی تہذیب اور معاشرہ کے حسن و خوبی کو پوری طرح اپنی آئندہ نسل کے سامنے عملی طور پر پیش نہیں کر سکتے تھے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام زندگی کی تمام لذتوں اور مسرتوں کو جائز قرار دیتا ہے، جو انسان کے لئے مفید ہیں اور صرف ان چیزوں سے منع کرتا ہے، جو بالآخر انسان کو تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کرتی ہیں.آج اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ وہ اسلامی تہذیب اور معاشرہ کی برتری کو قائم کرے.پس ہماری آئندہ نسل اور بالخصوص احمدی لڑکیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی تہذیب کی خوبیوں کو ذاتی علم اور ذاتی تجربہ کی روشنی میں دنیا کے سامنے پیش کریں.انیسویں صدی کے آخر میں اور حضرت مسیح موعود کی آمد سے قبل اسلامی دنیا کی حالت یہ تھی کہ وہ دو حصوں میں بٹ چکی تھی.کچھ لوگ ماڈرنسٹ کہلائے، جنہوں نے مغربی تہذیب کی خوبیوں کو عیسائیت کی خوبیاں سمجھ لیا اور اسلامی معاشروں کی خامیوں کو اسلام کی خامیاں تصور کر لیا.حالانکہ دونوں باتیں درست نہ تھیں.کیونکہ مختلف اسلامی ملکوں میں جو تہذیبیں نظر آ رہی ہیں، وہ ایک دوسرے سے مختلف تھیں اور ان پر جو اپنے مخصوص علاقہ کے قبل از اسلام تمدن کا گہرا اثر تھا.مثلاً ہندوستان کے مسلمان شادی بیاہ اور وفات کی رسوم کے لحاظ سے ہندو معاشرہ سے گہرے طور پر متاثر ہوئے.اور یہی حال دوسرے مسلمان ممالک کا 119

Page 129

خلاصه خطاب فرمودہ 27 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم تھا.اس کے برعکس موجودہ مغربی تہذیب عیسائیت سے غیر عیسائیت کی طرف جانے کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی ہے.اور دن بدن یہ لوگ عیسائیت سے دور سے دور تر جارہے ہیں.اور موجودہ مغربی تہذیب سیاسی غلبہ اور سائنسی علوم میں ترقی کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئی، نہ کہ عیسائیت کی وجہ سے.لیکن بد قسمتی سے بہت سے مسلمان اس بات کو سمجھ نہ سکے اور انہوں نے اپنے معاشرہ کی کمزوریوں کو اسلام کی طرف منسوب کر دیا..اور اس طرح وہ اسلامی تعلیم سے بیزار ہو کر مغربی تہذیب کی طرف مائل ہونے لگے.اس کے بالمقابل مسلمانوں کا دوسرا طبقہ مغربی تہذیب کی ہر بات کی مخالفت کرنے لگا اور اچھی باتوں سے بھی نفرت کرنے لگا.اور یہ لوگ محب وطن کہلانے لگے.یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے مذہب کے نام پر اپنی مستورات کو اور بھی پسماندگی کی طرف دھکیل دیا.ایسے لوگ اسلام، ہندومت اور سکھ مت ، سب مذاہب میں پائے جاتے تھے.چنانچہ 19 ویں صدی کے آخر میں بہت سے ایسے مصنفین ملتے ہیں، جنہوں نے بالخصوص طبقہ نسواں کی پسماندگی کا نقشہ ایسے رنگ میں پیش کیا ہے کہ پڑھنے والا چیخ اٹھتا ہے اور اس پسماندگی کا ذمہ دار ہمیشہ مذہب کو ٹھہرایا گیا.یہی وجہ ہے کہ لوگ مذہب سے بیزار ہونے لگے اور مغربی تہذیب کے دلدادہ ہو گئے.ان حالات میں حضرت مسیح موعود کے بابرکت وجود کی شکل میں ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے قادیان نامی گاؤں سے ایک نئی روشنی نمودار ہوئی.آپ کا سب سے بڑا معجزہ، وہ پاکیزہ اورحکیمانہ تعلیم ہے، جو آپ نے دنیا کے سامنے پیش کی.جو کہ اسلام کی ہی تعلیم تھی لیکن اسے غلط طور پر سمجھا اور پیش کیا گیا.حضرت مسیح موعود نے اسلامی تعلیم کی حکمت اور اس کا فلسفہ اس رنگ میں تفصیل سے بیان کیا کہ وہی مستورات ، جو پہلے مذہب سے متنفر تھیں، وہ اسلام کی تعلیم پر خوشی سے عمل کرنے لگیں.انہوں نے جائز باتوں کو اختیار کیا اور نا جائز باتوں سے اجتناب کر لیا.اس کے برعکس غیر احمدی علماء کا رویہ یہ تھا کہ وہ اسلامی احکام کی حکمت بتائے بغیر صرف یہ کہتے تھے کہ یہ حکم ہے ، اگر عمل نہیں کرو گے تو جہنم میں جاؤ گے.اور اگر ہماری بات نہیں مانو گے تو ہم تمہارے خلاف معاشرہ میں ایسی نفرت پیدا کردیں گے کہ لوگ تمہارے گھروں اور تمہاری املاک کو تباہ کر دیں گے.حضرت مسیح موعود کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی کا یہ اثر ہوا کہ مغربی دنیا پہلی مرتبہ اسلام کی تعلیم کو اخلاقی نقطہ نگاہ سے سوچنے اور مجھنے لگی.حضرت مسیح موعود کا یہ لیکچرا ہور میں جس کا نفرنس میں پڑھا گیا، اس میں تمام مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذاہب کا نقطہ نگاہ پیش کیا.لیکن حضرت اقدس کے 120

Page 130

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خلاصہ خطاب فرمودہ 27 جولائی 1985ء بلچر سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ پہلے تو بعض دوسرے مذاہب کے نمائندوں نے اپنا وقت حضور کے لیکچر کے لئے دے دیا اور پھر بھی جب لیکچر مکمل نہ ہوا تو سامعین کے اصرار پر کانفرنس کے مقررہ دنوں میں ایک دن کا اضافہ کر دیا گیا.جو کہ بہت غیر معمولی بات تھی.اصل بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس کتاب کو پڑھ اور سمجھ لے تو پھر اس کے لئے کسی بیرونی دباؤ کی ضرورت نہیں ہوگی ، وہ خود بخود اپنی خوشی سے اسلام کی تعلیم پر عمل کرنا شروع کر دے گا.لہذا آپ بھی اس کتاب کا مطالعہ کریں، پھر آپ پر حقیقت حال واضح ہوگی.جماعت احمدیہ میں عورتوں کو پردہ کی اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے کھیلوں اور مباحثوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام صحت مند مشاغل میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے.اور احمدی مستورات نے برقع کے ساتھ مختلف علوم میں اتنی ترقی کی کہ دنیا حیران رہ گئی.انہوں نے ایسی کھیلوں میں بھی حصہ لیا، جنہیں عام طور پر مردوں کی کھیلیں سمجھا جاتا ہے.لیکن یہ سب کچھ کسی کی نقل میں نہیں تھا بلکہ اسلام نے ہی عورت کو یہ حقوق دیئے ہیں.حضرت مسیح موعود کے ظہور کے وقت حالت یہ تھی کہ ایک دفعہ جب حضور امرتسر کے ریلوے اسٹیشن پر اپنی اہلیہ، حضرت اماں جان کے ساتھ چہل قدمی اور گفتگو فرمارہے تھے تو بعض صحابہ نے اس پر تعجب اور پریشانی کا اظہار کیا کہ دوسرے لوگ کیا کہیں گے.لیکن حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی پوچھے تو کہ دو کہ یہ میری بیوی ہے اور بس.نیز یہ فرمایا کہ اسلام نے عورت کو یہ حقوق دیئے ہیں، اس لئے ہمیں اس میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے.اس قسم کے واقعات کے نتیجہ میں احمدیت میں ایک نئے معاشرہ نے جنم لیا، جو بظاہر مغربی تہذیب اور اسلام کا امتزاج معلوم ہوتا ہے.لیکن در حقیقت یہ حقیقی اسلام ہے.جو ہر پہلو سے حسین اور کامل دین ہے.مغربی معاشرہ کا تجزیہ کیا جائے تو بہت سی چیزیں ایسی ہیں، جو اسلام سے پہلے اس معاشرہ میں نہ تھیں اور اسلام سے ہی یہ چیزیں مغربی معاشرہ نے لی ہیں.مثلاً پہلے عورت کو طلاق لینے کا کوئی حق نہ ہوتا تھا.اسی طرح اسلام عورت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ گھر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے کمانے کی ذمہ دار نہیں.اس کے برعکس مرد ذمہ دار ہے اور عورت بچوں کی نگہداشت کی ذمہ دار ہے.اگر چہ عورت کو کام کی اجازت ہے لیکن بچوں کی نگہداشت اس کا اولین فرض ہے.کیونکہ اس نظام قدرت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا کہ عورت ہی اولاد پیدا کرتی ہے اور وہی اس کی پرورش کی زیادہ اہل ہے.اس نظام قدرت کو توڑنے کے نتیجہ میں ہر آنے والی نسل، پہلی نسل سے زیادہ غیر ذمہ دار اور شفقت مادری سے محروم ہوگی اور میاں بیوی کے تعلقات کا توازن بھی مجروح ہو جائے گا.121

Page 131

خلاصہ خطاب فرمودہ 27 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم جماعت احمدیہ کو دیکھ کر اب غیر احمدی حضرات بھی اسلامی معاشرہ کو غیر اسلامی معاشروں سے بہتر قرار دینے لگے ہیں.لیکن وہ صرف تھیوری پیش کرتے ہیں اور ان کے پاس اس موجودہ دور میں کوئی عملی نمونہ نہیں، جو تھیوری کی صداقت میں پیش کر سکیں.جبکہ تھیوری ایک خواب ہوتی ہے اور نمونہ حقیقت ہوتی ہے.اور خواب میں انسان خواہ ساری دنیا کا مالک بن جائے لیکن ایسی خواب کی خاطر انسان ان دو پونڈ زکو بھی چھوڑنے کو تیار نہ ہوگا، جو حقیقتاً اس کے پاس موجود ہیں.جماعت احمدیہ نے تھیوری کے ساتھ ساتھ قادیان اور ر بوہ کی صورت میں اسلامی معاشرہ کا نمونہ بھی پیدا کیا ہے.لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں بسنے والا احمدی اپنے ماحول کو اسلامی معاشرہ کا نمونہ بنا دے.اور اسی مقصد کے پیش نظر اس سمر سکول کا اجراء کیا گیا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب میں نے اس کلاس کا پروگرام دیکھا تو میں نے ہدایت کی کہ اس میں تیراندازی، نشانه بندوق، تیرا کی، کرائے اور مارشل آرٹس کی کھیلوں کو بھی شامل کیا جائے.اور میں نے بتایا کہ حضرت مصلح موعود کا طریق یہ ہوا کرتا تھا کہ آپ اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو تمام صحت مند مشاغل زندگی میں لینے کی نہ صرف اجازت دیتے تھے بلکہ خود بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے تھے.علاوہ ازیں بچپن سے ہمارے دلوں میں اس بات کو راسخ کیا کہ تکلیف کے وقت سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرو اور اس سے دعا کرو.کیونکہ خدا تعالیٰ ایک زندہ حقیقت ہے.حضرت مصلح موعودؓ کی اس تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ آپ کی بیٹیاں امریکہ اور یورپ کے مغربی معاشروں میں گئیں اور انہوں نے تمام صحت مند دلچسپیوں میں پورا پورا حصہ لیا لیکن انہوں نے برقع نہیں چھوڑا.اس لئے نہیں کہ ان کے خاوند اسے ناپسند کرتے تھے بلکہ اس لیے کہ انہیں حقیقی راحت اور خوشی بھی اسی میں ہی محسوس ہوئی.قادیان میں لڑکیوں کا عمومی معیار ایسا تھا کہ تعلیم یافتہ لوگ ہمیشہ قادیان میں رشتہ کے خواہش مند ہوا کرتے تھے.کیونکہ قادیان کی لڑکیاں زیادہ تعلیم یافتہ سمجھدار، سلیقہ شعار گھل مل جانے والی اور ہر قسم کی عمومی معلومات رکھنے کی وجہ سے خاوندوں کے ساتھ تمام موضوعات پر تبادلہ خیال کرنے کی اہلیت رکھتی تھیں.یہاں، اس کلاس میں اگر چہ وہ ساری چیزیں یک دم تو پیدا نہیں کی جاسکتیں لیکن آپ کو کسی قدر اندازہ ہو جائے گا کہ احمدی لڑکیوں کی نشو و نما کس رنگ میں ہونی چاہئے.انتظامات میں آپ کو کچھ نقائص بھی نظر آئیں گے لیکن اسے نظر انداز کر دیں.اور آئندہ سال انشاء اللہ تعالیٰ مزید بہتر انتظامات ہوں گے.وہ عورتیں، جو قید کرنے میں فراخ دل اور تعریف کرنے میں کنجوس ہوتی ہیں، وہ اپنے گھروں میں 122

Page 132

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 27 جولائی 1985ء کبھی خوش نہیں رہ سکتیں.اس لئے آپ اپنے اندر یہ کمزوری پیدا نہ ہونے دیں.لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ غلطیوں کو نوٹ کریں اور ان سے سبق سیکھیں اور آپ اپنی زندگی میں ان باتوں سے اجتناب کریں.لیکن بعض لوگ اس کے برعکس عمل کرتے ہیں.وہ تنقید تو ضرور کریں گے لیکن اس قسم کے حالات میں خود بھی وہی غلطیاں دہرائیں گئے.آخر میں فرمایا:.کلاس کے اختتام پر جب آپ اپنے گھروں میں جائیں گے تو جو باتیں یہاں سیکھی ہیں، ان کو یا درکھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں.اور اس طالبعلم کی طرح نہ کریں ، جو اپنا آخری امتحان دے کر جب گھر جاتا ہے تو اپنے دماغ سے پڑھائی کے بوجھ کو اتار پھینکنا چاہتا ہے.یہاں آپ اس قسم کی پڑھائی کے لئے نہیں آئیں اور نہ اس طرح کا کوئی امتحان ہوگا.یہاں آپ ایسا سبق سیکھنے آئی ہیں، جسے آپ ہمیشہ محفوظ رکھیں اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنالیں اور جب آپ واپس جائیں تو آپ کے والدین اور آپ کی سہیلیاں آپ کو ایک تبدیل شدہ شخصیت میں پائیں.جو زیادہ دلکش اور پسندیدہ ہو، جو زیادہ فراخدل ہو ، جو دوسروں پر زیادہ احسان کرنے والی اور دوسروں سے کم احسان کی توقع رکھنے والی ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فضلوں سے نوازے.آمین.مطبوعہ ہفت روزہ النصر 16 اگست 1985ء) 123

Page 133

Page 134

تحریک جدید- ایک الہی تحریک پیغام فرمودہ 28 جولائی 1985ء ہمدردی کا تقاضا ہے کہ بنی نوع انسان کی روحانی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کریں پیغام فرمودہ 28 جولائی 1985 ء بر موقع یور چین اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ یوکے بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحیم کے ساتھ هو الناصر مجھے یہ معلوم کر کے از حد خوشی ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان، یورپ کی مجالس خدام الاحمدیہ کے دوسرے اجتماع کے موقع پر ایک سود نیئر شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو تمام یورپ کے لئے عظیم روحانی انقلاب کا پیش خیمہ بنادے.اور نوجوانان احمدیت کو ایساز بر دست جوش، غیر معمولی ولولہ اور بے مثال جذ بہ عطا فرمائے کہ وہ مستقبل کی ہر ذمہ داری کو کمال خوبی کے ساتھ ادا کر سکیں.امین.میرے نہایت پیارے عزیز و! درخت مسیح موعود کی سرسبز شاخو!! اور احمدیت کے نونہالو!!! ہمارے محبوب امام حضرت امیر المؤمنین مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1937ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیا د رکھی اور احمدی نوجوانوں کو خدام الاحمدیہ تجویز فرمایا.تا احمدیت کے معیار کے مطابق صرف اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنی جماعت ہی کی نہیں، پوری دنیا کی خدمت کرنے والے ہوں.میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس عظیم الشان نصب العین کی تکمیل کے لئے آپ کی نظر ہمیشہ سید نا حضرت مسیح موعود اور مهدی مسعود علیہ السلام کے اس ارشاد پر رہنی چاہیے:.وو چاہیے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودار ہو.اور تمہاری پیشانیوں میں اثر سجود نظر آوے.اور خدا تعالیٰ کی بزرگی تم میں قائم ہو.اگر قرآن اور حدیث کے مقابل پر ایک جہان عقلی دلائل کا دیکھو تو ہر گز اس کو قبول نہ کرو.اور یقینا سمجھو کہ عقل نے لغزش کھائی ہے.تو حید پر قائم رہو اور نماز کے پابند ہو جاؤ.اور اپنے مولائے حقیقی کے حکموں کو سب سے مقدم رکھو.اور اسلام کے لئے سارے دکھ اٹھاؤ“.(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 452 روحانی خزائن جلد 3 صفحه 552) 125

Page 135

پیغام فرمودہ 28 جولائی 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد هفتم یورپ کے احمدی نوجوانوں کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ زندگی بھر اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور کچی غم خواری میں وقف رہیں.اور نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے عمل سے اور پاک نمونہ سے ثابت کر دیں کہ انسانی تعلقات کے دائرہ میں بھی اسلام کی تعلیم ہر دوسری تعلیم سے کردیں افضل واعلیٰ اور اکمل اور احسن ہے.حضرت اقدس مسیح موعوداس تعلیم کا نچوڑ چند فقروں میں یہ بیان فرماتے ہیں:." قرآن انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو بلکہ وہ کہتا ہے کہ چاہئے کہ نفسانی رنگ میں تیرا کوئی بھی دشمن نہ ہو اور تیری ہمدردی ہر ایک کے لئے عام ہو.مگر جو تیرے خدا کا دشمن، تیرے رسول کا دشمن اور کتاب اللہ کا دشمن ہے، وہی تیرا دشمن ہوگا.سو تو ایسوں کو بھی دعوت اور دعا سے محروم نہ رکھ.اور چاہیے کہ تو ان کے اعمال سے دشمنی رکھے، نہ ان کی ذات سے.اور کوشش کرے کہ وہ درست ہو جائیں.اور اس بارے میں فرمایا ہے:.إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَابْتَائِ ذِي الْقُرْبَى یعنی خدا تم سے کیا چاہتا ہے؟ بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو، جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو.جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں.کیونکہ احسان میں ایک خود نمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے.اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے.لیکن وہ ، جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے، وہ کبھی خودنمائی نہیں کر سکتا.پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے، جو ماں کی طرح ہو..(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 30,31) بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ان کی مادی فلاح و بہبود سے بڑھ کر ان کی روحانی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کریں.اور اس کوشش میں اپنے آقا و مولی پیغمبر کامل حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلوب سیکھیں اور آپ ہی کے رنگ پکڑیں.جس طرح آپ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے ہمہ وقت غم وفسردگی میں مبتلا رہتے تھے اور اپنی جان کو یہ ایک روگ سال گار کھا تھا.126

Page 136

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام فرمودہ 28 جولائی 1985ء چاہیے کہ آپ میں سے بھی ہر ایک اس جانکا ہی اور دلسوزی کے ساتھ فریضہ تبلیغ ادا کرے.اور چین سے نہ بیٹھے، جب تک مغرب سے سچائی کے سورج کے طلوع ہونے کے آثار ہویدا نہ ہو جائیں.اور وہ صبح صادق نمودار نہ ہو جائے ، جس کی بشارت مخبر صادق نے ہمیں 1400 برس پہلے دی تھی.مغرب سے اس طلوع آفتاب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:."" اس عاجز پر جو ایک رویا میں ظاہر کیا گیا، وہ یہ ہے، جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی ، جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں، آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا.اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے، جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے.اور ان کے رنگ سفید تھے اور شائد تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہو گا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راست باز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے.در حقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے.گویا خدا تعالیٰ نے دین کی تمام معقل ایشیا کو دے دی.اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو.نبیوں کا سلسلہ بھی اوّل سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے.اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے.(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 276,277 روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 376,377) پس اے میرے عزیزو! آپ کامل یقین اور توکل اور صبر اور استقلال اور جانسوزی اور وفاداری کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے ان روشن دنوں کو قریب تر لانے کی کوشش کرتے رہیں، جن کا آنا آسمان پر مقدر ہو چکا ہے.اور دعا سے بھی کسی وقت غافل نہ رہیں.کیونکہ یہ دعا ہی ہے، جو ہماری کوشش کے بے رنگ خاکوں میں کامیابی کے رنگ بھرتی ہے.اور ہمارے منصوبوں کی بے جان تصویروں کو زندگی عطا کرتی ہے.بظاہر یہ کام ہماری طاقت سے بڑھ کر اور سخت مشکل بلکہ محال نظر آتا ہے.مگر بہر حالت یہ ہو کر رہے گا.یہ ایک تقدیر مبرم ہے، جسے کوئی ٹال نہیں سکتا.127

Page 137

پیغام فرمودہ 28 جولائی 1985ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا.اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے کہ تو بہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے، جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں.اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا، نہ کندہ ہوگا، جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دئے“.الاشتہار مستیقناً بوحی اللہ القہار مورخہ 14 جنوری 1897ء مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفح 304,305 بحوالہ تذکرہ صفحہ 244) | 128 والسلام خاکسار (دستخط) مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ۲۸ و فا ۱۳۶۴ همش بمطابق 28 جولائی 1985ء ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 11 اپریل 1986 ء ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید تمبر 1985ء)

Page 138

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 15 اگست 1985ء مذہبی تحریکوں کی ایک کامیابی ، دوسری کامیابی کی محرک ہوتی ہے خطاب فرمودہ 15 اگست 1985ء سمر کلاس برائے طالبات برطانیہ کی اختتامی تقریب کے موقع پر حضرت خلیفة الرابع رحمہ اللہ نے جو خطاب فرمایا، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:.حضور نے فرمایا:.تمام تعریفیں محض اور محض خدا تعالیٰ کے لئے ہیں.اس نے اپنی رحمت ہر جگہ اور ہر ایک پر نازل فرمائی ہے.اور خصوصاً جماعت احمدیہ کے ساتھ اس کا انتہائی رحمت کا تعلق ہے.اس لئے ہم خواہ اس کا کتنا ہی شکر ادا کریں، اس کا حق ادا نہیں کر سکتے.کلاس کی کامیابی سے متعلق فرمایا:.و بفضل خدا یه کلاس ہماری توقعات سے بہت بڑھ کر کامیاب ہوئی ہے.ہمیں خدشہ تھا کہ شاید اس کلاس میں شامل ہونے والی بچیاں اس میں بعض نقائص پائیں.اور یہ بھی ڈر تھا کہ ہو سکتا ہے، منظمات و کارکنات بعض وجوہات کی بناء پر کما حقہ اپنے فرائض ادانہ کر سکیں.مگر یہ تمام خدشات خدا تعالیٰ کے فضل سے غلط ثابت ہوئے.احمدی خواتین کا یہ کردار قابل فخر ہے کہ انہوں نے بھر پور عزم کے ساتھ جملہ فرائض کو ادا کیا“.حضور نے فرمایا:.” میرے لئے ہمہ وقت مصروفیات کے باعث یہ ممکن نہ تھا کہ زیادہ وقت دے سکتا، اس لئے صرف چار پانچ دن کے لئے ہی آسکا.چنانچہ میں نے ہر بچی کو خوش پایا.اور یہ خوشی کوئی رسمی نہیں تھی بلکہ حقیقی مسرت تھی.اور جب میں نے بچیوں سے اس کلاس کے بارہ میں پوچھا تو ان کے ریمارکس انتہائی خوش کن تھے.خصوصاً عزیزہ عائشہ ، جو ہمارے سوئس احمدی مکرم رفیق چانن صاحب کی صاحبزادی ہیں، اسے جب میں نے پوچھا کہ تم نے اس کلاس سے کیا استفادہ کیا ؟ تو اس نے کہا:.This class has shown me where i belong.کہ اس کلاس نے مجھے یاد کرا دیا ہے کہ میں کن لوگوں میں سے ہوں.129

Page 139

خلاصه خطاب فرمودہ 15 اگست 1985ء حضور نے فرمایا کہ دو تحریک جدید - ایک البی تحریک یہ اتنا پیارا تبصرہ تھا کہ اس نے تمام حقیقت کو آشکار کر دیا.اور یہ سادہ اور چھوٹا سا فقرہ اس حقیقت حال سے معمور اور معنی خیز تھا کہ اس سے بہتر الفاظ میں کسی طرح تسلی نہیں ہو سکتی تھی.فرمایا:.ان کے علاوہ منتظمات اور منتظمین سب اس کلاس کی کامیابی سے خوش تھے اور ہر ایک کو اس پر تسلی تھی.اور یہ ہمارے لئے ایک انعام کے طور پر ہے.مذہبی تحریکوں کا انعام ایک موقع کی کامیابی کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو جاتا.بلکہ ایک کامیابی دوسری کامیابی کی اور ایک خوشی دوسری خوشی کی اور ایک انعام دوسرے انعام کا محرک ہوتا ہے.اور یہ از دیاد ایمان کا موجب ہوتا ہے.حضور نے مزید فرمایا کہ 66 یہ امر بھی خوشی کا باعث ہے کہ جب آپ گھر جائیں گی تو پہلے سے بہتر وہ عظیم ہوں گی.اور اپنے مستقبل کی ذمہ داریوں کو احسن طور پر نبھانے میں آپ کے لئے یہاں کی تربیت اور تعلیم مد ہوگی.انشاء اللہ.فرمایا:."آپ سب کے ہم مشکور ہیں کہ آپ نے اس کلاس کو کامیاب بنانے میں حصہ لیا.اور میں سب کے لئے دعا گو ہوں گا.انشاء اللہ.حضور نے فرمایا:.دو بعض وجوہات کے پیش نظر میرا یہ یقین ہے کہ یہ پیج جو بویا گیا ہے، یہ اب بڑھے گا اور ہم اس درخت کے ثمرات حاصل کریں گے.اور اللہ تعالیٰ ہماری عاجزانہ کوششوں کو بار آور فرمائے گا.اور ہماری اولادیں مستقبل میں ان ثمرات سے متمتع ہوں گی.فرمایا کہ یہی نہیں کہ صرف آئندہ نسلیں ان سب مسائی کے پھل کھائیں گی بلکہ ہم خود بھی ان کے پھلوں سے متمتع ہوں گے.کیونکہ روحانی کوششوں کے پھل اسی وقت بھی ظاہر ہوتے ہیں اور مستقبل میں بھی ظاہر ہوتے رہتے ہیں.اس پر حضور نے اس بادشاہ کا واقعہ سنایا، جس نے ایک بوڑھے شخص کو کھجور کا درخت اگاتے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ تم اس عمر یہ درخت لگا رہے ہو، یہ تو بہت مدت کے بعد پھل دیتا ہے.اس کے جواب میں 130

Page 140

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم خلاصه خطاب فرمودہ 15 اگست 1985ء اس شخص نے کہا کہ ہمارے بڑوں نے درخت لگائے تو ہم نے پھل کھائے.ہم لگائیں گے تو ہماری اولادمیں ہوا نے اولا دیں کھائیں گی.اس بات پر بادشاہ خوش ہوا اور اسے انعام دیا.اس شخص نے کہا، آپ کہتے تھے کہ تم اس کا پھل حاصل نہیں کر سکو گے.یہ دیکھیں اس کا پھل مجھے ابھی مل گیا ہے.اس پر بادشاہ نے اور انعام دیا.چنانچہ اسی طرح اس بوڑھے نے تین چار مرتبہ انعام حاصل کیا.اور بادشاہ یہ کہہ کر روانہ ہو گیا کہ ہم اسی طرح کھڑے رہے اور اس کے جواب پر انعام دیتے رہے تو ہمارے خزانے خالی ہو جائیں گے اور وہ چل پڑا.وو حضور نے فرمایا:.یہ تو ایک واقعہ کی کہانی ہے.مگر روحانی زندگی میں ایسے واقعات ہم حقیقت کے روپ میں مشاہدہ کرتے ہیں.اور ہر احمدی یہ نظارے دیکھتا ہے کہ جب وہ خدا کی راہ میں کوشش کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کس طرح اس کو اور اس کی نسل در نسل کو اس کے ثمرات عطا فرماتا چلا جاتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے پھلوں کا اختتام نہیں ہوتا“.فرمایا:.وو دعا ہے کہ اللہ تعالی آئندہ کلاسوں کو پہلے سے زیادہ کامیاب کرے.اور آپ سب کو آپ کی کوششوں کے ثمرات سے نوازے اور آنے والی نسلوں کو بھی ان پھلوں سے نوازے.حضور نے فرمایا:.دد میں آپ سب سے خوش ہوں، جو طالبات کے رنگ میں شامل ہوئیں اور ان سے بھی جنہوں نے انتظامات کئے.اور انشاء اللہ تعالیٰ میں آپ سب کے لئے دعا گو رہوں گا“.(مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ انصار الله تمبر 1985ء) 131

Page 141

Page 142

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خلاصہ خطاب فرمودہ 25 اگست 1985ء دعوت الی اللہ کے تین ہتھیار ، دعا تعلق باللہ اور علم خطاب فرمودہ 25 اگست 1985ء بر موقع یورپین اجتماع خدام الاحمدیہ برطانیہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.اس موقع پر یہ مشکل ہے کہ کس زبان میں آپ کو مخاطب کروں.کیونکہ جرمنی سے آئے ہوئے اکثر خدام ایسے ہیں، جو انگریزی بالکل نہیں سمجھتے.اور برطانیہ کے بعض خدام ایسے ہیں، جوار دو بالکل نہیں سمجھتے.اور اصول یہ ہے کہ جہاں ایسی تقریب ہو، وہاں کی لوکل زبان میں سامعین کو مخاطب کیا جائے.ہمارے رسمی اور مستقل قسم کے جلسوں اور پروگراموں میں یہی اصول ہے.لیکن بعض اوقات عالمی تقاضوں کے پیش نظر ایک اور اصول کے تحت پہلے اصول کو نظر انداز بھی کیا گیا ہے.خطبہ جمعہ بھی اس لئے اردو میں دیتا ہوں کہ یہ تمام دنیا کے احمدیوں کا حق ہے.جن کی اکثریت تا حال اردو بولنے اور سمجھنے والی ہے.لیکن یہ اجتماع چونکہ برطانیہ کا ہے، اس لئے آج کا خطاب انگریزی میں کروں گا.مگر اردو بھی ضروری ہے کیونکہ خصوصاً پاکستان کا اردو دان طبقہ اردو خطابات کا متمنی رہتا ہے.نیز حضور نے فرمایا:." آج اردو میں ساتھ ساتھ ترجمہ کرنے کا بندوبست نہیں، لہذا جو بات میں انگریزی میں کہوں گا، اس کو ساتھ ہی اردو میں بھی بیان کر دوں گا.اس اصولی امر کے بعد حضور نے اجتماع کی غیر معمولی کامیابی پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور انتظامات میں حصہ لینے والے دوستوں کے لئے دعا کی اور فرمایا:.ہر احمدی اور خصوصا نو جوانوں پر اس زمانہ میں سب سے بڑا جہاد، سب سے زیادہ اہم کام اور ذمہ داری تبلیغ ہے.یہ تبلیغ ہر دوسرے مذاہب کے افراد کو بھی اور لامذہب شخص کو بھی کرنی ہے.اور تادم واپسیں اس ذمہ داری کی ادائیگی ضروری ہے.پس ہر احمدی تبلیغ میں شامل ہو.اور خصوصاً نو جوانوں پر یہ اہم فریضہ ہے.فرمایا:.یہ محاوره که موت اور زندگی کا سوال ہے میں، میں یہ اصلاح کرتا ہوں کہ احمدی کی زندگی اور موت کا سوال نہیں بلکہ زندگی اور زندگی کا سوال ہے.کیونکہ احمدیت کہ ڈکشنری میں موت کا کوئی لفظ نہیں.133

Page 143

خلاصه خطاب فرمودہ 25 اگست 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اور اس زندگی کے لئے اس وقت کا سب سے اہم تقاضا تبلیغ ہے.اور سب سے بڑا جہاد تبلیغ ہے.اور جس طرح جہاد میں اسلحہ کا استعمال ہوتا ہے اور بعض ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے اور جنگ میں ہتھیار استعمال کرنے کا طریقہ آنا ضروری ہے ورنہ بعض اوقات وہی ہتھیار اپنے خلاف استعمال ہونے لگتے ہیں.پس جہاں تبلیغ کے لئے دلائل اور کتب کا مطالعہ بہت ضروری ہے، وہاں سب سے مقدم ہتھیار دعا ہے.اس کے بغیر کسی کام کی توفیق نہیں مل سکتی.نہ پڑھنے اور نہ سمجھنے کی.دعا کے بغیر نہ خدا سے محبت کا تعلق پیدا ہوسکتا ہے اور نہ قرآن اور حدیث کا علم حاصل ہوسکتا ہے.کیونکہ قرآن کریم کے علم کے لئے یہ شرط ہے کہ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اسے صرف پاک لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں“.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.یہ دعا ایک بہت بڑا خزانہ ہے، جو احمدیت کے ساتھ ہمیں ملا ہے.اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہمیں اس کی طرف متوجہ کیا گیا ہے.اور آپ نے شدت اور کثرت کے ساتھ دعا کی اہمیت واضح کی ہے.پرانی تمام کتب، جو پہلے بزرگوں نے لکھیں ، ان سب کو جمع بھی کر دیا جائے ، تب بھی اپنی اہمیت ، کثرت، شدت اور حکمت کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود کی کتب کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.پس تبلیغ کو دعا کے ساتھ شروع کریں.اور دعا کو اپنا اوڑھنا، بچھونا بنا ئیں.پھر دیکھیں کہ آپ کے لئے کس طرح تبلیغ کے نئے نئے راستے کھلتے ہیں، نئے نئے دلائل سوجھتے ہیں، خطرات کے وقت اور مشکل فیصلوں کے وقت کس طرح آپ کے لئے آسانی کے سامان پیدا ہوتے ہیں“.فرمایا:.دعا کے بعد دوسرا ہتھیار تعلق باللہ ہے.کیونکہ ہتھیار خواہ کتنا بھی اعلیٰ ہو، اس کو چلانے کے لئے طاقت (انرجی) کی ضرورت ہوتی ہے.چلانے کے فن اور داؤ پیچ کے علاوہ طاقت بھی بہت ضروری ہوتی ہے.تبلیغ میں یہ طاقت (انرجی) اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے.جس طرح مادی دنیا میں ہر قسم کی طاقت کا انحصار یا ہر قسم کی طاقت کا سر چشمہ سورج ہے، اسی طرح روحانی دنیا میں تمام تر طاقتوں کا سر چشمہ تعلق باللہ ہے.اور دعا کی جان بھی اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہے.پس اپنے عسرویسر میں خدا تعالیٰ سے تعلق قائم رکھیں.کیونکہ امن کے وقت میں اگر کسی طرح تعلق قائم ہو تو وہی مشکل میں بھی کام آتا ہے.ورنہ مشکل میں تعلق قائم کر نازیادہ مشکل ہو جاتا ہے“.134

Page 144

تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضور نے فرمایا:.خلاصه خطاب فرمودہ 25 اگست 1985ء و تبلیغ کے لئے تیسرا ہتھیار علم ہے.صرف اپنے مذہب کا علم ہی کافی نہیں بلکہ دوسرے کے مذہب کا اور مذہب کے علاوہ لا مذ ہب تحریکوں مثلا کمیونزم وغیرہ کا علم بھی ضروری ہے.فرمایا:.و علم حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں:.ایک مطالعہ اور تحقیق وغیرہ.اور دوسرے عملاً میدان کارزار میں کودنا اور تجربہ کرنا وغیرہ.حضور نے فرمایا کہ علم کے حصول کے لئے کئی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے.اور پھر بھی انسان صرف اپنے مذہب کا مطالعہ بھی مکمل نہیں کر سکتا.اور یہ بہت مشکل ہے کہ ایک شخص اپنے مذہب کا بھی پورا علم رکھتا ہو اور دوسرے مذہب کا بھی.لیکن اس زمانہ میں یہ مشکل اس طرح حل کر دی گئی ہے کہ عام طور پر لوگ مذہب سے دور ہیں.وہ خواہ مذہبی ہوں یاد ہر یہ، مذہب کا مطالعہ بہت کم رکھتے ہیں.اس لیے آپ کو بات آسان ہو جاتی ہے“.اس کے بعد حضور نے بیرونی جماعتوں میں سے جرمنی کے خدام کے جذ بہ تبلیغ کو سراہا اور ان کی مزید حوصلہ افزائی فرمائی اور بہت تبلیغ کرنے کی تلقین فرمائی.نیز فرمایا:.جر منی والے بعض خط لکھتے ہیں کہ ہم تبلیغ میں بہت زور ماررہے ہیں مگر کامیابی نہیں ہوتی.فرمایا:.6 f ایسے موقع پر آپ کے لئے علم نہیں بلکہ صرف دو ہتھیار باقی رہ جاتے ہیں، دعا اور تعلق باللہ.پس خدا والے نہیں تو آپ کے اندر ایک کشش ہوگی اور دوسرا آپ کے اندر اپنے لئے ایک محبت محسوس کرے گا.اور یہی فرق ہے، مولویت میں اور اللہ والے میں.مولویت معاشرے کو دھکے دیتی ہے، ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تکفیر کی تعلیم دیتی ہے اور اس پر تسلی نہ ہو تو قتل پر ترغیب دیتی ہے.مگر اللہ والے معاشرے کو اپنی طرف کھنچتے ہیں اور یہی کشش تھی ، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر موجود تھی کہ دشمن بھی آپ کی طرف مائل ہوتا چلا جاتا تھا.پس اللہ تعالیٰ ہمیں طاقت عطا فرمائے اور حوصلہ اور موقع دے اور ہم ہر وقت اس کو یاد کرنے والے ہوں“.مطبوعہ ہفت روزہ النصر 23 اگست 1985ء وضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1985ء) 135

Page 145

Page 146

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اگست 1985ء ہر سمت میں خدا تعالی ہماری زمینوں کو وسعتیں عطا فرماتا چلا جارہا ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اگست 1985ء...جب مومن کو غم ملتا ہے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، اس کی قربانی کا مادہ بڑھ جاتا ہے.جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت ملتی ہے تو نیا حوصلہ آ جاتا ہے اور یقین کر لیتا ہے کہ ہم جو قربانی بھی خدا کی خاطر کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں اس دنیا میں بھی اجر پانے لگ جاتے ہیں.پھر بھی اس کی قربانی کا مادہ بڑھتا ہے اور اللہ کے فضل کی تقدیر اس کے لئے اس کے علاوہ بھی جاری ہوتی ہے.ان کے مسائل آسان ہو جاتے ہیں، ان کی مشکلات دور ہو جاتی ہیں، غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف انہیں ایسی چیزیں مل جاتی ہیں، جو عام حالات میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا.اور پھر کوئی جب غور کرتا ہے کہ یہ کیسے چیز ملی تو حیرت سے دیکھتا ہے کہ واقعہ سوائے اس کے کہ خدا کی تقدیر کام کر رہی ہو، ہمیں یہ اتنی نہیں چاہئے تھی.چنانچہ مثلاً اسلام آباد، جماعت احمدیہ انگلستان کے لئے ایک یوروپین مرکز کے طور پر لیا گیا.میرے ساتھ اس سلسلے میں کئی مہینے تک چوہدری انور احمد صاحب کا بلوں اور آفتاب احمد صاحب اور ارشد باقی صاحب نے محنت کی جگہیں تلاش کیں، کئی جگہ دل بھی آجاتا رہا، کئی جگہ سودے بھی ہو گئے لیکن عین آخری وقت میں آکر کوئی نہ کوئی وجہ ایسی ہو جاتی تھی کہ یا ہمارا دل اتر جاتا تھا یا جس سے خرید رہے تھے، اس کا دل اتر جاتا تھا.اور جگہ ہم یہی بیان کیا کرتے تھے کہ یہ جگہ چاہئے.اس سے ملتی جلتی کوئی تھوڑی سی ملتی تھی مگر بالکل یہ جگہ نہیں مل سکتی تھی.اور لوگ بتاتے تھے کہ یہ ایسی جگہ انگلستان میں پھر آپ کہتے ہیں.لندن کے قریب، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.اور جب ہر طرف سے مایوسی ہوگئی تب یہ جگہ اچانک سامنے آئی.تب اس کا اشتہار نکلا ، اس سے پہلے یہ مارکیٹ میں آئی نہیں تھی.اور جب آئی ، اس وقت پتہ چلا کہ خدا تعالیٰ کیوں ہم سے یہ کھیلیں کھیل رہا تھا.امیدیں دلاتا تھا، واپس لے لیتا تھا.دل آتا تھا تو دل اتار دیتا تھا، کبھی ہمارا، کبھی دوسرے فریق کا.تو جب یہ جگہ سامنے آئی ، اس وقت دل نے گواہی دے دی کہ ہاں یہ ہماری ہے اور وہ فورا ہماری ہو گئی.اور اس کے نتیجہ میں بہت سی برکتیں ملی ہیں.اس جماعت کو نئی وسعتیں مل گئی ہیں.اتنا تیزی کے ساتھ اسلام آباد کے فوائد انگلستان کی جماعت محسوس کرنے لگی ہے کہ اب یوں لگتا ہے کہ اس کے بغیر ہم گزارہ کیسے کر رہے تھے.! 137

Page 147

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 اگست 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتہ چنانچہ اور باتوں کے علاوہ ابھی جب بچیوں کی تربیتی کلاس لگی ہے تو گیارہ سال سے لے کر پچیس سال کی بچیاں ، جن کی مائیں ہر وقت فکر مند رہتی تھیں کہ اسلامی معاشرہ کا ماحول ان کو نصیب نہیں ہے، کوئی ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو، پتہ ہو کہ اسلام ان سے کیا تقاضے کرتا ہے؟ ان کی خاطر اسلام کیا کیا سہولتیں ان کو مہیا فرماتا ہے؟ اسلامی زندگی قید نہیں ہے بلکہ ایک نعمت ہے.اس قسم کی باتیں جب تک ایک غالب معاشرے کے اندر کوئی داخل ہو کر تجربے میں سے نہ گزرے، یقین نہیں کر سکتا.اب نظریاتی لحاظ سے لاکھ ان کو سمجھا دیں، جب تک اسلامی معاشرہ کو کوئی چکھے نہ، اس ماحول میں سے نہ گذرے، اسے میسر ہی نہیں آسکتی یہ بات.اب جب وہاں تربیتی کلاس ہوئی ہے بچیوں کی تو اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایسے سارے فوائد ان کو میسر آگئے، جو لندن کی مسجد میں یا کسی اور جگہ میسر آہی نہیں سکتے تھے.دن رات وہاں ٹھہرنا، بہترین ہوٹل خدا نے بنے بنائے دے دیئے.کھیلوں کے کھلے میدان کسی پردے کی ضرورت نہیں.وہاں دوڑتی پھرتی تھیں، آزادی کے ساتھ.ان کو تیرا کی بھی سکھائی گئی ، ان کو گھوڑا سواری بھی سکھائی گئی ، ان کو تیراندازی بھی سکھائی گئی، ان کو بندوق چلانا بھی سکھایا گیا، ان کو سائیکلنگ بھی سکھائی گئی.ہر قسم کی دلچسپیاں وہ پہلے دیکھا کرتی تھیں کہ غیر قو میں ان سے مزے لوٹ رہی ہیں اور ہمارے لئے گویا حرام ہیں.ان کو بتایا گیا کہ کچھ بھی تمہارے لئے یہ حرام نہیں.ہاں بعض شرائط ہیں.تمہاری پاک دامنی کی حفاظت کی شرط کے ساتھ، ہر چیز تمہارے لئے جائز ہے.پھر ہر قسم کے علوم ان کو دیئے گئے ، گھر گرہستی کے طریق ان کو سمجھائے گئے.کوئی پہلو ایسا نہیں رکھا، جس سے ایک عورت کی شخصیت میں حسن پیدا ہوتا ہو اور وہ ان کو وہاں دینے کی نہ کوشش کی گئی ہو.متوازن احمدی خاتون کی شخصیت، جو ہماری مستقبل کے بچوں کی ذمہ دار ہے، اس کی تعمیر کرنے میں اسلام آباد نے تین ہفتے میں ایک ایسا کردار ادا کیا ہے کہ آپ اس سے پہلے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.چنانچہ باہر سے آئی ہوئی بچیاں صرف انگلستان سے نہیں، یورپ سے، امریکہ سے، کینیڈا سے، ان کی تو بالکل آنکھیں کھل گئیں.میں نے بچیوں سے جب الگ الگ پوچھا تو بڑے دلچسپ جواب مجھے ملے ہیں.ایک بچی نے کہا کہ مجھے تو اب معلوم ہوا ہے کہ میرا وجود ہے کیا ؟ اپنی زندگی کا مقصد مجھے سمجھ آگیا ہے.ایک بچی نے بتایا کہ Now I know where I belong ماں باپ میرے احمدی تھے.(والد تو ان کے سوئس ہیں، جو عیسائیوں سے مسلمان ہوئے) لیکن اس نے ایک فقرے میں بڑی گہری بات اور بڑے پیار کی بات کہہ دی کہ: For the first time, now I realised where I belong.138

Page 148

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 اگست 1985ء باپ احمدی ہیں مگر اسی یورو چین ماحول میں پلی ہے، اچھا ماحول ہے لیکن ان تین ہفتوں نے اسے بتادیا کہ تم کس جگہ سے تعلق رکھنے والی ہو، کیا تمہارا مقام ہے.اور جو پہلی ساری زندگی کے سبق اس کو نہیں بتا سکے تھے.اور ایسے ایسے عجیب خطوط بچیوں کے موصول ہو رہے ہیں کہ ہر روز پڑھ کے میرا دل حمد اور شکر سے بھر جاتا ہے.وہ کہتی ہیں کہ ہمیں تو خدا تعالیٰ نے بچالیا ہے.آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہمارے اندر کیا انقلابات برپا ہوئے ہیں.احمدیت سے تعلق ، اسلام کی محبت اور ذاتی وابستگی، اللہ تعالیٰ سے پیار، یہ ساری نعمتیں ہمیں دو، تین ہفتے میں ایسی مل گئی ہیں کہ بعض بچیوں نے کہا ہے کہ اب تو ہم بے قراری سے اگلے سال کا انتظار کر رہی ہیں.حالانکہ اس سے پہلے منتظمین کا تاثر یہ تھا کہ تین ہفتے بہت لمبا وقت دے دیا گیا ہے، اس میں تو بچیاں بور ہو جائیں گی.تو بور ہونے کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ولولے لے کر لوٹی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ان کو دیکھ کر کہ کتنی جلدی ان میں تبدیلی رونما ہوئی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ کیا تھا کہ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ اس وعدہ کو ہم ہر جہت میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.احمدیوں کی نئی نسلیں سنور رہی ہیں، اس ابتلاء کے نتیجہ میں.ہر دل میں نئی وسعتیں پیدا ہو رہی ہیں، ہر ذہن میں نئی وسعتیں پیدا ہو رہی ہیں.اور یہ وسعتیں ہیں، جو باہر کے لوگ اپنی کوتاہ بینی کے نتیجے میں دیکھ نہیں سکتے.یہ تو کوئی صاحب ایمان ہی ہے، جس کی نظر دیکھ لیتی ہے، ان چیزوں کو یاوہ جن کے دل پر گذرتی ہے.اور یہ وسعتیں ساری دنیا میں تمام احمدیوں کو نصیب ہو رہی ہیں.فجی میں بیٹھے لوگ، جو دور دراز ایک جزیرہ ہے، وہ بھی لکھ رہے ہیں کہ اس ابتلاء میں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں نئے حوصلے، نئے ولولے عطا کر دیئے ہیں.احمدیت کے لئے خدمت کی جو تمنا اب پیدا ہوئی ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی.افریقہ کے بیابان جنگلوں میں اور وہ جسے تاریک براعظم کہا جاتا ہے، ان کے تاریک ترین گوشوں سے ایسے خط آرہے ہیں کہ جو ابتلاء کا حوالہ دے کر یہ لکھتے ہیں کہ یہ ابتلاء کیا آیا ہے، ہمیں تو اللہ تعالی نے روشنی عطا کر دی ہے، نیا نور بخش دیا ہے.اب ہم یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں لٹا دیں گے.اور باتوں کو چھوڑ دیجئے ، یہ جوقلبی کیفیات میں وسعتیں نصیب ہوئی ہیں اور دماغوں میں جو پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، یہی ایک عظیم الشان خدا تعالیٰ کا انعام ہے کہ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا 139

Page 149

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 اگست 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کے نتیجہ میں جو خدا تعالیٰ کے وعدے تھے، ان کو ہم پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.اور ظاہری طور پر جولوگ دیکھنا چاہتے ہیں، ان کے لئے اب تفصیل سے بیان کرنے کا تو وقت نہیں مختصر میں آپ کو بتاتا ہوں، ایسی چیزیں، جو صرف ظاہری آنکھ کو نظر آسکتی ہیں، دنیا کے ہر ملک میں تبلیغی وسعت پیدا ہو گئی ہے.دنیا کے ہر ملک میں بیعتوں کا گراف تدریجاً اونچا ہونا شروع ہو گیا ہے.یعنی اتفاقی حادثے کے طور پر نہیں بلکہ پہلے سالوں کے مقابل پر نمایاں اونچا ہوا اور پھر اونچا ہوتا رہا اور ہرا گلا مہینہ پہلے سے زیادہ داعیان الی اللہ کی رپورٹیں لے کر آ رہا ہے.ہر اگلا مہینہ ہمیں بتا رہا ہے کہ ہر ملک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ میں وسعت پیدا ہوئی ہے.اور ہر ملک میں نئی جماعتیں قائم ہورہی ہیں.نئے دیہات خدا تعالیٰ عطا کر رہا ہے، جہاں اس سے پہلے کبھی احمدیت داخل نہیں ہوئی تھی.اور جب میں ہر ملک کہتا ہوں تو پاکستان اس میں شامل ہے.کوئی دنیا کا ایسا خطہ نہیں، جو خدا تعالیٰ کے ان فضلوں سے خالی ہو.اور وہ ممالک، جہاں پہلے ہمارے مشن قائم تھے، جہاں مسجدیں موجود تھیں ، وہاں خدا تعالیٰ بہت زیادہ وسیع زمینیں نئی عطا فرمارہا ہے.نے مشن عطا کر رہا ہے، نئی مسجدوں کی جگہیں عطا کر رہا ہے.یورپ میں ہی جو پچھلے ایک سال کے اندرنئی وسعتیں ملی ہیں، آپ ان کو دیکھیں تو حیران رہ جاتے ہیں.ہر ملک میں خدا تعالیٰ نئے سامان پیدا کر رہا ہے، نئی جگہوں کے.اور یہ سلسلہ جاری ہے بند نہیں ہوا.اور پھر کلیہ نئے ممالک میں مشن کھولنے کی خدا توفیق عطا فرما رہا ہے، نئے جزیروں میں.میں نے ابھی بتایا تھا کہ نبی کے قریب ایک جزیرے میں، اس سے پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں، خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک مبلغ ہمیں عطا کر دیا ہے.اور ایسا خدا تعالیٰ کا تصرف ہوا کہ ایک صاحب نے مجھ سے ملنے کے لئے وقت مانگا.ان کو وقت دینے سے دو دن پہلے مجھے نجی سے اطلاع ملی کہ فلاں جزیرہ ہے، اور وہاں مشن اگر قائم ہوتو بہت اچھی بات ہے.وہاں عیسائی بھی ہیں اور فلاں فلاں بھی ہیں لیکن کوئی مسلمان نہیں ہے.اور ساتھ ہی یہ بھی خدا کا تصرف ہے کہ اس جزیرے کے متعلق ایک مضمون بھی مجھے مل گیا اور دو دن کے بعد وہ صاحب جب ملاقات کے لئے آئے تو مجھے کہا کہ میں مشورہ کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا کیا مشورہ ؟ انہوں نے کہا جی کہ مشکل یہ ہے کہ مجھے میری فلاں ملک میں نوکری تھی ، بڑی اچھی تھی ، وہاں سے تو انہوں نے نکال دیا ہے ، United Nation میں، میں نے درخواست دی تھی.اور United Nation نے یہ جواب دیا ہے کہ فلاں جزیرے میں ہمارے پاس نوکری ہے اور کہیں نہیں.میں نے کہا مشورہ ؟ اس میں مشورہ کیا ، یہ تو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.میں تو بیٹھا ہوا منتظر تھا کہ خدا کوئی رستہ دے تو ہم وہاں پہنچیں.تو جاؤ اور مبلغ بنووہاں جا کر خدا کے فضل سے.چنانچہ ان کو جاتے ہی خدا تعالیٰ نے کیتھولک 140

Page 150

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 30 اگست 1985ء عیسائیوں میں سے ایک بڑا اچھا پھل عطا کیا.اور ان کے بیوی بچے پیچھے گئے تو انہوں نے ان کی بیوی بچوں میں تبلیغ کی ، اب وہ پورا خاندان خدا کے فضل سے احمدی ہو گیا.ماریش کے قریب ایک جزیرہ ہے.وہاں بھی خدا تعالیٰ نے عیسائیوں میں سے اور کیتھولک عیسائیوں میں، جو اپنے مذہب میں بڑے شدید ہیں، ان میں سے ایک نوجوان عطا کیا.پھر اس کے ساتھ اور بیعتیں شروع ہو گئیں.اور اب انہوں نے اصرار کیا ہے کہ ہمیں فوراً مشن قائم کر کے دیا جائے.چنانچہ مرکزی نمائندہ اب جا کر وہاں دورہ کرے گا اور ان کو مشن انشاء اللہ تعالیٰ لے کر دے گا.برازیل میں ہم بڑی دیر سے منتظر تھے کہ وہاں مشن قائم کیا جائے.جنوبی امریکہ میں جماعت احمدیہ کا ایک بھی مشن نہیں تھا.اگر چہ احمدی کچھ وہاں پہنچے ہوئے تھے لیکن مشن کہیں قائم نہیں تھا.چنانچہ خدا کے فضل سے برازیل میں پہلا مشن قائم ہو گیا ہے.اور اب ہم وہاں وسیع زمین کی تلاش کر رہے ہیں، جہاں انشاء اللہ نہایت ہی شاندار مسجد اور مشن ہاؤس قائم ہوگا.بلکہ اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے تو ارادہ یہ ہے کہ اتنی وسیع زمین ہو کہ بہت سے احمدی خاندانوں کو بھی وہاں آباد کیا جاسکے.ایک احمدی گاؤں بن جائے اور وہاں اس کے امکانات ہیں.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی فضلوں کی بارش ہو رہی ہے، خدا ہم پر ایسے احسانات نازل فرمار با ہے ہم پر کہ ہر روز ہم خدا کے اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں کہ وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ عام زمینیں دنیا کی تو دو طرفوں میں پھیلتی ہیں لیکن خدا کی زمین توشش جہات میں پھیل رہی ہے.ہر لحاظ سے، ہر پہلو سے خدا کی زمین کو ہم وسعت پذیر ہوتا دیکھ رہے ہیں.اسلامی ممالک سے نئے رابطے پیدا ہوئے.جہاں سب سے زیادہ کوشش کی گئی کہ اسلامی ممالک ہم سے بدظن ہو جائیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں آج یہ آپ کو عظیم خوشخبری سناتا ہوں کہ جنیوا میں جو Human Rights Sub-Commision اس مسئلہ پر غور کر رہا تھا کہ مذہبی طور پر جماعت احمدیہ کو مسلمان کہلانے کے حق سے محروم کر کے ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اسی طرح دیگر مذہبی بنیادی حقوق چھین کر ان پر ظلم کیا گیا ہے، وہاں یہ کافی عرصے سے معاملہ زیر غور تھا.جماعت انگلستان کے کئی مخلصین اس میں حصہ لے رہے تھے اور بھی جہاں تک ہمارا بس چلا ، ہم نے کوشش کی تو کل رات مجھے فون پر وہاں سے اطلاع ملی ہے کہ جو ریزولیوشن پاس ہوا ہے، اس میں اسلامی ملکوں نے ہماری تائید کی ہے.اور دو ممالک، جن پر اپنی حکومتوں کا بڑا شدید دباؤ تھا یعنی پاکستان کی وجہ سے وہ اس موقع پر اٹھ کر باہر چلے گئے 141

Page 151

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اگست 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم تا کہ ہمیں یہ ووٹ نہ دینا پڑے کہ پاکستان ٹھیک کر رہا ہے.بتائیے کون کون سی جہات ہیں، جن میں خدا نئی وسعتیں عطا نہیں کر رہا؟ بعض اسلامی ممالک سے میرا رابطہ ہوا ہے، اللہ کے فضل سے اور ان کے سر کردہ لوگوں نے وعدے کئے ہیں کہ ہم ان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں تمہاری مدد کریں گے اور واقعہ جماعت احمدیہ پر شدید ظلم ہوا ہے، اسلام کی صف اول کی مجاہد جماعت ہے اور اسے اسلام دشمن طاقت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، بڑی اندھیر نگری ہے.تو ہر سمت میں خدا تعالیٰ ہماری زمینوں کو وسعتیں عطا فرما تا چلا جارہا ہے.ایسی زبانوں میں اسلامی لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی ہے اور بڑی جلدی اب انشاء اللہ بڑھ جائے گی ، جن میں کبھی کچھ نہیں تھا.پہلی مرتبہ خدا کے فضل سے بالکل نئی زبانوں میں اسلامی لٹریچر اور بڑے بڑے وسیع علاقوں سے تعلق رکھنے والی وہ زبانیں ہیں، ان میں خدا تعالیٰ نے پیدا کرنے کی توفیق بخشی ہے.چونکہ بیک وقت بہت سا کام شروع ہوا ہوا ہے اور پختگی کے قریب ہے.اس وقت نظر نہیں آرہا کیونکہ پھل جب تک پکے نہ خواہ لاکھوں کی تعداد میں لگا ہو، مارکیٹ میں تو نظر نہیں آیا کرتا.لیکن جب پک جائے گا تو اچانک ہر طرف ود وه آپ کو اس پھل کی خوشبو، اس کا رنگ روپ، اس کے مزے حاصل ہونے شروع ہو جائیں گے.پریس کی تحریک کی گئی تھی.ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈز کی تحریک کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سواد و لاکھ تک کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی بہت سے ممالک کی طرف سے آرہے ہیں.اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ اڑھائی لاکھ سے تین لاکھ تک تو آسانی سے یہ وعدے پہنچ جائیں گے.ڈیڑھ لاکھ کی ضرورت تھی بنیادی مشینری کے لئے لیکن اس کے علاوہ اس کی Installation، اس کے ماہرین کی تیاری اور پھر ماہانہ اخراجات کے لئے ہمیں بتایا گیا تھا کہ ایک بڑی رقم کی ضرورت پیش آئے گی.تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کا انتظام فرما دیا.جوزائد رقم ہے، اس کو ہم اس طرح استعمال کریں گے کہ اس کی ماہانہ آمد اس پریس کے سارے اخراجات کے لئے انشاء اللہ کفیل ہو جائے گی.کوئی حصہ ایسا نہیں ہے، جس طرف نظر جاتی ہو اور خدا نے وہاں نئی وسعتیں عطا نہ فرما دی ہوں.مشرقی یورپ میں خدا نے تبلیغ کے نئے رستے کھول دیئے ہیں.نئی نئی قوموں میں نئے رستے کھول رہا ہے.چنانچہ ایک اشترا کی ملک سے ایک تاتاری پروفیسر نے بیعت کی ہے.اور وہ بہت ہی مخلص ہیں اور بہت تعلیم یافتہ ، اپنی یونیورسٹی میں مذہبی امور کے وہ ایک سند سمجھے جاتے ہیں.اور اتفاق سے بیعت کرنے سے پہلے ان کو یہ کام ملا تھا کہ مذاہب کے تعارف پر وہ ایک کتاب لکھیں.چنانچہ انہوں نے ہمیں لکھا ہے کہ اب بتاؤ پھر کیا ہے اسلام اور احمدیت کیا ہے؟ اور جو کچھ کہو گے، وہی کچھ لکھا جائے گا.حیرت 142

Page 152

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 اگست 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ اپنے فضل سے یہ سامان فرما رہا ہے.اور تا تاری لیڈر ایسے ہیں، جن سے ہمارا اب رابطہ ہے.ان کے متعلق توقع ہے کہ اگر وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حقیقی مسلمان بن جائیں تو ان کی قوم پوری کی پوری ان کے ساتھ آسکتی ہے، اس کے بھی امکانات ہیں.یوگوسلاویہ سے پہلی دفعہ نوجوان نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہے.ان کو محدود وقت میں اجازت مل سکتی ہے.تو تین مہینے کی جو ان کو چھٹیاں ہیں، وہ یہاں انشاء اللہ آکے گزاریں گے اور دینی تعلیم حاصل کریں گے اور اپنے ملک میں جا کر پھر وہ پیغام پہنچائیں گے.ہنگری میں خدا تعالیٰ کے فضل سے نیا رابطہ قائم ہو چکا ہے.اور روس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے نئے روابط قائم ہو چکے ہیں.ایک رابطہ نہیں، کئی روابط.اور وہاں سے ایک بیعت تو براہ راست لینن گراڈ سے آئی تھی.اس کے بعد اب پتہ چلا ہے کہ وہاں جگہ جگہ احمدی پھیلے ہوئے تھے، جنہوں نے کبھی بتایا ہی نہیں تھا.لیکن چونکہ انگلستان سے رابطہ نسبتا آسان ہے، اس لئے وہ اللہ کے فضل سے اب آتے ہیں، ملتے ہیں، رابطہ قائم کرتے ہیں آکے نئی ہدایتیں لیتے ہیں آئے.کوئی دنیا کا حصہ ایسا نہیں رہا، جہاں خدا تعالیٰ نے فضل سے احمدیت کے نفوذ کے سامان پیدا نہیں کر دیئے نے اپنے بیس آپ کو مبارک ہو.جن کے غم بھی مبارک ہیں، جن کی خوشیاں بھی مبارک ہیں، جن کے خوف بھی مبارک ہیں اور جن کی امید میں بھی مبارک ہیں.اور ہر حال سے گذر کر ہم گواہ ہیں ، ہم شاہد ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نئی رحمتیں خدا سے حاصل کی ہیں اور نئی برکتیں اللہ کی طرف سے حاصل کی ہیں.اور اس سب پر مستزاد یہ کہ خدا کا وعدہ ہے اور خدا کی انگلی آسمان سے اشارے کر رہی ہے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے صبر کیا، میں تمہیں بے حساب اجر دوں گا اور ہر جہت سے تمہاری زمین پھیلتی چلی جائے گی اور نئی وسعتیں اسے عطا ہوتی چلی جائیں گی اور اپنے مخالفین کی وہ دنیا دیکھ کر ایک لمحہ کے لئے بھی مایوس نہ ہونا کہ ان کی عمر ذرا لمبی ہو گئی.کیونکہ خدا کہتا ہے کہ وہ خود جانتے ہیں کہ ان کا زمانہ تیزی سے گذرتا چلا جارہا ہے اور ان کی زمینیں تنگ ہوتی چلی جارہی ہیں.خدا کی تقدیر کا گھیرا روز بروز ان پر زیادہ تنگ ہو رہا ہے.جہاں یہ باتیں ہمارے دل میں نئے حو صلے عطا کرتی ہیں، ہمیں نئے اطمینان بخشتی ہیں، وہاں شکر کی طرف بھی تو توجہ دلاتی ہیں.اس لئے کثرت سے خدا تعالیٰ کا شکر کریں.دن رات خدا کا شکر کریں.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ شکر کرو گے تو پھر میں مزید بڑھا دوں گا.یہ بھی ایک وسعت کی جہت ہے.تو شکر کر کے دیکھیں، پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اس شکر کے نتیجے میں بھی آپ کو نئی وسعتیں عطا فرمائے گا.خطبات طاہر جلد 14 صفحہ 729 تا 744) 143

Page 153

Page 154

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع تربیتی کلاس جماعت احمد یہ مقبوضہ کشمیر تبلیغ کے بغیر جماعت کی ترقی اور غلبہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا پیغام بر موقع تربیتی کلاس جماعت احمد یہ مقبوضہ کشمیر منعقدہ یکم تا 20 ستمبر 1985ء پیارے بھائیو! بسم الله الرحمان الرحيم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت آپ سب کے شامل حال رہے.آمین آپ سب کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ احباب جماعت کی تربیت اور ان میں تبلیغ احمدیت کی اہلیت بڑھانے کے لیے جو کلا میں منعقد کی جارہی ہیں، ان سے پوری طرح فائدہ اٹھا ئیں.ایسی کلاسیں، اگر چہ وقتی اور محدود نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن ان کے مفید نتائج کو وسیع اور دیر پا بنایا جاسکتا ہے.جو افرادان کلاسوں میں شامل ہوں، انہیں مندرجہ ذیل تین باتوں پر خصوصی توجہ رکھنی چاہیے.اول: یہ کہ ایسے ہنگامی پروگرام در اصل خفتہ جذبہ کو بیدار کرنے کے لئے وضع کئے جاتے ہیں.اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ کلاس میں شامل ہونے والے جو کچھ سیکھیں، اس کو آگے پھیلانے کا کام کریں.قرآن کریم میں اس کی بابت ہمیں واضح آیت ملتی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:." اور مومنوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ سب کے سب اکٹھے ہو کر تعلیم دین کے لئے ) نکل پڑیں.پس کیوں نہ ہوا کہ ان کی جماعت میں سے ایک گروہ نکل پڑتا تا کہ وہ دین پوری طرح سیکھتے اور اپنی قوم کو واپس لوٹ کر (بے دینی سے ) ہشیار کرتے.تا کہ وہ (گمراہی سے ) ڈرنے لگیں“.(122) پس وہ افراد، جو کلاسوں میں شامل ہوں، انہیں یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جو نیک باتیں اور علمی دلائل وہ سیکھیں، وہ ایک لحاظ سے ان کے امین ہیں.اور یہ امانت انہوں نے آگے اپنی جماعتوں کو یا اپنے دیگر احمدی بھائیوں تک پہنچانی ہے.کیونکہ اس کے بغیر کلاس میں شمولیت کی غرض پوری نہیں ہوتی.دوئم یہ کہ ایسی کلاسیں، جو منعقد کی جاتی ہیں، ان کے بعض دیگر تقاضے بھی ہیں، جو نظروں سے اوجھل نہیں رہنے چاہئیں.مثلاً یہ کہ کلاس کا ایک پروگرام اور ڈسپن ہوتا ہے.پروگرام کے بغیر انسانی 145

Page 155

پیغام بر موقع تربیتی کلاس جماعت احمد یہ مقبوضہ کشمیر تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کوششوں میں جامعیت نہیں آتی بلکہ ایک پر گندگی اور انتشار کی کیفیت غالب رہتی ہے.اور ڈسپلن کے بغیر نظم وضبط برقرار نہیں رہ سکتا.اور یہ دونوں باتیں جہاں افراد کے لئے بڑی بنیادی ہیں، وہاں قومی زندگی میں ان کی اہمیت کہیں زیادہ ہے.اس لئے آپ جہاں خود نظم وضبط کی پابندی کریں، وہاں جماعت کے دیگر افراد میں بھی نظم وضبط کی پابندی کے اوصاف اجاگر کریں.اور اس کے لئے ایک احمدی کو پہلا اور آخری سبق یہی ہے کہ وہ ہر سطح پر اطاعت کو اپنا شعار بنائے.ہمارے محبوب آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اطاعت کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا:."من أطاع أميرى فقد أطاعني ومن أطاعني فقد أطاع الله، ومن عصى أميرى فقد عصاني ومن عصاني فقد عصى الله یعنی جو شخص میرے مقرر کردہ امیر یا افسر کی اطاعت کرتا ہے، وہ دراصل میری اطاعت کر رہا ہے.اور جو میری اطاعت کرتا ہے، وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے.اور جو میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کرتا ہے، وہ دراصل میرا نا فرمان ہے.اور جو میری نافرمانی کرے، وہ دراصل میرے بھیجنے والے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے.پس جماعت کی روح ہی نظم وضبط اور اطاعت کرنا ہے.اس لئے ہمارے سب پروگراموں میں یہ روح نمایاں اور نکھر کر نظر آنی چاہیے.ایسی روح رکھنے والی جماعت کے سر پر ہی خدا کا ہاتھ ہوتا ہے.جیسے حدیث نبوی ہے کہ يد الله على الجماعة.سوئم یہ کہ تربیتی امور کے علاوہ تبلیغ کے فریضہ کی اہمیت اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے.جماعتی تربیت تو دراصل مجاہدین تیار کرنے کے مترادف ہے.اور تبلیغ کرنا ان مخلصین مجاہدین کا آگے فریضہ ہے.جس فوج سے لڑائی کا کام نہ لیا جائے، اس کی تیاری کی ضرورت ہی کیا ہے؟ پس احمدیت کے زیر تربیت آنے والے ہر فرد کی اصل ذمہ داری تبلیغ کرتا ہے.اس کے بغیر جماعت کی ترقی اور دیگر تمام ادیان پر اس کے غلبہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی ہمارے سامنے ہے کہ آپ کس طرح تبلیغ کے لئے مضطرب رہتے تھے.اور ہر گھڑی اور ہر لمحہ اپنی زندگی کا آپ نے تبلیغ کے جہاد میں صرف کیا.اور جو روحانی ے.اور ہر اور ہروہ اپنی کا آپنے اور 146

Page 156

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع تربیتی کلاس جماعت احمد یہ مقبوضہ کشمیر خزائن آپ کو اللہ کی طرف سے عطا ہوئے ، انہیں دوسروں تک پہنچانے میں آپ غیر معمولی جوش و جذبہ رکھتے تھے.چنانچہ خود آپ ہی کے الفاظ میں حسب ذیل عبارت ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے.آپ فرماتے ہیں:....میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرک یہ ہے کہ میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور ایک بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولت مند ہو جائیں گے، جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا.اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہنچانا اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور کچی برکات اس سے پانا.پس اس قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں.اور وہ بھوکے مریں اور میں عیش کروں.نہ مجھ سے ہرگز نہیں ہوگا.میرا دل ان کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے، ان کی تاریکی اور تنگ گزرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے ان کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے میں کہ ان کے دامن استعداد پر ہو جائیں“.اربعین نمبر 1 صفحہ 2.3 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 344,345) پس اے عزیز بھائیو! اولاً خود اس قیمتی ہیرے سے تعلق پیدا کرو، ان جواہرات سے اپنے گھر بھرو اور پھر دنیا کی غربت اور روحانی فقر و فاقہ کو مٹانے کے لئے تبلیغ کرو تبلیغ کرو تبلیغ کرو.خدا تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو.اپنی محبت اور پیار کی دولت سے آپ سب کو مالا مال کرے.اور روحانی مردوں کو آپ کے ذریعہ دائمی زندگی سے ہم کنار کرے.آمین.میری طرف سے جملہ احباب جماعت مردوزن اور بچوں اور بچیوں کو محبت بھر اسلام پہنچا دیں.جزاکم اللہ تعالیٰ.والسلام مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 31 جنوری 1986ء وضمیمہ ماہنامہ انصار الله تمبر 1985ء) 147

Page 157

Page 158

تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد من وارض الله واسعة خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ستمبر 1985ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا.خطبہ جمعہ فرمود 130 ستمبر 1985ء گزشتہ خطبہ میں، میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا اقطعی اور واضح وعدہ ہے کہ وہ لوگ ، جو میری خاطر دکھ دیئے جاتے ہیں، جو صبر اور حوصلہ کے ساتھ محض میرے نام کی خاطر اور میری عزت کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، میں ان کو انعام پر انعام دیتا ہوں، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.اور خصوصیت کے ساتھ اس دنیا میں انعام کا ذکر اس لئے فرمایا گیا کہ لوگ کہیں اس خیال سے مایوس نہ ہو جائیں یا کمزور ایمان رکھنے والے ٹھو کر نہ کھا جائیں کہ آخرت کے وعدے ہیں اور آخرت کس نے دیکھی ہے.اس لئے اس موقع پر جہاں دکھوں کا ذکر ہے، وہاں فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً (الزمر : 11) پر زور دیا گیا.یہ بتانے کے لئے کہ تم اس دنیا میں ہی اپنے نیک اعمال کا اجر پا جاؤ گے.تا کہ تمہیں یقین ہو اور تمہارے ایمان میں اضافہ ہو کہ آخرت میں یہی خدا ہے، جو انعام و اکرام دینے کا وعدہ کر رہا ہے، اس سے بہت بڑھ کر وہ ہم سے اپنے وعدے پورے فرمائے گا.اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ (الزمر : 11) یقینا خدا کی زمین بہت بڑھنے والی ہے.وسیع ہے بھی اس کے معنی ہیں اور وسعت پذیر ہے بھی اس کا ترجمہ کیا جاسکتا ہے.اور اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ زیادہ موزوں معنی وسعت پذیر کے ہوں گے.کہ لوگ تو تمہیں تنگ کرنے کی کوشش کریں گے، تمہارے حلقے تم پر تنگ کرتے چلے جائیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ تمہاری زمینیں چھوٹی ہو گئیں لیکن تم جب خدا کی خاطر یہ تکلیفیں برداشت کر رہے ہو تو تم اللہ کی زمین میں آگئے ہو اور اللہ کی زمین کو کون تنگ کر سکتا ہے.149

Page 159

خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم یقینا اللہ کی زمین بہت وسیع ہے اور یقیناً اللہ کی زمین وسعت پذیر ہے.وہ بڑھتی ہی چلی جائے گی اور ناممکن ہے کہ تم اس کی وسعتوں کو روک سکو.اس وعدہ کو بھی ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے بار ہا پورا ہوتے دیکھا.ساری جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب لوگ یعنی دشمن جماعت احمدیہ کے گھر چھین رہے تھے یا جلا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ آسمان سے یہ ہدایت دے رہا تھا کہ وسع مکانک (تذکرة ، صفحہ 41) اپنے مکانوں کو وسیع کرنے کی تیاری کرو.اور ہر دفعہ جماعت احمدیت کے مکانات ہر ابتلاء کے بعد وسیع تر ہوتے چلے گئے.اس کی بارہا میں نے مثالیں دی ہیں.اتنی کثرت کے ساتھ اس کی مثالیں ہر ابتلاء کے دور میں ملتی ہیں کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تک ہیں کہ جن احمدی گھروں کو جلایا گیا یا لوٹا گیا، جن کو کھنڈروں میں تبدیل کیا گیا، ان گھروں کے مکینوں کو خدا تعالیٰ نے اتنے وسیع مکان عطا فرمائے، اتنے خوبصورت، اتنے عظیم الشان کہ ان کے مقابل پر وہ پہلے گھر محض جھونپڑے دکھائی دیتے تھے.تو یہ تو ایک انفرادی سلوک تھا خدا تعالیٰ کا جماعت کے ساتھ.اسی قسم کا سلوک بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جماعت کے ساتھ بھی ہوتا چلا آیا ہے.ایک ملک میں زمین تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو نئے ملک عطا کر دیئے گئے.نئی تبلیغ میں وسعتیں پیدا کر دی گئیں اور نئی سرزمین خدا کی طرف سے عطا ہونے لگی.اس دور ابتلاء میں بھی انگلستان میں اسلام آباد کی وسیع سرزمین عطا فرمائی گئی.جس میں بہت سی ایسی سہولتیں موجود تھیں اور اتنے بڑے وسیع کوارٹرز موجود تھے، جن کو مکان تو نہیں کہنا درست ، مگر وہ بیر کس قسم کی جس طرح کی فوجی پیرکس ہوتی ہیں، اس شکل کی اس میں عمارتیں موجود تھیں کہ وہاں خدا کے فضل سے جلسہ سالانہ انگلستان منعقد کرنے کی توفیق عطا ہوئی.اور تقریباً 800 مہمان ان بلڈنگز میں وہاں ٹھہر سکے.اور انگلستان کے معیار سے ایک بہت ہی بڑی چیز ہے کہ کسی عمارت میں 800 مہمان ٹھہر سکیں.اور اس کے علاوہ جلسہ کے لئے وسیع میدان بہت ہی کھلا، خدا کے فضل سے انتظام ہو سکتا ہے.اور جتنے دوست آئے ، وہ تو خیر چھ، سات ہزار تھے.اگر ربوہ کے مقابل کا جلسہ ڈیڑھ، دولاکھ افراد کا جلسہ وہاں منعقد کرنا چاہیں تو اس کی بھی خدا کے فضل سے گنجائش موجود ہے.اور با آسانی عورتوں اور مردوں کو ملا کر ایک جیسا جلسہ منعقد ہو سکتا ہے.150

Page 160

تحریک جدید - ایک الہی تحریک..خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اب ہمیں ہالینڈ میں یہ دوسرا مرکز عطا فرمایا ہے.جو یورو بین مراکز کی تحریک کا یہ ایک بچہ ہے.تحریک تو میں نے دو مراکز کے لئے کی تھی، ایک جرمنی میں اور ایک انگلستان میں.لیکن اللہ تعالیٰ عجیب شان سے اپنے وعدوں کو پورے فرماتا ہے.ہمیشہ توقع سے بہت بڑھ کر عطا کرتا ہے.اور جتنی چھلانگ ہماری امنگیں لگا سکتی ہیں، ان سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی اجابت دعا رحمت لے کر نازل ہوتی ہے.اور بہت زیادہ رفعتیں عطا کرتی ہے، اس سے جو ہم تصور باندھتے ہیں.چنانچہ اس دور ابتلاء کا یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے ہم نے دو مرکز مانگے تھے، خدا تعالیٰ نے دو سے زائد دیئے اور اب یہ تیسرا مرکز ہے.ایک جرمنی میں ہے، جس کا افتتاح بعد میں ہوگا.لیکن جوں جوں افتتاح ہوتا رہے گا، میں بتاتا چلا جاؤں گا آپ کو.تو بہر حال یہ دوسرا مرکز ہے، جس کا افتتاح ہو رہا ہے.اور یہ ہماری امیدوں سے ، ہمارے منصوبوں سے بالکل الگ ایک نئی چیز عطا ہوئی ہے.اس مرکز کی تفصیل یہ ہے کہ جب میں گزشتہ مرتبہ ہالینڈ آیا تو محسوس کیا کہ مسجد بہت ہی چھوٹی ہو گئی ہے اور رہائش کی جگہیں بھی بہت ہی محدود ہیں.دو مربی بھی وہاں ٹھیک طریق پر اپنے خاندانوں سمیت نہیں ٹھہر سکتے.بہت تنگی میں گزارہ کر رہے تھے.اور جب کوئی باہر سے مہمان آئے تو کم سے کم ایک مربی کو تو ضرور باہر جانا پڑتا ہے.ورنہ زیادہ مہمان ہوں تو دونوں مربیوں کو جگہ خالی کر کے خود کسی کا مہمان بننا پڑتا ہے.عورتوں کے لئے الگ کوئی انتظام نہیں تھا، بچوں کے لئے وہاں کوئی انتظام نہیں تھا.اور کافی وقتیں تھیں.تو وہاں یہ تحریک ہوئی کہ ہالینڈ کو اپنی کوئی جگہ بنانی چاہئے.جائزہ لیا گیا کہ اس بلڈنگ کو وسیع کرنے کے کہاں تک امکانات ہیں؟ اور وہ جو سکیم ہے، وہ اپنی جگہ ابھی بھی چل رہی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق اس عمارت کو بھی وسعت دی جائے گی.کیونکہ ہیگ کی جماعت کے لئے بھی وہ کافی نہیں رہی.لیکن اس کے ساتھ ہی ایک کمیٹی یہاں بنائی گئی، جس میں مردوں کے علاوہ ایک خاتون مسز باہری بھی شامل ہیں.اور ان سے کہا گیا کہ آپ اپنی توفیق کے مطابق سارے ہالینڈ پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کون سی امکانی طور پر اچھی ہوسکتی ہے، جہاں ہمیں کوئی جگہ مل جائے؟ مجھے کمیٹی والوں نے بتایا کہ بہت مہنگی جگہیں ہیں، زمین بھی یہاں مشکل سے ملتی ہے، سوائے اس کے کہ کسی دور کے علاقے میں کسی چھوڑی ہوئی خانقاہ کو آپ لینا پسند کریں.میں نے کہا: وہ تو ہم نہیں پسند کرتے ، ہمیں تو کوئی باقاعدہ شریفانہ جگہ چاہئے.شریفانہ میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ خانقاہیں تو شریفانہ ہی ہوتی ہیں لیکن وہاں بتایا گیا ہے کہ مجرموں نے بھی وہاں اڈے لگائے ہوئے ہوتے ہیں اور افیون کے رسیا لوگ اور Drug Addicts ( منشیات کے عادی) جن کو اور جگہ نہیں ملتی ، 151

Page 161

خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم Truants، بھاگے ہوئے گھروں سے، یہ ان چھوڑی ہوئی خانقاہوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر حکومت کے لئے بڑا مشکل ہو جاتا ہے، ان کو وہاں سے نکالنا.وہاں بیچاری جماعت احمد یہ کہاں سے مرکز بنائے گی ؟ اور کتنا بعد ہوگا، دونوں مزاجوں میں، جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں اور ہم جو بسانا چاہتے ہیں، وہاں جا کر نئی شان سے؟ اس لئے وہ تو مجھے پسند ہی نہیں آئی.جگہیں ویسے بہت سستی مل رہی تھیں لیکن سارے جھگڑے ہمیں خود ہی طے کرنے پڑنے تھے.ان کو کال یا لڑائیاں.تو ان سے یہ جھگڑے ہم کہاں کر ے سکتے تھے.تو بہر حال ان کا خیال تھا کہ دوسری جگہوں میں اتنی وسیع جگہ جس طرح کہ آپ کے ذہن میں ہے، ملتی مشکل ہوگی.لیکن اللہ تعالیٰ اگر انتظام کرنے کو آتا ہے تو اس کی پہلے سے بڑی تیاریاں شروع کی ہوئی ہوتی ہیں اور حالات کو اس طرف لے کے جار ہا ہوتا ہے گھیر کے کہ جس کے نتیجہ میں جس مقام پر خدا تعالیٰ چاہتا ہے، وہیں ان حالات نے جا کے رونما ہونا ہوتا ہے.یه Complex بلڈنگ کا جو ہمیں ملا ہے، اس کی تاریخ یہ ہے کہ پہلے یہ Recreation کے لئے یعنی Tourists ( سیاحوں) کو کھینچنے کے لئے ، ان کی رہائش گاہ کے لئے یہ عمارت بنائی گئی.ایک عمارت نہیں، چار عمارتیں ہیں.تو بہر حال اس زمانہ میں ابھی Tourists زیادہ یہاں نہیں آتے تھے اور شروع میں عمارت بھی ایک ہی تھی.1910ء میں یہ جس میں ہم اس وقت بیٹھے نماز پڑھنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، یہ عمارت بنائی گئی ، جس کو ہم بلڈنگ (A) اے کہ رہے ہیں.یہ بلڈنگ A اگر چہ 1910 ء کی تعمیر شدہ ہے لیکن جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، نہایت ہی اعلیٰ معیار کی ہے.اس کی تعمیر یوں محسوس ہوتی ہے کہ بالکل نئی بنی ہوئی ہے.اور معلوم ہوتا ہے، بہت ہی اچھا Maintain کیا گیا ہے.اس زمانہ میں اس طرف کو Tourists کا زیادہ رحجان نہیں تھا.اگر چہ علاقہ بہت ہی خوبصورت ہے، جھیلیں بھی ہیں، ہر قسم کا حسن یہاں موجود ہے.پہاڑیاں بھی ہیں، جنگلات بھی ہیں، جنگلی جانور بھی اور جنگلی جانوروں کے Zoo ( چڑیا گھر ) اور National Museum ( قومی عجائب گھر وغیرہ کئی قسم کی چیزیں یہاں موجود ہیں.لیکن اس وقت ابھی اتنار مجان نہیں تھا Tourists کا، غریب علاقہ تھا اور زرعی علاقہ تھا.تو کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے ، بنانے والوں نے پھر وہ ارادہ چھوڑ دیا اور 605 میں آئے، کچھ اور عمارتیں ساتھ یہاں بنائی گئیں اور اس کو بیمار بچوں کے لئے.یعنی بیمار سے مراد یہ ہے کہ جن کے ذہن بیمار ہوتے ہیں، بچپن سے کسی بیماری کی وجہ سے ان کی نشو و نمارک جاتی ہے، ایسے بچوں کے لئے ایک گھر سے تبدیل کر دیا گیا ، اس علاقے کو، اس سارے Complex کو.اور اس کے لئے حکومت کی طرف سے جو بھی معیار ہے، 152

Page 162

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمود 130 ستمبر 1985ء بہت بلند ہیں.ان معیاروں کے مطابق تمام احتیاطیں برت کے نہایت ہی عمدہ عمارتیں تعمیر کی گئیں اور کچھ عرصہ تک انہیں بچوں کے لئے یہ عمارتیں وقف رہیں.لیکن اس کے بعد حکومت نے ایک بہت بڑا کمپلیکس ان بچوں کے لئے یہاں سے قریب ہی ایک خوبصورت جگہ پر بنا دیا اور یہاں کے بچے اپنے طور پر جن کے ماں باپ فیس دیتے تھے، ان کو جب حکومت کی طرف سے سہولت مل گئی تو وہ سارے بچے یہاں سے اٹھا کر اس Complex میں لے گئے.اب اس کی جو شکل رہ گئی باقی ، وہ ایسی تھی کہ بروکر (Broker) نے مجھے بتایا کہ اس میں کوئی اکیلا انسان چھوٹے خاندان والا ویسے ہی نہیں آسکتا تھا اور اتنے بڑے Complex کو سنبھالنا بہت مشکل کام تھا، اس لئے اس کی جو قیمت ہونی چاہئیے عمارتوں کے لحاظ سے، اس سے تقریباً تیسرے حصہ پر یہ فروخت کے لئے مہیا ہوگئی.اور سودا طے کرانے والے ایجنٹ کہتا کہ جب میں نے آپ کی جماعت کا یہ اشتہار پڑھا کہ ہمیں اس قسم کی جگہ چاہئے تو اسی وقت پھر میں نے رابطہ کیا.میں نے کہا کہ آپ کے لئے تو بنی بنائی جگہ موجود ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بغیر کسی دقت کے یہ سودا طے ہو گیا.اسلام آباد کا جو علاقہ ہمیں ملا ہے، وہ بھی صاف نظر آرہا تھا کہ اس میں خدا تعالیٰ کی تقدیر گیر کر وہاں پہنچارہی تھی ، جہاں ہمیں ضرورت تھی.اور بالکل غیر معمولی حالات میں وہ بھی خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا.اب یہ جو علاقہ ہے، ایک تو علاقہ بہت خوبصورت ہے اور ہالینڈ کا سب سے زیادہ علاقہ بلاشبہ ہر ایک بتانے والا یہی بتاتا ہے اور آج کل Tourist Attraction یعنی سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے.ہمارے ارد گرد قریب ہی چند منٹ کے فاصلے پر یعنی چند منٹ کے چلنے کے فاصلے پر Camping Grounds ہیں، بڑی اچھی.وہاں جماعت کے دوست جب اگر کسی بڑی ضرورت کے وقت یہاں ٹھہرنا چاہیں زیادہ تعداد میں تو یہ سہولت بھی خدا نے مہیا کر دی ہے ہمیں.اور اس میں بنے بنائے چھوٹے چھوٹے مکان ہیں اور Camping صرف یہ نہیں Tents اپنے لے کر آئیں بلکہ مکان بھی مل جاتے ہیں وہاں اور بڑے اچھے Trailers (ٹریلرز وغیرہ ، ہر قسم کی سہولتیں اور بڑا سستا علاقہ ہے.علاقہ اس لحاظ سے پھر اس کے ماحول میں بہت ہی شریف لوگ بستے ہیں.اور جو سب سے زیادہ اہم چیز ہے، میری نظر میں وہ یہ ہے کہ ہمارے ہمسائے بہت شریف لوگ ہیں.اکثر حصہ ایسے معمر لوگوں سے آباد ہے، جو امن اور سکینت چاہتے ہیں.اور چاہتے ہیں ایسے خوش نما علاقے میں جا کے بسیں، جہاں کوئی ان کو تنگ نہ کرے.اور وہ آخری ایام مزے سے بغیر کسی ذہنی الجھن 153

Page 163

خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم کے بسر کریں.چنانچہ ہمارے ہمسائے میں ایک رئیر ایڈمرل ریٹائرڈ ہیں، ایک ہمارے ہمسائے میں وہ Ambassador ہوتے تھے ہالینڈ کے کہیں.وہاں سے ریٹائر ہوکر یہاں آئے ہوئے ہیں.غرضیکہ ایسے لوگ ، جو ہالینڈ کی سوسائٹی میں Cream سمجھے جاتے ہیں، وہ جب اپنے کاموں سے فارغ ہوتے ہیں تو اس علاقے میں آکر بس جاتے ہیں اور ان کا رویہ بعض دوسری قوموں کے برعکس متکبرانہ نہیں.کیونکہ میں نے دیکھا ہے، ایسے علاقے متکبر بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ بڑے بڑے لوگ وہاں بستے ہیں.ان کے اندر ایک سرکشی سی آجاتی ہے.لیکن یہاں کے لوگ بڑے ہی Humble اور توقع کے بالکل برعکس بہت ہی خوش مزاج یعنی اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنے والے ہیں.چنانچہ میں مثال دیتا ہوں ہمارے ساتھ ہی ایک ریٹائرڈ Military Attache رہتے ہیں، جن سے پوچھا مبلغ نے کہ ہمارے بچوں کے لئے سکول چاہئے ، بتائیں کون سا؟ تو انہوں نے کہا: آپ فکر نہ کریں.وہ بہترین سکول جو تھا ، وہاں ان کے بچوں کو خود ساتھ لے کر گئے اپنی موٹر میں اور وہاں داخل کروایا.اور ان کی بیوی ابھی بھی یہاں سے بچے کو Collect کرتی ہے اور خود وہ سکول لے کر جاتے ہیں.تو اتنے با اخلاق لوگ ہیں کہ ہمسائے کا ہر طرح سے خیال رکھنے والے اور پھر مذہبی علاقہ ہے.حمید صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ ہالینڈ کے سارے علاقوں میں یہ مذہبی مشہور ہے.ان کا فکری رجحان مذہب کی طرف ہے.پھر ان کو پھولوں سے بہت محبت ہے.اس لئے آپ دیکھیں گے کہ بہت ہی خوبصورت گھر ہیں ارد گرد، خوب سجے ہوئے.تو جس قسم کا ماحول جماعت احمدیہ کو چاہئے ، وہ سارا ماحول یہاں میسر ہے.اور Complex اتنا بڑا ہے کہ جس عمارت میں یہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں اس وقت یہاں نیچے بہت ہی بڑا کچن ہے، جو سینکڑوں کے لئے کھانا تیار کر سکتا ہے.اس کے لئے سارا سامان موجود ہے.وہ بھی اس قیمت کے اندر شامل ہے.اور جس جگہ ہم بیٹھے ہوئے ہیں، جسے مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے، اس کے ساتھ کھلے ہال اور موجود ہیں.میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ اگر یہاں کی حکومت نے اجازت دے دی اور غالباً اجازت آسانی سے مل جاتی ہے کہ اندرونی تبدیلیاں کرلی جائیں.تو کچھ اندرونی تبدیلیاں کر کے کچھ مسجد کا Symbol چھت کے اوپر تعمیر کر کے اسے کافی وسیع مسجد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے.عورتوں اور مردوں کو ملا کر یہاں کی ضرورت کے لحاظ سے میرا خیال ہے کوئی دو، تین سونمازی آسانی سے یہاں نماز پڑھ سکیں گے.جب ہم اس کو شامل کر لیں گے اور اگر کچھ آگے بڑھنے کی اجازت دے دی گئی تو انشاء اللہ بہت ہی خوبصورت بڑی وسیع مسجد بن جائے گی.154

Page 164

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمود 130 ستمبر 1985ء اس کے اوپر منزلوں میں دومنزلیں ہیں، ان میں بائیس کمرے ہیں رہائش کے لئے اور نہایت اچھے غسل خانے وغیرہ اور تمام دیگر ضروریات موجود ہیں.جو بیچنے والے تھے، وہ حوصلے والے لوگ تھے.چنانچہ پر دے بھی انہوں نے اسی طرح اچھے اور خوبصورت لٹکے ہوئے رہنے دیئے اور کوئی دوسرا سامان بھی اٹھا کر نہیں گئے کہ Cutlery تک انہوں نے ساتھ ہی مہیا کر دی.کچن کی جتنی Appliances لگی ہوئی تھیں، وہ ساری اسی طرح لگی رہنے دی گئیں.کوئی ایک حصہ بھی ایسا نہیں ہے، جو انہوں نے ہٹایا ہو یا جس کے پیسے زائد مانگے ہوں.صرف قالین تھے، جو قانون کی مجبوری سے Remove کر کے ان کو جلانے پڑے.کیونکہ جو پبلک بلڈنگ فروخت کی جائے ، یہاں کا قانون مطالبہ کرتا ہے کہ ان کے قالین نکال دیئے جائیں ورنہ بیماریاں منتقل ہونے کا خطرہ ہے.وو 66 ساتھ ایک بہت بڑی وسیع بلڈنگ ہے، جسے ہم B بی کہتے ہیں.یہ یہاں کی ایک بڑی پولیٹیکل پارٹی کے پاس فی الحال کرایہ پر ہے.اور پاکستان کے لحاظ سے اتنی ہزار روپے سالانہ کرایہ ہے اس عمارت کا.اور یہ بھی بہت وسیع عمارت ہے.اس میں بڑے بڑے ہالز ہیں اور سر دست ہم ان کو قانونا واپس نہیں لے سکتے.لیکن جب یہ مدت ختم ہو جائے گی تو پھر انشاء اللہ جماعتی استعمال میں آجائے گی.ایک اور بہت بڑی بلڈنگ ہے، جس کو ہم سی کہتے ہیں.یہ بلڈنگ اپنے رقبہ کے لحاظ سے اور گنجائش کے لحاظ سے ان سب سے بڑی ہے.اس میں نو (۹) بڑے بڑے ہال ہیں، جنہیں اجتماعی رہائش گاہ کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے.تین منازل ہیں اور کچن ان کے لئے الگ ہیں Toilets، ہر قسم کی سہولتیں ساتھ اور اس کے لئے ان کو مزید کسی تعمیراتی تبدیلی کی ضرورت نہیں، وہاں.یعنی ہمارے ہاں سے جس طرح قیام کا رواج ہے یہاں ، چھوٹا سا ایک سالانہ جلسہ یہاں کیا جائے تو جلسہ سالانہ قادیان کے جو نقوش لوگوں کے ذہن میں موجود ہیں، جن کور بوہ میں بھی ہم نے زندہ کیا اور قائم رکھا ، خدا کے فضل سے وہی اب غیر ملکوں میں منتقل ہوتے چلے جارہے ہیں.اور اسلام آباد میں بھی وہ نقوش منتقل ہو کر ثبت ہو چکے ہیں، اسلام آباد یو کے میں تو ہالینڈ میں بھی انشاء اللہ وہی نقوش یہاں ثبت ہو جائیں گے.اور اسی طرز پر ہم یہاں رہائش اختیار کریں گے، جس طرح قادیان یار بوہ یا اب اسلام آباد میں شروع ہوئی.تو اس لحاظ سے ہم زمین پر اگر Mattresses ڈال کر ان ہالوں کو استعمال کریں تو بعض کا اندازہ تو یہ تھا کہ پانچ یا چھ سو تک مہمان یہاں ٹھہر سکتے ہیں.لیکن میرا خیال ہے کہ تین سو یا چار سو کے درمیان 4 سو تک غالباً آسانی سے Accommodate ہو سکیں گے.اب یہ بائیں کمرے جو او پر ہیں، ان میں بھی 66 کی 155

Page 165

خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم گنجائش ہے اور نیچے جو ہال ہیں، ان کو شامل کر لیا جائے تو اس عمارت میں بھی ایک سو کی گنجائش ہے.تو اس کو لئے امید ہے کہ چار سو پانچ سو تک یہاں مہمانوں کی گنجائش نکل آئے گی.اور پھر ان کی ضروریات بھی ساری یہیں سے مہیا ہو جائیں گی، کسی نئی تعمیر کی ضرورت نہیں.تو عملاً خدا تعالیٰ نے ایک یوروپین مرکز ہمیں عطا فر ما دیا ہے.اور ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا، خریدتے وقت کہ کیا ہورہا ہے.اور میں سمجھتا ہوں، یہ ہالینڈ کے لئے خوش خبری ہے.اگر ہالینڈ کو ضرورت نہ ہوتی اتنی وسیع جگہوں کی تو خدا تعالیٰ کو اتنی بڑی جگہ دینے کی ضرورت نہیں تھی.نہ ہم نے مانگی تھی اتنی بڑی جگہ، نہ وہم تھا کہ مل جائے گی.یہ خود بخود تقدیر گھیر گھار کے یہ جگہ ہمارے لئے لے آئی اور تحفہ پیش کر دی ہے.اتنی تھوڑی قیمت پر اتنا بڑا قبیل جانا.پھر سو ایکڑ رقبہ ہے اس کا.جو ہالینڈ کے لحاظ سے ایک بہت بڑا رقبہ ہے، خدا کے فضل کے ساتھ.تو اس میں مجھے تو خدا تعالیٰ کی یہ تقدیر دکھاتی نظر آتی ہے کہ ہالینڈ میں انشاء اللہ جماعت کی ترقی ہوگی.اور آثار اس کے نظر بھی آرہے ہیں.ایک تو ہالینڈ کے جو احمدی Hollandish (اصلی باشندے ) ہیں، جو کچھ پیچھے تھے، بہت آگے آچکے ہیں اب.اور تبلیغ کا سب کو شوق ہے اور فدائی ہیں اور متوازن ہیں، دینی Extremes نہیں ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ماحول اچھا ہے.دوسرے ہالینڈ، جماعت احمدیہ کے معاملے میں عموماً بہت شریفانہ سلوک کر رہا ہے.جو سب کمیشن (Sub Comission) جو معاملہ پیش کیا تھا جماعت کے متعلق اور اس سے پہلے جو ان کے مخفی اجلاس میں معاملہ در پیش تھا، اس میں مسلسل ہالینڈ نے جماعت احمدیہ کی حمایت کی ہے.یہاں کے اخبارات بھی تعاون کرتے ہیں.یہاں کی حکومت جس طرح بھی ممکن ہے، ان کے لئے ہمدردانہ رویہ رکھتی ہے.تو جو لوگ خدا کے بندوں سے شریفانہ سلوک کیا کرتے ہیں، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ ان کو جزا نہ دے.اور اس سے بہتر جزاء کوئی نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کے لئے ان لوگوں کو چن لے، ان پر فضل نازل فرمائے.تو جو بنیا دیں قائم ہورہی ہیں، جو آثار مجھے دکھائی دے رہے ہیں اور جس رنگ میں ہالینڈ کے نوجوان احمدی خدا کے فضل سے منہمک ہو گئے ہیں تبلیغ میں، اس سے میں امید رکھتا ہوں کہ اس Complex کو اللہ تعالی جلد از جلد بھرنا شروع کر دے گا.یعنی خالی عمارتیں استعمال میں آجائیں گی.اور بھی کئی استعمال ہیں، جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں.156

Page 166

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء کل جو بروکر (Broker) تشریف لائے ہوئے تھے ، ان کا یہ خیال تھا کہ اتنی چھوٹی سی جماعت کو 66 کے لئے اتنی بڑی عمارت ہے تو کیوں نہ کرایہ پر چڑھائی جائے ؟ چنانچہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ “ بلڈنگ جس کو میں نے کہا ہے ، اس بلڈنگ کو آپ کرایہ پر دے دیں تو دس ہزار پونڈ سالانہ کراہیں جائے گا.اس سے اندازہ کریں، بلڈنگ کی حالت کیا ہے اور کتنی وسیع ہے؟ یعنی دولاکھ روپیہ سالانہ کرایہ یہ صرف اسی عمارت کا مل سکتا ہے.انہوں نے کہا کہ آپ کی باقی ساری عمارتیں آپ کی ضرورت سے زیادہ ہیں تو آپ اس کو کیوں نہیں دے دیتے ؟ میں نے کہا: یہ فیصلہ تو ہم اس طرح آنا فانا نہیں کر سکتے تسلی سے کریں گے، دیکھیں گے.مگر میں تمہیں اتنا بتادیتا ہوں کہ جب چھ مہینے پہلے ہم نے اسلام آبا د لیا تھا تو وہاں بھی لوگوں کو وہم تھا کہ اتنے بڑے Complex کو کس طرح سنبھالیں گے ؟ کس طرح وہاں عمارتیں خالی خولی خل خل کریں گی؟ اور ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگا، دیکھ بھال پر اتنا خرچ کرنا پڑے گا.اور میں نے اس کو کہا : آنے سے پہلے، تین نئے مربیوں کے کوارٹرز کے بنانے کا آڈر دے کر آیا ہوں.اتنی جگہ تنگ ہوگئی ہے فوراً.اللہ تعالیٰ تو جب جگہیں وسیع دیتا ہے تو کام بھی بڑھا دیتا ہے.وہاں تو اب جگہیں تلاش کرنی پڑتی ہیں کہ فلاں دفتر کے لئے کس طرح جگہ مہیا کی جائے ؟ اور جو بیرکس ہیں، وہ تو بہر حال سکولز کے لئے ہم نے رکھی ہوئی ہیں.بڑی بڑی جو Dormitories ہیں یا ہالز ہیں، وہ ہماری روزمرہ کی ضرورتوں اور جلسوں وغیرہ کے لئے بھی چھوٹے ہو جاتے ہیں.وہ تو چند مہینے کے اندر اندر دیکھتے دیکھتے اسلام آباد بڑا ہونے کی بجائے وہ چھوٹا نظر آنے لگ گیا ہے.اس لئے جب اللہ تعالیٰ کا جب یہ سلوک ہے تو میں تو دعا کرتا ہوں کہ پرسوں کی بجائے یہ Complex ہمارے لئے کل چھوٹا ہو جائے.جتنی تیزی سے ہم ترقی کریں گے، اتنی تیزی کے ساتھ ہماری عمارتیں ہمارے پیچھے رہنا شروع ہو جائیں گی.اور ان کا چھوٹا ہونا ، اللہ کا انعام ہے.یہ کوئی بری خبر نہیں ہے کہ جگہ تنگ ہو گئی ہیں.میں اس کی مثال ہمیشہ یہ دیا کرتا ہوں ، جماعت کو بار بار سمجھانے کے لئے کہ ماں جس بچے کے کپڑے چھوٹے ہوا کریں، جلدی جلدی آج ایک کپڑا بنایا، کل وہ بچے کا قد او پر نکل جائے اور چھوٹا ہو جائے ، بوٹ خرید نے پڑیں بار بار اور وہ چھوٹے ہو جائیں تو وہ یہ دعا تو نہیں کیا کرتی کہ اے اللہ ! اس بچے کا قد روک لے، یہ بڑا ہونا بند ہو جائے، مجھے مصیبت پڑی ہوئی ہے، کپڑے بنا بنا کر تھک جاتی ہوں اور پھر بھی چھوٹے ہو جاتے ہیں، وہ تو دیکھ دیکھ کر نہال ہوتی ہے.وہ تو کہتی ہے کپڑے میرے بچے کو لگ جائیں لیکن یہ بڑھتار ہے.تو جماعت کے ساتھ خلفاء کا یہی ہوتا ہے تعلق.بڑھتی رہیں اور جگہیں چھوٹی ہوتی رہیں ، وہ تو نہال ہوتے رہیں گے.157

Page 167

خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک موقع پر فرمایا تھا: یہ کام میرے دل میں اس قدر اس کے لئے جوش ہے کہ اگر مجھے اپنے کپڑے بھی بیچنے پڑیں تو تب بھی میں لگا دوں گا.لیکن جماعت کو اللہ نے اتنا اخلاص بخشا ہے کہ اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، محاورے کے طور پر یہ استعمال ہوتی ہیں باتیں عملاً اس کا موقع نہیں پیش آتا.لیکن تمنا کے لحاظ سے یہ بات درست ہے کہ خصوصیت کے ساتھ خلیفہ وقت کو تو ایسا عشق ہے جماعت کی ترقی کے ساتھ کہ اگر اس کی ساری محنتیں کسی عمارت کو وسعت دینے میں خرچ ہو جائیں اور وہ عمارت چھوٹی ہو جائے تو اس کو یہ افسوس نہیں ہوگا کہ میری محنتیں ضائع گئیں.وہ نہال ہو جائے گا اس بات پر ، وہ خدا کے حضور قربان ہو گا خوشی کے ساتھ ، الحمد للہ ہماری محنتوں کو پھل لگ گیا.تو اس لحاظ سے دعائیں کریں کہ یہ جو مرکز لوگوں کو آج بڑا نظر آ رہا ہے اور حقیقتا اس وقت تو ہمیں بڑا نظر آرہا ہے، یہ دیکھتے دیکھتے چھوٹا ہو جائے اور بڑی تیزی کے ساتھ جماعت یہاں ترقی کرنے لگے.اس وقت جب تک یہ ہمیں بڑا دکھائی دے رہا ہے، موجودہ مقامی جماعت کی ضرورتوں سے زیادہ دکھائی دے رہا ہے، اس وقت تک میرے ذہن میں دو، تین منصوبے ہیں، جو امکانا ہم جائزہ لیں گے.اگر قابل عمل ہوئے تو انشاء اللہ ان پر عمل کیا جائے گا.ایک تو یہ کہ ہمیں بچوں کے لئے ایک بہت اچھے سکول کی ضرورت ہے.اور اگر یہاں کی حکومت ہمیں اجازت دے کہ ہم اپنے اساتذہ باہر سے لاسکیں تو یورپ کے احمدی لڑکوں کے لئے یہاں سکول کھولنے کا بہترین ماحول ہے.کوئی جرم نہیں ہے ارد گرد، بہت ہی Peacefull پر امن ماحول ہے اور ایسی اچھی فضا ہے کہ وہ صحت مند انسانی مزاج پر اور عادتوں پر وہ صحت مند اثر ڈالنے والی ہے.اس لئے بچوں کے اس سے بہتر جگہ سکول کے لئے اور جگہ نہیں سوچی جاسکتی.اور پھر ان کی رہائش کی ضروریات ہر قسم کی پہلے ہی موجود ہیں.تو بچوں کا سکول یہاں اگر امکان ہوا، ہم جائزہ لیں گے تو وہ انشاء اللہ تعالیٰ یہاں کھولا جاسکے گا.دوسرے اسے خاص طور پر واقفین عارضی کے لئے میں سمجھتا ہوں، استعمال کرنا چاہئے.لوگ سیر کے لئے باہر جاتے ہیں اور سیر کے لئے جتنی ضروریات انسان کی ہوتی ہیں، وہ ساری یہاں پوری ہو سکتی ہیں.اس لئے یوروپین احمدی انگلستان کے، جرمنی کے یا دوسرے علاقوں کے وہ وقف عارضی کریں، بجائے سیر کرنے کے.سیر اللہ تعالیٰ خود ان کی کروا دے گا یہاں.اور یہاں اتنے Tourists آتے ہیں کہ ان کے لئے تبلیغ کے بھر پور مواقع ہیں.رہائش ان کو مفت مہیا کی جائے گی ، جماعت کی طرف سے.اور نہ پہلے واقفین عارضی کے لئے رہائش مہیا کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی تھی.تو جو بھی خاندان خواہ کو کی ہوتی تھی.جوبھی 158

Page 168

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء وہ پاکستان سے آئے ، خواہ وہ دنیا کے کسی اور حصہ سے آئے، اگر وقف عارضی کر کے ہالینڈ آنا چاہے تو ان کو کے لئے اس Complex میں انشاء اللہ تعالیٰ بغیر کسی پیسے کے رہائش مہیا کر دی جائے گی اور کھانا پکانے کی سہولتیں بھی دے دی جائیں گی.کھانے کا خرچ ان کا اپنا اور محنت اپنی شرط یہ ہے کہ جگہ کو صاف رکھنا ہے اور جس طرح صاف وصول کی تھی، اس سے زیادہ صاف چھوڑ کر جائیں.کم صاف نہ ہو اور زیادہ صاف نہیں کر سکتے تو پھولوں کا کوئی پودا ہی لگا دیں یہاں تحفہ.جگہ کو اور ماحول کے مطابق خوبصورت بنانے کی کوشش کریں.ارد گر د تبلیغ کے بے حد مواقع ہیں خدا کے فضل سے.کیونکہ جو Tourist آتا ہے، اس کے پاس وقت بہت ہوتا ہے.اس کو تبلیغ کی جاسکتی ہے، اس سے دوستیاں بنائی جاسکتی ہیں.ساری دنیا کے لئے نہایت عمدہ تبلیغی مرکز بن سکتا ہے.کیونکہ یہاں تقریباً سب دنیا سے لوگ آتے ہیں.اور سکول کا اور اس کا ٹکراؤ نہیں ہے.کیونکہ چھٹیاں ہوتی ہیں، انہی دنوں میں یہ سیاحوں کا موسم شروع ہوتا ہے.اور انہی دنوں میں والدین کو بھی توفیق ملتی ہے عموما کہ وہ چھٹیوں پر آجائیں.لیکن اگر اس کے علاوہ بھی ہو تو میرے خیال میں سکول کی ضرورتیں پوری کرنے کے باوجود یہاں انشاء اللہ اتنی جگہ مل جائے گی کہ روز مرہ کے آنے والے واقفین زندگی با آسانی سے یہاں ٹھہر سکیں گے.ایک تیسرا منصوبہ میرے ذہن میں یہ ہے کہ انگلستان میں ہمیں اشاعت کا جو مرکز ہے، اس میں وقت پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے.بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے.اور ہالینڈ میں اشاعت کے لحاظ سے ایک اچھا موقع ہے.یہاں مطبع خانے بھی بڑے عمدہ معیاری ہیں، کاغذ بھی نسبتا ستا ملتا ہے اور ویسے بھی ہر قسم کی سہولتیں یہاں سے دنیا میں لٹریچر بھجوانے کی موجود ہوں گی.لیکن یہ بھی منحصر ہے اس بات پر کہ یہاں کی حکومت ہمیں اجازت دیتی ہے یا نہیں؟ ہم کوشش کریں گے، ان کے لئے تو آمدن کا ذریعہ ہے.لکھوکھا پونڈ تک یہ معاملہ پھیل جائے گا دیکھتے دیکھتے انشاء اللہ، سالانہ خرچ کے لحاظ سے.کیونکہ اتنے وسیع منصوبے اشاعت کے جن کی بنیادیں ڈالی جارہی ہیں کہ ابھی چند سال کے اندر اندر لاکھوں پونڈ سالانہ عام بات ہوگی ، اس کے لئے.یعنی اتنا بڑا خرچ نہیں سمجھا جائے گا.اور پھر یہ انشاء اللہ تیزی سے ترقی کرنے والا معاملہ ہے.جس ملک میں یہ مرکز ہو، یہ اس کی خوش قسمتی ہے.تو آئندہ جا کر تو اس نے اربوں تک معاملہ پہنچ جاتا ہے.بہت ہی اچھی بنیاد قائم ہو جائے گی.اس کے لئے بھی بہترین جگہ ہے.یعنی اشاعت کے کام کے لئے یہ مرکز مصنفین بھی یہاں آکر ، یہاں بیٹھ کے نہایت ہی عمدہ ماحول میں اپنی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں.ترجمہ کرنے والے بیٹھ سکتے ہیں آکر اور علمی لحاظ سے یہاں کی جو یونیورسٹیز (Universities) ہیں، ان کو 159

Page 169

خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم خاص طور پر اسلامیات میں ایک خاص مقام حاصل ہے.Orientalists (مستشرقین ) پیدا کرنے میں ہالینڈ نے ایک بڑا کام کیا ہے اور بڑا بھاری لٹریچر ہے اسلام کے اوپر، جو ہالینڈ میں پہلے سے موجود ہے.Hollandish آبادیوں میں نفوذ کرنے کے لئے کئی علاقے ایسے ہیں، جو ہالینڈ کے رسوخ میں ہیں.وہاں اثر پیدا کرنے کے لئے ہالینڈ سے اشاعت زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہے.تو امکانات تو کئی روشن ہورہے ہیں لیکن ہم کہہ نہیں سکتے کہ ان میں سے ہر ایک یا ان میں سے کوئی بھی ہم پورا کر سکیں گے کہ نہیں؟ لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے منصوبے، جو ہمارے حق میں آسمان میں بن رہے ہیں، انہوں نے تو بہر حال کھلنا ہے اور انہوں نے پورا بھی ہونا ہے.اور جو عمارتیں، جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہیں، یہ جتنی بڑی نظر آ رہی ہیں، یہ مجھے یقین ہے کہ کچھ عرصہ کے اندر انشاء اللہ تعالی یہ چھوٹی ہوتی دکھائی دیں گی.اور جماعت کے کام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے شروع ہو جائیں گے.اس لئے ایک مرکز اور مراکز کو جنم دے گا، اللہ کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ.اب ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہالینڈ کی جماعت کو اب یہ توفیق عطا فرمائے کہ اپنی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کو بڑھتی ہوئی دعاؤں کے ساتھ اور بڑھتی ہوئی محنت اور خلوص کے ساتھ پورا کرنے کی اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا فرمائے.دعاؤں کے اوپر میں سب سے زیادہ زور دیتا ہوں.اسی لئے اس کا آخر پر ذکر کرتا ہوں تا کہ آخری یاد، جو ذہن میں نقش رہ جائے، وہ یہ ہو کہ دعا کے بغیر کوئی چیز بھی ممکن نہیں.تو ہالینڈ کی جماعت کو اب اپنے لئے دعا بہت کرنی چاہئے.کیونکہ جب خدا تعالیٰ انعام کرتا ہے تو اس کا شکر ادا کرنا اور پھر یہ خدا سے توفیق مانگنی کہ ہم اس انعام کے اہل ہوں، یہ انعام ہمارے اندر رچ بس جائے، ہمیں اس انعام کے سارے حقوق ادا کرنے کی توفیق ملے اور آئندہ بکثرت دوسرے انعامات کا پیش خیمہ بن جائے.کیونکہ خدا کا یہ قانون ہے کہ جب آپ اس کا شکر ادا کرتے ہیں تو شکر کے مزید مواقع مہیا فرماتا ہے.اس لئے یہ چیز تو دعا کے بغیر ممکن نہیں.اس لئے آپ دعائیں کریں.خاص طور پر ہالینڈ کی جماعت اپنے لئے دعا کرے کہ اس انعام کا حق ادا کرنے کی خدا ان کو توفیق بخشے اور ہر مشکل، جو اس راہ میں پیش آئے، اس کے لئے دعا کیا کریں.کیونکہ میرا یہ تجربہ ہے اور ساری زندگی کا نچوڑ ہے کہ کام خواہ کتنا بھی آسان ہو، جب دعا سے انسان غافل ہورہا ہو ، خیال ہی نہ آئے کہ اس کے لئے دعا کی ضرورت ہے تو اس میں بعض دفعہ مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں.لیکن کام خواہ کتنا بھی مشکل ہو، اگر دعا کی طرف صحیح توجہ پیدا ہو 160

Page 170

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء جائے اور انسان اپنے دل میں عاجزی محسوس کرتے ہوئے، اپنے آپ کو لاشئی محسوس کرتے ہوئے ، اسباب کو دیکھتے ہوئے بھی یہ سمجھتا ہو کہ یہ بے کار ہو جاتے ہیں، ان کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوا کرتا، اگر خدا کی یہ مرضی نہ ہو.اس رنگ میں جب دعا کرے انسان تو ساری مشکلات دیکھتے دیکھتے یوں غائب ہو جاتی ہیں، جیسے تھی ہی نہیں.وہ مشکلات بالکل ایک بچے کا ڈراؤنا خواب لگتی ہیں کہ آنکھ کھل جائے تو نہ وہ خواب، نہ وہ ڈر اور نہ وہ خوف کی جگہیں.اسی طرح دعائیں مومن کی آنکھیں کھولتی ہیں.دعاؤں کے ذریعہ انسان ایک شعور کی نئی دنیا میں داخل ہوتا ہے.اس وقت اس کو پتہ چلتا ہے کہ دعا کے بغیر وہ ایک ڈراؤنا خواب دیکھ رہا تھا اور اگر دعا نہ ہوتی تو اسی خواب میں وہ ہلاک ہو سکتا تھا.اس لئے شعور عطا کرنے کے لئے خدا کے وجود کا اور اس کے قرب کا اور اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے کہ ہاں وہ موجود ہے اور وہ ہماری مدد کرتا ہے اور ہمارے سارے کام آسان کرتا ہے، دعائیں سب سے زیادہ اہم ذریعہ ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتناز دور دیا ہے دعا پر کہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بیان کیا تھا کہ آپ سارے پرانے بزرگوں کے مضامین اکٹھے کر لیں ، جو دعا کے متعلق انہوں نے لکھے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تحریرات ایک طرف رکھیں تو وہ تحریرات ان سب پر بھاری ہوں گی.ایک زندگی میں آپ نے تیرہ سو سال کی زندگیوں کا، دعاؤں کا نچوڑ بیان کیا اور اس سے بڑھ کر بیان کر دیا.اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بنیادی چیز ہے.اس دور میں ایمان کو ثریا سے لانا، دعا کے بغیر ممکن نہیں.اور چونکہ دعا کے نتیجہ میں آپ کو خدا تعالیٰ نے ثریا سے ایمان کو کھینچ لانے کی توفیق بخشی ، اس لئے یہی سب سے زیادہ راگ ہے، جو آپ نے الا پا ہے.اور خدا کی حمد میں اور لوگوں کو سمجھایا ہے کہ دعا کرو، دعا کے ذریعے تمہارے سارے کام بنیں گے، دعا کے ذریعہ تمہیں ایمان نصیب ہوگا، دعا کے ذریعہ تمہیں ایمان کے مطابق عمل نصیب ہوگا اور خدا کا قرب بڑھتا رہے گا.اس لئے ہالینڈ بالخصوص اور باقی ساری دنیا کی جماعتیں عموماً اپنی دعاؤں میں اس مرکز ہالینڈ کو یاد رکھیں.ایک رسمی افتتاح تو اس کا آج شام کو ہوگا لیکن اصل افتتاح یہی جمعہ کے وقت کا افتتاح ہے.تو ہم دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کے ساتھ نہیں نہ صرف اس مرکز کو پھولتا پھلتا، دن رات نشو و نما پاتا ہوا، دیکھنے کی توفیق بخشے بلکہ جلد از جلد نئے مراکز عطا کرتا چلا جائے.اور جتنا دشمن کوشش کر رہا ہے کہ ہماری زمین تنگ ہو، اس سے ہزاروں گنا زیادہ وہ خدا کی زمین بڑھنے اور پھیلنے لگے، جو اس نے ہمیں عطا کی ہے.161

Page 171

خطبہ جمعہ فرموده 13 ستمبر 1985ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ”یہاں کی جماعت کی چونکہ ابھی پوری طرح اس طرح تربیت نہیں ہے اور شاید ان کے پاس ذرائع بھی نہ ہوں، ترجمہ کا انتظام یہاں نہیں ہوتا.انگلستان کی جماعت میں خدا کے فضل سے ہو رہا ہے اور بڑا اچھا انتظام ہو گیا ہے.کوشش یہ کرنی چاہئے کہ آئندہ یہاں جو بھی اہم تقریبات ہوں یا خطبات، جوار دو میں ہوں کسی وجہ سے یا کسی اور زبان میں ، ان کا ساتھ ترجمہ ہونا چاہئے.اور باہر تو ہمیں یہ سہولت ہے انگلستان میں کہ انگریزی کا ترجمہ سننے والے تھوڑے ہیں، اس لئے ان کو ہال میں بٹھا دیتے ہیں، یہاں شاید مشکل ہو.یا یہاں بھی ہو سکتا ہے ایسے ہال میں.میرا خیال ہے کہ جب تعمیر میں تبدیلیاں پیدا کریں تو شیشہ کی جگہ شیشہ کی دیوار ہو، جس کے پرے وہ دوست بیٹھیں، جو ترجمہ Hollandish زبان میں سنا چاہتے ہیں تو آسانی ہوگی.کوئی ایسی مشکل نہیں ہے، ایک چھوٹا سالا وڈسپیکر وہاں لگ جائے اور ایک جگہ الگ بیٹھ کر کوئی ترجمہ کرنے والا ساتھ ساتھ ترجمہ کرے.ان کا حق ہے کہ ان کو فوری طور پر اپنی زبان میں کچھ ملے.اس لئے آج کا ترجمہ آپ فوری طور پر سارا تر جمہ تو ممکن نہیں ہوگا، Summary، خلاصہ نہیں بلکہ Summary نسبتا زیادہ ہوتی ہے، وہ تیار کر کے ان کو مہیا کر دیں کیسٹ تا کہ ان کو پتہ تو لگے کہ کیا کہا گیا ہے".کا کا مطبوعہ خطبات طاہر جلد 104 صفحہ 771 تا 785) | 162

Page 172

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خلاصہ خطاب فرمودہ 13 ستمبر 1985ء میں آپ کے لئے اس دین کا پیغام لایا ہوں ، جو سراپا محبت ہے خطاب فرمودہ 13 ستمبر 1985ء بر موقع افتتاح بیت النور بالینڈ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے اس پر معارف خطاب میں نہایت دلکش انداز میں حاضرین کو احمدیت کا پیغام پہنچایا.حضور نے فرمایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس مرکز کے افتتاح کی توفیق بخشی.ہم اللہ تعالی سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے کام میں اتنی وسعت پیدا کرے گا کہ یہ کمپلیکس، جو اس وقت ڈچ جماعت کی تعداد کی نسبت بڑا نظر آتا ہے، چھوٹا رہ جائے گا“.فرمایا:.” میری اس امید کی بنیاد یہ ہے کہ ڈچ قوم خوبصورتی کو بہت پسند کرتی ہے اور اگر ان کے سامنے دین حق کی خوبصورتی واضح کر دی جائے تو ممکن نہیں کہ وہ اس خوبصورتی سے حصہ نہ لیں.دوسرے یہ کہ ڈچ قوم میں یہ خصوصیت بھی ہے کہ اس کے مزاج میں منافقت نہیں ہے.جو وہ ظاہر کرتے ہیں، وہی ان کے اندر بھی ہے.اس کا اظہار ان کی اس عادت سے بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھتے ہیں تو کمروں کی کھڑکیوں کے پردے ہٹا دیتے ہیں اور باہر سے ان کے گھروں کا اندرونی حصہ صاف نظر آتا ہے، جو بہت ہی خوبصورتی سے سجایا ہوتا ہے.فرمایا:.اس عادت سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ڈچ اپنا اندرونہ چھپاتے نہیں.اور وہ اندر اور باہر 66 سے ایک جیسے ہیں.اور مذہبی نقطہ نگاہ سے یہ ایک بہت اعلیٰ خاصیت ہے.مطبوعه ضمیمہ ماہنامہ مصباح اکتوبر 1985ء) حضور نے مزید فرمایا کہ اگر آج کی دنیا کے مسائل کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سیاسی لیڈروں کے دعاوی اور عمل میں تضاد کا نتیجہ ہے.ڈچ قوم ایسی دو عملی کا رویہ نہیں رکھتی.مطبوعہ ہفت روزہ النصر 13 دسمبر 1985 ء ) 163

Page 173

خلاصه خطاب فرمودہ 13 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم حضور نے حقیقی دینی تعلیم کے محاسن اور خوبیوں کو حاضرین کے سامنے پیش کرتے ہوئے انہیں دین حق کی طرف دعوت دی اور فرمایا کہ میں آپ کے پاس اسلام کا پیغام لایا ہوں، جو سراسر محبت ہے اور اس میں نفرت کی کوئی گنجائش نہیں.اور نہ اس میں جبر ہے.آج اگر کوئی کسی قسم کے جبر کا قاتل ہے تو اسے اسلام کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں“.فرمایا:.اسلام کی خوبیوں پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے.لیکن آج میں آپ کے سامنے اس کی ایک خوبی کا ذکر کروں گا.جس کا دعوی بھی کسی اور مذہب میں نہیں ملتا.اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی رو سے خدا تعالیٰ کی ذات پر کسی کی اجارہ داری نہیں.اس وجہ سے جہاں مسلمانوں کو اسلام نے یہ حکم دیا کہ جملہ اقوام کے انبیاء پر ایمان لاؤ، وہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام کسی قوم سے مخصوص نہیں فرمایا بلکہ آپ کو تمام دنیا کے لئے مبعوث فرمایا.حضور نے یہ پر معارف بات بھی بیان فرمائی کہ مختلف مذہب کے پیروکاروں سے جو بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے زیادہ اس کے نمائندوں (یعنی انبیاء) کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی دوسرا نمائندہ آتا ہے تو اس کے سابقہ نمائندہ کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے اس نے نمائندہ کو قبول نہیں کیا جاتا.جبکہ اگر خدا تعالیٰ سے وابستگی اور وفاداری رکھی جائے تو اس کے 66 ہر نمائندہ کو قبول کرنا ضروری ہے.آخر میں حضور نے تمام حاضرین اور شہر کے لارڈ میئر کا شکریہ ادا کیا اور ان کا بھی شکریہ ادا کیا ، جو اس تقریب میں شمولیت کے لئے خود حاضر نہ ہو سکے لیکن محبت کے اظہار کے لئے انہوں نے پھولوں اور پودوں کے تحفے ارسال کئے تھے.164 (مطبوعہ ہفت روزہ النصر 13 دسمبر 1985ء)

Page 174

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمود : 17 ستمبر 1985ء دکھوں اور بے اطمینانی کا علاج صرف اور صرف دین حق میں ہے خطاب فرمودہ 17 ستمبر 1985ء کولن میں جماعت احمد یہ مغربی جرمنی کے ایک نئے مرکز کے افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جو خطاب فرمایا، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.حضور نے جرمنی میں موجودہ نئی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کولون جرمنی میں جماعت احمدیہ کا تیسر انیا سنٹر کھولنے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی ہے.حضور نے جرمنز کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے دکھوں اور بے اطمینانی کا علاج صرف اور صرف دین حق میں ہے.جو انسان کو زندہ خدا سے ملاتا ہے.خدا تعالیٰ کے تعلق کے بغیر انسان کبھی سکون کی زندگی نہیں گزار سکتا.(مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید ستمبر 1985ء) 165

Page 175

Page 176

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خلاصه خطاب فرمودہ 18 ستمبر 1985ء امن اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ صحیح تعلق قائم کر کے ہی مل سکتا ہے خطاب فرمودہ 18 ستمبر 1985ء بر موقع افتتاح بیت النصر کولون جرمنی سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.سورۃ فاتحہ اپنے معنوں کے لحاظ سے بہت وسیع اور گہری ہے، جو مسلم دنیا میں کثرت سے پڑھی جاتی ہے.اور خاص طور پر ایسے موقع پر پڑھی جاتی ہے، جب انسان نے کوئی کامیابی حاصل کی ہو.انسان کو یہ یاد دلانے کے لئے پڑھی جاتی ہے کہ وہ بہت کمزور ہے، تمام تعریف صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے.انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کوئی معرکہ سر انجام دیتا ہے تو اپنے اس کارنامے پر بے انتہا فخر کرتا ہے اور اس کا میابی کو اپنی قوت بازو کا نتیجہ بجھتا ہے.اس سورۃ میں یہ بتایا گیا ہے کہ تمام انسانی کوششیں صرف اسی کے فضل سے بار آور ہوتی ہیں.اور ہماری کوششیں بہت حقیر ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی تعریف کے قابل ہے.اور اس کو خوش کر کے تم بھی تعریف کے مستحق بن سکتے ہو.پھر فرمایا:.آج ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے یہاں کے احمدیوں کو جرمنی میں ایک اور نیا سنٹر کھولنے کی توفیق دی ہے.یہ تیسرا بڑا سنٹر ہے.فرینکفورٹ اور ہمبرگ میں دو مراکز پہلے سے موجود ہیں.جماعت احمد یہ صرف جرمنی میں ہی نہیں بلکہ تمام دنیا میں نئے مراکز قائم کر رہی ہے.یہاں تک کہ پولینڈ، ہنگری ، روس میں بھی جماعت احمدیہ کا وجود ہے.آپ لوگوں کو اسلام کے متعلق غلط تاثر دیا گیا ہے ورنہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے اور ہم آپ کے ملک میں امن کا پیغام ہی لے کر آئے ہیں.آپ کو اسلام کے پیغام سے کسی قسم کا خطرہ نہیں.اسلام تو نام ہی امن کا ہے.اگر اسلام میں نفرت ، دشمنی اور ظلم کے عصر شامل ہو جائیں تو وہ اپنی شخصیت کھو دے گا.اسلام محبت ، امن اور انسانوں میں باہمی اخوت کا پیغام ہے.جرمنی میں تیسر امر کز کھولنے کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی وجہ تو یہ کہ جرمنی میں قبول کرنے والوں کے لئے جو بہت مخلص اور کام کرنے والے ہیں، سہولت مہیا کی جائے تا کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں.167

Page 177

خلاصه خطاب فرمودہ 18 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم دوسری وجہ تمام یورپین ممالک میں سے جرمنی میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن قوم بے سکونی میں مبتلا ہے اور ذہنی سکون کی متلاشی ہے.ان کے لئے زیادہ سے زیادہ اسلام کا مطالعہ کرنے کے مواقع دستیاب کئے جائیں“.حضور نے جرمن قوم کی بے سکونی کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وو دونوں ( عظیم جنگوں میں نہ صرف یہ کہ جرمن قوم نے سب سے زیادہ تکلیف اٹھائی بلکہ ان جنگوں کے شروع کرنے کا تکلیف دہ احساس بھی شدت سے پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ سخت ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں.اور آج اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب جرمن قوم کی اس ذہنی خلش کو دور نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان کے احساس ندامت کو ختم کر کے ان کو نئی زندگی دے سکتا ہے.فرمایا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جرمن قوم ایک بہادر اور غیور قوم ہے.انہیں کوئی کھوکھلا فلسفہ مطمئن نہیں کر سکتا.اسلام ان کے سامنے ایسے اصول پیش کرتا ہے، جنہیں اپنا کر وہ پرسکون زندگی بسر کر سکتے ہیں.یا درکھیں کہ جن کے دل پر سکون نہیں ہوتے ، وہ کبھی امن قائم نہیں کر سکتے.مختلف مذاہب میں ذہنی سکون کے حصول کے مختلف طریقے بتائے گئے ہیں.لیکن دراصل امن اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ صحیح تعلق قائم کر کے ہی مل سکتا ہے.ایسے لوگ جب سکون حاصل کر لیتے ہیں تو وہ اس سکون کو صرف اپنے تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں.جب انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو جاتا ہے، جو زندہ خدا ہے تو زندگی میں ایک ایسی تبدیلی آتی ہے کہ انسان خود بخود پر سکون ہو جاتا ہے اور دنیاوی تکالیف کو خاطر میں نہیں لاتا.حضرت عیسی نے کیوں اتنی تکالیف برداشت کیں؟ کیونکہ خدا ان کے ساتھ تھا“.فرمایا:." آج مذہب کے نام پر ہمیں بھی تکلیفیں دی جارہی ہیں.کیونکہ روز اول سے ماننے والے تکالیف برداشت کرتے آئے ہیں.احمدی اس سے مستی نہیں.احمدیوں کو پاکستان میں کلمہ پڑھنے پر مار پڑ رہی ہے اور ان پر طرح طرح کی پابندیاں ہیں.بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان کا امن ختم ہو گیا ہے لیکن وہ تو بہت خوش ہیں اور خوشی خوشی مار کھا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکالیف اٹھانے پر فخر کرتے ہیں.حضور نے مزید فرمایا:.یا درکھیں ہم جس امن کا پیغام لے کر آپ کے پاس آئے ہیں، وہ آپ کو تکلیف نہیں دے گا بلکہ آپ کو اپنی نظروں، دوسرے انسانوں کی نظروں میں اور آپ کے پیدا کرنے والے خدا کی نظروں میں بہت اونچا مقام عطا کر دے گا“.مطبوعہ ہفت روزہ النصر 27 ستمبر 1985ء) 168

Page 178

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد مصف خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء یہ بھی جماعت پر ایک موسوی دور ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:."گذشتہ خطبہ جمعہ میں نے Nunspeet ہالینڈ سے دیا تھا.اور اس میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں مومنین سے قطعی وعدہ فرمایا ہے کہ تم اگر میری خاطر دکھ اٹھاؤ گے تو میں تمہاری زمینیں وسیع کرتا چلا جاؤں گا یعنی تمہیں اپنی زمین میں لے آؤں گا.اور اللہ کی زمین وسیع ہے، ان معنوں میں وہ وعدہ ہے.اور یہ بھی بشارت ہے کہ اس دنیا میں بھی تمہیں نقد و نقد انعام ملیں گے اور آخری دنیا کے پھر انعام تو مقدر ہیں ہی.اور یہ بھی وعدہ ہے کہ خدا کے انعامات کا سلسلہ لامتناہی ہوا کرتا ہے.وہ کسی ایک جگہ جا کر ٹھہر نہیں جاتا.تو جن کو خدا تعالیٰ کے وعدے اس دنیا میں ہی پورے ہوتے دکھائی دینے لگیں، ان کے لئے دوہری خوشخبری یہ ہے کہ آخرت کے وعدوں پر بھی پہلے سے بڑھ کر ایمان پیدا ہو جاتا ہے.جن کو اس دنیا میں کوئی خوشخبریاں پوری ہوتی دکھائی نہ دیں، ان کے لئے آخرت کی امیدیں بھی موہوم ہیں.سوائے اس کے کہ ایک امید لگائے بیٹھے ہیں، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.تبھی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ خصوصاً ابتلاء کے دور میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے یہ پیغام لے کر آتے ہیں کہ: نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ ( حم السجدة: 32) ہم تمہارے ساتھ ہیں، تمہارے دوست بن کے رہیں گے، اس دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی.یہ بتانے کے لئے کہ آخرت کا وعدہ محض کوئی فرضی قصہ نہیں ہے، اس لئے خدا نے زیادہ یقین پیدا کرنے کے لئے ، زیادہ ایمان پیدا کرنے کے لئے ہمیں اس دنیا میں یہ حکم دے کر بھیجا ہے کہ ہم اب تمہارے ساتھ رہا کریں گے.چنانچہ ایک دائی رفاقت فرشتوں کی نصیب ہو جاتی ہے اور ہر منزل پر ہر موڑ پران کا قرب محسوس ہوتا ہے.جماعت احمدیہ آج کل جس ابتلا کے دور سے گزر رہی ہے، بعض لوگوں کی نظر اس ابتلاء پر ہے اور بے قرار رہتے ہیں کہ کب یہ دور ختم ہوگا.لیکن اللہ کے انعامات پر بھی تو نظر کرنی چاہئے وہ کس کثرت 169

Page 179

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم کے ساتھ اور کس تیزی کے ساتھ نازل ہورہے ہیں.دراصل ابتلاء کو انعام سے ایک خاص نسبت ہے.اس لئے ابتلاء کے لمبا ہونے کی دعا تو میں نہیں کہتا لیکن ابتلاء کے دوران خدا کی رضا پر ، خدا کے انعامات پر راضی ہونے کی عادت تو ڈالنی چاہئے.اور کثرت کے ساتھ ان انعامات کا ذکر کرنا چاہئے اور کثرت کے ساتھ حمد کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے.چنانچہ ہالینڈ میں خدا تعالیٰ نے ہمیں جو مرکز عطا فرمایا ہے، اس کو آپ دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ کتنی شاندار جگہ ہے، کیسی خوبصورت جگہ، کتنی عظیم اور وسیع جگہ ہے.اور اس کے ساتھ ہی علاقے کے لوگوں میں توجہ بھی پیدا فرما دی.اور جس کثرت کے ساتھ وہاں کے معززین تشریف لائے اور انہوں نے جس قسم کے اظہار کئے ، اس سے اس جماعت کی امیدیں بہت بڑھ گئی ہیں.اور پھر ان کے علاوہ بعض عرب معززین کی توجہ بھی اس طرح پھیر دی اور وہ بھی آئے اور مراسم بڑھائے.اور آئندہ کے لئے بعض یسے ملکوں کے دوست ہیں، جن کے ساتھ بہت سے گروہ ہیں، وہ مستقل رابطہ رکھنے کے عہد کر کے گئے ہیں.بلکہ خود مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں مزید لٹریچر مہیا کیا جائے.تو جہاں خدا وسیع جگہیں عطا فرمارہا ہے، وہاں وسیع جگہوں کو بھرنے کے لئے لوگوں کے دل بھی ساتھ ساتھ پھیر رہا ہے اور مائل فرماتا چلا جا رہا ہے.اور یہ ایک جگہ نہیں ہر جگہ یہی سلسلہ چلا ہے.چنانچہ ہالینڈ کے بعد بیلجیئم کے پہلے مشن کے افتتاح کے لئے گیا.اور ہالینڈ میں تو پہلے ایک لمبے عرصہ سے مشن قائم تھا، بیلجیئم میں مبلغ کرائے کے مکان میں رہتا تھا.جماعت کے پاس با قاعدہ کوئی عمارت نہیں تھی.اس لحاظ سے اسے ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ وہ پہلی عمارت، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نئے ملک میں عطا فرمائی ہے، اس کے افتتاح کا بھی بہت جلد پہلے افتتاح کے بعد موقع مل گیا.اور وہ عمارت بھی بہت ہی کشادہ اور وسیع ہے.اس کے دو بڑے ہال ہیں اور رہائش کے لئے ایک بہت اعلیٰ دو منزلہ فلیٹ ، اس کے ساتھ کمرے مزید ر ہائش کے لئے جہاں گنجائش ہے، اس کے ساتھ غسل خانے اور دوسری سہولتیں ہیں.پھر دوسری طرف اس کے دفتر کے لئے بہت وسیع کشادہ جگہ، پھر اس عمارت میں زیرزمین بہت بڑی گنجائش رکھی ہوئی ہے.اس کے علاوہ مہمانوں کو ٹھہرانے کے لئے اس کے ایک کنارے پر کھلی جگہ ہے.عمارت کا قبضہ ابھی نیا ہی لیا گیا ہے لیکن تھوڑے سے عرصے میں انہوں نے تیاری کر کے پچاس مہمانوں کے لئے وہیں جگہ بنائی تھی.اور اگر اس کو پوری طرح استعمال میں لایا جائے، ہر قسم کی ضرورتیں مہیا وہاں کر دی جائیں تو ایک بہت بڑا شاندار مرکز بن جاتا ہے.170

Page 180

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ہی خطبہ جمعہ فرمود و 20 ستمبر 1985ء اور یہ جتنی نئی جگہیں اللہ تعالٰی عطا فرمارہا ہے، پرانے سب مراکز سے اپنی گنجائش میں اور رقبے میں زیادہ ہیں.اس کے ساتھ بھی ایک بہت ہی خوبصورت اور وسیع پائین باغ ہے.اور وہاں دور تک سیر کی جگہ ہے اور وہ سارا اس عمارت کے ساتھ ہی ملحق ہے.اور پھر ساتھ اور رقبہ بھی مل رہا ہے تا کہ کوئی بہت عظیم الشان مسجد بنانے کی اللہ تعالیٰ جب توفیق عطا فرمائے تو ساتھ کے رقبے میں وہ تعمیر کر لی جائے.اور وہاں کا سارا علاقہ بیلجیئم کے بہترین علاقے پر مشتمل ہے.اور برسلز کا وہ حصہ، جو ساؤتھ ویسٹ ہے، یعنی جنوب مغربی.اس میں نہایت اچھی قسم کے لوگ صاف ستھرے، جرائم سے پاک علاقہ ہے، مہذب تعلیم یافتہ لوگ ہیں.اور باوجود اس کے کہ پہلے ایک لمبے عرصہ تک مبلغ کی موجودگی کے باوجود وہاں لوگوں کو توجہ نہیں تھی.لیکن اس علاقے کے لوگوں نے غیر معمولی تعاون کیا ہے.ہالینڈ کی طرح یہاں کے معززین بھی اردگرد سے مسجد کے لئے پھولوں کے تحائف لے کر آتے رہے، بعضوں نے اور تحائف پیش کئے ، بعض مستقل لگانے کے لئے پودے لے کر آئے.خدا نے دلوں میں ایسی محبت پیدا کر دی تھی کہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی.اور یہاں بھی خدا تعالیٰ نے عربوں میں سے بعض معززین عطا فرمائے.ایک عرب پروفیسر ہیں، ان کے تو دل کی کیفیت یہ ہوگئی تھی کہ پہلے تو کہنے لگے کہ میں تو احمدی ہوں لیکن ابھی بیعت نہیں کروں گا اور پہلے میں لوگوں کو تیار کروں گا.پھر وہ دوسرے دوستوں کو بھی لے کے آئے ، ان کو بھی تبلیغ کروائی.پھر دوبارہ دوسرے دوستوں کو لے کر آئے ، ان کو تبلیغ کروائی.اور آخر پر ایک دوست نے ، جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے بیعت کی، انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں دستی بیعت کرنی چاہتا ہوں.اور جب دستی بیعت ہورہی تھی تو انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے بھی فوراً دستی بیعت میں شمولیت کرلی اور ان سے مزید علیحدگی برداشت نہیں ہوئی.وہ بڑے قابل آدمی ہیں، ان کا ہزاروں پر اثر ہے اور اس علاقہ میں بہت ہی معزز ہیں.میں نے تو ہزاروں پر اثر کہا ہے، ان کا یہ بیان تھا کہ یہاں ہمارے ملک اور ساتھ کے ملک کے کئی لاکھ باشندے ہیں اور میں انشاء اللہ ان سب تک پیغام پہنچاؤں گا.تو جب خدائی زمینیں عطا کرتا ہے تو ساتھ زمینیں بھرنے والے بھی عطا کر دیا کرتا ہے.یہ ہے، اس کی شان.محاورہ ہے کہ کوئی کسی سے کچھ مانگے تو غریب آدمی پھر بہانے کے طور پر مزید بھی مانگتا رہتا ہے کہ اونٹ دے، لادنے والے بھی ساتھ دے.ہمارے تو مانگنے کے بہانے ہوتے ہیں، خدا کی عطا کے بہانے ہوتے ہیں.وہ ایک چیز دیتا ہے تو اس کی ضروریات کے دوسرے حصے بھی خود بخود پورے کرتا چلا جاتا ہے.چنانچہ بیلجیئم کا نیا مشن، جو بہت دعاؤں کے ساتھ کھولا گیا ہے، اس کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے وہی شان دکھائی ، وہی وعدے پورے کئے.171

Page 181

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اور جو معززین تشریف لائے، انہوں نے بہت لمبا عرصہ تک وہاں بیٹھ کر سوال و جواب کی مجلس میں شرکت کی.اور خود ایسے سوال کئے.میں تو براہ راست پہلے تبلیغ تو نہیں کرنی چاہتا تھا کیونکہ مہمانوں پر یہ بات بعض دفعہ بوجھ ہو جاتی ہے کہ بلایا ہے کس غرض سے، افتتاح کے لئے اور ساتھ اپنی ساری تبلیغ شروع کر دی.لیکن خدا نے ان کے دل میں سوال ایسے ڈال دیئے اور پھر جوابوں میں ایسی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ وہ مجلس ختم ہونے میں نہیں آتی تھی.یہاں تک کہ چونکہ میر صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے، جو پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں ، ان کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں، ایک اور الیکشن قریب تھا تو ان پر بھی رحم کرتے ہوئے، انہوں نے یہ نہیں کہا، میں نے خود یہ کہا کہ اب بعض لوگوں کو کام ہوں گے ، اس لئے ہم مجلس ختم کرتے ہیں.لیکن جو بیٹھنے والے تھے ، ان کی کیفیت تو یہ تھی کہ بیٹھے رہتے اور سوال کرتے چلے جاتے ، کوئی فرق نہیں پڑتا.ہم نے بعد میں بھی بعض معززین سے رابطہ کیا.رات کھانے پر ایک دو دوستوں کو پیغام بھجوایا.وہاں یہ عادت نہیں ہے کہ دو گھنٹے کے نوٹس پر پہنچ جائیں لیکن خدا کے فضل سے دو گھنٹے کے نوٹس پر ہی پہنچ گئے.اور پھر بڑے لمبا عرصہ تک مختلف موضوعات پر گفتگو جماعت کے مسائل پر ہوتی رہی.اللہ تعالی ساتھ ساتھ دل بھی بدل رہا ہے.اس کے بعد کولن پہنچا.جس کا جو اصل تلفظ ہے، وہ تو میرے لئے بڑا مشکل ہے.کولن کر کے کچھ کہتے ہیں، جرمن لیکن ہمارے عام دوست کولن کہ دیتے ہیں یا کولون.تو جو بھی ہے کولن شہر مشہور ہے ، سب کو پتہ ہے.وہاں کی ارد گرد کی جماعتوں کے لئے کوئی مرکز نہیں تھا.چنانچہ ان کی خواہش تھی کہ ہمیں بھی کوئی مرکز لے کر دیا جائے.مرکز تو آج سے چند مہینے پہلے ان کو لے دیا گیا مگر مجھے پہلی دفعہ دیکھنے کا موقع ملا.وہ عمارت بھی خدا کے فضل سے بہت وسیع عمارت ہے.اتنی وسیع کہ آپ کے پرانے دونوں مراکز ہیمبرگ کا مشن اور فرینکفرٹ کا مشن دونوں مل کر بھی اس کا ایک حصہ بنتے ہیں.اور ابھی وہ ساری عمارت ہمارے پاس نہیں ہے.اس کا رقبہ سات ہزار مربع فٹ ہے، جو تعمیر شدہ رقبہ ہے.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کتنی وسیع عمارت عطا فرمائی ہے.اور تین منزلیں ہیں.اوپر کی منزل میں ابھی بنے کی گنجائش ہے.نیچے کی منزل میں دونوں طرف جہاں سے داخلے کا رستہ ہے، اس کے دونوں طرف وسیع ہال ہیں اور وہ ابھی کرایے پر ہیں.اور کرایہ بھی چار ہزار مارک مہینہ کا ہے.تو ہیں ہزار روپے ماہانہ ان کا کرایہ بھی ساتھ مل رہا - ہے.جب ہماری ضرورتیں پھیلیں گی تو ہم اس عمارت کو خالی کروائیں گے.وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے بڑا رحجان پیدا کر دیا.ہماری توقع سے بہت زیادہ مہمان تشریف لائے.میر تو وہاں موجود نہیں تھے مگر ہمارے علاقے کے جو حکومت کے افسر اعلیٰ ہیں، حکومت کی طرف وہ وہاں 172

Page 182

تحریک جدید - ایک الی تحریک...جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء تشریف لائے ہوئے تھے.بہت لمبا عرصہ وہاں بھی سوال وجواب کی مجلس چلتی رہی اور سارے دوست بڑی گہری دلچسپی لیتے رہے.کھانے کے بعد بھی ٹھہر گئے اور کھانے کے بعد بھی پھر ایک مجلس لگ گئی.بعض دوست مزید باتیں کرنا چاہتے تھے.جوان کے دلوں کی کیفیت نظر آئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت اسلام کے پھیلنے کے وسیع امکانات پیدا ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے دلوں کو تبدیل کر رہے ہیں.اور یہ ساری ابتلاء کی برکت ہے.اس جگہ میں پہلے بھی آتارہا ہوں، خلافت سے پہلے بھی ، خلافت کے بعد بھی اور اس قسم کے عمومی رحجانات کہ عربوں میں بھی، یور پینز میں بھی اس طرح توجہ پیدا ہوئی ہو اور جماعت کے لئے نرم گوشے پیدا ہو گئے ہوں، یہ پہلے کبھی نظر نہیں آیا.عربوں میں تو خدا کے فضل سے اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی تحریک ملتی ہے کہ جن کو آپ سب سے زیادہ سخت سمجھتے تھے، وہ آج احمدیت کے لئے سب سے زیادہ نرم ہو گئے ہیں.کہیں اتنی جلدی کوئی قوم بیعت نہیں کر رہی، جتنی جلدی اب عرب کر رہے ہیں.میں یہ باتیں آپ کو اس لئے بتا رہا ہوں کہ اب آپ کا فرض ہے کہ اس پکے ہوئے پھل کو محفوظ کریں اور سنبھالیں.جب خدا کی طرف سے پھل پکنے کے وقت آتے ہیں تو ان کو سنبھالنا ایک بڑی ذمہ داری ہو جایا کرتی ہے.اور جو لوگ سنبھال نہیں سکتے ، ان کا پھل پھر ضائع ہو جاتا ہے ، گل سڑ جاتا ہے.اپنے ہاتھ نہیں آتا بلکہ پھر دوسرے جانور کھا جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ آج کے زمانے میں پرانی تہذیب، پرانے تجربوں سے سب انسان مایوس ہیں، کسی کو سکون میسر نہیں ہے.اور اگر ان کو صحیح معنوں میں ایسے لوگ ملیں ، جن کا تعلق خدا سے ان کو محسوس ہو، یہ ایک بنیادی شرط ہے تو ان کی طرف وہ بہت تیزی سے مائل ہوں گے.ورنہ فرضی باتوں کی طرف وہ مائل نہیں ہوں گے.فرضی باتیں تو انہوں نے پہلے بھی بہت دیکھی ہیں اور ان فرضی باتوں سے تنگ آئے پڑے ہیں.اس لئے عملاً خدا تعالیٰ کا قرب، جو انسان کی شخصیت میں تبدیلی پیدا کر دیا کرتا ہے، وہ قرب پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اور اگر آپ یہ کر لیں تو ایک عظیم الشان تاریخی انقلاب میں آپ حصہ لینے والے بن جائیں گے.اور یہ وہ کام ہے، جو بظاہر بہت ہی بڑا مشکل نظر آتا ہے.کیونکہ انسانی زندگی کا مقصود سب سے اوپر کا کام ہے.لیکن سب سے آسان بھی ہے.کیونکہ اگر میں آپ کو کہوں کہ علم کے لحاظ سے مبلغ بنیں تو اس کے لئے تو بہت ہی پاپڑ بیلنے پڑیں گے.زبانیں سیکھنی پڑیں گی اور عربی کی بنیادی تعلیم حاصل کرنی پڑے گی، قرآن کریم کا مطالعہ ہے، احادیث کا مطالعہ ہے، گذشتہ علماء نے کیا کچھ لکھا؟ 173

Page 183

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم مفسرین نے کیا لکھا؟ فقہ کے ماہرین نے کیا لکھا؟ اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں کیا کیا کچھ ہے؟ اور ان علماء کے پاس جو ہماری مخالفت کرتے ہیں، کیا دلائل ہیں؟ اور ہم اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟ علم کا اتنا وسیع ؟ میدان ہے.اور پھر اسلام کے دشمن مذاہب کیا کہتے ہیں؟ اور ان سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟ یہ تو لگتا ہے، ایک لامتناہی سمندر ہے.عام آدمی کی طبیعت سوچتی ہے تو گھبرا جاتی ہے کہ یہ تو میرے بس کی بات نظر نہیں آتی.لیکن تعلق باللہ میں یہ ایک عجیب بات ہے کہ جس لمحے آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ میں خدا کا ہونا چاہتا ہوں، اسی لمحے خدا آپ کا ہو جاتا ہے.کوئی روک حائل نہیں ہوتی، کوئی پردہ بیچ میں حائل نہیں ہوتا.اور جب کسی کو خدامل جاتا ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے اندر ایک عظیم انقلاب بر پا نہ ہو، اس کی شخصیت میں ایک تبدیلی رونما نہ ہو جائے.اور آج اس تبدیلی کی ضرورت ہے.آج ضرورت ہے کہ ہم ایسے نوجوان پیدا کریں، جن کے اندر دنیا فرق محسوس کرنے لگے.ان کی بات میں وزن آجائے ، ان کی اداؤں میں وقار پیدا ہو جائے.جو ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے، وہ محسوس کر رہا ہو کہ میں کسی ایسی ہستی سے بات کر رہا ہوں، جس کا تعلق بڑے لوگوں سے ہے.شروع میں تو اس کو بڑے لوگ نظر آئیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ تو آپ کے پس منظر میں ہوگا.کیونکہ جس طرح بڑے آدمی کے ساتھ رہ کر ، مشاہوں کی مصاحبت میں پھر کر انسان کے اندر ایک نئی ادا پیدا ہو جاتی ہے اور دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اونچی مجالس سے آیا ہے.تو جب خدا سے تعلق پیدا ہوتو کیسے کوئی محسوس نہیں کرے گا کہ بہت اونچی مجالس کا رہنے والا انسان ہے.اس کے آداب، اس کی گفتگو، اس کا سلیقہ، اس میں کوئی وزن ہے، کوئی وقار ہے، ایک یقین ہے، ایک خود اعتمادی ہے.اور یہ چیزیں ہیں، جنہوں نے دنیا فتح کرنی ہے.پھر علم بھی خدا خود عطا فرماتا ہے اور ایسے ایسے دلائل پھر سکھاتا چلا جاتا ہے کہ ایک عام آدمی سے ویسے توقع نہیں ہوسکتی.چنانچہ میرا یہ بھی تجربہ ہے کہ وہ احمدی، جو خالصہ اللہ للہ کی محبت میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا ہماری مدد کرے گا، وہ جب اپنی تبلیغی رپورٹیں بھیجتے ہیں تو بعض دفعہ میں حیرت میں مبتلا ہوں کہ یہ سکتے ان کو کس طرح سمجھ آگئے.کوئی تعلیم نہیں لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دشمن نے ایک سوال اٹھایا، جو بڑی عیاری سے اٹھایا گیا اور اس پر میرا دل چاہتا تھا کہ کاش یہ جواب دیتا.اور اگلا فقرہ ہی اس کا وہ ہوتا تھا کہ پھر خدا نے میرے دل میں یہ بات ڈالی، پھر میں نے یہ جواب دیا اور مسلسل اس طرح کے مضمون چلتے چلے جاتے ہیں.میں ان لوگوں کو جانتا ہوں ، ان کی علمی حالت کا مجھے پتہ ہے.ناممکن ہے ان کے لئے وہ باتیں کرنا، جب تک ان کو خدا نہ بتا رہا ہو.174

Page 184

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء بنیادی بات علم نہیں ہے، بنیادی بات اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا پیار ہے.اس لیئے آپ اس کی طرف توجہ کریں اور بے دھڑک ہو کر اس میدان میں کود پڑیں.سارا جر منی آپ کے لئے فتح کرنے کے لئے کھلا پڑا ہے اور یہاں بھی وہ رو چلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.جو دوست یہاں پرسوں کی مجلس میں تھے، انہوں نے دیکھا ہوگا کہ بعض جرمن نو جوان، جو بڑے مخلص احمدی ہیں، وہ اپنے کچھ ساتھیوں کو لے کر آئے تھے.کچھ اور دوسرے دوست بھی موجود تھے.صاف اللہ کی تقدیر کا ہاتھ نظر آتا ہے کہ تھوڑی دیر کے اندر ہی ان کی کیفیت بدل گئی.ان کی دلچسپی کا انداز بدل گیا اور بڑی حکمت کے ساتھ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم احمدیت کے قائل ہوتے چلے جارہے ہیں.چنانچہ عبد اللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک نوجوان، جو بڑا مضبوط اور توانائی سے بھر پور ہے، اپنے جسم کے لحاظ سے بھی مضبوط اور جوان ہے اور ذہنی افتادلحاظ سے، اپنی بات پہ قائم اور سمجھ کر چلنے والا ، وہ عارضی طور پر صرف ایک رات کے لئے آیا تھا، دوسرے دن بھی ٹھہر گیا.اور پھر عبداللہ صاحب سے اس نے کہا کہ میری نوکری کا بھی سوال ہے، جو شاید نکل جائے اور میں واپس نہ جاؤں مگر کوئی پرواہ نہیں، اب میرا جانے کو دل نہیں چاہتا.اور وہ ٹھہر گیا.تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح خدا تعالی آنا فانا ان قوموں کے دل بھی بدل رہا ہے.وہاں اخباری نمائندوں سے ملاقات ہوئی ہے تو شروع میں ان کے چہرے اور تھے ، ان کا رویہ اور تھا، اسلام کے خلاف تشدد پایا جاتا تھا اور بعض اعتراض تو بڑی سختی سے کئے.لیکن جب خدا تعالٰی نے مجھے جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی تو دیکھتے ہی دیکھتے ان کے چہرے نرم پڑ گئے اور ان کی باتوں کا رخ بدل گیا.وہ ساری ویڈیوریکارڈڈ چیز ہے اور جرمن میں ہمارے ہیوبش صاحب اس کا ترجمہ کر رہے تھے.ان کو بھی خدا تعالیٰ نے اس وقت ایسی توفیق عطا فرمائی.بیماری کی وجہ سے وہ پہلے ترجمے میں کچھ کمزور ہو گئے تھے لیکن اس وقت تو ایسا چلے ہیں، جس طرح فرفر ایک دریا بہہ رہا ہو.جب وہ جرمن زبان میں ترجمہ کرتے تھے تو بہت ہی گہرا اثر ان کی گفتگو کا دوسروں کے چہروں پر نظر آ رہا ہوتا تھا.یہاں تک کہ عبداللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ وہاں کے پریس کا نمائندہ اپنے ساتھی کو کہ رہا تھا کہ اب یہاں آدمی سوال کیا کرے؟ ہر سوال کا جواب ایسا آجاتا ہے کہ منہ بند ہو جاتا ہے.مغربی پریس سے یہ تبصرہ جو ہے، یہ معمولی بات نہیں.بڑے آزاد منش لوگ ہیں، خصوصاً اسلام پر حملہ کرنے میں تو بڑی دلیری دکھاتے ہیں.پھر ایشیائی ملک کا ایک آدمی، جو پاکستان سے پھر آیا ہو، اس کے متعلق تو ان ان کے رویے ہی بالکل بدل جاتے ہیں.اور وہی رویہ تھا، جو شروع شروع میں نظر آ رہا تھا.175

Page 185

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم تو یہ ایک مسلسل اللہ کی تقدیر کا ہاتھ دکھائی دے رہا ہے.معمولی سی بصیرت بھی کسی میں ہو تو وہ اس کو دیکھنے سے رہ نہیں سکتا.یعنی ہو نہیں سکتا کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر سکے.اس لئے آپ خدا کی اس تقدیر کے ساتھ ساتھ چلیں.اللہ نے جو پھل تیار کئے ہیں، ان کو توڑنے کے لئے ہاتھ تو بڑھائیں.اگر آپ نہیں بڑھا ئیں گے، یہ کہہ کر، یہ بہانے ڈھونڈ کر کہ ہمیں زبان نہیں آتی ، ہمیں علم نہیں ہے تو یہ سارے بہانے ہیں.ایک چیز ، جو آپ کو آتی ہے اور آسکتی ہے، وہ اللہ سے تعلق ہے.تعلق پیدا کریں گے تو آپ کے اندر چین سے ایک چیز کھل جاتی ہے، جیسے غنچہ کھاتا ہے.اس طرح آپ کے رکے ہوئے دل میں ایک غنچہ کھل جائے گا.آپ اس کی چیخ محسوس کریں گے.پتہ لگ جائے گا کہ میرے ساتھ ایک واقعہ ہو گیا ہے، جس نے مجھے بدل دیا ہے.اس واقعہ کے نتیجہ میں پھر جو کچھ ہونا ہے، ہوتا ہے.اس لئے ہر احمدی نوجوان، جو یہاں آیا ہوا ہے، بڑی تکلیفیں اٹھا کر آیا ہے.بعض لوگ اپنی جائیدادیں بیچ کر جو رہی سہی بیچاروں کے پاس تھیں، بیچ کر آگئے ہیں.بعضوں کے ماں باپ نے قرضے اٹھا لئے ہیں.آئے تو اس لئے ہیں کہ وہاں کی تکلیفوں سے نجات پائیں، ہر روز کی جواز بیتیں تھیں، ان سے نجات پائیں اور آزاد ملک میں جا کر باعزت روزی کمائیں اور پھر اپنے والدین کے قرضے اتاریں اور ان کی مصیبت دور کریں.یہ نیتیں ہیں.لیکن یہاں خدا نے اس سے بھی بڑھ کر خزانہ آپ کے لئے رکھا ہے.حضرت موسی آگ لینے گئے تھے لیکن نور الہی ان کو نصیب ہو گیا.تو یہ بھی جماعت پر ایک موسوی دور ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں واضح طور پر ملتا ہے کہ ایک موسوی دور تم پر آنے والا ہے.تو آپ اس دور کے نمائندہ ہیں، اس دور کے نشان ہیں.آپ بھی گھروں سے آگ لینے کے لئے نکلے تھے لیکن خدا یہاں نور دینے کے لئے بیٹھا ہوا ہے.یہاں آپ کو نئے نور سے منور کرنے کے لئے بیٹھا ہے.اس لئے کیوں آگ پر راضی ہو جاتے ہیں؟ اس نور کی طرف لپکیں، جو آپ کا منتظر بیٹھا ہوا ہے.آپ کے لئے ہر ہجرت کی جگہ کوہ طور بن جائے گی.کیونکہ خدا نے اپنے الہامات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو واضح بشارتیں دی ہیں کہ ایسا دور آنے والا ہے.اور مجھے تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ وہ دور آچکا ہے.یہاں بھی آپ کا مشن اتنا چھوٹا ہو چکا ہے کہ اگر اس علاقے کی ساری جماعت آجائے تو ناممکن ہے کہ اس چھوٹے سے کمرے میں اکٹھے ہو جائیں اور بہت تکلیف نظر آتی ہے.جب گذشتہ دفعہ آیا تھا تو اس دفعہ بھی یہی حالت تھی ، اب اس سے بھی زیادہ خراب حالت ہے.اور بیچاری مستورات کے لئے تو بالکل ہی جگہ کوئی نہیں.ان کے لئے ٹمینٹ بھی جو لگایا ہوا تھا، اس میں اس طرح ٹھونسی ہوئی تھیں جرمن 176

Page 186

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء خواتین بھی اور دوسری بھی کہ دم گھٹتا تھا.پھر بچوں کے شور سے وہاں ایک قیامت آئی پڑی تھی.تو یہاں بھی اللہ تعالیٰ آپ کے لئے جگہ مہیا فرمائے گا، انشاء اللہ.قریب ہی ہم نے جائزہ لیا ہے.اور جو جائزے لئے ہیں، ان میں کوشش یہی ہوگی کہ بہت ہی اچھی کھلی جگہ ملے اور یہاں بہت شاندار مسجد بنائی جائے ، جو تاریخی حیثیت رکھتی ہو اور تمام جرمنی کی مسجدوں میں سب سے زیادہ بڑی اور نمایاں ہو.اگر چہ وہ دولتیں ہمارے پاس نہیں ہیں، جو دنیا کے ممالک کی دولتیں ہیں.جنہوں نے تیل کی دولت سے یا دوسری دولتوں سے مسجد میں بنائی ہیں.لیکن خدا کے فضل اتنے ہیں کہ ناممکن ہے کہ اگر آپ خلوص نیت سے دعا کریں کہ اے خدا! ہمیں سب سے بڑی، سب سے شاندار مسجد عطا کر تو وہ مسجد نہ عطا کر دے.اب تو وہ دینے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے.اس لئے ان دعاؤں کے ساتھ ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ بہت وسیع جگہ بھی مل جائے گی اور بہت ہی اچھی، خوبصورت ، شاندار مسجد بھی نصیب ہو جائے گی.لیکن اس کی شان آپ ہیں، یہ یادر کھیں.ظاہری شان تو صرف لوگوں کو کھینچنے کے لئے ہے.اگر آپ تقوی لے کر اس مسجد میں نہ گئے ، اگر آپ نے مسجد کو بھرنے کی کوشش نہ کی تو پھر وہ بے شان کی مسجد ہو گی.اس لئے ابھی سے اس کی تیاری شروع کر دیں.جتنی وسیع مسجد ہو، یہ عہد کریں کہ ہم نے جلدی سے جلدی اس کو بھرنا ہے.اور جب آپ مسجد بھریں گے، خدا آپ کو لازما اور مسجد عطا فرمادے گا.اس طرح یہ دور ہے، جو لامتناہی ترقیات کا دور ہو جاتا ہے.اور ہم اپنی آنکھوں سے اس دور کو اپنے آگے بھی دیکھ رہے ہیں، اپنے پیچھے بھی، اپنے دائیں بھی ، اپنے بائیں بھی.اس دور میں سے اس طرح گزررہے ہیں، جس طرح پہاڑ پر چلتے چلتے کوئی رحمتوں کے بادل میں داخل ہو جاتا ہے.چاروں طرف سے بادل گھیر لیتے ہیں.آج جماعت احمد یہ اللہ کی رحمتوں کے بادل میں گھر چکی ہے.اس کے قطرات کو اپنی زبان پر، اپنے سر آنکھوں پر لے رہی ہے.اس لئے اس دور سے پورا فائدہ اٹھائیں.دشمن کی باتوں سے آپ کو کیا خوف ہو سکتا ہے؟ وہ تو بے چارے نادان ہیں، جاہل ہیں.وہ کہتے ہیں: ہم جماعت احمدیہ کا تعاقب کریں گے.جہاں جائیں گے، ہم ان کے پیچھے پیچھے، پاکستان کا مولوی کہتا ہے: ہم ان کا تعاقب کریں گے.ان کی حیثیت کیا ہے، آپ کا تعاقب کرنے کی؟ آپ خدا کی جماعت ہیں، آپ کی پرواز میں خدا کی عطا کے نتیجہ میں ملتی ہیں.آپ کی دوڑیں تو اللہ کی قدرت سے نصیب ہونے والی دوڑیں ہیں.آپ کو پکڑ کون سکتا ہے؟ آپ کا تعاقب کر کون سکتا ہے؟ اسی قسم کی باتیں جب حضرت مصلح موعود کے دور میں احرار نے کی تھیں.تو آپ نے ان کو ایک جواب دیا تھا.آپ نے فرمایا: 177

Page 187

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک مجھے پکڑنے پہ قدرت کہاں تجھے صیاد باغ حسن محمد کی عندلیب ہوں میں پس آج ساری جماعت کی طرف سے میں دشمنوں کو یہی جواب دیتا ہوں کہ ہمیں پکڑنے کی قدرت کہاں تجھے صیاد کہ باغ محمد کی عندلیب ہیں ہم ( کلام محمود :107) اور حسن محمد کی تو ہر منزل ایک نئی منزل کی طرف کھینچ کر لے کر جاتی ہے، ایک نئی منزل کا پتہ دیتی ہے.اس لئے آپ کے مقدر میں آگے سے آگے بڑھنا ہے.مڑ کر دیکھنا نہیں ہے کہ ہم کیا چھوڑ آئے ہیں.اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے ، اس پر تو کل کرتے ہوئے ، اس سے دعائیں مانگتے ہوئے ، حسن محمد کی نئی منازل کی طرف بڑھتے چلے جائیں اور خائب و خاسر دشمن پیچھے بیٹھارہ جائے گا.اس کو توفیق نہیں ہے کہ نیک باتوں میں آپ کا کوئی تعاقب کر سکے.بدیوں میں وہ جو چاہے، کرتا پھرے.اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے.وہ اس کا مقام ہے، وہ اس کو زیب دیتا ہے.لیکن نیکیوں میں کوئی ہم سے آگے بڑھ سکے، اس کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.اس لئے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ، یہ عہد لے کر اٹھیں کہ ہم ہر نئے مرکز کو، جو خدا ہمیں عطا فرماتا چلا جائے گا، اس کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کی دی ہوئی توفیق کے نتیجہ میں جلد سے جلد اللہ سے محبت کرنے والے، پیار کرنے والے، اللہ کے رسول سے محبت کرنے والے اور پیار کرنے والے خدا کے بندوں سے بھرتے چلے جائیں.اور یہی ہمارے تحفے ہیں خدا کے حضور اور یہی ہمارے شکرانے کا اظہار ہے.اور جب آپ بھرتے چلے جائیں گے تو خدا آپ کو نئے وسیع تر مراکز عطا فرماتا چلا جائے گا“.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 14 صفحہ نمبر 797787) 178

Page 188

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 22 ستمبر 1985ء جماعت احمد یہ اس خالص دین حق پر یقین رکھتی ہے، جس میں جبر کی گنجائش نہیں خطاب فرمودہ 22 ستمبر 1985ء گروس گیراؤ کے قصبہ میں جماعت احمدیہ مغربی جرمنی کے نئے خرید کردہ مرکز ناصر باغ کے افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا.جس کا ساتھ ساتھ جرمن میں رواں ترجمہ پیش کیا گیا.حضور نے اپنے خطاب میں فرمایا:.د نے تعلق نہیں میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں، جس نے آج ہمیں اس تقریب کے لیے موقع عطا فرمایا ہے.اس کے ساتھ ان دوستوں کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں ، جو ہماری جماعت سے تو رکھتے اور یہاں وقت نکال کر تشریف لائے ہیں.حضور نے فرمایا:." ہم نے اس جگہ کو اس لیے خریدا ہے کہ ہمارا فرینکفرٹ کا خانہ خدا چھوٹا ہو گیا ہے.ہمارے ہمسائے اگر چہ اچھے لوگ ہیں لیکن پھر بھی انہیں بعض دفعہ ہماری وجہ سے تکلیف ہوتی ہے.اس لیے یہ بڑی جگہ لے لی گئی ہے تا کہ ہمارے جلسے اور دوسری مذہبی تقریبات یہاں منائی جاسکیں“.حضور نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز خوبصورت تخلیق فرمائی ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ انسان بعض اوقات خوبصورت نظر نہیں آتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان اچھائی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو خوبصورت نظر آتا ہے، جب برائی کے راستے پر چلتا ہے تو خوبصورتی کھو دیتا ہے.اچھائی اور برائی کے دونوں راستے انسان کو دکھائے گئے ہیں.اچھائی کا راستہ اختیار کر کے وہ خدا کے قریب ہوتا ہے اور خوبصورت نظر آتا ہے.اور برائی کا راستہ اسے خدا سے دور اور بد زیب بنا دیتا ہے.56 (مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ دسمبر 1985ء) فرمایا:.” جماعت احمد یہ آج سے 1400 سال قبل اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اس خالص دین حق پر یقین رکھتی ہے، جس میں جبر اور نا انصافی کی کوئی گنجائش نہیں.احمدیت اس حقیقی دین ہی کی تصویر ہے.اسی لئے وہ امن کی علمبردار ہے.اور دنیا میں امن اور اشتی اور باہمی رواداری اور اخوت کے قیام کے لئے جدو جہد کر رہی ہے.مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید ستمبر 1985ء) 179

Page 189

Page 190

تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشاد فرمودہ 23 ستمبر 1985ء جرمن قوم کے ساتھ دلی وابستگی اور قبولیت دعا کا ایک واقعہ ارشاد فرمودہ 23 ستمبر 1985ء حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جرمن قوم کے ساتھ اپنے انس اور تعلق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:.دو میں لنڈن ٹی وی میں جرمن کھلاڑی کو کھیلتے ہوئے دیکھ رہا تھا.وہ کھیل ہار رہا تھا تو میں نے دعا کی کہ اے خدا! اسے جیت عطا فرما.میں نے اسی وقت اپنے گھر والوں کو کہہ دیا کہ یہ جرمن نوجوان ضرور جیتے گا.کیونکہ مجھے قبولیت دعا کا یقین ہو گیا تھا.چنانچہ خدا کے فضل سے یہ جرمن کھلاڑی جیت گیا.آپ لوگ شاید دعا کی حقیقت کو پوری طرح نہ سمجھ سکیں.لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ قبولیت دعا کا معجزہ تھا.اور اس سے میری جرمن قوم کے ساتھ دلی وابستگی کا پتہ چلتا ہے.کیونکہ یہ وہ قوم ہے، جس نے ہمارے نوجوانوں 66 کے ساتھ احسان کا سلوک کیا ہے.اس موقع پر حضور نے یہ بھی فرمایا کہ جرمن حکومت مجھے اپنی جماعت کے افراد سے ملنے کے لئے جرمنی کا ویزا دینے میں فراخدل نہیں ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اپنے بعض اصول ہیں، جن کی وہ پابندی کرتے ہیں.لیکن جرمن عوام ہم سے محبت کرتے ہیں اور ہمارے دلوں میں بھی ان کے لئے محبت اور احسان مندی کے جذبات ہیں.( مطبوع ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ دسمبر 1985ء) 181

Page 191

Page 192

تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1985 ء مشن بنانے کا مقصد جماعت کو بڑھانا اور اسلام کا پیغام پھیلانا ہے ارشادات فرمودہ دوران دورہ یورپ 1985ء 26 ستمبر، زیورک پریس کانفرس کے دوران سوالوں کے جواب دیتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.میں اکثر جماعت سے ملنے کے لئے بیرونی ممالک میں جاتا رہتا ہوں.گزشتہ ڈیڑھ سال سے انگلینڈ میں مقیم ہوں.اس دوران دوسری بار سوئٹزر لینڈ آیا ہوں.گزشتہ دورہ میں یہاں پریس کانفرنس نہیں بلا سکا تھا.اس دفعہ میں نے سمجھا کہ پریس والوں سے بھی مل لیں.یہاں آنے سے پہلے ہیگ (ہالینڈ) سے 180 کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک نئے سنٹر کا افتتاح کیا.اس کے بعد برسلز (بیلجیئم) کے خوبصورت حصہ میں ایک بہت بڑے سنٹر کا افتتاح کیا.جرمنی میں پہلے سے دومشن کام کر رہے تھے لیکن جماعت کی ضروریات بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں.چنانچہ ہم نے ایک اور سنٹر کولون میں بھی بنایا ہے.میں ہمبرگ بھی گیا، وہاں پر اپنی ضروریات کے پیش نظر ایک اور جگہ لینے کا جائزہ لے رہے ہیں.برلن میں بھی ہماری کافی بڑی جماعت ہے، وہاں بھی جگہ خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں.فرینکفورٹ میں بھی ہماری پہلی جگہ بہت چھوٹی ہوگئی ہے، وہاں پہلے مشن کے قریب ایک بہت بڑی جگہ، جو 26 ہزار مربع میٹر سے حاصل کی ہے، اس کی افتتاحی تقریب میں ایک ہزار سے زائد ا حباب شامل ہوئے.اس کے بعد ہم میونخ گئے ، وہاں بھی جگہ خریدنے کی کوشش ہے.لیکن دوران قیام کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا.وہاں سے ہم سیدھے سوئٹزر لینڈ آئے ہیں اور پھر یہاں سے اٹلی جانا ہے.وہاں ہم پہلا مشن کھولیں گے، جو Verona سے 20 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے.اس کے بعد سپین جائیں گے، وہاں قرطبہ کے قریب پہلے ہی مشن موجود ہے.اس کے علاوہ میڈرڈ اور غرناطہ میں بھی ہمارے مشن ہیں.اب ہم غرناطہ کے لئے نئی جگہ حاصل کرنے جا رہے ہیں.اس کے بعد برطانیہ واپسی سے پیشتر فرانس میں پیرس کے قریب ایک سنٹر کا افتتاح کروں گا ، جو کہ فرانس میں جماعت کا پہلا سنٹر ہو گا“.183

Page 193

ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اس سوال کے جواب میں کہ اتنے زیادہ مشن ہاؤس کھولنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا آپ کی جماعت کی تعداد بہت زیادہ ہے یا کوئی اور وجہ ہے؟ حضور نے فرمایا:.”سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ آپ نے عیسائی مشن ساری دنیا میں قائم کیسے ہوئے ہیں، کیا آپ مسلمانوں کے لئے یہ ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ یورپ میں مشن کھولیں؟ یہ سوال مجھے بہت ہی عجیب محسوس ہوتا ہے.اگر آپ اپنا مذہب ساری دنیا میں پھیلانے میں کوشاں ہیں تو ہم اپنے مذہب کی اشاعت محبت ، تبادلہ خیال اور مسلسل جدوجہد کے ذریعہ کیوں نہ کریں؟ مشن اس لئے نہیں بنائے جار ہے کہ کچھ لوگ انہیں استعمال کریں.بلکہ اس لئے بنائے جارہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان سے استفادہ کریں.ان مشنز کو بنانے کا مقصد جماعت کو بڑھانا ہے تا کہ اسلام کے پیغام کومزید پھیل سکیں.ایک اور سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا:.جرمنی میں ہماری جماعت دو ہزار گھرانوں پر مشتمل ہے.اس کے علاوہ انڈونیشیا، جنوبی افریقہ پر یوگنڈا، کینیا، تنزانیہ، موریطانیہ، ہندوستان، بنگلہ دیش، فنی اور ماریشس میں بڑی بڑی جماعتیں موجود ہیں.ہماری جماعت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.آپ سوئس لوگوں کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ فرمایا: میں سوئس (swiss) لوگوں کے لئے بہت فکر مند ہوں.ان کے نوجوان زیادہ تر لادینیت کی طرف رجحان ظاہر کر رہے ہیں.پہلے میرا خیال تھا کہ انہیں علم ہی نہیں کہ مذہب کی بنیادی تعلیم کیا ہے؟ لیکن اب تو وہ لادینیت کا پرچار کر رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس طرف مائل ہو رہے ہیں، جو کہ بہت ہی قابل تشویش امر ہے.یہ نوجوان مستقبل میں سوسائٹی کو چیلنج کریں گے اور نظم و ضبط کے لئے ایک مسئلہ پیدا کر دیں گے.اس لئے تمام مذہبی تنظیموں کے لئے یہ لحہ فکریہ ہے.ہم سب کا خدا ایک ہے، اس لئے ہمیں اس نوجوان نسل کو واپس لانا چاہیے.اور بتانا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی موجود ہے.اس کے بغیر سوسائٹی کا وجود خطرے میں ہے.گزشتہ جنگ میں سوئس سوسائٹی محفوظ رہی مگر آئندہ آنے والی تباہی میں مجھے اس سوسائٹی کی حفاظت نظر نہیں آتی.اگر اس نے اپنے خالق کی طرف رجوع نہ کیا تو یہ بہت خطرناک صورت حال ہوگی.پس نو جوانوں کو خدا تعالیٰ کی طرف لانا ہی سب سے اہم مسئلہ ہے.انہیں مسلمان بنانا بعد کی بات ہے.184

Page 194

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1985ء میں اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے سوئس لوگوں کی خدمت کے لئے تیار ہوں.یہاں کی نوجوان نسل کو علم ، دلائل اور سائنس کی رو سے یہ باور کرانے کے لئے تیار ہوں کہ ان کا کوئی خالق بھی ہے.بلکہ نو جوانوں کا اپنا وجود کسی خالق کا محتاج ہے.میں ہر طرح سے مدد کرنے کو تیار ہوں تا کہ انہیں خالق حقیقی کی طرف واپس لایا جا سکے.آخر پر ایک سوال کے جواب میں فرمایا:.”میرا یورپ کا موجودہ دورہ پانچ ہفتوں کا ہے.لیکن میں یورپ میں کسی بھی وقت آسکتا ہوں.اس لئے سوئٹزر لینڈ میں انسانیت کی بنیاد پر کسی سیمینار (seminar) یا اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے ہر وقت آنے کو تیار ہوں.( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 27 ستمبر 1985ء وضمیمہ ماہنامہ خالد نومبر 1985ء) 185

Page 195

Page 196

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ تنزانیہ اللہ کی رضا ہی اصل مقصود و مطلوب ہے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ تنزانیہ منعقدہ 27 تا 29 ستمبر 1985ء پیارے بھائیو اور بہنو! بسم الله الرحمان الرحيم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته میری دعا ہے کہ جماعت ہائے احمد یہ تنزانیہ کا یہ جلسہ سالانہ ہر جہت سے انتہائی کامیاب اور بابرکت ہو.خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے آپ وارث ٹھہریں.اور اللہ تعالیٰ آپ سب کو ، جو محض اللہ اس جلسہ میں شامل ہورہے ہیں، ان باتوں کی توفیق دے، جن سے وہ راضی ہو جائے کہ اللہ کی رضا ہی اصل مقصود و مطلوب ہے.ورضوان من الله اكبر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.” اے عزیز و ا تم نے وہ وقت پایا ہے، جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے.اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا، جس کے دیکھنے کے لئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی.اس لئے اب اپنے ایمانوں کو خوب مضبوط کرو اور اپنی راہیں درست کرو، اپنے دلوں کو پاک کرو اور اپنے مولیٰ کو راضی کرو.22 اربعین نمبر 4 صفحہ 100 روحانی خزائن جلد 17 صفحه (442) مگر خدا تعالیٰ کو کس طرح راضی کیا جائے؟ اس کے قرب اور پیار کی لذت کو کیونکر حاصل کیا جائے؟ اس اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ہم کیونکر خدا تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو.اس کا اس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے.سواے میرے پیارے بھائیو! کوشش کروتا متقی بن جاؤ.بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں.اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول ہیں.سو تقوی یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بیچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ 187

Page 197

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ تنزانیہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک اور پرہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو.سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو.اور سچ سچ دلوں کے علیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شر کا پیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے.اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء.ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے.سو اپنے دلوں کو ہر دم شولتے رہو.اور جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور ردی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے، اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادات یا ملکہ کوردی پاؤ، اس کو کاٹ کر باہر پھینکو.ایسانہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو نا پاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ“.اسی طرح فرمایا: وو (ازالہ اوہام، حصہ دوم صفحہ 447,448 روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 547,548) تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ، جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے، جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے.اور بد بخت ہے، وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشا.سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں.خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے.بد کار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا، متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا، ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا، خائن اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.اور ہر ایک جو اس کے نام کے لئے غیرت مند نہیں ، اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12.13) اس وقت دنیا ایک تباہی کے کنارے کھڑی ہے.باہمی محبت و پیار اور امن و سلامتی کا فقدان ہے.جگہ جگہ نفرتوں کی آگیں بھڑکائی جارہی ہیں اور انسان اپنے ہی بھائیوں کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے.گناہوں کی کثرت ہے اور فسق و فجور کی فراوانی.شرک اور دہریت کا ایک سیلاب ہے، جو نوع انسانی کو بہائے لے جارہا ہے.وہ لوگ ، جو خدا تعالیٰ پر ایمان کا دعوی کرتے ہیں، بدقسمتی سے ان کا ایک بڑا حصہ بھی یقین کے مرتبہ سے عاری ہے.اور عملاً انہوں نے خدائے واحد کی بجائے اس دنیا کو اور نفسانی خواہشات کو 188

Page 198

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ تنزانیہ اپنا معبود بنارکھا ہے.خدا کے نام کے لئے کوئی غیرت ان میں باقی نہیں رہی.وہ اس سے کلیہ غافل اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں.ان دردناک حالات میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.تا نوع انسانی کو جھوٹ، شرک ظلم اور ہر ایک بد عملی اور نا انصافی اور بداخلاقی سے نجات دے کر سچائی ، راست بازی ، اعلیٰ اخلاق، حلم، انصاف اور تو حید خالص کو دنیا میں قائم کیا جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں:.چونکہ میں تثلیث کی خرابیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں، اس لئے یہ دردناک نظارہ کہ ایسے لوگ دنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں، جنہوں نے حضرت عیسی کو خدا سمجھ رکھا ہے، میرے دل پر اس قدر صدمہ پہنچاتا رہا ہے کہ میں گمان نہیں کر سکتا کہ مجھ پر میری تمام زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی غم گزرا ہو.بلکہ اگر ہم و غم سے مرنا میرے لئے ممکن ہوتا تو یہ تم مجھے ہلاک کر دیتا کہ کیوں یہ لوگ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کی پرستش کر رہے ہیں.اور کیوں یہ لوگ اس نبی پر ایمان نہیں لاتے ، جو بچی ہدایت اور راہ راست لے کر دنیا میں آیا ہے.ہر ایک وقت مجھے یہ اندیشہ رہا ہے کہ اس غم کے صدمات سے میں ہلاک نہ ہو جاؤں.اور میرا اس درد سے یہ حال ہے کہ اگر دوسرے لوگ بہشت چاہتے ہیں تو میرا بہشت یہی ہے کہ میں اپنی زندگی میں اس شرک سے انسانوں کو رہائی پاتے اور خدا کا جلال ظاہر ہوتے دیکھ لوں.تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه 71,72) اسی طرح آپ فرماتے ہیں:.میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے.اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے.اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور ایک بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے.اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولت مند ہو جائیں گے، جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کرسونا چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا.اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچانا اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے 189

Page 199

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ تنزانیہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور کچی برکات اس سے پانا.پس اس قدر دولت پاکر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں.اور وہ بھوکے مریں اور میں عیش کروں.یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہوگا.میرا دل ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے.ان کی تاریکی اور تنگ گزرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے ان کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جو اہران کو اتنے ملیں کہ ان کے دامن استعداد پر ہو جائیں“.اربعین نمبر 1 صفحہ 3, 2 روحانی خزائن 17 صفحہ 344,345) پس اے مسیح محمدی کے غلامو! اگر تم خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ.محبت الہی کی لو تیز تر کرو اور دعوت الی اللہ کے عظیم الشان جہاد میں شامل ہو کر اس کی تو حید کو قائم کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت سے کوشش کرو.دنیا اپنے اسباب اور عزیزوں پر اسے مقدم نہیں رکھتی مگر تم اسے مقدم رکھو تا آسمان پر اس کی جماعت میں لکھے جاؤ.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے.اور وہ بات، جس سے خدا راضی ہو، اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ، جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں، ان کے لئے موقع ہے کہ اپنے جو ہر دکھا ئیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.(رساله الوصیت صفحه 11, 10 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308,309) والسلام 190 خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيم الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 7 فروری 1986ء وضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ تمبر 1985ء)

Page 200

تحریک جدید- ایک البی تحریک خطبه جمعه فرموده 27 ستمبر 1985ء جماعت احمدیہ کو بطور خاص آج کل غیر معمولی تبلیغ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.گذشته خطبہ جمعہ جو میں نے ہیمبرگ میں دیا تھا، اس میں یہ ذکر کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کا رعب وسعت پذیر ہے.اور ہم ایک ایسے دور میں سے گزر رہے ہیں، جس میں بطور خاص اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو بڑی شان سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ کہ اے اللہ کی زمین میں بسنے والو! میری زمین ہمیشہ وسعت پذیر رہی ہے.ہمیشہ وسعت پذیر رہے گی اور کوئی نہیں ، جو اس زمین کو تنگ کر سکے.یہ مفہوم ہے اس آیت کا ، جسے ہم ایک عظیم شان کے ساتھ اس دور میں بطور خاص پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.اس خطبہ سے قبل جو دورہ یورپ کے تأثرات تھے، ان کا مختصر ذکر میں نے اس خطبے میں کیا تھا.آج کے خطبے میں اس کے بعد کے سفر کے چند حالات بیان کرتا ہوں تا کہ احباب جماعت کے دل حمد و شکر سے لبریز ہوں اور ان کا شکر پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے احسانات کو کھینچنے کا موجب بنے.ہیمبرگ کے بعد دوسرا پڑاؤ فرینکفرٹ میں اس مقام پر تھا، جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک نئی جگہ فرینکفرٹ مسجد کے قریب ہی ہمیں عطا ہوئی ہے، اس جگہ کا نام ناصر باغ رکھا گیا ہے.اس کا رقبہ ساڑھے چھ ایکڑ ہے اور بہت ہی خوبصورت علاقے میں واقع ہے.اردگرد چونکہ جنگلات ہیں اور سیر گاہیں ہیں اور پرندے پالنے کی خوبصورت جگہیں ہیں، اس لئے اس جگہ یہ خطرہ کوئی نہیں کہ ہمسایوں کو کوئی اعتراض ہو کہ لوگ کثرت سے آتے ہیں اور ان کے آرام میں مخل ہوتے ہیں.پورے جوش کے ساتھ ، پورے زور کے ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے رہے اور قطعاً اس بات کا کوئی احتمال نہیں تھا کہ ہمسایوں کو اس پر کسی قسم کا اعتراض ہو.وہاں ایک بنی بنائی عمارت بھی ساتھ ہی مل گئی.جس کو خدام نے بڑی محنت کے ساتھ اور بڑے ولولے کے ساتھ بہت اچھی حالت میں ایسی شکل میں بنا دیا کہ ایک حصہ اس کا خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک وسیع مسجد کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے.اور یہ مسجد کا رقبہ، جونئی جگہ ملی ہے، یہ 191

Page 201

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم فرینکفرٹ کی پہلی مسجد کے مقابل پر بہت زیادہ ہے.اسی طرح مستورات کے لئے بھی وہاں جگہ موجود ہے.پہلے سے ہی غسل خانوں وغیرہ کا انتظام تھا اور اسے اور بھی بہتر کر دیا گیا ہے.ایک مبلغ کی رہائش کی جگہ بھی بنی بنائی مل گئی تھی مگر اس وقت اس کی حالت خراب تھی.خدام نے بڑی محنت کی ہے اور بہت کم خرچ پر اسے نہایت اعلیٰ حالت میں تبدیل کر دیا ہے.اسی طرح گیسٹ اور بیرونی جالی وغیرہ کے اوپر خدام نے بڑی محنت کی ہے اور حیرت انگیز طور پر جماعت کے پیسے بچائے ہیں.مثلاً وہ گیٹ ، جس کے لئے با قاعدہ بنانے والے چھ ہزار مارک طلب کر رہے تھے، ہمارے احمدی نوجوانوں نے بارہ سو میں سامان خرید کر مکمل کر دیا ہے.اور بہت خوبصورت گیٹ بنایا ہے.اسی طرح بیرونی دیوار کے لئے جالی تلاش کر کے حاصل کر لی.اور اللہ تعالیٰ کا فضل ایسا ہوا کہ وہ جالی پھینکنے کے لئے لے جائی جارہی تھی ، حالانکہ نہایت ہی عمدہ حالت میں تھی.اور چونکہ گورنمنٹ کے حکومت کے بعض دفاعی محکموں کے معیار اتنے بلند ہیں کہ بیرونی دیوار کی جالی کی معمولی سی بھی حالت خراب ہو تو اسے پھینکوا دیتے ہیں.ایک احمدی دوست کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا: ہمیں چاہئے ، اس کی ضرورت ہے.تو انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت ہے تو ہم نے پھینکنی ہی ہے، ہم آپ کے گھر آپ کے ساتھ چھوڑ آئیں گے.چنانچہ ان کے ٹرک جالیاں لاد کے تین ٹرک بھر کے وہاں پہنچ گئے اور بجائے پھینکنے وہ نہایت ہی عمدہ استعمال میں آگئی.بازار سے کافی خرچ کرنے کے بعد قیمتا جونئی جالی ملتی ہے، اس سے وہ بہت بہتر حالت میں ہے اور بہت مضبوط اور موٹی بنی ہوئی ہے.بہر حال اس جگہ پر وہاں کی جماعت نے ، خدام نے بھی اور انصار نے بھی اور لجنات نے بھی بہت محنت کی ہے.پہلی دفعہ جب میں نے دیکھی تھی تو اس کے مقابل پر اس کی بالکل کایا پلٹ دی ہے.ہر جگہ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو جگہیں حاصل کرتی ہے، اپنی خدمت کی رو سے، ایثار کے جذبے کے ساتھ اس کے اندر نئے رنگ بھر دیتی ہے، نئی شکلیں بنادیتی ہے.اور یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک معجزہ ہے.اس دور میں جماعت احمد یہ دنیا سے الگ تھلگ اپنے اوقات کے مصرف خدمت دین کے لئے وقف کر رہی ہے.اور انگلستان میں بھی یہی ہوا تھا.جب اسلام آباد خریدا گیا ہے، اس کی حالت اس وقت کچھ اور تھی.جب ہم نے اس کو آاد کیا تو پہچانا نہیں جاتا تھا.اردگرد کے لوگ حیرت سے دیکھنے آیا کرتے تھے کہ یہ وہی جگہ ہے، جو کچھ عرصہ، چند مہینے پہلے تم لوگوں نے لی تھی.تو بہر حال خدا کا بہت بڑا احسان ہوا، بہت اچھی جگہ مل گئی اور وہاں افتتاح بھی بہت ہی عمدہ ہوا.کثرت سے مہمان معززین تشریف لائے ہوئے تھے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نمائندے بھی آئے ہوئے تھے.اسی شام کو ریڈیو پر بھی خبریں آئیں، ٹیلی ویژن پر بھی دکھایا گیا اور اخبارات کے نمائندگان 192

Page 202

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء نے بھی بہت اچھی رپورٹنگ کی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمسائے بہت اچھے ملے ہیں.میئر کہیں باہر گئے ہوئے تھے ، اس لئے ان کے نمائندے تشریف لائے تھے.انہوں نے بہت عمدہ خیالات کا اظہار کیا.اور جو دوست مہمان تشریف لائے تھے، انہوں نے اتنی دلچپسی شروع کر دی کہ بعض ان میں سے اصرار کے ساتھ ٹھہر گئے کہ ہم شام کی مجلس سوال و جواب میں بھی حصہ لیں گے.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ میں صرف ظاہری زمینوں کی فراخی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اول طور پر روحانی زمینوں کی فراخی کا ذکر ہے.دین کو پھیلنے سے روکا جاتا ہے، اس لئے ، بتایا گیا ہے اور تسلی دی گئی ہے کہ جو اللہ کا دین ہو، اس کو پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا.ہر روز ا سے نئی وسعتیں عطا ہوتی چلی جاتی ہیں.جتنے مراکز بھی خدا تعالیٰ نے نئے عطا کئے ہیں، ان میں بھی اصل میں حکمت ہے.یہ وعدہ ہے کہ ہم تمہاری روحانی زمین کو پھیلانے والے ہیں، اس لئے نئی زمینیں عطا کر رہے ہیں ورنہ ظاہری طور پر مادی طور پر دنیا کی چند زمینیں یا چند مکانات حاصل ہونے سے ہمیں کیا خوشی ہو سکتی ہے.اصل اس کے پیچھے یہ روح کارفرما ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود کو الہاما اللہ تعالیٰ نے وسع مکانک فرما کر یہ بتایا کہ ہم تیرے ماننے والوں میں، تیرے ارادت مندوں میں، تیری پیروی کرنے والوں میں بہت بڑی وسعت دینے والے ہیں، اس کے لئے تیاری کر اور اپنے مکانات کو وسعت دے.یہ وجہ ہے کہ میں جن خدا تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کر رہا ہوں اور ان نئی وسعتوں کے ساتھ جو زمینی وسعتیں ، روحانی دینی وسعتیں ساتھ ساتھ ملنی شروع ہو گئی ہیں اور ان کے آثار بڑے نمایاں دکھائے دینے لگے ہیں.چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، اس افتتاحی پروگرام میں جو مہمان تشریف لائے ہوئے تھے، ان میں عرب بھی تھے، ان میں یورپین بھی تھے، امریکن بھی اور جرمن بھی ہر قسم کے لوگ تھے.اور متعدد مہمان ان میں سے ٹھہر گئے اور اصرار کیا ، خود خواہش کی ، مجھے بھی مل کے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ سوالات کریں.چنانچہ میں نے ان سے کہا: اگر آپ چاہتے ہیں تو بے شک شام تک ٹھہریں.چنانچہ بڑے خلوص کے ساتھ انہوں نے حصہ لیا.اور اگر بعد میں ہمارا ایک اور پروگرام نہ ہوتا تو وہ مجلس ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی.دوستوں کی بہت خواہش تھی کہ ہم اپنے سوالات کریں مگر چونکہ ایک اور جگہ بھی پروگرام تھا، اس لئے بہر حال غالباً ڈیڑھ، دو گھنٹے کے بعد اس مجلس کو ختم کرنا پڑا.شاید زیادہ وقت تھا، دو گھنٹے کے لگ بھگ تھا.193

Page 203

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم وہاں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ اسلام میں جو غیر معمولی دلچسپی ہے، وہ بھی بڑھتی چلی جارہی ہے.اور اتنی جلدی تائید میں سر ہلنے لگ جاتے ہیں کہ اس سے پہلے مجھے تصور بھی نہیں تھا کہ ایک مجلس میں اتنی جلدی بعض لوگ اپنے خیالات تبدیل کر سکتے ہیں.اور جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے، صرف غیر مسلموں میں ہی نہیں، ان مسلمانوں میں بھی بہت تیزی سے دلچسپی بڑھ رہی ہے، جو اس سے پہلے ہم سے متنفر تھے.اور جو پہلے سوال انہوں نے کئے ان سوالات سے ان کے چہروں کے اثرات سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ خشونت اور نفرت پائی جاتی ہے اور کچھ غصہ پایا جاتا ہے.لیکن جب میں نے ان کے سوالات کے جوابات دیئے تو چہروں کے تأثر بدلنے شروع ہو گئے.اور کچھ عرصے کے بعد بہت انہاک پیدا ہو گیا.آخر پر ان سے جب معذرت کر کے ، اس لئے کہ بعض جرمن دوست بھی تھے، ان سے بھی وعدہ کیا ہوا تھا کہ آپ کے سوالات کے جواب دوں گا، تو جب میں نے دوسری طرف توجہ کی ، پھر بھی وہ آخر وقت تک بیٹھے رہے.اور صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے دن صبح جب ہم باہر جارہے تھے تو وہ پھر پہنچے ہوئے تھے.میں نے ان کو دیکھ کر معذرت کی کہ میں تو باہر جارہا ہوں.تو انہوں نے کہا کہ ہم ٹھہرتے ہیں.چنانچہ ظہر کی نماز میں شامل ہوئے.ظہر کی نماز کے بعد پھر بیٹھ گئے اور پھر سوالات کئے.اور آخر پر ان کا تاثر یہ تھا کہ ان کے جو لیڈر تھے، انہوں نے مجھے یہ کہا کہ آپ ہمارے لئے یہ دعا کریں کہ ہم آپ کی جماعت میں جلد شامل ہو جائیں.اب یہ چوبیس گھنٹے کے اندراندر یہ واقعہ رونما ہوا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی زمین پھیلنے کے لئے تیار بیٹھی ہے.اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اس زمین کو پھیلا رہے ہیں.تیار بیٹھی کا محاورہ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ کچھ اس میں آپ کی کوشش کا بھی دخل ہوگا.کچھ نہ کچھ آپ کو لازما کرنا پڑے گا ، ہاتھ تو پھیلانے پڑیں گے تاکہ جو وسعتیں ہیں، اس میں کچھ آپ کا بھی حصہ ہو جائے.اس کے بغیر زمین از خود نہیں پھیلا کرتی.کچھ معمولی جد و جہد ، کچھ کوشش، کچھ تمنا کا دخل ہوا کرتا ہے، جو بندوں کے اختیار میں ہوتی ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو بطور خاص آج کل غیر معمولی تبلیغ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اس وقت اگر ستی ہو گئی تو ایسے وقت بار بار قوموں کو نصیب نہیں ہوا کرتے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ہر طرف خدا کے فضل سے تیزی کے ساتھ جماعت احمدیہ کے اندر دلچسپی پیدا ہورہی ہے اور رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے.کوئی جگہ ایسی نہیں ہے، جہاں میں گیا ہوں اور وہاں بیعتیں نہ ہوئی ہوں.مختلف ممالک کے لوگ ہیں، جو تھوڑی دیر کے اندر جماعت احمدیہ سے رابطہ پیدا کرتے ہی بیعتوں پر تیار ہو جاتے ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑے بڑے مخلص پیدا ہوتے ہیں.194

Page 204

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء فرینکفرٹ میں جو غیروں کے ساتھ ملاقات کا پروگرام تھا، وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا رہا.اور پریس کا نفرنس بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب رہی.مقامی معززین تشریف لائے ہوئے تھے، ان کے ساتھ شام کے وقت جو مجلس لگی ، سارے فرینکفرٹ کے چوٹی کے معززین اس میں شامل تھے.سارے تو نہیں کہہ سکتے لیکن ان کے نمائندے تھے.وہ مجلس بھی ختم ہونے میں نہیں آتی تھی.ان ممالک کے لئے یہ بات بڑی تعجب کی بات ہے کہ چھ بجے یا ساڑھے چھ بجے بلایا جائے اور اس کے بعد ساڑھے دس بجے تک مجلس چلتی رہے.اور وہاں یہی کیفیت تھی.بالآخر اس خیال سے کہ کہیں کچھ لوگوں کو جلدی نہ ہو یا وہ ادب و احترام کی وجہ سے نہ اٹھ رہے ہوں.میں نے خود کہا کہ اگر اب پسند کریں تو بند کر دیتے ہیں.اس کے بعد پھر ایک صاحب ہیں، انہوں نے یہ کہا کہ آخری سوال ضرور کرنے دیں.چنانچہ انہوں نے پھر بھی سوال کیا.اور اس وقت جو لوگ موجود تھے، ان سب کا یہ تاثر تھا کہ ان کو صرف کوئی علمی دلچسپی نہیں تھی.کچھ عرصہ کے بعد اسلام کے ساتھ گہری وابستگی نظر آنے لگ گئی تھی.بڑی گہری دلچسپی قلبی تعلق کی صورت میں ظاہر ہو رہی تھی.یہ وہ باتیں ہیں، جو مجھے مجبور کر رہی ہیں کہ بار بار جماعت کو توجہ دلاؤں کہ تبلیغ کا حق ادا کریں.اور دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تھوڑی سی کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیں بہت سے پھل عطا فرمائے گا.جرمنی میں ہی جن دوستوں کو خدا تعالیٰ نے بڑی بیعتیں کروانے کی توفیق عطا فرمائی ہے، ان میں سے بعض ایسے ہیں، جن کو بالکل عربی نہیں آتی لیکن عربوں کی بیعتیں کروائی ہیں.ترکی نہیں آتی لیکن ترکوں کی بیعتیں کروائی ہیں.جس طرح بھی ان کی پیش جاتی ہے، وہ اشاروں سے کچھ ٹوٹی پھوٹی جرمن زبان میں، کچھ اور ذرائع کو اختیار کرتے ہوئے ایک دفعہ اس جذبے کے ساتھ ان تک پیغام پہنچاتے ہیں کہ پھر وہ لٹریچر لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.کیسٹس تیار ہیں، ان کو لینے دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.اور باقی پھر خدا تعالیٰ کے فرشتے خود ان لوگوں کو سنبھال لیتے ہیں.اس وقت جماعت بڑی تیزی کے ساتھ ہر زبان میں لٹریچر تیار کر رہی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ چند ماہ کے اندر اندر اور بھی بہت سالٹر پچر آپ کو ملے گا.کیسٹس ہر اہم زبان میں تیار ہو رہی ہیں، کچھ ہو چکی ہیں.مختلف زبانوں میں ویڈیوریکارڈنگ تیار ہو رہی ہیں اور ہو چکی ہیں.اور اگر کوئی احمدی کسی بھی ملک کے باشندے کو تبلیغ کرنا چاہے، اب اس کے لئے یہ بہانہ نہیں ہے کہ مثلاً مجھے جاپانی نہیں آتی، مجھے کورین نہیں آتی ، مجھے اٹالین نہیں آتی، مجھے یونانی نہیں آتی.ان سب زبانوں میں اور اس کے علاوہ بہت سی اور 195

Page 205

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم زبانوں میں جہاں پہلے لٹریچر موجود نہیں تھا، وہاں کچھ لٹریچر تیار ہو چکا ہے، کچھ ہو رہا ہے، انشاء اللہ اور بھی ہوگا.روسی زبان میں قرآن کریم اب آخری مکمل صورت میں پریس میں جا رہا ہے.اور جو ساتھ چھوٹا سا منسلکه تعارفی لٹریچر ہے، وہ بھی تیار ہو رہا ہے.اس لئے میں جماعت کو بار بار توجہ دلاتا ہوں کہ اب آپ کا یہ عذر خدا کے حضور قابل قبول نہیں رہے گا کہ ہمیں زبانیں نہیں آتی تھیں، ہمیں علم نہیں تھا.نہ زیادہ زبانوں کی ضرورت ہے، نہ زیادہ علم کی ضرورت ہے.ضرورت ہے تقویٰ کی دعا کی لگن کی.ایک جذبہ ہو اور انسان اپنا مقصد بنالے.دھن کی طرح اس کے سر پر یہ سوار ہو جائے کہ جس طرح بھی ہو، میں نے روحانی طور پر اللہ تعالیٰ سے اولا د لے کر چھوڑنی ہے.چنانچہ جرمنی کے دورے میں، میں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں نے مجھے خاص طور پر دعا کے لئے لکھا تھا، بعض لوگ اتنا پریشان تھے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمیں تو ایک مرض لگ گیا ہے کہ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم بیعت کروائیں گے اور کوئی بیعت نہیں ہوسکی، وہ دعا کے لئے لکھ رہے تھے.جس طرح بعض دفعہ ماؤں کی گود میں ، جو اولاد سے مایوس ہو چکی ہیں، بچہ دیکھ کر روحانی طور پر بڑی مسرت ہوتی ہیں، اس طرح ان کی گودوں کو خدا نے بھر دیا اور ان کو روحانی بچے عطا فرمائے گئے.ایک نوجوان نے مجھے لکھا کہ میں نے آپ کو خط لکھا تھا کہ میرے وعدے کے پورا ہونے کا آخری دن آ رہا ہے اور اب تک کوئی احمدی نہیں ہوا.ایسا میں بے قرار تھا، میں نے بڑے درد سے چٹھی لکھی کہ میرے پاس چند گھنٹے باقی ہیں، میں کیا کروں اور کوئی پیش نہیں جارہی؟ کہتے ہیں خط کے دو، تین گھنٹے بعد میرا ایک غیر احمدی بھائی، جو کسی طرح مانا ہی نہیں کرتا تھا، پہنچ گیا اور اس کے ساتھ مجلس لگی اور اسی رات دوسرا دن چڑھنے سے پہلے پہلے اس نے بیعت کر لی.اللہ کے فرشتے اس کو گھیر کے لائے تھے.اللہ کے فرشتوں نے دلوں میں تبدیلی پیدا کی.جماعت کو تو خدا تعالیٰ صرف ایک بہانہ عطا فرما دیتا ہے کہ گویا ہم نے بھی ہاتھ لگایا ہے.اپنی خدمت کی کچھ سعادت نصیب ہو جائے.ورنہ یہ خدا کے فرشتے ہیں، انہوں نے بہر حال کام کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے پتہ چلتا ہے کہ جب وقت آتا ہے تو خدا کے فرشتے خود روحوں کو سعادتوں کی طرف ہانکتے ہوئے لے آتے ہیں.اس لئے آپ کو پہلے سے بڑھ کر توجہ کرنی چاہئے اور دعا کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے.ہر احمدی اپنے آپ کو ایک ایسی ماں کی طرح محسوس کرے، جس کی گود اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے خالی ہے اور بے قرار ہو جائے کہ کاش مجھے بھی روحانی اولا د عطا ہو.پھر دیکھیں کہ کس تیزی کے ساتھ خدا تعالیٰ ہر طرف وسعتیں عطا فرمائے گا.196

Page 206

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء جہاں تک ہیمبرگ کی زمین کا تعلق ہے، جیسا کہ میں نے وہاں بھی ذکر کیا تھا، ہم نے وہاں جگہیں دیکھی ہیں.اور ایک جگہ خصوصیت کے ساتھ بہت ہی اچھی ہے، جو بہت پسند آئی ہے.ان کے ساتھ گفت وشنید چل رہی ہے.دعا کرنی چاہئے اور میں دعا کی تحریک کرتا ہوں کہ اگر وہ اللہ کے نزدیک جماعت احمدیہ اور اسلام کے حق میں بہتر جگہ ہے اور سعید روحوں کو کھینچنے کے لئے جذب کرنے کے لئے اس نے کوئی اہم کردار ادا کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ وہ جگہ ہمیں عطا فرمائے بلکہ پھر وہاں نہایت ہی خوبصورت شاندار مسجد بنانے کی بھی توفیق بخشے اور اپنے فضل سے ساری ضرورتیں پوری فرمائے.بہر حال فرینکفرٹ کے سارے واقعات تبلیغی قصے بیان کرنے تو مشکل ہیں.اب میں جنوبی حصہ کی بات کرتا ہوں کہ فرینکفرٹ سے پھر ہم میونخ پہنچے.میونخ کا علاقہ ایسا ہے، جہاں ابھی کچھ عرصہ پہلے ہم نے مبلغ بھیجا ہے.ارد گرد کچھ جماعتیں ہیں لیکن کوئی مرکز نہیں اور مبلغ بھی کرائے کے مکان میں رہتا ہے اور شہر بہت بڑا ہے.اور میونخ گوار یا کا سب سے اہم مرکز ہے.یہاں کے لوگ بھی اپنے مزاج کی خاص رعونت کے لحاظ سے مشہور ہیں اور عام لوگوں کو اور عام باتوں کو خاطر میں لانے والے لوگ نہیں ہیں.تو باقی جرمن قوم کے مقابل ہمیشہ سے تاریخی طور پر یہی رویہ رہا ہے.ان مشکل حالات میں وہاں کسی خاص غیر معمولی کامیابی کی توقع تو نہیں تھی.مگر بہر حال چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں، اسی نے کرنے ہیں، اس لئے جو وہاں پروگرام رکھا گیا، غیروں کو بھی بلایا گیا ملاقات کے لئے مگر بہت زیادہ نہیں آئے.جہاں تک سوال و جواب کی مجلس کا تعلق ہے، میرا خیال ہے، پندرہ میں مہمان تھے ، جو آئے تھے.باقی احمدی ہی اردگرد سے اکٹھے ہو گئے.جہاں تک پریس کانفرنس کا تعلق ہے، اس میں بھی وہی رویہ تھا یعنی عدم تعلق تھا لاعلمی کی وجہ سے.فرینکفرٹ ہیمبرگ وغیرہ میں تو خدا کے فضل سے جماعت کا ایک تاریخی کردار ہے، جس سے لوگ واقف ہو چکے ہیں لیکن اس جنوبی حصے میں ابھی تک کوئی واقفیت نہیں.44 چنانچہ سب سے زیادہ معاندانہ رویہ پریس کانفرنس میں میونخ میں اختیار کیا گیا.تعداد کی کمی کے لحاظ سے بھی اور جو آئے ، ان کا رویہ بھی شروع میں معاندانہ تھا بلکہ تحقیر آمیز تھا.پوچھا کہ آپ لوگ کیوں آ گئے ہیں؟ کیا کرنا ہے آپ نے؟ کوئی آپ کی بات نہیں مانے گا ، لغو بات ہے.آپ ہمارے ملک میں آ کے عیسائیوں کو کچھ سنائیں گے، یہ تو بے تعلق بات ہے.اس لئے یہاں ہمیں اب ضرورت کوئی نہیں.یہ رویہ پر لیس کا تھا.چنانچہ میں نے بھی ان کو جگانے کے لئے پھر اسی زبان میں گفتگو کی.میں نے کہا: آپ ساری دنیا میں چرچ پھیلا رہے ہیں اور ساری دنیا میں آپ تبلیغ کر رہے ہیں.آپ کا یہ کیا حق ہے کہ ہمیں 197

Page 207

خطبہ جمعہ فرموده 27 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم یہاں آنے سے روکیں؟ ہم ضرور آئیں گے.آپ ہوتے کون ہیں ہمیں روکنے والے؟ یا تو اپنے چرچ بند کریں ساری دنیا سے اور Pack کر کے اکٹھے ہو جائیں.ہم پر آپ کو اعتراض کا کیا حق ہے؟ اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جرمن قوم یا اس علاقے کے لوگ مسلمان نہیں ہوں گے.میں نے کہا کہ آپ کا تو بالکل غلط خیال ہے.کل رات پہلی دفعہ چند گھنٹوں کی مجلس سوال جواب ہوئی تھی اور وہیں آپ کے علاقے کی جرمن خاتون نے بیعت کی ہے اور ایک عرب نے بیعت کی ہے.ایک پاکستانی نے یہاں بیعت کی ہے.تو خدا ہمیں پھل دے چکا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ تمہیں پھل نہیں ملے گا.بہر حال جس طرح کی شدت اس کی تھی، اسی طرح کی میں نے بھی شدت اختیار کی اور تھوڑی دیر کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے صاحب نرم پڑ گئے اور پھر دلچسپی بھی پیدا ہوگئی.اور پوچھنے لگے کہ اچھا آپ کا اسلام ہے کیا؟ ہمیں بتا ئیں تو سہی؟ جب میں نے ان کو بتایا کیا فرق ہے، آپ میں اور مسلمانوں میں؟ میں نے بتایا کہ ہمارا فرق مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے دوسرے فرقے اور عیسائی ایک طرف اور ہمارا عقیدہ الگ ایک طرف ہے.آپ دونوں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو زندہ آسمان پر مان رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ وہ خود آئیں گے.اور ہم کہتے ہیں کہ کبھی بھی خدا کا کوئی بندہ آسمان پر زندہ نہیں چڑھا، نہ کبھی آسمان سے اترا ہے.یہ روحانی محاورے ہوتے ہیں، جن کو وہ نہیں سمجھ سکتے.بہر حال اس قسم کی بڑی تفصیل سے جب میں نے یہ باتیں سمجھا ئیں تو کچھ دیر کے بعد کہتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ سو فیصدی متفق ہوں.جو آپ کہہ رہے ہیں، وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں.میں نے کہا: ابھی تو تم کہتے تھے کہ یہاں آپ کی بات کوئی نہیں مانے گا.اور اس خدا نے تمہیں بھی بات ماننے والا بنادیا ہے.اور تمہارے منہ سے کہلوا دیا ہے کہ میں اب آپ کے ساتھ ہوں.ہنس پڑا اور کہتا ہے کہ بات یہ ہے کہ میں کیتھولک چرچ کا نمائندہ ہوں.کیتھولک چرچ کا اخبار ہے، اس کا نمائندہ ہوں، اس لئے میں مجبور ہوں.آپ کی باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن میرا اخبار چھاپے گا نہیں، اس لئے میں معذرت خواہ ہوں.میں نے کہا: مجھے تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل کا یہی نظارہ چاہئے تھا کہ جہاں تم کہہ رہے تھے تکبر سے کہ تم کیا کرنے آئے ، یہاں تمہاری بات کوئی نہیں مانے گا ؟ تمہیں خدا نے منوا کر بتا دیا کہ اس طرح خدا بات منوایا کرتا ہے.اور صرف یہی نہیں، اسی پریس کا نفرنس کا ایک اور پھل اللہ تعالیٰ نے اس طرح عطا فر ما دیا کہ کچھ عرب شیوخ آئے ہوئے تھے.جہاں سے گزر کے پریس کانفرنس کے لئے ہم آئے ، وہاں وہ ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے.واپسی پر میں نے ان کو السلام علیکم کہا اور گزر گیا.دوبارہ جب ہم ظہر کی نماز کے لئے آئے ہیں تو وہی عرب دوست وہاں بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے مجھے پیغام بھجوایا کہ ہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں.198

Page 208

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء خیر وہاں ان سے ملاقات ہوئی.سرسری ملاقات کا خیال تھا لیکن اچھا خاصا گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ ان کے ساتھ پھر ب گفتگو ہوئی.اور انہوں نے بتایا کہ ہمارے اندر پاکستانی ملاؤں نے اور بعض دوسرے لوگوں نے آپ کے خلاف انتناز ہر بھرا ہوا ہے کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کس قسم کا لٹریچر ہم تک یہ پہنچاتے ہیں اور یک طرفہ باتیں سن سن کے ہم تو آپ سے شدید متنفر ہیں.اور اب جو دیکھا ہے، ہمیں کچھ اور بات نظر آئی.اب ہمیں دلچسپی پیدا ہوئی کہ ہم پوچھیں تو سہی یہ کون ہیں؟ کیا بات ہے؟ چنانچہ اسی مجلس میں وفات مسیح کے متعلق سارے کے سارے قائل ہو گئے، ایک نے بھی انکار نہیں کیا.اور خاتم النبیین کے متعلق جماعت احمدیہ کی تشریح پر جب گفتگو ہوئی تو ایک دوست تھے، جنہوں نے کہا کہ ابھی میں تحقیق مزید کرنی چاہتا ہوں.اور چار دوسرے دوست تھے، جنہوں نے تائید میں سر ہلانا شروع کر دیا کہ ہاں یہ مسئلہ ہمیں سمجھ آرہا ہے.اور وہ جو دوست تھے، جن کا میں ذکر کر رہا ہوں، ان کے نام پتے میں نہیں بتانا چاہتا، حکمت کے خلاف ہے.مگر یہ اپنے علاقوں کے اچھے معزز لوگ ہیں.اور اتنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے کہ اپنے اپنے دیتے ہیں اور یہ وعدہ کیا ہے کہ ہم جولٹ پھر بھیجیں گے، سب کا مطالعہ کریں گے پیسٹس سنیں گے اور پھر اگر کوئی سوال ہمارے دل میں پیدا ہوا تو پھر لکھیں گے کہ اس بارے میں ہماری تسلی نہیں ہوئی.تا کہ آپ کو موقع دے سکیں تسلی کرانے کا.اور ایک صاحب ان میں سے، جو اوپر ہمارے مردانہ کمرہ تھا، اس میں تشریف لائے ، ساتھ کھانا بھی کھایا اور پھر اس کے بعد محبت پیار کے رنگ میں اظہار کرتے رہے.تو جس جس جگہ یہ زمین تنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں وہاں خدا نہیں زمینیں عطا فرما رہا ہے.عربوں کو ہم سے دور کرنے کی بڑی شدید کوشش کی گئی تھی ، جیسا کہ انہوں نے ہی ہمیں بتایا.اس کے علاوہ بھی بعض دوسرے عرب دوست، جو بیعتیں کرتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے بڑی شدید نفرت پیدا کر رکھی ہے.آپ لوگوں کے خلاف اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ وہ یک طرفہ سن سن کر ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کا دین ہی کچھ اور ہے.اور انہی لوگوں میں سے خدا تعالیٰ اب یہ از خود پھل عطا کر رہا ہے.ان کے علاقوں میں پہلے احمدیوں پر ظلم ہوا کرتے تھے، جن کا میں ذکر کر رہا ہوں.اب میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ ان کے رویے بالکل بدل جائیں گے.جس خدا کا یہ وعدہ ہے کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ اس کی زمین نہ صرف وسعت پذیر ہے بلکہ ہر جہت میں وسعت پذیر ہے.اس کی وسعتوں کا آپ اندازہ کر ہی نہیں سکتے.کیونکہ ظاہری طور پر زمین بھی وسعت پذیر ہے، روحانی طور پر جماعت کے 199

Page 209

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم پھیلاؤ کے لحاظ سے بھی وسعت پذیر ہے.مختلف قوموں کے اندر توجہ پیدا کرنے کے لحاظ سے بھی زمین وسعت پذیر ہے.اور اس کے علاوہ آسمان پر کئی فیصلے ہو رہے ہیں.خدا تعالیٰ کی تقدیر اپنے طور پر کام کر رہی ہے، جس کا مستقبل سے تعلق ہے اور ہم نہیں جانتے کہ کس کس رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے اور کس کس رنگ میں جماعت کو نئی وسعتیں عطا ہوں گی.لیکن یہ میں ضرور جانتا ہوں کہ جب آسمان حرکت میں آجائے ، جب خدا تعالیٰ کی تقدیر فیصلہ کرے کہ میں نے اس جماعت کو بہر حال بڑھانا ہے اور عزت دینی ہے، اس وقت جماعت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ضرور خدا کی تقدیر کے ساتھ چلے، اس کے مخالف نہ چلے.آج جو بھی آپ میں سے بیٹھ رہنے والا ہے، وہ مخالف چلنے والے کے مترادف ہوگا.چند قدم اس سمت میں اٹھا ئیں، یہ تیز ہوائیں آپ کو خود آگے کھینچ کر لے جائیں گی.بہت سے آثار ایسے نظر آرہے ہیں، بہت سی خوشخبریاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی مل رہی ہیں کہ جن سے میں سمجھتا ہوں کہ بہت جلد جلد اللہ تعالیٰ اس جماعت کو بڑھانے والا ہے.یہاں جو تجربہ ہوا، وہ بھی بہت ہی خوشکن تھا.لیکن اس کا ذکر میں انشاء اللہ آئندہ کسی خطبے میں کروں گا، جو غالبا سپین میں ہوگا.بہر حال اس وقت میں اس کو اتنا ہی مختصر کرتا ہوں کہ ہر احمدی ہر جہت میں تبلیغ کی کوشش کرے.بچے بھی کوشش کریں، مرد بھی کوشش کریں، عورتیں بھی کوشش کریں.ابھی تک میں نے جو اندازہ لگایا تھا کہ اتنی خدا تعالیٰ کی فوج ہے، جو اگر میدان میں کود پڑے تو عظیم انقلاب بر پا ہو جائے ، اس کا دسواں حصہ بھی ابھی تک میدان عمل میں نہیں اترا.جب میں دوستوں سے ملتا ہوں، سرسری جائزہ لیتا ہوں تو یہ معلوم کر کے افسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک بہت سے دلوں میں صرف خواہشات ہی پیدا ہو رہی ہیں، عملاً ان کو ابھی توفیق نہیں ملی.اور جماعت کی بھاری طاقت ابھی تک میدان عمل میں نہیں اتری.حالانکہ وقت بڑی تیزی سے ہاتھ سے گزر رہا ہے.زمانے میں انقلاب آنے والے ہیں.تمام دنیا میں بہت بڑی بڑی تبدیلیاں پیدا ہونے والی ہیں.اور ان کے لئے جتنی تیاری کا وقت تھا، وہ تیاری ابھی ہم پوری نہیں کر سکے.اس لئے ہر احمدی، جس تک میری آواز پہنچتی ہے، وہ خود اپنا نگران بن جائے.اس کے ساتھ میں تو ہر وقت پھر نہیں سکتا، نہ تو کوئی میرا نمائندہ مبلغ پھر سکتا ہے.لیکن خدا اس کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے.اس لئے اپنے خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرے کہ میں نے یہ عہد کرنا ہے، حقیقتا دل کے ساتھ کہ سال کے اندر انشاء اللہ ایک احمدی ضرور بناؤں گا.اور پھر دعا شروع کر دے تو یہ ہر گز مشکل نہیں.یہ بھی ایک فطری بات ہے.کچھ عرصہ پہلے سیر یا ، شام کے دو نو جوان یہاں تشریف لائے ہوئے تھے، وہ نئے احمدی ہوئے ہیں، بہت ہی غیر معمولی جوش ان کے اندر تبلیغ کا پایا جاتا ہے.اور یہ بات صرف ان میں ہی نہیں، عام 200

Page 210

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء عربوں میں بھی دیکھی گئی ہے کہ جو احمدی ہوتا ہے، اس قدر محبت اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہو جاتی ہے کہ ان کو دیکھ کر رشک آتا ہے.کاش جماعت کے ہر فرد میں ایسا تہی عشق کا رنگ پیدا ہو جائے.چنانچہ ان دونوں جوانوں میں سے ایک نے کہا کہ میرے دل میں تو سوائے اس کے اور کوئی ترکیب نہیں آرہی کہ ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ سال میں ایک احمدی ضرور بنائے گا.میں نے کہا: تم نے میرا کوئی خطبہ سنا ہے یا حضرت خلیفة المسیح الثانی کی کوئی کتاب پڑھی ہے، جس میں یہ ذکر تھا.یہ خیال کس طرح آیا.اس نے کہا کہ یہ ترکیب خدا تعالیٰ نے خود میرے دل میں ڈالی ہے.اور کہا کہ میں عہد کرتا ہوں بلکہ میں تو زیادہ عہد کر رہا ہوں.اس نے کہا کہ میں تو انشاء اللہ تعالی زیادہ بناؤں گا.لیکن ہر احمدی ایک بنائے.اور یہ کہہ کر اس نے کہا کہ میں نے بہت سوچا ہے اور بہت غور کیا ہے کہ یہ بہت ہی آسان کام ہے، بالکل مشکل نہیں.معمولی سی توجہ اور دعا کے ساتھ ایک انسان کوشش کرے تو اس کو پھل مل جاتا ہے.تو جو چیز آسان ہو، جو چیز ہماری دسترس میں ہو، اس کو نہ لینا جبکہ اللہ کی تقدیر وہ پھل ہاتھ میں پکڑانا چاہتی ہو، یہ بڑی محرومی ہے.ایک موقع پر گجرات کی بات ہے، وہاں ایک جماعت میں، میں نے ان کو جا کر سمجھایا تبلیغ کے متعلق گفتگو کی تو ان کو میں نے مثال دی.میں نے کہا: آج کل ہوا چلی ہوئی ہے، یہاں بھی خدا کے فضل سے اور تم سوچ نہیں رہے کہ تمہاری مثال کیا ہے ؟ کافی بیچارے ست تھے، اس لئے مجھے ان سے تھوڑی سی سختی بھی کرنی پڑی.میں نے کہا: تمہاری مثال تو ان دو افیموں کی سی ہوگئی ہے، جو ایک بیری کے درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے اور افیم کے نشے میں دھت.ایک کے پاس ایک اچھا سا موٹا سا بیر آ کے گرا.تو اس نے دوسرے دوست سے کہا کہ بیر ذرا میرے منہ میں ڈال دو.اس نے کہا: جاؤ جاؤ اپنا کام آپ کرو، میں آرام سے لیٹا ہوں.خیران کی رات گزرگئی.کچھ عرصے کے بعد ایک مسافر جارہا تھا، مسافر گھوڑے پر سوار جار ہا تھا کہ اس شخص نے اس کو آواز دی.اس نے کہا: بھائی ذرا اترو! ایک بات سن جاؤ ضروری.اس بیچارے نے اتر کر درخت سے اپنا گھوڑا باندھا.اس نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ ایک بیر پڑا ہوا ہے، میرے سرہانے یہ ذرا اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دینا.مسافر کو بڑا غصہ آیا.اس نے کہا: تم بڑے ذلیل آدمی ہو، مجھے راستہ چلتے گھوڑے پر سے اتارا کہ یہ بیر میرے منہ میں ڈال دو.تم سے آپ نہیں اٹھایا گیا.اتنے میں دوسرے آدمی نے بھی توجہ شروع کی کہ کیا گفتگو ہورہی ہے؟ وہ بیچ میں بول پڑا.کہتا ہے: جناب! آپ کو اندازہ نہیں، یہ کیسا ذلیل آدمی ہے.ساری رات کتنا میر امنہ چاھتارہا، اس کمبخت نے ہش 201

Page 211

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم تک نہیں کہا.اتنا اس کو احساس نہیں پیدا ہوا، اتنی شرم نہیں آئی کہ ساتھ ہی لیٹا ہوا ہے، کہا اس کا منہ چاٹ رہا ہے کہ میں ہٹا ہی دوں ، اس کو ہش ہی کہہ دوں.اس شخص کی بات ہی چھوڑ وہ بڑا ہی نکھا آدمی ہے.اس نے کہا: آپ دونوں ہی معذور ہیں، میں یہاں سے رخصت ہوتا ہوں.میں نے کہا: اب اللہ کی تقدیر بیرگرا چکی ہے ، آپ کے سرہانے پڑا ہے اور آپ ہاتھ ہلا کر وہ بیر ہی اٹھا کر منہ میں نہیں ڈال سکتے ؟ اس وقت تو بیعتوں کا یہی حال نظر آ رہا ہے.نہ صرف پھل پکے ہیں بلکہ گر رہے ہیں، آپ کے پاس پڑے ہوئے ہیں.اگر آپ نے ان پھلوں کو نہیں اٹھایا تو جانور کھائیں گے یا یہ گل سڑ جائیں گے، دشمنوں کے ہاتھ لگ جائیں گے.یہی موسم ہے تبلیغ کا اور خدا تعالیٰ کے عطا کر وہ پھلوں سے استفادے کا.اس لئے دائیں بھی کوشش کریں، بائیں بھی کوشش کریں.آگے بھی ، پیچھے بھی.اپنے سارے ماحول میں تلاش کریں.کہاں سعید فطرت روحیں موجود ہیں؟ اور ان کی طرف توجہ کریں، محبت سے، پیار سے، اخلاص سے، اخلاق کے ساتھ.بعض دفعہ ان کو جھنجھوڑتے ہوئے.اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے اندر کیسی تبدیلی پیدا ہوتی ہے.اور خاص طور پر دعاؤں سے کام لیں.کیونکہ جیسا کہ میں بار بار بیان کر چکا ہوں، سب سے بڑا خزانہ ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دور میں ہمیں دیا ہے، وہ دعاؤں کا خزانہ ہے.عجیب دولت عطا فرما دی ہے.ہر ستی کا علاج یہی دعا ہی ہے، ہر کمزوری کا علاج یہی دعا ہی ہے، ہر مسئلہ جو انسان کے لئے پیدا ہوتا ہے، اس کو دعاحل کر دیتی ہے.اس لیئے دعا پر بہت زور دیں.اور جو دعا کی عادت ڈالے گا، وہ دیکھے گا کہ اس کے اعمال کے نتائج میں کتنا فرق پڑ جاتا ہے.عام آدمی بھی محنت کرتا ہے لیکن دعا کرنے والے کی محنت کو بہت زیادہ پھل لگتے ہیں.ایک دفعہ حضرت مصلح موعود سندھ دورے پر گئے.اس زمانے میں موسم خراب تھے ، اس لئے عمومی فصلیں گندی تھیں.تو سارے پھر کے دیکھا، اکثر فصلیں بڑی خراب تھیں.ایک علاقے میں گئے تو وہاں ساری فصلیں اچھی لہلہاتی ہوئی.ہمارے وہاں جو مینجر تھے، ان سے حضرت صاحب نے پوچھا، مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری اس وقت مینجر ہوا کرتے تھے.حضرت صاحب نے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ نے یہ کیا تدبیر کی ہے؟ بڑے بڑے پرانے تجربہ کار زمیندار مینیجر ہیں اور ان کی فصلیں بالکل بے کار ہیں.آپ کی فصل بہت اچھی ہے، آپ کو کون سا نسخہ ہاتھ آ گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضور میں تو زمیندار ہوں ہی نہیں، میرا تجربہ کوئی نہیں.مجھے تو صرف ایک نسخہ ہاتھ آیا ہے.میں نے ہر کھیت کے ہر کونے پر دو دو نفل پڑے ہیں اور دعائیں کی ہیں.اے خدا! میں کچھ نہیں جانتا، سلسلے کا کام ہے ، سلسلے کا مال ہے تو اپنے فضل سے برکت عطا فرما.202

Page 212

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء تو دیکھیں اب دنیا کی عقل میں یہ بات انہونی ہے.اس کا تعلق ہی کوئی نہیں.موسم بگڑ.ہوئے ہیں، فضا میں خشکی ہے.زمیندار کہتے ہیں، کن نہیں پڑ رہا یعنی پھل نہیں پڑ رہا.یہ کیفیت ہر کھیت کی برابر ہے.ایک ہی طرح کی زمینیں ہیں اور دو نفلوں کا ان سے کیا تعلق؟ کیا فضا میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے؟ کیا زمین میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے؟ مگر جو خدا ہر تقدیر کا مالک خدا ہے، اس تک جب بات پہنچ جائے اور وہ فیصلہ کرلے کہ میں نے اس بندے کی بات قبول کرنی ہے.تو پھر انہی حالات میں قوت کی ایک نئی لہر پیدا ہو جاتی ہے.ہر چیز وہی رہتی ہے لیکن پھل میں فرق پڑ جاتا ہے.تو یہ جماعت کے تجربہ کی باتیں ہیں.ایک لمبے وسیع تجربہ کی باتیں ہیں، کوئی ایک دو آدمی کے تجربہ کی بات نہیں.آپ کو میں بار بار سمجھا رہا ہوں، جب بھی کوئی مشکل ہو یا تبلیغ کرنے کو دل نہیں چاہتا.اگر تبلیغ پر دوست مائل نہیں ہوتا یا شرم آتی ہے کہ میں ایک ساتھی سے، جس سے ساری عمر کے اور طرح کے تعلقات ہیں، اس سے تبلیغی بات کیسے کروں گا، دعا کریں.دعا کریں تو وہ تبلیغ کی بات چھیڑ دے گا.میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بعض دفعہ بعض لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لئے حالات نفسیاتی لحاظ سے بڑے سنگین ہوتے ہیں.لیکن دعا کے نتیجہ میں اس کا دل اس طرف مائل ہو جاتا ہے.اور بہت سے لوگ خطوں میں آج کل مجھے یہی لکھتے رہتے ہیں کہ سفر کر رہے تھے ، سوچ رہے تھے کہ کیا کریں؟ کس طرح لوگوں کو مائل کریں؟ دعا کی تو دوسرے نے خود بات چھیڑ دی اور اس کے نتیجہ میں تبلیغ شروع ہو گئی.تو جو آخری مرکزی نقطہ ہے، اول بھی در اصل وہی کہنا چاہئے اور آخر بھی وہی، وہ یہ ہے کہ دعا کی طرف توجہ کریں.اور پھر خاص طور پر دعا کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ پہنچے گا کہ جب آپ کی دعا قبول ہوگی.اور وہ ضرور ہوتی ہے تو پھر آپ کو خدا سے محبت بڑھے گی، اس سے پیار بڑھے گا.ایک زندہ نشان بن کے پھریں گے.پھر یہ دہریت کا ماحول آپ کو متاثر نہیں کر سکے گا.کوئی آکے آپ کو دلائل دے گا تو آپ کہیں گے تم پاگل ہو گئے ہو، مجھ سے میرا خدا تعلق رکھتا ہے، پیار کرتا ہے، میں اس کی محبت کا اظہار دیکھ چکا ہوں.ناممکن حالات میں میری باتیں سنتا ہے.تم کس دنیا کی باتیں کر رہے ہو.مجھے سمجھانے آئے ہو کہ خدا نہیں ؟ بڑا فرق پڑ جاتا ہے، دعا کے نتیجہ میں.خدا کودیکھنا ایک اور بات ہے اور نظریاتی طور پر کسی خدا پر ایمان لانا، یہ بالکل اور چیز ہے.اس لئے آپ بہت کوشش کے ساتھ جدوجہد کے ساتھ تبلیغ کریں.لیکن دعا کے بغیر آپ کو کوئی توفیق نصیب نہیں ہو سکتی.اللہ تعالی ساری جماعت کو توفیق عطا فرمائے.دعا میں ایک بات اور کہنی چاہتا تھا کہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، خدا کی خاص رحمتیں ، خدا کے جو فضل نازل ہوتے اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں، ان میں پاکستان کے مظلوم احمدیوں کی دعاؤں کا بہت 203

Page 213

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم بڑا دخل ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ بعض دعائیں ، جن کے متعلق خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ضرور سنوں گا، ان میں سے ایک مظلوم کی دعا ہے.کیونکہ وہ مظلومیت کے دور میں سے گزر رہے ہیں، اس لئے یہ جو کچھ ہوائیں چل رہی ہیں، یہ بھی ان کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.مجھے بعض دفعہ خدا کی رحمت کی یہ ہوائیں یوں لگتا ہے، میرے پیارے بھائیوں کی آہیں چل رہی ہیں.یہ ہوا ئیں نہیں چل رہیں، وہی آہیں ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے رحمت کی ہوا میں تبدیل فرما دیا ہے.ان کے آنسو ہیں، جو خدا کے فضلوں کی بارش بن کر برس رہے ہیں.اس لئے ان کے لئے بھی آپ دعائیں کریں.باقی دنیا پر ان کا احسان ہے کہ نہایت درد ناک حالات میں نہایت صبر کے ساتھ انہوں نے گزارے کئے ہیں اور دعائیں کر کر کے آپ کے حالات تبدیل کر رہے ہیں.خدا کی رحمتوں کی بارشیں ساری دنیا میں برس رہی ہیں، اس لئے ہمارا فرض ہے، هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمان: 61) کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لئے بہت کثرت سے دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ان کے دن بھی بدلے اور ان پر بھی اس کثرت کے ساتھ خدا کی رحمتیں نازل ہوں کہ ان کو اپنے ماضی کی قربانیاں ان رحمتوں کے، ان فضلوں کے مقابل پر بالکل حقیر اور بے معنی دکھائی دیں.میں حیران ہوں کہ ہم نے تو کچھ بھی قربانی نہیں کی ، پھر خدا نے اپنے فضل کیوں نازل فرمائے ہیں.اس لئے جب آپ دعائیں کریں تو پھر ان کے لئے بھی دعائیں کریں.اور پھر یہ سلسلہ انشاء اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک دوسرے کے لئے رحمتوں کا سلسلہ بنتا چلا جائے گا.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 104 صفحہ 814799) 204

Page 214

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبه جمعه فرموده 104 کتوبر 1985ء تبلیغ کرنی ہے تو ہر احمدی کو کرنی پڑے گی خطبہ جمعہ فرمودہ 04 اکتوبر 1985ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.جو گذشته خطبہ جمعہ میں نے زیورک دیا تھا، اس میں، میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑا بھر پور سفر گزررہا ہے اور اس خطبہ میں وقت کے لحاظ سے یہ یمکن نہیں رہا کہ سوئٹزر لینڈ کے سفر کے حالات بھی بیان کروں، اس لئے انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں سوئٹزر لینڈ کے حالات کے بیان سے اپنے خطبے کا آغاز کروں گا.جیسا کہ احباب کو معلوم ہو چکا ہے، یہ سارا سفر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھتے ہوئے گزرا ہے کہ خدا کی زمین وسیع ہے.اور اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کی زمین بھی وسیع ہے.اور دنیا کی کوئی طاقت خدا کے بچے بندوں کی زمین کو تنگ نہیں کر سکتی.اس وعدے کو پورا ہوتے جماعت بارہا دیکھ چکی ہے.ہر دفعہ جب دشمن نے جماعت کی زمین کو تنگ کرنے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ نے اسے نئی وسعتیں عطا فرمائیں.اور یہ سفر تو بالخصوص انہیں نظاروں میں گزر رہا ہے.میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ نہ صرف یہ کہ ظاہری زمینیں اللہ تعالٰی وسیع عطا فرما رہا ہے بلکہ روحانی لحاظ سے بھی تبلیغ کے نئے نئے امکانات روشن کرتا چلا جا رہا ہے.نئے خطوں میں خدا تعالیٰ جماعت کے پودے لگا رہا ہے، نئی قوموں میں پودے لگا رہا ہے، نئی قبولیت کے دروازے کھول رہا ہے.اور ایسے ایسے دل اس تیزی کے ساتھ مائل ہو رہے ہیں کہ جن دلوں کے متعلق وہم بھی نہیں آسکتا تھا کہ مدتوں کی کوشش کے بعد بھی وہ دل پسیجیں گے.بعض اوقات تو دیکھتے دیکھتے چند گھنٹے کے اندراندر کایا پلٹ جاتی ہے.میں نے جماعت کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ کیفیات ایسی ہیں، جو انسانی ذرائع کے بس کی بات نہیں ہے.اللہ مقلب القلوب ہے، سوائے خدا تعالیٰ کے دلوں پر کسی کو کوئی قدرت حاصل نہیں.آنا فان دل بدل جایا کرتے ہیں محبتیں نفرتوں میں بدل جاتی ہیں، نفرتیں محبتوں میں بدل جاتی ہیں.مگر اس پر محض اللہ کا تصرف ہے.اور قرآن کریم خوب کھول کر اس بات کو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے محمد تیرا بھی اختیار نہیں ہے دلوں پر.205

Page 215

خطبہ جمعہ فرموده 04 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتہ لَوْاَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (الانفال : 64) تیرے جیسا حسین جاذب نظر وجود اور پھر فیاض ایسا ہو کہ جو کچھ ہے، وہ خرچ کر دے.اور تو ایسا وجود ہے کہ اگر ساری دنیا کے خزانے بھی تجھے ہم عطا کر دیتے تب بھی خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا.لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا کا مطلب یہ ہے، اگر ہم تجھے زمین کے خزانوں پر قدرت دیتے تو اس کا طبعی نتیجہ، ایک لازمی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ تو نے سب کچھ خدا کی راہ میں لٹادینا تھا، تب بھی یہ دل تیرے لئے نہیں بدل سکتے تھے.یہ اللہ ہے، جس نے دلوں کو تبدیل کیا ہے اور باہمی محبت بھی پیدا کی ہے اور تیرے لئے بھی عشق پیدا کر دیا ہے.یہ وہ بنیادی نکتہ ہے، جسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے.اور جب دلوں کو بدلتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں تو حمد اور شکر کی طرف طبیعت مائل ہونی چاہئے، نہ کہ اپنی کسی چالا کی یا اپنی کسی بڑائی کی طرف.اور خصوصاً اس دور میں جس تیزی سے ہم جماعت کی طرف رحجان دیکھ رہے ہیں، اس کے بعد تو حقیقتاً اندھا بھی ہو تو اس کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ انسانی کوشش کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.انسانی کوشش جو نظر آرہی ہے، وہ بھی توفیق باری سے نظر آرہی ہے.اللہ توفیق عطا فرمارہا ہے، خود ہلا رہا ہے پکڑ پکڑ کے ، خود چلا رہا ہے اور پھر وہ رستے آسان کرتا چلا جاتا ہے، لمبے سفر جلدی جلدی طے فرمارہا ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے وہاں توجہ دلائی تھی، اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اس دوران دعا بہت کریں.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی جب یہ باتیں سنیں تو انکسار زیادہ طبیعت میں ہونا چاہئے.پہلے سے بڑھ کر دعا کی طرف توجہ ہونی چاہئے.حمد اور شکر میں پہلے سے بڑھ جانا چاہئے.اور پھر دیکھیں کہ اللہ انشاء اللہ اپنے فضل کے ساتھ کس طرح اور مزید مشکلات کو جماعت کے لئے حل فرماتا چلا جائے گا.زیورک میں جہاں تک نئی جائیداد کا تعلق ہے، وہ تو وہاں نہیں خریدی گئی.نہ اس سفر سے پہلے اس قسم کا کوئی خیال ہی تھا.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت وسعت پذیر وہاں بھی ہے، اس لئے وہاں کی موجودہ عمارت کی توسیع کرنے کے لئے ایک پروگرام بنایا گیا تھا.چنانچہ وہاں آرکیٹیکٹ ( Architect ) تشریف لائے ہوئے تھے، ان سے اور بعض جماعت کے دوسرے دوستوں سے مشورہ کے بعد قانون جس حد تک بھی وسعت کی اجازت دے سکتا ہے، اس حد تک اس عمارت میں توسیع کا فیصلہ کر لیا گیا ہے.جس کے نتیجہ میں اب خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی خواتین کے لئے ایک کافی وسیع کمر پل جائے گا.جس کی کمی کی وجہ سے بہت تکلیف پہنچا کرتی تھی.اور ان کے بچوں کے لئے ، ان کو نماز میں 206

Page 216

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرموده 104اکتوبر 1985ء حاضر ہوں تو کوئی خاتون ان بچوں کو کھلائیں اور ان کا بہلائیں تاکہ نمازوں میں بچوں کے شور کی وجہ.خلل واقع نہ ہو، ان کے بچوں کے لئے ایک الگ کمرہ رکھ دیا گیا ہے.ان کے وضو غیرہ کرنے کے لئے علیحدہ جگہ.چھوٹا سا ایک باورچی خانہ بھی مہیا کر دیا گیا ہے، یعنی آئندہ کے Plan میں.اسی طرح مردوں کے لئے الگ چھوٹا سا باورچی خانہ، آئے گئے کے لئے چائے بنانے وغیرہ کے لئے اور غسل خانوں کا انتظام، مزید رہائش کے کمرے.گویا کہ قانون جس حد تک بھی وسعت کی اجازت دے سکتا ہے اس زمین کی نسبت سے، انشاء اللہ تعالیٰ اس مشن کو وسعت دے دی جائے گی.جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے، جماعت کے لئے خدا تعالیٰ نے اس قدر دل نرم کر دیئے ہیں کہ اب جو میر انختصر قیام تھا اس میں بھی بالکل صاف نظر آرہا تھا کہ ایک نئی روجماعت کی طرف توجہ کی پیدا ہو رہی ہے.بنیادی طور پر پروگرام میں دو حصے تھے.ایک معززین شہر کو ایک ہوٹل میں دعوت دی گئی تھی اور اس میں بڑے بڑے چوٹی کے جو مختلف ممالک ہیں، بڑی بڑی طاقتیں کہلاتی ہیں، ان کے جو نمائندے وہاں زیورک میں موجود تھے ، وہاں اور چھوٹے ممالک جو ہیں، جو بیچارے Third world countries کہلاتے ہیں، ان کے نمائندوں کو بھی بلایا گیا، چوٹی کے صحافیوں کو بھی بلایا گیا، چوٹی کے وکلاء اور دوسرے دانشوروں اور پروفیسروں وغیرہ کو بلایا گیا.اور توقع سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے دعوت کو قبول کیا اور بعض بڑی بڑی طاقتوں کے نمائندے بھی موجود تھے.افریقہ کے ممالک کے اور دیگر بعض ممالک کے نمائندے بھی خدا کے فضل سے وہاں تشریف لائے ہوئے تھے.چوٹی کے دانشور وہاں موجود تھے، ایسے صحافی بھی تھے، جن کا سارے ملک میں وقار ہے اور بڑی عزت سے ان کو دیکھا جاتا ہے، بڑے عالم ، پروفیسر صاحبان، میٹر، اسمبلیوں کے ممبر اس قسم کا طبقہ موجود تھا اور خدا کے فضل سے ہر طبقہ کی اچھی نمائندگی تھی.چائے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد عموماً ایسی Receptions میں تعارف ہوتا ہے اور چند باتوں کے بعد پھر مجلسیں برخاست ہو جایا کرتی ہیں.لیکن ملاقات کے دوران ہی بعض دوستوں نے بعض باتیں جماعت کے متعلق معلوم کرنی چاہیں تو میں نے ان سے کہا کہ بجائے اس کے کہ میں ایک ایک کو جواب دوں، ہم اکٹھے بیٹھیں گے بعد میں، اس کے بعد آپ سب سے بات ہو جائے گی.چنانچہ میرا یہ خیال تھا کہ چند لوگ بیٹھ جائیں گے اور اکثر کی پہلے سے ہی مصروفیات ہوتی ہیں اور جلدی جانا پڑتا ہے، ایسے سب لوگ چلے جائیں گے.لیکن سوائے ایک دوست کے جنہوں نے پہلے ہی مجھے کہا تھا صبح بھی وہ ملنے آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ شام کو میں جلدی اجازت چاہوں گا کیونکہ میری ایک Appointment ہے، ان کے سوا کوئی بھی اٹھ کر نہیں گیا.، 207

Page 217

خطبہ جمعہ فرموده 04 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم جب یہ اعلان کیا گیا کہ جو دوست سوال کرنا چاہیں کسی موضوع پر تو شوق سے سوال کریں.تو اتنی دیر ہو گئی ، ساڑھے چھ سے بلایا ہوا تھا رات کے دس بج گئے اور اس سے بھی اوپر وقت ہورہا تھا.اور یہ شام کی چائے تھی، کھانے کا وقت بھی نہیں تھا.ان کا کھانے کا وقت گزر چکا تھا اور ہماری طرف سے کھانا پیش نہیں تھا، اس کے باوجود وہ دوست اٹھ نہیں رہے تھے.اور اتنی بھر پور مجلس ہوئی ہے، ہر قسم کے موضوعات پر سوالات کئے گئے اور ان معززین نے اتنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے کہ حیرت ہوتی تھی کہ جس طرح ہمارے ملکوں میں ایک رویہ ہوتا ہے، اخلاق اور محبت سے سوالات کرنے اور جواب لینے کا عام طور پر مغربی دنیا میں یہ نظر نہیں آتا.مگر بالکل وہی رنگ اور وہی کیفیت پیدا ہوگئی تھی بلکہ ہمارے بعض ساتھی تو جواب دیتے وقت میر امنہ دیکھنے کی بجائے ان لوگوں کے منہ دیکھ رہے تھے جو جواب سن رہے تھے اور کبھی ان کے چہرے پر نظر پڑتی تھی تو ان کی بشاشت سے مجھے بھی یہ اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ جواب کس رنگ میں قبول کیا گیا ہے.چنانچہ بعضوں نے بعد میں کہا کہ سوال کرنے والا تو جواب سنتے وقت اتنا تائید کرتا تھا کہ حیرت ہوتی تھی کہ اس کا سر مسلسل تائید میں ہلتا ہی چلا جاتا تھا.جب دس سے زیادہ وقت ہو گیا تو میں نے خود یہ اعلان کیا کہ ہو سکتا ہے بعض شرفاء اخلاق کی وجہ سے محض رک گئے ہوں، یہاں سے جانا بد اخلاقی سمجھتے ہوں اور ان کو ضرورت ہو، اس لئے اگر چہ سوال ختم نہیں بھی ہوئے تو میں سمجھتا ہوں کہ مجلس کو ختم ہونا چاہئے.جب یہ بات ہوئی تو اس وقت بھی ہاتھ اٹھنے شروع ہو گئے.بہر حال میں چونکہ اعلان کر چکا تھا تو مجلس کو ختم کیا گیا.لیکن رخصت ہوتے وقت بعض لوگوں نے شکوہ کیا کہ ہم نے تو ابھی سوال اور کرنے تھے اور وقت چاہئے تھا.چنانچہ ایک خاتون تھیں، انہوں نے کہا کہ میرے تو حیات بعد الموت کے متعلق بڑے ضروری سوالات ہیں، مجھے تو ان کے لئے وقت چاہیئے.کچھ اور صحافی اکٹھے ہو گئے اور وہیں دوبارہ پھر ایک مجلس لگ گئی اور کوئی نصف گھنٹہ کے قریب کھڑے ہو کر ان سے باتیں ہوئیں.پھر انہوں نے کہا: جی ہمارے تو سوال ختم ہی نہیں ہوئے ، اب کیا کیا جائے.دوسرے دن جو مجلس تھی ، وہ ہمارے احمدیوں کے لئے رکھی ہوئی تھی.عموماً جو ہماری مجلس سوال و جواب ہوتی ہے.تو ہم نے پھر اس کو بھی ان غیروں کے لئے مجلس میں بدل دیا اور ان کو کہا کہ آپ کل تشریف لے آئیں.تو اس خاتون نے کہا: میں تو Appointment کینسل کر کے آؤں گی اور مجھے تو جب تک سوال کے جواب نہ ملے، میری تسلی نہیں ہوئی.ایک احمدی سے بعد میں اس نے کہا کہ ساری زندگی کے میرے خیالات بدل گئے ہیں اس مجلس میں، اب مجھے اپنی زندگی کا ایک نیا نقشہ بنانا ہو گا ، اس 208

Page 218

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 04 اکتوبر 1985ء لئے میرے لئے ضروری ہے کہ میں جاؤں اور بقیہ سوالات کروں.اسی طرح ہمارے دوسری مجلس میں اور و بھی بعض معززین جو سوال نہیں کر سکے تھے، وہ وہاں پہنچے ہوئے تھے.کچھ ہمارے ہمسائے تھے، وہ وہاں پہنچے ہوئے تھے.اور دوسری مجلس نماز مغرب کے بعد شروع ہوئی اور اتنی دیر ہوگئی کہ ان کو کھانا پیش کرنا تھا، اس میں دیر ہو رہی تھی.پھر ہم نے کھانے کا اعلان کیا اور دوبارہ یہ کہا کہ کھانے کے بعد دوست جو تشریف لے جا سکتے ہیں.ہاں اگر کسی نے ضرور ٹھہرنا ہے تو پھر بے شک ٹھہر جائے.تعجب کی بات یہ ہے کہ اکثر ان میں سے ٹھہر گئے.پھر اور رات تقریباً ساڑھے گیارہ یا پونے بارہ بج گئے اور بعض ہمارے ساتھی سفر کے تھکے ہوئے نظر آ رہے تھے تو ان سے میں نے کہا کہ انہوں نے آگے سفر کرنا ہے، یہ بیچارے تھک گئے ہیں، ترجمہ کرنے والے تھک گئے تھے.آخر انہوں نے جواب ہی دے دیا.دوستوں نے بھی کہا کہ ہمیں انگریزی کی اتنی سمجھ آجاتی ہے تو یہ وقت ضائع ہو گا، اس لئے ترجمہ نہ ہی کروایا جائے.یہ میں بتارہا ہوں اس لئے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی گہری توجہ ہے اور اسلام میں ایک حقیقی دلچسپی پیدا ہو چکی ہے.شروع میں اس طرح سوالات کرتے ہیں، جس طرح کوئی اسلام پر باقاعدہ حملہ کر رہا ہے اور آخر پر طفل مکتب کی طرح ان کے سوالات کا رنگ ہو جاتا تھا.علم کی خاطر مزید تجسس کے لئے کہ کیا ہے؟ کچھ ہمیں بھی حقیقت معلوم ہو.یہ جو کیفیات ہیں، یہ اللہ کی دین ہے اور اب تک میں نے جتنے ملکوں کا دورہ کیا ہے، ان سب میں یہ قدر مشترک ہے.شروع کے چہرے اور ہوتے ہیں، بعد کے چہرے اور ہوتے ہیں.شروع میں سوالات کا رنگ اور ہوتا ہے، بعد میں سوالات کا رنگ اور ہوتا ہے.اور یہ اس وجہ سے کہ اسلام کے متعلق ان کو شروع میں غلط فہمیاں بہت ہیں.جب وہ سوال شروع کرتے ہیں تو ایک اور اسلام کا تصور باندھ کر سوال شروع کرتے ہیں اور چند جوابات میں جب اسلام کی حقیقی شکل ان کو نظر آتی ہے تو اس حقیقی شکل میں اتنا حسن ہے، اتنی جاذبیت ہے، اتنی دلربائی ہے اسلام میں کہ ان کے ذہنوں کا نہیں ، دلوں کا تعلق ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے.اور بالکل بدلی ہوئی کیفیت میں پھر لوگ رخصت ہوتے ہیں.یہ وہ رو ہے، جو خدا تعالیٰ کی طرف سے چلائی گئی اور اس سے ہمیں بہر حال مزید استفادہ کرنا ہے.جس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ہر احمدی مبلغ بنے.ہر احمدی اپنے ماحول میں ان مخفی بے چینیوں کو ابھارے جو بے چینیاں اس وقت سارے مغرب کو بے قرار کئے ہوئے ہیں.اور انہیں سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود گویا کچھ بھی حاصل نہیں ہے.ان کو ٹول کر دیکھیں تب آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی ظاہری 209

Page 219

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرموده 04 اکتوبر 1985ء خوشیوں کی کوئی حقیقت نہیں.ہنستے ہوئے چہرے کے پیچھے دکھ چھپے ہوئے ہیں.بظاہر سب کچھ ان کو حاصل ہے، اس کے باوجود ان کی روحوں میں ایک خلا محسوس ہورہا ہے.اور ان کے دل طلب کر رہے ہیں کہ ہمیں وہ چیز نہیں ملی، جس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.اس لئے وہاں سے تبلیغ کو شروع کرنا چاہئے.محض اسلام کا پیغام دینے کی خاطر آپ کسی کو روکیں گے کہ مجھ سے اسلام کا پیغام لیتے جاؤ، کوئی دلچسپی نہیں لے گا.پہلے آپ ان سے تعلق بڑھائیں، ان کے دلوں کو کریدیں، ہر راکھ کے ڈھیر میں آپ کو چنگاریاں نظر آئیں گی، ہر سینے میں بے چینی دکھائی دے گی.وہاں سے آپ کا کام شروع ہوتا ہے، اس کی تسکین کے لئے جب آپ اسلام کی تعلیم ان کو پہنچائیں گے تو پھر دیکھیں گے کہ ان کی کیفیت بدل جاتی ہے.چنانچہ وہاں سے رخصت ہونے کے بعد اگلا سفر ہمارا اٹلی کا تھا.اٹلی میں کوشش یہ ہے کہ پہلا احمد یہ مشن اب قائم ہو جائے.آج تک اس سے پہلے کوئی جگہ بھی جماعت احمد یہ اٹلی نہیں لے سکی.ایک زمانہ میں مولوی شریف صاحب تھے، ان کو بطور مبلغ بھجوایا گیا تھا.لیکن وہ بھی ایک عارضی سا تجربہ رہا.آج کل وہ بیمار ہیں، صاحب فراش ہیں، اٹلی میں وہیں آباد ہو گئے تھے لیکن باقاعدہ مبلغ نہیں رہ سکے اور مشن قائم نہیں ہو سکا.اس لئے حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو بھی اٹلی کے متعلق بڑی خواہش تھی کہ وہاں مشن قائم ہو.اوڈے میں ایک جگہ تلاش کی گئی، بڑی دیر تک اس کی پیروی بھی کی گئی لیکن بالآخر کامیابی نہیں ہو سکی.تو اس لئے اٹلی کا دورہ خاص طور پر ایک مشن کی تلاش کا دورہ تھا.اور اس سے پہلے ایک قصبہ جس کا نام ویرونا ہے، یہ شمالی اٹلی میں تقریباً شمال کے وسط میں ایک صاف ستھرا اور وسیع قصبہ ہے.جو بہت بڑا شہر تو نہیں تین لاکھ کے قریب آبادی ہے لیکن یو نیورسٹی ٹاؤن ہونے کے لحاظ سے اور بعض خصوصیات اس کو حاصل ہیں.پھر وہ شمالی علاقہ بڑا خوبصورت ہے، لوگ سیروں کے لئے آتے ہیں، ان وجوہات سے اسے ایک خاص مقام حاصل ہے.پھر Shakespeare نے جو Romeo and Juliet ڈرامہ لکھا ہے، وہ اس علاقے سے تعلق رکھتا ہے.اور جن لوگوں نے وہ ڈرامہ پڑھا ہوا ہے، انگریزی کے علاوہ بھی بے شمار زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہوئے ہیں، ان کو ایک طبعی دلچسپی ہے کہ Romeo and Juliet کا علاقہ آکے دیکھیں.پھر وہاں بعض بہت ہی خوبصورت Lakes ہیں.Lakes District کہلاتا ہے اٹلی کا اور اس کے بالکل قریب ہی پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر وہLakes شروع ہو جاتی ہیں.تو اس لحاظ سے اس علاقے میں ہمیں دلچسپی تھی کہ ساری دنیا کا ٹورسٹ آتا ہے.لوگ صاف ستھرے ہیں، مزاج کے بہت اچھے ہیں.بعض گندی عادتیں ، جو بعض دوسرے اٹلی کے علاقوں میں 210

Page 220

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی.خطبہ جمعہ فرمودہ 104اکتوبر 1985ء ہیں، وہاں نہیں ہیں.دکاندار لین دین میں صاف ہیں، چوری شاذ کے طور پر ہے وہاں ورنہ جنوب میں تو بہت زیادہ چوری ہوتی ہے.عام فراڈ نہیں کرتے ، اچھی خصلتوں کے مالک لوگ ہیں.بہت مذہبی ہیں.اس خیال سے جو ہم نے آخری وفد بھجوایا تو اس نے وہاں ایک جگہ تلاش کی.ہمارے وکیل التبشیر مکرم منصور احمد خاں ، جو آج کل میرے ساتھ سفر پر ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا تعلق بنوادیا، جس کے نتیجہ میں ایک ایسی جگہ ملی ہے، جو ورونا سے تقریباً 15 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور اونچی پہاڑی پر ہے اور جو بڑی بڑی سڑکوں سے صاف نظر آتی ہے.جس طرح یہاں چین کا مشن ہے.اس کے علاوہ وہاں ایک سفید رنگ کی بہت وسیع عمارت پہلے سے بنی ہوئی ہے.اور اس عمارت کی طرز بھی مشرقی طرز ہے یعنی ذرا معمولی سی تبدیلی کی جائے تو وہ مسجد بن جائے گی.اس کے گنبد اس کی طرز تعمیر مغربی عمارت کی نہیں ہے بلکہ مشرقی عمارت کی ہے.ایک وسیع ہال ہے، جس میں دو اڑھائی سو آدمی نماز پڑھ سکتا ہے اور رخ بھی تقریبا قبلہ کی طرف ہے.معمولی تبدیلی سے اس کو مسجد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے.مبلغ کے لئے رہائش کی جگہ ہے.اور چارا پکڑ زمین اتنے بڑے شہر کے قریب ایک بہت اجنبی بات ہے.اور صرف یہی نہیں بلکہ اس زمین پر ایک وسیع عمارت کا نقشہ اصولاً منظور شدہ ہے.تفصیلات اس کی ابھی طے نہیں ہوئیں لیکن حکومت نے اجازت دے رکھی ہے کہ یہاں اگر دو سو آدمیوں کی رہائش کے لئے کوئی ہوٹل کھولنا چاہیے یا کوئی بڑی عمارت بنانا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے.تو اس قسم کے بہت سے اس کے جاذب نظر پہلو تھے، جن کی وجہ سے مجھے دلچسپی پیدا ہوئی ، میں نے کہا کہ ہاں میں ضرور موقع پر جا کر دیکھوں گا.چنانچہ وہاں جب ہم گئے ، چونکہ احمدیت اٹلی میں متعارف نہیں ہے، اس لئے پہلے سے ہم نے نمائندے بھیج کر سوئٹزر لینڈ سے شیخ ناصر احمد صاحب کو بھیجوا کر ایک تقریب کا انتظام کروارکھا تھا.اور ڈاکٹر عبد السلام صاحب چونکہ Trieste میں ہوتے ہیں، ان کی خواہش تھی کہ وہ بھی شامل ہوں اور ان کی طرف سے وہ دعوت دی جائے.چنانچہ ڈاکٹر عبدالسلام کی طرف سے وہاں کے علاقے کے معززین کو دعوت دی گئی اور پریس کو دعوت دی گئی.ایک تو ڈاکٹر صاحب نوبل پرائز یافتہ ہیں، نوبل پرائز کے حامل ہیں، اس کے نتیجہ میں اٹلی میں ان کی خاص طور پر عزت ہے.کیونکہ اٹلی میں ہر نوبل پرائز پانے والے کو غیر معمولی عزت سے دیکھا جاتا ہے.ویسے ساری دنیا میں دیکھا جاتا ہے لیکن یورپ میں اٹلی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ نوبل پرائز کی بڑی عزت ہے.اور دوسرے ڈاکٹر صاحب نے اٹلی کی بڑی خدمت کی ہے.Trieste میں اپنا تحقیقاتی مرکز قائم کر کے اور ساری دنیا کے سائینٹسٹ (scientist) 211

Page 221

خطبہ جمعہ فرمودہ 04 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ان کی نگرانی میں وہاں آتے ہیں اور تربیت حاصل کرتے ہیں.اور اٹلی کے سائینٹسٹ بھی بڑا فائدہ اٹھا رہے ہیں.تو اس لئے بھی ان کا خصوصیت کے ساتھ دوہرا تعلق ہے.بہر حال ڈاکٹر صاحب کی اس تقریب میں شمولیت اور ان کی طرف سے دعوت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.جتنی ہمیں توقع تھی، اس سے زیادہ معززین تشریف لائے.حالانکہ احمد بیت کا ان کو کوئی تعارف نہیں تھا.بہر حال تقریب کا آغا ز تو ڈاکٹر صاحب کے تعارف سے ہوا لیکن جب سوال و جواب کا وقت دیا گیا تو پھر براہ راست اسلام میں ان کی دلچسپی قائم ہوگئی یعنی رخ بدل گیا.آغاز تو ہوا ہے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں دلچسپی سے اور جب سوال وجواب شروع ہوئے تو وہ شخصیت ایک طرف ہوگئی اور اسلام کی شخصیت اور اسلام کا حسن اور اسلام کا وقار اور اسلام کی عظمت یہ ان کے سامنے آگئیں.اور پھر بڑی دلچسپ مجلس سوال و جواب کی لگی.اور جو پریس تھا، اس نے بھی بڑی دلچسپی لی.ریڈیو اور ٹیلی وین پہلے ہی خبریں دے رہے تھے اور اس وقت بھی ٹیلی ویژن کے نمائندے آئے ہوئے تھے، جنہوں نے پروگرام کو Televise کیا.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں احمدیت کے تعارف کا آغاز بہت اچھا ہوا ہے.اور زمین کا تو ابھی ہم نے طے نہیں کی، وہ ابھی سودا ہورہا ہے.لیکن اس تقریب کے بہانے احمدیت کا وہاں ایسا شاندار تعارف ہو گیا کہ ہم اسلام کو کیا سمجھتے ہیں.وہ اسلام، جس پہ ہم عاشق ہیں، وہ یہ ہے.اور ہمیں اس سے غرض کوئی نہیں کہ خمینی کا اسلام کیا ہے یاکسی اور کا اسلام کیا ہے؟ ہم تو قرآن کے اسلام کو جانتے ہیں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسلام کو جانتے ہیں.اس اسلام پر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو پیش کرو، ہم جواب دیں گے.یہ اس تقریب کا مضمون تھا اور بعض اعتراض ہوئے بھی اور بعض سوالات ہوئے اور عمومی ناواقفیت کی وجہ سے ایسے سوال بھی ہوئے، جن سے صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی بیچارے کو اسلام کا پتہ ہی کچھ نہیں کہ کیا چیز ہے؟ بہر حال ان کو آخر پر میں نے یہ بتایا کہ اگر آپ کو واقعی دلچسپی ہے تو چلتے پھرتے تو ان اہم امور کے جواب نہیں دئے جاسکتے.آپ ہمیں یہاں مرکز بنانے دیں.پھر انشاء اللہ دوستیاں ہوں گی ، تعلقات بڑھیں گے، پھر مجلسیں لگا کریں گی.لیکن اگر آپ نے مرکز ہی نہ بنانے دیا تو مسافر سے سوال کریں پلیٹ فارم پر اس کا تو کوئی مزہ نہیں ہے، پہلے یہاں جمنے تو دیں.بہر حال ان لوگوں نے اچھا اثر لیا اور خوشی کے ماحول میں یہ تقریب ختم ہوئی.اس کے لئے بھی میں جماعت کو دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ اٹلی چونکہ بڑا عظیم ملک ہے اور بڑی دور دور تک دنیا میں اس کے اثرات ہیں.اٹلی کی دو طرح کی اہمیتیں ہیں.ایک تو اس کی بعض 212

Page 222

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 104اکتوبر 1985ء نو آبادیات ہیں، جن پر اٹلی کی تہذیب کا، اٹلی کی زبان کا بڑا گہرا اثر ہے.اور دوسرے یہ کہ اٹالین قوم میں یہ ت ہے کہ بعض ملکوں میں چینیوں کی طرح اپنی نو آبادیاں کی بنا کر رہتے ہیں.اور بڑی بڑی ان کی Colonies ہیں امریکہ میں.اور بعض غیر قوموں اور غیر علاقوں میں بھی ان کے بہت زبر دست اثرات ہیں.اس لئے اٹالین قوم میں اسلام کا داخل ہونا، اسلام کے لئے اور بھی بہت سی فتوحات کے دروازے کھولے گا.یورپ کی بہت اہم قوم ہے، جسے اب تک ہم پیغام صحیح معنوں میں نہیں پہنچا سکے.تو اس کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو احسن رنگ میں اسلام کی چہرہ نمائی کی توفیق بخشے اور جلد از جلد اس قوم کے دل اسلام کے لئے پھیرے.ایک اور اہمیت اس کو یہ ہے کہ یہ تثلیث کا گڑھ ہے اور پوپ کا مرکز ہے.اور صلیب تو ڑنا اگر اس طرح ہو کہ مرکز کو چھوڑ کر ارد گر د صلیب ٹوٹنی شروع ہو جائے اور مرکز کی صلیب قائم رہے تو یہ پیش گوئی صحیح معنوں میں پوری نہیں ہوتی.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیشگوئی کو صحیح معنوں میں پوری طرح اس زمانے میں ثابت کرنے کے لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ اٹلی میں صلیب کو توڑا جائے.اگر اٹلی میں صلیب ٹوٹ جائے تو ساری دنیا میں صلیب ٹوٹ جاتی ہے.کیونکہ یہ پوپ کی جگہ ہے، ان کے روحانی خلیفہ کی جگہ ہے اور یہاں سے ساری دنیا میں ان کے مبلغین جاتے ہیں اور شرک کا فساد پھیلاتے ہیں.یہاں سب سے زیادہ ضرورت تھی ، جہاں اب تک ہمارا مرکز نہیں تھا.اس لئے بھی مجھے اس کی خاص طور پر ایک تڑپ تھی کہ یہاں جلد سے جلد مشن کھولنا چاہئے.چنانچہ وہاں جب سوالات ہوئے تو ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ آپ یہاں کیا کرنے آئے ہیں اور کیا کریں گے؟ اس پر میں نے ان کو جواب دیا کہ آپ یہ کیا با تیں کر رہے ہیں، آپ کو یہ حق ہے کہ لاکھوں مشن آپ نے ساری دنیا میں کھولے ہوئے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ساری دنیا میں حسن سلوک ہو اور یہاں ایک اسلام کا مشن آپ سے برداشت نہیں ہورہا اور آپ کی بھنویں اوپر چڑھ گئیں ہیں کہ آپ یہاں کیا کریں گے؟ چنانچہ اس جواب کا کافی اثر پڑا چہروں پر اور کچھ چہروں پر ملامت کے آثار بھی نظر آتے دیکھے.اور ایک موقع پر جب ہم اکٹھے بعد میں چائے پی رہے تھے تو جو میرے مترجم تھے، وہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے وہاں مشن کی سیکرٹری ہیں ، ان کے میاں ہیں.وہ قرآن کریم کے ترجمہ کی نظر ثانی بھی کر رہے ہیں، بڑے قابل آدمی ہیں.وہ مہمانوں کے ایک گروہ کے سامنے اٹالین میں بڑی زبردست تقریر کر رہے تھے ، ان کے اوپر خاص جوش تھا.تو بعد میں، میں نے پتہ کیا تو یہ کہہ رہے تھے ان کو کہ دیکھو کیسے ہم شرمندہ ہوئے ہیں.ساری دنیا میں تم لوگ اپنی تبلیغ کر رہے ہو اور ایک 213

Page 223

خطبہ جمعہ فرموده 104اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم مشن شریف لوگوں کا آتا ہے، جن کے ارادے نیک ہیں، جو با اخلاق لوگ ہیں.وہ یہاں تم لوگوں سے کچھ کہنے کے لئے آتے ہیں اور تم آگے سے یہ پوچھتے ہو کہ تم کیا کرنے آئے ہو؟ یہاں کھلے ہاتھوں سے استقبال ہونا چاہئے تھا.اگر تمہاراحق ہے تو ان کا بھی حق ہے کہ یہاں آئیں اور آکر تمہیں تبلیغ کریں اصل حقیقت یہ ہے کہ ساری عیسائیت کی جان اس وقت اٹلی میں ہے.اگر چہ فرقے بے شمار ہیں لیکن جو لوگ پوپ کو نہیں بھی مانتے ، وہ بھی یہ ضرور مانتے ہیں کہ ساری دنیا کی عیسائیت کی جان یہاں اٹلی میں ہے.اٹلی پر ہمارا جوابی حملہ ضروری ہے.اور ضروری نہیں ہوا کرتا کہ قلب سے حملہ شروع ہو بلکہ بسا اوقات قلب کی باری بعد میں آیا کرتی ہے.یہ ایک خاص علامت خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت کی ہے.جسے میں ایک علامت کے طور پر دیکھ رہا ہوں کہ اب قلب کی باری آ رہی ہے، عیسائیت کے دل پر حملہ کرنے کی باری آئی ہے.اور ہمارا جو حملہ دل پر ہے، اس کا مطلب صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس کے سینے سے نکال کر اپنے سینے میں دلوں کو اکٹھا کر لو.یا اس سے بھی زیادہ اس حملے کا خوبصورت اظہار یہ ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرمایا کرتے تھے، ایک سوال کے جواب میں کہ دلوں کو کرو گے کیا؟ تو انہوں نے کہا: خالق و مالک حقیقی کے قدموں میں لوٹا دیں گے.جہاں سے یہ دل بھاگے ہوئے ہیں.تو میں جب کہتا ہوں، دلوں پر حملہ تو مراد یہی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عیسائیت کے دل پر حملہ کیا جائے اور اسے حقیقی خدا کے قدموں کی طرف لوٹا دیا جائے ، جس سے وہ دور جاچکا ہے.اس لئے میں اٹلی کے مشن کو بہت ہی غیر معمولی اہمیت دیتا ہوں اور اسی لئے میں بار بار آپ کو اس کے لئے دعا کی تحریک کر رہا ہوں.جہاں تک سپین کا تعلق ہے.یہاں بھی انشاء اللہ ایک مشن کے اضافے کا پروگرام ہے.غرناطہ دو دن تک جائیں گے، انشاء اللہ.وہاں پہلے سے بعض زمینیں دیکھی گئی ہیں.وہاں جائزہ لیں گے.اگر وہ پسند آگئیں انشاء اللہ اگر وہ جگہیں اچھی ہوئیں؟ تو ان میں سے کوئی مناسب جگہ لے لی جائے گی.لیکن جہاں تک کہ یہاں کی تبلیغ کا تعلق ہے، ابھی تک مجھے تسلی نہیں ہے.باوجود اس کے کہ تین مشنری یہاں موجود ہیں اور وہ وسیع پیمانے پر اپنی طاقت کے مطابق رابطہ رکھ رہے ہیں.لٹر پھر خود ہی شائع کرتے ہیں، اس کو تقسیم کراتے ہیں، تمام اخبارات سے، تمام بڑے بڑے لوگوں سے، یونیورسٹیوں سے، دانشوروں سے، مقامی لوگوں سے، غیر ملکی مسافروں سے سب سے رابطہ ہے.لیکن اس کے باوجود ابھی تک وہ نتیجہ نہیں پیدا ہوا، جس کی ہم توقع رکھتے ہیں.اور شاذ کے طور پر سپینش چہرے نظر آتے ہیں اور زیادہ 214

Page 224

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 04 اکتوبر 1985ء تر غیر ملکی ہیں، جو یہاں سپین میں آباد ہو چکے ہیں.اس وقت احمدیت کا وجود غیر ملکیوں سے بنا ہوا ہے، نہ کہ مقامیوں سے، یہ میں کہنا چاہتا ہوں.یہ صورت حال فکر مند کرنے والی ہے.اور یہاں کام کی جتنی بڑی ضرورت ہے، اس کے لحاظ سے مایوسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن میں آپ کو تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ ضرورت کے لحاظ ہم اس کا کروڑواں حصہ بھی نہیں کر سکے.جس ملک میں ایک مشن قائم ہوا تقریبا نصف صدی گزر چکی ہو اور آج بھی مقامی لوگوں کے گنتی کے نفوس ہیں، یہ بات قابل فکر ہے.ہزار عذر پیش کئے جائیں کہ آئے اور پھر دوسرے ملکوں میں چلے گئے، مرکز نہ ہونے کی وجہ سے دوست آئے اور پھر رابطہ قائم نہیں رہ سکا.اور بہت سی باتیں ہیں، جو پیش کی جاسکتی ہیں.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سب عذر ایک طرف، یہ صورت حال اپنی جگہ پھر بھی تکلیف دہ رہے گی.اسے ہم نے بدلنا ہے.اور اسے ہم نہیں بدل سکتے ، جب تک مقامی جماعت میں سے ہر شخص خود مبلغ نہیں بنتا.ایک مبلغ کا کام در اصل تبلیغ کو منظم کرنا ہے، لٹریچر پیدا کرنا ہے، تبلیغ کی تربیت دینا ہے اور وسیع پیمانے پر لوگوں سے رابطہ اور احمدیت کے نام کا تعارف کروانا اور اسلام کے نام کا عمومی تعارف کروانا، یہ کام میں مبلغ کے.اور انفرادی طور پر جتنا اس کو وقت ملے، وہ پھر تبلیغ بھی کرے.لیکن انقلابی تبلیغ ، جس سے ملکوں کے حالات بدلا کرتے ہیں، وہ ہر فرد کا کام ہوا کرتا ہے.وہی کرے تو تبلیغ ہوتی ہے، ورنہ نہیں ہوتی.میں اس سے پہلے بھی بار ہا مثالیں دے چکا ہوں.انگلستان ہے، جرمنی ہے، جب سے میں ان علاقوں میں آیا ہوں، ان کی تبلیغ میں کئی گنازیادہ تیزی آچکی ہے.اس کی یہ وجہ نہیں کہ مبلغ کام نہیں کرتا تھا، اس نے شروع کر دیا.بلکہ احمدی ، جو وہاں آباد ہیں، وہ کام نہیں کرتے تھے، انہوں نے اب کام شروع کر دیا ہے.اس لئے آپ سب جو یہاں بیٹھے میری آواز کو سن رہے ہیں، آپ سب میرے مخاطب ہیں.آپ اگر کام کریں گے تو تبلیغ کے نتائج ظاہر ہوں گے.مقامی لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام قبول کرنا شروع کر دیں گے.اگر آپ لوگوں نے یہ سمجھا کہ میر صاحب ( مکرم سید محمود احمد ناصر صاحب) یا کرم الہی صاحب ظفر یاستار صاحب ( مکرم عبد الستار خان صاحب) یہی لٹریچر شائع کریں گے اور تقسیم کر دیں اور یہ کافی ہے تو پھر یہ غلط فہمی ہے.آپ کی اس کو دل سے نکال دیں ، ورنہ اسی طرح بیٹھے رہ جائیں گے.پین کو اگر احمدی کرنا ہے تو ہر احمدی مرد، ہر احمدی عورت، ہر احمدی بچے کو اپنے ماحول میں کام کرنا ہوگا.اور اس کے علم کی کمی اس کی راہ میں حائل نہیں ہوگی.کیونکہ اب کیسٹ کے لٹریچر کے ایسے ذرائع پیدا ہو چکے ہیں کہ کم علم لوگ بھی، جن کو زبان پر بھی عبور نہیں ہے، وہ بھی اچھی تبلیغ کر لیتے ہیں.میں نے بارہا جرمنی کے احمدیوں کی مثالیں دی ہیں.ان 215

Page 225

خطبہ جمعہ فرمودہ 104اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد هفتم میں سے اکثر آپ جانتے ہیں پاکستان میں جو نسبتا کم پڑھے ہوئے بچے تھے، وہی باہر نکلے ہیں.اور بعض ان میں سے ایسے ہیں، جو بمشکل ٹوٹی پھوٹی جرمن بولتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کو تبلیغ کے ذریعے مخلص فدائی احمدی عطا کر دیئے ہیں.اس لئے کہ ان کے دل میں محبت ہے، دعا گو ہیں اور جوش اور محبت کے ساتھ بات پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.جو نہیں سمجھا سکتے ، اس کے لئے لٹریچر دے دیتے ہیں، کیسٹ مہیا کر دیتے ہیں.تو ایسے ذرائع بن چکے ہیں، کیسٹ ہیں، وڈیو ہیں ، لٹریچر ہے ہر قسم کا تو اس کے ذریعے یہ آپ کی کمی پوری ہو سکتی ہے.صرف دل میں ایک طلب ہونی چاہئے اور طلب کے ساتھ بے قراری چاہئے.عام معمولی طلب نہیں.پھر ایک دعا ہو بے قراری کی کہ اے خدا! ہمیں کوئی پھل دے، ہم بے کار بیٹھے ہوئے ہیں.جب تک تو ہمیں روحانی اولا د عطا نہیں فرماتا، ہمیں چین نہیں آئے گا.جب تک تبلیغ میں یہ رنگ نہیں آتا ، اس وقت تک تبلیغ کامیاب نہیں ہو سکتی.اس لئے یہ رنگ پیدا کریں.متعد دمرتبہ میں نے جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ تبلیغ کو روحانی اولاد کے رنگ میں دیکھیں اور اس کے لئے وہ رحجان پیدا کریں، جو ایک ماں کو بچے کی خواہش کے لئے ہوتا ہے.ایک طبعی بات ہے کہ ہر عورت کو بچے کی خواہش ہوتی ہے.اور جس کو بچہ نہ ہو رہا ہو، اس کی بے قراری بعض دفعہ دیکھی نہیں جاتی.مجھے تو اس طرح پتہ ہے کہ مجھے خط آتے ہیں.دعا کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں اولاد بھی عطا فرما دیتا ہے اور پھر ان کے جو خط ہیں، وہ پڑھنے والے ہوتے ہیں کہ کس طرح وہ خدا کی حمد کے گیت گاتیں اور کس طرح شکر ادا کرتی ہیں.یہ ہے وہ اصل تڑپ، جو جب تک تبلیغ میں منتقل نہ ہو جائے ، اس وقت تک صحیح معنوں میں آپ کی دعاؤں میں جان نہیں پیدا ہوگی.اس لئے یہ فیصلہ کریں دل میں کہ آپ نے روحانی طور پر صاحب اولا دہونا ہے.اور پھر اپنے دن گئیں کہ کتنے دن ضائع ہو گئے اور جو بقیہ وقت ہے، اس کو میں کس طرح استعمال میں لاؤں کہ مجھے خدا تعالیٰ اپنی روحانی اولا د عطا کر دے.پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کی تبلیغ کا رحجان ہی بالکل اور ہو جائے گا، آپ کی اندرونی طور پر ایک کا یا پلٹ جائے گی.اس لئے تبلیغ کرنی ہے تو ہر احمدی کو کرنی پڑی گی.اپنے ماحول میں کریں، اپنے دوستوں میں کریں، نئی دوستیاں اس خاطر بنائیں، تعلقات بنانے کے لئے بالکل مستعد اور تیار رہا کریں.جہاں موقع ملے کسی سے بات کرنے کا بہانہ بنایا اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے اور پھر تبلیغ شروع کر دی.یہ چیزیں ہر جگہ ہونی چاہئیں.مگر سپین میں خصوصیت کے ساتھ اس لئے کہ یہاں ہزاروں، لاکھوں گرجے ایسے ہیں، جو پہلے مسجدیں ہوتی تھیں.نظر پڑتی ہے تو بعض اوقات جی چاہتا ہے، چینیں 216

Page 226

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 04 اکتوبر 1985ء ماری جائیں.نا قابل بیان دکھ پہنچتا ہے.بلا مبالغہ یہ کیفیت ہے.کل مجھے میر صاحب بتا رہے تھے تو اس کو وقت میری حالت نا قابل برداشت تھی.جب میں یہ بات سن رہا تھا کہ ایک گاؤں میں گئے اور وہاں جا کر پوچھا کہ یہاں کوئی مسجد ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ دیکھو یہ سارے گرجے یہ سب مسجدیں ہیں.یہ سمجھے کہ شاید مذاق کر رہے ہیں.ہم نے کہا کہ ہم تو مسجد کا پوچھ رہے ہیں ، گرجوں کی کیا بات کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: دیکھو تو سہی جا کر.انہوں نے دیکھا تو ابھی تک عبارتیں لکھی ہوئی ہیں کہ فلاں بادشاہ اس مسجد میں آیا تھا، فلاں مسلمان بزرگ اس مسجد میں آیا تھا.جس ملک کی یہ حالت ہو، وہاں کی تو گلی گلی پکار رہی ہے، آپ کو تبلیغ کے لئے.اینٹ اینٹ دہائی دے رہی ہے کہ اے مسلمانو! اگر تم میں کوئی غیرت ہے اور کوئی محبت ہے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خدائے واحد و قہار کے ساتھ تو اٹھو اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرو تم میں سے ہر ایک کو طارق بن جانا چاہئے، تم میں سے ہر ایک کو خالد ہو جانا چاہئے.تم میں سے ہر ایک میں وہ جذبہ جہاد پیدا ہونا چاہیے، جو محد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں میں پیدا کیا تھا.سنتے نہیں آپ ان بستیوں کی آوازیں! اینٹ اینٹ پکار رہی ہے یہاں! تم پر فرض ہے ، تم جو یہاں آ کر دوبارہ آباد ہوئے ہو کہ دوبارہ اسلام سے اس ملک کو آشنا کرو، سارے گرجے دوبارہ اپنی مسجدوں میں تبدیل کرو.لیکن اس طرح کہ پہلے دلوں میں وہ مسجدیں بناؤ.تلوار کے زور سے نہیں ، جبر کے ساتھ نہیں.ہر دل میں خدائے واحد کی محبت ڈال دو.پھر دیکھو کہ سارے گرجے از خود مسجدوں میں تبدیل ہونے شروع ہو جائیں گے.اور اس دفعہ اس شان کے ساتھ یہ تبدیلی پیدا کرو کہ پھر قیامت تک کے لئے شیطان ان جگہوں سے مایوس ہو جائے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ عبادت گاہیں خدائے واحد کے لئے وقف رہیں.پھر دیکھیں کہ آپ کو خدا تعالیٰ کیا مقام اور کیا مرتبے عطا کرتا ہے.تمام دنیا میں ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے گیت گائے جائیں گے، آپ کے ناموں سے تاریخ کے آغاز ہوں گے.یہ مؤرخ کہا کرے گا کہ فلاں احمدی نوجوان اس طرح کپڑے بیچنے آیا تھا ، فلاں احمدی نوجوان اس طرح ایک معمولی تجارت کے لئے آیا تھا اور اس نے یہ یہ تبدیلیاں پیدا کیں.فلاں گاؤں میں اس نے پودا لگایا، فلاں گاؤں میں اس نے پودا لگایا، فلاں گاؤں میں اس نے پودا لگایا.فلاں گرجے پھر مسجدوں میں تبدیل ہوئے.اور یہ فلاں مجاہد کے کارناموں کے نتیجہ میں ہے.یہ ہے وہ زندگی ہمیشگی کی زندگی جس کی طرف سپین آپ کو بلا رہا ہے.اس لئے اس کی طرف توجہ کریں اور اللہ پر توکل رکھیں اور دعائیں کریں اور پھر آپ دیکھیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ روز روز رنگ بدلنے شروع ہو جائیں گے.217

Page 227

خطبه جمعه فرمود 104اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم آج بھی مجلس میں، جو شام کو یہاں کے مربیوں وغیرہ کے ساتھ ہوگی ، ہم مزید غور کریں گے.پالیسی کے متعلق لائحہ عمل کے متعلق جو جو تبدیلیاں ضروری ہیں، وہ اختیار کی جائیں.لیکن موجودہ صورت حال بہر حال قبول نہیں ہے.یہ جو ٹھنڈا ٹھنڈا چلنے کا طریقہ ہے، مجھے تو پسند ہی نہیں ہے.خدا کی راہ میں چلنا ہے، جان مار کے چلیں، زور کے ساتھ چلیں، چھاتی کھول کر سر بلند کر کے چلیں اور نئے قلعے فتح کریں.آپ خدا کے جرنیل ہیں.آج تو ہر احمدی جرنیل ہے، سپاہی والی بات بھول جائیں ، آپ نے نئے علاقے فتح کرنے ہیں، آپ کے سپر د قو میں کی گئی ہیں، آپ کو قوموں کا سردار بنایا گیا ہے.اپنا مقام تو پہچانیں ، آپ ہیں کون؟ پھر دیکھیں آپ کی تو کیفیت ہی بدل جائے گی ، آپ کی ادائیں بدل جائیں گی.ذمہ داریوں کا احساس پیدا کر کے دعائیں کرتے ہوئے.انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے لئے مقدر ہو چکا ہے کہ آپ نے ان علاقوں کو سر کرنا ہے.اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ خاص طور پر مقامی احمدی دوست اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے اور بڑا عظیم شرف ہے، جو ان کو حاصل ہونے والا ہے.تعظیم سعادتیں ہیں، جو انتظار کر رہی ہیں.علاوہ ازیں تمام دنیا کے احمدیوں کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خاص طور پر سپین کے لئے دعائیں کریں.یہ اتنی درد ناک جگہ ہے، ایسی دردناک سرزمین ہے آج اسلام کے لئے کہ روحوں کو چین نصیب نہیں ہو سکتا ، جب تک ہم دوبارہ اسلام کے جھنڈے نہ گاڑ دیں.جب تک ہر گرجے کو خدائے واحد کی پرستش کے لئے دوبارہ وقف نہ کر دیں، ہمیں چین نہیں ہوگا.دیکھو کس شان سے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے بتوں کو نکالا.سینکڑوں سال سے وہاں آباد تھے.ایک بت بھی وہاں باقی نہیں رہنے دیا.اس لئے کہ آپ نے پہلے دلوں کے بہت نکالے تھے، پھر خود بخودمکہ کے بت وہاں سے بھاگ گئے.ان کے رہنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی.آپ بھی اسی طرح کریں.آپ بھی اسی آقا کے غلام ہیں.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بار بار درود بھیجیں.اور ایک یہ بھی ذریعہ ہے، دعاؤں کی قبولیت کا.یاد کریں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے کس شان کے ساتھ آپ کو خانہ کعبہ سے بتوں کو نکالنے کی توفیق بخشی تھی.اور اسی محمد کی محبت کے واسطے دے دے کر خدا سے عرض کریں کہ اے خدا! ہم بھی تو اسی کے غلام ہیں، ہمیں بھی توفیق بخش کہ ہم بھی ان شرک کی آماجگاہوں کو ختم کر دیں، ہم بھی یہاں سے صلیب کو توڑنے والے ہوں اور ہمیشہ ہمیش کے لئے تیری وحدانیت کے گیت گانے والا یہ ملک بن جائے.ان دعاؤں کے ساتھ آپ آگے بڑھیں.اللہ آپ کے ساتھ ہو، اللہ آپ کو توفیق بخشے اور ساری دنیا کی جماعت احمدیہ کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوں.آمین.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 104 صفحہ 815 تا 830) 218

Page 228

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرموده 13 اکتوبر 1985ء اصل عزت یہ ہے کہ خدا کی خاطر تمہاری راہ میں روکیں ڈالی جائیں خطاب فرمودہ 13 اکتوبر 1985ء بر موقع افتتاح احمد یہ مسلم مشن فرانس حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان افروز خطاب میں فرمایا:.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اس مختصر دورہ یورپ میں چار مراکز کے افتتاح کی توفیق دی.اور اب پانچویں مرکز کے افتتاح کی توفیق ملی ہے.اور اس کے علاوہ اٹلی میں خدا تعالیٰ کے پہلے گھر کے قیام اور غرناطہ و میونخ میں مشنرز و مساجد قائم کرنے کا جائزہ بھی اس دورہ میں لیا گیا ہے.جن کے بارہ میں پہلے سے کوشش ہورہی ہے اور انشاء اللہ العزیز نومبر 85 ء تک کل آٹھ مراکز کے قیام کی توفیق مل جائے گی“.فرمایا: ”ہر ابتلاء کے دور میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی فضل اور ثمرات عطا فرماتا ہے.گزشتہ 50 سال میں سپین کو ملا کر یورپ میں آٹھ مراکز کے قیام کی توفیق ملی.جبکہ اس ایک سال میں ہی 8 مراکز کے قیام کی توفیق انشاء اللہ ملے گی.گویا ایک سال میں 50 سال کی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمائے ہیں.اس ذکر پر فرمایا کہ اللہ تعالٰی کے حمد و شکر سے ہمارے دل لبریز ہیں.اس لئے وہی افتتاح سب سے بہتر ہے، جو سورۃ فاتحہ سکھاتی ہے“.حضور نے فرمایا:.پہلے خیال تھا کہ اس افتتاح کو تقریب کا رنگ دے کر غیروں کو بھی بلایا جائے.لیکن مقامی ڈپٹی میئر کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ آغاز سے ہی اس کے قیام کی مخالفت کا فیصلہ کر چکے ہیں.شروع میں اس اطلاع کے ساتھ مجھے خفیف سا خیال آیا کہ ہم افتتاح نہیں کر سکیں گے.لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے زور سے یہ بات میرے دل میں ڈالی کہ ایک کیا ہزار ڈپٹی میئر ز بھی خدا تعالیٰ کے کام میں روک نہیں بن سکتے.مزید فرمایا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ حقیقی افتتاح تو وہی ہے، جس میں متقی شرکت کریں.غیروں کو بلانے کی حیثیت تو ثانوی ہے.جس سے مقصد یہ پیش نظر ہوتا ہے کہ وہ اس موقع پر اسلام سے شناسائی حاصل 219

Page 229

خلاصہ خطاب فرمودہ 13 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کریں.جماعت احمدیہ کے ساتھ جو حسن سلوک مختلف ممالک میں ہو رہا ہے ، ضروری نہیں کہ ہر جگہ ہو.ابتداء میں حضرت مسیح موعود کے ساتھ دہلی اور امرتسر وغیرہ میں کیا سلوک ہوا.اسی طرح حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا سلوک ہوا، جبکہ آپ طائف کو زندگی بخشنے گئے تو انہوں نے جواباً موت برسائی.یہ استقبال ہماری تاریخ کا اولین استقبال ہے اور وہی ہمارا سرمایہ ہے.اگر بعد میں بعض ممالک سینے سے بھی لگائیں تو اس اولین استقبال کی عظمت سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں.اصل عزت یہ ہے کہ خدا کی خاطر تمہاری راہ میں روکیں ڈالی جائیں.یورپ کے دوسرے ممالک کا تجربہ پہلے بزرگوں کی قربانیوں کا پھل ہے.اور یہاں اگر آپ دعائیں کریں گے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پھیلاؤ کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے تو یہ روکیں زیادہ زور پیدا کر دیں گی.خدا تعالیٰ کی طرف سے جب رفعتوں سے پانی گرتا ہے تو دنیا والے اس کو روک نہیں سکتے.جس جماعت کا سرچشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے لئے دنیا کی طاقتیں روک بننا چاہیں بھی تو ناممکن ہے کہ اس آسمانی پانی کو روک سکیں“.فرمایا:.اب ہمیں پہلے سے دس گنا کوشش کرنا ہوگی.اور دعاؤں کا معیار بلند کر کے ہمیں خدا تعالیٰ پر انحصار کرنا چاہیے.ان دو فیصلوں کے ساتھ ہم اس مشن کا افتتاح کریں گئے“.پھر فرمایا کہ ” فرانس کو بہت اہمیت حاصل ہے.کیونکہ حالیہ اعدادو شمار کی رو سے یورپ میں سب سے بڑھ کر یہاں لوگ مسلمان ہورہے ہیں.دوسری طرف فرانسیسی نو آبادیات پر فرانس کا ایک خاص اثر ہے.اب ہم فرانسیسی زبان میں اعلیٰ طباعت والا لٹریچر یہاں پھیلائیں گے.جو ایک مشن کی کمی تھی ، وہ قائم ہو گیا.اب جلد یہاں ایک با قاعدہ مبلغ متعین ہو جائیں گے.دنیا بھر کی جماعت کا اور خصوصا فرانس کی جماعت کا فرض ہے کہ خصوصی دعائیں کریں.امید ہے کہ آج کی تاریخ سے فرانس میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا“.آخر پر حضور نے نہایت پر شوکت انداز میں فرمایا:.وو جب سے یہ روک پڑی ہے، اس وقت سے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پیرس کے مضافات میں کھلی زمین پر ہم مسجد بنائیں گے.تم اگر ایک روک ڈالنا چاہتے ہوتو ہم پیرس میں ہی کئی مساجد بنا ئیں گئے“.اس کے بعد حضور انور نے پر سوز اجتماعی دعا کروائی.( مطبوعه هفت روز والنصر 11 اکتوبر 1985ء) 220

Page 230

تحریک جدید - ایک الہی تحریک الہی خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء دورہ یورپ کے حالات اور احیاء دین کا عزم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.یورپ کا یہ سفر ، جوا بھی ہم نے اختیار کیا، تقریباً ایک مہینے اور چار دن کا سفر تھا.اور یہ تمام عرصہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی مصروفیت میں کٹا.یہ سفر مصروف بھی بہت رہا اور کئی لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کے ساتھ بہت مفید بھی ثابت ہوا.اس سفر کے دوران خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے نتیجہ میں پانچ نئے مراکز کے افتتاح کی توفیق ملی.جن میں سے آخری مرکز جس کا افتتاح کیا گیا، وہ فرانس کا تھا.اس سے پہلے تو یہی ارادہ تھا کہ فرانس میں انگلستان کی جماعت کو خصوصیت سے شمولیت کی عام دعوت دی جائے اور اس کے لئے دعوت عملا دی بھی گئی اور تیاریاں بھی بہت ہو چکی تھیں.لیکن ہم سپین میں ہی تھے تو معلوم ہو او ہاں ابھی تیاری مکمل نہیں.اور جس جگہ مشن کھولا جارہا ہے، وہاں کے ڈپٹی مئیر کا رویہ بھی معاندانہ ہے.اور اس مشن کو آسانی سے وہ قبول نہیں کر رہے.اس لئے ان حالات میں بہتر ہے کہ تقریب یا تو نہ کی جائے یا مختصر کی جائے.چنانچہ نہ کرنے کا تو سوال ہی نہیں تھا.اس لئے میں نے کہا کہ فرانس کی جماعت کے جو دوست ہوں گے، ان کے ساتھ مل بیٹھ کر ہم دعا کے ذریعہ افتتاح کر دیں گے.رفتہ رفتہ جب ان لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہم کیسے ہیں؟ کیسا اخلاق رکھتے ہیں؟ تو ان کے دل جیتنے کی بعد پھر آہستہ آہستہ کیفیت بدل جائے گی.امر واقعہ یہ ہے کہ فرانس کے ساتھ احمدیت کا جو پہلا رابطہ ہوا ہے، وہ بھی کوئی ایسا خوشکن اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا.یہ 1946 ء کی بات ہے، جب حضرت مصلح موعودؓ نے یورپ میں جنگ کے بعد نئے مشن ہاؤسز، نئی مساجد کی تعمیر کا پروگرام بنایا اور اسی سال سے نافذ العمل کرنا شروع کر دیا.اس میں فرانس بھی تھا.اور 1946ء میں اگر چہ کرایہ کا مکان تھا، با قاعدہ کوئی عمارت تو خریدی نہیں جاسکی یا مسجد کے لئے زمین بھی نہیں لی گئی.لیکن سپین کی طرح یہاں یہی مبلغ بھجوادیئے گئے تھے، جو تقریبا پانچ سال پیرس میں ٹھہرے ہیں.اور ان کی رپورٹوں سے یہی تاثر لیا گیا، حضرت مصلح موعود نے بعض دفعہ خطبوں میں بھی 221

Page 231

خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ذکر فرمایا کہ فرانس کی زمین سر دست اسلام کے لئے سنگلاخ معلوم ہوتی ہے.اور اس قوم کے رویے میں تکبر پایا جاتا ہے.اور پیرس خصوصیت کے ساتھ چونکہ ساری دنیا کی عیاشی کا مرکز ہے، اس لئے وہاں مادہ پرستی اور دنیا سے محبت کا جو رنگ ہے، وہ یورپ کے دوسرے شہروں میں نہیں ملتا.تو پانچ سال کے تجربے کے بعد وہ مشن بند کر دیا گیا.اس دفعہ بھی ہمارا تجربہ یہی رہا کہ فرانس میں خصوصیت کے ساتھ پیرس، کیونکہ جب میں فرانس کہتا ہوں تو فرانس تو ایک وسیع ملک ہے اور اس کے مختلف خطوں کے لوگ مختلف مزاج رکھتے ہیں ، اس لئے میں سارے فرانس کے متعلق کوئی فتویٰ نہیں دینا چاہتا.لیکن پیرس خصوصیت کے ساتھ ایک ایسی جگہ ہے، جہاں ابھی بھی وہی دنیا پرستی کا رنگ غیر معمولی طور پر غالب ہے.اور اہل فرانس کے مزاج کو اگر پیرس کے پیمانے سے ماپا جائے تو آج بھی یہی فیصلہ ہوگا کہ نہایت متکبر ہیں اور دنیا پرست ہیں.لیکن میرے نزدیک یہ پیمانہ درست نہیں.نہ لندن سے انگریز کا مزاج پہچانا جاسکتا ہے، نہ پیرس سے اہل فرانس کا مزاج پہچانا جا ہے.South of France جہاں جہاں سے ہم گزرے ہیں، وہاں بالکل اور قسم کے لوگ ہم نے دیکھے.بڑے خلیق اور مہمان نواز اور ہنس مکھ، باہر سے آنے والوں کا کھلے بازوؤں سے استقبال کرنے سکتا.والے، ان کے رنگ بالکل مختلف تھے لیکن پیرس میں بالکل ایک اور رنگ نظر آیا.بہر حال اس مشن کا افتتاح ہوا دعاؤں کے ساتھ اور پر سوز دعاؤں کے ساتھ اور جماعت فرانس کی ایک کافی تعداد خدا کے فضل سے وہاں موجود تھی.جماعت فرانس کو ایک مرکز مل گیا ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب وہاں احمدیت کا نور دن بدن زیادہ شان کے ساتھ ، زیادہ وسعت کے ساتھ اور جہاں تک دلوں کا تعلق ہے، زیادہ گہرائی کے ساتھ ہر طرف منتشر ہونے لگے گا.فرانس کا نچھ اتنا قصور بھی نہیں کیونکہ فرانس تعارف کے لحاظ سے ابھی بہت پیچھے ہے.عجیب اتفاق ہوا ہے کہ فرانس اور فرانس کی جو Colonics تھیں، ان سب جگہ میں احمدیت کا تعارف بہت دیر سے شروع ہوا ہے.افریقہ میں بھی جہاں جہاں فرانس کی حکومت تھی ، فرانس کا رسوخ تھا، وہاں جماعتی تعارف بہت لیٹ شروع ہوا ہے.تو ان چیزوں کا بہت اثر پڑتا ہے.ان کو پوری طرح علم نہیں کہ جماعت ہے کیا ؟ ان کو ہماری عالمی حیثیت کا ہی پتہ کچھ نہیں.اس لئے وقت لگے گا.لیکن بہر حال مجھے تو اس تجربے سے جو اہل فرانس کی آواز آئی ہے، وہ یہ ہے کہ بہرہ ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر (دیوان غالب صفحه 111) | 222

Page 232

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء میں بہرا ہوں تو مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے، ذرا اور اونچی آواز میں اور بار بار مجھے آواز پہنچاؤ.چنانچہ میں نے وہاں افتتاح کے وقت اپنے اس رد عمل کا اظہار یوں کیا کہ جہاں تک جماعت احمدیہ کا رد عمل ہے، وہ تو یہ ہے کہ اب ایک نہیں انشاء اللہ تعالیٰ فوری طور پر فرانس میں دو مرکز بنائیں گے.اور یہ تو ایک مکان لیا گیا ہے، بڑا اچھا اور وسیع مکان ہے، بہت کشادہ کمرے ہیں اور کچھ عرصہ تک جماعت کی آئندہ ضروریات کے لئے انشاء اللہ تعالیٰ بہت حد تک کفیل رہے گا.لیکن اب خیال یہ ہے کہ یا پیرس کے گردو نواح میں یا جنوبی فرانس میں، جہاں لوگوں کے اخلاق بہتر معلوم ہوئے ہیں، وہاں ایک وسیع خطہ زمین لے کر وہاں نہایت خوبصورت اور عظیم الشان مسجد بنائی جائے.اور مسجد کے ساتھ پھر مشن ہاؤس بھی قائم کیا جائے.تو ہم تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ لوگ نہیں ہیں، جن کے خمیر میں مایوسی پائی جاتی ہو یا شکست لکھی گئی ہو.ہم تو انشاء اللہ تعالیٰ اہل فرانس کو بہر حال فتح کریں گے اور ان کے دل جیتیں گے.کیونکہ فرانس کو ایک عالمی حیثیت حاصل ہے.اس کے اثرات دنیا میں اور بھی بہت سے ملکوں اور قوموں پر پڑتے ہیں.اگر فرانس میں احمدیت کا مشن مضبوط ہو جائے تو کثرت کے ساتھ دنیا میں فرانسیسی بولنے والے علاقے ہیں، جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے نفوذ کی راہیں نکل آئیں گی.اس لئے یہ غیر معمولی اہمیت کا علاقہ ہے، اسے ہم بہر حال نہیں چھوڑیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس زمانہ میں غیر معمولی مالی مشکلات اور بعض دوسری وقتی پیش نہ ہوتیں تو حضرت مصلح موعود بھی اس مشن کو بند نہ کرتے.مگر دوسرے بیرونی ممالک سے طلب شروع ہو چکی تھی اور اس زمانہ میں واقفین بھی تھوڑے تھے اور جماعت احمدیہ کی مالی حالت بھی ایسی نہیں تھی کہ ہر قسم کے پھیلتے ہوئے مطالبوں کو پورا کر سکے.اس لئے لازمنا حضرت مصلح موعود کے مزاج کو میں سمجھتا ہوں، کبھی ہو نہیں سکتا کہ آپ نے مایوسی کی حالت میں مشن بند کیا ہو.وقتی طور پر اس ارادہ کے ساتھ بند کیا ہوگا کہ بعد میں جب بھی خدا توفیق دے گا، ہم انشاء اللہ بڑے زور کے ساتھ اس کام کو دوبارہ شروع کریں گے.تو اس کام کو دوبارہ شروع کرنے کا خدا کے فضل سے اس دورے میں آغاز ہو چکا ہے.باقی احباب جماعت دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ دلوں کو بدلنے والا ہے.اور فرانس کی سرزمین کو جو عملاً اسلام کی طلب پیدا ہو چکی ہے، اس کے دوسرے آثار ظاہر ہورہے ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم دوبارہ اب پورے زور کے ساتھ یہاں کوشش کریں اور دعاؤں کی مدد سے ہم انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہوں گے.اس سفر میں پانچ مراکز کا افتتاح کرنے کی توفیق ملی.اور چار جگہ نئی زمینیں دیکھی گئیں، جہاں سودا ہو رہا ہے.اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہاں بھی اس سال کے اندریا اس سال کے آخر تک زمینیں خرید لیں گے.اور ہو سکتا ہے آئندہ سال ہم وہاں با قاعدہ مشنوں کی تعمیر کا کام بھی شروع کر دیں.223

Page 233

خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ایک جرمنی کے شمال میں ہیمبرگ میں ہمارا مشن بہت چھوٹا ہو چکا تھا.وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے زمین کا ایک بہت ہی اعلیٰ اور وسیع ٹکٹڑ امل رہا ہے، جس علاقے کے مئیر نے وعدہ بھی کیا ہے کہ معاہدہ میں شامل کرلوں گا کہ مسجد آپ بنا سکتے ہیں.دوسرے تعمیر کی وہاں بڑی وسیع گنجائش موجود ہے.یعنی ایسا علاقہ ہے، جہاں جرمنی میں پہلے سے ہی تعمیر کی اجازت دی جا چکی ہے.ورنہ جرمنی میں زمینوں کا حاصل کرنا ، جہاں تعمیر کی جاسکے، بہت ہی مشکل کام ہے.اور اگر آپ بغیر اجازت کے زمین لے لیں تو سالہا سال کی کوششوں کے بعد بھی بعض دفعہ وہ درخواستیں رد ہو جاتی ہیں.دوسرے جرمنی ہی میں میونخ کے مقام پر وہاں کچھ زمینیں ہم نے دیکھی تھیں مگر ابھی کوئی مناسب حال جگہ نہیں ملی ، ابھی تک.وہاں بھی انشاء اللہ ایک مسجد اور ایک مشن ہاؤس بنانا ہے.سپین میں غرناطہ کے مقام پر بہت کثرت کے ساتھ وہاں طلب ہے.اس قدر طلب ہے کہ جس علاقے میں ہم زمین دیکھنے جاتے تھے، وہاں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی اور لوگ باتیں کرتے تھے.علاقے والوں کو میئر کہتے تھے کہ ہمارے علاقے میں مسجد بنے گی.فرانس کے مقابل پر اس قوم کا بالکل بر عکس رحجان ہے.اخباری نمائندے بھی سوال کرتے تھے کہ بتاؤ کس علاقے کو تم نے چنا ہے؟ چنانچہ وہاں متعدد جگہ پر زمینیں دیکھی گئیں اور ایک دو جگہیں جو پسند آئی ہیں، ان کے متعلق گفتگو ہورہی ہے.دونوں بہت ہی آبادسٹرکوں پر واقع ہیں.وسیع کشادہ سڑکیں، جو بڑے بڑے شہروں کو ملاتی ہیں.دونوں سڑک سے بالکل لگتی ہیں یا اتنی قریب ہیں کہ وہاں سے گزرنے والوں کو مسجد بڑی نمایاں طور پر نظر آئے گی.ایک کا رقبہ تو خدا کے فضل سے بارہ ایکڑ سے بھی زائد ہے اور کونے کا پلاٹ ہے، جس کے ایک طرف مین روڈ جاتی ہے اور ایک طرف چھوٹی سڑک جاتی ہے.وہاں جب ہم گئے تو وہاں بھی ایک ہنگامہ ہو گیا.لوگ وہاں اکٹھے ہونے شروع ہو گئے لٹریچر مانگ مانگ کر لوگ لینے لگے.یہاں تک کہ میر محمود احمد صاحب جو ساتھ تھے، کہنے لگے: ہمارے پاس تو ختم ہو گیا ہے.لیکن مطالبہ جاری تھا.ایک شوق ، ایک طلب جو عموماً سپین میں پائی جاتی ہے، جس کا اس زمین کے خریدنے کے موقع پر بھی مشاہدہ کیا.سپین کا دورہ ، جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی لحاظ سے بہت کامیاب بھی رہا اور کئی لحاظ سے دل پر نہایت غم کے اثرات چھوڑنے والا تھا.اور سپین میں رہنا بہت ہی مشکل تجربہ تھا.کیونکہ میں نے جیسا کہ پین کے خطبہ جمعہ میں بھی ذکر کیا ہے، کثرت سے ایسے گرجے وہاں پائے جاتے ہیں، جو کسی زمانہ میں مسجدیں ہوا کرتی تھیں.اب ان میں کوئی خدا کا نام لینے والا باقی نہیں.اس کثرت سے ہیں کہ بعض 224

Page 234

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء شہروں میں جب پوچھا گیا کہ کوئی مسجد یہاں ہے پرانی کہ نہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ جس گرجے میں جاؤ ، وہ مسجد تھی.چنانچہ جب ہمارے مشنری نے جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ واقعہ وہ صحیح کہہ رہے تھے.جس گرجے میں وہ گئے، پرانی مسجد کے آثار ملتے تھے.ابھی تک بعض جگہ کلمہ توحید لکھا ہوا نظر آتا تھا.بعض جگہ یہ تختیاں لگی ہوئی تھیں کہ فلاں بزرگ آئے تھے، فلاں بادشاہ یہاں آئے تھے.تو خوشکن تو اس لحاظ سے ہے کہ اہل سپین ہمیشہ سے ہی احمدیت کا خدا کے فضل سے کھلے بازوؤں سے استقبال کرتے ہیں.لیکن دوسری جو فضا ہے، وہ اس طرح یادوں پر اثر ڈالتی ہے کہ گہرے غم کے سائے میں انسان چلا جاتا ہے.اور ایسا غم نہیں، جو مایوس کن ہو.ایسا غم ہے، جو زیادہ انگیخت کرتا ہے، زخموں کو زندہ کرنے والا غم ہے، ان زخموں کو چھیڑتا ہے، جن کے نتیجہ میں پھر ارادے کھلتے ہیں.لیکن ان اثرات کے جو نتائج ہیں، ان کے متعلق میں پھر آخر میں ، میں بات کروں گا.اس وقت تو میں یہ بتاتا ہوں کہ وہاں دو جگہ ہماری بڑی تقریبات تھیں.ایک تو پید رو آباد کے اندر اس سارے علاقے کے لئے.اور ایک غرناطہ میں.میڈرڈ ہم اس دفعہ نہیں جاسکے.اگر چہ وہاں بھی مشن موجود ہے لیکن سفر کے دوران وہ ایک رستہ پر رہتا تھا اور وقت کی کمی تھی ، اس لئے لازما ہمیں میڈرڈ کو پنے پروگرام میں سے مجبوراً کاٹنا پڑا.پیدروآباد میں جو تقریب ہوئی ہے، اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مقامی باشندوں کی اتنی حاضری تھی کہ میرا تا ثر بھی یہی تھا اور میر صاحب ( سید محمود احمد ناصر صاحب کا بھی یہی تاثر تھا کہ افتتاحی تقریب پر جو باہر سے آنے والے احمدی مہمان تھے، اگر ان کو نکال دیا جائے تو سپینش باشندوں کی شمولیت اس میں زیادہ تھی.دو ہزار کرسیوں کا انتظام تھا، جن میں سے ایک سو چونکہ بہت تیز دھوپ میں پڑی ہوئی تھیں، وہ خالی رہیں، باقی انہیں سوکرسیاں بھر گئیں.اور برآمدہ جو بڑا وسیع ہے، اس میں لوگ بھرے ہوئے تھے اور اس کے علاوہ بھی پھرنے والے موجود تھے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے دو ہزار سے زائد سپینش مہمان آئے ہوئے تھے اور تقریب اس دفعہ کچھ مختلف رنگ کی تھی.اسی تقریب میں عوام الناس کے علاوہ خواص کو بھی دعوت دی گئی تھی.اور یہ صرف مقامی جلسہ نہیں تھا بلکہ سپین کے خواص کی نمائندگی بھی گزشتہ مرتبہ کے مقابل پر زیادہ تھی.چنانچہ امریکن قونصلیٹ اور ان کے ساتھی ، آسٹرئین قونصلیٹ اور سپینش گورنمنٹ کے نمائندے اور بھی اس قسم کے معززین اور دانشور، پریس کے نمائندے، چوٹی کے جو اخبارات ہیں، ان کے نمائندے، ریڈیو، ٹیلی وژن کے نمائندے، یہ سارے موجود تھے.تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سپین والوں 225

Page 235

خطبہ جمعہ فرمودہ 18اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم نے جو پہلے حسن سلوک کیا، آج بھی وہ اسی طرح جاری ہے.اور باوجود اس کے کہ وہ خوب اچھی طرح جان چکے ہیں، بارہا اخبارات میں یہ بات چھپ چکی ہے کہ جماعت احمدیہ کو پاکستان میں غیر مسلم سمجھا جارہا ہے.اور کثرت سے بعض حکومتوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھو، ان سے کوئی تعلق نہ رکھو.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.اس کوشش کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف ان کا رحجان خدا کے فضل سے پہلے سے بھی بڑھ کر ہے.دوسرا اس تقریب میں جو نمایاں فرق تھا، وہ یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ ایک لمبی تقریر کی جاتی نہایت مختصر الفاظ میں، میں نے ان کو خوش آمدید کہا اور ان کو موقع دیا کہ وہ جس قسم کے سوال اسلام پر یا اپنے مسائل پر کرنا چاہتے ہیں، وہ کریں.چنانچہ اس سے یہ تقریب خدا کے فضل سے بہت ہی پر لطف اور بھر پور رہی.اس کثرت سے دوستوں کی طرف سے پھر سوال شروع ہوئے کہ آخر پر پھر مجھے خود ہی روکنا پڑا.کیونکہ بعد میں مہمانوں کی چائے سے تواضع بھی کرنی تھی.بعض ایسے معزز مہمان تھے، جو معین وقت کو مد نظر رکھ کر آئے تھے اور انہوں نے اپنی دوسری تقریبات میں بھی جا کر حصہ لینا تھا.بہر حال اگر چہ وقت زیادہ بھی ہو گیا تھا لیکن یہ سارے لوگ ٹھہرے رہے، ان میں سے کوئی بھی نہیں گیا.چند ایک نے چائے میں شمولیت سے معذرت کی کیونکہ ان کو پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی.مگر تقریب کے دوران خدا کے فضل سے تمام احباب مرد، عورتیں اور بچے پوری طرح توجہ کے ساتھ بیٹھے رہے.اور بعض مواقع پر تو بڑی نمایاں انہوں نے Response دی ہے.یعنی ان کا طریق ہے تالیاں بجانے کا، تالیاں بجا کر بھی اور پھر کھڑے ہو کر تالیاں بجا کر بھی بڑے جوش کے اظہار سے انہوں نے اپنی محبت کا اپنے رنگ میں اظہار کیا.وہاں اخبارات کی نمائندگی کے علاوہ مختلف قسم کے ریڈیو ٹیشن ہیں، جن کی طرف سے میر صاحب کو بار بار ٹیلیفون پر بلایا جاتا تھا کہ Running Commentary کردو اور بتاؤ کہ تقریب میں کیا ہو رہا ہے؟ کون کون آئے ہیں؟ کیا مقصد ہے؟ اور کہتے تھے کہ آپ فون پر جو باتیں کہ رہے ہیں، یہ براہ راست نشر ہو رہی ہیں.چنانچہ اسی دوران پانچ، چھ مرتبہ میر صاحب کو بار بار توجہ دینی پڑی.اور کئی ریڈیوسٹیشنز نے ان کا Interview Live نشر کیا.اور ریڈیو اور ٹیلی وژن، جو ہم سے خبریں لے کر گئے، وہ انہوں نے بہر حال بعد میں نشر کرنی تھیں، لائیو پروگرام یہاں سے ممکن نہیں تھا.اخبارات کی Response بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی تھی.کیونکہ جو اخبار میر صاحب نے دکھایا تھا، اس میں خدا کے فضل سے بہت ہی اچھا Coverage تھا.لیکن وہ بتارہے تھے کہ بعد میں ہم اکٹھا کر کے انشاء اللہ تراجم کر کے بھیجیں گے.226

Page 236

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء غرناطہ میں جو تقریب تھی ، یہ عوامی دعوت کی تقریب نہیں تھی.کیونکہ ان کو تاکید کی گئی تھی کہ ہوٹل میں یہاں کے دانشوروں کو بلایا جائے اور یونیورسٹیوں کے نمائندہ، شاعر اور آرٹسٹ اور ہر قسم کے طلبہ اور دیگر دانشور جو کہلاتے ہیں، زیادہ تر ان لوگوں کو بلایا جائے تاکہ ان کو اسلام کے متعلق سوال و جواب کا موقع ملے.چنانچہ خدا کے فضل سے یہ تقریب بھی بڑی بھر پور رہی.اس میں تو اتنی دیر لگ گئی کہ جو چائے کا وقت تھا ، وہ گزر کر کھانے کے وقت میں تبدیل ہو گیا اور پھر بھی ابھی سوال باقی تھے.پھر میں نے ان سے کہا کہ ، ہے اب ہم مجبور ہیں، بعض دوست بیچاروں کو جانا ہوگا، اس لئے چائے پہ چلتے ہیں.چنانچہ چائے یا کافی کے بعد چونکہ بعض دوستوں کو طلب تھی، اس لئے میں نے ان سے دوبارہ کہ دیا کہ اگر کوئی دوست ٹھہر نا چاہتے ہیں، ان میں سے کسی کے سوال رہ گئے ہیں تو وہ بے شک دوبارہ آجائیں.چنانچہ بہت سے دانشوران میں سے تشریف لے آئے.اور انہوں نے ایک شکوہ کیا کہ آپ نے بیچ میں اخباری نمائندوں کو اور ریڈیو کے نمائندوں کیوں بلالیا ؟ ان کی وجہ سے ہماری مجلس جس طرح ہم چاہتے تھے، جم نہیں سکی.ان کو اپنے کاموں میں جلدی ہوتی ہے، ان کے سوال اور قسم کے ہوتے ہیں.ہم تو بڑی سنجیدگی کے ساتھ آپ سے مختلف گہرے مضامین پر آپ سے سوال کرنا چاہتے تھے.چنانچہ ان میں ایک شاعر بھی تھے، جن کے متعلق ایک دوسرے سپینش شاعر نے جو خود بھی تشریف لائے ہوئے تھے، بتایا کہ اس وقت یہ سپین کے بہترین شاعر ہیں.سارے پین میں صرف اندلس کے نہیں بلکہ چوٹی کا کلام کہنے والے اور بہت ہی گہرا اثر رکھنے والے، تمام بڑی تقریبات میں ان کو خصوصیت سے دعوت دی جاتی ہے.وہ بھی اور بعض دوسرے دانشور اور یونیورسٹیوں کے طالب علم وہاں بیٹھ گئے.اور یہ مجلس بھی رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے تک یا بارہ بجے تک چلتی رہی.صبح دوسرے دن چونکہ ہم نے جانا بھی تھا، جو دوست بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے خود بھی کھانا کھانا تھا، اس لئے آخر پر پھر ان سے اجازت لینی پڑی.لیکن ان کے سوالات سے اندازہ ہوا کہ اس وقت باقی یورپ کی طرح سپین میں بھی دہریت عام ہو رہی ہے.اور مذہب کا جو پہلے خیال تھا، کھوکھلا سا ایک تصور تھا، اب وہ تصور بھی ٹوٹ رہا ہے.چنانچہ جب میں ایک موقع پر وہاں پید رو آباد میں مجھ سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کے نزدیک Roman Catholicism اور اسلام میں سے کون جیتے گا؟ کس کا مستقبل ہے؟ تو میں نے ان کو یہ جواب دیا جہاں تک Roman Catholicism کا تعلق ہے، وہ تو مر چکا ہے.کیونکہ Roman Catholicism اگر کامیاب ہوا ہوتا تو تمہاری قوم دہر یہ نہ ہو رہی ہوتی.اگر Roman Catholicism کامیاب ہوا ہوتا تو 227

Page 237

خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ایسی عام بغاوت تمہارے معاشرہ کے خلاف اور تمہاری فلاسفی کے خلاف نظر نہ آتی ، جو اس وقت نظر آرہی ہے.تو Roman Catholicism کا تو مقابلے کا سوال نہیں.کیونکہ وہ تو تجربہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ نا کام ہو چکا ہے.اور جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس کے بارہ میں ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کیوں کامیاب ہوگا ؟ یہ عمومی تاثر تھا، جو وہاں پید رو آباد میں مجھ پر پڑا.لیکن غرناطہ میں جا کہ چونکہ دانشور لوگ آئے ہوئے تھے، وہاں یہ محسوس ہوا کہ یہ تو بہت ہی گہراز ہر ہے، جو معاشرے میں پھیل چکا ہے.اشتراکیت ہی نہیں ، اشتراکیت کے سوا بھی خدا کے خلاف بغاوت، مذہب کے خلاف بغاوت اور ان سب قدروں کو پیچھے چھوڑ کرکسی نئی چیز کی تلاش.اور یہ وہ چیز ہے، جو احمدیت کے سوا کوئی ان کو دے ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے.اور کسی کے پاس ہے ہی نہیں.اور جس قسم کے سوال وہ کرتے ہیں، جو Orthodox Islam آج کل کہلاتا ہے.Orthodox تو اصل میں ہم ہیں.کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ ہی سے اسلام شروع ہوا اور سے Orthodox تو وہ زمانہ کہلانا چاہئے.لیکن موجودہ اصطلاح میں جب Orthodox کہا جاتا ہے.Medieval Islam مراد ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسلام مراد نہیں.بیچ کی صدیوں میں جہاں اسلام میں تشدد پیدا ہوا یا جہاں اسلام میں بدقسمتی سے بعض جاہلانہ خیالات بھی آگئے ، بعض کم علم لوگوں نے اسلامی علوم پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، اس زمانہ کو Medeival Islam سمجھا جاتا ہے.اور اسی کا نام آج کل Orthodox Islam ہے.تو Orthodox Islam کے پاس سارے نمائندے آپ جانتے کہ کس قسم کے علماء ہیں.ان کے پاس تو ان سوالات کا کوئی جواب نہیں.ان کو تو خود ان سوالوں کا ہی علم نہیں.ان کی سوچ کی جو سچ ہے، وہ بالکل مختلف سمتوں میں جارہی ہے.ایک دانشور کو قرآن اور حدیث سے مطمئن کرنا، یہ وہ معجزہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا معجزہ ہے.اور بڑے سے بڑے عالم اور بڑے سے بڑے فلسفی کے سامنے بھی ایک احمدی نہ صرف یہ کہ عاجز نہیں آسکتا بلکہ اپنی برتری کو یوں محسوس کرتا ہے، جیسے وہ بلند منزل سے نیچے کسی چیز کو دیکھ رہا ہو.احمدیت کے علم کلام میں اتنا یقین اور اتنی قوت ہے کہ اس کو جب آپ بیان کرتے ہیں تو دلوں میں داخل ہوتا ہوا نظر آرہا ہوتا ہے.اور کبھی ایسا نہیں ہوا، الا ماشاء اللہ اتفاق سے ہزار میں سے کبھی ایک ضدی نکل آئے تو وہ اور بات ہے، ورنہ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ شدت سے سوال کرنے والا پوری شدت اور غصے اور جذبہ سے سوال کرے اور پھر پوری شدت اور جذبہ کے ساتھ بعد میں تائید نہ کرے.سر ہلا ہلا کر بھی اور 228

Page 238

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء خوشی کے ویسے اظہار سے، ہر رنگ میں ان کی کیفیت بدل جاتی ہے، اسلامی تصورات کے لئے ان کی آنکھوں میں محبت پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ غرناطہ میں بھی یہی نظر آیا.لیکن اس میں ابھی بہت کام ہے.اتنا وسیع کام کرنے والا ہے کہ جس کی وجہ سے طبیعت پر بہت ہی افسردگی کہنا چاہئے یا احساس غم اور دکھ کا کہ ہم کس طرح یہ کریں گے ؟ اور ہم کیا کریں؟ اور کتنی جلد ہونا چاہئے؟ اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اپنی بے بضاعتی کی طرف توجہ اور کام کی شدت اور اس کی وسعت اور زمانے کی رفتار اور پھر اپنے پاس جو کچھ ہے.کس قسم کے ہمیں آدمی چاہئیں، کس قدر وسیع رابطہ نہیں کرنے کی ضرورت ہے.بے شمار ایسے موازنے تھے، جو ذہن میں ابھرتے تھے اور طبیعت کو شدید طور پر بے چین کر دیتے تھے.چنانچہ میں نے وہاں غور کیا تو اب یہ نتیجہ نکالا ہے کہ واقفین عارضی، جس طرح جا کر وہاں کام کرتے ہیں، اس وقت ویسے کام کی ضرورت نہیں ہے.محض آپ علاقے میں پھر کر اشتہار تقسیم کر دیں اور اس کے بعد پھر دوسرا واقف زندگی کسی اور جگہ جائے اور پھر وہ کچھ لوگوں میں اشتہار تقسیم کر جائے.اس کا ضرور لطف آتا ہے اور اس طرح ایک دفعہ پیغام بھی پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں اہل سپین سے گہر ا رابطہ قائم ہو جائے ، یہ بات درست نہیں ہے.گہرا ہو ، جہاں تک وسیع پیمانے پر Publicity کا تعلق ہے، وہ تو خدا کے فضل سے پہلے ہی ہمیں وہاں مل رہی ہے.ریڈیو کے ذریعہ، ٹیلی وژن کے ذریعہ اور اخبارات کے ذریعہ میر صاحب اس معاملہ میں بڑے ماہر ہیں اور انہوں نے بڑا وسیع رابطہ رکھا ہوا ہے.ان کے آنے سے پہلے بھی ہمارے مولوی کرم الہی صاحب ظفر نے بھی ایسے نامساعد حالات میں جبکہ کچھ بھی ان کے پاس نہیں تھا، انہوں نے بھی یہ رابطہ بڑی عمدگی کے ساتھ قائم کیا.ان کے بڑے نیک اثرات تھے، جو ہم نے افتتاح کے وقت محسوس کئے.تو دونوں مبلغ اس فن کے ماہر ہیں.اور اسلام کی آواز مختلف ذرائع سے وسیع پیمانے پر اس قوم تک پہنچ رہی ہے.لیکن اس سے تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی، اس سے صرف ہماری موجودگی کا احساس پیدا ہو سکتا ہے.اس وقت ضرورت ہے کہ اس رنگ میں وہاں کام کیا جائے اور مبلغین کو بھی میں نے سمجھایا ہے کہ دانشوروں سے رابطہ اور اپنے احمدی دوستوں کے ذریعہ مجالس کا انعقاد، جہاں مبلغ جائے اور سوال وجواب کی مجالس لگائے اور ذاتی رابطہ ہو ، جو کھویا نہ جائے.بار بار ان سے ملاقاتیں ہوں اور ان کو بار بارسمجھایا جائے.اس طرح محنت کے ساتھ ایک ایک بیج بونے کی ضرورت ہے.یہ نہیں کہ گزرتے ہوئے ہواؤں میں آپ چھٹا دے دیں اور پھر بھول جائیں کہ اس بیچ کا کیا بنا؟ وہ زمین میں داخل بھی ہوا کہ نہیں؟ اور اگر ہوا بھی تھا تو جڑیں نکل بھی آئیں تو اس میں روئیدگی جو 229

Page 239

خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم پیدا ہوئی، اس کی آبیاری کس نے کی؟ جانور تو نہیں چر گئے، اگر آبیاری کسی نے کی بھی تھی.بے شمار ایسے مسائل ہیں جو نباتاتی مسائل ہیں لیکن روحانی دنیا پر بھی اطلاق پاتے ہیں.اس لئے اب تو ضرورت ہے کہ ایک ایک درخت کاشت ہو اور اس کی حفاظت کی جائے.مسلسل اس سے رابطہ رہے.اور اس وجہ سے مجھے اب اس وقف عارضی کے پروگرام کو بدلنا پڑے گا.اب تو ہمیں ایسے واقفین کی ضرورت ہے، جو جا کے کسی ایک جگہ ٹھہر کے ذاتی دوستیاں بنائیں اور پھر وہاں ٹھہرے رہیں اور تعلقات بنائیں.پھر ان کو اپنے پاس آنے کی دعوت دیں.ذہانت کے ساتھ مطالعہ کریں کہ کون سے لوگ ہیں، جن میں اس قدر سنجیدگی پائی جاتی ہے کہ وہ مذہب کا مطالعہ کریں؟ ان کے خیالات کو Excite کریں، ان کو روحانیت کا پیغام دیں، ان کے لئے دعائیں کریں.اور ان کے اندر دعا کی طلب پیدا کریں اور ان کو بتائیں کہ ہمارا ایک خدا ہے.یہی آج اس قوم کے دل کی آواز ہے کہ اگر خدا ہے تو کہاں ہے؟ اور وہ کیوں ہم سے رابطہ نہیں رکھتا؟ تو ذاتی رابطہ اور بہت سنجیدگی کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانا، پھر جلد از جلد خدا کی طرف لے کے آنا اور اس سلسلہ میں دعاؤں پر زور دے کر ان پر ثابت کرنا کہ روحانیت کوئی فرضی چیز نہیں ہے بلکہ زندہ حقیقتوں میں سے ایک زندہ حقیقت ہے.اور ان کو یہ بتانا کہ دیکھو دعائیں قبول ہوتی ہیں.ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں، تمہیں دکھاتے ہیں کہ وہ کون سا خدا ہے، جس نے ہم سے رابطہ کیا ہے؟ اس قسم کے واقفین ہیں، جو وہاں کامیاب ہوسکیں گے.اور اسی نہج پر آئندہ پین میں کام کرنا چاہئے.ورنہ تو پین کی باہر کی دنیا ایک بالکل مردہ دنیا ہے.وہاں غرناطہ میں جب وہ سوال کر رہے تھے تو مجھے خیال آیا کہ بالکل یوں معلوم ہوتا ہے کہ بے بصیرت لوگ ہیں، جن کو روشنی کے ہوتے ہوئے بھی پوری طرح اندھیرا دکھائی دے رہا ہے.یعنی خدا کا وجود جو ہر ذرہ سے ظاہر ہوتا ہے اور کائنات کے ذرہ ذرہ میں بول رہا ہے، نہ اس کی آواز کو ان کے کان سن سکتے ہیں، نہ اس نور کو وہ کسی پہلو سے بھی دیکھ سکتے ہیں، کلیہ ایک خلا محسوس ہو رہا ہے.اور جس خدا پر وہ ایمان لا رہے ہیں، وہ بھی ایک قدیم زمانہ کا خدا ہے.جو ماضی میں سینکڑوں، ہزاروں سال پیچھے رہ چکا ہے.زندہ قدم بقدم ساتھ چلنے والا اور سہارا دینے والا ، آئندہ کی راہ دکھانے والا، آئندہ کی امیدیں پیدا کرنے والا ایسا کوئی خدا ان کو معلوم نہیں.اس لئے یہ ایک مرکزی حقیقت ہے، جس پر زور دے کر ایسے ملکوں میں تبلیغ کامیاب ہو سکے گی.اس لئے آئندہ اس نہج پر کام ہونا چاہئے.غرناطہ ہی میں، میں نے وہاں ایک مثال سنی، جو بڑی دلچسپ ہے، جو غرناطہ کے حسن کے متعلق بیان کی جاتی ہے.سپینش کہاوت ہے کہ غرناطہ کے اندھے یہ آواز دیتے ہیں کہ اے خاتون ! کچھ راہ مولیٰ 230

Page 240

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء مجھے خیرات دیتی جاؤ.کیونکہ غرناطہ کے اندھے سے زیادہ دنیا میں اور کوئی محروم اور قابل رحم چیز نہیں ہے.اتنا حسن ! اور آنکھیں حسن کو دیکھنے سے عاری رہیں!! چنانچہ وہ مثال مجھے یاد آئی اور میں نے سوچا کہ ایک غرناطہ نہیں، اس وقت سارا ندلس سارا سپین اندھوں سے بھرا ہوا ہے، خدا کے نور سے نا آشنا ہیں.اصل حسن سے نا آشنا ہیں اور دیکھ نہیں سکتے.ان کی نہایت ہی قابل رحم حالت ہے.وہ، جو ان کو اس حسن کی خیرات دینا چاہتے ہیں ، وہ خیرات لینے سے بھی انکار کر رہے ہیں.اسے لینے کے لئے ان کے ہاتھ آگے نہیں بڑھتے.تب میری توجہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف منتقل ہوئی:.وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِهِ (بنی اسرائیل: 84) کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ جب ہم نعمت دیتے ہیں انسان کو، اعرض و نابجانبه وہ منہ موڑ لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے.اور انکار کر دیتا ہے، اس کو قبول کرنے سے.اس وقت یورپ کے اندھے تو غرناطہ کے اندھے بنے ہوئے ہیں.قابل رحم تو ہیں لیکن لینے کی کوئی طلب نہیں ہے.واقفین عارضی کو وہ طلب بھی پیدا کرنی پڑے گی.ان کو یہ بینائی بھی دینی پڑے گی کہ تم محروم ہو اور ہم نہ صرف حسن لے کر آئے ہیں بلکہ تمہیں یہ بتانے بھی آئے ہیں کہ یہ حسن ہے اور تم اس سے محروم بیٹھے ہوئے ہو.یہ دو کام ہیں.آپ کا ایک کام نہیں رہا، آپ نے یہ خیرات ان کی جھولی میں ڈالنی بھی ہے اور اس خیرات کے لئے طلب بھی پیدا کرنی ہے.اس کے لئے آپ کو خود حسین ہونا پڑے گا.ان صفات سے مزین ہونا پڑے گا، جو نہ صرف یہ کہ حسن کی جاذبیت رکھتی ہیں بلکہ حسن کی جاذبیت کو دیکھنے والی آنکھ پیدا کر سکتی ہیں.اور خدا تعالیٰ کے حسن میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کے حسن کا یہ کمال ہے کہ وہ اندھوں کو پہلے بینائی بخشتا ہے اور پھر اس بینائی کے سامنے اپنا جلوہ دکھاتا ہے.چنانچہ وَوَجَدَكَ ضَا لَّا فَهَدَى (الضحی :08) میں ایک یہ بھی فلسفہ بیان فرمایا گیا ہے کہ تجھے تو ہم نے بھٹکتا ہوا پایا تھا ، ہم نے تجھے ہدایت دی.یعنی اپنی طرف آنے کے لئے ہم نے ہی سب کچھ تمہیں عطا کیا تھا.آغاز میں جو طلب پیدا کی ، وہ بھی ہم نے پیدا کی ، دیکھنے کی توفیق بھی ہم نے بخشی ، پھر جلوہ بھی ہم نے دکھایا.تو کلیۂ ہدایت کے سارے مراحل کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر عائد ہوتی ہے.اس لئے اہل سپین کے اندھوں کو اگر آپ نے جا کر اسلام کی طرف مائل کرنا ہے تو حسن بھی بخشنا ہے اور حسن کی آنکھ بھی عطا کرنی ہے.اس کے لئے آپ کو صفات باری تعالیٰ سے مزین ہونا چاہئے.231

Page 241

خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا ( حم السجدة : 34) آپ حسین ہو جائیں گے ، سب سے زیادہ حسین قول کہنے والے بنیں گے مگر اس وقت جبکہ اللہ کی طرف بلائیں اور اللہ کے رنگ اختیار کر کے اس کی طرف بلائیں.عمل صالحا کا یہی مطلب ہے کہ صرف اللہ کی طرف ہی نہ بلاؤ بلکہ اللہ کے رنگ اختیار کر کے پھر اللہ کی طرف ہی بلاؤ.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ انشاء اللہ تعالٰی اہل سپین کو اسلام کی طرف بلانے کے لئے یہ نیا لائحہ عمل بہت بہتر اور مفید ثابت ہوگا.سپین میں اس دفعہ ایک اور نیا تجربہ ہوا، جو بہت ہی دکھ والا بھی تھا لیکن اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے خاص دعاؤں کی بھی توفیق بخشی.سفر کے دوران ایک ایسا خیال ہمارے ساتھی مکرم منصور احمد خاں صاحب کو آیا، جس کا پہلے کم سے کم مجھے خیال نہیں آیا تھا.وہ ہمارے وکیل التبشیر بھی ہیں اور سفر کے دوران پرائیویٹ سیکرٹری بھی وہی تھے اور میرے ڈرائیور بھی وہی تھے.یہ تینوں کام خدا کے فضل سے انہوں نے بڑی ہمت سے کئے ہیں.تو انہوں نے سفر کے دوران یہ بتایا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ یہاں اتنے مسلمان بستے رہے ہیں، آٹھ سو سال تک آبا د ر ہے ہیں، ان کا مقبرہ کبھی نہیں دیکھا.عمارتیں تو نظر آ رہی ہیں لیکن کہیں کسی مقبرے کا کوئی نشان نہیں ملتا.اس وقت مجھے توجہ پیدا ہوئی اور میں نے کہا: واقعہ جب پچھلی دفعہ بھی جب ہم یہاں آئے تھے اور اس سے پہلے بھی جب میں اکیلا سپین آیا تھا تو اس وقت بھی سارے سفر کے دوران کہیں بھی سپین میں مسلمانوں کا کوئی مقبرہ کہیں نظر نہیں آیا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خاص مقصد کے لئے ڈالا تھا کیونکہ دوسرے دن غرناطہ پہنچ کر جب ہم صبح کی سیر کے لئے نکلے تو تجویز یہ کیا گیا کہ اس جگہ جہاں غرناطہ کا الحمراء پیلیس (Palace) ہے، اس کے علاوہ بعض اور بھی ہیں، وہ اس وقت چونکہ بند ہوگا، اس لئے اس پہاڑی کی چوٹی وہاں سے سارے اندلس کا منظر دور دور تک نظر آتا ہے اور غرناطہ کے تو سارے پہلو ہر طرف سے بڑے صاف، واضح دکھائی دیتے ہیں.چنانچہ ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ اس پہاڑی کی چوٹی پر چلتے ہیں.عموما جتنے بھی مسافر ہیں باز یارت کرنے والے ان کو الحمراء اتنے زور کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے کہ اس سے آگے پہاڑی پر جانے کا کسی کو خیال ہی نہیں آتا.بہر حال چونکہ سیر کی عادت تھی ، اس لئے اس تجویز کو میں نے بڑا پسند کیا اور ہم اس پہاڑی کی چوٹی پر جانے لگے تو تقریباً دو تہائی فاصلہ طے کرنے کے بعد 232

Page 242

تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 18اکتوبر 1985ء اچانک میرے ساتھی ڈاکٹر منصور الہی صاحب نے بتایا کہ یہاں ایک قبرستان ہے.اور یہ مسلمانوں کا ایک ہی قبرستان ہے، جو آج تک باقی ہے.چنانچہ میں نے دائیں طرف نظر ڈالی تو ابھی تک اس کے اوپر قبرستان کے متعلق عبارت لکھی ہوئی تھی اور اندر جا کر ہم نے دیکھا تو اکثر قبریں بالکل گڑھے بن چکی تھیں.جس طرح اندھی آنکھیں ہوتی ہیں، ان میں آنکھ کا ڈھیلا نہ ہو.اس قسم کی ان قبروں کی شکلیں تھیں.اور وہ قبریں بڑی ہی دردناک حالت میں تھیں.وہ بہت وسیع علاقہ ہے.وہ پہاڑی کا، ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے، جو تمام کی تمام کسی زمانے میں غرناطہ کے مسلمانوں کے لئے قبرستان کے طور پر استعمال ہوتی تھی.وہاں کوئی کتبہ باقی نہیں ہے.صرف پتھروں کے کچھ نشان اور کچھ قبروں کے گڑھے ہیں.بعض جگہ لوگوں نے تھوڑی سی مٹی ڈال کر اس کو برابر کیا ہوا ہے.اور چند قبریں ہیں، جو تازہ ہیں.مگر اکثر قبریں بڑی پرانی ہیں.وہاں دعا کے وقت ایک خاص کیفیت دل میں پیدا ہوئی.اور ذہن پرانی ماضی کی تاریخ میں چلا گیا.نہیں کہہ سکتا تھا، میرے لئے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ ان میں سے اولین دور کے غازی کون سے ہیں؟ اور آخری دور کے وہ بدقسمت کون ہیں، جنہیں اپنے ہاتھوں سے چین کو غیروں کے سپرد کرنا پڑا؟ مگر یہ مجھے محسوس ہوا کہ اس مٹی میں دونوں خون ملے ہوئے ہیں.ان غازیوں کا بھی خون ہے، جنہوں نے خون دے کر اسلام کی عظمتوں کے لئے ایک عظیم الشان سلطنت قائم کی اور ان محروموں کا خون بھی اس میں ملا ہوا ہے، جو بد قسمتی سے ایسے زمانے میں داخل ہوئے کہ جب وہ اپنی وراثت کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے تھے.اس عظیم الشان غازیوں نے ورثے میں جو دولتیں عطا کیں، ان کی حفاظت کرنے کے بھی وہ اہل نہ رہے تھے.تو وہاں وہ قبرستان کیا تھا، وہاں سپین کا مشرق بھی تھا اور چین کا مغرب بھی تھا.جہاں سے سورج طلوع ہوتا تھا، وہ جگہ بھی دکھائی دے رہی تھی اور جہاں سورج غروب ہو گیا تھا، وہ جگہ بھی دکھائی دے رہی تھی.اس وقت میں نے دعا کی کہ اے خدا! یہ لوگ تو مٹی ہو گئے ، ان کے ظاہری بدن تو مٹی ہو گئے لیکن ان کی روحیں تیرے حضور زندہ ہیں.میری آواز براہ راست تو ان تک نہیں پہنچ سکتی لیکن میری آواز کو تو ان تک پہنچا سکتا ہے.اس لئے آج میں ان کو ایک پیغام دیتا ہوں تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلیفہ کے حیثیت سے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے یہ پیغام ان کو دیتا ہوں گو کہ اگر چہ تم مر گئے اور زیرزمین جاسوئے لیکن در حقیقت میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم نہیں بلکہ سارا سپین مر گیا.تم ہی زندگی کے نشان تھے تم ہی وہ تھے، جو اس چمنستان کی زینت تھے، اس کی رونق تھے، تمہارے دم قدم سے سپین کی آبادیاں تھیں، تمہاری آوازوں کے ساتھ خدا کی تکبیر یہاں 233

Page 243

خطبہ جمعہ فرموده 118اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم بلند ہوا کرتی تھی، تمہاری پیشانیوں پر وہ نور تھا، جو سجدہ کرنے والوں کی پیشانیوں کو عطا ہوا کرتا ہے.پس اگر چہ تم آج تہ خاک جاسوئے ہو اور تمہارے ظاہری وجود کا کوئی بھی نشان باقی نہیں.سوائے ان گڑھوں کے جو بے ڈھیلوں آنکھوں کی طرح بے نور گڑھے دکھائی دے رہے ہیں اور بظاہر یہ اسلام کی موت دکھائی دیتی ہے مگر میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے معرفت کا یہ نکتہ بیان کیا تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر دو موتیں جمع نہیں ہو سکتیں، آپ کے ماننے والوں پر بھی دو موتیں جمع نہیں ہو سکتیں.ان کے جسم تو مر سکتے ہیں مگر ان کے دین کو نہیں مرنے دیا جائے گا.پس میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ساری جماعت احمد یہ اس بات کا عہد کر رہی ہے اور اس عہد کو ہمیشہ نبھاتی رہے گی کہ جب تک اسلام دوبارہ پین میں اسی شان کے ساتھ دوبارہ زندہ نہ ہو بلکہ اس سے بڑھ کر شان کے ساتھ دوبارہ زندہ نہ ہو، جس طرح پہلی بار پین میں زندہ ہوا تھا ، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے.ہم مسلسل جد و جہد کرتے رہیں گے ، ہم مسلسل کوشش کرتے رہیں گے.ہم تو اس آقا کے غلام ہیں، جس نے بیابان میں یہ عجیب ماجراد کھایا تھا کہ صدیوں کے مردوں کو ، ہزاروں سال کے مردوں کو دوبارہ زندہ کر دیا تھا.وہ مردے الہی رنگ پکڑ گئے تھے.آج بھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی شان.احیائے موتی کے صدقے اور آپ ہی کے طفیل ہم اس مردہ سپین کو دوبارہ زندہ کریں گے.پس ہمارا انتقام تو وہی ہے، جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظام تھا، اس عفو کے شہزادے کا انتظام تھا.جو آپ پر موت برسانے کی کوشش کرتے تھے، آپ انہیں زندگی عطا کرتے تھے.پس اے اسلام کے نام پر مارے جانے والو! ہم تمہاری خاطر، تمہاری ہی طرف سے سارے پین میں زندگی کا پانی بکھیریں گے.ان مردوں کو جو بظا ہر سطح زمین پر بس رہے ہیں اور در حقیقت قبرستان کا منظر پیش کر رہے ہیں، ان کو ہم زندہ کریں گے اور ان میں دوبارہ اسلام کی روح کو دوڑتا ہوا اور پنپتا ہوا دیکھیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ.اور سپین سے انشاء اللہ ساری دنیا کے لئے اسلام کے مبلغ نکلیں گے.اور ساری دنیا میں سپینش مسلمان اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے عظیم الشان قربانیاں دینے لگے گا.یہ ہمارا مقصد اور ادعا ہے.اور میں عہد کرتا ہوں، اے خدا! تو ہمیں توفیق عطا فرما، ہم اس عہد کو پورا کرنے والے ہوں کہ اس قبرستان کو جو ظاہری مسلمانوں کا قبرستان ہے، سارے سپین کے لئے زندگی کا سر چشمہ بنا دیں گے.آج اس قبرستان نے جو میرے دل کو زخمی کیا ہے اور جو میری روح کو چھ کے لگائے ہیں ، اے خدا! اس سے ایسے خون کی آبشار نکال، ایسے خون کے سوتے نکال، جو سارے سپین کو ترو تازہ کر دیں اور اسلام کا نیا 234

Page 244

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی - خطبہ جمعہ فرمود : 18 اکتوبر 1985ء رنگ بھر دیں اور تیری محبت کا نیا رنگ بھر دیں.اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام یہاں کو پیدا ہوں.اور صرف غلام نہیں ، اس شان کے غلام پیدا ہوں کہ وہ اسلام کے لئے ساری دنیا میں قربانیاں دینے لگیں.اور مجھے یہ خیال آیا اور میں عہد کرتا ہوں کہ ہم یہ کوشش جاری رکھیں گے.اور یہ کوشش کریں کہ انشاء اللہ تعالیٰ بالآخر تمام دنیا کے ہر خطے میں سپینش مبلغ بھجوائیں گے، جو وہاں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں.یہی انتقام تھا، جو ہم اس قوم سے لے سکتے تھے.اور یہی وہ انتقام ہے، جو محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کو زیب دیتا ہے.اور میں آپ کو یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ جب میں آپ کی طرف سے یہ عہد کر چکا ہوں تو آپ نے اس عہد کو نبھانے میں ہر ممکن میری مدد کرنی ہے.انشاء اللہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ صرف میرے دل کی آواز نہیں بلکہ ہر احمدی کے دل کی یہ آواز تھی.اگر آپ دعاؤں کے ذریعے اپنے اس عہد کو قائم اور زندہ رکھنے کے لئے خدا سے التجائیں کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ عہد ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کے عظیم الشان پھل ہمیں بھی عطا ہوتے رہیں گے اور اہل دنیا کو بھی عطا ہوتے رہیں گے“.مطبوع خطبات طاہر جلد 104 صفحہ 831 تا 847 ) 235

Page 245

Page 246

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد اصف خلاصه خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1985ء دعا کریں کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو ہم جذب کر سکیں اور کماحقہ شکر ادا کر سکیں خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1985ء حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی حالیہ دورہ یورپ سے کامیاب مراجعت پر مجلس خدام الاحمدیہ یو کے نے ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا.اس موقع پر حضور نے انگریزی زبان میں جو خطاب فرمایا، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:.حضور نے فرمایا:." اس دورہ میں خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں اور رحمتوں کا اس تھوڑے سے وقت میں ذکر کرنا ، کسی طرح بھی ممکن نہیں.فرمایا:.سفر یورپ میں نازل ہونے والے افضال الہیہ تین قسم کے ہیں.اول: جو دیکھے گئے اور بیان بھی کیے جاچکے ہیں.دوم : جو دیکھے گئے اور لیکن ابھی بیان نہیں کیے گئے.اور سوم : وہ افضال الہیہ جن کا بیج بو دیا گیا ہے اور اس کے اعلیٰ نتائج مستقبل میں ظاہر ہوں گے.بعض جلد اور بعض بدیر.فرمایا:.میں چاہتا تھا کہ کچھ نہ کچھ آپ کو بتاؤں مگروقت قلیل ہے".ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ فرینکفورٹ میں ایک جرمن خاتون ملاقات کے لئے آئیں تو سب سے پہلے اپنے تھیلے سے * ایک جرمن اخبار کا تراشہ نکال کر دریافت کرنے لگی کہ کیا یہ آپ کی تصویر اور آپ کا بیان ہے؟ اثبات میں جواب ملے پر کہنے گی کہ یہی بیان ہے، جو مجھے کھینچ لایا ہے.237

Page 247

خلاصہ خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1985ء فرمایا کہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اس قسم کے کئی واقعات ہوئے، جس سے میں اس یقینی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اہل یورپ اسلام کی طرف غیر معمولی طور پر متوجہ ہورہے ہیں.اس کے علاوہ ایک اور تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ اہل عرب کے دلوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے بہت زور کے ساتھ جماعت کی طرف توجہ پیدا کی ہے اور بڑی تیزی سے یہ لوگ اب جماعت میں شامل ہورہے ہیں اور اپنے اخلاص اور قربانی میں بہت اعلیٰ نمونہ پیش کر رہے ہیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی احسان ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سفر کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہوا کہ مبلغین کے کام کو دیکھنے اور ان کی مدد کرنے کا موقع بھی ملا.تا کہ وہ اپنے فرائض پہلے سے بڑھ کر کامیابی کے ساتھ ادا کر سکیں.نیز جماعت کے رضا کار دا عین الی اللہ سے ملنے اور ان کا کام دیکھنے کا بھی موقع ملا، جس سے بہت خوشی ہوئی.حضور نے فرمایا:.اس دورہ میں خدا تعالیٰ کی عطا کردہ برکتوں اور اس کے فضلوں اور اس کی تائید کے عظیم الشان جلوے ہم نے مشاہدہ کئے.اور اس کے فرمان نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ کے مطابق اسے اپنے بہت ہی قریب پایا.اتنے افضال ہیں کہ بعض تو ہم مشاہدہ کر سکے اور بعض مشاہدہ کئے مگر بتائے نہیں جاسکتے.اور بعض افضال ایسے ہوتے ہیں، جن کا مشاہدہ کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا.بہر حال دعا کریں کہ ان فضلوں کو ہم جذب کر سکیں اور خدا تعالیٰ کا کما حقہ شکر ادا کر سکیں.کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ پس خدا تعالیٰ کے ان انعامات پر اس کا شکر ادا کریں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آخر میں فرمایا کہ وو سب سے اہم بات جس کی طرف ساری جماعت کو توجہ کرنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کا بے حد شکر ادا کریں.کیونکہ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ کے الہی ارشاد کے مطابق شکر کے نتیجہ میں ہی مزید افضال وانعامات ملتے ہیں.238

Page 248

تحریک جدید - ایک الہی تحریک فرمایا کہ خلاصہ خطاب فرمودہ 21اکتوبر 1985ء دو شکر گزار بنے کا ایک تقاضا یہ ہے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو اخلاص اور محنت کے ساتھ ادا کریں، جوان افضال الہیہ کے نتیجہ میں ہم پر عائد ہوتی ہیں.پھر انشاء اللہ تعالیٰ جماعت ہر آن خدا تعالیٰ کے فضل سے آگے سے آگے بڑھتی چلی جائے گی.( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 25 اکتوبر 1985 ، و ضمیمہ ماہنامہ مصباح نومبر 1985ء) 239

Page 249

Page 250

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء تحریک جدید الہی قربانیوں میں ایک نمایاں امتیاز رکھتی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء ط تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارِ اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقْتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَّاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَّشَاءُ ۖ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِانْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۖ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (البقرة: 271 تا 273) اور پھر فرمایا: ” یہ آیات، جن میں مالی قربانی کے متعلق ایک مبسوط اور مضبوط اور بہت گہرا اور وسیع مضمون بیان ہوا ہے، بارہا جماعت کے سامنے پڑھی جاتی ہیں اور بار ہا احمدی اپنے طور پر بھی ان کی تلاوت کرتے ہیں.لیکن جتنی دفعہ بھی ان پر غور کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان آیات میں نئے مضامین بھی دکھائی دینے لگتے ہیں اور نیار بط نظر آنے لگتا ہے.آج میں نے ان آیات کا انتخاب اس غرض سے کیا ہے کہ میں آج اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان اور اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق تحریک جدید کے باون ویں سال کے آغاز کا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں.اور چونکہ تحریک جدیدالتی قربانیوں میں ایک نمایاں امتیاز رکھتی ہے اور اس دور میں اس نے ایسی عظیم الشان مالی قربانیوں کی بنیاد ڈالی، جو مختلف شکلوں میں مزید شاخیں اور پھل اور پھول دیتی رہی اور اس تحریک سے اور نئی نئی تحریکیں بھی پیدا ہوئی اور مزید ہورہی ہیں اور ہوتی چلی جائیں گی.اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی تحریک جدید کا یا دیگر مالی تحریکوں کا آغاز کیا جائے تو قرآن کریم سے برکت حاصل کرنے کے لئے اور قرآن کریم کے مضامین سے استفادہ کرنے کے لئے بعض آیات کا انتخاب کر کے وہ جماعت کے سامنے پیش کی جائیں.241

Page 251

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء یہ آیت تحریک جدید- ایک الہی تحریک وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللهَ يَعْلَمُهُ وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ اپنی ذات میں ایک مکمل مضمون بیان کر رہی ہے.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بات ختم ہوگئی، اس کے بعد کسی اور مضمون کی ضرورت نہیں رہتی.مگر بقیہ آیات جب اس مضمون کو پھر آگے بڑھاتی ہیں تو بعد اور معلوم ہوتا ہے کہ کئی ایسے گوشے تھے، جن کی وضاحت ضروری تھی.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو، کسی قسم کا خرچ یا نذر مانتے ہوں کسی قسم کی بھی نذرفان اللہ یعلمہ اللہ اسے جانتا ہے.مالی قربانی کرتے وقت خواہ وہ کسی رنگ کی ہو، تحفہ ہو یا صدقہ ہو یا دکھاوے کے لئے ہو، کسی غرض سے بھی خرچ کیا جائے، ہر خرچ کرنے والے کے سامنے ایک چہرہ ہوتا ہے، جس کی وہ رضا چاہتا ہے.دکھاوا کرنے والے بھی جب خرچ کرتے ہیں تو عوام کا چہرہ ان کے سامنے ہوتا ہے.بغیر دکھاوے کے اور بغیر ایسے مقصد کے، جس کے نتیجہ میں کوئی راضی ہو، کوئی انسان کوئی چیز خرچ نہیں کرتا.اپنے لئے بھی خرچ کرے تو خود جانتا ہے، اپنے بیوی بچوں کے لئے خرچ کرے تو اسے چین نہیں آسکتا، جب تک ان کو پتہ نہ چلے کہ خرچ کرنے والا کون ہے؟ اس لئے پنجابی میں کہتے ہیں ، سوئے ہوئے بچے کا منہ چومنے کا فائدہ کیا ؟ اس کو پتہ نہیں چلتا کہ کون منہ چوم گیا.مائیں بھی چوستی ہیں تو ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ بچے کو معلوم ہو کہ کس نے اس کا منہ چوما ہے.اللہ تعالیٰ نے ان سارے امکانات کا ذکر اس آیت میں کر کے فرمایا ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہونے کی وجہ سے جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو، اللہ کی خاطر خرچ کرتے ہو.اس لئے یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ سوئے ہوئے بیٹے کا منہ چوم رہے ہو.بلکہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہمہ وقت جاگنے والے آقا کے قدموں میں تم ایک نذر پیش کر رہے ہو.اور وہ ہر حال میں، ہر وقت نہ صرف تمہاری مالی قربانی کے ظاہر سے واقف ہے بلکہ اس کے پس پردہ جذبات سے بھی واقف ہے.نہ صرف یہ کہ نیتوں کے اچھے پہلوؤں سے واقف ہے بلکہ نیتوں کے بعد پہلو سے بھی واقف ہے.اس لئے اس آیت میں جہاں ایک حوصلہ دلایا، ایک یقین دلایا کہ ہماری مالی قربانیاں کسی حالت میں بھی ضائع نہیں جا سکتیں، جس چہرے کی رضا کی خاطر ہم پیش کر رہے ہیں، اسے خوب خبر ہے، وہاں ایک انذار بھی فرما دیا کہ دنیا والوں کو تو تم دھوکا دے سکتے ہو، دنیا والوں کے لئے تو تم یہ کر سکتے ہو کہ خرچ کسی اور مقصد کے لئے کر رہے ہو اور دادطلبی کسی اور سے کر رہے ہو.بسا اوقات اپنا احسان جتار ہے ہو کسی اور شخص پر اور مقصد بالکل اور ہے.چنانچہ بڑے بڑے ریا کارایسے ہیں، جو غرباء پر خرچ کرتے ہیں اور مقصد یہ ہے کہ قوم میں ان کی 242

Page 252

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خطبه جمعه فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء ساتھ بیٹھے، قوم سمجھے کہ یہ ایک بہت ہی ہمدرد انسان ہے.بڑے بڑے دکھاوا کرنے والے ایسے امیر ہیں، جو ٹیلی ویژن کے سامنے جانے کی خاطر خرچ کرتے ہیں یا کسی حکومت کے سربراہ سے بعد میں فائدے حاصل کرنے کی خاطر خرچ کرتے ہیں.ایسے لوگ خرج بظاہر نیک کام پر کر رہے ہوتے ہیں.داد طیلی کسی اور طرف سے ہے اور خرچ کا رخ کسی اور طرف ہے.اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ بھی تنبیہ فرما دی کہ تمہیں ہمیشہ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جس ذات کے نام پر تم خرچ کر رہے ہو، وہ تمہارے پس پردہ خیالات سے بھی واقف ہے.اس لئے اگر وہاں رخنہ ہوا تو وہ خرچ قبول نہیں کیا جائے گا.چنانچہ اس کے معابعدیہ فرمایا: وماللظالمين من انصار.اب بظاہر اس آیت کے پہلے ٹکڑے کا اس آیت کے دوسرے ٹکڑے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا.فرمارہا ہے کہ اگر تم خرچ کرو تو ہر حال میں نیک کاموں پر خرچ کرنے کی نیتیں باندھو.کیونکہ خدا تعالیٰ تمہارے اس خرچ کے ہر پہلو سے واقف ہے.اور ساتھ ہی فرما دیا کہ ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں.خرچ کرنے والا تو اچھا ہوتا ہے، وہاں تو بظاہر حسنین کا ذکر آنا چاہئے تھا.یہ وماللظالمين من انصار کا کیا تعلق ہوا؟ جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں تو بہت ہی وسیع مضمون سامنے آتا ہے، جس کے پھر دو پہلو ہیں.اول حسن کا پہلو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ انے ، جس پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور من انصاری الی اللہ کی دعوت دی تو اس کے نتیجہ میں آپ کے لئے انصاری الی اللہ (القف: 15) پیدا ہوئے، جو ظالموں کو نصیب نہیں ہو سکتے.اس سے پہلے سورہ صف میں یہ مضمون بیان ہو چکا ہے:.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَامِ الله (الصف:08) وہاں بھی ظالم کہہ کر بظاہر بات کی گئی ہے مگر نیکوں کی طرف سے ان پر لگنے والے الزاموں کا دفاع کیا گیا ہے.بتایا یہ گیا ہے کہ اگر کوئی ظالم ہو تو خدا تعالیٰ اس کی نصرت نہیں فرماتا ، وہ ہلاک کر دیا جاتا ہے.جب کوئی خدا کی طرف سے دعوئی پیش کر رہا ہو اور ہلاک نہ ہورہا ہو اور اس کے انصار الی اللہ پیدا ہو جائیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ ظالم نہیں.پس بظا ہر نفی میں ذکر ہے مگر مضمون اس پہلو سے مثبت بن جاتا ہے.فرمایا: دیکھو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دیتے ہیں اور تم اس انفاق پر لبیک کہہ رہے ہو اور خدا خوب جانتا ہے کہ تم کس شان کے ساتھ لبیک کہہ رہے ہو اور تمہاری یہ ادائیں، تمہارے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا حسن، یہ ایسے حسین نظارے ہیں کہ جو انصار الی اللہ میں ہی نظر آیا 243

Page 253

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم کرتے ہیں.کیونکہ ظالمین کو خدا تعالیٰ انصار الی اللہ عطا نہیں کیا کرتا.اس مضمون کو پھر اگلی آیتوں میں کھول کر بیان کیا کہ کن انصار کی بات ہورہی ہے.واقع یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر خرچ کرنے والے پیدا ہوئے.لیکن شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ بعض غلط لوگوں کی غلط تحریکات پر بھی ان کے مددگار پیدا ہو جاتے ہیں اور حکومتیں بھی ان پر خرچ کرتی ہیں.پھر کچھ امراء بھی ایسے ہوتے ہیں، جو بدلوگوں پر بدار ا دوں سے خرچ کرتے ہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں کی کیا پہچان ہو گئی ؟ جب صورت یہ ہے کہ اس شخص کی آواز پر خرچ کرنے والے تو انصار ہیں، جو ظالموں کو نصیب نہیں ہوتے.اور دوسری آوازوں پر خرچ کرنے والے انصار نہیں ہیں تو پھر لازما ان دونوں قسم کے خرچ کرنے والوں کے مابین تمیز ہونی چاہئے.اس لئے اگلی آیت اس مضمون کو کھولتی چلی جارہی ہے.یہ آیات خرچ کرنے والوں میں اتنا بین فرق کر دیتی ہیں کہ جو انصار الی اللہ ہوتے ہیں، ان میں اور بدار ا دوں کے ساتھ بد مقاصد کے لئے خرچ کرنے والوں میں تمیز نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے.فرمایا:.اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقْتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ ط فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمُ مِّنْ سَيَّاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ اب یہ مضمون پہلی آیات کے مضمون کو دو طرح سے کھول رہا ہے.ایسا حسین ربط ہے کہ انسان قرآن کریم کے انداز بیان کو حیرت سے دیکھتا ہے.اس آیت کا پہلا ٹکڑا جو ہے، وہ پہلے حصہ سے تعلق رکھتا ہے.جو یہ ہے، وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةِ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا اور دوسرا حصہ انصار الی اللہ کے مضمون کو کھولتا ہے.یعنی جب وہ خرچ کرتے ہیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے.فرمایا: ان تبدوا الصدقات اگر تم صدقات ظاہر کر دو ، خدا کی راہ میں جو خرچ کرتے ہو، اسے کھول دو، فنعماھی یہ بھی بہت اچھی بات ہے.وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ اگر تم ان کو چھپاؤ اور فقراء کو دے دو تو یہ بھی تمہارے لئے ٹھیک ہے.اس مضمون کی وضاحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پہلی آیت میں تو یہ بیان فرما دیا تھا کہ اللہ کو علم ہے.اور جس کی خاطر تم خرچ کر رہے ہو، جب اس کو علم ہو گیا تو بات پوری ہوگئی ، مضمون مکمل ہو 244

Page 254

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء گیا.اس کے بعد مزید ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ انسان کے دل میں یہ خیال آسکتا ہے کہ نیکی تو صرف یہ ہے کہ اس طرح اللہ خرچ کروں کہ کسی دوسرے کو کسی قیمت پر بھی اس کا علم نہ ہو، اس کے بغیر میرا انفاق قبول نہیں ہو گا.یہ ایک وہمہ دل میں پیدا ہو سکتا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم صدقات کو ظاہر کرو فنعماھی، یہ بھی بہت عمدہ بات ہے.ظاہر کرو کے مضمون کا تعلق زیادہ تر قومی چندوں سے ہے، قومی اتفاقات سے ہے.کیونکہ جب آپ قومی طور پر مالی قربانیوں میں حصہ لیتے ہیں تو معاملہ چھپ سکتا ہی نہیں.اس کا اظہار کے ساتھ ایک ایسا ربط ہے، ایک ایسا گہرا تعلق ہے کہ وہ ٹوٹ نہیں سکتا.خدا تعالیٰ کو براہ راست تو آپ کوئی چندہ نہیں دے سکتے.ایک جماعتی نظام کے طور پر ہی دیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب خدا اور بندے کے درمیان بطور رابطہ کے موجود تھے تو صحابہ کے لئے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اپنی قربانیوں کو لا ڈالنے کے سوا چارہ نہیں تھا.حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر قربانی کرنے والے اپنی مالی قربانی کو بعض دفعہ غیروں سے چھپانے کی کوشش میں اسے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے.وہاں سے پھر ان کی اس قربانی کو شہرت مل جاتی تھی.ان کی قربانی کو ظاہر کرنے سے غرض یہ ہوتی تھی کہ تادوسرے ان کا تتبع کریں.قومی قربانیوں کا ان کے اظہار کے ساتھ ایک گہرا ربط ہے.یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ قومی قربانیوں میں حصہ لیں اور اسے اس طرح چھپالیں.اور اگر ممکن ہے بھی تو بہت بعید کی بات ہے کہ کسی فرد بشر کو اس کا علم نہ ہو سکے.دوسرا پہلو جو ہے، وہ ذاتی اور انفرادی قربانیوں کا ہے.انفرادی قربانیوں میں بات کو چھپایا جا سکتا ہے.مثلاً جب آپ غرباء، کو، فقراء کو ، قیموں کو ، بیوگان کو کچھ دیتے ہیں تو اخفا کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں.ایک تو یہ کہ آپ ساری دنیا سے چھپا کے دے سکتے ہیں.مگر اس صورت میں کہ جس کو دے رہے ہیں، اس کو پتہ چل جاتا ہے.قرآن کریم نے چونکہ اخفاء کے ساتھ انفرادی قربانیوں کے مضمون کو باندھا ہے، اس لئے صحابہ نے بھی اس کا یہی مطلب سمجھا اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ رات کو چھپ کے نکلتے تھے اور ایسے شخص کو ڈھونڈتے تھے، جو محتاج بھی ہو اور جس کو ضرورت بھی ہو اور اسے پتہ بھی نہ لگے.اب رات کو چھپ کر نکلنا اور یہ فیصلہ کر لینا کہ کوئی شخص ضرورت مند ہے، یہ دو متضاد چیزیں ہیں.چنانچہ ایسے ایسے دلچسپ واقعات رونما ہوئے کہ ایک شخص رات کو نکلا ہے اور صدقہ کسی دولت مند کو دے دیا اور وہاں سے دوڑ پڑا کہ اس کو پتہ نہ چلے.پر 245

Page 255

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وَاِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ کی ایک عجیب تصویر اس وقت کھینچی گئی.اور دوسرے دن باتیں شروع ہو گئیں اور لوگ ہنسنے لگے کہ مدینہ میں آج عجیب واقعہ ہوا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام دنیا سے چھپنے کی خاطر کہ بجز خدا کے کسی کوعلم نہ ہو سکے، رات کو نکلا اور ایک امیر آدمی کو صدقہ دے کر بھاگ گیا.اتنا وقت بھی نہیں دیا کہ وہ شخص کہہ سکے کہ مجھے ضرورت نہیں ہے.پھر وہ بچارہ دوسری رات کو نکلا اور پھر کسی ایسے شخص کو دے دیا، جس کو دینا مناسب نہیں تھا.تین راتیں وہ اسی طرح مسلسل کوشش کرتا رہا اور آخر تک وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ میں نے کسی صحیح آدمی کو دیا بھی ہے کہ نہیں.بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ اس مضمون کو یہاں تک پہنچاتے رہے کہ تخفوها کا مضمون ایسا کامل ہو جائے کہ جس شخص کو دیا جارہا ہے ، اس بھی پتہ نہ لگے مگر بہر حال اکثر اوقات، اکثر صورتوں میں جس کو دیا جاتا ہے، اس کو تو پتہ چل جاتا ہے.چونکہ اللہ جانتا ہے کہ یہ شخص اخفاء چاہتا ہے اور کسی بدلہ کی تمنا نہیں رکھتا، اس لئے خدا تعالیٰ نے اس شخص کے اس پہلو کی حفاظت فرما دی.جب یہ فرمایا کہ فان اللہ یعلمہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے سارے پہلوؤں کو جانتا ہے، اس لئے تم اتنا بھی ترد نہ کیا کرو کہ اخفاء میں حد ہی کر دو اور حد اعتدال سے گزر جاؤ تمہاری نیست چاہئے ، اگر تم چاہتے ہو کہ ریا کاری نہ ہو، اگر تم چاہتے ہو کہ خدا کی خاطر کسی کو دیا جائے تو اپنی نیت کو پاک اور صاف کر لو، پھر اگر کسی کو پتہ بھی چل جائے تو تمہاری قربانی اختفاء کے پردے میں ہی رہے گی.یعنی خدا تعالی جن قربانیوں کو نفی فرماتا ہے، اسی شار میں تمہاری قربانی بھی گردانی جائے گی.وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيَّاتِكُمْ فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری برائیوں کو دور کرتا ہے.جب یہ تین صفات اکٹھی پڑھی جائیں تو اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ انصار الی اللہ کون ہیں اور غیر انصار الی اللہ کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں، جو ظالموں کو نصیب نہیں ہوا کرتے.ساری دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں، اللہ کے نبیوں کے سوا اس قسم کے خرچ کرنے والے کسی کو نصیب نہیں ہوا کرتے.وہ جب کھل کر دیتے ہیں تو اس لئے کھل کر دیتے ہیں کہ قومی قربانیوں میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور اخفاء ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا.اور اس لئے بھی کھل کر دیتے ہیں تا کہ دوسرے لوگوں میں تحریک پیدا ہو اور قوم میں قربانی کا جذبہ پھیلے.صرف اس پر انحصار نہیں کرتے ، پھر وہ چھپ کے بھی دیتے ہیں مخفی طور پر بھی دیتے ہیں تاکہ ان کے دل پر کسی قسم کا زنگ نہ لگ سکے اور ان کی نیتیں دونوں پہلوؤں سے صاف ہو جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو تو اس کا ایک نتیجہ ظاہر ہوگا، 246

Page 256

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَاتِكُمْ کہ انصار، جو فی سبیل اللہ خرچ کرنے والے ہیں، ان کا خرچ و ہیں نہیں رک جایا کرتا بلکہ اس کا کے نتائج پیدا ہوتے ہیں.اس دنیا میں بھی نتائج پیدا ہوتے ہیں اور رضائے باری تعالیٰ کے علاوہ بھی ایک نتیجہ یہ ہے کہ ان کی بدیاں کم ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور نیکیاں بڑھنے لگتی ہیں.یہ ایک عجیب مضمون ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ نیک لوگ، جو خدا کی خاطر خرچ کرتے ہیں، ان کی راہیں ہی الگ ہیں، ان لوگوں سے، جو خدا کے سوا کسی چیز پر خرچ کرتے ہیں.یہ وہ انصار ہیں، جن کے متعلق فرمایا: وماللظالمين من انصار.محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے انصار ملے ہیں، ان کی شکلیں تو دیکھو، یہ بالکل اور چیزیں ہیں.ظالموں کو ایسے انصار نہیں ملا کرتے.تمام دنیا کی قوموں کی مالی قربانیوں کی تاریخ پر نظر ڈالو، ایسے انصار ، جن کا ذکر قرآن کریم فرمارہا ہے، یہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوایا ان انبیاء کے سوا، جو آپ کی متابعت میں درجے پاگئے ، اور لوگوں کو نصیب نہیں ہوا کرتے.جب میں یہ کہتا ہوں کہ متابعت میں درجے پاگئے تو مراد یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ مقصود تھے، اس لئے باقی انبیاء نے بھی انہی اخلاق حسنہ کی پیروی کی ہے، جن کو محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے انتہاء تک پہنچایا.اور اس طرح ان کو بھی اسلام کے ٹکڑے نصیب ہوئے.اس لئے کوئی نبی بھی ان معنوں میں اتباع محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے باہر نہیں رہتا.اور جس نے جو بھی درجہ پایا ہے، اسی اتباع کے نتیجہ میں پایا ہے.پھر فرمایا: والله بما تعملون خبیر.اللہ تمہارے اعمال سے بھی خوب واقف ہے.یعنی نیتوں سے بھی واقف ہے اور جانتا ہے کہ اچھی نیت ہے، پاک نیت ہے، صاف نیت ہے، خدا کی خاطر ہی خرچ کر رہے ہو اور قومی طور پر بھی خرچ کر رہے ہو اور انفرادی طور پر بھی خرچ کر رہے ہو.اور پھر وہ اعمال کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے.کیونکہ باوجود اس نیکی کے تمہارے اعمال میں رخنے بھی ہو سکتے ہیں، کئی لحاظ سے کمزوریاں بھی ہوسکتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ لوگ طعنے دیں کہ چندے تو بڑے دیتا ہے لیکن فلاں کمزوری ہے، چندوں کا کیا فائدہ ہے.اگر فلاں بات میں بدی موجود ہے تو چندوں کا کیا فائدہ ؟ اگر فلاں شخص سے اس کا معاملہ ٹھیک نہیں ہے تو چندوں کا کیا فائدہ؟ چندہ دینے والے کو چندہ نہ دینے والے اس قسم کے بہت طعنے دیا کرتے ہیں.اور پھر دکھاوے کا الزام لگاتے ہیں.کہتے ہیں چھوڑو جی ، چندوں کی خاطر ہی جماعت بنی ہے؟ اور بھی تو نیکیاں ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ تمہارے اعمال کی خبر رکھتا ہے 247

Page 257

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ہفتم اور جانتا ہے کہ ان چندوں کے ساتھ باقی اعمال کا توازن بھی قائم ہونا چاہئے.جتنا تم مالی قربانی میں آگے بڑھو گے، خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ تمہاری اصلاح فرما تا چلا جائے گا.پس یہ ایک دوسرا ثبوت ہے، انصار الی اللہ کا.دوسری صفت ہے ان کی ، دوسری خصلت ہے.اور اس کے نتیجہ میں خدا کا سلوک ان کے ساتھ بہت احسان والا ہے، جو غیر اللہ کی خاطر قربانی کرنے والوں میں نظر نہیں آئے گا.جب وہ بدیوں کی خاطر قربانی دیتے ہیں یعنی بظا ہر قربانی نظر آتی ہے لیکن بد کام کے لئے خرچ کرتے ہیں، غلط نیتوں سے خرچ کرتے ہیں، غلط مقاصد پر خرچ کرتے ہیں ، غلط لوگوں پر خرچ کرتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں اس کا بر عکس منظر آپ کو دکھائی دے گا.ان اخراجات کے بعد ان کے اعمال سدھرتے نہیں بلکہ بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں، ریا کار زیادہ سے زیادہ بڑے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.سوسائٹی میں بظاہر نیک کاموں پر اموال خرچ ہورہے ہوتے ہیں لیکن دن بدن ساری سوسائٹی ریا کاری کا شکار ہورہی ہوتی ہے.اخباروں میں نام اور تصویریں چھپنے کی خاطر لوگوں کے جلسوں میں سب کے سامنے بڑے لوگوں کو چیک پیش کئے جاتے ہیں.لوگوں سے داد لینے کے لئے.اس کے نتیجہ میں وہ گندے مال کی طلب میں اور بڑھ جاتے ہیں.حرام کھانے میں ان کی جھجک پہلے سے بھی زیادہ اٹھ جاتی ہے.دو مختلف مضمون ہیں، دو مختلف رخ ہیں.ایک وہ انصار ہیں، جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئے اور آپ کے بعد آپ کی غلامی میں آپ کے اور نمائندگان کو بھی ہمیشہ کے لئے عطا ہوتے رہیں گے.اور ایک وہ انصار ہیں، جو غیر اللہ کے لئے خرچ کرتے ہیں، غیر مقاصد کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان کے اعمال بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں.جو پہلا گروہ ہے، ويكفر عنكم من سياتكم کا وعدہ ان کی ذات میں پورا ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے.اور دوسرے خرچ کرنے والوں کے اعمال بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں.چنانچہ فرمایا : والله بما تعملون خبیر تمہارے ہر عمل پر چونکہ خدا کی نظر ہے، اس کو پتہ ہے کہ تمہارے اعمال کے کس حصہ میں کمی واقعہ ہوئی ہے اور اسے سدھارنا ضروری ہے.اس لئے تم مطمئن رہو، اصلاح کرنے والے تو ہم ہیں.اس کے ساتھ ہی فرمایا:.لَيْسَ عَلَيْكَ هُدبُهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے ہادی تھے.لیکن یہاں فرمایا: لیس علیک هدهم ان لوگوں کو ہدایت دینا تیری ذمہ داری نہیں ہے.ولكن الله يهدي من يشاء اللہ جس کو چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے.اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوسکتا کہ نعوذ باللہ من ذالک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بادی 248

Page 258

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء ہونے کے مقام سے ہٹایا جارہا ہے.مراد یہ ہے کہ تو ہادی ہے لیکن اس کے باوجود دلوں کی باریکیوں تک تیری نگاہ نہیں ہے، اعمال کی باریکیوں تک تیری نگاہ نہیں ہے.جو نیکی کرتا ہے، تجھے دکھائی دے گا تو تو اس کے لئے دعا کرے گا، اس کے ساتھ حسن سلوک کرے گا.لیکن اللہ تعالیٰ، جو پس پردہ انسانی نیتوں کی خبر رکھتا ہے، جو اعمال کی نیتوں اور ان کی کنہ سے واقف ہے.اور پھر اعمال کی تفصیلات پر جس کی نظر ہے.اور پھر ہر انسان کے اعمال پر اس کی نظر ہے، وہ اختیار رکھتا ہے کہ اگر چاہے تو ان کو درست کر دے.یعنی کام تو تیرا ہے، لیکن کرنا اللہ نے ہے.بادی تجھے بنایا ہے لیکن ہدایت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے.تاکہ تجھ پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ بنے.اس لئے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا فیض ، جو لوگوں تک پہنچتا ہے، اس فیض کو خدا خود لوگوں تک پہنچا تا ہے.خدا فرمارہا ہے کہ بادی تو ، تو ہے، لیکن ہدایت دینا ہمارا کام ہے، اس کی ذمہ داری ہم نے اٹھالی ہے.وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلاَ نْفُسِكُمُ کہ کر پھر اس مضمون کو کھول دیا کہ جو کچھ تم اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، اپنے لئے خرچ کرتے ہو، یعنی پہلی آیت نے تو یہ ظاہر کیا تھا کہ بس بات یہاں ہی ختم ہو گئی.جس کی خاطر خرچ کرنا تھا، اس کو پہنچ گیا.وہ جانتا ہے، اس کو خوب علم ہے، اس لئے تم راضی ہو کر لوٹ آئے.دنیا کے معاملات میں یہی ہوا کرتا ہے، وہ تحفہ ، جو رضا کی خاطر دیا جاتا ہے، اس تحفہ میں جب اس شخص کو پہنچ جائے ، اس کو علم ہو جائے تو مضمون و ہیں ختم ہو جایا کرتا ہے، رضا حاصل ہوگئی.تو فرمایا: رضا تو تمہیں حاصل ہو گئی تھی ، اس کے علاوہ بھی مالی قربانیوں میں بہت فائدے ہیں.ایک یہ کہ خدا تمہاری اصلاح کا بیڑا اٹھا لیتا ہے، اصلاح کی ذمہ داری قبول فرمالیتا ہے.اور ہر خرچ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ تمہیں ایک نیا حسن عطا کرتا ہے.چنانچہ یہ جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہو عملاً تم اپنے لئے خرچ کر رہے ہو.لیکن ساتھ ہی فرمایا:.وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ اللهِ تمہاری نیست یہ نہیں ہوتی کہ تم ٹھیک ہو، خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ تمہاری نیست یہی رہتی ہے کہ اللہ کی رضا حاصل ہو.اس لئے جب یہ نیت ہوگی کہ خدا کی رضا حاصل ہو تو اس کے طبعی نتیجہ میں تمہاری اصلاح ہو رہی ہوتی ہے.اور اگر تم یہ نیت رکھو کہ مجھے کوئی فائدہ حاصل ہوگا تو نہ تمہیں رضا حاصل ہوگی اور نہ کوئی فائدہ حاصل ہوگا.اس لئے دوبارہ توجہ دلا دی کہ ہم یہ تو تمہیں بتا رہے ہیں کہ فائدہ تمہیں ہی پہنچے گا لیکن خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے کبھی بھی اپنے فائدہ کی نیت پیش نظر نہ رکھنا.کیونکہ یہ فائدہ تمہیں تب پہنچے گا، جب تمہاری نیست رضائے باری تعالیٰ کے حصول کے سوا اور کچھ نہیں ہوگی.249

Page 259

خطبہ جمعہ فرمودہ 25اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ اب جا کر یہ مضمون مکمل ہو جاتا ہے.فرمایا: صرف یہی نہیں بلکہ جو تم خرچ کرتے ہو، اسے تمہیں لوٹا بھی دیں گے.يُوَفَّ إِلَيْكُمُ میں لفظ بوف بھر پور لوٹانے کا مضمون ادا کرتا ہے.بظاہر تو یہ ہے کہ جتنا تم دے رہے ہو، اتنا تمہیں پورا پورا واپس کیا جائے گا.لیکن یہ مراد نہیں ہے.يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ نے اس مضمون کو کھول دیا ہے.جب نفی میں کہا جائے کہ تمہیں نقصان نہیں ہوگا یا یہ نقصان کا سودا نہیں تو اس کا مثبت معنی ہوا کرتا ہے کہ بہت فائدے کا سودا ہے.یہ ایک طرز کلام ہے، جو ہر زبان میں پائی جاتی ہے.وَانتُمْ لَا تُظْلَمُون کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جتنا تم سے خدا نے لیا تھا بالکل اسی طرح پائی پائی واپس کر دے گا.مراد یہ ہے کہ جب تم خدا کے ساتھ سودے کرتے ہو تو گھاٹے کے سودے نہیں ہوا کرتے، کسی قیمت پر بھی خدا تمہیں زیاں کا احساس نہیں رہنے دے گا.اب بتائیے کہ کیا یہ انفاق فی سبیل الله حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار کو باقی سب دنیا کے خرچ کرنے والوں سے ممتاز کر دیتا ہے کہ نہیں کر دیتا؟ ایسے سودے تو رسولوں کے ماننے والوں کے سوا اور ان کے متبعین کے سواد نیا کی کسی قوم کو نصیب ہوا ہی نہیں کرتے.یہ وہ امتیازی شان ہے، جو بتا رہی ہے کہ وما للظالمين من انصارا اگر کسی دعویدار کو ایسے لوگ نصیب ہو جائیں، جن کے خرچ کی ایسی ادائیں ہوں ، جن کی یہ خصلتیں ہوں ، جن کے ساتھ خدا کا پھر یہ سلوک ہو کہ ان کے اعمال بھی ساتھ سدھر رہے ہوں اور ان کے اموال بھی کم نہ ہور ہے ہوں بلکہ بڑھ رہے ہوں.اس دنیا میں بھی ان کو پہلے سے بڑھ کر عطا ہورہا ہو.ایسے لوگ دکھاؤ کہ غیروں میں بھی کہیں ملتے ہیں.یہ ہے اعلان آیت کا ، یہ ہے وہ چیلنج، جس کو دنیا کی کوئی قوم بھی قبول کرے تو اس کو ثابت نہیں کر سکتی.ایسی عظیم الشان ایک امتیازی شان ہے انبیاء کی ، جس کو ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کے ماننے والے پھر ان شکلوں کے ہو جاتے ہیں، ان صفات کے ہو جاتے ہیں، ان انعامات کے مورد بن جاتے ہیں، خدا تعالیٰ سے یہ یہ رحمتیں ان کو نصیب ہوتی ہیں، یہ یہ فضل عطا کئے جاتے ہیں.آج جماعت احمدیہ کی تصویر ان آیات میں موجود ہے.لاکھ دنیا شور مچائے، چیخنے چلائے، گالیاں دے ہتہمتیں باندھے، ظلم و ستم کا بیڑا اٹھائے ، مگر یہ تین آیات کا جو مضمون ہے، یہ جماعت احمدیہ سے چھین نہیں سکتی.ایسی امتیازی شان ہے جماعت احمدیہ میں یہ کہ ہر پہلو سے خدا کے فضل کے ساتھ یہ مضمون جماعت احمدیہ کے اوپر پورا اتر رہا ہے.خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے جانتے ہیں، ان کی 250

Page 260

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اصف اولادیں جانتی ہیں، ان کی اولاد در اولاد جانتی ہے کہ جن لوگوں نے بھی خدا کی خاطر کچھ خرچ کیا تھا، اس سے بہت بڑھ کر کوئی نسبت ہی نہیں چھوڑی خدا نے اتنا بڑھ کر ان کو پھر عطا فرمایا.ان کو عطا کیا، پھر ان کی اولادوں کو عطا کیا.اور بعض دفعہ فوری طور پر ایمان اور اخلاص بڑھانے کے لئے گن کے بھی اتنا دے دیا کہ یہ خیال نہ ہو کہ شاید ویسے ہی ہمیں مل رہا ہے.چنانچہ بعض دفعہ کیا، بڑی کثرت کے ساتھ ایسی مثالیں ہیں اور مجھے احمدی مخلصین لکھتے رہتے ہیں کہ عجیب شان ہے خدا تعالیٰ کے پیار کی کہ پیسہ کوئی نہیں تھا، ایک ہزار پونڈ ہم نے دوسرے مقصد کے لئے رکھا ہوا تھا، وہ ہم نے خرچ کر دیا اس میں.اور بعینہ اتنی رقم ایک ایسے رستہ سے عطا ہو گئی ، جس کا ہمیں تصور بھی نہیں تھا، وہم بھی کوئی نہیں تھا.اسی طرح پاکستان کے اور دوسرے ممالک کے دوست، جو مالی قربانی ابتغاء وجه الله کرتے ہیں، ان کے ساتھ خدا یہ سلوک فرماتا ہے.لیکن یہ سلوک جو ہے، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، صرف یہ ظاہر کرنے کی خاطر ہے کہ ایک مقتدر خدا ہے، جو بالا رادہ یہ فعل کر رہا ہے.تمہیں سمجھانے کی خاطر کہ جس نے یہ وعدہ کیا تھا ، یوف اليكم و انتم لا تظلمون، وہ وعدے پورے کر رہا ہے.لیکن ہرگز یہ مراد نہیں کہ وہاں بات کو چھوڑ دیتا ہے.اکثر صورتوں میں اتنا عطا فرماتا ہے کہ وہ پھر کاؤنٹ (Count) ہی بھول جاتا ہے، اس کی گفتی بھول جاتا ہے.اور بعض دفعہ اولادیں بدقسمتی سے یہ بھول جاتی ہیں کہ یہ ہمارے ماں باپ کی قربانیاں تھیں، جن کا پھل ہمیں نصیب ہو رہا ہے.تو ساری د نیاز ور لگا کے دیکھ لے، ایسا بن کے دکھا دے، یہ تو کھلا چیلنج ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلاموں کے سوا آج کوئی نہیں ہے دنیا میں ، جس کے اندر یہ تین آیات کا مضمون عملی زندگی میں نظر آرہا ہو.کتنا عظیم الشان مقام ہے، اللہ خرچ کرنے والوں کا.اور کتنا بڑا احسان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کہ اس زمانے میں ہمیں صحابہ کی خصلتیں عطا فرما دیں.چودہ سو سال دور بیٹھے ہوئے لوگوں کو مختلف قوموں کے لوگوں کو مختلف نسلوں کے لوگوں کو مختلف ملکوں کے لوگوں کو، مختلف براعظموں کے لوگوں کو، ساری دنیا تک حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیض پہنچا دیا، جس کا ان تین آیات میں ذکر چل رہا ہے ، پس بڑی خوش نصیبی ہے.تحریک جدید کی جو تحریک حضرت مصلح موعود نے 1934ء میں فرمائی تھی ، اس کے ساتھ بھی خدا تعالٰی کا یہ سلوک ہو رہا ہے.ایک اور رنگ میں بھی اللہ تعالیٰ کا سلوک أَضْعَافًا مُضْعَفَةً (آل عمران: 131) | 251

Page 261

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد هفتم ہوا کرتا ہے.ایک طرف تو ہر فرد بشر کے ساتھ ، جو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، خدا کا یہ سلوک اس کے اموال میں برکت دیتا چلا جاتا ہے.دوسری طرف اجتماعی طور پر وہ جماعت، جو خدا کی خاطر خرچ کرتی ہے، اس کے چندوں میں، اس کے اموال میں برکت دیتا چلا جاتا ہے.تحریک جدید نے جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کیا ، ہر آئندہ سال اس سے بہت بڑھ کر خدا تعالیٰ نے پھر عطا کر دیا.اور یہ سلسلہ حیرت انگیز طور پر مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا ہے.جب پچاسواں سال تحریک جدید کا تھا، اس وقت میں نے اعلان کیا کہ خدا کرے، ایک کروڑ تک پہنچ جائے وہ تحریک، جو ایک لاکھ کے قریب چندے سے شروع ہوئی تھی.اب پچاس سال ہو چکے ہیں، ایک کروڑ تو ہونا چاہئے ، اس کو.چنانچہ اسی سال اگر چہ وعدے کم تھے لیکن عملاً وصولی ایک کروڑ ہوگئی تھی.اور اب اس سال کے جو وعدے ہیں، وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اندرون اور بیرون کے ملا کر.ایک کروڑ ، اکیس لاکھ ستاون ہزار (1,21,57,000:RS) کے ہیں، جو سال گزرا ہے.تحریک جدید سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ پاکستان کے متعلق ان کی کوشش تھی اور میری بھی یہی خواہش تھی کہ پچاس لاکھ تک وصولی پہنچ جائے گی.لیکن وعدے ابھی تک صرف چوالیس لاکھ، میں ہزار 20,000, 44:RS) کے مل سکے ہیں.لیکن ساتھ ہی وہ لکھتے ہیں کہ عملاًا تحریک جدید کے ساتھ یہ ہورہا ہے کہ وصولیاں وعدوں سے ہمیشہ آگے بڑھتی ہیں.چنانچہ گزشتہ سال اثر نمیں لاکھ کے وعدے تھے تو چالیس لاکھ سے زیادہ وصولی ہوئی تھی.اور اب ان کا خیال ہے کہ چوالیس لاکھ کے وعدے ہیں اور ان کی دعا اور توقع بھی یہی ہے، خدا کرے ایسا ہی ہو کہ پاکستان کی وصولیاں انشاء اللہ تعالیٰ پچاس لاکھ سے آگے نکل جائیں گی.تو یہ باونواں (52 واں سال ہمارے لئے ایک مزید یقین کا سال ہے.خدا کے وعدوں کو ہم بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں.اور ہر سال دیکھ رہے ہیں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی.ہر قدم جماعت کا ہر قسم کے مشکل حالات میں آگے کی طرف اٹھ رہا ہے.پاکستان کے جو حالات گزر رہے ہیں، ان کے باوجود وعدوں میں اضافہ تھا اور سال گزشتہ کے مقابل پر آج تک کی وصولی میں بھی اضافہ ہے.جس سے ان کی توقع یہ بعید از قیاس نہیں کہ پوری ہو بلکہ مجھے امید ہے، انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہو جائے گی.چوالیس کی بجائے انشاء اللہ پچاس لاکھ تک وعدے پہنچ جائیں گے.اور بیرون پاکستان میں ستر لاکھ، چھتیس ہزار نو سو نوے (77,36,990 :RS) کے وعدے بھی میں سمجھتا ہوں آگے بڑھ جائیں گے، وصولی کے لحاظ سے.کیونکہ اب تک بیرون پاکستان کی وصولی کا تناسب پاکستان کی وصولی کی نسبت زیادہ بہتر ہے.252

Page 262

تحریک جدید- ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء جماعتوں کو اب توجہ بھی پیدا ہورہی ہے تحریک جدید کے چندہ کی طرف.اس سے پہلے کیونکہ چندہ عام اور وصیت اور بعض دیگر چندے تحریک جدید کے چندے کے مقابل پر بہت زیادہ آگے بڑھ گئے تھے، اس لئے تحریک جدید کے چندے کو یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اب یہ زوائد میں سے ہے.حالانکہ عملاً یہ بات نہیں ہے.یہ جتنے چندے بڑھے ہیں، یہ سب تحریک جدید کے چندے کے بچے ہیں.تحریک جدید کے چندے نہ ہوتے، ان غریب قادیان والوں نے اور ہندوستان کی جماعتوں نے بکریاں بیچ بیچ کر اور کپڑے بیچ بیچ کر اور روپیہ، دوروپے اکٹھے کر کے مہینوں میں اگر نہ دیئے ہوتے تو آج کروڑوں تک بجٹ پہنچ نہیں سکتا تھا.اس لئے جو اصل ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے، اس کو قائم رکھنا ضروری ہے.جتنے چندے یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور دیگر جماعتوں میں اس وقت آپ کو نظر آرہے ہیں، یہ سارے تحریک جدید کے ان چندوں کی برکتیں ہیں، جو آغاز میں دیئے گئے تھے اور بڑی خاص دعاؤں کے ساتھ دیئے گئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ بھی شامل تھے، اول درجے کے تابعین شامل تھے، مہاجرین الی اللہ شامل تھے، جو افغانستان سے یا دیگر جگہوں سے وہاں آکر بس گئے تھے.ایک عجیب ماحول تھا اس وقت تقویٰ اور نیکی کا.جس رنگ میں وہاں چندے دیئے جاتے تھے، وہ ایک ایسا منظر ہے کہ شاذ و نادر کے طور پر تاریخ میں اس قسم کے مناظر آیا کرتے ہیں.کئی کئی مہینوں کی تنخواہیں انجمن کے غریب کارکن دے دیا کرتے تھے.آج بھی یہ مناظر پھیل رہے ہیں ساری دنیا میں.بڑے حسین نقوش ظاہر ہو رہے ہیں احمدیت کی برکت سے.لیکن ان کا آغاز وہیں سے شروع ہوا ہے، قادیان سے.اس کو بھلانا نہیں چاہئے.اور تحریک جدید نے جو کر دار ادا کیا ہے اس عظیم الشان مالی قربانی کی رغبت پیدا کرنے میں اسے ہم کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کر سکتے.بہر حال اب جو شکل ہے، وہ یہ ہے کہ تحریک جدید کا چندہ تو ایک کروڑ ، اکیس لاکھ یا اس سے کچھ زائد ہوگا.لیکن بجٹ تیرہ کروڑ سے زائد ہو چکا ہے.اور تحریک جدید گویا کہ قریباً تیرھواں حصہ یا کچھ زائد اس سے پوری جماعت کے اخراجات میں حصہ لینے کی توفیق مل رہی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، یہ سارے فیوض تحریک جدید کے چندے کے ہی فیوض ہیں اور اس کو ضرور آگے بڑھانا چاہئے.مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ ہزار ہا احمدی بچے بڑے ہو کر اس لئے مالی قربانیوں میں شامل ہوئے کہ بچپن میں ان کی ماؤں نے ان کو تحریک جدید کے نظام میں شامل کر دیا تھا.یہ بہت ہی دیر پا اثرات ہیں، جو تحریک جدید کے چندوں کے ظاہر ہوئے.آج جو نسلیں قربانیوں میں آگے بڑھ رہی ہیں، ان میں ایک 253

Page 263

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ہفتم بہت بڑا طبقہ ایسا شامل ہے، جن کو آغاز میں تحریک جدید سے مالی قربانی کے چسکے پیدا ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسا چسکا پڑ گیا کہ پھر وہ رہ ہی نہیں سکتے تھے، چندوں کے بغیر.اس لئے تحریک جدید کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے.اسے ضرور زندہ رکھنا چاہئے.اس کی برکتیں قیامت تک جاری رہیں گی اور قیامت تک اسے یاد بھی رہنا چاہئے.یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ آئندہ جا کے ارب ہا ارب روپے چندہ عام اور وصیت کے وصول ہوں گے، اس لئے تحریک جدید کے چندے کو نظر انداز کر دیا جائے.میں نے تو اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا اور الحمد للہ کہ اب اس کی طرف توجہ بھی پیدا ہو رہی ہے کہ نہ صرف تحریک جدید کو زندہ رکھا جائے بلکہ تحریک جدید کے اول دفتر کے قربانیاں کرنے والوں کے چندوں کو بھی قیامت تک جاری رکھا جائے.اور اس کی اصل وجہ یہی تھی کہ وہ سارے ہمارے محسن ہیں، جن کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے جماعت کو اتنی برکتیں عطا فرما ئیں اور جن کی نیکیاں پھر آگے بڑھ رہی ہیں، بڑی کثرت کے ساتھ ان کی اولادوں میں بھی اور دوسروں میں بھی.تو نہ صرف تحریک کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھنا ہے اور آگے بڑھانا ہے بلکہ ان اولین قربانی کرنے والوں کی یادوں کو بھی زندہ رکھنا ہے، ان کی قربانیوں کو بھی زندہ رکھنا ہے.الحمد للہ کہ اس دفعہ جو اطلاع ملی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ تحریک جدید نے اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ کی اور کافی اخبارات میں بھی اعلان کروائے اور دیگر جماعتوں سے خط وکتابت کے ذریعے رابطے کئے تو انہوں نے بتایا کہ سات سو کھاتے پھر دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں، اس سال خدا کے فضل سے.یعنی سات سو ایسے چندہ دینے والے، جن کی وفات کے ساتھ چندے بند ہو گئے تھے، ان کے ورثاء تک جب یہ باتیں پہنچیں، ان کو تلاش کر لیا گیا تو انہوں نے اس وقت سے لے کر جب سے چندے بند تھے ، آج تک کے سارے سالوں کے چندے بھی ادا کر دیئے اور آئندہ کے لئے عہد کیا کہ ہم ہمیشہ انشاء اللہ خود بھی دیتے رہیں گے اور اپنی اولادوں کو بھی نصیحت کرتے چلے جائیں گے.ان کا چندہ کسی صورت میں بند نہیں کرنا ، یہ اولین خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں.تم کروڑوں بھی دو تو ان آنوں کے مقابل پر تمہاری حیثیت نہیں ہو سکتی ، جو تقویٰ کے خاص مقام اور خاص معیار کے ساتھ خدا کے حضور پیش کئے گئے تھے.اس لئے ان اولین کے نام کو انشاء اللہ مرنے نہیں دیں گے.یہ عہد کرتے ہیں، یہ توقع رکھتے ہیں اور اپنی آئندہ نسلوں سے کہ وہ ہمارے اس عہد کو پورا کرنے میں ہماری مدد کرتے رہیں گے ہمیشہ.اب میں نے تحریک کو ہدایت کی ہے کہ مزید تلاش کریں اور مزید محنت کریں.بیرونی دنیا میں ابھی تک اس طرف (یعنی بیرونی دنیا سے مراد ہے، پاکستان کے علاوہ جو اکثر دنیا و باہر کی دنیا ہے، اس لحاظ 254

Page 264

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء سے اکثر دنیا میں ابھی تک اس طرف پوری توجہ نہیں دی گئی اور اکثر لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ ہمارے بزرگ کون تھے، جن کے چندے اتنے تھے اور پھر وہ اچانک ان کی وفات سے بند ہو گئے.اس لئے ان کو میں نے کہا ہے اب کہ ساری دنیا میں فہرستیں بھجوائیں اور جماعتوں کو ہدایت کریں کہ وہ مختلف اخباروں میں بار بار اعلان کروائیں، جو مقامی اخبار چھپتے ہیں.خصوصاً پاکستانیوں کو تلاش کر کے ان تک وہ فہرستیں پہنچائیں اور کہیں کہ ان میں نام تلاش کرو.تمہارے آباؤ اجداد میں سے تو کوئی ایسا نام نہیں، جس کی وفات کے ساتھ اس کی یہ نیکی بھی بظاہر مرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہو.اور پھر عہد کرو کہ ان کی طرف سے ہم نے اس چندے کو ہمیشہ کے لئے جاری کرنا ہے.امید ہے کہ انشاء اللہ مزید کوشش سے ایک، دو سال کے اندر ہر کھاتے کو زندہ کر دیا جائے گا.اور جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا، انشاء اللہ اس وعدے پر قائم ہوں جتنی خدا نے مجھے توفیق دی ، جن کھاتوں کا کوئی والی وارث نہ ملا، وہ میری طرف منتقل کر دیئے جائیں، انشاء اللہ میں پوری کوشش کروں گا، اپنی اولاد کو بھی نصیحت کروں گا کہ ان کھاتوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں.چونکہ اس وقت روپے تھوڑے ہوتے تھے، ان کی قیمت بہت زیادہ تھی.اخلاص کے لحاظ سے ان کا مقام بہت بلند تھا.لیکن بہر حال تھوڑے تھے نظر آنے کے لحاظ سے.اس لئے اتنا مشکل کام نہیں ہے.یعنی آج کل کے معیار کے لحاظ سے اگر اس وقت کوئی پانچ روپے دیتا تھا تو بہت بڑی چیز تھی ، آج ہزار بھی دے تو اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں ہے.تو ہزار آدمیوں کا کھانہ زندہ کرنے کے لئے پانچ ہزار روپے سالانہ چاہئیں.اور اس سے کئی گنا زیادہ چندہ دینے والے خدا کے فضل سے جماعت میں موجود ہیں.تو اگر اس طرح کے کھاتے زندہ کرنے ہوں تو ہزار نام تو آسانی کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ میں عہد کروں گا کہ ضرور پورا کروں.باقی احباب بھی توجہ کریں گے تو انشاء اللہ یہ سارے کھاتے زندہ ہو جائیں گے.خدا کے حضور ہمیشہ کے لئے تو پہلے ہی زندہ ہیں، مگر ان کی یادیں بھی زندہ ہوں گی ، ان کے لئے دعاؤں کی تحریکیں بھی زندہ ہوں گی.اندازہ لگائیں آج سے ہزار سال کے بعد قادیان کے یا ہندوستان کے وہ چند چندہ دینے والے ایسے ہوں گے، جن کے نام پر چندے دیئے جا رہے ہوں گے.ایک عجیب بے نظیر بات ہوگی.حیرت سے دنیا ان لوگوں کو دیکھے گی کہ جن کے کھاتے ان کی وفات سے ہزار سال بعد بھی زندہ ہیں اور چلتے چلے جارہے ہیں اور کبھی نہیں مرتے.اور پھر ان کے لئے دعاؤں کی تحریکیں بھی پیدا ہوں گی.جماعت کی جو قربانیوں کا معاملہ ہے، یہ تو اتنا وسیع مضمون ہے کہ اس خطبہ میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کا حق ادا کیا جاسکے.مجھے زبانی پچھلے سال سے لے کر اب تک کی باتیں یاد ہیں قربانی کی، 255

Page 265

خطبہ جمعہ فرموده 125 اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم وہی بہت وسیع ہیں.حیرت انگیز رنگ میں جماعت کے بچے، عورتیں، بوڑھے، جوان قربانیاں پیش کر رہے ہیں.میں ان کا ذکر بھی کر دیتا رہا ہوں، جماعت کے علم میں آئے اور تحریک پیدا ہو.اور بعض دفعہ ذکر نہیں بھی کرتا تا کہ اخفاء کا حق بھی پورا ہو جائے.کیونکہ اگر مسلسل ذکر کیا جائے تو اس سے بعض کمزور طبیعتوں میں یہ رحجان بھی پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھیں کہ بڑی شہرت ہورہی ہے، ایسی قربانیوں کی ، ہم بھی قربانیاں کریں اور ہمارا نام بھی نمایاں طور پر لوگوں کے سامنے آئے.اگر چہ میں نام لینے سے عموماً احتراز کرتا ہوں مگر پھر بھی وہ لوگ نمایاں ہو جاتے ہیں اور اس بات کا رحجان پیدا ہوسکتا ہے.تو مجھے احتیاط کرنی پڑتی ہے.کبھی دل چاہتا ہے کہ کثرت سے ان قربانیوں کا ذکر کروں جماعت میں مشتہر ہوں اور نئی تحریکیں دلوں میں پیدا ہوں.کبھی اخفاء سے بھی کام لینا پڑتا ہے تا کہ آیت کے اس مضمون کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ اگر تم اس کو چھپاؤ گے تو فھو خیر لکم یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہوگا.کیونکہ اصلاح نفس کے لحاظ سے چھپی ہوئی قربانی کا درجہ کھلی قربانی کے مقابل پر زیادہ ہوتا ہے.تو اس وقت میں ان کا ذکر نہیں کرتا، وقت کے لحاظ سے بھی اور ویسے بھی.مگر یہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بچے کیا اور بوڑھے کیا اور عورتیں کیا اور مرد کیا، اس کثرت کے ساتھ ایسی عظیم الشان قربانیاں دے رہے ہیں کہ بعض دفعہ ان کے خطوط پڑھتے ہوئے بے اختیار آنسو چھلکنے لگتے ہیں.دل سے دعائیں نکلتی ہیں ان لوگوں کے لئے ، رشک آتا ہے ان پر کہ کیسی غربت کے حالات میں کیسی تنگی کے حالات میں محض ابتغاء وجه الله خدا کے چہرے کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، خدا کے نام پر قربانیاں دیتے چلے جارہے ہیں اور نہیں تھکتے.حیرت انگیز جماعت ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے.کوئی اس کی مثال نہیں ہے.اللہ تعالیٰ اس جماعت کو ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر ترقیات کے مقام پر فائز فرما تا چلا جائے.قدم آپ نے اٹھانے ہیں لیکن فائز اللہ فرمائے گا.قدم آپ نے اٹھانے ہیں لیکن مراتب اللہ کی طرف سے نصیب ہوں گے.اس لئے اپنی نیتوں کو صاف کر کے خدا کی طرف بڑھتے رہیں.مالی قربانیوں میں پہلے سے زیادہ ارادے باندھیں.اگر توفیق نہیں ہے تو نذر کے پہلو کو یاد رکھیں.یہ عجیب مضمون ہے، عجیب شان ہے اس آیت کی کہ جتنا آپ غور کریں، اس کا مضمون پھیلتا چلا جاتا ہے، ہم نہیں ہوتا.نذر کا مضمون ان غریبوں کے لئے بیان ہو گیا، جن کو وقتی طور پر توفیق نہیں ہے تمنا ئیں لئے پھرتے ہیں دلوں میں.فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب : 24) 256

Page 266

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1985ء یہ اسی قسم کا مضمون ہے، جو یہاں بیان ہو گیا کہ تم میں سے بعض ایسے ہیں، جو خوش نصیب ہیں، ان کو بڑی بڑی عظیم الشان قربانیوں کی توفیق مل گئی.ایسے ایسے احمدی آج دنیا میں ہیں کہ جن کو، ایک ایک آدمی کو خدا کے فضل سے ایک ایک کروڑ روپیہ عمل جماعت کے لئے پیش کرنے کی پچھلے ایک دو سالوں میں توفیق ملی ہے.کسی زمانے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے تھے.ساری جماعت کا چندہ بھی ایک کروڑ نہیں ہوتا تھا.لیکن ایک چندہ پر دوسرا چندہ حیرت انگیز طریق پر اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی ہے بعض کو کہ ان کا چندہ پچھلے چند سالوں کے اندر ایک کروڑ کے قریب پہنچ گیا تو بعض لوگ جب اس کو پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں تو ان کے دل میں تمنائیں پیدا ہوتی ہیں.مثلاً جب میں نے بتایا کہ ہم نے ایک قرآن کریم طبع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو خدا نے ایک آدمی پیدا کر دیا کہ سارا خرچ میں دوں گا.دوسرے کا فیصلہ ہوا تو ایک اور آدمی پیدا کر دیا.تیسرے کا فیصلہ ہوا تو خدا نے ایک اور پیدا کر دیا.یعنی قرآن کریم کے تراجم ابھی مکمل نہیں ہوتے کہ خدا تعالیٰ آدمی بھیج دیتا ہے کہ اس کا خرچ تو وہ اٹھا لے گا.تو بعض جماعتوں کی طرف سے بعض افراد کی طرف سے بڑی دردناک چٹھیاں آنی شروع ہوئیں، اللہ ان کو جزاء دے کہ ہمارے دل کا عجیب حال ہے.ایسی بے قرار تمنا پیدا ہوئی ہے، برداشت نہیں کر سکتے ، کاش خدا ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم بھی ایک پورے قرآن کریم کے ترجمے کا خرچ اٹھائیں.ایک، دو کی بات نہیں ہے، بیسیوں ایسے دوست ہیں، جن کے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ تمنا تڑپا دی ہے ان کے دلوں میں اور بعض جماعتوں نے پھر پیش بھی کر دیا.چنانچہ لیبیا کے احمدیوں نے اس معاملہ میں پہل کی اور مجھے لکھا کہ ہم میں سے ایک آدمی تو نہیں ہے ایسا لیکن آئندہ ترجمہ قرآن کریم جو شائع ہونے والا ہے، اس کے لئے ہم عہد کرتے ہیں، سارے لیبیا کی جماعت کے دوست کہ ہم دیں گے.اور یہ وہ مضمون ہے، جو اس آیت نے چھیڑ دیا:.أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَّذْرٍ یعنی تم جو نذریں باندھتے ہو.نذروں کی کئی قسمیں ہیں.ایک قسم یہ بھی ہے کہ دل میں ایک تمنا لے کے بیٹھ جاتے ہو کہ کاش ہمارے پاس ہو تو ہم یہ خرچ کریں.تو فرماتا ہے کہ اللہ اس کو بھی نظر انداز نہیں کرتا.ایسی نذریں بھی موجود ہیں، جو بظاہر پوری نہیں بھی ہوں گی تو خدا کے حضور پوری ہو چکی ہوں گی.ایسے مالک سے سودا ہے.کتنا عظیم الشان سودا ہے ! کوئی نظیر کسی اور سودے میں نظر نہیں آسکتی.جس کو 257

Page 267

خطبہ جمعہ فرمودہ 25اکتوبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم آپ نے بات پہنچائی تھی، فرمایا: پہنچ گئی.فرمایا: جس کو تم خرچ نہیں کر سکتے ، وہ بھی قبول ہو گیا میرے حضور اور ہر حال ، ہر صورت سے میں واقف ہوں.پھر میں اسے تمہاری طرف لوٹانا شروع کرتا ہوں، تمہاری اصلاح کے ذریعے ، جو کچھ تم خرچ کر رہے ہو.گویا اپنی ذات پر خرچ کر رہے ہو.پھر میں واپس بھی کر دیتا ہوں اور سارا اجرا بھی باقی پڑا ہوا ہے، جو آخرت میں تمہیں عطا کروں گا.اس کا اس اجر کے ساتھ ان معنوں میں کوئی تعلق نہیں کہ اس کھاتے میں سے نفی ہو رہا ہو کچھ.یہ سودے ہیں، جو آج خدا کے فضل سے جماعت کر رہی ہے.جب اس پہلو سے دیکھیں ،سعادتیں ہی سعادتیں ہیں..کتنا عظیم احسان ہے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ ایسے لوگ پیدا کئے ، جو نہ ختم ہونے والے لوگ ہیں.اور اس ظالمانہ دور میں پھر ان کو دوبارہ پیدا کر دیا، حضرت مسیح موعود کے ذریعے.یہ قوت قدسی اس مز کی نفس کی ہے، جسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.پس درود بھی بھیجیں بے شمار، کثرت کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی اور ان نیک لوگوں پر بھی سلام بھیجیں، جن کو خدا تعالیٰ قربانیوں کی توفیق عطا فرما رہا ہے.اور ان کے لئے بھی دعائیں کریں، جن کے دل میں نذریں پیدا ہورہی ہیں اور خدا کی ان پر نظر ہے اور توفیق کے لئے دعا مانگیں کہ خدا تعالیٰ ان کو اپنی دلی تمنائیں پوری کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.اس موقع پر دفتر چہارم کا اعلان کرنا تھا.(حضور نے اس پر استفسار فرمایا ) کتنے سال کے بعد دفتر کا اعلان ہوتا ہے؟ انیس سال کے بعد تو یہ بیسواں سال ہے؟ میں ہو چکے ہیں، ہمیں سال گزر چکے ہیں، دفتر سوئم پر اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم دفتر چہارم کا اعلان کریں.اس دفتر سے مراد یہ ہے کہ ہر نئی نسل جو ہیں سال کے بعد پیدا ہو کر بڑی ہو رہی ہے یعنی پورا میں سال کے عرصہ میں کامل بلوغت تک پہنچ جاتی ہے، ان کے لئے نئے کھاتے شروع ہو جائیں اور نئے سرے سے نئی فہرستیں تیار ہوں.خاص طور پر پاکستان سے باہر بھی بہت گنجائش ہے، تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد بڑھانے کی.اس لئے آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ اور اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق دفتر چہارم کا بھی اعلان کرتا ہوں.آئندہ سے جو بھی نیا چندہ دہندہ تحریک میں شامل ہوگا ، وہ دفتر چہارم میں شامل ہوگا.باہر کی دنیا میں خصوصیت کے ساتھ بچوں کو، نئے احمدیوں کو ، نئے بالغ ہونے والوں کو اس میں شامل کریں.معمولی قربانی کے ساتھ ایک بہت عظیم الشان اعزاز آپ کو نصیب ہو جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ“.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 104 صفحہ 870851) | 258

Page 268

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ غانا الہی سلسلوں میں حقیقی عزت اور بڑائی کا پیمانہ ماہ و سال نہیں بلکہ تقویٰ ہوتا ہے پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ غانامنعقدہ 26،25اکتوبر 1985ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود میرے پیارے انصار بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ مجلس انصارالله غانا اپنا نیشنل اجتماع 25 26 اکتوبر کو ٹیچی مان میں منعقد کر رہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بے شمار برکتوں سے بھر دے اور آپ سب کو اپنے فضلوں کا وارث بنائے.آمین پیارے بھائیو! اپنی عمر کے لحاظ سے آپ اپنی جماعت کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں.لیکن ہمیشہ یادرکھیں کہ الہی سلسلوں میں حقیقی عزت اور بڑائی کا پیمانہ ماہ و سال نہیں بلکہ تقویٰ ہوتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:.إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَنفُسِكُمْ پس آپ تقویٰ کی راہوں پر قدم ماریں اور اپنی آئندہ نسلوں کی تعلیم وتربیت کا خیال رکھیں.آپ کی بڑائی کا اثر آپ کے بعد آنے والے چھوٹوں پر پڑے گا.پس آپ متقیوں کے امام بہیں.غانا میں صرف جماعت کی تربیت ہی نہیں بلکہ سارے نانا کی تربیت کی ذمہ داری بھی آپ پر ہے.اگر آپ غانا کی جماعت کو اچھی جماعت بنادیں گے تو اس کے نتیجہ میں اچھے مبلغ پیدا ہوں گے.ساری قوم کو سنبھالنا کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے، اس لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں افسوس که نا نا تبلیغ میں بھی پیچھے رہ گیا ہے.غانا کے عوام اور خواص ، جس طرح جماعت سے محبت رکھتے ہیں، ان کا آپ پر حق ہے کہ ان تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا جائے.میں خصوصیت سے اس طرف توجہ دلا رہا ہوں.مگر افریقہ کہ بعض چھوٹے ممالک بڑی تیزی سے آگے نکل رہے ہیں.259

Page 269

پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ غانا تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم گزشتہ تین سال سے غانا سے جب بھی کوئی وفد آتا ہے، بار بار اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں.پس بڑی شدت کے ساتھ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ غانا کا ہر بوڑھا اور جوان داعی الی اللہ بن جائے.کیونکہ غانا میں ابھی تک دعوت الی اللہ کی وہ تصویر نہیں ابھری، جو افریقہ کے دوسرے ممالک میں ابھر رہی ہے.اگر غانا کا ہر احمدی دعوت الی اللہ میں مصروف ہو جائے گا تو خدا کے فضل سے غانا دنیا کے عظیم ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا اور اس کے نتیجہ میں عظیم ترین برکتیں اسے نصیب ہوں گی.اگر آپ کو اسلام سے محبت ہے، تب بھی اور اگر وطن سے محبت ہے، تب بھی، دونوں طرح آپ کا فرض ہے کہ مؤثر داعی الی اللہ بن جائیں اور دعاؤں سے مدد مانگیں.انشاء اللہ آپ کے سارے کام آسان ہو جائیں گے.اور اس دنیا میں بھی آپ عزت پائیں گے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظریں آپ پر پڑیں گی.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روز والنصر یکم نومبر 1985ء ضمیمہ ماہنامہ مصباح نومبر 1985ء) 260

Page 270

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام فرمودہ 27اکتوبر 1985ء قوم اور ملک میں جنت تبھی آتی ہے، جب مائیں خود داعیہ الی اللہ ہوں پیغام فرمودہ 27 اکتوبر 1985ء برموقع نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ نائیجیریا الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود عزیز لجنہ اماءاللہ نائیجیریا ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یہ سن کر خوشی ہوئی کہ لجنہ اماءاللہ نائیجیر یا اپنا سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو آپ سب کے لئے علمی، اخلاقی اور روحانی ترقیات کا موجب بنائے اور بہت برکتوں سے نوازے.لجنہ اماءاللہ کی بنیاد حضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تریسٹھ سال قبل 1922ء میں رکھی تھی.جبکہ دوسری ذیلی تنظیمیں برسوں بعد قائم کی گئیں.یہی وجہ ہے کہ لجنہ اماء اللہ کی تربیتی علمی تبلیغی خدمات کا زمانہ دوسری تنظیموں سے زیادہ ہے.اس عرصہ میں بعض اوقات وہ احمدی مردوں سے اپنی قربانی میں اس قدر بڑھ گئیں کہ خلفائے مسیح موعود علیہ السلام نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا.جماعت احمد یہ ایک ایسی عظیم اور مقدس منزل کی طرف گامزن ہے کہ بظاہر اس کی راہیں گو پر خار ہیں مگر خدا تعالیٰ کی تقدیر، اس کی تائید اور اس کے افضال و انعامات ہر لمحہ جماعت کے شامل حال ہیں اور اس منزل کو مزید روشن اور قریب تر کرتے چلے جاتے ہیں.میں لجنہ اماءاللہ نائیجیریا کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ دعوت الی اللہ، تبلیغ اور محض اللہ اپنے اوقات عزیز کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں.آج یہی سب سے اہم فریضہ ہے.اپنے آپ کو قرآن کریم کی تعلیم سے آراستہ کریں اور اس کے نور سے نہ صرف اپنے قلوب کو بلکہ تمام معاشرہ کو منور کریں.یہی وہ حربہ ہے، جس پر اسلام کی زندگی موقوف ہے.261

Page 271

پیغام فرمودہ 27 اکتوبر 1985ء وو تحریک جدید - ایک البی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.بچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا، جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے.اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے رو کے رہے.جب تک محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہمارے سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے، جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.اور یہی وہ چیز ہے، جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے“.فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد 103 صفحه 10,11) اسلام کی زندگی کے لئے جس طرح اللہ تعالیٰ آپ کے مردوں کو کام کی توفیق دے رہا ہے، آپ نہ صرف ان کے دوش بدوش بلکہ اس مہم میں ان سے آگے نکلیں.اور کوئی بستی ایسی نہ ہو کہ جہاں اسلام کا پیغام نہ پہنچے.کوئی گھر ایسانہ رہے کہ جو خدا تعالیٰ کی توحید کے نور سے منور نہ ہو.دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو اس عظمت کے ساتھ ادا کریں کہ خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر آپ پر پڑے اور آپ کو اور آپ کی اولادوں کو دین و دنیا کی خوش بختیوں سے مالا مال کر دے.ایک اور اہم امر یہ ہے کہ اپنی اولاد کی ایسے شاندار طریق پر تربیت کریں کہ وہ تو حید کے عاشق اور دین کے بچے خادم بن جائیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:.الجنة تحت اقدام الامهات که جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت قوم اور ملک میں جنت تبھی آتی ہے، جب مائیں خود داعیہ الی اللہ ہوں.خود خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتی ہوں اور اس کے احکام کے مطابق اپنی اولادوں کی اعلیٰ رنگ میں تربیت کرنے والی ہوں.اور اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ بالآخر دنیا میں توحید کا قیام اور دین واحد پر عالمی اجتماع کی جنت مستورات کی کوششوں سے ہی وجود میں آئے گی.262

Page 272

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم پیغام فرمودہ 27 اکتوبر 1985ء اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ کو غلبہ اسلام کے لئے بہت کام کی توفیق بخشے.ہر آئندہ آنے والی نسل کو پہلے سے عظیم بنانے کی توفیق بخشے.آمین.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ 27.10.1985 ( مطبوعه نفت روزہ النصر 8 نومبر 1985ء وضمیمہ ماہنامہ مصباح نومبر 1985ء) 263

Page 273

Page 274

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع آل کرنا تک کانفرنس یاد گیر پوری طاقت کے ساتھ دعوت الی اللہ کے جہاد میں مصروف ہو جائیں پیغام بر موقع آل کرناٹک کا نفرنس جماعت احمد یہ یادگیر منعقد ہ 2 ، 3 نومبر 1985ء پیارے عزیزو! propriations الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام عليكم ورحمة الله وبر كاته مجھے جان کر خوشی ہوئی ہے کہ جماعت احمد یہ یاد گیر کی جانب سے 2، 3 نومبر 1985ء کو آل کرناٹک کا نفرنس منعقد کی جارہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کا نفرنس کو ہر پہلو سے کامیاب اور بابرکت فرمائے.آمین.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو، جو خدا تک پہنچاتی ہے، قرآن سے پایا.ہم نے اس خدا کی آواز سنی اور اس کے پر زور بازو کے نشان دیکھے، جس نے قرآن کو بھیجا.سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے.ہما ر اول اس یقین سے ایسا پر ہے، جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے.سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں“.(کتاب البریہ صفحه 47، روحانی خزائن جلد 13 صفحه (65) یہی وہ عظیم الشان مقصد ہے، جس کے لیے آپ نے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی.تا آپ کے بچے اور کامل متبعین بھی کامل بصیرت اور یقین کے ساتھ لوگوں کو ان کے خالق اور تمام جہانوں کے مالک ہ تعالی کی طرف بلائیں.اور اس دین اور روشنی کی دعوت دیں، جس سے زمین و آسمان منور ہیں.265

Page 275

پیغام بر موقع آل کرناٹک کا نفرنس یاد گیر تحریک جدید - ایک الہی تحریک اس اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:.یعنی تو کہہ یہ میرا طریق ہے کہ میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں اور جنہوں نے میری (حقیقی) پیروی کی ہے، میں اور وہ سب عظیم الشان بصیرت پر قائم ہیں.(یوسف: 109) اس جگہ قل کا لفظ ہر مومن کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ خود ایک داعی اللہ بنے بلکہ دوسروں کو بھی داعی الی اللہ بنے کی تحریک کرے.اور پھر ہر مخاطب اس پیغام کو آگے پہنچاتا چلا جائے اور یوں نسلاً بعد نسل دعوت الی اللہ کا کام جاری وساری رہے.یقینا دعوت الی اللہ کی راہ ہی بصیرت کی راہ ہے.یہی وہ طریق ہے، جو انسان کو ہر قسم کی ظلمات سے نکالتا ہے اور اس کے ظاہر و باطن کو نور اور روشنی سے بھر دیتا ہے.پس میرا آپ کے نام یہی پیغام ہے کہ سستیاں ترک کریں اور پوری طاقت کے ساتھ تبلیغ کے جہاد میں مصروف ہو جائیں.اور دعوت الی اللہ کی عظیم شاہراہ پر تیز قدموں کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.266 والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد (امام جماعت احمدیہ ) ( مطبوعه ضمیمہ ماہنامہ خالد سمبر 1985 ء و ہفت روزہ النصر 29 نومبر 1985ء)

Page 276

تحریک جدید - ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبه جمعه فرمود 08 نومبر 1985ء ولتنظر نفس ما قدمت لغد خطبہ جمعہ فرمودہ 08 نومبر 1985ء بسید نا ومولانا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جوا با فرمایا تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ سوال تو یہ تھا کہ کب آئے گی؟ اور جواب یہ ہے کہ کیا تیاری کی ہے؟ تو بعض اوقات آنے والی چیز کا انتظار اتنا اہم نہیں ہوتا، جتنا اس کی تیاری اہمیت رکھتی ہے.اس لئے نہایت ہی حکیمانہ اسلوب تھا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا.آپ نے اصل سوال کو چھوڑ کر ، جواد فی اہمیت کا سوال تھا، اس سے بڑی اہمیت کے سوال کا جواب دیا اور فرمایا کہ تم نے تیاری کیا کی ہے؟ قیامت تو کوئی ایسا تماشہ نہیں ہے کہ جس کو تم دیکھو اور خوش ہو جاؤ اور تمہاری ذات کی تیاری کا اس سے تعلق کوئی نہ ہو.اس لئے قیامت سے تو یہ خوف رکھنا چاہئے کہ جلدی نہ آجائے ، ہماری تیاری سے پہلے نہ آجائے.پس بہت سے احمدی احباب جب مجھے یہ لکھتے ہیں یا مجھ سے پوچھتے ہیں کہ احمد بیت اور اسلام کی فتح اور غلبہ کا دن کب آئے گا ؟ تو میرا ذہن بھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، جو ایک سوال کی صورت رکھتا ہے کہ تم نے اس کے لئے تیاری کیا کی ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ان بدلے ہوئے حالات نے بہت سی اصلاح خود بخود کی ہے.اور غیر معمولی روحانی تربیتی تبدیلیاں واقعہ ہوئی ہیں.اور جب ان تبدیلیوں کی طرف نظر پڑتی ہے تو دل خوش بھی ہوتا ہے.لیکن محض اچھی چیزوں پر نگاہ رکھنا اور خوشیوں کے تصور میں مگن رہنا، یہ حکیمانہ بات نہیں.ذی شعور لوگ ، جہاں خوبیوں پر نظر رکھ کر، اچھی باتوں کو دیکھ کر اپنے حوصلے بڑھاتے ہیں، وہاں کمزوریوں پر بھی نگاہ ڈالتے جاتے ہیں.تا کہ ایک مسلسل اصلاح کا سلسلہ بھی جاری رہے اور کمزوریاں ، خوبیوں میں تبدیل ہوتی رہیں.پس وو جب بہت کی اطلاعیں خوش کن تبدیلیوں کی آتی ہیں تو ان کے نتیجہ میں کسی غلط انہی میں مبتلا نہیں ہوتا.اتنے بڑے خلا ہیں ہمارے اندر تربیت کے اور جس سوسائٹی سے ہم نکل کر احمد ہی بن رہے ہیں، ان کے ساتھ ہماری تربیت کا ایک گہرا تعلق ہے، جو ٹوٹ نہیں سکتا.ان کے اندر اتنی کمزوریاں واقع ہو چکی 267

Page 277

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 نومبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ اس سوسائٹی سے نکل کر اچانک ایک ایسا عجیب انقلاب آجائے کہ کلیہ ایک مختلف نوع کی بالکل پاکیزہ روحانی سوسائٹی وجود میں آجائے.اس لئے معاشرے کا ماحول کا ایک گہرا اثر پڑتا ہے.اگر معاشرہ رشوت خور ہے، اگر معاشرہ بے درد ہو چکا ہے، اگر معاشرہ نماز سے خالی ہو گیا ہے، اگر معاشرے میں خدا کا خوف نہیں رہا تو ہر روز ایسے لوگوں سے تعلق کے نتیجہ میں، واسطہ پڑنے کے نتیجہ میں، تجارتوں کے نتیجہ میں لین دین کے نتیجہ میں، ان محلوں میں رہنے کے نتیجہ میں، بعض بدیوں کو ، جو بظاہر حسن رکھتی ہیں، ان کو دیکھنے کے نتیجہ میں لازم اوہ سوسائٹی، جو تعداد کے لحاظ سے تھوڑی ہے، وہ متاثر ہوتی چلی جاتی ہے.اس لئے بھی اور کچھ اس لئے بھی کہ بہت سے احمدی بلکہ بھاری اکثریت کے لحاظ سے اس وقت پاکستان میں ایسے ہیں، جن کے ماں باپ یا بعض صورتوں میں دادا اور بعض صورتوں میں پڑدادا احمدی ہوئے تھے اور غیر احمدیت سے احمدیت میں داخل ہونے کے بعد جو ابتدائی دکھوں کا دور آتا ہے، اس چکی میں سے وہ گزرے نہیں اور وہ تربیت حاصل نہیں کر سکے، جو پہلے زمانے میں صحابہ کو حاصل تھی یا بعد میں اول تابعین کو حاصل تھی.اس لئے وہ نسلاً احمدی رہ گئے اور معاشرے کی خرابیوں نے ان پر زیادہ گہرا اثر کیا.چنانچہ بہت سے اضلاع میں پاکستان میں، جہاں بھاری تعداد میں جماعت موجود ہے مگر ان کی اولادوں میں ، ان کی جوان نسلوں میں بہت سی ایسی خامیاں رہ گئی ہیں، جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.ایسے بعض اضلاع بھی میرے ذہن میں ہیں اور وہ اسلام کی فتوحات کے نئے علاقے بھی میرے ذہن میں ہیں.مثلاً افریقہ کے ممالک، جن میں بعض جگہوں پر بڑی تیزی کے ساتھ احمدیت پھیلی ہے.بعض صورتوں میں قبائل کے قبائل احمدی ہوئے ہیں.بعض صورتوں میں دیہات احمدی ہوئے ہیں پورے کے پورے.اور بعد ازاں ان کی تربیت کا پورا موقع نہیں مل سکا.دور کے بعض جزائر ہیں ، وہاں بھی یہی کیفیت ہوئی.چنانچہ تربیتی خلا پاکستان میں بھی ہیں اور پاکستان سے باہر بھی ہیں.اور عظیم غلبہ سے پہلے ان کمزوریوں کا دور ہونا لازمی ہے.اگر ان کمزوریوں کو دور کئے بغیر ہمیں فتح و نصرت عطا ہو جائے یعنی فتح و نصرت کا وہ تصوریل جائے ، جو عام لوگ رکھتے ہیں.ایک فتح تو وہ ہے، جو ہمیں مسلسل ملتی چلی جارہی ہے، ایک نصرت تو وہ ہے، جو ایک لمحہ کے لئے بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑ رہی.مگر میں اس وقت اس کی بات نہیں کر رہا، میں عرف عام میں جسے فتح ونصرت کہا جاتا ہے، یعنی ایک جگہ عددی غلبہ اتنا نصیب ہو جائے کہ اس کے بعد امن سے بیٹھ جائیں.اس فتح و نصرت کے لئے یہ تیاریاں ضروری ہیں.اور یہ دکھوں کا دوران تیاریوں میں مدد کرنے کے لئے آیا ہے اور مدد کر رہا ہے.لیکن اس سے ابھی مزید استفادے کی ضرورت 268

Page 278

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 نومبر 1985ء منظم طور پر اس تربیت کے کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور پھیلانے کی ضرورت ہے.اور پھر اس میں گہرائی پیدا کرنے کی ضرورت ہے.وو " تفتح ونصرت کے حصول کی تمنار کھنے والوں کوتو براہ راست یہی جواب دیا ہے قرآن کریم نے وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ وو (البقرة: 46) کہ تم جو امیدیں لگائے بیٹھے ہو کہ بہت عظیم الشان فتوحات نصیب ہوں گی اور ظاہری عددی غلبہ بھی عطا ہوگا تو پھر اس غلبہ کو حاصل کرنے کا طریق یہ ہے کہ و استعينوا بالصبر والصلواة لـ خالى دعائیں نہ کیا کرو محض ہاتھ اٹھا کے مانگانہ کرو.کیونکہ صبر اور صلوٰۃ کے بغیر دعا ئیں قبول نہیں ہوں گے.خدا کی طرف سے اعانت نصیب نہیں ہو سکتی.پس وہ فتح جس کی تیاری کی تمنا آپ رکھتے ہیں، اس کا علاج بھی نماز ہی بتایا ہے.کیونکہ دعائیں قبول نہیں ہوں گی، جب تک نماز کے اوپر صبر کے ساتھ آپ قائم نہیں ہوں گے.اور نماز کا علاج یہ حالات ہیں، جن حالات میں آپ کے دل میں تمنا پیدا ہورہی ہے.کیسا عظیم الشان مربوط مضمون ہے.فرمایا: یہی موقع ہے تمہارے لئے، آج جب ترس رہے ہو فتح کو تو اب ایسی قدروں میں تبدیل کر دو، جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے والی قدریں ہیں.جو ہمیشہ کے لئے تمہیں زندہ کر دینے والی قدریں ثابت ہوں گی.اور وہ ہے، عبادت کی محبت، نماز سے گہرا تعلق، اس پر خود کھڑے ہو جانا اور اس پر دوسروں کو کھڑے کر دینا“.تمام مغربی سوسائٹی میں بھی اس جہاد کی بڑی شدید ضرورت ہے اور پھر ان علاقوں میں افریقہ ہے، مثلاً جہاں کی قوموں کو ایک لمبے عرصہ سے روحانیت کی پیاس ہے.اور چونکہ ان کو عادت نہیں پڑی ، ان باتوں کی ، اس لئے ان کو نئی عادتیں ڈالنا، ایک بڑی محنت کا کام ہے.روحانیت کی پیاس ہے تبھی وہ مذہبی ہیں.میں جب کہتا ہوں روحانیت کی پیاس ہے تو میری مراد یہ ہے کہ ایک مشرک بھی اگر شرک میں جوش دکھاتا ہے اور ایک Superstitious آدمی ، جو تو ہمات کی دنیا میں خوب دلچسپی لیتا ہے، یہ ساری اس کی پیاس کی علامتیں ہیں.افریقہ اس لحاظ سے بہت ہی پیاسا ہے.کیونکہ بنیادی طور پر افریقن مذہبی ہیں.وہ مذہب کے بغیر نہیں رہ سکتا.اسی لئے افریقہ میں عیسائیت بھی بڑی تیزی سے پھیلی ہے اور سب سے زیادہ وہاں اسلام کی طلب اور اسلام کی گنجائش ہے.کیونکہ افریقہ کی سادہ فطرت، جو ابھی دنیا کی ٹیڑھی سوچوں سے خود نہیں ٹیڑھی ہوسکی، ابھی تک اس میں کبھی نہیں آئی، اس کو اسلام سے زیادہ صاف ستھرا 269

Page 279

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 08 نومبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم مذہب اور کوئی نظر آ ہی نہیں سکتا.جب وہ مقابلہ کرتا ہے افریقن تو اس کی فطرت ابھی تک اتنی سیدھی ہے کہ وہ اسلام کے سیدھے رستے پر جانے کے لئے طبعاً تیار پاتا ہے اپنے آپ کو.اس لئے وہاں اس لحاظ سے فائدہ بھی ہے.ایک Advantage جس کو کہتے ہیں، ایک فوقیت ہے، دوسرے علاقوں کے اوپر افریقہ کو کہ وہاں اس پہلو سے احمدیوں کے لئے کام کی گنجائش ہے..مگر گنجائش ہے، کام کے آغاز کی.کام کو آگے بڑھانے کے لئے پھر روکیں پیدا ہوں گی.وہاں کے حالات، وہاں کے جنگلات، وہاں رابطے کی مشکلات، وہاں کی بدامنیاں، ہر جگہ پہنچنے کے لئے ذرائع میر نہیں ہیں، ذرائع میسر ہیں تو آج کل بد قسمتی سے دنیا کی بڑی طاقتوں کی آپس کی چپقلش نے سارے افریقہ کا امن برباد کر رکھا ہے.اور جہاں بظاہر امن نظر آ رہا ہے، وہاں بھی حالات بہت ابتر ہو چکے ہیں.تو ان حالات میں وہاں احمدی مبلغین کے لئے اور قسم کی مشکلات شیطان نے پیدا کر دی ہیں.ایک بھی جگہ آپ کو دنیا میں آج نظر نہیں آتی، جہاں ذکر الہی کی راہ میں شیطان نے روڑے نہ انکار کھے ہوں.ایک بھی جگہ آپ کو ایسی نظر نہیں آئے گی، جہاں شیطان مخفی طور پر یا کھل کر حملہ نہ کر رہا ہو عبادتوں پر.اس لئے عالمگیر جہاد کی ضرورت ہے، جماعت احمدیہ کے لئے کہ وہ عبادتوں کو قائم کرنے ، نماز کو قائم کرنے ، ہر جہت میں قائم کرنے اس مضمون کو آگے بڑھانے ، اس میں وسعت پیدا کرنے ، اس میں رفعت پیدا کرنے اور اس میں گہرائی پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے.یہ چند لفظوں میں جو میں نے مضمون بیان کیا ہے، یہ اتنا مشکل ہے، اتنا وسیع ہے، اتنا محنت طلب ہے، اتنا صبر چاہتا ہے کہ محض چند فقروں میں سن کر یہ مضمون آپ پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتے کہ اس میں وقتیں کیا کیا ہوں گی ؟ سب سے بڑی مشکل ، سب سے بڑی وقت یہ میں محسوس کرتا ہوں، ہر جگہ یہ میں نے دیکھی ہے کہ صبر کم ہے اور اسی لئے قرآن کریم بار بار صبر کی طرف توجہ دلاتا ہے.ایک نصیحت کی جاتی ہے اور بظاہر وہ سننے کے بعد طبیعتوں میں ایک بڑا نمایاں ولولہ دکھائی دینے لگتا ہے، بظاہر وہ سننے کے بعد دلی ارادے باندھتے ہوئے نظر آتے ہیں اور دماغ تائید کرتا ہے کہ ہاں یہ ہونا چاہئے مگر چند دن کے اندراندر وہ ارادے بھی سو جاتے ہیں، وہ دل کے ولولے بھی بیٹھ جاتے ہیں.多 ابھی تو آپ میں سے یعنی شاید آپ کو کبھی خیال نہ آیا ہو لیکن اکثریت ایسی ہے، جن کو یہ نہیں پتہ کہ میرے بچوں کو نماز ترجمہ کے ساتھ آتی بھی ہے کہ نہیں؟ اور نہ پتہ ہے، نہ خیال آیا ہے.اور بعض لوگ دوسروں کو ڈھونڈتے ہیں.جن کو خیال آتا ہے، وہ کہتے ہیں: جی، ہمارے پاس کوئی نماز سکھانے کا انتظام 270

Page 280

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 نومبر 1985ء نہیں ہے، اس لئے ایک مربی بھیجا جائے.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مربیوں کا کام ہے، نماز سکھانا اور پڑھانا حالانکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ والدین کا کام ہے.گھر سے شروع کرو اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ نماز کو قائم کر کے دکھاؤ.وہاں یہ عجیب سوال ہوتا ہے، میں حیرت سے دیکھتا ہوں، اگر تمہیں خود نماز نہیں آتی تو پہلے اپنی فکر کرو.بچوں کی کیا بات شروع کی ہے؟ پہلے خود تو نماز سیکھو.اور اگر خود نماز آتی ہے تو مربی کا کیا انتظار کرتے ہو؟ جو اولین مقصد ہے انسانی تخلیق کا اس مقصد سے محروم ہور ہے ہو، محروم رہ رہے ہو اور انتظار کر رہے ہو، کوئی آئے گا تو وہ ہمیں سکھا دے گا.اتنے مربی نہ جماعت کے پاس ہیں، نہ یہ ممکن ہے کہ مربی دوسرے سارے کام چھوڑ دیں.جتنے ہیں، اگر وہ سارے کام دوسرے چھوڑ دیں اور یہی کام شروع کریں تو تب بھی وہ پورے نہیں ہوں گے.اس لئے قرآن کریم بڑا حکیمانہ کلام ہے.وہ واقعاتی بات کرتا ہے، خیالی اور فرضی بات نہیں کرتا.یہ ذمہ داری مربی پر نہیں ڈالی بلکہ ہر خاندان کے سر براہ پر ڈال دی ہے کہ تم کوشش کر وہ تمہاری ذمہ داری ہے.حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق بھی یہی بتایا کہ بڑی خوبیوں کا مالک تھا ، وہ اپنی اولا د کو اپنے اہل وعیال کو مستقل مزاجی کے ساتھ نماز کی طرف توجہ دلا تار ہتا تھا.پس جماعت احمدیہ میں سب سے اہم کام اس وقت عبادت کو قائم کرنا ہے.نماز کو نہ صرف قائم کرنا ان معنوں میں کہ ظاہراً کوئی شروع کر دے بلکہ اس کے اندر مغز کو اور روح کو بھرنا ہے.اور جب تک سے نماز کا ترجمہ ساتھ نہ سکھایا جائے ، اس وقت تک نماز کے معنی انسان نماز پڑھتے وقت اپنے اندر " جذب نہیں کر سکتا.ترجمہ سکھانے کے لئے باہر کی دنیاؤں میں اور بھی بہت سے ذرائع موجود ہیں.مثلاً ویڈیو کیسٹس عام ہیں، آڈیو کیسٹس ہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچوں کو ترجمہ سکھانے کے لئے ماں باپ کا ذاتی تعلق ضروری ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ویڈیوز کے اوپر آپ بنادیں اور ہم اپنے بچوں کو پکڑا دیں گے اور بے فکر ہو جائیں گے کہ ان کو نماز آنی شروع ہو گئی ہے، یہ درست نہیں.عبادت کا تعلق محبت سے ہے.اور محض رسمی طور پر ترجمہ سکھانے کے نتیجہ میں عبادت آئے گی کسی کو نہیں.وہ ماں باپ، جن کا دل عبادت میں ہو، جن کو نماز سے پیار ہو، جب وہ ترجمہ سکھاتے ہیں، بچے سے ذاتی تعلق رکھتے ہوئے، بچہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھ رہا ہوتا ہے، ان کے دل کی گرمی کو محسوس کر رہا ہوتا ہے، ان کے جذبات سے اس کے اندر بھی ایک ہیجان پیدا ہورہا ہوتا ہے.وہ اگر نماز سکھائیں تو ان کا نماز سکھانے کا انداز اور ہوگا“.پس آئندہ نسلوں کے اعتبار سے دیکھیں تو تب بھی جیسا کہ میں نے آیت کریمہ آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی تھی.271

Page 281

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 08 نومبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد هفتم يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ہر جان کو خدا متنبہ کر رہا ہے، تم نے کل کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ حدیث نبوی کا مضمون اسی آیت سے تعلق رکھتا ہے.قیامت کی پوچھ رہے ہو لیکن اس کے لئے تیاری کیا کی ہے ؟ اپنے نفس کو تیار پاتے بھی ہو؟ پس آج بھی یہی ہے سوال ، جوسب سے اہم سوال ہے کہ تم نے آنے والے کل کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ کن اولا دوں کو آگے بھیجو گے؟ اور کیا وہ خدا کی عبادت گزار نسلیں ہوں گی یا عبادت سے غافل نسلیں ہوں گی؟ نئے آنے والے مہمانوں کے لئے تم نے کیا تیاری کی ہے؟ جو جوق در جوق احمدیت میں داخل ہوں گے.اگر بے نمازی ماحول میں داخل ہوں گے تو وہ بھی بے نمازی بن جائیں گے.اگر ایسے نمازیوں میں داخل ہوں گے، جو کھو کھلی نمازیں پڑھنے والے ہیں اور ریا کار ہیں تو وہ بھی کھوکھلی نمازیں پڑھیں گے اور ریا کار بن جائیں گے.اس لئے خاشعون جو نمازی ہیں ، وہ نمازی پیدا کرنے ضروری ہیں اور اگر خاشعون نہیں بنیں گے آپ تو پھر نمازیں آپ پر ہمیشہ بھاری رہیں گی.اور وہ بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے.آج نہیں تو کل وہ بوجھ گر جائے گا.آپ نہیں تو آپ کی اگلی نسل اس بوجھ کو پھینک دے گی.پس اس لئے ضروری ہے کہ نماز کو گہرا کیا جائے ، اس میں خشوع پیدا کیا جائے." پھر افریقہ میں یا دوسرے ممالک میں جہاں آج بھی بکثرت جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں، وہاں بہت سے مربی بنانے پڑیں گے.جن کی پہلے تربیت ہے، ان کو آپ استعمال کریں، اپنی مدد کے لئے.اس کام کے لئے تیار کریں.اور افریقہ کے مزاج کی سادگی جو ہے، اس کے اندر ایک خاص حسن پایا جاتا ہے، بہت سی دوسری قومیں اس حسن سے عاری ہو چکی ہیں، آج کل کی مصنوعی زندگی کے نتیجہ میں.لیکن افریقہ کی سادگی میں وہ حسن ہے.وہ جو بات مانتے ہیں جب تو پھر پوری اطاعت کے ساتھ فرمانبرداری کے ساتھ مانتے ہیں، پوری طرح تعاون بھی کرتے ہیں.بہت ہی پیاری سادگی ہے اس قوم میں.اس سے مبلغ استفادہ کریں اور ان کو سمجھا ئیں اور سکھا ئیں.وہ بڑے پر جوش معلم بنتے ہیں آگے.افریقن مزاج میں ایک یہ بھی خوبی ہے کہ پھر وہ اچھی بات کو وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر :04) کے ساتھ ادا کرتا ہے.چپ نہیں ہوتا پھر.جب اس کو ایک اچھی بات سکھا دیں تو وہ کہتا چلا جاتا لئے تیں تو ہے.اس لئے وہاں خدا تعالیٰ نے آپ کو جہاں بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں، وہاں بعض قو تیں بھی تو پائی 272

Page 282

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 نومبر 1985ء جاتی ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو ان قوتوں کی طرف متوجہ فرماتا ہے، ان سے فائدہ اٹھاؤ کوئی جگہ بھی ایسی نہیں ہے، جہاں کمزوریوں کے مقابل پر خدا تعالیٰ نے کچھ فوقیتیں ، کچھ قو تیں نہ رکھ دی ہوں، جو کمزوریوں سے مقابلے کے لئے آپ کو نئی طاقتیں عطا کر سکتی ہیں“.وو جماعت احمدیہ کا اصل بنیادی نظام کا ڈھانچہ تو صدارت یا امارت کا نظام ہے.لیکن اس قسم کے کاموں میں جہاں ایک War_footing پر کام کرنے ہوتے ہیں، یعنی جیسے ایک عظیم جنگ میں مصروف ہو جائے کوئی قوم ، وہاں تنظیموں کے اندر اگر بانٹ دیا جائے اس کام کو تو زیادہ عمدگی کے ساتھ ، زیادہ تفصیل کے ساتھ نظر رکھتے ہوئے یہ کام آگے بڑھتے ہیں.اس لئے یہ تین جو نظام ہیں جماعت کی ذیلی تنظیمیں ، ان سے میں خصوصیت کے ساتھ مخاطب ہوں کہ یہ اپنے اپنے دائرے میں بہت محنت اور بہت کوشش کریں.تنظیمیں نسبتا زیادہ بیدار رہ سکتی ہیں، اگر وہ ایک معین پروگرام بنالیں کہ ہر ہفتے یا ہر مہینے میں ایک دفعہ اسی موضوع پر بیٹھا کریں.ایک مجلس عاملہ کا اجلاس مقرر ہو جائے ، ہمیشہ کے لئے ، آج سے.جس کا موضوع سوائے نماز کے کچھ نہ ہو.اس دن لجنہ بھی نماز کے اوپر غور کر رہی ہو ، خدام بھی نماز پر غور کر رہے ہوں ، انصار بھی نماز پر غور کر رہے ہوں.اور یہ فیصلہ کر لیں ہمیشہ کے لئے کہ اب ہم نے ہر مہینہ کم از کم ایک مرتبہ اس موضوع پر بیٹھنا ہے، غور کرنا ہے.اور جہاں حالات ایسے ہیں کہ ہر مہینے نہیں بیٹھ سکتے ، وہاں دو مہینے مقرر کر لیں، تین مہینے مقرر کر لیں.مگر جہاں مقرر کریں، پھر اس پہ قائم رہیں، اس پر صبر دکھائیں.اور وہ ہر دفعہ جائزہ لیا کریں کہ کتنے ہمارے Gains ہیں؟ یعنی کتنا ہمیں فائدہ پہنچا ہے؟ اس عرصے میں کتنے نمازی بنائے؟ کتنوں کی نمازوں کی حالت ہم نے درست کی ؟ کتنوں کو نماز میں لطف حاصل کرنے کے ذرائع بتائے اور ان کی مدد کی؟ اور بہت سے پہلو ہیں.وہ ان سب پہلوؤں پر غور کیا کریں.اور ہر دفعہ اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کچھ مزید حاصل کر سکے ہیں یا نہیں کر سکے؟ اگر اس جہت سے اس طریق پر وہ کام شروع کریں گے تو امید ہے کہ انشاء اللہ بہت تیزی کے ساتھ ہم اپنے مقصد کی طرف بڑھ رہے ہوں گے.جس کی خاطر ہمیں پیدا کیا گیا ہے.اور جب ہم مقصد کی طرف بڑھ جائیں گے اور جب مقصد کو حاصل کر رہے ہوں گے تو پھر فتح ایک ثانوی چیز بن جاتی ہے.عددی اکثریت اور نصرت اور ظفر کے خواب، جو آپ دیکھ رہے ہیں، اس سے بڑھ کر یہ خواب آپ کے حق میں آپ کی ذاتوں میں پورے ہو چکے ہوں گے.پھر یہ خدا کا کام ہوگا کہ آپ کی حفاظت فرمائے.پھر یہ خدا کا کام ہوگا کہ اس دن کو قریب تر لائے، جو ظاہری فتح کا بھی دن ہوا کرتا ہے.جنگ بدر کے موقع پر یہی تو واسطہ دیا بدر موقع تو 273

Page 283

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 08 نومبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو کہ اے خدا! یہ تھوڑی سی جماعت میں نے تیار کی تھی تیری عبادت کرنے والوں کی.میری ساری محنتوں کا پھل ہے یہ.اور تو کہتا ہے کہ کائنات کا پھل ہے یہ ، اگر آج یہ لوگ مارے گئے تو پھر تیری عبادت کرنے والا دنیا میں کبھی کوئی پیدا نہیں ہوگا.اس قسم کے عبادت کرنے والے آپ بن جائیں تو اللہ کے اس پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں آپ کو بھی پہنچ رہی ہوں گی.وہ خدا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی اس لحاظ سے زندہ ہے.آج بھی وہ دعا آپ کے حق میں خدا کو یہ واسطہ دے گی کہ اے خدا! اگر یہ عبادت گزار بندے تیرے ہلاک ہو گئے یا نا کام مر گئے تو پھر کبھی تیری دنیا میں عبادت نہیں کی جائے گی.کیسے ممکن ہے پھر کہ آپ کو وہ فتح اور ظفر کا دن نصیب نہ ہو.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 104 صفحہ 1 88 898) 274

Page 284

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ پیغام بر موقع اجتماع مجلس انصار الله اسلام آباد پاک کچھ بھی ہو بند مگر دعوت اسلام نہ ہو پیغام بر موقع اجتماع مجلس انصاراللہ اسلام آباد پاکستان منعقدہ 09نومبر 1985ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود میرے پیارے انصار بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله بركاته آپ کی طرف سے مجھے خوشی کی خبریں پہنچتی رہتی ہیں.اسی طرح یہ پڑھ کر بھی خوشی ہوئی کہ مجلس انصار اللہ اسلام آباد کا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.اللہ کرے کہ یہ با برکت اجتماع خدا تعالیٰ کے افضال اور برکات سے معمور ہو.انصار اللہ اور اسلام آباد یہ دونوں نام آپ کو آپ کے مقام اور ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں.کہ آپ اسلام کی زندگی اور غلبہ کے لئے اللہ تعالٰی کے مامور کی مدد کرنے والے لوگ ہیں.جس طرح مسیح موسوی کی آواز پر حواریوں نے نحن انصار اللہ کہا تھا اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے ان کے لئے آسمان سے مائدہ اتارا تھا، اسی طرح دنیا نے ایک بار سی محمدی کے انصار کو مشاہدہ کیا اور پہلے سے زیادہ عظمت، شان، ایمان اور استقلال کے مشاہدے کیے اور پھر عظیم الشان آسمانی مائندوں سے یہ جماعت سرفراز کی گئی.اس کے پیچھے وہ الہی تقدیر کار فرما ہے، جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں فرماتے ہیں کہ وو خداوند کریم نے بارہا مجھے سمجھایا کہ ہنسی ہوگی اور ٹھٹھا ہوگا اور لعنتیں کریں گے اور بہت ستائیں گے لیکن آخر نصرت الہی تیرے شامل حال ہوگی اور خدا دشمنوں کو مغلوب اور شرمندہ کرے گا.چنانچہ براہین احمدیہ میں بھی بہت ساحصہ الہامات کا انہی پیشگوئیوں کو بتلا رہا ہے اور مکاشفات بھی یہی بتلا رہے ہیں.چنانچہ ایک کشف میں، میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا اور وہ کہتا ہے کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں.تب میں نے اس کو کہا کہ تم کہاں سے آئے؟ تو اس نے عربی زبان میں 275

Page 285

پیغام بر موقع اجتماع مجلس انصار اللہ اسلام آباد پاکستان تحریک جدید - ایک الہی تحریک جواب دیا اور کہا کہ جئت من حضرة الوتر یعنی میں اس کی طرف سے آیا ہوں، جوا کیلا ہے.تب میں اس کو ایک طرف خلوت میں لے گیا اور میں نے کہا کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں مگر کیا تم بھی پھر گئے؟ تو اس نے کہا کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں.تب میں اس حالت سے منتقل ہو گیا.لیکن یہ سب امور درمیانی ہیں اور جو خاتمہ امر پر منعقد ہو چکا ہے، وہ یہی ہے کہ بار بار کے الہامات اور مکاشفات سے جو ہزار تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں، خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کر دوں گا اور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب ہوگی.اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا“.وو (انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 53,54) اسے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے، جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پران کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا ، جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور ہر ایک کو، جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے، نامرادر کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں، جو اس کو روک سکے.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66,67) ان الہی نوشتوں کے مطابق جہاں ہر طلوع ہونے والا سورج جماعت احمدیہ کے لئے فتح و نصرت اور تائید خداوندی کی نوید لاتا ہے، وہاں ہم نے یہ بھی سوچنا ہے کہ ہم نے عملاً کس حد تک اس تقدیر کا ساتھ دیا، جس کا اظہار خدا تعالیٰ نے بار بار عاشق رسول حضرت مسیح موعود سے کیا.276

Page 286

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم پیغام بر موقع اجتماع مجلس انصار الله اسلام آباد پاکست پس اے اسلام آباد کے انصاری الی اللہ ! غلبہ اسلام کے لئے سعی کرو، پھر خدا تعالیٰ کے ماندے مزید کثرت سے تم پر نازل ہوں گے اور دونوں جہان کی خوش بختیاں تمہارے اور تمہاری نسلوں کے ساتھ وابستہ ہو جائیں گی.حضرت المصلح" کے الفاظ میں میرا پیغام یہ ہے کہ عسر ہو پیسر ہو ، تنگی ہو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہو بند مگر دعوت اسلام نہ ہو کام مشکل ہے بہت منزل مقصود ہے دور اے میرے اہل وفا ت کبھی گام نہ ہو گامزن ہو کے رہ صدق و صفا پر گر تم کوئی مشکل نہ رہے گی جو سر انجام نہ ہو میری تو حق میں تمہارے یہ دعا ہے پیارو سر پہ اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اس دنیا میں بھی سرخرور ہو اور آخرت میں بھی سرخرو ہو.آمین.والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 15 نومبر 1985ء) 277

Page 287

Page 288

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت، احد بی سرینام صحابہ رضی اللہ عنہم کے نمونے پر چلنے کا وقت قریب آگیا ہے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سرینام منعقد ہ24 نومبر 1985ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على.له الكريم پیارے بھائیو اور بہنو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ جماعت احمد یہ سرینام اپنا سالانہ جلسہ منعقد کرنے کی توفیق پا رہی ہے.میری دعا ہے کہ یہ جلسہ ہر پہلو سے کامیاب اور بابرکت ہو.آمین.پیارے عزیز و اسید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.وو خدا تعالیٰ جس نمونہ پر اس جماعت کو قائم کرنا چاہتا ہے، وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا نمونہ ہے“.اسی طرح حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.وو ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 310) صحابہ کا نمونہ اختیار کرنا چاہیے کہ وہ فقر و فاقہ اٹھاتے تھے اور جنگ کرتے تھے.ادنیٰ سے ادنی معمولی لباس کو اپنے لیے کافی جانتے تھے اور بڑے بڑے بادشاہوں کو جا کر تبلیغ کرتے تھے.لملفوظات جلد 5 صفحہ 319) الغرض یہ وہ پاک جماعت تھی، جس نے اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ اور اس کے دین کی سر بلندی اور اس کی اشاعت اور غلبہ کے لیے وقف کر رکھا تھا.عسر ہو یا یسر جنگی ہو یا آسائش، ہر موقع پر اور ہر حال میں وہ خدا تعالیٰ کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے میں کوشاں رہتے تھے اور کسی صورت میں بھی تبلیغ اور دعوت الی اللہ سے نہیں رکھتے تھے.279

Page 289

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سرینام تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اس وقت بھی آپ کو اسی پاک نمونہ کے اختیار کرنے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک سر بینام میں جماعت نے تبلیغ و دعوت الی اللہ کی طرف پوری توجہ نہیں کی اور بہت معمولی تعداد میں داعیان الی اللہ پیدا ہوئے ہیں.آج ضرورت ہے کہ ہر احمدی داعی الی اللہ بن جائے اور پورے عزم اور توکل کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے تبلیغ اسلام کے لیے کمر بستہ ہو جائے.یاد رکھیں ، یہ وقت تبلیغ اور دعوت الی اللہ کا وقت ہے.اگر اب ستی ہوگئی تو ایسے وقت قوموں کو بار بار نصیب نہیں ہوا کرتے.صحابہ کے نمونے پر چلنے کا وقت قریب آ گیا ہے.میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ اب دیر کی جاوے تبلیغ کے لیے بہت علم کی حاجت نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ امی ہی تھے.تقویٰ اور طہارت چاہیے.سچائی کی راہ ، ایک ایسی راہ ہے، جو اللہ تعالیٰ خود ہی عجیب عجیب باتیں سوجھا دیتا ہے.پس صدق اور اخلاص اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کے نعرے لگاتے ہوئے تبلیغ کے جہاد میں مشغول ہو جائیں.اگر آپ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے تو خدا تعالیٰ آسمان پر آپ کو مقدم کرے گا.اور اس دنیا میں بھی وہ اپنے فضلوں اور برکتوں سے آپ کے دامن بھر دے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعہ ہفت روزہ النصر 6 دسمبر 1985 و ضمیمہ ماہنامہ خالد دسمبر 1985ء) 280

Page 290

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع سالانہ مجلس شوری جماعت احمد یہ گیمبیا يد الله فوق الجماعة پیغام بر موقع سالانه مجلس شوری جماعت احمد یہ گیمبیا منعقدہ 24 نومبر 1985ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم پیارے عزیزم داؤ د احمد صاحب حنیف السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کے خط سے معلوم ہوا کہ جماعت احمد یہ گیمبیا سالانہ مجلس شوری منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس مشاورت کو بہت برکتوں سے نوازے اور جماعت احمد یہ گیمبیا کے لئے ترقیات کا ایک سنگ میل ثابت فرمائے.آمین.اللہ تعالیٰ جماعت مومنین کی ایک نمایاں شان یہ بھی بیان فرماتا ہے کہ جب وہ اپنا کوئی اجتمائی پروگرام مرتب کرتے ہیں تو دعا کے ساتھ اور آپس میں مشورہ کے ساتھ مرتب کرتے ہیں.اور جب مومنوں کی جماعت مشورہ کرتی ہے تو اس کے فیصلوں کو اللہ تعالیٰ برکتوں سے معمور کر دیتا ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:.يد الله فوق الجماعة پس یہ مجلس، وہ مجلس ہے، جس پر خدا تعالیٰ کی برکتوں اور نصرتوں کا ہاتھ ہے.اس لئے کہ آپ خدا تعالیٰ کی جماعت کی ترقی، اس کی عظمت اور اس کے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی سر بلندی کے لئے ایک پروگرام مرتب کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں.اللہ کرے کہ اس کے دین کی سر بلندی کے لئے آپ کا مشورہ ، آپ کی رائے اور آپ کی ہر سوچ دعاؤں کے سانچے میں ڈھل کر خدا تعالیٰ کے حضور قبولیت کا شرف پائے.اور جماعت احمد یہ گیمبیا ہر لحہ اپنی تعداد میں بھی اور اپنے اخلاقی ، روحانی اور تربیتی میعار میں بھی ترقی کرتی چلی جائے.اور یہ ترقی ضر میں کھاتی ہوئی اپنی انتہائی منازل طے کرنے لگے.آمین 281

Page 291

پیغام بر موقع سالانہ مجلس شوری جماعت احمد یہ گیمبیا 282 تحریک جدید - ایک الہی تحریک اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی ہر معاملے میں مددفرمائے.والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعه هفت روز و النصر 20 دسمبر 1985 ، وضمیمہ ماہنامہ مصباح دسمبر 1985ء)

Page 292

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد هفتم پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ سیرالیون پس آپ کو ہر سمت میں خدا کے نام پر جہاد کے لئے تیار ہونا چاہیے پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ سیرالیون منعقدہ 29 نومبر 1985ء پیارے انصار بھائیو! الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ین کر خوشی ہوئی کہ مجلس انصار اللہ سیر الیون کا تیسر اسالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بہت ہی برکتوں سے معمور کرے اور جماعت کی اخلاقی ، روحانی تعلیمی اور تربیتی نشو ونما کا موجب بنائے.میرے پیارے انصار! سیرالیون وہ مقام ہے، جس کو عیسائیت نے تمام افریقہ کو فتح کرنے کے لئے بطور مرکز کے چنا تھا.اور اس سرزمین سے بہت امیدیں وابستہ کی تھیں.اور پھر یہی وہ مقام ہے، جس کے بارہ میں عیسائیوں نے تسلیم کیا کہ یہاں احمدیت نے بڑی مضبوطی کے ساتھ قدم جمائے ہیں.اور عیسائیت کے لئے سب سے بڑی روک ثابت ہوئی ہے، جس نے عیسائیت کے آگے بند باندھ دیا ہے.لیکن افسوس ہے کہ پہلے جس رفتار کے ساتھ جماعت نے ترقی کی تھی ، وہ رفتار اس شان کے ساتھ قائم نہیں رہی.اور درمیان میں ایک عرصہ جمود اور خلا کا ایک ایسا منظر پیدا کر رہا ہے کہ جس طرح ایک خوبصورت اور دکش سبزہ زار سے سڑک اچانک کسی ویران جگہ میں داخل ہو جائے.میں نے غور کیا اور سمجھتا ہوں کہ اس غفلت کے دور میں جس میں جماعت کی ترقی کی رفتار ر کی ہے، سب سے بڑی ذمہ داری آپس کے اختلاف کی ہے.خصوصاً جب مرکزی نمائندوں اور خلیفہ وقت کے نمائندوں کی کامل اطاعت اور محبت میں فرق پڑا اور بعض عناصر نے کئی پہلوؤں سے عدم تعاون کا مظاہرہ کیا تو یہ جماعت بہت سی برکتوں اور فضلوں سے محروم رہ گئی.الحمد للہ کہ بفضلہ تعالیٰ جماعت اب ایک نئے موڑ میں داخل ہو گئی ہے.جو اس درمیانی عرصہ کی تلخی کو مٹانے والا اور نئی شاہراہوں اور دکشیوں کے پیغام لے کر آیا ہے.اور ایک نئی تازگی جماعت میں 283

Page 293

پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ سیرالیون تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم پیدا ہورہی ہے.کثرت کے ساتھ سیرالیون کے مخلصین ، جو مجھے خطوط لکھ رہے ہیں، ان میں مرکز سلسلہ سے محبت اور تعلق کی روح صاف نظر آرہی ہے.اور اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ کے فضل بھی پہلے سے بہت بڑھ کر دکھائی دیتے ہیں.نئے نئے داعی الی اللہ نئے ولولوں کے ساتھ ان خوش نصیبوں کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نئی روحانی اولا د عطا فرما رہا ہے.اور کامیابی کی نئی راہیں ان کے لئے کھول رہا ہے اور ترقی کی رفتار ایک دفعہ پھر تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے.پس آپ جو کہ اللہ کے دین کے انصار ہونے کا دعوی کرتے ہیں، آپ پر فرض ہے کہ اس پہلو سے جماعت کی صف اول ثابت ہوں.☆ ☆ ☆ ہر وہ بات کریں ، جس سے آپ کی محبت بڑھے اور تعاون کی روح نشو و نما پاتی ہو.ہر اس بات سے رک جائیں، جس سے کسی بھائی کے بارہ میں غلط نہی پیدا ہوتی ہو.ہر وہ ذریعہ اختیار کریں، جس سے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کے ساتھ محبت اور اطاعت کا جذبہ بڑھے اور آپ لوگ سمعنا و اطاعنا کی تصویر بن جائیں.اپنی تمام تر طاقتیں دعوت الی اللہ کے اہم فریضہ پر صرف کر دیں.آج آپ کو صرف عیسائیت ہی سے مقابلہ نہیں کرنا اور ہر مذہب پر اسلام کے غلبہ کو ہی ثابت نہیں کرنا بلکہ ان سازشوں کا بھی مقابلہ کرنا ہے، جو علمائے سوء کی طرف سے رونما ہورہی ہیں اور جن کی پشت پر اب بعض بڑی بڑی دنیا وی طاقتیں کام کر رہی ہیں.ان کی پوری کوشش ہوگی کہ جب آپ اسلام کی دشمن طاقتوں سے نبرد آزما ہوں تو جہاں تک ممکن ہو، یہ آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیں.پس آپ کو ہر سمت میں خدا کے نام پر جہاد کے لئے تیار ہونا چاہیے.اور اپنی ترقی کی رفتار کو اتنا بڑھا دینا چاہیے کہ آپ کے مخالف کلیتہ مایوس ہو جائیں اور اسلام کا غلبہ صبح صادق کی طرح جلد تر سارے سیرالیون کو اپنی نورانی لپیٹ میں لے لے.کامیاب مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ دعا گو ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے والا ہو.ورنہ اس کے قول میں کوئی برکت نہیں پڑتی.اس لئے اپنے نفس کی تربیت کی طرف بھی توجہ کریں اور تعلق باللہ بڑھائیں.اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا رشتہ باندھیں اور دعاؤں اور حوصلے کے ساتھ کام لیتے ہوئے اور اللہ تعالی پر توکل رکھتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں.284

Page 294

تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد ور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ سیرالیون تمہارا کام اب یہ ہونا چاہیے کہ دعاؤں اور استغفار اور عبادت الہی اور تزکیہ و تصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ.اس طرح اپنے تئیں مستحق بناؤ خدا تعالیٰ کی ان عنایات اور تو جہات کا ، جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے اور پیشگوئیاں ہیں، جن کی نسبت یقین ہے کہ وہ پوری ہوں گی.( ملفوظات جلد دوم صفحه (212) پھر حضرت بانی سلسلہ فرماتے ہیں:.تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دیئے جاؤ گے اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہوگا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو.گالیاں سنو اور چپ رہو.ماریں کھاؤ اور صبر کرو.اور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پر ہیز کرو.تا آسمان پر تمہاری قبولیت لکھی جاوے.یقین یا درکھو کہ جولوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور دل ان کے خدا کے خوف سے پگھل جاتے ہیں، انہی کے ساتھ خدا ہوتا ہے اور وہ ان کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے.دنیا صادق کو نہیں دیکھتی پر خدا جو علیم وخبیر ہے، وہ صادق کو دیکھ لیتا ہے.پس اپنے ہاتھ سے اس کو بچاتا ہے.کیا وہ شخص ، جو سچے دل سے تم سے پیار کرتا ہے اور بچ بچ تمہارے لئے مرنے کو بھی تیار ہوتا ہے اور تمہارے منشاء کے موافق تمہاری اطاعت کرتا ہے اور تمہارے لئے سب کو چھوڑتا ہے، کیا تم اس پیار نہیں کرتے ؟ اور کیا تم اس کو سب سے عزیز نہیں سمجھتے ؟ پس جبکہ تم انسان ہو کر پیار کے بدلہ میں پیار کرتے ہو پھر کیونکر خدا نہیں کرے گا.خدا خوب جانتا ہے کہ واقع اس کا وفادار دوست کون ہے؟ اور کون غدار اور دنیا کو مقدم رکھنے والا ہے؟ سو تم اگر ایسے وفادار ہو جاؤ گے تو تم میں اور تمہارے غیروں میں خدا کا ہاتھ ایک فرق قائم کر کے دکھلائے گا“.(تذکرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد 20 صفحه (68) | 285

Page 295

پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ سیرالیون 286 تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی سرخرو ہو اور آخرت میں بھی فلاح پاؤ.والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا طاہر احمد خليفة المسيم الرابع مطبوع ہفت روزہ النصر 20 دسمبر 1985ء وضمیمہ ماہنامہ مصباح دسمبر 1985ء)

Page 296

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خلاصه خطاب فرمودہ 08 دسمبر 1985ء مجلس شور می ایک مقدس ادارہ ہے خطاب فرمودہ 08 دسمبر 1985ء بر موقع مجلس شوری یو.کے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے انگریزی خطاب کا اردو میں خلاصہ حسب ذیل ہے.فرمایا:.اگر چہ میں اس مجلس شوری میں دیگر مصروفیات کی بنا پر شرکت نہ کر سکا لیکن مجھے آخری نصف گھنٹے کی کاروائی سننے کا موقع ملا ہے“.فرمایا کہ اس تجویز پر بحث کے دوران کہ جماعت کی جائیدادوں کی نگہداشت کے لئے کون سے ذرائع مفید ہو سکتے ہیں، بعض ایسی باتیں ہوئی ہیں، جو جماعت احمدیہ کی روایات کے مطابق نہیں.دو ممبران کو اپنے نقطہ نظر کو ایوان میں پیش کرنے کے دوران اس غلط فہمی کی بناء پرٹو کا گیا کہ شاید ان کا رویہ امیر صاحب کے متعلق مجلس شوری کے آداب کے خلاف تھا.جس پر امیر صاحب نے وضاحت کی کہ انہوں نے ان دونوں ممبران کی بات کا برانہیں منایا.امیر صاحب کی بات سے یہ تاثر ملتا تھا کہ اگر چہ ممبران کا رویہ تو خراب تھا لیکن امیر صاحب نے فراخدلی سے کام لیتے ہوئے ان کی باتوں کا برانہیں منایا.حضور نے فرمایا:.”یہاں پر میں اس بات کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے خیال میں ان دونوں ممبران کا رویہ مجلس شوری کے آداب کے خلاف نہیں تھا.وہ دونوں نظریات شریفانہ لیکن پرزور طریقے سے ایوان کے سامنے پیش کر رہے تھے.اور امیر صاحب بھی ان کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے.لیکن بفرض محال اگر کسی ممبر کا انداز گفتگو مجلس شوری کے آداب کے خلاف ہوتا تو امیر صاحب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ برانہ منائیں.یہاں پر ان کی اپنی ذات کا سوال نہیں تھا بلکہ مجلس شوری کے تقدس کا سوال تھا.اور پھر امیر صاحب کے مقام امارت کے احترام کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.مجلس شوریٰ ایک ایسا مقدس ادارہ ہے، جس کو ہم عام دنیاوی اداروں کی طرح بحث و مباحثہ کا مرکز نہیں بنا سکتے.اگر امیر صاحب کو کسی وقت ذرا بھی شک ہو کہ کوئی شخص مجلس شوری کی روایتی حدود سے ذرا بھی ادھر ادھر ہوا ہے تو امیر صاحب کا یہ فرض 287

Page 297

خلاصہ خطاب فرمودہ 08 دسمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ہے کہ اس کو روک دیں.خلفائے جماعت احمد یہ سالہا سال سے مجلس شوری مرکزیہ کی صدارت کرتے آئے ہیں.ان میں سے وہ بھی، جو اپنی ذات میں بہت حلیم تھے، مجلس شوری کے احترام یا مقام خلافت کی تکریم کا جہاں تک تعلق ہے، معمولی سے معمولی بات بھی برداشت نہ کرتے تھے.وہ دو مہران ، جو اس وقت بول رہے تھے، ان کے لیجے سے میں انہیں بخوبی پہچان گیا تھا.وہ ہرگز ان لوگوں میں سے نہ تھے، جو کسی عہدیدار کے ساتھ خواہ وہ بڑے عہدے کا مالک ہو یا چھوٹے کا، اس کے واجب احترام کو نظر انداز کر دیں.ہاں البتہ جو بات قواعد وضوابط کے خلاف ہے، وہ یہ ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر اظہار خیال کیا جائے.مجلس شوری کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ ایک دفعہ نام لکھوا کر ایک شخص اپنے خیالات کا اظہار کر کے جب واپس چلا جاتا ہے تو پھر وہ بغیر خاص اجازت کے دوبارہ نہیں بول سکتا اور عام طور پر ایسے شخص کو دوبارہ آنے کی اجازت نہیں دی جاتی.کیونکہ مجلس شوری دوسرے جمہوری اداروں کی طرح بحث و مباحثہ کی آماجگاہ نہیں.بلکہ یہ ایک نہایت ہی معزز مذہبی مجلس شوری ہے.اس میں شامل ہونے والے افراد نہایت تحمل اور بردباری سے احمد یہ کمیونٹی اور اشاعت اسلام کی بہتری کے پیش نظر اپنی آراء پیش کرتے ہیں.سارا وقت ماحول کو محبت و پیار کے جذبات سے خوشگوار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور کسی بھی فرد کو اس روایتی انداز میں رخنہ ڈال کر ماحول کو نا خوشگوار بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اگر مجلس شوری میں شامل ہونے والے تمام افراد کو اپنی ذمہ واریوں کا اندازہ ہو تو وہ اپنی حدود سے باہر نہیں جائیں گے.اس کے برعکس اگر لوگ ایک دفعہ جذبات کی رو میں بہہ جائیں تو پھر ان پر پابندی بڑی مشکل سے لگائی جاسکتی ہے.پس آئندہ مجلس شوری کے دوران ان امور کا خاص طور پر خیال رکھا جائے“.پھر فرمایا:.جماعت احمدیہ میں آج کل کمیٹی اور سب کمیٹی بنانے کا نظریہ بہت عام ہوتا جارہا ہے.آپ لوگوں کو اس رحجان سے اس بات کا اندازہ تو ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو کام بہتر طریقے سے سرانجام دینے کا فکر ہے.لیکن یہ طریق کار کبھی کامیاب نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو گا.اگر کسی عہدے کا کام کما حقہ نہیں ہورہا تو اس عہدیدار کے ساتھ کمیٹی اور سب کمیٹی بنانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا.جہاں کہیں ایسے حالات پیدا ہو جائیں، وہاں سب سے پہلے ان وجوہات کا بنظر غائر جائزہ لینا چاہیے، جن کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے.مثال کے طور پر ایک سیکرٹری جائیداد کے فرائض میں جماعت کی تمام جائیدادوں کی مرمت اور ان کی نگرانی وغیرہ شامل ہے.یہ سیکرٹری جائیداد کا فرض ہے نہ کہ کمیٹی اور سب کمیٹی کا.اگر سیکرٹری جائیداد ان فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہوا ہے تو اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں.288

Page 298

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ خلاصہ خطاب فرمودہ 08 دسمبر 1985ء ایک تو یہ کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے باوجود کوشش بسیار کے وہ اس کام کو نپٹانے سے قاصر رہا ہے.تو ایسی صورت میں سب کمیٹی بنانے یا نائب کے لئے درخواست خود اس سیکرٹری کی طرف سے آنی چاہئے کہ اسے مزید مددگاروں کی ضرورت ہے.ناکامی کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس عہدے کے لئے جس شخص کو چنا گیا، وہ اس عہدے کے اہل نہیں.اس صورت میں آپ اس شخص کے پاس جس کے اختیار میں اس کو بدلنا ہو، یہ درخواست کر سکتے ہیں کہ اس عہدے پر نظر ثانی کی جائے.اگر وہ عہدے دار پورٹ دے رہا ہے تو رپورٹ دیکھ کر اندازہ ہو سکے گا کہ اس کے کام میں کیا خامی ہے؟ اور اگر وہ رپورٹ نہیں دے رہا تو اسے رپورٹ دینے پر مجبور کیا جائے.میرے خیال میں سیکرٹری جائیداد کے پاس جماعت کی تمام جائیداد کی معلومات پر مشتمل اور مفصل فہرست موجود ہونی چاہیے.اس کا فرض ہے کہ وہ تفصیلی رپورٹ کو مجلس عاملہ میں پیش کرے.پھر ی مجلس عاملہ کا کام ہے کہ اس پر تبصرہ کرے اور اس میں موجود خامیوں کی طرف اسے توجہ دلائے.اور اگر اسے مزید مدد درکار ہوتو مہیا کی جائے.تمام معاملات مجلس عاملہ کی معرفت حل کیے جائیں.اگر مجلس عاملہ کے پاس کسی عہد یدار کے کام بخوبی سرانجام نہ دینے کی رپورٹ آئے تو پھر یہ کمیٹی کا فرض ہے کہ اس کی ناکامی کی وجوہات کی تحقیق کرے.کیونکہ اس کے بغیر ایک عہدیدار کو بدل کر دوسرے کو عہدیدار بنا دینے سے بھی آپ کو کچھ فائدہ نہ ہو گا.اس لئے پہلے عہدیدار کی ناکامی کی وجوہات کا مکمل جائزہ لینا، کمیٹی کے فرائض میں داخل ہے.فرمایا:." آج کی مجلس شوری کی تمام تجاویز میں یہ پہلو نمایاں طور پر نظر آرہا ہے، اس لئے میں اس پر زور دے رہا ہوں.جب بھی کوئی مشکل پیدا ہو، اس کا تجزیہ کرنا ، آپ لوگوں کا پہلا قدم ہونا چاہئے.تجاویز میں جو مسائل بیان کئے گئے ہیں، ان کے تمام پہلوؤں پر جائزہ لینے اور غور کرنے کے بعد یہ دیکھ لینا چاہیے کہ ان میں کوئی وزن بھی ہے یا نہیں ؟ اس طرح سے وقت بھی ضائع نہ ہوگا“.مزید فرمایا کہ در تبلیغی تجاویز سے متعلقہ رپورٹ سن کر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ آپ لوگ صحیح لائنوں پر کام کر رہے ہیں.اور مجلس شوریٰ میں جو تبلیغی تجاویز شامل ہوئی ہیں، ان کا تعلق مروجہ تبلیغی نظام کو بدلنے کے ساتھ نہیں تھا اور نہ ہی ان کا مقصد شوری میں پیش کرنے سے کوئی بنیادی تبدیلی کرنا تھی.لیکن پھر بھی ان کو شمولیت کی اجازت دی گئی.اس کی وجہ یہ ہے کہ شوریٰ کا ہمیشہ سے یہ دستور چلا آ رہا ہے کہ بعض اہم موضوعات سے آرہا متعلق تجاویز کو بھی ، جن میں کوئی بنیادی تبدیلی کی ضرورت نہ ہو، شوری میں پیش کرنے کی اجازت دے 289

Page 299

خلاصہ خطاب فرموده 08 دسمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم دی جاتی ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے زمانہ میں اسی طرح کی بعض اہم مضامین کی حامل تجاویز کو شوری میں پیش کر کے زیر بحث لانے کی اجازت دی جاتی تھی.لوگوں کے اس طرف توجہ دلانے پر حضرت مصلح موعود فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس حقیقت کا علم ہے لیکن میں نے یہ تجاویز اس لئے پیش کرنے کی اجازت دی ہے کیونکہ یہ اہم موضوع ہے.اور ان پر دوبارہ بحث ہونے سے لوگ اس کی اہمیت سے خبر دار ہو کر واپس جائیں گے.اور نمائندوں میں اس کام کو فوقیت دینے کا احساس پیدا ہو جائے گا.لہذا آج کی تبلیغی تجاویز کو ہم اسی زمرے میں ڈال سکتے ہیں.ان کے پیش کرنے کا مقصد صرف اس موضوع کی اہمیت کی یاد دہانی ہے.یہاں پر بھی کمیٹیاں آپ کو فائدہ نہیں پہنچا ئیں گی کیونکہ تبلیغ کا کام اس وقت بہت کم ہو رہا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اے مسلمانو ! اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو اور اپنے دشمن کے ارادوں سے خبر دار رہو.خدا تعالیٰ نے اس سلسلے میں رابطوا “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے.رابطہ ایک ٹیکنکل اصطلاح ہے.اس کا مطلب ہے کہ تم ہمیشہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو اور اپنے دشمن کے ارادوں سے باخبر رہو اور ہمیشہ اپنی جنگ سرحد پر لڑنے کی کوشش کرو.دشمن کو اس بات کا موقع نہ دو کہ وہ تمہاری سرزمین میں داخل ہو جائے اور اگر تمہیں دشمن سے حملے کا خطرہ ہو تو جنگ وو دشمن کی سرزمین میں کرنے کی کوشش کرو تا کہ تمہاری سرزمین میدان جنگ نہ بن جائے.بدقسمتی سے جماعت احمدیہ اس اہم پہلو کو نظر انداز کر گئی ہے اور بہت کم دشمن سے رابطہ ہے.لوگوں میں داعی الی اللہ بننے کا احساس ضرور پیدا ہورہا ہے لیکن حقیقت میں داعی الی اللہ بننے والوں کی تعداد بہت کم ہے.اور جو داعی الی اللہ بنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا طریقہ کار کامیاب نہیں ہورہا.ان کے طریقہ کار کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اس میں جو کمی رہ گئی ہو، اس پر نظر رکھنی چاہیے.سیکریٹری تبلیغ کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو بار بار یاد دہانی کروائے اور اپنی رپورٹ مجلس عاملہ میں پیش کرے.فرمایا:.اس طریقہ کار کو اپنا کر انشاء اللہ ترقی کے راستے کھل جائیں گئے.پھر فرمایا:.رپورٹ لکھنے کا مسئلہ کافی پریشان کن ہے.بعض لوگ رپورٹیں لکھنے میں ماہر ہوتے ہیں.بہت خوبصورت رپورٹ تیار کرتے ہیں.لیکن ذرا غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ رپورٹ میں کچھ بھی نہیں.اس کے برعکس بعض لوگوں نے کام تو کیا ہوتا ہے لیکن رپورٹ تیار کرنے کا طریق نہ آنے کی وجہ سے یہ 290

Page 300

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خلاصہ خطاب فرمودہ 08 دسمبر 1985ء انداز نہیں ہوسکتا کہ رپورٹ لکھنے وا کیا چاہ رہاہے.میرے خیال میں رپورٹ لکھنے کے دوران زیادہ اہم باتیں شروع اور آخر میں لکھنی چاہئیں.مثلاً اس عرصہ میں ہم نے دس نئے داعی الی اللہ تیار کیے ہیں اور بفضل خدا اتنے نئے آدمی جماعت میں داخل ہوئے ہیں.جن کے پاس وہ رپورٹیں آتی ہیں، انہیں بھی اتنی مہارت ہونی چاہیے کہ ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہی سمجھ جانا چاہیے اور خامیوں کی طرف اس کو توجہ دلانی چاہیئے.پھر فرمایا:.تمام سیکرٹریان کو خواہ وہ مرکزی ہوں یا مقامی، متواتر توجہ دلاتے رہنا چاہیے.انہیں بعض اوقات کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے اور اس طرح گویا انہیں کام نہ کرنے کی ترغیب مل جاتی ہے، جو نہایت تکلیف دہ امر ہے.اس سے ایک تو کام نہیں ہوتا ، دوسرے اور بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.فرمایا:.اس وقت میری مخاطب صرف یو کے کی جماعت ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام جماعتیں ہیں.بعض جگہوں پر امیر اپنے سیکرٹریوں سے بالکل کام نہیں لیتے اور نہ ہی انہیں کام پر ابھارتے ہیں.جماعت کا کام یا تو وہ خود ہی کرنا چاہتے ہیں یا ایسے افراد منتخب کر لیتے ہیں، جن پر انہیں زیادہ بھروسہ ہوتا ہے.سیکرٹریوں کو کام نہ دے کر اور دوسرے لوگوں سے کام کروا کے وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ گویا سیکرٹری نا اہل ہے، اس لئے امیر مجبور ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے کام کروائے.دوسری طرف سیکریٹری یہ خیال کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے کام کی کسی کو ضرورت نہیں تو ہم خواہ مخواہ دخل اندازی کیوں کریں.اس صورتحال کے خلاف احتجاج کر کے لوگوں کی تنقید کا نشانہ بننے سے بہتر ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے.بعض اوقات سیکریٹری بہت حساس ہوتے ہیں اور وہ اپنے اختیارات سے بڑھ کر حقوق جتانے شروع کر دیتے ہیں اور مجلس عاملہ میں لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں.ایک دوسرے پر اعتراضات اور پھر ان اعتراضات کا جواب دینے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.اس جماعت میں اس قسم کا رویہ ہرگز نہ ہونا چاہیے، جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے، جو اپنے روایتی نظم و ضبط کی وجہ سے مشہور ہے.یہ وہ جماعت ہے، جس نے اس خلیفہ کے زیر سایہ نسل در نسل تربیت پائی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے مصلح موعود کا خطاب دیا ہے، جس نے اسلامی نظم وضبط کو اس جماعت کی رگوں میں خون کی طرح دوڑا دیا تھا.آج کل ہونے والے لڑائی جھگڑوں کے واقعات ہمیں اس حقیقت کا احساس دلاتے ہیں کہ کسی مقام کو حاصل کر لینا ہی ہمارا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے قائم رکھنا ایک ضروری امر ہے.اور جب کبھی 291

Page 301

خلاصہ خطاب فرمودہ 08 دسمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اس طرف غفلت برتی گئی تو منزل کی ابتداء شروع ہو جاتی ہے.جہاں کہیں نظم وضبط کی کمی ہوتی ہے، وہاں ایسی باتیں وقوع پذیر ہونے لگتی ہیں.اور جہاں ایسی باتیں ہوتی ہیں، وہاں جماعت کی ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں.اور نئے لوگوں کو جماعت میں داخل کرنے کی بجائے وہ نہایت سرعت کے ساتھ منزل کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں.جبکہ اس کے پس پر وہ ایک معمولی سی بات ہوتی ہے، جس کے نہایت ہولناک نتائج نکلتے ہیں.امیر کو یہ حقیقت ہر گز نہیں بھولنی چاہیے کہ سیکرٹری کام کرنے کے لئے مقرر کیے گئے ہیں.اگر وہ کام نہیں کرتے تو ان سے جواب طلبی کرنی چاہیے اور اگر وہ بار بار کی یاد دہانی کے باوجود وہ کام نہ کریں تو جماعتی نظام میں رائج طریق کار کے تحت اسے علیحدہ کر کے کوئی اور کام کرنے والا مقرر کر لینا چاہیے.لیکن ایسے آدمی کو نظر انداز کر کے، جس کا حق کام کرنے کا ہے، دوسرے سے وہ کام لینے والا امیر اس قابل نہیں کہ وہ صحیح کام کر سکے.اس سے صحیح گائیڈ لائن پر کام کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے..آج کی تمام بحث کا پس منظر بھی ایک عہدیدار کا اپنے فرائض کو بخوبی سرانجام نہ دے سکتا ہے.اس لئے آج کی بحث کا موضوع اس خاص کمی کو اجاگر کرنے کا ہونا چاہیے تھا.آپ کو امیر صاحب سے یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ کیا ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں یا نہیں کہ سیکرٹری صاحب جائیداد کی ذمہ داری ان تمام امور کو سرانجام دینے کی تھی؟ اسی طرح سیکریٹریان اصلاح وارشاد کے فرائض میں فلاں فلاں کام کرنا شامل ہے یا نہیں؟ اگر ان کے فرائض میں یہ کام شامل تھے اور انہوں نے یہ کام نہیں کئے تو ہم نہایت ادب کے ساتھ پر زور درخواست کرتے ہیں کہ اس عہدہ دار کا جائزہ لیا جائے.اگر وہ عہد یدار یہ کام سرانجام دینے سے کسی بھی وجہ سے معذور ہیں تو ان کو علیحدہ ہو جانا چاہیے.تا کہ جماعت کے کاموں میں رخنہ اندازی نہ ہو.ہمیشہ اس بات کا تجزیہ کر لیا کریں کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ اور پھر جب ایک دفعہ اس کی نشاندہی کر لیں تو پھر یہ مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے.اگر ہم اصل وجہ کو نظر انداز کر دیں تو اس کا رد عمل شدید ہوتا ہے اور ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں، جو ہمارے لئے تکلیف دہ بن جاتے ہیں.حضور نے تمام سیکر یٹریان تبلیغ کو مندرجہ ذیل امور کی پابندی کرنے کی تلقین فرمائی:." 1 سیکریٹری تبلیغ کے پاس جماعت کے تمام مہران کے ناموں کی لسٹ موجود ہونی چاہیے.جس میں تبلیغ میں حصہ لینے والے اور حصہ نہ لینے والوں کے نام الگ الگ لکھے جائیں.سیکریٹری تبلیغ کو چاہیے کہ اپنے کام کا آغاز ان لوگوں سے کرے، جو تبلیغ میں حصہ نہیں لے رہے.انہیں اس طرف متوجہ کیا 292

Page 302

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 08 دسمبر 1985ء جائے اور جب وہ داعی الی اللہ بن جائیں تو پھر ان کا کام بہت بڑھ جائے گا.اس طرح سیکر یٹری تبلیغ بھی مصروف ہو جائے گا اور کام نہ ہونے کا شکوہ نہیں رہے گا.2 تمام سیکریٹریان تبلیغ میری تمام ہدایات، جو میں نے مختلف اوقات میں تبلیغ کے متعلق دی ہیں، انہیں ایک نوٹ بک پر لکھ لیں اور گاہے بگا ہے ان سے استفادہ کرتے رہیں.اس طرح انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے کن لائنوں پر کام کرتا ہے.اور جہاں خامیاں رہ گئی ہوں، ان کی طرف توجہ کریں.فرمایا:.و میں نے اس مضمون کو بارہا مفصل بیان کیا.مزید فرمایا کہ اگر آپ اس کے مطابق عمل کریں گے تو کام بہت بڑھ جائے گا.اس کے بعد نئے میدان تلاش کرنے کی ضرورت پیش آئے گی.ابھی تو انہی Points کو لکھ کر اپنے پاس رکھیں.کیونکہ اگر ہدایات کو نوٹ کر کے اپنے پاس رکھا نہ جائے اور بار بار نہ پڑھا جائے تو کچھ عرصے کے بعد وہ ذہن سے محو ہو جاتی ہیں.اس لئے ان کا ایک خاکہ ضرور آپ کے پاس موجود ہونا چاہیے.پھر جب کوئی نئی ہدایات ملیں تو ان کو آگے لکھ لیا کریں.اس طرح آپ کے ذہن سے یہ بات بھی محو نہ ہوگی کہ آپ کو منتخب کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اور آپ کی کارکردگی کیا ہے؟ تبلیغ کے ان دوطریقوں پر عمل کر کے کافی مدت تک آپ بہترین کام کر سکیں گے.اور اس طریقہ کار سے بہت جلد سیکریٹری تبلیغ کے لئے کام مہیا ہو جائے گا.اس وقت پھر ان کو مددگاروں کی ضرورت ہوگی.حضور نے فرمایا:.بدقسمتی سے وہ ممالک، جو تھرڈ ورلڈ ( تیسری دنیا ) کہلاتے ہیں، ریزولیوشن پاس کرنے میں بہت تیز ہیں اور عمل میں وہ باقی دنیا سے پیچھے ہیں.جماعت احمدیہ کا کسی دنیا سے تعلق نہیں، نہ پہلی ، نہ دوسری، نہ تیسری.جماعت احمدیہ کا تعلق اسلام سے ہے.اس لئے اس کی کار کردگی اعلی وارفع ہونی چاہیے.تا کہ وہ باقی تمام دنیا کے لئے نمونہ بن سکے.آپ جس ملک میں رہیں، وہاں کے لوگوں کے لئے نمونہ بن کر رہیں تا کہ دوسرے لوگ آپ کے نقش قدم پر چلیں.جب آپ کو کسی کے نقش قدم پر چلنے کے لئے کہا جائے گا تو سمجھ لیں کہ خرابی پیدا ہوگئی ہے.اپنی خصوصیت اور اپنی منفرد حیثیت کو برقرار رکھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کسی ملک اور نسل کی تفریق کے تمام دنیا کے لئے نمونہ بنایا گیا ہے.اور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار 293

Page 303

خلاصه خطاب فرمودہ 08 دسمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتم اور آپ کے نمائندے ہیں.آپ ہر ملک میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ بننے کی کوشش کریں اور زندگی کے ہر پہلو میں آپ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کریں.آپ کے ریزولیوشن اور آپ کے سب کام صرف اسی مقصد کی تکمیل کے لئے ہونے چاہئیں.آپ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے پیدا نہیں کیے گئے.بلکہ آپ کے ساتھ نہایت ہی اعلیٰ وارفع مقاصد کی تکمیل وابستہ ہے.(مطبوعہ ہفت روزہ النصر 13 دسمبر 1985ء) 294

Page 304

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام فرمودہ 20 دسمبر 1985ء شاہراہ غلبہ اسلام پر چلنے کے لئے اپنے اختلافات ختم کرنے ہوں گے پیغام فرمودہ 20 دسمبر 1985ء بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ ملائیشیا م الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم میرے پیارے اور عزیز بہن بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته جماعت احمدیہ ملائیشیا کے جلسہ سالانہ کے انعقاد کا سن کر بہت خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو بے شمار برکتوں اور رحمتوں سے معمور فرمائے ، اس میں شامل ہونے والوں پر بھی اپنے افضال نازل فرمائے اور ان پر بھی ، جو باوجود خواہش کے کسی مجبوری کے تحت اس میں شامل ہونے سے قاصر رہے.خدا تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس عظیم الشان موعود وجود کو قبول کرنے کی توفیق بخشی، جس کی تمام قو میں منتظر تھیں.اور اس کے ذریعہ ایک رشتہ الفت میں منسلک کر دیا.یہ نعمت، محبت والفت ایک معجزہ ہے، جو نبیوں کو عطا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا اور اللہ کے اس احسان کو یاد کرو، جو اس نے تم پر کیا کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی.جس کے نتیجہ میں تم اس کے احسان سے بھائی بھائی بن گئے.اسی اخوت اور بھائی چارہ کی فضا کو قائم کرنے کے لئے اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرمایا.چنانچہ آپ نے یہ اعلان فرمایا :.میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی تو حید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو.یہی دلیل تھی، جو صحابہ ” میں پیدا ہوئی تھی.295

Page 305

پیغام فرمود: 20 دسمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ یا درکھو تالیف ایک اعجاز ہے“.(آل عمران: 104) ( ملفوظات جلد اول صفحه (336) آج اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ عرب و عجم ، سرخ و سفید کو محبت کی لڑی میں پرو کر ایک ایسی جماعت بنادی ہے، جس کے ذریعہ اسلام کا غلبہ مقدر ہے.اور غلبہ کے تصور کے ساتھ ہی جو بات ذہن میں ابھرتی ہے، وہ وہی اتحاد، یک جہتی اور باہمی محبت والفت ہے، جس کا آیت مذکورہ بالا میں ذکر ہے.کیونکہ وہ فوج کبھی فتحیاب نہیں ہو سکتی، جو خود منتشر اور پراگندہ ہو.اس لئے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور شاہراہ غلبہ اسلام پر چلنے کے لئے اپنے اختلافات اور جھگڑوں کے بوجھ کندھوں سے اتارنے ہوں گے.اور صرف یہی نہیں بلکہ ایسے امور ، جو جماعت کی یک جہتی اور اتحاد کو نقصان پہنچانے والے ہوں، ایسے امور، جوفتنہ دانتشار کا موجب ہوں، ان کو دور سے ہی نفرت کے ساتھ دھتکارنا ہوگا.دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کو بار بار توجہ دلاتا ہوں اور دلا تار ہوں گا ، دعوت الی اللہ کے فریضہ کی ادائیگی ہے.ہر احمدی چھوٹا ہو یا بڑا ، مرد ہو یا عورت، اسے خود کو اس کام میں جھونک دینا ہوگا.کیونکہ ملیشیا میں جماعت کی ترقی کی رفتار تسلی بخش نہیں.قرآن کریم نے امت مسلمہ کی ایک امتیازی شان یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ دوسروں کو ہدایت کی طرف بلاتے ہیں.وہ قوم، جو دوسروں کی بھلائی کے لیے کوشاں نہ ہو، خدا تعالٰی کی نعمتوں کو محض اپنے تک محدود کرنے والی ہو، وہ خود بھی محدود ہوکر رہ جاتی ہے.مگر جماعت احمدیہ کا ہرگز ہرگز یہ مقدر نہیں.یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے، جو بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں ، جو اس کو روک سکے.ملیشیا میں اس درخت کی آبیاری آپ کے سپرد کی گئی ہے.آپ نے اپنے آرام اور اوقات کو حج کر اس کو پروان چڑھانا ہے.دعوت الی اللہ میں حائل تمام تکلفات اور جھجک کے پردوں کو چاک کر کے دوسروں کو دین ہدی میں شامل کرنا ہے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد بس یہی تھا.آپ فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جوز مین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیاء، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں، تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے، جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کروگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.وو (رساله الوصیت صفحه 8 ، 9 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306 307) 296

Page 306

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم پیغام فرمودہ 20 دسمبر 1985ء پس مبارک ہیں وہ، جو خدا تعالیٰ کی تقدیر کے دوش پر مسیح موعود کے مقصد کو پورا کرنے میں کوشاں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے نفوس میں بھی برکت ڈالے گا اور ان کے ایمان اور اموال میں بھی.اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے زیادہ علم کی ضرورت نہیں.جو چیز سب سے زیادہ اہم اور لا بدی ہے، وہ دعا ہے.بلکہ زندگی کے ہر کام اور ہر ضرورت اور مشکل میں یہی انسان کا سہارا ہے.جو غیر ممکن کو ممکن میں بدل دیتی ہے.اور بے بس اور کمزور و ناتواں کو طاقتور ثابت کرتی ہے اور کامیابیوں سے ہمکنار کرتی ہے.انسان کے کاموں میں برکتیں دعا ہی کے راستہ سے آتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کے بارہ میں فرماتے ہیں:.وو وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے.وہ موت ہے پر آخر کوزندہ کرتی ہے.وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے.ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے.پھر فرمایا:.66 (لیکچر سیالکوٹ صفحہ 20 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 222) وہ امر، جو ایک بجلی کی چمک کی طرح ایک دفعہ انسان کو تاریکی کے گڑھے سے کھینچ کر روشنی کی کھلی فضا میں لاتا اور خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر دیتا ہے، وہ دعا ہی ہے.دعا کے ذریعہ سے ہزاروں بدمعاش صلاحیت پر آجاتے ہیں، ہزاروں بگڑے ہوئے درست ہو جاتے ہیں." ایام الصلح صفحہ 34 روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 260) اس کا ثبوت یہ ہے کہ.....وہ، جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گز را کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے.اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے.اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے.اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے.اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں، جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا.اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.بركات الدعاء، روحانی خزائن جلد 6 صفحه 10,11) 297

Page 307

پیغام فرمودہ 20 دسمبر 1985ء تحریک جدید - ایک الی تحریک...جلد هفتم اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.آپ کو باہمی محبت واخوت کے جذبہ سے سرشار رکھے.سلسلہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق بخشے.داعی الی اللہ کی صفات سے متصف فرمائے اور دعوت الی اللہ کے لئے آپ کو جذبہ و جوش سے معمور فرمائے.آپ کی دعاؤں کو قبولیت بخشے.اور دین و دنیا میں کامیابیوں سے نوازے.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ۱۳۶۴ ش 20.12.1985 مرسله وکالت تبشیر ، مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ جنوری 1986 ء و ہفت روزہ النصر 24 جنوری 1986 ء ) 298

Page 308

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ؟ پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سویڈن دعوت الی اللہ ہر فرد جماعت پر فرض ہے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سویڈن منعقدہ 25 دسمبر 1985ء الله الرحمان الرحيم الكريم نحمده ونصلى على رسوله الكريم میرے پیارے عزیز بہن بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یہ سن کر خوشی ہوئی کہ جماعت احمد یہ سویڈن کا جلسہ سالانہ منعقد ہورہا ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی اس جلسہ کو ان برکتوں سے معمور کر دے، جو جلسہ سالانہ کے ساتھ وابستہ ہیں.اور وہ اس میں شامل ہونے والوں کو بھی اور ان کو بھی، جو باوجود خواہش کے کسی مجبوری کے تحت اس میں حاضر نہ ہو سکے، ان برکتوں سے نوازے.میں نے خدام الاحمدیہ سویڈن کے اجتماع کے لئے اپنے پیغام میں یہ تکلیف دہ اظہار کیا تھا کہ جماعت احمد یہ سویڈن دعوت الی اللہ کی دوڑ میں یورپ کی تمام جماعتوں سے پیچھے رہ گئی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیغام خدام الاحمدیہ سویڈن کی بجائے لجنہ اماءاللہ سویڈن تک پہنچ گیا.کیونکہ بفضلہ تعالیٰ اس پیغام کے بعد سویڈن کی احمدی خواتین میں بہت خوش کن تبدیلی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.اور بعض احمدی بچیوں کی طرف سے تو ایسی عمدہ دعوت الی اللہ کی رپورٹیں مل رہی ہیں کہ دل سے بے اختیار ان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں.مگر یا درکھیں کہ تبلیغ ہر فر د جماعت پر فرض ہے.خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، مرد ہو یا عورت.اور ہر ایک میرا مخاطب ہے اور ہر ایک کو میرا یہ پیغام ہے کہ وہ جس حد تک کوشش کر سکتا ہے، جس حد تک قربانی کر سکتا ہے، اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے کمر بستہ ہو.اس راہ میں کامیابی خدا تعالیٰ نے مقدر فرما دی ہے.اور حضرت مسیح موعود کو الہامات میں بار بار بتایا ہے کہ ہر قوم اس چشمہ سے پانی پینے گی.آپ دین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم بردار ہیں اور بلاشبہ آج کل عالم میں یہ دین سب سے بالا اور سب سے اعلیٰ ہے.اس میں غلبہ پانے کی اندرونی قوت موجود ہے.آپ کی تھوڑی محنت بھی بفضلہ تعالیٰ بڑے نتائج پیدا کر.299

Page 309

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سویڈن تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتہ گی.پس حسب توفیق ، اخلاص اور دعاؤں کے ساتھ اس راہ میں کوشش کریں.ہمت اور استقلال کے ساتھ ، خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ، اس کی نصرت پر کامل تو کل رکھتے ہوئے آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں.لیکن ضروری ہے کہ مسلسل خودا اپنی کوششوں کا محاسبہ جاری رکھیں اور روزانہ سونے سے پہلے اپنے آپ سے یہ سوال کیا کریں کہ آج آپ نے دعوت الی اللہ کا کیا اور کتنا حق ادا کیا؟ دعاؤں میں اپنے دن گزاریں اور دعاؤں میں ہی اپنی راتیں بسر کریں.دعا ہر مشکل کامل اور ہر بند دروازے کی کنجی ہے.دعا ہی ہے، جو مردوں کو حیات سرمدی عطا کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعاؤں کی طرف بڑی کثرت سے توجہ دلائی ہے.اور یہ اعلان بھی فرمایا کہ وو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جوز مین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیا، ان سب کو، جو نیک فطرت رکھتے ہیں، توحید کی طرف کھینچے.اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے، جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کر دیگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.(رساله الوصیت صفحہ 8 ، 9 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306 307) پس آپ میں سے ہر وہ فرد برکت دیا جائے گا، جو خدا تعالیٰ کے مقصد کی پیروی کرتا اور حضرت مسیح موعود کے مشن کی تکمیل کے لئے نرمی، اخلاق اور دعاؤں کے ساتھ دعوت الی اللہ کے لئے کوشاں ہے.آپ میں سے کون ہے، جوان سعادتوں سے حصہ لیتا ہے؟ ہے.میں آپ سب کے لئے دعا گو ہوں اور آپ کی طرف سے دعوت الی اللہ کے ثمرات کا منتظر ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے وجود کا ذرہ ذرہ جذبہ وشوق تبلیغ سے بھر دے.اور آپ کے ان جذبات کو قبول فرمائے ، آپ کی دعاؤں کو سنے اور ارض سویڈن میں احمدیت کو غالب کر دے.آپ کو دنیا میں بھی سرخرو کرے اور آخرت میں بھی.والسلام خاکسمار ( دستخط) مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 10 جنوری 1986 ء وضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید جنوری 1986ء) 300

Page 310

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ آسٹریلیا جلسہ احمدیہ احمدیت کی ترقی اور تمام دنیا پر اس کا غلبہ ایک اہل تقدیر ہے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ آسٹریلیا منعقدہ 26 تا28 دسمبر 1985ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ میرے پیارے ساتھیو اور عزیزو! هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یہ سن کر خوشی ہوئی کہ جماعت احمدیہ آسٹریلیا ماہ دسمبر کے آخر پر جلسہ سالانہ کا انعقاد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس بابرکت اجتماع کو جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی ترقی کا موجب بنائے اور اسے بے شمار برکتوں سے معمور فرمائے.احمدیت کی ترقی اور تمام دنیا پر اس کا غلبہ ایک اہل تقدیر ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وو میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں،سومیرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں ، جو اس کو روک سکے.بظاہر یہ عجیب لگتا ہے کہ کسی کو اگر یہ کہا جائے کہ کھارے پانی کی جھیل میں ایک قطرہ میٹھا پانی ڈال کراسے میٹھا کر دو.وہ یا تو اسے مذاق سمجھے گایا دیوانے کی بات تصور کرے گا.آپ کو بھی شاید یہ عجیب لگے کہ اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ آسٹریلیا میں بسنے والے احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ سارے براعظم آسٹریلیا کو احمدی بنانا ہے.مگر یہ نہ مذاق کی بات ہے، نہ دیوانے کی بڑھ.بلکہ مذہب کی دنیا میں اس سے بڑھ کر دانائی اور حکمت کی بات کوئی نہیں.کیونکہ آج سے تقریباً چودہ سو برس قبل مکہ میں یہ واقعہ گزرا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کہ آپ یک و تنہا تھے، اللہ تعالی نے سب سے عجیب حکم فرمایا کہ 301

Page 311

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ آسٹریلیا تحریک جدید - ایک الہی تحریک قُمْ فَانْذِرْ اٹھ اور ساری دنیا کو رحمت اور امن کے پیغام سے آگاہ کر.اس وقت صرف ایک براعظم کی بات نہیں تھی بلکہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کی کیفیت تھی کہ صرف سمندروں کو ہی میٹھے پانیوں میں نہیں بدلنا بلکہ مشکوں کو بھی زرخیز وادیوں میں بدلتا ہے.نہیں جب میں آپ سے یہ توقع کرتا ہوں کہ آپ نے سارے براعظم آسٹریلیا کو احمدی بنانا ہے تو میری یہ توقع اس فارمولے کے مطابق ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم پر روشن فرمایا.یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ میری بات کو بھول نہ جائیں اور محنت ، ہمت، استقلال، صبر اور دعا کے ساتھ ہر سمت میں پھیلیں.اسی طرح جس طرح دہی کا ایک قطرہ دودھ کے سمندر کو بھی دہی میں تبدیل کر سکتا ہے.پس خدا پر توکل کرتے ہوئے ، اس سے توفیق مانگتے ہوئے ، دعاؤں کے ساتھ آگے بڑھیں اور سارے براعظم کو اسلام کے نور سے منور کر دیں.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وو ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا ، یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اس تقدیر الہی کے ساتھ ساتھ چلنے کی ہمت عطا فرمائے اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق بخشے.302 والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 27 دسمبر 1985ء و ضمیمہ ماہنامہ خالد دسمبر 1985ء)

Page 312

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع جلسه سالانه نائیجیریا جماعت احمدیہ قومی عصبیت اور عہدہ کی طلب سے کلیۂ پاک اور بیزار ہے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ نائیجیر یا منعقدہ 27 تا 29 دسمبر 1985ء پیارے عزیزو! الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريهم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته الحمد للہ کہ جماعت احمدیہ نائیجیریا کا جلسہ سالانہ مؤرخہ 27,28,29 دسمبر کو منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک لمحہ کو بے شمار برکتوں سے معمور فرمائے اور ہر فرد جماعت کو اپنے غیر معمولی فضلوں سے نوازے.اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس اعتراض کو کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں کے بڑے بڑے شہروں میں سے کیوں نہ کسی کو نبی بنایا ؟ اپنے پاک اور حلیم کلام میں ذکر فرما کر ہمیشہ کے لیے انسانی وساوس کو رد فرما دیا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی مرضی کے مطابق ان پر امام مقرر فرمائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ کیا خدا کی رحمت کی تقسیم یہ لوگ کریں گے؟ قرآن آغاز ہی میں ابلیس کے اس اعتراض کو ہمیشہ کے لیے مردود قرار دے دیتا ہے کہ میں فلاں سے بہتر ہوں، اس لیے اس کی اطاعت کا پابند نہیں کیا جاسکتا.اسلام کی روح رنگ ونسل اور قومیت کی آلودگیوں سے پاک ہے اور شرق و غرب کی تمیز کو یکسر مٹا دیتی ہے.اسلام کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم شرق و غرب کے فرق مٹانے والا تھا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کی شان کی گواہی اس شان کے ساتھ دی کہ اسے قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعًا کا اعلان کرنے کا حکم فرمایا.حجتہ الوداع کے موقع پر آپ کا جلالی پیغام اس موضوع پر حرف آخر کا حکم رکھتا ہے.آپ نے فرمایا:.303

Page 313

پیغام بر موقع جلسه سالانه نائیجیریا تحریک جدید - ایک الہی تحریک اکرمکم عند الله اتقاكم وليس لعربى على فضل الابالتقوى“ کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے بزرگ وہی ہے، جو تم میں سے سب سے زیادہ تقوی شعار ہے.کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی وجہ فضیلت نہیں سوائے تقوی کے.اسلام انسان کو تقوی، تذلل اور خدمت کے اس مقام پر قائم کرتا ہے، جہاں کسی عہدہ کی خواہش تو کجا، اس کی سپردگی بھی اس کی روح کو لرزاں کر دیتی ہے.چنانچہ امت مسلمہ میں اہل اللہ کی ایسی مثالیں موجود ہیں، جنہیں آج بھی امت عقیدت کے ساتھ یاد کرتی ہے.ان کو جب کسی عہدہ کی پیشکش کی گئی تو وہ کانپ اٹھے اور محض اس وجہ سے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ ہم خود کو بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کے اہل نہیں پاتے.اس وجہ سے کہیں خدا تعالیٰ کے حضور مجرم نہ ہو جائیں.چنانچہ انہوں نے کوڑے کھانے پسند کئے اور معمولی سے معمولی مزدوری کے کام کو ترجیح دی مگر سرداری کرنے اور عہدہ لینے.خوف کھایا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ باوجود اس کے کہ اپنا دن رات اور اپنے وجود کا ذرہ ذرہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بجا آوری میں قربان کر چکے تھے مگر پھر بھی یہ حال تھا کہ ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں مجھ سے کسی کے حقوق کی ادائیگی میں کمی نہ ہو گئی ہو.پس یہ وہ سبق ہیں، جو اسلام نے ہمیں سکھائے ہیں.وہ ہمیں خدمت سے اس مقام پر پہنچنے کی تعلیم دیتا ہے، جہاں انسان کی روح اور اس کا دل خاک نشین ہو جاتے ہیں.تب خدا تعالیٰ اس کا رفع کرتا ہے اور اس کو ایسی رفعتوں اور عظمتوں سے نوازتا ہے کہ رضوان یار کا تاج اس کو عطا کیا جاتا ہے.اور وہ انسانوں کا سردار ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے پیاروں میں بھی شمار ہوتا ہے.قومی عصبیت اور عہدہ کی طلب زمانہ جاہلیت کے افکار تھے یا آج مغربیت کا زہر ہیں، جن سے جماعت احمد یہ کلیہ پاک ہے اور بیزار ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت احمد یہ ان سے اپنے دامن کو پاک رکھے گی اور ہمیشہ رضوان یار کی طلب گار رہے گی.ہماری ایک ہی منزل ہے اور ایک ہی مطمح نظر، جس کے حصول کے لئے ہر کوئی چھوٹا ہے یا بڑا ؟ خادم ہے یا مخدوم ایک ہی راہ پر گامزن ہے.اور ایک ہی دین، دین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سر بلندی کے لئے کوشاں ہے ، اس لئے ہر احمدی عظیم ہے.304

Page 314

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم پیغام برموقع جلسه سالانه نائیجیر یا اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور اپنی رضا اور پیار کے جلووں سے نوازے.آمین یہ جلسہ آپ سب کو مبارک ہو.والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعہ ہفت روزہ النصر 3 جنوری 1986ء ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ جنوری 1986ء وضمیمہ ماہنامہ خالد مئی 1986ء) 305

Page 315

Page 316

تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1985ء دنیا کے لئے پیغام احمدیت تو امن وسلامتی کا مثر وہ جاں فزا ہے 22 جون ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1985ء انبیاء علیہم السلام کی سیرت و سوانح پر مشتمل بچوں کے لئے کتب تیار کرنے کے بارہ میں سوال ہوا تو حضور نے فرمایا کہ ”جب ہلرز فیلڈ (یو.کے ) میں احمد یہ سکول کے نصاب کے بارہ میں بات ہوئی تھی تو میں نے یہ کام ایک کمیٹی کے سپرد کیا تھا اور اس کمیٹی کو اس کام کے لئے ہدایات بھی دی تھیں اور وہ اس بارہ میں پیش رفت بھی کر رہے ہیں.نیز ہدایت دی کہ ایسی کتب میں انبیاء کی تاریخ کے علاوہ ان کے قبعین پر مظالم کے واقعات ، اس وقت کے جغرافیائی حالات، وہاں اگر حکومتیں تھیں تو ان کے بارہ میں بھی ، اسی طرح انبیاء کے بارہ میں غیر احمدیوں کے عقائد کا بھی کسی حد تک ذکر ہو“.حضور نے فرمایا:.اس بارہ میں، میں خود بھی کچھ بیان کروں گا تا کہ بچوں کے لئے مفید ثابت ہو" نیز فرمایا:.بچوں کو چھوٹی عمر میں جو کچھ سکھا دیا جائے ، وہ ان کی یادوں میں نقش رہتا ہے.06 جولائی ،ٹلفورڈ 解 مطبوعه ضمیمہ ماہنامہ مصباح جولائی 1985 ء) سوال: یہودی اپنے مذہب اور اعتقادات میں بڑے پابند ہیں.اگر ہم حضرت عیسی کو چھوڑ کر صرف حضرت مسیح موعود کی طرف ہی ان کو بلائیں تو ان کا احمدیت کی طرف آنا زیادہ آسان ہے؟ حضور نے فرمایا:.کسی پیغمبر کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کے انبیاء بھیجنے کا سارا نظام درھم برھم ہو جاتا ہے.اگر وہ حضرت مسیح موعود کو مانیں گے تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے ایمان لائیں 307

Page 317

ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم گے ، تب ہی حضرت مسیح موعود کو مانیں گے.اسی طرح یہ ایک سلسلہ ہے، جس میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.حضور نے فرمایا کہ ” یہودی تو عملاً آخرت پر بھی ایمان نہیں رکھتے.لیکن نئی نسل چونکہ کچھ Rational ہے، اس لئے ہمیں ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے.اور امید رکھنی چاہیے، کیونکہ قرآن کریم میں تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہود میں بھی اچھے لوگ ہیں.پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ہدایت پا جائیں.اور خدا کے فضل سے احمدیت کے ذریعہ بعض یہودی حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں، اسرائیل میں بھی اور امریکہ میں بھی.اور بعض تو بہت گرمجوش اور تبلیغ کرنے والے مسلمان ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود بھیجنے والے ہیں.پس اگر یہود کی نوجوان نسل کو تبلیغ کی جائے تو بہت مفید ہو سکتا ہے.کیونکہ یہ بہت محنتی لوگ ہیں اور جس عقیدہ کو تسلیم کر لیں ، اس کی خوب پیروی کرتے ہیں.( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 26 جولائی 1985 ، و ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ اگست 1985ء) 25 اکتوبر، لنڈن سوال: کیا احمدیت قبول نہ کرنے پر دنیا عالمگیر جنگ کے ذریعے تباہ کر دی جائے گی؟ فرمایا: دنیا کے لئے پیغام احمدیت تو امن و سلامتی کا مشردہ جانفزا ہے.احمدیت کو قبول کر کے دنیا اس عالمگیر تباہی سے بچ جائے گی ، جو خود ان کے صراط مستقیم سے ہٹ جانے کی وجہ سے ان کے سر پر عذاب النبی کی شکل میں منڈلا رہی ہے.احمدیت کو قبول نہ کر کے وہ اس سزا کے مستحق ہوں گے، جو ان کے بد اعمال کی وجہ سے بہر حال ان کا مقدر بن چکی ہے“.سوال: دنیا کی مکمل تباہی کی صورت میں احمدیت کس طرح پھیلے گی؟ فرمایا:.قرآن کریم میں بڑی طاقتوں کی تباہی کا ذکر تو ہے لیکن تمام بنی نوع انسان کی تباہی کا ذکر نہیں.اس جنگ میں بڑی طاقتوں کو نیچا دکھایا جائے گا اور دنیا کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو جائے گا.باقی جورہ جائیں گے، ان کے سوچنے کا انداز بدل جائے گا.وہ سچائی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں گے.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام بھی موجود ہے کہ رائیں تبدیل کر دی جائیں گی.308

Page 318

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1985ء سوال : وصیت کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟ فرمایا:.وصیت کے احکام اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر بیان فرما دیئے ہیں.انہی اصولوں پر وصیت کرنی چاہئے.قرآن کریم نے لواحقین کے حقوق کو فوقیت دی ہے.جماعت احمدیہ کے حق میں بھی وصیت 1/3 سے زیادہ کی نہیں ہو سکتی.2/3 رشتہ داروں کا حق ہے.البتہ کوئی وارث نہ ہونے کی صورت میں ساری جائیداد جماعت کے نام چھوڑی جاسکتی ہے“.126اکتوبر ، لنڈن سوال: کیا اجتماعی طور پر لٹریچر کی تقسیم تبلیغ کے لئے مفید ہے؟ فرمایا:.یہ طریقہ کار اس وقت مفید تھا، جب لوگوں کو مذہب میں دلچسپی تھی.لیکن اب لوگوں کو مذہب سے اتنی دلچسپی نہیں رہی.اگر بغیر ذاتی تعارف اور دلچسپی پیدا کئے ، آپ انہیں لڑر پچر دیں گے تو وہ شکریہ کے ساتھ آپ سے لے لیں گے لیکن بعد میں سرسری نظر ڈال کر یا بغیر نظر ڈالے اسے پھینک دیں گے.اس لئے یہ طریق کا راب تک ایک طرح سے وقت اور لٹریچر ضائع کرنے کے مترادف ہے.آپ تو یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی خاطر لوگوں کو پیغام حق پہنچا دیا ہے لیکن حقیقتا انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.عام تعارف کے لئے آپ پریس اور اخبارات میں مذہب کے علاوہ دوسرے موضوعات پر مضامین اور خط وغیرہ بھجوائیں.جب لوگ آپ سے ذاتی طور پر واقف ہو جائیں گے تو پھر مذہبی موضوع پر بھی لکھا جا سکتا ہے.اس وقت آپ کی بات کو زیادہ اہمیت دی جائے گی اگر آپ واقعی یہ چاہتے ہیں کہ کسی کو تبلیغ کریں اور وہ آپ کی تبلیغ کے نتیجہ میں احمدیت قبول کرلے تو اس کے لئے ذاتی تعلقات بہت ضروری ہیں.اگر آپ من حيث الجماعت چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوں تو اکا دکا بیعتوں سے کچھ نہیں بنے گا.اس لئے آپ کو کم از کم ایک سو انگریزوں کو سال میں احمدی مسلمان بنانا ہو گا.اس طرح سوسائٹی مجموعی طور پر آپ کی طرف متوجہ ہو جائے گی.اس وقت کامیاب انفرادی تبلیغ کرنے والے چند لوگ ہیں ، جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے.یہ چند لوگ واقعتا سنجیدگی سے فریضہ تبلیغ ادا کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی کوششیں بار آور بھی ہورہی ہیں.باقی زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جو خطبہ سن کر بڑے جوش کے ساتھ ارادہ کرتے ہیں لیکن پیشتر اس کے کہ وہ کوئی تعمیری کام کریں، ان کے 309

Page 319

ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے.لیکن بہر حال ان لوگوں میں سے چند استقامت اختیار کر لیتے ہیں اور اس سے اچھے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں.حضور انور نے جاپان کے ایک احمدی نوجوان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ گوہ بہت معمولی دینی تعلیم رکھتا ہے لیکن اس کے زیر تبلیغ ایک بڑا امریکی افسر اور ایک جاپانی تاجر ہے، جو جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں.اور امریکن افسر کو اس نوجوان نے حضور انور کے سورۃ فاتحہ کے درس کی ویڈیوکیسٹس بھی دیں، جس سے اس کو مزید شوق پیدا ہو گیا.(الحمد لله ) سوال: خدمت خلق کے ذریعے تبلیغ کرنے کے متعلق حضور کی کیا رائے ہے؟ فرمایا:.خدمت خلق ضرور کرنی چاہئے کیونکہ یہ انسانیت کا تقاضا ہے کہ اگر انسان کسی کے کام آسکے تو ضرور کام کرے.لیکن خدمت خلق کو تبلیغ کا بہانہ نہ بنائیں.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ خدمت خلق سے تبلیغ کی راہ ہموار کرتے ہیں لیکن یادرکھیں کہ اس قسم کی کوششیں بے فائدہ ہوتی ہیں.اگر کوئی دلچسپی کا اظہار بھی کرے تو آپ کو کیا معلوم کہ دلچسپی کا اظہار صرف کام کروانے کے لئے نہیں کیا جارہا.مذہب کے معاملے میں ہمیشہ صاف اور سیدھا راستہ اختیار کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے کہ پنے مقصد کے حصول کے لئے ہمیشہ صاف گوئی اور ایمان داری سے کام لو.فرمایا کہ وو ” جب میں وقف جدید میں کام کرتا تھا تو احمدی دوست اپنے ساتھ غیر از جماعت دوستوں کو لے کر آتے کہ ان کا فلاں کام بھی کرنا ہے اور انہیں تبلیغ بھی کرنی ہے کیونکہ یہ احمدیت میں دلچسپی لے رہے ہیں.شروع شروع میں تو میں ان کو تبلیغ کرتارہا لیکن جلد ہی یہ معلوم ہو گیا کہ وہ صرف اپنا کام کروانے کے لئے دلچسپی کا بہانہ کر رہے تھے.چنانچہ جب مجھے اس حقیقت کا علم ہو گیا کہ میں نے احمدی دوستوں سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ایسے لوگوں کا کام تو کر دو لیکن انہیں جماعت سے کوئی دلچسپی نہیں اور اگر واقعی ہے تو پھر انہیں بعد میں لے کر آنا.فرمایا:.1952ء سے 1982 ء تک میں نے وہاں کام کیا لیکن کام کروانے والے غیر از جماعت دوستوں میں سے ایک بھی دوبارہ واپس نہیں آیا.اس کے برعکس وہ لوگ ، جو احمدیت کے زبردست مخالفین کی صورت میں آئے ، انہیں تبلیغ کی گئی اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ان میں سے بہت سے احمدی ہیں.310

Page 320

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پھر فرمایا:.ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1985ء و تبلیغ کے لئے ہمیشہ سچائی اور صاف گوئی سے کام لیں اور سیدھا طریقہ اختیار کریں، کسی کے کام کرنے کی آڑ میں تبلیغ نہ کریں.یکم نومبر ، لنڈن ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر یکم نومبر 1985 ء ) سوال: کیا احمدیت کے ذریعہ اسلام کی عالمگیر فتح کے نتیجہ میں دنیا میں مثالی معاشرہ قائم ہو جائے گا؟ فرمایا:.کسی بھی مذہب سے یہ توقع رکھنا کہ اس کو اپنا کر سوسائٹی کا ہر فرد خود بخو دروحانیت کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا، درست نہیں.کسی بھی قوم کی روحانی ترقی کے مستقبل کا پتہ لگانے کے لئے اس کے ماضی پر نظر دوڑانا بہت ضروری ہے.آنحضرت کے زمانہ میں عرب سوسائٹی روحانی طور پر اپنے عروج پر پہنچ یہ حقیقت ہے کہ آئندہ ہم کتنی بھی کوشش کریں ، سوسائٹی کو روحانیت کے لحاظ سے اس بلند مقام تک نہیں پہنچا سکتے ، جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود موجود تھے اور مدینہ میں نئے آنے والے مسلمانوں کی تربیت خود کرتے تھے اور ان کو خود اسلام سکھاتے تھے.لیکن اس کے باوجود قرآن کریم کے مطابق مدینہ اور اس کے اردگرد کے عرب قبیلوں میں ایک بڑی تعداد منافقوں کی موجود تھی.اگر مثالی معاشرہ سے مراد ہر فرد واحد کا اصلاح یافتہ ہونا ہے تو یہ مقصد تو آپ کی زندگی میں بھی پورا نہیں ہوا اور آئندہ بھی پورا نہ ہو سکے گا.لیکن اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ مذہب معاشرہ کے ہر فرد کے لئے روحانی ترقی کے مواقع مہیا کرے گا تا کہ وہ اپنی ہمت اور بساط کے مطابق روحانیت کی انتہائی حدود تک پہنچ سکے تو اس کا جواب ”ہاں“ میں ہے.اسلام کی فتح اور غلبہ کے بعد ہر انسان کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع مہیا کیے جائیں گئے".( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 08 نومبر 1985 ء ) 15 نومبر،لنڈن سوال مختلف مذاہب اور رنگ ونسل کے لوگوں میں قرابت پیدا کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کیا کردار ادا کر رہی ہے؟ فرمایا:.مختلف مذاہب میں صلح و آتشی کا قیام تب ہی ممکن ہے، جبکہ تمام بنی نوع انسان کی خیر خواہی کو مد نظر رکھا جائے اور ان کے حقوق پورے کئے جائیں.بظاہر یہ ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ دنیا میں رنگ و نسل یہ 311

Page 321

ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اور اختیارات و اعتقادات کے تفرقات موجود ہیں.اسلام ہی ایک ایسا مذ ہب ہے، جو عالمگیر ہونے کا دعویدار ہے.قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو تمام دنیا کے لئے اللہ تعالیٰ کی روشنی کے مظہر اور لا شرقيه ولا غربیہ کے مصداق کے طور پر بیان کیا گیا ہے.قرآن کریم نے متعدد مقامات پر تمام بنی نوع انسان کے حقوق کے تحفظ پر بہت زور دیا ہے اور انسانوں کے حقوق مقرر کر کے انہیں پورا کرنے کی تلقین کی ہے.خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ میں مسلمانوں کو یہ نقطہ بتایا گیا ہے کہ تمام انسانوں کی ابتدا ایک طرح ہوئی ہے.ان کے فائدے اور ان کے نقصانات ایک ہی نوعیت کے ہیں.اسلام کا دوسرا نقطہ بنی نوع انسان کے متعلق یہ ہے کہ ان کا پیدا کرنے والا بھی ایک ہے.اگر ان دو نظریات کو قبول کر لیا جائے تو دنیا میں دائمی امن قائم ہو سکتا ہے.احمدی ان دو اصولوں کو لے کر دنیا میں آئے ہیں لیکن مخالفت ان کی بھی ہورہی ہے.اس لئے ایسے معاشرے کے وجود میں آنے کی توقع رکھنی ، جس میں کسی کے نظریات کی مخالفت نہ ہو ، ناقابل یقین ہے.کیونکہ ایسا نہ کبھی پہلے ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہونے کی توقع ہے.ہاں انسانی ذہن کو امن وسکون سے ہمکنار کرنے کی کوشش جماعت احمد یہ مخالفت کے باوجود کرتی چلی جائے گی اور اسلام کے ذریعے وہ ذرائع ا بنی نوع انسان کے سامنے رکھے گی ، جنہیں اختیار کر کے مختلف مذاہب کے درمیان صلح و آتشی پیدا کی جاسکتی ہے.انسانی حقوق کی حفاظت ان ذرائع کا نصب العین ہے.اگر ہم ان حقوق کو پورا کر سکیں تو کم از کم امن کے پہلے درجے کو تمام بنی نوع انسان کے درمیان اخوت کا رشتہ پیدا کر کے حاصل کیا جاسکتا ہے.فرمایا:.امن کا دوسرا پہلو، جو اعلیٰ وارفع درجے کا امن ہے اور جس کا مقصد انسانوں کو اپنے خالق کے ساتھ ملانا ہے، اس کے بغیر انسان کا مقصد حیات پورا نہیں ہوتا.جس شخص کا اپنے خدا سے تعلق نہ ہو، اس کا نفس مطمئن نہیں ہوتا اور جس کا نفس مطمئن نہیں، وہ دنیا میں امن سے نہیں رہ سکتا.جماعت احمدیہ کا مقصد ایسے لوگوں کو پیدا کرنا ہے، جو اپنے ارد گر د امن پھیلانے کا موجب بن جائیں اور جن سے دنیا کو صرف محبت واخوت کے جذبات ہی ملیں.یہی بچے مذہب کا مقصد ہے.جماعت احمد یہ ہر ملک میں لٹریچر چھپوا کر، اپنے بچوں کی تربیت ان اصولوں کے تحت کر کے تا کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر کام کرنا سیکھیں اور اپنی زندگیاں وقف کر کے اس کوشش میں مصروف ہے.لجنہ اماءاللہ کے تحت عورتیں ، خدام الاحمدیہ کے 312

Page 322

تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1985ء تحت نوجوان، اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کے تحت ہمارے بچے اور بچیاں اور انصار اللہ کے تحت ہمارے بزرگ مستقل مزاجی سے ایک نظام کے تحت معاشرے کو بہتر بنانے میں کوشاں ہیں.اور یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد دوسروں کی نسبت بہتر تربیت یافتہ ہیں اور جن نظریات کی پیروی کرتے ہیں، ان پر عمل بھی کرتے ہیں.06 دسمبر ، لنڈن ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 22 نومبر 1985ء) سوال: 1985ء کس طرح جماعت احمدیہ کا سال ثابت ہوا ہے؟ فرمایا:.اگر چه خطبہ جمعہ اور دیگر موقعوں پر متعدد بار میں اللہ تعالی کے ان انعامات اور نوازشات کا ذکر کر چکا ہوں، جو اس نے اس سال ہم پر بحیثیت جماعت کئے ہیں لیکن بہت سے واقعات یکے بعد دیگرے مسلسل رونما ہورہے ہیں، جن کا ذکر نہیں کیا گیا.اور وہ واقعات احمدیت کی ترقی کے لئے بنیادی حیثیت کے حامل ہیں اور ہماری کوششوں کا ان میں کوئی دخل نہیں محض خدائی ہاتھ ہی ان واقعات کا محرک ہے.یوگوسلاویہ ایک ایسا ملک ہے، جس میں ہم کافی دیر سے دلچسپی لے رہے تھے.حضرت خلیفة المسیح الثالث " کے وقت میں ایک نوجوان کو زبان سیکھنے کے لئے یوگوسلاویہ بھجوایا گیا.کسی وجہ سے ہدایات میں غلطی کی بناء پر اس نے یوگوسلاویہ کی اکثریت کی زبان سیکھنے کی بجائے البانین زبان سیکھنی شروع کر دی، جو یوگوسلاویہ کے ایک محدود طبقہ کی زبان ہے.جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا.اس وقت اس کا ازالہ کرنا ممکن نہ تھا.بہر حال یوگوسلاوین زبان کے سکالر کی ضرورت جماعت میں شدت سے محسوس ہورہی تھی اور اس کا کوئی حل ہمارے پاس نہ تھا.کوئی ایک ماہ قبل یوگوسلاوین زبان کے ایک ماہر کا خط مجھے موصول ہوا، جو کہ پاکستان سے ہوتا ہوا مجھ تک پہنچا.جس میں اس نے لکھا کہ اس نے حضرت مسیح موعود کی کتاب " مسیح ہندوستان میں کا ترجمہ یوگوسلاوین زبان میں مکمل کر کے اس کو چھپوانے کے لئے پبلشر سے بات چیت کر لی ہے اور اب میری اجازت درکار ہے.اس نے اس امر کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ اس کتاب سے اس قدر متاثر ہوا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کی تمام کتب کا ترجمہ کر کے چھپوانے کا ارادہ کر چکا ہے.جماعت کو اس پر کچھ خرچ کرنا نہیں پڑے گا.میری طرف سے اجازت موصول ہونے پر سکالر کی بیوی نے اپنے خاوند کی بیماری کی وجہ سے مجھے شکریہ کا خط لکھا اور بعض امور کا اپنی طرف سے بھی اظہار کیا 313

Page 323

ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1985ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم ہے.دیکھتی ہیں کہ ان کے خیال میں اس کتاب میں پیش کردہ نہایت ٹھوس دلائل کا جواب کوئی یوگوسلاوین سکالر نہ دے سکے گا.اور وہاں کے عیسائیوں میں جو کمیونسٹ ملک میں رہنے کی وجہ سے ہر بات کا منطقی جواز ڈھونڈتے ہیں، ایک انقلاب برپا ہو جائے گا.کیونکہ اس کے خیال میں احمدیت اسلام کا ایک ایسا فرقہ ہے، جو مذہبی امور کی حقانیت عقلی دلائل سے ثابت کرتا ہے.فرمایا:.اسی طرح کا ایک اور واقعہ پولینڈ میں پیش آیا.میں نے ایک احمدی دوست کو ، جو دوسری جنگ عظیم سے قبل وہاں رہ چکا تھا اور ہر قسم کے پرانے تعلقات منقطع کر چکا تھا، اس امید میں بھجوایا کہ شاید کوئی پرانی واقفیت نکل آئے اور پولینڈ میں تبلیغ کا کوئی ذریعہ بن جائے.چنانچہ ان کی ملاقات وہاں پر چند تا تاری مسلمانوں سے ہوئی.ان میں سے ایک تاتاری لیڈر عورت نے اس احمدی دوست کو اپنے خاوند کے ساتھ دوستی کی وجہ سے فوراً پہچان لیا اور اپنے تمام حلقوں میں ان کا تعارف کروایا.چند نو جوان بہت متاثر ہوئے اور ان کی معرفت تاریخ کے ایک پروفیسر نے خدا کے فضل سے احمدیت قبول کر لی اور اس نے مجھے خط لکھا کہ مجھے احمدیت کا پورا لٹریچر وغیرہ بھیجوایا جائے تا کہ وہیں پر ترجمہ کر کے اس کی اشاعت میں مشغول ہو جاؤں.ولینن گراڈ کے ایک تاریخ کے پروفیسر کو کہیں سے احمدیت کا لٹریچر میسر آ گیا.اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نے لکھا کہ میں حضرت مسیح موعود کے تمام دعوؤں کو سچا مانتا ہوں.گو اس نے ابھی بیعت نہیں کی لیکن وہاں پر کتابوں کے تراجم کرنے اور ان کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے.اسی طرح چین میں بھی ایک عورت اسلام اور احمدیت میں دلچسپی لے رہی ہے.1984ء کے اوائل میں ایک چینی ٹیم کے ساتھ ایک عورت بھی پاکستان آئی اور مجھے اس کے ساتھ تین چار گھنٹے تک مذہبی گفتگو کرنے کا موقع ملا.اسے خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل کرنے کی کوشش کی گئی.اس نے واپس جاتے وقت ایک احمدی دوست کو ، جس کی صرف بیٹیاں ہی تھیں اور اس کی بیوی علیل تھی اور بظاہر اس کے ہاں مستقبل قریب میں کوئی بچہ پیدا ہونے کی امید نہ تھی، یہ چیلنج دیا کہ اگر خدا موجود ہے تو اپنے خلیفہ سے کہو کہ وہ دعا کریں کہ تمہاری بیوی کو علالت کے باوجود خدا بیٹا عطا کر دے تو پھر میں یقین کر لوں گی کہ ایسی کوئی ہستی موجود ہے.جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے بڑے درد کے ساتھ اس کے لئے دعا کی اور مجھے اسی وقت دعا کے قبول ہونے کا احساس ہو گیا.میں نے اس احمدی کو صبر کے ساتھ انتظار کرنے کے لئے لکھ دیا.اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے پورے نو ماہ گزرنے کے بعد اس شخص کو بیٹا عطا کر دیا.جب اس عورت کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو وہ حیران رہ گئی اور ایک دم احمد یہ لٹریچر میں دلچسپی لینے لگی.314

Page 324

تحریک جدید - ایک الہی تحریک فرمایا:.ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1985ء آج ہی مجھے افریقہ کی ایک چھوٹی سی ریاست جس کا نام بھی میں نے نہ سنا تھا، ایک خط موصول ہوا ہے.جس میں لکھا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کافی مدت تک کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ احمدیت ہی اسلام میں سچا فرقہ ہے.اس لئے وہ ناصرف بیعت کرنا چاہتا ہے بلکہ وہاں پر مبلغ احمد بیت بن کر کام کرنا چاہتا ہے.یران متعدد واقعات میں سے چند ہیں، جو تمام دنیا میں ظہور پذیر ہورہے ہیں اور ایسے معجزانہ طور پر رونما ہور ہے ہیں کہ ان پر ہمارا کوئی اختیار نہیں.جو کام ہماری استطاعت سے باہر ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ خود ہی غیب سے انتظام فرما دیتا ہے اور ان معجزوں کے پس منظر ایسے حالات ہوتے ہیں، جو انسانی عقل کے خلاف نہیں ہیں.( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 13 دسمبر 1985ء) 315

Page 325

Page 326

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 03 جنوری 1986ء نئے سال کا ایک رحمت کا پھل، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فر مایا خطبه جمعه فرمودہ 03 جنوری 1986ء " نئے سال کا ایک رحمت کا پھل، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فر مایا اور وہ جماعت کی تاریخ میں ایک نئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.وہ یہ ہے کہ جنوبی امریکہ میں پہلی مرتبہ جماعت احمدیہ کو با قاعدہ مشن کے قیام کے لئے ایک بہت ہی موزوں جگہ خریدنے کی توفیق مل گئی ہے.جنوبی امریکہ کے ایک ملک برازیل میں، جو بہت ہی بڑا ملک ہے اور اگر اس کا رقبہ امریکہ سے یا شمالی امریکہ سے بڑا نہیں تو اس کے قریب قریب ضرور ہے.اس ملک میں ریوڈی جنیر و ( RIO DE JANEIRO) اس کا Capital یعنی مرکزی شہر ہے، دار الخلافہ ہے.اس شہر کے ساتھ ایک Twin City ہے اور جس کا نام نیتر ائے (NITEROI) ہے.NITEROI اس دار الخلافہ کا Twin City ہے اور ایک بہت بڑ اپل سمندر کے اوپر سے گزرتا ہوا ان دو شہروں کو ملاتا ہے.تو اس دوسرے شہر میں، جو اسی دارالخلافہ کا عملاً ایک حصہ ہے، ایک بہت ہی اچھا موقع کا رقبہ ، جس کا سائز 50,600 مربع میٹر ہے، یعنی تقربیاً ساڑھے بارہ ایکڑ ہے، اس کے متعلق گفت و شنید تو گزشتہ سال سے چل رہی تھی لیکن آج صبح فون پر اطلاع ملی ہے کہ با قاعدہ قانونی لحاظ سے Deed مکمل ہوگئی ہے اور سودا طے پا گیا ہے.یہ بہت ہی مناسب جگہ میں ایسی جگہ واقع ہے، جہاں اس کے قریب ہی بالکل سو گز کے فاصلے پر ایک بہت بڑا ہوٹل ہے، جس میں بکثرت Tourist آتے ہیں اور قریب ہی یعنی چند منٹ کے چلنے کے فاصلے پر ایک بہت بڑا نیشنل پارک ہے، جو بہت ہی مقبول ہے اور تمام برازیل ہی سے نہیں بلکہ باہر سے آنے والے سیاح بھی اس پارک میں آتے ہیں.اس لحاظ سے یہ رقبہ خدا کے فضل سے بہت ہی موقع کا ہے.کوئی پابندی نہیں ہے اس پر مسجد کی عمارت کی تعمیر پر کوئی روک نہیں، کوئی مزید اجازت لینے کی ضرورت نہیں ، مشن ہاؤس بنانے پر کوئی روک نہیں ہے.اور ساتھ ہی دو کمرے کا ایک چھوٹا سا گھر ، جس میں کچن اور غسلخانہ وغیرہ سب شامل ہیں، یہ بھی بنا ہوا مل گیا ہے.اس سے انشاء اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغ کو وہاں ٹھہرنے میں آسانی ہو جائے گی.317

Page 327

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 03 جنوری 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم برازیل میں پہلامشن تو عملاً پچھلے سال ہی کھولا گیا تھا جبکہ زمین ابھی خریدی نہیں گئی تھی.مگر پھر بھی مشن کھول لیا گیا تھا.تو یہ برکتیں دونوں سالوں پر پھیلی ہوئی ہیں.مگر اس لحاظ سے کہ جنوبی امریکہ میں پہلی دفعہ جماعت کو مسجد کے لئے جائیداد خریدنے کی توفیق عطا ہوئی ہے، یہ نئے سال کا پہلا پھل ہے، جو میں تحفہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ بہت برکت دے.یہ بہت ہی بڑا خطہ ہے اور کئی لحاظ سے جنوبی امریکہ کے مختلف ممالک اگر آج نہیں تو کل غیر معمولی اہمیت اختیار کرنے والے ہیں.اس علاقے کو دنیا نے بہت حد تک نظر انداز کئے رکھا ہے.اور باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے بہت سے ذخائر اور دولتیں عطا کی ہیں، یہ پرانی دنیا اور نئی دنیا کے مابین کا علاقہ کہلاتا ہے.یعنی نہ Third World میں ہے، نہ First World میں.بلکہ ایسے ممالک ہیں.جن کی نسل سفید فام ہے اکثر.یعنی وہ لوگ یہاں قابض ہیں.ویسے تو مقامی لوگ سفید فام نہیں.جن کی نسل سفید فام ہے اور یہ زیادہ تر Latin (لاطینی ) امریکہ کہلاتا ہے.کیونکہ ان کا تعلق سپین اور اٹلی اور پرتگال وغیرہ علاقوں سے ہے.مگر ترقی کے لحاظ سے یہ وسیع ذرائع کے باوجود شمالی امریکہ اور کینیڈا سے بہت پیچھے رہ گیا ہے.اس لئے یہ درمیان میں آجاتا ہے اور درمیان میں آنے کے بعد کچھ یہ بھی ان علاقوں کے ساتھ زیادتی ہوئی کہ دونوں طرف سے کئی جہت سے پیسا گیا ہے.اس وقت اتنے بڑے قرضے ہیں، ان ممالک پر مغربی دنیا کے کہ بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ ان قرضوں سے یہ نجات پاسکیں.اس لئے مغربی دنیا بھی اس کا استحصال کر رہی ہے اور مشرقی دنیا میں اشتراکیت پورا زور لگا رہی ہے کہ کسی طرح یہ علاقے اس کے قبضے میں آجائیں.چنانچہ اس کے نتیجہ میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے، اس تمام علاقے ہیں.یہ اپنی ذات میں ایک بہت ہی بڑا براعظم بنتا ہے.ویسے تو براعظم امریکہ کا حصہ کہلاتا ہے لیکن فی ذاتہ اتنا بڑا اعلاقہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ایک ہی ملک کم و بیش شمالی امریکہ کے برابر بن جاتا ہے.تو یہ جو مشرق اور مغرب کی دوڑ شروع ہوگئی ہے، اسے اپنانے یا ہتھیانے کی ، اس دوڑ کے نتیجہ میں، اس جد و جہد کے نتیجہ میں ان ممالک کو جو اس علاقہ میں ہیں، بہت ہی شدید نقصان پہنچا ہے.ایک اور بد قسمتی اس علاقے کی یہ ہے کہ جماعت احمد یہ بھی ان علاقوں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے میں دیر کر گئی مجبوریوں کی بناء پر ہمارے ذرائع تھوڑے تھے، ساری دنیا میں تبلیغ کرنی تھی ، اس لئے قصور کا سوال نہیں، بے اختیاری کی وجہ تھی.ویسے بھی چونکہ پس منظر میں پڑے ہوئے علاقے تھے، اس لئے ان تک نظر بھی بعد میں پہنچی اور کوششیں بھی بعد میں پہنچیں.لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ یہاں احمدیت 318

Page 328

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جنوری 1986ء نہیں پہنچی.جہاں تک میر اعلم ہے، سب سے پہلے جو احمدی ان علاقوں میں آباد ہوئے ہیں، وہ ہنگری کے ، احمدی تھے.جب ہنگری میں انقلاب آیا ہے تو اس سے پہلے خدا تعالیٰ کے فضل سے یعنی جنگ عظیم سے پہلے ہی بہت کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ ہنگری میں نہ صرف متعارف ہوئی بلکہ بکثرت لوگوں نے اسے قبول بھی کیا اور آج تک وہاں آثار باقیہ بھی ملتے ہیں، ان احمدی مسلمانوں کے.اور ہنگری میں جو بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، وہ سارے جانتے ہیں کہ احمدیت کیا ہے؟ اور ان کے جو شعبے ہیں تعلیم کے، ان میں بھی احمدیت کے متعلق نہ صرف پوری واقفیت پائی جاتی ہے بلکہ وہ مزید چھان بین بھی کر رہے ہیں، اس کے متعلق.اور بعض احمدیوں سے جو پرانے ہنگری میں ہمارے کام کرنے والے تھے، حکومت کی طرف سے یہ درخواست بھی پہنچی ہے احمدیوں تک کہ ہمیں مزید معلومات مہیا کی جائیں کیونکہ ہم ہنگری کی تاریخ میں جماعت احمدیہ نے جو کردار ادا کیا ہے، اس کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں.بہر حال انقلاب اشتراکیت کے بعد جو احمدی وہاں سے بھاگے اور لوگوں کے ساتھ وہ بہت حد تک جنوبی امریکہ میں مختلف ملکوں میں آباد ہوئے اور رابطہ اگر چہ عموما تو کٹ گیا لیکن کبھی کبھی ان میں سے کوئی چھٹی لکھ دیتا تھا قادیان یا پتہ کر کے ربوہ اور وہ تحریک جدید کے دفاتر تک پہنچ جایا کرتی تھی.اس سے ان کے ساتھ رابطہ کی ایک صورت بن جاتی تھی.تو بہر حال Officialy، رسمی طور پر با قاعدہ مشن کا آغاز گزشتہ سال ہوا ہے.اور امسال خدا تعالیٰ کے فضل سے مستقل بنیادوں پر مشن قائم کرنے کے لئے اور مسجد بنانے کے لئے زمین حاصل کر لی گئی ہے.اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے اور میں توقع رکھتا ہوں کہ یہ بارش کا پہلا قطرہ بہت دیر تک پہلا ایک ہی قطرہ نہیں رہے گا بلکہ بکثرت ایک موسلا دھار فضلوں کی بارش میں تبدیل ہو جائے گا.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 01 تا 26) 319

Page 329

Page 330

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 جنوری 1986ء اصلاح معاشرہ کے بغیر حقیقت میں اسلام کا غلبہ دنیا پر نہیں ہو سکتا وو خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جنوری 1986ء.پس دعا کریں کہ اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ ہمیں اصلاح معاشرہ کی توفیق بخشے.کیونکہ اصلاح معاشرہ کے بغیر حقیقت میں اسلام کا غلبہ دنیا پر نہیں ہو سکتا.بہت سی وجوہات ہیں اس کی ، اس کی تفصیل میں، میں اس وقت نہیں جاسکتا، وقت پہلے ہی زیادہ ہو چکا ہے.لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو یہ محبت ہے کہ اسلام دنیا میں غالب آجائے ، اگر دلی تمنا ہے، اگر آپ اس آرزو میں جیتے ہیں کہ کسی طرح ساری دنیا پر دین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم غالب آجائے تو یاد رکھیں اور اس بات کو کبھی نہ بھلا ئیں کہ اصلاح معاشرہ کے بغیر یہ بات نہیں ہوگی.آپ کو لازما معاشرہ کی اصلاح کرنی پڑے گی ، تب آپ حقدار بنیں گے کہ ساری دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچائیں.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 05 صفحه 110) 321

Page 331

Page 332

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 23 فروری 1986ء جماعت احمدیہ کے لئے یہ سال غیر معمولی اہمیت کا سال ہے خطاب فرمودہ 23 فروری 1986ء پیشگوئی مصلح موعود پر ایک صدی گزرنے پر جماعت احمد یہ لنڈن نے ایک عظیم الشان جلسہ کا انعقاد کیا.اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جو خطاب فرمایا، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطاب میں 1986ء کی غیر معمولی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.1986ء کا سال جس میں سے ہم گزر رہے ہیں، ایک غیر معمولی اہمیت کا سال ہے.کئی پہلوؤں سے یہ سال باقی دوسرے سالوں سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پیشگوئی مصلح موعود، جو اسلام کے احیائے نو کے لئے ایک بہت ہی عظیم الشان مقام رکھتی ہے اور قیامت تک اس کا فیض جاری رہے گا، یہ پیشگوئی 1886ء میں 20 فروری کو شائع کی گئی تھی.اس لئے سبز اشتہار کے علاوہ یہ اشتہار 20 فروری کے طور پر بھی معروف ہے.اور 20 فروری 1986ء کو یعنی تین دن پہلے اس پیشگوئی پر سو سال گزر چکے ہیں.دوسری اہم بات یہ ہے کہ 23 مارچ 1889ء کو جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی جبکہ لدھیانے میں پہلی بیعت ہوئی.اور قمری کیلنڈر کے لحاظ سے 1986ء میں پورے سو سال بن جاتے ہیں.پس یہ سال دو جہتوں سے جماعت احمدیہ کے لئے سو سالہ جشن کا سال بنتا ہے.اگر چہ جماعت احمدیہ نے سوسالہ جشن منانے کا 1989ء میں فیصلہ کیا ہے لیکن قمری جہت سے اگر دیکھا جائے تو یہ سال بھی جماعت احمدیہ کے سو سالہ جشن ہی کا سال بنتا ہے.اس پہلو سے 20 رجب یکم اپریل کو واقع ہوگی اور یکم اپریل کو آغاز کے لحاظ سے جماعت کے پورے سو سال مکمل ہوں گے.ایک اور تیسری اہمیت بھی اس سال کو حاصل ہے.اور وہ یہ ہے کہ تفسیر روح المعانی کے مصنف علامہ الوسی لکھتے ہیں کہ بعض اہل اسلام نے قرآن کریم کی ایک آیت سے ایک ایسا استنباط کیا ہے، جس کی رد سے ساعت یعنی انقلاب کا دور 1407 ہجری میں واقع ہونا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً 323

Page 333

خلاصہ خطاب فرموده 23 فروری 1986ء تحریک جدید- ایک البی تحریک....جده مفتم قرآن کریم کی اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا وہ اس کے سوا کسی اور چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ساعته یعنی عظیم انقلاب اچانک واقعہ ہو جائے.وہ لکھتے ہیں کہ حساب کی رو سے بغتہ کے اعداد 1407 بنتے ہیں.اس پہلو سے حکیم محرم 1986ء کو بغیہ کا سال شروع ہو جاتا ہے.یعنی 1407 ہجری کا آغاز بھی 1986ء میں ہو رہا ہے اور آغاز کے چند مہینے اس سال کے ساتھ مطابقت کھاتے ہیں.اب یہ تین پہلو ایسے ہیں، جو روزمرہ اکٹھے نہیں ہو سکتے.یہ واقعہ کہ جماعت احمدیہ پر سو سال اور مصلح موعود کی پیشگوئی پر سو سال ایک ہی سال میں پورے ہو جائیں، یہ حساب کی رو سے آپ دیکھیں تو ہزاروں سال میں پورا ہونے والی بات ہے.اس لحاظ سے جماعت احمدیہ کے لئے یہ سال غیر معمولی اہمیت کا سال ہے.راہ مولیٰ کے اسیروں کے لئے دعا کی تحریک کرتے ہوئے، حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.مصلح موعود کی پیشگوئی میں ایک خوشخبری یہ بھی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.اس میں شک نہیں کہ یہ پیشگوئی پہلے بھی پوری ہو چکی ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ حضرت مصلح موعود بہت سے مظلوم اسیروں کی رستگاری کا موجب بنے.لیکن آج اس دور میں کچھ ایسے اسیر بھی ہیں، جو خالصه اسیران راہ مولیٰ ہیں.وہ کسی سیاست کے نتیجے میں اسیری کے دن نہیں کاٹ رہے، وہ کسی اپنی کمزوری یا اپنے گنا ہوں یا شامت اعمال کے نتیجہ میں قید و بند کی صعوبتیں نہیں دیکھ رہے.محض اللہ اور محض اس لئے کہ انہوں نے خدا کی طرف سے ایک آنے والے کی آواز پر لبیک کہا ، وہ اسیر بنائے گئے.اور طرح طرح کے دکھوں کا نشانہ بنائے گئے.پس اپنے رب کے حضور روتے ہوئے یہ دعا کریں کہ اے اللہ ! اس پیشگوئی مصلح موعود کے صدقے ہی اس سو سال کے جشن کو دکھاتے ہوئے ہمیں وہ دن دکھا کہ ہم اپنے پیاروں کی آزادی کے دن بھی دیکھیں، جو تیری راہ میں قید و بند کی صعوبتوں کا شکار بنائے گئے ہیں.ان کو آزاد پھرتے ہوئے دیکھ کر ہماری آنکھوں کو طراوت حاصل ہو.اے خدا! اپنی رحمت سے وہ ساری زنجیریں توڑ دے، جن میں احمدیوں کو کسی نہ کسی رنگ میں بھی جکڑا گیا ہے.وہ ساری پابندیاں دور فرمادے، جن پابندیوں کو احمد بیت کی روحانی ترقیوں کے روکنے کی خاطر عائد کیا گیا ہے.یہ وہ اسیر ہیں، جو تیری راہ میں ظاہری طور پر بھی اسیر بنائے گئے اور قانون کے شکنجوں میں جکڑ کر بھی اسیر بنائے گئے.جو آج تیرے وعدوں کے منتظر تیری رحمت کی راہ دیکھ رہے ہیں.اے خدا ان ساری زنجیروں کو تو ڑ کر پاش پاش کر دے اور اگر تو نے اپنی غیرت کے نمونے دکھانے کا فیصلہ کیا ہے تو ان سب کو پابند کر دے، جو آج ہمیں پابند کئے ہوئے ہیں.مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید اپریل 1986 ء و ہفت روزہ النصر 21 مارچ 1986ء) | 324

Page 334

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلدی پیغام بر موقع اجتماع خدام الاحمدیہ ساؤتھ ریجن ہو.کے ہر بچہ اور جوان اور بوڑھا پکا نمازی بن جائے پیغام بر موقع اجتماع خدام الاحمدیہ ساؤتھ ریجن یو.کے منعقدہ 15 مارچ 1986ء سم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر آپ کو اس اجتماع کی بہت بہت مبارک ہو اور تمام حاضرین کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو ہر لحاظ سے کامیاب کرے اور دینی اور دنیاوی برکتوں سے نوازے اور آپ کی مجلس کو ایک مثالی مجلس بنادے، آمین.نئی نسل کو خصوصاً اور بڑوں کو عموماً قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی طرف توجہ دیں.نماز ، اس کا تلفظ اور ترجمہ ہر ایک کے ذہن میں پختہ طور پر راسخ ہو اور نماز سے شدید محبت ہر ایک کے دل میں گھر کر لے.یہ وہ بنیادی کام ہے، جو نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے.اس لئے گھروں کی سہولت کے اعتبار سے چھوٹے چھوٹے مرکز درس کے لئے قائم کئے جائیں.اور سو فیصدی بچوں کو ، اسی طرح بڑوں کو بھی نماز صحیح تلفظ اور ترجمے کے ساتھ یاد کروائی جائے اور قرآن کریم پڑھایا جائے.چھوٹی چھوٹی سورتیں حفظ کرائی جائیں اور پھر قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے کا عزم پیدا کیا جائے.یہ وہ بنیادی کام ہے، جو ابتدائی لحاظ سے انتہائی ضروری ہے، جس پر جماعت کے ایمان اور تقویٰ کی بنیاد ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق بخشے اور اس اجتماع کی برکتوں کو اتنا پھیلا دے کہ ہر بچہ اور جوان اور بوڑھا پکا نمازی بن جائے اور خدا تعالیٰ کی محبت اس کے رگ وریشہ میں گھر کر لے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 25 اپریل 1986ء ) 325

Page 335

Page 336

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد مصف اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 21 مارچ1986ء عددی اکثریت کی بجائے اپنے معیار تقویٰ کو بڑھانے کی طرف توجہ کریں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 21 مارچ 1986ء ایک رحجان یہ دیکھا گیا ہے کہ بکثرت احمدیوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہورہا ہے کہ ہمیں عددی اکثریت کب نصیب ہوگی اور عددی غلبہ کب میسر آئے گا؟ یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ الہی جماعتوں سے عددی غلبے کے بھی وعدے فرماتا ہے اور عددی کثرت بھی نصیب فرماتا ہے.لیکن جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو خدا کے نزدیک عدد کی کوئی بھی قیمت دکھائی نہیں دیتی.عدد کی بجائے خدا کے نزدیک کیفیت کی قیمت ہے.اور کیفیت کی قیمت کا یہ حال ہے کہ بعض دفعہ چند کی خاطر اور بعض دفعہ ایک وجود کی خاطر کل عالم کو بھی ہلاک کر دے.تو خدا تعالیٰ کے ہاں جو قیمتیں مقرر ہیں، اس لحاظ سے کوئی بھی نقصان کا وو سودا نہیں ہوگا.خدا کی اقدار کے پیمانوں کے لحاظ سے یہ فیصلہ بالکل درست اور مناسب ہوگا“.پس وہ لوگ، وہ احمدی احباب خصوصاً جن کے دل میں بار بار یہ حسرت پیدا ہو رہی ہے کہ کاش ہمیں عددی اکثریت جلد حاصل ہو جائے ، ان کو میرا یہ پیغام ہے کہ عددی اکثریت کی بجائے اپنے معیار تقویٰ کو بڑھانے کی طرف توجہ کریں.جہاں تک عددی اکثریت کا تعلق ہے، یہ بھی قرآن کریم میں وعدے موجود ہیں.لیکن عددی اکثریت کی حیثیت سے نہیں بلکہ صاحب تقویٰ لوگوں کی تعداد میں اضافے کی حیثیت سے.قرآن کریم میں جہاں غیروں پر غلبہ کا وعدہ فرمایا گیا ہے، وہاں فرمایا ہے:.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ تا کہ وہ اسے قالب کرے، یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کرے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کا مطلب عددی اکثریت ہے ہی نہیں.جب کہا جاتا ہے کہ محمد کو دنیا پر غالب کرے تو مراد یہ ہے کہ ہر حسن کو دنیا پر غالب کر دے، ہر خوبی کو دنیا پر غالب کر دے، ہر پاکیزگی کو دنیا پر غالب کر دے، ہر صفت باری تعالیٰ کو دنیا پر غالب کر دے.پس بظاہر لوگ اس کا یہی معنی لیتے ہیں کہ اسلام کی عددی اکثریت کا وعدہ کیا گیا ہے، ہرگز نہیں.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کا وعدہ کیا گیا ہے اور وہ غلبہ حسن کے بغیر ممکن نہیں.69 327

Page 337

اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 21 مارچ 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم پس اگر اس طرح احمدیت نے بڑھنا ہے کہ نور مصطفوی پھیل جائے تو یہ تمنا ، ایک پاکیزہ تمنا ہے، یہ تمنا یقیناً قرآن کریم کی کے مطابق ہے.لیکن اگر مقابل کے جوش میں، اگر ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی تمنا میں آپ محض عددی اکثریت پر نظریں لگا کر بیٹھ جائیں تو یہ کوئی اچھا سودا نہیں ہوگا.اس ابتلاء کی صحیح قیمت آپ نے وصول نہیں کی.اس لئے اپنی توجہ کو قیمتوں اور قدروں کی طرف مرکوز رکھیں اور یہ فیصلہ کریں کہ ہر قربانی کے بدلے خدا سے سب سے زیادہ قیمت وصول کریں گے.وو تو جہاں تک اس ابتلاء کے دور میں تمناؤں کا تعلق ہے، قرآن کریم آپ کی تمنائیں بھی درست کرتا ہے، آپ کا قبلہ درست فرماتا ہے اور بتاتا ہے، کثرت کی تمنا نہ کرو.یہ تمنا کرو کہ نیکی غالب آئے اور تقویٰ غالب آئے اور پاکیزگی غالب آئے اور تمام دنیا میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ ہو....پس اس دور میں جو سب سے بڑا مال غنیمت آپ حاصل کر سکتے ہیں، سب سے بڑی فتح جو حاصل کر سکتے ہیں، وہ مال غنیمت، تقویٰ کا مال غنیمت ہے.اور وہ فتح اپنے دل کی اور اپنے نفس کی فتح ہے.اور یہی وہ اندرونی فتح ہے، جو بیرونی فتح پر منتج ہوا کرتی ہے.یعنی یہی وہ اندرونی غلبہ ہے، جو بیرونی 66 غلبوں میں تبدیل ہوا کرتا ہے.اگر یہ دور آپ کو تقویٰ کا نور عطا کر دے تو یہ وہ پھلجھڑیاں ہیں، جن کے مقابل پر اور کوئی پھلجھڑی نہیں.آپ کے دل میں اگر نور کے سوتے پھوٹنے لگیں، آپ کے دل میں اگر تقویٰ کی وہ زیاں چلیں، جن سے نور کے رقص آپ کے سینوں میں دکھائی دیں، جن میں چاندنی پھوٹتی ہوئی دکھائی دے، جن میں اللہ کا پیار رقصاں ہو اور خدا کی محبت کے نغموں کی آوازیں پھوٹ رہی ہوں.ان جلوؤں کی کیوں تمنا نہیں کرتے؟ ان رقص وسرور کے پیچھے کیوں نہیں بھاگتے ؟ ان غلبوں کے نغموں کے لئے آپ کے کان کیوں نہیں ترستے ؟ یہ وہ غلبے ہیں، جوحقیقی غلبے ہیں اور دائمی غلبے ہیں.جو اس دنیا میں آپ کو پیچھے چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ آپ کے ساتھ اس دنیا میں بھی جائیں گے.آپ کو پیچھے چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ آپ کے آگے آگے بھاگیں گئے.خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 225 تا 239) 328

Page 338

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہ پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ یوکے نئی نسل کو خصوصاً اور بڑوں کو عموماً قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی طرف توجہ دیں پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمد یہ ساؤتھ ریجن یو کے 1986ء آپ کو اس اجتماع کی بہت بہت مبارک ہو اور تمام حاضرین کو السلام عليكم و رحمة الله وبركاته - اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو ہر لحاظ سے کامیاب کرے اور دینی اور دنیادی برکتوں سے نوازے.اور آپ کی مجلس کو ایک مثالی مجلس بنا دے.نئی نسل کو خصوصاً اور بڑوں کو عموماً قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی طرف توجہ دیں.نماز ، اس کا تلفظ اور ترجمہ ہر ایک کے ذہن میں پختہ طور پر راسخ ہو اور نماز سے شدید محبت ہر ایک کے دل میں گھر کرلے.یہ وہ بنیادی کام ہے، جو نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے.اس لئے گھروں کی سہولت کے اعتبار سے چھوٹے چھوٹے مرکز درس کے لئے قائم کئے جائیں.اور سو فیصدی بچوں کو ، اسی طرح بڑوں کو بھی نماز صحیح تلفظ اور ترجمے کے ساتھ یاد کرائی جائے اور قرآن کریم پڑھایا جائے.چھوٹی چھوٹی سورتیں حفظ کرائی جائیں اور پھر قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے کا عزم پیدا کیا جائے.یہ وہ بنیادی کام ہے، جو ابتدائی لحاظ سے انتہائی ضروری ہے، جس پر جماعت کے ایمان اور تقویٰ کی بنیاد ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق بخشے اور اس اجتماع کی برکتوں کو اتنا پھیلا دے کہ ہر بچہ اور ہر جوان اور ہر بوڑھا پکا نمازی بن جائے اور خدا تعالیٰ کی محبت اس کے رگ وریشہ میں گھر کرلے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مطبوع ضمیمہ ماہنامہ مصباح اپریل 1986 ء ) 329

Page 339

Page 340

تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 04 اپریل 1986ء چندہ دینے والے اور اسے خرچ کرنے والے ہر دو اپنے معیار تقویٰ کو بلند کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 04 اپریل 1986ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دوگزشتہ خطبہ میں، میں نے مالی قربانی کرنے والوں کے متعلق کچھ امور بیان کئے تھے.اور اس بات پر زور دیا تھا کہ مالی قربانی کرتے وقت تقویٰ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.اس سلسلہ میں اب صرف اتنا کہہ کر مضمون کے اس حصہ کو ختم کروں گا کہ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چندہ عام وغیرہ میں شرح سے کم دینے والے وہ لوگ ہیں، جو بوجہ غربت ایسا نہیں کر سکتے.میرا لمبا تجر بہ اس کے بالکل برعکس ہے.مختلف حیثیتوں سے میں نے سلسلہ میں مختلف خدمتیں سرانجام دی ہیں.بحیثیت مجلس خدام الاحمدیہ کے رکن ہونے کی حیثیت سے بھی اور وقف جدید کے تعلق میں بھی اور نظام جماعت کے دیگر شعبوں سے تعلق کے لحاظ سے بھی.اور ہر جگہ میں نے بالعموم یہ دیکھا ہے کہ غرباء اپنی مالی قربانی میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت آگے ہیں.اور شرح کے مطابق چندہ دینے میں جو وہاں تناسب ملتا ہے، وہ امراء کے ہاں نہیں ملتا.اور عجیب بات ہے کہ جتنا آپ او پر چلتے ہیں، اتناہی صورت برعکس ہوتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ وہ لوگ ، جن کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی فضل سے نوازا ہے اور بہت دولت عطا کی ہے، ان کے لئے چندہ دینا تو مشکل نہیں لیکن شرح سے چندہ دینا بہت ہی بڑی مصیبت بن جاتا ہے.در اصل انسان نسبتوں کی بجائے رقم کی مقدار دیکھنے کا عادی ہوتا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے.ایک غریب آدمی جس کو سو روپے ملتے ہیں ، وہ چھ روپے دیتا ہے تو اس کے نزدیک چھ روپے باوجود غربت کے چھ روپے ہی ہوتے ہیں.اور اس کے لئے چھ روپے دینا نسبتاً آسان ہوتا ہے.صرف یہی بات نہیں اور بھی وجوہات ہیں.ایک بہت بڑی وجہ غریب کے معیار قربانی کا بلند ہوتا ہے.جو مقابلہ کی وجہ سے بھی اس میں پیدا ہوتی ہے.جب وہ امیروں کو غیر معمولی طور پر تمھیں دیتا ہوا دیکھتا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ فلاں نے ہزار دیا اور فلاں نے دس ہزار دیا تو وہ اپنے چھ میں کمی کرنے کی پھر استطاعت ہی نہیں پاتا.ایسا شرمندہ ہوتا ہے، وہ چھ روپے دیتے ہوئے بھی کہ ساتھ استغفار کر رہا ہوتا ہے.کاش مجھ میں تو فیق ہوتی تو میں اس سے زیادہ دیتا.331

Page 341

خطبہ جمعہ فرمودہ 104 اپریل 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم تو نفسیاتی بہت سے پہلو ایسے ہیں، جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غریب کے تقویٰ کی حفاظت فرما دی ہے.اور ان امور میں امیر، غریب کے مقابل پر دل کا بہت زیادہ غریب ثابت ہوتا ہے.تبھی قرآن کریم نے جہاں مالی قربانی کا ذکر فرمایا، وہاں مالی غربت کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ دل کی غربت کا ذکر فرمایا.فرمایا:.وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (10: ) وہ لوگ جو دل کے بخل سے بچائے جاتے ہیں اور جو دل کے غریب نہیں ہوتے ، وہی لوگ ہیں، جو اللہ کے نزدیک بہت بڑی فلاح پانے والے ہیں.پس جہاں تک چندوں کا تعلق ہے ، وہاں فیصلہ کن امر یہ نہیں ہوتا کہ کسی کے پاس ظاہری دولت کتنی ہے.بلکہ فیصلہ کن امر یہ ہوتا ہے کہ دل کی دولت کسی کے پاس کتنی ہے.اور اس پہلو سے یہ عجیب بدقسمتی ہے، امراء کے طبقہ کی کہ الا ماشاء اللہ امیر اپنی غیر معمولی توفیق کے باوجود شرح کے مطابق چندہ دینے سے ہچکچاتا ہے.ایک آدمی، جس کی ایک سو ساٹھ روپے آمد ہے، اس کے لئے کوئی مشکل نہیں کہ وہ دس روپے دے دے.لیکن جس کی سولہ لاکھ روپے آمد ہو ، وہ ہر سال ایک لاکھ روپیہ دے، اس کو اتنی بڑی رقم نظر آتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ تھوڑا بھی دے دوں تو دس ہزار ہیں ہزار بہت بڑی رقم ہے.اس لئے وہ تھوڑا دے کر بھی اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے کہ میں نے دین کے لئے بڑی قربانی کی ہے.اس لئے وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے اموال میں کشائش عطا فرمائی ہے، اموال میں وسعت بخشی ہے، ان کو خصوصیت کے ساتھ اپنے تقویٰ کی حفاظت کرنی چاہئے.ی حض ڈراوا ہے کہ مال کم ہو جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال جب خدا کو واپس کیا جاتا ہے تو کم نہیں ہوتا.خواہ مخواہ دل میں گانٹھیں پڑی ہوتی ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ گانٹھ کھولنے کا جو مزہ ہے، وہ نہ کھولنے والے کے تصور میں بھی نہیں آسکتا.جب بھی آپ خدا کی خاطر دل کی کوئی گانٹھ کھولتے ہیں، اس وقت آپ کو دراصل وسعت عطا ہوتی ہے، اس وقت آپ کو فراخی ملتی ہے اور وہ فراخی مال کی فراخی کے مقابل پر بہت ہی زیادہ عظیم الشان اور بہت ہی زیادہ سرور بخشنے والی فراخی ہے.اس لئے ہمارے امراء خصوصیت کے ساتھ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں.ایک اور ذریعہ سے بھی مجھے پتہ چلتا ہے کہ ان میں کچھ کمزوری باقی ہے.غریب آدمی جب کسی مجبوری کے پیش نظر شرح میں کمی کرنا چاہتا ہے تو وہ بے دھڑک معافی کے لئے خط لکھ دیتا ہے.اس کا معاملہ 332

Page 342

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد من خطبہ جمعہ فرمودہ 04 اپریل 1986ء اتنا واضح ہے، اس کی ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں، اس کی آمد کے مقابل پر کئی دفعہ مقروض ہو جاتا ہے، کئی دفعہ حادثات پیش آجاتے ہیں کہ وہ بے جھجھک ہو کر لکھتا ہے کہ میرے یہ حالات ہیں، اس لئے میں 1/16 دینے کی توفیق نہیں پاتا.لیکن امیروں کی طرف سے ایسا کبھی کوئی خط نہیں آیا.کیونکہ اگر وہ لکھیں تو ان کو شرمندگی ہوگی.اس لئے وہ نظام جماعت کو توڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.ایک اور گناہ سرزد کر رہے ہوتے ہیں.یعنی غریب آدمی تو جانتا ہے کہ میں لکھوں گا تو میرے لئے بلکہ دعا کی طرف توجہ پیدا ہوگی ، میری غربت پر رحم آئے گا.اور اس لئے اس کی طبیعت میں لکھنے پر طبعی آمادگی پائی جاتی ہے.لیکن امیر آدمی اپنا راز کھولتا ہے، اپنی خساست کا راز کھولتا ہے، اس لئے رک جاتا ہے.کبھی کسی امیر نے نہیں لکھا کہ مجھ میں توفیق نہیں ہے ، 1/16 دینے کی، مجھے معاف کر دیا جائے.حالانکہ میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اگر کوئی لکھے تو میں معاف کر دوں گا.لیکن وہ لکھ سکتے ہی نہیں ، ان کو توفیق ہی نہیں، اس بات کی.وہ سمجھتے ہیں، ہمارے دل کا بخل ننگا ہو جائے گا.اس لئے ایک جرم، ایک دوسرے جرم کرنے پر ان کو مجبور کر رہا ہے.در اصل اصل نگران تقویٰ ہی ہے، جو دل کا نگران ہے.باہر سے نگرانی ممکن ہی نہیں ہے.یعنی حقیقی نگرانی باہر سے نہیں ہو سکتی.اس لئے میں اپنی جماعت کے امراء سے کہتا ہوں کہ اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھائیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال پیش کرتے وقت اپنے تقویٰ کے نگران کو سامنے رکھا کریں.یہ نہ دیکھا کریں کہ باہر سے کوئی آنکھ دیکھ رہی ہے یا نہیں.دوسرا حصہ ہے وہ لوگ جو اموال خرچ کرنے کے ذمہ دار ہیں.یعنی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مختلف کارکن، جو خدا کی راہ میں آنے والے اموال کو خرچ کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں.ان میں واقف زندگی بھی ہیں اور غیر واقف زندگی بھی ہیں.پاکستان میں کام کرنے والے بھی ہیں اور باہر کے ملکوں میں بھی.ایسے ممالک میں بھی ہیں، جو خدا کے فضل سے بہت خوشحال ہیں اور کم سے کم معیار پر بھی اگر وہاں واقعین رہیں ، تب بھی ان کی حالت پاکستان میں بسنے والے واقفین کے مقابل پر اعلیٰ سے اعلیٰ معیار سے بھی اونچی ہے.اور ایسے ممالک میں بھی ہیں، جہاں اتنی غربت ہے، اتنا معیار گرا ہوا ہے کہ بعض دفعہ ایک ہفتہ پہلے جب ہم ان کے وظائف میں اضافہ کا اعلان کرتے ہیں تو اس کے بعد یہ اطلاع آتی ہے کہ اب اس مال کی قیمت یہاں آدھی رہ گئی ہے.اور امر واقعہ ایسا ہو چکا ہے کہ چند دن کے اندر اندر جب وظائف میں اضافہ کیا گیا تو وہاں سے اطلاع ملی کہ اب تو یہاں روپے کی قیمت 1/3 رہ گئی ہے.بہر حال مختلف حالات میں واقفین زندگی ہوں یا غیر واقفین زندگی خدا کی راہ میں اس قربانی کی توفیق بھی پارہے ہیں اور کچھ بے احتیاطیاں بھی کر رہے ہیں.333

Page 343

خطبہ جمعہ فرمودہ 104اپریل 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم جو بے احتیاطیاں کرنے والے ہیں، ان کو میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ بے احتیاطیاں رفتہ رفتہ بددیانتیوں میں بدل جایا کرتی ہیں.اس لئے اگر آپ بے احتیاطی سے بچیں گے اور شروع میں ہی تقویٰ کے معیار کو بڑھا کر سلسلے کے اموال خرچ کریں گے تو اس کا دہرا فائدہ پہنچے گا.اول یہ کہ آپ خدا تعالیٰ کی نظر میں زیادہ مقبول ٹھہریں گے، آپ کے ذاتی اموال میں بہت برکت ہوگی ، آپ کی زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ تعالی برکت عطا فرمائے گا، آپ کی خوشیوں میں برکت بخشے گا، آپ کے ایمان اور خلوص میں برکت بخشے گا.اور دوسرا یہ کہ جماعت احمدیہ کے مالی قربانی کے معیار کو آپ اونچا کرنے والے ہوں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کے تقویٰ کا پیسہ دینے والے کے تقویٰ سے گہرا تعلق ہوتا ہے.جہاں خرچ کرنے والوں کا تقویٰ اونچا ہو، وہاں خدا کی راہ میں قربانی کرنے والوں کا تقویٰ بھی خود بخود اونچا ہوتا چلا جاتا ہے.چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ اکثر احمدیت سے باہر چندے مانگنے والوں کی یہی ہے.بے شمار روپیہ پڑا ہوا ہے اور بے شمار ایسے دل بھی ہیں، جو خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہیں مگر بد بختی ہے بعض قوموں کی کہ وہاں تقویٰ کے ساتھ خرچ کرنے والے نہیں ملتے.اس لئے دلوں میں گانٹھیں پڑگئی ہیں.دینے والا ہاتھ کھلتا نہیں ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے لیے تجربہ کی بناء پر کہ اس قوم کے لینے والوں نے کبھی دیانت کا مظاہرہ نہیں کیا.لیتے کسی اور نام پر ہیں اور خرچ کسی اور نام پر کرتے ہیں.ان کی + شکلیں بتارہی ہوتی ہیں کہ یہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے لوگ نہیں ہیں، مانگنے والے ہیں.پس یہ بیماری جب بہت بڑھ جاتی ہے، پھر تو قوم کے لئے ایک کوڑھ کی شکل اختیار کر جاتی ہے.لیکن آغاز بھی اگر اس کا ہو، تب بھی نقصان پہنچتا ہے.اور بالعموم مختلف اتار چڑھاؤ جو دینے والوں کے آپ کو نظر آئیں گے، ان کا تعلق خرچ کرنے والوں کے تقویٰ کے اتار چڑھاؤ سے ضرور ہوگا.اس لئے ضروری ہے کہ سلسلہ کے اموال دنیا کے جس گوشہ میں بھی وصول ہورہے ہیں اور جس کونے میں بھی خرچ کئے جارہے ہیں، وہاں تقویٰ کے معیار کو دونوں طرف سے اونچا کیا جائے.دینے والوں کے معیار کو ہی نہیں بلکہ خرچ کرنے والوں کے معیار کو بھی اونچا کیا جائے.جو بے احتیاطی کی صورتیں میرے سامنے آرہی ہیں، مختلف وقتوں میں توجہ بھی دلائی جاتی ہے لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری ہے کہ خطبہ میں بھی بالعموم ان کی طرف متوجہ کیا جائے.جہاں تک ہمارے مشنز کا تعلق ہے یا پاکستان میں جو ادارے کام کر رہے ہیں، ان کا تعلق ہے، تین چار ایسے شعبے ہیں، جہاں بے احتیاطی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.بجلی کا خرچ ہے، ٹیلیفون کا خرچ ہے، مہمان نوازی کا 334

Page 344

خطبہ جمعہ فرمودہ 104 اپریل 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک خرچ ہے اور سفر خرچ.یہ وہ چار شعبے ہیں، جہاں سے بے احتیاطی شروع ہوتی ہے اور جب یہ بے احتیاطی آگے بڑھ جائے تو پھر بد دیانتی شروع ہو جاتی ہے.جو پھر ہر شعبہ پر اثر انداز ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے الا ماشاء اللہ اگر خدا کسی کی پردہ پوشی نہ فرمائے تو میں کہہ نہیں سکتا مگر بظاہر بددیانتی کی کوئی مثالیں میرے سامنے نہیں آئیں.بہت ہی شاز کے طور پر بعض جماعت میں واقعات ہوتے ہیں بدیانتی کے مگر وہ ضروری نہیں کہ کارکنان ہی میں ہوں، چندہ وصول کرنے والوں میں بھی ہوتے ہیں.وہ اتنا تھوڑا ہے کہ وہ نا ممکن ہے عملا کہ کسی قوم کے معیار کو اتنا بلند کر دیا جائے کہ ایک فرد بشر بھی کوئی کمزوری نہ دکھائے.کوشش تو ہونی چاہئے مگر بہر حال ایک آئیڈیل ایسا ہے، جسے انسان کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتا.جہاں تک عام معیار کا تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے واضح بددیانتی موجود نہیں ہے.لیکن بے احتیاطی کی بد دیانتی ضرور موجود ہے اور وقت ہے کہ ہم اسے سختی کے ساتھ دبائیں.ایک آدمی جو انگلستان بیٹھا ہوایا امریکہ میں بیٹھا ہوا اپنے خرچ پر اپنے گھر فون نہیں کر سکتا ، اگر اس کو یہ سہولت ہو کہ جماعت کے خرچ پر جبکہ کوئی نہیں دیکھ رہا، جتنا چاہے فون کر لے اور ہرلمحہ جو گزرتا ہے، اس کا فون پر اس کا دل اتنا نہ کٹ رہا ہو کہ جماعت کا اتنا خرچ ہو رہا ہے تو یہاں اس کو میں کہتا ہوں، وہ بے احتیاطی جو بد دیانتی پر منتج ہو جاتی ہے.خواہ انسان واضح طور پر اس بات کو سوچے یا نہ سوچے.لیکن بہترین حل اس کا یہ ہے کہ ہر وہ خرچ ، جو اپنے طور پر وہ کر سکتا ہے، اگر اس خرچ کے وقت اس کو تکلیف ہوتی ہے اور جماعت کے اسی قسم کے خرچ پر تکلیف نہیں ہوتی تو ایسا شخص تقویٰ کے معیار سے گرا ہوا ہے.بجلیاں جل رہی ہیں تو جلتی چلی جارہی ہیں، پرواہ ہی کوئی نہیں.اور بے شمار خرچ اس کی وجہ سے ہو جاتا ہے.سردی کے موسم میں گرمی کی ضرورت پڑتی ہے، گیس جل رہی ہے اور بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ جل رہی ہے، کھڑکیاں بھی کھلی ہیں، تب بھی کوئی پرواہ نہیں.ان چیزوں کو آپ بے احتیاطیاں کہیں گے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بے احتیاطیاں بے دردی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور بے دردی اور بے حسی اور تقویٰ اکٹھے نہیں رہا کرتے.ایسی بے درودی اور ایسی بے حسی جو فرق کر کے دکھائے، جماعت کے خرچ میں تو موجود ہو اور ذاتی خرچ میں موجود نہ ہو ، وہ تقویٰ کے خلاف ہے.اور یہ صورت حال بالآخر بد دیانتی پر منتج ہو جاتی ہے.اس لئے اب ہم نے آڈٹ کے انتظام کو زیادہ منظم کیا ہے اور بہت زور دیا جا رہا ہے کہ ہر جگہ آزاد آڈیٹر یعنی حساب کرنے والے جو جماعتی نظام سے بالکل آزاد ہوں، وہ اپنی رپورٹیں براہ راست مجھے بھجوائیں.اور ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی آؤٹ کی رپورٹ پر اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ 335

Page 345

خطبہ جمعہ فرمودہ 04 اپریل 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مواقع پیش نہیں آنے چاہئیں کہ آڈٹ کے نظام پر اتنا زور دینا پڑے.کیونکہ آڈٹ کا نظام حقیقت میں اموال کی صحیح حفاظت یا پوری حفاظت نہیں کر سکتا.کوئی نگران جو بیرونی ہو ، وہ بچی اور حقیقی حفاظت اموال کی کر ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ نے تقویٰ کا ایک اندرونی نگران مقرر فرما دیا ہے.اور یہ وہ نگران ہے، جس کا براہ راست عالم الغیب والشہادۃ سے تعلق ہے.کیونکہ تقویٰ خدا کی ذات سے پھوتا ہے.اس کا مستقل رشتہ، ہمیشہ کا ایک رابطہ ہے، اپنے رب کے ساتھ.اس لئے اس کو بھی خدا تعالیٰ نے عالم الغیب والشہادۃ کی صفات عطا فرما دی ہیں.تقویٰ کی آنکھ وہ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے، جو بیرونی آڈیٹر کو نظر آتا ہے اور وہ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے، جو بیرونی آڈیٹر کو نظر ہی نہیں آسکتا.ان باریکیوں تک بھی چلی جاتی ہے، جو نیتوں کے پردوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں.اس لئے تقویٰ کی بصیرت کو تیز کریں اور اسی کو اپنا نگران بنائیں.اگر آپ اس طرح کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کے اموال میں بھی برکت پڑے گی اور جماعت کے اموال میں بھی ہر لحاظ سے برکت پڑے گی.اگر ایک آنہ آپ خرچ کریں گے تو تقویٰ کے ساتھ خرچ کیا جانے والا آنہ ، ایک آنے کی قیمت نہیں دیتا.وہ بعض دفعہ لکھوکھا روپے کی قیمت دے دیتا ہے.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جو اللہ پر ایمان لانے والے ہی سمجھ سکتے ہیں.دنیا دار کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں آسکتی.اور پھر بے شمار تقویٰ کے نتائج دور رس ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں، جو آئندہ نسلوں تک بھی پہنچتے ہیں.اس لئے اس بارے میں جتنی بھی تاکید کی جائے کم ہے کہ خرچ کرنے والے تقویٰ کے معیار پر قائم ہوں.اور اگر کسی کی آنکھ کے سامنے ان کے نقائص نہیں بھی آتے ، تب بھی خدا کا خوف اختیار کریں.کیونکہ دنیا کے اموال کھانا بھی ایک بددیانتی ہے اور مکروہ چیز ہے لیکن وہ مال، جو دینے والوں نے پتہ نہیں کس کس پاکیزہ نیت کے ساتھ ، کسی پیار کے ساتھ ، کس محبت کے ساتھ ، کیا کیا قربانیاں کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش کیا.اس مال پر منہ مارنا تو نہایت ہی گندی حرکت ہے.عام معیار سے بہت زیادہ گری ہوئی حرکت ہے.واقفین کی ایک اور بھی قسم ہے، ہمارے ہاں، جو کماتی بھی ہے جماعت کے لئے اور خرچ بھی کرتی ہے.اور میری مراد ڈاکٹر سے ہے.افریقہ کے مختلف ممالک میں ہمارے ایسے واقفین ڈاکٹر کام کر رہے ہیں اور ربوہ میں بھی ہسپتال میں ایسے واقفین ڈاکٹر کام کر رہے ہیں کہ اگر وہ دنیا میں ویسے کمائی کے لئے نکلتے تو ہزار ہا اور بعض صورتوں میں لکھوکھا بھی کما سکتے تھے.کیونکہ سرجن وغیرہ کی بہت بڑی قیمت ہوتی ہے.آج کل تو امریکہ اور انگلستان وغیرہ میں ایسے ماہر سرجن ہیں، جن کی سالانہ آمد لکھوکھاڈالر زیا توامریکہ اور کی 336

Page 346

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 104 اپریل 1986ء لکھوکھا پاؤنڈ ز تک پہنچتی ہے.اور عملاً یوں لگتا ہے جیسے سرجن سونے کی کان تک پہنچ گیا ہے.دوسرے ڈاکٹروں کی بھی بعض ملکوں میں بہت قیمت ہے.پاکستان میں بھی آج کل ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے علاج بہت مہنگے ہو گئے ہیں.اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیماری سے مرنا بہتر ہے بجائے اس کے کہ پیسے دے کر مرے ڈاکٹر کو آدمی.واقعی نا قابل برداشت ہے.ایسی صورت میں ڈاکٹروں کا وقف کرنا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے ہنر کو مائی کا ذریعہ بنا کر پیش کر دینا، ایک بہت عظیم الشان خدمت ہے.بہت اونچا مقام ہے، یہ تقویٰ کا لیکن اس کے تقاضے پورے کریں ، تب.اگر پیش تو کر دیں لیکن تقاضے پورے نہ کریں تو پھر اسی حد تک یہ گری ہوئی بات بن جاتی ہے.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے سرسری، مجھے بعض خطرات دکھائی دینے لگے ہیں.بعض دفعہ آؤٹ کی رپورٹ نہ بھی پہنچ رہی ہو ، عمومی بے برکتی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ خرابی ضرور موجود ہے.اور یہ ہسپتالوں میں عمومی بے برکتی کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں.ہر جگہ جماعت کے ہسپتالوں میں یہ رجحان میں دیکھ رہا ہوں کہ جہاں پہلے غیر معمولی برکت تھی ، ایک خوشی اور بشاشت کا ماحول تھا، سارے لوگ ارد گر دخوش تھے، تعریفوں کے خطوط آتے تھے اور شفا بہت تھی ان کے ہاتھوں میں، اس کے برعکس صورت پیدا ہو گئی ہے.اب شکایتیں آنی شروع ہوگئی ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، آڈیٹر خواہ پکڑ سکے یا نہ پکڑ سکے، جب عموماً خلق خدا ناراض ہونی شروع ہو جائے ، خلق خدا میں بے چینی پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب ہے ضرور کچھ نہ کچھ ہورہا ہے.اور کام کرنے والے کی نیتیں جب بگڑتی ہیں تو پھر بے برکتی ضرور پیدا ہوتی ہے.وہ آپ نے واقعہ سنا ہی ہوگا کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ شکار میں بھٹک گیا اور ایک صحرا میں نخلستان ہوتے ہیں یا باغ تھا چھوٹا سا وہاں پہنچ گیا.شدید گرمی تھی ، وہاں ایک مالی کی بیٹی دیکھ بھال کر رہی تھی، چیزوں کی.اس نے اس سے کہا کہ مجھے شدید پیاس لگی ہے.اس نے کہا: تشریف رکھیں، میں ابھی آپ کے لئے رس نکالتی ہوں.چنانچہ کچھ پھل اس نے توڑے اور اس کے سامنے ان کا رس نکال کر اس کو پیش کیا.تین یا چار پھلوں میں وہ گلاس بھر گیا.جب بادشاہ نے وہ گلاس پی لیا تو اسی دوران اس نے حساب بھی کرنا شروع کیا ہوا تھا.اس نے کہا کہ یہ باغ ہے اتنا بڑا اور اس میں فی درخت تقریباً اتنے پھل ہیں اور تین چار پھلوں کے اندر ہی ایک گلاس جوس سے بھر گیا ہے.اگر اس کی قیمت اتنی ہو تو اس باغ کی تو اتنی قیمت بنتی ہے.اور حکومت تو اس سے بہت ہی تھوڑ انیکس لے رہی ہے، کم سے کم دس گنا ٹیکس ایسے باغوں کا 337

Page 347

خطبہ جمعہ فرمودہ 04 اپریل 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ہونا چاہئے.جب وہ یہ حساب کر رہا تھا اور لڑکی اس کے لئے بے چاری پھل توڑ کر جوس بنا بنا کر پیش کر رہی تھی ، بادشاہ نے کہا: بیٹی ! بہت اچھا جوس ہے.مجھے ایک گلاس اور بنا دو.اس نے دوسرا گلاس بنا نا شروع کیا تو پندرہ میں پھل لگ گئے ، تب جا کر مشکل سے وہ گلاس بھرا.بادشاہ نے بہت تعجب سے پوچھا کہ بیٹی ! یہ کیا قصہ ہے ؟ ابھی میں نے دیکھا تھا کہ تین، چار پھلوں کے اندر ہی گلاس بھر گیا تھا.اب پتا لگا ہے کہ پندرہ ، میں پھل ہو گئے ہیں اور بڑی مشکل سے گلاس بھرا ہے.تو اس نے جواب دیا: آپ جو بھی ہیں مگر میں آپ کو ایک بات بتاتی ہوں کہ ملک کی برکت بادشاہوں کی نیت سے ہوا کرتی ہے.جب بادشاہوں کی نتیں اچھی ہوں، اپنی رعایا کے متعلق تو خدا تعالیٰ ملک کی فصلوں میں، اس کے پھلوں میں بہت برکت بخشا ہے.جب بادشاہوں کی نیتیں بگڑ جائیں تو ملک کی ہر چیز پر نحوست طاری ہو جاتی ہے.اس کے پھل بھی بگڑ جاتے ہیں، اس کے فصلیں بھی بگڑ جاتی ہیں.یہ ایک ایسا گہر اسبق تھا اس بادشاہ کے لئے کہ اس نے اس کی زندگی میں اور اس کی سوچ میں ایک عظیم الشان انقلابی تبدیلی پیدا کر دی.تو بعض دفعہ بے برکتی کے نتیجہ میں بھی نیتوں کے فساد کا پتہ چلتا ہے.جب عمومی بے برکتی کہیں نظر آئے گی تو کوئی نہ کوئی رخنہ آپ کو دیکھنا پڑے گا، ضرور کہیں نہ کہیں کوئی رخنہ ملے گا.اس لئے بیشتر اس کے کہ زیادہ تفصیل کے ساتھ چھان بین کی جائے.تمام خدمت کرنے والے واقفین سے میں کہتا ہوں کہ اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی ہے کہ اپنے ہنر کے باوجود آپ نے اپنی زندگی جماعت کے سامنے پیش کی تو اس نیکی ، اس قربانی سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں.ورنہ اگر اس کے باوجود آپ نے دیانت داری سے کام نہ لیا اور یہ سمجھتے ہوئے کہ ہماری محنت ہے اس لئے اس میں سے ہم جتنا چاہیں لیں ، ہمارا حق بنتا ہے.دوسرے ڈاکٹر لکھ پتی ہیں تو ہم کیوں غربت میں رہیں؟ اس نیت سے اگر اپنے دل کو طفل تسلی دیتے ہوئے کچھ روپیہ کانین شروع کیا تو ساری برکتیں آپ کی زندگی سے اٹھ جائیں گی.وقف کا ایک کوڑی کا ثواب بھی نہیں ملے گا بلکہ الٹا خدا کی پکڑ کے نیچے آجائیں گے.ایسے ڈاکٹر ، جو فیسوں کے معاملہ میں بددیانتی کر رہے ہوں.آدھی جیب میں ڈال لی اور آدھی حساب میں لکھی.یا ادویات کے معاملہ میں بد دیانتیاں کر رہے ہوں.یا اخراجات لکھنے کے معاملہ میں بد دیانتیاں کر رہے ہوں.کئی قسم کے امکانات، احتمالات ہیں، جن کے ذریعہ ڈاکٹر بد دیانتی کر سکتا ہے.ان کو میں کہتا ہوں کہ آپ کا علاج صرف یہ ہے کہ وقف چھوڑ کر باہر چلے جائیں.کیونکہ جب خدا نے آپ کو پاکیزہ رزق کمانے کی توفیق بخشی ہوئی ہے تو اسے حرام بنا کر کھانے کا فائدہ کیا ہے؟ نہایت ہی بیوقوفوں 338

Page 348

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 04 اپریل 1986ء والی بات ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہے، جیسے تقسیم ملک سے پہلے ایک دفعہ قادیان میں ہماری ایک بڑی باجی نے اپنی نوکر کے لئے کچھ کپڑے سلوائے.اس بے چاری کو یہ پتہ نہیں تھا کہ میرے لئے سلوائے گئے ہیں.وہ چوری کر کے لے گئی.اور کسی اور چوری میں وہ پکڑی گئی تو وہ کپڑے بھی بیچ میں سے نکل آئے.کیسی بیوقوفوں والی بات ہے.لیکن اس عورت کی بیوقوفی تو نا سمجھی میں ہوئی تھی.اس کو تو پتہ نہیں تھا کہ یہ کپڑے بغیر چوری کے بھی میرے لئے حلال تھے ، مجھے ہی ملنے تھے.مگر وہ ڈاکٹر ، جو وقف کرتا ہے اپنی زندگی کو ، اس کو تو پتہ ہے کہ اگر میں وقف نہ کروں تو یہی کمائی میرے لئے حلال ہے.میں اپنے چندے دوں، میں جماعت کی خدمات اور طریقوں سے کروں، اپنا بھی گھر بھروں اور دوسروں کے بھی گھر بھروں اور بشاشت محسوس کروں.ایسا ڈاکٹر اس نوکر سے بہت زیادہ بے وقوف ہے، جو یہ دیکھنے کے باوجود کہ حلال رستہ موجود ہے، پھر حرام کو اختیار کرتا ہے.نہ اس کے وقف کی کوئی قیمت رہتی ہے اور نہ اس کے روپے کی کوئی قیمت رہتی ہے.ساری کمائی اس کی گندی ہو جاتی ہے.تو سوائے اس کے میں اور کوئی مشورہ نہیں دے سکتا کہ ایسے لوگوں کو ہسپتالوں کو چھوڑ دینا چاہئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو اس سے بہتر ڈاکٹر مہیا کر دے گا.یہ ناممکن ہے کہ سلسلے کے کام رک جائیں.ایک بات جس کی خدا نے ضمانت دے رکھی ہے، وہ یہی ہے کہ سلسلہ کے کام ہمیشہ جاری رہیں گے اور برکتوں کے ساتھ جاری رہیں گے.اس لئے چند ڈاکٹر ، جن کے دل گندے ہو چکے ہیں، ان کے بدلے خدا اگر ان سے زیادہ پاک ڈاکٹر مہیا کر دے تو سلسلہ کے لئے یہ کیسے نقصان کا سودا ہو سکتا ہے.اس لئے یا تو وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں فوری.ورنہ محاسبہ کے وقت پھر ان کو جماعت سے بھی خارج کرنا پڑے گا اور ان کے اوپر جو سرزنش خدا نے مقررفرمائی ہے، وہ ان کے اوپر جاری کرنی پڑے گی.لیکن نہ بھی پکڑے جائیں تو بڑی ہی بیوقوفی کا سودا کر رہے ہیں، جو حلال کمائی کے امکانات رکھتے ہوئے بھی بے وجہ حرام کمائی میں منہ ماررہے ہیں.اور اپنے ہاتھوں کی حلال کمائی کو اپنے ہاتھوں سے حرام بنا بنا کر کھا رہے ہیں.میں تو سوچ بھی نہیں سکتا اتنی بڑی حماقت کیسے کر سکتا ہے ایک با شعور انسان لیکن کرنے والے کر بھی جاتے ہیں.اس لئے جماعت خواہ دینے والی ہو یا خرچ کرنے والی ہو، دونوں پہلوؤں سے ہمیں تقویٰ کے معیار کو بہت بلند کرنا چاہئے.کیونکہ اصل زاد راہ ہمارا تقویٰ ہی ہے.تقویٰ رہے گا تو انشاء اللہ دینے والوں کے اموال میں بھی بہت برکت ہوگی اور جو خرچ کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں، ان کے اموال میں بھی بہت 339

Page 349

خطبہ جمعہ فرمودہ 104 اپریل 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم برکت ہوگی.ان دونوں کے ذاتی اموال میں بھی برکت ہوگی اور جماعتی اموال میں بھی برکت ہوگی.اور و غیر معمولی فضلوں اور رحمتوں کی بارشیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوں گی.خدا کی راہ میں کھلے دل کے ساتھ خرچ کرنے والے کبھی نقصان میں نہیں رہتے.اور خدا کی راہ میں ہاتھ روک کر اس وجہ سے خرچ کرنے والے کہ سلسلے کے اموال ہیں، ان میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کی جائے، وہ بھی کبھی نقصان میں نہیں رہتے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت ان دونوں امور کی طرف متوجہ ہوگی..مجھے خصوصیت کے ساتھ اس لئے یہ تحریک پیدا ہو رہی ہے کہ غیر معمولی طور پر جماعت کے دلوں کو چندے دینے میں فراخی عطا کی گئی ہے.اس کثرت کے ساتھ پاکیزہ روحانی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے اور روح سر بسجو د ہو جاتی ہے.ایک تحریک کے بعد دوسری کر کے دیکھی ، دوسرے کے بعد تیسری، تیسری کے بعد چوتھی.ابھی پہلی تحریک کا حساب بھی نہیں سمٹا ہوتا کہ دوسری تحریک شروع ہو جاتی ہے اور ہر تحریک پر توقع سے حیرت انگیز طور زیادہ جماعت قربانی کرتی چلی جارہی ہے.قابل رشک ہے.لیکن تبھی قابل رشک ہے، اگر اسے قابل رشک رکھا جائے، ہمیشہ کے لئے.اگر اس کے ساتھ تقویٰ کے معیار کو اور بلند کیا جائے.اگر اس کے ساتھ ساتھ خرچ کرنے والے بھی استغفار کریں اور خدا کا خوف دلوں پر طاری کریں اور کوشش کریں کہ قربانی کرنے والوں کی محبت اور پیار کا ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہو.ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے.جب میں یہ بات کہتا ہوں تو کمزوروں کو پیش نظر رکھ کر کہہ رہا ہوں.ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک جماعت میں ایسے متقی موجود نہیں.ایسے بھی ہیں، جن کے متعلق مجھے فکر کرنی پڑتی ہے کہ یہ جماعت کی خاطر اتنی کنجوسیاں کرتے ہیں اپنے نفس کے اوپر کہ اپنے حق بھی مارتے ہیں اور ان کے متعلق کوئی اور بتادے تو بتادے، ان کی زبان نہیں ہوتی اس معاملہ میں.اس لئے مجھے فکر کر کے ان کی ضرورتوں پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے کہ کہیں خدانخواستہ میری غفلت کے نتیجہ میں ان کو تکلیف نہ پہنچے تو امر واقعہ یہ ہے یہ بھی اللہ کی عجیب شان ہے کہ جب انسان اپنے اندر کا نگران سخت کر دیتا ہے تو باہر سے شفیق دل بھی ان کے لئے پیدا کرتا ہے، جو باہر سے ان کا خیال کرتے ہیں.وہ اپنا درد نہیں کرتے تو خدا اور خدا کے فرشتے ان کا درد کرتے ہیں اور ان کے اولادوں کے اموال میں بھی برکت بخشتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے اور حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام کا حوالہ دیا ہے.اس کے علاوہ اولیاء نے بھی کہا ہے کہ خدا کی خاطر تقویٰ اختیار کرنے والوں اور خدا کی خاطر قربانی.کرنے والوں کی سات نسلیں تک بھوکی نہیں مرتیں.340 ( ملفوظات جلد 04 صفحه 444

Page 350

تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 04 اپریل 1986ء انتقالمبابرکت کا اثر ان پر چلتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی اپنی جماعت کے ساتھ یہی وعدے ہیں، جو خدا نے آپ کو دیئے تھے.اس لئے بے خوف ہو کر ان مالی قربانی کی راہوں میں آگے بڑھیں.دیتے وقت بھی اپنے تقویٰ کے معیار بلند کریں اور خرچ کرتے وقت بھی اپنے تقویٰ کے معیار بلند کریں.اللہ تعالیٰ کی لامتناہی ، نہ ختم ہونی والی برکتیں آپ پر نازل ہوں، آمین.(مطبوعہ خطبات ظاہر جلد 15 صفحہ 259 271) 341

Page 351

Page 352

تحریک جدید - ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 اپریل 1986ء آپ نے نئی زمین اور نئے آسمان کے لئے کوشش کرنی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اپریل 1986ء جماعت احمدیہ کے اوپر بھاری ذمہ داری ہے.قرآن کریم کا پیغام آپ کو یہ ہے کہ آپ نے نئی زمین اور نئے آسمان کے لئے کوشش کرنی ہے.آپ ہر گز کسی انقلاب سے راضی نہ ہوں، جو دنیا کے حالات بدلانے والا انقلاب نہ ہو، جو ان کی دنیاوی زندگی میں بھی تبدیلی پیدا نہ کر سکے اور جوان کی روحانی زندگی میں بھی تبدیلی پیدا نہ کر سکے.اس انقلاب پر مومن راضی ہو جائیں اور مومن خوش ہو جائیں یہ کیسے ممکن ہے؟ ایسے چھوٹے اور سطحی اور پست خیالات والوں کا رب عظیم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، رب اعلیٰ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.اس لئے مومنوں کی جماعت کو ان حالات پر نظر ڈال کر عبرت حاصل کرنی چاہیے.اور وہ عزائم پہلے سے زیادہ بلند کرنے چاہئیں، ہمتیں پہلے سے زیادہ مضبوط کرنی چاہئیں، ان ارادوں میں مزید قوت پیدا کرنی چاہیے، اپنے عمل کی طاقت کو بڑھانا چاہیے، جن کے ذریعہ دنیا میں دائی اور حقیقی انقلاب بر پاکئے جاتے ہیں.ان غربتوں کا علاج بھی جماعت احمدیہ کے پاس ہے اور جماعت احمدیہ ہی کے ذریعہ ہوگا.ان نا انصافیوں کا علاج بھی جماعت احمدیہ ہی کے پاس ہے اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہوگا.ان کی روحانی بدحالی اور بے راہ روی کا علاج بھی جماعت احمدیہ ہی کے پاس ہے اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہوگا.اس لئے ان عظیم کاموں کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.یہ عبرت ہے، جو ان حالات سے حاصل کی جاتی ہے.اور نئے زمین و آسمان کے لئے کوشش بھی کریں اور دعائیں بھی کریں.اور اپنے زمین و آسمان تو ضرور بدلیں.کیونکہ اگر آپ کے زمین و آسمان نہ بدلے گئے تو آپ نے دنیا کے زمین و آسمان کیسے تبدیل کرتے ہیں؟ انقلابی روحانی تبدیلیوں کا تقاضا کر رہا ہے، یہ دور.ایسی تبدیلیاں کہ جماعت کے اندرونی حالات، دنیاوی حالات بھی درست ہو جائیں اور بیرونی حالات اور روحانی حالات بھی درست ہو جائیں.میں جب بار بار زور دیتا ہوں عائلی جھگڑوں کو مٹانے کے لئے ، آپس میں محبت کا ماحول پیدا کرنے کے لئے ، مالی لحاظ سے اپنی دیانت داری کے معیار کو بڑھانے کے لئے ، اپنے تقویٰ کے معیار کو 343

Page 353

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 125 اپریل 1986ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ہفتہ اونچا کرنے کے لئے، یہ سارے نئے زمین و آسمان جو ہم نے پیدا کرنے ہیں، ان کا مضمون میرے سامنے ہوتا ہے اور میں فکر کرتا ہوں.اس لئے وہ احمدی، جو مجھے خط لکھتے ہیں کہ الحمد للہ، وہ سب کچھ ہو گیا، جس کی ہم توقع کر رہے تھے.مجھے ان پر رحم آتا ہے.یہ تو آرائش خم کا کل ہے، یعنی جس طرح کوئی اپنے حسن میں مگن خود اپنی زلفوں کو سدھارتا ہے اور خوش ہوتا چلا جاتا ہے.لیکن کچھ ہیں، جو اس کو دیکھ کر اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پس وہ انقلاب، جو نتائج سے خالی ہو، وہ انقلاب، جن کے عقب میں روحانی تبدیلیاں اور پاکیزہ روحانی تبدیلیاں پیدا ہونے والی نہ ہوں، وہ انقلاب، جن کے بعد قوم کی حالت نہ سدھرے اور پھر آئندہ خطرات کے انتظار میں گویا وہ بیٹھے کہ کب پھر ماحول بگڑے اور کب پھر ہم اس دور سے دوبارہ گذرنا شروع ہو جائیں ، جن انقلابات کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہو.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ انقلاب نہیں ہے، جن کا قرآن کریم کی ان آیات میں ذکر ہے.کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے:.يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمُوتُ وَبَرَزُ وَ اللَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ پس اے احمد یو! اس عظیم الشان انقلاب کے لئے کوشش کرو اور راضی نہ ہوں اور ہرگز راضی نہ ہو اور ہرگز راضی نہ ہو، جب تک اس انقلاب عظیم کا پیش خیمہ تم اپنی آنکھوں کے سامنے نہ دیکھ لو، جب تک اس انقلاب عظیم کے آثار تمہیں دکھائی نہ دینے لگیں، جب تک اس انقلاب عظیم کی خوشبو تمہارے نتھنوں تک نہ پہنچے، ہر گز راضی نہ ہو.اس کے لئے کوشش کرتے چلے جاؤ، اسی کے لئے دعائیں کرتے چلے جاؤ کیونکہ ہماری جماعت الہی جماعت ہے اور انہی اغراض کے لئے پیدا کی گئی ہے.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 312303) 344

Page 354

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد هفتم پیغام بر موقع ریجنل اجتماع خدام الاحمد به لندن و ڈل سیکس آپ نے اس ملک کی تقدیر کو بدلنا ہے پیغام بر موقع ریجنل اجتماع خدام الاحمدیہ لندن و مڈل سیکس منعقدہ 27 اپریل 1986ء Dear Brothers and Children, Asslam-o-Alekum wa Rahamat-u-Allah he wa Barakat-o-hu.May Allah always protect you from the vices of this country and enable you to adopt its good aspects.You should always remember that in this country you are the representatives of Almighty God and His Holy Messenger and that you have to change fate of this country.May Allah never let it happen that the people of this country should succeed in changing you good fortune into misfortune.You should place emphasis on Preaching because this is the key to other blessings.Those engaged in preaching can never be overwelmed by the people who are object of preaching.You must pray most fervently because all blessings spring from prayer.May Allah sustain you and bless you with success.I regret that despite keen desire, I could not meet with my brothers and children because of preoccupation with Jamaat's work.Wassalam 345

Page 355

پیغام بر موقع ریجنل اجتماع خدام الاحمد به لندن و مدل سیکس تحریک جدید - ایک الہی تحریک...ترجمہ:.پیارے بھائیو اور بچو ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو اس ملک کی برائیوں سے بچنے اور اس کی اچھی باتیں اختیار کرنے کی توفیق دے.ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں کہ آپ اس ملک میں خدا تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندہ ہیں اور آپ نے اس ملک کی تقدیر کو بدلنا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کے لوگوں کو کبھی یہ توفیق نہ دے کہ وہ آپ کی خوش قسمتی کو بد قسمتی میں تبدیل کر سکیں.آپ کو تبلیغ پر زور دینا چاہئے.کیونکہ یہ دوسری کئی برکات کے حصول کا ذریعہ ہے.جو تبلیغ کرتے ہیں، وہ ان لوگوں کے بداثر سے بھی متاثر نہیں ہو سکتے ، جن کو وہ تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں.دعا پر خاص زور دیں کیونکہ تمام برکات کا سر چشمہ دعا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کا مددگار ہو اور کامیابی عطا فرمائے.مجھے افسوس ہے کہ پہلے سے طے شدہ مصروفیات کی وجہ سے باوجود شدید خواہش کے میں اپنے بھائیوں اور بچوں سے ملاقات نہیں کر سکا.346 والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 20 جون 1986ء)

Page 356

تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشاد فرمودہ 10 مئی 1986ء اسلام میں اتمام نعمت احمدیوں کے ہاتھوں مقدر ہے ارشاد فرمودہ 10 مئی 1986ء رمضان کے درس القرآن میں انعمت علیہم کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسی الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا:.وو اسلام میں اتمام نعمت احمدیوں کے ہاتھوں مقدر ہے اور احمدی تمام دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے چنے گئے ہیں.لیکن اگر احمدی اپنے تقویٰ کے معیار کو بلند نہ رکھ سکے اور آنحضرت کے پیغام کو رد کرنے والے بن گئے تو اللہ تعالیٰ ان کو رد کر دے گا.اس لئے میں ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک احمدیوں کو اپنے دونوں انعاموں کا وارث کرتا چلا جائے.لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ اس کا انحصار خود احمد یوں پر ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل دیں اور اللہ تعالیٰ کے انعاموں کو رد نہ کر دیں.اس لئے میں تمام احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ایک طرف غلبہ اسلام کے لئے مسلسل کوشش کریں اور دوسری طرف مستقل طور پر اپنی قدروں کی حفاظت کریں.اس لئے جب آپ اسلام کی فتح کے لئے دعا کریں تو اس کے ہمیشہ قائم رہنے کی بھی دعا کریں.اور مسلسل اپنی اصلاح بھی کرتے رہیں.جب تک آپ نہیں بدلیں گے، اللہ تعالیٰ آپ کو تباہ نہیں کرے گا.یہ اس کا وعدہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہماری دعائیں اور ہماری کوششیں اسلام کی شان و شوکت کو ایک لمبے عرصے تک قائم رکھنے میں ایک بہت بڑا کردار ادا کریں گی، انشاء اللہ.مطبوعہ ہفت روزہ النصر 06 جون 1986ء) 347

Page 357

Page 358

تحریک جدید - ایک الہی تحریک " اقتباس از خطبه عید الفطر فرمودہ 09 جون 1986ء خدا سارے جہان میں اس جماعت کو غلبہ نصیب فرمائے گا خطبہ عید الفطر فرمودہ 09 جون 1986ء به عظیم الشان زمانہ، جسے قرآن کریم نے آخرین کا دور قرار دیا ہے اور وأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ ( الجمعة :04) کی عظیم خوش خبری کے ذریعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا یہ عظیم الشان دور قرار دیا گیا ہے.اس عظیم دور کے اس دور ابتلاء میں، جس میں سے ہم گزر رہے ہیں، ہم نے خدا تعالیٰ کی نصرتوں کے عجیب نظارے دیکھے ہیں.اور اس کے فضلوں کو بارش کے قطروں کی طرح نازل ہوتے ہوئے دیکھا.اس عظیم دور ابتلاء کی کوکھ سے آج ایک اور عید ہمارے لئے جنم لے رہی ہے.پس میں تمام دنیا کی جماعتوں کے احمدی احباب کو اس عید پر مبارک باد پیش کرتا ہوں.اور تمام عالم اسلام کو بھی اس عید پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اگر چہ اس عید کے عقب میں جو دکھ ہیں، وہ تو ہم نے اپنے سینوں سے لگائے ہیں لیکن اس کی نصرتوں، اس کی فتوحات میں اس کے بعد آنے والے اللہ کے فضلوں میں ہم ان کو بھی شریک کرتے ہیں.اور حقیقت میں امت محمدیہ کی فلاح و بہبود ہی کی خاطر، امت محمدیہ کی عظیم عالمی ترقی کی خاطر ہی ہم اس دکھوں کے دور سے امَنَّا وَ صَدَّقنا کہتے ہوئے اور صبر ورضا کے ساتھ گزر رہے ہیں.وو آج صبح نماز کے بعد کچھ عرصے کے لئے جب میں آرام کے لئے لیٹا تو اللہ تعالیٰ نے وہ خوشخبری عطا فرما دی، جس کی مجھے مدت سے انتظار تھی.اور جو خدا تعالیٰ نے آج عید کے تحفے کے طور پر آپ سب کے لئے رکھی تھی.میں نے رویا میں دیکھا کہ قادیان میں بہشتی مقبرہ کے ساتھ جو بڑا باغ کہلاتا ہے، وہاں سڑک کے پاس میں کھڑا ہوں.اور حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم، ایسی صحت کے ساتھ کہ اس سے پہلے میں نے اپنی زندگی میں آپ کو اس صحت میں کبھی نہیں دیکھا تھا، سیدھے چلتی ہوئی، تنہا ہیں کوئی اور ساتھ نہیں ہے، وہ میری طرف ایک عجیب پیاری مسکراہٹ کے ساتھ بڑھتی ہوئی چلی آرہی ہیں.گویا میری آپ کو تلاش تھی.349

Page 359

اقتباس از خطبه عید الفطر فرمودہ 09 جون 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم اس وقت میرے دل کی عجیب کیفیت ہے.میں بے قرار ہوں کہ دونوں ہاتھوں سے آپ کا ہاتھ تھا موں اور اسے بوسے دیتا چلا جاؤں.حضرت اماں جان ، جن کا نام نصرت جہاں پیش نظر رہنا چاہئے ، اسی میں دراصل بڑی خوش خبری ہے.ویسے آپ کی ذات بھی بڑی مبارک تھی، اس میں بھی کوئی شک نہیں.لیکن ذات کے ساتھ یہ نام مل کر مکمل خوش خبری بنتی ہے.آپ ایک شعر پڑھتی ہیں، مجھے دیکھ کر.وہ شعر تو مجھے یاد نہیں رہا اور میں اسے خواب کے دوران بھی شرمندگی اور انکسار کی وجہ سے یادرکھنا نہیں چاہتا تھا.یعنی مجھے دہراتے ہوئے بھی شرم محسوس ہورہی تھی.اس شعر کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا کہ جیسے شمع کوخود اپنے پروانے کی تلاش تھی اور شمع اپنے پروانے کے پاس آگئی ہے.نا قابل بیان لذت تھی، اس شعر میں.ایسا روحانی سرور تھا کہ کوئی دوسرا انسان، جو اس تجربہ سے نہ گزرا ہو، اس کو اس کا تصور بھی نہیں ہو سکتا.اس شعر کو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے دو تین مرتبہ پڑھا.اور وہی پاکیزہ فرشتوں کی سی مسکراہٹ آپ کے چہرہ پر تھی.یعنی مسکراہٹ فرشتوں کی کہنا تو ایک عجیب محاورہ ہے ، مگر فرشتہ کے ساتھ کا جو تصور ہے انسان کا ، وہ تصور مسکراہٹ میں بھی شامل ہو جایا کرتا ہے.پس اس کے سوا میرے پاس اور کوئی اظہار بیان کا طریق نہیں ہے.ایک فرشتوں کی سی مسکراہٹ میں اسے قرار دے سکتا ہوں.اس کے ساتھ وہ زیر لب وہ شعر پڑھتی رہیں اور میں نے جواب میں کوئی شعر پڑھا اور یہ بتانے کی خاطر کہ میں اس لائق کہاں.اس شعر میں ایک پنجابی لفظ استعمال کیا جی آیاں نوں".حضرت اماں جان مسکرائیں اور مجھے فورا خیال آیا کہ اس لئے مسکرا رہی ہیں کہ تم اپنے جوش میں یہ بھی بھول گئے ہو کہ اردو میں پنجابی ملا رہے ہو.لیکن خواب میں اس رؤیا کے وقت اس سے بہتر محاورہ مجھے نظر نہیں آیا کہ آپ آئی ہیں تو جی آیاں نوں.اہل پنجاب اس محاورہ کی لذت سے آشنا ہیں.بے اختیار جب بہت ہی پیار آئے کسی آنے والے پر اور انسان اپنے آپ کو اس لائق نہ سمجھے کہ آنے والا اسے اعزاز بخش رہا ہے، اس کے گھر چلا آیا ہے تو بے اختیار پنجاب میں خصوصاً عورتوں کے منہ سے یہ آواز نکلتی ہے، نعرہ بلند ہوتا ہے، جی آیاں نوں، جی آیاں نوں.جن لوگوں کو تجربہ ہے پنجاب کے گھروں میں اس طرح اچانک جانے کا، جہاں ان کو عزت اور پیار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ان کو پتہ ہے کہ عجیب گھر میں افراتفری سی پڑتی ہے، دوڑتی ہیں قدم لینے کے لئے لپکتی ہیں عورتیں اور بے اختیار کہتی ہیں کہ جی آیاں نوں.تو مجھے علم تھا کہ یہ پنجابی محاورہ ہے، مگر مجھے اس وقت رویا میں اس کے سوا اور کوئی محاورہ نظر ہی نہیں آتا تھا اس موقع پر اپنے جذبات کے اظہار کا.وہ شعر جو بھی تھا، میں نے شعر میں ہی جواب دیا.لیکن 350

Page 360

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه عید الفطر فرموده 09 جون 1986ء د ساتھ یہی محاورہ مجھے اتنا یاد ہے کیونکہ اس وقت ذہن نے اس کو پکڑا کہ یہ پنجابی ہے، جو تم اردو میں داخل کر رہے ہو.اس کے ساتھ حضرت اماں جان مجھے لے کر وہ جو دار الشیوخ کا علاقہ ہے، سڑک سے پار، وہاں کوئی حویلی ہے، اس میں لے جاتی ہیں اور اس پر وہ خواب ختم ہوگئی.تو دراصل اس میں بہت عظیم الشان خوشخبری ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل پاکستان کے لئے بھی اور ساری دنیا کی جماعتوں کے لئے بھی.اور یہ پیغام ہے ان دشمنوں کے نام بھی جو جماعت کی ترقیات کو پاکستان میں پابہ زنجیر کرنا چاہتے ہیں، جو اپنی سفلی زنجیروں سے جماعت کی ترقی کے قدم جکڑنا چاہتے ہیں کہ تم ایک ملک میں جماعت کی ترقی کو روکنے کے لئے ساری جدو جہد کر رہے ہو اور اپنا سارا زور لگا رہے ہو.مگر اللہ کو یہ جماعت ایسی پیاری ہے اور اس لئے پیاری ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ہے کہ تم ایک ملک میں اس کی ترقی کو روکنا چاہتے ہو، خدا سارے جہان میں اپنی نصرتیں لے کر آئے گا اور تمام جہان میں اس جماعت کو غلبہ نصیب فرمائے گا.پس آج ایک یہ بھی خوشخبری ہے، جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آج عید کے لئے مجھے عطا ہوئی ، یہ جماعت کی امانت تھی ، میں جماعت کے سپر د کرتا ہوں.جہاں تک اس دور ابتلاء کا تعلق ہے، خدا تعالیٰ کے فضل سے اللہ کی نصرتیں عجیب رنگ میں ظاہر ہو رہی ہیں.اور ان کے بیان کی انسان میں طاقت نہیں ہے.اتنا کام ہوا ہے، مختلف جہات میں کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ربوہ میں بیٹھے ہوئے گذشتہ دو سال میں اتنا عظیم کام اتنی مختلف جہتوں میں ہو سکتا تھا؟ قرآن کریم کی اشاعت ہی کو لیجئے.پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس میں ایک پروگرام یہ ہے کہ قرآن کریم کے تراجم پر قدغن لگادی جائے.اور جماعت احمدیہ سے یہ حق چھین لیا کہ وہ قرآن کریم کے تراجم شائع کرے.اور دوسرا ان کا پروگرام کا حصہ یہ ہے کہ مساجد کو مسمار کیا جائے.ان کے گنبد مٹائے جائیں، ان کے منار مسمار کر دیئے جائیں اور مساجد کی شکل اور قبلے تبدیل کر دیئے جائیں.ایک وہ خدمت اسلام ہے، جو وہاں ہو رہی ہے.اور ایک وہ تو فیق ہے، جو خدا ہمیں یہاں نصیب فرما رہا ہے.تمام دنیا میں نئی نئی مساجد کی عظیم الشان مشنوں کے قیام کی توفیق بخشا چلا جارہا ہے.قرآن کریم کے تراجم پر جو کام ہورہا ہے ، اس وقت تک 125 ہم عالمی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کا کام نہایت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.اور اس کی تفصیل انشاء اللہ میں جس حد تک خدا نے توفیق دی، جلسہ سالانہ پر پیش کروں گا.مشعوں کے متعلق بھی اور قرآن کریم کی اشاعت کے بارہ میں بھی.اور یہ دو سال کے اندر 25 زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی توفیق پانا، جماعت کے لئے خدا تعالی کی دین ہے، اس کی عطا کے سوا ممکن ہی نہیں تھا.351

Page 361

اقتباس از خطبه عید الفطر فرمودہ 09 جون 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم لیکن صرف یہی نہیں بلکہ ایک اور عظیم الشان خوش خبری بھی ہے کہ ہم نے جب جائزہ لیا کہ عیسائیوں کو کتنی زبانوں میں بائبل کے ترجمے کی توفیق ملی ہے.تو اگر چہ ان کے دعوے کے مطابق وہ چند سو زبا نہیں تھیں مگر جب تفصیلی جائزہ لیا گیا تو محض بناوٹ کی خاطر بہت ہی مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا تھا.اتنی زبانیں دنیا میں موجود ہی نہیں، جتنی بیان کی جاتی ہیں.ہاں مختلف زبانوں کی آگے Dialects ایسی ہوتی ہیں کہ ایک زبان کو آپ پچاس حصوں میں بھی تقسیم کر سکتے ہیں.مثلاً یارک شائر کی انگریزی اور ہے اور کارنیوال کی انگریزی اور ہے.اور ساؤتھ کی سرے اور کینٹ کی انگریزی اور ہے.اسی طرح سکاٹ لینڈ کی اور انگریزی ہے.بہر حال سکاٹ لینڈ میں تو خیر تبدیلی کچھ زیادہ بھی ہو جاتی ہے.ویلز میں بھی ہو جاتی ہے، ویلش زبان الگ ہے.لیکن باقی حصوں کی انگریزی کی مختلف شکلیں ہیں، جو Dialects کہلاتی ہیں.اسی طرح مختلف دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں بہت کی Dialects ہوتی ہیں.تو وہ ان سب کو شامل کر کے پھر وہ سینکڑوں تک تعداد کو پہنچاتے تھے.جہاں تک زبان کا تعلق ہے، زیادہ سے زیادہ جو ہم نے زبانیں تلاش کیں، کافی تحقیق کے بعد، وہ ایک سو سے کچھ اوپر بنتی تھیں.تقریباً 25 زبانوں میں تو سارے قرآن کریم کا ترجمہ ہو ہی رہا ہے.اس کے علاوہ ایک سو سے کچھ اوپر زبا نہیں ہم نے تلاش کی اور پروگرام یہ ہے کہ صد سالہ جو بلی سے پہلے، جس کو ناکام بنانے کے نہایت ہی خوفناک منصوبے پاکستان میں بنائے جارہے ہیں، ایک سو سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کا کم سے کم ایک پارہ کا مضمون پیش کر دیا جائے.یعنی ایک پارہ کے برابر قرآن کریم کی وہ آیات منتخب کر کے ان کا ترجمہ کر لیا جائے ، جو مختلف اہم مضامین سے تعلق رکھتی ہیں.مثلاً صفات باری تعالی ہیں، حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان ہے، تاریخ انبیاء کا خلاصہ ہے، مختلف دعائیں ہیں، جو مومنوں کو سکھائی گئی ہیں، عبادات ہیں ، اوامر ونواہی کے کچھ نمونے بنیادی طور پر اسلام کی اخلاقی تعلیم وغیرھا.اس قسم کی آیات کا انتخاب کر لیا گیا ہے، جسے مزید زیادہ صیقل کیا جارہا ہے.اور کوشش یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ ہی میں ایک لفظ آگے پیچھے کئے بغیر دنیا کی کم سے کم ایک سو زبانوں میں آئندہ دو سال کے اندر ہم ایک پارہ کے حجم کے برابر قرآن کریم کے ترجمے کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دیں.ا اس سکیم کے ساتھ ہی میری توجہ پاکستان میں راہ مولیٰ میں دکھ اٹھانے والوں کی طرف مبذول ہوئی.ان کی خاطر ایک تحریک کی گئی تھی ”سیدنا بلال فنڈ کی ، اس میں جماعت کے مخلصین نے بڑی محبت اور عشق کے جذبے سے اور احترام کے جذبے سے جس حد تک توفیق ملی پیش کیا.اور بھی روزانہ نئے 352

Page 362

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه عید الفطر فرموده 09 جون 1986ء وعدے موصول ہوتے چلے جارہے ہیں.جوں جوں جماعت اس تحریک سے واقف ہوتی چلی جارہی ہے، وہ زیادہ سے زیادہ مالی قربانیوں کی پیش کش کر رہی ہے.لیکن اس کے خرچ کی راہ میں کچھ مشکلات بھی در پیش ہیں.عجیب جماعت ہے یہ کہ جس کی قربانی کرنے والوں کو جب جماعت کی طرف سے مدد پیش کی جاتی ہے تو وہ پسند نہیں کرتے.سوائے اس کے کہ ایک سخت مجبوری کی صورت ہو اور اس صورت میں بھی بڑے احترام اور عزت کے ساتھ پردہ پوشی کے رنگ میں ان کے لئے کچھ پیش کیا جاتا ہے.تو اس نیست سے قبول کرتے ہیں کہ جب بھی ہمیں خدا توفیق دے گا ، اس سے بڑھ کر جماعت کو واپس کریں گے.اور ہزار ہا ایسا احمدی پھیلا ہوا ہے، جس نے خدا کی راہ میں دکھ اٹھائے اور کلمہ طیبہ کی خاطر ، اس کی حفاظت کی خاطر، اس کی عزت اور ناموس کے لئے اور انسان کے اس بنیادی حق کا سر بلند رکھنے کی خاطر کہ مذہب کے معاملے میں اور خدا کی عبادت کے معاملے میں کسی انسان کو حق نہیں کہ کسی دوسرے کے معاملات میں دخل دے، انہوں نے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا ئیں.ان کو سیدنا بلال فنڈ کا فیض کیسے پہنچایا جائے؟ یہ سوال تھا.وہ تو لینے پر آمادہ نہیں.بعض ایسے ہیں راہ مولیٰ کے اسیر، جن کے گھروں میں محض ہمدردی کا اور پیار اور محبت کا اظہار کرنے والوں کا بعض اوقات اتنا ہجوم ہوتا رہا کہ ان کو غیر معمولی مہمان نوازی کے اخراجات اٹھانے پڑے.ایسی مثالیں ہیں، جب ان کو جماعت کی طرف سے پیش کیا گیا تو انہوں نے قبول کر لیا احترام میں، اس لئے کہ ان کو یہ کہا گیا تھا کہ میں نے بھجوایا ہے.بڑی محبت اور پیار سے قبول کیا.ایک ہاتھ سے لیا اور دوسرے ہاتھ سے وہ سیدنا بلال فنڈ میں اپنے خاندان کی طرف سے حدیث پیش کر دیا.تو کس طرح جماعت کی محبت کا تحفہ ان کو پہنچاؤں ، یہ مسئلہ تھا، جو مجھے درپیش تھا.دو قرآن کریم کی اشاعت کے اس پروگرام کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرا دل کھول دیا اور ایک بہت ہی پیارا خیال میرے دل میں پیدا ہوا کہ سیدنا بلال فنڈ سے ایک سو زبانوں میں ساری دنیا کو قرآن کریم کا یہ تحفہ پیش کیا جائے.اور یہ سارے اسیر اور یہ سارے راہ مولا میں تکلیف اٹھانے والے لازماً اس میں شامل ہو جائیں گے.ان کی طرف سے دنیا کو یہ تحفہ ہوگا.اور اس سے بہتر جواب ان کے اوپر مظالم کا اور الہی جماعتیں دے ہی نہیں سکتیں.عجیب حال ہے، ذرا سوچیں تو سہی کہ آج پاکستان میں جو بد نصیب سر براہ ہیں وہ اور وہ لوگ، جو ان کے ساتھ ہیں، ان کی خدمت اسلام کا تصور تو یہ ہے کہ مسجدوں کو مسمار کر دیا جائے اور خدا کی عبادت کرنے والوں کو دکھ دیئے جائیں اور قتل کی دھمکیاں دی جائیں اور کلمہ طیبہ سے محبت کے اظہار کرنے 353

Page 363

اقتباس از خطبه عید الفطر فرمودہ 09 جون 1986ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد هفتم والوں کے متعلق یہ فتوے جاری کئے جائیں کہ اگر تم کلمہ طیبہ سے اپنے پیار اور محبت کے اظہار سے باز نہ آئے تو تمہارے ناک اور کان کاٹ دیئے جائیں گے.اور اسے اسلام کی عظیم الشان خدمت قرار دیا جا رہا ہو.اور دوسری طرف وہ لوگ جو کلمہ طیبہ کے پیار اور محبت میں یہ تکلیفیں اٹھا رہے ہیں، وہ دنیا کو اس کے جواب میں یہ تحفہ پیش کریں کہ ہمیں تم قرآن کی محبت سے باز نہیں رکھ سکتے.ایک ملک میں پابندی لگاؤ گے تو سو ملکوں میں ہم قرآن کریم کی بڑی محبت اور پیار اور احترام کے ساتھ اشاعت کریں گے.اور ان کا فیض عالمی فیض بن جائے ، ان کا فیض ایسا ہو، جو زمانہ کے ساتھ ختم نہ ہو بلکہ بڑھتا چلا جائے.اس سے بڑا تحفہ جماعت ان کو پیش نہیں کر سکتی تھی.اور اس سے بڑا تحفہ یہ خدا کے حضور پیش نہیں کر سکتے کہ اس دور میں جو تو نے ہمیں سعادتیں بخشی ہیں، اس کے نتیجہ میں یہ ہم شکرانے کا حق اس طرح ادا کر رہے ہیں.کوئی مثال نہیں ہوگی اس زمانہ میں اس عظیم الشان رد عمل کی دنیا کی قوموں میں جب سے تاریخ مذہب بنی ہے اور بنتی چلی جارہی ہے.یہ ایک واحد مثال ہوگی کہ خدا کی راہ میں دکھ اٹھانے والوں کی طرف سے اس رنگ کا تحفہ اپنے رب کے حضور شکرانے کے طور پر پیش کیا جارہا ہو.ویسے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس سے بڑھ کر قربانیوں کے حق ادا کرنے کی نہ صرف کوششیں کی گئی بلکہ کامیابی سے ان کوششوں کو انجام تک پہنچایا گیا.اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اول میں جن لوگوں نے قربانیوں کی توفیق پائی ، یہ انہی کا فیض ہے کہ آج قرآن کریم ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے.مگر براہ راست ظاہری رو عمل کے طور پر اس رنگ میں فوری طور پر ایک تحفہ دنیا کے لئے پیش کرنا ، خدا کی طرف سے اور خدا کی الہی جماعت کی طرف سے ، یہ جو واقعہ ہے، یہ تاریخ میں ایک عجیب واقعہ ہوگا.اس لئے میں نے یہی سوچا کہ سیدنا بلال فنڈ کا سب سے اچھا مصرف یہی ہے کہ اس رنگ میں راہ مولا میں دکھ اٹھانے والوں کی طرف سے خدا تعالیٰ کا شکرانہ ادا کیا جائے کہ اس نے ان کو یہ عظیم سعادت بخشی اور اس شکرانے کے اظہار کے طور پر ساری دنیا میں اشاعت اسلام کے کام کو آگے بڑھا دیا جائے.پس مبارک ہو آپ کو بھی، جنہوں نے اس فنڈ میں حصہ لیا اور مبارک ہو ان کو بھی ، جن کی طرف سے جماعت کو یہ عظیم الشان خدمت اسلام کی توفیق نصیب ہورہی ہے.اگر کسی کے ذہن میں یہ وہم اٹھے کہ ہم نے تو ان کی تکلیفیں دور کرنے کے لئے پیش کیا تھا، آپ نے کسی اور رستے پر خرچ کر دیا تو ان کو میں بنا تا ہوں کہ جب میں نے یہ تحریک کی تھی تو ہر گز ضرورت کے نتیجہ میں تحریک نہیں کی تھی.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس معاملہ میں خود کفیل ہے اور ہمیشہ خود کفیل رہے گی کہ ان کے نام پر کسی چندہ کی تحریک کئے 354

Page 364

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد مصف اقتباس از خطبه عید الفطر فرمودہ 09 جون 1986ء بغیر راہ مولا میں دکھ اٹھانے والوں کی ساری ضرورتیں ہمیشہ خدا کے فضل کے ساتھ پوری کرتی رہے.اس لئے وہ ضرورتیں پہلے بھی پوری ہو رہی تھیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی پوری ہوتی رہیں گی.اس بارہ میں آپ لوگ مطمئن رہیں.لیکن ان کو لذتیں اس سے زیادہ نصیب ہو ہی نہیں سکتیں.جن کی لذت یابی کی خاطر آپ نے قربانی کی ہے.ان کو آپ کی قربانی کی لذت پہنچنی چاہئے اور اس سے بہتر رنگ میں ان کو روحانی لذت پہنچانے کا اور کوئی طریق ممکن ہی نہیں ہے.یہ تو جس دن یہ سنیں گے ، اس دن بھی ان کی ایک عید ہو گی.اور یہ عید ایسی ہے، جو دائی ان کے ساتھ رہے گی، نسلاً بعد نسل.ان تراجم سے عظیم الشان قو میں، بڑی بڑی قومیں دنیا کی فائدے اٹھاتی رہیں گی.اور جن کے دل میں بھی ان تراجم کے ذریعہ اسلام داخل ہوگا، اللہ تعالیٰ کی تو حید داخل ہوگی، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سے وہ آشنا ہوں گے اور اللہ اور اس کے رسول کے عشق میں دن رات محمد اور نعت کے گیت گانے لگیں گے، ان سب کی دعاؤں کا فیض ہمیشہ ہمیش کے لئے ان لوگوں کو پہنچتا رہے گا.اس لئے وقتی عارضی جسمانی تکلیفوں کو دور کرنے کے خیال سے آپ نے جو پیش کیا ، اگر اسے ابدی طور پر ہمیشہ ہمیش کے لئے نہ ختم ہونے والی نعماء کی صورت میں ان کے حضور پیش کیا جائے تو اس سے بہتر اور کیا طریق ممکن ہے؟ اور جہاں تک ان کی بنیادی ضرورتوں کا تعلق ہے، جیسا کہ میں نے کہا ہے، جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود کفیل ہے.اور مجھے تحریک اس لئے پیدا ہوئی تھی کہ مجھے خیال آیا کہ جس طرح میرا دل بے چین ہے کہ میں بھی ذاتی طور پر کچھ ان کے حضور پیش کرنے کی کوشش کروں ، ساری جماعت کے دل میں ایسے خیالات اٹھتے ہیں اور بعض لوگوں نے اظہار بھی کیا ہے تو جماعت کو ایک سعادت بخشنے کے لئے ، ان کے دل کی ایک حسرت و تمنا پوری کرنے کی خاطر یہ تحریک کی گئی تھی.یہ تو نہیں تھا کہ اگر یہ تحریک نہ کی جاتی تو نعوذ باللہ راہ مولا میں دکھ اٹھانے والے تن تنہا رہ جاتے اور کوئی ان کا پوچھنے والا نہ ہوتا.ہرگز ایسی کوئی بات نہیں تھی.پس آج کی عید کے موقع پر ایک یہ بھی تحفہ میں آپ کو پیش کرتا ہوں کہ آپ کی ان قربانیوں کا بہترین مصرف خدا نے مجھے سمجھا دیا.اور یہ تحفہ اس شان کے ساتھ ان راہ مولا میں دکھ اٹھانے والوں کو پیش کیا جائے گا کہ تاریخ مڑ کر دیکھے گی اور دعائیں دے گی ، ان کو بھی ، جنہوں نے یہ تحفہ پیش کیا اور ان کو بھی، جنہوں نے تحفہ قبول کیا اور پھر خدا کی راہ میں پیش کر دیا اور ہمیشہ کے لئے دنیا کی سعادتوں اور عزتوں اور شرف کا سامان مہیا کر گئے.پس انشاء اللہ تعالیٰ اس سو سال کے اختتام سے پہلے، جو عنقریب اختتام تک پہنچنے والے ہیں، یعنی جماعت کے سو سال کم سے کم ایک سوزبانوں میں آج کے راہ موٹی میں دکھ اٹھانے والے احمدیوں کی طرف سے یہ قرآن کریم کے تراجم تحفہ کے طور پیش کر دیئے جائیں گے“.355

Page 365

اقتباس از خطبه عید الفطر فرموده 09 جون 1986ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم پس جماعت کی ، اسلام کی ، بنی نوع انسان کی بہبود کی اور خصوصاً راہ مولا میں دکھ اٹھانے والوں کے لئے اور ان کی خیر و برکت کے لئے کثرت کے ساتھ دعا کریں.اور ان دعاؤں کو بعد میں بھی ہمیشہ کرتے چلے جائیں.یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کے وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہو سکتے.کچھ وقت تو لگ جاتا ہے، کچھ دیر تو ہو جاتی ہے مگر لازماً خدا کی نصرت کے وعدے ضرور اور بالضرور آپ کے حق میں پورے ہوں گے.کوئی نہیں، جو ان وعدوں کو ٹال سکے.ایک ملک میں نہیں، تمام عالم میں خدا کی نصرت آپ کی مدد کو آنے والی ہے.اور حیرت انگیز نشان آپ کی امداد میں دکھائے گی اور خدا آپ کو اسلام کی عالمی فتح حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا.(انشاء اللہ تعالیٰ).(مطبوعہ خطبات طاہر عیدین " صفحہ 6451) 356

Page 366

تحریک جدید- ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1986ء سیدنا بلال فنڈ سے سوزبانوں میں قرآن کریم کے نمونے کے ترجمے کی اشاعت وو خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1986ء ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی کرنا چاہتا ہوں.عید کے خطبہ میں، میں نے سیدنا بلال فنڈ کا ذکر کرتے ہوئے جماعت کو یہ خوش خبری دی تھی کہ میرا ارادہ ہے کہ اس فنڈ سے کم از کم سوز بانوں میں قرآن کریم کے نمونے کے ترجمے شائع کر کے ان سب قربانی کرنے والوں کی طرف سے دنیا کے لئے یہ تحفہ پیش کیا جائے.جن قربانی کرنے والوں نے خصوصاً اس دور میں پاکستان میں قربانی کی سعادت حاصل کی ہے.اس کے نتیجہ میں بعض دوستوں کو غلط فہمی ہوئی کہ وہ لوگ جو ضرورت مند ہیں، جن کے گھر جلائے گئے یا جن کے ذرائع معاش ختم کر دیئے گئے، طرح طرح کی ان کو تکلیفیں پہنچائی گئیں، ان کے نام پر ان کی خاطر ایک چندہ لیا گیا لیکن اس مقصد پر اس کو اب خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ بالکل دوسرے مقصد - پر خرچ کیا جائے گا.یہ بات درست نہیں ہے.ہو سکتا ہے، میں نے بیان کرنے میں غلطی کی ہو یا میری طرز بیان میں کوئی خامی رہ گئی ہو.یہ مقصد ہر گز نہیں تھا.میں نے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ قربانی کرنے والوں کی بہت سی قسمیں ہیں.اور بلالی قربانیاں کرنے والے پاکستان میں ہزار ہا کی تعداد میں ہیں.کوئی علاقہ خالی نہیں ہے، ان سے.ہر عمر کے لوگ ان میں شامل ہیں.اور بہت بھاری اکثریت ان میں ایسی ہے، جو یا تو اپنے آپ کو ضرورت مند سمجھتے ہی نہیں یا ضرورت مند ہیں بھی تو اپنی طبیعت کی مجبوری کی وجہ سے وہ جماعت سے کوئی امداد لینا نہیں چاہتے.آپ لاکھ تحفہ کہہ کر پیش کریں، لاکھ یہ کہیں کہ یہ ہماری سعادت ہوگی ، آپ قبول کر لیں.لیکن بعض انسانوں کی طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ نہیں قبول کر سکتیں.اس لئے اول تو وہ بہت سے ایسے ہیں، جو اپنے آپ کو ضرورت مند سمجھتے بھی نہیں اور واقعہ بھی اللہ تعالیٰ نے اتنی توفیق عطا فرمائی ہے ان کو کہ ضرورت مندوں کے زمرہ میں شمار نہیں ہو سکتے.اور جو ہیں، ان میں سے ایک بڑی تعداد ہے، جو بالکل پسند نہیں کرے گی کہ ہمیں کسی قسم کی کوئی امداد خواہ تحفہ کے طور پر ہی ہو پیش کی جائے.کچھ بیچ میں سے مجبور بھی ہیں.357

Page 367

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 20 جون 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد جفتم یہ تحفہ جو تھا، یہ تو سب کے لئے تھا.میرے ذہن میں اس وقت دو باتیں تھیں.اول یہ کہ اس تحفہ کو جو جماعت نے بڑی محبت سے ان سب اللہ کی راہ میں قربانی کرنے والوں کے لئے پیش کیا ہے، کسی طریق سے سب تک پہنچایا جائے ، سارے اس میں شامل ہو جائیں.دوسرے یہ تھا، کس طریق پر یہ کام کیا جائے؟ اس کی سمجھ نہیں آرہی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پھر رہنمائی فرمائی کہ اس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں ہے ان کو یہ تحفہ پہنچانے کا کہ تمام دنیا میں سو بڑی زبانوں میں جو قرآن کریم کے تراجم پیش کئے جائیں، وہ ان کی طرف سے کل عالم کی اقوام کے سامنے تحفہ ہو.اور یہ ایک ایسا تحفہ ہو گا، جو ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری و ساری رہے گا.اس سے بہتر تحفہ نہ یہ دنیا کو پیش کر سکتے ہیں اور نہ ہم ان کو پیش کر سکتے ہیں.لیکن یہ مراد نہیں تھی کہ وہ دوست، جو اتنے ضرورت مند ہیں اور بہت سے ایسے خاندان ہیں، جن کے اور ذرائع معاش نہیں رہے.جماعت پر ذمہ داری ہے کہ ان کی ہر قسم کی ضرورتیں پوری کرے، ان کو اس فنڈ کے فائدے سے محروم کر دیا جائے گا.یہ ہرگز مراد نہیں تھی.ان کو تو جماعت پہلے ہی ضرورتیں مہیا کر رہی تھی.اور جب سے اس فنڈ کی تحریک ہوئی ہے، میں نے ہدایت کی ہے کہ اسی فنڈ میں سے خرچ کیا جائے.اور یہ بھی خاطر خواہ رقم ہے.لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو قربانی کا ایک عظیم جذ بہ عطا کیا ہے.مسلسل بار بار کی تحریکات کے باوجود دنیا یہ سمجھتی ہوگی کہ جماعت تھک گئی ہے اب اور نئی تحریک کے اوپر کہتے ہوں گے کہ اب کہاں تک ہم سے مانگتے چلے جاؤ گے؟ مگر میں جانتا ہوں کہ کس طرح جماعت حیرت انگیز طور پر بظاہر خالی جیبوں میں سے اور پھر نکالتی چلی جاتی ہے.وہ اپنی جیبیں خالی کرتی چلی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ جیبیں بھرنے کے سامان پیدا کرتا چلا جارہا ہے.چنانچہ بلال فنڈ میں بھی اتنی رقم ابھی تک پیش ہو چکی ہے کہ موجودہ ضروریات سے وہ کہیں زیادہ ہے.اس لئے اس زائد از ضرورت کو بھی کسی جگہ استعمال کرنا تھا.بعض دوستوں کا یہ خیال تھا کہ ٹرسٹ قائم کر دیا جائے اور آئندہ بھی مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں میں ضرورتیں پیش آتی رہیں گے ، اس ٹرسٹ سے ان راہ مولیٰ میں دکھ اٹھانے والوں کی ضروریات پوری کی جائیں.اور وقتی طور پر میں بھی اس تجویز سے متاثر ہوا اور دماغ میں یہ خیال آیا بلکہ ربوہ میں، میں نے ہدایت بھی دے دی.لیکن اس کے باوجود اس معاملہ میں طبیعت میں بہت بے چینی پیدا ہوئی اور طبیعت نے اس تجویز کے خلاف سخت رد عمل دکھایا.غالب تو کہتا ہے کہ 358

Page 368

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1986ء کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوء ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں (دیوان غالب ، صفحہ 161) ہم جو حقیقت میں دین کی معرفت کو سمجھنے والے ہیں، ہم کیسے یہ کر سکتے ہیں کہ آنے والے کل کے مخلصین کے حق میں یہ بدظنیاں کریں کہ جب اس زمانہ میں ضرورتیں پیدا ہوں گی تو وہ ان کو پورا نہیں کر سکیں گے؟ ہمارے ٹرسٹ ہی ہیں، جو ان کے کام آئیں گے.اور گویا خدا تعالیٰ ان ٹرسٹوں کے ذریعہ ان ضرورتوں کو پورا کرے گا.اور جس طرح جماعت کو خدا تعالیٰ بے ساختہ آج تو فیق عطا فرمارہا ہے، کل کے مخلصین کو یہ توفیق نہیں عطا فرمائے گا ؟ یہ تو بہت بڑی بدظنی ہے اور بہت بڑی محرومی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ایسے واقعات دوبارہ بڑی سطح پر کہیں پیدا ہوں تو ناممکن ہے کہ جماعت کے دل ٹھنڈے ہو جا ئیں ، اس بناء پر کہ کسی ٹرسٹ کے ذریعہ اللہ کی راہ میں دکھ اٹھانے والوں کی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں.جب تک محبت کے ساتھ قربانی کی روح کے ساتھ خود شامل نہیں ہوں گے، جب تک ان کو یہ توفیق نہ ملے کہ انہوں نے حصہ لیا ہے، اس میں، اس وقت تک ان کے جذبہ ایمان اور جذبہ خلوص کو تسکین مل ہی نہیں سکتی.تو ٹرسٹ سے دل اتر گیا فوری طور پر اور میں نے وہاں بھی ہدایت کر دی کہ اس ٹرسٹ کا خیال چھوڑ دیں.جو رقم آتی ہے اللہ کی راہ میں خرچ کریں.اور اللہ نے ہی پہلے ضرورتیں پوری کی تھیں، آئندہ بھی کرتا رہے گا.آئندہ کے مخلصین پر بھی بدظنی نہ کی جائے.یہ رقم ختم ہوگی تو خدا اور مہیا فرما دے گا.اس لئے ٹرسٹ کے خیال کو چھوڑ دیں.اور ان سب باتوں کے باوجود ایک بڑی رقم ان ضرورتوں کو ، جو چند سال تک پیش نظر رکھی تھیں میں نے ، ایک بڑی رقم ان ضرورتوں سے بچ جاتی تھی.یہ وہ بچی ہوئی رقم تھی، جس کے متعلق خیال تھا کہ اسے کس طرح اس مقصد میں خرچ کیا جائے؟ اور کس طریق پر خرچ کیا جائے کہ سب قربانی کرنے والوں کو کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کا یہ محبت بھرا تحفہ پہنچ جائے؟ تو اس وضاحت کے بعد امید ہے کہ اگر کسی کے دل میں کوئی وہم ، کوئی غلط خیال پیدا ہو رہا تھا تو وہ ختم ہو جائے گا ہمیشہ کے لئے“.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 443441) 359

Page 369

Page 370

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ امریکہ نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ امریکہ منعقدہ 27 تا 29 جون 1986ء یہ میرے عزیز بھائیو ، بہنو اور بچو ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یہ سن کر خوشی ہوئی کہ جماعت احمدیہ امریکہ مؤرخہ 27,28 اور 29 جون کو جلسہ سالانہ منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو جماعت کی علمی عملی، اخلاقی اور روحانی ترقی کا موجب بنائے اور اس کی برکتوں سے ہر فرد جماعت وافر حصہ پائے.آپ ایک ایسے ملک میں ہیں، جو مالی طاقت کے لحاظ سے اتنی بلندی تک پہنچ چکا ہے کہ اگر خدا تعالی کا فضل نہ بچائے تو یہ مال و دولت فرعونیت پیدا کر دیتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا معاشرہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے تحت الثریٰ سے باتیں کر رہا ہے.اس پہلو سے یہ معاشرہ نہ صرف بذات خود اتنا گر چکا ہے بلکہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے یہ ساری دنیا میں معاشروں اور تہذیبوں کو تباہ کرنے کا سر چشمہ بن چکا ہے.روس اور امریکہ کے حالات پر جب نظر پڑتی ہے تو سورۃ الفجر کا مضمون نظر کے سامنے آ جاتا ہے.اور الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلادِةٌ فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَةٌ کا نقشہ نظر آنے لگتا ہے.اس پہلو سے جماعت احمدیہ امریکہ پر غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اگر وہاں جماعت احمد یہ تیزی سے ترقی کرے تو اللہ کے فضل اور رحم کے ساتھ ایک عظیم الشان طاقت کے سر چشمہ سے استفادہ کر سکتی ہے.اور اس کے زہر آلود اور ہلاک کرنے والے پانی کو آب حیات میں تبدیل کر سکتی ہے.امریکہ میں جس قدر تیزی سے پھیلنے کے امکانات ہیں اور بعض طبقات میں جتنی طلب اور پیاس پیدا ہو چکی ہے، اس کے پیش نظر اگر حکمت اور تدبر اور دعا کے ساتھ کام کیا جائے تو بہت تیزی کے ساتھ جماعت کی ترقی کے امکانات روشن ہو جاتے.اس لئے اول پیغام تو میرا یہی ہے کہ اس طرف غیر معمولی توجہ کی جائے.361

Page 371

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد بیدامریکہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد هفتم دوسرے منتشر گھرانوں کی تربیت کی فکر کی جائے.جولوگ جماعت کی نظر سے ہٹ کر الگ رہتے ہیں اور اتنے سیع ملک میں ایسا ہونا عین ممکن ہے بلکہ اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا ہوگا کہ ان گھرانوں کی تربیت کئی طرح سے بہت بری طرح متاثر ہوتی ہوگی.احمدی کی آنکھ خصوصا دوسرے احمدی کے لئے نگران کا کام کر رہی ہوتی ہے.اسی لئے قرآن کریم نے ساری امت کو ہی شہید قرار دیا ہے.جب یہ نگران نظر موجود نہ رہے تو ایسے لوگ جو غیب سے ڈرنے کے عادی نہیں ہوتے اور جن کا خدا صرف غیب کا خدا ہوتا ہے اور شہادت کا خدا نہیں ہوتا، وہ لوگ اس نگر ان کے فقدان کی وجہ سے دنیا کی کشش میں بہکنے اور ہر قسم کی آلائشوں میں ملوث ہونے لگتے ہیں.یہاں تک کہ وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ احمدی ان سے زیادہ میل جول رکھیں.احمد یہ مراکز سے ان کا تعلق ایک سوشل تعلق بن جاتا ہے.جوعید، بقرعید یا کسی خاص غمی خوشی پر اکٹھا ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے.اس سے ایک شدید نقصان یہ پہنچتا ہے کہ باجماعت نماز کی عادت اٹھ جانے کی وجہ سے گھر میں نمازوں کی پابندی کا معیار بہت تیزی سے گرنے لگتا ہے.ایک اور شدید نقصان یہ پہنچتا ہے کہ بچے، احمدی بچوں کا ماحول نہ ملنے کی وجہ سے خالصہ دنیا داری کے ماحول میں پر روش پانے لگتے ہیں.اور اپنی اقدار سے ان کی نظریں پھر جاتی ہیں اور دین میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہتی.اور ایک نگاہ تغافل پیدا ہو جاتی ہے، جو رفتہ رفتہ مکمل اجنبیت پر جا کر ختم ہو جاتی ہے.ایک اور نقصان یہ ہے کہ عالمگیر جماعت کے ساتھ رابطہ کٹ جانے کی وجہ سے اپنی عظمت کا احساس نہیں رہتا.اور ایک غالب معاشرے میں اپنے آپ کو بالکل معمولی اور بے دست و پا دیکھتے ہوئے ، عزم اور ہمت کوتاہ ہو جاتے ہیں.یہاں تک کہ ایک ہاری ہوئی ذہنیت کا شکار ہوکر ( دینی ) اقدار کی خاطر جد و جہد ہی چھوڑ دی جاتی ہے.ایسے گھرانوں کے لئے ایک یہ مشکل بھی پیش آتی ہے کہ جماعت کی عالمی اور عظیم الشان قربانی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ولولہ پیدا اور نہیں ہوتا اور مزاج میں ایک بے مروتی سی پیدا ہونے لگتی ہے.اس قسم کے خطرات جس قدر جماعت کو امریکہ میں درپیش ہیں، دنیا میں کسی اور ملک میں نہیں.کیونکہ اس پر مستزاد وہاں کی مادی ترقی ہے، جو فلک بوس عمارتوں کی طرح انسان پر اپنی ہیبت طاری کر دیتی ہے.اور دلوں پر رعب دجال پیدا ہو جاتا ہے.جس سے بچنے کے لئے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خصوصیت سے دعا مانگی تھی کہ دعا نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال 362

Page 372

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ امریکہ پس ان سب امور پر نظر رکھتے ہوئے ، ان گھروں کی فکر کرنی چاہیے اور ان کے لئے چارہ جوئی کرنی چاہیے.اگر یہ جماعت کی شہادت کی آنکھ سے کٹے رہے تو دنیا کی ہلاکتوں سے کئی قسم کے خطرات انہیں در پیش رہیں گے.اور ان کی اولادوں پر خصوصیت سے سخت مہلک اثر پڑے گا.دیگر امور کے علاوہ ان سب باتوں کا علاج ( دعوت الی اللہ ) پر زور دیتا ہے.اور گھروں میں نماز با جماعت پر غیر معمولی توجہ دینا ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ جماعت احمد یہ امریکہ ان ہر دو پہلوؤں پر خصوصی جد و جہد کرے گی.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ان کوششوں میں غیر معمولی برکت ڈالے اور اس کے فرشتے احمدی گھروں کے محافظ اور نگران بن جائیں.اور احمدی گھروں پر اس آیت کے مضمون کا بتمامہ خیر و برکت کے ساتھ اطلاق ہو.لَهُ مُعَقِّبْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر اور معین و مددگار ہو.والسلام خاکسار دستخط (مرزا طاہر احمد ) (الرعد : 12) (مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ جون 1986ء) 363

Page 373

Page 374

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 25 جولائی 1986ء اللہ تعالیٰ احمدیت کو دنیا کے مظلوموں کے لئے نجات کا باعث بنائے خطاب فرمودہ 25 جولائی 1986ء بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ یونس کی آیت 63 کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:.”خدا کا بے حد شکر اور فضل و کرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق اور دیوانے دنیا کے ایسے ایسے دور دراز ملکوں سے، جو مشرق کا کنارہ اور ایسے ایسے ملکوں سے، جو مغرب کا کنارہ کہلاتے ہیں اور ان جگہوں سے جہاں مشرق اور مغرب کا امتیاز مشکل ہے، وہاں سے اللہ کے ذکر کے لئے تشریف لائے ہیں.اور سید نا حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کا الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا بڑی شان سے پورا ہورہا ہے.حضور نے فرمایا:.دو سب آنے والوں کا سفر خوشگوار گزرا.اور سوائے ایک ملک کے ان کی حکومتوں نے ان سے تعاون کیا اور انگلستان کی حکومت نے بھی بہت ہی تعاون کیا.حضور نے فرمایا کہ وو جماعت احمدیہ کے خلاف جو جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، ہمیں اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں بلکہ خدا کے فرشتے خود اس کا جواب دے رہے ہیں.اور آج جماعت اس سے زیادہ معروف اور نیک نام ہو چکی ہے، جتنی دو سال پہلے تھی.اور ہر ملک میں جماعت کے حق میں آواز بلند کی جارہی ہے.اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے بعض واقعات بیان فرمائے.نیز جماعت کی بیرونی ممالک میں ترقی کا ذکر فرمایا کہ کس طرح جماعت احمدیہ انسانی دلوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا کر رہی ہے.اس ضمن میں حضور نے ایسٹرن ریجن غانا کے ایک عیسائی پادری کا ذکر فرمایا ، جس نے احمدیت کو قبول کیا اور پھر گرجے کو خدائے واحد کی عبادت کے لئے مخصوص کر کے اسے جماعت کو پیش کر دیا.نیز اسی طرح ایک اور نواحمدی دوست کا ذکر کیا، جو پہلے شراب اور دوسری برائیوں کی وجہ سے علاقے 365

Page 375

خلاصہ خطاب فرمودہ 25 جولائی 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم میں بدنام تھے، جب انہوں نے احمدیت قبول کی تو ان کے اندر ایسا روحانی انقلاب پیدا ہوا کہ وہ اپنے علاقے کے معزز انسان بن گئے.آخر میں حضور نے احمدیت کے مستقبل کے لئے ، احمدی مظلوموں کے لئے نیز دنیا بھر کے مظلوموں کے لئے دعا کی تحریک فرمائی اور فرمایا کہ دعاؤں کے ذریعہ سے خدا سے مدد مانگیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو دنیا کے مظلوموں کے لئے نجات کا باعث بنائے.اس کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کروائی.مطبوع ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید جولائی 1986ء، ضمیمہ ماہنامہ مصباح جولائی 1986 ء ) 366

Page 376

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ خلاصہ خطاب فرمودہ 26 جولائی 1986 ء تمام انسانی تہذیب میں صرف ایک مرد نے عورت کی آزادی کی تحریک چلائی ہے خطاب فرمودہ 26 جولائی 1986ء بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ حضور نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ انحل کی آیت 98 کی تلاوت فرمائی اور اس کے بعد مختلف تہذیبوں میں عورت کی حیثیت اور مقام بیان کرتے ہوئے ، دین حق میں عورت کے مقام پر تفصیلی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ دین حق پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے عورت کو آزادی نہیں دی اور دین حق میں عورت کے حقوق قائم نہیں کئے گئے“.اس اعتراض کا رد کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.یہ تہذیبیں جو عورت کی آزادی کی علمبردار ہیں اور دین حق پر طعنہ زنی کر رہی ہیں، انہوں نے عورت پر اس قدر مظالم کئے ہیں، جو بیان سے باہر ہیں.عرب کی تہذیب میں عورت کو حیوانات سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا اور اسے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا.اسے ہوا و ہوس کے پورا کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا.اور اس کو کسی قسم کے حقوق نہیں دیئے جاتے تھے.اسی طرح مغرب کی تہذیب میں بھی عورت کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے.عورت کو بیوہ ہو جانے کے بعد اولا د پر کوئی حق نہیں دیا جاتا تھا.عورت کو بے حیائی کے نتیجہ میں سخت سزائیں دی جاتی تھیں.لیکن اس کے بالمقابل مرد بغیر شادی کے دوسری عورتیں گھر میں رکھ سکتا تھا اور اسے کوئی سزا نہیں دی جاتی تھی.لیکن دین حق نے اس کے بالمقابل عورت کے حقوق کی مکمل حفاظت کی ہے.اور تمام انسانی تہذیب میں صرف ایک مرد ہے، یعنی سید نا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس نے عورت کی آزادی کی تحریک چلائی ہے.باقی تمام تحریکات خود عورتوں کی طرف سے چلائی گئی ہیں.حضور نے مزید فرمایا:.تمام ادیان میں دین حق کے سوا ایک بھی ایسا مذہب نہیں ہے، جس نے عورت کو ماضی کے مظالم سے نجات دلائی ہو.یہودیت، عیسائیت ، بدھ ازم، کنفیوشس ازم کوئی بھی ایسا مذ ہب نہیں ، جس نے عورت کو مرد کے ساتھ برابری کا حق دیا ہو.صرف دین حق ہی ایسا دین ہے، جس نے جبلی اور فطرتی فرق کے علاوہ ہر پہلو سے مرد اور عورت کو برابری کا حق دیا ہے.367

Page 377

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 26 جولائی 1986ء نیز حضور نے فرمایا:.آج کل جو عورت کی آزادی کی تحریکات ہیں، یہ دراصل دنیوی جہنم کی طرف لے جانے والی تحریکات ہیں اور عورت کو آزادی کی بجائے بے حیائی کی طرف لے جارہی ہیں.اس کے نتیجہ میں بداثرات ظاہر ہورہے ہیں.اس کے برعکس اسلام نے جو بعض پابندیاں عائد کی ہیں، وہ عائلی زندگی کو جنت بنانے کے لئے اور عورت کے تحفظ کے لئے ہیں اور وہ پابندیاں عورت کے لئے امن کی ضمانت ہیں.(مطبوعہ ماہنامہ خالد ضمیمه اگست 1986ء) 368

Page 378

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں خلاصہ خطاب فرمودہ 26 جولائی 1986ء خطاب فرمودہ 26 جولائی 1986 ء بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی آیت فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ کی تلاوت فرمائی.اور فرمایا کہ آج کے خطاب کے عنوان کے طور پر دو مصرعے میرے ذہن میں آئے ہیں.ایک مصرعہ یہ ہے:.الہی تیرے فضلوں کو کروں یاد اور دوسرا مصرعہ ہے:.حضور نے فرمایا کہ بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں دنیا کے نظام میں خزاں کے اندر بہار نہیں آتی.لیکن البی نظام میں کچھ اور قوانین ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ خزاں میں سے بہار نکال کر لائی جاتی ہے.فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا احمدیت کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے ابتلاء کے دور میں ہمیشہ بے پناہ فضلوں کی بارش نازل فرمائی ہے اور جماعت احمدیہ غلبہ دین حق کی شاہراہ پر ہمیشہ ہی آگے سے آگے بڑھتی رہی ہے.جماعت پر نازل ہونے والے افضال الہیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خلافت رابعہ کے آغاز کے وقت 80 ممالک میں احمدیت قائم تھی.اس وقت ارادہ کیا گیا کہ جوبلی کے سال تک 100 ممالک میں احمدیت قائم ہو جائے.آج جب کہ جو بلی سال میں ابھی تین سال باقی ہیں، خدا کے فضل سے 108 ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے.الحمد للہ علی ذالک“.369

Page 379

خلاصه خطاب فرمودہ 26 جولائی 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...85-86ء میں نازل ہونے والے افضال الہیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ی سال کے دوران دنیا کے 12 نئے ممالک میں جماعتیں قائم ہوئیں ہیں.جبکہ نئی جماعتوں کے لحاظ سے 24 ممالک میں 254 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.انڈونیشیا میں ایک گاؤں میں صرف ایک ہی دن میں 160 افراد نے بیعت کی.اسی طرح نائیجیریا میں ایک ہی دن میں 60 افراد کو بیعت کی توفیق ملی.چنانچہ گزشہ سال کی نسبت ڈیڑھ گنا زیادہ بیعتیں ہوئی ہیں.تعمیر مساجد کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دنیا کے مختلف ممالک میں 200 نئی مساجد بنانے کی توفیق دی.ایک علاقہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں کی پچیس فیصد پولیس اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہوگئی ہے.اسی طرح ویسٹرن سمودا، ملاوی، برازیل، تھائی لینڈ، زنجبار، یوگوسلاویہ، آئر لینڈ، صومالیہ، مراکش اور الجیریا میں نئی جماعتوں سے متعلق بڑے ایمان افروز واقعات بیان فرمائے.یورپ میں نئے مشنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ 1914ء سے 1984 ء تک 70 سال کے عرصہ میں جماعت نے یورپ کے 8 ممالک میں 18 مشن بنائے.لیکن گزشتہ سال کے دور ابتلاء میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو یورپ میں مزید 8 نئے مشن قائم کرنے کی توفیق دی ہے.اگر مشوں کے رقبہ کو دیکھا جائے تو انگلستان میں اکیلے اسلام آباد سنٹر کا رقبہ سب مشنوں کے مجموعی رقبہ سے بھی بڑا ہے.اسی عرصہ میں اسیر ساہیوال چوہدری محمد اسحاق صاحب کے بیٹے ، چوہدری محمد الیاس صاحب نے ، جو کینیڈا میں رہتے ہیں، 180 ایکٹر کا رقبہ خرید کر کینیڈا کی جماعت کو بطور عطیہ دیا ہے.فجزاہ اللہ تعالیٰ“.داعیان الی اللہ کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی طرح تبلیغ بھی ہر شخص پر فرض ہے.اس لئے مبلغین کا نظام دوسرے افراد جماعت کے تبلیغی نظام کا متبادل نہیں ہو سکتا.جس طرح چندوں کا حساب رکھا جاتا ہے، اسی طرح ہر جماعت میں داعیان الی اللہ کا بھی حساب ہونا چاہیئے.پھر فرمایا کہ دو گزشتہ سال کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 76,200 داعیان الی اللہ ایسے ہیں، جنہوں نے بیعتوں کے وعدے کئے اور پھر اپنی کارگزاری کی رپورٹیں بھی بھجواتے رہے.ان داعیان الی اللہ میں ایک خوش قسمت ڈاکٹر ایسے بھی ہیں، جنہیں نائیجیریا میں 200 احمدی بنانے کی توفیق ملی، الحمد للہ علی ذالک.370

Page 380

تحریک جدید - ایک الہی تحریک نیز بتایا کہ خلاصہ خطاب فرمودہ 26 جولائی 1986ء بعض ایسے ممالک ، جہاں پہلے سے جماعتیں تو قائم تھیں لیکن دعوت الی اللہ کے نقطۂ نگاہ سے ابھی تک ان میں بیداری پیدا نہیں ہوئی تھی ، بڑی تیزی سے بیداری کے آثار ظاہر ہورہے ہیں اور کثرت سے لوگ احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں.عربوں میں تبلیغی منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وو دو سال قبل 100 عرب احمدی بنانے کی تحریک کی گئی.چنانچہ گزشتہ سال 32 اور امسال 62 کیا کچھ عربوں نے بیعتیں کی ہیں.اس طرح یہ تعداد 94 ہوگئی ہے“.نئی بیعتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.گزشتہ سال صرف نا نا میں 546 بیعتیں ہوئیں، الحمد للہ.شعبہ سمعی و بصری کی کارکردگی کے متعلق فرمایا کہ مختلف ممالک میں 37 زبانوں میں 500 کیسٹس کی ماسٹر کا پیاں تیار کی گئیں، جن کی ہزاروں کا پیاں بنا کر تقسیم کی گئیں.ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ تبلیغ اسلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ 11 ممالک میں ہمارے پروگرام نشر ہوئے“.جبکہ گزشتہ دو سالوں میں حضور کے اپنے 46 انٹرو یومختلف ممالک کے ریڈیو ٹیلیویژن سے شائع ہو چکے ہیں.صرف نائیجیریا میں ہی 70 گھنٹے کا پروگرام نشر ہوا.مبلغین کی تعداد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ رہے ہیں.اس وقت پاکستان سے باہر مختلف ممالک میں 182 مرکزی مبلغین میدان جہاد میں کام کر اس کے ساتھ ہی حضور نے فرمایا کہ جماعت کو نئے واقفین کی ضرورت ہے.مخلص نوجوان آگے آئیں اور اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں.نصرت جہاں آگے بڑھ سکیم کی کار کردگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ افریقی ممالک میں جماعت نے خدمت خلق کے لئے جو ہسپتال قائم کئے ہیں، ان کی مجموعی سالانہ آمد 8 کروڑ روپے ہے، جو سب کی سب ان ہی ممالک کی خدمت اور بہبود کے لئے صرف کی جاتی 371

Page 381

خلاصہ خطاب فرمودہ 26 جولائی 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ہے.اسی طرح افریقی ممالک میں اس سکیم کے تحت 31 سیکنڈری سکول بھی کام کر رہے ہیں.ان سکولوں میں 73,813 طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں“.مالی قربانی کے میدان میں جماعت کے اعلی نمونہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.کے " خدا تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت کا سالانہ بجٹ 21 کروڑ 90 لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے.اور 10 کروڑ روپے کے متفرق وعدے اس کے علاوہ ہیں.خدمت خلق کے لئے جماعت نے 94 لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ کی جبکہ تعلیمی Grants اس کے علاوہ ہیں“.Publication Cell کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ 2 سال میں اس سیل کی طرف سے 6400 خطوط بھجوائے گئے.نیز دنیا بھر کی 113 اخبارات میں جماعت کی 912 خبریں شائع ہوئیں.وکالت اشاعت کے کام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مختلف زبانوں میں لٹر پچر پیدا کرنے کے لئے اسلام آباد سنٹر میں روسی ، عربی ، چینی ، فرانسیسی اور ترکی زبان کے Desk قائم کئے گئے ہیں، جو نہایت مستعدی کے ساتھ کام کر رہے ہیں.چنانچہ گزشتہ دو سالوں میں جتنا لٹریچر شائع کیا گیا ہے، اتنا گزشتہ 10 سال میں بھی نہیں ہوا.تراجم قرآن کریم کی اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ " خدا کے فضل سے اس سال کے دوران فرانسیسی اور اٹالین زبان کے ترجمے شائع ہو کر تقسیم ہو رہے ہیں.روسی ترجمہ بھی عنقریب تیار ہو جائے گا اور اس کے بعد Spanish ترجمہ ہوگا“.حضور انور نے اپنی طرف سے اعلان فرمایا کہ حضور اپنے مرحوم والدین کی طرف سے بھی ایک زبان میں ترجمہ قرآن کریم کا خرچ پیش کریں گے.اپنے خطاب کے آخر میں حضور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی مذکورہ بالا خدمات کے مقابلہ پر احمدیت کے مخالفین نے جو خدمات سرانجام دی ہیں، ان کا کسی قدر ذکر یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں جماعت احمدیہ کی 130 مساجد سے کلمہ طیبہ مٹایا.341 احمدیوں کو کلمہ طیبہ کے بیج لگانے کی وجہ سے گرفتار کیا اور ان پر مقدمے چلائے ، جن میں دو امرائے اضلاع بھی شامل ہیں.20 احمدیوں پر قاتلانہ حملے ہوئے.ان میں سے 13 احمدیوں کو جام شہادت نوش کرنے کی توفیق ملی، جن میں ایک 80 سالہ بزرگ بھی شامل ہیں.16احمدیوں کو تدفین کے بعد ان کی قبروں سے نکالا 372

Page 382

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خلاصہ خطاب فرمودہ 26 جولائی 1986ء گیا.4 احمد یہ مساجد کو سر بمہر کیا گیا اور 2 احمد یہ مساجد کو شہید کر دیا گیا.احمدیوں کے خلاف 558 جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے، جن میں سے 327 زیر سماعت ہیں.135 کتب درسائل ضبط کیے گئے.آخر میں حضور نے مخالفین احمد بیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ در ہمیں جو خدمت کے طریقے سکھائے گئے ہیں، ہم ان پر گامزن ہیں اور جو تمہیں سکھائے گئے ہیں، تم ان پر گامزن رہو.پھر دیکھو کہ کون کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام و نامراد؟“ مزید فرمایا کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت احمد یوں کو ماؤں کے دودھ میں پلائی گئی ہے، کوئی ہم سے ہرگز اس محبت کو چھین نہیں سکتا.( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 22 اگست 1986ء وضمیمہ ماہنامہ خالد اگست 1986 ء) 373

Page 383

Page 384

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی ارشادات فرمودہ 29, 28 جولائی 1986ء وقف زندگی سب سے بہترین پیشہ ہے، جو انسان اختیار کر سکتا ہے ارشادات فرمودہ 29, 28 جولائی 1986ء بر موقع انٹر نیشنل مجلس شوری پہلا اجلاس : 28 جولائی تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور انور نے اجتماعی دعا کرائی.سب سے پہلے 1989ء میں ہونے والے صد سالہ جوبلی کے جلسہ کا مسئلہ زیر بحث آیا.حضور انور نے نمائندگان سے مشورہ طلب کرنے اور ہدایات دینے کے بعد جوبلی جلسہ کی عالمگیر تشہیر کے لئے ایک مرکزی پبلک ریلیشنز کمیٹی کی تقرری فرمائی.کمیٹی کا صدر مکرم چوہدری حمید نصر اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور پاکستان کو مقرر فرمایا.اسی طرح جوبلی جلسوں کے جملہ انتظامات کے لئے ایک مرکزی کمیٹی مقرر فرمائی اور اس کا صدر چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ کو مقر فر مایا.نیز فرمایا کہ وکیل اعلیٰ کی عدم موجودگی میں مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ڈائریکٹر عالمی بینک امریکہ صدر ہوں گے.دوسرے نمبر پر وقف زندگی کا مسئلہ زیر بحث آیا.مشورہ طلب کرنے سے قبل حضور انور نے فرمایا کہ ’واقفین زندگی تمام ممالک سے آنے چاہئیں.حکومت پاکستان کی طرف سے پیدا کردہ مشکلات کے پیش نظر مختلف ممالک میں ریجنل جامعہ احمدیہ قائم ہونے چاہئیں.پھر فرمایا:.وقف زندگی سب سے بہترین پیشہ ہے، جو انسان اختیار کر سکتا ہے.ایسے لوگوں کو اطمینان قلب کی عظیم نعمت نصیب ہوتی ہے.نیز فرمایا کہ کوشش کی جائے کہ متمول گھرانوں کے بچے زندگیاں وقف کریں".تیسرے نمبر پر یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ حضور انور کا خطبہ جمعہ تمام زبانوں میں ترجمہ کر کے متعلقہ احباب جماعت تک پہنچا دیا جائے تاکہ تمام ممالک کے احمدیوں کو حضور انور کے ارشادات کا ان کی اپنی زبان میں علم حاصل ہو.اس سلسلہ میں حضور انور نے فرمایا کہ 375

Page 385

ارشادات فرمودہ 28,29 جولائی 1986ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ہر ملک سے مقامی زبان میں ترجمہ کرنے کی اہلیت رکھنے والے دوستوں کے نام مرکز کو بھجوائے جائیں“.یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا کہ مجلس شوری کے نمائندگان کی تربیت کے لئے انٹرنیشنل مجلس شوری کے قواعد وضوابط پر مشتمل ایک کتابچہ شائع کیا جائے.حضور انور نے فرمایا کہ گزشتہ سالوں میں مختلف ممالک میں جو مجالس شوری حضور کی صدارت میں منعقد ہوئیں، ان میں حضور نے اس سلسلہ میں مفصل ہدایات دے دی ہیں، انہیں جمع کر کے نظر ثانی کے ساتھ شائع کر دیا جائے.ایجنڈا کی ایک تجویز یہ تھی کہ یوروپین ممالک کو روزمرہ جماعتی خبروں سے آگاہ کرنے کے لئے ایک مفت روزہ شائع کیا جائے.حضور نے فرمایا:.و و, معلوم ہوتا ہے کہ لندن سے شائع ہونے والے مفت روزہ ”النصر" سے پورے طور پر فائدہ نہیں اٹھایا جارہا.” النصر “ دراصل ” الفضل“ کا ایک طرح کا بدل ہے.اسے الفضل کا نام اس لئے نہیں دیا گیا تا کہ کسی قسم کا غلط تاثر پیدا نہ ہو.ورنہ انصر کی اشاعت کا مقصد وہی ہے ، جو کہ الفضل کا تھا“.نیز فرمایا کہ وو ہر ملک کے امیر کا فرض ہے کہ "النصر" کا مکمل طور پر اپنی مقامی زبان میں ترجمہ کر کے سب افراد جماعت تک پہنچانے کا انتظام کرے.اسی طرح فرمایا کہ اٹھایا جائے.ہنگامی کمیٹی لندن کی طرف سے شائع ہونے والے خصوصی نیوز بلٹن سے بھی پوری طرح فائدہ ایک تجویز یہ تھی کہ لندن میں ایک ایسا بکڈپو ہو، جو روزانہ کچھ وقت کے لئے کھلے، جہاں سے حسب ضرورت سلسلہ کی کتب و دیگر لٹریچر دستیاب ہو سکے.حضور نے فرمایا کہ اسلام آباد میں مستقل طور پر ایک بکڈ پو قائم کر دیا گیا ہے، جو روزانہ سارا دن کھلا رہتا ہے اور یہاں سے تمام جماعتی لٹریچر مل سکتا ہے.نیز فرمایا کہ وو ” ہر ملک کا فرض ہے کہ وہ اپنے مقامی مشنوں میں بھی بکڈ پو قائم کرے.جہاں سے احباب جماعت اور دوسرے لوگوں کولٹریچر مل سکے.376

Page 386

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد فرمایا کہ ارشادات فرموده 29, 28 جولائی 1986ء اس غرض کے لئے اگر مقامی طور پر خرچ پورا کرنا مشکل ہو تو مرکز کو اطلاع دی جائے.انشاء اللہ تعالیٰ اس کا انتظام کر دیا جائے گا“.ایک تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ لو ” جماعت کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ جرنلزم کی تعلیم حاصل کرنے کی خاص طور پر کوشش کریں.اس طرح وہ جماعت کے نشر واشاعت کے کام میں بہت مفید کردار ادا کرسکیں گے“.ایجنڈا کی ایک تجویز یہ تھی کہ سپین سے باہر جہاں جہاں سپینش لوگ آباد ہیں، انہیں مؤثر طور به تبلیغ اسلام کرنے کے لئے مرکزی طور پر کوئی انتظام کیا جائے.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسلام آباد سنٹر میں اب تک کئی زبانوں کے ڈیسک قائم ہو چکے ہیں.اب انشاء اللہ سپینش ڈیسک بھی قائم کر دیا جائے گا“.ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ان ڈیسکوں کے مقاصد یہ ہیں کہ اول: جن جن زبانوں میں اب تک ہمارے پاس لٹریچر موجود نہیں، ان میں لٹریچر تیار کیا جائے.چنانچہ اس وقت سب سے اہم اور بولی جانے والی 18 زبانوں کو منتخب کر کے ان میں اسلام اور احمدیت کے ابتدائی اور ضروری تعارف پر مشتمل لٹریچر تیار کیا جا رہا ہے.رکھتے ہیں.دوسرا: مقصد یہ ہے کہ ایسے افراد کو تلاش کیا جائے ، جو مختلف زبانوں میں تراجم کرنے کی قابلیت تیسرا مقصد یہ ہے کہ ایسے افراد کی فہرست تیار کر کے ان سے رابطہ رکھا جائے ، جو ایک ہی زبان بولتے ہیں لیکن وہ مختلف ممالک میں آباد ہیں، خواہ وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی“.حضور نے یہ بھی بتایا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کتب تیار کرنے کے لئے بھی ایک ڈیسک بنایا ہوا ہے، جو مختلف 66 کتب تیار کر رہا ہے.سپینش زبان سکھانے کے متعلق فرمایا کہ عنقریب ایسی آڈیو اور ویڈیوکیسٹس تیار کر کے کم از کم خرچ پر مہیا کی جائیں گی، جن سے احباب جماعت آسانی کے ساتھ سپینش Spanish زبان سیکھ سکیں“.377

Page 387

ارشادات فرمودہ 29, 28 جولائی 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد هفتم ایک سوال کے جواب میں حضور نے بتایا کہ جماعت کا جتنالٹریچر دستیاب ہے، اس کی مکمل کیٹلاگ Catalogue تیار ہو چکی ہے، جو وکالت تبشیر سے مل سکتی ہے.اسی طرح تمام کیسٹوں Cassettes کا انڈیکس Index بھی تیار ہو چکا ہے جس کی مدد سے ہر ضروری مسئلہ کے متعلق متعلقہ کیسٹ کو آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے.اور یہ بھی وکالت تبشیر سے دستیاب ہے.ایک تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ افریقہ میں جماعتی ہسپتالوں اور سکولوں میں Preaching Sermons با قاعدگی سے کروانے کا انتظام ہونا چاہئے.دوسرا اجلاس ایجنڈا کی ایک تجویز یہ تھی کہ ہر ملک کے مبلغ کو چاہیے کہ وہ مقامی زبان سیکھنے کی کوشش کرے تا کہ جماعت کا پیغام مئوثر طور پر پہنچا سکے.حضور انور نے اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغین کو مقامی زبان ضرور سیکھنی چاہیے.حضرت مصلح موعود بھی اس کی خاص تاکید فر ما کرتے تھے.فرمایا کہ مقامی زبان سیکھنے کے بغیر ایک مبلغ کامیابی کے ساتھ اپنے فرائض ادا نہیں کر سکتا.اور اس طرح احمدیت کے لئے نقصان کا موجب بنتا ہے.فرمایا:.میں نے ہدایت کی ہوئی ہے کہ ہر جگہ مقامی زبان کو Official ( دفتری ) بنایا جائے.اگر کوئی مبلغ اس ہدایت کو نظر انداز کر دے تو مقامی جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس مبلغ کی وساطت سے مرکز کو رپورٹ کرے تاکہ اس کی اصلاح کی جاسکے.حضور نے فرمایا کہ در مبلغین کو مقامی زبان سکھانے کے لئے مقامی لوگوں کو بھی وقت دینا چاہیے.اسی طرح فرمایا کہ بچوں کی کہانیوں کی کتب کی مدد سے بھی مقامی زبان سیکھی جاسکتی ہے.378

Page 388

تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 29, 28 جولائی 1986ء ایک تجویز یہ تھی کہ مبلغین کو جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران ٹائیپنگ اور ڈرائیونگ بھی سکھائی جائے تاکہ بعد میں وہ جماعت کے لئے زیادہ بہتر طور پر کام کر سکیں.حضور نے فرمایا کہ 1985ء سے جامعہ احمدیہ میں مبلغین کو ٹائپنگ اور ڈرائیونگ سکھانے کا انتظام کیا جا چکا ہے.اسی طرح گھڑ سواری، تیرا کی ، Book Keeping اور مارشل آرٹس بھی سکھائے جارہے ہیں.ایک اور تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اب جامعہ احمدیہ کے طلباء کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا بھی انتظام کر دیا جائے گا.کیونکہ دنیا تیزی سے کمپیوٹر کے دور میں آ رہی ہے“.اسی طرح فرمایا که و مبلغین کو جامعہ احمدیہ کے کورس کے ساتھ ساتھ Administration کی تعلیم دینے کا بھی انتظام کر دیا گیا ہے.مبلغین کی ٹریننگ کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا کہ مبلغین کو باہر بھیجوانے سے پہلے انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ متعلقہ ملک کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے پرانے مبلغین کی رپورٹوں اور فائلوں سے استفادہ کریں.اس غرض کے لئے ضروری ہے کہ ہر ملک کا مبلغ اپنے ملک کے تعارف کے متعلق مکمل معلومات مرکز کو بھیجے تا کہ آئندہ آنے والے مبلغین اس سے استفادہ کر سکیں.اس کے ساتھ ہی اپنے ملک میں تبلیغ کے متعلق ضروری ہدایات اور اسی ملک کے نمایاں احمدیوں اور اہم جگہوں کی تصاویر بھی بھجوائی جائیں.اسی سلسلہ میں ایک اور تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغین اپنی تعارفی رپورٹوں میں ملک کے سیاسی حالات اور جماعت کے مخالفین اور موافقین کا بھی ذکر کریں.ایک تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ انگلستان میں ہم نے محسوس کیا ہے کہ ٹیچنگ کمیونٹی سنجیدگی کے ساتھ مذہب کی باتوں کو سنتی ہے.سیاسی لوگوں کی نسبت ان لوگوں میں بیعت کرنے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے.ٹیچرز کو تبلیغ کر کے احمدی ٹیچر ز بنائے جاسکتے ہیں، اسی طرح جرنلسٹوں کو تبلیغ کر کے انہیں احمدی جرنلسٹس بنایا جا سکتا ہے.379

Page 389

ارشادات فرمودہ 29, 28 جولائی 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جماعتی بینک قائم کرنے کے متعلق تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ احباب جماعت اپنی زائد رقوم دوسرے Banks میں جمع کروانے کی بجائے جماعت کے امانت فنڈ میں جمع کروا ئیں.کیونکہ اول : تو بینک میں رقوم جمع کروا کر سود لینا حرام ہے.دوم: سود کھانے والوں کو اولاد کی خرابی کے ذریعہ کاروبار کی تباہی کی شکل میں سزا ملتی ہے.فرمایا:.وهر دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بعض دفعہ اس دنیا میں سزا نہیں ملتی لیکن احمدی کو اس دنیا میں بھی سزامل جاتی ہے.مزید فرمایا کہ جور قم سود کی شکل میں ملے ، وہ مرکز کو اشاعت اسلام کے لئے ضرور بھجوادینی چاہیے.کیونکہ وہ رقم اپنے لئے استعمال کرنا نا جائز ہے“.فرمایا کہ لندن میں امانت فنڈ کھولا جا چکا ہے.دوسرے ممالک میں حسب حالات کھولا جا سکتا ہے.امانت فنڈ میں رقم جمع کرانے کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی رقم جمع کرانے والوں کو کئی رنگوں میں برکت دے گا.نیز فرمایا کہ امانت فنڈ میں جمع کرائی گئی رقم پر زکوۃ بھی واجب نہیں ہوتی.لیکن اگر وہی رقم بینک میں جمع کرائی جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی.کیونکہ امانت فنڈ میں رقم جمع کروانا ایسا ہی ہے، جیسے زکوۃ ادا کر دی گئی ہو.اور ایسے شخص کو ادائیگی زکوۃ کا ثواب بھی حاصل ہوگا“.احمدی تاجروں کی مدد اور راہنمائی کے متعلق ایک تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ احمدی تاجروں کی رہنمائی کے لئے مرکزی طور پر ایک نیوز لیٹر (News Letter) شائع کرنے کا انتظام کیا جائے گا تا کہ احمدی تاجران بہتر طور پر اور بہتر جگہ سرمایہ کاری کرسکیں.ایک تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ نائیجیریا کے موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ احمدی تاجر نائیجیریا کا دورہ کریں اور وہاں کے احمدی تاجروں کو اپنے تجربہ اور علم کی روشنی میں مشورہ دیں کہ وہ کس طرح بہتر طور پر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں.380

Page 390

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد من فرمایا کہ ارشادات فرمودہ 29, 28 جولائی 1986ء ”دورہ کرنے والے احمدی تاجران اپنے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ خدمت خلق کے جذبہ کے ساتھ نائیجیریا کے مقامی احمدی تاجروں کے فائدہ کے لئے یہ دورہ کریں.تیسرا اجلاس: 29 جولائی تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی.اس کے بعد وقف عارضی کی بابرکت تحریک کو فروغ دینے کے متعلق ایک تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.جولوگ وقف عارضی پر جائیں ، وہ مقامی لوگوں کے ایڈریس ( پستہ جات ) حاصل کر کے ان سے مستقل رابطہ رکھیں.اور اس طرح مستقل وقف پر عمل پیرا ہوں“.ایک تجویز پیش ہوئی کہ اگر یوروپین احمدی اور عرب احمدی وقف عارضی کر کے افریقی ممالک میں جائیں تو اس کا بہت اچھا اثر ہو سکتا ہے.کیونکہ وہاں اکثر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ نہ تو کوئی یوروپین مسلمان ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی عرب احمدی ہوسکتا ہے.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی یوروپین احمدی خودر تم خرچ نہ کر سکتے ہوں تو ان کا خرچ جماعت ادا کر سکتی ہے.لہذا ایسے لوگوں کو منتخب کر کے وقف عارضی کے لئے تیار کیا جائے“.وقف عارضی کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ وقف عارضی کا مقصد مستقل واقفین کی کمی کو پورا کرنا ہے.اسی لئے حضرت خلیفة المسیح الثانی نے وقف جدید شروع فرمائی تھی.حضرت خلیفة المسیح الثالث نے محسوس فرمایا کہ اگر ایک آدمی دوسری جگہ چند دن کے لئے جائے تو اس کا بہت اچھا اثر ہوگا کیونکہ وہ تعلیم القرآن، تبلیغ اور مسلسل دعاؤں میں مصروف رہنے کی توفیق پائے گا.لیکن اس وقت یہ تحریک زیادہ تر پاکستان تک محدود تھی.خلافت رابعہ نے وقف عارضی کی تحریک کو اب بین الا قوامی شکل دے دی ہے.دوسرے خصوصی زور تبلیغ پر دیا گیا ہے.وقف عارضی کو کامیاب بنانے کے سلسلہ میں فرمایا کہ اگر واقف عارضی دوسروں میں دلچسپی لے گا تو وہ بھی اس میں دلچسپی لیں گے.اور ایسے ہی 56 واقفین عارضی کی ہمیں ضرورت ہے.مزید فرمایا کہ وقف عارضی کی سکیم کونئی نسل اور نئے احمدیوں اور یوروپین اور افریقین احمد یوا پر متعارف کروایا جائے اور انہیں اس میں شامل ہونے کی تحریک کی جائے.خاص طور 381

Page 391

ارشادات فرمودہ 29, 28 جولائی 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جماعتی عمارات کی حفاظت کے متعلق تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ہر ملک کے امیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ جماعت کی عمارات کی دیکھ بھال اور حفاظت کا خیال رکھے.اس غرض کے لئے ہر ملک میں ایک National Inspectorate مقرر کیا جائے ، جو جماعتی عمارات کی حفاظت کا ذمہ دار ہو.اکاؤنٹس اور دیگر کاموں کے لئے کمپیوٹر کے استعمال کے متعلق تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے بتایا کہ اکاؤنٹس کی Computerisation کے متعلق کینیڈا میں تجربہ شروع کیا جارہا ہے، جسے بعد میں ہر جگہ رائج کیا جائے گا.اسی طرح تبلیغ کے لئے جو پتہ جات جمع کئے گئے ہیں، ان کے لئے لندن میں کمپیوٹر استعمال کیا جارہا ہے“.تیاری بجٹ کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا کہ بجٹ کی تیاری سے قبل مجلس عاملہ کے اجلاس میں ترجیحات کو متعین کیا جائے اور پھر اس کے مطابق سالانہ بجٹ بنا کر بھجوایا جائے“.ایک تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ 66 " حضرت مسیح موعود نے اس بات پر انتہائی زور دیا ہے کہ وفات مسیح میں حیات اسلام ہے.اس لئے اس موضوع پر خصوصیت کے ساتھ زور دینا چاہیے.تاہم وفات مسیح کے موضوع پر انٹرنیشنل کانفرنس کی بجائے ہر ملک میں نیشنل کانفرنس کا انتظام کرنا چاہیے.لیکن اب خصوصی توجہ جوبلی جلسہ کی تقریبات کی طرف ہونی چاہیے.مجلس شوری کے اختتام سے قبل حضور انور نے نمائندگان سے مختصر خطاب فرمایا، جس میں جماعت احمدیہ کی علمی فتح اور اللہ تعالٰی کے فضلوں کا ذکر فرمایا اور اس کے ساتھ ہی نمائندگان شوری کو بعض اہم ہدایات دیں.آخر میں حضور رحمہ اللہ نے اجتماعی دعا کرائی.382 ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 29 اگست 1986ء)

Page 392

تحریک جدید- ایک الہی تحریک خلاصه ارشادات فرمودہ 29 جولائی 1986ء خلیفہ وقت کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی قسم کی مالی تحریک کرے ارشادات فرموده 29 جولائی 1986ء بر موقع انٹرنیشنل آڈٹ کا نفرنس حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس موقع پر ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:.خلیفہ وقت کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی قسم کی مالی تحریک کرے.اگر کہیں کسی مالی تحریک کی ضرورت ہو تو خلیفہ وقت سے پہلے اس کی اجازت لینا ضروری ہے.جماعت کے افراد کو بھی یہ چاہیے کہ جب کوئی عہدیدار جماعت میں کوئی مالی تحریک کرے تو وہ اس سے اس کا اجازت نامہ دکھانے کا مطالبہ کریں.نیشنل آڈیٹرز کا فرض ہے کہ وہ اپنی رپورٹ میں اس اہم امر کے متعلق بھی مرکز کور پورٹ کریں“.پھر فرمایا:.کچھ چندے ایسے ہیں، جن کی مستقل طور پر پہلے سے نظام جماعت کی طرف سے اجازت ہے.مثلاً ذیلی تنظیموں انصار الله، خدام الاحمدیہ، لجنہ و ناصرات الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کے چندے، اسی طرح مقامی جماعت کو قواعد کے مطابق لوکل فنڈ وصول کرنے کی اجازت ہے.اجازت حاصل کرنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث من عصى امیری فقد عصانی کا یہ مفہوم ہے کہ چونکہ صحیح میر خلیفہ وقت سے اجازت لے کر کام کرتا ہے، اس لئے اس کی نافرمانی، رسول کی نافرمانی ہے اور رسول ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر بولتا ہے، اس لئے اس کی نافرمانی، خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے.لیکن اگر کوئی امیر خلیفہ وقت سے اجازت لئے بغیر کوئی کام کرتا ہے تو اس پر اس حدیث مذکورہ بالا کا اطلاق نہ ہو گا.حضور انور نے فرمایا:.وو ہر ملک میں آؤٹ کا نظام اس طور پر ہونا چاہیے کہ ہر ماہ مقامی طور پر آڈٹ کیا جائے اور ہر تین ماہ کے بعد نیشنل آڈیٹر کو آڈٹ کرنا چاہیے.383

Page 393

خلاصه ارشادات فرمودہ 29 جولائی 1986ء مزید برآں فرمایا کہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک چھوٹے ممالک میں آڈٹ کا نظام نسبتا سادہ بھی ہو سکتا ہے“.اسی طرح فرمایا کہ ذیلی تنظیموں کے آؤٹ کا نظام Independent ہونا چاہئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ آؤٹ کے متعلق جملہ ہدایات انگریزی زبان میں ہونی چاہئیں تا کہ مقامی دوست بھی ان کو پڑھ کر استفادہ کر سکیں.ایک اور سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا:.”امیر کی ہدایات ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کی ہدایات سے بالا ہیں.الہندا ذیلی تنظیموں کا فرض ہے کہ امیر سے اجازت لے کر کام کیا کریں تا کہ کوئی غلط نہی پیدا نہ ہو.(مطبوعہ ہفت روزہ النصر 29 اگست 1986ء) 384

Page 394

تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہدایات برائے مبلغین مبلغ کو کبھی تھکنا نہیں چاہیے اور جماعت کو مسلسل بیدار رکھنا چاہیے ہدایات فرمودہ 31 جولائی 044 اگست 1986ء بر موقع اجلاس مبلغین سلسلہ عالیہ احمدیہ اجلاس اول: 31 جولائی تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور انور نے اجتماعی دعا کرائی.بعدہ نئے غیر ملکی مبلغین کے ریفریشر کورس (Refresher Course) میں شامل ہونے والے مبلغین کے متعلق حضور انور نے رپورٹ طلب فرمائی.چنانچہ بتایا گیا کہ یوگنڈا، غانا، تنزانیہ، نائیجریا اور گیمبیا سے آئے ہوئے 8 مبلغین کرام اس میں شامل ہورہے ہیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ چونکہ بعض مبلغین اردو نہیں سمجھتے ، اس لئے مجلس کی کارروائی انگریزی زبان میں ہوگی.بعد ازاں حضور نے اس امر پر اللہ تعالیٰ کا خاص طور پر شکر ادا کیا کہ اس مجلس شوری میں جتنی بڑی تعداد میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مبلغین سلسلہ شامل ہورہے ہیں، اتنے کبھی پہلے نہیں ہوئے.اس مجلس میں بفضلہ تعالیٰ 74 مبلغین سلسلہ شامل تھے.الحمد للہ اس موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مبلغین سلسلہ کو جو زریں ہدایات ارشاد فرمائیں ، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے.فرمایا:.بعض ممالک میں تبلیغی منصوبہ پر باقاعدگی سے عمل کیا جارہا ہے اور بعض ممالک اس سے غافل ہیں.جس کے نتیجہ میں دونوں قسم کے ممالک میں ہونے والی نئی بیعتوں کی شرح میں غیر معمولی فرق ہے.لہذا ان امور کا جائزہ لے کر تبلیغی منصوبہ پر باقاعدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے.66 طریقہ تبلیغ کے متعلق فرمایا:.دو تبلیغ کے لئے ہمیشہ ایک ہی طریق اور پروگرام جاری رکھنا مناسب نہیں ہوتا بلکہ اس میں تبدیلیاں ہوتی رہنی چاہئیں.کیونکہ اس سے کار کر دگی میں بہتری پیدا ہوتی ہے“.پمفلٹ کی تقسیم کے متعلق فرمایا:.پمفلٹ کی تقسیم کا کام ابتدائی طور پر مناسب ہوتا ہے.لیکن اس کے بعد مسلسل رابطہ ضروری ور میں ہی ہوتا اسکے بعد سروری ہے، جس کے نتیجہ میں لوگ جماعت کے قریب آئیں.385

Page 395

ہدایات برائے مبلغین سلسلہ عالیہ احمدیہ اس سلسلے میں مزید فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب فتح اسلام میں جو پانچ شاخوں پر مشتمل تبلیغی منصوبہ کا ذکر فرمایا، اس میں جہاں اشتہارات کا ذکر ہے، وہاں مہمان نوازی کا شعبہ بھی موجود ہے.اس کا مقصد یہی تھا کہ جن لوگوں کے ساتھ اشتہارات و کتب وغیرہ کے ذریعہ رابطہ قائم ہو ، پھر وہ مرکز سلسلہ میں بھی آئیں اور ان کی مہمان نوازی کی جائے.نوجوانوں میں تبلیغ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:.نو جوانوں میں خاص طور پر تبلیغ کریں.کیونکہ وہ ملک کا مستقبل ہوتے ہیں.جو مبلغ نوجوانوں میں تبلیغ کا منصوبہ بنا کر اس پر عمل نہیں کرتا ، وہ اپنی ذمہ داری سے غافل ہے.نئی بیعتوں میں تیز رفتاری پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.بیعتوں کی موجودہ رفتار بہت سست ہے.اس رفتار سے ہم دنیا کو فتح نہیں کر سکتے.لہذا اس رفتار کو تیز کریں.فرمایا:.دوستی جماعت کی تعداد میں اضافہ نہایت اہمیت رکھتا ہے اور اس کے لئے نو جوانوں کو سب.سے پہلے ٹارگٹ بنانا چاہیئے.66 فرمایا:.اگر نو جوانوں کو اس وقت احمدیت کی طرف مائل نہ کیا گیا تو وہ کمیونزم اور دہریت کا شکار ہو جائیں گے اور پھر ان کو مذہب کی طرف واپس لانا زیادہ مشکل ہوگا.اگر چہ دہریوں کو بھی مذہب کی طرف واپس لانا ناممکن نہیں ، جیسا کہ حال ہی میں سکاٹ لینڈ میں ایک دہر یہ نوجوان جماعت میں شامل ہوا ہے اور وہ پوری سنجیدگی اور بشاشت سے تمام کاموں میں حصہ لے رہا ہے.اپنے نو جوانوں کو تبلیغ میں لگانے کے متعلق فرمایا کہ کا کا نوجوانوں میں تبلیغ کے لئے اپنے نو جوانوں کو تیار کرنا چاہئے.ہم عمری کی وجہ سے رابطہ زیادہ مستقل اور مؤثر ہو سکتا ہے“.دا عین الی اللہ کی تعداد کو بڑھانے کے متعلق فرمایا:.وو چند احمدیوں کے تبلیغ میں لگ جانے سے مطمئن ہو جانا مناسب نہیں.کیونکہ جماعت کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے، جو ابھی تک تبلیغ کے کام میں شامل نہیں ہوئی“.386

Page 396

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک ہدایات برائے مبلغین تبلیغ کے کام کو منظم کرنے کے کے متعلق فرمایا:.ہر جگہ با قاعدہ تبلیغ کرنے والوں اور بے قاعدہ تبلیغ کرنے والوں کی فہرستیں تیار ہونی چاہئیں اور پھر بے قاعدہ تبلیغ کرنے والوں کو باقاعدہ تبلیغ کرنے والے افراد میں شامل کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کی جائے.فرمایا:.”بہت سے مبلغین ابھی تک اس امر سے غافل ہیں“.زیادہ سے زیادہ افراد کو جماعتی کاموں میں شامل کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.اکثر جماعتوں میں جماعت کا کام چند ایک افراد کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے اور وہ لوگ دوسرے افراد کو آگے لانے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور نہ ہی خواہش رکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ آگے آئیں.اس رویہ کو درست کرنا چاہیے.کیونکہ اس سے جماعت میں کئی قسم کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں.اپنے معاونین کی تعداد بڑھانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.جو مبلغ اپنے ساتھیوں کی تعداد بڑھاتا رہتا ہے، ہمیشہ وہی کامیاب ہوتا ہے.نیز فرمایا:.فرمایا:.اب جو تبلیغی منصوبہ جاری کیا جارہا ہے، وہ چند آدمیوں کے ساتھ کامیاب نہیں ہو سکے گا“.ہر مبلغ خدا کے فضل سے اس قابل ہوتا ہے کہ وہ مزید کام کرنے والے ساتھی پیدا کر سکے.ساتھیوں کی تعداد بڑھانے کے سلسلہ میں مزید فرمایا:.ہر مبلغ کو اپنے مقام کو ٹوظ رکھتے ہوئے محبت اور دعاؤں کے ساتھ افراد جماعت کے دل جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے.منصوبہ بندی برائے لٹریچر کے متعلق فرمایا :.لٹر پچر کے متعلق منصوبہ تیار کر کے اس پر عمل کرنا بھی مبلغین کے فرائض میں شامل ہے.کچھ یچر مرکز مہیا کرتا ہے لیکن کچھ لٹریچر مقامی طور پر تیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.اور اس کی تیاری کے لئے مناسب آدمیوں کو منتخب کرنا چاہیے.اہم شخصیات ( اپنے علاقہ کی ) کو تحائف پیش کرنے کے ذریعہ بھی جماعت کے قریب کرنے کی کوشش کریں.لیکن اپنے وسائل کی حد بندی کو بھی ملحوظ رکھیں“.387

Page 397

ہدایات برائے مبلغین سلسلہ عالیہ احمد تحریک جدید - ایک الہی تحریک...حضور انور نے مالی وسائل کو ترقی دینے کے متعلق فرمایا:.اپنے کام کو وسعت دینے کے لئے اپنے مالی وسائل کو بھی ترقی دیں.اس کے لئے دو باتوں کی طرف خاص توجہ کریں.اول: وہ افراد، جو معیاری قربانی نہیں کر رہے تو انہیں معیاری قربانی کی طرف لائیں.دوسرے نئے روزگار حاصل کرنے والے نوجوانوں کو چندے کے نظام میں فورا شامل کرنے کا انتظام کریں.فرمایا:.ایسے افراد کو قریب کرنے کے لئے اپنے ہاں مدعو بھی کرنا چاہیے.اسی طرح جماعتی نظام کو بھی بیدار کریں کہ وہ تمام افراد سے بر وقت چندہ وصولی کرنے کا موثر انتظام کرے.مالی امور کو زیادہ سے زیادہ افراد جماعت کے سپرد کرنے کے متعلق فرمایا :.اگر مبلغ انچارج امیر بھی ہو، تب بھی اسے مالی امور زیادہ سے زیادہ افراد جماعت کے سپرد کرنے چاہیے اور ایسی صورت پیدا نہیں ہونی چاہیے کہ افراد جماعت یہ خیال کرنے لگیں کہ مبلغ انچارج مالی امور پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے.مالی امور کے متعلق اگر کوئی بات غیر واضح ہو تو مرکز سے فورا ہدایت حاصل کریں.افراد جماعت سے صحیح سلوک کی اہمیت کے متعلق فرمایا:.افراد جماعت اس وقت تک نافرمان اور باغی نہیں ہوتے ، جب تک ان کے ساتھ غلط سلوک نہ کیا جائے.اور کسی ایک عہدیدار کے غلط رویہ کے نتیجہ میں آئندہ آنے والے عہدیداران کے لئے بھی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں.اس لئے اس کا خاص خیال رکھنا چاہیئے.نئے اور گزشتہ امیر کے باہمی رویہ کے متعلق فرمایا :.”نئے امیر کا پچھلے امیر پر پبلک یا پرائیویٹ طور پر تنقید کرنا، انتہائی افسوس ناک فعل ہے اور خدا کی نگاہ میں نہایت مکروہ ہے.ہاں اگر گزشتہ نظام میں کوئی نقص ہو تو مرکز کو اس سے مطلع کریں“.اسی سلسلہ میں فرمایا:.وو چارج لیتے وقت نئے امیر کا یہ کام نہیں کہ گزشتہ امیر کے اخراجات میں نقائص نکال کر اسے بد نام کرے یا اس سے کوئی مطالبہ کرے.اگر کوئی بات قابل اصلاح ہو تو صرف مرکز کو مطلع کرنا چاہیے.فرمایا:.سابق مبلغ سے احسان کا معاملہ کر کے جماعت کو بھی انتشار سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے.388

Page 398

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم - رپورٹوں کے متعلق حضور انور نے فرمایا:.ہدایات برائے مبلغین سلا اپنی رپورٹیں باقاعدگی سے بھجوائیں.اور اچھے کاموں کے ساتھ ساتھ ان پہلوؤں کا بھی ذکر کریں، جن میں ابھی کوتاہی اور کمزوری ہے.یہ آپ کے لئے محاسبہ اور اصلاح کا بہترین ذریعہ ہوگا“.نیز فرمایا:." قرآن کریم کو پڑھیں اور ہمیشہ اس سے سبق حاصل کرتے رہیں“.وکالت تبشیر کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ " جو مبلغ اچھے رنگ میں اور باقاعدگی سے کام کر رہے ہیں، ان کے طریقہ کار سے دوسرے مبلغین کو مطلع کریں تا کہ دوسرے بھی اس سے فائدہ اٹھا ئیں.اجلاس دوم :04 اگست تلاوت قرآن کریم کے بعد اجتماعی دعا ہوئی اور پھر حضور نے فرمایا کہ " آج کی مجلس اردو میں ہوگی کیونکہ یہ مجلس صرف انگلستان کی نہیں بلکہ متعدد ممالک سے آنے الے مبلغین اس میں شامل ہیں.پھر فرمایا کہ یہ مجلس مسائل ، مشوروں اور اچھے تجربات کے بیان کے لئے وقف ہے.چنانچہ حضور رحمہ اللہ کی اجازت سے متعدد مبلغین سلسلہ نے باری باری اپنے خیالات کا اظہار کیا.اس دوران حضور انور نے جوارشادات فرمائے ، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے.ہالینڈ میں قرآن کریم کے تراجم کی نمائش کے کامیاب تجربہ کا ذکر ہوا تو فرمایا:.آئندہ اس نمائش کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی لٹریچر کی نمائش کی ویڈیوفلم بھی دکھا ئیں.کیونکہ بہت سالٹر پچر ایسا ہے، جو ہر جگہ میسر نہیں ہوتا.اس لئے وہاں یہ وڈیو فلم بہت مفید رہے گی.سوئٹزر لینڈ کی طرف سے نو جوان طالبعلموں کے مسائل سے تعلق رکھنے والے لٹریچر کی تجویز پیش ہونے پر فرمایا:.مقامی طور پر کمیٹیاں مقرر کر کے اپنے تجربات سے مرکز کور پورٹیں دیں.پھر ان کی روشنی میں مرکز را ہنمائی کرے گا".389

Page 399

ہدایات برائے مبلغین سلسلہ عالیہ احمد به دہریوں میں تبلیغ کے متعلق فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک سارے مغرب میں دہریت عام ہو چکی ہے.اس کی اصلاح کے لئے خصوصی انتظام کی ضرورت ہے.کیونکہ عیسائیت یا کسی اور مذہب والا لٹریچر ان کے کام نہیں آسکتا.اور مادی آسائشوں کے با وجود دہریت کی وجہ سے عدم سکون ہے.جس کا علاج الا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے میں ہے.اس کی طرف نو جوانوں کو توجہ دلانی چاہیے اور بتانا چاہیے کہ اسلام کا خدا، زندہ خدا ہے اور باقی مذاہب کے خدا مر چکے ہیں“.فرمایا:.خدا تعالیٰ کی ہستی کو ثابت کرنے کے لئے سب مذاہب کو چیلنج دینا چاہیے.اس کے لئے سب مذاہب کے نمائندوں کو مدعو کر کے ان کے سوالوں کے جواب دیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے بودے اعتقادات کو نمایاں کرنے کے لئے ان پر بھی سوالات کریں.پھر فرمایا:." ہریوں کے سامنے انسان کی ہستی (Human Machine) کو سائنسی طور پر ہستی باری تعالی کے ثبوت کے طور پر پیش کریں.اور اس تعلق میں ان کے اعتراضات کے جوابات بھی دیں.مثلاً Evolution(ارتقاء) کے نقطہ نگاہ سے بھی اعتراضات کئے جاتے ہیں، ان کے جوابات دینے چاہئیں.فرمایا: دہریوں کی اصلاح کے لئے ہر مبلغ کو دلائل کے ساتھ باقاعدہ مسلح کیا جانا چاہیے.اس سلسلہ میں حضور نے مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد لندن کو ارشاد فرمایا کہ مجالس عرفان میں دہریت کے متعلق با قاعدہ سوالات کئے جائیں اور پھر ان کے جوابات پر مشتمل کیسٹوں سے ہر جگہ استفادہ کیا جائے“.مزید فرمایا:.ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کے لئے إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ کے مطابق دعا سکے مضمون کو بھی نمایاں طور پر پیش کیا جائے“.390

Page 400

تحریک جدید - ایک الہی تحریک فرمایا: فرمایا:.وو ہدایات برائے میں اپنے اپنے ممالک میں خدا کی نمائندگی کا حق ادا کریں اور دہریوں کو چیلنج کریں.دوسرے مذاہب سے لڑائی جھگڑا نہیں کرنا بلکہ یہ کہنا ہے کہ رب العالمین خدا کو ذاتی تجربہ سے معلوم کریں.مبلغ انچارج گیمبیا نے بتایا کہ گزشتہ سال گیمبیا میں خدا کے فضل سے 707 بیعتیں ہوئیں اور اس سال مزید 762 بیعتیں ہو چکی ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دیہاتوں میں خاص طور پر تبلیغ کریں اور اگر کہیں عدم دلچسپی دکھائی دے، تب بھی کام جاری رکھیں، خدا کے فضل سے کامیابی ہو گی“.انالین ترجمہ قرآن کریم کی اشاعت کی سلسلہ میں مبلغ انچارج امریکہ کو حضور انور نے فرمایا کہ امریکہ میں بھی اٹالین لوگ کافی تعداد میں موجود ہیں، انہیں بھی اس سے متعارف کرائیں.نیز فرمایا کہ تالین لوگ دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو پکے رومن کیتھولک ہیں اور اس وجہ سے وہ بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور دوسرے وہ ہیں، جو رومن کیتھولک چرچ سے سخت متنفر ہیں اور دہر یہ ہو چکے ہیں.اس لئے وہ بھی کم ہی بات سنتے ہیں.لیکن ہم نے لوگوں کی عدم دلچسپی کے باوجود کام جاری رکھنا ہے“.انڈونیشیا کے مبلغ نے عرض کیا کہ تبلیغ کے کام میں جو مشکلات ہیں، ان میں سے ایک ٹرانسپورٹ کا کچھ کی دقت ہے.اس پر حضور انور نے عمومی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ جس مبلغ کا کام یہ مطالبہ کرتا ہو کہ اسے کار لے کر دی جائے، اس کے لئے کار کا انتظام کر دیا جائے“.مزید فرمایا کہ نٹی کاروں کی بجائے ایسی مستعمل کاریں لی جائیں، جو اچھی حالت میں ہوں اور وہ روز روز خرچ نہ مانگتی ہوں.جب کوئی کار خرج مانگنا شروع کر دے تو اسے فروخت کر کے کوئی اور کار خرید لی جائے.حضور انور نے وکالت تبشیر کو ہدایت فرمائی کہ کا تمام ممالک کونئی بیعتوں کی تعداد کے متعلق با قاعدگی سے سرکار بھجوائے جائیں تا کہ مسابقت کی روح تیز ہو.391

Page 401

ہدایات برائے مبلغین سلسلہ عالیہ احمدیہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک ایک مبلغ نے اپنے تبلیغی کام کی رپورٹ پیش کی تو حضور انور نے فرمایا کہ ”ساری جماعت کو تبلیغ کے کام میں لگانے کے سلسلہ میں جو کام کیا گیا ہے، اس کی رپورٹ بھی بتا ئیں.نیز فرمایا کہ ”صاحب حیثیت اور تعلیم یافتہ لوگوں میں خاص طور پر تبلیغ کرنی چاہیے.کیونکہ اس کا اثر دوسرے لوگوں پر بھی ہوتا ہے“.ایک مبلغ نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ دہریت کو دور کرنے کے لئے جہاں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت پر کیسٹس تیار کی جائیں ، وہاں یوم قیامت جزا سزا اور حیات بعد الموت کے متعلق بھی کیسٹس ہونی چاہئیں.حضور انور نے فرمایا کہ حضور انور نے فرمایا کہ ان موضوعات کو بھی شامل کر لیا جائے گا“.و نیم باجوہ صاحب کا کام خوب منتظم ہے اور میری ہدایات کی تعمیل کی کوشش کی جاتی ہے اور یہیں وجہ ہے کہ ان کے حلقہ میں جتنے داعی الی اللہ بن گئے ہیں ، اتنے باقی سارے انگلستان میں بھی نہیں" اٹھایا ہے.نیز فرمایا کہ ان کے حلقہ کے داعین الی اللہ مجھے دعا کے لئے بھی لکھتے رہتے ہیں.مزید برآں حضور نے ارشاد فرمایا کہ نیز فرمایا کہ ماہانہ رپورٹ فارموں کی کاپی نمونہ کے طور پر تمام مبلغین کو دے دی جائے“.” خلیفہ کی اطاعت میں بڑی برکت ہوتی ہے.میں نے خورد دو خلفاء کی راہنمائی سے بہت فائدہ وکالت تبشیر کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ تبلیغ کے متعلق جتنے حضور کے ارشادات ہیں، انہیں جمع کر کے تمام مبلغین کو بھجوایا جائے تا کہ وہ اس کی روشنی میں کام کریں.پھر فرمایا:.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ میں یہ بھی ہدایت ہے کہ تبلیغ کے طریقوں میں تنوع اور تبدیلی ہوتی رہنی چاہیے.نیز فرمایا:.” جہاں جہاں اٹالین لوگ موجود ہیں، وہاں ان میں تبلیغ کے لئے خصوصی گروپ تیار کئے جائیں".392

Page 402

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پھر فرمایا کہ ہدایات برائے مبلغین مجھے کچھ در مبلغ کو کبھی تھکنا نہیں چاہیے اور جماعت کو مسلسل بیدار رکھنا چاہیے.مبلغ انچارج غانا نے بتایا کہ مغربی افریقہ کے دو ممالک جہاں پہلے مشن قائم کرنے کی اجازت نہ تھی ، ان ممالک کے خانا میں مقیم سفراء کوفرانسیسی ترجمہ قرآن کریم بطور تحفہ پیش کیا گیا تو وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے ملکوں میں مشن قائم کرنے کی اجازت پر آمادگی ظاہر کردی.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہر زبان کا نیا ترجمہ قرآن کریم جو شائع کیا جارہا ہے، وہ اپنے اپنے ملک میں متعلقہ ملک کے > > سفیر کو بطور تحفہ دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام عرب سفراء کو بھی دیا جائے“.کھیلوں کو منظم کرنے کے ذریعہ تبلیغ کا ذکر ہوا تو حضور نے فرمایا کہ وو ہر ملک میں جو احمدی اچھا کھلاڑی ہو، اس کی سر پرستی کی جائے.بچپن کی عمر سے ہی احمدی بچوں کو کھیلوں کے لئے تیار کریں.کھیلوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ضروری لٹریچر بھی منگوا ئیں اور کو چنگ کا بھی انتظام کریں.سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لیکچرز کے ذریعہ تبلیغ کا ذکر ہوا تو حضور نے بتایا کہ پچھلے دنوں حضور کو کیمرج یونیورسٹی (برطانیہ) میں لیکچر کے لئے بلایا گیا ، اس کا ایک اچھا اثر یہ ہوا کہ یونیورسٹی کے تین پروفیسروں نے اس قدر دلچسپی لینی شروع کر دی ہے کہ وہ ہمارے اس جلسہ سالانہ میں بھی شرکت کے لئے آئے.اخبارات کے ذریعہ تبلیغ کا ذکر ہوا تو حضور نے فرمایا کہ انفرادی طور پر اخبارات سے رابطہ کی بجائے اگر خبر رساں ایجنسیوں سے تعلقات رکھے جائیں تو زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے“.ایک مبلغ نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی تصاویر بھی تبلیغ کا ایک اچھا ذریعہ ہیں، اس لئے تمام مشنوں کو ایک ہی سائز کی اچھی سی تصاویر کا سیٹ مہیا کرنے کا انتظام کر دیا جائے.اسی طرح یہ بھی عرض کیا کہ اس وقت نو مطبوعہ لٹریچر کی دو دو کا پیاں صرف ملکی ہیڈ کواٹر کو بھجوائی جاتی ہیں.اگر برانچ مشنوں کو بھی بھجوادی جائیں تو بہت فائدہ ہوگا.اسی طرح برانچ مشنوں میں ویڈیو اور جماعتی پروگراموں کی ویڈیوفلمیں مہیا کرنے کی بھی درخواست کی.حضور انور نے از راه شفقت سب تجاویز کو قبول فرماتے ہوئے مکرم وکیل التبشیر صاحب کو تعمیل کی ہدایت فرمائی.نیز وضاحت فرمائی برانچ مشنوں سے صرف وہ مشن مراد ہیں، جہاں مبلغ مقیم ہے.393

Page 403

ہدایات برائے مبلغین سلسلہ عالیہ احمدیہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم تنزانیہ میں ہسپتال کھولنے کا مسئلہ پیش ہوا تو حضور انور نے بتایا کہ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ انچارج امریکہ اور ان کے خاندان نے اس غرض کے لئے 50 ہزار پونڈ کا عطیہ دیا ہے.(فجزاهم الله تعالی) حضور نے مبلغ انچارج تنزانیہ کو ہدایت فرمائی کہ ہسپتال کھولنے کام جلد از جلد کیا جائے“.394 ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 05 ستمبر 1986ء)

Page 404

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی اقتباس از خطبه جمعه فرموده 108 اگست 1986ء اشاعت قرآن تتعمیر مساجد، دعوت الی اللہ اور سیرۃ النبی کے اجلاسات کی تحریک خطبہ جمعہ فرموده 08 اگست 1986ء...ابھی حال ہی میں وہ نیا سال، جو جولائی سے شروع ہوا ہے، اس نئے سال کے پہلے مہینہ میں انگلستان میں دو انٹر نیشنل کانفرنسیں منعقد ہوئیں.ایک جماعت احمدیہ کی طرف سے اور ایک جماعت احمدیہ کے معاندین اور مخالفین کی طرف سے.دونوں میں جہاں تک نیتوں اور مقاصد کا تعلق تھا، دونوں کے مقاصد بظاہر نہایت نیک اور بلند پرواز تھے.اللہ اور رسول کی محبت کے نام پر یہ دونوں جلسے کئے گئے.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض دفعہ جب دونوں ارادے یا دونوں ادعا کہنا چاہئے ، ایک جیسے ہوں، یعنی ایک کا عمل بھی بظاہر حسین اس کو نظر آرہا ہو اور دوسرے کا عمل بھی اس کو حسین نظر آرہا ہو تو بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ عمل تو حسین نظر آرہا ہوتا ہے لیکن در حقیقت عمل حسین نہیں ہوتا.ایسی صورت میں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو گمراہ قرار دے دے اور ان کے لئے کوئی اور عاقبت مقدر نہیں ہو سکتی.جو لوگ بدی کریں، نیک کاموں پر، نیک ناموں پر، نیک ادعا لے کر اور سمجھ رہے ہوں کہ وہ بہت ہی حسین کام کر رہے ہیں، ان کی ہلاکت خدا تعالیٰ کے نزدیک یقینی ہے.وو ان دونوں پہلوؤں سے جب ہم موازنہ کرتے ہیں ان کارروائیوں کا ، جو خدا کے نام پر منعقد کرنے والے عظیم انٹرنیشنل اجلاسات میں کی گئیں تو بات کھل کر سامنے آجاتی ہے.اللہ اورمحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے نام پر جوانٹرنیشنل کانفرنس پاکستان سے اور بعض دیگر ممالک سے آنے والے علماء نے کی، اس کی رپورٹ میں نے کل ہی مطالعہ کی ہے.اول سے آخر تک نہایت گندے مغلظات ہیں.ان کی ریکارڈنگ بھی ہمارے پاس موجود ہے.اننا گند بولا گیا ہے کہ وہ لاہور یا بعض دوسرے شہروں کے گندے علاقے ، جن کی بدزبانی مشہور ہے، وہ بھی شاید اس کلام کو سن کر شرما جائیں، جو خدا اور رسول کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے منبروں پر چڑھ کے بولا گیا ہے.اور ر پورٹ یہ ہے اور اس رپورٹ کی تصدیق اس ریکارڈنگ سے ہوتی ہے، جو ہمارے پاس موجود ہے کہ جتنی گندی گالیاں دینے والا مولوی آیا، اتنی ہی زیادہ اس کی واہ واہ ہوئی ، اتنے ہی زیادہ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے.یعنی گندی گالیوں کے نام پر اللہ کی تکبیر بلند ہو رہی ہے.خبیثانہ الزامات کے نتیجہ میں خدا یاد آرہا ہے.395

Page 405

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اگست 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ہر تقریر کا آخری مدعا یہ تھا کہ ہر احمدی کو ہم ہلاک کر دیں گے.اور لیڈر سے لے کے نام لے کر چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو ایک ایک کو ہم خاک میں ملادیں گے.یہ ہمارا ادعا ہے اور یہی ہمیں اسلام سکھاتا ہے.پنے جلسہ کی طرف آئیں تو آپ کو یاد ہے، اس کی تاثیرات ابھی تک آپ کے دلوں میں رس گھول رہی ہیں.کس طرح اللہ کے ذکر بلند ہوئے ، کس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے گیت گائے گئے ، آپ کے پیار اور محبت کی باتیں ہوئیں، کس طرح قرآن اور اسلام کے عشق میں جماعت احمد یہ جو خدمتیں سرانجام دے رہی ہے، ان کے ذکر چلے.عجیب بادۂ عرفان تھی ، جوان تین دنوں میں بٹتی رہی.اور جماعت احمدیہ کے وہ ممبران، جو دور دراز سے وہاں شامل ہونے کے لئے آئے ، ہر ایک نے یہ محسوس کیا کہ اس سے بہتر نہ اس کے پیسے کی قیمت مل سکتی تھی ، نہ اس کے وقت کی قیمت مل سکتی تھی.اور پروگرام یہ بیان ہوئے کہ ہم ساری دنیا کو زندگی بخشنے کے لئے آئے ہیں.ساری دنیا کو حیات نو عطا کرنا ، ہمارے مقاصد میں سے اولین مقصد ہے.اور اسی پروگرام کو لے کر ہم دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے اور دنیا کے کونے کونے میں مردہ قوموں کو اسلام کے حیات بخش جام پلا پلا کے زندہ کریں گے.یہ ہمارے پروگرام کا خلاصہ تھا“.صرف ایک بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ ان تمام آیات کا مرکزی نقطہ عمل صالح ہے.اگر ہم اپنے عمل صالح میں ترقی کریں گے، اپنے اعمال کو بہتر سے بہتر بناتے چلے جائیں گے تو یہ سارے وعدے ہمارے حق میں پورے ہوں گے.اور ہمارے پاس یقین دہانی کی وجہ ہوگی کہ ہاں ہم ہی وہ جماعت ہیں، وو جس کا بڑے پیار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے زمرہ میں ذکر کیا گیا ہے.اس پہلو سے جو سال نو کے پروگرام ہیں، وہ تو بہت تفصیلی ہیں.اور انشاء اللہ جماعت کو وقتاً فوقتاً دیئے بھی جاتے رہیں گے.اور پہلے بھی بہت سے حصے کھول کر بیان ہو چکے ہیں.جس قسم کے کام ہم پچھلے سال کرتے رہے ہیں، اسی قسم کے کام ہم نے اب بھی کرنے ہیں.پہلے سے زیادہ شدت سے کرنے ہیں، پہلے سے زیادہ اخلاص اور محبت سے کرتے ہیں، پہلے سے زیادہ ذمہ داری کے احساس سے کرنے ہیں، پہلے سے زیادہ دعائیں کرتے ہوئے ، وہ کام کرنے ہیں.ان میں تین چار ایسے بنیادی کام ہیں، جن کی طرف میں آپ کو آج توجہ دلا دیتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ نیک اعمال میں سب سے زیادہ زور ہم ان باتوں پر اس سال دیں گے.396

Page 406

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اگست 1986ء اول: اشاعت قرآن کریم.کیونکہ اشاعت قرآن کریم میں عالم اسلام، عالم عیسائیت سے بہت ہی پیچھے رہ گیا ہے.اور جب بھی نظر پڑتی ہے، اس موازنہ پر تو شرم سے دل کٹنے لگتا ہے.کروڑہا کروڑ مسلمان موجود ہو اور خدا تعالیٰ نے دولت کی ریل پیل کر دی ہو، بعض ممالک میں اور قرآن کریم کی اشاعت سے غافل ہوں تو قرآن کریم کی اشاعت کا کام بھی ہم نے سنبھالنا ہے.مساجد کو ایسے ملکوں میں بنانا، جہاں پہلے اس سے خدا تعالیٰ کی توحید کے گیت نہیں گائے جاتے رہے، جہاں پہلے اذانیں بلند نہیں ہوئیں.تو دراصل یہ ان کے منفی کردار کا ایک مثبت جواب ہے، جو خدا تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے.قرآن کریم کی اشاعت پر وہ جتنی پابندیاں لگا رہے ہیں، خود نہ کرنے کے باوجود دوسروں کو بھی روک رہے ہیں، اس کا ایک ہی جواب ہے جماعت احمدیہ کے پاس کہ پہلے سے کئی گنا زیادہ مضبوط ارادوں اور مخلصانہ اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اور تمام تر ایثار اور قربانی کے ساتھ اشاعت قرآن کریم کی طرف توجہ دیں.اور پچھلے سال جو خدمت کی توفیق ملی ہے، اس سے زیادہ اس سال خدمت کرنے کا عزم لے کر اس سال کو شروع کریں.اور مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر خدمت کی توفیق ملے گی.دوسرا: مساجد کے متعلق بھی ایک ایسا پروگرام ہے، جو جماعت کا ہمیشہ سے جاری ہے.لیکن اس پروگرام میں ان کے منفی رویہ کو بھی ایک دخل ہے.انہوں نے مساجد پر حملہ کرنا شروع کیا ہے.قرآن کے بعد مساجد پر حملہ ہے.ہر اسلام کی بنیاد پر حملہ ہے.اس لئے اس کے مقابل پر ہم مساجد کو انشاء اللہ تعالیٰ مزید وسعتیں دیں گے.گزشتہ سال بھی مساجد کی توسیع اور مساجد کی تعمیر کا سال تھا.یہ سال بھی انشاء اللہ تعالیٰ اس پہلو سے اس کام کو آگے بڑھانے کا سال ہوگا.اور مساجد کے ساتھ مشنز ہیں.بعض خدا کے فضل سے بہت عظیم الشان مشنز خدا تعالیٰ نے پچھلے سال بنانے کی توفیق عطا فرمائی.امسال بھی خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا تو ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ بالکل نئے ممالک میں جہاں پہلے مشن اور مساجد قائم نہیں تھیں ، وہاں انشاء اللہ تعالیٰ مشن اور مساجد کی تعمیر کی کوشش کی جائے گی.تیسرا: دعوت الی اللہ ہے.اس میں ابھی تک ہم خواہش کے مطابق داعمیین الی اللہ پیدا نہیں کر سکے.تو یہ سال اس پہلو سے دعوت الی اللہ پر زور دینے کا سال ہونا چاہئے.اور چوتھا: جو نیا پروگرام ہے.یہ تین پروگرام پہلے سے چل رہے ہیں، چوتھا جو نیا پروگرام ہے، وہ ہے تو بہت ہی پرانا لیکن وہ عام طریق پر جاری ہے.غیر معمولی شدت اور قوت کے ساتھ اسے ہم نے گزشتہ سال میں اپنا یا نہیں.وہ ہے سیرت کے جلسوں کو فروغ دینا.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہی سے دنیا نے نجات پانی ہے.اگر صرف قرآن کریم کا پیغام ہم دیں اور ساتھ سیرت کا نمونہ پیش نہ 397

Page 407

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 08 اگست 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کریں تو وہ پیغام نامکمل ہوگا، آدھا ہو گا.ہے تو مکمل لیکن انسان زندہ انسانوں کے ساتھ رابطے میں آکر ایک پہلو سے وہ آدھا نظر آتا ہے.وہ پیغام ، جو مکمل ہو اور اسے مکمل طور پر عمل کے سانچے میں ڈھالنے والے وجود نہ ہوں، اس پہلو سے وہ آدھا رہ جاتا ہے کہ پروگرام تو بہت اچھا ہے لیکن واقعہ انسانوں کی زندگی پر اثر انداز ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں ؟ واقعہ انسان اس قابل ہیں بھی کہ نہیں کہ اس کے متحمل ہو سکیں ؟ اس پروگرام کو اپنے اعمال میں جاری کریں، اپنی سیرت میں ڈھالیں، یہ ممکن ہے کہ نہیں ؟ اس کے لئے ایک عملی نمونہ کی ضرورت ہے.اور قرآن کریم نے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں وہ نمونہ ہمارے سامنے پیش کر دیا.سیرت کے جلسوں پر اس سال غیر معمولی زور دینا ہے اور قرآن کریم کی اشاعت کے ساتھ یہ مضمون ایسا ایک ازلی ابدی رابطہ رکھتا ہے کہ پوری طرح بات مکمل ہو جائے گی." قرآن کریم کی اشاعت کلام طیب کی اشاعت ہے.اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مضمون کو شہرت دینا اور دنیا میں پھیلانا، اس عمل صالح ہی کی ایک تصویر کھینچتا ہے.جس سے کلام طیب میں جان پڑ جاتی ہے.ایک فرض حقیقت کے روپ میں آجاتا ہے، ایک تصور حقیقت کے روپ میں آجاتا ہے.یہ وہ کام ہے، جو ہم نے اس سال غیر معمولی طور پر کرنا ہے.اور اس سلسلہ میں ہمارے دوسرے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے.جب ہم سیرت پر زور دیں گے تو جہاں جہاں احمدی سیرت کے مضمون تیار کریں گے یا سیرت کے مضمون سنیں گے، خود بخود طبعی طور پر ان کے نفس اپنے حالات سے اس سیرت کا موازنہ بھی کرتے رہیں گے.اس لئے تربیت کا اس سے بہتر اور کوئی پروگرام جماعت کے لئے ممکن نہیں ہے.اور اس کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار محبت کے جوش اٹھنے کے نتیجہ میں جب سیرت کا مضمون سنتے ہیں تو محبت تو ہر جگہ ہوتی ہے، اس میں ایک نیا ہیجان پیدا ہو جاتا ہے.بعض اوقات تو ایسی ایسی بڑی لہریں اٹھتی ہیں کہ جو سارے وجود کو ڈھانپ لیتی ہیں.اس وقت جو درود آپ کے منہ سے نکلیں گے، اس کے نتیجہ میں اللہ اور اس کے فرشتے جو درود بھیجیں گے، ساری جماعت پر ان کی غیر معمولی برکتیں ہمیں نصیب ہوں گی.اس لئے قرآن کریم کی اشاعت کے ساتھ میں نے غور کے بعد اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق یہ فیصلہ کیا ہے کہ سیرت کے مضمون کو باندھ کر ساری دنیا میں اس کو پھیلایا جائے“.وو.پس میں آپ کو اس نیک پروگرام کی طرف بلاتے ہوئے دوبارہ اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ آپ اسلام کا زندگی بخش پیغام لے کر دنیا میں نکلنے والے ہیں، آپ اسلام کی مئے عرفان بانٹنے والے ہیں، آپ مردہ دلوں کو ایک حیات نو بخشنے والے ہیں، آپ مردہ زمینوں کو دوبارہ زندہ کرنے والے ہیں.398

Page 408

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اگست 1986ء اس لئے کہ آپ وہ بادل ہیں، جو آج دنیا میں مردہ زمینوں کو زندہ کرنے کے لئے خدا کی پاک ہواؤں نے چلائے ہیں.بادلوں کی طرح رحمت بن کر دنیا پہ برستے رہیں اور اس رحمت کا اس سے بہتر کوئی تعارف نہیں ہو سکتا کہ قرآن ایک ہاتھ میں ہو اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ، آپ کی جان ، آپ کی زندگی، آپ کے وجود کے انگ انگ میں گھلی ہوئی ہو.اور اس طرح عمل صالح کے ساتھ اپنے نیک پیغام کو اور نیک کلام کو رفعتیں عطا کرتے رہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو ، آمین.وو خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.سیرت کے مضمون کے سلسلہ میں ایک بات کہنی بھول گیا تھا، اب مجھے یاد آئی کہ ہم نے مغربی مفکرین کے اعتراضات مرتب کر لئے ہیں.یہ کام جاری ہے اور بھی ہوتے رہیں گے.اور خیال یہ ہے کہ ان سیرت کے جلسوں میں جہاں تک مغربی دنیا کا تعلق ہے، ان اعتراضات کو بھی پیش نظر رکھ کر ان کے اچھے جواب تیار ہونے چاہیں.اور ہر ملک میں الگ الگ کوشش ہوتی رہے.مثلاً فرانس کی جماعت خصوصاً فرانس کے مستشرقین کے گندے اعتراضات کو پیش نظر رکھ کر وہاں ان کے جواب دے، سیرت کے جلسوں میں.اور انگلستان کی جماعت انگریز مستشرقین کے سوالات کو یا اعتراضات کو پیش نظر رکھے خصوصیت کے ساتھ.اسی طرح جرمن ہیں، ڈچ ہیں، امریکن ہیں، جتنے مستشرقین ہیں، کہیں انہوں نے کھلی کھلی خباثت کا اظہار کیا ہے، کہیں دبی دبی خباثت کا اظہار کیا ہے، کبھی کبھی میٹھے میں کڑواہٹ لپیٹ کر پیش کی ہوئی ہے تو جہاں تک ہمارے پاس یہ اعتراض مرتب ہو چکے ہیں، ان کو چھپوا کے یا فوٹوسٹیٹ نکلوا کر بڑی بڑی جماعتوں میں تقسیم کرا دیئے جائیں گے.تاکہ مختلف اہل علم کے سپرد کر کے سال بھر کے پروگرام میں ضروری نہیں کہ اکٹھا ایک ہی دفعہ ہو.مختلف جتنے بھی جلسے ہوں گے، ان میں کوئی نہ کوئی اعتراض لے کر ان کا مؤثر جواب ہو.اور جو جواب تیار کیا جائے ، وہ پہلے ایک مرکزی کمیٹی کو دکھالیا جائے.جو مبلغ یا مربی کے زیر نگرانی ہوگی یا امیر جماعت کی زیر نگرانی ہوگی.اور وہ اپنے دوسرے ماہرین کی کمیٹی میں ان کو دیکھیں اور اس میں مزید اصلاح کریں، خامیوں کو دور کریں اور پھر وہ تقریر یا پڑھی جائے یا زبانی کی جائے، جیسی بھی صورت ہو.اور باقی جگہ دنیا میں اگر کوئی ایسے اعتراض یا غلط فہمیاں ہیں ، حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے متعلق، جو زیادہ تر مقامی حالات سے تعلق رکھتی ہیں تو ان کا ذکر ضروری ہے اور ان کا موثر جواب ضروری ہے.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 539 550) 399

Page 409

Page 410

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 اگست 1986ء ہم نے لازماً غالب آتا ہے، ایک ملک میں نہیں ، ہر ملک میں غالب آتا ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اگست 1986ء....ان سب حالات کو دیکھ کر ایک احمدی کا دل دکھتا ہے، اس سے جو دعائیں نکلتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس کا ثمرہ بھی پارہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہورہے ہیں اور جماعت ہر روز ترقی کر رہی ہے، ہر رات ترقی کر رہی ہے.ایک لمحہ بھی جماعت کا ایسا نہیں آتا، جس میں جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل نازل نہ ہوئے ہوں.اور جتنے فضل نازل ہوتے ہیں، اتنی ہی زیادہ وہاں تکلیف بڑھتی چلی جارہی ہے.پہلے بھی ایسے دور گزرے ہیں بھیانک.گوشدت میں اس سے کم تھے مگر بہر حال گزرتے رہے.اور پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ ان خوفناک بادلوں سے جو خون برسانے والے تھے، بالآخر رحمت کے قطرے برسنے لگے.اور پھر وہ موسلا دھار رحمت کی بارشوں میں تبدیل ہو گئے.یہ بادل، جو بھیا تک اٹھے ہیں، یہ جو خون برسارہے ہیں آپ کے اوپر لیکن خدا کی قسم ! آپ کا صبر ان پر غالب آئے گا اور آپ کی آہیں ان بادلوں کی صفات کو تبدیل کر کے رکھ دیں گی.یہ خون برسانے والے بادل ایک دن آپ دیکھیں گے کہ رحمتیں برسانے والے بادلوں میں تبدیل ہو جائیں گے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی برکت سے، جسے ہم اختیار کر رہے ہیں اور آئندہ بھی اختیار کرتے رہیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ ساری مصیبتیں آسانیوں اور آسائشوں میں تبدیل ہو جائیں گی، سارے دکھ تسکین جان اور طمانیت قلب میں بدل جائیں گے اور بالآخر احمد بیت لازما غالب آئے گی.اس میں ایک لمحہ کے لئے بھی شک نہ کریں ہے.یہ وہ جماعت نہیں ہے، جو مٹنے کے لئے بنائی جاتی ہے.یہ جماعت وہ نہیں ہے، جس کی سرشت میں کسی قسم کی ناکامی کا خمیر ہو.ہم نے لازماً غالب آتا ہے.ایک ملک میں نہیں، ہر ملک میں غالب آتا ہے.اس سرزمین میں بھی غالب آتا ہے، جس میں ہم آج بیٹھے ہوئے ہیں اور ہماری کوئی بھی بظاہر حیثیت نہیں ہے.اس لئے آپ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ہیں.ایک لمحہ کے لئے بھی ، ایک لمحہ کے ہزارویں حصہ کے لئے بھی کسی قسم کا خوف اپنے دل میں نہ آنے دیں کسی قسم کی مایوسی کو اپنے اوپر قابض نہ ہونے دیں.سابقہ تاریخ پر نظر کریں، 401

Page 411

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 اگست 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ یہ تاریخ دہرائی گئی ہے.پھر کیا وہم ہے، جو آپ کے دل میں خوف پیدا کر سکتا ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ یہ تاریخ دہرائی گئی اور ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ خدا والے ہمیشہ غالب آتے رہے ہیں اور خدا کے منکرین اور خدائی طاقتوں کا مقابلہ کرنے والے ہمیشہ خائب و خاسر اور نامراد ہوتے رہے ہیں.پس آپ کے مقدر میں فتح و ظفر لکھی جاچکی ہے.ہر دفعہ یہ فتح وظفر آسمان پر خدا کے پاک انبیاء اور ان کی جماعتوں کے لئے لکھی گئی ہے.آج آپ کے لئے لکھی جارہی ہے.اور آپ کے مخالفین کے لئے مقدر میں وہی کچھ لکھا گیا ہے، جو ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ خدا کے پاک انبیاء کے مخالفوں کی قسمت میں، بدقسمتی ان کی کہ لکھا گیا.نہیں ان کے لئے دعا کریں اور ان کے لئے رحم کریں اور استغفار سے کام لیں.اور کوشش یہ کریں کہ خدا کے عذاب کے فرشتوں سے پہلے آپ کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رحمت کے فرشتے بھیج دے اور اس قوم کی تقدیر کو بدل دے.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 573 583) 402

Page 412

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ غانا پوری طاقت کے ساتھ دعوت الی اللہ کے جہاد میں مصروف ہو جائیں پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ غانا منعقدہ 6, 5 ستمبر 1986ء پیارے خدام! الله الرحمان الرحيم السلام عليكم ورحمته الله وبركاته مجھے یہ جان کر بہت مسرت ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ غانا اپنی نویں سالانہ ریلی 5, 6 ستمبر 1986ء کومنعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس ریلی کو بہت بابرکت فرمائے اور خدام الاحمدیہ کی مزید ترقی کے لئے اسے سنگ میل ثابت فرمائے.اور اس ریلی پر اپنے افضال نازل فرماتے ہوئے تمام شامل ہونے والوں کو اس سے غیر معمولی طور پر استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.جماعت احمدیہ کا قیام ساری دنیا کو خالق و مالک حقیقی کی طرف بلانے کے لئے عمل میں آیا ہے.لہذا میر ا پیغام آپ کے لئے یہ ہے کہ پوری طرح مستعد ہو کر اور پوری طاقت کے ساتھ دعوت الی اللہ کے جہاد میں مصروف ہو جائیں اور اس شاہراہ پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھیں اور ہر وقت متحرک رہیں.ہمیشہ یا درکھیں کہ آپ کو روحانی انقلاب برپا کرنے کے لئے تخلیق کیا گیا ہے.اگر آپ سب اپنی تمام طاقت کے ساتھ دعوت الی اللہ کے جہاد میں مصروف ہو جائیں تو یقینا لوگ کثرت کے ساتھ جماعت میں شامل ہونے لگ جائیں گے.اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کریں کہ آپ کو ساری دنیا کے لئے نمونہ بنایا گیا ہے، آپ کو دین حق کے اعلیٰ معیار کو قائم کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس امر میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ دور حاضر میں یہ دین سب دینوں سے اعلیٰ و برتر ہے اور اس میں غالب آنے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں.آپ کو چاہئے کہ کامل سنجیدگی ، جرات، استقلال اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے اس مقصد کی تکمیل کے لئے مصروف عمل ہو جائیں.اپنا تمام تر بھروسہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر رکھیں اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں.اور اپنی کوششوں کا تجزیہ بھی کرتے رہیں.دعا ہر مشکل کی کنجی ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو ، جو 403

Page 413

پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمد سید فانا تحریک جدید - ایک الہی تحریک تمام دنیا کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، خواہ وہ یورپ میں ہوں یا ایشیایا افریقہ میں ، ان سب کو، جو نیک فطرت رکھتے ہیں، تو حید کی طرف کھینچے.اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کو دین واحد پر جمع کیا جائے.اس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اپنے اعلیٰ اخلاق اور درد بھری دعاؤں کے ساتھ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.ہر ایک ، جو اس مقصد کے لئے کوشش کرے گا، برکت دیا جائے گا.میں ہمیشہ آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ کی طرف سے دعوت الی اللہ کے خوشکن نتائج کی خوشخبری سننے کا خواہاں ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو آگے بڑھنے کے لئے طاقت اور جرات عطا فرمائے.اس ماٹو ( نصب امین) کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ آگے بڑھو، آگے بڑھو، آگے بڑھو کہ تمہاری منزل مقصود آسمانوں کی انتہائی بلندیاں ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو ہر دو جہانوں میں کامیاب و کامران فرمائے.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد (خليفة المسيح الرابع) ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 07 نومبر 1986) 404

Page 414

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 20 ستمبر 1986ء کینیڈا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد خطاب فرمودہ 20 ستمبر 1986ء حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے کینیڈا کے شہر محس ساگا میں جماعت احمدیہ کی پہلی بيست السجود کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیا درکھ کر تعمیر کے مرحلہ کا آغاز فرمایا.سنگ بنیاد وو ، رکھے جانے سے قبل حضور نے پر زور الفاظ میں یہ اعلان فرمایا کہ جماعت احمد یہ جہاں بھی اپنی بیست السجود تعمیر کرے گی ، وہ قرآن حکیم میں بیان فرمودہ مقاصد کے لئے تعمیر کرے گی.اور یہ مقاصد وہی ہیں، جن کی خاطر دنیا میں سب سے پہلا اللہ کا گھر تعمیر کیا گیا تھا.جہاں تک ہم میں طاقت ہے، ہم اللہ کی قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں کہ یہ بیت السجود بھی انہی مقاصد کے لئے استعمال کی جائے گی.اس مبارک تقریب کے موقع پر حضور رحمہ اللہ نے جو خطاب فرمایا، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.حضور نے خطاب کے آغاز میں سورۃ آل عمران کی آیت 97 کی تلاوت فرمائی اور اس آیت کی رو سے اللہ کے گھر کے مقاصد اور اغراض بیان فرمائے.اور بتایا کہ دنیا میں جو خدا کا سب سے پہلا گھر تعمیر کیا گیا تھا، وہ بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے تعمیر کیا گیا تھا.اور اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، کینیڈا میں جماعت احمدیہ کی پہلی بیت السجود “ کا آج سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے.حضور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا بے انتہا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں اس بیت السجود کی تعمیر کی تو فیق عطا فرمائی.انشاء اللہ العزیزیہ بیت السجود ایک تاریخی اہمیت کی حامل ہوگی.اس کے بعد حضور نے احمدیت کے بارے میں بعض شکوک و شبہات کا ازالہ فرمایا اور بتایا کہ موجودہ زمانے میں عبادت گاہیں اپنے تقدس اور اصل مقاصد سے ہٹ کر سیاست کا اڈا بن چکی ہیں.تخریبی کارروائیوں اور دہشت گردی کا مرکز بن چکی ہیں اور خون خرابے پر اکساتی ہیں.لیکن 66 405

Page 415

خلاصہ خطاب فرمودہ 20 ستمبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے، یہ جماعت جہاں بھی عبادت گاہ تعمیر کرے گی ، وہ قرآن کریم کے بیان فرمودہ مقاصد کے مطابق تعمیر کرے گی.نفرت اور تشدد پھیلانے یاد ہشت گردی پھیلانے کے لئے تعمیر نہیں کرے گی.کیونکہ جماعت احمد یہ ایک امن پسند جماعت ہے.حضور نے مزید فرمایا:.68 " آج کل ہمیں نفرتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس بناء پر ہمارے دل دکھوں اور تکلیفوں کے ستائے ہوئے ہیں.اس امر کے باوجود کہ دین حق قطعاً نفرت نہیں سکھاتا بلکہ دین حق تو پہلے بنی نوع انسان سے محبت اور پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا سکھاتا ہے، پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مذہب کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا.حالانکہ وہ خود ظلم پیدا کرنے والا نہ تھا“.حضور نے فرمایا کہ دو اللہ تعالیٰ کی منشاء ہی یہی ہے کہ اس کے ماننے والے، نہ ماننے والوں کے غضب کا نشانہ بنیں.تا یہ تکالیف اور مصائب ان کے تزکیہ کا موجب بنیں.حضور نے تقریب میں موجود میئر صاحبان کو مخاطب کر کے یہ یقین دلایا کہ آج تو ہم یہ آغاز کر رہے ہیں.انشاء اللہ ہم ان کے دوسرے شہروں میں بھی خدا کے گھر تعمیر کریں گے.حضور نے محترمہ لائیلا ( نمائندہ وزیر) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ” ہمارے بھی نیک اور محبت بھرے جذبات وزیر موصوف تک پہنچا دیئے جائیں.آخر پر حضور نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک دوسرے کے قریب کرے.آمین.406 (مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ خالد اکتوبر 1986 ء و ہفت روزہ النصر 17 اکتوبر 1986 ء )

Page 416

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 103 کتوبر 1986ء خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی اولیاء اللہ بنانے کی کوشش کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 03اکتوبر 1986ء ان تین آیات میں مغربی تہذیب کے محرکات اور جن عوامل پر وہ تہذیب بنائی گئی ہے، ان کا ذکر کیا گیا ہے.اور چونکہ اس وقت یہ تہذیب بڑی شدت کے ساتھ اپنی آخری منزل کی طرف بڑھ رہی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ بروقت ان قوموں کو، جن کی ہلاکت کا وقت بہت دور نہیں رہا، جماعت احمدیہ کی طرف سے بار بار متنبہ کیا جاتا رہے.اور احمدی اپنے گرد و پیش، اپنے ماحول میں ان کو متنبہ کرتے رہیں اور متنبہ رکھیں کہ تمہاری تہذیب قرآن کریم کے بیان کے مطابق آخر مٹنے کے قریب آچکی ہے.اور وہ آگ، جو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے بھڑکائی ہے، اس آگ میں تمہارے جلنے کے دن قریب آرہے ہیں.لیکن جو تنبیہ کرنے والا ہوتا ہے، اس میں خود وہ محرکات نہیں پائے جانے چاہئیں، جن کے نتیجہ میں تنبیہ کرنے والے کے خیال میں ایک بات کا انجام بد ہونے والا ہے یا کوئی چیز اپنے بدنتیجہ تک پہنچنے والی ہے.اس لئے مغربی تہذیب کے وہ کون سے عوامل ہیں، وہ کون سے محرکات ہیں، جن کے نتیجہ میں یہ تو میں ہلاکت کا منہ دیکھنے والی ہیں اور ان کے لئے مقدر ہو چکا ہے، ان عوامل اور محرکات سے ہر احمدی کو واقفیت ہونی چاہئے.اور جب تک ان سے واقفیت نہ ہو، نہ خود بچ سکتا ہے اور نہ وہ کسی اور کو بچانے کا اہل ہوسکتا ہے." اس لئے جماعت احمدیہ کے لئے ضروری ہے کہ اگر آپ نے باقی دنیا کو یعنی مغرب کو ان کی ہلاکتوں سے بچانا ہے تو پہلے اپنے اندر اولیاء اللہ والی خود اعتمادی تو پیدا کریں.جب تک آپ خدا کے ساتھ محبت اور ولایت کا تعلق پیدا نہیں کرتے ، نہ آپ اس دنیا کے اثر سے بچ سکتے ہیں اور نہ اس دنیا کوکسی بداثر سے بچا سکتے ہیں.اور ولایت کا تعلق پیدا کرنا، سب سے آسان کام ہے.میں نے جب اس مضمون پر غور کیا تو بہت سی باتیں میرے ذہن میں آتی رہیں، آپ کو سمجھانے کے لئے.ایک یہ تھا کہ کسی طرح مغربی تہذیب سے بچنے کی کوششیں کرنی ہیں.کیا کچھ آپ نے اپنے بچوں کو بتانا ہے؟ کن کن چیزوں سے احتراز کرنا ہے؟ کیا کیا اور کام کرتے ہیں؟ اتنی لمبی فہرست بن گئی اور بنتی چلی گئی کہ میں نے سوچا کہ ایک خطبہ تو کیا کئی 407

Page 417

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خطبوں میں بھی پوری نہیں ہوسکتی، یہ بات.تب قرآن کریم کی اس آیت کی طرف میری نظر گئی اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے میرے سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے دے دیا ہے.ایک ہی بات میں آپ کو بتا دوں اور اس کے اندر ساری باتیں آجائیں گی.اور وہ بات یہ ہے کہ خود بھی اولیاء اللہ بنے کی کوشش کریں اور اپنے بچوں کو بھی اولیاء اللہ بنانے کی کوشش کریں.اور یہ کام جتنا بڑا ہے، اتنا ہی آسان بھی ہے.کیونکہ سب سے آسان راستہ محبت کا راستہ ہے.ہر دوسرارا ، مشکل راہ ہے.اس کے ں کتے کو اگر کوئی سمجھ جائے تو اس کی ساری زندگی کے مسائل حل ہو جاتے ہیں.کتنا بڑے سے بڑا کٹھن مقام ہو، عاشق کے لئے وہ آسان ہو جاتا ہے.کیونکہ اس کو ایک مقصد سے یا ایک وجود سے پیار ہوتا ہے.اور اس کے لئے جتنی بھی تکلیف اٹھاتا ہے، اس میں لذت پانے لگ جاتا ہے.اس لئے انبیاء کی اتنی مشکل زندگیاں کہ دور سے دیکھنے کے باوجود ہزاروں سال دور بیٹھے ہوئے ، ان کی زندگیوں کا تصور کریں تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری باتیں، جو ہمیں یہاں نہایت ہی درد ناک دکھائی دیتی ہیں، ان کے لئے لذت کا موجب تھیں.کیونکہ محبت کے نتیجہ میں تھیں تصنع کے نتیجہ میں نہیں تھیں، بناوٹ کے نتیجہ میں نہیں تھیں، زبردستی ذہن کے حل کئے ہوئے مسائل کے نتیجہ میں نہیں تھیں، بلکہ یہ دل کا مسئلہ تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے سب سے بنیادی نکتہ یہاں بیان فرما دیا.ورنہ دنیا میں رہ کر خدا کا بننا بہت مشکل کام ہے، ورنہ لازما دنیا غالب آجاتی ہے.فرمایا: تم اپنے رب سے دوستی کا تعلق بناؤ، اس سے پیار کا تعلق قائم کرو، روزمرہ کی زندگی میں اس سے باتیں کیا کرو اور اس کی طرف دیکھا کرو.ایک خوبصورت چیز دیکھو تو پہلے اللہ یاد آیا کرے، بعد میں دوسری چیزوں کا خیال آئے“.وو دل چاہتا ہے لینے کو تو اللہ سے کہہ سکتے ہیں، اے خدا! میں تو تیرا ہوں، اس لئے بظاہر تو میرے پاس کچھ نہیں ہے.اگر میرے دل کی یہ تمنا پوری کرنی ہے تو یہ کار مجھے دے دے.مکانوں کے متعلق، دنیا کی چیزوں کے متعلق، ایک یہ زندگی کا رحجان ہو سکتا ہے اور یہ رجحان ہے، جو دراصل ولایت کا رحجان ہے.اور اس رحجان میں کچھ بھی مشکل نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ایک جوتی کا تسمہ کی بھی ضرورت پڑے تو خدا سے مانگو.پہلی توجہ انسان کی ضرورت کے وقت دوست کی طرف ہوا کرتی ہے.اس لئے ولایت سیکھنے کے لئے سب سے پہلے اپنی ضرورتوں سے بات شروع کریں.اور واقعہ ہر ضرورت کے وقت خدا کو یاد کرنا شروع کر دیں.یہ ولایت کا پہلا قدم ہے.408

Page 418

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اکتوبر 1986ء دوسرا قدم یہ ہو گا، جب آپ خدا سے مانگنا شروع کریں گے، ہر وقت خدا کی طرف دیکھیں گے تو کسی دن یہ بھی دل میں خلش پیدا ہوگی کہ اللہ کی بھی تو ضرورتیں ہیں، اس کے دین کی بھی تو ضرورتیں ہیں اور قدم قدم پر یہ ضرورتیں پیدا ہورہی ہیں، میں نے تو کبھی ضرورت پوری نہیں کی.پھر میں کیسا دوست ہو گیا ؟ یک طرفہ دوستی تو کوئی چیز نہیں ہے.یک طرفہ تو غلامی کا معاملہ ہوا کرتا ہے، نوکری کا معاملہ ہوتا ہے.نعوذ باللہ خدا کسی کا غلام تو نہیں ہے کہ وہ یک طرفہ چیزیں پوری کرتا چلا جائے.تو اس رستے پر چلنے کے نتیجہ میں ، جو ولایت کا رستہ ہے، یہ رستہ خود اپنے آپ کو مکمل کرتا چلا جاتا ہے،خود آپ کے قدم درست کرتا چلا جاتا ہے.اس لئے سب سے آسان ایک بات جو میں آپ کو کہہ سکتا ہوں اور آپ کے لئے اور آپ کی نسلوں کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور پیار کا تعلق قائم کریں اور اس کے لئے محنت کریں.کوشش کر کے باریک بینی کے ساتھ اس رستے پر قدم اٹھانے کی کوشش کریں.جب تک آپ کے دل میں محبت الہی لہریں بن کر دوڑنے نہ لگ جائے ، اس وقت تک محض خشک تعلق کے خیال کو پیار قرار نہ دیں.بڑا آسان رستہ ہے اور لذت والا رستہ ہے.اس کی پہچان بھی کوئی مشکل نہیں.جوں جوں یہ پیار بڑھے گا، آپ کے اعمال کے اوپر اس پیار کا اثر نمایاں ہوتا چلا جائے گا.کسی بیرونی نصیحت کرنے والے کے محتاج آپ نہیں رہیں گے.کسی خشک مولوی کی نصیحت کے آپ محتاج نہیں رہیں گے.پیار تو خود سکھاتا وو ہے، رستے.ان راہوں میں قدم اٹھانے کی تلقین بھی خود کرتا ہے اور جنون کا لباس پہنا دیتا ہے.سب سے زیادہ انسانی زندگی میں کار فر ماقوت ، محبت کی قوت ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے اولیاء اللہ کہہ کے ہمیں ہمارے راستے کو آسان فرما دیا.فرمایا کہ تم اگر میری ولایت اختیار نہیں کرو گے تو تم پر ہر وقت کچھ خوف غالب رہیں گے اور ہر وقت کسی نہ کسی غم میں مبتلا ر ہو گے.جو دنیا کے خوف بھی ہوں گے اور آخرت کے خوف بھی ہوں گے.دنیا کے غم بھی ہوں گے اور آخرت کے غم بھی ہوں گے.اس لئے زندگی کو آسان کرنے کے لئے اور دونوں جہانوں کی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے، میں تمہیں ولایت کی طرف بلاتا ہوں، اللہ کے پیار کی طرف بلاتا ہوں، اگر خدا کا پیار اختیار کرلو، یعنی خدا فرماتا ہے: میرے ولی بن جاؤ تو پھر یہ سارے رستے دونوں جہاں تمہارے ہیں.جس طرح ہم دنیا میں کہتے ہیں، دونوں جہاں تمہارے ہیں.تو اس لحاظ سے جماعت احمدیہ کو یہی رستہ اختیار کرنا چاہئے ، ورنہ ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا.دنیا کے خوف بھی ہوں گے اور آخرت کے خوف بھی ہوں گے.اور یہ ایسی چیز ہے، جس کے لئے آپ کو بچپن سے کوشش کرنی چاہئے.اور اپنے بچوں کو سنبھالنے کے لئے سب سے زیادہ اس کی طرف 409

Page 419

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم توجہ کرنی چاہئے.آپ جو چاہیں ذرائع اختیار کر لیں، اس سے زیادہ قوی ذریعہ اور کوئی نہیں ہے.ایک چھوٹے سے بچے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیں اور اس سے زیادہ آسان ذریعہ اور کوئی نہیں ہے.ہر دوسری محنت آپ سے کئی گنا زیادہ وقت مانگے گی ، کئی گنا زیادہ توجہ اور استقلال مانگے گی.لیکن خدا کے متعلق چند پیار کی باتیں روزانہ بچوں سے کر دینا، وہ ایک ایسا نکتہ ہے، جس سے آپ بھی فائدہ اٹھائیں اور وہ بھی فائدہ اٹھائیں گے.جس طرح بعض دفعہ مائیں بچوں کو اچھی چیز کھلا رہی ہوتی ہیں تو اس میں سے ایک ایک چمچہ آپ بھی کھاتی جاتی ہے.اور وہ نظارہ آپ نے دیکھا ہوگا، بڑا مزا آتا ہے دیکھ کے کہ بچے کا چہرہ بھی لذت سے بھرا ہوتا ہے اور ماں کا چہرہ بھی لذت سے بھرا ہوتا ہے.اسی طرح خدا کی محبت لقمہ لقمہ ان کو کھلائیں ، یہ اس کے محتاج ہیں اور ایک ایک لقمہ آپ بھی ساتھ کھاتی رہا کریں.جب بچوں کی تربیت کریں گے تو پھر آپ کی بھی ساتھ تربیت ہوگی.جب خدا سے پیار ہو گیا تو پھر خدا کے نام پر قربانیاں مانگی جائیں، خدا کے نام پر آپ کو بلایا جائے ، تبلیغ کی تلقین کی جائے اور اس وقت آپ اس کو یا درکھ کر آگے بڑھ رہے ہوں گے.ہر قدم اٹھانے کی لذت آپ کو اس لئے آئے گی کہ آپ جانتے ہوں گے، میرا ایک دوست ہے، جو دیکھ رہا ہے.جب چندہ دیں گے تو ذہن میں کبھی یہ نہیں آئے گا کہ فلاں سیکریٹری مال کو دے رہا ہوں یا کسی اخبار میں چھپوانے کی خاطر دے رہا ہوں.بلکہ چندہ دیں گے تو دماغ میں ہوگا کہ اللہ ہے، ایک میرا، اس کی ضرورت پوری کر رہا ہوں میں ، اس کے دین کی.اور وہ دیکھ رہاہے تواس کو مزہ آرہا ہوگا.زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے.کام وہی ہیں، جو عام لوگ کرتے ہیں لیکن اس کا رخ بھی بدل جاتا ہے سارا قبلہ بدل جاتا ہے اور قبلہ درست ہو جاتا ہے.پس خدا کی محبت قبلہ درست کرتی ہے.یہ آپ کی ہر نیکی کا قبلہ درست کر دے گی.چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا بھی اور بڑی سے بڑی نیکی کا بھی.اور نیکیاں سب آسان ہو جائیں گی.اب بعض دوست ایسے ہیں، جن کو خدا توفیق بھی دیتا ہے لیکن چندہ دیتے ہوئے ان کو اتنی تکلیف ہوتی ہے.اس لئے کہ ان کا قبلہ درست نہیں ہوتا.اگر ایسے لوگ یہ سمجھتے کہ وہ اپنے بچوں کی ضرورت کے مقابل پر میں جماعت کی ضرورت پوری کر رہا ہوں اور بوجھل دل میں اس کے نتیجے میں محرومیاں پیدا ہوں گی.اگر محبت پیدا ہو جائے اور خدا کے ولی بن جائیں تو ذہن میں یہ ہوگا کہ سب کچھ میرے پیارے نے دیا ہوا ہے، اس کی ضرورت ہے، اس کے دین کی ضرورت ہے، میں جو کچھ بھی دوں گا، اس کے نتیجہ میں اس کا پیار مجھے ملے گا اور وہ مالی قربانی آسان بھی ہو جائے گی اور لذیذ بھی ہو جائے گی اور اس کی قوت بھی بڑھ جائے گی“.410

Page 420

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 اکتوبر 1986ء گر یہی ہے کہ آپ خدا کا ولی بننے کی کوشش کریں.پھر آپ کو کچی خوا میں بھی آئیں گی، پھر آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے مکاشفہ کا تعلق بھی پیدا ہوسکتا ہے، مکالمہ کا تعلق بھی پیدا ہوسکتا ہے.کیونکہ ولایت کے رستے پھر آسان سے آسان اور وسیع تر اور ہر قدم آسان ہو جاتا ہے.اس پہلو سے آپ اس سبق کو یا درکھیں گے تو پھر مجھے یقین ہے کہ یہ جوفکریں ہیں کہ یہاں کا معاشرہ نعوذ باللہ آپ پر غالب نہ آ جائے، یہ ساری فکریں میری انشاء اللہ ختم ہو جائیں گی.3 پس یہ بہت ہی پیارا، صاف اور سیدھا رستہ ہے اور محنت طلب نہیں ہے.بلکہ محنت کی طاقتیں بھی خود بخشتا ہے، خود آگے بڑھتا ہے.جوں جوں رفتار بڑھاتا ہے، اسی رفتار کے ساتھ سفر کو آسان سے آسان تر کرتا چلا جاتا ہے اور لذیذ تر کرتا چلا جاتا ہے.پس ہمیشہ کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ سے سچا اور دائمی پیار پیدا ہو جائے اور بچوں کے دل میں بھی، آپ کی بیویوں کے دل میں بھی، بہنوں اور ماؤں کے دل میں بھی.اور برعکس اس کے عورتوں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے بچوں میں خدا کا پیار گوندھ گوندھ کر داخل کر دیں.اگر وہ دودھ پلاتی ہیں تو اپنے دودھ کے ذریعہ ان کے اندر خدا کا پیار داخل کریں، وہ بچوں کو لوریاں دیتی ہیں اور کہانیاں سناتی ہیں تو لوریوں اور کہانیوں کے ذریعہ اللہ کا پیار بچوں کے اندر داخل کریں.اور وہ اپنے خاوندوں کے دل میں بھی خدا کا پیار داخل کرنے کی کوشش کریں اور اپنے بھائیوں کے دل میں بھی.تو دونوں طرف سے ایک بڑی قوت کے ساتھ مہم چلنی چاہیئے.اور جہاں تک میں نے بیان کیا ہے، اس سے انشاء اللہ تعالی عظیم الشان نتائج ظاہر ہوں گے.آپ کی زندگی کی کیفیت بدل جائے گی.تو اس وقت صرف بتانے کی باتیں ہیں، اس لذت میں سے جو گزرے ہیں، ان کو پتہ ہے یا جو گزریں گے، وہی جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ آسان اور لذت کا رستہ، یہی رستہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 657641) 411

Page 421

Page 422

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خطبہ جمعہ فرموده 10 اکتوبر 1986ء اسلام کے مستقبل کے لئے کینیڈا ایک بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 1986ء تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.د گزشتہ تین جمعوں کے ناغہ کے بعد یعنی ان معنوں میں ناغہ کہ مجھے گزشتہ تین جمعے انگلستان میں پڑھنے کی توفیق نہیں ملی بلکہ اس کی بجائے یہ تین جمعے کینیڈا کے سفر میں پیش آئے.پس اس ناغہ کے بعد آج میں تقریباً اکیس (21) دن کے بعد دوبارہ یہاں جمعہ کے لئے حاضر ہوا ہوں.اگر چہ اس عرصہ میں انگلستان سے دوری کا احساس رہا.اور کئی وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جس طرح یہاں با قاعدگی سے ڈاک ملتی ہے اور ساری دنیا کی جماعتوں سے رابطہ رہتا ہے، اس طرح کینیڈا میں یا اور دیگر ممالک میں رابطے کی ایسی سہولت اور ایسی باقاعدگی نہیں.اور خصوصاً اس سفر میں تو ایک لمبے عرصہ کے بعد مجھے یہاں آکر گزشتہ ڈاک دیکھنے کا موقع ملا ہے.اس لحاظ سے اول تو میں سب خط لکھنے والوں سے معذرت خواہ ہوں کہ اس اکیس دن کے عرصہ میں جو ڈاک کی طرف توجہ میں کمی آئی ہے، اس کے کچھ اثرات لازماً مختلف صورتوں میں ظاہر ہوں گے.مثلاً بعض دوستوں نے بعض اہم اور فوری کاموں کی طرف متوجہ کیا تھا، کچھ احباب نے اپنے بچوں کے ناموں کے لئے لکھا تھا، کچھ نے بعض اہم مشورے طلب کئے تھے.غرضیکہ بہت سے متفرق کام تھے، جن کے لئے وہ میرے جواب کے منتظر ہوں گے.اس لئے اب جہاں تک ممکن ہے انشاء اللہ کوشش کر کے اس سابقہ ڈاک کو نکالوں گا اور کچھ تاخیر سے اگر جواب جائیں تو میں سب احباب سے اس کے لئے معذرت خواہ ہوں.دوسرے اس کے علاوہ جماعتی خبروں سے جو کچھ تعلق کٹ جاتا رہا ہے، اگر چہ ہم جہاں بھی ہوتے تھے، اہم خبریں ٹیلیفون کے ذریعہ سے ملتی رہتی تھیں مگر ٹیلیفون کا رابطہ اور نوعیت کا ہوتا ہے، باقاعدہ تفصیلی رپورٹوں کا ملنا ایک اور بات ہے.اس کی وجہ سے بھی ایک محرومی اور بنیادی طور پر ہلکا سا کٹ جانے کا احساس رہا.پھر جس کثرت سے مختلف دنیا سے احباب یہاں تشریف لاتے ہیں، وہ رابطہ بھی کینیڈا جیسے دور دراز ملک میں ممکن نہیں.لیکن اس کے علاوہ جہاں تک جماعت کینیڈا کے دورے کا تعلق ہے، یہ دورہ اپنی ذات میں نہایت ہی ضروری تھا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجہ میں انشاء اللہ آئندہ جماعت کی ترقی کے بہت سے سامان پیدا ہوں گے.413

Page 423

خطبہ جمعہ فرمود و 10 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم دورہ خدا کے فضل سے نہایت مصروف تھا.اور اس خیال سے کہ بار بار موقع نہیں مل سکتا، جماعتوں نے حتی المقدور میرے وقت کا بہترین استعمال کرنے کی کوشش کی.اندرونی رابطے کے لحاظ سے بھی اور بیرونی رابطے کے لحاظ سے بھی.اور دونوں لحاظ سے کینیڈا کے سفر کا میرے دل پر بہت ہی اچھا اثر پڑا ہے.جماعتی طور پر تو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کینیڈا نے گزشتہ چند سالوں میں خدا کے فضل سے تربیتی لحاظ سے غیر معمولی ترقی کی ہے.1978ء میں جب میں انفرادی طور پر وہاں گیا تو کینیڈا کی جماعتوں کا اچھا اثر لے کر واپس نہیں آیا تھا.اندرونی اختلافات بھی تھے اور مغربی معاشرے سے ایک طبقہ متاثر بھی ہو چکا تھا.اور خصوصاً ہماری خواتین پر اس کے بداثرات ظاہر ہورہے تھے.اس کے نتیجہ میں خطرہ تھا کہ آئندہ نسلیں خدانخواستہ ہاتھ سے نہ نکل جائیں.علاوہ ازیں بھی نظم وضبط کی وہ کیفیت نہیں تھی ، جو ہر جگہ جماعت میں ہونی چاہئے.اور جب یہ حالات ہوں تو لازماً ترقی پر بہت برا اثر پڑتا ہے.اور جماعتوں میں جا کر جو غیر معمولی خوشی کا احساس پیدا ہونا چاہئے ، اس کا وہاں فقدان تھا.اب جب میں وہاں گیا ہوں تو خدا کے فضل سے ہر پہلو سے میری طبیعت میں خوشی کا احساس پیدا ہوا اور اللہ تعالی کے شکر کی طرف طبیعت مائل ہوئی.کیونکہ مشرق سے مغرب تک جو سفر اختیار کیا، تقریباً ساڑھے تین ہزار میل سے زائد کا سفر تھا، صرف ملک کے اندرہی.اور وقت کے لحاظ سے تین گھنٹہ کا فرق پڑا گیا تھا، مشرقی کنارے سے مغربی کنارے تک.اس تمام عرصہ میں ہر جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیداری کی ایک نمایاں روح دیکھی ہے.اور بہت احساس پایا جاتا ہے کہ ہم جس حد تک بھی ممکن ہو، اپنی اولاد کی تربیت کریں، اکٹھے رہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر محبت کے ساتھ دین کے کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں.اور یہ احساس جو عموماً پایا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص رحمت کی ہوا چلی ہے.ورنہ بہت بڑا کام تھا ، سارے ملک کی ہر جماعت کی تربیت کرنا.جہاں تک مرکزی مربی کا تعلق ہے، ملک اتنا وسیع ہے کہ اس کا ہر جگہ پہنچنا ویسے ہی ممکن نہیں.شا کے طور پر بھی وہ جاسکتے ہیں.اس سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ دراصل پاکستان میں جو حالات گزر ہے ہیں، تکلیف دہ، یہ محض ان کا پھل ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ہوائیں جو چل رہی ہیں، اس کا تعلق ان تکلیفوں سے ہے اور ان دعاؤں سے ہے، جو ان تکلیفوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور ساری دنیا میں خدا کی رحمت غیر معمولی طور پر خوشخبریاں لے کے آرہی ہے.اور اس کے جو چھینٹے ہیں ، وہ مردہ دلوں میں ایک 414

Page 424

خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک نئی جان پیدا کر رہے ہیں، نئی تازگی عطا کر رہے ہیں، نیا ولولہ عطا کر رہے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ صرف کینیڈا ہی میں نہیں ، ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی قسم کی رحمتوں کا نزول ہو رہا ہوگا.پس جماعت احمدیہ کو اس پہلو سے خوشخبری ہو کہ جماعت ایک نئے ترقی کے دور میں داخل ہو چکی ہے.اور اس دور کے نتائج بہت دور رس ہیں، بہت دیر تک نکلتے رہیں گے.اور اگر ان نتائج کو ہم سنبھالیں تو آئندہ عظیم الشان اور عظیم تر نتائج کے لئے وہ مزید بنیادیں مہیا کریں گے.اور بلند تر نئے پلیٹ فارم قائم کریں گے.پس جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے نیچے دیتی چلی جارہی ہے.اور جتنا یہ احساس ہمارا بڑھتا جائے گا، اتنا ہی خدا کا یہ وعدہ پورا ہوتا چلا جائے گا کہ لازیدنکم (ابراهیم:08) تم شکر ادا کرتے چلے جاؤ اور میں اس شکر کے نتیجہ میں اپنے فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں کو بڑھاتا چلا جاؤں گا.جہاں تک بیرونی واسطے کا تعلق ہے، جماعت احمدیہ کینیڈا کی ہر شاخ میں بیرونی دنیا سے تعلق زیادہ واضح اور مضبوط ہوا ہے.واضح ان معنوں میں کہ پہلے اس تعلق میں کچھ ابہام سا پایا جاتا تھا اور دونوں طرف نمایاں احساس کے ساتھ ایک دوسرے کے وجود کی پوری خبر نہیں تھی.یعنی جماعت احمدیہ کے افراد یہ سمجھتے تھے کہ کینیڈا کی دنیا الگ ہے اور ہم الگ ہیں.اور کینیڈا اجماعت احمدیہ کے وجود سے عملاً بے خبر تھا.ایک معمولی سا احساس تھا کہ یہاں کچھ اور قسم کے لوگ بھی رہتے ہیں لیکن اب یہ تعلق واضح ہو گیا ہے.اور اس کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ نے اپنے آپ کو اپنے ماحول پر واضح کیا ہے اور احمدیت کا تعارف کروایا ہے کہ جس جس جگہ بھی میں گیا ہوں، مجھے یہ احساس ہوا کہ جماعت احمدیہ کے متعلق ابتدائی تعارف کی ضرورت نہیں رہی.یہاں تک کہ پریس میں بھی جماعت احمدیہ کے بارے میں خاصا تعارف موجود تھا.وہاں کے مختلف حکام سے بھی رابطہ رہا، Intelegencia سے بھی رابطہ رہا اور اکثر جگہ یہ دیکھ کر تعجب ہوتا تھا کہ وہ جماعت کے حالات کے متعلق باخبر ہیں.اور گزشہ دو، تین سال کے اندر اس پہلو سے جماعت نے بڑے منظم طور پر کام کو آگے بڑھایا ہے.پس اب کینیڈا میں جماعت ایک معین ، ٹھوس وجود کے طور پر ابھر آئی ہے.اور جماعت میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہم ان سے کٹ کر نہیں رہیں گے بلکہ ان کے ساتھ شامل ہوں گے، ان کے ساتھ تعلقات بڑھائیں گے.اور سارا کینیڈا اور اصل خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اسلام کے لئے ایک مستقبل کی سرزمین بننے والا ہے.جہاں اسلامی نفوذ کو ہم نے معین طور پر بڑی کوشش ، محنت اور دعاؤں کے ساتھ پھیلاتے چلے جانا ہے.پہلے یہ احساس اگر تھا بھی تو انفرادی طور پر پایا جاتا تھا.مگر ساری جماعت کا یہ 415

Page 425

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم احساس کہ ہم نے تبلیغ کرنی ہے، اسلام کا پیغام پہنچانا ہے، اس ملک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور آپ کے دین کے لئے فتح کرنا ہے، یہ احساس اس شدت کے ساتھ پہلے مجھے محسوس نہیں ہوا تھا.پس ان سب پہلوؤں سے جب میں غور کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے شکر سے میرا دل بھر جاتا ہے کہ یہ دورہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مطمئن کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کی طرف مزید متوجہ کرنے والا تھا.اس دوران بعض مزید آئندہ جماعت کی ترقی کے پروگرام بھی ذہن میں ابھرے اور اللہ تعالٰی نے ایسے امور کی طرف نشاندہی بھی کروائی، جن کے نتیجہ میں، میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت کی ترقی پہلے سے بہت زیادہ تیز ہو جائے گی.اور جن جن جگہوں پر ان امور کا ذکر ہوا ہے، وہاں میں نے محسوس کیا کہ جماعت میں خود ایک بڑا ولولہ پایا جاتا ہے کہ ہمیں عمل کی نئی راہیں بتاؤ، ہم آگے بڑھنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ جن جن دوستوں سے بعض تجاویز کے متعلق مشورے طلب کئے گئے ، انہوں نے نہایت ہی محبت اور خلوص کے ساتھ نہ صرف مشورے دیئے بلکہ کام کی ذمہ داریاں بھی قبول کیں.اس لئے ان کی تفصیلات میں تو یہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سفر کے دوران جماعت احمدیہ کینیڈا کے مستقبل کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی نئی تجاویز سوجھائیں اور ان پر عمل درآمد کرنے کے لئے غور اور فکر کی توفیق عطا فرمائی اور عمل درآمد کرنے کے لئے انصار مہیا فرمائے.جو پورے ولولے اور خلوص نیت کے ساتھ اس بات پر تیار ہیں کہ عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ جو جو ا ہیں ان کو دکھائی گئی ہیں، ان میں بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے.اس پہلو سے ساری دنیا کی جماعتوں کو جس جس تک میری یہ آواز پہنچے، کینیڈا کو خصوصیت سے اپنی دعاؤں میں شامل کر لینا چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کے مستقبل کے لئے کینیڈا ایک بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے.ایک خاص نوعیت کا یہ ملک ہے، جس کو شمالی امریکہ ہونے کے باوجود شمالی امریکہ کی بعض برائیوں سے بچنے کی توفیق ملی ہے اور شمالی امریکہ کی بہت سی ترقیات سے حصہ پانے کی بھی توفیق ملی ہے.اگر چہ شمالی امریکہ میں جو United States of America ہے یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ، اس کے مقابل پر بہت پیچھے ہے.لیکن اس کے اندر Potential موجود ہے.خدا تعالیٰ نے غیر معمولی اس ملک کو ایسی صلاحیتیں بخشی ہیں کہ اگر ان سے استفادہ کیا جائے تو دنیاوی طاقت کے لحاظ سے بھی بہت ہی عظیم ملک بن سکتا ہے.مذہبی طور پر اگر چہ اس ملک پر بھی مادہ پرستی کا اثر ہے لیکن ہر جگہ میں نے محسوس کیا کہ مادہ پرستی کا جو اثر امریکہ پر ہے، اس کا عشر عشیر بھی ابھی کینیڈا پر نہیں.اور ان کا مادہ پرستی کا اثر Skin Deep یعنی بڑا سطحی ہے.ہر گفت و شنید کے نتیجہ میں، میں نے محسوس کیا کہ ان کے اندر مذہب کی لگن ہے اور جذبہ پایا 416

Page 426

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 1986ء جاتا ہے، انسانیت کے لئے.وہ چاہتے ہیں کہ ٹھوس اقدار پر زندگی بسر کریں اور اس کے لئے ایک بے چینی اور جستجو ہے.اگر چہ دہریت بھی ہے اور جیسا کہ سارے مغربی ملکوں میں ہے.لیکن دہریت میں بھی وہ شدت نہیں ہے.بلکہ Agnosticism جس کو کہتے ہیں، یعنی لاعلمی کی دہریت، اس قسم کی دہریت زیادہ ہے.شرارت کی دہریت نہیں ہے.اور بات کو جلدی قبول کرتے ہیں، بہت جلدی اثر لیتے ہیں اور دلیل کو سمجھتے ہیں، متحمل مزاج لوگ ہیں.ان کی دہریت کے متعلق ایک چھوٹا سا دلچسپ واقعہ سناتا ہوں.وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں بھی شرکت کی توفیق ملی.ٹیلیویژن کا ایک پروگرام تقریبا پچاس منٹ کا تھا، اس کا ایک حصہ سوال و جواب پر مشتمل تھا، ہر قسم کا سوال جو چاہیں، وہ کریں.وہ Live پروگرام تھا ، یعنی ساتھ ساتھ وہ پروگرام دکھایا جارہا تھا.اس میں کوئی رد و بدل نہیں کر سکتے تھے اور اس کا ایک حصہ ٹیلیفون پر سوالات کے لئے وقف تھا.جو چاہے، ٹیلیفون پر سوال کرے، اس کو اسی وقت جواب دیا جاتا ہے.اس کے دوران مشن کا نمبر بھی لکھا ہوا دکھایا اور بول کر بھی بتایا کہ اگر کسی کو دلچسپی ہو تو اس مشن سے، اس نمبر سے وہ رابطہ کر کے آئندہ اپنی سوالات کی پیاس بجھا سکتے ہیں.اس پروگرام کے دوران ہی مشن ہاؤس میں فون آیا اور فون کرنے والے نے بتایا کہ میں تو پکار ہر یہ تھا لیکن یہ پروگرام دیکھتے ہی میرے اندر تبدیلی پیدا ہو گئی ہے.اور میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے موقع دیں اور میرے سوالات کا جواب دیں.تو میں گہری دلچسپی لینا چاہتا ہوں.اس مسئلہ میں ایسی اچھی اور فوری Respons ایک دہریہ کی طرف سے بڑا تعجب انگیز ہے اور خوش آئند ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دہریت بھی سطحی ہے.ورنہ اتنی جلدی ایک ایسے پروگرام سے متاثر ہو جانا، جس کا براہ راست دہریت سے تعلق نہیں تھا.یعنی مذہبی پروگرام تو تھا لیکن خاص طور پر دہریوں کے اعتراضات کے جوابات سے تعلق رکھنے والا پروگرام نہیں تھا، متفرق سوال تھے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اور فائدہ یہ بھی ہوا کہ پاکستانی سوسائٹی، جس کو یک طرفہ پراپیگنڈے نے جماعت احمدیہ سے دور پھینکا ہوا تھا، وہ بھی اس پروگرام کو دلچسپی سے سنتی رہی اور اس کے نتیجہ میں دوسرے دن کی ہماری جو مجلس تھی، اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہوئے، جنہوں نے گویا حلف اٹھا رکھے تھے کہ ہم نے جماعت احمدیہ کی بات کبھی سنی ہی نہیں.ایک خاتون نے بتایا کہ میرے میاں اتنے دشمن ، اتنے شدید قسم کے متنفر تھے جماعت سے کہ گھر میں بھی ذکر تک نہیں چلنے دیتے اور وہ پروگرام دیکھنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں ان کی کل کی مجلس میں ضرور شامل ہوں گا.اور جب وہ شامل ہوئے تو مجلس ختم ہونے کے بعد بھی واپس نہیں گئے.پھر مغرب 417

Page 427

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم و عشاء کی نماز پر بیٹھے رہے.پھر اس کے بعد جو ہماری اندرونی ایک مجلس لگی ، اس میں بھی شامل ہوئے اور وعشا کی نماز پیچھے کے بعد جوہماری میں بھی ہوئے! ان کے رویہ سے اور ان کے ساتھیوں کے، ان کے اور بھی بہت سے اہم ساتھی، جو جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش تھے ، وہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے، ان کے رویہ سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے اندر شرافت موجود ہے اور سعادت ہے.بات کو محض ضد کی وجہ سے نہیں ٹالتے بلکہ یک طرفہ پراپیگنڈے سے متاثر ہوئے ہیں، اس لئے جماعت کے خلاف نفرت تھی.یہ جو پروگرام تھے، ان کا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مزید فائدہ یہ ہوا کہ جو رابطہ تھا، وہ اور زیادہ وسیع ہو گیا.لیکن ایسے کئی پروگرام تھے، ایک ہی پروگرام نہیں تھا.ان کا ایک بہت ہی پاپولر (Popular) ریڈیو ہے، جس میں اسی طرح ٹیلیفون پر سوالات کرنے کی اجازت ہوتی ہے.جو ریڈیو پروگرام چلاتے ہیں، وہ بھی وہاں کی بہت ہی معروف اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں.ان کا پروگرام لوگ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں.اس پروگرام میں بھی اللہ تعالیٰ نے موقع عطا فرمایا.وہ بھی تقریباً پچاس منٹ تک جاری رہا اور ہر وضوع پر ہر قسم کے سوالات انہوں نے کئے.بعد میں جو جائزہ لیا، ان کی رپورٹ یہ تھی کہ پرائم منسٹر بھی ایک پچھلے ہفتہ اس پروگرام میں شامل ہوئے تھے، ان کے سننے والوں کی تعداد کم تھی اور اب یہ جو پروگرام ہوا ہے، اس میں تعداد زیادہ تھی.تو مذہبی امور میں اگر دلچسپی نہ ہوتی کسی قوم کو تو یہ ممکن ہی نہیں ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مذہب سے دوری بھی سطحی ہے.ورنہ اس کثرت کے ساتھ ایک ایسے پروگرام کو جس کا تعلق نہ ان کے مذہب سے ہے اور نہ ان کو کسی مذہب سے دلچسپی ہے، اس کثرت کے ساتھ اس پروگرام میں دلچپسی کا اظہار کرنا بھی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے.اور ان کی طبیعت کی سعادت کی بھی عکاسی کرتا ہے.ایسے پروگرام اور پریس کا توجہ دینا، یہ سب بتاتا ہے کہ وہاں کی جماعت اس عرصہ میں فعال رہی ہے اور اپنے بیرونی رابطے کو مضبوط تر کرتی رہی ہے.ورنہ ایک ایسا شخص جو بالکل غیر متعارف ہو کہیں یا ایسی جماعت، جو غیر متعارف ہو، اس کے راہنما کو اس طرح خوش آمدید کہنا اور اتنے اہم پروگراموں میں اتنی نمایاں حیثیت دینا، یہ ممکن ہی نہیں ہے، جب تک کہ پہلے سے جماعت نے محنت نہ کی ہو.پھر ان کی محنت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ مجالس میں اس جگہ کی اہم ترین شخصیات آتی رہی ہیں.وزراء بھی آئے اور مئیر ز بھی آئے اور سیاستدان اور دانشور، پروفیسر ہر قسم کے طبقہ کے لوگ شامل ہوتے رہے.اور ان سے گفتگو کے دوران پتہ چلتا رہا کہ وہ خدا کے فضل سے پہلے سے ہی جماعت سے واقف ہیں.فعال جماعت کا رابطہ اگر بیرونی دنیا سے ہو تو وہ اثر دکھاتا ہے اور رپورٹوں میں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں.جب آپ 418

Page 428

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 1986ء وہاں جائیں تو آپ کو خود وہاں کے حالات بول کر بتاتے ہیں کہ ہم کیا ہیں؟ اور کسی جماعت نے کام کیا ہے یا نہیں کیا ؟ تو جس جس جماعت میں بھی میں گیا ہوں، خدا کے فضل سے وہاں بیرونی رابطے کو میں نے نہایت ہی مؤثر دیکھا ہے.اور جن پروگراموں میں شامل ہوئے ہیں، ان کے بعد وہ رابطہ بڑھا ہے اور مضبوط تر ہوا ہے، خدا کے فضل سے.اس لئے جو موجودہ ترقی کی انتہا ہے، وہ آئندہ ترقی کے لئے قدم رکھنے کی جگہ بن جائے گی اور مزید بلند تر چھلانگ لگانے کی اس جماعت کو توفیق مل سکتی ہے.اگر وہ اس کام کو خلوص اور صبر کے ساتھ آگے بڑھاتے رہیں.یہ جو ریڈیو پروگرام تھا، اس میں بھی ایک صاحب تھے، ان کا مجھے اب نام یاد نہیں، لیکن بڑے مشہور وہاں کے ہر دلعزیز دوست تھے.ان کے متعلق یہ تاثر عام تھا کہ یہ سوال وجواب میں اتنے سخت ہیں کہ ان کو شوق ہے کہ جس سے سوال کریں، اس کو نیچا دکھا ئیں اور اس کو لاجواب کریں.اور اسی بناء پران کی زیادہ شہرت ہے.ان کے متعلق مجھے بعد میں بعض دوستوں نے بتایا کہ ان کے غیر احمدی یا Canadian کینیڈین دوست ان سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں تعجب ہوا ہے کہ اس شخص کی لگتا ہے کیفیت ہی بدلی ہوئی تھی.اور ساتھ تائید کرتا چلا جاتا تھا.اور وہ مزاج ہی نہیں تھا، جو پہلے سختی کا مزاج اس کے متعلق ہم جانتے تھے یا جس کی وجہ سے وہ معروف تھا.اس پروگرام کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ کچھ دیر پروگرام چلتا ہے پھر بیچ میں اشتہارات آتے ہیں اور اشتہارات کے دوران پھر ان کو عام بات کرنے موقع مل جاتا ہے.جب اشتہارات کا وقفہ آیا تو اس سوال کرنے والے نے مجھے کہا کہ یہ پروگرام تو صرف ایک گھنٹے کا ہے، آپ سے چند باتیں میں نے کی ہیں، اب میرا دل چاہتا ہے کہ کئی گھنٹے کا آپ کا پروگرام کروں اور سوال کرتا ہی رہوں.اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے جو باقاعدہ منجھے ہوئے Professional ٹیلیویژن یا ریڈیو سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، ان کے اندر بھی صرف مشین والی باتیں نہیں بلکہ انسانی قدریں ہیں.ورنہ یورپ کے دیگر ممالک میں آپ جیسے چاہیں، جواب دیں، انسانی لحاظ سے اس قسم کے متعصب ہوتے ہی نہیں.کیونکہ ان کی تربیت ایسی ہے کہ تم نے مشین کی طرح رہنا ہے اور انسانی تا ثر اس شدت کے ساتھ ان ممالک میں نظر نہیں آتا.نہ امریکہ میں آپ کو دکھائی دے گا.تو کینیڈا میں ہر طرف خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کو پھیلانے کے عظیم الشان مواقع میسر ہیں.تو احباب جماعت کو چاہئے کہ دعاؤں کے ذریعہ ان کی مددکریں.اور جو دوست کبھی سفر میں جا سکیں یا جن دوستوں کو توفیق ملے اور ان کو قانون اجازت دیتا ہو وہاں Settle ہونے کی وہ بھی بے شک 419

Page 429

خطبہ جمعہ فرموده 10 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد وہاں جا کر آباد ٹھہریں.کیونکہ اس سے جماعت کو بھی تقویت حاصل ہوگی اور اسلام کو عظیم الشان تقویت حاصل ہوگی.یہ ملک، ایک ایسا ملک ہے کہ اس میں مجھے امید کے بہت سے نمایاں پہلو دکھائی دیئے ہیں.وہاں جا کر رہنا یا دوستوں کا وہاں سفر کرنا عام طور پر تو بہت ہی مشکل ہے.دوری کے نتیجے میں وہاں کے فاصلے اور آج کل جو جماعت کے حالات ہیں، ان میں چندوں کے مطالبے اتنے زیادہ ہیں کہ زائد سفروں کے لئے پیسے بچنے بہت ہی بعید کی بات ہے.اس لئے امریکہ اس لحاظ سے چونکہ قریب تر ہے، ان کے لئے موقع ہے کہ وہ کینیڈا کی طرف خصوصی توجہ کریں.اور اس سفر کے دوران امریکن جماعتیں بڑی کثرت کے ساتھ وہاں پہنچی ہیں.اور ان کے لئے مشکل نہیں ہے، نہ قانونی روکیں ہیں، نہ اخراجات کے لحاظ سے مشکل ہے.دونوں طرف یعنی امریکہ کے مشرقی کنارے اور مغربی کنارے میں کینیڈا کے ساتھ ساتھ جماعتیں موجود ہیں.اور اس کے پر لی طرف کینیڈا میں بھی اس طرح ان کے قریب قریب جماعتیں موجود ہیں.تو ان کا آپس میں رابطہ بڑھنا چاہئے.لیکن جو کام ہر احمدی دنیا میں ہر جگہ کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں جہاں کینیڈین ہیں، وہاں ان سے رابطہ کریں اور ان سے خوشی کا بھی اظہار کریں اور ان کا شکریہ بھی ادا کریں کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کے ساتھ محبت کا سلوک کیا اور ان میں تبلیغ کرنے کی کوشش کریں.مجھے یاد ہے، پچھلے سال افریقہ سے ایک کینیڈین دوست تشریف لائے تھے اور انہوں نے تعارف کروایا کہ میں انگلستان صرف اس غرض سے آیا ہوں کہ وہاں احمدیوں سے میرا تعارف ہوا اور وہ مجھے ایسے اچھے لوگ لگے اور ایسے با اخلاق لوگ لگے کہ مجھے دلچسپی پیدا ہوئی.اور جب آپ کے متعلق پتہ چلا کہ آپ انگلستان میں ہیں تو میں نے فیصلہ کیا کہ آپ سے ملے بغیر واپس کینیڈا نہ جاؤں.اور کوئی مقصد میرا یہاں آنے کا نہیں.چنانچہ وہ بڑی محبت سے ملے اور کافی دیران سے تبادلہ خیال ہوا.اس لئے میں سمجھتا ہوں باہر کی دنیا میں جہاں کینیڈین موجود ہے، وہاں اگر جماعت ان سے رابطہ کرے تو انشاء اللہ وہ زیادہ محنت کے بغیر تھوڑی محنت پر بہت ہی اچھے نتا ئج نکل سکتے ہیں.تو اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے تو اس ملک کے بچنے کے لئے بڑا ضروری ہے کہ جلد سے جلد اسلام کی گود میں آجائے.اور اسلام کی ترقی کے لئے بھی یہ ملک عظیم الشان کام کر سکتا ہے، کیونکہ اس کے اندر Potentials موجود ہیں.پس اگر چہ کئی پہلوں سے یہ تین ہفتے احساس محرومی بھی رہا لیکن دوسری طرف خدا تعالیٰ نے جو اس رابطہ کے نتیجہ میں اندرونی طور پر اور بیرونی طور پر جو بہترین نتائج نکالے اور آئندہ کے لئے امکانات روشن فرمائے ، اس کی وجہ سے میں بہت ہی مطمئن ہوں کہ وقت کا بڑا بھاری حصہ صحیح مصرف پر استعمال ہوا اور اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ وقت ضائع نہیں ہوا.420

Page 430

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 1986ء اس کے بعد میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مولویوں کی ایذارسانی جو بڑھتی جا رہی ہے، اس سے تکلیف تو ہے اور جماعت شدید اضطراب میں ہے، بے چینی محسوس کرتی ہے اور ہر وقت ایک سوال اٹھتارہتا ہے کہ کب آخر خدا ان کو پکڑے گا ؟ کب ہمارے دل اس لحاظ سے ٹھنڈے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو سب دنیا میں نا کام اور رسوا کر کے دکھائے گا؟ تو میں اس پہلو سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو نیک اثرات میں دیکھ کے آیا ہوں، ان پر ضرور نظر رکھیں.ان کی کوششوں کے جماعت پر کوئی بداثرات ظاہر نہیں ہور ہے بلکہ اتنے زیادہ نیک اثرات ظاہر ہورہے ہیں کہ اگر آپ تکڑی کے دونوں پلڑوں میں ڈال کے دیکھیں اور دیانت داری سے موازنہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جو تکلیفیں یہ پہنچا رہے ہیں، اس کے مقابل پر جو اللہ تعالی انعامات عطا فرمارہا ہے، وہ بہت ہی زیادہ ہیں.کوئی نسبت ہی نہیں آپس میں.اس لئے ہے صبری نہ دکھا ئیں، اس بارہ میں.دعا ئیں ضرور کریں.لیکن یہ یقین رکھیں کہ ان کی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے اور با مراد نہیں ہوتی.اور جو لوگ ان کے پس پشت طاقتوں کو یہ مشورے دیتے ہیں کہ ان کو پیچھے بھجوا ؤ، یہ تعاقب کریں اور اس کے نتیجہ میں جہاں جہاں جماعت پھیلتی ہے، اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کریں.وہ نہایت ہی احمقانہ مشورے دیتے ہیں.کیونکہ جہاں جہاں مولوی جاتے ہیں، وہاں اپنی ناکامی کے سامان کر کے آتے ہیں اور جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے نئے دروازے کھول کر آتے ہیں.چنانچہ کینیڈا میں بھی میں نے دیکھا کہ جہاں جہاں مولوی گئے تھے، وہاں سب سے پہلی بات تو یہ محسوس کی کہ کینیڈین سوسائٹی میں ان کے آنے کو اور ان کی حرکتوں کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے.اور وہاں کے اخباری نمائندے سارے واقف تھے، جس جس نے بھی سوال کیا ہے، ٹیلیویژن والے بھی، ریڈیو والے بھی ، انہوں نے ان کے متعلق بھی سوال کیا ہے کہ یہ کیا کرتے پھرتے ہیں؟ کیسی احمقانہ باتیں کر رہے ہیں؟ کیسی بیوقوفوں والی باتیں کر رہے ہیں؟ یہ کر کیا رہے ہیں یہاں؟ آپ ہمیں بتائیں.میں ان کو کیا بتا تا کہ یہ کیا کرنے آئے تھے.ان کے پریس نے ہی بتا دیا تھا سارے ملک کو.تو ایسے متنفر ہوئے وہ مولویت سے کہ جماعت احمدیہ کے لحاظ سے یہ خدا کے فضل سے ایک بہت ہی شاندار کامیابی ہے.دوسرے اس سے پہلے ان کو اگر شک تھا بھی کہ جماعت احمدیہ پر پاکستان میں مظالم ہو رہے ہیں تو ان مولویوں نے وہ رہا سہا شک دور کر دیا، ہر کسر کو نکال دیا، سب و ہم دور کر دیئے ہیں، ان کے.ان کا یہ تاثر ہے، بعض پرائیویٹ ملاقاتوں میں انہوں نے بتایا کہ جو یہاں آکر یہ حرکتیں کر رہے ہیں، وہاں کیا کرتے ہوں گے؟ ایک طبعی نتیجہ ہے، جو ان کی عقلوں نے نکالا.اور یہ درست بات ہے.421

Page 431

خطبہ جمعہ فرموده 10 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم چنانچہ اس پہلو سے بھی کینیڈین کار عمل دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بہت ہی زیادہ نمایاں تھا.انگلستان میں بھی علماء آتے ہیں اور بہت زیادہ یہاں آکر گند بولتے ہیں اور شدید گالیاں دیتے ہیں ، فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور جو بھی ان کے اندر طاقت ہے، اس کو استعمال کرتے ہیں.تا کہ جماعت احمد یہ کوکسی طرح نقصان پہنچ جائے.لیکن انگریزوں میں ایسا نمایاں ردعمل نہیں دیکھایا یہ ہمیشہ سے ہی ان معاملات میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے اوپر کوئی ان باتوں کا اثر ہی نہیں پڑتا ، Conservative قوم ہے یا بیچ میں سے خوش ہوتے ہوں گے کہ مسلمان لڑرہے ہیں آپس میں، ہم Enjoy کرتے ہیں.ہمیں کیا اس سے؟ لیکن جو طبعی رد عمل ہونا چاہئے ، وہ یہاں ظاہر نہیں ہوا.لیکن کینیڈا میں حالانکہ جماعت احمدیہ کی تعداد یہاں کے مقابل پر بہت تھوڑی ہے، لیکن جہاں بھی میں گیا ہوں، وہاں پریس نے بھی، ریڈیو نے بھی ٹیلیویژن نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے اور خوب اچھی طرح واقف تھے.ایک پریس کا نفرنس میں ایک سردار صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے.انہوں نے آخر پر کہا کہ سوال تو نہیں بنتا لیکن ایک بات پر میرے دل میں تعجب پیدا ہورہا ہے اور بڑی حیرت ہورہی ہے، مجھے ایک بات پر.میں نے کہا: کیا بات ہے؟ کہنے لگے ، بات یہ ہے کہ ہندو بڑی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح سکھ بھی ان کے کھاتہ میں شمار ہو جائیں اور سکھ کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے جتنے بھی آسکتے ہیں، ان کے کھاتہ میں شمار ہو جائیں اور عیسائی بڑی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تعداد بڑھے، یہ پاکستان کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنا کھانہ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ سارا زور اس بات پر لگا رہے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہو، زیادہ نہ ہو.کہنے لگے، یہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہی.ان معنوں یہ سوال تو نہیں تھا کہ کوئی جواب دیا جاتا ، سننے والے سارے ہنس پڑے.تو وہاں اس کثرت کے ساتھ ان علماء نے خود اپنی شکست کے انتظام کئے ہیں اور ان کا جواب دینے کی مزید اب ضرورت ہی کوئی نہیں رہی.جہاں تک غیر احمد می سوسائٹی کا تعلق ہے، انگلستان کی غیر احمدی سوسائٹی کے مقابل پر کینیڈا کی غیر احمدی سوسائٹی کا رد عمل بھی بہت ہی زیادہ شریفانہ اور صحیح خطوط پر ہے.چنانچہ وہاں کے بہت سے احمدی دوستوں نے حالات سنائے.ان سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ ان کی تقریروں میں شامل ہوئے ہیں، نہایت متنفر ہو کر واپس آئے ہیں.بعضوں نے کھڑے ہو کر وہیں احتجاج کئے کہ تم کیا باتیں کر رہے ہو.کیسی بے ہودہ ، لغو باتیں کرتے ہو.وہ لوگ دلیلیں دیتے ہیں ، قرآن اور حدیث پیش کرتے ہیں، تمہیں گالیوں کے سوا آتا ہی کچھ نہیں.اور دوسرے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، بعض تو ٹیلیویژن وغیرہ کے پروگرام کے بعد آئے.لیکن علاوہ ازیں بھی جہاں جہاں بھی میں گیا 422

Page 432

تحریک جدید- ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 1986ء ہوں، وہاں کی مجالس میں غیر احمدی پاکستانی دوستوں نے نہ صرف شمولیت کی بلکہ غیر معمولی تعلق کا اظہار کیا.اور آخری سفر میں وینکوور (Vancouver) میں تو ساتھ امریکہ کے شہروں سے بھی بعض غیر احمدی دوست تشریف لائے ہوئے تھے.وہاں وینکوور میں بسنے والے جو بھی پاکستانی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ہیں، ان میں معزز ترین وہ سارے تشریف لائے ہوئے تھے اور مجلس کے بعد اس قدر محبت کا انہوں نے اظہار کیا کہ میں حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ مولوی یہ کر کے گئے ہیں، یہ اثر ان کے اوپر چھوڑ کے گئے ہیں.بجائے متنفر ہونے کے اور زیادہ قریب آئے ہوئے تھے.اور ایک دوست جو امریکہ سے تشریف لائے ہوئے تھے ، ان کو دیکھ کر ، ان کی جو طر ز تھی ، ان کے پیار اور محبت کی ، اس کو دیکھ کر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ آج ہی یہ بیعت کرلیں.اور اتفاق ایسا ہوا کہ دو جنین دوست ایک ان میں سے کویتی ہیں اور ایک مسلمان جین تھے، ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ آج ہم مغرب کی نماز کے وقت بیعت کریں گے.چنانچہ جب انہوں نے بیعت شروع کی، پھر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ دوست کہاں گئے؟ ان کے چہرے پر بڑی سعادت اور شرافت تھی اور ان میں بڑا محبت کا طبعی جذبہ پایا جاتا تھا.وہ بھی ساتھ شامل ہو جاتے تو کتنا اچھا ہوتا.اور جب میں نے سر اٹھایا تو تیسرے آدمی وہ تھے، جو ہاتھ رکھ کے بیعت کر رہے تھے.اور بیعت ختم ہوتے ہی مجھے کہا کہ میری صرف ایک درخواست ہے.میں نے کہا: کیا ہے؟ کہ اب مجھے گلے لگنے دیں اور اس محبت سے گلے لگایا.میں نے ان سے کہا کہ آپ تو میری دعا کا جواب ہیں.صبح بھی میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی اور اب بھی بیعت کے دوران میں سوچ رہا تھا کہ کاش وہ بھی ہوتے تو وہ بھی ہاتھ رکھ لیتے اور وہ بھی شامل ہو گئے.وہاں صرف کینیڈین دوستوں میں ہی سعادت نہیں بلکہ وہاں جو پاکستانی بس رہے ہیں، ان میں بھی سعادت پائی جاتی ہے.بہت جگہ ہے کام کی ، بہت گنجائش ہے.اور جو مولوی جاتے ہیں، وہ الٹا اثر چھوڑ کر آتے ہیں.اس لئے بہت دعا میں یا درکھیں کینیڈا کی سرزمین کو.ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ ان کی سعادت کو بڑھائے.اور جو نیکی انہوں نے جماعت سے کی ، اس کی جزاء دے.ایسا ایک طبعی رد عمل ہے، جس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے.جو محسوس کرے، جو ان باتوں سے گزرا ہو، اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ عام قوموں سے مختلف ہے.میں ایک مثال دیتا ہوں، چھوٹی سی.لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے مزاج میں ایک ایسی سعادت اور شرافت پائی جاتی ہے.ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر تھا، جہاز کا.جب جہاز کے کپتان کو پتہ چلا کہ جماعت احمدیہ کا سر براہ سفر کر رہا ہے، وہاں الگ بیٹھنے 423

Page 433

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کے لئے کیبن وغیرہ نہیں ہوتا تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو دی.آئی.پی میں بٹھانا چاہتے ہیں، آپ ہمارے ساتھ وہاں تشریف لے آئیں اور وہاں ٹھہریں.اب یہ بات مجھے تو قطعا کوئی فرق نہیں پڑتا.میں نے بہت سفر کئے ہیں، چاہے تھرڈ کلاس ہو یا کسی قسم کی ہو، میر امزاج ہی نہیں ان باتوں کو اہمیت دینے کا کہ سیٹ کیسی ہے؟ جہاں بیٹھیں لطف اٹھاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اور ملنے کا بھی مزہ آتا ہے.لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی سعادت کا یہ حال ہے کہ ویسے وہ مذہب سے دور ہیں عام طور پر لیکن مذہب کا احترام بھی ہے، ان کے دل میں.یہ واقعہ ابھی ختم نہیں ہوتا، اس سے اگلا حصہ نہیں اور زیادہ حیرت انگیز ہے.ان کی شرافت کے نتیجے میں ہمارے ایک ساتھی نے سوچا کہ واپسی کا کپتان پتہ ایسا ملے یا نہ ملے کہ ان سے ہی کہہ دیں کہ واپسی کے لئے جو بھی کپتان ہو، اس کو بھی درخواست کر دیں، ہماری طرف سے.اب یہ بات سخت شرمندہ کرنے والی تھی، میرے لئے.انہوں نے تھوڑی سی بات کی تھی کہ واپسی پہ تو ہمارا، شاید فلاں وقت ہو.تو میں سمجھ گیا، میں نے کہا: ان کو ہر گز نہیں کہنا اور کوئی وقت نہیں بتانا.میں نے ان کا شکریہ ادا کیا.میں نے کہا: جزاک اللہ بہت بہت شکریہ، بس بات ختم ہو گئی.واپسی پر ہم نے ایک عجیب و غریب اعلان سنا، جو ریڈیو کے ذریعہ سب جہازوں کو Message اس کپتان کی طرف سے جا رہا تھا.اور Message تھا کہ غالباً فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک جماعت احمدیہ کے سربراہ وکٹوریہ سے دو بینکور واپس جارہے ہوں گے.جس جہاز کے کپتان کو یہ سعادت ملے کہ ان کے ساتھ وہ سفر کریں میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان کو VIP Treatment دیں اور ان کے ساتھ ہر قسم کا حسن سلوک کریں.اور اس کے ساتھ ہی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ کپتان صاحب تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ آپ آجائیں، اوپر کا کمرہ آپ کے لئے حاضر ہے.اور جو جہاز کی طرف سے ہمارے سارے عملہ کی خاطر مدارت ہو سکتی تھی، وہ انہوں نے کی.اسی عرصہ میں وہ پہلا جہاز بھی پاس سے گزرا اور نیوی کے طریق کے مطابق جو Salute دینے کا جو طریقہ ہے، وہ بھی اختیار کیا.اب کوئی حکومت کا نمائندہ نہیں ہوں ، کوئی حکومت کی طرف سے ان کو ہدایت نہیں تھی.یہ ساری باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ اس قوم کے مزاج میں ایک سعادت ہے.خود بے مذہب سے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے دل میں مذہب کے لئے احترام پایا جاتا ہے، انسانی قدریں بھی پائی جاتی ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ کو خصوصیت کے ساتھ کینیڈین قوم کا شکریہ، دعا کے ذریعہ ادا کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ان کو دنیاوی لحاظ سے بھی ہر قسم کے فتنوں اور خطروں سے بچائے اور روحانی لحاظ سے بھی تیزی کے ساتھ اسلام کی گود میں آ کر خدا تعالیٰ کی رحمت کے سایہ تلے آنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 659 672) 424

Page 434

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام فرموده 117اکتوبر 1986ء بلند پروازی اختیار کریں اور روحانی رفعتوں کو حاصل کریں پیغام فرمودہ 17 اکتوبر 1986ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ سیرالیون پیارے عزیزان! الله الرحمان الرحيم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمد یہ سیرالیون اپنا تیسر اسالانہ اجتماع 24,25 اکتوبر 1986ء کو منعقد کر رہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس دینی پروگرام کو غیر معمولی طور پر کامیاب فرمائے.پیارے عزیزو! آپ دنیا کے عام نو جوانوں کی طرح نہیں ہیں.آپ اس مسیح محمدی کے غلام ہیں، جس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے گا تو وہ اسے پھر سے زمین میں قائم کرے گا.پس اپنے اس مقام کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.بلند پروازی اختیار کریں اور روحانی رفعتوں کو حاصل کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالی اسے ساتویں آسمان تک رفعت عطا فرماتا ہے.پس عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اور بنی نوع انسان کی سچی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر، انہیں فسق و فجور اور معصیت کی زندگی سے بچا کر مولائے حقیقی کے قدموں میں لانے کے لئے بھر پور سعی کریں.اپنے اعلیٰ اخلاق، بے لوث خدمت، محنت اور دعاؤں کے ساتھ سیرالیون کی تقدیر کو بدل دیں.آج آپ کے ملک کو آپ کی ضرورت ہے.خدا کرے کہ آپ اپنی عظیم ذمہ داریاں احسن رنگ میں انجام دینے کی توفیق پائیں.والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع لندن، 17 اکتوبر 1986ء مطبوعہ ہفت روز و النصر 10 دسمبر 1986ء) | 425

Page 435

Page 436

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 17 اکتوبر 1986ء وو آپ کا یوسف تو روحانی غلبہ ہونا چاہئے خطبہ جمعہ فرمودہ 17 اکتوبر 1986ء.یہ ایک بہت ہی عظیم الشان مضمون ہے، جو قرآن کریم کی اس آیت نے ہمیں سکھا دیا اور اسی کا نام ہے، وہ اعمال جو باقی رہنے والے ہیں، جو وزن دار ہیں، وہ ہتھیار، جن میں قو تیں پائی جاتی ہیں.یہ تو میں، جوان ہتھیاروں سے لیس ہوں، مذہبی جنگوں میں کبھی ہار نہیں کرتیں ، لاز مافتح یاب ہوا کرتی ہیں.اس پہلو سے میں ایک خاص امر کی طرف مزید توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب میں نے کینیڈا کا دورہ کیا تو جہاں بہت سے خوش کن پہلو بھی نظر آئے ، جماعت میں بیداری کے آثار، ان کا رابطہ، ان کا اسلام کو غیروں تک پہنچانے کا نہ صرف عزم صمیم بلکہ دن بدن زیادہ منہمک ہوتے چلے جانا اور ماحول کو متاثر کرتے چلے جانا، یہ سارے پہلو ایسے تھے، جن سے بہت خوشی ہوئی.لیکن ایک پہلو بعض جگہ کمزوری کا بھی تھا.اور اس سے طبیعت میں نہ صرف یہ کہ پریشانی ہوئی بلکہ اس پر میں نے سوچا کہ ساری جماعت کو مطلع کرنا چاہئے ا کہ اس پہلو کی طرف خصوصیت سے وہ لوگ توجہ دیں، جو مغربی معاشرہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں.بعض بچے ، جو ملاقات کے وقت سامنے آتے تھے، ان کی بول چال سے، ان کی طرز سے ایک بات صاف معلوم ہو جاتی تھی کہ ان کے گھروں میں عبادتوں کا ماحول نہیں ہے.اور ان کے گھروں میں قرآن کریم سے تعلق اور پیار کی باتیں نہیں ہیں.بلکہ اگر ہے تو مغربی موسیقی ہوگی، اگر ہے تو ٹی وی کے پروگرام ہوں گے یاد نیا کی تعلیم کی باتیں ہوں گی.ماں باپ کے چہروں سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی تھی.لیکن اولاد کے چہروں سے یہ بات ظاہر ہو جاتی تھی.کیونکہ ماں باپ کی تربیت اور قسم کے ماں باپ نے کی ہوئی تھی اور اس اولاد کی تربیت وہاں اور قسم کے ماحول نے کی ہے.اور ماں باپ نے اس ماحول سے بچانے میں غفلت کی.اور اپنے معاشرہ کو خود اپنے گھروں میں راسخ نہیں کر سکے، اپنے گھروں میں رائج نہیں کر سکے.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر چہ وہ بھی مغربی رو میں بہہ رہے ہیں لیکن ان پر پرانی تربیت کے آثار ابھی تک باقی ہیں.اور جو بچے ہیں، ان کے چہرے بتا رہے ہیں کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو کر کسی اور سمت میں چل ہے ہیں.یہ ہے وہ نہایت ہی خطرناک بات ، جس کی وجہ سے میرا دل وہاں بہت کڑھا.427

Page 437

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1986 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اور ایک موقع پر مسجد میں جب میں نے دیکھا کہ بعض بچوں نے بہت ہی زیادہ ہلڑ مچایا اور باقیوں کی بھی نماز خراب کی تو میں نے بڑی شدت کے ساتھ اس تکلیف کا جماعت کے سامنے اظہار کیا.یہ واقعہ ہر جگہ نہیں ہوا، صرف ایک ہی جگہ ہوا ہے.بعد میں اس جماعت کی طرف سے مجھے چھٹیاں آنی شروع ہوئیں.مردوزن کے انتہائی تکلیف میں مبتلا ہو کر معذرت کے خط آنے شروع ہوئے.میں نے ان کو جواباً بتایایا جن سے بھی میری بات ہوئی کہ اس میں میری معافی کا سوال ہی کوئی نہیں ہے، تم اس ناراضگی کو سمجھے ہی نہیں، یہ اس قسم کا معاملہ نہیں ہے کہ تم نے معافی مانگ لی، میں نے کہا: معاف ہو گیا اور معاملہ ختم ہو گیا.اس تجربے سے ایک بہت ہی درد ناک اور تکلیف دہ تصویر میرے سامنے ابھری ہے.جو سالہا سال کے ماضی سے تعلق رکھتی ہے.ایسے گھر میری آنکھوں کے سامنے آئے ہیں، جہاں نہ نمازیں ہوتی ہیں اور نہ تلاوتوں کی آواز سنائی دیتی ہے.وہ جو دین کا رخ ہے، دین کا پیار ہے، وہ ان گھروں میں رچا بسا نہیں.اور بچے اس طرح پرورش پارہے ہیں، جیسے بے چھت کے ہوں اور ان کے اوپر کوئی امن کا سایہ نہیں ہے.لا زمادہ بچے پیدا آپ کر رہے ہیں اور وہ بن کسی اور کے رہے ہیں.اس انتہائی تکلیف دہ ماضی کا یہ علاج تو نہیں ہے کہ آپ مجھ سے معافی مانگ لیں اور میں کہوں کہ اچھا الحمد للہ معافی ہوگئی.اور ہم دونوں مصافحہ کر لیس یا گلے لگ جائیں.یہ تو اس کا نہایت ہی بچگانہ حل ہے.اس کی معافی تو تلافی مافات کے ذریعہ ہو سکتی ہے.اس کی معافی تو خدا سے مانگنی پڑے گی.اعمال میں تبدیلی کے ذریعہ، ہر گھر میں ایک پاکیزہ ماحول قائم کر کے اس کی تلافی ہو سکتی ہے.وہی اس کی سچی معافی ہو گئی." پس اس کو آئندہ کے لئے اپنے لئے ایک خصوصی جہاد بنالیں.اب آپ یہ سوچیں گے کہ بظاہر اس کا فوری طور پر ہمارے اس مقابلہ سے تعلق نہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ میدان ہے، جس میں ہم نے فتح حاصل کرنی ہے یا شکست حاصل کرنی ہے.اسی میدان میں یہ بازی ہاری جائے گی یا جیتی جائے گی.ہم مذہبی اقدار کو لے کر اٹھے ہیں، ہم سچائی کو لے کر اٹھے ہیں، ہم اس اسلام کو لے کر اٹھے ہیں، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ہے.عددی غلبہ اگر آئے بعد میں اور جیسا کہ آئے گا تو ہوسکتا ہے کہ ہماری بعد کی نسلیں اس عددی غلبے کو دیکھیں لیکن ایک غلبہ جو بہت زیادہ قیمت رکھتا ہے، جو بہت زیادہ قدر رکھتا ہے، در حقیقت جس غلبہ کی خاطر مذہبی قو میں اپنی تمام جانوں کو مٹادینے کے لئے تیار ہو جایا کرتی ہیں، اپنے اموال کو فدا کرنے کے لئے تیار ہو جایا کرتی ہیں، وہ روحانیت کا غلبہ ہے.وہ سچائی کا غلبہ ہے، وہ حق کی قدروں کا غلبہ ہے، وہ ان اخلاق حسنہ کا غلبہ ہے، جن کی خاطر مذہب آیا کرتے ہیں، وہ تعلق باللہ کا 428

Page 438

تحریک جدید -- ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1986ء غلبہ ہے.اس عددی غلبہ کو ہم نے کیا کرنا ہے، جو ایسے وقت میں نصیب ہو کہ جب ہماری اولادیں اصل میدان میں بازی ہار چکی ہوں اور ان کے عدد کی حیثیت خدا کے نزدیک کچھ بھی نہ ہو.اس لئے عددی غلبہ کا انتظار اس طرح نہ کریں کہ گویا وہی آپ کا یوسف ہے.آپ کا یوسف تو روحانی غلبہ ہونا چاہئے.اور اس فتح کو آپ نے پہلے اپنے گھروں میں حاصل کرنا ہے.اگر گھر میں یہ میدان ہار دیا تو باہر بھی آپ کی بازی ہاری گئی.جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے، آپ فتح کا منہ دیکھ ہی نہیں سکتے پھر.اس لئے روح کو سمجھیں اور خصوصیت کے ساتھ اس دور سے یہ فائدہ اٹھائیں.کہتے ہیں، جب لوہا گرم ہوتا ہے، اس وقت نرم ہوتا ہے.وہی وقت ہوتا ہے، اسے مولڈ کرنے ، اسے مختلف شکلیں دینے کا.جتنا زیادہ شدت کے ساتھ غیر حملہ کر رہا ہے، اتنا ہی زیادہ جماعت نفسیاتی لحاظ سے اس بات کے لئے تیار ہورہی ہے کہ وہ اپنی تربیت کرے.اور جو رستے پہلے مشکل نظر آیا کرتے تھے، وہ آسان ہوتے چلے جا رہے ہیں.عبادتیں جہاں لوگوں کو پہلے بھاری دکھائی دیا کرتی تھیں، اب وہ ان کے لئے ہلکی ہوتی جارہی ہیں اور آسان ہوتی چلی جاتی رہی ہیں.مسلسل شاید ہی کوئی ایسا دن ہو کہ جس میں یہ اطلاع نہ ملی ہو کہ ہمارا خاندان پہلے بے نماز تھا، اب نمازی ہو گیا ہے.اور وجہ ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ غیر نے جود کھ پہنچائے ہیں، ان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس اصلاح کی توفیق بخشی ہے.نمازوں کی کیفیتیں بھی مسلسل بدل رہی ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، سینکڑوں خط مجھے روزانہ آتے ہیں.شاید ہی کوئی دن ہو، مجھے یاد نہیں کہ کوئی ایک بھی دن ایسا ہو ، جس میں اس قسم کی خوش کن خبریں نہ ملتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اصلاح اعمال کی توفیق عطا فرمائی، نمازوں میں غفلت تھی، وہ دور کرنے کی توفیق عطا فرمائی، نمازوں کا معیار بڑھانے کی توفیق عطا فرمائی، وہ روحانی لذت اور سرور بخشا، جس سے ہم پہلے نا آشنا تھے.درحقیقت اس کی وجہ یہی ہے کہ اس وقت دل نرم ہیں اور نیکیوں کی شکل میں ڈھلنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.ایسے وقت میں آپ کو پور استفادہ کر کے ان حالات سے ادفع بالتی ھی احسن کا ایسا قوی جواب دینا چاہئے کہ دشمن کو بھی محسوس ہو جائے کہ اب یہ اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ ان کا تعاقب ہی نہیں ہوسکتا.اسلامی قدروں کو انہوں نے ایسا اپنا لیا ہے اور اخلاق میں اس قدر نمایاں ہو گئے ہیں کہ لاکھ ہم جھوٹ بولیں، اب دنیا مانے گی نہیں کہ ان کا اسلام سے تعلق نہیں ہے.چنانچہ یہ ہے وہ فتح، جو حقیقی فتح ہے.اگر اس کے عقب میں عددی غلبہ غلاموں کی طرح آئے تو وہ یقینا اس لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے اور اسے تحسین کی نظر سے دیکھا جائے.لیکن اگر اس وو 429

Page 439

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم پس منظر کے بغیر عددی غلبہ آئے تو اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں.پس عددی غلبہ آنے کے دن بھی بہت دور نہیں.لیکن وہ اس طرح آئے گا اور اس کو اس طرح آنا چاہئے کہ آپ کے اندر ایسا بے پناہ حسن پیدا ہو جائے ، اسلام اتنازیادہ گہرائی کے ساتھ آپ کے اندر راسخ ہو جائے ، آپ کی شکلیں ان پاکیزہ لوگوں سے اتنی زیادہ ملنے لگ جائیں، جن کو ہمیشہ خدا کی نظر نے بھی تحسین سے دیکھا ہے.وہ جو بے پناہ کشش آپ کے اندر پیدا ہوگی، اگر وہ عددی غلبہ کے باعث بنتی ہے تو وہی غلبہ ہے، جو قدر کے لائق ہے.اور اگر پاکستان میں یہ عددی غلبہ بھی نصیب ہو اور خدا کرے کل کی بجائے آج نصیب ہو ، اگر چہ اس معاملہ میں ابھی ہمیں بہت سے قدم آگے بڑھانے ہیں، بہت لمبے فاصلے ابھی طے کرنے والے ہیں.ہو سکتا ہے کہ یہ ایک نسل کا کام نہ ہو، اس سے اگلی نسل بھی انہی راہوں پر ماری جائے ، انہی راہوں پر فدا ہو، تب جا کر خدا کی طرف سے آخری فتح کا دن نصیب ہو.لیکن یہ فتح جو ہو رہی ہے، اس کی قدر کریں.یہی قدر کے لائق فتح ہے.اس کی غلامی میں جو فتح نصیب ہوگی ، وہ ہمیں قبول ہے.کیونکہ وہی خدا کو قبول ہوا کرتی ہے.اس فتح سے چنگل چھڑا کر ، اس سے آزاد ہو کر اگر عددی فتح ملتی ہے تو اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں.اس لئے باہر کی جماعتیں بھی اس مضمون پر غور کریں، خصوصاً مغرب میں بسنے والی.جیسا کہ میں نے متوجہ کیا ہے، شدت کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی اگلی نسلوں کو سنبھالیں اور جو گندے حملے باہر سے ہوتے ہیں اور آپ کو برے لگتے ہیں، وہی میدان آپ کے جیتنے کے میدان ہیں.وہاں آپ حسن خلق سے یا برائی کو حسن سے بدل کر اپنے اندر بھی پاکیزہ تبدیلی پیدا کریں، اپنی اولاد میں خصوصیت کے ساتھ تبدیلی پیدا کریں.اور اس ضمن میں، میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا کی اور خصوصاً اس دنیا کی جماعتیں ، جو مغربی دنیا کہلاتی ہے یا وہ علاقے بھی جو مشرق کے ہیں اور دور دراز کے ہیں اور مرکز کی آنکھ سے ذرا پرے رہتے ہیں، ان سب کی جماعتیں بھی خصوصیت کے ساتھ مجالس عاملہ کے اجلاس بلائیں اور مختلف پہلوؤں سے غور کریں کہ کس طرح اپنے گھروں کے ماحول کو پاکیزہ بنانا ہے.ہر گھر سے تلاوت کی آواز اٹھنی چاہئے.بچوں کو ہوش آئے ، اس طرح آنکھیں کھولیں کہ گھروں میں سے تلاوت کی آواز آ رہی ہو، لوگ نمازوں کا اہتمام کر رہے ہوں.وضو بتانا نہ پڑے بلکہ وہ دیکھ کر سیکھ لیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جن گھروں میں نمازوں کا اہتمام ہو اور تلاوت کا اہتمام ہو، وہاں بچوں کو کہہ کہہ کر سکھانا نہیں پڑا کرتا بلکہ بعض دفعہ انہیں روکنا پڑتا ہے کہ یہ بے موقع بات ہے، اس وقت اس بات کو چھوڑو.جن گھروں میں نمازیں ہو رہی ہوتی ہیں بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی چلتے چلتے سڑک پر بھی اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کر دیتے ہیں.430

Page 440

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ؟ اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1986ء چنانچہ یہی انگلستان میں ایک موقع پر ہم ونڈسر کاسل دیکھتے ہوئے ہم باہر سڑک پر آئے تو ایک چھوٹی سی بچی ، جو ایسے گھر کی جہاں نماز ہوتی ہے، اس نے اللہ اکبر کہ کر زمین پر سجدہ کر دیا.اس کو یہ بتانا پڑا کہ یہ جگہ نہیں ہے.جہاں گھروں میں عبادت سے پیار ہو، اللہ تعالیٰ کا تعلق ہو، تلاوتیں ہورہی ہوں، وہاں یہ تو نہیں کہنا پڑتا کہ یہاں کرو بلکہ بچوں کو سمجھانا پڑتا ہے کہ یہاں نہ کرو.اور میرا یہ عام تجربہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے بچے بھی جو اللہ سنتے رہتے ہیں، ان کو اللہ ہی یاد رہتا ہے.وقت بے وقت وہ اللہ کی آواز اٹھاتے رہتے ہیں.اور سب سے زیادہ لفظ جو ان کے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے، وہ اللہ ہے.یہ باتیں اگر بچپن میں ذہنوں میں نقش نہ کی گئیں تو بڑے ہو کر آپ سے نہیں سکھائی جائیں گی.بڑے ہو کر غیر معاشرہ اتنا غالب آچکا ہوگا، ایسے رنگ چڑھا چکا ہوگا کہ اس کے بعد پھر اللہ کا رنگ چڑھنا مشکل ہو جائے گا.پہلے رنگوں کو مٹانا پڑے گا اور ان رنگوں میں ایسی شدت پائی جاتی ہے، مادہ پرستی کی ایسی سختی پائی جاتی ہے کہ پھر ان کو مٹانا بہت مشکل کام ہو جائے گا.اس لئے ساری دنیا کی جماعتیں خصوصاً مغربی تہذیب سے متاثر جماعتیں، یہ پروگرام بنائیں.اپنی ساری دماغی صلاحیتوں کو کام میں لائیں ، اپی قلبی صلاحیتوں کو کام میں لائیں ،منصوبہ بندی کریں اور مقصد صرف یہ ہو کہ گھروں میں پاکیزہ ماحول پیدا ہو جائے.اور بچے اس ماحول میں پرورش پا کر اٹھیں.اور ان کے لئے قرآن کریم کی تلاوت سکھانے کے انتظام بھی موجود ہوں اور قرآن کریم کا ترجمے سکھانے کے بھی انتظام موجود ہوں“.اگر آپ نے یہ فتح حاصل کر لی تو آپ ایک ایسی نسل پیچھے چھوڑ کر جائیں گے جو دوسروں کے گھروں میں بھی فتح حاصل کر سکے گی ، جو غیر معاشرے پر بھی قبضہ کر سکے گی.اگر آپ نے گھروں میں یہ میدان چھوڑ دیا اور یہاں اس میدان سے بھاگ گئے تو وہم ہے، مجنون کی خواب ہے کہ آپ دنیا پر غالب آجائیں گئے."" وو چونکہ بچوں سے تعلق رکھنے والا مضمون تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بھی مجھے سمجھائی اور وہ یہ کہ جس نیکی کا فیصلہ کرتے ہیں، اس سے ملتا جلتا صدقہ بھی دیا کرتے ہیں، خیرات بھی کیا کرتے ہیں تا کہ اس کام میں برکت پڑے.اگر آپ اپنے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بچوں پر رحم کا کوئی طریق سوچیں، بچوں سے حسن سلوک کی کوئی راہ سوچیں تا کہ وہ آپ کی طرف سے صدقہ بن جائے اور آپ کے بچوں کی حفاظت کرنے والا ہو جائے.431

Page 441

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اس پر مجھے خیال آیا کہ ایل سلواڈور میں جو بڑی تباہی آئی ہے اور سینکڑوں بچے یتیم رہ گئے ہیں یا جو ماں باپ سے الگ ہو چکے ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ وہ کون ہیں اور کہاں چلے گئے ہیں ؟ حکومتیں اب ایسے بچوں کو اپنا رہی ہیں.اور جماعتی سطح پر تو یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ ہم براہ راست یونائیٹڈ نیشنز سے کہیں کہ ہمیں بھی بچے دیں یا ایل سلواڈور کی حکومت سے کہیں.مگر جس جس حکومت میں احمدی رہتا ہے، وہاں وہ اپنی حکومت سے یہ درخواست کر سکتا ہے کہ جماعت احمد یہ اتنے بچوں کو گھر مہیا کرنے کے لئے تیار ہے، والدین مہیا کرنے کے لئے تیار ہے، تربیت کی ساری ذمہ داریاں قبول کرنے کے لئے تیار ہے اور جس حد تک بھی توفیق ہے، بہترین تعلیم دینے کی ذمہ دار ہے.یہ فیصلے ہر ملک میں اپنے طور پر ہو سکتے ہیں.پہلے وہ اپنا جائزہ لیں اور پھر اپنے اپنے ذرائع سے وہ حکومت سے رابطہ پیدا کر کے، پہلے اپنا جائزہ لیں اور پھر یہ پیشکش کریں کہ ہم اتنے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں.یہ جو احسان ہوگا بنی نوع انسان کے بچوں پر، یہ آپ کے بچوں کے حق میں ایک صدقہ جاریہ بن جائے گا.آپ کی کوششوں میں اتنی برکت پڑے گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے کہ پہلے اگر ایک کے نتیجہ میں دس نعمتیں ملتی تھیں، اب ایک کے نتیجہ میں سونعمتیں ملنی شروع ہو جائیں گی...چنانچہ اس سلسلہ میں، میں نے ایک یتیم خانے کے متعلق ہدایت دی تھی، جو خدا کے فضل سے مکمل بھی ہو چکا ہے.ایک اور وسیع یتیم خانہ ربوہ میں بنانے کا پروگرام ہے، انشاء اللہ.اور اگر ربوہ کا ماحول سازگار نہ ہو تو کسی اور ملک میں بنالیں گے.یتامی کی جو ضرورت تو عالمگیر ہے.ضروری نہیں کہ مرکز احمدیت میں ہی ہو.افریقہ کے ممالک میں بھی ہو سکتے ہیں، دوسری جگہ میں بھی ہو سکتے ہیں.چنانچہ ہمارے ایک مخلص احمدی دوست نے تھیں، چالیس لاکھ روپے کی پیشکش کی ہے کہ میری طرف سے ایک نہایت اعلیٰ یتیم خانہ اپنی مرضی کا بنوالیں.وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ بنے گا لیکن جن گھروں کو توفیق ہو، وہ گھر اپنے آپ کو پیش کریں کہ ہم ایک یتیم ایل سلواڈور کا پالنے کے لئے تیار ہیں.اور اگر تربیتی مشکلات پیش نظر ہوں ، گھر کے ماحول پر ایسے بچوں کے بداثر پڑنے کا خطرہ ہو، جو بالکل غیر اسلامی ماحول سے آرہے ہیں، جن کی تربیت اور طرح سے ہوئی ہے تو اس سلسلہ میں جماعت یہ بھی کر سکتی ہے کہ اجتماعی طور پر یتیم خانے کا انتظام کرے.ہم اسلام آباد کو بھی اس ضمن میں استعمال کر سکتے ہیں.صرف انگلستان کی جماعت کے لئے ہی نہیں بلکہ بعض دوسری جماعتوں کی طرف سے بھی.مثلاً یہ ہو سکتا ہے کہ انگلستان کے بعض خاندان یہ ذمہ داری قبول کر سکیں کہ ہم یتیم کو پالیں گے بھی اور بہترین تربیت بھی کریں گے اور تعلیم 432

Page 442

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1986ء بھی اعلیٰ دیں گے.اور بعض سمجھیں کہ ہم یہ تو نہیں کر سکتے مگر ایک گھر ایک یتیم کا خرچ دینے کے لئے تیار ہیں یا ایک جگہ کے دس گھر مل کر یتیم کا خرچ دینے کے لئے تیار ہیں.وہ خرچ کیا ہوگا؟ یہ جماعت فیصلہ کر کے بتائے گی پھر.ایسی صورت میں ہم اسلام آباد میں پچاس یا سویتامی کے لئے انتظام کر سکتے ہیں.انگلستان کی جماعت خواہ انگلستان سے مانگے یا باہر کی جماعتیں اپنے اپنے طور پر مانگیں.مگر یہ وضاحت کر کے کہ ان بچوں کو ہم انگلستان میں بھجوائیں گے.اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اپنے اپنے ملک میں جماعتی انتظام کے تابع چھوٹے چھوٹے یتیم خانے بنائے جاسکتے ہیں.ایسی احمدی خواتین ہیں، جواپنی زندگی اس معاملہ میں خوشی کے ساتھ پیش کریں گی.ایسے بوڑھے بزرگ ہیں، جو بڑی خوشی کے ساتھ اس نیک کام میں اپنے آپ کو پیش کریں گے کہ وہ ماں باپ کے طور پر ان معنوں میں ماں باپ کہ وہ ان کو ماں کا پیار بھی دینے والے ہوں اور باپ کی نگرانی بھی کرنے والے ہوں، جماعت ان کو ایسے بزرگ مہیا کر دے گی.ایک چھوٹا سا گھر کرایہ پر لے لیا جائے گا یا اگر توفیق ہے تو خرید لیا جائے گا اور جتنے بیتامی کو وہاں پالا جا سکتا ہو، وہاں ان کے لئے حکومت سے پیش کش کر کے حکومت سے گفت و شنید کر کے فیصلہ کریں اور مطلع کریں کہ ہم خدا کے فضل سے اتنے یتامی کی پرورش کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں.خدا نے یہ جو نیکی کی ایک اور راہ دکھا دی ہے، یہ جواب ہے ربوہ کے اس گندے جلسہ کی گندی گالیوں کا.اس لئے ان لوگوں نے تو ہارنا ہی ہارنا ہے.ان کے پہلے سوائے گند کے ہے کچھ نہیں.اور جتنا زیادہ گند بولتے ہیں، ہمیں اور زیادہ حسین بناتے چلے جارہے ہیں.اور زیادہ ہمیں نیکی کی راہیں دکھاتے چلے جارہے ہیں.اس لئے لازماً قرآن کریم کے فیصلے کے مطابق احمدیت جیتے گی، اس کے مقدر میں شکست ہو ہی نہیں سکتی.کیونکہ آپ کی نظر حسن پر ہے اور دائمی حسن پر پڑی ہوئی ہے.ہمیشہ اپنے نظریات کو بھی حسین تر اور اعمال کو بھی حسین تر بنانے کی کوشش میں آپ مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں نصرت عطا فرما رہا ہے اور آئندہ بھی فرماتا چلا جائے.آمین.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 675 تا 692) 433

Page 443

Page 444

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 1986ء آئندہ فتح و شکست کا فیصلہ نظریات کی دنیا میں نہیں ہوگا عمل کی دنیا میں ہوگا وو خطبہ جمعہ فرموده 124اکتوبر 1986ء پس یہ جو دنیا میں نظریات کی جنگیں ہو رہی ہیں یا آئندہ دنیا کے نقشوں کی باتیں ہو رہی ہیں، اس میں فتح و شکست کا فیصلہ نظریات کی دنیا میں نہیں ہوگا، عمل کی دنیا میں ہوگا.اور عمل کی دنیا میں خواہ ایک جماعت چھوٹی بھی ہو، اگر وہ اسلام کے نظریات کو اپنے اعمال کی دنیا میں ڈھال لے گی، اگر اسلام صرف قرآن کا اسلام نہیں رہے گایا نام کا اسلام نہیں رہے گا بلکہ کسی جماعت کے اندر راسخ اور رائج ہو جائے گا، اس کے خون میں گھل مل جائے گا، اس کے اعمال میں ڈھل جائے گا، اس کی صورتوں سے ظاہر ہونے لگے گا، اگر خود اس جماعت کو امن نصیب ہوا اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی تو پھر یقیناً ایسی جماعت إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ کے استثناء کے تابع دنیا میں بالآخر برومند اور فتح مند ہونے والی جماعت ثابت ہوگی.اور اگر خدانخواستہ ایسا واقعہ نہ ہو تو قرآن تو بہر حال سچا نکلے گا مگر وہ جماعتیں ضرور مٹادی جائیں گی.اور ان کی جگہ خدا اور جماعتیں لے آئے گا، جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے قرآن کی سچائی کو بہر حال دنیا میں ثابت کرنا ہے.جرمنی میں بسنے والے احمدی ہوں یا یورپ کے دیگر جماعتوں کے بسنے والے احمدی ہوں، جو آج اس خالصہ دینی اجتماع کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، یہی میرا ان کے نام پیغام ہے کہ آج آپ امن کے محافظ کے طور پر دنیا میں قائم کئے گئے ہیں.آج اسلام کے نمائندہ اور ایمبیسیڈر (Embassider) اور سفراء کے طور پر آپ دنیا میں نکلے ہیں.جہاں کہیں سے بھی آپ آئیں، جہاں کہیں بھی آپ جانے والے ہیں، آپ کی یہ حیثیت اولین حیثیت ہونی چاہئے کہ آپ اسلام کے سفیر ہیں.یعنی امن کے سفیر ہیں.اور اس امن کے سفیر ہیں، جو واقعاتی طور پر آپ نے پالیا ہے، آپ کی زندگیوں میں راسخ ہو چکا ہے.اس امن کی تلاش کرتے رہیں، جب تک وہ امن آپ کو نصیب نہ ہو.اور دنیا کو موقع دیں کہ وہ امن آپ سے حاصل کرے.اس حیثیت میں زندہ رہیں گے تو آپ یقینا ایک فاتح کی حیثیت میں زندہ رہیں گے.اور قرآن کریم کے اسلوب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب بھی خدا ایسے استثناء بناتا ہے، 435

Page 445

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 اکتوبر 1986ء پھر تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ تو مراد یہ نہیں ہوتی ہے کہ یہ تھوڑے لوگ ہمیشہ تھوڑے رہیں گے.مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ تھوڑے ہونے کے باوجود دنیا میں غالب آنے والے ہیں.ایک ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ یہ غالب آجائیں گے.اور گھاٹے والا انسان دنیا کی صف سے پیچھے دھکیل دیا جائے گا.گویا کہ ایک ڈرامہ میں ایک کردار نے اپنا پارٹ ادا کیا، اپنا کھیل کھیلا اور غائب ہو گیا اور ایک نیا کردار ابھرا.تو إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ایک نئے کردار کو دکھانے کا دروازہ کھول رہا ہے.ایک نئے کردار سے پردہ اٹھانے والی آیت ہے اور وہ آپ کا کردار ہے.اے احمدی نوجوانو! اے مستقبل کے محافظو !! جو آئندہ دنیا میں اسلام کے فتح مند ہونے کے لئے آج خدا تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے لئے مقرر کئے گئے ہو.آج تم اسلام کو سیکھو تا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو تم اسلام سکھا سکو.آج اسلام کے امن کو اپنی سوسائٹیوں میں راسخ کر دو تا کہ آئندہ آنے والی سوسائٹیوں کے امن کی ضمانت دے سکو.تم مراد ہو اس آیت کے.اگر تم اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تو پھر دنیا کا مستقبل یقیناً پر امن ہوگا.اور اگر تم اس مقصد میں ناکام ہو گئے تو بالآخر اسلام تو غالب آئے گا مگر تمہارے ذریعہ نہیں ، ان لوگوں کے ذریعہ، جو اپنے اس دعوئی میں بچے ہوں گے.وہ اسلام پر ایمان بھی لائیں گے اور اسلام پر عمل کر کے بھی دکھائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.یہ باتیں بظاہر ایسی ہیں، جو ہر آدمی سن کر قبول کر سکتا ہے.ہر احمدی کے لئے ان باتوں کو سن کر ان پر عمل کرنا بظا ہر مشکل نہیں ہے، معمولی بات دکھائی دیتی ہے.مگر میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ یہ بہت محنت کا کام ہے.صبر کا مضمون اس طرف متوجہ کر رہا ہے کہ میرے ایک خطبے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا، میرے دس خطبوں سے بھی یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا، ہزار ہا نصیحت کرنے والے آپ پر آ کر نصیحت کا رنگ چڑھاتے چلے جائیں، تب بھی یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.اس کے لئے ہردل کے اندر ایک غیر معمولی تبدیلی کی ضرورت ہوا کرتی ہے.اور یہ توفیق دل کی سچائی سے نصیب ہوتی ہے، کسی بیرونی سچائی کو سننے سے نصیب نہیں ہوا کرتی، اس بات کو یا درکھیں.کئی سال ہو گئے، مجھے عائلی زندگی کے امن کے اوپر مختلف رنگ میں روشنی ڈالتے ہوئے.بعض جگہ نیک اثر بھی پیدا ہوئے ہیں.لیکن آج بھی میں کم سے کم خدا کی قسم کھا کر دنیا میں یہ اعلان نہیں کر سکتا کہ 436

Page 446

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ہفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 124 اکتوبر 1986ء احمدی گھر آج جنت کا نمونہ بن چکے ہیں.میں کسی ایک ملک میں بھی یہ اعلان نہیں کر سکتا، نہ پاکستان میں کر سکتا ہوں، نہ ہندوستان میں کر سکتا ہوں، نہ انگلستان میں کر سکتا ہوں، نہ چین یا جاپان یا جرمنی میں کر سکتا ہوں.کیونکہ روزانہ مجھے کثرت کے ساتھ ایسے خطوط موصول ہوتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ یا مرد عورت کے مظالم کا شکار ہے یا عورت مرد کے مظالم کا شکار ہے.یا مرد کسی دوسرے مرد کے مظالم کا شکار ہے یا عورت کسی دوسری عورت کے مظالم کا شکار ہے.پس منہ سے کہہ دینا کہ ہاں عائلی امن ہمیں نصیب ہوگا تو دنیا میں ہم امن پیدا کر دیں گے، ہم دنیا پر اسلام کی برتری ثابت کر دیں گے ، آسان کام نہیں ہے.لیکن جتنی محنت یہ کام چاہتا ہے، اس محنت کا نقشہ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ میں صبر کے حصے نے ہمارے سامنے کھول دیا ہے.بڑے صبر کی ضرورت ہے.مجھے بھی صبر کی ضرورت ہے کہ میں جو نصیحت کروں، وہ کرتا جاؤں اور نہ تھکوں اور نہ مایوس ہوں.اور آپ کو بھی صبر کی ضرورت ہے کہ اپنی کوششوں میں صبر اختیار کریں.ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہیں اور اگر آپ کے گھروں میں بدامنی کے آثار پائے جاتے ہیں تو چین سے نہ بیٹھیں ، جب تک اس بدامنی کے آثار کو زائل نہ کرلیں، ان کو ملیا میٹ نہ کر دیں.آپ نے اسلام کی وہ جنت، جو اسلام دنیا میں بنانے کا دعویٰ کرتا ہے، پہلے اپنے گھروں میں بنا کر دکھانی ہے.اگر یہ جنت آپ کے گھروں کو نصیب نہ ہوئی تو یقینا دنیا کو آپ سے کسی قسم کی جنت کی امید رکھنا، ایک امید باطل کا قصہ ہوگا، ایک موہوم خیال ہوگا.دنیا پاگل ہوگی اگر آپ سے امن کی توقع رکھے، اگر آپ نے خود اپنے گھروں کو امن عطا نہیں کیا.اس لئے ایک نہایت ہی اہم بات ہے، ایک ایسا نکتہ ہے، جسے سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آپ عظیم الشان فتوحات حاصل کر سکتے ہیں.لیکن اسے نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں جس طرح بارہا آپ نظر انداز کرتے رہے ہیں اور کرتے چلے جارہے ہیں، آپ اسی جگہ ڈھونڈتے پھرتے رہیں گے اور ترقی کی وہ نئی راہیں آپ پر نہیں کھلیں گی، جن راہوں پر چلنے کے بعد آپ ایک ایسے مقام پر پہنچ کر دنیا کو دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا آپ کو اپنی فتوحات کے قدموں کے دامن میں بچھی ہوئی دکھائی دے.اس لئے دعائیں کریں اور استغفار کریں اور دیانت داری کے ساتھ ان نظریاتی بلند باتوں کو سادہ عام عمل کی دنیا میں اتارنے کی کوشش کریں.جب تک روز مرہ کی زندگی میں یہ باتیں رائج ہوتی دکھائی نہیں دیتیں، اس وقت تک اسلام کا یہ دعویٰ کہ وہ دنیا کو امن عطا کر دے گا، یہ دعوی سچا ثابت نہیں ہو سکتا.( مطبوعہ خطبات طاہر جلد 105 صفحہ 712 تا 715) 437

Page 447

Page 448

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ہی خلاصہ خطاب فرمودہ 24اکتوبر 1986ء قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ امن ہے اور حصول امن کا آسان ذریعہ ذکر الہی ہے خطاب فرمودہ 24 اکتوبر 1986ء بر موقع سالانہ اجتماع مجالس خدام الاحمدیہ یورپ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ خدام الاحمدیہ مغربی جرمنی کو یوروپین اجتماع منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.جب بھی جرمنی آنے کا موقع ملا ہے، پہلے سے ہر دفعہ حاضری میں اضافہ دیکھا.یہ کبھی نہیں دیکھا کہ حاضری میں کمی ہوئی ہو.فرمایا کہ "برکتوں کے ساتھ ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں“.حضور نے فرمایا:.و قرآن کریم کا خلاصہ امن ہے اور جب تک یہ انسان کی ذات سے شروع نہ ہو، بیرونی دنیا میں اس کے قیام کا دعویٰ غلط ہے.انسان کی ذات سے یہ کیسے شروع ہو اور کیسے نصیب ہو؟ اس کا آسان ذریعہ ذکر الہی ہے.اس میں ہی طمانیت قلب ہے.ورنہ کئی ظاہری امن ہیں، جن کی کوئی حقیقت نہیں.دنیا کی لذتوں میں ڈوب کر بھی ایک امن نصیب ہو جاتا ہے، لیکن اس کی کوئی حیثیت نہیں.طمانیت تو کہتے ہی ہیں کہ جو دل میں گھر کرلے اور مستقل سکینت عطا کر دے اور اس کا ذکر قرآن کریم نے أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ میں فرمایا ہے.جس کے ساتھ اللہ رہے، اس کا ماحول پر سکون ہو جاتا ہے.یہ تعلق ایسا ہے کہ جو چھپا نہیں رہ سکتا.بلکہ ظاہری دنیا کی طرح محبت الہی کا بیچ بھی بڑھ کر انسانی دل کو مرغزار بنا دیتا ہے.اگر دلوں کو یہ سکون نصیب ہو جائے تو حقیقی امن ہمیں نصیب ہو جائے گا.خدا کرے ایسا ہی ہو“.مطبوعہ ہفت روزہ النصر 14 نومبر 1986.439

Page 449

Page 450

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسه سالانه سین تبلیغ کا میدان آپ سب کی خاص توجہ کا متقاضی ہے پیغام بر موقع جلسه سالانه پین منعقد 24,250اکتوبر 1986ء پیارے عزیزان! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ جماعت احمدیہ پین اپنا سالانہ جلسہ 24 اور 25 اکتوبر 1986ء کو منعقد کر رہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس جلسہ کو غیر معمولی طور پر کامیاب فرمائے.پیارے عزیزو! آپ دنیا کے عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں.آپ اس مسیح محمدی کے غلام ہیں.جس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے گا تو وہ اسے پھر سے زمین میں قائم کرے گا.پس اپنے اس مقام کو ہمیشہ مد نظر رکھیں.بلند پروازی اختیار کریں اور روحانی رفعتوں کو حاصل کریں.تبلیغ کا میدان آپ سب کی خاص توجہ کا متقاضی ہے.اہل سپین کے دلوں کو اسلام کی خاطر جیتنے، انہیں خدائے واحد کا پرستار بنانے کے لئے جس جوش و جذبہ کی ضرورت ہے، اس طرف ابھی پوری توجہ پیدا نہیں ہوئی.آپ اس دور میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نمائندہ ہیں.اس کا حق ادا کیجئے.آج احمدیت فتح کے نئے ادوار میں داخل ہونے کے لئے آپ سے بے لوث اور مخلصانہ قربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہے.پس عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے ، اپنے اعلیٰ اخلاق، بے لوث خدمت محنت اور دعاؤں کے ساتھ آگے بڑھیں اور اہل سپین کی تقدیر کو بدل ڈالیں.اہل سپین کو اپنے دلوں میں بسائیں ، ان سے مسلسل رابطہ رکھیں اور تعلقات بڑھا ئیں.بار بار ملاقات سے بھی دلوں کے زنگ اترتے ہیں اور بہت سے شبہات کا ازالہ ہو کر صداقت اپنے نکھار کے ساتھ نکھرتی ہے اور صحیح صورتحال سامنے آتی ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے 441

Page 451

پیغام بر موقع جلسه سالا نہ پین تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم دل اسلام اور احمدیت کے لئے کھول دے اور آپ کی طرف سے مجھے بیعتوں کی اطلاع ملنی شروع ہو جائے.تا میرا دل یہ خوشیوں بھری خبر سن کر جھوم اٹھے اور آپ پہلے سے بہت بڑھ کر میری دعا ئیں لوٹنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو احسن رنگ میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق دے اور ہر آن آپ کے ساتھ ہو، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.(آمین) والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع (مطبوعہ ہفت روزہ النصر 25 دسمبر 1986ء) 442

Page 452

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ خلاصہ خطاب فرمودہ 26اکتوبر 1986ء مغرب سے دین کا سورج دوبارہ ابھرے گا اور سارے عالم کو روشن کر دے گا خطاب فرمودہ 126 اکتوبر 1986ء بر موقع سالانہ اجتماع مجالس خدام الاحمدیہ یورپ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا بے انتہا فضل اور اس کا احسان ہے کہ اس نے خدام الاحمدیہ کے تیسرے یورپین اجتماع کو غیر معمولی رونق عطا فرمائی.اور منتظمین کی جتنی توقعات تھیں، ان سے بہت بڑھ کر اجتماع کی حاضری بڑھادی.گزشتہ سال اجتماع کی حاضری آٹھ سوتھی ، جبکہ امسال اٹھارہ سو سے بھی زائد ہے.یہ غیر معمولی اضافہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے.اس اجتماع میں شامل ہونے والوں کی کثیر تعداد جرمنی کے خدام کی ہے.جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جرمنی میں دو ہزار کے قریب خدام ضرور ہوں گے.فعال نو جوانوں کی اتنی بڑی تعداد کسی ملک کو عطا ہو جائے تو اس ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے.اس لئے آپ شیروں کی طرح یہ عزم لے کر اٹھیں کہ اس ملک کو دین حق کے لئے فتح کرنا ہے.دینی اصطلاح میں فتح سے مراد دلوں اور روحوں پر قبضہ ہے، نہ کہ ظاہری فتح اور دلوں اور روحوں پر قبضہ سے پہلے خود مفتوح ہونا پڑتا ہے.جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ عشق اول در دل معشوق پیدا می شود پس حقیقت میں ہماری فتح سے مراد دنیاوی فتح نہیں بلکہ وہ روحانی فتح ہے، جس کے نتیجہ میں جو مغلوب ہوتے ہیں، وہ بھی فاتح بن جاتے ہیں اور نجات پا جاتے ہیں.فرمایا...”جرمنی میں خدام کی حاضری سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہاں ترقی کے نمایاں امکانات ہیں.کیونکہ نو جوانوں میں کام کی ہمت ہوتی ہے اور خدمت کا جذبہ بھی ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو مٹادینے کی طاقت بھی رکھتے ہیں، ان میں مالی اور جانی قربانی کی بھی زیادہ ہمت ہوتی ہے.اس لحاظ سے جرمنی کو ایک فوقیت ہے کہ یہاں احمدیوں کی تعداد زیادہ نو جوانوں پر مشتمل ہے.دوسرا پہلو یہ ہے کہ جرمن قوم زیادہ سعادت مند اور سلیم فطرت ہے.یہ لوگ سنجیدہ مزاج رکھتے ہیں اور غیر قوموں کو قبول کرنے کے لئے ان میں وسعت قلبی بھی ہے.ان کو تنگ دل کہنا امر واقعہ کے 443

Page 453

خلاصہ خطاب فرمودہ 26اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاف ہے.جرمن قوم میں دین حق کو قبول کرنے کی صلاحیتیں دیگر یورپین قوموں سے بہت زیادہ ہیں.حقیقت حال کو قبول کرنے میں زیادہ مخلص ہیں.اور اگر قریبی نظر سے دیکھیں تو یہ نہایت اعلیٰ قدروں سے مزین پائے جاتے ہیں.یہی وجہ تھی کہ حضرت فضل عمر نے بھی یورپ میں ابتداء جرمن قوم کو ہی احمدیت کے لئے منتخب فرمایا تھا.مزید فرمایا کہ اس لحاظ سے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے.اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے دو پہلو ہیں، جن کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے.اول: جب تک ہر احمدی داعی الی اللہ نہیں بن جاتا، اس وقت تک جرمنی کو احمدی بنالینا ، موہوم خیال ہے.دوم: اگر تم اپنے اس دعوئی میں بچے ہو کہ ساری دنیا کو اس مقدس وجود کی غلامی میں لے آؤ گے، جس کی خاطر یہ کائنات پیدا کی گئی ہے تو غور کرو کہ تم اس کے لئے کیا تبدیلی اپنے وجودوں میں پاتے ہو؟ تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس راہ میں ہماری کوشش بہت کمزور ہے.پس اپنے مقصود کو تعین کریں اور اپنے مقاصد کو بلند کریں، اپنی اصلاح کریں.نوجوانی کی عمر میں اپنی اصلاح کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے.اگر آپ سنجیدگی سے دعوت الی اللہ کے کام میں شامل ہوں گے تو اگلے سال اٹھارہ سو کی بجائے دو گنے خدام ہونے چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں پھل دینے میں کم حوصلہ نہیں ہے.پس ہر خادم کا فرض ہے کہ وہ آج یہاں سے فیصلہ کر کے اٹھے کہ وہ داعیان الی اللہ کی فوج کا سپاہی بن جائے گا.اس کے لئے کیا طریق اختیار کیا جائے؟“ فرمایا:.اول، اراده باندھنا بہت ضروری ہے.جس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ توفیق طلب کرنا اور مدد مانگنا، بہت اہم امر ہے.پھر اس کے بعد دوسری چیز زبان کا سیکھنا ہے.اگر آپ دعا میں سنجیدہ ہیں تو زبان بھی آپ کے لئے آسان ہو جائے گی.پس زبان سیکھیں اور ارادہ کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کو سیکھنا ہے.اس سے آپ کو دنیا میں بھی عظیم الشان فوائد حاصل ہوں گے.سنجیدگی سے زبان سیکھیں اور سیکھنے والوں سے استہزاء کی عادت کو بھی ختم کریں.صحیح تلفظ سے سیکھنے کی کوشش کریں.زبان سیکھنے کے لئے زبان کا اصل انداز اپنانا ضروری ہوتا ہے.جب آپ زبان سیکھ لیں گے تو پھر یہ قوم آپ کو قبول کر لے گی.444

Page 454

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پھر فرمایا:.خلاصہ خطاب فرمودہ 26 اکتوبر 1986ء چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہمیت دیں اور سنجیدگی سے زبان سیکھیں اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں.احساس ذمہ داری سے اس قوم کے حقوق ادا کریں.اگر آپ ایسا کرنے لگیں گے تو پھر ہر اجتماع پر آپ کی تعداد میں اضافہ ہوگا.اتنا اضافہ ہوگا کہ جماعت میں کثیر تعداد جرمن لوگوں کی ہوگی.حضور نے فرمایا:.وو یہ ایک انتہائی ضروری امر ہے.میں آپ کو بار بار اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یورپ کو اگر آپ نے ہلاکت سے بچانا ہے تو جرمن قوم کو ہلاکت سے بچائے بغیر یورپ نہیں بیچ سکتا.اس قوم کو اولیت حاصل ہے.پہلے ان کی طرف توجہ دیں، ان کو سنبھال لیں ، پھر سارا کام یہ خود کریں گے.دین کی خاطر پھر یہ صف اول کے خادم بن جائیں گے.اگر آپ جرمن قوم کو سنبھال لیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ یورپ کی تقدیر بھی بدل جائے گی.اور اگر سارا یورپ احمدی ہو جائے تو ساری دنیا کے لئے احمدی بنے بغیر کوئی چارہ رہے گا.ایسی صورت میں، میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مغرب سے دین کا سورج طلوع ہوگا اور ضرور مغرب سے دین کا سورج طلوع ہوگا.اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی حرف بحرف کچی نکلے گی.پس اے مغرب سے دین کا سورج طلوع ہونے کی تمنار کھنے والو! تمہاری محنتوں سے تمہاری توجہ سے اور تمہاری قربانیوں سے یہ مغرب میں ڈوبتا ہوا سورج دوبارہ ابھرے گا اور سارے عالم کو روشن کر دے گا.پس یہی پیغام تھا، جو میں نے آپ کو دینا تھا.میں امید کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں اور کرتار ہوں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سنجیدگی سے ان باتوں کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ نومبر 1986ء) 445

Page 455

Page 456

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکز یہ قادریان قوموں کے عروج وزوال میں عورتوں کا گہرا ہاتھ ہوتا ہے پیغام بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکز یہ قادیان منعقدہ اکتوبر 1986ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر میری عزیز بہنو اور بچیو! السلام عليكم ورحمة الله.وبر كاته مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی ہے کہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ قادیان اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنا پہلا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق پارہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.نیک مقاصد کے ساتھ احمدیت کے دائگی مرکز میں جمع ہونا، آپ سب کو مبارک ہو.اور ان سب اجتماعات سے وابستہ فیوض و برکات سے وافر حصہ لے کر احمدیت کے پاک نمونے بننے کی آپ کو توفیق ملے ، آمین.مامور زمانہ کی بعثت کا مقصد جہاں دنیا میں خدائے واحد و یگانہ کی توحید کا قیام ہوتا ہے، وہاں مخلوق خدا میں باہمی محبت اور پیار کو استوار کرنا بھی ان کا مدعا ہوتا ہے.اس زمانہ میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسی مشن کے ساتھ مبعوث ہوئے.آپ فرماتے ہیں:." میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول : خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے: آپس میں محبت و ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو“.( ملفوظات جلد 01 صفحه (336) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی ان دو اغراض کے پیش نظر میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ آپ کے بھی کچھ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں.قوموں کے عروج وزوال میں عورتوں کا گہرا ہاتھ ہوتا ہے.کیونکہ نئی نسلوں کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی الجنة تحت اقدام الامهات 447

Page 457

پیغام بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکز یہ قادیان تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم کے الفاظ میں اس طرف لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ ماؤں کی اچھی تربیت کے نتیجہ میں ہی ساری قوم کا قدم جنت کی طرف اور ترقی کی طرف اٹھ سکتا ہے.اسی غرض سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم فرمائی تھی.تا ان کی اچھی تربیت کے ذریعہ صادقوں کی وہ جماعت تیار ہو، جودین کی خدمت اور مخلوق کی ہمدردی میں عدیم المثال ہو.اور یہی خلاصہ ہے، آپ کے عہد کا جو آپ ہمیشہ دہراتی ہیں.یادرکھیں بچی تو حید تقاضا کرتی ہے، اس بلائی روح کا، جس کی احد احد کی صدائیں صرف خدا کو اپنا معبود و مقصود اور مطلوب قرار دے کر اس کی وفاداری اور بندگی کا دم بھرتی ہوں.کیونکہ وہی سچا، زندہ اور وفادار خدا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ اس رنگ میں اپنے رب سے محبت کریں گی اور اس کی طرف جھکیں گی تو وہ ہمیشہ آسمان سے آپ کی مدد کے لئے اترے گا اور آپ کے خلاف کفر کی سب تدبیروں کو یکسر باطل کر دے گا.انشاء اللہ العزیز پیاری بہنو! جہاں تک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی دوسری غرض یعنی مخلوق خدا سے ہمدردی اور محبت کا تعلق ہے، یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے بارے میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھلایا ہے کہ اس کی بنیاد الحب فی اللہ پر ہونی چاہئے.یعنی محض اللہ کی خاطر اس کی مخلوق سے محبت کی جائے اور اس کے عوض کبھی جزاء یا شکر و سپاس کی خواہش دل میں نہ رکھی جائے.پس آپ بھی اس ارشاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ کی خاطر اس کے بندوں سے محبت کریں.کسی سے کینہ نہ رکھیں، کسی سے بغض نہ رکھیں کسی سے حسد نہ کریں، باہم اتفاق رکھیں ، ہر ایک کی دلداری کریں ، بچی پر ہیز گاری سے کام لیں اور حسن سلوک سے پیش آئیں.یقیناً محبت سے ہی دل جیتے جایا کرتے ہیں.اور یہ محبت ہی ہے، جو دنیا کو ظلمتوں سے نکال کر نور کے اجالوں میں لا بٹھایا کرتی ہے.لیکن اس مقصد میں کامیابی تبھی ممکن ہے، جب آپ اپنے گھروں کو جنت ارضی میں تبدیل کر دیں گی.اور ان میں پلنے والی نسلوں کی اچھی تربیت کر کے انہیں اپنے نصب العین سے وہ مکمل آگہی دیں گی کہ جس کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ فطری نیکی اور طبعی جذبہ حب خلائق سے سرشار ہو کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بنی نوع انسان کے دلوں کو جیتے رہیں.پس مسیح پاک کے ان نونہالوں کی، جو آپ کے پاس جماعت کی ایک امانت ہیں، اچھی تربیت کریں.اور اس غرض کے لئے ہمیشہ اس امر کو ذہن نشین رکھیں کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی تربیت کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے.لہذا اسی زمانہ سے خدا کے حضور درد دل سے دعائیں کرتے ہوئے ان کی دینی و دنیوی ترقی کے لئے انہیں زیور علم وعمل سے آراستہ کرنے کی کوشش کریں.اور بچپن کی تربیت کے ذریعہ 448

Page 458

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم پیغام بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکز یہ قادیان انہیں اس راستہ پر ڈال دیں، جو جنت کا راستہ ہے.تاکہ بڑے ہو کر وہ اسلام کی ایک جیتی جاگتی تصویر بن جائیں.اس طرح آپ کے وجودوں سے سلسلہ کو جو مدد ملے گی، اس پر آنے والی نسلیں بھی فخر کریں گی.اور تاریخ احمدیت ہمیشہ اس پیار سے آپ کو یادر کھے گی کہ محمد عربی کے عاشقان صادق اور مہدی معہود کے شیدائی ان گودوں کے پالے ہیں.اللہ آپ کے ساتھ ہو.آپ اس کی ہوں اور وہ آپ کا ہو.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعہ ہفت روزہ النصر 28 نومبر 1986ء بشکریہ ہفت روز : "بدر" قادیان 30 اکتوبر 1986ء) 449

Page 459

Page 460

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد من خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1986ء تحریک جدید انجمن احمد یہ وقف زندگی کے نظام کی سب سے نمایاں مظہر ہے خطبہ جمعہ فرموده 31 اکتوبر 1986ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی:.اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبة : 111) اور پھر فرمایا:.قرآن کریم یہ اعلان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لی ہیں اور ان کے اموال بھی خرید لئے ہیں.کس قیمت پر؟ فرمایا: اس قیمت پر کہ اللہ تعالیٰ ان سے جنت کا وعدہ فرماتا ہے.آج جماعت احمدیہ کا نظام خواہ مرکزی انجمنیں ہوں یا ذیلی تنظیمیں، تمام کا تمام اس آیت کریمہ کا مصداق نظر آتا ہے.صدر انجمن میں بھی اور تحریک جدید میں بھی اور وقف جدید میں بھی اور انصار اللہ میں بھی، خدام الاحمدیہ اور لجنات میں بھی، اطفال میں بھی اور ناصرات میں بھی جانیں پیش کرنا اور وقت کی قربانی پیش کرنا اور اموال پیش کرنا اور اپنی عزیز متاع کو خدا کے حضور قربان کر دینا، ہر رنگ میں بہت ہی حسین منظر کے ساتھ دکھائی دے رہا ہے.اور انفرادی طور پر بھی بہت ہی خوبصورت اور دلکش جانی اور مالی قربانی کے واقعات نظر کے سامنے آتے رہتے ہیں اور اجتماعی طور پر جماعت احمدیہ کی ہر تنظیم کی طرف سے بھی ان دونوں پہلوؤں سے مسلسل اللہ تعالیٰ کے فضل سے قدم آگے سے آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے.جہاں تک با قاعدہ وقف زندگی کا تعلق ہے، تحریک جدید انجمن احمد یہ وقف زندگی کے نظام کی سب سے نمایاں مظہر ہے.اور مالی قربانی کے لحاظ سے بھی دوسری تنظیموں سے مقابلہ پیچھے نہیں ہے.آج بفضلہ تعالیٰ 31 اکتوبر کو تحریک جدید کے دور اول کا 52 واں سال ختم ہو رہا ہے.اور دفتر دوم کا 32 واں سال ختم ہو رہا ہے.اور دفتر سوم کا 21 واں سال ختم ہورہا ہے.اور دفتر چہارم، جس کا گذشتہ سال میں نے اعلان کیا تھا، اس کا پہلا سال ختم ہو رہا ہے.اور دستور کے مطابق جو سابقہ روایات ہیں ، ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، اکتوبر کے آخری جمعہ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے.پس آج 451

Page 461

خطبہ جمعہ فرموده 131 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم میں اس خطبہ کے ذریعہ تحریک جدید کے دفتر اول کے 53 ویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.اور تحریک جدید کے دفتر دوم کے 33 ویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.اور دفتر سوم کے 22 ویں سال کے آغاز کا اعلان اور دفتر چہارم کے دوسرے سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.عمومی طور پر جن تنظیموں کے سپر د بعض سالوں کی نگرانی سپرد کی گئی تھی ، انہوں نے بفضلہ تعالیٰ بڑی عمدگی کے ساتھ اور بڑی محنت کے ساتھ دوران سال کام کو آگے بڑھایا اور مختلف وقتوں میں مجھے رپورٹیں بھی بھجواتی رہیں.ان کے کام کی تفصیل کا ذکر تو یہاں نہیں کیا جاسکتا لیکن جونتائج ہیں ، وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کیا تحریک جدید کے کارکنان ، جن کا مال سے تعلق ہے اور کیا دیگر تنظیمیں ، انہوں نے بفضلہ تعالی بڑی تندہی اور جاں فشانی سے سارا سال جو محنت کی تھی، اللہ تعالٰی نے اس کو بہترین پھل لگائے ہیں.اور صرف ان کی محنت کا اس میں دخل نہیں.جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ قربانیوں کے ایک نئے دور میں داخل کر رہا ہے.اور قربانیوں کے پھل کا ، جو وعدہ ہم سے اخروی دنیا میں کیا گیا ہے، اس پر کامل یقین پیدا کرنے کے لئے اس دنیا میں بھی کثرت سے جماعت احمدیہ کی قربانیوں کو پھل لگا رہا ہے کہ کسی شک یا وہم کی گنجائش باقی نہیں رہتی.وہ خدا، جو اس دنیا میں غیر معمولی طور پر ہماری قربانیوں سے بہت بڑھا کر ایسے پھل عطا کرتا ہے، جنہیں ہماری محنت سے کوئی نسبت نہیں ہوتی تو لازماً وہی خدا اخروی دنیا میں بھی ہمارے اجر کو ضائع نہیں فرمائے گا.بلکہ توقعات سے لامتناہی طور پر زیادہ اجر حسنہ فرمائے گا.تحریک جدید کے جو کوائف اس وقت میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، ان میں سے جو اس وقت میرے سامنے ہیں، چند چن کر رکھوں گا، ورنہ بہت تفصیلی کوائف مجھے مہیا کئے گئے ہیں مرکز کے مختلف دفاتر کی طرف سے.ان سب کو پڑھنے کا نہ یہاں وقت ہے، نہ عموماً دوست کوائف کی زبان کو پوری اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں.نتیجہ اگر وہ کوائف پڑھنے شروع کر دیئے جائیں تو سننے والوں کو نیند آنی شروع ہو جاتی ہے اور کوائف پڑھ کر سنانے کا مقصد یہ نہیں کہ نیند آجائے بلکہ یہ مقصد ہوا کرتا ہے کہ جاگیں اور ہوشیار ہوں اور سمجھیں کہ کیا وہ کر چکے ہیں اور آئندہ انہیں کیا کرنا ہے؟ اس لئے میری کوشش یہی ہوگی کہ چیدہ چیدہ ایسے کوائف آپ کے سامنے رکھوں، جو سلانے کی بجائے جگانے کا کام دیں.سال گذشته 51 واں سال، جو موجودہ سال گزر رہا ہے آج ، اس سے پہلے کا سال تھا.اس میں کل وعدہ جات پاکستان کی طرف سے 44,20,000 روپے کے موصول ہوئے تھے.اور 52 ویں سال 452

Page 462

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد خطبه جمعه فرموده 31 اکتوبر 1986ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بڑھ کہ 55,64,000 روپے کے وعدے بن گئے.گویا فیصد اضافہ 26 فیصد ہوا.پاکستان کے موجودہ حالات میں جماعت جس قسم کی مشکلات کا شکار ہے، اس میں اقتصادی مشکلات بھی بہت نمایاں طور پر سامنے آرہی ہیں.بے وجہ احمدی ہونے کے جرم میں نوکریوں سے نکالے جانا، با وجود اول حق رکھنے کے نوکریاں نہ دلوانا، تجارتوں میں نقصانات اور دیگر کئی قسم کی مخالفانہ کوششیں ، جو اقتصادیات پر برا اثر ڈالتی ہیں، مثلاً بعض دکانوں کے بائیکاٹ ، بعض تجارتوں کے بائیکاٹ ، ان سب باتوں کے باوجود مسلسل خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ پاکستان کی قربانی کا قدم آگے بڑھتا چلا جارہا ہے.اور ایک ہی سال میں 26 فیصد اضافے کے ساتھ وعدہ جات پیش کرنا ، خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں.وصولی کی رفتار کے متعلق بھی وہاں کی اطلاع یہی ہے کہ ہم امید یہ رکھ رہے ہیں کہ انشاء اللہ جب سب کو ائف اکٹھے ہو جائیں گے، کیونکہ آخری دن تک سب جماعتوں کی طرف سے اطلاعیں نہیں ملا کرتیں.تو ان کی توقع یہ ہے کہ وعدوں سے بھی انشاء اللہ وصولی آگے بڑھ جائے گی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ امید لگارہے ہیں، گزشتہ سال کی تدریجی آمد سے موازنہ کر کے کہ اگر چہ وعدے تو پچپن لاکھ کچھ کے ہیں لیکن توقع یہی ہے کہ وصولی انشاء اللہ ساٹھ لاکھ تک پہنچ جائے گی.وعدوں میں جن جماعتوں نے نمایاں قربانی کا نمونہ دکھایا ہے اور خدا کے فضل سے بہت نمایاں طور پر آگے قدم بڑھایا ہے، ان میں کراچی، ملتان، ساہیوال، پشاور اور راولپنڈی اور بہاولنگر کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے.آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ سال سے میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ وہ بزرگ، جنہوں نے دفتر اول کی بنیاد ڈالی تھی.یعنی تحریک جدید کے پہلے سال میں جو تحریک جدید میں شامل ہوئے تھے، ان کی قربانیوں کا ہی یہ پھل ہے کہ آج ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کی اتنی غیر معمولی ترقی ہورہی ہے اور سو سے زائد ممالک میں جماعت احمدیہ قائم ہو چکی ہے.اس لئے ان کے کھاتوں کو تو ہمیں بہر حال زندہ رکھنا چاہئے.اور ان کی یاد کو دعاؤں کی خاطر قیامت تک آگے بڑھاتے جانا چاہئے.ہر نسل ان کو یادر کھے اور آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی رہیں اور ان پر سلام بھیجتی رہیں کہ ان کی ابتدائی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا میں اسلام کے غلبہ کی داغ بیل ڈالی.چنانچہ اس دفعہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سال میں بفضلہ تعالیٰ 1150 کھاتے بحال ہو چکے ہیں.اور گزشتہ سال کے دوران 337 کھاتے بحال ہوئے.مشکل یہ ہے کہ بہت سے بزرگ ایسے ہیں، جنہیں فوت ہوئے ، 40-30 سال بھی ہو چکے ہیں اور ان کی اولادوں کا پتہ نہیں لگ رہا کہ وہ کہاں 453

Page 463

خطبہ جمعہ فرموده 131 اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم چلی گئیں ؟ کس ملک میں جا کر سیٹل ہوگئیں؟ اور جب پتہ ہی نہیں ہے تو کس کو لکھیں کہ وہ اپنے بزرگ باپ دادا کے کھاتوں کو زندہ کریں؟ اس لئے میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ آپ ان اسماء کی فہرست شائع کریں، کتاب شائع کریں اور کثرت سے جماعتوں میں بھجوائیں اور آگے امراء تمام جماعت کے احباب کو یہ تاکید کریں کہ وہ نام پڑھیں، اپنے پرانے آباؤ اجداد کے نام تلاش کرنے کی خاطر سارے نام پڑھیں اور خصوصاً اگر ان کو یاد ہو کہ وہ پرانے کس علاقے سے تعلق رکھتے تھے؟ تو اس علاقے کی جماعت کے کوائف کو خاص طور پر لوظ رکھیں.اس طرح نظر ڈالنے سے ہو سکتا ہے کہ ان کو یاد آ جائے کہ ہمارے دادا فلاں تھے یا پڑ دادافلاں تھے، انہوں نے تحریک میں حصہ لیا تھا اور ان کی اس نیکی کو زندہ رکھنے کی خاطر اور ان کے احسانات کا بدلہ اتارنے کی خاطر ان کے نام کے کھاتوں کو زندہ کیا جائے.اس سلسلہ میں بیرون پاکستان میں چونکہ انتشار ہے جماعت کا ، بہت زیادہ انتشار، غیر منظم ہونے کے معنوں میں نہیں بلکہ بہت زیادہ پھیلاؤ ہے، اس لئے وہاں پوری توجہ سے اس کام کا تتبع نہیں کیا گیا.اور ایک قابل فکر بات یہ ہے کہ ان ممالک میں جب میں نے نوجوان نسلوں سے پوچھا ہے کہ تمہارے دادا کون تھے یا تم کس ملک کے رہنے والے ہو؟ تو اکثر جواب میں Blank چہرہ نظر آیا.ان کے چہرے پر آثار ہی ظاہر نہیں ہوئے.پتہ ہی نہیں کہ دادا کون ہے اور کس جگہ سے تعلق رکھنے والے تھے ؟ کس خاندان کے تھے؟ ابتدا میں انہوں نے کیا قربانیاں پیش کیں؟ تو سوالات کا مقصد تو یہی تھا کہ کہ پتہ لگے کہ نئی نسل کو اپنے محسنوں کا پتہ ہے کہ نہیں ؟ ضمناً مجھے خیال آیا کہ جب ان کو پتہ ہی نہیں ہے تو ان بے چاروں نے پرانے کھاتے کیا زندہ کرنے ہیں.اس لئے یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ اپنی نسلوں کو اپنے خاندان کے بزرگوں کے واقعات بتا ئیں.اور ان کو پوری طرح روشناس کرائیں کہ احمدیت کس طرح ان خاندانوں میں داخل ہوئی ؟ کس قسم کی قربانیاں انہوں نے دیں؟ کیا ان کا مقام اور مرتبہ تھا؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے کیا کیا نشانات ان پر ظاہر فرمائے؟ کیسا ان کو جماعت سے عشق تھا، کیس والہانہ تعلق تھا؟ اور ان کا اثر رسوخ علاقہ میں کیا تھا؟ کیسے معزز لوگ تھے وہ؟ یہ سارے واقعات ایسے ہیں، جن کا ذکر عام ہوتے رہنا چاہئے.اگر یہ ذکر چلے گا تو آپ کی اگلی نسلوں کا پہلی نسلوں کے ساتھ گہرا تعلق قائم ہوتا چلا جائے گا.اور یہ جو خطرہ در پیش ہے باہر کے رہنے والوں کو کہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو یہاں کا معاشرہ ہم سے چھین نہ لے، اس کے دفاع کے لئے یہ جو بندھن باندھیں گے، آپ ان کے اور اپنے پرانے آباء واجداد کے درمیان، یہ بہت ہی مفید کام سرانجام دیں گے.اس لئے یہ 454

Page 464

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1986ء بھی کریں اور ان کے دل میں یہ محبت پیدا کریں کہ اپنے ان بزرگوں کے احسانات کا بدلہ اتارنے کی خاطر تلاش کر کے ان کے تحریک جدید کے دور اول کے کھاتوں کو زندہ کریں.میں نے یہ ٹارگٹ دیا تھا تحریک جدید کو کہ دفتر اول کے کھاتوں کو جو زندہ کرنا ہے ، انہوں نے.مطلب یہ ہے کہ وہ تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں، خدا کے فضل سے.مگر ان معنوں میں زندہ کہ ان کی طرف سے جو تمہیں دی جانی بند ہوگئی تھیں، وہ دوبارہ شروع ہو جائیں.اس میں آپ نے اس سال سات لاکھ کا اضافہ کرنا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ سات کے بجائے ساڑھے گیارہ لاکھ روپیہ کا اضافہ ہو گیا ہے.یعنی ساڑھے گیارہ لاکھ روپیہ وہ ہے، جو سارے کھاتے کا سالہا سال تک بھی نہیں بنا تھا.ٹوٹل کا ٹوٹل دفتر اول بھی بہت دیر کے بعد گیارہ لاکھ کی حد کو پہنچا تھا اور اب ایک سال میں ان کے نام پر اضافہ کرنے والے اللہ کے فضل سے قربانی کا جو مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ ایک سال میں گیارہ لاکھ سے اوپر ان کی طرف سے دیا جا چکا ہے.ایک اور بات کی طرف میں نے خصوصی توجہ دلائی تھی کہ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ اس عہد کے دونوں پہلولو ظ ر کھنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ جب یہ فرماتا ہے:.اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ صرف اموال خریدنے کا اعلان نہیں فرمایا اللہ تعالیٰ نے جائیں خریدنے کا بھی اعلان فرمایا ہے.اس لئے وقف میں بھی آگے بڑھیں اور مالی قربانیاں کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھائیں.صرف مالی قربانی کا معیار ہی اونچانہ کریں بلکہ تعداد بڑھائیں.آئندہ نسلوں میں سے جن کو بھی آپ براہ راست تحریک جدید میں شامل کر دیتے ہیں یا کسی اور جماعتی چندے میں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ جاتی ہیں، خدا کی حفاظت کے نیچے آجاتی ہیں.اور الا ماشاء اللہ شاذ کے طور پر کبھی ہو تو ہو ورنہ چندہ دینے والا احمدی ضائع نہیں جاتا.اس کے اخلاص میں خدا تعالی ترقی دیتا رہتا ہے.اس کو اپنے فضل کے نمونے دکھاتا رہتا ہے.مشکلات میں اس کی مدد فرماتا ہے.اس لئے براہ راست اس کا تعلق قائم ہو جاتا ہے.اس لئے اپنی آئندہ نسلوں پر احسان کے طور پر اور اپنے فرض کی ادائیگی کے طور پر ان کو براہ راست تحریک میں شامل کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے تحریک جدید کو یہ ہدایت دی کہ آپ مجاہدین کی تعداد میں اضافہ کے لئے بھی اسی طرح توجہ سے کوشش کریں، جس طرح آپ کل آمد میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں.اور ایک سال کے لئے ان کو چودہ ہزار مجاہدین بڑھانے کا ٹارگٹ دیا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ ، اگر یہ چودہ 455

Page 465

خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1986 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ہزار بڑھاتے تو ساٹھ ہزار تک تعداد پہنچ جاتی تھی.اب ان کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ ساٹھ کے بجائے چھیاسٹھ ہزار تعداد ہو چکی ہے.اور خدا کے فضل سے جو میں نے ان کو ٹارگٹ دیا تھا، اس سے بھی چھ ہزار زائد نئے مجاہدین اس سال تحریک جدید کے مالی نظام میں شامل ہو گئے ہیں.دفتر چہارم میں جس کا اعلان گزشتہ سال کیا تھا.ایک ہی سال میں اب تک 12150 نئے معاونین اب تک شامل ہوئے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بالکل چھوٹی نسل کے بچے ہیں، یہ وہی آئے ہوں گے بیچ میں یا نوجوان جو پہلے رہ گئے تھے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کے ذریعہ جماعت کی آئندہ نسلوں کی حفاظت کا انتظام بھی ساتھ ساتھ جاری ہے.بیرون پاکستان کی شکل یہ بنتی ہے کہ کچھ تو حصے بیان کئے ہیں، میں نے ٹارگٹ بڑھانے کے.ان میں بیرون پاکستان شامل ہے.لیکن مالی لحاظ سے جو میں نے کوائف پیش کئے تھے، وہ صرف پاکستان کے تھے.سال گزشتہ ، یعنی جو 1 5 واں سال تھا ، اس میں اس وقت وعدے 76,28,740 روپے کے تھے اور سال رواں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ وعدے بڑھ کر 1,100,54,050 روپے ہو چکے ہیں.یہ تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر چہ غیر معمولی اضافے پر دکھائی دیتا ہے، یعنی 31 فیصد کا.لیکن بعض ایسے اعداد و شمار ہیں اس ضمن میں، جو صحیح صورت حال پیش نہیں کر سکتے.مثلاً افریقہ میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن اس اضافے کے ساتھ ہی ان کے روپے کی قیمت اتنی گرمی ہے، اس تیزی کے ساتھ کہ جو اضافہ تھا، وہ مدغم ہو گیا.چونکہ ہم نے اس کو پاکستانی روپوں میں تبدیل کیا ہے، اس لئے ان کے اضافہ کی مثال ایسی ہے، جیسے آپ نہر کے مخالف تیرنے کی کوشش کریں.جتنا مرضی زور لگا ئیں، اکثر اوقات تو آپ بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.اس لئے ان کے اضافہ کی قدر اس طرح آپ کے سامنے آئے گی کہ جس تیزی کے ساتھ روپے کی قیمت گری تھی، اس سے کئی گنا تیزی سے وہ آگے بڑھے ہیں.اور قیمت گرنے کے باوجود بھی وہ آگے نکل گئے ہیں.لیکن اگر پچھلے سال کی قیمت شمار کی جاتی تو اضافہ میں 148 کھ روپیہ مزید جمع ہو جاتا.اس کے برعکس یوروپین کرنسیز میں بعض کی قیمت بڑھی ہے اور اس لحاظ سے کچھ اضافہ ایسا نظر آتا ہے یوروپین تحریک جدید کے کوائف میں، جوحقیقی اس طرح نہیں ہے.بلکہ مثلاً اگر ہزار پونڈ ہے تو پہلے اگر ہزار پونڈ کے انہوں نے روپے بنائے تھے ، 22 ہزار.اب 26 ہزار بنائے ہیں.اس لئے اگر اضافہ نہ بھی ہو، تب بھی وہ اضافہ نظر آئے گا.اس لئے انہوں نے یہ وضاحت کی ہے، تحریک جدید نے کہ ہم اس اضافہ کو شمار نہیں کرتے.تب بھی خدا کے فضل سے مغربی ممالک کی قربانی میں غیر معمولی 456

Page 466

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1986ء اضافہ ہوا ہے.اور دونوں کو ملا کر یعنی ان کے اموال کے نقصان کو ملا کر اور یہاں کی بڑھوتی کو نظر انداز کر کے جو حقیقی اضافہ ہے، وہ ایک سال میں 63 فیصد بنتا ہے.تو اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی قربانی کا مظاہرہ کر رہی ہیں بیرونی جماعتیں.اور اس میں بھی پاکستان کے حالات کا براہ راست دخل ہے.یعنی جتنے دنیا کے ملاں ہیں، وہ سارے مل جائیں اور جماعت احمدیہ کو تباہ کرنے کی کوشش کریں ، آپ کو خدا یہ یقین دلا رہا ہے کہ ہر کوشش کے نتیجہ میں آپ آگے بڑھیں گے اور آگے بڑھیں گے اور آگے بڑھتے چلے جائیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ.وصولی کی رفتار میں بھی بیرونی ممالک میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے.یعنی گزشتہ سال 15 اکتوبر تک کی وصولی 46,000, 39 روپے تھی اور امسال 15 اکتوبر تک کی وصولی -/63,86,000 روپے ہو چکی تھی.تو خدا کے فضل سے وصولی کے لحاظ سے بھی جماعت ہائے بیرون غیر معمولی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں.وعدوں میں جو نمایاں اضافہ کرنے والی بیرونی جماعتیں ہیں، ان میں جرمنی صف اول میں ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے.وہاں نوجوان اگر چہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں اور کئی لحاظ سے بعض کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں مگر عمومی طور پر بہت ہی مستعد اور مخلص اور فدائیت کا جذبہ رکھنے والے نوجوان ہیں.اور اکثر جماعت جوانوں ہی پر مشتمل ہے اور ان میں قربانی کا مادہ بڑا نمایاں ہے.چنانچہ مالی لحاظ سے بھی وہ حالانکہ بہت سے ایسے بھی ہیں، جو آج کل غریب Lodgers میں رہ رہے ہیں، بہت معمولی گزارے ان کو ملتے ہیں، اتنے کہ بمشکل زندہ رہ سکیں.اس سے بھی بچا بچا کر وہ مالی قربانی میں بڑا نمایاں حصہ لے رہے ہیں.نمبر دو پر کینیڈا کی جماعت ہے.جو گزشتہ چند سال سے مسلسل جاگ رہی ہے.وہ بھی اللہ کے فضل سے آگے بڑھ کر نمایاں ترقی کرنے والی جماعتوں میں شامل ہو گئی ہے.تیسرے نمبر پر ہالینڈ ہے.ہالینڈ بھی مالی قربانی کے لحاظ سے تعداد کم ہونے کی وجہ سے بہت ہی پیچھے تھا لیکن اب گزشتہ چند سال سے بڑی تیزی سے بیدار ہو رہا ہے.کچھ تعداد بھی بڑھ رہی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ مالی قربانی کا معیار کا بڑھنا زیادہ ذمہ دار ہے، اس علاقے میں.برطانیہ کی جماعت بڑی Steady یعنی مستقبل مزاج اور ترقی کی رفتار بھی ان کی بڑی متوازن ہے، اللہ کے فضل سے.اس لئے ان کا جو غیر معمولی اضافہ ہے، وہ اتنا دکھائی نہیں دے گا.اضافہ ان کا با قاعدہ ہو رہا ہے لیکن چونکہ شروع ہی سے اچھی حالت ہے، اللہ کے فضل سے، اس لئے ان کا اضافہ اتنا نمایاں دکھائی نہیں دیتا، وہ چوتھے نمبر پر ہے.امریکہ پانچویں نمبر پر ہے.نانا چھٹے نمبر اور پھر آئیوری کوسٹ، یوگنڈا، تنزانیہ، کینیا، ملائیشیا وغیرہ یہ ساری وہ جماعتیں ہیں، جنہوں نے اسی ترتیب سے اس سال قربانیوں کو آگے بڑھانے میں غیر معمولی رفتار دکھائی ہے.457

Page 467

خطبہ جمعہ فرمودہ 31اکتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم امسال میں نے جو ٹارگٹ ان کو دیا تھا، تحریک جدید کو، وہ یہ تھا کہ سال کے آخر تک ایک کروڑ روپیہ آپ نے پہنچا دینا ہے، بیرون پاکستان کا.تو ان کی طرف سے خوشکن اطلاع ملی ہے کہ سارے نقصانات کو نظر انداز بھی کر دیا جائے ، جو کرنسی گرنے سے پیدا ہوا ہے، تو اس کے باوجود -/1,00,54050 روپے تک وعدے خدا تعالیٰ کے فضل سے پہنچ چکے ہیں.اور 85ء کے ریٹ لگائیں جائیں، گزشتہ سال کے ریٹ لگائے جائیں اور مغرب کے وہ کم کر دیئے جائیں اور افریقہ کے ریٹس گزشتہ سال کی طرح بڑھا دیئے جائیں تو پھر 1,24,00,000 (ایک کروڑ چو بیس لاکھ روپے کی رقم بنے گی.اب اس کا میں خلاصہ آپ کو سنا دوں، ایک اور پہلو سے.انہوں نے لکھا ہے کہ خلافت رابعہ کے دوران چار سال میں جس طرح غیر معمولی طور پر دشمن کی مخالفت بڑھی ہے، اسی طرح غیر معمولی طور پر جماعت کے اندر مالی قربانی کا جذبہ بڑھا ہے.اور یہ مالی قربانی مظہر ہے ، اخلاص کے اضافے کی اور ایمان کی اضافے کی.آج کل کی دنیا میں جو مادہ پرست دنیا ہے، اس میں آسانی کے ساتھ پیسہ چھوڑتا کون ہے.اندرونی دباؤ بڑھتا ہے یعنی اخلاص کا اندرونی دباؤ بڑھتا ہے تو انسان کا بے اختیار اس کی کمائی کا پیسہ اچھل اچھل کر باہر آتا ہے، خدا کے رستہ میں قربان ہونے کے لئے.تو جب ہم روپے کی بات کرتے ہیں تو اصل جو پیش نظر بات ہے، وہ یہ رکھنی چاہئے کہ دشمن نے آپ کے ایمان پر حملہ کیا تھا اور بڑی شدت کے ساتھ حملہ کیا تھا.بہت کم تاریخ میں اس طرح مستعدی کے ساتھ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ کسی چھوٹی سی جماعت کے اخلاص اور ایمان پر حملہ ہوا ہوگا.اور اس حملے کے جواب میں اخلاص اور ایمان کے دوسرے پیمانے جو ہیں، ان کا ذکر تو میں کرتا رہتا ہوں کہ کس طرح جماعت نے نمازوں میں ترقی کی ، عبادات الہی کی طرف توجہ پیدا ہوئی، اپنے اخلاق میں ترقی کی ، اپنے معاشرہ کو زیادہ درست کرنے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے پیار میں غیر معمولی طور پر آگے بڑھی.ان سب کو جانچنے کا ایک پیمانہ مالی قربانی ہے.تو مالی قربانی کے لحاظ سے آپ یہ دیکھ لیجئے کہ 83-1982ء میں خلافت رابعہ کے آغاز پر پاکستان میں کل وعدے.28,335,000 ( اٹھائیس لاکھ، پینتیس ہزار روپے کے تھے.اور 86-1985ء میں بڑھ کر -55,65,000 پچپن لاکھ، پینسٹھ ہزار روپے ہو گئے.یعنی اس چار سالہ ابتلاء کے دور میں مالی قربانی دگنی ہو گئی ہے، پاکستان کی.اور جہاں تک بیرون پاکستان کا تعلق ہے، اس کے کوائف یہ ہیں کہ 83-1982ء میں گیارہ لاکھ روپے کا وعدہ تھا، ساری دنیا میں تحریک جدید کا.اور 86-1985ء میں ایک کروڑ ، چون ہزار کا ہو چکا ہے.یعنی دس گنا رفتار آگے بڑھ گئی.حیرت انگیز ہے.اللہ تعالیٰ کے احسانات کا جتنا بھی ہم شکر ادا کریں ہم - 458

Page 468

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1986ء ہے.ادا ہو ہی نہیں سکتا.چار سال کے اندر دس گنا رفتار کے ساتھ بیرون پاکستان جماعتوں نے مالی قربانی کا مظاہرہ کیا ہے.اور یہ مالی قربانی کل مالی قربانی کا ایک عشر عشیر بھی نہیں ہے.تحریک جدید کا جو چندہ ایک کروڑ روپے کا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ بیرون پاکستان جماعتیں دوسرے چندوں میں آگے بڑھ چکی ہیں.اور اپنے لازمی چندوں میں بھی اور چندہ عام میں بھی، وصیت کے چندوں میں بھی اور جو بھی تحریک کی جاتی ہیں، اس میں خدا کے فضل سے اس طرح حیرت انگیز طور پر جماعت اپنا سب کچھ پیش کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے کہ وہ لوگ، جو نہیں دے سکتے ، ان کے دردناک خطوط ملتے ہیں، بے حد تڑپتے ہیں.اس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف روپے کا سوال نہیں ہے، اخلاص کا معیار اتنا بڑھ گیا ہے، جماعت کے ساتھ محبت اور عشق کا معیار اتنا بڑھ گیا ہے کہ جو دے سکتے ہیں، وہ تو اپنے دل ٹھنڈے کر لیتے ہیں، جو نہیں دے سکتے ، وہ تڑپتے ہیں اور بے قرار ہوتے ہیں، کاش ہمیں بھی توفیق ملے.اور مسلسل ملاقاتوں کے دوران بھی اور خطوط کے ذریعے بھی بعض لوگ اس درد کا اظہار کرتے ہیں.اور خطوں سے بھی ان کی سچائی ظاہر ہو جاتی ہے، ملاقاتوں کے وقت تو چہرے بتا دیتے ہیں کہ کس حد تک ان کو بے قراری ہے کہ ہماری یہی خواہش ہے.ہماری یہی تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دے اور ہم خدا کی خاطر قربان کریں.وقف کے لئے جماعت احمدیہ میں اب دوبارہ پھر غیر معمولی توجہ پیدا ہوگئی ہے.نہ صرف یہ کہ وقف کی جو دوسری عام صورت ہے، یعنی اپنے وقت کو جماعت کے لئے زیادہ پیش کرنا.اس میں غیر معمولی اضافہ دکھائی دے رہا ہے.طوعی کارکنان بڑے زور کے ساتھ ، بڑے جذبے کے ساتھ آگے آرہے ہیں.ہر قسم کے وقف کا جب بھی ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے، وہ خوشی سے پیش کرتے ہیں.لیکن اس کے علاوہ مستقل وقف زندگی کی خواہش بھی دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے.اور اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو بچے نئے پیدا ہوتے ہیں، بعض دفعہ مائیں اور بعض دفعہ باپ بڑی محبت اور شوق سے یہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ منت مانی ہوئی تھی کہ بچہ ہو گا تو ہم پیش کر دیں گے.ایک ماں نے اس دفعہ جرمنی میں ایک چھوٹی بچی دکھائی کہ میں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ بیٹا ہو یا بیٹی ، میں نے جماعت کو دینا ہے.تو یہ بیٹی آپ کی ہے.اور اس قدر خوشی ہوتی ہے، ان کے چہروں پر اس بات سے اور اتنا خدا کا شکر ان کی آنکھوں سے، ان کے چہروں کے آثار سے برستا ہے کہ صاف پتہ چلتا ہے کہ جماعت احمدیہ ہی آج وہ جماعت ہے، جو قرآن کریم کی اس آیت کی مصداق ہے:.اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ 459

Page 469

خطبہ جمعہ فرموده 131 کتوبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کہ یقینا اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لی ہیں اور ان کے اموال بھی خرید لئے ہیں، اس وعدے پر کہ یقینا ان کے لئے جنت ہوگی.پس وہ جنت تو بعد میں آئے گی.اس دنیا میں خدا ہمیں روحانی قربانیوں کی لذتوں کی جنت عطا کرتا چلا جارہا ہے.جو روحانی قربانیوں میں شامل ہو گئے ہیں، ان کا معیار پہلے سے ہر لحاظ سے بڑھ رہا ہے.اور جو زندگی کا سکون ان کو ملا ہے، جو طمانیت نصیب ہوئی ہے، جن لذتوں میں اب وہ وقت گزار رہے ہیں، اس سے پہلے کی حالت کے ساتھ اس کا کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا.مالی قربانی میں اگر کوئی تکلیف ہوتی یا جانی قربانی میں اگر کوئی دکھ پہنچتا تو ایک دفعہ تجربہ کرنے کے بعد جماعت کو پیچھے ہٹ جانا چاہئے تھا.جو لوگ آگے بڑھتے ، وہ اگلی دفعہ تو بہ کرتے اور کہتے کہ بس ہو گیا، جو ہم سے ہونا تھا.اب آئندہ ہم سے یہ توقع نہ رکھیں.ایک سال بڑی مشکل سے گزارہ کر لیا.اس کے برعکس اگلے سال پہلے سے بڑھ کر اور اس سے اگلے سال اس سے بڑھ کر وہ دونوں قسم کی قربانیوں میں حصہ لیتے ہیں.اور پھر یہ دعائیں کرواتے ہیں کہ خدایا ہمیں اور توفیق عطا دے، ابھی ہمارے دل کی حسرت پوری نہیں ہوئی.پس یہ عجیب قسم کا پانی ہے، جو سمندر کے پانی کا سامزاج بھی رکھتا ہے اور اس کے برعکس نتیجے بھی پیدا کرتا ہے.دنیا میں اس پانی کی مثال نہیں ملتی.سمندر کا پانی پیاس بڑھانے میں مشہور ہے.پیاسا جتنا بھی اس کو پٹے ، پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے.لیکن ساتھ ہی وہ ایک آگ بھی لگاتا چلا جاتا ہے، بے چینی اور بے قراری بھی بڑھاتا چلا جاتا ہے.مگر خدا کی راہ میں قربانیوں کا پانی، ایک عجیب پانی ہے کہ جتنا آپ اسے پیتے چلے جاتے ہیں، پیاس تو آپ کی بڑھتی چلی جاتی ہے مگر بے چینی کم ہوتی چلی جاتی ہے، بے قراری کم ہوتی چلی جاتی ہے اور لذت اور طمانیت اور سکینت بڑھتی چلی جاتی ہے.پس یہ عجیب پیاس ہے، جس کی کوئی مثال نہیں.اور یہ عجیب پانی ہے، جس جیسا کوئی پانی دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا.پس اللہ کے فضل کے ساتھ اس آب حیات کو پیتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاؤ.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا کے ان وعدوں پر یقین رکھو کہ تم ہی ہو ، جنہوں نے اس ساری کائنات کا نقشہ بدلنا ہے اور تمہارے سوا اور کوئی نہیں“.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.میں نے بار باید تاکید کی ہے کہ جن ملکوں میں ہم رہتے ہیں، اگر مقرران کی زبان جانتا ہے تو خواہ ٹوٹی پھوٹی ہی ہو، اسے وہی زبان استعمال کرنی چاہئے.اور مبلغین کو خصوصیت کے ساتھ مقامی ملکوں کی زبان استعمال کرنی چاہئے.اور اگر ان کو ابھی نہیں آتی اور اتنی بھی نہیں آتی کہ وہ اس میں مافی الضمیر بالکل ادا 460

Page 470

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 31اکتوبر 1986ء ہی نہیں کر سکتے تو جب تک خدا ان کو اس کی توفیق نہیں بخشا، ان کے خطبات کا ترجمہ ساتھ ساتھ ضرور کروانا چاہئے.میں نے اپنے خطبات کے متعلق بھی بار ہا تاکید کی ہے کہ جس جماعت میں، میں جاؤں، وہاں مقامی باشندوں کا حق ہے کہ ساتھ ساتھ ان کے لئے اس کا ترجمہ ہو.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ مقامی جماعت سے یہ فروگزاشت ہوئی ہے، آج یہاں ترجمہ کا کوئی انتظام نہیں تھا.اور یہ بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ جس ملک میں ہم رہ رہے ہوں ، وہاں اس زبان کے ترجمہ کا کوئی انتظام نہ ہو.دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب اگر فوری طور پر ترجمہ کر کے کیسٹ کی صورت میں ان کو مہیا کر دیا جائے تو اس سے کسی حد تک انشاء اللہ شنگی کم ہو جائے گی.لیکن آئندہ یا درکھیں کہ ہر قیمت پر اس کا ڈچ زبان میں ترجمہ ضروری ہے.اور جماعت کے فارمل جلسوں میں یعنی با قاعدہ جو جلسے ہوتے ہیں، ان میں بھی جب بھی آپ کو مجبوراً اردو استعمال کرنی پڑے تو لازماً اس کا ڈچ زبان میں ترجمہ کریں.اور نئے آنے والے احمدی نوجوان، جو ڈچ نہیں جانتے ، ان کے فائدہ کی خاطر اردو میں بھی ڈچ سے ترجمہ کریں تو یہ بھی بہت اچھی بات ہوگی.لیکن زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ڈچ زبان پر زور دیں.جماعتی کاروائیاں ڈچ زبان میں کریں.تاکہ ڈچ نواحمدیوں کو ہرگز یہ شکوہ پیدا نہ ہو کہ ہمارے ملک میں رہ کر کوئی اور زبان استعمال کرتے ہیں.وو یہاں بہت سی سعید روحیں ہیں.اس کا اندازہ مجھے اس سے بھی ہوتا ہے کہ ہالینڈ میں جو احمدی ہوئے ہیں، وہ سارے کے سارے سنجیدہ ہیں.اور اخلاص اور قربانی کے لحاظ سے ایک بلند مقام رکھتے ہیں.ایسا آدمی یہاں نہیں آتا ، جو سرسری طور پر آئے اور بھاگ جائے.اس لئے یوروپین ممالک میں جس طرح جرمن قوم میں بھی سنجیدگی اور اخلاص پایا جاتا ہے، ہالینڈ کی قوم میں بھی مذہب کے معاملہ میں غیر معمولی طور پر سنجیدگی اور اخلاص پایا جاتا ہے.اس لئے ان کی نوجوان نسلوں کو سنبھالیں اور بہت زیادہ توجہ کریں کہ مقامی ہالینڈش احمدیوں کی تعداد ہمیشہ باہر سے آنے والوں سے نمایاں طور پر زیادہ رہنی چاہئے.ورنہ وہ Atmosphere جو ہالینڈ کا ہے، وہ جماعت میں پیدا نہیں ہونے پائے گا.امید ہے میں نے جو ضمنا بات کی ہے، اس پر بھی جماعت توجہ کرے گی.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 717 729) 461

Page 471

Page 472

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء جب تک آپ خود سید نہیں بنیں گے، آپ دنیا کی سیادت کیسے کریں گے؟ خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ا بھی جرمنی، بیلجیئم اور فرانس کے ایک مختصر دورے سے واپس آیا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ دورہ کئی پہلوؤں سے مفید ثابت ہوا.بہت سے امور کا قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.کئی امور خوشی والے تھے، کئی قابل توجہ تھے، جو دور بیٹھے نظر نہیں آتے مگر قریب آنے سے، رابطہ سے، دوستوں کے ساتھ ملاقاتوں کے نتیجہ میں کئی کئی رستے نئے نئے کھلتے چلے جاتے ہیں.اس لحاظ سے یہ دورے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی مفید ثابت ہورہے ہیں.جرمنی میں میرا تاثریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کے غیر معمولی امکانات پیدا ہو گئے ہیں.کیونکہ جہاں تک جماعت کا تعلق ہے، اس کا ایک بڑا حصہ نوجوان ہے اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی جوش پایا جاتا ہے اور قربانی کا بہت مادہ ہے.اور اگر ان کو اچھی طرح سنبھال لیا جائے اور یہی زیادہ قابل توجہ بات ہے تو جرمنی کا مستقبل بنانے میں یہ ایک بہت ہی عظیم کردار ادا کر سکتے ہیں.اسی طرح جرمن نو جوان بھی اور جرمن خواتین بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت اعلیٰ معیار کے احمدی ہیں.بلکہ بعض صورتوں میں تو ان کا معیار اتنا بلند ہے کہ ان کو دیکھ کر بعض پاکستانی احمدی، جو باہر سے آئے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ان کے مقابل پر صف دوم کے احمدی نظر آنے لگتے ہیں.اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعه تشویشناک صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے.دو جر من احمدیوں نے ذکر کیا کہ پاکستان سے آنے والے بعض احمد یوں کا رویہ افسوسناک ہے.اس کے نتیجہ میں جرمن احمدیوں کے لئے ٹھوکر کا سامان پیدا ہوتا ہے.ان امور پر غور کرتے ہوئے کئی امور ایسے ہیں، جو میرے سامنے آئے ، جن کا تعلق عالمی نظام جماعت احمدیہ سے ہے.اور اس تجربہ سے استفادہ کرتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا کی جماعتوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہئے.جہاں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مقامی جماعتیں عطاہو رہی ہیں، یعنی ایسی جماعتیں، جن میں مقامی 463

Page 473

خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم دوست اس ملک کے باشندے زیادہ نمایاں تعداد میں نظر آنے لگے ہیں اور نمایاں دلچسپی لینے لگے ہیں، ایسی جگہوں میں ہمیں تربیت کی طرف دو طرح سے متوجہ ہونا پڑے گا.اول یہ کہ مجالس عاملہ کو FOLLOW UP GROUP یعنی مبلغین کے پیچھے پیچھے چلنے والا تربیت کا ایک گروپ تیار کرنا چاہئے.اور وہ اس بات کے ماہر ہوں اور خصوصیت کے ساتھ ان کے سپرد یہ کام کیا جائے کہ آپ یہ سوچتے رہیں کہ نئے آنے والوں کی تربیت میں کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ اور ہر ملک کی ضرورت الگ الگ ہوگی.اس لئے مرکز سے تحریک جدید بھی کوئی معین ہدایت نہیں دے سکتی اور نہ میں معین طور پر ہر ملک کی ضروریات کی تعیین یہاں بیٹھے کر سکتا ہوں.دورے کے دوران جو چیزیں سامنے آتی ہیں، ان کے متعلق تو ہدایات دی جاتی ہیں مگریہ تو ممکن نہیں ہے کہ انسان لٹو کی طرح ہر وقت تمام دنیا کی جماعتوں میں گھومتار ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے سو سے زائد ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور جماعتوں کی کل تعداد آپ شمار کریں تو عملاً دس سال میں بھی ایک ایک دن کا دورہ پورا نہیں ہو سکتا بلکہ اس سے زیادہ وقت چاہیئے.اس لئے ان معاملات میں مقامی جماعتوں کو اپنی ذمہ داری کو خود ادا کرنا چاہئے اور بالغ نظری کے ساتھ ان معاملات کو سلجھانا چاہئے.کیونکہ اگر ابھی ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے تو آئندہ زیادہ وقتیں پیش آجائیں گی.سب سے زیادہ اہم بات جس کو تمام دنیا کی مجالس عاملہ کوملحوظ رکھنا چاہئے ، وہ تو حید ہے.توحید خالص کسی آسمان پر بسنے والی چیز کا نام نہیں ہے.خدا جو اسلام پیش کرتا ہے، وہ آسمانوں کا بھی خدا ہے اور زمینوں کا بھی خدا ہے.اس سے کائنات کا کوئی حصہ بھی خالی نہیں.وہ نور السماوات والارض ہے.اس لئے اس کی توحید کے دائرہ سے کوئی چیز بھی باہر نہیں.اور اس کی توحید کے اثر اور نفوذ سے کوئی چیز بھی خالی نہیں ہونی چاہئے.اس لئے جماعت احمدیہ، جو حقیقی تو حید پرست جماعت ہے، اسے بھی توحید کا منظر پیش کرنا چاہئے.اور اگر جماعت احمدیہ نے اس طرف سے غفلت کی اور ایسا ہونے دیا کہ انگلستان کی جماعت ایک الگ کردار لے کر اٹھ رہی ہو اور افریقہ کی جماعتیں ایک الگ کردار لے کر اٹھ رہی ہوں اور یورپ اور امریکہ کی ، چین اور جاپان کی، انڈونیشیا اور ملائشیا کی اور اسی طرح دیگر ممالک کی جماعتیں اپنا اپنا ایک الگ کردار بنارہی ہوں تو تو حید قائم نہیں ہو سکتی.توحید عمل کی دنیا میں دکھائی دینی چاہئے.خدا کے نام پر اکٹھے ہونے والے ایک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جمع ہونے والے ایک ہو جانے چاہئیں اور وحدت کا منظر پیش کرنا چاہئے.وحدت کے مناظر مختلف زاویوں سے دیکھے جاتے ہیں.ایک وحدت کا منظر ہے، آپس میں ایک ہو 464

Page 474

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء جانا، ایک دوسرے سے محبت کرنا، جغرافیائی تفریقات کو بھلا دینا، رنگ اور نسل کے امتیازات کو فراموش کر دینا اور ایک جان اور ایک وجود ہو جانا.اس پہلو سے بھی وہاں تو حید کو دنیا میں قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے.اور محض تلقین سے نہیں ہو سکتی بلکہ با قاعدہ اس سلسلہ میں منصوبہ بندی ہونی چاہئے.اس پہلو پر غور کرتے ہوئے جو فوری چیز سامنے آتی ہے، وہ ہر ملک کے مختلف نسل، مختلف رنگوں اور مختلف قوموں سے آنے والے لوگوں کے باہم امتزاج کا مسئلہ ہے.اور ہر جگہ یہ مسئلہ اب سر اٹھانے لگا ہے اور بعض غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں.اس وقت ابھی بھی اور بعض خطرات سامنے ابھر رہے ہیں.اس لئے فوری طور پر جماعتوں کو اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ اگر انگلستان میں انگریز احمدی ہوتے ہیں تو آپ حسن خلق سے ان سے پیار کر کے، ان کو اپنے معاشرے میں جذب کرنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے اس بات کا احساس نہ ہونے دیں کہ وہ تنہا ہو گئے ہیں.اس بات کا احساس نہ ہونے دیں کہ وہ ایک مغربی معاشرہ سے، ایک ایسے معاشرہ کی طرف آئے ، جہاں مذہبی اقدار تو ملیں لیکن متبادل معاشرہ نصیب نہیں ہوا.یہ توفیق نہیں ملی کہ جس Civilization کو، جس تمدن کو چھوڑ کر آئے تھے، اس کے بدلے میں کوئی تمدن پالیں.اور جو کچھ انہیں دیا جاتا ہے، اگر اسلام کے نام پر پاکستانی تمدن دیا جائے تو یہ تو نہ ان کے ساتھ انصاف ہے، نہ اسلام کے ساتھ انصاف ہے.حقیقت میں ہر قوم کے کچھ مدنی پہلو ہیں، جو اس قوم کی زندگی کا جزو بن چکے ہوتے ہیں.اور کچھ مذہبی پہلو ہیں، جو تمدن بن چکے ہیں.جہاں تک اسلام کے تمدن کا تعلق ہے، ان دونوں دھاگوں کو الگ الگ کر نا پڑے گا.مقامی تمدن کے سیاہ دھاگوں کو اسلام کے تمدن کے سفید دھاگوں سے الگ کر نا پڑے گا.اور قوموں کو یہ پیغام دنیا پڑے گا کہ جہاں تک اسلامی تمدن کا تعلق ہے، یہ وہ خطوط ہیں، جن سے تم تجاوز نہیں کر سکتے.جن راہوں سے ہٹو گے تو اسلام کی راہوں سے ہٹو گے.اور یہ وہ خطوط ہیں، جن میں تمہیں اختیار ہے.لیکن عمومی اسلامی ہدایات کے تابع رہ کر اپنے لئے تمدن کی راہیں تلاش کرو یا مقامی تمدن میں سے اچھی چیزیں اخذ کر لو.پاکستانی احمدیوں کو بھی اپنے تمدن میں اسی حد تک تبدیلی پیدا کرنی چاہئے ، جس حد تک اسلام اجازت دیتا ہے یا جس حد تک دوسری قوم کو اپنے اندر شامل کرنے کے لئے ان کی خاطر کچھ تمدنی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے.جسے Give and Take کہا جاتا ہے.اگر آپ حکمت کے ساتھ ، بالغ نظر کے ساتھ آپ دونوں سوسائٹیوں کی بری باتیں چھوڑ دیں اور ان کی اچھی باتیں اختیار کر لیں ، دونوں سوسائٹیوں کی اور اسلام کے تمدن کی روح کو غالب رکھیں تو اس پہلو سے جو بھی تمدن دنیا میں احمدی تمدن کے 465

Page 475

خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم نام پر پیدا ہوگا ، اس میں ایک تو امتزاج پایا جائے گا.دوسرے اسلامی تمدن کے پہلو کے لحاظ سے ایک عالمی قدر مشترک پائی جائے گی.اور وہی ملت واحدہ بنانے کے لئے نہایت ضروری ہے.ایک بھاری حصہ تمدن کا ایسا ہے، جو مذہب سے اثر انداز ہوا ہوتا ہے.اور اس حصہ کی حفاظت کرنا اور اسے نکھار کر دنیا کے سامنے پیش کرنا، یہ نہایت ہی اہم ضرورت ہے وقت کی ، جس کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے.ورنہ جیسا کہ یہاں گزشتہ تجربہ نے بتایا کہ محض اس توجہ کے فقدان کے نتیجہ میں بہت سے خاندان ایک رستہ سے آئے اور دوسرے رستہ سے چلے گئے.محض اس توجہ کے فقدان کے نتیجہ میں جومخلص تھے ، ان کے ایمان داغدار ہونے لگے، ان کے دل افسردہ ہونے لگے، وہ مایوس ہونے شروع ہوئے کہ ہم کس ویرانہ میں چلے آئے ہیں.جن لوگوں نے ہمیں خدا کی طرف بلایا تھا، وہ خدا کا نمائندہ بن کر ہمیں چھاتی سے لگانے والے ثابت نہیں ہوئے بلکہ تنہا دنیا میں چھوڑ دیا ہے.یہ کہہ کر کہ تم اپنے تمدن سے باغی ہو جاؤ اور ہم تمہارے لئے کوئی تمدن پیش نہیں کر سکتے.تم اپنے تعلقات تو ڑ لو، ہم تمہارے لئے کوئی متبادل تعلقات مہیا نہیں کر سکتے.تم اردو سیکھو لیکن ہم انگریزی نہیں سیکھیں گے.ہم جب بات کریں گے، پنجابی یا اردو میں کریں گے، خواہ تم بیٹھے رہو ، تمہاری طرف کوئی متوجہ نہیں ہوں گے.اور جب بھی ہم آپس میں ملیں گے تم سرکتے سرکتے ایک طرف کو نہ میں لگ جایا کرو گے اور ہم اپنی اجتماعی شکل میں آپس میں خوش گپیوں میں مصروف ہو جایا کریں گے.اگر یہ پیغام آپ اسی طرح دیتے رہے تو ہر جگہ جتنے سفر آپ طے کریں گے، وہ سارے فاصلے اپنے ہر قدم کے ساتھ منقطع بھی کرتے چلے جائیں گے.زمینیں سر نہیں ہوں گی بلکہ سر شدہ زمینیں دوسروں کے سپرد کرتے چلے جائیں گے.ایک ایسا سفر ہے، جس میں آپ کی زمین وہی ہے، جہاں آپ کھڑے ہیں یا جہاں آپ قدم ماررہے ہیں.گزشتہ زمینیں فتح کر کے حاصل کر کے غیروں کے سپر د کرتے چلے جاتے ہیں.یہ تو کوئی ترقی کا طریق نہیں ہے، یہ تو کوئی زندہ رہنے کا فیشن نہیں ہے.اس لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہوا:."زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں“ ( تذكرة: 426) آپ زندگی کے فیشن سے دور نہ جائیں کبھی.زندہ رہنے کے اسلوب سمجھیں، سوچیں اور ان کو چمٹ جائیں.اور عالمی تو حید کو پیدا کرنے کے لئے عالمی تمدن کے امتزاج کا ہونا بڑا ضروری ہے اور اس کی طرف جماعتوں کو خصوصیت کے ساتھ توجہ دینی چاہئے.466

Page 476

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ایسے گروہ ، ایسے چیدہ چیدہ صائب الرائے لوگوں کو اکٹھا کر کے ان کی مجالس قائم کرنی چاہئیں، خواہ وہ مجلس عاملہ میں سے چنے جائیں، خواہ باہر سے اختیار کئے جائیں.جن کے سپرد یہ کام ہو اور ان کی رپورٹیں اگر وہ باہر سے ہیں، مجلس عاملہ میں پیش ہوں.اگر وہ لوگ مجلس عاملہ کے ممبر ہیں، تب بھی مجلس عاملہ میں پیش ہوا کریں.اور جو کچھ بھی لائحہ عمل تجویز ہو، وہ ملکی طور پر مجھے بھجوا دیا جایا کرے تا کہ میں ایک نظر ڈال لوں.ایک تو اس کے نتیجہ میں مجھے علم ہوتا رہے گا کہ کون سا ملک بیدار مغزی سے یہ کام کر رہا ہے اور توجہ سے یہ کام کر رہا ہے.اور جو ملک غافل ہیں، ان کو متوجہ کر سکوں گا.دوسرے ان حقائق کی روشنی میں، جو انہوں نے جمع کئے ہوں گے، میں ان کے لئے مزید راہنمائی کا موجب بن سکوں گا.اس لئے وہ ساری جماعتیں ، جوان مسائل پر غور کریں اور وہ اپنی رپورٹیں مجھے بھجوائی شروع کریں اور انشاء اللہ تعالی اس کے نتیجہ میں ایک اور فائدہ یہ ہوگا کہ رپورٹیں چونکہ ساری دنیا سے آرہی ہوں گی، اس لئے جو اسلامی تمدن، جو توحید قرآن اور حدیث کی روشنی میں، میں قائم کرنا چاہتا ہوں، وہ ساری دنیا کی رپورٹیں یکجائی طور پر نظر میں آنے کے نتیجہ میں زیادہ آسانی سے کر سکوں گا، زیادہ اس بات کا اہل ہوں گا.دوسرا پہلو ہے پاکستانی احمدیوں کی تربیت کرنا.جو باہر گئے ہوئے ہیں اور ان کو استعمال کرنا ابتدائی تعلیم کے لئے.یہ بہت ہی اہم کام ہے، جو خاص طور پر جرمنی میں سامنے آیا.جب میں ملاقاتیں کرتارہا ہوں یا گفت و شنید کرتارہا ہوں تو صرف حال احوال پوچھنا تو مقصد نہیں تھا کہ انہوں نے میرا حال پوچھ لیا اور میں نے ان کا حال پوچھ لیا.ان کے تمدنی حالات پوچھتا رہا ہوں ، مسائل پوچھتا رہا ہوں اور پوچھتارہاہوں، دینی حالت کے متعلق تو کچھ شکلیں بتا دیتی تھیں اور کچھ سوالات کے بعد چیزیں سامنے آجاتی تھیں.ایک چیز ، جو افسوسناک سامنے آئی ، وہ یہ تھی کہ نو جوانوں میں جہاں اخلاص کا معیار بلند ہے، وہاں علم کا معیار بہت کم ہے.بعض صورتوں میں تو بعض احمدی نوجوانوں کو نماز کا ترجمہ نہیں آتا تھا، وہ گھر سے سیکھ کر ہی نہیں چلے.بہت سے ایسے احمدی نوجوان بھی دیکھے، جو وہاں نظر بھی کبھی نہیں آتے تھے.اور یہاں آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ جماعت کے ساتھ منسلک ہو گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے کہ اب جو چاہو، ہم سے کرو اور جس طرح چاہوں، ہمیں اچھا بنا دو.پہلے وہ اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے تھے اور جو لوگ ان کے پاس جاتے تھے، وہ ان سے دور بھاگتے تھے.ایسا عصر خاص طور پر جو وہاں بھی جماعت کی نظر سے الگ رہا اور جماعتی تربیت کے ہاتھ سے پیچھے بتارہا ہے، وہ یہاں آکر بھی جماعت سے متعلق تو ہو گیا لیکن علمی لحاظ سے اور تربیتی لحاظ سے اسی طرح سے اسی طرح 467

Page 477

خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء :.تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ابھی پیچھے ہے.اور خطرہ یہ ہے کہ ان کا اخلاص اور ان کا تعلق ضائع نہ ہو جائے یا نقصان کا موجب نہ بن جائے.ضائع تو ان معنوں میں ہو سکتا ہے کہ یہ اب اپنے آپ کو پیش کر رہے تعلق بڑھا رہے ہیں اور ان کو ہوسکتا کہ سلجھانے کے لئے ، ان کے اخلاق درست کرنے کے لئے ، ان کی اعلیٰ تربیت کے لئے کوئی کارروائی نہ کی جائے.اتنا اچھا موقع اللہ تعالیٰ مہیا کرے اور جماعت اس موقع سے استفادہ کرنے سے غافل رہ جائے ، یہ بہت ہی بڑا نقصان ہے.دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ ان نوجوانوں نے جو تعلق قائم کیا ہے، اگر ان کے اخلاق وہی رہے، اگر ان کا علمی معیار اور تربیتی معیار وہی رہا تو مقامی دوست خصوصیت کے ساتھ ان کو اسلام کا ایمبیسڈر، اسلام کا سفیر سمجھتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے.اور پاکستانی احمدیوں کے معیار کو اس طرح جانچ رہے ہوں گے.اور واقعہ یہی ہوا بھی.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، دو جرمن دوستوں نے بڑی تفصیل سے کھل کر مجھ سے گفتگو کی.اس دن بڑا اچھا موقع تھا.ان میں سے ایک دوست ہمارے ساتھ سیر پر جاتے رہے.سیر کے دوران ان سے بات کرنے کا، ان سے بڑی لمبی گفتگو ہوئی.تو انہوں نے جو باتیں بتا ئیں ، ان سے معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت ہی بڑا اور حقیقی خطرہ ہے.ان کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کون لوگ ہیں، جو وہاں سے آئے ہیں؟ اور کس کس قسم کے لوگ ہیں؟ جو بھی آنے والا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ خدا کے گھر سے آرہا ہے.وہاں سے آرہا ہے، جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا ہوئے ، جہاں صحابہ نے نئی نسلوں کی تربیت کی.وہ احمدیت کے نمائندہ کے طور پر ہر شکل کو دیکھتے تھے.بعض دفعہ شکل وصورت ، طرز رہنے سہنے کی ، اوڑھنے بچھونے کی لباس کی ، باتوں کی ایسی طرز ہوتی ہے، جو بتا دیتی ہے کہ اس میں دین نہیں ہے.اور جب آپ ایسے لوگوں کو اسلام کے نمائندہ کے طور پر دیکھیں، آپ کو پتہ نہ ہو کہ وہاں بھی یہ نمائندہ نہیں تھے ، وہاں بھی پیچھے ہٹنے والوں میں سے تھے، بھاگنے والوں میں سے تھے تو آپ یہی اثر لیں گے کہ ہمیں تو کچھ اور باتیں بتائی جاتی تھیں، ہم سے تو کچھ اور توقعات رکھی جاتی ہیں اور وہاں کچھ اور باتیں ہو رہی ہیں.بہر حال بڑی تفصیل سے ان کو رفتہ رفتہ سمجھانے کی کوشش کی اور پھر وہ سمجھ گئے.بڑے ذہین آدمی تھے، انہوں نے ان فرقوں کو دیکھا اور سمجھا.ان کو میں نے آخر پر یہ بتایا کہ ان کی غلطی کردار کی لیکن آپ کی غلطی اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے.آپ نے خدا کو پاکستان کا خدا سمجھ لیا ہے اور جرمنی کا خدا انہیں سمجھا.اور اسلام کو پاکستان کا اسلام سمجھ لیا ہے اور جرمنی کا اسلام نہیں سمجھا.آپ کو تو ہم نے خدا سے روشناس کرایا ہے، جو کل عالم اور کل کائنات کا خدا 468

Page 478

تحریک جدید -- ایک الہبی تحریک....جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 07 نومبر 1986ء ہے، آپ کو تو ہم نے اسلام سے روشناس کروایا ہے، جو سارے عالم کا اسلام ہے.اس لئے جب آپ نے حاصل کر لیا تو اس کے بعد کسی دوسرے کے محتاج کیوں ہیں، اپنی تربیت کے لئے؟ کیا اس کے پھر جانے سے آپ پھر جائیں گے؟ کیا اگر غیر خدا کو چھوڑتا ہے تو آپ بھی اس خدا سے دامن تو ڈلیں گے؟ یہ رجحان سب سے زیادہ خطرناک ہے.آپ اس کے بدلے ایک اور ردعمل دکھا سکتے تھے.آپ ان خطوط پر بھی سوچ سکتے تھے کہ ان لوگوں نے بڑی مالی اور جانی قربانیاں کیں اور بڑی لمبی جدوجہد کی اور بڑی سخت مشکلات میں اپنے ایمان کی حفاظت کرتے رہے اور ہم تک پیغام پہنچایا اور کامیابی سے پیغام پہنچا دیا.اس عرصہ میں ان میں کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے ، کچھ بیمار ہوئے اور کچھ خودان مقاصد سے دور جا پڑے.ہم اور طرح تو ان کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتے ، کیوں نہ ان کی تربیت کر کے احسان کا بدلہ دیں، کیوں نہ ان کو بتائیں کہ جو اسلام تم نے ہم کو پہنچایا تھا ، ہم نے اس کو بہت حسین پایا ہے.ہم نے اس پر عمل کر کے دیکھا، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے ( در متین : 16) تو تم یہی اعلان کر سکتے تھے کہ ہم نے تو اسے اچھا پایا ہے.اس نے ہماری زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں، ہمارے کردار بدل کر رکھ دیئے ہیں، ہمیں گندگیوں سے نجات بخشی ہے اور روحانی تسکین عطا کی ہے.تم کیا ظلم کر رہے ہو اپنی جانوں پر کہ ہمیں بچا کر خود ہلاکت میں مبتلا ہورہے ہو.میں نے اسے سمجھایا کہ اگر تمہاری طرف سے یہ آوازان پاکستانی نوجوانوں کے کانوں میں پڑے تو وہ بہت زیادہ مؤثر ہوگی اور بہت زیادہ ان کو شرمندہ کرنے والی اور ان کی غیرت کو چر کہ لگانے والی ہوگی.اور واقعہ تم ایک احسان کا بدلہ اتارنے والے ہو گے.اگر ان رستوں پر چلتی رہیں تمہاری سوچیں، جن رستوں پر چل رہی ہیں تو خود بھی نقصان اٹھا جاؤ گے، ان کو بھی نقصان میں ڈال دو گے.تو یہ وہ طریق ہے، جس میں دونوں طرف کی تربیت کی ضرورت ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جس قوم کو خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے چن لیا ہے، اس کی اولیت کو کوئی چھین نہیں سکتا اور اس کی ضرورت کے احساس سے کوئی عقل مند ا نکار نہیں کر سکتا.وہ اولین طور پر ہندوستان میں جو ایک خطہ پنجاب ہے، اس سے تعلق رکھنے والی قوم ہے.اور اسی دائرے کو جب بڑھاتے.469

Page 479

خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ہیں تو ہندوستان بحیثیت مجموعی جس میں پاکستان بھی ہے آج کا اور ہندوستان بھی ہے، یہ خطہ سرزمین جسے ہندو پاکستان کا برصغیر کہا جاتا ہے، اس علاقے کے لوگوں پر خدا تعالیٰ نے اولین ذمہ داری ڈالی.اور اولین طور پر ان میں کوئی مادہ دیکھا ہے، اصلاحی.ان میں بعض مخفی خوبیاں دیکھی ہیں، جن کو خدا تعالیٰ کی نظر نے پہچانا ہے.اس لئے ان کو چنا ہے.خدا جانتا تھا کہ دنیا کی اصلاح کے لئے ان کے اندر مادہ ضرور موجود ہے.اس علاقہ کے لوگ جو سو سال سے مسلسل قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور بڑی وفا کے ساتھ حق کو چھٹے ہوئے ہیں، یہ بات بتاتی ہے کہ یقینا خدا تعالیٰ کی نظر نے صحیح شناحت فرمائی.بہر حال ساری دنیا میں سے اس علاقہ کے لوگوں کا دین پھیلانے کے لئے استعمال ہونا دنیا کے آئندہ نقشہ کا ایک لازمی حصہ ہے.لاز ماہر ملک میں آغاز میں، ابتداء میں اسی علاقہ کے لوگوں کو تبلیغ میں مؤثر کردارادا کرنا ہو گا اور لمبے عرصہ تک کرنا ہوگا.اور تربیت میں بھی ایک نہایت مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا.اس لئے جماعتوں کو اس پہلو سے غافل نہیں ہونا چاہئے.ہمیں لازماً مجبور پاکستانی اور ہندوستانی احمد یوں کے کردار کو خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رکھنا ہوگا.کیونکہ خدا نے انہیں استعمال کرنے کے لئے چنا ہے.اگر یہ کھوٹے پیسے بن گئے تو ہم انہیں استعمال نہیں کر سکیں گے.اور اگر یہ اچھے پیسے بنے تو غیر معمولی اسلام کی خدمت دنیا میں کر سکتے ہیں.پھر دوسرا پہلو ہے ان کی اگلی نسلوں کو سنبھالنے کا.لیکن وہ پہلے پہلو کا بچہ ہی ہے.جس طرح انگلی نسل موجودہ نسل کے بچے ہوتے ہیں، اسی طرح موجودہ نسل کو آپ سنبھالیں اور صحیح خطوط پر چلائیں تو روحانی طور پر اگلی نسل بھی لاز ما بچ جاتی ہے.نقائص ڈھونڈنے کے لئے آپ دوسری نسل کی شکلوں کو نہ دیکھیں.جب بھی کوئی نقص ہو تو پہلی نسل کی شکلوں کو دیکھیں.وہاں سے ابتداء ہوئی ہے.یاد رکھیں یہ قرآن کریم نے ہمیں نکتہ عطا فرمایا ہے کہ آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے موجودہ نسلوں کو سنبھالو.فرمایا:.يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر: 19) اس کے وسیع معانی میں ایک معنی یہ بھی ہے کہ اے آج کے بسنے والے مسلمانو! اے ایمان والو! جن کو ہم مخاطب ہیں، اگلی نسلوں کی تربیت کے تم ذمہ دار ہو، اس لئے تم پوچھے جاؤ گے.کل کیا پیچھے چھوڑ کر جانے والے ہو، اس کا سوال تم سے کیا جائے گا.اس لئے یہ نہایت ہی اہم بات ہے کہ موجودہ نسل کے احمدیوں میں جو دنیا کے کسی خطہ میں بھی آباد ہوں، ان کی تربیت کی طرف فوری توجہ کریں.اگر وہ متوازن 470

Page 480

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرموده 07 نومبر 1986ء ہو جائیں تو ان کی نسلیں خود بخود ٹھیک ہونی شروع ہو جائیں گی.اور بھی غیر معمولی پاک تبدیلیاں ان کے اندر پیدا ہونی شروع ہو جائیں گی.اس ضمن میں اور بھی بہت سے امور سامنے آتے رہے، جن کے متعلق مختلف وقتوں میں جماعتوں کو، مجالس عاملہ کو ہدایات دیتارہا ہوں.لیکن مختصر جماعتوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب وہ سر جوڑ کے بیٹھیں گے اور پروگرام بنا ئیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ خود ان کے ذہن میں بھی بہت سی باتیں ابھریں گی.نئے نئے رستے اللہ تعالیٰ ان پر روشن فرمائے گا.دوسرا اہم پہلو جس کی طرف ساری دنیا کی مجالس عاملہ کو توجہ دینی چاہئے ، وہ تربیتی لٹریچر کی تیاری ہے.ہر ملک کے لحاظ سے اس کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیتی لٹریچر تیار ہونا ضروری ہے.اور اس میں اسلام کے بنیادی تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے.کم سے کم طور پر ایک شخص مسلمان کیسے بنتا ہے؟ اسے کیا معلوم ہو تو وہ مسلمان بن جاتا ہے؟ جب یہ باتیں آپ سکھائیں گے لٹریچر میں بھی اور تربیت کے ذریعہ بھی تو آپ کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی پڑے گی کہ اسلام میں محض مقتدی بنانے کا تصور نہیں بلکہ امام بنانے کا تصور ہے، لیڈرشپ پیدا کرنے کا تصور ہے.اسی لئے کوئی پیشہ ور ملاں اسلام میں موجود نہیں ہے.ہر شخص سے اسلام توقع رکھتا ہے کہ اگر جماعتیں اس کو چنیں ، عوام اس پر اعتماد کریں تو وہ قیادت کی صلاحیتیں بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور قیادت کے سلیقے جانتا ہو.نماز کیسے پڑھائی جاتی ہے، یہ بھی ہر مسلمان کے لئے جاننا ضروری ہے؟ صرف نماز پڑھنا ضروری نہیں بلکہ نماز پڑھانے کا علم ضروری ہے.محض یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہو کر اپنی پیدائش اور اپنی موت کو بعض علماء کے سپرد کر دے کہ جس طرح چاہیں، وہ سلوک کریں.اس کو اہل ہونا چاہئے اس بات کا یہ سب مسائل کا علم ہونا چاہئے کہ بچے کس طرح پیدا ہوتے ہیں؟ ان کے کیا حقوق ہیں؟ اور لوگ جب مرتے ہیں تو ان کے کیا حقوق ہیں؟ بیاہ شادی کس طرح کئے جاتے ہیں؟ ہر احمد کی اس بات کا اہل ہونا چاہئے کہ اسلام میں جو کم سے کم سیادت کی ضرورتیں ہیں، ان سے وہ پوری طرح واقف اور آشنا ہو.اور اسے تجربہ بھی ہو.محض دیکھنے سے یہ بات حاصل نہیں ہوتی.مجھے یاد ہے وقف جدید میں ہم نماز ظہر و ہیں پڑھا کرتے تھے کیونکہ کام کے وقت دوسری جگہ جانا مشکل ہوتا تھا.باہر مسجد میں چھوٹی تھیں.بالکل نزدیک کی ایک جو مسجد تھی، اس سے زیادہ نمازی وہاں آ جاتے تھے.چنانچہ با قاعدہ وہیں مسجد بنائی ہوتی تھی نماز ظہر کے لئے ، وہاں ایک کمرہ وقف تھا.ایک دفعہ وہاں ایک اچھے خاصے مخلص دوست خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بڑے پیش پیش اور واقف تھے، وہ تشریف 471

Page 481

خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم لائے تو میں نے ان کو کہا کہ آج آپ نماز پڑھائیں.ظہر کی نماز تھی تو انہوں نے کہا: مجھے نماز پڑھانی نہیں آتی.اگر وہ ویسے کہہ دیتے کہ میں جھجکتا ہوں تو اور بات تھی.میں نے کہا کہ نماز پڑھائی نہیں آتی، کیا مطلب؟ آپ کو بلکہ ہر احمدی کو نماز پڑھانی آنی چاہئے.یہ کیا مطلب ہے کہ نماز پڑھانی نہیں آتی ؟ انہوں نے کہا: جی دیکھی ہوئی ہے لیکن کبھی پڑھائی نہیں.میں نے کہا: پھر پڑھانے میں کیا حرج ہے؟ اگر آپ کو پڑھانی نہیں آتی تو آپ نے بارہا دیکھا ہوا ہے، ساری عمر اس میں گزاری ہے، پڑھائیں آگے جائے.چنانچہ نماز پڑھانے کے بعد مجھے محسوس ہوا ، ان کو کہنے کے بعد، مجبور کرنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ غلطی کی تھی ان کی پہلے کچھ تربیت ہونی ضروری تھی.کیونکہ وہ شاید میرے کہنے کی وجہ سے ایسا اثر پیدا ہو گیا، کچھ نروس ہو گئے یا پہلی دفعہ نماز پڑھانے کے نتیجہ میں ایسا ہو کہ اللہ اکبر کی بجائے سمع الله لمن حمدہ.سمع اللہ کی بجائے الله اکبر.سجدے میں جاتے وقت ربنا ولک الحمد کہہ رہے ہیں.وہ ایسی اکھڑی نماز کہ پچھلے نمازیوں کے لئے ہنسی برداشت کرنی مشکل.بڑی مشکل سے نماز کا وقت گزارا.اس وقت بھی خاص طور پر مجھے خیال آیا تھا کہ ہم ایک بات سے غافل ہو گئے ہیں.اسلام ہم سے تقاضے کرتا ہے، سید پیدا کرنے کے ، سردار پیدا کرنے کے، امام پیدا کرنے کے اور ہم مقتدی پیدا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے ذمہ داریاں ادا کر دیں.یہ تو ایک ایسا عظیم الشان راز ہے قوموں کی ترقی کا ، جس کو اہل اسلام نے بھلا دیا.لیکن بعض غیر قوموں کے غیر معمولی لیڈروں نے اختیار کیا اور اس سے بڑا فائدہ اٹھایا.اگر چہ یہ ظلم کیا کہ اس سے منفی رنگ میں فائدہ اٹھایا یعنی فائدہ تو اٹھایا لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد دنیا کی ہلاکت کے لئے استعمال کیا لیکن بنیادی طور پر راز یہی تھا.جب جنگ عظیم اول ہوئی تو عالمی طاقتوں نے یہ غور کیا کہ جرمنی کے متعلق ایسی کارروائیاں کرنی چاہئیں کہ پھر کبھی اٹھ ہی نہ سکے.اور اس کو پھر کبھی یہ خیال نہ آسکے کہ میں بھی دنیا میں کوئی فوجی کردار ادا کر سکتا ہوں.چنانچہ جو انہوں نے جو بہت سے اقدامات کئے، ان میں ایک یہ بھی اقدام تھا کہ ان پر پابندی لگ گئی کہ غالباً ایک لاکھ یا اس کے لگ بھگ سے زیادہ تم فوج نہیں رکھ سکو گے اور اس سے زیادہ آدمیوں کو فوجی ٹرنینگ تم دے ہی نہیں سکتے.ان کا خیال تھا کہ جنگیں ایک دم تو نہیں شروع ہو جاتیں ، جس قوم کی فوج صرف ایک لاکھ ہو، یورپ جیسے ترقی یافتہ علاقے میں اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا.اور بھی بعض ذرائع اختیار کئے.لیکن ایک یہ تھا، ہٹلر کو ایک بہت قابل جرنیل نے مشورہ دیا کہ اس مسئلہ کوحل کرنا تو بہت آسان ہے.ہم ایک لاکھ سپاہی پیدا کرنے کی بجائے ایک لاکھ افسر تیار کرتے ہیں.جہاں تک تعداد کا 472

Page 482

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء تعلق ہے، ان کو کیا پتہ کہ عملاً اس تعداد میں پھیلنے کی غیر معمولی طاقت آگئی ہے؟ لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ بجائے سپاہی کی ٹریننگ کے مجھے اجازت دو، میں فوجی تربیت کا ایسا منصوبہ تیار کرتا ہوں کہ ہم ہر ایک افسر تیار کریں گے.اور افسر بھی ایسا، جو انسٹرکٹر بننے کا اہل ہو.چنانچہ انہوں نے ایک لاکھ انسٹرکٹر ز تیار کر دیئے.بجائے سپاہی بنانے کے.دوسری ترکیب انہوں نے یہ کی کہ ان کو تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد چھٹی دینی شروع کر دی.دس ہزار آج نکال دیئے ، جو تربیت یافتہ تھے اور ان کی بجائے دس ہزار اور بھرتی کر لئے.دس ہزار کل نکال دیئے اور ان کی جگہ دس ہزار اور بھرتی کر لئے.جہاں جہاں وہ گئے، ان کو تعلیمی اداروں میں مقرر کیا اور کہا کہ اب تم طلباء تیار کرو.چنانچہ چند سال کے اندر اندر اتنی عظیم الشان فوجی طاقت بن گئی کہ جب چرچل نے توجہ دلائی، پہلا شخص یورپ میں چرچل تھا، جس نے اس خطرہ کو بھانپا تو اس نے توجہ بھی ان الفاظ میں دلائی کہ الارم کی گھٹی تو بجارہا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ میں بھی لیٹ ہو چکا ہوں.اب ہمارا اختیار ہی کوئی نہیں رہا.اب تو جو کچھ نقصان ہو چکا ہے، اب یہ غور کرنا ہے کہ اس کی تلافی کیسے کی جا سکے گی؟ مگر نقصان ہو چکا ہے.جو کچھ جرمنی نے کرنا تھا، کر لیا ہے.اب سارے اتحادیوں کی اجتماعی طاقت بھی اکیلے جرمنی کے برابر نہیں ہے.تو اسلام نے جو گر سکھایا تھاسید بنانے کا، اس کو مسلمانوں نے تو بھلا دیا اور غیر قوموں نے اختیار کیا.اور مسلمانوں کو تو اسلام نے دنیا کے فائدہ کے لئے یہ گر سکھایا تھا، غیر قوموں نے دنیا کو نقصان پہنچانے کے لئے یہ گر استعمال کیا.کیونکہ اسلام کے تقویٰ کی تعلیم سے یہ لوگ عاری تھے.آج دنیا کی سیادت آپ کے سپرد ہے اور جب تک آپ خود سید نہیں بنیں گے، آپ دنیا کی سیادت کیسے کریں گے؟ کیسے نئے آنے والوں کو سردار بنا سکیں گے؟ اس لئے بہت ہی ضروری ہے کہ ہم اپنے Follow up کی تربیت میں ایسا پروگرام شامل کریں کہ جس کے نتیجہ میں ہر احمدی کو کم سے کم سیادت کی تعلیم دی جائے.یعنی کم از کم ایسی سیادت، جس کے بغیر مسلمان کی تصویر مکمل نہیں ہوتی.اور اس کو راہنمائی کے اصول بتائے جائیں.اس پر جب اعتماد کیا جاتا ہے تو اس کو اپنے اعتماد کی کن پہلوؤں سے خصوصیت کے ساتھ حفاظت کرنی چاہئے.جب اس طرف آپ آئیں گے تو نظام جماعت بھی اس کو بتانا پڑے گا.اس کو بتانا پڑے گا کہ ہم پر تمام دنیا کے احمدی بعض آدمیوں پر مالی لحاظ سے اعتماد کرتے ہیں اور جب تک یہ اعتماد قائم رہے گا ، مالی نظام میں برکت رہے گی.جب یہ اعتماد کھویا گیا تومالی نظام ٹوٹ جائے گا.اسی طرح باقی نظام میں یہ یہ توقعات کی جاتی ہیں اور تمہیں ہم صرف ایک احمدی کے طور پر نہیں بلکہ مجلس 473

Page 483

خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم عاملہ کے رکن کے طور پر تیار کرنا چاہتے ہیں.تا کہ جب تم پر یہ ذمہ داریاں ہوں تو تم اس طرح ادا کر و محض ایسے احمدی نہ بنو، جو باہر بیٹھ کر مجلس عاملہ پر تبصرے کر رہا ہو.بلکہ ایسے احمدی بنائیں، جو وہاں بیٹھے ہوں، جن پر لوگ تبصرے کرنے کی کوشش کریں اور ان کے پاس مؤثر جواب ہوں.پھر ہر پہلو سے ان کے حقوق کیا ہیں؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ خلافت کا نظام کیا ہے؟ انصار اللہ کا نظام اور خدام الاحمدیہ کا نظام یعنی ذیلی تنظیموں کا کام کیا ہے؟ ان سارے امور سے ان کو واقف کرانا اور پھر جماعت کی تاریخ سے ان کو آگاہ کرنا اور ایسے مؤثر کردار ادا کرنے والے احمدیوں کی صفات یا ان کی زندگیوں کے حالات سے مطلع کرنا، جن کا کردار آج بھی زندہ ہے.جب اس کردار پر آپ نظر ڈالتے ہیں تو وہ آپ کو مرتعش کر دیتا ہے.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ کی زندگی کے واقعات ہیں.انہوں نے احمدیت میں بہت مختصر زندگی دیکھی لیکن ایسی عظیم زندگی تھی کہ رشک سے ہمیشہ دنیا کی نگاہ دیکھتی رہے گی کہ کاش ہمارے سینکڑوں سال کے بدلے وہ مختصر زندگی ہمیں نصیب ہو جاتی.جب ان کے کردار پر نظر آپ ڈالتے ہیں، ان کے واقعات سے نئے آنے والوں کو آگاہ کرتے ہیں تو آپ کو کسی زور لگانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ آپ کی باتوں سے زیادہ زندہ وہ کردار آج بھی ہے.آج بھی اس میں اس بات کی اہلیت ہے کہ دلوں کو متحرک کر دے اور خون کو گرم کر دے اور نئے حوصلے پیدا کرے، انسانوں میں اور نئے عزم بلند کرے، ان کے سینوں میں.ایسے لوگ ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھی تھے، انہوں نے کیا کیا ، کیا؟ کس طرح دنیا میں قربانیاں پیش کیں؟ کس طرح دنیا کو تبدیل کیا ؟ کس طرح قول اور فعل کے بچے ثابت ہوئے؟ صادق القول تھے، صادق العمل تھے، ان کی باتوں سے آگاہ کرنا.جب ان سب باتوں پر آپ نظر ڈالیں گے تو معلوم ہوگا کہ اتنا بڑا کام کرنے والا ہے کہ اس کے لئے مسلسل کئی سال کی محنت چاہئے.ورنہ ساری دنیا کی زبانوں میں اس قسم کا لٹریچر تیار کرنا اور ایسے احمدی پیدا کرنا، جو ساتھ ساتھ واقف ہوتے چلے جائیں اور زبانی ان باتوں کو آگے پھیلانے کے اہل ہوں.بہت بڑی محنت کی ضرورت ہے.جرمنی کے چند روز کے قیام میں جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں منصوبے ڈالے، وہ تو کافی وسیع ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے.اور بہت سی باتیں ہیں، جو وقتاً فوقتاً جماعتوں کو ہدایتوں کی صورت سی میں بھجوائی جاتی رہیں گی.صرف فکر یہ ہوتی ہے کہ اگر اکٹھی زیادہ ہدایتیں دی جائیں تو ہمت بعض دفعہ ٹوٹ جاتی ہے.آدمی سمجھتا ہے کہ اتنی باتیں میں کرہی نہیں سکتا، چلو چھوڑ دو.اس لئے مجھے بھی بڑا صبر کرنا پڑتا ہے.ایک وقت میں تھوڑی تھوڑی غذا دینے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ یہ ہضم ہو، پھر آگے چلیں.پھر آگے یہ 474

Page 484

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986ء چلیں.تاکہ رفتار میں زیادہ تیزی آتی جائے اور رفتار تیز کرنے والی غذا ساتھ ساتھ ملتی جائے.سردست میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں.ان دو پروگراموں کو آپ جاری کرنے کی کوشش کریں، ساری دنیا کی مجالس میں جاری کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح کریں کہ جو پچھلے منصوبے تھے ان کو چھوڑ کر نہیں ، ان کے پہلو یہ پہلوان کو جاری کریں.اس لئے میں بار بار اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ ہمیں ٹیمیں تیار کرنی پڑیں گی، ہمیں مختلف کاموں کے لئے سپیشلٹ ٹیمیں تیار کرنی پڑیں گی، جو پہلے منصوبے ہیں، وہ بعضوں کے سپرد کریں.وہ بیدار مغزی سے ان کی پیروی کرتے رہیں.یہ منصوبہ نیا کچھ اور لوگوں کے سپرد کریں.اس کے دو پہلو ہیں.اس کے لئے الگ الگ دو کمیٹیاں بنانی پڑیں گی.اور بعض دفعہ مجبوراً چھوٹے علاقوں میں خصوصیت کے ساتھ ایک شخص ایک سے زائد کمیٹیوں کا ممبر بھی ہو سکتا ہے.اس میں کوئی حرج نہیں.لیکن اگر ہر کام کی الگ الگ کمیٹیاں ہوں تو اس کو اپنی اس شخصیت کا احساس ہمیشہ پیش نظر رہے گا کہ میری ایک شخصیت یہ ہے اور ایک شخصیت وہ ہے.اس سے اسے کام یا درکھنے میں آسانی رہے گی.بہر حال اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.خدا کی تو حید آسمانوں سے ہم نے زمین پر لانی ہے اور اس کو فرضی تو حید نہیں رہنے دینا، اسے اپنے سینوں سے چمٹانا ہے، اپنے خون میں جاری کرنا ہے.ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھانی ہے، جو موحد ہو، حقیقتا عمل کی دنیا میں موحد ہو، صرف نظریات کی دنیا میں موحد نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.مجھے متوجہ کیا گیا ہے کہ میں نے جرمنی، بیلجیئم اور ہالینڈ کی بجائے جرمنی، بیلجیئم اور فرانس کا دورہ کہہ دیا تھا.یہ غلط ہے، فرانس نہیں گئے تھے ، ہم بالینڈ گئے تھے.واپسی پر جس طرح مجھے جرمنی سے وہاں کے مقامی لوگوں کے کردار اور اسلام میں سنجیدگی کے پیش نظر بہت سی توقعات وابستہ ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ اسی طرح ہالینڈ کے متعلق بھی اتنا میں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہالینڈ نے اب تک جتنے بھی احمدی پیش کئے ہیں، خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت اعلیٰ معیار کے ہیں.نہایت مخلص سلجھے ہوئے متوازن ذہن والے، انتہاء پسندی سے خالی اور بہت ہی بچے دل سے اسلام کو قبول کرنے والے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی قربانیوں میں بھی پوری طرح شامل ہیں.ان کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعا کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ان کو کہ وہ جلد سے جلد پھیلیں اور ہالینڈ کی قوم کو اسلام کی پر امن آغوش میں لے آئیں.475

Page 485

خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1986 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد هفتم ہالینڈ کے متعلق ضمناً ایک بات اور بیان کرنی ضروری ہے.اور وہ یہ ہے کہ یورپ کی جتنی تو میں ہیں، ان میں اخلاص کے ساتھ عیسائیت کو قبول کرنے والی جیسی ہالینڈ کی قوم ہے اور کہیں ہم نے نہیں دیکھی.ہالینڈ کے بعض ایسے خطے ہیں، جہاں آج بھی وہ لوگ اپنی عیسائیت میں بچے ہیں.عیسائیت غلط ہو تو یہ الگ مسئلہ ہے.لیکن وہ لوگ عیسائیت کے ساتھ خلوص میں بچے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی پوری دیانتداری سے کوشش کرتے ہیں.وہاں کا معاشرہ یورپ کے باقی معاشرہ سے بہت زیادہ صاف ہے.اور ان لوگوں کے اخلاق بہت اچھے ہیں.اس لئے ہالینڈ خصوصیت کے ساتھ ہمارے پیش نظر ہونا چاہئے.کیونکہ اصل بات خلوص ہے.اگر کوئی قوم کسی مذہب کو سچا سمجھ کر اس سے خلوص اختیار کر رہی ہے تو اس کے اندر سچائی کو قبول کرنے کا بنیادی جو ہر موجود ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ان کو بھی جلد از جلد اسلام کے دامن میں لے آئیں.بہر حال یہ درستی کرنی تھی فرانس کی بجائے ہالینڈ کا ذکر کرنا چاہئے تھا“.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 15 صفحہ 731 تا 746) 476

Page 486

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمد بی امریکہ صحابہ کے نمونے آپ کا صلح نظر ہونے چاہئیں پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمد سید امریکہ بس الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود اے نونہالان احمدیت! خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ اپنا سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہے.الحمد لله على ذالک اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے اور اسے خدام احمدیت کی روحانی اخلاقی اور جسمانی صلاحیتوں کی نشو ونما کا ذریعہ بنائے.اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے آپ کی جھولیوں کو بھر دے اور کامیاب فرمائے.اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا کی متفرق آبادیوں میں بسنے والی سعید روحوں کو آستانہ الوہیت کی طرف کھینچنے اور سب انسانوں کو امت واحدہ بنانے کے لئے مبعوث فرمایا ہے.ان اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے متعدد بار اپنی جماعت کو صحابہ کا نمونہ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے.جنہوں نے اپنے خون سے شجر اسلام کی وہ آبیاری کی کہ جس کی نظیر دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملتی.انہوں نے وہ صدق دکھایا کہ خدا کو دیکھنے لگ گئے.گویا بشریت کا چولہ اتار کر مظہر اللہ ہو گئے.ان کی زندگیوں پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی ایسی گہری چھاپ تھی کہ جس نے انہیں دنیا کا استادور ہبر بنا دیا.یہی نمونے آپ کا مطمح نظر ہونے چاہئیں.تا آپ بھی صحابہ کی طرح اس دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب برپا کرنے والے استادور ہبر بن سکیں.ان کے اخلاص، فدائیت اور حسن عمل کے کرشمہ نے تو دنیا کی تقدیر کو بدل ڈالا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان فرزانوں نے دنیا کی عظیم الشان سلطنتوں 477

Page 487

پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد من پر اسلامی پھر یرے لہرا دیے تھے.اسلاف کی ان روایات کے آج آپ امین ہیں اور ان نمونوں کو پھر سے آپ نے زندگی بخشتی ہے.آپ کے لئے دنیا کا استادور ہر بنے اور دنیا کا فاتح بننے کے لئے ان خوبیوں کا اپنا نا ضروری ہے.ان رنگوں کو اپنے اوپر چڑھانے کے لئے اور ان نمونوں کو اپنانے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پیاری جماعت کو جو نصائح فرمائی ہیں، ان کا ماحصل یہ ہے کہ :.میرے عزیزو! میرے پیارو!! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو !!! اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں، جو مجھ میں داخل ہوتا ہے، وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا.مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے، ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے.اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی.مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی، جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے.اور کبھی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے.اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ مطبع بن جاتا ہے.ہر ایک جو ایسا کرتا ہے، وہ مجھ میں ہے اور میں اس میں ہوں.نیز فرمایا:.23 (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 03 صفحه 34) خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے، جس کو دل میں لگانا چاہیے.وہی پانی، جس سے تقویٰ پرورش پاتی ہے، تمام باغ کو سیراب کر دیتا تقویٰ ایک ایسی جڑھ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ بیچ ہے اور اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے.انسان کو اس فضولی سے کیا فائدہ، جو زبان سے خدا طلبی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن قدم صدق نہیں رکھتا؟ اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی محض خدا کے لئے ہو جائے گی اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں توڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے.اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو میں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے.خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و 478

Page 488

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمد سید امریکہ احسان تم پر ظاہر کرے.کینہ وری سے پر ہیز کرو اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ.ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو.نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ.(رساله الوصیت ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307,308) میرے پیارو! انسان کا تقویٰ، اس کا ایمان، عبادت اور پاکیزگی سب کچھ خدا کی دین ہے اور خدا کے فضل پر موقوف ہے.اسے حاصل کرنے کے لئے انسان کو ہمیشہ ”عبد شکور بنا رہنا چاہیے.کیونکہ عبودیت کا الوہیت سے ایسا تعلق ہے کہ عبد اپنے مولیٰ کا ذرہ ذرہ محتاج ہے اور ایک دم خدا تعالیٰ کے سوا نہیں گزار سکتا.عبادت میں تو ایک لذت اور سرور ہے، جو کہ تمام لذات دنیا اور حظوظ نفس سے بالاتر ہے.دکھ درد سے خالی بندگی تو بندگی ہی نہیں ہوتی.پس خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو بڑھائیں اور اسے راضی کریں.راتوں کو اٹھ اٹھ کر اسے پکاریں اور اپنی عبادتوں کے معیار کو ہر لحاظ سے بلند کریں.اپنے اعمال میں ایک خوبصورتی پیدا کریں اور ان پر قبولیت کے رنگ چڑھائیں.دعا، جو گناہوں کے لئے ایک تریاق اور سم قاتل ہے، اسے اس یقین کے ساتھ مانگیں کہ جو کچھ ہو گا ، دعا ہی کے ذریعہ ہوگا.یہی ہمارا ہتھیار اور غالب آنے والا ہتھیار ہے.لیکن اس میں شرط استقامت لازم ہے.کیونکہ دعا جب صبر اور صدق کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو یقیناً شرف قبولیت پاتی ہے.تبلیغ کو وسعت دیں اور خدمت اسلام کی جو جوت میرے مولیٰ نے میرے سینہ میں لگائی ہے، اسے اپنے دلوں میں روشن کرنے کی سعی کریں.اور وہ آسمانی نشانات و تائیدات، جو ہر روز موسلا دھار بارش کی طرح سلسلہ عالیہ احمدیہ پر نازل ہورہی ہیں، ان کی گونج کو اقصائے عالم تک پہنچائیں.مگر یاد رکھیں کہ دینی خدمات کی توفیق مومنین کی انہی جماعتوں کو میسر آیا کرتی ہے، جو اپنے اعمال حیات کی تاریں ایک مضبوط دینی مرکز سے وابستہ کر چکی ہوں.پس خلافت احمدیہ سے ہمیشہ لٹمی وابستگی رکھیں.اس نعمت کی قدر کریں کہ آپ کی تمام تر ترقیات کا دارو مدار اسی نظام سے وابستہ ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو ان سب نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر آن آپ کے ساتھ ہو، آمین.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد (خليفة المسيح الرابع) (مطبوعہ ہفت روزہ النصر 14 نومبر 1986ء) 479

Page 489

Page 490

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد پیغام بر موقع جلسہ سالانہ قادیان 1986ء میں ہندوستان کے افق پر اسلام کے لئے ظفر مند حالات دیکھ رہا ہوں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ قادیان 1986ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر اللہ کے فضل سے ہندوستان کی جماعتوں میں کروٹ لے کر اٹھنے کے آثار پیدا ہوئے ہیں.جو جماعتیں اٹھ چکی ہیں، وہ چلنے لگی ہیں اور جو پہلے چل رہی تھیں، اب بھاگ رہی ہیں.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان کے افق پر اسلام کے لئے خوش آئند اور ظفر مند حالات دیکھ رہا ہوں.اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کو دنیا کے مامور کا مولد اور موطن بنایا ہے اور کوئی سرزمین اس کے اس اعزاز کو چھین نہیں سکتی.اس لئے آپ پر ضروری ہے کہ اپنی اس عظیم حیثیت کو پیش نظر رکھیں اور ہندوستان کو جلد از جلد اسلام کے آغوش میں لانے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں“.( تذكرة صفحه 485) کا مطلب یہ کہ ہندوستان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے لئے عظیم الشان قلعہ ثابت ہوگا.جہاں تک تبلیغ اسلام کا تعلق ہے مسلمان را مسلمان باز کردند کے پیغام کو بہر حال کسی بھی پہلو بھلانا نہیں چاہیے.خصوصیت سے اس کا اطلاق ہندوستان کے مسلمانوں پر ہوتا ہے.احمدیت ان کے لئے حقیقی پناہ گاہ کا درجہ رکھتی ہے.ان کے دین اور دنیا کا سنورنا ، احمدیت سے وابستہ ہو چکا ہے.اس لئے ان کے حال پر رحم کریں اور جلد از جلد بے مقصد، غیر منظم اور خدمت دین سے غافل زندگی بسر کرنے کے وبال سے ان کو بچائیں.اور یقین دلائیں کہ امام وقت کو قبول کئے بغیر اس دنیا میں نہ بچی زندگی مل سکتی ہے اور نہ طمانیت قلب میسر ہو سکتی ہے.احمدیت میں نئی زندگی پائیں گے اور طمانیت قلب حاصل کریں گے اور زندہ رہنے کا لطف اٹھانے لگیں گے.481

Page 491

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ قادیان 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پنجاب کی نسبت سے سکھوں میں اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت سے ہندوؤں میں تبلیغ غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے.نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی قوم کی اجارہ داری ہے، نہ اسلام پر.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لئے تھے اور اسلام بھی سب کے لئے ہے.اس لئے ہندوؤں کا بھی اس پر اسی طرح حق ہے، جس طرح ہندوستان کے سب باشندوں کا حق ہے.لیکن یاد رکھیں کہ اسلام کا پر امن پیغام دیتے ہوئے پر امن طریق پر پیغام دیں.صبر اور استقامت کے ساتھ اثر کرنے والی نصیحت اور دعاؤں کے ساتھ اور بچی انسانی ہمدردی کے جذبہ سے سرشار ہو کر بحث برائے بحث یا دوسرے فریق کو نیچا دکھانے کے جذبہ سے تبلیغ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.جس کو پیغام دیں، اس کو یہ احساس ہونا چاہیے بلکہ یقین ہونا چاہیے کہ آپ اس سے سچی ہمدردی کے ساتھ اسے رشد و ہدایت کی طرف بلا رہے ہیں.مذہب دنیا میں فسادات کی بناء پر بہت بدنام ہو چکا ہے اور ہندوستان بھی اس میں سے کثیر حصہ پاچکا ہے.آپ کا فرض ہے کہ اپنے بہترین اور دلکش انداز سے ان داغوں کو دھوئیں اور الزامات کو دور کر ہیں.اور اپنے اہل وطن پر یہ ثابت کر دیں کہ اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کا کوئی مذہب بھی سچا نہیں ہوسکتا، اگر وہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف نفرت، دشمنی اور بغض و عناد کی تعلیم دے.مذہب وہی سچا ہے، جو انسان کو انسان سے پیار کرنا سکھائے اور ایسا مہذب بنا دے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کا اہل بن جائے.وہ شخص جو انسان کے حقوق ادا نہیں کر سکتا اور انسان سے محبت اور پیار کارویہ اختیار نہیں کرسکتا ، وہ خدا تعالیٰ کا پیارا بھی نہیں بن سکتا.اللہ تعالیٰ آپ کو پیار سکھانے اور پیار حاصل کرنے کی توفیق بخشے.آخر میں صرف اس امر پر توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ غیروں کو تو آپ محبت کی تعلیم دے رہے ہوں اور آپس میں ایک دوسرے سے لڑیں اور محبت والفت کی بجائے باہم اختلافات اور عداوت کا ماحول پایا جاتا ہو.اگر خدانخواستہ کسی کا ایسا ماحول ہو تو اہل ہندوستان اسے کہہ سکتے ہیں کہ اے معالج پہلے اپنا علاج تو کر.پس یہ امر مد نظر رہنا لا بدی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں تو دوہی مسئلے لے کر آیا ہوں، اول: خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے: آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی."3 كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمُ 482 یا درکھو! تالیف ایک اعجاز ہے.(آل عمران: 104) لملفوظات جلد 01 صفحه (336)

Page 492

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ قادیان 1986ء اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ دنیا میں فلاح پاؤ اور آخرت میں خدا کے مقرب بندوں میں شمار ہو اور آپ کی نسلیں بھی اس فیض سے وافر حصہ پائیں، جو مسیح محمدی اس دنیا میں لے کر آیا.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوع هفت روزه النصر 6 فروری 1987ء ، حوال ہفت روزہ "بدر" قادیان یکم فروری 1987ء) 483

Page 493

Page 494

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی امراء مبلغین و صدر ان کے نام سال نو کا خصوصی پیغام مجالس عاملہ بیٹھ کر غور کریں، مبلغین سے مشورہ کریں اور مناسب پروگرام بنائیں امراء کرام مبلغین سلسله وصدران جماعت کے نام سال نو کا خصوصی پیغام بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مکرم امیر صاحب/ مبلغ انچارج صاحب صدر صاحب جماعت السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 1986ء اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور رحمتوں سے ہمارے دامن کو بھرتا ہوا ہم سے رخصت ہورہا ہے اور نئے سال کی آمد آمد ہے.میری دعا ہے اور میں اپنے مولا کریم پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ وہ 1987ء کو احمدیت کے لئے ہمیشہ کی طرح پہلے سے بڑھ کر غیر معمولی افضال و برکات اور عظیم الشان کامرانیوں اور روحانی فتوحات کا سال بنائے گا.اور جماعت ہر پہلو سے وسعت اختیار کرے گی.اور قوی سے قوی تر ہوتی چلی جائے گی، انشاءاللہ تعالیٰ.اللہ کے فضل سے جماعت کی بیداری کے آثار واضح حقائق میں ڈھل گئے ہیں.1986ء میں چندوں کے لحاظ سے بھی واضح فرق پڑا ہے.جبکہ بیعتوں میں نہ صرف غیر معمولی اضافہ ہوا بلکہ تناسب کے لحاظ سے رفتار میں بھی تیزی آگئی ہے.اس رفتار کے تناسب کو قائم رکھنا سب سے اہم اور محنت طلب کام کو ہے.اس لئے مجالس عاملہ بیٹھ کر غور کریں، مبلغین سے مشورہ کریں اور مناسب پروگرام بنا ئیں.تا کہ آئندہ سال موجودہ سال کی بیعتوں کی رفتار کو دوگنا کیا جاسکے.نواحمدیوں سے بھی فائدہ اٹھائیں، ان کی راہنمائی کریں اور داعی الی اللہ بنا کر اپنے رشتے داروں اور دیگر عزیزوں کو احمدیت میں لانے کی تلقین کریں.جن داعیان کی کوششوں کو نوازتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس سال بیعتیں کروانے کی توفیق بخشی، انہیں آئندہ سال اپنی مساعی کو تیز تر کرنے اور بیعتوں کی تعداد کو دو گنا کرنے کے لئے کہیں.اور محنت اور دعاؤں کے ساتھ اور نئے عزم اور ولولہ کے ساتھ نئے سال میں داخل ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کی راہنمائی فرمائے ، آپ کی نصرت فرمائے اور عالمگیر غلبہ اسلام کے اس عظیم الشان روحانی جہاد میں فتوحات نمایاں عطا فرمائے.485

Page 495

امراء، مبلغین و صدر ان کے نام سال نو کا خصوصی پیغام تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم تمام احباب جماعت کو میری طرف سے محبت بھرا السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اور نئے سال کی مبارکباد پہنچادیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 23 جنوری 1987ء) 486

Page 496

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1986ء اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت بتدریج ترقی پذیر ہے 03 جنوري ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1986ء سوال: جماعت احمدیہ میں وقف زندگی کا سلسلہ کب اور کیسے شروع ہوا؟ فرمایا : " تاریخ احمدیت میں اپنے آپ کو وقف کرنے والے سب سے پہلے شخص حضرت خلیفة المسيح الاول تھے.آپ نے غیر مشروط طور پر اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی تھی.فتح اسلام ، جو حضرت مسیح موعود کی بہت ابتدائی تصانیف میں سے ہے.اس میں آپ نے حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب کا ذکر کر کے ان کا ایک خط درج کیا ہے.وہ خط پڑھ کر وقف کی صحیح روح کا اندازہ ہوتا ہے.حضرت مولوی صاحب نے ایک ایک چیز کا نام لے کر جو کسی انسان کے لئے عزیز ہو سکتی ہے، اسے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پیش کر دیا.اور جس طریقے سے آپ نے پیش کیا، وہ اس قدر اثر انگیز تھا کہ حضرت مسیح موعود کا ان کی اس قربانی سے بہت متاثر نظر آتے ہیں.اور اس وقت آپ نے حضرت مولوی صاحب کے متعلق جن جذبات کا اظہار فرمایا، وہ اتنے گہرے ہیں کہ ان کو پڑھ کر سب کچھ قربان کرنے کو دل چاہتا ہے.پھر حضرت مصلح موعودؓ کو حضرت مسیح موعود نے ان کی پیدائش سے بہت پہلے ہی یہ دعائیں کرتے ہوئے کہ اے اللہ ! اس کا وجود صرف ایک نسل کے لئے ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی باعث برکت ہو، وقف کر دیا تھا.فرمایا کہ ”جہاں تک موجودہ نظام وقف کا تعلق ہے، میرے خیال میں اسے حضرت مصلح موعود نے 1938ء میں تحریک جدید کے ساتھ شروع کیا تھا“.یکم مارچ (مطبوعہ ہفت روزہ النصر 10 جنوری 1986ء) سوال: سیاہ فام امریکی مسلمانوں کے لیڈر الامجا محمد کے نظریات کیا ہیں اور یہ کہاں تک درست ہیں؟ فرمایا : الامجا محمد احمدیت کے ذریعہ ہی اسلام سے متعارف ہوئے تھے.چونکہ احمدیت، مذہب کو کسی سیاسی مقصد کے لئے استعمال کی اجازت نہیں دیتی، اس لئے وہ احمدیت سے دستبردار ہو گئے.اس 487

Page 497

ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم وقت ان کی سب سے شدید خواہش یہ ہے کہ سفید فام امریکن کے برابر حقوق حاصل کریں.لیکن کوئی بھی سیاسی تحریک ان کا مقصد پورا نہیں کر سکتی تھی.اس لئے انہوں مذہب کی آڑ لے کر بلیک مسلم کی تحریک چلائی.ان کو یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی پیروی امریکنوں کے لئے بہت مشکل ہوگی کیونکہ وہ آزادانہ زندگی کے دلدادہ ہیں، اس لئے انہوں نے اسلام کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال کر امریکنوں کے سامنے پیش کیا ، جس میں خدا اور رسول کے احکامات کی پیروی کی بجائے غیر مسلموں سے نفرت پر زور دیا گیا.اور مذہب کی آڑ لے کر یہ تحریک دراصل سفید فام امریکنوں کے خلاف چلائی گئی.اس دوران مسلمان ممالک نے جو تیل کی وجہ سے امیر ہو گئے تھے، اپنے مقاصد کے لئے کالے امریکنوں کو سفید فام امریکنوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا.اس صورت حال کو دیکھ کر بے شمار کا لے امریکن اس طرف متوجہ ہو گئے.ان کو پیسے کی کمی بھی نہ تھی اور سب کچھ کرنے کی کھلی چھٹی تھی.جبکہ احمدی بننے کے بعد مالی قربانی بھی کرنی پڑتی تھی اور خواہشات پر بھی پابندی لگانی پڑتی تھی.ایک سچا مسلمان دنیاوی لحاظ سے بعض معاملات میں پابند ہے لیکن دوسری طرف وہ دنیاوی خواہشات سے بالکل آزاد ہے.اور صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی کا تابع ہے.جو لوگ صحیح اسلام کی روح سے واقف نہیں، وہ الائجا کے اسلام کو ترجیح دیتے ہیں.لیکن اب پانسہ پلٹنا شروع ہو گیا ہے اور پیسے کی ریل پیل بھی نہیں رہی اور لوگ بھی اس کھیل سے اکتا گئے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت بتدریج ترقی پذیر ہے.اور بلیک مسلم تحریک کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو جو نقصان پہنچا تھا، اس کی اب تلافی شروع ہو گئی ہے اور لوگ دوبارہ احمدیت میں دلچسپی لے رہے ہیں.05اپریل مطبوعہ ہفت روزہ النصر 28 مارچ 1986 ء ) سوال: جماعت احمدیہ کے شائع کردہ تراجم قرآن کی صحت کا معیار کیا ہے؟ فرمایا: "جماعت احمدیہ کے زیر نگرانی قرآن کریم کے جو انگریزی تراجم کئے گئے ہیں، وہ اللہ تعالی کے فضل سے نہایت اعلیٰ پایہ کے ہیں.کیونکہ جن بزرگوں نے وہ تراجم کئے ہیں، ان کو نہ صرف انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ قرآن کریم کے گہرے علم سے کما حقہ واقفیت رکھتے تھے.مختلف سکالرز نے ان تراجم کی بہت تعریف کی ہے.حتی کہ عرب محققین نے جو عربی زبان کے ماہر ہیں، ان تراجم کو سراہا ہے.حال ہی میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر نے تحقیق کر کے ایک عالمانہ مضمون لکھا ہے، جس میں اس نے آج تک کے تمام کئے جانے والے انگریزی تراجم قرآن کریم میں سے حضرت مولوی شیر علی 488

Page 498

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1986ء صاحب کے ترجمے کو سب سے بہترین قرار دیا ہے اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے انگریزی ترجمے کو دوسرے نمبر پر رکھا ہے.لہذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے تراجم ٹھیک نہیں، وہ خود انگریزی زبان سے نابلد ہے.20 تا 30 اگست مطبوعہ ہفت روزہ النصر 02 مئی 1986ء) سوال: حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق اسلام تین صدیوں میں پھیلے گا.اس سے پہلے نیوکلیئر (Nuclear) ہتھیاروں سے ہم کس طرح بچ سکیں گے؟ فرمایا: ” اگر چہ قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں دنیا سے نابود ہو جائیں گی.لیکن وہ بحیثیت بڑی طاقتوں کے نابود ہوں گی لیکن بحیثیت انسان ہونے کے بنی نوع انسان کبھی بھی مکمل طور پر دنیا سے ختم نہیں ہوں گے.مہلک ہتھیاروں کی کوئی بھی تعداد مکمل طور پر دنیا کی آبادی کو ختم نہیں کر سکے گی.ہو سکتا ہے کہ بعض مقامات پر ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن ہر جگہ نہیں.اور انسان بچ جائے گا اور جو لوگ اس وقت بچ جائیں گے، وہ ذہنی طور پر اسلام قبول کرنے کے لئے زیادہ آمادہ ہوں گے، بہ نسبت ان لوگوں کے جو تباہ کر دیئے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ احمدی بچائے جائیں گے.آپ فرماتے ہیں:.آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو رکھتے ہیں خدائے ذو العجائب سے پیار اسی طرح حضرت مسیح موعود کو الہاما بتایا گیا تھا:.66 آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے.یہاں لفظ آگ دنیاوی مصائب کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ احمدی ان تمام مصائب سے بچائے جائیں گے.انفرادی طور پر شاید کچھ نقصان ہو لیکن بحیثیت مجموعی احمدی بچائے جائیں گے.( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 28 نومبر 1986ء) 489

Page 499

Page 500

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم "9 اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 جنوری 1987ء جماعت احمدیہ کو اپنے وقت کی قیمت کا احساس کرنا چاہئے خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1987ء تو جماعت احمدیہ کو اپنے وقت کی قیمت کا احساس ان پیمانوں کو پیش نظر رکھ کر کرنا چاہئے.ہمارے سپر د جو کام ہیں، وہ بہت زیادہ ہیں.اتنے زیادہ ہیں کہ اگر آپ جائزہ لیں کہ انگلستان کی حالت تبدیل کرنے کے لئے ہمیں کتنے سال چاہئے تو اگر کوئی باشعور انسان ہو اور حساس ہو اور دین کی محبت رکھتا ہو اور اس بات میں صرف یہی فکر ہر وقت اس کو دامن گیر ہو تو اس کو اپنی صحت کی فکر کرنی چاہئے.بظاہر ایک ناممکن کام نظر آتا ہے.کتنے سال سے جماعت نے محنت کی ہے اور اس کے بعد اب تک جو تبدیلیاں پیدا ہم کر سکیں ہیں.اگر چہ ہر تبدیلی پر دل شکر سے بھرتا ہے.لیکن ذمہ داری کا جہاں تک احساس ہے، اس پہلو سے اگر آپ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم وقت سے بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں.ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنا اور حق کے ستے پر چلا دینا، اتنا بھاری، اتنا بڑا کام ہے کہ جہاں تک ہماری جماعت کی تعداد کا تعلق ہے، استطاعت کا ہے، بالکل ناممکن نظر آتا ہے.لیکن جہاں تک وقت کے اس پیمانے کا تعلق ہے، جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور اس پیمانے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح استعمال فرمایا تھا، اس بات کی طرف جب قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے تو ناممکن بات ممکن ہوتی دکھائی دیتی ہے.تعلق اب میں اس فلسفے کی روشنی میں چند منٹ واقعاتی تجزیہ کر کے آپ کو بتاتا ہوں کہ انگلستان کی مثال دی تھی.انگلستان کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسی جماعت ہے، جو مصروف ہے.اور عام طور پر جو موازنہ کیا جاتا ہے، اس کے لحاظ سے اسے صف اول کی جماعتوں میں شمار کرنا چاہئے.لیکن اس کے باوجود جب آپ قریب کے نظر سے جائزہ لیں تو اتنے خلا آپ کو نظر آئیں گے کہ ہوش اڑنے لگتے ہیں، ان کو دیکھ کے.ہر جماعت میں نزدیک کی نظر سے ڈوب کر دیکھیں تو آپ کو جگہ جگہ خلا اور جگہ جگہ وقت کا ضیاع اس کثرت سے دکھائی دے گا کہ حواس باختہ ہو جاتا ہے آدمی کہ اتنا بڑا ہمارا قیمتی وقت، اتنے بڑے کام والی جماعت کا اور اتنا ضائع ہورہا ہے اور اس طرح ضائع ہو رہا ہے، بے مصرف.جس کو میں وقت کہتا ہی نہیں.کیونکہ خدا کی تعریف کے مطابق تو جو بے مصرف لمحات ہیں، وہ وقت نہیں ہیں.سکوت، جمود، موت اس کا 491

Page 501

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم نام رکھ دیں، وقت نہیں رکھ سکتے.تو یہ موت کا حصہ ہی اتنا بڑا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ اتنا قیمتی وقت رکھنے والی جماعت، جو مستعد جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے، اس کے افراد میں سے اکثر کا وقت بہت حد تک اس طرح ضائع ہوتا ہے کہ کوئی بھی عمل اس سے پیدا نہیں ہورہا.اور پھر جب آپ اس وقت کو لیتے ہیں، جو مصروف ہے، جو حقیقت میں وقت کہلانے کا مستحق ہے، اس میں سے بھاری حصہ ایسا ہے، جو الی ربک فارغب کے مطابق نہیں ہے.وہ باطل کی طرف حرکت کر رہا ہے یا بے معنی ہے.وو کیا ہم کوشش یہ کر رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطابق ، آپ کے نمونے کے مطابق اپنے وقت کو وقت بنائیں یا اس کے برعکس سمت میں ہم رواں تھے.اس پہلو سے بھی آپ غور کر کے دیکھیں تو ہمارا بہت سا وقت ضائع ہوتا نظر آ رہا ہے.بلکہ ہماری اولاد کا وقت ہم سے بھی زیادہ ضائع ہوتا نظر آ رہا ہے.اور یہ خطرہ سامنے آجاتا ہے کہ ہم نے اگر اپنے وقت کی کوئی قیمت حاصل بھی کر لی تو ہم ایسی اولاد پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں، جن کا وقت باطل کی طرف متحرک ہے.وہ جو سائنس پڑھیں گے تو دنیا دار کی طرح سائنس پڑھیں گے.ان کو سائنس میں خدا نظر نہیں آرہا ہو گا.وہ جب دنیا میں بڑے بڑے مقامات حاصل کریں گے تو دنیا دار کی طرح باطل کے مقامات حاصل کر رہے ہوں گے.جبکہ آج کی نسل میں وہی مقامات پر فائز آدمی، ایک متقی بھی ہو سکتا ہے، مخلص بھی ہوسکتا ہے.جس کے وقت کی توجہ ہر وقت خدا کی طرف ہے.تو اتنا کام ہونے والا ہو جس جماعت کے لئے اندرونی طور پر اور پھر بیرونی طور پر جو دنیا کو تبدیل کرنا ہے، یہ ساری باتیں اگر آپ غور کریں تو تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ کتنا بھاری ذمہ داری کا کام ہے، کتنا بوجھ ہے.اور جولوگ جوابدہ ہیں، وہ خدا کے سامنے کس طرح اپنے لمحات کا حساب پیش کریں گے.ہم میں سے ہر ایک جوابدہ ہے.اس لئے جماعت کا وقت اگر پہلے سے بہتر نہیں ہوتا تو میں جوابدہ ہوں.اس تصور سے بھی میرے ہوش اڑتے ہیں اور جان کا نپتی ہے کہ کیا میں خدا کو منہ دکھاؤں گا کہ تمہارے وقت کے ساتھ جماعت کا وقت باندھا تھا اور تم نے پرواہ نہیں کی کہ اس جماعت کا وقت پہلے سے زیادہ بہتر ہوتا چلا جائے.اور آپ میں سے ہر ایک جوابدہ ہے، اپنے وقت کے لئے اور اپنے ماحول کے لئے جوابدہ.اور ہر امیر جوابدہ ہے، اپنی جماعت کے لئے اور ہر عہدے دار جوابدہ ہے، اپنی جماعت کے وقت کے لئے ، جہاں تک اس کے شعبے سے تعلق ہے.کئی لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ کئی علاقوں میں مثلاً بعض علاقائی جماعتیں ہیں ، بعض شہری جماعتیں ہیں، وہاں سے یہ اعتراض ملتے رہتے ہیں کہ جی امیر نے تو دس چار آدمیوں کے ساتھ ایک عاملہ 492

Page 502

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 جنوری 1987ء بنائی ہوئی ہے اور سب کچھ ان کے ہی ہاتھ میں ہے اور باقی جماعت کی پرواہ ہی نہیں کرتے.اگر جماعت کے وقت کی پوری قیمت لی جائے تو کہیں یہ اعتراض پیدا ہی نہیں ہوسکتا.اتنازیادہ کام ہے ہر شعبے کا کہ یہ بحث تو چل سکتی ہے، جیسے انگلستان میں چلتی ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ جی فلاں آدمی مجھے چاہئے ، وہ لے کر جارہا ہے.فلاں آدمی مجھے چاہئے ، وہ فلاں لے کر جارہا ہے.آدمیوں کی تلاش میں پھر رہے ہیں، لوگ.کیونکہ کام زیادہ ہے.اور جو آدمی مہیا ہیں ، وہ پورا نہیں آسکتے.یہ اعتراض کس طرح پیدا ہو گیا کہ کام کے لئے صرف چند آدمی ڈھونڈے ہوئے ہیں اور باقیوں سے کام نہیں لیا جارہا.عہدہ اور چیز ہے، کام اور چیز ہے.یہ تو ناممکن ہے کہ امیر اپنے وقت کا خیال کر رہا ہو اور اپنے وقت کی قیمت پہچانتا ہو اور یہ احساس بھی رکھتا ہو کہ اب صرف میر اوقت میرا نہیں رہا بلکہ میری ساری جماعت کا وقت میرا بن گیا ہے.اس کے اس احساس کے بعد یہ اعتراض اس پر ہورہا ہو، بعض لوگ کہہ رہے ہوں کہ جی ہم سے کام نہیں لیا جاتا، چند آدمی ہیں، جو آپس میں بانٹ لیتے ہیں، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.ایک اشاعت کا کام مثلاً لے لیجئے.مثال کے طور پر سمجھا تا ہوں کے کتنی زیادہ ذمہ داری ہے، ہماری اشاعت میں.دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں میں لڑ پچر شائع ہورہا ہے.اور جو اس وقت سکیم ہے، اس کے مطابق انشاء اللہ تعالیٰ اگلے چند مہینوں کے اندر اس کثرت سے دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں بنیادی لٹریچر شائع ہونے والا ہے کہ میں فکرمند ہوں کہ اس کو سنبھالیں گے کس طرح.اور اگر اس کا نکاس کرنا ہو تو جماعت میں جو سیکرٹری ہے اس کام کے لئے ، اشاعت کے لئے ، اگر وہ فعال ہو اور پوری طرح اپنی ذمہ داری ادا کرنے والا ہو تو وہ تو لوگوں کی منتیں کرتا پھرے گا جگہ جگہ کہ آؤ اور مجھے وقت دو.کیونکہ مجھے سے یہ کام سنبھالا نہیں جارہا.Arabic زبان کے لٹریچر کے لئے عربوں سے رابطہ کرنا پڑے گا.روسی زبان کے لٹریچر کے لئے روسیوں سے رابطہ کرنا پڑے گا.اٹالین زبان کے لٹریچر کے لئے اٹالین سے رابطہ کرنا پڑے گا.سپینش زبان کے لٹریچر کے لئے سپینش سے رابطہ کرنا پڑے گا.سوسے زیادہ زبانوں میں ہم اگلے دو، تین سالوں کے اندر قرآن کریم یا مکمل شائع کرنے والے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ یا کم سے کم ایک پارے سے زائد آیات قرآن کریم شائع کرنے والے ہیں.قریباً 55 زبانیں ایسی ہیں، جن میں پورا قرآن کریم شائع ہو گا اور 55 کے لگ بھگ ہی ایسی زبانیں ہیں، جن میں قرآن کریم کا ایک حصہ، جو نمائندہ آیات پر مشتمل ہوگا، وہ شائع ہوگا.اب سو زبانوں میں جو قرآن کریم ہے، وہ اگر چھپ کر ہمارے پاس یہاں پڑا رہے گا، اس کوتو سنبھالناہی ممکن نہیں.دس ، دس ہزار کی تعداد میں آپ 493

Page 503

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اندازہ لگائیں کہ کتنی بڑی تعداد ہوگی.اس کو کیا کریں گے ہم؟ اس کے چھپنے سے پہلے سیکرٹری اشاعت کا کام ہے کہ وہ رابطے کرے اور اپنی جماعت کو مستعد کرے.ایسے آدمی مقرر کرے جو Specialize کریں، Russians کے متعلق کہ ان کو ہم نے ڈھونڈنا ہے.کہاں کہاں ہیں؟ کس طرح ان سے رابطہ کرتا ہے؟ کیس طرح ان کے اندرا بتدائی طور پر اسلام میں دلچسپی پیدا کرنی ہے؟ تاکہ جب لٹریچر آئے تو وہ اور اس کے ساتھی جس کا کام صرف روسیوں سے تعلق رکھنا ہے ، وہ تیزی کے ساتھ اس لٹریچر کو آگے چلا دیں.گجراتی زبان میں لٹریچر ہے، گجراتیوں کو تلاش کرنا پڑے گا.Spanish زبان میں لٹریچر ہے ، Spanish کو تلاش کرنا پڑے گا.اٹالین زبان میں قرآن کریم چھپ چکا ہے اور اس کا نکاس نہیں ہو رہا.اس لئے کہ جماعت میں بہت حد تک اس طرف توجہ نہیں ہے.تو صرف ایک سیکرٹری اگر اپنے کام کو موثر طریق پر آگے بڑھائے تو اس کی پھر آگے دوشاخیں بن جائیں گی.ایک لٹریچر ہے، قابل فروخت.اس کے لئے بہت زیادہ حکمت سے چھان بین کر کے رابطے بڑھانے پڑیں گے.پریس سے رابطہ کرنا پڑے گا، ان لوگوں سے رابطہ کرنا پڑے گا، اس کا تعارف کروانا پڑے گا، پیلیٹی (Publicity) کے ذریعے ڈھونڈ نے پڑیں گے.اور ایک ہے، فری لٹریچر کی تقسیم.مفت اشاعت، جسے ہم چاہتے ہیں، چاہے ہمیں کوئی آنہ بھی نہ دے، ہم اس تک کتاب کو پہنچائیں.اس سلسلے میں ذاتی تعلقات بنانے پڑیں گے.کیونکہ ڈاک کے ذریعے لٹریچر بھیجنا بعض دفعہ وقتی طور پر تو مفید ہوتا ہے، ایک اشتہار بازی کے لئے توجہ دلانے کے لئے مگر اگر اس کو مستقل اپنا طریقہ بنالیں تو بھاری حصہ اس کا ضائع چلا جاتا ہے.اور جماعت کے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں زائد کہ اس طرح کثرت سے اپنا روپیہ ضائع کرے اور اپنا وقت ضائع کرے.تو انفرادی تبلیغ کے ذریعے ہی یہ کام ہو سکتا ہے.اب اگر داعی الی اللہ بنانے والا سیکرٹری مستعد نہ ہو ساتھ تو یہ گاڑی چل ہی نہیں سکتی.صرف ایک پہیہ ہو گا اشاعت والا اور دوسرا پہیہ ساتھ چل ہی نہ رہا ہو تو کس طرح کام آگے بڑھ سکتا ہے.اور داعی الی اللہ کے پہلو سے اگر آپ دیکھیں تو اتنے بڑے خلا نظر آئیں گے، مستعد جماعتوں میں بھی کہ آج بھی انگلستان کے نوے فیصدی احمدی یقیناً ایسے ہیں، جو داعی الی اللہ نہیں بنے.مجھے پتہ ہے، میں تفصیل سے جائزہ لیتا رہتا ہوں، مجھ سے خط وکتابت ہوتی ہے، داعین الی اللہ کی رپورٹوں میں ان کے نام ملتے ہیں.تو یہ بلا مبالغہ ہے کہ نوے فیصدی اس جماعت میں ایسے دوست ہیں، جو ابھی تک داعی الی اللہ نہیں بن سکے.تو جو جماعتیں پیچھے ہیں، وہاں بعض دفعہ نناوے فیصدی ایسے ہیں، جو نہیں بنے.494

Page 504

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 جنوری 1987ء انقلاب تو بڑا آنے والا ہے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو اس لئے چنا ہے.مگر انقلاب تب آئے گا ، جب آپ کا وقت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے گا.قدم بہ قدم اس آقا کے وقت کے پیچھے آپ کا وقت غلاموں کی طرح پیروی کرے گا.تب یہ انقلاب ضرور آئے گا دنیا میں.اتنا بھر پور پھل ملے گا پھر آپ کو کہ واقعہ جس طرح کہتے ہیں، سنبھالا نہیں جاتا، اس طرح کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ آپ کے وقت کو مثمر ثمرات حسنہ فرمائے گا.بہترین، شیریں، دائی پھل اس کو لگنے شروع ہو جائیں گے.اور کتنی شاخیں ہیں، جن کا وقت اس طرح مثمر ہو چکا ہے؟ کتنی ایسی شاخیں ہیں، جو صرف موت کی حالت میں موت ہی کا انتظار کر رہی ہیں؟ کوئی بھی مقصد نہیں.اس پہلو سے چونکہ سال کا آغاز ہے، میں ساری دنیا کی جماعتوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ وقت کے مضمون پر غور کریں اور قرآن کریم کی اصطلاحوں میں غور کریں اور بھر پور کوشش کریں امراء اور مبلغین و مربیان کہ خود ان کا وقت بھر پور ہو اور ساری جماعت کا وقت بھر پور ہو اور باطل کی سمت میں حرکت کرنے والا نہ ہو بلکہ حق کی سمت میں حرکت کرنے والا ہو.مشکل کام ضرور ہے مگر توجہ ہو ، محنت ہو، دعا ئیں ہوں تو دن بدن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئندہ آنے والا وقت ہمارے گزرے ہوئے وقت سے بہتر ہوتا چلا جائے گا.اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 21 تا 36) 495

Page 505

Page 506

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء صد سالہ جو بلی فنڈ کی ادائیگی کا جائزہ اور قربانی کی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی:.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ پھر فرمایا:.(القف: 10) اہے.قرآن کریم میں متعدد جگہ اسلام کے عالمی غلبہ کی پیشگوئی کی گئی ہے.اور یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے، اس میں بھی اس پیشگوئی کو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کے طور پر ظاہر فرمایا گیا ہے:.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ یہاں ضمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیری گئی ہے اور دین کی طرف بھی پھیری گئی.عموماً اس آیت کا ترجمہ آپ کو تراجم میں یہی ملے گا کہ وہ خدا، جس نے اس رسول یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ دین حق کا غلبہ تمام دیگر ادیان پر فرمائے.لیکن یہ قرآن کریم کا ایک عجیب اسلوب ہے کہ جہاں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے بعد کتاب یا دین کا ذکر ملتا ہے ، وہاں ضمیر کو اس طرح کھلا چھوڑ دیا گیا کہ دونوں طرف ضمیر لگتی ہے.اور قرآن کریم کی دوسری آیات اس بات کو تقویت دیتی ہیں کہ ضمیر کا دونوں طرف پھیرنا جائز ہے.بلکہ مفہوم میں داخل ہے.پس اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں اور کامل یقین رکھتا ہوں کہ یہاں جس غلبہ کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے، وہ صرف دین کا غلبہ نہیں بلکہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ ہے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دین بے رسول کے بے حقیقت اور بے معنی چیز ہے.وہی دین آج بھی ہے لیکن رسول نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مختلف شکلیں بنادی گئی، مختلف جہتوں سے اس کو دیکھا گیا اور ہر جہت سے وہ مختلف نظر آنے لگا.وہ ظاہر موجود ہے لیکن اس کی روح اٹھ گئی ہے.اس لئے 497

Page 507

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم دین کے ساتھ رسول کا ایک بہت ہی گہرا تعلق ہوتا ہے اور رسالت کے بغیر حقیقی دین دنیا میں نافذ ہوہی نہیں سکتا.اور جب دین بگڑے تبھی رسالت کے اعادہ کی ضرورت پیش آتی ہے.پس جب ہم کہتے ہیں کہ اس آیت میں اسلام کے غلبہ کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے تو مراد محض اسلام نام کے غلبہ سے نہیں بلکہ اس اسلام کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے، جس کے مظہر اتم اور مظہر کامل حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے.جن کے غلبہ کے بغیر محض دین کا غلبہ کوئی بھی حقیقت اور کوئی بھی معنی نہیں رکھتا.دین اسلام کا غلبہ اگرمحمد مصطفیٰ کا غلبہ ہے یعنی آپ کی سنت کا غلبہ ہے، اس دین کا غلبہ ہے، جسے آپ نے سمجھا اور جسے آپ نے نافذ فرمایا.تو پھر اس غلبہ کی قیمت خدا کی نظر میں ہے ورنہ اس غلبہ کی کوئی بھی حقیقت نہیں.جماعت احمدیہ کا یہ دعویٰ ہے اور سچا ہے کہ اس عظیم الشان غلبہ کی جو پیشگوئی فرمائی گئی ہے، اس کے لئے ہم غلامان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا گیا ہے کہ ہم اس غلبہ کو دنیا میں جاری کر کے دکھا ئیں گے اور اپنی زندگی کے وجود کا ہر حصہ اس غلبہ کی راہ میں لٹادیں گے.اس غلبہ کی خاطر اپنی ساری طاقتیں صرف کریں گے اور جہاں تک ہم سے ممکن ہوگا ، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اس غلبہ کے دن نزدیک ترلانے کی کوشش کرتے رہیں گے.اس پہلو سے ہماری غلبہ اسلام کی تیاری کی پہلی صدی تقریباً دو سال تک مکمل ہونے والی ہے اور بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں، اس تیاری کے.حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعض بہت ہی خوبصورت اصطلاحوں کا اضافہ کیا.ان میں سے ایک اصطلاح یہ تھی کہ پہلی صدی احمدیت کی غلبہ اسلام کی تیاری کی صدی ہے اور اس سے بعد میں آنے والی صدی انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ کی صدی ہوگی.اور پھر آخری صدی اس غلبہ کی تکمیل کی صدی ہوگی.اس پہلو سے جب ہم دیکھتے ہیں تو ان باقی دو سالوں میں ہمارے لئے تیاری کے کام اتنے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ ہوش اڑانے والے ہیں.اتنا کام باقی ہے تیاری کا کہ جب اس پر نظر پڑتی ہے ہر جہت سے تو اس وقت انسان کا وجود سکڑتے سکڑتے ایک ذرہ بے محض رہ جاتا ہے، جس کی طاقت میں کچھ بھی نہ ہو.کیونکہ جب کام زیادہ ہوں تو اس کی نسبت سے اپنا وجود چھوٹا دکھائی دینے لگتا ہے اور زیادہ کام ہوں تو اپنا وجود اور چھوٹا دکھائی دینے لگتا ہے.یہاں تک کہ جب میں کاموں پر غور کرتا ہوں تو ساری جماعت احمد یہ جو اس وقت کل عالم میں پھیلی پڑی ہے، وہ سمٹتے سمٹتے میرے وجود سمیت ایک نقطہ لاشئی دکھائی دیتی ہے.جسے اللہ تعالیٰ کے براہ راست تسلط اور تقدیر کے بغیر دنیا میں وہ کام کرنے کی توفیق نہیں مل سکتی ، جس کا ارادہ لے کے ہم اٹھیں ہیں.اس پہلو سے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمارا وجود لاشئی تک پہنچ کر نظر 498

Page 508

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء سے غائب ہونے لگتا ہے.اور جب ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں تو اسی وجود کا کل عالم پر محیط ہو جانا ، ایک تقدیر مبرم دکھائی دیتی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ جس ذرہ لاشی کو چن لیتا ہے کہ وہ غالب آئے اور وہ پھیلے تو اس کا کل عالم پر محیط ہونا، ایک ایسی تقدیر ہے، جو دنیا کی کسی قوت میں، طاقت میں نہیں ہے کہ وہ اسے بدل سکے یا اس کی راہ میں روک ڈال سکے.پس جہاں یہ غور ہمیں انکسار سکھاتا ہے، وہاں اس انکسار کو مزید غور ایک عظیم اور نئی طاقت بھی بخشتا ہے.اور وہ طاقت ہمارے وجود کی طاقت نہیں بلکہ خدا کے وجود کی طاقت ہے اور اسی میں ہماری ساری ترقی کا راز ہے.اس موازنے میں ہی وہ ہماری زندگی کا فلسفہ اور ہمارے غلبہ کا فلسفہ ہے.جب تک احمدی اپنے وجود کو انکسار کی حالت میں دیکھتے ہوئے لاشئی نہ سمجھنے لگے اور اس خلا کو جو اس کے وجود کے غائب ہونے سے پیدا ہوا ہے، اسے خدا کی طاقت سے نہ بھر لے، اس وقت تک وہ غلبہ ، جو ہمارے ذریعے مقدر ہے، وہ منصہ شہود پر ابھر نہیں سکتا.وہ خواب کی دنیا میں رہے گا، وہ حقیقت نہیں بن سکتا.انفرادی طور پر بھی یہ ضروری ہے اور اجتماعی کوششوں میں بھی یہ ضروری ہے.کیونکہ اس کے نتیجے میں کچی دعا پیدا ہوتی ہے.جب ایک انسان اپنے آپ کو لاشئی سمجھتا ہے اور جس مقصد کی خاطر اس نے کام کرنا ہے ، وہ سارا خدا کا مقصد ہے تو خدا اس کے وجود کو اپنے وجود سے بھرتا ہے.اس کے سب ارادوں میں خدا داخل ہونے لگ جاتا ہے، اس کی ہر کوشش میں خدا شامل ہو جاتا ہے اور پھر اس انکساری کے نتیجے میں دعا پیدا ہوتی ہے.اور دعا بھی ایسی کہ جس میں سب کچھ خدا پہ چھوڑ دیا جاتا ہے.اگر انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہو مثلاً کچھ لوگ موٹر کو دھکا لگارہے ہیں، وہ نکل نہیں رہی تو وہ سمجھتے تو یہی ہیں کہ تھوڑے سے زور کی اور ضرورت ہے.ایک مسافر، ایک راہ گیرا گر شامل ہو جائے تو وہ تھوڑ اساز ورز ائدیل جائے گا.تو وہ مطالبہ وہی کرے گا ، جس زور کی اس کو ضرورت ہے.ایک ہاتھ کی طاقت چاہئے تو ایک ہاتھ کو بلائے گا ، دو ہاتھوں کی طاقت چاہئے تو دو ہاتھوں کو بلائے گا.لیکن اگر ایک وجود ایسا ہو، جو اپنے کوکلیۂ لاشئی اور بے طاقت سمجھتا ہو، اس کی دعا سب کچھ کے لئے ہوگی.اس کی التجا یہ ہوگی کہ مجھے ساری طاقت دو.میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے.تو طاقت میں جو قوت اور عظمت پیدا ہوتی ہے وہ انکسار کامل سے پیدا ہوتی ہے.اس لئے غلبہ اسلام کی صدی کی تیاری کے لئے میرا سب سے پہلا پیغام یہ ہے کہ ان معنوں میں اپنے اندر انکسار پیدا کریں اور ان معنوں میں اپنی دعاؤں کا معیار اونچا کرتے چلے جائیں اور دعاؤں کا دائرہ وسیع کرتے چلے جائیں، اپنے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی.ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ سے کامل 499

Page 509

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد مفتم عرفان کے ساتھ یہ بات عرض کرتے رہیں کہ ہم حقیقت میں کچھ بھی نہیں اور سب کچھ تجھے دینا ہو گا.ہر توفیق تجھ سے ہم نے لینی ہے.إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ: 05) کے مفہوم کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ دعا کریں، جو ایک معراج کی دعا ہے.اور اس دعا کو لازمہ بنا لیں.جو گزشتہ ہم سے کوتاہیاں ہوتی رہی ہیں اور جو آئندہ ہوسکتی ہیں، ان سب کے لئے استغفار کی بھی ساتھ ضرورت ہے.اس پہلو سے ہم جب مختلف جہتوں میں جائزہ لیتے ہیں تو بہت ہی وسیع کام ہے، جس کی یاد دہانی کی جماعت کو ضرورت پڑتی ہے اور ایک خطبہ میں وہ ساری یاد دہانی نہیں ہو سکتی.آج کے لئے میں نے ایک دو باتیں چنی ہیں.جس میں سے اول بات اس وعدے کی یاد دہانی ہے، جو آپ نے سوسالہ جلسہ سالانہ یا سو سالہ جشن منانے کے لئے حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی وساطت اپنے مولا کے حضور پیش کیا تھا.بظاہر تو آپ خلفاء کے سامنے وعدے کرتے ہیں مگر حقیقت میں تو اللہ سے وعدہ ہے.خلیفہ کی ذات تو اس وعدے کے درمیان میں محض ایک وسیلے کا رنگ رکھتی ہے.جہاں مرکزی نقطہ اختیار کر جاتے ہیں، جماعت کے وعدے اور ایک اجتماعیت کی شکل میں پھر خدا کے حضور پیش ہوتے ہیں.ورنہ ہر وعدہ ہما را خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا ہو، براہ راست اللہ کے حضور پیش ہو رہا ہوتا ہے.اس پہلو سے اس وعدے کی یاد دہانی کروانے کی ضرورت پیش آئی ہے.کیونکہ جیسا کہ میں مختصر بیان کروں گا، جو کام شروع کئے جاچکے ہیں، بہت ہی وسیع کام ہیں اور اب تک ان کے اوپر جو خرچ ہو چکا ہے، اس کے بعد مزید اخراجات کی ضرورت ہے.وہ اس سے بہت زیادہ ہے.اور جب سال جوبلی منانے کا آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ تو ساری دنیا میں کم سے کم ایک سو ممالک میں جماعت ایک عظیم الشان عالمگیر جشن منا رہی ہو گی.اس جشن کے لئے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس سال میں کتنے اخراجات کی ضرورت ہوگی.اور جس رنگ میں ہم نے وہ، اسلامی رنگ میں اس جشن کو منانا ہے، اس کے لئے بہت سی تیاریاں ابھی سے شروع ہیں، جن پر اخراجات اٹھ رہے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ وہ مطالبے زیادہ ہونے والے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ آپ کو اب صد سالہ جو بلی کی طرف خصوصی توجہ دینے کی طرف یاد دہانی کروائی جائے.جہاں تک بیرون پاکستان کے وعدہ جات کا تعلق ہے.لیکن اس سے پہلے میں پاکستان کے وعدوں کا ذکر کروں، عام طور پر ہمیشہ سے یہی ترتیب چلی آئی ہے.پہلے پاکستان کے وعدوں کا ذکر ہوتا ہے، 500

Page 510

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خطبه جمعه فرمودہ 23 جنوری 1987ء پھر بیرون پاکستان.پاکستان کی طرف سے کل وعدہ پانچ کروڑ ، چار لاکھ ، اناسی ہزار، آٹھ سو ستر روپے کا تھا.اس میں سے اب تک گزشتہ بارہ سال میں کل چودہ سال کے اوپر یہ وعدہ پھیلا ہوا تھا.چودہ سال کے اندر یہ وعدہ کیا جانا تھا یعنی وعدے کو پورا کرنا تھا.اس تدریجی نسبت کے ساتھ وعدوں کی ادائیگی ہوتی تو بہت معمولی رقم باقی رہ جاتی.مگر اب تک دو کروڑ ، چوراسی لاکھ، انتیس ہزار، آٹھ سو چھیاسی کی رقم پاکستان سے موصول ہوئی ہے.گویا کہ وعدہ 56.32 فیصد وصول ہوا اور سال صرف دو باقی ہیں.بلکہ واقعہ اگر دیکھا جائے تو سال دو نہیں بلکہ ایک باقی ہے.کیونکہ اس سال اگر وعدہ پوری طرح نہ ملے تو اگلے سال پھر تاخیر ہو چکی ہوگی.اور جس سال جشن منایا جارہا ہو گا، اس سال یہ تو نہیں کیا جاسکتا کہ ساتھ اخراجات ہورہے ہوں ، ساتھ فکر کی جارہی ہو کہ فلاں نے وعدہ پورا کیا یا نہیں کیا.اس سے پہلے پہلے کلیہ وعدے موصول ہو جانے چاہئیں.اس سال کو اگر ہم مطمح نظر بنائیں کہ اس سال کے آخر تک اپنا وعدہ پورا کریں گے تو کچھ جیسا کہ عموماً دستور ہے، کچھ حصہ جماعت کا مجبوراً پیچھے بھی رہ جائے گا اور وہ ہوسکتا ہے، اگلے سال کے شروع کے چند مہینوں میں اپنا وعدوں کے ایفاء سے فارغ ہو جائے.لیکن اگر اگلے سال کو بنایا گیا مطمح نظر کہ اگلے سال وعدے پورے کئے جائیں تو پھر مجھے خطرہ ہے کہ بہت ہی زیادہ تاخیر ہو جائے گی.جہاں تک بیرون پاکستان کا تعلق ہے، وعدہ 37,114,585 ڈالرز کا تھا.یعنی جو بھی رقم بنی مختلف وقتوں میں مختلف جگہوں میں ان کو ہم نے ایک کرنسی میں اکٹھا کر کے آپ کے سامنے رکھا ہے تا کہ آسانی ہو جائے.ورنہ پھر بکھرے ہوئے وعدوں کو جو مختلف Currencies میں ہوں، ان کو ایک جگہ جمع کیا ہی نہیں جاسکتا.تو اگر ہم فرض کریں کہ سب وعدے ڈالرز میں تھے تو 37,14,585 کا وعدہ تھا.اس میں سے اب تک وصولی 19,23,199 کی ہے.یعنی پاکستان کے مقابل پر یہ کم ہے.51.77 فیصد وصولی ہے.اس وصولی میں میرا خیال ہے کہ ایک رقم داخل نہیں کی گئی ، اگر وہ داخل کر لی جائے تو یہ وصولی بھی کم و بیش پاکستان کی وصولی کے برابر ہو جاتی ہے.یعنی نسبت کے لحاظ سے.اور اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کون پیچھے رہ گیا اور کون آگے بڑھ گیا ؟ جہاں تک جماعت برطانیہ کا تعلق ہے، خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت برطانیہ سب دنیا کی جماعتوں میں نسبتی یا تناسب کی قربانی کے لحاظ سے آگے ہے.یعنی کل وعدہ 37,14,585 میں سے دس لاکھ کا وعدہ صرف جماعت برطانیہ کا تھا.دس لاکھ پاؤنڈ کا جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر کے لحاظ سے وہ نسبت ایک اور تین کی تقریبا بن جائے گی.یعنی بیرون پاکستان ساری دنیا نے جو مالی قربانی پیش کی صد 501

Page 511

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم سالہ جو بلی میں اس میں انگلستان کی جماعت کا حصہ %33 سے بھی کچھ زائد بنتا ہے.جواللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی زیادہ بڑی عظیم سعادت ہے.ایک جو ایک تاریخی سعادت جماعت انگلستان کو نصیب ہوئی ہے.لیکن اس سعادت میں سب سے زیادہ حصہ پانے والا شخص حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مرحوم و مغفور تھے، رضی اللہ تعالی عنہ.ساری جماعت انگلستان کا وعدہ 5,75,000 پاؤنڈ تھا اور صرف چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا وعدہ 4,25,000 پاؤنڈ تھا اور اس طرح یہ دس لاکھ کا وعدہ بنا.ساری جماعت انگلستان میں اپنے وعدے میں سے اب تک صرف 50.5 فیصد وصولی پیش کی ہے اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اکیلے سو فیصد وصولی پیش کر دی ہے.یعنی وعدہ کل سو فیصد ادا فرما دیا.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عجیب معجزانہ رنگ میں ظہور ہوا.جس سے پتہ چلتا ہے کہ مالی قربانی پیش کرنے والے کے اخلاص کا بہت گہرا تعلق ہے، اس توفیق سے جو ا سے ادائیگی کی شکل میں ملتی ہے.جتنا زیادہ خالص ہو انسان کا ارادہ، خدا کے حضور ایک چیز پیش کرنے کی تمنا جتنی زیادہ تقویٰ پر مبنی ہو، اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد وعدے کو پورا کرنے میں حاصل ہوتی ہے.رم چوہدری صاحب کا وعدہ چار لاکھ ، پچیس ہزار کا تھا لیکن بیماری تک کیفیت یہ تھی کہ اس میں سے اڑھائی لاکھ سے زائد رقم قابل ادا تھی اور جو ذرائع تھے، وہ سارے ختم ہو چکے تھے تقریبا.کیونکہ بہت بڑی رقم چوہدری صاحب کی انگلستان ہی کی ایک فرم ہضم کر چکی تھی اور جس کے ملنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تھی.چنانچہ جب مجھے معلوم ہوا، میں پہلے بھی واقعہ بیان کر چکا ہوں، بڑا دلچسپ واقعہ ہے.تو ایک خواب کی بناء پر میرے دل میں یہ امید پیدا ہوئی کہ یہ انشاء اللہ خدا تعالیٰ ان کی ایفائے عہد کی صورت پوری کرے گا.پاکستان میں ایک موقع پر غالبا فروری 1984ء کی بات ہے، جب میں کراچی میں تھا تو چوہدری صاحب کی علالت کی بہت ہی خطرناک اطلاع ملی کہ بظاہر ڈاکٹر ز یہ کہتے ہیں کہ اب کوئی بچنے کی صورت باقی نہیں رہی اور خاص طور پر دعا کی جائے.میں مجلس سوال وجواب میں بیٹھا ہوا تھا کہ رقعہ ملاء مجھے بڑا گھبرایا ہوا.غالباً چوہدری حمید صاحب کا پیغام تھا.بڑی سخت پریشانی کا کہ یہ شکل ہے اور فوری طور پر مجھے مطلع کیا جائے.چنانچہ انہوں نے مجھے مطلع کیا.اس رات خاص طور پر چوہدری صاحب کے لئے دعا کی توفیق ملی اور اس وعدے کو مد نظر رکھتے ہوئے خاص طور پر میں نے دعا کی کہ ان کو سرخرو فرما اور زندگی بھی بخش اور ایفائے عہد کی بھی توفیق بخش.کیونکہ ساری عمر چوہدری صاحب کے اوپر یہ داغ کوئی نہیں لگا سکتا تھا کہ کوئی وعدہ کیا ہو اور پورا نہ کیا ہو.لین دین کے معاملے میں انتہائی صاف کردار، بالکل بے داغ 502

Page 512

تحریک جدید - ایک الہی تحریک 5633 ہ وو خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء اور عظیم الشان نمونے کا کردار تھا.تو جس کا بندوں سے یہ معاملہ ہو، خدا سے لین دین کے معاملے میں آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کا کیا حال ہوگا.اور مجھے پتہ تھا کہی فکر تھی ، ان کو جولاحق تھی.چنانچہ اس رات اللہ تعالی نے مجھے یہ خوشخبری دکھائی.گویا ایک خط ہے، جو میں پڑھ رہا ہوں.اس میں ایک فقرہ ہے عربی میں.جس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ اسے زندہ کرے گا یا خدا کی طرف سے ہم اسے زندہ کریں گے اور مہیا کریں گے.اب یہ عجیب بات ہے کہ خواب میں بھی میرے ذہن میں یہ بات واضح ہے کہ حی“ کا لفظ جو زندگی سے تعلق رکھتا ہے، وہ ” ح حلوے والی، جس کو کہتے ہیں، اس ”ح سے ہے.اور جو مہیا کرنا، وہ شععہ والی ہے.لیکن خواب میں جب میں وہ خط کی عبارت پڑھتا ہوں گویا خدا کا خط ہے اور اس میں ایک خوشخبری دی گئی ہے، وہ پڑھ رہا ہوں بڑی بھی جس کو ہم اردو میں کہتے ہیں اور ترجمہ اس کا ساتھ یہ بھی کر رہا ہوں کہ ہم اسے زندگی بخشیں گے اور مہیا کریں گے.تو بعد میں جب میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ حی" کے معنی بہت وسیع ہیں.جیسے میں نے گزشتہ درس کے دوران بیان کیا تھا، اس میں مہیا کرنے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں، وسعت عطا کرنے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں.بہر حال حی" کے لفظ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ ان کو بچا بھی لے گا، اس خطرناک حالت سے اور وہ جو فکر لگی ہوئی ہے کہ ان کا وعدہ پورا نہ ہو، وہ بھی دور فرما دے گا.چنانچہ میں نے فون کے ذریعے اطلاع کروائی لاہور کہ فکر نہ کریں، مجھے اللہ تعالیٰ نے تو خوشخبری دی ہے.انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ جائیں گے.چنانچہ بچ گئے اور یہاں آ کر خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی کہ اس معاملے کی پیروی کروں اور جسے تمام واقف کار لوگ کالیہ کھوئی ہوئی رقم قرار دے چکے تھے کہ واپس آہی نہیں سکتی.وکلاء بھی اور مالی امور کے واقف لوگ کے کوئی دباؤ نہیں ہے، اس شخص پر ہمارا.سب کچھ اپنے ہاتھ سے چوہدری صاحب لکھ کر اس کے سپر داس طرح کر بیٹھے ہیں کہ کوئی دنیا کی قانونی طاقت اس سے اب نکلو انہیں سکتی.مگر اللہ تعالٰی کی طرف سے چونکہ یہ خوشخبری تھی، میں نے کہا نہیں کوشش کرتے رہو.گزشتہ ایک موقع پر میں نے بتایا کہ مجھے یا د یہ تھا کہ چوہدری صاحب کا وعدہ جو باقی ہے، دولاکھ اسی ہزار ہے.اور یہی میرے ذہن میں تھا اور میں نے جماعت کو خوشخبری دی کہ الحمد للہ کہ اس فرم نے جو مکان ہمیں دیا، اس کے بدلے میں وہ دو لاکھ کا تھا.اس وقت تک وہ مکان نہیں بکا، جب تک دولاکھ ، اسی ہزار کا نہ ہو گیا.بعد میں مجھے پتہ چلا دولاکھے ، اسی کا وعدہ نہیں تھا، دولاکھ ، ساٹھ ہزار کا تھا.میں تو جماعت کو بتا چکا تھا کہ اس میں اعجازی نشان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعینہ اتنی رقم مہیا فرمائی ، جتنی ضرورت تھی.اس وقت مجھے تعجب ہوا کہ یہ پھر ہیں کا فرق کیوں پڑا ؟.503

Page 513

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد مفتم چند دن کے بعد اللہ تعالیٰ نے سمجھا دیا کہ یہ فرق کیوں پڑا.کیونکہ اس کے بعد چند دن کے بعد وکلاء کی طرف سے چٹھی ملی کہ ہماری ہیں ہزار فیس دینی نہ بھولیں.پانچ ہزار پہلے ادا ہوئی تھی ، پندرہ ہزار بعد میں، اس کے لگ بھگ رقم جو فیس اور واجب الادا چندہ ملا کر بعینہ وہی رقم بنتی تھی ، جو ادا کرنی تھی.بڑے نشان ہیں، ان باتوں میں خدا کی طرف سے.جماعت کے لئے حوصلہ افزائی ہے کہ دیکھو، خدا کس طرح اپنی جماعت کے ایک ایک بندے کے دل پر نظر رکھتا ہے.اجتماعی طور پر اس جماعت کی کیا قیمت ہوگی ، خدا کے نزدیک.اندازہ تو کریں.بلکہ اندازہ نہیں کر سکتے.آپ کے لئے خوشخبری یہ بھی ہے کہ آپ اگر اپنے خلوص کے معیار کو بڑھا ئیں تو ان فکروں سے خدا آپ کو نجات بخشے گا کہ کس طرح ادا ئیگی ہوتی ہے.اس لئے اگر پہلے وہ معیار نہیں بھی تھا تو اب یہ معیار لے کر دوبارہ نئے ارادے سے خدا کے حضور اپنے وعدوں کی تجدید کریں کہ اے خدا! ہم سے جو غفلت ہوئی سابقہ اب تک ہم نے ان وعدوں کی ادائیگی سے کوتاہی کی ہے یا غفلت کی ہے، پوری اہمیت نہیں دی تو ہمیں اس کی معافی عطا فرما اور آئندہ ہمیں توفیق بخش کہ ہم تیری رضا کے مطابق اس وعدے کو اس سال کے اندر اندر ادا کر دیں.غیب سے خدا سامان پیدا فرماتا ہے اور غیب پر ایمان لانے کی تعلیم سورۃ بقرہ کی آیت میں ہے:.الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ (البقرة:04) آغاز میں ہی ہے.یہاں اس غیب کا بہت وسیع مفہوم ہے.ایک یہ بھی ہے کہ مومن اس لئے غیب پر ایمان لاتے ہیں کہ ان کے سامنے غیب ہمیشہ حقیقت بنتا رہتا ہے.جو غیروں کے لئے غیب رہتا ہے یعنی جو سامان نہیں مہیا ہو سکتا ، وہ نہیں مہیا ہو سکتا.مومن اس لئے ایمان لاتے ہیں کہ خدا اس غیب کو حاضر میں تبدیل فرماتا رہتا ہے، ان کے لئے.اور وہ کامل ایمان رکھتے ہیں کہ مستقبل کے خدا کے وعدے اسی طرح غیب سے حاضر میں تبدیل ہوتے رہیں گے.جو چیز دنیا کو نظر نہیں آرہی، وہ مومن کی یقین اور ایمان کی آنکھ دیکھ رہی ہوتی ہے کہ ہے اور لازما ہوگی.اس یقین کے ساتھ جب آپ دعا بھی کریں گے اور اپنے ارادوں میں ایک تجدید پیدا کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے.صد سالہ جوبلی کے سیکرٹری کی طرف سے بڑی پریشانی کی رپورٹیں ملتی رہی ہیں کہ دیر ہو رہی ہے.اور جو سیکرٹریان ہیں مختلف جماعتوں میں، وہ بھی پریشانی کی اطلاعیں دے رہے ہیں.لیکن مجھے تو کامل یقین ہے کہ جو خدا یہ نمونے دکھا چکا ہے، اس پہ بدظنی کا تو کوئی حق ہی نہیں بنتا.بلکہ گناہ کبیرہ ہے، 504

Page 514

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء بدظنی.اپنے نفس پر بھی حسن ظن کریں اور خدا پر تو حسن ظن مومن کا ہوتا ہی ہے.اور بظاہر جو بات مشکل دکھائی دیتی ہے، ارادہ کریں کہ ہم نے اس کو پورا کر کے دکھانا ہے.تو اس طرح اگر اس سال کے آخر تک بقیہ رقمیں پوری ہو جا ئیں تو امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ پھر باقی جو کام ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ خود بخود چلتے رہیں گے.کیونکہ فکریں کام کے معاملے میں اتنی زیادہ ہیں کہ وصولی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ یہ بھی فکر بن کر ساتھ ساتھ انسان کو پریشان کرتی رہے.جو کام ہونے والے ہیں، وہ ہی بہت زیادہ ہیں.اتنا وقت ہی نہیں ملنا، توجہ دینے کا کہ اب یہ بھی فکر کریں کہ وصولی کہاں سے ہوگی؟ اس لئے جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ کرتا ہوں.اس ضمن میں ایک اور ضروری بات بھی بتانے والی ہے کہ ہر قسم کے لوگ اپنے کاموں میں، اپنے کاموں کو پورا کر کے دکھانے میں مختلف چالاکیاں کرتے رہتے ہیں.ان کو ہم بد دیانتیاں نہیں کہہ سکتے، ہوشیاریاں ہیں اور بعض جماعتوں کے سیکرٹری بھی یہ ہوشیاریاں کرتے رہتے ہیں.مثلاً وعدہ اگر دس لاکھ کا ہے تو جن لوگوں نے دس لاکھ کا وعدہ کیا تھا، انہوں نے اگر سات لاکھ ہی ادا کیا ہو اور اس عرصے میں تین لاکھ کے وعدہ کرنے والے اور پورا کرنے والے مزید پیدا ہو چکے ہوں تو واقعہ ان کو یہ بتانا چاہئے کہ ہمارا دس لاکھ کا وعدہ پورا نہیں ہوا، سات لاکھ اس میں سے ادا شدہ ہے اور بقیہ ہمارے ذمہ ہے.اور یہ تین لاکھ اللہ تعالیٰ نے زائد عطا فرمایا ہے.لیکن وہ چالا کی یہ کرتے ہیں کہ جب دس لاکھ کی رقم پوری ہوئی کہہ دیا کہ وعدہ پورا ہو گیا ، حالانکہ نہیں ہوا.وعدہ ان لوگوں کا ہے، جنہوں نے کیا تھا.اس کے مجموعے کا نام ہے، وہ وعدہ، جو پہلے آیا ہے.بعد میں خدا تعالی دو طریقے سے اس وعدے کو بڑھا تا رہتا ہے اور ان کو یہ اطلاع کرنی چاہئے تھی ، شروع میں کہ اب ہمارا وعدہ دس نہیں رہا، گیارہ ہو گیا، بارہ ہو گیا، تیرہ ہو گیا.چونکہ خدا وعدوں کو بڑھاتا رہتا ہے اور وہ بڑھائے ہوئے وعدے یہ سیکرٹری جان بوجھ کے شمار نہیں کرتے تاکہ مشکل نہ پڑ جائے ، بعد میں.اس لئے بظا ہر وعدے پورے ہور ہے ہوتے ہیں لیکن عملا نہیں ہورہے ہوتے.ہر جگہ لوگوں کی یہی عادت ہے.ہمیں پتہ ہے زمیندارے کا کہ وہاں مثال کے طور پر اگر سو ایکڑ فصل کاشت ہوئی ہے اور بجٹ میں اسی تھی کہ اسی ایکٹر کاشت ہوگی تو مینیجر صاحبان حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ بقیہ ہیں کا پتہ نہ چلے.تا کہ وہ جو Average اوسط پیداوار انہوں نے بتائی ہے کہ ہم نے کرنی ہے اس دفعہ ، وہ پوری ہو جائے.یعنی اگر دس من فی ایکڑ ا نہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم دکھا ئیں گے ، فی ایکڑ دس من پیدوار کریں گے تو اسی ایکٹر پہ دس من فی ایکڑ پیداور کے نتیجے میں آٹھ سو من پیدا ہوگی.لیکن اگر ہیں ایکٹر بڑھا 505

Page 515

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جد معتم دیئے گئے تو آٹھ سونہیں بلکہ ہزار من ہونی چاہئے.لیکن چونکہ وہ ہزار من پیدا نہیں ہوتی سوا یکٹر میں سے کم پیدا ہوتی ہے.آٹھ من فی ایکڑ اوسط پیدا ہو جاتی ہے مثلا تو کل اوسط آٹھ سومن کل مقدار زمینداره پروڈکشن کی خواہ وہ گندم ہو، خواہ وہ کپاس ہو ، آٹھ سومن بن جائے گی.آٹھ من فی ایکڑ کے حساب سے.ایکٹر لگا ہوا ہو تو آٹھ سومن بن جاتی ہے.اور اگر مالک کو یہ پتہ نہ ہو کہ اسی ایکڑ نہیں بلکہ سوا سیکٹر کاشت کی گئی تھی.تو یہی سمجھے گا اور بہت خوش ہوگا کہ اس منیجر صاحب نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور دس من فی ایکڑ کی کاشت پوری کر کے دکھادی.بعض دفعہ ان کی چالا کی کام آجاتی ہے، بعض دفعہ نہیں آتی.مگر آپ کی چالا کی کام نہیں آئی، اگر آپ کریں گے.کیونکہ مالک میں نہیں ہوں، مالک اللہ ہے.اس کو پتہ ہے کہ کتنی ایکٹ کاشت ہوئی ہے اور اس کو پتہ ہے کہ اوسط کیا نکل رہی ہے.اس لئے خدا سے جو چالا کی کرنے والا ہے، اگر وہ شرارت سے کرتا ہے تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (البقرة:10) بیوقوفوں کو پتہ ہی نہیں کہ خدا سے چالاکیاں ہو نہیں سکتیں.اور اگر وہ مومن ہیں تو ایسے سخت لفظ میں اللہ نہیں فرماتا لیکن تقدیر اس پر ہنستی اور مسکراتی ضرور ہوگی کہ کس کو غلط خبر میں دے رہا ہے.جس کو پیش کر رہا ہے، وہ خلیفہ تو نہیں ہے، وہ تو خدا ہے.اور خدا سے کچھ چھپا ہوا ہی نہیں ہے.اس لئے یہ چالا کیاں ہیں ہی بے کار، بے معنی ہیں.اگر اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کوشش کریں گے تو لازما کل وعدے سے زیادہ رقم آنی چاہئے اور ضرورت بھی زیادہ کی ہے.اس لئے اگر جماعت انگلستان کا وعدہ دس لاکھ کا تھا ، جس میں سے تقریبا نصف چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پورا فرما بھی چکے ہیں تو بقیہ آپ کی جماعت میں ایسے نوجوان ہیں، جو بعد میں آکر برسر روزگار ہوئے.گزشتہ بارہ سال میں نئی نسلوں میں سے بہت سے نوجوان ہیں، جو اس تحریک کے آغاز کے بعد برسر روزگار ہوئے اور غلطی سے وہ اس وعدے میں شامل نہیں ہو سکے، لاعلمی کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے.بہت سے ایسے ہیں، جو پہلے اخلاص کے معیار میں کمزور تھے اور اب خدا کے فضل سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں.وہ سابقہ اخلاص کے معیار کی کمزوری کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے.بہت سے نئے احمدی ہوئے ہیں اور ان کو مالی قربانی میں فورا شامل کرنا ان کی زندگی کے لئے ، ان کی بقا کے لئے ضروری ہے.ان کی طرف توجہ دینا ضروری ہے.ان کو بتانا چاہئے کہ اتنی عظیم الشان تحریک جو سو سالہ جشن سے تعلق رکھتی نا 506

Page 516

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء ہے اور گزشتہ سو سال کی تاریخ میں آپ کی قربانی شامل ہو جائے گی.احمدیت کے آغاز کے پہلے دن سے لے کر اس جشن کے سال تک خدا تعالیٰ آپ کی قربانی کو سارے سالوں پر پھیلا دے گا.کیونکہ آپ کی نیست Back Dated قربانی کی بھی ہے، ماضی سے تعلق رکھنے والی قربانی بھی.تو اتنی عظیم الشان قربانی کا وقت ہوا اور آپ ان بے چاروں کو محروم رکھیں ، جو نئے خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہوئے ہیں، یہ بھی ناجائز بات ہے، یہ ظلم ہے ان لوگوں پر.اس لحاظ سے جب ہم دیکھیں تو وعدہ بڑھانے والی بہت سے شکلیں دکھائی دیتی ہیں.اس کے مقابل پر ایک وعدہ کم ہونے والی شکل بھی ہے.بعض لوگ اس چودہ سال کے عرصے میں وعدہ کر کے فوت ہو گئے اور وہ ابھی وعدہ پورا نہیں کر سکے یا جماعتیں چھوڑ کر کسی اور جماعت میں چلے گئے.ان دوشکلوں پر اگر غور کیا جائے تو جو لوگ فوت ہو چکے ہیں، ان سے بہت زیادہ یہ نئے آنے والے ہیں.لیکن جو فوت ہو چکے ہیں، ان سے بھی وصول کرنا چاہئے.اس رنگ میں کہ ان کی اولاد کو توجہ دلائی جائے اور بالعموم احمدیوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب اولاد کو بتایا جائے کہ آپ کے والدین ایک نیک ارادہ لے کر اٹھے تھے، وہ وفات پاگئے اور توفیق نہیں پاسکے کہ اس وعدے کو پورا کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں جو والدین سے تعلق ہے بچوں کو اور اطاعت اور محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے اور ویسے نیکی کی روح پائی جاتی ہے، اکثر صورتوں میں آپ دیکھیں گے کہ وہ وعدے پورے ہو جائیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے وعدہ پورا کرنے کے سلسلے میں بھی اولاد نے بڑا تعاون کیا.یہ تفصیل یہاں بتانے کا موقع نہیں.لیکن پوری اطاعت کی روح دکھائی ہے اور پورا جذ بہ دکھایا ہے کہ جس طرح بھی ہو ، یہ وعدہ بہر حال پورا ہو.اور انہوں نے کہا: اگر کوئی ہمارا حق بنتا ہے اس روپے میں ، ہم چھوڑ دیتے ہیں کلیہ ، ہرگز ہمیں ایک آنہ بھی نہ دیا جائے بلکہ چوہدری صاحب کا وعدہ پورا ہونا چاہئے.تو یہی روح اللہ کے فضل سے جماعت میں پھیلی ہوئی ہے.پھر جو جماعت چھوڑ کر کہیں اور جاتے ہیں، اس کی بجائے خدا اور باہر سے بھیج دیتا ہے.بلکہ بعض صورتوں میں زیادہ بھیج دیتا ہے.چنانچہ اب پچھلے دنوں پاکستان میں جو احمدیت پر مظالم توڑے گئے، اس کے نتیجے میں بہت سے نوجوان ایسے ہیں، بعض صورتوں میں بڑی عمر کے دوست بھی ، جن سے زیادہ تکلیفیں برداشت نہیں ہوئیں اور وہ غیر ملکوں میں آگئے ہیں.انگلستان میں کم لیکن بہت سے مالکوں ) میں زیادہ تعداد میں پہنچے ہیں.تو وہ بھی ایک مزید ہے اضافے کا موجب.کیونکہ اکثر ان میں وہ ہیں ، جن 507

Page 517

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کو پاکستان میں اس چندے میں شامل ہونے کی توفیق نہیں ملی تھی.اور اگر ملتی بھی تو بہت کم ملتی.کیونکہ ان کی مالی حالات ایسے غیر معمولی نہیں تھے کہ کوئی بہت بڑھ چڑھ کر چندہ دے سکیں.جن ملکوں میں آکر وہ اب خدمت سرانجام دیتے ہیں، وہاں کا اقتصادی معیار بلند ہے.اس لئے ان کا جو چندہ ہے، وہ مستزاد ہے، پچھلے چندے کا جس کا میں پیچھے ذکر کر چکا ہوں.اس لئے کسی پہلو سے بھی آپ دیکھیں تو اللہ تعالٰی کے فضل سے آپ کے چندے میں کمی کی کوئی شکل نہیں آنی چاہئے ، کمی کا کوئی احتمال نہیں نظر آتا.لازما یہ چندہ وعدے کی نسبت بہت بڑھ کر وصول ہوگا.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے.اس لئے کمر ہمت باندھیں اور پورے زور سے اس کی طرف جس طرح War Footing کہتے ہیں، جہاد کی روح کے ساتھ ساری دنیا میں عظیم الشان تحریک چلائیں کہ سب احمدی اللہ کے فضل کے ساتھ اس سے دعائیں مانگتے ہوئے ، اس طرح وعدے پورے کریں کہ خدا کی نصرت کا ہاتھ ان کو دکھائی دے.خدا کا پیار وہ اپنے دل میں محسوس کریں.اور وعدے پوری کرنے کی ایسی شکل ہو کہ وعدے کا جو لطف آئے گا، وہ تو آئے گا، وہ خدا کی نصرت کو اس طرح دیکھیں اپنے تائید میں ظاہر ہوتے ہوئے کہ اللہ کی محبت میں بھی وہ پہلے سے بڑھ جائیں.اور یہ جو صورتیں ہیں، یہ بہت ہیں کثرت سے جماعت میں.تقریباً ہر روز ہی یا کم و بیش ہر روز ایسے خطوط مجھے ملتے ہیں، جن میں ایک وعدہ دہندہ جو بڑے اخلاص سے وعدہ کر چکا تھا، مجھے مطلع کرتا ہے کہ کس طرح غائبانہ رنگ میں خدا تعالیٰ نے وہ وعدہ پورا کرنے کی توفیق بخشی.غیبی ہاتھ اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دو کو نظر نہیں آتا.لاکھوں ہیں جماعت میں، جن کو خدا کا غیبی ہاتھ دکھائی دے چکا ہے.اور ان کا غیب پر ایمان لانا، بالکل مختلف مضمون بن گیا ہے.اس غیب پر ایمان لانے سے جو ایک عام آدمی قرآن کا ترجمہ پڑھتے ہوئے غیب سمجھتا ہے.وہ اس طرح کا غیب سمجھتا ہے کہ اس کا مضمون ہی اس کے لئے غائب رہتا ہے ہمیشہ.سب کچھ غائب ہی ہے لیکن اس پر ایمان لانے کا فائدہ کیا ہے، جو غائب ہی رہے ہمیشہ.خدا قرآن کریم میں جس غیب پر ایمان لانے کی تاکید فرماتا ہے، وہ غیب وہ ہے، جس کو ہم دیکھ رہے ہیں، اللہ کے فضل سے.ہر غیب کو خدا اپنی تقدیر سے حقیقت میں تبدیل فرماتارہتا ہے.اس رنگ میں یہ بھی دعا کریں خدا آپ کو اس رنگ میں وعدہ پورا کرنے کی توفیق بخشے کہ آپ خدا کا غیبی ہاتھ دیکھیں اور اسے چومیں اس ہاتھ کو، اس پہ اپنی روح فدا کریں، نچھاور کریں اپنی جان کہ اے خدا! تو ہی ہے، جو وعدوں کو پورا فرمانے والا ہے.اور پھر اس آیت کا ایک نیا مفہوم آپ پر ظاہر ہو گا:.إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ (آل عمران : 195) | 508

Page 518

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء کہ ہم کہاں سے وعدہ پورا کرنے والے ہیں.تو ہے، جو وعدہ خلافی نہیں کیا کرتا.اور تیری اس صفت کی وجہ سے کہ تو وعدہ خلافی نہیں کرتا ، جو تجھ پر ایمان لانے والے ہیں، ان کو بھی عکس کے طور پر، تیرے ظل کے طور پر ہمیں یہ توفیق مل گئی ہے کہ ہم بھی اپنے وعدے کو پورا کرنے والے ہیں.مگر تیری طاقت سے ، نہ کہ اپنی طاقت سے.اس کا جو دوسرا حصہ ہے، وہ میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.کیونکہ ابھی ایک دو مواز نے اور پیش کرنے والے ہیں.اس میں صرف وعدے پورے کرنا ہمارا کام نہیں ہے.بہت ہی عظیم الشان کام ہے، جس میں جماعت کے ہر فرد کو حصہ لینا ہو گا.اور اس کے بغیر یہ عظیم الشان کام ہو ہی نہیں سکتا.جو صد سالہ جو بلی کی تیاری ہے، وہ جشن کی تیاری نہیں ہے حقیقت میں.بلکہ وہ آئندہ صدی میں اسلام کے غلبہ نو کی نئی مہم جاری کرنے کی تیاری ہے.اس لئے تشکر کا ہر ذریعہ اپنی ذات میں اسلام کی فتح کے دن کو قریب لانے کا ایک ذریعہ ہے.اس کی تفاصیل تو ایک خطبہ کا تو سوال نہیں کئی خطبوں میں پھیلانی پڑیں گی.لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ خلاصۂ بعض اہم امور کی طرف آپ کو انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں متوجہ کروں کہ مالی قربانی کے ساتھ نفوس کی قربانی آپ نے کس طرح پیش کرنی ہے.اور کیا کیا آپ سے تقاضے ہیں.کچھ ڈھانچہ آپ کو بتایا جائے کہ کیا ہونے والا ہے.آپ کے دل میں بھی تا کہ ایک گرم خون روڑے اور آپ کو Excitement ہو، بہیجان آجائے آپ کے دل میں کہ اوہو! اتنا بڑا عظیم الشان سال اتنا قریب پہنچ گیا ہے، ہمیں تو تیز دوڑ نا چاہئے.اس لئے اس خیال سے انشاء اللہ کچھ اپنی فکروں میں آپ کو بھی شامل کیا جائے گا.مگر آئندہ خطبہ میں اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے.جہاں تک انگلستان کی مجموعی قربانی کا تعلق ہے، میں نے بیان کیا ہے، چوہدری صاحب کی قربانی شامل کر لی جائے تو پچاس فیصدی سے بہت بڑھ جاتا ہے تناسب ادا ئیگی کا.مغربی جرمنی خدا کے فضل سے ان ملکوں میں سے ہے، جو مالی قربانی میں پیش پیش ہے، ہر پہلو سے.اور باوجود اس کے کہ کوئی خاص وہاں تحریک نہیں چلائی گئی، وہ نوجوان ہمارے، جو ویسے تو اکثران میں سے مزدور پیشہ ہیں، بہت معمولی معمولی کام ہیں اور بہت سے ایسے ہیں، جن کے پاس کچھ بھی کام نہیں لیکن جذ بہ بہت ہے.اب تک وہ 68.82 فیصد ادائیگی کر چکے ہیں اور یہاں بھی آپ کو وہی شکل نظر آئے گی کہ بہت سارے ایسے ہوں گے، جو نئے آنے والے ہیں، جن کے وعدے ابھی باقی ہیں.اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تو ابھی بہت بڑی رقم جرمنی سے قابل وصولی ہے.اور اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے ، ان نوجوانوں کی اس روح کو زندہ رکھے.509

Page 519

خطبه جمعه فرموده 23 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم ڈنمارک چھوٹا ملک ہے اور قربانی کے لحاظ سے درمیانہ.کچھ نو جوان آپس میں کچھ الجھے ہوئے، کچھ کئی قسم کی کمزوریاں بھی ہیں لیکن اللہ فضل فرمائے، بالعموم معیارا تنابر انہیں ہے.لیکن پچاسی فیصد جو وصولی ظاہر ہورہی ہے، یہ وعدے کے لحاظ سے تو بہت اچھی بات ہے لیکن جو گنجائش ہے، اس کے لحاظ سے یہ مناسب نہیں ہے.بعض ملکوں میں آپ کو فیصد وصولی بہت دکھائی دے گی.لیکن جو حالات کو جانتے ہیں، جب وہ تفصیلی نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وعدہ معیار سے چھوٹا تھا، اس لئے وصولی زیادہ دکھائی دے رہی ہے.اگر وعدہ معیار کے مطابق ہو، پوری طاقت کے مطابق پھر وصولی زیادہ ہو تو وہ ہے اصل شان.تو انگلستان کا وعدہ ہے مثلاً دس لاکھ ، وہ واقعہ چھتیس لاکھ میں سے دس لاکھ ایک بڑا وعدہ ہے، خدا کے فضل کے ساتھ.وہاں وصولی جو ہے، وہ واقعی ایک معنی رکھتی ہے.سویڈن بہت سے پہلوؤں سے ڈنمارک سے گرا ہوا ہے.اور اس مالی قربانی میں دونوں پہلوؤں سے گرا ہوا ہے.یعنی وعدے میں بھی کمزور اور وصولی میں اور بھی زیادہ کمزور.صرف 41 فیصد، یعنی ڈنمارک سے آدھا فیصد ہے ان کی قربانی.اور دعا کریں اللہ ان ممالک کو توفیق بخشے کہ وہ اپنا حال درست کریں.جس طرح ساری دنیا میں بیداری پیدا ہو رہی ہے، نیا عزم آ رہا ہے اور متحد ہورہی ہے جماعت خدا تعالیٰ ان کو بھی توفیق بخشے.یہ نہ سمجھا جائے کہ گویا سکینڈے نیوین Scandinavian ممالک کی یہی حالت ہے.ناروے اللہ کے فضل سے بالکل مختلف ہے.بیداری کے لحاظ سے بھی مختلف، دعوت الی اللہ کے لحاظ سے جو خصوصیت کے ساتھ ، بہت ہی توجہ ہے اللہ کے فضل سے اور اس گزشتہ سال عربوں میں کامیاب تبلیغ کے لحاظ سے ناروے کا نمبر بڑا ہی نمایاں تھا.اور اس سال کا آغاز بھی ان کا اسی طرح ہوا ہے، خدا کے فضل سے.تین بیعتیں مجھے موصول ہوئیں، تین میں سے دو عربوں کی تھیں، چند دن پہلے.تو چونکہ وہاں عربوں کے ساتھ خصوصیت سے رابطہ کیا جاتا ہے اور بڑی مؤثر تبلیغ ہورہی ہے اور بعض نوجوان خدا کے فضل سے بہت ہی پیش پیش ہیں، اس لئے مجھے خیال آیا کہ مبارک باد کے لئے فون کروں ان کو تا کہ حوصلہ افزائی ہو.تعداد تو دوہی ہے بظاہر لیکن اللہ کے فضل جب نازل ہوتے ہیں تو بعض دفعہ ایک ایک کے اوپر دل شکر سے بھرتا ہے.خدا کا ایسا عجیب کام ہے بعض دفعہ کہ اگر خالص اس کی خاطر ایک کام کیا جائے تو وہ اس کی جزا دینے میں دیر نہیں فرماتا.میں نے فون کیا، میں نے کہا: مبارک ہو، آپ کی تین بیعتیں موصول ہوئیں، ان میں سے دو عربوں کی ہیں.(نوٹ : یہ دو عرب نہیں بلکہ سیرالیونیز تھے.الله 510

Page 520

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبه جمعه فرموده 23 جنوری 1987ء حضور نے خطبہ جمعہ 30 جنوری 1987ء میں اس کی تصحیح فرمائی تھی.انہوں نے کہا: دوا بھی ہوئیں ہیں اُج، وہ اس کے علاوہ ہیں.تو جو شکر کرتا ہے، لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم :08) کا وعدہ فورا پورا ہوتے بھی دیکھتا ہے.ناروے کا وصولی کا بھی ماشاء اللہ بہت اعلی معیار ہے.ستاسی فیصد سے زائد وصولی ہو چکی ہے.اور وہاں بھی جو دوست بعد میں گئے ہیں، امید ہے جو خاندان گئے ہیں، انشاء اللہ جہاں تک میر اعلم ہے، جو خبریں آرہی ہیں، وہ سارے خدا کے فضل سے اخلاص میں جماعت سے وابستگی میں اچھے معیار کے ہیں تو امید ہے، یہ وعدہ بھی بڑھے گا اور بقیہ وصولی تو خیر بہت معمولی سی رہ گئی ہے.سپین کی چھوٹی سی جماعت ہے لیکن ماشاء اللہ بڑی قربانی کرنے والی اور صف اول کی جماعت ہے.وہاں بھی بیاسی فیصد وصولی ہو چکی ہے.فرانس کی جماعت بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے.مجھے تعجب ہے کہ اس میں 8.35 صرف وصولی لکھی ہوئی ہے.حالانکہ جو مالی رپورٹیں ہیں دوسری، ان سے مجھے پتہ ہے کہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے.معلوم ہوتا ہے بس یہ کوئی نظر سے اوجھل ہو گئی ہے بات.اور اکثر جماعت تو بنی بعد میں ہے.جب وعدے لئے گئے تھے، اس وقت تو ایک آدھ آدمی تھا وہاں.اب تو خدا کے فضل سے اچھی مضبوط جماعت بن گئی ہے.وہاں ان کو فوری توجہ کرنی چاہئے.وعدوں کی تجدید بھی کی جائے.پھر جو وعدے ہو چکے ہیں ، ان کی وصولی کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہوگا.بیلجیئم بھی بعد میں بڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے.اس لئے ان کی جو غفلت ہے ، وہ بھی قابل اعتناء ہے، معافی کے لائق ہے.امریکہ پیچھے ہے ابھی.44.93 وعدہ امریکہ کے لئے کوئی بہت قابل فخر بات نہیں.ایفائے وعدہ.اور تعجب ہے کینیڈا بھی اس میں بہت پیچھے رہ گیا ہے.لیکن میرا خیال ہے یہ پرانے وقتوں کی بات ہے یا تو یہ رپورٹ پرانی ہے یا باقی چیزوں کی طرف توجہ رہی ہے، مسجد وغیرہ بنانے اور دیگر چندوں کی طرف تو دو تین سال جو جماعت بیدار ہوئی ہے، اس میں اس طرف نظر نہیں پڑی.اس لئے ان کی پردہ پوشی کی جائے تو اچھا ہے.511

Page 521

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم باقی بہت ساری جماعتیں ہیں، جو پردہ پوشی کی مستحق ہیں.اور کچھ اس وجہ سے پیچھے رہ گئی ہیں کہ وہاں ہمارے مبلغ یا مضبوط نظام جماعت کا قیام نہیں ہے.اب توجہ ہو رہی ہے کہ سب جگہ جماعتی نظام کو مزید تقویت دی جائے.امید ہے، انشاء اللہ تعالیٰ صرف اس خطبہ کا وہاں پہنچ جانا ہی کافی ہوگا اور وہ اپنی گزشتہ کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جو خاص طور پر ساری دنیا میں سب سے آگے بڑھنے والی جماعت ہے، وہ کون سی ہے.اور وہ غانا ہے، ماشاء اللہ.غانا میں 93.63 فیصد وصولی ہوئی ہے.جو دنیا کی اور کسی جماعت میں نہیں ہوئی.اور خاص خوبی کی بات یہ ہے کہ جتنی غربت گزشتہ دو تین سال میں غانا نے دیکھی ہے، جتنی فاقہ کشی غانا میں پڑی ہے، بہت کم ملکوں میں ایسا واقعہ ہوا ہوگا.بعض دفعہ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ ہمارا مبلغ دروازہ کھٹکنے پر باہر گیا تو جو دروازہ کھٹکانے والا تھا، وہ اس کے پہنچتے پہنچتے بھوک سے بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا تھا اور بڑی مشکل کے ساتھ مبلغین کو ایسے درد ناک حالات میں گزارہ کرنا پڑا ہے کہ بڑا حوصلہ ہے ان کا.خود بھی بہت کم ملتا تھا ان کو ، اس کے باوجود پھر غریبوں کے ساتھ جو کچھ خدا نے ان کو دیا ہے، اسے بانٹ کر کھانا ، بڑی ہمت کی بات ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص میں ایسی برکت ڈالی ہے، ان کو ایسی شجاعت عطا فرمائی ہے کہ ہر سال مالی قربانی میں وہ آگے بڑھتے ہیں، پہلے سے.اور پتہ نہیں کہاں سے لے کے آتے ہیں، کس طرح خدا ان کو توفیق بخشتا ہے، یہ اسی کے راز ہیں.مگر بہر حال جو ملک اقتصادی لحاظ سے دنیا میں سب سے پیچھے رہنے والے ملکوں میں سے تھا، جس کے متعلق خطرہ ہو سکتا تھا کہ یہاں چار، پانچ فیصد وصولی ہو گی، وہ دنیا میں سب سے آگے بڑھ گیا ہے.اور اس میں آپ کے لئے ایک تقویت کا مزید پیغام ہے کہ اللہ کی توفیق سے ہی ہوتا ہے، جو ہوتا ہے.امریکہ جو اقتصادی لحاظ سے سب سے آگے ہے، اس کی وصولی 44 فیصد ہے اور غانا جو سب سے پیچھے ہے، احمدی ممالک میں، اس کی وصولی 93.63 فیصد.تو ایں سعادت بزور بازو نیست.اللہ کی طرف سے توفیق ملتی ہے تو انسان سرخرو ہوتا ہے نیک کاموں میں اور اپنے وعدوں میں توفیق نہ ملے تو کچھ بھی نہیں ہوتا.اس لیئے میں اسی پر اس بات کو ختم کرتا ہوں.لیکن ایک اور چھوٹی سی بات کہنے والی ہے، اسی ضمن میں مالی امور سے تعلق رکھنے والی کہ جو فہرست اس وقت میرے سامنے ہے، اس کے بعد بہت سے نئے ممالک میں احمدیت پھیلی ہے.اور بہت سے ایسے ممالک ہیں، جہاں مبلغ نہیں ہیں مگر احمدیت موجود ہے.1989ء سے پہلے جو ہمارا جو بلی کا سال ہوگا، انشاء اللہ اس سے پہلے کوشش یہ کرنی چاہئے کہ ہمارے وعدہ دہند ممالک سو ہو جائیں.یعنی صرف یہ نہیں کہ وعدہ ہو بلکہ سو ممالک کی طرف سے وعدہ ہو.اس لئے جہاں جہاں 512

Page 522

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1987ء خلارہ گئے ہیں، انشاء اللہ ہم بڑی محنت کر کے تلاش کریں گے ان کو اور کوشش کریں گے.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے، اب تک اللہ کے فضل سے سو سے زیادہ ممالک میں احمدی موجود ہیں.بعض جگہ منظم نہیں بھی ہیں مگر ہو سکتے ہیں بڑی جلدی.اس لئے انشاء اللہ تعالیٰ یہ بات پوری ہو جائے گی.مثلاً اٹلی ہے.اٹلی ان ممالک میں سے ہے، جس کا ذکر کوئی نہیں.حالانکہ وہاں خدا کے فضل سے ایسے احمدی موجود ہیں، جو وہاں جاکر اٹلی کے باشندے بن گئے اور بعض اٹلی سے باہر احمدیت قبول کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.وہ خواہ ان ممالک میں بھی ہوں مگر اٹلی کے اندر بھی باہر سے جا کر انالین بننے والے موجود ہیں.تو اٹلی کا وعدہ تو ہونا چاہئے تھا بہر حال تو یہ کچھ کوتاہی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ بہت مغفرت فرمائے ان کی ، ہم سب کی جن سے کوتاہی ہوئی.تو تیزی کے ساتھ مال کے شعبے کوملحوظ رکھنا چاہئے.اب کہ جائزہ لے کر نہ صرف یہ سوچیں کہ ایک بھی ملک ایسا نہ رہے، جس سے وعدے کے لئے وہ انتظام کرنے کی کوشش نہ کریں.بلکہ کس طرح کرنا ہے، یہ بھی سوچ کر بعض ممالک کے سپرد کریں.بہت سے ممالک ہیں، جن کے سپر د دوسرے ممالک میں تبلیغ ہے اور اس طرح ساری دنیا کے حصے بانٹے ہوئے ہیں.تو تحریک جدید کے شعبہ کا کام یہ ہے کہ وہ صرف یہ خط نہ لکھ دے کہ جی آپ نے کرنا ہے بلکہ بتائے کہ کس طرح کرنا ہے اور ان کی مدد کرے.مثلاً شمالی افریقہ میں چند ممالک ہیں، جہاں پہلے احمدیت کا با قاعدہ پودا نہیں لگا تھا، اب لگ چکا ہے.اس لئے مال کے شعبہ کو تبشیر سے رابطہ کرنا پڑے گا.پوچھنا پڑے گا کہ بتائیے ، وہ کون لوگ ہیں کہ جو نئے احمدی ہوئے ہیں؟ کیا ان کے پتے ہیں؟ کس طرح ان سے بات کرنی ہے؟ اور اگر ذراسی بھی محنت کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ ان کو کھلا کھلا رستہ دکھائی دینے لگ جائے گا کہ کس طرح ان ممالک کو شامل کرنا ہے.تو واقعاتی طور پر کام کو آگے بڑھا ئیں صرف فرضی طور پر نہ بڑھائیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو اور ہمیں توفیق دے کہ جماعت احمدیہ کے پہلے سو سال کا جو جشن ہم نے منانا ہے، وہ اس کی رضا کے مطابق منانے والے ہوں.اس جشن سے پہلے ہم اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے ہوں.اور خدا تعالیٰ کی اس شان کی گواہی دینے والے ہوں کہ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ اے خدا! جس طرح تو اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا ، ان کو لازما پورا کرتا ہے.ہم تیرے ادنی اور غلام بندے بھی تجھ سے یہ فن سیکھتے ہیں اور تیری شان کو دنیا میں ظاہر کرنے والے ہیں کہ ہم بھی تیری طرف منسوب ہو کر جو وعدے کرتے ہیں، ان کو لازماً پورا کرتے ہیں.اللہ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 47 تا 64) 513

Page 523

Page 524

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ لائبیریا آج احمدیت فتح کے لئے آپ سے قربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لائبیریا منعقدہ 24، 25 جنوری 1987ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم میرے پیارے برادران! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ جماعت احمد یہ لائبیریا24 و25 جنوری 1987ء کو اپنا جلسہ سالانہ منعقد کر رہی ہے.میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس جلسہ کو ہر جہت سے کامیاب اور بابرکت فرمائے اور اس کے شیریں ثمرات سے آپ سب کو وافر حصہ عطا فرمائے.خدا کا شکر ہے کہ لائبیریا کی جماعت کا قدم بھی ترقی کی طرف اٹھنے لگا ہے.احباب جماعت میں بیداری پیدا ہوئی ہے.ذیلی تنظیموں کے قیام اور ان کے مقاصد کے حصول کے لئے نئے نئے پروگرام بنانے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی ہے.تاہم ابھی تبلیغ اور تربیت کے میدان آپ کی خاص توجہ کے متقاضی ہیں.اہل لائبیریا کے دلوں کو اسلام کی خاطر جیتنے اور انہیں خدائے واحد کا پرستار بنانے اور اسلام کے پیغام امن و سلامتی کو پھیلانے کے لئے جس جوش و جذبہ کی ضرورت ہے، اس طرف ابھی پوری توجہ پیدا نہیں ہوئی.یہی وجہ ہے کہ لائبیریا ابھی تک اپنے ساتھی ممالک کی نسبت بیعتوں میں بہت پیچھے ہے.پس اس کمی کو دور کرنے کے لئے اولاً تو اپنے اندر ایک نیک نمونہ پیدا کریں، اپنے آپ کو اعلیٰ اسلامی اخلاق کا مالک بنا ئیں.آپ اس دور ابتلاء میں حقیقی اسلام کے نمائندہ ہیں.خدا کی خاطر خدا کی مخلوق سے محبت کی ادائیں سیکھیں.آپس میں محبت، حسن سلوک ، غریب پروری اور عفو کو رواج دیں اور اپنی عملی زندگی میں آنحضرت کی سیرت کو ہمیشہ مد نظر رکھیں.اپنی نسلوں کی بھی عمدہ رنگ میں تربیت کریں، اللہ اور اس کے رسول کی محبت ان کے دلوں میں بٹھا ئیں، قرآن سے پیارا نہیں سکھائیں، ان کے دلوں میں خلافت احمدیہ سے محبت اور عقیدت پیدا کریں اور انہیں قیادت کے سلیقے سکھا کر اپنے قدموں پر کھڑا 515

Page 525

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ لائبیریا تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم کریں.اپنے اعلیٰ اور نیک نمونہ سے ان کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ جب کل کو یہ آپ کی جگہ لیں تو ی اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے آئندہ آنے والی احمدیت کی مشخصی کونپلوں کی عمدہ رنگ میں نشو و نما کریں اور انہیں ایسے اعلیٰ اخلاق کا خوگر بنا دیں کہ ان کے معصوم چہروں پر دینداری اور روحانیت کا نور نظر آنے لگے.پس آج احمدیت فتح کے ادوار میں داخل ہونے کے لئے آپ سے بے لوث اور مخلصانہ قربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہے.پس آگے بڑھیں اور ہر آواز پر لبیک کہتے ہوئے بنی نوع انسان کی خدمت میں خواہ وہ لسانا ہو یا عملاً ، ہمہ تن مصروف ہو جائیں.بھٹکتی ہوئی روحوں کو اللہ کی طرف بلائیں اور ان کے دکھوں کا مداوا بھی کریں.معاشرہ کو گندگیوں سے پاک کریں اور انسانیت کو امن وسلامتی کے ماحول سے آشنا بھی کریں.پس دعاؤں سے کبھی غافل نہ ہوں اور آج قبولیت دعا کے تازہ اور زندہ نشانات اپنی ذات میں دیکھنے کی تمنا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور دین و دنیا کی حسنات سے نوازے اور دونوں جہان میں سرخرو کرے، (آمین).جملہ احباب جماعت کو میرا محبت بھر اسلام.والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع 516 ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 27 فروری 1987ء)

Page 526

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1987ء صد سالہ جو بلی کے جشن کے لئے دعوت الی اللہ کے میدان میں تیزی پیدا کریں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1987ء پس خدا کے نام پر ، خدا کی خاطر، اس کے دین کی عظمت کے لئے اور حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے غلبہ کی خاطر جماعت احمدیہ نے جو کام سنبھالے ہیں اور جن کی طرف میں خصوصیت سے آپ کو توجہ دلا تارہا ہوں اور اس خطبہ میں ایک خاص نقطہ نگاہ سے مزید توجہ دلاؤں گا، ان کے متعلق سب سے عظیم الشان خوشخبری تو یہی ہے کہ وہ اللہ کی نظر میں ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کاموں کو کوئی دنیا کی طاقت نا کام نہیں بنا سکے گی.اور تیسرا یہ کہ ان کا پھل صرف آخرت میں نہیں ملے گا، اس دنیا میں بھی لازماً ملے گا.یہ وہ کلمات اللہ ہیں، جن کو کوئی دنیا میں تبدیل نہیں کر سکتا.صد سالہ جوبلی کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ صرف دو سال باقی رہ گئے ہیں اور صد سالہ جو بلی در اصل ہمارے دشمنوں کا اس وقت وہ خاص نشانہ بنی ہوئی ہے.ان کی نفرتوں کا، ان کے حسد کا اور وہ ہر طرح سے پورا زور لگا رہے ہیں کہ صدا سالہ جو بلی کے جشن کو ناکام بنادینا ہے“." لیکن ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے، جہاں تک اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے، یہ تو یقینی ہے کہ اس کے بدلے میں جو دشمن ہم سے کر رہا ہے، خدا تعالیٰ بہت بڑی عظمتیں دینے والا ہے.جس شان کا تصور کر کے انہوں نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی ، ان کے ذہن سے یہ بات نکل گئی کہ ہم جس کے غلام ہیں، وہ تو لمحہ لمحہ نئی شان دکھانے والا آتا ہے.اور جس خدا نے اس کو پیدا کیا وہ تو كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ کا مقام رکھتا ہے.اسی سے ہرشان پھوٹتی ہے.تو جومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہو اور اللہ کا غلام ہو، اس کی شان کیسے کوئی نوچ کے چھین سکتا ہے.ناممکن کام ہے، یہ ان کے لئے.اگر خدانخواستہ ربوہ میں حالات ایسے نہ ہوئے کہ وہاں جشن اس طرح منایا جائے ، جیسا کہ جماعت نے منانا تھا تو دنیا کے کونے کونے میں اس شان اور اس قوت کے ساتھ یہ جشن منایا جائے گا کہ دشمنوں کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے، اس کے ولولے سے اور ان کے دبدبے سے.جس شوکت سے نعرہ تکبیر بلند ہوں گے دنیا میں، ، 517

Page 527

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وہ ان کے دلوں کو دہلا دینے والی شوکت ہو گی.اس لئے کہاں ان کی طاقت، کہاں ان کی مجال کہ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی شان کھینچ سکیں ، شان نوچ سکیں ، یہ نہیں نوچ سکتے.یہ ملک جہاں میں اس وقت مخاطب ہو رہا ہوں آپ سے، یہ ملک بھی نئی اور دوبالا شان کے ساتھ اسلام کا حسن دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہو گا.اور آپ ہوں گے، جو اس حسن کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں گے.افریقہ بھی ایک نئی شان کے ساتھ ، نئے ولولے کے ساتھ پیش کر رہا ہو گا.نئے روپ کے ساتھ یہ شان ایشیاء کے سارے ممالک میں دکھائی جائے گی، نئے روپ کے ساتھ یہ شان دنیا کے ہر براعظم میں دکھائی جائے گی.اس کے لئے ، اس کی تیاری کے لئے وقت تھوڑا رہ گیا ہے.اس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ صرف مالی قربانی کافی نہیں ہے.آپ نے خدا سے ایک عہد باندھا ہے، خدا نے آپ سے ایک عہد باندھا ہے.اور وہ یہ ہے کہ اپنی جانیں بھی ہم تیرے حضور پیش کر دیتے ہیں ، ہماری نہیں رہیں، پہلے بھی تیری تھیں مگر ہم ایک اور رنگ میں اب تجھے واپس کرتے ہیں.جس رنگ میں ہمارا غیر واپس نہیں کرتا تجھے.یہ طوعاً کا مضمون ہے، کرھا کا مضمون نہیں.اور دوسرے ہمارے اموال بھی تیرے ہی تھے ، اب بھی تیرے ہیں.مگر ہم طوعا تجھے واپس کرتے ہیں، جبکہ باقی دنیا سے تو کرھا واپس لیتا ہے.یہ وہ مضمون ہے عہد کا، جس کو زندگی کے ہر پہلو میں، زندگی کے ہر عمل میں دخل ہے.اور زندگی کا جو پہلو، جو عمل بھی اس سے متاثر ہوتا ہے، اس پر خدا کے پیار کی نظر پڑتی ہے.یہ مضمون ہے، جو اس آیت میں بیان ہوا ہے.اس لئے اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اللہ تعالیٰ کے پیار کا مرکز بنا دیں.ہر عمل کو ایسا حسین بنانے کی کوشش کریں کہ خدا کی محبت اور پیار اور رضا کی آنکھ اسے اس طرح دیکھ رہی ہو، جیسے آپ اپنے بچوں اور اپنے پیاروں کی پیاری حرکتوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں.اس سلسلے میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی گزارش کی ہے کئی مرتبہ محسوس یہ ہورہا ہے کہ اتنے زیادہ کام پڑے ہوئے ہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں ہے، وہ کام کرنے کی.اس لئے ایک ہی حل ہے، اس صورت حال کا کہ اپنا جو کچھ ہے، وہ خدا کے سپرد کر دیں.جو کچھ کر سکتے ہیں، وہ سب کچھ کریں.باقی خانے جتنے بھی خالی رہ جائیں گے ، وہ خدا خود بھرے گا.یہ اس کا وعدہ ہے.اس لئے اپنی طرف سے کسی قسم کی کمی نہ آنے دیں.صد سالہ جشن میں مختلف رنگ میں جو ہم نے خدا کے حضور اپنے عاجزانہ فقیرا نہ ہدیے پیش کرنے ہیں التحیات اللہ کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، ان میں بہت سی باتیں ہیں، جو صد سالہ جو بلی کے پیش نظر اس سے پہلے بیان کی جاچکی ہیں.اور بہت سی ایسی باتیں ہیں، جن پر مسلسل غور ہورہا ہے.اور وہ 518

Page 528

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1987ء لوگ جن کے کام ہیں، وہ مصروف ہیں دن رات ان باتوں کو مزید نکھارنے اور سنوارنے پر.اور کس طرح ان کو عمل کی شکل میں ڈھالا جائے گا، کون کیا کام کرے گا ؟ یہ تمام کام ایسے ہیں، جن پر مسلسل کام ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اس کی تمام دنیا کی جماعتوں کو حصہ رسدی اطلاعیں دی جارہی ہیں.بالعموم جماعت کو جو میں اس ضمن میں خاص توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ صد سالہ جو بلی کے دوران میرے دل کی تمنا یہ ہے کہ بہت سے ایسے ممالک، جہاں مقامی طور پر چند خاندان ابھی تک اسلام میں داخل ہوئے ہیں، وہاں کم سے کم سو خاندانوں کو ہم اسلام میں داخل کر لیں.اور جہاں جماعت نافذ ہو چکی ہے، وہاں ہم یہ کہہ سکیں کہ ہر سال کے لئے ہم یہ حقیر اور عاجزانہ تحفہ پیش کرتے ہیں کہ ہم نے مقامی طور پر ایک خاندان کو داخل کر لیا ہے.بعض ممالک میں تو خدا کے فضل سے ہزاروں خاندان داخل ہو چکے ہیں.لیکن آپ جس ملک میں رہتے ہیں اور یورپ کے اور بہت سے ممالک ان میں بدقسمتی سے مقامی احمدیوں نے یعنی وہ لوگ جو باہر سے آکر مقامی بنے ، انہوں نے تبلیغ کی طرف پوری توجہ نہیں کی.اور جو کام ان کو میں پچیس سال پہلے سے شروع کرنا چاہئے تھا، اسے شروع کرنے میں بہت دیر کر دی.نتیجہ یہ نکلا کہ جس رنگ میں یہاں داعی الی اللہ بننے چاہئے تھے اور جو یہاں کے لوگ استطاعت رکھتے ہیں، اس کا عشر عشیر بھی ہم نتیجہ حاصل نہیں کر سکے.اور یہ صورت حال صرف انگلستان پر ہی صادق نہیں آ رہی بلکہ دنیا کے اور بہت سے ممالک ہیں، یورپ کے بھی اور بعض اور جگہوں پر بھی جہاں یہی کیفیت ہے اور وقت اتنا تھوڑارہ گیا ہے کہ صرف دو سال رہ گئے ہیں.اس لئے اب اس کام کو غیر معمولی طور پر اہمیت دے کر دوبارہ اپنے ہاتھ میں لیں.جو لوگ داعی الی اللہ بن چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو بے حد مبارک فرمائے.لیکن جو نہیں بنے ابھی تک ، ان کو فوراً توجہ کرنی چاہئے.اور جو بن چکے ہیں، ان کو اپنے کاموں کا جائزہ لینا چاہئے کہ آیا ان کی کوششیں پھل پیدا کر بھی رہی ہیں کہ نہیں.بعض ایسے نوجوان ہیں یا بڑی عمر کے بھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پورے خلوص اور تقویٰ کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دینے کے پروگرام میں شامل ہوئے اور ان کو ہر سال اللہ تعالیٰ پھل دے رہا ہے.انہی جگہوں پر دے رہا ہے، جنہیں آپ بے پھل کی جگہیں سمجھتے ہیں.انہی زمینوں پہ پھل دے رہا ہے، جنہیں آپ سنگلاخ سمجھتے ہیں.اس لئے یہ بہانہ تو خدا تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوگا کہ ہم ایسے ملک میں رہتے تھے، جہاں دنیا ترستی تھی ، دنیا داری میں لوگ اتنا بڑھ گئے تھے کہ بات نہیں سنتے تھے.بات سنانے کا ڈھنگ سیکھنا پڑے گا.اور بات سنانے کے ڈھنگ میں خدا تعالی نے یہ ہمیں بتایا ہے کہ تقویٰ کا مضمون داخل ہے.جتنا زیادہ تقویٰ ہو، اتناہی بات میں زیادہ اثر ہوتا 519

Page 529

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 30 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم چلا جاتا ہے.ورنہ خالی چالا کی کام نہیں آتی ، خالی علم کام نہیں آتا.اس لئے بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے اندرونی تقویٰ کا معیار بلند کرنا ہو گا.اور صرف یہ نہ سوچیں کہ فلاں میں نقص تھا، اس لئے بات نہیں سنی گئی.یہ بھی غور کریں کہ کہیں کہنے والے میں تو نقص نہیں ہے.یہی بات ایک اور شخص کہتا ہے تو اثر رکھتی ہے.یہی بات ایک اور شخص کہہ رہا ہے تو اثر کھو دیتی ہے.اس لئے بات کا قصور نہیں.ہوسکتا ہے، سننے والے کا قصور ہو لیکن بعید نہیں کے سننے والے کا بھی قصور نہ ہو بلکہ سنانے والے کا قصور ہو.اس لئے اپنا جائزہ پورا کرلیں اور دیکھ لیں کہ کیا کمی رہ گئی ہے بات میں، اس کے انداز میں یا سنت کے مطابق تھی بھی کہ نہیں آپ کی تبلیغ.اور اس کو درست کریں، اس کے نوک پلک درست کریں، اسے خوبصورت بنائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کے ساتھ حسن قول کا ذکر فرمایا ہے اور پھر حسن عمل کا ذکر فرمایا ہے.قول بھی حسین کریں اور وہ عمل، جو اس حسین قول کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رکھتا ہے، جس کے بغیر قول حسین بنتا نہیں ، وہ حسین عمل بھی پیدا کریں.اور پھر دعا کریں تا کہ آپ کی باتوں میں غیر معمولی برکت ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص اثر پیدا ہو.اگر یہ شرائط آپ پوری کر دیں تو ناممکن ہے کہ آپ کی تبلیغ بے شمر رہ جائے ، اس سے کوئی نتیجہ پیدا نہ ہو، یہ نہیں ہوسکتا.لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمُتِ اللهِ م میں ایک یہ بھی مضمون داخل ہے.جس کام کو جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کامیابی کے ساتھ کر کے دکھا دیا، اگر آپ اسی کام کو اسی طرح کریں گے تو لازماً اس جیسے نتیجے نکلنے شروع ہو جائیں گے.اس حقیقت میں بھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی.اس لئے ساری دنیا کے داعی الی اللہ اس مضمون کو پیش نظر رکھ کہ ایک نیا عہد باندھیں.دو سال کا وقفہ بہت ہی تھوڑا وقفہ ہے.داعی الی اللہ بننے کے لئے شروع میں کچھ محنت کرنی پڑتی ہے..ایسے داعی الی اللہ ہیں اللہ کے فضل سے، جنہوں نے گزشتہ ایک دو سال میں پچاس سے زائد بیعتیں کرائی ہیں اور بڑی مخلص بیعتیں کرائی ہیں.بڑی معنی رکھنے والی، وزن رکھنے والی بیعتیں کروائی ہیں.نئی جگہوں پر احمدیت کے پودے لگائے ہیں.مثلاً افتخار ایاز صاحب ہیں.ایک جزیرہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل نیا جزیرہ انہوں نے احمدیت اور اسلام کے لئے فتح کیا.اور اس ایک جزیرے میں ہی پچاس سے زائد بیعتیں اب تک ہو چکی ہیں.پھر ایک ساتھ کے جزیرے میں بھی ایک خاندان کو اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں سے توفیق عطا فرمائی.اور یہ کوئی جماعت کے باقاعدہ مبلغ تو ہیں نہیں ، اپنا کام کرتے 520

Page 530

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 جنوری 1987ء ہیں.تو وہ لوگ جو کہتے ہیں ہمیں کام کے بعد وقت نہیں ملتا، ان کے لئے ایک نمونہ ہے یہ تو ہر شخص کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک توفیق رکھی ہوئی ہے.آئندہ دو سال کے لئے ہر احمدی کو دوبارہ یہ عہد کرنا چاہئے کہ سال میں ایک دفعہ، ایک احمدی بنانے کا جو میں عہد کرتا رہا ہوں یا سنتا رہا ہوں کہ مجھے عہد کرنا چاہئے ، اب آخری دو سال رہ گئے ہیں، سو سالہ جشن میں ، ان دو سالوں میں ، میں اپنا نام بھی خدا تعالیٰ کی اس فہرست میں لکھوالوں ، جس کا ذکر قرآن کریم کی ان آیات میں ملتا ہے کہ میری نظر پڑتی ہے، جب تم اچھے کام میری خاطر کرتے ہو.یہ نہ ہو کہ سو سال کا عرصہ گزر جائے اور پہلے سو سال میں میرا شمار ہی نہ ہو نہیں.اور یہ بہت ہی اہم فریضہ ہے، جو ہم نے ادا کرنا ہے.اگلے سو سال کی تیاری کے لئے جب تک ہماری تعداد اتنی نہ ہو، جو اتنا عظیم کام سنبھال سکے، اس کی ذمہ داریوں کو ادا کر سکے.اس مختصر تعداد کے ساتھ جو اس وقت ہم رکھتے ہیں، اگلی صدی میں دندناتے ہوئے داخل ہونا ، بظاہر ایک غیر حقیقی بات نظر آتی ہے.خدا کے فضل سے ہوگا تو یہی لیکن دیانت داری اور تقویٰ کے ساتھ اتنی تعداد تو حاصل کرنے کی کوشش کریں، جو ساری دنیا کو معنی خیز چیلنج کر سکے.اس لئے آئندہ دو سال کے اندر نہ صرف یہ عہد کرے ہر احمدی بلکہ اس عہد کے پیچھے پڑ جائے.دن رات اسے حرز جان بنالے اور چین نہ پائے ، جب تک اس کی کوششوں کو پھل نہ لگنے شروع ہو جائیں.اور جب میں ایک احمدی کہتا ہوں تو خاندان کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو ایک خاندان ایک اور خاندان بنائے.اور جہاں جہاں اب تک مقامی طور پر احمدی حاصل نہیں ہوئے ، یعنی مقامی طور پر پودے جو وہیں کی آب و ہوا کے پودے ہیں، وہ حاصل نہیں ہوئے ، وہاں کوشش کریں، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ کم سے کم ایک سو خاندان تو پیش کر سکیں ہم کہ ہر سال کا ایک خاندان ہم تیرے حضور پیش کرتے ہیں.اگر سارے احمدی اس عہد کو چمٹ جائیں، حرز جان بنالیں، دن رات دعائیں کریں اپنے لئے اور ایک لگن کے ساتھ محنت کرنی شروع کر دیں تو جتنے خاندان احمدی یہاں موجود ہیں ، اتنے ہی اور خاندان آپ کو عطا ہو سکتے ہیں.لیکن سو میں نے اس لئے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر شخص کو انگریز پھل ہی ملے.ہوسکتا ہے کسی کو یہاں سے جاپانی پھل مل جائے.ہو سکتا ہے کسی کو چھینی پھل مل جائے.کسی کو ہندوستانی ، کسی کو پاکستانی تو سو خاندان جب میں کہتا ہوں تو یہ مراد نہیں کے باقی سارے کام نہ بھی کریں تو سو تو مل جائیں.میں توقع رکھتا ہوں کے سارے کام کریں.ہر شخص ہر خاندان اللہ تعالیٰ کے حضور ایک نیا شخص یا ایک نیا خاندان ضرور پیش کر رہا ہو.اور ان میں سے کم از کم سو خاندان تو انگریز ہوں.اور اگر جرمنی میں کام کر رہا ہے داعی الی اللہ تو کم از کم سو خاندان جرمن ہوں.اسی طرح یہ پیغام آگے پھیلتا چلا جائے گا.521

Page 531

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک لیکن اس میں بھی امر واقعہ یہ ہے کہ جب میں کہتا ہوں کہ دو، آئندہ دو سال میں تو در حقیقت یہ دو بھی کافی نہیں ہیں.یہ کم سے کم عہد ہونا چاہئے ، ایک احمدی کا.اب وقت یہ نہیں ہے کہ ہم ایک اور دو میں باتیں کر رہے ہوں.بہت بڑے کام ہیں، جو کرنے والے ہیں.ہمارے مقابل پر دنیا کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ ایک ملک پر بھی ہم اپنی ساری طاقت کو مرکوز کر دیں ، تب بھی بے انتہاء محنت کرنی پڑے گی، اس ملک کو فتح کرنے کے لئے یعنی اسلام کے لئے اور اللہ کے لئے.تو اس لئے جب میں یہ کہتا ہوں تو جتنا بھی زوردوں، آپ پوری طرح سمجھ نہیں رہے میری بات کو کتنا زور دینے کی ضرورت ہے.جتنا بھی تصور آپ کا پہنچتا ہے، اس تصور کو وہاں تک پہنچائیں، تب بھی آپ پوری بات نہیں سمجھیں ہوں گے.بہت زیادہ اہم بات ہے کہ ہم جلد از جلد اپنی تعداد کو غیر معمولی طور پر آگے بڑھائیں." پس دو کی باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے.لیکن کمزوروں پر جب نظر کی جاتی ہے، وہ جو جن کے پاس ہیں ہی دو، یعنی جن کی طاقت ہی دو تک پہنچتی ہے تو ان کو بھی ساتھ لے کہ چلنا پڑتا ہے.لیکن یہ مراد نہیں کہ آپ میں سے ہر ایک دو کی تمنا لے کر آگے بڑھے یادو کا عزم لے کر آگے بڑھے.آپ ہزاروں کا عزم لے کر آگے بڑھیں اور دعا کریں اور کوشش کریں اور دعا کے ذریعے اپنی توفیق بڑھاتے چلے جائیں.پھر دیکھیں کہ کس شان کے ساتھ آپ اگلی صدی میں داخل ہورہے ہوں گے.کتنا لطف آئے گا، کتنا اطمینان ہو گا آپ کو کہ ان دو سالوں کے اندر آپ کے پیچھے کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جو روحانی فرزند کے طور پرنئی صدی میں داخل ہو رہے ہوں گے.نئے خاندان آپ کے پیچھے پیچھے آپ کو امام بنا کر نئی صدی میں داخل ہورہے ہوں گئے.تو بہت ہی بڑا ایک شاندار گیٹ سجا ہوا آپ کے سامنے آنے والا ہے.اس عظیم الشان گیٹ سے جو حد وثنا سے سجا ہوا ہے، جو درود سے سجا ہوا ہے، اس میں سے آپ نے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا ہے، اگلی صدی میں.یہی ہمارا جشن ہے.تو اس شان سے داخل ہوں کہ آپ کے ساتھ ایک ذریت طیبہ ہو، ایک عظیم الشان روحانی اولادہ متقیوں کی ، جو آپ کے ساتھ ساتھ ایک اجتماع بناتے ہوئے ، ایک جلوس بناتے ہوئے اس گیٹ سے گزررہی ہو.اس کے لئے بہت ہی محنت کی ضرورت ہے.اور سب سے بڑی اور اول ضرورت یہ ہے کہ احساس دل میں اتنا جاگزیں ہو جائے، اس قوت کے ساتھ جانشین ہو جائے کہ آپ اس احساس کو کسی طرح بھلا نہ سکیں.صبح بھی یہ احساس لے کر اٹھیں اور شام کو بھی ، رات کو بھی یہ احساس لے کر سوئیں اور سارا دن آپ کا دل کرید تار ہے یہ احساس کہ میں نے کتنے بنائے ہیں، میں نے 522

Page 532

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 30 جنوری 1987ء کتنے بنائے ہیں.سنتا ہوں کہ فلاں نے اتنے بنائے، مجھے کتنی توفق ملی ہے.اس لئے ساری دنیا کے احمدی سب سے پہلے اس احساس کو پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوں.اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے، پھر جب دعائیں کریں گے تقویٰ کے ساتھ ، قول حسن اور فعل حسن کے ساتھ تبلیغ شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ لازماً آپ کو پھل عطا فرمائے گا.یہ خدا کی سنت ہے، جسے وہ تبدیل نہیں کیا کرتا.جہاں تک دشمنوں کی باتوں کا تعلق ہے، دشمن بھی تیز تر ہوگا اپنی کوششوں میں.یہ نہ سمجھیں کہ وہ بیٹھا ر ہے گا.آپ میں سے اکثر کے احساس کے بیدار ہونے سے پہلے دشمن بیدار ہو چکا ہے.آپ نے ابھی اپنے اعمال کو اس قوت اور شان کے ساتھ ظاہر بھی نہیں کیا تھا کہ دشمن بھانپ گیا تھا کہ آپ کیا کرنے والے ہیں.اور وہ آپ سے بہت زیادہ پہلے ان باتوں میں سرگرم عمل ہو چکا ہے.جو کام آپ نے کرنے ہیں، ان کے خلاف منصوبے پہلے بنا چکا ہے.اس لئے لازماً یہ خیال رکھنا ہوگا کہ یہ کام آپ کے لئے اس رنگ میں آسان نہیں ہے کہ آپ اکیلے کام کر رہے ہیں اور کوئی مخالفانہ کوشش نہیں ہو رہی.ہر جگہ جہاں جہاں آپ جائیں گے، جہاں جہاں آپ کوشش کریں گے، وہاں دشمن آپ کا تعاقب کرنے کی کوشش کرے گا اور آپ کے نیک کاموں کو ضائع کرنے کی کوشش کرے گا“.اور لیکن خدا یہ بتاتا ہے کہ اگر تم ولی اللہ بن جاؤ گے، اگر اللہ سے دوستی کر کے یہ کام آگے بڑھاؤ گے تو پھر تمہارے لئے کسی قسم کا حزن اور کسی قسم کا خوف نہیں.پھر تو از مادشمن نے ہارنا ہی ہارنا ہے.یوں ہی باتیں ہوں گی ، شور ہوگا اور عملاً کوئی نقصان بھی تمہیں نہیں پہنچا سکیں گے.تو اس مسئلے کا حل بھی ساتھ رکھ وو دیا بلکہ حمل پہلے رکھا اور مسئلہ بعد میں بیان فرمایا.یہ ہے خدا کے پیار کا اظہار.وو اس لئے آخر پہ قرآن کریم نے اس مضمون کی طرف توجہ دلائی کہ ساری تقدیر خدا کی تمہارے لئے تقدیر خیر ہے.اس میں کوئی شر کا پہلو نہیں ہوگا.اتنی کامل کامیابی ہے تمہارے مقدر میں کہ دنیا میں بھی تم کامیاب رہو گے اور آخرت میں بھی تم کامیاب رہو گے.بشریٰ ہی بشری ہے تمہارے لئے لیکن اس کے باوجود دعاؤں سے غافل نہ رہنا.کیونکہ دعا ئیں تقدیر کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھاتی ہیں، اور دعائیں ہی ہیں، جو ہر کوشش میں پھل پیدا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 65 تا 82) 523

Page 533

Page 534

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد P پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ آئیوری کوسٹ صحابہ کرام کے نمونہ کو زندہ کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے کوزندہ پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ آئیوری کوسٹ میرے پیارے عزیزو! الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته جماعت احمد یہ آئیوری کوسٹ کے تیسرے جلسہ سالانہ کی خبر سن کر بہت خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے.اللہ کرے کہ اس جلسہ کی برکات بہت ہی وسیع ہوں اور ہر کس و ناکس اس سے سیراب ہو.الحمد للہ ثم الحمدللہ کہ جماعت احمد یہ آئیوری کوسٹ میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے.مالی اعتبار سے بھی بجٹ میں اضافہ ہوا ہے اور تبلیغ میں بھی وسعت پیدا ہوئی ہے.اور داعیان الی اللہ باوجود مخالف حالات کے بڑی جرات ، صبر اور حوصلہ کے ساتھ تبلیغ میں مصروف ہیں.جس کے شیریں پھل بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہور ہے ہیں.پس آگے بڑھیں اور ہر اس بستی میں پہنچیں، جہاں ابھی احمدیت کا پودا نہیں لگا.اپنے ملک اور اس کے دائیں بائیں ہر خطہ زمین کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نور سے منور کر دیں.مخالفتوں سے گھبرانا نہیں.یہ روکیں تو عظیم الشان فتح کی خوشخبری دے رہی ہیں.پس ہر مشکل گھڑی میں اپنا قدم آگے بڑھائیں تا نصرت خداوندی اسے چومے اور ترقی کا ایک نیاز مینہ اسے عطا کرے.پیارے عزیز و! جب مخالفتیں اور روکیں بڑھ جاتی ہیں تو مومن کا ایسے ابتلائی دور میں رد عمل یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے اخلاص، قربانی اور تقویٰ پر قدم مارتا اور یار نہاں میں نہاں ہو جایا کرتا ہے.جتنی روکیں راہ میں حائل ہوتی چلی جاتی ہیں، مومن کی قربانی اخلاص اور تقویٰ کا معیار بھی اتنا ہی بلند ہوتا چلا جاتا ہے.یہی حال صحابہ کرام کا تھا.جن کے نمونہ کو از سر نو زندہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے.ان صحابہ کا کمال یہ تھا کہ وہ نیکی رم کی ہر راہ کو اس لئے اختیار کرتے تھے کہ نہ معلوم کس راہ سے قبول کئے جائیں.525

Page 535

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ آئیوری کوسٹ تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس آج کا دور ہم سے ان عظیم قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے، جنہیں قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے چوم چوم کر قبول کیا تھا.یادرکھیں قربانیوں کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ اور تزکیۂ نفوس و اموال کا موجب ہوا کرتا ہے.ایک احمدی کی قربانی کبھی روح تقوی سے خالی نہیں ہونی چاہئے.کیونکہ کوئی ایسا عمل، جو تقوی سے خالی ہو ، خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا.پس اپنے اور اپنی اولادوں کے اندر نیک تبدیلی پیدا کریں.کبھی دعاؤں سے غافل نہ ہوں.اپنے قیام ، رکوع اور سجود کوحمد باری تعالیٰ سے بھر دیں اور ایسے پاک وجود بن جائیں کہ جن کے نقوش پاپر چل کر آپ کی آئندہ نسلیں سنور جائیں.اور وہ اسلام کی جیتی جاگتی تصویر بن جائیں اور اپنے اعلیٰ اخلاق اور پاک نمونے سے ہر کس و ناکس کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں.پس مایوس نہ ہوں اور چھوٹی چھوٹی مخالفتوں سے ماندہ نہ ہوں.بالآخر انشاء اللہ تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطرات محبت نیکیں گے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.جماعت کے چھوٹوں کو بھی اور بڑوں کو بھی عورتوں کو بھی اور مردوں دو کو بھی سب کو میرا محبت بھر اسلام.اب میں آخر پر اپنے اس پیغام کو حضرت مسیح موعود کے ایک اقتباس پر ختم کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.عزیز وایہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کے لئے خدمت کا وقت ہے.اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا.تم اپنے وہ نمونے دکھلاؤ، جو فرشتے بھی آسمان پر تمہارے صدق وصفا سے حیران ہو جائیں اور تم پر درود بھیجیں.تم ایک موت اختیار کرو تا تمہیں زندگی ملے.اور تم نفسانی جوشوں سے اپنے اندر کو خالی کروتا خدا اس میں اترے.ایک طرف سے پختہ طور پر قطع کرو اور ایک طرف سے کامل تعلق پیدا کرو.خدا تمہاری مدد کرے تمہارے اندر ایسی تبدیلی پیدا ہو کہ زمین کے تم ستارے بن جاؤ اور زمین اس نور سے روشن ہو، جو تمہارے رب سے تمہیں ملے.آمین ثم آمین.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 83 تا85) والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد) خليفة المسيح الرابع (مطبوعہ ہفت روزہ النصر 30 جنوری 1987ء) | 526

Page 536

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 06 فروری 1987ء صد سالہ جوبلی منصوبہ کی کامیابی کے لئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے وو خطبہ جمعہ فرموده 06 فروری 1987ء گزشتہ خطبہ میں، میں نے احباب جماعت کو ان بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی تھی، جو صد سالہ جوبلی کے قریب تر آنے کے نتیجے میں ہم پر عائد ہوتی ہیں.جلسہ سالانہ جو قادیان اور پھر ربوہ میں منایا جاتارہا، اس کی تیاریاں تو قریباً ایک مہینہ، دو مہینے پہلے منظر عام پر ابھر آیا کرتیں تھیں.اور جو مخفی تیاریاں ہیں بنیادی وہ تو شروع سال سے ہی چلا کرتیں تھیں.تو اگر سالانہ جلسے کے لئے اتنی ذمہ داریاں ہیں.جنہیں ادا کرنا ہوتا ہے.کچھ لوگ ایسے ہیں، جن کے لئے جلسے کی تیاریاں ختم ہی نہیں ہوتیں.افسر جلسہ اور ان کے بعض مستقل ساتھی، وہ جلسہ ختم ہوتے ہی پھر یہ جائزے لیا کرتے تھے کہ کیا کمزوریاں رہ گئیں پچھلے جلسہ میں اور کیا ایسی مشکلات تھیں، جن کا ازالہ آئندہ ہمیں لازما کرنا ہوگا.اور اس کے ساتھ ہی پھر چیزوں کی خریدو فروخت، آئندہ روٹی پکانے کی مشینوں کی تیاری، انتظامی ڈھانچہ تجویز کرنا اور ان کی ذمہ داریاں ان کو تقسیم کرنا.بہت سے ایسے کام تھے، جو مسلسل جاری رہتے تھے.بیرنس کی تعمیر ہے، نئی جگہیں چاہئیں، ہر سال جماعت بڑھتی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے وسعت پذیر ہے، جلسے کا کام.تو سو سالہ جشن کی تیاری کے لئے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی زیادہ محنت اور توجہ اور انہماک کی ضرورت ہے.اور جو تیاریاں مخفی چل رہیں ہیں، وہ تو میں نے بیان کیا تھا کہ بہت لمبے عرصے سے جاری ہیں.لیکن اب وقت آگیا ہے کہ یہ منظر عام پر ابھرنے والی تیاریاں بھی شروع ہو جا ئیں اور اس میں ساری جماعت کو حصہ لینا ہوگا.تمام ملکوں میں اس وقت سو سالہ جشن منانے والی منصوبے کی کمیٹیاں قائم کی جاچکی ہیں.اور ان ملکوں میں سے پھر کچھ گروہ بنا کر تین تین، چار چار، پانچ پانچ ملکوں کے ایسے گروہ بنا دیے گئے ہیں، جن میں علاقائی کمیٹیاں قائم کر دی گئیں ہیں.پھر علاقائی سطح کے علاوہ مشرق اور مغرب کی تقسیم کے لحاظ سے، Continents کی تقسیم کے لحاظ سے مختلف اس سے بال کمیٹیاں بھی قائم ہیں.اور دو مرکزی کمیٹیاں ہیں، ایک جو شروع سے ہی ربوہ میں کام کر رہی ہے اور ابھی بھی جاری ہے اور ایک جو بیرون ربوہ کے ممالک میں خصوصی ہدایات دینے اور ان کے کاموں کو مرتب کرنے اور ایک دوسرے سے باہم رابطہ پیدا 527

Page 537

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 فروری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے.وہ بھی گزشتہ سال سے بڑے انہماک سے کام کر رہی ہے.تو اب ضرورت یہ ہے کہ احباب جماعت اپنی اپنی صلاحیتیں اور اپنی قابلیتیں اپنے اپنے امراء کی وساطت سے ان کمیٹیوں کو پیش کریں.کیونکہ ہر علم کے، ہر شعبہ زندگی کے ماہرین کی شدید ضرورت ہے.مردوں کی بھی ضرورت ہے، خواتین کی بھی ، بوڑھوں کی بھی، بچوں تک کی بھی ضرورت ہے کہ وہ اپنے اپنے رنگ میں، اپنے اپنے دائرہ کار میں اس صد سالہ جشن کو کامیاب بنانے کے لئے کیا محنت کریں گے؟ کیا خدمات سرانجام دیں گے؟ اس کی وہ وضاحت کریں گے تو کمیٹیوں کی بھی راہنمائی ہوگی.منصوبے کے متعلق ایک تو مرکزی منصوبہ ہے، جو ساری دنیا کی راہنمائی کے لئے مکمل ہو چکا ہے.کئی حصے اس کے تنفیذ کے عمل میں ہیں یعنی ان پر عمل درآمد ہورہا ہے یا کچھ حصہ پر ہو چکا ہے.کچھ علاقائی کمیٹیاں اس وقت ان منصوبوں کی روشنی میں خود غور کر رہی ہیں.لیکن ہر ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنا مقامی منصوبہ بھی بنانا چاہئے.اور اس کے لئے یہ انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ مرکز کی طرف سے کب ہدایات آتی ہیں؟ کب ان کی طرف سے بنا بنایا منصوبہ ملتا ہے؟ کیونکہ ہر ملک کی اپنی ضروریات ہیں، ہر ملک کے اپنے مسائل ہیں، ہر ملک کی جماعت کی قوت مختلف ہے، ہر ملک میں جماعت کے تعلقات حکومت والوں سے مختلف ہیں.مخالفتوں کا مقام بھی مختلف ہے.درجہ بدرجہ کہیں زیادہ مخالفت کہیں کم.ہر ملک میں انسانی آزادی کا معیار مختلف ہے.غرضیکہ اتنے اختلاف کی باتیں موجود ہیں کہ ایک مرکزی منصوبہ ہر ملک میں سو فیصدی چسپاں ہو ہی نہیں سکتا.شکلیں الگ الگ ہوں تو ہر دوسرے کی مختلف شکل کی چیز کا بسا اوقات ایک دوسری شکل کی چیز میں فٹ بیٹھنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے.اور پھر یہ کہ جو منصوبہ بنیاد سے اٹھے، وہ بہت زیادہ حقیقی ہوتا ہے.جو باہر سے آتا ہے، اس میں کچھ نظریاتی باتیں، کچھ غیر حقیقی سوچیں شامل ہو جاتی ہیں.اس لئے میں نے مرکزی کمیٹی کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ بنیاد سے منصوبے اٹھوا کر اپنی طرف ان کو حرکت دیں اور منگوانے شروع کریں.اور ان کی روشنی میں کچھ ان کو عمومی عالمی منصوبوں میں بھی بہتر نقوش کا اضافہ کرنے کی توفیق ملے گی.اور جو عالمی منصوبہ مقامات تک پہنچے گا، ملکوں تک پہنچے گا، اس کی روشنی میں وہ اپنی خامیاں دور کرنے کے قابل ہو سکیں گے.اس لئے اب تمام ملک اپنے اپنے ہاں فوری طور پر اپنی طاقتوں اور ملکی حالات جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ان کا اندازہ لگا کر یہ سوچنا شروع کریں کہ وہ کس طرح یہ جشن منائیں گے.اور اس کے خدو خال کو معین کر کے امیر کی وساطت سے اپنی علاقائی کمیٹی کو بھجوائیں اور علاقائی کمیٹیاں اس کو نظر ثانی کرنے کے بعد پھر وہ مرکزی کمیٹیوں کی طرف بھجوائیں.528

Page 538

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 فروری 1987ء اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے کام ہیں، جو فوری طور پر جاری ہونے والے ہیں.مثلاً تمام دنیا میں اس جشن کے لئے بعض نئی تعمیرات کی ضرورت پیش آئے گی.اس کے متعلق ہمیں کیا کیا ضرورتیں ہیں؟ یہ تقریبا طے کر لی گئیں ہیں اور نقشہ بنانے کے لئے بعض آرکیٹیکٹ سے کہا گیا ہے کہ ان عمومی ضروریات کو مد نظر رکھ کر نقشہ بنائیں.ضروری نہیں کہ ہر ملک میں ایک ہی معیار کی عمارت ہو.مگر نقشہ کم و بیش وہی ہو گا.کیونکہ بعض نمائشوں کے لئے ، بعض کتابوں کو سجانے کے لئے ، بعض دوسرے کاموں کے لئے خاص قسم کے کمروں کی ، خاص شکل کے کمروں کی ضرورت پیش آتی ہے.تو وہ عمومی نقشہ بھی تمام دنیا میں عنقریب بھجوا دیا جائے گا.جہاں تک ممکن ہو ، مقامی ذرائع سے ان عمارتوں کو بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور وقار عمل کا اس میں بہت دخل ہونا چاہئے.اور ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ جماعت کا ہر طبقہ اس وقار عمل میں کسی نہ کسی طرح شامل ہو جائے.اور بوڑھے بھی، بچے بھی ، عورتیں ، مرد سب کو خدا تعالیٰ کے سے توفیق ملے کہ اس مرکزی نمائندہ عمارت میں ہم نے اپنی محنت کا بھی کچھ حصہ ڈال دیا ہے.جہاں تک ضروریات کی مقامی توفیق کا تعلق ہے، ہر ملک اپنی توفیق کو دیکھ کر عمارت کا معیار بنائے.اگر کہیں شاندار عمارت نہیں بنائی جاسکتی تو بانسوں کی تعمیر بھی ہو سکتی ہے.گھاس پھوس کے ساتھ اس کی خلاؤں کو بند کیا جا سکتا ہے، مٹی کی چھتیں بنائی جاسکتی ہیں، ان کو لیپا پوتا جا سکتا ہے.تو یہ تصورنہ باندھ لیں کہ یہ عمارت کوئی غیر معمولی قیمتی عمارت ہو، عمارت ضرورت کو پورا کرنے والی ہونی چاہئے اور توفیق کے مطابق ہونی چاہئے.اس کے بعد اس کو جس حد تک بھی ممکن ہو ، اگر انسان کا ذہن حسین تخیل رکھتا ہو تو غربت میں بھی وہ حسن پیدا کر لیتا ہے.بہت سے ممالک ہیں، ایک ہی معیار کے ہیں اقتصادی لحاظ سے مگر بعض ممالک کے لوگ حسین تخیل رکھتے ہیں ، وہ انہیں ذرائع سے ایک خوبصورت چیز پیش کرتے ہیں اور بعض ممالک ان سے بڑھ کر ذرائع رکھنے کے باوجود نہایت بھرے منظر کی عمارتیں بناتے ہیں، نہایت ان کا رہن سہن بھدا ہے اور ان میں ایسا تخیل ہی نہیں کہ جو ان کے عمل کو خوبصورت کر کے دکھائے.تو جماعت احمدیہ کا تخیل بھی حسین ہونا چاہئے.غربت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غربت کے نتیجے میں بدزیبی پیدا ہو، بھدی چیز بنائی جائے.اس لئے ان دونوں شرطوں کو ملحوظ رکھ کے عمارتیں بننی چاہئیں کہ غربت میں حسن پیدا کریں.حضرت خلیفة المسیح الثالث نے بعض جو نئے محاورے ایجاد کئے ، ان میں ایک یہ بھی بڑا خوبصورت محاورہ تھا کہ ربوہ کو ایک غریب دلہن کی طرح سجاؤ.دلہن تو بہر حال بجتی ہے چاہے غریب ہو، چاہے امیر ہو.اس لئے سجاوٹ آپ نے بہر حال کرنی ہے.مگر غریب ہیں تو غریب دلہن کی طرح سجیں اور امیر ہیں تو امیر دلہن کی طرح سجیں اور سجائیں.529

Page 539

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 فروری 1987ء دوسرا ایک پہلو جیسا کہ میں نے بیان کیا، اس میں مختلف طاقتوں کی ضرورت ہے، مختلف صلاحیتوں کی ضرورت ہے.اور دوستوں کو اپنے کوائف مکمل طور پر جو شوق رکھتے ہیں کہ ان کو بھر پور حصہ ملنے کا موقع ملے، ان کو چاہئے کہ اپنے کوائف مکمل اس طرح بھیجیں، جس طرح نوکریوں کے لئے بھیجا کرتے ہیں.اور کمیٹیوں کے سپر دیا امیر کے سپرد کریں کہ یہ یہ ہم کر سکتے ہیں اور اس طرف ہمارا ذہن کا بھی رجحان ہے اور اس قسم کا وقت ہم آسانی سے دے سکیں گے.اور کتنا زیادہ سے زیادہ دے سکیں گے، اس کی بھی تعیین کی جائے.یعنی کس قسم کے وقت سے مراد یہ ہے کہ رات کا وقت صبح کا وقت، دن کا وقت، ہمہ وقت ، جس نوعیت کی بھی کسی کو توفیق ہو، وہ واضح کرے اور پھر مدت معین کر دے.تو اس طرح ہمارے پاس مجموعی طور پر کام کرنے والے جتنے ہاتھ اور جتنے گھنٹے اور جتنے دماغ اور جتنی صلاحیتیں ہوں گی، وہ یکجائی شکل میں جب کمیٹی کو نظر آئیں گی تو ان کا منصوبہ حقیقی بنے گا پھر اور ان صلاحیتوں کے نتیجے میں ان کے ذہن اور ان کی سوچ میں بھی ایک چمک پیدا ہوگی.بعض چیزوں کی طرف خیال ہی نہیں جائے گا جب ایک لکھنے والا بتائے گا کہ مجھ میں خدا کے فضل سے یہ صلاحیتیں موجود ہیں تو اچانک اس کے منتظموں کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ اچھا یہ بھی ایک چیز تھی، اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.تو Grass Roots جس کو کہتے ہیں یعنی وہ گھاس کی جڑیں، وہاں سے منصوبہ اٹھے تو عظیم الشان منصوبہ ہوتا ہے.وہ سر کی طرف حرکت کرتا ہے اور پھر سرے صیقل ہو کر اور مزید نقش ونگار کی درستی کے بعد واپس پہنچتا ہے.اور پھر ہر ہر جگہ، جہاں جہاں اس ربے کو عمل میں لانا ہے ، وہاں کے اعضاء اس میں کام شروع کر دیتے ہیں.منصور جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے، میں نے یہ کہا تھا کہ ہر احمدی کو کم سے کم اب دو سال کے لئے دو احمدی تو پیش کرنے چاہئیں.گزشتہ محرومیوں کا اب ماضی میں جا کہ تو ازالہ نہیں ہوسکتا لیکن مستقبل کی طرف بڑھتے بڑھتے تو ازالہ ہو سکتا ہے، بہت حد تک تو دو کو تو آپ کم سے کم معیار سمجھیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح پہلے ہم مالی تحریکوں میں چند آنوں سے شروع کر کے پھر بڑھاتے رہے یعنی خدا تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق اور کیا وہ وقت تھا کہ دو دو پیے کا ریکارڈ بھی کتابوں میں چھپ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک ہاتھوں سے کہ یہ دو پیسے چندہ دیا ہے کسی نے.یہ درست ہے کہ وہ دو پیسے کروڑوں سے بڑھ کر مقدس تھے.کروڑوں سے بڑھ کر خدا کے ہاں زیادہ مقبولیت پاگئے.کیونکہ وقت کے امام کی نظر میں آگئے اور اللہ کی تقدیر نے ان سے لکھوادیا کہ فلاں شخص نے یہ اتنے پیسے دیئے ہیں.لیکن اس کے بعد خدا کا فضل ایک دوسرے رنگ میں بھی نازل ہوا.دو پیسے، دو پیسے نہیں رہے بلکہ اسی اخلاص 530

Page 540

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 فروری 1987ء کے معیار کے لوگوں کو خدا نے مالی وسعتیں عطا کیں.اور عملاً یہی بات ہے، جو ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہ وہی دو پیسے ہیں، جو بڑھ رہے ہیں، یہ وہی چار آنے ہیں، جو بڑھ رہے ہیں، یہ وہی چند روپے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اخلاص اور محبت سے پیش کئے گئے، جو برکت پارہے ہیں.آج ہمارے ہاتھوں سے جب یہ نکلتے ہیں تو ہزاروں لاکھوں بعض دفعہ کروڑوں بن کر نکلتے ہیں تو خدا کے فضل نے پیمانے مختلف کر دیئے مگر سر چشمہ وہی ہے.وہی خلوص اور تقویٰ کا سر چشمہ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور محنتوں کے نتیجے میں پیدا ہوا.پس اسی نہج پر ہمیں اب تبلیغ میں بھی چندوں کا رنگ پیدا کر دینا چاہئے.پہلے اتفاق سے مربیوں اور مبلغوں کے علاوہ جب کبھی کوئی داعی الی اللہ اپنا تبلیغ کا پھل پیش کیا کرتا تھا تو بہت نمایاں دکھائی دیتا تھا.میں تھیں، چالیس چالیس ایسے دوست شروع میں پیدا ہونے شروع ہوئے.جب ہم نے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ میں منتیں کیں اس معاملے میں اور بہت تھوڑے نتیجے تھے لیکن اس کے باوجود بہت دکھائی دیتے تھے.اب ایک ایسا وقت آیا ہے کہ بعض داعین الی اللہ کے ذریعے بیسیوں کی تعداد میں ایک ایک آدمی کے ذریعے بیعتیں ہورہی ہیں، نئے گاؤں بن رہے ہیں.افریقہ سے جور پورٹیں ملتی ہیں، ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اب داعین الی اللہ کی کوششوں کا زیادہ دخل ہو گیا ہے.بنسبت براہ راست مبلغین کی کوششوں کے اور اسی طرح ہونا بھی چاہئے.مبلغ کا کام تو بالعموم تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے معاملے میں جماعت کو مستعد کرنا ہے.براہ راست جتنا وقت ملے، وہ بے شک تبلیغ کرے.لیکن مبلغ تیار کرنا، اس کا کام ہے.اور اگر وہ یہ سمجھے کہ میں نے اگر اپنے نام ڈالے دس یا نہیں آدمی تو میر اوقار بڑھے گا اور اگر میں نے یہ لکھ دیا کہ دوسروں نے بنائے ہیں تو شاید میر اوقار کم ہو.اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو بہت ہی بے وقوف انسان ہے.مبلغ تو سب اجتماعی کوششوں کے پھل کا ذمہ دار ہے اور اس کا ثواب اس کو ملے گا اور مرکز کی نظر میں بھی وہ مبلغ زیادہ کامیاب ہے، جس کے ماتحت عام احباب جماعت زیادہ مستعدی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے فضل اور رحم سے اس کی توفیق کے ساتھ زیادہ کامیاب تبلیغ کر رہے ہیں.اس لئے کریڈٹ کا جہاں تک تعلق ہے، وہ سارا مبلغ ہی کا یا مبلغوں کا ہی ہے.یعنی سارے سے مراد میری یہ ہے کہ اگر ان کو یہ فکر ہو کہ ہمارا کریڈٹ کم ہو جائے گا تو اس فکر کو مٹادیں دماغ سے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قانون ہمیں بتایا ہے اور جو خدا نے آپ کو بتایا، وہ تو بالکل دنیا کے قانون سے مختلف ہے.دنیا میں تو اگر ایک سے کریڈٹ لے کے دوسرے کو دے دیا جائے تو پہلے کی 531

Page 541

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 فروری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم جھولی خالی ہو جاتی ہے.دوسرے سے لے کے تیسرے کو دے دیا جائے تو دوسرے کی جھولی خالی ہو جاتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قانون خدا سے علم پا کر جاری فرمایا اور وہی قانون جماعت میں جاری ہے.وہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی نیک بات کرے اور اس کا نمونہ دیکھ کر یا اس کی بات سن کر کوئی دوسرا بھی ویسا نیک کام کرے تو اس کو بھی اتنی ہی جزا ملے گی ، وہ خدا کے نزدیک اسی طرح اس کا کریڈٹ پانے والا ہوگا ، جس طرح وہ کام کرنے والا ہے.اور پھر فرمایا کہ اس کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں آئے گی.یہ نہیں ہو گا کہ اس دوسرے شخص نے ، جس نے کسی ایک سے سیکھ کر اچھا کام کیا ہے، اس کے ثواب میں پہلے کو حصہ دار بنایا گیا ہے.فرمایا ہے: اس کو بھی اتنا ملے گا اور جس کی وجہ سے کسی نے توفیق پائی ، اس کو بھی اتنا ملے گا.یہ وہ مضمون ہے، جسے ہر احمدی کو ذہن نشین کرنا چاہئے.اور کریڈٹ خدا کے ہاں بنتے ہیں، دنیا کے کریڈٹ کی ویسے ہی پرواہ کوئی نہیں کرنی چاہئے.اگر تحریک جدید کے کھاتے میں کریڈٹ نہ بھی بن رہا ہو یا انجمن کے کسی شعبے کے کھاتے میں نہ بھی بن رہا ہو تو بالکل اس کی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے.کریڈٹ ایک ہی ہے، جو خدا کے کھاتے میں بنتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی مضمون پر زور دیا ہے.فرماتے ہیں:.ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل! تیرے بڑھنے سے بڑھایا ہم نے قدم است (در مشین: 17) سارا کریڈٹ خود پیش کر رہے ہیں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ آپ نے ہمیں آگے بڑھنا سکھایا، تو بڑھے.ورنہ ہمیں کہاں سے توفیق ملنی تھی.تو جہاں تک داعین الی اللہ کا تعلق ہے، ان کا مزاج یہ ہونا چاہئے.ان کا مزاج یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جی ہم نے بنایا ہے.اپنے امیر کے سامنے، اپنے مبلغ کے سامنے، ان کا ادب اور احترام اور انکساری کا یہ انداز ہونا چاہئے کہ جی خدا نے توفیق دی ہے.لیکن آپ نے سکھایا تو توفیق ملی ، آپ کا نیک نمونہ پکڑا تو توفیق ملی ، سب کچھ آپ ہی کا ہے.اس رنگ میں اگر باہمی تعاون اور محبت کے ساتھ سارے داعین الی اللہ از سرنو کام شروع کر دیں تو ایک بہت بڑے انقلابی دور میں جماعت داخل ہوسکتی ہے.اور وہی دور ہے، جس کی دیکھنے کی تمنا لئے ہوئے میں آج آپ کے سامنے یہ بات رکھ رہا ہوں.بعض دفعہ اس سے پہلے اب تک ملکوں سے ہزار ہا کی اطلاعیں تو آتی رہی ہیں مگر آج لاکھوں کی ہا بیعتوں کی اطلاع نہیں ملی تو دعا یہ کریں اور کوشش یہ کریں کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے ہم معیار.532

Page 542

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 فروری 1987ء کے پیمانے بدل دیں، بالکل.اور ملک اب ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں جانچے جانے لگیں.اور کثرت سے ایسے ملک پیدا ہوں اور نئے شامل ہو جائیں اولین کی صف میں جہاں سے یہ اطلاع مل رہی ہو کہ گزشتہ سال اتنے لاکھ تھی ، اب اتنے لاکھ ہیں، اب اتنے لاکھ ہیں، اب اتنے لاکھ ہیں.تو لاکھوں میں اگر ہزاروں کو بدلنا ہے تو وقت کی کمی کے پیش نظر آپ کو احساس ہونا چاہئے کہ کتنی زیادہ توجہ اور محنت اور افرادی قوت، انفرادی اور اجتماعی قوت کی ضرورت ہے.اور دعاؤں کی بڑی شدید ضرورت ہے.کیونکہ دعاؤں کے بغیر اس قسم کے انقلاب نہیں پیدا ہوا کرتے.جتنا مرضی آپ زور لگا ئیں، جتنی مرضی آپ کی صلاحیتیں بیدار ہو جائیں، جو کام میں آپ کو بتارہا ہوں، یہ آپ کے بس میں ہی نہیں ہے، اگر خدا کی طرف سے غیر معمولی توفیق عطا نہ ہو.اس لئے خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں غیر معمولی طور پر ، اپنے لئے بھی، اپنی جماعت کے لئے بھی اور یہ ارادہ لے کر اٹھیں کہ ہم نے یہ کر کے دکھانا ہے.پھر دیکھیں خدا کے فضل سے کتنی عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوں گی.اور دعا کا تو ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قبولیت دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا تعلق بہت زیادہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے.اتنا گہرا ہوتا جاتا ہے کہ دعا کرنے والی جماعت کا نہ دعا کرنے والی جماعت سے کوئی مقابلہ ہی نہیں رہتا.یعنی یوں کہنا چاہئے کہ نہ دعا کرنے والی جماعتوں کا دعا کرنے والی جماعتوں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں رہتا.کیونکہ ہر دفعہ جب مانگنے والا ہاتھ اپنے ہاتھ کو بھرا ہوا دیکھتا ہے تو جو یقین اور جو شکر اور حمد کے جذبات اس پر پیدا ہوتے ہیں، جو خدا سے ایک نیا تعلق مضبوط باندھا جاتا ہے، وہ دعا سے غافل آدمی کو تو نصیب ہی نہیں ہو سکتا، اس کا تصور بھی نہیں پہنچتا.ابھی کل کی بات ہے، مجھے ایک نواحمدی دوست کا، جو گزشتہ سال احمدی ہوئے ہیں، یہاں سے چلے گئے ہیں، ان کا خط آیا.انہوں نے بہت ہی پتے کی.بات دیکھی اور مجھے بڑا لطف آیا اور یقین ہوا کہ واقعہ جو شخص ان تجربوں سے گزرا نہ ہو، اس کا خیال ہی نہیں آسکتا کہ اس قسم کی بات میں لکھوں.اس نے کہا: احمدیت میں آکر میں نے یہ پایا، وہ پایا.لیکن سب سے زیادہ جو مجھے لطف آیا ہے، احمدیت میں آکے وہ دعا کا ہے.باہر عمر گنوادی لیکن ہمارے ماحول میں دعا کا ذکر سرسری کبھی آجائے تو آجائے ، ورنہ اسے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر اختیار ہی نہیں کیا جاتا اور ہو بھی نہیں سکتا.جہاں غیر اللہ کے سہارے لینے کی عادت پڑ جائے ، جہاں رشوت کا سہارا لینے کی عادت پڑ جائے، جہاں طاقتور دوست کی سفارش کا سہارا لینے کی عادت پڑ جائے ، جہاں ناجائز ذریعے اختیار کرنے کے سہارا لینے کی عادت پڑ جائے ، وہاں دعا تو ایک طرف بیٹھی رہتی ہے، بے چاری.کبھی اتفاق سے خیال آیا تو آ گیا.ورنہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے، دعا 533

Page 543

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 06 فروری 1987 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ایسے لوگوں کے نزدیک، جو زندگی میں کوئی اہم کردار ادا کرے، کوئی مؤثر کردار ادا کرے.تو وہ کہتے ہیں اول تو دعا کی کوئی اہمیت نہیں.دوسرے وہ دوست لکھتے ہیں کہ مجھے ایک اور لطف بہت آیا کہ ہم جب جن لوگوں کو کبھی رسما دعا کے لئے کہنے جاتے ہیں، پیروں اور بزرگوں کو تو کبھی انہوں نے آگے سے یہ نہیں کہا کہ تم اپنے لئے بھی دعا کرو اور با قاعدہ کرو.وہ سمجھتے ہیں صرف ان کی دعا کی طاقت ہے.اور وہ ہے ہی نہیں.اور یادہ ہاتھ اٹھا کر نیچے گرا دیتے ہیں یاوہ کہتے ہیں، ہم آپ کے لئے دعا کر دیں گے اور کام ہو جائے گا.کہتے ہیں، میں نے جب بیعت کی تو میں نے آپ سے دعا کے لئے کہا تو آپ نے اسی وقت مجھے کہا کہ ہاں میں بھی کروں گا لیکن تم بھی اپنے لئے با قاعدہ دعا کرو.تو میں حیران رہ گیا کہ دعا کا ایک یہ پہلو بھی ہے.ایک زندہ فعال ایک آلہ کار ہے، جسے ہر شخص استعمال کر سکتا ہے.تو اس لئے دعا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جس طرح ایک حقیقت بنا کر پیش کیا ہے، بنا کر نہیں حقیقت دکھا کر پیش کیا ہے.حقیقت تو یہ تھی ہی لیکن حقیقت ایسی تھی کہ دکھائی نہیں دے رہی تھی دنیا کو.اتنا زور دیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا یہ کہ آپ تعجب کریں گے کہ گزشتہ بزرگوں کی کتابیں کی کتابیں پڑھ جائیں، ان میں اتنا زور دکھائی نہیں دے گا، اجتماعی طور پر اتنا زور دکھائی نہیں دے گا، جتنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا پر زور دیا اور اس مضمون کے ہر پہلو کوکھول کر بیان فرمایا.تو یہ جو منصوبہ ہے، اس کی کامیابی کے لئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.اور ہر چیز میں دعا کے ذریعے برکت پڑے گی.اور جب وہ برکت پڑے گی تو آپ کے ایمان میں نئی تازگی پیدا ہوگی، نیا روحانی رزق آپ کو حاصل ہوگا.جس سے ایک نئی شخصیت وجود میں آنی شروع ہو جائے گی.اور اس شخصیت کی ضرورت ہے جماعت کو اگلی صدی میں.اس نئی روحانی شخصیت کو جس نے خدا کو عملاً دیکھا ہو، اس کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم کیا ہوتا کہ جو بہت عظیم کام ہمیں بعد میں کرنے ہیں، ان کو ہم زیادہ بہتر رنگ میں زیادہ یقین اور عزم کے ساتھ اور زیادہ کامیابی کے ساتھ سرانجام دے سکیں.جہاں تک ملکوں کے منصوبے کا تعلق ہے، جن ممالک کے سپر دنئے ممالک کئے گئے تھے ، ان میں سے بعض نے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت کی ہے اور بہت ہی اللہ تعالیٰ نے ان محنتوں کو قبولیت سے نوازتے ہوئے پھل دیا اور بہت شیریں پھل دیا.جو فوراً آگے بیج میں تبدیل ہو گیا.پھر اس سے بھی اچھے پھل لگے تو بعض ممالک میں تو اس تحریک سے بڑی رونق آگئی ہے اور نئے نئے ممالک احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.اور خدا کے فضل سے اکثر و بیشتر داعین الی اللہ کی محنت کا اس میں بہت دخل ہے.اور جب نئے پودے لگ جاتے ہیں کسی ملک میں تو پھر باقاعدہ تربیت یافتہ مربیان بھی بھیجے جاتے ہیں.پھر 534

Page 544

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 06 فروری 1987ء وہ اور زیادہ کام کو منظم کرتے ہیں.لیکن بعض ممالک ہیں، جن میں ابھی تک غفلت ہے یا کام کا سلیقہ نہیں ہے.وقف عارضی کو استعمال کرتے ہیں لیکن اس طریق پر نہیں کہ کسی ایک جگہ بار بار بات دہرائی جائے.یہاں تک کہ وہ اثر کرنے لگ جائے.بلکہ وقف عارضی اس طرح ہوتا ہے، جیسے کبھی ایک جگہ کوئی انسان گندم کا چھٹہ ڈال جائے، کبھی کسی دوسری جگہ چلا جائے، کبھی کسی تیسری جگہ چلا جائے اور پانی دینے لگے تو پانی دوسری زمینوں کو دینے لگے.ایک دانہ بھی نہیں اگے گا اس طرح تو.اگے گا تو ضائع ہو جائے گا.وقف عارضی سے بھی اگر فائدہ اٹھانا ہے ان ملکوں کو تو منظم طریقے پر اٹھانا چاہئے.جہاں پہلا وفد گیا ہے، جو تعلقات اس نے قائم کئے ہیں، انہیں تعلقات کا اعادہ جب تک نہیں کرتا اگلا وفد اور انہی جگہوں پر جا کہ محنت نہیں کرتا ، اس وقت تک یہ توقع رکھنا کہ ہم بڑا کام کر رہے ہیں اور اس کا پھل بھی ملے گا.قسمت سے، قدرت سے تو پھل مل جائے تو الگ بات ہے، اس سے تو انکار ہی نہیں ہے اور خدا دیتا رہتا ہے، ایسے پھل مگر با قاعدہ منصوبہ بندی کے طریق پر پھل حاصل کرنے کا اسلوب نہیں ہے، جو خدا نے ہمیں سکھایا ہو.اس کے لئے تو حکمت اور عقل کے ساتھ باقاعدہ ایسی محنت کو دہرانا پڑے گا، جو بار بار دہرانے کے بعد پھل دیتی ہے.اور اسی طریقے اور منصوبے سے دہرانا پڑے گا.ہر کام کے اپنے اسلوب ہیں، اپنے طریق ہیں، ان کو اختیار کئے بغیر ہماری بہت سی محنتیں بالکل ضائع چلی جاتی ہیں، ان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.اس لئے اپنے منصوبوں پر نظر ڈالیں.سارے ممالک، جنہوں نے بعض نئے ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اسلام کا پودا لگانا تھا، وہ سوچیں کہ کیوں نہیں لگا سکے.غفلتیں تھیں تو غفلتیں دور کریں.اگر منصوبے میں کمزوریاں تھیں تو ان کو ٹھیک کریں.اور دعاؤں میں کمی تھی تو دعائیں کریں.بہر حال یہ ان کا اپنا کام ہے کہ اپنے گرد و پیش کا گردوپیش جائزہ لے کر از سر نو بلند عزم کے ساتھ یہ کام شروع کر دیں.سب سے بڑا خلا ، جواب تک محسوس ہوا ہے ، وہ جنوبی امریکہ کے براعظم میں محسوس ہوا ہے.حیرت کی بات ہے کہ باوجود اس کے کہ باہر سے جانے والے احمدی تو وہاں آباد ہوئے ہیں، مختلف ممالک میں مثلاً ہنگری میں جب انقلاب آیا تو ہنگری کے انقلاب سے پہلے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں جماعت کثرت سے پھیلنا شروع ہوئی تھی ، یعنی خصوصا مسلمانوں میں.وہ لوگ جو ہجرت کر گئے جنوبی امریکہ میں ان کے کہیں کہیں سے خط آتے رہے، کہیں کہیں سے ان کی اطلاعیں ملتی رہیں، جو آہستہ آہستہ کم ہونے لگیں.اور ایک لمبے عرصے میں وہ تعلق بھی ٹوٹ گیا.سوائے اتفاقاً کبھی کوئی آواز دوبارہ آجاتی ہے.اس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ آج سے چالیس، پچاس سال پہلے سے ہی وہاں جنوبی امریکہ کے مختلف ملکوں میں دانہ دانہ کہیں کہیں احمدیت پہنچی ہے.لیکن پھر اس نے نشو نما پائی یا نہیں 535

Page 545

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 فروری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم پائی؟ ان لوگوں کا کیا بنا؟ اس کا ہمیں علم نہیں ہے.بعض جگہوں پر پاکستان سے جاکے بسنے والے بھی موجود ہیں مگر مقامی نہیں تھے.تو اللہ تعالیٰ نے اس نئے سال میں یہ پہلا فضل نازل فرمایا کہ برازیل میں پہلی دفعہ مقامی دوستوں میں سے جو عیسائی تھے، ان میں خدا تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے والے پھل عطا فرما دیئے.اور ایک خاتون ، جو بہت تعلیم یافتہ ہیں، ان کے بعد بعض نوجوان بھی خدا کے فضل سے اسلام اور احمدیت میں داخل ہوئے اور اب وہاں امید بندھی ہے کہ انشاء اللہ مقامی طور پر ایک تحریک پرورش پائے گی.لیکن یہ ایک ہی ملک ہے، صرف ابھی تک.اور میں سمجھتا ہوں کہ انگلی صدی سے پہلے اگر چہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے لیکن کام تو اللہ نے کرنے ہیں، اگر دعا اور خلوص اور ہمت لے کر ہم کوشش کریں تو بعید نہیں کہ اس بر اعظم کے ہر ملک میں مقامی طور پر پودا لگا دے.میہ وہ خیال ہے، جس کے متعلق میں سوچتا رہاتو میرے ذہن میں یہ تجویز ابھری ہے کہ تحریک جدید کی طرف سے وکیل اعلیٰ، جو آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں، وہ منصوبہ بندی کمیٹی کے مشورے کے ساتھ بعض ممالک ایک سے زیادہ ملکوں کو بے شک تقسیم کریں.لیکن یہاں پندرہ دن والے وقف کی سکیم کام نہیں کر سکتی.چھ مہینے یا سال کے یا چھ چھ مہینے اور سال سال کے وقف کی تحریک زیادہ مؤثر ثابت ہو گی.اور اس ضمن میں ایک بالکل نئی طرز پہ کام کرنا پڑے گا.عام جو طریق ہے عارضی وقف کا اس کے اوپر یہ کام نہیں ہو سکتا.ایسے ممالک جن کے سپر دوہ جگہ ہو ، وہ تلاش کریں، ایسے ریٹائر ڈ آدمی یا ایسے کام کرنے والے جو لمبی چھٹی لے سکتے ہوں اور اگر ان کو توفیق نہ ہو تو سارا ملک ان کے لئے اخراجات مہیا کرے اور ان سے کہیں کہ فرض کفایہ ادا کرو، ہم سب کی طرف سے اور ویزوں کا بھی خود انتظام کرو.لٹریچر اور راہنمائی کا جہاں تک تعلق ہے ، وہ تحریک جدید سے وہ حاصل کریں.اور کہاں جا کہ بیٹھنا ہے، یہ بھی تحریک جدید ہی ان کی راہنمائی کرے.اور پھر جا کے وہاں بیٹھ جائیں، دھونی رمائیں ان درویشوں کی طرح جو پہلے بھی خدا کی راہ میں نکل کے ملک فتح کرتے رہے ہیں.تو وہاں جا کے اپنا اور اپنے ملک کا نام ہمیشہ کے لئے ثبت کر دیں.دنیا کی قوموں سے تو ہمارا مقابلہ نہیں ہو سکتا مادی ترقیات میں لیکن خدا نے جس میدان کی چوٹیاں فتح کرنے کے لئے ہمیں پیدا کیا ہے، وہ بلند تر چوٹیاں ہیں اور بہت ہی عظیم الشان چوٹیاں ہیں.ہمالہ فتح کرنے والوں کے نام تو ضرور ثبت ہوئے وہاں لیکن آئندہ نسلیں، جس شان کے ساتھ ان لوگوں کو یاد کریں گی ، جنہوں نے خدا کی راہ میں ممالک فتح کئے ہیں، ان کی شان کا وہ ہمالہ کی چوٹیاں فتح کرنے والا تو مقابلہ نہیں کر سکتا.آج اس کی زیادہ عزت ہے، آج وہ زیادہ معروف ہے دنیا میں، آج اس کا نام دنیا کے ریڈیو، ٹیلی ویژن پر زیادہ احترام سے لیا جاتا ہے.مگر لاز م وہ وقت آئے گا، جبکہ ارب ہا ارب دنیا کے 536

Page 546

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 فروری 1987ء انسان ان ناموں کو تو بھول چکے ہوں گے، مگر درود اور سلام بھیجیں گے ان لوگوں پر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ان غلاموں پر ، جنہوں نے اسلام کے لئے نئے نئے ممالک فتح کئے ہیں.بہت ہی عظیم الشان کام ہے.اس کو اگر فوری طور پر تقسیم کر کے مشورے کے ساتھ یا Alternative مشورے بھی بھیج دیئے جائیں گے.اگر آپ کے لئے یہ مناسب نہیں تو اور دوسری جگہ لے لیں اپنی پسند کی.تو جنوبی امریکہ کے ہر ملک میں یہ عزم لے کر بڑھیں آگے کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اسلام کا اور اسلام کے احیائے نو کا پودا راسخ کر دینا ہے.اور کوشش کرنی ہے کہ مضبوط جماعت مقامی دوستوں کی وہاں پیدا ہو جائے.اتنی کثرت سے اب دنیا میں جماعتیں پھیل چکی ہیں، اللہ کے فضل کے ساتھ اور ذرائع بھی ایسے وسعت پذیر ہیں کہ یہ کام اگر حکمت کے ساتھ تقسیم کیا جائے تو کچھ زیادہ بوجھ معلوم ہی نہیں ہوگا.بہت آسانی کے ساتھ ، خدا کے فضل کے ساتھ یہ دوسرے کاموں کے ساتھ ضمنا ہونا شروع ہو جائے گا.اس کے علاوہ کچھ انفرادی ذمہ داریاں ہیں، جن کی طرف مجھے دوبارہ توجہ دلانا ہے.انفرادی طور پر ہر شخص، ہر مومن ہر وقت کوشش میں رہتا ہے کہ میری کچھ کمزوریاں کم ہوں اور کچھ خوبیاں نئی مجھ میں پیدا ہو جائیں.اور اس کے متعلق وہ پھر دعا بھی کرتا ہے، دعاؤں کے لئے لکھتا بھی ہے اور جب وہ بے بس ہو جاتا ہے، ان کمزوریوں کے مقابل پر تو اور زیادہ بے چین اور پریشان ہوتا ہے.آگے جو آپ کو منزل نظر آ رہی ہے، اس کو اگر آپ سامنے رکھ کر اپنی کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کریں اور دعا یہ شروع کر دیں کہ اے خدا! نئی صدی میں ، میں داخل نہ ہوں، جب تک میری کمزوریاں مجھ سے جھڑ نہ چکی ہوں اور بعض نئی خوبیاں مجھے میں پیدا نہ ہو چکی ہوں.تو یہ عزم اور یہ قریب آتی ہوئی منزل آپ کی بہت مدد کرے گی اور عام حالات میں جن گناہوں کا مقابلہ آپ نہیں کر سکتے تھے، یہ ایک نیار جان آپ میں گناہوں کا مقابلہ کرنے کی مزید طاقت پیدا کر دے گا.تو دعاؤں کے ساتھ انفرادی کمزوریاں بھی دور کرنے کی کوشش کریں اور اپنے گھر اور اپنے ماحول پر نظر ڈال کر ان کی کمزوریاں بھی دور کرنے کی کوشش کریں.لیکن اعتراض کا نشانہ بنا کر نہیں ، طعنے دے کر نہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جماعت کو نصیحت فرمائی محبت اور پیار اور خلوص کے ساتھ نصیحت کرتے ہوئے ، ان کے لئے دعائیں کرتے ہوئے عاجزی اور انکساری کے ساتھ کوشش کریں کہ اپنے ماحول میں سے بھی کچھ برائیاں دور کریں، کچھ نئی خوبیاں پیدا کر دیں.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 83 تا 95) 537

Page 547

Page 548

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد مصف -- اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 فروری 1987ء 35 آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے خطبہ جمعہ فرمودہ 13 فروری 1987ء...اب جماعت احمدیہ کے سامنے جو کام ہے، ساری دنیا کو فتح کرنا، یہ ان کاموں میں سے ہے، جن کو جو باہر سے دیکھنے والا ہے، وہ ہمارے معاملے میں پاگل پن قرار دے گا.آپ کو معقول سمجھتا رہے بے شک، لیکن آپ کے اس خیال کو پاگل پن سمجھے گا.وہ کہے گا کیوں بیوقوف ہو گیا ہے؟ کیا ہو گیا ہے، اس کی عقل کو ؟ اچھی بھلی باتیں کر رہا تھا اور اچانک کہنے لگ گیا ہے: ہم دنیا پہ غالب آجائیں گے.انٹرویو کے دوران مختلف قسم کے جو انٹرویو ہوتے ہیں، ان کے دوران میں نے بھی یہ محسوس کیا ہے اور وہ اندر سے مجھ پر ہنس رہے ہوتے ہیں اور میں اندر سے ان پہ ہنس رہا ہوتا ہوں.وہ اس لئے ہنستے ہیں اندر سے کہ شریف لوگ اکثر جو انٹرویو لینے والے ہیں ، وہ کوشش یہی کرتے ہیں کہ بدتہذیبی کا مظاہرہ نہ ہو.منہ یہ نہیں کہتے اور ہنسی بھی آئے تو اسے ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جب وہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ غالب آجائیں گے اور تمام دنیا کو فتح کرلیں گے؟ اور میں کہتا ہوں: ہاں، مجھے کامل یقین ہے.تو اس کا چہرہ بتا دیتا ہے، سوال کرنے والے کا ، اس کی آنکھیں بتارہی ہوتی ہیں کہ اگر وہ اکیلا ہوتا تو قہقہہ مار کے ہنس پڑتا کہ کیا ہو گیا ہے، ان لوگوں کو ؟ اچھی بھلی معقول باتیں کرتے کرتے اچانک پاگلوں والی باتیں شروع کر دیں.اور میں اس لئے دل میں مسکراتا ہوں کہ اس کو پتا نہیں ہے کہ کیوں ہم یقین کر رہے ہیں؟ اس لئے کہ ایسی ناممکن باتیں ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہیں.اس لئے کہ مذہب کی تاریخ ، اس کی ساری تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ ایسی ناممکن الوقوع باتیں ہمیشہ وقوع پذیر ہوتی رہیں.اور جو یقینی دکھائی دیتی تھیں باتیں، وہ غیر یقینی ہوگئیں.یقینی چیزیں صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لئے مٹادی گئیں اور بظاہر غیر یقینی چیزیں منصہ شہود پر اس طرح قوت کے ساتھ ابھری ہیں اور اس استحکام کے ساتھ قائم رہی ہیں کہ پھر ان کے مٹانے کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا.پس قرآن کریم نے جو آخرت پر یقین پر زور دیا ہے، وہ اسی لئے دیا ہے.یقین کے نتیجے میں بعض دفعہ انبیاء کو پاگل قرار دیا گیا ہے اور اپنوں کے ذریعے بھی قرار دیا گیا ہے.حضرت رت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بچوں سے کہا:.539

Page 549

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 فروری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتہ لَا جِدُ رِيحَ يُوْسُفَ لَوْلَا أَن تُفَبِّدُونِ (یوسف: 95) اس کا یہی مطلب تھا کہ مجھے تو یوسف کی خوشبو آ رہی ہے اور میں جانتا ہوں کہ تم میرے منہ پر مجھے پاگل نہیں کہہ سکتے لیکن تمہارا دل یہی کہ رہا ہے اندر سے کہ اس کو تو کچھ ہو گیا ہے، یہ تو پاگلوں والی باتیں کرتا ہے.لولا ان تفندون خواہ تم دیوانہ سمجھو، دیوانہ قرار دو، جوکہوں کہو مگر مجھے کامل یقین ہے کہ یوسف آنے والا ہے، مجھے اس کی خوشبو آرہی ہے.فتح اسلام سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی محاورہ استعمال فرمایا ہے:.آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار (در مشین: 130) پس ہم تو ان دیوانوں کے غلام ہیں، جن کے یقین کو کوئی دنیا کا طعنہ بھی تبدیل نہیں کر سکا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے کے بعد ہم آپ کے انتظار میں شامل ہو چکے ہیں.اور اس یقین کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں، جس یقین کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اپنے یوسف کا انتظار کر رہے تھے.پس جب میں کہتا ہوں کہ اگلے سال سے پیمانے بدل دو، ہزاروں کو لاکھوں میں تبدیل کر دو.تو جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں میں سے بعض نے ضرور یہ سمجھا ہوگا کہ یہ تو دیوانوں کی بڑ لگتی ہے.اس طرح خواہ آپ کا مجھ سے کیسا ہی تعلق ہو اور پیار ہو، آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے، جو سوچتے ہوں گے کہ اسلام کے پیار میں اور محبت میں ایسی باتیں کر رہا ہے.لیکن بظاہر یہ ہونی ممکن نہیں ہے.لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ممکن ہے اور آپ کے ہاتھوں ممکن ہے.آپ یقین تو پیدا کریں.کیونکہ یقین پیدا کئے بغیر عمل میں قوت پیدا نہیں ہوتی عمل میں جان نہیں پڑتی.اور آخرت پر یقین ہے، جو غیر ممکن چیزوں کو ممکن کر کے دکھا دیا کرتا ہے.کامل یقین کی ضرورت ہے.انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ شخص کو یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ چیز ناممکن ہے.سو وہ آگے بڑھا اور اس نے کر دکھائی.تو جن لوگوں کی ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہ ہو ، وہ لوگ جن کی ڈکشنریاں ناممکن سے بھری ہوتی ہیں، وہ ان چیزوں کو ناممکن دیکھ رہے ہوتے ہیں، ناممکن سے خالی ڈکشنریوں والے ان کو ممکن کر کے دکھاتے چلے جاتے ہیں.540

Page 550

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم - اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 13 فروری 1987ء پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں اور عاشقوں کے لئے اسلام کی فتح کا جہاں تک تعلق ہے، کسی ابہام کسی شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں.لازمانیہ فتح ہوگی لیکن ہوگی یقین کے ذریعے.کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے:.وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُوْنَ اور اگر آپ کا یقین کمزور ہوگا تو اس فتح کے امکانات بھی کم تر ہوتے چلے جائیں گے، مدھم پڑتے چلے جائیں گے.یہ ایمانیات والا معاملہ نہیں ہے کہ آپ کو ایمان ہو یا نہ ہو، خدا بہر حال قائم ہے.آپ کو ایمان ہو یا نہ ہو، فرشتوں کا وجودمٹ نہیں سکتا.اسلام کی فتح آپ کی عدم یقینی کی وجہ سے پیچھے چلتی چلی جائے گی.اس کا وجود میں آنا، آپ کے یقین سے ایک براہ راست تعلق رکھتا ہے.اس لئے کیوں اسے ہزاروں سال پیچھے ڈالتے ہیں.اپنے یقین کا دل بڑھائیں تو یہ فتح تیزی کے ساتھ آپ کی طرف بڑھنی شروع ہو جائے گی.کیوں اگلی صدیوں میں اس کو دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیوں اپنے یقین کا معیار بلند کر کے اسے اس صدی میں لانے کی کوشش نہیں کرتے ؟ اس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہر احمدی، ایک احمدی بنائے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہاں، سننے میں تو بہت اچھی بات ہے لیکن ہوتا نہیں.پس جہاں یہ ہوتا نہیں کا شیطان دل میں داخل ہوا، وہیں کام ختم ہونا شروع ہو گیا.کہتے ہیں اربع ہے، حساب ہے، ہر آدمی کہاں بنا سکتا ہے.یہ خیال دل میں آتے ہی آپ یقین کریں کہ شیطان دل میں داخل ہو گیا.مایوسی ہی کا نام خدا نے شیطان رکھا ہے اور شیطان کا نام مایوسی ہے.اور عمل کو ذلیل اور رسوا کرنے والا سب سے بڑا مہلک ہتھیار مایوسی ہے.اس کے بعد عمل خاک ہو جاتا ہے، کچھ بھی اس میں باقی نہیں رہتا، کچھ پیدا کرنے کی طاقت نہیں رہتی اس میں.ہر احمدی کے لئے فرض ہے کہ اپنے دل میں یقین رکھے کہ ہاں ممکن ہے اور یقینا ہوگا.اور اگر میں یہ فیصلہ کروں گا کہ میں نے بنانا ہے تو لازم بنا سکوں گا.اگر یہ یقین ہی نہیں ہے تو آپ نے کرنا کیا ہے پھر دنیا میں.پھر ان لوگوں میں آپ کا شمار کیسے ہو سکتا ہے، جن کے متعلق قرآن کی ابتدائی آیات کہتی ہیں:.وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ایک عظیم الشان گردیا ہے خدا تعالیٰ نے ہمیں ترقی کا.ایک ایسار از سکھا دیا ہے، جو قوموں کی زندگی کا راز ہے.اس کو سیکھنے کے بعد کیوں اس کو استعمال نہیں کرتے ؟ یہ ہے بنیادی بات، جس کی طرف میں آج آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ اکثر اوقات تبلیغ کا اس تیزی کے ساتھ آگے نہ پھیلنا 541

Page 551

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 فروری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم لا ز مامایوی کے نتیجے میں ہے.آپ جائزہ لے کے دیکھ لیں، وہ لوگ جو ان باتوں کو سنتے ہیں اور ان کے دل پر اثر بھی پڑتا ہے، وہ کیوں ایسا نہیں کر سکتے ؟ اس لئے کہ دل میں ایک بے یقینی ہے، کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو بہت بڑی بات ہے.اگر ایسا ہونے لگے تو چند سالوں میں ساری دنیا پر احمدیت غالب آ جائے.یہ کہانیاں ہیں، یہ قصے ہیں، یہ اچھی باتیں ہیں، اچھے ارادے ہیں، اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.یہ خیال ہیں، جو نیک لوگوں کے دل میں نسبتا نیکی کے روپ میں داخل ہورہے ہوتے ہیں، بدلوگوں کے دل میں تنقید کی شکل میں داخل ہورہے ہوتے ہیں.اور بد تر لوگوں کے دل میں تضحیک کے رنگ میں داخل ہورہے ہوتے ہیں، مذاق اڑانے کی خاطر داخل ہورہے ہوتے ہیں.لیکن ہیں یہ ایک ہی بیماری کی مختلف شکلیں، مختلف اس کے درجات ہیں.کبھی یہ مہلک ہو کر ظاہر ہورہی ہے، کبھی یہ ابتدائی خراش پیدا کر رہی ہے.ہر منزل پر اس بیماری کو کچلیں کیونکہ آپ کے عمل پر براہ راست اس کا اثر پڑتا ہے.ہر احمدی کو یقین کرنا چاہئے.مجھے کئی خطوط ایسے ملتے ہیں، جن میں مختلف رنگ میں یعنی بڑے بڑے اچھے مخلصین کی طرف سے بھی ان باتوں پر تبصرہ ہوتا ہے اور اس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح یہ بیماری بھیس بدل کر جس طرح قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ شیطان بھیس بدل کر داخل ہوتا ہے، کس طرح یہ اچھے اچھے مخلصوں کے دل میں بھی بھیس بدل کر داخل ہو جاتی ہے.ایک دوست نے لکھا کہ آپ کہتے ہیں، وعدہ کرو کہ سال میں ایک احمدی بناؤں گا.آپ بتائیں کہ انسان کے بس میں ہے کیا؟ جب تک خدا کی تقدیر نہ ہو، اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہو سکتا.اس لئے جو چیز خدا کے ہاتھ میں ہے، اس کے متعلق میں وعدہ کر لوں اور پھر جھوٹا بنوں ، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اصل میں وہی بے یقینی پن ہے، اگر انسان کو آخرت پر یقین ہو تو آخرت تو خدا کی خاطر ہے.آپ خدا کی خاطر کام کریں اور خدا آپ کو پھل سے محروم کر دے، یہ وہم آپ کے دل میں کیوں پیدا ہوتا ہے؟ اس کا نام مایوسی ہے.کامل توکل کے نتیجے میں یہ وعدہ ہوتا ہے اور ایک مومن یقین رکھتا ہے کہ میں اس وعدے کو پورا کروں گا.پھر اگر نہ کر سکے تو جھوٹا اسے نہیں کہا جاسکتا.ان کو اس معاملہ میں جھوٹ کی تعریف کا ہی علم نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے وعدوں کے متعلق بھی یہ فرمایا کہ انجان آدمی بیوقوف اور جاہل آدمی بعض دفعہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ خلافی کی ہے.حالانکہ یہ سنت ہے کہ وعدہ خلافی نہیں کرتا.اور اس کے باوجود بعض وعدے پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے.اس لئے کہ ان وعدوں میں مخفی شرائط ہوتی ہیں.اور شرائط کے ٹلنے کی وجہ سے وعدہ ملتا ہے.اور ایسا شخص جو ایسا وعدہ 542

Page 552

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 13 فروری 1987ء کرے، جس میں ظاہری یا مخفی شرائط ہوں، جب وہ شرائط پوری نہ ہوں تو وہ وعدہ مل جاتا ہے.ایسے شخص کو جھوٹا نہیں کہا جاسکتا.آپ اپنے طور پر دنیا میں ہزار ہا وعدے کرتے پھرتے ہیں، اپنی اولاد سے بھی اور دوسروں سے بھی، وہاں آپ کو جھوٹا ہونے کا کوئی خوف نہیں آتا.اپنے بیٹے کو کہتے ہیں کہ ہاں میں تمہارے لئے تعلیم کا انتظام کروں گا، میں تمہیں فلاں چیز لے کے دوں گا، فلاں جگہ سیر پہ لے کے جاؤں گا.اپنی بیویوں سے وعدے کرتے ہیں، اپنے بچوں سے وعدہ کرتے ہیں.حالانکہ اگلے سانس کا آپ کو پتہ نہیں کہ اگلے سانس میں بھی زندہ رہیں گے کہ نہیں.وہاں کیوں جھوٹ کا خوف نہیں آتا؟ کیا خدا کی خاطر کام بس ایک ہی چیز رہ گئی ہے، جہاں سے آپ کو جھوٹا ہونے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے؟ اس کا جھوٹ اور سچ سے تعلق ہی کوئی نہیں.اس کا یقین اور توکل سے تعلق ہے.اگر یقین کا سر آپ بلند رکھیں گے اور توکل کا میعار بلند تر کریں گے تو لازماً آپ کے وعدوں میں پختگی ہوتی چلی جائے گی اور زیادہ یقینی ہوتا چلا جائے گا کہ وہ وعدہ ضرور پورا ہوگا.کیونکہ خدا تعالیٰ آپ کو جھوٹا نہیں دیکھنا چاہتا.جو قسمیں کھا جاتے ہیں، یہی تو اس کا مطلب ہے.لواقسم على الله لابره الله (بخاری کتاب الصلح حدیث نمبر : 2504) بعض ایسے بھی ہیں، جو خدا پر قسمیں کھا جاتے ہیں.اتنا کامل یقین اور اتنا کامل تو کل کہ خدا ایسے کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان کے سر میں بظاہر خاک پڑی ہوئی ہوتی ہے، بال بکھرے ہوئے اور پراگندہ حال ہوتے ہیں لیکن جب وہ خدا پر قسم کھاتے ہیں تو خدا ضرور ان کی قسم کو پورا کر دیتا ہے.ان معنوں میں، میں آپ سے کہتا ہوں کہ وعدے کریں خدا سے اور قسمیں کھا ئیں بے شک کہ خدا کی قسم ہم ایسا کر کے دکھا ئیں گے.پھر چاہے آپ پراگندہ حال ہوں، چاہے آپ کے بالوں میں خاک پڑی ہوئی ہو، تب بھی خدا تعالیٰ آپ کی قسموں کی غیرت رکھے گا اور آپ کے وعدے انشاء اللہ ضرور پورے ہوں گے.لیکن خدا سے وہ سلوک تو نہ کریں، جس طرح وہ دودھ کا تالاب بھرنے والوں نے بادشاہ سے سلوک کیا تھا.کہانی بار ہا آپ نے سنی ہوگی لیکن ہے ہی اس لائق کے بار بار سنایا جائے اور بار بار سنا جائے.کیونکہ اس میں ایک بڑا گہر اسبق ہے اور قوموں کے عروج اور زوال سے اس کا تعلق ہے، قوموں کی زندگی اور موت سے اس کہانی کا تعلق ہے.543

Page 553

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 فروری 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم - ایک بادشاہ نے ایک دفعہ یہ فیصلہ کیا کہ پانی کا تالاب تو دنیا میں سب بنانے والے ہوتے میں ایک ایسا تالاب بناؤں، جسے دودھ سے بھروں.اور یہ ایک عجوبہ روزگار تالاب ہو.دنیا میں کبھی کسی بادشاہ کو توفیق نہیں ملی کہ ایسا تالاب بنائے ، جسے دودھ سے بھر دے.چنانچہ اس نے بڑے پیار سے، بڑی چاہت، بڑے اہتمام سے ایک وسیع و عریض تالاب بنایا.یا یہ بھی کہا جاتا ہے اس کہانی کے متعلق کہ بادشاہ نے تالاب بنایا تھا پانی کے لئے لیکن وزیر نے اس کو یہ مشورہ دیا کہ اتنا خوبصورت، اتنا عظیم الشان تالاب ہے تو اسے پانی سے نہ بھریں، اسے دودھ سے بھریں.اس دوسری شکل میں جو کہانی بیان ہوتی ہے، اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے تعجب کیا کہ دودھ سے کیسے بھر سکتا ہوں؟ اس نے کہا: بالکل معمولی بات ہے.آپ اپنی بستی میں ، اپنے شہر میں اعلان کروادیں اور گردو پیش میں اس علاقے میں کہ کل یعنی آنے والے کل میں سب لوگ ایک ایک لوٹا دودھ اس تالاب میں ڈال دیں.اور اس دن جو بچے ، وہی پیئیں.باقی دودھ اس دن نہ پیئیں.کیا فرق پڑتا ہے؟ اور آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ایک ایک لوٹے سے وہ سارا تالاب بھر جائے گا.چنانچہ بادشاہ نے اعلان کروا دیا اور سارے شہروں میں اور اردگرد کے دیہات میں جو قریب قریب تھے، ان میں یہ منادی کرادی گئی.ہر شخص نے یہ سوچا اتناز بر دست بادشاہ کا یہ حکم ہے، یقینا ساری رعایا دودھ کے لوٹے لے کر پہنچے گی.اگر ایک میں نہ پہنچوں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ایک میرے لوٹے سے ہی تالاب میں کمی آجائے گی ؟ چنانچہ ہر ایک نے اپنے دل میں یہ بات سوچی اور اس دن کوئی ایک شخص بھی لوٹالے کے نہیں گیا.اور جب بادشاہ اپنے ساتھ اپنے Courtiers ، اپنے حواریوں کو لے کر پہنچا تو خالی تالاب پڑا تھا.اس میں کوئی ایک قطرہ بھی دودھ کا نہیں تھا.تو وہ سلوک تو اپنے خالق اور مالک سے نہ کریں، جو ایک بادشاہ کی جاہل رعایا نے ایک بے حیثیت بادشاہ سے کیا تھا، ایک لاعلم بادشاہ سے کیا تھا.بادشاہ کی لا علمی کی بناء پر ان کو یہ جرات ہوئی تھی.لیکن آپ کا خدا جس کے لئے آپ نے اپنا دودھ کا لوٹا ڈالنا ہے، وہ تو عالم الغیب والشهادة ہے.اگر آپ غیب پر ایمان لاتے ہیں تو وہ علم رکھتا ہے کہ کس حد تک آپ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور کس حد تک آپ کا ایمان یقین میں تبدیل ہوا ہے.اس کے حضور اپنالوٹا پیش کریں، پھر دیکھیں کہ یہ سارا عالم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے دودھ سے بھر جائے گا.اور اس دنیا میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی.یہی تو وہ نہریں ہیں، جو آپ کو جنت میں ملنی ہیں.اس لئے خدا کے لئے اپنا لوٹا ڈالنا نہ بھولیں.یہی وہ ایک دودھ کا لوٹا ہے، جو آپ کے لئے نہروں میں تبدیل ہو جائے گا انگلی دنیا میں.544

Page 554

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 فروری 1987ء اور اگر ہر احمدی اس یقین کے ساتھ اپنا حصہ پورا کرنے کی کوشش کرے گا تو فتح ہماری کہانیوں میں بسنے والی فتح نہیں رہے گی ، تصورات کی دنیا کی جنت نہیں رہے گی بلکہ اس حقیقی دنیا کی فتح بن جائے گی ، اس حقیقی دنیا کی جنت بن جائے گی.اور ساری دنیا اس میں آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور آپ کا انتظار کر رہی ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.آخر پر میں یہ بات کہنا چاہتا تھا، اس وقت ذہن سے اتر گئی کہ جو شخص یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے لازماً ایک احمدی بنانا ہے، اگر وہ فیصلہ قطعی ہے، حقیقی ہے تو خدا تعالیٰ رستے بھی اس کو بجھادے گا.اس کو باہر سے بتانے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح بناؤ.وہ فوراً اپنے گردو پیش پر نظر ڈالنا شروع کرے گا.کہتے ہیں ، شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے.خدا تعالیٰ نے جس پرندے کو میٹھا کھانے والا بنا دیا ہے، اس کے لئے وہ میٹھا بھی مہیا فرما ہی دیتا ہے.تو آپ شکر خورہ بہنیں تو سہی، ہر طرف سے اللہ تعالیٰ آپ کو شکر بھجوانے کا انتظام فرما دے گا.خود سوچیں، خود غور کریں.جس طرح بس چلتا ہے، جو کچھ بھی آپ کی پیش جاتی ہے، اس کے مطابق کوشش کریں اور دعا کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ انشاء اللہ ان دعاؤں کو سنے گا اور آپ کے غیب کو حاضر میں تبدیل فرما دے گا.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 101 تا 113) 545

Page 555

Page 556

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد مصف پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد به سیرالیون روحانی جہاد میں مبلغین کے شانہ بشانہ کام کریں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون منعقدہ 13 تا15 فروری 1987ء میرے پیارے عزیزو! الله الرحمان الرحيم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ جماعت احمدیہ سیرالیون 13,14,15 فروری 1987ء کو اپنا جلسہ سالانہ منعقد کر رہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر جہت سے کامیاب اور بابرکت فرمائے.اور آپ سب کو ان عاجزانہ دعاؤں کا وارث بنائے، جو حضرت مسیح موعود نے ان مبارک اجتماعات میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں.اور آپ سب اللہ کے فضلوں سے اپنی جھولیاں بھرتے ہوئے واپس لوٹیں.سیرالیون کی جماعت پچھلے چند سالوں میں تبلیغی میدان میں بہت مستعد تھی لیکن گزشتہ سال صف اول سے ذرا پیچھے جاپڑی ہے.میں ساری جماعت کو تلقین کرتا ہوں کہ روحانی جہاد میں مبلغین کے شانہ بشانہ کام کریں.اور دعوت الی اللہ کے میدان میں نہ صرف خود ایک دوسرے سے آگے بڑھیں بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اولادوں کو بھی اس میدان جہاد میں آگے بڑھنے کے سلیقے سکھا دیں.آپ کی اس نیکی کا پھل ہمیشہ آپ کو ملتا رہے گا.اس جہان میں بھی ملے گا اور اس جہان میں بھی آپ ان ثمرات کے وارث ٹھریں گے.اللہ تعالیٰ نے تعلیمی میدان میں بھی جماعت کو ملک کی خدمت کا موقع دیا ہے.اپنے اعلی تعلیمی معیار کو قائم رکھیں.اور جو بچے ہمارے سکولوں میں تعلیم پاویں، وہ ہر لحاظ سے مثالی طالب علم ثابت ہوں، جو دین کو سمجھنے والے ، قوم سے محبت رکھنے والے، ملک کے بچے خادم ہوں.بنی نوع انسان کی جسمانی خدمت کے لئے بھی احمدی ڈاکٹر صاحبان اچھا کام کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ روحانی پیاس بھی بجھنی چاہیے.اور اس طرف ابھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.547

Page 557

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون تحریک جدید - ایک الہی تحریک ملک کی مادی اور روحانی ترقی کے لئے ہر وقت دعاؤں میں لگے رہیں.اپنے اعلیٰ کردار اور نیک نمونہ سے نیک اخلاق کو رائج کریں.ملک میں امانت اور دیانت کے معیار کو بلند کریں.اور اس خلق کو زیادہ رواج دیں.کیونکہ آج سارا ملک ایک نئی قسم کی غلامی، رشوت، جھوٹ، بد دیانتی، مادہ پرستی اور ان جیسی بیسیوں مہلک زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے.آج آپ لوگوں پر پہلا حق ہے کہ اصل وطن کو ان برائیوں سے نجات دلائیں.پس آج اسلام کا جھنڈا آپ کے ہاتھوں میں ہے.آپ نے ہی امن کے پیغامبر کے طور پر کام کرنا ہے.پس اپنے رب سے دعائیں مانگتے ہوئے اور اس کی مدد پر کامل تو کل رکھتے ہوئے، اپنے معاشرہ کو ان برائیوں سے کلیتہ پاک کرنے کا عہد کریں اور سارے سیرالیون کو صلح سے معمور کر دیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو اور ان اہم مقاصد کی تکمیل کی بہترین توفیق بخشے.اور اس کی رحمت کا سایہ آپ کے سر پر دراز رہے.آمین.جملہ احباب جماعت کو میری طرف سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کا محبت بھرا تحفہ پہنچا دیں.والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 05 جون 1985ء) 548

Page 558

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد من پیغام فرمودہ 12 مارچ 1987ء تو کل، دعا اور حکمت سے کام کرنے والوں کو سینکڑوں پھل عطا ہو جاتے ہیں پیغام فرمودہ 12 مارچ 1987ء فنجی کی مجالس ہائے انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ وناصرات الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے لئے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل پیغام ارشاد فرمایا:.پیارے عزیزان! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ مجالس ہائے انصار الله، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ و ناصرات الاحمدیہ بھی اپنا سالانہ اجتماع مورخہ 17 ،18 اپریل 87 ء کو NADI کے مقام پر منعقد کر رہی ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو ہر جہت سے کامیاب اور بابرکت فرمائے اور آپ سب کو جزائر فجی میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ایک غیر معمولی جوش اور ولولہ عطا ہو.ستیاں دور ہوں اور غفلتیں پیچھا چھوڑ دیں.اور خدا کرے کہ جب آپ اس اجتماع سے واپس لوٹیں تو آپ کی غیرت بیدار ہو چکی ہو کہ ایک شخص باہر سے آیا اور بازی لے گیا اور ہم یہاں کے ہوتے ہوئے بھی بہت پیچھے رہ گئے.سوچیں اور فکرمند ہوں کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی جماعت ہوا اور تبلیغ کے میدان میں ایسی سستی ! معلوم ہوتا ہے کہ ولولہ نہیں، ورنہ بے چین ہو جاتے.کتنے جوان ہیں، کئی کی شادیاں ہو چکی ہیں اور کئی ابھی اس انتظار میں ہیں.جن کی ہوئی ہیں، ان کی اولاد نہ ہو تو دیکھوں کہ کس طرح بے چین ہو جاتے ہیں.خط لکھتے ہیں، دوایوں کے بارہ میں ادھر سے بھی پوچھتے ہیں اور ادھر سے بھی، لیکن روحانی اولاد نہ ہونے پر طبیعت میں کوئی بے چینی نظر نہیں آتی.جو خدا پر توکل کرتے ہیں اور دعا اور حکمت سے کام کرتے ہیں، ان کو ایک نہیں بلکہ سینکڑوں روحانی پھل عطا ہو جاتے ہیں.اس لئے بار بار آپ کو میرا پیغام یہی ہے کہ ایک ہو کر بڑھیں.خدا سے دعا مانگیں اور اسی پر بھروسہ کریں، اللہ تعالیٰ خود سامان کرے گا.آپ کی بے چینی اور حرکت کی ضرورت ہے.قدم بڑھا کر تو 549

Page 559

پیغام فرمودہ 12 مارچ 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم دیکھیں کہ وہ کس طرح پھلوں سے آپ کی جھولیوں کو بھر دیتا ہے.اللہ آپ کے ساتھ ہو اور دین و دنیا کی حسنات سے نوازے اور سکیم دعوت الی اللہ کی بہترین تکمیل کی توفیق بخشے اور اس کی رحمت کا سایہ ہمیشہ آپ کے سر پر دراز رہے.میں جماعت کے ہر فرد کی طرف سے روحانی پھلوں کے عطا ہونے کی خوشیوں بھری خبریں سننے کا متمنی ہوں.اللہ آپ کو اس سعادت سے نوازے.آمین.جماعت کے چھوٹوں کو بھی اور بڑوں کو بھی عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی سب کو میرا بہت محبت بھر اسلام.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع T-1651/12.3.87 مطبوعہ ہفت روزہ النصر 17 جولائی 1987ء) 550

Page 560

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد مصف اقتباس از خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 1987ء عالمی اسلامی برادری کے قیام کے لئے قدرے مشترک چیز تقویٰ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مارچ 1987ء گزشتہ خطبہ میں، میں نے بھی تقوی کی طرف توجہ دلائی تھی.پھر مجھے خیال آیا کہ جماعت احمدیہ میں مختلف قوموں سے شامل ہونے والے لوگ ہیں، جن کے پس منظر میں تقویٰ کی وہ تعریف نہیں ہے، جو ہم لوگوں نے بچپن سے سنی.نہ وہ تعلیمی پس منظر ہے ان کا ، جس سے ان کو تقویٰ کے معنی کی زیادہ گہرائی سے سمجھ آسکے.اور جماعت احمد یہ چونکہ ایک پھیلنے والی جماعت ہے اور ہر روز آگے بڑھ رہی ہے اور ہر سمت وسعت پذیر ہے.اس لئے دن بدن نئی نئی قوموں سے، نئے نئے مذاہب سے لوگ احمدیت میں داخل ہوتے چلے جارہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ موجودہ دور میں اب ہمارے لئے یہ آسان ہو گیا کہ کیسٹس کے ذریعے ان تک اپنی آواز ایک ہفتے کے اندر اندر پہنچا دیں.خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی موجود ہوں.اس لئے اب خطبات کو یہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ جو ایک عالمی بھائی چارہ اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے، جسے قرآن کریم اخوۃ کا نام دیتا ہے، مومنین جو ہیں، وہ اخوۃ ہیں.ایک بھائی کی طرح ہیں یا بھائیوں کی طرح ہیں.اس مضمون پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے بھی بہت توجہ فرمائی اور خصوصیت کے ساتھ اس وحدت ملی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے اس بات پر زور دیا کہ آئندہ جو ہمارا جشن منایا جائے گا، اس میں اس بات کی طرف خصوصیت سے توجہ دی جائے کہ ایک عالمی اسلامی برادری وجود میں آئے، جس کے نقش و نگار با ہم ایک دوسرے سے اس طرح ملتے ہوں کہ ہر دیکھنے والے کو ایک ہی قوم دکھائی دے.اور یہ تبھی ممکن ہے کہ سب میں تقویٰ قدرے مشترک بن جائے.کیونکہ تقویٰ کے سوا کچھ اور چیز بھی اگر آپ قدرے مشترک کے طور پر اختیار کرنا چاہیں گے تو اس سے کوئی اور عالمی برادری تو وجود میں آجائے گی.لیکن مسلم عالمی برادری اس سے وجود میں نہیں آئے گی.ایک ہی چیز ہے، جو قدرے مشترک ہے، ہر مومن کے درمیان، ہر مسلم کے درمیان اور وہ تقویٰ ہے.اور اگر تقویٰ رنگ پکڑ جائے اور تقویٰ کا رنگ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر غالب آجائے تو ہر دیکھنے والا ایسے متقیوں کو اپنے سے ایک الگ قوم کے طور پر دیکھے گا.اور جو دوسرے رنگ ونسل کے امتیاز ہیں، وہ تقویٰ کے غلبہ کے نیچے بالکل دب کے ملتے چلے جائیں 551

Page 561

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مارچ 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم گے بلکہ مٹ جائیں گے.اور ایک ایسی قوم وجود میں آئے گی جیسی قوم دنیا نے پہلے نہ دیکھی ہوگی اور حیرت سے یہ ماجرہ دیکھیں گے کہ انہیں لوگوں میں سے خواہ وہ افریقہ کہ بسنے والے ہوں یا ایشیاء کے یا یورپ کے یا امریکہ کے کسی بھی خطۂ ارض سے تعلق رکھتے ہوں، ان سب سے نکل نکل کر کچھ لوگ اسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک جھنڈے کے تلے جمع ہوتے چلے جارہے ہیں.اور سب میں ایک نئی قومیت ابھر رہی ہے، نئی قومیت وجود پا رہی ہے، نئی قومیت نشو و نما دکھا رہی ہے.یہاں تک کے ان کے رنگ ڈھنگ بالکل ایک جیسے ہو گئے ہیں.یہ چیز جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ کسی حد تک دکھائی دینے لگی ہے.اور وہ لوگ جن کو جماعت کے پس منظر کا کچھ علم نہیں، جماعت کے فلسفہ کا کچھ علم نہیں ، وہ بھی محسوس کرتے ہیں.بنا نچہ گزشتہ جلسہ سالانہ کے بعد جو امیگریشن کے افسروں کی طرف سے تبصرے موصول ہوئے، اس میں سب سے زیادہ اہمیت والا تبصرہ یہ تھا کہ عجیب سے لوگ ہیں احمدی کہ دنیا کے جس کونے سے بھی آئے ہیں، ایک ہی قسم کے لوگ ہیں اور ہم ان کو پہچان جاتے تھے.وہ ایک قسم کیا ہے؟ یہ کسی کو مجھ نہیں آئی.کیسے ایک قوم بن سکتی ہے.افریقہ سے آنے والے لوگوں کی اور پاکستان سے آنے والوں کی اور چین سے آنے والوں کی اور امریکہ سے اور جاپان سے غرضیکہ مختلف ممالک سے آنے والوں کی؟ وہ کیا چیز ہے، جس نے ایک قوم بنادیا ؟ اور ایک غیر نظر سے دیکھنے والے کو بھی محسوس ہوا کہ ان میں قدرے مشترک ہے.وہ یہ بات تو نہیں پہچان سکتا تھا.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تقویٰ ہی وہ قدرے مشترک ہے، جو جماعت احمدیہ کو ایک قوم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے.لیکن اس کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.بہت ہی ابھی خلا ہیں.اور ابھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تقویٰ کا رنگ ہماری ہر ادا پہ غالب آ گیا ہے.جب یہ رنگ کسی جماعت پہ غالب آجائے تو اس جماعت کا دنیا پر غالب آنا، ایک لازمی امر ہو جاتا ہے.اس کا ایک طبعی نتیجہ ہے.یہ واقعہ رونما کر لیں آپ کہ جماعت احمدیہ کی ہر ادا پر تقویٰ غالب آجائے تو آسمان اور زمین گواہ ہو جائیں گے اس بات پر کہ آپ لازما ساری دنیا پر غالب آئیں گے.کوئی دنیا کی طاقت آپ کو روک نہیں سکتی.اور یہ غلبہ ہے، جو حقیقی غلبہ ہے.یہ غلبہ ہے، جو معنی رکھتا ہے.یہ وہ غلبہ ہے، جو دنیا کی بھلائی اور اس کی بہبود کے لئے ضروری ہے.اس لئے تقویٰ کے متعلق میں نے سوچا کہ مزید مختلف پہلوؤں سے اس پر وقتا فوقتار وشنی ڈالتا ہوں“.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 192,193 552

Page 562

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اپریل 1987ء وو کامل وقف کے سوانبوت ہو ہی نہیں سکتی خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اپریل 1987ء.اس مضمون کے جو چند پہلو ہیں، آج بیان کرنا چاہتا تھا، وقت چونکہ تھوڑا ہو رہا ہے، اس لیے ان چند کا بیان بھی چلے گا، لیکن میں نے آپ سے گزشتہ خطبے میں یہ ذکر کیا تھا کہ میں ایک تحریک جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، جس کا اس مضمون سے تعلق ہے.حقیقت یہ ہے کہ محبت کے نتیجے میں انسان تحائف پیش کرتا ہے.اور قرآن کریم نے ہر چیز جو خدا کی راہ میں پیش کی جاتی ہے، اس کے ساتھ محبت کی شرط لگادی ہے.بلکہ نیکی کی تعریف میں محبت کے تحفے کو بطور شرط کے داخل فرما دیا.فرمایا:.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ( آل عمران : 93) کہ تم نیکی کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے.نیکی کی باتیں کرتے ہو، تمہیں پتا کیا ہے کہ نیکی کیا ہے؟ تم نیکی کی گرد کو بھی نہیں پاسکو گے، اگر یہ راز جان لو کہ خدا کے راستے میں وہ خرچ کرو، جس سے تمہیں محبت ہے.اپنی محبوب چیز ، اس کو خدا کی راہ میں پیش کرنا سیکھو.پھر ہاں تم کہہ سکتے ہو کہ ہاں ، ہم نے نیکی کا مفہوم سمجھ لیا ہے.تو وہاں بھی محبت ہی کا مضمون جاری ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے بعض دفعہ عیسائیوں کے اس ادعا پر کہ اسلام کو محبت کا کیا پتا؟ محبت کی تعلیم تو عیسائیت نے سکھائی ہے.میں حضرت مسیح کی تعلیم کا کچھ نا کچھ اقتباسات بھی ساتھ لے کر آیا تھا مگر اب ان کو پڑھ کر سنانے کا وقت نہیں ہے.اسے آپ پڑھ کہ دیکھیں آپ کو نمایاں فرق محسوس ہوگا کہ اسلام کی محبت کی تعلیم اتنی وسیع ، اتنی کامل ہے کہ اگر چہ مسیح کی محبت کی تعلیم تو بہت ہی حسین ہے، بہت ہی دلکش ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن جب مقابلے پر رکھتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ اس چہرے پر نور نہیں رہا ، پھیکی پڑنے لگ جاتی ہے، اسلام کی تعلیم کے مقابلے پر.لیکن ہرگز اپنی ذات میں وہ حسن سے خالی نہیں.بہت ہی پیاری، بہت دلکش تعلیم اس سے کوئی انکار نہیں.مگر اسلام نے جس طرح اس محبت کی تعلیم کو انسانی زندگی ہے.553

Page 563

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 03 اپریل 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم کے ہر جزو میں داخل کر دیا ہے، اس تفصیل کے ساتھ آپ کو کسی اور مذہب میں محبت کے فلسفے کا بیان نہیں ملے گا.فرمایا:.لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ تم نیکی کو جانتے ہی نہیں.تمہیں پتا ہی کیا ہے، نیکی کیا ہوتی ہے؟ اگر یہ بات سیکھو تو خدا کی راہ میں سب سے اچھی چیز سب سے پیاری چیز قربان کرنا نہ شروع کر دو یا خدا کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز دینے کی تمنا اگر تمہارے دل میں پیدا نہیں ہوتی تو تم نیکی کونہیں جانتے.اس کسوٹی پر جب ہم انبیاء کو پر کھتے ہیں اور خصوصاً حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ چیز درجہ کمال کو پہنچی ہوئی دکھائی دیتی ہے.بہت سے انسان ایسے ہیں، جو محبت کرتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ہمیں اچھی چیز پیش کرنی چاہئے.اور پھر سوچتے ہیں اور متر دورہتے ہیں، یہ پیش کروں یا وہ پیش کروں، یہ پیش کروں کہ وہ پیش کروں؟ چنانچہ صوفیاء کے بھی بہت سے دلچسپ واقعات اس میں ملتے ہیں اور عام دنیا میں محبت کرنے والوں کے بھی بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ ایک خیال آیا، یہ مجھے چیز سب سے زیادہ پیاری ہے.پھر خیال آیا کہ نہیں یہ زیادہ پیاری ہے.پھر خیال آیا کہ زیادہ پیاری ہے اور پھر آخر وہی پیش کی.چنانچہ ہمایوں کے متعلق بھی بابر نے جب یہ سوچا کہ ہمایوں کی زندگی بچانے کے لئے میں خدا کے سامنے اپنی کوئی پیاری چیز پیش کروں.تو کہتے ہیں کہ بابر اس کے گرد گھومتا رہا اور اس نے سوچا کہ میں یہ ہیرا ، جو بہت پیارا ہے، یہ دے دوں.اسے خیال آیا، یہ ہیرا کیا چیز ہے؟ میں یہ دے دوں.پھر خیال آیا کہ پوری سلطنت مجھے بہت پیاری ہے.یہ پوری سلطنت دے دیتا ہوں.اور پھر سوچتارہا.پھر آخر اس کو خیال آیا، اس کے نفس نے اس کو بتایا کہ تمہیں تو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ہے.اس وقت اس نے عہد کیا اور خدا سے دعا کی کہ اے خدا!! واقعی اب میں سمجھ گیا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ پیاری چیز میری جان ہے.میری جان لے لے اور میرے بیٹے کی جان بچالے تاریخ میں لکھا ہے کہ واقعہ اس وقت کے بعد سے ہمایوں کی صحت سدھرنے لگی اور بابر کی صحت بگڑنے لگی.تو لوگ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیا چیز پیاری ہے اور کیا کم پیاری ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں سوچا بلکہ اپنا سب کچھ پیش کر دیا.اپنا سونا، جاگنا، اٹھنا ، بیٹھنا.چونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی ہر چیز پیاری ہوتی ہے، اپنی ہر چیز پیاری ہوتی ہے.اور جب وہ 554

Page 564

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اپریل 1987 ء زیادہ پیاری چیز دیتا ہے تو اس کے دل میں اطمینان رہ جاتا ہے کہ کچھ کم میں نے اپنے لئے بھی روک لی ہے.اس سے کم جب پیاری دے دیتا ہے تو پھر اس کو کچھ نہ کچھ اپنے ہاتھ میں بھی دکھائی دیتا ہے.اور وہ پھر اس کے بعد اس سے سب سے زیادہ پیار ہو جاتا ہے.جو چیز پیچھے بہتی چلی جاتی ہے، وہ زیادہ پیاری ہوتی چلی جارہی ہوتی ہے.کسی ماں کا سب سے لاڈلا بچہ مرجائے تو دوسرے بچے سے پہلے سے بڑھ کر.پیار ہو جاتا ہے.اور یہ مضمون انسانی فطرت کے ہر پہلو پر حاوی ہے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سودا نہیں کیا کہ اے خدا! میں نے اپنی سب سے پیاری چیز جب پیش کر دی یعنی اپنی جان دے دی، اس لئے اب باقی چیزیں میری رہ گئیں لیکن فرمایا:.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (الانعام: 163) اے محمد ! تو محبت کرنا سکھا، ان غلاموں کو.یہ تیرے غلام بن چکے ہیں مگر نہیں جانتے کس طرح مجھ سے محبت کی جائے.تو محبت کے راز بتا، ان کو.ان سے پتا چلتا ہے کہ خدا کا حکم نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در پردہ عشق کے راز نہ بتاتے کسی کو.یہ بھی ایک عجیب حسین پہلو ہے، جو میری نظر میں ابھرا اور بے ساختہ دل اور فریفتہ ہو گیا.بعض جگہ حکماً خدا تعالیٰ نے اپنے راز و نیاز کی باتیں بنی نوع انسان کو بتانے پر پابند فرما دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو.ورنہ نہ بتاتے تو لوگوں کو پتا چلتا اتنا حسین ہے.اس شان کا نبی ، جو اس قدر منکسر المزاج ہو، اس کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حسن پر پردے ڈالتا چلا جاتا ہے اور اپنی کمزوریاں چھپاتا نہیں.اور یہی بنیادی فرق ہے، مادہ پرست اور خدا پر ست میں.مادہ پرست اپنی کمزوریوں پر پردے ڈالتا چلا جاتا ہے اور اپنے معمولی سے حسن کو بھی اچھالتا اور دکھاتا اور اس کی نشو ونما کرتا ہے.اور پلیٹی اس کی زندگی کے ہر شعبے کا ایک جزو لا ینفک بن جاتی ہے.تو خدا تعالی نے حکماً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پابند فرمایا کہ تیری بعض خوبیاں، جو میری نظر میں ہیں، تیرے غلاموں کا بھی حق ہے کہ ان کو پتا چلے.اس لئے کہ تا وہ تمہاری پیروی کر کے مجھ تک پہنچنا سیکھ جائیں.ان میں سے ایک یہ تھا کہ اپنا سب کچھ دے دو.چنانچہ انبیاء کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنا سب کچھ دینے کی خاطر یہ سوچتے سوچتے کہ ہم اور کیا دیں اور کیا دیں؟ اپنی اولادیں بھی پیش کرتے ہیں.اور بعض دفعہ ابھی اولاد پیدا بھی نہیں ہوتی تو پیش کر رہے ہوتے ہیں.ابرار کی یہ سنت ہے، انبیاء کے علاوہ جیسے حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے یہ التجاء کی خدا سے:.555

Page 565

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 اپریل 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اباد رَبِّ إِنِّى نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلُ مِنِّى إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (آل عمران: 36) کہ میرے رب! جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے، میں تیرے لئے پیش کر رہی ہوں نہیں پتا کیا چیز ہے؟ لڑکی ہے یا لڑکا ہے؟ اچھا ہے یا برا ہے؟ مگر جو کچھ ہے، وہ سب کچھ تمہیں دے رہی ہوں تو فتقبل منی ، مجھ سے قبول فرما.انک انت السمیع العلیم تو بہت ہی سنے والا اور جاننے والا ہے.وہ سنتا ہے اور علم رکھتا ہے، اس کا اس مضمون کا الگ تعلق ہے.اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت مگر بہر حال یہ دعا، حضرت مریم کی والدہ ، جو آل عمران سے تھیں کی ، خدا تعالیٰ کو ایسی پسند آئی، جسے قرآن کریم میں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا.اور پھر حضرت ابراہیم کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اور دوسرے انبیاء کی دعائیں اپنی اولاد سے متعلق یہ ساری قرآن کریم نے محفوظ فرما دیں.بعض جگہ آپ کو ظاہر طور پر وقف کا مضمون نظر نہیں آئے گا.جیسا کہ یہاں آیا ہے، محررًا.اے خدا! میں تیری راہ میں اس بچے کو وقف کرتی ہوں.لیکن بسا اوقات آپ کو یہ دعا نظر آئے گی کہ اے خدا جو نعمت تو نے مجھے دی ہے، وہ میری اولاد کو بھی دے.اور ان میں بھی انعام جاری فرما.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اس رنگ میں دعا کی.لیکن حقیقت میں اگر آپ غور کریں تو جو انعام مانگا جارہا ہے، وہ وقف کامل ہے.کامل وقف کے سوا نبوت ہو ہی نہیں سکتی.اور سب سے زیادہ بنی نوع انسان سے آزاد یعنی محر ر اور خدا کی غلامی میں جکڑا جانے والا نبی ہوتا ہے.تو امر واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص یہ دعا کرتا ہے کہ میری اولاد میں نبوت کو جاری فرما تو اس دعا کا حقیقی معنی یہ ہے میری اولاد کو ہمیشہ میری طرح غلام در غلام در غلام بنا تا چلا جا.اپنی محبت میں ، اپنی اطاعت میں جکڑتا چلا جا.اتنا کامل طور پر جکڑ لے کہ دنیا میں کوئی آزادی کا پہلو نہ رہے.تو محررا کے مقابل پر دنیا سے آزاد کر کے میں تیرے سپرد کرتی ہوں.یہ مضمون اور بھی زیادہ بالا ہے وقف کا کہ میری اولاد کو تو اپنی غلامی میں جکڑ لے اور کوئی پہلو بھی آزاد نہ رہنے دے.بہر حال یہ بھی ایک پہلو ہے کہ جو کچھ تھا، وہ تو دیا خدا کی راہ میں لیکن جو بھی ہاتھ میں نہیں آیا ، وہ بھی پیش کرنے کی تمنار کھتے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی چلہ کشی کی تھی.اس مضمون میں چالیس دن یہ گریہ زاری کرتے رہے، دن رات کہ اے خدا! مجھے اولاد دے اور وہ دے جو تیری غلام ہو جائے ، میری طرف سے تحفہ ہو ، تیرے حضور.556

Page 566

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 اپریل 1987ء پس میں نے یہ سوچا کہ ساری جماعت کو میں اس بات پر آمادہ کروں کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے جہاں روحانی اولاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، دعوت الی اللہ کے ذریعے ، وہاں اپنے آئندہ ہونے والے بچوں کو خدا کی راہ میں ابھی سے وقف کر دیں.اور یہ دعا مانگیں کہ اے خدا! ہمیں ایک بیٹا دے لیکن اگر تیرے نزدیک بیٹی ہی ہمارے لئے مقدر ہے تو ہماری بیٹی ہی تیرے حضور پیش ہے.مافی بطنی جو کچھ بھی میرے بطن میں ہے.یہ مائیں دعائیں کریں اور والدین بھی ابراہیمی دعائیں کریں کہ اے خدا! انہیں اپنے لئے چن لے اور اپنے لئے خاص کر لے.تیرے ہو کر رہ جائیں.اور آئندہ صدی میں ایک عظیم الشان بچوں کی فوج ساری دنیا سے اس طرح داخل ہو رہی ہو کہ وہ دنیا سے آزاد ہورہی ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے غلام بن کے اس صدی میں داخل ہو رہی ہو.چھوٹے چھوٹے بچے ہم خدا کے حضور تحفے پیش کر رہے ہیں.اور اس کی شدید ضرورت ہے، آئندہ سو سالوں میں.جس کثرت سے اسلام نے ہر جگہ پھیلنا ہے، وہاں لاکھوں تربیت یافتہ غلام چاہئیں، جو حجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا کے غلام ہوں.واقفین زندگی چاہئیں، کثرت کے ساتھ.اور ہر طبقہ زندگی کے ساتھ واقفین زندگی چاہئیں، ہر ملک سے واقفین زندگی چاہئیں.اس سے پہلے جو ہم تحریک کرتے رہے ہیں، بہت کوشش کرتے رہے لیکن بعض خاص طبقوں نے عملاً اپنے آپ کو وقف زندگی سے مستنی سمجھا.اور عملاً جو واقفین سلسلہ کو ملتے رہے، وہ زندگی کے ہر طبقے سے نہیں آئے.بعض بہت صاحب حیثیت لوگوں نے بھی اپنے بچے پیش کئے لیکن بالعموم دنیا کی نظر میں جس طبقے کو بہت زیادہ عزت سے نہیں دیکھا جاتا ، درمیانہ درجہ کا غریبانہ جو طبقہ ہے، اس میں سے وہ بچے پیش ہوتے رہے.اس طبقے کے ان واقفین زندگی کا آنا، ان واقفین زندگی کی عزت بڑھانے کا موجب ہے، عزت گرانے کا موجب نہیں.لیکن دوسرے طبقے سے نہ آنا، ان طبقوں کی عزت گرانے کا ضرور موجب ہے.پس میں اس پہلو سے مضمون بیان کر رہا ہوں.ہر گز کوئی یہ غلط فہمی نہ سمجھے، نعوذ بالله من ذالک جماعت محروم رہ جائے گی اور جماعت کی عزت میں کمی آئے گی.اگر ظاہری عزت والے لوگ اپنے بچے وقف نہ کریں، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان خاندانوں کی عزتیں باقی نہیں رہیں گی ، جو بظاہر دنیا میں معزز اور خدا کے نزدیک وہ خود اپنے آپ کو آئندہ ذلیل کرتے چلے جائیں گے ، اگر خدا کے حضور انہوں نے اپنے بچے پیش کرنے کا گر نہ سیکھا.اور یہ سنت انبیاء ہے.انبیاء کے بچوں سے زیادہ معزز بچے اور کوئی بچے دنیا میں نہیں ہو سکتے.انہوں نے اس عاجزی سے وقف کئے ہیں، اس طرح منتیں کر کے وقف کئے 557

Page 567

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 اپریل 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ہیں، اس طرح گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے ، روتے ہوئے وقف کئے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے، ان کو دیکھ کر.پس اگلی صدی کو شدید ضرورت ہے کہ جماعت کے ہر طبقے سے لکھوکھا کی تعداد میں واقفین زندگی ایک صدی کے بعد ہم دراصل خدا کے حضور تحفہ پیش کر رہے ہوں گے.لیکن استعمال تو اس صدی کے لوگوں نے کرنا ہے، بہر حال یہ تحفہ ہم اس صدی کو دینے والے ہیں.اس لئے جن کو بھی توفیق ہے، وہ اس تحفے کے لئے بھی تیار ہو جائیں.ہو سکتا ہے اس نیت کی، اس نذر کی برکت سے بعض ایسے خاندان ، جن میں اولاد نہیں پیدا ہورہی اور ایسے میاں بیوی جو کسی وجہ سے اولاد سے محروم ہیں، اللہ تعالیٰ اس قربانی کی روح کو قبول فرماتے ہوئے ، ان کو بھی اولاد دے دے.خدا تعالیٰ اس سے پہلے یہ کر چکا ہے.جو انبیاء اولاد کی دعائیں مانگتے ہیں، وقف کی خاطر مانگتے ہیں.تو بعض دفعہ بڑھاپے میں بھی تو اولاد ہو جاتی ہے.ایسی صورت میں بھی ہو جاتی ہے کہ بیوی بھی بانجھے اور خاوند بھی.حضرت زکریا علیہ السلام کو دیکھیں کس شان سے دعا کی تھی.یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں میرا سر بھڑک اٹھا ہے، بڑھاپے کے شعلوں سے اور ہڈیاں تک گل گئیں اور میری عاقر یعنی اس میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہی کوئی نہیں ہے.لیکن میری یہی تمنا ہے کہ تیری راہ میں ایک بچہ پیش کروں، اس لئے میری تمنا کو قبول فرما.وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مریم: 05) اے میرے رب! میں تیرے حضور یہ دعا کرتے کرتے کبھی بھی مایوس نہیں ہوا.میں کبھی بھی تیرے حضور مایوس نہیں ہوا.شقیا کا لفظ حیرت انگیز فصاحت و بلاغت رکھتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا! میں ایسا بد بخت تو نہیں کہ تیرے حضور دعا کر رہا ہوں اور مایوس ہو جاؤں اور تھک جاؤں.اس عظمت کی ، اس درد کی دعا تھی کہ اسی وقت دعا کی حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے بیٹی کی خوشخبری دی.خود اس کا نام رکھا اور اس میں بھی عظیم الشان خدا کے پیار کا اظہار ہے.عجیب کتاب ہے قرآن کریم.ایسی ایسی پیار کی ادائیں سکھاتی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.آپ کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے، آپ سوچتے ہیں، کس سے نام رکھواؤں.اور اسی جذبہ، جو لہی محبت سے جماعت احمدیہ کو ہر خلیفہ وقت سے ہوتی ہے، بعض لوگ بلکہ بڑی کثرت سے لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ نام 558

Page 568

تحریک جدید- ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 103 اپریل 1987ء رکھیں.تو اللہ تعالیٰ نے پیشتر اس کے کہ حضرت ذکریا کہتے کہ اے خدا ! میں اس کا کیا نام رکھوں؟ یا سوچتے کہ میں کیا نام رکھوں؟ خوشخبری کے ساتھ ہی فرمایا:.سے پیار تھا.اسْمُهُ يَحْيى (مریم :08) ہم رکھ رہے ہیں نام، یہ پیار حضرت زکریا علیہ السلام سے تھا اور حضرت ذکریا علیہ السلام کی دعا پس اس رنگ میں آپ اگلی صدی میں جو خدا کے حضور تھنے بھیجنے والے ہیں یا بھیج رہے ہیں، مسلسل احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے شمار چندے دے رہے ہیں مالی قربانیاں کر رہے ہیں، وقت کی قربانیاں کر رہے ہیں، واقفین زندگی ہیں، تو ایک تحفہ جو مستقبل کا تحفہ ہے، وہ باقی رہ گیا تھا.مجھے خدا نے یہ توجہ دلائی کہ میں آپ کو بتادوں کہ آئندہ دو سال کے اندر یہ عہد کر لیں کہ جس کو بھی جو او لا د نصیب ہو گی ، وہ خدا کے حضور پیش کر دے گا.اور اگر آج کچھ مائیں حاملہ ہیں تو وہ بھی اس تحریک میں اگر پہلے شامل نہیں ہو سکی تھیں تو اب ہو جائیں.وہ بھی یہ عہد کر لیں لیکن ماں باپ کو مل کر کرنا ہوگا.دونوں کو اکٹھے فیصلہ کرنا چاہئے.تا کہ اس سلسلے میں پھر پچھیتی بھی پیدا ہو، اولاد کی تربیت میں.اور بچپن سے ان کی اعلیٰ تربیت کرنا شروع کر دیں.اور اعلیٰ تربیت کے ساتھ ان کو بچپن سے ہی اس بات پر آمادہ کرنا شروع کریں کہ تم ایک عظیم مقصد کے لئے عظیم الشان وقت میں پیدا ہوئے ہو.جبکہ غلبہ اسلام کی ایک صدی غلبہ اسلام کی دوسری صدی سے مل رہی تھی.اس جوڑ پر تمہاری پیدائش ہوئی ہے اور اس نیت اور دعا کے ساتھ ہم نے تجھ کو مانگا تھا خدا سے کہ اے خدا! تو آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے اس کے عظیم الشان مجاہد بن جاؤ.اگر اس طرح دعائیں کرتے ہوئے لوگ اپنے آئندہ بچوں کو وقف کریں گئے تو مجھے یقین ہے کہ بہت ہی حسین اور بہت پیاری ایک نسل تمہاری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے اپنے آپ کو خدا کی راہ میں قربان کرنے لئے تیار ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 243 250) 559

Page 569

Page 570

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 1987ء خدا کی تقدیر جماعت کو عظیم عالمی انقلاب کی طرف لے کے جارہی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 1987ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.دو گزشتہ پیر کے روز ، جسے دوشنبہ بھی کہا جاتا ہے اور سوموار بھی کہتے ہیں، صبح ہی سے اللہ تعالیٰ نے مختلف خوشیوں کی خبریں دکھانی شروع کیں.خبر کے ساتھ ویسے تو سنانے کا لفظ آتا ہے مگر خوشی کی خبر دکھانا بھی ایک محاورہ ہے.یعنی اسے جسے عملاً پورا ہوتے ہوئے ، کرتے ہوئے.یہ کچھ چھوٹی بھی تھیں اور بڑی بھی مگر سب تاریخی نوعیت کی تھیں.مثلاً یوگوسلاویہ میں اگر چہ ایک لمبے عرصہ سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کامیاب تبلیغ ہوتی رہی ہے.باہر آ کر بھی ان میں سے احمدی مسلمان بنتے رہے اور اندر بھی.لیکن وہ سارے البانین قوم سے تعلق رکھنے والے تھے.اور سر بو کر ویشن جو وہاں کی بڑی قوم ہے، جن میں عیسائیت پائی جاتی ہے.بڑی شدت کے ساتھ یا دہریت آگئی ہے، سیاست سے.ان میں آج تک کوئی احمدی مسلمان نہیں ہوا تھا.تو اس کا سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا کہ پیر کے روز صبح یہ خوشخبری ملی کہ وہاں کے ایک کیتھولک عیسائی، جو پادری بھی تھے یا کم سے کم پادریوں کے ساتھ یہاں آتے رہے تھے، اس سے پہلے ، وہ خدا کے فضل سے بیعت کر کے اس دن سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے.اور چونکہ وہ پہلے ہیں اپنی قوم میں سے اور ایک بہت بڑی اور اہم قوم ہے، اس لئے یہ تاریخی نوعیت کی خوشخبری ہے.دوسری اس قسم کی خوشخبری آئس لینڈ سے ملی یا آئس لینڈ کی طرف سے ہے.مگر وہ خوشخبری ملی سکاٹ لینڈ گلاسکو سے.گلاسکو میں ایک آئس لینڈ کے طالب علم پی ایچ ڈی کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے.انہوں نے یہاں آنے کے بعد تعلیم کے دوران احمدیت کے نقطہ نگاہ سے اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور ان کے دل پر رفتہ رفتہ اس کا اتنا اثر پڑا تو انہوں نے خط لکھا، جو پیر ہی کے دن میں ملا یہاں کہ میں نے پوری تحقیق کے بعد احمدی مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اور فوری طور پر مجھ سے رابطہ کیا جائے.چنانچہ میں نے مبلغ کو اطلاع کی وہاں گلاسکو میں اور ان کی طرف سے خوشخبری ملی کہ با قاعدہ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.آئس لینڈ کو ہم نے غالباً ڈنمارک کے سپرد کیا ہوا تھا کہ کوشش کریں کہ آئس لینڈ 561

Page 571

خطبہ جمعہ فرموده 10 اپریل 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم میں پہلا اسلام کا پھل ملے.لیکن باوجود کوششوں کے ڈنمارک سے کوئی بیعت نہیں ہو سکی.اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے پھل بھیجتا ہے اور بعض دفعہ بالکل ہی انسانی کوششوں کا کوئی دخل نظر نہیں آتا.تیسرے پیر ہی کے روز ہمارے بہت ہی اہم پریس کا افتتاح ہوا ہے.جو جدید ترین پریس، جس کا بڑی دیر سے میں جماعت سے وعدہ کر رہا تھا اور جماعت نے بہت ہی عظیم الشان تاریخی قربانیاں بھی کی تھیں.اس کے کمپیوٹر سیکشن کا پیر ہی کے روز افتتاح ہوا.اور یہ دو انفرادی یا چھوٹی بظاہر خبریں ہیں.گوپریس کی خبر چھوٹی نہیں کیونکہ اس کا بہت ہی وسیع اثر پڑے گا، انشاء اللہ تعالی.لیکن اس سے آگے اور زیادہ دلچسپ اور زیادہ وسیع خوشی کی خبر یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تقریباً ڈیڑھ مہینہ پہلے لائبیریا سے ایک ایسے چیف کی بیعت کی اطلاع ملی، جو بڑے مخالف ٹیم سے تعلق رکھتے تھے.اور وہ چیف نہیں بلکہ چیفوں کے چیف ہیں.اور His Royal Highness کہلاتے ہیں اور ان کے ماتحت چالیس چیفس ہیں.اتنے وسیع علاقے سے شاہی خاندان کے فرد ہیں.ان کا سادہ ساخط مجھے ملا اچانک اور جب میں نے ان کے ٹائٹل ( القابات) پڑھے تو میں حیران ہوا کہ یہ تو ماشاء اللہ بڑے اثر و رسوخ والے آدمی ہیں.میں نے اسی وقت مبلغ کو فون پر اطلاع کروائی اور ایک جانے والے کے ہاتھ الیس الله بکاف عبدہ کی انگوٹھی ان کو تحفہ میں بھجوائی.اور پیغام دیا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے مگرا کیلے آپ کے آنے سے اتنی خوشی نہیں ہوگی، جتنی اس بات سے خوشی ہوگی کہ آپ اپنے اثر و رسوخ کو آگے اسلام کی خدمت میں استعمال کریں اور لوگوں کے لئے راہنمائی کا موجب بنیں.وہ اس پر اتنا خوش ہوئے کہ انہوں نے اسی وقت عہد کیا کہ میں انشاء اللہ یہ کام کروں گا مگر اپنے طریق پر.میں نے کہا: ٹھیک ہے، آپ کریں.انہوں نے طریق یہ سوچا کہ بجائے اس کے کہ ایک ایک آدمی کو میں احمدی بناؤں، مسلمان.اپنے برابر کے جو چیف ہیں، ان کو کیوں نہ تبلیغ کروں.تاکہ بڑے بڑے علاقوں پر اثر پھیلے.چنانچہ انہوں نے اپنے تین ہم مرتبہ چیف کو تبلیغ شروع کی اور پیر کے دن یعنی " دوشنبہ ہے، مبارک دوشنبہ جسے کہا جاتا ہے، اس دن دو ایسے چیفس کی بیعت کی اطلاع ملی.جن کے تابع چالیس چالیس چیف تھے اور بہت وسیع علاقے پر یہ بات پھیل گئی.اور انہوں نے بہت ہی خوشی کا اظہار کیا، اپنی سعادت کا اظہار کیا.مبلغ کو لے کے گئے.اپنا پیلس دکھایا، ان میں سے ایک چیف نے اور کہا کہ یہ تو اللہ کا عجیب احسان ہے کہ خدا نے روشنی دکھا دی اور نہ ہم لوگ تو اندھیروں میں ہی رہنے والے تھے.تو بات وسیع تر ہوتی چلی گئی.اس پر مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود کو جو الہام ہوا تھا، دوشنبہ ہے، مبارک دوشنبہ وو ( تذكرة: 110) 562

Page 572

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 1987ء جو ہم پر تو آج ایک دفعہ پھر پورا ہو گیا.اور صرف یہی نہیں بلکہ مجھے اس سے ایک اور خیال آیا کہ ہم جو Friday The 10th" خدا تعالیٰ کی طرف سے جو خبر ملی تھی، اسے خواہ مخواہ محض انداری خبر بنائے ہوئے ہیں حالانکہ خدا کی طرف سے تو کوئی شرط نہیں تھی کہ یہ انذاری خبر ہے اور جو چمک دکھائی گئی ہے بار کا کچھ بار کی ، وہ اس کو دونوں طرح سے سمجھا جا سکتا ہے.انذار کی بھی چمک ہوتی ہے اور خوشخبریوں کی بھی چمک ہوتی ہے.تو میرے دل میں یہ بات خدا تعالیٰ نے گاڑ دی کہ جمعہ جو Friday The 10th “ آنے والا ہے، اس میں ہی آئندہ کسی Friday The 10th" میں جماعت کے لئے ویسی ہی خوشخبری بہت بڑی دکھائی جائے گی.خیر اس انتظار میں اسی دن سے مجھے کچھ امید بندھی.اور چونکہ جمعہ کا دن اسلامی نقطہ نگاہ سے جمعرات کا سورج غروب ہونے پر شروع ہو جاتا ہے اور انگریزی کیلنڈر کے لحاظ سے جمعہ کا دن رات بارہ بجے تک چلتا ہے.تو جسے امید ہو، تمنا ہو، وہ کھینچتا ہے، وقت کو دونوں طرف سے.اس لئے میں نے اس تمنا میں، اس امید میں کہ خدا خوش خبری دکھائے اور وقت لمبا ہو جائے، اس میں زیادہ خوشخبریاں مل سکیں ، اپنے طور پر اندازہ لگایا کہ جمعرات کا سورج غروب ہوتے ہی یہ انتظار شروع کروں گا اور پھر دیکھیں کب خدا تعالیٰ کوئی خبر دکھاتا ہے.اس کے دوران منگل کے روز ہارٹلے پول مجھے جانے کا اتفاق ہوا.ہارٹلے پول میں ہماری وہ جماعت ہے، جو ایک احمدی خاتون کی کوششوں سے بنی، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.اور وہ چونکہ صرف خواتین میں تبلیغ کر سکتی تھیں، اس لئے شروع میں صرف خواتین میں یہ جماعت بنی شروع ہوئی.خواتین اور بچوں کی.پھر انہوں نے اپنے خاوند کو بھی تبلیغ کی ، ان کو مبلغ بنایا اور کچھ میں نے ان کو کچوکے دیئے کہ شرم کرو، تمہاری بیوی بہت آگے بڑھ گئی ہے اور تم بیٹھے ہوئے ہو.وہ طبعا خاموش ہیں بہت اور ویسی ہی بات کرنی مشکل ہے.لیکن وہ پٹھان ہیں آخر غیرت اتنی آئی کہ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، میں بنا کے دیکھوں گا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر ان کے خاوند نے بھی تبلیغ شروع کی.وہ بھی ہم میں شامل ہونا شروع ہو گئے.وہ ایک خاندان تھا وہاں اس وقت جب میں یہاں آیا ہوں ، 1984ء میں اور اب وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے دس خاندان ہیں، جن میں سے ایک یادو پاکستانی باہر سے آئے ہیں، باقی سب مقامی انگریز خاندان ہیں.اس سے پہلے ایک انگریز خاتون کا خط آیا تھا کہ میں تو احمدی ہوگئی ہوں لیکن میرے خاوند نہیں مانتے.اور ان کے متعلق ایک اور ذریعے سے اطلاع ملی کہ ان کی طرف سے کافی پریشانی ہے.کیونکہ ان 563

Page 573

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کے خاوند نے ، جو بیمار ہیں، بیچاری خاتون ، بارہ سال سے مسلسل ان کی خدمت کی ہے، وفا کے ساتھ اور قطعاً اس سے دل نہیں چرایا.لیکن ان کے مسلمان ہونے کا ان کو اتنا صدمہ پہنچا کہ انہوں نے طلاق کی دھمکی دے دی کہ اب میں یہ برداشت نہیں کر سکتا.تمہیں تکلیف جو کچھ ہے، میں ہر طرح حوصلے سے برداشت کروں گا.لیکن تم مسلمان ہو جاؤ، یہ نہیں ہو سکتا.ان کو میں نے لکھا کہ ان کو لے کر تو آؤ.ان سے گفت و شنید ہو.چنانچہ وہ ہمارا احمدی جوڑا ان کو لے کر آیا ساتھ اور گفتگو کے بعد مجھے کافی ان کے دل میں تبدیلی نظر آئی، کافی نرمی پیدا ہوئی، خدا کے فضل سے.اب جبکہ میں وہاں منگل کو گیا ، سوال جواب کی مجلس تھی تو انہوں نے مجھے خوشخبری بتائی کہ گزشتہ پیر کو میں بھی مسلمان ہو گیا ہوں، خدا کے فضل سے اور با قاعدہ فارم بیعت پر دستخط کرنے والے دستخط کروالیں.اور وہاں سوال و جواب کی مجلس میں ایک اور خاتون اپنے بچوں سمیت وہ بھی خدا کے فضل سے احمدی ہوگئی.ان کی طلاق ہوئی تھی، ان کا خاوند نہیں تھا لیکن اور شخص سے ان کی دوسری شادی کی امید بندھی تھی.وہ اس کو بھی لے آئیں کہ وہ مجھ سے بات کرے.چنانچہ مجلس میں سوال رکھ دیئے اور اب جمعہ کے دن ان کی بیعت کی اطلاع مل گئی ، خدا کے فضل سے.تو مسلسل خوشخبریوں پہ خوشخبریاں اکٹھی ہوئیں لیکن ایک سب سے بڑی خوشخبری ابھی آپ کو بنانے والی باقی ہے، جس کا تعلق Friday The 10th “ سے ہے.ایک بہت بڑے مسلمان را ہنما کہ جن کا اتنا وسیع اثر ہے کہ کروڑوں مسلمان ان کی عزت و احترام کرتے ہیں، انہوں نے کئی کتب لکھیں، بہت بڑے عالم دین، کئی زبانوں کے ماہر اور بہت بارسوخ انسان.ان سے کچھ عرصہ پہلے جمعرات کی شام کو ملاقات مقرر ہوئی تھی.لیکن یہ بھی عجیب تصرف ہے اللہ تعالیٰ کا کہ کسی وجہ سے تاخیر ہوتے ہوتے جب تک جمعہ شروع نہیں ہو گیا، وہ ملاقات بھی شروع نہیں ہوئی.میں اس سلسلے میں فکر مند تھا، اس نقطہ نگاہ سے کہ یک طرفہ باتیں انہوں نے احمدیت کے متعلق سنی ہوں گی اور چونکہ ان سے ملاقات اس نقطہ نگاہ سے بڑی اہم ہے کہ بہت بڑی تعداد جو کروڑوں کی تعداد ہے، مسلمانوں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے میں ہمیں سہولت ہو جائے گی، اگر ان پر نیک اثر پڑے.تو فکر مند بھی تھا، دعا بھی کی تھی اور اس مجلس میں اپنے دو احمدی دوستوں کو بھی شامل کیا تا کہ ان کی بات کا بھی اچھا اثر پڑے.جب وہ ہماری ملاقات شروع ہوئی تو عین سورج غروب ہوا ، جب تو اس وقت اتفاق ایسا ہوا.اتفاق نہیں بلکہ تصرف کہنا چاہئے کہ میں سات بجے سے انتظار کر رہا تھا مگر آٹھ بجے سے پہلے ملاقات نہ ہو سکی.جو سورج غروب ہوا اور جمعہ کا دن شروع 564

Page 574

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 1987ء ہوا.ملاقات کے دوران یہ نظر آیا کہ انہوں نے جماعت کے متعلق دوسروں سے باتیں سنی ہوئی تھیں.جماعت کے متعلق کوئی علم نہیں اور ان کا رویہ بھی درمیانہ ساتھا کیونکہ شریف انسان تعلیم یافتہ اس لئے وہ بغض کا اظہار تو بہر حال نہیں کر رہے تھے لیکن ایک خشک کا سا تعلق ، جس طرح ہوتا ہے، کوئی قلبی تعلق نہ ہو، کوئی دلچسپی نہ ہو.لیکن رفتہ رفتہ پھر باتیں شروع ہوئیں، تفصیل سے سارے مسائل ان کے سامنے میں نے بیان کئے.جماعت کیا ہے؟ کیا کر رہی ہے؟ اور امام مہدی کا ذکر کیا.دعویٰ کیا ہے؟ دوسرے مسلمان کیوں مخالف ہیں؟ اور انہوں نے اشارہ براہ راست کہہ کے تو نہیں اشارہ اس طرح کیا کہ دلیل بھی ہوئی چاہئے.تو میں نے پھر ان کو ایک دو دلائل دیئے ان کو اور اس دوران ان کی شکل تبدیل ہونی شروع ہوئی یعنی محبت کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے واضح اور دیکھتے دیکھتے یوں لگا کہ جس طرح دل پگھل جاتا ہے.ایک آدمی کا اور وہ بڑے کم گو ہیں.دو باتیں انہوں نے کہیں.ایک یہ کہی کہ میں اپنی یہ خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں آنے کا موقع دیا.کیونکہ کانوں سے سنی ہوئی باتیں بسا اوقات جھوٹی نکلتی ہیں.جب تک آنکھیں نہ دیکھ لیں، اس وقت تک انسان کو صحیح پتا نہیں لگ سکتا.اور آج مجھے خدا نے یہ موقع دے دیا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں اور خود پتا کرلوں کہ آپ کیا لوگ ہیں؟ دوسرا ایک بڑا معنی خیز فقرہ انہوں نے کہا.جس سے مجھے بہت ہی امید پیدا ہوئی ہے.انہوں نے کہا کہ ایک لمبے عرصے سے میں اسلام کا تاریخی مطالعہ کر رہا تھا.آنحضرت کے زمانے سے لے کر اب تک کا اور میں نے ہر طرف نظر دوڑائی اور خوب چھان پھٹک کی ، سب تلاش کی.لیکن جس چیز کی مجھے تلاش تھی، مجھے ملی نہیں.آج مجھے وہ مل گئی ہے.اس سے بیعت تو انہوں نے نہیں کی.لیکن اتنا حیرت انگیز فقرہ تھا ایک کم گو، اتنے بڑے عالم اور اتنے بڑے لیڈر کے منہ سے نکلا ہوا، اتنا معنی خیز ہے کہ اس وقت مجھے یہ معلوم ہو کہ یہی وہ خوشخبری تھی، جو پیر کے دن خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ Friday The 10th صرف جلال نہیں لے کے آئے گا بلکہ جمال لے کے بھی آئے گا اور احمدیت کی ترقی کے لئے انشاء اللہ نئے نئے دروازے کھولے گا.اور جماعت کو میں ان خوشخبریوں میں اس لئے ساتھ شامل کر رہا ہوں کہ تکلیف دہ خبریں آپ سنتے رہے ہیں، اس سے دل دعاؤں کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن طمع کے ساتھ بھی تو دل دعاؤں کی طرف مائل ہوتا ہے.حمد اور شکر سے دل بھرتا ہے.اور اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شعر کی مصداق ہیں: ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا ( در شین : 10) 565

Page 575

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتم تو کبھی ایسی باتیں بھی آپ کو بتانی چاہئیں کہ غم اغیار کا جھگڑا کچھ دیر کے لئے کٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل لبریز ہو جائیں اور حمد و ثناء کے ساتھ دعائیں انھیں.اس لئے دعائیں کریں.اب معلوم یہ ہوتا ہے کہ خدا کی تقدیر بڑی تیزی سے جماعت احمدیہ کو اس عظیم عالمی انقلاب کی طرف لے کے جارہی ہے، جس کا لانا ہمارے قبضہ قدرت میں نہیں ہے.وہ خدا کی تقدیر کے قبضہ قدرت میں ہے.اور نئی صدی میں داخل ہونے سے پہلے خدا عظیم الشان دروازے کھولنا چاہتا ہے، جماعت کی ترقیات کے.اور ان کے لئے تیاری کی خاطر میں آپ کو بار بار مختلف نصیحتیں کرتارہا ہوں.آئندہ بھی پھر اسی مضمون کولوں گا کہ تقویٰ کا دوسرا پہلو کیا ہے، جس کا خوف سے تعلق ہے اور اس سلسلے میں جماعت پر کیا مزید ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.بہر حال آج تو حمد وثنا کا دن ہے، خاص طور پر اور خوب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اور بھی ان را ہوں کو وسیع کر دے.آج بھی خدا کے فضل کے ساتھ ایک بہت ہی اہم مسلمان لیڈر سے ملاقات ہے، جو کسی پہلو سے بھی اپنی اہمیت میں پیچھے نہیں ہیں.تو ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تو فیق عطا فرمائے کہ اس رنگ میں ان کے سامنے نقطہ نگاہ پیش کر سکوں کہ ان کے ذریعے بھی ہمیں بڑی بڑی وسیع قوموں میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملے“.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 16 صفحہ 251 تا257) 566

Page 576

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بنام احباب جماعت مغربی جرمنی مجھے جرمنی کا مستقبل بہت روشن دکھائی دیتا ہے پیغام بنام احباب جماعت مغربی جرمنی حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بذریعہ ٹیلی فون مغربی جرمنی کے احباب جماعت کے نام ایک پیغام ارسال فرمایا، جو کہ جلسہ سالانہ مغربی جرمنی کے آخری روز مکرم امیر صاحب نے پڑھ کر سنایا.حضور نے فرمایا:.سب احباب کو محبت بھر اسلام.خصوصاً اس بات سے کہ نئے جرمن احمدی اپنا ایک نیا شخص قائم کر رہے ہیں اور اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ رہے ہیں، مجھے جرمنی کا مستقبل بہت روشن دکھائی دیتا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ سارے مرد اور عورتیں دعوت الی اللہ کے کام میں مصروف ہو جائیں گے اور جماعتی کاموں میں بھر پور حصہ لیں گے.اور اپنے ارد گر دلوگوں کو ( دین حق.ناقل ) میں داخل ہونے پر آمادہ کریں گے.یہ جرمنی کی بہتری میں بہت اہم قدم ہے.اور میں امید کرتا ہوں جلد ہی جرمنی کو دین حق.ناقل ) کے رنگ میں رنگین کر لیں گے.میرے کل کے جرمنی کے مختصر دورے نے مجھے زیادہ یقین دہانی کروائی ہے کہ انشاء اللہ عظیم جرمن قوم تمام یورپ کی تمام پہلوؤں سے ان کی قیادت کرے گی.گو کہ جرمن قوم عیسائیت قبول کرنے میں سب سے آخر میں تھی لیکن انشاء اللہ ( دین حق.ناقل ) قبول کرنے میں سب سے پہلے ہو گی.اسی طرح عربوں ، افریقن ( غانین ) امریکن اور ٹرکش لوگوں کو دیکھ کر بھی ان میں مجھے ( دین حق) کی خدمت اور ( دین حق - ناقل ) کے وقف کے لئے زیر دست روح دکھائی دی ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب پر فضل فرمائے اور آپ کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا چلا جائے.اسی طرح تمام ان لوگوں کو میرا محبت بھر اسلام پہنچا دیں، جنہوں نے کل میرے ہاتھ پر احمدیت قبول کی.اللہ تعالیٰ ان پر اپنے خاص الخاص فضل نازل فرمائے.بالآخر میرا محبت بھر اسلام جماعت کے تمام ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو پہنچا دیں، جو اس جلسہ میں شامل ہوئے.کیونکہ وہ تمام احمد بیت.کے بچے خادم ہیں.ان کے چہروں پر میں نے (دین حق.ناقل ) کے لئے عظمت اور محبت دیکھی ہے.567

Page 577

پیغام بنام احباب جماعت مغربی جرمنی تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم انشاء اللہ وہ جرمنی میں ( دین حق.ناقل ) داخل کرنے کے لئے ایک فوج کا کام کریں گے.تمام احباب جماعت کو میرا محبت بھر اسلام.اللہ تعالیٰ آپ کا ہر لمحہ اور ہر آن حافظ و ناصر ہو.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ ( مطبوع ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ تمبر 1987ء ، بشکریہ اخبار احمد یہ مغربی جرمنی مئی، جون 1987 ء ) 568

Page 578

تحریک جدید - ایک الہی تحریک عید الفطر کا پیغام جماعت احمد یہ عالمگیر کے نام وہ ہمیشہ رہنے والی عید ہمیں جلد نصیب ہو، جو فتح اسلام کی عید ہے عیدالفطر کا پیغام جماعت احمد یہ عالمگیر کے نام الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم پیارے احمدی بھائیو ، بہنو اور بچو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ تعالیٰ آپ سب کو یہ عید سعید ہر لحاظ سے مبارک کرے اور اس مقدس دن کے ساتھ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو بھی خوشیاں وابستہ ہیں، وہ سب آپ کو نصیب ہوں.دنیاوی لحاظ سے بھی آپ پھلیں اور پھولیں اور دینی لحاظ سے بھی آپ پھولیں اور پھلیں.اور اسلام کا نور سب دنیا میں پھیلائیں تا کہ وہ ہمیشہ رہنے والی عید ہمیں جلد نصیب ہو، جو فتح اسلام کی عید ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اس عید کے موقع پر جو پیغام میں نے احباب جماعت پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھجوایا ہے، وہ آپ کو بھی بھجوا رہا ہوں.اس پیغام عید میں آپ بھی شریک ہیں.والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع ة 25 مئی 1987 ء لندن ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 19 جون 1987 ، وضمیہ ماہنامہ انصار الله تمبر 1987ء) 569

Page 579

Page 580

تحریک جدید - ایک الہی تحریک یہ عید، تمہاری عید ہے عید الفطر کا پیغام جماعت احمدیہ پاکستان کے نام عید الفطر کا پیغام جماعت احمدیہ پاکستان کے نام الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم پیارے برادرم مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مہربانی فرما کر جملہ جماعتوں تک میرا یہ عید کا پیغام پہنچادیں، اللہ کی وحدانیت کے اقرار اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کے جرم میں دردناک مظالم کی چکی میں پیسے جانے والے احمدی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے محبت بھر اسلام اور عید مبارک.ان کو بھی جو راہ مولیٰ میں شہید ہوئے اور عند اللہ زندہ ہیں اور ان کو بھی جو ان کی پیار بھری یادیں لئے جی رہے ہیں.ان کو بھی جو راہ مولیٰ پر قدم مارنے کے جرم میں پابند سلاسل ہیں اور ان کو بھی جو بظاہر آزاد ہیں لیکن آزادی کے عزیز ترین بنیادی حقوق سے محروم کر دیئے گئے ہیں.ان کو بھی جو جور و ستم کا براہ راست نشانہ بنے اور ان کو بھی جن کی زندگی اپنے مظلوم بھائیوں کی یاد میں ایک درد پیہم بن گئی ہے.ان کو بھی میرا محبت بھر اسلام اور عید مبارک کا تحفہ پہنچے، من قضى نحبہ یعنی جنہوں نے اپنے خدا سے باندھے ہوئے پیمان وفا کو سچا ثابت کر دکھایا ہے اور ان کو بھی جو من ينتظر یعنی وہ جوا بھی انتظار میں ہیں.اے مہجور داور صبر و رضا کے مجسمو ! اے ثبات قدم دکھانے والو!! جو وفا کے پیکر ہو، یہ عید تمہاری عید ہے.ہر آن تمہیں فرشتوں کی حفاظت کا پہرہ میسر ہو، ہر لحہ اور ہر قدم رحمت باری کا سایہ تمہارے سروں پر چھایہ رہے.آسمان سے اللہ کی رضا کا مائدہ لامتناہی انعام لے کر تم پر نازل ہو ، جو تمہارے لئے بھی عید ہو اور آخرین کے لئے بھی.یقین رکھو کہ یہ زخم تمہارے سینوں کے بن جائیں گے رشک چمن اک دن ہے قادر مطلق یار میرا تم میرے یار کو آنے رو 571

Page 581

عید الفطر کا پیغام جماعت احمدیہ پاکستان کے نام خدا حافظ و ناصر والسلام خاکسار تحریک جدید - ایک الہی تحریک (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع 25 مئی 1987 ء لندن (مطبوعہ ہفت روزہ النصر 19 جون 1987 ء و ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید مئی 1987ء) 572

Page 582

تحریک جدید- ایک الی تحریک....جلد ہفتم پیغام فرمودہ 25 مئی 1987ء روحانی بیماریاں بھی دنیاوی بیماریوں کی طرح زندگی کا روگ ہوتی ہیں پیغام فرمودہ 25 مئی 1987 ء بر موقع سالانہ کنونشن جماعت ہائے احمد یہ امریکہ بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر 1366/25.5.1987ہش پیارے احمدی بھائیو ، بہنو اور بچو ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ہائے احمد یہ امریکہ 26 28, 27 جون 1987ء کو اپنا 39 واں سالانہ کنونشن منعقد کر رہی ہے.اس امر سے بہت خوشی ہوتی ہے کہ امریکہ کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض پہلوؤں سے بڑی ترقی کر رہی ہے.مساجد اور مراکز کا قیام اور ایک طبقہ کی مالی قربانی میں نمایاں اضافہ، یہ سارے خوش کن پہلو ہیں.جماعت کے ساتھ احباب کی دلچپسی بھی بڑھ رہی ہے.بہت سے نوجوان، جو پہلے کچھ کئے ہوئے تھے، اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے نسبتنا قریب آرہے ہیں.خصوصاً نیو یارک کے حلقہ میں جماعت کا مشن سے تعلق اور مشن کے لئے وقت دینا اور جماعتی امور میں دلچسپی لینا، مثالی ہے.اللہ کرے، ہر جگہ اس قسم کے نمونے قائم ہوں.بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سچی لگن پیدا ہو جائے.یہ تو خوشکن پہلو ہیں، ان پر جتنا بھی خدا کا شکر کیا جائے کم ہے.مالی قربانیوں میں جہاں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے، اس کی برکت سے مالی قربانی کرنے والوں کے اعمال میں اور ان کی روحانی حالت میں اور دین سے بالعموم ان کے تعلق میں بھی غیر معمولی برکت پڑی ہے.مالی قربانی کا یہ فائدہ سب سے زیادہ خوشکن ہے.قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ زکوۃ ، تزکیہ 573

Page 583

پیغام فرمودہ 25 مئی 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم اموال ہی نہیں ترکیہ اعمال بھی کرتی ہے.قرآن کریم کا یہ وعدہ اللہ کے فضل سے بڑی شان کے ساتھ تمام مالی قربانی کرنے والوں کے حق میں پورا ہو رہا ہے.لیکن کچھ قابل فکر پہلو ہیں.وہ بھی آپ کے سامنے آتے رہنے چاہئیں.ورنہ خوش فہمیوں میں مبتلا ر ہیں گے اور کمزوریاں دور کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوگی.ابھی تک میرے اندازے کے مطابق جماعت امریکہ کی اکثریت ایسی ہے، جو مالی قربانی کے اونی تقاضوں پر بھی پورا نہیں اترتی.با شرح چندہ، مالی قربانی کی طرف پہلا قدم ہے، جس کے بعد قربانی کا آئندہ سفر شروع ہو جاتا ہے.ابھی تک اکثریت کے متعلق اطمینان سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تقویٰ کے ساتھ مالی قربانی کا یہ پہلا قدم اٹھا چکے ہیں.ظاہر ہے کہ جو شخص مشکلات میں تنگی محسوس کرتے ہوئے محض اللہ کی خاطر اپنے عزیز مال سے جدا ہوتا ہے، اس کو صرف اعمال ہی میں برکت نہیں ملتی بلکہ اس سے بڑھ کر رضائے باری تعالیٰ حاصل ہوتی ہے.اور جسے اللہ کی رضا حاصل ہو جائے، اس نے سب کچھ پالیا.پس ایک کثیر حصہ کا اس سے محروم رہ جانا، کوئی معمولی نقصان نہیں ہے.پتہ نہیں لوگ کیوں خدا کو خدا کے دیئے ہوئے رزق میں سے کچھ واپس کرنے سے ڈرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے گزارے نہیں چلیں گے.خدا پر یہ بدظنی ان کو دنیا اور دین میں ہر لحاظ سے مہنگی پڑتی ہے لیکن وہ نہیں سمجھتے.پس ایک پہلو تو یہ ہے، جو فکر کے لائق ہے.بار بار نصیحت کے ذریعہ ایک دوسرے کو سمجھائیں، بار بار یادہانی کروائیں.گزشتہ خطبوں میں اس موضوع پہ اقتباسات نکال کر انہیں امریکن انگریزی میں ریکارڈ کروا کر اور Edit کر کے اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے کہ نئے امریکن اور پرانے امریکن بھی اس سے بھر پور استفادہ کرسکیں.دوسرا پہلونئی نسلوں کی تربیت کا اور ان کو زہریلی فضا سے بچانے کا ہے.افسوس ہے کہ اس میں بھی ابھی بہت خلا موجود ہے.جدید طرز کا، اعلیٰ معیار کا تربیتی لٹریچر بچوں کے لئے پیدا کرنا، نوجوانوں کو خدام الاحمدیہ اور دیگر ذرائع سے منظم کر کے خدمت دین کی دلچسپیاں ان میں پیدا کرنے کے ذرائع اختیار کرنا، ہر ایک کے سپرد کچھ نہ کچھ ایسی ذمہ داری کر دینا ، جس سے اس کو محسوس ہو کہ اس کا وقت اب پہلے سے زیادہ مفید کاموں میں خرچ ہو رہا ہے تا یہ احساس اس کی زندگی کو بامقصد اور معنی خیز بنادے، یہ امور اور دیگر بہت سے تربیتی امور ایسے ہیں، جو ایک دو نصیحتوں سے حل ہونے والے نہیں.روحانی بیماریاں بھی دنیاوی بیماریوں کی طرح زندگی کا روگ ہوتی ہیں.باشعور اور باہمت قومیں مسلسل بیماریوں کے خلاف جدو جہد کرتی ہیں اور بے وقوف اور سہل انگار تو میں تھوڑی تھوڑی کوششوں کے بعد پھر غافل ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ بیماریاں ان پر 574

Page 584

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم پیغام فرمودہ 25 مئی 1987ء غلبہ پا جاتی ہیں.آپ تو باشعور اور زندہ قوموں کی صف اول میں ہیں.اپنے شایان شان طریق اختیار کریں اور اپنے نو جوانوں ہی کی نہیں بلکہ بڑوں کی تربیت کی طرف بھی مسلسل توجہ دیں.ابھی بڑے خلا باقی ہیں.جب بھی نماز کی طرف توجہ دلائی جائے تو کچھ دیر کے لئے معیار بڑھ جاتا ہے.اگر مسلسل نصیحت کرتے رہیں گے تو انشاء اللہ استقلال پیدا ہو جائے گا.پس عبادتوں کے معیار بلند کریں اور اسے ہمیشہ بلند رکھنے کے لئے کوشش کرتے رہیں.جماعت میں ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے، جن سے کوئی خدمت نہیں لی جا رہی.Waste Land کی طرح یہ نوجوان جماعتی خدمات سے محرومی کے نتیجہ میں فائدہ کی بجائے نقصان کا موجب بن رہے ہیں.پس ایسے پروگرام بنا ئیں کہ زیادہ سے زیادہ افراد جماعت کو کسی نہ کسی رنگ میں خدمت کی سعادت ملتی رہے.یہ تربیت کا ایک نہایت مفید ذریعہ ہے.امریکہ کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی پہلوؤں سے بہت ترقی کرنے والی ہے.پاکستانی اور غیر پاکستانی ہر امریکن احمدی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نئی زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں.لیکن ابھی بہت Potential باقی ہے، اس سے استفادہ کر کے اپنی طاقت بڑھائیں.جماعت احمد یہ امریکہ میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں، وہاں ایک نہایت قابل افسوس کمزوری بھی ہے کہ یہ جماعت اکثر دیگر ممالک کے مقابل پر تبلیغ کے معاملہ میں پیچھے ہے.سو اس وقت دنیا میں جہاں سب سے زیادہ تبلیغ کی ضرورت ہے، وہاں سب سے زیادہ ستی پائی جاتی ہے.وسیع پیمانے پرلٹر پچر کی اشاعت یا مبلغین کا دوسروں تک کتابیں پہنچادینا ، ہرگز کافی نہیں.میں بار بار توجہ دلا چکا ہوں کہ دعوت الی اللہ کا کام فی الحقیقت انفرادی ہے.جب تک احباب جماعت زیادہ سے زیادہ اس میں دلچسپی لے کر اپنے گردو پیش کے ماحول کو اسلام میں داخل نہ کرنا شروع کریں، اس وقت تک بات نہیں بنے گی.اللہ آپ کو ہدایت دے اور آپ کی استطاعت بڑھائے.ان سب امور کی طرف توجہ کریں اور دعا اور تعلق باللہ پر زور دیں کہ سارے کام اسی سے بنتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 123اکتوبر 1987ء ، بشکریہ ماہنامہ النور امریکہ جولائی 1987ء) 575

Page 585

Page 586

تحریک جدید - ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1987ء سفید فام یورپین احمدی اگر سونا تھے تو کندن بن چکے ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 12 جون 1987ء آج ہالینڈ کی تاریخ میں یہ ایک امتیازی دن ہے کہ پہلا یوروپین سالانہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع یہاں منعقد کیا جا رہا ہے.جب میں کہتا ہوں ہالینڈ کی تاریخ میں ایک امتیازی دن ہے تو آج کے نقطہ نگاہ سے، اس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک حیرت انگیز بات ہے.یہ کیسا تاریخی دن ہے کہ ہالینڈ کی بھاری اکثریت اس دن کی اہمیت سے کلیہ نا آشنا بلکہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ وابستگی کے تصور سے بھی شاید شرم محسوس کرے.وہ حیرت سے ہمیں دیکھیں گے کہ یہ کیا بات کہہ رہے ہیں کہ آج یہ دن ہالینڈ کی تاریخ میں ایک امتیازی دن ہے.مگر اسی طرح دنیا میں ہوتا چلا آیا ہے.وقت کوئی ٹھہری ہوئی چیز نہیں بلکہ ایک جاری سلسلہ ہے.اور ایک زمانے کے متعلق تاثرات بھی ہمیشہ ایک سے نہیں رہا کرتے.قومیں مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے اپنے نظریات، اپنے رجحانات میں تبدیلی پیدا کرتی چلی جاتی ہیں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دور کے گزرے ہوئے زمانے میں ایک معمولی ہونے والا واقعہ جسے اس دور کا انسان نہایت ہی تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے، بعد کے آنے والے انسان کی نظر میں حیرت انگیز وقعت اختیار کر جاتا ہے.تاریخ اس واقعہ سے شروع ہوتی ہے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے انسانی زندگی میں وہ واقعہ ایک سنگ میل بن ور جایا کرتا ہے.خصوصا الہی جماعتوں کی تاریخ میں یہی ہوتا ہے اور ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے“.پس جب میں کہتا ہوں کہ ہالینڈ کی تاریخ میں یہ ایک عظیم دن ہے تو میں ماضی سے قوت پا کر احمدیت کے شاندار مستقبل کی بات کرتا ہوں.ماضی سے سہارا لے کر مستقبل میں دور تک دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگاتا ہوں کہ آئندہ آنے والا مؤرخ ہالینڈ کی تاریخ میں جو اہم دن شمار کیا کرے گا، اس میں اس دن کی کیا حیثیت ہوگی؟ پس یقیناً خدام الاحمدیہ کے مؤرخین اس دور میں جو آج سے پانچ سو سال بعد آئے یا ہزار سال بعد یا خدا کرے اس سے بہت پہلے آجائے، یقیناً اس دن کو ایک اہمیت دیں گے.پس اس دن کو دعاؤں کے ساتھ شروع کریں اور اس عرصے میں خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، جو اس دن سے وابستہ ہو چکے ہیں.577

Page 587

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 جون 1987ء 22 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتم جب بھی قوموں کی بد قسمتی ہوتی ہے، جب ان کے برے دن آتے ہیں تو ان میں یہ رجمان پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی برائیاں دوسروں کو دیتے ہیں اور دوسروں کی برائیاں خود لینے لگ جاتے ہیں.اور جب قوموں کے اچھے دن آتے ہیں، ان کے مقدر جاگتے ہیں تو بالکل اس کے برعکس صورت پیدا ہوتی ہے.وہ اپنی برائیاں چھپاتے ہیں اور ان سے شرم محسوس کرتے ہیں اور لوگوں سے ان کی برائیاں لینے کی بجائے ان کی خوبیاں اخذ کرتے ہیں اور برائیاں دور کرنے کے لئے ان کو نصیحت کرتے ہیں.اور نصیحت کو قوت دینے کے لئے اپنے نیک اعمال سے اپنی نصیحت کو طاقت دیتے ہیں.قرآن کریم نے قوموں کے عروج وزوال کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس کا خلاصہ یہی ہے.وو قومی زندگی میں برائیوں سے نہ روکنا اور برائیوں کی شرم اُڑ جانا اور برائیوں سے روکنے کے لئے ایک دوسرے کو نیک نصیحت کے ذریعے باز رکھنے کی کوشش نہ کرنا، یہ ہلاکت کا آغاز ہے.پس آج یورپ میں آباد ہونے والے احمدی چونکہ اکثریت ایسے احباب کی ہے، جو دوسرے ممالک سے یہاں تشریف لائے ہیں ، اس لئے اس خاص صورتحال کے پیش نظر میں آپ کو خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ یہاں آئے ہیں تو دونوں میں سے ایک چیز آپ کے اختیار میں ہے یا یہ کہ اپنی برائیاں ان کو دیں، جو پہلے ان کو عادت نہیں تھی، وہ گندی عادت ڈال دیں اور ان کی برائیاں خود لے لیں.اگر ایسا کریں گے تو قرآن آپ کی تقدیر کا فیصلہ پہلے ہی کر چکا ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مثالیں دے دے کر بتا چکے ہیں کہ جس قوم میں یہ عادت پڑ جائے ، وہ زندہ رہنے کی اہل نہیں رہا کرتی، وہ یقینا غرق ہوگی.ایک دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اپنی خوبیاں ان کو دیں اور ان سے ان کی خوبیاں لیں.اور اس طرح خوبیوں کا اجتماع کریں.اس صورت میں کوئی دنیا کی طاقت آپ کو ہلاک نہیں کر سکے گی.لازماً آپ ایک بلندی کی منزل سے دوسری بلندی کی منزل کی طرف اونچا ہوتے چلے جائیں گے.پس اس صورتحال کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، جو خصوصیت کے ساتھ آج باہر سے آنے والے احمدیوں کو در پیش ہے، میں نصیحت کرتا ہوں کہ بعض اپنی خوبیاں، جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں، جو نسبتا مغرب میں کم ہیں، ان خوبیوں کی حفاظت بھی کریں اور ان خوبیوں کو ان لوگوں میں داخل کرنے کی کوشش کریں اور اسی طرح ان کی برائیوں سے بچتے ہوئے ، ان کی خوبیوں سے استفادہ کریں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ تو میں جیسا کہ آپ لوگ بعض دفعہ کہ دیتے ہیں کہ بہت برائیاں ان میں آ چکی ہیں، اتنی بری بھی نہیں ہیں.چند ایک برائیوں میں بہت آگے بڑھ گئیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت 578

Page 588

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 جون 1987ء سی ایسی خوبیاں ہیں، جن سے مشرق کی اکثر اقوام محروم ہیں.یہاں مذاہب کی بحث نہیں ہے، یہاں تہذیبوں کی بات ہو رہی ہے.مشرق کی تہذیب سے آنے والے لوگ بہت سی گندی عادات کا شکار ہو چکے ہیں.وقت کا ضیاع ، جھوٹ بولنے میں جلدی کرنا، بہانے تراش کرنا، محنت سے جی چرانا اور اسی قسم کی وہ رہن سہن کی معاملات میں سہل انگاری اور گندے رہنا، کمروں میں جا کر دیکھو تو بستر بکھرے پڑے ہیں، کہیں تکیہ ہے کہیں چادر، جو چیز گر گئی، وہیں پڑی رہی.کھانا بستر پہ بیٹھ کے کھا رہے ہیں تو داغ بھی پڑ رہے ہیں ساتھ ساتھ اور اسی قسم کی اور بہت سی ایسی عادتیں ہیں ، جس کے نتیجے میں ان کا رہن سہن بہت ہی تکلیف دہ اور بد منظر ہو جاتا ہے.کھانا پکایا ہے تو برتن صاف ہی نہیں کئے ، یہاں تک کہ وہ جگہ جہاں برتن صاف کئے جاتے ہیں، وہ بھی کھانے کے برتنوں کی طرح رفتہ رفتہ گندی ہو جاتی ہے، بد بوئیں اٹھ رہی ہیں.کہیں اولیاں لگ گئی ہیں.نہایت ہی خوفناک مناظر بعض لوگوں کا رہن سہن پیش کرتے ہیں اور اسی طرح اور بہت سی عادتیں ایسی ہیں، جن کو دیکھ کر مغرب والے حیران ہوتے ہیں کہ یہ کہاں سے جانو راٹھ کے آگئے ہیں.وہ جو Racial نفرت کہلاتی ہے، یعنی قومی نفرت ، وہ خالصہ قومی نفرت بھی نہیں.وہ در اصل عادات کا بعد ہے، جس کے نتیجے میں ایک مغائرت پیدا ہو جاتی ہے، ایک قسم کی دوری پیدا ہو جاتی ہے.وہ اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کہاں سے آئے؟ کیسے انہوں نے رہن سہن سیکھا ؟ کس طرح یہ لوگ زندگی بسر کرتے ہیں؟ کوئی ان کو بتانے والا نہیں کہ انسانیت کے تقاضے یہ ہیں یادہ ہیں.پھر ایسے اوقات میں شور کرنا ، جب کے دوسروں کے آرام کا وقت ہو ، گلیوں اور بازاروں میں تھوکنا، ٹوائلٹ میں جانا تو ٹوائلٹ کی صفائی کے تقاضے پورے نہ کرنا، جہاں کھانا کھایا، وہاں ہڈیاں اچھال دینا چاروں طرف جنگل سمجھ کے کہ یہاں کیا فرق پڑتا ہے.یا روٹی کے ٹکڑے پھینک دینا.غرضیکہ بہت سی ایسی عادات ہیں، جو بالعموم مشرق سے آنے والے اقتصادی لحاظ سے پسماندہ لوگوں میں اپنی اقتصادی پسماندگی کے نتیجے میں ایک لمبے عرصے میں راسخ ہو چکی ہیں.اس قوم کو آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ صدیوں تم نے مشرق کا خون چوسا، صدیوں تم نے مشرق پر حکومت کی اور دولت کے ساتھ رہنے کے جو اوصاف ہیں، وہ بھی حاصل کر لئے.اب کس بات کا شکوہ کرتے ہو، ہم سے.آپ یہ کہہ کر تو ان کے منہ بند نہیں کراسکتے.گندگی ، بہر حال گندگی ہے.بری عادتیں، بہر حال بری عادتیں ہیں.اس لئے یہ کہہ کر نہ آپ خود مطمئن ہو سکتے ہیں، نہ ان کو مطمئن کر سکتے ہیں.اس کا تو ایک ہی علاج ہے کہ ان سے وہ صفائی کے سارے رہن سہن سیکھ لیں، اگر آپ کو خود نہیں آتے.لیکن.579

Page 589

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ایک احمدی کے لئے یہ کہنا بڑے ہی تعجب کے بات ہوگی کہ وہ خود نہیں آتے.صفائی اور نظافت اور اعلیٰ رہن سہن کے جیسے اسلوب حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سکھلا گئے ، اس کی تمام خوبیوں اور حسن کو تو ابھی تک بھی یہ لوگ نہیں پہنچ سکے.صرف اپنی تعلیم کو عمل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے.ان کا اچھار ہن سہن دیکھ کر آپ یہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ وہ جو شرف والی تعلیم لے کر آیا تھا، میں تو ایک ایسے آقا کی غلامی سے منسلک ہوں.جس نے ہر انسانی خوبی کو بلند ترین معیار تک پہنچا دیا تھا.اب میرے عملی نمونے سے یہ کیا سمجھیں گے.نہ تو ان کے اندر یہ صلاحیت ہے اس وقت کہ وہ اقتصادی پس منظر کو دیکھ کر ایسے تجزئیے کریں کہ جس کے نتیجہ میں سمجھیں کہ یہ قوم مجبورتھی، ہم نے ان کو غلام بنایا، یہ غریب ہو گئے اور اس کے نتیجے میں لازماً ایسی باتیں پیدا ہوئیں.نہ ان میں یہ قابلیت ہے کہ ماضی کی تلاش کر کے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا جائزہ لیں اور یہ سوچیں کہ یہ تو بڑے ہی بدقسمت لوگ ہیں، ہم سے بہت بہتر اصول رکھنے کے باوجود، ہم سے بہت بہتر تعلیم کے حامل ہونے کے باوجود اپنی بدعملیوں کی وجہ سے یہ اس حال کو پہنچ گئے ہیں.ان کو صرف آپ نظر آئیں گے اور آپ کے پیچھے اسلام نظر آئے گا.اور آپ کی ہر بات کو یہ اسلام کی طرف منسوب کر دیں گے.کیا دیکھا نہیں آپ نے کہ خمینی کے ساتھ یہ کیا کرتے ہیں؟ کیا سنا نہیں کہ لیبیا کے قذافی کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ مینی کی ہر بات اسلام بن کر ان کو دکھائی دیتی ہے اور قذافی کی ہر حرکت ان کو اسلام بن کر سنائی دیتی ہے.یہ تیار بیٹھے ہیں کہ ہر بدی کو اسلام کے منہ پر تھو ہیں، ہر ظلم کو اسلام کی طرف منسوب کریں.آج انہوں نے Terrorism کا نام بھی اسلام رکھ لیا ہے، یہ IslamicTerrorism ہے، یہ اسلامی ظلم ہے.حالانکہ اس سے بہت زیادہ مظالم، بہت ہی زیادہ خوفناک مظالم آئر لینڈ میں بھی ہو رہے ہیں.لیکن اس کا نام Christian Terrorism یہ کبھی نہیں رکھیں گے.تو جو پہلے ہی تیار بیٹھے ہوں کہ نکتہ چینی کریں، جو بہانے ڈھونڈیں کہ آپ کے نقائص آپ کے مذہب کی طرف منسوب کریں، ان کے نزدیک آپ کا کوئی قصور نہیں ہوگا، تمام قصور اسلام کا ہو گا.کتنا بڑا گناہ کر رہے ہوں گے آپ کہ ہر خوبی اسلام کی تھی اور ہر قصور آپ کا تھا لیکن آپ نے برداشت کر لیا کہ آپ کے سارے قصور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پاکیزہ تعلیم کی طرف منسوب کر دیئے جائیں.ا یہی ہورہا ہے اور یہی ہوتا چلا جائے گا ، اگر اپنے اندر آپ نے ایک نمایاں پاک تبدیلی پیدا نہ کی.پس اپنی ان خوبیوں کو دوبارہ حاصل کریں، جن کو مدتوں سے آپ کھو چکے ہیں.ہزار سال سے لمبا عرصہ ہو گیا کہ مسلمان بد قسمتی سے تنزل کرتے ہوئے اسلام کی تعلیم سے دور بنتے چلے گئے اور نظافت.580

Page 590

اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 12 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اور نجابت اور روزمرہ کے ملنے جلنے کے اعلیٰ اخلاق، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائے تھے ، ان سب سے غافل ہو گئے.اس زمانے میں جبکہ اکثر گھروں میں دروازے بھی نہیں ہوتے تھے بعض دفعہ پردے لٹکا کر کام لیا جاتا تھا.بعض دفعہ پر دے بھی نہیں لٹکائے جاتے تھے.حیرت کی بات ہے، چودہ سو سال پہلے ہر اپنے غلام کو یہ عادت ڈالی کہ کہیں بغیر اجازت کے کسی گھر میں کسی دروازے میں داخل نہیں ہونا.سلام کہو اور اجازت حاصل کرو.اور اگر اجازت نہیں ملتی تو کسی قسم کی دل پر میل لائے بغیر السلام علیکم کہہ کے اس گھر سے الگ ہو جاؤ.( بخاری کتاب الاستیذان حدیث نمبر : 6245) آج یورپ میں یا دوسری ترقی یافتہ قوموں نے لمبے عرصے اور لمبے تجربے کے بعد یہ عادات سیکھیں ہیں.آپ یہ عادات بھلا کے یہاں آئیں ہیں.آپ کسی گھر جاتے ہیں تو دروازہ کھول کے کسی کمرے میں جانا چاہتے ہیں تو بغیر آواز کے دروازہ دھڑام سے کھولا اور اندر داخل ہو جاتے ہیں.ان کو کیا پتہ کہ آپ کا ماضی کیسا شاندار تھا.انہوں نے آج کا چہرہ دیکھنا ہے.اور پھر آج کے چہرے کو ، آج کے جسم کی طرف منسوب نہیں کرنا بلکہ چودہ سو سال پہلے کے چہروں کی طرف منسوب کرنا ہے.یہ ظلم ہے، جو اسلام کے ساتھ کیا جارہا ہے.اور اس ظلم میں آپ ان کے مد ہو جائیں گے، اگر آپ نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کی.پس اپنی خوبیوں کو دوبارہ حاصل کریں.ان کی خوبیوں کو دیکھ کر شرم محسوس کریں کہ یہ تو ہماری تھیں.اسی واسطے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتحال پر نظر ڈالی اور یہ فرمایا کہ:.الحكمة ضالة المؤمن ترندی کتاب العلم حدیث نمبر : 6211 ) که حکمت کی بات، اچھی بات تو مومن کی گمشدہ اونٹنی کی طرح کی ہے.اگر کسی انسان کی اوٹنی گم جائے تو اسے دوبارہ حاصل کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتا.وہ جانتا ہے کہ میری تھی ، مجھ سے الگ ہوئی ہے.پس جب آپ ان کی خوبیاں حاصل کریں گے تو آپ کی یہی کیفیت ہوگی کسی شرم کی ضرورت نہیں ہے، کسی احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے.اگر آپ کی خوبیاں نہ بھی ہوتیں ، تب بھی خوبیوں کو اختیار کرنے میں تو کوئی احساس کمتری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا.لیکن بفرض محال بعض حساس لوگ کہتے ہیں، ہم کیوں نقلیں ماریں.ان کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رستے کتنے آسان فرما دئیے.فرمایا:.الحكمة ضالة المؤمن ی تو تمہاری خوبیاں تھیں تم حاصل کرو، جس طرح مالک ہوتے ہو تم سے ان لوگوں نے حاصل کر لی ہیں.581

Page 591

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم پس خوبیوں میں تو یہ طریق اختیار کریں.اور برائیوں میں وہ دوسرا طریق کہ برائیاں آپ کی نہیں ہیں.اگر آپ میں ہیں تو کہیں غیر سے آگئیں.اگر آپ برائیوں کا شکار ہیں تو یہ پر دیسی چیزیں ہیں، جن کا آپ کی ذات سے کوئی تعلق نہیں.لیکن اپنے دلوں کو ، اپنی عادات کو، آپ نے ان کا وطن بنالیا.لیکن اس کے برعکس اگر آپ ان کی برائیاں حاصل کرنے لگ جائیں اور خوبیوں سے غافل ہو جائیں، خوبیوں سے آنکھیں بند کر لیں تو کتنا بڑا ظلم ہوگا ؟ پہلے ہی بہت ہی گندی عادات کے بوجھ تلے دبے پڑے ہیں، ہم..معاشرتی لحاظ سے، تمدنی لحاظ سے، روزمرہ کی عادات رہن سہن کے لحاظ سے اور میل جول کے لحاظ سے کئی پہلو ہیں، جن میں ہم بدقسمتی سے ایک لمبے پسماندہ دور میں سے گزرتے ہوئے بہت سی بدیوں کی گھریاں اٹھائے ہوئے ہیں.اوپر سے ان کی ڈرگز (Drugs ) اختیار کرنے لگ جائیں ، اوپر سے ان کی شراب پینے لگ جائیں، اوپر سے ان کی دوسری عادات کو اختیار کر جائیں، کچھ بھی ہمارا باقی نہیں رہے گا.کتنا ظالمانہ سودا ہوگا کہ نیک مقاصد کی خاطر ہجرت کر کے آئے ، دین کا نام لے کر گھروں سے نکلے اور اپنے عزیزوں کو پیچھے چھوڑا، پیچھے مائیں فوت ہو گئیں، پیچھے باپ جدائی میں ، مشکلات میں زندگی بسر کرتے کرتے رحلت کر گئے بعض بچے فوت ہو گئے لیکن واپس نہ جا سکے آپ لوگ اور یہاں آ کر کیا سودا کیا؟ سودا یہ کیا کہ اپنی برائیاں ان کو دینی شروع کر دیں اور ان کی برائیاں خود اختیار کرنے لگ گئے.جب میں کہتا ہوں کہ برائیاں دینے لگ گئے تو یہ بھی واقعہ ہے کہ بدقسمتی سے بعض لوگ یہ بھی کرتے ہیں.جب آج سے ایک لمبا عرصہ پہلے، تقریباً انتیس سال پہلے ، جب میں انگلستان آیا تھا تو شاذ و نادر کے طور پر کوئی پولیس مین ایسا بیان کیا جاتا تھا یعنی یہ بھی نہیں کہ حقیقت میں صحیح تھی بات ، بیان کیا جاتا تھا کہ رشوت لے لیتا ہے.اور یہ ایک حیرت انگیز بات سمجھی جاتی تھی.لیکن اب ایسی باتیں عام ہو گئی ہیں.اب ان کے ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں بھی یہ باتیں آرہی ہیں، اخبارات میں بھی اس کے چرچے ہوتے ہیں، پولیس کے اصلاحی کمیشن بھی بیٹھتے ہیں اور حیرت کی بات اور ظلم کی بات یہ ہے کہ اس کا آغاز Asians نے شروع کیا ہے.اس زمانے میں کبھی کبھی میرے کان میں یہ بھنک پڑتی تھی اور بہت تکلیف پہنچتی تھی کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ جی! ہم ان کو رشوت لینا سکھا رہے ہیں اور بڑے فخر سے بات کرتے تھے.کہتے تھے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کو ایک شراب کی بوتل دے دو تو یہ بھی ہماری طرح بات ماننے لگ جاتے ہیں.انسانی فطرت کی کمزوریاں تو ہر جگہ ہیں.آپ نے ایک اچھی قوم کو گندا بنایا اور اس پر فخر محسوس کیا.اسی طرح ممکن ہے کہ اور بھی بہت سی بدیاں مشرق نے ان لوگوں میں داخل کر دی ہوں.تو ان کی 582

Page 592

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 12 جون 1987ء بدیوں کے ڈھیر بھی بڑھنے شروع ہو گئے.آپ کی بدیوں کے ڈھیر بھی بڑھنے شروع ہو گئے.اور حضرت کو اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان پھر کیسے پورا نہ ہوگا کہ کشتی کے پیندے میں سوراخ تو ہو گیا ہے، اس نے ڈوبنا ہی ڈوبنا ہے.ایسی قومیں جن کی بدیاں بڑھنے لگ جاتی ہیں اور یہ عادت اب ان میں بھی آچکی ہے.ایک دوسرے سے بدیاں سیکھنے لگ گئے ہیں.امریکہ کا معاشرہ یورپ کو بدیاں سکھا رہا ہے، یورپ کا معاشرہ کچھ باتیں امریکہ میں داخل کرتا ہوگا.لیکن بالعموم تو امریکہ سے ہی گندگی آتی ہے اور ساری دنیا میں پھیلتی ہے او بڑی خوشی سے انہیں قبول کر رہے ہیں.پھر ایک دوسرے سے بدیاں سیکھتے ہیں.جواٹلی میں بدی ایجاد ہو گئی ، وہ یورپ کے باقی ممالک نے بھی ضرور اختیار کرنی ہے.جو انگلستان میں پیدا ہوئی، اسے بڑے شوق سے پھر باقی ملک بھی نقل کرتے اور اختیار کرنے لگ جاتے ہیں.تو جو قوم پہلے ہی بیچاری اس حال کو پہنچ رہی ہو کہ ان میں بھی یہ رجحان پیدا ہو جائے کہ وہ بدیاں اختیار کرتے ہیں آسانی کے ساتھ اور شوق کے ساتھ.اوپر سے آپ ان کو اپنی بدیاں پہنچانے لگ جائیں تو یہ سارا زمانہ یقینا بڑا گھاٹے کا زمانہ ہوگا.قرآن کریم نے اسی طرح اس زمانے کا ذکر فرمایا ہے، قرآن کریم نے یہی تو کہا ہے:.وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ (العصر : 0402 ) کہ میں زمانے کی قسم کھا کر کہتا ہوں، ان الانسان لفی خسر ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان بحیثیت مجموعی گھاٹے میں جارہا ہو گا.یہ بات تو سمجھ میں آجاتی ہے.مگر ذرا سوچیں کہ اس کے بعد قرآن کریم کیا فرماتا ہے.الا الذین امنو او عملوا الصلحت.مگر زمانے ہی کی قسم کچھ لوگ ایسے ضرور ہوں گے، جو ایمان لانے والے ہوں گے اور نیک عمل کرنے والے ہوں گے.وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر.وہ نیک کاموں کی نصیحت کرتے چلے جائیں گے زمانے کو اور صبر کے ساتھ نیک کاموں کی نصیحت کرتے چلے جائیں گے، نیک اعمال کے ساتھ نیک کاموں کی نصیحت کرتے چلے جائیں گے.اگر آپ وہ نہیں ہیں تو پہلی پیشگوئی تو پوری ہوگئی.اس دوسری پیشگوئی کو پورا کرنے والے اور کون لوگ ہوں گے؟ قرآن کریم کے اس بیان کی صداقت پر آپ گواہ ٹھہرائے گئے ہیں.آپ ہی ہیں، جن کا ذکر ہے کہ الا الذین امنوا.ہاں ! چند ایک ایسے لوگ ہیں ، جو ایمان لے آئے ہیں اور اپنی ایمان کی صداقت میں، اس کے ثبوت میں انہوں نے نیک اعمال شروع کر دیئے.اور پھر نیک اعمال کو اپنے 583

Page 593

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم تک نہیں رکھتے ، اس صداقت کو اپنے تک صرف نہیں رکھتے بلکہ بڑی سخاوت کے ساتھ تمام دنیا میں تقسیم کرنے لگ جاتے ہیں.وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ حق بات کی نصیحت کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں، صبر کی نصیحت کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں.پس آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سفیر بن کے یہاں آئے ہیں اور آپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر بن کے یہاں آئے ہیں، آپ احمدیت کے سفیر بن کے یہاں آئے ہیں اور آپ اسلام کے سفیر بن کے یہاں آئے ہیں.اس لئے اس سفارت کے حقوق کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں، اس سفارت کی ذمہ داریوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.اپنے مقدر بنا ئیں ، ان سے خوبیاں سیکھ کر اور ان کے مقدر جگائیں، ان کو خوبیاں عطا کر کے.ایک نئی قوم وجود میں آنے لگ جائے ، جو انہی لوگوں میں سے بنے.لیکن ان سے بالکل مختلف اور امر واقعہ یہ ہے کہ میں ایسی قوم کو یہاں بنتا ہوا دیکھ رہا ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں جو سفید فام یوروپین ممالک میں احمد کی ہوئے ہیں، ان کے اندر خدا کے فضل سے ایسی ایسی پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں کہ اگر وہ سونا تھے تو کندن بن چکے ہیں.حیرت انگیز چلا ان میں پیدا ہوئی ہے.مشرق کا اخلاص اور مشرق کا پیار ان کو کرنا آ گیا اور مغرب کی ساری خوبیوں کی بھی انہوں نے حفاظت کی.اور پھر عام انسانوں سے بلند تر ہو کر وہ اللہ والے انسان بن گئے.آپ ان کو غور سے دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ آپ نے ان کو دین سکھایا لیکن اب یہ اس قابل ہیں کہ آپ کو دین سکھانے لگ جائیں.عظیم الشان اخلاص کے پیکر ہیں، ان میں ایسے لوگ جو کامل وفا کے ساتھ اسلامی تعلیم کے تمام تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں.اسی سرزمین میں جہاں شیطانیت کھلے بندوں جولانی دکھاتی ہے، یہ فرشتوں کی طرح قدم رکھتے ہیں.اور ان کی سب برائیوں سے اغماض کرتے ہوئے نیکی کا پیکر بن کر ان گلیوں میں چلتے ہیں.ایسے لوگ انگلستان میں بھی ہیں، میں جانتا ہوں.اور ڈنمارک میں بھی ہیں، جن کو میں جانتا ہوں.اور ناروے میں بھی ہیں، جن کو میں جانتا ہوں.سویڈن میں بھی ہیں، جن کو میں جانتا ہوں.جرمنی میں بھی ایسے لوگ ہیں ، خدا کے فضل سے ایک بڑی تعداد میں.اور اس ملک میں جس کے آج آپ مہمان ہیں، اس ملک میں بھی خدا تعالیٰ نے ایسے ہی فرشتہ سیرت انسان احمدیت کے اثر کے نتیجے میں پیدا فرما دیئے ہیں.آپ اگر اس تعلیم پر عمل کریں گے، جو میں نے اسلام کی تعلیم آپ تک پہنچائی ہے تو آپ اس قابل ہو جائیں گے کہ ایسے اور بہت سے لوگ پیدا کر سکیں.آپ اس قابل ہو جا ئیں کہ کثرت کے ساتھ اس 584

Page 594

تحریک جدید - ایک الہی تحریک やや اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 جون 1987ء معاشرے میں پھیل جائیں.اور کیلے اکیلے نہ رہیں بلکہ تیزی کے ساتھ بڑھنا شروع کریں.اور اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ اس دنیا میں بھی یقیناً کامیاب ہوں گے اور اس دنیا میں بھی یقیناً کامیاب ہوں گے.آپ کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آپ کا دین بھی سنور جائے گا.آپ کا فیض مدتوں تک آپ کی اولادوں میں وراشتا منتقل ہوتا چلا جائے گا.صدیوں تک آپ کی آنے والی نسلیں آپ کا فیض پائیں گی اور آپ کو دعائیں دیں گی.کتنا عظیم الشان موقع ہے، جو آج آپ کو میسر آیا ہے.اس موقع سے فائدہ اٹھائیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو احمدی اور ایک ایسی تعداد ہے، جو دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے.ان باتوں پر عمل کرتے ہیں اور نیک نصیحت کے ذریعے اچھی باتیں دوسروں میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تبلیغ کے لئے ہر ممکن طور پر جد و جہد کر رہے ہیں.ایسے احمدی جب اپنی کوششوں کا آغاز دعا سے کرتے ہیں اور ان کوششوں کے نیک انجام کے لئے بھی دعاؤں ہی کا سہارا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو ہر روز یا کچھ کچھ عرصے کے بعد بہت ہی میٹھے پھل نصیب ہونے شروع ہو جاتے ہیں.ہر روز کے پھل ان کی اندرونی تبدیلوں کے ذریعے ، خدا سے ان کا پیار بڑھنے کے نتیجے میں اور کئی قسم کے لطف ہیں، جو ہر روز ان کو نصیب ہوتے رہتے ہیں اور وہ خوب مطمئن ہوتے ہیں.پھر خدا کے فضل اور فضلوں کے نازل ہونے کے خاص پیار کے انداز ان کو نصیب ہوتے رہتے ہیں اور بہت سے ان میں سے ایسے ہیں، جوان تجارب کو لکھ کر مجھے بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں.اور بڑا ہی لطف آتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ ایک ایک اس احمدی پر نگاہ رکھ رہا ہے، جو اخلاص کے ساتھ اس کی راہوں میں آگے قدم بڑھانا چاہتا ہے.کس طرح بڑے پیار کے ساتھ اس کے ایمان کو بڑھا رہا ہے، بداثرات سے اس کی حفاظت فرما رہا ہے اور خود اس پر ظاہر ہوتا ہے.وہ کسی واسطے سے ملنے والا خدا نہیں رہتا بلکہ براہ راست اس کے دل پہ نازل ہونے والا خدا بن جاتا ہے.تو ہر روز مشاہدہ کرنے والے بھی ایسے ہیں اور ہفتے ہفتے میں بھی مشاہدہ کرنے والے ہیں، مہینوں میں بھی مشاہدہ کرنے والے ہیں.اور دن بدن جہاں تک میرا تاثر ہے اور میں بڑی گہری نظر سے ان حالات کا جائزہ لے رہا ہوں ، خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کی تعداد بڑھ رہی ہے.لیکن یہ سارے وہ لوگ ہیں، جو دعاؤں پر ایمان رکھتے ہیں، یہ سارے وہ لوگ ہیں، جو محض اپنے اعمال پر انحصار نہیں کرتے.ان کے ہر پروگرام کا آغاز دعا سے ہوتا ہے.پروگرام کے دوران بھی یہ دعائیں کرتے رہتے ہیں اور رب سے مدد مانگتے رہتے ہیں اور انجام کے متعلق بھی یہ نہیں سمجھتے کہ ان کی کوششوں کو پھل لگا ہے بلکہ ہر پھل کو اپنے رب کی طرف سے ایک تحفہ سمجھتے ہیں، ایک عنایت سمجھتے ہیں.اور ہے بھی یہی بات.ورنہ ہم کیا اور ہماری کوششیں کیا.585

Page 595

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم جن عظیم قوموں سے ہم ٹکرائے ہیں اسلام کے نمائندہ بن کر، وہ تو پہاڑوں کی طرح بلند تر ہیں.حیرت انگیز طاقتیں انہوں نے حاصل کرلی ہیں، ذہانت میں علم کی گہرائی کے لحاظ سے، محنت کے لحاظ سے، ان عادات کے لحاظ سے، جو قوموں کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں.یہ بہت زیادہ ہم.آگے بڑھ چکے ہیں.اس لئے ان سب مشکلات کا ایک ہی اور صرف ایک ہی حل ہے کہ ہم اس سے رابطہ کرلیں، جو سب سے بلند تر ہے.جس سے ہم ہر روز ، مدتوں، بار بار یہ کہتے ہیں کہ اللہ اکبر اللہ اکبر، الله اکبر، اللہ اکبر، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے.پس ان کی بڑائی کا ایک ہی علاج ہے کہ اپنی ذات کو اپنے رب کی عظمت عطا کریں.اور یہ عظمت بھی عطا ہوسکتی ہے، جب آپ اپنے رب سے تعلق جوڑیں گے ، جب ہر روز اس سے عف سے تعلق جوڑیں گے ، جب ہر روز اس سے عظمتیں مانگیں گے ، ہر روز اس کی تکبیر دل کی گہرائیوں سے بلند کریں گے.تا کہ یہ آسمان کے کنگروں تک پہنچے اور آسمان کی رفعتیں اس کے نتیجے میں حاصل کریں گے.پس دعا ہی ہے، جس کے ذریعے سارے کام بنے ہیں.آپ عادت ڈالیں.عادت ڈال کے دیکھیں تو سہی.آپ میں سے وہ لوگ، جو سو قسم کی کمزوریوں میں مبتلا ہیں ، کوشش کرنے کے باوجود ارادوں کے باوجود بھی نجات نہیں پاسکتے ، وہ دعائیں کریں.دعاؤں سے دو قسم کے فائدہ ان کو حاصل ہوں گے.ایک تو یہ کہ رفتہ رفتہ وہ کمزوریاں رفع ہونا شروع ہو جائیں گی اور دوسرے یہ کہ ان کمزوریوں کے دوران بھی خدا کے غضب کی نظر نہیں پڑے گی بلکہ رحم کی نظر پڑے گی.وو پس ہر روز کا جو خطرہ اپنی بدیوں کی طرف سے لاحق ہوتا ہے، ہر روز جو ہلاکت کی موت کا خطرہ انسان کو درپیش ہوتا ہے، دعا کے نتیجے میں اس خطرے سے نجات مل جاتی ہے.اس لئے بہت ہی برکتیں ہیں ، دعاؤں میں.دعاؤں کی طرف توجہ کریں.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، دعا میں خلوص کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.زبان کی دعا یا صرف مصیبت میں گھرے ہوئے انسان کی دعا ایک وقتی اثر دکھاتی ہے.لیکن وہ دعا جو مستقل تعلق باللہ کے نتیجے میں عطا ہوتی ہے، جو مستقل تعلق باللہ کا مظہر بن جایا کرتی ہے، ہر بات میں عادت پڑ جاتی ہے بلانے کی ، وہ دعا سیکھیں، اس دعا کی عادت ڈالیں.پھر دیکھیں کہ آپ کی زندگی میں کتنی حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.کئی لوگ مجھے اپنے عزیزوں کی وفات کے بعد یہ لکھتے ہیں.آج بھی ایک اس قسم کا خط ملا کہ میری بیوی بہت ہی پیاری تھی ، فوت ہوگئی.اس کی عادت پڑ گئی تھی.بات بات پر اس کی طرف جھکنا، بات بات پر اس کو آواز دینا.اور اب اس کی جدائی سے اس وجہ سے بہت ہی تکلیف محسوس ہوتی ہے، بہت ہی 586

Page 596

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود ه 12 جون 1987ء خلا محسوس ہوتا ہے.لیکن آپ کو میں جس وجود کی عادت ڈالنے کے لئے کہہ رہا ہوں وہ تو دائی وجود ہے.اس کا کبھی آپ کو خلا محسوس نہیں ہو گا.ایسی عادت ڈالیں کہ جس عادت کا ہر حال میں ہمیشہ پورا ہوتے رہنا ممکن ہے.کبھی ممکن ہی نہیں کہ یہ عادت آپ سے بے وفائی کرے یا وہ وجود آپ سے بے وفائی کرے.یا اور یقین جانیں کہ دعا آپ کے اعمال کے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے حیرت انگیز اثر دکھائے گی.اور دعا کے نتیجے میں آپ کے سارے مشکل کام آسان ہو جائیں گے.لیکن جب دعا کریں تو بلند حوصلہ رکھ کے دعا کریں، بلند ارادوں کے ساتھ دعا کریں.محض Assylum کے لئے دعا کرنا یا محض چھوٹی موٹی مشکلات کے لئے یا بیوی بچوں کی بیماری کے لئے دعا کرنا، یہ تو بڑے وجود سے بہت ہی ادنیٰ ادی باتیں مانگ کر انہیں پر راضی ہو ر ہنے والی بات ہے.جس سے مانگ رہے ہیں، اس کو لوظ رکھ کے حوصلے کی دعا کیا کریں.عظیم دعائیں مانگا کریں، تمام دنیا کی اصلاح کی دعائیں کریں، یہ دعا کریں کہ آپ کو خدا کی توفیق ملے.اس تمام علاقے کو اسلام کے لئے فتح کرنے والے ہوں.بہت بڑے بڑے بول ہیں لیکن جس ذات سے دعا کر رہے ہیں، وہ ذات بھی تو بہت بڑی ہے.اس کے متعلق آپ کا منہ یہ نے تھکتا نہیں کہ وہ بہت بڑی ، سب سے بڑی ہے ، سب سے بڑی ذات ہے، سب سے بڑی ذات ہے.پس اس شخص کی شان کو لحوظ رکھ کر مانگا جاتا ہے، جس کے حضور آپ حاضر ہوں.بادشاہوں کے حضور جب کوئی انسان حاضر ہوتا ہے تو ایک روٹی کا سوال تو نہیں کیا کرتا.وہ تو ان کی حیثیت دیکھ کر، ان کی سابقہ روایات کوملحوظ رکھ کر ، ان کے خاندانی مزاج کو اور ان شاندار کہانیوں کو محوظ رکھ کر ، جو ان کے خاندانوں سے منسوب ہو چکی ہوتی ہیں، انسان مانگتا ہے“.ایک عام انسان ایک معمولی سے بادشاہ کے حضور جب حاضر ہوتا ہے تو اپنی دعا کا حوصلہ بڑھا لیتا ہے، اپنی طلب کو وسعت عطا کر دیتا ہے.آپ خدا سے دعا مانگیں اور چھوٹی چھوٹی دعاؤں پر راضی ہو کے رہ جائیں ، بڑا ہی نقصان کا سودا ہے.لیکن چھوٹی دعائیں بھی اسی سے مانگیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ چھوٹی باتوں میں اپنے اوپر بھروسہ کر لیں اور بڑی باتوں میں اس کی طرف متوجہ ہوا کریں.خدا اکبر ہی نہیں ہے، وہ عظیم بھی ہے.اور عظیم کا یہ مطلب ہے کہ ہر طرف اس کا وجود حاوی ہے.ادنیٰ سے ادنیٰ وو چیزوں تک بھی اس کی پہنچ ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ چیزوں تک بھی اس کی پہنچ ہے.وو " پس مانگنے میں حوصلہ بڑھائیں.لیکن محض بلند حوصلہ نہ رکھیں ، ادنیٰ سے ادنی چیزوں میں بھی اس کی طرف جھکیں.پس دعا میں انکساری کو بھی ملحوظ رکھیں.جب آپ ادنی چیز مانگتے ہیں تو خدا کی نسبت سے نہیں، اپنی نسبت سے مانگتے ہیں.جب اعلیٰ چیز مانگتے ہیں تو خدا کی نسبت سے مانگتے ہیں.یہ راز ہے، جس کو آپ سمجھ لیں تو آپ کی دعا مکمل ہو جائے گی.587

Page 597

اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 12 جون 1987ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم پیس دعا کے دو کنارے ہیں.ایک وہ جو نفس کے عرفان سے شروع ہوتا ہے اور وہ انتہائی انکساری کا مقام رکھتا ہے.اس کے لئے چھوٹے سے چھوٹا کا کوئی تصور بھی نہیں.ہر چیز چھوٹی سی چھوٹی بھی اس دعا کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے.اور ایک وہ ہے، جو عظمتوں میں بے انتہاء ہے اور لافانی ہے.اور وہ خدا کی ذات کو ملحوظ رکھ کر دعا کا گر انسان سیکھتا ہے.اس لئے ان دونوں کناروں کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ دعائیں کرنے کی عادت ڈالیں.اللہ تعالیٰ آپ کی ساری زندگی کی ہر کیفیت پر حاوی ہو جائے گا.اور آپ پر اتنے انعام نازل فرمائے گا، ایسی برکتیں عطا کرے گا کہ آپ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے بھی برکتیں پا جائیں گے.آپ کی نگاہیں بھی ان پر پڑیں گی ، وہ بھی متبرک ہو جائیں گے.آپ کا ذکر، آپ کی یاد اور پیار کرنے والے بھی متبرک ہوتے چلے جائیں گے.یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خدا کی شان.خدا کرے کہ ہمیں یہ توفیق نصیب ہو.اس کے بغیر ہم ان قوموں کی زندگی بدل نہیں سکتے ، اس کے بغیر ہم یورپ کی تقدیر میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے ، آمین.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 387 تا 403) 588

Page 598

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصه خطاب فرمودہ 14 جون 1987ء اگر آپ نے اہل یورپ کو نہ بدلا تو وہ آپ کو بدل کر رکھ دیں گے خطاب فرمودہ 14 جون 1987ء برموقع سالانہ یورپین اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالی کا بے حد احسان ہے اور جتنا بھی اس کا شکر کیا جائے ، کم ہے کہ اس نے اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ہمیں بڑی کامیابی کے ساتھ ہالینڈ کا یہ پہلا یورپین منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائی.یعنی یورپ کے خدام الاحمدیہ کا یورپین اجتماع شروع میں نا تجربہ کاری کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ ہالینڈ کی جماعت ابھی چھوٹی ہے اور جو خدام یہاں تھے ، وہ بھی زیادہ تربیت یافتہ نہ تھے.اس لئے مہمانوں کو کچھ دقت پیش آئی.خصوصا ر ہائش کے انتظام میں پہلی رات آنے والے مہمانوں نے بہت تکلیف اٹھائی.لیکن خندہ پیشانی سے اسے برداشت کیا.اور جہاں تک ممکن ہو سکا، اس وقت تمام مقامی خدام نے اور میزبانوں نے جہاں جہاں بھی جگہ مناسب مل سکی، ان کو مہیا کرنے کی کوشش کی.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ جماعت چھوٹی ہے ابھی، اس لئے اس اجتماع میں میزبان اور مہمان کا فرق بالکل اٹھ گیا تھا.اور بعض صورتوں میں تو ہالینڈ کی جماعت مہمان بن گئی تھی اور آنے والے میزبان بنے ہوئے تھے.مثلا کھانے کے انتظام میں انگلستان کو جو وفد آیا تھا، اس نے بہت ہی محنت کے ساتھ اور بڑی مہارت کے ساتھ مہمانوں کا کھانا تیار کیا.اور انہوں نے جو اپنے مہمانوں پر حسن ظنی رکھی ، آنے والے مہمانوں نے اور مقامی مہمانوں نے اس حسن ظنی کو بھی پورا کر دکھایا.اگر چہ ان کو بتایا گیا تھا کہ 500 مہمان ہوں گے لیکن حسن ظنی کرتے ہوئے کہ 500 مہمان کم از کم 700 کا کھانا کھائیں گے، انہوں نے 700 کا کھانا تیار کیا.خدا کے فضل سے کوئی کھانا ضائع نہیں گیا.اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ اگر 800 کا پکاتے تو اس میں کوئی حصہ ضائع ہو جاتا“.اجتماعات کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:.اجتماعات کا مقصد خالصۂ دینی ہے.اور اگر چہ کھیلوں وغیرہ کا انتظام بھی کیا جاتا ہے، عام علمی مقابلے بھی ہوتے ہیں لیکن آخری مقصد و منتہا دین ہی ہے.ان قوموں میں جن میں ہم آکر کچھ نئے نئے 589

Page 599

خلاصہ خطاب فرمودہ 14 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم آباد ہوئے ہیں.کچھ یہیں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ ہمیں سعید روحیں عطا کی ہیں، ان میں ہمارا دین ابھی بالکل نیا ہے.ہمارا دین ان معنوں میں نیا ہے، جن معنوں میں جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے.یعنی حسن و احسان کا سر چشمہ.ایک ایسا دین، جو کامل حسن رکھتا ہو اور کامل طور پر اپنے متبعین کو حسین بنانے کی طاقت بھی رکھتا ہو، یہ دین ان لوگوں کے لئے بالکل نیا ہے.وہ دین ، جس سے یہ متعارف ہیں، وہ دین کی صدیوں سے بگڑی ہوئی صورت ہے.جسے بگاڑنے میں بدقسمتی سے خود مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اور کچھ بد قسمتی سے ان کے علماء نے ، جو مستشرقین کہلاتے ہیں، ایک افسوسناک کردار ادا کیا.انہوں نے اپنی کتب میں، اپنے لٹریچر میں، اپنے اخبارات میں ہر قسم کے علمی ذرائع اختیار کرتے ہوئے پہلے ہی سے ان کو ہمارے دین سے بہت حد تک بدظن کر رکھا تھا اور بالکل غلط شکل دین کی بنا کر ان کے سامنے پیش کی ہوئی تھی.جس کی وجہ سے جب بعد ازاں اس نئے دور میں بعض اسلامی ممالک کی طرف سے یا بعض اسلامی تحریکات کی طرف سے کچھ اس سے ملتی جلتی حرکتیں ہونی شروع ہوئیں، جو تصویر ان کے علماء نے ان کے سامنے پہلے ہی کھینچ رکھی تھی تو انہوں نے کامل طور پر یقین کر لیا، جو ہمارے بڑے، ہمارے صاحب علم کہا کرتے تھے، وہ درست بات تھی.اور یہ دین ایک جبر کا اور ایک استبداد کا مذہب ہے.یہ تلوار ، جبر کامذہ کے زور سے دلوں کو جیتنے کا دعویٰ کرتا ہے.یہ قوت بازو سے سروں کو ختم کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے.اور انسانیت کو تار یک ماضی کی طرف لوٹانے کے لئے آیا ہے.یہ دین ظلم ، جہاد اور فساد کی تعلیم دیتا ہے.غرضیکہ ہر وہ چیز ، جو اس نئی دنیا میں ماضی میں پیچھے رہ گئی تھی ، وہ جبر واستبداد کی تمام کہانیاں ، جو قصوں میں سنا کرتے تھے.بدقسمتی سے اس کی کوئی نہ کوئی عملی صورت آج کی دنیا میں بعض مسلمان ممالک نے ان کے سامنے پیش کی.چنانچہ ان کا دین حق کا تصور اتنا بگڑا ہوا ہے، اتنا بھیانک ہے کہ بسا اوقات یہ ہمارے دین کے نام سے بھی خوف کھاتے ہیں کہ جہاں بھی یہ دین داخل ہونا شروع ہوا، اس کے پیچھے فتنہ وفساد ضرور داخل ہوں گے.یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو ان یورپین ممالک میں جہاں ابھی احمد بیت پوری طرح صحیح مذہب کو متعارف نہیں کرواسکی ، وقتیں پیش آتی ہیں.آسٹریا میں مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.”جب آسٹریا میں ہم نے مشن قائم کرنے کی کوشش کی تو تقریباً ڈیڑھ، دو سال حکومت کو یہ اطمینان کرنے میں لگے کہ ہم اس قسم کے لوگ نہیں ہیں، جو خنجر کے ساتھ اور تلوار کے ساتھ اور توپ و تفنگ کے ساتھ دلوں کو جیتنے کا دعویٰ کرنے والے لوگ ہیں.اس قسم کے لوگ نہیں ہیں، جو معصوم انسانوں کی و 590

Page 600

تحریک جدید - ایک الہلی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 14 جون 1987ء جانوں سے کھیل کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ٹیررازم کی تعلیم دیتے ہیں.چنانچہ بڑی لمبی تحقیق انہوں نے کی.جہاں جہاں احمدیت پہلے سے پوری طرح جاگزیں ہو چکی تھی ، اپنی جگہ بنا چکی تھی، ان ممالک سے انہوں نے رابطے کئے اور آخر یہ تسلیم کیا کہ اگر احمدیت کو وہاں رجسٹر ہونے کی اجازت دی جائے تو ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.پس جماعت احمدیہ جس دین کو پیش کرنا چاہتی ہے، وہ قدیم ترین بھی ہے اور جدید ترین بھی.قدیم ترین اس لئے کہ وہ دین حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے.وہ حسین چہرہ ہمارے دین کا جو لوگوں کو فریفتہ کر لیتا ہے، جو دشمنوں کو بھی عاشق بنانے کی طاقت رکھتا ہے، جو انسانی طاقتوں کو رفتہ رفتہ اس طرح جلا بخشتا چلا جاتا ہے کہ انسان خواہ دنیا کے لحاظ سے کتنا ہی اعلیٰ اخلاقی مقام پر بھی فائز ہو، دین کی برکت سے اسے نئی رفعتیں عطا ہوتی ہیں.یہ وہ دعوی ہے، جو لے کر ہم ان ممالک میں آئے ہیں اور اس دعوی کو اپنے اعمال سے سچا ثابت کرنا ، ہمارا کام ہے.یور بین قوموں کی ذہانت کے متعلق فرمایا:.اگر ہم یہ دعوی زبانی پیش کرتے رہے تو یہ خیال مت کریں کہ یہ تو میں اس زبانی دعوئی سے دھو کہ کھا جائیں گے.یہ بڑے ذہین لوگ ہیں.دنیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں.لمبی علمی جستجو کے ذریعہ مشاہداتی دنیا میں اپنے نظریات کو بار بار پر کھنے کے بعد ان میں خدا تعالیٰ نے اس فطری ملکہ کو بہت جلا بخش دی ہے، جو ہر انسان کو عطا ہوتی ہے.لیکن بعض لوگ اسے بار بار استعمال کر کے اور اس میں مزید بہتری کے نقوش پیدا کرتے ہوئے اسے ایک بلند مقام تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ فطری ملکہ ہے.کسی دعویدار کے دعوی کو پرکھنا، کسی دعویدار کے دعوی کی پہچان کرنا.قوموں میں لمبے تجربہ کی وجہ سے یہ ملکہ خود چمک اٹھتا ہے.یہ تو میں لمبے عرصہ سے تاجر قوموں کے طور پر دنیا کے سامنے ظاہر ہوئیں اور تجارت کی قوت کے ساتھ انہوں نے تمام دنیا میں نفوذ حاصل کیا اور عروج حاصل کیا.اس لئے ان کے اندر پیچان کا ملکہ خاص ترقی پا چکا ہے.ہر چیز کو پر کھ کر جان کر یہ معلوم کرنے کے عادی ہو چکے ہیں کہ دعوی سچا بھی ہے کہ نہیں؟ اور یہ چیز مفید بھی ہے کہ نہیں؟ پس ان کے سامنے اپنے دین کو پیش کرنا یعنی اس دین کو، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حسین دلکش مذہب تھا، دو طرح سے ہمارے لئے بہت ہی مشکل امر ہے.اول یہ کہ ہمارے دین کی پہلی تصویر جوان ذہنوں پر قائم ہے، وہ بہت ہی بگڑی ہوئی ہے.ان نقوش کو پہلے ہمیں مٹانا ہوگا.591

Page 601

خلاصہ خطاب فرموده 14 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم دوسرے محض دعویٰ اور دلائل سے یہ آپ کی بات نہیں مانیں گے.دعوئی اور دلائل کے ذریعہ تو عیسائیت نے بھی بہت لمبا عرصہ ان کے دل و دماغ پر حکومت کی ہے.اور آج کی نئی نسلیں ان کے طلسم سے با ہر آرہی ہیں.آج کی نئی نسلوں پر وہ جادو ٹوٹ چکا ہے اور وہ یہ عزم لے کر اٹھی ہیں کہ ہم کسی نظریے اور کسی دعوی کو نظریات کی بنا پر قبول نہیں کریں گی.بلکہ ہمیں لازم سچائی کو دیکھنا ہوگا اور پرکھنا ہوگا.جب تک سچائی کو ہم شہدات کی دنیا میں اپنے سامنے دیکھ نہ لیں اور محسوس نہ کر لیں، اس وقت تک ہم اس کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے.الفاظ میں تو یہ اعلان نہیں لیکن عملاً آج کا نئے دور کا یورپین نو جوان یہی اعلان کر رہا ہے.گزشتہ تمام نظریات اور تہذیبی تقاضوں اور تمدنی اقدار کے خلاف وہ علم بغاوت بلند کر چکا ہے.حضور نے فرمایا:.ان کے سامنے جب آپ اپنا دین پیش کریں گے تو محض زبانی دعوؤں پر ہر گزا سے تسلیم نہیں کریں گے.اگر زبانی دعوؤں سے ہی کسی مذہب کو قبول کرنا ہوتا تو عیسائیت کے قبضہ سے نکل کر یہ باہر کی طرف سفر کیوں شروع کرتے.جب میں کہتا ہوں کہ عیسائیت کے قبضہ سے نکل کر تو ممکن ہے کہ بہت سے یورپین عیسائی اس بات پر بر امنائیں.اور وہ یہ سمجھیں کہ یہ بات درست نہیں.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یورپ میں جہاں جہاں بھی میں نے سفر کیا اور جہاں جہاں بھی پریس کو انٹر ویو دیئے اور اصحاب علم و دانش سے ملاقاتیں کیں، وہاں ان سب مذاکرات کے بعد گفت و شنید کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ لوگ، جو سچائی کے ساتھ اپنے معاشرہ کا مطالعہ کر رہے ہیں، وہ سب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اب عیسائیت کا تسلط یورپین ممالک پر بے حد کمزور ہو چکا ہے اور وہ لوگ، جو نظریات کے لحاظ سے عیسائی ہیں بھی.بہت تھوڑے سے ان میں سے ہیں، جو فی الحقیقت کامل یقین کے ساتھ عیسائیت کے متبع ہیں.اس پر پورا ایمان رکھتے ہیں اور اس ایمان کو اپنے عمل میں ڈھال رہے ہیں“.یورپین معاشرے کے دکھوں کے حوالے سے حضور نے بیان فرمایا:.وو یه روز بروز جونئی زندگی کی دلچسپیوں اور مشاغل کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے، نئے نئے ناچ گانوں کی قسمیں، نئی نئی لذت یابی کے سامان.پھر تمدن اور اقدار کے خلاف بغاوت، اپنی روایات کے خلاف بغاوت، اپنے لباس کی طرز میں بغاوت، اپنے ہر رحجان میں ایک باغیانہ طرز کو اختیار کرنا، اپنے سر کے بالوں کے جیسے بگاڑ دینے ، اچھے بھلے لباس کو تار تار کر کے اس طرح پہنا کہ گویا پھٹا ہوا لباس ہی ان کی نمایاں شان کے مطابق ہے اور اچھا لباس ان کے شان گرانے والا ہوگا.بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں پاگل پن 592

Page 602

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ خلاصہ خطاب فرموده 14 جون 1987 ء کی باتیں نظر آتی ہیں.لیکن فی الحقیقت ان کے نیچے، ان کے اندر ایک بہت گہر انا سور ہے، جو رس رہا ہے.ایک بہت بڑا دکھ ہے، جس کی علامتوں کے طور پر ان سے یہ حرکتیں سرزد ہو رہی ہیں.ان کی بھاری اکثریت آج اپنے ماضی سے پوری طرح غیر مطمئن ہو چکی ہے.اپنے ماضی پر انہیں کوئی اعتبار نہیں اور کوئی یقین نہیں رہا.اور ایک بھیانک مستقبل ہے، جو غیر یقینی مستقبل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح گھور رہا ہے، جس طرح کوئی بلا کسی پر جھپٹنے کے لئے اس کو گھور رہی ہوتی ہے.خوفناک ہتھیار اور ایسے خوفناک ہتھیار، جو اگر تمام کے تمام اس دنیا میں استعمال ہوں تو دنیا کی بھاری اکثریت کو کلیتہ صفحہ ہستی سے مٹاڈالیں ، بڑے بڑے ممالک کو رہائش کے قابل نہ رہنے دیں.صدیوں وہاں ویرانیاں بسیں اور آبادیوں کا کوئی سوال باقی نہ رہے.ایسے خطرناک ہتھیار یہ خود ایجاد کر چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہماری سیاسی لیڈر شپ.اخلاقی قدروں کے لحاظ سے اتنی مضبوط نہیں ہے کہ ان ہتھیاروں کے معاملے میں ان پر اعتماد کیا جا سکے.وہ جانتے ہیں کہ کسی وقت بھی کوئی غیر ذمہ دار لیڈر ایسی حرکت کر سکتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ان ہولناک ایٹمی ہتھیاروں کی لڑائی شروع ہو جائے..پس یہ دو بلاؤں کے درمیان پس رہے ہیں.ایک ماضی سے بے اطمینانی، اپنی ہر روایت سے بے اطمینانی اور ایک مستقبل پر عدم اعتماد اور یہ یقین کہ ہماری کوئی منزل نہیں اور ہمارا کوئی رخ نہیں.ان دونوں مصیبتوں کے درمیان گھر کر ان کی فطرت نے ایک بغاوت کی ہے.اس بغاوت کا اظہار اس نئی طرز کا ناچ گانے، نئی طرز کے لباس ، نئی طرز کے انداز میں ہو رہا ہے.جس کی ہر ہر ادا ماضی سے بغاوت کا اعلان کر رہی ہے اور مستقبل پر بے اطمینانی کا اظہار کر رہی ہے.حضور نے فرمایا:.وو یہ وہ صورت حال ہے، چند گنتی کے احمدی یہ دعوئی لے کر اٹھتے ہیں کہ ہم ان قوموں کو اطمینان بخشیں گے، ہم ان کے لئے دائمی سکینت لے کر آئیں گے، ہم ان کی طمانیت کے سامان لے کر آئیں ہیں.اور وہ سارے خلاء، جو ان کی فطرت میں پیدا ہو کر ان کے سینوں کو ویرانے بنا رہے ہیں، ان سب خلاؤں کو نہایت ہی حسین و دلکش بہاروں سے ہم نے بھرنا ہے.یہ دعویٰ لے کر جماعت احمدیہ کے چند نوجوان، چند بوڑھے، چند عورتیں، چند بچے ان ملکوں میں ایک نیا روحانی انقلاب پیدا کرنے میں کوشاں ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے آپ کو بیان کیا ہے.محض یہ دعویٰ کسی کام نہیں آئے گا.کیونکہ دعوؤں سے یہ لوگ تھک چکے ہیں ، بیزار ہو چکے ہیں.ان کو عملاً ایک تسکین بخش نظریے کی نہیں بلکہ ایک تسکین بخش نمونے 593

Page 603

خلاصہ خطاب فرمودہ 14 جون 1987 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کی ضرورت ہے.اس لئے ہر وہ احمدی ، جو داعی الی اللہ ہونے کا دعویٰ اور کوشش کرتا ہے کہ نظریات کی دنیا میں ان کو مطمئن کرائے کہ ہمارا دین بہتر ہے.ان کا مذہب ہمارے مذہب کے مقابلہ میں ان کے لئے کم نفع بخش ہے.بسا اوقات ایسا احمدی سالہا سال تک کوشش کرتا چلا جاتا ہے اور اس کو کوئی پھل نہیں ملتا.کوئی شخص بھی اس کے مضبوط دلائل کے سننے کے نتیجہ میں ان سے مطمئن ہو کر احمدیت قبول نہیں کرتا.اور پھر یہ داعی الی اللہ مجھے شکوہ کے خط لکھتا ہے.شکوہ کے نہیں تو شکایت کے کہہ لیں کہ ہم کیا کریں؟ ہم پوری کوشش کرتے ہیں دلائل سے اپنے مدمقابل کو ہر پہلو سے شکست دے دیتے ہیں.لیکن وہ ہمارے دین کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا.اس کا کیا حل ہے؟“ فرمایا:.میں انہیں آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اپنے دعوئی کے سامنے اپنے عمل کا سر تو خم کریں.اپنے دعوئی کو اپنے اعمال میں تو جاری کریں.خود ان کے دعاوی کے نتیجہ میں اپنے دل کے لئے تو تسکین کا سامان پیدا کریں.نفس مطمئنہ نہیں.وہ نفس، جو محض نظریوں پر اطمینان نہیں پاتا بلکہ نظریوں کو اپنے اعمال میں ڈھال کر ان کی صداقت کو پرکھ کر عملاً ایک جنت کی زندگی بسر کرنا شروع کر دیتا ہے.یہ تبدیلی اگر آپ اپنے اندر پیدا کر لیں تو پھر آپ کے دعاوی میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہو جائے گی.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان کو خدا چاہئے لیکن اس راہ میں ان کے لئے مشکل یہ ہے کہ جس خدا کے تصور سے، جس خدا پر ایمان لا کر انہوں نے زندگی کا سفر شروع کیا تھا، وہ خدا ایک فرسودہ خیالی خدا بن چکا ہے، ایک کہانی بن گئی ہے.عملاً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ان کے لئے کچھ نہیں کر سکا.اس لئے آپ جب خدا کا تصور لے کر ان کے پاس آتے ہیں تو خواہ یہ الفاظ میں آپ سے کہیں یانہ کہیں لیکن ان کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ ہاں ہم نے دیکھے ہیں خداؤں والے.پہلے بھی سالہا سال صدیوں تک خدا والوں نے ہم پر حکومتیں کی ہیں اور خدا کے نام پر ہمیں ہزار قسم کے دھوکوں میں مبتلا رکھا ہے.آج اس خدا پر ایمان لانے کے نتیجہ میں یا ان خداؤں کی پیروی کے نتیجہ میں ہم اس حال کو پہنچے ہیں کہ دنیا کی تمام ترقیات کے باوجود ہمارا قلب، قلب مطمئنہ نہ بن سکا، ہمارے دل کو سکون حاصل نہ ہوسکا.اس لئے تم کس خدا کی بات کرنے آئے ہو.کون سا خدا لے کر ہمارے پاس آئے ہو.یہ وہ چیلنج ہے، جو آپ کے سامنے مد مقابل بن کر کھڑا ہے.اور بظاہر ہماری طاقت کے مقابل پر اس چیلنج کی طاقت بہت بڑی ہے اور بہت وسیع ہے.اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پینچ ہمارے سارے رستے روک کر کھڑا ہے.594

Page 604

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 14 جون 1987ء پھر حضور نے فرمایا:.اس لئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس طرح اس چیلنج کو کامیابی کے ساتھ قبول کریں ؟ اور اس پر غالب آئیں.اس کا یہی جواب ہے، جو میں پہلے بھی دے رہا ہوں.اب پھر اس پر مزید زور دینا چاہتا ہوں.اگر آپ اس دعوئی میں بچے ہیں کہ اس کائنات کا رحمان و رحیم رب، مالک، خدا، وہی خدا ہے، جسے آپ اس دنیا میں متعارف کروانا چاہتے ہیں تو پھر اس فرضی خدا کو ایک فرضی وجود کے طور پر پیش نہ کریں.بلکہ ایک ایسے وجود کے طور پر پیش کریں، جو آپ کی ذات میں اتر آیا ہو.جب تک آپ خدا والے بن کر نہیں دکھاتے ، اس وقت تک آپ کی بات پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا.اور خدا والے بننے کے لئے عملاً خدا کی صفات کو اپنی ذات میں جاری کرنا پڑتا ہے.یہ تو ممکن نہیں کہ کسی انسان سے بدبو کے بھا کے اٹھ رہے ہوں اور دعویٰ یہ کرے کہ میں عطر بناتا ہوں اور عطر کی دوکان سے باہر آرہا ہوں.اگر کوئی عطر بنانے کا دعویدار ہو تو کم از کم اس کے کپڑوں سے ، اس کی لمس سے خوشبو تو اٹھے.کیسے ممکن ہے کہ دعوئی تو عطر بنانے کا ہو اور منہ کالا اور کپڑے گندے اور بدن سے سخت بد بواٹھ رہی ہو.اس لئے کوئی اس دعویدار کے دعوی کو قبول نہیں کرے گا.خدا تعالیٰ تو تمام خوشبوؤں کا منبع ہے.خدا تو ہر نور کا سر چشمہ ہے.اگر خدا سے تعلق کا دعوی رکھنے والے لوگ واقعی اپنے دعوئی میں بچے ہوں تو ان کے جسم میں نور کے نشان ظاہر ہونے چاہئیں.اور یہی وہ دعوئی ہے، جو قرآن کریم کرتا ہے.فرماتا ہے:.نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ کہ جب مومن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں خدا کے ساتھ تعلق جوڑ چکا ہوں تو وہ دعویٰ ایک فرضی کہانی نہیں رہتی بلکہ عملاً اس کا نور آگے آگے دوڑتا ہے.اور دنیا دیکھتی ہے کہ یہ نور کے ساتھ چل رہا ہے.ان کے اندر ایک غیر معمولی تزکیہ کی قوت پیدا ہو جاتی ہے.ان کی باتوں میں ایک غیر معمولی طاقت بخشی جاتی ہے اور ایک وزن پیدا ہو جاتا ہے.ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق دکھائی دینے لگتا ہے.دنیا والے جب ان پر نظر ڈالتے ہیں تو جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہوتے ہوئے بھی یہ کسی اور دنیا کے لوگ ہیں.ان کی ہر ادا مختلف اور نرالی دکھائی دینے لگتی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ان کی ہر بات خلوص سے لبریز ہے.ان کی ہر ادا کچی ہے.یہ خالص ہمدردی بنی نوع انسان کی رکھتے ہیں اور محض اپنی انا کے لئے نہیں اپنے نظریہ کے غلبہ کے لئے نہیں بلکہ ہمیں ہلاکتوں سے بچانے کے لئے یہ پیغام دے رہے ہیں.اس عملی تبدیلی کے ساتھ اگر آپ ان کو خدا کی طرف بلائیں گے کہ آپ کے اندر خدائی صفات جلوے دکھانے لگی ہیں، خدا کے رنگ آپ پکڑ گئے ہیں.تو پھر آپ دیکھیں کہ آپ کی دعوت میں کتنی غیر معمولی 595

Page 605

خلاصہ خطاب فرمودہ 14 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتم طاقت پیدا ہو جاتی ہے.ہزار باتوں کی بجائے تقویٰ سے قوت پانے والا بعض اوقات ایک فقرہ ہی وہ رنگ دکھاتا ہے، جو ہزار باتیں نہیں دکھا سکتیں.اس لئے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیں کہ جس کے آپ نمائندہ ہیں.اس کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں.اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی عالم بقاء کے لوگ بننے کی کوشش کریں، جو دنیا سے ہر طرح کا تعلق رکھتے ہوئے بھی دنیا سے بے نیاز ہیں“.مومن کے دنیا سے تعلق کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:.مولانا روم کی اس مثال کو پیش نظر رکھیں، جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ پانی اور کشتی کا ایک ایسا اٹوٹ تعلق ہے کہ اگر کشتی کو پانی سے الگ کر دیا جائے تو کشتی کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے.اسے کشتی کہنا ہی بے معنی بات بن جاتی ہے.لیکن کشتی تبھی دنیا کو غرق ہونے سے بچا سکتی ہے اور انسانوں کو غرق ہونے سے بچا سکتی ہے، اگر وہ پانی کے اوپر رہے.اگر پانی کشتی کے اوپر آ جائے تو کشتی غرقابی سے بچانے کی بجائے غرقاب کرنے والا ایک ذریعہ بن جاتی ہے.اس طرح مومن کا دنیا سے تعلق ہے.اس دنیا میں جب تک وہ زندگی بسر کرتا ہے تو ناممکن ہے کہ اس دنیا کے معاملات سے الگ رہے.لیکن دنیا پر فائق رہ کر دنیا پر غالب رہ کر دنیا کی سطح کے اوپر حکومت کرتا ہے.دنیا سے مغلوب ہو کر نہیں.پس آپ بھی دنیا میں اس طرح رہیں کہ ہر طرح کا تعلق جوڑنے کے باوجود اس سے مرعوب ہو کر نہ رہیں.اس پر غالب ہو کر رہیں.ہمیشہ یہ احساس اپنے ذہن میں غالب رکھیں کہ آپ خدا کے نمائندہ ہیں.اور جس طرح خدا ہر فیض کا سر چشمہ ہے، آپ سے بھی فیضی دنیا تک پہنچے.ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہیں کہ آپ کسی نہ کسی رنگ میں کسی انسان کے لئے بھلائی کا موجب بن جائیں.خدمت کے موقعوں کی تلاش میں رہیں.حسن خلق کے ذریعہ بھی یہ خدمت ہو سکتی ہے، مسکراہٹوں اور پیار کے ذریعہ بھی یہ خدمت ہو سکتی ہے، مصیبت زدہ کو مصیبت سے نکالنے کی کوشش کے ذریعہ، بیمار پرسی کرنے کے ذریعہ ، خدا سے غافل لوگوں کو خدا کی طرف متوجہ کر کے، دعاؤں سے آشنا کر کے بھی یہ خدمت ہو سکتی ہے.غرضیکہ ایسے بن جائیں کہ ہمیشہ ذہن خدمت کی راہیں تلاش کرتا رہے.ہمیشہ ذہن یہ سوچتار ہے کہ میں کس طرح فیض رساں وجود بنوں اور میری ذات سے ان لوگوں کو ضرور کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچے.یہی وہ راز ہے، جس کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض دفعہ لوگ احادیث کو پڑھتے بھی ہیں لیکن ان کے اندر مخفی خزانوں سے ناواقف رہتے ہیں.احادیث ہیں لیکن انکے اندر نخی انوں سے پھر فرمایا:.نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ تمثیل کے طور پر خدا کا ذکر کرنے والوں کے بعض السلام واقعات بیان فرمائے.ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار آپ نے ایسے واقعات بیان فرمائے.جن میں سے ایک 596

Page 606

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم خلاصہ خطاب فرموده 14 جون 1987ء بات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ خدا کے فرشتے دنیا کے حالات کے متعلق جو کچھ دنیا میں گزر رہا ہے، ریکارڈ رکھتے ہیں.اور یہ ریکارڈ ملاء اعلیٰ میں خدا کے حضور پیش کیا جاتا ہے.ایسے ہی ایک مامور فرشتے نے خدا سے عرض کیا کہ اے خدا ! فلاں وقت فلاں جگہ کچھ لوگ خالصہ اس لئے اکٹھے ہوئے تھے کہ تیرا ذ کر کریں.اور جب تک میں ان کی نگرانی کرتا رہا، وہ تیرے ہی ذکر میں اور تیری ہی محبت کی باتوں میں مشغول رہے.یہ بات جب اس نے پیش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ان کے سارے گناہ بخش دیئے اور میں انہیں مغفرت کی خوشخبری دیتا ہوں اور جنت کی خوشخبری دیتا ہوں.اس پر اس پیش کرنے والے فرشتے نے عرض کیا کہ اے خدا! اس مجلس میں کچھ ایسے بھی لوگ شامل ہو گئے تھے ، جو مسافر تھے.ایک مجلس دیکھ کر وہاں رک گئے اور ستانے کے لئے ٹھہر گئے ، ان کا مقصد ذکر الہی نہیں تھا.کیا وہ بھی اس خوشخبری میں شامل ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں، وہ بھی.کیونکہ وہ لوگ جو میر اذکر کرتے ہیں، ان کے پاس آنے والے بھی ان کی برکتیں پا جاتے ہیں، ان کے قریب بیٹھنے والے بھی برکتوں سے محروم نہیں رہتے.اس کے نتیجہ میں اکثر لوگ جب اس حدیث کو سنتے ہیں تو یہ خیال کر لیتے ہیں کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہئے.لیکن اس حدیث میں جو پیغام مخفی ہے، اس پیغام کو نہیں سمجھ سکتے.پیغام یہ ہے کہ اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے ہو اور واقعہ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو ہمیشہ تمہارا فیض تمہارے ساتھیوں کو پہنچتا رہنا چاہئے“.مزید فرمایا:.یہ قانون طبعی ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا کا ذکر کرنے والا ہو اور اس کے ساتھی اس سے محروم رہ جائیں.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے فرمایا: اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والو! تم گو بہترین امت ہو، جو کبھی بنی نوع انسان کے لئے نکالی گئی تھی لیکن اخرجت للناس اس لئے بہترین امت ہو کہ تم بنی نوع انسان کو خیر پہنچانے کی خاطر پیدا کی گئی ہو.اس لئے کہ تمہاری خیر اور تمہاری بھلائی تم تک نہیں ٹھہرتی بلکہ بنی نوع انسان تک آگے پھیلتی چلی جاتی ہے.پس اگر تم دنیا کی بھلائی کے کام چھوڑ دو گے تو خیرامۃ نہیں رہو گے.اور خیرامۃ ہو تو اس لئے نہیں کہ تم نے ایک رسول کو قبول کر لیا بلکہ اس لئے کہ اس رسول کے فیض کے نتیجہ میں تم تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے والے بن گئے.پس اگر آج یورپ میں بسنے والا احمدی اس بنیادی تعریف پر پورا اترتا ہے.اس قرآن کی آیت کے مفہوم کو پیش نظر رکھتا ہے.اس حدیث کے مفہوم کو پیش نظر رکھتا ہے، جو میں نے ابھی آپ کو سنائی تو یہ 597

Page 607

خلاصہ خطاب فرموده 14 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ممکن ہی نہیں کہ افاضہ خیر کے بغیر زندہ رہ سکے.یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ لوگوں کی بھلائی کے تصور میں زندگی گزارے بغیر اطمینان پاسکے.اس لئے آپ کا مقصد اعلیٰ جو قرآن کریم نے بیان فرمایا، آپ کی زندگی کا قبلہ وکعبہ جو خدا نے مقرر فرمایا، وہ یہی ہے کہ آپ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے ر ہیں.خواہ وہ آپ کی مانیں یا نہ مانیں.خواہ وہ آپ سے حسن سلوک کریں یا نہ کریں ؟ آپ ان کی بھلائی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں.ایسا کریں تو کافروں پر بھی خدا کی رحمت کی بارشیں برستی ہیں.اس کو گالیاں دینے والے بھی اس کے قانون قدرت سے فیض پارہے ہیں.ان کی فصلیں بھی پھل اگاتی ہیں.ان کی محنتیں بھی بیٹھے ثمرات پیدا کرتی ہیں.اور خدا تعالیٰ کی رحمت کوئی تفریق نہیں کرتی کہ کون لوگ دہریہ ہیں اور کون غیر دہریہ؟ جہاں تک اس کی عام رحمت کا تعلق ہے، وہ سب کے لئے یکساں جاری ہے.سب کے لئے فیض رساں ہے.پس یہ وہ ادنی تعریف ہے مومن کی ، جو مومن کی ذات میں جاری ہونی ضروری ہے کہ اس کے بغیر مومن کی آواز میں قوت پیدا نہیں ہوتی.دلوں کو جیتنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:.پس آپ اپنے گردو پیش کو اگر جیتنا چاہتے ہیں گواپنے فیض کے ذریعہ جیتیں ، اپنی محبت کے ذریعہ جیتیں ، اپنے پیار کے ذریعہ جیتیں، اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے خدا کے لئے جیتیں.تا کہ آپ کی طمانیت ان کے وجود میں اس طرح منتقل ہو، جیسے RADIATION ایک وجود سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے.تا کہ وہ بھی آپ کے رنگ ڈھنگ سیکھ کر خدا والے بنیں اور بنی نوع انسان کے لئے فیض رساں وجود بنتے چلے جائیں.یہ کوشش تبھی کامیاب ہو سکتی ہے، اگر دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے آپ مدد مانگتے رہیں، اس سے پاک تبدیلیوں کے متمنی رہیں، اس کی صفات سے محبت کرنے لگیں، اس کی صفات سے محبت کے نتیجہ میں اس کی صفات کو اپنے اندر جاری کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں.اگر آپ ایسا کریں گے اور دعاؤں کے ذریعہ مدد حاصل کریں گے تو یقینا آپ ان علاقوں کی قسمت بدلنے والے بن جائیں گے، وہ بھیا نک خلاء، جو ان کے سینوں میں پیدا ہو چکے ہیں، وہ بے قراریاں اور بے چینیاں جو ان کے وجود پر قابض ہو چکی ہیں، ان کا علاج آپ کے پاس ہے.لیکن یہ علاج ان تک پہنچائیں تو سہی.اس علاج کی افادیت ان پر ثابت کریں.محض نظریاتی لڑائیوں سے یا محض یہ ثابت کرنے سے کہ قرآن یہ کہتا ہے اور بائبل وہ کہتی ہے اور ان دونوں کے موازنہ کرنے سے یہ بات درست نکلتی ہے اور وہ بات غلط نکلتی ہے، آپ کوئی عملی فتح ان قوموں پر حاصل نہیں کر سکتے.آج بھاری اکثریت 598

Page 608

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خلاصہ خطاب فرمودہ 14 جون 1987ء ان میں سے وہ ہے، جو ان کتب پر کسی قسم کا کوئی ایمان نہیں رکھتی.اس لئے ان کے لئے یہ سب فرضی باتیں اور ڈھکوسلے ہیں.حضور نے فرمایا: یہاں عملاً ایک ایسے خدا پر یقین کرنے اور ایمان لانے کے لئے یہ آج بھی آمادہ ہیں، جو عملی زندگی میں انسانوں میں اتر کر ان میں جلوے دکھا سکتا ہو اور اپنے سے تعلق جوڑنے والوں کے لئے کرشمے دکھا سکتا ہو.کرشموں سے مراد وہ کرشمے نہیں، جو فرضی معجزے ہیں ، تماشے ہیں.مردوں کو زندہ کر دیا یا کوڑھیوں کو اچھا کر دیا.اس سے بہت زیادہ وسیع پیمانے پر آج دنیا کے وہ لوگ جو خدا پر یقین نہیں رکھتے ، بنی نوع انسان کو فائدے پہنچارہے ہیں.قبروں تک پہنچے ہوئے لوگوں کو وہ زندگی بخش رہے ہیں، لا علاج مریضوں کو شفاء بخش رہے ہیں، حیرت انگیز سرجری کے کارنامے دکھا رہے ہیں“.فرمایا:.دنیا کو روحانی معجزوں کی ضرورت ہے، جو ان کی روح کی کایا پلٹ دے.ایسے معجزوں کی ضرورت ہے، جو ان کو طمانیت قلب عطا کریں، ان کو یقین سے بھر دیں.ایسے معجزے انسانوں کے اندر پاک تبدیلی کے بغیر دنیا کو نہیں دکھائے جا سکتے.اگر آپ ایسا بن جائیں گے تو آپ کے کلام میں برکت رکھی جائے گی.آپ کی دعاؤں کو قبولیت کا نشان عطا ہو گا.آپ جتنی زیادہ ہمدردی سے ان لوگوں کے لئے دعا کریں گے، اتناہی زیادہ قبولیت دعا کے نشان خدا تعالیٰ ان کو دکھائے گا اور ان کے دلوں کو اطمینان بخشے گا کہ ہاں یہ دعا کے نتیجہ میں ایسا ہوا تھا.پس پاک اعمال کے ساتھ جب دعائیں اپنے جلوے دکھاتی ہیں تو ایسا ہی منظر پیدا ہوتا ہے.جس طرح ایک زرخیز زمین پر آسمان سے بارش نازل ہونے لگتی ہے اور ہری بھری کھیتیاں اس زرخیز زمین سے پیدا ہونے لگیں، جو اپنے پاک انجام تک پہنچیں ، جس سے بہت ہی مفید اور دنیا کے لئے لذت بخش پھل پیدا ہوں“.پھر فرمایا:.یہ وہ نقشہ ہے، جو قرآن کریم مختلف رنگ میں مذہب کی افادیت کا پیش کرتا ہے.عملاً خدا کرے کہ ہم لوگ ان باتوں کو محض نظریات کی دنیا میں نہیں بلکہ عمل کی دنیا میں ڈھال کر ان کے سامنے پیش کر سکیں.اس کی بڑی شدید ضرورت ہے اور وقت تیزی سے ہمارے آگے بھاگ رہا ہے.بہت سے احمدی ہیں، جو مایوس ہورہے ہیں.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاشرہ بہت زیادہ غالب ہے.ہم اس کے حالات کو بدل 599

Page 609

خلاصہ خطاب فرمودہ 14 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم نہیں سکتے اور مایوسی کے نتیجہ میں وہ خود آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگے ہیں.اور یہ حقیقت ہے کہ آپ سب اس خطرے کے مقام پر کھڑے ہیں.اور اگر آپ نے ان کو تبدیل نہ کیا تو یہ ضرور آپ کو تبدیل کر دیں گے.یہ زندگی ، وموت اور زندگی کے درمیان ایک جدو جہد ہے.جس میں کامیابی کے نتیجہ میں زندگی حاصل ہوتی ہے اور نا کامیابی کے نتیجہ میں موت ہے.کوئی درمیانی راہ نہیں، کوئی جمود نہیں ہے.اس لئے آپ کو لازماً ان پر غالب آتا ہے.یعنی صفات حسنہ کے ذریعہ، محبت کے ذریعہ، اعلیٰ پیغام کے ذریعہ، پاک تبدیلیوں کے ذریعہ ان کو طمانیت عطا کریں ورنہ یہ آپ کی طمانیت چھین لیں گے.آپ کو دنیا دار بنادیں گے، آپ کو اپنے پیچھے لگالیں گے.آپ نہیں تو آپ کی اولادیں آپ کی آنکھوں کے سامنے اپنے دین سے دور بنی شروع ہو جائیں گی.اس لئے اگر ان کی بھلائی کا خیال نہیں تو اپنی بھلائی کا خیال کریں.یہ ایک ایسا قانون ہے، جو نہیں بدل سکتا.اگر آج آپ نے اس کو پوری طرح آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا تو کل محسوس کریں گے یا آپ تبدیل کرنے والے ہیں یا تبدیل ہونے والے ہیں.درمیان کی کوئی اور صورت نہیں“.دعوت الی اللہ میں سنجیدگی اختیار کرنے کے حوالے سے فرمایا:.اس لئے لازماً دعوت الی اللہ کو بڑی سنجیدگی سے اختیار کریں اور پاک اعمال اور دعاؤں کے ذریعہ ان کے حالات بدلیں.ورنہ آپ تبدیل کر دیئے جائیں گے.خدا نہ کرنے کہ ایسا ہو اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہمارے بڑے، ہمارے چھوٹے، ہمارے بوڑھے اور ہمارے جوان اور ہمارے مرد اور ہماری عورتیں اور ہمارے بچے، سب دعوت الی اللہ کے عملی پاک نمو نے ان کو دکھا ئیں.اور ان میں سے ان سعید روحوں کو پکڑ پکڑ کر اپنے دین میں داخل کریں، جن کو حضرت بانی سلسلہ کو کشفا دکھایا گیا تھا کہ میں یورپ میں سفید پرندے پکڑ رہا ہوں.ان میں ضرور سعید روحیں بڑی کثرت کے ساتھ موجود ہیں.بہت نیک لوگ ان کے اندر بس رہے ہیں.آپ ان کی تلاش کریں، ان کو محفوظ مقامات تک یعنی دین کے محفوظ مقام تک ان کو پہنچا ئیں.خدا آپ کے ساتھ ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“.آخر میں فرمایا:.آئیے اب ہم دعا کر لیتے ہیں.اللہ فضل فرمائے اور جانے والوں کو اپنی خیر و عافیت کے سائے تلے، اپنی حفاظت کے سائے تلے لے کر جائے اور وہ لوگ جنہوں نے فیری پکڑنی ہے، وہ پریشان ہورہے ہوں گے کہ گھنٹہ زیادہ ہو گیا ہے.اللہ ان کے لئے بھی سفر آسان فرمائے اور سب احمدی دوست 600

Page 610

خلاصہ خطاب فرموده 14 جون 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک اور بعض غیر احمدی دوست اور بعض غیر مسلم دوست بھی جو دور سے اس اجتماع میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہیں.اللہ اس اجتماع میں شرکت کے عمل کو قبول فرمائے اور ان کے گھر برکتوں سے بھر دے.اپنی رحمتیں ان پر نازل فرمائے اور وہ محسوس کریں کہ اس اجتماع میں شمولیت سے پہلے ہم اور تھے اور اس اجتماع میں شمولیت کے بعد ہم کچھ اور ہو چکے ہیں.اور اللہ کی رحمتیں اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھیں تا کہ مزید خدا پر ان کا ایمان بڑھے.آیئے ہم دعا کر لیتے ہیں.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته (مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ مصباح ستمبر 1987 ء بشکریہ احمدیہ پلیٹن ہالینڈ 02 جولا ئی 1987 ء ) | 601

Page 611

Page 612

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد من اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 جولائی 1987ء وو صد سالہ جوبلی کے چندہ کی طرف توجہ کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 03 جولائی 1987ء اگر چہ جو بلی کے چندے میں بیرون پاکستان اور اندرون پاکستان اس سال کے آغاز پر کم و بیش ادائیگی کی ایک ہی نسبت تھی.یعنی اگر پاکستان میں ساٹھ فیصد کل چندے کی ادائیگی ہوئی تھی تو بیرون پاکستان بھی کم و بیش ایک دو فیصد کے فرق سے یہی تناسب تھا.لیکن بیرون پاکستان اس چندے کی ادائیگی کی طرف پاکستان کے مقابل پر بہت کم توجہ دی گئی.یہاں تک کہ پاکستان اس سال کی ادائیگی میں تمام دنیا کی تمام جماعتوں سے آگے بڑھ گیا ہے“.....اس وقت عرب دنیا میں بہت کثرت سے ایسے لوگ ہیں، جن میں سے ایک ایک تمام جماعت کے تمام چندوں سے بڑھ کر اگر چاہے تو خدمت دین میں خرچ کر سکتا ہے.اور سال میں ایک دفعہ نہیں ہر مہینے اس سے زیادہ خرچ کر سکتا ہے.بعض ایسے ہیں کہ ہر ہفتے اتنا خرچ کر سکتے ہیں اور پھر بھی ان کو فرق نہ پڑے.اس لئے ایک غریب جماعت کے لئے ، ایک عالمگیر غریب جماعت کے لئے اتنی عظیم مالی قربانی کو ہمت اور وفا کے ساتھ جاری رکھنا، ایک بہت بڑی چیز ہے.اور بوجھ اتنا زیادہ بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ واقعی اگر ایک انسان پورا ایمان نہ رکھتا ہو، اس کا دل ڈول جائے گا کہ اب تو ادا ئیگی ہماری استطاعت سے باہر چلی گئی ہے.وو جماعت احمدیہ کے مختلف ممالک میں مختلف حالات ہیں.بعض جگہ کثرت سے بعض دوستوں کو پریشانیاں بھی ہیں اور پھر ان کے حالات میں اونچ نیچ آتا رہتا ہے.کسی اچھے وقت میں زیادہ وعدہ کر بیٹھے جوش سے، محبت سے، اس امید پر کہ یہ اچھے دن جاری رہیں گے اور کچھ دن کے بعد نوکری نہیں ملی.کوئی اور جو ذریعہ تھا معاش کا ، وہ ہاتھ سے جاتا رہا.باقی ساری باتیں بھول گئے لیکن چندے کا بوجھ ذہن میں سب سے اوپر رہا اور سب سے زیادہ اس فکر میں غلطاں ہو گئے کہ ہم چندہ کس طرح ادا کریں گے؟ چنانچہ ایسے لوگوں کے بھی خط ساتھ آنے شروع ہو جاتے ہیں.603

Page 613

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم پھر ان کے خط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ کس طرح حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا.اور صرف انتظام ہی نہیں فرمایا بلکہ ان کے جو زائد بوجھ تھے، وہ بھی اتار دیے.جو کچھ خدا کے حضور انہوں نے پیش کیا، اس سے بھی زیادہ خدا تعالیٰ نے عطا فر ما دیا.اور جو پہلا پیش کیا، وہ بھی خدا کے فضل سے کیا، ورنہ ان کے پاس کوئی سامان نہیں تھا.ایسے حیرت انگیز سلوک اللہ تعالیٰ ساری دنیا میں خدا کی خاطر مالی قربانی کرنے والی جماعت سے اور جماعت کے افراد سے کر رہا ہے کہ اس کے بعد کسی شک کی کسی وہم کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ ہم تو بے سہارا جماعت ہیں، ہمارا کوئی مول نہیں ہے.ہمارا ایک ایسا مولا ہے، جو زندگی کے ہر موڑ پر ہماری حفاظت کرتا ہے.ہمارا ایک ایسا مولا ہے، جولحہ لمحہ اپنے قرب کا احساس دلاتا چلا جاتا ہے.فَإِني قَرِيبٌ (البقرة: 187) کے طور پر ہم اسے دیکھتے ہیں اور ہمیشہ اس کے قرب کے جلوے مختلف شکلوں میں جماعت احمدیہ پر اور احباب جماعت احمدیہ پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں....پس اللہ تعالیٰ سے دعا کریں ان کے لئے بھی اور اپنے لئے بھی کیونکہ بیرونی جماعتوں کو بعض معاملات میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں.خصوصیت سے صد سالہ جو بلی کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ابھی تقریباً ساٹھ فیصدی سے زیادہ نہیں ہوا، گزشتہ چودہ یا پندرہ سالوں میں بیرونی جماعتوں کا چندہ.یہ چندہ جیسا کہ میں نے ایک دفعہ پچھلے خطبے میں بھی بیان کیا تھا، جو جو بلی کا چندہ ہے.اس کا تخمینہ آج سے بہت پہلے لگایا گیا تھا.یعنی آج سے تقریباً دس بارہ سال پہلے جو وعدے موصول ہوئے ، ان پر بناء کرتے ہوئے بجٹ بنا ہے.اس وقت اگر بیرونی جماعتوں کا پانچ کروڑ کا وعدہ تھا تو جب ہم کہتے ہیں کہ پچاس فیصدی وصولی ہوئی تو مراد یہ ہے کہ اڑھائی کروڑ وصولی ہوئی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ دس بارہ سال میں چندہ دینے کی جماعت کی صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے.بعض صورتوں میں تو گزشتہ چار، پانچ سال کے اندر ہی تین تین، چار چار گنا چندہ بڑھا ہے.لازما اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے چندے دینے والے بھی داخل ہوئے اور پرانے نسبت سے کم چندہ دینے والے بھی آگے بڑھے ہیں.تقویٰ کا معیار آگے بڑھا ہے، دین سے محبت آگے بڑھی ہے.بہر حال جب باقی سب چندوں میں کئی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور گزشتہ چار پانچ سال کے اندر تو دس بارہ سال کے اندر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کم و بیش دس بارہ سال کا عرصہ ہو گا کہ جماعت کے اندرنی توفیقات میں کتنا اضافہ ہوا ہوگا ہے.604

Page 614

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1987ء پس اس نقطہ نگاہ سے اگر دیکھیں تو بیرونی جماعتوں کا ساٹھ فیصد کے قریب جو بلی کو چندہ ادا کرنا ، ایک فرضی عدد ہے.آج اگر جائزہ لیا جاتا اور آج تحریک ہوتی تو پانچ کروڑ کی بجائے مجھے یقین ہے کہ بیس کروڑ کے قریب و عدے ہوتے.تو عملاً اگر آپ نے تین کروڑ ادا کیا ہے تو ہیں کے مقابل پر تین کیا ہے نہ کہ پانچ کے مقابل پر.لیکن اس کے باوجود بعض بیرونی جماعتیں ایسی ہیں، یورپ میں ہیں مثلاً جو خدا کے فضل سے اپنی توفیق کے مطابق اور بعض جگہ اپنی توفیق کو کھینچ کر آگے بڑھ رہی ہیں اور ادائیگیوں میں خدا کے فضل سے صف اول میں ہیں.ان پر کسی اور وجہ سے انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے یاددہانی کی کمی کی وجہ سے یہ بوجھ اچانک پڑ گیا ہے.ان کو گویا اب یاد آیا کہ اوہو! ہم نے تو ایک بہت بڑا چندہ ادا کرنا تھا، جو پہلے کرنا چاہئے تھا.اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے تو ہمیں یاد کرایا جا رہا ہے.اس لحاظ سے وہ ان کی حالت خاص دعا کی محتاج ہے.مگر تمام دنیا میں اس چندے کی طرف اب خصوصی توجہ دینے کا وقت آگیا ہے.اب تو آج اور جوبلی کے سال کے درمیان وقت ہی کوئی نہیں رہا.سارے جو پروگرام بنائے جارہے تھے، اب ان پروگراموں پر عمل درآمد کا وقت ہے.اور تیزی سے وہ اخراجات کا مطالبہ کر رہے ہیں.اور اگر اب تاخیر کر دی گئی تو خطرہ ہے کہ وقت پر ہم ان کاموں کو ختم نہیں کر سکیں گے.اس لئے دعا کریں اور حوصلہ کریں.جو پاکستان کے حالات میں نے بیان کئے ہیں، اس لئے بتائے ہیں تا کہ آپ کے اندر حوصلہ پیدا ہو اور تو کل پیدا ہو.آپ اگر اخلاص کے ساتھ یہ نیت کر لیں کہ ہم نے تمام بقایا ادا کر دینے ہیں اور شرح کے مطابق چندوں میں کمی نہیں آنے دینی اور دعا کریں اور اخلاص کے ساتھ اپنے دل کو اس خیال.منسلک کرلیں، باندھ لیں ، یعنی اٹھتے بیٹھتے خود بخود ذہن اس ذمہ داری کی طرف منتقل ہونا شروع ہو جائے.یہ آپ کریں تو باقی سارے کام خدا کی تقدیر کرے گی.اور بالآخر جب آپ سب ادائیگیوں سے فارغ ہوں گے تو مالی لحاظ سے پہلے سے بہتر حالت ہوگی، بدتر حالت نہیں ہوگی.یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں.کیونکہ ساری دنیا میں سالہا سال کا تقریباً ایک صدی کا تازہ تجربہ ہے، اسی طرح خدا سلوک فرما یا کرتا ہے.ہماری کم ہمتی حائل ہو جائے تو ہو جائے ورنہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق ہے، اس کی عطا کا تعلق ہے، وہ کبھی بھی اپنی راہ میں مالی قربانی کرنے والوں کو خالی ہاتھ نہیں رہنے دیا کرتا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اور جماعت جو اس وقت ایک نشان بنی ہوئی ہے دنیا میں مالی قربانی کے لحاظ سے، جماعت کا یہ اعجاز ہر حال میں، ہر صورت میں، چاہے خزاں کے دن ہوں، خواہ بہار کے دن ہوں، ہمیشہ پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ چمکتا رہے ، آمین.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 16 صفحہ 441 447) 605

Page 615

Page 616

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود و 10 جولائی 1987ء وقف کرنے والی اولاد کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنی چاہئے دو خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1987ء جب بھی ہم کوئی نذیر، کوئی ڈرانے والا کسی بستی یا کسی قوم کی طرف بھیجتے ہیں تو ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے جو خوشحال لوگ ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ جس چیز کو بھی تم لے کے آئے ہو، ہم اس کا انکار کرتے ہیں.جس چیز کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو، خدا نے جو بھی پیغام دیا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ کیا پیغام ہے، ہم اس کا انکار کرتے ہیں.اور ساتھ وہ یہ کہتے ہیں:.نَحْنُ أَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًا ہم تم سے اموال میں بھی زیادہ ہیں اور اولاد میں بھی زیادہ ہیں.یعنی مالی لحاظ سے بھی تم پر فوقیت رکھتے ہیں اور عددی قوت کے لحاظ سے بھی تم پر فوقیت رکھتے ہیں.وو یہاں اختلافات عقائد کی بحث نہیں اٹھائی گئی.یہ گفتگو ہورہی ہے کہ کیوں انکار کیا جاتا ہے.انکار کے نفسیاتی پہلو کونمایاں فرمایا گیا ہے.اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انکار کی بنیادی وجہ تکبر ہے“.اهرو پھر فرمایا:.وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا اور وہ مال اور وہ اولادیں، جن کے ذریعے بالتی تقربکم عند نازلفی ، جو تمہیں ہمارے نزدیک ایک قرب کا مقام عطا کر سکتیں ہیں، یہ قرب کا مقام نہیں عطا کریں گی.کیوں؟ اس کی وجہ بیان فرمائی گئی ہے.یعنی ایسے اموال اور ایسی اولادیں، جو یہ اندرونی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ صلاحیت رکھتیں ہیں کہ کسی کو اللہ کا قرب عطا کر دیں تمہیں یہ قرب عطا نہیں کریں گی.الامن امن و عمل صالحاً سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں اور عمل صالح اختیار کریں“.وو امر واقعہ یہ ہے کہ تمام مذہبی تاریخ میں ہمیشہ ہر قوم کی خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کی مخالفت کرنا ، اسی نفسیاتی بیماری کے نتیجے میں ہوتا ہے.تکبر کو بھی خدا تعالیٰ نے سب سے زیادہ ذلیل بدی شار فرمایا ہے.سب سے زیادہ قابل نفرت بدی، جو قرار دی گئی ہے، وہ تکبر ہے.شیطانیت کی روح تکبر بیان فرمائی گئی.607

Page 617

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم وجہ یہ ہے کہ پہلا گناہ ہی تکبر کا گناہ تھا.اور تکبر بظاہر مخلوق کے ساتھ تھا لیکن فی الحقیقت پیدا کرنے والے کے مقابل پر وہ تکبر تھا.پیدا کرنے والے سے حق چھینا جارہا تھا کہ وہ جسے چاہے مطاع بنا دے، جسے چاہے مطیع بنادے.اور ہر حق خدا ہی کا حق ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے اس موقف کو تسلیم نہیں فرمایا.یہ وہ بنیادی نقطہ ہے، جسے نا سمجھنے کے نتیجے میں بے انتہاء انتظامی مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور تمام دنیا میں ہر طرف بہت سے فساد اسی نقطے کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں آپ کو پیدا ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.جماعتی معاملات میں، میں نے بسا اوقات اس بات کا مشاہدہ کیا ہے.بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم مطیع ہیں، ہم واقف زندگی ہیں، ہم ہر طرح کی قربانی کے لئے اطاعت کے لئے تیار ہیں.لیکن جب کسی ایسے آدمی کا مطیع بنایا جائے ان کو، جس کو وہ اپنی نظر میں اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہوں.یہ دیکھتے ہوں کہ یہ ہم پر حکومت کرنے کے لائق نہیں ہے، ہم اس پر حکومت کرنے کے لائق ہیں، وہیں ان کی وقف کی روح تباہ ہو جاتی ہے، وہیں ان کی اطاعت کی روح ختم ہو جاتی ہے.اور وہ یہ سوال اٹھانے لگ جاتے ہیں کہ اس کے سامنے ہم کیوں سر جھکا ئیں؟ یہ تو معمولی آدمی ہے، یہ تو چھوٹا آدمی ہے.پھر اس کی ہر بات تکلیف دیتی ہے.جس کو وہ اپنے سے بڑا سمجھتے ہیں، وہ ان سے بدسلو کی بھی کرے گا ، گالیاں بھی دے لے گا، ڈانٹ ڈپٹ کرے گا، وہ اپنے دل میں اتنی تکلیف محسوس نہیں کرتے.جس کو اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہیں.خواہ اس کو ان کا مطاع بنا بھی دیا گیا ہو، اس کی ادنی سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں، اس نے ہماری بے عزتی کی ، یہ تو اس لائق نہیں ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں.اندرونی بیماری وہی ہے، جو پہلے دن کی شیطان کی بیماری تھی.جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے یہ نیکی اور بدی کی جنگ کے آغاز کا اعلان کیا.فرمایا: تکبر کے نتیجے میں ، اس حکمت کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں کہ جو شخص مقرر کرتا ہے، اس کو دیکھا جائے گا.نہ کہ یہ دیکھا جائے گا کہ کس کو مقرر کیا گیا ہے.اگر تم اس کو دیکھو گے، جس نے مقرر کیا ہے تو تم ہمیشہ عجز کے سامنے، ہر اس چیز کے سامنے سر جھکا دو گے، جسے مقرر کیا گیا ہے.اگر تم یہ دیکھو گے کہ کس کو مقرر کیا گیا ہے تو پھر تو ہزار دھو کے ہیں نفس کے.ہزار مواقع پر تمہیں یہ خیال پیدا ہو گا کہ اس لحاظ سے میں بہتر ہوں، اس لحاظ سے میں بہتر ہوں اور تمہاری اطاعت بیسیوں یا سینکڑوں یا ہزاروں جگہ مجروح ہوتی چلی جائے گی.اگر وہ لوگ جو اموال رکھتے ہیں اور اولادیں رکھتے ہیں، وہ ایمان لانے والے ہوں اور عمل صالح کرنے والے ہوں تو اس صورت میں اموال بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور اولادیں بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن سکتی ہیں.608

Page 618

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 10 جولائی 1987ء دوسرا معنی یہ ہوگا کہ اگر چہ اموال اور اولاد براہ راست اپنی ذات میں خدا کے نزدیک کوئی بھی اہمیت نہیں رکھتے.یہ کافی نہیں ہیں تمہیں خدا کے قریب کرنے کے.سوائے اس کے کہ اولادیں ایسی ہوں، جو تمہاری طرح ایمان لانے والی ہوں اور عمل صالح اختیار کرنے والی ہوں.پھر ان اولادوں کی قیمت بن جاتی ہے خدا کے حضور.اور وہ اولادیں تمہیں ضرور خدا کے قریب کر سکتی ہیں.یہ دونوں معانی گویا دو منزلیں ہیں مضامین کی ، جو اس مضمون کو ایک نسل تک محدود نہیں رہنے دیتی ، اگلی نسل تک پھیلا دیتی ہے....یہاں دو منزلہ جو اجر ہے، اس سے دراصل دو نسلوں کی مسلسل نیکی کی طرف اشارہ ہے.ماں باپ بھی نیک ہوں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال خرچ کرنے والے ہوں اور اولادیں پیش کرنے والے ہوں.اموال تو ان کی نیکی کی وجہ سے قبول ہو جائیں گے لیکن اولادیں اس طرح قبول نہیں ہوں گی ، جب تک اولادیں خود بھی الامن امن و عمل صالحا وہ خود ایمان لانے والی بہنیں اور عمل صالح کرنے والی بنیں.تو اوپر تلے دو نسلیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف ہو جائیں گی.پھر ایسی اولادوں کا اجر ان ماں باپ کو بھی ملے گا، جو وقف کی نیت رکھتے تھے.ان کو خدا کے حضور پیش کرنا چاہتے تھے.یہ اولادیں ضرور ان کے لئے بھی خدا کے قرب کا ذریعہ بن جائیں گی ، خدا کے پیار کے حصول کا ذریعہ بن جائیں گی.لیکن خود اگر وہ بالا رادہ اس میں شامل نہ ہوں، اپنے نیک اعمال کے ذریعے اپنے دعاوی کو سچا نہ کر دکھا ئیں تو پھر ان کا اجر ان کے ماں باپ کو نہیں مل سکتا.اسی طرح ماں باپ کو اگر وہ عمل صالح نہ کرنے والے ہوں یا ایمان نہ لانے والے ہوں، ان کو نہ اموال کا کوئی اجر مل سکتا ہے، نہ اولاد کا کوئی اجر مل سکتا ہے..اسی کے پیش نظر میں نے یہ تحریک کی تھی کہ آئندہ صدی کے لئے جماعت جہاں اموال کثرت کے ساتھ پیش کر رہی ہے.اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ اتنی حیرت انگیز مالی قربانی کی روح جماعت میں پیدا ہو چکی ہے کہ بسا اوقات مجھے تحریک کی ضرورت ہی نہیں پڑتی.اسی لئے میں نے اب زیادہ ذکر کرنا چھوڑ دیا ہے.کیونکہ مجھے یہ خطرہ رہتا ہے کہ کہیں کچھ لوگ توفیق سے زیادہ نہ تکلیف اٹھا جائیں.جو کام کرنے ہوتے ہیں، ان کے لئے خدا کے نزدیک جتنے روپے کی ضرورت ہے، وہ کثرت سے آجاتے ہیں.ایک بھی کام گزشتہ چند سالوں کے اندر، مجھے جب سے خدا تعالیٰ نے خلافت پر فائز فرمایا ہے، ایک بھی کام ایسا نہیں ہے، جو مالی کمی کی وجہ سے رک گیا ہو.ایک ذہن میں نئی سکیم آتی ہے، میں پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ اس کے لئے رقمیں بھجوائی شروع کر دیتا ہے.بعض دفعہ اعلان سے پہلے ہی خود بخود آنی شروع ہو جاتیں ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ پہلے میرے ذہن میں یہ تھا اور اس کے لئے 609

Page 619

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم میں نے نقشے بھی بنوانے شروع کئے تھے کہ اگلی صدی سے پہلے ہم دار الیتامی بھی بنالیں.کیونکہ قرآن کریم میں تیموں کے بہت حقوق بیان ہوئے ہیں اور تحریک میں نے کوئی نہیں کی.لیکن ایک صاحب کا مجھے خط آ گیا کہ میری خواہش یہ ہے کہ کم از کم چالیس لاکھ روپیہ دار الیتامی کے لئے پیش کروں.اس لئے میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، جس طرح چاہیں، جو چاہیں بنوائیں.یہ آپ کی مرضی ہے، یہ جماعتی معاملہ ہے، جس طرح چاہے، پسند کرے، بنائے.لیکن یہ میری خواہش ہے کہ دار الیتامی کے لئے استعمال ہو.اور اس کے علاوہ بھی پھر کئی ایسی رقمیں آنی شروع ہو گئیں ، جس میں اسی قسم کا اظہار تھا.ابھی یورپ سے ہی خاتون نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے دلی محبت ہے تیموں اور غریب بچوں کے اوپر خرچ کرنے کی.اور یہ رقم ہے، جو میں آپ کے پاس پیش کرتی ہوں، جس طرح چاہیں ، خرچ کریں.تو بسا اوقات تحریک کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی.اس کثرت سے جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ مالی قربانی میں آگے بڑھ گئی ہے کہ از خود اچھل رہا ہے، جس طرح ماں کی چھاتیوں سے بچے کے لئے دودھ اچھلتا ہے، اس طرح اللہ کے دین کے کاموں کے لئے خدا تعالیٰ نے جماعت کی چھاتیوں میں دودھ اتار دیا ہے.اچھل اچھل کے باہر نکل رہا ہے.جہاں تک اولادوں کے وقف کا تعلق ہے، اس ضمن میں ابھی اس شان کی قربانی پیدا نہیں ہوئی تھی.کیونکہ مختلف اوقات میں جب وقف کے لئے زور دیا جاتارہا تو جماعت اپنے جگر گوشے پیش کرتی رہی ہے.لیکن درمیان میں بسا اوقات لمبے عرصے پڑ گئے، لمبے وقفے حائل ہو گئے کہ جب خلیفہ وقت نے وقف بسا کی طرف توجہ نہیں دلائی.اس لئے جماعت بھی اس معاملے میں خاموش ہو گئی.چنانچہ آئندہ کی ضرورتوں کے پیش نظر میں نے یہ تحریک کی کہ اپنے بچوں کو ، اپنی آئندہ نسلوں کو وقف کرو.اگلی صدی میں ہمارے کام بہت کثرت سے پھیلنے والے ہیں.ان کے اندازے ابھی سے کچھ ہونے شروع ہو گئے ہیں.بالکل نئے نے ممالک کی فتح کے اللہ تعالی سامان پیدا فرمارہا ہے، نئی نئی قوموں میں جماعت کو داخل کر رہا ہے.اور خود بخود ہو رہا ہے، ہماری کوششوں سے بعض دفعہ تعلق نظر آتا ہے ،بعض دفعہ کوئی تعلق نظر نہیں آتا.افریقہ کے ایک ملک میں جہاں خیال تھا کہ ہم وہاں بھی جماعت کا پودا لگائیں گے، انشاء اللہ.ابھی تک وہ محروم تھا، اس پہلو سے.اس کا ایک سیاح باہر نکلا سپین، وہاں مسجد دیکھی اور بیعت کر کے واپس چلا گیا.اور اب اس کا خط ملا ہے کہ اب ہماری تربیت کا کچھ کرو.سو سے زائد تو احمدی میں بنا چکا ہوں ابھی تک.اور چندہ بھی دے رہے ہیں سارے.اور مسجد کے لئے زمین بھی پیش کر دی ہے.یہ بھی فیصلہ ہے.610

Page 620

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1987ء کہ ہم خود ہی بنائیں گے، سب کچھ.کوئی جماعت پہ بوجھ نہیں ہوگا.یعنی مددنہیں مانگیں گے کسی اور سے.لیکن ہمیں پھر بھی ، آخر ہم نئے ہیں، ہمیں دینی تربیت کے لئے کوئی آدمی چاہیئے.آپ ہمارے لئے کچھ فکر کریں.کہیں یہ نہ ہو کہ بعض غلط باتیں ہم میں رائج ہو جائیں.تو اس معاملے میں تو جس طرح چھت پھاڑ کر ملتا ہے رزق، اسی طرح کی کیفیت ہے.کوئی جماعتی کوشش کا اس میں دخل نہیں ہے.لیکن بہت سے ایسے وہ مقامات بھی ہیں، جہاں بظاہر جماعتی کوشش کا دخل نظر آرہا ہے.لیکن امر واقعہ ہے کہ اللہ کی تقدیر خود پیدا کر رہی ہے سامان.اس قسم کے واقعات نصیحت کے طور پر ہیں.یہ بتانے کے لئے کہ کہیں تم اپنی کوششوں کی طرف ان روحانی پھلوں کو منسوب کر کے متکبر نہ ہو جانا.یہ نہ سمجھ لینا کہ تم نے کیا ہے.چونکہ تکبر کا مضمون بیان ہو رہا ہے، اس لئے میں اس بات کو بھی کھول دینا چاہتا ہوں کہ نئے نئے علاقوں میں جو جماعت پھیل رہی ہے، بعض دفعہ نظر آتا ہے کہ گویا جماعت نے یہ ترکیب کی اور اس کو یہ پھل لگ گیا، حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ وہی ترکیبیں پہلے ہو چکی تھیں اور ان کو کوئی پھل نہیں لگا تھا.اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سازگار ہوا چلائی جارہی ہے، کچھ پھل ہیں، جو پکائے جارہے ہیں.اس لئے کہ جماعت ترقی کے بالکل نئے دور میں داخل ہونے والی ہے.بہت ہی عظیم الشان ترقیات آپ کا انتظار کر رہی ہیں.ان کے لئے اللہ تعالیٰ آپ کو تیار فرما رہا ہے.اس لئے مجھے یقین ہے کہ اگلی صدی میں لکھوکھا واقفین زندگی کی ضرورت پڑے گی.اسی لئے میں نے جماعت میں ایک تحریک کی تھی کہ ابھی سے اپنے بچے پیش کر دیں تا کہ پھر جب ہم صدی میں داخل ہوں تو خدا کے حضور پہلے ہی تیار ہو کر حاضر ہوں.اور جب بھی خدا کے حضور کوئی قربانی پیش کی جاتی ہے، اس کے لئے مصارف کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ خود ہی فرما دیتا ہے.اگر لاکھ واقفین آپ پیش کریں گے تو یقین جانیں کہ لاکھ واقفین کے لئے تمام ضروری سامان خدا خود مہیا فرمائے گا.مشکلوں کے لئے جگہ عطا کرے گا، ان کے تبلیغ کے لئے جتنی بھی ضرورتیں ہیں ، وہ ضرورتیں پوری فرمائے گا، ان کے اپنے لئے رزق کا انتظام فرمائے گا اور پھر اسی نسبت سے نئی نئی قوموں میں، نئے نئے علاقوں میں احمدیت اور اسلام کی طرف رجحان پیدا فرما دے گا.تو بعض دعائیں ہوتی ہیں زبان کی دعائیں، بعض ہوتی ہیں عمل کی دعا ئیں.یہ بھی میرے ذہن میں ایک بات تھی کہ ہم عملاً خدا کے حضور دعا کے طور پر یہ بچے پیش کر دیں کہ اللہ تیرے حضور حاضر ہیں، اب تو سنبھال، تیرا کام ہے.اب ہمارے نہیں رہے، تیرے ہو گئے ہیں.تو نے ہی ان کو پالنا ہے، تو نے ہی ان کے لئے سارے انتظامات فرمانے ہیں، ان سے کام لینے کے انتظامات فرمانے ہیں.611

Page 621

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 جولائی 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت بالعموم بہت اچھے طریق پر اس آواز کا جواب دے رہی ہے اور بعض جگہ تو لطیفے بھی بن جاتے ہیں.بعض معمر لوگوں نے تو یہ درخواست کی کہ ہمیں دوسری شادی کی اجازت دی جائے کیونکہ ہماری پہلی بیوی اس لائق نہیں رہی کہ اس کے بچہ ہو سکے.اس بہانے انہوں نے کہا: ہم شادی بھی اور کرلیں گے، ثواب بھی مل جائے گا ساتھ.اور بیویاں اب کس طرح انکار کریں گی ، خلیفہ وقت نے تحریک کی ہوئی ہے.اور خاوند کہتا ہے: میں مجبور ہوں، میں نے بچہ پیش کرنا ہے.اب بتاؤ، بیوی کیا کہ سکتی ہے بے چاری؟ اور واقعہ احمدی عورتیں اپنی مخلص ہیں کہ بعض یہ کہہ رہی ہیں خود کہ اس معاملے میں ہم تمہیں نہیں روکتیں.چنانچہ ان کے اجازت نامے بھی مجھے پہنچ جاتے ہیں کہ اب وقف کی تحریک ہے، ہم اپنے خاوند کو اپنے جذبات کی بنا پر کیسے محروم کریں، اس نیکی ہے.تو بڑے دلچسپ لطیفے ہیں.لیکن پر خلوص لطیفے ہیں.ان کے اندر گہرا قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے.اگر خاوند کی طرف سے نہیں تو بیوی کی طرف سے تو ضرور پایا جاتا ہے.تو جماعت اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان بچوں کو پیش کر رہی ہے.لیکن ان آیات کو میں نے اس وجہ سے بھی منتخب کیا کہ آپ کو یہ بتاؤں کے بچے پیش کرنا کافی نہیں ہوگا.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ مَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا کہ تم جو مال پیش کرتے ہو اور جو اولادیں پیش کرتے ہو، ہر گز یہ خیال نہ کرنا کہ فی ذاتہ ان کے ذریعے تم خدا کی رضا خرید سکتے ہو، اللہ تعالیٰ کی محبت کے سودے کر سکتے ہو.اموال کے تو ہو سکتے ہیں ، اگر تم مخلص ہو اور اولاد کے اس حد تک ہو سکتے ہیں کہ تمہارا اخلاص قبول ہو جائے گا.لیکن اگلی نسل کا وقف اس بات پر منحصر ہے کہ وہ خود بھی ایمان لانے والی ہو اور عمل صالح کرنے والی ہو.اگر وہ ایمان لے آئیں اور عمل صالح کریں تو پھر ان کی ساری نیکیاں تمہارے درجات کی بلندی کا موجب بھی بنے گیں.پھر دو منزلہ اور کئی کئی منزلوں والے بالا خانے تمہیں عطا ہوں گے.لیکن اگر اگلی نسل تک تمہاری نیکی رک گئی اور وہاں ان میں داخل نہ ہوسکی یادہ اسے لے کر آئندہ نسلوں تک پیغام کے طور پر جاری نہ کر سکے تو پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا.پھر بالا خانے کا مضمون پیدا نہیں ہوگا.پس جماعت کو اپنی اس اولاد کی تربیت کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.بچپن سے ہی ان بچوں کے دلوں میں خدا کی محبت اس طرح بھر دیں اور اس خلوص کے ساتھ ان کے لئے دعائیں کریں کہ جو آپ کی کوتاہیاں ہیں، ان کو نظر انداز فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت بھرنا شروع کر دیں.مائیں ان کو دودھ میں اللہ کی محبت پلا ئیں اور بچپن سے یہ مختلف دکھائی دینے لگیں.612

Page 622

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی یہ جو مضمون ہے مختلف دکھائی دینے والا ، اس کا تعلق بھی ایک بچے کے وقف سے ہے.حضرت مریم کو ان کی والدہ نے وقف فرمایا اور خدا کے سپرد کر دیا کہ اب تو جان، جو چاہے کر، میں نے تو وقف کرنا تھا لڑکا یا لڑکی عطا کرنا تیرا کام تھا.جو کچھ بھی ہے، میں نے تیرے حضور پیش کر دیا.اور قرآن کریم فرماتا ہے، بچپن سے ہی ان کے حالات دوسرے بچوں سے مختلف تھے.ان کے اندر بعض امتیازی شانیں تھیں، جن کو حضرت زکریا نے محسوس فرمایا اور ان امتیازی نشانات کو دیکھ کر ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اور جود عا بن گئی کہ اے خدا! مجھے بھی تو ایسی اولا د عطا فرما.جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت بیٹی کی خوشخبری دی.پھر اسی ماں کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہوا، اس کے بھی بچپن میں آثار دوسرے بچوں سے مختلف تھے.فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا (آل عمران: 47 ) | وہ گفتگو کرتا تھا ، خدائی گفتگو کرتا تھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا تھا.تو ان دونوں مثالوں میں ہمارے لئے ایک سبق ہے کہ بچپن ہی سے وقف کرنے والی اولاد کے دل میں اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی محبت پیدا کرنی چاہئے.اور صرف کوشش سے مطمئن نہیں ہونا چاہئے، جب تک وہ آثاران میں ظاہر نہ ہو جائیں، اس وقت تک اطمینان نہیں پکڑنا چاہئے.پس اب ان کی تربیت کا جو دور ہے، اس میں اللہ تعالیٰ ماں باپ کو زندگی عطا فرمائے کہ وہ خود محبت کے ساتھ ان وقف شدہ بچوں کی تربیت کر سکیں.اس تربیت کے دور میں دعا ئیں بھی آپ کو کرنی ہوں گی، ہر قسم کے ذرائع کو استعمال میں لانا ہوگا.یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں دن بدن اپنی اولاد کی طرف سے زیادہ ٹھنڈی ہوتی چلی جائیں گی.آئے دن آپ ان کی طرف سے ایک جنت کے نظارے بھیں گے کہ ان کے اندر خدا تعالی، پھر دیکھیں، ان بچوں میں کس طرح اپنی محبت کے ساتھ ساتھ اپنے قرب کے نشان ظاہر فرماتا ہے.اور جو بچے بچپن سے ہی خدا تعالیٰ سے محبت کرنے لگ جائیں، ان کے لئے اعجازی نشان عطا ہونے میں دیر نہیں کی جاتی.یہ خیال نہ کریں کہ جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں ، بالغ نہ ہو جائیں، اللہ تعالیٰ ان سے کوئی اعجازی سلوک نہیں فرمایا کرتا.بچپن سے ہی ان کے اندر اعجازی طاقتیں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں، ان کی دعائیں قبول ہونے لگ جاتیں ہیں، ان کی خواہشات دعا بن جاتیں ہیں اور ایسے بچے نمایاں ہو کر باقی بچوں سے ایک الگ وجود دکھائی دینے لگتے ہیں.ایسے وقف کریں، جو قرآن کریم کی وقف کی مثالوں کے اوپر پورے اترنے والے ہوں.ایسے وقف کریں کہ اگلی صدیاں ناز کریں ان پر بھی اور آپ پر بھی ، جنہوں نے وقف کئے تھے کہ ہاں ہاں ایسی 613

Page 623

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 جولائی 1987ء شکر تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ایسی مائیں تھیں، جنہوں نے یہ عمل ہمارے لئے تحفہ بھیجے.ایسے باپ تھے ، جنہوں نے اس طرح دعاؤں کے ساتھ اور گریہ وزاری کے ساتھ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کا خیال رکھا تھا.اپنے جگر گوشے ہماری ہی بھلائی کے لئے پیش کر دیتے تھے.یہ جب آپ کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ سے وعدہ کرتا ہے کہ آپ کو ان نیکیوں کے برابر اجر نہیں بلکہ دوہرا تہرا ہمیشہ بڑھتے رہنے والا اجر عطا ہوگا.اور آپ کی نیکیاں Skyscrapers بنی شروع ہو جائیں گی.بالا خانے عطا ہوں گے.اس لئے کہ اگر پہلی نسل بھی نیکی یہ قائم ہو جائے تو ایک منزلہ نیکی کی بجائے دو منزلہ نیکی بن گئی.اور اگر نسلاً بعد نسل اسی طرح ان کی اولاد اور پھر ان کی اولا د اور پھر ان کی اولا دنیکیوں پر قائم ہوتی چلی جائے تو آپ کو تو Skyscrapers ہی اس شان کے عطا ہوں گے کہ دنیا نے کبھی اس شان کے Skyscrapers نہیں دیکھے.امریکہ کے بنائے ہوئے Skyscrapers تو کوئی چودہ سوفٹ پہ جا کہ ختم ہو جاتا ہے، کوئی پندرہ سوفٹ پہ جا کے ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ جو بالا خانے ہیں، یہ زمین سے اٹھتے ہیں اور آسمان سے باتیں کرتے ہیں، ان کی بلندیاں آسمان کے کنگروں کو چھوتی ہیں.اتنے عظیم الشان اجر ہیں اس نیکی کے، جو اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں کہ میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ اس کے پیچھے متبع کریں اور اس کی روح کو قائم کرتے ہوئے پورے انہماک اور پورے خلوص کے ساتھ یہ کوشش کریں کہ ان کی قربانیاں قبولیت کا درجہ پا جائیں تو پھر اجر اتنا ہے کہ اس کی کوئی انتہاء نہیں.ایسی رفعتیں آپ کے لئے مقدر ہیں خدا کی طرف سے کہ کسی انسان کا تصور بھی ان کو نہیں پہنچ سکتا.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 463t449) 614

Page 624

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 1987ء امراء کو جماعت میں وحدت پیدا کرنے کی ہدایت خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 1987ء.اس لئے نظام جماعت کے ساتھ وابستہ رہنا اور ادب اور اطاعت کے ساتھ وابستہ رہنا بہت ہی اہم ہے.اور ایک اور پہلو سے بھی اہم ہے کہ وہ لوگ جو حبل اللہ کو چھوڑ نا شروع کر دیتے ہیں اور جماعت میں رہتے ہوئے بظاہر ایسے حرکتیں شروع کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں نظام جماعت کا رعب کم ہو جاتا ہے، اس کی وقعت کم ہونے لگ جاتی ہے، لوگ اسے تخفیف سے دیکھنے لگ جاتے ہیں، وہ صرف اپنی ہلاکت کا موجب نہیں بنتے بلکہ ارد گرد اپنے ماحول میں دوسروں کی ہلاکت کا بھی موجب بن جاتے ہیں.اور بالعموم ایسی جماعتوں میں پھر افتراق کا رجحان شروع ہو جاتا ہے، پارٹی بازی شروع ہو جاتی ہے اور ایسی جماعت برکتوں سے محروم رہ جاتی ہے.دو میرا عمومی تجربہ یہ ہے کہ جن جماعتوں میں وحدت ہے، وہاں برکت ہے، وہاں ان کی باتوں میں اثر ہے، وہ اپنے ماحول کی اصلاح کے اہل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وحدت کے نتیجے میں بے شمار برکتیں ان کو نصیب ہوتی ہیں.ان کی دعوت الی اللہ بھی قبول کی جاتی ہے.لیکن جہاں جماعتوں میں اختلاف ہے، وہاں کوئی بھی برکت باقی نہیں رہتی.نحوست پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے بلکہ بعض اوقات ایسے دور میں جبکہ باقی جماعتوں کے لئے ابتلاء کا دور ہوتا ہے اور بڑا ہی عظیم الشان ابتلاء کا دور ہوتا ہے، ان جماعتوں سے سلوک میں کچھ سزا کا رنگ بھی آجاتا ہے.وہ ان کی اپنی ناچاقی کی نحوستیں ہیں، جو اس ابتلاء کے دور میں خدا کی سزا کو کھینچنے لگ جاتی ہیں.چنانچہ آپ اگر آفاقی نظر سے جائزہ لیں حالات کا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جہاں خدا تعالیٰ نے اتحاد عطا فرمایا ہے جماعت کو اور جہاں حبل اللہ کو جماعت نے مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ غیر معمولی حفاظت کے سامان فرماتا ہے.اور وہاں ان لوگوں سے کچھ اور سلوک ہورہا ہوتا ہے خدا کا.ان جماعتوں کی نسبت جو ہیں تو محدود چند لیکن اس پہلو سے بڑے نمایاں ہیں کہ سفید کپڑے پر داغ کی طرح ہیں اور انہوں نے وحدت کو چھوڑ دیا ہے.615

Page 625

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 جولائی 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اس مضمون پہ پہلے بھی میں کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں.لیکن یہ مضمون اتنا اہم ہے کہ بار بار آپ کے سامنے لایا جانا چاہئے.میں نے دیکھا ہے، جب کسی مضمون پر خطبہ دیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے چونکہ جماعت متقیوں کی جماعت ہے، اسی لئے میں نے کہا کہ جماعت سے وابستہ ہوں گے تو آپ پر جماعت کا لیبل (Lable) لگ جائے گا ، مضمون ہے، جو اس آیت میں بیان ہوا ہے.چونکہ جماعت متقیوں کی جماعت ہے، اس لئے بڑی تیزی کے ساتھ اصلاح کی طرف مائل ہوتی ہے.حیرت انگیز طور پر دل و جان کے ساتھ پوری محنت اور توجہ کے ساتھ کوشش کرتی ہے کہ ہر بات جو خلیفہ کے منہ سے نکلے، اسے پورا کرے.یہ جو غیر معمولی خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے اندر اخلاص اور ایمان کو پیدا فر مایا اور پھر اس اعلیٰ درجے تک پہنچا دیا، یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اعجاز.یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ثریا پہ بھی ایمان چلا گیا تو ان میں سے ایک شخص ہو گا ، ایک عظیم انسان ہوگا، جو اسے واپس لے آئے گا.( بخاری کتاب تفسیر القران حدیث نمبر : 4518) پس یہ جو عظیم الشان ایمان کا مظاہرہ آپ دیکھ رہے ہیں جماعت میں اور اخلاص کا اور محبت کا اور اطاعت کا اور ادب کا، یہ سب وہی در اصل حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو عملاً پورا ہوتے دیکھنا ہے.بہر حال میرا یہ تجربہ ہے کہ جب بھی توجہ دلائی جائے، پھر جماعت فوراً توجہ کرتی ہے.لیکن انسان کمزور ہے اور یہی توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ بعض دفعہ، کچھ عرصے کے بعد پھر بعض لوگ ان مقامات سے گرنے لگتے ہیں، جہاں تک وہ پہلے ترقی کر کے پہنچتے ہیں.اور بار بار بعض لوگوں کو توجہ دلانی پڑتی ہے.کچھ کمزور ہیں، کچھ دنیا میں پڑ کے غافل ہو جاتے ہیں، بعض جگہ نئے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، نئے قسم کے جذبات سے مغلوب ہو کر لوگ اپنے آپے میں نہیں رہتے اور پھر اختلافات کا بیج بو دیتے ہیں.تو یہ وہ اہم مضمون ہے، جس کی طرف بار بار وقتا فوقنا توجہ دلائی جانی چاہئے.خصوصیت سے نئے آنے والے دور سے پہلے تو ہمیں بالا رادہ غیر معمولی کوشش کر کے جہاں بھی ہم نے اپنے اتحاد کوکھویا ہے، اپنے کھوئے ہوئے اتحاد کو واپس لینا چاہئے.بالعموم یہ دیکھا گیا ہے کہ اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والے بعض افراد ہوتے ہیں.ان کے مزاج میں بعض دفعہ حتی پائی جاتی ہے، بعض دفعہ خود غرضی پائی جاتی ہے، بعض دفعہ دینی سطح اتنی نیچے ہوتی ہے کہ وہ 616

Page 626

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 1987ء دوسرے کو دیکھتے ہیں تو اس کی برائیاں نظر آ رہی ہوتی ہیں.جب انہی حالات میں سے خود گزرتے ہیں تو ان کو کی نظر اپنے حالات کا جائزہ لینے کی اہل نہیں رہتی.اس لئے ان کو ہر برائی دور دکھائی دیتی ہے.اور یہ نظر جو ہے، یہ ایسی کمزور نہیں کہ نزدیک کی چیز کو دیکھ ہی نہ سکے.ان کو ہر خوبی اپنے اندر دکھائی دے رہی ہوتی ہے.یعنی یہ ایک عجیب قسم کا بھینگا پن ہے نظر کا اور بیک وقت دور کی نظر بھی خراب ہے اور نزدیک کی بھی.اور بیک وقت دور کی نظر بھی ٹھیک ہے اور نزدیک کی بھی.تو یہ جو تضاد ہے، اس تضاد کے نتیجے میں بالعموم فساد پیدا ہوتے ہیں.کسی اور سے اور توقع ہے، اپنے ساتھ سلوک کرنے میں اور جب خود سلوک کرتے ہیں اس سے تو اس توقع کے بالکل برعکس کر رہے ہوتے ہیں.لیکن ان میں بھی پھر مختلف لوگ ہیں، جو ان میں سے نسبتاً زیادہ خدا کا خوف کرنے والے ہیں.جب ان کو ڈانٹاڈ پٹا جائے ، ان کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ پھر رک بھی جاتے ہیں.اور بہت سے ایسے ہیں، جو کنارے تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن آگ میں گرنا کسی قیمت برداشت نہیں کرتے.جب ان کو یہ کہا جائے بالآخر کہ بہت اچھا اگر آپ اس ضد پر قائم رہیں گے تو جماعت سے باہر چلے جائیں.اس وقت پھر وہ واپس آ جاتے ہیں.اور یہ اللہ کی نعمت ہے، جس کے نتیجے میں ان کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے، ورنہ انسانی کوششوں سے وہ واپس آنے والے نہیں ہوتے.وو تو بہر حال یہ وہ لوگ ہیں، جو پھر اس کنارے سے گر بھی جاتے ہیں.لیکن بہت کم ہیں.پھر بعض گرنے کے بعد جلنے سے پہلے واپس آنے کی کوشش کرتے ہیں.اور اکثر صورتوں میں جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے مقام پر فائز ہے کہ گنتی کے چند افراد کے سوا، جو بہت ہی بد نصیب ہوتے ہیں، اکثر خدا کے فضل سے کچھ ویسے ہی بچ جاتے ہیں، کچھ ٹھوکریں کھا کر بچ جاتے ہیں، کچھ کنارے سے واپس لوٹ آتے ہیں، کچھ گرنے کے بعد ہاتھ بڑھا کرتے ہیں، اونچا کرتے ہیں کہ ہمیں نکال لو ہم سے غلطی ہوگئی.لیکن اور بھی بہت سے اس میں محرکات ہیں اور موجبات ہیں، جن کے نتیجے میں جماعت میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں.جہاں تک بیرونی جماعتوں کا تعلق ہے، تربیت کی کمی، نظام جماعت سے ناواقفیت اور اسی قسم کے اور بہت سے عوامل ہیں.ابھی کچھ عرصہ ہوا، ایک نائیجیرین ٹیلی ویژن والے انٹرویو لے رہے تھے.انہوں نے جب مجھ سے وہاں کے حالات کے متعلق پوچھا تو وہاں کے حالات میں ایک اور بھی وجہ میرے سامنے آئی، جو میں نے ان کے سامنے بیان کی کہ دراصل تم لوگ ایک لمبے عرصے سے عیسائیت اور استعماریت کے درمیان فرق نہ کرنے کی وجہ سے بظاہر ایک پہلو سے ان سے وصول کر رہے تھے اور ایک پہلو سے تم سے سب کچھ 617

Page 627

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم چھینا جارہا تھا.اب تمہیں ہوش آئی ہے کہ ہمارے ساتھ کچھ ہو گیا ہے.بظاہر عیسائیت کے نام پر ہمیں نعمتیں دینے آئے تھے لیکن روحانی نعمتیں دینے کے بہانے ہماری ساری جسمانی دولتیں لوٹ کے چلے گئے.اس لئے تم ہر آنے والے کو ، باہر سے آنے والے کو اب شک کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئے ہو.لیکن تم یہ فرق نہیں کرتے کہ جماعت احمد یہ ستر سال سے تمہارے ملکوں میں کام کر رہی ہے لیکن اس ستر سال میں ایک آنہ بھی تمہارے ملک سے باہر لے کے نہیں گئی.وہ صرف روحانیت دینے نہیں آئی بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی تمہاری حالت بہتر بنانے آئی ہے.اور باہر سے روپیہ تمہارے ملکوں میں پھینک رہی ہے.تو کم سے کم اتنی ہوش تو کرو کہ کسی اور سے سزا پا کر اس کی سزا ہمیں نہ دو.پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ گدھے سے گرا اور کمہار کو مارنا شروع کر دیا.جس گدھے سے گرے ہو، اس کو بے شک ما رو لیکن ہم تو وہ نہیں ہیں.بہر حال وہ بات سمجھ گئے اور وہ پوری طرح مطمئن ہو گئے.اصل صورتحال ان کو معلوم ہوگئی.تو بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض قوموں میں بعض نفسیاتی اور سیاسی پس منظر ہیں، جن کے نتیجے میں وہ آمادہ ہو جاتی ہیں طبعا کہ وہ کسی بیرونی آمر، جس کو وہ سمجھتی ہیں یعنی حکم دینے والا ، در اصل امیر جو ہے، وہ تو اپنا حکم نہیں دیتا، وہ خدا کا حکم دینے والا ہوتا ہے لیکن اس بار یک فرق کو تو باہر والے لوگ نہیں دیکھ سکتے.چنانچہ بہر حال وہ اس وجہ سے امیر کو آمر سمجھنے لگ جاتی ہیں اور جب وہ حکمت کے تقاضوں کو چھوڑ کر ان کو بعض احکامات کی پیروی پہ مجبور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بدک جاتی ہیں، بھاگ جاتی ہیں.پھر آہستہ آہستہ اس کے فیصلوں کے اوپر کڑی نکتہ چینی شروع ہو جاتی ہے کہ تمہارا یہ فیصلہ غلط ہے، وہ فیصلہ غلط ہے.بہر حال یہ ایک لمبی کہانی ہے، اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.میں اس وقت آپ کے سامنے خصوصیت کے ساتھ اب یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ ہر جگہ افراد کا قصور نہیں ہوا کرتا.بعض دفعہ امراء کا بھی قصور ہوتا ہے.اور اگر افراد کا قصور ہو بھی ، تب بھی اس قصور کے زیادہ بھیانک نتیجے امراء کے قصور کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.اس لئے یہ جو بقیہ عرصہ ہے، اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے اس میں، میں امراء کو تنبیہ کرنے کے لئے آج یہ خطبہ دے رہا ہوں ، تمام دنیا کے امراء، جن کے سپر د جماعتوں کی باگ ڈور کی گئی ہے.افریقہ کے ممالک میں میرا تجربہ ہے اور میں نے گزشتہ فائلوں کا مطالعہ کر کے بھی دیکھا ہے کہ اگر چہ بظاہر غلطی کا آغاز ایک بغاوت کی شکل میں بعض افراد سے اور بعض افراد کے گروہوں سے شروع ہوا لیکن عملاً اگر امیر متقی ہوتا اور ان کو ان کے حقوق بتاتا اور یہ بتاتا کہ اگر ان کو کوئی تکلیف ہے یا کوئی اختلاف 618

Page 628

تحریک جدید -- ایک الہی تحریک.....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 24 جولائی 1987ء ہے تو اسے کس طرح حل کرنا چاہئے.تو ان سے لاعلمی میں وہ حرکتیں سرزدنہ ہوتیں، جن کے نتیجے میں وہ جماعت سے باہر نکالے گئے.اگر امیر کو یہ احساس ہوتا کہ میں تو ان بھیڑوں پر نگران ہوں اور گڈریا ہوں، بھیٹروں کا مالک نہیں ہوں.ایک بھی بھیڑ ضائع ہو گئی تو حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، جن کی وساطت سے مجھے یہ امارت نصیب ہوئی ہے، جن کی عطا سے کہنا چاہئے ، مجھے امارت نصیب ہوئی ہے، میں ان کے سامنے جوابدہ ہوں.اور وہ میرے نگران ہیں.اور بالآخر میں خدا کے سامنے جواب دہ ہوں.اس لئے وہ امیر، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ہر فرد کا در درکھتا ہے، وہ آسانی سے یہ بات ہونے ہی نہیں دیتا کہ کوئی انسان آگ کے کنارے تک پہنچ جائے.حتی المقدور کوشش کرتا ہے، محبت اور پیار سے سمجھا کر کہ کسی طرح ایک ایسا شخص جو غلط نہی کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے یا انانیت کا شکار ہو رہا ہے، اس کی اصلاح کرے، اس سے محبت اور پیار کا سلوک کرے، اسے سمجھائے اور بالعموم ایسے امراء، جو در در رکھتے ہیں جماعت کا، جو برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک احمدی بھی ضائع ہو، ان کے ہاں اتحاد کی اور شکل ہوتی ہے.اور وہ امراء، جو بے حس ہوں، اس معاملے میں ان کے ہاں اتحاد کی اور شکل ہوتی ہے.پھرا میر اور عام صدر میں ایک فرق ہے.عموماً صدر تو لوگ خود بناتے ہیں لیکن امیر مقرر کیا جاتا ہے.اس لئے اگر صدر غلطی کرے تو لوگوں کے انتخاب کی وجہ سے وہ اس کی ذمہ داری چھوٹی ہوتی ہے.اس نے گویا ان کے انتخاب کو جھوٹا کر دکھایا.لیکن جب امیر غلطی کرتا ہے تو وہ خلیفہ وقت کا نمائندہ ہوتا ہے، وہ خلیفہ وقت کے اعتماد کوٹھوکر لگاتا ہے.اور اس کی غلطی کے نتیجے میں جو گناہ سرزد ہوتا ہے، وہ اس معاملے میں بہت زیادہ باز پرس کا اہل ہوتا ہے.بنسبت ایک عام صدر کی غلطی کے.پھر امیر بھی دو قسم کے ہیں.ایک وہ امیر ہیں، جن کو لوگ منتخب کرتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ہمارا مشورہ ہے چاہیں تو قبول کریں، چاہیں تو نہ قبول کریں.آپ جس کو چاہیں، مقرر کر دیں گے، ہم اسے قبول کریں گے.لیکن آپ نے مشورہ مانگا ہے تو ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اس کو یا اس کو یا دو تین آدمیوں کے نام لیتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو منتخب کر لو.آخر وہ انتخاب خلیفہ وقت کا ہی ہوتا ہے.لیکن اس میں ایک حصہ لوگوں کے مشورے کا بھی شامل ہو جاتا ہے.لیکن بعض امراء ایسے ہیں، جو سلسلے کے کارکن، جو غیر ملکوں میں جا کر امیر بنائے جاتے ہیں، ان کی امارت میں مقامی لوگوں کی مرضی کا کوئی بھی دخل نہیں ہوتا.کلیہ باہر سے ہی ان کو حکم ملتا ہے.اب ایسی حالت میں آپ اندازہ کریں کہ ان جماعتوں کے اخلاص کا کیا حال ہوگا، جن کے اندر عام دنیا میں یہ خیالات بیدار ہوتے چلے جارہے ہیں اور باہر سے 619

Page 629

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 جولائی 1987ء پھر تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم متفرق حرکات ان کو اور حوصلہ دے رہی ہیں کہ غیر قوموں کی اطاعت سے باہر نکلو.ہر شخص جو باہر سے آتا ہے، وہ چور ہوتا ہے.ہر وہ شخص جو باہر سے آتا ہے، وہ تم پر حکومت جتانا چاہتا ہے.اس کے باوجود وہ ایسے امیر سے بالعموم بہت تعاون کرتے ہیں اور ایسے امیر کی اطاعت کرتے ہیں، اس کا ہر حکم مانتے ہیں.ان کے اخلاص کا اندازہ کریں اور پھر ایک ایسے امیر کا تصور باندھیں، جو اس اخلاص کے باوجو دان کو ہاتھ سے کھوتا چلا جاتا ہے اور اپنے اعتماد کو بار بار ھو کر گاتا ہے.اپنی امارت جتانے کا اس کو زیادہ شوق ہوتا ہے، بنسبت اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے کوئی شخص اپنا تعلق توڑ کے باہر جا رہا ہے.اور جھگڑا ہی ہر وقت اس کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح میں اپنی امارت جتاؤں، ثابت کر کے دکھاؤں کہ میں امیر ہوں.امارت کے آداب سکھانا، اس کا فرض ہے ، ضروری ہے اس کے لئے کہ ان کی تربیت کرے اور جماعت کے عالمی نظام کا ایک جزولاینفک بنادے.لیکن امارت جتا کر نہیں بلکہ محبت کے ساتھ اپنی امارت کو ان کے دلوں پر حاوی کر کے.یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں.اعلیٰ درجے کے امراء، جو جماعت میں پیدا ہوئے اور ابھی بھی ہیں اور آگے آئندہ بھی خدا کے فضل سے پیدا ہوتے رہیں گے، ان کے ہاں آپ کو کہیں بھی امارت جتانے کا کوئی لمحہ دکھائی نہیں دے گا.وہاں تو یہ شکل بنتی ہے کہ اپنے احکامات کو حکم کہنے سے وہ شرماتے ہیں.یوں لگتا ہے، جس طرح بھائی سے ایک عاجزانہ درخواست کر رہے ہیں.لیکن آگے ان کی امارت میں شامل احمدیوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اشاروں کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ جدھر اشارہ کرے وہاں آگے بڑھ کر ہم ان کی اطاعت میں اعلیٰ جو ہر دکھائیں.یہ ہے وہ مضمون، جس کو قرآن کریم میں بیان فرمایا کہ تم اخوانا ہو گئے تم بھائی بھائی بن گئے.پس جو امیر جماعت کو بھائی بھائی نہیں بناتا یا بھائی بھائی بنانے کی کوشش نہیں کرتا یا یوں کہنا چاہئے کہ مقدور بھر کوشش نہیں کرتا ، وہ یقینا خدا تعالی کے ہاں پوچھا جائے گا.ہم ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں ہماری ذمہ داریاں بہت تیزی سے پھیلنے والی ہیں.بالکل ایک نیا دور آنے والا ہے، جماعت کے لئے.بہت تیز رفتاری پیدا ہونے والی ہے، ہماری ترقیات میں.بہت نئے رستے ہیں، جو خدا کی طرف سے اب کھو لے جارہے ہیں.جن کے اندر جب خدا کی تقدیر کی کنجیاں گونجتی ہیں تو میں ان کی آواز سن رہا ہوتا ہوں.ایسے رستے ہیں، جو خدا دکھا رہا ہے کہ اب اس ملک میں بھی میں تمہارے لئے سامان پیدا فرمارہا ہوں، اس ملک میں بھی تمہارے لئے سامان پیدا فرما رہا ہوں.620

Page 630

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 24 جولائی 1987ء وہ کون لوگ ہیں، جو ان ذمہ داریوں کو سنبھالیں گے؟ آج کی امارتیں ہی ہیں، جنہوں نے آگے امیر بننے کی صلاحیتیں پیدا کرنی ہیں، جنہوں نے قوموں کو لیڈ ر عطا کرنے ہیں.اگر امیر اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر سکیں گے اور جماعتیں افتراق کا شکار رہیں گی تو کیسے وہ لوگ پیدا ہوں گے، جنہوں نے تمام عالم کو ایک امت واحدہ میں تبدیل کر دینا ہے.اس لئے چونکہ امت واحدہ بننے کے آثار ظاہر ہورہے ہیں اور وقت قریب آتا جا رہا ہے.اس لئے بہت ہی زیادہ ضرورت ہے کہ ہر کوشش کریں، ہر جتن کریں کہ ہمارے تمام اختلافات مٹ جائیں اور جماعت امت واحدہ بن کر ابھرے تا کہ ہم اگلی صدی میں ایک قوم کے طور پر، ایک ایسی جماعت کے طور پر داخل ہوں، جن میں سے ایک جماعت کا تقویٰ ہر فرد کے اوپر مہر بن جائے، ہر فرد جو اس جماعت میں داخل ہو، اس پر خدا تعالیٰ کے فرشتے تقویٰ کی مہریں لگا رہے ہوں.اس لئے خصوصیت کے ساتھ میں توجہ دلا رہا ہوں کہ ابھی تک گزشتہ تین چار سال میں بارہا کہنے کے باوجود بعض مقامات پر بعض فسادات کے اڈے قائم ہیں.بعض ملکوں میں وہ ذلیل اور کمینی روایات ابھی تک چل رہی ہیں کہ ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہا ہے، ایک دوسرے کے خلاف شکایتیں کر رہا ہے اور پھر ٹولیاں بن بن کے امیر کے خلاف شکایتیں کر رہے ہوتے ہیں.پھر امیر کی طرف سے اس کے ہمنوا جواب دے رہے ہوتے ہیں کہ نہیں قصور فلاں کا ہے، فلاں کا ہے.میں تنگ آ گیا ہوں، ان چیزوں سے.اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ آپ کے مزاج کی خاطر.ساری جماعت کی طرف سے میں تنگ آچکا ہوں، ہماری جماعت اس بات کو قبول نہیں کرے گی.اس لئے امراء کے لئے اب دور ستے ہیں.اگر تو ان کے اندر کوئی قصور ہے تو اپنی حالت کو درست کریں اور اپنے تقویٰ کے معیار کو بلند کریں.اور سر دھڑ کی بازی لگادیں، اس بات میں کہ ساری جماعت متحد ہو جائے گی.یا پھر وہ جو قصور وار لوگ ہیں، ان کو نظر انداز وہ کیوں کر رہے ہیں؟ ثابت کریں کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو قصور وار ہیں اور ہر اصلاح کی کوشش ناکام ہوئی ہے.ان کو نکال کے باہر پھینکا جائے گا.اگلی صدی میں خدا تعالیٰ اگر تو فیق عطا فرمائے تو میرا یہ فیصلہ ہے کہ ہم نے متحد ہو کے داخل ہونا ہے، ہم نے بکھری ہوئی حالت میں داخل نہیں ہونا.انشاء اللہ تعالی و باللہ التوفیق.*** اس لئے امراء کو میں چھ مہینے کا وقت دیتا ہوں.چھ مہینے جو زور لگانا ہے، لگالیں.اور دو میں سے ایک رستے کو کھول دیں، واضح کر دیں کہ ہماری کوششوں کے نتیجے میں اب خدا کے فضل سے ساری جماعت واحد جماعت میں تبدیل ہو چکی ہے.اور ہمارے دل ایک دوسرے سے مل چکے ہیں، بھائی بھائی ہو چکے 621

Page 631

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 جولائی 1987ء سکو تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ہیں اور ہمارے اندر کوئی تفریق نہیں ہے.یا دوسرا پہلو یہ کہ فلاں افراد ایسے ہیں جماعت کے، جو ہیں سمجھ رہے اور نہیں باز آر ہے.یہ یہ جتن ہم نے کئے لیکن انہوں نے کوئی اثر نہیں دکھایا.ایسی صورتوں میں ان جماعتوں میں کمیشن مقرر کئے جائیں گے، دیکھا جائے گا کہ ہو کیا رہا ہے؟ اگر امیر کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑی تو امیر کو تبدیل کیا جائے گا.اگر چند بیماروں کو اس غرض سے باہر نکالنا پڑا کہ ان کی بیماری کے اثرات دوسروں تک نہ پہنچیں تو ایسا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا.یہ دونوں فیصلے تکلیف دہ ہیں.لیکن میرے کاموں میں یہ تکلیف شامل ہے، میرے منصب میں یہ تکلیف داخل ہے.اس لئے میں اس سے گریز نہیں کر سکتا.لیکن میں امید کرتا ہوں، اگر ہم ساری جماعت دعا ئیں کرے، اگر امراء انکساری دکھائیں، لیکن انکساری کے ساتھ Firmness بھی ہو، اصولوں کا سودا نہ کریں.جہاں ان کو خدا تعالیٰ نے مغفرت کا حق نہیں دیا، وہاں اپنی نرم دلی کو جماعت کے لئے نقصان کا موجب نہ بنائیں، جہاں سختی کے بغیر اور اصولوں میں مفاہمت کے بغیر نرمی کام کر سکتی ہے، وہاں اپنی انانیت کو اس نرمی کی راہ میں روک نہ بننے دیں.انکساری کے تمام اپنے خدا داد جو ہروں کو استعمال کریں اور دعائیں کریں تو کوئی بعید نہیں کہ جہاں بظاہر بڑے بڑے فتنے دکھائی دے رہے ہیں، وہاں کوئی بھی فتنہ باقی نہر ہے.تو بہر حال اس چھ مہینے کے بعد چند مہینے تحقیقات کے بھی لگ جائیں گے تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالی 88ء کے وسط تک جماعت خدا کے فضل سے یہ کہہ سکے گی کہ اب ہم جہاں تک انسانی کوششیں ہو سکتی تھیں، امت واحدہ بن چکے ہیں اور اس حیثیت سے اگلی صدی میں ہم داخل ہورہے ہیں کہ تمام دنیا کو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ایک امت کے طور پر اکٹھا کرنے کی کوشش کریں گے.یہ آپ کریں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کا یہ وعدہ آپ کے حق میں ضرور پورا ہوگا.واولئک هم المفلحون، جو اکٹھے ہو کر ایک امت بن کر خدا کی راہ میں نیکیوں کی طرف بلاتے ہیں اور بدیوں سے باز رکھتے ہیں، خدا فرماتا ہے: واولئک هم المفلحون ، یقینا یہی لوگ ہیں، جو کامیاب ہوں گئے“.( مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 501485) 622

Page 632

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 31 جولائی 1987ء سوسائٹی میں ہر طرف نیک بات کی نصیحت کریں اور برائیوں سے روکیں خطاب فرمودہ 31 جولائی 1987ء بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان تشہد وتعوذ کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدۃ کی آیات 66,67 کی تلاوت فرمائی.ان آیات کی روشنی میں حضور نے بتایا کہ اسلام ایک حسن کامل ہے، جو دوسرے تمام مذاہب کے لئے سب سے زیادہ حوصلہ سکھلاتا اور دوسرے مذاہب کی عزت اور احترام سکھلاتا ہے.اور قرآن کریم نے ہمہ گیر نظریہ پیش کیا ہے کہ خدا نے دنیا کے ہر حصے میں، ہر قوم کے لئے نذیر بھجوائے ہیں، جن کا احترام ضروری ہے.یہاں تک کہ اسلام جھوٹے خداؤں کا بھی عزت کے ساتھ نام لینے کی تعلیم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہیں سب و شتم نہ کرو“.حضور نے بتایا کہ یہ ایک ایسا اصول ہے، جو امن کی ضمانت دیتا ہے، اس لئے اس کی پیروی کی ضرورت ہے.قرآن کریم نے اس اصول کو پیش کر کے حیرت انگیز عظیم الشان حو صلے کا مظاہرہ کیا ہے کہ وہ لوگ، جو ایمان لائے اور جو یہودی کہلاتے ہیں اور عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے، جو کسی نہ کسی کتاب سے منسوب ہوتے ہیں، ان میں جو بھی اخلاص کے ساتھ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے.مزید فرمایا کہ دنیا کی کسی کتاب میں اس مضمون کی کوئی آیت دکھائی نہیں دیتی.اور اس مضمون میں عام وسیع تر انسانی اصول بیان کیا گیا ہے، جس پر تمام دنیا کے انسان پر کھے جائیں گے“.فرمایا:.اسلام کی ضرورت سے کوئی مفر نہیں.لیکن جو اپنے اعمال میں بچے ہیں، جب تک اسلام کی توفیق نہیں پاتے اللہ تعالی ان پر اپنے فضل نازل فرماتا ہے.چنانچہ قرآن فرماتا ہے کہ تم اپنے ایمان کی سچائی تو ثابت کرو اور جس تو رات اور انجیل پر ایمان لاتے ہو، اس کو قائم تو کر کے دکھاؤ.اللہ تعالیٰ تم پر اتنے 623

Page 633

خلاصہ خطاب فرمودہ 31 جولائی 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم فضل نازل کرے گا.قرآن بتاتا ہے کہ وہ قومیں ، جو اسلام میں نہیں ، ان کا ایک جیسا حال نہیں ہے.بلکہ ان میں سے بعض ایسی جماعتیں ہیں، جو اپنی تعلیم پر قائم ہیں، وہ راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں.حضور نے فرمایا:.جو شخص حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لایا، اس پر کفر کا فتویٰ ہی لگے گا.لیکن یہ نہیں کہ وہ جہنم کا ایندھن ہے.خدا سچائی کے پیمانوں سے ماپے گا.جو تقویٰ کے اس معیار پر پورا اترتا ہے، وہ دین حق کے پیغام کو جب بھی سنے گا ، اس کو قبول کر لے گا “.حضور نے بتایا کہ غیر قوموں اور غیر مذاہب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا ہر گز اسلامی تعلیم نہیں ہے.بلکہ اس کا اسلامی تعلیم سے دور کا بھی تعلق نہیں.ہر قوم میں بعض خوبیاں ہیں، جن کا انکار نہیں کیا جاسکتا.اگر چہ ان میں سے اکثر بدیوں کا شکار ہیں.لیکن مومن کی یہ شان ہے کہ الحكمة ضالة المؤمن اخذها حيث وجدها کہ وہ نیکی کو جہاں پاتا ہے، اپنی کھوئی ہوئی متاع سمجھ کر حاصل کر لیتا ہے.اس لئے ان قوموں کی خوبیوں کو سیکھیں اور ان کی برائیوں سے دامن بچا ئیں.لیکن برائیوں سے بچتے ہوئے خوبیوں سے انحراف کرنا درست نہیں ہے.وہ اخلاق حسنہ، جو قرآن کریم سکھلاتا ہے، وہ جہاں بھی غیر قوموں میں دکھائی دیتے ہیں، ان کو اپنا نا اور تسلیم کرناضروری ہے.اور پھر نیکیوں کی تعلیم دیں اور برائیوں سے روکیں.مومن تو نیک کاموں کی نصیحت کرنے کے لئے وقف ہیں.فرمایا:.یہ جلسہ چونکہ اہل یورپ سے تعلق رکھنے والوں کا ہے، اس لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جہادان پر فرض ہے.سوسائٹی میں ہر طرف نیک بات کی نصیحت کریں اور برائیوں سے روکیں.اور جو لوگ پہلے ہی ان کاموں میں مصروف ہیں، ان سے تعاون کریں.کیونکہ قرآن تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى کی تعلیم دیتا ہے.ایسی ایسوسی ایشنز ، جو غریبوں کی فلاح و بہبود کا کام کرتی ہیں، ان کے معاون اور مبر بنیں.اور مومن کا نصب العین یہ ہے کہ وہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتا ہے.اس لئے 624

Page 634

تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد خلاصہ خطاب فرمودہ 31 جولائی 1987 ء اس طرح بچے خلوص کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹائیں کہ آپ ان کے راہنما بن جائیں.با دین حق کے احکامات پر دیانتداری سے عمل کرنے والوں میں شامل ہوں گئے“.اس کے بعد فرمایا:.پاکستان کے احمدیوں پر ان سب باتوں کا اطلاق ہوتا ہے.کیونکہ پاکستان میں بھی یہ برائیاں کثرت سے پھیل رہی ہیں.اس لئے اخلاص کے ساتھ ان برائیوں کو مٹانے کا جہاد کریں اور اس وجہ سے کہ انہوں نے آپ کو دکھ دیتے ہیں، آپ ان کی اس حالت کا تماشہ دیکھیں اور مدد نہ کریں ، غلط ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انتباہ کو ہمیشہ یادرکھیں کہ جو تماشہ دیکھتے ہیں، وہ بھی ہلاک ہو جاتے ہیں.اس لئے اگر جماعت احمدیہ بے حسی کا ثبوت دے گی تو اس کے امن کی بھی کوئی ضمانت نہیں.جس کی ضمانت اللہ اور اس کے رسول نے نہیں دی، وہ میں کیسے دے سکتا ہوں".مزید فرمایا کہ اس لئے بڑی توجہ سے اس کام پر مستعد ہو جائیں اور باہر نکلیں اور لوگوں کو برائیوں سے روکیں ، مظلوموں کی مدد کے لئے آگے بڑھیں“.اس ضمن میں حضور نے احمدی وکلاء کی خدمات کو سراہا اور فرمایا کہ اگر وہ جماعت احمدیہ سے باہر بھی مظلوموں کی مدد کریں گے، جو ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان کی خدا کے لئے تائید کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے رزق کو کشادہ کر دے گا“.حضور نے فرمایا:.وو پاکستان کے احمدیوں کے لئے آج بھی ضروری ہے کہ اپنے ان بھائیوں سے بھی حسن سلوک کریں، جنہوں نے جماعت احمدیہ پرظلم ہوتے ہوئے دیکھے اور کوئی پرواہ نہ کی.اور جنہوں نے مدد کی یا مدد کرنے کی کوشش کی ، ان سے احسان کا سلوک کریں.اگر کوئی احمدی ہر اس فرقے کو رد کرنا شروع کر دے، جو احمد بیت میں داخل نہیں تو یہ قرآن کی تعلیم کے سراسر خلاف ہو گا.اس لئے تقویٰ اور سچائی سے کام لیں.اس کے بعد حضور نے افتتاحی دعا کروائی اور فرمایا کہ وو سورۃ فاتحہ بڑی عظیم الشان دعا ہے، اس لئے آج اس دعا کو مختلف انداز سے، الٹ پلٹ کر اپنی ضروریات کے مطابق دعا کریں.مطبوعہ ہفت روزہ النصر 04 ستمبر 1987ء وضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ اگست 1987ء) 625

Page 635

Page 636

تحریک جدید- ایک الہی تحریک ارشاد فرموده یکم اگست 1987ء بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے حضور نے فرمایا:.ارشاد فرمود و یکم اگست 1987ء دیہات کے دیہات ہی صرف احمدی نہیں ہو رہے بلکہ خدا تعالیٰ بعض بڑے بڑے ایسے آدمیوں کو احمد بیت کی طرف مائل فرما رہا ہے، جن کے اثر کے نیچے بعض جگہ لکھو کھا انسان ہیں.اس ضمن میں، میں ایک مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ کو حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا الہام بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے“ یاد ہوگا.اس الہام کے بارے میں چند سال پہلے ایک دوست نے بڑی فکر مندی کے ساتھ یہ بات کی کہ حضرت بانی سلسلہ کا یہ الہام ہے اور پورا تو ہونا ہے لیکن جہاں تک میری عقل کام کر رہی ہے اور جہاں تک میں دنیا کو دیکھتا ہوں، بادشاہ تو دنیا سے غائب ہوتے چلے جارہے ہیں.ایک انگریزوں کا بادشاہ باقی رہ گیا ہے یا ایک ہالینڈ کا ہے، ایک ڈنمارک کا ہے.اور جلد بادشاہ دنیا سے غائب ہو رہے ہیں.اور ان کے احمدی ہونے کا نزدیک مستقبل میں یا بظاہر دور تک بھی کوئی امکان نہیں.تو الہام کیسے پورا ہوگا؟ ابھی ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ بادشاہ دو، تین نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں آج بھی دنیا میں موجود ہیں.اور صرف ایک نائیجریا ایک ایسا ملک ہے، جس میں قدیم بادشاہ ابھی تک قائم ہیں.اور رچہ حکومت کی قدریں بدل چکی ہیں لیکن حکومتوں نے بادشاہتوں کو نہیں تو ڑا.اور کئی سو بادشاہ آج بھی نائیجریا میں موجود ہیں.جن کو اوپا کہتے ہیں.اور وہ واقعتا بادشاہ ہیں.ان کے وہاں پر بادشاہتوں کے حقوق ہیں.ان کے سامنے اگر حکومت کا نمائندہ بھی پیش ہوتا ہے تو ان کی اجازت سے ان کے دربار میں داخل ہوتا ہے.جہاں جوتیاں پہن کر کسی کو جانے کی اجازت نہیں.ان کا قانون چلتا ہے، ان کے فیصلے رائج ہوتے ہیں اور بادشاہت کے جتنے بھی آثار ہیں ، وہ ان میں زندہ ہیں ابھی تک.اور ٹائٹل بھی بادشاہ کا ہے.اس لئے سینکڑوں بادشاہ خدا کے فضل سے موجود ہیں.آج سے چند مہینے پہلے مجھے وہاں ایک خوشخبری ملی کہ وہاں کے ایک بادشاہ او باسانید کو وفولالو او بالا دی اوافون خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہو گئے ہیں.جب مجھے یہ اطلاع ملی تو چونکہ میری توجہ 627

Page 637

ارشاد فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم حضرت بانی سلسلہ کے اس الہام کی طرف تھی، اس لئے دل خاص طور پر حمد سے بھر گیا اور ان کو میں نے الیس الله بکاف عبدہ کی انگوٹھی حضرت بانی سلسلہ کی انگوٹھی سے مس کر کے اس الہام کی روشنی میں کہ برکت ڈھونڈیں گے، تحفہ بھجوائی.اور یہ پیغام بھیجا کہ بادشاہوں کو یہی زیب دیتا ہے کہ بادشاہوں کو حق کا پیغام دیں.چنانچہ یہ پیغام ان کے دل کو ایسا لگا کہ گزشتہ چند مہینے میں انہوں نے دوسرے بادشاہوں کو حق کا پیغام بھجوایا اور اب تک وہ خدا کے فضل سے دو بادشاہوں کو احمدیت میں شامل کر چکے ہیں.ان بادشاہوں میں اتنے زور دار بادشاہ موجود ہیں، آپ یہ نہ سمجھیں کہ رسمی لفظ ہے یہ بادشاہ، کہ اس ایک بادشاہ کے نیچے ایک سو چیف موجود ہیں.یعنی بہت وسیع بادشاہت ہے.نائیجریا ایک بہت بڑا ملک ہے.اور ایک بادشاہ کو جن کو انہوں نے حق کا پیغام پہنچایا ، وہ خود دو بادشاہوں کا بادشاہ ہے.اور یہ دونوں خدا کے فضل سے آج یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں.عجیب اللہ تعالیٰ کا یہ تصرف ہوتا ہے، تقدیر یہی ہے اس کی جو کام کرتی ہے، کہ ان کے یہاں آنے کی خبر کے ساتھ ہی مجھے پاکستان سے حضرت بانی سلسلہ کے تبرک کا تحفہ ملا، جو کپڑے پر مشتمل تھا.چنانچہ اس میں سے دو ٹکڑے کاٹ کر میں نے سجا کر آج ان کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے.تا کہ حضرت بانی سلسلہ کے اس الہام کی قبولیت کی داغ بیل عملاً بادشاہوں کے متعلق ڈال دی جائے.تاہم دعائیں کریں کہ وہاں سارے بادشاہوں کو حضرت بانی سلسلہ کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کی توفیق عطا ہو.( نعرہ ہائے تکبیر) بعد ازاں حضور نے اعلان فرمایا: او باسانید کوا وفولا لو و بالا دی اوافون، یہاں حضرت بانی سلسلہ کا متبرک حاصل کرنے کے لئے اری ، بای تشریف لائیں“.( نعرہ ہائے تکبیر) تبرک وصول کرنے کے بعد یہ بادشاہ ڈائس پر آئے اور انگریزی میں چند کلمات پر مبنی خطاب کیا.جس میں انہوں نے اس تاریخی اعزاز کا مستحق بنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور حضرت بانی سلسلہ کا یہ تاریخی الہام اردو میں سنایا کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے؟ جب انہوں نے اپنے مختصر کلمات ختم کئے تو حضور نے ایک بار پھر افریقہ کے اس خوش قسمت بادشاہ کو ارشاد فرمایا کہ وہ حضرت بانی سلسلہ کا یہ تاریخ ساز الہام احباب کو اردو میں سنائیں.چنانچہ انہوں نے حضور کے اس ارشاد پر یہ الہام بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے 628 اردو میں سنایا.

Page 638

تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشاد فرموده یکم اگست 1987ء اس کے بعد حضور نے افریقہ کے ہی ایک دوسرے بادشاہ ” او با آف ایڈی کروکو او با جے ایل " اوجو ولی کو ایکوالا جے ایجنڈوکو" کا نام پڑھا اور فرمایا کہ یہ بھی تشریف لے آئیں.پھر فرمایا:.یہ وہ بادشاہ ہیں، جو عمر میں تو ان سے (یعنی پہلے بادشاہ سے) بڑے ہیں لیکن کل جب یہ ملاقات کے لئے آئے تو اس سے پہلے بادشاہ نے چونکہ اس دوسرے صاحب کو بادشاہ بنایا ہے، اس لئے پہلے بادشاہ نے اس دوسرے بادشاہ کا تعارف کرواتے ہوئے کہا: یہ میرا بچہ بادشاہ ہے“.حضور نے فرمایا:.دو لیکن یہ خود دو بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، یہ بھی اپنا تبرک وصول کرنے کے لئے تشریف لائیں“.(نعرے) تبرک وصول کرنے کے بعد انہوں نے بھی مائیک پر آ کر انگریزی میں مختصر کلمات کہے.ان کے مختصر کلمات کے اختتام پر حضور نے ان کو بھی ارشاد فرمایا کہ " آپ بھی حضرت بانی سلسلہ کا الہام سنائیں.چنانچہ انہوں نے بھی حضرت بانی سلسلہ مندرجہ ذیل الہام اردو میں سنایا:.میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ (نعرے) مطبوع ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ تمبر 1987ء) 629

Page 639

Page 640

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء دوران سال نازل ہونے والے الہی افضال اور جماعتی ترقیات کا تذکرہ خطاب فرمود و یکم اگست 1987ء بر موقع جلسه سالانه برطانیه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ برطانیہ کے دوسرے روز کے جلسہ کے دوسرے اجلاس میں اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ یوں تو ایک باشعور انسان ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد کرتارہتا ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہر احمدی اس حیثیت سے ایک باشعور انسان کہلانے کا مستحق ہے.لیکن بعض خاص مواقع ایسے بھی آتے ہیں جبکہ ذکر الہی میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی حمد کا بیان ایک خاص اہمیت اختیار کر جاتا ہے.اور انسان شکر کے تقاضے پورے کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے.اگر چہ شکر کے تقاضے جہاں تک خدا کی ذات کا تعلق ہے، پورے ہو نہیں سکتے.آج بھی ایک ایسا ہی دن ہے.اور آج بھی اس وقت جماعت کی پرانی روایات کے مطابق خصوصیت کے ساتھ شکر کے جذبات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اور اس کی رحمتوں کا ذکر چلتا ہے.حضور نے فرمایا اس سال بھر میں خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کے لئے جتنے فضل لے کر آتا ہے، ان کا بیان ایک تھوڑے کر سے وقت میں ممکن نہیں.اور صرف اگر ایک ملک کی ایک ہی جماعت کو دیکھ لیا جائے اور وہاں جو خدا تعالیٰ مسلسل احسانات فرما رہا ہے، ان کے ذکر کو بھی سمیٹنے کی کوشش کی جائے، تب بھی یہ ممکن نہیں کہ ایک دن کے خطاب میں انسان ان کے ذکر کا حق ادا کر سکیں.اس لئے جیسا کہ ہمیشہ سے یہ دستور چلا آرہا ہے، ہم بڑی کوشش کر کے، محنت کر کے تمام سال میں ہونے والے مختلف واقعات اور اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے فضلوں کے مختلف مظاہر کو دیکھ کر ایسی رپورٹ تیار کرتے ہیں، جو مختصرا اہم شعبوں کو اپنے اندر سمیٹ لے.اس لئے جماعت احمدیہ کی دلچسپیوں کے سارے شعبے تو بہر حال زیر نظر نہیں آسکتے.مگر چند اہم شعبوں میں بعض چیدہ چیدہ باتیں، جو اس سال رونما ہوئیں، ان کا ذکر میں آج آپ کے سامنے کرنے لگا ہوں.631

Page 641

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد مفتم جماعت احمدیہ کی نئی شاخوں کا قیام اس ذکر کا آغاز دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کی نئی شاخوں کے قیام سے تعلق رکھتا ہے.گذشتہ سال جو رپورٹ میں نے پیش کی تھی، اس میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال تک 108 ممالک میں جماعت احمد یہ قائم ہو چکی تھی.اس عرصے میں یعنی عرصہ زیر پورٹ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے چھ نئے ممالک میں احمدیت قائم کرنے کی توفیق ہمیں عطا فرمائی ہے.اس طرح سے آج دنیا کے 114 ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے قدم مضبوطی سے جسم چکے ہیں.آج سے چند سال پہلے 1984ء میں جب میں لندن آیا تھا، اس وقت یہ تعداد 1 9 تھی.گویا کم و بیش اتنے یعنی اکانوے ہی سالوں میں جماعت احمد یہ 91 ممالک میں قائم ہوئی تھی.اور تحریک جدید کی نصوبہ بندی کمیٹی نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ صد سالہ جو بلی تک ہم کوشش کر کے 100 ممالک میں جماعت احمدیہ کو قائم کرنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کے ساتھ ابھی سے اس سے زیادہ ممالک میں احمدیت کو قائم کر دیا ہے.گذشتہ تین سالوں میں، جس میں بعض حکومتوں نے جماعت احمدیہ کی دشمنی میں شامل ہو کر اسے انتہاء تک پہنچانے کی کوشش کی، خدا کے فضل سے 23 نئے ممالک میں جماعت احمدیہ قائم ہو چکی ہے.امسال جن نے ممالک میں جماعت احمدیہ کوخدا کے فضل سے قدم جمانے کی توفیق ملی ہے، ان کے نام یہ ہیں:.کانگو، پاپوانیوگنی فن لینڈ، آئس لینڈ، پرتگال اور نا ڈرو ان چھ ممالک کے علاوہ ساؤتھ امریکہ میں بولیویا اور بے لیز اور ارجنٹائن میں بھی جماعت کے قیام کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں.بولیویا اور بے لیز میں ہمارے واقفین عارضی پہنچ چکے ہیں اور ان کی رپورٹیں خدا کے فضل سے نہایت خوشکن ہیں.جہاں تک ارجنٹائنا کا تعلق ہے، مدتیں پہلے وہاں جماعت قائم ہوئی تھی.اور ان میں وہ احباب شامل تھے، جو ہنگری سے آکر ارجنٹائنا میں مہاجر بن کر آباد ہوئے تھے.اور ان کے علاوہ کچھ مقامی لوگ بھی تھے.لیکن بدقسمتی سے اس جماعت کے ساتھ مرکز کا رابطہ ٹوٹ گیا.اس لئے وہاں تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے فضل سے وہاں پر احمدی موجود ہیں.لیکن کتنے ہیں؟ کہاں ہیں؟ ان کا معیار کیا ہے؟ اس بارے میں ہم سر دست کوئی بات یقین سے نہیں کہہ سکتے.اس لئے انشاء اللہ بہت ہی قریب کے مستقبل میں ارجنٹائنا میں ہمارا مربی جا کر ان پرانے احمدیوں کو بھی تلاش کرے گا اور نئی جماعتیں قائم کرنے کی بھی کوشش کرے گا.632

Page 642

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء جہاں تک باقاعدہ مرکزی مربیان کا تعلق ہے.ان تمام ممالک میں ابھی تک باقاعدہ مرکزی مربیان کام نہیں کر رہے.اور 114 میں سے صرف 47 ممالک میں مرکزی مربی کام کر رہے ہیں.اس لئے آئندہ سالوں میں اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.کیونکہ مرکزی تربیت یافتہ مبلغ جب تک جماعتوں میں نہ پہنچیں، صحیح رنگ میں ٹھوس اور گہری تربیت کرنی مشکل ہو جاتی ہے.تاہم جو رضا کار مربیان ہیں، ان پر بھی انحصار کیا جارہا ہے.اور نئے رضا کار مربیان کو بھی ملکوں میں خدمت کے لئے تیار کیا جاتا ہے.اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے 6 ممالک میں رضا کار مربیان کام کر رہے ہیں.اور باقی جتنے ممالک ہیں، ان کی دیکھ بھال داعین الی اللہ کے ہاتھوں میں ہے.اور وہ خدا کے فضل سے بہت عمدگی سے کام کر رہے ہیں.امسال جن نئے ممالک میں احمدیت قائم ہوئی ہے، ان کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے حضور نے کانگو کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.کانگو جہاں امسال نئی جماعت قائم ہوئی ، اس کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ فرانسیسی نو آبادی تھی.1960ء میں یہ آزاد ہوئی.اس کے شمال میں کیمرون اور سنٹرل افریقین ری پبلک ہیں.جنوب میں انگولا ، مغرب میں گیون اور مشرق میں زائر ہیں.اس کا رقبہ ایک لاکھ 32 ہزار مربع میل ہے.دار الحکومت برازاویل اور آبادی 18لاکھ 50 ہزار ہے.سرکاری زبان فرنچ ہے.اس کے علاوہ چار لوکل زبانیں بھی بولی جاتی ہیں.مذہب 50 فیصد عیسائی اور 45 فیصد مختلف قبائل، جو اپنا اپنا مقامی مذہب رکھتے ہیں اور صرف تین فیصد مسلمان ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے کانگو میں جماعت احمدیہ کے قیام کا سہراز ائر کی جماعت کے سر ہے.زائر کے ہی وہ باشندے تھے، جنہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس پیغام کو سرحد کے پار پہنچا کر کانگو میں جماعت کا قیام کیا.پاپوانیوگنی ایک بہت بڑے جزیرے کے تقریباً نصف حصے اور اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے سینکڑوں جزائر پر مشتمل ہے.یہ 1975ء میں آزاد ہوا.یہ بھی بحرالکاہل کا ایک اہم جزیرہ ہے.اس کے مغرب میں انڈونیشیا، جنوب میں آسٹریلیا اور مشرق میں ملائیشیا کا علاقہ ہے.جو جزائر کی صورت میں چھوٹے چھوٹے ممالک پر پھیلا پڑا ہے.تو الو اور تینی باغ بھی انہی جزائر میں شامل ہیں، جن میں خدا کے فضل سے گذشتہ سال ہماری جماعتیں قائم ہوئیں.اس ملک کا رقبہ ایک لاکھ 78 ہزار دوسو، ساٹھ مربع میل ہے.دارالحکومت پورٹ مورس بی اور آبادی 33لاکھ 96 ہزار ہے.زبانیں انگریزی نبی ، موسو اور مورے ہیں.مذہب بیشتر عیسائیت ہے.اس کے علاوہ مختلف قبائل بھی ہیں اور کچھ مسلمان بھی ملتے ہیں.- 633

Page 643

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم سو ممالک میں مشن قائم کرنے کے منصوبے کے تحت یہ ملک انڈونیشیا کے سپر د تھا.مگر افسوس ہے کہ انڈونیشیا کے نمائندگان یہاں جماعت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے.اس کی وجہ غالبا عدم توجہ ہے.لیکن گزشتہ سال یہاں انگلستان میں ایک مخلص، دعوت الی اللہ کا شوق رکھنے والے نوجوان محمد اکرم احمد کی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان کو ملازمت کی پیش کش پاپوانیوگنی سے آئی ہے اور وہ وہاں جانے کا رجمان نہیں رکھتے کیونکہ بہت دور ہے.ایک لمبے عرصے تک خاندان کی جدائی برداشت کرنی پڑے گی.مجھے چونکہ دلچپسی تھی وہاں جماعت قائم کرنے میں اور میں جانتا تھا کہ ان کو بھی دعوت الی اللہ کا بے حد شوق ہے، چنانچہ جب میں نے ان سے یہ ذکر کیا تو انہوں نے بڑی خوشی سے وہاں جانے پر رضامندی ظاہر کر دی.اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہی کی دعوت الی اللہ سے وہاں کے مقامی عیسائی، احمدی ہو چکے ہیں.اور وہ ماشاء اللہ بڑی ہمت اور کوشش سے کام کر رہے ہیں.بازاروں میں کھڑے ہو کر مجمع بھی لگاتے چلتے چلتے آدمی کو ہوٹل میں ساتھ جانے کی دعوت بھی دیتے ہیں.بڑا وقت سفر کا برداشت کر کے ان کے دیہات تک بھی جاتے ہیں.اس لئے وہ ہم سب کی دعاؤں کے محتاج ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں مزید برکت ڈالے.(آمین) فن لینڈ کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اس ملک کا 2/3 حصہ جنگلوں اور جھیلوں مشتمل ہے.اس کے مشرق میں روس ، مغرب میں سویڈن ، شمال میں ناروے اور جنوب میں بحیرہ بالٹک ہے.اس کا رقبہ ایک لاکھ، تمیں ہزار، پانچ سو ستاون مربع میل ہے.آبادی 49 لاکھ ، دس ہزار.زبان فنش اور کچھ حصے میں سویڈش بھی بولی جاتی ہے.مذہب عیسائیت ہے.جو 92 فیصدی ہے اور لوتھیرین چرچ سے تعلق رکھنے ہیں.والے لوگ ہیں.سوممالک میں مشن قائم کرنے کے منصوبے کے تحت یہ ملک ناروے کے سپر د تھا.امسال جولائی میں ہمارے ناروے کے مربی انچارج مکرم کمال یوسف صاحب اپنے ساتھ احمدی مخلص داعین الی اللہ کی ایک ٹیم لے کر گئے.دو دورے انہوں نے وہاں گئے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے دورے میں آٹھ اور دوسرے دورے میں سات، یعنی کل پندرہ دوستوں نے بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.ان میں سے سب کا تعلق تو فن لینڈ سے نہیں ہے.پہلے دورے میں جو آٹھ افراد احمدی ہوئے ، ان میں سے دو عرب ہیں، دو سینی گال سے تعلق رکھنے والے ہیں اور چارفن لینڈ کے مقامی فنش باشندے ہیں.دوسرے دورے میں کل سات بیعتوں میں سے تین دوست فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے مقامی ہیں.گویا خدا کے فضل سے سات مقامی فنش دوست احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں.ان میں سے ایک کا مجھے خط بھی ملام 634

Page 644

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصه خطاب فرمود و کیم اگست 1987ء ہے.وہ ہسپتال میں مریض تھے.اور بہت قابل آدمی ہیں، دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے بھی کئی زبانیں جاننے کو کے لحاظ سے.انہوں نے مجھے خط میں لکھا کہ جب سے میں احمدیت میں داخل ہوا ہوں، مجھے خدمت کا بہت شوق پیدا ہوا ہے.میں چاہتا ہوں کہ اہم کتابوں کے بہت تیزی کے ساتھ ترجمے کروں.جو دو کتابیں آپ کا وفد مجھے دے گیا تھا، ان میں سے ایک کتاب کہیں گم ہوگئی ہے.اس لئے میں نے آپ سے رابطہ قائم کیا ہے کہ وہ کتاب بھی اور اس کے علاوہ جو کتابیں بھی آپ فنش میں ترجمہ کرانا چاہیں، بھجوا دیں.آئس لینڈ نارتھ اٹلانٹک (شمالی اوقیانوس) میں واقع ہے.سینکڑوں آتش فشاں پہاڑ اس برف خانے میں موجود ہیں.اور یہ عجیب تضاد ملتا ہے کہ جس کا نام ہی برفوں کا ملک ہے، وہاں بڑی کثرت کے ساتھ آگ اگلنے والے پہاڑ موجود ہیں.چنانچہ اس کے متعلق جغرافیہ کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہوا موجود ہے کہ دی لینڈ آف آئس اینڈ فائر ( یعنی برف اور آگ کا ملک) اس کے مشرق میں ناروے مغرب میں گرین لینڈ، جنوب مشرق میں برطانیہ ہیں.اس کا رقبہ 39 ہزار سات سو اڑسٹھ مربع میل ہے.آبادی دو لاکھ 45 ہزار ہے.زبان آئس لینڈڈ ہے.اور مذہب عیسائیت.سوممالک میں مشن قائم کرنے کے منصوبے کے تحت یہ ملک ڈنمارک کے سپرد کیا گیا تھا.مگر افسوس کہ ڈنمارک کے احمدی دوستوں کو اس طرف توجہ نہ رہی اور یہ سہرا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناروے کے سر رہا.ناروے نے نفلی طور پر یہاں کام کیا.یعنی اصل تو ذمہ داری ڈنمارک کی تھی اور ان کے بیان کے مطابق سب سے پہلے ایک خاتون یہاں احمدی ہوئی تھیں.لیکن اس خاتون کا کسی وجہ سے ان سے رابطہ ٹوٹ گیا.اس سال میں اس مشن کا ذکر اس لئے آیا کہ گزشتہ سالوں میں ان کا اس خاتون سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا.اس لئے انہوں نے گزشتہ سال اس ملک کا ذکر نہیں کیا.لیکن اس سال محض خدا کے فضل نے اس ملک کا ایک بہت ہی اچھا پھل ہمیں عطا فر مایا.ایک نوجوان لو تھر رائی مات، جوایڈنبرا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، انہوں نے از خودلندن سے رابطہ قائم کیا اور کہا کہ میرے بعض دوست احمدی ہیں اور میرے دل میں اس مذہب کی بہت محبت پیدا ہو چکی ہے، اس لئے میری بیعت قبول کی جائے.چنانچہ وہاں کے مربی کو لکھا گیا اور انہوں نے بڑی خوشی سے بیعت کی.اب بھی وہ مربی سے تعلق رکھتے ہیں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے وہاں بڑی کثرت سے احمدیت پھیلانے کی توفیق عطا کرے، آمین.پرتگال ( پورچوگال) یہ مغربی یورپ کا سب سے غریب ملک ہے.اس کے شمال اور مشرق میں سپین اور جنوب اور مغرب میں شمالی بحر اوقیانوس ہے.رقبہ 35 ہزار 5 سو ترین مربع میل آبادی ایک 635

Page 645

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک کروڑ ، ایک لاکھ.دارالحکومت لزبن اور زبان پرتگالی (پور چوگیز ) ہے.مذہب عیسائیت.جو96 فیصد رومن کیتھولک ہیں.یہاں گزشتہ چند سال سے میں کوشش کر رہا تھا کہ پین کی معرفت یا کسی اور ذرائع سے جماعت رجسٹر ہو جائے.اور وہاں ہم باقاعدہ مشن کا آغاز کریں.مگر باوجود کوشش کے ہم اس میں ناکام رہے.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس خواہش کو اس طرح پورا فرما دیا کہ ہماری ایک احمدی خاتون سٹرامینہ برازیل میں احمدیت میں داخل ہوئیں، ان کی زبان پرتگالی ہے اور وہ پرانی پرتگال کی ہی باشندہ تھیں.اس لئے مجھے یہ خیال آیا کہ ان کے سپرد یہ کام کیا جائے.کیونکہ وہ خدمت دین کا بہت شوق رکھتی تھیں اور جب سے وہ احمدی ہوئی ہیں، کئی کتابوں اور پمفلٹوں کے ترجمے کر چکی ہیں.اور قرآن کریم کے ترجمے کی دہرائی میں بھی انہوں نے بڑی محنت سے کام کیا ہے.انہوں نے مجھے خط لکھا کہ میں جو احمدی ہوئی ہوں تو پرانے زمانے کی میری ایک دلی آرزو اور دعا کے ذریعے ایسا ہوا ہے.اگرچہ میں عیسائیت میں پیدا ہوئی مگر شدید تمنا تھی کہ خدا مجھے سچائی تک پہنچائے.چنانچہ جب میں نے اس بارہ میں دعائیں کیں تو خدا تعالیٰ نے مجھے ایک واضح نظارہ دکھایا اور اطمینان دلایا کہ آئندہ ہم تمہیں اس مذہب سے متعارف کروا دیں گے، جو سچائی کا مذہب ہے.چنانچہ جب مجھ تک احمدیت کا پیغام پہنچا تو مجھے ایک ذرہ بھی شک پیدا نہیں ہوا کہ یہ وہی مذہب ہے اور میں خوشی سے احمدیت میں داخل ہو گئی.وہ اس جلسے میں تشریف لائی ہوئی ہیں.چنانچہ یہ ان کو توفیق ملی کہ پرتگال میں پہلی بار جماعت احمدیہ کو رجسٹر کروانے میں کامیاب ہو گئیں.ناؤ روا یک نیا جنوبی بحر الکاہل کا جزیرہ ہے، جوتو الو سے اوپر تقریبا شمال میں واقع ہے.یہ جزیرہ دنیا کی سب سے چھوٹی ری پبلک ہے.اس کا رقبہ صرف آٹھ مربع میل ہے.یعنی دو میل ایک طرف اور چار میل ایک طرف.یہ ملک آسٹریلیا کے ماتحت تھا.1968ء میں آزاد ہوا.آبادی آٹھ ہزار ایک سو ہے.زبان انگریزی ہے.مذہب عیسائیت ہے، جس میں 66 فی صد پر انسٹنٹ ہیں.تو الو میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں ، ہمارے ایک بہت ہی مخلص اور فدائی رضا کا راحمدی مربی افتخار ایاز صاحب نے جماعت کو قائم کیا تھا.وہاں جب داعی الی اللہ کی تحریک چلائی گئی تو تو الو کے ایک دوست نے از خود نا ؤ ر و کو احمدی بنانے کا عزم کیا.اور باوجود اس کے کہ توالو میں غربت ہے، احمدی مربی کے اصرار کے باوجود انہوں نے کوئی کرایہ قبول نہیں کیا.اور کہا کہ میں محض اللہ خدمت دین کے لئے جانا چاہتا ہوں.اپنے خرچ پر جاؤں گا.وہ وہاں گئے اور خدا کے فضل سے پہلے ہی دورے میں چھ خاندانوں کو احمدی بنانے کی توفیق ملی.636

Page 646

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ہفتم خلاصه خطاب فرموده یکم اگست 1987ء حضور نے اس مملکت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.ناؤروان جزائر میں اگر سب سے زیادہ امیر نہیں تو ان جزائر میں سے سب سے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے.وجہ یہ ہے کہ عین اس کے وسط میں ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے، جسے ہم طلبہ کہتے ہیں ، وہ ساری ایک بہت قیمتی دھات پر مشتمل ہے.چنانچہ مغربی قو میں بڑی تیزی سے وہاں پر کھدائی کر کے وہ دھات سمیٹ رہی ہیں.اور خود ان کا خیال ہے کہ ان کی دولت 1990ء تک چلے گی اور 1990ء کے بعد ان کے پاس بیچنے کے لئے کچھ نہیں رہے گا.لیکن وہاں کے لوگ سمجھدار ہیں اور جو بھی روپیہ حاصل کر رہے ہیں، اسے شرابوں اور جوئے میں اڑانے کی بجائے وہ اس کو سرمایہ کاری میں اس طرح استعمال کر رہے ہیں که اندازہ یہی ہے کہ شبہ اگر غائب بھی ہو گیا تو اس ملک کی خوشحالی پر برا اثر نہیں پڑے گا“.بولیویا 1865ء میں سپین سے آزاد ہوا تھا.یہ براعظم جنوبی امریکہ کے تقریباً وسط میں واقع ہے.جہاں کی ایک خصوصی بات، اس کی آزادی کے بعد کی یہ ہے کہ ایک سو پچاس سال میں 190 حکومتیں بدلی ہیں.اس کے شمال اور مشرق میں برازیل، مغرب میں پیرو اور چلی اور جنوب میں ارجنٹائن اور پیرا گوئے ہیں.اس کی آبادی 63 لاکھ 60 ہزار ہے.اور رقبہ 4 لاکھ 4 ہزار ایک سو تریسٹھ مربع میل یعنی اس میں 50 ہزار ناؤ رو آ سکتے ہیں.دارالحکومت لو پاز اور زبان سپینش ہے.اور کو ئیو چھوا اور امیارہ زبانیں بھی بولی جاتی ہیں.مذہب عیسائیت.95 فیصد رومن کیتھولک.امسال کینیڈا اور پاکستان سے بعض احمدی دوست وہاں پہنچے، وہاں زمینیں خریدیں، با قاعدہ جماعت کا وہاں پر آغاز کیا.لیکن ابھی تک وہاں کے مقامی باشندوں میں سے کسی کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق نہیں ملی.جو واقفین عارضی وہاں گئے ہیں، ان کی بھاری امید ہے کہ خدا کے فضل کے ساتھ جلد جماعت قائم ہو جائے گی.سب سے بڑی مشکل وہاں یہ در پیش تھی کہ دین حق کو اچھے عقیدے کے طور پر اس ملک میں قبول ہی نہیں کیا جاتا تھا.یعنی حکومت کے نزدیک جس طرح اصطلاح ہے کہ صیح مذاہب اور بدمذاہب ، اس طرح حکومت میں صحیح مذاہب اور بد مذاہب کی ایک فہرست ہے.اور کتنا ظلم ہے کہ اسلام کو بد مذاہب کی فہرست میں رکھا گیا تھا.پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمارے احمدی واقف عارضی نے با قاعدہ حکومت میں درخواست دی، اس کی پیروی کی اور اب ان کی رپورٹ یہ آئی ہے کہ جس وزارت سے اس معاملے کا تعلق ہے، اس کی طرف سے یہ اطلاع ملی ہے کہ ہم عنقریب اسلام کو بھی اچھے مذاہب کی فہرست میں شامل کرلیں گے.جب یہ واقعہ ہو گا، تب ہماری رجسٹریشن کا اور باقاعدہ دعوت الی اللہ کی مہم کا آغاز ہو سکتا ہے".637

Page 647

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء دو تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ” بے لیز جنوبی امریکہ کا ملک ہے.آج کل کینیڈا سے ہمارے ایک واقف عارضی مسعود احمد خان صاحب وہاں کام کر رہے ہیں.مسعود احمد خان صاحب نے غالباً دو مہینے کے لئے وقف کیا ہے.اس سے پہلے بولیویا میں جو واقف عارضی گئے ، ان کا نام ڈاکٹر وسیم احمد ہے.یہ سید نصیر احمد صاحب لندن کے بھائی ہیں.انہوں نے چھ ماہ کے لئے اپنے خرچ پر وقت دیا ہے.مسعود احمد صاحب کا بہت ہی خوش کن اور خوشخبریوں پر مشتمل خط ملا ہے.اور وہ کہتے ہیں کہ جہاں جہاں بھی میں نے دین حق کا پیغام پہنچایا ہے، وہاں پر لوگ بڑی گہری دلچسپی لے رہے ہیں.اور انہیں امید ہے کہ وہ بہت جلد ہمیں ایک بڑی خوشخبری سنائیں گئے.اس کے علاوہ کینیڈا کے ایک ہمارے مخلص احمدی دوست مکرم چوہدری محمد الیاس صاحب نے ایک بہت ہی پر خلوص پیش کش کی ہے کہ دسمبر 1988ء تک، یعنی جو بلی سال سے پہلے سنٹرل امریکہ (وسطی امریکہ) کے سات ممالک میں زمین اور مشن ہاؤس خرید کر جماعت کو بطور تحفہ پیش کریں گے.یہ تحفہ سات اسیران ساہیوال کی طرف سے خصوصاً اور اسیران راہ مولا کی طرف سے عموماً ہو گا.ان ممالک کے نام یہ ہیں:.بے لیز ، گوئٹے مالا ، ایل سلواڈور، ہونڈوراس، نکاراگوا، کوسٹاریکا اور پانامہ اس درخواست کے ساتھ کینیڈا کے مربی مکرم نیم مہدی صاحب نے نوٹ لکھا ہے کہ اگر چہ جماعت احمدیہ نے یہ پیشکش کی ہے مگر اسے جماعت احمدیہ کینیڈا کی طرف سے مجموعی پیش کش تصور کیا جائے محض ایک شخص کی پیش کش نہ ہو.نسیم مہدی صاحب کافی ذہین آدمی ہیں اور داؤ لگانے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے.نسیم مہدی صاحب کی یہ پیش کش نامنظور ہے اور الیاس صاحب کی پیشکش منظور ہے.اس کی وجہ یہ کہ کینیڈا کے سپرد تو چھ اور جماعتیں کی ہوئی تھیں، اس کی طرف توجہ نہیں کی.اور جب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک فرد واحد کے دل میں تحریک ڈالی اور ان کی ایسی توفیق بھی عطا فرمائی ہے کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ انشاء اللہ اپنے وعدے کو پورا بھی کر سکیں گے.تو عموماً تو یہ ہوتا ہے کہ ایک فرد جماعتی کوششوں میں ہاتھ ڈال کر اپنا حصہ ڈال لیا کرتا ہے.نسیم مہدی صاحب کی ذہانت کا کمال یہ ہے کہ ایک شخص کی کوشش میں ساری جماعت کا ہاتھ لگوا کر اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں.یہ نہیں ہوگا.جو جماعتیں ان کے سپرد ہیں، الاسکا، میکسیکو، ویسٹ انڈیز، کیوبا، فرینچ گئی وغیرہ ، اس کی طرف توجہ کریں.سارا کینیڈا ان جماعتوں پر زور لگائے اور اکیلے الیاس صاحب ان جماعتوں پر زور لگائیں.ہم دیکھیں گے کہ کون پہلے کامیاب ہوتا ہے؟“ (مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ انصار الله اگست 1987ء) 638

Page 648

تحریک جدید - ایک الہی تحریک قسط نمبر 02 خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء حضور نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا:.اب نئی جماعتوں کے قیام کے بارے میں جو عمومی رپورٹ ہے کہ جس طرح مختلف ممالک کے سپر د کام کئے گئے تھے، اس کا نقشہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ جو ابھی ذکر چل رہا تھا، نئے ممالک میں جماعتوں کا قیام.اب جو میں بات کر رہا ہوں، یہ اس سے ذرا مختلف ہے.اس میں ہر ملک میں جہاں جماعت قائم ہو چکی ہے، اس میں نئی جماعتوں کے قیام کی کوشش کا ایک با قاعدہ منصوبہ بنایا گیا تھا.اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں جو کامیابیاں نصیب ہوئیں ، ان کا ذکر ہے.گزشتہ سال خدا کے فضل سے 254 نئی جماعتوں کا قیام ہوا تھا.امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپریل 1986ء تا مارچ 1987ء کے عرصہ میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں 258 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.اس طرح گزشتہ دو سالوں میں جبکہ نئی جماعتوں کے قیام کی خصوصی تحریک کی گئی ہے، حیران کن اضافہ ظاہر ہوا ہے.یعنی 516 جماعتیں مختلف ممالک میں نئی قائم ہو چکی ہیں.اگر آپ اندازہ کرنا چاہیں کہ یہ رفتار خدا تعالیٰ کے کیسے غیر معمولی فضل کو ظاہر کرتی ہے تو موازنے کے طور پر میں آپ کو بتا تا ہوں کہ اس تحریک سے پہلے تمام دنیا میں سال میں صرف 28 جماعتیں نئی قائم ہوئی تھیں.اور اب خدا کے فضل سے ایک ایک سال میں تقریباً 250 جماعتیں نئی قائم ہونا شروع ہو گئی ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس رفتار میں اور بھی اضافہ ہو جائے گا.جن ممالک نے اس خدمت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی توفیق پائی ہے، ان میں گیمبیا، آئیوری کوسٹ ، نائیجریا، سینی گال، یوگنڈا، زائر، غانا، مغربی جرمنی اور انڈونیشیا نمایاں ہیں.نئی جماعتوں کے قیام کے سلسلے میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کئی ایمان افروز واقعے بھی ایسے پیش آتے رہے، جن کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا.خیر الدین با روس صاحب انڈونیشیا سے لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے 26 اپریل کو ایک گاؤں میں 159 آدمیوں نے اجتماعی بیعت کی.اس سے قبل اس گاؤں میں تھوڑا پہلے 72 دوست اکٹھے جماعت میں داخل ہو چکے تھے.اس طرح اب خدا تعالیٰ کے فضل سے 241 افراد پر مشتمل مضبوط جماعت قائم ہو چکی ہے.گویا گاؤں کی 30 فیصد آبادی احمدی ہوگئی ہے.اجتماعی بیعت کے نتیجے میں علاقے میں 639

Page 649

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم شدید مخالفت کی لہر دوڑ گئی اور ہر طرف سے شدید معاند علماء اکٹھے ہونے شروع ہوئے.اور ان سب نے جماعت احمدیہ کو مباحثے کا چیلنج دیا.مباحثے سے پہلے ان علماء نے یہ ڈھنڈورہ پیٹوایا کہ آج کا دن ہار اور جیت کا دن ہے.اور جماعت احمد یہ ہار جائے گی، اس لئے لوگ کثرت سے یہ مباحثہ دیکھنے کے لئے احمدیہ آئیں.چنانچہ دو سو غیر احمدی احباب کی موجودگی میں یہ مباحثہ ہوا.خدا تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ مخالف مولوی، جو ان کی طرف سے پیش ہو رہا تھا، اس نے ہمارے دلائل سننے کے بعد ہمارے حق میں فیصلہ دے دیا.( نعرہ ہائے تکبیر.احمدیت زندہ باد ) اب انہوں نے کہا ہے کہ ہم نیا مولوی لے کر آئیں گے.بھارت میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے آثار ظاہر ہورہے ہیں، جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انشاء اللہ فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے.حیدر آباد کے ارد گرد کے علاقے میں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی دعوت الی اللہ کی روچلی ہے، اس کا کچھ ذکر میں نے پچھلے سال بھی کیا تھا.اس کے نتیجے میں سارے ہندوستان میں مخالفت کی ایک لہر دوڑ گئی اور بڑے بڑے علماء اکٹھے ہوئے اور انہوں نے پورا زور لگایا کہ وہ نئے دیہات، جو جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے تھے ، ان کو مر تذ کریں لیکن کلیتہ ناکام رہے.اور جماعت کو کم کرنے کی بجائے ان کوششوں کے نتیجے میں دور دور تک جماعت کا تعارف ہوا اور باہر سے جماعت کو پیغام آنے لگے کہ ہمیں بھی آکر بتاؤ کہ تم لوگ کیا چیز ہو؟ چنانچہ اب یہ دائرہ پھیل چکا ہے.اور حیدر آباد سے تین کلو میٹر دور ضلع کھیم میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تھوڑا عرصہ پہلے ہی 80 افراد بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں اور دونئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.اور یہ دونوں جماعتیں ایسی قائم ہوئی ہیں کہ یہ اپنی بیوت الذکر بھی ساتھ لے کر آئی ہیں.اسی طرح وہاں کے ہمارے مربی انچارج لکھتے ہیں کہ گاؤں ملیر میں ڈیڑھ صد گھرانوں کے تقریباً سات صدا افراد نے خدا کے فضل سے اجتماعی بیعت کر لی اور ان کے ساتھ دو بنی بنائی بیوت الذکر تحفے کے طور پر آئیں.ایک دوسرے گاؤں کر اٹلی میں جس میں زیادہ تعداد غیر از جماعت دوستوں کی ہے، اس ماہ تمام غیر احمدیوں نے احمدیت میں شامل ہونے کی درخواست کی.اور ساتھ یہ عجیب شرط لگائی کہ پہلے غیر احمدی مولویوں کو وہاں سے نکال دو.ہم تو نہیں نکالتے.خدا کی تقدیر جن کے پاؤں اکھیڑ تی ہے، وہ خود ہی نکل جاتے ہیں.اس لئے یہ عجیب شرط اس طرح تو قبول نہیں ہو سکتی کہ ہم ان کو نکالنے کی کوشش کریں.یہ وارنگل کا علاقہ تھا، جہاں سے آغاز ہوا.اب تل گنڈہ کے علاقے میں بھی، جو اس سے ملحق علاقہ ہے، خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پھیلنی شروع ہو گئی ہے.وہاں بھی چار نئی جماعتیں بوت الذکر سمیت 640

Page 650

تحریک جدید- ایک الٹی تحریک...جلد ہفتم خلاصہ خطاب فرموده تیم اگست 1987ء یعنی وہاں بیوت الذکر بنانے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئی.اپنی بیوت الذکر لے کر گاؤں کے گاؤں داخل ہوئے.اور خدا کے فضل کے ساتھ صرف بیوت الذکر ہی نہیں آئیں ، ان کے امام بھی ساتھ آئے.اس ضمن میں، میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ بھارت میں جو رو چلی ہے، اس سے استفادہ کے لئے ہمیں کثرت کے ساتھ نئے واقفین زندگی کی ضرورت ہے.بھارت میں بہت سے ایسے احمدی موجود ہیں، جو خدا تعالیٰ کے فضل سے علم و فضل کے لحاظ سے ایک اچھا مقام رکھتے ہیں اور ملازمتوں سے فارغ ہو چکے ہیں یا فارغ ہونے کے قریب ہیں.ان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو وقف کریں.احمدیت کی ضرورتیں مقدم ہیں.ان کو مقدم رکھنا چاہیے اور بجائے اس کے کہ ساری عمر کی نوکریوں کے بعد پھر نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں ہوں.میرا ان کو مشورہ یہی ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی خدمات کو دین کے لئے پیش کر دیں.یہ ایسی عظیم سعادت ہے کہ جب وہ پیش کریں گے، تب ان کو معلوم ہوگا کہ ان کی گزشتہ عمرگو یا اس آئندہ عمر کے مقابلے پر رائیگاں گئی.بہت شدید ضرورت ہے.کیونکہ صرف یہی نہیں کہ نئے علاقوں میں احمدیت کے متعلق مطالبے پیدا ہور ہے ہیں بلکہ جو پہلے سے احمدی ہو چکے ہیں، ان کی ٹھوس تربیت کے لئے بہت ضروری ہے.جب تک ان کی بدر سمیں وہاں سے دور نہ کی جائیں، ان کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پاکیزہ تعلیم سے روشناس نہ کرایا جائے، جس پر آپ نے اپنی سنت کے ذریعے عمل کر کے دکھایا اور ان تمام بد رسموں سے ان کو پاک نہ کیا جائے ، جو بعد کے زمانوں میں دین حق میں داخل ہوئیں، اس وقت تک محض یہ کہہ دینا کہ اتنے گاؤں احمدیت میں داخل ہو گئے اور اتنے ہزار نفوس احمدیت میں داخل ہو گئے، یہ کھوکھلی سی بات ہوگی.اور ہم کھوکھلی باتوں کے لئے پیدا نہیں کئے گئے.ہمیں جہاں جہاں بھی خدا کا میابیاں عطا فرماتا ہے، فوراً مغز کی طرف توجہ دینی چاہیے.فوراً انتہائی کوشش کرنی چاہیے کہ صحیح دین اپنی تمام حسن و خوبی کے ساتھ ان قوموں میں داخل ہو جائے.اس لئے ہمیں بہت سے محنت کرنے والے مخلصین کی ضرورت ہے.ضلع شاہ جہان پور میں جہاں مدتوں سے جماعت نے بڑھنا اور پھولنا پھلنا بند کردیا تھا.اور وہاں کی جماعت کے بعض لوگ، جب ان سے خط و کتابت ہوتی تھی، یہ لکھا کرتے تھے کہ یہ علاقہ سنگلاخ ہے، جو ہو گیا، ہو گیا.اب یہاں سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ایک بہت ہی مخلص مربی نے وہاں جا کر کوششیں شروع کیں اور گاؤں گاؤں پہنچے تو ان کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہونا شروع ہو گئی.مخالفتیں بھی ہیں، ہمخالفتوں کی کوکھ سے برکتیں بھی جنم لے رہی ہیں، رحمتیں بھی پیدا ہو رہی ہیں.641

Page 651

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم - اور بعض دلچسپ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں.ایک گاؤں کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ سالہا سال و سے ایک احمدی تھا لیکن وہ اپنے ارادے کا پکا اور مستقل مزاج.اس نے جب سے وہ احمدی ہوا، دعوت الی اللہ نہیں چھوڑی.مگر اکیلا ہونے کی وجہ سے اس کی بات کوئی سنتا نہیں تھا.وہ کہتے ہیں، جب مجھے پتہ چلا تو میں پہنچا اور میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس کی محنت کا اثر وہاں ضرور تھا ، لوگوں کے دل مائل ہو چکے تھے.اس لئے میرے جانے کے بعد جب میں نے صحیح طریق پر جماعت کے عقائد کا تعارف کرایا.اسی وقت خدا کے فضل سے آٹھ افراد جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.اور یہ اس سال کی دوسری جماعت ہے، جو شاہ جہان پور کے علاقے میں پیدا ہوئی ہے.جہاں تک افریقہ کا تعلق ہے، وہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے تیزی کے ساتھ اب جماعت در جماعت اور قوم در قوم احمدیت میں داخل ہونے کا رحجان پیدا ہو چکا ہے.یوگنڈا میں داعین الی اللہ بڑی محنت اور شوق سے کام کر رہے ہیں.امبالے کے دو گاؤں کو میلے اور بلاڈے میں تین داعین الی اللہ کی کوششوں سے دوستی جماعتیں پیدا ہو چکی ہیں.اور کا نگیلے میں ان کی کوششوں سے چودہ افراد جو بیت الذکر کے بھی مالک تھے، بیت الذکر سمیت احمدیت میں داخل ہوئے اور پرانے احمدیوں کے جو موجود تھے، حوصلے بلند ہوئے.کینیا میں ایک لمبے عرصے کے جمود کے بعد اب حرکت کے آثار پیدا ہوئے ہیں.اور یہاں بھی خدا کے فضل سے داعین الی اللہ کی کوششیں بار آور ثابت ہو رہی ہیں.نیروبی سے 280 میل دور کو اٹ نامی ایک گاؤں میں ایک ہی دن میں سولہ افراد نے بیعت کی اور ایک نئی جماعت قائم ہوئی.اور اس جماعت کی امتیازی بات یہ ہے کہ احمدی ہوتے ہی انہوں نے اپنا چندہ ادا کیا.گیمبیا میں خدا کے فضل سے بہت رجحان ہے، جماعت کی طرف.اور ہمارے مربی مرکزی کیا اور مقامی کیا اور داعین الی اللہ جو ان کی تربیت سے تیار ہوئے ہیں، بڑا اخلاص، شوق اور لگن سے کام کر رہے ہیں.اور یہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے نئے دیہات میں احمدیت داخل ہو رہی ہے.اس کی تفصیل یہاں نہیں دی ہوئی.لیکن رپورٹوں سے مجھے یاد ہے کہ خدا کے فضل سے بہت ہی تیزی سے پھیلنے والی جماعت ہے.لیکن ان کا جو خاص کمال ہے، گیمبیا کی جماعت کا ، وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھ کے ملک سینی گال میں بہت اچھی دعوت الی اللہ کی ہے.اور وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے واقفین عارضی بھی گئے ، ہمارے مربیان نے بھی دورہ کیا اور باوجود اس کے کہ ہر مسجد میں مخالفت کا پیغام دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس وقت تک 642

Page 652

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء وہاں ان دامین الی اللہ کی کوششوں سے ایک گاؤں پورا احمدی ہو چکا ہے اور اس کے علاوہ چالیس افراد نے ایک جگہ اجتماعی بیعت کی ہے.اور بہت کثرت سے دوسری جماعتیں قائم ہوئی ہیں.اب میں دوبارہ سوممالک میں میشن قائم کرنے کے منصوبے کی طرف آتا ہوں.سو ممالک میں مشن قائم کرنے کے منصوبے سے مراد یہ تھی کہ سو ممالک کو دنیا میں چن کر بعض ممالک کے سپر د کیا گیا تھا.اور اگر چہ منصو بہ تو یہی تھا کہ صد سالہ جو بلی سے پہلے ایک سو ممالک میں جماعت قائم ہو جائے.مگر کوشش اس سے بہت زیادہ کی تھی.اور دنیا کے مختلف ممالک کے سپر دسو ممالک کر دیئے گئے تھے اور کہا یہ گیا تھا کہ آئندہ جو بلی سے پہلے پہلے ان سب ممالک میں جماعت احمدیہ کو قائم کرنے کی کوشش کرو.اس لحاظ سے جو کامیابی ہمیں دکھائی دے رہی ہے، وہ خوش کن تو ہے لیکن اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ سارے ممالک نے کوشش نہیں کی.اور جو اٹھائیں نئے ممالک جماعت میں داخل ہوئے ہیں، وہ صرف چند ممالک یا چند داعین الی اللہ کی کوششوں سے ہوئے ہیں.اگر ساری دنیا کی جماعتیں اپنی ذمہ داریوں کو مجھیں اور اس طرح لگن اور خلوص کے ساتھ اور ذمہ داری کے ساتھ کوشش کرتیں تو گزشتہ تجربہ بتارہا ہے کہ زمینیں تیار تھیں اور وہ منتظر تھیں کہ کوئی اخلاص سے بھرا ہوا داعی الی اللہ پہنچ تو ہم یہ زمینیں حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کر دیں.مگر انہوں نے پوری طرح ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا.بہر حال کچھ نے کیا اور کچھ نے نہیں کیا.اس کا مختصر جائزہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.سینی گال، جس کا میں نے ذکر کیا تھا، یہ ملک جیسا کہ میں نے بتایا ہے، گیمبیا کے سپر دکھا اور گیمبیا کے داعیین الی اللہ نے وہاں مرکزی مربیان اور بعض لوکل مربیان کی نگرانی میں ایسا عمدہ کام کیا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہیں نئے مقامات پر 972 بیعتیں ہو چکی ہیں.بڑی تیزی کے ساتھ جماعت میں داخل ہونے کا رجحان پیدا ہورہا ہے اور امسال جماعت احمدیہ کو اپنی پہلی نئی مسقف بیت الذکر تعمیر کرنے کی بھی توفیق ملی.گنی بساؤ بھی گیمبیا کے تابع تھا.جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے چار مقامات پر چوہیں بیعتیں ہو چکی ہیں.یہاں کی جو بڑی کامیابی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک قصبہ کی واحد مسلم سوسائٹی کے نائب صدر اور ان کے صدر مبلغ گیمبیا کے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے گنی بساؤ سے تشریف لائے اور اسی جلسے کے موقع پر خود بیعت کر لی.اور اس جذبے سے بھر کر واپس گئے ہیں کہ وہ انشاء اللہ تعالیٰ اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لاتے ہوئے کثرت سے جماعت کا پیغام پھیلائیں گے.اسی طرح عربی مدرسہ کے ایک استاد بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں داخل ہوتے ہیں، جو کافی صاحب اثر ہیں.643

Page 653

خلاصه خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم موریطانیہ بھی گیمبیا کے سپر د تھا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بھی انہوں نے مایوس نہیں کیا.بلکہ امسال 7 بیعتیں موریطانیہ میں ہوئی ہیں.جن میں سے ایک یونیورسٹی کا فارغ التحصیل حافظ قرآن بھی ہے.پس جہاں تک گیمبیا کا تعلق ہے، انہوں نے اس لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی کامیابی حاصل کی.مالی بھی گیمبیا کے ماتحت تھا، یعنی اس کے سپرد کیا گیا تھا.لیکن یہاں ایک غالباً منصوبہ بندی میں غلطی ہوگئی.مالی کا گیمبیا سے فاصلہ بہت زیادہ ہے، وہاں کسی کو بھجوایا نہیں جاسکتا تھا.آئیوری کوسٹ اس کے ساتھ ہے، اس لئے مالی کو گیمبیا سے ہٹا کر آئیوری کوسٹ کے سپر د کر دیا.وہاں ہمارے نئے فارغ التحصیل جامعہ کے مربی عمر معاذ، جو انہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو بھجوایا گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے امسال ان کے ذریعے وہاں دوصد بیعتیں ہو چکی ہیں اور کئی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.ایتھوپیا، کومور آئی لینڈ سیٹلز اور صومالیہ کینیا کے سپرد تھے.اگر چہ ان ممالک میں سے صرف کومورو میں کینیا کے ایک دوست کو 2 بیعتیں کروانے کی توفیق ملی لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، کینیا میں بیداری پیدا ہورہی ہے اور یہاں کے داعین الی اللہ بڑے جذبے کے ساتھ کام شروع کر چکے ہیں.بلکہ حال ہی میں ایک داعی الی اللہ عبد المنان صاحب کو صومالیہ میں دعوت الی اللہ کرتے ہوئے قید کر لیا گیا اور بڑی خوشی سے انہوں نے چند دن کی قید بھی وہاں کائی.اور بڑے جذبے سے بھر کر اور پہلے سے زیادہ عزم لے کر وہ باہر نکلے کہ انشاء اللہ وہ اس متبرک اور مبارک کام سے باز نہیں آئیں گے.کومورو آئی لینڈ میں جو ہمارے داعی الی اللہ گئے، ان کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.یہاں تک کہ ان کے متعلق یہ خطرہ پیدا ہوا کہ پولیس ان کو حراست میں لے لے گی.چنانچہ جب ان کی کوئی پیش نہ گئی تو وہ دعائیں کرتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے کوئی سامان پیدا کرے، اپنا وقف کا عرصہ پورا کئے بغیر واپس آرہے تھے، ہوائی جہاز میں کو مورو کے ایک طالب علم سے گفتگو شروع ہوئی اور اس نے اتنی تیزی سے دلچسپی لینی شروع کی کہ سفر ختم ہونے سے پہلے اس نے بیعت کر لی.اور اس طرح سے ایک اور نو جوان بھی اس کے ذریعے سے شامل ہوا.یہ دو بیعتیں اس طرح ہوئی ہیں.سیشلز میں بھی ہمارے داعی الی اللہ گئے اور بڑی کامیابی سے وہاں رابطہ پیدا کیا ہے.اس رابطے کو اب وہ آگے بڑھا رہے ہیں اور امید ہے کہ جلد وہاں بھی جماعت قائم ہو جائے گی.برکینا فاسو، نانا کے سپر د تھا.گزشتہ سال یہاں با قاعدہ جماعت قائم ہو چکی ہے.644

Page 654

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء گنی، یہ سیرالیون اور لائبیریا دونوں کے سپر د تھا.لیکن جہاں تک گنی کا تعلق ہے ، دونوں ممالک کو گنی میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی.زیمبیا کے سپر د چار ممالک تھے.ملاوی، بوٹسوانا، نامیبیا اور انگولا.لیکن افسوس ہے کہ زیمبیا کی جماعت مستعد نہیں ہے.اور ایک دوسرے کے درمیان ذاتی شخصیتوں کے اختلافات ہیں، جس کے نتیجے میں وہ جو فضا ہونی چاہئے، بھائی چارے اور محبت کی کہ ایک جماعت بنیان مرصوص بن کر کام کرے، اس کا فقدان ہے.اور کچھ وقت میر اضائع کرتے رہتے ہیں، ایک دوسرے کو سمجھانے پر.کبھی ایک شکایت آ جاتی ہے کہ اس نے یہ کیا پھر دوسرے کی شکایت آجاتی ہے کہ اس نے وہ کیا.مجھے اس سے کافی ذہنی کوفت بھی ہوتی ہے اور سمجھانا بھی پڑتا ہے“.یوگنڈا میں جتنے کام کی گنجائش موجود ہے، ابھی تک وہاں پوری طرح انہوں نے اپنی کوششوں کو خدمت دین میں صرف کرنا شروع نہیں کیا.روانڈا ان کے سپرد تھا لیکن ابھی تک روانڈا کی طرف انہوں نے توجہ نہیں کی.ماریشس کے سپر دراڈرک آئی لینڈ، ری یونین مڈغاسکر، کیمرون اور سیشلز کے جزائر تھے.ماریشس کو خدا کے فضل سے راڈرک میں کامیابی ہو چکی ہے.اور ابھی حال ہی میں سیشلز میں بھی انہوں نے ایک داعی الی اللہ بھجوایا ہے.تنزانیہ کے ماتحت چھ ممالک تھے.زنجبار، پینڈا، روانڈا، برونڈی ، موزمبیق اور ملاوی.یہاں بھی مجھے افسوس ہے کہ تنزانیہ نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا.حالانکہ مقامی طور پر ان میں نمایاں بیداری پیدا ہو چکی ہے.اور گزشتہ چند سال پہلے مقامی طور پر وہاں کوئی توجہ نہیں تھی ، دعوت الی اللہ کی.بلکہ ایک قسم کی مردنی سی چھائی ہوئی تھی.جب ان کو بلایا گیا تو بیدار ہوئے.داعی الی اللہ بھی اٹھے ہیں، بڑے زور کے ساتھ اور ملک کے اندران کو کامیابیاں ہونی شروع ہو گئی ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ وہ ملک سے باہر بھی پھیلیں گے اور دوسرے ممالک کو بھی احمدیت میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے.ویسے جہاں تک چندہ دینے کا تعلق ہے، وہاں ایک صاحب پہلے سے احمدی ہیں، مکرم علی قمیصی صاحب اور ان کی اطلاع یہ ہے کہ ان کی کوششوں کے نتیجہ میں ایک پورا خاندان احمد بیت میں داخل ہو چکا ہے.یہ بڑے ہی با ہمت اور دلیر آدمی ہیں.کئی دفعہ دعوت الی اللہ کے جرم میں پولیس ان کو قید کر چکی ہے اور قید سے نکلتے ہی پھر دوبارہ دعوت الی اللہ کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں.645

Page 655

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم انہوں نے ایک دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ بھی بیان کیا ہے.وہ لکھتے ہیں : میری دعوت الی اللہ کے نتیجے میں ایک خاتون احمد کی ہو گئیں.اور اس خاتون کے خلاف علماء نے سارے گاؤں میں آگ لگادی اور شدید گندے الزام جماعت احمدیہ پر بھی اور حضرت بانی سلسلہ پر بھی لگائے جانے لگے.اس خاتون کو اس حالت میں رات کو اٹھ کر رونے اور گریہ وزاری کی توفیق ملی.چنانچہ انہوں نے ایک مبشر رویا دیکھی.چنانچہ پہلے جو ان پر ہلکا سا ابتلا کا دور تھا ، تزلزل سا آیا ہوا تھا، اس رؤیا کے بعد خدا کے فضل سے وہ دور ہو گیا اور نہایت مضبوطی سے وہ قائم ہو گئیں.اور انہوں نے گاؤں میں یہ اعلان کیا کہ میں ساری عمر تمہارے ساتھ رہی لیکن کبھی ایسی مبشر رویا نہیں آئی.اور حضرت بانی سلسلہ کو چند دن ماننے کے نتیجے میں خدا نے مجھے اتنا بڑا پھل عطا فر ما دیا ہے.اب تم جو چاہو کرو، میرے ٹکڑے ٹکرے بھی کر دو گے تو میں احمدیت کو چھوڑنے والی نہیں.( نعرہ ہائے تکبیر.احمد بیت زندہ باد ) نجھی نچی کے سپرد پورٹ ساؤتھ پیسیفک کے آٹھ جزائر تھے.لیکن افسوس ہے کہ سارے بچی کی جماعت کو تو وہاں کام کی توفیق نہیں ملی.اور ہمارے افتخار ایاز صاحب کو کیلے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں نمایاں خدمت کی توفیق عطا ہوئی.اس سلسلے میں، میں انشاء اللہ مزید تفصیل سے کچھ ذکر کروں گا“.حضور نے انڈونیشیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.انڈونیشیا کے سپر د برونائی بھی تھا.انڈونیشیا کے ذریعہ تو برونائی میں کام نہیں ہو سکا لیکن خدا کے فضل سے کینیڈا میں ایک نوجوان، جو برونائی سے اعلیٰ تعلیم کے لئے گئے ہوئے تھے ، انہوں نے کینیڈا میں احمدیت میں شمولیت کی اور بڑی تیزی سے اخلاص اور محبت میں ترقی کی رخصتیں گزارنے کے لئے جب یہ برونائی جارہے تھے تو انہوں نے خود اس خواہش کا اظہار کیا کہ رمضان کا مہینہ وہ لنڈن میں میرے قریب گزارنا چاہتے ہیں اور عید کے بعد وہاں سے جائیں گے.حضور نے فرمایا:.چنانچہ بڑے شوق سے ہم نے ان کو دعوت دی اور یہ جواب رمضان گزرا ہے، انہوں نے پورے روزے بھی رکھے اور اعتکاف بھی بیٹھے.اور اعتکاف سے پہلے روزانہ میرے ساتھ سیر پر جا کر وہ مسائل کی گفتگو بھی کرتے رہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت تیار ہو کر یہاں سے وہ برونائی گئے ہیں اور رخصتوں کے اختتام پر انشاء اللہ یہاں سے ہو کر گزریں گے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ ان کو وہاں برونائی میں ) کامیابی نصیب ہوئی ہوگی.646

Page 656

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء جاپان کے سپردکو ریا تھا.اگر چہ کوریا کے انہوں نے ایک دو دورے تو کئے ہیں اور وہاں خدا کے فضل سے زمین بھی اچھی ہے.مگر ابھی ان کو وہاں کامیابی نصیب نہیں ہوئی.اب انشاء اللہ یہ کوریا کے متعلق ایک خاص منصوبہ بنارہے ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں، خدا کے فضل سے کہ آئندہ سال اس کی خوشخبری دی جائے گی“.حضور نے فرمایا:.امریکہ کے سپر د پانچ ممالک تھے.میکسیکو، گوئٹے مالا ، ڈومینیکن ری پبلک، بیٹی اور پانامہ.افسوس ہے کہ امریکہ کی جماعت اتنی بڑی ہونے کے باوجود اور کئی پہلوؤں سے آگے ہونے کے باوجود بھی دعوت الی اللہ میں پیچھے ہے.مقامی طور پر بھی پیچھے ہے اور بیرونی طور پر تو ذکر ہی کوئی نہیں.اس لئے چند خطوط تو انہوں نے وہاں سے لکھے ہیں، جس کی انفرادی طور پر تو مجھے اطلاع ملتی رہی ہے.لیکن کوئی کام نہیں ہوسکا.البتہ اب ہو سکتا ہے کہ یہ بھی الیاس صاحب کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کریں.سورینام میں بھی کوئی کام نہیں ہوا.سویڈن کا بھی وہی حال ہے، جو زمبابوے کا ہے.ایک حصہ تو خدا کے فضل سے اب سنبھل گیا ہے.لیکن سارا سال ایک دوسرے کے خلاف شکائتیں سر در دیاں خواہ مخواہ کی اور بہت ہی تکلیف میں مبتلا رکھا ہے، ان لوگوں نے.اور خود پھیل نہیں رہے، کوئی برکت نہیں ہے.جماعت میں ایک دوسرے کے خلاف باتیں، ایک دوسرے کے خلاف شکوے.ایک حصہ میں اب خدا کے فضل سے جو مالمو کا علاقہ ہے، وہاں نئی زندگی کے آثار ہیں.اجتماعیت دکھائی دینے لگی ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ وہاں سے اب اپنے پنے فضل سے نئی کونپلیں نکلیں گی.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سویڈن کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے اور نئے دور کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے“.حضور نے فرمایا:.” ناروے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں، خدا کے فضل سے نہایت ہی عمدہ کام کر رہا ہے.مقامی طور پر بھی دعوت الی اللہ میں بہت پیش پیش ہے اور بیرونی طور پر بھی خدا کے فضل سے دوسری قوموں سے رابطے میں بہت ہی نمایاں ہے.عربوں میں دعوت الی اللہ کے لحاظ سے اس سال انہوں نے بہت ہی کامیابیاں حاصل کی ہیں.بہت اچھے اچھے تعلیم یافتہ عرب بھی ان کے ذریعے شامل ہوئے ہیں اور اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں.پولینڈ سے بھی ان کا رابطہ ہے.فن لینڈ سے بھی رابطہ ہے.روس سے بھی ان کا رابطہ 647

Page 657

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ہے.اور یہاں جو ہمارے مرکزی مربی ہیں، ان کو خدا تعالیٰ نے یہ لگن عطا فرما دی ہے.خدا ان کی مزید نصرت فرمائے، آمین.اس کے علاوہ ہمارے وہاں کے جو دوست خصوصیت کے ساتھ دعاؤں کے محتاج ہیں ، وہ ہیں، مقصو د ورک صاحب.جب سے وہ شعبہ اصلاح وارشاد کے سیکرٹری بنے ہیں، وہاں دعوت الی اللہ میں بہت غیر معمولی ترقی ہوئی ہے اور اس میں بہت زیادہ ان کی ذاتی کوششوں کا دخل ہے.خود تو وہ اتنا زیادہ دینی علم نہیں رکھتے لیکن وہ لوگوں کو بیت الذکر تک لانے میں بڑی کوشش کرتے ہیں اور اکثر جو کامیاب کوششیں ہیں، ان کا آغاز ان کی ذاتی محنت اور کوشش کے نتیجے میں ہوا.اور بھی بہت سے داعی الی اللہ ہیں، جو کثرت سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں اور اپنی حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں.ضرورت یہ ہے کہ ملکوں میں یہ رو پیدا کی جائے کہ داعین الی اللہ کی تعداد بڑھاتے چلے جائیں.چند دائمین الی اللہ جب پیدا ہو جاتے ہیں، اس کی برکتیں بھی ہیں اور بعض دفعہ ایک ضمنی سا نقصان بھی ہے.وہ یہ کہ ان کی کوششوں کی طرف مربی توجہ مرکوز کر دیتا ہے، ان کی کامیابیوں کا ذکر بڑی شان سے رپورٹوں میں کرتا ہے اور دھوکا یہ لگتا ہے کہ سارا ملک خدمت کر رہا ہے.حالانکہ جب آپ تلاش کر کے دیکھتے ہیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ سارے ملک میں صرف دو، تین احمدی دوست ہیں، جو غیر معمولی کام کر رہے ہیں.اگر دو، تین کو خدا اتنی توفیق بخش رہا ہے تو مزید اگر ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور اس ٹیم کو اور اس گروہ کو پھیلانا شروع کر دیں تو زبردست کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ خدا نے آپ کو کتنی طاقت بخشی ہوئی ہے.ساری دنیا کی جماعت اگر پوری طرح مستعد ہو جائے تو حیرت انگیز انقلابی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جائیں.میرا یہ اندازہ ہے، یہ ہمارا سواں حصہ بھی اس وقت صحیح معنوں میں دعوت الی اللہ کے میدان میں مستند نہیں.اور جتنا مستعد ہے، اس کو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے غیر معمولی کامیابیاں عطا فرمارہا ہے.تو جو قصور ہے، ہمارا ہے.ہوا بھی چل رہی ہے.اللہ اپنے فضلوں سے پھل دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے.مگر اگر ہاتھ بڑھانے والے بھی نہ ہوں تو اس کا کیا علاج کیا جاسکتا ہے.ہالینڈ کے سپر د کسمبرگ تھا اور ایک جزیرہ کو را گو.فہیم احمد ہمارے بڑے مخلص اور دعوت الی اللہ کا شوق رکھنے والے احمدی نوجوان ہیں.انہوں نے کو راگو میں ایک عرب امام مسجد سے رابطہ کر رکھا ہے.اور خط و کتابت بھی ہے اور لٹریچر بھی بھجوایا جارہا ہے.اور امید ہے کہ انشاء اللہ تعالٰی خدا وہاں احمدیت کو داخل فرمادے گا.لکسمبرگ کا جہاں تک تعلق ہے، انہوں نے اخبارات سے رابطہ کیا ، اعلانات بھی شائع کئے ، واقفین عارضی بھی بھجوائے.لیکن بڑا ہی دنیا دار شہر ہے.ایک چھوٹی سی حکومت ہے ، بالکل ایک شہر اور اس کو 648

Page 658

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خلاصه خطاب فرموده یکم اگست 1987ء کا بیرونی علاقہ ، وہاں ابھی تک صحیح معنوں میں توجہ نہیں ہوئی.لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگوں نے لٹریچر کا مطالبہ شروع کر دیا ہے..ڈنمارک بھی بدقسمتی سے بیلجیئم کی طرح ان ممالک میں ہے، جو دعوت الی اللہ میں پیچھے ہیں.پین کے سپر دمراکش، الجزائر اور اٹلی میں کام تھا.اور جہاں تک ان کی رپورٹوں سے میں نے جائزہ لیا ہے، یہ مسلسل محنت اور توجہ کے ساتھ ان ممالک میں احمدیت کے نفوذ کی کوششیں کرتے چلے آ رہے ہیں.ان کے ذریعے مراکش کے مسافروں میں بہت دعوت الی اللہ ہوئی ہے اور الجزائر کے مسافروں میں بھی.ان کی وقت یہ ہے کہ جو مسافر یہاں سے گزرتے ہوئے ستانے کے لئے کچھ دیر بیت الذکر میں ٹھہرتے ہیں، ان تک تو یہ بڑی عمدگی سے پیغام پہنچا دیتے ہیں.لیکن جب وہ گزر جاتے ہیں تو ان سے دوبارہ رابطہ ان کے بس میں نہیں.اس لئے وہ ان کے پتہ جات ہمیں بھیج دیتے ہیں.پھر ہم وہاں کے مقامی دوستوں کو ان کے متعلق لکھتے ہیں.اور اس لحاظ سے کوئی غیر معمولی کامیابی ان کو نصیب نہیں ہوئی.مگر محنت کر رہے ہیں.البتہ ایک اور ملک میں غالبا روانڈا یا کوئی اور جگہ تھی ، وہاں خدا کے فضل سے انہی مسافروں میں سے ان کو کامیاب دعوت الی اللہ کی توفیق ملی.اور اگر چہ ان کا ایسا مؤثر رابطہ تو نہیں رہا لیکن جس شخص کو سپین میں احمدی ہونے کی توفیق ملی ، وہ خدا کے فضل کے ساتھ بہت ہی مخلص اور گہری رچسپی لینے والا تھا.چنانچہ اس نے اپنے طور پر اپنے ملک میں جا کر دعوت الی اللہ دی ، جاری رکھی اور ایک پوری جماعت قائم کی.چنانچہ اس کا مجھے ایک خط ملا کہ اس طرح میں سپین کے ذریعہ احمدی ہوا تھا اور اس وقت میں سو اور احمدی بنا چکا ہوں.اب ہمیں تربیت کی ضرورت ہے.آپ جلد از جلد کوئی مستقل مربی بھیجیں ورنہ اگر میں صحیح تربیت نہ کر سکا تو قصور وار میں نہیں ہوں گا.تو اس طرح بھی خدا تعالیٰ اپنے فضل سے پھل عطا فرماتا چلا جا رہا ہے.براعظم افریقہ میں گزشتہ سال مشن ہاؤسز اور بیوت الذکر کے قیام کی غرض سے جو کوشش کی گئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ 31 نئی عمارتیں اور قطعات گزشتہ ایک سال میں حاصل کر لئے گئے ہیں.ان میں سے نائیجیریا، سیرالیون، کینیا، یوگنڈا، آئیوری کوسٹ، تنزانیہ اور زائر میں پندرہ نئے مشن ہاؤسز قائم ہوئے ہیں.اور آئیوری کوسٹ، یوگنڈا، گیمبیا اور زائر میں سولہ نئے قطعات خریدے جاچکے ہیں.حضور نے اس مرحلہ پر فرمایا کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور رپورٹیں ابھی بہت پڑی ہیں، اس لئے کچھ حصہ چھوڑنا پڑے گا اور اختصار کرنا پڑے گا “.649

Page 659

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم حضور نے فرمایا:.ونٹی جو عمارتیں خریدی جاتی ہیں یا نئے جو پلاٹ خریدے جاتے ہیں ، ان میں بعض مشکلات بھی ہوتی ہیں.ہمارے مربیان وغیرہ بڑے اخلاص اور جوش سے لکھتے ہیں کہ بہت اچھا سودا ہورہا ہے اور توقع رکھتے ہیں کہ فوراً اجازت دے دی جائے.اور میری طبیعت اس پر مائل نہیں ہوتی کہ اندھیرے میں اجازت دوں.میں چاہتا ہوں کہ مجھے پوری طرح کوائف سے آگاہ کریں، حالات سے واقف کریں.اس لئے ان کے نزدیک بعض دفعہ اچھے سودے ہاتھ سے نکل بھی جاتے ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا تصرف کام کرواتا ہے اور وہی سودے ہاتھ سے نکلتے ہیں، جن کا لینا مناسب نہیں ہوتا.مجھے اتنا پتہ ہے کہ ایک موقع پر جب میں نے مربی کے اصرار پر اور شدید اصرار پر اجازت دے دی کہ آپ زمین اور یہ مشن خرید لیں.تو اس کے بعد خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ و ہم ڈالا اور میں نے ان کو حکم دیا کہ بالکل نہ خریدیں.اس سے پہلے رقم بھی ان کو بھجوا چکے تھے.اس تجربے کا ذکر کرتے ہوئے متعلقہ مربی لکھتے ہیں کہ ہم نے امبالے مشن کے لئے ایک عمارت دیکھی تھی ، جو عین شہر کے وسط میں تھی اور اس کی خرید کے لئے رقم کی منظوری بھی مرکز سے مل گئی تھی.عین اس وقت جب معاہدہ ہونے والا تھا، ہمیں امام جماعت احمدیہ کی ہدایت پہنچی کہ فوراً اس کام کو روک دیں اور یہ عمارت نہ خریدیں.چنانچہ ہم نے یہ معاہدہ روک دیا اور یہ عمارت نہ خریدی.اللہ تعالیٰ کے عجیب کام ہیں کہ ادھر مرکز سے یہ عمارت نہ خریدنے کا حکم ملا اور ادھر امبالے شہر کی ٹاؤن کونسل نے جماعت کو شہر کے عین وسط میں دس ایکڑ کا پلاٹ مفت دینا منظور کر لیا.( نعرہ ہائے تکبیر.احمدیت زندہ باد اور پھر صرف یہی نہیں.اگلی بات وہ یہ لکھتے ہیں کہ اس کے چند دن کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ جو عمارت ہم خرید نے لگے تھے، اس میں دھوکا تھا.وہ کسی اور کی عمارت تھی اور کوئی اور بیچ رہا تھا.اور ہمارے سارے پیسے ضائع ہو جاتے اور ہمیں زمین کا ایک چپہ بھی نہ ملتا.اس طرح اللہ تعالی اپنی تائید کے ساتھ جماعت کو غلطیوں سے بچاتا ہے.خدا کی یہ تائید شامل حال رہی تو انشاء اللہ اس جماعت کو کوئی دھو کے باز دنیا میں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.گیمبیا سے جو ایک خوشی کی خبر ہے، وہ یہ ہے کہ وہاں یہ روچلی ہوئی ہے کہ جو نئے احمدی ہوتے ہیں، وہ مالی قربانی میں بڑی تیزی سے آگے بڑھتے ہیں اور اس طرح وہ جماعت کو بیت الذکر اور مشن ہاؤسز کے لئے پلاٹ تحفے کے طور پر پیش کر رہے ہیں.اسی طرح سیرالیون اور آئیوری کوسٹ میں بھی ایسے واقعات ہیں.مثلاً آئیوری کوسٹ میں ایک احمدی دوست نے ایک بنا بنا یا مکان اور اس کے ساتھ پلاٹ، یہ چار سو مربع میٹر کا پلاٹ ہے، جو انہوں نے بڑے اخلاص کے ساتھ جماعت کو پیش کیا ہے.اس میں چھ کمرے پہلے سے تعمیر شدہ موجود ہیں.650

Page 660

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء اپا سے گاؤں میں 150 ایکڑ زمین کالج اور ہسپتال اور ایگری کلچر فارم ( زراعتی فارم) کے لئے چیف نے تحفہ پیش کی.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سارے تحائف بھی شامل کر لئے جائیں اور پلاٹ شامل کر لئے جائیں تو افریقہ کے 18 ممالک میں اب 162 مشن ہاؤسز قائم ہو چکے ہیں.اس کے بعد تو الو کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.توالو میں جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا، 1985ء میں جون کے مہینے میں پہلی بیعت ہوئی.اور ابھی بمشکل دو سال گزرے ہیں.مارچ 1986ء تک یہ تعداد 30 ہو چکی تھی.جب ہمارے رضا کار مربی اپنی رخصت پر تشریف لائے ، اس وقت کم و بیش اتنی ہی تعداد تھی.میں نے ان سے کہا کہ با قاعدہ جماعت کو وہاں رجسٹر کرائیں تا کہ ہم تیزی سے وہاں کام شروع کریں.مشن ہاؤس تعمیر کریں ، خوبصورت بیت الذکر تعمیر کریں.انہوں نے کہا کہ قانون یہ ہے کہ جب تک پچاس بالغ ممبر نہ ہوں ، اس وقت تک گورنمنٹ رجسٹر نہیں کرتی.چنانچہ یہاں سے جب وہ گئے تو ان کی وہاں سے اطلاع آئی کہ خدا کے فضل سے آتے ہی نئی بیعتیں ہوئی ہیں اور 52 بالغ مرداب مل گئے ہیں ہمیں اور ہم نے رجسٹری کی درخواست دے دی ہے.چونکہ جماعت احمدیہ کو خدا کے فضل سے وہاں پر تیزی سے کامیابی نصیب ہو رہی تھی، اس لئے چرچ نے مخالفت شروع کر دی.اور جو محکمہ رجسٹری کروانے کے لئے مقرر ہے، اس کے کلرک پر بھی اس مخالفت کا اثر تھا.قانون یہ تھا کہ پچاس آدمی کی ہی درخواست دی جائے.افتخار صاحب نے غلطی سے 52 آدمیوں کے ہی نام لکھ دیئے.اس کلرک کو چونکہ قانون کا پتہ تھا، اس نے جب منسٹر کے سامنے یہ درخواست پیش کی تو ان میں سے دو پر اعتراض لگا دیا اور مسٹر کو یہ کہا کہ پورے پچاس نہیں ہوئے ، 48 رہ گئے ہیں.اس نے کہا 50 ہونے ضروری ہیں.دو پر مجھے اعتراض ہے، جو درست ہے.اس لئے اس کی رجسٹریشن ابھی نہیں ہو سکتی.منسٹر نے ان کو فون کیا اور بلوایا اور کہا: دیکھو میں مجبور ہوں.کوئی مخالفت کی بات نہیں ، قانونی دقت ہے.انہوں نے کہا: ذرا فہرست گئیں تو سہی، وہ بادن تھے ، جو میں نے لکھے تھے.دو نکل گئے، پچاس پھر باقی رہ گئے.چنانچہ اس وقت منسٹر نے اس کی منظوری دے دی.اور اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے اور بھی بیعتیں ہوئیں.اور اب جو تو الو سے دو نمائندے تشریف لائے ہوئے ہیں، انہوں نے بتایا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسو کی جماعت وہاں قائم ہو چکی ہے.اس رجسٹریشن کے بعد مخالفت کا ایک شور برپا ہو گیا.اور اسمبلی میں عیسائیوں کی طرف سے شدید اعتراض اٹھائے گئے اور حکومت پر نکتہ چینی کی گئی کہ آپ نے کیوں ایک نئے مذہب کو خواہ خواہ یہاں لا کر فتنہ وفساد کا سامان پیدا کیا 651

Page 661

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ہفتم ہے؟ اور ہر گز آپ کو رجسٹریشن نہیں کرنی چاہیے تھی.پرائم منسٹر نے بڑی مضبوطی کے ساتھ جماعت کی تائید میں بیان دیا.اور یہ اعلان کیا کہ (ویسے تو اس کا اپنا مذہب بھی عیسائیت ہے.مگر اس نے وہاں یہ کہا کہ میں آپ کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ جو عیسائی ہیں، وہ عیسائیت کے قانون کی پیروی کرتے رہیں، ہم بحیثیت حکومت تو الو کے قانون کی پیروی کرتے رہیں گے.اور اس میں عیسائیت کو دخل دینے کی اجازت نہیں دیں گے.اس لئے جماعت احمد یہ ٹھیک رجسٹر ہوئی ہے اور قائم رہے گی.اس بیان پر گورنر جنرل نے پرائم منسٹر کو مبارک باد کا فون کیا اور کہا کہ میں ڈر ہا تھا کہ کہیں تم کوئی کمزور پوزیشن نہ لے لو.تم نے بہت اچھا کام کیا ہے اور جائز فیصلہ کیا ہے.پس خدا کے فضل سے جہاں اللہ تعالیٰ کا میابیاں عطا فرما رہا ہے، وہاں فرشتوں کے ذریعے لوگوں کو انصاف پر قائم ہونے کی بھی قوت بخش رہا ہے.صرف بدنصیبی یہ ہے کہ بعض اپنے ممالک سے ہمیں یہ شکوہ ہے کہ اسلام کی انصاف کی اعلیٰ تعلیم پر عمل پیرا نہیں.اور وہ لوگ ، جو اسلام سے تعلق نہیں رکھتے، وہ بڑی شان کے ساتھ اسلام کی عدل کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں.یہاں تو الو میں جو بیعتیں ہوئی ہیں، ان میں خدا کے فضل سے بڑے تعلیم یافتہ بااثر لوگ بھی شامل ہیں.اور ان کی پبلک سروس کمیشن کے پریذیڈنٹ بھی بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو چکے ہیں اور پولیس کے وہ افسر جن کی گورنر جنرل کے ساتھ ڈیوٹی ہے، وہ بھی جماعت کے ساتھ شامل ہیں.اور یہ دونوں دوست آج جماعت تو الو کے نمائندہ کے طور پر یہاں آئے ہوئے ہیں.اس مرحلے پر حضور نے ان دونوں دوستوں کو ارشاد فرمایا کہ وہ اٹھ کر کھڑے ہوں تا کہ احباب ان کو دیکھ سکیں.اس پر یہ دونوں مخلص احمدی احباب اٹھ کر کھڑے ہو گئے.ان دوستوں کو دیکھ کر جملہ احباب خوشی و مسرت سے بے خود ہو گئے اور جلسہ گاہ کا وسیع و عریض پنڈال احمدیوں کے جوش و جذبے سے بھرے ہوئے نعرہ ہائے تکبیر سے لرزنے لگا.حضور نے ان احباب کا تعارف کرواتے ہوئے حاضرین جلسہ کو بتایا کہ ”ان میں سے جو دوست نسبتاً حاضرین کی طرف کھڑے ہیں، وہ وہاں کی پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین ہیں اور انہوں نے جب سے احمدیت قبول کی ہے، مسلسل خدمت دین کے لئے وقف ہیں.ان کی زبان دانی کی صلاحیت نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے.انگریزی پر بھی عبور ہے اور مقامی زبان پر بھی.چنانچہ اس وقت سے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے تراجم کر رہے ہیں.اور قرآن کریم کی جو منتخبہ آیات کا ترجمہ تھا، اس کی بھی انہی کو تو فیق ملی ہے.ان کے ساتھ جو دوسرے دوست ہیں، وہ پولیس کے وہ افسر ہیں، جو گورنر جنرل کو 652

Page 662

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء کے ساتھ متعین ہیں.انہوں نے مجھے یہاں آنے سے کچھ عرصہ پہلے خط لکھا کہ جب سے میں احمدیت میں داخل ہوا ہوں، میرا دل پولیس سروس سے اچاٹ ہو چکا ہے.مجھے اول ترین جو ریٹائر منٹ مل سکتی ہے، وہ فلاں تاریخ کو ہے.میری یہ درخواست قبول کریں کہ مجھے اول ترین ریٹائر منٹ قبول کرنے کی اجازت دیں اور پھر جماعت احمدیہ کی خدمت کے لئے مجھے وقف سمجھیں.( نعرہ ہائے تکبیر ) عجیب ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی جو ہر طرف چل رہی ہے.یہاں مشن کی تعمیر کا منصوبہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو چکا ہے.رقم بھی بھجوادی گئی ہے.امید ہے انشاء اللہ جلد ہی کام شروع ہو جائے گا“.قسط نمبر 03 (مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ خالد ستمبر 1987ء) براعظم یورپ میں نئی عمارات اور قطعات کی خرید کا جہاں تک تعلق ہے، خدا تعالیٰ کے فضل سے امسال دور ہائشی عمارتیں خریدنے کی توفیق ملی اور دو جگہ بہت ہی اچھے قطعات حاصل کرنے کی توفیق ملی.جن میں انشاء اللہ بہت خوبصورت اور وسیع بیوت الذکر بنانے کا پروگرام ہے.ان میں سے ایک تو غرناطہ کے مقام پر پچاس ہزار میٹر کا رقبہ ہے، جو سٹرک غرناطہ کو میڈرڈ ( دارالخلافہ) سے ملاتی ہے، اس پر واقع ہے.بالکل ساتھ جڑی ہوئی جگہ ہے.اور دوسری جگہ سے نسبتا اونچی ہے.اور وہاں جب انشاء اللہ بیت الذکر بنے گی تو دور دور تک خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگ اس کا نظارہ کریں گے.اور وہاں کی کونسل کی شرافت ہے کہ انہوں نے متفقہ طور پر حکومت سے سفارش کر دی ہے کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ، انہیں بیت الذکر بنانے کی اجازت دی جائے.چونکہ سودا مشروط کیا گیا ہے، اس لئے امید ہے کہ جب بھی حکومت سے اجازت ملے گی ، ہم اس کا قبضہ لے لیں گے.آئر لینڈ ایک نیا ملک ہے، جس میں اس سے پہلے ہمارا کوئی مشن قائم نہیں تھا.یہاں بھی ایک بہت ہی وسیع رقبہ، ایک نہایت خوبصورت جگہ ” گال دئے ایک بہت ہی اہم قصبہ ہے، آئرلینڈ کے مغربی کنارے پر ، اس سے پانچ میل کے فاصلے پر اور ین دا میں واقعہ ایک رہائشی علاقہ کے اندر، یہ ایک بہت بڑا پلاٹ ہے، جو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سستی قیمت پر مل گیا.تمہیں ایکٹر زمین صرف ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مل گئی ہے.اور یہاں امکان ہے کہ آئندہ چند سالوں میں اس پلاٹ کو بھی رہائشی علاقہ قرار دے دیا جائے گا.اس نیت سے میں نے یہ جگہ لی ہے کہ ابھی چونکہ وہاں بڑی جماعت نہیں ہے، چند سال انتظار کرتے ہیں، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس پلاٹ کا چھوٹا سا حصہ بیچ کر ایک شاندار بیت الذکر اور مشن ہاؤس تعمیر کیا جائے.653

Page 663

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم امریکہ میں اس پہلو سے خدا کے فضل سے بہت اچھا کام ہوا ہے.اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب امیر جماعت امریکہ کی افسردگی دور کرنے کی خاطر میں ان کے کام کا اچھا پہلو بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں.گزشتہ سال میں نے جماعت کو بتایا تھا کہ امریکہ میں پانچ نئے مراکز کی تعمیر کی تحریک تین سال قبل کی گئی تھی لیکن ساتھ ہی میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ذمہ داری پانچ کی ڈال رہا ہوں.مگر میری دلی تمنا ہے کہ دس ہو جائیں تو بہتر ہے.اور صرف دو سال میں مکرم شیخ صاحب کو بہت ہی عمدہ خدمت کی توفیق ملی.اور بڑے پیار کے ساتھ انہوں نے تحریکیں کیں اور بڑے زور کے ساتھ تحریکیں کیں.ان کے اندر پیار اور زور کا ایک بہت ہی عمدہ تو ازن موجود ہے.اس لئے جتنے زور سے وہ بات کریں، پیار کا عنصر شامل رہتا ہے.چنانچہ ان کی تحریک کے نتیجے میں ایسے دوست بھی، جو پہلے چندوں سے نا آشنا تھے، وہ بڑی تیزی سے قربانی میں آگے بڑھے اور انفرادی طور پر بڑے اچھے اچھے شاندار نمونے انہوں نے دکھائے.دس مقامات پر نہ صرف زمین لی گئی بلکہ گیارہواں مرکز بھی قائم ہو گیا.اب سال رواں میں جو مزید مراکز قائم کئے گئے ہیں یا جگہیں خریدی گئیں یا عمارتیں لی گئیں، ان کو شامل کر کے یہ تعداد خدا کے فضل سے سترہ ہو چکی ہے.اور بعض جگہ بڑے بڑے وسیع رقبے حاصل کئے گئے ہیں اور وسیع عمارتوں کے نقشے بنائے گئے ہیں.اور اللہ کے فضل سے ان پر کام شروع ہو چکا ہے.اور امید ہے کہ اللہ کے فضل سے وہاں بعض نئی بیوت الذکر منصہ شہود پر ابھریں گی.بیوت الذکر کے قیام کی طرف اور نئی بیوت الذکر کی تعمیر کی طرف جیسا کہ آپ جانتے ہیں، میری توجہ اس لئے پیدا ہوئی تھی کہ ہمیں تو قرآن کریم کا حکم ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرُتِ پاکستان کے علماء کا دین کی خدمت کا جو تصور ہے، وہ جو بھی ہو، وہ ان کا اپنا تصور ہے.انہوں نے دین کی خدمت کا تصور یہ باندھا کہ بیوت الذکر مسمار کی جائیں.اب بیوت الذکر مسمار کرنے کے کام میں تو کوئی احمدی شامل نہیں ہو سکتا ، مقابلہ کیسے کرے؟ تو اس پر مجھے خیال آیا کہ اس کا جواب یہی ہے کہ ہم بیوت الذکر تعمیر کریں.چنانچہ جماعت احمدیہ کو میں نے تحریک کی کہ بیوت الذکر کی تعمیر کی طرف توجہ دو.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے بعض ناخوشگوار واقعات کے نتیجہ میں خدا نے رحمتوں کا جو پھل عطا فرمایا ہے، وہ نئی بیوت الذکر کے قیام کی صورت میں ہے.امسال مشن ہاؤسز اور قطعات کے علاوہ جونئی بیوت الذکر تعمیر ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں ، ان کی تعداد 136 ہے.ان میں سے 73 بیوت الذکر اس وقت پائیہ تکمیل کو پہنچ چکی ہیں اور 63 بیوت الذکر اس 654

Page 664

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء وقت زیر تکمیل ہیں.چنانچہ جس وقت میں نے اعلان کیا تھا کہ ان کی مخالفانہ کارروائیوں کا جواب سوائے اس کے ہم کچھ نہیں دیں گے کہ بیوت الذکر کی تعمیر کی طرف توجہ دیں.اس اعلان کے بعد سے اب تک خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کو دنیا بھر میں 374 بیوت الذکر بنانے کی توفیق ملی ہے.گویا اگر آپ پاکستان میں منہدم بیوت الذکر کو شمار کریں تو وہ چار ہیں.تو خدا کے فضل سے گویا کہ اللہ کی تقدیر یہ اعلان کر رہی ہے کہ اگر تم پاکستان میں جماعت احمدیہ کی ایک بیت الذکر گراؤ گے تو خدا تعالی دنیا بھر میں جماعت کو 100 بيوت الذکر عطا فرمائے گا“.(نعرے) حضور نے فرمایا:.ان بیوت الذکر ، جن کا میں نے ذکر کیا ہے، ان کے علاوہ وہ بیوت الذکر ہیں، جن کا میں نے ابھی یہ کہہ کر ذکر کیا تھا کہ گاؤں کے گاؤں احمدی ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ بیوت الذکر بھی آرہی ہیں.چنانچہ نئے احمدی ہونے والوں کے ساتھ جو بیوت الذکر ہمیں ملی ہیں، ان کی تعداد 28 ہے.جوان بیوت الذکر کے علاوہ ہیں.کیونکہ پورا گاؤں یا گاؤں کی اکثریت احمدی ہوئی ، اس لئے بنی بنائی بیت الذکر ان کے ساتھ آئی.وہ 28 ملالیں تو چار سو کی تعداد پوری ہو جاتی ہے.چار کے مقابل پر چارسو کی تعداد لیکن آج ہی لیٹ نیوز ملی ہے کہ سیرالیون کے ملک میں حال ہی میں دس گاؤں اپنی بیوت الذکر سمیت احمد یہ میں داخل ہو گئے ہیں.(نعرے) اب میں دائمین الی اللہ کا کچھ بطور خاص بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں.جو رپورٹیں میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں، ان میں ضمناً ان کا ذکر ملتا ہے.دائمین الی اللہ جو کارروائی کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں جو دلچسپ واقعات سامنے آتے ہیں، آپ کا حق ہے کہ آپ کو ان کا علم ہو، آپ بھی ان سے لذت پائیں.خصوصاً پاکستان سے جو دل دکھے احمدی آئے ہیں، ان کی خوشی کی خاطر میں چاہتا ہوں کہ یہ ایمان افروز واقعات آپ کو بتاؤں.اور آپ کو بتاؤں کہ آپ کی قربانیاں رائیگاں نہیں جار ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل فرمارہا ہے.ان کے عظیم الشان بدلے ساری دنیا کی جماعتوں کو عطا ہو رہے ہیں.اور یقیناً اس میں آپ کی رسا آہوں کا دخل ہے.آپ کی قربانیوں کی قبولیت کے یہ نشان ہیں، جو شاندار کامیابیوں کی صورت میں تمام دنیا کو عطا ہو رہے ہیں.امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ ہمارے دو راعین الی اللہ تو ایسے عاشق ہیں اپنے کام کے کہ کوئی موقع نہیں چھوڑتے.کوئی سفر ایسا نہیں ہوتا، جس میں وہ ساتھ نہ چل پڑیں.اور دور نزدیک جن دیہاتوں میں بھی ان کی واقفیت ہے یا جہاں ان کے عزیز بستے ہیں، وہاں ہمہ وقت مصروف کار رہتے ہیں.کہتے Home Tr 655

Page 665

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ہیں.ان کو خدا تعالیٰ ان کی کوششوں کا پھل بھی بڑا دے رہا ہے.جہاں جاتے ہیں، ان کی زبان میں بڑا اثر ہوتا ہے.خدا ان کی تائید کرتا ہے.ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک گاؤں میں جب یہ پہنچے تو وہاں کے امام نے وہاں لوگوں کو اکٹھا کیا اور سب کو دعوت دی کہ ان کی بات غور سے سنو اور اگر تمہیں پسند آئے اور تم درست سمجھو تو اسے قبول کرو.چنانچہ اسی ایک مجلس میں امام صاحب سمیت سارا گاؤں احمدی ہو گیا.اس طرح اس کے ساتھ لاکھور ، جا کوئی اور سنسیان تین گاؤں پورے کے پورے، وہ بھی بعد ازاں انہی دائمیین الی اللہ کی کوششوں سے احمدی گاؤں بن گئے.اسی طرح سینی گال میں بھی داعین الی اللہ بڑے عزم کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ حرکت میں آچکے ہیں.اور وہ لکھتے ہیں کہ جو ہزار، بارہ سو کے قریب بیعتیں اس سال ہوئی ہیں، ان میں دائمین الی اللہ کا ہی بڑا دخل ہے.ایک بات میں آپ کو بتادوں کہ عموماً یہ پروپیگنڈہ احمدیوں کے خلاف کیا جاتا ہے کہ احمدی لوگ مسلمانوں کے اندر ہی دھوکہ دے کر کام کرتے ہیں.اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ہم افریقہ کے اندر دین مصطفیٰ پہنچارہے ہیں.چنانچہ بتانے کی بات یہ ہے کہ یہاں جو کام ہو رہا ہے، یہ سارا مشرکین میں ہو رہا ہے.اور یہ بتوں کے پجاری تھے، جو حلقہ بگوش دین حق ہورہے ہیں.اور مرزا غلام احمد کا نہیں، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر دین حق میں داخل ہو رہے ہیں.حضور نے فرمایا:.چنانچہ ان کی رپورٹ کا خلاصہ بارہ صفحے سے بھی زائد ہے.اس کا مزید خلاصہ یہ ہے داعین الی اللہ کی کوششوں سے ایک سال کے اندر خدا کے فضل سے 44 نئے مقامات پر دو ہزار، ایک سو، چھیانوے بیعتیں ہوئی ہیں.اب آپ بتائیں کہ گیمبیا کے دور دراز ملک میں وہ لوگ جو حال ہی میں احمدیت میں داخل ہوئے ہیں، اگر وہ اس جذبے سے دعوت الی اللہ کر سکتے ہیں اور ان کو خدا تعالیٰ ایسے غیر معمولی پھل عطا کر سکتا ہے تو آپ کو، آپ سب کو یا ان کو جو آپ کے پیچھے ان ممالک میں بس رہے ہیں، ان کو کیوں یہ توفیق عطا نہیں فرما سکتا.اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ سینی گال کے ایک داعی الی اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں: وہاں ایک ان پڑھ دوست احمدی ہو گئے اور انہوں نے ان پڑھ ہونے کے باوجود دعوت الی اللہ شروع کر دی.اپنا نام انہوں نے لکھوادیا تھا کہ میں داعی الی اللہ بنا چاہتا ہوں.اور اپنے علاقے میں وہ اتنا اثر پیدا کر چکے تھے کہ جب مربیان وہاں پہنچے تو سولہ گاؤں کے دوست پہلے ہی بیعتوں کے لئے تیار تھے.صرف وہ کچھ سوالات کرنا چاہتے تھے، جن کے جوابات وہ نہیں دے سکتے تھے.سے انہوں نے سوالات کئے تو ان کو اطمینان ہو گیا اور وہ احمدیت میں شامل ہو گئے.مربی 656

Page 666

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک گیمبیا کے متعلق ہی یہاں کے مربی انچارج لکھتے ہیں کہ دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک گونگا احمدی ہو گیا.اور وہ گونگا ایسا تھا کہ وہ پڑھ لکھ سکتا تھا لیکن ویسے نہ وہ سن سکتا تھا اور نہ بات کر سکتا تھا.آج کل نئے طریقے ایسے ہیں کہ گونگوں کو پڑھنا لکھنا آجاتا ہے.تو اس کو یہ ترکیب سوجھی کہ ایک دوسرے گاؤں میں اس کا ایک گونگا دوست تھا ، اس کو بھی پڑھنا لکھنا آتا تھا.اس نے اس کو خط و کتابت کے ذریعے دعوت الی اللہ شروع کر دی.اور اس طرح سے اس دوسرے گونگے کو بھی احمدی کر لیا.اور اب یہ دوسرے گونگوں کو دعوت الی اللہ کے لئے ڈھونڈ رہے ہیں.حضور نے نئے آنے والوں کے جذبہ قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.وو ” یہ نئے آنے والے قربانیاں بھی بہت کرتے ہیں.یہ نہ سمجھیں کہ دین کے نام پر مظالم صرف پاکستان کا ہی حصہ ہے.یہ جماعت کی تقدیر ہے اور تمام انبیاء کی جماعتوں کی تقدیر ہے.جب سے دنیا بنی ہے، ایک سچے نبی کی مثال آپ پیش نہیں کر سکتے، جس کی جماعت کو خدا کے نام پر ظلموں کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو.اس لئے اس غلط تصور کو دور کریں کہ صرف ایک ہی ملک ہے، جس کے سر یہ سہرا ہے کہ مذہب کے نام پر ظلم ہو رہا ہے.جہاں جہاں بھی جماعتیں پھیلتی ہیں، وہاں سے جور پور میں ملتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساتھ وہاں جماعت کی مخالفت کے باوجود استقامت کی توفیق ملتی ہے.جو فرق ہے، اس کو لوظ رکھیں کہ اکثر جگہ حکومتیں شامل نہیں ہیں.پاکستان میں عوام شامل نہیں ہیں، حکومت شامل ہے.اور کوشش کر کے، اخراجات مہیا کر کے باقاعدہ پیشہ ور مخالفت کروائی جارہی ہے.اور حکومت کے قوانین اس میں مرد ہیں.جہاں تک تقدیر عام کا تعلق ہے، جماعت احمد یہ اس کے لئے تیار ہے.ہمیں وہاں یہ شکوہ نہیں ہے کہ جماعت کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟ ہم نے جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ مخالفتیں قبول کرنے کا رستہ ہے.مخالفتوں کا مقابلہ کرنے کا رستہ ہے.لیکن وہاں ظلم یہ ہے کہ حکومت کا کام نہیں تھا، حکومت کو زیب نہیں دیتا کر وہ مذہبی مخالفتوں میں حصہ دار بنے.چنانچہ باقی جگہوں پر بھی مخالفتیں ہو رہی ہیں اور خدا کے فضل سے نو احمدیوں کو بڑی استقامت کی توفیق مل رہی ہے.ایک مثال انہوں نے دی ہے کہ ایک ماں کا عیسائی بیٹا تھا، جس سے ماں کو بڑا پیار تھا.لیکن عیسائیت سے اس سے بھی زیادہ پیار تھا.چنانچہ جب وہ احمدی ہوا تو اس ماں نے اپنے بیٹے کی شدید مخالفت شروع کر دی.پہلے تو وہ برداشت کرتا رہا لیکن جب اس کی ماں نے قرآن کی بے عزتی کی تو وہ گھر چھوڑ کر باہر نکل گیا اور پھر دوبارہ اس گھر میں نہیں گیا.اور باہر جا کر دعوت الی اللہ کے ذریعے اس نے پانچ نئے عیسائیوں کو احمدیت میں داخل کرنے کی توفیق پائی.657

Page 667

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم افریقہ کے حالات کے مطابق دعوت الی اللہ کے بھی عجیب عجیب ڈھنگ ہیں.وہاں ایک دوست ہیں، غانا کے.ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک چیز ایجاد کی ہے اور نام اس کا بڑا دلچسپ رکھا ہے.واقعہ یہ ہے کہ ایک ڈبہ بنایا ہے، اس کے اندر کچھ لکڑی کے تختے نصب کر دیئے ہیں اور ان پر مختلف مضمونوں پر دلائل لکھ دیئے ہیں.چنانچہ اس کے باہر انہوں نے بڑا خوبصورت اشہار کھوایا ہے، پریچنگ باکس.جب وہ سائیکل پر ڈبہ رکھ کے کسی گاؤں میں جاتے ہیں تو لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں کہ یہ شخص کیا تماشا دکھائے گا.پھر ان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ بتاؤ کس موضوع پر میں تمہارے سوالات کا جواب دوں؟ عموماً ان کو پتہ ہی ہوتا ہے کہ کیا سوالات آنے والے ہیں.ان کا جواب انہوں نے پہلے سے تیار کیا ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں: مثلاً وفات مسیح.وہ کہتے ہیں: یہ دیکھو میرا پریچنگ باکس اس میں وفات مسیح کا تختہ آ گیا ہے.اور اس پر جو آیات قرآنی اور احادیث نبوی لکھی ہوتی ہیں، وہ ان کو سناتے ہیں.اس طریقے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کہتے ہیں کہ ان کو بہت کامیاب دعوت الی اللہ کی توفیق مل رہی ہے.حضور نے دعوت الی اللہ کے بارے میں افراد جماعت کا جوش وخروش بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ افریقہ میں اطفال بھی اس کام میں شامل ہو گئے ہیں.اور بچے اپنے سکول کے ساتھی بچوں کو بیوت الذکر میں لاکر ان کو پیغام حق سناتے ہیں.اور مربی کے ذریعے ان کو دعوت الی اللہ پہنچاتے ہیں.یہ کام وہ خود نہیں کر سکتے“.حضور نے فرمایا کہ دو بعض ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ جو مخالفتوں کے سرغنہ تھے، شدید مخالفت کرنے والے ، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف احمدی ہوئے بلکہ اب مربیان کے سردار بن گئے ہیں.اور بڑی عمدگی کے ساتھ علاقے میں دعوت الی اللہ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں.ایک اطلاع مثلا یہ ملی کہ ایک طالب علم کو دعوت الی اللہ کا شوق تھا.ان کا استاد مخالف تھا.اس نے بہت ڈرایا دھمکایا کہ یہ تو آگ ہے، جس میں تم پڑنے والے ہو.اس نے کہا کہ آپ کتابیں تو دیکھیں.چنانچہ کتابیں پڑھ کے وہ استاد خود خدا کے فضل سے احمدی ہو گئے اور سکول کے کئی اور طالبعلموں کو بھی احمدی کر لیا.ایک داعی الی اللہ کے متعلق اطلاع ملی کہ وہ جہاں گاؤں میں لٹریچر لے کر جاتے تھے ، وہاں اتنی مخالفت تھی کہ وہ لٹریچر چھین کر پھینک دیا کرتے تھے.اس لئے انہوں نے پھر لٹریچر ساتھ لے جانا ہی بند کر 658

Page 668

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء دیا.وہاں ایک عیسائی پادری نے آکر چیلنج کیا کہ کون ہے، جو میرے مقابل پر آکر دین حق کی تعلیم پیش کر سکے؟ اور اعلان کرتا تھا کہ میں ہر ایک کو شکست دیتا ہوں.چنانچہ مقامی مولوی ہار گئے اور اس کا مقابلہ نہ کر سکے.اس دوست نے اپنے آپ کو پیش کیا اور کہا کہ عیسائیت کے مقابل پر صرف احمدی ہی کامیاب ہوسکتا ہے، مجھے موقع دو.چنانچہ ان کو گاؤں والوں نے موقع دیا.چند سوالات انہوں نے کئے، عیسائی پادری سے اور وہ یہ کہہ کر کھڑا ہو گیا کہ میں معذرت چاہتا ہوں، میں آپ سے گفتگو نہیں کر سکتا.لہذاوہ سارا گاؤں، جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، جو پہلے ان کا مخالف تھا، انہوں نے ان کو اپنا لیڈر بنالیا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جو بھی کتابیں یہ وہاں لے کر جاتے ہیں، وہ مفت تقسیم نہیں کرتے بلکہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتی ہیں اور دعوت الی اللہ کی ایک رو چل پڑی ہے.بنگلہ دیش میں بھی پاکستان کے علماء پہنچے اور وہاں بھی مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کیا.خصوصاً جو برہمن بڑیہ کا علاقہ ہے.خدا تعالیٰ مخالفتوں کے اندر سے ہی بعض دفعہ رحمتوں کے چشمے جاری فرما دیتا ہے.اور جو مظلوم ہیں، ان کی آہیں رنگ دکھا دیتی ہیں.چنانچہ ایک گاؤں کے متعلق لکھا ہے کہ اس جگہ چار احمدی بھائی تھے.ان کو گاؤں والوں نے ایک عالم اور ایک با اثر شخص کی سرکردگی میں اتنا مارا اور اتنی کلہاڑیاں لگائیں اور دوسرے تیز دھار آلوں سے حملہ آور ہوئے کہ گویا ان کے جسموں کا چپہ چپہ زخموں سے بھر گیا.اور اتنا خون بہا کہ جماعت کی پہلی رپورٹ یہ تھی کہ ان کے بچنے کی بظاہر کوئی صورت نہیں آتی ، دعا کریں.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا، وہ چاروں دوست ان زخموں کے نتیجے میں ہلاک ہونے کی بجائے صحت مند بھی ہو گئے.اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جومخالفتوں کے لیڈر تھے، پیشتر اس کے کہ ان کے بدن اچھے ہوں، ان کی اپنی روحیں شفا پا گئیں اور وہ احمدیت میں داخل ہو گئے.اور چھ ایسے دوست، جن میں سے ایک الحاج ہیں اور علاقے پر بڑا رسوخ رکھتے ہیں اور مخالفت کے لیڈر تھے اور ایک اہل حدیث مسجد کے امام، جوان کو مروانے میں سب سے پیش پیش تھے، یہ دونوں اب خدا کے فضل سے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہو چکے ہیں.اس کے علاوہ بھی بہت سی خدمتیں ہیں، داعین الی اللہ کی.یہ مختلف جھگڑوں کو طے کروانے میں مدد کرتے ہیں، اصلاح معاشرہ کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا نیک اثر ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی غیر معمولی طور پر ان کی تائید کرتا ہے.ایک جگہ دعوت الی اللہ دے رہے تھے، ہمارے مربی.یہ عام داعی الی اللہ کی بات نہیں ، ہمارے مربی کام کر رہے تھے.تو دلائل سے ہارنے کے بعد ایک عجیب پیشکش کی مخالفوں نے کہ آخری بات تو یہی 659

Page 669

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم ہے نا کہ تمہارا خدا سے تعلق ہے اور ہمارا کم ہے.یہ بات تم کہتے ہو تو یہ علاقہ پیاس سے مرا جا رہا ہے، دعا کرو.اگر تمہاری دعا سے بارش ہو گئی، جس کے کوئی آثار نہیں ہیں تو پھر ہم سمجھیں گے کہ احمدیت سچی ہے.انہوں نے اس وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور عرض کیا اپنے رب سے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں.یہاں تو حضرت بانی سلسلہ کی سچائی کا سوال ہے.تو جہاں سے چاہے بادل لے آاور ان کے اس مطالبے کے سامنے مجھے شرمندہ نہ ہونا پڑے.ابھی دعا کے بعد ہاتھ چھوڑے بھی نہیں تھے کہ رم جھم ، رم جھم بارش شروع ہو گئی اور سارے علاقے کی خشکی دور ہوئی اور سب نے نعرے لگائے اور اعلان کیا کہ احمدیت سچی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے فضل فرماتا ہے اور غیر معمولی طور پر داعین الی اللہ کی اور دیگر مربیان کی ، جو سچا اخلاص رکھتے ہیں اور دعا سے کام لینے سے غافل نہیں رہتے ، ان کی مددفرماتا ہے.ایک جگہ ایک اور رنگ کا مطالبہ ہوا.بحث شروع ہوئی ہی تھی کہ اتنے میں وہاں کی جنگلی شہد کی لکھیاں ، جو نہایت ہی مہلک اور ظالم ہوتی ہیں، ان کے چھتے کو کسی نے چھیڑ دیا.اور وہ بڑی تیزی کے ساتھ اس مجلس پر حملہ آور ہوئیں.مخالفین کو اور تو کچھ نہ سوجھی ، انہوں نے کہا کہ اچھا اگر مرزا صاحب بچے ہیں تو دعا کرو، یہ لکھیاں فور اواپس چلی جائیں.انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا تھا کہ بلا مبالغہ فور ساری مکھیاں واپس چلی گئیں.(نعرے) بیعتوں کی رفتار میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نمایاں اضافہ ہے.اور جب میں نمایاں اضافہ کہتا ہوں تو میری مراد یہ ہے کہ جس قسم کے اضافے کی میں نے تلقین کی ہوئی ہے کہ یہ اضافہ اپنا سطح نظر بنا ئیں، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا بھر کی جماعتیں اس کو مطمح نظر بنا کر اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں.ہدایت میری یہ ہے اور بظاہر یہ بڑا مشکل کام ہے.لیکن ساتھ دعا بھی کرتا ہوں اور ساری جماعت بھی دعا میں ساتھ شامل ہوتی ہے کہ ہر سال آپ کی بیعتوں کی رفتار دگنی ہونی چاہئے.چنانچہ گزشتہ تین سال سے خدا تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمارہا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں جماعتوں کی بیعتوں کی تعداد میں گزشتہ سال کی نسبت د گنے سے زیادہ اضافہ ہورہا ہے.صرف اس سال آج سے دس دن پہلے ہماری وہ مخلص خاتون ، جو بیعتوں کی انچارج ہیں، وہ بڑی پریشانی میں تشریف لائیں اور انہوں نے کہا کہ اگر چہ بہت ہیں لیکن آپ کی یہ خواہش اس سال پوری نہیں ہو سکتی کہ ہر سال کی بیعتیں گزشتہ سال کی بیعتوں سے دگنی ہو جائیں.میں نے ان کو کہا کہ ابھی تو دن باقی ہیں، جلسے میں.اس لئے ٹھہریں تو سہی ، دیکھیں ، خدا کیا کرتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بہت کم ہیں.صرف اتنی ہی ہیں، جتنی پچھلے سال تھیں.میں نے کہا: پھر بھی دیکھیں.چنانچہ اس دس دن کے اندر 660

Page 670

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خلاصہ خطابه فرموده یکم اگست 1987ء اندر اس کثرت سے وہ بیعتیں موصول ہوئیں، جو رستے میں اٹک گئی تھیں، کہیں ڈاک میں.کوئی دو مہینے پہلے کی چلی ہوئی، کوئی تین مہینے پہلے کی چلی ہوئی، کوئی گزشتہ مہینے کی.اور جب ان کی تعداد کو جو صرف عرصہ رپورٹ سے تعلق رکھتی ہیں، نئے سال کے مہینوں کی بیعتیں شامل نہیں کی گئیں ، ان کو شامل کیا گیا تو گزشتہ سال کے مقابل پر دگنی سے بھی زیادہ بیعتیں ہو چکی ہیں.خدا کے فضل کے ساتھ.یہ وہ رہنما اصول ہے، جس کو آپ ہمیشہ پیش نظر رکھیں.دنیا جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اور ہم اس کے مقابل پر جتنے چھوٹے ہیں اور تعداد میں بھی کم ہیں اور طاقت میں بھی کم ہیں، ہمیں دنیا کے فارمولے کام نہیں آسکتے.عام رفتار سے بڑھنا، سینکڑوں کا اضافہ ہونا یا ہزاروں کا اضافہ ہونا ، یہ فارمولے ہمارے کام نہیں آئیں گے.ہمیں لازما یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر سال دگنے ہونے کی کوشش کریں.اس لحاظ سے خدا کے فضل سے اس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوگا کہ ابھی تین یا چار قدم ہی ہم نے اس دگنی طرف اٹھائے ہیں اور ابھی خدا کے فضل سے بیعتوں کے تھیلے بھرے آنے لگ گئے ہیں.اگلے چند سالوں میں یہ اتنی بڑی تعداد ہو جائے گی کہ آپ حیران ہو جائیں گے کہ کس طرح یہ واقعہ رونما ہوا ہے.انقلاب آنے شروع ہو جائیں گے.جس کے آثار ابھی سے پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں“.قسط نمبر 04 وو (مطبوع ضمیمہ ماہنامہ انصار الله تمبر 1987ء) جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے افضال و انعامات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.رویا اور کشوف کے ذریعہ بھی جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پھیلتی چلی جارہی ہے.اور ہمیں ہر سال بہت سے واقعات ایسے دلچسپ معلوم ہوتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے دلوں پر یہ وحی نازل کر رہے ہیں.اسمعو صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار تنزانیہ کی قومی اسمبلی کے ایک ممبر ہمارے سٹال کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تصویر پر پڑی.وہیں قدم رک گئے اور حیرانی سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں.جنہوں نے اس دور کا مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے.تو وہ حیرت سے دیکھتے رہے اور کہا کہ یہ شخص تو بار بار توبار بار 661

Page 671

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم میری خوابوں میں آتا ہے اور مجھے ہدایت قبول کرنے کی تلقین کرتا ہے.چنانچہ ایک لمحہ کے توقف کے بغیر انہوں نے اس وقت بیعت کی اور جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.(نعرہ ہائے تکبیر ) احمدیت کے اندر داخل ہونے کے ساتھ ہی جو پاک تبدیلیاں ہیں، ان کی بھی خوشکن رپورٹیں آرہی ہیں.اور جو خصوصاً ایسے علاقے ہیں، افریقہ میں جہاں بد مذاہب کہلانے والوں سے تعلق رکھنے والے ہیں.حضور نے اس مرحلہ پر فرمایا کہ کسی مذہب کو بد تو نہیں کہنا چاہیے مگر یہ ایک محاورہ ہے.ان مذاہب سے مراد ہے، جو Pagan مذاہب کہلاتے ہیں، ان کے اندر بہت سی رسمیں بہت سی گندی عادتیں ، شراب نوشی کا عام ہونا وغیرہ وغیرہ یہ سب کچھ پایا جاتا ہے.لیکن اللہ کی عجیب شان ہے کہ احمدیت کے اندر داخل ہوتے ہی یک قلم ان بدرسموں پروہ تنسیخ کی لکیر پھیر دیتے ہیں.اور خدا کے فضل سے تو بہ کر کے اپنے اندر ایک پاکیزہ تبدیلی پیدا کرتے ہیں.چنانچہ ایسی رپورٹیں بھی کئی جگہ سے آرہی ہیں کہ شراب کے پرانے رسیا ایک دم شراب سے نفرت کرنے لگ گئے.اور اس کے نتیجے میں بھی دوسروں پر اثر ہوا.اور جب اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں تو مولوی کہتے ہیں کہ ان پر انہوں نے جادو کر دیا ہے.اور اس جادو کی وجہ سے انہوں نے شراب چھوڑ دی ہے.آئیوری کوسٹ کا دعوت الی اللہ کا ایک طریق یہ ہے کہ جیلوں میں جا کر دعوت الی اللہ کرتے ہیں.اور اللہ کے فضل سے قیدی بھی احمدی ہور ہے ہیں اور جیل کے افسران بھی احمدی ہو رہے ہیں.ایک اطلاع جو کثرت سے مل رہی ہے، وہ یہ ہے کہ بہت سی جگہ دعوت الی اللہ میں کامیابی کا محرک وہ شدید مخالفت ہے، جو پاکستان کی حکومت اور رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے کی جارہی ہے.پہلے چونکہ بہت سے لوگوں نے نام بھی نہیں سنا ہوا تھا، اس لئے منفی یا مثبت کسی بھی رنگ میں دلچسپی نہیں تھی.ہم پیغام پہنچاتے تھے تو وہ دلچسپی نہیں لیتے تھے.اب یہ جماعت کے خلاف اتنا بھرے بیٹھے ہوتے ہیں اور اس کثرت سے انہوں نے جماعت احمدیہ کی خدمت کا یہ کام کیا ہے کہ جہاں جاتے ہیں، وہ سوال کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں.اور دیکھتے ہی کہتے ہیں: اچھا تو تم ہو ، جن کا کلمہ اوپر سے اور اندر سے اور ہے.تم وہ ہو، جو نعوذ باللہ گستاخیاں کرتے ہیں، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی.اور نعوذ باللہ ہ سمجھتے ہو اور وہ سمجھتے ہو.جب یہ غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں تو ان کے اندر اچانک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.اور ایک رنگ میں وہ، جو بعض پیشہ ور علماء یہ کام کر رہے ہیں، وہ کھاد ڈال رہے ہیں، جماعت احمدیہ کے لئے.شروع میں ہو بھی آتی ہے، تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن جب گل جاتی ہے، تو یہی کھا دسونا بھی اگلنے لگتی ہے.662

Page 672

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء اس قسم کے عجیب و غریب واقعات مشہور ہو جاتے ہیں.ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایک جگہ بہت سخت زہریلا پروپیگنڈہ مخالفین نے کیا ہوا تھا اور وہاں جو ایک احمدی ہوئے ، ان پر تشدد کیا گیا.ان کو نفرت کا نشانہ بنایا گیا.ان کو گاؤں چھوڑ کر جانا پڑا اور اتنی تکلیفیں ان کو پہنچائی گئیں تھیں کہ وہ لمبے عرصے تک واپس نہیں گئے.آخر اس خیال سے کہ شاید وہ لوگ بھول گئے ہوں، وہاں گئے تو وہاں کے لوگوں نے کہا کہ زراد کھاؤ اپنا جسم کپڑا اٹھا کر گریبان کھول کر دیکھا ؤ، دیکھیں تو سہی تم کیا ہو؟ انہوں نے حیرت سے کہا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں مولوی صاحب نے یہ بتایا تھا کہ جب سے یہ احمدی ہوا ہے، باہر گیا ہے، اس کو کوڑھ ہو گیا ہے.اس وجہ سے یہ گاؤں واپس نہیں آتا تو ہم تمہارا کوڑھ دیکھنا چاہتے ہیں.انہوں نے اپنا بدن دکھایا تو دیکھا کہ ان کا بدن خدا تعالیٰ کے فضل سے بالکل ٹھیک ٹھاک ہے تو وہ کہنے لگے کہ اگر مولوی تمہارے متعلق جھوٹا ہے تو باقی باتوں میں بھی جھوٹا ہوگا.چنانچہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کئی دوست جماعت میں داخل ہوئے اور احمدیت سے محبت کا رجحان پیدا ہو گیا.اسی طرح ایک چیف کے متعلق بیان ہے کہ اس نے بھی اسی جستجو میں آکر جماعت احمدیہ کے ایک مرکز میں جا کر دیکھا کہ یہ کیا کرتے ہیں؟ کس قسم کے لوگ ہیں؟ اور جب ان کو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر لحاظ سے سچا پایا تو نہ صرف بیعت کی بلکہ دس ایکڑ کا رقبہ بھی پیش کیا اور ایک بنی بنائی بیت الذکر بھی جماعت کو تحفہ پیش کی.اس مرحلے پر چونکہ وقت کافی ہو چکا تھا، اس لئے حضور نے مسکراتے ہوئے حاضرین جلسہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:." آپ گھبرا میں نہیں ، جب آپ تھک جائیں گے تو میں ختم کر دوں گا“.حضور کے اس ارشاد پر احباب کرام میں بشاشت کی لہر دوڑ گئی.یہ امر یادر ہے کہ جہاں تمام حاضرین کرسیوں پر نہایت اطمینان سے تشریف فرما تھے ، وہاں ہمارے پیارے امام قریباً دو گھنٹے سے کھڑے ہو کر خطاب فرما رہے تھے.حضور نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.د وسمعی و بصری کا جو شعبہ ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی عمدہ خدمت سر انجام دے رہا ہے.اور ان کے کارکنوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے.نئے نوجوان شامل ہورہے ہیں، بڑی محنت کر رہے ہیں.ان کی سارا سال کی محنتوں کا سارا ذ کر تو یہاں ممکن نہیں.خلاصہ ایک دو باتیں آپ کے سامنے 663

Page 673

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک رکھتا ہوں تا کہ آپ کے دل میں ان کے لئے خاص طور پر دعا کی تحریک پیدا ہو.اب تک 87-1986ء کے ایک سال میں ان نوجوانوں نے دو ہزار نو سو پچاسی گھنٹے جماعت کا کام کیا ہے.یہ چند نوجوان ہیں اور خدمت دین کے لئے ہمہ تن وقف ہیں.اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.ایک سال کے اندر چند گنتی کے نوجوان، جو چند انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، یہ دو ہزار نو سو پچاسی گھنٹے خدمت دین کے لئے پیش کرنے کی سعادت پاچکے ہیں.چارسو، چھپیں گھنٹے کی انہوں نے ریکارڈنگ کی اور پھر اس کی نقلیں تیار کیں اور دنیا میں بھجوائی.چودہ ہزار کیسٹ یہ تمام دنیا کی جماعتوں کو بھجوا چکے ہیں.گذشتہ سال سولہ ہزار کیسٹیں بھجوائی تھیں.اس سال چودہ ہزار اس لئے یعنی دو ہزار کی کمی اس لئے آئی ہے کہ بعض ملکوں میں جہاں یہ بھجواتے تھے، وہاں جاتے جاتے رستے میں ضائع ہو جاتی ہیں.اور بہت بعد میں پتہ چلا کہ اس کا فائدہ کوئی نہیں.اس لئے اب کوئی جانے والا اتفاقا مل جائے تو بھجوا دیتے ہیں ورنہ بھجوانا بند کر دیا ہے.اس کے علاوہ کمی کی زیادہ وجہ ایک یہ بھی ہے کہ بعض ممالک میں کیسٹوں کی کاپیاں بنانے کا انتظام نہیں تھا، اس لئے خرچ بھی زیادہ آتا تھا اور دقت بھی زیادہ تھی کہ زیادہ کیسٹیں اکٹھی بھجوائی جائیں.اب وہاں پر مقامی انتظامات کر دیئے ہیں، ان کو اچھے ڈپلی کیٹر Duplicator لے کر دے دیئے گئے ہیں، اس لئے اب وہ خود اپنی ضرورتیں پوری کر لیتے ہیں.ایک کیٹیلاگ انہوں نے تیار کیا ہے، بڑی محنت کے ساتھ ، جسے خدا کے فضل سے جنوبی امریکہ کی جماعت نے شائع کیا ہے.غالباً یہاں سے وہ اس وقت مل سکتا ہے.اس کو مضمون وار جو کچھ بھی خطبات میں، میں نے بیان کیا یا سوال وجواب کی مجالس میں ، جو سوال زیر بحث آئے ، ان تک رسائی کے لئے یہ کیٹیلاگ بہت مد ہے.گزشتہ تین سالوں میں اس شعبے پر ایک لاکھ 64 ہزار دوسو، پینتیس پاؤنڈ خرچ آئے ہیں.اور اس رقم میں وہ آلات آڈیو ویڈیو شامل ہیں ، جولنڈن سے دنیا کی دیگر جماعتوں میں بھجوائے جاتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے نتیجے میں وہاں پر بڑا استفادہ کیا جارہا ہے.دعوت الی اللہ کی جور پورٹیں مل رہی ہیں، ان میں کیسٹوں کے ذریعے دعوت الی اللہ کو اب ایک خاص مقام حاصل ہو گیا ہے.چنانچہ ہمارے لائیبریا کے ایک مربی لکھتے ہیں کہ مقامی طور پر تیار کردہ کیسٹ وائی زبان میں بہت مقبول ہوئی ہے اور دعوت الی اللہ کے لئے بہت مفید ثابت ہورہی ہے.لار گوٹاؤن میں ہمارے داعین الی اللہ چار مرتبہ گئے اور ہر بار اسی کیسٹ کے ذریعے دعوت الی اللہ کی.چنانچہ اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کیسٹ کے ذریعے دعوت الی اللہ کا ثمر 25 بیعتوں کی صورت میں عطا فرمایا ہے.664

Page 674

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد خلاصه خطاب فرموده یکم اگست 1987ء بعض قابل ذکر دلچسپ واقعات ، جو مر بیان سلسلہ ہمیں لکھتے رہتے ہیں، ان میں سے بعض میں نے بیان کرنے کے لئے چنے ہیں.غانا کے امیر لکھتے ہیں کہ گزشتہ ہفتہ ہم نے اپنے حلقہ کے ہیڈ کوارٹر میں ویڈیو پروگرام دکھایا تھا.اس پروگرام کے چند دن بعد ہی وہاں کے عیسائیوں اور مسلمانوں کا ایک وفد آیا اور درخواست کی کہ آپ ہمارے پاس اپنے خلیفہ کے انٹرویو کی کیسٹ لائیں اور ہمیں دکھا ئیں.ہم آپ کی کار کے پٹرول وغیرہ کے اخراجات کے علاوہ بھی جو بھی آپ کہیں گے ، ادا کریں گے.آپ ضرور ہمیں یہ پروگرام دکھا ئیں.وہ لکھتے ہیں کہ تین مزید مقامات سے اسی طرح کے مطالبات آچکے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ پروگرام دن بدن ہر دلعزیز ہو رہا ہے.ماریشس کی جماعت کے ایک داعی الی اللہ لکھتے ہیں کہ غیر احمدیوں کی مسجد کا ایک امام تھا.میں نے اسے ایک دفعہ آپ کے خطبے کی ایک کیسٹ دے دی، جب میں دوبارہ لینے گیا تو اس نے وہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں تو اپنے خطبہ جمعہ میں یہ کیسٹ استعمال کرنے لگ گیا ہوں تمہیں کیسے واپس کردوں.لائبیریا میں کیسٹ کا ایک دلچسپ استعمال یہ ہے کہ وہاں بہت سے احمدی ٹیکسی ڈرائیور ہیں اور انہوں نے راگ درنگ کی کیسٹیں لگانے کی بجائے اپنی ٹیکسی میں خطبات اور سوال و جواب کی مجالس کی کیسٹ لگانی شروع کر دی ہیں.اور وہ سفر شروع کرتے ہی چلا دیتے ہیں اور اس کے بعد وہ مڑ کے دیکھتے ہیں، مسافر کو اور پوچھتے ہیں: کیوں جی! اگر آپ کو نا پسند ہو تو بند کر دوں.وہ اتنی دیر کے بعد یہ بات پوچھتے ہیں کہ اسے دلچسپی پیدا ہو چکی ہوتی ہے.وہ کہتا ہے : نہیں نہیں ! آپ جاری رکھیں بلکہ بعض دفعہ سفر ختم ہونے کے بعد بھی وہ ٹیکسی میں بیٹھا رہتا ہے کہ یہ پوری کیسٹ سن لوں تو اتروں گا.مغربی جرمنی کے ایک ترک امام ہیں، جو اپنے حلقہ میں حنفی ترکوں کے لیڈر ہیں.اور جماعت کے شدید مخالف تھے.ترکوں کو احمدیوں سے ملنے سے بھی روکتے تھے.ہمارے جلال شمس صاحب، جو ترکی زبان سیکھ کر کچھ عرصہ پہلے یہاں آئے ہیں اور یہاں خدمات دین سرانجام دے رہے ہیں، ان کی دعوت الی اللہ کی کیسٹ سننے کا ان امام صاحب کو موقع مل گیا.اس وقت سے انہوں نے مخالفت ترک کر دی ہے.خود ایک احمدی دوست کے گھر ملنے آتے ہیں اور ان سے مزید کیسٹ اور لٹریچر کا مطالبہ کر رہے ہیں.نجی میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے کیسٹوں کی مقبولیت عام ہورہی ہے.وہاں کی جماعت نے بعض مخالف سنی دوستوں کو ، جو نبی میں مسلم لیگ کہلاتے ہیں.مسلم لیگ سے مراد یہ ہے ، وہ ہماری قائد اعظم 665

Page 675

خلاصه خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم والی نہیں بلکہ مسلمانوں کا نام ہی یہاں پر مسلم لیگ ہے.تو وہاں دو طبقے ہیں یا احمدی یا مسلم لیگ.تو مسلم لیگ کے دوستوں کو انہوں نے دی سچویشن آف پاکستان والی ویڈیو کیسٹ دکھائی اور نہ صرف یہ کہ انہوں نے مخالفت بند کر دی بلکہ غیر احمدی دوست، جو بڑے اچھے بااثر ہیں، یہ کیسٹ دیکھنے کے بعد ایک احمدی کو ملے اور انہیں کہا کہ ہمارے سر شرم سے جھک چکے ہیں اور اب ہم تمہارے سامنے زبان نہیں کھول سکتے.جو ظلم تم پر ہورہا ہے، اسلام کے نام پر اس کے بعد اب ہمیں تمہاری مخالفت کا کوئی حق باقی نہیں رہا.سپینش زبان میں بھی کیسٹ تیار ہو گئی ہیں.اور ہمارے کرم الہی صاحب ظفر کا بیٹا بشیر اللہ کے فضل سے بڑے اخلاص کے ساتھ کیسٹ خطبات اور دیگر مضامین کا سپینش زبان میں ترجمہ کر رہا ہے.اور ابھی حال ہی میں تازہ پھل یہ ملا ہے کہ ایک دہر یہ خاندان نے کیسٹ سننے کے بعد خدا کی ہستی کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے.اور اب وہ احمدیت میں مزید دلچسپی لے رہے ہیں.ابھی احمدی تو نہیں ہوئے لیکن یہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ یقین ہو گیا ہے کہ خدا موجود ہے.اسی طرح ترک دوستوں کے متعلق جرمنی سے اور بہت سی اطلاعیں ہیں کہ اللہ کے فضل سے وہ کیسٹوں کے ذریعہ ہی غیر معمولی دلچسپی لینے لگ گئے ہیں.یہ ساری رپورٹیں ترکی کی ہیں، جو میں اس وقت چھوڑ رہا ہوں.ہمارے مصطفی ثابت صاحب، جو نہایت ہی مخلص فدائی احمدی ہیں، انہوں نے کینیڈا سے وقف کیا تھا.اس وقت سے ہمہ تن خدمت دین پر مستعد رہتے ہیں.ان کی کیسٹوں کا بہت ہی اثر ہے، عربوں پر.اور مسلسل یہ اطلاعیں مل رہی ہیں دنیا سے کہ جو عرب احمدی ہوتے ہیں، ان کی قبول احمدیت میں مصطفی ثابت صاحب کی کیسٹ کا بہت بڑا دخل ہے.یعنی پہلے تو وہ پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوا کرتے تھے.اب جب وہ کیسٹ سن لیتے ہیں تو ان کے دل نرم پڑ جاتے ہیں.اور پھر اس طرح سے آگے راستہ کھل جاتا ہے.اور جو عرب دوست ہمارے ہیں خدا کے فضل سے حال ہی میں ایک بہت بڑے قابل جرنلسٹ احمدی ہوئے ہیں، جو یہاں شامل ہوئے ہیں (ابو نا ئب).ایسے صاحب علم دوست اور بھی بہت سے ہیں ، ان کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے رنگ میں کیسٹ تیار کریں.کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ ایک ہی انسان کی بات کا ہر شخص اثر قبول کرے.بلکہ مختلف رنگ ہوتے ہیں.اور مختلف رنگ میں اللہ تعالیٰ توفیق بخشا کرتا ہے.ہمیں ایک سے زیادہ دوستوں کی ایک ہی موضوع پر کیسٹوں کی ضرورت ہے.666

Page 676

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرموده تیم اگست 1987ء ناظر صاحب اصلاح وارشاد قادیان بتاتے ہیں کہ آڈیو کیسٹوں کا اور ویڈیو کیسٹوں کا غیر معمولی اثر پیدا ہورہا ہے.الہ آباد کے ایک قاری ہیں، وہاں کے بڑے مشہور وہ کیسٹ سننے کے بعد احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں.اور میں عدد کیسٹیں بھروا کے لے گئے ہیں کہ میں اپنے دوسرے دوستوں کو بھی لے جا کر دوں گا.یہاں ہمارے ایک احمدی دوست مجسٹریٹ ہیں.ان کا نام ہے، عبدالباقی صاحب.ان کو لگن ہے، اس بات کی وہ براہ راست مجھے لکھ کر آڈیو اور ویڈیو کیسٹ منگواتے رہتے ہیں.اور اللہ کے فضل سے بڑی رو چل پڑی ہے.وہاں بڑے بڑے قابل علماء بڑے دنیا وی لیڈر بھی وکلاء وغیرہ اب مستقل ان سے مانگ کرکیسٹ سننے کے لئے لے جاتے ہیں اور پھر دوسروں کو آگے جا کر سناتے ہیں.تو کم علمی کے نتیجے میں جو انسان گفتگو کرنے کے اہل نہیں ہوتا تو وہ کیسٹوں سے بہت استفادہ کر سکتا ہے.پھر دوبارہ ترک دوستوں کا ذکر آ گیا.لیکن چونکہ یہ واقعہ زیادہ دلچسپ ہے، اس لئے میں سنادیتا ہوں.ایک ترک عالم نے جو مسجد کمیٹی کے عہدیدار ہیں، انہوں نے جب ٹرکش زبان میں احمدیت کے پیغام کی کیسٹ سنی تو اتنی دلچسپی لی کہ انہوں نے اپنے خرچ پر اس کیسبٹ کی دوسوکا پیاں تیار کروائی ہیں کہ وہ ترکی کے تمام مشہور علماء کو بھجوائیں گے.اس لئے یہ سکیم اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مؤثر ہے.بہت سی جگہ جماعت کے دوست اس لئے داعی الی اللہ نہیں بن سکتے کہ ان کو تبلیغ کرنی نہیں آتی.مربیان کے پاس ہر قسم کی کیسٹیں موجود ہیں، ہر زبان کی کیسٹیں ساری دنیا میں بھجوائی ہوئی ہیں.کافی اس پر محنت کی گئی ہیں.استفادہ ہی نہ کرے کوئی تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟ اس لئے میں توجہ دلاتا ہوں اگر مربی آپ کو نہیں بتاتے کہ ہمارے پاس کیا کیا علمی خزانے موجود ہیں تو آپ کو میں بتارہا ہوں کہ دنیا کہ بتنی زبانوں میں بھی کیسٹیں تیار ہوتی ہیں، ہم دنیا کے ہر ملک میں وہ بھجواتے ہیں تاکہ کہیں کسی زبان کا جاننے والا اگر مشن میں آجائے تو یہ شکوہ لے کر نہ جائے کہ میری زبان میں مجھے دعوت حق دینے والا موجود نہیں تھا.اس لئے اگر وہ آپ کو نہیں دیتے تو آپ پیچھے پڑ کر ان سے لے لیا کریں.اب آپ دلیری کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی بڑی زبانیں بولنے والوں کو اتنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، اشارے کنایے میں بھی کہ ہم تمہیں ایک کیسٹ ایسی دے سکیں گے، جس میں تمہارے اکثر سوالات کا جواب ہوگا.اور مزید جوتم معلوم کرنا چا ہو، ہم اس کی کیسٹ بھروا کر تمہیں مہیا کر سکتے ہیں.ایک ترک دوست نے جو ایک عالم ہیں، اب یہ طمح نظر بنالیا ہے کہ میں جو کیسٹیں دوسرے ترک اماموں کو دوں گا ، اس کے اوپر یہ لکھوں گا: ”جا گو جا گو! کیوں اب تک سور ہے ہو امام مہدی ظاہر ہو چکا ہے.667

Page 677

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم الہذا یہ واقعات بہت دلچسپ اور بھی ہیں، میرے پاس.میں نے وقت کی رعایت سے بعض سنائے ہیں.قسط نمبر 05 مطبوع ضمیمہ ماہنامہ مصباح ستمبر 1987ء) حضور نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے اشاعت کے اس میدان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ دو تین سال میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی ایسی کامیابیاں ہوئی ہیں، جن کے متعلق میں خود بھی ، جو بظاہر اپنی تمناؤں میں بڑی چھلانگ لگاتا ہوں، توقع نہیں رکھتا تھا.یعنی توقع سے بڑھ کر خدا تعالیٰ نے اس میدان میں ہمیں عظیم الشان پھل عطا فرمائے ہیں.خلاصہ یہ ہے کہ امسال دنیا کے سترہ ممالک میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر جماعت کے پروگرام نشر ہورہے ہیں، جن کے ذریعے لکھوکھا انسانوں تک بلکہ جو میں نے حساب ایک جگہ لگایا تھا، اس کے مطابق ایک ٹیلی ویژن کے پروگرام کے متعلق ہمیں پتہ چلا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ آدمیوں تک اس کے ذریعے احمدیت کا پیغام پہنچا ہے.امسال جولائی 86 ء سے جون 87 ء تک مختلف ٹیلیویژن سٹیشنوں سے صرف میرے اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 86 انٹرویوز نشر ہو چکے ہیں.جن پر 49 گھنٹے، 30 منٹ صرف ہوئے ہیں.اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ پیغام پہنچانا کس قدر مہنگا ہے.ریڈیو کے ذریعے بھی پیغام پہنچانا بہت ہی مہنگا پڑتا ہے.ہمارے پاس توفیق نہیں، اپنا ریڈیو ٹیشن بنانے کی.کجا یہ کہ ہم ٹیلی ویژن لگائیں اور اس کے ذریعے اپنا پیغام پہنچائیں.انچاس گھنٹے تمہیں منٹ گزشتہ سال جوانٹرویوز ہوئے ، وہ ایک دفعہ نشر نہیں ہوئے.بعض ان میں سے بار بار نشر ہوئے اور بعض ان ٹیلی ویژن سٹیشنوں سے لے کر ، جنہوں نے آغاز میں نشر کئے، دوسرے ٹیلی ویژن سٹیشنوں نے بھی نشر کئے.زیادہ تر اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ کو یہ توفیق ملی ہے.لیکن اس میں دیگر ممالک بھی شامل ہیں.انگلستان بھی شامل ہے، کینیڈا بھی شامل ہے، ناروے بھی شامل ہے.اور بھی کئی ممالک ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا کے فرشتے یہ کام کر رہے ہیں.بعض ممالک میں اب یہ رحجان پیدا ہو گیا ہے.لوگوں کے مطالبے کے نتیجے میں کہ وہ ہمارے یہاں لنڈن میں جو سوال و جواب کی مجالس ہیں اور خطبات ہیں، ان کے متعلق مطالبے آتے ہیں، ٹیلی ویژن سٹیشنوں کو کہ ہمیں یہ ٹیلی ویژن پر دکھائے جائیں.چنانچہ بعض جگہ باقاعدگی سے یہ پروگرام بھی شروع ہو گیا ہے.وہ جو 86 668

Page 678

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء انٹرویوز تھے ، 49 گھنٹے تمہیں منٹ کے، ان کے علاوہ خطبات جمعہ اور مجالس عرفان ( جن کو سوال وجواب کی مجالس کہا جاتا ہے) ان کی کیسٹ پر مشتمل ایک سو، نو گھنٹے کے پروگرام ٹیلی ویژن سٹیشنوں سے دکھائے جا چکے ہیں.99 پروگرام وہ ہیں، جو جماعتوں کے مقامی طور پر نشر ہو چکے ہیں، یہ ان کے علاوہ ہیں.یہ 109 اور 49 گھنٹے یہ صرف میرے پروگراموں کے ہیں.جماعت نے جو مقامی طور پر پروگرام بنائے ہیں، ان کی تعداد 99 ہے، جو ٹیلی ویژن سٹیشنوں پر پیش ہو گئے ہیں.اور مجموعی طور پر 216 پروگرام پچھلے سال کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل سے ٹیلی ویژن کے ذریعے دکھائے گئے ہیں.کینیڈا میں سکاٹون ، دنی پیگ، برانٹ فورڈ، ایڈمنٹن ٹورانٹو پانچ ٹیلی ویژن سٹیشنوں پر 30 گھنٹوں کا پروگرام نشر ہوا ہے.ریڈیو کے ذریعے خدا تعالیٰ کے فضل سے مختلف ممالک میں 348 پروگرام نشر ہوئے ہیں.ان ممالک میں آئیوری کوسٹ ، سپین، ماریشس، ہالینڈ، توالو، آسٹریلیا، بھارت، امریکہ، زائر اور ڈنمارک بھی شامل ہیں.ناروے میں خدا تعالٰی کے فضل سے جماعت احمدیہ کا مستقل نشریاتی پروگرام "ریڈیو اسلام کے نام سے جاری ہے اور ہر ہفتے اللہ کے فضل کے ساتھ نارویجین زبان میں بھی اور اردو زبان میں بھی کثرت کے ساتھ اشاعت احمدیت کی توفیق مل رہی ہے.چنانچہ سال زیر نظر میں نارو تکین زبان میں ریڈیو اسلام کے ذریعے 52 پروگرام پیش ہو چکے ہیں.جماعت احمدیہ کو اپنا سٹوڈیو تیار کرنے کی توفیق مل گئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جو دوسرے سٹوڈیو میں جا کر پروگرام تیار کرنے کی وقتیں تھیں، وہ دور ہوگئی ہیں.جو محفوظ اندازہ لگایا گیا ہے، ٹیلی ویژن اور ریڈیوسٹیشنوں کے اپنے منتظمین کے ذریعے اس کے مطابق امسال مختلف ممالک میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے ایک کروڑ سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا ہے.اخبارات کے ذریعہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں جماعت کے پیغام اور دین حق کے متعلق غیروں کی پیدا کردہ غلط فہمیاں دور کرنے کی بہت عظیم الشان توفیق ملتی رہی.امسال دنیا بھر کے 168 اخبارات میں جماعت احمدیہ کے متعلق 679 خبریں اور مضامین شائع ہوئے اور بعض اخبارات نے اداریے بھی لکھے.میرے دورہ کینیڈا کے وقت پاکستان سے علماء کا ایک ٹولہ وہاں پہنچا اور اس نے وہاں احمدیت کے خلاف شدید نفرت پیدا کرنے کی مہم چلائی.جب میں وہاں گیا تو مختلف اخباروں کے نمائندے، ایڈیٹر وغیرہ اس سلسلے میں مجھ سے ملنے آئے اور انٹرویو لئے.چنانچہ جب ان کو صحیح صورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے بہت ہی شاندار مضامین جماعت احمدیہ کے دفاع میں لکھے.اور ایک مثلم THE GLOBE AND MAIL، وہاں کا ایک مشہور اخبار ہے، اس نے پہلے صفحے پر چار کالمی سرخی لگا کر 669

Page 679

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء اس تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم جماعت احمدیہ کے متعلق تفصیلی مضمون لکھا اور حکومت پر تنقید کی کہ ایسا جھوٹ بول کر نفرتیں پھیلانے والے کو تم اجازت کیوں دیتے ہو کہ تمہارے ملک میں آئیں اور فساد کا بیج بوئیں.اس کی اشاعت تین لاکھ ، بائیس ہزار ہے.اور یہ کینیڈا کا وہ واحد اخبار ہے، جو نیشنل ہے.اور کینیڈا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے.مضمون کی سارے کینیڈا میں اتنی شہرت ہوئی کہ فیڈرل منسٹر آف امیگریشن نے ایک ممبر آف پارلیمنٹ سے کہا کہ احمدیوں سے پوچھ کر بتاؤ کہ وہ کیا مطالبہ کرتے ہیں ؟ اگر وہ کہتے ہیں تو ہم مولویوں کا ویز امنسوخ کر دیتے ہیں.مربی انچارج نے فون کر کے مجھ سے پوچھا تو میں نے اسے کہا کہ ہر گز نہیں ، جماعت احمدیہ کی یہ پالیسی نہیں ہے.ہم ہرگز کسی کی راہ میں روڑے اٹکانا نہیں چاہتے.ان کو جو عقل ہے، وہ اس کے مطابق اسلام کی خدمت کر رہے ہیں.جوہم کو خدا توفیق بخش رہا ہے، ہم خدمت کر رہے ہیں.اس لئے حکومت کینیڈا سے کہہ دو کہ ہر گز ہم آپ سے یہ مطالبہ نہیں کریں گے.لیکن اس اخبار کے نتیجے میں عوامی رائے عامہ کا ایساد باؤ ان پر پڑا کہ حکومت مجبور ہوگئی کہ ان علماء کے ویزے کینسل کر کے ان کو واپس پاکستان بھجوادئے“.(نعرہ ہائے تکبیر ) حضور نے فرمایا کہ یہ تو بڑی لمبی دلچسپ داستان ہے.میں ایک اور واقعہ آپ کو سنا دیتا ہوں.اخبارات میں تو اس کثرت سے اب جماعت کی خبریں شائع ہوئی ہیں کہ اس ایک سال میں جتنا مواد جماعت کا شائع ہوا ہے، پاکستان کی اس مخالفت سے پہلے کے دور میں ہیں سال میں بھی اتنا شائع نہیں ہوا.اور یہ مبالغہ نہیں.احتیاطاً میں نہیں 20 کہہ رہا ہوں، ہوسکتا ہے کہ چھپیں یا زیادہ ہی ہوں.اور اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.آپ میں سے جو تھک چکے ہیں، ان کو میں سنادیتا ہوں کہ میرا اندازہ کس نوع کا ہے“.اس پر حاضرین میں سے ایک صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم تھکے نہیں ہیں.اس پر حضور نے فرمایا ”خیر اور تازہ دم ہو جائیں گے لطیفہ سن لیں گے تو ! حضور نے لطیفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:.ایک مولوی صاحب بیچارے ان پڑھ تھے.ان سے گاؤں کے بچے آکر تاریخ پوچھا کرتے تھے.چنانچہ انہوں نے ترکیب یہ کی تھی کہ روڑے پاس رکھ لئے تھے اور روزانہ چاند کی تاریخ کے حساب سے ایک روڈ امٹی کی ہنڈیا میں ڈال دیتے تھے.چنانچہ جب کوئی بچہ آتا تھا اور پوچھتا تھا کہ کیا تاریخ ہے؟ تو مولوی صاحب اٹھ کر اندر کمرے میں جاتے تھے اور روڑے نکال کر گنتے تھے اور آکر بتا دیتے تھے کہ آج 670

Page 680

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خلاصه خطاب فرموده یکم اگست 1987ء یہ تاریخ ہے.اب گاؤں کے بچوں کو پتہ چل گیا.ایک بچے کو شرارت سو جبھی ، اس نے ایک ڈھیری روڑوں کی اکٹھی کر کے اس دیگچی میں ڈال دی.اس کے بعد ایک بچہ تاریخ پوچھنے آیا.مولوی صاحب کافی دیر تک اندر غائب رہے.کئی منٹ کے بعد مولوی صاحب باہر آئے اور کہا: بیٹا! آج چھ سو ستاسی تاریخ ہے.اس نے کہا: مولوی صاحب خدا کا خوف کریں، چھ سو ستاسی ؟ مولوی صاحب نے کہا کہ خدا کا خوف کر کے ہی بتارہوں ورنہ تو ہزاروں تک بات پہنچی ہوئی تھی.احباب کرام یہ لطیفہ سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑے.حضور نے لطیفہ بیان کرنے کے بعد فرمایا: ” تو میں اندازے میں مغالطہ کر کے نہیں بتارہا، خوف کر کے بتارہا ہوں“.حضور نے تقریر کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.”ہمارے تنزانیہ کے ایک مربی ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک اخبار کو ہم نے حضرت بانی سلسلہ کی تصویر کے ساتھ ایک بہت اچھا مضمون لکھ کر بھجوایا، جو جماعت احمدیہ کے تعارف پر مشتمل تھا.اس نے صاف انکار کر دیا کہ میرے اخبار میں ایسے فضول مضمونوں کی کوئی جگہ نہیں.چنانچہ انہوں نے ایک اور اخبار کو، جو اس سے نسبتا کم درجے کا اخبار تھا، وہ مضمون دیا اور انہوں نے شوق سے شائع کر دیا.اس کے ساتھ چونکہ حضرت بانی سلسلہ کی تصویر بھی تھی ، وہ اخبار اتنا مقبول ہوا کہ ہاتھوں ہاتھ بک گیا.اور وہ لوگ جو پہلے دوسرا اخبار لیا کرتے تھے، انہوں نے وہ اخبار ہی نہیں لیا ، جس نے انکار کیا تھا.اور صرف وہی اخبار لیا ، جس میں حضرت بانی سلسلہ کی تصویر اور جماعت احمدیہ کے متعلق مضمون تھا.چنانچہ چونکہ وہ بڑا اخبار تھا اور ان کا اثر تھا، انہوں نے تیزی سے سٹالوں پر یہ پیغام بھجوایا کہ تم ہر خریدنے والے کو کہو کہ جب تک تم یہ اخبار نہیں خریدو گے، ہم دوسر انہیں بیچیں گے.اس مضمون کا ایسا شوق پیدا ہوا لوگوں کے دلوں میں کہ انہوں نے دوسرا اخبار ز اند اس وجہ سے خریدا کہ حضرت بانی سلسلہ کی تصویر والا اخبار بھی ساتھ مل جائے.اور اس طرح وہ کمی پوری ہوئی اور اب اس اخبار کا ایڈیٹر اس بارے میں تو یہ کر چکا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس اشاعت کے نتیجے میں فوری طور پر جماعت کے مشن کو دوسو سے زائد خطوط موصول ہوئے اور ان لوگوں میں سے جنہوں نے اس اخبار کے ذریعے احمدیت سے تعارف حاصل کیا ، سات دوست بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں.حضور نے اپنے بیرون ممالک کے دوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.” اس دفعہ میرے دوروں کا جہاں تک تعلق ہے، کینیڈا کا دورہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی پہلوں سے بہت کامیاب رہا ہے.جہاں جہاں بھی میں گیا، وہاں بڑی دلچسپ مجالس سوال و جواب ہوئیں.بڑی 671

Page 681

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم گہری دلچسپی لی گئی اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ کے ذریعے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑے وسیع پیمانے پراحمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی.جیسا کہ پہلے بھی میں اپنے خطبے میں ایک دفعہ ذکر چکا ہوں کہ وہاں ایک ٹیلی ویژن سٹیشن ایسا ہے، جولائیو LIVE پروگرام دکھاتا ہے.یعنی ایک سوال کرنے والا ایک ماہر ایڈیٹر ہوتا ہے، جو کسی مہمان سے سوال کرتا ہے اور اس کے دوران جن کے دل میں بھی سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ ٹیلی ویژن کے ذریعے رابطہ کرتے ہیں اور اس دوران ہی وہ سوال، جواب دینے والے کو پہنچا دیا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں فلاں فلاں سوال پیدا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے تقریبا پچاس منٹ تک یہ پروگرام بڑی دلچسپی سے سنا گیا اور اس ٹیلی ویژن اسٹیشن کے جو انٹرویو کرنے والے ہیں، ان کا ایک طریقہ ہے، اپنے پروگراموں کا جائزہ لینے کا.انہوں نے بعد میں مجھے مبارک باد دی کہ گزشتہ ہفتے ہمارے وزیر اعظم کا بھی ایسا ہی پروگرام تھا لیکن ہمارے جائزے کے مطابق وزیر اعظم کے پروگرام کو کم لوگوں نے دیکھا ہے.آپ کے پروگرام کو بہت زیادہ لوگوں نے دیکھا ہے اور یہ بہت ہی مقبول ثابت ہوا ہے.چنانچہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آئندہ جب بھی آپ آئیں، ہمیں موقع دیں اور ہمیں جب بھی موقع ملے گا، ہم آپ کا انٹرویو نشر کیا کریں گے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس دورے میں کثرت سے دعوت الی اللہ کا موقع ملا، احمدیت کا پیغام پہنچانے کا موقع ملا.اور جو سوالات وہ لوگ کرتے تھے، اس سے پتہ چلتا تھا کہ یہ لوگ اس سے پہلے اسلام سے شدید متنفر تھے.عجیب و غریب سوال کرتے تھے.کچھ ٹمینی کے متعلق ، کچھ لیبیا کے متعلق کچھ دین حق کے جابرانہ رویے کے علاوہ بیاہ شادیاں اور کئی قسم کے مضامین کے متعلق، جو آج ہم نے چھیڑے تھے اور ان سب سوالوں کے ذریعے دین حق پر جو اعتراض پیدا ہوتے رہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کا مؤثر جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی.اس دورے کے دوران، جو اٹھارہ دن کا تھا، اللہ تعالیٰ کا فضل سے دس بیعتیں ہوئیں.حالانکہ اس سے پہلے کینیڈا میں کچھ جمود سا پیدا ہو چلا تھا، اب خدا کے فضل سے وہ ٹوٹ رہا ہے.احمدیت کے اندر بھی بہت سی زمین ایسی ہے، جو ہماری ہوتے ہوئے بھی ابھی پوری طرح ہماری نہیں.اور وہ جوفوائد ہیں یعنی اس زمین کو دوبارہ حاصل کر لینا، یہ بہت عظیم الشان فوائد ہیں، چنانچہ جہاں جہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے دورے کی توفیق ملی ہے، وہاں میں نے خود بھی محسوس کیا کہ وہ چہرے جو پہلے اجنبی سے لگ رہے تھے، وہ آنکھیں، جن میں پوری اپنائیت نہیں تھی ، دورہ ختم ہونے سے پہلے پہلے ہی ان کے اندر عظیم الشان تبدیلی پیدا ہوئی.اور بعد میں بھی جو اطلا میں موصول ہوئیں، ان سے یہی پتہ چلا کہ 672

Page 682

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء خدا کے فضل سے بہت سے نوجوان جو پہلے معمولی سی دلچسپی رکھتے تھے یا دور کا تعلق رکھتے ، خدا کے فضل سے بڑے ہی اچھے خدمت کرنے والے، قربانی کرنے والے نوجوانوں میں تبدیل ہو گئے.چنانچہ نیم مہدی صاحب نے جو کینیڈا کے مربی انچارج ہیں، دورے کے بعد ایک واقعہ لکھا.وہ لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان کے بارے میں، میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ یہ نو جوان ، جس کے والد فوت ہو چکے ہیں، ضائع ہو چکا ہے.لیکن اس دورے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں یہ شاندار تبدیلی پیدا ہوئی کہ خود اس نوجوان نے بتایا کہ دوستوں کی وہ مجالس، جن سے جان چھڑانی مشکل تھی ، اس دورے کے بعد مجھے ان سے اچانک نفرت پیدا ہوگئی اور اب میں جماعت کی کتب کو بڑے شوق سے پڑھتا ہوں.اور میرے دل میں جماعت کی خدمت کی ایک لگن پیدا ہوگئی ہے.چنانچہ نیم مہدی صاحب لکھتے ہیں کہ اس کا یہ بیان درست ہے، اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی پاک تبدیلی پیدا ہوئی ہے.اخبارات کے ذریعے کینیڈا میں ساڑھے تین ملین افراد (35لاکھ افراد ) کو اس دورے کے دوران احمد بیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی.اور ریڈیو کے ذریعہ دولاکھ کو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ چھ لاکھ کو.یادرکھیں کی کینیڈا کی کل آبادی 25 ملین (ڈھائی کروڑ) ہے.اس لحاظ سے اتنی بڑی تعداد کو اس تھوڑے سے عرصے میں پیغام پہنچانا، خدا کے فضل سے ایک بہت ہی بڑی کامیابی ہے.سوئٹزر لینڈ میں حال ہی میں جو دورہ کیا ، اس کو بھی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے رحمتوں کے پھل لگائے اور کئی پھلوں سے وہ بہت کامیاب ثابت ہوا.وہاں کے یونیورسٹی آف زیورک کے ایک پروفیسر ہیں، کرل بینکن ، انہوں نے یونیورسٹی آف زیورک میں میرے ایک لیکچر کا انتظام کیا.جس کا موضوع تھا، TRUTH,RATIONALISM,REVELATION AND KNOWLEDGE (یعنی سچائی ، عقل، الہام اور علم ) یہ عنوان مقرر کرنے کی وجہ یہ بنی کہ میں جب اس سے پہلی دفعہ سوئٹزر لینڈ کے دورے پر گیا تو اخباری نمائندوں میں سے بعض نے میری توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ کثرت کے ساتھ ہمارے نوجوان (یعنی سوئٹزر لینڈ کے نوجوان ) دہر یہ ہو چکے ہیں.اس نے کہا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ دین کی خدمت کر رہے ہیں، پہلے ہمارے نوجوانوں کو تو سنبھالو، خدا کا تو قائل کرو.اور یہ روایک شدید بیماری کی طرح پھیل گئی ہے.اور انہوں نے بتایا کہ ہمیں خطرہ ہے کہ آئندہ دس، بارہ سال کے اندر سوئٹزر لینڈ مستقلاً دہر یہ ہو چکا ہوگا.اس پر مجھے بڑی فکر پیدا ہوئی.میں نے انہیں کہا کہ میری طرف سے یہ پیغام دے دیں کہ جماعت احمد یہ اس چیلنج کو قبول کرتی ہے اور اگر دیگر مذاہب بھی اس میں حصہ لیں تو ہم مل 673

Page 683

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء کر سب سے پہلے خدا تعالیٰ کی ہستی کے مضمون کے بارے میں جہاد شروع کرتے ہیں.اس کے جواب میں ہم نے اشتہار بھی شائع کیا.اخباروں میں بھی یہ بیان شائع ہوا.بعض مذہبی تنظیموں نے دلچسپی کا اظہار کیا.جن میں عیسائی بھی تھے ، یہودی بھی تھے، بعض اور بھی تھے.اور ایک فورم کا انعقاد ہوا، جس میں خدا کی ہستی پر مختلف مذاہب نے اپنے عقائد کا اظہار کیا.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وہاں کے ہمارے ایک سوئس مخلص احمدی نے ، جو بڑے ذہین ہیں، انہوں نے لکھا کہ بظاہر یہ ایک کامیابی ہے.مگر جو آپ کا مقصد تھا، وہ بہر حال پورا نہیں ہوا.کیونکہ یہ سارے شرکاء محفل اپنے ساتھ اپنے چیلے چانٹے لے کر آئے تھے ، جو پہلے ہی خدا کے قائل ہیں.اور اس تقریب میں خدا کی ہستی کے بارے میں ان لوگوں کے سامنے دلیلیں پیش کی جا رہی تھیں، جو خدا کو پہلے سے ہی مانتے ہیں.تو فائدہ کیا ہوا، صرف ایک دکھا واسا ہو گیا ہے.مربی انچارج نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا.چنانچہ میں نے کہا کہ یونیورسٹی میں جا کر کوشش کریں.اگر وہ تیار ہوں تو میں آنے کے لئے تیار ہوں.میں اس مضمون پر وہاں خطاب کروں گا.یونیورسٹی کے پروفیسروں نے کہا کہ ہم خطاب تو کروالیں گے.لیکن اگر خدا کی ہستی پر خطاب کروایا گیا تو آئے گا ہی کوئی نہیں.یہاں کے طلباء آپ کو نہیں جانتے.بڑے سر پھرے ہیں، کوئی دلچسپی نہیں لے گا.پروفیسر بینکن بڑے ذہین بھی ہیں اور بڑے نیک دل آدمی بھی ہیں ان کو دلچسپی پیدا ہوگئی.اس تقریب میں انہوں نے کہا کہ میں ایک ترکیب بتاتا ہوں.میں عنوان یہ رکھتا ہوں (جو اوپر بیان کیا گیا ہے ) اس میں الہام REVELETION کے ذریعے جو کھڑ کی کھولی جائے گی، اس میں آپ خدا کا ذکر شروع کر دیں اور جو کہنا چاہتے ہیں، کہہ دیں.لیکن بنیادی طور پر مضمون ہو، ٹروتھ ، شنلزم، ریوی لین اور نالج (یعنی چائی، عقل، البام اور علم ).چنانچہ ان کی یہ ترکیب کارگر ہوئی.اس مضمون پر جو لیکچر میں نے وہاں دیا، اس کا ترجمہ شیخ ناصر احمد صاحب نے کیا.سارا لیکچر تو وہاں پڑھا جانا ناممکن تھا، اس کے ایک تہائی حصہ کا ترجمہ کر کے شیخ ناصر احمد صاحب نے پیش کیا.ایک گھنٹے کے لگ بھگ وہ مضمون پڑھا جانا تھا، اس لئے میں نے نہیں پڑھا.انگریزی والا حصہ صرف شیخ صاحب نے ترجمہ کر کے سنادیا اور اس کے بعد سوال و جواب کا موقع ملا.اس سے پہلے پروفیسر بینکن یہ کہہ چکے تھے کہ اس ہال میں اس سے پہلے چرچل کا لیکچر ہوا تھا اور اکثر ہال خالی تھا.اب جماعت احمدیہ کے لئے چیلنج ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے آدمی اس کو سننے کے لئے آتے ہیں؟ ہماری دنیا دی تو حیثیت ہی کوئی نہیں لیکن دعائیں ضرور ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ وہ سارا ہال کھچا کھچ بھر گیا.اس سے اوپر زائد ایک گیلری تھی ، وہ بھی بھر گئی.چنانچہ ایک تیسرے کمرے ٹیلی ویژن کے ذریعے تقریر اور مقرر کی تصویر 674

Page 684

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پہنچائی گئی اور وہاں بھی سننے والے آ کے بیٹھے اور خدا کے فضل سے اس کا بہت اچھا اثر اس رنگ میں ظاہر ہوا کہ ایک تو غیر احمدی مسلمانوں کی مسجد کے امام جو مصری ہیں، وہ مخالفت کی نیت سے وہاں آئے اور انہوں نے جو سوالات کئے ، ان کے جو جوابات دینے کی مجھے توفیق ملی، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں دلچسپی پیدا کر دی.چنانچہ یوگوسلاویہ میں ایک علاقہ ہے، ہاتھنیا، جو مسلمانوں کی ایک ریاست تھی.جو دوسری جنگ میں اتنا ظلموں کا نشانہ بنی کہ اس کی تین چوتھائی آبادی اس جنگ کے دوران ہلاک ہوگئی تھی.وہاں اس کے بعد مزید ظلم یہ ہوا کہ اشترا کی حکومت آگئی اور اس نے اسلام کے خلاف اتنا سخت رویہ اختیار کر لیا کہ اسلام کا نام لینا بھی ایسا جرم بن گیا ، جس کی سزا موت تھی.ہماری بڑی دیر سے خواہش تھی کہ اس زبان میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ کریں، احمدیت کا پیغام پہنچائیں لیکن پیش نہیں جاتی تھی.حسن اتفاق سے اس لیکچر میں ایک ہا تھنیا کے ٹیکسی ڈرائیور آئے ہوئے تھے اور نام کے وہ ٹیکسی ڈرائیور تھے.مگر تھے وہ بڑے قابل آدمی اور ٹیکسی کا پیشہ ہمارے ملک میں تو کم درجہ کا سمجھا جاتا تھا، وہاں بڑا معزز ہے.اس پہلو سے کہ وہاں ٹیکسی ڈرائیور بڑی کمائی کرتے ہیں اور ان کا مکان بھی بڑے اچھے فیشن ایبل علاقے میں تھا.وہ وہاں آئے ہوئے تھے.وہ دوسرے دن صبح مشن میں آگئے اور کہا کہ میں نے آپ کے امام سے ملنا ہے، مجھے تھوڑ اسا وقت دیں.مربی انچارج مجھ سے کہا کہ چند منٹ کے لئے آئے گا.کل آپ نے سفر پر جانا ہے، اس سے پہلے وقت دے دیں.میں باہر نکالا، ان سے ملا، بات کی تو مجھے ان کے آثار کچھ اور نظر آئے.میں نے مربی انچارج سے کہا کہ چند منٹ کی بات نہیں، یہ گھنٹوں کی بات لگتی ہے، اس لئے کچھ پہلے بلا لیں.چنانچہ پہلے بلانے کے باوجود ڈیڑھ گھنٹے تک انہوں نے اٹھنے کا نام نہ لیا.قافلہ تیار کھڑا تھا، میں نے کہا کہ کوئی پرواہ نہیں، ان کو حق کا پیغام پہنچانے کا موقع مل جائے.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے دلچپسی کیوں کی؟ آپ کیوں آئے ، اس لیکچر کے بعد؟ انہوں نے دوباتیں بیان کیں.انہوں نے کہا: ترجمہ تو مسعود جہلمی صاحب کرتے تھے لیکن جب انہوں نے بات کی تو میں حیران ہو کر مسعود جہلمی صاحب کو دیکھ رہا تھا کہ رونے لگ گئے، آنکھوں سے آنسوؤں کے فوارے پھوٹ پڑے اور جذبات کی شدت سے ترجمہ کرنے کی طاقت نہیں رہی.کچھ دیر تک اتنا مغلوب ہو گئے.پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ دو باتوں کے نتیجے میں، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں آپ سے ضرور ملوں گا اور اس تعلق کو قائم رکھوں گا.اول یہ کہ جب آپ نے اس مولوی کے اعتراض کے جواب دیئے تو آپ کے طرز میں ایک شرافت تھی ، ایک نجابت تھی اور ایک وقار تھا اور اسی پر میں مطمئن ہو گیا تھا کہ آپ بچے ہیں اور یہ جھوٹا ہے.تھا کہ 675

Page 685

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم دوسرے یہ کہ اس لیکچر کے دوران میں نے یہ اندازہ لگایا اور مجھے شوق ہے قرآن کریم کے مطالعہ کا اور میں تفاسیر کو بھی دیکھتا رہتا ہوں.میں نے یہ اندازہ لگایا بلکہ یہ فیصلہ کیا کہ آج روئے زمین پر تم سے زیادہ قرآن کریم کو جاننے والا اور کوئی شخص نہیں.( نعرہ ہائے تکبیر ) چنانچہ انہوں نے کہا کہ مجھے آپ سے ایک دلی محبت پیدا ہو چکی ہوئی ہے اور میں اصرار کرتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں، چاہے ایک منٹ کے لئے آئیں.اور میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ ہاتھنیا کو میں احمدیت کا پیغام پہنچاؤں گا.اور میرے بھائی وہاں بڑے بااثر ہیں.میں نے بے تاب ہو کر فون پر ان کو بتایا ہے اور انہوں نے فون پر ہی مجھے سے درخواست کی ہے کہ جلد سے جلد ان کو لے کر یہاں آؤ تو وہاں جانے کا پروگرام تو بنے یا نہ بنے، اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے.مگر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دوروں کے دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت کے پھل لگتے رہتے ہیں اور دل خدا کے حضور شکر سے لبریز ہو کر بہنے لگتا ہے.یہ محض اللہ کا احسان ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کے لئے نئے نئے راستے کھول رہا ہے.اب ہاتھنیا کے لئے ایک تمناتھی اور کوئی آدمی مل نہیں رہا تھا، ترجمے والا بھی اور خدا نے خود ہی اپنے فضل سے رستہ کھول دیا.نیوز کانفرنس خدا کے فضل سے اس طرح سے کامیاب رہی کہ اگر چہ نمائندے صرف تین تھے لیکن ایک ان میں سے جو رائٹر کا نمائندہ تھا، اس نے بہت اچھا کوریج COVEREGE ساری دنیا میں بھجوایا.اور جماعت احمدیہ کے متعلق اس کا بھیجا ہوا پیغام یہاں لنڈن کے جنگ میں بھی چھپا اور دنیا کے دوسرے اخباروں میں بھی چھپا.جو استقبالیہ ہوئی ، اس میں بڑے بڑے ممالک کے نمائندے، ڈپلومیٹ ، ڈاکٹر، ممتاز صحافی ، وکلاء، انجینئر، غرضیکہ ہر قسم کے دانشور موجود تھے.اور رات سات بجے شروع ہوئی، رات گیارہ بجے تک سوال و جواب ہوتے رہے.باوجود اس کے کہ ان لوگوں کی عادت نہیں ہے اتنا لمبا عرصہ بیٹھنے کی لیکن پھر بھی وہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہے تھے.اور مجھے احساس ہوا کہ بعض ان میں سے تھک گئے ہوں گے.اس لئے میں نے پریذیڈنٹ صاحب سے کہا: اگر چہ میں تو نہیں تھکتا خدا کے فضل سے لیکن کہیں یہ نہ ہو کوئی شخص مروت کے مارے بیٹھا ہو، اس لئے آپ اس کو ختم کرنے کا اعلان کر دیں.دوسرے دن پھر ہم نے کچھ دوستوں کو بے تکلف چائے پر اور سوال و جواب کے لئے بلایا.اس میں اس لیکچر میں شامل ہونے والے کئی خاندان بغیر بلاوے کے تشریف لے آئے.یہ ہم نے اعلان اسی لیکچر میں کر دیا تھا کہ دوسرے دن ایک 676

Page 686

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء بے تکلف چائے پارٹی ہونے والی ہے، اس لئے جو دعوت لینا چا ہے، وہ ہم سے رابطہ قائم کرے تو انہوں نے رابطہ تو کوئی نہیں کیا.لیکن یہ سمجھ کر کہ یہ عام دعوت ہے، وہ خود ہی تشریف لے آئے.اور بہت ہی اللہ کے فضل کے ساتھ محبت کا اظہار کیا، احمدیت میں دلچسپی لی، بڑے اچھے سوال کئے اور جس قسم کے تاثرات ان پر پیدا ہوئے ، اس کی ایک مثال میں آپ کو بتا تا ہوں کہ عشاء کی نماز کے وقت ایک خاندان جس کے میاں بھی بڑے اچھے وکیل ہیں اور بیوی بھی بڑی قابل وکیل ہے.وہ دونوں اپنے بچوں کو لے کر ٹھہرے رہے.عشاء کی نماز ان بچوں کو دکھائی اور نماز کے بعد میں نے بچوں کو تھوڑا سا پیار کیا، ان سے پوچھا کیا حال ہے؟ میں نے کہا: ان کو احمدیت کے متعلق تو کسی قسم کی واقفیت نہیں ہوگی تو ان کے والدین نے کہا کہ اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں تھا، ان کو احمدیت سے متعارف کروانے کا کہ یہ آپ کو نماز کی حالت میں دیکھیں.اور یہ میں نے کر لیا ہے.اب یہ بات جس کو دلچپسی پیدا نہ ہو، اپنے بچوں کے متعلق وہ کر ہی نہیں سکتا.وہ چاہتا تھا کہ بچے احمدیت میں دلچسپی لیں.ان کی بیگم نے جانے سے پہلے جب کہ میں فارغ ہو کر ساڑھے گیارہ بجے کے قریب اندر جاچکا تھا، انہوں نے کہا کہ میں آپ سے ملے اور آپ سے اپنے بچوں کو ملائے بغیر واپس نہیں جانا چاہتی.اور میں یہ وعدہ لینا چاہتی ہوں کہ آپ جب پھر تشریف لائیں تو ہمارے گھر ضرور تشریف لائیں اور اس سے کم میں مانوں گی بھی نہیں.چنانچہ میں نے ان سے وعدہ کیا.یہ خدا.کے فرشتے ہیں، جو تحر یک کرتے چلے جارہے ہیں.ہر طرف سے نئے نئے رستے کھل رہے ہیں.اب سوئٹزر لینڈ تو بڑی خشک جگہ مجھی جاتی ہے.ہمارے چانن صاحب آئے ہوئے ہیں، ان کو پتہ ہے کہ کتنی خشک جگہ ہے.وہ مجھے اس سے پہلے بھی یہ لکھ چکے تھے کہ کیوں پیسے ضائع کر رہے ہو، سوئٹزرلینڈ میں؟ یہاں کوئی شخص اثر قبول نہیں کر سکتا.مگر خدا نے ان کے دیکھتے ہی، وہ موجود رہے سارا عرصہ، اپنے فضل سے ایسے شاندار نتائج پیدا کئے اور وہیں سوئٹزر لینڈ کے ایک نہایت مخلص میاں بیوی، جو مسلمان ہو چکے تھے ، وہ احمدی ہو گئے.وہ یہاں بھی تشریف لائے ہوئے ہیں.میرے ساتھ وہاں سفر میں بھی شامل ہوئے.اور عظیم الشان پاکیزہ روحانی تبدیلی ان کے اندر پیدا ہورہی ہے.اس لئے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے.یہ جوفتوی دینے میں جلدی کرتے ہیں کہ زمین سخت ہے ، لوگ گندے ہیں، قبول نہیں کریں گے، یہ جائز نہیں ہے.قرآن فرماتا ہے کہ ایسے پتھر ہیں، جن سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں.اس سے یہی مراد ہے کہ تمہیں وہ پتھر نظر آتے ہیں لیکن تمہیں کیا پتہ کہ خدا کی تقدیر ان کے دلوں سے رحمت کے چشمے بہارے.اس لئے داعی الی اللہ کو اپنے عزم اور حو صلے کو ہمیشہ بلند رکھنا چاہئے.( مطبوع ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید ستمبر 1987 ء) 677

Page 687

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء قسط نمبر 06 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم حضور نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.”میرے دورے کے علاوہ مرکزی دورہ جات کے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی عظیم الشان نتائج پیدا ہوئے ہیں.اور خدا تعالیٰ نے ان سب نمائندوں کی جو حضرت بانی سلسلہ کے نمائندے ہیں ، ان کی بھی اسی طرح تائید فرمائی ہے.ان کامیاب دوروں کا خلاصہ یہ ہے کہ چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ کو امریکہ، انڈونیشیا، سنگا پور اور برما کے دورے کی توفیق ملی.مبارک احمد ساقی ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن کو ناروے، ڈنمارک، سویڈن، نائیجیریا، غانا، زائرے، آئیوری کوسٹ اور لائبیریا کے دورے کی توفیق ملی.شجر احمد فاروقی مرکزی آڈیٹر کو امریکہ، کینیڈا، مغربی جرمنی، ہالینڈ ، سوئٹزرلینڈ، بیلجیئم فرانس کے دورے کی توفیق ملی.عطاء اللہ صاحب کلیم کو سورینام، گیانا، ٹرینیڈاڈ محمود احمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ کو ہالینڈ ، مغربی جرمنی، امریکہ.اسی طرح حافظ مظفر احمد صاحب، مبشر احمد کاہلوں صاحب، سلطان محمود صاحب انور، مرزا غلام احمد صاحب، عبد الوہاب آدم، مولوی محمد عمر صاحب مربی مدراس، خدا کے فضل سے ان کو اور چوہدری انور حسین صاحب، منیر الدین شمس، جلال شمس اور ملک محمود مجید کو بھی موقع ملا، بنگلہ دیش جانے کا.بشیر الدین صاحب، مشتاق احمد شائق، چوہدری شبیر احمد صاحب، سردارنذیر احمد آرکیٹیکٹ ، عبدالرشید آرکیٹیکٹ ان سب کو اللہ تعالٰی کے فضل سے مرکز کی نمائندگی میں مختلف ممالک کے دورے کر کے مختلف خدمات کی توفیق عطا ہوئی.اب میں رپورٹ کے سب سے زیادہ اہم اور قابل قدر حصے کی طرف آتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سال جماعت احمدیہ کو قرآن کریم کی خدمت کی جو توفیق بخشی ہے، یہ ایک غیر معمولی اور تاریخی خدمت ہے.جس کی کوئی مثال دنیا میں آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گی.جب میں یہ کہہ رہا ہوں ، کوئی یہ نہ سمجھے کہ مبالغہ ہے.میں ابھی وہ کوائف آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، جو تر جمہ قرآن کریم کے سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو خدمت کی توفیق بخشی ہے.آپ جانتے ہیں پاکستان سے میرے یہاں آنے تک یعنی علماء کی شدید مخالفت کے دور سے پہلے گذشتہ 90 سال کی تاریخ میں جماعت احمدیہ کو دس زبانوں میں ترجمے شائع کرنے کی توفیق ملی تھی.یہ اردو کے علاوہ ہیں.انگریزی ، یوگنڈا، گورکھی ، ڈینش، سواحیلی، جرمن، ڈچ، یوروبا، انڈونیشین، اسپرانٹو.اس کے بعد سے اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتالین اور فرنچ اور محبین اور ہندی تراجم قرآن طبع ہو چکے ہیں.دو پچھلے سال طبع ہوئے تھے ، دو اس سال طبع 678

Page 688

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء ہوئے ہیں.اس وقت رشین قرآن کریم پریس میں موجود ہے اور عنقریب چند دنوں تک اس کی طباعت مکمل ہونے والی ہے.سپینش ترجمے کی کمپوزنگ شروع ہو چکی ہے.مزید دس تراجم قرآن کریم بھی طباعت کے لئے تیار ہیں اور ان پر نظر ثانی وغیرہ کا آخری کام ہو رہا ہے.جس کے بعد وہ پریس میں چلے جائیں گے.ان کے علاوہ بائیں نئی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ ہو رہا ہے، جو مختلف مراحل پر ہے.اس کے علاوہ سر یوکریٹ اور یونانی زبان میں بھی کام کا پروگرام تھا مگر ابھی تک ان کے مترجم نہیں ملے.یہ بھی انشاء اللہ تعالی مل جائیں گے تو ان کو شامل کر کے آئندہ سال کے اختتام سے پہلے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم 50 زبانوں میں قرآن کریم کے پورے تراجم شائع کرنے کی توفیق پائیں گے.جو غیر مطبوعہ تراجم قرآن مکمل ہیں، ان کی فہرست یہ ہے.سویڈش، سانٹو ، ہاؤسا، البانین، کورین، اڑیا، کیکویو کیکمبا، بنگلہ، پرتگالی.جوزیر ترجمہ ہیں، وہ بائیس ہیں.مینڈے، آسامی، سندھی، ، پولش، جاپانی، ٹرکش ، چینی ، کنڑی، ملیالم، تامل، گجراتی، ویت نامی، نارویجین ، مراٹھی، تلگو، پشتو اور غور ملائی، توالو، فارسی ، چیک (چیکوسلواکیہ کی زبان) سرائیکی، سر بوکریٹ، اس زبان کے ایک عالم حال ہی میں ملے ہیں اور وہ یہاں سے وعدہ بھی کر کے گئے تھے کہ ترجمہ کریں گے.ان کی رپورٹ نہیں آئی لیکن امید ہے کہ ترجمہ شروع ہو چکا ہوگا.یونانی زبان میں ہمیں ابھی تک مترجم نہیں مل سکا.یہ مشکل پڑ رہی ہے کہ یہاں آرتھوڈوکس چرچ سے تعلق رکھنے والے بہت متعصب ہیں اور جو انگریزی اور یونانی جانتے بھی ہیں، جب ان کو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ کروانا ہے تو صاف انکار کر دیتے ہیں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کا بھی کوئی سامان پیدا فرمائے.اس ضمن میں، میں آپ کو ایک اور بات سے مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کے تراجم کے ساتھ ساتھ ہی میں نے تحریک کی تھی کہ جن دوستوں کو خدا توفیق بخشتا ہے کہ وہ قرآن کریم کا پورا تر جمہ خود شائع کرائیں یا جن خاندانوں کو یہ توفیق بخشتا ہے، وہ اپنے نام پیش کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ، آج تک جن احباب نے بعض زبانوں میں قرآن کریم شائع کرانے کے سلسلہ میں اپنے نام پیش کر دیئے ہیں، ان کی فہرست میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ ان کے لئے خصوصیت سے دعا کی تحریک پیدا ہو.یاد رکھیں کہ ایک ترجمہ قرآن کے شائع کرنے کے لئے بھیس سے پینتیس ہزار پاؤنڈ تک درکار ہوتے ہیں.اور مقصد یہ ہے کہ جب ایک دفعہ قرآن کریم شائع ہو کر مارکیٹ میں جگہ پا جائے اور اس کی اشاعت کا خرج واپس آجائے تو ان خاندانوں یا ان ناموں کی طرف سے 679

Page 689

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم صدقہ جاریہ کے طور پر اس واپس آئی ہوئی رقم کو دوبارہ کسی اور ترجمہ قرآن پر لگایا جائے گا.اس لئے جو پچاس کا پروگرام ہے، ان سب کے لئے ہمیں ایک ایک فردیا ایک ایک خاندان یا ایک ایک جماعت کی ضرورت ہے.فریج ترجمہ قرآن کے لئے ہمارے امریکہ کے ایک مخلص احمدی دوست ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب کو توفیق ہوئی.اٹالین کے لئے ان کے خسر ، ویسے یہ اس طرح تو نہیں کہنا چاہیے، حمید الرحمن صاحب، ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے داماد ہیں ، یہ کہنا زیادہ مناسب ہے.لیکن چونکہ وہ قرآن کی وجہ سے عزت پاگئے تھے، اس لئے میں نے کہا کہ ان کے خسر.ورنہ یہ مراد نہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو ان کے تعارف سے پہچانا جائے.بہر حال ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو اٹالین زبان میں قرآن کریم کے ترجمے کا خرچ پیش کرنے کی سعادت عطا ہوئی.مکرم چوہدری شاہنواز کورشین قرآن کریم کا خرچ پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.جماعت احمدیہ لیبیا نے سپینش زبان کا خرچ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.البانین کا ترجمہ ہمارے کینیڈا کے ایک مخلص دوست مکرم عیسی جان صاحب کے واقف زندگی بیٹے کر رہے ہیں.ان کے بھائی دانیال خان نے یہ پیشکش کی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے کئے ہوئے البانین زبان کے ترجمے کا سارا خرچ پیش کریں گے.فارسی کے متعلق جماعت ایران نے وعدہ کیا ہے کہ ہم کریں گے.جاپانی کے متعلق چوہدری شاہنواز صاحب کے بچوں نے اپنے باپ کے علاوہ یہ پیش کش کی ہے.اور اس سلسلہ میں بہت سی رقم بھی جمع کروا چکے ہیں.کورین زبان کے لئے جماعت احمد یہ ابوظہبی نے پیشکش کی ہے.یونانی زبان کے لئے ڈاکٹر عزیز الرحمن صاحب نے.ویت نامی زبان کے لئے مکرم منور احمد صاحب امریکہ.ہندی زبان ہندوستان کی تمام جماعتیں مل کر.ہاؤ سا زبان نائیجیریا کی تمام جماعتیں مل کر.سندھی کے لئے سندھ کی جماعتیں.بنگلہ زبان مکرم محمد امین صاحب بنگلہ دیش اکیلے نحین زبان میں طبع ہو چکا ہے، یہ اس فہرست سے نکل گیا ہے.اور غور کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ ایک بہت ہی اہم زبان ہے.اور یہ چین کے بھی مسلمان علاقے میں بولی جاتی ہے اور اس کے ساتھ سرحد کے پر لی طرف روس کے مسلمان علاقے میں بھی بولی جاتی ہے.” اور غور قوم اس لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اشتراکیت کے باوجود ان کا خاندانی نظام متاثر نہیں ہوا اور انہوں نے اپنی روایات کی حفاظت کی ہے اور اسلام سے محبت رکھتے ہیں.اور غور کے متعلق جب میں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے بات کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس قوم میں داخلے کے رستے پیدا کر دیئے ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ”اور غور کے ترجمہ کی طباعت کا خرچ بھی، اٹالین کے علاوہ وہ خود ہی دینے کی 680

Page 690

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد هفتم خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء اجازت چاہتے ہیں.چنانچہ میں نے اسی وقت شکریہ کے ساتھ ان کی یہ پیش کش قبول کر لی.یہ سولہ ایسے تراجم ہیں، جن کے اخراجات بعض احمدی دوستوں، جماعتوں یا خاندانوں کے سپرد ہو چکے ہیں.گزشتہ سال میں نے بھی اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میں اپنے والد مرحوم حضرت فضل عمر کی طرف سے اور اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے ایک قرآن کریم کا خرچ پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں.مشکل یہ پڑی کہ اہم زبانیں نکلتی جارہی تھیں اور مجھے گھبراہٹ شروع ہوگئی کہ یہ نہ ہو کہ بڑی بڑی زبانیں ساری نکل جائیں.اس سال خدا نے یہ توفیق عطا فرما دی ہے اور چینی زبان کا قرآن کریم کا ترجمہ انشاء اللہ حضرت فضل عمر اور میری والدہ محترمہ کی طرف سے شائع کرنے کے لئے خرچ میں جماعت احمدیہ کو پیش کر رہا ہوں.اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ بیان کرنے کے لائق ہے اور اسی لئے میں نے یہ تمہید بیان کی ہے.جب میں نے یہ فیصلہ کیا، اس وقت میرے ذہن میں یہ بات نہیں تھی.مگر اس کے دوسرے ہی دن عثمان چینی صاحب نے حضرت بانی سلسلہ کا یہ اقتباس میرے سامنے رکھا اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں آپ بے اختیار تھے، یہ زبان آپ ہی کے حصے میں آئی تھی.اور یہ زبان حضرت فضل عمر اور آپ کے خاندان ہی کی طرف سے شائع ہونے والی زبان تھی.کیونکہ حضرت بانی سلسلہ حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں:.مگر یہ تو یقینی اور مشہود و محسوس ہے کہ اکثر مائیں اور دادیاں ہماری مغلیہ وو خاندان سے ہیں اور وہ صینی الاصل ہیں، یعنی چین کی رہنے والی“.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 209 حاشیہ) تو ماؤں کی طرف سے ہمارا چین سے تعلق تھا.اور حضرت بانی سلسلہ چونکہ اس قوم میں سے پیدا ہوئے تھے، اس لئے خدا تعالیٰ کی تقدیر نے شاید یہی پسند فرمایا.میں یہی حسن ظن رکھتا ہوں کہ آپ ہی کے خاندان کو یہ توفیق ملے کہ چین کی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کر کے ان کے سامنے پیش کیا جائے.مندرجہ ذیل زبانوں کے لئے ابھی تک کوئی وعدہ موصول نہیں ہوا.اگر کوئی خاندان یا کوئی افراد، خدا کے فضل سے توفیق پائیں یا بعض جماعتیں، تو ان کے لئے دعوت عام ہے.یہ زبانیں ہیں.اڑیا، ٹرکش، نارو بچین ، فانی، پشتو، پوش، تامل، ملائی تو الو، چیک، ہینڈے، کنڑی، گجراتی ، پرتگالی سویڈش اور آسامی“.حضور کا خطاب جاری تھا کہ بیچ میں حضور نے یہ اعلان فرمایا کہ وو چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے یہ پیغام ملا ہے کہ وہ کراچی کی جماعت کی طرف سے گجراتی زبان میں ترجمہ قرآن کریم کا خرچ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا 681

Page 691

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم چاہتے ہیں.اسی طرح امریکہ سے ڈاکٹر انوار احمد صاحب، جو مولانا شمس الدین خان صاحب کے صاحبزادے ہیں، جو ہمارے پرانے امیر جماعت ہوا کرتے تھے وہاں کے، انہوں نے پشتو زبان کے ترجمہ قرآن کریم کا خرچ برداشت کرنے کی پیش کش کی ہے.اب میں آپ کو اس سکیم کے اس حصے کے متعلق بتاتا ہوں، جس کا تعارف میں پچھلے سال کروا چکا ہوں کہ ہمارا یہ پروگرام ہے کہ سو سالہ جو بلی کا جشن اس رنگ میں منایا جائے کہ ہم کم سے کم ایک سو زبانوں میں قرآن کریم کے اگر پورے تراجم پیش نہیں کر سکتے تو منتخبہ آیات کے تراجم کر کے وہ پیش کر دیں.اور جب ہم نے اس کا جائزہ لیا تو ایک سو، آٹھ یا نو زبانوں کا پروگرام بن گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک ان میں سے 94 زبانوں کے ترجمے مکمل ہو کر ہمارے پاس آچکے ہیں.اور کچھ ان میں سے ہمارے اس پریس میں طبع ہو رہے ہیں، جس کو لگانے کی جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے.یہ ایک لمبی فہرست ہے، چورانوے نام پڑھنا ملک کے، دلیس دیس کے، اس لئے میں اس کو چھوڑتا ہوں.لیکن میں آپ کو یہ بتا تا ہوں کہ آپ بے شک جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ گزشتہ چودہ سو سالوں میں اتنی عظیم الشان مسلمان حکومتیں آئیں، اتنے امیر لوگ پیدا ہوئے، اتنی خدمت اسلام کے دعوی کرنے والے اٹھے لیکن گزشتہ چودہ سو سال میں ان کو سو زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم دنیا کے سامنے پیش کرنے کی توفیق نہیں مل سکی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے گزشتہ ایک سال میں جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا فرما دی ہے کہ اب تک 94 زبانوں میں ہم نمونے کے یہ تراجم مکمل کر چکے ہیں.جو قرآن کریم کا تقریبا بیسواں حصہ بنتے ہیں.نعرہ ہائے تکبیر ) اور ان آیات کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت محنت کی گئی ہے.بڑی دلچسپی اور گہرے مطالعہ کے بعد مختلف قوموں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے، ایسی آیات کا انتخاب کیا گیا ہے کہ ایک آدمی جو قرآن کریم سے یا اسلام سے بالکل نا واقف بھی نہ ہو، اس کو بھی دین حق کا پیغام قرآن کریم کی زبان میں نہایت احسن رنگ میں سیر حاصل طور پر پہنچ جائے.اور بڑے بڑے فلسفیانہ مضمون بھی اس کے اندر آجائیں اور عام سادہ مزاجوں میں اٹھنے والے سوال بھی قرآن ہی کی زبان میں حل کئے جائیں.اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنا اچھا اثر پیدا ہوا ہے کہ مترجمین نے بے ساختہ قرآن کریم کی مدح میں گیت گانے شروع کر دیئے ہیں.اور ایسے مترجمین ہیں، جن کے متعلق پہلے آپ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے.مثلاً ویلش زبان ہے.ویلز میں اس وقت تک باہر سے گئی ہوئی جماعت قائم ہے.مقامی باشندہ کوئی نہیں.لیکن سپین ویلی میں ہمارے ایک مخلص دوست ہیں، جو د میلز سے تعلق رکھنے والے ہیں.682

Page 692

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء ان کا نام نعمان ہے.جو پچھلے سال یا دو سال پہلے خدا کے فضل سے احمدیت میں داخل ہوئے تھے.ان کے ذریعے ایک قابل پروفیسر سے رابطہ قائم کیا گیا کہ وہ ویلش زبان میں ان منتخبہ آیات کا ترجمہ کریں.وہ ترجمہ کرنے کی غرض سے تیار ہوئے.ان سے بات طے ہو گئی.انہوں نے ترجمہ کرنے کی غرض سے ، قرآن کریم میز پر رکھا ہوا تھا کہ ان کے والد جو ایک بہت بڑے مذہبی آدمی ہیں اور اپنے پروفیسر بیٹے سے زبان اور علم کے لحاظ سے بہت زیادہ قابل ہیں، ان کی نظر پڑی.انہوں نے کہا: یہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اس طرح بات ہے.وہ انگریزی زبان کا ترجمہ قرآن کریم تھا، ان کو انگریزی بہت اچھی آتی تھی.چنانچہ انہوں نے کھڑے کھڑے اٹھا کر پڑھنا شروع کیا اور پڑھنے کے بعد کہا.یہ بہت عظیم کتاب ہے.اور میرے ہوتے ہوئے تم ترجمہ کرو یہ نہیں ہو سکتا.باپ کا پہلا حق ہے، اس لئے ترجمہ میں کروں گا.ترجمہ جب انہوں نے کیا تو ہمارے احمدی دوست نعمان صاحب نے ( نیومین ان کا پہلے نام تھا) ان سے فون پر بات کی.اور بعد میں انہوں نے بتایا کہ میں نے ان سے پوچھا کہ ترجمہ کتنا ہوا ہے اور کیسا ہوا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ ان کی آواز جذبات سے مغلوب ہو گئی.اور فون پر پتہ لگ رہا تھا کہ وہ اور ہے ہیں اور انہوں نے کہا: ٹھہرو! ٹھہرو! میں تمہیں اس عظیم کتاب سے کچھ اقتباسات، جو میں نے ترجمہ کیا ہے، اپنی زبان میں خود سنانا چاہتا ہوں اور جب وہ ترجمہ سنارہے تھے تو ساتھ ساتھ ان کی آوازوں سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ روتے جارہے ہیں.اسی طرح دوسری زبانوں میں جو یورپین زبانیں ہیں، ان میں بھی ہم نے محسوس کیا کہ جب کسی کو آمادہ کیا گیا تو تھوڑی دیر کے اندر ہی اس کی کیفیت بدل گئی.اور جب دوبارہ اس سے رپورٹ لینے کے لئے ہمارا نمائندہ گیا تو اس نے کہا کہ میں تو بہت ہی متاثر ہوا ہوں ، عظیم الشان کتاب ہے اور عظیم الشان انتخاب بھی ہے کہ ہمیں ہر مسئلے پر دین حق کے متعلق آگاہ کر رہا ہے.ایک یورپین نے جو لیتھونگن دوست ہیں، ان کو ترجمے کے لئے آمادہ کیا گیا تو جب انہوں نے قرآن کریم پڑھا تو وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے کہا کہ میں اس کام کا کوئی معاوضہ لینے کے لئے تیار نہیں.چنانچہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بغیر معاوضہ کے ترجمہ کر رہے ہیں.حضور نے حاضرین جلسہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:.” آپ میں سے اکثر یہ پریس تو دیکھ ہی چکے ہوں گے.خدا کے فضل سے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا ایک پرنٹنگ پریس تیار ہو چکا ہے.اور اس نے خدا کے فضل سے کام شروع کر دیا ہے.یہ ابھی پوری طرح مکمل نہیں ہوا.ساری مشینری ابھی نہیں لگی.جب لگے گی تو دنیا کی اکثر بڑی بڑی زبانوں کے لٹریچر کی 683

Page 693

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم طباعت ہم یہیں سے کر سکیں گے، انشاء اللہ.ہمرا جو کمپیوٹر ہے، وہ بہت ہی جدید کمپیوٹر ہے اور اس سے طباعت کے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کی تیاری ہوتی ہے.اس مرحلے پر حضور نے حاضرین جلسہ کو اس پریس میں چھپی ہوئی چند کتب ہاتھ میں بلند کر کے دکھائیں اور فرمایا:.گزشتہ چند دنوں میں اس پر لیس نے کام شروع کیا ہے.اس سے پہلے کوئی نہ کوئی رکاوٹ پڑتی رہتی تھی.تو چند دنوں میں ہم نے جو کتب شائع کی ہیں، ان میں ایک یہ کتاب REVIVAL OF RELIGION (مذہب کا احیاء)، یہ میرا یونیورسٹی آف کینبرا ( آسٹریلیا) میں جو لیکچر تھا، اسے شائع کیا گیا ہے.ایک ہے، DISTINCTIVE FEATURES OF ISLAM (اسلام کی خاص خاص باتیں) یہ بھی مشرق بعید کے دورے کے دوران کا ایک لیکچر تھا، یہ بھی شائع ہو گیا ہے.اور دیکھیں کیسا خوبصورت شائع ہوا ہے.اس کے علاوہ اٹالین زبان میں ایک پی ایچ ڈی پروفیسر نے ، جو احمدیت میں دلچسپی لیتے ہیں، بڑے اچھے انداز میں احمدیت کے بارے میں لکھا ہے.اور میر امذ ہب یہ بشیر احمد صاحب رفیق کی کتاب ہے اور اس میں نو احمدیوں اور بچوں کے لئے سوال و جواب کی شکل میں دین کا تعارف کرایا گیا ہے.اور مردے یہ ترکی زبان میں احمدیت کا تعارف کرایا گیا ہے.مردہ " کا مطلب آپ جانتے ہیں، خوشخبری، نوید مسرت.ترکی میں بھی یہ لفظ قریباً اسی طرح ہے.یہ ہمارے ڈاکٹر نٹس صاحب کی کتاب ہے.اور اسی طرح بعض دیگر کتب شائع ہوئی ہیں.اس مرحلے پر حضور نے اپنے عملے سے دریافت فرمایا کہ اس پریس سے قرآن شریف بھی شائع ہوا ہے ، وہ کہاں ہے؟“ اس پر حضور کی خدمت میں قرآن کریم کا ایک حصہ پیش کیا گیا، جو اس پریس میں طبع ہوا ہے.حضور نے اس کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا:.’ وہ جو سو سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کے اقتباسات شائع کرنے کا منصوبہ ہے، ان میں سے رشین اور سپینش زبانوں میں قرآن کریم کے یہ اقتباسات اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پریس سے شائع ہو چکے ہیں اور اس کے متعلق میں آپ کو ایک اہم بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سکیم کیا ہے.سکیم یہ ہے کہ جو بلی کے سال، عام دنیاوی قوموں کی طرح ہم نے جشن منانا نہیں ، اپنے جشن کو نیکیوں اور خیرات سے بھر دیں.اور سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ دنیا کی تمام اہم زبانوں میں، تمام دنیا میں 684

Page 694

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء قرآن کریم کی محبت پیدا کر دیں.چنانچہ یہ اقتباسات جو چنے گئے ہیں، اسی مقصد کو سامنے رکھ کر چنے گئے ہیں.اور خیال یہ ہے کہ اس سال قرآن کریم کا یہ نمونہ ہم ساری دنیا میں مفت شائع کریں گے.اس پر اتنا بڑا خرچ اٹھنا تھا.جو اندازہ ہم نے لگایا کہ ناممکن تھا کہ اپنے پریس کے بغیر ہم یہ کام کر سکیں.اس لئے خدا کے فضل سے یہ پریس تین سال قبل آپ کی عظیم الشان قربانی کی نتیجے میں ہمیں عطا ہوا ہے.یہ پریس عین وقت پر ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا ہے.اور اس سکیم کے ساتھ عین مطابقت پا گیا ہے.اور اللہ کے فضل سے اب ہمیں یہ توفیق حاصل ہے کہ صرف یہی نہیں بلکہ سوز بانوں سے زائد زبانوں میں ، جن میں ہم قرآن کریم کے نمونے پیش کریں گے، احادیث نبویہ کے تراجم بھی کرا کر یہ بھی سب دنیا میں شائع کریں گے.اور مفت تقسیم کریں گے.اور حضرت بانی سلسلہ کی کتب و تحریرات میں سے اقتباسات، جو آپ کے مقصد سے تعلق رکھنے والے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کلام ہے، قرآن کریم کی تعریف میں کلام ہے، انسانیت سے متعلق اور اخلاقی تعلیم ہے، اللہ تعالیٰ کے عشق کے گیت گائے گئے ہیں، اس قسم کے موضوعات اور بعض دیگر مسائل پر مشتمل موضوعات میں سے اقتباسات آج کل ہم چن رہے ہیں.اور احادیث کا انتخاب مکمل ہو چکا ہے، اس میں ترجمہ بھی ہورہا ہے.اور امید ہے کہ انشاء اللہ اس سال کے اخیر تک یا اگلے سال کے شروع کے تین مہینے کے اندر اندر ہم یہ کام بھی مکمل کرلیں گے.چنانچہ صد سالہ جو بلی کا سال اس طرح شروع ہوگا کہ جماعت احمد یہ اس بات کے لئے تیار ہوگی کہ دنیا کہ سینکڑوں ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سو سے زیادہ زبانوں میں ہم قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور حضرت بانی سلسلہ کے الفاظ میں تعلیمات احمدیت پیش کرنے کے اہل ہوں گے.یہ پھل بھی میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ پاکستان کی قربانیوں سے تعلق رکھتا ہے.اس کی جڑیں وہاں ہیں.آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اگر میں وہیں رہتا، اس عرصہ میں تو یہ کام ہونا مشکل نہیں نا ممکن تھا.کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ یہ کام اس طرح ہو سکے.بلکہ گزشتہ سال جب اس ارادے کا میں نے ذکر کیا تو بہت سے صاحب تجربہ ، صاحب علم مخلص احمدیوں نے کہا کہ وقت ہی نہیں ہے، یہ ہو ہی نہیں سکتا.لیکن خدا تعالیٰ نے ایسے راستے یہاں پیدا کئے ہیں کہ خدا کے فرشتے خود لوگوں کو کھینچ کر لاتے رہے ہیں.اور ہم وہم و گمان بھی جن رابطوں کا نہیں کر سکتے تھے ، خدا نے وہ رابطے قائم فرما دیئے ہیں.وہاں تو سال بھر ایک دو زبانوں کے لئے اگر اچھے مترجم ہم تلاش کرتے رہتے تو خط و کتابت میں ہی یہ وقت لگ جانا تھا.یہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ فائدہ حاصل ہے کہ دنیا کی مختلف قوموں کے لوگ، نمائندے، مختلف 685

Page 695

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم وقتوں سے یہاں آباد ہیں.اور مختلف زبانوں کے ماہرین ہیں، بڑے بڑے قابل لوگ ہیں، جو ان کی یو نیورسٹیوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں یا اپنے طور پر یہاں آئے ہوئے ہیں.تو خدا تعالیٰ نے بہت سی ضرورتوں کا حل یہیں سے پیدا کر دیا.اور جو باقی تھیں، وہ ان سے تعلق کے نتیجے میں اس طرح پوری ہوئیں کہ اگر ایک چیکوسلو یکین سے دوستی ہوئی تو اس نے کہا کہ رومانیہ کا یہاں کوئی آدمی نہیں ، یہ میرے ذمے لگائیں، میں رومانیہ کے ایک پروفیسر کو جانتا ہوں، میں وہاں جاؤں گا ، اس سے رابطہ پیدا کروں گا.اس کو عربی بھی آتی ہے، انگریزی بھی آتی ہے، آپ کے لئے میں اس کو تیار کر دوں گا.حتی کہ وہ گیا اور اس آدمی کو تیار کر دیا.اس طرح ایک سے دوسرے کی طرف راہنمائی بھی ہوتی رہی اور مددبھی ملتی رہی.اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر پاکستان کے یہ واقعات مجھے یہاں آنے پر مجبور نہ کر دیتے تو دس سال میں بھی خدمت قرآن کا یہ کام نہیں ہو سکتا تھا، جو خدا کے فضل سے گزشتہ ایک سال میں ہو گیا.پس اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے، وہ دکھوں میں سے سکھ نکالنا جانتا ہے.وہ گندگی میں سے پاکیزہ روئیدگی کو نکالنا جانتا ہے.وہ جانتا ہے کہ کس طرح دکھوں کی کوکھ سے خوشیوں کے بچے پیدا کئے جاسکتے ہیں.پس حضرت مصلح موعود کا یہ شعر مجھے یاد آتا ہے کہ تم دیکھو گے کہ انہی سے قطرات محبت نیکیں گے بادل آفات و مصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو آپ کی قربانیوں کے دکھ میں ہم شریک ہیں، اس لئے آپ کا حق ہے کہ ان خوشیوں میں آپ شریک ہوں.جو اول آپ کا حق ہے.کیونکہ براہ راست آپ کی کامیابیوں میں ان کا پیوند ہے.آپ کی قربانیوں میں ان کا پیوند ہے.اور ان کی جڑیں انہی قربانیوں میں پیوست ہیں.اگر چہ شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور پھل اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے آسمان سے عطا ہو رہا ہے.قسط نمبر 07 حضور نے خطاب جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا:.مطبوع ضمیمہ ماہنامہ خالدا کتوبر 1987ء) اب پریس اینڈ پبلیکیشن سیل کے کام کی بہت بڑی تفصیل ہے.اب میں یہ ساری تفصیل بڑی آپ کے سامنے پیش کرنا شروع کر دوں تو بڑی مدت لگ جائے گی.اس لئے میں صرف مختصر خلاصہ آپ کے سامنے یہ بات رکھنا چاہتا ہوں“.686

Page 696

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد مف خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وکالت اشاعت جو کام کر رہی ہے، اس کی بڑی دیر سے ضرورت تھی.ہم کتابیں عموماً شائع کر دیا کرتے تھے اور پھر مارکیٹ نہ ہونے کہ وجہ سے دور حجانات ہوتے تھے.جو پسندیدہ نہیں تھے، ایک تو یہ کہ غیروں میں ہمارا دینی لٹریچر اور اہم علمی لٹریچر پوری طرح پہنچتا ہی نہیں تھا کیونکہ مارکیٹ کا جو اصل اصول ہے، اس کے مطابق کام نہیں ہور ہا تھا.دوسرے یہ کہ جب کتاب نہیں بکتی تھی اور امام وقت مطالبہ کرتا تھا محکمے سے کہ اس کی رقم کی واپسی کب ہوگی؟ بتاؤ کیا کرنا ہے؟ تو احمد یوں کے اخلاص کے پاس وہ کتاب بیچتا تھا.ان کو ضرورت ہو یا نہ ، وہ کہتا تھا کہ امام وقت کہتے ہیں کہ کتاب جلد بکنی چاہئے ، اس لئے فلاں جماعت اتنی خرید لے اور فلاں جماعت اتنی خرید لے.اور وہاں جا کر پھر وہ DUMP ہو جاتی تھی.یہ درست طریق نہیں تھا.عملاً اشاعت کے کچھ اصول ہیں، دنیا ان پر چل رہی ہے.کروڑہا کی تعداد میں کتابیں شائع ہوتی ہیں، ہر مہینے ہی.بلکہ شاید ہر ہفتے کروڑہا کتابیں شائع ہوتی ہیں.بعید نہیں کہ ایک دن میں کروڑہا کتا بیں شائع ہوتی ہوں.ان کی اشاعت آخر ہو رہی ہے.چنانچہ ان کا جب ہم نے تفصیل سے جائزہ لیا، کمپنیوں سے رابطے پیدا کئے.بعض بنیادی باتوں کا ہمیں علم ہی نہیں تھا، وہ ہمیں معلوم ہوئیں.اشاعت کے نمبر لینے چاہئیں، لائبریریوں کا ممبر بننا چاہئے اور کئی قسم کے ذرائع تھے، جو اختیار کرنے چاہئے تھے.چنانچہ مولوی منیر الدین صاحب شمس صاحب کو میں نے وکالت اشاعت کا کام سپرد کیا اور ان کو سمجھایا اور اللہ کے فضل سے انہوں نے بڑی عقل کے ساتھ بڑے رابطے پیدا ، کئے.اور یہ جور پورٹ ہے، یہ ساری ان کے کام کی رپورٹ ہے.اس کا میں نمونہ آپ کو بتاتا ہوں.گزشتہ دوسالوں میں وکالت اشاعت کی طرف سے ایک کروڑ ، پچیس لاکھ 87 ہزار روپے کا لٹریچر فروخت ہو چکا ہے اور ابھی بہت سی کمی باقی ہے.ابھی ہمارے جو رابطے ہیں، جس رنگ میں ، میں چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ ہم مارکیٹ کے اصولوں کے مطابق دنیا میں داخل ہو جائیں.جب یہ کام ہو جائے گا تو انشاء اللہ جماعت احمدیہ کی کتابیں بھی لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں شائع ہونا شروع ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے لئے نئے نئے رابطے بھی پیدا کرتا چلا جار ہا ہے.ہمارے چار، پانچ ڈیسک ہیں، جو خصوصی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے مقرر ہیں.ان میں ایک چائنیز ڈیسک ( چینی زبان کا شعبہ ) ہے، اس میں ہمارے عثمان چینی صاحب کام کر رہے ہیں.تراجم کے علاوہ چینیوں سے رابطہ، جو چین کے علاوہ ملکوں میں بستے ہیں اور ان میں نفوذ کے نئے نئے رستے اور 687

Page 697

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم چین سے رابطہ اور چین تک دین حق کا پیغام پہنچانے کے رستوں کی تلاش.یہ کام اس ڈیسک کے سپرد ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عظیم الشان رستہ کھلا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمیں جو بھی چینی لٹریچر شائع کرنے کی توفیق ملے گی، ہم عنقریب اسے چین میں بھی پہنچانے کی توفیق پائیں گے.رشین ڈیسک: اس میں رشین (روسی) زبان کے متعلق کام سپرد ہیں.یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی راستے خدا نے خود کھولے ہیں.ایسی باتیں ، جن کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں تھا، وہ آسمان سے خود بخود جماعت کی تائید میں اتری ہیں.اور جن عظیم ملکوں میں پہلے ہم بالکل بے خبر رہنے کی وجہ سے تعارف پیدا نہیں کر سکے تھے، اب وہاں متعارف ہورہے ہیں.صحیح لوگوں سے رابطہ ہورہا ہے.ان کی طرف سے بڑا اچھا جواب مل رہا ہے.اور وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جو دنیا سے چھپائی جائے.بڑی کھلی کھلی بات ہے.کوئی مخفی بات نہیں ہے.چنانچہ گزشتہ دنوں یہاں جو ایک سیمینار کا بہت بڑا پروگرام یونیورسٹی آف لنڈن میں ہوا، اس میں بڑے بڑے رہنما دنیا سے آئے ہوئے تھے.مختلف موضوعات پر خطاب کرنے کے لئے ان میں رشیا (روس) سے تعلق رکھنے والے غیر مذہبی لیڈر بھی اور مذہبی لیڈر بھی، مسلمان بھی، دیگر غیر مذہبی اور مذہبی لیڈر بھی آئے ہوئے تھے.اور خدا کے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ انہوں نے ہماری دعوت قبول فرمائی.ہمارے پاس آکر بیٹھے گھنٹوں باتیں کیں اور یہ ارادہ لے کر اٹھے کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر کی اشاعت میں اور دوسری باتوں کے معاملہ میں حکومت، جس حد تک بھی اجازت دیتی ہے، اس حد تک وہ جماعت سے تعاون کریں گے.خدا کے فضل سے ان میں سے ایک دوست تو اتنے اہم مقام پر فائز ہیں کہ ماسکو کا سب سے بڑا انسٹی ٹیوٹ، جس کا کلچر اور مذاہب سے تعلق ہے، اس کے وہ سر براہ ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دیکھتے دیکھتے ان کے دل میں احمدیت کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوا.ان کو جب پتہ لگا کہ جماعت کن عظیم مقاصد کے لئے قربانیاں دے رہی ہے اور جب یہ پتہ چلا کہ ہم تمام دنیا کی مملکتوں سے آزاد ہیں اور ایک ہی نظام ہے دنیا میں ، جو انفرادی اور ذاتی قربانیوں کے بل پر قائم ہے اور کسی دوسرے سہارے کا محتاج نہیں تو حیرت سے انہوں نے دیکھا.کیونکہ انہوں نے یہ سنا ہوا تھا کہ جماعت احمد یہ گویا کہ بعض حکومتوں کی قائم کردہ ہے اور ان کے پیسے لے کر پل رہی ہے.جب ان کو تمام باتیں دکھائی گئیں اور سمجھائی گئیں، ان کو ثبوت پیش کئے گئے تو ان کی تو بالکل کایا پلٹ گئی.انہوں نے صفائی سے کہا کہ آپ میں جو بھی رشیا کا قانون ہے، ( وہ چونکہ مسلمان نہیں، انہوں نے تو یہی کہنا تھا) رشیا کا قانون جس حد تک اجازت دیتا ہے، 688

Page 698

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء یعنی جو کچھ میرے اختیار میں ہے، میں کروں گا.یہ لفظ انہوں نے بولے تھے اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں آپ کو اس ماسکو انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے لیکچر دینے کی دعوت دوں.کیا آپ اس خواہش کو قبول کریں گے؟ میں نے کہا: الحمد للہ، مجھے اور کیا چاہئے.میری تو زندگی احمدیت کے لئے وقف ہے.میرے وجود کی اور تو کوئی قیمت اور حیثیت ہی نہیں ہے.اس لئے جہاں کہیں گے، حاضر ہوں گا.چنانچہ میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالی اس لیکچر کا بھی انتظام ہو گا اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نئے راستے بھی پیدا فرمائے گا.ٹرکش ڈیسک میں بھی بہت عمدہ کام ہو رہا ہے.ہمارے جلال شمس صاحب خدا کے فضل سے بڑا وسیع رابطہ رکھ رہے ہیں.یعنی آپ اندازہ کریں کہ پاکستان سے نکلنے سے پہلے نوے سال میں ترکوں سے اتنا رابطہ نہیں ہوا تھا.لیکن جب سے ٹرکش ڈیسک قائم ہوا ہے، اس سے زیادہ رابطہ پیدا ہو چکا ہے.اور بہت ہی اچھا رد عمل ہے.خوامخواہ یہ سمجھتے رہے کہ گویا ترک جو ہیں، وہ دلچسپی نہیں لے رہے یا حکومت سخت ہے.یہاں سے یعنی ترکی سے کثرت سے لوگ باہر کی دنیا میں نکلے ہوئے ہیں.ان سے اگر ہم رابطہ کریں علمی طور پر تو اللہ کے فضل سے وسیع عظیم الشان نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.ایک پہلو سے گزشتہ رابطہ زیادہ تھا، اس کا ذکر بھی ضروری ہے.ورنہ تحریک جدید کے کارندے کہیں گے کہ تم نے ہماری بعض باتوں پر پردہ ڈالا ہے.شروع شروع میں جب بیوت الذکر صرف جماعت احمدیہ کی تھیں.ابھی تیل دریافت نہیں ہوا تھا تو ترکی کے مزدور پیشہ لوگ اکثر ہماری بیوت الذکر آ جایا کرتے تھے.اور پورٹوں سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ ترکوں میں جماعت احمدیہ کے لئے بڑا رحجان پیدا ہو چکا ہے.حالانکہ یہ عید کی نماز پڑھتے تھے اور غائب ہو جاتے تھے.یا کبھی کوئی اتفاق سے جمعہ پڑھنے آ گیا.جب یہ تیل دریافت ہوا اور دوسری مسجدیں بنی شروع ہوئیں، تیل کی دولت سے اور جماعت کے خلاف منافرت کی مہم شروع ہوئی تو وہ سارے لوگ غائب ہو گئے.ایک بھی ان میں سے باقی نہیں بچا اور انہوں نے ہماری بیوت الذکر کی طرف منہ کرنا بند کر دیا.پس اس نئے دور میں جو کام ہوا ہے، وہ نفرتوں کا مقابلہ کر کے ان کو محبتوں میں تبدیل کرنے کا چیلنج تھا، جو قبول کیا گیا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس لحاظ سے عظیم الشان کامیابی حاصل ہوتی ہے.اور عوام الناس میں نہیں بلکہ مذہبی لیڈروں میں نفوذ ہوا ہے، اہل علم لوگوں میں نفوذ ہوا ہے.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان میں سے جو داخل ہورہے ہیں، وہ اس پیغام کو کثرت کے ساتھ اپنے زیر اثر حلقوں میں آگے پہنچائیں گے اور ابھی سے انہوں نے یہ کام شروع بھی کر دیا ہے.689

Page 699

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم عریبک ڈیسک (عربی زبان کا شعبہ ) میں بھی خدا کے فضل سے عظیم الشان خدمات سر انجام دی گئی ہیں.بہت اچھا لٹریچر، جس کی تشنگی محسوس کی گئی تھی، تیار کیا گیا.اب ہم انشاء اللہ ایک رسالہ شائع کرنے والے ہیں، جو ترکی بہ ترکی ان الزامات کا جواب دیا کرے گا ، جو رابطہ عالم اسلامی کے اخبارات کی طرف سے اور رسائل کی طرف سے جماعت پر لگائے جاتے ہیں.اور عرب دنیا میں ہر جگہ نمونہ کے طور پر ان میں سے چیدہ چیدہ لوگوں کو یہ رسالہ بھجوایا جائے گا.یہ چار ڈیسک ہیں، جن کی تفصیلی رپورٹ ہے، ان کی تفصیل میں جانے کا اب وقت نہیں رہا، اس لئے ان کو چھوڑتا ہوں.مربیان کی تعداد میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اضافہ ہوا ہے.اس وقت 43 ملکوں میں 208 مربیان کام کر رہے ہیں.جبکہ گزشتہ سال 41 ممالک میں 182 تھے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک سال میں 26 مرکزی مربیان کا اضافہ ہوا.لیکن آئندہ چونکہ یہ خطرہ تھا کہ مرکزی مربیان کی تعداد میں کمی آجائے گی کیونکہ حکومت پاکستان نے باہر سے آنے والے واقفین کا راستہ بند کر دیا اور و تعلیم حاصل بھی کر رہے ہیں، افریقہ کے بعض ممالک کے طالب علم، ان کو تعلیم مکمل کئے بغیر واپس بھجوانا شروع کر دیا.چنانچہ اس کا بھی وہی جواب دیا جانا تھا، جو قرآن کریم نے ہمیں سکھایا ہے.چنانچہ ہم نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ افریقہ کے کئی ممالک میں اور انشاء اللہ جب توفیق ملے گی تو یورپ میں بھی نئے جامعہ احمد یہ کھولے جائیں گے.دو ممالک میں اس کی داغ بیل ڈالی جاچکی ہے، ایک تیسرے ملک میں بھی کام شروع ہو چکا ہے.ابھی تو آغاز ہے، اتنے زیادہ عملے کی بھی ضرورت نہیں.لیکن عملہ بھی اللہ تعالیٰ مہیا فرمادے گا.تو امید ہے، اب انشاء اللہ ایک جامعہ نہیں رہے گا بلکہ متعدد جامعہ ساری دنیا میں پھیل جائیں گے اور سینکڑوں کی بجائے ہزاروں طالبعلم پیدا ہوں گے.آپ دیکھئے کہ یہ انسان کی بنائی ہوئی سکیم تو نہیں ہے.یہ تو خدا تعالیٰ کے فرشتے ہیں، جو سارا انتظام کر رہے ہیں.اس کی تقدیر ہے، جو دکھوں میں سے آہستہ آہستہ ظاہر ہو رہی ہے، کھلتی چلی جارہی ہے.سوسالہ جشن کے ضمن میں خدا نے یہ تحریک میرے دل میں ڈالی کہ واقفین نو کی تحریک کرو.لوگ اپنے بچے پیش کریں اور کثرت کے ساتھ مخلصین نے اس پر لبیک کہا اور عہد کئے کہ آئندہ دو سال میں ایک ہوا تو ایک، دو ہوئے تو دو.جو بھی بچے ہوں گے، وہ خدا کے ہیں.وہ آئندہ صدی میں احمدیت کا پیغام پھیلانے کے لئے وقف ہیں.ان کے لئے ایک جامعہ ہمارا کیسے کام دے سکتا ہے.وہ تو ہزارہا کی تعداد 690

Page 700

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء میں واقفین آنے والے ہیں.ان کے لئے تیاری کی ضرورت ہے.اور اگر یہ دھکا نہ لگتا تو خیال ہی نہ آتا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں نئے جامعہ قائم کئے جائیں.پس خدا کی تقدیر خود بخود کام کروا رہی ہے.نہ کسی انسان کی یہ خوبی ہے اور نہ کسی کو فخر کا حق ہے.اس لئے کوئی غلط نہیں اپنے اندر پیدا نہ ہونے دیں.اگر آپ نے یہ غلط فہمی اپنے دل میں پیدا کر لی کہ ہم بڑے تمہیں مارخاں ہیں تو میں جانتا ہوں کہ اسی حد تک یہ برکتیں جاتی رہیں گی.نصرت جہاں کے تابع وہ عظیم الشان تحریک تھی، جو قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث نے افریقہ میں جاری کی.اور اس کی بے شمار برکات ہم نے دیکھیں.اس کا کام مسلسل آگے بڑھتا رہا ہے.احمدی ڈاکٹر افریقہ کے ممالک میں بہت ہی عظیم الشان خدمات سرانجام دے رہے ہیں.ان کے نیک اثرات کے متعلق اپنے بھی لکھتے ہیں، غیر بھی لکھتے ہیں.بہت بڑے سلسلے کے کام ہیں، جن کا بوجھ ان ہسپتالوں نے اٹھایا ہوا ہے.ایک پیسہ بھی ان ملکوں سے باہر نہیں لے جایا جاتا.بلکہ انہی کی تعلیم پر، انہی کی بہبود کے دوسرے کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے.اس لئے جو واقفین زندگی ڈاکٹر ہیں، وہ بھی خدا کے فضل سے عظیم الشان خدمتوں کی توفیق پارہے ہیں اور ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں.گزشتہ دو سالوں کے اندر ان کا بجٹ آٹھ کروڑ سے بڑھ کر 10 کروڑ سالانہ تک پہنچ گیا ہے.اور کیونکہ بچت ہے ہسپتال کی ، اس لئے خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دیتا ہے ، ہم یہ رقم دوسرے نیک کاموں پر خرچ کر دیتے ہیں.عمومی تاثرات اپنے بھی اور غیر بھی لکھتے ہیں.ان کا ایک منحنیم پلندہ ہے، جو میں چھوڑتا ہوں.صرف ایک ذاتی واقعہ بتا تا ہوں کہ جب سوئٹر لینڈ کے دورے پر گیا تو گیمبیا کے ایک قونصلر تھے ، جو گھمبیا کی حکومت کی طرف سے وہاں متعین تھے.پچھلے دورہ کے موقع پر بھی ان سے بات ہوئی.اس دورے کے موقع پر بھی ان کا محبت اور خلوص کا جو رنگ تھا، اس میں نمایاں اضافہ تھا.اور انہوں نے اس کی ایک وجہ یہ بیان کی کہ جب وہ گیمبیا دورے پر گئے تو ہمارے ہسپتال کو انہوں نے دیکھا اور وہ حیران رہ گئے کہ غریبانہ طور پر چلایا جانے والا ہسپتال حکومت کے اس ہسپتال سے بہت بہتر کام کر رہا ہے، جس پر بے شمار روپیہ خرچ ہوا ہے اور ہو رہا ہے.اور انہوں نے بتایا کہ میں جانتا ہوں ، وہاں کے افسران کو.میں تو باقاعدہ سرکاری دورے پر تھا.وہاں کے وزیروں نے مجھے بتایا کہ ہم زیادہ پسند کرتے ہیں کہ احد یہ ہسپتال میں جا کر علاج کروائیں.یہ نسبت اپنے ہسپتال کے مفت علاج کے.کیونکہ شفا ان کے ہاتھ میں ہے.پس یہ خدا کا عظیم نشان ہے کہ خدا تعالیٰ ان مخلصین کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے ان کے ٹیڑھے ترچھے اور کند اوزاروں کے ذریعے کئے ہوئے آپریشنوں میں بھی برکت ڈال دیتا ہے.اور خدا 691

Page 701

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم کے فضل سے ان ہسپتالوں کے ذریعے بہت ہی کم جانیں تلف ہوتی ہیں.بہ نسبت دوسرے ہسپتالوں کے شفا کا معیار بہت اونچا ہے.مزید ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، مزید ملکوں میں ہسپتال قائم کئے جارہے ہیں.زائر میں خدا کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ جماعت احمدیہ کی قبولیت کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.اور وہاں اگر ہمیں نئے ہسپتال اور سکول کھولنے کی توفیق ملے تو اس کے ساتھ جماعت کی اشاعت میں بھی بہت فائدہ پہنچے گا.اسی طرح تو الو کے لئے بھی ہمیں اساتذہ کی بھی ضرورت ہے اور ڈاکٹرز کی بھی ضرورت ہے.جلسہ ہائے سیرت النبی کے متعلق میں نے تحریک کی تھی کہ چونکہ یہ جھوٹ بولا جارہا ہے کہ نعوذ باللہ ہم حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت نہیں کرتے اور نعوذ باللہ حضرت بانی سلسلہ کو آپ سے بڑھ کر مقام دیتے ہیں.اس لئے اس کا علاج یہ ہے کہ ساری دنیا میں جماعت احمد یہ سیرۃ النبی کے جلسے کرے.پاکستان میں بھی کثرت سے سیرۃ النبی کے جلسے ہوئے.لیکن وہاں کے حالات میں بعض جگہ ہوئے، بعض جگہ نہیں ہو سکے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی جماعتیں ارادہ کر لیں اور حکمت کے ساتھ اور محبت کے ساتھ ماحول پیدا کریں تو یہ تجربہ ہے کہ پاکستان میں آج کل مخالف بھی اگر ایک دفعہ جماعت احمدیہ کے سیرۃ النبی کے جلسے میں آگیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی کایا پلٹ گئی.ان کو پتہ ہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی اور اعلیٰ اور ارفع مقام ہے کیا؟ تو جیسے کسی کہنے والے نے کہا کہ آئینہ تیری قدر کیا جانے میری آنکھوں دیکھ تو کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ ان کو کیا پتہ کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کس شان کے رسول ہیں ؟ حضرت بانی سلسلہ کی آنکھوں سے دیکھیں تو پتہ چلے کہ وہ کیا تھے؟ پس جب ان سیرت کے جلسوں میں حضرت بانی سلسلہ کا کلام پیش کیا گیا تو آنے والوں کی طبیعتوں میں ایک عجیب انقلاب پیدا ہوا.ایک موقع پر ایک جلسے کے صدر جو غیر احمدی تھے، جلسے کو سن کر انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ آج مجھے پتہ چلا ہے کہ ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی مقام کیا ہے بلکہ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آج مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ احمدیت کچی ہے.اس لئے میں اپنے احمدی ہونے کا بھی ساتھ ہی اعلان کرتا ہوں.ان کی بیعت کے نتیجے میں ان کے زیر اثر بہت سے دوستوں کو اسی وقت بیعت کی توفیق ملی.دنیا بھر سے جور پورٹیں آرہی ہیں، ان میں بھی اس قسم کی رپورٹیں مل رہی ہیں اور بتایا جار ہا ہے کہ ان جلسوں کا بہت 692

Page 702

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء اچھا اثر ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اثر تو سچائی کا ہوتا ہے، دکھاوے کا نہیں ہوتا.بچے عشق کا ہوتا ہے.اس لئے اس عشق کو قائم رکھیں.اگر اس عشق کی حفاظت نہ کی تو اس اثر کے نتیجے میں خطرہ ہے کہ آپ میں سطحیت نہ پیدا ہو جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت بانی سلسلہ کا عشق ہے، جو آپ کی تحریروں میں آج بھی زندہ ہے.عشق کی تحریریں کبھی نہیں مرا کر تیں.ایک ایک لفظ زندہ رہا کرتا ہے.ہزار بار بھی آپ ان تحریروں کو پڑھیں ، وہ عشق ہمیشہ زندگی کے ساتھ بولے گا اور آپ سے کلام کرے گا.پس یہ جو اثرات ہیں، یہ دراصل عشق محمد مصطفے کے اثرات ہیں، جو زندہ عشق ہے.اس عشق کی حفاظت کریں، اس کے نتیجے میں آپ کو برکتیں ملیں گی اور اس عشق کے نتیجے میں ہی آپ دنیا پر غالب آئیں گے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ اپنے جلسوں میں سطحیت کو کبھی بھی آپ داخل نہ ہونے دیں.رسمی دکھاوے کا وہم بھی نہ کریں.بچے پیار اور محبت کے نذرانے اپنے آقا و مولیٰ کے حضور پیش کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کے نتیجے میں دنیا میں عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوں گی اور آپ کو اس کے علاوہ براہ راست برکتیں ملیں گی.تحریک شدھی کی طرف میں نے گزشتہ سال ایک خطبہ جمعہ میں توجہ دلائی تھی.خدا کے فضل سے ہندوستان کی جماعتوں میں سب نے تو نہیں مگر ان میں سے ایک حصے نے لبیک کہا اور وہ جو رو چل پڑی تھی ملکانہ کے علاقے میں کہ دوبارہ پرانے مسلمان ہونے والے خاندان ہندو ہونا شروع ہو جائیں اور جس کے متعلق بڑے فخر کے ساتھ بڑے بڑے ہندو رسائل نے اعداد و شمار شائع کرنے شروع کئے تھے.جن کے متعلق غیر جانبدار پور میں انٹر نیشنل رسالوں میں شائع ہوئی تھیں اور بتایا گیا تھا کہ اس تیزی کے ساتھ اب وہاں پرانے مسلمان خاندانوں کو ہندو بنایا جارہا ہے.دل ہلا دینے والی خبریں تھیں.جب جماعت احمدیہ کو میں نے توجہ دلائی تو عجیب بات ہے کہ اس سے تھوڑ اسا عرصہ پہلے ہندوستان کے علماء خود بھی متوجہ ہو چکے تھے اور جماعت اسلامی بھی میدان میں کو چکی تھی اور دیو بند اور دیگر بڑے بڑے ادارے بھی وہاں کام کرنے کے لئے چلے گئے تھے.اس پر خیال یہ تھا کہ جماعت احمد یہ ہندوستان تو نسبتاً بہت کمزور ہے، اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی طرح کی سنی جائے گی ، اس کے علاوہ تو یہ کوئی اثر پیدا نہ کر سکے گی.یہ خیال تھا بہت لوگوں کا.لیکن ہمارا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کے فضل کی تائید شامل حال ہوتی ہے.جماعت احمدیہ کا اخلاص، اثر کے نئے نئے پہلو دکھاتا ہے اور نئے نئے قلعے سر کرتا ہے.نتیجہ یہ نکلا کہ ان رپورٹوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اب اس میدان سے اکثر غیر احمدی تحریکیں یا تو ویسے بھاگ چکی ہیں یا احمدیت کے مقابل پر چونکہ ان کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ، اس لئے وہ شرمندہ ہو ہو کر بند ہوتی چلی جارہی ہیں اور یا پھر لوگ ان 693

Page 703

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کو رد کر رہے ہیں.نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے مسلمانوں کو ہندو ہونے سے روکنے کی بجائے یہ پر چار شروع کر دیا کہ احمدیوں کی بات نہ سنو، یہ اگر تمہیں مسلمان رہنے کی بھی تلقین کریں ، تب بھی ان کی بات نہ سنو.یعنی ہندوؤں کی بات سن لو تو تمہیں کم خطرہ ہے.احمدیوں کی یہ بات سن لو کہ تم مسلمان رہو ہندو نہ بنو، یہ تمہارے لئے بڑا خطرناک ہے.یہ تحریک بھی نا کام ہوئی.خدا تعالیٰ نے ایسے ایسے حیرت انگیز وہاں نشان دکھائے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.اور اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جہاں جماعت احمد یہ کمزور ہے، اسی نسبت سے اس کو خدا سہارا بھی دیتا ہے.پاکستان کی جماعتوں پر جو آزمائش کا وقت ہے، یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سرٹیفیکیٹ جاری ہو گیا ہے کہ اب تم طاقتور ہو چکے ہو تم اب مضبوط ہو گئے ہو.اب چلو اس میدان میں اور گرو اور چوٹیں بھی کھاؤ.وہ بچپن کا وقت نہیں رہا کہ ذرا آہ کرو اور میں تمہیں گودی میں اٹھالوں اور تمہیں چلنے سے روکوں کہ کہیں تم گر نہ جاؤ لیکن جو چھوٹی جماعتیں ہیں، جہاں کوئی بھی اور سہارا نہیں ہے.آنا فانا ان کو ملیا میٹ کیا جا سکتا ہے، وہاں خدا تعالیٰ کی غیبی تائید اس شان کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے.وہاں شدھی کے میدانوں میں ایسے واقعات ہوئے کہ کسی نے بڑے تکبر سے کہا کہ میں تم لوگوں کی ٹانگیں توڑ دوں گا.اور ابھی ہفتہ نہیں ہوا تھا، اس کی دونوں ٹانگیں توڑ دی گئیں.کسی نے کہا کہ میں تمہیں ہلاک کر کے چھوڑوں گا.اس کے بچوں پر و با آگئی ، اس کے خاندان پر مصائب آپڑے اور لوگوں نے دیکھا اور محسوس کیا.یہ نشان وہ نہیں ہیں، جن کے متعلق بتایا جاتا ہے.ایسے نشان ظاہر ہورہے ہیں، جو خود بول رہے ہیں.اپنی زبان سے اور لوگ اس آواز کو سنتے ہیں.چنانچہ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے شدھی کے میدان میں جماعت احمد یہ غالب آچکی ہے.اور آپ سوچیں کہ کتنی معمولی تعداد ہے، کتنا بڑا دشمن تھا، جس کے ساتھ مقابلہ تھا.کتنی عظیم ہند و طاقت ہے.بعض دفعہ پولیس افسر اس بات پر تلے ہوتے تھے کہ وہ ہمیں کام کرنے نہیں دیں گے.لیکن اتنا میں تو آپ کو بتاتا ہوں کہ وہاں انصاف کا معیار پھر بھی کچھ نہ کچھ موجود ہے.باوجود متعصب ہندو ہونے کے ایک حد تک وہ مخالفت کرتے تھے.اس سے آگے وہ نہیں جاتے تھے.اور اس حد تک مخالفت کے لئے جماعت نے اپنے آپ کو سخت کر ہی لیا تھا کہ ٹھیک ہے، کرو.ہم ماریں بھی کھاتے رہیں گے لیکن پیچھے نہ ہٹیں گے.وہاں اب ضرورت ہے، نئے واقفین کی.اس لئے جو ریٹائر ڈ ہیں، وہ بھی اپنے آپ کو پیش کریں.جو دوسرے بچے ہیں، ان کی بھی ضرورت ہے کہ وہ وقف جدید میں اپنے آپ کو پیش کریں.694

Page 704

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء بھوٹان میں وہاں نئے ملک میں کام شروع ہو گیا ہے، نیپال میں کام شروع ہو گیا ہے ، سکم میں کام شروع ہو گیا ہے، مالدیپ کے جزائر میں کام شروع ہو گیا ہے.غرضیکہ ہندوستان کی جماعت بھی اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑے ہو کر ارد گرد اپنے اثر اور نفوذ کو پھیلاتی جارہی ہے.اور شکایت وہاں سے یہ آرہی ہے کہ ہمارے پاس کام کرنے والے تھوڑے رہ گئے ہیں.اس لئے میں ہندوستان کی جماعتوں کو اس جلسے کے ذریعے یہ پیغام دیتا ہوں کہ حتی المقدور یہ کوشش کریں کہ وقف کہ میدان میں اب پیچھے رہ جانے والی جماعتیں نہ بنیں بلکہ آگے آنے والی جماعتیں بنیں.اس وقت جماعت احمدیہ کو آپ کے بچوں کی ضرورت ہے.آپ اس پر عہد کئے ہوئے ہیں کہ خدا اور اس کے دین کی خاطر اپنا جان، مال، اولادیں، عزتیں سب کچھ نچھاور کریں گے.پس آج جب احمدیت کو سپاہیوں کی ضرورت ہے، یہ سپاہی کیوں آپ روک رہے ہیں.کثرت کے ساتھ ان کے نام پیش کریں.دنیا کی لالچیں مجھے پتہ ہے کہ بہت زیادہ ہیں اور جماعت کے غریب گزارے، اکثر لوگوں کے لئے روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے بمشکل پورے ہوتے ہیں.لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ واقف خوش رہتا ہے.واقف کو ایک سکینت ملتی ہے، اس کو خدا کی طرف سے ایک عظمت نصیب ہوتی ہے، اس کو ایک نجابت کا احساس ملتا ہے.اس کی کوئی قیمت نہیں ہے دنیا میں.دنیا کی کوئی لذت ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اور پھر واقفوں کی اولادیں دنیا بھی پاتی ہیں اور دین بھی پاتی ہیں اور ہر لحاظ سے عزت پاتی ہیں.اس لئے وقف سے نہ ڈریں اور تحریک نو میں بھی شامل ہوں.اور فوری ضرورت پوری کرنے کے لئے بھی ہندوستان کی جماعتیں اپنے آپ کو پیش کریں.روٹی پلانٹ کی روٹی آپ کھا ہی چکے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ پسند آئی ہوگی.کل آمد چندہ جات بشمول جو بلی فنڈ کا ذکر میں کردوں.ایک چھوٹا سا موازنہ 82-1981ء سے لے کر 87-1986ء تک کا موازنہ یہ ہے کہ مجھے پاکستان سے آئے ہوئے، ایک دوست نے کہا ہے کہ ہماری باتیں نہ زیادہ کیا کرو، بڑے جلتے ہیں لوگ.تو پتہ نہیں، میں کروں یا نہ کروں؟ وہ کہتے ہیں کہ جب آپ بتا دیتے ہیں کہ پچھلے سال یہ خرچ تھا، اب یہ ہو گیا ہے تو سی آئی ڈی پیچھے پڑ جاتی ہے، مولوی پیچھے پڑ جاتے ہیں، اخبار کالے ہونے شروع ہو جاتے ہیں کہ ان کو تنگ کرو.کسی طرح یہ مالی قربانیوں میں آگے بڑھنا بند کر دیں.اس لئے ان کی درخواست پر میں یہ ذکر چھوڑتا ہوں.ورنہ میری تو خواہش تھی کہ میں یہ ذکر کروں.بیرون پاکستان سے آپ اندرون پاکستان کا اندازہ کر لیں.بیرون پاکستان میں 82-1981ء میں ہمارے سالانہ چندوں کی کل رقم 7 کروڑ ، 12 لاکھ روپے تھی.اس پانچ سال میں خدا تعالیٰ نے اپنا 695

Page 705

خلاصہ خطاب فرمودہ یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم فضل فرمایا کہ یہ جو سال گزر رہا ہے، اس میں یہ رقم بڑھ کر 24 کروڑ 31لاکھ ہو چکی ہے.چند سال پہلے میں نے یہ اعلان کیا تھا 1953ء کی تحریک کے بعد عبدالرحیم اشرف مدير المنبر نے ایک مضمون لکھا اور بڑے احساس ناکامی کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا کہ ” 1953ء کے عظیم تر ہنگاموں کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا57-1956ء بجٹ 25لاکھ روپیہ تک پہنچ جائے.یہ 53ء کے بعد کا ان کا تبصرہ ہے.اس سے آپ اندازہ کریں کہ اس وقت آپ کہاں کھڑے تھے.1953ء میں جماعت نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ بعید نہیں کہ کچھ عرصے تک جماعت کا بجٹ پچیس لاکھ تک پہنچ جائے.اس کا ذکر کرتے ہوئے میں نے جماعت کو بتایا تھا کہ میں تو امید کر رہا ہوں کہ آئندہ دو تین سالوں کے اندر یہ بجٹ پچیس کروڑ تک پہنچ جائے گا.تو آپ دیکھ لیں کہ خدا کے فضل کے ساتھ کہ عین اسی سال جس میں ہم اس وقت پہنچے ہوئے ہیں، بیرون کا یہ بجٹ جو تین سال پہلے 13 کروڑ تھا، اب یہ 24 کروڑ 31لاکھ ہو چکا ہے.اس میں قرآن کریم کی خاطر پیش کئے ہوئے وعدے اور ادا شدہ رقمیں شامل نہیں ہیں.اگر ان کو شامل کر لیں تو یہ صرف بیرون کا بجٹ آج پچیس کروڑ تک پہنچ چکا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس تیزی کے ساتھ جماعت کو ہر جہت میں ترقی نصیب ہورہی ہے اور یہ ترقی صرف رو پوؤں میں نہیں جانچی جائے گی.اس کے پیچھے جو خلوص ہے، جماعت کی جو محبت ہے، جو قربانی کی روح ہے، وہ ہے، جو قدر کے لائق ہے.ان چھپیں کروڑوں میں چند غریبوں کے چند روپے بھی شامل ہیں.جو عجیب شان کے ساتھ خدا کی نگاہ میں چمک رہے ہیں، اس لئے جب میں پچیس کروڑ کی بات کرتا ہوں تو عمومی فضل کے اظہار کے لئے کرتا ہوں.روپوں سے بحث نہیں ہے.خدا کے فضلوں سے بحث ہے اس کی عطا سے بحث ہے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ آپ کو بڑی تیزی کے ساتھ بڑی شان کے ساتھ آگے سے آگے بڑھاتا چلا جا رہا ہے.انگلستان کے رضا کاروں کا میں ذکر کیا کرتا ہوں، اس لئے کہ ان کے لئے خصوصیت سے دعا کی تحریک ہو.تفصیل سے اب اس کے ذکر کا موقع نہیں رہا لیکن یہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہاں جماعت کے وہ سارے بوجھ یاذ مہ داریاں، جو امام وقت کی ذات سے وابستہ تھیں اور سینکڑوں آدمی سرانجام دے رہے یہاں آنے کے بعد وہ ساری ذمہ داریاں انگلستان کی جماعت کے مخلصین نے عمومی طور پر اپنے کندھوں پر اٹھالیں ہیں.اور نہایت عمدگی کے ساتھ ، نہایت ہی خلوص کے ساتھ ، نہایت ہی پیار اور 696

Page 706

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء استقلال کے ساتھ ان کاموں کو اس طرح انجام دے رہے ہیں کہ مجھے تکلیف نہ پہنچے.میرے دل میں یہ دکھ نہ پیدا ہو کہ کاش میں پاکستان میں ہوتا تو یہ کام بہتر انداز میں کروالیتا.اس لئے یہ سارے مخلصین آپ کی دعاؤں کے خاص محتاج ہیں.ان کی عورتیں بھی، ان کے بچے بھی ، بڑے چھوٹے کیا ، لنڈن والے کیا، باہر والے کیا.جس جگہ آواز دی ہے، لبیک کہتے ہوئے آگے آئے ہیں.اور بڑے اخلاص کے ساتھ توقع سے بڑھ کر جماعت کی خدمت میں ثابت قدم نکلے ہیں.جو اس کے نتیجے میں ظاہری قربانیاں ہیں، وقت کی اور مال کی اور اس کے علاوہ بھی.ان میں سے وقت کی قربانیاں تو ایسی بھی ہیں، جن کو ہم روپوں میں بھی بتاسکتے ہیں.مثلاً یہ جو پریس ہے، اس کی عمارت کے لئے جب ہم نے اندازہ لگوایا تو بتایا گیا کہ اس قسم کی عمارت کے لئے پچاس پاؤنڈ فی مربع فٹ خرچ آتا ہے.اگر آپ کسی کمپنی سے بات کریں تو اتنا ہی خرچ دینا پڑے گا.اور اچھی عمارت جو گھر کی ہوتی ہے، اس کے لئے سو پونڈ فی مربع فٹ خرچ آتا ہے.میں نے کہا: یہ تو نہیں ہم خرچ کر سکتے.لیکن اللہ کا کام ہے، اس لئے کر لیں گے.رضا کاروں سے میں فائدہ اٹھاؤں گا.انشاء اللہ.اور جماعت نے تحریک کی، یہاں جو معمار تھے، انہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا، طوعی طور پر وقت پیش کئے.ایک ہمارے انگریز نواحمدی ہیں، مسٹر وا کر ، انہوں نے بھی غیر معمولی خدمت اور اخلاص کا اظہار کیا.احمدی نوجوان بڑی دور دور سے آتے رہے، ساتھ بوڑھے بھی آتے رہے اور مزدور بن کر انہوں نے یہاں کام کیا.اور ساری چیزیں ہم نے بازار سے خریدیں اور خریدنے میں بھی ، خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے احسان خدا تعالیٰ کے نازل ہوئے کہ جو چیز بہت ہی مہنگی عام طور پر ملنی چاہئے کہ وہ کہیں سٹور سے فالتو قرار دی گئی چیز کے طور پر مل گئی یا کسی اور بہانے سے سستی مل گئی.پچاس پونڈ فی مربع فٹ کی بجائے ان اخلاص سے کام کرنے والوں کی قربانی کے نتیجے میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنا خرچ فی مربع فٹ آیا ہوگا.اگر کوئی حساب دان ہے اور اسے عمارت کے کاموں سے واقفیت ہے تو بیشک ابھی مجھے یہ اندازہ بتادے.آپ اگر بہت ہی بچت کریں تو جو عمارت پچاس پونڈ فی مربع فٹ بننی چاہئے ، وہ کتنے کم میں تکمیل کو پہنچ جائے گی.کوئی اندازہ ہے؟ چھ پونڈ سے بھی کم.( نعرہ ہائے تکبیر ) وو یہ عظیم الشان ایک جماعت ہے.جو خدمت اور قربانی کی روح آج یہ جماعت دنیا کو دکھا رہی ہے، خدا کی قسم ! کسی جھوٹے کی طرف منسوب ہونے والی جماعت کو اس کا کروڑواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوتا.ہر پہلو سے اللہ کی حفاظت کے نیچے ہے.اللہ کی رحمتوں کے سایے کے نیچے ہے اور خدا تعالیٰ بھی ایسے فضلوں کا سلوک فرمارہا ہے کہ خود ہی حوصلہ دیتا ہے.خود ہی ڈھارس بندھاتا ہے.نئے نئے فضل f 697

Page 707

خلاصہ خطاب فرموده یکم اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم لے کر آتا ہے.پس اس جماعت کی سال بھر کی خدمتوں کے متعلق سوچا کیسے جا سکتا ہے کہ چند گھنٹوں میں ان کا ذکر خیر پورا کر دیا جائے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، اپنی طرف سے تو میں خلاصہ ہی نکالا تھا لیکن اس خلاصے کا ایک بہت بڑا حصہ مجھے چھوڑنا پڑ رہا ہے.پاکستان میں اس کے مقابل پر جو غیروں کو اسلامی خدمات کی توفیق مل رہی ہے، اس کے نتیجے میں خدا کے فضل نازل ہو رہے ہیں، انہیں غیر معمولی تائید دل رہی ہے اور خدا تعالیٰ کے انتقام کی کارروائیاں بھی حرکت میں آچکی ہیں.بہت شدید معاندوں کو خدا تعالیٰ اس طرح پکڑ رہا ہے کہ بعض احمد یوں کو انہوں نے چیلنج دیئے اور وہ چیلنج انہوں نے قبول کئے اور دیکھتے دیکھتے خدا کے شدید عذاب نے ان کو پکڑ لیا اور وہ اپنے ماحول میں عبرت کا نشان بن گئے.ان کے بھی یہ واقعات میں نے اکٹھے کئے تھے.پندرہ بیس کے قریب وہ بھی سننے سے تعلق رکھتے تھے.لیکن بالعموم پاکستان سے جو لوگ آئے ہیں ، ان کو اس کا علم ہی ہو گا.دعا یہ کریں، ہمیں غیروں کی ہلاکت نہیں چاہتے ، ہمیں غیروں کی ہدایت چاہئے.اگر عبرت کے لئے خدا نے نشان دکھانے کا فیصلہ فرمایا ہے تو ہم اس کی ہر رضا پر راضی ہیں.لیکن دعا یہ کریں کہ یہ عبرت کے نشان ہوں، یہ ملیا میٹ اور تباہ کرنے والے نشان نہ ہوں، یہ قوم ہلاکت سے بچ جائے.اور تھوڑے ہوں، جو خدا کی ناراضگی کا نشانہ بنیں اور اس رنگ میں بنیں کہ کثرت کو ہدایت نصیب ہو جائے.ہے.قبولیت دعا کے بھی بہت سے واقعات ہیں، جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا.لیکن یہ بھی ذکر ایسا ہے، جس کو اس لئے چھوڑا جا سکتا ہے کہ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ قبولیت دعا کیا ہوتی ہے؟ کوئی ایک احمدی گھر بھی تو ایسا نہیں، جس نے قبولیت دعا کے نشان نہ دیکھے ہوں.اللہ تعالیٰ ایسی دعاؤں کو بھی سن لیتا ہے، جو ابھی لفظوں میں نہیں ڈھلی ہوتیں.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ساتھ ایسی محبت اور پیار کا سلوک فرماتا ہے کہ بعض دفعہ دعا نہیں بلکہ اعلان ہوتا ہے اور اس کو قبول فرمالیتا ہے.بعض دفعہ غلطی سے ایک بات لکھی جاتی ہے اور اس کو بھی قبول فرمالیتا ہے.اور بہت ہی حیرت انگیز اپنے پیار اور قرب کے نشان دکھاتا.پس دعا کریں کہ آئندہ سال بھی اسی خدائے عظیم و واحد کا شکر ادا کرتے ہوئے ، اسی فضلوں والے، رحمتوں والے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے، ہم ترقی کی شاہراہوں پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.ہمارا ہر سال اپنے گزرے ہوئے سال ہائے گزشتہ اس طرح دیکھے، جیسے کوئی میناروں سے اس زمین کو دیکھا کرتا ہے، جس پر میناروں کی بنیاد قائم ہو.ہر سال آئندہ تعمیر ہونے والے میناروں کی بنیاد بن جائے.اور بلند سے بلند تر ایسے مینار تعمیر ہوں، جن کے اوپر پائے محمد یاں کی برکتیں اتریں.اچھا جی ، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مطبوعه ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ اکتوبر 1987ء) 698

Page 708

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ عید الاضحیه فرمودہ 05 اگست 1987ء وقف زندگی کی اہمیت اور شرائط خطبہ عیدالاضحیه فرموده 05 اگست 1987ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی:.وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَارِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ الثَّوَابُ الرَّحِيمُ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ابْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِـم إنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اور پھر فرمایا:.(البقرة 128 تا 130) یہ عید جو آج کے دن ہم منارہے ہیں، اس کا قربانیوں کے ساتھ ایک تعلق ہے.جو ہر مسلمان کو معلوم ہے.چنانچہ اس عید کو عید الاضحیہ یعنی قربانیوں کی عید کا نام دیا گیا ہے.قربانی کا جیسا عید سے تعلق ہے، ویسا ہی اس کا ایک قبولیت سے بھی تعلق ہے.اور عموماً اس تعلق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے.قرآن کریم میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے خانہ کعبہ کی عمارت کی بنیادیں بلند کرنے کا ذکر آیا ہے، وہاں ساتھ ہی یہ دعا بھی ان کی بتلائی گئی کہ دینا تقبل منا اے اللہ ! ہماری طرف سے یہ قبول فرما.وہ کیا چیز تھی، جسے قبول کرنے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ایک عاجزانہ درخواست کر رہے تھے؟ بالعموم تو دنیا میں یہ خیال پایا جاتا ہے اور عام طور پر جتنی بھی انسان نیکیاں بجالاتا ہے، اسی خیال کے تابع کہ نیکی کرتے ہی خود بخودوہ مقبول ہو جاتی ہے.اور کہاں انسان ہر نیکی کے ساتھ ساتھ یہ عاجزانہ دعائیں کرتا ہے کہ اے خدا! میری اس نیکی کو بھی قبول فرمالے، اس نیکی کو بھی قبول فرما لے.اور قرآن کریم سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی نیکیوں پر بہت ہی پیار کی نظر ڈالتا ہے.اور خدا کی باریک نظر سے کوئی نیکی اوجھل نہیں رہتی.چنانچہ فرمایا:.فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ (الزلزال : 8 تا 9) 699

Page 709

خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 05 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم جس کسی نے بھی ایک ذرے کے برابر بھی نیکی کی ، وہ خدا کی نظر کے سامنے رہتی ہے.اور جس کسی نے بھی ایک معمولی ادنی اسی بھی بدی کی ، ذرہ کے برابر وہ بھی خدا کی نظر کے سامنے ہوتی ہے.تو جب نیکیوں کے متعلق خدا تعالیٰ کا بندوں سے یہ سلوک دکھائی دیتا ہے اور ویسے بھی انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ نیکیاں تو کی ہی خدا کی خاطر جاتی ہیں.اس بات کا احتمال کیا ہے کہ نیکی ہم کریں اور خدا قبول نہ کرے؟ اس کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا خصوصیت کے ساتھ یہ عرض کرنا کہ تقبل منا اے خدا! ہم سے قبول فرمالینا.کیا وہ کوئی خاص نیکی تھی ؟ کیا وہ کوئی خاص قسم کی قربانی تھی، جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذہن میں تھی؟ جب اس سے اگلی آیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں کسی قدریہ تفصیل ملتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے وہ کیا چیز تھی، جسے وہ خدا کے حضور پیش کر رہے تھے؟ فرمایا:.رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَكَ کہ اے خدا! ہم باپ اور بیٹا اپنے دونوں کے وجود تیرے حضور پیش کر رہے ہیں ، کامل طور پر تیرا ہو جانے کا وعدہ کرتے ہیں، اور یہی تمنا لے کر آئے ہیں.اور صرف یہی نہیں بلکہ ہم یہ بھی التجا کرتے ہیں کہ ہماری اولاد کو بھی اپنے لئے وقف کر لینا اور اپنا بنالینا وارنا منا سکنا وتب علینا کا مضمون اس وقف سے گہرا تعلق رکھتا ہے.اس کے بعد یہ عرض کیا: ارنا منا سکتا جب تو نے ہمیں اپنا بنا لیا، ہم تیرے لئے وقف ہو گئے تو پھر ہمیں خدمت پر لگانا ہمیں بتانا کہ یہ یہ قربانیاں کرو.یہ یہ تمہاری قربان گاہیں ہیں اور پھر ہم سے عضلتیں ہوں گی ، کمزوریاں ہوں گی ، تیرے منشا کو عین تیری مرضی کے مطابق ادا نہیں کر سکیں گے.تب علینا پھر ہم سے مغفرت کا سلوک بھی فرمانا اور بار بار ہماری لغزشوں سے پردہ پوشی کرنا.ہماری تو بہ کو قبول کرنا.انک انت التواب الرحيم تو تو بہت ہی زیادہ بار بار توبہ کو قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے.تو معلوم ہوا کہ جہاں قبولیت کا مضمون ملتا ہے، وہاں وقف زندگی کے ساتھ اس کا تعلق ہے.اور یہ مضمون ایک اور آیت میں بھی خوب کھول کر بیان ہوا ہے.جس کا تعلق حضرت مریم کی والدہ کے منت ماننے سے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت مریم کی والدہ نے خدا کے حضور دعا کی کہ میں تیرے حضور وہ بچہ پیش کرنا چاہتی ہوں، جو میرے پیٹ میں ہے، تو اسے قبول فرما لے.وہاں بھی لفظ قبول استعمال ہوا.جواباً خدا نے فرمایا:.فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلِ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا 700 (آل عمران: 38)

Page 710

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خطبہ عید الاضحیه فرموده 05 اگست 1987ء پس اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرما لیا اور بہت ہی عمدہ طریق پر قبول فرمایا، بہترین رنگ میں قبول فرمایا.اور قبول فرمانے کے بعد انبتھا نباتا حسنا پھر اس کی پرورش کی نہایت بہترین طریق پر.اس سے اور زیادہ بات واضح ہوگئی کہ عام نیکیاں اور زندگی کے وقف کرنے کی نیکی میں ایک فرق ہے.عام نیکیاں تو کمزور بھی ہوں، ان میں کچھ خامیاں بھی رہ جائیں بالعموم اللہ تعالی پردہ پوشی فرماتا ہے اور قبول فرماتا چلا جاتا ہے.لیکن جب ایک انسان اپنے وجود کو خدا کے حضور پیش کرتا ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کا اسے اپنا لینا، یہ ہے قبولیت.اسے اپنا بنالینا اور اپنے نمائندہ کے طور پر قبول کر لینا ، چنانچہ انبتها نباتا حسنا آیت کا یہ ٹکڑا بتا رہا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی وجود کو قبول کر لیتا ہے تو پھر اس کی تربیت کی ذمہ داری بھی خود لے لیتا ہے.پھر آغاز ہی سے اس پر نظر کرم فرماتے ہوئے اس کی بہترین رنگ میں تربیت کا انتظام فرماتا ہے.پس حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام خصوصیت کے ساتھ جس قبولیت کی دعا کر رہے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ میں بھی اپنی زندگی وقف کرتا ہوں تیرے حضور، اسماعیل بھی تیرے حضور زندگی وقف کرتا ہے اور یہی نہیں، ہم آئندہ اپنی نسلوں کو بھی تیرے حضور پیش کرتے ہیں.تو قبول فرما یعنی ہمیں اپنا بنا لے.پھر ہماری تربیت فرما، اپنی نمائندگی میں ہم سے کام لے، ہماری قربان گاہیں دکھا.کہاں کہاں ہم نے کیا قربانیاں دینی ہیں؟ اور ہمیں قربانیاں بتا کہ کس طرح پیش کرنی ہیں؟ گویا کہ ہم جب کلیڈ ا.آپ کو تیرے سپر د کر رہے ہیں تو ہدایات دینا پھر تیرا کام ہے.اس تشلسل سے یہ آیت خوب کھل کے واضح ہو جاتی ہے.اس کے بعد پھر جہاں یہ آیت اپنے معراج کو پہنچتی ہے، یہ دعا یعنی اپنے معراج کو پہنچتی ہے.یہ وہ تیسر ا حصہ ہے.فرمایا:.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اس التجا اور الحاح کے ساتھ ہم اپنا وجود اور اپنی آئندہ نسلوں کا وجود تیرے حضور پیش کر رہے ہیں اور قبولیت کی التجا کرتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں اگر تو قبول فرمالے تو ہماری آخری تمنا یہ ہے کہ اس کائنات میں ظاہر ہونے والا سب سے بڑا رسول ہماری نسل ہی سے پیدا ہو.اور گویا یہ تیری طرف سے قبولیت کا نشان ہوگا.وہ رسول ، جس کا تو نے وعدہ کیا ہے کہ دنیا کو عطا کیا جائے گا ، وہ ان میں سے پیدا فرما.یتلوا علیهم ایسا نک وہ تیری آیات پڑھ کر سنائے دنیا کو، ان کو تعلیم کتاب دے، ان کے سامنے کتاب کی وہ پڑھ کی 701

Page 711

خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ 05 اگست 1987 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم حکمتیں بیان فرمائے.ویزکیھم اور انہیں پاک فرماتا چلا جائے.انک انت العزيز الحكيم یقینا تو بہت ہی غالب عزت والا اور حکمت والا خدا ہے.ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے جس خاص ادا کے ساتھ رہنا تقبل منا کہا ہے، اس میں آپ کے وجود کی ساری سچائی گھل مل گئی تھی.ایک ذرہ بھی انانیت کا آپ نے باقی نہیں رہنے دیا.اس کامل خلوص اور الحاح کے ساتھ ، اس کامل عشق اور وارنگی کے ساتھ اپنا وجود، اپنے بیٹے کا وجود اور اپنی آئندہ نسلوں کا وجود پیش کیا ہے کہ اس کے بعد یہ دعا جو مانگی گئی ، یہ دعا سننے کے لائق ٹھہری.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے متعلق یہ طلب کرنا کہ ہماری نسلوں سے ہو، یہ کوئی معمولی دعا نہیں تھی.اس دعا کے استحقاق کے لئے ایک لمبی نسل اتقیاء کی ضروری تھی ، آباؤ اجداد کا ایک سلسلہ چاہئے تھا، جو خدا تعالیٰ کی پناہ کے نیچے، اس کی نظر کے نیچے اس وجہ سے تربیت پار ہے ہوں کہ آئندہ ان میں سے وہ عظیم الشان رسول پیدا کیا جائے گا.پس تقبل منا کی تان وہاں جا کے ٹوٹتی ہے، جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا اپنی نسل سے پیدا ہونا عرض کیا گیا ہے.ایک تیسری جگہ بھی قبولیت اور رڈ کا ذکر ملتا ہے.اور وہ ہے آغا ز ہی میں جب نبوت کا آغاز ہوا.اس وقت خدا نے ایک واقعہ کو محفوظ فرمایا اور ہمارے لئے نصیحت کے طور پر بیان کیا.فرمایا:.وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَى أَدَمَ بِالْحَقِّ (المائدة: 28) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ کامل سچائی کے ساتھ بیان کرو.بالحق سے مراد یہ ہے کہ سننے والوں کی توجہ اس طرف مبذول ہو کہ واقعہ بعینہ اسی طرح ہوا اور اس میں کسی قسم کا کوئی نہ مبالغہ ہے، نہ کمی کی گئی ہے.قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلُ مِنَ الْآخَرِ جب ان دونوں نے خدا کے حضور ایک قربانی پیش کی ، فتقبل من احدهما ان میں ایک سے تو وہ قبول فرمائی گئی ، ولم يتقبل من الآخر، دوسرے سے وہ قربانی قبول نہیں کی گئی.قال لا قتلنک اس نے کہا: میں تجھے قتل کر دوں گا.قال انما يتقبل الله من المتقين ( دوسرے نے جوابا کہا ) کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کی قربانیاں قبول کیا کرتا ہے، ہر قربانی کو قبول نہیں کیا کرتا.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کون سی قربانی تھی ؟ پرانے طریق کے مطابق کیا کوئی سوختنی قربانی تھی یا کوئی جانور ذبح کیا گیا تھا؟ اگر ایسا تھا تو جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی ، اس کو کس طرح پتہ چلا کہ 702

Page 712

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خطبہ عید الاضحیہ فرموده 05 اگست 1987ء اس کی قربانی قبول نہیں ہوئی ؟ یہ تواللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے کہ جس شخص کی قربانی قبول نہ کی جائے، اس کو الہا ما فوراً کہہ دے کہ تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اور جس کی قبول کی ہے، اس کو کہہ دے کہ تمہاری ہوگئی ؟ اور یہ دونوں بلند آواز میں اس طرح باتیں بیان کی جائیں کہ دونوں ایک دوسرے کی وہ باتیں سن بھی رہے ہوں.یہ سنت اللہ کے خلاف ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے، احادیث کے مطالعہ سے کہیں خدا تعالی کا اس قسم کا کوئی سلوک نظر نہیں آتا.تو سوال یہ ہے کہ اس کو کیسے پتہ چلا کہ اس کی ہو گئی ہے، میری نہیں ہوئی.اور قربانی سے مراد جب بھی قربانی کا لفظ آتا ہے تو اس کا ایک گہرا تعلق زندگی سے ہے.مراد جانور کی قربانی ہے یا کوئی اور قربانی ہے؟ گزشتہ دو آیات، جو پہلے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں، ان کی روشنی میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہاں بھی زندگی ہی کی قربانی کا ذکر ہے.دونوں بھائیوں نے اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کیا کہ ہم سے خدمت دین کی جائے.حضرت آدم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ایک کو خدمت دین کے لئے قبول کر لیا اور ایک کو بتایا کہ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے.اس کے نتیجہ میں اس کو معلوم ہو گیا کہ میری قربانی قبول نہیں ہوئی ، جبکہ بھائی کی قربانی قبول ہو گئی ہے.تو قربانی کے قبول ہونے سے مرادان تینوں جگہ وقف زندگی لیا جائے تو مضمون بالکل واضح ہو جاتا ہے.اور ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہو جاتا ہے.اور قربانی سے مراد ایسی قربانی نہیں ہے، جس کی گردن پر چھری پھیر دی جائے اور وہ اچانک تڑپ تڑپ کر ختم ہو جائے.کیونکہ انبتھا نباتا حسنا بتاتا ہے کہ یہ ایسی قربانیوں کی بات ہورہی ہے، جنہیں قبول کرنے کے بعد پھر اللہ تعالی ان کی پرورش فرماتا ہے، ان کی تربیت فرماتا ہے اور ان سے خدمتیں لیتا ہے.ارنا منا سکنا بھی اس مضمون کو کھول رہا ہے کہ یہ قربانیاں وہ ہیں، جنہوں نے پھر ساری عمر آگے قربانیاں پیش کرنی ہیں.کوئی ایک لمحے کی قربانی کا ذکر نہیں ہے.بلکہ جسے قربانی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، وہ آگے پھر قربانیاں پیش کرے گا.اور ساری زندگی وہ قربان ہوتا چلا جائے گا.پس اس پہلو سے ہم واقف زندگی کے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے.جب میں نے وقف نوکی تحریک کی ہے یعنی آئندہ صدی کے لئے بچے وقف کرنے لئے تو ان آیات کو میں اس لئے آج آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، اس عید کی مناسبت سے کہ اس ذمہ داری کو اچھی طرح سمجھیں.اگر آپ نے اپنے بچے محض اللہ کامل خلوص کے ساتھ پیش کرنے ہیں تو پھر یہ نہ سمجھیں کہ ادھر پیش کئے ، ادھر مقبول ہو گئے.مقبول ہونے کے لئے کچھ اور شرطیں ہیں.مقبول ہونے کے لئے ان کے اندر تقویٰ ہونا ضروری ہے، مقبول 703

Page 713

خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 05 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم ہونے کے لئے آپ کی نیتوں کا تقویٰ ضروری ہے، کامل خلوص، کامل سپردگی ، وہ ابراہیمی رنگ ضروری ہے، جس کے بعد خدا تعالیٰ ان قربانیوں کو ضرور قبول فرما لیا کرتا ہے.اور پھر آئندہ نسلوں پر بھی اس قبولیت کے نیک اثرات ظاہر فرماتا ہے.اس لئے بہت ہی اہم بات ہے کہ قربانی پیش کرتے ہوئے اپنی نیتوں کو خوب کھنگالا جائے ، بہت صفائی کے ساتھ اور پاکیزہ جذبات کے ساتھ ان تمام احتمالات کو سامنے رکھ کر قربانی پیش کی جائے ، جو واقف زندگی کو درپیش ہوتے ہیں.بسا اوقات ایک واقف زندگی ابتلاؤں میں سے گزارا جاتا ہے.بسا اوقات ایک واقف زندگی کا بظاہر مقام بلند ہونا چاہئے ، اپنے منصب کے لحاظ سے لیکن اس سے ادنی کام لئے جاتے ہیں، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک واقف زندگی سمجھتا ہے کہ میں دنیا میں باہر تبلیغ کے لئے مفید ہوں، میرا وجود زیادہ انسب ہے، اس بات کا کہ باہر مقرر کیا جائے ، اسے دفتر میں کلرک مقرر کر دیا جاتا ہے.چنانچہ ایسے واقعات میرے علم میں ہیں کہ اس پر وہ بہت ہی سیخ پا ہوا.ایک شخص نہیں بلکہ بار ہا کئی دفعہ ایسے واقعات ہوئے ہیں، یعنی سلسلہ کی تاریخ میں کئی دفعہ کہنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ گنتی کے چند ہیں.بہر حال چند واقعات ایسے ضرور ہوئے ہیں کہ جب ان کی تقرری کی گئی کسی جگہ تو وہ اس پر بڑے سیخ پا ہوئے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ میں اسی لائق ہوں؟ مجھ سے خدمت لینی چاہئے.مجھے فلاں عظیم الشان کاموں پر لگانا چاہئے ، میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت قابل ہوں ، اتنی میری ڈگریاں ہیں.مجھ سے ادنی ادنی آدمیوں کو آپ نے فلاں جگہ لگایا ہوا ہے.چنانچہ کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک ایسے ہی شخص کی فائل منگوا کر وقف زندگی سے تعلق میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا جائزہ لینے کی خاطر اس کا تفصیل سے مطالعہ کیا تو عجیب وغریب ایک بحث اس سے نکلی.جب دفتر نے اس کو یہ جواب دیا کہ آپ واقف زندگی ہیں، آپ اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں، اب آپ کا کام نہیں ہے، یہ بحث کرنا کہ آپ کو کہاں لگایا جائے؟ یہ یا تو ان افسران کا کام ہے، جن کو خلیفہ وقت مقرر کرتا ہے یا خلیفہ وقت نے خودا گر کوئی فیصلہ کیا ہے تو آپ کو اس کو بخوشی تسلیم کر لینا چاہئے.تو اس کا جواب یہ تھا کہ معلوم ہوتا ہے آپ لوگ تقویٰ سے بالکل خالی ہو چکے ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور ایک اتنی اچھی چیز پیش ہوئی ہو اور اسے آپ ایک ذلیل جگہ پر لگارہے ہوں ، آپ کو کوئی خدا کا خوف نہیں ہے.کوئی جماعت کے لئے دلچسپی نہیں ہے.جماعت کے لئے آپ کے دل میں ہمدردی نہیں ہے.کوئی اسلام کے لئے سچی ہمدردی نہیں ہے.اگر ایسا نظام ہے اور ایسی خلافت ہے تو میری توبہ.یعنی میرے مقام کو ہی آپ نہیں سمجھ رہے.آپ کو یہ پتہ ہی نہیں کہ جب آپ مجھے غلط جگہ استعمال کرتے ہیں تو ضائع کر رہے ہیں اور اللہ کی چیز ضائع کر رہے ہیں..704

Page 714

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 105 اگست 1987ء تو ایک یہ بھی رنگ ہوتا ہے وقف زندگی کا ، جو پھر نا مقبول ہو جاتا ہے اور مردود ہو جاتا ہے.اس لئے ان احتمالات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ہو سکتا ہے کسی کا بچہ بڑا ہو کر عظیم الشان علم حاصل کرے، دنیا کے لحاظ سے.نوک پلک سے ہر طرح سے درست ہو اور سلسلہ اسے ایک معمولی سا کام دے رہا ہو.اس آیت پر غور ضروری ہے.ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام یہ عرض کرتے ہیں ، وارنا مناسکنا، جب ہم پیش کر چکے تو ہمیں یہ بھی حق نہیں ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہم نے کیا قربانیاں دینی ہیں؟ جس کے سپرد کر دیا ہے اپنے آپ کو، اس کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کیا قربانیاں لینی ہیں؟ کیسی کامل دعا ہے! حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ السلام کی سپردگی کا کمال اور آپ کی ذہانت کا بھی کمال ہے.کتنا باریک نکتہ ہے، جسے خدا کے حضور پیش کر رہے ہیں کہ خدا میں تو پیش کر چکا ہوں.اب میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں نے یہ قربانی دینی ہے.اب تیرا کام ہے، تو جانتا ہے، جہاں لگائے گا، وہاں لگ جائیں گے.جس قسم کا کام تو ہم سے لے گا، اسی قسم کا کام ہم کریں گے.اور یہی روح آپ کی نسل میں آگے جاری رہی.اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں بدرجہ کمال ظاہر ہوئی ہے.حیرت انگیز کمال کے ساتھ یہ جذ بہ نشو و نما پاتا رہا ہے.اور اس کے لئے ایک لمبی نسل تھی ایسی ، جن کے اندر خون میں خدا تعالیٰ نے ایسا نظام جاری کیا تھا کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے جذبات یا صلاحیتیں مزید پرورش پاتی ہوئی ، بڑھتی ہوئی، نشو ونما پاتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جارہی تھیں.ایک مخفی جو ہر کی طرح اور وہ تمام نسلوں میں جو مخفی جو ہر آگے ترقی کر رہے تھے، وہ بالآخر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تابع حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی جنین میں مجتمع ہو گئے اور ایک عظیم الشان وجود اس سے پیدا ہوا ہے.پس یا درکھیں کہ اگر آپ کی نیتیں خالص ہیں اور انکسار کامل ہے اور جب وقف کرتے ہیں تو پھر اپنا کچھ نہیں رہنے دیتے.سب کچھ خدا کا بنا دیتے ہیں.تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی عطا کرنے والا ہے کہ اس طرح وہ قبول حسن فرماتا ہے کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ کتنا عظیم الشان وجود پیدا ہو گا ؟ جیسا کہ میں پہلے بھی بارہ بتا چکا ہوں، اس دعا کا ایک نہایت ہی حسین پہلو یہ ہے اس کی قبولیت کا کہ حضرت ابراہیم کی دعا میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ترمیم فرما دی، اس کی قبولیت کے وقت، جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے جس رنگ میں دعامانگی تھی، جس وجود کا تصور کیا تھا، اس سے زیادہ بڑا وجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے، آپ کی نسل میں.چنانچہ حضرت ابراہیم نے دعا میں ترتیب یہ رکھی تھی کہ اے خدا ایسا رسول دے، جوان کو تیری آیات سنائے ، علم کتاب دے، کتاب کی حکمتیں بیان کرے اور 705

Page 715

خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 05 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم اس کے نتیجہ میں طبعا اس میں تزکیہ نفس پیدا کرنے کی طاقت پیدا ہو جائے گی.یہ ذہنی مضمون ہے، جو بتا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ السلام نے ایک منطقی نتیجہ نکالا.وہ منطقی نتیجہ یہ تھا کہ جو رسول خدا کا کلام سناتا ہے، پھر کتاب کا علم دیتا ہے، پھر کتاب کی حکمتیں بیان کرتا ہے، اس کے نتیجہ میں قوم کے اندر پاک ہو جانے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے.آیتیں سننا، ان کے علم کو اچھی طرح سمجھنا کہ کس طرح ان آیات پر عمل ہونا چاہئے؟ اس کی تعلیم پر عمل ہونا چاہئے؟ اور پھر حکمتیں بیان کرنا، یہ ساری چیزیں مل کر گو یا تزکیہ نفس پیدا کرتی ہیں.خدا تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرماتے وقت اس دعا کی ترتیب بدل دی فرمایا :.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِيْنَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلْلٍ مُّبِيْنٍ ( الجمعة : 3) کہ دعا قبول کی ہے لیکن بدلی ہوئی ترتیب کے ساتھ.وہ اس طرح کہ فرمایا کہ ہم نے رسول پیدا کر دیا، جو اللہ کی آیات ان کو پڑھ کر سناتا ہے.لیکن اس میں تزکیہ کی ایسی عظیم الشان طاقت ہے کہ اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ پہلے تعلیم کتاب کرنے اور تعلیم حكمة کرے، پھر تزکیہ کرے.براہ راست اس کی قوت قدسیہ اس طرح دوسروں میں سرایت کر جاتی ہے، جس طرح بجلی کی غیر مرئی شعاعیں بعض دفعہ دوسرے وجود میں سرایت کر رہی ہوتی ہیں یا ریڈی ایشن سرایت کر رہی ہوتی ہے کئی قسم کی.تو اس کا قرب ہی تزکیہ نفس کا موجب بن جاتا ہے.یہ وہ بات ہے، جسے خدا نے جہاں بھی اس کی تکرار کی ہے، قرآن کریم میں اسی ترتیب کو قائم رکھ کر کی ہے.حضرت ابراہیم کی دعا یہی رہی اور جواب خدا کا ہمیشہ یہی رہا کہ میں قبول کروں گا لیکن زیادہ شان کے ساتھ.اس سے زیادہ شاندار وجود عطا کروں گا تیری نسل میں، جس کا تو نے تصور باندھا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ جو آج بھی زندہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ و السلام کے تجربہ کے مطابق، جس کو آپ نے بارہا ہمارے سامنے بڑی قوت سے بیان کیا، وہ ایک الگ مضمون ہے، اس کا علم سے کوئی تعلق نہیں، اس کا حکمت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ علم اور حکمت کا اس قوت قدسیہ سے تعلق ہے.جتنا زیادہ تزکیہ کرے گا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود، اتنا ہی زیادہ سچا علم پانے کا بندہ اہل ہوتا چلا جائے گا.اتنا ہی زیادہ خدا تعالیٰ کے کلام کی حکمتوں کو سمجھنے کا انسان اہل ہوتا چلا جائے گا.یہ ہے وہ کامل مضمون، 706

Page 716

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد هفتم خطبہ عید الاضحیه فرموده 05 اگست 1987ء جس کو اس آیت میں ذراسی ترتیب بدلنے سے بیان کر دیا گیا.اسی لئے قرآن کریم میں ایک ایسی آیت رکھی گئی ، جو اس سے پہلے کسی اور کتاب میں آپ کو نہیں ملتی.اور وہ سورۃ بقرۃ کی پہلی آیت ہے:.هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ یہ کتاب ہے متقیوں کو ہدایت دینے والی.حالانکہ جتنی دوسری کتا بیں ہیں ، ان کا مطالعہ کر کے دیکھیں ، وہ یہ کہتی ہیں، یہ کتاب ہے متقی بنانے والی.اس تعلیم پر عمل کرو گے تو نیک بن جاؤ گے.یہ کیا دعوئی ہے کہ نیکوں کو ہدایت دینے والی ؟ اور معانی کے سوا ایک اس کا تعلق اس سے بھی ہے، جو اس سے پہلے زکیھم والی آیت آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی.فرمایا کہ یہ تزکیہ کرتا ہے اور تزکیہ کے نتیجہ میں انسان کو اس بات کا اہل بنادیتا ہے کہ نہایت اعلیٰ درجہ کا علم وہ حاصل کر سکے.جس میں کوئی خامی نہ ہو، کوئی کبھی نہ ہو.اور ایسی حکمتوں تک اس کی رسائی ہو جائے کہ جن حکمتوں تک عام انسان کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی ، جن کا تزکیہ نہ ہو.پس علم غیر پاکیزہ انسان کو بھی مل جاتا ہے اور حکمتیں بھی ایک غیر پاکیزہ انسان کسی حد تک سمجھ جاتا ہے.لیکن ایک پاکیزہ انسان کا علم اور ایک پاکیزہ انسان کی سمجھی ہوئی حکمتیں ایک بالکل اور مقام رکھتی ہیں.ان کا مرتبہ عام دنیا وی علم اور دنیاوی حکمتوں سے بہت زیادہ بلند ہو جاتا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا اس سے بہت زیادہ مقبول ہوئی ہے، جتنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی تصور بھی باندھا تھا.اس کو کہتے ہیں، کچی مقبولیت.پس جس خدا نے ہمیشہ یہی رحمت اور شفقت کا سلوک فرمایا ہے.حضرت مریم کی والدہ نے جو دعا مانگی ، ایک ایسے لڑکے کی دعا تھی ، جسے وہ سینی گاگ کے لئے ، یہود کے معبد کے لئے وقف کر دیں گی گویا کہ وہاں بیٹھ کر وہ ایک قسم کا یہودی عالم اور نیک یہودی عالم بن کر پرورش پائے گا اور جب وہ لڑکا نہیں ملا اور لڑکی ملی تو گھبراگئیں کہ میں نے تو بہت بڑی دعامانگی تھی ، یہ تو چھوٹی سی قبولیت ہوئی ہے.اللہ نے کہا تجھے کیا پتہ؟ میں نے تو قبول حسن کیا ہے.مریم کے نام سے آئندہ دنیا میں عظیم انقلاب آنے والا ہے.اس کی کوکھ سے وہ بچہ پیدا ہوگا، جس مسیح کا ساری دنیا انتظار کر رہی ہے.تو بسا اوقات دعا قبول ہوتے وقت بھی انسان کو پتہ نہیں لگ رہا ہوتا کہ کس رنگ میں دعا قبول ہوئی ہے؟ یہ دو مثالیں آپ کے سامنے رکھ کر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایک اصول ہے قطعی کہ جب خدا قبول فرمالے تو توقع سے بہت بڑھ کر عطا کیا کرتا ہے.اس لئے جب آپ اپنے بچوں کو وقف کریں تو اس مذہبی تاریخی پس منظر کو پیش نظر رکھیں.سب سے پہلے اپنی نیتیں پاک کریں اور بچپن سے ہی تربیت کرتے وقت ان کو یہ بتائیں 707

Page 717

خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 05 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کہ وقف کا یہ مضمون ہے.اور انہیں خوب سمجھا ئیں کہ تم بڑے ہوکر آزاد ہو جاؤ گے، میرے اس عہد سے تمہیں دوبارہ پھر عہد کرنا ہوگا.اور میں ابھی یہ بات کھول دیتا ہوں کہ جن کے وقف قبول ہوئے ہیں، اس شرط کے ساتھ قبول ہوئے ہیں، اگر بچے بڑے ہوئے اور یہی تمنا ان کے دل میں رہی ، جو تمنا باپ کے دل میں تھی یا ماں کے دل میں تھی کہ ہم نے ضرور واقف ہونا ہے تو پھر ان کا جائزہ لیا جائے گا.پھر اگر جماعت کے لئے وہ مفید وجود ثابت ہوئے کسی رنگ میں تو انہیں قبول کیا جائے گا.تو دو قسم کی پھر قبولیتیں سامنے آجائیں گی.ایک وہ جو نیتوں کی قبولیت ہوتی ہے، خدا کے حضور اور انہیں وہ جزا دے دیتا ہے.ایک وہ قبولیت، جس کو پھر خدا تعالی اس رنگ میں قبول فرماتا ہے، حسن کے طور پر، اس کی تربیت کا بھی انتظام فرماتا ہے، اسے اپنا لیتا ہے، اپنے کاموں میں لیتا ہے، اسے قربان گاہیں اس کی دکھاتا ہے، اس سے عظیم الشان خدمتیں لیتا ہے.تو پہلی فتہ کی جو قبولیت میں نے بیان کی ہے، وہ تو عموماً جب بھی انسان نیت کرتا ہے ، وہ اس کو حاصل ہو ہی جاتی ہے.اللہ اتنا رحم کرنے والا ، شفقت کرنے والا ہے، کوئی ادنی سا خیال بھی نیکی کا دل میں پیدا ہو تو اس کی جزا دے دیتا ہے.لیکن آپ دوسری مقبولیت کے لئے دعا کریں کہ خدا پھر اسے اس شان کے ساتھ قبول کرے کہ اس بچے کی تربیت میں آپ کا ممد و معاون ہو جائے.بلکہ اسے اپنا ہی لے شروع سے ہی خود براہ راست اس کی تربیت فرمائے اور پھر جب وہ بڑا ہو تو اسے اپنا بنا کر اس سے کام لے، اس کو بتائے کہ میں نے تجھ سے کیا کیا خدمتیں لینی ہیں اور پھر ان خدمتوں میں اس کو ثابت قدم رکھے.اگر ہم ان نیتوں کے ساتھ اپنی دعائیں کرتے ہوئے ، اس میں یہ اضافہ کر دیں، اپنی نیتوں میں اے خدا! یہ بچہ جو میں نے وقف کیا ہے، آئندہ اس کی نسلیں بھی وقف ہوں ، قیامت تک، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے عرض کیا تھا:.رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةٌ مُسْلِمَةً لَكَ ایک امت پیدا ہو جائے عظیم الشان قوم وجود میں آئے ، جو ساری کی ساری واقف زندگی ہو.ان نیتوں کے ساتھ اگر آپ دعا ئیں کرتے ہوئے اپنے بچے وقف کریں تو آپ تصور نہیں کر سکتے کہ آئندہ دنیا پر کتنا بڑا احسان کر رہے ہو گے؟ کتنے عظیم الشان وجود آپ کی نسلوں سے پیدا ہوں گے، جو آپ کو دعائیں دیں گے ، آپ پر رحمتیں بھیجیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے خلوص نیت کو قبول کرتے ہوئے آئندہ بنی نوع انسان کی بھلائی کے سامان پیدا کئے اور خود آپ کی نسل پر آپ کا اتنا بڑا احسان ہوگا کہ شاذ کے طور پر دنیا میں کوئی والدین اپنی نسل پر ایسا احسان کرتے ہیں، جیسا ایک وقف کرنے والا اگر خلوص کے ساتھ وقف کرے، وہ اپنی نسل پر احسان کرتا ہے.708

Page 718

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خطبہ عید الاضحیہ فرموده 05 اگست 1987ء تو اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں ان قربانیوں کے ان مضامین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے نتیجہ میں ہم حقیقی واقفین کی زندگیاں خدا کے حضور پیش کرنے والے ہوں، جن میں کوئی انانیت کا ادنی سا شائبہ بھی باقی نہ رہے.یا درکھیں کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ہمیں ایک انکساری کا سبق بھی دے رہی ہے.ابراہیم سے بڑھ کر متقی کون تھا، اس زمانے میں؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شاذ ہی کوئی ہوگا.ہمارے علم میں نہیں کہ جو ابراہیم جیسا اعلیٰ درجہ کا تقویٰ رکھتا ہو.اس کے باوجود وہ کس عاجزی سے عرض کر رہے ہیں کہ تقبل منا وتب علينا.دوباتیں انہوں نے پیش کی ہیں کہ اے خدا! مجھے پتہ نہیں کہ میں اس لائق بھی ہوں کہ میرا وقف تیرے حضور قبول ہو.میں نہیں جانتا کہ میرا بچہ بھی اس لائق ہے کہ نہیں کہ اس کا وقف تیرے حضور قبول ہو.اس لئے عرض ہے، یہ مضمون نسب علینا سے کھل جاتا ہے.عرض کیا ہے کہ میں جانتا ہوں، میرے علم میں ہے کہ ہم میں بہت سی کمزوریاں ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میں قبول کئے جانے کے لائق نہیں، میرا بچہ قبول کئے جانے کے لائق نہیں.ایک ہی صورت ہے کہ تسب علینا ہماری توبہ قبول فرما اور تب علینا کا ایک مطلب ہے کہ رحمت کے ساتھ رجوع فرما، پردہ پوشی فرما، ہمارے گناہوں سے درگزر فرما.انک انت التواب الرحيم تو تو بار بار توبہ قبول کرنے والا ہے، بہت ہی رحم کرنے والا ہے.یہ دعا اپنے اندر ایک عظیم الشان انکسار رکھتی ہے.اور دعا کرنے والا خدا تعالیٰ کا ایک عظیم الشان نبی ہے.انبیاء میں اس کو ایک خاص مرتبہ حاصل ہے.تو اگر ایک عام انسان وقف کرے اور یہ سمجھے کہ بس اب میں نے احسان کر دیا جماعت کے اوپر ، اب میں نے خدا پر احسان رکھ دیا، اب اور کیا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ ؟ میں نے وقف کر دیا اب چھٹی ہوئی.یہ بات نہیں ہوگی.ابراہیم والا انکسار آپ کو پیدا کرنا ہوگا.وقف کرتے ہوئے یہ خوف دامن گیر ہو جانا چاہئے کہ کیا تو ہے پر کیا کیا؟ اس لائق بھی ہے کہ نہیں کہ خدا اسے قبول کرے؟ اور یہ جانتے ہوئے کہ لائق نہیں ہے، کامل انکسار کے ساتھ اور عجز کے ساتھ خدا کے حضور یہ التجائیں کریں کہ اے خدا! ہمیں پتہ ہے کچھ بھی نہیں، ہم جانتے ہیں ہم کیا ہیں، کس حال پر کھڑے ہیں.تو قبول فرما! اس طرح قبول فرما لے کہ تو بہ بھی قبول فرمائے، بخشش فرما، کمزوریوں کو نظر انداز فرما اور ان کو آئندہ دور کرنے کا انتظام فرما! تو یہ انکسار اگر دعاؤں میں شامل ہو گیا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہم آئندہ ایک صدی نہیں بلکہ آئندہ ہر آنے والی صدی پر ایک عظیم احسان کر رہے ہوں گے.اور خدا نے جو ہم پر احسان کیا ہوگا ، وہ ان پر رحمتیں اور فضلوں کی بارش بن کے برستا ر ہے گا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین.(مطبوعہ خطبات طاہر (عیدین) صفحہ 447435) 709

Page 719

Page 720

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 14 اگست 1987ء عہدیداران کمزور اور خاموش بیٹھ رہنے والوں کو خدمت دین میں لگائیں خطبه جمعه فرموده 14 اگست 1987ء مختلف وقتوں میں مختلف منتظمین کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، دراصل ان کے انتظام کی صلاحیت نمایاں طور پر اجاگر ہو کر اس وقت ابھرتی ہے، جب وہ مشکلات کے دور میں سے گزر رہے ہوں اور شدید مخالفت کا سامنا ہو.یہاں تک کہ یہ خطرہ ہو کہ اگر مستعدی کے ساتھ حالات کا مقابلہ نہ کیا گیا تو قوم شاید صفحہ ہستی سے مٹادی جائے.ایسے حالات بھی قوموں پر آتے ہیں.جہاں تک الہی جماعتوں کا تعلق ہے، خدا کا وعدہ ہے کہ دشمن کو ہرگز توفیق نہیں ملے گی کہ وہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹادے، اس لئے اس خطرے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.جہاں تک ذمہ دار منتظمین کا تعلق ہے، ان کے پھر مختلف قسم کے حالات ہیں.دو گروہ خاص طور پر ایسے ہیں، جن کا اس پہلی آیت کریمہ میں ذکر ہے اور جن کے متعلق میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ہمارے امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان اور دیگر عہدیداران کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ مومنوں کے پہلے دو درجات، جن کو صف اول اور صف دوئم کے درجے کے مومن قرار دیا جا سکتا ہے، ان کا اس آیت میں ذکر ہے.ایک وہ ہیں، جو ہر حال میں، ہر مشکل کے وقت بہر حال سابقون میں شامل رہتے ہیں اور خدا کی خاطر ہر مصیبت کے دور میں بھی خدمت دین سے پیچھے نہیں ہٹتے.بہت سے امراء اور عہدیداران ہیں، جو ان کے حال پر نظر رکھ کر راضی ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ جو خدمت دین ادا کر رہے ہیں، بس یہی کافی ہیں.حالانکہ ایک اور طبقہ بھی ہے، جس کا اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے.اور وہ ہے، بیٹھ رہنے والوں کا.دوسرا طبقہ جو ایمان کے لحاظ سے زخمی نہیں ہوتے ، حقیقی مومنوں کے ساتھ ہی ہیں اور ان سے بھی خدا تعالیٰ حسن سلوک فرمائے گا.لیکن وہ ایسا طبقہ ہے، جو ملا عظیم قومی جہاد میں شامل نہیں ہے.ایسے لوگ بہت سے ایسے منتظمین ہیں، چند نہیں بلکہ بہت سے ایسے منتظمین ہیں، جہاں تک میں نے دنیا کی جماعتوں کا جائزہ لیا ہے، میرا خیال ہے بدقسمتی سے اکثریت ہمارے منتظمین کی ایسی ہے، جو اس دوسرے طبقے کو نظر انداز کر دیتی ہے اور ان پر کام نہیں کرتی.نتیجہ ان کی جماعتوں کی حالت یکساں ہی رہتی ہے.یعنی مقامی کوششوں کے نتیجے 711

Page 721

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اگست 1987 ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد هفتم میں وہ ترقی نہیں کرتی.دیگر حالات تبدیل ہو جائیں، بیرونی اثرات کے نتیجے میں ممکن ہے، ان میں سے بعض سوئے ہوئے بھی جاگ اٹھیں.یعنی جہاں تک مقامی منتظمین کا تعلق ہے، وہ نیم خوابیدہ طبقہ جو ضائع نہیں ہوا مگر جاگ کر قومی جہاد میں حصہ بھی نہیں لے رہا، اس کی طرف وہ متوجہ نہیں ہوتے.چنانچہ بعض ایسی جماعتیں ہیں کہ بیسیوں سال سے وہ اسی حالت میں ہیں.جو خدا تعالیٰ کی تقدیر سے خود بخو داچھے لوگ نکل کر آگے آگئے ، خدمت دین میں پیش پیش ہیں، انہی کے کام کے مجموعہ کو ہم جماعت کے کام کا مجموعہ قرار دے سکتے ہیں.لیکن جو نسبتاً کمزور تھے یا خاموش بیٹھ رہنے والے تھے، ان کو بیدار کرنے اور صف اول میں شامل کرنے کی کوئی انتظامی کوشش نہیں کی گئی.آج بھی ایسا حال ہے.بعض جماعتیں میری آنکھوں کے سامنے ہیں، جن کے امراء مسلسل یہ خیال رکھتے ہیں کہ نسبتا پیچھے رہنے والوں کو محنت کر کے آگے لایا جائے اور ان کو عظیم الشان درجات سے محروم نہ رکھا جائے.چنانچہ دن بدن ان جماعتوں کی حالت پہلے سے بہتر ہوتی چلی جاتی ہے.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا، اکثر صورتوں میں پریذیڈنٹ کو یا امیر کو بنے بنائے جو خلصین مل جائیں، وہ ان پر راضی رہتا ہے اور خودمخلص بنانا آتا نہیں.اور آج کل ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں، ہمیں کثرت کے ساتھ ان دونوں میں سے صف اول کے مومنین کی ضرورت ہے.کیونکہ مسائل اور مشکلات بڑھتے جارہے ہیں.کچھ ایسے ہیں، جو ہماری آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو چکے ہیں.بہت سے ایسے ہیں، جن کی دشمن تیاری کر رہا ہے، جن کی خبریں ہمیں دنیا کے کونے کونے سے موصول ہو رہی ہیں.اگر آپ کو یہ اندازہ ہو کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لئے کتنے نئے سکول اور کالج اور جامعہ کھولنے کا منصوبہ بن چکا ہے، اس کی شرارت کے جتنے بھی پہلو ممکن ہیں، ان سب کو مد نظر رکھتے ہوئے تیاری کی جاچکی ہے، اربوں روپیہ دنیا میں خرچ کر کے آئندہ نسلوں میں جماعت احمدیہ کے خلاف زہر پھیلانے اور مشکلات کے بیج بونے کے جو سامان کئے جارہے ہیں، اگر ان کا آپ کو اندازہ ہو تو آپ میں سے جو کمزور ہیں، وہ ممکن ہے مایوس ہو جا ئیں.بہت بڑی بڑی طاقتیں ہیں، جو اس پر کام کر رہی ہیں.اور ایسے دنیا کے ممالک، جن میں اس وقت آپ کو امن دکھائی دے رہا ہے، ان کے متعلق بھی نہایت ہی خطرناک منصوبے ہیں، جو اس وقت زیر عمل ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جماعت کو باوجود اس کے کہ ہمارے ہاں کوئی جاسوسی کا نظام نہیں ہے، ان باتوں سے باخبر رکھتا ہے.کہیں نہ کہیں سے جہاں یہ باتیں پنپ رہی ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرما دیتا ہے کہ جماعت کے کسی مخلص دوست کو اطلاع ملتی ہے اور پھر وہ جو بھی اطلاع ملتی ہے ، وہ آگے ہمیں پہنچا دیتا ہے.تو کچھ مخالفت ظاہر ہے اور کچھ مخالفت مخفی ہے ابھی.جس کی بہت سی تیاری کی جارہی ہے.712

Page 722

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اگست 1987ء اسی طرح مخالفت سے قطع نظر جماعت کے کام جو نئے نئے ابھر رہے ہیں، نئے نئے منصوبے ہمارے سامنے آرہے ہیں ، نئی نئی ترقی کی راہیں اللہ تعالیٰ کھول رہا ہے، نئے محنت کے میدان ہمارے سامنے ظاہر ہورہے ہیں، اس کے لئے مثبت پہلو سے بھی دیکھیں تو ہمیں بہت زیادہ خدمت دین کرنے والوں کی ضرورت ہے.تو ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہیں کہ یہ چند آدمی جو خود بخود اخلاص کے ساتھ پیدا ہو جاتے ہیں، جن کا خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر حالت میں انہوں نے خدمت دین کرنی ہی کرنی ہے، کوئی حالات کی تبدیلی انہیں باز نہیں رکھ سکتی، وہ ہمیشہ صف اول میں رہیں گے ، جان مال کی قربانی میں ہمیشہ پیش پیش رہیں گے.ان پر بنا کرتے ہوئے ، ان پر راضی رہتے ہوئے ، جو امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان یہ خیال کرتے ہیں کہ مستقبل کی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں گے، وہ غلطی میں ہیں.ایسے لوگوں کی مثال زمینداروں کی صورت میں اس طرح دی جا سکتی ہے کہ بعض زمیندار ایسے ہوتے ہیں، جن کو زمین کا جو اچھا ٹکڑا مل جائے ، اسی پر فصل لگاتے رہتے ہیں اور جو نسبتا کمزور ٹکڑے ہیں، ان کی بحالی کی کوشش نہیں کرتے یا محنت برداشت نہیں کر سکتے.نتیجہ دو طرح کے نقصان پہنچتے ہیں ان کو.اول یہ کہ جوزمین بحال ہو سکتی تھی، بحال نہ ہونے کے نتیجے میں بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے.اور پھر یہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی حالت میں پہنچ جائے کہ پھر اس کی واپسی ممکن نہ ہو.چنانچہ ایسی زمینیں پھر ہاتھ سے نکل جاتی ہیں اور کلر تھور کا شکار ہو جاتی ہیں.ان کو واپس لانے کے لئے غیر معمولی محنت کرنی پڑتی ہے.کچھ زمیندار ایسے ہیں، جو ان پر بھی محنت کرتے ہیں اور ان سے بھی غافل نہیں رہتے.ان کو بھی کھینچ کر واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں.اور ایسے جو دو قسم کے زمیندار ہیں، ان کے حالات میں زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے.مجھے لمبا تجربہ ہے زمینداری کا.خود اپنے بھی اور بھائیوں کی مشترکہ زمین پر بھی میں نے کام کیا ہے.اس لئے میں جانتا ہوں کہ جہاں ایسا مینیجر ہو، جو محض دکھاوے کے لئے اپنی اوسط (Average) کو بڑھانا چاہتا ہے، وہ بالعموم اچھی زمینیں اپنے لئے چن لیتا ہے اور انہیں پر کام کرتا ہے.اور وہ کہتا ہے کہ دیکھیں میرے فی ایکڑ اوسط کا معیار دوسرے سے بہتر ہے.اس کے مقابل پر ایک دوسرا مینیجر ہوتا ہے، جو دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ زمیندارے سے محبت کرتے ہوئے، زمیندارے کے اصولوں کو سمجھ کر کام کرتا ہے.اس کی کیفیت یہ ہے کہ شروع میں بعض دفعہ اس کی اوسط کم دکھائی دیتی ہے اور بعض دفعہ کئی سال تک اس کے 713

Page 723

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم کام کی خوبیاں ظاہر نہیں ہو تیں.لیکن رفتہ رفتہ جب آپ دیکھتے ہیں، تجزیہ کر کے گزشتہ سالوں سے مقابلہ کر کے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زمینیں دوسرے مینیجر کی نسبت بہت زیادہ آگے نکل چکی ہیں.خراب زمینوں، اچھی زمینوں کی نسبت میں فرق پڑ گیا.اچھی زمینیں پہلے سے بہت بہتر ہو گئیں رفتہ رفتہ.لیکن اس کے برعکس جو خراب مینیجر ہے یا خراب زمیندار یانا واقف زمیندار، اس کو ایک اور نقصان بھی پہنچتا ہے.اگر زمین اچھی ہو اور تھوڑی ہو اور اس پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو پھر وہ اچھی نہیں رہتی اور وہ بھی کمزور رہنے لگ جاتی ہے.طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دیں تو جتنا پہلے آپ حاصل کر سکتے تھے اس سے ، وہ حاصل نہیں کر سکتے.آپ مثال لیں.ہمیں مالی طور پر قربانی کی مسلسل پیچھے سے ضرورت پڑتی چلی آرہی ہے.اللہ کے فضل سے اور جماعت بڑے شوق سے اس میں حصہ لیتی چلی جارہی ہے.کئی امیر ہیں، جو نسبتا مالی قربانی میں پیچھے رہنے والوں کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں.چنانچہ جب نئی تحریکیں آتی ہیں، جب نئے قسم کے مالی قربانی کے تقاضے سامنے آتے ہیں تو ہر وقت کچھ نئے لوگ ہیں، جو آگے آکر اس بوجھ میں ساری جماعت کے شریک ہوتے چلے جارہے ہوتے ہیں.بعض امراء ایسے ہیں، دوڑ دوڑ کر انہیں کے پاس جاتے ہیں، جن کو مالی قربانی کی عادت ہے.اور ایک دفعہ، دو دفعہ، تین دفعہ جب ان پر بوجھ ڈالتے ہیں تو چوتھی یا پانچویں دفعہ بالآخر وہ اپنے دروازے بند کرنے لگ جاتے ہیں، گھبرانے لگ جاتے ہیں کہ اب فون آیا ہے یا اطلاع آئی ہے یا دروازہ کھٹکا ہے تو ضرور کچھ مانگنے کے لئے آئے ہوں گے.ان کے اوپر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے نتیجے میں جماعت پر بھی ظلم کیا گیا اور ان کی ذات پر شدید ظلم کیا گیا.اس سے پہلے وہ اخلاص کے ساتھ قربانی کرتے تھے، اس سے پہلے ان کو قربانی میں لطف آتا تھا.لیکن جب طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دیا گیا تو پہلے ان کا لطف ضائع کیا گیا، یہ ان پر ظلم کیا گیا.پھر لطف کی بجائے بدمزگی شروع ہوئی اور بوجھ کا احساس بڑھنا شروع ہوا، جس کے نتیجے میں قربانی کے ثواب سے بھی وہ محروم رہا گئے.تو اچھی زمینوں کو یہ لوگ بری زمینوں میں تبدیل کرنے والے ہوتے ہیں.اس وقت جماعت جس دور میں سے گزر رہی ہے، اس وقت ہمارے کاموں پر بوجھ بڑھنے والے ہیں.مخالفت کے مقابلے کے لحاظ سے بھی ایک دو ملکوں کی بات نہیں رہے گی.آئندہ چند سالوں میں یا آٹھ یا دس سال کے اندر میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کئی ممالک ایسے ظاہر ہوں گے، جہاں جماعت احمدیہ کے خوف کے نتیجے میں، اس سے ڈر کر یہ محسوس کر کے کہ یہ جماعت غالب آنے والی ہے، بڑی شدید 714

Page 724

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک مخالفتیں ہوں گی.وہ چند مخلصین ، جو اس وقت ساری جماعت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں، وہ کافی نہیں ہوں گے، اس وقت.اب وقت ہے ہمارے پاس کہ ان نسبتاً غافل لوگوں کو، جو خدا کے غضب کے نیچے ابھی نہیں آئے ، ان سے حسن سلوک کا وعدہ ابھی جاری ہے، جن کا ایمان سلامت ہے ، ان کو دین سے محبت ضرور ہے مگر کمزور ہے، ان کو آگے لایا جائے اور ان کے اوپر ذمہ داریاں ڈالی جائیں.جن جماعتوں میں اس طرف توجہ دی جاتی ہے، وہاں حیران ہو جاتا ہے انسان یہ دیکھ کر کہ کثرت سے لوگ نکلنے شروع ہو جاتے ہیں، بڑی برکت پڑتی ہے، اس کام میں.چنانچہ میں نے انگلستان کی مثال بار ہادی ہے.جب میں یہاں آیا تھا، اس سے پہلے چند گنتی کے چہرے تھے ، وہی ہر کام میں بار بار سامنے آنے والے تھے.اور جو کام ہوتا تھا، بالآخران کے ذمے ڈال دیا جاتا تھا.لیکن اب کئی گنا زیادہ ، کوئی نسبت ہی نہیں رہی ، ایسے نوجوان ، ایسے بوڑھے، ایسے مرد، ایسی عورتیں کاموں میں آگے آگئے ہیں کہ پہلے ان کے متعلق واہمہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ خدمت دین کی صلاحیت رکھتے ہیں.اور ان میں سے پھر ایسے اچھے اچھے چمکے ہیں بعض ، جو پہلوں سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں.زمینداری میں بھی میں نے یہی دیکھا ہے.بعض دفعہ جن زمینوں کو چھوڑا جاتا ہے، جب ان کی اصلاح کی جاتی ہے تو اتنا پھر پھل دیتی ہیں کہ جن کو ہم پہلے اچھی زمینیں سمجھا کرتے تھے ، ان سے بھی بہت آگے بڑھ جاتی ہیں.تو جماعت میں خدمت دین کرنے والوں کی کمی نہیں ہے.ایک تو خوشخبری ہمیں بہر حال مل چکی ہے کہ فتنہ وفساد کی انتہا کے باوجود بہت شاذ وہ لوگ ہیں ، جن کا تیسری آیت میں ذکر کیا گیا ہے.یعنی ظالمی انفسهم.پاکستان جیسے شدید خطرناک حالات میں ایسے لوگ جو مرتد ہو گئے یا جماعت سے منہ موڑ کر چھپ گئے ، نظروں سے اوجھل ہو گئے ، وہ ظالمی انفسهم ہیں.ان کی تعداد دیکھیں گنتی کے چند لوگ ہیں.تو یہ تو ایک عظیم الشان خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ابتلاء میں سے جماعت کے اکثر حصے کو اس طرح گزارا کہ وہ مرے نہیں اور شدید زخمی بھی نہیں ہوئے ، معمولی کمزوریاں پیدا ہوئیں، ایسی کمزوریاں جن سے خدا مغفرت کا سلوک فرمانے کا وعدہ فرما رہا ہے.دوسری بڑی خوشخبری یہ ہے کہ ایسی زمینیں کثرت کے ساتھ موجود ہیں، جو اصلاح کے لائق ہیں.اور تھوڑے سے کام کے نتیجے میں بہت ہی زرخیز زمینیں بن سکتی ہیں.اور انذار کا پہلو یہ ہے کہ اگر ان کی طرف توجہ نہ کی گئی ، اگر ان کو صف اول میں لانے کی کوشش نہ کی گئی تو یہی وہ زمینیں ہیں، جو رفتہ رفتہ تیسری قسم میں تبدیل ہوا کرتی ہیں اور پھر کلر تھور بن جاتی ہیں.پھر ان کی بحالی کی اگر کوشش کی بھی جائے تو بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے.715

Page 725

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم تو ہر جگہ کے امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان اور دیگر کارندوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ آئندہ بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے پیش نظر ہمیں ابھی سے خدمت دین کی صف اول میں کام کرنے والوں کی تعداد کو بڑھانا چاہئے.اس سلسلے میں کچھ نفسیاتی رو کیس بھی ہیں، جن کا تجزیہ ضروری ہے.ورنہ بہت سے امیر اور پریذیڈنٹ صاحبان ایسے ہوں گے، جن کو پتا ہی نہیں ہوگا اپنا کہ ہم کیوں یہ کام نہیں کر رہے؟ کچھ تو جیسا کہ میں نے ایک پہلے خطبہ میں بھی اشارہ کیا تھا، اپنی بے وقوفی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ ہمارے ساتھی ہیں اور کچھ لوگ ہمارے دشمن ہیں.یعنی ناجائز طور پر بے وجہ بعض احمد یوں پر اعتماد نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہیں ہمارے مخالفین، ان کو ایک طرف چھوڑ دو.اور یہ چندلوگ اچھے ہیں.یا مخالف نہ بھی سمجھیں تو بدظنی کرتے ہیں.جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں جی! یہاں تو قحط الرجال ہے.کام کرنے والے ملتے ہی کوئی نہیں.قحط الرجال تو نہیں ہے لیکن قحط العقل ضرور ہو سکتا ہے.قرآن کریم بتا رہا ہے کہ قحط الرجال نہیں ہوتا.بہت سے لوگ خاموش بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں، تمہیں نظر نہیں آ رہے ہوتے.اس دور کی آزمائش نے ہمیں بتا دیا کہ ہمارے ہاں کثرت سے ہیں ایسے لوگ، جن میں الرجال بننے کی خاصیت موجود ہے.ان کو اگر صحیح طریق پر آپ آگے لانے کی کوشش کریں تو بہت اچھے اچھے لوگ آپ کے پاس موجود ہیں، جن کو آپ نظر انداز کئے بیٹھے ہیں.پس بہت سے امراء ہیں، جو بدظنی کرتے ہیں.حالانکہ در حقیقت اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو دنیا کے کسی دور میں بھی قحط الرجال نام کی کوئی چیز نہیں ہے.سب سے زیادہ خطرناک دور، جسے قحط الرجال کا دور کہا جا سکتا ہے، وہ انبیاء کے ظہور کا دور ہوا کرتا ہے.ایک دفعہ تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایک شخص کے سوا خدا تعالیٰ نے ہر دوسرے انسان کو رد فرما دیا ہے.ایک وجود ابھرتا ہے اور اس کے اردگرد سارے فساد کی کیفیت دکھائی دیتی ہے.وہ لوگ جو انتہائی ردی حالت میں دکھائی دے رہے ہوتے ہیں، وہ وجو دان پر ہاتھ ڈالتا ہے اور ان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کر دیتا ہے“.وو پس حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جتنا قحط الرجال ممکن ہو سکتا تھا، وہ تھا بظاہر.لیکن اللہ کی تقدیر نے ثابت کیا کہ خدا کے بہادر بندوں کے سامنے قحط الرجال نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی.جو اللہ پر توکل کرنے والے ہوتے ہیں، دعاؤں سے خدا کی مدد مانگتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ اپنے اموال اور اپنی جانوں سے کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، ان کو خدا یہ توفیق بخشتا ہے کہ جہاں مرد نظر نہ آرہے ہوں، وہاں سے مرد پیدا کر کے دکھا دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 716

Page 726

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اگست 1987ء نے لکھا ہے کہ گوبر کے ٹکڑے نظر آتے تھے، جن پر ہاتھ ڈال محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور چمکتی ہوئی سونے کی ڈلیوں میں تبدیل فرما دیا.(القصائد الاحمد به صفحه : 03) پس آپ بھی تو اسی کے غلام ہیں، اسی کی محبت کا دعویٰ کرنے والے ہیں، اسی عظیم وجود کے کام کو آگے بڑھانے کا عہد لے کر اٹھے ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ کے افراد کو اگر کوئی امیر یہ کہہ کر رد کرتا ہے کہ یہاں قحط الرجال ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے.اس کے ہاں عقل کا یا ایمان کا قحط ہو سکتا ہے لیکن قحط الرجال نہیں، اگر قحط الرجال ہوتا نعوذ باللہ من ذالک تو اس وقت پاکستان کے اکثر احمدی مرتد ہو چکے ہوتے.میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ پوری طرح بے عملی کا شکار ہیں لیکن نسبتیں ہوا کرتی ہیں، یہ دو گروہ خدا تعالیٰ نے نمایاں طور پر دکھائے ہیں.یہ مطلب نہیں کہ ان کے درمیان کوئی اور ٹکڑا ہی نہیں آتا ، درجہ بدرجہ فرق پڑا کرتے ہیں.پس اس وقت میرا جائزہ یہ ہے کہ جماعت، ساری دنیا کی جماعتوں میں، اکثر جماعتوں میں اکثر احمدی ایسے ہیں، جو ابھی صف اول کے مجاہد نہیں ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ غیر معمولی کام کی گنجائش موجود ہے.اگر آپ ان سب کی تمام صلاحیتوں کو صف اول کی صلاحیتوں میں تبدیل کر دیں تو اتنی بڑی طاقت جماعت احمد یہ بن چکی ہے کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.یہ طاقتیں خدا نے دیکھیں ہیں تو ہم پر بوجھ ڈالے ہیں.یہ طاقتیں خدا کی تقدیر کو دکھائی گئی ہیں، تبھی اتنے بڑے بڑے ابتلاؤں میں سے جماعت کو خدا تعالیٰ نے گزارنا شروع کیا ہے.پس ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے امرائے جماعت پر اور پریذیڈنٹ صاحبان پر یادیگر عہدیدارخواہ وہ قائد کہلائیں باز میم کہلا ئیں، جو نام بھی ان کا رکھیں.طریقہ کار یہ ہونا چاہئے کہ کچھ پیچھے ہٹنے والے یا کمزور رہنے والے آدمیوں پر تھوڑی تھوڑی ذمہ داریاں ڈالنی شروع کریں، ان کو اپنے ساتھ ملائیں، ان سے محبت اور پیار کا سلوک کریں ، ان پر اعتماد کریں.ان سے کہیں : یہ یہ کام جماعت کے ہونے والے ہیں، چند ہی آدمی ہیں، جن پر بار بار بوجھ ڈالے جاتے ہیں.خطرہ ہے، وہ تھک نہ جائیں، ان کی طاقت سے بوجھ بڑھ نہ جائے.اس لئے آپ تھوڑ اسا ان کو سہارا دیں.چنانچہ بعض اچھے آدمیوں کے ساتھ بعض کمزور آدمی شامل کئے جائیں.نوجوانوں کو بھی پکڑا جائے اور کچھ نہ کچھ کام دیا جائے.کام اگر دیا جائے اور کوئی کام کر لے تو کسی شخص کا یہ احساس کے میں نے ایک اچھا کام کیا ہے، یہ ہی اس کی جزا ہوا کرتی ہے.اور آئندہ کام کے لئے طلب دل میں پیدا ہو جاتی ہے.ایک ایسا اہم نفسیاتی نقطہ 717

Page 727

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ہے، جس کو بھلا دینے کے نتیجے میں ہم بہت سے ایسے آدمیوں کو ضائع کر دیتے ہیں.کسی آدمی کو پکڑیں ، اس کو سے کوئی اچھا سا کام لے لیں اور پھر دیکھیں کہ اس کے اندر کیسی بشاشت پیدا ہوتی ہے.اور آئندہ اتنا کام نہیں بلکہ اس سے زیادہ کام کرنے کی صلاحیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح رفتہ رفتہ ترقی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور یہ کام ایسا نہیں ہے کہ ایک دو دن میں ہو.بعض دفعہ مہینوں ، بعض دفعہ کئی سال چاہئیں.لیکن ایسی جماعتیں، جو اس طرح اپنے کمزوروں کو طاقتوروں میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہیں اور حکمت کے ساتھ منصوبہ بنا کر ان پر کام کرتی ہیں، ان کی حالت دن بدن بدلتی چلی جاتی ہے.اللہ کے فضل سے دنیا میں کئی ایسی بڑی بڑی جماعتیں ہیں، جو بڑے بڑے صوبوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوگئی ہیں، بڑے بڑے ملکوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو گئی ہیں.اور ایسی کثرت سے جماعتیں ہیں، جو ابھی بیدار نہیں ہوئیں، پوری طرح.پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ مومنوں میں سے جو القعدین ہیں ، بیٹھ رہنے والے، ان میں اور آگے بڑھنے والوں میں بہت فرق ہے، غیر معمولی فرق ہے.تو اس میں ایک خاص نقطہ ہے، جو ہمیں بیان فرمایا گیا ہے.جو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.جتنا ان میں فرق ہے، اتنا ہی ہم ان کے درجات سے محروم ہور ہے ہیں.معلوم یہ ہو رہا ہے کہ ہم میں سے جو بہترین کام کرنے والے ہیں، وہ نہ کام کرنے والوں سے اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ اگر نہ کام کرنے والوں کے قدم ہم بڑھانے شروع کریں ، ان کو ساتھ ملانے کی کوشش کریں تو بہت سے درجات سے گزر کر ان کو وہاں تک پہنچنا ہوگا.اور جتنے درجات سے وہ گزریں گے، اتنا ہی جماعت کو فائدہ ہے.ہر درجے پر وہ جماعت کے لئے کچھ حاصل کرنے والے ہوں گے، ان کی کوششیں ہر مقام پر جماعت کے لئے کوئی پھل پیدا کریں گی.ترقی کی لامتناہی گنجائش موجود ہے، یہ بتارہی ہے، یہ آیت.اپنے اولین کو دیکھو اور اپنے آخرین کو دیکھو، تمہارے اندر پوشیدہ صلاحیتیں موجود ہیں.پس اس نقطۂ نگاہ سے دنیا کی ہر جماعت میں با قاعدہ منصوبہ بنا چاہئے، ہلکی سطح پر بھی ، صوبائی سطح پر بھی اور جماعتی سطح پر بھی.اور ایسے لوگ جن کی بہت سی صلاحیتیں ابھی Harness نہیں ہوئیں، ان کے اوپر ذمہ داریوں کے بوجھ نہیں ڈالے گئے ، ان کے متعلق منصوبے بنائے جائیں کہ کس طرح ان کو آہستہ آہستہ جماعت کے غیر معمولی فعال اور خدا کی رضا حاصل کرنے والے وجودوں میں تبدیل کرنا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ اگر ہم ساری دنیا میں اس منصوبے پر عمل شروع کر دیں تو اس کے غیر معمولی فوائد فوری اگر نظر نہ بھی آئیں تو آئندہ چند سال میں ظاہر ہوں گے.اور ہمارے جتنے بھی نیک منصوبے 718

Page 728

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اگست 1987ء ہیں، ان سب میں برکت پڑ جائے گی.منصوبے اچھے جتنے چاہے ہوں، اگر اچھے کارکن میسر نہ ہوں تو منصوبے بے معنی ہو جایا کرتے ہیں.اچھے کارکن میسر ہوں مگر تعداد کافی نہ ہو اور منصوبہ زیادہ بوجھ اٹھانے والا ہو تو پھر بھی انسان بہت سی برکتوں سے محروم رہ جایا کرتا ہے.تو جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت اعلیٰ منصوبوں کی کوئی کمی نہیں ہے، جماعت خود ایک نہایت اعلیٰ منصوبہ ہے.لیکن کام کرنے والوں کی کمی ہے.اور جتنا آپ نے ترقی کی ہے، اتنا اس کمی کا احساس زیادہ پیدا ہوا ہے.گزشتہ چند سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ابتلاء کے نیک پھل کے طور پر خدا نے جماعت کو بہت ہی ترقی عطا فرمائی ہے.اور اس ترقی نے میری توجہ اس بات کی طرف مبذول کی ہے کہ اگر سارے ہم شامل ہو جا ئیں اور اپنا سب کچھ اس راہ میں ڈال دیں تو سینکڑوں گنا زیادہ ترقیاور ممکن ہے.بہت سے درجات ہیں، جنہیں ہم نے ابھی طے کرتا ہے اور جو ہمارے منتظر ہیں.تو اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.یہ کام ایک دو سال میں تو مکمل نہیں ہوا کرتا.کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے.لمبی محنت ہے، جو چاہئے.جس طرح زمینیں بحال نہیں ہوا کرتیں ، اسی طرح انسان بھی اتنی جلدی بحال نہیں ہوا کرتے.وقت لگتا ہے، بہت محنت چاہئے ، نئی نئی ترکیبیں پھر آپ کو سو جھیں گی.اور چار، پانچ ، دس سال کے اندر مسلسل جماعت کی حالت بدلتی رہے گی.بہت ضروری ایک اور نقطہ نگاہ سے بھی ہے.اگر آپ کے پاس اچھے مربی اور نہ آئے تو نئے آنے والوں کی تربیت سے ہم محروم رہ جائیں گے.اور اس کے نتیجے میں پھر بہت سے خطرات ہیں، جو در پیش ہوں گے.ہمارا کردار بدل جائے گا.بجائے اس کے کہ ہم موثر ہوں لوگوں پر، ہم متاثر ہو جائیں گے.تو جتنی نئی قو میں کثرت کے ساتھ آنے والی ہیں، جن کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں، جن کے ہر اول دستے داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں، جماعت میں، ان قوموں کی تربیت کا تقاضا ہے کہ ہم جلد سے جلد اپنے مربیوں کی تعداد بڑھائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 16 صفحہ 535 550) 719

Page 729

Page 730

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرموده 21 اگست 1987ء ہماری سب سے زیادہ قیمتی چیز ہمارا ایمان، اصول اور اعلیٰ اخلاقی قدریں ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 21 اگست 1987ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.بھی چند روز پہلے ہالینڈ میں ایک ایسا واقعہ ہوا، جس کے نتیجے میں ہالینڈ کے احمدیوں میں سے بعض نے مجھے ایسے خط لکھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل پر اس کا بہت ہی گہرا اثر پڑا ہے.اور غیر معمولی طور پر اس سے وہ متاثر معلوم ہوتے تھے.واقعہ یہ ہے کہ جب ہمارا جلسہ انگلستان میں ہو رہا تھا، اس وقت اس خیال سے کہ اکثر احمدی جلسے پر گئے ہوں گے، فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض شریروں کے گروہ نے موقع پا کر جبکہ ہمارا پہرہ موجود نہیں تھا، مسجد کو آگ لگانے کی کوشش کی.مسجد کا نچلا حصہ آگ سے بہت بری طرح متاثر ہوا، بہت سی قیمتی دستاویز اور کاغذات ضائع ہو گئے.اور ابتداء میں جو ڈچ احمدی تھے ، انہوں نے بڑے اخلاص سے جو اپنے ہاتھ سے بعض خصوصی چیزیں مسجد کے لئے بنائی ہوئیں تھیں، وہ بھی ایک قیمتی اور تاریخی سرمایہ تھا، وہ بھی اکثر حصہ ضائع ہو گیا.تو مسجد کو جو ظاہری نقصان ہے، اس کو بھی ملحوظ رکھا جائے تو دستاویز کا نقصان اور ظاہری نقصان ملا کر یقیناً اس جماعت کے لئے ایک بڑے صدمے کی بات ہے.اس پہلو سے لوگوں کے پریشانی اور گھبرانے کے خط موصول ہوتے رہے.میرا ان سب کو جواب یہ ہے کہ یہ واقعات زندہ قوموں کے ساتھ چلتے ہیں اور ان سے دکھ تو ضرور پہنچتا ہے لیکن ان واقعات کے نتیجے میں طبیعتوں پر گہرے اثر نہیں قائم رہنے چاہئیں.کیونکہ ہمارے تو بہت بڑے سفر ہیں، ہمارے ارادے بہت بلند ہیں، یہ معمولی چھوٹی چھوٹی چیزیں تو Pinpricks کی طرح ہیں.جیسے لمبے سفر کرنے والے قافلوں میں سے بعض کو رستے میں ایک کانٹا چبھ جاتا ہے.ساری دنیا کی ایک سو چودہ ( ممالک کی ) جماعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی اسلام کی شاہراہ پر دن بدن آگے بڑھ رہی ہیں، آپ بھی ان میں سے ایک ہیں.آپ میں سے، ہالینڈ کی جماعتوں میں سے ایک کو یا ایک کے پاؤں کو جو کا نشا چھا ہے، اس کی تکلیف میں بھی ساری دنیا کی جماعتیں حصہ دار ہیں.تو اس کانٹے کو اتنازیادہ نہ منائیں کہ گویا قیامت آپ پر ٹوٹ پڑی ہے.721

Page 731

خطبه جمعه فرموده 21 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اس کے برعکس یہ سوچیں کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے کیا کیا فضل آپ پر مزید نازل ہوں گے؟ جیسے ہمیشہ ہوتے رہے ہیں.اس کے جو نقصانات ہیں، ان کا ازالہ کیسے ہوگا؟ وہ تو معمولی بات ہے ، وہ میں آپ سے ابھی بعد میں ذکر کروں گا.سب سے بڑا نقصان، جس کا مجھے خطرہ تھا، وہ آپ کی طبیعتوں کی پر مردگی ہے.اگر ایسے واقعات پر طبیعتیں پڑ مردہ ہو جائیں تو ہمارا تو سب سے بڑا وہ نقصان ہے.آپ کے عزم پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے ، آپ کے ارادوں کے سر بلند رہنے چاہئیں.ایک ادنی ساخم بھی آپ کی پیٹھ پر ظاہر نہیں ہونا چاہئے ، ان بوجھوں کے نتیجے میں.یہ ہے مردانگی کی علامتیں، جن کی خدا مومن سے توقع رکھتا ہے.پس آپ اپنا کام کریں، اللہ تعالیٰ کی تقدیر اپنا کام کرے گی.بھلا ان جیسی ذلیل حرکتوں سے کبھی قو میں دنیا میں تباہ ہوا کرتی ہیں یا رستوں سے ہٹا کرتی ہیں یا ان کے عزم پر آنچ آیا کرتی ہے.چھوٹی معمولی سی کمپنی سی حرکت ہے، ایک چھوٹے سے دل کی پیداوار ہے، چھوٹے کو تاہ ذہن کی پہنچ بس یہیں تک ہی ہو سکتی ہے کہ مسجد کو جلا دیا جائے، کسی کو دکھ دیا جائے کسی کو نقصان پہنچایا جائے.ہر لحاظ سے ایک بہت ہی کمینی اور چھوٹی سفلہ حرکت ہے.اور اس کے برعکس آپ کو یہ ایک بڑا غیر معمولی تاریخی اعزاز حاصل ہو گیا کہ آپ ان لوگوں میں ، ان قوموں میں داخل ہوئے، جن کو خدا کے نام پر تکلیف دی جاتی ہے، جن کی عبادت گاہوں کو خدا کی دشمنی میں جلایا جاتا ہے.بہت بڑا ایک تاریخی سنگ میل ہے.آپ کو اپنا یہ امتیاز پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آپ وہ ہیں، جن کی مسجد جلائی گئی ہے.آپ وہ بد بخت نہیں ہیں، جو مسجدمیں جلانے والے ہیں.کتنا زمین آسمان کا فرق ہے.جب سے خدا تعالیٰ نے آدم کے ذریعے نبوت کا آغاز فرمایا، یہ ایک دوہری تاریخ انسانیت کی چل رہی ہے.کچھ وہ لوگ ہیں، بدنصیب، جو خدا کے گھروں کو جلانے والے ہیں.کچھ وہ لوگ ہیں، جن کو دکھ دیا جاتا ہے، خدا کے نام پر اور جن کی عبادت گاہوں کو جلایا جاتا ہے.اور یہ تفریق مسلسل بڑی نمایاں چلی آرہی ہے.آپ اس گروہ میں داخل ہوئے ہیں، جن کو خدا کے نام پر تکلیف دی جاتی ہے اور جن کی عبادت گاہوں کو جلایا جاتا ہے.تو یہ سودا تو ایسا سودا نہیں ہے، جس پر آپ دکھ محسوس کریں یا پژمردہ ہوں.دکھ اس بات کا ہے کہ خدا کی عبادت کی جگہ کو خدا کے نام پر جلایا گیا ہے.ایک جذباتی تکلیف ہے.لیکن جہاں تک سود و زیاں کا تعلق ہے، جہاں تک اس بات کے تولنے کا تعلق ہے کہ آپ کا حاصل کیا ہے؟ آپ کا نقصان کیا ہوا ہے؟ آپ فائدے ہی فائدے میں ہیں.قطعاً آپ کا کوئی نقصان نہیں.722

Page 732

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خطبہ جمعہ فرموده 21 اگست 1987ء ایک اور پہلو ہے اس کا، جس میں مجھے خطرہ تھا کہ آپ کو نقصان نہ پہنچے اور میری توجہ آپ کے روحانی نقصان کی طرف ہے.مادی جسمانی نقصان تو معمولی حیثیت رکھتے ہیں.اس کی طرف بھی میں آپ کو متوجہ کر دینا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ اخباروں کے جو بھی میں نے اقتباسات دیکھے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ شاید بعض احمدیوں کی طرف سے بھی یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے حکومت پاکستان کا ہاتھ ہے.حالانکہ ہمیں ہرگز بغیر شواہد کے بات نہیں کرنی چاہئے.ہم ہرگز یقینی طور پر یہ نہیں کہ سکتے کہ حکومت پاکستان کا ہاتھ ہے یا سعودی عریبیہ کے جو مختلف ادارے دنیا میں کام کر رہے ہیں، رابطہ عالم اسلامی و غیرہ، ان میں سے کسی کا ہاتھ ہے یا مقامی شرارت ہے.جب ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ بغیر شواہد کے ہم پر کوئی الزام لگائے ، جب ہم جھوٹ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جب ہمارے اوپر بولا جاتا ہے تو ہمارا یہ کوئی حق نہیں کہ ہم چاہے ہمارا دشمن ہی ہو ، اس کے اوپر جھوٹ بولیں یا اس کی طرف بغیر شواہد کے، بغیر دلیل کے باتیں منسوب کریں.اب تک ایسے کئی واقعات گزر چکے ہیں اور ہر ایسے واقعہ کے بعد جب میں نے خطبہ دیا تو اس میں اس طرف متوجہ کیا کہ جب تک ہمیں یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ کون سا گروہ یقینی طور پر سے مراد یہ ہے کہ ایسے مضبوط شواہد معلوم نہ ہوں کہ کون سا گروہ ملوث ہے، اس وقت تک ہمارا یہ اخلاقی حق نہیں بنتا کہ ہم کسی کو ملزم کریں.ہم دنیا کی طرح تو نہیں ہیں کہ ایک قتل ہو گیا تو اندازہ لگا کر چھپیں تھیں یا بعض دفعہ پورے کے پورے خاندان کا نام شبہ میں لکھوادیا گیا.اس لئے ہمیں ایسے مواقع پر اپنے اخلاق کی حفاظت کرنی چاہئے ، اپنے اعلیٰ اصولوں کی حفاظت کرنی چاہیئے.مسجد کا نقصان ہو یا کوئی اور عمارت کا نقصان ہو، یہ اصولوں کے نقصان اور اخلاق کے نقصان کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا.مسجدیں تو بنتی ہیں صاحب اخلاق لوگوں کے ذریعے، صاحب ایمان لوگوں کے ذریعے.ورنہ دنیا کی بڑی بڑی قومیں عظیم الشان کروڑوں، اربوں روپے کی مسجد میں بنا سکتی ہیں.ان کی کیا حیثیت ہوگی، خدا کی نظر میں ؟ جب تک نمازی متقی نہ ہوں، جب تک مسجدوں میں جانے والوں کے اخلاق بلند نہ ہوں، ان کے نام کے ساتھ اسلام کا حسن جب تک وابستہ نہ ہو، اس وقت تک ان مسجدوں کی کوئی بھی قیمت نہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ فرماتا :- خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف : 32) جب مسجدوں میں جایا کرو تو اپنی زینت یعنی تقوی کو ساتھ لے جایا کرو.کیونکہ وہاں تمہارے تقویٰ ہی سے مسجدوں کی رونق بنتی ہے.پس ظاہری مساجد کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے، مسجد میں جانے والوں کی حیثیت ہے.ان سے مسجدوں کو زینت ملتی ہے وہ اپنی زینتیں لے کے ساتھ جایا کرتے ہیں.723

Page 733

خطبہ جمعہ فرموده 21 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس اگر مسجد کو بھی نقصان پہنچ جائے اور آپ اس زینت سے بھی محروم رہ جائیں، جس سے آپ کی مسجد کی رونق بنی تھی تو یہ بڑا نقصان ہے.اس لئے ایسے ہر ابتلاء میں اپنے قیمتی اور دائی اصولوں کو بالکل نہیں چھوڑنا.دشمن خواہ کتنی بھی زیادتی آپ پر کرے، دشمن کی دشمنی میں اپنی جان کے دشمن بنا تو کوئی عقل کی بات نہیں ہے.ہماری سب سے زیادہ قیمتی جان سے بھی زیادہ قیمتی چیز ہمارا ایمان ہے، ہمارے اصول ہیں، ہماری اعلیٰ اخلاقی قدریں ہیں، جو اسلام سے ہمیں عطا ہوئی ہیں.ان قدروں کی حفاظت کرنا ضروری ہے.اس لئے میں نے امیر صاحب سے آتے ہی جو بات کی، وہ یہی تھی کہ کوئی الزام بغیر کسی دلیل کے، بغیر کسی قطعی ثبوت کے ہمیں دوسرے پر نہیں لگانا چاہئے.ایک چیز البتہ ہے، جس سے ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں اور اسی تک ہمیں اپنی توجہ کو مبذول رکھنا چاہئے ، اسی تک ہمیں اپنے بیانات کو محدود رکھنا چاہئے.وہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے متعلق ہم بغیر کسی شبہ کے جانتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے عہد کر رکھا ہے، حکومت پاکستان سے مراد ایک ڈکٹیٹر کی حکومت کی بات کر رہا ہوں، اس نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنی ہے.جہاں جائیں گے، ہم ان کی دشمنی کریں گے.جہاں جہاں جماعت احمدیہ موجود ہے، وہاں کرائے کے مولوی بھجوا کر ان کے بزرگوں کی بے عزتیاں کروائی جائیں گی ، ان کے خلاف اشتعال پھیلایا جائے گا، ان کے خلاف نفرت کی آگ کا الاؤ روشن کیا جائے گا.نفرت کے الاؤ کے ساتھ روشن کا لفظ تو مناسب بھی نہیں ہے، الا ؤ بھڑ کا یا جائے گا کہہ دینا چاہئے.مگر بہر حال یہ وہ فیصلے ہیں، حکومت پاکستان کے ایک ڈکٹیٹر کے، جن کے متعلق اس نے اپنی بدنصیبی کے ساتھ ساری دنیا میں تشہیر خود کی ہے.انگلستان کی کانفرنس میں، یہ بات جو چند سال پہلے ہوئی تھی ایک علماء کی کانفرنس، اس کی طرف میرا اشارہ ہے.اس کا نفرنس میں یہ بات ایک تحریری پیغام کے طور پر انگلستان میں پاکستان کے Ambassador کے نمائندے نے پڑھ کر سنائی، جس میں پیغام کا ما حاصل یہ تھا کہ ہم ، یعنی حکومت پاکستان کے نزدیک، جماعت احمدیہ کو ایک کینسر بجھتی ہے اور ہم اس بات کا تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ اس کینسر کی بیخ کنی کریں گے، ہر طرح سے.تو ایک بات ہم یقینی طور پر ساری دنیا کو ایسے موقعوں پر یاد کراسکتے ہیں کہ ہمیں اتنا پتا ہے کہ ایک حکومت ہے، جس کے بعض بد نصیب موجودہ سربراہ یہ کھلم کھلا اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ہم جماعت احمدیہ کی دشمنی میں جو کچھ ہم سے بن پڑے گی، کریں گے.ایسی حکومت کے کرائے کے مولوی جس ملک میں بھی جائیں گے، اس ملک میں اس قسم کے واقعات کی توقع رکھنا، ایک معمولی بات ہے.بڑی بے وقوفی ہوگی کسی حکومت کی کہ ایسی حکومت کے نمائندہ مولویوں کو کھلی چھٹی دے 724

Page 734

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبه جمعه فرموده 21 اگست 1987ء دیں کہ ان کے اپنے ملک میں آکر وہ امن بر باد کرنے کی کوشش کریں.اور پھر یہ توقع رکھیں کہ امن بر باد نہیں ہوگا.یہ ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ایسے واقعات حکومتوں کی براہ راست سازش کے نتیجے میں ہوں.لیکن یہ تو قطعی بات ہے کہ ایک حکومت ایسی ہے، جس نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ آپ کے خلاف گند اور جھوٹ پھیلانے کے لئے کرائے کے مولوی استعمال کرے گی اور دنیا میں ہر جگہ کرے گی اور باقاعدہ کرائے کے مولوی بھجوائے جاتے ہیں ہر جگہ.ہالینڈ میں بھی آتے رہے ہیں.اس لئے آپ بغیر کسی تردد کے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ان کا پھیلایا ہو فتنہ اور فساد ہے، جس کے نتیجے میں یہ واقعہ ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں.اور کن لوگوں نے کیا ؟ یہ ہم نہیں جانتے.یہ بھی ممکن ہے کہ علماء کی ایسی تقریروں کے نتیجے میں ایک سر پھرا آدمی اپنے طور پر ہی مشتعل ہو جائے اور کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے.ہو سکتا ہے، اس کے پیچھے کوئی سازش نہ ہو.یہ بھی ممکن ہے کہ ایک نوجوانوں کا گروہ آپس میں مل کر بیٹھے، آج کل ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعے مختلف قسم کے جرائم کے طریق وغیرہ تو دنیا کو معلوم ہوتے ہی رہتے ہیں، کس طرح کسی کے گھر جب آگ لگائی گئی اور پھر ٹیلی فون کر کے اطلاع دی گئی اور بعض جاہل بے وقوف اس میں اتنی Excitement حاصل کرتے ہیں ان باتوں سے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ہیرو بن جائیں گے.اگر ہم نے بھی کوئی ایسا واقعہ کیا اور ہم نے بھی بعد میں پولیس کو فون کیا کہ ہم نے یہ کام کر دیا ہے.تو مذہبی دیوانگی پھیلانے والوں کے متعلق ہم جانتے ہیں، یہ قطعی طور پر ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں کہ وہ لاکھوں روپیہ خرچ کر کے ایسے کرائے کے مولویوں کو دنیا میں ہر جگہ بھجوا کے اشتعال انگیزی کے لئے استعمال کرتے ہیں.ہم یہ قطعی طور پر جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں سر پھرے لوگ ایسے واقعات کر دیا کرتے ہیں.وہ کون ہیں، جنہوں نے کیا ہے؟ واقعہ کوئی پاکستانی ہے یا کوئی سوری نامی یا پھر اور مشخص ہے، اس کے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے.اور ہمیں اپنے بیانات میں ایسی چیزوں سے احتراز کرنا چاہیئے.جہاں تک تیسرے حصہ کا یعنی ظاہری نقصان کا تعلق ہے.اس کے متعلق میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ آپ کو انشاء اللہ تعالیٰ کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں رہے گا.یہ بات میں بار بار بیان کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کو جتنا نقصان، جس جہت میں پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے یا کی جائے گی ، اسی جہت میں اس سے دس گنا فضل اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فر ما تارہے گا اور فرما رہا ہے.چند مسجدیں انہوں نے پاکستان میں جلائیں اور شہید کیں، اس کے مقابل پر اتنی سو مساجد ہم نے ایک ہی سال میں تمام دنیا میں بنا دیں.اس لئے آپ کو بھی میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی مسجد کو جو نقصان پہنچا ہے، اس سے 725

Page 735

خطبه جمعه فرموده 21 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ہفتم بہت زیادہ شاندار، بہت زیادہ وسیع مسجد اب آپ کو وہیں بنا کے دی جائے گی.اللہ کے فضل کے ساتھ اور اسی کی توفیق کے مطابق.اس لئے یہ بات تو قطعی ہے کہ ملاں کی بنائی ہوئی تقدیر ہے یا کسی حکومت کے سربراہ کی بنائی ہوئی تقدیر ہے، اس ہر تقدیر پر ہمارے خدا کی تقدیر غالب رہی ہے اور ہمیشہ غالب رہے گی.ہمیشہ ان کی بنائی ہوئی تقدیروں کو نا مراد کرے گی اور ہمارے حق میں بہتر فضل اور رحمت اور برکتوں کی تقدیر جس طرح پہلے جاری ہوتی رہی ، آئندہ بھی جاری ہوتی رہے گی.آپ میں سے جن کو جو تو فیق ہے، اس عظیم الشان خدمت میں حصہ لینے کی ، اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس میں حصہ ڈالیں تا کہ آپ کو بھی سعادت نصیب ہو.لیکن میں جانتا ہوں کہ ہالینڈ کی جماعت کی حیثیت مالی لحاظ سے اتنی نہیں ہے کہ دیگر چندوں کے علاوہ وہ اتنے بڑے کام میں حصہ لے سکیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، نقصان جتنا ہوا ہے، اس سے کم سے کم دس گنا زیادہ.اور جو کم سے کم ہے، اس کا مطلب ہے، یقینا اور بھی زیادہ کرنے کی کوشش کی جائے گی.کم سے کم دس گنا زیادہ وسیع عمارت سے ، دس گنازیادہ بہتر جگہ آپ کو انشاء اللہ تعالیٰ مہیا کر دی جائے گی.جو آپ کی توفیق سے باہر ہے، وہ دنیا کی دوسری جماعتیں انشاء اللہ تعالی پیش کریں گی.اس پر بھی میں کوئی معین پابندی نہیں لگانی چاہتا.حسب توفیق جہاں جہاں بھی دنیا میں یہ خطبہ پہنچے گا، دوست اپنی مرضی سے، اپنے شوق سے خود اس کارخیر میں حصہ لینے کی کوشش کریں گے.اور جہاں تک ضرورت کا تعلق ہے، مجھے کوئی بھی فکر نہیں کہ ضرورت کہاں سے پوری ہوگی ،انشاء اللہ ضرور پوری ہوگی.شکر ایک حصہ ایسا ہے، جس میں جماعت ہالینڈ کو حصہ لینا چاہئے.اور وہ میدان ایسا ہے، جہاں دوسری جماعتیں حصہ لے نہیں سکتیں.بلکہ خود آپ لے سکتے ہیں.وہ ہے مسجد کی تعمیر کے دوران، جولوگ آپ میں سے فارغ ہیں، وہ وقار عمل کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.جو لوگ کوئی فن جانتے ہیں، جس کا تعمیر سے تعلق ہے، وہ فن مسجد کی خدمت میں پیش کریں.کچھ Supervision کے کام بھی ہوں گے.کچھ دوسرے ایسے کام ہوں گے، جن میں جماعت کی وقت کی اور جسمانی قربانی کے نتیجے میں ہمارا بہت سارا روپیہ بیچ سکتا ہے.باقی دنیا میں جماعتیں اسی طرح کر رہی ہیں اور غیر معمولی بچت کا موجب بنتی ہے، ان کی محنت.اور اس محنت کے ساتھ جو خلوص وابستہ ہوتا ہے، اس سے کاموں میں بہت برکت پڑتی ہے.انگلستان میں ہم نے بارہا یہ تجربہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بعض دفعہ جو مارکیٹ کے تخمینے تھے، ان سے پانچویں حصے پر ایک عمارت تعمیر ہو گئی.کیونکہ وہاں کے خدام، انصار اور خواتین نے بہت اپنے 726

Page 736

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 21 اگست 1987ء وقت کی قربانی کی.تو آپ کو بھی جہاں تک نصیب ہو، جہاں تک توفیق ہو، مسجد کے کام میں اپنے وقت کی قربانی ضرور پیش کریں.اس سے دوہرا تہرا فائدہ پہنچتا ہے.ایک تو یہ کہ آپ کے روپے کی جو کمی ہے، وہ اس طرح بہت حد تک پوری ہو جائے گی.اگر آپ کے وقت کی قربانی کے نتیجے میں خرچ اگر 1/5 نہ سہی، نصف بھی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی چیز ہے.اور جتنا بھی ہو، بہر حال وہ عملاً آپ کا چندہ ہی شمار ہوگا.دوسرے یہ کہ خدمت کرنے والوں کو ایک براہ راست سعادت نصیب ہوتی ہے.خدا کے گھر کے بنانے میں حصہ لینا، یہ ایسی عظیم الشان توفیق ہے کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انسان کے اندر ایک سعادت کی نئی روح پیدا فرما دیتا ہے.گویا اسے ایک نئی زندگی ملی ہے اور خدا تعالیٰ کا خاص محبت اور پیار کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے عید کے خطبے میں، میں نے اس طرف متوجہ کیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مل کر مسجد کے تعمیر کرنے کا واقعہ خدا تعالیٰ کو ایسا پیارا لگا کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اس کو قرآن کریم میں محفوظ فرما دیا.اور ایسے پیار سے ذکر کیا کہ باپ معمار ہے اور بیٹا مزدور اور دونوں نبی.اس سے بڑے اس زمانے میں کسی انسان کا تصور ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ باپ بھی نبی اور بیٹا بھی نبی.اور خدا تعالیٰ نے ایک کو معمار بنایا ہوا ہے اور ایک کو مزدور اور وہ دونوں مل کر خدا کے گھر کی عمارت کھڑی کر رہے ہیں.تو معماری کا کام دنیا کی نظر میں خواہ کچھ بھی حیثیت رکھتا ہو، جب اس کا مسجد سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو دنیا کا عظیم ترین کام بن جاتا ہے.ایسا کام جس پر بعد میں تو میں اور آنے والی نسلیں فخر کرتی ہیں.پس حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا معماری کا جب یہ واقعہ آپ پڑھتے ہیں تو کس قدر دل میں رشک پیدا ہوتا ہے، کس قدر انسان درود بھیجتا ہے ان پر کہ کیا شان تھی، کیسے عظیم الشان باپ بیٹا تھے، کس پیار اور محبت سے خدا کا گھر بنا رہے تھے.اللہ کی رضا کی آنکھیں ان پر پڑ رہی تھیں اور ہمیشہ کے لئے اس خدمت کو محفوظ کر دیا.ورنہ دنیا میں بعض تو میں ہیں، جو تعمیر کے کام میں اپنی عمریں ضائع کر دیتی ہیں.بعض ایسی غلام قو میں تھیں، جن کو بڑی بڑی عمارات کے لئے زنجیروں میں باندھ کر ان سے غیر معمولی محنتیں لی گئیں، نسلاً بعد نسل وہ لوگ قیدوں میں بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے رہے.ایسی عمارتیں ، جن کو بعض دفعہ سوسوسال سے زائد عرصہ مکمل ہونے میں لگا ہے.تو جسمانی محنت اور جسمانی کوشش کا جہاں تک تعلق ہے، بہت ہی زیادہ یاد محنتیں عمارتوں کے سلسلے میں کی گئیں ہیں.اور ظاہری قربانی کو دیکھیں تو حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی قربانی اس کے مقابل پر جسمانی محنت کے لحاظ سے 727

Page 737

خطبہ جمعہ فرموده 21 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کوئی حیثیت نہیں رکھتی.مگر چونکہ خدا کے گھر سے وابستہ ہوئی تھی ، اس لئے اس کی عظمت اور شان اتنی بلند ہوگئی کہ ہمالہ کی چوٹیوں سے بھی بالا ہے، آسمان کے کنگروں سے لگی بیٹھی ہے ، عظمت اس کی.اس لئے آپ کے لئے بھی ایک سنت جاریہ ہے.آپ کی مسجد سے محبت کے نتیجے میں، خدا کا گھر سمجھتے ہوئے ، اس کی تعمیر میں جو حصہ لیں گے یا اس کی صفائی میں کبھی حصہ لیں، اس کے ٹھیک ٹھاک کرنے میں حصہ لیں.یاد رکھیں کہ ایک ایسی خدمت ہے، جس کو خدا بہت ہی پیار اور اعزاز کے ساتھ دیکھتا ہے.تو اللہ کرے اس کی بھی آپ کو تو فیق ملے.جس کے پاس جو کچھ بھی ہے، وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:03) کا نظارہ دکھائے.اور دشمن کو یہ بتادے کہ ہم ہارنے والی قوم نہیں ہیں.ناممکن ہے، ان کی ساری ذلیل ترین کوششیں کتنی بھی بڑی طاقتور ہو کر ظاہر ہوں، تب بھی وہ ہمیں نا کام نہیں بنا سکتیں.ان کی ہر دشمنی ہمارے لئے ماں کا دودھ بن جایا کریں گی، جب ہمارے جسم میں داخل ہوگی.اور ہم کمزور ہونے کی بجائے ان زہروں سے مزید طاقت پائیں گے، مزید عظمت پائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اسی شان کے ساتھ زندہ رکھے.زندگی کی یہی شان ہے، اس کے بغیر تو زندگی بے معنی ہے.مرد مومن اور مرد صادق کی طرح جو تو میں زندہ رہتی ہیں، وہی زندہ رہنے کی اہل ہیں.باقی تو فضول جھگڑے ہیں دنیا کے، جن کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے“.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 551 تا 559) | 728

Page 738

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرموده 28 اگست 1987ء آج جماعت کی سب سے اہم ذمہ داری خدا کا پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1987ء تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.یورپ کے چند ممالک کے اس مختصر دورے میں ، میں نے خصوصیت سے اس بات پر نظر رکھی کہ جماعت کو جو بار ہادعوت الی اللہ کی نصیحت کی جاتی رہی ہے، اس کا کس حد تک عملاً اثر ظاہر ہوا ہے.ہالینڈ میں بھی میں نے اس کا جائزہ لیا، جرمنی میں بھی، ڈنمارک اور سویڈن میں بھی اور اب ناروے آکر بھی.ملاقاتوں کے دوران بھی اور اس کے علاوہ جماعت سے گفت و شنید کے دوران میں نے اندازہ لگایا.کہ ابھی جماعت کی بھاری اکثریت ایسی ہے، جو عملاً دعوت الی اللہ کے کام میں مشغول نہیں ہوئی.اور اگر یہ کہا جائے کہ پچانوے فیصد جماعت ابھی تک اس کام سے غافل پڑی ہے، عملاً اس کام میں سنجیدگی سے حصہ نہیں لے رہی تو اس میں مبالغہ نہیں ہوگا.بعض ممالک میں ممکن ہے، یہ نسبت اور بھی زیادہ خراب ہو مگر جن ممالک میں توجہ شروع ہو چکی ہے، ان میں بھی بمشکل پانچ فیصد احمدی ایسا ہے، جو فی الحقیقت دعوت الی اللہ کا حق ادا کر رہا ہے.اس سلسلے میں کچھ تو میں براہ راست جماعت سے باتیں کرنی چاہتا ہوں اور کچھ امراء اور مربیان اور صدران جماعت اور دیگر عہدیداران کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.جب بھی ایک بات کی ہدایت کی جائے اور تکرار سے کی جائے تو اسے بھلا دینا جائز نہیں ہے.اس خیال سے کہ اب یہ بات پرانی ہوگئی اور اب ہماری جواب طلبی نہیں ہوگی، یہ درست بات نہیں ہے.جواب طلبی کا اسلامی نظام، عام دنیاوی جواب طلبی کے نظام سے مختلف ہے.دنیاوی جواب طلبی کے نظام میں تو بعض دفعہ کا غذات داخل دفتر ہو جاتے ہیں، بعض افسروں کو بات بھول جاتی ہے اور انسان ایک نافرمانی کے باوجود پکڑ سے بچ جاتا ہے.لیکن اسلام میں جو جواب طلبی کا نظام ہے، اس کی رو سے تو ہر انسان پر فرشتوں کے پہرے بیٹھے ہوئے ہیں، وہ صبح بھی اور شام بھی خدا تعالی کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق انسان کے حالات کا جائزہ درج کرتے رہتے ہیں اور کوئی چیز بھی ان سے مخفی نہیں، کوئی چیز بھی 729

Page 739

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ان کی نظر سے اوجھل نہیں اور کوئی ایسی بات بھی نہیں، جس کی ان کو یاد دہانی کی ضرورت پڑے.چنانچہ جو اہم امور خدا تعالیٰ نے بندے کو کرنے کے لئے کہے ہیں، ان کا ایک سوالنامہ بھی ساتھ ساتھ تیار ہوتا چلا جا رہا ہے، مختلف حالات کے مطابق.اور عملاً ہم جو اس کا جواب پیش کرتے ہیں، وہ بھی تیار ہوتا چلا جاتا ہے.پس کہنے والا دنیا میں بھول چکا ہو، سننے والا بھول چکا ہو، مگر یہ جو خدا تعالیٰ کا آسمانی جواب طلبی کا نظام ہے، یہ تو کسی چیز کو نہیں بھولتا.اور چونکہ جماعت احمدیہ کا تعلق دنیاوی حکومت سے نہیں بلکہ آسمانی حکومت سے ہے، اس لئے یہاں جزا سزا کا نظام بھی آسمانی ہے.اگر تو دنیا میں سزاد ینی ہوتی کوئی ، پھر تو جواب طلبی کرنے والے بھول جائیں تو پھر فرق پڑتا اور کئی لوگ سزا سے بچ جاتے.اگر خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا ہے جزا سزا کا تو پھر دنیا والے جواب طلبی کریں، نہ کریں، بھول جائیں تب بھی ، نہ بھولیں تب بھی ، عملاً کوئی بھی فرق نہیں پڑتا.اس لئے ان امور کو جن کا دین سے تعلق ہو، نسبتا زیادہ سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے.اور زیادہ کوشش اور جدوجہد اور ذمہ داری کے ساتھ ان کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ دعوت الی اللہ کا پروگرام، کوئی معمولی پروگرام نہیں ہے.ہم اگلی صدی کے کنارے پر بیٹھے ہیں.اور ساری دنیا کو اسلام میں لانے کا تہیہ کر کے ایک سو سال سے جو کوشش کر رہے ہیں، ابھی تک ایک سوسال میں کسی ایک ملک میں بھی واضح اکثریت تو در کنار نصف تک بھی ہم نہیں پہنچ سکے، دسواں حصہ بھی ابھی تک ہمیں کامیابی نہیں ہوسکی کسی ملک میں.تو ساری دنیا کو اسلام میں لانا، یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے، جو ہمارے کندھوں پر خدا تعالیٰ نے ڈالی ہے.اس کے لئے سنجیدگی سے تیاری کرنی ہے اور اس کے سوا اور کوئی حل بھی نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر شخص تبلیغ کرے اور مؤثر تبلیغ کرے.اور چین سے نہ بیٹھے، جب تک اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کی تبلیغ کو پھل نہ لگنے لگ جائیں.تو جہاں تک عہدیداران کا تعلق ہے، ان کو بھولنا نہیں چاہئے.ان کی خواہ میں جواب طلبی کروں یا نہ کروں.اگر وہ اس بات کو بھول جائیں گے تو جماعت بھی بھول جائے گی.عہدیداروں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خوب یا درکھیں اور بار بار پلٹ پلٹ کر جماعت کے حالات کو دیکھتے رہیں کہ کس حد تک یہ کام آگے جاری ہے.عموما یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ عہدیداران چند آدمیوں کے نیک کام کو اپنی رپورٹ میں سمیٹتے ہیں.اور جس طرح آسٹریلیا کے Obroganees تھے، جو خود محنت کر کے چیز اگانے کی بجائے جو قدرت پھل دیتی ہے، اس کو سمیٹنے والے لوگ.چنانچہ دنیا میں دو قسم کے رزق حاصل کرنے والے ہیں، ایک وہ جو اگاتے ہیں محنت کر کے اور پھر پھل کھاتے ہیں.جیسے آج کل متمدن دنیا 730

Page 740

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم خطبه جمعه فرموده 28 اگست 1987ء اکثر یہی کر رہی ہے.فصلیں کاشت کرتی ہے، پھل والے درخت لگاتی ہے اور پھر جتنا محنت کرتی ہے، اتنا اس کا پھل کھاتی ہے.لیکن کچھ قو میں ، جیسا کہ آسٹریلیا کے Obroganees تھے یا ہیں اور کچھ اور ممالک بھی ایسے ہیں، جن کو Gatherers کہا جاتا ہے، وہ صرف سمیٹنے کا کام کرتے ہیں.تو اکثر منتظمین کام سمیٹ رہے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے جہاں دو، چار، دس داعی الی اللہ دے دیئے، ان کی رپورٹوں کو سمیٹ کر ان کی رپورٹ بڑی مزین ہو جاتی ہے اور خوبصورت ہو جاتی ہے.اور یہ تاثر دیتے ہیں مرکز کو کہ گویا ساری جماعت بڑا اچھا کام کر رہی ہے.اور دیکھیں اتنا اچھا پھل لگ گیا.حالانکہ بعض اوقات جو داعی الی اللہ ہیں، ان کو بنانے میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا ، ان کو سجانے میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا ، ان کو پہلے سے زیادہ بہتر کرنے میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا.لیکن بعض جگہ ہوتا ہے.بعض جگہ جماعت کا سارا نظام ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوتا ہے، سر پرستی کر رہا ہوتا ہے ، ان کے ساتھ مل کر کام کو آگے بڑھا رہا ہوتا ہے.تو وہ صاف نظر آ جاتا ہے.تو جہاں تک رپورٹیں سمیٹنے کا تعلق ہے، رپورٹیں تو کچھ نہ کچھ بج جاتی ہیں.لیکن سمیٹنے والے کی ذمہ داری ادا نہیں ہو جاتی.اس کا کام یہ ہے کہ خود اپنی زمینیں بنائے.اس کا کام یہ ہے کہ نئی کاشت کی کھیتیاں پیدا کرے.اس کا کام یہ ہے کہ نئے درخت لگائے.اور پھر خدا تعالیٰ کے سامنے صاف دل کے ساتھ پیش ہو کہ اے خدا! اس سال میری محنت کا یہ پھل ہے.میں نے کوشش کی تو نے اپنے فضل کے ساتھ مجھے تو فیق عطا فرمائی کہ میں نے تیری راہ میں نئے کھیت اگائے ہیں اور تیری راہ میں نئے باغ لگائے ہیں.تو دعوت الی اللہ کے باغ اور کھیت لگانے کا کام یہ عہدیداران کا کام ہے.اور یہ محض نصیحت سے نہیں ہوتا ، یہ محض یاد دہانی سے بھی نہیں ہوتا.یہ ساتھ لگ کر کام سکھانے سے ہوتا ہے، بعض عادتیں راسخ کرنے سے ہوتا ہے.بعض لوگوں کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگانا اور پھر ان کے ساتھ پیار کا تعلق قائم کر کے ان کے دلوں میں کام کی محبت پیدا کرنا، یہ ایک فن ہے.اور اس فن کے متعلق قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے ایک نہایت ہی عمدہ اصولی روشنی ڈالی، جس سے استفادہ کرنا چاہئے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د خدا تعالیٰ نے قوموں کو زندہ کرنے کا کام کیا تھا.وہ قوموں کے نبی تھے.بڑے عظیم الشان مقام کے نبی تھے.اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے ذریعے میں قوموں کو نئی زندگی عطا کروں گا.بڑے عاجز مزاج تھے.حیران ہوئے کہ اتنا مشکل کام میں کیسے کر سکوں گا.عرض کیا:.731

Page 741

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتُى (البقرة:261) زندگی تو تو نے ہی بخشنی ہے، میں جانتا ہوں.میرے ذریعے ہو یا جو بھی تیرا منشا ہے.لیکن تو بخشنے والا ہے.میں جانتا تو ہوں کہ تو ان قوموں کو زندہ کر دے گا.مگر کیسے کرے گا، مجھے بتا تو سہی ؟ میرے دل کو تسلی دے تو خدا تعالیٰ نے وہ راز ان کو سمجھایا کہ زندہ میں کروں گا لیکن تیرے ذریعے کروں گا.فرمایا: چار پرندے لے، ان کو اپنے سے مانوس کرلے، اپنے لئے ان کے دل میں محبت پیدا کر اور ان کے لئے اپنے دل میں محبت پیدا کر.جب وہ مانوس ہو جائیں تو ان کو چار مختلف سمت کی پہاڑیوں پر چھوڑ دے.پھر ان کو آواز دے، دیکھ کس سرعت کے ساتھ وہ تیری آواز کے اوپر اڑتے ہوئے چلے آتے ہیں.یہ ئی زندگی بخشنے کا جو نظام ہے، خدا تعالیٰ نے خود حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو سمجھایا.اور ہمیشہ کے لئے ہمارے لئے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا.پس ہر مربی ، ہر مبلغ، ہر امیر اور ہر صدر اور ہر متعلقہ عہدیدار کو خواہ وہ سیکرٹری اصلاح و ارشاد ہو یا جس حیثیت سے بھی اس کام میں اس کا تعلق ہو ، اس کو چاہئے کے جماعت کے بعض افراد کو پکڑے اور فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ (البقرة: 261) کے تابع ان کو اپنے ساتھ وابستہ کرے.اپنے ساتھ ملا کر، پیار کا تعلق قائم کر کے ان کی تربیت کرے.تھوڑے تھوڑے کام ان کے سپر د کرے.پھر ان کو دنیا میں پھیلا دے اور ان کے ذریعے احیائے موتی کا کام لے.اس طرح اپنی توفیق کے مطابق اس کی توجہ کا مرکز بدلتا رہے گا.آج چار یا آٹھ یا دس نوجوان پکڑے ان کی تربیت کی ، ان کو کام پر لگا دیا ، پھر دوبارہ کل آٹھ یا دس یا ہمیں نوجوان، جتنی بھی توفیق خدا بڑھاتا چلا جائے ، اس کے مطابق ان کو لیا، ان کی طرف توجہ کی ، چند مہینے ان کے ساتھ محنت کی، پیار اور محبت کے ساتھ ان کو طریقے سمجھائے اور جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے، پھر وہ اپنا کام خود سنبھال لیں گے.اس طرح ہر وقت پیش نظر پہلے سے بڑھتی ہوئی تعداد پہنی چاہئے.مسلسل ذہن میں یہ بات حاوی رہنی چاہئے کہ میری جماعت میں دعوت الی اللہ کرنے والے پہلے سے بڑھے ہیں کہ نہیں بڑھے؟ کیا میں پہلوں پر ہی راضی ہوں یا میں جان کر عمداً کوشش کر رہا ہوں کہ پہلے سے تعداد بڑھتی چلی جائے.پھر اس کے علاوہ یہ امر بھی دیکھنے والا ہے کہ جن لوگوں کو تبلیغ کی جاتی ہے، ان میں کتنے طبقا ہیں؟ اور کیا ہر طبقے کی طرف ہم متوجہ ہیں کہ نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بعض اچھی اچھی زمینیں ہیں، جو 732

Page 742

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1987ء ہمارے ملک میں موجود ہیں، ہم ان کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہے.جہاں اتفاق سے ایک طرف رخ ہو گیا، بس اسی طرف رخ چل رہا ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ نے مختلف ممالک میں مختلف قسم کے لوگ پیدا کئے ہیں.کچھ باہر سے بھیجے ہیں.اور ہر طبقے کے اپنے اپنے حالات ہیں.ہر طبقہ مزاج کے لحاظ سے یکساں مذہبی نہیں.ہر طبقہ اپنی نفسیاتی کیفیت کے لحاظ سے یکساں طور پر ایک نئی دعوت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے.مختلف طریق درکار ہیں، مختلف قسم کے اسلوب چاہئیں تبلیغ میں.چنانچہ آپ جب بھی کسی نئے طبقے کی طرف توجہ کریں گے، دوبارہ از سر نو مبلغ کو یا امیر کو جو بھی عہدیدار ہے، اس طبقے کو لحوظ رکھ کرنئی محنت کرنی پڑے گی.جائزہ لینا پڑے گا کہ جن لوگوں کو میں نے دعوت الی اللہ پر مقرر کیا ہے، وہ اس طبقے کو مخاطب ہونے کے لئے تیار ہیں کہ نہیں ؟ اس کے لئے جائزہ لینا پڑے گا کہ لٹریچر موجود ہے کہ نہیں ؟ کیسٹس موجود ہیں کہ نہیں؟ دیگر معلومات جو گفتگو کے دوران چاہئیں، وہ ان لوگوں کو معلوم ہیں کہ نہیں ؟ جس قوم کی طرف، جس طبقہ انسانیت کی طرف توجہ ہے، ان کے حالات کے متعلق یہ لوگ آگاہ ہیں کہ نہیں؟ یہاں زمیندار ہیں، ناروے میں.ان کے حالات اور ہیں ، شہری لوگوں کے اور ہیں.ان کی مذہبی کیفیت اور ہے، شہری لوگوں کی مذہبی کیفیت اور ہے.پھر یہاں باہر سے آکر بسنے والے ہیں.ان میں عرب ہیں، ان میں سے افریقین ہیں، ان میں ویت نامیز ہیں.ایک بہت بڑا طبقہ ویت نام کا آج کل شمالی علاقوں کی طرف رخ کر رہا ہے.اسی طرح بعض دیگر مہاجرین ہیں مختلف ممالک کے سیلون کے مہاجرین ہیں، بعض اور ممالک کے مہاجرین ہیں، ان لوگوں کی طرف توجہ کرنا ہے.پھر قیدی ہیں.کئی جرموں کے نتیجے میں، کئی بغیر جرم کے قید ہو جاتے ہیں.کئی جرم کر کے قید ہوتے ہیں لیکن قید کے دوران ان کے اندر اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے.اس وقت ان کے پاس وقت ہوتا ہے، اس وقت وہ خاص مزاج رکھتے ہیں، نیک باتوں کو سننے اور ان پر عمل کرنے کا.پھر بیمار لوگ ہیں، ہاسپٹل (Hospital) میں، غریب لوگ ہیں، جن کا یا رشتہ داروں کی کمی کی وجہ سے یا بوڑھا ہونے کی وجہ سے کوئی پوچھنے والا نہیں.کئی مسافر ایکسیڈنٹس کا شکار ہو جاتے ہیں.ہر طرف ایسے طبقے پھیلے پڑے ہیں، جن کو زندگی دینے کا کام آپ کے سپرد ہے.اور ہر طبقے کو ملحوظ رکھ کر اس کام کو آگے بڑھانا ہوگا.جب اتنے طبقے سامنے آجائیں اور ایک مربی پیش نظر رکھے کہ ہاں ان سب کو مخاطب کرنا ، میرا کام ہے تو لازماً اس کے اندر Panic پیدا ہوگی، اس کے اندر خوف وہراس پیدا ہوگا کہ میرے پاس چار تو گنتی کے آدمی ہیں، جو تبلیغ کر رہے ہیں.چار یا پانچ ہی تو ہیں، جو اپنی رپورٹیں لا کر مجھے دیتے رہتے ہیں، ان کو میں 733

Page 743

خطبہ جمعہ فرموده 28 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم سب جگہ کیسے استعمال کر سکتا ہوں؟ اس لئے اگر وہ اپنی زمینوں کی فکر کرے گا تو اس کے لئے لازما اور مزدور حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.جس طرح زمین کا کام بڑھتا ہے تو مزدوروں کی تلاش بڑھ جاتی ہے، زمیندار کو.اس طرح راہ مولی کے مزدور اس کو تلاش کرنے پڑیں گے.کیونکہ خدا کی زمینیں بڑھ گئی ہیں.پس ایک کام کی طرف عدم توجہ، دوسرے کام کی طرف سے عدم توجہ پر مبذول ہو جاتی ہے.ایک کام کی طرف کما حقہ توجہ کریں تو دوسری توجہ خود بخود بیدار ہوتی ہے.اسی طرح کام ایک دوسرے کو سہارا دے کر آگے بڑھتے ہیں.اس لئے سب سے اہم ذمہ داری کسی ملک کے امیر کی ہے، اس ملک کے مربی کی ہے اور اس ملک کی مجلس عاملہ کی من حیث المجموع ذمہ داری ہے اور متعلقہ عہد یداران کی ہے.اسی طرح خدام ہیں، انصار ہیں.اگر سارے اپنی ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھ کر حکمت کے ساتھ مسلسل آگے بڑھیں گے اور جو نصیحت کی جاتی ہے، اس کو معمولی سمجھ کے نظر انداز نہیں کریں گے تو دیکھتے دیکھتے جماعتوں کی کایا پلٹ جائے گی.بعض دفعہ سنتے ہیں، کہتے ہیں: ہاں ، خلیفہ وقت نے کہہ دیا ہے ، ٹھیک ہے، تھوڑی دیر کے بعد یہ بھی بھول جائے گا، ہم بھی بھول جائیں گے.میں تو انشاء اللہ نہیں بھولوں گا کیونکہ مجھے خدا یاد کرا دیتا ہے.آپ بھولیں گے تو جرم کریں گے.میری تو دن رات کی یہ تمنا ہے، دن رات کی دل میں ایک آگ لگی ہوئی ہے، میں کیسے بھول سکتا ہوں.اس لئے اللہ مجھے یاد کراتا رہے گا اور میں یا درکھوں گا اور یاد آپ کو بھی کراتا رہوں گا.لیکن اگر آپ نے غفلت کی وجہ سے اس بات کو بھلایا تو یاد رکھیں ، آپ خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے.نہ بھولیں ، نہ بھولنے دیں.آج جماعت کی سب سے بڑی، سب سے اہم ذمہ داری خدا کا پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے.اور اس میں ہم پہلے ہی پیچھے رہ گئے ہیں.کون سا وقت رہ گیا ہے، ضائع کرنے کا؟ ہر شخص کو تربیت دیں پیار اور محبت سے سمجھا کر آگے بڑھائیں.اور جو ایک دفعہ اس میدان کا سوار بن جائے گا، وہ پھر آپ کو دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی.یہ کام ہی ایسا ہے.دنیا والے، جس طرح نشہ کرتے ہیں تو نشہ ان کو سنبھال لیتا ہے.اسی طرح تبلیغ کا ایسا کام ہے کہ جو نشے سے بڑھ کر طاقت رکھتا ہے اور تبلیغ کرنے والے کو سنبھال لیتا ہے.داعی الی اللہ پھر داعی الی اللہ ہی بنارہتا ہے.اس کو کسی اور کام میں دلچسپی ہی نہیں رہتی.بعض داعی الی اللہ تو اپنے گھر کے حالات بھول جاتے ہیں، اپنے خاندانوں کو بھول جاتے ہیں، دن رات ایک کام کی لگن ہو جاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب احمدیت تیزی سے پھیلی ہے، تو یہ وجہ تھی، ایسے ایسے صحابہ تھے، جن کو اپنے تن بدن کی کسی اور چیز کی ہوش ہی نہیں رہتی تھی.دعوت الی اللہ میں 734

Page 744

تحریک جدید- ایک الہی تحریک خطبه جمعه فرموده 28 اگست 1987ء مصروف ہوتے تھے تو ہر دوسری چیز بھول جایا کرتے تھے.چنانچہ مغل صاحب عبد العزیز صاحب مغل لاہور کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی تھے ، ان کے واقعات آتے ہیں کہ بعض دفعہ یہ ہوتا تھا کہ صبح گھر سے سبزی لینے گئے ہیں اور رات بارہ بجے واپس آئے ہیں.پتا لگا کہ گاؤں جا کے سبزی لینی شروع کی تو وہیں تبلیغ شروع کر دی، کچھ دکاندار تھے، کچھ آنے والے اکٹھے ہو گئے ، ایک اڈا بن گیا اور نہ کھانے کی ہوش ، نہ کسی گھر کا خیال.گھر والے بیٹھے انتظار کر رہے ہیں کہ سبزی لے کر آئے تو کچھ پکے اور یہ بارہ بجے رات کے تھک کے واپس آرہے ہیں.اور پھر بڑے مزے کے ساتھ ، بڑے سرور کے ساتھ گھر والوں کو واقعات سناتے کہ آج یہ باتیں ہوئیں، یہ باتیں ہوئیں اور یہ باتیں ہوئیں.بڑی تبلیغ کا ان کو موقع ملا.کئی خدا کے فضل سے احمدی ہیں، کئی احمدی خاندان ہیں، جو ان کے مرہون منت ہیں اور ہمیشہ رہیں گے.قیامت تک ان میں جو نسلیں پیدا ہوں گی ، وہ ان کا خیال کر کے، ان کا نام لے کر، ان کو سلام بھیجیں یا نہ بھیجیں ، خدا کے فرشتے ان کی طرف سے ان کو سلام بھیجتے رہیں گے.پس ایسے ایسے عظیم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں پیدا ہوئے.انہی کی نسلیں ہیں، آج اکثر جن کو ہم احمدیت کی شکل میں دیکھ رہے ہیں.کچھ نئے آنے والے بھی ہیں لیکن تربیت تو بہر حال انہی کی ہے.ان یادوں کو زندہ کرنا ہوگا، ان رسموں کو زندہ کرنا ہوگا، وہ رواج دوبارہ اپنی زندگی کے رواج بنانے ہوں گے.وہ زندہ رہنے کا فیشن ہے، جسے ہمیں اختیار کرنا ہوگا.پھر ہم زندہ قوم بن سکتے ہیں.اس لئے جو باتیں دوسرے ملکوں میں درست ہیں، وہ ناروے میں بھی درست ہیں.آہ جماعت سے باہر کوئی الگ جماعت نہیں ہیں.آپ کو بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام کو اسی طرح ہر سمت میں، ہر جہت میں بڑھانا پڑے گا.تعلیم اور تربیت کا کام، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے علمی پہلو سے بڑھ کر محبت اور پیار کے تعلق کے قیام کے ذریعے ہوتا ہے.جس طرح مرغی اپنے پروں کے نیچے لیتی ہے بچوں کو اور وہی اس کی تربیت ہے، جماعت کو اپنے پروں کے نیچے لینے کی عادت ڈالنی پڑے گی عہدیداروں کو.اور پروں کے نیچے لے کر پروں میں سمیٹنے کی صرف نہیں ، طاقت دے کر پھر آگے چھوڑنے کی ، پھر اڑنے کی مشق کرانے کی ، پھر آزاد زندگی گزارنے کی.یہ ہے وہ تربیت ، جو دعوت الی اللہ کی تیاری کے لئے ضروری ہے.جس کا راز ہمیں فصر من الیک نے بتا دیا کہ اے ابراہیم ! میں تیرے لئے ضرور قوموں کو زندہ کروں گا.زندہ میں ہی کرتا ہوں لیکن تجھے وہ کرنا ہوگا، جو میں تجھے بتا تا ہوں.محبت اور پیار سے پرندوں کو پکڑ اور اپنے ساتھ لگالے، اپنی محبت ان کے دل میں پیدا کر اور پھر ان کی تربیت کر پھر دیکھ کس طرح وہ تیری آواز کے تابع وہ سارے کرشمے کر کے دکھا ئیں گے، جو تو ان سے توقع رکھے گا.735

Page 745

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اس سلسلے میں جہاں تک علمی پروگرام کا تعلق ہے، ہم اس کے مکمل ہونے کا انتظار نہیں کر سکتے.مربی کو جامعہ میں تربیت دینے کے لئے سات سال لگ جاتے ہیں.اور جب وہ نکلتا ہے تو ابھی کچا ہوتا مختلف میدانوں میں جب اس سے مقابلہ کروایا جاتا ہے تو اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ سات سال کی تعلیم کے باوجود بعض دفعہ بڑے نمایاں نمبر حاصل کرنے کے باوجود عملی میدان میں جب پڑتا ہے تو کئی قسم کی وقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.وقت پر بات بھول جاتی ہے، گفتگو کا سلیقہ یاد نہیں رہتا، دلیل یاد بھی تھی تو اس وقت الٹی پلٹی دلیل شروع ہو جاتی ہے.جو طریقے اور داؤ کے مطابق نہیں ہوتی.علم ہے مگر استعمال درست نہیں لیتا.کہیں نئے اعتراض آتے ہیں تو آدمی حیران اوسان ہو جاتا ہے کہ اوہو! اس کا جواب تو میں نے کتاب میں پڑھا کوئی نہیں تھا.تو عملاً جو تبلیغ ہے، وہ علمی تبلیغ سے کچھ مختلف ہو جایا کرتی ہے.اور محض علمی تیاری بھی اگر آپ کی کرائی جائے تو میں نے بتایا ہے Whole Time سات سال کا کورس کرنا پڑے گا.اب کہاں جماعت اتنی توفیق رکھتی ہے، کہاں اتنا صبر ہے ہمیں کہ ہر شخص کے لئے سات سات سال کے کورس کر یں اور پھر توقع رکھیں کہ وہ تبلیغ کرے.لیکن عملاً تجربہ میں اگر فور داخل ہو جا ئیں اور توکل رکھیں اللہ تعالیٰ پر اور دعا کریں تو اتنے لمبے علم کی ضرورت نہیں ہے.خدا تعالیٰ خود مربی بن جاتا ہے، خدا تعالیٰ خود معلم ہو جاتا ہے.ایک داعی الی اللہ اگر خالصہ اللہ اللہ کی محبت میں کام شروع کرتا ہے، اس پر توکل کر کے کام شروع کرتا ہے تو بسا اوقات خدا اس کی ایسی ایسی حیرت انگیز راہنمائی فرماتا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح اس کو یہ دلیل ذہن میں آئی اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اس کو عظیم الشان غلبہ عطا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جہلاء کو بھی اللہ تعالیٰ بڑے بڑے علماء پر غلبہ عطا کر دیا کرتا تھا.اس لئے کہ وہ نیک اور مخلص اور متقی لوگ تھے.اپنے علم پر توکل کرنے والے نہیں تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے سہارے اس کے فضل پر تو کل کرنے والے تھے.اور سارے علموں کا سر چشمہ خدا ہے.وہی گر سکھاتا ہے کہ کیسے تم غالب آؤ.حضرت موسیٰ جب فرعون سے گفتگو کر رہے تھے تو قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ بار بار آپ کی توجہ خدا کی طرف مبذول ہوتی تھی.اللہ تعالیٰ ہی ان کو جوابات سکھاتا چلا جار ہا تھا کہ یہ جواب دو، یہ جواب دو، یہ جواب دو.اس لئے وہی خدا ہے ہمارا.وہ آپ کی بھی اسی طرح پرورش کرے گا، آپ کی بھی اسی طرح سر پرستی کرے گا.اس لئے علم کی کمی کو عذر نہ رکھیں علم کی کمی کا بہانہ لے کر میدان سے نہ بھا گیں.جو کچھ آپ کے پاس ہے، وہ خدا کے سپر دکر دیں.پھر دیکھیں خدا اپنا حصہ کتنا ڈالتا ہے.یہ بات میں وسیع تجربے کے بعد کہہ رہا ہوں.جو احمدی بھی لاعلمی کے باوجود تبلیغ کے 736

Page 746

تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد هفتم خطبه جمعه فرموده 28 اگست 1987ء میدان میں کودتے ہیں، ہر قسم کے دشمن سے واسطے کے باوجود کبھی بھی خفت محسوس نہیں کرتے کبھی خدا ان کو ذلیل نہیں ہونے دیتا.پھر آج کل کے زمانے میں تو بہت سے ایسے نئے ذرائع ایجاد ہو گئے ہیں، جس سے تبلیغ کی اہلیت کی کمی یاز بانہیں نہ جانے کا نقص بڑی آسانی سے دور ہو جاتا ہے.کیسٹس ہیں، ان میں عربی کے سوال جواب کے پروگرام بھی درج ہیں.عربی کے لیکچر بھی درج ہیں، مختلف مسائل کے اوپر.ٹرکش زبان میں کیسٹس ہیں اور دنیا کی افریقین اور دیگر ایشیائی زبانوں اور بعض مغربی زبانوں مثلاً انگریزی، فرینچ، جرمن ان سب میں ہمارے پاس کیسٹس موجود ہیں.ویڈیوز بھی ہیں، آڈیوز بھی ہیں.لیکن اکثر مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ مبلغین نے یا جو لکی عہدیداران تھے، انہوں نے جماعت میں ان باتوں کی تشہیر نہیں کی ہوئی.بار بار یاد نہیں کر دیا کہ ہمارے پاس یہ سب کچھ موجود ہے.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض دفعہ ایک احمدی کا کسی ٹرک (Turk) سے واسطہ پڑتا ہے یا کسی ویت نامی سے یا کسی اور سپینش سے مثلاً واسطہ پڑتا ہے تو مجھے خط لکھتا ہے کہ میں کیا کروں؟ میرے پاس کیسٹس نہیں ہیں، میرے پاس لٹریچر نہیں ہے.اب میرے ساتھ اور کئی آدمیوں کا وقت اس بات میں استعمال ہوتا ہے، میں ضائع تو نہیں کہہ سکتا، یہ تو اچھی جگہ استعمال ہوتا ہے.لیکن اس کے بغیر بھی اس کا کام چل سکتا تھا اور ہمارا وقت بچ سکتا تھا.اگر مربی نے پہلے سے بتایا ہوا ہوتا کہ یہ کیسٹس تو مرکز ہمیں مدت ہوئی بھیج چکا ہے اور اگر مرکز نے نہیں بھیجی تھی تو مربی کا کام تھا، مجھے لکھتا اور بتاتا کہ اس مضمون پر مجھ سے مطالبہ کیا گیا، میں نے جائزہ لیا، ہمارے پاس کوئی ایسی کیسٹ نہیں.حالانکہ مرکز میں یہ انتظام ہے اور سارے ملکوں کو ہدایت ہے کہ اپنی زبان میں جو ٹیسٹس وہ تیار کرتے ہیں، وہ دوسرے ملکوں کو بھجوائیں تاکہ دنیا کے ہر ملک میں ہر زبان کی لائبریری قائم ہو جائے.لیکن وہ ہو سکتا ہے، اس لئے شکایت نہ کرتے ہوں کہ خود جو کیسٹس بناتے ہیں، وہ آگے نہیں بھجواتے.اگر یہ احساس ہو کہ جو ہم نے کام تیار کیا ہے، اس سے ساری دنیا استفادہ کرے تو پھر دنیا سے استفادہ کرنے کا حق بھی پیدا ہو جاتا ہے.پھر اگر کوئی نہ ان کو فائدہ پہنچارہا ہوتو خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو بھجوا رہے ہیں ، باہر سے کوئی کیسٹ ہمیں نہیں ملتی.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آنکھیں بند ہو جاتی ہیں، اس طرف سے.خواہ مخواہ کیوں اتنا بوجھ اٹھایا جائے کہ پھر اور مصیبت بنی رہے.ہر طرف سے پھر مطالبے ہوں گے، پھر کیسٹ کو Duplicate کروانا ہوگا ، پھر آگے تقسیم کرانا ہوگا.تو کسی ملک میں کوئی کمزوری نظر آرہی ہے، کسی میں کوئی کمزوری نظر آرہی ہے.اور جماعت کو پوری طرح آگاہ نہیں رکھا جا رہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کیا کیا ہتھیار مہیا فرما دیئے ہیں.جہاں استفادہ 737

Page 747

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم مخطبه جمعه فرموده 28 اگست 1987ء ہوتا ہے اور جرمنی میں بہت حد تک ہوتا ہے، وہاں بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، زیادہ سے زیادہ دس فیصد داعی الی اللہ بنے ہوں گے، اس سے زیادہ نہیں.مگر جو کرتے ہیں، وہ ایسے ایسے لوگ ہیں، جن کو جرمن زبان یا ٹرکش زبان تو کیا اردو بھی نہیں ٹھیک آتی.ایک خط میں اردو کے ساتھ دس پندرہ پنجابی کے لفظ ملا کے لکھتے ہیں.اور حال یہ ہے کہ اللہ ان کو پھل عطا فرمارہا ہے.ان کی تبلیغ کو پھل لگ رہے ہیں.بعض ایسے آدمی ، جن کو کسی چیز کا بھی زیادہ علم نہیں، عربوں کو تبلیغ کر کے ، ان کو کامیابی کے ساتھ تبلیغ کر کے ان کو احمدی بنا چکے ہیں.بعض ٹرکس (Turks) کو احمدی بنا چکے ہیں.ابھی جب میں جرمنی میں ایک دن کے لئے ٹھہرا تھا، ہمبرگ میں، وہاں اسی طرح ایک احمدی دوست تھے.حالانکہ ان کو ٹرکی زبان نہیں آتی ، ایک ٹرک (Turk) کو لے کر آئے ہوئے تھے ، جو اپنی مسجد کا عالم تھا اور بڑا با اثر انسان تھا، اس کو لے کر آئے.اور پتا یہی چلا کہ وہ ٹرکی زبان کی کیسٹس کے ذریعے کچھ اشاروں سے کچھ اپنے محبت کے اظہار کے ذریعے اس سے تعلق قائم کر چکے تھے.اور وہ آیا اور اس نے ملاقات کے دوران بار بار یہ اظہار کیا کہ اب میں باہر نہیں رہوں گا، میں بیعت کر کے سلسلے میں داخل ہوں گا اور نہایت ہی محبت سے اس کا چہرہ جو تھا تمتما رہا تھا.تو ایک عام آدمی ، جس کو ایک زبان ہی نہیں آتی ، اس کو زیادہ دینی علم بھی نہیں ہے، اس کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرما دی.اس لئے کہ اس کا جذبہ خلوص سچا تھا، اس لئے کہ اس کے دل کی بے قرار تمنا تھی ، اس لئے کہ وہ دعا کرتا تھا اور پھر ایک خوبی جو ہر داعی الی اللہ میں ہونی ضروری ہے، وہ اس میں موجود تھی کہ زبان کا میٹھا تھا.علم سارا بیکار ہو جاتا ہے، اگر ایک انسان مشتعل مزاج ہو.اگر مغلوب الغضب ہو تو دنیا کے کسی کام کا بھی نہیں رہتا.خصوصا اس وقت، جب غیر سے مقابلہ ہو.اس وقت تو بہت ہی زیادہ مکمل ہونا چاہئے.اپنے جذبات پر کنٹرول اور حوصلے سے اس کی دشمنی کی بات کو سنا اور پھر محبت اور پیار سے اس کو سمجھانا اور جواب دینا، یہ وہ ایسا ایک سلیقہ ہے تبلیغ کا، جو اگر کسی کو آجائے تو بہت بڑے بڑے عالموں پر وہ حاوی ہو سکتا ہے.تبلیغ میں دماغ سے زیادہ دل جیتنے ہوتے ہیں، اس نقطے کو یا درکھنا چاہئے.جب دل جیت لئے تو تین چوتھائی کام وہیں ختم ہو گیا.پھر دماغ جیتنا کوئی مشکل نہیں ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسا عظیم اور ایسا غالب کلام عطا کیا ہے کہ وہ علم کلام بڑوں بڑوں پر غالب آ جاتا ہے.صرف دشمنی کا جذبہ یا نفرت اس کے درمیان میں حائل ہوتی ہے.آپ اگر کسی سے محبت اور پیار سے اس کا دل جیت لیں تو جو باتیں اس کے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کے درمیان حائل تھیں، وہ دیوار جو بیچ میں کھڑی تھی ، وہ ختم ہو جاتی ہے.738

Page 748

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرموده 28 اگست 1987ء پس اپنی زبان کو سلیقہ دیں، اپنے دل کو سلیقہ دیں، دل میں مٹھاس پیدا کریں اور زبان سے جو بات نکلے، وہ دل کی مٹھاس ہو.اپنے اندر عجز اور انکسار پیدا کریں تو پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی دعوت الی اللہ کو کتنی عظیم الشان برکت ملتی ہے.دیکھتے دیکھتے دل فتح ہونے شروع ہو جائیں گے اور سب سے آخر پر لیکن سب سے اہم یہ کہ دعا کی طرف میں پھر متوجہ کرتا ہوں.دعوت الی اللہ کی ہر منزل پر دعا کی عادت ڈالیں.تبلیغ کے دوران دعا کریں، گھر جا کر دعا کریں، اپنے بچوں کو کہیں کہ دعا کرو.اگر آپ اس سنجیدگی کے ساتھ دعوت الی اللہ کی طرف توجہ کریں گے اور اپنا دل بیچ میں ڈال دیں گے، اپنی معصوم اولاد کو بھی ساتھ شامل کریں گے اور جذبے کے ساتھ ان کو کہیں گے کہ خدا کے لئے میری مدد کرو.میرا دل چاہتا ہے مگر میں مجبور اور بے اختیار ہوں، میرا بس نہیں چل رہا.پھر دیکھیں کہ خدا ان معصوم بچوں کی دعائیں آپ کے ساتھ شامل کرے گا.کتنی عظیم الشان طاقت پیدا ہو جائے گی، آپ کے الفاظ میں.آپ قوموں کو فتح کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.لیکن قوموں کو محبت اور پیار کے غالب جذبے اور دعاؤں کے ذریعے آپ نے فتح کرنا ہے.یہ سلیقے سکھتے ہیں اور یہ سلیقے اپنی اولا د کو سکھائیں.دیکھتے دیکھتے جماعت کی کایا پلٹ جائے گی، نئی زندگی پیدا ہوگی ، نئی روحانیت آپ کو عطا ہو گی.پھر یہ شکایتیں نہیں ہوں گی کہ فلاں احمدی باہر سے آیا تھا، اس نے فلاں گندگی اوری شروع کر دی ، فلاں باتیں اس نے اختیار کرلیں، جماعت کی بدنامی کا موجب بنا.ایسی جماعت جو پھیل رہی ہو چاروں طرف ، جہاں نئے نئے لوگ داخل ہو رہے ہوں، وہاں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسا روحانی ماحول پیدا ہو جاتا ہے کہ تربیت کی ضرورت ہی کوئی نہیں پڑتی ، تربیت خدا خود کرنے لگ جاتا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کے ان باتوں کو آپ پلے باندھیں گے اور یہ نہیں ہوگا کہ میں اگلے سال آؤں تو پھر ویسی ہی حالت میں دیکھوں.بدلتی ہوئی حالتوں میں زندہ قومیں چلا کرتی ہیں، ایک حال پر نہیں کھڑی رہا کرتیں.اس لئے آپ کو ہمیشہ ہر لحاظ سے آگے سے ترقی کرنی چاہئے.اور میں جانتا ہوں کے ایک سال میں ناممکن ہے سوائے اس کے کہ اللہ معجزہ دکھائے ، ناممکن ہے کہ نوے فیصد آدمی ، جو داعی الی اللہ نہیں، وہ داعی الی اللہ بن جائیں.لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ داعین الی اللہ کی تعداد دگنی ہو جائے.اگر دس تھے تو میں ہو جائیں، اگر میں تھے تو چالیس ہو جائیں.پس اپنی توفیق کے مطابق کام کریں.آپ کی توفیق سے بڑھ کر میں آپ پر بوجھ نہیں ڈالتا.کیونکہ خدا بھی نہیں بوجھ ڈالتا.لیکن اگر آپ اپنی توفیق کے مطابق کام کریں تو خدا نے آپ کو بہت بڑے بڑے بوجھ اٹھانے کے قابل 739

Page 749

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد هفتم بنایا ہے.اگر خدا نے آپ کو بڑے بوجھ اٹھانے کے قابل نہ بنایا ہوتا تو ساری دنیا کا بوجھ ہر گز آپ کے کندھوں پر نہ ڈالتا.اپنی عظمت کو سمجھیں، اپنی خوابیدہ قابلیتوں کو سمجھیں ، آپ میں وہ طاقتیں موجود ہیں، جنہوں نے دنیا کی تقدیر بدلنی ہے.یہ احساس خود اعتمادی پیدا کریں.پھر جب دعا کے ذریعے اور توکل کے ذریعے آپ کام کریں گے تو انشاء اللہ عظیم الشان کام آپ دنیا میں کر کے دکھائیں گے.اللہ اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 561 تا 574) 740

Page 750

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خصوصی پیغام جماعت احمدیہکا ہر فرد تبلیغ واشاعت دین کو اپنی زندگی کا مقصد و نصب العین بنائے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی پیغام اسلام چونکہ ایک تبلیغی مذہب ہے، اس لئے ہر مسلمان کا یہ فرض اولیں ہے کہ وہ حتی الامکان تبلیغ واشاعت دین میں کوشاں ہو.اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے قیام کا بنیادی مقصد ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران: 111) یعنی تم وہ خیر امت ہو، جو نوع انسان کی ہمدردی اور خیر خواہی کے لئے پیدا کی گئی ہے.تمہیں چاہیے کہ ہر آن لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے رہو اور بدی سے منع کرتے رہو.تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں میں اپنے اس فرض منصبی کا احساس رہا، فتح و کامیابی ان کے قدم چومتی رہی.مگر جیسے ہی تبلیغ و اشاعت دین کا یہ جذبہ اور تڑپ مفقود ہونا شروع ہوئی ناکامی و نامرادی ان کا مقدر بنتی چلی گئی.تا آنکہ اسلام کا سرسبز و شاداب چمن اپنی تمام رونق کھو بیٹھا.امت مسلمہ کے خزاں دیدہ چمن پر سینکڑوں سال کا طویل زمانہ گزرنے کے بعد آج ہم پھر اس مبارک و مسعود دور میں داخل ہو چکے ہیں، جو فرمان الہی لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الفتح: 39) کے مطابق اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور ہے.فی زماننا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت مبارکہ کا مقصد بھی یہی ہے کہ دین اسلام کو اس دائگی اور عالمگیر روحانی غلبہ سے ہمکنار کیا جائے ، جس کی الہی نوشتوں میں پہلے سے بشارت دی جاچکی ہے.غلبہ اسلام کی ان موعودہ ساعتوں کو قریب سے قریب تر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کاہر فر تبلیغ واشاعت دین کو اپنی زندگی کا مقصد ونصب العین بنائے.خصوصاً آج کے مخدوش اور نا مساعد حالات میں جبکہ علماء سوء اپنے اس فرض منصبی کو یکسر فراموش کر کے غیروں کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی بجائے اپنوں ہی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے درپے ہیں، ہماری یہ ذمہ داری پہلے سے دو چند ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی بیش از بیش تو فیق عطا فرمائے.آمین.( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 04 ستمبر 1987ء) 741

Page 751

Page 752

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد؟ اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ستمبر 1987ء جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفانہ کوششیں اور جماعت احمدیہ کا رد عمل خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ستمبر 1987ء...چنانچہ جماعت احمدیہ کو سب سے پہلے اور سب سے اہم دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں.یہ ابتلاء بڑھ رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں اور اس کے پیچھے بڑی بڑی حکومتوں کی سازشیں ہیں، جن کی اطلاعیں جماعت کو مل رہی ہیں.اور جو جماعت مقابل پہ کوشش کر سکتی ہے، کر رہی ہے.لیکن یہ مسائل دعا کے بغیر حل نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی فضل آپ مانگیں گے تو وہ نازل ہوگا.کچھ فضل بن مانگے نازل ہوا کرتے ہیں، رحمان کے.لیکن کچھ ایسے ہیں، جن کا رحیمیت سے تعلق ہے.اور ابتلاء کے دور کا رحیمیت سے گہرا تعلق ہے.اس کی تفصیل میں اس وقت جانے کا وقت نہیں ہے.کیونکہ ایک تفصیلی مضمون ہے.لیکن اتنا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ابتلاء کے ادوار کا رحیمیت سے گہرا تعلق ہوا کرتا ہے.اور رحیمیت کے لئے آپ کو مانگنا پڑے گا.بن مانگے نہیں ملے گا.اپنے نیک اعمال کے ذریعے مانگنا ہوگا.اپنی زبان کے ذریعے ، اپنے دل کے ذریعے ، جو کچھ بھی آپ کے بس میں ہے، جس رنگ کی عاجزی کی دعا آپ کر سکتے ہیں، ویسی دعا کریں.اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان خطرناک راستوں سے بڑی کامیابی کے ساتھ اور اطمینان کے ساتھ آگے گزارتا ہے.دوسری بات، جو عمومی طور پر جماعت کر سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں جس قسم کی مخالفانہ کوشش ہو ، اس کے جواب میں ساری جماعت دنیا میں ہر جگہ اپنے معیار کو بڑھا دے.اور پہلے سے زیادہ نیکیاں اختیار کرے.اگر مساجد توڑی جارہی ہیں، مساجد برباد کی جارہی ہیں تو مساجد بڑھنی چاہئیں.اگر غرباء کے گھر برباد کئے جارہے ہیں تو غرباء کے گھروں کی طرف توجہ کرنی چاہئے.یعنی جس رنگ میں بھی دشمن ظلم کرتا ہے، اس کی جوابی کارروائی براہ راست ساری دنیا میں جماعت کر سکتی ہے.اور وہ نیکیوں کے ذریعے ہے.اسی قسم کی نیکیوں کے ذریعے جن کا ابتلاء کے ساتھ ایک قدرتی تعلق ہے <<..اس لئے ہمیں اس کے ردعمل کے طور پر دو طرح سے ساری دنیا میں اپنی بعض نیکیوں کو خصوصیت سے آگے بڑھانا چاہئے.مسجد سے تعلق کو بڑھانا چاہئے.جہاں جہاں مساجد ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے بھی نصیحت کی تھی، ان کی زینت کی طرف توجہ کرنی چاہئے ، ان کی صفائی کی طرف توجہ کرنی 743

Page 753

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ستمبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم چاہئے.جہاں جہاں مساجد نہیں ہیں اور جماعتیں ہیں، خواہ چھوٹی ہی ہوں، وہاں مساجد بنی چاہئیں.اور اللہ کے فضل کے ساتھ جو اطلا میں مل رہی ہیں، گزشتہ چند مہینے میں خدا کے فضل سے جماعت کی مسجدوں کی طرف بڑی غیر معمولی توجہ ہوئی ہے، بن رہی ہیں.لیکن چونکہ مسجدوں پر خصوصیت سے حملہ ہے، اس لئے اور زیادہ تیزی کے ساتھ ہمیں بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر بڑی مسجد نہیں بنا سکتے تو جھونپڑی والی مسجد بنالیں.لیکن مسجدوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کرنے کی ضرورت ہے.غرباء کے گھر لوٹے جار ہے ہیں تو غرباء کی طرف توجہ کریں.جہاں جہاں جماعتیں ہیں، وہ اپنے غرباء کا خیال رکھیں، ان کی مصیبتیں دور کرنے کی کوشش کریں.جن کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے، ان کو ذریعہ معاش مہیا کرنے کی کوشش کی جائے.جن کے پاس گھر نہیں ہیں ، ان کے گھر بنا کے دیئے جائیں.وو یہ جو واقعات ہیں، بظاہر ان کا کوئی تعلق نہیں ہے.ہزاروں میل کے فاصلے پر ایک واقعہ چھوٹا سا ہورہا ہے.لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کے خدا کی تقدیر میں ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے.جس قسم کا حملہ ہو، اس کی جوابی اصلاحی کاروائی کرنا اور نیکی میں اسی میدان میں آگے قدم بڑھانا، یہ قرآن کریم کا حکم ہے.اس لئے اگر آپ ایسا کریں گے تو خدا کی تقدیر ایسی کمزور جگہوں سے بھی آپ کی مسجدوں کی حفاظت کرے گی، جہاں آپ کی طاقت پہنچ نہیں سکتی.جہاں آپ کی طاقت ہے، وہاں مسجدوں کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کریں.جہاں آپ کی طاقت نہیں ہے، وہاں خدا آپ کی محبت کو پہنچائے گا.اور آپ کی محبت پر کرم اور رحم کی نظر کرتے ہوئے ان کمزور جگہوں سے بھی آپ کی مسجدوں کی حفاظت کرے گا.اگر آپ ان غریب گھروں کو مسمار ہونے سے نہیں بچا سکتے ، جن تک پہنچنا آپ کی طاقت میں نہیں ہے.تو جن غریبوں تک پہنچنا آپ کی طاقت میں ہے، ان کے گھروں کے لئے کچھ کوشش کریں، کچھ جد و جہد کریں، کچھ ان کا انتظام کریں.اور پھر آپ دیکھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی تقدیر کمزور جگہوں سے بھی احمدی غرباء کے گھروں کی حفاظت فرمائے گی.یہ ایک بالکل قطعی بات ہے.اس میں کوئی افسانوی پہلو نہیں ہے.اتنی قطعی ہے، جس طرح آپ مجھے دیکھ رہے ہیں اس وقت، جو میرے سامنے بیٹھے ہیں یا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں.لازماً ایسا ہوتا رہا ہے، ایسا ہی ہو گا آئندہ بھی، انشاء اللہ.اس لئے ان دو امور کی طرف میں خصوصیت سے آپ کو متوجہ کرتا ہوں.مسجدوں کے ضمن میں ایک ہالینڈ کی مسجد کا واقعہ گزرا تھا، جو میں نے آپ کو بتایا ہے.کیونکہ یہ سازش بین الاقوامی ہے، اس کے پیچھے بعض بڑی بڑی حکومتوں کا اور بڑی بڑی مالدار حکومتوں کا ہاتھ ہے، اس لئے یہ ہر جگہ پہنچیں گے، ہر جگہ شرارت کریں گے.جہاں بھی اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے شرارت 744

Page 754

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 ستمبر 1987ء نہیں ہے، وہاں کی جماعت کو بیدار مغزر بھی ہونا چاہئے.چنانچہ میں نے اس وقت ساری دنیا کی جماعتوں کو ہدایت دی تھی کہ اپنے اپنے قیمتی مسودات کی بھی حفاظت کا انتظام کریں اور اپنی مساجد کی حفاظت کا پہلے سے بہتر انتظام کریں.یہ بھی اسی اسکیم کا ایک حصہ ہے.لیکن بہر حال جن مساجد کو نقصان پہنچا ہے، ان کی تعمیر نو میں بھی ہمیں جہاں تک کسی کو توفیق ہو حصہ لینا چاہئے.چنانچہ ہالینڈ کی مسجد کے لئے میں نے اعلان کیا تھا کہ جن دوستوں کو تو فیق ہے، وہ اس سے پہلے سے بہت زیادہ شاندار بنانے کے لئے اگر خدا کی راہ میں کچھ خرچ کر سکتے ہیں تو کریں.اسی طرح بنگلہ دیش کی مساجد میں جب بھی خدا توفیق دے گا ہمیں ان کو نہ صرف یہ کہ دوبارہ بحال کرنا ہے بلکہ پہلے سے بہت زیادہ بڑھانا ہے.اور اگر کوئی معمولی چھپروں کی مسجد تھی، اسے پختہ بنا کے دینا ہے.چند نمازی نماز پڑھ سکتے تھے تو کئی گنا زیادہ نمازیوں کے لئے گنجائش پیدا کرنی ہے.کوئی ایک جگہ بھی دنیا میں ایسی نہیں، جہاں احمدی مسجد پہ حملہ ہوا ہو اور جوابا ہم نے اس سے زیادہ تر وسیع مسجد بنانے کی کوشش نہیں کر لی.یہ تو لمبے فاصلے ہیں، لمبے سفر ہیں.انشاء اللہ اسی طرح ہم یہ سفر آگے کرتے چلے جائیں گے.جماعت کا جہاں تک تعلق ہے، اپنے طور پر اپنے علاقوں میں مسجدوں کے علاوہ بھی جن مسجدوں کو نقصان پہنچا ہے، ان کے لئے کچھ حصہ لیں.اس ضمن میں ایک تاکید ہے کہ جن احباب نے صد سالہ جوبلی میں ابھی اپنے بقایا ادا کرنے ہیں یا بعض اور کسی بڑی تحریک میں اپنا چندہ ابھی ادا کرنے والا باقی ہے، وہ سوائے اس کے کہ تبرک کے طور پر بالکل معمولی حصہ لیں، پہلے اپنے بقایا ادا کر یں، پھر نئی تحریکات میں حصہ لیں.صد سالہ جوبلی کے کام بھی بہت زیادہ ہیں اور بڑے Demanding ہیں.یعنی ان کا وقت تھوڑا رہ گیا ہے، کام بہت زیادہ ہیں.اخراجات بہت ہیں اٹھنے والے، اس لئے اس چندے کو تو بہر حال اہمیت دینی چاہئے.جن کے بقایا ہیں، وہ پہلے بقایا ادا کرنے کی طرف توجہ کریں.پھر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو پھر ان تحریکات میں بھی شامل ہو جائیں.تو مسجد کے لئے میں اپنی طرف سے ان مساجد کی تعمیر کے لئے، جن پر دشمن حملہ کرتا ہے، ایک ہزار پونڈ کا اپنی طرف سے میں وعدہ پیش کر چکا ہوں.اور بتانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ کئی دفعہ میرا تجربہ ہے کے جب میں اپنا چندہ بتا دوں تو جماعت بہت تیزی سے آگے بڑھتی ہے.جب میں مخفی رکھوں تو اس بارے میں خاموش رہتی ہے.شاید ان کو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کے میں جہاں چندہ نہیں لکھواتا ، وہاں اہمیت نہیں دیتا، اس کو خاص.حالانکہ ضروری نہیں ہوتا کہ انسان بتا کے چندہ دے.تو بعض چندے ایسے ہیں، جن 745

Page 755

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 ستمبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم میں چونکہ جماعت کو بتایا نہیں گیا، میں نے فہرستوں کا جب جائزہ لیا تو ان میں کوئی توجہ نہیں تھی ، جماعت کی.جہاں بتایا گیا ہے، وہاں غیر معمولی طور پر قربانی میں جماعت آگے بڑھی ہے.تو یہ ممکن ہے، ایک طبعی فطری بات ہو.اس لئے میں آپ کو بتارہا ہوں کہ اسی نسبت سے آپ بھی اپنی توفیق کے مطابق جس حد تک حصہ لے سکتے ہیں، لیں لیکن وہی، جو پہلے صد سالہ جو بلی کے چندہ ادا کر چکے ہوں.دوسرا بیوت الحمد کا معاملہ ہے.بیوت احمد میں ہماری کوشش ہے کہ ایک سو مکان غرباء کو یا ایسے دین کی خدمت کرنے والوں کو، جن کو توفیق نہیں ہے اپنے مکان بنانے کی ، ان کو بنا کر مکمل پیش کریں.یہ تحریک چار سال پہلے پیش کی گئی تھی.اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے بڑا ہی اچھا رد عمل دکھایا اور کثرت سے اتنے وعدے موصول ہوئے کہ ہمارا خیال تھا کہ اوسطاً اگر سارے اخراجات ملا کر ایک لاکھ میں ایک مکان پڑے تو ایک کروڑ روپیہ چاہیے ہوگا.اور وعدے خدا کے فضل سے ایک کروڑ سے زیادہ کے آگئے.لیکن ایک بات ہماری نظر سے رہ گئی تھی وہ یہ کہ اس سکیم کا ایک یہ بھی حصہ تھا کہ وہ غرباء، جن کو پورے مکان کی ضرورت نہ ہو، لیکن ان کا مکان نا کافی ہو یا چار دیواری نہ بنا سکے ہوں یا نسل خانہ وغیرہ نہ بنا سکے ہوں یا ایک ہی کمرہ ہے اور خاندان بڑا ہے، ان کی جزوی مدد بھی کی جائے گی.اور جزوی مدد میں کسی کو کمرہ بنا دیا جائے گا، کسی کو چار دیواری بنادی جائے گی.تو یہ مجھے اندازہ نہیں تھا اس حصے پر کتنا زیادہ خرچ ہوگا.نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر روپیہ اسی حصے پر خرچ ہو چکا ہے.اور سو نہیں بلکہ کئی سو مکان ایسے ہیں غرباء کے، جن کو کسی کو چار دیواری بنادی گئی، کسی کو باورچی خانہ بنا کر دیا گیا، کسی کو زائد کمرہ بنا کے دیا گیا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سکیم کا جو فیض ذہن میں تھا، اس سے زیادہ فیض پہنچ چکا ہے.اس وقت جماعت کو تحریض دلانے کی خاطر دو، تین سال کے بعد میں نے اپنا چندہ دگنا کر دیا تھا.یعنی ایک لاکھ کی بجائے دولاکھ کر دیا تھا.تا کہ دو مکان اگر میں بنا کے دیتا ہوں تو جو صاحب توفیق ہیں، وہ بھی اس معاملے میں آگے قدم بڑھائیں.اب جب جائزہ لیا ہے تو ابھی بھی اور ضرورت ہے.اس لئے میں اپنی طرف سے ایک اور مکان کا خرچ پیش کرتا ہوں.اور جن دوستوں کو توفیق ہے کہ وہ ایک مکان کا خرچ پیش کر سکیں یا جن جماعتوں کو توفیق ہے کہ وہ ایک مکان کا خرچ پیش کر سکیں، ان کو بھی اجازت ہے.لیکن اس شرط کے ساتھ کہ صد سالہ جوبلی کے بقایا دار نہ ہوں اور بیوت الحمد کی تحریک کے بقایا دار نہ ہوں.پہلے پرانے وعدے پورے کریں ، پھر خدا توفیق عطا فرمائے تو پھر بے شک آگے بڑھیں“.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 598 تا 603) 746

Page 756

تحریک جدید - ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اکتوبر 1987ء اللہ تعالی نے آپ کو دنیا کی تقدیر بدلنے کے لئے چنا ہے خطبہ جمعہ فرموده 02 اکتوبر 1987ء گزشتہ مرتبہ جب مجھے امریکہ آنے کی توفیق ملی تھی ، یہ 1978ء کے وسط کی بات ہے.گویا تقریبا نو سال گزر چکے ہیں.گزشتہ مرتبہ اگر چہ میر اسفر ایک انفرادی حیثیت سے تھا لیکن طبعاً جماعت کی محبت کے نتیجے میں کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، جس میں کسی جماعت سے ملاقات ہو سکتی ہو اور نہ کی ہو.چنانچہ اس کے نتیجے میں مجھے تفصیلاً اس زمانے میں جو موجود جماعتیں تھی ، ان میں سے بھاری اکثریت سے تعارف حاصل ہوا.اور شاید ایک یاد و مقامات ایسے تھے، جہاں جماعت تو تھی لیکن مجھے جانے کا موقع نہ مل سکا.اور جہاں بھی گیا، وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انفرادی طور پر بھی دوستوں سے واقفیت کی توفیق ملی اور زیادہ قریب سے یہاں کے مسائل کو سمجھنے کی بھی توفیق ملی.اگر چہ اس سفر میں ابھی مجھے امریکہ پہنچے ہوئے صرف دو روز ہوئے ہیں، اس لئے تفصیلاً موازنہ تو میں نہیں کر سکتا.یہ تو سفر جوں جوں آگے بڑھے گا، زیادہ موقع ملے گا، دوستوں سے ملنے کا تفصیل سے ان کے حالات معلوم کرنے کا، ان کے چہرے سے اندازے لگانے کا.اس وقت نسبتا زیادہ قطعی طور پر میں موازنے کا اہل ہو سکوں گا.لیکن سر دست یہ خوش کن پہلو تو بہت ہی ظاہر وباہر ہے کہ گزشتہ دورے کے مقابل پر آج امریکہ کی جماعتوں کو بہت زیادہ مستحکم مراکز حاصل ہو چکے ہیں اور بالعموم نظام جماعت سے وابستگی کے معیار میں بھی نمایاں اضافہ معلوم ہوتا ہے.بہت سے ایسے چہرے ہیں، جو آج میں دیکھ رہا ہوں، جو میرے لئے اس پہلو سے نئے ہیں کہ گزشتہ سفر میں وہ دکھائی نہیں دے رہے تھے.اس کی کئی وجوہات ہیں.ان میں سے ایک تو یہ بھی ہے کہ میرا پہلا سفر محض انفرادی حیثیت سے تھا.اور باہر کے رہنے والے دوستوں کے لئے نہ ضروری تھا، نہ ان کے دل میں کوئی طبعی خواہش تھی کہ وہ سفر کر کے تشریف لائیں اور جہاں میں جمعہ ادا کروں ، وہاں وہ بھی ادا کریں.اس لئے طبعی طور پر خلیفہ وقت کے دورے اور ایک عام احمدی کے دورے کے اندر زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.747

Page 757

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 02 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم دوسرے ایک یہ بھی وجہ ہے اور کچھ معاملات میں، میں جانتا ہوں کہ یہ بھی ہوگی کہ پہلے ایسے لوگ بھی تھے ، جو یہاں رہتے ہوئے بھی جماعت سے تعلق نہیں رکھ رہے تھے.اس تعلق نہ رکھنے کی وجہ ایک تو اچھے مرکز کا فقدان تھا.بعض ایسے دوست تھے، جن سے میں نے خود پوچھا کہ آپ جہاں تک میراعلم ہے، جب پاکستان میں یا ہندوستان میں تھے، آپ کا تعلق جماعت سے اچھا تھا.اب میں آپ کو نیو یارک کے مرکز میں نہیں آتا دیکھتا، کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ علاقہ ایسا ہے، وہاں جانا خطر ناک ہے.وہاں ہم اپنے بچوں کو نہیں لے جاسکتے.اور ایسا ماحول ہے تاریک کہ آپ کو اندازہ نہیں.آپ تو آج آئے ہیں بکل چلے جائیں گے.یہاں تو Mugging بڑی ہوتی اور یہ ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے.اس سے مجھے عام طور پر پاکستانی دوستوں کے مزاج کا علم ہوا.اگر چہ کسی حد تک یہ بات درست تھی، کسی حد تک یہ عذر لائق پذیرائی ضرور تھا.لیکن اس حد تک نہیں کہ انسان اپنے ہاتھوں سے اپنا دین کھو بیٹھے.اس حد تک نہیں کہ اتنی عظیم قربانی دے کہ جماعت کے ساتھ تعلق توڑ بیٹھے اور دور ہو جائے اور نظام جماعت سے جو انسان کی زندگی وابستہ ہے، خود اس رگ کو قطع کر لے.چنانچہ اس پہلے تجربے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں کہیں بھی ایسے مراکز ہوں، جہاں سے زیادہ خطرات لاحق ہوں، میں وہیں جا کے ٹھہروں گا اور پسند کروں گا کہ اپنے ان بھائیوں کے درمیان ٹھہروں، جن کو بدبختی سے اور بد قسمتی سے بعض لوگ اپنے سے گھٹیا سمجھتے اور نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے، تا کہ میرے ملنے کے بہانے ہی کچھ ایسے دوست وہاں آجائیں، جو پہلے نہیں آسکتے تھے یا نہیں آیا کرتے تھے.چنانچہ اس فیصلے کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی ایسی جگہوں پہ مجھے جانے کا اتفاق ہوا، جن کو علاقوں کے لحاظ سے خطرناک علاقہ سمجھا جاتا تھا.اور میرے ساتھ کوئی مرد بھی اور نہیں تھے.میری بیوی تھی، دو بیٹیاں تھیں، دو جوان بیٹیاں اور اگر خطرہ لاحق ہوسکتا تھا تو اس حالت میں مجھے زیادہ خطرہ لاحق ہو سکتا تھا.لیکن میں جانتا تھا کہ جب خدا کی خاطر انسان ایک عزم کر کے ایک نیک قدم اٹھاتا ہے تو لازماً اللہ تعالی کی طرف سے نصرت بھی میسر آتی ہے.چنانچہ وہ بھی ایسے حیرت انگیز طریق پر آئی کہ عقل ششدر رہ جاتی ہے، وہم و گمان میں بھی انسان کے نہیں آسکتا کہ عام حالات میں انسان کے ساتھ ویسا سلوک ہو سکتا ہے.یہ میں اس لئے آپ کو بتارہا ہوں کہ اس وقت میں خلیفہ وقت تو نہیں تھا، اس وقت ایک جماعت کا ایک عام فرد تھا، جس کے سپر د جماعت کی کوئی بہت بڑی ذمہ داری نہیں تھی.اور یہ سفر بھی ذاتی نوعیت کا سفر تھا.اس کے باوجود جب میں نے ایک فیصلہ خدا تعالیٰ کی خاطر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں حیرت انگیز نصرت 748

Page 758

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 02اکتوبر 1987ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک فرمائی کہ اس کا وہم و گمان بھی خود میرے ذہن میں نہیں تھا کہ اس حد تک اللہ تعالیٰ محبت اور پیار کا سلوک فرمائے گا.آپ میں سے ہر ایک خدا کو اسی طرح پیارا ہے.کیونکہ خدا اپنے بندوں کے درمیان تفریق نہیں کرتا.آپ میں سے ہر ایک خدا کو اسی طرح عزیز ہے کیونکہ جو خدا کو عزیز رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ضرور انہیں عزیز رکھتا ہے.اس کی نظر میں نہ کوئی کالا ہے، نہ کوئی گورا ہے.نہ کوئی شمالی ہے، نہ کوئی جنوبی.وو پس میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس ملک میں رہتے ہوئے اگر آپ خدا کی خاطر اپنے دلوں میں کچھ نیک پاک ارادے قائم کریں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی نصرت فرمائے گا اور غیر معمولی طور پر آپ سے پیار اور محبت کا سلوک فرمائے گا.وو اگر خدا کو پکاریں گے ، اخلاص کے ساتھ اور اس کی خاطر ایک فیصلہ اخلاص کے ساتھ کریں گے تو پھر آپ کا اور خدا کا تعلق، ایک ایسا تعلق ہوگا، جس کے متعلق کسی دوسرے بندے کو فکر کی ضرورت نہیں رہتی.پھر نظام جماعت کی آنکھ آپ پر ہو یا نہ ہو، خواہ کوئی خدام الاحمدیہ کا یا انصار اللہ کا عہد یدار آپ کی فکر کرے یا نہ کرے، آپ کے اندر سے وہ ضمیر بیدار ہو چکا ہو گا، جو ہر آن خدا کی راہنمائی میں آپ کی فکر کر رہا ہو گا.جس حال میں ہوں، تاریکی میں ہوں یا روشنی میں ہوں، دن کا وقت ہو یا رات کا وقت ہو، خدا تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کرنے والے آپ پر مقرر ہو جائیں گے.وو ایسے نظارے میں نے بھی بارہا دیکھے اور آپ میں سے بھی بہت سے ہوں گے، جنہوں نے بارہا دیکھے ہوں گے.جب جماعتی طور پر یہ ابتلا بڑھتے ہیں تو اسی قدر کثرت سے خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اس رنگ میں حفاظت فرمارہے ہوتے ہیں کہ ہماری نظر ان کی پہنائیوں تک ان کی گہرائیوں تک پہنچ ہی نہیں سکتی.لیکن یہ قطعی نظام ہے، کوئی شک کی بات نہیں.کوئی کہانی نہیں، کوئی افسانہ نہیں.ایک ایسا واقعہ ہے، جو ہر روز گزررہا ہے اور کثرت کے ساتھ گزرتا چلا جارہا ہے.لیکن بدقسمتی سے ہم میں سے بہت سے ہیں، جو غفلت کی حالت میں وقت گزار رہے ہیں.خدا کے پیار کو جوان پر نازل ہو رہا ہے، وہ بھی نہیں دیکھ سکتے.جانتے ہی نہیں کہ ان کا مقام کیا ہے؟ پہنچانتے ہی نہیں کہ ان کا مرتبہ کیا ہے؟ خدا کی نظر میں وہ چنیں گئے ہیں آج اور ایک خاص مقام پر فائز کئے گئے ہیں.دنیا کی زندگی ان کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ہے.اس لئے اس کو ان نکتہ نگاہ سے اپنے حالات کا جائزہ لے کر اپنی زندگی کی حفاظت کرنی چاہئے.یعنی اپنی روحانی زندگی کی.اور خوب جان لینا چاہئے کہ ان کے اوپر بھی ہر طرف سے حملے ہوں گے اور خدا کی خاص حفاظت کے بغیر وہ بچ نہیں سکتے.خاص حفاظت، ایسی جو ہر لمحہ ان پر نازل ہو رہی ہو، ہر لحہ ان کو گھیرے 749

Page 759

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 102اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہوئے ہو.ان کے آگے بھی چلے اور ان کے پیچھے بھی.اس حفاظت کے ساتھ الہی جماعتیں آگے بڑھتی ہیں اور یہ عمومی حفاظت جماعت کے نکتہ نگاہ سے بھی نازل ہوتی ہے اور انفرادی طور پر بھی فردا فردا ہر شخص ، جو کامل اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتا ہے، اس پر بھی نازل ہوتی ہے.ان پر بھی نازل ہوتی ہے، جو نہیں پکار رہے ہوتے.خالص طور پر اور وہ نہیں پہچانتے.اس لئے نہیں کہ ان کی ذات خدا کو غیر معمولی طور پر اچھی لگ رہی ہے.اس لئے کہ وہ ایسے نظام کا حصہ بن چکے ہیں، جو نظام خدا کو پیارا ہے.جو رحمتیں اس نظام پر نازل ہونی ہیں ، وہ ضرور اس میں سے حصہ پاتے ہیں.لیکن یہ ایک پہلی منزل ہے..میں جس منزل کی طرف آپ کو بلانا چاہتا ہوں، آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ اس گردو پیش کا معائنہ کر کے اپنے دل میں شعور بیدار کریں کہ خدا آپ سے پیار کرنا چاہتا ہے اور اس کے دروازے آپ پر کھول دیئے گئے ہیں.آپ کی آواز کا منتظر ہے ، آپ کا خدا.فلیستجیبوالی کی آواز کا آپ جواب دیں.آپ تیار کریں اپنے نفسوں کو کہ خدا جن راہوں کی طرف آپ کو بلاتا ہے، آپ لبیک کہیں گے، جانے کی کوشش کریں گے.پھر خامیاں رہ جائیں گی، پھر ٹھوکریں کھائیں گے تو پھر اس خدا ہی کا ہاتھ ہے، جو آپ کو سنبھالے گا.خدا ہی کے فرشتے ہیں، جو آپ کی حفاظت فرمائیں گے.لیکن اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر جو لوگ آگے بڑھنے سے ڈر جاتے ہیں، پھر وہ کبھی بھی کوئی سفر طے نہیں کیا کرتے.بہت سے لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی عمریں ضائع کر دیں اور بہت سے قیمتی لمحات کھو دیے.صرف اس انکساری کے خیال سے کہ ہم اس قابل کہاں ہیں؟ بہت سے دوست ہیں، جو کہتے ہیں، ہم احمدی ہونا تو چاہتے ہیں لیکن جی ہم اس لائق نہیں ہیں، اس لئے ہم فیصلہ نہیں کر سکتے“.وو کون ہے، جو کمزوریوں کے بغیر ہے؟ نیکیوں کی انتظار میں یہ شرط لگا دینا کہ پہلے کمزوریاں دور ہو جا ئیں.یہ تو ہوہی نہیں سکتا.کچھ بھی انسان کی استطاعت میں نہیں.خدا تعالی یہ نہیں شرط لگا تا کہ پہلے نیک وو ہو، پھر میرے پاس آؤ.خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ اپنا سب کچھ پیش کر دو اور یہی اسلام کی روح ہے....اسلمت کا تو مطلب ہے کہ جو کچھ میرا ہے، میں تجھے دے رہا ہوں.اس میں اچھا بھی ہے، برا بھی ہے.برازیادہ ہوگا.میں بہت ناقص اور کمزور ہوں، بہت گندہ بھی ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ تیرے سپر داپنے آپ کو کر دوں کہ تجھ سے جیسا محفوظ اور کوئی مقام میں نہیں دیکھتا.تیرے سپرد کر دوں گا تو ، تو میری حفاظت فرمائے گا، میرے گند دور کرے گا، مجھے اچھائیوں کی طرف لے کے آگے بڑھتا چلا جائے گا.یہ ہے اسلام کی روح.اس روح کے ساتھ اپنے آپ کو خدا کے سپر د کرنے کا فیصلہ کریں اور پھر 750

Page 760

تحریک جدید - ایک الی تحریک جلد من اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 02 اکتوبر 1987ء دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس شان کے ساتھ آپ کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے.آپ سے پیار کا اظہار کرتا ہے، آپ کا ہو جاتا ہے اور دن بدن آپ کی کمزوریاں دور ہوتی چلی جاتی ہیں.” اس سے زیادہ آسان دین بھی کبھی کوئی دیکھا ہے؟ اس سے زیادہ عقل اور دل کو مطمئن کرنے والا دین بھی کبھی تصور میں آسکتا ہے؟ پھر کیا انتظار ہے؟ وہ جو پہلے ہی ایمان لا چکے ہیں، ان کو ان راہوں کی طرف آگے بڑھنا چاہئے.اور جب تک ان راہوں کی طرف آپ آگے نہیں بڑھیں گے، ہم دنیا میں کوئی ترقی حاصل نہیں کر سکتے.اتنا عظیم الشان کام ہے، ساری دنیا کی تقدیر بدلنا.تقدیر تو خدا بدلا کرتا ہے لیکن آپ کی تقدیر کو اس میں حصہ لینا ہو گا.یہ اتنا عظیم الشان کام ہے اور اتنا بوجھل کام ہے، جو خدا کی مدد کے سہارے آپ نہیں کر سکتے.آپ میں سے ہر ایک کو آگے قدم بڑھانا ہوگا ، ہر ایک کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا.اس لئے آپ کوشش کریں اور اپنے گردو پیش کو ذرا غور سے دیکھیں تو سہی کہ کن لوگوں میں آپ آپسے ہیں؟ کس دنیا میں آپ سانس لے رہے ہیں؟ جہاں فضا کا ذرہ ذرہ زہریلا ہے.بہت سے ہیں، جو احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ،Inferiority Complex.وہ سمجھتے ہیں ، ہم کس دنیا سے آئے تھے؟ یہاں کیا کچھ ہم نے دیکھا ہے؟ کتنا عظیم الشان ملک ہے، ہم نے تو عمریں ضائع کر دیں.اصل تو یہی ہے.کچھ ہیں، جو کچھ دیر مقابلے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن اپنے بچوں کی طرف نگاہ نہیں کرتے.ان کے بچے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں.غرضیکہ بہت سے خطرات ہیں، جو یہاں درپیش ہیں.ان خطرات میں بھی خدا کی خاص حفاظت ہے، جو آپ کو بچائے گی.اس لئے جو رستہ میں نے بتایا ہے، قرآن کی تعلیم کی روشنی میں، اس رستے ہی میں امن ہے.اسی رستے میں ہی حفاظت ہے.اپنے آپ کو سپرد کریں، اپنے بچوں کو خدا کے سپرد کریں اور پھر یہ فیصلہ کریں کہ ہم خدا کی باتوں کا جواب دینے کی پوری دیانت داری سے کوشش کریں گے.اپنے بچوں کو بھی یہ ہی تعلیم دیں گے اور بچپن سے ہی سے یہ سکھائیں گے.پھر دعائیں کرتے ہوئے آپ اگر اور قدم آگے بڑھا ئیں گے، ایک نئی ہوں آپ کو عطا ہوگی، ایک نیا شعور آپ کے دل کے اندر سے پیدا ہوگا آپ دنیا کو ایک اور نظر سے دیکھنے لگ جائیں گے.اس وقت آپ کے اندر ایک نیا خوف بھی جنم لے گا اور وہ خوف آپ کو بتائے گا کہ آپ نے اپنی اکثر عمر ضائع کر دی ہے.بہت سے نیک کام آپ کی ذات سے وابستہ تھے، جو نہیں کر سکے.بہت سی تبدیلیاں اس ملک میں آپ نے کرنی تھی ، جو آپ نہیں کر سکے.کتنے ہیں، مؤلفۃ القلوب ، جن سے 751

Page 761

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 102 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم آپ نے تعلق بڑھایا.کتنے وہ ہیں، جو یہاں سے آکر احمدیت میں شامل ہوئے ، اور انہوں نے اعلان کیا کہ قادیان میں پیدا ہونے والا ایک شخص جس نے دعوی کیا تھا، میں خدا کا مسیح ہوں ، ہاں وہ سچا مسیح ہے.ان کے اس دعوئی کے نتیجے میں آپ کو کیسی محبت ان سے پیدا ہوئی ؟ ان سے کتنا پیار کا آپ نے سلوک کیا ؟ ایک یہ بھی جائزہ ہے، جب آپ کو نیا شعور بیدار ہوگا تو آپ لینے پر مجبور ہو جائیں گے.کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ نے اپنی سوسائٹی ، جو نسبتا زیادہ امیرانہ تھی، اسی میں اپنے آپ کو مگن رکھا اور سمجھا کہ یہی امریکہ تھا، جو آپ کو پیش کر سکتا تھا اور آپ نے دونوں ہاتھوں سے قبول کر لیا.اور احمدیت کے لحاظ سے اتنا ہی کافی ہے کہ میں چندے دے دیتا ہوں.احمدیت تو اسلام ہے اور اسلام ایک بہت وسیع دائرے سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے.آپ کو گھیرے ہوئے ہے.آپ اسلام کو نہیں گھیر سکتے کبھی.اس لئے جب آپ کا شعور بیدار ہوگا تو تقاضے بیدار ہوں گے.اور وہ شعور اسی طرح پیدا ہوتا ہے، جس طرح میں نے بیان کیا ہے.دماغی ایکسر سائز (Exercise) سے نہیں پیدا ہوتا.وہ دل کے ایک فیصلے سے پیدا ہوتا ہے کہ میں اللہ کا ہونا چاہتا ہوں، اس کا ہو جاتا ہوں.پھر رفتہ رفتہ آپ کا ضمیر جاگنے لگتا ہے، آپ کا شعور بیدار ہوتا ہے اور وسعت اختیار کرتا چلا جاتا ہے.آپ کو اپنی زندگی میں خلا دکھائی دینے لگتا ہے.بعض خلا بھیانک صحراؤں کی طرح بھیانک دکھائی دیتے ہیں.پھر آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے محنت کرنی پڑے گی، مجھے ان کو بھرنا پڑے گا ، ان کے اندر آب پاشی کرنی پڑے گی، ان کو ہریالی عطا کرنی ہوگی.ایک نیاز ندگی کا سفر شروع ہو جاتا ہے.پھر آپ یہ دیکھیں گے کہ میں نے امریکہ میں آکر کتنے دوستوں کو اسلام عطا کیا ؟ کتنوں کو اسلام کی طرف توجہ دلائی ؟ اور میں نے ایک کارآمد زندگی بسر کی، اس پہلو سے اسلام کے خادم کے طور پر ؟ ہر طرف آپ میں سے اکثر کو کامل خلا دکھائی دیں گے.جتنا شعور بیدار ہوگا، اتنا آپ کو تکلیف پہنچے گی ، اتنا ضمیر کچوکے دے گا، بے چینی پیدا ہوگی ،فکر لاحق ہو جائے گا.ان سب بے چینیوں، ان سب فکروں کا علاج پھر وہی ہے کہ اپنے رب کو پکاریں اور اس سے مدد چاہیں.میں ہر لمحہ آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتا.وہ مبلغ، جو یہاں مامور ہیں، وہ ہر لمحہ آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتے ، وہ عہدیدار جو خاص کاموں پر مامور ہیں، وہ ہر لمحہ آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتے.لیکن ایک ازلی اور ابدی خدا ہے، جو ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے.اس نے وعدہ کیا ہے کہ میں ہمیشہ آپ کی بات کا جواب دوں گا.جب آپ پہلا فیصلہ کر چکے ہیں تو پھر وہ سودے، جو خود خدا نے آپ کو سکھائے ہیں، وہ سودے اس سے کرتے چلے جائیں.ہر موقع پر سارا بوجھ اس پر ڈال دیں کہ اے خدا! اب یہ مشکل پیش آگئی ، اب میرا پر جھاس پر میرا 752

Page 762

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02اکتوبر 1987ء فیصلہ فرما، اب میں کیا کروں؟ باہر سے آکر لوگ آپ کا بوجھ نہیں اٹھا ئیں گے.اس کے باوجود ہم توقع کریں گے کہ آپ کے اندر بہت سی مخفی طاقتیں تھیں، جن کو آپ نے کبھی استعمال نہیں کیا.اور وہ بوجھ ، جو خدا اٹھانے کی توفیق دیتا ہے، ان بوجھوں کے ساتھ لذت عطا کیا کرتا ہے، ان بوجھوں کے ساتھ تھکاوٹ اور درماندگی عطا نہیں کیا کرتا.ایک فرحت عطا کرتا ہے، جس کی کوئی مثال دنیا میں اور نہیں.اس لئے یہی وہ ایک راہ ہے، جس راہ سے آپ اپنی حالت بدل سکتے ہیں.اور جب تک آپ اپنی حالت نہ بدلیں ، اس ملک کی حالت نہیں بدل سکتے.اور ایک لازمی قانون دوسرا بھی ہے.اگر آپ نے اپنی حالت نہ بدلی ، اس حد تک کہ اس ملک کی حالت بدل سکیں تو یہ ملک آپ کی حالت بدل دے گا.آپ اس حال پر نہیں رہ سکیں گے، اس نعمت پر قائم نہیں رہ سکیں گے، جس نعمت کے ساتھ آپ یہاں پہنچے تھے یا جس نعمت کے ساتھ آپ نے کہیں بھی سفر کا آغاز کیا تھا.وو...جب خدا یہ فیصلہ کرتا ہے تو اس قوم کو برائی پہنچنے سے دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی.اور خدا کے سوا کوئی نہیں ہے، جو اس کے بدنتائج سے کبھی ان کو محفوظ رکھ سکے.تو خدا کو دو شانوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.ایک وہ شان جو ہر لحظہ محافظ کی شان ہے، ہر لحظہ حفاظت کرنے والے کی شان ہے ، سوئے ہوؤں کی بھی حفاظت کرنے والا اور جاگے ہوؤں کی بھی حفاظت کرنے والا، بیٹھ رہنے والوں کی بھی حفاظت کرنے والا ، چلنے والوں کی بھی حفاظت کرنے والا.فرمایا: تمہارے اپنے اختیار میں ہے، تم چاہو تو اس ذات سے تعلق قائم کر لو.لیکن یا درکھو، ایک دوسرا پہلو بھی ہے.اگر یہ تم نے نہ کیا تو پھر خدا ایک اور شان اور ایک اور جلال کی شان سے ظاہر ہونا بھی جانتا ہے.جب وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میرے بعض بندے میری نعمتوں کی قدر نہیں کرتے اور ان کے اہل نہیں رہے تو پھر خدا جس برائی کا فیصلہ کرتا ہے، پھر کوئی دنیا کی طاقت اسے بچا نہیں سکتی.ایک طرف خدا کے محافظ ہیں، جو ہر طاقت کے مقابل پر ایک کامیاب حفاظت کرتے ہیں.ایک طرف دنیا کے محافظ ہیں، جو سارے مل کر بھی زور لگا ئیں تو خدا کی تقدیر کے مقابل پر کسی بندے کو برائی سے بچا نہیں سکتے.کتنی کھلی کھلی دور ہیں ہیں، کتنی صاف ہیں، ان کی منفعتیں اور ان کے نقصانات کتنی واضح زبان میں کھول دیئے گئے ہیں.اس لئے ظاہر ہے کہ ہر احمدی کا فیصلہ ایک ہی ہوگا.اس راہ کو قبول کر چکا ہے، اسی راہ پر قائم رہنا چاہے، جو خدا کی حفاظت کی راہ ہے.جس کے نظارے وہ بار ہا اپنی زندگیوں میں دیکھ چکا ہے، جس کی لذتوں سے آشنا ہو چکا ہے.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اس راہ پر ہی قدم بڑھا تا ر ہے اور جو غفلت کی 753

Page 763

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 2 10 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں نیا شعور عطا فرمائے.جن کا ضمیر تو ہے لیکن بیدار نہیں، اللہ تعالیٰ انہیں بیدار ضمیر عطا فرمائے.جو اپنے بچوں کے حال سے غافل ہیں، نہیں جانتے کہ ان کا رخ کس طرف ہے؟ ان کو اپنے بچوں کا شعور عطا فرمائے.اپنے بچوں کے لئے ایک نیا ضمیر بخشے.اور وہ ترقی کی اس راہ میں آگے بڑھیں، جہاں سفر کے دوران وہ کم نہ ہوتے رہیں بلکہ اور روحانی اولا د کو ساتھ ملا کر ان کا قافلہ بڑھتا چلا جائے.اس شان کے ساتھ وہ شاہرا ہ ترقی اسلام کی راہ پر آگے بڑھتے رہیں، خدا کرے کے ایسا ہی ہو ، آمین.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 625 تا 641) 754

Page 764

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد منف خطبہ جمعہ فرموده 109اکتوبر 1987ء سیرة النبی کی پیروی سے امریکہ اسلام کا ایک نا قابل تسخیر قلعہ بن جائے گا خطبہ جمعہ فرمودہ 109اکتوبر 1987ء تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.امریکہ کو اس وقت دنیا میں ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور امریکہ خود بہت ہی گہرے اور بنیادی تضادات کا شکار ہے.ایک پہلو سے امریکہ کی اہمیت مشرقی خطہ کے مقابل پر یعنی روسی اور دیگر اشتراکی ممالک کے بلاک کے مقابل پر مختلف زاویوں سے دیکھی جاسکتی ہے.ایک تو امریکہ اشتراکی نظام کے مقابل پر دنیا کو ایک استحکام مہیا کرنے کا دعویدار ہے اور اس اقتصادی نظام کے مقابل پر جو اشتراکیت پیش کرتی ہے، کوئی بہتر اقتصادی نظام پیش نہیں کرتا.سوسب سے پہلا تضاد جو اس ملک کے اندر دکھائی دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک نظام کے مقابل پر باقی بنی نوع انسان کی آزادی اور تحفظ کی ضمانت دینے کے باوجود ان کو اس سے بہتر تسلی بخش، دلوں کو اور ذہنوں کو مطمئن کرنے والا کوئی نظام نہیں دیتا.اور جو نظام بھی دیتا ہے، وہ ایک طرف سے پیدا ہونے والے اطمینان کو کھانا شروع کر دیتا ہے.جو اطمینان اس عمومی تحفظ کے نتیجے میں باہر کی دنیا کو ملتا ہے کہ ہم اشتراکی نفوذ کے مقابل پہ تمہاری حفاظت کریں گے.ایک قسم کا امن دیتا ہے اور دوسری طرف سے اقتصادی بدنظمی اور بدحالی کے نتیجے میں وہی امن اندر سے کھایا جاتا ہے.جس طرح گندم کو گھن لگ جائے.آپ کسی غریب کی بھوک مٹانے کے لئے اس سے وعدہ کریں کہ میں تمہیں گندم کے پہاڑ دوں گا.اور وہ پہاڑ ایسے دیں کہ جن میں سے ہر دانے کے اندر کیر الگا ہوا ہو اور اندر سے اس کو کھا چکا ہو.تو بہت ہی بڑا اور خوفناک تضاد ہے.اور اب تک امریکہ نے اپنے مسائل کو حل کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی ہیں، اس تضاد کو وہ حل نہیں کر سکے.اس تضاد کو حل کرنے کے لئے جو متبادل نظام یایوں کہنا چاہئے کہ جو متبادل طریق ان کے ذہن میں آئے اور ان کو انہوں نے Implement کرنے کی کوشش کی ، نافذ کرنے کی کوشش کی.ان کی بحث میں، میں اس وقت نہیں جانا چاہتا.لیکن ان کے گہرے تفصیلی مطالعہ کے نتیجے میں یقین کے ساتھ آپ کو بتا سکتا ہوں کہ وہ ہر کوشش، جو امریکہ نے اس تضاد کو دور کرنے کے لئے کی ہے، وہ خود تضادات کا شکار ہے اور اس کی کامیابی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا.755

Page 765

خطبہ جمعہ فرموده 09 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم دوسری طرف ہم اس پہلو سے جب امریکہ کا جائزہ لیتے ہیں کہ ایک بے خدا نظام کے مقابل پر خدا والوں کو امن کی ضمانت دیتا ہے تو بے اختیار دل امریکہ کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس کا ممنون ہوتا ہے کہ باہر کی دنیا کے لئے کم سے کم یہ ضمانت ضرور ہے کہ زبردستی کوئی بے خدا نظام ان پر نہیں ٹھونسا جائے گا.بہت بڑی خدمت ہے دنیا کی اور بہت بڑا تحفظ ہے مذاہب کو جو اس پہلو سے امریکہ مہیا کرتا ہے.دوسرے پہلو سے دیکھیں تو مذاہب کی روح کو کھا جانے والے جتنے بھی ایسے مضرات ہیں، ایسے خوفناک عوامل ہیں، جو مذہب کی روح کا چاٹ جاتے ہیں اور اخلاق کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں، وہ سارے عوامل امریکہ میں پیدا ہورہے ہیں.اور وہ سارے مضرات امریکہ سے باہر کی دنیا میں بھیجے جارہے ہیں.خود امریکہ کی سوسائٹی بھی خدا کی طرف منسوب ہونے کے باوجود عملی طور پر خدا سے اس طرح دور ہوتی چلی جارہی ہے کہ جو شائبہ خدا کی طرف منسوب ہونے کے نتیجے میں اعمال میں ملنا چاہئے ، ایک تصویری ، ایک جھلکی سی دکھائی دینی چاہئے ، وہ دن بدن زائل ہوتی چلی جارہی ہے اور عنقاء ہوتی چلی جارہی ہے.ہر اخلاقی خرابی کی جڑیں امریکہ کی آزاد تہذیب میں وابستہ ہیں.پس ایک طرف سے جو امن دیا، دوسرے ہاتھ سے وہ امن بھی واپس لے لیا.پھر ایک طرف سے جو امن دیا، دوسرے ہاتھ سے وہ امن بھی واپس لے لیا.اور اس تضاد کا بھی ان کے پاس کوئی جواب نہیں.ان کے مفکرین جوان مسائل پر غور کرتے رہتے ہیں، ان کے سامنے یہ مسائل موجود ہیں اور بہت سی بین الاقوامی کوششیں ایسی نظر آتی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ بالا رادہ منصوبے بنا کر ان مسائل کا حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.مگر جتنے بھی ایسے منصوبوں کا میں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا اور جو لٹریچر امریکہ کی طرف سے مختلف ایجنسیوں کے نام پر یا مختلف مصنفین کے نام پر ان مسائل کو حل کرنے کے لئے بظاہر آزادانہ شائع کروایا جاتا ہے، اس کا بھی میں نے جائزہ لیا تو میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ یہ کوشش بھی خود مزید تضادات کا شکار ہے.ایسی سوسائٹی جو اس قسم کے تضادات کا شکار ہو چکی ہو، اس کے زندہ رہنے اور پنپنے کے بظاہر کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے.لازماً کچھ ہونا ہے، لازماً خدا کی تقدیر کچھ ایسی باتیں ظاہر کرے گی ، جس کے نتیجے میں یہ فرسودہ نظام مٹنے ہیں.اور اس کے سوا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا.صرف فیصلہ کن امر یہ ہے کہ کیسے یہ نظام میں گے؟ جیسا کہ میں نے بیان کیا، اب تو نہ مشرق سے کوئی امید رہی، نہ مغرب سے کوئی امید رہی.اور جہاں تک مذہبی نکتہ نگاہ کا تعلق ہے، ایسی کوئی قوم دکھائی نہیں دے رہی، جو خالصتہ للہ اور خالصہ بنی نوع انسان کے تعلق کی بناء پر کوئی منصوبہ رکھتی ہو اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہی ہو.756

Page 766

تحریک جدید -- ایک الہبی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 109اکتوبر 1987ء دنیا کے سیاسی نقشے پر آپ نگاہ ڈال کر دیکھیں ، خواہ عیسائی دنیا کا سیاسی نقشہ ہو یا اسلامی دنیا کا سیاسی نقشہ ہو یا د ہر یہ دنیا کا یا اور مذاہب کے نام پر منسوب ہونے والے سیاسی نقشے ہوں، کہیں آپ کو کوئی بھی نجات کا دروازہ دکھائی نہیں دے گا.بلکہ ان بڑے تضادات کا جن کا میں نے ذکر کیا ہے، ہر چھوٹی قوم مزید شکار ہو چکی ہے.اور وہ نہیں جانتے کہ ہمیں کیا رخ اختیا کرنا ہے.چنانچہ بسا اوقات آپ کو یہ دکھائی دے گا کہ بعض لوگ امریکہ جس کو آزاد دنیا کہا جاتا ہے، ان کے حالات سے غیر مطمئن ہو کر مشرق میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض جو مشرق کو قریب سے دیکھتے ہیں اور اس کے مشرقی طاقتوں کے متعلق ان کے تصورات میں تبدیلی پیدا ہو چکی ہوتی ہے، تجربہ ان کو بتا تا ہے کہ یہ بھی نہایت ہی خطرناک اور مہلک تعلق ہے، جو کوئی بھی فائدہ عطا نہیں کریں گے.تو پھر وہاں سے وہ بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور مغرب کا رخ اختیار کرتے ہیں.کچھ ایسے ممالک ہیں، جو مستقل یا ایک کا حصہ بن گئے یا دوسرے کا حصہ بن گئے.اور جو ملک جس نظام کا حصہ بنا، اس نے اپنے مذہب کو بھی وہی رنگ عطا کر دیا.چنانچہ ایک ہی مذہب مختلف رنگوں میں دکھائی دینے لگا.اسلامی دنیا کا حال آپ دیکھ لیجئے ، آپ کو اسلام لیبیا میں اور سیر یا یعنی شام میں نہایت ست دکھائی دے گا.اور یہی اسلام سعودی عریبیہ میں اور ایران میں مختلف رنگوں کا سبز دکھائی دے گا.کچھ ممالک ایسے ہیں، جنہوں نے بغیر مذہب کے یک طرفہ تعلق کو قبول کر لیا اور ایک طاقت کے اوپر گویا لٹک گئے.کچھ ایسے ہیں، جنہیں آج تک اپنی بنیادی تشخیص کی ہی توفیق نہیں ملی.جہاں تک ایران کا تعلق ہے، ایران نے یہ حل نکالنے کی کوشش کی ، نہ ہم مشرق سے تعلق رکھیں، نہ مغرب سے تعلق رکھیں.اور جس چیز کو ہم اسلام سمجھتے ہیں، اسے دنیا کے سامنے آزادانہ پیش کریں تا کہ اس کے اوپر کسی بڑے بلاک کا اثر دکھائی نہ دے.لیکن بدنصیبی سے جس کو انہوں نے اسلام سمجھا اور اسلام دیکھا اور اسلام کے طور پر پیش کیا، وہ خود اپنی ذات میں ایک بھیانک تصور ہے، جو ہر گز دنیا کو مطمئن نہیں کر سکتا.تو اب بڑی دیانتداری سے اور بیرونی نظر سے اگر آپ دیکھیں، آفاقی نظر سے دیکھیں تو دنیا کے کسی خطے میں مستقبل کے امن کی کوئی ضمانت دکھائی نہیں دے گی.اور کوئی ایسے آثار دکھائی نہیں دیں گے، جن پر بناء کرتے ہوئے ہم ہوش مندانہ طور پر امید رکھ سکیں کہ ہاں آئندہ کسی وقت یہ حالات تبدیل ہو جائیں گے.آپ ہیں صرف یعنی جماعت احمدیہ اور اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے، جس سے دنیا کے مستقبل کا امن وابستہ ہے.عقلی طور پر وابستہ ہو سکتا ہے، عقلی طور پر یہ امکان موجود ہے کہ اگر جماعت احمد یہ دنیا میں پر کہ یہ 757

Page 767

خطبه جمعه فرمودہ 109 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم پھیلے تو اس کے ساتھ ہر قسم کے امن کا تحفظ دنیا میں پھیلے گا.اور اس کے ساتھ ہر قسم کے تضادات دور ہونے ہر کا ایک سلسلہ جاری ہو جائے گا.یہ دعویٰ بہت بڑا دعوئی ہے.لیکن امر واقعہ ہے کہ ہر احمدی اپنی شخصیت کے اندر اس دعوئی کو جانچ سکتا ہے.احمدیت نے اسے کیا شخصیت عطا فرمائی ہے.ایک انتہائی متوازن شخصیت، جو خالصۂ انصاف پر ہی مبنی نہیں بلکہ اپنا حق چھوڑ کر دوسرے پر احسان کرنے کے رجحان پر مبنی ہے.ایک ایسی شخصیت، جو خالصہ اللہ سے محبت رکھنے والی اور اللہ کی محبت چاہنے والی ہے.ایک ایسی شخصیت، جو واقعہ بنی نوع انسان کی ہمدردی رکھتی ہے.مشرق سے بھی محبت رکھتی ہے، مغرب سے بھی محبت رکھتی ہے.نہ امریکہ میں رہتے ہوئے امریکن احمدی کو روس سے دشمنی ہے بلکہ روسی انسان اسی طرح اس کو پیارا ہے، جس طرح مغرب میں بسنے والا کوئی انسان.نہ مشرقی اشترا کی دنیا میں رہنے والے آدمی کو امریکہ سے کوئی دشمنی ہے بلکہ امریکہ کا انسان اسے اسی طرح پیارا ہے، جس طرح مشرق میں بسنے والا انسان.ایک عالمی شخصیت وجود میں آ رہی ہے، ایک بین الاقوامی روح ترقی کر رہی ہے، جس کا تمام تر مدار خالص تقویٰ پر ہے، خالص انصاف پر ہے، خالص انسانی ہمدردی پر ہے.اور یہ روح اللہ کے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی.جب تک خدا کا تعلق غالب نہ رہے، ہماری زندگی کے ہر فیصلے میں فیصلہ کن نہ بن جائے ، اس وقت تک یہ مزاج پیدا نہیں ہو سکتا.اور اسی وجہ سے جماعت احمدیہ کو یہ استثناء حاصل ہے.آج دنیا میں کہ جماعت احمدیہ کے سوا اور کسی کو خدا کا وہ تعلق نصیب نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ایک ایسی انسانیت وجود میں آتی ہے، جو سب انسانوں کے درمیان سانبھی ہو جاتی ہے، جو سب سے پیار کرنے والی ہوتی ہے، سب کا بھلا چاہتی ہے اور اس کے نتیجے میں قربانیاں دیتی چلی جاتی ہے.یہ وہ مضمون ہے، جس کا آغاز ہمیشہ نبوت کے ساتھ ہوا ہے.ساری تاریخ مذاہب کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے ، آپ کو اس مضمون کا آغاز نبوت کے بغیر کہیں دکھائی نہیں دے گا.چنانچہ عجیب بات ہے کہ وہ لوگ، جو دنیا کے سب سے بچے ہمدرد ہوتے ہیں، سب سے زیادہ پیار کرنے والے ہوتے ہیں، وہ جن کی ذات کے ساتھ دنیا کی نجات وابستہ ہو جاتی ہے، سب سے زیادہ دنیا ان سے دشمنی کرتی ہے.بظاہر اس بات میں بھی ایک تضاد دکھائی دے رہا ہے.وہ وجود، جو رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بن کے آیا، سب سے زیادہ دنیا نے اس سے دشمنی کی ہے.یہ دعوئی ایک وسیع آفاقی نظر سے جانچنے کے نتیجے میں کھل کر سامنے آتا ہے.عموماً مسلمان عرب میں ہونے والی ان دشمنیوں کے ذکر تک اپنے آپ کو محدود کر دیتے ہیں، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے زمانے میں خصوصاً مکی دور میں اور بعد میں بار ہا مدنی دور 758

Page 768

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد مفتم خطبہ جمعہ فرموده 09اکتوبر 1987ء میں بھی مسلمانوں کے مقابل پر ظہور پذیر ہوئیں.اس دشمنی کا اثر شدید تھا اور بڑے ہی دردناک مناظر ہمارے سامنے آتے ہیں.لیکن دائرہ محدود تھا اور کچھ عرصے کے لئے تھی.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ آفاقی نظر سے مطالعہ کر کے دیکھیں تو دنیا کے کسی نبی کو دنیا کے باقی مذاہب نے اتنی گالیاں نہیں دیں، جتنی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیں.ساری عیسائی تاریخ ساری یہودی تاریخ ، ساری ہندو تاریخ اور دیگر مذاہب کی تاریخ اس بات سے بھری ہوئی ہے.آخر ہندوؤں کے یہودیوں سے بھی تو اختلاف ہیں، عیسائیوں سے بھی تو اختلاف ہیں، دوسرے دیگر مذاہب سے بھی اختلاف ہیں، مگر مجھے کوئی ایک ہند و کتاب اٹھا کر دکھائیے ، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دی گئی ہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دی گئی ہوں.جو بد بخت اٹھتا ہے، ان میں سے لکھنے والا، یعنی مذہب کے معاملے میں لکھنے والا ، وہ دنیا کی سب سے مقدس ذات ، سب سے زیادہ ہمدرد ذات کو اپنے ظلم اور اپنے دل کے تعفن کا نشانہ بناتا ہے.ایسی ایسی ظالمانہ کتابیں ہیں کہ خون کھولنے لگتا ہے.انسان چند صفحے مطالعہ نہیں کر سکتا.پھر آپ عیسائی دنیا کے لٹریچر کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے، وہ یہود جن سے سب سے زیادہ ضرران کو پہنچا آغاز عیسائیت پہ ، وہ یہود جو مسیح کی صلیب کا موجب بنے ، ان کی سب تکلیفوں کو کلیہ بھلایا جا چکا ہے.گزشتہ سینکڑوں سال سے جو عیسائی مصنف اٹھتا ہے، وہ اسلام کو اپنے مظالم کا نشانہ بناتا ہے.اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو خصوصیت کے ساتھ اپنے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتا ہے.یہودی کتب اٹھا کرد لیجئے ، عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کا ایک فوری مقابلہ تھا، اس وقت جو بعد میں پھیلتا چلا گیا اور وہ مقابلہ ، جس کا آغاز حضرت عیسی علیہ الصلواۃ والسلام کے دعوی کے ساتھ ہوا تھا ، وہ آج تک اسی طرح جاری رہنا چاہئے.مگر عیسائی اور یہودی Polarization یہ مد مقامل جو مورچہ بندی ہے، یہ آپ کو وہاں دکھائی نہیں دیتی.لیکن یہودیوں کا رخ بھی اسلام کی طرف اور خصوصیت سے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے.اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، قرآن کریم کی تعلیم سے واقف سبھی لوگ جانتے ہیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقف سبھی لوگ جانتے ہیں کہ اس سے زیادہ بنی نوع انسان کا ہمدرد وجود نہ پیدا ہوا، نہ ہو سکتا ہے.عقلاً ممکن نہیں کہ کوئی انسان ان حدووں سے تجاوز کر جائے ، جو نیکی اور رحمت کی حدیں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی تھیں.پھر یہ تضاد کیوں ہے؟ کیوں ایک ایسے انسان کی دشمنی کی جاتی ہے، اس کے مختلف محرکات بھی ہیں اور مختلف فلسفیانہ پس منظر بھی ہیں.اور یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے لیکن اس کے صرف ایک پہلو کی 759

Page 769

خطبه جمعه فرموده 109اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم طرف میں آج آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.خدا ان لوگوں سے، جو اسے سب سے زیادہ پیارے ہوں اور پھر ان لوگوں سے جو بنی نوع انسان کے لئے سب سے زیادہ پیارے وجود بننے والے ہوں، جو بنیادی صلاحیتیں رکھتے ہوں کہ بنی نوع انسان کے آئندہ سب سے زیادہ محبوب بننے والے ہوں، ان سے یہ سلوک کیوں ہونے دیتا ہے؟ ایک حکمت اس کی یہ ہے کہ دعوے پر کھے جاتے ہیں اور آزمائش کی چکی میں سے گزر کہ دعوؤں کی حقیقت روشن ہوا کرتی ہے.بے شمار انسان ہیں، جو کسی اور انسان سے تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں.اگر اس دعوئی کو پر کھا نہ جائے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ کون اپنے دعوے میں سچا ہے اور کون اپنے دعوے میں جھوٹا ہے اور فرضی دعوے کر رہا ہے.آپ ایک دوست سے دوستی کا تعلق رکھتے ہیں، وہ آپ پر جان نچھاور کرنے کی باتیں کرتا ہے، آپ اس پر جان نچھاور کرنے کی باتیں کرتے ہیں.لیکن ایک وقت آپ کو اچانک کوئی مشکل پیش آجاتی ہے، آپ اس کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، وہ بہانے بنا دیتا ہے اور کئی قسم کے عذر پیش کرتا ہے.اس وقت آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے دعوے فرضی تھے.اور یہ آزمائش روز مرہ کی زندگی میں چلتی چلی جارہی ہے.مشکل کے وقت باپ کو اپنی اولاد کی محبت کا پتا چلتا ہے، مشکل کے وقت اولاد کو اپنے ماں باپ کی محبت کا پتا چلتا ہے، دوستوں کی دوستی پر کبھی جاتی ہے، محبت کرنے والوں کی محبت کے دعوے پر کھے جاتے ہیں.اور امر واقعہ یہ ہے کہ جتنا امتحان شدید ہوتا چلا جائے، اتنا ہی زیادہ کسی دعوے کی صداقت نمایاں طور پر کھل کر اور روشن طریق پر ظاہر ہوتی ہے.اور یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ کلیہ ہر حالت میں کسی کا ہورہنے کا دعوئی، یہ ایک محض فرضی دعوئی ہے، انسان میں یہ طاقت نہیں ہے.آزمائش اگر بہت بڑھ جائے تو پھر انسان ہر دوسرے کو چھوڑتا چلا جاتا ہے.اور یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ آخر پر صرف نفس باقی رہ جاتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ کونسی ایسی آزمائش ہے، جس کے اندر یہ امتحان مکمل ہو جائے.بظاہر ایک باپ بعض دفعہ اپنی بیٹی کے لئے جان قربان کر دیتا ہے اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو، اس نے تو اپنا نفس قربان کر دیا.لیکن قرآن کریم اس مضمون کو ایک اور رنگ میں پیش فرماتا ہے.کہتا ہے، بعض ابتلاء ایسے خطرناک ہوتے ہیں کہ کوئی جان کسی دوسری جان کے لئے قربانی کے لئے تیار نہیں رہتی.جتنے ابتلاء بڑھتے چلے جاتے ہیں، جتنی تکلیف کی شدت اونچی ہوتی چلی جاتی ہے، اتنا ہی اس امر کی چھان بین ہوتی چلی جاتی ہے.یوں کہنا چاہئے کہ نکھر کر یہ معاملہ سامنے آتا چلا جاتا ہے کہ کس حد تک کوئی کس سے پیار کرتا تھا، کس حد تک کوئی کسی سے محبت رکھتا تھا اور قربانی کے لئے تیار تھا.چنانچہ اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا، جب بنی نوع انسان خدا کی پکڑ کے نیچے ہوں گے.وہ ایسا سخت دن ہوگا کہ کوئی ماں اپنے بچے کے لئے قربانی 760

Page 770

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 109 اکتوبر 1987ء کے لئے تیار نہیں ہوگی بلکہ تمنا کرے گی کہ کاش! میرا بچہ پکڑا جائے اور میں بچ جاؤں.کوئی بچہ اپنے ماں باپ کے لئے قربانی کے لئے تیار نہیں ہوگا اور یہ تمنا کرے گا کہ کاش! میرا باپ پکڑا جائے یا میری ماں پکڑی جائے اور میں اس مصیبت سے بچ جاؤں.کوئی بہن اپنے بھائی کے لئے قربانی کے لئے تیار نہیں ہو گی.پس امتحان کا معیار بلند کر دیں بختی کا معیار بلند کر دیں تو اس وقت پتا چلتا ہے کہ کون کس کا ہے؟ ایک حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، جو ہر خطرناک امتحان سے پوری گزرنے کے بعد بھی خدا کے نزدیک اس لائق ٹھہری کہ ہر بڑی سے بڑی تکلیف کے وقت وہ بنی نوع انسان کی ہمدردری میں اور دوسروں کی ہمدردری میں اپنے نفس کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے.یہی وہ گہرا فلسفہ ہے، جس کے نتیجے میں آپ کو شفیع بنایا گیا ہے.لوگ بڑے آرام سے ہلکے سے منہ سے کہ دیتے ہیں ، شفیع ہیں دنیا کے، ہم گناہگاروں کے اور گویا بڑے آسانی سے شفاعت نصیب ہو گئی ہے.خدا نے کہہ دیا تو شفیع بن گیا، وہ شفیع ہو گئے.حالانکہ ان انعامات میں ان عظیم مقامات میں جو اللہ تعالٰی عطا فرماتا ہے، ان کے پیچھے بھی گہری حکمتیں ہوتی ہیں.خدا کا کوئی فیصلہ بھی حکمت سے خالی نہیں.تمام بنی نوع انسان کا شفیع اس کو بنایا، جس کے متعلق جانتا تھا اور جانتا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کا سب سے زیادہ ہمدرد ہے اور تکلیفوں میں پڑ کر اس کی سچائی کھل کر نکھر کر سامنے آچکی تھی.تمام دنیا نے جو مظالم کا نشانہ بنانا تھا، حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے کچھ نمونے آپ نے دیکھے تھے اور بہت سے ایسے تھے، جو آپ کو بتائے گئے تھے اور قرآن کریم نے اس کی پیشگوئیاں کیں اور ملائکتہ اللہ نے ان کی تفاصیل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرمایا کہ ایسی بد بخت قومیں ہیں، جنہوں نے تجھے اپنے مظالم کا نشانہ کے لئے چن لینا ہے.اور صدیوں کے بعد صدیاں گزرتی چلی جائیں گی اور وہ تیرے اوپر گند اچھالتے چلے جائیں گے، وہ تیرا انکار کرتے چلے جائیں گے، تیری تکذیب کرتے چلے جائیں گے.یہ خبریں خصوصیت کے ساتھ سورہ کہف میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں.اور احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ان کی بہت سی تفاصیل مختلف مواقع حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئیں.جب یہ بتایا گیا کہ اس کے نتیجے میں بالآخر یہ قو میں ہلاک ہوں گی تو اس وقت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی جو حالت ہوئی، اس کو قرآن کریم ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے:.فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكهف : 07) 761

Page 771

خطبہ جمعہ فرموده 09اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم کہ اے محمد! تیرے دل کا کیا حال ہے؟ ہم تجھے ان قوموں کے عذاب کی خبر دے رہے ہیں، جو تیری مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں اور ہزار سال بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ تیری مخالفت پر وقف ہو جائیں گے اور تیرے دین کو مٹانے کی کوشش کریں گے اور جب ہم یہ خبر دیتے ہیں کہ خدا ان کو ہلاک کرے گا تو تیرے دل کا کیا حال ہے؟ تو کیا اس غم میں اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا کہ یہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے.یہ وہ دل تھا، جو کل عالم کا شفیع بنے کا اہل تھا، یہ وہ دل تھا، جسے رحمۃ للعالمین قرار دیا گیا.پس وہ ساری پیشگوئیاں، جو قرآن کریم میں اس پاک وجود کی مخالفت کے نتیجے میں دنیا کے ہلاک ہونے کے متعلق موجود ہیں، ہم اس دور سے گزر رہے ہیں، وہ حالات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، جو مستقبل کی باتیں تھیں، وہ آج حال بن چکی ہیں.اور اس بنتی ہوئی اور قوموں کی بگڑتی ہوئی تاریخ کو ہم اپنی آنکھوں سے مطالعہ کر رہے ہیں.اس تاریخ ساز یا تاریخ کو بگاڑنے والے دور میں سے آج ہم گزر رہے ہیں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی نمائندگی، اس پاک دل کی نمائندگی ہمیں عطا ہوئی ہے.اور یہ نمائندگی نہیں ہو سکتی، جب تک اپنے دلوں کو رحمت کی آماجگاہ نہ بنا لیں.جب تک وہی جذ بہ اپنے دل میں پیدا نہ کریں، جس طرح مائیں اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں.آپ اس جذبے کی پرورش نہ کریں اس وقت تک نہ آپ حقیقی معنوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندہ بن سکتے ہیں، نہ حقیقی معنوں میں آپ کو وہ اختیار نصیب ہوگا ، وہ قوت عطا ہوگی ، خدا کی تقدیر کی وہ تائید ملے گی کہ جس کے نتیجے میں آپ حقیقہ ، عملاً بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت اس دنیا کو پہنچا سکیں گے اور اس دنیا کو ہلاکت سے بچا سکیں گے.یہ وہ خلاصہ ہے مضمون کا ، جو امریکہ کے حالات دیکھ کر بنی نوع انسان کے حالات دیکھ کر میرے دل میں ابھرا.اور جب میں نے سوچا کہ یہ تو ایسے ایسے خطرناک حالات ہیں اور اتنے وسیع پیمانے پر ہیں اور اتنے بڑے قوتوں کے پہاڑ ہمارے مقابل پر کھڑے ہیں کہ ہم بالکل بے بس ہیں، اس کے مقابل پر.پھر جب دل میں شدید اس کے لئے کرب پیدا ہوا بے چینی پیدا ہوئی تو ظاہر ہے کہ انسان پھر نظر اپنے بڑوں کی طرف اٹھاتا ہے، جب بھی مصیبت میں پڑتا ہے.میری نظر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منتقل ہوئی.آپ کے حالات کا جائزہ لیا تو اس وقت مجھے سمجھ آئی کہ دنیا کے نجات ، جس طرح کل آپ کی ذات سے وابستہ تھی، آج بھی ہماری ذات سے نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات سے وابستہ ہے.اس ذات کو اپنی ذات میں اتارنا پڑے گا.وہی ایک ذات ہے، جو آپ کو بچا سکتی ہے.اور 762

Page 772

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 09 اکتوبر 1987ء وہی ایک ذات ہے، جو تمام دنیا کے لئے امن کی ضمانت دے سکتی ہے.اس ذات کو تمام دنیا میں منتشر کرنا پڑے گا، اس کا عکس ہر دل میں اتارنا ہوگا.یہ وہ رستہ ہے، جس کے سوا اور کوئی نجات کا رستہ نہیں.اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور خصوصیت سے اس پاکیزہ رحمت للعالمین کے رجحان کو اپنے دلوں میں آپ سالیں اور اس کی حفاظت کریں اور اس کی پرورش کریں تو ناممکن ہے کہ خدا آپ کو ہلاک ہونے دے.ناممکن ہے کہ یہ جذبہ کسی اور نفرت کے جذبے سے شکست کھا جائے.ہر چیز ممکن ہے لیکن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مقدر میں شکست ممکن نہیں.اس لیئے اس طاقت کے سرچشمے کے ساتھ کھڑے ہو جا ئیں اور اس سے آپ پانی پئیں، جو سر چشمہ ہمیشہ کی فتح کے لئے ایک آب حیات کا مقام رکھتا ہے.لیکن یہ کہنا آسان ہے، جب ہم اس کی تفصیل میں جاتے ہیں تو پھر دل مزید ڈولنے لگتا ہے اور کئی قسم کے خطرات سامنے آتے ہیں.کتنا تسکین بخش ہے یہ مضمون لیکن مشکل بھی تو بہت ہے.عام دنیا میں کسی کو آپ ہیرو بنا ئیں اپنا معمولی سی ذات ہو ، ویسا بنے کی کوشش کریں، ساری عمر آپ گزار دیں گے، پھر بھی بسا اوقات آپ میں اکثر ویسا نہیں بن سکیں گے.بعض لوگ اپنا ہیرو بناتے ہیں اور اس کی آواز Imitate کرتے ہیں، اس کی طرز Imitate کرتے ہیں، اس کی نقالی کرتے ہیں کہ ہم ویسے ہو جائیں اور یہ ہیرو مختلف قسم کے ہیں.بائرن ایک دفعہ ایک زمانے میں بڑا بد کردار نواب مشہور تھا، بہت اچھا شاعر تھا مگر وہ ہیرو بن گیا.وہ لنگڑا کر چلا کرتا تھا، ہلکی سی لنگڑاہٹ تھی ، اس کی چال میں اور انگلستان کے بڑے بڑے لارڈ اور بڑے بڑے جو چوٹی کے فیشن میں آگے آگے لوگ تھے، انہوں نے بھی لنگڑا کر چلنا شروع کر دیا.عجیب حال تھا.تو دنیا تو اپنے ہیرو کی خاطر لنگڑا کے چلتی ہے، آپ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کیوں ہمیشہ کا، ابدی حسن اختیار نہیں کرنے کی کوشش کرتے؟ اس ذات کو اپنا ہیرو بنا ئیں.اس جیسا بننے کی کوشش کریں اور یقین رکھیں کہ اس کی ہر ادا پیاری ہے، ہر ادازندہ رکھنے کے لائق ہے.اور خداہر ادا کولاز مازندہ رکھے گا.کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے، جو محد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اداؤں کو مٹادے.انہی اداؤں میں آپ کی زندگی ہے اور انہی اداؤں کے ساتھ آج تمام دنیا کی زندگی وابستہ ہو چکی ہے.مشکل ہے لیکن محبت سے یہ مضمون آسان ہوتا ہے.تلقین سے آسان نہیں ہوگا، نصائح سے آسان نہیں ہوگا، پیار اور محبت سے آسان ہو گا.محبت ہو جائے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لنگڑوں کی بھی نقالی کی جاتی ہے.محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ایسا پیار اوجود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.763

Page 773

خطبہ جمعہ فرمودہ 09اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...اگر خواہی دلیل عاشقش باش برہان صر کہ محمد کی صداقت اس کے حسن کی دلیل پوچھتے ہو تو میرا جواب یہ ہے کہ اس کا عاشق ہو جاؤ محمد تو خود اپنے حسن کی دلیل ہے.کبھی حسینوں کے متعلق بھی ثابت کیا جاتا ہے کہ کیوں حسین ہے؟ ان کا حسن دلیل ہوا کرتا ہے.حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم مجسم حسن ہیں.دلیلوں کے ذریعے تم نہیں پہنچو گے.ہاں دیکھو اور عاشق ہوتے چلے جاؤ.وہی جواب جو ایک عارف باللہ نے اس وقت دیا تھا، وہی جواب آج ہمارے لئے ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنانے کے تمام کٹھن مراحل آسان ہو سکتے ہیں.اگر آپ اس سیرت پر عاشق ہونا شروع کر دیں.اس سے آگاہ ہوں ، اس کا گہری نظر سے مطالعہ کریں، ایک دلی تعلق اور وابستگی پیدا کریں ، درود میں کثرت کریں.ہر اپنے روزانہ کے حالات پر اگر آپ غور کریں تو اتنے احسانات ہیں ہم پر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ کسی دوسرے مطالعہ کی ضرورت نہیں رہتی.باقی اگر ضرورت ہے تو مزید حسن میں اضافے کے لئے ہے.ورنہ ہر روز آپ کی زندگی میں جو بھی نیکیاں ہیں، جو بھی آپ کے دل کی بھلائی ہے، جو بھی آپ کی سیرت کا حسن ہے، کبھی آپ موازنہ کر کے دیکھیں اس کا ہر جز و حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو ملا.کوئی پیاری بات آپ کی ذات میں نہیں ہے، جو بالآخر چشمہ محمدی سے نہ پھوٹتی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تو یہ احسان ہے کہ آپ نے اس چشمے سے پانی پیا، خالصہ اس کے ہو گئے اور ہمیں بلا کر اس کی راہ دکھانے لگے.لیکن اصل وہی ہے، سارے حسن کا سر چشمہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اس ضمن میں ایک آخری بات کہہ کر میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں کہ روزانہ جب آپ نماز ادا کرتے ہیں تو سورہ فاتحہ کی اس دعا میں کہ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه : 5) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی التجا بھی شامل کر لیا کریں.جب آپ کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں تو بہت بڑا دعویٰ ہے.کیسے عبادت کریں؟ کس طرح وہ عبادت نصیب ہو؟ اس کے لئے فرمایا: ایساک نستعین ہم تجھ سے یہ مدد چاہتے ہیں.تیری مدد کے بغیر عبادت نصیب نہیں ہو سکتی.مگر اصل پیغام اس دعا میں ہی ہے کہ عبادت تو کرنا 764

Page 774

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 109 کتوبر 1987ء چاہتے ہیں مگر ویسی عبادت کرنا چاہتے ہیں، جیسی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی.کیونکہ تو نے خود اسے عبد کا خطاب دیا :.قَامَ عَبْدُ اللهِ (الجن : 20) قرآن کریم نے سب سے بڑا لقب جس کسی نبی کو عطا کیا ہے، وہ عبد اللہ کا لقب ہے.چنانچہ فرمایا کہ حمد عبد اللہ ہے.پس عبادت کا عبد کے ساتھ گہرا تعلق ہے.ایک ہی لفظ کی دو مختلف شکلیں ہیں.پس جب آپ کہتے ہیں: ایاک نعبد تو اس میں یہ بات داخل کریں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح تیری عبادت کی تھی، ویسی ہی عبادت ہم کرنا چاہتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عشق کے ساتھ عبادت کی تھی اور عشق از خود پیدا نہیں ہو سکتا.اس لئے ایساک نستعین اے خدا! اس معاملے میں ہم بالکل نااہل اور بالکل صفر ہیں.کوئی ہماری حالت نہیں ہے، دعوئی اتنا بلند اور اعمال ایسے کمزور.صرف ایک سہارا ہے کہ عبادت کی توفیق بھی تجھ سے مانگیں.پس نہیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عبد بنادے.اگر اس نیت سے آپ دعا کریں گے تو اللہ کی عبادت کا گر بھی آپ کو نصیب ہوگا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق بھی آپ کو نصیب ہو گا.ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں آخر پہ.ان دو باتوں میں پھر کوئی تفریق نہیں رہتی.اس نیت سے اس مضمون کے مطابق اگر آج امریکہ کا ہر احمدی اپنی تربیت شروع کر دے اور اپنے بچوں کی تربیت شروع کر دے تو اتنی عظیم الشان طاقت آپ میں سے پیدا ہوگی کہ آپ باوجود اس کے کہ اب بھی خدا کے فضل سے اپنی نیکیوں کی وجہ سے ایک طاقت ہیں.آپ تصور نہیں کر سکتے کہ آپ میں اندر کتنی مزید طاقتوں کے امکانات موجود ہیں.ایک ناقابل تسخیر قلعہ بن جائے گا، اسلام کے لئے امریکہ.دنیا میں ہلاکتیں پھیلانے کا ذریعہ نہیں رہے گا بلکہ ساری دنیا کے لئے امن کا ذریعہ بن سکتا ہے.اگر امریکہ میں بسنے والے احمدی اس نسخے کو آزمائیں اور اس نسخے کے اوپر ہمیشہ عمل کرنے کی کوشش کریں اور خالصہ اللہ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اپنی ذات میں داخل کرنے کی کوشش کریں.کام آپ کو دیئے جاتے ہیں، یہ کوئی مصنوعی حیثیت نہیں رکھتے.پھر کوئی بیرونی تلقین کی حیثیت نہیں رکھتے.یہ آپ کے دل سے اگیں گے، آپ کے دل کی تمنا بنیں گے، پھر قربانیوں کے لئے آپ کو جب بلایا جائے گا تو آپ یہ نہیں سمجھیں گے کہ باہر سے میری مرضی کے خلاف مجھے آواز دی جارہی ہے.765

Page 775

خطبہ جمعہ فرموده 09 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم میں بیٹھنا چاہتا ہوں، مجھے چلایا جارہا ہے.میں چلنا چاہتا ہوں، مجھے دوڑایا جار ہا ہے.بلکہ آپ کے دل کی کیفیت حضرت ابراہیم کے دل کی سی کیفیت ہو جائے گی.وَارِنَا مَنَاسِكَنَا (البقرة: 129) کی آواز آپ کے دلوں سے اٹھے گی.اے خدا ! وہ ولولہ پیدا ہو گیا ہے عشق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نتیجے میں اور تیرے پیار کے نتیجے میں کہ اب ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں قربان گاہیں دکھائی جائیں.ہم ڈھونڈ رہے ہیں ان مواقعوں کو ، ہم تلاش میں ہیں ان نیکیوں کی، جن کی طرف ہمیں بلایا جائے اور ہم دوڑتے ہوئے، لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں.یہ وہ کیفیت ہے، جو اس مضمون کے نتیجے میں لازما نصیب ہوا کرتی ہے.اور یہ مقام اگر کسی جماعت کو عطا ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے.کوئی طاقت روک ہی نہیں سکتی آپ کو.کوئی دنیا کی قوت ایسی نہیں ، جو نظام قدرت کے قوانین کے اوپر غالب آ سکے.ایک چھوٹی سی بھاپ کی طاقت ہے، اسے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک نوجوان لڑکے نے انجن ایجاد کر لیا.انجن بھاپ سے چلنے والا تمہاری مشینوں کا تصور منتقل ہوا اور پھر یلوے کا انجن ایجاد کیا.پھر اور بہت سی مشینیں اس سے نکلیں.اس کا خیال تھا کہ میں بھاپ کو جو ابلتی ہوئی دیکھی سے نکل رہی ہو، اس میں کسی طرح دبا کر دیکھوں کیا ہوتا ہے؟ پہلے اس نے آٹا وانا لگایا، اس کو دبایا ، اس پر پتھر رکھے تھوڑی دیر بعد پھر بلبلے نکلنے شروع ہو گئے.پھر اس نے اور کوشش کی ، جو بو جھل سی چیزیں رکھی جاسکتی تھیں، اس پر رکھ دیں.آپ اس پر کھڑا ہو گیا لیکن پھر تھوڑی دیر کے بعد ایک طرف سے اور زیادہ قوت کے ساتھ وہ بھاپ نکلنا شروع ہوگئی.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت خدا کی قسم اس بھاپ کی قوت سے سینکڑوں ہزاروں گنا زیادہ طاقتور ہے.کوئی دنیا کی طاقت اس قوت کو دبا نہیں سکتی.اگر یہ سچے طور پر آپ کے دلوں میں جاری ہو جائے.کیسے آپ رکیں گے ایک مقام پر پھر؟ کیسے دنیا آپ کی رفتار میں حائل ہو سکے گی ؟ آپ کو لازماً بڑھنا ہوگا اور پھیلنا ہوگا اور اس قوت پر آپ کا اپنا اختیار نہیں رہے گا.اس لئے میں یہی دعا کرتا ہوں اور یہی تمام امریکہ کو واشنگٹن سے میرا پیغام ہے.کیونکہ یہ آپ کا ہیڈ کوارٹر ہے کہ اس سے بہتر نسخہ ان سارے مسائل کے علاج کے طور پر مجھے اور کوئی معلوم نہیں.نہ ممکن ہو سکتا ہے.اللہ کرے کہ ہم اس نسخے پر عمل پیرا ہو جائیں اور پھر سارے ترقیات کے مراحل ہم پر خود بخود آسان ہوتے چلے جائیں گے.اللہ کرے کہ جلد تر ہمیں یہ مقام نصیب ہو.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 643 657) 766

Page 776

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 16 اکتوبر 1987ء احمدیت کے نزدیک خدا کے سب بندے برابر اور یکساں ہیں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اکتوبر 1987ء جتنے دنیا میں نیکی کے نام پر بہت سے کام کرنے والے آپ کو دکھائی دیں گے، ان میں دوہی قسم کے لوگ ہو سکتے ہیں.یادہ جو اپنی طرف سے خرچ کریں، قربانیاں کریں اور پھر نصیحت کریں.کچھ وہ جن کو بڑی بڑی حکومتیں لاکھوں کروڑوں روپے دے رہی ہوں کہ جاؤ اور بنی نوع انسان کو ہدایت دو.تو وہ لوگ جن کے پاس پیسہ آئے تو وہ خدمت کریں، پیسہ نہ آئے تو ان کی خدمتیں ختم ہو جائیں.نفسیاتی لحاظ سے یہ قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کی نگاہ میں پیسے کی قیمت ہے، بنی نوع انسان کی بھلائی کی قیمت نہیں.اس پہلو سے جب آپ جماعت احمدیہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مغربی قوموں میں بھی اور مشرقی قوموں میں بھی جماعت احمد یہ اس وقت بھلائی کا پیغام لے کر نکلی ، جب کے انتہائی غریب تھی.اور کوئی دنیا میں مالی لحاظ سے اس جماعت کا مددگار نہیں تھا.جس زمانے میں امریکہ جیسی بڑی اور عظیم مملکت کو ہدایت کا پیغام دینے کے لئے بھجوایا گیا، حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو بھجوایا گیا، قادیان میں یہ حال تھا کہ بعض دفعہ چھ چھ مہینے کے لئے کارکنوں کو تنخواہ دینے کے لئے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے.واقعہ گھروں میں فاقے پڑنے لگ جاتے تھے اور پھر حضرت مصلح موعود تحریک فرماتے تھے، جماعت کے امراء سے کہ امانتا کچھ بھجوادو، جب خدا نے توفیق دی، ہم تمہیں واپس کر دیں گے.لیکن سلسلے کے کارکنوں کی غریبانہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی.چنانچہ ان دردناک اپیلوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فضل فرماتا.بعض صاحب حیثیت لوگوں کے دل کھلتے ، کچھ ویسے رقمیں بھجوا دیتے، کچھ امانت میں رقمیں بھجوا دیتے.چنانچہ تاریخ احمدیت کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ سالہا سال تک ایسی کیفیت گزری کہ قرضوں کے اوپر سلسلے کے خدمت کرنے والوں کے گزارے ادا ہوتے رہے.جو کہ بہت ہی معمولی گزارے تھے.آج جو واقفین کو گزارے ملتے ہیں، ان کی ان گزاروں کے ساتھ کوئی مماثلت نہیں.بمشکل زندہ رہنے کے لئے گزارے تھے.اور وہ بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا، کئی مہینوں نہیں مل سکتے تھے.اس وقت احمدیت نے امریکہ جیسی عظیم مملکت کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ایک درویش بھجوایا.767

Page 777

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1987.تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم یہ وہ بات ہے، جو حضرت نوح ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہم تو مال کی طرف ادنی اسی لالچ کی نگاہ بھی نہیں کرتے.تمہارے اموال سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے.ہم تو خود قربانیاں دے رہے ہیں اور پھر تمہیں نصیحت کر رہے ہیں.تم کیوں اس بات کو نہیں سمجھتے ؟ کیوں نہیں سمجھتے کہ مال میں فضیلت نہیں ہے بلکہ انسان کی شرافت میں فضیلت ہے، خدا سے تعلق میں فضیلت ہے.اور اب تم یہ کہتے ہو کہ مال والوں کی عزت کریں اور وہ لوگ جو خدا کی خاطر سب کچھ قربان کر کے میرے سامنے خدا کے دین کی نصرت کے لئے حاضر ہوئے ، ان کو میں دھتکار دوں.اس لئے کہ وہ غریب ہیں، اس لئے کہ وہ بے حیثیت ہیں ، اس لئے کہ ان کے رنگ کالے ہیں.یا پھر اور حیثیت ایسی ہے کہ چونکہ اس زمانے میں بھی بہت بڑی بڑی قوموں کو جو سیاہ فام بھی تھیں اور دوسرے رنگوں سے بھی تعلق رکھتی تھیں ، غلام بنا کر امیر تو میں خدمت پر لگایا کرتی تھیں، یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے.تو فرمایا جن کو تم ویسے ہی حقارت سے دیکھتے ہو، نہ ان کے پاس مال، نہ ان کے پاس عزتیں ، نہ ان کے پاس قومی فضیلت ایسی پائی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تم ان کی عزت کر سکو اور مجھے کہتے ہو کہ میں بھی ان کو ذلیل دیکھوں ، تب تم میری بات سنو گے“.یوں معلوم ہوتا ہے کہ آج کل خود اسی ملک میں امریکہ کے حالات پر یا امریکہ کے حالات کو سامنے رکھ کر یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے.یہاں بھی ایسی قوم بستی ہے، جس کو دنیا حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے.خود ان کے اہل وطن ، جو نسبتا سفید فام ہیں، ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ اگر چہ قانون ان کو بعض حقوق دلواتا ہے، آزادیاں دیتا ہے، ان کو برابر کے مواقع میں شریک قرار دیتا ہے لیکن عملاً یہ خستہ حال ہیں اور گلیوں اور کارخانے کے کمترین کام کرنے والوں میں آپ کو یہ دکھائی دیں گے.جہاں تک اقتدار کا تعلق ہے، حقیقت میں اقتدار کی کنجیاں سفید فام لوگوں کے ہاتھ میں ہیں.اور اس کے نتیجے " میں یہ بہت ہی بے چینی کا شکار ہیں.جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، اسلام چونکہ ایک عالمی مذہب ہے، اس لئے رنگ اور نسل کی تمیز نہیں کرتا.جیسے اس بات کی تعلیم نہیں دیتا کہ رنگ اور نسل کے لحاظ سے کسی دوسری قوم کی تحقیر کی جائے ، اسے ذلیل سمجھا جائے ، اسی طرح اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ رنگ اور نسل کی بناء پر کسی قوم سے انتقام لیا جائے اور اس سے انصاف کا سلوک نہ کیا جائے اور اپنی قوم کو انتقامی تعلیم دی جائے.اسلام ایک توازن کا مذہب ہے.اس لئے جب میں یہ تفریق کر کے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تو ہر گز مراد یہ نہیں کہ احمدیت ایک طرف ہے اور دوسری طرف نہیں ہے.768

Page 778

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 16 اکتوبر 1987ء احمدیت کے نزدیک خدا کے سب بندے برابر اور یکساں ہیں.لیکن اگر کوئی احمدیت تفریق کرتی ہے تو ظالم اور مظلوم کے درمیان کرتی ہے، ایک رنگ اور دوسرے رنگ کے درمیان نہیں کرتی.لیکن اس وقت میں اس کی تفصیل میں بھی نہیں جانا چاہتا.میں آپ سے ان دونوں سے جو بحیثیت احمدی یہاں موجود ہیں، خواہ وہ کسی رنگ سے تعلق رکھتے ہوں، سیاہ رنگ سے تعلق رکھتے ہوں یا نسبتا کم سیاہ رنگ سے تعلق رکھتے ہوں یا بالکل سفید رنگ سے تعلق رکھتے ہوں.ان سے میں ان آیات میں بیان کردہ مضمون کی روشنی میں کچھ اہم باتیں کرنی چاہتا ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی خصوصیت کے ساتھ جو باہر سے تشریف لائے اور یہاں آباد ہوئے ، وہ بھی ایک قسم کے Complex کا شکار ہیں.یعنی احساس کمتری صرف رنگ کے سیاہ ہونے سے نہیں ہوا کرتا، بعض دفعہ رنگ کے کم سیاہ ہونے سے بھی ایک احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے.احساس کمتری تو دل کے چھوٹا ہونے کا نام ہے، نظر کے چھوٹا ہونے کا نام ہے.خواہ یہ دل کا چھوٹا پن اور نظر کا چھوٹا پن کالے رنگوں میں پایا جائے یا سفید رنگوں میں پایا جائے یا درمیان کے رنگوں میں پایا جائے.اس کا مظہر ایک ہی ہو گا یعنی احساس کمتری.اور دنیا کے معاشرے کی بہت سی بیماریاں احساس کمتری کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں.لیکن سب سے زیادہ مذہب کی دنیا میں اگر کوئی قوم یا بعض قو میں احساس کمتری کا شکار ہو جائیں تو اس کے نہایت ہی خوفناک نتیجے پیدا ہوتے ہیں.کیونکہ جیسا کہ آپ نے ان آیات میں سنا ہے، احساس کمتری اور سچائی اکٹھے نہیں رہ سکتے.ایک دوسرے کے ایسے شدید دشمن ہیں کہ بیک وقت دونوں پنپ ہی نہیں سکتے.احساس کمتری کے نتیجے میں صداقت کھائی جاتی ہے.جس طرح گھن کھا جاتا ہے بعض چیزوں کو اسی طرح احساس کمتری ایمان کو کھا جاتا ہے ، صداقت کو کھا جاتا ہے، شرافت کو کھا جاتا ہے.اور بعض دفعہ یہ احساس کمتری مخفی ہوتا ہے.مثلاً اگر کوئی باہر سے پاکستانی ہو یا غیر پاکستانی، بنگال سے آئے ہوئے ہوں یا عرب سے آئے ہوئے ہوں ، وہ آ کر یہ محسوس کریں کہ ان کے حالات نسبتا ان لوگوں سے اچھے ہیں، جنہیں سیاہ فام کہا جاتا ہے اور ان کے رنگ بھی نسبتاً ان سے سفید فام قوموں کے قریب تر ہیں اور لاشعوری طور پر اس کے نتیجے میں وہ یہ سمجھنے لگیں کہ ہم چونکہ اتنے کالے نہیں اور چونکہ اتنے غریب نہیں، اس لئے ہم سفید فام لوگوں میں ملنے کے زیادہ اہل ہیں اور وہ ہمیں زیادہ قرب عطا کریں گے، اس لئے اصل سوسائٹی ہماری ان کی ہے.ان سے تعلق بڑھائیں تو ہمیں ان دوسروں پر ایک فضیلت حاصل ہے.حالانکہ وہ ان کی قوم سے تعلق رکھنے والے 769

Page 779

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ہیں.یہ احساس بسا اوقات میں نے دیکھا ہے، شعوری طور پر پیدا نہیں ہوتا.ورنہ ایک احمدی اگر شعوری طور پر یہ بات سوچے تو وہ احمدی رہتا ہی نہیں.وہ اسی وقت بددیانت اور بے ایمان ہو جاتا ہے.کیونکہ وہ قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے روگردانی کرتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا انسان ہزار دھوکوں کا شکار ہے.ایسی غفلتوں کا شکار ہے کہ اس کی آنکھ نہیں کھلتی.بعض دفعہ موت کا قرب بعض دفعہ آنکھ کھول کر اسے ایسا پیغام دیتا ہے کہ وہ حیران رہ جاتا ہے کہ ساری عمر میں نے گزاری اور مجھے محسوس نہیں ہوا کہ میں کیسی عمر گزار کے آیا ہوں.اس لئے ضروری ہے کہ انسان کو اس کے حالات کا تجزیہ کر کے اسے تفصیل سے سمجھایا جائے کہ تم کیا کر رہے ہو؟ اور کیوں کر رہے ہو؟ اور کیوں تمہیں یہ نہیں کرنا چاہئیے ؟ اس لئے میں ہر پاکستانی یا غیر امریکن نیم رنگ رکھنے والے کو مخاطب نہیں ہوں یعنی مخاطب تو سب کو ہوں لیکن ہر ایک کو ملزم قرار نہیں دے رہا.مگر کم فہمی کے نتیجے میں ایسا ہوتا ضرور ہے اور ایک بڑی تعداد ایسے امراض کا شکار ہو جاتی ہے.ایک دفعہ بہت پرانی بات ہے.اس زمانے میں ابھی بہت کم پاکستانی یہاں آنے لگے تھے.ایک پاکستانی نے مجھ سے بیان کیا کہ امریکہ میں جو سب سے بڑی ایک Problem یعنی ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک نعوذ باللہ من ذالک ہمارے مبلغین نے یہ غلطی کی کہ پہلے سیاہ فام لوگوں میں تبلیغ شروع کر دی اور اس کے نتیجے میں وہ جوق در جوق شامل ہونے شروع ہوئے.چنانچہ خود اپنے ہاتھوں سے سفید فام قوموں کے لئے رستے بند کر دئیے.اس کے اندروہ احساس کمتری پایا جاتا تھا، جو نوح کی بظاہر غالب قوم کے اندر پایا جاتا تھا.اس کے اندروہ جاہلانہ بات تھی کہ جو نسبتا کم عزت رکھنے والی قومیں ہیں، وہ خدا کی ہو بھی جائیں ، تب بھی وہ ذلیل ہی رہیں گی.گویا کہ اور سفید فام آئیں گے تو دین کو عزت ملے گی.سفید فام نہیں آئیں گے تو دین ذلیل رہے گا.وہ بات کرنے والا ایک ذلیل سوچ رکھنے ولا تھا.میرا دل متلانے لگا کہ کس قسم کی بات کر رہا ہے.قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ میرے باشعور بندے ہزار ہا سال پہلے بھی ایسے روشن دماغ رکھتے تھے کہ وہ جانتے تھے کہ بچی فضیلتیں کن باتوں میں ہیں.وہ جانتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ غریبوں کو توفیق دے اور کم نظروں کو، چھوٹا دکھائی دینے والوں کو توفیق دے تو وہ خدا سے ایسی عزت پاتے ہیں کہ تمام دنیا پر وہ فضیلت پا جاتے ہیں.ان کے آنے سے دین کو عزت ملتی ہے، ان کے جانے سے دین کی ذلت ہے.اور جو دین کو چھوٹا دیکھتے ہیں، ان کے نہ آنے میں دین کی عزت ہے اور پھر یہ کہ ان پر دروازے کیسے بند کئے جاسکتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کسی قوم کو ایک فضلیت عطا کرے اور وہ نیکی کی طرف آگے بڑھے اور قربانیوں کی طرف 770

Page 780

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی ** اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اکتوبر 1987ء آگے بڑھے تو اس بناء پر ان پر دروازے بند کئے جائیں کہ تمہارا رنگ مختلف ہے، تمہاری قومی حیثیت مختلف ہے، تم غریب لوگ ہو.یہ دروازے ظاہر البعض دفعہ نہیں بند کئے جاتے.بعض دفعہ دلوں پر تالے پڑتے ہیں اور رجحان بند ہو جاتے ہیں.ان کی طرف دیکھنے والی نگا ہیں مجرم ہو جاتی ہیں.ان کو محبت سے سینے سے لگانے کی بجائے وہ ایک ہلکی سے دوری محسوس کرتے ہیں، ایک پردہ سا بیچ میں حائل کر دیتے ہیں.پس ظاہری طور پر کبھی ایسا واقعہ نہیں سنا ہو گا آپ نے کہ ان لوگوں میں سے احمدی ہوئے ہوں اور ان پر دروازے مسجد کے بند کر دیئے جائیں کہ تم نے نہیں آنا.لیکن ایسے واقعات آپ نے ضرور دیکھے ہوں گے اور اگر آپ اپنے دل کو ٹول کر دیکھیں تو ہو سکتا ہے آپ کو اپنے اندر بھی ایسی بدنصیبی کبھی دکھائی دے دے کہ آپ نے اپنی روح کے دروازے ان پر کچھ بند کئے یا بھیڑ دئیے کم از کم.اگر مقفل نہیں کئے تو نہیں چاہا کہ یہ کھلے ہوں اور یہ شوق سے آپ کے اندر داخل ہوں.اس رجحان کے نتیجے میں جماعت احمدیہ کو اتنا شدید نقصان پہنچا ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے." کتنا خوشخبریوں سے بھرا ہوا عظیم الشان زمانہ تھا، جب حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تشریف لائے اور جوق در جوق اور قوم در قوم ان لوگوں نے ، جن کو سیاہ فام کہا جاتا ہے، احمد بیت کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے، اپنے سینے وا کر دئیے.اس زمانے میں تار کا خیال بہت شاذ آیا کرتا تھا.عموماً خطوں کا زمانہ تھا بلکہ لوگ تار کو اتنا بڑا واقعہ سمجھتے تھے کہ تار دینے کی بجائے خط میں لکھا کرتے تھے کہ آپ اس خط کو تار سمجھیں یعنی ہے تو بہت بڑی Urgency ، بہت ہی شدت کی ضرورت ہے لیکن تارتو بہت بڑی بات ہے، اس لئے آپ مہربانی فرما کر میرے خط کو یہ تار سمجھ لیں اور ہمارے دیہات میں خصوصاً پنجاب میں یہ تو عام محاورہ تھا.اس زمانے میں اتنا Excite ہو گئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تاروں پر تاریں دینے لگے.آج یہاں انقلاب آ گیا، آج وہاں انقلاب آ گیا.یہاں اب جوق در جوق لوگ شامل ہوئے ، وہاں قوم در قوم لوگ شامل ہونا شروع ہوئے.اس زمانے میں حضرت مصلح موعودؓ کے خطبے سنیں کس طرح حمد سے بھرے ہوئے ہیں.ایک غریب جماعت جس کے کارکنوں کو کھانے کی روٹی بھی میسر نہیں، اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں، اس کا ایک غریب نمائندہ ایک امیر ترین ملک میں جاتا ہے اور وہاں سے خوشخبریاں بھیج رہا ہے کہ خدا کے فضل سے ان قوموں کے دل کھل رہے ہیں.کسی نے ان سے یہ سوال نہیں کیا کہ کالے آرہے ہیں کہ سفید آ رہے ہیں؟ کسی نے مفتی محمد صادق سے نہیں پوچھا کہ تم نے حکمت عملی کیا اختیار کی؟ کہیں یہ تو نہیں کر رہے کہ کالوں کو قبول کر رہے ہو اور سفید پیچھے رہ.771

Page 781

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم جائیں؟ ہر آنے والا خدا کا بندہ تھا اور خدا کے بندے کے طور پر خدا کے بندے دونوں ہاتھوں سے اسے سینے سے لگا کر قبول کیا کرتے تھے.ہر آنے والا تقویٰ کی رونقیں ساتھ لے کر آتا تھا اور ہر تقویٰ والا مقابلہ اسے تقویٰ کے نور سے اسے اور بھی زیادہ مزین کرتا چلا جاتا تھا.یہ وہ دور تھا اگر یہ اسی طرح جاری رہتا تو بعید نہیں تھا کہ آج اس ملک کی ایک بھاری تعدا د خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ احمدیت اسلام میں داخل ہو چکی ہوتی.اور بجائے اس کے کہ یہ ملک دنیا میں برائیاں پھیلانے کا اڈا بنا ہوا ہوتا، بجائے اس کے کہ دنیا میں گند پھیلانے کے لئے یہاں سب سے بڑی صنعتیں قائم ہوتیں.یہاں سے دنیا کے لئے رحمتیں بانٹی جاتیں، دنیا یہاں سے نعمتیں حاصل کرتی ، دین کی بھی اور دنیا کی بھی.اور عظیم الشان محسن کے طور پر یہ ملک دنیا کے سامنے ابھرتا.جتنی اس قوم کی تعداد ہے، وہ اتنی بڑی طاقت ہے، اگر وہ اسلام کے رنگ میں رنگین ہو کر اسلامی تہذیب سے وابستہ ہو جائیں اور اس رنگ ڈھنگ کو اپنے لئے اختیار کرلیں اور خلافت کی تنظیم سے وابستہ ہو جائیں تو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن سکتی ہے.اور کوئی دنیا کی سازش کوئی دنیا کی طاقت ان کو دبا نہیں سکتی.پھر اس طرح ابھریں گے کہ ناممکن ہے کہ ساری دنیا بھی چاہے تو ان کو دبادے.اسلام میں اگر چہ بظا ہرا بھر نے کی تعلیم نہیں ہے، بظاہر بغاوت سے منع کیا گیا ہے اور انکسار بتایا گیا ہے، Humility سکھائی گئی ہے کہ عاجز بندے بنو.اور اسلام بتاتا ہے کہ خدا کو عجز کی راہیں پسند ہیں.لیکن اس میں ایک بہت بڑا حکمت کا ایک راز ہے کہ وہ قو میں، جو خدا سے محبت کے نتیجے میں عاجز بنتی ہیں، ان کے اندر خدا کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے، ان کو خدا اپنی عظمتیں عطا کرتا ہے اور کوئی دنیا کی قوم نہیں ہے، جو ان لوگوں کو دبا سکے، جن میں خدا کی طاقت پیدا ہو جائے.اس لئے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آج دنیا کی تقدیر کا نقشہ بدل چکا ہوتا.آج اور مسائل دنیا میں ہو رہے ہوتے ، آج امریکہ کے میدان سے اسلام کا سورج طلوع ہورہا ہوتا اور وہ جو آپ باتیں سنتے تھے کہ مغرب سے سورج طلوع ہوگا.آپ اپنی آنکھوں سے اس کو ظہور ہوتے ہوئے دیکھ لیتے.چھوٹی چھوٹی بدنصیبیاں ہیں.اپنے ہی مرضوں کا شکار بعض لوگ اپنے آپ کو دنیا کی فضیلت کے نتیجے میں افضل سمجھنے لگ جاتے اور اب خدا کے ان بندوں سے جو دنیا کے لحاظ نسبتاً ان کے کم درجے پر ہوں، ان سے تکبر کا سلوک کرتے.اگر آپ ان میں سے نہیں ہیں، جنہوں نے تکبر کا سلوک کیا تو پھر بھی جیسی محبت کا سلوک چاہئے تھا، جیسے سینے سے لگانے کی ضرورت تھی ، ویسا آپ نے نہیں کیا.چنانچہ بعد میں اسلام کے جھوٹے Version بھی آنے شروع ہوئے یعنی مصنوعی اسلام کے نام پر آنے والی تنظیمیں ، جو اس وقت یہاں داخل ہوئی ہیں، جب ان کو دولت دی گئی ہے کہ جاؤ، اس دولت 772

Page 782

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1987ء کے ذریعے امریکہ میں جاکر اسلام کا پیغام پہنچاؤ.حضرت نوح کا یہ بیان اگر چہ ان کو جھوٹا بتارہا ہے.اگر چہ بتا رہا ہے کہ جب تک تمہارے پاس دولت نہیں آئی تم کیوں اس میدان میں نہیں نکلے ؟ اس لئے تم قوموں کی بھلائی کے جذبے سے نہیں نکل رہے، دولت کی خاطر پیسے لے کر اب نکل رہے ہو تبلیغوں کے لئے.اس کے باوجود چونکہ جماعت احمدیہ نے ایک میدان خالی چھوڑ دیا تھا، اس لئے جوق در جوق یہ لوگ ان کی طرف جانے شروع ہوئے اور ایک بہت بڑی طاقت بن گئے.مگر بدنصیبی سے.کیونکہ متقی سیادت ان کو نصیب نہیں ہے، متقی لیڈر شپ نصیب نہیں ہے.اس لئے وہ لوگ ان کو اسلام میں داخل کر کے ان کو غلط کاموں کے لئے استعمال کرنے لگے.سیاست کے فائدے اٹھانے کے لئے ان کو جرائم پر آمادہ کیا جاتا ہے، ان سے خوفناک کام لئے جاتے ہیں، ان کو غلط تصور دیئے جاتے ہیں نیکی کے.اور ہر وہ بات جو اسلام نے غلط قرار دی ، اس کی طرف با قاعدہ منظم طریق پر ان کو تیار کیا جارہا ہے.کوئی کسی لیبل کے نیچے مسلمان ہورہا ہے، کوئی کسی لیبل کے نیچے مسلمان ہورہا ہے.اور ہر پیسے دینے والے کا اپنا ایک ذاتی مقصد ہے.ایک سیاسی مقصد ہے کہ ان کو ہم استعمال کریں.لیکن یہ وہ جانتے ہیں کہ ہے بہت بڑی طاقت.یہ طاقت اگر احمدیت میں داخل ہوتی تو اس سے لاکھوں گنا بڑی طاقت بن جاتی.کیونکہ یہ طاقت خدا کے ہاتھ میں آجاتی ، بندوں کے ہاتھ میں جب طاقتیں آتی ہیں تو وہ ہمیشہ برائی کے لئے استعمال ہوتی ہیں.خدا کے ہاتھ میں جب طاقتیں آتی ہیں تو وہ ہمیشہ بھلائی کے بے شمار سر چشمے ان طاقتوں سے پھوٹتے ہیں اور ساری دنیا کو سیراب کر دیا کرتے ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس کا قصور تھا کہ کس کا نہیں تھا؟ یا کس کا آج قصور ہے یا کس کا نہیں ہے؟ مگر میں یہ آپ کو بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے یہ جو واقعہ بیان کیا ہے، یہ ایک ہمیشہ کی سچائی ہے.قرآن کی نظر دلوں پر ہے کیونکہ یہ خدا کا کلام ہے.اور جیسا جو کچھ نوح کے زمانے میں ہو گزرا، وہ سب کچھ آج بھی یہاں ہوسکتا ہے.اور ہوسکتا ہے، ہو رہا ہے.اس لئے ہم نتائج کے لحاظ سے جانچ سکتے ہیں.میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ فلاں نے یہ ظلم کیا یا فلاں مبلغ سے یہ غلطی ہوئی یا فلاں آنے والے نے یہ قصور کیا ؟ مگر میں یہ جانتا ہوں کہ ہم سب سے کوئی اجتماعی قصور ضرور ہوا ہے.ورنہ آج اس حالت میں ہم احمدیت کو یہاں نہ دیکھتے.اس لئے اس نظریے کو تبدیل کریں.اس لئے نہیں کہ آپ نے ان کو حاصل کرنا ہے.اس لئے کہ آپ ہلاک ہو جائیں گے، اگر آپ نے یہ نظریہ تبدیل نہ کیا.تعداد جیتنے کی خاطر جو بھی آپ فعل کریں گے، وہ بے معنی ہے.آپ نے خدا جیتنے کی خاطر فعل کرنے ہیں.773

Page 783

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس اگر آپ خود خدا سے کھوئے جا رہے ہیں، ایک طرز عمل کے نتیجے میں تو پہلے اپنی فکر کریں اگر آپ اپنی فکر کریں گے اور باخدا ہو جائیں گے تو خدا خود ان کی فکر کرے گا.پھر آپ کے لئے سکے بنانے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح ان کو بلائیں.اپنے دل خدا کے لئے کھولیں ، خدا کی خاطر تقوی اختیار کریں ، خدا کی خاطر انکسار پیدا کریں اپنے اندر.اور ہر قسم کے کبر سے ایسا خوف کھا ئیں ، جس طرح بعض کوڑھیوں سے خوف کھاتے ہیں.جس طرح شیر سے بھاگا جاتا ہے ڈر کے مارے، اس سے بھی زیادہ کبر سے خوف کھا ئیں.اس سے زیادہ ہلاک کرنے والی اور کوئی چیز نہیں.اور یخفی دروازوں سے اندر داخل ہوتا ہے، یہ بغیر آہٹ کے چلتا ہے.اور جب انسان کے اندر داخل ہو جائے تو اس کے وجود پر قبضہ کر لیتا ہے.اور بسا اوقات بجز کا پیغام دینے والے، عجز کا اظہار کرنے والے خود تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ باہر سے آنے والے خصوصیت کے ساتھ اپنی نگاہوں کو تبدیل کریں.خدا کا شکر ادا کریں کہ ان کو ایک غیر ملک میں ایسی دنیا کمانے کی بھی توفیق ملی، جسے وہ دین کی طرف منتقل کر سکتے ہیں.اور اگر نہیں کر سکتے تو ان کا آنا بیکار.انہوں نے اپنی روحوں اور اپنی اولادوں کے سودے کئے ہیں، اس ملک سے.اگر خدا نے آپ کو دیا ہے تو اس خیال سے خدا کے حضور جھکیں اور اس کا شکر ادا کریں کہ خدا تو نے ہمیں وہ کچھ دیا، جس کی تمنا تھی کہ ملتا تو ہم خدا کی راہوں میں خرچ کرتے.ملتا تو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے خرچ کرتے.پہلے خالی ہاتھ تھے، حسرتیں تھیں.اب خدا نے ہاتھ بھرے ہیں تو حسرتیں پوری کرنے کا زمانہ آیا، امنگیں پوری کرنے کا زمانہ آ گیا.اگر یہ احساس پیدا ہوگا تو کتنا شکر آپ کے دلوں میں پیدا ہو گا.پھر ان بھائیوں کو، ان پسماندہ لوگوں کو اٹھائیں، ان کو سینے سے لگا ئیں کیونکہ یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے.قرآن سے آپ نے جو کچھ سیکھا، اسے اس حیرت انگیز شان کے ساتھ اپنے وجود میں داخل کر دیا کہ ہمیشہ کے لئے حسین ترین نمونے دنیا کے سامنے ایسے پیدا ہوئے کہ ان کی کوئی مثال آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبوں کے ساتھ ایسی محبت کی ہے کہ اصحاب صفہ، وہ لوگ ہیں، جو غرباء میں سے رسول اللہ کی محبت کے نتیجے میں مسجد میں آ کے بیٹھ گئے.یہ جوابی پیار کیسے پیدا ہوا ؟ اگر پہلے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیار پیدا نہیں ہوا تھا.بعض لوگ اپنی بیوقوفی یا نہ مجھی سے یہ گمان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ سب کے سب وہ لوگ تھے، جو بیکار تھے، جن کو دنیا کی کمائی کے ڈھنگ نہیں آتے تھے.اور اس کے نتیجے میں جس طرح درویش لولے لنگڑے وہاں اکٹھے ہو جایا کرتے ہیں بعض جگہوں پہ جہاں کھانا مفت ملتا ہے، اس طرح و اس طرح ☑ 774

Page 784

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اصحاب الصفہ بھی آگئے، چونکہ نیک تھے، اس لئے مسجد میں آ کے بیٹھ گئے بجائے کسی اور یتیم خانے میں جانے کے.بالکل غلط اور جھوٹا تصور ہے.وہ صاحب عظمت و وقار لوگ تھے.ان میں ایسے تھے، جو دنیا کمانا جانتے تھے.اس کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں آپ کے حضور حاضر کر دیا اور غربت قبول کی تھی.کیونکہ جانتے تھے کہ غربت میں ان کو زیادہ پیار ملتا تھا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے".پس غریب بھی آپ کے گردا کٹھے ہوئے اور امیر بھی امارتوں کو لاتیں مار کر امارتوں کو دھتکار کر آپ کے قریب اکٹھے ہو گئے اور وہاں جو بھی غریب تھے ، وہ عشق کی خاطر غریب ہوئے تھے، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کی خاطر غریب ہوئے تھے.اور ایسے خزانے ان کو عطا ہوئے ، ایسی ان کو نعمتیں عطا ہوئیں کہ آج ان کا نام اگر کوئی مسلمان امیر سے امیر بھی ہو، بڑی سے بڑی بادشاہت بھی اس کو عطا ہوئی ہو ، وہ ان کا نام لیتے وقت ان پر سلامتی بھیجتا ہے.اس کا سر جھکتا ہے ان کی عظمتوں کے سامنے“.پس غریبوں سے سچی محبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے.جہاں تک رنگ ونسل کا تعلق ہے، آپ جانتے ہیں کہ بلال کو کیا عظمت نصیب ہوئی.ایک سیاہ فام انسان ہی تو تھا اور وہ بھی غلام.لیکن حضرت عمرؓ اپنی خلافت کے زمانے میں جب ان کو دیکھتے تھے تو سیدنا بلال کہہ کر اٹھ کھڑے ہوا کرتے تھے.وو وو (مستدرک حاکم معرفة صحابہ ذکر بلال )...یہ اسلام ہے، یہ وہ اسلام جو ہم نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا.اگر یہ اسلام لے کر آپ امریکہ کی گلیوں اور بازاروں میں نکلیں تو اس اسلام نے بہر حال غالب آنا ہے.کوئی دنیا کی طاقت اس اسلام کی کشش سے قوموں کو بچانہیں سکتی پھر.کشاں کشاں وہ آپ کی طرف چلے آئیں گے.کیونکہ آپ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے ایلچی بن جائیں گے.محض آپ کے پیغام کے زبانی اینچی نہیں رہیں گے.اور آج کی دنیا زبانی پیغاموں کے سفیروں کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتی.آج تو بڑی بڑی طاقتوں کے سربراہ بھی ، اب ان صلحوں کے جھوٹے سفیر اور محبت کے جھوٹے سفیر ہیں.آپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق کے بچے سفیر بن کے دیکھیں کہ آپ کو خدا کیسی عظمتیں عطا کرتا ہے اور ان لوگوں سے پیار کرنا سیکھیں.میں تو جب بھی ان سے ملتا ہوں، میرے وہم و گمان میں بھی کوئی رنگ کا فرق نہیں آتا.نہ مجھے کالے نظر آتے ہیں، نہ مجھے سفید نظر آتے ہیں.مجھے تو اللہ کے نور سے مزین دکھائی دیتے ہیں.ان میں 775

Page 785

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم سے ایسے ایسے لوگ میں جانتا ہوں ، جن کا عشق خدا سے دل بھرا ہوا ہے اور راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں.غربت کے باوجود خدا کی راہ میں مالی قربانی میں پیش پیش ہیں.ایسی محبت رکھتے ہیں احمدیت سے کہ ان کے چہرے بشرے سے جھلکتی ہے، ان کی آنکھوں سے ڈھلکتی ہے آنسو بن کے.بعض دفعہ جذبات سے بے قابو ہو کر اس طرح سینے سے لگتے ہیں کہ سسکیوں کی آواز سے کچھ سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں تو ان کو دیکھتا ہوں، میں خدا کے نور کے سوا ان میں اور کوئی چمک نہیں دیکھتا.بے اختیار میرا دل ان کی محبت میں اچھلتا ہے، میری روح ان کے پیار سے وجد کرنے لگتی ہے.آپ نے بھی تو میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے.اور میں نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.آپ ایسا ہی نہیں ورنہ آپ اپنے عہد بیعت میں سچے نہیں ہوں گے.اور جب تک آپ ایسا نہیں بنیں گے، آپ امریکہ کی تقدیر کو نہیں تبدیل کر سکیں گے.لاکھ پاکستانی بالا کچھ عرب یا لاکھ انڈو نیشین یا ملائشین یا بنگالی یہاں آکر آباد ہو جائے ، جب تک حضور اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور لے کر نہیں نکلتا، وہ اس قوم کو فتح نہیں کر سکتا.جن کو آپ ادنی سمجھتے ہیں، نعوذ باللہ من ذالک یا یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا ان کو ادنی سمجھتی ہے، ان کے اندر ہیرے جواہر ہیں.بڑی عظیم طاقتیں مخفی ہیں.اور وہ خدا کے پیار کو قبول کرنے کے لئے ان باقی قوموں سے زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے تیار ہیں.کیونکہ ان میں محرومی کا احساس ہے.وہ قومیں ، جن کو سب کچھ مل چکا ہو، وہ متکبر ہو جایا کرتی ہیں“.وو ان کو خدا تعالیٰ نے ان کی غربت کی بنا بصیرت عطا فرما دی ہے.ان کے احساس محرومی نے ان کو تیار کر دیا ہے کہ وہ نعمت، جو ان کی طرف آئے ، وہ اسے قبول کریں.پس اس احساس سے ان کو جوان فائدہ اٹھانے دیں، آپ ان کی راہ میں حائل نہ ہوں.ان تک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و خلق کا پیغام پہنچائیں.پھر دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی کایا پلٹتا ہے.یہ وہی قومیں ہیں، جو شراب کے نشے میں دھت ، جو دن رات میوزک اور بعض دفعہ Drugs کے عادی ہوگر اپنی زندگیوں کو گنوار ہے ہیں، انہی میں سے احمدی نکلیں.اور آپ دیکھیں ان میں سے کتنی کا یا پلٹ گئی ہے، ان لوگوں کی.ایک احمدی ایسے میوزیشن ہیں یہاں، جو اپنے وقت میں اتنی تیزی کے ساتھ میوزک میں ترقی کر رہے تھے کہ بہت جلد انہوں نے امریکہ کی سطح پر شہرت حاصل کرلی اور ان کے متعلق ماہرین کا خیال تھا کہ یہ All Time Best یعنی ایسے عظیم الشان میوزیشن بن جائیں گے کہ گویا 776

Page 786

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1987ء ان کو یاد کیا جائے گا.اپنے زمانے کے بہترین تھے.احمدی ہوئے ، نہ میوزک کی پرواہ کی ، نہ میوزک سے آنے والی دولت کی طرف لالچ کی نظر سے دیکھا.سب کچھ یک دفعه، یک قلم منقطع کر دیا.وہ درویشانہ اپنی زندگی گزارتے ہیں، باقاعدگی سے تہجد پڑھتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیتے ہیں تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ویسا عشق ہے، جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے آقا سے عشق تھا.رنگ بدلے ہوئے ہیں ، کیفیت ہی اور ہو چکی ہے.اور لوگ ان کو دیکھتے ہیں، ان کو پتا نہیں کہ ان کے بھیس میں کیا وجود پھر رہا ہے.میں نے ان سے با رہا، مدت سے میں جب واقف ہوں، ان سے بار بابا تیں کی ہیں.خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا، ان کو جواب دیتا، ان سے رحمت اور شفقت کا اظہار فرماتا ہے.آپ کو کیا پتا کہ کتنے کتنے عظیم الشان جو ہر قابل یہاں موجود ہیں.اور اگر ہم نے نعوذ باللہ من ذالک ان کی قدر نہ کی تو خدا ہماری قدر نہیں کرے گا، ہماری ذرہ بھر پر واہ نہیں کرے گا.اس لئے اپنی کیفیت بدلیں ، اپنے حالات تبدیل کریں اور جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے، جن کا میں ذکر کر رہا ہوں، جو احمد یوں کا اپنی حالت بدل کر مجھے بھی بے انتہا پیارے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ خدا کو بہت پیارے ہیں، ورنہ مجھے بھی پیارے نہ ہوتے.ان کو میرا یہ پیغام ہے کہ آپ اسلام سے عظمت کردار حاصل کریں، استغنا حاصل کریں.آپ کو بھی اسلام ایک خاص اسلوب زندگی سکھاتا ہے.اسلام آپ کو بتاتا ہے کہ آپ آزاد ہو گئے ہیں، ہر قسم کے Complexes ، ہر قسم کے احساسات کمتری سے.جب آپ نے خدا کو پایا، یہ سمجھ کرکہ خدا کو پایا تو پھر احساس کمتری کی گنجائش ہی کون ہی باقی رہ جاتی ہے.پھر کیوں آپ حساس ہو جاتے ہیں اس بات پہ کہ فلاں نے مجھے یوں دیکھا اور فلاں نے مجھے یوں نہیں دیکھا؟“ وو اگر کوئی آپ سے ایسا سلوک کرتا ہے تو آپ ان پر رحم کریں، نہ کہ اس کے رد عمل کے نتیجے میں آپ کہیں کہ یہ ہم سے ایسا سلوک کرتا ہے، ہم بھی ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں.اپنے خدا سے پیچھے ہیں گے، اپنی بھلائی سے پیچھے ہٹیں گے ، خود اپنے سے بے وفائی کریں گے.کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ اسلام آپ کا ہے اور خدا آپ کا ہے.اگر کوئی باہر سے آنے والا اس خدا اور اسلام سے برگشتہ ہو رہا ہے، اپنے اخلاق اور اپنی قدروں میں.تو آپ کو کیا حق ہے یا کیسی عقل ہے کہ آپ خود برگشتہ ہونے لگیں.آپ کو یہ احساس پیدا ہونا چاہئے، اللہ آپ کا ہو چکا ہے.آپ کو کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے ، کون کس طرح آپ کو دیکھتا ہے؟ اور یہ عظمت آپ کے اندر پیدا ہو گئی ، تب آپ اس ملک میں غالب آئیں گے.777

Page 787

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم مذہبی اقدار چھوڑ دیں، نفسیاتی لحاظ سے میں آپ کو بتاتا ہوں، ایک لازمی حقیقت ہے، جسے اگر کوئی قوم بھول جائے گی تو کبھی بھی فلاح نہیں پاسکتی.وہ تو میں جو احساس کمتری سے آزاد ہو جایا کرتی ہیں، جو سیدھی راہ پہ چلنا جانتی ہیں، قطع نظر اس کے کہ کوئی ان کو دیکھ رہا ہے کہ نہیں دیکھ رہا کوئی ان کی عزت کر رہا ہے یا نہیں کر رہا.یہی وہ قومیں ہیں، جو انبیاء کی کوک سے جنم لیا کرتی ہیں.انبیاء یہ قو میں بنایا کرتے ہیں اور اس کے بعد بڑی بڑی تو میں ہلاک ہو جایا کرتی ہیں اور یہ تو میں عظمت پاتی ہیں.کیونکہ وہ خدا کے نام سے عظمت پاتی ہیں.اس لئے آپ خوش نصیب ہیں.کیوں نہیں سمجھتے کہ آپ کو ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے، کوئی آپ کو سینے سے لگائے یا نہ لگائے.آپ وہ بنیں، جو سینوں سے لگائیں اور احسان کے طور پر لوگوں کو سینوں سے لگا ئیں.کیونکہ خدا نے آپ کو چن لیا رحمت کے لئے اور نعمتوں کے لئے.اس لئے ضروری ہے کہ ہر احساس کمتری سے ہر احمدی آزاد ہو جائے.وہ جن کے رنگ نسبتاً صاف ہیں اور جن کو خدا نے نسبتاً زیادہ دولتیں عطا کی ہیں، ان کا احساس کمتری بھی ان کو ہلاک کر سکتا ہے اور ضرور کر دے گا ، اگر وہ اس سے باز نہ آئے.اور وہ تو میں جو بظا ہر دنیا میں کم درجے پہ شمار کی گئی ہیں، اگر وہ احساس کمتری کا شکار ہوں گی تو ان کو بھی احساس کمتری ہلاک کر دے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سارے راز ہمیں سکھا دیئے ہیں.دنیا کا سب سے بڑا ماہر نفسیات آدم سے لے کر آخری انسان تک جتنے بھی لوگ پیدا ہوئے ، ان میں سب سے اونچا ماہر نفسیات حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.کیونکہ آپ اللہ کے مزاج شناس تھے.خدا نے اپنا مزاج آپ کو بتایا تھا.جس نے انسان کی فطرت پیدا کی اور وہی ایک راہ ہے، جس سے انسانی فطرت کا معائنہ کیا جاسکتا ہے.تعصبات سے پاک خالص اللہ کی نظر سے انسان کو دیکھا جائے تو کوئی عارضی پردہ حائل نہیں ہو سکتا، انسان کے مطالعہ اور فطرت کے درمیان.اس لئے میں آپ کو بتارہا ہوں کامل یقین کے ساتھ حکمت کی بنا پر کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر فطرت کا مطالعہ کرنے والا نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ کبھی آئندہ پیدا ہو سکتا ہے.اور آپ نے فرمایا ایک موقع پر کہ خدا کو جو لوگ بہت ہی نا پسند ہیں، ان میں سے ایک قسم وہ ہے، جو غریب اور بے حال ہونے کے باوجود متکبر ہیں.(مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر: 197) یہ احساس کمتری کی تفصیل بیان فرمائی جارہی ہے.وہ لوگ جن کے پاس کچھ نہ ہو یا غریبانہ حالت میں زندگی بسر کرتے ہوں یا قو میں ان کو تحقیر کی نظر سے دیکھتی ہوں، اگر وہ آگے سے تکبر کا اظہار 778

Page 788

تحریک جدید - ایک الی تحریک...جلد هفتم -.اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اکتوبر 1987ء کریں گے تو یہ تکبر احساس کمتری سے پیدا ہوتا ہے کہ اچھا اب ہم ان کو بھی ذلیل دیکھنا شروع کریں گے اور ذلیل کرنا شروع کریں گے.فرمایا: اللہ ان کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.تو بجائے اس کے کہ اس حالت کے نتیجے میں آپ خدا کی محبت کے سودے کریں، کیوں خدا کی نفرت اور خدا کے غضب کے سودے کرتے ہیں.آپ خدا کے ہو گئے تو خدا کی قسم آپ عظیم ہو چکے ہیں.کیونکہ خدا سے جو بھی تعلق جوڑ لے، وہ عظیم ہو جایا کرتا ہے.پھر اس جھوٹے احساس کمتری کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ کیوں شیطان کو موقع دیتے ہیں کہ آپ کے دل میں یہ خیال پیدا کرے کہ گویا وہ لوگ زیادہ ہیں اور آپ کم ہیں؟ اگر یہ آپ جذبہ پیدا کرلیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا یہ رنگ اپنے اندر داخل کر لیں تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ احمد یہ سوسائٹی میں تفریق پیدا کرنے والا کوئی وجود کامیاب نہیں ہو سکتا.آج آپ کے اندر منافق بھی ہیں، آج آپ کے اندر بیوقوف بھی ہیں، احساس کمتری کا شکار جاہل لوگ بھی ہیں اور باہر کی قو میں آپ کے اندر ایجنٹ بھی داخل کر رہی ہیں کہ کسی طرح آپ کے اندر تفریق پیدا کر دیں.اور شیطان اسی طرح کی تفریقیں پیدا کیا کرتا ہے.یادرکھیں کہ مومن کہ اندر کوئی دنیا کی طاقت تفریق پیدا نہیں کر سکتی.اس لئے ہر وہ شخص خواہ وہ احساس کمتری کے نتیجے میں یا شیطانیت کے نتیجے میں آپ کے اندر ایسی باتیں کرے، جس کے نتیجے میں آپ کا اپنے بھائی سے دل بدظن ہو رہا ہوں، جس کے نتیجے میں آپ سمجھیں کہ آپ کی محبت میں کوئی فرق پڑ رہا ہے، جس کے نتیجے میں آپ سمجھیں کہ جماعت کی نمائندہ تنظیم کے نمائندہ جو لوگ ہیں، ان کی عزت، ان کے احترام، ان کے اطاعت کے جذبے میں فرق آ رہا ہے تو جان لیں کہ وہ خدا کی طرف سے بولنے والا نہیں.وہ شیطان کی طرف سے بولنے والا ہے.ایسے انسان کو رد کریں.اور اگر آپ.میں سے ہر ایک یہ طریق اختیار کرلے تو احمدیت کے اندر کوئی شیطانی جذبہ سرایت نہیں کرسکتا.میں تو حیران ہوتا ہوں دیکھ کر کہ بعض لوگ اس اثر کو قبول کر لیتے ہیں اور پھر مجھ سے شکایت کرتے ہیں کہ جی ! فلاں نے ہم سے یہ سلوک کیا، فلاں نے بچے کے امتحان میں اس لئے پاکستانی بچے کو پاس کر دیا کہ وہ پاکستانی تھا یا اس کا رنگ بہتر تھا یا دولت مند تھا اور ہمارے بچے کو جو زیادہ نمبر لینے کا مستحق تھا، اسے قرآن یا نظم میں پیچھے کر دیا.میں حیرت سے ان کو دیکھتا ہوں کہ اگر ایسا کیا تو کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ خدا کے ہیں اور خدا خود آپ سے پیار کا سلوک کرے گا.خدا کی خاطر جو بھی قوم قربانی کرتی ہے، جو شخص قربانی کرتا ہے، اس کا مرتبہ خدا کی نظر میں بڑھ جاتا ہے.اس لئے اگر یہ سلوک ہوا تو آپ تب بھی مراد پا گئے.اس بیوقوف پر رحم کریں، جس کا حق نہیں تھا.اگر واقعی اس کا حق نہیں تھا، وہ انعام پا گیا.وہ تو جاہل ہے، وہ تو جانتا نہیں کہ اس کو کیا دیا جارہا ہے.779

Page 789

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1987ء (ابوداؤد کتاب القضاء : 3112) تحریک جدید - ایک الجی تحریک....جلد هفتم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر تم میں سے دو فریق جھگڑا لے کر میرے پاس آئیں اور کوئی اپنی چرب زبانی کی وجہ سے، زیادہ چالا کی کی وجہ سے اس طرح معاملہ پیش کرے کہ میں حقدار کی بجائے کچھ حصہ حق کا ناحق کی طرف منتقل کر دوں تو اس کے نتیجے میں یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ میں نے فیصلہ کیا ہے، اس لئے وہ اس کا حقدار ہو گیا.اس نے صرف جہنم کا ایک ٹکڑا کمایا ہے، اس سے زیادہ اس کو کچھ بھی نصیب نہیں.پس اگر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ من ذالک حالات سے لاعلمی کے نتیجے غلط فیصلہ کر سکتے ہیں.میرا ایمان ہے کہ نہیں کر سکتے، مثال کے طور پر پیش فرمارہے ہیں.مگر مثال یہی بتاتی ہے کہ اگر وہ کر سکتے تو ادنی ادنی بندے بعض دفعہ جان کر نہیں، لاعلمی کے نتیجے میں فیصلہ غلط کر دیا کرتے ہیں.اس لئے جب آپ اس کے مقابل پر یہ رد عمل دکھا ئیں گے تو دو جرموں کا ارتکاب کریں گے.اول یہ کہ اپنے بھائی پر بدظنی کی.آپ نہیں جانتے کہ اس نے کیوں فیصلہ کیا.دوسرے یہ کہ واقعہ اپنے آپ کو ذلیل سمجھا کہ گویا ہم سے کچھ چھین لیا گیا ہے.آپ سے کوئی کچھ نہیں چھین سکتا.یہ تو سارے سلسلے ہی رضائے الہی کے سلسلے ہیں.رضائے الہی کو کوئی کس طرح زبردستی چھین سکتا ہے.آپ کا مرتبہ خدا کی نظر میں ضرور بڑھتا ہے، اس وقت جب آپ جائز حق سے محروم کئے جاتے ہیں.اور اس کا مرتبہ جو نا جائز حق لیتا ہے، ضرور گرتا ہے، خدا کی نظر میں.اس لئے اسلام ایک محفوظ مقام ہے.بچے مسلمان کو کسی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا.اس لئے اپنے اندر وہ احترام پیدا کریں اپنا، جو خدا سے تعلق کے نتیجے میں لازماً پیدا ہو جایا کرتا ہے.جو انکساری کے ساتھ ساتھ رہنا جانتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ وہ کتنے محترم ہیں.اس کے باوجود وہ اس کے باوجود منکسر المزاج تھے.یہ توازن فضل ہے، جو اسلام پیدا کرتا ہے.یہ حسین شخصیتیں ہیں، جو اسلام کے نتیجہ میں منصہ شہود پر ابھرتی ہیں.پس خدا کرے کہ یہ جماعت ہو، امریکہ میں جو پیدا ہو.اور جو کمزوریاں ہیں ، وہ اللہ اپنے فی دور فرمادے.کچھ آپ اپنے حالات کا جائزہ اپنے اندر ڈوب کے کرنا شروع کریں.کچھ اپنے بھائیوں کے جائزہ لے کر ان کو پیار اور محبت سے سمجھانے کی کوشش کریں.بہت ضرورت ہے.کیونکہ اتنا بڑا کام ہمیں کرنا ہے اور ہم اتنا پیچھے رہ گئے ہیں وقت سے کہ بہت تیزی کے ساتھ ہمیں اپنے حالات کو درست کر کے خدا کی فوج 780

Page 790

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1987ء میں لاز ما شریک ہونا ہوگا.اگر ہم ایسا نہیں کر سکیں گے تو ان کو خدا کی خاطر جیتنے کے بجائے ہم اپنے بچوں کو شیطان کے ہاتھ فروخت کرنے والے ہوں گے.اگر آپ نے پھیلنا نہ سیکھا، اگر آپ نے اپنے معاشرے کو دوسرے پر غالب کرنا نہ سیکھا تو دوسرا معاشرہ آپ پر غالب آجائے گا.آپ کمزور ہو جائیں گے، آپ کم ہونا شروع ہو جائیں گے.ان تاریخی اسباق سے نصیحت حاصل کریں.یہ غیر مبدل قوانین ہیں، جو انسان کی تاریخ ہمیں سکھا رہی ہے.آپ سے کوئی الگ سلوک نہیں کیا جائے گا.یہ وہ سلوک ہے، جو خدا نے ہمیشہ قوموں سے کیا اور ہمیشہ کرتا چلا جائے گا.اس لئے استغفار کے ساتھ دعا کرتے ہوئے ، اپنے حالات کا جائزہ لیں اور انکسار کے ساتھ عظمت کردار پیدا کریں.ہروہ شخص جو بظاہر کسی سوسائٹی کی طرف منسوب ہوتا ہے، وہ یہ عزم کرلے کہ میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس طرح منسوب ہو جاتا ہے کہ سوسائٹیوں کے فرضی رنگ بالکل غائب ہو جائیں اور اڑ جائیں اور باریک سے باریک فلم ( جھلی) بھی میرے اور میرے بھائی کے درمیان باقی نہ رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 659 تا 682) 781

Page 791

Page 792

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 123اکتوبر 1987ء اگر اپنی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے آپ کو بچائیں خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1987ء سفر کے دوران، جس کا آغاز کینیڈا سے ہوا، اگر چہ وہاں ایک دو دن ہی ٹھہرا اور بعد میں پھر امریکہ آیا اور یہاں تقریباً یہ سفر نصف تک پہنچ چکا ہے.اس تمام سفر کے دوران جہاں جہاں بھی جانے کا موقع ملا، عموماً احباب جماعت نے ایک سوال بڑی شدت کے ساتھ اٹھایا کہ جس ملک میں یا جن ملکوں میں ہم رہ رہے ہیں، یہاں کا معاشرہ اتنا گندہ ہو چکا ہے اور فضا اتنی زہریلی ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل سے متعلق فکر ہے.اس لئے ہمیں کوئی ایسی ترکیب بتائیں، جس کے نتیجے میں، جس پر عمل کرنے سے ہم آئندہ اپنے بچوں کے بارے میں مطمئن ہوسکیں کہ یہ اسلامی اقدار کے ساتھ پلیں گے، ساتھ جوان ہوں گے اور کسی طرح بھی یہ غیروں سے مرعوب نہیں ہوں گے.کینیڈا میں جو مجلس سوال و جواب تھی، اس میں بھی میں نے اس سوال کا جواب دیا.اور بعد میں خصوصیت کے ساتھ واشنگٹن میں بچوں کے اجلاس میں بھی میں نے اس مضمون کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی.چونکہ یہ سوال عام طور پر اٹھایا جارہا ہے اور اکثر ذہنوں کو بے چین کر رہا ہے، اس لئے مناسب ہوگا کہ ان دونوں جوابوں کی اکٹھی ایک کیسٹ تیار کر لی جائے اور چونکہ اس خطبے میں بھی میں اسی کے ایک اور پہلو پر گفتگو کروں گا، اس لئے اس کو بھی ساتھ شامل کر لیا جائے اور تمام امریکہ کی جماعتوں میں اس احتیاط کے ساتھ ان کیسٹس کو بھجوایا جائے کہ خلا نہ رہ جائے.اگر چہ کیسٹ کا نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ دو تین سالوں میں کافی مضبوط ہو چکا ہے اور تقویت پاچکا ہے.لیکن جب بھی میں نے تفصیلی جائزہ لیا ہے تو بہت سے خلاضرور دکھائی دیتے ہیں.اور یہ کہنا درست نہیں کہ کسی ملک کی ہر جماعت میں باقاعدگی سے کیسٹس پہنچ رہے ہیں اور اس جماعت کے ہر فرد تک ان کی رسائی ہے یا ہر فرد کو ان تک رسائی ہے.یہ نظام بھی ابھی نامکمل ہے کہ سنائی کیسے جائے؟ اگر اکٹھا جماعت کو ٹیسٹس سنانے کا انتظام نہ ہو، جس میں خطبات ہوں یا خصوصی پیغامات ہوں تو بسا اوقات بہت سے خاندان ایسے رہ جاتے ہیں، جو اپنے طور پر تو سن ہی نہیں سکتے.علاوہ ازیں بھی اگر جمعہ پر بھی یہ انتظام کیا جائے تو آپ جانتے ہیں کہ جن ملکوں میں 783

Page 793

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم - آپ بس رہے ہیں، یہاں بہت بڑی تعداد ایسی ہے، جو جمعہ پر حاضر ہی نہیں ہوسکتی.اور کچھ جو جمعہ پر آتے ہیں، مرد یا خواتین ان کے بچے ضروری نہیں کہ ساتھ آسکیں.اس لئے خلا کے احتمالات زیادہ ہیں، نسبت اس کے کہ یہ یقین کیا جائے کہ سب تک پیغام پہنچ رہے ہیں.اس لئے ایسے اہم مضامین، جن کا جماعت کی تربیت کے ساتھ یا ان کے بچوں کے مستقبل کے ساتھ گہرا تعلق ہو، ان کو زیادہ احتیاط کے ساتھ ، زیادہ محنت کے ساتھ احباب جماعت تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے.اس لئے جہاں اجتماعی انتظامات ہیں، ان میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کتنے دوست تشریف لا سکے؟ جو تشریف لائے ، ان سے مل کے یہ طے کرنا چاہئے کہ آپ اپنے بچوں کو کس طرح سنائیں گے؟ جو نہیں آسکے، ان تک پہنچانے کا انتظام.اگر یہ ان خطبات کے علاوہ عموماً بھی جماعت ایسا انتظام کرے اور اس توجہ کے ساتھ یہ انتظام کرے تو اس سے بالعموم ساری دنیا کی جماعت کو بہت سے فوائد پہنچیں گے.خطبات ایک ایسا ذریعہ ہے، جن کے ذریعے ساری دنیا میں خواہ کسی ملک سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ہوں، ان میں یک جہتی اور یک سوئی پیدا ہو سکتی ہے.جماعت احمدیہ کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو عالمی بنایا جائے، تمام عالم کے دوسرے مذاہب پر اس کو غالب کیا جائے اور ایک اسلامی مزاج ساری دنیا میں پیدا کیا جائے.اس ایک مزاج کو پیدا کرنے کے لئے خلافت سے ساری جماعتوں کی وابستگی سب سے بڑا ذریعہ ہے.جو دنیا میں کسی اور مذہبی جماعت کو اس طرح حاصل نہیں.اور پھر ہر ہفتے ایک ہی قسم کے مزاج کو دنیا میں پیدا کرنے کی خاطر ایک ہی خطبہ کو ہر جگہ پھیلانا اور ایسے خطبے کو پھیلانا ، جس کا سنے والا یہ سمجھتا ہو کہ میرا اس بیان کرنے والے سے ایک ایسا گہرا روحانی تعلق ہے کہ جو باتیں بھی کہی جارہی ہیں، میں عہد کر چکا ہوں کہ میں انہیں توجہ سے سنوں گا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.یہ بات بھی دنیا میں کسی اور مذہبی نظام کو حاصل نہیں.اس لئے اگر اس دنیا کی وحدت کسی جماعت سے وابستہ ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہی ہے.لیکن جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے جو نظام مہیا فرما دیا ہے، جو انتظامات مکمل کر دیئے ہیں، اگر خود یہ جماعت اس سے استفادہ نہ کرے تو پھر دنیا کی وحدت تو در کنار، اپنی وحدت کو بھی برقرار نہیں رکھ سکے گی.اور میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ بسا اوقات اس کمی کی وجہ سے مختلف جماعتوں کے مزاج مختلف ہونے لگتے ہیں.جہاں با قاعدگی سے خطبات پہنچانے کا انتظام نہیں، وہاں کئی قسم کے ایسے خیالات، کئی قسم کے ایسے تو ہمات دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، جن کا ساتھ ساتھ علاج نہیں ہو رہا ہوتا.اور وہاں مختلف مزاج میں جماعتیں 784

Page 794

تحریک جدید - ایک البی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1987ء پرورش پارہی ہوتی ہیں.دنیا کی دوسری جماعتوں سے فرق کے ساتھ ان کی تربیت ہو رہی ہوتی ہے.اس لئے بالعموم ابھی یہ بہت ضروری ہے.اور خصوصاً ایسی جگہ جیسے لاس اینجلس ہے، بہت پھیلی ہوئی جماعتیں ہیں، گھروں کے درمیان فاصلے بہت ہیں، شہر بہت بڑا ہے، بداثرات بہت زیادہ ہیں اور ایک مسجد اگر بنا بھی دی جائے تو تب بھی اس مسجد تک سب کی رسائی عملا ممکن نہیں ہے.تو ایسی جماعتوں میں تو خصوصیت کے ساتھ یہ انتظام ضروری ہے کہ مرکز سے ان کا رابطہ مکمل رہے اور ہر بڑے چھوٹے تک خلیفہ وقت کی آواز میں وہ باتیں پہنچیں ، جن پر عمل کرنا وقت کے تقاضوں کے لحاظ سے خصوصیت سے بہت ضروری ہے.اس تمہید کے بعد میں اب اس مضمون کی طرف آتا ہوں، جس کا میں نے ذکر شروع میں چھیڑا کہ بچوں کی حفاظت کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے.جو باتیں میں پہلے بیان کر چکا ہوں انہیں دوہرانے کی ضرورت نہیں.لیکن قرآن کریم کی ایک آیت کو خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رکھتے ہوئے ، آج میں اس مضمون پر روشنی ڈالوں گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (115) کہ یقیناً حسنات برائیوں کو دور کر دیتی ہیں.یہ ایک ایسا مضمون ہے، جس کے متعلق بالعموم بہت ہی غلام نبی پائی جاتی ہے.عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ برائیاں نیکیوں کو کھا جاتی ہیں اور اس وجہ سے یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے ماحول میں ہیں، جو برا ہے.اس لئے ہمیں خطرہ ہے کہ یہ برائی ہم پر غالب نہ آن جائے.قرآن کریم نے اس مضمون کو بالکل برعکس شکل میں پیش فرمایا ہے.فرمایا: اگر تم واقعی اچھے ہو تو تمہیں برائی سے خوف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.برائیاں تم سے خوف کھا ئیں گی کیونکہ برائیوں کی فطرت میں ایک کمزوری داخل ہے کہ حسنات کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.اور حسنات ان پر بھی ضرور غالب آتی ہیں.یہ ایک ایسا بالکل نیا اور اچھوتا مضمون ہے، جس کا دنیا کے دوسرے مذاہب میں اشارہ تو شاید ذکر ملے ،مگر اس طرح وضاحت کے ساتھ اس قوت کے ساتھ آپ کو دنیا کی کسی الہامی کتاب میں اس مضمون پر روشنی پڑتی ہوئی دکھائی نہیں دے گی“.کسی احمدی کے لئے اس خوف کی تو ضرورت بہر حال نہیں کہ معاشرے کی برائیاں ہماری بھلائیوں کو کھا جائیں گی.لیکن کچھ اور خوف کی ضرورت بہر حال ہے.اس لئے ہمیں اس خوف کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ اصل قصہ کیا ہے؟ کیونکہ محض یہ کہہ دینا کہ تم اچھے ہو، اس لئے تم ضرور غالب آؤ گے، یہ کافی نہیں وو 785

Page 795

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 23 اکتوبر 1987ء ) تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم ہے.کیونکہ امر واقع یہ ہے ہم دیکھتے ہیں، بہت سے خاندان اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں، اپنی ان خوبیوں کو بظاہر چھوڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جن پر وہ بظاہر قائم دکھائی دیتے تھے اور برائیوں کی طرف سرکتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کی اولادیں ضائع ہوتی نظر آرہی ہوتی ہیں، ان کے مزاج بدل جاتے ہیں، ان کے دین کے رجحانات میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے، ان کی آنکھوں میں وہ تعلق قائم نہیں رہتا، جو اچھے تربیت یافتہ بچوں کی آنکھوں میں دکھائی دینا چاہئے.دین سے اپنائیت دکھائی نہیں دیتی ، ایک غیریت پیدا ہو جاتی ہے.تو ایک طرف یہ واقعات ہمیں دکھائی دے رہے ہیں، جس سے ہم کیسے آنکھیں بند کر سکتے ہیں؟ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حسنات چونکہ برائیوں کو کھا جاتی ہیں؟ اس لئے ہمیں کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں، بے فکر رہیں خود بخود ہماری خوبیاں غالب آجائیں گی.تو ان دو تضادات میں بیچ میں کون سی ایسی راہ ہے، جسے ہم تلاش کریں.اور سب سے پہلے تو یہ کوشش کریں کہ ان تضادات کا وجود ممکن کیسے ہے؟ قرآن کریم تو سچائی ہے اور ایک سچائی کا دوسری سچائی سے تضاد ہو ہی نہیں سکتا.یہ ناممکن ہے کہ قرآن کریم ایک بات بیان فرمارہا ہو اور حقائق اس کی مخالفت کر رہے ہوں.اس لئے اس تجزیے کے لئے مزید غور کرنا ہو گا.اس الجھے ہوئے مسئلے کو پہلے حل کرنا ہوگا کہ یہ تضاد ہے کیوں؟ ہمارا مشاہدہ کچھ اور بتارہا ہے.قرآن کریم کی آیت کچھ اور بیان فرما رہی ہے.اور دونوں میں گویا مشرق اور مغرب کا بعد ہے.اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم ہی سچا ہے اور اصل بات یہ ہے کہ ہمارا مشاہدہ بھی درست ہے.مگر ان دونوں کے درمیان جو تضاد ہے، وہ ہماری نظر کی کمی کی وجہ سے ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ عملاً لوگ ضائع ہورہے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے تھے اور اچھے ہونے کے باوجود ضائع ہو گئے ، یہ بات غلط ہے.وہی ضائع ہوتے ہیں، جو اچھے نہیں ہیں.جن میں حسنات ہیں، وہ کبھی ضائع نہیں ہوا کرتے.جن میں خوبیاں ہیں، ان کی خوبیاں لازماً غالب آیا کرتی ہیں.ہاں ! جنہیں زعم ہو کہ ہم اچھے ہیں، جنہیں دھوکا ہو کہ ہم خوبیوں پر قائم ہیں، وہ سمجھتے ہوں کہ ہم ٹھوس مقامات پر فائز ہیں.لیکن بیچ میں سے وہ کھوکھلے مقامات ہوں، ریت کے محلوں پر کھڑے ہوں ، ان لوگوں نے تو گرنا ہی گرتا ہے.اس لئے نسلیں ہی وہ ضائع ہوتی ہیں، جو حسنات سے خالی ہوتی ہیں.ان لوگوں کی نسلیں ضائع ہوتی ہیں، جن کو حسنات پر زعم ہوتا ہے.لیکن عملاً وہ حسنات سے خالی ہوتے ہیں.اور یہ اصول یقینی اور قطعی ہے کہ برائیاں حسنات کو نہیں کھایا کرتیں.خلاؤں میں داخل ہوا کرتی ہیں.حسنات کے نام سے آپ کے سینے اور آپ کے اعمال بھر نہیں سکتے.وہ عمل سے بھرتے ہیں، جو حسن عمل ہو، جو نیک عمل ہو، نیک عادات سے بھرتے ہیں.786

Page 796

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 اکتوبر 1987ء پس آپ کے وجود اگر نیک ناموں سے تو وابستہ ہوں اور بظاہر اردگرد نیکی کا ملمع بھی موجود ہو لیکن اندر سینے میں خلا ہو، آپ کے اعمال میں خلا ہو تو قانون قدرت ہے کہ خلا باقی نہیں رہا کرتا، اس خلا کو ضرور کوئی چیز بھرتی ہے.اگر نیکی نے نہیں بھرا تو بدی اس کو ضرور بھرے گی.اس لئے قرآن کریم جب یہ فرماتا ہے کہ اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ تو مراد یہ ہے کہ اپنے نفوس کا پہلے جائزہ لو.اگر برائیاں تم پر غالب آ رہی ہیں تو یقین کرو کہ تمہارے اندر حسنات موجود نہیں، یقین کرو کہ تمہیں و ہم ہے کہ تم اچھے ہو اور اپنی خلاؤں کو تلاش کرو اور ان خلاؤں کو نیکیوں سے بھرنے کی کوشش کرو.کیونکہ جو وجود نیکیوں سے بھر جاتے ہیں، ان پر کبھی بدی غالب نہیں آیا کرتی.جیسا کہ میں نے پہلے بھی جماعت کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حسنات ہی ہیں، جو پہلے بھی غالب آئیں تھیں اور آج بھی غالب آئیں گی.ان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، دنیا میں.اس لئے انہیں اپنائے بغیر ، ہتھیاروں سے لیس کئے بغیر میدان میں نکلنا اور پھر یہ خیال کر لینا کہ ہم اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو بچا سکیں گے، یہ درست خیال نہیں“.وو.پس ایسی قوم جو ہتھیاروں کے بغیر نکلے اور دنیا پر غالب آنے کے دعوے کرے، وہ حماقت میں تو مبتلا قرار دی جاسکتی ہے لیکن اس کے لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی دور کا بھی امکان ہے کہ یہ کبھی دنیا پر غالب آجائے گی.تو اس چھوٹی سی آیت نے ہمیں اپنی کمزوریوں کی طرف توجہ دلا دی.ہمیں یہ بتایا کہ ہمارا مقام کیا ہے؟ ہمیں یہ سکھایا کہ اگر ہم اپنی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے آپ کو بچائیں.جب تک ہم اپنے وجود کو نیکیوں سے نہیں بھرتے ، اس وقت تک آئندہ نسلوں کی حفاظت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.تو امر واقعہ یہ ہے کہ وہی لوگ ہیں، جن کی اولادیں ضائع ہوتی ہیں، جن کے اندر خلا ہیں، جو خود مادیت سے پہلے متاثر ہو چکے ہوتے ہیں.وہ خود اپنا سرخم کر چکے ہوتے ہیں، دنیا کے رعب کے سامنے.اور ان کی برائیوں کو بظاہر برائیاں سمجھتے ہوئے بھی، ان کی طرف ان کو جانے دیتے ہیں اور اس وقت تشویش محسوس نہیں کرتے.جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، جب ان کی عادات پختہ ہو جاتی ہیں، اس وقت ان کا کل نیکی کا جذ بہ اچانک جیسے ہوش آ جائے اس کو، اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اچھا اچھا! میری اولا د تو ضائع ہو رہی ہے، اس کو بچانے کی کوشش کی جائے.قرآن کریم بتاتا ہے کہ بچانے کی کوشش ہمیں اپنی ذات سے کرنی پڑے گی.اگر ہمارے دل نیکیوں سے بھرے ہوئے ہیں، اگر ہمارے اعمال حسین ہیں تو پھر نہ ہمیں خوف ہے ، نہ ہماری اولاد کو کوئی خوف.کیونکہ 787

Page 797

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم ایسی صورت میں ہم اپنی اولاد کو بھی صحیح معنوں میں نیک بنانے کی بچپن سے کوشش کر سکتے ہیں.اگر یہ نہیں ہے، اگر دنیا سے مرعوب ہیں تو پھر کوئی ایسی ترکیب کارگر نہیں ہوگی، جو میں آپ کو زبانی بتا سکوں.اب اس پہلو سے آپ اپنا جائزہ لیں ، اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں ، اپنی تمناؤں کے رخ دیکھیں کس طرف ہیں ؟ کن باتوں سے آپ کو خوشیاں ہوتی ہیں؟ کن باتوں سے دل لذتوں سے بھر جاتے ہیں؟ اگر وہ دنیا کی تعلیمات ہیں، جو بچے آپ کو بتاتے ہیں کہ ہم نے اس طرح حاصل کر لیں ، اتنے بڑے کارنامے حاصل کئے ، خاص، جو غیر معمولی ذہین گروپ ہیں، ان میں ہم داخل ہو گئے اور ان کی انگریزی سن کر آپ مرعوب ہو جاتے ہیں، ان کے اچھے نمبر دیکھ کر آپ مرعوب ہو جاتے ہیں اور کبھی آپ کو خیال نہیں آتا کہ بچپن سے ان کے اندر دین کی محبت پیدا نہیں ہو سکی ، قرآن کریم کی تلاوت اچھی نہیں کرتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر کی با تیں نہیں کرتے.اگر ان کے اندر بچپن ہی سے دین کی محبت کا جذبہ پیدا نہیں ہوا اور آپ فکرمند نہیں ہوتے ، غیر معمولی طور پر آپ غمگین نہیں ہو جاتے ، اداس نہیں ہو جاتے ، بے چین نہیں ہوتے ، اس بات کو محسوس کر کے شروع ہی سے دعائیں نہیں کرتے تو پھر آپ کے اندر خلا ہیں اور یہ خلا ایسے ہیں، جن کو بدیوں نے بہر حال بھرنا ہے.کیونکہ قانون قدرت ہے کہ کوئی جگہ خالی نہیں رہ سکتی.وہی خلا ہیں، جو بچوں میں بڑے ہو جایا کرتے ہیں.بعض اوقات انسان کو اپنے خلا دکھائی نہیں دیتے لیکن بچے کے آئینے میں وہ خلاد کھائی دینے لگتے ہیں.بچہ ماں باپ کی تصویر بنارہا ہوتا ہے اور ماں باپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچے کی شکلیں ہیں، جو ہم دیکھ رہے ہیں.ماں باپ کا اندرونہ بچوں میں منعکس ہورہا ہوتا ہے.ضروری نہیں کہ ہر حالت میں ایسا ہو مگر میں دنیا کے عمومی قوانین بتا رہا ہوں.عام طور پر قومی تاریخیں اس طرح بنتی اور بگڑا کرتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے ایک اور جگہ واضح طور پر یہ بیان فرمایا کہ وہ لوگ جو خدا کو یاد کرتے ہیں اور خدا کو یا در رکھتے ہیں، وہ نہیں بگڑا کرتے.ان کی اولادیں بگڑا کرتی ہیں، جو آہستہ آہستہ خدا کو یاد کرنا چھوڑ دیتے ہیں.لیکن ان کو پتا نہیں لگتا.اولاد کو خطرہ ہوتا ہے.اولاد میں جا کر وہ تصویر نمایاں ہو جاتی ہے.چنانچہ جو خدا کو یا درکھنے والے ہیں، ان پر تو غیر غالب نہیں آ سکتا.جو خدا کو یاد رکھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں، ان میں بھی بسا اوقات برائیاں نمایاں طور پر دکھائی نہیں دیتیں لیکن ان کی اگلی نسل اس پول کو کھول دیتی ہے اور ان کی کمزوریوں کے راز طشت از بام ہو جاتے.چنا نچہ قرآن کریم فرماتا ہے:.ط يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللهَ فَأَنْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أو لَبِكَ هُمُ الْفُسِقُوْنَ ) (الحشر : 19,20) 788

Page 798

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23اکتوبر 1987ء دیکھو، اپنی اولادوں کی فکر کرو.اگر تم یہ فکر نہیں کرو گے کہ کل کے لئے کل آئندہ زمانے کے لئے تم کیسے لوگ آگے بھیج رہے ہو تو تمہیں اس کا شدید نقصان پہنچے گا.اور تمہارے وہ اعمال، جن کے نتیجے میں آئندہ اولادیں خراب ہوں گی، وہ خدا کی نگاہ میں ہیں.یعنی تمہارے اعمال ہیں لیکن ان کا اثر اولا دوں کے اوپر ظاہر ہونے والا ہے.تمہیں دکھائی نہیں دے رہا وہ اثر لیکن آئندہ اولادیں ایسی ہیں، جن کے بارے میں تم پوچھے جاؤ گے.یہ ہے وہ بنیادی مضمون ، جس پر آپ غور کریں تو یہ مسئلہ آپ کو اور زیادہ وضاحت سے سمجھ آجائے گا.فرماتا ہے: خدا تمہارے اعمال سے واقف ہے، خوب باخبر ہے.اور اس طرز بیان میں زور اس بات پر دیا گیا ہے.گو یاتم باخبر نہیں ہو، مگر خدا باخبر ہے.تم بے خبر ہو اور خدا باخبر ہے.إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ تمہیں معلوم نہیں کہ تم کیا کر رہے ہو؟ لیکن اللہ خوب خبر رکھتا ہے.یہ ہے بنیادی بیان اور اس کے ساتھ ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ اپنی اولادوں کی فکر کرو.مراد یہ ہے کہ تمہارے بعض اعمال ایسے ہیں تمہیں علم ہی نہیں کہ ان کے کیا اثرات پیدا ہورہے ہیں؟ اور خدا جانتا ہے کہ ان کے اثرات تمہارے تک محدود نہیں رہیں گے، آئندہ نسلوں تک پھیلیں گے.اس لئے اسے تقویٰ اختیار کرنے والو! خوب خیال رکھو اور فکر کرو کہ آئندہ زمانوں کے لئے تم کیا بھیج رہے ہو.پس اس وضاحت کے ساتھ خوب معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم ایسے اعمال کی بات کر رہا ہے، جن کا اثر مستقبل پر پڑتا ہے.اور انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیسے اعمال ہیں لیکن خدا جانتا ہے کہ مستقبل پر وہ ضرور اثر دکھا ئیں گئے.اس لئے سب سے پہلی فکر اپنی کریں، اولاد کی باری تو بعد میں آئے گی.اگر آپ کے رجحانات درست ہیں، اگر آپ کا اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق ہے، اگر آپ خدا کو نہیں بھولے تو پھر آپ کے دل خدا کے نور سے بھرے رہیں گے اور ان پر بدی غالب نہیں آسکتی.خدا کا ذکر کرنے والی قوموں پر غیر اللہ کو غلبہ نصیب نہیں ہوسکتا.اس مضمون کو قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی بیان فرما رہی ہے.جہاں شیطان نے خدا تعالیٰ سے اجازت مانگی ہے کہ مجھے موقع دے قیامت تک کہ میں تیرے بندوں کو آزماؤں اور انہیں راہ راست سے بھٹکانے کی کوشش کروں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ٹھیک ہے، جو تیر از دور ہے لگا، اپنے لاؤ لشکر لے کر میرے بندوں پر چڑھا دے.لیکن میں تجھے یہ بتاتا ہوں کہ جو میرے بندے ہیں، ان پر تو غالب نہیں آ 789

Page 799

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم سکے گا.جو میرے ہو چکے ہیں، ان پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا.اس سے بھی پتا چلتاہے کہ حقیقی نیکی کے اوپر بدی غالب آہی نہیں سکتی.بلکہ حقیقی نیکی ہے، جو بدیوں کو ختم کرتی ہے.اس لئے اگر ہمارے اندر کمزوریاں اور خلا ہیں اور ہماری نیکیوں کے خول ہیں، جن کے اندررس کوئی نہیں، ان کے اندر حقیقت میں کوئی ٹھوس وجود نہیں ہے بلکہ چھلکے ہیں تو پھر ایسے چھلکوں کو تو بدیاں ضرور کھا جائیں گی.سب سے پہلے اپنے نفس کا جائزہ لینا ضروری ہے، اپنے ماحول کا جائزہ لینا ضروری ہے.میاں بیوی دونوں، جن کی اولاد ہے، جو فکر کرتے ہیں کہ اولاد کا کیا بنے گا؟ ان کو پہلے اپنی فکر کرنی چاہئے ، اپنے تعلقات پہلے اسلامی رنگ میں درست کرنے چاہئیں.اپنے ماحول کو درست کرنا چاہئے ، اپنے رجحانات کو درست رکھنا چاہئے.ہر بات میں دین کو فضیلت دینے کی عادت ڈالنی چاہئے.اگر سارا دن گھر کے ماحول میں دنیا کی لذتوں کی باتیں ہورہی ہوں، یہ ذکر چل رہے ہوں کہ فلاں کے پاس فلاں چیز آگئی ہے اور ہم نے یہ چیز بھی لینی ہے، اس طرح ہم مکان بنائیں گے، اس طرح ہم یہ کریں گے، اس طرح وہ کریں گے.اس طرح اولاد کو اچھی تعلیم دلوائیں گے اور وہ دنیا میں بڑے آدمی بنیں گے.اگر ذکر ہی یہ چلتے ہوں اور مقابلے ہوں آپس میں مادیت کے حصول کے لئے تو پھر یہ خیال کر لینا کہ ہماری اولا د نیک بھی رہے، بہت اچھی ہو، یہ خیال تو اچھا ہے مگر نتیجہ اس کا اچھا نہیں نکلا کرتا.اچھے نتائج کے لئے خیالات کے ساتھ ٹھوس حقائق کا شامل ہونا بھی ضرور ہوا کرتا ہے.پس اس پہلو سے سارے امریکہ کی جماعتوں اور کینیڈا کی جماعتوں کو جن تک یہ آواز پہنچتی ہے، خصوصیت کے ساتھ اور تمام عالم کی جماعت کو بالعموم اس قرآن کریم کے بیان فرمودہ سکتے کی طرف بہت گہری توجہ کرنی چاہئے.آپ حسنات پر قائم ہیں کہ نہیں؟ یہ پہلا سوال ہے.آپ کے دل واقعہ نیکی کی طرف مائل ہیں کہ نہیں؟ کیا آپ دین کو دنیا پر فضیلت دیتے ہیں یا نہیں دیتے ؟ اگر ان سوالات کے جوابات مثبت ہیں تو میں قرآن کی زبان میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی اولاد میں ضائع نہیں ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ.سوائے اس کے کہ بعض دوسری حماقتیں اور کمزوریاں آڑے آجائیں اور وہ بد قسمتی کے ساتھ اولاد پر بداثرات ڈال دیں.بعض دفعہ لوگ نیک بھی ہوتے ہیں، خوبیوں سے مزین ہوتے ہیں لیکن خبر دار نہیں ہوتے.چنانچہ قرآن کریم نے خبر دار رہنے کی طرف بھی بار بار ہمیں توجہ دلائی ہے.اس وجہ سے بعض نیکوں کی اولادیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں.وہ خود نیک ہوتے ہیں مثلاً ماں بھی ، باپ بھی دونوں نیکیوں سے بھرے ہوتے ہیں، نمازیں پڑھ رہے ہیں، خدا کو یاد کرتے ہیں لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ 790

Page 800

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 اکتوبر 1987ء بھی کافی نہیں.تمہیں باخبر رہنا پڑے گا، ہوش مند رہنا پڑے گا کہ دیکھو کہ تمہاری اولاد کدھر جارہی ہے؟ اگر سچی نیکیاں ہوں اور ہوش مندی ساتھ شامل ہو جائے ، اگر اولاد کی طرف گہری فکر والی توجہ بھی پیدا ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ اولادیں ضائع نہیں ہوا کرتیں.جو کمزوریاں ان معاشروں میں ہیں، وہ کمزوریاں میری نظر کے سامنے ہیں.میں ان سے خوب واقف ہوں.لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایسے سینکڑوں احمدی خاندان ہیں، جو انہی کمزور ماحولوں میں پل رہے ہیں اور ان کو کوئی خطرہ نہیں.ان کے بچے بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ صحیح خطوط پر جوان ہور ہے ہیں، وہ خود بھی اپنے آپ کو نہ صرف محفوظ سمجھتے ہیں بلکہ ارد گرد اپنے ماحول پر نیک اثرات مرتب کرتے چلے جارہے ہیں.پس وہ قرآن کریم کی اس آیت کی سچائی کا زندہ ثبوت ہیں اور باقیوں کے لئے وہ روشنی کا مینار ہیں.امیدیں ان سے وابستہ ہیں.کیونکہ اگر ایسا بعض خاندانوں میں ممکن ہے تو باقی خاندانوں میں کیوں ممکن نہیں.اس لئے سب سے پہلے تو اس احساس کمتری کو دور کریں کہ آپ گو یا بدیوں سے خوف کھا سکتے ہیں یا بدیاں آپ پر غالب آسکتی ہیں.قرآن کریم خبر دیتا ہے کہ ہرگز ایسا نہیں ہوگا.تم نیکیوں پر قائم رہو تو بدیاں تم سے بھاگیں گی تمہیں بدیوں سے بھاگنے کی ضرورت نہیں.پس وہ لوگ، جو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم اولاد کی خاطر ملک کو چھوڑ جائیں؟ ان کو میں یہی جواب دیتا ہوں کہ اگر آپ اتنے کمزور ہیں کہ آپ بچ نہیں سکتے تو پھر بہتر یہی ہے کہ دنیا چھوڑیں اور دین کو فضیلت دیں، بھاگ جائیں یہاں سے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھا گنا ویسے زیب دیتا نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ساری دنیا کی تقدیر بدلنی ہے اور اپنے غلاموں کے ذریعے بدلنی ہے.ان کے ذریعے بدلنی ہے، جو آپ کے پیچھے چلنے والے، آپ سے محبت کرنے والے، آپ کی سنت کو زندہ کرنے والے ہیں.اگر وہی میدان چھوڑ کے بھاگنے لگیں تو پھر دنیا کی تقدیر کون بدلے گا ؟ کہاں سے وہ لوگ آئیں گے؟ آسمان سے ایسی باتوں کے لئے فرشتے تو نازل نہیں ہوا کرتے.زمین فرشتے اگا یا کرتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے آج بھی ایسے فرشتے دنیا میں پیدا ہو سکتے ہیں، ہورہے ہیں اور یقین ہے کہ آئندہ بھی انشاء اللہ ہوتے رہیں گے.تو اپنے اندر پہلے احساس پیدا کریں مضبوطی کا، قوت کا.واضح طور پر یہ بات سمجھ لیں کہ آپ مغلوب ہونے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے، غالب آنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.شرط یہ ہے کہ قرآن کریم سے غالب آنے کے راز سیکھ لیں.شرط یہ ہے کہ اس فلسفے کو خوب اچھی طرح جان جائیں کہ خلا سے 791

Page 801

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم دنی فتح نہیں ہوا کرتی ٹھوس باتوں سے دنیا فتح ہوا کرتی ہے.پس اپنی نیکیوں کو یا اپنے نیک تصورات کو نیک اعمال کی صورت میں ڈھالیں.اپنے خلاؤں کا جائزہ لیتے رہیں.انہیں بھرنے کی کوشش کریں اور اس کے نتیجے میں آپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کی اولاد بھی ماحول سے خطرہ محسوس کرنے کی بجائے ماحول پر غالب آنے لگے گی.یہ تو ایک عمومی بات ہے.سوال یہ ہے خلا بھر نے کیسے ہیں؟ قرآن کریم کا مطالعہ کریں تو یہ بات صاف نظر آجاتی ہے کہ ہر وقت انسان کو اپنا نگران رہنا پڑتا ہے، ہر وقت متلاشی رہنا پڑتا ہے.اور حقیقت میں تقویٰ کا مضمون اس چیز سے بڑا گہرا تعلق رکھتا ہے.تقویٰ کا ایک معنی ہے، خوف کا.اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.خوف کس بات کا؟ اللہ سے تو خوف نہیں کھایا جاتا.ان معنوں میں اللہ وہ ڈرنے والی چیز تو نہیں.وہ تو پیارا وجود ہے، اسے تو اپنایا جاتا ہے.ہر وقت اس کی باتیں ہوتی ہیں.جس کا خوف ہو انسان ہر وقت اس کا ذکر تو نہیں کرتا رہتا.اس لئے جب آپ تقوی کے مضمون کو سمجھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو نیکیاں پیدا کرنے کا مضمون بھی خود بخود سمجھ آ جائے گا.جس چیز سے آدمی ڈرے بھوت ہے یا بچے بھوتوں سے ڈرتے ہیں یا چڑیلوں کے نام سے خوف کھاتے ہیں.جتنا آپ ان کا ذکر کریں گے، اتنا ہی ان کی چینیں نکلیں گی ڈر کے مارے کہ یہ کیا کر رہے ہو.اس لئے کبھی آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بھوتوں اور چڑیلوں سے خوف کھاؤ اور ہر وقت بھوتوں اور چڑیلوں کا ذکر کرتے رہو.جس چیز سے آدمی ڈرتا ہے، اس سے بھاگتا ہے، اس کے نام سے بھی بھاگتا ہے.پس جو بھی مطلب ہے، تقویٰ کا یہ مطلب بہر حال نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اللہ تعالیٰ کو بلا سمجھو اور مصیبت جانو.پھر تقویٰ کا کیا مطلب ہے؟ تقویٰ کا اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ سے ایسا پیار کرو کہ ہمیشہ یہ خوف دامن گیر رہ جائے کہ کہیں خدا ہمیں چھوڑ نہ دے.کہیں مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جائے کہ خدا کے ہم سے تعلق میں کمی آجائے.یہ خوف ہے.یہ خوف نہیں کہ خدا ہمارے قریب نہ آجائے کہیں ، نعوذ بالله من ذالک.پس تقویٰ کا مضمون جب آپ سمجھیں تو خوف خدا کا مطلب ہی اس سے محبت ہے.اصل میں جس شخص سے محبت زیادہ ہو جائے ، اس کے بارے میں یہ خوف ضرور دل میں دامن گیر ہوتا ہے.ہر وقت آدمی وہموں میں مبتلا رہتا ہے کہ میرا محبوب مجھ سے ناراض نہ ہو گیا ہو.فرضی باتوں پر بھی و ہم پیدا ہو جاتے ہیں دل میں.چنانچہ فارسی میں محاورہ ہے: عشق است و ہزار بدگمانی ایک عشق اور ہزار بدگمانیاں.بدگمانیاں ان معنوں میں کہ او ہو کہیں فلاں وقت جو مجھے نہیں دیکھا پوری طرح کہیں وہ ناراض تو نہیں تھا.فلاں وقت اس نے یہ بات کی، کہیں یہ مراد تو نہیں کہ مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو.792

Page 802

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1987ء تو اگر اسی مضمون کو آگے بڑھا کر خدا کی طرف لے جائیں تو پھر آپ کو محسوس ہوگا کہ تقویٰ والوں کی زندگی کیسے بسر ہوتی ہے.اور ہر وقت ، ہر حالت میں ان کو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ میرا محبوب مجھ سے ناراض نہ ہو جائے کہیں یا نا راض نہ ہو گیا ہو.وو یہ ہے تقویٰ اور اس کے نتیجے میں نیکیاں حاصل ہوتی ہیں.پس ایک شخص اگر خدا تعالیٰ کے متعلق ہمیشہ یہ باتیں سوچتا ہے کہ وہ مجھ سے ناراض نہ ہو کسی طرح، آج میں نے کوئی ایسی بات تو نہیں کی ، جس سے ناراض ہو گیا ہو.کل تو نہیں مجھ سے ایسی بات ہوئی تھی، جس سے اس کے تعلق میں کمی محسوس ہوئی ہو.یا اس کے مقابل پر پھر یہ محسوس کرے کہ خدا نے کب، کس طرح مجھ سے پیار کا اظہار کیا ہے اور اب کمی کیوں آتی ہے، اگر کمی ہے.یہ وہ خلا ہیں، آپ کے احساس کے ، ان کو پہلے بھر ہیں.اگر آپ غفلت کی حالت میں زندگی گزار ہے ہیں تو آپ کی ساری زندگی خالی ہے.وو....ان معنوں میں خدا کو یا درکھیں کہ ہمیشہ دلوں پر غالب رہے، ہمیشہ ذہنوں پر غالب رہے، ذہن بار بار اس کی طرف پرواز کرنا شروع کر دیں، عادت پڑ جائے کہ دل کی ہر حرکت اس کی طرف مائل ہونے لگ جائے.حنیفاً مسلماً ہو جائیں.اللہ کی طرف جھکاؤ کی طبیعت پیدا ہو جائے.تو پھر اس کے نتیجے میں آپ کو خلا بھی دکھائی دیں گے اور ان کو بھرنے کا طریقہ بھی معلوم ہو جائے گا.ورنہ ایک خطبہ میں کیا، سینکڑوں خطبوں میں بھی میں ان تمام امکانی خلاؤں کا ذکر کر نہیں کر سکتا.ہر انسان کی کیفیت مختلف ہے، ہر انسان کی کمزوریاں مختلف ہیں، ہر انسان کی خوبیاں مختلف ہیں اور معاشرے کا اس پر اثر مختلف رنگ میں پڑتا ہے، اس کے مزاج کا اثر پڑتا ہے.اس لئے سوائے اس نسخہ کے اور کوئی نسخہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ ان معنوں میں اللہ کا تقویٰ اختیار کریں.جن کا میں آپ کو بتا رہا ہوں، جو میں نے قرآن سے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے کہ ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہے آپ کے ساتھ کہ خدا پتا نہیں کیا مجھے سے پیار کر رہا ہے یا نہیں کر رہا؟ اس کا تعلق ہے یا نہیں ہے؟ جب یہ فکر کریں گے تو آپ کا تعلق خود بخود بڑھنے لگے گا.آہستہ آہستہ اس مضمون میں آپ کو مزہ آنا شروع ہو جائے گا.آہستہ آہستہ مستقل آپ کے ساتھ ایک اصلاح کا ذریعہ ایسا چمٹ جائے گا کہ وہ کسی حالت میں آپ کو چھوڑے گا نہیں.دن رات، سوتے جاگتے رفتہ رفتہ یہ خیال غالب آنا شروع ہو جائے گا.پس اس خیال کے ساتھ آپ اپنی اصلاح کا سفر شروع کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کا کوئی معاشرہ کبھی آپ پر غالب نہیں آسکتا.ممکن ہی نہیں ہے کہ خدا سے پیار کرنے والوں، خدا کا ذکر کرنے والوں ، خدا کی محبت کے ضائع ہونے کے خوف 793

Page 803

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 123 اکتوبر 1987 ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد ہفتم میں ہر دم مرتے رہنے والوں پر کوئی دنیا کا معاشرہ غالب آ سکے.جب یہ تعلق آپ کا قائم ہو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تو یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ بچپن ہی سے خدا کا ذکر نہ کریں.جن لوگوں کے اوپر خدا کا خیال غالب رہتا ہے، وہ لازماً بچپن سے اپنے بچوں سے ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں اور بچپن سے ہی ان کو خدا کے پیار کی باتیں سکھاتے رہتے ہیں.چنانچہ احمدیت میں تو یہ عام بات ہے.اور بہت سے ایسے خاندان، جن سے میری ملاقات ہوتی ہے سفروں کے دوران ان کے بچوں سے میں فوراً پہچان جاتا ہوں کہ ماں باپ کیسے ہوں گے ؟ بعض بچے ہیں، جو شروع ہی سے ان کی اداؤں سے پتا چلتا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے پیار ہے اور باتیں بھی اللہ تعالیٰ کی کرتے ہیں.اپنے اپنے رنگ میں غلطیاں بھی کرتے ہیں نا کبھی میں بعض دفعہ غلط تصورات پیش کر دیتے ہیں، جن کی اصلاح کر دی جاتی ہے.لیکن اس سے ایک بات جو قطعی طور پر ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے ماں باپ نے ضرور بچپن سے ہی ان کے دل میں خدا کا پیار پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.ی وہ ایک ترکیب ہے، جو ہر دوسری ترکیب سے زیادہ وزن رکھتی ہے.آپ کا پیار خدا سے ضرور منعکس ہوگا آپ کے بچوں کے دلوں میں.اور پھر ہر اس چیز سے آپ خوف کھائیں گے، جو آپ کے بچوں کو خدا سے دور لے جانے والی ہو.اور آپ کے بچے آپ کی زندگی میں دیکھیں گے اس خوف کو.آپ کے چہرے پر ان کی برائی کا غم ظاہر ہوگا.یہ بات یاد رکھیں کہ چھوٹی عمر کے بچوں پر آپ جتنا بھی بوجھ ڈال دیں، بچے اتنا ہی بوجھ اٹھا لیتے ہیں.جو لوگ بچوں پر رحم کرتے رہیں کہ نہیں! ہم اتنا بوجھ نہیں ڈالیں گے بعد میں سکھائیں گے تو بچے اس سے پہلے سیکھ چکے ہوتے ہیں.اس عمر کے بعد بہت کم مزید سیکھنے کی اہلیت ان میں باقی رہتی ہے.اس لئے شروع میں اہل زبان نے تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ چھ چھ ، سات سات زبا نہیں فر فر بچے بولتے ہیں اور بالکل ساری زبانیں مادری زبان کی طرح بولتے ہیں.کیونکہ ان کے ماں باپ نے شروع سے ہی ان پر بوجھ ڈال دیا.اس لئے بچوں کی فراست سے آپ خوف بھی کھا سکتے ہیں، ان سے امیدیں بھی وابستہ کر سکتے ہیں.ماں باپ کے دلوں کی کمزوریاں، ماں باپ کے دلوں کی برائیاں بچے اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں ان کے چہرے بشرے میں پڑھ لیا کرتے ہیں.ان کی دلی کیفیات کیا ہیں؟ ان کی دلی تمنائیں کیا ہیں؟ یہ بچوں سے اوجھل نہیں رہا کر تیں.اس طرح ماں باپ کی خوبیاں بھی اور یہ بات کہ ماں باپ کا دل کس چیز میں انکا ہوا ہے، بچے بخوبی جانتے ہیں شروع سے اور اسی کے مطابق وہ پرورش پانے لگتے ہیں.اس لئے 794

Page 804

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد ہفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 اکتوبر 1987ء اگر ہمیشہ آپ کے دل میں خدا کا تعلق غالب رہے، ہمیشہ آپ کے دل میں یہ گمان رہے کہ کہیں خدانخواسته، یعنی ہم خدانخواستہ محاورہ کہتے ہیں، یہاں اس طرح چسپاں نہیں ہوتا مگر یہ وہم رہے کہ ایسا نہ ہو کہیں کہ اللہ تعالی مجھے سے ناراض ہو گیا ہو.اور ایسا نہ ہو کہ میں نے آج ایسے اعمال کئے ہوں، جن کو خدا نے پیار سے نہ دیکھا ہو اور ایسے اعمال سے محروم رہ گیا ہوں، جن کو خدا پیار سے دیکھتا ہے.اس تفصیل کے ساتھ اگر روزمرہ آپ اپنا جائزہ لینا شروع کریں اور یہ ذہن میں ایک لگن لگالیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے بچوں کے اوپر بھی اس کا پر تو پڑنا شروع ہو جائے گا.اور خود بخود یہ قانون قدرت کے طور پر ان کے اوپر خدا کی محبت غالب آنے لگ جائے گی.یہ ایک نسل کا تجربہ نہیں، سینکڑوں نسلوں کے تجربے ہیں.ہمیشہ یہ طریق کار گر ثابت ہوا ہے.پہلے بھی ، آج بھی اور آئندہ بھی کار گر رہے گا.اس لئے اس پہلو سے اپنا جائزہ لیں.اور جب میں کہتا ہوں کہ خدا سے پیار کر لیا کریں.اس کا ذہن میں ہر وقت تصویر ہے تو بظاہر یہ عام بات ہے، معمولی سی بات دکھائی دیتی ہے.آپ سب کہتے ہوں گے کہ ٹھیک ہے جی ! بڑا آسان طریقہ مل گیا ہے.اللہ تعالیٰ کو یاد کر لیا کریں گے.لیکن اللہ تعالیٰ کو اس تقویٰ کی اس تعریف کے ساتھ یاد کرنا اتنا آسان نہیں، جتنا آپ سمجھ رہے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر یاد کے ساتھ کچھ تقاضے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ان تقاضوں کو جب آپ نظر انداز کر دیتے ہیں تو یا د مٹ جاتی ہے، وہ کالعدم ہو جاتی ہے.اگر آپ کو بھوک لگی ہے اور آپ کچھ کھانا کھاتے ہیں لیکن کھانے کے لئے آپ کو پیش کیا جائے اور آپ نہیں کھاتے تو وہ بھوک بے معنی ہو جاتی ہے.اگر آپ پیاس کا دعوی کرتے ہیں اور پانی آپ کو مہیا کر دیا جاتا ہے یا آپ کی پسند کا شربت پیش کر دیا جاتا ہے اور آپ نہیں پیتے تو آپ اس پیاس کو کالعدم کر دیتے ہیں.یاوہ پیاس جھوٹی تھی یا پھر آپ عقل نہیں رکھتے کہ وہ پیاس بجھانے کا سامان بھی پیدا ہوا اور آپ نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا.تو اس طرح خدا کی یاد کے ہرلمحہ تقاضے ہوں گے، خدا کے پیار کے نتیجے میں ہر لمحہ مطالبے شروع ہو جائیں گے.اچھا! تم مجھے یاد کرتے ہو، تم مجھ سے پیار کرتے ہو تو پھر یہ بھی کرو، پھر وہ بھی کرو اور ہر دفعہ جب یہ بھی کرو اور وہ بھی کرو کی آواز میں اٹھیں گی ، اس پیار سے تو ہر دفعہ آپ محسوس کریں گے کہ نہ میں یہ کرنے کا اہل ہوں، نہ میں وہ کرنے کا اہل.اس وقت آپ کو پتا چلے گا کہ آپ کی محبت ایک رومانی محبت تھی، ایک افسانوی قصہ تھا، جس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے.پھر ایک اور خوف دامن گیر ہو جائے گا.اور وہ خوف یہ ہے کہ میں جو فرضی طور پر خدا سے پیار کے دعوے کرتا رہا ہوں، یہ تو اور بھی زیادہ گناہ ہے.میں تو اپنی زندگی سے راضی ہو گیا ہوں.میری حالت کیسی ہے؟ میں کیسے اسے تبدیل کروں؟ چنانچہ ایک ایسا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں جب * 795

Page 805

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم انسان اپنے تصور کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے.اس کی زندگی پر ایک لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سے عشق سوئے ہوئے بیدار ہونے لگتے ہیں.جس طرح بارش کے ساتھ ، برسات کے ساتھ زندگی کی کئی قسمیں اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اچانک یوں لگتا ہے کہ ساری دنیا جاگ اٹھی ہے، اسی طرح انسان کے اندر بھی بے شمار دنیا ئیں ہیں، جو سوئی پڑی ہیں.ان کو خدا کا خوف بیدار کرتا ہے.اور جس طرح میں آپ کو بتارہا ہوں، ان مراحل سے آپ گزریں گے تو پھر آپ محسوس کریں گے کہ یہ کیا واقعہ ہے؟ اس کے بغیر آپ اس کو نہیں سمجھ سکتے.جب خدا کے پیار کے ذکر کے ساتھ مطالبے پیدا ہوں گے اور آپ اپنے آپ کو نا اہل پائیں گے، پھر آپ کے اندر کئی قسم کے خوف اور بیدار ہونے شروع ہو جائیں گے.ایک ہلچل مچ جائے گی.پھر آپ کو محسوس ہوگا کہ کتنے امور ایسے ہیں، جن کی طرف آپ کو توجہ کرنی چاہئے تھی، آپ نہیں کر سکے.ایک ایسے رستے پر آپ چل پڑیں گے، جو روحانی انقلاب کا رستہ ہے.تب آپ کو محسوس ہو گا کہ دراصل تو دامن خالی ہی خالی تھا اور یہ جو میں کہتا ہوں تو یہ مضمون اتنا وسیع مضمون ہے کہ اس کی گہرائی اور اس کی وسعت کو آپ میرے اس کہنے سے سمجھ ہی نہیں سکتے.وہ صاحب فراست لوگ، وہ صاحب فہم اور صاحب معرفت لوگ، جنہوں نے اس رنگ میں خدا کو پانے کی کوشش کی ہے اور اپنے خلاؤں کو بھرنے کی کوشش کی ہے، وہ بسا اوقات ساری عمر کے سفر کے بعد بھی اپنے آپ کو خالی دیکھتے ہیں.اور کچی معرفت کا یہی تقاضا ہے.یہی ہونا چاہئے.کیونکہ خدا کی عظمتوں سے ایک انسان اپنے آپ کو پوری طرح بھر سکتا ہی نہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ ایسا لامتناہی مضمون ہے کہ انسان کے اندر مزید کی طلب پیدا ہو جاتی ہے اور انسان جتنی ترقی کرتا چلا جاتا ہے، اتنی اپنی کمزوریوں کی طرف اس کی نگاہ وو اور زیادہ کثرت کے ساتھ پڑنے لگتی ہے اور زیادہ کمزوریاں دریافت کرنے لگتا ہے.اس لئے یہ سفرتو لامتناہی سفر ہے.خلا بھرتے رہیں گے اور نئے خلا پیدا ہوتے رہیں گے.لیکن جو خلا خدا کے حسن اور پیار سے بھر رہے ہوں، ان پر دنیا کی کوئی بدی غالب نہیں آسکتی.یہ مضمون ہے، جس کے اوپر آپ کو کامل یقین رکھنا.خدا ہی ہے پھر جو ان خلاؤں کو بھر سکتا ہے.کیونکہ آپ کی تمنائیں اس کی طرف ہو جاتی ہیں.آپ کی توجہ اس کی طرف پھر جاتی ہے اور باقی ساری دنیا اس کے مقابل پر بے معنی ہو کر دکھائی دینے لگتی ہے.اس طرح آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس سے دعائیں کرتے ہوئے امریکہ ہو یا روس ہو یاد نیا کا کوئی خطہ ہو، وہاں زندگی بسر کریں، آپ کے اندر ایک حیرت انگیز عظمت کا احساس بیدار ہوگا.جو اس کامل انکسار کا ایک طبعی نتیجہ ہے.کامل انکسار کے نتیجے میں ایک ایسی عظمت نصیب ہوتی ہے، جو خدا کے 796

Page 806

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 اکتوبر 1987ء فضل کے نتیجے میں نصیب ہوتی ہے.انسان کو قوت محسوس ہوتی ہے، وہ جانتا ہے کہ وہ غالب آنے والا ہے، وہ جانتا ہے کہ وہ قوی ہے اور ہو نہیں سکتا کہ غیر اللہ بھی اس کے اوپر غالب آسکے.تو یہ خوف سارے خود بخود مٹ جائیں گے، ان کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہے گی.آپ کے بچے بھی آپ سے بچپن ہی میں سے یه عظمت کر دار حاصل کریں گے، اس سوسائٹی میں سر اٹھا کر چلنے والے بنیں گے.پس اس رنگ میں اگر آپ یہاں جینا سیکھ سکتے ہیں اور اس رنگ میں جینے کے لئے خدا سے دعائیں مانگنا چاہتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں تو پھر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو کوئی خطرہ نہیں.نہ آپ کو خطرہ ہے، نہ آپ کی اولادوں کو خطرہ ہے.اور آپ کی اولادوں کو بھی تبھی خطرہ ہوگا ، جب پہلے آپ کو خطرہ ہوگا.پہلے اپنے خطرات کا مقابلہ کریں کامیابی کے ساتھ اور پھر اپنی اولاد کی طرف خبرداری کے ساتھ ، ہوشیار نگاہیں ڈالیں اور جس طرح قرآن کریم نے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے، اپنی نیکیوں کے ساتھ اولاد پر نظر کرتے ہوئے، خدا پر توکل کرتے ہوئے ، آگے بڑھیں.خدا کا یہ کلام یقینا سچا ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار یقینا غالب ہے.اس لئے اپنے خلاؤں کو محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے بھرنا شروع کریں اور یقین رکھیں کہ آپ ہی ہیں، جو دنیا پر غالب آئیں گے.اور آپ کے نتیجے میں دنیا کی تقدیر بدلے گی ، دنیا آپ کو کی تقدیر نہیں بدل سکتی.اتنی ضرورت ہے اس ملک کو آپ کی کہ جب میں یہ سنتا ہوں تو مجھے ایک اور غم لگ جاتا ہے.یہ تو اسلام کے سفیر تھے، جن سے میں یہ باتیں سنتا ہوں.یہ تو اس لئے گئے تھے، ان ملکوں میں کہ ان ملکوں کے حالات بدلیں اور ان کی خرابیوں کو دور کریں.یہ کیسے سفیر ہیں، جو یہ خوف کھا رہے ہیں کہ ان کی برائیاں ان پر غالب نہ آجائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والا انسان اور یہ فکر اس کو دامن گیر ہو کہ غیر اس پر غالب نہ آجائیں، ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں، آپ کو.یہ چھوٹی اور کمینی باتیں ہیں.آپ بہت عظیم باتوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.آپ محسوس تو کریں کہ آپ ہیں کون؟ ان معنوں میں انکسار کی شرط کے ساتھ اپنی اس عظمت کو سمجھیں کہ آپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو رہے ہیں اور آپ کو ساری دنیا پر غالب آنے کے لئے پیدا کیا ہے.پہلے دور میں آپ کو یہ کر کے دکھا دیا ہے، دوسرے دور میں آپ نے اس بات کو سچا ثابت کر کے دکھانا ہے.پس دعا کر کے ہمت کے ساتھ نیکیوں کا سفر اختیار کریں.میری بھی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور ہم سب کی دعائیں مل کر میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ خدا کی حفاظت کی فصیل ہمارے ارد گرد کھڑی کر دیں گی ، جن کے اوپر کسی دشمن کو غالب آنے کی توفیق نہیں مل سکے گی.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 704683) 797

Page 807

Page 808

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1987ء تحریک جدید حضرت مصلح موعودؓ نے خدا تعالیٰ کے القاء کے نتیجے میں شروع کی خطبہ جمعہ فرمودہ 30اکتوبر 1987ء تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے ، کم ہے.یہ ایک ایسا محاورہ ہے، جو عموماً خاص مواقع پر ، استعمال کیا جاتا ہے.جیسے آج کا دن جبکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اس کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اس مسجد میں، جو پورٹ لینڈ میں ہی تعمیر ہونے والی پہلی مسجد نہیں بلکہ سارے امریکہ کے مغربی ساحل میں مجھے بتایا گیا ہے، یہ وہ پہلی مسجد ہے، جو اس ابتداء سے اسی غرض سے تعمیر کی گئی کہ خدا کے لئے ایک عبادت گاہ کے طور پر بنائی جائے گی اور آخر تک مسجد ہی کی غرض سے تعمیر ہوئی اور مکمل ہوئی.تو یہ چونکہ سارے مغربی امریکہ کے ساحل کے ساتھ بنائی جانے والی پہلی مسجد ہے.اس لحاظ سے یہ دن ہمارے لئے غیر معمولی خوشی کا دن اور غیر معمولی تشکر کا دن بنتا ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ محاورہ صرف چند مواقع کے لئے نہیں بلکہ زندگی کے ہر لمحہ پر چسپاں ہونے والا محاورہ ہونا چاہئے.کیونکہ اگر آپ بنظر غائر دیکھیں، تدبر کریں اپنی زندگی کے حالات پر اور زندگی کا لمحہ لمحہ جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے.اس کے پس منظر پر غور کریں تو خدا کا شکر کسی پہلو سے، زندگی کے کسی لمحہ میں بھی ادا ہو ہی نہیں سکتا.صرف فرق یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر ایک قسم کی غفلت کی نگاہ سے اپنے گردو پیش کو دیکھتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں.اور ہم میں سے اکثر اس بات سے بھی بے خبر رہتے ہیں کہ ان کی زندگی کی تعمیر میں قانون قدرت نے کتنی لمبی اور کتنی وسیع تیاری کی تھی.اور کتنا عظیم چند سویا چند ہزار سال کا احسان نہیں بلکہ لاکھوں، کروڑوں اربوں سال کا احسان ہے، کائنات کے بنانے والے کا، جو ہماری زندگی کے بعد لھوں کی تعمیر کے لئے ایک منصوبے کی صورت میں ہم سے پہلے کھولا گیا تھا.بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ہم میں سے اکثر بد قسمتی سے غفلت کی حالت میں رہتے ہیں، غفلت کی حالت میں زندگی گزار دیتے ہیں.اس لئے ہم ایک دوسرے سے معاملات میں تو شکریہ کے جذبات نمایاں طور پر پاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے معاملات کے وقت غیر معمولی احسانات کو بھول جاتے ہیں.چند ایسے بزرگوں کے واقعات ہمیں ملتے ہیں، جن کی 799

Page 809

خطبہ جمعہ فرمودہ 30اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم عادت تھی کہ وہ ہر بات کی تہہ میں ڈوب کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کرتے تھے.چند ایسے بزرگوں کے واقعات جب میں کہتا ہوں تو مراد یہ نہیں کہ اسلام میں صرف چند ایسے بزرگ ہی پیدا ہوئے ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ چند ایسے بزرگوں کے واقعات ہم تک پہنچے ہیں.ورنہ لاکھوں ایسے خدا کے بندے اسلام میں پیدا ہوئے ہوں گے، جن کی زندگیاں تشکر کے لئے وقف تھیں.لیکن ان کے واقعات تاریخ میں ریکارڈ نہیں ہو سکے.اور جن کی عادت اپنے دلی جذبات کو اس حد تک چھپانے کی تھی کہ وہ واقعات ریکارڈ کرنے کے لئے کوئی تیار بھی ہوتا تو اسے مہیا نہ ہوتے.ایک واقعہ ان میں سے یہ ہے کہ ایک شخص ایک بزرگ کی خدمت میں مٹھائی کا ٹوکرا لے کر آیا ، جس میں بہت سے لڈو تھے.اور ان کے ساتھ بہت سے شاگر د بھی بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے وہ لڈو اپنے شاگردوں میں تقسیم کر دیئے اور ایک لڈو خود اٹھالیا.اور شاگرد تو ایک سے زیادہ لڈو کھا کر بہت دیر پہلے فارغ ہو گئے لیکن وہ بزرگ اس میں سے ایک ایک دانہ منہ میں ڈالتے تھے اور کچھ سوچتے رہتے تھے اور اسے چہاتے رہتے تھے.یہاں تک کہ جب انتظار میں دیر ہوگئی تو ایک شاگرد نے ادب سے پوچھا کہ آپ نے تو ابھی ایک معمولی حصہ بھی لڈو کا نہیں کھایا جبکہ ہم مدت سے فارغ ہو چکے ہیں، کیا بات ہے؟ کوئی خاص پریشانی کی بات تو نہیں؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب میں نے پہلا دانہ منہ میں ڈالا تو مجھے خیال آیا کہ بظاہر یہ صرف ایک حلوائی کی کوشش کا نتیجہ ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے قوانین اور ان قوانین کے تابع بہت سے کام کرنے والے اس لڈو کی تعمیر میں اس سے بہت پہلے حصہ لے چکے ہیں.اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ مجھ تک جو خدا تعالیٰ نے یہ لڈو پہنچایا، اس سے پہلے کتنے خدا تعالیٰ کے احسانات ہیں، جنہوں نے مجتمع ہو کر اس لڑو کی شکل اختیار کی.انہوں نے کہا: میں نے سوچا کہ ایک وقت ایک زمیندار گنے کا بیج لے کر نکلا ہو گا، پتا نہیں کس موسم میں ، کس تلخی کے ساتھ وہ کھیتوں تک پہنچا.اور اس سے پہلے اس نے کھیت کی تیاری میں بھی بہت محنت صرف کی ہوگی.پھر اس نے گنے کی قلمیں اس کھیت میں کاشت کیں.پھر سارا سال ان کی حفاظت کی ، ان کو پانی دیا ، ان کی کھاد کا خیال رکھا، چوروں اچکوں سے ان کو بچایا، پھر وہ وقت آیا کہ اس کا کھیت ہرا بھرا ہو کر جوان ہوا اور اس قابل ہوا کہ اس کو شکر میں تبدیل کر لیا جائے.پھر اس نے وہ آلات خریدے، جن کے ذریعہ گنے کا رس نچوڑا جاتا ہے.اس نے کہا: یہاں تک پہنچتے ہی میرا ذہن اس طرف چلا گیا کہ جن سے وہ آلات خریدے، ان آلات کی بھی تو ایک داستان ہے.وہ لو با کسی زمانے میں زمین میں دبا ہوا تھا، جس نے اس آلے کا جز بننا تھا.جس سے پھر 800

Page 810

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک گنے کا رس نچوڑا جانا تھا.کس طرح خدا تعالیٰ نے انسان کو توفیق بخشی کہ وہ اس بات کو دریافت کرے کہ لوہا اس کے لئے مفید ہے.پھر اسے اس فن میں ترقی دی.سینکڑوں نسلیں اس کام میں لگی ہیں، یہاں تک کہ ترقی کرتے کرتے رفتہ رفتہ انسان اس قابل ہوا کہ ایسی مشین بنا سکے.پھر وہ کون لوگ تھے، جنہوں نے یہ مشین بنائی.اور بالآخر جب یہ مشین تیار ہوئی تو اس زمیندار تک پھر یہ پہنچی.کیسے پہنچی ؟ اس کی بھی ایک داستان ہے.غرضیکہ وہ بتاتے رہے کہ جوں جوں میں غور کرتا چلا گیا اور شاخیں تصور کی پھوٹتی رہیں، جن پر میراتصور سفر کرتا رہا.اور یہ اتنا معاملہ حد سے زیادہ پھیل گیا اور وسیع ہو گیا کہ کئی سفر کرنے کے باوجود بھی میں اب تک ان تمام مراحل پر غور نہیں کر سکا، جن مراحل سے گزرنے کے بعد یہ لڈو بالآخر اس شکل میں مجھ تک پہنچا ہے.اور شروع سے آخر تک خدا تعالیٰ کا مقصد یہ تھا کہ یہ نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی جائیں اور انسان شکر گزار بندہ بنے.اور قرآن کریم میں واقعہ یہی ذکر ملتا ہے کہ ہم نے تمام کائنات کو انسان کے لئے مسخر کیا ہے.ایک لامتناہی سلسلہ ہے، احسانات کا جو جتنا غور کریں، اتنا کم ہونے کی بجائے پھیلتا چلا جاتا ہے.تنگ ہونے کی بجائے وسعت پذیر ہوتا چلا جاتا ہے اور انسانی نگاہ کھوئی جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم غور کر کے دیکھو، تم خدا کی کائنات میں کہیں رخنہ نہیں پاؤ گے.تمہاری نگاہیں واپس لوٹ آئیں گی تمہاری طرف لیکن پھر بھی یہ رخنہ نہیں پائیں گی.پھر غور کرو، پھر نگاہیں دوڑاؤ، تمہاری نگاہیں تھکی ہاری ناکام ہو کر پھر تمہاری طرف واپس لوٹ آئیں گی مگر خدا کی کائنات میں تم کوئی رخنہ نہیں پاؤ گے.یہ سفر تو لامتناہی ہے.اور یہ ممکن نہیں کہ ہر انسان ہر لمحے میں اس ہر لمحے کا حق ادا کر سکے.کیونکہ ایسے واقعات اور ایسی سوچوں کے لئے محرکات اگر چہ ہر وقت موجود ہیں لیکن انسان کی زندگی کے اور بھی کام اور بھی تو جہات کے مرکز ہیں.اس لئے ناممکن ہے کہ ایک لمحے پر غور کرتے ہوئے انسان ان تمام باتوں کا جائزہ لے سکے، جو اللہ تعالیٰ کے احسان کے طور پر انسان کے پس منظر میں موجود ہیں.اگر اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے گا تو اگلے لمحے کا حق ادا نہیں ہو سکے گا.اگر اگلے لمحے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے گا تو اس سے اگلے اور اس سے پچھلے لمحوں کا حق ادا نہیں ہوگا.اس لئے جب ہم یہ کہتے ہیں: خدا کا جتنا بھی شکر ادا کریں، کم ہے.یہ کسی خاص موقع پر اسی محاورے کا استعمال نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمارے زندگی کے ہر لمحے پر یہ محاورہ چسپاں ہوتا ہے.اور فی الحقیقت چسپاں ہوتا ہے اور بڑی وسعت اور گہرائی کے ساتھ چسپاں ہوتا ہے.پس آج بھی انہی لمحات سے ایک لمحہ ہے.انہی ساعتوں میں سے ایک ساعت ہے.جن کے شکر کا حق ہم ادا نہیں کر سکتے.مگر ایک بات ضرور ہے کہ اگر مساجد کی تعمیر کے شکر کا حق ادا کرنا ہو تو عبادت کی 801

Page 811

خطبہ جمعہ فرمودہ 30اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم طرف توجہ کرنی چاہئے.اور سب سے بہتر خدا تعالیٰ کے تشکر کا ذریعہ یہی ہے کہ انسان ہر ایسے موقع پر جس میں خدا تعالیٰ کے لئے کوئی عبادت کے لئے گھر تعمیر کیا جائے ، اپنی عبادت کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کرے.اس سے زیادہ معنی خیز ، اس سے زیادہ حقیقی شکر اور کسی طریق پر خدا تعالیٰ کا ادا نہیں ہوسکتا.اس مختصر خطاب کے ساتھ ، جو اس مسجد سے تعلق میں ہے، میں اس خطاب کے دوسرے حصے کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.کیونکہ آج کے دن ہمارے لئے ایک اور پہلو سے بھی بڑا اہم دن ہے.تحریک جدید جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے والے القاء کے نتیجے میں 1934ء میں شروع کی تھی، یہ تحریک اب اپنے 54 ویں سال میں داخل ہو رہی ہے.اور اس کو 53 سال آج مکمل ہوتے ہیں.اس پہلو سے ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے، یعنی خلفاء کا کہ اس دن کے جمعہ کو یا اس سے پہلے جو آخری ہفتے میں جمعہ ہو، اس کو تحریک جدید سے متعلق وقت دیا جاتا ہے.چنانچہ اب میں مختصر اتحریک جدید کے متعلق آپ سے کچھ باتیں کروں گا.تحریک جدید کے کئی پہلو ہیں.ایک پہلو تو انتظامی ہے، ایک پہلو ہے، دنیا نے اس تحریک سے کیا کچھ حاصل کیا اور ایک پہلووہ ہے، جس کا ہماری مالی قربانی سے تعلق ہے.یہ خطبہ جمعہ جو آج دیا جا رہا ہے اور اس دن سے پہلے بھی دیا جاتارہا ہے، اس کا تعلق پہلے دو امور سے نہیں بلکہ صرف جماعت کی مالی قربانیوں سے متعلق ہے.روایتا خلفاء پہلے مختصر اسال کی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد پھر نئے سال کے آغاز کا اعلان کرتے ہیں.جہاں تک عمومی تاریخ کا تعلق ہے اور موازنہ کرنے کے لحاظ سے سال بہ سال تجزیے کا تعلق ہے، یہ بات تو ہر احمدی چھوٹا بڑا خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر سال جماعت کا قدم ہر شعبے میں ترقی کی طرف رہا ہے.اور دنیا کے حالات خواہ وہ کیسے بھی ہوں، کبھی بھی برے رنگ میں جماعت احمدیہ کی مالی قربانی پر اثر انداز نہیں ہو سکے.شدید ترین مخالفتوں کے دور میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ہر قسم کی مالی قربانی میں آگے ہی قدم بڑھاتی رہی ہے.اور اس عمومی تاریخ کا اطلاق تحریک جدید کے ساتھ بھی اسی طرح ہے، جس طرح باقی دیگر امور کے ساتھ ہے.چنانچہ اس سال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو یہ سال ختم ہورہا ہے ، ہمیں یعنی جماعت احمدیہ کو یہ توفیق ملی ہے کہ گزشتہ سالوں سے بڑھ کر وعدہ جات لکھوائے اور گزشتہ سالوں سے بڑھ کر وعدہ جات کو اس مدت کے اندر پورا کرنے کی سعی کر کے ان دونوں پہلوؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سال جوز یر تبصرہ ہے، گزشتہ سالوں سے بہت بہتر ہے.802

Page 812

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1987ء اس پہلو سے سب سے پہلے تو پاکستان کے متعلق یہ عرض کرتا ہوں.جو پاکستان میں حالات ہیں ، جماعت پر جس قسم کے سختی کے حالات ہیں، ان کے پیش نظر سب سے زیادہ و ہم یہ پیدا ہو سکتا تھا کہ کمہیں پاکستان میں جماعت کسی پہلو سے مالی قربانی میں پیچھے نہ رہ جائے.اور جیسا کہ گزشتہ سالوں میں، میں آپ کو خوشخبری دیتارہا ہوں، نہ پہلے ایسا ہوا ہے، نہ اس دفعہ ایسا ہوا ہے، نہ انشاء اللہ آئندہ کبھی ایسا ہو گا.ہر قسم کے حالات میں جماعت احمدیہ کا قدم ترقی کی طرف ہی اٹھا ہے اور اس سال بھی ترقی کی ہی طرف اٹھا ہے.اور ہر پہلو سے ترقی کی طرف اٹھا ہے.وعدوں کے لحاظ سے بھی سال زیر تبصرہ پچھلے سب سالوں سے آگے ہے اور نمایاں اضافہ ہے.وصولی کی رفتار کے لحاظ سے بھی سال زیر تبصرہ پچھلے سب سالوں سے آگے ہے اور نمایاں اضافہ ہے.اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مجاہدین تحریک جدید کے لحاظ سے بھی یہ سال گزشتہ سب سالوں سے بڑھ کر ہے اور نمایاں اضافہ ہے.مجاہدین کی تعداد کا جہاں تک تعلق ہے، سابقہ تعداد 66545 تھی اور اب اللہ تعالٰی کے فضل سے 70170 تک یہ تعداد پہنچ چکی ہے.لیکن اسی میں یہ صرف پاکستان کی تعداد ہے، بیرون پاکستان کی تعداد اس کے علاوہ ہے.لف تفصیلی طور پر جماعتوں کا ذکر کرنا یہاں مشکل ہوگا کیونکہ بہت زیادہ تعداد ہے، جماعتوں کی ، جن کا تفصیلی موازنے کا وقت نہیں ہے.اگر چہ تحریک جدید نے وہ رپورٹ مجھے بھجوادی ہے لیکن عمومی طور پر دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر دفتر میں وعدوں میں بھی اضافہ ہے اور وصولی میں بھی اضافہ ہے.جب میں دفتر کہتا ہوں تو شاید آپ میں سے بہت سے نوجوان، جن کو پاکستان چھوڑے مدت گزرگئی اور جن تک بعض وجوہات کی وجہ سے خطبات با قاعدہ نہیں پہنچتے ، شاید وہ نہ سمجھ سکیں دفتر سے وہ ”.کیا مراد ہے؟ اس لئے پہلے میں مختصر دفتر کے لفظ کی اصطلاح کا تعارف کرواتا ہوں.دفتر سے مراد ہے، جس وقت بھی تحریک جدید کا آغاز ہوا تھا، اس سال جولوگ، وہ خوش نصیب جو اس تحریک میں شامل ہوئے تھے ، ان کی جتنی تعداد تھی، وہ ایک لمبے عرصے تک ایک دفتر کے سپر در ہے.یعنی تحریک جدید کا ایک دفتران کے اندراجات کا ذمہ دار تھا، ان کے ریکارڈ کا، ان کو یاد دہانیاں کرانے کا اور ان کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ہر قسم کی کوششیں کرنے کا ذمہ دار تھا.اس زمانے میں حضرت مصلح موعود کی تحریک پر تقریبا پانچ ہزار مجاہدین تحریک جدید کے، جنہوں نے حصہ لیا اور تمام دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نے مشن اور نئی مساجد بنانے کی تمام تر ذمہ داری ان پانچ ہزار قربانی کرنے والوں پر تھی.اگر چہ وہ زمانہ جماعت پر بہت غربت کا تھا لیکن ان پانچ ہزار نے اپنی آمد کی نسبت سے جو حیرت انگیز قربانی کی ہے، وہ 803

Page 813

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ایسی ہے کہ ہمیشہ تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی.بہت ہی غریب لوگوں نے ، جن کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی تھی ، اپنے پیٹ کاٹ کر ، اپنے بیوی بچوں کی قربانی دے کر ان تحریکات میں حصہ لیا.اور جب آپ دیکھیں کہ انہوں نے کیا دیا تو بظاہر وہ ایک بہت ہی معمولی رقم نظر آتی ہے.جو کہ ایک غریب کی قربانی اس کی تو فیق کے مناسبت سے ہوا کرتی ہے.عورتوں نے بھی حصہ لیا، بچوں نے بھی حصہ لیا.ایک بہت ہی لمبی داستان ہے، جو دردناک بھی ہے اور قابل فخر بھی.کیونکہ قربانی کی تاریخ جتنی زیادہ دردناک ہو، اتنی زیادہ قابل فخر ہوا کرتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ لوگ ایسے ہیں، جن کو دفتر اول کے طور پر یاد کیا جاتا ہے.ہمیشہ تاریخ میں ہر دوسرے دفتر پر ان کو ایک فوقیت رہے گی اور ایک سبقت رہے گی.دوسرا دفتر دس سال کے بعد قائم کیا گیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے اس غرض سے قائم کیا کہ پہلے لوگ اس عرصے میں ایک نئی نسل پیدا کر چکے ہیں اور یہ نئی نسل اور اس پہلی نسلوں سے بھی کچھ، جوان ہو کر اس قابل ہوئے کہ انہوں نے کمانا شروع کر دیا ہو گا تو پہلوؤں کو بھی الگ امتیاز دینے کی خاطر بھی اور نئے نوجوانوں کو دوبارہ موقع دینے کی خاطر ایک نئے دفتر کا آغاز کیا گیا، جس کو آج 45 واں سال گزر رہا ہے.پھر آج سے 23 سال قبل حضرت خلیفة المسیح الثالث نے تیسرے دفتر کا آغاز کیا، جس کو آج 23 سال گزر چکے ہیں.اور وہ نسلیں، جو دوسرے دفتر سے تیسرے دفتر تک یعنی تقریباً 20 سال کے عرصے میں بڑی ہوئی تھیں، ان کو موقع ملا کہ وہ بھی جہاں تک ممکن ہو ، دین کی خاطر قربانی کے مظاہرے کریں.اور سب سے آخر پر دو سال قبل اللہ تعالیٰ نے مجھے تو فیق عطا فرمائی کہ دفتر چہارم کا آغاز کروں.گویا 21 سال کے بعد.اس پہلو سے اس وقت چار دفاتر ہیں، جن کا تعلق ان متعلقہ عرصے میں بڑے ہونے والوں اور نئے شامل ہونے والوں کے ساتھ ہے، جو سنگ ہائے میل کے درمیان پیدا ہوئے یا بڑے ہوئے.اس پہلو سے جب میں کہتا ہوں کہ چاروں دفتر خدا تعالٰی کے فضل سے رو بہ ترقی ہیں تو صرف ایک فرق ہے، جس کو وضاحت سے بیان کرنا ضروری ہے.دفتر اول کے متعلق یہ کہنا تو درست نہیں ہو سکتا کہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے، قربانی کرنے والوں میں.یعنی اس کی وجہ یہ ہے کہ 1934ء میں جو نسل موجود تھی اور ان میں سے 5000 ہزار قربانی کرنے والے آگے آئے تھے ، ان میں ایک بڑی تعداد صحابہ کی تھی ، بڑی عمر کے بزرگوں کی تھی اور ایک تعداد بچوں کی بھی تھی.وہ تمام بزرگ صحابہ گزر چکے ہیں، غیر صحابہ تابعین، جو پہلے درجے کے تابعین تھے، جنہوں نے صحابہ سے تربیت پائی، ان میں سے بھی اکثر فوت ہو 804

Page 814

تحریک جدید- ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1987ء چکے ہیں.اس لئے یہ کہنا تو بہر حال اس دفتر کے متعلق درست نہیں ہوگا کہ ان کی تعداد بھی باقی دفاتر کی طرح ترقی کر رہی ہے اور ان کا چندہ بھی باقی دفاتر کی طرح ترقی کر رہا ہے.چندے کے لحاظ سے تو ممکن ہے کہ ترقی ہو، یعنی ظاہری معنوں میں کہ جو تھوڑے سے رہ گئے ہیں، ان کی تو فیق بہت بڑھ چکی ہے.لیکن تعداد کے لحاظ سے تو یقیناً ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ تعداد زیادہ ہو رہی ہے.لیکن اس میں ایک اور پہلو ترقی کا ایسا نکل آیا ہے، جس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ کہا تھا کہ ہر دفتر میں ہر پہلو سے ترقی ہے.تقریبا تین سال پہلے میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ دفتر اول میں شامل ہونے والوں کی قربانیاں اگر تو روپے پیسے میں جانچی جائیں تو بہت ہی معمولی دکھائی دیں گی دنیا کو.لیکن اگر آمد کی نسبت اور حالات کے موازنے کے ساتھ ان پر غور کیا جائے اور اس کو اخلاص کے پہلو سے پر کھا جائے ، جو قربانی کرنے والا اپنی قربانی میں شامل کر دیتا ہے تو ان جیسا کوئی دفتر قیامت تک اور بھی پیدا نہیں ہوسکتا.وہ السابقون الاولون ہیں.ان میں ایک بڑی تعداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تربیت پانے والے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی تھی.جو غیر معمولی اخلاص اور محبت سے مرقع تھے.وہ لوگ ایسی تصویریں ہیں، جو بار بار آسان پر دکھائی نہیں دیا کرتیں.ایسے وقت کے لوگ جو آ کے گزر جاتے ہیں اور پھر یادیں رہ جاتی ہیں، ان عظیم الشان صورتوں کی جو ہمیشہ کے لئے اپنے نقوش تاریخ میں جمادیتی ہیں.اس پہلو سے مجھے خیال آیا کہ اس دفتر کو بھی ہمیشہ کے لئے زندگی بخشنی چاہئے.اس دفتر کا حق ہے کہ ہمیشہ زندہ رہے.اور کبھی بھی قربانی کرنے والوں کے ساتھ یہ دفتر نہ مرے.چنانچہ میں نے یہ تحریک کی کہ وہ سب خاندان جن کے بزرگ اس دفتر میں شامل تھے، وہ اپنی طرف سے جو چندہ دیں، وہ تو دیں گے ہی ، وہ اپنے بزرگوں کی یادیں زندہ رکھنے کے لئے اور ان کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کے لئے قیامت تک عہد کریں کہ وہ پھر آئندہ ان کی آنے والی نسلیں ان کے نام پر وہ تحریک جدید کا چندہ ہمیشہ ادا کرتی رہیں گی.اس تحریک کے نتیجے میں خدا تعالی کے فضل کے ساتھ ہر سال کھاتوں میں کچھ اور اضافہ ہورہا ہے.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ دفتر بھی ترقی پذیر ہے.یعنی پہلے کم ہوتے ہوئے دو ہزار کے قریب تعد ادرہ گئی تھی.اب پھر بڑھتے بڑھتے تین ہزار سے اوپر ہورہی ہے.اور جو مشکل ہے، وہ صرف لاعلمی کی مشکل ہے.ورنہ جہاں تک جماعت کے اخلاص کا تعلق ہے، اگر ان کو پتا چلے کہ کون سے ان کے بزرگ دفتر اول میں شامل تھے ، جن کی یاد کو زندہ رکھنا، جن کی نیکی کو زندہ رکھنا، ان کی ذمہ داری ہے تو میں وہم بھی نہیں کر سکتا کہ وہ اس بارہ میں کوئی بھی تردد کریں لیکن معلوماتی مشکل ہے.805

Page 815

خطبہ جمعہ فرمودہ 30اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم فتر تحریک جدید بار بار مجھے یہی لکھتا ہے کہ ہمارے پاس وہ ذرائع نہیں ہیں، جن سے ہم معلوم کر سکیں کہ ان بزرگوں کی اولادیں کہاں چلی گئیں؟ کون لوگ تھے؟ کہاں جا سکتے ہیں؟ زندگی نے ان کو و کہاں منتخب کیا ؟ آخر اس وقت وہ کہاں موجود ہیں؟ اس لئے ہم ان سے رابطہ نہیں کر سکتے.سارا سال کھوج لگاتے ہیں، جن کے متعلق پتا لگتا ہے کہ یہ قربانی کرنے والوں کی اولاد میں سے ہیں تو ان کو لکھتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے فوری طور پر ان کا کھانہ دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے.اس سلسلے میں، میں نے تحریک (جدید) کو یہ نصیحت کی تھی کہ آپ ان کے نام پتے، ان خاندانوں کا ذکر ، جہاں تک آپ اکٹھا کر سکتے ہیں، وہ شائع کر کے دنیا کی ساری جماعتوں میں بھجوائیں.تا کہ جماعتیں اعلان کریں، ہمارے پاس اولین قربانی کرنے والوں میں سے وہ لوگ، جو وفات پاچکے ہیں، جن لوگوں کے کھاتے بند ہیں، جن کی لسٹیں آگئی ہیں، ان کا ذکر کس گاؤں کے تھے، ان کا خاندان کون سا تھا، ساری معلومات حاصل ہو چکی ہیں.اگر کسی احمدی دوست کو معلوم کرنے کے لئے دلچسپی ہو تمنا ہو کہ اپنے آباؤ اجداد کا نام بھی اس قابل فخر فہرست میں دیکھیں تو وہ ہم سے معلوم کریں.اور علاوہ ازیں بھی جہاں تک ممکن ہے، تھوڑا تھوڑا کر کے بار بار ہر خاندان تک وہ فہرست پہنچانی چاہئیں.خواہ کوئی دیکھنے کے لئے توجہ کرے یا نہ کرے کوئی وقت دے یا نہ دے، جماعت کو چاہئے کہ پھر وہ فہرست تمام احباب کو پہنچا ئیں.اور بتائیں کے کون کون لوگ تھے.اس طرح امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی سارے کا سارا کھاتہ یک دفعہ زندہ ہو جائے گا.لیکن میرے علم میں ابھی تحریک جدید کی طرف سے یہ رپورٹ نہیں آئی کہ انہوں نے یہ محنت کی ہو.اس لئے میں نہیں جانتا کہ وہ کس رنگ میں تلاش کر رہے ہیں؟ کس طرح تلاش کر رہے ہیں؟ لیکن ایسا مشکل کام نہیں ہے ، جو ہو نہ سکتا ہو.اس لئے میں یہ کام اب تحریک جدید انجمن کے سپرد کرتا ہوں، نہ کہ شعبہ مال کے کہ وہ اپنے ایجنڈے پر اس بات کو رکھے اور ان فہرستوں کا موازنہ کر کے طمح نظریہ بنائے کہ ایک بھی مجاہد اول دفتر اول سے تعلق رکھنے والا مجاہد ایسا نہ ہو، جس کا کھاتہ مردہ رہے.اس سے پہلے میں نے یہ بھی تحریک کی تھی کہ اگر ایسے کھاتے رہ جائیں تو مجھے لکھیں.جو ہر کوشش کے باوجود پھر بھی کسی طرح زندہ نہ ہو سکے، اللہ تعالیٰ نے جتنی مجھے توفیق دی ہے، میں اس میں حصہ لوں گا.اور جماعت کے دیگر مخلصین ، جو میری مدد کے لئے تیار ہوں گے، وہ حصہ لیں گے.تو اسی رنگ میں ہم بالآخر اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے کہ سارے کا سارا دفتر اول کا کھانہ زندہ ہو جائے گا.اس بارے میں بھی تحریک جدید کی طرف سے اس سال جور پورٹ آئی ہے، اس میں اس کا ذکر نہیں ملتا.اس لئے تحریک جدید انجمن کو چاہئے کہ ان امور پر غور کر کے مجھے دو تین مہینے کے اندر اپنی کوششوں سے مطلع کرے 806

Page 816

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 30اکتوبر 1987ء باقی جہاں تک ترقی کا تعلق ہے ، اعداد و شمار کی تفصیل بہت لمبی ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ اعداد و شمار کی تفصیل یہاں بیان کرنے کا وقت نہیں ہے.مگر جو بعض جماعتیں ہیں غیر معمولی طور پر قربانی میں آگے ہیں اور پہلے بھی آگے رہی ہیں، ان میں پاکستان میں لا ہور اور کراچی کے علاوہ اور بہت سے ایسے قصبات ہیں، جو غیر معمولی طور پر مصائب کا شکار رہے ہیں.معاشی طور پر بھی ان کو شدید صدمے پہنچے ہیں اور دین کے لئے قربانی دینے میں انہوں نے بڑی بڑی اذیتیں اٹھائی ہیں.بعض جگہ سینکڑوں نوجوان قیدوں میں رہے ، ان کی تجارتوں پر اثر پڑا، ان کے زمیندارے پر اثر پڑا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص احسان ہے، اس کے باوجود ان سب کا قدم ترقی کی طرف ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ کے فضلوں اور احسانوں پر انحصار کرتے ہوئے آئندہ بھی انشاء اللہ ترقی کی طرف رہے گا.ان کے متعلق میں صرف یہ کہوں گا کہ آپ اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے یادرکھیں.اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات دور فرمائے ، اللہ تعالیٰ ان کی نیک تمنائیں، جو خدا کی راہ میں قربانی کرنے کی ہیں ، انہیں بھی پورا فرمائے اور اللہ دین و دنیا کے حسنات ان کو عطا فرماتا چلا جائے.ان کا سہارا بنے اور یہ ہرلمحہ محسوس کریں کہ خدا کے نازل ہونے والے فضلوں کے مقابل ان کی قربانیاں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں.اس کثرت سے اللہ کے فضلوں کی بارشیں ان پر نازل ہوں کہ یہ اپنی قربانیوں کو ان کے مقابل پر حقیر اور بے معنی دیکھیں.جہاں تک بیرونی دنیا کا تعلق ہے، خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یو کے (UK) کی جماعت کو نمایاں خدمت کی توفیق ملی ہے.اور ان کا گزشتہ سال کا جو وعدہ تھا، ساٹھ ہزار پاؤنڈ کا ، وہ آج کی تاریخ تک ململ بـ پورا ہو چکا ہے.اور آئندہ سال کے لئے ان کے امیر مکرم آفتاب احمد خان صاحب کی طرف سے فون پر اطلاع ملی ہے کہ 75,000 پاؤنڈ کا وعدہ جماعت کی خدمت میں پیش کرتے ہیں.امیر صاحب کینیڈا کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ گزشتہ سال ان کا وعدہ ساٹھ ہزارڈالر کا تھا، نئے سال کے لئے وہ 75,000 ڈالر کا وعدہ پیش کرتے ہیں.لیکن یہاں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ گزشتہ ساٹھ ہزار ڈالر کا وعدہ پورا ہو چکا ہے کہ نہیں.اس کی میں امید رکھتا ہوں کہ ہو گیا ہوگا، ورنہ ہو جائے گا.مگر اس فقرے کا فقدان بتا رہا ہے کہ شاید ایسا نہ ہو سکا ہو.لیکن ابھی تحریک کی وصولی کے کچھ مہینے باقی ہیں ، اس لئے فکر کی بات نہیں ہے.اگر کچھ حصہ رہ گیا ہوتو انشاء اللہ وہ وصول ہو جائے گا.امریکہ کی طرف سے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کی یہ اطلاع چند منٹ پہلے ملی ہے کہ ان کا وعدہ ایک لاکھ ڈالر کا تھا یعنی امریکہ کی جماعت کا، جس میں سے غالباً نوے ہزار وصول ہوا ہے.غالباً میں اس لئے کہتا ہوں کہ انہوں نے پہلے کوئی اور ( Figure ) لکھی تھی ، پھر اسے مٹا کر 807

Page 817

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ہفتم اور (Figure) لکھ دی.اگر یقینی طور پران کوعلم ہوتا تو وہ کبھی ایسانہ کرتے.اس لئے ان کو امید ہے کہ اتنا ادا ہو چکا ہوگا.خدا کرے کہ ان کی امید صیح ہو.لیکن بہر حال جتنا ان کا ادائیگی کا اندازہ ہے، وہ بھی بھاری ادائیگی ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ بقیہ ادا ئیگی ایک دو مہینے کے اندر ہو جائے گی.وہ امریکہ کی جماعت وعدے کو بڑھا کر ایک لاکھ دس ہزار ڈالرز کا وعدہ پیش کرتے ہیں.** جہاں تک عمومی طور پر ساری دنیا کے بجٹ کا تعلق ہے، سال 1986ء میں پوری دنیا کی صرف تحریک جدید کا بجٹ صرف 1,56,17,400 روپے تھا.کیونکہ کرنسی دنیا میں مختلف ہیں، ہمارا اصل بڑا دفتر پاکستان میں واقع ہے، اس لئے روایات کے مطابق نہی دستور رہا ہے کہ ہر کرنسی کو پاکستانی روپے میں تبدیل کر کے پھر عمومی بجٹ پاکستانی کرنسی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے.اس پہلو سے جب میں کہتا ہوں روپے تو میرا د ہے کہ ہر ملک نے اپنے اپنے رنگ میں اس میں حصہ لیا ہے، اس کو پاکستانی روپے میں تبدیل کریں تو یہ ن رقم بنے گی.اور جہاں تک وصولی کا تعلق ہے، اس سال یہ وصولی، اس سال یہ وعدہ (اس سال سے مراد، جو گزر چکا یا جو آج ختم ہو ا سال کے اختتام تک ) یہ وعدہ بڑھ کر 1,94,39,000 روپے ہو چکا تھا.عمومی وصولی کا جہاں تک تعلق ہے، گزشتہ سال اگر چہ سال کے آخر تک خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام وعدہ پورا ہو چکا تھا لیکن اس وقت تک 72,24,380 روپے کی وصولی ہوئی.یعنی کل وعدہ 56,00,000, 1روپے کے مقابل پر آج کی تاریخ تک 72,00,000 روپے وصولی تھی.گویا کے نصف سے کم تھی.لیکن بقیہ مہینوں میں خدا کے فضل سے وہ وصولی پوری ہو گئی اور کوئی بقایا نہ رہا.امسال 1,94,00,000 روپے کے وعدوں کے مقابل پر وصولی 94,61,000 روپے ہے.یعنی تقریباً نصف.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ابھی سیال کے کچھ مہینے باقی ہیں اور عموما پدر جان پایا جاتا ہے کہ آخری مہینوں میں تیزی کے ساتھ ادائیگی کی جاتی ہے.دوسرے یہ جور پورٹ چلی تھی پاکستان سے، اس کو چلے کافی وقت گزر چکا ہے.اس عرصے میں انگلستان نے اپنی وصولی کی مکمل ادائیگی کروادی ہے اور باقی ملکوں میں بھی کافی محنت کی ہے.اس عرصہ میں ، میں امید کرتا ہوں کہ ابھی وصولی بڑھ چکی ہوگی.جہاں تک کل تعداد چندہ دینے والوں کی ہے، اس لحاظ سے ابھی بہت کام کی گنجائش ہے.خصوصاً پاکستان سے باہر.اگر چہ پاکستان کے باہر کا چندہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا ہے اور خوشکن ہے.لیکن وہ مجاہدین، جو چندوں میں حصہ لے رہے ہیں تحریک جدید کے چندوں میں میری مراد ہے، ان کی تعداد بھی پاکستان کی تعداد سے بہت ہی پیچھے ہے.پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ستر ہزار سے میں 808

Page 818

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرموده 30 اکتوبر 1987ء ا زائد مجاہدین ہیں، جو تحریک جدید میں شامل ہو گئے ہیں.اور بیرون پاکستان صرف اٹھارہ ہزار ایک سو، پچاس.اور یہ تعداد بہت ہی قابل فکر ہے.میں نے گزشتہ سال بھی یہ بات کہی تھی اور اب پھر اس کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اموال تو خدا تعالیٰ مہیا ضرور کرتا ہے اور ہمارا تجربہ ہے.کوئی جماعت کے کام پیسے کی کمی کی وجہ سے پیچھے نہیں رہے.لیکن چندہ دینے والا بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے.ہمیں اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے.جو شخص چندہ دینا شروع کر دے، اس کے اندر اللہ تعالیٰ بہت سی پاک تبدیلیاں پیدا کرتا ہے اور اسے ایک نئی زندگی ودیعت ہوتی ہے، نئی زندگی اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے.تو ہمیں ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہئے ، جن کو چندہ دینے کا مزہ آنا شروع ہو جائے.جن کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا کتنا عظیم کام ہے، کتنی عظیم سعادت ہے.اس پہلو سے میں نے گزشتہ سال بھی بہت زور دیا تھا کہ محض وعدوں کو بڑھا کر پیش کرنے سے تسلی نہ پایا کریں.خوشی کی بات ہے.ایک دوسرے سے بے شک مقابلہ کریں.جتنا مقابلہ کریں اچھا ہے.کبھی امریکہ آگے بڑھا، کبھی کینیڈا آگے بڑھا اور کبھی انگلستان آگے بڑھا.یہ مقابلہ برانہیں ہے.کیونکہ ہمارے اسلام مسلمانوں کی تعمیر کا مقصد یہ ہے.کیونکہ مسلمانوں کے بنائے جانے کا مقصد یہ ہے:.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرة: 149) ایک دوسرے سے نیکیوں میں مقابلہ کرو اور آگے بڑھو.مگر اس سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ یہ مقابلہ کریں کہ آپ کے ملک میں جتنے افراد جماعت ہیں، وہ کتنی جلدی سارے کے سارے تحریک جدید کے چندے میں شامل ہو چکے ہیں.اور یہ جو مقابلہ ہے کہ سو فیصد احباب جماعت کو مردوں، عورتوں اور بچوں کو تحریک کے چندے میں شامل کر دیا جائے، یہ بہت ہی عظیم مقابلہ ہے.اور اس کے لئے آپ کو ایسے تردد کی ضرورت نہیں کہ غریب آدمی تھوڑی دے سکتا ہے تو آپ کہیں کہ اس سے فرق کیا پڑے گا.بعض دفعہ کھا نہ رکھنے میں زیادہ مشکل پڑتی ہے بنسبت اس شخص کے چندے کی آمد کی حیثیت کے لحاظ سے.مگر اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا.ہاں ایک احمدی اگر ایسا نیا شامل کریں، جو پہلے کچھ نہیں دیتا تھا، اگر وہ نصف ڈالر بھی دے تو تب بھی خدا تعالیٰ اس کو ایسی نیکی کی توفیق بخشے گا، جس کے نتیجے میں نیکیاں پھر ترقی کریں گی اور وہ پھر اپنے اندر ایک عظمت کردار محسوس کرے گا.تو روپیہ دینے والا ، روپے سے زیادہ اہم ہے.اور اس کی تربیت بہت زیادہ اہم ہے.کیونکہ روپے دینے کے مقاصد میں انسانی تربیت شامل ہے.اس لئے 809

Page 819

خطبہ جمعہ فرموده 130اکتوبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم محض اس بات پر تسلی نہ پایا کریں کہ آپ میں سے امیر بڑے بڑے چندے دے کر ملک کے عمومی بجٹ کو بڑھا رہے ہیں.بلکہ یہ دیکھا کریں کہ کتنے غریب یا دل کے غریب ایسے ہیں، جو تو فیق ہونے کے باوجود اس چندے میں شامل نہیں ہو سکے.ان کی تعداد بڑھانے کی طرف توجہ کریں.اس سے آپ کو نیک آدمیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا موقع ملے گا.کیونکہ چندہ دینے والوں میں نیکی پیدا ہوتی ہے اور جماعت کا انحصار نیکی پر ہے.اگر ہم زیادہ نیک آدمی بنا سکتے ہیں تو اتنی ہی زیادہ جماعت ترقی کرے گی.اس پہلو سے اب اپنے کمزوروں پر رحم کریں اور ان کے لئے باقاعدہ سارا سال کوشش کرتے رہا کریں کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو.یہ رپورٹ مجھے نہیں ملتی اور اس سے مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس پہلو سے سقم ہے.کیونکہ جماعتوں میں رپورٹ بھیجنے کا رجحان یہ ہوتا ہے کہ جس چیز میں وہ کوئی قابل فخر کام کریں، اس کو اور Over Emphasize کر دیتے ہیں.یعنی زیادہ بڑھا کر بیان کرتے ہیں، بڑھا کر واقعات کا نہیں بلکہ نمایاں رنگ میں، میں کہنا چاہتا ہوں تا کہ میری نظر اس پر پڑے اور میرا دل خوش ہو اور ان کی نیت نیک ہوتی ہے تا کہ ان کے لئے دعادل سے نکلے کہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں.جو پہلو تشنہ رہ گئے ہوں، ان کا ذکر ہی نہیں کرتے تا کہ دماغ میں یہ خیال ہی نہ جائے کہ کوئی خلاء ہے اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کس طرح میری نظر سے ان کی کوئی بات بھی اوجھل نہیں ہو سکتی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مزاج ہی ایسا عطا فرمایا ہوا ہے کہ میں سارے پہلوؤں پر نظر ڈال کر رپورٹ دیکھتا ہوں.اگر بعض پہلوؤں کا ذکر نہ ہو تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ اس پہلو میں کام ہی نہیں ہوا ، ورنہ وہ ذکر کرتے.اور میں نے نصیحت کی تھی گزشتہ سال بھی کہ آپ اپنے ہاتھ سے لکھ دیا کریں کہ ہم نے اس معاملے میں اب تک کوئی کام نہیں کیا.اس میں برکت ہے.یہ قول سدید ہے.اس سے آپ کو ایک کام کی طرف بار بار توجہ پیدا ہوگی اور وہ خلاء بھرنا شروع ہو جائے گا.جب آپ اپنی کمزوری چھپانے کے لئے ایک جگہ سے چھلانگ لگا کر دوسری جگہ پہنچتے ہیں اور بیچ میں ایک خلاء پیدا کر دیتے ہیں تو جو مقصد ہے، وہ تو پورا نہیں ہوا.نہ مجھے دھوکہ دیا جا سکا، نہ خدا کوکوئی دے سکتا ہے.تو بے مقصد ایسی غلطی کر رہے ہیں، جس کا آپ کو اپنا نقصان ہے.آپ اگر یہ لکھتے اور آگے جا کر تو ایسی ، مجھے Brief کرنا پڑے گا، بیچ میں خلاء آ رہا ہے تو ہم بدقسمتی سے اس خلاء کو پر نہیں کر سکے.ہر رپورٹ میں اگر یہ لکھا جائے تو انسانی ضمیر آخر کچوکے دیتا ہے، توجہ دلاتا ہے.پھر انسان کوشش کرتا ہے کہ اس خلاء کوکسی رنگ میں پر کرے.اور اس کے نتیجے میں ترقی ہوتی ہے.تبھی خدا تعالٰی نے فلاح کی راہ یہی بتائی ہے کہ قول سدید اختیار کرو.810

Page 820

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد من خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1987ء تو میں جماعتوں سے یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ جو تحریک جدید کے ٹارگٹ مقرر کئے جاتے ہیں، ان میں اگر وہ بد قسمتی سے کسی پہلو سے پیچھے بھی رہ جائیں تو خواہ مخواہ اس کو چھپانے کی کوشش نہ کیا کریں.جرات کے ساتھ صاف لکھا کریں.اس کے نتیجے میں بھی تو دعا پیدا ہوتی ہے، یہ بات بھول جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ صرف اچھے کاموں کے نتیجے میں دعا نکلتی ہے.اور پڑھتا ہوں اور دل خوش ہو جاتا ہے.حالانکہ جو کمزور کام ہیں، ان پر بعض دفعہ زیادہ دردناک دعا نکلتی ہے.اس بارے میں بھی خدا ان کو توفیق عطا کر دے، اس بارے میں بھی اللہ تعالیٰ ان کی ہمتیں بڑھائے ، ان کو توفیق اور نصرت عطا فرمائے اور بعض دفعہ کمزوری دیکھ کر زیادہ دردمند دعا اٹھتی ہے.اس لئے دعا تو دونوں صورتوں میں ملنی ہے.جب آپ خلاء پیدا کریں گے تو ایک پہلو سے دعا میں بھی خلاء پیدا ہو جائے گا.امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ سال اس بات پر غیر معمولی زور دیا جائے گا.ہراحمدی مرد، عورت اور بچہ جہاں تک ممکن ہے، تحریک جدید کی قربانیوں میں شامل ہو.خواہ بہت تھوڑا دے کر ، کیونکہ اس کے نتیجے میں اس کا مستقبل بنے گا، اس کے اندر قربانی کا جذبہ پیدا ہو گا، ایک احساس ذمہ داری پیدا ہوگا اور جماعت کو پہلے سے بہت زیادہ تعداد متقی لوگوں کی نصیب ہو جائے گی.اور کو اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.اور یہ جماعت ہر پہلو سے خدا کی نظر میں ترقی کرے.ہماری رپورٹوں کی نظر سے نہیں بلکہ خدا کی نظر ہمارے ہر شعبے پر محبت اور پیار سے پڑ رہی ہو کہ یہ بندے میری خاطر کام کرتے ہوئے ہر شعبے میں میرے قریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں.(مطبوعہ خطبات ظاہر جلد 16 صفحہ 705 تا 719) 811

Page 821

Page 822

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 نومبر 1987ء اگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی بنتا ہے تو پھر ہر احمدی پر تبلیغ فرض ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 06 نومبر 1987ء قرآن کریم کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری شان میں جو لوگ بھی ہوں گے، وہ بلا واسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھی قرار دیئے گئے ہیں.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد تو ساتھی بنانے کا ایک ذریعہ ہے.لیکن ساتھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی بنتے ہیں.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کا جو مقام ہے، وہ عام دوسرے تمام فرقوں اور دوسرے تمام مذاہب سے بالکل مختلف ہو جاتا ہے، بلند تر ہو جاتا ہے، ایک امتیاز اختیار کر جاتا ہے.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی قرار دے دینا کسی جماعت کو اس سے بڑا اعزاز ممکن ہی نہیں ہے.چنانچہ اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو اپنے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور اپنے مقام کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے.اور اس مقام سے جو توقعات وابستہ ہیں، ان کے اوپر نظر رکھنی چاہئے کہ وہ کیا تو قعات ہیں.وو.اس بات کو بھلا دینے کی وجہ سے ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے.اس بات کو بھلا دینے کی وجہ سے ہر احمدی کو یہ پتا ہی نہیں کہ قرآن کریم میں میرا کیا مقام بیان ہوا ہے.ہر احمدی سے جب میں توقع رکھتا ہوں کہ وہ تبلیغ کرے اور خدا کی راہ میں ایک کھیتی اگائے اور روحانی اولاد پیدا کرے تو لوگ سمجھتے ہیں ،شاید اس کو اپنا ذاتی جنون ہی ہو گیا ہے.بار بار یہ ذکر کرتا ہے اور اس ذکر کو چھوڑتا نہیں، حالانکہ قرآن کریم کی رو سے ہر شخص پر تبلیغ فرض نہیں ہے.لیکن اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بننا ہے تو پھر ضر ور فرض ہے.پھر ہر شخص پر فرض ہے.کیونکہ قرآن کریم نے تعریف ہی یہ بیان فرمائی کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ساتھی ، جو دور آخر میں پیدا ہوں گے، ان کی یہ مثال انجیل میں بیان بھی ہوئی ہے، پیشگوئی کے طور پر.اور وہی ساتھی شمار ہوں گے، جو خدا کی راہ میں کھیتی اگائیں گے.اور پھر اس کی پرورش خود کریں گے، یہاں تک کہ وہ کھیتی تو انا ہو جائے.تو ہر جگہ ہر احمدی جو دعوت الی اللہ کا کام کرتا ہے، اس کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے.اگر قرآن کریم کی تعریف کی رو سے آپ محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بنتے ہیں تو آپ کو لازما خدا کی راہ میں ایک کھیتی لگانی ہوگی اور نئے نئے روحانی بچے پیدا کرنے ہوں گے.اور 813

Page 823

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 06 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم جب آپ یہ کریں گے تو قرآن کہتا ہے کہ لاز ما دشمن غصہ کھائے گا اور خدا کی راہ میں کام کرنے کے نتیجے میں، دین کی خدمت کے نتیجے میں جو دشمن کو غصہ پیدا ہوتا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ بچاتا ہے اور اللہ تعالی اس سے حفاظت بخشتا ہے.یہ وہ مضمون ہے، جو قرآن کریم میں جماعت احمدیہ کے متعلق بیان ہوا.اور یہی مضمون ہے، جو بار بار میں خطبوں میں یاد کراتا ہوں.لیکن یہ جو مثال ہے زمیندار کی ، اس پر میں نے جتنا غور کیا ہے، اتنا ہی میں حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ اس میں اتنے تفصیلی مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان پر جتنا بھی آدمی غور کرے، نئے نئے مضامین اس پر کھلتے چلے جاتے ہیں.نئی نئی تبلیغ کی راہیں اس پر روشن ہوتی چلی جاتی ہیں.اور پھر جو تجربہ مجھے ہورہا ہے، اس تجربے کی رو سے بھی میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت ایک حیرت انگیز مضامین کا خزانہ اپنے اندر رکھتی ہے.کھیتیوں کے متعلق اکثر زمیندار جانتے ہیں کہ جب وہ زمین کے اوپر محنت کرتے ہیں، بیج ڈالتے ہیں، ہل چلاتے ہیں، پانی دیتے ہیں تو سب زمینیں ایک طرح رد عمل نہیں دکھاتیں.بعض زمینیں اس محنت کو قبول کرتی ہیں اور جلدی پھل لگاتی ہیں.بعض زمینیں اس محنت کو قبول نہیں کرتیں.پھر بعض کھیتوں کے بعض حصے محنت کو زیادہ قبول کرتے ہیں اور بعض دوسرے حصے قبول نہیں کرتے.تو ایک پہلو سے یہ مثال ساری جماعت پر اطلاق پاتی ہے اور ایک پہلو سے یہ ہر اس اطلاق پاتی ہے، جو دوسروں کو اس کھیتی لگانے کی طرف متوجہ کرتا ہے.اس نسبت سے جماعت کھیتی بن جائے گی اور خلیفہ وقت وہ زمیندار ہو گا، جو کھیتی لگانے کی کوشش کر رہا ہے.اس کی نصیحتیں جو جماعت کو کی جاتی ہیں، وہ بیج بن جائے گا.اور جماعت جور د عمل دکھاتی ہے، وہ زمین کا رد عمل ہے، جو بیج اور محنت کے نتیجے میں زمین دکھایا کرتی ہے.تو اس مثال کو الٹائیں پلٹائیں، مختلف زاویوں سے دیکھیں تو کئی قسم کے نئے نئے نظارے سامنے آتے ہیں.لیکن یہ مرکزی بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیئے کہ اس مثال میں ہم سب کے لئے بہت سے سبق ہیں.تبلیغ کے بے شمار مضامین اس چھوٹی سی آیت میں بیان ہو گئے ہیں.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، تبلیغ کا کام لینے والوں میں خلیفہ وقت کے بعد تمام امرائے جماعت ہیں، تمام مربیان سلسلہ ہیں.اس پہلو سے الزراع وہ بن جائیں گے اور جماعت وہ کھیتی ہوگی، جس کو وہ نصیحت کرتے ہیں، جس سے چاہتے ہیں کہ وہ مضبوط ہو اور جلد جلد بڑھے اور توانا ہو جائے.اور اپنی مرکزی ڈنڈی پر اس طرح اپنی ذات میں قائم ہو جائے کہ دشمن کی دشمنیوں سے بے نیاز ہو جائے.اس پہلو سے یہ مثال خلیفہ وقت پر بھی صادق آتی اور اس کے ساتھ کام کرنے والے منتظمین پر بھی صادق آتی ہے.814

Page 824

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 نومبر 1987ء اس پہلو سے جب میں غور کرتا ہوں تو مختلف جماعتوں کے مختلف رد عمل دکھائی دیتے ہیں اور مختلف جماعتوں میں پھر آگے مختلف رد عمل نظر آتے ہیں.اگر کینیڈا کومثلاً ایک کھیت کے طور پر تصور کریں اور گزشتہ سارے خطبات، جن میں تبلیغ کا ذکر کیا گیا ہے، ان خطبات کے نتیجے میں جماعت کینیڈا کے رد عمل کو دیکھیں اور میرے ساتھ شامل ہونے والے، دیگر نصیحت کرنے والوں کو اگر انسز راع میں داخل کر لیا جائے ، یعنی امیر ہے، مقامی امراء ہیں، سیکرٹریان تبلیغ ہیں، وہ سارے محنت کر رہے ہیں، اس لئے ہم سب پر جمع کا صیغہ آئے گا.اس پہلو سے ایک اور بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ یہ آیت فصاحت و بلاغت کے درجہ کمال تک پہنچی ہوئی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کا ذ کرفرمایا اور پھر و الذین معہ کہ کہ اس مضمون کو پھیلا دیا کہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سے ساتھی ہیں.اسی طرح السوداع میں بھی ایک مرکزی نقطہ ہوگا، جو سارے نظام زراعت کا انچارج ہوگا.اور اس کے ساتھ پھر اور کام کرنے والے شامل ہوتے چلے جائیں گے اور ایک بڑی جماعت بن جائے گی.یہ مضمون ہے، جو اس میں ساتھ بیان فرمایا گیا.یہاں مرکزی نقطہ سے مراد خلیفہ وقت نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں اور آپ کے ساتھ شامل ہونے والے خلفاء اور پھر ان کے ساتھ شامل ہونے والے دیگر ساتھی اور اس طرح یہ مضمون پھیلتا چلا جاتا ہے.اس پہلو سے جب میں غور کرتا ہوں تو بعض ممالک خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کوششوں کے نتیجے میں بہت ہی اچھا رد عمل دکھاتے ہیں.بعض زمینیں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد محنت کا بدلہ اگلتی ہیں.بیج ان میں داخل کریں تو اسے بڑھا کر واپس کرتی ہیں.تھوڑی محنت کریں، زیادہ پھل دیتی ہیں.اور بعض زمینیں ہیں، جو نسبتاً بہت زیادہ محنت چاہتی ہیں، بہت زیادہ توجہ چاہتی ہیں.چنانچہ بعض چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ توفیق ملتی ہے کہ جب میں تحریک کرتا ہوں، بڑی کثرت ، کے ساتھ اس کے نتیجے وہاں ظاہر ہوتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ الزراع جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے، ان کی تعداد بھی بڑھتی چلی جارہی ہے.اپنے رقبے کے لحاظ سے چھوٹے ، اپنی آبادی کے لحاظ سے چھوٹے ، جماعت احمدیہ کے لحاظ سے چھوٹے لیکن کھیتیاں اگانے کے لحاظ سے بہت ہی زرخیز اور بہت ہی وسیع اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ ان میں روز بروز ترقی ہوتی چلی جارہی ہے.افریقہ کے بعض ممالک ہیں، جن میں پہلے بہت سستی تھی.گزشتہ چند سال سے میں ان سے یہ توقع رکھ رہا ہوں کہ اپنا دائرہ بڑھاؤ کھیتی لگانے والے زیادہ سے زیادہ تیار کرو اور اپنی جماعت کو بڑھاؤ.یعنی حقیقی وہ جماعت، جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے، جو لازماً خدا کی راہ میں کچھ بیج لگاتے ہیں اور پھر ان کی 815

Page 825

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم پرورش کرتے ہیں، ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ کرو.اس نصیحت کے نتیجے میں، میں نے ان کے سامنے ایک کسوٹی رکھی.اس کسوٹی کے اوپر اپنی کوششوں کو پرکھا کرو.وہ یہ تھی کہ آپ ہر سال دگنا ہونے کی کوشش کرو.اگر تمہاری کوششیں پچھلے سال سے دگنا پھل دیتی ہیں اور آئندہ سال پھر وہ دگنا ہو جاتا ہے اور آئندہ سال پھر وہ دگنا ہو جاتا ہے تو اس سے میں یہ نتیجہ نکالوں گا ہ اللہ تعالی کے فضل سے تم نصیحتوں پر پوری طرح عمل کرنے والے ہو.اور خدا تعالیٰ کا فضل اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ تمہاری کوئی محنت ضائع نہیں جا رہی.چنانچہ کئی ممالک ہیں، جو مسلسل گزشتہ چار سال سے اسی طرح دگنا اور پھر دگنا اور پھر دگنا نتیجہ دکھاتے چلے جارہے ہیں.ہو سکتا ہے ایک موقع پر جا کر یہ رفتار اس طرح تیزی کے ساتھ قائم نہ رہ سکے.کیونکہ انسانی استعدادوں کی اپنی حد بندی ہوا کرتی ہے.اور یہ لازمی نہیں ہوا کرتا کہ اس طرح ہر جماعت ہر سال اپنے نیک نتائج کو دگنا کر سکے.لیکن اب تک بہر حال خدا کے فضل سے یہ نتیجہ ظاہر ہورہا ہے.پھر بعض یورپین ممالک ہیں، جن میں تبلیغ کی طرف عملا کوئی بھی توجہ نہیں تھی.لیکن گزشتہ چند سالوں میں حیرت انگیز تبدیلیاں واقع ہوئیں.ناروے ان میں سے ایک ہے.بہت چھوٹی سی جماعت ہے.ایک زمانے میں چند گنتی کے احمدی تھے لیکن اب خدا کے فضل سے ہر سال ، ہر جہت میں وہ جماعت پھیلتی چلی جارہی ہے.اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بعض عرب ممالک کے بعد، سب سے زیادہ عربوں میں تبلیغ میں وہ جماعت کامیاب ہے.اور ایک سے زائد آدمی ہیں، جو وہاں کام کر رہے ہیں.لیکن جب کینیڈا کو دیکھا جائے تو یہ زمین سخت نظر آتی ہے.یہاں سے جواب نہیں مانتا.آواز تو یہاں پہنچتی ہے لیکن جس طرح بیج کھیت میں ہر طرف پھیلایا جاتا ہے، زمیندار کسی زمین کے ٹکڑے سے کنجوسی تو نہیں کیا کرتا ہر طرف بار بار پھیلاتا ہے.یہاں بھی اسی طرح وہ بیج ڈالا جارہا ہے.نیک نصیحتوں کا بیج.لیکن اگتے بہت تھوڑے ہیں.اتنی تھوڑی تعداد ہے، Respond کرنے والوں کی ، لبیک کہنے والوں کی ، ہاں میں سے جواب دینے والوں کی کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ کیا واقعہ ہے؟ جب جماعت کا دورہ کرتا ہوں، دوستوں.ملتا ہوں تو ان میں مجھے اخلاص بھی دکھائی دیتا ہے، سچائی بھی نظر آتی ہے، دین سے محبت بھی دکھائی دیتی ہے، نیک تمنائیں بھی نظر آرہی ہیں.لیکن جب دعوت الی اللہ کی طرف بلاتا ہوں تو عجیب بات ہے کہ خاموشی دکھائی دیتی ہے.اس لئے اپنی کچھ فکر کریں، سوچیں کہ کیا وجہ ہے؟ کیوں آپ لوگ ان لوگوں میں شامل ہونے کی تمنا نہیں رکھتے ، جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے؟ بہت ہی خوش نصیب لوگ ہیں وہ جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے، خدا کے کلام میں ذکر ہے.سوچیں تو سہی کہ کتنا عظیم مقام ہے اور اس مقام کو حاصل کرنے کے.آپ سے جو توقع کی جارہی ہے، وہ ناممکن نہیں ہے.اتنا بڑا کام نہیں ہے، جو ہو نہ سکے.816

Page 826

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 نومبر 1987ء امر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے احمدی جو علمی لحاظ سے بہت کمزور ہیں ، صرف بچے اخلاص سے کوشش کرتے ہیں اور ہمہ تن مصروف رہتے ہیں تبلیغ کے کاموں میں اور سوچتے رہتے ہیں، دعائیں کرتے رہتے ہیں، ان کو ضرور پھل ملتا ہے اور بہت بہت بڑے اچھے اچھے پھل ملتے ہیں.ان کے علم کے مقابل پر نہیں بلکہ ان کے اخلاص کے مقابل پر ان کو پھل ملتا ہے.علم کی بنا پر نہیں بلکہ اخلاص کی بنا پر ان کو پھل ملتا ہے.اس لئے کچھ نہ کچھ ایسی بات ضرور ہے یا عدم توجہ ہے یا کہیں کوئی اور کمزوری ہے یا دنیاداری کی دلچسپیاں ہیں، جنہوں نے اپنی طرف توجہ مائل کی ہوئی ہے.لیکن اگر آپ میں سے ہر شخص اس آواز پر لبیک کہنا چاہے تو ہر شخص کے لئے رستہ کھلا ہے.تبلیغ کے اتنے مواقع دنیا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ ایک شخص جو بیدار مغزی کے ساتھ رستے تلاش کرنا چاہے، اللہ تعالیٰ خود اس کو رستے مہیا فرما دیتا ہے.رستہ چلتے کوئی سیر گاہ میں آپ جارہے ہوں، سیر کر رہے ہوں سیر تو ہوگی ہی ساتھ لیکن کئی رستے میں ایسے دوست ملتے ہیں، جن کے ساتھ علیک سلیک ہو جاتی ہے، ان کے ساتھ محبت کا سلوک کیا جائے ، اخلاص کا سلوک کیا جائے تو فوری طور پر متوجہ ہوتے ہیں.اور چونکہ عام طور پر دوسرے سیر کرنے والے ایک دوسرے سے غیر معمولی حسن و احسان کا سلوک نہیں کرتے ، اس لئے وہ غیر معمولی طور پر ایسے اخلاق کے مظاہرہ سے متاثر ہوتے ہیں.اور اس وقت جو تعلقات قائم ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں پھر تبلیغی روابط آگے بڑھ جاتے ہیں.اسی طرح رستہ چلتے ، بازار میں جاتے ہوئے ، شاپنگ کرتے ہوئے دیگر اپنے کاموں کے دوران جن لوگوں کو شوق پیدا ہو جائے ، وہ کچھ نہ کچھ نئے لوگ تلاش کر ہی لیا کرتے ہیں.اور کچھ مشکل نہیں ہے.اور سارا سال چند دوستوں کو چن لینا، ان سے خاص طور پر پیار اور محبت کا سلوک کرنا، رفتہ رفتہ ان کو یہ بتانا کہ میں اگر مختلف ہوں تو کیوں مختلف ہوں، اپنی ذات میں ان کی دلچسپی پیدا کرنا اور پھر اس ذاتی دلچسپی کو جماعتی دلچسپی میں تبدیل کر دینا، یہ ایک عام بات ہے.کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے.اگر آپ کرنا شروع کریں گے اور دعا کریں گے تو آپ کو بھی آ جائے گا.لیکن عموماً میں نے دیکھا ہے کہ لوگ ایک بات کو سن کر اثر قبول کرتے ہیں اور پھر اگر کچھ عرصہ اس اثر سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو وہ اثر بھی مٹ جایا کرتا ہے.پھر نیند آجاتی ہے، پھر اپنی پہلی حالت پر وہ راضی ہو جاتے ہیں.تو جب بھی آپ اچھی بات سنتے ہیں، وہ وقت ہوتا ہے، اس پر عمل کرنے کا.اسی وقت کچھ فیصلے کیا کریں، اسی وقت اپنے طرز عمل میں کچھ تبدیلیاں پیدا کیا کریں.اگر آپ ایسا کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نیک نصیحتیں آپ کے اندر نئی روحانی روئیدگی پیدا کریں گی اور آپ کے اندر سے نئی نئی ترقی کی شاخیں پھوٹیں گی.آپ کے وجود میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی.جن کے نتیجے میں ماحول میں آپ پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے اہل ہو جائیں گے.817

Page 827

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اسی طرح اور بھی کئی پہلوؤں سے یہ مثال تبلیغ کے معاملے میں حیرت انگیز طور پر صادق آتی ہے.زمینداروں کو تجربہ ہے کہ جب وہ کھیت میں گندم یا کوئی اور بیج ڈالتے ہیں، اس پر محنت کرتے ہیں.جیسا میں نے بیان کیا، بعض حصے جواب نہیں دیتے ، بعض جواب دیتے ہیں.لیکن اگر وہ مسلسل محنت کرتے ر ہیں تو جو پہلے جواب نہیں دیتے تھے، وہ بھی جواب دینے لگ جاتے ہیں.زمیندار جانتا ہے کہ جس کھیت کی طرف توجہ رکھی جائے ، وہ آہستہ آہستہ پہلے سے زیادہ Responsive ہونا شروع ہو جاتا ہے اور کچھ اور زمین کے ٹکڑے، جو پہلے نا کارہ تھے، شامل ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پھر بنے کٹ کٹ کے کھیت میں داخل ہونے لگ جاتے ہیں.یہاں تک کہ درمیان میں چلنے کی جگہ بھی تھوڑی سی رہ جاتی ہے.کھیتوں کے درمیان جو ڈنڈیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں، اچھے زمیندار جانتے ہیں کہ آہستہ آہستہ وہ بھی کھیت میں داخل ہونے شروع ہو جاتے ہیں.جو کر زمین ہے، اس کا کلر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے، جو لیول (Level) نہیں تھی ، پانی نہیں پہنچتا تھا، پھر وہ لیول ہونی شروع ہو جاتی ہے.تو وہ کھیت جن پر محنت کی جائے ، وہ جواب دیتے ہیں.اس لئے بار بار یاد دہانی کرانے کی ضرورت ہے اور بار بار محنت کی ضرورت ہے.امراء کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے اور ان کی مجالس عاملہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے ،سیکر ٹریان تبلیغ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے.صرف ایک دفعہ کی یادو دفعہ کی نصیحت کافی نہیں ہے.آپ سب جو جماعت کے عہدیدار ہیں، آپ کا جماعت سے واسطہ روز روز کا پڑنے والا ہے.میں ہر خطبے میں تو اس بات کو چھیڑ نہیں سکتا اور بہت سے مضامین ہیں، جن کی طرف توجہ دینی پڑتی ہے.ساری دنیا کے بہت سے مسائل ہیں، جن کو باری باری زیر نظر لا کر جماعت کے سامنے رکھنا ہوتا ہے.اور نہ میں بار بار یہاں آسکتا ہوں.اس لئے جو عہد یدار ہیں، وہ ان الزراع میں داخل ہیں، جو میرے ساتھ شامل کئے گئے ہیں.ان کو مسلسل توجہ کرنی چاہئے.به مضمون جو ہے، یہ ان سب الزراع پر صادق آتا ہے، جو کسی ملک کی انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہیں.مجلس عاملہ مرکز یہ ہو یا مقامی مجالس عاملہ ہوں.کیونکہ میں نے تمام مجالس عاملہ کی ذمہ داری لگائی ہے کہ ہر مہینے وہ تبلیغ کے موضوع کو ضرور زیر بحث لائیں.اور کوئی مجلس عاملہ ایسی نہ ہو، جس میں مہینے میں ایک بار ایجنڈے پر یہ مضمون نہ ہو کہ ہم نے تبلیغ کو زیر نظر لانا ہے اور دیکھنا ہے کہ ہم کیا کوششیں کر رہے ہیں؟ ان کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا رہا ہے؟ کتنے نئے احمدیوں کو ہم نے داعی الی اللہ بنا دیا ہے اور ایک نیا اعزاز بخشا ہے؟ داعی الی اللہ بنا کے ان لوگوں میں شامل کر دیا ہے، جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.اور کتنے داعی الی اللہ ہیں، جو کمزور تھے یا ان کو طریقہ نہیں آتا تھا، ان کو ہم نے طریقے سمجھائے ، ان کی کمزوری " 818

Page 828

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کو دور کیا ، ان کی مدد کی ، یہاں تک کہ اللہ کے فضل کے ساتھ وہ پہلے سے بہتر داعی الی اللہ بن گئے؟ اس قسم کے مضامین پر غور کرنے کے لئے میں نے ہدایت کی تھی کہ ہر مجلس عاملہ ایک دفعہ اسے زیر غور لائے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا.بہت کم ممالک نے سنجیدگی سے اس ہدایت کی طرف توجہ دی ہے.اور یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اگر آپ خلیفہ وقت کی ہدایت، میں ہوں یا کوئی بھی ہو، جو بھی اس منصب پر فائز ہوتا ہے، خواہ میرے جیسا کمزور ہی کیوں نہ ہو، اگر اس کی ہدایات کو آپ نظر انداز کریں یا تخفیف کی نظر سے دیکھیں گے تو آپ سے برکتیں اٹھ جائیں گی.میرا ساری زندگی کا تجربہ ہے.یعنی میں تو خلیفہ ابھی چند سال ہوئے بنا.لیکن میں نے دو خلافتوں کو دیکھا ہے، بڑے غور کے ساتھ اور قریب سے.اور میر اساری زندگی کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی ہدایت پر اگر آپ اخلاص کے ساتھ، سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں گے، خواہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے تو آپ کے کاموں میں غیر معمولی برکت پڑے گی.اور اگر آپ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے بھلا ئیں گے تو پھر آپ کے کاموں میں سے برکت اٹھ جائے گی.جماعت کو اس وقت بڑی تیزی کے ساتھ کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے.اور کثرت کے ساتھ الزراع پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اس لئے اس معاملے کی طرف زیادہ سنجیدگی سے توجہ کرنی چاہئے.پھر اس مثال کو اور طرح سے بھی پر کچھ کر دیکھیں.حیرت انگیز وسعت اس مثال میں پائی جاتی ہے.ایک آیت ہے لیکن اتنا وسیع مضمون بیان ہوا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.بعض کھیتوں پر میں نے کام کر کے دیکھا ہے، جب آپ محنت کرتے ہیں، بار بار یا زیادہ کھاد ڈالتے ہیں تو بعض جگہ وہ کھا د ضائع جاتی ہے اور بعض جگہوں پر فصل بہت زیادہ اگتی ہے.اور ہر محنت میں وہی حصہ جواب دیتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ بعض ٹکڑوں کا زرخیز ہونا باقی کھیت کے عیب بھی ڈھانپ لیتا ہے.چنانچہ میں نے بھی یہ تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ جماعت کو جب بھی تبلیغ کی نصیحت کرتا ہوں، زیادہ تر وہی لوگ دوبارہ سامنے آتے ہیں، جو پہلے ہی تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں.زیادہ تر وہی لوگ اپنی محنت کو اور زیادہ بڑھا دیتے ہیں اور زیادہ کوشش کرتے ہیں، دعاؤں کو بڑھا دیتے ہیں اور ان کے پھل میں اضافہ ہوتا ہے.کم ایسا دیکھا گیا ہے کہ جو نہیں کرتے ، وہ شامل ہو جائے.اور ان کی وجہ سے بعض دفعہ باقی کھیت کی جو کمزوری ہے، وہ چھپ جاتی ہے.ابھی اس امریکہ کے دورے میں بھی میں نے محسوس کیا ہے کہ بعض جماعتوں میں چند آدمی ہیں، جو کام کر رہے ہیں.اور ان کے کام کے نتیجے میں غیر معمولی طور پر کثرت کے ساتھ تبلیغ ہورہی ہے، کثرت کے ساتھ غیر احمدی مسلمان، کثرت کے ساتھ غیر مسلم عیسائی اور یہودی اور اس قسم کے دوسرے مذاہب سے 819

Page 829

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم تعلق رکھنے والے جماعت کا لٹریچر پڑھ رہے ہیں.جماعت کی مجالس میں شامل ہوتے ہیں اور جب بلایا جاتا ہے تو وہ شوق سے حاضر ہوتے ہیں.لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو وہ چند کام کرنے والے ہیں اور اکثر آدمی ابھی بھی کام نہیں کر رہے.لیکن جماعت کے چہرے پر رونق آگئی.دور سے دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ وہ جماعت غیر معمولی طور پر فعال ہو گئی ہے.لیکن جس زمیندار نے دیکھنا ہے اپنی کھیتی کو ، وہ اس نظر سے نہیں دیکھا کرتا.اگر اس نظر سے وہ بھی دیکھے تو اس کی کھیتی ترقی نہیں کر سکتی.اس کا زمیندارہ نشو و نما نہیں پاسکتا.زمیندار کو اور نظر سے دیکھنا پڑتا ہے.وہ یہ دیکھتا ہے کہ کھیت کا کتنا حصہ خالی پڑا ہے.کتنے حصے نے محنت کا اور جواب نہیں دیا.اور وہ بعض حصوں کی روئیدگی سے خوش ہو کر مطمئن نہیں ہوا کرتا.بلکہ جو کمز ور حصے ہیں، ان کی طرف دیکھ کر اور فکر مند ہوتا ہے.جب تک وہ شامل نہ ہو جائیں، وہ اطمینان نہیں پاتا لیکن بعض امراء یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ر پورٹوں میں بعض لوگوں کے زیادہ کام کو دکھا دیا جائے تو میں مطمئن ہو جاؤں گا.وہ سمجھتے ہیں کہ کہہ دیا جائے، دیکھیں شکاگو کی جماعت ماشاء اللہ کیسا اچھا کام کر رہی ہے.واقعی اچھا کام کر رہی ہے لیکن چند کام کر رہے ہیں.اس بات کو وہ مجھ سے چھپا نہیں سکتے.جب میں دورہ کرتا ہوں، ملتا ہوں لوگوں سے تو خدا تعالیٰ مجھے ساتھ دکھا دیتا ہے کہ کون لوگ ہیں؟ کتنا کام کر رہے ہیں؟ اور ساری جماعت اس محنت میں شامل ہے یا چند لوگوں کی محنت باقی جماعت کھا رہی ہے.پھر اسی طرح بعض شہروں میں کوئی کام نہیں ہو رہا لیکن سارے ملک کی مجموعی محنت کے نتیجے میں خدا تعالیٰ جو فضل نازل فرما رہا ہے ، بعض امراء وہی دکھاتے ہیں.حالانکہ ان کو یہ دکھانا چاہئے کہ میرے ملک میں کتنے حصے ابھی تک سوئے پڑے ہیں؟ کتنی کھیتیاں ہیں، جو بیکار پڑی ہیں؟ اور ان کے لئے میں کیا کر رہا ہوں ؟ ان کے لئے میری مجلس عاملہ کیا کر رہی ہے؟ اور میرے ساتھی کس طرح توجہ کر رہے ہیں؟ اس طرف سے نظر ہٹا کر چند لوگوں کی محنت پر خوش ہو جاتے ہیں.ان کی محنت پر خوش ہونا تو ضروری ہے لیکن ان کی خاطر ، ان کی محنت کے نتیجے میں دوسروں سے خوش ہونے کا کیا مطلب؟ یعنی جنہوں نے کام کیا ہے، ان کی محنت پر تو بہر حال خوش ہونا ہے.لیکن ان کی محنت کو باقی سب پر تقسیم کر کے سب سے برابر خوش ہو جانا ، یہ کوئی معقول بات نہیں.اس لئے ان کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے.لیکن بہر حال میں نے دیکھا ہے کہ جہاں بڑی رونق دکھائی دیتی ہے تبلیغ کے لحاظ سے ان لوگوں میں بھی جب قریب سے جا کر آپ مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک جماعت کا اکثر حصہ فعال نہیں ہے.بہت چند گنتی کے لوگ ہیں، ہر جماعت میں جو محنت کر رہے ہیں اور ان کے پھل کو اس ساری جماعت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.اور ساری جماعت پھر فخر کرتی ہے کہ ہاں ہم نے یہ کام کیا ہے.حالانکہ چند ہیں، جو کام کرنے والے ہیں.820

Page 830

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ہفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 06 نومبر 1987ء...آپ خدا کے وہ شیر ہیں، آپ میں سے ہر ایک کا ذکر قرآن کریم میں ان شہروں کے طور پر ملتا ہے، جنہوں نے خدا کی راہ میں کچھ Produce کرنا ہے، کچھ پیدا کرنا ہے اور بھیک منگے نہیں بنا ، لوگوں کے شکار پر زندہ نہیں رہنا بلکہ اپنا شکار خود پیدا کرنا ہے.آپ میں سے ہر ایک کو زراع کی جماعت میں داخل ہونا چاہئے.اور ہر ایک کو خدا کی راہ میں کچھ پیدا کرنا چاہئے.تا کہ لوگ آپ کے شکار سے فائدہ اٹھائیں.آپ لوگوں کے مارے ہوئے شکار کی طرف نظریں نہ جمائیں.اس شان کی جماعت بننا ہے آپ کو.اس لئے یہ ٹھیک ہے کہ آپ کی جماعت میں چند لوگ بھی اگر کام کریں گے تو ساری جماعت کے چہرے پر رونق آئے گی.لیکن آپ ان کی پیدا کردہ رونق کے محتاج ہوں گے، ان کی وجہ سے آپ کا نام بلند ہورہا ہو گا.ان لوگوں میں کیوں نہیں شامل ہوتے ، جن کی وجہ سے دوسروں کے نام بلند ہوا کرتے ہیں.اس لئے ہر جماعت کے فرد کو اس پہلو سے اپنا جائزہ لینا چاہئے.اور واقعہ اس میں کوئی بھی مبالغہ نہیں کہ اگر آپ اپنے طور پر خدا کی راہ میں کھیتی لگانے والوں میں شامل ہو جائیں گے تو اس جماعت میں داخل ہوں گے، جن کا ذکر ان آیات میں ملتا ہے کہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا رسول ہے.کس شان کا رسول ہے اور کس شان کے ساتھی اس نے پیدا کر دیئے ہیں کہ یہ یہ ان کی صفات ہے.اور دوسرے دور میں بھی اس کے کچھ ساتھی پیدا ہوں گے، جو الزراع ہوں گے ، خدا کی راہ میں کھیتی لگانے والے ہوں گے اور ان کی کھیتیاں نشو و نما پائیں گی.اور اس کثرت سے وہ پھیلیں گے کہ غیر کے لئے غضب کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.یہ بھی مضمون ہے.اس میں غیر کا غضب بیکار ہو جایا کرتا ہے.اگر نشو ونما تیز ہو جائے اور اگر نشو و نما کمز ور ر ہے تو پھر غضب کا نقصان بھی ضرور پہنچا کرتا ہے.تو نشو ونما کی تیزی کے نتیجے میں صرف غضب کا ذکر فرمایا.اس کے نقصان کا ذکر نہیں فرمایا.اگر جماعت احمد یہ اس تیزی سے پھیلنا شروع ہو جائے تو ناممکن ہے کہ کوئی حاسد، کوئی جماعت کا دشمن جماعت کو کوئی نقصان پہنچا سکے.کثرت کے ساتھ اور تیزی ساتھ پھیلنے والی جماعتوں کو کوئی دنیا میں نقصان نہیں پہنچا سکتا.جو اپنی جگہ کھڑی ہو جاتی ہیں، جو کمزور پڑ جاتی ہیں ، نشو و نما بند کر دیتی ہیں، ان کو نقصان پہنچتا ہے.چنانچہ قرآن کریم کی اس مثال کا اطلاق اس پہلو سے بھی کھیتی باڑی کے اوپر خوب صادق آتا ہے، وہ پودے جو بڑھ رہے ہوتے ہیں، ان کے اوپر بھی کیڑے مکوڑے بیٹھتے ہیں لیکن ان کا نقصان نہیں کر سکتے.جن کی صحت اندورنی طور پر اچھی ہو، ان کے اوپر بھی دوسرے کپڑے حملہ کرتے ہیں لیکن ان کا 821

Page 831

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم نقصان نہیں کر سکتے.لیکن جو پودے اندرونی طور پر کمزور پڑ جائیں، جن کی نشو ونما کھڑی ہو جائے، Stinted Growth جس کو کہتے ہیں، وہ رک رک کر بڑھیں یا ایک جگہ کھڑے ہوں، اس کثرت سے کیڑے مکوڑے ان پر حملہ کرتے ہیں کہ ان کی رہی سہی جان بھی ختم کر دیتے ہیں.تنے سے بیماری شروع ہوتی ہے، جڑوں تک اتر جاتی ہے.جڑوں سے شروع ہوتی ہے تو سارے تنے کو کھا جاتی ہے.تو غالبا یہ وجہ ہے کہ قرآن کریم نے دشمن کے غضب کا تو ذکر فرمایا، اس کے نقصان کا کوئی ذکر نہیں فرمایا.اس لئے کہ مثال ایک ایسی کھیتی سے دی ہے، جو بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے، روز روز نئے رنگ دکھا رہی ہے ، نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں اور اس کے تنے میں نئی توانائی پیدا ہوتی چلی جارہی ہے.اس پہلو سے اگر جماعت احمدیہ ترقی کرنا شروع کرے اور اس کا انحصار ہر فرد جماعت پر ہے.یہ یادر کھنے والی بات ہے، عمومی طور پر جماعت احمدیہ سے نہیں، ہر فرد جماعت سے.اگر ہر فر د جماعت محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں داخل ہونا چاہے اور ان لوگوں میں شامل ہونا چاہیے، جو آخرین میں ہو کر بھی پہلوں سے مل گئے تھے تو یہ وہ راز ہے، جو قرآن کریم نے ہمیں سمجھایا ہے.اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ہر شر اور ہر خطرے سے آزاد ہو جائے گی.کوئی دنیا کی طاقت آپ کو سمیٹ نہیں سکتی کسی جگہ.سارا کینیڈا خالی پڑا ہے، سارا امریکہ خالی پڑا ہے.بہت سے لوگ ہیں یہاں ، قابل توجہ ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اکثر لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کر رہے.امریکہ کی جماعت کو میں نے بار بار سمجھایا اور ایک خطبے میں خاص طور پر اس طرف متوجہ کیا کہ بہت سے ایسے امریکن ہیں، جن کو کالے امریکن کہا جاتا ہے.اور ہم ان کو Afro-American کہتے ہیں.یعنی افریقائی امریکن تا کہ وہ کالے کا لفظ جو اپنے اندر داغ رکھتا ہے، اس سے ان کو صاف کیا جائے.ویسے تو رنگ میں کوئی برائی نہیں لیکن کیونکہ کالے لفظ کے ساتھ ایک تذلیل کا معنی شامل کر دیا گیا ہے، اس لئے ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کو کالے افریقین کہا جائے.بلکہ کہتے ہیں افریقائی امریکن.جو افریقی باشندے ہیں اور آغاز کے لحاظ سے.لیکن بعد میں امریکہ میں آباد ہو کر امریکن بن گئے.میں نے ان کو سمجھایا کہ آپ نے اس قوم کی طرف توجہ ہی نہیں کی نتیجہ بہت سے بعد میں آنے والے ان کے بہت سے حصے کو اپنے ساتھ شامل کر گئے.حالانکہ وہ آپ کے تھے پہلے.آپ تھے پہلے جو امریکہ میں پہنچے.آپ کے یہاں امریکہ میں آنے کے نتیجے میں اسلام داخل ہوا ہے، یہاں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب سے پہلا اسلام کا مشن جس جماعت کو کھولنے کی توفیق ملی ، وہ جماعت احمد یہ تھی.لیکن عدم توجہ کے 822

Page 832

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 06 نومبر 1987ء نتیجے میں آپ نے بہت عظیم الشان مواقع اپنے ہاتھ سے گنوادیئے.اب بھی توجہ کریں.اور یہ وہ زمین ہے، یعنی یہاں بھی اسی آیت کے مضمون کا اطلاق پاتا ہے، جو زرخیز ہی نہیں بلکہ بہت جلد جلد بہترین جواب دینے والی زمین ہے، لبیک کہنے والی زمین ہے.تھوڑا کام کریں آپ افریقین امریکنوں پر بہت بڑے نتیجے نکلتے ہیں.تو جو زمینیں زرخیز اور نتیجہ خیز ہیں، جو تعاون کرنے والی زمینیں ہیں، ان کو آپ چھوڑ رہے ہیں اور سفید چھڑی کے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ سفید ہوگا تو آپ کو عزت ملے گی.عزتیں کون سی ہیں، جو دنیا سے تعلق رکھنے والی ہیں.فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيعًا (النساء: 140) عزتیں تو ساری کی ساری خدا کی ہیں اور خدا کے ہاتھ میں ہیں.جو قوم خدا کے نام پر لبیک کہتی ہے، نیک باتوں کو توجہ سے سنتی ہے اور جلد آگے بڑھتی ہے ، وہی عزت والی قوم ہے.اس کے آنے سے آپ کی عزت بڑھے گی.جو توجہ نہیں کرتے ، ان کی طرف آپ کا توجہ دینا، قرآن کی نصیحت کے منافی بات ور ہے، قرآنی تعلیم کے منافی بات ہے.اس مضمون کو میں نے امریکہ میں بھی بیان کیا اور آپ کے سامنے بھی رکھتا ہوں.وہ قومیں، جو پسماندہ قومیں کہلاتی ہیں، وہ لوگ، جن کو لوگ تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں، عموماًدیکھا گیا ہے کہ جب ان تک دین کا پیغام پہنچایا جائے تو وہ جلدی جواب دیتے ہیں، جلدی لبیک کہتے ہیں.تو یہ سب خدا کی زمینیں ہیں.خدا کی نظر میں کوئی بھی گھٹیا اور پسماندہ نہیں ہے اور کوئی بھی ذلیل نہیں.ایک ریڈ انڈین اگر آپ کی بات کا جواب دے تو وہی خدا کی نظر میں معزز ہے.اس لئے آپ زمینوں کی تلاش میں بھی عقل اور ہوش سے کام لیا کریں.جو جلد جواب دیتے ہیں، جلد لبیک کہتے ہیں ، جلد تعاون کرتے ہیں، ان کی طرف زیادہ توجہ دیں.جو بار بار بات سننے کے باوجو د رسما توجہ کرتے ہیں اور حقیقی طور پر تبدیلی پیدا نہیں کرتے ، ان کو نظر انداز کر دیا کریں یا معمولی توجہ دیا کریں، اسی نسبت کے لحاظ سے.بہر حال یہ مضمون تو بہت ہی وسیع ہے ، نہ ختم ہونے والا ہے.میں آخر پر آپ کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ جو کچھ بھی بار بار آپ کے سامنے پروگرام رکھے جاتے ہیں، ان کو توجہ سے سنا کریں، انہیں قبول کیا کریں اور عمل کے سانچوں میں ڈھالا کریں.اگر آپ یہ کریں گے تو آپ کو تکلیف نہیں ہوگی.آپ کی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی.آپ کو زندہ رہنے کا زیادہ 823

Page 833

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم لطف آئے گا.آپ کو ایک موقع پر یہ محسوس ہوگا کہ آپ کی پہلی زندگی بیکار اور بے معنی تھی.اب جو زندگی آپ نے بنائی ہے، وہ بہت زیادہ پر لطف ہے اور بہت زیادہ معنی خیز ہے، بامقصد ہے.اس پہلو سے وہ لوگ، جو دعوت الی اللہ کی طرف توجہ نہیں دیتے ، وہ بیچارے قابل رحم ہیں.بالکل اسی طرح قابل رحم ہیں ، جس طرح ایک کلر والا کھیت یا کسی اور بیماری کے نتیجے میں ایسا کھیت، جو بیج کو اگانے کی بجائے اپنے اندر سمیٹ لیا کرتا ہے.نصیحت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے ضائع کر دیتا ہے.ان کھیتوں کی طرف جب نظر پڑتی ہے تو آپ دیکھیں آپ کو ان کے اوپر یا غصہ آئے گا یار تم آئے گا.لیکن جو کھیت زرخیز ہوں، ان کی تو کیفیت ہی اور ہوتی ہے.ان کو دیکھ کر نظر تازہ ہو جاتی ہے.پہاڑوں کی طرف دیکھیں، جن کو خدا تعالیٰ نے رونق بخشی ہے، سرسبزی اور ہریاول کی ، ان کی طرف دیکھنے سے اور لطف آتا ہے.جو بنجر اور ویران ہیں، ان کی طرف دیکھ کر اور قسم کے خیالات اور جذبات پیدا ہوتے ہیں.تو اس لحاظ سے جماعت کا وہ حصہ، جوا بھی زرخیز نہیں ہوا، میری نظر میں اس کی حالت قابل رحم ہے.ان کو خود نہیں پتا کہ ان کی زندگی کیسی بے معنی ہے.جب وہ زرخیز ہو جائیں گے، جب وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نشو و نما کے آثار ظاہر کریں گے تو وہ خود محسوس کریں گے کہ ان کے اندر ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہو چکا ہے، ان کی زندگی پہلے سے بہت زیادہ پر لطف ہو جائے گی.اس لئے اپنے اوپر رحم کریں اور ان نصیحتوں کی طرف توجہ دیا کریں.اور ساری جماعت کو بالعموم چاہئے کہ اس معاملے میں ایک دوسرے کو نصیحت کرتی رہے اور یاد کراتی رہے.اگر اس طرح کا رد عمل آپ نصیحتوں پر دکھا ئیں گے تو انشاء اللہ روز بروز آپ کی حالت تبدیل ہونی شروع ہو جائے گی.پھر ہر سال آپ کے اندر حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہوں گی.توانائی کا احساس ایک بہت ہی پر لطف احساس ہے.کمزوری کا احساس اگر وہ دعاؤں میں نہ بدلے تو نہایت ہی تکلیف دہ احساس ہے.اس لئے اپنے کمزوری کے احساس کو دعاؤں کے نتیجے میں اور نیک اعمال کے نتیجے میں توانائی کے احساس میں تبدیل کریں.آپ کے اوپر دنیا میں ورنہ کوئی رحم نہیں کرے گا، آپ کو ہمیشہ تذلیل کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.آپ دنیا میں کوئی مقام نہیں پیدا کر سکتے ، جب تک آپ ان رستوں پر نہ چلیں ، جو توانائی حاصل کرنے کے رستے ہیں.یہ دنیا اخلاق کی دنیا نہیں ہے، جس میں آپ زندہ ہیں.یہ دنیا محض ”جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کی دنیا ہے.اس اصول کی دنیا ہے.اور وہی قومیں پنپتی ہیں اور عزت پاتی ہیں، جو توانا ہو جایا کرتی ہیں یا تو انائی کے رستوں پر چل پڑتی ہیں.جو قومیں کمزور رہتی ہیں، ان کو شاید بعض لوگ رحم کی نظر سے دیکھتے ہوں.ورنہ اکثر تو ان کو کھا جانے کی سوچتے ہیں.ان کو اور زیادہ ذلیل ورسوا کرنے کی سوچتے ہیں.824

Page 834

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 نومبر 1987ء اس ملک میں جو کینیڈا ہے یا امریکہ، شمالی امریکہ میں اور جنوبی امریکہ میں بھی آپ نے دیکھا ہے کہ کمز ور تو میں کس طرح صفحہ ہستی سے ایسے غائب ہو گئیں.اس لئے توانائی کا حاصل کرنا ضروری ہے.ان رستوں پر چل کر جن رستوں پر خدا نے چلنے کی تلقین فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں کہ جس کے نتیجے میں ہم روز بروز بڑھنا شروع کریں، پھولنا اور پھیلنا اور پھلنا شروع کریں.ہمارے اندر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نشو ونما کی ایک انقلابی کیفیت ظاہر ہو.جو پہلے سے بالکل مختلف ہو جائے.ہمارے بچوں کے چہرے پر بھی ان حالات کو دیکھ کر رونق آجائے.وہ محسوس کریں کہ وہ ایک طاقتور جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، بڑھنے اور پھیلنے والی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.یہ تبدیلیاں اگر آپ کے اندر پیدا ہو جائیں گی تو آپ کو زندگی کے نئے لطف آئیں گے، جن سے پہلے آپ نا آشنا ہیں.خدا تعالیٰ کرے کہ جلد تر ایسا ہو.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 16 صفحہ 721 تا 742) 825

Page 835

Page 836

تحریک جدید - ایک الہی تحریک " اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1987ء واعتصموا بحبل الله جميعاً خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 1987ء امریکہ سے روانگی سے پہلے یہ میرا آخری خطبہ ہے، جو اس دورے میں، میں یہاں دینے کے لئے کھڑا ہوا ہوں.اس دورے کے تجربے کی روشنی میں، جس میں مجھے بہت سی امریکہ کی احمدی جماعتوں کے اکثر ممبران سے ملنے کا موقع ملا، میں آپ کو بعض نصائح کرنی چاہتا ہوں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ ان نصیحتوں کو آپ مضبوطی سے پکڑ لیں گے.اور اگر آپ ایسا کریں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو یا اس پیارے دین کو، جس کے ساتھ آپ چھٹے ہوئے ہیں، یعنی دین اسلام، اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی“.بعض نصائح کو زیادہ کھول کر اور اپنے تجربے کی روشنی میں بعض پہلوؤں سے اجا گر کر کے " آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.پہلی نصیحت یہ فرمائی گئی ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو.حبل اللہ سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق بار ہا جماعت کے علماء کی طرف سے اور اس سے پہلے خود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی طرف سے جماعت کے سامنے یہ بات کھولی گئی ہے کہ حبل اللہ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو خدا کی طرف سے پیغام لے کر آتے ہیں.اور اول طور پر جبل اللہ سے مراد اللہ کے نبی ہیں اور اللہ کے پیغمبر ہیں.وہی وہ رسی ہے، جس کو مضبوطی سے اجتماعی طور پر پکڑنے کی ان آیات میں نصیحت فرمائی گئی ہے.نبوت کے بعد یہ رسی خلافت کے نام سے موسوم ہوتی ہے اور اسی پہلو سے خلفاء کے ساتھ مضبوطی سے اپنا تعلق قائم کرنا جماعتی زندگی کے لئے انتہائی ضروری ہے.اور اس تعلق میں بیچ میں کوئی اور واسطہ بیان نہیں فرمایا گیا.اور اس تعلق میں واقعہ عملی زندگی میں بھی کوئی اور واسطہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا.خلیفہ وقت اور احمدی مسلمان، ان کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے، جس میں کوئی نظام جماعت اور کوئی نظام جماعت کا نمائندہ حائل نہیں ہوتا.اور یہی وہ تعلق ہے، جو سب سے پہلے نبی اپنے اور اپنے متبعین کے درمیان قائم فرماتا ہے.اور اسی تعلق کو جاری رکھنے کے لئے نظام خلافت 827

Page 837

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 13 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتہ ہے.یہ ایک روحانی تعلق ہے.اگر اس بلا واسطہ تعلق کی نسبت سے آپ اس مضمون کو سمجھیں گے اور اس تعلق کی حفاظت کریں گے تو آپ بہت سے خطرات اور خدشات سے محفوظ رہیں گے.بالعموم جماعت میں جو رخنہ ڈالنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، ان میں خلیفہ وقت کو پہلے سامنے نہیں رکھا جاتا.بلکہ خلیفہ وقت کے نمائندوں پر حملہ کیا جاتا ہے.خلیفہ وقت کے نمائندوں کو اپنے تخریبیں Criticism یا الزامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے.اور یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہمارا خلیفہ وقت سے تو تعلق ہے.یہ لوگ جو بیچ میں حائل ہیں، انہوں نے صحیح نمائندگی نہیں کی.یہ لوگ جو بیچ میں حائل ہیں، ان کا کردار ایسا نہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے نظام جماعت سے وفا کی جائے.چنانچہ اکثرفتنوں کا آغاز اسی طریق پر ہوا ہے.قرآن کریم یہ مضمون بیان فرما رہا ہے کہ تمہارا ابنیادوں سے تعلق ہے.اور جن کا بنیادوں سے تعلق ہو، شاخوں کے خراب ہونے سے وہ تعلق ٹوٹ نہیں جایا کرتا.اس لئے جڑوں سے اپنا تعلق مضبوط کرو.وو یہی وہ مضمون ہے، جس کا سمجھنا جماعت کے لئے آج پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے.کیونکہ آج جماعت ایسے دور میں داخل ہورہی ہے، جب کہ مختلف سمتوں سے کئی قسم کے خطرات در پیش ہیں.اور سب سے پہلے آپ کے ایمان پر حملہ ہو گا.اگر ایمان کو نقصان پہنچا اور حبل اللہ پر سے آپ کا ہاتھ ڈھیلا پڑ گیا تو پھر باقی کچھ باقی نہیں رہے گا.اس لئے حبل اللہ کے مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا نہایت ضروری ہے.ہر احمدی کا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو یا آپ کے خلفاء سے یا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یا آپ کے خلفاء سے، اس کی بنیاد اللہ کے تعلق پر ہے.اگر اس کی بنیاد اللہ کے تعلق پر نہیں ہے تو یہ تعلق مصنوعی اور جعلی اور بے معنی ہے.اگر اللہ کی محبت یہ تعلق پیدا کرتی ہے اور اللہ کی محبت جتنا بڑھتی ہے، اتنا ہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق بڑھتا چلا جارہا ہے تو پھر یقین جانئے کہ ایسے شخص کو کسی قسم کا کوئی خطرہ در پیش نہیں.نہ اس دنیا میں، نہ اس دنیا میں.اور یہ تعلق ہے.والے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ہر فتنے سے محفوظ رہتے ہیں.جب بھی کوئی ایسی بات کی جاتی ہے جس سے ان کے نزدیک ان کا خدا ناراض ہو سکتا ہے، وہ جانتے ہیں کہ ایسی بات شیطان کی طرف سے آئی ہے.جب بھی کوئی ایسی بات کی جاتی ہے، جو خدا تعالیٰ کی واضح ہدایات کے منافی نتیجے پیدا کرنے والی ہو، خواہ وہ کیسا ہی بھیس بدل کر بات کی گئی ہو، اللہ سے تعلق والے جانتے ہیں کہ یہ بات جھوٹی اور شیطان کی طرف سے ہے.اس لئے ایسی جماعت میں، جو اللہ کی رسی پر ہاتھ ڈال لے اور اس تعلق کو مضبوط کر لے کسی قسم کا کوئی رخنہ پیدا نہیں کیا جاسکتا.828

Page 838

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 1987ء جس قوم میں یہ صفات پیدا ہو جائیں کہ اللہ کے تعلق کے نتیجے میں ان کے سارے تعلق قائم ہوں اور ہر اس تعلق کی عظمت ان کے دل میں قائم ہو جائے، جو اللہ کے تعلق کے نتیجے میں قائم ہوا ہے، ان کی حمیت ان کی غیرت برداشت نہ کر سکے کہ اس شخص پر ہاتھ ڈالے کسی کی زبان یا کسی کا ہاتھ اس شخص پر دراز ہو ، جس سے وہ خدا کی خاطر محبت کرتا ہے.ایسی جماعت کو کون منتشر کر سکتا ہے؟ کیسے ممکن ہے کہ اس جماعت کا شیرازہ کوئی بکھیر سکے.اور ایسی جماعت کے اندر ایک ایسی عظیم الشان مقناطیسی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دوسروں کو ہدایت کی طرف بلانے کی اہل بن جاتی ہے.دعوت الی اللہ کا اس مضمون سے بڑا گہرا تعلق ہے.برائیوں کو دور کرنے کے لئے جو آپ نصیحت کرتے ہیں، اس کا اس مضمون سے بڑا گہرا تعلق ہے.جب تک آپ کے اندر یہ بنیادی صفات پیدا نہ ہو جائیں کہ آپ خدا کے ہو جائیں اور خدا کے ہونے کے نتیجے میں آپ کے تعلق استوار ہوں ، اس وقت تک آپ کی نصیحت میں وزن پیدا نہیں ہوگا ، اس وقت تک آپ کی نصیحت میں طاقت پیدا نہیں ہوگی.زبان کی " بات تو ہوگی لیکن دلوں کو تبدیل کرنے کی اس میں کوئی طاقت نہیں ہوگی کوئی اہلیت نہیں ہوگی....اس معاشرے میں جس میں آپ زندگی بسر رہے ہیں...یہاں تو قدم قدم پر صرف مومنوں کے لئے نہیں بلکہ غیر مومنوں کے لئے بھی خطرات ہیں.اور ان لوگوں کے لئے بھی خطرات ہیں، جن کا یہ معاشرہ ہے.اور اتنے زیادہ خطرات ہیں کہ آپ ان کو شمار نہیں کر سکتے.ہر قدم پر روحانی زندگی کے لئے اس ملک میں ایک چیلنج ہے.اور آپ نے صرف اپنی زندگی نہیں بچانی بلکہ غیروں کی زندگی بچانی ہے.غیروں کو ان خطرات سے محفوظ کرنا ہے.دلائل کے ذریعے آپ ایسا نہیں کر سکیں گے.تعلق باللہ کو مضبوط کریں اور اس تعلق باللہ کے نتیجے میں خود ایک ہوں، خود ایک دوسرے سے محبت پیدا کریں.یا یوں کہنا چاہئے کہ اس تعلق باللہ کے اظہار کے طور پر آپ ایک ہو جائیں.اور خود ایک طبعی قانون کے طور پر آپ کے دل ایک دوسرے کے ساتھ باندھے جائیں.تب آپ میں وہ عظمت پیدا ہوگی، جس کے نتیجے میں آپ کی نصیحتوں میں وہ عظمت پیدا ہو جائے گی، آپ کے کلام میں ایک وزن پیدا ہوگا.ایک ایسی قوت ہو گی کہ دوسرا اس کا انکار نہیں کر سکتا..اس لئے آپ کو اپنے گردو پیش کو برائی سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے.اور اپنے ماحول کو نیکی کی طرف بلانا چاہئے اور نیک نصیحت اور جذبے کے ساتھ ایسا کرنا چاہئے.اگر آپ اس طرح کام شروع کریں گے تو لازما لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہیں گے.اگر دلائل کے رستے اور منطق کی دقیق راہوں سے آپ دنیا کو اپنی طرف بلانے کی کوشش کریں گے تو اول تو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں کہ 829

Page 839

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم وہ دلیل کو عمدگی سے پیش کر سکے اور دوسرے محض دلیل کے ذریعے معاشرے تبدیل نہیں ہوا کرتے.لوگ سمجھتے بھی ہیں کہ ایک چیز بری ہے مگر اسے چھوڑنے کی طاقت نہیں رکھتے.لوگ جانتے ہیں کہ اچھی نصیحت کی جارہی ہے لیکن اس نصیحت کے اندر ایسی کشش نہیں پاتے کہ اپنی برائی کی کشش پر اس کو غالب آتا ہوا دیکھیں.سمجھتے ہیں، عقلاً جانتے ہیں کہ ہاں یہ چیز بری ہے، نصیحت اچھی ہے.مگر برائی کے اندر ایک کشش ہے اور کشش ثقل کی طرح، ایک قانون کی طرح وہ کام کرتی ہے.اس لئے ناممکن ہے کہ نصیحتوں کے ذریعے ، جن کے اندر کوئی اور وزن نہ ہو، آپ لوگوں کو برائیوں سے الگ کر سکیں“.33..اس لئے اس کے مقابل پر کوئی طاقت ہونی چاہئے.اور قرآن کریم فرمارہا ہے کہ تمہارے تعلق باللہ کے نتیجے میں تمہاری ذات میں ایک کشش پیدا ہوگی.وہ کشش لوگوں کو کھینچے گی، وہ کشش ان کی برائی سے محبت کے مقابل پر زیادہ قوی ہو جائے گی.کیونکہ کشش ثقل زمین کی طرف بلاتی ہے اور خدا کی محبت آسمان کی طرف بلاتی ہے.اور خدا کی محبت زمین کی محبت پر غالب آجاتی ہے، اگر وہ بچی ہو.اس لئے لازم وہ لوگ خدا کی طرف کھینچے جائیں گے ، اگر ان کو بلانے والے خدا کی طرف تھے ، اگر ان کو بلانے والے خدا کی محبت اپنے دل میں رکھتے ہوں.پس اس پہلو سے قرآن کریم فرماتا ہے : ہاں ! اب تم تیار ہو گئے ہو کہ بنی نوع انسان کو نیکی کی طرف بلاؤ اور برائیوں سے روکو کیونکہ تمہارا حبل اللہ سے تعلق قائم ہو چکا ہے.کیونکہ تم اللہ کی محبت کے نتیجے میں اس کے بندوں اور اس کے غلاموں سے محبت کرنے کے اہل ہو گئے ہو“." لیکن پھر اگلی نسلیں آتی ہیں ، ان کو یہ باتیں ورثہ میں ملتی ہیں، ان کے لئے یہ تاریخ ہو جاتی ہے.ان کو مخاطب کر کے فرمایا:.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنَتُ که خبردار! یہ نہ سمجھنا کہ یہ بندھن ہمیشہ مضبوط رہیں گے.خطرہ ہے کہ آئندہ نسلوں میں یہ بندھن کمزور ہو جائیں اور ان تعلقات کو تم رسمی تعلقات سمجھ لو.تم یہ مجھ لو کہ ماں باپ کے تعلق تھے، جو ہمیں ورثے میں ملے ہیں، ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں کہ اس طرح یہ تعلق قائم رہنے کے نہیں، یہ پھر ٹوٹ جائیں گئے.....پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کی موجودہ نسل کے لئے ایک بہت ہی بڑی تنبیہ ہے.ورثہ میں وہ سب رہتے تم پاؤ گے.اگر ورثہ میں خدا کی محبت بھی تمہیں ملی ہو اور اگر خدا کی محبت تمہیں ورثہ میں نہیں ملی اور حبل اللہ سے تعلق کمزور ہو گیا ہے تو بزرگوں کے ورثہ میں سے کچھ بھی تمہارے حصے میں نہیں آئے گا.بلکہ ان کا ورثہ پاؤ گے، جو تمہارے بڑوں اور تمہارے بزرگوں کے دشمن تھے.جنہوں نے اپنی 830

Page 840

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1987ء زندگی میں ان کی مخالفت کر کے عذاب کمایا تھا.فرمایا: تمہارے مقدر میں بھی ان کا ورثہ آئے گا.اپنے بزرگ والدین اور اپنی پہلی نسلوں کا ورثہ پانے والوں میں سے نہیں ہوگے.یہ وہ بڑی واضح اور عظیم اور کھلی کھلی نصیحت ہے، جس کو بار بار جماعت کے سامنے لانے کی ضرورت ہے.اور خصوصاً امریکہ کے اس دورے کے نتیجے میں، میں نے محسوس کیا کہ جماعت کے سامنے اسے پھر رکھنے کی ضرورت ہے.آپ کے دلوں میں بھی رخنے پیدا کرنے کے لئے شیطان کئی طرح سے کوشش کرتا ہے اور کر رہا ہے.کئی طرح سے جماعت کے خلاف کوشش کی جارہی ہے.پہلے بھی کی جاتی تھی ، آئندہ بھی ہوتی رہے گی.اس لئے یاد رکھیں کہ ہر وہ کوشش، جو اللہ سے محبت کے اوپر حملہ کرنے والی ہو اور اس محبت کے نتیجے میں ان لوگوں کی محبت پر حملہ کرے، جو خدا کی خاطر آپ کو پیارے ہیں، اس نظام پر حملہ کریں، جو خدا کی خاطر آپ کو پیارا ہے.وہ شیطان ہیں، جو یہ آواز اٹھانے والے ہیں.ان کی آواز کو دھتکار دیں اور رد کر دیں.بعض دفعہ یہ شیطان واضح ہو کر حملہ کرتا ہے بعض دفعہ چھپ کر حملہ کرتا ہے.بعض دفعہ براہ راست حملہ کرتا ہے، بعض دفعہ ایسے نمائندوں کے ذریعے حملہ کرتا ہے، جن کو آپ نیک دیکھتے ہیں، جن کو آپ اچھا پاتے ہیں.دیکھتے ہیں کہ وہ لمبے سجدے کر رہے ہیں، وہ نمازوں میں آگے ہیں اور دین کے کاموں میں بظاہر پیش پیش ہیں اور اس نتیجے میں آپ دھوکا کھا جاتے ہیں.قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا دیکھو ؟ کس طرف سے بات آرہی ہے؟ قرآن کریم نے فرمایا کہ میری محبت کو عزیز تر کر لو اور اپنے تعلق کو میرے تعلق کی بناء پر مضبوط کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تمہیں کوئی خطرہ نہیں.پس اگر ایک نیک آدمی کی طرف سے ایک ایسی آواز اٹھتی ہو، جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو خدا کی خاطر آپ کو پیارے ہوں، ان کے خلاف دل میں بغض پیدا ہوتا ہے تو وہ آواز نیک انسان کی طرف سے نہیں، شیطان کی طرف سے ہے.وہ نیک آدمی اگر بظاہر نیک ہے تو پھر وہ شیطان کا نمائندہ بن چکا ہے، آلہ کار بن چکا ہے.اس کو علم نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ اس لئے ہر اس کوشش کو پہچا نہیں کہ وہ اپنی ذات میں بد ہے یا اچھی ہے.اگر وہ تفرقہ پیدا کرنے والی کوشش ہے تو یقینا خدا کی طرف سے نہیں“..اس لئے کسی نوع کا افتراق ہو، جو بات بالآخر آپ کو اپنے بھائیوں سے دور لے جانے وو والی ہو، نظام جماعت سے دور لے جانے والی ہو ، وہ آواز خدا کی آواز نہیں ہے.اس ملک میں کئی قسم کے ایسے خطرات ہیں.بعض دفعہ آپ کو کہنے والے یہ کہیں گے کہ فلاں آدمی امیر ہے اور اس کی زیادہ عزت ہے اور ہم غریب ہیں یا فلاں غریب ہے، اس کی عزت نہیں ہے.اس لئے 831

Page 841

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 13 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم جماعت تقویٰ سے ہٹ گئی ہے.اس لئے جماعت سے تعلق کمزور ہو جانا چاہئے.اس لئے ایسے لوگوں کو اپنی تقید کا نشانہ بنانا چاہئے.واقعہ یہ ہے کہ اگر یہ ایسی بات درست ہے تو وہ بدنصیب ہے، جوکسی امیر کی محض اس کی امارت کی وجہ سے عزت کرتا ہے.لیکن وہ اس سے بھی زیادہ بدنصیب ہے، جو جماعت سے اس لئے تعلق توڑ لیتا ہے کہ جماعت کا کوئی شخص کسی امیر کی محض دولت کی خاطر عزت کر رہا ہے.اس لئے وہ اس سے بڑھ کر بدنصیب کیوں ہوتا ہے، جس کی بدنصیبی کو وہ اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بنارہا ہے؟ کیا دولتوں کی طرف رجحان کے نتیجے میں آپ کا تعلق خدا سے پیدا ہوا تھا ؟ کیا آپ کا تعلق خدا سے اس لئے تھا کہ تمام مسلمان امیر لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں اور غریبوں کو عزت دیتے ہیں؟ یہ ایسی ثانوی چیزیں ہیں، جن کا خدا سے تعلق سے کوئی بھی تعلق نہیں.اس لئے خدا کا تعلق بنیاد ہے.اگر کسی شخص کا تعلق خدا سے مضبوط ہے اور اسے کوئی یہ کہ دے کہ فلاں شخص ، جو جماعت کا نمائندہ ہے، اس نے تمہیں ذلیل سمجھا تو کیا اس کے نتیجے میں وہ خدا سے تعلق توڑے گا؟ امر واقعہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ ذلیل دنیا میں ان لوگوں کو سمجھا گیا، جن کا خدا سے سب سے زیادہ تعلق تھا.دنیا میں اپنے وطن میں سب سے زیادہ ذلیل انبیاء کئے گئے ہیں اور سب سے زیادہ تحقیران کی کی گئی ہے.کیا انہوں نے کبھی اس بناء پر کہ خدا کے بندوں نے ان پر نا جائز حملے کئے، خدا سے اپنے " تعلق کو کمزور کر لیا.....اس مضمون کو آپ اچھی طرح سمجھیں تو پھر کوئی شخص آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا.کوئی شخص آپ کو یہ آکر کہتا ہے کہ ہم ایک ایسا اجلاس بلاتے ہیں، جس میں صرف African Americans شامل ہوں گے، پاکستانی شامل نہیں ہوں گے.ہر African American کو سمجھ جانا چاہئے کہ یہ شیطان کی آواز ہے.یہ ایک ایسی آواز ہے، جو انفرادی تفریق نہیں پیدا کر رہی بلکہ جماعت کو دو نیم کرنا چاہتی ہے.جو جماعت کے ایک طبقے کے ساتھ دوسرے طبقے میں فرق پیدا کرنا چاہتی ہے.اور یہی وہ رد عمل ہے، جو یہاں کی جماعت نے ایک موقع پر دکھایا.جبکہ ایسی آواز ابھی اٹھائی گئی.تمام ایسے African Americans جو اپنے اخلاص اور محبت میں خالص ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ ایک بڑی بھاری تعداد ایسی ہے، جو اپنی محبت اور اپنی اخلاص میں خالص ہیں، انہوں نے اس بات کو تحقیر کی نظر سے دیکھا اور رد کر دیا.اور ہر ایک نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم کسی ایسے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے، جو خدا کی جماعت کو دو نیم کرنے والا ہو.اور جو خدا کی جماعت میں تفریق پیدا کرنے والا ہو.اگر چہ بظاہر ان کی محبت کی خاطر 832

Page 842

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1987ء یہ آواز اٹھائی گئی تھی.یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ شخص جس نے اس آواز کو اٹھایا، اس کے دل میں شیطان نے اثر کیا تھا اور براہ راست اس کے دل سے یہ آواز اٹھی تھی یا کسی شیطان نے اس کو اپنا آلہ کار بنایا تھا.مگر دونوں صورتوں میں اس کی ایک بدنصیبی ہے.وہ خدا کے دشمن کا آلہ کار بن گیا.خواہ لاعلمی میں بنا، خواہ جان کر اور اس بات کو خوب پہچانے کے بعد بنا.مگر دونوں صورتوں میں اس کی ایک بدنصیبی ہے.اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امریکہ کی جماعت پر اس نوع میں بھی کئی قسم کے حملے پہلے ہو چکے ہیں.یہ حملے ہمیشہ ایک طرف پر نہیں ہوا کرتے.قرآن کریم ہمیں دوسری طرح مطلع فرماتا ہے کہ شیطان تم پر اس طرح حملے کرتا ہے کہ خود چھپ جاتا ہے اور تمہیں یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ کس طرف سے حملہ ہو رہا ہے".چنانچہ یہ جو حملے ہیں، مختلف رنگ میں ہوتے ہیں.کبھی بلند شکل میں پیدا ہوتے ہیں، کبھی چھوٹوں کی شکل میں پیدا ہوتے ہیں.کبھی محبت کے نام پر پیدا ہوتے ہیں، کبھی دشمنی کے نام پر پیدا ہوتے ہیں.اور یہ وسوسے اپنے رنگ بدلتے رہتے ہیں، نتیجہ ایک ہی ہے کہ وہ لوگ، جو حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں، ان کے درمیان میں رخنہ پڑ جائے اور ان کے درمیان افتراق پیدا ہو جائے اور ان کے او پر قبضہ کر لیا جائے.چنانچہ امریکہ ہی میں ایک ایسا دور تھا، جبکہ امریکہ کی جماعت پر نیکی کے نام پر قبضہ کیا جانے کی کوششیں کی جارہی تھیں.بعض لوگ ایسے تھے، جنہوں نے ایک دم جماعت کے کاموں میں آگے آنا شروع کر دیا.اور ان کا ایک گروہ تھا، جن کا آپس میں تعلق تھا.اور وہ ایک دوسرے کو بڑھاتے تھے.اور جب میں نے تحقیق کی تو اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ بعض ان کے ایجنٹ جماعتوں میں پھرتے تھے اور ان کی تعریفیں کرتے تھے.کہتے تھے : فلاں شخص بہت نیک ہے اور بہت اعلیٰ خدمات کرنے والا ہے، کیوں اس کو آگے نہیں لایا جارہا؟ کہیں یہ وجہ تو نہیں کہ پاکستانی لیڈرشپ کو یہ خطرہ ہے کہ اس لیڈر شپ پر مقامی لوگ قابض ہو جائیں گے.اس لئے ہمیں اچھے لوگوں کو ووٹ دینا چاہئے.جو ہم میں سے ہیں، ان کا حق ہے کہ وہ آگے آئیں.اس طرح پرو پیگنڈا کر کے بعض نہایت ہی اسلام کے خطرناک لوگوں کو آگے لانے کی کوشش کی جارہی تھی.جب میں 1978ء میں ایک عام احمدی کی حیثیت سے آیا یعنی خلافت کے منصب پر بھی خدا تعالیٰ نے مجھے فائر نہیں فرمایا تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ بصیرت مجھے ایسی عطا فرمائی تھی، جس سے میں ان باتوں کو بھانپ لیتا تھا، پہچان لیتا تھا.ان سب لوگوں سے میں نے تعلق قائم کیا، ایک ذاتی دورہ تھا، میں پھر رہاتھا.833

Page 843

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اور جہاں جہاں بھی موقع ملا، مقامی، بیرونی، ہر قسم کے احمدیوں سے بڑی محبت سے ملا اور ان کو قریب سے دیکھا.اور واپس جا کر میں نے بعض لوگوں کے متعلق یہ رپورٹ کی کہ مجھے یہ نہایت خطرناک سازش دکھائی دے رہی ہے.کچھ لوگ نیکی کے نام پر جماعت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور دو طرح کے خطرات ہیں.اول: اگر وہ واقعہ نیک ہیں تو ان کو جماعت کے نظام کا علم کوئی نہیں.ان کے اندر احمدیت گہری طور پر جذب نہیں ہے.وہ بیرونی خیالات سے متاثر ہیں اور احمدیت اور اسلام کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے.اور دوسرے مجھے یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ ایک سازش کے نتیجے میں ایسا ہو رہا ہے.چنانچہ ایسے لوگوں کو یہاں کے بعض مخلص احمدیوں نے نہایت سادگی سے ان کو نیک سمجھتے ہوئے او پر لانے کی کوشش کی.اور چونکہ مرکز متنبہ ہو چکا تھا، ان کی اس کوششوں کو رد کر دیا گیا.اور ان کو وہ عہدے نہیں دیئے گئے، جن کے لئے ان کے نام پیش ہوئے تھے.نتیجہ کچھ لوگوں کے اندر تو یہ غصہ سلگتا رہا کہ جماعت نے ہمیں چنا اور مرکز نے رد کر دیا، یہ کیا وجہ ہے؟ یہ کس قسم کی Democracy ہے؟ میں بتادینا چاہتا ہوں کہ یہاں دنیاوی کوئی Democracy نہیں ہے.نظام جماعت خدا کی رسی سے شروع ہوتا ہے اور آسمان سے لٹکنے والی رسی ہے، جو نظام جماعت کی نمائندگی کرتی ہے.زمین سے اٹھنے والی کوئی رسی نہیں ہے، جس کو آپ پ Democracy کہہ کر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں.اگر واقعہ آپ کا تعلق اللہ سے ہے تو آپ کی نظر اللہ پر رہے گی.اور ان لوگوں کی رضا آپ کی رضا بن جائے گی، جو خدا کی رضا پر چلتے ہیں.اور Democracy کا بالکل ایک مختلف سے مختلف تصور پیدا ہوتا ہے.وہ جو خدا کے لئے کام کرنے والے ہیں، جن کا خدا سے تعلق مضبوط ہے، ان کی رضا آپ کی اپنی رضا پر غالب آجاتی ہے.اور ایسے شخص کو پھر کوئی خطرہ نہیں.چنانچہ اس مضمون کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں کچھ لوگوں کے دلوں میں اعتراض پیدا ہوئے.لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ جن کو خدا نے ایک بڑا عظیم الشان دنیا کا کام سپر دفرمایا ہے، جن کی تربیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود فرمائی ، جن کو تقویٰ پر قائم کیا ، ان کو اہل تقویٰ کی بصیرتیں عطا فرمائیں، پھر خلافت کے زیر سایہ انہوں نے لمبی پرورش پائی ، بچپن سے بڑے ہوتے تک، بڑے ہو کر جوان ہوتے تک، جوان ہو کر بوڑھے ہوتے تک اور مرتے دم تک کامل وفا سے وہ اسلام کے ساتھ بڑی محبت کے ساتھ چھٹے رہے.یہ وہ لوگ ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے تقویٰ پر قائم فرمایا ہے.ان کے فیصلے اپنی انا کے مطابق نہیں ہوتے، ان کے فیصلے ہرگز اس بنا پر نہیں ہوتے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم پر غالب آجائے.834

Page 844

** اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ان کے فیصلے خالصہ اس بات پر قائم ہوتے ہیں کہ اللہ، غیر اللہ پر غالب آجائے اور اللہ کی محبت غیر اللہ کی محبت پر غالب آجائے.اس لئے کسی ایسے خطرے کو برداشت نہیں کر سکتے.اس کے خلاف نبرد آزما ہونا ، ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے، جس سے نظام جماعت پر حملہ ہورہا ہو.اس بناء پر وہ فیصلے ہوتے ہیں لیکن دنیا میں بہت سے نئے آنے والے مختلف جگہوں سے دین میں بعد میں شامل ہونے والے اس مضمون کو گہرائی سے نہیں سمجھتے.اس لئے وہ بعض دفعہ دشمن کے پروپیگینڈے کا شکار ہو جاتے ہیں.بہر حال ایک یہ بھی دور تھا، جب اس رنگ میں کوشش کی گئی.اور بعض دفعہ پھر بھی ایسی کوششیں کی جائیں گی.لیکن آپ یا درکھیں اگر آپ خلیفة المسیح سے آپ کی بیعت کچی ہے، اگر خلیفة المسیح پر آپ کا اعتماد ہے اور آپ جانتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہے اور آج دنیا میں سب سے زیادہ خدا کی نمائندگی کا اس کو حق حاصل ہے تو پھر اپنے فیصلوں اور اپنی آراء کو اس کی رائے پر اور اس کے فیصلے پر بھی ترجیح نہ دیں.اگر آپ نے کبھی ترجیح دی تو حبل اللہ سے آپ کا ہاتھ چھٹ جائے گا اور قرآن کریم کی آیت آپ کو حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دے گی.آپ مشورہ دیتے ہیں اور مشورے میں تقویٰ ضروری ہے.اور بسا اوقات ایک ناتجربہ کار آدمی تقویٰ پرمبنی مشورہ بھی دیتا ہے اور وہ مشورہ قابل قبول نہیں ہوتا.اس لئے آخری فیصلہ دین میں نبی اور نبی کے بعد خلیفہ کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے“.ور آپ جتنے بھی مشورے دیتے ہیں، اپنی انا کی خاطر نہیں دیتے، اپنی قومیت کی خاطر نہیں دیتے، اپنے رنگ اور نسل کی خاطر نہیں دیتے، محض اللہ کی خاطر دیتے ہیں.اور اس لئے وہ جس کی بیعت آپ نے اللہ کی خاطر کی ہے، اس کے فیصلے کو خدا کی خاطر قبول کرنا، آپ کے ایمان کا جز ہے.آپ کے ایمان کا جز ہی نہیں بلکہ آپ کے ایمان کی بنیادی شرائط میں داخل ہیں.یہی وہ تربیت ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پائی.اور یہی وہ تربیت ہے، جو خلفاء نے ہمیشہ جماعت کی کی.اور اسی تربیت میں ہم پل کر جوان ہوئے ہیں.میں کسی قیمت پر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس عظیم تربیت سے آپ کے قدم ہٹنے دوں، اس راہ سے آپ کو بھٹکنے دوں.اس لئے میں خوب کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ حبل اللہ سے تعلق کا یہ مطلب ہے.آپ میں سے جو خدا سے وفا کرتے ہیں، وہ لازماً خدا کے نمائندوں سے وفا کریں گے.اور مجھے ان کے متعلق کوئی بھی خدشہ نہیں.خدا خود ان کی حفاظت فرمائے گا اور جو بے وفائی کے جذبے دل میں رکھتا ہے اور احمدیت کو قومی نفرتوں کے لئے ایک آلہ کار بنانا چاہتا ہے، اس کی کوششیں مردود ہوں گی.میں یقیناً 835

Page 845

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم آپ کو بتا تا ہوں اور اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ خدا خود اس جماعت کی حفاظت کرنے والا ہے، وہ نگران ہے.اور وہ ہر ایسی کوشش کو نا مراد اور نا کام کر دے گا، جو جماعت میں تفرقہ پیدا کرنے والی ہے.اور جبل اللہ پر ہاتھ ڈالنے والوں کے اجتماع کے خلاف کوشش کی ہے.خدا نے خود یہ وعدہ فرمایا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اور بڑے کھلے الفاظ میں دنیا کی آئندہ ہونے والی سازشوں کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ خدا تجھے محفوظ رکھے گا.چنانچہ 1905ء میں جبکہ پہلی مرتبہ فری میسنز (Free Masons) کے متعلق انگریزی زبان میں ایک کتاب شائع ہوئی، جس میں یہ بیان کیا گیا کہ ایک سیکرٹ سوسائٹی ہے، جو دنیا کی طاقتوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے.اس وقت جب کہ فری میسنز (Free Masons) کے لفظ سے ہندوستان کے شاید گنتی کے چند باشندے آگاہ ہوں اور ہندوستان کی بھاری اکثریت نے کبھی نام بھی نہیں سنا تھا کہ فری میسن ہوتے کیا ہیں.1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہوا:.فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے (تذکرۃ صفحہ: 336) یعنی خدا تعالیٰ تمہیں اور تمہارے ماننے والوں کو فری میسنز کے تسلط سے محفوظ رکھے گا.کتنا عظیم الشان وعدہ ہے اور کتنا یقین کی چٹانوں پر قائم کرنے والا وعدہ ہے.اس لئے خطرات سے آگاہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ کو خوفزدہ کر رہا ہوں.میں جانتا ہوں کہ آپ جو خدا والے ہیں، آپ کو کوئی خطرہ نہیں.لیکن متنبہ کرنا پھر بھی ضروری ہے.کیونکہ قرآن کریم بار بار متنبہ فرماتا ہے.بعض دفعہ تنبیہ نہ ہونے کے نتیجے میں بعض لوگوں کو خدشہ پیدا ہو جاتا ہے ، بعض کمزور لوگ ٹھو کر کھا جاتے ہیں، وہ منصب سے ہٹ جایا کرتے ہیں.اس لئے جماعت کو تنبیہ نہیں ہے، ان کمزوروں کو بچانے کی خاطر ایک نصیحت ہے کہ تم باخبر رہو، کس طرف سے لوگ تم پر حملہ کرتے ہیں، کس طرح تمہیں خطرات لاحق ہوتے ہیں.اور علاج ایک ہے کہ اللہ کی رسی کو پکڑ لو.اور اس رسی کو پکڑ لو، جس کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ اس رسی کے پکڑنے والوں پر کوئی مسلط نہیں کیا جائے گا.فری میسنری کیا ہے؟ اس کی تفصیل کے متعلق ہمیں جاننے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن یہ ایک سمبل (Symbol ) بن چکا ہے، خفیہ سازش کے ذریعے دنیا کی طاقتوں پر قبضہ کرنے کا.کہاں تک یہ بات درست ہے، کہاں تک یہ بات غلط ہے، اس سے بحث نہیں.لیکن آج دنیا فری میسنری کو ایک خفیہ نظیم کے طور پر جانتی ہے، جو دنیا کی نظر سے اوجھل ہو کر طاقتوں کے سرچشمے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی 836

Page 846

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1987ء ہے.اور اس کوشش میں دنیا کے اکثر ممالک میں کامیاب ہو چکی ہے.اور بار ہادنیا کے اخبارات میں، کتب میں، ٹیلی ویژنز پر، ریڈیو پر ایسے پروگرام آپ سنتے ہوں گے، جن میں ان معاملات کی تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ کس طرح کتنے اہم لوگ فری میسنری کے ممبر بن گئے.جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قبضہ ہے تو وہ انکار کرتے ہیں کہ نہیں، ہم تو ایک نیک سوسائٹی کے ممبر ہیں لیکن واقعہ نتیجہ یہی نکلتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اس الہام کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یقین دلا دیا کہ تو اور تیرے غلام ہر خفیہ تنظیم کی سازش سے محفوظ کئے جائیں گے.کیونکہ خدا یہ فرماتا ہے.اس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہیں غیر اللہ کے تسلط سے آزاد کرے گا.کیسے آپ آزادر ہیں گے؟ اس لئے کہ جب خدا کی محبت آپ کے دلوں پر غالب آئے گی تو غیر اللہ کا رنگ اس پر چڑھ ہی نہیں سکتا، آہی نہیں سکتا.ایک دل میں دو محبتیں نہیں رہا کرتیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہم نے پیدا نہیں کئے.مراد یہ ہے کہ جو محبت ایک دفعہ دل پر غالب آجائے، اس محبت کی طاقت ہے، جو ہر غیر محبت کو دھتکار دیا کرتی ہے.یہ راز ہے، ایک طاقت کے سرچشمے کا.اس لئے آپ خدا کی محبت کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور اس محبت کی خاطر اپنے سارے تعلق مضبوط کریں.اس محبت کی بناء پر خلافت سے تعلق قائم رکھیں.تو یقینا پھر آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا.ہر دوسرا تعلق جس کی طرف آپ کو بلایا جائے گا، اس کی آپ کے نزدیک کوئی بھی اہمیت اور کوئی بھی قیمت نہیں ہوگی.پھر اسی طرح اور بھی کئی ذرائع سے رفتہ رفتہ رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.شوری کے لئے جو تجاویز میں نے دیکھیں، چند دن ہوئے، میں حیران ہو گیا کہ کس طرح بعض لوگ لاعلمی سے اور بعض لوگ غالباً عمداً ایسی تجویزیں رفتہ رفتہ داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو امریکن پرورش میں جوان ہوئے ہیں، یہاں پیدا ہوئے اور یہیں بڑے ہوئے اور بعض امریکن قدروں سے واقف ہیں، وہ دھو کے میں مبتلا ہو سکتے ہیں.اور نیکی کے نام پر ان کو برائی کی طرف منتقل کیا جاسکتا ہے.مثلاً اگر یہ آواز اٹھے بار بار کہ جماعت احمدیہ کو امریکن مزاج کو سمجھنا چاہئے اور امریکن مزاج کو سمجھنے کے ذریعے وہ تبلیغ کر سکتے ہیں ورنہ ناکام ہو جائیں گے.اس لئے امریکن مزاج جاننے والے او پر آنے چاہئیں.یہ ظاہری نتیجہ ہے، جس کو مخفی رکھا جاتا ہے.اگر جماعت احمد یہ امریکہ کے مزاج سے ناواقف ہے، خلیفہ وقت تو امریکہ کی پیداوار نہیں ہے.ہو سکتا ہے آئندہ کبھی خدا تعالیٰ اس ملک کو بھی اگر یہ تقویٰ کی آماجگاہ بن جائے ، خلافت کا مرکز بنا دے.کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا.مگر سر دست تو خدا تعالیٰ نے خلیفہ وہاں سے چنا ہے، جو امریکہ کی پیداوار نہیں اور بظاہر اس کو امریکہ کے مزاج کا کوئی علم نہیں ہونا چاہیئے.837

Page 847

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتم اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کے مزاج سمجھنے کے لئے امریکن لوگ آگے آنے چاہئیں.جاپان کا مزاج پھر کیوں اہمیت نہیں رکھتا؟ جاپان کا مزاج بھی تو اہمیت رکھتا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے اور اس کو غالب کرنے کے لئے جاپانیوں کے ہاتھ میں لیڈرشپ چلی جانی چاہئے.اور نائیجیریا کا مزاج سمجھنا چاہئے اور پھر غانا کا مزاج سمجھنا چاہئے اور سیرالیون کا مزاج سمجھنا چاہئے ، انگلستان کا سمجھنا چاہئے، جرمنی کا سمجھنا چاہئے ، چین کا سمجھنا چاہئے ، کوریا کا سمجھنا چاہئے، بے شمار دنیا میں ممالک ہیں.ایک سو چودہ (114) ممالک میں جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے قائم ہو چکی ہے.کیا خلیفہ ایک سو چودہ ممالک میں پیدا ہو گا بیک وقت؟ اور ایک سو چودہ کی ممالک کی تربیت میں جوان ہوگا ؟ اگر نہیں تو پھر وہ کیسے دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچائے گا.یہ آواز اٹھ رہی ہے.حالانکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ ایک ہی مزاج ہے، جس پہ انسان کو پیدا کیا گیا ہے.اور اس مزاج پر اسلام کو پیدا کیا گیا ہے.یہ دین فطرت ہے.یہ دعویٰ ہے اسلام کا.اس دعوے کی بناء پر یہ عالمگیر مذہب ہونے کا اہل ہے.یہ آواز جو اٹھتی ہے کہ امریکہ کے لئے امریکہ کا مزاج سمجھنے والے چاہئیں.یہ بظاہر ایک جدید آواز ہے لیکن قدیم ترین آواز ہے.ایک پرانے زمانے کی آواز ہے.اس زمانے کی آواز ہے، جبکہ مذاہب قومی اور ملکی ہوا کرتے تھے، ابھی اسلام پیدا نہیں ہوا تھا.امریکہ میں امریکہ کی طرف نبی آئے تھے، یورپ کے ممالک میں یورپ کے ممالک کو مخاطب کرنے والے نبی آئے تھے، جاپان میں جاپان کو خطاب کرنے والے نبی آئے تھے اور Middle East میں Middle East سے مخاطب کرنے والے نبی پیدا ہوئے.ساری دنیا کے مزاج کو خدا نے ملحوظ رکھا.لیکن علاقائی نبی پیدا کئے.کیونکہ علاقائی مزاج کو سمجھ کر پیغام دینے والا دنیا کو مخاطب نہیں ہو سکتا.ایک ہی صورت تھی تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کی ایک ایسے عالمی نبی کو پیدا کیا جاتا، جو فطرت کا مزاج سمجھتا.اس فطرت کا مزاج سمجھتا، جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے.جس پر ہر کالے کو پیدا کیا ہے، جس پر ہر گورے کو پیدا کیا ہے، جس پر ہر سرخ کو پیدا کیا ہے، جس پر ہر زرد کو پیدا کیا ہے.مشرق کو بھی پیدا کیا ہے، مغرب کو بھی پیدا کیا ہے.چنانچہ اس نور کا جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے:.لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ ( النور : 36) یہ تو عالمی نور ہے.نہ یہ مشرق کی جائیداد ہے، نہ مغرب کی جائیداد ہے.ہر ملک اور ہر قوم کی نمائندگی کرنے والا نبی ہے.اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطاب 838

Page 848

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد من اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 1987ء میں، جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے، بڑی شدت کے ساتھ ، بڑی سختی کے ساتھ قبائلی تقسیموں کو ردفرمایا.جاہلیت قرار دیا.انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا رہنے کی نصیحت فرمائی.اور فرمایا کہ آج اس دن اور اس دن کی عزت کی قسم! جس دن میں بات کر رہا ہوں ( یعنی حج اکبر کا دن تھا) اس مقام کی قسم ! جس مقام پر میں کھڑا ہوں، اس دن کی حرمت، اس مقام کی حرمت میں تمہیں یاد دلاتا ہوں.میں ان سارے جاہلیت کے خیالات کو ، میں جو انسان کو مختلف قوموں اور نظریوں میں تفریق کرنے والے ہیں ، اپنے پاؤں کے نیچے پھل رہا ہوں ، ہمیشہ کے لئے میں ان کو کچل چکا ہوں، کبھی کوئی تم میں سے ان کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرے گا.اگر تم سچے مسلمان ہو، اگر تم میری اس آخری نصیحت کی کوئی بھی قدر کرتے ہو تو یہ تفریقیں تمہارے پاؤں کے نیچے بھی ہمیشہ پچھلی جانی چاہئے.یہ وہ دین ہے، جو دین واحد ہے.جس نے تمام دنیا کی قوموں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا ہے.یہ ہے محد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین، جو عالمی نبی تھے.ہر قوم کو پیغام دینے کے لئے خدا کی طرف سے چنے گئے تھے.پس پہلے بھی جب میں اس دورے پر حاضر ہوا تھا اپنے ذاتی طور پر، ایک مجلس میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ آپ ایسے آدمیوں کو بھیج دیتے ہیں، جو امریکن مزاج نہیں سمجھتے.میں نے ان سے کہا کہ وہ حمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج سمجھتے ہیں کہ نہیں ؟ مجھے صرف اس میں دلچسپی ہے.اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج سمجھنے والے غلام تمہارے سامنے حاضر ہوتے ہیں تو امریکن مزاج سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں ، جاپانی مزاج سمجھتے ہوں یانہ سمجھتے ہوں، افریقین مزاج سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں، لازم اوہ اس بات کے اہل ہیں کہ تمہاری تربیت کر سکیں.تمہارے مزاج اگر بگڑ جائیں گے تو اسلام کہاں کہاں تمہارے اس بگڑے ہوئے مزاجوں کی پیروی کرتا پھرے گا.اگر تمہاری سوچیں ٹیڑھی ہو چکی ہوں گی اور مقامی بن گئی ہوں گی تو کہاں کہاں اسلام ٹیڑھا ہو کر تمہاری سوچوں کی پیروی کرتا پھرے گا.تمہیں ان ٹیڑھی سوچوں کو چھوڑنا ہوگا اور اس مرکزی بنیادی مزاج کی طرف آنا ہوگا، جومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج ہے.وو تم چاہتے ہو کہ اسلام تمہاری کجیوں کی پیروی کرے، تمہارے مطابق اپنا مزاج بدلنا شروع کرے، یہ نہیں ہو سکتا.کسی قوم کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ اسلام کے عالمی مزاج کو قومی مزاج میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے.اسی طرح جاپانیوں نے ہر مذہب کا حلیہ بگاڑا.آج بھی بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ جو مذ ہب جاپان میں داخل ہوا، ہم نے اس کو Japanised کر دیا.یعنی بدھ ازم کو بھی Japanised بدھ ازم کے طور پر اپنایا، 839

Page 849

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم لنفیوشس ازم کو بھی Japanised کنفیوشس ازم کے طور پر اپنایا اور تاؤ ازم کو بھی Japanised تا ؤازم کے طور پر اپنایا اور آج اسلام کو بھی Japanised اسلام کے طور پر اپنا ر ہے ہیں.چنانچہ ایک جاپان کا مسلمان لیڈر مجھے ملا اور اس سے میں نے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ اسلام کو آپ جس طرح Japanised کر رہے ہیں، اس کی مثال دیں؟ کہتا: مثلاً ہم نے وہاں شراب حلال کر دی ، سؤ رحلال کر دیا.سب جاپانی مسلمانوں کو ہم کہتے ہیں کہ یہ پرانے زمانے کی باتیں تھیں.جاپانی مزاج کے مطابق ہم سؤر اور شراب کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے ، اس لئے اسلام کو بدلنا ہوگا.اس طرح تو اسلام دوبارہ ہزار ہا ملکوں اور قوموں میں تبدیل ہو جائے گا.وہ وحدت ملی کہاں رہی، جس کی طرف دنیا کو بلایا جارہا تھا ؟ وہ ایک پیغام کہاں چلا گیا، جس کی طرف سارے انسانوں کو دعوت دی جارہی تھی ؟ دنیا واپس لوٹ جائے گی ، ان قدیم زمانوں کی طرف جب ملکی نبی ملکی پیغام لے کر آیا کرتے تھے ہلکی مزاج کو لوظ رکھا کرتے تھے.اس لئے ان باتوں کو خوب سمجھیں اور اپنے پلے باندھ لیں.یہ مضمون بہت وسیع اور بہت لمبا ہے.میں اب اس بات کو مختصر کرتا ہوں کیونکہ آج اس کے بعد شوری کی کاروائی بھی ہوتی ہے.اللہ آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے، خدا آپ کو اپنی خالص محبت عطا کرے.کیونکہ سب ضمانتوں سے بڑھ کر ، سب ضمانتوں کی جان خدا کی محبت ہے.یہ محبت آپ کے دل میں پیدا ہوگئی تو مجھے آپ کے بارے میں کوئی خطرہ نہیں رہے گا.میری ساری فکریں دور ہو جائیں گی.میں کامل اطمینان رکھوں گا کہ میں آپ کو خدا کی حفاظت میں چھوڑ کر جارہا ہوں.لیکن اگر آپ نے اس محبت کو خطرہ پیدا ہونے دیا، اس محبت پر آنچ آنے دی تو میری ساری نصیحتیں ہوا میں بکھر جائیں گی، میرے سارے غم قائم رہیں گے، میں ہمیشہ آپ کے بارے میں فکروں میں مبتلا رہوں گا.خدا کی خاطر ایک ہو جائیں، خدا سے اپنا پیار بڑھا ئیں، مجھ سے اگر پیار کرتے ہیں تو محض خدا کی خاطر کریں.پھر آپ کو کوئی دنیا کی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی.پھر آپ کی جمعیت ہمیشہ قائم رہے گی ، پھر آپ پھولیں گے اور پھلیں گے اور بڑھیں گے اور کوئی دنیا کی طاقت آپ کو سمیٹ نہیں سکے گی.آپ کے پیغام میں وہ عظمت پیدا ہو جائے گی، جس میں خدا کی محبت غیر معمولی کشش پیدا کرتی ہے.آپ وہ آسمانی آواز ہو جائیں گے، جوز مینی طاقتوں کے مقابل پر غالب آئے گی.اور زمین پر جھکنے والوں کو آپ اٹھا ئیں گے اور آسمان کی بلندیوں پر لے جائیں گے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 766747) 840

Page 850

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمود و 20 نومبر 1987ء اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں اسلام کے غلبہ کی ہوا چل پڑی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.بھی چند روز پہلے میں شمالی امریکہ کے دورے سے واپس آیا ہوں.شمالی امریکہ اس لئے کہ شمالی امریکہ میں کینیڈا بھی شامل ہے.اور اگرچہ زیادہ تر سفر کا مقصد امریکہ یعنی یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ (United States of America) کا دورہ کرنا تھا مگر اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے دومرتبہ کینیڈا بھی جانے کا موقع ملا.اور مشرقی کینیڈا اور مغربی کینیڈا کی بعض جماعتوں میں جا کر کئی قسم کی تقریبات میں شامل ہونے کی توفیق ملی.یہ سفر چونکہ بہت طویل تھا، بہت وسیع ملک ہے، تقریباً ڈیڑھ مہینہ اس سفر میں گزرا.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے تقریباً تمام جماعتوں میں سب میں تو نہیں لیکن اکثر جماعتوں میں جانے کا موقع ملا.اور اکثر جماعتوں کے تقریباً اکثر احمدی احباب سے ملنے کا موقع ملا.ان میں مردو زن، بچے سب شامل کر کے ہزار ہا کی تعداد بنتی ہے.اور تفصیلاً سب سے ملاقات کا تو وقت نہیں تھا لیکن بعض صورتوں میں لمبی ملاقاتیں بھی کرنی پڑیں.بعض صورتوں میں مختصر مگر بالعموم تمام احباب جماعت یا یوں کہنا چاہئے کہ احباب جماعت کی اکثریت سے خودل کر ان کے حالات کا جائزہ لینے کی توفیق ملی.یہ ایک بڑا اہم مقصد تھا، جس کی خاطر میں نے یہ سفر شروع کیا تھا.اور شروع میں ہی میں نے یہ ہدایت بھجوائی تھی کہ میرا بنیادی مقصد امریکہ جانے کا غیروں سے ملاقاتیں اور بڑے بڑے فنکشنز اور تقریبات میں خطابات کرنے نہیں.بلکہ جماعتی حالات کا جائزہ لینا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ کس حد تک وہاں کی جماعت ان مختلف ہدایات سے استفادہ کر رہی ہے، جو گزشتہ چند سالوں میں، میں خصوصیت کے ساتھ جماعت کو دیتا رہا ہوں.اور اسی طرح بعض ایسے مسائل ہیں، جن کا امریکہ سے بطور خاص تعلق تھا.ان مسائل کو سمجھنے کے لئے بھی ہر طبقہ جماعت سے تفصیلی ملاقات کی یا بعضوں سے ان میں سے تفصیلی ملاقات کی ضرورت تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مقصد بہت عمدگی سے پورا ہوا لیکن اس سے استفادہ کرتے ہوئے ، وہاں کی جماعتوں نے ہر جگہ دوسرے پروگرام بھی بنائے ہوئے تھے.اس میں کئی قسم کے پروگرام شامل تھے.پبلک ایڈریسز 841

Page 851

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم (Public Addresses) اور یعنی عام مجالس سے خطاب اور پھر سوال و جواب کا موقع فراہم کرنا، ان میں پاکستانی احباب، جو امریکہ میں بسے ہوئے ہیں، ان کے لئے بھی مجالس منعقد کی گئیں اور امریکن اور مغربی ممالک کے رہنے والے افراد کے لئے بھی الگ مجالس مقرر کی گئیں.اور اسی طرح جس طرح انگلستان میں ہم مجالس سوال و جواب منعقد کرتے رہے ہیں، جماعتی طور پر بھی مجالس سوال و جواب منعقد کی گئیں.پھر پریس سے انٹرویو بھی کثرت کے ساتھ ہوئے.ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو بھی ہوئے.پھر بعض مشہور شخصیتوں، اہم شخصیتوں سے ملاقات کا بھی انتظام کیا گیا.لیکن ان اجتماعی تقریبات میں سب سے اہم تقریبات وہ تھیں، جن کا مساجد کی تعمیر یا مساجد کے افتتاح سے تعلق تھا.اس پہلو سے جو بہت ہی خوش کن خبر ہے، وہ یہ ہے کہ اس دورے میں تین مساجد کے افتتاح کی توفیق ملی.ان میں سے ایک فلاڈلفیا میں ایک ہماری چھوٹی سی جماعت ہے.ان میں بعض بہت ہی مخلص فدائی ممبر ہیں، جنہوں نے زیادہ بوجھ اٹھایا ہے.اور اللہ کے فضل سے اپنی توفیق سے جیسا کہ نظر آتا ہے بڑھ کر تو نہیں کہہ سکتے لیکن تو فیق کے آخری کناروں تک پہنچ کر بڑی ہمت سے انہوں نے بہت ہی خوبصورت جگہ جماعت کے لئے خریدی اور وہاں پہلے سے ایک عمارت موجود تھی ، اس پر مزید کام کر کے مزید اس کا نقشہ بدل کر اس میں ایک مسجد بنائی گئی، مستورات کے لئے الگ، مردوں کے لئے الگ اور کافی وسیع فلورز ( Floors ) یعنی ایسے کمرے ہیں، ہال قسم کے جن کو مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے.اور دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھا گیا.چنانچہ اللہ کے فضل سے بہت ہی اچھی جگہ انہوں نے حاصل کر لی ہے.پھر Tosan ایک جگہ ہے، مغرب کی طرف، وہاں بھی جماعت چھوٹی ہونے کے باوجود بہت ہی خوبصورت اور با موقع مسجد کی تعمیر کی ان کو توفیق ملی.اور وہاں بھی افتتاح کی تقریب ہوئی.پھر Portland شمال مغربی حصے میں واقع ہے، یہ Origan سٹیٹ کا دارالخلافہ یا Capital City ہے.اس جگہ بھی خدا کے فضل سے چھوٹی سی جماعت نے بہت ہی پیاری اور بڑی خوبصورت مسجد بنائی ہے.اور امید رکھتے ہیں کہ آئندہ کئی سالوں تک ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں گی.صرف چار خاندانوں کی جماعت ہے.امریکہ کی جماعتوں میں غالباً سب سے چھوٹی ہے.اور ان کو یہ تاریخی خدمت کی توفیق ملی کہ سارے امریکہ کے مغربی ساحل میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ پہلی مسجد ہے، جس کی پہلی اینٹ اس غرض سے رکھی گئی تھی کہ خدا کا گھر بنے گا.اور سارے مغربی امریکہ کے اندر یہ جو اعزاز ہے، اس کے مغربی ساحل کے اندر پہلی مسجد بنانے کا یہ بہت ہی ایک تاریخی نوعیت کا اعزاز ہے.اگر چہ دیگر ممالک کے 842

Page 852

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء مسلمانوں نے بھی اور پاکستانیوں نے بھی بعض مراکز قائم کئے ہیں، جن میں وہ نمازیں ادا کرتے ہیں، جس طرح جماعت احمدیہ بھی کثرت سے ایسے مراکز قائم کرتی ہے.لیکن بیان یہ کیا گیا ہے، پہلی خدا کی خاطر یہ بنائی جانے والی عمارت یعنی آغاز سے لے کر آخر تک مسجد کی خاطر جو بنائی گئی تھی ، وہ یہ پہلی مسجد ہے.جہاں تک جماعتوں کے تعلقات کا معاملہ ہے.اکثر یہ محسوس کیا گیا ہے کہ احباب جماعت خدا 瞥 کے فضل سے غیروں پر اچھا اثر رکھتے ہیں اور ان کے تعلقات بہت وسیع ہیں.بعض صورتوں میں تو بہت چھوٹا ہونے کے باوجود تعداد میں ان کا رسوخ اور ان کا نیک اثر بہت ہی وسیع ہے.چنانچہ Portland ہی میں جو تقریب منعقد کی گئی مسجد کی اور اس کے بعد مجھ سے ملاقات کروانے اور پھر سوال و جواب کی مجلس منعقد کرنے کی ، اس میں Portland کی تقریباً ساری سوسائٹی کی کریم (Cream) آئی ہوئی تھی.یعنی جوان کی سوسائٹی میں اہم لوگ ہیں، بڑے بڑے دانشور اور سائنسدان اور ڈاکٹر ز اور جراح، ہر قسم کے قابل لوگ وہاں اکٹھے ہوئے تھے.اور اس علاقے کے سینیٹر، جہاں مسجد بنی ہے، وہ بھی اور ان کی بیگم بھی، جو اس شہر کی میئر ہیں ، وہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے، تقریب میں.اور ان کے رد عمل سے جو باتوں کے دوران ظاہر ہوا، یہ معلوم ہوتا ہے کہ جماعت نے وہاں بہت ہی نیک اثر ان لوگوں پر چھوڑا ہوا ہے.چنانچہ بعض لوگوں نے بتایا کہ اپنی دلچسپی کی تقریبات اور کلبوں کی شمولیت کو محض اس لئے وہ قربان کر کے آئے کہ جن دوستوں نے ان کو دعوت دی تھی، ان کا انکار نہیں کر سکتے تھے.تو اس پہلو سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ جماعت امریکہ میں بالعموم بہت ہی زیادہ کام کرنے کی گنجائش پیدا ہو چکی ہے اور بہت ہی نیک اثر احمد یوں کا اپنے اپنے علاقوں میں ہے.تقریبات میں شمولیت کے بعد وہاں کی جماعت نے جو تاثرات بھجوائے یا اس وقت بھی بعد میں بیان کئے ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اسلام کے لئے یعنی بچے اسلام کے لئے ، اس اسلام کے لئے ، جسے جماعت احمد یہ دیکھتی ہے اور جس پر جماعت احمد یہ عاشق ہے، بہت ہی عظیم الشان گنجائش موجود ہے.اکثر امریکہ کے متعلق جو یہ تاثر ہے کہ لوگ اسلام سے نفرت کرتے ہیں، یہ درست ہے کہ لوگ اسلام سے نفرت کرتے ہیں.لیکن اس اسلام سے نفرت نہیں کرتے ، جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام تھا.اس اسلام سے نفرت نہیں کرتے ، جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھوں نے دیکھا اور جس سے ہم پیار کرتے ہیں.بلکہ ایک ایسے فرضی اسلام سے نفرت کرتے ہیں، جس کا دو طرح سے انہوں نے مشاہدہ کیا ہے.843

Page 853

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ہفتم اول: وہ اسلام، جوان کے پروپیگنڈا میڈیا، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات ان کے سامنے پیش کرتے ہیں.اور وہ چونکہ ایک خاص نفرت کے زاویے سے تصویر پیش کی جاتی ہے، جس میں سیاسی مصالح شامل ہو چکے ہیں اور بہت حد تک عمداً مکر وہ صورت میں اسلام کو پیش کیا جاتا ہے.اس لئے اس زاویے سے جب اسلام کو دیکھا جائے تو واقعی ایک نہایت ہی مکروہ تصویر ابھرتی ہے.اس لئے جو عوام الناس ہیں، ان کا اس میں کوئی قصور نہیں.جب آپ ایک بدصورت نقشہ کھینچیں گے تو طبیعت طبعا اس سے متنفر ہوگی اور دور بھاگے گی.دوسرا: جو بعض مسلمان ممالک کے جارحانہ اقدامات ہیں اور ان کے خاص ظالمانہ برتاؤ خود اپنے ممالک کے بسنے والوں سے ہیں، اس کا بہت برا اثر ہے.اور جب بھی مجالس لگتی ہیں، ان میں یہ سوال ضرور اٹھتے ہیں.بہر حال یہ ایک الگ لمبی روئیداد ہے، جس کی تفصیل میں اس وقت جانے کی گنجائش نہیں.مگر جہاں جہاں بھی مجالس لگیں، وہاں ان مسائل پر سوال اٹھتے رہے اور جماعت کی طرف سے جو صحیح اسلام کی تصویر ہے، اسے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی.خود اسی جگہ یعنی Portland میں بھی جہاں کی بات ہو رہی تھی ، وہاں سے ہمارے احمدی دوستوں نے بعض زبانی تاثر بھی بیان کیا ، پھر ان کے تحریری خطوط بھی بھجوائے ، جو لوگ شامل ہوئے تھے تو ان میں سے ایک صاحب، جنہوں نے اسلام کی Violence کے او پر سوال کیا تھا.وہاں کے چوٹی کے قابل سرجنز (Surgeons) میں ان کا شمار ہے اور دنیا میں شہرت رکھنے والے دوست ہیں.ان کو جب میں نے اس کا جواب دیا تفصیل سے تو اس کے بعد ان کا یہ تاثر تھا، انہوں نے اپنے دوست کو بتایا کہ میں تو اپنی شام کی محفل اور کلب قربان کر کے صرف تمہاری خاطر آیا تھا.اور میں تیار ہو کے آیا تھا کہ ایک دو گھنٹے بہت ہی بور ہوں گا اور بڑی مشکل سے وقت گزرے.لیکن ایسی گا مجلس میں آکر میں نے محسوس کیا کہ اگر یہ مجلس ہے تو میں اس کے لئے ہر جگہ جا کر اپنا وقت خرچ کرنے کے لئے شوق سے تیار ہوں گا.کیونکہ اسلام کے متعلق اور بعض دیگر امور میں ایسی ایسی معلومات حاصل ہوئیں کہ اس سے پہلے ہمارے تصور میں بھی نہیں تھا.پھر اسی طرح ایک اور دوست، اسی جگہ، وہ بھی ایک بہت قابل ڈاکٹر ہیں اور عملاً دہریہ، مذہب سے متنفر تھے.انہوں نے ایک سوال کیا اور سوال کے جواب کے بعد ان کا تاثر یہ تھا کہ دوسرے دن وہ خود اپنے دوست کے پاس پہنچے اور کہا کہ میں آج تک ساری زندگی مذہب سے متنفر رہا ہوں، کوئی کبھی دلچسپی نہیں لی.لیکن صرف ایک سوال کرنے کے نتیجے میں جب اسلامک نظریہ مجھے معلوم ہوا ہے تو مجھ میں اتنی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے 844

Page 854

تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء کہ اب میں لٹریچر مانگنے کے لئے آیا ہوں.مجھے مذہب کے متعلق ہر قسم کا لٹریچر دو.مذہب سے مراد اسلام تھی اور میں اس کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں.اور اس کے علاوہ بھی کثرت سے وہاں سے مطالبے شروع ہو گئے.تو صرف یہ ایک نمونہ ہے، جو ہر جگہ اسی طرح دہرایا گیا ہے، اللہ کے فضل سے.تو میں نے یہ محسوس کیا کہ باوجود اس کے کہ عام تاثر یہی ہے کہ امریکہ میں اسلام کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے.یہ تاثر درست بھی ہے اور غلط بھی ہے.اسلام کے خلاف نفرت نہیں ہے.اس اسلام کے خلاف نفرت ہے، جو بگڑی ہوئی صورت میں آج امریکہ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے.ایک اور پہلو سے ان سب مواقع پر ان کی سوسائٹی کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا.کیونکہ میں تو اس نظر سے ان کو دیکھتا رہا کہ اسلام کے داخل کرنے کے لئے کون کون سے مواقع ہیں؟ کون کون سے نئے رستے کھل سکتے ہیں؟ جیسا کہ میں پہلے بیان کرتا رہا ہوں، میرا تا ثر امریکہ کے متعلق یہی تھا اور وہ درست ہے کہ سب دنیا میں اس وقت گندگی پھیلانے کا سب سے بڑا مرکز امریکہ ہے.اور ہر بدی وہاں ایجاد ہوتی ہے، ہر دنیا کی برائی امریکہ سے پھوٹ رہی ہے.لیکن ایک اور پہلو سے مجھے اس سفر میں جب ان کے حالات کے مطالعہ کا موقع ملا.تو معلوم ہوا کہ یہ پوری صحیح تصویر نہیں ہے.اس کو زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے.چنانچہ اس کی طرف مجھے ایک امریکہ کے کانگرس مین نے توجہ دلائی.جب وہ ملاقات کے لئے تشریف لائے تو ضمناً ان کو یہ اندازہ ہو گیا کہ میری امریکہ کے متعلق رائے اچھی نہیں ہے.تو انہوں نے کہا کہ آپ اس پہلو سے جب ملاقاتیں کریں گے ، تصور کریں گے تو اس پہلو سے ضرور مطالعہ کریں کہ امریکن عوام اچھے لوگ ہیں ، دل کے اچھے ہیں ، سادہ ہیں اور ان کے دل میں برائی نہیں ہے.یہ الگ بات ہے کہ وہ خود بعض بڑے بڑے Cartels کا شکار ہو چکے ہیں.بڑی بڑی مافیا قسم کی تنظیموں کے نیچے وہ بے بس ہیں.یہ آخری لفظ تو انہوں نے نہیں کہے مگر مراد یہی تھی کہ آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ خود معصوم اور بے قصور لوگ ہیں.چنانچہ اس سے مجھے بڑا فائدہ پہنچا.انہوں نے جو یہ اس زاویے سے امریکنوں کے حالات کے جائزے کا مشورہ دیا تو اس کا میں بڑا ممنون ہوں.کیونکہ اس سے مجھے واقعہ بہت فائدہ پہنچا اور سارے امریکہ کے سفر کے دوران ملاقاتوں کے بعد، جن میں گورے بھی تھے، کالے بھی.افریقین بسے ہوئے بھی اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے بھی.میں نے یہ اندازہ کیا کہ سارا امریکہ خود اس وقت غلام بنا ہوا ہے، اپنے 845

Page 855

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم نظام کا.اور یہ جو نہایت ہی ذلیل قسم کا مالیاتی نظام، سودی نظام اور مادہ پرستی کا نظام ان کے اوپر نافذ ہو چکا ہے، اس سے وہ نکل نہیں سکتے.اب بالکل بے اختیار ہو چکے ہیں، ان کے ہاتھوں میں.اور چند بڑے بڑے ایسے Cartels ہیں، چند ایسے بڑے بڑے جتھے ہیں، اموال کے اوپر قبضہ کرنے والے، جن کے قبضے میں سارے امریکہ کی ہر چیز آچکی ہے.ان کا تمدن، ان کا معاشرہ، ان کا مذہب، ان کی سیاست، ان کا عام رہن سہن، بولنے کے انداز، رہنے کے انداز، یہ تمام کے تمام اس وقت چوٹی کے چند اہم جتھوں کے قبضے میں ہے.جو Sources پر، یعنی جو بھی قوتوں کے منبع ہیں، ان پر قابض ہو چکے ہیں.اور اپنے مفاد کو قائم رکھنے اور آگے بڑھانے کے لئے وہ ہر قسم کی بدی امریکن عوام کو دیتے ہیں.اور ان کے مزاج کو بگاڑتے، ان کے مزاج کو بگاڑنے کے بعد بگڑی ہوئی چیزیں پھر ان کو مہیا کرنے کی ذمہ داری لیتے گویا کہ آخری چیز پیسہ ہے.اور وہ پیسہ، چونکہ چند لوگوں کے قبضے میں ہے، اس لئے پیسے کی خاطر وہ قوم کی ہر چیز کو قربان کر سکتے ہیں، ان کے مزاج کو ، ان کے خیالات کو ، ان کی سیاست کو، ان کے بین الاقوامی تعلقات کو تو بہت ہی مظلوم حالت ہے.اس قوم کی اس پہلو سے اور جب بھی اس مسئلے کو چھیڑا جائے تو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ایک مبہم سا احساس تو کم از کم ہر دل میں موجود ہے.لیکن بعض لوگوں میں باشعور احساس ہے، شدت سے اس کے خلاف رد عمل پیدا ہورہا ہے.لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ کس طرح اس مصیبت سے آزاد ہو سکتے ہیں.پھر بین الاقوامی سیاست نے بھی وہاں رخنے ڈالے ہوئے ہیں.اور بعض خرابیوں کو بڑھا رہے ہیں.مثلاً جن کو کالا امریکن کہا جاتا ہے، ہم ان کو Afro - American کہتے ہیں.کیونکہ Afro-American لفظ میں کوئی تذلیل نہیں.لیکن بدبختی سے کالا امریکن کے اندر ایک تذلیل کا پہلو داخل ہو چکا ہے.اس لئے میں ہمیشہ اس اصطلاح سے گریز کرتا رہا اور جماعت کو بھی یہی کہتا رہا کہ اس اصطلاح سے اس لئے گریز کریں کہ Black Americans لفظ میں ایک تذلیل کا، جس طرح پہلے زمانوں میں Nigger کے لفظ میں تذلیل کا پہلو پایا جاتا تھا، اس میں بھی داخل ہو چکا ہے.اور ہمیں Afro-American کہنا چاہئے.تو African Americans میں بھی بین الاقوامی سازشیں کام کر رہی ہیں.اور جو سینکڑوں سال کی محرومی کا احساس ہے، اس کو مشتعل کر کے خود ان کو اپنے مفاد کے خلاف غلط رستوں پر ڈالا جا رہا ہے.اور سیاہ اور سفید کی تفریق کو اس رنگ میں ابھارا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں سیاہ فام اپنے حقوق لینے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ بدتر حال تک پہنچ جائیں.اور عملاً اشتعال انگیزی کے لئے غیر تو میں اور غیر طاقتیں اپنے روپے کے بل بوتے پر ان کو استعمال کر رہی ہیں.پھر مذہب کے 846

Page 856

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء معاملے میں بھی ان کے ساتھ کھیلا جارہا ہے.یہاں تک ظلم ہے کہ اسلام کے نام پر قتل وغارت کی تعلیم دینے والی تنظیموں نے ان میں سے ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا ہوا ہے اور مختلف ناموں سے اس وقت اسلامی فرقے وہاں کام کر رہے ہیں اور ان سب کے پیچھے کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ ہے.کسی تیل کی طاقت کا ہاتھ ہے، جسے وہ اپنے طور پر استعمال کر رہی ہے.جس کو کہتے ہیں ، Petrodollars ، وہ وہاں خرچ کر کے تو ان سب تنظیمات کے اخراجات مہیا کئے جاتے ہیں.اور ان کو مساجد اور مراکز بنا کے دیئے جاتے ہیں.اور پھر ان کی پالیسیز (Policies) پہ نہ صرف کنٹرول ہوتا ہے بلکہ عملاً ان کو لیڈرشپ بھی باہر سے مہیا کی جاتی ہے.اور اس کے نتیجے میں بعض بڑے بڑے خطرناک رجحانات ان لوگوں میں اسلام کے نام پر داخل کئے جارہے ہیں.ایک یہ بھی وجہ ہے ، جس کی وجہ سے اسلام مزید بد نام ہو رہا ہے.تو یہ مسائل اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کی توفیق ملی.اور میں نے محسوس کیا کہ وہ لوگ صحیح اور نیک مشورے کی قدر کرتے ہیں اور بڑی جلدی اس کی طرف متوجہ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں.اس لئے یہ سارے خوفناک نقشوں کے باوجود جو ہمیں وہاں دکھائی دے رہے ہیں.امریکہ سے ہمیں ایک امید رکھنی چاہئے اور بھی کئی ایسے پہلو ہیں، جس کے نتیجے میں ہمیں امریکہ کی طرف نسبتا زیادہ توجہ دینی چاہیئے.اکثران ملاقاتوں کے بعد جو مجالس میں ہوئیں، بہت سے دوستوں کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ ہمیں علیحدہ ملاقات کے موقعے بھی دیئے جائیں.اور ان میں بعض Afro-American لیڈرز بھی تھے، اپنے اپنے علاقے کے، جنہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کیونکہ میرے پاس وقت تھوڑا تھا، اس لئے میں خود تو ان سے دوبارہ مل نہیں سکتا تھا، میں نے ان کو اپنے مقامی جماعتوں کے پتے دیئے.بعض ایسی شخصیتوں کے، جن کے متعلق مجھے امید تھی کہ ان کو مطمئن کر سکیں گے لیکن اس کے باوجود ان کا مطالبہ یہ رہا کہ ہمارے مسائل میں راہنمائی کی خاطر آپ ہمیں خود بھی ضرور وقت دیں.چنانچہ بعد میں کہا کہ اگر آپ ہمیں لنڈن میں وقت دینا چاہتے ہیں تو ہم وہاں آنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ بعضوں کو ان میں سے وقت میں نے دیا ہے کہ وہ لنڈن، جب بھی تشریف لائیں یا اسی غرض سے اگر سفر کرنا چاہتے ہیں ، تب بھی وہ تشریف لائیں اور انشاء اللہ جتنا بھی ممکن ہوا، میں ان کو وقت دے سکا تو اتنا وقت دوں گا.تو کئی پہلوؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سفر بہت ہی مصروف گزرا.اور جس حد تک بھی.انسان اپنے وقت کو بہترین مصرف میں استعمال کر سکتا ہے ، وہاں کی جماعت نے کوشش کی کہ میرے وقت 847

Page 857

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم کو اس کا ایک ایک منٹ جس حد تک بھی باندھا جا سکتا ہے، مصروفیتوں میں وہ باندھا جائے اور اس کے نیک نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.جہاں تک نیک نتائج کا تعلق ہے، اس میں ایک ذرہ بھی شک نہیں کہ نیک نتائج تو خدا ہی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں.کوششیں آپ جتنی چاہیں کریں.اگر دعا شامل حال نہ ہو یا اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہو تو وہ ساری کوششیں نا کام جاتی ہیں.چنانچہ ہماری کوششوں کے مقابل پر بعض حکومتیں اس سفر کو ناکام بنانے کے لئے ہم سے بہت زیادہ قومی کوششیں کر رہی تھیں.یہاں تک کہ غیروں نے خود ان کے متعلق ہمیں تفاصیل بیان کیں کہ کتنی توجہ کے ساتھ آپ کے دورے کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے.ایک Voice of America کے انٹرویو کے بعد ہی وہاں کے انٹرویو لینے والے نے ہمیں فون پر اطلاع دی کہ ایک ہمارے سفارت خانے پر اتنا دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ان کا کوئی انٹرویو، وہاں سے براڈ کاسٹ نہ کیا جائے کہ اب تک ہمیں چھ Telex موصول ہو چکی ہیں.اور اس دباؤ کے نتیجے میں اگر چہ میں تو بالکل دینے والا انسان نہیں ہوں مگر ہمارے شعبے کے بڑے سر براہ وہ ڈر گئے ہیں.اور انہوں نے مجھے کہا ہے کہ اس انٹرویو کو شائع نہ کرو.چنانچہ ہم نے ان سے پوچھا: میں نے خود تو بات نہیں کی ، جو مجھے بتایا گیا تو میں نے کہا: پھر ان سے پوچھو کہ پھر انہوں نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میرا فیصلہ تو یہی ہے کہ لازماً اس انٹرویو کو میں براڈ کاسٹ کروں گا.لیکن میں نے اپنے افسران سے یہ کہا ہے کہ آپ ایک بورڈ بٹھا دیں، وہ اس کی سکروٹنی (Scrutiny) کریں اور اگر ان کو کوئی قابل اعتراض چیز نظر آئی تو بے شک اس حصے کو نکال دیں.لیکن یہ کوئی قابل قبول بات نہیں ہے کہ کوئی حکومت پسند نہیں کرتی کہ کسی کا انٹرویو ہو اور وہ انٹرویو اس لائق ہو کہ ہمارے عوام اس کو سنیں یا دنیا کے دوسرے عوام اس کو سنیں اور ہم اس کو بند کر دیں.یہ میری سمجھ سے بالا بات ہے.چنانچہ تین یا چار آدمیوں کا ایک بورڈ بیٹھا، اس نے تفصیل سے اس انٹرویو کوسنا اور اس کو کڑی نظر سے دیکھا اور آخر پر فیصلہ کیا ایک فقرے کے متعلق کہ اگر یہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں.تو جس نے انٹر ویولیا تھا، اس نے کہا کہ میرے نزدیک تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں.انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، پھر اس کو بھی بیچ میں شامل کر دو.تو یہ حالت تھی ، شدید مخالفانہ کوششیں کی جارہی تھیں.ہر جگہ جہاں ہم پہنچتے تھے، تقریبا ہر جگہ یعنی اکثر صورتوں میں ایک ایک گھر چٹھیاں پہنچائی گئیں کہ ان کی بات سننے کے لئے کوئی نہ آئے.مسلمان کو بھی اور غیر مسلموں کو بھی روکا گیا کہ کوئی ان کی بات نہ سنے.اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے 848

Page 858

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء لوگ رکے نہیں اور چلے آئے.اور خدا کے فضل سے بہت ہی نیک اثرات ظاہر ہوئے اور بڑے اچھے خیالات کا اظہار کرتے رہے.بعض جگہ تو ایسی شکل تھی کہ ایک خاوند ہیں بڑے قابل پاکستانی اور یجن کے یعنی خاوند میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آگے بیوی کا ذکر اس رنگ میں آنے والا ہے کہ ان کا تعارف خاوند کے طور پر ہی ہونا چاہئے ، وہ اپنے بیوی بچوں کو احمدیوں سے ملنے سے روکا کرتے تھے اور کبھی بھی تقریبات میں آنے نہیں دیتے تھے.ان کے گھر میں کوئی عزیز بیمار ہو گیا تو چونکہ عورتوں میں زیادہ توجہ ہوتی ہے دعا کی طرف بالعموم یہ دیکھا گیا ہے، خصوصاً بچوں کے معاملے میں زیادہ تر.پھر وہ ہر تعصب کو بالائے طاق رکھ کر جہاں سے بھی ان کو امید ہو کہ دعا کے نتیجے فائدہ ہو سکتا ہے، وہ کوشش کرتیں ہیں.تو ان کی بیوی اس خیال سے کہ شاید ان کی دعا سے ہمارے بچے بچی کی مراد پوری ہو جائے ، ٹھیک ہو جائے ، وہ تشریف لے آئیں، ہماری ایک مجلس سوال و جواب میں.اور ان کے ساتھ ان کی ایک بچی بھی تھی.اور اس کے بعد پھر ملاقات کی.پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ ہمارا مسئلہ ہے، اس میں دعا بھی کریں اور اگر دوا بھی ہو سکتی ہے تو وہ بھی دیں.ان کے ساتھ جو بچی تھی، اس کو ایک اپنی چھوٹی سی معصوم سی ایک تکلیف تھی ، یعنی ایک خواہش تھی اور ایک تکلیف تھی ، اس کا اس نے ذکر کیا.اس نے کہا کہ کافی عرصہ سے مجھے یہ پریشانی ہے تو میرے لئے بھی دعا کریں اور اللہ تعالی کی ایسی شان اس طرح ظاہر ہوئی، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نتیجے خدا ظاہر فرماتا ہے.کس طرح خدا نے ان کے خاندان کا دل بدلنے کے لئے انتظام کئے کہ دوسرے دن ہی اس بچی کی وہ خواہش، جس کے پورے ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے ، وہ پوری ہوگئی.اور جس رنگ میں ہوئی، وہ حیرت انگیز تھا.چنانچہ جب اس کے والد کام سے واپس آئے تو اس وقت اس نے یہ راز کھول دیا، ان کے سامنے کہ آپ تو منع کیا کرتے تھے اور یہ واقعہ ہوا ہے.ہم وہاں گئے ہیں اور یہ باتیں سنیں.اور پھر یہ دعا کروائی اور یہ دیکھ لیں کہ یہ خدا کے فضل سے پوری بھی ہوگئی.تو ان کے والد کا فون آیا، اس بچی کے والد کا کہ انگلی مجلس میں، میں بھی شامل ہونا چاہتا ہوں.چنانچہ نئی دوسری مجلس، جو غیروں کے لئے تھی.خصوصیت سے غیروں سے مراد ہے، غیر مسلموں کے لئے بعض اس میں پاکستانی بھی تھے ، ان کو بھی بلا لیا گیا.اور اللہ کے فضل سے نتیجہ یہ نکلا کہ جب میں وہاں سے ( لاس اینجلس کی بات ہے ) سان فرانسسکو گیا تو انہوں نے اپنے بھائی کو جو وہاں رہتے تھے، فون کر کے یہ تاکید کی کہ وہ مجھ سے ضرور ملیں اور اپنی فیملی کو لے کے آئیں.چنانچہ انہوں نے بھی وقت لیا اور ان سے بھی اچھی گفتگو ہوئی.تو ہر جگہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے دلوں پر تصرف فرما ر ہا تھا.اور بہت ہی نیک نتائج اس کے ظاہر ہوتے چلے گئے.کئی جگہ شروع میں ملنے والوں کا رویہ جارحانہ تھا.ان میں عیسائی بھی تھے اور دوسرے 849

Page 859

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتہ بھی.مثلاً ایک پریس کے انٹرویو لینے والے دوست نے بڑے ہی جارحانہ انداز میں اسلام کے خلاف باتیں شروع کیں.اور مسائل کے متعلق اسلام کا عالمی تصور کیا ہے ؟ کس طرح مسائل حل ہوں گے؟ کس طرح انسان کو Peace ملے گی؟ کس طرح دنیا میں امن قائم ہوگا؟ اس قسم کے سوالات تھے.اور مسلمان ممالک کے متعلق ، جو ان کے ذہن میں تصویر تھی ، اس کے پیش نظر ان کے سوالات میں کافی جارحیت تھی.تو ان کو میں نے پہلے ہی جواب دیا.میں نے کہا: بڑا آسان طریق ہے، احمدی ہو جائیں آپ تو ساری دنیا میں امن آجائے گا.اور عیسائی بھی، یہودی بھی سب جھگڑے ختم.اور وہ پہلے تو ہنس پڑے، سمجھے کہ میں مذاق کر رہا ہوں.پھر انہوں نے دوبارہ پوچھا کہ تم سنجیدہ ہو، اس جواب میں؟ میں نے کہا: ہاں ! نہ صرف سنجیدہ ہوں بلکہ کامل یقین ہے، مجھے تو اس نے کہا: یہ تو لغو جواب ہے، بالکل بے معنی جواب.میں تو نہیں توقع رکھتا کہ اس قسم کے سوال کا جواب یہ ہو.میں نے کہا: پھر اسی پر گفتگو ہو جائے کہ بے معنی جواب ہے کہ نہیں ؟ اور میں ساری تفصیل سے آپ کو سمجھاتا ہوں..چنانچہ جب ان کو سمجھایا تو جارحیت تو در کنار ان کے اندر غیر معمولی دوستی پیدا ہو گئی.اور انہوں نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو اب جو اس کے بعد آپ کی تقریب ہو رہی ہے، مجلس اس میں بھی میں شامل ہو جاؤں؟ میں نے کہا: ہاں ! ضرور شوق سے تشریف لائیں.چنانچہ وہ اس میں شامل ہوئے.پھر دوبارہ اجازت لے کر قریب آکے کرسی پر بیٹھ گئے.پھر انہوں نے کہا: میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں.اسلام سے جو مجھے نفرت ہوئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک دفعہ مسلمان ہو گیا تھا اور مسلمان ہونے کے بعد جن لوگوں کے پلے پڑا، جس قسم کے مسلمانوں سے واسطہ پڑا، غیر ملکوں کا خصوصا ذ کر کیا، انہوں نے غیر ملکی نمائندوں سے اس سے مجھے شدید جھٹکا پہنچا اور پھر میں نے دعا کی کہ اے خدا! میں تو ہدایت کی خاطر اس طرف آیا تھا، یہاں تو اس قسم کے لوگ ہیں ، اس قسم کے ان کے تصورات ہیں، میری فطرت کے خلاف ہے، یہ اسلام.تو میری ہدایت فرما.کہتے ہیں: اس دوران مجھے دھکا لگا بڑی زور سے اور میں چاروں شانے چت جا گرا.اور اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ اس اسلام کو رد کر دو.اور یہ دھکا ملا ہے اور میں نے اسی وقت پھر چھوڑ دیا.اور شروع میں جو میرے سوالات میں ایک جارحیت پائی جاتی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک پس منظر ہے میری دشمنی اور نفرت کا.لیکن آج جو میں نے انٹرویو کے دوران اور یہاں مجلس میں باتیں سنی ہیں، میں اب شک میں پڑ گیا ہوں کہ میرا فیصلہ درست تھایا غلط تھا.اور اس کی تعبیر کیا تھی، جو واقعہ میرے ساتھ گزرا؟ اور پھر انہوں نے اس کے ساتھ ایک اور نظارہ 850

Page 860

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء بتایا کہ یہ نظارہ بھی میں نے دیکھا، مجھے اس کی تعبیر چاہیئے.تو جب میں نے ان کو سمجھایا تو ان کی بالکل کیفیت بدل گئی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دلچسپی اور بڑھ گئی.یہاں تک کہ انہوں نے کہا کہ آپ اب ٹیلی ویژن پہ انٹرویو کے لئے جارہے ہیں تو مجھے اجازت ہے، میں بھی ساتھ آجاؤں؟ میں نے کہا: ہاں! شوق سے آئیں.اور وہاں بھی بیٹھے رہے اور بڑا ہی چہرے پہ محبت کے آثار ظاہر ہورہے تھے.مجھ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے دیکھا ہے، جب اللہ تعالیٰ دل بدلنا چاہتا ہے تو بالکل اچا نک بدل دیتا ہے.جیسے مشرق سے کسی کا سر پکڑ کے مغرب کی طرف کر دے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی نقشہ کھینچا ہے.فرمایا: خدا کی دو انگلیوں کے درمیان اس طرح دل ہیں، یوں اس کو پلٹ دے تو رخ ادھر ہو جاتا ہے.یوں کر دے تو رخ ادھر ہو جاتا ہے.اور خدا ہی کے ہاتھ میں دل ہے.(مسلم کتاب القدر حدیث نمبر: 4798) اس لئے کوئی بھی دورہ، کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی ، جب تک دعاؤں پر انحصار نہ ہو.اور جب اللہ تعالیٰ فضل فرمائے تو معمولی کوششوں کے بھی اچھے نتیجے ظاہر ہوتے ہیں، اچھے پھل ظاہر ہوتے ہیں.وہاں بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، بے ساختہ اچانک پھل ملتے رہے.واشنگٹن میں، جو سب سے اہم جگہ ہے، امریکہ کی طاقت کے سرچشموں کا مرکز ہے.وہاں جو مجلس ہوئی ، وہاں غیر احمدی مسلمانوں کی طرف سے ایک باقاعدہ منظم سازش کے نتیجے میں شرارت کی کوشش کی گئی.اور بعض سوالات ایسے کئے گئے، جس کے نتیجے میں ان کا خیال تھا کہ جو مسلمان آئے ہوئے ہیں اور ان میں بڑی بڑی اہم شخصیتیں شامل تھیں، کیونکہ واشنگٹن چونکہ مرکز ہے، وہاں سارے عالم اسلام سے اہم لوگ آکے لبسے ہوئے ہیں اور پاکستان کے نمائندہ بھی وہیں ہیں زیادہ تر.وہاں بڑی منتظم سازش کی گئی اور بعض ایسے سوال اٹھائے گئے ، جن کے نتیجے میں وہ لوگ سمجھتے تھے کہ دوسرے مسلمانوں پر اگر کوئی نیک اثر پڑا رہا ہے تو وہ فورا مل جائے گا.اس کا الٹ نتیجہ خدا نے پیدا کیا، ان کے نقطہ نگاہ سے.اور جتنی کوشش کی گئی جماعت کے اثر کو مٹانے کی اتنی ہی زیادہ قوت کے ساتھ جماعت کا اثر ظاہر ہوا.چنانچہ مجلس ختم ہونے سے پہلے ہی مستورات کے سیکشن سے مجھے پیغام ملا کہ بعض خواتین ہیں غیر مسلم ، وہ آئیں ہوئیں ہیں، وہ اتنازیادہ دلچسپی لینے لگ گئی ہیں اسلام میں کہ وہ کہتی ہیں کہ ہماری پیاس نہیں بجھے گی ، اگر وہ ہمارے پاس آکر خود بالمشافہ ہمیں موقع نہ دیں گفتگو کا.اور بعض سوال، جو ہم وہاں نہیں کرنا چاہتیں ، ہم یہاں ان سے کرنا چاہتی ہیں.چنانچہ معابعد میں اس مجلس میں گیا.اور ان میں یہودی بھی تھیں، مسلمان بھی تھیں، ہندو بھی سکھ بھی، عیسائی عورتیں بھی اور اچھی خاصی ایسی مجلس تھی، جو وہ نمائندہ کلاسز کی مجلس ہوتی ہے.نمائندہ طبقات کی مجلس 851

Page 861

خطبہ جمعہ فرمود و 20 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم کہلاسکتی ہے.اور بڑی گہری دلچسپی انہوں نے لی اور اس کے بعد جب باہر آیا ملاقاتیں ہوئی تو وہاں بھی دوستوں نے بڑی محبت کے ساتھ ، بڑے اچھے خیالات کا اظہار فرمایا.اس وقت تک کھڑے رہے، وہیں رہے، جب تک میں واپس نہیں آ گیا.اور ملاقات کے بغیر باہر نہیں گئے ، الا ماشاء اللہ.اور واپسی کے وقت مجھے پتالگا، نیویارک میں ایک خاتون ، جو اس مجلس میں آئیں ہوئیں تھیں، امریکن، انہوں نے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے.وہ چاہتی ہیں کہ خود آئیں.چنانچہ جب بیعت کی، ان سے میں نے پوچھا کہ کیا خاص وجہ تھی، آپ کی بیعت کی؟ تو انہوں نے کہا: وہ واشنگٹن کی مجلس میں میں شامل ہوئی تھی اور اس میں جو آپ کے اوپر خاص رنگ میں حملے کئے گئے تھے اور کوشش کی گئی تھی کہ آپ کے اثر کو مٹایا جائے ، جس طرح آپ نے احمدیت کے دفاع میں جواب دیئے، مجھے اسی وقت یقین ہو گیا تھا کہ آپ بچے ہیں اور یہ لوگ جھوٹے ہیں.اور میرے دل میں میسیج کی طرح گڑ گئی تھی، یہ بات کہ احمدیت کچی ہے.پھر کچھ وقت لگا، مجھے، کیونکہ میرا معاشرہ مختلف ہے اور اچانک مذہب بدلنا، پھر اپنی عادات بدلنا، خیالات بدلنا ، یعنی طرز رہائش بدلنا، یہ آسان کام نہیں.لیکن اب مجھے توفیق مل گئی ہے.اور وہ پہلی مجلس میں ہی برقع پہن کے آئیں تھیں.سفید نام امریکن تمھیں لیکن ان کے اندر ایک اور خوشی کا پہلو یہ تھا کہ ریڈ انڈین بلڈ بھی موجود تھا، جس کی ہمیں ضرورت ہے، تعارف کی.اور ریڈ انڈین ان کے رشتہ داریوں کے تعلقات بھی ابھی تک قائم تھے.تو مجھے تو بڑی تلاش تھی، ایسے لوگوں کی، جن کے ذریعے ہم ریڈ انڈینز (Red Indians) میں بھی داخل ہو سکیں.تو اس پہلو سے میرے نزدیک اس کی بڑی اہمیت تھی.لیکن مجھے بتایا یہ گیا کہ جب انہوں نے فیصلہ کیا ، دوسرے دن بیعت کرنی ہے تو ساری رات بیٹھ کے برقع سیا اور برقع پہن کر آئیں.تو یہ اچانک تبدیلیاں ہے، یہ انسان کے بس کی بات ہی نہیں.یہ خدا تعالیٰ کے تصرف میں جو دل ہیں، اس کے کرشمے ہیں.اور وہ دل بدلتا ہے اور اچانک اس طرح کا یا پلٹ دیتا ہے کہ کس معاشرے سے اٹھی بچی ایک اور نوجوان لڑکی ، جب وہ بیعت کی، اس نے اور میں نے کہا: آپ دستخط کر دیں اور دعا کر لیتے ہیں اکٹھے.تو اس کے بعد وہ اتنی زیادہ جذباتی ہو گئیں تھیں کہ جو خواتین ان کو ساتھ لے کر آئیں تھیں، ان کے ساتھ ، ایک ایک کے ساتھ گلے مل مل کے روتی تھی کہ الحمد للہ ! آج میری قسمت جاگ گئی، آج مجھے خدا نے یہ دن دکھایا اور بے انتہا خوشی کے جذبات اور آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ، ان کی.تو یہ ایسے پاکیزہ پھل، خدا جو عطا فرماتا ہے، اس کے بے انتہا مواقع موجود ہیں.اور ایک جگہ نہیں، کئی جگہ ایسے واقعات ہوئے کہ ایک مجلس کے بعد ہی شامل ہونے والوں میں سے کسی نے اظہار کیا کہ ہم بیعت کرنا چاہتے ہیں.ایک ہندو نے بھی بیعت کی خدا کے فضل سے.ایک اور جگہ شکاگو میں بھی 852

Page 862

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء ایک سفید فام خاتون نے بیعت کی.اور ایک اور دلچسپ واقعہ وہاں یہ ہوا کہ چونکہ واشنگٹن میں ایسے آثار ظاہر ہوئے تھے کہ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ مجھے پر حملے کی ایک سازش تیار کی گئی ہے.اس لئے اگر چہ پہلے بھی جماعت کی طرف سے بہت اچھے انتظامات تھے.اور امیر صاحب یونائیٹڈ سٹیٹس (United States) اور نائب امیر، دونوں نے مل کے سیکیورٹی کی طرف بڑی توجہ دی تھی.لیکن اس واقعہ کے بعد وہاں شکاگو کی جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ باقاعدہ سیکیورٹی کی جو ایجنسیز (Agencies) ہیں، ان کو بھی حفاظت کے لئے کرائے پر لینا چاہئے.اور جو بھی خرچ ہو لیکن بہر حال اس قسم کے ہم کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ دوبارہ ایسی شرارت کے متعلق کوئی سوچ سکے.چنانچہ وہاں کی ایک تجربہ کار سیکیورٹی کی ایجنسی، جس کے افسر پولیس کے ایک پرانے تجربہ کار افسر تھے ، ان کو مقرر کیا ہوا تھا.اور چار دن کا دورہ تھا شکا گو گا.چلنے سے ایک رات پہلے وہ پہنچے مسجد میں، انہوں نے کہا کہ میں بیعت کرنی چاہتا ہوں.آپ مجھے سیکیورٹی افسر کے طور پر دیکھ رہے تھے کہ گویا میں ہوں یا نہ ہوں، میں اپنے کام میں لگا ہوا ہوں.لیکن میں اس نظر سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کیا باتیں ہیں؟ اور واقعہ اس طرف سچائی ہے کہ نہیں؟ اور دو دن کے اندر اندر میرے دل کی حالت بدل گئی ہے.اور میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جماعت احمد یہ ، جس اسلام کو پیش کر رہی ہے، وہی سچا اسلام ہے.اور یہ اسلام ایسا نہیں، جس سے میں باہر رہ سکوں.اس لئے مجھے شامل کیا جائے.اور پھر اسی رات کو وہ ہمارے ساتھ نماز عشاء میں بھی شامل ہوئے اور اللہ کے فضل سے بڑی جلدی جلدی پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہوئی ، ہم نے لوگوں میں دیکھیں.اور بہت سے نیک اثرات ہیں، جو انشاء اللہ لمبے عرصے تک ایک رحمت کے سائے کے طور پر جماعت امریکہ پر رہیں گے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ جن لوگوں سے واسطے پڑے ہیں اور تعلقات وسیع ہوئے ہیں، ان لوگوں میں جماعت بھی اپنی دلچسپی کو جاری رکھے گی.اور ان میں بہت سے انشاء اللہ تعالیٰ اچھے پھل ہیں، جو تیار ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی جھولی میں آنے والے ہیں.وہ اس سے باہر جانہیں سکتے.کیونکہ ملاقاتوں کے دوران بھی اور عمومی سوال و جواب کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے، میں نے یہ اندازہ لگایا کہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، امریکن عوام کے دل میں سعادت ابھی تک زندہ ہے، مادہ پرستی کے باوجود.باوجود اس کے کہ وہ ایک ایسے نظام کے غلام ہیں، جس کے چنگل میں پھنسے ہوئے ، جدھر وہ زنجیروں میں باندھ کر لے جارہا ہے، اس طرف چلے جارہے ہیں.لیکن ان کے دل میں کچھ سچائی کی محبت موجود ہے، ابھی تک.اور آزادی کی محبت بھی موجود ہے.چاہتے بھی ہیں کہ اس قسم کی مصیبتوں سے ان کو نجات ملے.اپنے 853

Page 863

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم معاشرے کی بدیوں کا احساس بھی ان کے دل میں پیدا ہو چکا ہے.اس لئے خدا کے فضل سے بے حد مواقع موجود ہیں.ان واقعات کا جو تذکرہ ہے، وہ تو بہت ہی لمبا ہو جائے گا.میں نے نمونہ ایک دو باتیں آپ کے سامنے اس لئے رکھی ہیں تا کہ دو نتائج کی طرف آپ کو توجہ دلاؤں.امریکہ کے سفر کے دوران، جہاں میں نے یہ محسوس کیا کہ کثرت سے لوگوں کے دلوں میں اسلام کو قبول کرنے کی صلاحیت ہے، وہاں یہ بھی محسوس کیا ، جماعت کی اکثریت اس صلاحیت سے استفادہ نہیں کر رہی.اور کم و بیش یہی صورت یورپ کی جماعتوں پر بھی اطلاق پاتی ہے.انگلستان کی جماعت پر بھی اطلاق پاتی ہے.گنتی کے چند ایسے احباب ہیں، جو ایک مشن کے طور پر دعوت الی اللہ کو اپناشیوہ اور اپنا وطیرہ بنالیں، اپنی زندگی کا مقصد بنالیں ، عادت میں داخل کر لیں.اور جہاں جہاں ایسے دوست ہیں، ان کے بہت ہی نیک نتیجے اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے.چنانچہ جو مجالس اور کثرت کے ساتھ ایسی مجالس تھیں، یعنی ان کا تو شمار اس وقت میں کر ہی نہیں سکتا.کیونکہ صبح سے لے کر رات تک مختلف پروگرام ہی چل رہے تھے مسلسل ان میں، میں نے یہ اندازہ لگایا کہ صرف چند احمدیوں کی کوششوں کے نتیجے میں اس کثرت سے لوگوں نے دلچسپی لی ہے.شکاگو میں مثلا کہ جس مجلس میں صرف غیر مسلم مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا، اس میں تقریباً ایک سومرد اور ساٹھ عورتیں تھیں.اور صرف چند گنتی کے احمدیوں کی کوششوں کے نتیجے میں وہ سب آئے تھے.چار یا پانچ سے زیادہ وہ لوگ نہیں ہیں، جن کو دعوت الی اللہ کا چسکا ہے.اور بعض تو ایسے تھے، جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ کم سے کم ایک تہائی مدعوئین ان کے ذاتی تعلق کی وجہ سے آئے ہوئے تھے.اور اسی طرح جیسا کہ میں نے پورٹ لینڈ کا واقعہ بیان کیا ہے، صرف چار خاندان ہیں.اور اس کثرت کے ساتھ ان کا نیک اثر تھا.چونکہ اللہ کے فضل سے وہ چاروں خاندان کے سر براہ ہی جماعت سے محبت رکھنے والے اور تعلق رکھنے والے ہیں.تو پوٹینشل (Potential) یعنی جو امکانات موجود ہیں، جماعت کے اندر طاقت کے، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان ساروں کو استعمال کیا جائے تو باوجود اس کے کہ امریکہ میں جماعت بہت تھوڑی ہے پوٹینشل کے لحاظ سے بہت عظیم قوت ہے.اور بہت بڑے بڑے انقلابات پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے.اور جولوگ داعی الی اللہ نہیں بنے ، ان کو میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت لوگوں کو اسلام کے قریب لا رہی ہے.آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ اسلام سے متنفر ہور ہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خدا کی رحمت اسلام کے قریب لا رہی ہے.کیونکہ جب یہ Parallax پیدا ہو جائے ، ایک فرضی بات میں اور ایک 854

Page 864

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اصف خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء حقیقت میں بعد پیدا ہو جائے تو جب حقیقت دکھائی دیتی ہے تو اس وقت انسان کو حقیقت سے عام حالات کی نسبت سے زیادہ دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے.مراد میری یہ ہے کہ ایک فرضی تصویر ہوتی ہے اور ایک حقیقی تصویر، اگر فرضی تصویر بدصورت ہو جائے ، اگر فرضی تصویر میں نہایت ہی مکر وہ نقوش پیدا کئے گئے ہوں اور حقیقی تصویر خوبصورت ہو تو جب بھی ایسا شخص جو فرضی تصویر کے نتیجے میں کسی تصور سے نفرت کر رہا ہے، حقیقی تصویر کے نقش دیکھتا ہے تو عام حالات سے زیادہ اس میں دلچسپی لیتا ہے.عام حالات سے زیادہ رد عمل کے طور پر اس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے.اور مذہب کی دنیا میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہی کرشمے آپ کو دکھائی دیتے ہیں.آج ایک شخص شدید نفرت کا شکار ہے کیونکہ اس نے ایک فرضی تصویر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھی، جو اسے دکھائی گئی تھی اور وہ قابل نفرت تصویر تھی.جب حقیقی حسن کو دیکھا تو عام حالات میں بھی وہ حسن شیفتہ بنانے والا حسن تھا لیکن اس نے سفر کیا ہے، اس حسن کی طرف اس فرضی تصویر سے اور اس نے زیادہ فاصلہ طے کیا ہے آپ کی طرف آنے میں اور زیادہ شدید محبت کے ساتھ اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کیا ہے.کیونکہ اس کے دل میں یہ تاثر بھی تھا کہ پہلے میں اس پیارے وجود سے نفرت کیا کرتا تھا.اس کا ایک نفسیاتی رد عمل تھا، جس نے بہت زیادہ قوت کے ساتھ اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف اس کو مائل کیا.یہی مضمون جماعت احمدیہ کی شکل میں بھی ہمیں دکھائی دے رہا ہے، آج.جتنا مولوی مکر وہ تصویر جماعت احمدیہ کی بھینچ رہا ہے، اتنا ہی جب لوگ قریب سے آکے دیکھتے ہیں تو رد عمل کے طور پر زیادہ جلدی جماعت احمدیہ کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں.اور امریکہ میں یا یورپ میں اسلام کی جو تصویر ہے، اس کا بھی یہی حال ہے.ایک فرضی قابل نفرت تصویر کھینچی جارہی ہے.اگر جماعت احمد یہ اپنے اعمال کی روسے، اپنے ذات کے تعارف کے ذریعے دنیا کو اسلام سے متعارف کروائے ، اسلام کا بہترین نمونہ اپنی ذات میں پیش کرے، یہ مطلب ہے.اور وہ اسلام دنیا کو دکھائے ، صرف سنائے نہیں، جو کے خوبصورت ہ اسلام ہے تو اس قسم کا رد عمل اس دنیا میں ظاہر ہوگا.اور بہت کثرت کے ساتھ اور بڑی شدت سے اسلام سے محبت کرنے والے یہاں پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.اس لئے وہ احمدی، جو ابھی تک دعوت الی اللہ کے کام سے غافل ہیں، ان کو میں بتاتا ہوں کہ اب تو یہ حالت ہے کہ وہ مجرم بنتے چلے جارہے ہیں.خدا کی تقدیر ان لوگوں کو قریب لانے کے انتظام کر 855

Page 865

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم رہی ہے، ان کو اس وقت.حالت یہ ہے کہ اپنے معاشرے سے بھی نفرت پیدا ہورہی ہے، اپنے مغربی فلسفوں سے بھی یہ لوگ متنفر ہوتے چلے جاررہے ہیں.بے اطمینانی ہے، تلاش میں ہیں کہیں ان کو سکون قلب مل سکے.جو تعلق ہے، وہ ایک سطحی تعلق ہے اپنے معاشرے سے.یعنی چونکہ ظاہری کشش پائی جاتی ہے، اس لئے اس میں مگن ہیں.ایک قسم کے شراب کے نشے کی طرح ان کی کیفیت ہے.اس نشے کی حالت میں اپنے معاشرے کے ساتھ یہ تعلق رکھ رہے ہیں.کیونکہ ظاہری کشش ہے ایک.لیکن جب بھی دل کو ٹول کے دیکھیں، آپ کو اطمینان نظر نہیں آئے گا، سکینت نظر نہیں آئے گی ، ہر جگہ بے اطمینانی پائی جاتی ہے.وہ بھی آپ کی مدد کر رہی ہے.جو اسلام کی حقیقی تصویر آپ کھینچ سکتے ہیں، جو تصور اسلام کا آپ پیش کر سکتے ہیں، وہ اتنا دلکش ہے کہ اس موقع پر اگر وہ ان کے سامنے رکھا جائے تو بے اختیار یہ اس کی طرف مائل ہوں گے.اس کے باوجود ان کو محروم رکھنے کا گناہ اگر آپ اپنے سر لیتے ہیں تو بڑی جرات ہے اور بڑی بے حسی بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے وہ ہوائیں چلا دی ہیں، جس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب قریب تر آ رہا ہے، دل مائل ہورہے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی تقدیر خود دلوں کو مائل کرنے کے انتظامات بھی فرمارہی ہے.اور جب بھی آپ دلچسپی لیتے ہیں، خدا کی تقدیران دلوں میں دلچسپی لینے لگ جاتی ہے، جن میں آپ دلچسپی لیتے ہیں.ان حالات کے باوجود سعادت سے محروم رہنا، یہ نہ عقل کے مطابق ہے ، نہ کسی پہلو سے بھی کوئی معقول بات دکھائی نہیں دیتی اور محرومی نہیں بلکہ گناہ بن جاتا ہے.اس لئے میں یورپ اور امریکہ میں بسنے والی جماعتوں کو بالخصوص اور تمام دنیا کی جماعتوں کو پھر یاد کرا تا ہوں کہ وہ ہوا چل پڑی ہے، جس ہوا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کو بالآخر دنیا پہ غلبہ نصیب ہوتا ہے.اور آپ کی جدو جہد اور کوشش اور دلچپسی کی ضرورت ہے.دلچسپی جب میں کہتا ہوں تو اکثر دوستوں کو پتا نہیں چلتا کہ کس طرح دلچسپی لیں.اکثر دوستوں کو طریقہ نہیں پتا.اور اسی لئے میں نے بار بار جماعتوں کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اپنی مجالس عاملہ میں ہر مہینے یہ بات رکھا کریں، کتنے دوست تبلیغ میں دلچسپی لے رہے ہیں؟ جو لے رہے ہیں، ان کو تبلیغ کا سلیقہ بھی ہے کہ نہیں؟ اور جو نہیں لے رہے، وہ کیوں نہیں لے رہے؟ اکثر ان میں سے ایسے ہوں گے، جن کے دل میں تمنا تو ہوگی لیکن پتا نہیں ہوگا ، کیسے کرنی ہے؟ اور امریکہ کے دورے کے دوران مجھے یہ بھی معلوم ہوئی بات کہ اس معاملے میں امریکہ کا نظام جماعت غفلت کا مرتکب رہا ہے.انہوں نے اس ہدایت کو سنجیدگی سے نہیں لیا.نہ مرکزی جماعت نے ، نہ شہروں 856

Page 866

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء کی جماعتوں نے.اور نتیجہ یہ نکلا کہ مجالس عاملہ کے اجلاسات اگر ہوتے بھی ہیں، یہ نہیں مجھے پتا کے با قاعدگی کے ساتھ ہوتے بھی ہیں کہ نہیں؟ اگر ہوتے بھی ہیں تو اس سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر غور نہیں کیا جاتا.چنانچہ اس سفر کے دوران میں ان کو متوجہ کرتا رہا ہوں کہ جب خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی بات آپ کو پہنچائی جائے، اس میں حکمت ہوتی ہے، اس میں ایک فائدہ ہوتا ہے.اس کو نظر انداز کرنے سے آپ بہت سی سعادتوں سے محروم رہ جاتے ہیں.اور جو کھی کھلی بر سر عام ہدایت دی گئی ہے، اس کی خلاف ورزی کرنا تو ایک قسم کا باغیانہ رجحان ہے.تو نظام جماعت کے نمائندہ لوگوں کا فرض بن جاتا ہے کہ جب بھی کوئی ایسی ہدایت دی جائے اس کے اوپر عمل کرنا شروع کریں.اور اس سعادت کے نتیجے میں ہی خدا ان کو بہت ساری نیکیاں نصیب فرمائے گا، بہت ساری نئی نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے گا، ان کی کوششوں کو مزید بہتر پھل لگنے شروع ہو جائیں گے.اس لئے میں یہ دوبارہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی لیکن ساری دنیا میں تمام دنیا کی جماعتیں اس بات پر پابندی کے ساتھ قائم ہو جائیں کہ ہر مہینے ایک دفعہ مجلس عاملہ میں ان باتوں پر غور کیا جائے کہ کہاں تک جماعت دعوت الی اللہ کا کام کر رہی ہے؟ جہاں نہیں کر رہے، وہاں کیوں نہیں کر رہے؟ اور کون سے ایسے ذرائع ہمیں اختیار کرنے چاہئیں، جن کے نتیجے میں دعوت الی اللہ کا کام تیز ہو سکے اور معنی خیز ہو سکے.پس اگر ہم اس سنجیدگی کے ساتھ کام کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ دنیا میں انقلاب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا.سائنس سے جو لوگ واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ بعض امور میں رفتار معنی خیز ہوا کرتی ہے.کتنے قدم طے کئے ہیں، یہ بات معنی خیز نہیں ہوتی.بلکہ رفتار کیا ہے، آگے بڑھنے کی.جو جماعتیں نظریاتی طور پر اور روحانی طور پر دنیا پر غالب آیا کرتی ہیں، ان پر بالخصوص یہ اصول کارفرما ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے کی رفتار کیا ہے؟ کتنے احمدی ہورہے ہیں سال میں؟ کتنے مسلمان بن رہے ہیں؟ یہ بحث نہیں ہے.جو کچھ ہمارے پاس ہے، ہمارے آگے بڑھنے کی رفتار کیا ہے؟ یہ ہے، اصل فیصلہ کن بات.اس پہلو سے ہماری رفتار میرا اندازہ ہے کہ پچاسی گنایا نوے گنا زیادہ ہو سکتی ہے.کیونکہ زیادہ سے زیادہ جماعت کے دس فیصدی حصے کو ہم فعال داعی الی اللہ قرار دے سکتے ہیں.اور یہ بھی میں نے بہت بڑی چھلانگ لگائی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر میں حقیقی جائزہ پیش کروں، چند تجربوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تو شاید پانچ فیصدی بھی نہ ہوں.لیکن بعض ممالک پر میں حسن ظنی کرتا ہوں مثلاً افریقہ میں نسبتا زیادہ لوگ کر رہے ہوں گے.857

Page 867

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء.تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد هفتم کیونکہ ان کے نتائج سے بھی یہی لگ رہا ہے.بعض اور ممالک میں بھی کر رہے ہوں گے.اس لئے میں نے زیادہ سے زیادہ دس فیصدی داعی الی اللہ کی تعداد مقرر کی.لیکن میرے خیال میں تو پانچ فیصدی بھی نہیں ہے پوری.اگر پانچ فیصدی کبھی جائے تو پچانوے فیصد مزید اضافے کی گنجائش موجود ہے.اور بہت بڑی گنجائش ہے.اگر آپ کی رفتار پانچ میل فی گھنٹہ کی بجائے سو میل فی گھنٹہ ہو جائے تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ کے فاصلے طے کرنے کی قوت میں کتنا بڑا اضافہ ہوتا ہے.اور اس کے ساتھ ہی اس رفتار کے نتیجے میں جو شامل ہونے والے ساتھ شامل ہو رہے ہیں، وہ اس رفتار میں Acceleration ہور.پیدا کر دیتے ہیں ، یہ ہے، وہ اصل سائنسی نقطہ، جسے سمجھنا چاہئے.پانچ آدمی سال میں سو آدمی پر جو داخل ہورہے ہوں، ان کے نتیجے میں Acceleration پیدا نہیں ہوتی.یعنی رفتار اس طرح نہیں بڑھتی ، جس طرح زمین کی طرف گرنے والی چیز کی رفتار بڑھ رہی ہوتی ہے.بلکہ ایک قسم کی Steady ایک معتدل کی رفتار کی شکل بن جاتی ہے.Acceleration کے نتیجے میں تو ہر اگلی رفتار غیر معمولی طور پر اور بڑھنا شروع ہو جاتی ہے.ہر اگلے گھنٹے کی رفتار اور ہو جاتی ہے، ہر اگلے دن اور ہفتے اور مہینے اور سال کی رفتار میں فرق پڑنا شروع ہو جاتا ہے.تو پانچ فیصد بھی اگر ہیں تو یہ کافی نہیں ہیں، Acceleration پیدا کرنے کے لئے.اگر آپ سو فیصدی نہ بھی ہوں، میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر پچاس فیصد احمدی بھی حقیقی معنوں میں داعی الی اللہ بن جائے تو اتنی تیزی سے دنیا میں اسلام کا انقلاب آنا شروع ہو جائے کہ آپ بھی کبھی اس کا تصور نہیں کر سکتے.دونوں میں ہفتوں میں مہینوں میں کیفیتیں اس طرح تبدیل ہونے لگیں کہ آپ حیران ہو جائیں گے دیکھ کر کہ دنیا کو کیا ہو گیا ہے.بہت بڑی طاقت جماعت کو خدا عطا کر چکا ہے.اور یہ طاقت انفرادی طور پر نہیں بلکہ جماعت کے اخلاص کے لحاظ سے ہے.چنانچہ میں نے امریکہ کے دورے میں یہ بھی محسوس کیا کہ باوجود اس کے کہ اکثریت داعی الی اللہ نہیں لیکن اخلاص اور محبت کے لحاظ سے ہر ایک ان میں سے داعی الی اللہ بنے کا اہل بن چکا ہے.بہت فرق پڑا ہے، پہلے کی نسبت.جب میں 1978ء میں امریکہ گیا تھا، اس امریکہ میں اور آج کے امریکہ میں بہت بڑا فرق پڑ چکا ہے.اس وقت اکثر خاندان بے تعلق سے یا تعلق تھا بھی تو ہلکاہلکا، نرم رفتار ، نرم گفتار سا تعلق تھا.لیکن اب تو کیفیت یہ ہے کہ دلوں میں جذبے اچھلتے ہوئے میں نے دیکھے ہیں.ہر خاندان میں اکثر ممبران خاندان کے اکثر ممبروں کی جماعت سے محبت کی حالت میں بہت بڑا فرق پڑا ہوا ہے.اور خصوصیت سے مجھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ احمدی خواتین میں خدمت دین کا جذبہ بہت بیدار ہو چکا ہے.غیر معمولی 858

Page 868

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ہی خطبہ جمعہ فرمودہ 20 نومبر 1987ء محبت اسلام کی اور اسلام کی خاطر قربانیاں پیش کرنے کی تمنا ان کے دل میں پیدا ہو چکی ہے.چنانچہ یہ نظارہ میں نے دیکھا ہے اکثر خاندانوں میں ملاقات کے وقت ان کی مائیں جب بچے پیش کرتی تھیں تو ان بچوں کے اوپر ان کی محنت ہوئی ہوئی دکھائی دیتی تھی.معلوم ہوتا تھا کہ ایک لمبے عرصے سے گھر میں انہوں نے دینی ماحول بنایا ہوا ہے.بچوں کو خدا اور رسول کی باتیں بتاتی ہیں.فخر کے ساتھ ان سے وہ کلمے سنواتی تھیں، قرآن کریم کی آیات، جو یاد کی ہو ئیں تھیں، وہ سنواتی تھیں.دین کی محبت کے اظہار والی نظمیں ان کو یاد کروائی ہوئی تھیں.اور بچوں کے دل میں بڑا نمایاں طور پر اسلام کا پیار دکھائی دے رہا تھا.تو یہ جو چیز ہے، یہ خوش کن بھی بہت ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم میں سے اکثر ا بھی داعی الی اللہ نہیں بن سکے لیکن داعی الی اللہ بننے کے لئے جو مرکزی طاقت چاہئے ، محبت اور اخلاص کی ، وہ موجود ہے.اس لئے کوئی فرضی بات نہیں ہے کہ پچاس فیصدی احمدی حقیقتہ داعی الی اللہ بن جائیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ پچاس فیصدی احمدی داعی الی اللہ بننے کے اہل بن چکے ہیں، اللہ کے فضل سے.سب سے زیادہ ضرورت دعوت الی اللہ کے لئے ایک جذبے کی ہے، دوسرے دعا کی ہے.علم اور دلیلیں باقی سب چیزیں بعد کی باتیں ہیں.یہ دو باتیں آپ اپنے اندر پیدا کرلیں، جذبہ پیدا کرلیں اور دعا کرنی شروع کر دیں اپنے لئے کہ خدا آپ کو توفیق دے تو باقی سب مراحل آسانی سے طے ہو جائیں گے.تو امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس طرف خصوصیت سے توجہ دے گی.جہاں تک یورپ کی جماعتوں کا تعلق ہے، ان کو بھی نسبتا زیادہ تفصیل سے منصوبہ بندی کرنی چاہئے.اب بہت تھوڑ اوقت اگلی صدی کے شروع ہونے میں رہ گیا ہے.اور وہ صدی اسلام کے مستقبل میں بہت ہی اہم کردار ادا کرنے والی ہے.اور آپ یعنی آج کی نسلیں بڑی خوش نصیب ہیں ، اس لحاظ سے کہ ایک نئے اسلام کے تاریخی دور میں داخل ہونے والی ہیں.ایک ایسے اہم تاریخی دور میں داخل ہونے والی ہیں، ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر جماعت کے نکتہ نگاہ سے اور جو دنیا کی صدی کے حساب ہیں، اس لحاظ سے بھی اگلی صدی بہت دور نہیں رہی.تو آپ ایک دو سال کے لحاظ سے جماعت کے نکتہ نگاہ سے یا چند سالوں میں دنیاوی نکتہ نگاہ سے اگلی صدی میں داخل ہونے والے ہیں.خدا کرے کہ ہم میں سے بھاری اکثریت اگلی صدی میں بالکل نئی سج دھج کے ساتھ داخل ہو.ان کے ارادوں میں ایک عظمت پیدا ہو چکی ہو، ان کے حوصلے بلند ہو چکے ہوں، وہ سر بلندی کے ساتھ اسلام کے نام کو اور اسلام کے کام کو آگے بڑھانے کے اہل بن چکے ہوں.اور یہ نیتیں لے کر داخل ہوں کہ ہم نے اگلی صدی نہیں ختم ہونے دینی 859

Page 869

خطبہ جمعہ فرمود و 20 نومبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم یہاں تک کہ اسلام دنیا میں غالب نہ آجائے.اور یہ دعائیں کر کے داخل ہونے والے ہوں کہ ہماری نسلیں بھی اس پیغام کو لے کر نئی شان اور نئی ہمت اور نئے استقلال اور جذبوں کے ساتھ آگے بڑھے.اس لئے اس صدی کا قریب آنا بھی آپ کے دلوں میں ایک ہلچل مچادینے والا موقع ہے.اس لحاظ سے بھی نگاہ کریں کہ آپ کس زمانے میں پیدا ہوئے ہیں، جہاں دو صدیاں ملائی جارہی ہیں، جو مجمع البحرین ہیں، جو ذوالقرنین کے لحاظ سے ایک خاص اہمیت کا زمانہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ظلی طور پر ذوالقرنین ہیں.اور آپ ایک پرانے زمانے کو یعنی جاہلیت کے زمانے کو جبکہ دنیا کی اکثریت اسلام سے غافل تھی، ایک نئے زمانے سے ملانے والے ہیں، جبکہ دنیا کی اکثریت اسلام قبول کرنے والی ہے.آپ کو اس کام کے لئے چنا گیا ہے.آپ کو اس سنگم پر پیدا کر دیا گیا ہے، جہاں یہ دوصدیاں ملنے والی ہیں.ایک وہ صدی، جسے اگلی صدی کا انسان پرانے زمانے کی صدی شمار کرے گا، جبکہ دنیا کی اکثریت اسلام سے غافل تھی.ایک وہ صدی، جس میں اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے گا اور آپ کی نسلوں کو توفیق دے گا کہ صدی ختم ہونے سے پہلے اسلام غالب آ جائے.پس ان سب باتوں پر نگاہ رکھیں.اپنی خوش نصیبی پر ناز کریں اور اس خوش نصیبی سے فائدہ اٹھا ئیں.اگر ہمت نہیں ہے، خواہش ہے تو دعا کریں تو ہمت بھی پیدا ہو جائے گی.بہر حال اب وقت ضائع کرنے کا نہیں ہے.ہم میں سے ہر ایک کو دعوت الی اللہ کے کام میں مصروف ہو جانا چاہئے.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 106 صفحہ 771 794) 860

Page 870

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اصف " اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 11 دسمبر 1987ء غالب آنے کے ہتھیار.صبر، استغفار، انکسار تسبیح وتحمید خطبہ جمعہ فرمودہ 11 دسمبر 1987ء...پس جہاں تک استغفار اور تسبیح اور تحمید کا تعلق ہے، سورہ نصر میں فتح کے نتیجے میں ان امور کی طرف توجہ دلائی گئی.اور فتح کے وعدے کے انتظار میں، وعدے کے پورا ہونے کے انتظار میں بھی اسی مضمون کی طرف توجہ دلائی گئی لیکن وہاں تسبیح اور تحمید کے بعد استغفار کا ذکر ہے، یہاں تسبیح وتحمید سے پہلے استغفار کا ذکر ہے.اور اس سے پہلے صبر کی نصیحت کا اضافہ فرما دیا گیا.اس پر غور کرنے سے بہت سے نکات ہاتھ آتے ہیں اور فتح و نصرت کو قریب تر لانے کے لئے جو اسباب ہیں، ان پر نظر پڑتی ہے.اور انسان اس مضمون کو سمجھنے کے بعد پہلے سے بہتر دعوت الی اللہ کرنے کا اہل ہو جاتا ہے.چنانچہ بہت سے دوست، جو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ دعوت الی اللہ تو ہم کر رہے ہیں لیکن ہماری دعوت کو پھل نہیں لگتا.جبکہ اور بہت سے ہیں، جو دعوت الی اللہ کا کام کرتے ہیں، ہم سے کم وقت دیتے ہیں اور بظاہر علم میں بھی ہم سے زیادہ نہیں مگر ان کی دعوت کو پھل لگتا ہے.اس کا کیا علاج ہے؟ قرآن کریم کی اس آیت پر غور کرنے سے اس کا علاج سمجھ میں آجاتا ہے.خدا نے جس نصرت کا وعدہ فرمایا ہے کہ جوق در جوق لوگ دین اسلام میں داخل ہوں گے، اس نصرت سے پہلے سب سے پہلے صبر کی تلقین فرمائی گئی.فرمایا کہ صبر کرنے والوں کے سوا اس عظیم الشان فتح کو دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکتے.اور یہ فتح صبر کرنے والوں کے مقدر میں لکھی گئی ہے.اس لئے صبر کے مضمون کو سب سے زیادہ اس میں اہمیت ہے.وجہ یہ ہے کہ جب بھی غیر سے مقابلہ ہوتا ہے، جیسا کہ دوسری آیت اس مضمون کو اور کھول دے گی تو اس مقابلے میں دنیا کی نظر کے لحاظ سے ایک طرف انتہائی کمزوری اور ایک طرف انتہائی بڑی طاقت ہوتی ہے.اور کمزوری کو وعدہ دیا جا رہا ہے کہ وہ طاقت پر غالب آجائے گی.اور کمزور لوگ اس وعدے کے انتظار میں خدا سے ایک آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں.چنانچہ غالب کے مقابل پر جب کمزور کو کھڑا کر دیا جائے تو کمزور اس مقابلے میں استقلال اختیار کر ہی نہیں سکتا، جب تک اس کے اندر غیر معمولی صبر کی ک طاقت موجود نہ ہو.861

Page 871

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 11 دسمبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم اور صبر کے اندر دو مضامین ہیں.ایک تو یہ کہ ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کرتے چلے جانا اور کسی تکلیف کے موقع پر بھی مایوسی کا اظہار نہ کرنا.یقین کامل رکھنا کہ میں بہر حال غالب آؤں گا.وقت کی بات ہے، اس لئے جیسے کیسے بھی وقت کو کاٹوں.کیونکہ بالآخر اس برے وقت نے ٹل جانا ہے اور اچھے وقت نے لازما آنا ہے.پس صبر کے مضمون میں یقین کامل کا مضمون بھی داخل ہے.اور وہی لوگ صبر کر سکتے ہیں، جن کا ایمان قوی ہو.جو اپنے مقصد کے غلبے پر کامل یقین رکھتے ہوں اور کبھی بھی اس بارے میں متذبذب نہ ہوں.کیونکہ یقین اور صبر دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے.جہاں یقین میں کمی آئی ، وہیں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے گا“.وو صبر کے اس مضمون میں اور بھی بہت سی چیزیں داخل ہیں لیکن اس وقت اس تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے.پہلے بھی بعض مواقع پر صبر کے متعلق میں تفصیلاً بیان کر چکا ہوں.ایک بات بہر حال ذہن نشین رکھنی ضروری ہے، ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کے لئے کہ صبر کے بغیر نہ دعوت الی اللہ ہو سکتی ہے، نہ صبر کے بغیر فتح کا دن دیکھنا نصیب ہو سکتا ہے.صبر کے بغیر انسان اپنی اچھی باتوں پر قائم بھی نہیں رہ سکتا.صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ انسان مایوسی سے بچ سکے اور اپنی نیکیوں پر استقلال اختیار کر سکے.اس لئے صبر بہت ہی ضروری ہے.لیکن اس یقین کے ساتھ صبر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ بالآخر خدا تعالیٰ لاز مافتح کا دن طلوع فرمائے گا.وو بات یہ ہے کہ جو شخص بھی خدا کی طرف بلانے والا ہو، اگر اس کی توجہ اپنی اندرونی صفائی کی طرف نہ ہو تو اس کی دعوت میں طاقت پیدا نہیں ہو سکتی.کیونکہ دعوت کا تعلق اعمال صالحہ سے ہے.جتنی کسی کو زیادہ نیکی کی توفیق ملتی ہے، اتنا ہی اس کی بات میں وزن پیدا ہو جاتا ہے.جتنا ہلکا اور کھوکھلا انسان ہو، خواہ وہ کیسی ہی عمدہ تقریریں کرنے والا ہو، دلائل میں کیسا ہی غالب آنے کی اہلیت رکھتا ہو، اس کی بات میں قوت پیدا نہیں ہوتی.اس لئے تبلیغ کرنے والوں کے لئے یہ راز سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ان کو اعمال صالحہ کی طرف لازما توجہ کرنی ہوگی.اعمال صالحہ کا مضمون تو لا متناہی ہے.ایک انسان ایک وقت کسی حالت میں ہے، دوسرے وقت کسی حالت میں ہے، تیسرے وقت کسی حالت میں ہے.اگر وہ مسلسل بھی ترقی کر رہا ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے عمل صالح کا آخری مقام حاصل کر لیا.اس لئے یہ شرط نہیں لگائی جاسکتی کہ جب تک عمل صالح کامل نہ ہو جائے ، اس وقت تک تم تبلیغ نہ شروع کرو.اگر یہ شرط لگ جائے تو خدا کے بعض معصوم بندوں 862

Page 872

تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 دسمبر 1987ء کے سواد نیا میں کوئی کسی کو تبلیغ نہ کر سکے.اس لئے یہاں شرط یہ رکھ دی و استغفر لذنبک کامل طور پر حسین عمل تمہیں نصیب نہیں بھی ہوئے تو استغفار تو کرو، اپنی کمزوریوں کی طرف توجہ تو کرو.یہ تو سوچا کرو کہ تم میں کیا کیا خامیاں ہیں؟ اپنے اندرونے کی طرف نگاہ رکھو اور پھر خدا سے مدد مانگتے رہو.اگر تم یہ کرنا شروع کر دو تو پھر تمہاری دعوت میں طاقت پیدا ہو جائے گی.کیونکہ اس کے نتیجے میں پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ فتح کا دن لازماً آئے گا.استغفار کا نصیحت کے ساتھ ایک اور بھی بڑا گہرا تعلق ہے، جسے اکثر لوگ بھلا دیتے ہیں.وہ لوگ جن کی نظریں دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے کی طرف رہتی ہیں، وہ نصیحت کی اہلیت ہی نہیں رکھتے.ان کی باتوں میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے، وہ تلوار کی طرح کاٹنے والی باتیں ہوتی ہیں، وہ زہر سے سارے وجود کو بھر دیتی ہیں اور جس کو بھی وہ نصیحت کرتے ہیں، اس نصیحت سے وہ تکلیف پہنچاتے ہیں، اس کی اصلاح کی اہلیت نہیں رکھتے“.اس لئے نصیحت کس کی کامیاب ہوتی ہے اور کس کی نہیں ہوتی ؟ اس کا راز یہاں بیان فرمایا گیا.وہ لوگ، جن کی نظر اپنے تک رہتی ہے، اپنی برائیاں تلاش کرتے رہتے ہیں، اپنی کمزوریاں دیکھتے رہتے ہیں اور خدا سے مدد مانگتے رہتے ہیں کہ اے خدا! ہم تو بہت ہی کمزور ہیں، بہت ہی گناہ گار ہیں، جو کام تو نے سارے عالم کو نصیحت کرنے کا ہمارے سپرد فرما دیا، اس کام کی ہم اہلیت نہیں رکھتے.کیونکہ ہم اندر سے داغدار ہیں اور تجھ سے بہتر اور کوئی نہیں ہے، جو ہمارے گناہوں پر نظر رکھتا ہے اور ہمارے گناہوں کو جانتا ہے.اس لئے تیرے حکم کے تابع ہم نصیحت کر رہے ہیں.اس زعم میں نصیحت نہیں کر رہے کہ ہم نصیحت کے اہل ہیں.تیرے ارشاد کی تعمیل میں ہم دعوت الی اللہ کے لئے نکلے ہیں.اس برتے اور اس زعم پر نہیں کہ ہم اتنے ولی اللہ بن چکے ہیں کہ ہم لوگوں کو اپنی طرف بلائیں.یہ جو انکسار ہے طبیعت کا، یہ دعوت الی اللہ میں طاقت پیدا کرتا ہے.یہ انکسار جو ہے طبیعت کا ، یہ استغفار کی طرف کثرت سے مائل کرتا ہے.اور ایسا انسان ، جو مؤثر داعی الی اللہ بنا چاہے، اس نکتے کو نظر انداز کر کے وہ بھی مؤثر داعی الی اللہ نہیں بن سکتا.آپ کے اندر جو Humility ،انکسار ہونا چاہئے ، جس سے بات میں اثر پیدا ہوتا ہے اور بات میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے، اس مضمون کی طرف خدا نے توجہ فرمائی ہے کہ و استغفر لذنبک ہمہ وقت، ہر دم اپنے گناہوں کی طرف متوجہ رہ اور خدا تعالیٰ سے ان کی بخشش کے لئے طلب گار رہ.اس کے نتیجے میں تسبیح وتحمید کا مضمون خود بخود 863

Page 873

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 دسمبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ہفتم ابھرتا ہے.جب انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک نہیں دیکھتا اور خوبیوں سے خالی پاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایک ہی ذات اس کے لئے باقی رہ جاتی ہے، جو سب گناہوں سے پاک ہے اور ساری خوبیوں سے مرصع ہے یعنی خدا تعالٰی.پس اپنی نفی کے نتیجے میں خدا کا اثبات پیدا ہوتا ہے.21 تو استغفار ذنب کے ساتھ تسبیح وتحمید کے مضمون کا ایک نہ ٹوٹنے والا تعلق ہے.اور Inverse Proportion ہے.ان کی یعنی ایک کم ہوگا تو دوسر از یادہ ہو جائے گا، دوسرا کم ہوگا تو پہلا زیادہ ہو جائے.جب پہلا زیادہ ہوگا تو دوسرا کم ہو جائے گا.بیک وقت دونوں نہیں بڑھتے یعنی انکسار اور تسبیح ان دونوں کا یہ اس قسم کا تعلق ہے کہ اپنے آپ کو کم دیکھیں گے تو خدا زیادہ نظر آئے گا.اپنے آپ کو زیادہ دیکھیں گے تو خدا کم نظر آئے گا“.خدا سے استغفار کرتے ہوئے ، اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہوئے ، جب پھر انسان کسی دوسرے کو نصیحت کرتا ہے تو اس نصیحت میں خدا کی تسبیح و تحمید کی قوت پیدا ہو جاتی ہے.کیونکہ اس انکسار کے نتیجے میں اس کے دل سے تسبیح اٹھتی ہے اور تحمید اٹھتی ہے.اور جو باتیں وہ خدا کی طرف منسوب کرتا ہے اور خدا کی طرف بڑے محبت اور پیار سے منسوب کرتا ہے، خدا وہی باتیں اس میں پیدا کرنے لگ جاتا ہے.کچھ کچھ اسی لئے اس کی زبان میں ایک غیر معمولی شان اور غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے“.وو اس کے برعکس کچھ لوگ ہیں، جو خدا کے نام کو پھیلانے والوں کے خلاف ایک مہم کا آغاز کرتے ہیں اور وہ طاقت میں بڑے ہوتے ہیں، وہ جھگڑے میں زیادہ شدید ہوتے ہیں اور بڑی قوت کے ساتھ وہ ان کمزور تھوڑی تعداد کے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں جو خدا کی طرف بلانے کا عزم لے کر دنیا میں خدا ہی کی خاطر نکل کھڑے ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے تو ان کو کوئی ایسی دلیل عطا نہیں کی، جس کے نتیجے میں وہ دنیا میں غالب آنے کے خواب و خیال بھی کر سکیں.چھوٹی موٹی گھٹیا ، ذلیل باتیں ہیں، جو لے کر تم سے جھگڑنے کے لئے نکلے ہیں لیکن سلطان ان کے پاس کوئی نہیں.33 جب سلطان نہیں تو پھر لڑتے کس برتے پہ ہیں؟ ہاتھ میں تلوار ہے، یہ مضمون اس کے اندر شامل کر دیا گیا ہے اس لئے کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ رہے ہیں.جو شخص دنیا کی طاقت رکھتا ہو، دنیا کا غلبہ رکھتا ہو، اس کے اندر ایک کبر پیدا ہو جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے، میں بہت بڑا ہوں، مجھے اختیار ہے، جو چاہے، میں کروں.864

Page 874

تحریک جدید- ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 دسمبر 1987ء ان کے دل میں کبر ہے لیکن وہ اس کبر کو پا نہیں سکیں گے.مطلب یہ ہے کہ یہ کبر ان کا جاتا رہے گا.ان کی ساری طاقتیں چھین لی جائیں گی اور اگر وہ خدا کی مخالفت کے نتیجے میں اور خدا کے پاک بندوں کی مخالفت کے نتیجے میں دنیا میں کسی بڑائی کو چاہتے ہوں اور ان کی مخالفت کے نتیجے میں دنیا والوں سے کوئی داد چاہتے ہوں اور رتبہ چاہتے ہوں اور اپنی طاقت کو بڑھانا چاہتے ہوں، جیسا کہ ہمیشہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں مخالفین کے یہ پیش نظر رہا تو آغاز تو کبر سے ہوا لیکن فرمایا کہ وہ جس مقصد کو چاہتے ہیں، یعنی دنیا کی طاقت کو بڑھانے کے لئے یہ شرارت کرتے ہیں، وہ دنیا کی طاقتوں کو خدا کی جماعتوں کی مخالفت کے ذریعے نہیں پاسکتے.بلکہ جو کبر ان کے دل کا ہے ، وہ بھی چھین لیا جائے گا.وہ دنیا میں ذلیل و رسوا اور نہتے کر دیے جائیں گئے.وو صاف بتا دیا کہ صرف ان کی ناکامی کی پیشگوئی نہیں بلکہ مومنوں کی فتح کی بھی پیشگوئی فرما دی گئی ہے.فرمایا: ان کے ہاتھ سے تو ان کا کبر جاتا رہے گا لیکن مومنوں کو وہ فتح ضرور نصیب ہوگی، جس کا وعدہ دیا گیا ہے اور جس فتح کے آخر پر استغفار کی طرف توجہ دلائی گئی.پس یہ عجیب خدا کے بندوں کا حال ہے، عجیب نقشہ ہے.فرمایا: جب وہ خدا کی خاطر لڑنے کے لئے نکلتے ہیں تو بظاہر کتنے بڑے دشمن ان کے سامنے صف آراء ہوں، وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے.ایک لمحہ کے لئے مایوس نہیں ہوتے اور اپنی بڑائی نہیں سمجھتے بلکہ ہر لمحہ اپنے آپ کو کمز ور دیکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی استغفار کرتے ہوئے ، اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں.اور ان کے ہتھیار خدا کی تسبیح اور خدا کی تحمید ہیں.ان کے مقابل پر ان کا دشمن ہے، اس کے پاس دنیا کی طاقتیں تو موجود ہیں، جس کے نتیجے میں اس کے دل میں کبر پیدا ہو گیا ہے مگر وہ سلطان سے خالی ہیں.کوئی ایسی دلیل ان کے پاس نہیں، جو خدا نے ان کو عطا کی ہو اور کوئی غالب آنے والی علامت ان میں موجود نہیں، جس کے نتیجے میں سلطانی عطا کی جاتی.اور جو کبر ان کے پاس ہے، ایک وقت ایسا آئے گا کہ خدا اس کبر سے بھی ان کو محروم کر دے گا.یعنی کبر کی ظاہری وجہ سے بھی ان کو محروم کر دے گا اور مومنوں کو لاز ما فتح عطا کرے گا.فرمایا: فاستغفر باللہ پھر استغفار کرو.تو مومنوں کے آغاز میں بھی استغفار ہے اور انجام میں بھی استغفار ہے.اور بہت سے مضامین کے علاوہ اس کی ایک وجہ یہ ہے، جسے جماعت احمدیہ کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اگر آغاز میں انکسار سچا تھا تو فتح کے بعد دل میں یہ خیال نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے یہ چالا کی کی تھی ، ہم نے ایسی زبردست لڑائی کی 865

Page 875

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 دسمبر 1987ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم تھی، ہم نے یہ ہوشیاری کی تھی، اس لئے خدا نے ہمیں فتح دی.بلکہ وہ انکسار قائم رہنا چاہئے.مومن کے انکسار کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی.فتح سے پہلے بھی اس کے اندر انکسار ہوتا ہے، فتح کے بعد بھی اس میں انکسار ہوتا ہے.جب اپنے آپ کو کمزور دیکھتا ہے، اس وقت بھی اس میں انکسار ہوتا ہے.جب اپنے آپ کو طاقتور اور غالب دیکھتا ہے، اس وقت بھی اس کے اندر انکسار ہوتا ہے“.تو فرمایا کہ تمہارا استغفار تبھی معنی رکھے گا، اگر فتح کے بعد بھی قائم رہے.اگر فتح سے پہلے کی حالت اور ہوگی اور فتح کے بعد کی حالت اور ہو جائے گی تو تم خدا کی فوج میں داخل ہونے کے اہل نہیں ہو گے.اگر تم سچے تھے پہلے کہ تمہاری اپنی طاقتوں سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے ہی تمہیں فتح نصیب ہوئی ہے تو اس بیچ کو پھر قائم رکھنا اور فتح کے بعد بھی یہ نہ خیال کر لینا کہ تمہاری طاقت کے نتیجے میں، تمہاری ہوشیاریوں کے نتیجے میں تمہارے منصوبے کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے فتح بخشی ہے بلکہ اپنے اندر کچھ بھی نہ دیکھنا اور خدا کی تسبیح وتحمید میں مصروف رہنا.جن قوموں نے غالب آتا ہے، خدا کے نام پر، ان کے لئے تو ضروری ہتھیار ہے.اگر وہ ان ہتھیاروں کے بغیر لڑنے کی کوشش کریں گے تو یہ ان کی سادگی کی انتہا ہے.وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے.اور اگر وہ ان ہتھیاروں کو سجائیں گے اور ان ہتھیاروں پر بھروسہ کرتے ہوئے صبر کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو خدا کا وعدہ ہے کہ سلطان ان کے مقدر میں ہے.اور ان کا دشمن ہر سلطان سے محروم کر دیا جائے گا“.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 16 صفحہ 848837) 866

Page 876

تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ آپ نے نجی میں امن کے پیغامبر کے طور پر کام کرنا ہے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ منفی منعقدہ 24 تا26 دسمبر 1987ء عزیز بھائیو اور بہنو! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ جماعت احمدیہ نبی 24 تا 26 دسمبر 1987 ء کو SUVA میں اپنا جلسہ سالانہ منعقد کر رہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر جہت سے کامیاب اور بابرکت فرمائے.آپ کو نبی میں اسلام کے پیغام امن و سلامتی کے پھیلانے کے لئے ایک غیر معمولی جوش اور ولولہ عطا ہو.مذہب کے بارہ میں یہ جو جاہلانہ تصور ہے کہ اس سے فساد پھیلتے ہیں اور آپس میں نفرت پیدا ہوتی ہے، اس تصور کو جماعت احمدیہ نے نہ صرف اپنی زبان سے بلکہ اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ جھوٹا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ مذہب انسانوں کے درمیان امن اور صلح و آشتی بڑھانے کا موجب ہے.اس کے برعکس یہ تصور کہ مذہب فساد کا موجب بنتا ہے، یہ آج کی کوئی نئی بات نہیں.بلکہ قرآن کریم بتا تا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلے خلیفہ کے قائم کرنے پر ہی فرشتوں نے اس کا اظہار کیا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کورد کر دیا.فساد ہمیشہ مذہب کے نام پر مذہب دشمن طاقتیں کرتی ہیں.اس لئے جو کوئی مذہب کے نام پر فساد کرتا ہے تو اس کا مذہب جھوٹا ہے یا وہ اپنے مذہب کو جھوٹا ثابت کرتا ہے.پس میں نہیں چاہتا کہ احمدی کوئی ایسا نمونہ دکھائیں ، جس سے اسلام کے پاک نام کو داغ لگے اور اس کی طرف فساد منسوب ہو.آج اسلام کا جھنڈا آپ کے ہاتھوں میں ہے، آپ نے نبی میں امن کے 867

Page 877

پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ بنی تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد من پیغامبر کے طور پر کام کرنا ہے اور سارے نبی کو امن اور صلح سے معمور کرنا ہے.خدا تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) 868 والسلام خاکسار (مرزا طاہر احمد ) خليفة المسيح الرابع ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 10 اپریل 1987ء)

Page 878

تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1986ء احمدیت اپنی ذات میں نہایت خوبصورت چیز ہے ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1986ء سوال: کیا آپ کے زمانے میں دنیا میں ایک ایسا ملک ہے، جو اسلام کی ، جو قرآن کریم میں تعلیم پائی جاتی ہے، اس کے اخلاقی اور اس کے اقتصادی اور اس کے سوشل حصوں پر اس طرح عمل کرتا ہو؟ اگر ہے، وہ کون ہے اور کہاں ہے؟ فرمایا: ” ایک بھی ایسا ملک نہیں دنیا میں.لیکن ربوہ، جو جماعت احمدیہ کا مرکز ہے، وہ ایسا مقام ہے، جو اس تصور کے قریب ترین ہے، جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.لیکن ساتھ ہی میں آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں Ideal ہمیشہ خیال میں رہتا ہے، عمل میں دنیا میں آج تک deal پیدا نہیں ہوا.اعلیٰ سے اعلیٰ سوسائٹی میں بھی کمزوریاں ضرور پائی جاتی ہیں.اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس تصور کے قریب پہنچ گئے ہیں.اس تصور کو حاصل کر لیا، یہ دنیا میں کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا.خصوصاً مسلمان تو یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتا.کیونکہ قرآن کریم کے مطابق سب سے اعلیٰ سوسائٹی ، جو ظہور میں آئی ، وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ کے ماننے والوں کی تھی.اور وہ قرآن بتاتا ہے کہ ان میں منافقین بھی تھے، ان میں جھوٹے الزام لگانے والے بھی تھے، ان میں گنہگار بھی ، ان میں ہر قسم کے کمزور انسان بھی تھے.تو خدا کا کلام واقعاتی ہے، فرضی نہیں ہے.اور انسانی فطرت سے نظر انداز کر کے بات نہیں کرتا.اس سے اونچا مقام، جو رسول اللہ کے زمانے میں انسان کو حاصل ہوا، اگر کوئی پہنچ کا دعویٰ کرتا ہے تو لازماً جھوٹا ہے، ہمارے نزدیک.اس لئے میں بھی یہ دعویٰ نہیں کرتا.میں تو یہ کہتا ہوں کہ بڑی دیانتداری کے ساتھ اگر کسی ایک شہر میں آپ اسلام کے نمونے پر عمل پیرا ہوتے لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ ربوہ ہے.وہاں تشریف لے جائیں، جائزہ لیں تو خود آپ کا دل بتا دے گا کہ یہاں دیانتداری کے ساتھ یہ لوگ اس بات پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.معاشرہ بھی اس طرح کا ہے، اقتصادیات بھی اس سے ملتی جلتی ہے.سودی نظام نہیں.غریب کی نگہبانی ہے.سردیوں میں غریب کو کپڑے ملتے ہیں، بغیر مانگے.اس کی گندم کی ضرورت پوری کی جاتی ہے.گرمیوں میں اس کی ضرورت پوری کی جاتی ہے.ہونہار طالب علموں کو انتہائی 869

Page 879

ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1986ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جده مفتم مقام تک تعلیم کے لئے مواقع مہیا کئے جاتے ہیں.کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی کسی سے زیادتی اور ظلم نہ کرے.عدالتوں میں کسی کو چارہ جوئی ہو یا نہ ہو، اگر قضا میں وہ جاتا ہے تو وہاں اس کی چارہ جوئی کی کوشش کی جاتی ہے.کوئی نہیں مانتا تو اس کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے.تو جہاں تک دیانت دارانہ کوشش کا تعلق ہے، ربوہ میں اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی نہایت دیانت دارانہ کوشش کی جارہی ہے“.13 جون ( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 19اکتوبر 1987 ء بشکر یا اخبار احمد یہ مغربی جرمنی) ، سوال : آج جب آپ کے خدام لٹریچر تقسیم کر رہے تھے تو میں نے اور میری لڑکی نے دیکھا کہ بعض ڈچ لوگوں نے اچھا سلوک نہیں کیا تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ لوگ اس معاملہ میں ہالینڈ میں مشکلات محسوس کرتے ہیں یا نہیں؟ فرمایا: ”ہمارا عمومی تاثریہ ہے کہ ہالینڈ کے لوگ بہت ہی شریف لوگ ہیں اور مذہبی آزادی کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں.خواہ مذہب میں دلچسپی نہ بھی ہو تو تب بھی مذہبی لوگوں کی راہ میں حائل نہیں ہوتے.ان کو اپنا معاملہ سمجھنے دیتے ہیں.ہم نے ہزار ہالٹر پچر تقسیم کیا ہے اور ہوسکتا ہے، ایک دو آدمیوں نے ایسا کیا ہو.لیکن اس سے ملکی طور پر بداثر نہیں پڑنا چاہئے اور نہ ہم نے وہ لیا ہے.ہمیں پتہ ہے ، بعض دماغی یا نفسیاتی مریض ہوتے ہیں.اور اس وجہ سے خوامخواہ ہم ہالینڈ کو بدنام کریں اور یہ سمجھیں کہ ہالینڈ میں مذہبی آزادی نہیں ہے.ہم اس قسم کے بے وقوف لوگ نہیں کہ غلط تاثر قائم کر لیں.ہم آپ کے قانون کا احترام کرتے ہیں اور اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں.اور آپ کی قوم بھی مذہبی آزادی کے اصول پر قائم دکھائی دے رہی ہے.دوسرے یہ کہ تکلیف کا احساس تو ایک نسبتی چیز ہے.اگر انسان برے حال سے اچھے حال میں آئے تو اسے لطف آتا ہے.کہ میں بڑے اچھے حال میں آ گیا ہوں.کچھ دیر کے بعد اگر اس سے بھی اچھے حال میں چلا جائے تو پہلے حال کو نسبتاً تکلیف والا حال سمجھتا ہے.ہمارے اکثر دوست، جنہوں نے یہ اشتہار تقسیم کیا ہے، وہ پاکستان سے آئے ہیں.اور اگر پاکستان میں تقسیم کر رہے ہوتے تو نصف گھنٹے کے اندراندرسب نے جیل پہنچا ہونا تھا.اس لئے آپ کے بے حد ممنون ہیں اور حیران ہیں کہ آپ نے کیوں ان پر سختی نہیں کی.(مطبوعہ ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ اکتوبر 1987ء) 870

Page 880

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد من 29 ستمبر ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1986ء سوال: عرب حکومت نے احمدیوں کے حج ادا کرنے پر پابندی لگادی ہے.اس سلسلے میں جماعت کیا کر رہی ہے؟ فرمایا: ” جماعت ہر جگہ عربوں سے رابطہ قائم کر رہی ہے، خاص طور عرب علماء سے.جو لوگ براہ راست اس فعل کے ذمہ دار ہیں، ان کو قرآن کریم کے الفاظ میں تنبیبی خطوط لکھے جارہے ہیں.مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ جلد ہی یہ صورت حال بدل جائے گی.کیونکہ عرب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کثرت سے احمدیت قبول کر رہے ہیں.پچھلے سال جتنے عربوں نے احمدیت قبول کی ہے، اس سے نصف نے بھی گزشتہ دس سال میں نہیں کی تھی.اور احمدیت قبول کرنے والے افراد میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں.بلکہ وہ لوگ زیادہ ہیں، جو اپنے معاشرے میں معزز اور معتبر سمجھے جاتے ہیں.حال ہی میں ناروے میں مقیم دو صحافی، جن میں سے ایک کا تعلق عراق سے اور دوسرے کا مراکش سے ہے، احمدی ہوئے ہیں.ان میں سے ایک اپنے علاقے یعنی شمالی افریقہ میں اہل قلم اصحاب میں کافی مشہور ہیں.میں ان سے ملا ہوں، میں نے انہیں نہایت ذہین پایا ہے.وہ عربی ، فرنچ اور انگلش پر مادری زبان کی طرح عبور رکھتے ہیں اور بیک وقت میری تقریر کا تین زبانوں میں ترجمہ کر سکتے تھے.اسی طرح (یو.کے ) کے گزشتہ جلسہ سالانہ میں اردن کے ایک عرب جن کا نام ابراہیم ابو نعب تھا، شرکت کی.وہ چند ماہ قبل احمدیت قبول کر چکے تھے.وہ اتنی اہم شخصیت کے مالک تھے کہ ان کے احمدیت قبول کرنے پر اردن کے مفتی اعظم نے ٹیلی ویژن پر آکر احمدیت کے خلاف بیان دیا اور کہا کہ اردن کی اہم شخصیت نے احمدیت قبول کر لی ہے.گو ان کا نام نہیں لیا گیا لیکن جو تفصیلات انہوں نے بیان کیں ، ان سب کا اطلاق ابراہیم پر ہوتا تھا.بہر حال ایک تو یہ ردعمل ہے، ہماری کوششوں کا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری معمولی کوششوں کو بڑے بڑے پھل لگا رہا ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ احمدیت کے خلاف اقدام اٹھانے والے دراصل احمدیت کی اصلیت سے بالکل نابلد ہیں.اور جو کچھ غلط پراپیگنڈہ ان کے سامنے کیا جاتا ہے، اس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں.حتی کہ جب وہ آپ سے ملتے ہیں تو آپ کو اس سے بالکل الٹ پاتے ہیں، جو آپ کے متعلق کہا گیا تھا.اور بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ آپ ان کو حقیقت بتانا بھی چاہیں تو وہ سننے کو بالکل تیار نہیں ہوتے.اس صورت حال کا ازالہ کرنے کے لئے ہم مختلف کوششیں کر رہے ہیں.871

Page 881

ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1986ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اس سلسلے میں ہماری پہلی کوشش یہ ہے کہ عربی میں ہر قسم کے موضوع پر کثیر تعداد میں لٹریچر شائع کر رہے ہیں، جو پہلے نہیں ہوا.اس لٹریچر کو وسیع پیمانے پر تقسیم کرنے کی ایک سکیم تیار کی ہے، جس کے تحت عرب لیڈرز کی ایک بڑی تعداد کو یہ لٹر پر بھجوایا جارہا ہے.اس سلسلے میں ہمارا دوسرا قدم عربی کا ایک ماہوار رسالہ شائع کرنے کا پروگرام ہے، جس میں ہر قسم کے موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو زیر بحث لایا جائے گا.جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اس سکیم کے نیک اثرات ظاہر ہونے شروع ہو چکے ہیں.نہ صرف یہ کہ لوگ احمدیت قبول کر رہے ہیں بلکہ کئی دوسرے معنوں میں بھی لوگ احمدیت سے متعارف ہورہے ہیں.حضور نے فرمایا:.ور عرب امارتوں میں کئی ایسے شیخ ہیں، جنہوں نے صرف احمدیت کے مخالفین کی باتیں سنیں تھیں، اب انہوں نے احمدیت کا دوسرا رخ دیکھا ہے تو ان کی مخالفت اور تعصب میں کمی ہو رہی ہے.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک عربی قصیدہ لکھ کر متعد د عرب امارتوں میں مختلف لوگوں کو بھجوایا تھا.ایک عرب امارت میں یہ قصیدہ وہاں خواتین کے رسالے میں کسی نے چھپوا دیا اور بہت پسند کیا گیا.مجھے اس کی اطلاع مل چکی تھی.لیکن آج صبح کی ڈاک میں مجھے ایک خط وہاں کے امیر کی بیوی کا موصول ہوا ہے کہ ہمیں اس قسم کا مواد بھجوائیں، ہم اس کو فور شائع کروادیں گئے.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ احمدیت ( جو اپنی ذات میں نہایت خوبصورت چیز ہے) کی طرف ہر قسم کی برائی منسوب کی جا چکی ہے، لہذا اس صورت حال کو بدلنا پڑے گا.اور جہاں تک حج کا تعلق ہے، پوری تاریخ میں ایک شخص کو حج سے روکا گیا تھا اور وہ حضرت اقدس محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات تھی.آپ اور آپ کے صحابہ کرام وہ لوگ تھے، جن کو کفار مکہ سے معاہدہ امن کے تحت اس سال حج کرنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ اس معاہدہ کی رو سے اگلے سال حج اور عمرہ کے لئے واپس آنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل مقابلہ نہیں کیا.حالانکہ صحابہ کرام بھی واپس جانے کے حق میں نہیں تھے بلکہ آخری سانس تک لڑ کر حج کرنے کے خواہشمند تھے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات بھی نہیں مانی.ہمارے لئے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل قابل پیروی ہے، اتی سے ہمیں کوئی سرد وسلم کی کی باقی باتوں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قدم قرآن کریم کی ان آیات کی 872

Page 882

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد صف ارشادات فرموده دوران مجالس عرفان 1986ء روشنی میں اٹھایا تھا، جن میں یہ حکم ہے کہ تم پر حج صرف اس وقت فرض ہے، جبکہ تمہارا راستہ محفوظ ہو.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے لئے اس وقت حج کا راستہ محفوظ نہیں تھا، اس لئے آپ نے مکہ کی جانب ایک قدم بھی نہیں اٹھایا.ہم بھی جب تک راستہ ہمارے لئے صاف نہ ہو جائے ، آنحضرت صلی اللہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتے جائیں گے.اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے تھا ، وہی اب انشاء اللہ ہمارے ساتھ ہوگا“.حضور نے مزید فرمایا:." آپ کو معلوم ہے کہ حج کیوں کیا جاتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حج اگر قبول ہو جائے گا تو تمہارے ماضی کے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے.لیکن اگر اللہ تعالیٰ قبول نہ فرمائے تو یہ ایک بیکار اور ناکام کوشش ہے.وہ حج ، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجبوری کی وجہ سے نہ کر سکے، اصولاً اس کا ثواب ان کو نہیں ملنا چاہئے تھا.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الفتح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اس حج کے متعلق فرماتا ہے، جو آپ ادا نہ کر سکے، اے اللہ کے نبی اللہ کی خاطر حج سے باز رہنے کا ثواب یہ ہے کہ حج کرنے کی صورت میں صرف تمہارے ماضی کے تمام گناہ معاف ہوتے تھے، اب میں نے تمہارے وہ گناہ بھی معاف کر دیئے ہیں، جو آئندہ ہونے والے تھے.نیکی صرف ظاہر طور پر کرنے یا نہ کرنے کا نام نہیں.بلکہ نیکی کی اصل جڑھ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور رضا کے سامنے سر جھکانا ہے.اللہ تعالیٰ بعض اوقات کسی کام کی نیت کرنے سے ہی اس کام کو قبول کر کے اس کا ثواب دے دیتا ہے“.فرمایا:.مجھے پورا یقین ہے کہ جب تک سعودی حکومت احمدیوں کو حج کرنے کی اجازت نہیں دیتی.مجھے ان لوگوں کے حج کے قبول ہونے میں شک ہو سکتا ہے، جو وہاں حج کرنے جاتے ہیں.لیکن مجھے ان احمدیوں کے حج کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں، جو حج کرنے کی تڑپ دل میں رکھتے ہیں اور بوجہ پابندی کے وہاں نہیں جاسکتے“.( مطبوعہ ہفت روزہ النصر 25 مارچ 1988ء) 873

Page 883

Page 884

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتم اشاریہ -1 آیات قرآنیہ 2.احادیث مبارکہ 3 کلید مضامین -4 اسماء 5 مقامات 6.کتابیات اشاریہ 875

Page 885

Page 886

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم الفاتحة آیات قرآنیہ اشاریہ، آیات قرآنیہ ان اسالك عبادي عني....(187) 390,604,750 رب ارني كيف تحي الموتى (261)732,735 35,97,133,149,167,169,190,205, 219,221,241,310,331,365,367,369, 413,439,463,497,561,562,625,631, 699,721,729,755,764,799,841 الحمد لله.رب العالمين......( 2 )117 اياك نعبدو واياك نستعين ( 5 )500,764 البقرة هدى للمتقين ( 03 )707,728 الذين يؤمنون بالغيب.......(04) 504 وبالا خبرة لهم يوقنون (05)541 99(31) وأولئك هم المفلحون (62206 يضعون الله والذين....( 10 )506 وان قال ربك للملائكة.واستعينوا بالصبر والصلوة....(46) 269 وانير فع ابن القيم القوائد....( 128 ) 699 ربنا واجعلنا مسلمين لك....( 129 ) 699,700,703,705,708,709,766 ربنا وابعث فيهم رسولا منهم...(130) 699,701,702 ولكل وجبة هو موليها....(149) 809 فاذکرونی اذكركم....(153) 369 وما انفقتم من نفقة......(271) 241-244,247,248,250,257 ان تبدو الصدقت....(272) 241,244,246,247,256 ليس عليك هدهم.....(273) 241,248-251,256 آل عمران 405 سبب اني نذرت لك ما في بطنى ( 36 )556 فتقبلها برها بقبول حسن...( 38 ) 700,701,703,705 في المهد وكربلا (47)613 نحن انصار الله....( 53 )74,275 لن تنالوا البر.....(93) 553,554 واعتصموا بحبل الله (104) 295,296,482,827 ولا تكونوا كالذين (106)830 كنتم خير امة اخرجت للناس (111) 597,741 877

Page 887

اشاریہ، آیات قرآنیہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم وما تخفي صدور هم الكبــ......( 119 )115 ان الله اشترى (111) 451,455,459 اضعافا مضعفة....( 131 )251 انك لا تخلف الميعاد (195)508,513 النساء خلقكم من نفس واحدة (2) 312 ظالمي انفسهم (98)715 فان العزة لله جميعا (140) 823 المائدة وما كان المؤمنون.....(122)145 يونس 365 لا تبديل لكلمات الله...(65)510 ان الحنت يذهبن السيات (115)785,787 يوسف 540(95).....لا جديع يوسف 623 تعاونوا على البر والتقوى.....( 03 ) 624 واتل عليهم نباابني ادم بالهو (28)702 فاستقبوا الخيرات (49)654 ياجها الرسول بلغ ما انزل اليك.....( 68 ) 97,100,105,106 الاتفاهم قل ان صلاتی و نسکی (163)555 الاعراف خذوا زينتكم عند كل مسجد ( 32 ) 723 قل يا بها الناس الى رسول الله...( 159 ) 303 الانفال لو انفقت ما في الارض جميعا......( 64 ) 206 التوبة ليظهره على الدين....( 33 ) 27,327 رضوان من ا الله اكبر....(72) 187 السابقون الاولون....(100)805 قل هذه سبيلي ادعوا.....(109)266 الرعد له معقبت من بين 67,363 ( 12 ).......ال بذكر الله تطمئن القلوب (29) 390,439 ابر القيم لئن شكرتم لا زيد تكم.....(8) 238,415,511 يوم تبدل الارض....(49) 344 النحل 367 ان الله يأمر بالعدل (91)126 بني اسرائيل واذا انعمنا على الانسان.....( 84 )231 الكيف فلعلك باضع نفسك...(7)761 878

Page 888

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم ولم اكن بدعا نك رب شقيا ( 5 ) 558 اسمه يحيى ( 8 ) 559 النور لا شرقيه ولا غربيه (36) 312,838 الشعراء لشرذمة قليلون.....( 55 ) 109 الروم ظهر الفساد......( 42 ) 302 السجدة يدعون ربهم خوفا وطمعا.....( 17 )139 الاحزاب فمنهم من قضى نحبه......(24)256,571 نحن اكثر اموال و اولادا (36) 607 وما أموالكم ولا اولادكم...( 38 ) اشاری، آیات قرآنیہ و من احسن قولاً ممن : دعا....( 34 )232 ادفع بالتي هي أحسن....( 35 ) 429 الزخرف الهم يقسمون رحمت ربك ( 33 ) 303 فهل ينظرون الله الساعة....( 19 ) 323 الفتح لبظهره على الدين كله (29)741 محمد رسول الله...(30) 821 الحجرات ان اكرمكم عند الله....(14) 259 نحن اقرب اليه من حبل الوريد ( 17 )238 الرحمان كل يوم هو في شان (30)392,517 هل جزاء الإحسان.....( 61 ) 191,193,199,204 607,609,612 الي للذين أحسنوا في هذه الدنيا....( 11 ) 139,141,149,150 المؤمن اني اضاف ان يبدل دينكم....( 27 ) 98 واستغفر لذنبك (56)863 هم السجدة نحن أولياؤكم في الحيوة......(32) 169 الواقعة يمسه الا المطهرون ( 80 )134 الحشر ور من يوق شح نفسه....(10)332 والتنظر نفس ما قدمت لف...( 19 ) 267,272,470,788,789 ولا تكونو كالذين نسوا الله...(20) 788 879

Page 889

اشار بید، آیات قرآنیہ الصيف ومن اظلم.ممن افترى....( 8 ) 243 هو الذي ارسل رسوله بالهدى...( 10 )497 انصاري الى الله.....(15) 243 الجمعة تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم الزلزال فمن يعمل مثقال ذرة....( 98 ) 699 العصر والعصر.....بالصبر ( 42 ) 272,435-437,583,584 38,39,41 بهالسهم الكتاب....(3)706 واخرين منرسم لما يلحقوا بهم (04) 38,349 بارها الذين امنوا اذا نودى.39 (10)...فإذا قضيت الصلواة........( 11 ) 42-40 التحريم نورهم يسمى بين ايديهم ( 9 )595 الجن قام عبد الله ( 20 ) 765 المشر قم فائن ( 03 ) 302 الفجر 65.361 الذين طغوا في البلاد (12)65,361 فاكثر وافيها الفساد ( 13 )65,361 راضية مرضية.......( 29 ) 45 الضحى ووجدك ضالا فهدى...( 8 )231 880

Page 890

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم احادیث مبارکہ اشاریہ، احادیث مبارکہ من اطاع اميرى فقد اطاعني.الله على الجماعة 146 عاجزی اختیار کرنے والے کی ساتویں آسمان تک رفعت 146,383 425 الجنة تحت اقدام الامهات 262,447 دین کے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا 445 يهد الله فوق الجماعة 281 ان أكرمكم عند الله اتقاكم 304 لو اقسم على الله لابره الله 543 الحكمة ضالة المؤمن 581,624 احادیث بالمعنى خدا تعالیٰ کا معمولی حرکت کو لامتناہی حرکت میں بدلنا 7 تمام فتنوں کا منبع وما ولی 16 عیسائیت اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ 29 قیصر و کسریٰ کی خوشخبریاں 38 نیکی کی ترغیب پر بھی نیکی کرنے کا ثواب 532 کسی کے گھر میں داخل ہونے سے قبل اجازت لینا 581 کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنے سے ہلاکت 583 فرشتے دنیا کے حالات کے متعلق ریکارڈ رکھتے ہیں 597 تماشا دیکھنے والے بھی ہلاک ہو جاتے ہیں 625 غربت کے باوجود تکبر کرنے والا خدا تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیده ترین اشخاص میں سے ہے 778 زبان کی تیزی سے کسی کا حق لے جانے والا جہنم کا ٹکڑا لے جاتا ہے 780 خطبہ حجۃ الوداع 839 چوری کرنے پر بیٹی کا بھی ہاتھ کاٹ دینے کا ارشاد 98 وحی کے نزول کا آغاز 100 مظلوم کی دعا کا مقبول ہونا 204 كسر صلیب 213 قیامت کی تیاری کے متعلق استفسار فرمانا 267,272 اگر آج یہ لوگ ہلاک ہو گئے تو قیامت تک عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا 273,274 ایمان کا ثریا ستارے سے واپس لانا 425,441,616 انسان کے دل کا خدا تعالیٰ کی دوانگلیوں میں ہونا 851 صلح حدیبیہ، حج نہ کرنا 872 881

Page 891

Page 892

اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد هفتم کلید مضامین 36,37,56,58,59,63,65,71,73,77,81,85, T 86,103,111,112,114,116,122,137,140, آخرت 141,143,149,151,153,160,167,170,173, 149,169,258,308,409,539,542,623 177,193,198,203-207,219,221-223,237- 239,261,285,313,318,319,332,340,347, 349,351,369-371,401,405,413-415,420, آداب 287 آڈٹ 337,383,384-335 آڈیو وڈیو ٹیسٹس سکیم 20 421,424,443,463,464,475,477,481,485, 64,117,195,215,216,271,371,377,378, 488,502,536,561-654,566,575,584,585, 390,392,393,551,664-667,733,737,783 589,590,600,605,615-617,620,622-624, آرتھوڈوکس چرچ 679 627,628,631,632,636,637,639,641,642, 644,645,647,651-655,661,665,667-669, 672,673,675,676,682,688,690,693,696, 697,712,714,718,719,722,726,735,739, 743,744,746,765,767,771,780,783,791, 796-803,805,807,808,815,838,848-854 الہی سلسلے 657,711,780 آزادی 367 آزادی حقوق 13 مذہبی آزادی 870 آزمائش ( نیز دیکھئے ابتلاء) 760,761 آشتی 167,179,311,312 آمین ، تقریب 48,70 آئمة الكفر 107 الہی نظام 369 اولیاء اللہ 340,407,408,409 اہل اللہ 304 بشارت بشارات الهيه 1994,169,187 285,349,351,523,561-564,715,726 اللہ خدا تعالیٰ 1,29, 30,40,58,61,63,129,137,147,164,167, 189,205,220,230-232,247,248,265,390, 410,468,477,544,594,595,604,623,864 اللہ تعالی کے افضال احسانات انعامات 1,4,6-8,11,19,25,32,33, تائید / تائیدات الهی, 19,261 419,604,650,660,698,712,737,748,837 تصرف البي 205,206,650,651,850,851 883

Page 893

اشاریہ، کلید مضامین تعلق باللہ 165,168 ,72,134,135 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم سنت البي 5,58,703 4,6,21,58,63,238,239,365,385,173-176,190,284,312,407-409,411,428, 414-416,491,565,589,628,631,676,774 | 431,533,575,586,595,599,749,753,758, 768,780,789,794,795,829,830,832-836 صفات باری تعالی 232,327,352 تقدیر الہی 6,9,176,200,261,302,566 عشق الي 765,776,796 ,611,620,628,640,655,681,686,690,705 | عنایت الہی 94 712,716,717,722,726,744,753,756,762 | غضب / قبرالہی 698,779 توجہ الی اللہ 750 توحید قرب الہی 86,179,188,190,408,526,608 محبت الہی 1,35,36,40,71,134,139 30,32,94,95,125,189,190,218,262,295, 355,447,448,464-467,475,478,482,571 توکل علی اللہ 35,37,38,71,85 175,190,203,217,284,395,410,439,448, 508,518,612,613,750,793,794,828,837 مظہر اللہ 477 نصرت البي 275,276,356,694,711,749 106,127,178,217,280,284,300,302,403, 542,543,548,549,605,716,736,740,797 جل الله 615 حفاظت الي 751,753,840-749 حمد باری تعالیٰ 58,86,139,161,167,191,206,216, 219,526,565,566,631,771,861,863-866 ہستی باری تعالی 392,673,674-84,185,314,390 ابتغاء فضل 40-42 ابتلاء / مصائب / تکالیف 8,21,79,97,139,150,168- 170,219,220,324,328,333,349,351,353, 406,489,715,717,721,722,724,743,749 اتحاد 16,343,510,549,615,616,719 خوف خدا 336 ذکر الہی 35,37 40-42,270,396,439,597,631,793,794 رجوع الی اللہ 184 رحمانیت 743 رحمت الہی 63,203,204,206,237,303,317 رحیمیت 743 رضا اللي ,3,8,28,33,45,170,187,188 190,247,249,256,304,518,574,873 884 اٹالین قوم 213 اجارہ داری 482 اجتماع / اجتماعات 23,73,133,589 258,532 احترام 287,288 احترام مذہب 424 احتیاط 106

Page 894

اشاریہ ، کلید مضامین 573,577,578,580,584,585,590,591,593, 594,597,599,603,604,609,610-612,614- 622,625,631-643,645,646,649-657,659- 663,666-676,678,682,684,687-690,692, 693-695,697,698,704,711-719,721,724- 726,729-732,734-736,738,739,741,743, 745,747,750,752,757,758,765,767,769- 773,776-780,783-785,787,791,794,802, 803,805-810,813-822,824,827,828,830- 838,841,852-855,857,865,867,871,872 الی جماعت 344 احمدیت کی اشاعت 111 تاریخ احمدیت 487,804 جماعت احمد یہ اور سورۃ جمعہ 40-38 جماعتی ترقی 365,611 جماعتی روایات 292-287 غلبه احمدیت 401,694,714 احمدیت کی مقبولیت 2,14-16,20,102,103,112,140- 143,156,170-173,175,193-195,198,199, 205,207,208,209,224-227,238,313-315, 415,417-420,423,463,488,516,611,627- 629,656,666,671,676,677,688,689,692, 695,844,845,848-853,855,856,871,872 885 احیاء احیائے اسلام 234,323 احیائے موتی 732,735 احیاء نو 17,731 تحریک جدید - ایک الہی تحریک احرار / تحریک احرار 177 احساس کمتری 779,791-769,770,777 احسان 47,57,126,181 388,454,455,708,709,807 احکام اسلامی احکام 120 احمدیت جماعت احمدیہ سلسلہ احمدیہ / 1,2,4-15,19, 20,22,27,29-34,37,41,43,44,47,55,56, 63,65,66,70,73-77,81,85-88,90,93,94, 97,102-106,108,109,111-116,119,121, 122,125,129,133,134,139,141,142,144, 146,150,152,153,156,158,160,163,167- 169,174,176-179,183,184,191,192,194, 197,200,212,215,218,220-223,228,233, 235,239,250,252,255,256,259,261,265, 270,271,273,275,276,279,283,287,288, 290,291,293,296,300,301,304,307-311, 313-315,317-319,323-325,327,328,333- 335,338-340,343,344,347,351,354-356, 358,359,361-363,365,366,369-372,377, 378,386-388,395-398,401,403,405-407, 409,414-416,418-423,427,428,435,441, 442,444,447,449,451-455,459,461,463, 464,468,473-475,478,481,485,487,489, 491-495,498,500,504,507,513,516,517, 525,539,542,549,551,552,558,561-567,

Page 895

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم استقامت 310,479,482 استقلال 75,127,300,403,860,862 اشاریہ، کلید مضامین اختلاف راختلافات 283,284,296,414,482,615,616,621 اسلام 10,12,13,17,23,27, 29-32,37,43,45,47,59,63,69,70,80,93, اخراجات 335 اخفاء 245,246,256 اخلاص خلوص 112,119-121,125,128,138,139,142,160, 6,7,15,20,58,89,90,95,158,160,187, 164,165,167,168,173-175,179,184,194, 188,238,239,280,300,458,461,467,468, 195,197,198,209,210,212,213,217,219, 502,519,525,531,605,616,646,686,687, 222,223,227-229,231,233,235,238,260- 691,704,705,713,714,726,805,817,832 262,269,270,272,275,284,293,296,299, اخلاق / اخلاقیات 303,304,311-315,321,323,327,347,349, 79,107,108,296,300,361,404,441, 351,353-356,367-369,377,382,390,396- 458,468,515,516,526,548,581,724 398,406,415,416,419,420,427-430,435- 437,441-444,449,464,465,468-473,475- اخلاق حسنہ 428,624 اخلاق عالیہ 445 477,481,482,485,487-489,494,497,509, 515,519,541,553,561,562,565,567,569, 575,580,581,584,586,587,590,611,623, 624,637,652,659,666,672,682,688,704, 723,724,729,730,741,750-752,754,757, 759,765,767,768,772,773,775,777,780 784,797,800,809,833,834,838-840,843- 188,295,296,298,312,447,482,551,620 845,847,850,853-855,859,860,867,869 اخلاقی برائیاں 579,582,592,593 اخلاقی تعلیم 305 اخلاقی حفاظت 723 بداخلاقی 189,756 حسن خلق 107,108,465 اخوت / بھائی چارہ 167,179 ادب 288,615,616 ارتداد 13 اسلامی احکام 120 اسلامی اقدار 66,70 اسلامی تعلیمات 69,120,126,790 اسلامی تمدن 467 اسلامی تہذیب 70,119,772 ارتقاء 390 استعماریت 617 استغفار 285,331,340,402,437,500,781,863-866 886

Page 896

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد هفتم اسلامی دنیا 10,757 اسلامی زندگی 138 اسلامی معاشرہ 121,122,138,869 اسلامی نظام 869,870 احیائے اسلام 234,323 اشاعت اسلام 19,20,279,288,354,380 تبلیغ اسلام 371 ترقی اسلام 721 غلبہ اسلام 263,347,428,453,499,741,784,787,791 اسوه حسنه,294,401,477,515 761-765,774-776,790,793,797 اسیر / اسیران راه مولی 124,352,353,571 اشاعت 20,22,159,160 184,192,226,229,314,372,376,493,494, 668-673,680,684,685,687,741,787,872 اشاعت اسلام 19,20,279,288,354,380 اشاعت قرآن 89,257,353,354,397,398,679 اشاعت تراجم قرآن 20 احمدیت کی اشاعت 111 نشر و اشاعت 12,377 وکالت اشاعت 372,687 اشتراکیت 318,319,675,680,755 اشتعال انگیزی 725,846 اشعار و مصرعے اشاریہ، کلید مضامین صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا 38 بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں 45 نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال 66 زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں کے 105 چه نسبت خاک را به عالم پاک 108 مجھے پکڑنے پر قدرت کہاں تجھے صیاد 178 ہمیں پکڑنے کی قدرت کہاں تجھے صیاد 178 بہرہ ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات 222 عسر ہو یسر ہو نکلی ہو کہ آسائش ہو 277 کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں 359 نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال 362 الہی تیرے فضلوں کو کروں یاد 369 بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں 369 عشق اول در دل معشوق پیدا می شود 443 ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا 469 آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے 489 تم دیکھو گے انہی سے قطرات محبت نیکیں گے 526,686 ہم ہوئے خیر ام تجھ سے ہی اے خیر رسل ! 532 آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے 540 ہیں تری پیاری نگا میں دلبرا اک تیغ تیز 565 یہ زخم تمہارے سینوں کے بن جائیں گے رشک چمن اک دن 571 اسمعو صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح 661 آئینہ تیری قدر کیا جانے 692 اگر خواهی دلیل عاشقش باش 764 مجھے کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا 28 اصلاح 249,258,267-15,80,247 ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی 35 321,388,390,428,430,470,587 887

Page 897

اشاریہ، کلید مضامین اصلاح احوال 387,431,621 اصلاح اعمال 396,429 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم البانین قوم 561 الفت 295,296 اصلاح معاشرہ 582,615,776,780,781,788 الہام / الہامات / وحی 481,562 اصلاح نفس 256,363,389,429,444,733,793 جماعت کو ریت کے ذروں کی طرح دکھانا.....27 اصول 724 اطاعت 59,146,272,283,284,303,383 384,392,507,556,608,615,616,620,835 اطفال الاحمدیہ 313,383,451,549 اظہار خوشنودی 61 اعتراض / اعتراضات 303,367,390,399 417,492,493,651,672,675,736,828 اعتکاف 646 اعتماد 717 بے اعتمادی 716,751 خود اعتمادی 740 اعزاز 481 افاضه خیر 598 افتتاح 36,38,219-34 افرادی قوت 533 اقتصادیات 755 اقدار 66,444,592 اسلامی اقدار 66,70 مذہبی اقدار 428 اقوام متحدہ 39 اکاؤنٹس 382 اکثریت عددی اکثریت 327,328,607 روس میں جماعت ریت کے ذروں کی طرح 27 دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا 28 میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا 28,365,629 وسع مکانک 137,150,193 زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں 466 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں 481 آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے 489 دوشنبہ ہے، مبارک دوشنبہ 562 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 627,628 الیس الله بکاف عبده 638 فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے 836 الیکٹرانک میڈیا 668,669,672 امارت 620 صدارت یا امارت کا نظام 273 امام / آئمه / امامت 473-471 امام مهدی 17,39,556,667 آئمة الكفر 107 امانت 97,98,145 امانت فنڈ 380 ام امت محمدیہ مسلمہ 98,296,304 امت واحده 404,477,551,552,621,622 888

Page 898

تحریک جدید -- ایک الہی تحریک خیرامت 597,741 امتحان ( نیز دیکھئے ابتلاء) 760 امر بالمعروف 352,624,741 املاک جماعتی املاک کی حفاظت 382 امن 167,168,179,188,308 انصاف 758 اشاریہ، کلید مضامین انعام / انعامات 55,169,588 انفاق فی سبیل اللہ 252,358-87,243 359,372,410,451,455,745,774 انقلاب,3,81,93,94,125,173,174 200,324,343,344,366,495,533,584,592, 661,751,771,777,778,796,797,856,858 312,368,406,435-437,439,482,515,516, 548,623,725,756-758,765,850,867,868 انانیت 622 انبياء انبي ارسل ارسول / نبوت ارسالت 10,32,74,100,101,105,106,108,164, روحانی انقلاب 365,403,593 انکسار / انکساری ( نیز دیکھئے عاجزی / مجز) 100,188,206,499,587,588,608,622, 705,709,739,750,774,781,796,863-866 انگریزی ترجمہ کی ہدایت 69 187,247,250,295,307,362,402,408,498, 554-557,571,607,623,657,699,700,702, 703,705,707,709,716,722,727,731,732, 735,736,738,741,758,759,765,766,768, 770,773,777,778,827,832,835,838,839 تاریخ انبیاء 352 ظہور انبیاء 716 قصص الانبياء 105 انگریزی زبان کے بارے میں اصولی ہدایت 91 اولاد تربیت اولاد ,67,262,411,414 559,612,787-790,794,795 اولیاء اللہ 409-340,407 اہل اللہ 304 انتشار / منتشر 388 انتقام 234,235 انجام 411 انذار 242,243 انس 181 انصار الله ( مقام فرائض، ذمہ داریاں) 53,73-78,82-84,192,259,273,275,277, 283,284,313,383,451,474,531,549,749 ایثار 100,101,192,397 ایذاء 421 ایذاء دی 12,13 ایکسلا ریشن 3,6,858 ایمان ایمانیات 8,58,78,149 325,329,425,441,458,583,594,607,608, 612,616,623,624,715,723,724,769,835 ایمان بالغیب 504,508,544 889

Page 899

اشاریہ، کلید مضامین بادشاہت 627,628 بخل 332,333 بد اخلاقی 189,756 بددیانتی 335,336,338 بد صورتی 179 بدظنی 716,780 بد عادات 579,582,583 بد مذہب 637,662 بد معاشرہ 783,785 بدنظمی 414 بدعت بدعات 94 بدھ مت / ازم 367,839 بدی / برائی 48,115,478,583,845 اخلاقی برائیاں 579,582,592,593 معاشرتی برائیاں 791 برتھ ڈے ( نیز دیکھئے سالگرہ) 47,48 برداشت 721,738 برکت / برکات تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہی بعثت 38,39 بعثت مسیح موعود 187,189 مامور کی بعثت کی غرض 447 بقاء 340 بنی نوع انسان / انسان / انسانیت 14,87,101,107,146,185,189,190, 308,310-312,337,356,405,425,448,479, 489,516,547,583,586,587,597,598,616, 619,631,691,699,715,722,741,755,756, 758-762,767,768,774,796,797,801,831 انسانی فطرت 321 پیدائش انسانی 31 انسانی ہمدردی 482 بھائی چارہ ( دیکھئے اخوت) بهشت 189 بے اعتمادی 716,751 بے حیائی 368 بیعت 20,55 58,63,75,103,117,141-143,171,194- 196,198,199,202,309,315,323,365,370, 371,379,385,386,391,423,442,485,510, 520,532,533,561,562,564,565,610,634, 635,639,640,642-644,651,652,656,660- 664,671,672,692,738,776,777,835,852 2,35,65,93,109,114,202,238,241, 252-254,276,281,284,297,300,318,329, 334,336,337,339-341,345,346,392,401, 558,573,574,588,615,641,713,719,726 بڑائی 769 بشارت / بشارات البيه 94,169,187 شرائط بیعت 40 عہد بیعت 41 بيوت الحمد سکیم 21,746 285,349,351,523,561-564,715,726 890

Page 900

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم پاک تبدیلی 777 پاکدامنی 138 زگی 407,489,580 پرده 121,122 پردہ پوشی 511,512,709 پروٹسٹنٹ 636 پرورش 432 تاریخ عالم 93 تاریخ مذاہب 539,607,758,759 تا وازم 840 تائید / تائیدات الهی 19,261 اشاریہ، کلید مضامین 419,604,650,660,698,712,737,748,837 تاہی (دیکھئے ہلاکت) تبدیلی پاک تبدیلی 777 پریس ا پریس کانفرنس (الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا) روحانی تبدیلی 340 تبشیر وکالت تبشیر 378,392,513 تبلیغ / دعوت الی اللہ 2,3,5-7,11,12,15,23-25,27,29,37,43, 55,58,59,63,67,75,76,78-84,94,97-109, 111,112,116,117,127,133-135,140-142, 145-147,150,156,159,171,172,174,194, 195,197,200-203,205,210,213-216,232, 259-261,265,266,279,280,284,289,290, 292,293,296,298-300,308-311,314,318, 345,346,363,370,371,377-379,381,382, 385-387,390-393,396,397,403,404,410, 416,420,427,441,444,470,479,481,482, 494,510,513,515,519-523,525,530,531, 536,541,547,549,550,557,561-563,567, 575,585,600,611,615,634,637,640,642, 644-649,656-659,661,664,665,672,704, 729-735,737-739,741,752,767,770,773, 815-820,824,829,837,854-857,859-863 891 89,113,142,175,195,183,197,198,212, 226-228,309,414,418,421,422,562,592, 676,679,682-685,697,842,844,850,851 الیکٹرانک میڈیا 668,669,672 پرنٹ میڈیا 669,670,673 پریس اینڈ پبلیکشن سیل 686 پوپ 213,214 پیار ( دیکھئے محبت ) پیدائش پیدائش انسانی 31 پیشگوئی پیشگوئیاں پیشگوئی مصلح موعود 323,324 تاثیر / تاثیرات 98 تاثیرات روحانیہ 93 تاریخ 12,14,233,762,767,800,802 تاریخ احمد بیت 487,804 تاریخ انبیاء 352

Page 901

اشاریہ، کلید مضامین تبلیغ اسلام 371 تثلیث 189,213 تجارت 380,381,591 تجزیه 289 تجدید دین 70 تحریک / تحریکات 340,714 احرار / تحریک احرار 177 تحریک شدھی 693,694 تحریک جدید تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم تحفظات 755 متحمل 738 تخلیق 179 تخلیق آدم 99,104 تدبر 361 4.دبير 65,834 تذلل 304 تربیت 53,85,241,251-254,258,451-453,455- 459,464,487,532,536,632,689,802-811 دفاتر تحریک جدید دفتر اول 806-455,803-254,255,451 دفتر دوم 451,452,804 دفتر سوم 451,452,804 دفتر چهارم 258,451,452,456,804 7,66,67,75,77,79,82,83, 119,122,130,145,146,162,215,259,267- 274,291,312,313,362,376,377,398,407, 410,427,429-433,448,464,467-471,473, 515,516,531,574,575,611,613,617,641, 649,701,703,707,708,719,732,734,735, 739,765,784-786,804,805,809,834,859 تربیت اولاد 67,262,411,414 وکالت اشاعت 372,687 559,612,787-790,794,795 وکالت تبشیر 378,392,513 شعبہ جائیداد 288,289 شعبہ سمعی و بصری 663,664 ٹرکش ڈیسک 372,689 چائنیز ڈلیک 372,687,688 رشین ڈیسک 372,688 سپینش ڈیسک 377 عریبک ڈیک 372,690 فرنج ڈیسک 372 تحفظ 368 تربیت نفس 284 ترجمہ تراجم 162,314,377,494,652 انگریزی ترجمہ کی ہدایت 69 تراجم قرآن کریم 87,88 196,213,257,351-353,355,357,358, 372,389,391,488,489,493,675,678-684 اشاعت تراجم قرآن 20 تراجم کتب حضرت اقدس مسیح موعود" 88 تراجم كتب 20,313 892

Page 902

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ترقی / ترقیات اسلامی تعلیمات 69,120,126,790 1,2,5-8,32,65,76,84,116,157,158,160, پاکیز تعلیم 641 ,178,200,239,281,284,301,349,361,416 | تعلیم القرآن 381 768,779443,453,463,488,499,515,541,565,573, 323 تفسیر تفسیر سورۃ فاتحہ 167 718,719,754,766,802,803,805,807,822 ترقی اسلام 721 اشاریہ، کلید مضامین جماعتی ترقی 365,611 مادی ترقی 66 تزکیہ 573,574,707 تزکیہ نفس 285,526,706 تشدد 31,406 تصرف الہی 205,206,650,651,850,851 تصنع 70 تفسیر سورۃ جمعہ 42-38 تفسیر قرآن 347 137,202,203,301,499,523,542,856 تقدير الى 6,9,176,200,261,302,566 611,620,628,640,655,681,686,690,705, 712,716,717,722,726,744,753,756,762 تصویر/ تصاویر 393,671 تعاون 59,284 عدم تعاون 283 تعدی 101 تعلق تعلق باللہ 72,134,135,165,168 تقدیر مبرم 127 تقریب/ تقریبات آمین ، تقریب 48,70 تقوی 1,3,107,177,187,196,259,280, 291,304,325,327-329,331-337,339-341, 343,347,473,478,479,502,519,520,525, 526,551,552,566,574,596,604,616,621, 173-176,190,284,312,407-409,411,428, 431,533,575,586,595,599,749,753,758, 768,780,789,794,795,829,830,832-836 قلبی تعلق 83 تعلیم/ تعلیمات,15,16,30,130 145,158,184,259,310,377,432,467,531, 547,580,581,624,691,735,847,869,870 اخلاقی تعلیم 305 624,625,703,704,707,709,736,758,772- 774,789,792,793,795,811,834,835,837 تقویت 420 تكبر / متكبر, 222,607,608,611 694,769,772,774,776,778,864,865 تکفیر 13 تكلف 69 893

Page 903

اشماریہ، کلید مضامین تکلیف / تکالیف (دیکھئے ابتلاء) تمدن 465,466,592 اسلامی تمدن 467 98,102,334,335,347,407, 578,618,621,625,780,786 تنظیمیں تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ثابت قدمی / ثبات قدم 8 جامع / جامعیت 146 جامعہ احمدیہ 375,379,690,691,736 جانسوزی 127 جماعتی رذیلی تنظیمیں ( نیز دیکھئے انصار اللہ، اطفال الاحمدیہ ، خدام جبر 31,101,179,590,844,847 الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ ، ناصرات ) جدو جہد 10,13 273,383,384,451,474,515 تنقید 123,388 تنگ دستی 767 تو به ( نیز دیکھئے استغفار) 128,700,709 توجہ الی اللہ 750 توحید 30,32,94,95,125,189,190,218,262,295, 355,447,448,464-467,475,478,482,571 تو کل علی اللہ 35,37,38,71,85 106,127,178,217,280,284,300,302,403, 542,543,548,549,605,716,736,740,797 جرأت 97,403,525 جرمن قوم 445,567-168,181,198,443 جرنلزم 377 جزا جزا سزا 10,63,156,392 جلسہ سالانہ 55,57 61,65,155,187,295,299,301,303,361, 441,515,525,527,547,567,573,631,867 جلسہ صد سالہ جو بلی 373,382,509 جلسہ ہائے سیرت النبی 397,398,692 جلوس 10 جماعت احمدیہ (دیکھئے احمدیت) توہمات 269 تہجد 69 تھرڈ ورلڈ 293 تہذیب 69,70,119,579 اسلامی تہذیب 70,119,772 مغربی تہذیب 121,407,431-119 ٹرکش ڈیسک 372,689 جماعتوں کا قیام 2,19,369,370,464 534-537,632-639,643-645,647,651 جماعتی املاک کی حفاظت 382 جماعتی بینک 380 جماعت اسلامی 693 جمعہ 802 تفسير سورة جمعه 42-38 جماعت احمدیہ اور سورۃ جمعہ 40-38 894

Page 904

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جنت 451,460 871-873 جنگ لڑائی / جنگ و جدل 10,81,168,308 مقبول حج 873 حدیث ( دیکھئے احادیث مبارکہ ) آخری جنگ و جنگ بدر 273 جنگ عظیم 472 جواب طلبی 729,730 حرام 339 حد 85,109,448,517 حسن 855 جہاد فی سبیل اللہ 47,48,78,133,134,146 حسن خلق 107,108,465 190,217,269,270,280,284,508,547,716 جھوٹ 15,189,542,543 چ چائنیز ڈیسک 372,687,688 چرچ 651 آرتھوڈوکس چرچ 679 رومن کیتھولک 140,141,198 227,228,390,561,636,637 چندہ چندہ جات ( وعده ، ادائیگی ، وصولی ) حسن سلوک 63,388,431,515,705 حسن ظن 505 حسن عمل 520 حسن قول 520,523 حفاظت,81,97,100,105 106,290,336,409,478,745 حفاظت الي 751,753,840-749 اخلاقی حفاظت 723 جماعتی املاک کی حفاظت 382 حفظ قرآن 325,329 7,20,21,53,85-89,113,115,142,245, 248,252-254,257,258,331,332,339,340, 370,372,383,388,410,420,452,453,455- 459,485,500-502,504-513,525,530,531, 573,574,603-605,610,695,696,802-810 اشاریہ، کلید مضامین حق / حقوق 121,291,312 حقوق العباد 304,743,744 آزادی حقوق 13 حکم و عدل 48 حکمت,65,98,100,101,106,361 چینی قوم 213 581,692,707,734,761,772 حکومت / حکومتیں حال احوال 9,10,14,16,29,307,458,620,651, اصلاح احوال 387,431,621 653,657,662,670,682,725,730,767 حب الوطنی 94 مذہب کے نام پر قائم ہونے والی حکومتیں 9 حبل الله 615 حکومتی سازش سازشیں 743,744 895

Page 905

اشاریہ، کلید مضامین حلال 339 حمد باری تعالیٰ 58,86,139,161,167,191,206,216, 219,526,565,566,631,771,861,863-866 حوصلہ 587,791 حیات حیات بعد الموت 208,392 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خلوص ( دیکھئے اخلاص) خلوص نیت 392 خلافت خلافت احمد یہ خلیفہ وقت / خلفاء احمدیت 75,112,158,288,383, 392,474,479,515,558,609,610,612,619, 622,650,665,704,747,748,785,802,814- 816,819,822,824,827,828,835,837,857 حياء خواب ( دیکھئے رویا ) بے حیائی 368 خواہش / خواہشات خ خانہ کعبہ 405,699 نفسانی خواہشات 188 خوبصورتی 179 خدام الاحمدیہ 7,53,73,75,76 خوداعتمادی 740 82,125,133,135,192,273,299,312,329, 331,345,383,403,425,439,443,444,451, 471,474,477,531,549,574,577,589,749 خوف 409 خوف خدا 336 کامل خوف 94 خدمت / خدمات خیر اخیرات 100,188,431 = افاضہ خیر 598 15,16,19,51,63,90,125,126 139,185,192,304,331,337,351,353,364, 373,441,443,479,516,526,547,596,682 خدمت خلق 310,371,372,381,394,425,691 مسابقت في الخيرات 391,457 خیرامت 597,741 خدمت دین 448,697,712,713,715,726,728 داعی / داعیان الی اللہ و خدمت قرآن 89,678 خشیت اللہ 616,617 خطبه 793 خطبہ جمعہ 375,783,784 خطبہ حجۃ الوداع 839 خلاء 491,494 896 2,3,23,43,55,58,82-84,94,111,140, 238,260,262,266,280,284,290,292,293, 298,370,386,392,444,485,494,519-521, 525,531,532,534,594,633,634,636,642- 645,655,656,659,660,664,665,667,731, 734,736,738,739,818,854,857-859,863

Page 906

تحریک جدید - ایک الہی تحریک دجال وجالیت 29,30,128 درس 325,329 درس قرآن 347 درود شریف 218,258,308,727,764 دفتر سوم 451,452,804 دفتر چهارم 258,451,452,456,804 دلی وابستگی 83 اشاریہ، کلید مضامین 7,14,108,109,149,165,169,354 دشمن دشمنی 9,10,12,14,80,81,85,125 دنیا 149,188 اسلامی دنیا 10,757 دنیا پرست 222 دنیا داری 66 دوراندیشی 344 دورہ / دورہ جات 678 دورہ امریکہ 747 دورہ شمالی امریکہ 860-841 دورہ سوئٹزر لینڈ 691 دورہ کینیڈا 424,427,671-413 دورہ یورپ 150,161,174,178,517,523,632 دعا دعائیں -24,36,43 46,49,53,55,58,59,63,65-67,69-72,106, 126,127,135,158,160,161,196,197,202- 204,206,212,214,216-218,220,222,223, 230,232,233,260,262,269,281,284,285, 296-298,300,302,324,325,343,345-347, 352,356,361-363,366,381,382,386,390, 396,397,401-404,408,409,415,416,419, 421,423-425,437,441,442,444,445,448, 183,185,191,192,194-199,207-212,214, 215,217-235,237,238,463-468,475,729 453,460,475,482,485,496,499,500,502, 525,526,533,534,537,547-550,558,559, دولت 177 دہریہ ادہریت 30,135,188,203,227,386 390-392,417,561,598,666,673,844 قبولیت دعا 86,181,196,203,218,314 دہشت گردی 405,406,580,591 دھوکہ دھوکہ دہی 506 دیانت دیانتداری 334,713,751 564-566,575,577,585-588,598,600,601, 604,605,612,614,622,628,634,636,644, 647,660,697-699,701,702,705,707,708, 716,736,738-740,743,751,752,764,766, 781,788,796,797,807,811,817,849,851 897 533,599,660,698,706,751,777,849 دفاتر تحریک جدید دفتر اول 806-455,803-254,255,451 دفتر دوم 451,452,804 بددیانتی 335,336,338 دین 790 دین فطرت 838 تجدید دین 70

Page 907

اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم خدمت دین 448,697,712,713,715,726,728 رحمت, 1,8,20,44,100,101,129 143,177,401,598,707,708,762 لادینیت 184,756 رحمت الہی 63,206,203,204,237,303,317 دیوبند 12,693 رحیمیت 743 رزق 57,114 ڈاکٹرز 339-336 ڈچ قوم 163 رستگاری 324 رسم رسوم /رسوم و رواج ذکر الہی 35,37,442,270 47-49,69,70,71,94,119 396,439,597,631,793,794 برتھ ڈے 47,48 سالگرہ 70 ذمہ داری ذمہ داریاں 23,65,74,77,78,125 رضا الہی 3,8,28,33,45,170,187,188 160,173,218,232,239,259,261,275,292, 301,302,361,396,439,444,445,447,472, 474,491-493,527-530,537,574,584,619, 620,696,701,713,715,718,730,731,734, 740,741,805,806,809-811,818,822,829 احساس ذمه داری 752 190,247,249,256,304,518,574,873 رشوت 582 رشین ڈیسک 372,688 رعب دجال 66 رفع 198,304 رفعت 441 ذوالقرنین 860 ذہانت 591 رابطہ 290 رابطہ عالم اسلامی 662,723 راز 541 راستی راست بازی (دیکھئے بیچ وصداقت وصدق) رپورٹ 290,291,379,392,467,731 رجوع الی اللہ 184 رحم 777 رحمانیت 743 رمضان المبارک روزے صیام 646 رواداری 179 روایات جماعتی روایات 292-287 روحانی / روحانیت 94,230,269,311 روحانی انقلاب 365,403,593 روحانی تبدیلی 340 روحانی نقصان 723 روحانی خزائن ( دیکھئے کتب حضرت اقدس مسیح موعود ) رومن کیتھولک,140,141,198 227,228,390,561,636,637 898

Page 908

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم رویا/ کشوف/ خواب,58,127,275,276 349,350,411,502,503,600,646,661 ریاء / ریا کاری 69,243,246,248,713 ز سکیمیں آڈیو وڈیو ٹیسٹس سکیم 20 اشاریہ، کلید مضامین 64,117,195,215,216,271,371,377,378, 390,392,393,551,664-667,733,737,783 زبان زبان دانی (سیکھنا، اہمیت، ضرورت، اشاعت لٹریچر ) بیوت الحمد سکیم 21,746 378,444,445,460,461,474,737 انگریزی زبان کے بارے میں اصولی ہدایت 91 380.5737 زمانہ جاہلیت 304 زندگی 133 اسلامی زندگی 138 عائلی زندگی 368,436,437,790 زینت 723,743 سادگی 69.70 سازش 834 سلامتی 188,308 سلسلہ سلسلے الہی سلسلے 657,711,780 سلسلہ عالیہ احمدیہ ( دیکھئے احمدیت) سنت 49-47 سنت الہی 5,58,703 سور 380 سیاست 324,405,487,757,773 سیاسی حالات 379 سیدنا بلال فنڈ 359-354,357-352 سیرت سیرت النبی حکومتی سازش / سازشیں 743,744 ساعت 323 سالانہ بجٹ 382,808,810 سالگرہ ( نیز دیکھئے برتھ ڈے) 70 سائنس 857 سپینش ڈیسک 377 یچ / سچائی ( نیز دیکھئے راستی وصداقت وصدق) 15,280,311,479,625,769,816 سکول 158,159 352,396,399,492,758,759,761-764,766, 776,778,779,787,791,793,797,821,839 جلسہ ہائے سیرت النبی 397,398,692 سیرت و سوانح 307 ش 188 شرارت 14 شرافت 769 شرائط بیعت 40 سکھ مت 422,482,851 شرک ا مشرک / مشرکین 194,189,188,269 899

Page 909

اشاریہ، کلید مضامین شریعت 47,48 شعبہ جائیداد 288,289 شعبہ سمعی و بصری 663,664 شفاعت 761 شفقت 100,101,707 شکر تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم صدر انجمن احمد یہ 53,451,532 صد سالہ احمد یہ جو بلی 21,63,352,369,502,513,517-519,521, 522,527-530,551,632,682,684,685,690 مید صالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ 500,534 صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ 5,41,63, 129,133,139,143,160,163,167,178,191, 179,206,216,219,354,406,420,424,458, 459,509,511,515,698,756,799,800,802 500,504-513,603,604,605,695,745 جلسه صد سالہ جوبلی 373,382,509 صدق ( دیکھئے راستی، بی، صداقت) شکر الہی 4,6,21,58,63,238,239,365,385 صدقہ / صدقات 48,245,246,431 414-416,491,565,589,628,631,676,774 صفت اصفات صفات باری تعالی 327,352 232 شکست و شوری / مشاورت 281,287-290,375,376,382,619,837,840 شہادت 67,362,363,372 شہید 66,571 صفات حسنه 600 صفائی 580 صلح.2 311,312 b شیطان / شیطانیت 833-270,542,831 طاقت 134,489,586,766 24,55,75,83,100, to 127,149,204,269,270,285,435,474,479, 482,525,583,584,721,861,862,865,866 صحابہ کرام نے 10,38,245,247,279,280,295,477,525 صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود 767,771,804,805,835 صدارت یا امارت کا نظام 273 صداقت ( دیکھئے راستی و پیچ وصدق) 900 طالب علم / طلبہ 379,389 طمانیت قلب 439,481,599,600 طہارت 280 ظالم 246,247 ظلم/مظالم,49,81,101 111,189,243,244,307,324,367,372,373, 401,421,437,507,571,743,759,761,807 ظن بدظنی 716,780

Page 910

تحریک جدید - ایک الہی تحریک عریبک ڈیسک 372,690 حسن ظن 505 ظہور انبیاء 716 ع حقیقی عزت 259 عاجزی عجز ( نیز دیکھئے انکسار / انکساری) ,100 عزم 18,15,30,41,44,129 161,425,441,499,608,731,739,743,772 عادت / عادات 581 بارها وات 579,582,583 عائلی زندگی 368,436,437,790 عائلی معاملات 343 عبادت / عبادات / پرستش 280,443,444,537,791 اشاریہ، کلید مضامین عزیمت 12 عشق عشق الى 765,776,796 عشق رسول 395,693,764,765,766,775,777 عشق مسیح موعود 201 1,6,40,57,79,95,269-271,274, 352,429,431,458,479,575,624,765,802 عبادات سے لاتعلقی 427 عبادت گاہ عبادت گاہیں 405,406 عبد / عباد عید شکور 479 حقوق العباد 304,743,744 نشان عبرت 343 عداوت 482 عددی اکثریت 327,328,607 عدل 126,652 عدم تعاون 283 عدم مساوات 748,832 عصبیت 304 عظمت 66 عفو عفو و درگذر 57,515 عقائد 13,310,607 علاج 766 علم / علوم / علماء 121,134,135,173-175,280,467,590, 640,654,659,667,693,724,736,738,827 سائنسی علوم 120 علم کلام 228,738 علمائے سوء 284,741 علم و عرفان 16 علیحدگی پسند 80,81 عمل / اعمال 123 عرب قوم 201 عروج قوموں کا عروج وزوال 543,578 149,187,247-249,293,427,435,436,583, 594,599,600,609,623,743,855,867,869 اصلاح اعمال 396,429 901

Page 911

اشاریہ، کلید مضامین عمل / اعمال صالح 396,399,607,608,612,862 حسن عمل 520 عنایت الہی 94 عہد 234,235,521,717 عہد بیعت 41 عہدہ عہدیداران 78,291,292-76 تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد هفتم 299-301,321,327,328,369,430,431,436, 437,445,485,497-499,509,517,542,552, 559,600,726,775,797,856,857,862,866 غلبه احمدیت 401,694,714 علیہ اسلام 263,347,428 453,499,741,784,787,791 304,388,495,615,618,619,621,711-714 716,717,729,730,731,732,734,749,818 عہدیداران کو ہدایات 293 عیسائی رعیسائیت 13,14,16,28-30,87,94,119,120,140,141, 184,197,198,214,283,284,314,352,367, 390,397,422,476,553,561,567,592,617, 618,623,633,634,636,637,651,652,657, 659,665,674,757,759,819,849,850,851 عید/ عیدین 7,69,351,355,362 569,571,646,689,699,703,727 غلبه حق 402 روحانی غلبہ 429 8,137,224,225 نموث 42 غیب ایمان بالغیب 504,508,544 غیرت 108,109,217 فتح فتوحات 27,29,32,41,43,44,56,81,113, 218,262,267-269,273,276,311,416,428, 429,435,436,441,443,485,516,539-542, 545,598,739,741,776,861-863,865,866 غ آخری فتح 28 غربت 529 غریب عالمی فتح 31 فتنه و فساد غریب پروری 48,515 13,15,16,98-102,104,105,296,482,867 غضب/ قبرالہی 698,779 فراست 794 غفلت 73,77,283,292 فرحت 81 غلام 717 27,31,39,42-45,120, 146,267-269,272,275-277,279,284,296, 902 فرض فرائض 447 فرنچ ڈیسک 372 فرنگی محل 12

Page 912

تحریک جدید - ایک الہی تحریک فری میسنز 837 فسق و فجور 188 فضل (دیکھئے اللہ تعالیٰ کے افضال ) فضیلت 768,770,775 فطرت انسانی فطرت 321 دین فطرت 838 فقه 174 فلاح و بہود 126 فلسفه 499 فهم قرآن کریم 676 فیشن 466 اشاریہ، کلید مضامین 489,491,493,494,497,521,523,542,558, 573,574,578,583,595,597-599,610,613, 620,623-625,636,652,654,677,684-686, 699,703,706,707,716,727,731,736,744, 751,759-762,765,770,773,774,785-792, 793,797,801,813-816,818,821-823,828, 830,831,833,835-838,859,861,867,869 اشاعت قرآن 89,257,353,354,397,398,679 اشاعت تراجم قرآن 20 تراجم قرآن کریم 87 88,196,213,257,351-353,355,357,358, 372,389,391,488,489,493,675,678-684 فيض فيوض 341 تعليم القرآن 381 41,563,564,565 Friday the 10th | تفسیر قرآن 347 ق قانون / قوانین قانون قدرت 766 قبولیت دعا 86,181,196,203,218,314 533,599,660,698,706,751,777,849 قحط الرجال 716,717 حفظ قرآن 325,329 خدمت قرآن 89,678 درس قرآن 347 فہم قرآن کریم 676 قرب الہی 86,179,190,188,408,526,608 قربانی / قربانیاں (روحانی، جانی، مالی، دینی ، اولاد اور وقت کی) 7,10,28,31,43,53,57, 66,76,79,85-87,90,94,100,114,115,137, قرآن کریم 20 28,30,31,47,66,70,74,78,85,97,98,102, 204,220,235,238,241,242,245-249,251, 104,115,125,134,169,205,212,231,241, 253-257,261,299,331-334,340,341,353- 247,261,265,269,271,290,296,303,308, 355,357-359,362,372,388,394,397,410, -310,312,323-325,327-329,332,343,344, 441,443,451,452,454-461,469,470,474, 349,351,354,362,389,393,396,398,399, 475,488,501,502,506,507,509-512,516, 405-408,427,430,431,439,451,470,488, 903

Page 913

اشاریہ، کلید مضامین 518,525,526,553-555,559,562,573,574, 603-605,608-610,612,614,650,654,657, 685,686,691,695-697,699,702,703,705, 709,714,727,745,746,760,761,765-768, 770,775,776,779,802-808,810,811,859 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد افتم قوم واحد 19 یور بین اقوام 591 قهر غضب / قبرالی 698,779 قیامت 267,323,392,708,721,735,805 ** مقبول قربانی 704,707,708-699 قصص الانبياء 105 قطب 42 طمانیت قلب 439,481,599,600 قلیمی تعلق 83 قواعد قواعد وضوابط 288,376 قوت افرادی قوت 533 قوت جاز به 3 قوت قدسی / قدسیہ 93,258,706,717 قول حسن قول 520,523 قوم اقوام 719 قومی زندگی 578 البانین قوم 561 اٹالین قوم 213 جرمن قوم 445,567-168,181,198,443 چینی قوم 213 وچ قوم 163 عرب قوم 201 کارکن / کارکنان 53,114,333,335,452,619,719 کا فر/ کفر / انکار 16,31,106,107 آسمة الكفر 107 مكفر بن 106 کفران نعمت 753 کائنات 31,460,801 کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام 88 کتب سلسلہ 687 کرسمس 69 کریڈٹ 531,532 کسب معاش 57 کشش ثقل 3 کشف (دیکھئے رویا خواب) کفاره 31 کلمہ طیبہ 9,10,353,354,372 کمیٹی اسب کمیٹی 288,289 کمیونزم 135,386 کمیونسٹ 314 کنفیوشس ازم 367,840 904

Page 914

تحریک جدید - ایک الہی تحریک کھیل 122,138,393,589 کیسٹس آڈیو وڈیو ٹیسٹس سکیم 20 مالی تحریک 383 مالی معاملات 388 مالی نظام 473 اشاریہ، کلید مضامین 64,117,195,215,216,271,371,377,378, 390,392,393,551,664-667,733,737,783 مامور کی بعثت کی غرض 447 مایوسی 542,722 مبلغ مبلغین امر بیان مبشرین (مقام فرائض، ذمہ داریاں) گناه 188 ل لا پرواہی 718 لادینیت 184,756 لائبریری (لائبریریوں کی ضرورت و اہمیت وقیام ) 737 لجنہ اماءاللہ الجنات / عورت 119-121,129,133,138,192,261,262, 273,299,312,368,383,447,448,451,549 12,14-16,41, 45,76,82,86,102,104,105,108,140,151, 170,171,173,192,197,200,209-211,215, 218,220,221,225,229,234,235,238,259, 270-272,284,315,317,370,371,378,379, 385-389,391-393,414,460,464,489,495, 512,520,531,532,534,547,561-563,575, 632-635,638,640-644,648,650,651,656- 660,664,665,667,670,671,673-675,690, 719,729,732-734,736,737,752,770,773 عورت کا مقام 367 لذت لذات 81,82 لٹریچر (ضرورت، اہمیت، اشاعت ) 20,88,89,103,104,111,113,116,117,142, مبلغین کو ہدایات 385 متقی 492,618 مجمع البحرین 860 محاسبہ 23,300,339,389,789 159,160,174,195,196,214-216,220,224, 309,310,312,314,315,372,376-378,385, 387,389,390,393,474,493,494,536,574, 590,648,649,652,658,665,683-687,688, 690,733,737,756,759,820,845,870,872 تربیتی لٹریچر 471 محاسبه نفس 792,795,796-332,787,790 محبت ( پیار) 55,59,80,101,106,164,167,181,284, 295,296,387,406,408,409,447,515,553- 556,558,600,616,646,717,738,855,859 مادہ پرستی مادیت 222,390,555,846 مادی ترقی 66 محبت الہی 1,35,36,40,71,134,139 175,190,203,217,284,395,410,439,448, 508,518,612,613,750,793,794,828,837 905

Page 915

اشار یه کلید مضامین باہمی محبت 343 بے لوث محبت 448 کامل محبت 94 محبت رسول 373 محنت 1,43,57,63,160,192 239,299,411,441,452,533 مخالف/ مخالفین / مخالفت مردانگی 722 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم مرده پرستی 30-28 مرکز بر مرکزیت 284,388,464,737 مرکزی انجمنیں 451 مسابقت 743,751,809 مسابقت في الخيرات 391,457 مساوات 303,304,367,465,488 749,768,769,775,838,839,846 عدم مساوات 748,832 مستشرقین 69,160,399,590 مسجد / مساجد (ضرورت، اہمیت، قیام 4,21,25,33 63,141,151,154,163,171,177,179,191, 192,197,211,217,219-221,223-225,317, 318,351,353,365,370,373,397,405,406, 428,471,573,610,640-643,648-651,653- 655,657,663,665,675,689,721-728,738, 743-745,775,785,799,801,802,842,843 مسلم / مسلمان 1370,87,120,141,233-11 290,312,471,481,561,562,564,565,580, 590,633,659,665,675,682,688,693,694, 741,758,759,773,780,809,819,827,851 مسئله / مسائل 79,137,389,471,712 7-10,12-14,20,27,29,32,81,99-102,104- 107,113,114,284,310,312,351,372,373, 379,395,396,402,433,453,458,523,525, 526,604,640-642,644,646,651,657-659, 662,665,666,675,678,685,686,689,694, 698,711-714,716,721,724,725,758-760, 762,802,803,848,849,851,853,864,865 715 مخلصين مذہب المذاہب 1,12,13,69,71,105 120,135,168,184,227,230,284,309-312, 319,367,390,391,461,465,466,476,482, 487,488,579,590,592,594,599,623,633- 637,651,657,662,741,756,757,759,768, 769,784,785,813,819,838,839,845,867 مذہبی آزادی 870 احترام مذہب 424 مذہبی اقدار 428 بد مذہب 637,662 تاریخ مذاہب 539,607,758,759 موازنہ مذاہب 598 756,766,772,818,841-847,850 مشکلات 4 مشن مشن ہاؤسز (ضرورت، اہمیت، قیام ) 5,6,11,12,21,33,34,37,57,137,140 141,150-162,165,167,170-172,176-179, 906

Page 916

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم 183,191,192,194,197,206,207,210,211, 304,427 ,213,214,219-225,317-319,334,351,370 مغربی معاشرہ 121 700,715393,397,417,573,590,634-636,643,638, 649,650,651,653,654,667,671,675,822 یورپین مشنز 19 مشوره 835 مصیبت / مصائب (دیکھئے ابتلاء ) مظاہرہ مظاہرے 10 مظلوم 571 مظهر الله 477 معاش کسب معاش 57 معاشرہ,65,66,119,311,312 321,361,465,476,793,869 اسلامی معاشرہ 121,122,138,869 اصلاح معاشرہ 582,615,776,780,781,788 بد معاشرہ 783,785 مغربی معاشرہ 121 معاشرتی برائیاں 791 معامله / معاملات عائلی معاملات 343 مالی معاملات 388 مغلوب الغضب 738 مفاد 12 مقبول / مقبولیت احمدیت کی مقبولیت اشاریہ، کلید مضامین 2,14-16,20,102,103,112,140- 143,156,170-173,175,193-195,198,199, 205,207,208,209,224-227,238,313-315, 415,417-420,423,463,488,516,611,627- 629,656,666,671,676,677,688,689,692, 695,844,845,848-853,855,856,871,872 مقبول حج 873 مقبول قربانی 704,707,708-699 مقصد مقصد حیات 312 مكفرين 106 ملا / مولوی مولویت 135,395,421,471,724,725 ملت واحدہ 466 محمد 707 معبود باطل معبود 95 معجزه معجزات 228,295,599 معرفت کامل معرفت 94 منافق/ منافقین 779 موازنہ مذاہب 598 موت 17 احیاء موتی 732,735 حیات بعد الموت 208,392 907

Page 917

اشاریہ، کلید مضامین مومن مومنین 137,281,343,451,551,595 مالی نظام 473 596,598,624,711,712,722,728,779,866 میڈیا الیکٹرانک میڈیا 668,669,672 پرنٹ میڈیا 669,670,673 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد افتم نظام جماعت ( دیکھئے احمدیت) نظام سے وابستگی 747 نظریہ ا نظریات 80,81,287,312,435,592,598,599 نظم وضبط 145,146,184,291,292 اظمی 414 نازی ازم 80 ناصرات الاحمدیہ 313,383,451,549 نعمت 137 ناموس رسالت 10 کفران نعمت 753 نفرت نبی رنبوت رسول ( دیکھئے انبیاء ) نجات 14,16,548,757,762,763 ندوة العلماء 12 نذر 257,700 نشان نشانات 8,20 نشان عبرت 343 14,16,79,80,188,406, = 488,517,843,844,861,867 نفس اصلاح نفس 256,363,389,429,444,733,793 تربیت نفس 284 تزکیه نفس 285,526,706 محاسب نفس 792,795,796-332,787,790 نصرت الہی 275,276,356,694,711,749 نفسانی خواہشات 188 نشر واشاعت 12,377 نصرت جہاں آگے بڑھو 371 نصرت جہاں سکیم 20,691,692 نفع 722 نقصان / نقصانات 725-583,722 نصیحت / نصائح 82,83,578,823,830,831,863 روحانی نقصان 723 نظافت 580,743 نظام الہی نظام 369 اسلامی نظام 869,870 سودی نظام 846 نظام شمسی 7 صدارت یا امارت کا نظام 273 908 نماز صلوة 7,58,66 67,69,125,269-273,325,329,362,363, 428-430,458,467,471,472,575,764,790 نمودونمائش 69 نوجوان 2,7,16,63,125,126,133,174,176,184, 185,377,386,425,443,467,468,573,592

Page 918

اشاریہ، کلید مضامین وعدہ خلافی 542 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ہفتم نهي عن المنكر 352,624,741 نیت 249,337,338-244,246-242 نیک نیتی 15 خلوص نیت 392 وقا 285,470 وفاداری 127 وفات مسیح ناصری 198,199,382 نیک / نیکی 48,57,58,63,76,115,478,553,554 وقت 491,493,495 وابستگی 181,479 دلی وابستگی 83 واقفین زندگی / عارضی و وقت کا ضیاع 492 وقف / وقف زندگی وقف نو/ جائیداد / آمد / اولاد / عارضی 31,40-42,103,109, 114-116,143,159,192,312,337-339,371, 375,451,455,459,487,535,536,555-559, 567,608-614,632,638,641,644,652,653, 666,689,690,695,700,703-705,708,709 41,158,223,229-231,333, 336,338,371,375,381,557-559,608,611, 637,641,642,648,690,691,694,695,767 وحدت 464 ورلڈ تھرڈ ورلڈ 293 وصیت 309 وقار عمل 726,728 وکالت اشاعت 372,687 وکالت تبشیر 378,392,513 وسعت / وسعتیں وقف جديد 53,310,331,381,451,471,694 ولی ولایت 409,411-42,407 ولی اللہ 411,523,863 ہجرت 57,176 ہدایت, 27,73,82,106,107,126,231 139-143,149-151,157,161,163,169–173, 178,191,194,196,199,200,205-207,551 وسعت قلبی 443 وطن 94,260 248,249,296,308,405,729,857 انگریزی ترجمہ کی ہدایت 69 انگریزی زبان کے بارے میں اصولی ہدایت 91 عہد یداران کو ہدایات 293 ہستی باری تعالی 392,673,674-84,185,314,390 ہلاکت,67,76,188,308,363 909 407,445,489,578,586,615 ہمت 300,791 149,169,178,191,199,327,333,543 ایفائے عہد 502

Page 919

اشاریہ، کلید مضامین ہمدردی 107,126,147,295,447,479,599 741,758,759,761,774 انسانی ہمدردی 482 بود روی مخلق 448,482 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم ہندو ہندومت 120,422,482,693,694,851,852 | ہوا و ہوس 367 یتیم / یتامی 610 کفالت یتامی 432,433 یتیم خانہ 432 یقین 543,545,599,862-127,539 296 یور بین اقوام 591 یورپین مشنز کی تحریک 4 یہودا یہودی ایہودیت / صیونیت 81-79 307,308,367,623,673,707,819,850,851 910

Page 920

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد هفتم T 98,104,702,703,722 اسماء اشاریہ، اسماء او باسانید کو ا فولاد او بالا دی اوا فون 627,628 ایڈولف ہٹلر 472 باہری، مسٹر 151 آدم، حضرت علیہ السلام آفتاب احمد خان 137,807 آیت اللہ، امام ثمینی 212,580,672 بائرن 763 بشیر ( ابن مولوی کرم الہی ظفر صاحب ) 666 ابراہیم ابونعب 871 بشیر احمد آرچرڈ 46 ابراہیم، حضرت علیہ السلام - 556,699 بشیر احمد رفیق 684 702,705-709,727,731,732,735,766 بشیر الدین 678 ابو بکر صدیق حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 234,245 بشیر الدین محمود احمد،مرزا، حضرت خلیفة المسيح ابونائب 666 احمد مختار چوہدری 681 ارشد باقی 137 اسماعیل، حضرت علیہ السلام 271,699,701,727 افتخار احمد ایاز 520,536,546 الائجا محمد 487,488 اینه، سٹر 636 انوار احمد ڈاکٹر 682 انور احمد کاہلوں، چوہدری 137 انور حسین، چوہدری 678 اد با آف ایڈی کروکو او با جے ایل او جو ولی کو ایکوالا ہے ایجنڈو کو 629 الثاني، المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ 35,74,89,122,125,158,177, 201,202,221,223,251,261,277,290, 291,323,324,378,381,444,448,487, 681,686,767,771,799,802,803,804 ،بلال ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 10,775 ج جلال الدین محمد رومی، مولانا 596 چ چرچل ،سر ونسٹن سپنسر 473,674 Juliet 210 911

Page 921

اشماریہ، اسماء حمید 154 حمید الرحمن ڈاکٹر 680 こ حمید اللہ ، چوہدری 375,536,678 حمید نصر اللہ خان، چوہدری 375,502 خ خالد بن ولید ، حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ 217 خاور 87 خدیجہ، حضرت رضی اللہ عنہا 100 خیر الدین باروس 639 دانیال خان 680 و داؤد علیہ السلام، حضرت 340 داد واحمد حنیف 281 رفیق چانن 129,677 ز زکریا علیہ السلام 558,559,613 سلطان محمود انور 678 ش شاہ نواز ، چوہدری 680 شبیر احمد، چوہدری 678 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم شجر احمد فاروقی 678 شمس الدین خان مولانا 682 شیخو شغاری 15 شیر علی ، حضرت مولوی 488 b ص صابر صدیقی 87 طارق بن زیاد 217 طاہر احمد ، مرزا، حضرت خلیفة المسیح الرابع 1,2, 4-8,10,11,16,19-21,23-25,33-36, 44,46-49,51,53,55,56,58-61,63-68, 70,71,73-78,81-84,86-91,93-95,97, 100,108,111,113-116,119,125,128- 131,133-135,138,140-142,145,147, 149-165,167-174,179,181,183-185, 187,190-198,200-209,211,213-217- Romeo 210 219,221-223,225-235,237,241,247,251- 257,259-261,265-269,275,277,279, 280,282-284,286-289,291-293,295, 296,298-302,305,307,308,310,313- 315,318,319,321,323-325,327,331- 337,339,340,344-347,349-351,353- 361,363,365,366,368,369,371-373, 912

Page 922

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم اشماریہ ، اسماء 375-385,388-392,396-399,403-405, 407-409,411,413-416,419-425,427, 428,430-432,436,437,439,441-443, ع عائشہ 129 عبدالباقی 667 ,447,449,451-456,458,460,461,463 عبدالرحیم اشرف، مدير المنبر 696 ,467,468,469,471,472,474,475,477,479 عبدالرشید آرکیٹیکٹ 678 ,481,483486,491,492,494,495,497-503 | عبدالعزیز مغل، حضرت 735 508-512,515-519,521-523,525-528, 530,531,533,536,537,539,540,542, 545,547-553,557,559,561-565,567- 569,571-575,577,582,585-587,589, 592-595,597,604,605,608-612,615- 618,620-629,631-637,639-647,649- 651,653-658,660-665,667-690,692, 694-699,703-705,708,711-719,721- 727,729,734735,737-739,741,743- 751,755,764,767,768,770,773,775- 779,783-785,787,788,791,793,795- 797,799,802-808,810,811,814-820, 775 822-824,827,828,831-837,839-841, 843-859,861,862,867-869,871-873 عبد الستارخان 215 عبدالسلام، ڈاکٹر 213,680-211 عبد اللطیف شہید، حضرت صاحبزادہ سید رضی اللہ تعالیٰ عند 474 عبداللہ واگس ہاؤزر 58,175 عبدالمنان 644 عبد الوہاب آدم 678 عطاء المجیب راشد 390 عطاء اللہ علیم 678 علی قمیصی 645 عمر فاروق، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 245,304 عمر معاذ 644 ظ عمران، حضرت 556 ظفر اللہ خاں، حضرت سر چوہدری ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ عزیز الرحمن ڈاکٹر 680 489,502,503,506,507,509 ظفر علی خان 13 ظہیرالدین بابر 554 عیسی جان 680 عیسی ، حضرت مسیح علیہ السلام 330,7494,168 ، 189,198-200,275,307,553,759,764 913

Page 923

اشاریہ، اسماء غازی محمود دھرم پال 13 غلام احمد قادیانی ، مرزا، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام 30,35-8,19,27 37,38,40,41,45,47-49,57,59,66, 74,87,88,89,93-95,119-121,125- 128,134,146,147,161,176,187,189, تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد هفتم فرید ائیس جعفری 16 فهیم احمد 648 ق قدرت اللہ سنوری ، حضرت مولوی 202 قیصر (عیسائی بادشاہ، شاہ روم ) 38 ک کانڈے بورے 15 ,201,202,220,228 ,190,192,193,196 کرل بینکن 673,674 ,233,251,253,256,258,261-263,265 | کرم الہی ظفر ، مولوی 215,229,666 268,269,275,276,279,285,295-297, کسری (شاه ایران) 38 ,299-301,307,308,313,314,340,341 | کمال یوسف 634 362,365,382,386,393,408,425,447, 448,466,468,469,474,477,478,481- لا ئیلا 406 -483,487,489,526,530-532,534,540 لوتھر رائی مات 635 542,547,556,562.565,584,600,616, ,619,620,627-629,646,656,660,661 مبارک احمد ساقی 678 م ,667,671,678,681,685,692,693,706 مبارک احمد، شیخ 394,654,807 716,734-736,738,741,763,777,805, 813,815,827,834-837,843,860,872 مبشر احمد کاہلوں 678 محمد اسحاق، چوہدری 370 محمد اکرم احمدی 634 غلام احمد، صاحبزادہ مرزا 678 ف فاطمة الزهراء، حضرت رضی اللہ عنہا 98 فتح محمد سیال، چوہدری ، رضی اللہ عنہ 11 فرعون 98,102,108,109,736 محمد الیاس، چوہدری 370,638,647 محمد الوسی البغدادی، علامہ ابو الفضل شہاب الدین السید 323 محمد جلال شمس 665,678,684,689 914

Page 924

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد هفتم - محمد شریف ، مولوی 210 محمد یامین 680 محمد صادق، حضرت مفتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 767,771 | محمود احمد بنگالی 678 محمد ضیاء الحق، جنرل 10 اشاریہ، اسماء محمود احمد ناصر ، سید میر 226-217,224-215 محمد عثمان چاؤ چونگ سائی (چینی) 681,687 محمود مجید ملک 678 محمد علی جناح، قائد اعظم 665 محمد عمر، مولوی 678 محمد مصطفیٰ، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم محمودہ مبارکہ مظفر 58 مریم علیہا السلام، حضرت 30,555,556,613,700,707 مسعود احمد جہلمی 675 6,10,16,17,27,29,31,32,35,36, 38,39,42-45,47-49,59,69,70,78,84, 93,95,97,98,100,101,105,106,108, 126,127,135,146,164,204,205,212 مسعود احمد خان 638 مشتاق احمد شائق 678 مصطفى ثابت 666 -213,217,218,220,228,234,235,242 | مصطفى سنوسی 4,15 251,258,262,267,274,280,281,293, 294,299,301-304,307,308,311,312, مظفر احمد ، حافظ 678 مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا 375 ,321,327,328,345-347,351,352,354 معمر قذافی 580 355,365,367,373,383,395-399,401, 416,425,428,429,441,445,447-449, 477,481,482,491,492,497,498,517, 518,520,531,532,537,543,544,554, 555,557,565,571,578,580,581,583, 584,591,596,597,616,619,622,624, 625,641,643,656,662,685,692,693, 702,705-707,709,716,717,755,758, 759,761-766,774-781,787,788,791, 793,797,813,815,821,822,828,838, 839,843,849,855,860,869,872,873 مقصود ورک 648 منصور احمد، حضرت صاحبزادہ مرزا 571 منصور احمد خان 211,232 منصور احمد عمر ملک 58 منصور الہی، ڈاکٹر 233 منور احمد 680 منیر الدین شمس 678,687 موسی ، حضرت علیہ السلام 98,176,736,759 ن ناصر احمد، شیخ 211,674 915

Page 925

اشاریہ، اسماء ناصر احمد ، مرزا، حضرت خلیفة المسیح الثالث 210,214,313,381, 498,500,529,551,804 نسیم احمد باجوہ 392 نسیم مهدی 638,673 نصرت جہاں بیگم ، حضرت ، اماں جان 121,349,350,351 نصیر احمد سید 638 نصیر الدین ہمایوں 554 نعمان ( نیومین) 683 نکرومه، صدر 16 نوح، حضرت علیہ السلام 768,770,773 نورالدین، الحاج حکیم مولانا، حضرت خلیفة المسیح الاول ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 487 نور محمد نسیم سیفی 14 واکر، مسٹر 697 وسیم احمد ڈاکٹر 638 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد هفتم کی بیٹی، حضرت علیہ السلام 558,613 يسوع 29 یعقوب، حضرت علیہ السلام 539,540 | William Shakespeare 210 ہدایت اللہ بنگوی 51 ہدایت اللہ جمیل 58 ہدایت اللہ ہیوبش 175 916

Page 926

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم آسٹریا 590 T آسٹریلیا, 113,301,302,632 636,669,684,730,731 آئرلینڈ 370,580,653 آئس لینڈ 561,632,635 آئیوری کوسٹ 457,525,639 649,650,662,669,678 ابوظہبی 680 ت 651 مقامات افغانستان 253 الأسكا 638 البانيه 11 الجزائر 649 الجيريا 370 الحمراء پیلس 232 امبالہ 642,650 امرتسر 121,220 اشاریہ مقامات امریکہ,67,77,93,94-11,15,21,28,65 104,113,122,127,213,253,308,317, 318,335,336,361-363,375,391,394, 416,419,420,423,457,464,477,511, 512,552,573-575,583,614,632,647, 654,669,678,680,682,747,752,755- 758,761,765-768,770,772,773,775, 776,780,783,790,796,799,807-809, 819,822,823,825,827,831,833,837, 838,841-843,845-847,851,853-857 اندلس 227,231,232 انڈونیشیا 1,113,184 370,391,464,633,634,639,646,678 انگلستان / انگلینڈ 5-2 10,12,19,37,44,76,84,88,113,125, 917 11,183,210-214, 219,318,513,583,649 ارجنٹائنا / ارجنٹائن 632,637 اردن 871 اسرائیل 308 اسلام آباد 10,275 اسلام آباد (ٹلفورڈ ) 37,119,137,138,150,153,155,157, 192,370,372,376,377,389,432,433 افریقہ,16,20,86,87,139,207,222-14 253,259,260,268-270,272,283,315, 336,378,404,420,432,456,458,464, 518,552,610,618,629,642,649,651, 656,658,662,668,690,691,815,857

Page 927

اشاریہ، مقامات تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ہفتم برطانیہ 25,129,133,183,365 137,138,141,143,150,151,158,159 162,183,192,215,221,335,336,365, 369,393,457,501,631,635 ,370,379,389,392,395,399,413,420 برکینا فاسو 644 183422,431-433,437,464,465,491,493, 11,678 646 645 494,502,506,507,509,510,519,582- 584,589,623,634,668,696,715,721, 724,726,763,808,809,838,842,854 انگولا 633,645 اور مین را 653 اوقیانوس، بحر 635 ایتھوپیا 644 ایران 680 برہمن بڑ یہ 659 بلاؤ 642 بلوچستان 27 بنگال 769 بنگلہ دیش 184,569,659,678,680,745 بوٹسوانا 645 بولیویا 632,637,638 20,93,127,296,300,404,518,552 | بہاول نگر 453 ایل سلواڈور 432,638 الشياء ایڈمنٹن 669 ایڈنبرا 635 ایران 757 بھارت 640,641,669 بہشتی مقبره ( قادیان) 349 بھوٹان 695 ہاتھنیا 675,676 بحر الكامل 633,636 بحیرہ بالٹک 634 برازاویل 633 برانٹ فورڈ 669 842 Origan | بيت النصر ، کولون، جرمنی 167 بيت النور، فرینکفورٹ 63 بیت النور، ہالینڈ 163 بیلجثم 170,171,183,463,475,511,649,678 برازیل 141,317,318,370,536,636,637 بے لیز 632,638 برساز 171,183 918 پاپوانیوگنی 632,633,634 پاکستان 1,716,19

Page 928

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم تنزانیہ 184,187,385,394 20,29,53,57,58,75,86,94,111,113, 133,140-142,155,159,175,177,203, 216,226,251,252,254,258,268,275, 313,333,334,337,351-353,357,371, 372,375,381,395,414,421,422,430, 457,645,649,661,671 اشاریہ، مقامات 640 633,636,651,652,669,692 370 ,437,453,454,456-459,463,468,469 | تینی باغ 633 500-502,507,508,536,552,569,603, 678605,625,628,637,639,654,655,657, 19,307659,662,669,670,678,685,686,689, 669690,692,694,695,697,698,715,717, ٹیچی مان 259 723-725,748,803,807-809,851,870 پانامہ 638,647 پرتگال 318,632,635,636 پشاور 453 پنجاب 120,350,469,482,771 پنجاب (بھارتی) 19 پورٹ ساؤتھ پیسیفک 646 پورٹ لینڈ 844,854-799,842 پورٹ مورس بی 633 پولینڈ 11,167,314,647 پیڈ روآباد اپید رو آباد 225,228 پیرس 223-6,183,220 پیراگوئے 637 پیرو 637 ج جایان 28,310,437,464 552,647,838-840 جا کوئی 656 جرمنی 5-2 Trieste 211 Tosan 842 55,57-59,63,133,135,151,158,165, 167,168,175,177,181,183,184,195, 196,215,224,435,437,439,443,444, 457,459,463,467,468,472-475,509, 521,567,568,584,666,729,738,838 پیڈا 645 ترکی 111,665,666,689 جنوبی افریقہ 184 جنوبی امریکہ, 319,535-141,317 537,637,638,664,825 جنیوا 141 919

Page 929

اشاریہ، مقامات چلی 637 چیکوسلواکیہ 11,679 چین / چائنا 28,314,437,464,552 680,681,687,688,838 حیدرآباد (دکن) 640 خ خانہ کعبہ ( بیت اللہ شریف ) 699 خلیج 113 و دنی پیگ 669 دہلی 220 رومانیہ 686 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہفتم ری یونین مڈغاسکر 645 Rio De Janeiro 317 ز زائر 633,639,649,669,692 زائر 678 زمبابوے 647 زنجبار 370 زيمبيا 645 زیورک رز یورچ 207,673-183,205 سان فرانسسکو 849 ساہیوال 370,453 ساؤتھ افریقہ 103 س ڈنمارک 510,561,562,584,627 چین - 11,183,200,211,214 635,649,669,678,729 ڈومینیکن ری پبلک 647 ڈیٹرائٹ 21 راڈرک آئی لینڈ 645 راولپنڈی 453 219,221,224,225,227,229-234,318, 377,441,511,610,635-637,649,669 چین ویلی 682 سرینام سورینام 279,280,647,678 سکاٹون 669 122,150,155,319,336,351,358,0% 432,433,517,527,529,869,870 روس (رشیا) ,27,28,65,143,167 361,647,680,688,758,796 روانڈا 645,649 روم 44 920 سعودی عرب / سعودی عریبیہ 723,757 سکاٹ لینڈ 33,35,38,41,43,44,352,386,561 سکم 695 سنٹرل افریقین ری پبلک 633 سندھ 202,680 سنگا پور 678

Page 930

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سنیان 656 سویڈن 299,300,510,634,647,678,729 سوئٹزر لینڈ 5,6,183,184,205 غانا ,11,16 اشاریہ، مقامات 86,259,260,365,371,385,393403, 457,512,639,644,658,665,678,838 183,214,219,224,225,227-233,653 211,389,673,677,678,691 غرناطه و سیرالیون 15,86,283,284,425,547 548,645,649,650,655,838 نبی 39 139, سيشل 644,645 سیلون 733 سینی گال 639,642,643,656 ش شام / سیریا 44,200,757 Suva 867 140,184,549,633,646,665,867,868 فرانس 224-6,7,183,219 399,463,475,476,511,678 فرنچ گئی 638 فرینکفورٹ فرینکفرٹ ,5,19,63,167 شاہ جہان پور 641,642 شکاگو 854-21,820,852 شمالی افریقہ 513,871 172,179,183,191,192,195,197,237 فضل مسجد 9 فلاڈلفیا 842 شمالی امریکہ 318,416,825,841 فن لینڈ 632,634,647 فیصل آباد 9 ق صومالیہ 370,644 ط قادیان دارالامان طائف 220 120,122,155,253,255,319,339, 349,447,481,527,667,752,767 عراق 871 قرطبہ 183 ک 44,59,69,-/ ,107,171,173,193,198,199,238,297 | کارنیوال 352 311,367,371,381,393,603,647,648, 666,690,733,769,775,816,871,872 کانگو 632,633 کا نگیلے 642 921

Page 931

اشاریہ، مقامات تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد هفتم کراچی 453,807 گرین لینڈ 635 گلاسگو 4,38,561 کرا کلی 640 گنی 645 کرناٹک 265 گنی بساؤ 643 کشمیر 145 گوار یا 197 کواٹ 642 گورداسپور 19 کو را گو 648 گوئٹے مالا 638,647 کوریا 647,838 کوسٹاریکا 638 کولن کولون کولن 5,19,165,167,172,183 کو مور و آئی لینڈ 644 کو ملے 642 کوه طور 176 کیانا 678 گیون 633 گیمبیا 23,281,385,391,639 642-644,650,655-657,691 لار گوٹاؤن 664 ل لاس اینجلس 21,785,849 كهمم 640 کیمرون 633,645 لاطینی امریکہ 318 كينبرا 684 کینیا 184,457,642,644 کینیڈا لاکھور 656 لائبیریا 515,562,645,664,665,678 77,113,138,318,370,382,405,413- 80 ,416,419-423,427,457,511,637,638 | لدھیانہ 323 16,77,120,375,503,735,807) 646,666,668,669-673,678,680,783, لکسمبرگ 648 9,13,56,113,127,137,222 790,807,809,815,816,822,825,841 کیوبا 638 گ گال دے 653 گجرات 201 گروس گیراؤ 19,179 138,181,308,309,311,313,323,345, 376,380,382,390,425,569,572,632, 635,646,664,668,676,678,697,847 لو پاز 637 ليبيا 257,580,672,680,757 922

Page 932

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد هفتم لینن گراڈ 143,314 موزمبیق 645 200 Lakes District | میڈرڈ ماترید 183,225,653 ماریشس 141,184,665,6693 میڈیسن 93 میکسیکو 638,647 میونخ 5,183,197,219,224 اشاریہ، مقامات ماسکو 688,689 مالدیپ 695 مالمو 647 مالی 644 مدراس 678 مدینہ منورہ 246,311 ٹل سیکس 345 مراکش 370,871 مس ساگا 405 مشرقی افریقہ 11 مصر 80 مغربی افریقہ 11,13,14,393 مغربی امریکہ 799,842 ناؤرو 632 ناروے 510,511,634,635,647 668,669,678,729,733,816,871 ناصر آباد 55 ناصر باغ 179,191 نائیجیریا 11,13-15,86,261,303,370,371,380, 381,385,627,628,639,678,680,838 ناؤرو 636,637 نکاراگوا 638 نیپال 695 مغربی جرمنی 19,55,57,61,63,64,179 نیروبی 642 439,509,567,568,639,665,678 نیو یارک 21,573,745,852 مغربی یورپ 635 Nadi 549 Niteroi 317 Nunspeet 169 مکه مکرمه 218,872,873 ملاوي 370,645 ملائیشیا ملیشیا 295,296,457,464,633 ملتان 453 ملکانه 693 مير 640 موریطانیہ 184,644 وارنگل 640 وسطی امریکہ 638 واشنگٹن 853-766,783,851 ونڈسر کاسل 431 923

Page 933

اشاریہ، مقامات وکٹوریہ 424 وبیت نام 733 ویرونا 183,210,211 ولیسٹرن سمووا 370 ویلز 352,682 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ہفتم 93,94,119,122,125-128,138,140, 142,158,183-185,191,213,219-222, 226,231,237,238,253,296,299,300, 325,370,404,419,435,439,443-445, 464,472,473,476,519,552,567,577, 581,583,588,589,592,597,600,605, وینکوور 423,424 ہارٹلے پول 563 ہالینڈ 156-4,5,151,153 610,624,653,690,729,854-857,859 یو کے 51,73,76,78,83,119,125,155 237,287,288,307,329,807,871 184,385,457,639,642 159-161,163,169-171,183,389,457, 143,313,370,561,675461,475,476,577,589,601,627,648, 678,721,725,726,729,744,745,870 ہلرز فیلڈ 307 عالیہ 536,728 ہمبرگ / ہیمبرگ 5,167,172,183,191,197,224,738 ہند ہندوستان 11,12,119,120,184,253,255,437, 469,470,481,482,640,693,695,748 ہنگری 11,143,167,319,535,632 ہونڈوراس 638 بیٹی 647 ہیگ 151,183 یادگیر 265 یارک شائر 352 یورپ 2,15,30,63 924 ی

Page 934

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد هفتم کتابیات اشاریہ، کتابیات انجیل 623,813 بائبل 598 تفسیر روح المعانی 323 تورات 623 جامع ترمذی 581 دیوان غالب 222,359 سنن ابی داؤد 780 صحیح بخاری 543,581,616 صحیح مسلم 778,851 قرطاس ابیض 14-12 مستدرک الحاکم 775 Romeo and Juliet 210 کتب سلسلہ عالیہ احمدیہ اربعین (نمبر 1 0 19,147 اربعین (نمبر 04 8,187 ازالہ اوہام 125,127,188 اسلامی اصول کی فلاسفی 88,120 القصائد الاحمدیہ 717 انوار الاسلام 276 ایام اصلح 297 براہین احمدیہ 28,275 براہین احمدیہ حصہ پنجم 28 بركات الدعا 60,297 تبلیغ رسالت 189 تذكرة 27,28,37,128,150,466,481,562,836 تذكرة الشهادتين 276,285 تفسیر کبیر 88 حقیقة الوحی 681 خطبات طاہر 8 16,32,46,90,109,117,143,162,165, 178,204,218,235,258,274,319,321, 328,341,344,356,359,399,402,411, 424,432,437,461,476,495,512,513, 523,537,545,552,559,566,588,605, 614,622,709,719,728,740,746,754, 766,781,797,811,825,840,860,866 38,45,469,532,540,565 در شمشین دیباچہ تفسیر القرآن 20 رسالہ الوصیت 190,296,300,479 روحانی خزائن - 8,28,60,90,93,94,125 127,147,187,188,190,262,265,276, 275,296,297,300,478,479,526,681 فتح اسلام 90,93,262,386,478,487 كتاب البريه 265 کشتی نوح 126,188,526 کلام محمود 35,178 لیکچر سیالکوٹ 297 925

Page 935

اشاریہ، کتابیات لیکچر لاہور 94 مجموعہ اشتہارات 30,31,128 مردے 684 مسیح ہندوستان میں 313 انقلاب 12 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد هفتم پاکستان ٹائمنر 16 تحریک جدید 60,64,128,165 179,300,324,366,572,677 جنگ 676 ملفوظات 279,285,296,340,447,482 میرا مذہب 684 حنیف 13 خالد 185,266,280,302 Distinctive features of Islam 684 Revival of Relegion 684 305,368,373,406,653,686 دی افریقن ورلڈ 13 اخبارات و رسائل واشتہارات احمدیہ پلیٹن 601 زمیندار 13-11 مصباح 21,51,56,61,163,239,260 263,282,286,307,329,366,601,668 The Daily Jang London 25 ملٹی میڈیا Voice of America 848 اخبار احمدیہ 870 البدر 449,483 الفضل 15,376 المنبر 696 النصر 10,24,25,49,67,72,84,95,123,128, 135,147,163,164,168,185,190,220, 239,260,263,266,277,280,282,286, 294,298,300,302,305,308,311,313, 315,324,325,346,347,373,376,382, 384,394,404,406,425,439,442,449, 479,483,486-489,516,526,548,550, 569,572,575,625,741,868,870,873 النور 575 انصار الله 53,72,91,95,131,135,147 179,181,190,298,305,308,363,445, 568,569,625,629,638,661,698,870 926

Page 935