Language: UR
ارشادات بابت تحریک جدید
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی بابت تحریک جدید *19A7 C *19AF مرتبہ
تحریک جدید - ایک الہی تحریک Tabrik-e-Jadïd – A Divine Institution Volume - VI (Urdu) Speeches, Sermons & Sayings of Hadhrat Mirzā Tahir Ahmad, Th Khalifatul Masih IV 1982-1984 © Islam International Publications Ltd.Published by: Nazarat Nashro Isha'at Sadr Anjuman Ahmadiyya Qadian-143516, Distt.Gurdaspur (pb.) INDIA Printed at: Fazl-e- Umar Printing Press, Qadian Copies: 2000 First Edition Published in India in- June 2017 ISBN: 978-81-7912-325-3
الله الله پبلشر نوٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ وہ دور ہے جس میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ مقدر ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے ساتھ اس دور سعید کا آغاز ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپکو ایک فرزند جلیل کی پیدائش کی خبر دی.جسے تاریخ احمدیت مصلح موعودؓ کے نام سے یاد کرتی ہے.خلافت حقہ اسلامیہ کے قیام کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ایک کو نیل نما جماعت کے تناور درخت بننے کے سامان پیدا کر دئے.خلافت احمد یہ اولی کے بعد قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر جب خلافت پر ممکن ہوئے تو چوطرفہ مخالفت نے دم توڑنا شروع کر دیا.جماعت احمدیہ کی آواز کو قادیان سے باہر نہ نکلنے دینے کا دعوی کرنے والے اس وقت بالکل پسپا ہو گئے.جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کا اعلان فرمایا تو مخالفین احمدیت کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی.صداقت کی آواز کو دبانے والوں نے دیکھا کہ یہ آواز دیکھتے ہی دیکھتے اکناف عالم میں پھیل گئی.آج دنیا کی کوئی تحریک اس تحریک کا مقابلہ نہیں کر سکتی.کسی بھی دیکھنے والے کو ایک رتی بھر بھی اس میں شک نہیں ہو سکتا کہ واقعی سیا ایک الہی تحریک تھی اور ہے.تحریک جدید کے آغاز سے لے کر اب تک خلفاء کرام اس عظیم الشان الہی تحریک کی غرض و غایت و فیوض و برکات پر خطبات وخطابات ارشاد فرماتے آرہے ہیں.ان خطبات وخطابات کو تسلسل کے ساتھ مرتب کر کے جلدوں کی شکل میں شائع کیا جارہا ہے.سیدنا حضرت خلیفہ اسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے اس جلد کو شائع کیا جارہا ہے.یہ چھٹی جلد سیدنا حضرت خلیفۃ اسبح الرائع کے 1982 سے لے کر 1984 تک کے خطبات پر مشتمل ہے.یہ جلد وکالت دیوان تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ نے مرتب کی ہے.اور اس کی پہلی اشاعت تحریک جدید کی طرف سے ربوہ میں ہوئی ہے.انہیں کی ذمہ داری پر نظارت نشر واشاعت قادیان اس کو ہندوستان کی ضرورت پر شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسکی اشاعت کو ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین ناظر نشر و اشاعت قادیان
سید نا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ المسیح الرابع حمہ اللہ تعالی (1928-2003)
نمبر شمار 01 02 03 04 05 06 07 08 09 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 عناوین +1982 اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ہمیں اپنی مساعی میں اضافہ کرنا چاہئے مبلغین سلسلہ کو نہایت اہم اور گراں قدر نصائح میں آج تمام ملکوں میں شوری کا نظام رائج کرنے کا اعلان کرتا ہوں تبلیغ کی ذمہ داری ہر احمد ی پر ہے تاریخ فرموده صفحه نمبر جماعتی نظام کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لئے ہر ملک میں مجلس شوری منعقد ہو گی 11.08.1982 ضروری ہے کہ اپنے نفوس میں ایک پاک تبدیلی پیدا کریں الیس الله بکاف عبده یورپ کا اخلاقی انحطاط اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہم اہل سپین کے لئے محبت کے سوا اور کوئی پیغام نہیں لائے مسجدوں کی تعمیر ایک بہت ہی مقدس فریضہ ہے خدمت اسلام کے تقاضے دنیا کے گوشے گوشے میں بلا رہے ہیں ایک احمدی کے لئے سب سے اہم بات اسلام کا پیغام ہے جب تک ہر احمدی مبلغ نہیں بن جاتا ، سیارے انڈونیشیا کو جیتا نہیں جا سکتا اسلام تمام بنی نوع انسان کی آخری پناہ گاہ ہے تراجم کتب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام 01 03 23.07.1982 11 06.08.1982 15 09.08.1982 17 19 23 20.08.1982 27 03.09.1982 31 10.09.1982 41 10.09.1982 55 21.09.1982 57 24.09.1982 61 29.09.1982 63 71 73 01.10.1982 79 08.10.1982 91 12.10.1982 95 105 15.10.1982 113 15.10.1982 i آپ ہی پر اسلام کے دفاع کی بنیاد ہے مربیان کرام کی عزت ، عہدیداران کے حقوق و فرائض قوم کی قوم کے دل اسلام کی طرف مائل ہو جانا، معمولی بات نہیں ترقیات کی نئی راہیں کھلنے پر سبھی جشن منانے یا بے فکر ہونے کی ضرورت نہیں 15.10.1982 احمدیت مستقل قربانیوں کا ایک لائحہ عمل ہے جب تک دنیا میں ہولناک تباہیاں نہ آئیں ، آخری انقلاب رونما نہیں ہوگا
دنیا کے ہر گوشے سے خدمت اسلام کے نئے تقاضے ہمیں اپنی طرف بلا رہے ہیں احمدی مستورات کو بھی تبلیغ کے جہاد میں حصہ لینا پڑے گا مسجد بشارت پین کی فلم اور ملکی قوانین ہم نے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو بارش کی طرح برستے دیکھا بیک وقت دو تین زبانیں جانے والے واقفین زندگی کی ضرورت آپ علوم کی دنیا میں لوگوں کے لئے سردار بنائے گئے ہیں اسلامی معاشرہ کو اختیار کیے بغیر ہم دنیا کے معاشرے کو بدل نہیں سکتے مختلف دینی و تربیتی موضوعات پر مختلف قسم کی ٹیمیں تیار کرنے کی ہدایت جماعت احمدیہ کے ذریعے تمام دنیا کے ادیان اسلام میں داخل ہو جائیں گے بیوت الحمد سکیم کا اعلان مساجد خالصہ اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر کے لیے مخصوص ہیں ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنے کا بوجھ، کوئی معمولی بوجھ تو نہیں تحریک جدید کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچتی تھی 05.11.1982 جو لطف وقف کی زندگی میں ہے، وہ کسی اور میں نہیں اہل یورپ کا مطالبہ ہم ہی نے پورا کرنا ہے 117 119 16.10.1982 135 16.10.1982 137 17.10.1982 157 18.10.1982 163 18.10.1982 175 22.10.1982 183 23.10.1982 195 26.10.1982 197 29.10.1982 199 201 04.11.1982 203 213 05.11.1982 223 06.11.1982 227 245 253 24.11.1982 255 25.11.1982 277 281 02.12.1982 293 03.12.1982 309 311 315 27.12.1982 335 30.12.1982 سوممالک میں احمدیت کی تبلیغ کے سلسلہ میں منصوبہ بندی تحریک جدید کا کام ہے 07.11.1982 اسلام کے ہزاروں لاکھوں بیٹے منتظر ہیں کہ احمدی عورتیں ان کو غیرت دلائیں 21.11.1982 غلبہ اسلام کی مہم آپ سے مالی جہاد کا مطالبہ کرتی ہے دنیا کی کوئی طاقت سپین کے بارے میں خدا کے فیصلے کو بدل نہیں سکے گی بکوشیداے جواناں تاہدیں قوت شود پیدا تحریک جدید کی ذمہ داریاں صد سالہ جوبلی کے نظام کا تعلق دراصل تحریک جدید سے ہے خدا کی نگاہ میں وہی احمدی شمار ہوگا، جو سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتا ہوگا جو خد افکریں پیدا کرتا ہے، وہی ان کو دور کرنے کے سامان بھی مہیا فرما دیتا ہے 17.12.1982 اسلام کا زندہ ہونا ، ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے تنفیذ کی ساری ذمہ داری اب تحریک پر آئے گی 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47
359 15.01.1983 383 28.01.1983 395 02.02.1983 399 09.02.1983 403 405 18.02.1983 407 23.02.1983 409 25.02.1983 411 04.03.1983 415 18.03.1983 419 02.04.1983 423 03.04.1983 431 15.04.1983 439 441 29.04.1983 443 02.05.1983 445 05.05.1983 447 449 453 457 27.05.1983 461 465 469 471 24.06.1983 $1983 سپین میں تلوار سے جو کچھ چھینا گیا تھا، ہم محبت سے دوبارہ فتح کریں گے تمام دنیا کے احمدیوں کو لاز ما مبلغ بننا پڑے گا ضرورت ہے کہ ہر احمدی اسلام کا مبلغ بنے تمام دنیا کے اہل علم احمدی اپنے آپ کو علمی مجاہدے کے لئے تیار کریں اپنی زندگیوں کو اسوہ حسنہ کے حسین سانچے میں ڈھالیں خوفناک وقت سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ تبلیغ کے کام کو تیز کریں جماعت اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے حیرت انگیز قربانیاں کر رہی ہے آپ ہی ہیں، جنہوں نے دنیا کو موت کے بدلہ زندگی بخشتی ہے احمدیت دنیا کو ہلاکتوں سے بچانے کا آخری ذریعہ ہے احمدیت کے غلبہ کی تقدیر، ایک اہل تقدیر ہے رشتہ ناطہ کے مسائل اور نظام جماعت کی ذمہ داری تحریک جدید کے مالی و دیگر مطالبات سے متعلق متفرق ہدایات فاستبقوا الخيرات صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے قیام کا مقصد غلبہ اسلام کی مہم کو تیز کرنا قرآن کریم میں بیان فرمودہ انبیاء کے رنگ ڈھنگ اختیار کریں خداوند کریم آپ سب خدام کو الداعی الی اللہ بنادے آنحضور کے اسوہ پر عمل کرنے سے ہی دنیا میں حقیقی انقلاب لایا جائے گا یورپ کو بتانا ہوگا کہ آپ کا طرز زندگی ان سے بہت بہتر ہے اپنی زندگیوں کے مقصود کو پانے کے لئے سیرت طیبہ کا مطالعہ اور پیروی کریں اپنے مقام کی شناخت کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہ کسی ایک قوم سے ہے، نہ کسی ایک زمانے سے داعی الی اللہ بن جاؤ اور دنیا کو سیح پاک کا پیغام پہنچا دو اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرے گا مسجد انسان کی اپنے خالق سے دلی محبت اور فدائیت کی زندہ علامت ہے متی نصر اللہ کا شور بلند کرد و 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72
ربوہ کے چندہ جات میں اضافہ کی بڑی گنجائش موجود ہے ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج ضروری ہے کہ داعی الی اللہ پیغام حق پہنچانے میں ہوش کا مظاہرہ کریں دنیا کو مخلصانہ خدمت کرنے والوں کی بے حد ضرورت ہے دنیا کی عارضی اور بے کیف لذات سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیں تن من دھن کی بازی لگا کر ہر فرد تک اسلام کا پیغام پہنچا ئیں گہرے غم میں لیٹی ہوئی خوشی کی خبر براعظم آسٹریلیا میں سب سے پہلی احمد یہ مسلم مسجد کی بنیاد رکھی جانے والی ہے 19.08.1983 احمدیہ جن کا مولیٰ اللہ ہو جائے ، ان کو لاز مافتح عطا ہوتی ہے اب ہم پر فیصلہ کن جہاد کی ساعت سعد آنی ہے، اس لیے تیار ہو جاؤ 26.08.1983 ہری مسجد کی تعمیر پر ایک نئے عزم کے ساتھ ہمیں عبادت پر قائم ہو جانا چاہیے 02.09.1983 انصار اللہ اس وقت واقعی اور حقیقی انصار بن جائیں جے تو میر اہور ہیں سب جگ تیرا ہو اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کے لئے ابراہیمی قربانیوں کا وقت ہے موجودہ مسائل کا یہی ایک حل ہے کہ ہم مشتر کہ اقدار پر اکٹھے ہو جائیں جماعت احمدیہ کے ذریعہ دین اسلام کو غالب کرنے کی کوششیں رنگ لائیں گی اگر آپ خدا والے بن جائیں تو سارے نبی کی تقدیر بدل جائے گی اسلام کی جو آزادی ہے، وہ دراصل اللہ کی غلامی میں ہے 473 27.07.1983 477 481 31.07.1983 483 05.08.1983 485 489 493 12.08.1983 499 503 519 523 527 529 09.09.1983 543 17.09.1983 545 17.09.1983 547 18.09.1983 549 21.09.1983 561 30.09.1983 577 595 05.10.1983 621 10.10.1983 629 637 14.10.1983 649 651 20.10.1983 655 21.10.1983 667 21.10.1983 آج کا دن جماعت احمدیہ اور آسٹریلیا کے لئے عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے 30.09.1983 اسلام کی امتیازی خصوصیات خدا کی محبت میں اور اسلام کی تبلیغ میں دیوانے بن جائیں جہاں جہاں احمدی آباد ہیں، وہ اپنے اندر نیکی پیدا کریں انشاء اللہ بہت جلد فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ہونے والے ہیں ہر احمدی کو داعی الی اللہ بننا ہو گا ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنا ، احمدیوں کی ذمہ داری ہے مشرق و مغرب ہر طرف رضائے باری تعالیٰ کے مواقع میسر ہیں نجھی قوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے قبول اسلام کے لئے بالکل تیار بیٹھی ہے 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 iv
100 دنیا کی گندی تحریکات کے مقابلہ کے لئے بچوں کی طرف سے تحریک چلانی چاہیے 22.10.1983 لجنہ اماءاللہ عالمی سطح پر یکساں اسلامی اقدار کے قیام کی نگرانی کریں جذبات کو واقعات سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے احمدی نوجوانو! اٹھو تم سے دنیا کی تقدیر وابستہ ہے تحریک جدید کو چاہیے کہ تمام مطالبات پر توجہ دے آسٹریلیا میں بکثرت ایسے دل ہیں، جو بڑی جلدی اسلام میں داخل ہوں گے 30.10.1983 غلبہ اسلام کے لئے سب سے بڑا ہتھیار جماعت احمدیہ کی روحانیت ہے بیوت الحمد سکیم ، صد سالہ سکیم کا حصہ 675 685 22.10.1983 695 23.10.1983 703 23.10.1983 709 28.10.1983 719 743 10.11.1983 747 11.11.1983 751 755 24.11.1983 761 765 769 773 - 775 27.12.1983 791 28.12.1983 793 795 801 803 31.12.1983 837 839 841 845 847 V 20.01.1984 تبلیغ اسلام کی جوت کو بجھنے نہیں دینا وہ دن دور نہیں، جب آسٹریلیا میں اسلام کا سورج پوری شان سے چمکے گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی عظیم دجالی فتنہ کی تباہی مقدر تھی احمدیت کے ذریعہ امت واحدہ کا تصور حقیقت کا روپ دھار لے گا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک فوج کے دو محاذ احمدیت کی کامیابی کے ساتھ ہی دنیا کا شاندار مستقبل وابستہ ہے فبای الاء ربكما تكذبن اے احمد یو! اپنی ہر کوشش دنیا میں عدل کے قیام کے لئے صرف کر دو مشن ہاؤسز و مساجد فنڈ انصار اللہ کو زبانیں سیکھنے کے لئے باضابطہ مہم چلانی چاہیے الہی جماعتیں پھولوں کی پیج پر سے گزر کر منزل مقصود کو نہیں پہنچا کرتیں متفرق معاملات کے متعلق نہایت اہم ہدایات +1984 اسلام کے لئے نئی روحانی مملکتوں کی تسخیر جاری رکھیے اسلام کے غلبہ کے حصول کی جدو جہد میں شکست کا تصور بھی دماغ میں نہ آئے خدا کی تقدیر ہے کہ سرزمین افریقہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں خاص رول ادا کرے گی انسانیت کو بچانے کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے بندگی کے ساتھ دعا کرنے کی عادت ڈالیں 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124
849 27.01.1984.851 857 30.03.1984.869 28.04.1984 871 01.05.1984 875 18.05.1984 883 30.05.1984: 885 01.06.1984 891 29.06.1984: 899 30.06.1984 901 903 13.07.1984 905 27.07.1984 907 10.08.1984 911 24.08.1984: 917 919 26.10.1984 935 09.11.1984: 945 11.11.1984 947 16.11.1984 955 959 961 985 993 1001 درد سے دعائیں کرتے رہیں جو آج اس غلبہ اسلام کے لئے سرگرداں ہیں ، عزت کا تاج ان کے سروں پر ہو گا واقفین زندگی کی ضرورت اور صد سالہ جو بلی فنڈ کی ادائیگی کی تلقین 125 126 127 دنیا کی ساری طاقتیں بھی مل کر آپ کو شکست نہیں دے سکتیں النبی جماعتیں، کسی حال میں بھی اپنے فرائض سے غافل نہیں رہتیں لوائے ما پنه هر سعید خواهر بود سلسلہ کے تمام کارکنوں کو اور تمام احباب جماعت کو محبت بھر اسلام لازماً جماعت احمد یہ جیتے گی امریکہ و یورپ کے مراکز کی تحریک پر والہانہ لبیک 128 129 130 131 132 133 Yours will be the final eid 134 آخر کار حقیقی عید آپ ہی کو عطا ہوگی 135 جماعت احمدیہ کے جذبہ قربانی کی چند مثالیں امام جماعت کی ہر تحریک پر لبیک کہہ کر نعمتوں اور برکتوں سے حصہ پائیں 136 137 احمدیت ، ساری دنیا سے مختلف ایک قوم بن کر ابھری ہے دنیا بھر میں تبلیغی ثمرات اور افضال الہی قربانیوں کے نتیجہ میں میسر آنے والی حقیقی عید تمہارے لئے ہی مقدر ہے دنیا میں کثرت سے جماعتوں کا پھیل جانا ، دفتر اول کی قربانی کی برکت ہے ساری کائنات مٹ سکتی ہے لیکن احمدیت کی روح نہیں مٹ سکتی دنیا کے تمام ممالک میں جماعتیں قرآن مجید حفظ کرنے کی طرف زیادہ توجہ دیں ایک ہی خدا ہو اور ایک ہی رسول ہو اور ایک ہی راجدھانی ہو اشاریہ 138 139 140 141 142 143 144 آیات قرآنیہ احادیث مبارکہ کلید مضامین اسماء مقامات کتابیات 145 146 147 148 149 150 iv
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد ششم پیغام بنام احباب جماعت جرمنی اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ہمیں اپنی مساعی میں اضافہ کرنا چاہیے پیغام بنام احباب جماعت جرمنی مکرم عبداللہ و اگس ہاؤزر، جو جرمنی کی جماعت کی نمائندگی میں حضرت خلیفة المسیح الثالث نور الله مرقدہ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے پاکستان ، ربوہ تشریف لائے ہوئے تھے، کی وساطت سے حضرت خلیفة المسیح الرابع نے جماعت احمدیہ جرمنی کو زبانی درج ذیل پیغام ارسال فرمایا:.جر من جماعت کے بھائیو، بہنو اور بچو! اللہ تعالیٰ نے اپناز بر دست معجزہ اور نشان ظاہر فرمایا ہے اور خلافت کو ہر خطرہ سے محفوظ کرتے ہوئے ، میری ذات میں ظاہر فرمایا ہے.ہماری جماعت کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے.اور ہر احمدی کو کوشش اور مجاہدہ میں بھی احیاء نوکرنا چاہیے.اور اسلام اور احمدیت کی ترقی اور سر بلندی کے لئے ہمیں اپنی مساعی میں بھی اضافہ کرنا چاہیے.( مطبوعه روزنامه الفضل 10 جولائی 1982ء بشکریہ: ماہنامہ اخبار احمد یہ مغربی جرمنی.جون 1982 ء ) 1
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 23 جولائی 1982ء مبلغین سلسلہ کو نہایت اہم اور گراں قدر نصائح خطاب فرمودہ 23 جولائی 1982ء حضرت خلیفة المسیح الرابع نے سرائے فضل عمر تحریک جدید کے لان میں باہر جانے والے مبلغین کرام کی دعوت میں جو خطاب فرمایا تھا، وہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:.تشہد و تعوذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا:.”ایسے مواقع پر جو صیحتیں کی جاتی ہیں، ان کا مقصد یہ نہیں کہ نصیحتوں کی کوئی کمی ہے.کیونکہ نصیحتیں تو سلسلہ میں بڑی کثرت سے موجود ہیں.قرآن کریم ، احادیث نبویہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات، خلفاء کے ارشادات اور اس کے علاوہ جب سے وقف کا نظام با قاعدہ طور پر جاری ہوا ہے، حضرت مصلح موعود کے ارشادات بالخصوص بہت کافی وشافی ہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی زائد بات سوچنے کی بھی گنجائش نظر نہیں آتی.تو مقصد یہ نہیں کہ نصیحتوں میں کچھ اضافہ کیا جائے.مقصد یہ ہے کہ بعض بھولی بسری نصیحتوں کو یاد کرایا جائے.اس نقطہ نگاہ سے چند ایک امور میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.مبلغ جب باہر جاتا ہے تو اس کے سامنے دو قسم کے اندھیرے ہوتے ہیں.ایک وہ، جو پیچھے چھوڑ کر جارہا ہے.اس میں اس پر کئی قسم کے اندیشوں کا ابتلاء ہوتا ہے کہ میرے پیچھے میرے خاندان والوں کا کیا بنے گا؟ اور کچھ آگے اندھیرے در پیش ہوتے ہیں.جہاں وہ جا رہا ہے، وہاں کے حالات سے وہ نا واقف ہوتا ہے اور نہیں جانتا کہ کس قسم کے لوگ ہیں؟ کس قسم کے حالات میں مجھے کام کرنا پڑے گا ؟ کیا کیا مقامی مشکلات سامنے آئیں گی؟ وہاں کے بگڑے ہوئے حالات کے پیدا کردہ ایسے حالات، جو مبلغ کو کام سے غافل کرنے میں یا اس کی توجہ کا رخ پھیرنے میں ایک کردار ادا کرتے ہیں.اس قسم کے اور بہت سے اندیشے اس کو لاحق ہوتے ہیں.ان دونوں قسم کے اندیشوں کا اول حل تو دعا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف خاص گریہ وزراری کے ساتھ توجہ کرتے ہوئے ، جو مبلغ دعا کرتا ہے، اس کے سارے اندھیرے روشنیوں میں بدل دیئے جاتے 3
خطاب فرمودہ 23 جولائی 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہیں.اس سے بہتر کوئی علاج نہیں ہے، کسی مشکل کا، کسی اندھیرے کا.پس دونوں پہلوؤں کو مد نظر ہوئے مبلغین کو دعا کرتے ہوئے رخصت ہونا چاہئے اور دعائیں کرتے رہنا چاہیے.پیچھے کے لحاظ سے اولاد کی تربیت کا مسئلہ سب سے بڑا ہے.جو بچے ماں باپ کے زیر نظر نہیں پلتے یا ماں باپ میں سے ایک ان میں سے نگران نہیں رہتا، ان کے لئے کئی قسم کی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں.ظاہری مشکلات تو ہوتی ہی ہیں لیکن سب سے زیادہ بڑی مشکل، جو میرے ذہن میں ہے، وہ تربیت کا فقدان ہے.اور اگر ایک زندگی وقف کرنے والے کو یہ ضمانت نہ ہو کہ اس کے بچے بھی اسی روح کے ساتھ بڑے ہوں گے، جس روح کی خاطر اس نے اپنا سب کچھ قربان کیا تو یہ بہت بڑی فکر کی بات ہے.اس لئے اس پہلو سے خاص طور پر دعا کریں.اور جہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے، تحریک جدید کا فرض ہے کہ وہ پوری طرح ہوشیار اور نگران رو کر ان کے بچوں کی روحانی تربیت کا انتظام کرتی رہے.اور اگر خدانخواستہ کہیں کوئی کمی دیکھے یا کوئی اندیشہ پیدا ہو تو بر وقت خلیفہ وقت کو اطلاع کرے کہ یہ حالات پیدا ہورہے ہیں.میں یہ زیادہ پسند کروں گا کہ مبلغ کو پہلے واپس بلا لیا جائے یا بچوں کو وہاں بھجوا دیا جائے ، بنسبت اس کے کہ ان کے بچوں کی تربیت خراب ہو.جو خود وقف کر کے ایک عظیم قربانی سلسلہ کے لئے پیش کر رہے ہیں.دوسرا پہلو ہے، بیرون ملک جا کر ان کو دعا کے علاوہ کیا کرنا چاہیے؟ اس ضمن میں، میں چند اصولی باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جب آپ کسی نئی جگہ جاتے ہیں تو ایک اندھیرانئی جگہ کا ذاتی اندھیرا ہوتا ہے.جس طرح دو پہر کو باہر سے کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو کچھ دیر تک آنکھوں کو Adjust کرنا پڑتا ہے، ماحول کے ساتھ.اس کے بغیر جو تیزی سے حرکت کرے گا ، وہ لازما ٹھو کر کھائے گا.اس لئے شروع میں آپ کی حرکت کی رفتار کنٹرول میں آنی چاہیے.فیصلوں کی رفتار آہستہ ہو جانی چاہیے.یہ جو خدا تعالیٰ کا قانون ہے، یہ ہر جگہ کام کرتا ہے.مثلاً کرکٹ میں وہ کھلاڑی، جو بہت تیز سٹروک بناتے ہیں، ان کو اگر opener کے طور پر بھیج دیا جائے تو وہ جاتے ہی آوٹ ہو جاتے ہیں.اوپنر کا ایک مزاج ہوتا ہے اور سلسلہ کے مبلغین میں سے ہر ایک کو اوپنر کے طور پر کام کرنا پڑے گا.اپنے آپ کو روکنا پڑے گا، فیصلوں میں تحمل پیدا کرنا پڑے گا.اور تحمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کرتا ہے کہ بظاہر ایک چیز نظر آگئی کہ میں نے اس کو یوں دیکھا ہے.محل اگر دل میں ہوگا تو انسان فیصلہ کرنے میں توقف کرے گا، دیکھنے کے باوجود.اور انتظار کرے گا کہ شاید کچھ اور پہلو ہوں، جو مجھے ابھی نظر نہ آئے ہوں.پس جب کسی نئے ملک میں مبلغ جاتا ہے تو اپنے 4
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 23 جولائی 1982 ء فیصلوں میں، اپنے تعلقات بنانے میں، اپنی preferences اپنی ترجیحات قائم کرنے میں جلدی سے کام نہ لے.اسی لئے میں نے ابھی آپ سے گذارش کی تھی کہ آپ فائلوں کا مطالعہ کر کے یہاں سے جایا ہیں، یہ بہت ضروری بات ہے.فیصلوں کے لئے بہت ساری روشنی آپ کو فائلوں سے مل جائے گی.پھر وہاں جا کر ہر ایک کی بات سنیں.اور آپ یہ دیکھیں گے کہ جاتے ہی مبلغ کے اردگرد ایک خاص دلچسپی لینے والوں کا گروہ اکٹھا ہو جائے گا.اس میں دو قسم کے آدمی شامل ہوں گے، ایک وہ جو حقیقتا مخلص ہیں اور ہر واقف زندگی سے للہی محبت رکھتے ہیں.مرکز کی طرف سے جو بھی آتا ہے، اس سے پیار کا اظہاران کی فطرت میں داخل ہے.کچھ وہ ہوں گے، جنہوں نے اس انتظار میں دن کاٹے ہوں گے کہ نیا مبلغ آئے اور ہم اس پر حاوی ہو جائیں.اور شروع میں ان کی محبتوں کا فرق کرنا بڑا مشکل کام ہے.سوائے اس کے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ خاص نور بصیرت عطا فرمائے اور وہ فوراً پہچان جائے کہ یہ اخلاص سچا ہے اور یہ جھوٹا ہے.اس لئے بھی ضروری ہے کہ فیصلے میں کوئی جلدی نہ کی جائے.دعا کرتے رہیں اور ہر ایک کی بات سنیں.اس کے بعد جب فیصلے کرتے ہیں تو فیصلے میں ایک گروہ کو پیچھے دھکیلنا اور دوسرے کو قریب کرنا شامل نہیں ہونا چاہیے.فیصلہ یہ ہونا چاہیے کہ جو گر وہ دور ہے، اس کو مصنوعی طور پر نہیں بلکہ حقیقتا قریب کیا جائے.اور مبلغ کا مقام پارٹی بازی سے بالا ہو جانا چاہیے.جہاں بھی مبلغ کسی پارٹی میں ملوث ہو جائے اور دوسرے فریق کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ یہ فریق بن گیا ہے، وہاں مبلغ کام کرنے کے اہل نہیں رہا کرتا.اس ضمن میں ایک باریک فرق ہے، جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں.نیک لوگ نیک لوگوں سے محبت کیا کرتے ہیں، یہ ایک طبعی امر ہے.اور فتنہ پردازوں سے ان کا دل نہیں لگتا.اس لئے یہ مراد نہیں ہے کہ آپ فتنہ پردازوں سے بھی اسی طرح گلے لگ کے بیٹھیں اور ان کی صحبتیں اختیار کریں.یہ ہرگز مراد نہیں ہے.یہ فطرت کے خلاف بات ہے کہ اس کی محبت برابر ہو جائے.لیکن محبت برابر نہ بھی ہو تو انصاف برابر ہو سکتا ہے.انصاف بنیادی چیز ہے.اگر انصاف برابر ہو جائے تو محبتوں کا برابر نہ رہنا، یہ ایک طبعی امر ہے.اور اس کا نام محبت رکھا ہی اس لئے گیا ہے کہ یہ دل کے معاملات ہیں، اس کا کسی قانون کے ساتھ تعلق نہیں.پس محبتوں میں اور انصاف میں فرق کریں.اگر کوئی منافق بھی ہو، اس کو یہ یقین ہو جائے کہ یہ مربی انصاف کے معاملہ میں سب کے ساتھ برابر ہے.جتنی سچی بات میں نے کی تھی ، اس کو یقینا اس نے اخذ کیا اور جو اس کے زیادہ پیارے ہیں بظاہر ان کے مقابل پر بھی میری کچی بات کو رد نہیں کیا گیا، اس لئے کہ میرے منہ سے نکلی ہے، اس کا رفتہ رفتہ ایک ایسا وقار قائم ہو جاتا ہے کہ اس 5
خطاب فرمودہ 23 جولائی 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریکہ کے نتیجہ میں اس کو قوت اور عظمت ملتی ہے.اور کچھ دیر کے بعد بیمار دلوں کو شفا ہونی شروع ہو جاتی ہے.لیکن اگر محبت اور انصاف کے معاملات کو مدغم کر دیا جائے اور اپنے ذہن میں ہی فرق نہ رہے کہ پیار کیا ہوتا ہے؟ اور انصاف کیا ہوتا ہے؟ تو ایسے لوگ ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتے ہیں اور طرح طرح کی مصیبتوں میں خود اپنے آپ کو مبتلا کر لیتے ہیں.پس ہر معاملہ میں انصاف قائم کریں.اور محبت کے تقاضے اسلامی قدروں کے مطابق پورے کریں، نہ کہ ذاتی قدروں کے مطابق.اسی سلسلے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بیرونی جماعتیں خاص طور پر اپنے حقوق نہیں جانتیں.اور بہت سے فتنے اس طرح پیدا ہوئے ہیں کہ مقامی جماعتوں کو اپنے حقوق کا علم نہیں تھا اور مبلغ نے ان کے حقوق ان کو بتائے بھی نہیں.اور جب وہ ایک معاملہ میں واقعتا دل میں یہ سمجھتے تھے کہ معلم یا مبلغ غلط کام کر رہا ہے اور اس کو طریق کار کا پتہ نہیں تھا کہ میں نے کس طرح رپورٹ کرتی ہے؟ اور کیا سلوک کرنا ہے؟ کیا میراحق ہے؟ کیا اس کا حق ہے؟ تو مبلغ چونکہ سب کچھ جانتا تھا ، ایسا بھی ہوا ہے، میں ہر مبلغ کی بات نہیں کر رہا، مگر مبلغین میں سے ایسے بھی تھے، جنہوں نے یہ کیا ، انہوں نے اپنے بہتر علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، اس کو مرکز کی نظر میں مجرم ثابت کر دیا، جو ان کا مخالف تھا.خواہ آغاز میں وہ حق بجانب بھی تھا.سلسلہ نے اپنی روایات کوملحوظ رکھ کر فیصلہ کیا اور پتہ چلا کہ فلاں شخص مجرم ہے کیونکہ اس نے نظام سلسلہ کو توڑا ہے، اس نے کھڑے ہو کر اپنے امیر کے متعلق ایسی باتیں کی ہیں، اس نے مخالفانہ رویہ اختیار کیا ہے، اسہ یہ ساری باتیں مرکز کی آنکھ تو دیکھتی ہے، اپنی سابقہ روایات کے نقطہ نظر سے.وہاں کے حالات کی نظر سے تو اس کو پتہ ہی نہیں چل رہا ہوتا کہ کیا ہے؟ جو مبلغ وہاں سے لکھ رہا ہوتا ہے، وہی تصویر یہاں بن رہی ہوتی ہے.تو ایسے مبلغ اگرفتوں کے بعد خوشی کے یہ شادیانے بجا ئیں کہ ہم کامیاب ہو گئے اور جماعت کا اتنا حصہ کاٹا گیا ، جس نے مخالفت کی تھی، اس کو اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا تو وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں.خدا کے نزدیک ہو سکتا ہے، وہ خود کاٹے گئے ہوں.اور وہ معصوم ، انہوں نے ان کی وجہ سے ٹھو کر کھائی ہے، اللہ کی نظر میں ہو سکتا ہے، ان کا مقام بہتر ہو.اس لئے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے حصے بخرے کرنے کے لئے نہیں جانا.اور حقوق کا معاملہ انصاف سے پھوٹتا ہے، اس لئے میں نے انصاف کے ساتھ اس کا ذکر کیا.انصاف کا اولین تقاضا یہ ہے کہ خواہ دشمنی ہو، خواہ معاملہ آپ کے خلاف جاتا ہو، جس کا جو حق ہے، اس کو خوب بتا ئیں اور کھول کر بتا ئیں.پہلے یہ سمجھا ئیں کہ تم نے یہ جو حرکت کی ہے، میرے خلاف رپورٹ کرنے میں، اگر یہ اس طرح مرکز میں جائے گی تو تمہارے خلاف 6
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 23 جولائی 1982ء فیصلہ ہوگا.یہ دستور ہے، سلسلہ کا تم اس طرح رپورٹ کرو، اس طرح تمہارے حقوق قائم ہوں تم میری معرفت ایک چٹھی لکھو.ایک براہ راست لکھو، اگر تمہیں خطرہ ہے کہ میں آگے بات نہیں پہنچاؤں گا.اور پھر یہ یہ کام کرو اور یہ یہ نہ کرو.مجھ سے لڑنا ہے تو سلیقہ میں تمہیں بتاتا ہوں لڑنے کا.جب پوری طرح انصاف کے ساتھ آپ ان کے حقوق اور ان پر جو آپ کے حقوق واجب ہیں، یہ بتا دیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اکثر فتنے وہیں ختم ہو جائیں گے..میں نے تبشیر کی فائلوں کا مطالعہ کیا.حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے احسانات میں سے ایک یہ تھا کہ انہوں نے پہلی ہدایت مجھے یہ دی اور اسی ہدایت کے پیش نظر آج میں نے آپ کو ہدایت دی ہے.جب تبشیر کا کام چند مہینے کے لئے میرے سپرد فرمایا تو مجھے بلا کر یہ کہا کہ پندرہ دن تم نے سوائے اس کے اور کوئی کام نہیں کرنا کہ ساری فائلیں پڑھ جاؤ.اور کچھ پوچھنے کی اور کچھ ہاتھ ہلانے کی ضرورت نہیں.ڈاک روزانہ نکلتی چلی جائے گی، مگر تم نے پہلے فائلیں پڑھنی ہیں.فائلوں کا ایک بڑا لمبا انبار تھا لیکن خدا نے توفیق دی.دن رات ایک کر کے میں پندرہ دن میں ان فائلوں میں سے گذر گیا.اور گذرنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ جس طرح اندھیروں میں سے روشنی میں آگیا ہوں.نہ دفتر کی محتاجی رہی، نہ رپورٹوں پر شکوک کا کوئی معاملہ رہا.نہ یہ پوچھنا پڑتا تھا کہ فلاں اچھا ہے، فلاں برا ہے؟ اور کیا حالت ہے وہاں کی ؟ اور یہ خطرہ کہ دفتر اپنے رحجانات کو اپنے افسر پر ٹھونس دے، اس خطرہ سے میں بالکل بالا ہو گیا.اور نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں سمجھتا ہوں کہ جب تک میں رہا ہوں، اللہ تعالیٰ نے صحیح فیصلوں کی توفیق عطا فرمائی.پس یہ انسان کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ وہ حالات سے واقف ہو.اس کے نتیجہ میں بہتر طریقہ پر انصاف کرنے کی توفیق ملتی ہے.تو جب آپ بیرون ملک جائیں گے، حالات سے واقف ہوں گے.اور جو میں نے بنیادی باتیں آپ کے سامنے رکھی ہیں، ان کے نتیجہ میں جماعت سے سلوک کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ تربیت کا جہاں تک مسئلہ ہے، ایک بہت بڑا مسئلہ آپ کا حل ہو چکا ہوگا.اور ایک بہت بڑا قلعہ فتح ہو چکا ہوگا.دوسرا پہلو ہے، تبلیغ کا.تبلیغ میں عموماً مبلغین جو غلطیاں کرتے ہیں، وہ بنیادی طور پر اپنے منصب سے ناواقفیت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.مبلغ کا منصب سپہ سالار کا ہے.مبلغ کا منصب سپاہی کا ہے.کتنا بڑا عالم ہو؟ کتنا زیادہ وقت خرچ کرے؟ دن رات مگن ہو جائے، اگر وہ فوج بنا کر اسے 7
خطاب فرمودہ 23 جولائی 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک آگے چلانے کی بجائے تلوار پکڑ کر خود میدان میں کود جاتا ہے تو وہ فوج بھی ماری گئی ، جس کا وہ سپہ سالار ہے اور وہ خود بھی مارا گیا.سلسلہ کے مبلغین کا منصب قلعہ فتح کرنے والے جرنیلوں کا منصب ہے.وہ منصب ہے، جو خیبر پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا ہوا تھا.اور بڑے بڑے مشکل قلعے ہیں، جو آپ نے سر کرنے ہیں.تو اس مقام کو مد نظر رکھیں.بجز کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنے منصب سے غافل ہو جائے.منصب کے تقاضوں سے پوری طرح باخبر رہنا، یہ فرائض میں داخل ہے.اور ان تقاضوں کے نتیجہ میں فخر نہ کرنا، بجز میں داخل ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے منصب کا بیان فرمایا تو کہیں کوئی تکلف سے کام نہیں لیا.لیکن ہر دفعہ فرمایا.ولا فخر.ولا فخر ولا فخر ولا فخر كه ميرا منصب یہی ہے اور میں اس کی ذمہ داریوں سے خوب واقف ہوں.لیکن جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، کوئی فخر نہیں.اللہ تعالیٰ کی دین ہے، اس نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے، اس لئے میں اس کے سارے حقوق و فرائض ادا کروں گا.پس مبلغ کو اپنے اعلی منصب سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے.اور جاتے ہی یہ جائزہ لینا چاہیے کہ جماعت میں کتنے دوست ہیں، جو سپاہی بنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کتنے ہیں، جو سپاہی بن چکے ہیں؟ کتنے ہیں، جن کا مقام اس سے اونچا چلا گیا ہے؟ اگر اس حکمت سے آپ کام کریں کے تو اللہ تعالٰی کے فضل سے فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ہونا شروع ہو جائیں گے.اور ساتھ ہی ان کی تربیت کا بھی انتظام ہو جائے گا.کیونکہ تربیت کا بوجھ پھرا کیلے مبلغ پر نہیں پڑے گا.جو مبلغ ہے، اس پر براہ راست تربیت کا بوجھ پڑا کرتا ہے.جو لے کر آئے گا، اس پر تربیت کا بوجھ پڑے گا.لیکن ان لوگوں کی تربیت کرنا، یہ آپ کا کام ہے.گویا تبلیغ کے سلسلہ میں دو قسم کے کام ہوتے ہیں.ایک رجمنٹ کی تیاری، رجمنٹ کے جو ہیڈ کوارٹرز ہوتے ہیں، وہاں تربیت دی جاتی ہے.دوسرا ان سے پھر آگے کام لینا، نئی بھرتی کرنا ، ان کو نکال کر ، مانجھ کر، صیقل کر کے آگے بھجوانا.اس میں جو بنیادی چھاپ ہے آپ کے مزاج کی، وہ آپ کے تیار کردہ مبلغین پر پڑے گی.اس لئے اس چھاپ کی آپ نے حفاظت کرنی ہے.کوئی غلط چھاپ نہ اس پر ڈال دیں.ورنہ بعد ازاں مصیبت پڑ جاتی ہے.کسی جگہ اور احمدیت پیدا ہورہی ہے، کسی ملک میں اور احمد بیت Develop ہو رہی ہے.اس لئے کہ کسی زمانہ میں کسی مبلغ نے اپنے ذاتی رحجانات کو احمدیت کی چھاپ بنا کر اس پر داخل کر دیا.احمدیت کی چھاپ وہی ہے، جو مرکز میں آپ نے دیکھی ہے.جو لمبی روایات کے نتیجہ میں ظاہر وباہر ہو کر آپ کے سامنے آچکی ہے.وہی چھاپ ہے، جس کو آپ نے ہر جگہ نہ ☑
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 23 جولائی 1982ء داخل کرنا ہے.اور نئی چھاپیں نہیں بنائیں.کیونکہ جب اپنے مزاج کی نیکی کا توازن بگڑنے کے نتیجہ میں آپ کسی نیکی کی طرف بھی زیادہ توجہ دے دیں گے تو وہ بھی نقصان دہ بن جائے گا.مثلاً بعض پہلوں میں جن پر یہاں زیادہ زور نہیں دیا جاتا ، جب آپ وہاں زیادہ زور دیں گے تو امام سے آگے نکل جائیں گے.ساری جماعت کا جو مرکزی نظام ہے، یہ بھی آپ کا امام ہے.ان معنوں میں، میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے امام سے آگے نکل جائیں گے.اور خطرات پیدا کر دیں گے مرکز کے لئے بھی اور ان جماعتوں کے لئے بھی.جب وہ باہر سے آتے ہیں، وہ یہاں آکر دیکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں اچھا، وہاں تو کوئی اور دین تھا اور یہاں کوئی اور دین.اور اس طرح فرقہ بندی رواج پکڑتی ہے.احمدیت ایک ہے.خدا ایک ہے، اس کے نیچے مذہب بھی ایک ہے.اس ایک مذہب کی چھاپ سارے ملکوں میں چلنی چاہیے.جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی چھاپ ہے.اور خاتمیت کے ایک یہ بھی معنی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان نقوش کو دوبارہ زندہ کر کے ہمارے سامنے پیش کیا ہے، جو امتدادزمانہ کی وجہ سے اوجھل ہو گئے تھے.پس اس چھاپ کی آپ نے حفاظت کرنی ہے.اور ہر شخص پر یہی لگانی ہے.ورنہ یہاں بھی ( بیرونی دنیا کا سوال نہیں ) پاکستان میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ اپنی کمزوریاں بھی اپنے ذریعہ سے داخل ہونے والے احمدیوں پر لگا دیتے ہیں.ٹھپہ وہ لگ جاتا ہے.بعض مبلغ جو چندوں میں کمزور تھے، ان کی پیدا کردہ جماعتوں کی جماعتیں چندوں میں کمزور ہیں.بعض جو عبادتوں میں کمزور تھے، ان کی پیدا کردہ جماعتوں کی جماعتیں عبادتوں میں کمزور ہیں.تو بہت بڑا خطرے کا مقام ہے.آپ جب خاتم النبین کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے خاتم النبین کو سچا مانا اور ہم ایمان رکھتے ہیں، کامل یقین رکھتے ہیں تو خاتمیت پر یقین کے ایک یہ بھی معنی ہیں.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی صفات کو دوسروں میں جاری کرنے کا ایک عظیم ملکہ عطا فر مایا گیا تھا.اور خاتم کی طرف منسوب ہونے والوں کے اندر وہ ملکہ ہونا چاہیے.اور نفوذ کرتے وقت وہ امین ہیں.اپنے ذاتی رجحانات کو نفوذ نہیں ہونے دینا.وہ امین ہیں اس خاتم کے، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم ہے.اور امین ہیں اس کی اس شکل کے، جو مرکز سلسلہ میں پیدا ہورہی ہے.جس کی حفاظت نظام سلسلہ کر رہا ہے.اگر اس دائرہ کے اندر آپ رہتے ہیں اور آپ کا ذاتی رجحان اس سے مختلف بھی ہوتا ہے، تب بھی آپ اپنے رحجان کو قربان کر دیتے ہیں اور یہ ذمہ داری مرکز پر چھوڑ دیتے ہیں کہ کہاں تک اس کا فیصلہ خاتمیت کے تصور میں درست تھا اور کہاں غلط تھا ؟ تو یہ تقویٰ کا اعلیٰ مقام ہے.اگر آپ یہ سمجھیں کہ نہیں، 9
خطاب فرمودہ 23 جولائی 1982 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک مرکز کی چھاپ غلط ہو گئی ہے اور ہمیں اس کو درست کرنا ہے تو آپ کو خدا نے اس منصب پر فائز نہیں کیا.جس منصب پر جو فائز نہیں ہوگا، اگر دخل دے گا تو لازماً نقصان اٹھائے گا.اپنا بھی نقصان کرے گا اور سلسلہ کا بھی نقصان کرے گا.پس ان مختصر ہدایات کے ساتھ اب میں دعا کر وا دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے فرائض کو بہترین رنگ میں ادا کرنے کی اللہ تعالیٰ سے توفیق پائیں اور دعائیں کرتے رہیں، ان سے کبھی غافل نہ ہوں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 107اکتوبر 1982ء) 10
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خلاصہ تقریر فرموده 06 اگست 1982ء میں آج تمام ملکوں میں شوریٰ کا نظام رائج کرنے کا اعلان کرتا ہوں تقریر فرموده 06 اگست 1982ء بر موقع مجلس شوری جماعت احمد یہ ناروے مجلس شوری کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا.بعد ازاں حضور نے اجتماعی دعا کروائی.دعا کے بعد حضور نے اراکین شوری سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.جماعت احمد یہ ناروے کے لئے آج کا دن (106 اگست 1982ء بروز جمعہ المبارک) ایک تاریخی دن ہے.کیونکہ آج بفضل اللہ تعالیٰ اس کی پہلی مجلس شوری منعقد ہو رہی ہے.جب قو میں پھیلتی ہیں اور قومی و جماعتی کاموں میں وسعت پیدا ہوتی ہے تو شوری کے نظام کو بھی وسیع کرنا ضروری ہوتا ہے.اب چونکہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریباً دنیا کے ہر ملک میں پھیل چکی ہے اور اس میں دن بدن وسعت پیدا ہورہی ہے، اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مرکزی مجلس شوری کی طرز پر ہر ملک میں بھی سال میں ایک بار مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا کرے اور وہ اہم مقامی امور پر غور کر کے خلیفہ وقت کو مشورے دیا کرے.حضور نے شوری کے قواعد وضوابط اور آداب سے اراکین شوری کو آگاہ کرنے کے بعد فرمایا:.جماعت احمدیہ کا مسلک بعینہ وہی ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلک تھا.اور آپ کا مسلک وہی تھا، جو خدا کی رضا کے عین مطابق تھا.آپ نے مختلف مواقع پر صحابہ سے مشورہ فرمایا.آپ کی اتباع میں خلفائے راشدین نے بھی شوری کا طریق اختیار کیا.اس لئے خلافت احمدیہ میں شوری کا نظام جاری ہے.آپ نے مزید فرمایا:.د لیکن شوری کے نظام کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ پہلے آسمان سے نور آتا ہے، جو لوگوں کی تطہیر کرتا ہے.اور جب ان کی تطہیر ہو جاتی ہے اور وہ مشورہ دینے کے اہل ہو جاتے ہیں تو پھر شوری کا نظام عمل میں آتا ہے.چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اے رسول! تو لوگوں کے دلوں سے گند دور کر اور ان کے نفس کا تزکیہ کر.اور جب ان کے نفوس کا تزکیہ ہو گیا تو آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان لوگوں سے جن کا تزکیہ ہو چکا ہے، انتظامی اور 11
خلاصہ تقریر فرموده 06 اگست 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم حکومتی امور میں مشورہ لے.اور بعد مشورہ جب تو کسی امر کے کرنے کا پختہ عہد کر لے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنے فیصلہ پر عمل پیرا ہو.حقیقت یہ ہے کہ جب تک سوسائٹی کو پاک نہ کیا جائے ، اصلاح کا کوئی کام کامیابی سے نہیں چل سکتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے تزکیہ کا حکم دیا.اور جب لوگوں کا تزکیہ ہو گیا تو ان سے مشورہ کا مرحلہ آیا.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو مروجہ جمہوریت سراسر بے معنی ہے.لوگ اس قابل نہیں ہوتے کہ اپنا لیڈر منتخب کر سکیں.لیکن اہلیت پیدا کرنے سے پہلے ہی انہیں یہ حق مل جاتا ہے.کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ جمہوریت نام ہے لوگوں کی حکومت کا.جولوگوں کے لئے ہو اور حکومت بھی کی جائے انہیں کے ذریعہ اور واسطہ سے لیکن جمہوریت کے نتیجہ میں جو حکومتی نظام معرض وجود میں آتا ہے، اس پر ان تینوں میں سے ایک بات بھی صادق نہیں آتی.نہ وہ عوام کی حکومت ہوتی ہے، نہ عوام کے لئے ہوتی ہے اور نہ وہ عوام کے ذریعہ سے بروئے کار آتی ہے.اس لئے مروجہ جمہوریت جھوٹ اور فسادکا ذریعہ ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتی.اور اس کی حیثیت از اول تا آخر دھوکہ سے زیادہ نہیں ہوتی.اس لئے خدا تعالیٰ جب نبی بھیجتا ہے تو وہ لوگوں کا تزکیہ کر کے پہلے انہیں چنے اور منتخب کرنے کا اہل بناتا ہے.پھر وہ نبی کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کسی کو اپنا امام اور پیشوا منتخب کرتے ہیں.اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی کے مطابق خلافت کا نظام معرض وجود میں آتا ہے.اور خلیفہ اہل لوگوں سے مشورہ طلب کرتا ہے.اصل خليفة الله محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.خلافت آپ کے واسطہ سے کل کے طور پر قائم ہوتی ہے اور آپ کے طریق پر ہی گامزن رہتے ہوئے جملہ امور سر انجام دیتی ہے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ تم نے میرا بھی نمائندہ بننا ہے اور ان لوگوں کا بھی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے شَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فرما کر لوگوں سے مشورہ لینے کا بھی حکم دیا اور ساتھ ہی فرمایا:.* فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ یعنی جب تو کسی امر کا فیصلہ کرلے تو عمل اپنے فیصلہ پر ہی کر.یہ ہے شوریٰ کا وہ نظام، جو اللہ تعالٰی نے محد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قائم فرمایا.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو منتخب کرنے کا حق ، جن سے مشورہ لیا جائے ، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فر مایا.اس سے بہتر ڈیموکریٹک طریق انتخاب کا اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ حقیقی بصیرت 12
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ تقریر فرموده 06 اگست 1982ء مرصع انسان کامل شوری کے لئے لوگوں کو خود چنے.اب چونکہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں پھیل چکی ہے اور ایسے جماعتی مسائل پیدا ہو چکے ہیں، جو عالمی نوعیت کے ہیں.اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ مختلف ملکوں کی جماعتوں کو شوری کی تربیت دی جائے.اگر انہیں شوری کی تربیت نہ دی گئی تو خطرہ ہے کہ کہیں بعض ملکوں کی سوچ غلط راہ پر نہ چلی جائے.اور وہ ڈیموکریسی جمہوریت ) کو ہی شورائی نظام نہ سمجھ لیں.اس لئے میں آج تمام ملکوں میں شوری کا نظام رائج کرنے کا اعلان کرتا ہوں.شوری کے اراکین کا انتخاب ہر ملک کا مبلغ انچارج یا امیر (اگر مبلغ انچارج ہی امیر ہو ) کرے گا.لیکن یہ شوری مبلغ انچارج کی نہیں بلکہ خلیفہ وقت کی شوری ہوگی.شوری کے تمام فیصلے مشوروں کی شکل میں منظوری اور فیصلے کے لئے خلیفہ وقت کے پاس جائیں گے.مبلغ کو ویٹو کا حق نہیں ہو گا.اختلاف کی صورت میں وہ اپنے دلائل کے ساتھ دیگر فیصلوں کے ساتھ اس فیصلہ کو بھی خلیفہ وقت کے پاس بھیجے گا.حضور نے فرمایا:.” مجھے امید ہے، شوری کا یہ نظام ہر ملک کی جماعت احمدیہ کے لئے روحانی جذبہ کو ابھارنے (Spiritual excitement) کا موجب ہوگا.انشاء الله العزيز وبالله التوفيق ( مطبوعه روز نامه الفضل 15 ستمبر 1982ء) 13
تحریک جدید - ایک الہی تحریک تبلیغ کی ذمہ داری ہر احمدی پر ہے خلاصہ تقریر فرموده 09 اگست 1982 ء تقریر فرموده 09 اگست 1982ء بر موقع مجلس شوری جماعت احمد یہ سویڈن عام بحث کے اختتام پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمه الله نے اراکین شوری سے خطاب فرما کر انہیں بیش قیمت نصائح سے نوازا.اپنے خطاب کے دوران حضور نے علی الخصوص اس امر پر زور دیا کہ د تبلیغ کرنا، مشنری کی ذمہ داری نہیں ہے.بلکہ اس کی ذمہ داری ہر احمدی پر عائد ہوتی ہے.جب تک ہر احمدی مبلغ نہیں بنے گا اور تبلیغ نہیں کرے گا، اس وقت تک احمدیت غالب نہیں ہوگی.حضور نے فرمایا:.ایک طریق تبلیغ کا یہ ہے کہ مبلغ مقرر کر دیئے جاتے ہیں، ان کی مساعی کے نتیجہ میں دس سال میں ایک یا دو سویڈش اور دو، تین یوگو سلووین احمدی ہو جاتے ہیں.اس طرح تو ایک کروڑ سال میں سویڈن احمدی ہو سکے گا.اس دنیا کے لئے ٹائم سکیل اللہ تعالیٰ نے سات ہزار سال رکھا ہے.اس طریق پر ہی اکتفا کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ صداقت غالب ہی نہیں آسکے گی.یہ طریق اللہ کا طریق نہیں ہے.اس کے لئے تو ہر احمدی کو Productive Cell بننا پڑے گا.ہر احمدی یہ عہد کرے گا کہ وہ سال میں ایک احمدی بنائے گا.اور تم میں سے ہر ایک اس کے لئے خدا کے سامنے جواب دہ ہوگا.اگر یہ روح آپ میں سے ہر ایک میں پیدا ہو جائے تو سویڈن میں احمدیت بہت جلد پھیل جائے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی طریق اختیار کیا.آپ نے لوگوں کو صرف مسلمان نہیں بنایا بلکہ ہر ایک کو مبلغ بنایا.اور آگے ہر مبلغ دوسروں کو مبلغ بناتا چلا گیا.اسی لئے میں کہتا ہوں کہ تبلیغ کی ذمہ داری ہر احمدی پر ہے.اور اس کا فرض ہے کہ وہ ڈبل ہونے کی کوشش کرے.پس ڈبل ہونے کا عہد اپنے خدا سے کرو.اور یہ عہد پورے خلوص اور عزم کے ساتھ کرو.اور اس کے سامنے اپنے آپ کو جوابدہ بناؤ.تم یہ عہد کرو ، خدا ضرور تمہاری مدد کرے گا.اللہ پر توکل کرو، اس سے دعائیں مانگو اور کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو.اگر تم ایسا کرو گے تو خدا ضرور تمہیں اس کی توفیق دے دے گا کہ تم ڈبل ہوتے چلے جاؤ“.مطبوعه روزنامه الفضل 11 اکتوبر 1982ء) 15
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خلاصه تقریر فرمود ه 11 اگست 1982 ء جماعتی نظام کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لئے ہر ملک میں مجلس شوری منعقد ہوگی تقریر فرمودہ 11 اگست 1982ء بر موقع مجلس شوری جماعت احمد یہ ڈنمارک حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمه الله نے فرمایا:." آج ڈنمارک کی پہلی مجلس شوری ہو رہی ہے.آئندہ ہر سال ہر ملک میں اس کی مجلس شوری منعقد ہوا کرے گی.تا کہ جماعتی نظام کو اسلامی خطوط پر چلانے میں افراد کی تربیت ہو سکے.اور ہر ملک میں جماعتی نظام کو اسی طرح چلایا جائے ، جس طرح مرکز میں چلایا جاتا ہے.مرکز میں مجلس شوری تین دن تک جاری رہتی ہے.پہلے دن سب کمیٹیوں کا تقرر عمل میں آتا ہے، وہ ایجنڈے کی تجاویز پر غور کر کے اپنی رپورٹ شوری میں پیش کرتی ہیں.اس رپورٹ کی روشنی میں شوری کے ممبران اپنا اپنا مشورہ پیش کرتے ہیں.اور مشورہ جو آخری اور معین شکل اختیار کرتا ہے، اسے خلیفہ وقت کے سامنے بغرض منظوری پیش کیا جاتا ہے.جس پر خلیفہ وقت اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے.جہاں تک سب کمیٹیوں کے تقررکا تعلق ہے، وقت کی کمی کی وجہ سے سردست ہم اس پر عمل نہیں کر سکیں گے.میں ایجنڈا پڑھ کر سنادوں گا.اس کے بعد مختلف تجاویز پر علیحدہ علیحد ہ عام بحث ہوگی.جس ممبر سے مشورہ طلب کیا جائے گا، وہ مخاطب صرف خلیفة المسیح کو کرے گا اور سب ممبران اسے سنیں گئے.حضور نے اراکین شوری کے مشورے سننے کے بعد فرمایا:.زیر غور امور کے متعلق بعض مفید تجاویز پیش کی گئی ہیں.لیکن بالخصوص تبلیغی امور سے متعلق صحیح تجاویز مرتب کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ڈینش سوسائٹی اور اس کے مختلف حصوں اور ان کے باہمی تعلقات کے بارہ میں صحیح معلومات اور اعداد و شمار مرتب کئے جائیں.اور ان کی روشنی میں تجاویز مرتب ہوں.اس لئے مناسب یہ ہے کہ سر دست ایک کمیٹی بنادی جائے.یہ ایک سٹینڈ نگ پلاننگ کمیٹی ہوگی.یہ کمیٹی ہرسہ زیر غور امور کے متعلق تجاویز مرتب کر کے مجھے بھیجے گی.اور میری منظوری کے بعد ڈنمارک کی مجلس عاملہ ان تجاویز کوعملی جامہ پہنائے گی اور ان پر عملدرآمد کی وہ زمہ دار ہوگی.17
اقتباس از خلاصه تقریر فرموده 11 اگست 1982 شکر تحریک جدید - ایک الہی تحریک مالی امور پر بحث کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بعض لوگ لازمی چندہ جات تو ادا نہیں کرتے مگر دوسری مالی تحریکات میں حصہ لیتے ہیں یا صدقہ کے طور پر بعض رقوم دیتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا:.جولوگ لازمی چندہ ادا نہیں کرتے اور دوسرے چندوں میں حصہ لے لیتے ہیں، ان سے کسی قسم کا کوئی دوسرا چندہ نہ لیا جائے.حتی کہ صدقہ کی رقم بھی نہ لی جائے.یہ ایک بنیادی اصول ہے، اس کی پابندی ضروری ہے.دوسری ہدایت حضور نے اس ضمن میں یہ دی کہ مرکز کے منظور شدہ چندوں کے علاوہ کوئی اور چندہ ممبران سے نہ مانگا جائے.سوائے اس کے کہ اس کی پیشگی منظوری خلیفہ وقت سے حاصل کر لی گئی ہو.ہمیں تعداد اور رقم کی پرواہ نہیں ہے.ہم کوالٹی (یعنی کیفیت) کے قائل ہیں.18 مطبوعه روزنامه الفضل 13 اکتوبر 1982ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع آل کشمیر احمد یہ مسلم کا نہ ضروری ہے کہ اپنے نفوس میں ایک پاک تبدیلی پیدا کریں پیغام بر موقع آل کشمیر احمد یہ مسلم کانفرنس منعقد ہ 15،14 اگست 1982ء جان سے پیارے بھائیو اور بہنو! بسم الله الرحمان الرحيم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اگست کے مہینہ میں جماعت احمدیہ کشمیر سری نگر میں آل کشمیر احمد یہ مسلم کانفرنس کے انعقاد کی خبر سے مجھے بہت خوشی ہوئی.الحمد للہ کہ علاوہ ازیں بھی وادی کے مختلف مقامات پر تبلیغی جلسے منعقد کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے.خدا تعالیٰ جماعت کے اس پروگرام کو ہر طرح کامیاب فرمائے.کانفرنس اور جلسے بہت بابرکت ثابت ہوں، ان میں شامل ہونے والے ہمارے رب کی رحمتوں اور اس کے فضلوں میں حصہ دار بنیں.آپ نے خواہش کی ہے کہ میں اس موقع پر کوئی پیغام دوں.میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی تبلیغی پروگرام اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا، جب تک تبلیغ کرنے والے اور حق کی طرف بلانے والے کا اپنا کردار اخلاق کے اعلیٰ معیار کے مطابق نہ ہو.پس جب آپ حق کی تبلیغ کا بیڑا اٹھارہے ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نفوس میں ایک پاک تبدیلی پیدا کریں.برے اخلاق اور بری باتوں کو چھوڑ کر اخلاق فاضلہ اور اچھی عادات اپنے اندر پیدا کریں.یاد رکھیں، میں یہاں بیٹھا براہ راست آپ کی نگرانی نہیں کر سکتا.لیکن ہمارا خدا ہر آن آپ کے اعمال پر نظر رکھ رہا ہے اور دلوں کے بھید سے بھی واقف ہے.دو باتیں، جن کی طرف آج میں خصوصی توجہ دلانا چاہتا ہوں، ان میں سے ایک تکبر ہے اور دوسرے باطنی.یہ دونوں برائیاں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں ہمیں بار بار متنبہ کیا ہے.چنانچہ تکبر کا ذکرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو.کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے؟ پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی روح سے بولتا ہوں.ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس 19
پیغام بر موقع آل کشمیر احمد یہ مسلم کا نفرنس تحریک جدید - ایک الہی تحریک لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یازیادہ عقل مند یا زیادہ ہنرمند ہے، وہ متکبر ہے.کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اس کو دیوانہ کر دے اور اس کے اس بھائی کو، جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے، اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے.ایسا ہی وہ شخص، جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے، وہ بھی متکبر ہے.کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اس کو دی تھی.اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو ، جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے، اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے، وہ بھی متکبر ہے.اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے اور وہ، جس کی تحقیر کی گئی ہے، ایک مدت دراز تک اس کے قومی میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں.کیونکہ وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے.سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یاد رکھو، ایسانہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالی کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو.ایک شخص، جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے، اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص، جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے، اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک غریب بھائی، جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے، اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.اور وہ، جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا، اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ، جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا، اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو، تاکہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل وعیال سمیت نجات پاؤ.خدا کی 20
تحریک جدید- ایک اٹھی تحریک....جلد ششم پیغام بر موقع آل کشمیر احمد یہ مسلم کا نفرنس برموقع طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے ہم اس سے کرو.اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے، تم اپنے خدا سے ڈرو.پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر ، تا تم پر رحم ہو.وه ( نزول مسیح صفحه 26,27 روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 402,403) بدظنی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.بدظنی ایک ایسا مرض ہے اور ایسی بری بلا ہے، جو انسان کو اندھا کر کے ہلاکت کے ایک تاریک کنویں میں گرا دیتی ہے.بدظنی ہی ہے، جس نے ایک مردہ انسان کی پرستش کرائی.بدظنی ہی تو ہے، جولوگوں کو خدا تعالیٰ کی صفات خلق، رحم، رازقیت وغیرہ سے معطل کر کے نعوذ باللہ ایک فرد معطل اور شئے بے کار بنا دیتی ہے.الغرض ایسی بدظنی کے باعث جہنم کا بہت بڑا حصہ اگر کہوں کہ سارا حصہ بھر جائے گا تو مبالغہ نہیں“.لملفوظات جلد اول صفحه (62) پھر فرماتے ہیں:.میں سچ کہتا ہوں کہ بدظنی بہت ہی بری بلا ہے، جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے.یہ بہت ہی خطرناک بیماری ہے، جس سے انسان بہت جلد ہلاک ہو جاتا ہے.اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:.دیکھ کر بھی بد کو بچو بد گمان سے ڈرتے رہو عقاب خدائے جہان سے شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شاید وہ ہار نہ ہو جو تمہیں ہے وہ بار ( ملفوظات جلد اول صفحہ 246,247) نما شاید تمہاری فہم کی ہی کچھ قصور ہو شاید آزمائش غفور ہو پھر تم تو بد گمانی سے اپنی ہوئے ہلاک خود سر پہ اپنے لے لیا خشم خدائے پاک 21
پیغام بر موقع آل کشمیر احمد یہ مسلم کا نفرنس تحریک جدید - ایک البی تحریک پس ہماری ہر وقت یہ دعا اور یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا مولیٰ ہمیں تکبر اور بدظنی سے بچائے.ہمیں ہر بری عادت ترک کرنے اور اچھی عادت اختیار کرنے کی توفیق بخشے.اے میرے پیار و اور میرے آقا کے مقدس درخت وجود کی سرسبز شا خو! میرا رب تمہیں ہمیشہ سرسبز اور شاداب رکھے، ہمیشہ تمہیں اپنی پناہ میں رکھے، تمہاری مشکلات دور فرمائے تمہیں اپنی رضا، اپنے پیار اور اپنی رحمت سے نوازے.آمین والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد 22 (مطبوعه روزنامه الفضل 09 اکتوبر 1982ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 20 اگست 1982ء اليس الله بکاف عبده خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اگست 1982ء جماعت احمدیہ پر مختلف ادوار ایسے آتے رہے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی آزمائشوں کا دور ہوتا تھا.اور مخالفتوں کے ایسے ایسے خطرناک زلزلوں اور ابتلاؤں میں سے جماعت گزرتی رہی کہ دشمن یہ سمجھتا تھا کہ یہ عمارت اب منہدم ہونے کو ہے.چنانچہ وہ لوگ، جن کے چھوٹے دل اور سطحی نظریں تھیں، انہوں نے خوشیوں کے شادیانے بجانے شروع کر دیئے اور یہ مجھنے لگے کہ یہ چند دن کی بات ہے، اس کے بعد دنیا میں جماعت کا کوئی نشان نہیں ملے گا.یہ خدا کا فضل واحسان ہے کہ ابتلاء کے ہر دور کے بعد جماعت نے پہلے سے مختلف نظارہ دیکھا.دشمنوں کی جھوٹی خوشیاں پامال کی گئیں اور جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے نیا استحکام بخشا بنی تمکنت عطا فرمائی، نئے ولولے بخشے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے احباب جماعت کے دلوں میں نئی امنگیں ڈالی گئیں اور وہ نئی منزلوں کی طرف پہلے سے زیادہ تیز قدموں کے ساتھ روانہ ہوئے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے، جو ہر دور میں اسی طرح ظاہر ہوئی ہے اور ہمیشہ اسی طرح ظاہر ہوتی رہے گی.کوئی نہیں، جو اس خدائی تقدیر کو بدل سکے.اس ضمن میں کچھ تقاضے ہم سے بھی ہیں.یہ وفا کے تقاضے ہیں.صبر کے تقاضے ہیں.استقلال کے ساتھ اپنے رب کی راہوں پر گامزن رہنے کے تقاضے ہیں.اس کی ہر رضا پر راضی رہنے کے تقاضے ہیں.خواہ جنگی کی صورت ہو یا آسانی کی صورت، ہر حال میں رب کریم کے حضور سر تسلیم خم کرنے کے تقاضے ہیں.اگر ہم یہ تقاضے پورے کرتے رہے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو ہمیشہ پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ ہمارے حق میں پورا کرتا رہے گا.جرمنی کی جماعت اس پہلو سے خدا کا ایک زندہ نشان ہے.اس سفر پر روانہ ہونے سے پہلے میں نے 1974ء سے پہلے کا چندے کا ریکارڈ نکلوایا اور پھر 74ء کے بعد کے چندے کا ریکارڈ دیکھا.تو یوں معلوم ہوا کہ پہلے دور کو بعد کے دور سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے.یہ وہ ملک ہے، جہاں کی جماعت احمد یہ بعض اوقات خود کفیل بھی نہیں ہوتی تھی.اور جسے باہر کی جماعتوں کے ذریعہ مدددینی پڑا کرتی تھی.اور جو وو 23
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 20 اگست 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم تھوڑ اسا چندہ آہستہ آہستہ بڑھتا رہا، وہ بمشکل اس مقام تک پہنچا کہ یہ جماعت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے.پھر وہ زلزلے آئے ، جن کا میں نے ذکر کیا.پھر اللہ کی راہ کے مہاجرین اپنے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اس ملک میں آکر اللہ کے فضلوں اور رحمتوں کے سہارے پر انہوں نے پناہ لی.خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا سایہ وہ اپنے ساتھ لے کر آئے تھے.نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھتے دیکھتے اس ملک کی جماعت احمدیہ کی کایا پلٹ گئی.چنانچہ یہ جماعت، جو بعض دفعہ اپنے کام چلانے کے لئے دوسری جماعتوں کی مرہون منت ہوا کرتی تھی، نہ صرف خود کفیل ہو گئی بلکہ اس نے کئی دوسری جماعتوں کے بوجھ اٹھالئے.اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے یورپ کی ان جماعتوں میں شمار ہوتی ہے، جو اپنے بوجھ اٹھانے کے بعد باہر کی جماعتوں کے بوجھ بھی اٹھا رہی ہیں.چنانچہ جہاں کہیں بھی سلسلہ کو ضرورت پیش آتی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی کی جماعت کے چندہ میں سے ایک خطیر رقم اس طرف منتقل کر دی جاتی ہے.پس یہ ہے، وہ الہی نشان اور اس کے فضلوں کا وہ پہلو، جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ اپنے رب کے شکر گزار بندے بنیں.اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جرمنی کی جماعت کے اکثر نوجوان بڑی مشکلات میں سے گزر رہے ہیں اور گزرتے رہے ہیں.میرے دل میں ان کے لئے خاص طور پر محبت کے جذبات موجزن ہیں.اس لئے کہ انہوں نے پیش آمدہ مشکلات کے باوجود خدا کے حقوق ادا کئے اور سخت مشکلات میں سے گزرتے رہنے کے باوجود حمد باری سے ان کے سینے معمور اور یاد الہی سے ان کی زبانیں تر رہیں.اور جب کبھی خدا کی خاطر ان سے مالی قربانی کی اپیل کی گئی تو انہوں نے اس بارہ میں کسی قسم کی کنجوسی نہیں دکھائی.بہت سے ایسے دوست بھی ہیں، جو خدا کے فضل سے موصی ہیں، جو شرح کے مطابق اپنے چندے ادا کرتے ہیں.ان کے حالات اپنے ملک میں ایسے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ واپس جا کر ان کا کیا بنے گا؟ بعض دوستوں کے حالات جرمنی میں ایسے ہیں کہ ان کا سارا مستقبل بظاہر مخدوش نظر آتا ہے.لیکن جب خدا کی خاطر ان کو اپنے پاک مالوں سے جدا ہونے کی اپیل کی جاتی ہے، جو انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ پاکیزہ رزق کے طور پر کمائے ہوتے ہیں تو بڑے کھلے دل کے ساتھ وہ خدا کی راہ میں ان عزیز مالوں سے جدا ہوتے ہیں.وہ یہ سوچتے ہوں گے کہ ہمارا کیا بنے گا؟ میں ان کو بتا تا ہوں کہ ان کا وہی بنے گا، جو ہمیشہ خدا کے بندوں کا بنا کرتا ہے.اللہ ہی ہے، جوان کا کفیل ہے.اللہ ہی تھا، جو ان کا کفیل تھا.اور اللہ ہی ہے، جو آئندہ بھی ہمیشہ ان کا کفیل رہے گا.ان کی قربانیاں ان کے مستقبل کی ضمانتیں ہیں.24
تحریک جدید- ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 20 اگست 1982 ء اور اس سے بہتر ضمانت دنیا میں اور کسی قوم کو نصیب نہیں ہو سکتی.وہ لوگ، جو خدا کی راہ میں قربانیوں سے نہیں ڈرا کرتے، اللہ خودان کا نگہبان ہو جاتا ہے، وہ خودان کا نگران بن جاتا ہے.جرمنی میں پریس کا نفرنسز میں لوگوں کے پوچھنے پر میں ان کو بتا تا رہا کہ یہ انگوٹھی ، ( جو حضور نے اس وقت پہن رکھی تھی.مرتب ) وہ انگوٹھی ہے، جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں میں تھی.میں ایک گنہ گار اور عاجز انسان ہوں.میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ مقدس انگوٹھی اس گنہ گار کی انگلی میں آئے گی.لیکن خدا کی تقدیر نے یہی ظاہر فرمایا.اس انگوٹھی کا پیغام ، وہی پیغام ہے، جو میں آپ کو دے رہا ہوں.وو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے بھی یہی پیغام تھا.خدا نے فرمایا:.اليس الله بکاف عبده کہ اے میرے بندے! آج تو تو ہے دنیا میں میری عبادت کا خلاصہ تجھے وہم کیسے پیدا ہوا کہ میں تجھے ملنے دوں گا.میں نے اپنے عبادت گزار بندوں سے تو کبھی بے وفائی نہیں کی.پس جرمنی کے احباب جماعت کے لئے بھی میرا یہی پیغام ہے کہ آپ اليس الله بکاف عبده کا فیض اٹھاتے رہے ہیں، اب بھی اٹھارہے ہیں اور انشاء اللہ ہمیشہ اٹھاتے رہیں گے.لیکن اس کے ساتھ عبادت کا بھی تو حق ادا کیجئے.کیونکہ اس الیس اللہ کی روح عبادت میں مخفی ہے.اليس الله بکاف عبده میں ایک پیغام ہے کہ جب تک دنیا میں خدا کی عبادت قائم رہے گی اور جب تک اللہ سے محبت کرنے والے دل دھڑکتے رہیں گے اللہ کے فضلوں کی ہمیشہ کے لئے ضمانت ہے.اور اس ضمانت کو دنیا میں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.پس جہاں خدا تعالیٰ نے آپ کو مالی قربانیوں کی توفیق بخشی ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں آپ نے اپنے عزیز مال فدا کرنے کی سعادت پائی ہے، وہاں اس بات کو بھی فراموش نہ کریں.اگر آپ نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا تو یہ رحمتیں اور یہ برکتیں عارضی ثابت ہوں گی.آپ کے ساتھ کچھ دیر چلیں گی ، پھر آپ کی اولادوں کے حصہ میں نہیں آئیں گی.اس لئے سب سے اہم اور بنیادی پیغام، جو میں آپ کے لئے لے کر آیا ہوں ، وہ یہی ہے کہ خدا کی عبادت کو قائم کریں.ہر دل ، وہ عابد دل بن جائے، ہر شخص خدا کا 25
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 20 اگست 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم ایسا عبادت گزار بندہ بن جائے کہ ہر ایک احمدی فرد کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خدا کے فرشتے یہ آواز بلند کر رہے ہوں کہ: اليس الله بکاف عبده اليمن الله بكاف عبده اليس الله بکاف عبده اليمن الله بكاف عبده یہی ہے ہماری زندگی کا راز.اسی میں جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی ہے.اسی میں ہم سب کی انفرادی زندگی ہے.اس لئے عبادت کی لذت حاصل کرنے کی کوشش کریں.وو پیس یاد رکھیں، یہی وہ طاقت ہے، جس کے بل بوتے پر احمدیت نے دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے.یہی وہ ذریعہ ہے، جس سے احمدیت کی گاڑی رواں دواں رہے گی.پس احمدیت کی اس گاڑی کو ، جسے خدا کے نام پر اسلام کی سربلندی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے خون سے سینچتے ہوئے اور اس میں اپنا خون بھر کر دنیا میں جاری فرمایا ہے، اس کو اپنے خونوں سے بھری رکھیں، یعنی محبت کے خون سے عشق کے خون سے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیوں کے خون سے.خدا تعالیٰ کی عبادت کے جذبہ سے یہ گاڑی آگے چلے گی.پس یہ وہ بنیادی - حقیقت ہے، جس سے کبھی غافل نہ ہوں“.روزنامه الفضل 31اکتوبر 1983 ء) 26
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 03 ستمبر 1982ء یورپ کا اخلاقی انحطاط اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری خطبہ جمعہ فرمودہ 03 ستمبر 1982ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اب تک کے مختصر سے سفر میں یورپ کے جتنے ممالک میں بھی جانے کا موقع ملا ہے، یہ احساس زیادہ شدت کے ساتھ پیدا ہوتا رہا ہے کہ یہ قومیں مجموعہ تضادات ہیں.ایک پہلو سے ان کو دنیا کی ترقیاں نصیب ہوئیں اور ابھی تک وہ ترقیاں ان کو حاصل ہیں.اور ایک دوسرے پہلو سے یعنی روحانی اور اخلاقی لحاظ سے یہ لوگ گرتے چلے گئے.یہاں تک کہ اس آخری کنارے پر پہنچ گئے ہیں، جس سے آگے سزا و جزا کا دور شروع ہوتا ہے.مزید آگے بڑھنے کی مہلتیں نہیں ملا کرتیں.اور یہ جو point یعنی نقطہ ہے، جہاں پہنچ کر تو میں سزا اور جزا کے عمل میں داخل ہو جاتی ہیں، جسمانی اور مادی ترقی کا دور بھی وہاں تک پہنچا ہوا ہے.اور یہ دونوں سمتوں کے نقطے آپس میں ملنے والے ہیں.مادی ترقی بھی جب اخلاقی ضوابط سے آزاد ہو جاتی ہے تو خود انسان کی تباہی کے لئے استعمال ہونے لگتی ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے، جیسے کسی کو زیادہ تیز رفتار کار چلانے کی مشق نہ ہو، اس کی مہارت نہ ہو اور وہ اپنی طاقت سے بڑھ کر تیز کار چلانے لگ جائے.مادی ترقی کا تو کوئی آخری کنارہ نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی قدرتیں بے انتہا ہیں.انسان جتنی کوشش کرلے گا، اتنا آگے بڑھتا چلا جائے گا.لیکن وہ اخلاقی ضوابط ، جو باگ ڈور کے طور پر کام دیتے ہیں، جب وہ نہ رہیں تو مادی ترقی خود اپنی تباہی کے لئے استعمال ہو جاتی ہے.پس روحانی اور اخلاقی لحاظ سے دیکھیں تب بھی یہ نظر آتا ہے کہ وہ منزل آنے والی ہے، جہاں پہنچ کر ایسی قوموں کو مزید آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی.اور مادی ترقی کے لحاظ سے بھی دیکھیں، تب بھی وہ مہلک ہتھیار اور ہلاکتوں کے خوفناک ذرائع ، جو مادی ترقی کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں، وہ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ وہاں بھی آخری مقام آنے والا ہے.اور دراصل مہلک ہتھیاروں کی ایجادہی اس بات کا پیش خیمہ بن جاتی ہے کہ ضرور ہلاکت سر پر کھڑی ہے.کیونکہ مہلک ہتھیار در اصل تصویر ہوتے 27
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہیں، اخلاقی تنزل کی.دنیا میں جتنی بے اعتمادی زیادہ ہو اور یہ یقین بڑھتا جائے کہ کوئی قوم بھی قابل اعتبار نہیں رہی ، جس کو طاقت نصیب ہوگی ، وہ تمام اخلاقی ضوابط کو کچل کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے گی ، اس وقت ہتھیاروں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جنگ شروع ہو جاتی ہے.اور یہی Cold War یعنی سرد جنگ کہلاتی ہے.لیکن دنیا میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ سرد جنگیں ٹھنڈی رہی ہوں.لازماً ایک وقت آتا ہے، جب وہ گرم جنگوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں.پس ان دونوں لحاظ سے وہ نقطے قریب آ پہنچے ہیں.اس پس منظر میں جہاں تک احمدیت کا تعلق ہے، ابھی تک ہم اپنے فرائض کی ادائیگی میں پوری طرح آغاز سفر بھی نہیں کر سکے.ساری دنیا کو جھنجھوڑنا، اس کو جگانا اور خدائے حی و قیوم کی طرف متوجہ کرنا، یہ ہمارا کام تھا.اور ہمارے کام سے مراد مبلغین کا کام نہیں ہے.دنیا میں تو میں کبھی بھی مبلغین کے ذریعہ ترقی نہیں کیا کرتیں.مبلغین تو صرف مذکر یعنی یاددہانی کرانے والے ہوتے ہیں.تبلیغ کا بوجھ ساری جماعت اٹھایا کرتی ہے.ساری دنیا میں اسلام کی جو تبلیغ ہوئی ہے، وہاں کون سے مبلغ تھے، جنہوں نے فتح کیا ہے؟ مبلغین تو یاد دہانی کا کام کیا کرتے تھے تبلیغ کا حقیقی کام عوام الناس نے کیا ہے.چین کو کن مبلغین نے مسلمان بنایا تھا؟ انڈونیشیا کوکن مبلغین نے مسلمان بنایا تھا؟ ہندوستان میں کن مبلغین نے اسلام پھیلایا تھا ؟ انفرادی طور پر کچھ تاجر تھے اور کچھ درویش صفت لوگ تھے، جو خدا کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے.وہ جہاں جہاں گئے ، اسلام کی تبلیغ واشاعت کا کام بھی کرتے رہے.اس طرح اسلام مختلف ملکوں میں پھیلتا چلا گیا.یہ وہ اہم پہلو ہے، جس کی طرف میں توجہ دلا رہا ہوں.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے، معلوم ہوتا ہے، ابھی ہم نے آغاز سفر بھی نہیں کیا.یورپ کی اکثر جماعتیں جن کو میں دیکھ کر آیا ہوں، ان میں احساس نہیں ہے، بے چینی نہیں ہے.وہ اس معاشرہ سے اس حد تک راضی ہو گئے ہیں کہ ان کو کام مل گئے اور ان کی ضروریات پوری ہو گئیں.اور اس حد تک ناراض ہی ہیں، جس حد تک ان کے کام پورے نہیں ہوئے یا ان کی راہ میں مشکلات حائل ہیں.لیکن یہ بے قراری، یہ بے چینی اور تڑپ میں نے نہیں دیکھی کہ ہر شخص بے چین ہو جائے کہ میرا معاشرہ تباہ ہورہا ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کی تقدیر بدلنے کے لئے نمائندہ مقرر فرمایا ہے.بظاہر یہ ویسی ہی بات ہے، جیسے ٹیٹری کے متعلق کہتے ہیں، وہ ٹانگیں اونچی کر کے سوتی ہے.کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا وجہ ہے؟ اس نے کہا، مجھے خطرہ یہ ہے کہ آسمان نہ گر پڑے اور دنیا تباہ نہ ہو جائے.اس لئے میں ٹانگوں پر روک لوں گی.ہماری مثال بظاہر ٹیری کی سی ہوگی.لیکن ہر وہ چھوٹا سا دل، جس میں یہ فکر پیدا ہو کہ آسمان نہ ٹوٹ پڑے اور میں اس سے بچانے کی کوشش کروں، اس کو یہ بھی تو معلوم ہونا چاہئے 28
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 ستمبر 1982ء کہ اس کا خدا اس کے پیچھے ہوگا.بظاہر ٹیٹری ہے لیکن اس کے پیچھے ساری کائنات کے خالق کی قوت موجود ہوگی.اس دل کو طاقت بخشنی ہے تو خدا نے بخشنی ہے، اس کے عمل کو سہارا دینا ہے تو اس نے دینا ہے، اس کے ولولوں اور عزائم کو حقائق میں تبدیل کرنا ہے تو اس نے کرنا ہے.اس لئے دعائیں کرتے ہوئے، اپنے دل کی کیفیت بدلنے کی کوشش کریں.جب تک ہر احمدی کی، جو یہاں بس رہا ہے، اس کے دل کی کیفیت نہیں بدلے گی اور احساس نہیں پیدا ہوگا، وہ تبلیغ نہیں شروع کرے گا.اس وقت تک ان قوموں کی کیفیت بدلنے کے خواب، خواب رہیں گے.آپ ہزار مسجدیں بھی یہاں بنالیں ، تب بھی ان کی تقدیر نہیں بدلے گی.جب تک ہر احمدی اسلام کی تبلیغ نہ کرے اور آگے مبلغ احمدی نہ پیدا کرے.صرف یہی ایک قانون ہے، جس سے قوموں کی تقدیریں بدلا کرتی ہیں.اور کوئی قانون نہیں ہے.ہر شخص کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی.آپ کو اگر تبلیغ کرنی نہیں آتی تو کوئی بات نہیں.آپ پیغام تو دے سکتے ہیں.آپ کے پیغام کے پیچھے فکر اور جذبہ تو پیدا ہو سکتا ہے.اس کے ساتھ ساتھ آپ دعا ئیں تو کر سکتے ہیں.پس پیغام دیں، دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ آپ کو خود تبلیغ کی راہیں سکھائے گا، خود مسائل سمجھائے گا، آپ کی مشکلات کو سلجھائے گا.سب طاقت خدا کی ہے، ہماری کچھ بھی نہیں ہے.اس احساس کے ساتھ مگر اس یقین کے ساتھ کہ ہمیں پھر بھی کچھ نہ کچھ کرتا ہے.ہم نہیں کریں گے تو خدا کی طاقت اور فضل شامل حال نہیں ہو گا.آپ سب کو اسلام کی تبلیغ کا فریضہ بطریق احسن ادا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.یہیں مرکز بن جائے ، اس حقیقت کا کہ ہر احمدی مبلغ ہے، تب بھی جرمنی کے لئے کچھ مقدر پھرنے کے دن آسکتے ہیں.لیکن اگر یہاں بھی نہ بنے اور ہیمبرگ میں بھی نہ بنے اور فرینکفرٹ میں بھی نہ بنے اور سوئٹزر لینڈ میں بھی کہیں نہ بنے تو پھر یہ مسجد میں صرف وارننگ کا کام تو دے دیں گی کہ ہم نے اعلان کر دیا مگر اس اصل ذمہ داری اور فرائض کو ادا کرنے کا کام انجام نہیں دے سکتی ، جو ہم پر عائد کیا گیا ہے.دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.مطبوعه روز نامہ الفضل 09اکتوبر 1983ء) 29
تحریک جدید- ایک الہی تحریک خطاب فرموده 10 ستمبر 1982 ء ہم اہل پین کے لئے محبت کے سوا اور کوئی پیغام نہیں لائے خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1982ء برموقع افتتاح مسجد بشارت سپین حضور نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:." آج میں اللہ کے نام کے ساتھ ، جو رحمن اور رحیم ہے، اس مسجد کا افتتاح کرتا ہوں.اسی کی حمد سے میرا دل لہریز ہے، جو تمام جہانوں کا رب ہے، جو رحمن ہے، جو رحیم ہے، جو زمین و آسمان کا اور ہر اس ھی کا، جو ان کے درمیان ہے، مالک ہے.اور ہر عارضی ملکیت بھی بالآخر اسی کی طرف لوٹائی جائے گی.اور نہ کوئی عارضی مالک رہے گا اور نہ کوئی مستقل.مگر وہی ایک، جو واحد و یگانہ ہے.کوئی اس کا شریک نہیں.خالصہ اس کی عبادت کی خاطر آج ہم اس مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں.اور اسی سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں عبادت کا حق ادا کرنے کی توفیق بخشے.کیونکہ اس کی ہدایت اور اس کی مدد کے بغیر کوئی نہیں، جو اس کی سچی عبادت کی توفیق پاسکے.پس ہماری روحیں آج اسی کے حضور سربسجو د ہیں اور اسی کو پکارتی ہوئی، اس کے آستانہ الوہیت پر گرتے ہوئے ، یہ التجا کرتی ہیں کہ اے وہ، جو تمام ہدایت کا سر چشمہ ہے، ہمیں اپنے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے.اور سیدھے راستہ پر قائم رکھ.یہاں تک کہ ہم اس انجام کو پہنچیں، جور است بازوں کا انجام ہے.یعنی اس سیدھی راہ پر چلنے والوں کا انجام، جن پر تو نے انعام فرمایا اور جو تیرے حضور آخر تک راست باز ٹھہرے.اے ازلی و ابدی خدا! جو ہر نور کا منبع اور ہر ہدایت کا سر چشمہ ہے، ہمیں ان بدنصیبوں کے انجام سے بچا، جو ایک بار تیری سیدھی راہ پر چلنے کے باوجود اس راہ کے تقاضوں کو پورا نہ کر سکے اور تیرے انعام کی بجائے تیرے غضب کا مورد ٹھہرے.اور ان گم کردہ راہوں کے انجام سے بھی بچا، جو چند قدم تیری راہ پر چلنے کے بعد اس راہ کو چھوڑ بیٹھے اور تیری ہدایت کے نور سے عاری ہو کر شیطان کے ظلماتی راستوں پر بھٹک گئے.آج اس مسجد کے افتتاح کے دن ہمارے دل حمد و ثناء سے لبریز ہیں اور اسی کا ذکر ہماری زبانوں پر جاری ہے اور اسی کی یاد ہمارے جسم و جان کے ہر ذرہ میں رچ بس گئی ہے.اور ہمارے وجود مجسم دعا بن چکے ہیں کہ اے خدا! ہمیں ان تمام ذمہ داریوں کی ادائیگی کی توفیق بخش اور ان اعلیٰ اقدار کی حفاظت کی طاقت بخش، جو ہر اس مسجد کے ساتھ وابستہ ہیں، جو خالصہ تیرے نام پر، تیری ہی عبادت کے لئے تعمیر کی جاتی ہے.31
خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وہ اعلیٰ اقدار کیا ہیں؟ یہی کہ تیرے گھر کے دروازے تیری تمام مخلوق پر ہمیشہ وار ہیں گے اور بلا تمیز رنگ ونسل تمام وہ لوگ ، جو تجھے واحد و یگانہ جانتے ہوئے تیری چوکھٹ پر جھکنے کے لئے آتے ہیں، تیرے گھر کی رسائی پائیں.اور کوئی نہیں، جو انہیں اس میں داخل ہونے اور اس میں عبادت سے روک سکے.ہاں وہ فتنہ پرداز اور شریر لوگ، جو عبادت کی بجائے فساد کی نیت سے تیرے پاک گھر میں داخل ہونے کی کوشش کریں، ہم ان کا معاملہ تجھ پر ہی چھوڑتے ہیں اور تجھی سے التجاء کرتے ہیں اور تجھی پر توکل رکھتے ہیں کہ ان کے ناپاک قدم تیرے پاک گھر کو گندا کرنے کی توفیق نہ پائیں.اے خدا! ہمیں توفیق بخش کہ اس عظیم پیغام کو ہمیشہ یادرکھیں، جو ہر اس مسجد کے ساتھ وابستہ ہے، جو خالصہ تیرے ہی ذکر کو بلند کرنے کے لئے بنائی جاتی ہے.وہ پیغام کیا ہے؟ وہ صلح اور امن کا پیغام ہے، انسان اور انسان کے درمیان عدل اور مساوات اور اخوت اور محبت کا پیغام ہے.وہ پیغام یہ ہے کہ جس طرح آسمان پر تمہارا خدا ایک ہے، اے ایک خدا کے پوجنے والو! تم بھی زمین پر ایک ہو جاؤ اور ہر نفرت اور ہر بغض اور ہر کینہ کو اپنے دلوں سے نکال دو.اور ہر اس بات کو ترک کر دو، جو خدائے واحد ویگانہ کے بندوں کے درمیان تفریق کرتی ہے اور انسان کو انسان سے جدا کرنے والی بات ہے.یہ مسجد پانچ وقت بلند اذانوں کے ذریعے تمہیں اس حقیقت کی یاد دلاتی ہے کہ تمہارا ایک خدا ہے اور تم سب اسی ایک خدا کے بندے ہو.ہر بڑائی اسی کے لئے ہے اور وہی ایک ذات ہے، جو تم سب کی عبادت کے لائق ہے.پس اگر تم چاہتے ہو کہ تم بھی ایک ہو جاؤ تو اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! تم اس واحد و یگانہ خدا سے اپنا تعلق جوڑ لو، جو تم سب میں مشترک اور تم سب کا ایک ہی خدا ہے.ہر مسجد ، جو خدائے بزرگ و برتر کی تسبیح وتحمید اور اس کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے ، ہمیں اس عظیم خطبہ کی یاد دلاتی ہے، جو خدا کے بندے اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال سے قبل آخری حج کے موقع پر دیا.یہ وہی تاریخی خطبہ ہے، جو ہمیں توحید کے فلسفہ سے آگاہ کرتا ہے.اور خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کے تقاضے خوب کھول کھول بیان کرتا ہے.یہ وہ خطبہ ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ خالق کی عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا، جب تک اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا نہ کئے جائیں.یہ وہ خطبہ ہے، جو تمام وہ حقوق گنواتا ہے، جو اس کے ہر ایک بندے کے اس کے دوسرے بندوں پر ہیں.اور ہمیں سمجھاتا ہے کہ اگر تم مخلوق کے حقوق ادا نہیں کرو گے تو صرف مخلوق ہی سے نہیں بلکہ خالق سے بھی کاٹے جاؤ گے.یہ وہ زندہ جاوید خطبہ ہے، جو وقت کی دست برد سے آزاد ہے.اور چودہ سو برس 32
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطابه فرمودہ 10 ستمبر 1982ء گزرنے کے بعد آج بھی اسی طرح تازہ اور شاداب اور زندہ تابندہ ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ موقع پر موجود سوالاکھ پرستاران تو حید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.أَيُّهَا النَّاسُ الّا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ.وَإِنَّ ابَاءَ كُمُ وَاحِدٌ.أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِي عَلَى أَعْجَمِيٌّ وَلَالَاعْجَمِيٌّ عَلى عَرَبِيٌّ.وَلَا لَا حَمَرَ عَلَى أَسْوَدَ.وَلَالَاَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ.اَلا وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ وَمَالٍ وَمَاثَرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمِي هَذَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.اَلاَلَا تَظْلِمُوا.الا لا تَظْلِمُوا الاَلَا تَظْلِمُوا.دِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ.أَلَا إِنَّ كُلَّ رِبَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوع فَاتَّقُوا اللهَ فِى النِّسَاءِ.إِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَاءِ كُمْ حَقًّا.وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ حَقًّا.اَرِفَّائِكُمْ.اَرِقَائِكُمْ.أَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ وَاكُسُوهُمْ مِمَّا تَلْبِسُونَ إِنَّ دِمَانَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ إِلَى إِنَّ تَلْقُوا رَبَّكُمْ.یعنی اے انسانو اسن لو کہ تم سب کا خدا، ایک خدا ہے.اور تم سب کا جد امجد بھی ایک ہی ہے.کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں اور نہ ہی عجمی کو عربی پر برتری حاصل ہے.نہ ہی سفید کوسیاہ پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ ہی سیاہ کو سفید پر سن لو کہ انسانی جان کی بے حرمتی یا مال کی بے حرمتی یا ایک انسان کا دوسرے پر جو ترجیحی سلوک جاہلیت میں قائم تھا، میں آج قیامت کے دن تک کے لئے اپنے پاؤں کے نیچے مسلتا ہوں.خبردار! کوئی حق تلفی نہ کروں کوئی حق تلفی نہ کرو، کوئی حق تلفی نہ کرو.جاہلیت کے زمانہ کے خون درخون کے انتقام کا سلسلہ موقوف کیا جاتا ہے.جاہلیت کے تمام سود ( جو حقوق انسانی کے استحصال کا ذریعہ تھے.( موقوف کئے جاتے ہیں.عورتوں کے حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ سے ڈرو.جس طرح تمہارے حقوق عورتوں پر ہیں، بالکل اسی طرح عورتوں کے تم پر حقوق ہیں.قیدیوں کا خیال رکھو، قیدیوں کا خیال رکھو.جو خود کھاتے ہو ، وہی ان کو کھلاؤ.اور جیسا لباس خود پہنتے ہو ، ویسا ہی ان کو پہناؤ.اور یاد رکھو کہ تمہاری جان اور تمہارے مال اور تمہاری عزت کی حرمت تم پر واجب کر دی گئی ہے.اس روز تک کہ تم اپنے رب سے ملو.یہ وہی پیغام ہے، جس کی حفاظت کے لئے اور جس کی روح کو از سر نو زندہ کرنے کے لئے غلامان محمد میں سے خدا تعالیٰ نے ایک عظیم غلام کو اس زمانہ کا امام بنا کر مبعوث فرمایا.تا کہ وہی نیک باتیں ہمیں یاد کر وائے ، جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں ہیں.اور اپنے پاک نمونہ سے ویسی ہی ایک 33
خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1982ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک جماعت پیدا کرے، جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جماعت تھی.اور از سرنو پاک اسلامی تعلیم کو پاک انسانی اعمال کے سانچے میں ڈھال دے.میری مراد اس عظیم غلام سے مرزا غلام احمد قادیانی کی ذات ہے.جن کو اللہ تعالیٰ نے چودھویں صدی کے سر پر مہدی اور مثیل مسیح بنا کر مبعوث فرمایا.اور جو امت محمدیہ کے لئے حیات نو کا پیغام لایا.اور کل عالم کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے اس نے ایک عظیم مہم کا آغاز فرمایا.اور اس جماعت کی بنیاد ڈالی، جو اسلام اور بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے بنائی گئی.اور جس کا نام جماعت احمد یہ ہے.آپ نے اس دور کے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.وہ سچا اور کامل خدا، جس پر ایمان لانا ، ہر ایک بندہ کا فرض ہے، وہ رب العالمین ہے.اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک.بلکہ وہ سب قوموں کا ربّ ہے اور تمام زمانوں کا رب ہے اور تمام مکانوں کا رب ہے اور تمام ملکوں کا وہی رب ہے.اور تمام فیوض کا وہی سرچشمہ ہے اور ہر ایک جسمانی اور روحانی طاقت اسی سے ہے اور اسی سے تمام موجودات پرورش پاتی ہیں اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے.خدا کا فیض عام ہے، جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہو رہا ہے.پیس جب کہ ہمارے خدا کے یہ اخلاق ہیں تو ہمیں مناسب ہے کہ ہم بھی انہیں اخلاق کی پیروی کریں.پھر فرمایا:.پیغام صلح صفحہ 4,5 روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 442,443) اس کی تو حید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو.اور اس کے بندوں پر رحم کرو.اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو.اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو.وو کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه (13) اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے آپ نے یہ وضاحت کی کہ:.میں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں کی اصلاح کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں.اور میرا قدم حضرت عیسی علیہ السلام کے قدم پر ہے.انہیں معنوں سے میں مسیح موعود کہلا تا ہوں.کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ محض فوق العادت نشانوں اور پاک تعلیم کے ذریعہ سے سچائی کو دنیا میں پھیلاؤں.میں اس بات کا 34
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد ششم خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1982ء مخالف ہوں کہ دین کے لئے تلوار اٹھائی جائے اور مذہب کے لئے خدا کے بندوں کے خون کئے جائیں.اور میں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے، ان تمام غلطیوں کو مسلمانوں سے دور کر دوں.اور پاک اخلاق اور بردباری اور علم اور انصاف اور راست بازی کی راہوں کی طرف ان کو بلاؤں.میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.( اربعین نمبر 1 صفحہ 1,2 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 343,344) اپنی جماعت کو تا کیدی نصیحت کرتے ہوئے آپ نے ہدایت کی کہ : میں اس وقت اپنی جماعت کو ، جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے، خاص طور پر سمجھاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پر ہیز کریں.مجھے خدا نے جو مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے، اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شرسے پر ہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجالاؤ.اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ گے.کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے، جس میں انسان کی ہمدردی نہیں.اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے، جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے.سو تم جو میرے ساتھ ہو، ایسے مت ہو.تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے؟ کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزادی تمہارا شیوہ ہو؟ نہیں، بلکہ مذہب اس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے، جو خدا میں ہے.اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں.خدا کے لئے سب پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو.آؤ میں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں ، جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے.اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدرد نوع انسان ہو جاؤ اور خدا میں کھوئے جاؤ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17 صفحه (14) 35
خطاب فرموده 10 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم غرض اسلام کے اس محبت بھرے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان خواہ کسی رنگ و نسل و ملک سے تعلق رکھتا ہو، کوئی زبان بولتا ہو، ایک ہی خدا کی تخلیق ہے.وہ ہمارا خدا، جس کو ہم اللہ کے نام سے پکارتے ہیں، ہر انسان کا خدا ہے.وہ سب قوموں اور ملکوں پر مہربان ہے.سب انسان اس کی نظر میں برابر اور بھائی بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں.وہ بہت ہی رحم کرنے والا، بہت ہی شفقت کرنے والا اور بہت ہی قدرتوں کا مالک خدا ہے.جو اس کی طرف جھکتا ہے اور اس سے مانگتا ہے، وہ اللہ اس پر بہت فضل کرتا ہے، بہت رحم کرتا ہے.آج انسانیت ایک عالمگیر اور خوفناک تباہی کے کنارا پر کھڑی ہے.جس سے بچنے کی تمام انسانی کوششیں بظاہر نا کام نظر آتی ہیں.مگر ایک دروازہ اس تباہی سے بچنے کا آج بھی کھلا ہے.اور وہ یہ کہ انسان اپنے خالق و مالک اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور اس کے پیغام کو قبول کر کے اس کے رحم کا مورد بنے.آج ہم یہاں اسی لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ خدائے واحد اور برتر سے دعا مانگتے ہوئے اور اسی سے مدد طلب کرتے ہوئے، اس کے اس گھر کو دعاؤں اور مناجات سے آباد کریں.اس گھر کے دروازے ہر اس شخص کے لئے کھلے ہوں گے، جو خدائے واحد و برتر کو مان کر اس کے حضور جھکے اور اس کی عبادت کرے.ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ اس مسجد کو تمام سپین اور یورپ بلکہ تمام دنیا کے لئے رحمت و تسکین کا ذریعہ بنائے اور جماعت احمدیہ کی اس خدمت کو اپنے فضل سے قبول فرمائے.(آمین) اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، ان تمام احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس کی تعمیر کے منصوبہ میں کسی نہ کسی رنگ میں کام کیا ہے.بالخصوص اس شہر کی انتظامیہ اور چین کے تمام ارباب اقتدار کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے اختلاف مذہب کے باوجود زمین کے حصول اور تعمیر مسجد کی اجازت کے سلسلہ میں ہمارے لئے سہولت میسر کر کے بین المذاہبی تعاون اور ہمدردی کا ایک وسیع دروازہ کھولا - May Allah Bless Them All لیکن یہ ذکر کرتے ہوئے سب سے نمایاں نام جو ذہن میں ابھرتے ہیں، جن کے لئے شکریہ کے ساتھ پر خلوص دعا دل سے اٹھتی ہے ، وہ اس عمارت کے آرکیٹکٹ مسٹر St.Jose Luis Lopes Derigo ہیں، جنہوں نے محض فنی تعلق پر انحصار نہیں کیا بلکہ قلبی تعلق کے ساتھ اس مسجد کی تعمیر اور تحسین میں نمایاں حصہ لیا.اسی طرح بجلی کا سامان بنانے والی سپین کی مشہور فرم.Sr.Antonio Caronel of Generator Sevilla اور اس کے مالکان بے حد پر خلوص شکریہ کے مستحق ہیں، جنہوں نے اپنے اعلیٰ خلق اور وسعت قلبی کا اظہار اس طرح کیا کہ بجلی 36
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1982 ء کا بیش قیمت سامان مسجد کے لئے پیش کر دیا.اللہ ان دونوں کو اپنی بہترین جزاء سے نوازے اور ان سب کو بھی، جنہوں نے کسی بھی رنگ میں مسجد کی خدمت کی.لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس مضمون کو آگے بڑھاؤں، میں یہ بیان کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جہاں میرا دل اس مقدس خوشی کی تقریب کے موقع پر خوشی اور حمد کے جذبات سے لبریز ہے، وہاں ساتھ ہی ایک درد کی کسک بھی پاتا ہے.جو ایک پیاری یاد کے نتیجہ میں اٹھ رہی ہے.وہ یاد تنہا میری ہی ملکیت نہیں بلکہ دنیا کے لکھوکھا (Millions) احمدی اس یاد میں میرے شریک ہیں اور میرے ساتھ یہ درد بانٹنے والے ہیں.صرف احمدی ہی نہیں ، خود اس علاقہ کے وہ تمام خوش نصیب باشندے، جنہوں نے اس مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب کا مشاہدہ کیا اور ہمارے سابق محبوب امام حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے متعارف ہوئے.وہ سب بھی بلاشبہ اس میٹھی یاد اور اس سے پیدا ہونے والے درد میں ہمارے شریک ہیں.لیکن وہ مقدس آسمانی آقا، جس کے نام کی عظمت اور تقدیس کی خاطر یہ مسجد بنائی جارہی ہے، وہ ہمیں ہر دوسرے وجود سے زیادہ پیارا ہے.ہر چند کہ جانے والے سے ہمیں بہت محبت تھی لیکن بلانے والا اس سے بھی زیادہ پیارا ہے.پس ہمارے دل اس کی رضا پر راضی اور اس کے حضور جھکے ہوئے ہیں.وہ ہر دوسرے وجود سے زیادہ ہمیں عزیز ہے.اور ہر دوسرے وجود سے زیادہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے.وہ رحمت اور شفقت اور پیار کا ایک نا پید کنارہ سمندر ہے، جس کا نہ ازل میں کوئی کنارہ ہے، نہ ابد میں کوئی آخری حد.اپنی مخلوقات سے اس کی شفقت اور رحمت بے حد و حساب ہے.ہر مذہب، جو رحمت کے اس ازلی سر چشمہ سے پھوٹتا ہے، لازم رحمت ہی کی تعلیم دیتا ہے.اور بنی نوع انسان کے لئے سوائے کچے پیار اور ہمدردی کے اور کچھ نہیں پیش کرتا.اس اٹل اصول کے برعکس بھی اسی طرح درست ہے.یعنی کوئی مذہب اگر خدا کی طرف سے ہونے کا دعوی کرے لیکن خداہی کے نام پر انسان انسان کے درمیان نفرت اور بغض اور کینہ اورفتنہ اور فساد کی تعلیم دے تو یقینا وہ مذہب جھوٹا ہے.کیونکہ محبت کے سینے سے نفرت کا چشمہ نہیں پھوٹ سکتا.اور ماں کے سینے سے دودھ کی بجائے زہر تاریخ کی دھاریں نہیں بہا ، کرتیں.اسلام کی سچائی کا ثبوت بھی اس کی تعلیم میں مضمر ہے، جو امن اور صلح اور محبت اور رحمت کی تعلیم ہے.آخر ایک دفعہ پھر میں یہ بات واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم اہل سپین کے لئے نیک جذبات کے سوا کچھ اپنے دلوں میں نہیں پاتے.اور ان کو اس خدائے واحد و یگانہ کی طرف بلانے کے لئے آئے ہیں، جس کی عبادت کے لئے کامل خلوص کے ساتھ آج ہم اس مسجد کے افتتاح کے لئے جمع ہوئے ہیں.ہم یہ 37
خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کے تمام مصائب اور تمام مسائل کا حل ایک اور صرف ایک ہے کہ وہ اپنے خالق اور اپنے مالک اور اپنے رب کی طرف لوٹ آئے.تمام بنی نوع انسان کو محبت کے رشتوں میں باندھنے کا اس کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں.جیسے ایک ماں اور ایک باپ کے بچے رحمت اور محبت کا ایک طبعی جذبہ اپنے دل میں موجزن پاتے ہیں.ایک ہی خالق کی مخلوق ہونے کا یقین اور اپنے تعلقات کو اس یقین کے سانچے میں ڈھالنا ہی مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب میں بسنے والے انسانوں کو وہ محبت عطا کر سکتا ہے، جس کو آج انسانیت ایک ایسے پیاسے کی طرح ترس رہی ہے، جو پانی کے بغیر پیتے ہوئے صحرا میں ایڑیاں رگڑ رہا ہو.پس اس خدا کی قسم کھا کر میں اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں، جس کے قبضے میں ہماری جانیں ہیں اور جو دلوں کے حال سے خوب واقف ہے کہ ہم اہل سپین کے لئے خدائے واحد و یگانہ اور بنی نوع انسان کی محبت کے سوا اور کوئی پیغام نہیں لائے.دنیا میں بعض ایسی قومیں بھی ہوں گی، جو محبت کے سوا بھی فتح کی جاسکتی ہوں اور فتح کی جاتی ہیں.لیکن اہل سپین ان قوموں میں سے نہیں.اہل سپین کے متعلق تاریخ کا مطالعہ مجھے بتاتا ہے کہ اس قوم کو محبت کے سوا کسی اور ہتھیار، کسی اور کوشش، کسی اور ذریعہ سے فتح نہیں کیا جاسکتا.اہل بصیرت تاریخ دانوں نے نپولین کی آخری شکست کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے کیا خوب لکھا ہے کہ نپولین کی ناکامی کا سب سے بنیادی اور سب سے اہم اور سب سے زیادہ تباہ کن امر یہ تھا کہ وہ اہل سپین کے مزاج کو سمجھنے میں ناکام رہا.اور تلوار سے اس قوم کو رام کرنے اور بیرونی حکومت کے قیام کی کوشش کی، جس کی سرشت میں ہی تلوار سے رام ہونا نہیں لکھا تھا.پس نپولین نے نہ تو روس کی یخ بستہ لق و دق برفانی وسعتوں میں شکست کھائی ، نہ واٹرلو کے میدان میں اس کی تقدیر کا فیصلہ ہوا.اس کی تقدیر کا فیصلہ تو اسپین کے میدانوں اور اسپین کے ٹیلوں اور اسپین کے پہاڑوں پر ہوا.اور اسی روز اس کے مقدر میں شکست لکھی جاچکی تھی، جب اس نے اہل سپین کے دل تلوار کی قوت سے جیتنے کی کوشش کی.میں اپنے رب کی عطا کردہ بصیرت سے اور اسی کی راہنمائی کے نتیجہ میں اس یقین پر قائم ہوں کہ اہل اسپین کی فتح محبت اور عشق اور خدمت کے ہتھیاروں سے مقدر ہو چکی ہے.اور کوئی اس تقدیر کو بدل نہیں سکتا.لیکن ساتھ ہی اہل اسپین کو میں یہ تسلی بھی دیتا ہوں کہ محبت کی فتح تو ایک دو دھاری تلوار کی فتح ہوا کرتی ہے، جو ایک ہی وار میں مفتوح کی طرح فاتح کے دل پر بھی چلتی ہے.اور فاتح اور مفتوح کے درمیان کوئی فرق نہیں رہنے دیتی.دونوں کو یکساں ایک دوسرے کی محبت میں تڑپتا چھوڑ جاتی ہے.اور عاشق اور 38
خطاب فرموده 10 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد معشوق، فاتح اور مفتوح کے فرق مٹادیتی ہے.نہیں نہیں بلکہ یہ ایک عجیب دنیا ہے.جہاں فاتح ، مفتوح بن جاتا ہے اور مفتوح، فاتح.دیکھو عاشق اپنے محبوب پر فتح پاتا ہے تو اس سے اس کے مظالم کا انتظام تو نہیں لیا کرتا.بلکہ اور بھی اس کے حضور گرتا ہے اور زاری کرتا ہے کہ عذر پیش کر کے مجھے دکھ نہ دو کہ تمہارے ہاتھوں جو بھی زخم لگا، وہ زخم نہیں تھا ، علاج تھا.اب میں اس خطاب کو بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ (حضرت اقدس.ناقل ) کے کلام پرختم کرتا ہوں- جن کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے امام بنایا ہے.آپ فرماتے ہیں:.اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی زخم.و مرہم بره یار تو یکساں کر دی تا نه دیوانه شدم ہوش نہ امدم بسرم اے جنوں گرد تو گردم که چه احسان کردی در مشین فارسی طبع دوم صفحه 28 -287) خدا کرے، ہمیں تمام بنی نوع انسان سے ایسی ہی محبت کرنے کی توفیق نصیب ہو اور بنی نوع انسان کو وہ دل عطا ہوں ، جو ایک دوسرے سے ایسی ہی محبت کرنے لگیں“.مطبوعه روزنامه الفضل 106اکتوبر 1982ء) | 39
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد شم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ستمبر 1982ء مسجدوں کی تعمیر ایک بہت ہی مقدس فریضہ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ستمبر 1982ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:." کیمرے والے اگر اپنا جمعہ خراب کرنا چاہتے ہیں تو باہر چلے جائیں.باقی دوستوں کا بھی جمعہ خراب نہ کریں.یہ چیز فائدے کی بجائے بدعت اور بد رسم کا موجب بن گئی ہے، اس کو بند کریں آپ.دوست بیٹھ جائیں.جنہوں نے جمعہ پڑھنا ہے ، وہ آرام سے بیٹھ کر جمعہ پڑھیں.پھر فرمایا:." آج کا دن تمام دنیا کے احمدیوں کے لئے اور خصوصاً ان کے لئے جو آج اس مبارک تقریب میں شامل ہیں، بے انتہا خوشیوں کا دن ہے.اور دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھرے ہوئے ہیں.لیکن یہ خوشیاں عام دنیا کی خوشیوں سے کس قدر مختلف ہیں.ان خوشیوں کا اظہار بھی ایک بالکل انوکھا اور اجنبی اظہار ہے.یہ خوشیاں ایک مقدس غم بن کر ہمارے دل و دماغ پر چھا گئی ہیں.یہ خوشیاں حمد کے آنسو بن کر ہماری آنکھوں سے بہتی غم و حمد ہیں.دنیا کی خوشیوں سے ان خوشیوں کو کوئی تعلق نہیں.دنیا کی خوشیوں کو ان خوشیوں سے کوئی نسبت نہیں.سب سے پہلے اس موقع پر مجھے ایک یا دستارہی ہے.اس وجود ( حضرت خلیفة المسیح الثالث نور اللہ مرقدہ.ناقل ) کی یاد، جو آج ہم میں نہیں.جو سب سے زیادہ اس بات کا حقدار تھا کہ آج یہ جمعہ پڑھا تا اور آج اس تقریب کا آغاز کرتا.اس کی وہ بے قرار دعا ئیں، جن کی قبولیت کا پھل ہم آج کھانے لگے ہیں.وہی دعائیں ہیں، جنہوں نے سپین کی تقدیر کی کایا پلیٹی.جنہوں نے اہل سپین کو بھی آزادی نصیب کی.اور اسی آزادی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مسجد کی تعمیر کی توفیق بخشی.لیکن جیسا کہ میں نے کہا تھا یہ بھی ایک خوشی کا وقت ہے.آپ کی یاد بھی ایک خوشی کی یاد ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں اور اپنے رب کے حضور التجا کرتے ہیں کہ آج آپ کی روح سب سے زیادہ ایسے نظاروں سے لذت یاب ہورہی ہوگی.مسجدوں کی تعمیر ایک بہت ہی مقدس فریضہ ہے.لیکن جو مسجدیں ہم بنا رہے ہیں، یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ، جیسا کہ عام طور پر دنیا میں ہوتا ہے.ان مسجدوں کے پس منظر میں لمبی قربانیوں کی تاریخ ہے.یہ 41
خطبہ جمعہ فرموده 10 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کچھ امیر لوگوں کی وقتی کوشش یا جذباتی قربانی کا نتیجہ نہیں، کچھ ایسے لوگوں کی ، جن کو خدا نے زیادہ دولت بخشی ہو اور وہ نہ جانتے ہوں کہ کہاں خرچ کرنی ہے؟ بلکہ خصوصاً اس مسجد کے پیچھے تو ایک بہت ہی لمبی ، گری، مسلسل قربانیوں کی تاریخ ہے.اور اس موقع پر اگر ہم ان کو یاد نہ کریں اور ان لوگوں کو اپنی دعاؤں میں شامل نہ کریں، جو اس مسجد کے پس منظر میں خاموشی سے کھڑے انکسار کے ساتھ اپنے رب کے دعا گو نظر آ رہے ہیں تو یہ ناشکری ہوگی.میری مراد برادرم مکرم کرم الہی صاحب ظفر اور ان کے خاندان کی قربانی سے ہے.ایک لمبا عرصہ اس خاندان نے سپین میں دن رات احمدیت کی خدمت کے لئے سر توڑ کوشش کی.ایسے وقتوں میں، نے کے لئے سر جب کہ یہاں کی حکومت اتنی سنگدل اور سخت تھی کہ دوسرے عیسائی فرقوں کو بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ یہاں تبلیغ کرتے.اس زمانے میں جب کہ کوئی ذریعہ نہیں تھا جماعت کے پاس ان کی مدد کا ، مالی حالات کی تنگی بھی تھی اور قوانین کی روک بھی رستے میں حائل تھی.اور ممکن نہیں تھا کہ ان کو سلسلہ کسی قسم کی مدد دے سکتا.انہوں نے ایک خاص جذبہ قربانی میں اپنے آپ کو پیش کیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے اس قربانی کو قبول فرمایا.آپ نے قبول فرمایا اور اللہ کی محبت کی نظر نے بھی قبول فرمایا.اور آج اس قربانی ہی کا ایک پھل ہے کہ ہم اس کی شیرینی سے لذت یاب ہو رہے ہیں.بہت عرصہ پہلے مجھے پین میں آنے کا موقع ملا اور میں نے اپنی آنکھوں سے وہ نظارہ دیکھا، جو ہمیشہ کے لئے میرے دل پر نقش ہو گیا.ایک معمولی چھوٹی سی ریڑھی تھی ، جس پرخود عطر بنا کر، وہ عطر بیچ کر اپنا گزارہ بھی کرتے تھے اور تبلیغ کا کام بھی کرتے تھے.1957ء کی یہ بات ہے، مجھے اور برادرم عزیزم میر محمود احمد صاحب کو یہاں آنے کا موقع ملا.وہ ایسی ریڑھی تھی، جس کو بعض دفعہ رکھنے کی جگہ بھی میسر نہیں آتی تھی.دشمنوں کو پتہ چلتا تھا تو اس کو تو ڑ جاتے تھے.بعض رحمدل دکاندار بعض دفعہ ان کو جگہ دے دیتے تھے.پھر کچھ دیر کے بعد وہ جگہ چھوڑ کر کوئی اور جگہ تلاش کرنی پڑتی تھی.طریق تبلیغ یہ تھا کہ وہی عطر بیچ کر اپنا گزارہ بھی کرتے تھے اور اس سے بچی ہوئی رقم اپنی طرف سے وہ لٹریچر کے لئے پیش کیا کرتے تھے.ایسے وقت بھی آئے ، جب کہ ان کے گھر پر بھی حملے ہوئے.وہ جو بورڈ لگا ہوا تھا، اس کے اوپر پتھروں کے نشان ہم نے خود دیکھے.چھپ چھپ کر اصحاب کہف کی طرح وہ ابتدائی احمدی، جنہوں نے ان مخالفانہ حالات میں احمدیت کو اور اسلام کو قبول کیا.وہ اکٹھے ہوا کرتے تھے.دشمن مخبری کرتے تھے ، لوگ حملہ کر کے آتے تھے اور وہ بڑی مصیبت اور بڑی مشکل سے اپنی عزتیں اور جانیں بچاتے تھے.عطر کے ساتھ انہوں نے 42
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ستمبر 1982ء ایک چھوٹا سا سپرے پمپ رکھا ہوا تھا.جب ہم وہاں پہنچے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ دیکھو! اس طرح تبلیغ کرتا ہوں.پمپ سے سپرے کرتے تھے اور کچھ لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے شوق اور تعجب میں.مشرقی قسم کی خوشبو سے ویسے بھی ایک خاص دلچسپی پیدا ہو جاتی تھی.اور سپرے کرتے ہوئے اس وقت جو ہم نے نظارہ دیکھا، وہ یہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ دیکھو! یہ کتنی اچھی خوشبو ہے لیکن یہ خوشبو تو زیادہ دیر تمہارے ساتھ نہیں رہے گی.یہ تو کپڑوں میں رچ بس کے بھی آخر دھل کر ضائع ہو جائے گی.ایک، دودن، چار دن کی بات ہے.میرے پاس ایک اور عطر بھی ہے.ایک ایسا عطر، جس کی خوشبو لا فانی ہے.وہ کبھی ختم نہیں ہوگی.اس دنیا میں بھی تمہارا ساتھ دے گی اور اس دنیا میں بھی تمہارا ساتھ دے گی.اگر چاہتے ہو کہ اس خوشبو سے متعلق مجھ سے کچھ معلومات حاصل کرو تو یہ میرا کارڈ ہے.جب چاہو ، آؤ مجھے ملو.اور میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہ خوشبو کیا ہے؟ اور کیسے حاصل کی جاتی ہے؟ بہت سے لوگ وہ کارڈ لیتے تھے.کچھ عطر خرید کر الگ ہو جاتے تھے.اس طرح تبلیغ کے رستے نکلتے تھے.پس یہ ساری وہ قربانیاں ہیں، جو اس موقع پر از خود مجھے یاد آ رہی ہیں.اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ جماعت کو بھی ان سے آگاہ کروں اور اس طرف توجہ دلاؤں کہ اپنی دعاؤں میں ان کو نہ بھولیں.ایک دو ماہ پہلے کی بات ہے، ایک شخص نے بڑا ہی متکبرانہ خط مجھے لکھا اور اس میں ان کے یعنی برادرم کرم الہی صاحب ظفر کے متعلق ایسے لفظ استعمال کئے ، جس سے میرا دل پھٹ گیا.اس کو اپنے علم کا زعم تھا.اس کو خیال تھا کہ ان کا علم کچھ نہیں.اس کو اپنی شکل وصورت کا زعم تھا.اور خیال تھا کہ اس کے مقابل پر ان کی شکل وصورت کچھ نہیں.لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں، جو دنیا کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے لیکن اللہ کے پیار اور محبت کی نظریں ان پر پڑتی ہیں.میرا دل غم سے پھٹ گیا اور استغفار کی طرف اس کے لئے مائل ہوا.اور ساتھ ہی مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا، جبکہ مدینہ کے بازار میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ایک غلام کو بیچ رہے تھے.وہ ایسا غلام تھا، جس کے کپڑوں میں سے بدبو آتی تھی.دن بھر کی محنت اور مشقت سے پسینے سے شرابور اور آلودہ لباس میں وہ ملبوس تھا.انسان اس کی بدصورتی کی وجہ سے اس سے نفرت کرتے تھے.کوئی اس کو اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا.آپ نے اپنی البی بصیرت سے اس کے دل کی کیفیت کو بھانپ لیا اور پیچھے سے جا کر پیار سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے.جس طرح بعض دفعہ مائیں بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ بتاؤ میں کون ہوں؟ وہ جانتا تھا اور یقیناً جانتا تھا کہ حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 43
خطبہ جمعہ فرموده 10 ستمبر 1982ء تم تحریک جدید - ایک الہی تحریک سوا کوئی ایسا حسین اخلاق کا مالک نہیں ، جو مجھ سے ایسے پیار کا اظہار کرے.لیکن اس کی زندگی میں ایک ایسا عجیب موقع تھا کہ وہ اس کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتا تھا.جان بوجھ کر ، پہچاننے کے باوجود اپنے جسم کو حضور اکرم کے جسم سے رگڑنا شروع کیا.اپنے ہاتھوں کو آپ کے جسم کے زیر و بم پر پھیرنا شروع کیا اور بہت ہی پیار کا اظہار، جس طرح بعض دفعہ بلی ، آپ نے دیکھا ہے، لحاف میں گھس کر پیار کرتی ہے اور اپنے بدن کو رگڑتی ہے انسان کے ساتھ ، اس طرح اس نے اظہار محبت شروع کر دیا.پھر جب حضور نے پوچھا، بتاؤ میں کون ہوں؟ اس نے کہا، یا رسول اللہ ! آپ کے سوا ہو کون سکتا ہے.آپ ہی تو ہیں.تب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں ایک غلام بیچتا ہوں، ہے کوئی لینے والا ؟ اس نے کہا، یا رسول اللہ ! مجھے کون خریدے گا؟ لوگوں کی نفرت کی نگاہیں مجھ پر پڑتی ہیں اور شدت نفرت سے لوٹ جاتی ہیں واپس دیکھنے والے کی طرف.مجھ پر ٹھہر نہیں سکتیں.مجھے کون خریدے گا ؟ آپ نے فرمایا نہیں، تمہارا ایک گا بک ہے، میرا آسمانی آقا.میرا خدا تمہارا گا ہک ہے.پس بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں، جو دنیا کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، دنیا کی نگاہیں حقارت سے ان کو دیکھتی ہیں:.تَزْدَرِى أَعْيُنُكُمُ (هود: 32) جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے.لیکن جنہوں نے اپنا سب کچھ خدا کے لئے پیش کر دیا ہو، اللہ کے پیار کی نگاہیں ان پر پڑا کرتی ہیں.ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ کے پیار کی نگاہیں ان سب قربانی کرنے والوں کے دل پر پڑیں، ان کے چہروں پر پڑیں، ان کے جسم کو اس سے مس کریں، جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں سپین میں تبلیغ کی راہ میں قربانیاں پیش کی تھیں.ان کی اولاد بھی ساری اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے، خدا کے فضل سے.انتہائی انکسار کے ساتھ خدا کی راہ میں مٹی ہو کر انہوں نے خدمت کی.بیٹے کیا اور بیٹیاں کیا، ماں کیا اور باپ کیا.سارا خاندان لگا ہوا ہے.کسی نے ایک لفظ نہیں کہا کہ ہماری اتنی خدمتیں ہیں، ہمیں کیوں نمایاں مقام نہیں دیا گیا ؟ ہم سے کیوں یہ سلوک نہیں کیا گیا؟ یہ وہ جذبہ ہے ، یہ وہ روح ہے، جو واقفین میں ہونی چاہئے.اور ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس روح کو ہر واقف کے دل میں زندہ کر دے.اور جگہ جگہ بستی بستی ہمیں اس قسم کی روح کے واقفین میسر ہوں.کیونکہ کام بہت ہے اور آدمی تھوڑے ہیں.طاقت بہت کم ہے.مقابل پردشمنوں کی تعداد کیا اور ان کی مالی قوتیں کیا اور ان کی سیاسی قوتیں کیا.بے انتہا.ایسی نا قابل عبور چوٹیاں نظر آتی ہیں پہاڑوں کی ، جن کا سر کرنا انسان کے بس میں نظر نہیں آتا.44
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرموده 10 ستمبر 1982 ء پھر اسی سلسلے میں دعا کی تحریک کرتا ہوں اپنے بھائی عزیزم میر محمود احمد صاحب اور ان کی بیگم کے لئے بھی، اپنی ہمشیرہ عزیزہ امتہ المتین کے لئے.انہوں نے دن رات بے حد محنت کی.جب یہ آئے تو اس گھر کا صرف ایک ڈھانچہ سا کھڑا تھا اور بے حد محنت کی ضرورت تھی.بہت سے کاموں کی ضرورت تھی.میری ہمشیرہ نے مجھے بتایا کہ جس دن، رات تین بجے مجھے سونے کا موقع ملتا تھا تو میں شکر کرتی تھی اللہ تعالیٰ کا اور جھتی تھی کہ جلدی سونا نصیب ہو گیا ہے.خاموشی کے ساتھ بھی محنتیں کی ہیں، ان لوگوں نے.پھر انگلستان کی جماعت ہے.شیخ مبارک احمد صاحب اور ان کے ساتھی وہاں سے آتے رہے.بے حد کوشش ہوئی ہے اس کے پیچھے.اور دنیا کو تو صرف ایک عمارت نظر آتی ہے کھڑی ہوئی.اور سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی مسجد ہے، جیسی سینکڑوں، ہزاروں دنیا میں بن رہی ہیں.مگر یہ ایسی مسجد نہیں.آج کی دنیا میں ایسے آنسو بھلا کس مسجد کو نصیب ہوئے ہیں، جیسے اس کو نصیب ہوئے ہیں؟ ایسی قربانیاں کس کے پس منظر میں جلوہ گر ہیں، جیسی اس مسجد کے پس منظر میں جلوہ گر ہیں؟ ہر گز دنیا کی مساجد کو اس مسجد سے کوئی نسبت نہیں.ان دعاؤں کے ساتھ میرا ذہن اہل مغرب کی طرف بھی منتقل ہوتا ہے، جو دعاؤں کے بہت محتاج ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ایک مسجد سے کچھ نہیں بنے گا.بستی بستی مسجد بنانے کی ضرورت ہے، قریہ قریہ اذانیں دینے کی ضرورت ہے، خدا کا نام بلند کرنے کی ضرورت ہے.اتنا شرک پھیلا ہوا ہے، اتنی تباہی بچائی ہوئی ہے کفر نے کہ انسان محو حیرت رہ جاتا ہے کہ آج کل کا باشعور انسان اتنا بھی گراوٹ میں ملوث ہو سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اپنی پیشگوئی میں اس قوم کو ایسے دجال کے طور پر بیان فرمایا، جس کی دائیں آنکھ اندھی اور بائیں آنکھ روشن ہے.اس سے بہتر فصاحت اور بلاغت کا ایک جملہ تصور میں نہیں آسکتا ، جس نے ان قوموں کی ساری تصویر بھینچ کے رکھ دی ہے.ایک طرف دنیا کی آنکھ ہے، اتنی تیز نظر ہے کہ پاتال کی خبر لاتی ہے.اور دوسری طرف دین کی آنکھ ہے، جو اتنی اندھی ہے کہ جگہ جگہ شرک کا گہوارہ بنا ہوا ہے.خدا کی عبادت ہی ایک عبادت ہے، جس سے یہ غافل ہیں.باقی ہر دوسری چیز کی عبادت ہو رہی ہے.لہو ولعب کی عبادت ہو رہی ہے، بتوں کی عبادت ہو رہی ہے، فسق و فجور کی عبادت ہو رہی ہے، جھوٹ کی عبادت ہو رہی ہے، دجل کی عبادت ہو رہی ہے.صرف ایک خدا ہے، جس کی عبادت نہیں ہو رہی.ان سب کی تقدیر بدلنی ہے.ایک مسجد تو کافی نہیں.اور پھر ایک ایسی مسجد سے کس طرح تقدیر بدلی جائے گی، جس کے لئے نمازی پیدا نہ ہوں؟ بے انتہا کام کی ضرورت ہے، بے انتہا قربانیوں کی ضرورت ہے، بے حد واقفین کی ضرورت ہے، بے حد مالی قوت کی ضرورت ہے.اور ہم جب اپنے اوپر نظر کرتے ہیں تو بہت ہی کمزور اور حقیر اور بے بس اپنے آپ کو پاتے ہیں.45
خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک یورپ کے دورے میں ان خیالات میں مگن ہوتے ہوئے میں سوچتارہا اور میری فکر بڑھتی گئی.ان معنوں میں نہیں کہ مجھے مایوسی کی طرف لے جائے بلکہ ان معنوں میں کہ دعا کی طرف اور زیادہ اور بھی زیادہ مائل کرتی رہی.کیونکہ میں جانتا تھا کہ ساری مشکلات ایک طرف لیکن ہمارے رب کی ایک نظر ایک طرف.وہ ان سب مشکلات کو خس و خاشاک کی طرح اڑ سکتی ہے.وہ اس طرح غائب کر سکتی ہے، جیسے روشنی کے ساتھ اندھیرے غائب ہو جاتے ہیں.اور اس میں کسی کوشش کا دخل نظر نہیں آتا.اس لئے دعاؤں کی طرف توجہ بڑھتی رہی.لیکن ساتھ ہی میں نے بڑے غم اور دکھ کے ساتھ یہ بھی محسوس کیا کہ جماعت کے ایک طبقہ میں ابھی پوری طرح قربانی کا وہ احساس نہیں، جو ان مشکلات کے مقابل پر ہونا چاہئے.بہت سی جگہ بہت کوشش اور محنت کے ساتھ فہرستیں تیار کروائی گئیں، چندہ دہندگان کی تجنید کروائی.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نے اس سلسلے میں میری بڑی مدد کی.اور یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بعض جگہ پچاس فیصدی سے زائد ایسے احمدی ہیں، جو ایک آنہ بھی چندہ نہیں دے رہے.دنیا کے لحاظ سے ان کی کایا پلٹ چکی ہے.وہ اور ماحول میں بسا کرتے تھے کسی وقت ، اب اور ماحول میں پہنچ چکے ہیں.کوئی نسبت ہی نہیں خدا تعالیٰ کے ظاہری فضلوں کے ساتھ اس زندگی کو، جو وہ پہلے بسر کرتے تھے.مگر کلیتہ ان فضلوں کو بھلا کر وہ خدا تعالیٰ کے دین کی ضرورتوں سے غافل ہو کر محض اپنی ضرورتوں میں مگن ہیں.اور ان کے پورا کرنے کی فکر میں سرگرداں ہیں.یہ دیکھ کر تعجب ہوا اور بہت دکھ ہوا.پھر ان لوگوں کی فہرستوں کا مطالعہ کیا، جو چندہ دیتے ہیں.ایک حصہ ان میں ایسا پایا ، جن کو خدا نے بہت کچھ دیا لیکن مقابل پر بہت تھوڑا پیش کرتے ہیں.وہ پیش نہیں کرتے ، جس سے ان کو محبت ہے.وہ پیش کرتے ہیں، جو وہ زائد از ضرورت سمجھ کر پھینک سکتے ہیں.ان کو میں نے بتایا کہ دیکھو! قرآن کریم تو فرماتا ہے:.لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : 93) کہ ہر گز تم نیکی کونہیں پاسکو گے، جب تک وہ کچھ خرچ نہیں کرو گے ، جس سے تمہیں محبت ہو تم تو خدا کی راہ میں وہ دے رہے ہو، جس سے تمہیں محبت نہیں.وہ زائد چیز ہے، جو تم پھینک بھی سکتے ہو.تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے.تمہارے روز مرہ کے دستور پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا.اس لئے اس کو کیوں ضائع کرتے ہو؟ تقویٰ سے کام لو.اگر قربانی کی توفیق نہیں تو چھوڑ دو اس راہ کو لیکن خدا تعالیٰ سے سچائی کا معاملہ کرو.تب وہ تم سے سچائی کا معاملہ کرے گا، رجوع برحمت ہوگا.پھر رازق سے ڈرنا.رازق کو دیتے ہوئے ڈرنا، اس سے بڑی بے وقوفی کوئی نہیں.46
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمود و 10 ستمبر 1982ء اسی طرح سفر کے دوران ایک موقع پر بعض دوستوں کے حالات کے متعلق دیکھ کر بہت ہی دکھ پہنچا.بہت ہی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمائے لیکن مقابل پر کسی قسم کی کوئی قربانی نہیں.اس پر مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا.ہمارے ایک سی ، ایس پی کے افسر ہوا کرتے تھے.انہوں نے واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہ مصر گئے تو قاہرہ میں ایک جنازہ جارہا تھا.اور جنازے کے ساتھ صرف چار آدمی تھے، جنہوں نے اس جنازے کو اٹھایا ہوا تھا.اور دیکھنے میں وہ بوجھل جنازہ معلوم ہوتا تھا.چنانچہ ان کے دل میں بہت ہمدردی پیدا ہوئی ان کے لئے.اور ایک شخص کو جا کر انہوں نے ہٹا کر کندھا دینے کی کوشش کی.انہوں نے زور مارا.وہ آگے سے دھکے دینے لگا ان کو.یہ بڑے متعجب کہ میں تو اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ سنتا ہی نہیں.آخر ہمدردی کا جذبہ اتنا غالب آیا کہ انہوں نے دھکا دے کر اس کو الگ کیا اور خود اس کی جگہ جنازے کو کندھا دے دیا.کہتے ہیں، میں کر تو بیٹھا لیکن پھر کوئی نہیں آیا مجھے ہٹانے کے لئے.عادت نہیں تھی بوجھ اٹھانے کی، بالکل پس گیا.اور قبرستان کوئی چار میل شہر سے باہر کہتے ہیں، اس مصیبت میں مبتلا.اس جنازے کو چھوڑا بھی نہ جائے، زندگی اجیرن ہو گئی.آخر جا کر جب جنازہ قبرستان میں رکھا تو ایک مزدور جوان میں سے لیڈر تھا، ( وہ تھے مزدور) اس نے پیسے بانٹنے شروع کئے تو ان کا حصہ ان کو دیا.تب ان کو پتہ لگا کہ یہ تو مزدور تھے، یہ کوئی طوعی خدمت والے نہیں تھے.انہوں نے کہا، میں تو شوقیہ خدمت کے طور پر آیا تھا.مجھے کیا پتہ تھا، تم مزدور ہو؟ تب سمجھ آئی کہ وہ دھکے کیوں دے رہا تھا ؟ بے چارہ، جس کی مزدوری انہوں نے چھین لی.تو مجھے خیال آیا کہ ایک جنازے کے بوجھ میں ایک ایسا شخص ، جو کوئی خاص دین دار بھی نہ ہو، اس کو اتنی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکتا یہ نظارہ کہ صرف چار آدمی اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہوں.کیسے تعجب کی بات ہے کہ احمدی کہلا کر ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر تجدید بیعت کر کے، یہ وعدے کر کے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے، یہ عہد و پیمان باندھ کر کہ ہم دوبارہ اسلام کی کشتی کو پار لگانے کے لئے اپنے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے، اپنے جسموں کو بھی فرق کرنا پڑا اس راہ میں تو غرق کر دیں گے تاکہ اسلام کی کشتی کامیابی اور کامرانی کے ساتھ پار ہو سکے، اس کے باوجود دیکھتے ہیں کہ جماعت کے چند آدمی اس بوجھ کو اٹھا رہے ہیں، جو لکھوکھا کیا کروڑوں کا کام ہے کہ وہ اٹھا ئیں.اور صرف چند آدمی ہیں، جو اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہیں اور کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا، کوئی تکلیف نہیں ہوتی ، کوئی انسانی ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا ، کوئی احساس ندامت دل میں پیدا نہیں ہوتا کہ ہم بھی تو اسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.ہم نے بھی تو وہی وعدے کئے تھے.ہم پر بھی تو احسان ہیں حضرت مسیح موعود 47
خطبہ جمعہ فرموده 10 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم علیہ الصلواۃ والسلام کے کہ دوبارہ اسلام کی حقیقی لذتوں سے آشنا کیا.اور بڑے آرام سے کھڑے اس طرح نظارے کر رہے ہیں، جیسے ڈوبتی کشتی کا کوئی ساحل سے نظارہ کر رہا ہو اور کوئی اس کے دل میں حس پیدا نہ ہو.ایسے بھی نظارے میں نے دیکھے.پھر ایسے نظارے بھی دیکھے اخلاص کے اور محبت کے، کہ جب کوئی تحریک کرتے تھے تو وہ جن پر سب سے زیادہ بوجھ تھا، وہ سب سے آگے بڑھ کر اپنے جان و مال پیش کرتے تھے.اور بے قرار تھے کہ کسی طرح ہماری قربانیوں کو قبول کیا جائے.وہی ہیں، احمدیت کی اصل روح.وہی ہیں، جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.وہی ہیں، جن کی تمنائیں خدا کے حضور بپائیہ قبولیت جگہ پاتی ہیں.انہی کے پرتے پر آج احمدیت کی کشتی جاری ہے.انہی کے سر پر یہ قافلہ سفر اختیار کر رہا ہے.اور وہ بہت تھوڑے ہیں.ایسے دوست مجھ سے پوچھتے تھے کہ بتاؤ ہم کیا پیش کریں؟ کس طرح پیش کریں؟ اور کیا چاہئے ، سلسلے کے لئے؟ میں ان سے کہتا تھا، ابھی نہیں.بعض دفعہ مجلس شوری میں گفتگو ہوئی تو بے قرار ہو کر لوگوں نے پوچھا کہ بتا ئیں ، ہم حاضر ہیں؟ جو چاہتے ہیں، دیں گے.اس کے علاوہ انہوں نے بھی پیش کیا ، جن سے پوچھا بھی نہیں گیا تھا.ابھی امریکہ سے ہمارے ایک بھائی نے خط پیش کیا.انہوں نے کہا، جو کچھ میرا ہے، سلسلے کا ہے.ایک دمڑی بھی میری نہ سمجھیں آپ.مجھے فاقے بھی کرنے پڑے تو میں گزارا کروں گا.اور میں بڑی دیانتداری سے پیش کر رہا ہوں.کوئی دوری نہیں، کوئی دوئی نہیں.حساب سارا لکھ کر دیا کہ یہ میرالین دین ہے، یہ میری جائیداد ہے، اس کی یہ Value (ویلیو) ہے.آئندہ یہ امکانات ہیں.جس وقت ، جس لمحے مجھے کہا جائے گا ، سب کچھ چھوڑ دو، میں سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.تو حقیقت یہ ہے کہ مسجدوں کی بڑی ضرورت ہے.یہ ہے کہ بہت سے مبلغین کی ضرورت ہے.مگر میں ابھی کوئی تحریک نہیں کروں گا.میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک اپنے کمزور بھائیوں کو ساتھ ملنے کا موقع نہ دیا جائے ، ہم ابھی آگے نہیں بڑھیں گے.ظلم ہو گا ان پر ، جومحروم رہ جائیں اور قافلہ کہیں کا کہیں نکل جائے ان کو چھوڑ کر.اس لئے کچھ وقت ہمیں ان کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے دینا چاہئے.ان کو سمجھانا چاہئے ، پیار اور محبت سے.ان کو بتانا چاہئے کہ کون سی نیکیاں ہیں؟ کون سی سعادتیں ہیں؟ جن سے تم محروم چلے آرہے ہو.جب تک یہ موقع مہیانہ کیا جائے ، اگر ہم چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں گے تو خدا کا کام ہے، وہ ضرور پورا ہوگا.یہ قافلہ تیز قدموں کے ساتھ آگے بڑھ جائے گا.لیکن یہ اور ان کی اولادیں پھر دنیا میں جذب ہو جائیں گی.ان کا کوئی سہارا نہیں رہے گا باقی.اس لئے انسانی ہمدردی کا 48
خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ستمبر 1982 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک تقاضا یہ ہے کہ ان کو ساتھ شامل کیا جائے.اس لئے وہ سارے جو آج اس خطبے میں شامل ہیں، وہ اپنے اپنے ماحول میں جا کر اس بات کے مبلغ بہنیں کہ پہلے جو کمزور ہیں، جو خدا کی راہ میں خرچ سے ڈر رہے ہیں، ان کو بتایا جائے کہ تم تو محروم ہور ہے ہو.نیکیوں سے بھی محروم ہور ہے ہو اور خدا کے فضلوں سے بھی محروم ہو رہے ہو.اس دنیا سے بھی محروم ہور ہے ہو، جس کے پیچھے تم پڑے ہوئے ہو.تمہارے روپوں میں برکت نہیں رہے گی ہم اپنی اولادوں کی خوشیوں کو نہیں دیکھ سکو گے.ان سے محروم کئے جاؤ گے.تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہاری لذتیں نکل جائیں گی تمہارے دلوں سے.اور ان کی جگہ غم اور فکر لے لیں گے.یہ تقدیر ہے ان احمدیوں کے لئے جو احمدیت کو چھوڑ کر دور جارہے ہیں.یہی ہم نے دیکھا ہے ہمیشہ.اور جو خدا کی راہ میں قربانی کرتے ہیں، اللہ ان کی قربانی رکھا نہیں کرتا.کون سا قربانی کرنے والا آپ نے دیکھا ہے، جس کی اولا د فاقے کر رہی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان دیکھیں ، خدا نے فضل کئے ہیں.مگر اس وقت تک یہ فضل ہیں، جب تک کوئی سمجھے کہ کس کی بناء پر ہیں.اگر کسی دماغ میں یہ کیڑا پڑ جائے کہ میری کوشش ہے، میری چالا کی ہے، میرے ہاتھ کا کرتب ہے تو بڑا ہے وقوف ہوگا.یہ ان چند روٹیوں کے فیل مل رہا ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا کی راہ میں قربان کی تھیں.ابھی نبوت بھی عطا نہیں ہوئی تھی کہ جو کچھ تھا، خدا کو پیش کر بیٹھے.یہ اسی کا صدقہ ہے، ، جو کھایا جارہا ہے.صرف وہی نہیں سینکڑوں احمدی خاندان ہیں، جواسی قسم کی قربانیوں کا پھل کھارہے ہیں.ان کے والدین یا ان کے ماں باپ نے بڑے بڑے مشکل حالات میں گزارے کئے.جو کچھ میسر تھا، جو کچھ وہ بچا سکے، خدا کے حضور پیش کر دیا.اور آج اولادیں ہیں کہ پہچانی نہیں جاتیں.کہاں سے آئی تھیں، کہاں چلی گئیں.ان کے پیچھے رہنے والوں کو دیکھیں ، جو محروم تھے ان سب قربانیوں سے.ان کی کلیں اور ہیں، ان کے ماحول اور ہیں، ان کی عقلیں اور ہیں، ان کے علم اور ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والوں کی اولادوں کو خدا نے اتنی برکت دی.مگر پہچاننے کی ضرورت ہے، احساس کی ضرورت ہے.جب تک یہ احساس زندہ رہے گا ، یہ قافلہ آگے بڑھتا رہے گا.اگر یہ احساس مٹ گیا اور ہم غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ یہ گویا ہماری ہی ہوشیاریوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے تو برکتیں چھینی جائیں گی.پھر ڈرتے کس بات سے ہیں؟ خدا کی راہ میں دینے والے کبھی خالی نہیں رہے.رازق وہ ہے.وہ تو محبت اور پیار کے اظہار کے طور پر آپ کے دلوں کو پاک وصاف کرنے کے لئے آپ سے مانگتا ہے.وَاللهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاء (محمد : 39) 49
خطبہ جمعہ فرموده 10 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ تو غنی ہے.اسی نے تمہیں سب کچھ دیا.تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تو اس نے تمہارے لئے سارے انتظام کر دیئے تھے.ساری کائنات کا مالک ہے، اس کے خزائن کبھی ختم نہیں ہوتے.اس کی رحمتوں اور برکتوں کے طفیل انسان رزق پاتا ہے اور رزق سے برکتیں حاصل کر سکتا ہے.ورنہ ایسے رزق والے بھی ہم نے دیکھتے ہیں کہ دلوں میں جہنم لئے پھرتے ہیں.کوئی رزق ان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اس خدا سے تعلق جوڑنے کے بعد پھر منہ موڑنا، یہ کہاں کی عقل ہے.یہ تو خود کشی ہے.اس لئے محبت اور پیار سے سمجھائیں.میں نے تو بار ہا یہ اعلان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اتنا نہیں دے سکتا، جو شرح کے مطابق ضروری ہے تو صاف کہے.اپنے حالات پیش کرے.چندہ عام ہے، وہ خلیفہ وقت معاف کر سکتا ہے.اور میں کھلا وعدہ کرتا ہوں کہ جود یا نتداری سے سمجھتا ہے کہ میں نہیں پورا اتر سکتا، میری شرح کم کر دی جائے، اس کی شرح کم کر دی جائے گی.لیکن جھوٹ نہ بولیں خدا سے.یہ نہ ہو کہ خدا کروڑ دے رہا ہو اور آپ لاکھ کے اوپر چندے دے رہے ہوں.اور بتا یہ رہے ہوں کہ دیا ہی خدا نے لاکھ ہے.اللہ کوئی بھول جاتا ہے (نعوذ بالله من ذلک ) کہ میں نے اس کو کیا دیا تھا اور اب یہ مجھے کیا واپس کر رہا ہے؟ جس نے دیا ہے، وہ تو دلوں کے بھیدوں سے آشنا ہے، وہ مخفی ارادوں سے آشنا ہے، وہ ان بنک بیلنسز سے آگاہ ہے، جن میں روپے جاتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں.اور تسلی نہیں پاتا انسان اور بڑھانا چاہتا ہے.تو جو ضرورت مند ہے، اس کی ضرورتوں کی فکر کی جائے گی، اس کی ضرورت کا لحاظ کیا جائے گا.اس کو خوشی سے اجازت دی جائے گی.بلکہ ایسا ضرورت مند احمدی جو چندہ نہیں دے سکتا، امداد کا مستحق ہے، جماعت کا کام ہے، جہاں تک ممکن ہو، اس کی امداد کرے.لیکن خدا سے جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اس لئے ایک مہلت میں دیتا ہوں، اس خیال سے کہ ہمارے بھائی ضائع نہ ہوں.مجھے اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ خدا کے کام کیسے پورے ہوں گے؟ اگر میں یہ فکر کروں تو مشرک بن جاؤں گا.مجھے اس بات کی ہر گز فکر نہیں ہے کہ اگر کوئی احمدی ضائع ہو گئے تو ان کی جگہ اور کیسے ملیں گے؟ ایک جائے گا تو خدا ہزاروں، لاکھوں دے سکتا ہے، اس کے بدلے اور دے گا.مجھے فکر یہ ہے کہ ایک بھی احمدی ضائع کیوں ہو؟ کیوں ہمارا بھائی ایک اچھے رستہ پر چل کر بھٹک جائے اور ہم سے ضائع ہو جائے ؟ تو مجھے ان کی ذات کا غم ہے.اپنی جماعت کا غم تو کوئی نہیں.جماعت کا غم تو میرا خدا کرے گا اور وہی ہمیشہ کرتا چلا آیا ہے.جماعت کی ضرورتیں وہی پوری کرتا ہے اور وہی پوری کرے گا.اس لئے جب تک ایک موقع دے کر ہم اپنے بھائیوں 50
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرموده 10 ستمبر 1982ء کو ساتھ نہ ملالیں، ایک آرڈر نہ پیدا ہو جائے نظام کے اندر، سارے دوست دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ مالی قربانیوں کے کم سے کم معیار پر پورے نہ اتر آئیں، اگر ہم آگے بڑھیں گے تو وہی چند لوگ، جو السابقون الاولون ہیں، وہی قربانیوں کا بوجھ اٹھاتے چلے جائیں گے.اور لوگوں کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ یہ چند آدمی ہیں صرف، ساری جماعت نہیں ہے.تو یہ دعا بھی کرنی چاہئے ، اپنے ان بھائیوں کے لئے اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ دے، عقل دے، قربانیوں کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے.ہماری باتوں میں تو کوئی اثر نہیں.جب تک خدا دلوں کو نہ بدلے، کوئی نہیں بدل سکتا.تو ان کے لئے دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.جہاں تک اس مسجد کی آبادی کا تعلق ہے، اب میں آخری بات آپ سے یہ کہنی چاہتا ہوں کہ جب سے میں بین آیا ہوں ، دل کی ایک عجیب کیفیت ہے.خوشیاں تو بہت ہیں مگر جیسا کہ میں نے کہا تھا، یہ خوشیاں غم میں ڈھلی ہوئی خوشیاں ہیں.یہ عجیب و غریب بات ہے، آنکھوں سے بہنے والی خوشیاں ہیں.میں سوچتا ہوں کہ مسجد تو ہم بنائیں گے، اس کی آبادی کیسے ہوگی؟ اتنی مدت ہو گئی پین میں کام کرتے ہوئے ، احمدی بھی ہوئے لیکن ابھی تک ہم اتنی تعداد میں احمدی نہیں بنا سکے کہ ایک احمد یہ جماعت اتنی مضبوط اور تعداد میں اتنی کثیر پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے معاشرے کی حفاظت کر سکے.معاشرے کی حفاظت کے لئے ایک معقول تعداد کا ہونا ضروری ہے.ورنہ اکیلا اکیلا احمدی اگر ہو تو وہ ماحول میں واپس جذب ہو جایا کرتا ہے.یہ قانون قدرت ہے، جس کو آپ تو ڑ نہیں سکتے.اس لئے رفتار کا اتنا بڑھنا ضروری ہے کہ کم سے کم ضروری تعداد مہیا ہو جائے، جو اقدار کی حفاظت کرتی ہے.اور اس تعداد کی بناء پر آگے بڑھنے کا سوال پیدا ہوتا ہے.انقلاب پیدا کرنے کے لئے بھی ایک کم سے کم مقدار کی ضرورت ہوتی ہے.یہ تو دنیا کے ہر آدمی کو پتہ ہے کہ ایٹم بم کو پھاڑنے کے لئے بھی کم سے کم ایک وزن کی ضرورت ہے.اس سے کم ہو تو وہ طاقت ضائع ہوتی چلی جاتی ہے.اور وہ Chain Reaction پیدا نہیں ہوسکتا.اس لئے اس Chain Reaction کے لئے جتنی تعداد میں احمدیوں کی ضرورت ہے، وہ ابھی تک ہمیں مہیا نہیں ہو سکے.کیسے مہیا ہوگی؟ اتنا شرک ہے، اتنا ماحول پر دنیا کا اثر ہے، دہریت گھر گھر میں داخل ہورہی ہے، سیاسی تو جہات نے عقلوں کو اور ذہنوں کو غلط سمتوں میں مائل کیا ہوا ہے، معاشرے کی آزادیاں، دنیا کی لذتیں، یہ سارے بت چاروں طرف سے ان سوسائٹیوں کو گھیرے ہوئے ہیں.تو بہت فکر پیدا ہوتی ہے کہ اے خدا! اس مسجد کی آبادی کا تو انتظام کر.میں تو یہی دعا کرتا رہا ہوں.جہاں بھی گیا ہوں، دیکھ کر ایسی 51
خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک بے بسی کا احساس ہوا ہمیشہ اور پھر میں نے یہی عرض کی کہ اے خدا! اگر توفیق ہوتی تو میں سجدے کرتے ہوئے ان راہوں پر چلتا.میں تیرے حضور خاک ہو کر مٹ جاتا یہاں.اے خدا! تو نمازی بخش تو عبادت کرنے والے عطا فرما.کیونکہ خالی مسجدیں بنانا تو کوئی کام نہیں ، جب تک یہ مسجد میں خالص عبادت کرنے والوں سے نہ بھر جائیں.لیکن ہمارے اندر کوئی طاقت نہیں میرے رب ! آپ بھی یہ دعائیں کریں.جب تک یہاں ہیں، پین کی مٹی کو اپنے آنسوؤں سے تر کریں.اتنے آنسو بہائیں کہ خدا کی تقدیر کی رحمتیں بارش کی طرح برسنے لگیں اس ملک پر.ہر آنسو سے وہ روحیں پیدا ہوں، جو اسلام کے لئے ایک انقلاب کا پیغام لے کر آئیں.ہر آنسو سے ابن عربی نکلیں ، ہر آنسو سے ابن رشد پیدا ہوں.آج ایک ابن عربی کا کام نہیں.آج تو قریہ قریہ بستی بستی ابن عربی کی ضرورت ہے.اس لئے یہ کام نہ آپ کے بس میں ہے، نہ میرے بس میں ہے.صرف ہمارے آقا ، ہمارے رب کے بس میں ہے.اور ہمارے بس میں صرف آنسو بہانا ہے.اور یہ ہمیں ضرور کرنا ہوگا.پوری گریہ وزاری کے ساتھ، انتہائی عاجزی کے ساتھ اور انکساری کے ساتھ روئیں خدا کے حضور اور جب قطرے ٹپکیں زمین پر تو دعا کریں کہ اے خدا! ان قطروں کو ضائع نہ ہونے دینا.ہر قطرے سے برکتیں پیدا ہوں.ہر قطرے سے وہ روحانی وجود نکلیں ، جو سپین کی تقدیر کو بدل دیں.اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے.ہم عاجز انسان ہیں، ہماری طاقت اور ہمارے بس میں ہے کیا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.و بعض دوستوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ جمعہ کے معا بعد اجتماعی بیعت بھی ہو جائے کیونکہ بہت سے ملکوں سے ایسے دوست تشریف لائے ہیں، جن کو موقع نہیں مانتا عمو ما مرکز میں حاضر ہونے کا.اور ان کی خواہش ہے کہ دستی بیعت یہاں ہو جائے تو انشاء اللہ جمعہ کی نماز کے معابعد دستی بیعت ہوگی.ایک بات کی طرف خاص طور پر میں توجہ دلانی چاہتا تھا دعا کے سلسلے میں اور ذہن سے اتر گئی کہ دعا کی قبولیت کے لئے ایک گر، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے، وہ آپ سب کو معلوم ہونا چاہئے.طبعا تو یہی ہوتا ہے عموماً لیکن Consciously باشعور طور پر ہر احمدی کے ذہن میں یہ بات حاضر رہنی چاہئے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دعا کی قبولیت کا ایک راز تمہیں بتاتا ہوں.پہلے خوب اپنے رب کی حمد کرو، اس کی محبت کے گیت گاؤ اور پھر مجھ پر درود بھیجو.اس لئے کہ آپ خدا سب سے زیادہ پیارے ہیں.اور یہی چیز ہے، جو فطرتا بھی ہمیں نظر آتی ہے.آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو 52
خطبہ جمعہ فرمود و 10 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ہوشیار فقیر ہیں، وہ بعض دفعہ ماؤں سے بھی بڑھ کر بچوں کو دعائیں دیتے ہیں.جانتے ہیں کہ یہ ایسی محبت ہے کہ یہ بچوں کی محبت کی وجہ سے مجبور ہو جائیں گی ہمیں کچھ ڈالنے کے لئے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے عارف باللہ تھے.خوب جانتے تھے ان رازوں کو.پس آپ نے فرمایا کہ دعائیں قبول کروانا چاہتے ہو تو مجھ پر درود بھیجا کرو، ساتھ پہلے حمد کرو اللہ کی ، وہ اول ہے.پھر مجھ پر درود بھیجو.پھر جو مانگو، خدا قبول فرمائے گا.تو اسی طریق کو اختیار کیا جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بچے کو جب یہ سمجھایا تو اس کے بعد وہ نماز پڑھنے کے بعد بیٹھا، اس نے دعائیں کیں ، حمد کی اور پھر درود بھیجے.وہ خودروایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ تمتما اٹھا خوشی سے اور دیکھ کر پیار سے مجھے دیکھتے ہوئے فرمایا کہ بچے اٹھیک کر رہے ہو، ٹھیک کر رہے ہو، ٹھیک کر رہے ہو.یہی طریق ہے دعاؤں کا تو آپ بھی دعاؤں میں یہ بات نہ بھولنا کہ حمد کے ساتھ ہی بے اختیار دل سے درود کے چشمے بھی پھوٹ پڑیں.تا کہ ناممکن ہو جائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لئے ان دعاؤں کا رد کرنا.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا:.دو صفیں بنالیں اور سیدھی صفیں بنائیں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 20 اکتوبر 1982ء) 53
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم مکتوب محرره 21 ستمبر 1982ء خدمت اسلام کے تقاضے دنیا کے گوشے گوشے میں بلا رہے ہیں 21.4.1361/1982 ٹیلے.یارک شائر مکتوب محر ر ہ 21 ستمبر 1982ء بسم الله الرحمان الرحيم پیارے برادرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ وامیر مقامی.ربوہ آپ کا محبت بھر اخط ملا، جس میں پاکستان کی احمدی جماعتوں کے مختصر حالات بھی درج تھے.جزاكم الله احسن الجزاء میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنے خاص فضلوں اور رحمتوں کے سائے تلے رکھے اور ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات بخشے.اور دین محمد مصطفیٰ کی فکروں کے سوا ہر دوسری فکر سے آزاد کر دے.اور دین کی سب فکروں کو اعمال صالحہ اور جمیل مساعی میں بدلتے ہوئے مثمر ثمرات حسنہ فرمائے.آمین اہل پاکستان کے نام اپنے پر خلوص جذبات اور نیک تمناؤں کا اظہار اس سے بہت پہلے کہ آپ کا خط ملتا کر چکا ہوں.امید ہے، میرا یہ خط اب تک آپ کومل چکا ہوگا.اندلس میں مسجد بشارت کے افتتاح بلکہ تمام سفر کے دوران یوں لگتا تھا کہ تمام دنیا کے احمد یوں کی دعائیں قبولیت کا شرف پا کر رحمت کی گھنگھور گھٹائیں بنی ہوئی ہماری سروں پر چھا گئی ہیں اور مسجدوں میں ان کی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسو ر حمت باری کے ان گنت قطرے بن کر آسمان سے برس رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو نظارے دیکھے، نہ دل میں استطاعت ہے، نہ زبان میں گویائی کہ ان کا شکر کا حق ادا کر سکے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ہر ملک کی ہر جماعت کی دینی ضروریات اور فدائیان احمدیت کی بے حد پر خلوص اور بے لوث محبت کے تقاضے قدم تھام لیتے ہیں، گویا واپس نہ آنے دیں گے.لیکن ساتھ ہی ربوہ واپس لوٹ جانے کی ایک 55
مکتوب محر ر ہ 21 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم بے قرار ضدی سی تمنا ہے، جو ہر دم بے چین رکھتی ہے.اللہ تعالی محض اپنے فضل سے یہ سب تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخشے.اور ایسے ہی اور بہت سے تقاضے پورے کرنے کی بھی، جو دنیا کے گوشے گوشے میں خدمت اسلام کی طرف بلا رہے ہیں اور روز بروز اپنی شدت اور وسعت میں بڑھتے چلے جارہے ہیں.جب فرصت کے چند لمحے نصیب ہوتے ہیں تو کاموں کے ہجوم کی بجائے ہر طرف پھیلی ہوئی ضروریات کے فکروں کے ہجوم آگھیرتے ہیں اور دل کو ایک طلسم پیچ و تاب میں بدل دیتے ہیں.تب بڑے درد و کرب سے اپنے مولیٰ کے حضور دل سے یہ دعا اٹھتی ہے کہ بات نہیں.رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے ! بس دعا ہی کا ایک سہارا ہے، ورنہ مہمات دینیہ کا بوجھ اٹھانا، کسی بندے یا جماعت کے بس کی خود کنی و خود کنانی کار ما ! عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ إِلَيْهِ أُنِيْبُ ان باتوں کے علاوہ کچھ ان خطوں کا بھی فکر رہتا ہے، جو احباب جماعت اور عزیزان کس کس محبت اور چاہت سے دعاؤں میں بسا کر لکھتے ہیں.پڑھنے کا وقت تو سفر کے دوران نکال ہی لیتا ہوں، جواب دینے کا وقت نہیں پاتا تو طبیعت ملول ہو جاتی ہے.دل چاہتا ہے کہ ہر ایک کو اپنے ہاتھ سے خط لکھوں.محبت کا جواب محبت سے اور دعاؤں کا جواب دعاؤں سے دوں.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ کا مضمون یاد آتا اور ستاتا ہے لیکن کچھ پیش نہیں جاتی.تب لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کی آیت لوریاں دیتی اور بڑی شفقت سے تھی پکاتی اور سہلاتی ہے.بیک وقت دور نیاؤں میں بس رہا ہوں.ایک مصروفیات کی بیرونی دنیا ہے اور ایک کیفیات کی اندورنی دنیا.والسلام خاکسپار مرزا طاہر احمد مطبوعه روزنامه الفضل 103 اکتوبر 1982ء) 56
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 24 ستمبر 1982ء ایک احمدی کے لئے سب سے اہم بات اسلام کا پیغام ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 ستمبر 1982ء لیکن یہاں (مغربی ممالک میں ) ہم غلطیاں کرتے ہیں.میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں، جو مشرق سے آکر مغرب میں آباد ہو گئے ہیں اور انہوں نے حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سمجھا ہی نہیں.آپ نے ہمیں نصیحت فرمائی تھی کہ جہاں تک مادی دنیا کے امور کا تعلق ہے ، ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کے فعل کا مطالعہ کرنے میں تو کوئی حرج نہیں.یہ سب اللہ تعالیٰ کی تخلیق فرمودہ ہے، ان کی تخلیق تو نہیں.اس بارہ میں ان کا ادراک درست ہے.یہ فیصلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.آپ نے فرمایا کہ جہاں تک مادی علوم کا تعلق ہے، سائنس کا تعلق ہے تو نہ صرف ان سے سیکھو بلکہ ان سے آگے نکلنے کی کوشش کرو.اس میں کوئی حرج نہیں.کیونکہ وہ خالق نہیں ہیں.انہوں نے اللہ تعالی کی تخلیق کو درست طور پر سمجھ لیا ہے.لیکن دیگر اقدار میں نہ صرف ان کی پیروی نہ کرو بلکہ ان سے کنارہ کشی اختیار کرلو.لیکن جو کچھ مجھے یہاں دکھائی دیا ہے، وہ بالکل مختلف طریق ہے بلکہ برعکس ہے.ایشیا سے آئے ہوئے بہت سے لوگ ان کی خوبیوں کی نہیں بلکہ ان کی خامیوں کی پیروی کرتے ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں.وہ اپنی اخلاقی اقدار چھوڑ بیٹھتے ہیں.اپنے اندر کی تمام خوبیاں چھوڑ کر مغربی معاشرے کے گند سمیٹ لیتے ہیں.جبکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چودہ سو سال قبل متنبہ کر دیا تھا.آپ کی نظر کتنی گہری تھی اور پیغام کیسا خوبصورت ! اس جگہ یہ غلطی کرتے ہیں.مغرب کی ہر بات کو برا نہ کہو اور ان کے خلاف خواہ مخواہ بغاوت نہ کرو.یہ پیغام تھا، جو آپ نے دیا.اچھی چیز اور بری چیز میں تمیز کرنا سیکھیں.اور میں اس کے لئے آپ کو ایک تیر بہدف نسخہ بتاتا ہوں، جس سے آپ کبھی بھی بھٹک نہیں سکیں گے.وہ یہ ہے کہ اخلاقی وروحانی امور میں اہل مغرب بالکل غلط راستے پر ہیں، جبکہ دنیاوی امور میں وہ بالکل درست ہیں.اس لیے دنیوی امور میں ان کی پیروی کریں، ان سے سیکھیں اور آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اس میں کوئی حرج نہیں.لیکن ان کی اخلاقی، مذہبی یا معاشرتی اقدار کی پیروی ایک زہر ہے، اسے مت کھائیں.57
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک مگر مشرق سے آنے والے لوگ بعینہ یہی کرتے ہیں.اس کے لئے احمدیوں سے توقع تھی کہ وہ نہ صرف مغرب کو بلکہ مشرق سے آنے والے لوگوں کو بھی، جو یہاں آکر ان مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، متنبہ کریں گے.مگر احمدی بھی درحقیقت یہ کام نہیں کر رہے.اس لئے میں نے آپ پر کھول دیا ہے کہ بدقسمتی سے آپ کون سی اقدار ضائع کر رہے ہیں.آپ جو مغرب میں آئے ہیں، آپ نہ صرف اپنی ذاتی حیثیت میں یہاں آتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اسلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے کے طور پر یہاں آئے ہیں.اگر آپ خود ہی اس مذہب کو نہ سمجھیں ، اس کی تعلیمات پر کار بند نہ ہوں اور اپنے ذاتی نمونے پیش نہ کریں تو پھر کس طرح آپ کو اسلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے.بعض پہلوؤں سے آپ لوگ یہاں اتنی کمزوری دکھاتے ہیں کہ مجھے تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ بعض معاملات میں ہم مغرب پر غلبہ حاصل کرنے کی بجائے اس کے زیر اثر آ رہے ہیں.جہاں تک تبلیغ کا سوال ہے تو سکاٹ لینڈ میں یہ صفر ہے.میں نے یہاں آکر پتہ کیا کہ کتنے مقامی احمدی دوست یہاں موجود ہیں، جن کی خاطر میں انگریزی میں خطاب کروں؟ تو مجھے بتایا گیا کہ صرف ایک خاتون ایسی ہیں.یہ جو کچھ ہم نے یہاں حاصل کیا ہے، اس کا نصف ہے.کیونکہ ایک اور دوست بھی ہیں، جو یہاں موجود نہیں ، جو بد قسمتی سے غیر حاضر ہیں.چنانچہ مقامی احمدیوں کی آدھی تعداد یہاں موجود ہے، جو صرف ایک ہے.یہ قابل شرم ہے.یہ ایسا نکتہ ہے، جس پر ہمیں غور کرنا چاہئے.آپ سب لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ تمام نو جوان اور بوڑھے اور خواتین اور مرد حضرات.وہ پاکستان سے یا کسی اور ملک سے یہاں ملازمت کی تلاش یا کاروبار کے سلسلہ میں تشریف لائے ہیں.حالانکہ یہ آپ کا بنیادی کام نہیں.ایک احمدی کے لئے سب سے اہم بات اسلام کا پیغام ہے.اسے صرف مبلغین کے لئے ہی نہ رہنے دیں.وہ اکیلے یہ کام کر ہی نہیں سکتے.یہ بوجھ آپ کو بھی اٹھانا پڑے گا.ورنہ اسلام اسی شکست خوردہ حالت میں رہے گا، جیسا کہ آج ہے.ابتدائی تاریخ اسلام کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب ملائیت کی وجہ سے نہیں آیا.اسلام میں تو ملائیت کا کوئی تصور ہی نہیں کہ جس کے ذریعہ اتنابڑا انقلاب آ سکتا.چین میں اسلام کس طرح پھیلا ؟ تاریخ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں کوئی ایک مبلغ بھی نہیں بھجوایا گیا.میری مراد چین کے ان چار صوبوں سے ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے.وہ چار بڑے صوبے، جو تقریبا تمام کے تمام مسلمان ہیں.وہاں کسی مسلمان حکومت نے ایک شخص کو بھی نہیں بھجوایا.فقط تاجر اور ایسے لوگ تھے، جو ملازمتوں کی تلاش میں اس طرح گئے ، جس طرح آپ یہاں آئے ہیں.انڈو نیشیا میں کس نے تبلیغ کی ؟ نہ کسی 58
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 ستمبر 1982ء تلوار کے ذریعہ اور نہ ہی ایسے مبلغین کے ذریعہ، جو آج ہمیں نظر آتے ہیں.اس وقت ایسا نظام ہی موجود نہیں تھا.محض عام تاجر پیشہ لوگ گئے اور تبلیغ کرنی شروع کی.وہ ذمہ دار لوگ تھے.حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی پہلو بھی غیر واضح نہیں چھوڑا.آپ نے دجال کے معانی کھول کر بیان فرمائے.آپ نے واضح فرمایا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر کہاں ملتا ہے؟ آپ نے دجال کی فلاسفی بیان فرمائی.آپ نے بتا دیا کہ کہاں اس کی پیروی کرنی ہے اور کہاں اس کی پیروی نہیں کرنی ؟ کہاں مخالفت کرنی ہے اور کہاں تعاون؟ چنانچہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر پہلو کھول کر بیان فرما دیا.لیکن بد قسمتی سے ہم آپ کے الفاظ پر غور نہیں کر رہے ہیں.جس کی طرف میں بار بار آپ کی توجہ مبذول کروا رہا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے.اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر آج سے فیصلہ کرلیں کہ آئندہ آپ ایک مبلغ کی طرح زندگی گزاریں گے.اگر آج آپ یہ فیصلہ کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر آپ اپنی توانائیاں اس ملک کو اسلام کی طرف لانے میں صرف کریں گے تو آپ واضح تبدیلیاں محسوس کریں گے.آپ کے اردگر دلوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائیں گے.لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے، جب آپ عاجزی اختیار کریں ، جب آپ مسلسل اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں، اسی سے مدد کی درخواست کریں.کیونکہ اس کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں.اس بات کو سمجھ لیں کہ آپ کے پاس اس زمین پر کوئی طاقت نہیں.اور پھر اپنے خدا کی طرف متوجہ ہوں ، آنسوؤں اور درد بھرے دل کے ساتھ کہ اے خدا! میں نے ان لوگوں کو اسلام میں شامل کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے.میں جو ایک ذرہ ہوں، کچھ بھی نہیں ہوں.جس کے پاس کوئی علم نہیں ، دولت نہیں، کافی طاقت نہیں، میں ایسے کس طرح کر سکتا ہوں؟ مگر خدایا میں اسے تیری خاطر کرنا چاہتا ہوں.مجھے تیری رحمت سے امید ہے.میں تیری طاقت اور امداد پر یقین رکھتا ہوں.تو میری مدد فرما.کیونکہ میں جیسا بھی ہوں بہت عاجز تیری مدد کر نا چاہتا ہوں.پس تو اس عظیم الشان مقصد کے حصول میں، جو میں تیری محبت میں حاصل کرنا چاہتا ہوں، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار میں حاصل کرنا چاہتا ہوں ، میری مددفرما.میں اپنا آپ تیرے سپرد کرتا ہوں تو تو میری مدد کیوں نہیں کرے گا ؟ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے حضور اس درد اور دکھ سے بھرا ہوا دل لئے فریاد کریں گے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ اسے قبول نہ فرمائے.تب آپ اپنے گرد تبدیلیاں محسوس کریں گے.تب آپ دیکھیں گے کہ اس ملک کی قسمت بتدریج بدل رہی ہے، اور تاریکی سے روشنی پھوٹے گی اور تاریکی ختم ہو جائے گی.59
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے.اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے.پہلے اس پر عمل کرنے کا مخلصانہ ارادہ کریں.پھر اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان مقصد کے حصول میں آپ کی مدد فرمائے گا.استقلال کے ساتھ ، کسی جذباتی ابال کے نتیجہ میں نہیں.یہ ایک ایسا کام ہے، جس کے لئے غالباً ہمیں نسلاً بعد نسل کام کرنا پڑے اور اس عظیم الشان مقصد کے حاصل کرنے میں توانائیاں صرف کرنی پڑیں.چنانچہ ہمیں تھکے ہوئے لوگ نہیں چاہئیں.اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم ہمیں بتاتے ہیں کہ ایسے فرشتے ہیں، جو خدا تعالیٰ کی تعریف کرتے ہوئے تھکتے نہیں.یہی حال حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کا ہے، جو اسلام کے مقدس بانی کی بیان فرمودہ عظیم الشان مقصد کو فتح و ظفر کے نعرے لگاتے ہوئے حاصل کرتے ہیں.زندگی میں یہ آپ کا مقصد ہے.اللہ تعالیٰ کی نظروں میں آپ کا یہ مقام ہے.پس اٹھیں.آپ کیوں ان کم درجہ ایشیائیوں کی طرف دیکھتے ہیں، جو یہاں آکر اپنی اقدار گم کر بیٹھے ہیں، احساس کمتری کا شکار ہو کر گمراہ ہو بیٹھے ہیں؟ لیکن آپ ان سے مختلف ہیں.آپ یہ سمجھتے کیوں نہیں؟ مجھے اس بات سے سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے.نہ صرف ارد گرد کے لوگوں کی حالت دیکھ کر بلکہ احمدیوں کو عام آدمیوں جیسا دیکھ کر.جبکہ آپ معمولی آدمی نہیں.مجھے بہت دکھ پہنچتا ہے اور میں اللہ تعالی سے فریاد کرتا ہوں کہ اے خدا! میرے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے، اگر میں احمدیوں کو بھی تیرے پیغام پر قائم نہیں رکھ سکتا؟ اگر میں انہیں ان کا مقام ہی نہیں سمجھا سکتا، پھر تو میرے لندن اور گلاسگو اور فرینکفرٹ اور ہمبرگ کی گلیوں میں گھومنے کا مقصد ہی کیا ہے؟ پھر تو میں ہزاروں ، لاکھوں عام سیاحوں کی مانند ہی ہوں.میں تو یہاں اس مقصد سے نہیں آیا.اور مجھ میں احمدیوں کے دلوں کو گرفت میں لے لینے کی طاقت تو نہیں ، میری مددفرما.سوجیسا کہ میں منکسر المزاجی سے اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اسی انکسار سے اپنی خاطر اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کریں.اپنی آئندہ نسلوں کی خاطر ، بنی نوع انسان کی خاطر جو مشکلات میں گھری ہوئی ہے.تب آپ عظیم نشانات اترتے دیکھیں گے.بڑی بڑی تبدیلیاں انشاء اللہ رونما ہوں گی.اور آپ کے ان مادی جسموں سے آپ کی روحیں بلند ہوں گی.اور ان ممالک میں ایک نئی جماعت کا قیام ہوگا.اور یہ ہے احمدیت کا وہ پیغام، جو میں آپ کو دینا چاہتا ہوں.اور مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ انشاء اللہ ضرور اثر انداز ہوگا.(خطبات ظاہر جلد اول صفحہ 163 168 60
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم پیغام فرمودہ 29 ستمبر 1982ء جب تک ہر احمدی مبلغ نہیں بن جاتا ، سارے انڈونیشیا کو جیتا نہیں جا سکتا پیغام فرمودہ 29 ستمبر 1982ء ،انصار اللہ انڈونیشیا کے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے دیئے گئے، انگریزی پیغام کا ترجمہ درج ذیل ہے:.پیارے بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبر وبركاته مجلس انصار اللہ انڈونیشیا اپنا دوسرا سالانہ اجتماع مغربی جاوا Manislor Kuningan میں ا منعقد کر رہی ہے.میری دعا ہے کہ اجتماع کامیاب ہو.اور مجھے امید ہے کہ اسے ممبروں کی اخلاقی اور روحانی ترقی کو مد نظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہو گا.جماعت احمدیہ انڈونیشیا نے مجھ سے انڈونیشیا کے دورہ کی درخواست کی ہے.میرے دورہ کی بنیاد اس بات پر ہوگی کہ جماعت انڈونیشیا کس حد تک اپنی موجودہ اخلاقی اور روحانی حالت میں بہتری کی تگ و دو کرتی ہے.آپ ایک روحانی مہمان کو اپنے ملک میں بلا رہے ہیں، اس لئے آپ کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے.تیاری سے مراد دلوں کی صفائی ہے.کیا یہ شروع ہو چکی ہے؟ کیا آپ نے اپنے گھروں کو ٹھیک کرنا شروع کر دیا ہے؟ کیا جماعت کا ہر ممبر اپنی ذات کی موجودہ حالت کا جائزہ لے چکا ہے؟ اور کیا اس نے اپنے موجودہ اخلاقی اور روحانی کیفیت کو بہتر بنانا شروع کر دیا ؟ کیا آپ نے اپنے آپ کے لئے ، جمات کے لئے اور دورہ کے لئے دعائیں شروع کر دیں ہیں؟ کیا ہر انڈونیشین احمدی نے پنج گانہ نمازوں کا التزام شروع کر دیا ہے؟ اور کوئی نادہندہ نہیں رہا؟ کیا آپ اپنے بچوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کے لئے اور انہیں حقیقی احمدی بنانے کے لئے پوری کوشش اور مکمل توجہ کے ساتھ دعائیں کرتے رہے ہیں؟ کیا انڈونیشیا میں ہر احمدی اپنا کچھ وقت تبلیغ کے لئے وقف کر رہا ہے؟ آپ کے ملک میں بیعتیں کم ہو رہی ہیں.مبلغوں کے کام کے علاوہ تبلیغ کو نظر انداز کیا جارہا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ممبران تبلیغ میں کوئی حصہ نہیں لے رہے.اور یہ کام انہوں نے کل پر مبلغوں کے 61
پیغام فرمودہ 29 ستمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک حوالے کر رکھا ہے.جب تک ہر احمدی مبلغ نہیں بن جاتا اور تبلیغ اس کے روز مرہ کا معمول نہیں بن جاتی ، ہم سارے انڈونیشیا کو جیتنے کا مقصود حاصل نہیں کر سکتے.تبلیغ بے تکی نہیں ہونی چاہیے، اسے پہلے سوچ سمجھ کر باقاعدہ طریقے سے کرنا چاہیے.انڈونیشین سوسائٹی کے تمام طبقوں کو مخاطب کرنا چاہیے.عمر کے ہر حصہ کے لوگوں اور خصوصاً نو جوانوں کو مخاطب کرنا چاہیے.غیر احمدیوں کو خصوصی سوال و جواب کی محفلوں میں مدعو کرنا چاہیے.تبلیغ کے لئے سمعی و بصری وسائل، پروجیکٹر، ٹیپ ریکارڈ وغیرہ کو استعمال میں لانا چاہیے.ہر جماعت کے لئے ہر سال نئی بیعتوں کی کم از کم تعداد مقرر کی جائے اور ان کی کار کردگی کا ریکارڈ رکھا جائے.ممبران پر تبلیغ کی اہمیت اجاگر کئے بغیر یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے.ہم میں سے ہر ایک قرآنی حکم بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کی رو سے اللہ کے سامنے جواب دہ ہے.ممبران کی ٹریننگ کے لئے اختلافی مسائل پر خصوصی اجلاس اور تقاریر منعقد کرائی جائیں.ہماری خواتین کو انڈو نیشی خواتین میں تبلیغ کرنی چاہیے.حتی کہ بچوں کو بھی اس جدو جہد میں شامل کیا جائے.انہیں پروگراموں میں شامل کرنے سے انشاء اللہ مستقبل کے پر جوش مبلغ تیار ہوں گے.یہ ہیں شرائط، میرے دورہ کے لئے.میں آنے کے لئے تیار ہوں، اگر آپ انہیں پورا کریں یا کم از کم اس سمت میں کوئی قابل ذکر ترقی کریں.اللہ آپ کو اپنی پناہ میں رکھے.حضرت مسیح موعود...کی تمام دعائیں آپ کے ذریعہ پوری ہوں اور آپ ان کی خواہشات اور دعاؤں کے مطابق ستاروں کی مانند چمکیں.مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع 29/09/82 مطبوعه روزنامه الفضل 26 جنوری 1983ء) 62
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1982ء اسلام تمام بنی نوع انسان کی آخری پناہ گاہ ہے ارشادات فرمودہ دوران دورہ یورپ 1982ء 05 اگست، اوسلو سوال کیا گیا کہ دنیا بھر میں احمدیوں کی تعداد کتنی ہے؟ حضور نے فرمایا:.ہم تبلیغ میں مصروف ہیں اور دنیا بھر میں ہر جگہ ہی لوگ احمدی ہور ہے ہیں ، اس لئے صحیح تعداد بتانا تو مشکل ہے.تاہم میرے پیش رو حضرت خلیفة المسیح الثالث نے ایک کروڑ کا سرسری اندازہ لگایا تھا.اب تعداد اس سے بھی زیادہ ہو چکی ہوگی.اخبار نویس نے پوچھا، یورپ میں اب تک کتنے لوگ احمدی ہوئے ہیں؟ حضور نے فرمایا:.یہ صحیح ہے کہ دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں یورپ میں بہت کم لوگ احمدی ہوئے ہیں اور ابھی ان کی تعداد چنداں قابل لحاظ نہیں ہے.لیکن ہم اپنی طاقت کا مدار تعداد پر نہیں رکھتے بلکہ ایمان اور اخلاص پر رکھتے ہیں.ایسے صاحب ایمان مخلص و وفا شعار اور سراپا ایثار خواہ چند ہی ہوں ، وہ طاقت کا نہایت مؤثر ذریعہ ہوتے ہیں اور بالآخر غالب آکر رہتے ہیں.اس مرحلہ پر حضور نے جماعت احمدیہ کے نیشنل پریذیڈنٹ مکرم نوراحمد صاحب بولستاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:." آج اس ملک میں یہی مع اپنی فیملی کے نارو مشحون احمدی ہیں.آج یہ ایک اور اکیلے ہیں.لیکن مستقبل اس امر کا ثبوت فراہم کرے گا کہ یہ ایک ہی اپنے ہم وطن تمام نار و تحسین باشندوں کے دلوں کو فتح کرے گا اور انہیں احمدیت کا حلقہ بگوش بنانے کا موجب ثابت ہوگا“.63
ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اس سوال پر کہ ناروے اور اہل ناروے کے متعلق آپ کے کیا تاثرات ہیں؟ حضور نے فرمایا:.مجھے ناروے کا ایک وسیع علاقہ دیکھنے کا موقع ملا ہے.میں عینی مشاہدہ کی بناء پر کہ سکتا ہوں کہ ناروے دنیا کے خوبصورت ترین ممالک میں سے ایک ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اسے قدرتی حسن سے مالا مال کرنے میں بہت فیاضی سے کام لیا ہے.قدرتی حسن کے ہر منظر میں مجھے اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرتوں کے بڑے ہی حسین جلوے نظر آئے اور میں خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد کرتا رہا.ہر دلکش منظر مجھے خدا کی طرف لے گیا اور میں اس کے حضور سجدات شکر بجالا یا.لیکن اہل ناروے کی حالت دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا ہے.وہ اس سطحی حسن پر تو جس سے ان کی سرزمین مالا مال ہے، سو جان سے فدا ہیں، لیکن اس ذات بے ہمتا سے، جو ہر حسن کا سر چشمہ ہے ، سراسر غافل ہیں.اور اس سے دور سے دور تر ہوتے جارہے ہیں.مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ اہل ناروے اللہ تعالیٰ کی عطائے بے حساب پر ناشکری کے مرتکب ہو کر اپنے آپ کو اپنے پیدا کرنے والے کی نگاہ میں مجرم بنارہے ہیں.ایک سوال یہ بھی ہوا کہ یورپ کے ملکوں نے تو ویلفیئر سٹیٹ کی شکل میں اپنے عوام کی معاشی ضروریات پوری کرنے میں بہت کچھ کیا ہے.اسلامی معاشی نظام کی رو سے اس بارہ میں آپ کے کیا نظریات ہیں اور اس میدان میں آپ کی جماعت کیا کر رہی ہے؟ حضور نے فرمایا:.ہر قوم کا معاشرتی ڈھانچہ (Social setup) اس کے معاشرتی فلسفہ ( Social philosophy) پر مبنی ہوتا ہے.اسلام کا اپنا ایک معاشرتی فلسفہ ہے.جس میں جسم اور روح دونوں کی ضروریات کو یکساں اہمیت دی گئی ہے.اس کی تفصیلات بیان کرنے کے لئے کافی وقت درکار ہوگا.سر دست میں ان تفصیلات کو چھوڑتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ویلفیئر سٹیسٹ کا نظریہ جسمانی ضروریات تک محدود ہوتے ہوئے ، ہمہ گیر نہیں ہے.ہر چند کہ جماعت احمد یہ تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.تاہم اول تو یہ خالصتہ ایک مذہبی جماعت ہے، دوسرے کہیں بھی اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اسلام کی سوشل فلاسفی کو پوری جامعیت کے ساتھ نافذ کر سکے.اس لئے اس میدان میں اس کی کوششیں خدمت انسانیت تک محدود ہیں.ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے محدود وسائل کے مطابق لوگوں کی معاشی مشکلات اس رنگ میں دور کریں کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور انسانی شرف پر کوئی آنچ نہ آنے پائے.کیونکہ اسلام نے عزت نفس اور انسانی شرف پر بہت زور دیا ہے.ہم حتی المقدور خدمت کرتے وقت انسان انسان میں کوئی تفریق نہیں کرتے.64
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1982ء یہ سن کر رپورٹر نے عرض کیا، اس بارہ میں آپ کے وہی نظریات ہیں، جو عیسائیوں کے ہیں.حضور نے فرمایا:.,, سوال صرف نظریات کا نہیں ہے.نظریات ایک دوسرے سے مشابہ ہونے کے باوجود مختلف بھی ہو سکتے ہیں.اصل سوال عملی نمونہ کا ہے.ہم اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے عملی نمونہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں“.نامہ نگار نے دریافت کیا کہ آپ کی نگاہ میں انسانیت کا مستقبل روشن ہے یا تاریک؟ حضور نے فرمایا:.انسانیت کا مستقبل میرے نزدیک ایک حد تک تاریک اور بڑی حد تک تابناک ہے.تاریک ان معنوں میں ہے کہ انسانیت اپنے پیدا کرنے والے سے دور ہو کر تباہی کے قریب جا پہنچی ہے.تباہی تو آئے گی اور وہ ہوگی بھی بہت ہولناک.لیکن انتہائی ہولناک تباہی کے باوجود انسانیت بچے گی ضرور مکمل تباہی کا شکار نہیں ہوگی.خدائی پیشگوئیوں کے پیش نظر ہم اپنی سی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا کو آگاہ کریں کہ نہایت ہولناک دن سر پر ہیں.ایسی ہولناک تباہی آئے گی کہ قرآن بتاتا ہے کہ دنیا کے بعض علاقوں سے زندگی کا نام ونشان مٹ جائے گا.انسان ہی نہیں بلکہ کوئی جاندار بھی باقی نہیں رہے گا.اس کے بعد نوع انسانی پھر خدا کی طرف رجوع کرے گی اور دین واحد کی طرف کھنچی چلی آئے گی.یہاں تک کہ اسلام پورے کرہ ارض پر غالب آجائے گا.اس لئے میں کہتا ہوں کہ درمیان میں آنے والی ہولناک تباہی کے باوجود انسانیت کا مستقبل تابناک ہے.یہی قرآن ہمیں بتاتا ہے اور یہی سید نا حضرت اقدس نے الہامی پیشگوئیوں کے ہمو جب ہمیں بتایا ہے.09 اگست ، گوشن برگ ( مطبوعه روزنامه افضل 15 ستمبر (1982ء) دو مشہور اخبارات Goteborg Posten اور Arbetet کے نمائندگان کے دورہ کے مقصد اور اس کی وسعت سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے ، حضور نے بتایا:.دیگر یورپین ممالک کی طرح سویڈن میں بھی ہماری جماعت ہے.میں یہاں افراد جماعت سے ملنے اور تبلیغ اسلام کے نقطہ نگاہ سے یہاں کے حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے سویڈن آیا ہوں.اسی غرض سے میں یورپ کے بعض دوسرے ممالک میں بھی جاؤں گا.نیز موجودہ دورہ کا بڑا مقصد سپین میں سات سو 65
ارشادات فرموده دوران دور و یورپ 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم سال کے طویل وقفہ کے بعد جماعت کی طرف سے حال ہی میں تعمیر کی گئی، پہلی مسجد کا افتتاح کرنا بھی ہے.اس کا افتتاح 10 ستمبر کو ہو رہا ہے.میں انشاء اللہ اس کی افتتاحی تقریب میں بھی شریک ہوں گا“.اس سوال کے جواب میں کہ آپ اسلام کو کس طرح دنیا پر غالب کریں گے اور اس بارہ میں آپ کی جماعت کا پروگرام کیا ہے؟ حضور نے فرمایا:.ہم اس بارہ میں دو طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں.ایک طرف ہم مسلمانوں کی اصلاح کرنے اور ان کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.اور دوسرے ہم دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں.اور ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں کو محبت پیار اور خدمت کے ذریعہ اسلام میں داخل کر رہے ہیں.بعض علاقوں میں ہمیں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور مسلسل ہورہی ہے.اور بعض علاقوں میں ہماری ترقی کی رفتار چنداں نمایاں نہیں ہے.لیکن خدائی وعدوں کی روشنی میں ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ ایک دن ہم ساری دنیا کو دین واحد پر متحد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گئے.مطبوعه روزنامه الفضل 11 اکتوبر 1982) 12 اگست، کوپن ہیگن جب روز نامہ بی ٹی کی نمائندہ خاتون نے سوال کیا کہ آپ کی جماعت کا مقصد مسلمانوں کو اپنے میں شامل کر کے ان کی اصلاح کرنا ہے تو حضور نے جواب میں فرمایا :.ہمارے مخاطب دنیا کے تمام بنی نوع انسان ہیں.ہم سب کو ہی راہ ہدایت پر لا کر خدا تعالیٰ کی امان کے نیچے لانا چاہتے ہیں.کیونکہ نوع انسانی اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے تباہی کے کنارے جانگی ہے.ایک انتہائی ہولناک تباہی ہے، جو اس کے چاروں طرف منڈلا رہی ہے.اس تباہی سے بچنے کا ایک ہی طریق ہے، بنی نوع انسان اسلام پر عمل پیرا ہو کر خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنا زندہ تعلق قائم کریں اور اس کے احکام پر چل کر اپنے آپ کو اس کی امان کے نیچے لائیں.اسلام ساری دنیا کے لئے ہے.اس لئے ہم چاہتے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان اس جماعت میں داخل ہو جائیں، جسے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں دنیا کو نجات کی راہ دکھانے کے لئے قائم کیا ہے.خدائی وعدوں کے بموجب ہمارا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ اسلام کا اس زمانہ میں ساری دنیا میں غالب آنا مقدر ہے.اگر مسلمان ہمارے ساتھ آشامل ہوں تو اس غلبہ کے ظاہر ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی.66
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم گفتگو کے دوران حضور نے فرمایا:." ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1982ء خلافت کا بوجھ، بہت بھاری بوجھ ہے.اور بہت عظیم ہے، یہ ذمہ داری.ہمارا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ اسلام کے دائرہ میں رہیں.بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ دنیا کا ہر شخص اس میں داخل ہو.تا کہ وہ آنے والی تباہی سے بچ سکے.اسلام تمام بنی نوع انسان کی آخری پناہ گاہ ہے.انہیں اس دین واحد پر جمع ہو جانا چاہیے.10 ستمبر، پید روآباد ( قرطبه) حضور نے واضح فرمایا کہ ( مطبوعه روز نامه افضل 13 اکتوبر 1982ء) اس زمانہ میں اسلام کا ساری دنیا میں غالب آنا مقدر ہے، اس لئے اہل سپین کے قلوب پر فتح کے ذریعہ ان کا بھی اسلام کی آغوش میں آنا ، ایک خدائی تقدیر ہے، جسے کوئی بدل نہیں سکتا.پہلا سوال ایک اخبار نویس کی طرف سے اس ریمارک کی شکل میں تھا کہ آپ کے لئے تو آج کا (یعنی مسجد کے افتتاح) کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے.اس پر حضور نے فرمایا:." جماعت احمدیہ کے لئے بلاشبہ یہ ایک بہت ہی یادگار دن ہے.کیونکہ ہم بجاطور پر امید رکھتے ہیں کہ خدا کا یہ نیا گھر ، جو اس سرزمین میں صدیوں بعد تعمیر ہوا ہے ، اہل سپین کے دلوں کو کھولنے اور ان میں اسلام کے از سر نو داخل ہونے کا موجب ثابت ہوگا“.ایک اور اخبار نو میں نے دریافت کیا کہ کیا قرآن یا دوسرے اسلامی لٹریچر میں کوئی ایسی پیشگوئی بھی ہے، جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہو کہ اسلام خاص طور پر پہین میں پھر غالب آجائے گا؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا:.پیشگوئی یہ ہے کہ اس آخری زمانہ میں اسلام کا ساری دنیا میں بہر طور غالب آنا مقدر ہے.اس ہمہ گیر پیشگوئی میں یقینا سپین بھی شامل ہے.اس سوال کے جواب میں کہ جماعت احمدیہ نے خاص طور پر قرطبہ کے نواحی قصبے پید رو آباد کے قریب مسجد کیوں تعمیر کی ہے، جب کہ وہ بڑے شہروں میں سے کسی شہر کا رخ کر کے وہاں مسجد تعمیر کرسکتی تھی ؟ حضور نے فرمایا:.اس قصبہ یا قرطبہ سے 35 کلومیٹر باہر واقع اس جگہ کی کوئی روایتی اہمیت نہیں ہے.میرے پیش رو حضرت خلیفة المسیح الثالث نے اپنے دورہ چین کے دوران یہاں کے لوگوں کو بہت خلیق 67
ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اور محبت کرنے والا پایا، اس واسطے محبت کے پیغام کی اشاعت عام کے لئے یہ جگہ آپ کو آئیڈیل نظر آئی.اس خصوصیت کی وجہ سے آپ نے اس جگہ کا انتخاب مناسب سمجھا اور اب یہ جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے محبت کے پیغام کی اشاعت عام کا مرکز بن گئی ہے.رکھتے ہیں؟ سوال کیا گیا کہ مسجد بنانے کے بعد کیا آپ اس میں کوئی اور پروگرام بھی شروع کرنے کا ارادہ حضور نے فرمایا:.ہم علامتی مسجد بنانے کے قائل نہیں ہیں.مسجد خدا کا گھر ہوتی ہے، اس لئے لازمی طور پر یہ مسیح معنوں میں عبادت گاہ ہونی چاہیے.خدا تعالیٰ کی عبادت اور خالص دینی کاموں کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے اسے استعمال کرنا ، جائز نہیں ہے“.اس اخبار نویس کا اس ضمن میں دوسرا سوال یہ تھا کہ اس مسجد کے اخراجات آپ نے کہاں سے حاصل کئے؟ حضور نے جواباً فرمایا:.اس کے تمام تر اخراجات انگلستان کے احمدیوں نے برداشت کئے ہیں.ان کے رضا کارانہ چندوں سے اس کی تعمیر عمل میں آئی ہے.ایک اور اخبار نویس نے پوچھا، کیا آپ ثقافتی انقلاب کے علمبردار ہیں؟ حضور نے جواب دیا:.وو براه راست ثقافتی انقلاب برپا کرنا، ہمارے مد نظر نہیں ہے اور نہ ہم اس کے قائل ہیں.ہم ایمان بالله، ایمان بالرسل، مذہبی عقائد اور ان کے عملی تقاضوں کے طور پر اخلاق عالیہ کو دنیا میں عام کرنا چاہتے ہیں.یہی ہمارا مقصد ہے اور اسی میں ہم کوشاں ہیں.ثقافتی تبدیلی ان کے نتیجہ میں خود بخود آئے گی.جو انقلاب خود انسان کے اندر سے ابھرے، وہی حقیقی اور دیر پا انقلاب ہوتا ہے.ایک سوال یہ تھا کہ آپ کی جماعت کا مقصد تمام اسلامی فرقوں اور جملہ مذاہب کو متحد کرنا ہے.اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے آپ کی جماعت کیا پروگرام رکھتی ہے؟ حضور نے فرمایا:.ہم باہمی دشمنی اور بغض و عناد کے سخت خلاف ہیں اور صلح و آشتی کے شدت سے قائل ہیں.اور اس بات کے بھی متمنی ہیں کہ حقیقی اتحاد پیدا ہو.لیکن ہمارا اتحاد کا طریق اور مقصد مختلف ہے.اس بارہ میں 68
تحریک جدید - ایک الٹی تحریک..ارشادات فرمودہ دوران دورہ یورپ 1982ء ہمارا طریق وہی ہے، جو انبیاء علیہم السلام نے اختیار کیا.ہم پوری نوع انسانی کو اللہ کے جھنڈے تلے جمع کرنا چاہتے ہیں.ہم اعتقادات اور نظریات میں مفاہمتوں Compromises پر یقین نہیں رکھتے.نظریات میں ایسی مفاہمت تو مصنوعی اتحاد کے لئے کی جاتی ہے.ایسے اتحاد برائے نام ہوتے ہیں اور دیر پا ثابت نہیں ہوتے“.ایک اخبار نویس نے براہ راست سوال کرتے ہوئے دریافت کیا، چرچ کے ساتھ آپ کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ حضور نے جواباً فرمایا:.وو دو مذاہب ہیں ، جبکہ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک خدا کی طرف سے ہونے کے مدعی ہوں ، دشمنی نہیں ہو سکتی.کوئی مذہب بھی، اگر واقعی وہ مذہب ہے، دوسروں سے دشمنی رکھنا نہیں سکھاتا.اگر کوئی مذہب دوسروں سے دشمنی کی تعلیم دیتا ہے تو وہ فی الحقیقت مذہب ہے ہی نہیں.اختلاف عقائد کے باوجود چرچ سے ہمارے تعلقات دشمنی پر بنی نہیں ہو سکتے“.پوچھا گیا، آج کل یورپ میں مذہب سے بیزاری بڑھ رہی ہے، پھر بھی ہم دیکھتے ہیں، آج کل مختلف مذاہب نے یورپ پر دھاوا بول رکھا ہے، آپ کے نزدیک اس کی وجہ کیا ہے؟ حضور نے فرمایا:.وو یہ تو صیح ہے کہ یورپ کے لوگوں کی مذہب میں دلچسپی دن بدن کم ہورہی ہے اور بیزاری کا رجحان بڑھ رہا ہے.اس کے نتیجہ میں یہاں ایک روحانی خلا پیدا ہو گیا ہے.خلا بھی دیر پا نہیں ہوتا.مذہب سے بیزاری کے نتیجہ میں وہاں بے راہ روی بڑھ رہی ہے اور ہولناک صورت اختیار کر چکی ہے.اسی لیئے ساتھ کے ساتھ ایک نئے نظام کی تلاش کا جذ بہ بھی شدت سے ابھر رہا ہے.مختلف مذاہب کے پیروؤں کی کوشش یہ ہے کہ اس خلا کو وہ اپنے مذہب سے پر کریں.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام ہی اس خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہو گا.اس پر ایک خبار نو میں نے پوچھا سپین میں احمدیوں کی تعداد کتنی ہے؟ حضور نے اس کے جواب میں فرمایا:.وو پہلی مرتبہ میں 1957 میں پین آیا تھا.اب تعداد اس سے تین گنا زیادہ بڑھ چکی ہے.جتنی تعداد میں فلسطین کے اندر مسیح علیہ السلام نے عیسائی بنائے تھے.حقیقت یہ ہے کہ ابتداء میں اگر تعداد 69
ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک تھوڑی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اصل اہمیت تو اس بات کو حاصل ہے کہ Productive cell کی طرح ہر احمدی میں بڑھنے اور پھیلنے کی استعداد اور جذبہ ہونا چاہیے.اگر یہ استعداد اور جذبہ موجود ہو تو تعداد کا بڑھنا کوئی مشکل نہیں.یہی بات میں نے سپینش احمدیوں سے کہی ہے.میں نے انہیں بتایا ہے کہ اپنی کم تعداد سے مت گھبراؤ.بلکہ Productive Cell بننے کی کوشش کرو.اگر ہر احمدی ہر سال ایک فرد کو احمدی بناتا چلا جائے تو چند سالوں میں تعداد کہیں سے کہیں پہنچ سکتی ہے.ایک اور اخبار نویس نے دریافت کیا، کیا قرآن میں کسی ہولناک عالمی جنگ کی پیشگوئی ملتی ہے؟ حضور نے بتایا:.66 سورۃ طہ میں اور اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں آخری زمانہ میں نہایت ہولناک عالمی جنگ چھڑنے کی پیشگوئی موجود ہے.اس میں خبر دی گئی ہے کہ یہ ایسی خوفناک جنگ ہوگی کہ بعض علاقوں سے زندگی کا نام ونشان مٹ جائے گا.حضور نے اعلان فرمایا کہ پید رو آباد کے میئر (جناب میغیل گارسیا ) کی اجازت سے آج ہم پید رو آباد اور ربوہ کو دوسٹر سٹیز (Sister cities) جڑواں شہر قرار دیتے ہیں.70 مطبوعه روزنامه الفضل 106 اکتوبر 1982ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات از مجلس عرفان منعقد ہ 1982ء تراجم کتب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ارشادات از مجلس عرفان منعقدہ دوران دورہ ڈنمارک 1982ء سوال: کیا ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی مزید کتب کا انگریزی میں ترجمہ ہوگا ؟ جواب: ہاں مجھے اس بات کا علم ہے کہ کیا چیز آپ کو پریشان کر رہی ہے.میں ان باتوں کی وضاحت کرتا ہوں اور انشاء اللہ آپ مطمئن ہو جائیں گے.آپ کو علم ہوگا کہ اس غیر ملکی دورے پر آنے سے پہلے اور آپ کے ملک میں آنے سے پہلے میں نے صدرانجمن احمدیہ کو ، جو جماعت کا مرکزی ادارہ ہے، یہ ہدایت کی تھی کہ وہ ترجمہ کرنے کے ایسے مختلف مراکز کی نشاندہی کریں، جن میں دنیا کی تیرہ اہم زبانوں میں ترجمہ کیا جاسکے.اور ان مراکز میں ترجمہ کرنے کے لئے ہر قسم کا بہترین ساز و سامان مہیا کیا جائے.اس سلسلے میں ایک بلڈنگ بنائی جائے گی، جو موسمی ضروریات کے تقاضوں کو پورا کرے گی.اور اس میں مستقل طور پر ایسا عملہ ملازم رکھا جائے گا، جس کے سپر د اس کے سوا اور کوئی کام نہ ہوگا کہ وہ مختلف زبانوں میں اہم چیزوں کا ترجمہ کرتے رہیں.ان میں ڈنیش زبان بھی شامل ہوگی.اس لئے آپ انگریزی کی طرف کیوں جاتے ہیں؟ آپ ڈنیش زبان کے لٹریچر کا انتظار کیوں نہ کریں؟ اب آپ کو چاہیے کہ ایسے لوگ مہیا کریں، جو ڈ نیش کے ساتھ ساتھ اردو بھی جانتے ہوں.پھر ہم آپ کو اتنی کتب مہیا کر دیں گے، جتنی آپ پڑھ سکیں اور پھر ان کو سمجھ بھی سکیں.انشاء اللہ.اور پھر اس کے بعد لٹر پچر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تمام دنیا کے لئے شروع کر دیا جائے گا.سوال: سنا ہے کہ قاضی اسلم صاحب نے اپنی وفات سے پہلے ”حقیقۃ الوحی“ کا ترجمہ کر دیا تھا ؟ جواب: میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس بارے میں کیا ہوا.قاضی اسلم صاحب نے نہ صرف حقیقۃ الوحی کا ترجمہ کیا بلکہ دو اور کتب کا بھی ترجمہ کیا.جب وہ کتب بعض سکالرز کو دکھائی گئیں، ایسے سکالرز کو، جو ترجمے کے فن پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے ، انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اس ترجمے کا معیار وہ نہیں ہے، جو قاضی صاحب کے اس سے پہلے کئے گئے تراجم کا تھا.قاضی صاحب کی عمر اس وقت بہت زیادہ ہو چکی تھی، جب انہوں نے ان کتب کے تراجم کئے.چنانچہ کتب حضرت مسیح موعود کی اہمیت کے پیش نظر 71
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ارشادات از مجلس عرفان منعقده 1982ء حضور ( حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو یہ مشورہ دیا گیا کہ جب تک ان پر نظر ثانی نہ ہو، ان کو شائع نہیں ہونا چاہیے.قاضی صاحب کو جب اس بات کا پتہ چلا تو ان کی دل شکنی ہوئی اور انہوں نے ذاتی طور پر مجھ سے رابطہ قائم کیا اور کہا کہ دیکھو، یہ بات ہوئی ہے، اس لئے براہ کرم تم ان سب تراجم کو سنبھال لو اور اس کی نگرانی کرو کہ یہ کتب اپنے وقت پر شائع ہو جائیں.میں نے عرض کیا: بہت اچھا، آپ اور کتب کے تراجم کریں اور یہ سب مجھے پہنچا دیں.چنانچہ میں نے یہ کتب حاصل کیں، جن کا انہوں نے ترجمہ کیا تھا اور حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کر دی کہ میں نے وہ سب کتب حاصل کرلی ہیں.نیز میں نے حضور کا مشورہ چاہا کہ اب میں کیا قدم اٹھاؤں؟ حضور نے فرمایا: میں تمہیں ان تراجم پر نظر ثانی کا نگران بناتا ہوں.اور اس بات کا بھی ذمہ دار بنا تا ہوں کہ یہ بتاؤ کہ آیا یہ تراجم درست ہیں اور ان کو اسی طرح شائع ہونا چاہیے؟ یہ حضور کا آخری حکم ان تراجم کے بارے میں مجھے موصول ہوا.اس کے قریباً ایک، دوماہ بعد حضور فوت ہو گئے.چنانچہ میں نے اب یہاں آنے سے پہلے یہ کام قاضی صاحب کے داماد مکرم آفتاب احمد خاں صاحب کے سپرد کیا ، جو پاکستان کے محکمہ خارجہ میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور کئی ممالک میں بطور سفیر خدمات انجام دے چکے ہیں.ان کا دینی علم تو اتنا گہرا نہیں مگر انہیں انگریزی پر بہت عبور حاصل ہے.چنانچہ میں نے انہیں ہدایت کی ہے کہ پہلے وہ خود یہ تراجم پڑھیں اور دیکھیں کہ انگریزی کے جدید محاورے کے لحاظ سے اس میں کہاں کہاں قلم لگانے کی ضرورت ہے؟ اس کے بعد ایک ایسے سکالر کے ساتھ مل کر کام کریں، جو حضرت مسیح موعود کی کتب اور عربی سے اچھی طرح واقف ہو.ان کے ساتھ مل کر ان تراجم پر نظر ثانی کی جائے اور ان کو جلد از جلد چھپوانے کا کام کیا جائے.انہوں نے یہ کام شروع کر دیا ہے اور مجھے یہ اندازہ دیا ہے کہ قریباً ایک سال کے اندر اندر ان کا کام مکمل ہو جائے گا.( مطبوعہ روزنامه الفضل 17 مئی 1983 ء بحوالہ احمدیہ گزٹ شمارہ اپریل 1983 صفحہ 06, شائع کردہ جماعت احمد یہ امریکہ) 72
تحریک جدید- ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1982ء آپ ہی پر اسلام کے دفاع کی بنیاد ہے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اکتوبر 1982ء حقیقت یہ ہے کہ دشمنان اسلام ایک اور طرف سے حملہ آور ہورہے ہیں.انہوں نے اسلام پر ایک اور رنگ میں حملہ کیا ہے.اور اب ان کا مقابلہ مختلف قسم کے نگہبانوں سے ہے.مگر اسلام کے بارہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ان کا مقصد وہی ہے، جو قبل ازیں تھا.انتقامی رویہ اور دشمنی کا دستور وہی پرانا ہے، صرف انداز نسبتا تبدیل ہوا ہے.مگر ساری دنیا کے احمدی اگر تمام نہیں تو اکثر اس طریق کی طرف توجہ نہیں دے رہے.وہ شعوری طور پر اسلامی اقدار کی اس طرح حفاظت نہیں کر رہے، جیسی ان کو کرنی چاہئے.میں یہاں اس تبدیلی کی بات کر رہا ہوں، جو صرف احمدیوں میں ہی نہیں بلکہ باہر کی دنیا میں بھی پیدا ہورہی ہے.میں اس بات کی مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ میری بات سمجھ جائیں.میری مراد یہ ہے کہ اسلام دشمنی اسی طرح سے ہے، اس کا انداز تبدیل ہو گیا ہے.اور وہی دشمن نئے ہتھیاروں سے حملہ آور ہو رہا ہے.ان کی پالیسی بظاہر ذراسی تبدیل ضرور ہوئی ہے مگر اصلیت تبدیل نہیں ہوئی.پالیسی میں بظاہر نرمی پیدا ہوئی ہے.دشمن بظاہر اتنے دشمن نہیں رہے اور بعض اوقات وہ دوستی کی آڑ میں گفتگو کرتے ہیں.یہ مستشرقین کی وہ نئی نسل ہے، جواب ابھر رہی ہے.مگر میرا گہرا مشاہدہ ہے کہ سوائے دھوکہ اور فریب رہی کے کچھ بھی نہیں بدلا.وہی لوگ اسی شدت سے اسلام پر حملہ آور ہورہے ہیں.صرف زبان نرم ہوئی ہے اور طریق کار بدلا ہے اور نام بدل دیا گیا ہے.ماضی میں جسے زہر کہا جاتا تھا، اب دوا کہا جاتا ہے.اور اس کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں آئی.ماضی میں وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلے عام جھوٹا (نعوذ باللہ ) کہا کرتے تھے.اب وہ کہتے ہیں کہ آپ جھوٹے تو نہیں، مگر ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ آپ کیا ہیں؟ مگر جب وہ قرآن کریم پر اعتراض کرتے ہیں تو وہ پوری کوشش اس بات کے ثابت کرنے میں صرف کر دیتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مصنف ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کیا ہی نہیں.اور دراصل آپ اچھے مصنف بھی نہیں تھے، (نعوذ باللہ ).وہ انسانی اقدار میں کمزوریاں تلاش کرتے ہیں.اس طرح دیگر شعبوں میں بھی کمزوریاں تلاش کرتے ہیں.اور تضادات اور تبدیلیوں اور بہت سے دوسرے پہلوؤں پر وہ اعتراض کرتے ہیں.اس سے ان 73
اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک کا مقصد عام قاری پر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ یہ کتاب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تصنیف ہے اور بہت کمزور تصنیف ہے.اگر کسی چیز کی تعریف بھی کریں تو اس سے یہ اشارہ نہیں ملتا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے.مثلاً بعض اوقات وہ زبان کی تعریف کرتے ہیں اور مسلمان اس دھوکہ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ان کے خیال میں وہ اب اپنا رویہ تبدیل کر کے اسلام کے دوست بن گئے ہیں.کیونکہ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زبان میں کبھی کبھار تعریف بھی کی ہے.بعض اوقات وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح بھی کرتے ہیں.مگر ان شعبوں میں، جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں.وہ آپ کی بطور انسان تعریف کرتے ہیں.یاوہ آپ کی بعض عظیم الشان خوبیوں اور لیڈرشپ کی تعریف کرتے ہیں.مگر یہ سب فریب ہے.وہ اسلام کے پکے دشمن ہیں مگر اپنی زبان اور رویہ میں تبدیلی پیدا کر کے وہ لوگوں کو پہلے سے زیادہ دھوکہ دے رہے ہیں.مجھے حال ہی میں اس بات کے معلوم ہونے پر شدید دھکا لگا کہ بہت سے عرب طلبہ برطانوی یو نیورسٹیوں میں اسلام کے مطالعہ کے لیے آتے ہیں.تا کہ وہ ان نام نہاد مستشرقین سے اسلام سیکھیں.صرف ایک یونیورسٹی میں ہی اسلام کا مطالعہ کرنے والے پچاس سے زائد عرب طلبہ موجود ہیں.اور جو کچھ بھی انہیں وہاں پڑھایا جاتا ہے، وہ اسے امرت سمجھ کر پیتے ہیں.وہ اسے یہ جانے بوجھے بغیر نگل جاتے ہیں کہ یہ وہی زہر ہے، جو پہلے بھی استعمال ہوتا تھا مگر اس کا لیبل بدل گیا ہے.چنانچہ صورت حال بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوئی ہے.مگر میر امشاہدہ ہے کہ بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور ان کے عزائم کیا ہیں؟ چنانچہ اسی وجہ سے میں نے آج اس مضمون کو چنا ہے.میں ساری دنیا کے تمام احمدیوں سے واضح طور پر چاہتا ہوں کہ وہ اس آیت میں مذکورستاروں کا کردار ادا کریں.آپ ہی اس نئے آسمان کے ستارے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تیار کیا تھا.آپ ہی پر اسلام کے دفاع کی بنیاد ہے.اگر آپ سوتے رہے تو آپ اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے.اگر آپ نے اسلام کا دفاع نہ کیا تو کون ہے، جو آپ کی جگہ اسلام کا دفاع کرے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری ہمارے سپرد کی ہے، اس نے ہمیں اسی مقصد کے لئے چنا ہے.چنانچہ اگر ہم یہ ذمہ داری ادا نہ کر سکے تو کوئی بھی ہمارے لئے آگے بڑھ کر یہ بوجھ نہیں اٹھائے گا.اور باقیوں میں تو اسے اٹھانے کی طاقت ہی نہیں ہے.کیونکہ وہ اسلامی اقدار کو اس طرح نہیں سمجھتے ، جس طرح آپ سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو قرآن کریم کے مطالعہ کے ذریعہ نئے راستوں سے واقف ہونے کے راز سکھائے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو وہ اشارے سمجھائے ہیں، جن کے ذریعہ آپ قرآن کریم کو باقی دنیا کی نسبت بآسانی سمجھ سکتے ہیں.چنانچہ اگر آپ نے قرآنی اقدار کی حفاظت نہ کی تو پھر کوئی اور یہ کام کر ہی نہیں سکتا.یہ میں آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں اور اس وقت یہی کچھ ہورہا ہے.74
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1982 ء بہت سی کتب اسلام کی تعلیمات اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو بگاڑنے کے لئے مارکیٹ میں دستیاب ہیں.اور جن ممالک میں یہ طبع ہورہی ہیں ، وہاں کے احمدیوں نے ان کا نوٹس ہی نہیں لیا.مثلاً یہاں انگلستان میں، میں نے بعض ایسی کتب دیکھی ہیں، جن کا ہمارے لٹریچر میں ذکر تک نہیں.مگر وہ شدید ز ہر آلود ہیں.اور نئی نسل کی اسی طرح پرورش کی جارہی ہے.حقیقت یہ ہے کہ پالیسی میں جس تبدیلی کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے، یہ بعض سیاسی تبدیلیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.کیونکہ عرب ممالک میں تیل کی موجودگی اور عرب ممالک میں دولت کی ریل پیل کی وجہ سے اب مستشرقین اپنی پالیسی تبدیل کر رہے ہیں.اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسلمان ممالک کی دشمنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواہ مخواہ کذاب قرار دے کر کیوں مول لی جائے ؟ آپ کو سچا قرار دے کر آپ کی ان کے اپنے خیال کے مطابق ( نعوذ باللہ ) جھوٹی باتوں کو اجاگر کیا جائے.چنانچہ یہ وہ پالیسی ہے، جس نے اپنا نام تبدیل کیا ہے اور کچھ نہیں.وہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کہتے ہیں.مگر پھر اس کی طرف خوفناک تضادات منسوب کر دیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ.اور قاری ان کی تفسیر قرآن کے چند صفحات پڑھ کر ہی اندازہ کر سکتا ہے.کہ یہ بے کار باتیں ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ سے یا الہامی کتب سے کوئی بھی تعلق نہیں.چنانچہ یہ وہ دشمنی ہے.جس کا آپ کو شعور ہونا چاہئے.اور پوری کوشش کر کے اس کی شناخت کرنی چاہئے.اس کا تعاقب کرنا چاہئے اور پھر ایسے دشمنان اسلام کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دینا چاہئے.آپ میں سے جو دوست پڑھے لکھے ہیں اور جو اچھی انگریزی جانتے ہیں اور جو اگر پوری طرح نہیں تو کچھ نہ کچھ قرآنی اقدار اور احمدیت کی اقدار سے واقف ہیں، انہیں یہ کتابیں پڑھ کر بتانا چاہئے کہ ان میں اسلام کے خلاف کیا کہا جارہا ہے؟ انہیں فہرستیں مرتب کرنی چاہئیں.اس کا ایک نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ اگر وہ اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو خود اس کا جواب دیں.مگر یہ کام تمام کا تمام خود ہی نہ کرتے رہیں.میرے ذہن میں اس کام کے کرنے کے لئے ایک واضح لائحہ عمل ہے.سب سے پہلے تو انہیں غلط بات کی شناخت کرنی چاہئے.ان تمام چیزوں کی فہرست تیار کریں.پھر اس کا جائزہ لیں اور پھر ان کتب میں جو حوالہ جات درج ہیں، ان کی بنیاد تک پہنچ کر اپنی بہترین صلاحیتوں کو صرف کرتے ہوئے جواب تیار کریں.مگر اسے صرف یہیں تک نہ چھوڑیں.کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ مؤثر طور پر اسلامی اقدار کی حفاظت نہ کر سکیں.کیونکہ اس سارے قصے میں بہت سی چالاکیاں کی جاتی ہیں.مختلف پہلوؤں سے بہت سی تحقیق کے بعد ہی درست جواب دیا جاسکتا ہے.چنانچہ یہ تمام چیزیں، ایسی تمام کتب مرکز کو 75
اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1982ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک بھجوانی چاہئیں، جہاں ہم انشاء اللہ ایک شعبہ قائم کریں گے، جو دشمنان اسلام کی ایسی تمام کوششیں اکٹھی کرے گا اور پھر ہم اسے سنبھال کر ان تمام پہلوؤں پر تحقیقات کریں گے، جن کا حوالہ دیا گیا ہے.اس ڈیٹا کے اکٹھے ہونے کے نتیجہ میں انشاء اللہ ہم اس قابل ہوں گے کہ دشمن کے آخری مورچے تک اس کا تعاقب کریں.اور یہ فوری اور بہت اہمیت کا کام ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ میرے ذہن میں اس کے لئے ایک اور منصوبہ ہے، جواب میں نے تیار کیا ہے.اگر ہم اسے لوگوں پر محض اتفاقاً چھوڑ دیں تو بعض مصنفین پر نظر نہیں جائے گی اور بعض پر ہم خواہ مخواہ زیادہ قوت خرچ کر رہے ہوں گے.چنانچہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن جن ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے باقاعدہ جماعتیں قائم ہیں، وہاں کی مقامی انتظامیہ کو تمام احمد یوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہئے.اور وہ اپنے مشنری انچارج کو تحریر ابتائیں کہ وہ کس مصنف کا مطالعہ کریں گے؟ چنانچہ ایسے گروپس تیار ہوں.مثلاً پانچ یا دس احمدی علماء منٹگمری واٹ کا مطالعہ کریں.اس کی تمام کتب کا مطالعہ کیا جائے ، ان پر غور کیا جائے کہ کہاں وہ ہمارے عقائد کے خلاف گیا ہے؟ اور کہاں اس نے جان بوجھ کریا لاعلمی میں اسلام پر اعتراض کیا ہے؟ اسی طرح اس نے جن کتب کا حوالہ دیا ہے، وہ بھی اس گروپ کے زیر مطالعہ ہوں.اور یہ بات نوٹ کی جائے کہ یہ حوالہ جات اس نے درست طور پر دیئے ہیں یا غلط.اور پھر اس کے جو بھی نتائج نکلیں ، ان سے مرکز کو مطلع کیا جائے.وہاں ہم مزید تحقیق کر کے فیصلہ کریں گے کہ ان الزامات کا بہترین طور پر جواب کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کے دفاع میں مستقبل قریب میں نیا لٹریچر تیار ہو جائے گا.اور اس آیت میں نئے آسمان کی تخلیق سے یہی مراد ہے.یہ نیا آسمان آئندہ تیار نہیں ہوگا.یہ تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی تیار کر چکے ہیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی طریق پر تیار کیا ہے.اب صرف یہ کمزور ہو رہا ہے.اسی لئے ہمیں اس نظام کو مضبوط کرنا پڑے گا.کوئی نئی تجویز پیش نہیں کی جارہی.کسی نئی چیز کا اضافہ نہیں کیا جارہا.چنانچہ بالآخر یہ ہو گا کہ جب وہ ہمیں تمام اطلاعات مہیا کریں گے تو مشنری انچارج جائزہ لیں گے کہ کہیں یہ تو نہیں کہ کوئی پہلو بالکل تشنہ رہ جائے اور کہیں بہت زیادہ توجہ ہو جائے.اور پھر وہ اس میں ایک توازن قائم کریں گے.نتیجہ ہم مرکز میں اندازہ کر سکیں گے کہ ساری دنیا میں جو بھی اسلام کے خلاف کچھ لکھتا ہے، احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا تعاقب کر رہے ہیں.اور ہر اعتراض کا جواب دیا جا رہا ہے، اس کی نگرانی مرکز کی ذمہ داری ہے.76
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1982ء چنانچہ انشاء اللہ ہم اسلام کو خطرے کی حالت میں نہیں رہنے دیں گے.جب تک ہم زندہ ہیں، یہ ناممکن ہے.مگر جیسا کہ میرا تکلیف دہ مشاہدہ ہے کہ میں نے بعض کتب کا مطالعہ کیا ، جن میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر بے ہودہ حملے کئے گئے تھے، اس سے سخت تکلیف پہنچتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس سے ہمارا جگر چھلنی ہو جاتا ہے اور پھر ظلم کی بات یہ ہے کہ زبان ایسی استعمال کی جارہی ہے، جیسے کوئی دوست گفتگو کر رہا ہے نہ کہ دشمن.اور اسلامی دنیا میں ان نام نہاد دوستوں کو بڑی پذیرائی ملتی ہے.پھر ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ احمدیت کا ذکر ہی نہیں کرتے.جہاں بھی انہوں نے اسلام پر اعتراض کیا ہے اور وہ سکالرز ہیں اور یقیناً انہوں نے احمد یہ لٹریچر کا مطالعہ کیا ہوا ہے.بعض کے بارہ میں تو مجھے یقین ہے.اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ اس پہلو سے جماعت احمدیہ نے شاندار رنگ میں اسلام کا دفاع کیا تھا.مگر وہ اس بارہ میں جماعت کا نام اور جماعت کے عقائد کا ذکر ہی بھول جاتے ہیں.اس طرح وہ ایک ہی وقت میں دو مقاصد حاصل کر لیتے ہیں.ایک یہ کہ ان کتب کا حوالہ دیئے بغیر جن میں کسی عالم دین نے اس بات کا دفاع کیا ہو، اسلام پر اعتراض کئے چلے جاتے ہیں.اور دوسرے وہ غیر از جماعت دنیا کو خوش رکھتے ہیں اور ه دنیا اس طرح وہ اسلام کے وفادار ثابت ہو جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ دیکھو جماعت احمدیہ کوئی چیز نہیں.اس کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے.انہوں نے اسلام کے دفاع کے بارہ میں جو کچھ بھی کہا ہے، وہ بے معنی ہے، سب مذاق ہے.اور ہم ان کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے.جو بڑے بڑے علماء ہیں، وہ اتنی معمولی حیثیت کے مالک ہیں کہ عظیم مستشرقین کی عالی شان کتب میں ان کا ذکر بھی نہیں ہونا چاہئے.چنانچہ اس طرح وہ تمام عالم اسلام کو خوش رکھتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ آپ دراصل بچے مسلمان ہیں.آپ ہی کو علم ہے کہ اسلام کہاں ہے اور کہاں نہیں ہے؟ اور اس طرح یہ قریب بڑھتا ہی رہتا ہے.مگر ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں“.وو چنانچہ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ جلد ہی یہ نظام کام شروع کر دے گا.اس کا آغاز انگلستان سے ہوگا.میں جانے سے پہلے ان لوگوں کے نام جاننا چاہوں گا ، جو اس کام کے لئے خود کو وقف کر سکتے ہوں.یہ جس پیشے سے بھی متعلق ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.انہیں انگریزی اچھی طرح آنی چاہئے.انہیں اسلام کے بارہ میں کچھ نہ کچھ علم ہو.یہ نہ ہو کہ وہ قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بالکل ناواقف ہوں اور وہ دفاع اسلام کی یہ ذمہ داری اٹھائیں، یہ نہیں ہوسکتا.میری مرادان سے ہے، جو کم از کم اسلام کا کچھ علم رکھتے ہوں اور جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا کسی نہ کسی حد تک مطالعہ کیا ہوا ہے اور وہ اسلامی اقدار کے دفاع کی کچھ نہ کچھ طاقت رکھتے ہیں.77
اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1982ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یہ بات سب پر واضح کر دی ہے کہ اگر تم میری کتب کا مطالعہ نہیں کرو گے، اگر تم اسلام کے بارہ میں تیار کردہ نئے لٹریچر کا مطالعہ نہیں کروگے اور اگر تم دوسروں کی کتب پڑھتے رہے تو تم ان سے غلط طور پر متاثر ہو جاؤ گے.تمہارے دفاع کا ایک ہی طریق ہے کہ پہلے خود کو قرآن کریم کی تعلیمات اور روایات کے مطابق ڈھالو.جیسا کہ میں ابھی کہہ چکا ہوں ، جب میری نظر سے آپ اسلام کی تعلیمات کا اتنا خوبصورت مشاہدہ کریں گے تو کوئی بھی شخص، جو اسلام کو بگاڑنا چاہتا ہے، اس میں کامیاب نہیں ہو سکے گا.جہاں تک آپ لوگوں کی بات ہے، کیونکہ آپ نے اسلام کا مشاہدہ میری نظر سے کیا ہوگا، اسلام کی تمام تر خوبصورتی آپ پر اسی طرح واضح ہو جائے گی ، جیسا کہ مجھ پر ہوئی ہے، اس کے بعد غلط انہی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ احمدیوں کے لئے بہت اہم بنیادی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ خود کو اس بات کے لئے تیار کریں.وہ سب سے پہلے خود کو اسلام کی درست تعلیمات کے حوالہ سے ڈھالیں.ایک دفعہ وہ یہ حاصل کرلیں اور پھر اسلام کا مطالعہ کریں تو ان کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا.پھر یہ ناممکن ہوگا کہ وہ خود کو شکست خوردہ سمجھیں یا دشمن سے خود کو خطرہ میں خیال کریں.رہے وہ کمز ور لوگ جنہوں نے ابھی تک یہ کام نہیں کیا، سو میں نے احمدیوں میں دیکھا ہے کہ جو احمدیت کا لٹر پچر پڑھنے سے قبل دشمن کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں، انہیں میں نے بالآخر حقیقت سے دور جاتے ہی دیکھا ہے.جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا کرتا تھا تو کالج کے بہت سے طلباء، بہت سے تو نہیں مگر چند ایک غیر مسلموں کی لکھی ہوئی تاریخ اسلام کا مطالعہ کر کے بالکل غلط طور پر اس سے متاثر ہو جاتے تھے اور وہ اس زہر کا شکار ہو جاتے تھے.چنانچہ مجھے ان سے گفتگو کرنے کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی تھی اور روشنی کی طرف لانا پڑتا تھا.بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بچ گئے.مگر یہ ہوسکتا ہے اور ہوتا رہا ہے.اس ملک میں آپ کو اس بات کی حفاظت کرنی ہے.چنانچہ ایک نظام بنانا پڑے گا.امام صاحب کے پاس اس کا ریکارڈ ہو اور ہم عام طریق سے اسے چلائیں.ہمیں سائنسی طریق کار اختیار کرنا ہے.اور جب یہ خطبہ باقی دنیا کے احمدیوں تک پہنچے تو انہیں بھی اس طریق پر عمل کرنا چاہئے.مجھے اس بارہ میں اتنا جوش ہے کہ اصل میں، میں اسے ابھی اور یہاں سے ہی شروع کر دینا چاہتا ہوں.مگر یہ ممکن نہیں ، اس میں کچھ وقت لگے گا.مگر انشاء اللہ ایک سال کے عرصہ میں ہی ہم اس نئے آسمانی کا کا نظام کو دنیا میں کام کرتا دیکھ لیں گے.اور ساری دنیا کو محسوس ہو جائے گا کہ کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے“.خطبات طاہر جلد اول صفحه 184171) 78
تحریک جدید - ایک الہی تحریکہ وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 108 اکتوبر 1982ء مربیان کرام کی عزت، عہدیداران کے حقوق و فرائض خطبہ جمعہ فرموده 08 اکتوبر 1982ء ( حضور نے یہ خطبہ جمعہ انگریزی زبان میں ارشاد فرمایا ، جس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے.) اب میں بعض متفرق باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اور آج میں نے گفتگو کرنے کے لئے مختلف نکات نوٹ کئے ہیں.سب سے پہلے تو میں ان واقفین زندگی کے بارہ میں کچھ کہوں گا ، جو مختلف پہلوؤں سے یہاں خدمات بجالا رہے ہیں.وہ لوگ، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگیاں پیش کر دی ہیں، انہیں معاشرے کی طرف سے خاص مقام اور تعاون ملنا چاہئے.وہ اپنے مقصد میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے ، جب تک سارا معاشرہ، ساری جماعت اس مقصد کے حصول کے لئے ان کی مدد نہ کرے.نہ صرف یہ بلکہ انہیں ایک خاص عزت اور مقام ملنا چاہئے.مگر میں نے بڑے دکھ سے یہ بات مشاہدہ کی ہے کہ بعض جماعتوں میں احباب مربیان کی کما حقہ عزت نہیں کرتے.بعض اوقات وہ ان کے کام پر اتنی شدت سے تنقید کرتے ہیں، جو ان کے جگر چیر دیتی ہے اور وہ اس کی بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں.مگر انہوں نے کہیں بھی اس کا ذکر نہیں کیا.لوگوں میں فرق ہوتا ہے، وہ مختلف قسم کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں.اگر کوئی اعلی درجہ کی انگریزی زبان میں خطاب نہیں کر سکتا تو یہ اس کا قصور نہیں.یہ اس نظام کا قصور ہو سکتا ہے، جس میں انہوں نے پرورش پائی یا اس سکول کا قصور ہو سکتا ہے، جس میں انہوں نے تعلیم حاصل کی.بہت سے ایسے دیگر پہلو ہو سکتے ہیں، جن کا میں یہاں جائزہ نہیں لے سکتا.مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دی ہے تو اسے عزت اور محبت ملنی چاہئے.اور ہر شعبہ میں اسے تعاون ملنا چاہئے.مجھے علم ہے کہ بعض جگہ، یہاں تو نہیں مگر دنیا کے ہر حصہ میں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اب مربی ان کا ذاتی ملازم بن گیا ہے.یہ تکلیف وہ منظر ہمیں اسلامی دنیا میں عموماً اور گاؤں کی مسجد کے ملا کے ساتھ پنجاب میں خصوصاً یہ سلوک نظر آتا ہے.وہاں ملازمیندار کا ذاتی ملازم خیال کیا جاتا ہے.محض اس لیے کہ 79
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک زمیندار اس کے کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہے.یہ الگ بحث ہے کہ کھانا پینا کس معیار کا ہوتا ہے؟ مگر چونکہ ملا ان کے صدقات پر زندگی بسر کرتا ہے، اس لئے اس سے نامناسب رویہ اختیار کیا جاتا ہے.اس کی روزانہ بے عزتی کی جاتی ہے.اس قسم کے معاشرے پر وہ صرف نفرت کی تعلیم دے کر ہی قابو پا سکتا ہے.جب بھی وہ دوسروں کے لئے نفرت کی تعلیم دیتا ہے، لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں.اور جب بھی وہ نیکی اور قربانی کرنے کی تعلیم دیتا ہے، لوگ اسے چھوڑ جاتے ہیں.آج کل ملا اور دوسرے لوگوں میں صرف یہی رشتہ رہ گیا ہے.ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ یہ بات سارے معاشرے میں نہ پھیل جائے.ہمیں اس مقصد کے حصول کے لئے دور کا سفر در پیش ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تربیت کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے تیار ہونے والے مربیان اس قسم کے نظر آنے والے لوگوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں.ان میں سے بہت سے ہیں، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق بہترین تعلیم حاصل کرنے کے بعد وقف کیا.ان کے پاس دو راستے تھے.یا تو دنیا میں بھٹک جائیں یا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خود کو پیش کریں.میں ایسے واقفین زندگی کو جانتا ہوں، جو اگر دنیا داری میں لگ جاتے تو وہ ان لوگوں سے، جو خود کو مالی طور پر ان سے بہتر سمجھ کر نا مناسب رویہ اختیار کرتے ہیں، کہیں زیادہ بہتر حالات میں ہوتے.وہ زیادہ کمارہے ہوتے اور دنیا میں زیادہ باعزت مقامات پر فائز ہوتے.اور وہ بعض غیر واقفین سے کہیں بہتر طرز زندگی کے حامل ہوتے.مگر وہ جس حال میں ہیں، اس پر مطمئن ہیں.کیونکہ ان کا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے.چنانچہ ان کے بارہ میں تو مجھے کوئی فکر نہیں.مجھے فکر ان لوگوں کی ہے، جو ان سے نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں کہ کہیں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے نہ آجائیں.کیونکہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا ، جو ان لوگوں سے نامناسب رویہ اختیار کریں، جنہوں نے اس کی راہ میں اپنی زندگیاں پیش کر دی ہوں.اس بارہ میں احتیاط کریں.اگر ہم ان سے عمدہ سلوک کریں تو یہ ان کا اختیار ہے کہ وہ اسے قبول کریں یا رد کر دیں.اگر وہ اسے قبول کر لیں تو وہ آپ کے اس سلوک کو قبول کر کے شکر گزاری کا ثبوت دے رہے ہیں.آپ کے اس عمدہ سلوک کی وجہ سے وہ آپ کے غلام نہیں بن گئے.دوسری بات یہ ہے کہ وہ احمدی، جو اچھے حالات میں رہتے ہوں، ان پر خواہ مخواہ تنقید نہ کی جائے.یہ بڑی حیرت کی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض لوگ شدت پسندی اور تنگ نظری سے زندگی گزارتے ہیں.اگر کوئی احمدی عمدہ طریق سے زندگی گزار رہا ہوتو ایسے لوگ غضب ناک ہو کر اس پر طعن و تشنیع کی 80
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک جلد اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 08 اکتوبر 1982ء بوچھاڑ کر دیتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ آسائش کی زندگی گزار رہا ہے.انہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق آسائش کی زندگی کی تعریف ہی معلوم نہیں ہوتی.وہ نہیں جانتے کہ اسلام میں کیا غلط ہے اور کیا صیح ؟ اگر آ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے بہترین چیزوں سے لطف اندوز ہوں ، ہاں جب مالی قربانی کا تقاضا کیا جائے تو آپ قربانی کرنے والوں میں آگے آگے ہوں تو پھر جو کچھ باقی بچتا ہے، وہ آپ کا ہے اور آپ جہاں چاہیں، اسے خرچ کریں.اگر آپ عمدہ اور آرام دہ زندگی گزاریں تو یہ قطعا منع نہیں.جو ممانعت ہے، وہ قرآن کریم میں کھول کر بیان کر دی گئی ہے.اور اس کے بعد کسی کوحق نہیں کہ اس چیز کونا جائز قرار دے دے، جسے قرآن کریم نے ناجائز قرار نہیں دیا.اسی کی طرف اس آیت میں ذکر ہے.قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللهِ الَّتِى اَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِمَةِ (الاعراف: 33) کہہ دے کہ کس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اس کے بندوں پر حرام قرار دیا ہے، جو ان کے لئے اس دنیا میں اور آخرت میں تخلیق کی گئی ہیں؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دنیا میں بھی یہ مؤمنین کے لئے ہیں اور آخرت میں تو صرف انہیں کے لئے مخصوص ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے زندگی میں عمدہ چیزیں استعمال کرنے کے لئے تخلیق کی ہیں، نہ کہ سچے مومن انہیں رد کر دیں.چنانچہ اگر وہ ان اشیاء کو استعمال کریں تو کوئی ممانعت نہیں.بشرطیکہ وہ اسلامی تعلیمات کی حدود میں زندگی گزارنے والے ہوں.اور یہ بھی کہ یہ طرز زندگی ان کی مالی قربانیوں میں روک نہ بنے.جب ہم تنگدستی سے زندگی گزارنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اسلام میں آرام دہ زندگی گزارنے کی ممانعت ہے.اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ بچت کر کے اسلام کی خدمت میں پیش کریں.اسلام میں اسے نفل کہا گیا ہے.یعنی فرائض کی ادائیگی سے زائد ا گر آپ اپنی مرضی سے کچھ خدمت کریں تو وہ فضل کے زمرے میں آتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص خود کو فرائض تک ہی محدود رکھے تو کسی شخص کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک آنے والے نے اسلام کے بارہ میں دریافت کیا.آپ نے اسے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کروا دیا.اور پھر بتایا کہ اس کے علاوہ جو بھی اچھا کام وہ کرے گا، وہ نوافل کے زمرے میں آئے گا.اس نے کہا کہ میں وہی کروں گا، جو مجھ پر فرض ہے، اس سے زیادہ نہیں تو کیا میں بخشا جاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں وہ تمہارے لئے کفایت کرے گا.( بخاری کتاب الایمان باب الزكوة من الاسلام ) 81
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 08 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم تو یہ کم از کم ضروری معیار ہے.چنانچہ اگر کوئی کم از کم معیار سے نیچے گرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آئے گا، نہ کہ لوگوں کے غضب کے.لوگ اسے صرف پیار سے سمجھا سکتے ہیں.صرف نصیحت ہی کی جاسکتی ہے.تو جولوگ حدود سے تجاوز نہ کرنے والے ہوں ، ان پر کسی کو خفتی کرنے کا حق نہیں.چنانچہ اگر بعض مربیان اور مبلغین عمدہ طور سے گزارا کر رہے ہیں تو کسی کو بھی علم نہیں ہو سکتا کہ ان کے دیگر ذرائع آمد کیا ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بعض اور ذرائع آمد مہیا فرمائے ہوں، جو وہ ظاہر نہ کرنا چاہتے ہوں.چنانچہ جب تک آپ ٹھوس شواہد نہ پیش کریں، بے ایمانی کے ٹھوس ثبوت مہیا نہ کریں تو آپ کو کوئی حق نہیں کہ نہیں دیکھو، فلاں فلاں شخص اچھی طرز سے گزارا کر رہا ہے ، جبکہ اس کا اسے کوئی حق نہیں.کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نعمتیں مومنین کے لئے تیار کی گئی ہیں.اس دنیا میں دوسرے بھی ان میں شریک ہیں مگر آخرت میں وہ خاص طور پر صرف مومنین کے لئے ہی میسر ہوں گی.ایک اور بات یہ ہے کہ آپ کو امراء اور جماعت کے عہدیداران کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے.امراء اور عہدیداران خلافت کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں، جو بالآخر ساری جماعت کی تنظیم کی ذمہ دار ہے.چنانچہ اس نظام کے کارکنان کی حیثیت سے انہیں خلافت کے نظام سے بعض حقوق عطا کئے جاتے ہیں.وہ اپنے مقام کے لحاظ سے مختلف ہیں.بعض اوقات کسی خاص عہد یدار کے حقوق نہ جانے یا نہ سمجھنے کی وجہ سے مسائل ابھرتے ہیں.لوگوں کو نہ تو اپنے حقوق کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی ان عہد یداروں کے حقوق کا، جنہیں بعض کاموں پر مقرر کیا گیا ہو.چنانچہ یہ بہت اہم بات ہے کہ جماعت انگلستان ان سب دوستوں کو بتائے کہ عہدیداران کی کیا حدود ہیں؟ ان کے حقوق اور فرائض کیا ہیں؟ اور ان کی کیا حدود ہیں، جن پر وہ بطور امیر ، صدر یا کسی اور حیثیت میں مقرر کئے گئے ہیں؟ اگر آپ اپنے حقوق اور اپنے فرائض سے واضح طور پر آگاہ ہوں تو کسی کو غلط نہی اور نا اتفاقی کے بیج بونے کی جرات نہیں ہوسکتی.ان چیزوں کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ جہالت ہے.جہالت اور تاریکی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.علم روشنی ہے.چنانچہ سب سے پہلے روشنی پھیلانی چاہئے تا کہ ہر شخص راستہ دیکھ سکے.اس صورت میں ان باتوں کے پھیلنے کا امکان بہت کم ہے.کیونکہ بصارت درست ہو تو پھر انسان دوسرے لوگوں سے ٹکراتا نہیں پھرتا ، ماسوا جنگلی انسانوں کے.ایسا ہوتا تو ہے مگر بہت کم.نارمل ذہن رکھنے والے افراد ایک ہی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دوسروں سے ٹکراتے نہیں پھرتے.چنانچہ ساری جماعت کو احمدیت کی 82
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک روایات کے مطابق اپنے حقوق سے بھی آگاہ ہونا چاہئے اور نظام میں اپنے سے بالا افراد کے حقوق سے بھی.یہاں میں نے بالا افراد کا لفظ بولا ہے.میری مراد اس سے انتظامی طور پر بالا افراد سے ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو بعض افراد انتظامی طور پر بالا افراد سے کہیں زیادہ بلند ہوں گے.کیونکہ یہ تو دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور تقویٰ کا معاملہ ہے کہ کون در اصل بلند مقام پر فائز ہے؟ تو میں صرف انتظامی طور پر بالا افراد کا ذکر کر رہا ہوں.اب میں یہاں پر بعض حقوق کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ اگر کسی امیر نے غلطی سے آپ کو کوئی غلط حکم دے دیا ہے اور اگر وہ حکم قرآنی تعلیمات کے منافی نہیں، آپ کو اس کی اطاعت کرنی ہے.جیسا میں نے واضح کر دیا ہے، اگر وہ حکم قرآن کریم کی تعلیمات کے منافی نہیں تو پھر آپ پر اطاعت فرض ہے.اور اگر کسی آیت قرآنی کی تفسیر میں اختلاف بھی ہو، تب بھی آپ نے بات ماننی ہے.کیونکہ یہ آپ کا کام نہیں کہ اس کی تاویل ڈھونڈ کر امیر کی اطاعت نہ کرنے کا بہانہ تلاش کریں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت پر اتنا زور دیا ہے کہ لوگ تعجب کرتے تھے.کسی نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا اگر کوئی شخص ایسا ایسا ہو تو کیا پھر بھی ہم اس کی اطاعت کریں؟ آپ نے فرمایا: ہاں پھر بھی.اگر کوئی شخص ایسا ہو، تب بھی ہمیں اس کی اطاعت کرنی ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر ایک حبشی غلام، جس کا سر منقہ کے دانے برابر ہو اور وہ تمہارے او پر مقرر ہو جائے ، جب بھی تم نے اس کی اطاعت کرنی ہے.اب یہ وہ کمزوریاں تھیں، جو عرب ذہن کو مشتعل کرتی تھیں.عرب ذہن اس بات کے ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ کسی عجمی کی اطاعت کرے.اور پھر ایسا شخص جو افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہو.اس زمانہ کے عرب اس طرح کے لوگوں کی اطاعت کو خاص اپنی بے عزتی سمجھتے تھے.اس پر مستزاد یہ کہ وہ غلام بھی ہو.ایک حبشی اور اوپر سے غلام، دوباتیں اکٹھی ہو کر عربوں کے لئے انہیں اپنا راہنما مانا بہت مشکل تھا.پھر بڑے سر قیادت اور عقلمندی کی نشانی تھے اور عرب بڑے سر ہونے پر فخر کرتے تھے کہ یہ عقل و دانش کی نشانی ہے.اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ جتنا سر چھوٹا ہوگا، اتناہی وہ شخص احمق اور بے وقوف ہوگا.اگر چھوٹا سر ہے تو زیادہ احمق ہو گا.چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں کمزوریاں جمع فرما دیں اور فرمایا کہ اگر وہ ایک حبشی غلام ہو، جس کا سر بھی اتنا چھوٹا ہو کہ محسوس ہو کہ اس کا دماغ ہی نہیں ہے، تب بھی اگر وہ امیر مقرر ہو جائے تو اس کی اطاعت کرو.( صحیح بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعة الامام مالم تکن معصیة ) 83
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اسی صورت حال کا ایک اور پہلو بھی ہے.جب کوئی شخص نماز کی امامت کروارہا ہو.بعض لوگ متنجس ہوتے ہیں اور لوگوں کے بارہ میں ایسی معلومات رکھتے ہیں، جو باقی جماعت کو معلوم نہیں ہوتیں.نتیجہ وہ ایک قاضی کی طرح بعض دوسرے احمدیوں کے بارہ میں فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہے، وہ برائیوں کا شکار ہے.خواہ ان کے پاس کافی ثبوت ہو یا نہ ہو.خواہ وہ اس الزام کے ثبوت میں اسلامی قوانین کے مطابق تسلی بخش شہادت پیش نہ کر سکیں ، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں.وہ صرف ایک ہی رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ ہمیں علم ہے کہ فلاں فلاں شخص برائیوں کا شکار ہے.چنانچہ اسے کوئی عہدہ نہیں ملنا چاہئے.خصوصاً اس کے امام الصلوۃ ہونے کے بارہ میں وہ اختلاف رکھتے ہیں.یہ سوالات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اٹھائے گئے تھے اور ان کا قیامت تک کے لئے فیصلہ فرما دیا گیا.دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی شخص بدکار ہو، نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہو، بد تہذیب ہو اور نہایت برے کردار کا شخص ہو، اگر وہ امام الصلواۃ مقرر ہو جائے اور بعض لوگوں کی نظر میں اس کا امام ہونا کھٹکتا ہے کہ متقی لوگ اس قسم کے شخص کی پیروی میں نماز با جماعت کے لئے کھڑے ہوں تو اس قسم کے امام الصلوۃ مقرر ہونے کی صورت میں متبعین کو کیا کرنا چاہئے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی پیروی کرو.اللہ تعالیٰ ہی نمازیں قبول فرمائے گا.کیونکہ نمازیں امام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے.(سنن ابی داود کتاب الصلوۃ باب امامة البر والفاجر ) کیا ہی حسین تعلیم ہے.اور یہ کتنی خوبصورت اور سلامتی والی ہے.اسی وجہ سے اس کا نام اسلام ہے.اس کا مطلب ہے، سلامتی.اس سے امن پھیلتا ہے.یہ سلامتی لاتی ہے اور سلامتی کا پیغام دیتی ہے.اسلام میں کوئی تفرقہ قابل قبول نہیں.چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی اس روح کے ساتھ آپ اپنے امیر اور دیگر عہدیداران کی پیروی کریں.اس بات سے قطع نظر کہ آپ انہیں متقی سمجھتے ہیں یا نہیں؟ یہ آپ کا کام نہیں کہ اس بارہ میں کوئی رائے دیں.یہ بعد الموت اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اب میں امراء کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ان کے بھی کچھ فرائض ہیں ، عہدیداران کے اپنے کچھ فرائض ہیں.ان کا ان لوگوں سے شفقت کا سلوک ہونا چاہئے ، جن پر وہ نظام کو چلانے کے لئے مقرر ہوئے ہیں.لوگوں کو امیر کی اطاعت اس کی ذاتی استعداد کی بجائے محض اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنی چاہئے.اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اور اس لئے کہ انہیں خلیفة المسیح نے مقرر فرمایا ہے.کسی اور وجہ سے نہیں.وہ تمام نظام کی اس لئے پیروی کریں کہ یہ نظام خلیفة المسیح کا 84
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08اکتوبر 1982ء مقرر فرمودہ ہے.انہوں نے ہر احمدی کی بیعت نہیں کی ، صرف خلیفة المسیح کی بیعت کی ہے.چنانچہ ہر امر اس کے ہاتھ سے نکلتا ہے اور احمدی اس کی اس لئے پیروی کرتے ہیں کہ وہ ان کے ایمان کا حصہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے.جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، ان کی اطاعت بالآخر اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، نہ کہ کسی انسان کی.چنانچہ انہیں خلیفة المسیح نے ذمہ داری سونپی ہے.اس لئے انہیں اس طاقت کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے.میں ایسے امیر کو نا پسند کرتا ہوں، جو لوگوں پر شفقت نہ کرے.کیونکہ جماعت کا خلیفہ سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے، اس سے ان کا ذاتی تعلق ہوتا ہے اور دراصل خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے علاوہ اس کے پیچھے کوئی اور مقصد نہیں.مگر وہ امیر کی اطاعت اسی وجہ سے کرتے ہیں کہ اس کا تقرر خلیفة المسیح نے فرمایا ہے.وہ تمام نظام کی اطاعت اسی لئے کرتے ہیں کہ یہ نظام خلیفة المسیح کا قائم فرمودہ ہے.انہوں نے ہر احمدی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی بلکہ صرف خلیفة المسیح کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.چنانچہ ہر چیز اسی کے ہاتھ پر مرتکز ہوتی ہے اور وہیں سے پھوٹتی ہے.اور احمدی اس کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا: دراصل وہ کسی ایک انسان کی پیروی کی بجائے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر رہے ہوتے ہیں.چونکہ خلیفۃ المسیح نے انہیں بعض اختیارات تفویض کئے ہیں، اس لئے انہیں ان مفوضہ اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے.میں کسی ایسے امیر کو جولوگوں کا ہمدرد نہیں ہے، مقرر کرنا بالکل پسند نہیں کرتا.کیونکہ خلیفہ کا سب احمدیوں سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اور انہیں اس لئے اس کی اطاعت کے لئے نہیں کہا جاتا کہ وہ اس سے کمتر ہیں.بلکہ صرف نظم وضبط قائم رکھنے کے لئے اطاعت کے لیے کہا جاتا ہے، نہ کہ کسی اور وجہ سے.مگر نظم وضبط کا مطلب سختی اور غیر ہمدردانہ رویہ نہیں ہے.میں خود کو کسی ایسے امیر کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں سمجھتا، جو احمدیوں سے اس قسم کا رویہ اختیار نہیں کرتا، جو مجھے پسند ہے.چنانچہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی مشنری انچارج، کوئی صدر اپنی طاقت کا غلط استعمال کرے.کیونکہ اگر وہ ان احمدیوں کو، جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ان کی اطاعت کرتے ہیں، تکلیف دیں گے تو دراصل وہ مجھے تکلیف پہنچائیں گے اور وہ اللہ کے راستہ سے بھٹک جائیں گے.یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے.آپ کو اس اعتماد پر، جو آپ پر کیا گیا ہے، پورا اترنا چاہئے.اور اس طرح سلوک کرنا چاہئے ، جیسا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ سے تھا.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اس دنیا میں کسی شخصیت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.دنیا میں آپ سے بڑھ کر کسی اور کے 85
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اختیارات کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ آپ اللہ تعالی کی نمائندگی میں مبعوث ہوئے تھے.اور آپ کی طرح کسی نے بھی اللہ تعالیٰ کی اس رنگ میں نمائندگی کا دعویٰ نہیں کیا.اس لئے اگر بعض افراد اسلامی نظام پر معترض ہوتے ہوئے ، اسے آمریت سے تعبیر کرتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں.کرہ ارض پر کوئی شخص دنیوی اصطلاح کی رو سے کوئی ایسی آمرانہ حیثیت یا آمریت کا دعوی نہیں کر سکتا ، جس قسم کا روحانی اقتدار اعلیٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے بعد من جانب اللہ عطا ہوا.جہاں تک دنیوی آمریت کا تعلق ہے، اس کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں.اسلام کی رو سے کسی مقتدر ہستی کی جتنی زیادہ طاقت یا قوت بڑھتی جائے گی ، اتنا زیادہ مقام خوف بڑھتا جائے گا.کیونکہ بالآخر سب اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہیں.نتیجةً طاقت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خوف بہت بڑھ جاتا ہے.چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طاقت کو نہایت عاجزانہ طور پر استعمال فرمایا.اور اتنے خوبصورت اور عمدہ انداز سے کہ آپ کی تمام زندگی پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا کہ کسی بھی موقع پر آمریت کا کوئی شائبہ بھی پیدا ہوا ہو.آپ نے نہایت دانشمندی اور حکمت سے حکومت کی، آپ نے محبت سے حکومت کی.اور اگر یہ تین پہلو موجود ہوں تو پھر آمریت کا سراٹھانا ناممکن ہے.آمریت کا حکمت سے کوئی رشتہ نہیں، نہ ہی دانشمندی یا محبت سے آمریت کا ان سب سے تعلق ہی کوئی نہیں.تو یہ وہ انتظامی طریق ہے، جو احمد یوں کو خواہ وہ کسی سطح پر خدمت کر رہے ہوں، اپنانا چاہئے.انہیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ وہ اس اعتماد کو، جو ان پر کیا گیا ہے، قائم رکھیں.اور کسی بھی رنگ میں اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کریں.اور اگر یہ دونوں پہلو اختیار کئے جائیں تو بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے.یہ وہ مثالی معاشرہ ہے، جو جماعت احمدیہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے.اور اسی مقصد کے حصول کے لئے آپ کو اپنی تمام قوتیں خرچ کرنی چاہئیں.لیکن پھر بھی ہر پہلو پر نظر رکھنے اور بہترین ماحول کے پیدا کرنے کے باوجود بھی کوئی نہ کوئی ناروا بات ہو جاتی ہے.مثال کے طور پر کسی کے غلط انداز فکر یا رجحان یا کسی کے غلط رویہ یا غلط طرز عمل کے نتیجہ میں اختلافات سراٹھا سکتے ہیں.کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟ یہ تیسری بات ہے، جو میں واضح کرنا چاہتا ہوں.اگر آپ کو کسی عہدیدار سے شکایت ہے تو آپ کا حق ہے بلکہ ذمہ داری ہے کہ اس کے توسط سے مرکز کو فوری مطلع کریں.اگر آپ کو خدشہ ہو کہ وہ یہ رپورٹ آگے نہیں بھجوائے گا تو اس کا طریق یہ ہے کہ ایک کاپی براہ راست مرکز کو بھجوا دی جائے.یہاں میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جہاں تک احمدیوں اور - ــليفة 86
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 108اکتوبر 1982ء المسیح کے رشتہ کا تعلق ہے، کوئی احمدی جتنے خطوط چاہے، خلیفة المسیح کی خدمت میں لکھ سکتا ہے.اس بارہ میں کوئی روک نہیں.لیکن اگر آپ کسی اور شخص کے منفی رویہ کے بارہ میں اطلاع دے رہے ہیں تو پھر اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ آپ کا فرض ہے کہ اس شخص کو بھی مطلع کریں.ورنہ یہ غیبت شمار ہوگی.اور ایسا کرنا، کسی کے علم میں لائے بغیر اس پر کیچڑ اچھالنے کے مترادف ہوگا ہے.اس وجہ سے یہ طریق اختیار کیا گیا ہے، ورنہ جماعت احمدیہ اور خلیفة المسیح کے درمیان کوئی حائل نہیں ہو سکتا.یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.کسی کے لئے بھی اس میں دخل دینا اور راستہ روکنا ممکن نہیں.اس سے مجھے یہ خیال بھی آیا کہ اگر کوئی بد سلوکی اختیار کرتا ہے تو وہ خلیفة المسیح اور جماعت کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے.کیونکہ بعض لوگ جب مقامی عہدیداروں سے ناراض ہو جائیں تو وہ اس کے اور نظام کے درمیان تمیز نہیں کر سکتے.اور بعض لوگوں کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ براہ راست خلیفة المسیح کی خدمت میں اپنا قضیہ پیش کر سکیں.چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جماعتی کمزوری ہے اور وہ پھر خلافت سے بھی ناطہ تو ڑ لیتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا یہ لوگ خلیفۃ المسیح اور احمدی لوگوں کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں، جس کا انہیں کوئی حق نہیں.چنانچہ اگر یہ مسئلہ سر اٹھائے تو اس کا حل یہ ہے کہ آپ خلیفة المسیح سے یا اس شعبہ سے براہ راست رابطہ کریں.مثلاً اگر مالی معاملہ ہے تو وکیل المال کو تحریر کرنا چاہئے.تبشیر کا مسئلہ ہوتو وکالت تبشیر سے رابطہ کریں.لیکن اگر اس پر آپ کو تسلی نہ ہو اور ہو بھی آپ کو جلدی تو کم از کم یہ تو کریں کہ آپ مجھے خلیفۃ المسیح کی حیثیت میں لکھیں اور اس کی نقل امیر کو بھجوادیں.ورنہ عمومی طریق یہی ہے کہ آپ اپنی شکایات امیر یا متعلقہ عہدیدار کے توسط سے جو بھی وہ ہیں، بھجوائیں.اور بہتر یہ ہوگا کہ ایک نقل براہ راست بھجوا دیں.تو پھر بالکل کوئی مسئلہ نہیں رہے گا.لیکن ایک بات میں واضح کر دوں کہ دنیا کے معاملات میں بھی اپیل نیچے سے اوپر کی طرف حرکت کرتی ہے.اوپر سے نیچے کی طرف نہیں.وہ احمدی، جو اپنی اپیل عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں ، وہ غلطی کے موجب ہوتے ہیں.وہ اپنے لیے تباہی کا راستہ چنتے ہیں.کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کرنے کی بجائے عوام کا رخ کرتے ہیں.جبکہ کوئی مذہب عوام سے نہیں پھوٹتا بلکہ مذہب خدا کی طرف سے اترتا ہے.چنانچہ اگر آپ اپنی شکایات غلط جگہ پیش کرتے ہیں تو آپ نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں.اس یک طرفہ پراپیگنڈا کا دوسری پارٹی کو دفاع کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا.بعض اوقات انہیں اس بات کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا کہا جا رہا ہے؟.87
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک چنانچہ اول یہ کہ یک طرفہ پراپیگنڈا اسلام میں منع ہے.خصوصا قرآن کریم کی تعلیم کے لحاظ سے.خواہ وہ کسی امیر کے بارہ میں ہو، عہدیدار کے بارہ میں یا عام احمدی کے بارہ میں.یہ بہت سختی سے منع ہے.اور اگر نظام کے کسی نمائندے کے بارہ میں ہے تو پھر یہ دگنا خطرناک ہے.کیونکہ یہ احمدیوں کے اخلاص پر حملہ کرتا ہے اور اس پر برا اثر ڈالتا ہے.اور وہ اس پراپیگنڈے کے زیر اثر سست ہو جاتے ہیں.وہ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ درست بھی ہوں تو انتقام لینا چاہتے ہیں.جماعت سے انتقام اور جماعت کی روح سے انتقام، یہ کبھی نہیں ہو سکتا.احمدیت کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا.ایسے تمام افراد کو اللہ تعالیٰ نے نکال باہر کیا.اس کا خیال رکھے بغیر کہ وہ ابتدا درست تھے یا غلط؟ مگر جو طریق انہوں نے اختیار کیا، وہ یقینا غلط اور تکلیف دہ تھا.اور انہیں یہ طریق اختیار کرنے کی سزا ملی.لیکن اگر آپ بالا نظام سے شکایت کریں اور سب سے بالا و برتر ہستی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.پ اس پر ایمان کیوں نہیں رکھتے ؟ اگر وہ زندہ اللہ ہے، اگر وہ حقیقت کبری ہے ، تب وہی آخری اور حتمی طاقت ہے.اگر وہ حقیقت نہیں، اگر وہ صرف تصوراتی اور خیالی چیز ہے، تب اس نظام کو چھوڑ دیں.ایسی احمقانہ تنظیم میں شامل ہونے کا کیا فائدہ، جس کے پاس کچھ بھی نہیں اور وہ خیالی کہانیاں بن رہی ہے؟ چنانچہ اس سوال کا یہ سادہ سا جواب ہے.خواہ مخواہ اس جماعت سے چھٹے رہنے کی بجائے آپ کو السلام علیکم کہ کر انہیں تنہا چھوڑ دینا چاہئے.لیکن ہر مذہبی عقیدہ کی بنیاد کے مطابق اگر اللہ کی ذات ہے، جو سنتا ہے اور انسانی معاملات میں دلچسپی لیتا ہے تو پھر آپ کو اپنی فریاد بالآخر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنی ہے.حتی کہ اگر خلیفہ بھی آپ کی شکایت کی طرف توجہ نہ دے اور آپ کی سوچ سے متفق نہ ہو اور آپ اصرار کریں کہ وہ غلط طور پر انتظامیہ کی طرفداری کر رہا ہے تو جیسا کہ میں نے بتایا اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آخری ہے.اور اللہ تعالیٰ کے بالمقابل خلیفہ کی حیثیت ہی کیا ہے؟ اس کے بالمقابل تو وہ زمین پر ایک ذرہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا.اللہ اگر چاہے تو اس کے ایک حکم سے وہ ختم ہو سکتا ہے.چنانچہ جب آپ کے پاس طاقتور ترین عدالت کا راستہ کھلا ہے تو اس کو چھوڑ کر عوام کی طرف رجوع کرنا اور ان کی توجہ مبذول کروانا، بتوں کی پوجا نہیں تو پھر کیا ہے؟ یہ بت پرستی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اللہ کی حکمت بالغہ پر ایمان نہیں رکھتے.آپ ایک گویے کی طرح کچھ گیتوں کی پیروی کر رہے ہیں اور بس.چنانچہ اس رویہ سے احتیاط کریں.اگر آپ اس پس منظر میں درست رویہ رکھیں گے، اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے گا.آپ ایک بہترین معاشرے کی بنیادرکھنے والے ہوں گے.جو پھیلتا اور وسعت پذیر ہوتا رہے گا، جو ہر سمت سے طاقت حاصل کرے گا.اور کوئی بھی اس قسم کے معاشرہ کو ختم کرنے کے قابل نہیں ہو گا“.88
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اکتوبر 1982ء و مالی معاملات میں گڑ بڑ روکنے کے بارہ میں، میں نے بڑی تفصیل سے اس لئے وضاحت کی ہے کہ کوئی معاشرہ عدل کے بغیر ترقی کر ہی نہیں سکتا.یہ ناممکن ہے.وہ تخریب کا شکار ہو جائے گا اور کبھی ترقی نہیں کر سکے گا.چنانچہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اسلامی ثقافت اور اسلامی معاشرہ کو دنیا داری کی طرف جھکا دیں گی.ایسا معاشرہ، بیمار معاشرہ ہوگا“.چنانچہ احمدی معاشرے میں صحت مند رجحان قائم کریں.تب انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ آپ اپنے عظیم الشان مقاصد کو تیز رفتاری سے جلد حاصل کرنے والے ہوں گے.اس کے لئے میرے ذہن میں یہاں ایک کمیشن بنانے کا خیال ہے.اور اس کے لئے میں نے بعض نام سوچ لئے ہیں.میں اعلان کرتا ہوں کہ میرے جانے سے قبل مالی بد معاملگی کے بارہ میں انگلستان میں رہنے والوں اور جو انگلستان سے جاچکے ہیں اور یا تو ان پر ان بد معاملکیوں یا بے ایمانی کا الزام ہے اور یا انہوں نے انگلستان میں رہنے والے لوگوں پر ایسے الزامات لگائے ہیں، تحقیق کے لئے ایک کمیشن تشکیل پا جائے گا.جو بھی ہو، یہ کمیشن تمام شکایات اور پورٹس مجھے بھجوائے گا کہ کیا طریق اختیار کیا جائے؟ اسی طرح شادیوں کے بندھن ٹوٹ جانے کے بارہ میں بھی ایسی رپورٹس ملی ہیں، جو خاوند کے بیوی سے غلط رویہ یا بیوی کی خاوند سے بدسلوکی کے نتیجہ میں نا کام ہو گئی ہیں.جب ہم دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ گھر کے بارہ میں اسلام کی تعلیمات بہترین ہیں، جن کی پیروی کرنا چاہئے اور اسی وقت ہم اپنے عمل سے اپنی بات کو رد کر دیتے ہیں تو یہ اسلام سے نا انصافی ہے.تو یہ بھی نہیں ہونا چاہئے.اس کے لئے میں قضا بورڈ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسے تمام کیسز، جو ابھی تک حل نہیں ہوئے ، انہیں جلد حل کروائیں.چنانچہ ایک دفعہ جب قضا کوئی فیصلہ کرے تو پھر اس میں لیت ولعل نہیں ہونی چاہئے.کیونکہ اگر آپ کے فیصلہ پر عملدرآمد میں دیر ہو جائے تو پھر انصاف کے تمام تقاضے ختم ہو جاتے ہیں.فیصلہ پر عملدرآمد کروانے والوں کا کام نہیں کہ کسی فریق سے رحم اور ہمدردی کا سلوک کریں.وہ قاضی کے فیصلہ پر قاضی نہیں ہیں.اگر وہ غلط ہے اور آپ کو یقین ہے کہ وہ غلط ہے ، تب بھی آپ کا فرض ہے کہ اس پر عملدرآمد کروائیں.کیونکہ غلط فیصلہ کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہوگی ، آپ کے کندھوں پر نہیں.وہ اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہوں گے، آپ کو نہیں.چنانچہ فیصلوں پر فوری عمل کروانا چاہئے.اور میں اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ عملدرآمد کو جانتے بوجھتے ہوئے یا ویسے ہی لڑکا یا جا رہا ہو.البتہ انہیں جماعتی روایات کے مطابق اپیل کا حق ضرور ملنا چاہئے.اگر کسی کو بالا بورڈ کے پاس اپیل کرنے کا اختیار ہے تو پھر 89
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 108 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اسے کیوں روکا جائے؟ میرا مطلب ہے کہ اگر اپیل بالا بورڈ کے سامنے نہ پیش ہو یا بالا بورڈ بالآخر کوئی فیصلہ اس فریق کے بارہ میں کر دے یا یہ بورڈ انگلستان میں ہو اور ان کے پاس کوئی ایسی اپیل نہ ہو ، جو بھی نظام ہے، میں اس سے پوری طرح واقف نہیں ہوں.مگر ایک دفعہ فیصلہ ہو جانے پر عملدرآمد میں تا خیر نہیں ہونی چاہئے.کیونکہ تاخیر ایک فریق سے بے انصافی ہوگی.خطبات طاہر جلد اول صفحہ 185 تا 199) 90
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 12 اکتوبر 1982ء قوم کی قوم کے دل اسلام کی طرف مائل ہو جانا معمولی بات نہیں خطاب فرمودہ 12 اکتوبر 1982ء حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ وو میں سب سے پہلے تو اس بات پر معذرت خواہ ہوں کہ مجھے اس علیحدہ جگہ کا علم نہ تھا ، جس کی وجہ سے اندر بیٹھا رہا.پہلے سے اگر اس کا علم ہوتا تو اکثر وقت یہیں گزارتا“.اس موقع پر حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی دعاؤں، جماعت کے خلوص اور جماعت کی گریہ وزاری کو اس طرح قبول فرمایا ہے کہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا.جو کچھ ہوا، بظاہر بالکل ناممکن نظر آتا تھا.اور انسان کے بس کی بات ہے ہی نہیں.پتہ نہیں ہو کیسے گیا! اور ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھا.قوم کی قوم کے دل اسلام کی طرف مائل ہو جانا معمولی بات نہیں، انسان کے بس کا روگ نہیں.محض اللہ تعالیٰ کے کام ہیں.حضور نے فرمایا:.یوں تو ایسے نظارے ہر جگہ دیکھنے میں آئے.لیکن خاص طور پر سپین کے واقعات تو بڑے عجیب ہیں.سپین کے لوگوں میں جو تبدیلی دیکھی گئی ہے، ان کو تو یورپین دماغ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ ہو کیا گیا ہے؟“ حضور نے بتایا کہ جس علاقے میں ہم گئے، وہاں کی آبادی کیتھولک ہے.یہ اپنے مذہب کے بارے میں بڑے سخت ہیں اور چند سال قبل کسی دوسرے فرقے کو بھی یہاں آزادی نہیں تھی.یہاں کسی دوسرے فرقہ کا گر جا نہیں تھا.اور ابھی بھی اس علاقہ میں کوئی دوسرا گر جا نہیں تھا.مذہبی لحاظ سے اس ملک کی یہ حالت تھی.اور سیاسی لحاظ سے یہاں تیزی سے اشتراکیت پھیل رہی تھی.جس کے نتیجہ میں وہ مذہب سے بالکل ہی دور ہورہے تھے اور مذہب کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے تھے.اور جہاں تک اسلام کا تعلق دونوں اسلام کے دشمن ہیں.ان وجوہ کی بنا پر یہ خیال تھا کہ مقامی لوگ ہماری اس مسجد میں دلچسپی نہیں لیں بناپر یہ تھا کہ مجدمیں وی گے.بالیں گے تو مخالفانہ لیں گئے.91
خلاصہ خطاب فرموده 12 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضور نے جذبات شکر سے لبریز ہوکر فرمایا:.لیکن ہم نے جو نظارہ دیکھا ہے، وہ اس کے بالکل برعکس جو احمدی جہاں سے آتا ہے یورپ سے یا افریقہ سے، پاکستان سے یا امریکہ سے وہ اسے اھلاً و سھلاً کہتے.یہ صرف اس علاقہ میں نہیں بلکہ سارے ملک میں ہی یہ حال تھا.جو نہی کسی کو پتہ لگتا کہ یہ احمدی ہے اور مسجد قرطبہ جانا چاہتا ہے تو بے اختیار ہو کر اس کے ساتھ محبت کا سلوک کرتے ، اس کے لئے بچھتے.اور پھر یہ صرف عوام کا ہی حال نہیں تھا، پولیس بھی ہمہ وقت ہوشیار رہی.ریڈیائی خبریں نشر کرتی رہی، جس سے چوراہوں سے گزرتے وقت ٹریفک کو روک دیا جاتا“.حضور نے اس کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ور جب غرناطہ سے روانہ ہونے کا وقت تھا تو روانگی میں تاخیر ہونے لگی.میں نے پوچھا کہ روانہ کیوں نہیں ہوتے؟ پتہ لگا کہ پولیس نے کہا ہے کہ ہم نے سارے چوراہوں پر اپنے آدمی بھیجے ہوئے ہیں، جو ساری سڑک پر ٹریفک کو روک دیں گے.ان کی واپسی کا انتظار ہے کہ وہ آکر اطلاع دیں اور پھر یہ قافلہ روانہ ہوگا.پھر فرمایا کہ ایک دو اور بھی باتیں ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی ملک میں تبدیلی ہوئی ہے“.حضور نے فرمایا کہ مسجد پین کے افتتاح کے اگلے روز پولیس آفیسرز اور میئر کے ساتھ ایک ملاقات تھی.میں نے انہیں کہا کہ اپنی بیگمات کو بھی لے کر آؤ.وہ اندر میری بیگم سے ملیں گی اور آپ میرے پاس بیٹھیں.چنانچہ دو دن بعد وہ سب اپنی بیگمات کو لے آئے اور خود میرے پاس بیٹھ گئے.میں نے انہیں چائے پر بلایا ہوا تھا، اس لئے میں انہیں تبلیغ نہیں کر سکتا تھا.چنانچہ عام حالات پر تبصرہ کرنے لگا.تو ایک پولیس افسر کہنے لگا کہ آپ یہ کیا باتیں کر رہے ہیں، ہمیں تبلیغ کریں.ہم تو اس کی پیاس لے کر آئے ہیں.چنانچہ میں ان سے تبلیغی گفتگو کرنے لگ گیا اور بڑی دیر تک باتیں کرتے رہے.رات گئے تک وہ مجھ سے سوالات پوچھتے رہے اور میں جوابات دیتا رہا.بعد میں محترم کرم الہی ظفر کا خط آیا ہے کہ ان میں سے ایک ملا اور کہنے لگا کہ بتارہا.کا میں بہت حد تک مسلمان ہو گیا ہوں.حضور نے فرمایا:.پریس نے جو حیرت انگیز اظہار کیا، وہ بھی خدا تعالی کی تائید و نصرت کا نشان ہے.کچھ کچھ " 92
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد حضور نے فرمایا کہ "2 خلاصہ خطاب فرمود 120 اکتوبر 1982ء وہاں کے اخبارات نے بڑی محبت ، دیانتداری اور شرافت کے ساتھ سب باتیں وہاں کے لوگوں کو بتا ئیں.ایک شدید معاند اخبار نے بھی خبریں شائع کیں.ڈنمارک کے پریس میں ایک خاتون تھی، بڑی کٹر عیسائی.مجھے بتایا گیا کہ یہ آتو جاتی ہے مگر شائع کچھ نہیں کرتی.اور یہاں ہے بھی صرف یہی عیسائیوں کا اخبار.اس کے ساتھ جب باتیں ہوئیں تو بائبل سے متعلق دلائل شروع ہو گئے.یہ پریس کا نفرنس نہ رہی بلکہ دلچسپ مجلس سوال و جواب بن گئی.اور اس کے بعد اس نے اخبار میں ایک پورا آرٹیکل دیا، جس میں اس نے تفصیل کے ساتھ ساری باتیں دلیلیں دے دے کر شائع کیں“.مطبوعه روزنامه الفضل 13 اکتوبر 1982ء) 93
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1982ء ترقیات کی نئی راہیں کھلنے پر سطحی جشن منانے یا بے فکر ہونے کی ضرورت نہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اکتوبر 1982ء قرآن کا یہ بہت ہی پیارا اسلوب ہے کہ دعاؤں کے رنگ میں انسان کی تربیت فرماتا ہے.دعاؤں سے جو فائدہ انسان کو پہنچتا ہے، وہ اپنی جگہ ہے.اس کے علاوہ ان دعاؤں میں بڑے گہرے مضامین ایسے ہیں ، جو انسان کی تربیت سے تعلق رکھتے ہیں.اس کے ذہن اور اس کے قلب، اس کی فکر اور اس کے جذبات کو توازن بخشتے ہیں.اور وہ غلطیاں، جن میں انسان بسا اوقات مختلف جذبات اور مختلف مواقع پر مبتلا ہو جایا کرتا ہے، ان غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان ٹھوکروں سے بچاتے ہیں.سورۃ فلق کی یہ آیات، جو میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں بھی ایک ویسی ہی بہت پیاری دعا سکھائی گئی اور انسان کو ایک ایسے مضمون سے آگاہ کیا گیا کہ اگر وہ اس سے باخبر رہے تو ترقیات اور فضلوں اور رحمتوں کے وقت بے خوف نہ ہو اور دنیا کی نظر میں جتنے خوف ہیں، ان خوفوں کے وقت مایوس نہ ہو.گویا ہر حالت میں انسان کو اعتدال کا سبق سکھایا گیا ہے.وو جب بھی انسان کے لئے ترقیات کی نئی راہیں کھلیں، نئی صبحیں نمودار ہوں، انسانی کوششوں اور محنتوں کا ثمرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو اور وہ کوششیں پھوٹ کر کونپلوں میں تبدیل ہو رہی ہوں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں فخر کا کوئی مقام نہیں، بے فکر ہونے کی کوئی بات نہیں، ایسے جشن منانے کی کوئی ضرورت نہیں ، جو سطحی اور دنیا کے جشن ہوں.کیونکہ حقیقت میں ہر زندگی کے ساتھ ایک موت بھی لگی ہوئی ہوتی ہے.ہر روشنی کے ساتھ کچھ اندھیرے بھی وابستہ ہوتے ہیں.ایسے موقع پر اپنے رب کے حضور جھکنا چاہئے ، جو خالق ہے، جس نے خیر و شر کا یہ نظام پیدا فرمایا ہے.اور اس سے یہ عرض کرنی چاہئے کہ اے اللہ ! ہمیں اس زندگی کے نئے دور میں اس طرح داخل فرما کہ اس کے ہر شر سے محفوظ رکھنا اور ہر خیر اور برکت ہمارے پہلے میں ڈال دینا.یہ ہے وہ مضمون، جس کو بھلانے کے نتیجہ میں فتوحات کے وقت فخر پیدا ہو جاتے ہیں.ادنی ادنیٰ نعمتوں کے حصول کے وقت انسان اپنی عاقبت سے بے نیاز اور بے فکر ہو جاتا ہے.زندگی کے ایک پہلو کو 95
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم حاصل کر کے زندگی کے دوسرے پہلو سے آنکھیں بند کر لیتا ہے.نعمت کے طور پر اسے تھوڑی سی چیز ملے تو اس نعمت کے نتیجہ میں وہ خود مالک بن بیٹھتا ہے اور خدا سے غافل ہو جاتا ہے.نتیجہ اس شر سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، جو نعمت کے ساتھ ملحق ہوتا ہے.اگر نعمت کا صحیح استعمال ہو تو انسان شر سے بچ جاتا ہے.اگر غلط استعمال ہو تو شر اس کے بعد لازماً اس کے تعاقب میں آتا ہے" وو ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہم نعمت عطا کرتے ہیں اور وہ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِه وہ انسان خود پرستی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور دین سے اور شکر کا حق ادا کرنے سے پہلو تہی کرتا ہے.و نابجانبہ اور ہر چیز کو اپنی جانب ہی سمیٹ لیتا ہے.یعنی پہلو تہی اس رنگ میں گویا میں ہی تھا، سب کچھ میرا ہی ہے اور کسی کا کوئی دخل نہیں.یعنی خدا تعالیٰ کی رحمت سے کلینتہ غافل اور اس کے شکر سے کلیتہ غافل ہو جاتا ہے.اور وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد شر بھی آنے والا ہے.ایسی حالتیں ہمیشہ شر لے کر آتی ہیں.نتیجةً وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَوْسًا اس وقت بھی اس کی عجیب حالت ہوتی ہے، جب اس کو شیر پہنچتا ہے.تو ایسے شخص میں مقابلہ کی طاقت نہیں ہوتی.وہ ایک کیفیت سے مغلوب ہونا جانتا ہے.یہ نفسیاتی فلسفہ ہے، جو قرآن کریم بیان کر رہا ہے کہ وہ لوگ جو زندگی کے دونوں پہلوؤں پر بیک وقت نظریں نہیں رکھتے ، وہ ایک پہلو سے مغلوب ہو جاتے ہیں.جس طرح وہ خوشی سے مغلوب ہو جاتے ہیں، اس طرح شر سے بھی مغلوب ہو جاتے ہیں.اور شر آتا ہے تو زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں.ان کو روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی.ان چیزوں سے پناہ کی تلقین فرمائی گئی.دعا سکھائی گئی.قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ.اے خدا! تو جو نئی نئی امیدیں پیدا کرنے والا اور ہمارے لئے ترقی کے نئے راستے کھولنے والا ہے، تو ہماری کوششوں کے بیجوں کو نئے پودوں اور لہلہاتی ہوئی کونپلوں میں تبدیل کرنے والا خدا ہے.تو زندگی کے اس عمل کے شرسے ہمیں محفوظ رکھنا.کیونکہ ہر پیدائش کے ساتھ کچھ شر بھی لگے ہوتے ہیں.اور ہمیں موت سے غافل نہ ہونے دینا.کیونکہ جس وقت زندہ چیز موت کے خطروں سے غافل ہو جاتی ہے، وہ ہمیشہ انحطاط پذیر ہو جاتی ہے.وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ اور رات کے خطروں سے بھی بچانا ، جب وہ چھا جائے“.96
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1982ء...خدا کی طرف سے ترقیات تو عطا ہوتی ہیں لیکن جوتو میں ان ترقیات کا شکر ادا نہیں کرتیں، وہی دن ان کے لئے راتوں میں تبدیل ہو جایا کرتے ہیں.اور قوموں کی تاریخ کا خلاصہ یہی ہے کہ کبھی وہ عروج حاصل کر رہی ہیں کبھی زوال پذیر ہو رہی ہیں.لیکن دنیا میں تو یہ ایک طبعی نظام کے طور پر نہیں ملتا ہے کہ لازم روشنی کے بعد اندھیرے میں آنا ہے.مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ روشنیاں ، جو ہم مذہبی قوموں کو عطا کیا کرتے ہیں، ان کے بعد اندھیر الازم نہیں ہے.ہو سکتا ہے اور یہ ایک حد تک تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ ان روشنیوں کا زمانہ لمبا کرلو.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ (الرعد : 12) کہ خدا تعالیٰ نے ایک تقدیر بنادی ہے.یہ مبرم تقدیر ہے، جوئل نہیں سکتی.لا یغیر ما بقوم، جو نعمتیں کسی قوم کو عطا فرماتا ہے، ان کو پھر تبدیل نہیں کیا کرتا.حتى يغيروا ما بانفسهم، یہاں تک کہ وہ خود تبدیل ہونے لگتے ہیں.خود بلانے لگتے ہیں ، تباہی کو اور ہلاکت کو اور تنزل کو.اس وقت خدا کی ایک اور تقدیر ظاہر ہوتی ہے اور ان کے اعمال کا نتیجہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.فرماتا ہے:.وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ پھر جب اللہ یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اس قوم کو برائی میں مبتلاء کیا جائے گا.لا مرد له، اس فیصلہ کو کوئی ٹال نہیں سکتا.یہ بھی اندھیرے ہوتے ہیں، جو خدا کی عطا کردہ روشنیوں کے بعد آتے ہیں.لیکن ان اندھیروں میں بندوں کا دخل ہے.وہ کوئی ایسا نظام نہیں ہے، جو ٹالا نہیں جاسکتا.اس کے برعکس کچھ ایسے اندھیرے ہیں، جو روشنیوں کے نتیجہ میں از خود پیدا ہو جاتے ہیں.ان کا بھی قرآن کریم میں بلکہ اسی آیت میں ذکر ہے.وہ اندھیرے ہیں، ترقی کے نتیجہ میں حسد کی پیداوار.اور وہ اندھیرے مومن کی خوشی کی تقریب کے ساتھ ساتھ لازما چلتے ہیں.وہ خدا کی طرف سے عائد کردہ اندھیرے نہیں ہیں.بلکہ خدا کے دشمنوں کی طرف سے عائد کردہ اندھیرے ہیں.چنانچہ فرمایا :- وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَ مِنْ شَرِّ النَّقْتُتِ فِي الْعُقَدِ کہ ان اندھیروں سے مراد یہ ہے کہ جب تم خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھو گے اور اس کی تبدیلیوں کے نظام میں ہر خیر سے کوئی برکت پانے لگو گے لیکن ہر شر سے محفوظ رہو گے تو اس کے 97
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک نتیجہ میں دشمن پر کچھ اندھیرے طاری ہو جائیں گے.اور ان اندھیروں کے نتیجہ میں وہ تم پر بھی اندھیرے طاری کرنے کی کوشش کریں گے.وَ مِنْ شَرِّ النَّقْتُتِ فِي الْعُقَدِ تمہارے جو تعلقات قائم ہوں گے، تمہارے جو روابط پیدا ہوں گے، دنیا میں تم ہر دلعزیز ہو گے، نئی نئی قوموں سے تمہارے واسطے پیدا ہوں گے، ایسے تمام مواقع پر اللہ تعالی مطلع فرماتا ہے کہ کچھ ایسے بھی پیدا ہوں گے، جو ان تعلقات کو توڑنے کے لئے ، ان میں زہر گھولنے کے لئے پھونکیں ماریں گے.نفاثات کہتے ہیں، پھونکنے والیوں کو.یعنی جادوٹو نا کرنے والیوں کو بھی نفاثات کہا جاتا ہے.لیکن نفت کا اصل مضمون سانپ سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ اس مضمون سے آگے پھر جادو ٹونے کا مضمون مستعار لیا گیا.افعی یعنی سانپ جب زہر گھولتا ہے، گس گھولتا ہے تو اس کو عربی میں نفٹ کہتے ہیں.فرمایا.ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور نعمتیں ہیں، جو تمہارے لئے زندگی کا انتظام کر رہی ہوں گی.دوسری طرف موت تھوکنے والے بھی پیدا ہو جائیں گے، جو تمہارے تعلقات کی گانٹھوں میں موت پڑھ پڑھ کر پھونکیں گے یا موت کا زہر گھولنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ متنبہ فرماتا ہے کہ یہ خطرات وابستہ ہیں.یہ وہ خطرات ہیں، جو تمہارے مقدر میں ہیں، ان کو کوئی ٹال نہیں سکتا.ہاں اگر تم دعائیں کرو گے تو ان خطرات کے وقت ان کے شر سے محفوظ رہو گے.یعنی یہ رات تو ایسی ہے، جو ٹل نہیں سکتی.لازما آنی ہے.اندھیروں کی یہ پیداوار کہ سانپ بچھو نکل آئیں اور ڈسنے لگیں، چور ڈاکو اور اچکے پیدا ہو جائیں، یہ تو ایک ایسی قدرت خداوندی ہے، جس کو کوئی بدل نہیں سکتا.فرمایا.ہاں، ایک چیز ہے، جو ہمارے بس میں ہے.یہ سانہ تھوکتے رہیں گے، تمہاری گانٹھوں پر.اللہ ان کے شر سے تمہیں محفوظ رکھتا چلا جائے گا.یہ وہ تقدیر ہے، جس کو حاصل کرنے کے لئے تم دعائیں کرو.پھر فرماتا ہے:.وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ اگر کوئی ان تمام احتیاطوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے راستہ پر آگے بڑھتا چلا جائے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل اتنے بڑھائے گا اور شر سے اس طرح محفوظ رکھتا چلا جائے گا کہ ہر قدم حصول خیر و برکت کا قدم تو ہو گا.ٹھوکر اور تنزل کا قدم نہیں ہو گا.جب تم اس مقام پر پہنچو گے تو ایک اور قسم کا اندھیرا بھی تمہاری راہ میں منتظر ہوگا اور وہ حاسد کا حسد ہے.98
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1982ء نقشت في العقد کے بعد حاسد کے حسد کا مضمون رکھا گیا.یہ کیوں ہے؟ بظاہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ حاسد کے حسد کے نتیجہ میں ہی تو وہ پھونکیں ماری جائیں گی.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہاں ایک اور مضمون بیان ہو رہا ہے.مراد یہ ہے کہ دشمنوں پر دو دور آتے ہیں.ایک نفرت اور حقارت کا وہ دور، جب کہ وہ خدا تعالیٰ کے قافلوں کی راہ میں حائل ہونے کی اور ان کے تعلقات میں زہر گھولنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن وہ نا کام کر دیئے جاتے ہیں.جب وہ قافلہ ان کوششوں کے باوجود آگے بڑھ جاتا ہے اور ترقی کی نئی نئی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے تو اس وقت حاسدوں کے حسد کی نظریں پڑتی ہیں اور وہ کچھ نہیں کر سکتیں.ایک بے اختیاری کا عالم ہے، غیظ و غضب کا عالم ہے لیکن بس کوئی نہیں ہوتا.لیکن اس حسد کے نتیجہ میں بھی بعض دفعہ نقصانات پہنچ جاتے ہیں.کیا باریک فلسفہ ہے، اس حسد کا.اس وقت اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے.لیکن حسد کے نتیجہ میں انسان تاک میں لگارہتا ہے.بعد کے مواقع میں اس کا غصہ بغض میں تبدیل ہو جاتا ہے.ایسے کینہ میں تبدیل ہو جاتا ہے، جو اس کی فطرت میں گس گھولنے لگ جاتا ہے.بجائے اس کے کہ وہ آپ کے تعلقات میں گس گھولے.یعنی اندرونی مضمون ہے، جس طرح سانپ کو ڈسنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ طیش میں بیٹھا ہو کہ میں نے ضرور ڈسنا ہے تو اہل علم جانتے ہیں کہ جتنی دیر اس کے زہر کی تھیلی کو انتظار میں لگتی ہے، اتنا ہی زیادہ زہر اس میں بھرتا چلا جاتا اور خطرناک ہوتا چلا جاتا ہے.تم دعائیں کرو گے تو ہم تمہیں محفوظ رکھیں گے.تمہیں بالکل پرواہ نہیں کرنی چاہئے.جو خدا کے فضل ہیں، ان فضلوں کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.صرف تم کر سکتے ہو ( یعنی اپنی بداعمالیوں کے ذریعہ) اگر تم نہ بدلو گے تو میں بھی نہیں بدلوں گا.تم میرے فضلوں اور رحمتوں کے وارث بنے رہو گے، حق دار بنے رہو گے تو میں فضل بڑھاتا چلا جاؤں گا.اور دشمن کے زہر سے تمہیں محفوظ رکھوں گا.لیکن کچھ افعی ایسے بھی رہ جائیں گے، جن کا بس نہیں چلے گا.وہ ترقیات پر تمہیں گامزن دیکھیں گے تو وہ اپنے اندر کس گھولنے لگیں گے، اپنے زہر کو بڑھاتے چلے جائیں گے.یہ ہے حسد کا مضمون ، جس پر جا کرتان ٹوٹی ہے، اس سارے مضمون کی.اور یہ ایک مستقل بغض ہے، جو پیدا ہوتا چلا جائے گا.اور تمہاری ہر ترقی کے نتیجہ میں یہ بخض بڑھتا چلا جائے گا.خواہ ان کی کچھ پیش جائے یا نہ جائے.ایسے حاسد ، ایسے کینہ ور انتظار میں لگے رہتے ہیں.کسی جماعت سے یا کسی فرد سے کبھی غفلت ہو، اس وقت ان کا داؤ چلتا ہے اور پھر وہ بڑی قوت کے ساتھ ڈسنے کی کوشش کرتے ہیں.تو ایک دفعہ بچنے کے بعد ہمیشہ کے لئے غافل نہیں ہو جانا.یہ نہ سمجھنا کہ آگے موت کسی پہلو سے بھی تمہارا انتظار 99
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک نہیں کر رہی.وہ تو تمہاری تاک میں بیٹھی رہے گی.اور اس کو انتظار میں جتنی دیر لگے گی، اتنا ہی اس کا زہر بڑھتا چلا جائے گا.اس لئے قیامت تک کے لئے ہر دشمنی کے شر سے محفوظ رکھنے کی دعا سکھا دی گئی.کتنا عظیم الشان کلام ہے.کوئی ایک پہلو بھی باقی نہیں چھوڑا، جو ترقیات کی راہ پر چلنے والی قوموں کی راہ میں پیش آسکتا ہے، جس کا قرآن کریم نے یہاں ذکر نہ فرمایا ہو.سب سے پہلی بات جو بیان فرمائی گئی، اس کے نتیجہ میں کچھ ذمہ داریاں بھی ہم پر عائد ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ خالق اللہ ہے، تم نہیں ہو.تم سمجھتے ہو کہ تمہاری کوششوں کے نتیجہ میں ایک چیز پیدا ہوئی.لیکن یہ جان لو کہ رب الفلق صرف خدا ہے.اس کے سوا اور کوئی ذات نہیں.اگر تم یہ جان لو کہ خدا ہی ہے، جو پیدا کرنے والا ہے تو جھوٹے تکبر اور جھوٹے تفاخر تم میں پیدا ہی نہیں ہو سکتے.انکسار تو پیدا ہوسکتا ہے، اس احساس کے بعد کہ ہماری کوششیں نہیں تھیں، اللہ کے فضل تھے لیکن وہ کھوکھلی اور ہلکی باتیں، جوان رازوں کو نہ سمجھنے والے دلوں میں پیدا ہو جاتی ہیں، ہر ماحصل کے بعد ، ان کھو کھلی باتوں سے مومن محفوظ رکھا جاتا ہے.مجھے اس کا خیال تین دن پہلے اس طرح آیا کہ جب میں سفر یورپ سے واپسی پر یہاں پہنچا تو لوگوں نے طبعا خوشی کا اظہار کیا.اللہ تعالیٰ نے ایک خدمت کی توفیق عطا فرمائی تھی.اس موقع پر بڑی محبت کا اظہار تھا.دلوں سے بے اختیار خلوص کے سوتے اور جذبات کے چشمے پھوٹ رہے تھے.کچھ نعرے بن کر، کچھ دعائیں بن کر ، کچھ ویسے ہی چہروں سے ظاہر ہورہے تھے.پاکستان میں داخل ہونے سے لے کر ربوہ پہنچنے تک یہی منظر دیکھا.لیکن بعض نعرے ایسے سنے، جن سے مجھے بہت تکلیف پہنچی.مثلاً یہ کہا گیا، فاتح سپین.ابھی تو ہم خدمت کے میدان میں پوری طرح داخل ہی نہیں ہوئے.اتنی جلدی اتنے بڑے بڑے دعوے کر بیٹھنا اور ان دعوؤں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا نہ کرنا، یہ ایک بہت خطرناک فعل ہے.ہر تخلیق نو کے ساتھ جو شر لگے ہوئے ہیں، ان میں ایک یہ شر بھی ہے کہ انسان چھوٹی حالت میں بہت بڑے بڑے دعوے کرنے لگ جائے.چھوٹی سی بات پر اچھلنے لگ جائے اور اتنا شور مچائے کہ وہ سمجھے کہ میں نے سب کچھ حاصل کر لیا ہے.اس کے شر بڑے تفصیلی ہیں.جن کی طرف ذہن منتقل ہوا تو آج میں نے خطبہ میں ان آیات کو اپنے خطبہ کا موضوع بنایا.100
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم وو اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 اکتوبر 1982ء مسجد سپین کے ساتھ جو صبحیں ہم نے دیکھیں، اللہ کے فضل کی صبحیں جو پھوٹی ہیں، بلاشبہ ہمارے دل اس سے روشن ہو چکے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس صبح کی نمازیں ادا کریں اور خدا کی حمد کے گیت گائیں اور گاتے چلے جائیں ، تب بھی یہ ایسا فضل ہے، جس کے شکر کا حق ادا نہیں ہوگا.لیکن اس کے نتیجہ میں جو بعض شر پیدا ہوتے ہیں، ان سے بھی محفوظ رہنے کی دعا ضروری ہے.ایک تو صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے روشنی ظاہر ہونے پر آپ فجر کی نماز پڑھتے ہیں.لیکن ایک وہ نماز ہے، جو ہر فلق کے وقت انسان کو پڑھنی چاہئے.وہ نماز، ذکر الہی کی نماز ہے، جو انسان کے اندر جذب ہو جاتی ہے.یہ نماز اس توجہ کی نماز ہے کہ ہر نیا دور، ہرنئی شان، جو خدا نے ظاہر فرمائی ہے، جو اس کی رحمت اور فضلوں کا نشان ہے، ہمیں اس کے لئے اس کا شکر ادا کرنا چاہئے ، اس کی حمد کرنی چاہئے.یہ تو ہے خیر خلق یعنی خلق کا خیر کا پہلو.اور شر کا پہلو یہ ہے کہ انسان اسی کو اپنا سب کچھ سمجھ لے.وہ سمجھے کہ ہم نے آخری بازی جیت لی ہے، تمام دنیا فتح ہوگئی ہے کیونکہ ہم نے یہ صبح دیکھ لی، خدا کا یہ فضل دیکھ لیا ، اب اس کے بعد گو یا کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہی.اور اس کے جو خطرات ہیں، ان سے وہ غافل ہو جائے.اس سوچ میں خطرات ہیں، اس فکر میں خطرات مخفی ہیں، جن کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے.وہ خطرات مثلاً ایک یہ کہ ایک انسان اگر ایک چھوٹی چیز پر راضی ہو جائے اور سمجھے کہ میں نے مقصد کو حاصل کر لیا ہے تو اگلا قدم نہیں اٹھائے گا.اس راستے کے جو تقاضے ہیں، مثلاً محنت ہے، وہ ان کو پورا نہیں کرے گا.وہ جذباتی طور پر اظہار کر کے بلند نعرے لگا کر سمجھے گا کہ میری مطلب براری ہوگئی ، آج مجھے مزہ آ گیا ، سب کچھ حاصل ہو گیا.لیکن جو شخص یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور اس کے لامتناہی فضل ہیں، ایک فلق نہیں، اس کے قبضہ قدرت میں بے شمار افلاق ہیں.ان تمام فلقوں کا وہ رب ہے، اس نے آج یہ صبح ہمیں دکھائی ہے تو کل دوسری بھی دکھا سکتا ہے، پرسوں تیسری بھی دکھا سکتا ہے.اور ایک نعمت پر راضی ہو کر وہیں بیٹھ رہنے والے نہیں.اگر چہ ہم اس نعمت پر راضی ہیں مگر ان معنوں میں نہیں کہ ہم اسی پر بیٹھ رہیں.کیونکہ خدا کی نعمتیں لا متناہی ہیں اور اس نے عطا کی ہیں.ہمارا تو کچھ تھا ہی نہیں.پس جب سب کچھ ہی اس نے عطا کیا ہے، وہ بلا وجہ اور بلا استحقاق کے یہ فضل فرما سکتا ہے تو اگلا فضل بھی ہم کیوں نہ اس سے مانگیں؟ ایک بیدار مغز انسان کی طبعاً اس طرف توجہ منتقل ہوتی ہے.انسان اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوتا.اپنی کوشش سے غافل نہیں ہوتا.ویسے بھی ایک دوسرا شریہ ہے کہ جو تو میں نعرہ بازیوں میں مبتلا ہو جائیں ، ان کے جذبات کی قوتیں ختم ہو جاتی ہیں.اگر جذبات کو روکا جائے تو وہ اعمال میں ڈھل جایا کرتے ہیں.اسی لئے ہر نعمت کے ساتھ صبر کی تلقین ہے کہ صبر ضرور اختیار کرنا کیونکہ صبر کے نتیجہ میں اعمال کی اصلاح ہوتی ہے.101
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم پس یہ ٹھیک ہے کہ خوشی کے وقت یہ بھی جائز ہے اور ایسا ہوتا چلا آیا ہے کہ انسان نعرے بلند کرتا ہے.لیکن نعرے بھی ایسے معنی خیز ہونے چاہئیں، جو آپ کے جذبات کو خالی نہ کر دیں، انڈیل نہ دیں بلکہ لامتناہی معانی کے جہان آپ کے دلوں میں روشن کرنے والے نعرے ہوں.مثلاً اللہ اکبر کا نعرہ ہے.یہ ایک ایسا عظیم الشان نعرہ ہے کہ اگر ساری عمر تو میں اس نعرے کو بلند کرتی چلی جائیں اور فلک شگاف نعرے بلند کرتی چلی جائیں تب بھی یہ اللہ اکبر کا مضمون ختم نہیں ہو سکتا.ہر ترقی، ہر بڑائی بتاتی ہے کہ سب سے بڑا تو خدا ہے اور اس کی نہ ختم ہونے والی بڑائی ہے.جس کی بڑائی نہ ختم ہونے والی ہو، اس کے لئے نہ ختم ہونے والے نعرے لگتے چلے جائیں گے.اور ان نعروں کا کوئی انجام نہیں ہے.ایسے نعروں کا کوئی اختتام نہیں ہے.اسی طرح جب خدا ہمیں کوئی فتح عطا فرماتا ہے تو فتح کی کنہ کو سمجھنا چاہئے.یہ مجھنا چاہئے کہ یہ فتح کس کے طفیل نصیب ہوئی؟ کیوں نصیب ہوئی ؟ میں نے جہاں تک قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہے، وہاں کسی جغرافیائی فتح کا کہیں ذکر نہیں ملتا.اول سے آخر تک آپ قرآن کریم کا مطالعہ کریں، بار بار کریں، جس طرح چاہیں سمجھیں، جن ڈکشنریوں سے چاہیں، فائدہ اٹھائیں کسی علاقائی فتح کا قرآن کریم میں مومن کے لئے ذکر نہیں.روحانی فتوحات کا ذکر ہے، دینی فتوحات کا ذکر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین تو قرار دیا گیا، فاتح عالم قرار نہیں دیا.ہاں یہ فرمایا:.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (التوبة: 33) کہ وہ اس لئے مبعوث فرمایا گیا ہے تا کہ تمام ادیان باطلہ پر فتح مند ہو.اس لئے ہماری فتح نہ پین کی فتح ہے، نہ ہندوستان کی فتح ہے.نہ یورپ کی فتح ہے، نہ امریکہ کی فتح ہے.نہ جاپان کی ، نہ چھین کی کسی ایشیائی ملک کی فتح، ہماری فتح نہیں.دنیا کے کسی جزیرہ کی فتح، ہماری فتح نہیں.ہماری فتح تو وہی فتح ہے، جو ہمارے آقا کی فتح ہے.اور وہ فتح لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کی فتح ہے.آپ کو اس لئے مبعوث فرمایا گیا ہے کہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دیں.اتنے عظیم الشان آقا سے واسطہ پڑ جائے ، اس کی غلامی کا انسان دم بھرنے لگے اور فتح سپین پر راضی ہو جائے.یہ تو آپ کی شان نہیں.اور وہ فتح ہو بھی ایسی، جو ابھی آئی نہ ہو، ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے آغاز کے آثار ظاہر کئے گئے ہوں.اس لئے دوست اپنے اندر توازن پیدا کریں، باشعور نہیں، بالغ 102
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد.اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1982ء النظر بنیں.ان دعاؤں سے سبق سیکھیں، جو آپ کو ذہنی اور فکری تو ازن سکھاتی ہیں.غور کر کے دعائیں کیا کریں.اور توازن کو حاصل کریں، اس توازن کے لئے دعا مانگا کریں.پھر اللہ تعالیٰ آپ سے بہت بڑے بڑے کام لے گا.پھر آپ کی فتوحات کے دروازے لامتناہی ہیں.اس وقت تک آپ کی فتوحات کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا، جب تک لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کی پیشگوئی پوری نہیں ہو جاتی.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فاتح ادیان عالم ہیں، ہمارا یہ نعرہ ہونا چاہئے.اے اللہ ! اس فاتح ادیان عالم پر سلام بھیج اور درود بھیج، جس کی رحمتوں اور برکتوں سے ہم قدم آگے بڑھا رہے ہیں.اسی کے طفیل ہمیں وہ نعمتیں عطا ہو رہی ہیں، جن نعمتوں پر آج ہم خوب راضی ہیں.لیکن ان معنوں میں راضی نہیں کہ ہمیں یہ کافی ہوگئیں.تیرا وہ محبوب، جس کے ساتھ ہم وابستہ ہو گئے، وہ ساری نعمتیں، جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں، جب تک وہ حاصل نہیں کریں گے ، ہم راضی نہیں ہوں گے.اس لئے رضا کے دو معنی ہیں.ایک پہلو سے ہم ہر حال میں راضی ہیں.تیری طرف سے ابتلا آئے، تب بھی راضی ہیں.تیری طرف سے نعمت نازل ہو، چھوٹی ہو یا بڑی ہو ، ہم راضی ہیں.لیکن ایک رضا ایسی ہے، جس کے بعد آگے اور خواہش پیدا نہیں ہوتی.وہ رضا موت کی نشانی ہے، وہ رضا زندگی کی علامت نہیں ہے.اس لئے رضا کے دوسرے معنوں میں ایک نہ ختم ہونے والی پیاس ہے، جو ہمیں اپنے رب کے حضور پیش کرتے چلے جانا چاہئے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر فتح کے وقت درود بھیجنے چاہئیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جتنے بھی ادیان باطلہ یا ان کے اجزاء ہمارے ہاتھوں پر فتح ہو گئے ، ان سارے قلعوں کی فتوحات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کا سہرا ہیں.ہم تو ادنی غلام ہیں، خاک پاہیں اس آقا کے ، جس کے صدقے اور جس کے طفیل یہ چھوٹی چھوٹی فتوحات نصیب ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان فتوحات کے دروازے وسیع تر کرتا چلا جائے.نئے نئے میدان ہمیں نظر آئیں قربانیوں کے، اللہ تعالیٰ کے حضور عجز کے ساتھ قربانیاں پیش کرنے کے میدان.ہم قربانیاں پیش کریں اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے وہ قربانیاں قبول ہوں.اور نئی نئی فتوحات کے دروازے ہم پر کھلتے چلے جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“.مطبوعه روزنامه الفضل 03 نومبر 1982ء) 103
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1982ء احمدیت مستقل قربانیوں کا ایک لائحہ عمل ہے خطاب فرمودہ 15 اکتوبر 1982ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ...حالہی میں مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ تو فیق عطا ہوئی کہ مسجد سپین کے تاریخی افتتاح کا اعلان کرتا.اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بھی بخشی کہ ہر جگہ اس کے فضلوں کے بے شمار رنگ ظاہر ہوتے ہوئے دیکھے.جس طرح بارش میں قطرے گرتے ہیں، اس طرح ہر طرف سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی برسات ہوتی ہوئی دیکھی.اس تصور سے دل حمد سے بھر جاتا ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ جب دل حمد سے بھر جائے تو چھلکنے بھی لگتا ہے.اس کیفیت میں جب آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم سنی تو دل کی جو حالت ہوئی، وہ نا قابل بیان ہے.کوئی الفاظ نہیں، جن میں اس کی کیفیت کو بیان کیا جاسکے.کیسی پیاری راہ حمد کی ہمارے لئے آپ نے معین کر دی ہے.انکساری اور عاجزی کی کیسی حسین شاہراہ ہمارے لئے کھول دی ہے.یہ وہی شاہراہ ترقی اسلام ہے، جس پر چل کر ہمیں فتوحات نصیب ہوں گی.یہ وہی رستہ ہے، جس رستے سے خدا ملتا ہے.بے شمار رحمتیں ہوں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کہ جنہوں نے انانیت کی ساری راہیں بند کر دیں اور عاجزی کی ساری راہیں کھول دیں.ایک ایک شعر، ایک ایک مصرع ، ایک ایک لفظ سچائی میں ڈوبا ہوا ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہی آپ کی سچائی کی دلیل ہے.کوئی سعید فطرت انسان اگر اس کلام کو سنے تو ممکن نہیں ہے کہ وہ اس کلام کے کہنے والے کے حق میں اس کی سچائی کی گواہی نہ دے.حیرت انگیز طور پر پاکیزہ جذبات عشق میں ڈوبا ہوا یہ کلام سن کر روح پر وجد طاری ہو جاتا ہے.جب یہ کلام پڑھا جارہا تھا تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ احمدی نوجوان جو یہ کہتے ہیں کہ ہم تبلیغ کیسے کریں؟ ہمیں دلائل یاد نہیں، ہمیں ملکہ نہیں کہ ہم مناظرہ کر سکیں ، ہمیں عربی نہیں آتی ، ہمیں استدلال کا طریق معلوم نہیں.میں سوچ رہا تھا کہ انہیں اس سے زیادہ اور کس چیز کی ضرورت ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام یاد کریں اور درویشوں کی طرح گاتے ہوئے قریہ قریہ پھریں اور اسی کلام کی منادی کریں.اور دنیا کو بتائیں کہ وہ آگیا ہے، جس کے آنے کے ساتھ تمہاری نجات وابستہ ہے.105
اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ایسا پر اثر کلام، ایسا پاکیزہ کلام، ایسا حکمتوں پرمبنی کلام، خدا کی حمد کے گیت گا تا ہوا ایسا کلام ، جس کے متعلق بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے حقیقت یہ ہے کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر کہا ہوگا تو یقیناً اور لازمان آسمان پر ملائکہ بھی آپ کے ہم آواز ہو کر یہ شعر گار ہے ہوں گے.اور وہ ساری حمد آپ کے پیچھے پڑھا رہے ہوں گے، جو خدا کی حمد میں آپ نے اظہار محبت اور عشق کیا.حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی جان محبت ہے، دین کی حقیقت عشق ہے.وہ دین، جو محبت اور عشق سے عاری ہے، اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.نہ وہ زندہ رہنے کے لائق ہے، نہ زندہ رکھنے کے قابل ہے.روح ہے، زندگی اور ادیان کا فلسفہ اس بات میں مضمر ہے کہ خدا سے محبت کی جائے.اور ایسی محبت کی جائے کہ دنیا کی ہر چیز پر وہ محبت غالب آجائے.کوئی وجود اس سے زیادہ پیارا نہ رہے، کوئی ساتھی اس سے زیادہ عزیز تر نہ ہو.یہ محبت جب زندگی کے ہر دوسرے جذبے پر غالب آجاتی ہے تو اس وقت وہ لوگ پیدا ہوتے ہیں، جنہیں خدا نما وجود کہا جاتا ہے.یہی سب سے بڑا ہتھیار ہے، جس سے دنیا کے قلوب فتح کئے جائیں گے.یہی وہ ہتھیار ہے، جس نے بہر حال غالب آتا ہے.چنانچہ جب میں پین گیا تو ان لوگوں کے دل میں بھی کئی قسم کے تو ہمات تھے.وہ یہ سمجھے رہے ے کہ شاید ہمیں Moors کی طرح، جنہوں نے پہلے فتح کیا تھا، دوبارہ کسی قوت کے زور سے، کسی ہوشیاری سے، کوئی سکیم بنا کر فتح کرنے کے ارادے ہیں.اسی لئے میں نے اپنے پیغام میں اس بات کو خوب کھول دیا اور واضح کر دیا کہ محبت کے سوا ہم اور کوئی پیغام لے کر نہیں آئے.ایک موقع پر ایک پریس کے نمائندے نے مجھے سے سوال کیا کہ آپ آخر کیا کرنے آئے ہیں؟ اس مقصد کو واضح تو کریں؟ میں نے ان سے کہا کہ ہم یہ کرنے آئے ہیں کہ تلوار نے جس ملک کو مسلمانوں سے چھینا تھا محبت سے ہم اس ملک کو دوبارہ فتح کرلیں.اس کے سوا ہمارا کوئی مقصد نہیں ہے.اور یہ پیغام ایسا ہے، جس پیغام کا مقابلہ دنیا میں کسی طاقت کے بس کی بات نہیں.جب سے انسان دنیا میں پیدا ہوا ہے.مذاہب کی تاریخ پر آپ نظر ڈالیں، محبت ہمیشہ جیتی ہے اور نفرت ہمیشہ ہاری ہے.یہ ناممکن ہے کہ اس اٹل تقدید کو دنیا کی کوئی قوم بدل سکے.اس لئے خدام احمد بیت بھی محبان احمدیت ہے اسال نیا بدل سکے.106
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1982ء ہونے چاہئیں، عاشقان احمدیت ہونے چاہئیں.اس کے دل میں ولولے ہوں، پیار اور محبت اور عشق کے.کیونکہ اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی طاقت نہیں.اور اس کے سوا ہم دنیا کو فتح کرنے کا کوئی اور ذریعہ اپنے ہاتھ میں نہیں پاتے.ایک موقع پر بریڈ فورڈ (انگلستان) میں ایک اخباری نمائندے نے مجھ سے سوال کیا، وہ اسی نوعیت کا سوال تھا، خصوصاً اس پہلو سے اس نے اپنی مطلب براری چاہی کہ آپ محبت کا پیغام تو دیتے ہیں مگر آپ یہ بتائیں کہ جن لوگوں نے آپ پر مظالم کئے ہیں اور شدید مظالم کئے ہیں، ان کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے؟ میں نے ان کو بتایا کہ ان کے لئے بھی ہمارے دل میں سوائے پیار اور محبت اور رحمت کے اور کوئی جذبہ نہیں.جب میں یہ کہہ رہا تھا تو اس وقت مجھے ایک پرانی رؤیا یاد آئی.جس میں بعینہ یہی مضمون بیان کیا گیا تھا.لیکن فی الحال اس وقت میں اس کو آپ کے سامنے بیان نہیں کروں گا.میں نے وہ رویا جب اس کے سامنے بیان کی تو اس کے چہرے پر اطمینان ظاہر ہوا اور بے اختیار سارے تردد اور شک کے بادل چھٹ گئے اور پوری طرح مطمئن ہو کر اس نے پھر مزید باتیں دریافت کیں.اور رنگ بدل گیا اور شک کی بجائے اس کی آنکھوں میں بھی میں نے محبت کے آثار دیکھے.تو حقیقت یہ ہے کہ محبت ایک ایسا ہتھیار ہے، جس کے مقابل پر دنیانے کبھی کوئی ہتھیار نہ ایجاد کیا ہے، نہ کر سکتی ہے.اس نے لازماً فتحیاب ہونا ہے.اس لئے ہم، جو آج نفرتوں کی آندھیوں میں گھرے ہوئے ہیں.ہم، جو آج ایسی کمزور حالت میں اپنے آپ کو پاتے ہیں کہ جو قدم ہم اٹھائیں، وہ بغض اور نفرت پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے.جو نیکی ہم کریں، وہ فتنہ وفساد شمار کی جاتی ہے.جو خدمت اسلام کے لئے ہم اقدام کریں، اسے انتہائی حسد اور بغض کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.اس ساری صورت حال کا علاج بھی یہی ایک لفظ ”محبت“ ہے.کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے ہمیشہ محبتوں سے نفرتوں پر فتح پائی ہے.اسے جتنی مرتبہ بھی میں بیان کروں کم ہے.میں یہ بات خاص طور پر اس لئے آج آپ کے سامنے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مسجد چین کا یہ با برکت اقدام، جس کی توفیق اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی محض اپنے فضل کے ساتھ ، اس نے بھی بعض دلوں میں بغض اور نفرت پیدا کر دئیے.حیرت انگیز بات ہے، انسان بظاہر سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک نیک کام کے نتیجہ میں نفرت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ رشک تو پیدا ہوسکتا ہے، یہ افسوس اور حسرت تو پیدا ہو سکتے ہیں کہ کاش! ہم یہ کام کرتے لیکن نیک کام کے نتیجے میں نفرت پیدا ہونا، عقل انسانی کے خلاف ایک مظاہرہ ہے.یہ واقعات 107
اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک بھی ہم سے گزررہے ہیں اور خطرہ ہے کہ نو جوان، جو اپنے اندر گرم خون رکھتے ہیں، وہ کسی وقت بے اختیار ہو جائیں اور ان منافرانہ جذبات سے مغلوب ہو کر وہ بھی کوئی ایسا کلمہ دل سے نکال دیں، جو اپنے اندر تلخی رکھتا ہو.اس لئے تمام نوجوانوں کو میں خصوصیت کے ساتھ یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ نے ہرگز کسی رنگ میں بھی دل آزاری نہیں کرنی.آپ کے عہد بیعت میں یہ الفاظ داخل ہیں کہ میں کسی کا دل نہیں دکھاؤں گا.اس لئے کسی نوع کی بھی دل آزاری ہمارے احمدی خدام کی طرف ظاہر نہیں ہونی چاہئے.جو بری بات کہتا ہے، جو تلخ بات کہتا ہے، جو نفرت کی نگاہ سے آپ کو دیکھتا ہے، اس کے سامنے معجز کا اظہار کیجئے، گر جائیے ، بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کیجئے، معافی مانگئے ، اس سے کہیں کہ ہمارا مقصد ہرگز دل آزاری نہیں تھا.حقیقت یہ ہے کہ دو مختلف متضاد دعویداران محبت آج دنیا میں پیدا ہو چکے ہیں.ایک وہ جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے ، اس محبت کے نتیجے میں اپنی دانست میں اتنا بڑھے ہوئے ہیں کہ یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے.یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی حضرت محمد مصطفیٰ کے نام کو بلند کرتے ہوئے کوئی انسان دنیا میں مساجد بنائے.یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے کے لئے تمام دنیا میں کوئی انسان دیوانوں کی طرح پھرتا چلا جائے اور سب کچھ شار کرتا ہوا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اعلان کرتا رہے.یہ عجیب محبت ہے.عجیب تقاضے ہیں، اس محبت کے.ہمیں تو اس محبت کی کوئی سمجھ نہیں آتی.ہم تو اس محبت سے کلیتہ نا آشنا ہیں.ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اگر کسی سے محبت ہو تو دشمن بھی اس کی تعریف کرے تو دل اس دشمن پر فدا ہونے لگتا ہے.ہم تو صرف اس محبت سے واقف ہیں کہ اگر معاند سے معاند انسان بھی کسی محبوب کی تعریف کرنے لگ جائے تو دل اس پر نچھاور ہونے لگتا ہے اور اسے معاف کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے“.وو جو سچا پیار کرنے والا ہو، وہ دوسرے کے پیار سے جلتا نہیں ہے، دوسرے کے پیار سے دشمنی محسوس نہیں کرتا، دوسرے کے پیار کے نتیجے میں اپنی دشمنیاں بھلا دیا کرتا ہے.پس ہم تو صرف اس محبت سے آشنا ہیں.اگر ہمیں سچی محبت ہے، اگر سچا پیار ہے تو اس کے نتیجے میں ہماری تو یہ کیفیت ہے کہ 108 ان کو آتنا ہے پیار پر قصہ کو غصے پیار آتا ہے
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1982ء وہ اس بات پر نالاں ہیں، اس بات پر شکوہ کر رہے ہیں، ناراض ہیں ہم سے، معاف کرنے کے لئے تیار نہیں.کہتے ہیں قتل کردوان کو کہ محمد مصطفیٰ کا نام محبت سے لے رہے ہیں.اس پیار پر ان کو غصہ آرہا ہے کہ خدا کی خاطر یہ لوگ مسجدیں بنا رہے ہیں.اپنے دل کی کیفیت یہ ہے کہ ہم کو غصے پر پیار آتا ہے.اس غصے کو ہم پیار کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ بیچارے جاہل لوگ، ناسمجھ ، نافہم بظاہر جو کچھ بھی غلط کر رہے ہوں ، دل میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر یہ کیا ہے.اس وجہ سے ہمیں ان پر پیار آتا ہے.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ شعر یاد آتا ہے کہ اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کا خر کنند دعوی حب پیمبرم کہ اے میرے دل ! بڑے ظلم ہوئے ہیں تجھ پر.لیکن یہ بھی تو خیال کر کہ آخر میرے ہی محبوب محمد کی محبت کے دعویدار ہیں یہ.اسی محمد کی محبت کا دم بھر رہے ہیں یہ.اس لئے جو ظلم مجھ پر کرتے ہیں، کر گزریں.میں ان کو معاف کرتا چلا جاؤں گا.ی تعلیم ہے، احمدیت کی.اس تعلیم پر ہم نے بہر حال قائم رہنا ہے.اس محبت کے اعلان میں جو حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اعلان ہے، ہمیں اس بات کی کوئی بھی پرواہ نہیں کہ ہم پر دنیا کیا ظلم تو وقتی ہے اور کیا گزرتی ہے؟ ہم وفادار رہیں گے، اس محبت سے.قائم رہیں گے، اس محبت پر.دائم اور ہمیشہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے چھٹے رہیں گے.کیونکہ یہ محبوب ہے، جس کی محبت کے بعد پھر دنیا کی کوئی پر و باقی نہیں رہتی.مستغنی ہو جاتا ہے، انسان اس بات سے کہ دنیا کیا سلوک کر رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ، اس محبت کے تقاضے پورے کرنے کی.یہ تقاضے بہت وسیع ہیں.بی حض کوئی جذبات کا کھیل نہیں ہے.جہاں تک قربانیوں کا تعلق ہے، میں جانتا ہوں اور پہلے بھی بار با تاریخ اس بات کو آزما چکی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دامن سے دنیا کا کوئی جبر اور استبدار احمدی کا ہاتھ الگ نہیں کر سکتا.یہ اس قوت کے ساتھ محمد مصطفی " کے قدموں پر پڑا ہوا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس ہاتھ کو جدا نہیں کر سکتی.لیکن جہاں تک مستقل قربانیوں کا تعلق ہے، مثبت رنگ کی قربانیوں کا تعلق ہے ، وہ ایک بالکل الگ مضمون ہے.محبت کے تقاضے وہاں بدل جاتے ہیں.وہاں انسان کو روز بروز اپنی زندگی میں تبدیلیاں پیدا کرنی پڑتی ہیں.وہ بہت مشکل مقام ہے.اس اول مقام پر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ ہمیشہ سے قائم ہے اور اس دوسرے مقام پر بھی بڑی شان کے 109
اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک ساتھ قائم رہی ہے لیکن جہاں تک محبت کے دوسرے تقاضوں کا تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں کہ کچھ کمزور یاں ظاہر ہونی شروع ہو گئی ہیں.محبت کے یہ تقاضے نماز کی طرف آپ کو بلاتے ہیں.محبت کے یہ تقاضے عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف آپ کو بلاتے ہیں.محبت کے یہ تقاضے اس رنگ میں تبلیغ کی طرف آپ کو بلاتے ہیں، جس رنگ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے تبلیغ فرمائی.دن اور رات اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دین پر، اس کے پیغام پر فدا کرنے کی طرف آپ کو بلاتے ہیں.یہ ایسے تقاضے نہیں ہیں، جو جذبات کے ایک ہنگامے میں انسان اپنی جان قربان کر دیا کرتا ہے.اپنے جذبات سے اتنا مغلوب ہو جاتا ہے، بسا اوقات کہ ایک لمحہ کی وہ قربانی اس کو کوئی دکھ نہیں دیتی.لیکن وہ قربانیاں اصل آزمائش میں محبت کی ، جو لمبا عرصہ مستقل زندگی کے ساتھ چمٹ جاتی ہیں.ہر ہر لمحہ انسان سے مطالبے کرتی ہیں اور تقاضے کرتی ہیں.یہ واقفین زندگی کی قربانیاں ہیں.یہ ان کی قربانیاں ہیں، جو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ آج کے بعد ہمارا کچھ نہیں.جو کچھ بھی ہے، وہ دین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہو چکا ہے.وہ اللہ کے حضور ہم پیش کر چکے ہیں.ان قربانیوں کے تقاضے جو اصل محبت کی کسوٹی ہے، وہ بہت لمبے ہیں.اس وقت میں ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.وقت آئے گا انشاء اللہ تعالٰی وقتا فوقتا میں آپ کے سامنے وہ تقاضے رکھتا رہوں گا.میں آج صرف اتنا کہتا ہوں کہ محبت کوئی محض جذبات کا کھیل نہیں ہے.یعنی مومن کے لئے محبت کوئی جذبات کا کھیل نہیں ہے.مومن کے لئے محبت ایک لمبی زندگی قربانیوں کی زندگیوں کا تقاضا کر رہی ہے.جو ہمیشہ ہر حال میں، ہر ہر سانس میں، ہر ہر لمحہ اس بات کا ثبوت پیش کر رہی ہوں کہ ہم بچے عاشق ہیں.یہ کیسے ثابت ہو ؟ کس طرح ہمیں معلوم ہو کہ سچا عاشق کون ہوتا ہے؟ ان امور سے متعلق میں آئندہ انشاء اللہ کسی وقت آپ کے سامنے بیان کروں گا.اس وقت ذہنی طور پر آپ کو میں تیار کرنا چاہتا ہوں.احمدی نوجوان اس غلط فہمی کو دل سے نکال دے کہ احمدی صرف وقتی جوش کی قربانیوں کا نام ہے.احمدی نوجوان اس بات کا خیال ہمیشہ کے لئے دل سے نکال دے کہ احمدیت صرف نعروں کی طرف بلاتی اور ہنگاموں کی طرف بلاتی ہے.احمدیت دونوں میں سے کسی چیز کا نام نہیں.احمدیت مستقل قربانیوں کا ایک لائحہ عمل ہے.اور باشعور قربانیوں کا لائحہ عمل ہے، جو زندگیوں کے اندر انقلاب چاہتی ہیں.جب تک احمدی وہ انقلاب اپنی زندگی میں پیدا نہیں کرتا ، وہ آگے انقلاب پیدا کرنے کا اہل ہی نہیں.یہ وہ راز ہے، جس کو سمجھے بغیر آپ کامیاب مبلغ نہیں بن سکتے.110
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1982ء اس کے لئے آپ تیار ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے ، عہد بیعت کے سارے تقاضے پورے کریں.اور اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائے کہ میرے نازک اور کمزور کندھوں پر جو ذمہ داری خود اس نے ڈالی، وہ خود اس بوجھ کو اٹھالے.کیونکہ میں اپنے اندر کوئی طاقت نہیں پاتا.اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائے کہ آپ کے حقوق ادا کروں اور آپ کے لئے دن رات دعائیں کروں.آپ کو زندہ کرنے میں اپنی زندگی پیش کردوں.تا کہ آپ زندہ ہوں تو اسلام زندہ ہو.اسلام زندہ ہوتو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا نام ہمیشہ کے لئے ساری دنیا میں زندہ رہے گا اور پھر کوئی اس نام کو مٹا نہیں سکے گا“.(مطبوعه روزنامه الفضل 28 جون 1983ء) 111
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم ارشادات از مجلس عرفان منعقد 150 اکتوبر 1982ء جب تک دنیا میں ہولناک تباہیاں نہ آئیں ، آخری انقلاب رونما نہیں ہوگا وو ارشادات از مجلس عرفان منعقدہ 15 اکتوبر 1982ء ایک دوست نے پوچھا، پین میں احمدیوں کی تعداد کتنی ہے؟ اس پر حضور رحمہ اللہ نے فرمایا.پین میں پاکستانی اور مقامی احمدی دوست ملا کر میرا خیال ہے، آج کل بس کوئی تھیں کے قریب ہوں گے.وہاں مختلف وقتوں میں یہی تعد ادر ہی ہے.کیونکہ جہاں ترقی کی رفتار تھوڑی ہو، وہاں لوگ منتشر ہوتے جاتے ہیں.کوئی ایک جگہ Nucleus یعنی مرکز نہیں بنتا، جہاں لوگ اکٹھے ہو کر ایک جماعت بن سکیں.میں جب 1957ء میں سپین گیا تھا تو اس وقت بھی تمہیں ہی تعداد تھی.اب میں نے پوچھا تو کم و بیش اتنی ہی تھی.میں نے ان سے پوچھا، آپ کے حساب میں یہ کیا خرابی ہے کہ یہ میں کی تعداد بڑھی ہی نہیں؟ ان کے جواب سے پتہ لگا کہ کوئی آیا تھوڑا عرصہ رہا، پھر وہ کسی اور جگہ چلا گیا.کوئی کھلم کھلا تبلیغی مرکز نہیں تھا، دوستوں سے مخفی طور پر ملنا پڑتا تھا.تبلیغ واشاعت کی راہ میں دقتیں تھیں ، سوسائٹی کے خوف زیادہ تھے، اس لئے کچھ دب گئے، کچھ خاموش ہو گئے، کچھ ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے.لوگ دنیا میں آتے جاتے رہتے ہیں.آبادیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہی ہیں.تو ان کے تعلقات ٹوٹتے گئے.اس لئے ہر وقت کم و بیش یہی تعد ادر ہی ہے.لیکن تبلیغ کے ذریعہ سپینش عیسائیوں میں سے اسلام قبول کرنے والوں کی کل تعداد آغاز سے لے کر اب تک ایک سو سے بھی کچھ زائد بنتی ہے.لیکن کسی ایک وقت میں یہ تعداد اتنی نہیں رہی.اب امید ہے، انشاء اللہ تعالیٰ وہاں تعداد بڑھے گی.کیونکہ وہ جو غائب ہوئے ہوئے تھے ، ان میں سے چند تو وہاں میری موجودگی ہی میں واپس آگئے ہیں.جب مسجد بشارت کا افتتاح ہوا اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبریں آئیں تو انہوں نے جلدی سے از خود رابطہ قائم کیا اور بتایا کہ ہم بھی موجود ہیں.ہم بھی خدا کے فضل سے احمدی ہیں.ایسے لوگ مجھے بعد آ کر ملتے رہے ہیں.ان میں سے دو تو مسجد کی افتتاحی تقریب میں بھی شامل ہو گئے تھے.اب خدا کے فضل سے وہاں نیو کیس یعنی مرکز بھی بن گیا ہے.انشاء اللہ ایک اور مرکز بھی بنائیں گے.خیال ہے، غرناطہ میں انشاء اللہ ایک مشن کھولا جائے گا.کیونکہ غرناطہ کے لوگوں میں غیر معمولی طور پر بہت محبت پائی گئی ہے.امید ہے اللہ کے فضل سے اب پھر تعداد بڑھنی شروع ہو جائے گی.ایک اور بھی سکیم ہے، جس کا میں بعد میں اعلان کروں گا.113
ارشادات از مجلس عرفان منعقدہ 15 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ایک دوست نے یہ تجویز پیش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام عرب ملکوں میں بھجوانا چاہیے.حضور نے اس تجویز کو بہت پسند فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ وو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عربی قصیدوں میں یا قلبی اذکر احمد اور ياعين فيض الله والعرفانی کو ایک چھوٹی Cassete C60 میں نہایت مترنم آواز میں ریکارڈ کروا کے تھے بھجوائے جائیں.مترنم آواز میں مضمون آسانی سے دل میں ڈوبتا ہے.اب یہ دیکھنا پڑے گا کہ مترنم آواز اور اچھے تلفظ والا آدمی مل جائے.یعنی عربوں کو جس قسم کی آواز پسند ہے، اس قسم کی آواز میں ریکارڈنگ کروانی چاہیے.حضور نے مصر کے دو احمدی دوستوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: وو ان کو لکھا جائے.یہ دونوں قصیدے نہایت پیاری آواز میں بغیر میوزک کے ریکارڈ کروائیں.مردانہ آواز میں بھی اور عورت کی آواز میں بھی.دونوں قسم کی آوازوں کو پسند کرنے والے لوگ ہوتے ہیں.اس ریکارڈنگ کے عوض پیسے دینے پڑیں، وہ بے شک دیں.یہ Tapes عمدہ ریکارڈنگ کے بعد ہمیں بھجوائیں، ہم ان کی کا پیاں کروا کر باہر بھیجیں گے.فارسی کلام میں، میں نے ایران سے ریکارڈنگ کروائی تھی.بہت اچھی آواز میں تھی.میں وہ تلاش کرتارہا ہوں، غالباً وقف جدید میں Tapc پڑی ہوگی.وہ بھی میں نے اس نیت سے تیار کروائی تھی.پڑھنے والا بہت اچھا تھا.لیکن ایک بار پھر اس کو Test کروالیں گے.یعنی جائزہ لے لیں گے، اگر آواز اچھی نہ رہی ہو تو وہ بھی نئے سرے سے تیار کروا لیں گے.اردو میں نظم پڑھنے والے تو بہت آدمی مل جائیں گئے.وو کیسٹ ٹپس کے سلسلہ میں ایک دوست کی اس تجویز کو بھی حضور نے پسند فرمایا کہ مجالس ارشاد وغیرہ کی Tapes بھی تیار ہو جائیں تا کہ زیادہ سے زیادہ دوست استفادہ کر سکیں.اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا:.اصل بات تو یہ ہے کہ ایک مجلس کی بجائے بے شمار مجلسیں پیدا ہو جا ئیں گی.یورپ نے بہت فائدہ اٹھایا ہے.مجھے جرمنی اور ہالینڈ کے احمدی نوجوانوں نے بتایا کہ ہمیں تبلیغ کرنی نہیں آتی تھی.غیر احمدی دوست اعتراض کرتے رہتے تھے ، ہم ان کو جواب نہیں دے سکتے تھے.اب ہم ان کو Tape سنا دیتے ہیں تو پھر ان کا رنگ بدل جاتا ہے.بہر حال ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں تبدیلیاں پیدا کرئے“.114
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم ارشاد است از مجلس عرفان منعقد ہ 15 اکتوبر 1982 ء آخری زمانہ کے بارہ میں پیشگوئیوں کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا :.وہ انقلاب جو ہے، اس کا قرآن کریم میں سورۃ طہ میں ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفَالُ فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفَان لا تَرَى فِيْهَا عِوَجًا وَلَا امْتَان (آیت 106 109) یعنی یہ بڑی بڑی قو میں جو عظیم الشان پہاڑوں کے برابر غیر معمولی طاقت کی مالک ہیں، یہ ان کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ یہ کس طرح مسلمان ہوں گے؟ ان پر کیا گزرے گی، جو یہ مسلمان ہو جائیں گے؟ فقل ينسفهاربی نسفا، اللہ تعالیٰ ان کو ریزہ ریزہ کر دے گا.فیذرها قاعا صفصفا، وہ ریت کے ذروں کے میدان بن جائیں گے.تب يتبعون الداعي لا عوج له ، پھر اس داعی کی پیروی کریں گے، جس میں کوئی کبھی نہیں ہے.پس بڑی کھلی پیشگوئی موجود ہے.ریت کے ذروں کی تمثیل موجود ہے کہ خدا پہاڑوں کو ریت کے ذروں کی طرح ہموار کر دے گا، ان کی طاقتیں تو ڑ دے گا.جب یہ تکبر کی دنیا سے انسانی سطح پر اتر آئیں گے، جب یہ خدا کے حضور عاجز ہو کر جھک جائیں گے، تب یہ اس بات کے لائق ہوں گے کہ وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وآلہ وسلم کا دین قبول کریں، جس میں کوئی بھی نہیں.پس جب تک دنیا میں ہولناک تباہیاں نہ آئیں اور بڑی بڑی قوموں کے غرور نہ ٹوٹیں، اس وقت تک یہ انقلاب رونما نہیں ہوگا“.( مطبوعه روزنامه الفضل یکم دسمبر 1982ء) 115
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ششم پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ بھارت دنیا کے ہر گوشے سے خدمت اسلام کے نئے تقاضے ہمیں اپنی طرف بلارہے ہیں پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ بھارت منعقدہ 15 تا 17 اکتوبر 1982ء میرے عزیز خدام! م الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ مجالس خدام الاحمدیہ بھارت 15,16,17 اکتوبر 1982ء کو اپنا سالانہ اجتماع قادیان دار الامان میں منعقد کر رہی ہے.خدا تعالیٰ اس اجتماع کو بہت با برکت کرے اور تمام شامل ہونے والوں کو اپنے فضلوں سے نوازے.کل ہی ہم یورپ کے سفر سے واپس لوٹے ہیں.خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہمارا یہ سفر ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہا.سفر کے دوران ان دو ماہ میں رحمت باری کی ایک بارش تھی، جو لگا تار برستی رہی.اور خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے ایسے نظارے ہمارے سامنے آئے کہ دل میں طاقت اور زبان میں یارا نہیں کہ اپنے رب کے احسانوں کا شکر ادا کرسکیں.اپنے آقا کے الفاظ میں یہی عرض کر سکتے ہیں:.تیری نعمت کی کچھ قلت نہیں ہے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے مجھے اب شکر کی طاقت نہیں ہے سفر کے دوران یورپ کے مختلف ممالک کے احباب جماعت سے ملنے، وہاں کے حالات کا ، مشاہدہ کرنے اور تبلیغ کے لئے نئی تجاویز سوچنے اور نئے منصوبے بنانے کا موقع بھی ملا.اور اس کے نتیجے 117
پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ بھارت تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں خدا تعالیٰ کی طرف سے سپرد کئے گئے کام کی وسعت اور ہمہ گیری اور اپنی بے بسی اور بے بضاعتی کا احساس شدت سے ہوتا رہا.آج دنیا کے ہر خطے اور ہر ملک اور ہر گوشے سے خدمت اسلام کے نئے نئے تقاضے ہمیں اپنی طرف بلا رہے ہیں.یہ تقاضے ہر آن اور ہر ساعت اپنی وسعت اور اپنی شدت میں بڑھتے جارہے ہیں.یہ تقاضے ہم سے اپنے نفوس کی اصلاح کا مطالبہ کرتے ہیں.ہم سے اپنے مال ، اپنے وقت اور اپنی جان کی قربانی مانگتے ہیں.پس اس اجتماع کے موقع پر میں آپ کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خدمت اسلام کی اس عظیم مہم کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں.تقویٰ کی راہ پر قدم ماریں.دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہوں کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں.خدا کے لئے تلخی کی زندگی کو اختیار کریں کہ وہ درد، جس سے خدا راضی ہو، اس لذت سے بہتر ہے، جو موجب غضب الہی ہو.اپنے دلوں کو سیدھا کر کے اپنی زبانوں ، اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں کو پاک کر کے اپنے خدا کی طرف آجائیں.خدمت اسلام کا یہ عظیم بوجھ اٹھانا، ہمارے بس کی بات نہیں.یہ ذمہ داری ہماری طاقت سے بڑھ کر اور یہ کام ہماری ہمت سے زیادہ ہے.پس اپنے رب کے حضور جھکیں اور اپنی راتوں کو زندہ کریں.اسی سے مدد مانگیں اور اسی کی نصرت کے طالب ہوں.اور یہ یقین رکھیں کہ جو مانگتا ہے، اسے دیا جاتا ہے اور جو دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، اس کے لیے کھولا جاتا ہے.مضطرب دل اور تر آنکھوں کے ساتھ اپنے آقا و مالک کے حضور عرض کریں کہ اے ارحم الراحمین! جس کام کے لئے تو نے ہمیں کھڑا کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے ہمارے دلوں میں جوش پیدا کیا ہے، اس کو اپنے فضل سے انجام تک پہنچا اور ہمارے ہاتھوں سے مخالفین پر اور ان سب پر، جو اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں، اسلام کی حجت پوری فرما.اے ہمارے قادر و قیوم خدا!! ہماری عاجزانہ دعائیں سن اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دنیا سے اٹھ جائے، زمین تیری پرستش سے بھر جائے اور تیرے رسول کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے.اے ہمارے قادر خدا!! ہمیں یہ تبدیلی دنیا میں دکھا اور ہماری دعائیں قبول کر کہ ہر ایک طاقت اور قوت تجھ ہی کو ہے.والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعه روزنامه الفضل 20 نومبر 1982ء بشکریہ ہفت روزہ بدر قادیان 11 نومبر 1982ء) 118
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد ششم خطاب فرمود 160 اکتوبر 1982ء احمدی مستورات کو بھی تبلیغ کے جہاد میں حصہ لینا پڑے گا خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ خطاب سے قبل تقسیم تمغہ جات کی تقریب عمل میں آئی.اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا:.یہ تمغہ میری بھانجی عزیزہ امت الرؤوف، جن کو خدا تعالیٰ کے فضل سے باہر ملکوں میں بہت اچھی خدمت دین کی توفیق ملی ہے اور اپنی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے دین کے لئے وقف ہے، وہ پہنائیں گی.میں یہ ان کے سپرد کرتا ہوں.جب تمغہ پہنایا گیا تو حضور نے بارک اللہ لکم کہہ کر دعاد اور فرمایا باقی سب بھی ساتھ یہ الفاظ کہیں.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اس دفعہ سفر یورپ کے دوران مختلف مجالس میں مختلف اخباری نمائندوں نے بہت سے سوالات کئے.جن کا ایک حصہ اسلامی معاشرہ سے تعلق رکھتا ہے اور عورت سے تعلق رکھتا تھا اور ایک حصہ عمومی مسائل سے.ایسی ہی ایک مجلس کے دوران جو انگلستان کے ایک شہر میں تھی ، رفتہ رفتہ پریس کے نمائندوں کے اندر ایک تبدیلی محسوس ہونے لگی اور وہ اس طرف مائل ہوتے نظر آتے تھے کہ اسلام کی جو تعریف اور تشریح جماعت احمدیہ کر رہی ہے، وہ ایک زندہ رہنے والی اور غالب آنے والی تشریح ہے.چنانچہ آخر پر ایک نمائندے نے جو سوال کیا ، اس سے ہمارے اس تاثر کی بڑی بھاری تصدیق ہوگئی.اس نے پوچھا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ پر مختلف جگہوں پر بڑے بڑے مظالم ہوئے ہیں اور نہایت ہی خوفناک ابتلاؤں میں سے جماعت گزری ہے، اب اگر آپ غالب آگئے تو آپ لوگوں کا ان سے کیا سلوک ہوگا ؟ اس طرز فکر سے معلوم ہوا کہ واقعہ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جماعت احمد یہ ایک ایسی زندہ حقیقت ہے کہ جس نے بہر حال دنیا پر غالب آنا ہے.اس کے جواب میں اچانک مجھے اپنی ایک ہیں، پچیس سالہ یا شاید اس سے بھی پہلے کی خواب یاد آگئی.جو بھولی بسری تھی.بہر حال اس کا تعلق اس مضمون سے ہے اور اس کا تعلق لجنہ اماءاللہ سے بھی ہے ایک رنگ میں، اس لئے گو مختصر ا میں نے اس کو وہ خواب بتائی مگر خیال آیا کہ لجنہ کے پہلے اجلاس میں ، میں 119
خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم اپنی وہ خواب پیش کروں گا.وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا اس زمانے میں کسی ایسے مطلب سے جس نے بعد میں اپنے وقت پہ آکے ظاہر ہونا تھا.ایک خواب آئی اور تعجب پیدا کر کے چلی گئی.لیکن بعد کے وقت نے اس کا ایک اور مضمون کھولا ، جس کا اب کے وقت سے تعلق.ا ہے.وہ خواب یہ تھی کہ ایک کمرے میں کچھ غیر از جماعت دوست ہیں اور کچھ احمدی علماء، جو مناظرے کے فن کے ماہر ہیں، وہ بیٹھے ہوئے ہیں.باقاعدہ مناظرہ تو نہیں ہورہا لیکن ایک بے تکلف سوال و جواب کی مجلس چل رہی ہے.اور رفتہ رفتہ جو مخالف گروہ ہے، اس کے اندر پاک تبدیلی کے کچھ آثار نظر آتے ہیں.یہاں تک کہ ان میں سے ایک شخص نے یہ سوال کیا کہ ہم نے آپ لوگوں پر اتنے مظالم کئے ہیں کہ اگر آپ غالب آگئے تو آپ ہم سے بدلے اتاریں گے، اس لئے کسی قیمت پہ بھی احمدیت کو غالب نہیں آنے دینا.کیونکہ اگر تم لوگ غالب آگئے تو ہمیں اپنے ظلم یاد ہیں، ان ظلموں کو یاد کر کے تم ہم سے بدلے اتارو گے.اس لئے ہمارے قومی مفاد میں ہے کہ آپ لوگ غالب نہ آئیں.جب اس نے یہ سوال کیا تو ہمارے علماء کوئی جواب دینے لگے.لیکن میرے دل میں ایک بے چینی سی پیدا ہوئی کہ یہ تسلی بخش اور صحیح جواب نہیں دے رہے.میری چونکہ اس وقت عمر بھی چھوٹی تھی (میں نے جیسا کہ گذارش کی ہے کہ پچیس سال یا اس سے لگ بھگ یا اس سے پہلے کی خواب ہے ) تو مجھے کچھ شرم محسوس ہوئی کہ میں آگے بڑھ کر جواب دوں، جبکہ سلسلہ کے چوٹی کے علماء اور بزرگ موجود ہیں.لیکن پھر بے چینی بڑھ گئی اور میں نے محسوس کیا کہ اب یہ شرم کا وقت نہیں رہا، مجھے آگے آنا چاہیے.چنانچہ میں نے کھڑے ہو کر جو اعلان کیا ، وہ حیرت انگیز ہے.اس وقت میں حیران تھا کہ میں یہ کیا کلمات کہہ رہا ہوں؟ نہ اس وقت زبان پہ اختیار تھا.نہ اٹھنے کے بعد سمجھ آئی کہ میں یہ کیا بات کر رہا ہوں؟ میں نے اس طرح بات شروع کی کہ میں لجنہ اماءاللہ کے ان تیروں میں سے ہوں، جو خاص اہم وقت کے لئے بچا کے رکھے جاتے ہیں اور اپنے وقت پر انہوں نے استعمال ہونا ہے.لیکن بعض اوقات ایسی ہنگامی ضروریات پیش آجاتی ہیں کہ ان بعد کے لئے بچائے ہوئے تیروں کو وقت سے پہلے بھی استعمال کرنا پڑتا ہے.آج ایک ایسا ہی وقت ہے.یہ اعلان ہے، جو میں نے کیا.اور حیران تھا کہ میں یہ کیا بات کہہ رہا ہوں اور کیوں کہہ رہا ہوں؟ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اور نہ اٹھنے کے بعد سمجھ آئی.اس لئے یہ خواب فراموش ہو گئی ، ذہن سے.اگلی بات میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ آپ نے جو سوال کیا ہے، اس کا صحیح جواب میں آپ کو دیتا ہوں.ہمارا اور آپ کا مقابلہ، ایسا مقابلہ نہیں ہے، جیسے دودشمنوں کا مقابلہ ہوا کرتا ہے.ہمارا اور آپ کا 120
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء مقابلہ تو عاشق اور معشوق کا، محبت کرنے والے اور محبوب کا مقابلہ ہے.جب محبت کرنے والے کو اپنے محبوب پر فتح نصیب ہوتی ہے تو وہ بدلے نہیں اتارا کرتا.وہ پاؤں پڑتا ہے اور منتیں کرتا ہے اور کہتا ہے، ہم سے جو غلطی ہوئی تم وہ معاف کر دینا.تم نے جو دکھ دیئے، ہم نے ان کی لذتیں پائیں.لیکن ہم سے جو کوتاہیاں ہوئی اور ہم تمہارے پیچھے پڑے اور تمہاری دل آزاریاں ہوگئی ہوں گی، ہم ان کی معافی چاہتے ہیں.اس لئے عاشق کی فتح تو یہ رنگ رکھتی ہے.اس میں محبوب کے لئے کسی خوف کا سوال ہی نہیں.پہلے بھی وہ گرا رہتا ہے، بعد میں بھی گرتا ہے اور قدموں پہ جھکتا ہے.جب میں یہ کہتا ہوں تو اطمینان کی ایک عجیب لہر دوڑ جاتی ہے، مدمقابل گروہ پر اور وہ پوری طرح مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہاں ان سے ہمیں کسی حالت میں خوف نہیں.خواہ یہ غالب ہوں، خواہ یہ مغلوب ہوں.ان سے سوائے رحمت کے اور کچھ ہماری طرف جاری نہیں ہوگا.یہ وہ خواب تھی، جب اس نے سوال کیا تو اچانک مجھے یاد آئی اور میں نے سوچا کہ چونکہ لجنہ اماء اللہ کا نام اس میں آتا ہے اور خدا تعالیٰ کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا ، اس لئے اس میں ضرور کوئی معنی ہوں گے.میں نحور کرتا رہا، یعنی انگلستان میں اس وقت جب خواب یاد آئی، اس کے بعد کے عرصہ میں جب میں نے غور کیا تو اس میں کئی باتیں میرے ذہن میں آئیں.1 لجنہ اماءاللہ اگر چہ ہمارے ہاں عورتوں کی تنظیم کا نام ہے لیکن در حقیقت لجنہ ایک ایسے گروہ کو کہتے ہیں، جو مردوں کا بھی ہوسکتا ہے، عورتوں کا بھی ہو سکتا ہے.یعنی یہ عربی کا وہ لفظ ہے، جو مردوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، صرف عورتوں کے لئے نہیں.چنانچہ اسی بنا پر بعض عرب ممالک میں یہ کہہ کر غلط فہمی پھیلائی گئی ، جماعت احمدیہ کے متعلق کہ لجنہ اماءاللہ جماعت احمدیہ کی اس فوج کا نام ہے، جو نعوذ باللہ من ذالک اسرائیل کی طرف سے تیار کی گئی ہے، عربوں پر حملہ کرنے کے لئے.ایسی جاہلانہ باتیں بھی دشمنوں نے وہاں پھیلائیں.لیکن عربی نقطہ نگاہ سے چونکہ یہ قابل تسلیم بات تھی کہ لجنہ مردوں کے کسی گروہ کا نام ہو، اس لئے وہ بات وہاں چلائی اور تھوڑی دیر چل گئی.امر واقعہ یہ ہے، ہمارے ہاں تو خدا کے فضل سے لجنہ عورتوں کی تنظیم ہے اور مردوں کی بھی کوئی تنظیم فوجی نوعیت کی نہیں.اور اگر ہوتی بھی تو وہ اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف ہی استعمال ہوئی تھی، ان کے حق میں تو استعمال نہیں ہو سکتی تھی.بہر حال لجنہ کا ایک مفہوم مجھے یہ مجھ آیا کہ اللہ تعالیٰ کی جو فوج ہے، اس کی طرف اشارہ ہے.جس میں مرد بھی شامل ہیں اور عورتیں بھی شامل ہیں.اس لئے کوئی تخصیص نہیں ہے.121
خطاب فرمود 160 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک دوسرے مجھے خیال آیا کہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ لجنہ کو بھی اس فوج میں شامل کیا جائے.مجاہدین کی صف اول میں عورتوں کو بھی شامل ہونا چاہیے.کیونکہ لجنہ ، ہمارے ہاں معروف معنی عورتوں کی تنظیم کے رکھتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے لفظ لجنہ (خواب میں.ناقل ) اس لئے استعمال فرمایا تا کہ توجہ اس طرف منتقل ہو کہ جب تک میدان جہاد میں عورتوں سے پورا کام نہیں لیا جائے گا، صحیح معنوں میں کام نہیں ہوگا، صحیح معنوں میں اسلام کی فتح کے دن قریب نہیں آئیں گے.تیسرا خیال مجھے یہ آیا ( اور وہ ضمنی ہے اور سرسری ہے) کہ چونکہ میری والدہ کا لجنہ سے ایک بہت پر انا خادمانہ تعلق رہا ہے اور بچپن میں ہم نے یہی دیکھا کہ جب حضرت امی جان سیدہ ام ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا صدر ہوا کرتی تھیں تو میری والدہ جنرل سیکریٹری ہوا کرتی تھیں اور عموماً جنرل سیکریٹری کی مصروفیات وقت کے لحاظ سے بہت ہوتی ہیں، اس لئے عموماً پرانی عورتیں، خدمت کرنے والیاں، مختلف تحریکات کے وقت پروگرام بنانے والیاں ہمارے گھر اکٹھی ہوا کرتی تھیں.اور بعض دفعہ بلکہ اکثر اجلاس بھی وہاں ہوتے تھے اور درس قرآن مجید بھی حضرت مصلح موعود وہیں دیا کرتے تھے.اس لئے میرے بچپن کا لجنہ سے ایک تعلق رہا ہے.اس وقت تو وہ تعلق میرے لئے ایک تکلیف کا تعلق تھا.کیونکہ بعض دفعہ باہر نکلتے ہوئے شرماتا تھا.کپڑوں کا برا حال، پھٹے ہوئے ، بٹن ٹوٹے ہوئے، فکر ایک ہاتھ سے سنبھالی ہوئی اور حلیہ بگڑا ہوا اور شرم آتی تھی کہ باہر کس طرح نکلوں.مجھے یاد ہے، میں کئی دفعہ ناشتہ ہی نہیں کرتا تھا شرم کے مارے کہ با ہر عور تیں بیٹھی ہیں، میں نکلوں کس طرح اور کپڑوں کی نہ مجھے ہوش تھی نہ میری والدہ کو ہوش تھی کہ مجھے کپڑے پہنا ئیں.اس وجہ سے لجنہ سے ایک تکلیف کا تعلق بھی تھا.پھر ہر ہفتے درس قرآن ہوا کرتا تھا.مجھے یاد ہے، ہمیں نماز کے بعد سونے کی عادت تھی، اب بھی ہے.حضرت مصلح موعود چونکہ نماز کے بعد سویا کرتے تھے، اس لئے سارے بچوں کو عادت تھی کہ نماز کے بعد سو جائیں اور اس کے بعد ذرالیٹ ناشتہ کریں.اور اس دن ابھی آنکھ نہیں لگی ہوتی تھی کہ لجنہ کی عورتیں آکے ہمارے بستر لپیٹ دیا کرتی تھیں.اور اگر کوئی بچہ نہیں اٹھتا تھا بستر میں بچوں کو لپیٹ دیتی تھیں.اس لئے ایک تکلیف کا تعلق بھی لجنہ سے ہے، جیسا کہ میں نے کہا ہے.لیکن جب وہ تعلق یاد میں ڈھلا تو وہ ایک فخر کا تعلق بن گیا، ایک محبت کا تعلق بن گیا.اور خدمت کرنے والیوں کی یاد آکر دل میں مسرت کی لہریں دوڑتی رہیں کہ قادیان کے زمانے میں کیسا پیارا منظر ہوتا تھا.عورتیں کس شوق اور محبت کے ساتھ خدمت دین میں آگے آیا کرتی تھیں.عجیب عجیب نظارے ہم نے دیکھے، اس تعلق کی بناء پر.ایسے حیرت انگیز نظارے تھے کہ جو ہمیشہ کے لئے دل پر نقش ہو گئے.کبھی بھلائے نہیں جاسکتے تھے.ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک عورت 122
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اپنے زیور پیش کر رہی ہے.حضور جانتے تھے کہ اس کی مالی حالت ایسی ہے کہ اس سے پوری قربانی نہیں لینی چاہیے.حضور انکار کر رہے تھے.روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں.اس قدر زار زار روئی کہ حضور میں نہیں جاؤں گی، جب تک مجھ سے قبول نہ کر لیں.آخر مجبور ہو کر حضور کو وہ زیور خدمت دین کے لئے قبول کرنا پڑا.یہ ایسا حیرت انگیز وقت تھا کہ بچپن کے باوجود دل پر ہمیشہ کے لئے ایسا رسم ہوا، ایسا لکھا گیا گہرے حروف میں کہ جس طرح چیز کھودی جاتی ہے اور ان مٹ نشان بن گیا.اور بھی بہت سے پاکیزہ نظارے دیکھے.وہاں باجماعت نمازیں ہوتی تھیں اور خاص وقتوں میں جبکہ جماعت پر ابتلاء آیا کرتے تھے، مختلف مستورات ہمارے گھر میں اکٹھی ہوتیں.باجماعت نماز ہوتی.عورت ہی نماز پڑھاتی، عورتیں پیچھے نماز پڑھتیں.اور اس وقت عجیب گریہ وزاری کا عالم ہوتا تھا.کئی ابتلاء آئے احمدیت پر ، جن میں عورتوں نے قربانی میں بہت پیش پیش حصہ لیا.اس لئے گو میں نے یہ کہا کہ تکلیف کا تعلق تھا لیکن یہ تکلیف ایسی حسین، ایسی دیگر از یادوں میں ڈھل گئی کہ ہمیشہ کے لئے لجنہ کے نام کے ساتھ ایک محبت اور ذاتی تعلق پیدا ہو گیا.یہی وجہ ہے شاید کہ اور باتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے وہاں لجنہ کا لفظ ، نام استعمال فرمایا، میرے اس قلبی اور ذاتی تعلق کے اظہار کی خاطر.لیکن جیسا کہ میں نے گزارش کی ہے، اس زمانے میں وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ اس خواب کا کوئی ایسا مطلب ہے، جو بعد میں پورا ہونا ہے.اور نہ مقام تھا کہ اس خواب کا اظہار کر تا کسی سے.اور یہ بہت ضروری ہے، ورنہ شیطان نفس کو دھو کے دیتا ہے اور نیکی کی راہ سے ہٹا کر ظلمت اور گمراہی کی راہ پر ڈال دیتا ہے.اس لئے بہت بڑا خوف کا مقام ہوتا ہے.جب اس قسم کی کوئی رؤیا کسی کو نظر آئے تو اس کو اللہ تعالیٰ کا خوف کرنا چاہیے، استغفار کرنی چاہیے.لیکن اب میں آپ کو اس لئے بتارہا ہوں کہ اب میرا فرض ہے کہ آپ کو ان باتوں سے آگاہ کروں.اور وہ منفی پیغامات ، جو بھی ہیں، اس قسم کی رؤیا میں وہ آپ کے سامنے کھول کر رکھوں.بنیادی طور پر میں سمجھتا ہوں، سب سے اہم مطلب جو اس کا ہے، وہ یہی ہے کہ لجنہ کو یعنی احمدی مستورات کو جہاد میں حصہ لینا پڑے گا.چنانچہ باہر یورپ میں ، اس رؤیا کے یاد آنے کے بعد ، خاص طور پر مستورات کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی.اور عجیب اتفاق ہے کہ جب میں پاکستان سے ابھی روانہ بھی نہیں ہوا تھا، لجنہ کے دو وفود ملنے آئے.دونوں کو میں نے بغیر اس کے کہ میرے ذہن میں یہ خواب ہو، پہلے ہی تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی.تو مستورات کو بہر حال اب مجاہدے میں شامل ہونا پڑے گا.کس رنگ میں؟ یہ فیصلہ مستورات خود کریں گی.کیونکہ قرآن کریم تبلیغ کے مضمون کو حکمت کے ساتھ باندھتا ہے.123
خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اُدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل :126) کہ حکمت کے ساتھ اس کام کو سرانجام دو.اور حکمت کے تقاضے یہ ہیں کہ حسب حالات الگ الگ لائحہ عمل تجویز کیا جائے.عورتیں ایک خاص مقام اور احترام رکھتی ہیں، اس لئے جماعت کسی ایسی سکیم کی اجازت تو نہیں دے سکتی کہ جس میں عورت کا جو منصب ہے احترام کا، اس کو کسی قسم کا گزند پہنچ سکے یاکسی رنگ میں زخم آجائے.اس لئے ایسی کوئی سکیم منظور نہیں ہو سکتی.لیکن اپنے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ، اپنے حالات کے پیش نظر ہر عورت کسی نہ کسی رنگ میں تبلیغ کر سکتی ہے.اس کے تعلقات کے دائرے ہیں، اس کی سہیلیاں ہیں، ان کو اپنے گھر میں چائے پر بلاسکتی ہے.وہاں تو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ غلط نہیں پیدا ہو یا دل آزاری ہو.اپنی محبت والیوں کو بلائیں، ان کے گھر جائیں ، ان سے باتیں کریں.اور ہر احمدی خاتون کو خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی ہو، تبلیغ میں جھونک دیں.اس لئے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو یہ ایک مرکزی منصوبہ بنانا ہوگا، جس کا تعلق تمام دنیا کی بجنات سے ہو، صرف پاکستان سے نہیں.اور طریق کار یہ ہوگا کہ چھوٹے یونٹ اپنی اپنی سکیمیں بنائیں اور مرکزی لجنہ کو ہدایت اور راہنمائی کے لئے بھجوائیں.اور ان کی جو اجتماعی شکل بنتی ہے، اس پر غور کرنے کے بعد مرکزی منصوبے کے اعداد و شمار ظاہر ہوں گے.مثلاً شیخوپورہ ہے، سرگودھا ہے، خدا تعالیٰ کے فضل سے دونوں بڑی کام کرنے والی مجالس ہیں، لجنہ کی.اگر وہ یہ کام کر رہی ہیں تو ایک باقاعدہ چھوٹا منصوبہ بنانا چاہیے اور اس کی منظوری لینی چاہیے تا کہ اس میں کوئی ایسا پہلو نہ آجائے ، جو کسی لحاظ سے بھی حکمت کے خلاف ہویا کسی پہلو سے بھی ملک کی فضا کو مکدر کرنے کا کردار ادا کرے.بہر حال ہم نے امن کو قائم رکھنا ہے.اور قیام امن اسلام کے پھیلاؤ کے لئے لازمی حصہ ہے.ان دونوں کا ایسا جوڑ ہے، جسے دنیا میں کبھی کوئی الگ نہیں کر سکتا.چنانچہ یہ جو الزام لگانے والے ہیں اسلام پر کہ تلوار کے زور سے پھیلا.ان کا ایک بہت ہی پیارا اور منہ توڑ جواب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا اور انہیں سے میں نے یہ نکتہ سیکھا کہ اگر اسلام تلوار سے پھیلا تھا تو جنگ کے زمانہ میں اسلام کی تبلیغ زیادہ تیز ہونی چاہیے اور مسلمان ہونے والوں کی نسبت بہت تیزی کے ساتھ بڑھنی چاہیے.اور چونکہ تمہارے نزدیک یہ تلوار کا مذہب ہے، اس لئے امن کے زمانے میں اس کے برعکس شکل نظر آنی 124
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء چاہیے.یہ معقول اصول قائم کرنے کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ کے اعداد و شمار پیش کیے کہ جب جنگیں ہو رہی تھیں، یعنی مظالم کے لمبے دور کے بعد اسلام کو جب دفاع کی اجازت ملی تو اسلام کا پھیلاؤ رک جاتا ہے.حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے ایک جنگ کے بعد، پھر دوسری جنگ کے بعد کے تمام اعداد و شمار اور کوائف پیش کئے کہ اس وقت اتنے اتنے مسلمان تھے اور پھر یہ ثابت کیا کہ جب جنگیں ختم ہوتی ہیں اور حضوراکرم کی زندگی کے صرف ایک دو سال باقی ہیں تو آنا فانا اس دو سال کے عرصے میں تمام عرب مسلمان ہو جاتا ہے.تو یہ عجیب جنگ کا مذہب ہے کہ جنگ کے زمانے میں تو پنپتا نہیں اور امن کے زمانے میں پنپنے لگ جاتا ہے.پس چونکہ ہم اسلام کے دعویدار ہیں.اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارا یہ دعوئی ہم سے چھین نہیں سکتی کہ ہم مسلمان ہیں خدا کے فضل سے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمان قرار دیتا ہے.یہ ہمارا پیدائشی حق ہے.اس کی خاطر ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں.لیکن اس دعوئی میں ہی امن کی تعلیم ہے.کیونکہ مسلم کی تعریف آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ فرمائی کہ جس کے ضرر سے شر سے، جس کی زبان سے، جس کے قول وفعل سے دوسرے آدمی محفوظ رہیں.یعنی کسی کو کسی نوع و کا بھی دکھ نہ پہنچائے.تو چونکہ ہم بچے مسلمان ہیں اور اس دعوے میں سچے ہیں، اس لئے ہمارا لا زمی فرض ہے کہ اپنے اعمال کے ذریعے سے اس بات کو ثابت کریں.اور مسلمان کی اس تعریف کو پیش نظر رکھیں ، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خود فرمائی ہے.یعنی ایک مسلمان آنحضور کی نظر میں کیا ہے؟ اس رنگ میں تعریف ہے، فرماتے ہیں، وہ جس کی زبان سے، جس کے قول سے، جس کی اداؤں سے کسی رنگ کا بھی ضرر کسی کو نہ پہنچے اور ہر ایک محفوظ رہے.کیونکہ مسلم کا لفظی ترجمہ ہی ہے امن دینے والا.تو نام تو امن دینے والا ہو اور شر پھیلا رہا ہو ، نام تو امن دینے والا ہو اور گالیاں دے رہا ہو ، گالی کا جواب گالی سے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہا ہو، وہ مسلمان نہیں ہو سکتا.کم از کم حضوراکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والا وہ غلام نہیں بن سکتا، جس کی آپ نے یہ تعریف فرمائی ہے.اس لئے اس بات کو پیش نظر رکھنا پڑے گا کہ اس سکیم کے اندر کسی رنگ میں بھی دل آزاری کا کوئی پہلو بھی نہ ہو.سوائے محبت اور رحمت کے اور کوئی جذبہ اس تبلیغ کے پیچھے نہ ہو.اور محبت اور رحمت کا جذبہ یقیناً غالب آیا کرتا ہے.اس کو دنیا کی کوئی طاقت مغلوب نہیں کر سکتی.اس لئے اس جذبہ کے ساتھ قربانیوں کے لئے تیار ہوتے ہوئے ، بنی نوع انسان کی ہمدردی اختیار کرتے ہوئے، یہ فیصلہ کر کے کہ اگر اس راہ میں گالیاں بھی پڑتی ہیں تو گالیاں کھا ئیں گے اور مسکرا کر گالیاں کھائیں گے اور بتائیں گے کہ ہم 125
خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم حوصلے والے لوگ ہیں، ہم حضوراکرم کے غلام زادے اور غلام زادیاں ہیں، ہمارے دل چھوٹے نہیں تم گالیاں دیتے چلے جاؤ اور ہم تمہیں دعائیں دیتی چلی جائیں گی.اس حو صلے کے ساتھ ، اس عزم کے ساتھ آپ نے تبلیغ کا منصوبہ بنانا ہے.اس میں لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کوئی قسم کے کام کرنے ہیں.وہ مختصر آمیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.کیونکہ میں نے ابھی اطفال الاحمدیہ کے اجلاس میں بھی جانا ہے.بعد میں ہماری والدہ سیدہ ام متین ( سلمہا اللہ ) یا جو بھی نیا صدر منتخب ہو، وہ وقتا فوقتا مجھ سے ہدایت لے سکتی ہیں.لیکن منصوبے کے جو خد و خال ہیں، وہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.اس کا کچھ حصہ یورپ کی مجالس میں ، میں کھول آیا ہوں.پہلے ہی ایک تو مرکزی منصوبہ بنا کے اعداد و شمار ا کٹھے کر کے یہ معلوم کرنا ہے کہ مختلف بجنات اللہ تعالیٰ کے فضل سے کتنی بڑی کمندیں ڈالنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں؟ کتنی بلند کمندیں ڈالنا چاہتی ہیں اور ان کے پاس کیا کیا ذرائع ہیں؟ اور ان کے لئے کون سا معقول اور مناسب لائحہ عمل تجویز کر کے منظور کر لیا گیا ہے؟ اس کی آخری منظوری وہ مجھے دکھا کر لے لیا کریں.ایک تو جو جو نیچرز (Features) ایک دفعہ منظور ہو جائیں کہ یہ طریق کار ٹھیک ہے، اس کی دوبارہ منظوری لینے کی ضرورت نہیں.تمام دنیا کی لجنات سے اس طرح منصوبہ بندی کروائی جائے اور باقی ملکوں میں ملک وار کروائی جائے.لیکن وہ پہلے اپنی مجالس سے کروائیں.مثلاً انگلستان ہے.تو وہاں لجنہ کی جتنی بھی مجالس ہیں ، وہ انفرادی طور پر ، انفرادی طور سے مراد ہے لجنہ کا ہر شعبہ، ہر شاخ، اپنا منصوبہ بنا کر اپنے ملک کو بھیجیں اور اس ملک کی مرکزی مجلس عاملہ اپنے ملک کے حالات کے مطابق غور کرے اور امیر سے منظوری لے کر اس کی سفارشات کے ساتھ وہ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کو بھیجیں.اور اعداد و شمار کی جو آخری شکل بنے گی، وہ بھی پیش کی جائے کہ اتنی لجنات ہیں، وہ اس طرح منصوبہ بنا کر حصہ لیں گی.اور آئندہ سال کے لئے انشاء اللہ تعالیٰ اتنی احمدی بنانے کی سکیم ہے، خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.دوسرے ہے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی ذمہ داری کہ اس منصوبے کو کامیاب کرنے کے لئے ان کی مدد کریں.اس میں دو قسم کے پروگرام خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رہنے چاہئیں.ایک ہے، لٹریچر کے ذریعے ان کی ضروریات مہیا کرنا.دوسرا ہے، صوتی ذرائع سے ان کی ضروریات مہیا کرنا.صوتی ذریعے اللہ تعالیٰ نے آج کل دین کی خدمت کے لئے اس لئے مہیا فرمائے ہیں کہ ان میں بہت سے فوائد ہیں، جو تحریری ذرائع میں نہیں.مثلاً اشاعت کے سلسلے میں ایک تو تاخیر بہت ہو جاتی 126
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمود: 16 اکتوبر 1982ء ہے، اخراجات بہت در پیش آتے ہیں.اور پھر بعض ملکوں کے حالات ایسے ہیں، جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے امن کے مفاد کے خلاف ہے کہ بغیر سنسر کے دینی مواد چھپنے دیا جائے.یہ وقتیں بھی ہیں.اس لئے ہمیں اس سے بحث نہیں کہ ان کا مفاد کس طرح serve ہو رہا ہے اور ان کے مفاد کی حفاظت کیسے ہو سکتی ہے؟ اور اس غرض سے وہ جو فیصلہ کرتے ہیں، وہ فیصلہ صحیح بھی ہے کہ نہیں؟ اس سے ہمیں کوئی بحث نہیں.ہمیں تعاون کرنا ہے، جہاں تک ممکن ہے.اور ہم تعاون کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اس نے جو عارضی مشکلات ہیں، ان کے باوجود یہ کام کروانے ہی کروانے ہیں.دنیا کی کوئی طاقت اشاعت اسلام کی راہ میں کھڑی نہیں ہو سکتی.مگر بہر حال وقتی مصالح ہر قوم کے الگ الگ ہوتے ہیں.وہ ان مصالح کی پیروی کرتے چلے جائیں ، ہم اپنے مصالح کی پیروی کرتے رہیں گے.ان مشکلات کے مقابل پر یہ راہ جو ہے ، صوتی ذرائع کا استعمال یعنی آواز کے ذرائع کا استعمال ، یہ ایک بہت ہی کارآمد ذریعہ ہے.اس میں وڈیو ٹیپ ریکارڈنگ شامل ہے اس میں کیسٹ ریکارڈنگ شامل ہے.چنانچہ کئی طریق پر اس کا استعمال کر کے لجنہ نے پہلے اردو میں ماڈل بنانے ہیں، پھر ان کے تراجم کرنے ہیں، عربی میں ، انگریزی میں، انڈونیشین میں، افریقن زبانوں میں.اسی طرح جاپانی میں، چینی میں، اٹالین میں اور یورپ کی دوسری زبانوں میں.ہمیں چھپیں بڑی بڑی زبانیں ، جو دنیا میں بولی جاتی ہیں، ان میں پہلے ہر کیسٹ کے ماڈل تیار ہوں گے.ترجمہ کروانے کا کام ہم کروائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.لجنہ جب وہ ٹیپ تیار کر کے ہمیں دے گی تو ہم اس کا ترجمہ کروا کے ان کو شیپ واپس کر دیں گے.پھر وہ Reproduce کر کے ہر ملک کو نمونے کی ٹیمیں بھجوائیں گی.ان سے کہیں گے ، اس میں سوال و جواب ہیں، ان مسائل سے متعلق جو عموما پاکستان میں پیش آتے ہیں.یہ جو ٹیپ ہے، اس میں قرآن کریم کی بعض آیات کی تلاوت صحت کے ساتھ کی گئی ہے.یعنی خصوصیت کے ساتھ ایسی آیات کی ، جو غیر معمولی طور پر دل پر اثر کرنے والی ہوں، جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتی ہوں، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعارف پر مشتمل ہوں، جن میں صحابہ کا ذکر ہو، جن میں تبلیغی مسائل ہوں، جن میں اختلافی مسائل ہوں، جن میں دنیا کے عام مذاہب کو چیلنج کیا گیا ہو.ایسی آیات کا انتخاب کر کے نہایت ہی پاکیزہ آواز میں اور اچھے تلفظ کے ساتھ ان کو ریکارڈ کیا جائے.اس کے بعد ان ساری زبانوں میں ترجمے کئے جائیں اور اس طرح یہ ٹیپ تمام دنیا کی لجنات کو مہیا کی جائے.میں نے دیکھا ہے، باہر ( ماشاء اللہ ) بعض بہت اچھی تلاوت کرنے والی احمدی خواتین ہیں.تو پیشتر اس کے کہ یہ فیصلہ کریں کہ کس کی آواز میں ریکارڈنگ کروائی جائے؟ ایک مقابلہ ہو سکتا ہے.تمام دنیا 127
خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کی لجنات کو لکھا جا سکتا ہے کہ آپ ہمیں، جو بہترین آواز والی، اچھے تلفظ والی خواتین ہیں، ان کی آواز کی ریکارڈنگ کا نمونہ بھجوائیں.پھر مختلف آوازوں میں ریکارڈنگ کا یہ پروگرام چل سکتا ہے.آٹھ ، دس خواتین کی آوازوں ہی میں جو آپ ساری دنیا میں سے چنیں، قرآن کریم کے مختلف حصے ٹیپ کروائے جا سکتے ہیں.کسی کو کوئی آواز پسند ہوتی ہے، کسی کو کوئی پسند ہوتی ہے.کسی کے دل پر کسی خاص آواز کا اثر ہوتا ہے، کسی کے دل پر کسی اور خاص آواز کا.اس لئے ضروری نہیں کہ آپ کو جو ایک آواز پسند آئے ، وہی ساری دنیا کو بھی پسند آ جائے گی.مختلف طرز میں پڑھنے والیاں ہیں، مختلف آواز کی گہرائی میں پڑھنے والیاں ہیں.کوئی باریک آواز سے پڑھتی ہے، کوئی نسبتا موٹی آواز سے کوئی ٹھہر ٹھہر کر کوئی نسبتاً تیز.کوئی اونچی آواز سے اور کوئی مدھم آواز سے پڑھتی ہیں.خدا تعالیٰ نے آواز کی مختلف قسمیں بنائی ہیں.ان مختلف نمونے کی بجنات سے تلاوت کرائیں ، ان کے ترجمے کریں.اور پھر ساری زبانوں میں ان کے ترجمے ہوں.اور اس کا طریق یہ ہو گا کہ آپ نے صرف اس وجہ سے تلاوت نہیں کروائی کہ ان کو صوتی لحاظ سے لذت حاصل ہو.بلکہ صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا بھی آجائے.اسی لئے لازماً ایسی تلاوت میں ذرا مختلف طریق کار اختیار کرنا پڑے گا.مثلاً الحمد للہ رب العالمین ہے، اسے پہلے اس آواز میں پڑھا جائے.( حضور نے ٹھہر ٹھہر کر اور علیحدہ علیحدہ پڑھ کر بتایا.پھر اس کا ترجمہ بتایا جائے کہ اس کا یہ ترجمہ ہے.اس کو جب اکٹھا پڑھتے ہیں تو اس طرح پڑھتے ہیں.چنانچہ حضور نے الحمد للہ رب العالمین روانی سے پڑھ کر بتایا.پھر الرحمن الرحیم.مالک یوم الدین اور اس کا ترجمہ ٹھہر ٹھہر کر ، الفاظ کو الگ الگ کر کے بتایا جائے اور پھر اکٹھا کر کے.اس کے بعد تلاوت کا نمونہ آئے.اور ایک بہت ہی پیاری آواز میں الحمد للہ رب العالمین کی تلاوت کی جائے.اسی طرح باقی چھوٹی سورتیں یا آیات منتخب کر کے ان کے ساتھ بھی بالکل اسی پروگرام کے مطابق سلوک کیا جائے.بعد میں پھر یکجائی صورت میں تمام آیات کی اکٹھی تلاوت ہو.جو تبلیغ کا حصہ ہے، اس سے قرآن کریم کو خواہ وہ کسی مضمون سے تعلق رکھتا ہو، الگ نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ قرآن کریم میں ایک اتنا گہراذاتی اثر ہے کہ خواہ یہ اختلافی مسائل پر بحث کر رہا ہو یا اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے اوپر بات کر رہا ہو، غیروں کے اوپر بہت ہی گہرا اثر کرتا ہے.ناروے میں ہم شمال کی طرف گئے تو واپسی پہ دورا تیں ہم باہر ٹھہرے.سیر کا پروگرام تھا.جس ہوٹل میں ٹھہرے، وہاں امریکنوں کا ایک بہت بڑا قافلہ بھی آیا ہوا تھا.صبح اٹھ کر ہم نے باہر صحن میں نماز ھی.رات مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی باہر مسمن میں پڑھیں.اس کے ساتھ ہوٹل کے کمرے تھے، جن 128
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء میں وہ مہمان ٹھہرے تھے.صبح ایک امریکن نے ہمارے ایک احمدی دوست سے ذکر کیا کہ جب تم لوگ نماز پڑھ رہے تھے تو جو آواز تھی، جو کلام تم پڑھ رہے تھے ، ہمیں سمجھ تو نہیں آرہا تھا مگر اتنا گہرا اثر تھا بیعت پر کہ ہم لوگ باہر بالکونی میں نکل کر وہ سننے لگ گئے تھے.تو کلام الہی میں ایک بہت پاکیزہ اور گہرا اثر ہے.اور تبلیغ کے لئے انتہائی موزوں اور سب سے مؤثر ذریعہ یہ ہے کہ کلام الہی غیروں کو سنایا جائے اور ساتھ ساتھ اس کے ترجمے پیش بھی کئے جائیں.تو Recitation ہو، پھر بعد میں اکٹھا ترجمہ بھی پڑھ دیا جائے تاکہ وہ ان ٹکڑوں کو دوسروں کے لئے بھی استعمال کر سکیں.اسی مضمون میں، اسی نہج پر حدیث کی ٹیمیں تیار کی جائیں.اور خصوصیت کے ساتھ وہ احادیث اختیار کی جائیں، جن میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا بیان ہو.اور مستورات کی تربیت کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہوں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بہتر اور مؤثر الفاظ کسی انسان کو نصیب نہیں ہوئے.تربیت کے معاملے میں ایک چھوٹا سا ایسا پیارا کلمہ آپ بیان فرما دیتے ہیں کہ وہ سیدھا دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے اور کوئی طاقت بھی اس کو روک نہیں سکتی، دل میں جذب ہونے سے.اس لئے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں چھوٹی چھوٹی احادیث کا انتخاب کر کے ان کو بھی ریکارڈ کیا جائے.یہ احادیث کا مضمون ہو جائے گا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ہے، جو اس زمانے میں تمام انسانوں کے کلاموں سے زیادہ پر شوکت کلام ہے اور بہت ہی گہرا اور پر اثر کلام ہے.دراصل کلام کی عظمت کا راز اس کی صداقت میں پنہاں ہوتا ہے.یہ اصول یا درکھیں.کیونکہ یہ اصول آپ کو تبلیغ میں کام آئے گا.جتنا سچا انسان ہو، جتنا سچائی سے بات کرنے والا ہو، اتنا ہی اس کا کردار سچائی میں ڈھلنے لگتا ہے اور اتنا ہی اس کی آواز میں وزن پیدا ہو جاتا ہے.اس کا دوسرا نام قوت قدسیہ ہے.بظاہر وہی الفاظ ہوتے ہیں، جو عام بنی نوع انسان استعمال کرتے ہیں.لیکن انہی الفاظ میں ڈھلا ہوا کلام بظاہر ایک عام انسان کر رہا ہے لیکن اس کے اندر ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے، اس میں غیر معمولی جذب اور اثر پیدا ہو جاتا ہے.تو اس سے آپ یہ نکتہ بھی سمجھ لیں کہ اگر آپ نے کامیاب مبلغات بننا ہے تو آپ کو سچائی اختیار کرنی پڑے گی.ایسی گندی عادتیں ہمارے معاشرے میں پڑ چکی ہیں کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہمارا ہر گھر سچائی پر قائم ہے.مذاق میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے.بچے جھوٹ بول 129
خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم رہے ہیں، عورتیں اس کو برداشت کرتی ہیں.وہ سمجھتی ہیں، کوئی بات نہیں.بچہ جھوٹ بول رہا ہے، جھوٹ بول کر دھوکہ دیتا ہے، سارے بنتے ہیں کہ آج اس نے کمال کر دیا.فخر سے بچہ بولتا ہے، میں تو یونہی کہ رہا تھا، گپ ماررہا تھا.اور کیسے بے معنی کھو کھلے فخر کے ساتھ ماؤں کی نگاہیں اس پہ پڑتی ہیں اور وہ اپنی گندی عادات میں پختہ ہوتا چلا جاتا ہے.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، جن کی طرف آپ کو توجہ کرنی پڑے گی.ورنہ آئندہ مستقبل کے لئے یعنی آئندہ نسلوں کے لئے آپ کامیاب مبلغات بھیجنے کی بجائے نہایت جھوٹی اور لچر مبلغات بھیجیں گی ، جن کا کوئی بھی اثر نہیں ہو گا.اپنی حفاظت رکھیں ، اپنی آئندہ نسلوں کی حفاظت کریں.اور یہ بات یقین کرلیں کہ کوئی منطقی چالاکی ، کوئی دلیل یا نفس مضمون کی عظمت کام نہیں آسکتی ، جب تک بات کہنے والی کچی نہ ہو.اس کی سچائی اور اس کی پاکیزگی اس کے کلام میں ایک غیر مرئی اثر پیدا کر دیتی ہیں.آپ نے کسی مقناطیس کا لوہا بھی دیکھا ہوگا اور عام لوہا بھی دیکھا ہوگا.دنیا کا کوئی سائنسدان بھی نظری طور پر اس کو دیکھ کر، اس کے رنگ یا اس کی شکل وصورت کے فرق سے یہ بتا نہیں سکتا کہ یہ مقناطیس ہے اور یہ عام لوہا ہے.لیکن نظر نہ آنے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ مقناطیس میں ایک غیر مرئی یعنی نہ نظر آنے والی طاقت ہے.اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت غیر مرئی طاقت ہوا کرتی ہے.دنیا کا جتنا بھی کارخانہ چل رہا ہے ، اس کا مرکزی فلسفہ یہ ہے کہ یہ کارخانہ ظاہر نظر آنے والی طاقتوں سے کئی گنا زیادہ ، حیرت انگیز طور پر زیادہ ان غیر مرئی طاقتوں کا مرہون منت ہے ، جن کے متعلق انسان کو پتہ ہی نہیں کہ کس قسم کی طاقتیں، کس طرح کام کر رہی ہیں؟ آج تک انسان ان کی کہنہ ہی نہیں سمجھ سکا.اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ الفاظ کو غیر مرئی طاقت ہوتی ہے تو غیر سائنسی بات نہیں ہے.قانون قدرت اسی طرح پر ہے.اللہ تعالیٰ جس نے یہ کائنات بنائی ہے، اس نے اسی طرح کا نقشہ بنا رکھا ہے کہ کائنات میں سب سے عظیم طاقتیں وہ ہیں، جو غیر مرئی ہیں.اور عظیم تر طاقتوں کا منبع ، سب سے بڑی ذات حضرت احدیت اللہ جل شانہ بھی ایک غیر مرئی طاقت ہے.وہی طاقت ہے، جس کی برکت سے الفاظ میں عظمت پیدا ہوتی ہے اور الفاظ میں قوت ڈھلتی ہے.دنیا کو نظر نہیں آتی لیکن وہ محسوس کرتی ہے، اس کے اثر سے بچ نہیں سکتی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو بھی اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس کی برکت سے ایک غیر معمولی عظمت اور طاقت عطا کی گئی ہے.اس کلام کو بھی نہایت ہی پاکیزہ آواز میں پڑھیں.اس کی ریکارڈنگ کریں اور اس کے تراجم دنیا کے سامنے پیش کریں.اس میں سے انتخاب کریں.اور جہاں تک ممکن ہو، ہم یہ کوشش کریں گے کہ غیر زبانوں میں بھی اس کا نظم میں ترجمہ ہو جائے.130
خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک غیر زبانوں میں جب ترجمہ ہو تو وہ بھی نظم کی صورت میں ہوتا کہ بچے بھی اپنے اپنے ملکوں میں وہ گیت گاتے پھریں.یور با کا ایک حبشی بچہ ہے، حبشی بچی ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم ترنم کے ساتھ اردو میں یاد کرے اور پھر عربی زبان میں بھی ترنم سے گائے.گلی گلی میں آپ کی زبان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعریف ہورہی ہو.اتنا گہرا اثر کرنے والا وہ کلام ہے کہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ سوائے عاشق صادق کے کوئی یہ تعریف کر ہی نہیں سکتا.اس کی ٹیمیں بھی تیار کریں اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کے تراجم میں ہم آپ کی مدد کریں گے.انصار اللہ اپنے طور پر کام کریں گے، خدام الاحمد یہ اپنے طور پر یہ کام کریں گے.بیک وقت تینوں نظمیں ایک دوسرے کے کام کا انتظار کیے بغیر کام شروع کر دیں.ان میپیوں کی تیاری کے بعد جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ان کے انتشار کا کام ہو گا.پھر لجنہ کی مرکزی عہدہ داروں کا ایک مستقل گروس بنانا پڑے گا، جو مختلف ممالک کے متعلق اس بات کی ذمہ دار ہوں گی کہ ان سکیموں کی تعفید صحیح ہورہی ہے.پس اس کام کے لیے لجنہ کا ایک الگ مرکزی گروپ ہونا ضروری ہے، جس کے لیے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی کارکنات کی جا سکتی ہیں.جن سے اصلاح وارشاد کی ایک مرکزی کمیٹی تشکیل دی جائے.وہ سب مل کر اس بات کی ذمہ دار ہوں اور تعمیل اور تنفیذ کے کام کی نگرانی کرے.اور تمام دنیا کی لجنات سے واسطہ رکھے اور ان کو یاد و بانی کروائے کہ آپ نے یہ کام نہیں کروایا، اتنی دیر ہو چکی ہے.آپ کی یہ حکیم تھی، اس کے متعلق رپورٹ نہیں آئی.ایک مرکزی صدررپورٹیں پڑھتا تو ہے لیکن اس کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ اتنی تفصیل کے ساتھ نگرانی کر سکے.پس یہ گروہ ہوگا، جونگرانی بھی کرے گا اور یاددہانیاں بھی کروائے گا اور ضرورتیں معلوم کرے گا کہ آپ کو تبلیغ کے سلسلہ میں جو مشکلات ہیں، جو ضرورتیں ہیں، وہ پیش کریں.لیکن جہاں تک سوال و جواب کی کیسٹ کا تعلق ہے، مرکزی کیسٹ تیار ہوں گی، جو ساری دنیا کو بھجوائی جائی گی.لیکن ان کے علاوہ ہر ملک اپنے حالت کے مطابق اپنی زبانوں میں بھی کیسٹ تیار کرے.مثلاً نائیجیریا کی ضروریات کے لئے یورو با زبان میں کیسٹ تیار ہو.اگر کوئی چینی ماہر موجود نہ ہو تو کیسٹ کا ترجمہ چینی زبان میں کروالیں گے.انگلستان میں انگریزی زبان میں کیسٹ تیار ہونی چاہئیں.جرمنی میں جرمن زبان میں کیسٹ ہونی چاہئیں.سوئٹر لینڈ میں جرمن زبان میں ہونی چاہئیں.بیلجئیم اور فرانس میں فرانسیسی زبان میں تیار ہونی چاہئیں.وہ جو کیسٹ اپنے ملکوں میں تیار کریں ، ان کی کم از کم ایک ایک نقل لاز مالجنہ اماءاللہ مرکزیہ کوبھیجیں.اور لجنہ اماءاللہ مرکز یہ وہ تمام اپنی بجنات کو بھجوائے 131
خطاب فرمودہ 16اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کہ اگر تمہارے پاس مثلاً یوگوسلاوین زبان بولنے والی عورت آتی ہے تو تمہارے پاس پوری ذمہ داری کے ساتھ ایک ایسی چیز ہونی چاہیے کہ تم اس کو کہو کہ ہم تمہاری زبان تو نہیں سمجھتیں لیکن یہ ایک سوال و جواب کی مجلس ہے، اس کو سن لو.اس کیسٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہو کہ اگر آپ مزید معلومات حاصل کرنا چاہتی ہیں تو کس مشن کو لکھیں ؟ مثلاً اگر یوگوسلاویہ میں ہمارا مشن نہ ہو تو ہم مرکز کا حوالہ دے سکتے ہیں.یہاں ہمارے پاس البانین زبان کے جو یوگوسلاویہ میں بکثرت بولی جاتی ہے، ایک اچھے ماہر موجود ہیں.وہ ان کیسٹ کا ترجمہ بھی کر سکتے ہیں.اور ان سے بعد ازاں مزید گفت وشنید کے لئے زیر تبلیغ لوگوں کا رابطہ بھی کروایا جا سکتا ہے.پھر انہیں کیسٹس کے اندر مشوں کے پتے بتائے جاسکتے ہیں.مقصد یہ ہے کہ یہ کیسٹ تمام دنیا کی بجنات کے پاس موجود ہوں اور جب ضرورت پڑے، ان کو فوراً Duplicate کرلیں.ا اب سوچیں کہ خدا تعالیٰ نے کتنا فضل فرمایا ہے.ہمارے لئے کیسا اچھا راستہ کھولا ہے.اگر اس سکیم میں آپ ایک ہزار کیسٹ تیار کرلیں تو زیادہ سے زیادہ صرف تمیں ہزار روپے میں تیار ہو جائیں گی.اور اگر ہول سیل تیار کروائیں تو پچیس ہزار روپے میں تیار ہو جائیں گی.اگر چھپیں ہزار روپے میں چھپیں زبانیں ہمارے قبضہ قدرت میں آجائیں اور ان زبانوں میں ہم تربیت بھی کر سکیں، تبلیغ بھی کر سکیں، اسلام کی بہترین تعلیم سے تعارف بھی کرا سکیں تو کتنا پیارا اور کتنا ستا سودا ہے.اور پھر کسی سنسر کی ضرورت نہیں کسی پابندی کی ضرورت نہیں، اکٹھے سٹاک کرنے کی ضرورت نہیں.کتا ہیں تو آپ اس طرح شائع نہیں کر سکتے کہ ایک آج کی اور ایک کل کرلی.اور جب کسی نے مانگی تو ایک اور شائع کرلی.وہ تو ہوسکتا لاکھ لاکھ روپے کی ایک کتاب پڑ جائے.مگر کیسٹ میں بڑا آرام ہے.بجنات اپنے پاس نمونے کی کیسٹ رکھیں گی.جب ضرورت پڑے، اس کی دو بنالیں، تین بنالیں، چار بنالیں.حسب ضرورت وہ پھیلیں گی.اس سے زیادہ بنا کر رکھنے کی ضرورت ہی نہیں.اس کے لئے مرکزی لجنہ کو جو سامان چاہئے ، وہ سامان مہیا کرے.جس قیمت پر بھی ملتا ہے، منگوائیں.باہر لجنات کے پاس پیسے پڑے ہوں گے.انگلستان کو لکھیں، جرمنی کو لکھیں، جاپان سے معلومات حاصل کریں.جہاں سے بھی ستا ملتا ہو، منگوائیں.سب سے زیادہ ستا غالباً انگلستان سے مل سکے گا.Export Price پر تو قیمت اور بھی کم ہو جائے گی.اس کی باقاعدہ ڈیوٹی دیں.ہر گز کسی قسم کی سمگلنگ نہیں کرنی.اگر پچاس ہزار بھی ڈیوٹی دینی پڑے تو پچاس ہزار دیں.اگر لجنہ کے پاس پیسہ نہیں ہے تو مجھ سے لے لے.لیکن بہر حال یہ کام ہوگا.پیسے کی کوئی روک اس کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے.یہ کب تک ہو جاتا ہے؟ اللہ بہتر جانتا ہے.میں نہیں جانتا کہ اس وقت آپ کے پاس کتنے.132
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک خطاب فرموده 16 اکتوبر 1982ء ذرائع ہیں؟ مرکزی مجلس میں کتنی خواتین ہیں، ان باتوں میں شامل ہونے کے لئے ؟ اس لئے آپ اندازہ کر کے مجھے خود بتائیں کہ کتنے مہینے کے اندر انشاء اللہ تعالی آپ اس سکیم کو عملی جامہ پہنا دیں گی؟ لیکن میری ایک نصیحت آپ کو بھی ہے، لجنہ کی ہر شاخ کو بھی، یہ طریق کار بدل لیں کہ سوائے چند کارکنات کے، جو خلص مانی جاتی ہیں اور کسی کے اوپر ذمہ داری ڈالی ہی نہیں جاتی.یہ بہت بڑے نقصان کا سودا ہے.ٹیم بڑھانی چاہیے.جتنی زیادہ ٹیمیں بڑھائی جائیں، اتنا ہی زیادہ سلسلے کا کام آسان ہوگا، اتناہی زیادہ بابرکت ہوگا.عورتوں میں چونکہ مردوں کی نسبت حسد کا مادہ بھی زیادہ ہے، رشک کا مادہ بھی زیادہ ہے، اس لئے بعض دفعہ یہ نقصان بھی پہنچ جاتا ہے کہ بعض لجنات کی ممبرات کہنے لگ جاتی ہیں کہ سب کچھ ان کے سپر د ہے، ہمیں اس سے کیا؟ جو کام ہوتا ہے، وہی کر لیتی ہیں.سب کچھ انہیں کا ہے.اور پھر خواہ مخواہ لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں.بعض ملکوں میں، میں نے دیکھا ہے اور مجھے انتہائی دکھ پہنچا کہ لجنہ آپس میں اس طرح لڑ رہی ہیں کہ جس طرح دود شمنوں کے کیمپ لگے ہوتے ہیں.اناللہ وانا الیہ راجعون.اگر تم آپس میں لڑو گی تو دین کی خدمت کون کرے گا؟ اور دین کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے کہاں جان باقی رہ جائے گی ؟ اس لئے ہر گز لڑائی نہیں کرنی اور اس قسم کے مواقع نہ دیں، جن کے نتیجہ میں بعض ممبرات یہ سمجھیں کہ ہم سے اور سلوک ہورہا ہے اور دوسروں سے اور سلوک ہو رہا ہے.خدمت کی راہیں سب کے لئے کھلی ہیں، کوئی اس سے محروم نہیں کیا جائے گا.اور لجنہ کا مفاد اس میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ نئی کارکنات کو شامل کر کے اس پر ذمہ داریاں ڈالی جائیں اور ان کی تربیت کی جائے.اس سے بہتر تربیت کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا کہ دین کی خدمت کا تھوڑا تھوڑ ا موقع دینا شروع کرو.اگر کوئی بے پردہ ہے، اگر کوئی اسلامی تہذیب کی باغی ہو چکی ہے اور کھلے بندوں اس طرح پھرتی ہے کہ اس کو کوئی شرم حیا نہیں کہ میں کس کی نمائندہ ہوں؟ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے نام پر کیا داغ لگارہی ہوں؟ تو اس کو کام نہیں دینا.وہ ہرگز میرے ذہن میں نہیں ہے.لیکن عام سادہ ہماری پیاری بیٹیاں ہیں، بچیاں، بیبیاں، بہت مخلص خواتین ہیں جماعت احمدیہ کی.ان کو ذرا سا اشارہ کرو، وہ جان نچھاور کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں.ان پر بدظنیاں نہ کریں.ان کے حوصلے بڑھائیں.ان کو پروگرام میں شامل کریں اور رفتہ رفتہ ہمیں بڑھائیں.چنانچہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہر شعبہ کے ساتھ ربوہ کی ہیں ہیں، پچیس پچیس لڑکیاں شامل ہوسکتی ہیں.آپ ایسے نام مانگ سکتی ہیں، جن میں خدمت کا جذبہ ہو.ان میں سے چنیں.ہر شخص کو اس کی ذہنی ار قلبی کیفیت اور قابلیت کے مطابق کام دیں تو جو کام مشکل نظر آرہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء 133
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء اللہ تعالیٰ آسان تر ہوتا چلا جائے گا.ایک دفعہ نظام جاری کرنے میں کچھ مشکلات ہوتی ہیں.جب جاری ہو جاتا ہے تو آسانی کے ساتھ اپنی راہوں پہ چل پڑتا ہے.پھر منتظمین کا کام ہلکا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.یہ مختصر خاکہ میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ حقیقت میں لجنہ اماءاللہ ثابت ہوں گی.اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اب دعا کر لیں.مطبوعه روزنامه الفضل 07 نومبر 1982ء) 134
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات از مجلس عرفان منعقدہ 16 اکتوبر 1982ء مسجد بشارت پین کی فلم اور ملکی قوانین ارشادات از مجلس عرفان منعقدہ 16 اکتوبر 1982ء ایک دوست نے عرض کی کہ مسجد بشارت (سپین) کی فلم آگئی ہو تو دکھانے کا انتظام کیا جائے؟ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.وہ فلم آگئی ہے، انشاء اللہ دکھانے کا انتظام کیا جائے گا.اس کی مزید کا پیاں تیار کرائی جائیں گی.آپ خرید بھی سکتے ہیں.اس قسم کی دینی فلم دکھانے کے سلسلہ میں گورنمنٹ کی پابندی کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- گورنمنٹ کی طرف سے قانو نا کوئی ایسی پابندی نہیں ہے.لیکن ہر آدمی کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ قانون خواہ کچھ بھی ہو، اس پر عمل کرنے والے جب تک دیانتدار نہ ہوں، ہر قسم کے خطرات رہتے ہیں.اس لئے کسی ملک میں جب تک قانون کی صحیح تنفیذ کی ضمانت نہ ہو، کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی کو کس حد تک قانونی تحفظات حاصل ہیں.اس موقع پر لاہور کے ایک دوست نے بتایا کہ اس قسم کا واقعہ لاہور میں بھی پیش آچکا ہے.اس کا ذکر کرتے ہوئے ، حضور نے فرمایا:.ا بھی ایک دوست نے سوال کیا تھا کہ دینی فلمیں دکھانے کی اجازت ہے کہ نہیں ؟ میں نے کہا تھا، اجازت ہونا اور بات ہے اور اس اجازت کے بعد مختلف جگہ کے حکام کس طرح عملدرآمد کرتے ہیں؟ یہ بالکل اور سوال ہے.ہم بہت سی جگہوں پر پاکستان میں دینی فلمیں دکھاتے ہیں.ملک کی بھاری اکثریت شریف لوگوں پر مشتمل ہے.اکثر میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت رکھی ہوئی ہے، وہ کوئی اعتراض نہیں کرتے اور شوق سے حصہ بھی لیتے ہیں.بعض جگہ مثلاً لا ہور جیسے شہر میں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ وہاں ہمارے مربی کو پکڑا، جبکہ وہ دینی فلمیں دیکھا رہے تھے.پھر نا جائز طور پر ان کو زود دوکوب بھی کیا اور ساری فلمیں ضبط کر لیں.جب واپس کیس تو کچھ رکھ لیں اور کچھ واپس کر دیں.وہ فلمیں وی سی آر کی تھیں، جو بار بار استعمال ہو سکتی ہیں.اب پتہ نہیں ، وہ ان فلموں کو کس طرح استعمال کرتے ہیں.وہی دینی مناظر دیکھتے ہیں یا کچھ اور دل پسند چیزیں بھر کر لطف اندوز ہوتے ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے.135
ارشادات از مجلس عرفان منعقدہ 16 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس معاشرہ کے بگڑنے پر جو جائز ہے، وہ نا جائز ہو جاتا ہے.اور جو نا جائز ہے، وہ جائز قرار پاتا ہے.دنیا میں ایسے انقلاب بھی ہو جاتے ہیں، کہتے ہیں.کچھ ان کے آتے ہی ساقی کے ایسے ہوش اڑے شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں تو بعض دفعہ جب اسی طرح انسانوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں تو اسی قسم کے الٹ پلٹ مناظر دیکھنے میں آتے ہیں.ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ ان پر رحم کر.جیسا کہ میں نے کہا ہے ، ہمیں کسی ایسے رد عمل کی ضرورت نہیں ، جو ملک کے حالات کو ، جو پہلے ہی خراب ہورہے ہیں، اور زیادہ خراب کرنے کا موجب بنے.اگر کوئی ہمارے حقوق غصب کرتا ہے تو کرتا رہے.ہمارے حقوق اللہ ہمیں عطا کرے گا.یہاں غصب ہوتے ہیں تو خدا دوسری جگہ عطا فرما دیتا ہے.اس کے ہاں کمی نہیں ہوگی.اس لئے صبر اور دعا سے کام لینا چاہئے.ایک دوست نے اپنی خواب بیان کی ، حضور نے اس کے متعلق فرمایا :.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.اس میں تبلیغ پھیلنے کی طرف اشارہ ہے.احمدیت کی مٹھاس، جو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں دکھائی گئی ہے، اس میں انفرادی تبلیغ کی طرف اشارہ ہے کہ لوگ پھیلیں گے اور دوسروں کو احمدیت کے متعلق بتائیں گئے.136 مطبوعه روزنامه الفضل 14 دسمبر 1982ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطاب فرموده 17 اکتوبر 1982ء ہم نے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو بارش کی طرح برستے دیکھا خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان ہے کہ اس نے مسجد سپین کے افتتاح کو ہر لحاظ سے انتہائی بابرکت فرمایا اور مختلف رنگ میں اپنے افضال کی بارش نازل فرمائی.اور اس سارے سفر میں ہم نے اس کی رحمتوں کے اور نصرتوں کے نشان دیکھے اور ہماری روحیں اس کی نصرت کے قدم چومتی رہیں.آپ خدام، خدام احمدیت بے قرار ہوں گے کہ اس سلسلہ میں، میں کچھ بیان کروں.کیونکہ محض یہ کہنا تو کافی نہیں کہ فضلوں کی بارش نازل ہوئی.کیسے ہوئی ؟ کچھ دل کو اطمینان تو ہو کہ واقعہ بارش ہی تھی ، کوئی مبالغہ آمیزی نہیں تھی.میرا فرض ہے کہ میں آپ کو بتاؤں، آپ کے ذہن کو بھی تسلی دوں اور آپ کے دل کو بھی تسلی دوں.تا کہ جب آپ واپس جاکر ان یادوں میں کھو کر اپنے رب کی حمد کریں تو دل کی گہرائیوں سے آپ کی حمد اٹھے.ایک عارف کے دل کی طرح آپ کا دل حمد میں محو ہو جائے.محض ایک نظریاتی حمد نہ ہو بلکہ قلبی واردات سے تعلق رکھنے والی حمد ہو.لیکن اس سے پہلے کہ میں آگے کچھ بڑھوں ، میرا یہ مشورہ ہے کہ جو دوست کھڑے ہیں، جہاں تک ممکن ہو، وہ بیٹھ جائیں.سوائے اس کے کوئی جگہ ایسی ہے، جہاں بیٹھنا نا ممکن ہو.وہ بیٹھنے کی کوشش کریں.قناتیں اسی لئے بنائی گئی تھیں تا کہ جو بڑی دیر سے آکر اندر بیٹھے ہوئے ہیں، ان کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پہنچیں.بہت گرمی ہے، اس لئے کنارے کے دوست اول تو ویسے ہی نسبتا ٹھنڈی جگہ کھڑے ہیں.اوپر سے گھیر کر وہ اندر والوں کو گرمی پہنچائیں، یہ ٹھیک نہیں.دوست تشریف رکھیں اور اطمینان سے تقریر سنیں.یہ سارا سفر مختلف رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کا مظہر رہا.بارش ، موسلا دھار بارش کی علامت کیا ہوتی ہے؟ وہ جل تھل کو بھر دیتی ہے.خشکی کو بھی اور تری کو بھی.اور مذہبی اصطلاح میں خشکی سے مراد غیر مذہبی دنیا ہوتی ہے اور تری سے مراد نہ ہی دنیا ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے فرمایا:.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم (42) 137
خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے سے پہلے خشکی بھی فسق و فجور اور عصیان اور بدیوں سے بھر گئی تھی اور تری بھی بھر گئی تھی.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمیں یہ معنی سمجھائے کہ خشکی سے مراد غیر مذہبی دنیا ہے اور تری سے مراد مذہبی دنیا ہے.کل عالم ہی گندہ ہو چکا تھا.جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے.تو ان معنوں میں، میں یہ استعمال کر رہا ہوں.قرآنی محاورہ میں حقیقتا اللہ تعالیٰ کے فضلوں نے خشکی کو بھی بھر دیا اور تری کو بھی.خدا کے فضل حقیقت میں دلوں پر نازل ہوا کرتے ہیں.اور یہ قلب سے تعلق رکھنے والا محاورہ ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کے دلوں میں بھی ہم نے غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضلوں کی بارش برستے دیکھی اور غیر مذہبی دنیا، جو بظاہر مذہب کی طرف منسوب ہوتی ہے لیکن حقیقت میں ان کی بھاری اکثریت خدا کی بھی قائل نہیں رہی، ان کے دلوں پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص قدرت کے ساتھ فرشتے نازل ہوتے دیکھے، جنہوں نے ان کے دلوں کو اسلام کے حق میں مائل کیا.اور خوب کثرت کے ساتھ اور اس شدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوئی کہ آنکھیں اس نظارہ کو دیکھتی تھیں تو نمناک ہو جاتی تھیں، دل خدا کی حمد کے گیت گاتا تھا.یہ ایک لمبا مضمون ہے.یورپ کی جو جماعتیں ہیں، وہ ان حالات میں سے گزری ہیں.ان کو علم ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ ان کے دلوں کو مربوط فرمایا اور دیکھتے دیکھتے ان کے اخلاص میں ترقی دی.وہ چہرے، جو پہلے خاموش خاموش چہرے تھے، ان پر روحانیت کی نئی چمک آنی شروع ہوئی.وہ آنکھیں، جو خشک آنکھیں تھیں، اللہ کی یاد سے تر ہونے لگیں.اور خدا کی یاد میں آنسو بہانے لگیں.ایک ایسا عجیب نظارہ تھا، خدا کے فضلوں سے دلوں کے بھرنے اور پھر ان کے چھلک جانے کا.وہی لوگ اس سے پوری طرح لذت یاب ہو سکتے ہیں، جوان واردات میں سے گزرے ہوں اور جنہوں نے یہ واردات اپنے سامنے گزرتی دیکھی ہوں.اس کی تفصیلات یہاں بیان کرنے کا وقت نہیں.نمونہ وہ لوگ جو اعداد وشمار میں جانچنا جانتے ہیں، ان کے لئے مثال کے طور پر یہ بات رکھتا ہوں کہ بعض ملکوں میں جہاں جماعت خود کفیل نہیں تھی بلکہ تقریباً نصف کے قریب ان کو بیرونی دنیا سے مالی مدد دی جاتی تھی، دویا تین دن کے اندر اندر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس قدر قربانی کی طرف وہ لوگ مائل ہوئے کہ ہم ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچتے تھے تو پیچھے سے مبلغ کی اطلاع آجاتی تھی کہ یہ جماعت اب خود کفیل ہو چکی ہے.اب کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں رہی.138
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطاب فرموده 117 اکتوبر 1982ء پس یہ ہیں اللہ کے فضل، جو قطروں کی طرح نہیں، بارش کی طرح نازل ہوئے ہیں.غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ نے ہر جہت سے، ہر روحانی جہت سے جماعت پر اپنے فضل فرمائے.اور ان کے اخلاص میں غیر معمولی ترقی عطا فرمائی.یہ ایک بہت لمبی داستاں ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا، مجھے سپین کی باتیں کرنی ہیں، اس لئے میں اس کو فی الحال چھوڑتا ہوں.ضمنا یہ بیان کر دوں کہ اس سارے سفر کے دوران غیر مذہبی دنیا میں بھی ہم نے اللہ تعالیٰ کے تصرفات کے عجیب نظارے دیکھے.وہ آنکھیں، جو شروع میں خشونت رکھتی تھیں، وہ نگا ہیں، جو شک سے دیکھ رہی تھیں، ان کے اندر بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں.دشمنی کی نگاہیں دوستی میں بدلیں ، دوستی کی نگاہیں محبت میں بدلیں.اور پریس کانفرنسز کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف فرمایا کہ ہر پریس کانفرنس ایک مذہبی تبلیغ کا ذریعہ بن گئی.اور پھر اس تبلیغ کو بہت سے اخبارات نے اپنے صفحات میں شائع بھی کیا.یہاں تک کہ بعض ایسے اخبارات نے بھی، جو عیسائیت کے نمائندہ تھے، جن کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ یہ تو آئے ہیں، صرف حاضری دینے کے لئے.چونکہ عیسائی دنیا کے نمائندہ ہیں، اس لئے مذہبی باتیں اسلام کے حق میں تو شائع کر ہی نہیں سکتے.اس لئے ان سے توقع نہ رکھی جائے.ایک ایسے ہی اخبار نے سب سے زیادہ شاندار الفاظ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ کی ہے.اور ایسا بھر پور، پر مغز مقالہ لکھا اور احمدیت کی طرف سے دلائل اس رنگ میں پیش کئے کہ جس سے لکھوکھا غیروں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک احسن رنگ میں اسلام کا پیغام ملا.آپ کہیں اور ذرا سوچیں کیا اس میں مبالغہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اسلام کا پیغام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کی جھلکیاں عیسائی اخبار کے ذریعہ لکھوکھا انسانوں تک پہنچ رہی ہوں.اسی کا نام تو بارش ہے.صرف اس پہلو سے آپ دیکھیں تو کروڑ ہا یورپ کے بسنے والوں نے اس آنکھ سے اسلام کو دیکھا، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی محبت کی آنکھ تھی.اس آنکھ - حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کا نظارہ کیا، جو عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد کی آنکھ تھی.اور اس حسن کو محسوس کیا اور اس کی تپش اپنے سینے میں محسوس کی.یہی تو فضل ہیں اللہ تعالیٰ کے، جن پر آپ کروڑوں اربوں روپے بھی خرچ کرتے تو اپنی قوت بازو سے اس کو حاصل نہیں کر سکتے تھے.دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں، جن میں جماعت ہزار ہا بلکہ لاکھوں روپیہ خرچ کر کے بطور اشتہار ہی یہ بات شائع کروانا چاہتی تھی کہ آپ ہمدردی میں نہ سہی، پیسے لیجئے اور اشتہار کی قیمت سے دس گنا زیادہ پیسے لیجئے ، لیکن شائع تو کر دیں کہ پین میں خدا کا گھر بنایا جارہا ہے، سات، آٹھ سو سال کے توقف کے 139
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء بعد لیکن وہ اس کے لئے بھی تیار نہ ہوئے.اور کہاں یہ کہ بعض ایسے اخبارات جن کے چھپنے کی اتنی تعداد ہے کہ بعض بڑے بڑے پسماندہ ملکوں کے سارے اخباروں سے زیادہ اس ایک اخبار کی اشاعت ہوتی ہے، انہوں نے تمام اہل یورپ میں بڑی فراخدلی کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کی ہے.بلکہ بعض اخبار تو ایسے تھے، جو ساری دنیا میں جاتے ہیں.صرف یورپ میں نہیں بلکہ امریکہ میں بھی پڑھے جاتے ہیں.اور بہت سی ایسی چیزیں تھی ، جس کے نتیجہ میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کے فضل بارش کے قطروں کی طرح بلکہ موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح بر سے ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں.اب میں سپین کی طرف آتا ہوں.سپین وہ ملک ہے، جہاں آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی.آٹھ سو سال کا عرصہ، کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا.اور ایسی شاندار حکومت کی کہ اس حکومت کے نتیجہ میں تمام سپین ، تمام مغرب کے لئے روشنی کا مینار بن گیا.عدل و انصاف کو قائم کیا ، انسانی حقوق کو ادا کیا ، مذاہب کے درمیان عدل اور توازن کو قائم کیا.اور ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ تلوار کے زور سے کسی کو مسلمان بنایا ہو.اخلاق حسنہ کے نتیجہ میں اور مواعظ حسنہ کے نتیجہ میں وہاں قبائل کے قبائل مسلمان ہو گئے.آٹھ سو سال کا عرصہ، کوئی معمولی عرصہ نہیں.اس عرصہ میں تو قوموں کی تاریخ بنتی بھی ہے، بگڑتی بھی ہے، پھر بنتی ہے اور پھر بگڑ جایا کرتی ہے.آپ ہندوستان کی گزشتہ آٹھ سو سال کی تاریخ کا مطالعہ کریں، کتنی حکومتیں آئیں.انہوں نے عروج پکڑا، پھر وہ مٹ گئیں، پھر ان کی جگہ دوسری آئیں، پھر انہوں نے عروج پکڑا اور مٹ گئیں.اور یادگار کے طور پر اپنے کھنڈر چھوڑ گئیں.ایک کے بعد دوسری لہر آئی ہے اور انگریز نے جب حکومت کی ہے تو یوں لگتا تھا ، جس طرح ہزاروں سال سے یہ قوم ہم پر مسلط ہے.حالانکہ ان کے پہلے دن کا آنا اور آخری دن کا جانا، حکومت کا عرصہ نہیں.آغاز میں ان کا ادخال اور آخری انجام تین سو سال کے اندر ختم ہو گیا.اس لئے آٹھ سو سال کا عرصہ، کوئی معمولی عرصہ نہیں ہے.لیکن پھر سپین پر ایک ایسی ہیبت ناک رات طاری ہوئی ہے کہ سات، ساڑھے سات سو سال تک اسلام کا نشان کلیپ وہاں سے مٹا دیا گیا.نومسلموں پر اتنے شدید مظالم توڑے گئے اور باہر سے آنے والوں پر کہ کچھ کو تو دھکیل کر سمندر سے باہر یہ کہہ کر بھجوایا گیا کہ سمندر کے رستے جہاں سے تم لوگ آئے تھے، وہاں واپس چلے جاؤ.اور ان جہازوں کو عین وسط سمندر میں ڈبودیا گیا.اور ایک بھی ان میں سے بیچ کر اپنے وطن کو واپس نہیں جاسکا.اور پھر جو پیچھے تھے، ان کو گھیر کر جس طرح پرانے زمانہ میں بادشاہ شکار کیا کرتے تھے ہرنوں کا یا جس طرح بابر نے شکار کیا، تزک بابری میں لکھا ہوا ہے اور بھی ایسی کتابوں میں پرانے زمانہ کے شکار کا ذکر ملتا ہے کہ فوج گھیرا ڈال کر ایسے اندر 140
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء کونوں میں شکار کو اکٹھا کر دیا کرتی تھی، جہاں سے آگے نکل بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا تھا.پھر اچھے شکاری کی ضرورت نہیں ہے.جس طرف بھی گولی چلتی تھی، کوئی نہ کوئی شکار اس کے نتیجہ میں پھڑک رہا ہوتا تھا.ویسا ہی حال مسلمانوں کا کیا گیا.مختلف قصبوں سے گھر گھیر کر ان پر ان کی زمین تنگ کرتے چلے گئے.اور ہر جگہ جہاں ان کا قبضہ ہوا، وہاں سے انتہائی مظالم کے ساتھ مسلمانوں کو نکال کر دوسرے قصبوں میں دھکیلا گیا.یہاں تک کہ جب وہ گھیر الکمل ہو گیا اور سمندر کی لہروں کے سوا اور کوئی چیز ان کی نجات کے طور پر نہ رہی ، اس وقت انہوں نے ان کے ساتھ یہ دھوکا کیا کہ جولڑنے والے بیرونی سپاہی تھے، ان سے تو یہ کہا کہ ہم تمہیں جان کی امان دیتے ہیں، یہ جہاز لو اور یہاں سے رخصت ہو جاؤ.اور جو بقیہ ان کی قوموں کے نو مسلم لوگ تھے ، ان کو قتل وغارت کے ذریعہ بہیمانہ طریق پر اس طرح ختم کیا گیا کہ ایک بھی اسلام کا نام لینے والا نہیں رہا.ہزارہا مساجد یا ان کے کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں.ان میں سے کچھ گر جوں بلکہ بیشتر گرجوں میں تبدیل ہو گئیں.اس کے باوجود آج تک مسلمانوں کی سینکڑوں مساجد پھیلی پڑی ہیں.سینکڑوں قلعے پھیلے پڑے ہیں، جوخالی اور ویران ہیں اور کھنڈروں میں تبدیل ہو چکے ہیں.غرناطہ کے قلعہ کی سیر کی جائے، جس کا نام الحمراء ہے تو ایک ایک قدم پر دکھ ہوتا ہے.اس طرح وہ پرانی یادوں سے بھرا پڑا ہے کہ وحشت ہونے لگتی ہے، اسے دیکھ کر.ایک طرف اس میں بے پناہ حسن ہے، جو نظر کوکھینچتا ہے اور دل کو جذب کرتا ہے.دوسری طرف اتنا دکھ اور درد ہے کہ اس سے انسان کا انگ انگ دکھنے لگتا ہے.صنعت کاری کے حیرت انگیز نمونے ہیں.اتنا عظیم الشان قلعہ ہے اور اتنی حیرت انگیز محنت کے ساتھ ایسی باریک نظر سے صنعت کاری کی گئی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ان لوگوں کو جرات کیسے ہوئی کہ اتنے باریک کام کو ہاتھ میں لیں اور اتنے عظیم الشان قلعے کی دیواروں کو ہر طرف سے ان عبارتوں سے سجادیں.باریک ہاتھ سے لکھی ہوئی عبارتیں ہیں، جو کلیۃ اللہ کے نام پر بنی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات پر مبنی ہیں.کوئی اور ذکر وہاں نہیں ملتا، سوائے اس کے کہ وہاں بعض بادشاہوں کا نام ملتا ہے کہ ان کے زمانہ میں یہ لکھا گیا.القدرة الله العزة لله قلعہ کی دیواروں کے چاروں طرف ارب ہا ارب دفعہ پتھروں میں باریک ہاتھوں سے یہ کھدائی کی گئی ہے.اور ایسے خوبصورت رنگ جمائے گئے ہیں کہ آج تک امتدادزمانہ کے باوجود مئے نہیں.وہاں مسلمانوں کے لئے دکھ کی یادیں ہیں اور اہل سپین کے لئے یہ خطرات کہ یہ یادیں کہیں دوبارہ عالم اسلام کو اس طرح نہ کھینچیں کہ یہ ہم سے انتقام لیں اور دوبارہ ہمیں فتح کرنے کے منصوبے بنائیں.141
خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم پس جہاں وہ یادیں ایک طرف مسلمانوں کو کھینچتی ہیں، وہاں مسلمانوں کو رد کرنے کے لئے ایک مقابلا نہ لہر بھی اہل سپین کے دل میں پیدا کر رہی ہیں، خوف پیدا کر رہی ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کیوں آتے ہیں؟ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ سپین کو دوبارہ فتح کرنے کا منصوبہ بنا کر اہل اسلام چلے آئیں.ایک یہ پس منظر اور ایک اور پس منظر یہ ہے کہ سپین عیسائی دنیا میں سب سے زیادہ متعصب فرقہ سے تعلق رکھنے والا ملک ہے.رومن کیتھولک عیسائی فرقہ نہایت متعصب فرقوں میں شمار ہوتا ہے.یعنی ویسے تو رومن کیتھولکس سب سے زیادہ اور آرتھوڈوکس عیسائی ہیں.لیکن سپین کے رومن کیتھولک پر بعینہ وہ مثال صادق آتی ہے کہ کریلا اور نیم چڑھا.پین وہ ملک ہے، جہاں مذہبی تعصب نے اتنی شدت اختیار کی کہ دنیا میں سب سے زیادہ مذہب کے نام پر جہاں مظالم توڑے گئے ہیں ، وہ ملک پین ہے.Inquisition کی انسٹی ٹیوشن یعنی مذاہب کی بناء پر مظالم توڑنے کا کارخانہ قائم کرنا، یہ پین کی ایجاد ہے.اور پہین کی یہ ایجاد غیر مذاہب کے لیے نہیں تھی خود عیسائیوں کے لئے تھی.یعنی مذہب میں ان کی شدت کا اندازہ کریں اور سخت دلی کے حال کا اندازہ کریں کہ جن یہود کو وہ ظالم کہا کرتے تھے، ان سے اپنے مظالم میں کئی گنا زیادہ بڑھ گئے.یہود نے تو ایک صلیب دی تھی، یہاں روزانہ ہزاروں صلیبیں اور اس سے بڑھ کر تکلیفیں دی جاتی تھیں.یہاں تک کیفیت تھی کہ جب میں انگلینڈ میں پڑھا کرتا تھا، ہم نے مادام توسو میں سپین کی Inquisition کے وہ آلات دیکھے، جن کے ذریعہ عیسائیوں کو دکھ دیا کرتے تھے.اس جرم میں کہ انہوں نے مذہب کے خلاف یا کسی پادری کے خلاف یا کسی ظالم بشپ کے خلاف اظہار رائے کیا ہے.ایسے ایسے خوفناک آلے ایجاد ہو گئے تھے کہ ان آلوں کو دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.کئی عورتیں اور بچے ، جود دیکھتے تھے، ان کی چیخیں نکل جاتی تھیں، ان کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی تھی.اتنا زور پڑا، اس ادارے پر، جس نے وہ آلے رکھے ہوئے تھے کہ آخر وہ آئے ان کو وہاں سے اٹھانے پڑے.اوپر بڑے بڑے بورڈ لگے ہوئے تھے کہ کمزور دل عورتیں اور بچے وہاں نہ جائیں.وہ اس قسم کے خوفناک آئے تھے.وہ تو لمبی کہانی ہے.مثلاً آنکڑے کا پہیہ ہوتا تھا ، جس طرح ہمارے ہاں پرانے زمانے میں کنوؤں میں سے پانی نکالنے کا انتظام ہوتا تھا، ٹنڈیں لگی ہوئی ہوتی تھیں، اس طرح اس کے اوپر آنکڑے لگے ہوئے ہوتے تھے، ان کے اوپر انسان کو الٹا کر کے کس دیا جاتا تھا.اور اس کو آہستہ آہستہ اس طرح گھماتے تھے کہ وہ جب دائیں یا بائیں یا نیچے جاتے تھے تو سارا بوجھ اس آنکڑے کا جلد پر آجاتا تھا.وہ اور اندر گھتے تھے اور زخمی جسم کو اور تکلیف پہنچاتے تھے.اور و مسلسل اس حالت میں وہ چکر دیتے چلے جاتے تھے.اور اگر وہ دیکھتے تھے کہ غنودگی آگئی ہے، بے ہوشی طاری ہونے لگی ہے تو 142
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء کوڑے مارنے والے ساتھ کھڑے ہوتے تھے.بڑی بڑی بوتلوں میں اس طرح بند کر دیا جاتا تھا کہ وہ ہاتھ اور پاؤں ٹیڑھا کرنے کی گنجائش نہیں پاتے تھے.صرف سانس کے لئے کارک میں سوراخ رکھا جاتا تھا تا کہ مر نہ جائے.اور انتہائی اذیت میں وہاں وہ آدمی اسی طرح کھڑا رہتا تھا اور سسک سسک کر مدتوں کے بعد جان دیتا تھا.اور جب تک وہ اس جرم کا اقرار نہیں کر لیتا تھا، جو جرم اس نے نہیں کیا ہوتا تھا، اس وقت تک اسے یہ سزا اس لئے ملتی تھی کہ Confess کرے.یعنی اقرار جرم کرے.اور جب وہ Confess کر لیتا تھا تو کہتے تھے، دیکھا جھوٹے اب سمجھ آئی تمہیں.اب تمہیں اس کی سزا ملے گی.یعنی پہلے زبردستی جھوٹ بلوا کر اس سے اس جرم کا اقرار کر وایا جاتا تھا، جو اس نے کیا ہی نہیں تھا.پھر اس کے بعد اس جرم کی سزا دی جاتی تھی، جو اس بیچارے نے اس پہلے ظلم سے تنگ آکر مان لیا ہوتا تھا.میہ وہ ملک تھا، جہاں مسجد احمد یہ یا اسلامی مسجد بنانے کے لئے پہلی مرتبہ حضرت خلیفة المـ الثالث تشریف لے گئے.جب حضور پہلی دفعہ وہاں گئے تو اس وقت بھی ابھی پین میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی.ایسی شدید مذہبی حکومت وہاں قائم تھی کہ جس کے نتیجہ میں غیر عیسائی فرقوں کو بھی وہاں چرچ بنانے کی اجازت نہیں تھی.جہاں تک میر اعلم ہے، ابھی تک غالبا رومن کیتھولکس کے سوا اور دوسرے چرچ وہاں نہیں ملیں گے.وہاں حضور نے دعائیں کیں، وہاں گریہ وزاری کی، اللہ تعالیٰ سے التجائیں کیں کہ اے اللہ تعالی ! وہ پاک تبدیلی فرمادے کہ ہماری در بینہ تمنائیں برآئیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے چند سال کے اندراندرحکومت میں انقلاب آیا اور پہلی دفعہ وہاں جمہوری حکومت قائم ہوئی.جس نے مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا.ان حالات میں وہاں سپین کی مسجد بنی.لیکن جو لوگ صدیوں سے مذہبی تعصبات کا شکار ہوں، وہ ایک یا دو دن میں یا ایک یا دو سال میں تو نہیں بدل جایا کرتے.چنانچہ جب ہم وہاں مسجد کے افتتاح کے لئے گئے تو ہمارے یورپین احمدی بڑے فکر مند تھے، وہ کہتے تھے ، حکومت نے اجازت تو دے دی ہے، افتتاح بھی ہوگا.لیکن اہل اسپین کو ہم جانتے ہیں.ہم یورپین ہیں، ہمیں ان کے مزاج کا پتہ ہے.وہ اسلام کے لئے اپنا دل نہیں کھول سکتے.یہ ماہر انسانوں کی رائے تھی.لیکن جب ہم وہاں گئے ہیں تو حیرت انگیز انقلاب دیکھا ہے.اتنا عظیم الشان استقبال ہوا ہے احمدیت کا کہ آپ کے یعنی ان کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا، جو وہاں نہیں گئے.ہر احمدی جو وہاں جاتا تھا، خواہ وہ امریکہ سے آیا ہو یا انڈونیشیا سے یا جاپان سے یا کسی اور ملک سے، اس کا چہرہ دیکھ کر پہچان لیتے تھے کہ یہ کس لئے آیا ہے.اور بڑی خوشی سے اس سے ملتے تھے اور کہتے تھے، تم پید رو آباد ماسکی تا (Mazquita) جانے کے لے آئے ہو.اور اس کے بعد وہ خوشی کا 143
خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اظہار کرتے تھے.یہاں تک کہ بعض دفعہ جب ہمارے دوست سپینش بچوں کے پاس سے گزرتے تھے تو بچے محبت کے اظہار کے طور پر لا اله الا الله لا اله الا الله پڑھنے لگ جاتے تھے.لا الہ الا اللہ کی آواز بڑی پیاری ہے.لیکن عیسائی مشرکین اور پھر رومن کیتھولک اور مشرکین، پھر سپینش رومن کیتھولک بچوں کے منہ سے جب لا الہ الا اللہ کی آواز آتی تھی تو ایسا سرور آتا تھا، ایسا دل کھل جاتا تھا، نشے میں کہ اس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا، جس نے وہ آواز خود اپنے کانوں سے نہ سنی ہو.ہم تھوڑی دیر کے لئے وہاں ساتھ کا گاؤں پید رو آباد ہے، وہ دیکھنے کے لئے گئے.چند منٹ کے لئے خیال تھا کہ نظر ڈال لیں ، وہ گاؤں کیسا ہے؟ تو وہاں ایک میلہ سا لگا ہوا تھا.جب ہم داخل ہوئے ہیں تو بہت سارے بچے جو زرق برق لباس میں ملبوس تھے، انہوں نے ہمیں دیکھا اور سوال نہیں کیا.انہیں تو ہماری زبان آتی نہیں تھی.صرف ایک کلمہ سیکھا ہوا تھا.تو انہوں نے کہا، لا اله الا اللہ یعنی تم وہی ہو ، لا الہ الا اللہ والے؟ ہم نے کہا ، لا الہ الا اللہ.اس پر انہوں نے بڑی خوشی سے کہنا شروع کر دیا، لا اله الا الله لا اله الا الله عجیب کیفیت تھی.لیکن پید رو آباد ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، اس کے اردگرد کے ماحول میں معمولی سی تبدیلی آنا تو آپ سمجھتے ہوں گے کہ تعجب کی بات نہیں.مگر سارے پین میں، سارے اندلس میں یہ تبدیلی تھی.اندلس کے ہر شعبہ زندگی میں یہ تبدیلی تھی.پین کی پولیس کسی زمانہ میں اپنی تختی میں مشہور تھی.اور مجھے بھی اس کا تجربہ ہوا ہے.میں جب 1957ء میں پہلی دفعہ غرناطہ میں الحمراء دیکھنے گیا تو وہاں کے مبلغ نے مجھے اتنا ڈرایا ہوا تھا کہ یہاں جیب کترے ہیں، جیبیں کاٹی جاتی ہیں، ڈاکومنٹس (Documents) چوری ہو جاتے ہیں کہ میں اپنا پاسپورٹ گھر جان کر چھوڑ کے آیا.انہوں نے ڈرا تو دیا، یہ بتانا بھول گئے کہ یہاں پولیس اتنی سخت ہے کہ اگر پاسپورٹ کے بغیر پکڑا جائے تو اسی وقت اس کو قید کر دیتے ہیں.چنانچہ میں گاڑی میں ابھی بیٹھا ہی تھا، میر محمود احمد صاحب بھی میرے ساتھ تھے تو پولیس والا آیا.ہمیں اس کی زبان تو آتی نہیں تھی.اس نے کہا، کا شیح ؟ کارڈ دکھاؤ ؟ میں نے کہا، میرے پاس تو کوئی نہیں ہے.اس نے کہا، اچھا آجاؤ، پھر میرے ساتھ.اب اس بیچارے کو قید خانہ کوئی ملے نہ گاڑی میں.اور چھ سات گھنٹے کا سفر تھا.اب وہ میرے ساتھ بیٹھ کر یہ یہ 144
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء سارا عرصہ خود پابند ہو کر نہیں گزارنا چاہتا تھا.وہ ذرا آرام طلب لوگ ہیں.ہم تو تھرڈ کلاس میں تھے.اس کو فرسٹ کلاس کا ایک خالی ڈبہ ملاء اسی میں اس نے مجھے قید کر دیا.میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ بڑی اچھی قید ہے، فرسٹ کلاس کی سیٹ پر میں نے بڑے مزے سے سفر طے کیا.وہاں جا کر تھانے میں جا کر بیٹھ گئے.اس کو میں نے پھر آخر کہا، بلاؤ تو کسی ترجمان کو.انہوں نے ایک ترجمان بلایا.ایک امریکن ہوٹل میں کام کرتا تھا.اس کو میں نے کہا، تم لوگ بڑے عجیب ہو.ہم تو سمجھتے تھے، بڑے مہمان نواز لوگ ہیں.اچھا تم نے ہمیں الحمراء دکھایا ہے کہ تھانے لا کر بٹھا دیا.تو تھانے دار نے شفقت کی کہ میر محمود احمد صاحب سے کہا کہ تم اپنا پاسپورٹ چھوڑ جاؤ اور تم دونوں جا کر سیر کرو.اور ہماری نگرانی بھی ہوئی اور ہم نے اسی نگرانی میں سیر کی.واپس آنے تک معاملہ صاف ہو گیا تھا.کرم الہی صاحب ظفر کو ہم نے پیغام بھیجا تھا، انہوں نے وہاں منسٹری میں جا کر شور ڈالا تو بڑی سختی سے وہاں سے تھانے دار کو فون آیا اور چونکہ پولیس سٹیٹ تھی.پولیس افسروں سے خود پولیس بڑا ڈرتی تھی.تو میں نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ فون پر ادھر سے کوئی افسر بڑی تیزی سے بول رہا تھا اور وہ تھانے دار صاحب ڈر کے مارے بار بار مجھے سیلوٹ کرتے جارہے تھے.خیر ایک وہ وقت بھی تھا.ایک یہ وقت آیا کہ پین کی پولیس کو ہم نے ایک اور روپ میں دیکھا.اور سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے دلوں میں وہ تبدیلی پیدا کی ہو، یہ ناممکن ہے کہ ایک حکومت کی پولیس اس طرح غیر معمولی طور پر محبت کا اظہار کرے.جس وقت ہم وہاں پہنچے ہیں، اس وقت لے کر آخر وقت تک پولیس افسران ہماری حفاظت کے لئے آگے بھی چل رہے تھے، پیچھے بھی چل رہے تھے.اور ایسا عجیب انتظام تھا کہ ایک ریاست سے جب دوسری میں جاتے تھے تو وہاں آگے پولیس کی کاریں کھڑی ہمارا انتظار کر رہی ہوتی تھیں.اور وہ Take Over ( ٹیک اوور کرتی تھیں اور سلام کر کے پھر پہلی پارٹی اجازت لیتی تھی.اور ایک مستقل پارٹی ساتھ رہتی تھی.صرف یہ حفاظت نہیں کر رہے تھے، حیرت انگیز محبت کا اظہار تھا.✓ ( مطبونه روزنامه الفضل 30 جون 1983ء) جب ہم غرناطہ پہنچے ہیں تو دو واقعات ایسے ہیں، جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں کیسی تبدیلی پیدا کردی؟ ایک پولیس آفیسر صاحب جو ہمارے ساتھ تھے، وہ موٹروں کے دروازے کھولتے تھے ، جس طرح ڈرائیور کھولتے ہیں.اور رات کو جب ہم جدا ہوئے ، قریباً بارہ ، ایک بح گئے تھے.غالباً ایک بجے کی بات ہے.پریس کانفرنس بھی ہوئی ، لمبا عرصہ ہو گیا تھا، وہ صاحب ہٹتے ہی 145
خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم نہیں تھے، میرے دروازے کے سامنے سے.میں نے اپنے ترجمان دوست کے ذریعہ اس کو کہلوایا کہ آپ تھک گئے ہوں گے، آپ واپس چلے جائیں.انہوں نے کہا، نہیں اس طرح نہیں جاؤں گا.پہلے مجھ سے وعدہ کریں کہ صبح الحمراء دیکھنے کے لئے اپنے کمرہ سے نہیں نکلیں گے، جب تک میں نہ آ جاؤں.اور مجھے وقت بتادیں، میں اس وقت پہنچ جاؤں گا.میں نے وقت بتایا.اگلے روز دروازہ کھلا تو وہ باہر کھڑے تھے.ایسی حیرت انگیر محبت کا اظہار تھا.میں نے سمجھا، یہ کوئی معمولی آدمی ہو گا.چھوٹے افسر بھی ہوتے ہیں.اس آخری بچارے کو شاید ہدایت ہو اس طرح کی.بعد میں پتہ لگا کہ اس شہر کے وہ اسٹنٹ پولیس کمشنر تھے.آخر پر جب ہم جدا ہونے لگے اور پریس والوں نے میرے تاثرات پوچھے تو میں ان سے کہا کہ اس شہر کو میں نے دو دفعہ دیکھا ہے.دونوں دفعہ پولیس کے ڈی Police custody میں دیکھا ہے.ایک دفعہ اس طرح دیکھا کہ پولیس مجھے مجرم سمجھ کر بیرونی دنیا کی مجھ سے حفاظت کر رہی تھی اور آج اللہ کے فضل سے اس طرح دیکھا ہے کہ دنیا کو مجرم سمجھ کر میری حفاظت ہو رہی تھی.ان سے میں نے کہا، میں تو بحیثیت انسان وہی شخص ہوں.اسی طرح کا انسان ہوں ، کوئی تبدیلی میرے اندر پیدا نہیں ہوئی.یعنی میرا نام بھی وہی ، ذات بھی وہی ، مزاج بھی وہی تعلیم بھی وہی.کیا فرق پڑا ہے؟ صرف اور صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی برکت ہے کہ جن کی نمائندگی میں ، میں اس دفعہ پین گیا تھا اور ایسی حیرت انگیز طور پر کا یا پلٹ گئی.وہاں جب ہم غرناطہ پہنچے ہیں تو پریس کا حال یہ تھا کہ جاتے ہی پہلے ہمیں ہوٹل میں داخل ہوتے ہی ایک آواز آئی، اهلا وسهلا و مرحباً.ہم نے حیرت سے پوچھا، یہ اھلا و سھلا کہنے والے کون ہیں؟ تو پتہ لگا کہ پریس کے نمائندے انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ الفاظ سیکھے ہیں، آپ کو خوش آمدید کہنے کے لئے.جب پریس انٹرویو شروع ہوا تو جس طرح ہمیں باقی پریس کے ساتھ واسطہ پڑتا رہا ہے اور مختلف ملکوں میں پریس کا تصور مختلف ہے.بعض جگہ اچھے پریس کی علامت ہے کہ سو فیصدی جھوٹ بولا جائے.اور یہ علامتیں اور یہ تعریفیں بدلتی جاتی ہیں.کہیں نوے فیصدی جھوٹ آجاتا ہے، کہیں اسی فیصدی آجاتا ہے، کہیں ستر فیصدی.چنانچہ پین میں جو دوسرا پریس انٹرویو ہوا، اس میں انہوں نے ہمارے متعلق ایک لفظ جھوٹ نہیں بولا.ہر وہ بات نمایاں طور پر بیان کی ، جو کہ اسلام کی تائید میں تھی.اور دوسرے دن کے پرچے دیکھ کر ہم حیران رہ گئے کہ اگر کوئی احمدی پریس نمائندہ ہوتا تو اس سے بہتر وہ ہمارے انٹرویوکو شائع نہیں کر سکتا تھا.غرناطہ سے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والے اخباروں نے ہمارا چرچا کیا اور اس اعلان کی سرخیاں 146
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء 攀攀 لگائیں کہ پین نے اسلام کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں.یہی نہیں بلکہ جب وہ انٹر ویو لے کر انٹرویو کر رخصت ہوئے تو ضمناً انہوں نے ہم سے پوچھا کہ آپ کا پروگرام کیا ہے؟ آپ نے الحمراء بھی دیکھنا ہوگا ؟ ہم نے کہا، ہاں ضرور دیکھنا ہے.انہوں نے کہا، اندازاً آپ کسی وقت جائیں گے ؟ ہم نے بتایا کہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک وہاں ہوں گے.وہ پریس کے نمائندے پھر وہاں بھی پہنچے ہوئے تھے.اور اس طرح ساتھ ساتھ پھرتے رہے کہ ہمیں دیکھنے کے لئے جو ہجوم اکٹھے ہو جاتے تھے ، ان کو ہماری تبلیغ کرتے رہے.وہ اپنی زبان میں ان کو بتاتے رہے کہ یہ کیا ہے؟ اسلام کیا ہے؟ اور یہ کیا کہنے آئے ہیں؟ اور کیا لے کر آئیں ہیں؟ اور خدا تعالیٰ نے فضل کیا، پہلے تو ہمارے پاس صرف ایک، دو مترجم تھے، یہ دو، چار مترجم بھی ساتھ شامل ہو گئے.آخر پر جب ہم جدا ہونے لگے تو وہ کہنے لگے ہمیں بتائیں ، آخری پیغام دیں، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کوئی ایک فقرہ بتائیں، جس میں یہاں آنے کی غرض کا خلاصہ آجائے.میں نے ان سے کہا کہ ایک فقرہ تو پھر میرے دل میں یہ آ رہا ہے کہ جو چیز اہل پین نے اسلام سے تلوار کے زور سے چھینی تھی ، ہم محبت کے زور سے دوبارہ فتح کرنے کے لیے آگئے ہیں.چنانچہ دوسرے دن کے اخباروں میں یہی عنوان لگا ہوا تھا.انہوں نے نمایاں کر کے یہ اعلان لگایا کہ اہل سپین نے اسلام سے جو تلوار کے زور سے چھینا تھا، آج اسلام کے نمائندے محبت کے زور سے دوبارہ اس کو واپس لینے کے لئے آگئے ہیں.دوسرے دن جب ہم واپس روانہ ہونے لگے تو ہمارا پروگرام یہ تھا کہ صبح جلدی روانہ ہوں گے.خیال یہ تھا کہ گیارہ ، ساڑھے گیارہ بجے تک قرطبہ پہنچ جائیں.وہاں مسجد بھی دیکھنی تھی.اس کے بعد تو پھر اتنی مصروفیت تھی ، ناممکن تھا باہر نکل کر ہم کوئی چیز دیکھ سکتے.تو خیال یہی تھا کہ پہلے دن غرناطہ، دوسرے دن واپسی پر قرطبہ کی مسجد دیکھیں گے اور اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے شمار وہاں کام تھے، جو کرنے والے تھے.لیکن روانگی میں دیر ہورہی تھی.میں نے پتہ کیا، یہ دیر کیوں ہو رہی ہے؟ تو مجھے یہ بتایا گیا کہ پولیس کہتی ہے، جس رستہ سے آپ نے گزرنا ہے ، اس رستہ پر رش بڑا ہوتا ہے.اس لئے جب تک ہم وہاں کی ساری ٹریفک بند نہ کر الیں اور رستہ خالی نہ کرالیں ، ہم آپ کو لے کر نہیں چلیں گے.پس یہ جو حالات ہیں، جو عقل میں آہی نہیں سکتے.کیونکہ ہر جگہ ہم نے انتہائی سچائی کے ساتھ اپنی حقیقت سے ان کو آگاہ کر دیا، کوئی چیز چھپا کر نہیں رکھی.ہر جگہ جاتے ہی جو پریس انٹرویو ہوا، اس میں ہم نے اہل سپین کو بتایا کہ ہم وہ لوگ ہیں، جو اپنے ملک کے نزدیک بھی مسلمان نہیں کہلاتے.ہم آئے تو ہیں اسلام کی نمائندگی میں لیکن کوئی لگی لپٹی نہیں رکھنا چاہتے.تمہارا اسلوک ہم سے کیا ہو؟ یہ تمہاری مرضی ہے.147
خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء - تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم لیکن ہم سچائی کے اظہار سے باز نہیں آئیں گے.ہم وہ کمزور جماعت ہیں، اتنی کمزور جماعت کہ جن کو اپنے ملک میں بھی آزادی ضمیر کا حق نہیں ہے.ہمیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا حق نہیں دیا جا رہا.یہ نہ سمجھنا کہ بڑے بڑے اسلامی ممالک اور بڑے بڑے طاقتور ممالک کے نمائندے بن کر آئے ہیں، اس لئے تم عزت کا سلوک کرو.ہم تو خاکسار لوگ ہیں ، ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.ہم تو بے بس اور بے چارے لوگ ہیں، اس لئے یہ سمجھ کر ہم سے جو سلوک کرنا ہے، وہ کرو.لیکن دنیاوی حکومتوں کا نمائندہ سمجھ کر کوئی سلوک نہ کرنا.ہم صرف اور صرف اپنے رب کے نمائندے ہیں اور صرف اور صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندے ہیں.پس یہ اسی رب کے جلوے تھے، جس نے دلوں میں یہ پاک تبدیلی پیدا کی.اس محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن تھا، جس نے دل جیتے ہیں.ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں.ہر جگہ پیار اور محبت کے آثار حیرت انگیز طور پر دیکھنے میں آئے.یہاں تک کہ جو احمدی باہر سے ملنے آتے تھے ، وہ حیران اور ہرکا بکا رہ جاتے تھے.اور بیان کرتے کرتے بعض دفعہ درد کی وجہ سے ان کی آواز میں روندھی جاتی تھیں کہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ ہم سے ہو کیا رہا ہے؟ افریقوں نے یہی کہانی بیان کی ، انڈو نیشینز نے یہی کہانی بیان کی، جرمنوں نے یہی کہانی بیان کی اور انگلستان سے آنے والوں نے یہی کہانی بیان کی.امریکہ سے آنے والوں نے ، کینیڈا سے آنے والوں نے بھی.غرض جس نے بیان کیا، یہی بیان کیا کہ جب سے ہم پہنچے ہیں ، ایسی محبت کا سلوک ہو رہا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم سے ہوا کیا ہے؟ گویا کہ ہم شاہی مہمان ہیں.ایک ہوٹل میں احمدی ٹھہرے ہوئے تھے ، وہاں کے دوست آئے.انہوں نے کہا، ہمیں تو سمجھ نہیں آتی ہوا کیا ہے؟ ہوٹل والے نے اپنا سارا ساز و سامان نکال کر ہمارے سپرد کر دیا.نہ کچن ، نہ اپنے کمرے رکھے ،سب کچھ دے دیا ہے کہ تم مزے سے رہو.اپنا گھر سمجھ کر ر ہو.تقریبات کا جو منظر ہے، وہ نا قابل بیان ہے.خاصا گرم ملک ہے اور اوپر سے شامیانے.اور وہ دن خاص طور پر تھا بھی گرم.بے حد تکلیف میں لوگ بیٹھے ہوئے تھے.اوپر سے ایک لمبا پر وگرام ، جس میں پہلے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر اور پھر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی تقریر، اس سے پہلے لبی تلاوت اور ایک لمبی نظم اور پھر ساتھ ساتھ ان کے ترجمے، یعنی جو دو گھنٹے کا پروگرام ہو، وہ چار گھنٹے میں جا کر ختم ہو.اور پھر بیچ میں کرم الہی صاحب کی بھی تقریر، پھر آخر پر میری تقریر تھی.مجھ پر یہ تاثر تھا کہ جب تک میرے کچھ کہنے کی باری آئے گی، صرف احمدی بیٹھے رہ جائیں گے، باقی سب جاچکے ہوں گے.حقیقت میں 6 148
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء یہی سمجھ رہا تھا.لیکن میں اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھ رہا تھا.میں نے کہا کہ اے خدا! ان کو پیغام پہنچنا ہے، خواہ ظفر اللہ خان کی زبان سے پہنچے یاڈاکٹر سلام کی زبان سے پہنچے.پیغام اسلام تو پہنچ رہا ہے.میں اس پر بڑا راضی ہوں.لیکن حیرت کی انتہا نہ رہی، جب دیکھا کہ آخر وقت تک سب لوگ بیٹھے رہے.اور اہل پین کے مزاج کو جو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہ بے انتہاء باتیں کرنے والی قوم ہے اور زیادہ دیر بیٹھ ہی نہیں سکتے.وہ ادھر ادھر پھرنے لگ جاتے ہیں، خوب باتیں کرتے ہیں.پھر وہ بہت بیج کھاتے ہیں اور ہر وقت خربوزوں یا تربوزے کے بیج کھاتے رہتے ہیں.ان کی توجہ زیادہ بیج کی طرف ہی رہتی ہے.وہاں سارے ہزاروں کے مجمع میں کسی نے بیچ نہیں کھایا، کسی نے باتیں نہیں کیں.اور اس خاموشی سے تقریرینی ہے کہ تقریر کے دوران اگر کوئی بچہ بھی بولتا تھا تو ساتھ بیٹھا ہوا آدمی اس کو خاموش کر ادتیا تھا.اور مسجد کا صحن بھر گیا، اس سے باہر شاہراہ تھی، اس سے باہر لوگ کھڑے تھے.گاؤں الہ آیا تھا اور بہت دور دور سے بعض لوگ پہنچے ہوئے تھے.بعد میں جب ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہوئی ہے؟ آپ کس طرح تشریف لائے ؟ یعنی بعض احمدی دوستوں نے ان سے مل کر سوال کئے تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے تو ریڈیو پر اور ٹیلی ویژن پر یہ خبریں سنی تھیں، ہمیں تو کوئی دعوت نامہ نہیں پہنچا.یعنی ریڈیو کانظام بھی اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ مسلسل پروپیگنڈا کر رہا تھا.باوجود اس کے کہ ہم ان کو یہ بتا چکے تھے کہ یہاں ہماری کل تعداد میں ہے.آپ اندازہ کریں کہ ایک غیر ملک میں، ایک عیسائی ملک میں تمہیں کی تعداد کا کوئی دعویدار ہو، اس کے ساتھ یہ سلوک کہ مسجد بشارت سپین کی افتتاحی تقریب کو تقریباً ایک ہفتہ تک سپنیش ٹیلی ویژن میں دن میں تین ، تین بار دکھاتی رہی.اپنے ہی خرچ پر انہوں نے باقی جو نظام ہیں، یعنی دنیا کے ٹیلی ویژن کے نظام ہیں، ان کو بھی بھجوائی.اس سے پہلے سوئٹزر لینڈ کے ایک احمدی نے مجھے یہ کہا کہ آپ کو پلیٹی پر خرچ کرنا پڑے گا.ورنہ ہماری تقریب کا کسی کو پتہ نہیں لگنا.میں نے کہا، ہمارے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں.پہلے ہی بہت پیسے خرچ ہو چکے ہیں.اس لئے نہیں ہوتی پہلیٹی تو نہ ہو.اللہ تعالیٰ ذمہ دار ہے، ہم کوئی ٹھیکیدار تو نہیں لگے ہوئے.جس کا کام ہے، وہ جانے.وہ واقعہ میرے ذہن میں آیا کہ جب خانہ کعبہ پر حملہ کیا گیا ، اصحاب فیل حملہ آور ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب عرب کے روساء میں سے وہ شخص تھے، جن کو نمائندہ بنا کر ان کے پاس بھجوایا گیا.ابرہہ کے پاس نمائندگی کے طور پر ان کو بھجوایا گیا کہ وہ کسی طرح اس کو سمجھا بجھا کر باز رکھیں.یہ بڑی مقدس جگہ ہے ، تم اس کی تحقیر نہ کرو.وہ گئے اور انہوں نے اپنے اونٹوں کی کی 149
خطاب فرموده 117 کتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم باتیں شروع کر دیں.یعنی خانہ کعبہ کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا.کہا تو بس یہ کہ میرے سو اونٹ تھے ، ان میں سے اتنے چوری ہو گئے.تمہارے لشکر والوں نے چوری کئے ہیں.اور میں سردار ہوں، اس لئے تم میرے اونٹ واپس کرواؤ.تم اچھے بادشاہ ہو، جو پرانے سرداروں کی عزت کا کوئی خیال ہی نہیں کرتے.میرے اونٹ واپس کرو.وہ چپ کر کے بات سنتا رہا.اس کے بعد اس نے کہا کہ آج میں تم لوگوں سے بڑا ہی مایوس ہوا ہوں ، تم ایسی بے غیرت قوم ہو کہ اس وقت تمہیں اپنے اونٹوں کی فکر ہے.حالانکہ اہل کعبہ کا نمائندہ بن کر آئے ہو اور اس کعبہ کی کوئی فکر نہیں، جس کو مسمار کرنے کے لئے میں اتنا بڑ الشکر لے کر آیا ہوں.اس نے کہا، میں اسی سوال کا انتظار کر رہا تھا.دیکھو، میں اونٹوں کا مالک ہوں ہم نے اندازہ کر لیا ہے کہ مجھے اپنے اونٹوں کی کتنی فکر ہے؟ اس خانہ کعبہ کا میرا رب مالک ہے، وہ فکر کرے گا اپنے گھر کی.تو میں نے یہ سوچا کہ وہی رب، ہمارا رب ہے، جو خانہ کعبہ کا رب تھا.وہ پلٹی کی آپ فکر کرے گا، ہمیں کوئی ضرورت نہیں ، اس پر کسی قسم کے خرچ کرنے کی.چنانچہ انہوں نے اپنے خرچ پر وہ پلیٹی اس طرح کی کہ ہمیں کچھ مجھ نہیں آئی کہ کیا واقعہ ہوا؟ ہمیں عرب ممالک سے خط آنے لگ گئے کہ ہم بیٹھے ہوئے ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے، اچانک آپ کی تصویر آئی اور پتہ لگا کہ مسجد بشارت کا افتتاح ہورہا ہے.یعنی وہ عرب ممالک، جہاں احمدیت BAN کی ہوئی ہے، وہاں ٹیلی ویژن پر مسجد بشارت سپین کا افتتاح خدا تعالیٰ کے فرشتے دکھارہے تھے.اس لئے کون کہتا ہے کہ یہ مبالغہ ہے کہ آسمان سے ہم نے موسلا دھار بارش کی طرح خدا کے فضلوں کو برستے دیکھا ہے؟ خدا کی قسم یہ مبالغہ نہیں ہے.اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اس خدا کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں، جو خانہ کعبہ کا خدا ہے، جو محمد مصطفیٰ کا خدا ہے کہ اس بات میں ایک لفظ بھی مبالغہ نہیں ہے.ہماری زبانیں بیان نہیں کر سکتیں، اس کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوئے ہیں.یہ تقریب آئی اور گذر گئی.اور ہماری طرف سے اس کی تفصیلی رپورٹیں بھیجنے کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا.ہماری طاقت ہی نہیں تھی.لیکن حیرت انگیز طور پر یورپ کے سارے ممالک نے اس کو COVER کیا.کس طرح کیا ؟ کیا واقعہ ہوا؟ مجھے تو سمجھ نہیں آیا.بیلجیئم ایک ملک باقی رہتا تھا، تقریب کے دوسرے دن میں بیٹھا ہوا تھا تو اچانک دیکھا کہ ایک بیلجیئم کا نمائندہ بھی پہنچ گیا ہے.انہوں نے کہا کہ میں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر یہ خبریں سنیں اور میں حیران رہ گیا کہ میں اس کو کسی طرح MISS کر گیا ہوں؟ اس لئے میں میڈرڈ سے صرف اس غرض سے آیا ہوں کہ آپ مجھے انٹرویو دیں اور میں اسے اپنے ریڈیو سے نشر کرواؤں.چنانچہ وہ خود انٹر ویو لے کر گیا اور شائع کیا.150
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء آنے سے پہلے سوئٹزر لینڈ سے دو بڑی دلچسپ خبریں موصول ہوئیں.ایک یہ کہ جنیوا، جہاں ہم نے کوئی پریس انٹرویو دیا ہی نہیں، واقف ہی نہیں، وہاں کے پریس کے، وہاں سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اخبار کی CUTTING آئی، جس نے اتنی تفصیل سے مسجد سپین اور احمدیت پر مض ر مضمون لکھا ہے کہ اس کو پڑھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے کہ اس کو کیا سو بھی ہے؟ بیٹھے بٹھائے احمدیت پر اور مسجد بشارت پر اتنا شاندار مضمون لکھ دیا ہے.اور وہ وہاں کا کثیر الاشاعت اخبار ہے.اور دوسری خبر ، جس سے دل باغ باغ ہو گیا، وہ یہ تھی کہ ایک سوئس عیسائی، جو گذشتہ کئی سال سے پین میں آباد ہوا ہوا تھا ، وہ سوئٹزرلینڈ کے مشن میں پہنچا.پہلے خط کے ذریعہ رابطہ قائم کیا، پھر خود پہنچ کر اس نے یہ واقعہ سنایا.اس نے کہا کہ میں پچھلے پانچ سال سے سوچ رہا تھا کہ اسلام اچھا مذ ہب ہے، میں مسلمان ہونا چاہتا تھا.لیکن کچھ مجھ نہیں آتی تھی کہ کیا ہوں ؟ میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کو خط لکھے.شیعوں سے بھی رابطہ کیا سنیوں سے بھی رابطہ کیا.مختلف ممالک کے علماء سے ملا.انہوں نے بھی از راہ شفقت اپنے علماء بھجوائے اور میری گفت و شنید ہوئی.لیکن مجھے یوں لگتا تھا کہ دل پر تالا ہے، جو کھلنے میں نہیں آتا.چند دن پہلے میں بیٹھا ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا تو اچانک مسجد بشارت کا افتتاح شروع ہو گیا.اور دیکھتے دیکھتے یوں محسوس ہوا کہ آسمان سے کوئی ہاتھ آیا اور اس نے چابی سے تالا کھول دیا ہے.اس ہاتھ نے وہ تالا کھول دیا.اور مجھے اسی وقت پوری طرح انشراح ہو گیا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ خدا اسی لئے مجھے روکے ہوئے تھا کہ یہ اسلام ہے، جس میں مجھے داخل ہو جانا چاہیے.چنانچہ وہ اسی وقت بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گیا.ایسے بے شمار واقعات ہیں، جو بات کرو تو کھلتے چلے جاتے ہیں.بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے.یوں لگتا ہے، جیسے کوئی نہ ختم ہونے والی کہانی ہے.جب میں آیا تھا ، بات شروع کرنے کے لئے میرا ذہن اس وقت بالکل خالی تھا.مگر مجھے علم تھا کہ یہ مضمون ہی ایسا ہے، جب میں اس میں داخل ہوں گا تو اللہ تعالیٰ ایک کے بعد دوسری راہ کھولتا چلا جائے گا.میں پہلے پریس کے متعلق بیان کر رہا تھا.اس کے متعلق اب آخر پر ایک دلچسپ واقعہ سنادیتا ہوں.چونکہ یہ مضمون تو ایک قسط میں ادا ہونے والا ہے ہی نہیں، آپ لوگوں نے واپس بھی جانا ہے، اس لئے مجھے ختم کرنا چاہئیے.پریس میں، میں نے یہ محسوس کیا کہ جب وہ دیکھتے تھے کہ اسلام کی تبلیغ شروع ہو گئی ہے اور اثر پڑنے لگ گیا ہے.یعنی خود پریس والوں پر بھی ایسا نمایاں اثر پڑنے لگ جاتا تھا کہ وہ ہاں میں ہاں ملانے لگ جاتے تھے.اور یہ عجیب بات تھی.تو ان میں سے بعض، جو اسلام کے خلاف کچھ تعصب رکھتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ رخ اس طرح پلئے کہ کسی طرح اسلام کے خلاف بات ہو جائے.151
خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ان کے پاس دو ہتھیار تھے.ایک یہ کہ ایران کے خلاف وہاں کے پریس نے اتنا شدید اور ظالمانہ پروپیگنڈا کیا ہوا ہے کہ مجھے پتہ نہیں وہاں ایران میں کیا ہوتا ہے؟ لیکن جو تصویر وہاں کھینچ رکھی ہے، وہ اتنی بھیانک ہے اور اسلام کے ساتھ اس طرح باندھ رکھی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مینی صاحب کا نام لے کر سوال کیا جائے تو یہ لوگ پھنس جائیں گے.اگر مخالفت کریں گے تو اسلامی سربراہ مملکت کی مخالفت کر رہے ہوں گے، اگر تائید کریں گے تو ہم کہیں گے، دیکھو جی ، یہ وہی اسلام ہے.چنانچہ یہ ایک سوال ضرور ہوتا رہا.اللہ تعالیٰ نے مجھے تو فیق عطا فرمائی، جس رنگ میں نے جواب دیا، وہ پھر کسی وقت بیان کروں گا.ورنہ میرے انصار بھائی کہیں گے، ابھی ابھی انصار سے نکل آئے ہو، ساری باتیں خدام کو بتادیں، ہمارے لیے کیا رکھا ہے؟ تو وہ فکر نہ کریں ، ان کو بتانے کے لئے بہت باتیں موجود ہیں.دوسرا سوال تھا عورتوں کے متعلق کہ اسلام عورت پر ظلم کرتا ہے.عورت سے یہ سلوک کرتا ہے ، وہ سلوک کرتا ہے.اس کا جواب دینے کی بھی اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں توفیق دیتا تھا کہ بعض دفعہ عورت نمائندہ خود اقرار کرتی تھیں پریس کانفرنس میں کہ اسلام تو عورت کو مغربی سوسائٹی سے زیادہ عزت کا مقام دتیا ہے.ہم اب تک دھوکے میں رہے.اوسلو میں یہ واقعہ ہوا.وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجلس کے جو لوگ تھے ، وہ شہر کے بڑے اچھے معززین تھے.ان کے ایک گروہ کے اندر بڑی دلچسپ تبلیغ کا موقع مل گیا.اس سے پہلے صبح پر یس کا نفرنس تھی، وہاں ایک عیسائی بہت ہی متعصب عورت نمائندہ آئی ہوئی تھی.اس کی کچھ پیش نہیں جاتی تھی.اس بیچاری نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح نیک اثر زائل ہو جائے لیکن نہیں ہو سکا.اس نے پھر سوچا کہ میں دوبارہ جو معزز مہمان ہیں، ان میں بیٹھ کر پھر کوئی ایسی بات کروں.چنانچہ جب تبلیغ ہورہی تھی، اس نے پھر یہی عورت کا سوال اٹھا دیا.جب میں نے جواب دیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے مطمئن ہو گئے.اس وقت اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی.اس نے سوچا کہ یہ تو قابو نہیں آتا ، شاید اس کی بیوی قابو آجائے.تو مجھے اس نے کہا: آپ کی بیوی ساتھ آئی ہوئی ہیں؟ میں نے کہا: ہاں ، آئی ہوئی ہیں.کہاں ہیں؟ میں کہا: او پر ہیں.کہا: ہمیں اجازت ہے، ملنے کی.میں نے کہا: آزادی ہے، بے شک شوق سے ملیں.کوئی قید خانہ تھوڑا ہے اسلام میں کہ عورتوں کو قید کر دینا ہے.جائیں جتنی دیر مرضی بیٹھیں.چنانچہ میں خود او پر جا کر ان کو چھوڑ آیا.لیکن وقت نہیں ملا تعارف کروانے کا کہ یہ پریس کی نمائندہ ہیں، ورنہ میری بیوی ذرا ہوشیار ہو کر بیٹھتیں.اندر جا کر اس نے ایسی ہوشیاری کی کہ بہت ہی محبت اور پیار کا سلوک کر کے کہا: بیچاری مظلوم 152
خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک عورت اچھی بھلی شکل، ٹھیک ٹھاک کپڑے اور قید ہوئی ہوئی ہے.تمہیں تو بڑی تکلیف ہوتی ہوگی یہاں پھر کے.یہ ساری دنیا آزاد پھر رہی ہے.تم نے برقع تمبو سا پہنا ہوا ہے اور اس میں پھر رہی ہو.اور دل چاہتا ہوگا، میں اسے پھاڑ پھوڑ کے باہر نکل جاؤں اور دنیا میں جس طرح ہماری عورتیں آزاد ہیں، اس طرح مزے لوں.جب وہ خوب تقریر کر چکی تو میری بیوی نے اس سے کہا کہ جو تم نے باتیں کی ہیں، ان کی تو مجھے کوئی تکلیف نہیں.میں تو بڑے مزہ میں ہوں.اسلام تو ہمیں بڑی پیاری زندگی دے رہا ہے.میں نے بڑی سیریں کی ہیں.جہاں میرا میاں جاتا ہے، وہاں میں ساتھ جاتی ہوں.اور جو وہ دیکھتا ہے، وہ میں بھی دیکھتی ہوں.اور ہم تو بڑا لطف اٹھا رہے ہیں.ایک تکلیف مجھے بڑی سخت ہے کہ تم لوگ اتنے گندے ہو ، اتنے ننگے ہو، کوئی شرم حیا نہیں ہے.سارا عرصہ جو میں یہاں ٹھہری ہوں، نظر اٹھاتی تھی تو واپس آجاتی تھی.شرم کے مارے دیکھا نہیں جاتا تھا.وہ ایسی شرمندہ ہوئی کہ کہنے لگی، دیکھو، میں نے تو ٹھیک کپڑے پہنے ہوئے ہیں.اس انٹرویو کے جلد بعد میں نے وہاں سے اسے گھبرا کر نکلتے دیکھا ہے.مجھے نہیں پتہ تھا، واقعہ کیا ہوا؟ انگریزی میں ایک محاورہ ہے کہ BAT OUT OF THE HELL جس طرح چمگادڑ گھبرا کر جہنم سے نکلتی ہے تو عجیب منظر ہوتا ہے.یہ ان کا تصویری زبان میں ایک محاورہ ہے کہ کوئی آدمی پر جھاڑ کر نکل رہا ہوں کہیں سے.تو میں نے دیکھا کہ وہ بڑی گھبرا کر اوپر سے نیچے اتری ہے.کوئی بات تو اس نے نہیں کی.مگر جب میں نے پستہ کیا اپنی بیوی سے تو اس نے کہا: وہ پریس کی نمائندہ تھی، مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا.یہ واقعہ ہوا ہے، میرے ساتھ.پس اللہ تعالیٰ ہر ایک کی مدد فرمارہا تھا.یعنی سادہ آدمی کی بھی مدد فرماتا تھا اور ہوشیار کی بھی مدد فرماتا تھا.سارا عرصہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور سہارے کے طفیل یہ سفر گذرا ہے.ورنہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.جہاں یہ پریس کی نمائندہ اپنی کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح اسلام کا اثر ہٹ جائے ، وہاں دو طالب علم بھی بیٹھے ہوئے تھے اور ایک پادری بھی بیٹھا ہوا تھا.وہ یو نیورسٹی کے سینئر طالب علم تھے اور ایک اچھا چوٹی کا پادری وہاں موجود تھا.جب ہم فارغ ہوئے ہیں تو ہمارے دوستوں نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ یو نیورسٹی کے دونوں لڑکے اپنے پادری کے پیچھے پڑ گئے کہ تم نے ہمیں ساری عمر دھوکے میں رکھا ہے.اصل عیسائیت کا تو ان کو پتہ ہے، تمہیں تو کچھ پتہ ہی نہیں.اور اسلام اتنا خوبصورت مذہب، اس کے متعلق آج ہمیں سمجھ آئی.وہ ان سے بحث کرتا تھا، وہ اس کو جواب دیتے تھے.اور اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے کہ تم نے اب تک ہم سے کیا ظلم برقرار رکھا تھا.بالکل جھوٹ بولتے رہے ہو.اسلام سچاند ہب ہے.اس نے آخر 153
خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک شرم کے مارے، ان سے کہا کہ مجھے تم چھوڑ دو، مجھے جلدی ہے.انہوں نے کہا جلدی ولدی کوئی نہیں ، ہم نے تمہیں نہیں چھوڑنا.اس نے کہا، اچھا پھر یہاں سے تو ہٹ جاؤ، یہ لوگ دیکھ رہے ہیں.وہ چل کر دور جانے لگا، انہوں نے اسے گیٹ پر پھر پکڑ لیا.نہیں جانے دیا.گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ اس کے پیچھے پڑے رہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے تھے ، جو یہ کام کر رہے تھے.اس میں کسی انسانی طاقت کا بس نہیں تھا.ایسی شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش نازل ہوئی ہے کہ اس پر جو میں نے اپنے پیغام میں لکھا ، وہ بالکل صحیح تھا.حقیقت ہے کہ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ساری دنیا میں احمدی خدا کی راہ میں آنسو بہارہے ہیں.ہر قطرہ جو گرتا ہے، بھاپ بن کر آسمان پر اٹھتا ہے، وہ فضلوں کی بارش بن کر دوبارہ ہم پر برسنے لگتا ہے.دعا ہے، اللہ تعالیٰ رحمتوں کے یہ دور برقرار رکھے.ایک سے ایک اگلی منزل کی طرف ہم بڑھتے رہیں.اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور شکر کا حق ادا کریں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:.لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم :08) جب تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور بھی بڑھاؤں گا.وہ واقعہ تو آپ نے سنا ہوا ہے کہ جو بادشاہ بھی شکر گزار ہوتے ہیں، وہ بھی اچھی بات کے نتیجہ میں زیادہ فضل عطا کیا کرتے ہیں.زہ والا واقعہ آپ میں سے اکثر نے سنا ہو گا.بار بار بھی سناؤ تو اس کا مزہ ختم نہیں ہوتا.کہتے ہیں، ایک بادشاہ سیر کے لئے نکلا.اس نے اپنے وزیر کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ جب بھی میں زہ کہوں کسی اچھی بات پر تو تم اشرفیوں کی ایک تحصیلی عطا کر دیا کرنا.چنانچہ اشرفیوں کی کئی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں ساتھ ہوا کرتی تھیں.اس حال میں بادشاہ سیر کے لیے نکلتے تھے.ایک کسان بوڑھی عمرکا بیچار استر ، اسی سال کا.وہ کھجور کی گٹھلیاں لگارہا تھا.بادشاہ نے اس سے تعجب سے پوچھا کہ اے کسان ! تم تو بوڑھے ہو گئے ہو، قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھے ہو، یہ کھجور کیوں لگا رہے ہو؟ کیوں بے کار محنت کر رہے ہو؟ اس نے کہا: ہمارے باپ دادا نے کھجور لگائے تھے ، ہم نے ان کا پھل کھایا.اب ہم محنت کریں گے تو اگلے اس کا پھل پائیں گے.بادشاہ کو یہ بات ایسی پیاری لگی کہ اس کے منہ سے زہ نکل گیا.اسی وقت وزیر نے اشرفیوں کی ایک تھیلی اسے پکڑا دی.اس کسان نے کہا: بادشاہ سلامت! آپ تو کہتے تھے تمہاری محنت کو پھل نہیں لگے گا.میری محنت کو ابھی پھل لگ گیا.بادشاہ کے منہ سے پھر بے اختیار نکل گیا، زہ.اس وزیر نے دوسری تحصیلی نکل لی اور اس کو پکڑا دی.اس نے پھر کہا: بادشاہ سلامت! مجھے اور بھی تعجب ہے کہ کھجور تو سال میں ایک دفعہ پھل دیتے ہیں، میرے 154
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء کھجور نے تو دو دفعہ پھل دے دیا ہے.بادشاہ نے کہا: زہ.اور وزیر نے ایک اور تھیلی پکڑائی.تب بادشاہ نے کہا: بھا گو یہاں سے، بوڑھا یہ تو ہمارے خزانے لوٹ لے گا.آپ بھی اسی طرح شکرانہ ادا کریں کہ آسمان یہ ترانے گانے لگے.لين شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ اے میرے بندو! تم شکر سے میرے حضور جھک رہے ہو، میں تمہیں بڑھاتا چلا جاؤں گا.اور میرے خزانے اس بادشاہ کے خزانوں کی طرح نہیں ہیں.وہ نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں.تم لوٹتے چلے جاؤ، میں عطا کرتا چلا جاؤں گا.خدا کرے کہ ہم ایسے ہی نظارے دیکھیں“.اجتماعی دعا کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں آپ کو واپس لے کر جائے ، اپنے فضلوں کا سایہ آپ کے سروں پر رکھے.اپنی محبت آپ کو عطا کرے، اس محبت کو وفا بخشے.آپ اس کے وفادار اور محبت کرنے والے بن جائیں، وہ وفاؤں کو قبول کرنے والا مہربان محبوب ثابت ہو.ہمیشہ خدا کے فضلوں کا سایہ آپ کے سر پر رہے.آپ کو خدمت دین کی پہلے سے بڑھ کر ہمیشہ ہر آن بڑھ کر اور بھی بڑھ کر توفیق عطا ہوتی رہے.آمین.مطبوعه روز نامہ الفضل 02 جولائی 1983ء) 155
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء بیک وقت دو تین زبانیں جاننے والے واقفین زندگی کی ضرورت خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء بر موقع سالانہ کنونشن احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن حضور رحمہ اللہ نے دنیا بھر کے احمدی طالب علموں کو دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کی زبانیں سیکھنے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ وو یورپ کے دورے کے دوران میں نے بڑی شدت سے یہ بات محسوس کی کہ غیر ممالک کی زبانیں جاننے والے جماعت احمدیہ کے افراد بہت کم ہیں.اور یہ تعداد اتنی کم ہے کہ بعض دفعہ دل بڑا گھبرا تا تھا کہ جماعت کی فوری ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟ انگلستان میں احمدیوں کی جو نئی نسل جوان ہوئی ہے، وہ بے شک انگریزی بڑی اچھی جانتی ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ان کے والدین نے ان کو اردو نہیں سکھائی.لیکن انگریزی کے سوا ہمارے اکثر احمدی دیگر زبانیں مثلا سپینش، اٹالین ، فرنچ، لاطینی، عربی فارسی وغیرہ نہیں جانتے“.حضور نے فرمایا:.وو ہمیں ایسے لوگ چاہئیں، جودو، تین زبانیں بیک وقت جانتے ہوں.اور پھر وہ اسلام کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کریں.اپنے ذہن میں یہ رکھ کر تیاری کریں کہ ہم نے اس زبان کو خدا تعالیٰ ہی کی خاطر سیکھنا ہے اور اس کے رستے میں استعمال کرنا ہے.حضور نے فرمایا:.وو...اس پر حمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے اراکین خصوصی توجہ دیں اور جوطلباء کوئی زبان سیکھنے کا عزم کریں، وہ اپنے نام اپنے پیٹرن کو بھجوا دیں.اور معین کریں کہ وہ فلاں زبان سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں.غیر ممالک کے طلباء بھی اس سلسلے میں کوشش کریں.تاہم ان کو دیگر زبانوں کے علاوہ اردو اور عربی سیکھنے کی طرف متوجہ کرنا ہوگا.تا کہ غیر زبانیں سیکھنے کے بعد ان کو دینی کتب بھی پڑھائی جائیں اور بنیادی علم کی ایک بنیاد ان کے ذہنوں میں قائم کر دی جائے“.157
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 18اکتوبر 1982ء حضور نے نوجوان طلباء کو تلقین کی کہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک مختلف ممالک سے نوجوان آگے آئیں اور وقف کریں.نئی زبا نہیں ساتھ لائیں اور اپنے علم کو اللہ تعالی کی راہ میں استعمال کریں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے پیٹرن ( محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کو اس ضمن میں بطور خاص ہدایت فرمائی کہ وہ دنیا بھر کی احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشنوں کو مختلف ممالک کی زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ دلائیں.حضور نے فرمایا کہ وو اس ضمن میں تین زبانیں ایسی ہیں، جو فوری توجہ کی محتاج ہیں.یہ زبانیں اٹالین سپینش اور پور چوگیز (پرتگالی ) ہیں.حضور نے فرمایا:.وو اٹلی میں زمین خریدنے کی کوشش جاری ہے مگر ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی.اس میں بھی خدا تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہوگی.ورنہ اگر پہلے اجازت مل جاتی اور اٹالین زبان جاننے والا کوئی فرد ہمیں نہ ملتا تو اس کے جانے کا فائدہ ہی کوئی نہ ہوتا.ہم نے صرف مساجد نہیں بنانی ، نمازی بھی بنانے ہیں.اس لئے اٹلی کے لئے بہت شدید ضرورت ہے کہ وہاں کی زبان جاننے والے ہمیں ملیں“.حضور نے فرمایا:.فرمایا: جامعہ احمدیہ کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے.اس سلسلے میں زیادہ خرچ بھی کرنا پڑے تو کریں.جنوبی امریکہ کا بہت بڑا ملک برازیل ہے.یہاں پر زیادہ تر پور چوگیز بولی جاتی ہے.یہاں پر صرف انگریزی سے گزارہ نہیں ہو سکتا.وہاں سے ہم ساری تفاصیل منگوا ر ہے ہیں، ان کو سکھانے کا انتظام کیا جائے گا.فرینچ زبان کا ذکر کرتے ہوئے ، حضور نے فرمایا:....اگر چہ اس میں دو آدمی تیار ہیں لیکن فرانسیسی زبان کا دائرہ بہت وسیع ہے.بہت سے عرب اور افریقی ممالک میں بھی یہ زبان بولی جاتی ہے.پھر کور یا وغیرہ، دور دراز علاقوں، انڈو چائنا میں بھی یہ بولی جاتی ہے.اس کے لئے اور افراد بھی چاہئیں.چینی زبان کے بھی صرف دو ماہر ہیں، یہ بھی کم ہیں.158
تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضور نے فرمایا:.وو اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء ترجیحی طور پر سپینش زبان سیکھنے اور چھٹیوں کے دنوں میں سپین جا کر تبلیغ کرنے کے لئے میں انگلستان میں تحریک کر آیا ہوں.تا کہ اللہ تعالیٰ نے سپین میں اسلام کے حق میں جو لہر چلائی ہے، اس سے استفادہ کیا جاسکے.فرمایا:.وو آپ لوگ بھی اسی نہج پر تیاری کریں.حضور نے فرمایا:.وو ایک ایسا ملک چنیں ، جس میں دین اسلام کوتر و پیچ نہیں ہے.اس کی زبان سیکھیں.اس کو اپنے خوابوں میں بسالیں.اسی حوالہ سے مزید فرمایا کہ خوابوں میں بسنا ضروری ہے.اچھی طرح خوابیں دیکھیں.اس کے محل تعمیر کریں.اور جب تک وہ محل حقیقی طور پر تعمیر نہ ہو جائے ، چین سے نہ بیٹھیں.چین میں اسلام پھیلانے کے خواب دیکھیں، امریکہ کے کسی ملک کو لیں، آئرن کرشن کے پیچھے بسنے والے ممالک، پولینڈ روس وغیرہ، کسی ملک کو روحانی طور پر فتح کرنے کا عزم کریں.ان خیالات کی دلوں میں پرورش کریں اور ساتھ ساتھ اس کی تیاری کرتے رہیں“.حضور نے فرمایا:.دو ساری دنیا میں احمدی طلباء کی ایسوسی ایشن اس کو اپنے ہاتھ میں لے.تبلیغی کام کا تعلق ایسوسی ایشن سے نہ ہوگا.لیکن جذبہ اور تیاری کا کام ایسوسی ایشن سے ہوگا“.حضور رحمہ اللہ نے جو دوسری اہم بات بیان فرمائی ، وہ یہ تھی کہ وو احمدی طالب علم اپنے دینی علم کا دنیاوی علم سے انطباق کریں.ان دونوں علوم کو علیحدگی کے ایسے راستے پر نہ ڈالیں کہ ان کا کوئی جوڑ ہی نہ ہو.یہ دو متوازی سڑکیں نہ ہوں.بلکہ ان کا باہم رابطہ اور ملاپ ہونا چاہیے.دنیا کی گفتگو میں خدا تعالیٰ کا ذکر کر کے اسے قانون قدرت کی طرف منتقل کریں اور قانون قدرت کی گفتگو میں دین کی طرف لائیں.دونوں کا اتناملاپ ہو کہ تانا بانا بنا ہوا معلوم ہو.یہ قرآن کریم کا کچھ دیگر نقشہ ہے، یہ مومن کے ذہن کا نقشہ ہے کہ وہ خود بخود دینی علم کو دنیا کے ساتھ منطبق کرتا چلا جاتا ہے.159
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضور نے فرمایا:.25 گذشتہ ایک، دوصدیوں پیشتر سائنس پر بہت ظلم ہوا ہے.جب سائنس یورپ میں بیدار ہوئی تو اس نے چرچ کے خلاف بغاوت کی.اس کشمکش میں یہ تاثر علمی حلقے کا تاثر بن گیا کہ سائنس اور مذہب دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں.اور اس طرح سے یہ دوری بڑھتی گئی.اور سائنس کو دہریت کا نام اور مذہب کو ایسے تصورات کا نام دے دیا گیا، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں.اس سے یہ ہوا کہ اگر مذہب کی کوئی بات کی جاتی تو سائنس دان اسے سائنس سے باہر شمار کرتے لیکن اب وہ وقت بدل رہا ہے.اب جو تازہ تجربات سائنس دانوں نے کئے ہیں، ان کے پیش نظر اب 25 فیصدی سائنس دان جرات سے خدا تعالیٰ کی بات کرنے لگے ہیں.اس قسم کا پرانا تصور اب باقی نہیں رہا کہ خدا کی بات کرو گے تو غیر معقول کہلائے گی.اور اب یہ صورت حال ہے کہ ایک فیصد سائنس دان اپنے علم سے خدا تعالیٰ کی خدائی کی دلیل دیتے ہیں.جن سائنسدانوں نے خدا تعالیٰ اور مذہب کا انکار کیا تھا، ان کو حیران کن مشاہدات کا سامنا کرنا پڑا.جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں.وہ مجبور ہیں کہ خدا کی طرف دیکھیں.ابھی یہ آواز دبی دبی اٹھے رہی ہے.ایک طبقہ وہ ہے، جو اس پر صرف حیرت کا اظہار کر رہا ہے.مگر ایک وہ طبقہ بھی پیدا ہو گیا ہے، جو یسے مشاہدات کو واضح طور پر خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب کرتے ہیں“.حضور نے اس ضمن میں دنیا کے کئی علوم کے بارے میں تازہ ترین تحقیق کا ذکر فرمایا اور اپنے بے مثال علم سے احمدی طلباء کے ذہنوں کو نئی راہ دکھائی.حضور نے پہلے فلکیات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ تخلیق کائنات کے بارے میں بگ بین تھیوری کو اب زیادہ شواہد تقویت دے رہے ہیں.اور سائنس دانوں نے ریڈ شفٹ فارمولے کے ذریعے جو حسابات لگائے ہیں، اس سے تخلیق کائنات کے قرآنی نظریے کی تصدیق ہوتی ہے.حضور نے اس ضمن میں بڑی باریک اور گہری تفصیلات بھی بیان فرمائیں اور فرمایا کہ...ایک نوبل انعام یافتہ سائنسدان کہتا ہے کہ ایک زمانے میں ہم نے اہل مذہب کو دیکھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے تصور کے پاس بیٹھے تھے.ہم نے اسے نہ مانا اور ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گئے.دو سو سال کے طویل سفر کے بعد ہماری سائنسی دریافتیں ہمیں واپس اسی جگہ پر لے آئیں ہیں، جہاں پر اہل مذہب بیٹھے تھے.160
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ششم حضور نے فرمایا:.اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء چوٹی کے ایک فلاسفر سائنوزا نے ریاضی کے ذریعے سے خدا کا وجود ثابت کیا تھا.اس نے جو نقشہ پیش کیا ہے، وہ ایک حد تک حضرت مسیح موعود کے اس نقشہ سے ملتا ہے، جو حضور اقدس نے صفات باری کے بارے میں پیش کیا اور اب شواہد سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ نظر یہ درست تھا.حضور رحمہ اللہ نے نظریہ ارتقاء (Evolution) کے بارے میں نہایت گہری اور دلچسپ علم بحث فرمائی اور بتایا کہ وو یہ نظریہ پہلے سائنس کو خدا تعالیٰ سے دور لے گیا.مگر اب ایک طبقہ یہ ماننے لگ گیا ہے کہ ارتقاء تو درست ہے مگر ڈارون کی تھیوری درست نہیں.حضور نے فرمایا:." مجھے ایک احمدی سائنس دان کا یہ مضمون دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی، جس نے ارتقاء پر دو بنیادی اعتراضات کئے.اول : آنکھ کی بناوٹ.اس نے اعتراض کیا کہ آنکھ کی بناوٹ کا ارتقاء سے تعلق نہیں.کیونکہ یہ ایک متحدہ یونٹ ہے اور ارتقاء مختلف ٹکڑوں میں ہوتا ہے.اس بات کو کسی پیمانے لیں، درست ہے.دوسری بات یہ ہے کہ ارتقاء کا انحصار بیرونی عوامل پر ہے.لیکن بیرونی عوامل کبھی بھی اندرونی کیمیائی تبدیلیوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے.یہ دوسرا بڑا اعتراض تھا“.حضور نے فرمایا:.بعینہ یہی دو باتیں گذشتہ دنوں ایک چوٹی کے سائنسی ڈائجسٹ میں ایک مضمون میں بیان کی گئیں.حضور نے فرمایا:.دو ایک اور سائنسدان نے بلائنڈ ارتقاء کے خلاف ایک حسابی نظریہ پیش کیا ہے کہ سائنس کے اس نظریے کی مثال اسی طرح سے ہے کہ ایک آدمی مختلف حروف کی مختلف گیٹیاں ایک جگہ پھینکے اور ان سے اتفاق سے ایک لفظ بن جائے.پھر دوبارہ ایک ایک حرف کر کے گیٹیاں پھینکے تو دوسر الفظ بن جائے.جو پہلے لفظ سے مطابقت رکھتا ہو.اس لحاظ سے ہر بارا تفاق سے چند الفاظ نہیں ، جو پہلے لفظ کی مطابقت سے ایک جملہ بنائیں.اور ہر بارا اتفاق سے لفظ بن جانے کی صورت میں 25 الماریاں نہایت با معنی سائنٹیفک اور فلسفیانہ مضامین کی کتب کی بھر جائیں.جو عملا عقل انسانی سے باہر اور قطعی ناممکن ہے.161
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضور نے احمدی طالب علموں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ....زمان اس خدا کی طرف لوٹ رہا ہے، جس کو سائنس دان چھوڑ چکے تھے اور آپ اس سے غافل بیٹھے ہیں.آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے چنا تھا.اس کے باوجود آپ اگر اس سے غافل رہیں گے تو یہ کیسی جہالت کی بات ہوگی.ابھی دیر نہیں گزری، آپ میں سے ہر کسی کو اپنے علم کا رابطہ قرآن مجید سے قائم کرنا پڑے گا.اس کے لئے قرآن کریم سے غایت درجہ محبت کریں، قرآن سے اپنے مضامین کے رابطے پر پیپرز پڑھیں.انکسار سے مگر اعتماد سے کام کریں.بے دلیل دعوی نہ کریں.آخر میں حضور نے فرمایا:.دو اپنی دلیل کی صداقت Reasoning کا معیار اونچا کریں.جب تک چوٹی کی بات علم میں نہ آئے ، اطمینان نہ پائیں.ہر مشکل کو سوچیں، اس کا حل ڈھونڈیں.معمولی بات کو اپنی دلیل نہ سمجھیں.پھر آپ اس قابل ہوں گے کہ غیروں کے ساتھ اعتماد سے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوسکیں.اگر آپ محض سرسری علم سے بات کریں گے تو دنیا اسلام پر اور احمدیت پر ہنسے گی.اس لئے دنیاوی علوم کے ساتھ دینی علم کو بھی ساتھ رکھیں اور پھر آگے بڑھیں“.حضور نے دعا کی کہ " اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو وہ مقام عطا کرے، جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مخصوص کیا ہے.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل 24 اکتوبر 1982ء) 162
تحریک جدید - ایک البی تحریک خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء آپ علوم کی دنیا میں لوگوں کے لئے سردار بنائے گئے ہیں خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے عصرانے سے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمه الله نے درج ذیل خطاب فرمایا:." آج سب سے پہلے تو آپ کو ایک خوشخبری سنانی ہے، جو طلبہ کی زندگی سے تعلق رکھنے والی خاص خوشخبری ہے.ہماری ایک بچی امتہ المجیب صاحبہ، جو مکرم اکرام اللہ صاحب آف ملتان کی بیٹی ہیں.آکسفورڈ میں پڑھ رہی تھیں اور ڈاکٹریٹ (Doctorate) کر رہی تھیں، ان کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ انہوں نے Solid State پر جو پیپر لکھا تھا، وہ بھی اور (Viva) یعنی زبانی امتحان بھی خدا کے فضل سے بہت ہی نمایاں کامیابی کے ساتھ پاس کیا ہے.اور Viva میں جو انٹرویو لینے والے تھے، انہوں نے سب سے پہلے تو اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ تم علم کے میدان میں یہاں تک پہنچی ہو اور برقع پہنا ہوا ہے.یہ کیا بات ہے؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ skirt پینے کوئی ماڈرن ہی لڑکی آئے گی.اس نے کہا: میں نے تو برقع پہن کر ہی پڑھا ہے اور اب بھی برقع ہی پہنوں گی.یہ میرا اسلامی نشان ہے ، میں اس کو کس طرح چھوڑ سکتی ہوں.اس کے بعد انہوں نے viva یعنی زبانی امتحان لیا اور اللہ کے فضل سے وہ ہر سوال کا صحیح جواب دینے میں کامیاب ثابت ہوئی.آخر پر انہوں نے کہا: ہم نے تمہارے پیپر بھی دیکھتے ہیں، تم سے ایک مدد چاہے اور وہ یہ کہ اگر تمہارے پیپرز میں کوئی غلطی ہے تو خود بتادو.کیونکہ ہمیں کہیں غلطی نہیں ملی.ہم نے بار بار توجہ کی ہے کہ کسی طرح کوئی غلطی پکڑ لیں لیکن کہیں کوئی غلطی نہیں آئی.تو اللہ کے فضل سے احمدی طلباء، جس نئے دور میں داخل ہورہے ہیں ، یہ اس کی دوسری علامت ظاہر ہو رہی ہے.حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو علم کی طرف بہت توجہ تھی اور ان کی زندگی میں ہی پہلا پھل ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی شکل میں ظاہر ہوا.اس سے ایک عام وسیع پیمانے پر Impact ہوا ہے.اس توجہ نے ایک خاص ماحول Create کیا ہوا تھا.اس پر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ایکدم نمایاں ہو کر باہر نکلے ہیں.وہ پہلے ہی چھکے ہوئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسی خوبصورت ٹائم سیٹنگ 163
خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ( time-setting) کی کہ اس نے احمدی طلباء میں ایک نیا (impetus) یعنی ولولہ پیدا کر دیا.اور یورپ میں جہاں جہاں بھی احمدی طلباء مجھے ملے ہیں، بڑے بھی اور چھوٹے بھی ، جب میں ان سے بات کرتا تھا کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہم تو ڈاکٹر عبدالسلام بنیں گے، انشاء اللہ.بعض چھوٹے چھوٹے بچوں نے کہا کہ ہم نے تو ڈاکٹر سلام سے بھی آگے نکلنا ہے.یہ بلند حوصلہ اور ارادے، یہ ستاروں پر کمندیں ڈالنا، سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک خاص ماحول کی برکت ہے.جس کا علمی میدان میں آغاز حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے کیا تھا.بہر حال عملاً (Practically) زور کے ساتھ یہ چیز اس وقت سامنے آئی.لیکن اس کے جو روٹس (roots ) یعنی جڑیں ہیں، وہ ماضی میں اس سے بھی گہری ہیں.بہت ہی گہری ہیں.باوجود اس کے عرب جہالت کا گہوارہ تھا، ساری جہالتیں وہاں پنپ رہی تھیں، وہاں سے اللہ تعالیٰ نے ایک وجود کو کھڑا کیا اور اس کی بابت یہ اعلان فرمایا کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (الجمد :03) گویا بتا یا کہ معجزہ اس کو کہتے ہیں کہ وہ ملک، جو ساری دنیا میں سب سے زیادہ جاہل ملک ہے اور جس میں بسنے والے امی محض ہیں.انہی میں سے میں ایک آدمی چتا ہوں اور اچانک تم دیکھتے ہو کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وہ انہیں تعلیم بھی دینے لگ گیا ہے اور پس پردہ حکمتیں اور فلسفے بھی بیان کرنے لگ گیا ہے.اس شان کا معلم ہمیں عطا ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے حصول پر بہت زور دیا اور علم کے متعلق نصیحتیں فرمائیں.اس وجہ سے صحابہ علم میں بہت دلچسپی لیتے تھے.آنحضور کی ہدایت پر صحابہ نے Greek یعنی یونانی اور دوسری زبانیں سیکھنی شروع کر دیں.چنانچہ مسلمانوں کے علمی دور کا آغاز آنحضور کے زمانہ سے ہوا ہے.پھر وہ ایک خاص مقام تک پہنچا اور عروج کے بعد پھر تنزل پذیر ہوا ہے.اور پھر دنیا اس جہالت کے دور میں دوبارہ داخل ہو گئی ، جو عرب جہالت کا دور تھا.یعنی قبل از اسلام جہالت کا دور تب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو مبعوث فرمایا.آپ نے نہ صرف یہ کہ دعائیں کیں بلکہ بڑی عظیم خوشخبریاں سنائیں اور بتایا کہ میرے ماننے والوں اور میرے غلاموں میں سے خدا ایسے لوگ پیدا کرے گا، جو ہر علم اور ہر فلسفے میں بڑے بڑے دنیا دار علماء کے منہ بند کر دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 164
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء کا اس مضمون کا بہت پر شوکت کلام موجود ہے.تو آغاز اصل میں وہاں سے ہوا ہے.جس دن اسلام پیدا ہو رہا تھا، اس دن دنیا کے علم بھی نئی پرورش پارہے تھے اور نئی کروٹ لے کر بیدار ہورہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر مزید روشنی ڈالی.آپ نے فرمایا کہ در حقیقت جب خدا تعالیٰ کی طرف سے نور نبوت عطا ہوتا ہے تو اس کے چھینٹے دنیا کو بھی محروم نہیں کرتے اور ایک عام روشنی پیدا کر دیتے ہیں.اس روشنی کی مختلف تعبیریں ہوتی ہیں.روحانی دنیا میں وہ روشنی روحانی نور میں ڈھل جاتی ہے اور غیر معمولی شدت کے ساتھ مذہبی فلسفہ بیدار ہوتا ہے، مذہبی اقدار زندہ ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو توجہ پیدا ہوتی ہے.نور وہی ہے لیکن جب دنیا والوں پر اس کا پر تو پڑتا ہے تو اس نور کی روشنی میں وہ اس طرف اور زیادہ بڑھنے لگتے ہیں، جس طرف ان کا رجحان ہے.اور خدا تعالیٰ کے قانون کے راز معلوم کرنے میں اور ترقی کرتے ہیں.علم کے فروغ کا ایک نیا Era یعنی نیا دور شروع ہو جاتا ہے.یہ وہی نور نبوت ہے، جو خاص مقصد کے لئے آسمان سے نازل ہوتا ہے اور اس کی انتشاری روشنی (Diffused Light) ساری دنیا کو ایک نئے علمی دور میں داخل کر دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ہر نبی کے وقت یہ واقعہ رونما ہوتا ہے.چنانچہ کنفیوشس کے ساتھ چین کا علم اس طرح مربوط ہو چکا ہے کہ ایک کے نام کے ساتھ دوسرا خود بخود ذہن میں آجاتا ہے.اسی طرح بہت سے ہندوستانی علوم ہندو رشیوں کے ساتھ وابستہ ہو چکے ہیں.بعد میں وہ ان کو خدا بنا لیں یا بت کہہ لیں ، جو مرضی کہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ ہے وہی Phendmenon یعنی ظہور ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا کہ انبیاء کے ساتھ ایک نور نازل ہوتا ہے.جب وہی نور دنیا کے پہلو سے بھی ماننے والوں پر پڑتا ہے تو ان معنوں میں نو را علی نور بن جاتا ہے کہ وہ دنیا کے نور سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور روحانی نور سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور دونوں جگہ لیڈر بن جاتے ہیں.کیونکہ جن کی عقلیں صیقل ہوں، جن کو تقومی نصیب ہو ، وہ زیادہ اہل ہیں اس بات کے ، وہ سائنٹفک سٹڈی (scientific study) کر سکیں.اس لئے احمدی کو اور بالخصوص احمدی طلبہ کو ایک (advantage) یعنی رعایت حاصل ہے کہ وہ بہت آگے کھڑے ہیں.اور باقی دنیا اسی نور سے بالواسطہ فائدہ اٹھارہی ہے، جو اس دور میں نور نبوت کے تحصیل نازل ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش کے وقت سے لے کر آپ کے دعویٰ تک اور پھر دعوی سے وفات تک یہ دو دور ہیں، جن میں غیر معمولی طور پر کثرت کے ساتھ نئے علوم دریافت ہوئے ، 165
خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک علوم کی نئی شاخیں ایجاد ہوئیں، چوٹی کے سائنس دان اس دور میں پیدا ہوئے اور پھر آپ کے وصال سے پہلے ان تمام ایجادات کا بیج بویا گیا، جو آج ہم دیکھ رہے ہیں.ان میں سے ایک ہوائی جہاز کی ایجاد ہے.تو یہ جو نیا دور ہے.مثلاً ATOMIC CONCEPT BY THE TURN OF THE PRESENT CENTURY IT HAD COME INTO OFFING.یعنی اس سے پہلے ایٹم کے تصویر کا دور مبہم سا تھا.لیکن اس صدی کے آغاز میں ہی یہ (offing) یعنی افق پر نظروں میں آچکا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں اس دور کی بنیادیں قائم ہوگئی تھیں اور جو مزید ترقی ہو رہی ہے، اس کا آغاز بھی دراصل آپ کے وقت میں ہو چکا تھا.اسی طرح ہر نبی کے دور کے ساتھ ایک علم پھیلا ہے.اس لئے آپ کو اس سے یہ سبق لینا چاہیے کہ یہ روشنی ، جس کے اول حقدار آپ ہیں ، جو حقیقت میں احمدیت کی برکت سے دنیا میں منتشر ہوئی ہے، یہ آخر احمدیت کی خدمت کے لئے انتشار پذیر ہوئی ہے.اس روشنی سے ہم کیوں محروم رہیں؟ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے.سب سے بڑی مصیبت، جو ہماری راہ میں حائل ہے، وہ ہے احساس کمتری.ایک عذاب ہے ہندستان اور پاکستان کی قوم کے لئے کہ بے وجہ احساس کمتری میں مبتلا ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں باہر ہوسکتی ہیں، یہاں نہیں ہو سکتیں.یعنی ایجادیں سب باہر ہوسکتی ہیں، یہاں نہیں ہو سکتیں.ہمیں گویا دماغ ہی نہیں ملا کہ غور کر کے نئی نئی چیزیں نکال سکیں.اگر ہر مضمون میں confidence یعنی خود اعتمادی پیدا ہو جائے تو چھوٹی عمر میں ہی انسان بڑے بڑے فاصلے طے کر لیتا ہے.بے وجہ آپ کو ایف ایس سی بی ایس سی، ایم ایس سی کی قیود میں باندھ کر اگر آپ علمی سفر شروع کریں گے تو آپ کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی رہیں گی.کیوں آپ ایف ایس سی میں، ایم ایس سی کی باتیں نہیں سوچ سکتے یا پڑھ سکتے ؟ آپ کو پڑھنا چاہیے، آپ پڑھ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنا عظیم الشان دماغ دیا ہے کہ سائنسدان، جنہوں نے دماغ پر غور کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم دماغ کا ہزارواں حصہ بھی استعمال نہیں کر سکے.untapped resources پڑے ہوئے ہیں.اس کی چھان بین کرنے والے شکست تسلیم کر چکے ہیں کہ آج تک ہم سب سے کم جس چیز کو سمجھ سکے ہیں، وہ انسانی دماغ ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ اس کا اکثر حصہ بغیر استعمال کے ہی پڑارہ جاتا 166
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء ہے.جس طرح دنیا کے پسماندہ ممالک میں ان کے اکثر ذرائع اور وسائل بغیر استعمال کے پڑے رہ جاتے ہیں، اسی طرح ان بیچاروں کے دماغ بھی بغیر استعمال کے پڑے رہ جاتے ہیں.جن قوموں نے اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی جرات کی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے بڑے پھل دیئے.امریکہ میں ایک نوجوان ، سائنس کا سٹوڈنٹ تھا، جس نے ابھی ڈگری بھی حاصل نہیں کی تھی ، اس کے پروفیسر نے باتوں باتوں میں ایٹم بم کا ذکر کیا، اس نے کہا کہ ایٹم بم تو میں بھی بنا سکتا ہوں.اس میں کون سی مشکل بات ہے.پروفیسر نے کہا: تم کس طرح بنا سکتے ہو؟ تمہارے پاس نہ تو اسباب ( Resourses) ہیں اور نہ تمہیں اتنا علم ہے.اس نے کہا جو باتیں آپ نے مجھے بتائیں ہیں، ان کی روح سے، جس طرح باقی سائنسدان کرتے ہیں، لائبریریوں میں بیٹھ جاتے ہیں، یہ کتاب نکالی، وہ کتاب نکالی، اسی طرح جوڑ جاڑ کے میں بھی بنا سکتا ہوں.پروفیسر کو اس پر اتنا غصہ آیا کہ اس سے کہا: تم میری کلاس سے نکل جاؤ.اگر تم اتنے قابل ہو تو تمہیں یہاں بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں.اس نے کہا: میں اس شرط پر نکلوں گا کہ میرے لیکچر شارٹ (Short) یعنی کم نہ ہوں.کیونکہ میں نے پاس بھی تو ہونا ہے.اس نے کہا: اچھا، پھر تمہارے ساتھ یہ شرط ہوگی کہ اگر فلاں تاریخ تک جو امتحان کی تاریخ ہے، تم نے ایٹم بم کا خاکہ (Blue) print) بنا دیا اور ہر پرزے کے متعلق مجھے بتا دیا کہ یہ اس طرح بنتا ہے تو میں یونیورسٹی کے بورڈ میں سفارش کروں گا کہ تمہیں بغیر امتحان کے ڈگری عطا کر دی جائے.اور اگر ایسا نہ کیا تو تم فیل شمار ہو گے اور کالج سے نکال دیئے جاؤ گے.اس نے کہا: مجھے یہ چینج منظور ہے.یہ کہا اور اٹھ کر باہر نکل گیا.جانے سے پہلے اس نے کہا کہ ایک شرط میری بھی ہے، آپ میرے گائیڈ ہیں.مجھے گائیڈ لائن ضرور دیں.اگر میں کہیں پھنستا ہوں تو بیشک تھوڑا وقت ہے لیکن میں آپ سے پوچھا کروں گا کہ فلاں مضمون کہاں ملتا ہے، مجھے بتائیں؟ اس نے کہا: یہ تو میں بتادوں گا لیکن یہ کہ کس کس قسم کے پرزے کہاں کہاں مل سکتے ہیں، اس میں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گا؟ خیر یہ چیلنج قبول ہو گیا اور بات آئی گئی ہوگئی.اس نے تحقیق شروع کی آخر وہ دن آپہنچا، جب اس نے اپنا Thesis تحقیقی مقالہ پیش کرنا تھا.صرف ایک چیز اس کی انکی رہ گئی.ایک خاص قسم کا ایسا پرزہ تھا، جو الیکٹرونک ہے اور Valve کا کام کرتا تھا.خاص کرنٹ کو منقطع (Cutout) کر کے کسی اور کرنٹ کو ( جو بھی کرنٹ تھی ) پاس (pass) کرنے کی اجازت دیتا تھا.اس بیچارے کو یہ پرزہ نہیں مل رہا تھا.اور شرط یہ تھی کہ خا کہ ہر طرح سے مکمل ہو.ایک جگہ بھی اٹک گئے تو سمجھا جائے گا کہ ایٹم بم نہیں بنا ساری کوششیں بریکار گئیں.اس بیچارے کو سوچتے سوچتے اچانک دماغ میں آ گیا کہ Bell والے، جو ٹیلیفون کی 167
خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک مشہور کمپنی ہے، ان کے ہاں اس قسم کی کوئی چیز ضرور ہونی چاہئے.اس نے اس وقت (بیل (Bell والوں کو فون کیا کہ اس قسم کا ایک پرزہ ہے، جس کی یہ یہ خاصیتیں ہیں اور وہ آپ کے پاس مہیا ہونا چاہئے.ان بیچاروں کو کیا پتہ تھا کہ کیا بن رہا ہے؟ انہوں نے فوراً کہا: ہاں، یہ ہمارے پاس (Available) یعنی دستیاب ہے.اس نے کہا: بہت اچھا، کیا نمبر ہے؟ اس کا نمبر اپنے Thesis میں نوٹ کیا اور ہانپتا کانپتا ، سانس چڑھا ہوا وقت پر جا کر اس نے اپنا Thesis دے دیا.واپس آ کے اس بیچارے کو خیال آیا کہ میں نے اپنی طرف تو ایٹم بم بنا دیا ہے، پتہ نہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جب انعامات کی تقسیم کا وقت آیا اور ڈگریاں تقسیم ہونی تھیں تو اس کی تلاش شروع ہوئی.یونیورسٹی کے پروفیسر ز کا پورا بورڈ بیٹھا ہوا تھا.اس کو بلایا گیا.انہوں نے اس کو کہا کہ ہم تمہیں غیر معمولی اعزازی ڈگری عطا کرنا چاہتے ہیں.اور امریکن قوم کی طرف سے تمہارا شکر یہ ادا کرنا چاہتے ہیں.ہم اس احساس کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ یہ چیز ہوہی نہیں سکتی.اس لیے بہت سے Documents جو Secret ہو جانے چاہئے تھے، ان کو ہم نے لائبریریوں میں کھلا رکھا ہوا تھا.اب تمہارے اس مقابلہ سے ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ یہ اتنی خطرناک چیز ہے کہ اب ہم نے ان Documents کو مہر بند (Seal) کروا دیا ہے.اور اب یہ پبلک کے استعمال کے لئے نہیں ہوں گے.تو بی ایس سی کا ایک معمولی سا طالب علم ایٹم بم کا پورا اور مکمل بلو پرنٹ Blue print تیار کر لیتا ہے.اس لئے کہ اس کو پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا بڑا دماغ دیا ہے کہ اگر میں اس کو استعمال کروں تو میرے لئے ترقی کے غیر متناہی رستے کھلے ہیں.آج صبح میں نے آپ کو Languages یعنی زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ دلائی تھی.زبانوں کے متعلق ریسریچ کہتی ہے کہ گیارہ سال کی عمر تک آپ جتنی چاہیں، زبانیں سیکھیں.آپ کے اوپر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا.جتنی زیادہ آپ زبانیں سیکھیں گے، اتنا زیادہ آپ کا دماغ اور زبانیں سیکھنے کے قابل ہو جائے گا.اور اگر گیارہ سال کی عمر تک ایک زبان بھی نہ سیکھی ہو تو پھر ناممکن ہے کہ آپ کوئی ایک زبان بھی سیکھ سکیں.اس کے بعد علمی ترقی زبان کے لحاظ سے ناممکن ہو جائے گی.برین (Brain) کا جو Right hemisphere ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبانیں سکھائی جاتی ہیں.گیارہ سال تک وہ انتظار کرتا رہتا ہے اور پھر وہ Barren یعنی ناکارہ ہو جاتا ہے اور اس سے کچھ بھی یاد نہیں ہوتا.جس طرح بعض عورتیں یورپ وغیرہ میں پلاننگ کرتی ہیں، رحم بچے کا انتظار کرتارہتا ہے، کچھ عرصہ بعد فلوپین ٹیوبز وغیرہ بند ہو کر بیکار ہو جاتی ہیں.اسی طرح دماغ کا یہ حصہ گیارہ سال تک انتظار کرتا ہے کہ اسے استعمال کیا 168
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 118 اکتوبر 1982ء جائے.جو لوگ استعمال نہیں کرتے ، وہ اسے ضائع کر دیتے ہیں.لیکن جو اپنے دماغ پر زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں ، وہ اسے معطل نہیں کرتے بلکہ اور زیادہ چمکا دیتے ہیں.پس آپ اپنے دماغ کی قدر کریں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت غیر معمولی قوتیں عطا فرمائی ہیں.آپ بیک وقت بہت سی چیزیں سیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ علم میں مگن ہو جائیں.یہی زندگی کی لذت ہے.جو مزاعلم میں ہے، وہ نہ گیوں میں ہے، نہ چالا کی میں ہے اور نہ لباس وغیرہ میں ہے.پھر اس کے ساتھ کیریکٹر میں ایک عظمت (Nobility) بھی پیدا ہو جاتی ہے.تو جیسا کہ آپ سے میں نے کہا تھا، زبانیں سیکھیں.جب آپ نیک نیتی سے سیکھیں گے تو اللہ تعالی کی مدد بھی آپ کو حاصل ہوگی.اور آپ پر کوئی ایسا بوجھ بھی نہیں پڑے گا، جو آپ کی تعلیم میں حارج و.ہر طالب علم کو جوز اند وقت ملتا ہے، اس میں وہ یہ مشغلہ رکھ لے کہ کوئی زبان سیکھنی ہے.اس سے اس کو Rolaxation یعنی تفریح بھی ہوگی.کیونکہ دلچسپی کو حاصل کرنے یا بوریت کو دور کرنے کا جو Phenomenon ہے، وہ صرف یہ ہے کہ انسان تبدیلی چاہتا ہے.کام سے کام میں تبدیلی ہو، تب بھی آدمی Relaxed یعنی سکون حاصل کر لیتا ہے.چنانچہ انتہائی پریشر کے وقت جب چرچل نے Relaxed کرنا ہوتا تھا تو وہ ترکھان والا کوئی کام شروع کر دیتا تھا.اور اگر ترکھان کام کر رہا ہو اور تھک جائے تو وہ تو خیر اس وقت جرنیل نہیں بن سکتا.لیکن بہر حال اگر کوئی اور کام کرے گا تو اس میں دلچسپی پیدا ہو جائے گی.تو تنوع میں دلچسپی ہے، تبدیلی میں دلچسپی ہے.یہ بھی آپ کی ایک علمی تبدیلی ہو جائے گی.آپ ایک نئی زبان سیکھنے لگ جائیں گے.اس موضوع پر ابھی میاں احمد (صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب.ناقل ) سے باتیں ہورہی تھیں.انہوں نے بتایا کہ رشیا میں زبان پر ریسرچ ہوئی.وہ بعض زبانیں بعض طریقوں سے جلدی سیکھا دیتے ہیں.میں نے ان سے کہا ہے کہ ساری دنیا سے ( کوائف (Data اکٹھا کریں ریں.اصل بات یہ ہے کہ زبان پر نئی نئی ریسرچ بہت سے ملکوں میں ہو رہی ہے اور اس کے متعلق مختلف ذرائع اختیار کیے جارہے ہیں.مثلاً بنیادی طور پر یہ بات ہے کہ ترجمے کی بجائے براہ راست زبان سیکھی جائے.اس کے لئے شروع میں تصویری زبان میں بغیر ترجمے کے کتابیں آگئی تھیں.فرنچ میں اٹالین وغیرہ ) ہر زبان میں یہ کتا بیں ملتی ہیں.تصویر ہوتی ہے اور اس میں اشارہ ہوتا ہے کہ یہ فلاں چیز ہے، یہ فلاں چیز ہے، آہستہ آہستہ انسان نظری طور پر وہی پڑھنے لگتا ہے.جس طرح بچہ سیکھتا ہے، اس طرح وہ سیکھتا ہے.البتہ اس 169
خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں تلفظ کی کمزوری آجاتی ہے.کیونکہ اچھا تلفظ آہی نہیں سکتا، جب تک کہ انسان خود نہ سنے.اب (Video) وڈیو سسٹم آگئے ہیں، ان کے ذریعے یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے.اگر تحقیق کی جائے تو بہت سی ایسی وڈیو ریکارڈنگ مل سکتی ہیں، جن میں ایک فریچ ٹیچر صحیح تلفظ کے ساتھ اور آہستہ آہستہ فریج پڑھا رہی ہے اور ساتھ تصویریں بھی آرہی ہیں اور وہ اشاروں سے بھی بتا رہی ہے.اس طریق سے زبان آجاتی ہے.پھر سائیکالوجی کی طرف سے مختلف ممالک میں جو ریسر چز یعنی تحقیقات ہو رہی ہیں، اس میں کئی قسم کے تجربے ہوئے ہیں.بلغاریہ ایک مشرقی یورپ کا ملک ہے، وہاں یہ تجربہ کیا گیا تھا کہ ایک میوزک ہال میں بہت ہی اعلی اور آرام دہ کرسیاں بچھائی گئیں.جس طرح (Luxury) کے لئے صوفے سیٹ بنائے جاتے ہیں اور بیک گراونڈ میں انہوں نے ایک نئی زبان بھر دی اور اس کے ترجمے اور گرائمر وغیرہ پڑھارہے ہیں.فلور گراونڈ میں میوزک کا انتظام ہے.لیکن ہلکی سی آواز بھی سنائی دے رہی ہے.توجہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میوزک کی طرف دینی ہے، زبان کی طرف نہیں دینی.زبان بھول جاؤ تمہارے اوپر اس کا کوئی بوجھ نہیں پڑنا چاہئے.یہ تجربہ اس نظریے کے تحت کیا گیا کہ کانشس برین یعنی ذہن بعض دفعہ باہر ایک روک ڈال دیتا ہے اور اس سے ٹکرا کر بہت سے علوم واپس چلے جاتے ہیں اور ذہن کے اندر Penetrate داخل نہیں ہونے دیتا.اور کانشنس برین یعنی شعوری ذہن میں ان کانشنس یا سب کانشنس برین) یعنی غیر شعوری یا تحت الشعوری ذہن کی نسبت Storage Capicity یعنی الفاظ کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہے.مثلاً سب کا نشنس تحت الشعور کے متعلق تو یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ ایک بچی ، جس کو انگریزی کے سوا کوئی زبان نہیں آتی تھی اور دوسری زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتی تھی ، جب اس کے دماغ کا آپریشن ہونے لگا اور اس کے لئے ڈاکٹروں نے سوئیاں گزارنی شروع کیں تو ایک جگہ پہنچ کر وہ Fluent نہایت رواں زبان میں جرمن بولنے لگ گئی.( دماغ کا ایک حصہ Execute متحرک کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ جرمن بولنے لگ گئی.) ڈاکٹر بڑے متعجب ہوئے کہ یہ کیا قصہ ہے؟ اس کے ماں باپ سے سوال کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اس کو کبھی جرمن نہیں سکھائی.پھر Cross examination کرید کر سوالات پوچھنے پر ماں کو یاد آ گیا کہ اصل میں بچپن میں اس کی دایہ ایک جرمن تھی اور اس کی عادت تھی Soliloquy یعنی وہ بیٹھی آپ ہی آپ منہ میں باتیں کیا کرتی تھی.اب یہ اس کے بچپن کا تھوڑ اسا دور تھا.اس وقت کوئی Conciousness یعنی شعوری کیفیت اس کی ایسی نہیں تھی کہ جو وہ سیکھنا چاہتی تھی ، کانشنس برین یا شعوری ذہن اس کو د کر رہا تھا بلکہ جو وہ سن رہی تھی، دماغ اس کو 170
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء Sink جذب کرتا جارہا تھا.اس کے نتیجہ میں جب اس نے Conciously شعوری دور میں علم سیکھا تو وہ چیزیں سٹور ہو کر دب گئیں اور اس کو پتہ نہیں تھا کہ میرے اندر کیا قابلیت موجود ہے؟ جب برقی آلوں نے دماغ کے اس حصے کو Exite فعال کیا تو اچانک دوبارہ قوت بیدار ہوگئی اور پتہ لگا کہ انسان کے ذہن کی Storage capacity کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے اور وہ آپ ہی آپ علم کو Absorb جذب کرتا چلا جاتا ہے.اس پر بہت ریسرچ ہو چکی ہے اور یہ پتہ چلا ہے کہ دماغ کے بے شمار ایسے حصے ہیں، جن میں علم کے سٹور بھرے ہوئے ہیں.ہم نے کسی وقت کوئی چیز سیکھی تھی اور وہ وہاں محفوظ ہوگئی ہے.ان کوActively مستعدی کے ساتھ استعمال کرنے کی طاقت ہم میں ہو یا نہ ہو لیکن دماغ میں وہ چیزیں موجود ہیں.اس اصول پر انہوں نے یہ طریق سوچا کہ دماغ کو یا بتایا ہی نہ جائے کہ تم کچھ یاد کر رہے ہو تا کہ اس پر بوجھ نہ پڑے.جس طرح طالب علم امتحان سے پہلے جب Conciously یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بعض اوقات دس دس دفعہ پڑھ کر اس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.لیکن کہانی کے طور پر وہی مضمون پڑھ جائے اور خیال بھی نہ ہو کہ میں نے یاد کرنا ہے تو بعض دفعہ پوری کتاب کا مضمون ذہن میں رہتا ہے اور خود بخو دوقت پر یاد آ جاتا ہے.اس اصول پر انہوں نے زبان کا تجربہ کیا.لوگوں سے کہا کہ تم Relaxed ہو کر میوزک سنو اور تم محسوس کرو گے کہ زبان آپ ہی آپ ڈوب رہی ہے کہ ان کا دعوی یہ تھا کہ ایک مہینہ کے اندر ہم نے پہلی (Proficiency) ابتدائی لیاقت پیدا کر دی ہے.یعنی زبان بولنے کی پہلی سٹیج (Create) قائم کر دی.اور ایک ہفتے کے بعد اچانک وہ لوگ زبان بولنے لگ گئے ، جس طرح کہ ان کو پہلے ہی آتی تھی.اس طرح ان کو احساس ہوا.اس پررشیا کی ایک سائنٹسٹ ٹیم کا پتہ لگا تھا کہ اس نے ریسرچ کی ہے اور وہ اس پر بڑی گہری دلچسپی لے رہے ہیں.اس لئے ہو سکتا ہے کہ میاں احمد صاحب کی جو انفارمیشن ہے، وہ اسی مضمون سے متعلق ہو اور زبان سیکھنے کا یہی طریق ہو.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ غیر معمولی طور پر تھوڑے وقت میں وہ زبانیں سکھاتے ہیں.ایک اور تجربہ بھی ہوا ہے، جس کے متعلق بعض سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ بالکل نا کام ہے.لیکن بعض ابھی تک اصرار کر رہے ہیں کہ نہیں یہ مفید ہے اور Ordinarily یعنی بالعموم ہم میں سے ہر ایک کے یا ایک طبقے کے بس میں ہے.وہ کہتے ہیں کہ مثلاً جو زبان تم سیکھنا چاہتے ہو، وہ کیسٹ ریکارڈ کر لو.اس کے بعد وہ جور پیٹ (Repeat) سسٹم ہوتا ہے، ( جیسے ٹوشیبا Toshiba میں اشتہار آرہا تھا کہ ٹیپ ختم ہو 171
خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم تو وہیں سے دوبارہ چل پڑے.) اس میں ریکارڈنگ ہوئی ہو تو رات ہلکی آواز میں چلا کر خود سو جاؤ.ساری رات دماغ اس کو Catch اخذ کرتا رہے گا.ہو سکتا ہے کہ جب تھوڑی دیر کے لئے Deep sleep یعنی گہری نیند میں آجائے تو اس وقت نہ کرے.اس کی تفصیل میرے علم میں نہیں لیکن جو میں نے پڑھا ہے، وہ یہی ہے کہ ساری رات Sleep یعنی نیند کی کوئی سٹیج، منزل ہو، ذہن اس کو نوٹ کرتا چلا جاتا ہے.یہ بات تو درست ہے اور اس میں کوئی شک نہیں.کیونکہ جیسا کہ پہلا تجربہ میں نے بیان کیا ہے، ہوسکتا ہے بلکہ غالب خیال یہی ہے کہ ذہن ضرور ریکارڈ کرتا ہوگا.لیکن اصل مشکل سوال یہ ہے کہ کیا کانشنس برین اس سب کا نشنس ریکارڈنگ سے استفادہ کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اور اس کا کوئی کنکشن سسٹم ہے یا نہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سسٹم ضرور ہے.ورنہ یہ سارا ہے کار تھا اور اللہ تعالیٰ کوئی باطل اور بے کار چیز پیدا نہیں کرتا.چنانچہ پہلے دن بچے کے ایک کان میں اذان دینا اور دوسرے کان میں تکبیر یعنی اقامت کہنا، یہ ایک اغو فعل بن جاتا ہے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے اور حضوراکرم ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے، اگر یہ لغو ہوتا.آپ کی زندگی کا ایک ذرہ بھی تعلیم قرآنی کے خلاف نہیں.اس پہلو سے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب کا نشس برین سے کا نشس برین کے استفادے کا کوئی نظام ضرور قائم ہو گا.ممکن ہے، بعض ذہنوں میں وہ کنکشن جلدی پیدا ہو جاتا ہو، بعض میں ذرا ست پڑ گیا ہو.اس لئے اگر آپ کے پاس ٹوشیبا یا ہ کوئی اور کیسٹ ریکارڈ ہو، جس طرح موٹر کے ہوتے ہیں (اس میں اکثر ر پیٹ سسٹم والے آتے ہیں، عام طور پر جو موٹر کے ریکارڈر ہیں، ان میں ریکارڈ تو نہیں ہوسکتا.پلے بیک (Play back) ہوتا ہے، اور بیٹری کے اوپر اس کو چلایا جا سکتا ہے.تو آپ میں سے اگر کوئی تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو تجربہ کر کے اس کے فوائد کوریکارڈ کریں.یہ تجربہ دوطریق سے ہونا چاہئے.ایک تو یہ کہ رات کو سونے کے بعد صرف سنا جائے یا کچھ حصہ Consciously سن لیا جائے اور پھر سو جائیں تا کہ دماغ سے اس کا ایک لنک (Link) قائم ہو جائے اور مہینہ، دو مہینے کے بعد دیکھیں کہ کس قسم کی آپ میں امپرومنٹ (Improvement) ہوئی ہے کہ نہیں؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس تجربے کے بعد اسی آواز کے ذریعہ پھر وہ زبان سیکھنے کی کوشش کریں اور پھر ایک ایسا کنٹرول گروپ ہو، جو بغیر اس تجربے کے بعد میں اکٹھے زبان سیکھنے کی کوشش کریں.ہیں، تیں کا ایک کنٹرول گروپ بنالیں اور ایک ایکسپیری منگل یعنی تجرباتی (Experimental) گروپ بنالیں.ان کے موازنے سے ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ واقعتہ کوئی فائدہ 172
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء ہے یا نہیں ہے؟ یا یوں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم میں جو فائدہ ہے ، ہم اس کے راز کو پاسکے ہیں کہ نہیں ؟ اور اس ذریعے سے اس کا کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ بہر حال جو بھی نئے نئے ذرائع ہیں، ان کو امپورٹ (Import) کر کے ان سے ہم انشاء اللہ تعالی ربوہ میں زبان سکھانے کا ایک ماڈل بنا ئیں گے.جتنا بھی اس پر خرچ ہو گا ، اس کی کوئی پرواہ نہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار فضل ہیں.باہر کی جماعتیں بھی اب بڑی بیدار ہیں اور کما رہی ہیں اور خدمت کا جذبہ رکھتی ہیں.ان کے اندر قربانی کے جذبے حیرت انگیز طور پر بیدار ہورہے ہیں.بڑی کثرت سے دوست یہ پیشکش کر رہے ہیں کہ ہمارا سب کچھ سو فیصدی دین کا ہے.جس وقت، جب چاہیں، منگوالیں.جو چاہیں، لے لیں.ہمیں ایک شوشے کا بھی اعتراض نہیں.روپیہ کوئی مشکل ہی نہیں ہے، ایسی جماعت کے سامنے، جو خالصتہ للہ ہو چکی ہو اور جو اپنا کچھ الگ سمجھے ہی نہ.افراد جماعت احمدیہ کی ٹوٹل پراپرٹی ، ٹوٹل جماعت احمدیہ کی پراپرٹی ہے.یہ شکل بن جاتی ہے تو روپے کی کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے رستے میں روک نہیں بنے گی.اس لئے فہرستیں منگوا ئیں اور ساتھ ہی آرڈر دیتے چلے جائیں.تا کہ یہاں نمونے آنے شروع ہو جائیں.پھر ایک بہت خوبصورت ماڈل یہاں Create ہو جائے.خواہ جامعہ میں یا لائبریری میں.اگر الگ عمارت بنانی پڑے یا کمرہ وغیرہ Add کرنا پڑے تو وہ بھی کردیں گے انشاء اللہ.تو جتنی جلدی یہ انتظام ہو، اتنا ہی بہتر ہے.پھر اس سے نمونے لے کر ہر ایسے بڑے شہر میں، جہاں خاص تعداد میں احمدی طلباء پڑھتے ہیں، چھوٹی چھوٹی Languages لیبارٹری بنا دیں گے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.اپنے آپ کو تیار کریں، کمر ہمت کہیں اور یقین پیدا کریں کہ آپ علوم کی دنیا میں لوگوں کے لئے سردار بنائے گئے ہیں اور ان کی راہ نمائی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.غفلت کو Shake off کر دیں، اپنے مقام کو سمجھیں اور دعائیں کر کے آگے بڑھنے کے لئے تیاری کریں.اللہ تعالیٰ بڑے بڑے علوم کے نئے نئے رستے آپ میں کھولے گا، آپ نئی نئی منزلیں طے کریں گے اور نئی نئی چوٹیاں سرکریں گے.خدا کرے کہ ہم جلد یہ دن دیکھیں.آمین.اب دعا کر لیتے ہیں.مطبوعه روز نامه افضل 04 مئی 1983ء) 173
تحریک جدید- ایک البی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرمود 22 اکتوبر 1982ء اسلامی معاشرہ کو اختیار کیے بغیر ہم دنیا کے معاشرے کو بدل نہیں سکتے خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اکتوبر 1982ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ زندگی ، جس کے لئے انسان اپنی تمام تر توجہات ضائع کر دیتا ہے، تمام کوششوں اور تمام زندگی کی جدو جہد کا مقصود، جس زندگی کو بنالیتا ہے، وہ زندگی کھیل ہے اور لہو ہے اور زینت ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنے کا ذریعہ ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے وو...66 سے سبقت لے جانے اور ایک دوسرے سے زیادہ کثیر تعداد میں ان کے مالک بننے کا نام ہے.دیکھو! دنیا کی زندگی ایک دھو کے کے سوا کچھ بھی نہیں.اللہ کی مغفرت کی طرف دوڑو، ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ تا کہ تمہیں اپنے رب کی طرف سے مغفرت حاصل ہو.اور ایسی جنت ملے، جس کی قیمت یا جس کا حجم ، دونوں لحاظ سے آسمان اور زمین کے برابر ہو.یہ جنت ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے، جو ایمان لاتے ہیں، اللہ پر اور اس کے رسولوں پر.یہ خاص فضل ہے، اللہ کی طرف سے، وہ جسے چاہتا ہے، اپنے فضل سے نوازتا ہے.یورپ میں جانے والے جانتے ہیں کہ ساری یورپین تہذیب اپنے ماحصل سے مایوس ہو چکی ہے.جو کچھ انہوں نے حاصل کیا لذتوں میں ، وہ اب ان کے لیے پرانا ہو گیا ہے.نئے نئے رستوں کی تلاش کرتے ہیں، اس سے زیادہ ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا.تکاثر کے نتیجے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جس قومی دوڑ میں داخل ہو گئے ہیں، اس نے خطرات پیدا کر دیئے ہیں.ان کو نظر آرہا ہے کہ کوئی بعید نہیں کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا تھا، دیکھتے دیکھتے یہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گا.انتہائی مایوسی کا عالم ہے.یورپ میں جتنی بھی نئی مومنٹس چل رہی ہیں، وہ اس بات کی مظہر ہیں کہ قرآن کریم کا یہ بیان سچا ہے کہ کچھ عرصے تک لذتوں کے حصول کے بعد تم خودان لذتوں میں دلچسپی کھو دو گے.بالآخر تمہارے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا.وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ آج مغرب کی آواز بھی یہی اٹھ رہی ہے کہ ہم نے کیا حاصل کیا ؟ حقیقت میں ہمیں چین نصیب نہیں ہوا.اتنی بے چینی ، اتنی بے قراری ہے، آج ان ترقی یافتہ قوموں میں.اگر خود کشی کا حجان کوئی پیمانہ ہو 175
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اکتوبر 1982 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک سکتا ہے تو سب سے زیادہ خود کشی آج ترقی یافتہ قوموں میں پائی جاتی ہے.اگر پاگل پن کوئی پیمانہ ہوسکتا ہے تو اس کثرت کے ساتھ پاگل پیدا ہورہے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ان قوموں کے پاس ذرائع بہت زیادہ ہیں اور ہمارے ملک کے پاگل خانوں کی نسبت انہوں نے سینکڑوں گنازیادہ پاگل خانے بنائے ہوئے ہیں، پھر بھی وہ پاگل خانے بھر جاتے ہیں اور پاگل رکھنے کی جگہ نہیں ملتی.پھر وہ دوسرے Homes بناتے ہیں.پھر ایسی اور سوسائٹیاں پیدا ہو جاتی ہیں، ان کی مدد کے لئے.چنانچہ صرف امریکہ میں اتنے پاگل خانے ہیں کہ ان کی Exact گنتی تو مجھے یاد نہیں لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان اور پاکستان بلکہ سارے مشرق کے پاگل خانے ملا لیے جائیں تو اس سے کئی گنا زیادہ صرف امریکہ میں پاگل خانے ہیں.اور کیوز Cues لگے ہوئے ہیں اور باری نہیں آرہی.اور کچھ مینٹل ہومز (Mental Homes) ہیں، جو اس کے علاوہ ہیں.دینی بے چینی کا اس وقت یہ عالم ہے کہ صرف وہیلیم (Valium) پر، جو ایک معمولی سی دوائی ہے، پچاس کروڑ ڈالر یا پانچ ارب روپیہ سالانہ خرچ ہورہا ہے، جو بعض ممالک کی کل آمد سے بھی بڑھ کر ہے.وہ صرف ذہنی بے چینی کو دور کرنے کے لیے ایک دوائی کے اوپر خرچ کر رہے ہیں.اور سارے Drugs پر امریکہ میں جو خرچ ہو رہا ہے، وہ مشرق کے بہت سارے ملکوں کی اجتماعی دولت سے بھی زیادہ ہے.یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ ان کا دل گواہی دے رہا ہے کہ وَمَا الْحَيُوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ہم نے جو کوشش کی تھی حصول لذت کی، اس میں ہم نا کام ہو گئے ہیں.ایک منزل سے دوسری کی طرف بڑھے، دوسری سے تیسری کی طرف بڑھے، یہاں تک کہ بالآخر ہم نے یہ دیکھا کہ وہ سب کچھ جو ہمارا ماحصل تھا، وہ ایک ایسی زردی میں تبدیل ہو گیا ہے، جس میں کچھ بھی باقی نہیں رہا.سبز کھیتی، جس طرح لذت عطا کرتی ہے نگاہ کو، اگر وہ پھل دینے سے پہلے مرنی شروع ہو جائے تو زمیندار کوکتنی تکلیف ہوتی ہے.وہ نقشہ قرآن کریم کھینچ رہا ہے.بیچ میں کہیں پھل کا ذکر نہیں.فرماتا ہے، کھیتیاں لہلہاتی تو نظر آئیں گی تمہیں.لیکن ان کو پھل نہیں لگے گا.وہ دیکھتے دیکھتے خشک ہونے لگیں گی اور خشک ہو کر جب زردی میں تبدیل ہوں گی، پھر تمہیں تکلیف ہونی شروع ہوگی.اور اس تکلیف کے نتیجے میں تم محسوس کرو گے، جو کچھ ہم نے حاصل کیا تھا، سب ہاتھ سے نکل گیا ہے.کچھ بھی ہمارے پاس نہیں رہا.تب دل کی آواز اٹھتی ہے:.وَمَا الْحَيوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ یہ ویسا ہی نقشہ ہے، جس طرح انفرادی طور پر ہر انسان کی زندگی میں آتا ہے.میر درد نے اسی حالت پر غور کیا تو یہ شعر کہا:.176
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 22 اکتوبر 1982ء وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا جب انسان موت کے قریب آتا ہے تو ہر فرد بھی یہی گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ، خواہ مخواہ کی دوڑ دھوپ لگائی ہوئی تھی ہم نے.جو کچھ حاصل کیا تھا، وہ تو ہم پیچھے چھوڑ کے جارہے ہیں.اور جو حاصل کیا تھا، وہ چین جان اور آرام دل پیدا نہیں کر سکا.ناکامی اور حسرت کے ساتھ ایسے لوگ جان دیتے ہیں.ان کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انجام کا ر پھر یہ ایسے دور میں داخل ہو جائیں گے کہ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ وو شدید قسم کا عذاب آخرت میں ان کے لیے مقدر ہے“.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، صرف عذاب ہی کی خاطر انسان کو پیدا نہیں کیا گیا.ناکامیوں اور مایوسیوں کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا.یہ سارے جذبے جو بیان کئے گئے ہیں، یہ محرکات ہیں زندگی کے.اگر ان کا صحیح استعمال شروع ہو جائے تو اس کے نتیجے میں مغفرت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوسکتی ہے اور رضائے باری تعالیٰ بھی حاصل ہو سکتی ہے.بنیادی طور پر زندگی کی شکل وہی رہے گی ، جو اوپر بیان ہوئی ہے.اس سے تبدیل شدہ کوئی شکل بیان نہیں کی گئی.مگر یہ سارے جذبے جو انسان کو ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف لے کر جاتے ہیں، ان کو ایسا رخ دیا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رضوان کا موجب بن جائیں.فی ذاتہ کھیل کو د اور لہو و لعب یا عیش و عشرت ایسی چیزیں ہیں، جن سے انسان کلیتہ جدا ہو ہی نہیں سکتا، ناممکن ہے.لیکن ہمیشہ جب کھیل کو د خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابل پر آئے اور کھیل کود کو انسان قربان کر دے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو اختیار کرلے تو یہی انسانی جذ بہ مغفرت اور رضوان میں تبدیل ہو جاتا ہے.شہوات نفسانی بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما تا کہ مومن کی زندگی میں شہوات کا کوئی دخل نہیں.مگر جب وہ تابع مرضی مولیٰ ہو جائیں تو مغفرت اور رضا کا موجب بن جاتی ہیں.اور خدا کی خاطر شہوات چھوڑنے کا نام اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.پھر زینت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، مومن بھی زینت اختیار کرتے ہیں.لیکن ان کی زینت کا تصور بدل جاتا ہے.وہ لباس التقویٰ میں زینت حاصل کرتے ہیں.اس سے عاری رہ کر تو کوئی زندگی بسر نہیں کر سکتا.زینت کی تمنا تو ہر انسان کو حاصل ہے.مگر 177
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ (الحجرات : 14) وہ ایسی زینت اختیار کرنے لگ جاتے ہیں، جس میں ان کو ظاہری زینت کی نسبت زیادہ لذت حاصل ہوتی ہے.اور چین دل وہ بھی پارہے ہیں، اس زینت میں.لیکن وہ مختلف قسم کی زینت ہے.اور اس کے نتیجے میں جب وہ ایسی زینت حاصل کرتے ہیں تو ان میں بھی رشک کے جذبے ہیں.وہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے بڑھیں.لیکن وہ جو سبقت ہے، اس کا نقشہ یوں کھینچتا ہے:.كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (الحديد (22) ان کے اندر بھی مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے، وہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں، لیکن ان کی سبقت کا رخ بدل جاتا ہے.وہ اموال اور اولاد میں سبقت کی بجائے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے حصول میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور رضائے باری تعالیٰ میں سبقت کی کوشش کرتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں، جن کے متعلق اللہ فرماتا ہے:.ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ایک ہی قسم کی زندگی میں مبتلا ہونے والے دو قسم کے لوگ دکھائے گئے.ایک وہ جو دنیا کو اپنا مدعا اور شعار بنا لیتے ہیں.ایک وہ جو دنیا میں رہتے ہوئے، بظاہر اسی قسم کی زندگی بسر کرتے ہوئے اللہ کو اپنے رب کو اپنا مدعا اور مطلوب بنا لیتے ہیں.فرماتا ہے.ان کی زندگی نا کام نہیں ہوتی.نہ اس دنیا میں ان کو عذاب نصیب ہوتا ہے، نہ اس دنیا میں ان کو عذاب ملتا ہے.اس دنیا میں بھی وہ اللہ تعالیٰ سے راضی رہتے ہیں اور اس دنیا میں بھی وہ اللہ سے راضی رہیں گے.اس دنیا میں بھی اللہ کی مغفرت کے نمونے دیکھتے رہتے ہیں اور اس دنیا میں بھی اللہ کی مغفرت کے نمونے دیکھیں گے.پس یہ وہ پاکیزہ نقشہ ہے اور موازنہ ہے چند الفاظ میں، جس میں ساری انسانی زندگی کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے.جماعت احمدیہ کو چاہئے کہ وہ خصوصیت کے ساتھ ان تمام چیزوں میں یہ پیش نظر رکھے کہ نہ لعب غالب آئے ، نہ لہو غالب آئے ، نہ زینت غالب آئے ، نہ تفاخر غالب آئے ، نہ تکاثر غالب آئے.یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ اگر وہ دنیا کے لحاظ سے قوموں پر غالب آجائیں تو قو میں تباہ ہو جایا کرتی ہیں.بلکہ ان سارے جذبات کو مذہبی اقدار میں تبدیل کریں اور مذہبی اقدار کی پیروی کی طرف اپنی تو جہات کو مبذول کر دیں.178
تحریک جدید - ایک البی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 اکتوبر 1982ء لذتوں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرمارہا ہے کہ تمہیں کم نہیں حاصل ہوں گی.مثلاً لہو ہے، لہو اختیار کرنے میں بھی ایک لذت ہے.مگر اللہ کی خاطر چھوڑنے میں بھی ایک لذت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لذت زیادہ ہے.زینت میں لذت تو ہے لیکن ظاہری زینت میں بھی ایک لذت ہے اور باطنی زینت میں بھی ایک لذت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن کو باطنی زینت حاصل ہو جائے ، ان کو ظاہری زینت کی کوئی پرواہ نہیں رہتی، وہ بے نیاز ہو جاتے ہیں.اور بے نیازی بتا رہی ہے کہ اندرونی زینت زیادہ لذت کا موجب ہے.اسی طرح تکاثر جو ہے، یعنی مال اور اولاد میں تکاثر، جب مغفرت اور رضوان کے تکاثر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے سے دوڑ شروع ہو جاتی ہے مومنوں کی کہ ہم رضائے باری تعالیٰ کو زیادہ حاصل کریں تو اس میں ایسی لذت پاتے ہیں.وہ ان ساری چیزوں کو حقیر سمجھنے لگ جاتے ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ پھر یہ ساری چیزیں وہ شوق سے اللہ کے سامنے نچھاور کر دیتے ہیں.ان کو ان کی پرواہ ہی نہیں رہتی.ان سے بے تعلق Detach ہونے لگ جاتے ہیں.اور ان کو یوں نظر آتا ہے کہ جس طرح ان میں جان ہے ہی کوئی نہیں.دیکھتے ہی اس کو زرد ہیں.دنیا کو ایسی حالت میں دیکھتے ہیں، جو ان کی کشش کو جذب نہیں کر سکتی.بے کیف زندگی دکھائی دیتی ہے.دنیا میں رہتے ہوئے اس سے ایک علیحدہ زندگی بسر کرنے لگ جاتے ہیں.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی توجہ کو اب زیادہ بہتر مقصدیل گیا ہے.یہ وہ نقشہ ہے، جو جماعت کو اختیار کرنا چاہئے.کیونکہ اس کو اختیار کئے بغیر ہم دنیا میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.یہ وہ اسلامی معاشرہ ہے، جس کی تصویر کھینچی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے آخر پر جس کی تصویر کھینچی ہے.جب تک ہمیں یہ معاشرہ حاصل نہیں ہوتا ، ہم دنیا کے معاشرے کو بدل نہیں سکتے.بلکہ جب بھی ہم میں سے کوئی اس معاشرے میں جائے گا، وہ مغلوب ہو جائے گا.میں نے دیکھا ہے، کمزور طبیعت کے لوگ انگلستان اور یورپ کے سفر میں جب ظاہری طور پر لہو واب کو کھل کھیلتا دیکھتے ہیں تو بے انتہا مغلوب ہو جاتے ہیں ذہنی طور پر.وہ سمجھتے ہیں لوجی ، اصل زندگی تو ہے ہی یہی.ہم تو خواہ مخواہ خراب ہی رہے دنیا میں، ہم نے کیا حاصل کیا ؟ کچھ بھی نہیں.رہنا ان کو آتا ہے، پہنا ان کو آتا ہے، اوڑھنا بچھونا ان کو آتا ہے.کیسی خوبصورت گلیاں ہیں، کیسے خوبصورت محل بنے ہوئے ہیں، خوبصورت Beaches ہیں، سمندر کے کنارے ہیں، باغات ہیں، پارک ہیں، تو ساری زندگی یہیں پڑی ہے.ہم تو خواہ مخواہ جس کو پنجابی میں کہتے ہیں، ” جل خراب ہی ہوندے رئے اسی“.یعنی عمر عمر 179
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ضائع اور خراب کر دی اپنی.تو وہ یہ تاثر لے لیتے ہیں.کیوں لیتے ہیں؟ اس لیے لیتے ہیں کہ اس کے مقابل پر ان کی ذات میں کوئی اعلیٰ اقدار نہیں ہوتیں، جن سے وہ راضی ہوں.خالی برتن لے کے جاتے ہیں، اس لیے وہ اس گندگی سے بھر جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سب اقدار کے بدلے تم بہتر اقدار اپنے اندر پیدا کرو اور مغفرت اور رضوان میں سبقت لے جانے کی عادت ڈالو.جب تمہاری توجہ اپنے رب کی طرف مبذول ہو جائے گی اور اس کی رضا کی طرف مبذول ہو جائے گی تو یہ چیزیں لذت کھو دیں گی.پھر تم ان کو کھو کھلے برتنوں کی طرح دیکھو گے.تم نظر تو ڈالو گے ان پر لیکن رحم کی نظر ڈالو گے، رشک اور حسد کی نظر نہیں ڈالو گے.تم اپنے آپ کو بہتر انسان سمجھو گے.چنانچہ دونوں نظر سے جائزہ لینے والے وہاں میں نے دیکھے.بعض عدم تربیت یافتہ نوجوان احمدی بھی ایسے تھے ، جو یورپ سے مغلوب ہو جاتے تھے اور بعض ایسے سنجیدہ قسم کے لوگ تھے، جن کو عبادت کی لذتیں حاصل تھیں، جن کو ذکر الہی کا مزہ حاصل تھا، جو جانتے تھے کہ مذہبی اقدار ہی باقی رہنے والی اقدار ہیں، وہ نہایت حسرت کے ساتھ ان چیزوں کو دیکھتے تھے اور رحم کے ساتھ ان چیزوں کو دیکھتے تھے کہ یہ تو میں ذلیل اور تباہ ہو رہی ہیں.باوجود اپنی عظمتوں کے ان کو کچھ بھی نہیں مل رہا.چنانچہ بکثرت مجھے ایسے احمدی خاندان ملے ، جن کو وہاں دنیا کمانے کے بہترین ذرائع میسر ہیں.لیکن ایسا دل اچاٹ ہو گیا ہے ان چیزوں سے کہ وہ مجھ سے اجازتیں لیتے تھے کہ باوجود اس کے کہ بظاہر پاکستان میں ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے، ہمیں اجازت دیں، ہم اس ملک کو دفع کر کے وہاں واپس پہنچ جائیں.ایسی مائیں میرے پاس آئیں ، جوزار و قطار رو رہی تھیں.اس قدر درد تھا ان کے دل میں کہ ہچکیاں بندھ گئیں.بات نہیں کی جاتی تھی.ان کا درد مجھے بھی مغلوب کر رہا تھا.آخر پر جب پوچھا کہ آپ کو کیا غم لگ گیا ہے؟ انہوں نے کہا غم کیا لگ گیا ہے، میرے بچے جو بڑے ہوئے ہیں، ان میں سے بعض مغربی زندگی سے متاثر ہو کر سمجھتے ہیں کہ زندگی کی لذتیں یہی ہیں اور میں جانتی ہوں کہ یہ ان کی تباہی اور ہلاکت ہے.اس کے سوا اور کچھ نہیں.کچھ بچے ایسے بھی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احساس اور در در رکھتے ہیں.وہ مجھ پر زور دیتے ہیں کہ اس جگہ کو چھوڑ کر واپس چلے جائیں، ہمیں یہ ملک نہیں چاہئے.نہ ہمیں یہاں کی مال و دولت چاہئے ، نہ یہاں کی تعلیم چاہئے ، نہ ہمیں یہاں کی بڑائیاں چاہئیں.پاکستان میں جا کر غریبانہ گزارا کر لیں گے مگر ان چیزوں میں پڑ کر ہم ہلاک نہیں ہونا چاہتے.180
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 122 اکتوبر 1982ء ایسی عورت ایک نہیں تھی، دو، تین نہیں تھیں.بہت ساری ایسی مائیں مجھے ملیں ، جنہوں نے یہی درخواست کی کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس وطن کو چھوڑ کر نکل جائیں.بہت سے ایسے نوجوان ملے، جنہوں نے کہا کہ بظاہر ہم یہاں بہت خوش ہیں، ہمیں کوئی تکلیف نہیں ، Job بھی ہے لیکن دل اچاٹ ہو گیا ہے بری طرح.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے سامنے ان چیزوں کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.آج ہمیں کوئی نقصان نہیں ہے.لیکن ہمیں پتہ ہے کہ کل ہمارے بچے جب بڑے ہوں گے تو وہ تباہ ہو جائیں گے.اس لیے ہمیں اجازت دیں کہ ہم واپس آجائیں.میرا دل حیران بھی ہوتا تھا اس نظارے سے اور خوش بھی ہوتا تھا کہ خدا کے ایسے مومن بندے، باوقار بندے، آزاد بندے جماعت احمدیہ کے افراد کی حیثیت سے، یورپ میں بس رہے ہیں، جن پر اس سوسائٹی کا ادنی سا بھی اثر نہیں ہے.ایک ماں روتی ہوئی آئی اور مجھے کہا کہ میرے بعض بچے دین میں کم دلچسپی لے رہے ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ میری زندگی کی ساری کمائی ضائع ہو گئی.آخر میں نے یہاں آکر محنت کی تھی ، ان بچوں کو بنایا تھا.ان کو اس لیے بنایا تھا کہ یہ کچھ حاصل کر جائیں.مگر دنیا حاصل کر لیں اور دین کھو جائیں، یہ تو میرا مقصد نہیں تھا.مجھے تو یوں لگتا ہے کہ میں ایک ویرانے میں پہنچ گئی ہوں.ساری زندگی کی کمائی آخر پر حسرت کے سوا کچھ نہیں رہی.فَتَريهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا کا کیسا اچھا نظارہ انہوں نے کھینچا.لیکن ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سوکھی کھیتی کو پھر ہرا بھرا کر دے.چنانچہ اس کے کفارے کے طور پر انہوں نے اپنے ہاتھ کا ساراز یورا تار کے دین کے رستے میں پیش کر دیا کہ اگر میری گریہ وزاری قبول نہیں ہوتی تو خدا اس بات پر رحم کرے اور دیکھ لے کہ مجھے دنیا کے مال سے کوئی محبت نہیں.مجھے میری اولا د چاہئے.اس لیے میری دعا ہے کہ اللہ مجھے میری اولا دواپس کر دے.میں نے یہ مضمون اس لیے چھیڑا ہے کہ آپ بھی حقیقت میں آزاد مردوں اور آزاد عورتوں کی طرح زندگی گزاریں.یعنی دنیا کی لذتوں سے آزاد اور صرف اللہ کی طرف جھکنے والے.کیونکہ جو لوگ باہر گئے ہیں، انہوں نے بغور قریب سے اس سوسائٹی کا مطالعہ کر کے وہی نتیجہ اخذ کیا ہے، جو قرآن کریم ان آیات میں پیش فرما رہا ہے.اور جہاں اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے دعائیں کریں، وہاں اپنے ان بھائیوں اور بہنوں اور بچوں کے لیے بھی دعائیں کریں، جو غیر ملکوں میں بس رہے ہیں.کئی قسم کے خطرات ان کو درپیش ہیں اور ہمارے لیے مشکل یہ ہے کہ ہم ان سب کو واپس آنے کی بھی اجازت نہیں دے سکتے.181
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ان سے میں کہتا ہوں کہ اگر تم نے وہاں اسلام کا جھنڈا نہ گاڑا، اگر تم نے وہاں مضبوط قدموں کے ساتھ پیش قدمی نہ کی اور مغلوبیت کے خوف سے بھاگ آئے تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کون آئے گا، جو اس دنیا کو پیغام دے گا؟ اس لیے زخم بھی لگتے ہیں اس راہ میں.ان زخموں کو اس وجہ سے قبول کرو کہ آخر تم نے دنیا پر فتح یاب ہونا ہے.زیادہ دعائیں کرو، زیادہ توجہ کرو، اولاد کی تربیت کی زیادہ کوشش کرو.کیونکہ اگر ہم نے یہ نہ کیا اور مغرب سے ڈر کے مارے ہم بھاگ آئے تو پھر ان کو بدلے گا کون؟ پھر تو مجھے کوئی ایسی قوم نظر نہیں آتی ، جوان کی ہلاکت کی تقدیر کو بدل سکے.پس جہاں اپنی حفاظت کریں، ان لذتوں میں اپنے آپ کو ضائع نہ کریں، اپنے وقار کو قائم رکھیں، اعلیٰ مقاصد کی حفاظت کریں، اپنی ذات میں وہ عظمت کر دار حاصل کریں، جو سب سے زیادہ انسان کو لذت پہنچاتی ہے اور تسکین بخشتی ہے، وہاں اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کے لیے بھی دعائیں کریں، جو غیر قوموں میں آج اسلام کے سفیر بنے ہوئے ہیں.خدا کرے ہر میدان میں ان کو فتح نصیب ہو.اور ایسی فوجوں میں تبدیل نہ ہو جائیں، جو فتح کرنے جاتی ہیں لیکن ان کے سارے سپاہی و ہیں کٹ مرتے ہیں اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.کچھ زخم تو لگیں گے اس راہ میں.جہاد میں لگتے ہی ہیں.لیکن بالآخر فتح ہمارے مقدر میں لکھی جانی چاہئے.غیر کے مقدر میں نہیں لکھی جانی چاہئے.اس کے لیے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا جھنڈا ہم اس مضبوطی سے مغربی اقوام میں گاڑ دیں کہ پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے وہاں سے اکھاڑ نہ سکے.آمین..مطبوع روزنامه الفضل 14 نومبر 1982ء) 182
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 23 اکتوبر 1982ء مختلف دینی و تربیتی موضوعات پر مختلف قسم کی ٹیمیں تیار کرنے کی ہدایت ارشادات فرموده 23 اکتوبر 1982ء بر موقع مجلس عرفان ”ہمارے ایک مصری دوست طا قذق صاحب ہیں، جو خدا کے فضل سے کافی ذی استطاعت ہیں.انہوں نے یہ پیشکش کی ہے کہ تفسیر کبیر کا عربی میں ترجمہ کروا کر شائع کرنے کا سارا خرچ وہ دیں گے.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک عربوں میں تبلیغ کا بہترین ذریعہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ تفسیر کبیر سے بہتر کوئی ذریعہ تبلیغ نہیں ہے.اگر چہ وہ لوگ عملاً کمزور ہو گئے ہیں لیکن اس کے باوجود دل میں قرآن کی محبت موجود ہے.اس لئے قرآن کی یہ تفسیر، جو جماعت احمدیہ نے کی ہے، ان کو پیش کی جائے تو بغیر کسی اور دلیل کے صداقت ان کے دل میں گھر کر جائے گی.انشاء اللہ یہ کام بہت جلدی شروع ہو جائے گا.تفسیر کبیر کے عربی میں جلد سے جلد تراجم شائع کرنے کا انتظام کیا جائے گا“.زبانوں کے سیکھنے کے بارہ میں محترم ملک سیف الرحمن صاحب نے عرض کیا: میں نے اس سلسلہ میں ایک تجویز لکھ کر حضور کی خدمت میں بھیج دی ہے.حضور نے فرمایا:.میں نے محترم میاں غلام احمد صاحب سے بھی کہا ہے کہ ساری دنیا کے مشنوں کو لکھا جائے کہ زبانوں کے متعلق دنیا نے ماڈرن ٹیکنالوجی میں جو ترقی کی ہے، اس سے ہمیں مطلع کریں.اور اگر سیٹ خرید نے پڑتے ہیں تو ان کی قیمتوں سے بھی مطلع کریں.اس طرح یہاں اساتذہ کی کمی ایک حد تک مشینوں سے پوری کی جاسکتی ہے.ایسی visual aids بھی بن گئی ہیں.وا کی ٹا کی فلم یا وڈیوریکارڈنگ کے ذریعہ مفت میں گھر بیٹھے بہترین استاد مہیا ہو جاتا ہے.اگر ذہین طلباء ہوں تو یہ حقیقت ہے کہ بہت حد تک استاد کی مدد کے بغیر یعنی استاد کے سامنے بیٹھ کر سیکھنے کی بجائے مشینی استاد سے زبان سیکھ سکتے ہیں.اب زبا نہیں سکھانے پر بہت ریسرچ ہو رہی ہے.کئی ملکوں کا تو یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایسا طریقہ ایجاد کیا ہے، جس سے انسان کو ڈیڑھ مہینے کے اندراندرا اچھی بول چال آجاتی ہے.عربی بول چال میں جامعہ احمدیہ ابھی تک بہت کمزور ہے، اس کی بہت فکر کرنی چاہیے.اول تو زبانوں کے سیکھنے میں ہمارے ملک ہیں ہی بہت کمزور.ایک تو لوگ صحیح تلفظ نہیں سیکھتے اور شرماتے ہیں کہ اگر ہم نے کوئی لفظ صحیح تلفظ سے ادا کیا تو لوگ سمجھیں گے کہ انگریز بنتا ہے یا عرب بنتا ہے.حالانکہ علم کے سیکھنے میں 183
ارشادات فرموده 23 اکتوبر 1982ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک کوئی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے.علم کے معاملہ میں شرم خودکشی کے مترادف ہے.اب جب چھینی لوگ ہمارے سامنے اردو بولتے ہیں تو اگر وہ اچھی فصیح و بلیغ اردو بولیں تو ہم حیران ہوتے ہیں.ٹیری میڑھی بولیں تو ہنسی آتی ہے.خوامخواہ ٹیڑی میڑھی عربی بول کر دنیا میں زبان کو خراب کرتے ہیں کہ اس طرح نہیں ہوئی کیونکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ عرب بن رہا ہے.باہر جا کر بعض لوگ انگریزی بھی ٹھیک نہیں بولتے.پرانی بات ہے.ایک دفعہ ہمارے ایک پاکستانی احمدی دوست تقریر کر رہے تھے.میں نے ایک انگریز پروفیسر کو بلایا ہوا تھا.تقریباً پون گھنٹہ کی تقریر کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا: یہ کس زبان میں بول رہے تھے؟ یعنی ایک لفظ بھی اس کی سمجھ میں نہیں آیا.اسے یہ پتہ بھی نہیں لگا کہ وہ کس زبان میں تقریر کر رہا تھا.یہ تو علم ضائع کرنے والی بات ہے.ہمارا ایک فارسی کا بڑا ماہر تھا.وہ پی ، ایچ ڈی کر رہا تھا.فارسی کے ایک پروفیسر نے کہا کہ اس کی تحریر بہت اچھی ہے لیکن جب بولتا ہے تو کوئی سمجھ نہیں آتی ، کون سی زبان بول رہا ہے؟ یعنی علمی اہلیت کے لحاظ سے شستہ زبان پر قادر ہے لیکن بولنے میں مہارت نہیں.وہ پنجابی تلفظ میں بولتا ہے.پنجاب میں خاص طور پر یہ بیماری بڑی عام ہے.باہر کے ملکوں میں لوگ زبان سیکھتے ہیں تو بالکل اسی طرح بولنے لگ جاتے ہیں، جس طرح اہل زبان بولتے ہیں.تھوڑی دیر میں ان کو محاورہ ہو جاتا ہے.پس جامعہ احمدیہ میں اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.میں چاہتا ہوں، چوٹی کے زبان دان پیدا ہوں.محترم ملک سیف الرحمن صاحب نے عرض کیا: اگر دو چار باہر چلے جائیں اور وہ زبان سیکھ کر آئیں تو پھر ان کے ذریعہ زبانیں سکھانے کا انتظام ہو سکتا ہے.حضور نے فرمایا:.مگر ان کا انتظار نہ کریں.ہاں جب باہر سے سیکھ کر آئیں گے تو پھر ہم مقابلہ کرا ئیں گے اور دیکھیں گے مشین کے سکھائے ہوئے اور ان (اساتذہ) کے سکھائے ہوئے میں کیا فرق ہے؟ اصل میں ساتھ ہی آپس میں بول چال شروع کر دیں تب زبان آتی ہے.آپس میں بول چال کریں، اس کو ریکارڈ کریں.پھر اپنی آواز سنیں.پھر اصل کے ساتھ مقابلہ کریں تو پھر صبح سمجھ آتی ہے کہ میں کس حد تک سیکھ رہا ہوں.ملک صاحب نے عرض کیا: یہ طریق اگر جامعہ احمدیہ میں جاری ہو جائے تو بہت بہتر ہے.البتہ اس کے لئے ذرائع درکار ہیں.حضور نے فرمایا:.ذرائع کی فکر نہ کریں، ذرائع ساری دنیا میں ماشاء اللہ مہیا ہیں.آپ کوئی سکیم بنائیں.محترم ملک صاحب نے یہ بھی عرض کیا کہ پچھلے دنوں ٹی وی پر آیا تھا، کوئٹہ میں سعودی عرب نے زبان سکھانے کا ایک پروجیکٹ قائم کر کے ملٹری سٹاف کالج کو دیا ہے.اس قسم کا یہاں بھی آجائے تو بہت بہتر ہے.حضور نے فرمایا:.184
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرموده 123 اکتوبر 1982ء ”ہاں میرے ذہن میں بھی ہے.پہلے تو ساری دنیا سے معلومات حاصل کریں.کون کون سی زبان کس کس طریق پر سکھائی جارہی ہے؟ یہ جو Aids ہیں، یہ انشاء اللہ مہیا ہو جائیں گی.جامعہ احمدیہ میں اس کے لئے کوئی ایسا سیل Coll قائم کیا جائے، جو زبانیں سکھانے کے لئے مخصوص ہو جائے.اگر آپ کے پاس اس وقت عمارت میں گنجائش نہیں ہے تو نئی عمارت تجویز کریں یا لائبریری کے ساتھ ایک نیا ونگ قائم ہو جائے.کوئی شکل ایسی بنی چاہیے، جہاں مستقل ایک انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز Institute of Languages بن جائے.اس میں جو بڑی بڑی چوٹی کی زبانیں ہیں، وہ فوری طور پر داخل کر دی جائیں.انگریزی اور عربی کے علاوہ فرانسیسی ہے، جرمنی ہے، سپینش ہے، پور جیگز (پرتگالی زبان) ہے، اٹالین ہے، چائینیز اور جینیز ہیں.یہ ذرا مشکل ہوں گی.لیکن بہر حال سیکھنی ہیں.پھر رکش ہے، انڈونیشن ہے، فارسی ہے، رشین ہے.یہ زبانیں دنیا کے اکثر حصہ کو Cover کر لیتی ہیں.محترم ملک صاحب نے عرض کیا: چینی، جاپانی اور ٹرکی زبان کے تو ہمارے اپنے آدمی اچھے تیار ہورہے ہیں.حضور نے فرمایا:.ہاں وہ تیار ہورہے ہیں.لیکن یہ اتنی مشکل زبانیں ہیں، خصوصا چینی زبان تو بہت ہی مشکل ہے.دور بیٹھے اس پر مہارت حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے.اس لئے کوئی اور سکالر تیار کریں جو بعد میں ان کی جگہ لے اور وہاں جا کر زبان سیکھ کر آئے.حضور نے محترم ملک صاحب سے دریافت فرمایا کہ " کیا اس وقت زبان سیکھنے والا جامعہ احمدیہ میں کوئی موزوں لڑکا ہے؟“ ملک صاحب نے جوابا عرض کیا: ابھی کوئی تجویز تو نہیں لیکن بہر حال جائزہ لیا جا سکتا ہے.ایک دفعہ ایک جائزہ تو لیا گیا تھا کہ کون کون سے ایسے طالب علم ہیں، جن میں زبانیں سیکھنے کی استعداد موجود ہے.حضور نے فرمایا:." مثلاً آپ کو چینی زبان سیکھنے کی استعداد کا کس طرح اندازہ ہوگا؟ کیا جولڑ کا چوں چاں زیادہ کرے، اس کے متعلق آپ سمجھیں گے کہ اس کو زیادہ زبان آتی ہے.یہاں بیٹھے ہوئے اس کے متعلق آپ کو کیسے پتہ لگے گا کہ وہ چینی زبان سیکھ سکتا ہے یا نہیں؟“ محترم ملک صاحب نے جوابا عرض کیا: بعض طالب علموں میں زبان سیکھنے کی استعداد کا اندازہ ہم اس طرح لگاتے ہیں کہ مثلاً بعض طالب علم غیر ملکی لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی زبان بولتے ہیں.اس طرح مثلاً انڈو نیشین لڑکوں کے ساتھ رہ کر بعض طالب علم انڈونیشین سیکھ لیتے ہیں.حضور نے فرمایا:.185
ارشادات فرمودہ 23 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک یہ ٹھیک ہے.مگر اس طرح تخصیص نہیں کر سکتے کہ فلاں لڑکا فلاں زبان اچھی طرح سیکھ سکتا ہے.بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ چہرے کے بعض عضلات اس بات میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ کون سی زبان کس کے لئے زیادہ موزوں ہے؟ مثلاً بعض تلفظ ہیں، وہ ہر آدمی ادا نہیں کر سکتا.چینی زبان کے الفاظ ہیں، ان کو بعض لوگ ادا کر سکتے ہیں، بعض ادا نہیں کر سکتے.اسی طرح انگریزی زبان بعض لوگوں کے منہ پر چڑھتی ہے، بعض کے منہ پر نہیں چڑھتی.دراصل ہر زبان کے مطابق JAWS یعنی جبڑے کام کر رہے ہوتے ہیں.یہ بھی ایک ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے کہ کون کس زبان کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے؟ انگریزی کے ایک پروفیسر ہوتے تھے، وہ کہتے تھے، بعض قوموں کے آدمی آتے ہیں، ہمیں ان کے متعلق یہ پتہ ہوتا ہے، یہ جتنا مرضی زور لگالیں، ان کو انگریزی کی فلاں آوازیں آہی نہیں سکتیں.اسی طرح بعض فرنچ jaws سیٹ ہو گئے ہیں، وہ انگریزی کے بعض لفظ نہیں سیکھ سکتے.بعض جرمن ہیں، جو انگریزی کی بعض آوازیں نہیں سیکھ سکتے.لیکن ہالینڈش ہیں، وہ ساری سیکھ جاتے ہیں.اسی طرح وہ لوگ، وہ آواز میں نہیں سیکھ سکتے ، جو بعض جرمن یا سپینش سیکھ لیتے ہیں.پس قومی لحاظ سے بھی اس کا فرق پڑتا ہے اور انفرادی لحاظ سے بھی فرق پڑتا ہے.محترم ملک صاحب نے عرض کیا: بہر حال جائزہ لینے سے پتہ لگتا رہتا ہے کہ کون سا طالب علم زبان سیکھنے کی اہلیت رکھتا ہے ؟ حضور نے فرمایا:.’ہاں تجربے ہونے چاہئیں.یہ دیکھتے رہنا چاہیے کہ جولڑ کا زبان سیکھنے کے اعتبار سے اچھا نکل رہا ہو، اسے تجربوں کے بعد چن لیا جائے.رشین کے بعد یوگوسلاویہ کی ایک شاخ البانین زبان ہے.خدا کے فضل سے ذکریا نے البانین میں بڑی اچھی مہارت حاصل کرلی ہے.سوئٹزر لینڈ کے مبلغ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے مشن ہاؤس میں البانین دوستوں کو بلایا اور ان میں ذکریا کی تقریر کروائی.حاضرین میں البانین کے بڑے قابل اور ماہر پروفیسر بھی موجود تھے.اس نے کہا کہ یہ ایسی البا نین بولتا ہے کہ اگر پردہ کے پیچھے سے بات کرے تو کوئی نہیں کہہ سکتا، یہ غیر البانین ہے.ماشاء اللہ اس کی بہت ہی شستہ زبان ہے.ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے مہارت دی ہوئی ہے تبھی سیکھ گئے ہیں.محترم ملک صاحب نے بتایا کہ جامعہ احمدیہ کے اندر ان میں یہ ملکہ تھا کہ انگریزی، عربی بہت اچھی طرح بول لیتے تھے.بلکہ کئی دفعہ انہوں نے تقریری مقابلوں میں اول انعام بھی لیے.حضور نے فرمایا:.”اچھا یہ ان کا ملکہ ہی تھا، جو بعد میں ان کے کام آیا.ان کو اب اور زبانوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے.غلطی سے انہوں نے البانین لے لی حالانکہ یوگو سلاوزبانوں میں بعض دوسری زبانیں زیادہ کثرت 186
تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد ارشادات فرمودہ 23 اکتوبر 1982ء کے ساتھ بولی جاتی ہیں اور زیادہ بڑے علاقہ میں کبھی جاتی ہیں.لیکن حضرت صاحب کا جو پیغام تھا، وہ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ (سابق مبلغ سوئٹزر لینڈ ) سمجھ نہ سکے.انہوں نے ان کو البانین زبان سیکھنے پر لگا دیا.حالانکہ پیغام یہی تھا کہ جو زبان زیادہ بولی جاتی ہے، اس کو سیکھنا شروع کریں.ویسے یورپ میں البا نہیں اب کافی پھیلے ہوئے ہیں، ان کو لٹریچر دیا جا سکتا ہے اور اس لحاظ سے فائدہ ہوگا.انشاء اللہ.فی الحال تو سکیم یہ ہے کہ ہر زبان میں سوال و جواب کی Tapes تیار کروا کر دنیا کے ہرمشن میں رکھوا دی جائیں.یعنی جتنی بھی بڑی بڑی زبانیں ہیں، ان کے متعلق ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنے آدمی تو مل گئے ہیں، جو ترجمہ کر دیں اور اس Tape میں تقریر کے انداز میں خود بول دیں.اگر کسی اور سے بھی یہ کام کروانا پڑے تو وہ بھی کروایا جاسکتا ہے.یہ فوری تبلیغ پہنچانے کا ایک ایسا ذریعہ ہے، جس پر سب سے کم خرچ آتا ہے.ہم نے اندازہ لگایا ہے، دنیا کی بڑی زبانیں قریباً تیرہ بنتی ہیں، جو ساری دنیا کو cover کر لیتی ہیں.ان میں اگر ہم ٹمپس (Tapes) ریکارڈ کروالیں.پہلے اردو میں چار یا پانچ یا چھ ٹیپیں تیار کریں، جو بنیادی ہوں، ان کا پھر انگریزی میں ترجمہ کروا کر کسی انگریز سے پڑھوائی جائیں.یعنی سوال کرنے والا بھی انگریز ہو، جواب دینے والا بھی انگریز ہو.اسی طرح فریچ، جمپنیز ، چائنیز میں بعینہ اسی طرح اس مضمون کو ڈھال لیا جائے یا مذہب کے اختلاف کے پیش نظر بعض زبانوں میں دوسرے مضامین داخل کر لئے جائیں.مثلاً جاپان میں جاپانی نقطہ نگاہ سے الگ ٹیپ تیار کرنی پڑے گی.اسی طرح اشترا کی ملکوں کے لئے الگ ٹیپیں تیار کرنی پڑیں گی.بہر حال یہاں Mother Tapes تیار ہو جانی چاہئیں اور اس کے بعد ہر زبان کی Tape تیار کروا کر ایک ایک سیٹ سارے مشنوں میں رکھوا دیا جائے گا.اس پر زیادہ سے زیادہ خرچ ڈیڑھ لاکھ روپیہ آئے گا.آج کل آپ ایک معمولی سی کتاب شائع کریں تو اس پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ آجاتا ہے.پھر اس Tapes کی سیکیم میں سہولت یہ ہوگی کہ ہر مشن بڑے اعتماد سے، چاہے چینی آئے ، جاپانی آئے ، عرب آئے اس کو فورا اس کی زبان میں تبلیغ کر سکتا ہے.وہیں بیٹھے چائے کی پیالی پلائی اور اس کی زبان میں ساتھ تقریر بھی شروع کروادی.اور اس Tape کے آخر میں یہ پیغام ہوگا کہ مزید مضمون چاہیں تو نمبر 2,3,4,5 ٹیمپیں بھی ہمارے پاس موجود ہیں.علاوہ ازیں اگر سوالوں کے جواب چاہئیں تو آپ ہمیں لکھ کر دے دیں، ہم آپ کو ان کے جواب تیار کروا کر بھجوا دیں گے.ٹیپیں خریدنی ہیں تو خرید لیں.اب جو سنے گا، وہ اپنی جیب سے 30/40 روپے دے کر آسانی سے خرید سکتا ہے.تو اس طرح ساری اشاعت دنیا کے خرچ پر ہورہی ہوگی.اور ہمارا اس پر زیادہ سے زیادہ 187
ارشادات فرمودہ 23 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ڈیڑھ لاکھ سرمایہ لگے گا.یہ کام فوری کروانا ہے.میں نے کہہ دیا ہے، کئی جگہ تیاری کروائیں گے.انشاء اللہ تو اس کے بعد جو مضمون نتھر کر سامنے آئیں گے، ان میں Following Literature کی ضرورت ہے.ہمارے آدمی پھر بطور مترجم تیار ہو جائیں گے تو وہ بھجواتے جائیں گے، انشاء اللہ.اس کے بعد دوسرے مرحلہ پر پھر ہر زبان میں تربیتی سیٹ تیار کرنے ہیں اور ان میں یہ بات مد نظر رکھنی ہے کہ کم سے کم معیار کا مسلمان کیا ہونا چاہیے؟ نماز پڑھنے کے لئے کچھ قرآنی آیات یاد ہونی چاہئیں.نماز پڑھانے کے مسائل یاد ہونے چاہئیں.کیونکہ ہر مسلمان کو نماز پڑھانے کی اہلیت ہونی چاہئے.نماز جنازہ کے مسائل، تجہیز و تکفین اور تدفین اور اسی طرح طہارت کے مسائل، یہ ساری چیزیں آنی چاہئیں.یعنی وہ مسائل، جو ہر مسلمان کی کم سے کم ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں ، ان کی ایک ٹیپ تیار ہو جانی چاہئے.اور ساتھ آیات یاد کروادی جائیں.پھر قرآن کریم کی چیدہ چیدہ اثر کرنے والی آیات، مسائل سے متعلق آیات وہ یاد کرے اور اس کو پڑھا کرے.اگر قرآن کریم کا ترجمہ اس کی زبان میں نہیں چھپا تو ٹیپ سے یاد کر سکتا ہے.آیات کا ترجمہ ساتھ ہو، تلفظ درست کروایا جائے.اس میں پہلے آہستہ آہستہ سیکھے.پہلے تحت اللفظ مثلاً الحمد للہ رب العالمین.الحمد کا مطلب یہ ہے، رب کا، العالمین کا یہ ہے.پھر جب خوب ذہن نشین کر وا دیا جائے تو پھر رہا کے ساتھ ساری تلاوت کرے.پھر اس کی زبان میں اس کا ترجمہ آئے.پھر اس طرح باقی حصہ نماز کا.تو ایسی ٹیپیں بھی آدھ آدھ گھنٹے کی اگر ایک Side سمجھی جائے تو چار، پانچ گھنٹے میں خدا کے فضل سے ہم بہت کچھ سکھا سکتے ہیں.یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، جس پر یہ ٹیمیں مشتمل ہوں گی.جو مسلمان ہوتا ہے، مشن اس کو یہ تحفہ دے دے گا کہ یہ تمہاری تربیت کا انتظام ہے.اب تم اس کو یاد کرو.تو اس قسم کے تربیتی مواد پر مشتمل پانچ ٹیپوں کے لئے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سوروپیہ فی آدمی خرچ آتا ہے.لیکن اس سے انشاء اللہ اس کو بہت فائدہ پہنچ جائے گا.حضور نے محترم ملک سیف الرحمن صاحب سے فرمایا:.نے فرمایا:.وو یہ دو حصے ہیں، اس میں جو فقہ والا حصہ ہے، اس کی تیاری کا کام آپ شروع کر دیں.محترم ملک صاحب نے عرض کیا : کچھ مواد تو تیار کیا گیا تھا، وقف جدید کے زیر انتظام.حضو نہیں، وہ تو بہت لمبا چوڑا ہے.آپ اس وقت کم سے کم ضرورت کے مسائل پر ٹیپ بھر کر دیں.کم سے کم ضرورت سے مراد یہ ہے کہ آپ نے کس طرح اس کو پڑھانا ہے، جو ابھی نیا نیا مسلمان ہوا 188
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 23 اکتوبر 1982ء ہے.جس کو اسلام کا کچھ پتہ نہیں، اس کو مخاطب کریں اور Tape تیار کر کے دیں.جس کے بعد ہم.سمجھیں کہ اس کو مسلمان کی بنیادی ضروریات حاصل ہوگئی ہیں.اب وہ کسی مولوی کا محتاج نہیں رہا.ترقی تو خیر لمبا چوڑا معاملہ ہے.فقہ کے تو بے شمار مسائل ہیں.اس میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تفصیلی مسائل کے لئے آپ فلاں کتاب کی طرف رجوع کریں.حضور نے پھر محترم مولوی دوست محمد شاہد صاحب سے فرمایا:." آپ تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت سے متعلق بنیادی معلومات کی ایک ٹیپ تیار کریں اور اس میں تھوڑا تھوڑ ا مضمون سیرت کا اس رنگ میں آجائے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان زیادہ قوی ہوتا چلا جائے.مثلاً اس قسم کے بزرگ تھے، ان کی دعاؤں کے یہ یہ واقعات ہیں.یہ یہ نشان پورے ہوئے.دل پر اثر کرنے والی بعض روایات لائیں.آپ ایک ٹیپ اس کی بنالیں.45 منٹ والی ٹیپ ٹھیک رہے گی.45 منٹ ایک طرف اور 45 منٹ ایک طرف.اس میں کافی مواد آجائے گا.تلاوت کی ٹیپ مولوی محمد شفیع اشرف صاحب تیار کروائیں.آپ پہلے آیات منتخب کرلیں.تلاوت کے انتخاب میں جو باتیں ملحوظ رکھنی ہیں، ان میں سب سے پہلے صفات باری تعالی سے متعلق غیر معمولی شان کی حامل آیات، جو فور اول پر غلبہ پالیتی ہیں، ان کو منتخب کریں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے ذکر سے متعلق آیات، اخلاقی تعلیم سے متعلق آیات ، ایمانیات سے متعلق آیات اور اخلاقی تعلیم سے متعلق آیات مثلاً عباد الرحمن کا ذکر ہے ، وہ حصہ لیں.اخلاقی مسائل سے متعلق.یعنی مختلف جگہ عیسائیت اور دیگر مذاہب کو جو چیلنج کیا گیا ہے، وہ لیں.کائنات سے متعلق اور اس کے ساتھ جو ریفرنس اللہ کی طرف پھیرا گیا ہے، وہ لیں.پھر قدرت کے مناظر اور ان کے متعلق جو آیات ہیں، وہ لیں.اور بھی خاص خاص آیات آپ کے ذہن میں آئیں تو وہ بھی لے لیں.45 منٹ یعنی ڈیڑھ گھنٹے کی Tape میں آیات کی جو تلاوت کرنی ہے، وہ غالبا 20 منٹ سے زیادہ کی نہیں ہوگی.اگر مسلسل تلاوت کرنی ہے تو ہیں منٹ کی تلاوت ہوگی.کیونکہ اس میں ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر بتانا ہے.پھر اس کا ترجمہ سکھانا ہے.پھر تلاوت کرنی ہے.پھر اس کا ترجمہ بتاتا ہے.اس لئے 25 فیصد تلاوت ہو، باقی اس کے متعلقات ہوں گے.تجوید کے اصول بھی ساتھ ساتھ بتانے پڑیں گے.یہ ٹیپ بھی پہلے اردو میں تیار ہو جائے.اس کا پھر مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو جائے گا.یعنی اصل تلاوت والی ٹیپ تو وہی رہے گی.باقی مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو جائے گا.اس غرض کے لئے بہتر ہے کہ اچھی آوازوں والے منتخب ہو جائیں.قاری صاحب ان کا ٹیسٹ لے کر منتخب کریں.لیکن پہلے یہ سب مضمون تیار کر لیں.ترجمہ تو انشاء اللہ کروالیں گے.189
ارشادات فرمودہ 23 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم بعض جگہ تو ہم نے نظموں کے متعلق لکھ دیا ہے، اس میں یہ حصہ بھی شامل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت مصلح موعودؓ کے کلام سے لئے جانے والا حصہ جو ہے، اس میں جو شخص نظم پڑھے گا.اس کا ترجمہ عام زبان میں ہو جائے.اس میں تو ہمیں اردو سکھانے کی ضرورت نہیں.صرف ترجمہ کافی ہے.اس کے بعد کوشش یہ کریں گے، اس زبان میں نظم میں ترجمہ ہو جائے گا.اور وہاں کا کوئی مقامی آدمی اپنے طور پر اس کو گا کر بھی پڑھے.اردو میں بھی گائی جائے اور اس زبان میں بھی گائی جائے ، جس میں ترجمہ ہوا ہے.پھر یہ ٹیمیں افریقہ اور انڈونیشیا وغیرہ ممالک میں عام کر دی جائیں.جگہ جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام پڑھا جارہا ہو.انشاء اللہ طبیعتوں پر اس کا بڑا گہرا اثر پڑے گا.انگریزی میں بھی میں نے دوستوں سے کہا تھا، ترجمے کریں.وہ کہتے تھے کہ ہمیں Basic ( بنیادی ) تعلیم پر مشتمل ایک ٹیپ مہیا کر دیں، بعد کا کام ہم مکمل کر دیں گے.پین میں مختلف ممالک کے جو لوگ آئے وئے تھے ، ان سے اس کے متعلق بات ہوئی تھی.وہ سارے بڑے شوق سے تیار بیٹھے ہیں.کہتے ہیں: ہمیں آپ ایک Mother Tape بنا دیں، ہم شاعروں کو عام دعوت دیں گے کہ وہ اپنی زبان میں بہترین گیت بنا ئیں.پھر اچھی آواز میں ان کو پڑھ کر اسی کے ساتھ Dub کر دیں گے“.حضور نے مکرم حافظ مظفر احمد صاحب سے فرمایا:.اسی طرح آپ بھی صفات باری تعالیٰ سے متعلق عام نصیحتوں سے متعلق اور مسائل سے متعلق احادیث کا انتخاب کریں.اس کو بھی اسی طرح ریکارڈ کریں گے.ہم نے اس میں بنیادی مواد رکھنا ہے.فی الحال بنیادی تعلیم پر زور دینا ہے.اگر تفصیل میں جائیں تو پھر بات پھیلتی جائے گی.پھر فلاں بزرگ بھی شامل ہو جائیں گے اور فلاں بھی داخل ہو جائیں گے.اس وقت تو میرے ذہن میں صرف بنیادی نقشہ ہے.یہ تجربہ پہلے کامیاب ہو جائے ، اس کے بعد دنیا میں بے شمار کام ہیں، جو انشاء اللہ آہستہ آہستہ انجام پذیر ہوتے رہیں گے.محترم حکیم فضل الہی صاحب دار لرحمت غربی نے بدھ مذہب کے بارہ میں ذکر کیا اور بتایا کہ بدھ مت سارے ایشیا میں پھیلا ہوا ہے لیکن ہمارے پاس ایسا لٹریچر نہیں ، جس کے ذریعہ بدھ مذہب کا جواب دے سکیں.حضرت صاحب نے فرمایا:.آپ سیلون میں رہے ہیں.پھر آپ بتائیں نا، آپ وہاں کیا کرتے رہے ہیں؟ آپ نے یہ لٹریچر پیدا کیوں نہیں کیا ؟" 190
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ارشادات فرمودہ 23 اکتوبر 1982ء حکیم صاحب نے عرض کیا: میں نے اس بارے میں مرکز کو توجہ دلائی تھی.فرمایا.آپ جیسا آدمی وہاں رہا ہے.آپ کا فرض تھا کہ لٹریچر پیدا کرتے.اس کے متعلق صرف مرکز کو لکھنے کی بات نہیں.ہر احمدی کو خود کام کرنے والا احمدی بننا چاہئے.صرف مشورہ دینے والا نہیں ہونا چاہئے.پس جو احمدی دوست بھی بدھسٹ علاقہ میں رہتے ہیں یا رہنے کا موقع ملتا ہے.ان کا اولین فرض ہے کہ وہ لٹریچر پیدا کریں.میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں.میں جب سیلون گیا تو میں نے احمدی دوستوں سے پوچھا کہ صرف تامل سپیکنگ اور تلنگو سپیکنگ انڈیا سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے ہیں، ان ہی میں سے احمدی ہوئے ہیں، بدھوں میں سے کوئی نہیں ہوا.اس کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگے : یہ بڑی سخت قوم ہے، لوگ قابو نہیں آتے.یہ چکنا گھڑا ہے، جس پر پانی پھسل کر ادھر ادھر چلا جاتا ہے.یہ دراصل نفس کا بہانہ تھا ور نہ حقیقت یہ ہے کہ بدھ قوم میں عیسائیوں نے کامیاب تبلیغ کی ہے تو ہم کیوں نہ کریں؟ ہمارا تو بہت زیادہ Effective Message یعنی پر اثر پیغام ہے.جہاں بھی عیسائیت سے مقابلہ ہوا ہے، ہر جگہ عیسائیت نے شکست کھائی ہے.پس یہ صرف نفس کا ایک بہانہ تھا.اللہ تعالی نے اس کو ایک اور رنگ میں ثابت فرما دیا.ہوا یہ کہ جب ہوائی جہاز پر میں سیلون پہنچ رہا تھا تو رستے میں موسم شدید خراب ہو گیا.اس قسم کا خوفناک موسم تھا کہ لوگوں نے چیخ و پکار اور گریہ وزاری شروع کر دی.خدا کے فضل سے موسم جب ٹھیک ہو گیا اور جہاز اترنے لگا تو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی نے اپنا تعارف کروایا کہ میں سیلون میں نائب وزیر ہوں.آپ کون ہیں؟ میں نے کہا: میں ایک مسلمان ہوں، پاکستان سے آیا ہوں.اس نے کہا: آپ تو مسلمان نہیں لگتے ، کچھ اور لگتے ہیں.کیونکہ جو باقی مسلمان تھے، وہ تو سارے شور مچارہے تھے.آپ نے کوئی شور نہیں بچایا اور خاموش بیٹھے رہے ہیں.میں نے اس کو کہا کہ ہمارے ہاں زندگی کے تسلسل کا عقیدہ ہے.موت صرف حجاب ہے.اور زندگی ہے ہی بے معنی اور مختصری چیز کسی وقت خدا بلالے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا.جب بلالے حاضر ہیں.اس لئے مجھے تو و ہم بھی نہیں تھا کہ کوئی فکر والی بات ہے.میں نے کہا: اللہ کی مرضی ہوئی چلے جائیں گے، نہ مرضی ہوئی بیٹھے رہیں گے.کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ مجھے کہتا ہے کہ تم بتاؤ تم ہو کون؟ یہ تو عام بات نہیں ہے.میں نے کہا: میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتا ہوں.چنانچہ میں نے اپنا کچھ تعارف کروایا.اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اس کے گھر کچھ دیر کے لئے جاؤں.کینڈی ایک جگہ ہے، جہاں اس کا گھر تھا.اب یہ اللہ کی شان ہے کہ کینڈی وہ جگہ ہے، جہاں میں جانا چاہتا تھا لیکن پیسے نہیں 191
ارشادات فرمودہ 23 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک تھے.کیونکہ وہاں زرمبادلہ کے بڑے سخت قانون تھے اور ایھنچ کی بہت مشکلات حائل تھیں.خیر میں اس سے ملنے گیا تو اس نے کہا: کم از کم ایک ہفتہ ٹھہرو.میں نے دل میں کہا: "اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں".میں نے اس کی یہ دعوت بڑے شوق سے قبول کر لی.وہاں اس سے مذہبی گفتگو ہوتی رہی.ایک دن اس نے کہا کہ میں آج رات اپنے علاقہ کے بھکشووں کو دعوت دیتا ہوں.میری بیوی لنڈن یو نیورسٹی کی پی، ایچ ڈی ہے.اکنامکس میں اس نے ڈاکٹریٹ کیا ہوا ہے.بہترین انگریزی بولتی ہے.جو کچھ تم کہو گے، وہ اس کا ترجمہ کر دے گی.ان سے آج رات مناظرہ ہو جائے.میں نے کہا: ٹھیک ہے.چنانچہ ساری رات ہمارا مناظرہ ہوا.صبح نماز کا وقت ہو گیا تو نماز پڑھنے کے بعد میں نے کہا: اب سونے کی کیا ضرورت ہے، سیر کرنے نکل جاتا ہوں؟ سیر کرنے نکلا تو کچھ دیر کے بعد میں نے محسوس کیا ، قدموں کی چاپ قریب آتی ہے، پھر پیچھے رہ جاتی ہے.مشکوک رنگ کے قدم تھے.میں کافی دور نکل گیا.مجھے وہاں کے لوگوں نے کہا تھا: یہاں قتل بھی ہو جاتے ہیں، احتیاط کرنی چاہئے.اس لئے میں ذہنی طور پر تیار تھا.کنکھیوں سے دیکھتا رہا.یہاں تک کہ ایک موڑ کے بعد ایک آدمی جو ننگے پاؤں تھا، تیزی سے چل کر آگے آیا.میں نے مڑ کا دیکھا تو اس میں دشمنی کا بالکل کوئی شائبہ نہیں تھا.مجھے اس نے بتایا کہ میں اس مناظرہ میں تھا، جو رات ہوتا رہا ہے.میں نے رات ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ جو یہ مذہب ہے، میرا بھی وہی مذہب ہے.لیکن میں علاقہ سے ڈرتا ہوں، اس لئے میں آپ کو صرف بتانے آیا ہوں.میں ڈرتا تھا کہ آپ سے ملتے وقت کوئی مجھے دیکھ نہ لے، اس لئے موقع کی تلاش کر رہا تھا.آج کے بعد آپ مجھے مسلمان سمجھیں.پھر تھوڑی سی باتیں تربیتی رنگ میں کیں.میں نے کہا: اللہ کے نزدیک تمہارا اسلام قبول ہو جائے گا.انشاء اللہ تعالی.میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ بدھسٹ میں بھی تبلیغ ہوسکتی ہے.یہ محض وہم ہے، جو تبلیغ کی راہ میں حائل ہے یا بعض لوگوں کا احساس کمتری تبلیغ کے رستہ میں حائل ہے کہ یہ قوم تبدیل نہیں ہو سکتی.اگر صحیح تبلیغ ہو تو لوگ دیکھتے دیکھتے بدل جاتے ہیں.اسلام کی قوت بڑی زبردست قوت ہے، اس لئے بدھسٹ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.ہمارے مبلغ جواب سیلون (سری لنکا) جائیں گے، ان کو میں تاکید کرتا ہوں کہ جامعہ احمدیہ میں بدھ امت کے متعلق جو لٹریچر ہے یا کچھ پرانے مضامین بدھ مت پر ریویو وغیرہ میں لکھے ہوئے ہیں، ان کو پڑھیں اور وہاں جانے سے دو، تین مہینے پہلے سنگالیز سیکھنی شروع کردیں.اس کے لئے ان کو Tapes اور کتابیں وغیرہ منگوا کر دی جائیں.اور بدھوں کے لئے جو مضامین تیار کریں، اس کو بے شک اردو میں تیار کریں.اور 192
ارشادات فرموده 123 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وہاں سیلون بھیج کر جانے سے پہلے سنگالیز میں بکثرت Tapes تیار کروالیں.مختلف مسائل پر سوال اٹھا ئیں، پر اٹھا ان کے جواب دیں.مولوی محمد اسماعیل منیر صاحب مدد کریں، ان کو بھی وہاں رہنے کا تجربہ ہے اور حکیم صاحب آپ بھی ان کی مدد کریں.آپ کے نزدیک بدھوں کے ساتھ جس قسم کی تبلیغی گفتگو ہونی چاہیے، وہ ان کو بتائیں.پس ہمارا مبلغ یہاں سے پوری تیاری کر کے جائے اور بدھوں کی طرف زیادہ توجہ کرے.پچھلے سے پچھلے سال جلسہ سالانہ پر وہاں سے جو لوگ آئے تھے، وہ مجھے ملنے آئے تو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بدھوں میں تبلیغ کریں گے.وہاں بعض ایسے دوست ہیں، خاص طور پر نگمبو کے کچھ نوجوان ہیں، جو بدھوں میں تبلیغ کا بڑا شوق رکھتے ہیں.ان میں بہت اخلاص پایا جاتا ہے.ایک دوست نے پوچھا: یہ سیلون جانے کا کب کا واقعہ ہے؟ حضور نے فرمایا:.” یہ 1965ء کی جنگ سے پہلے کی بات ہے.جب ہندوستان اور پاکستان کی جنگ ہوئی تھی اس سے ایک ماہ پہلے کی بات ہے.کی کی اور مطبوعه روزنامه الفضل 11 جون 1983ء) 193
تحریک جدید- ایک الہی تحریک ارشاد فرمودہ 26اکتوبر 1982ء جماعت احمدیہ کے ذریعے تمام دنیا کے ادیان اسلام میں داخل ہو جائیں گے ارشاد فرموده 26 اکتوبر 1982ء برموقع مجلس عرفان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ایک شعر میں کبھی آدم کبھی موسی کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار کی تشریح بیان کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آپ کو ابراہیم اس لئے قرار دیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارہ میں پیشگوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی نسل کو اتنا بڑھائے گا کہ ریت کے ذروں اور آسمان کے ستاروں کی طرح وہ بھی گئی نہیں جاسکے گی.اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل سے مراد اسلام ہے.خدا نے آپ کے ابراہیمی ہونے کی تفسیر آپ کو خود سمجھادی، جب فرمایا کہ میں روس میں اپنی جماعت کو ریت کے ذروں کی طرح پھیلا ہواد یکھتا ہوں.(تذکرۃ صفحہ 813) سیہ وہی الفاظ ہیں، جو بائبل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے متعلق پائے جاتے ہیں.ان معنوں میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابراہیم ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے جب بھی کسی نبی کا نام لے کر یہ دعویٰ فرمایا کہ میں فلاں بھی ہوں اور فلاں بھی ہوں.آپ نے اپنے آپ کو کرشن بھی کہا.تو ان تمام دعاوی کے متعلق تفصیلی تمثیلات ڈھونڈ نا ہمارا کام نہیں ، نہ ہی یہ مراد ہے.اس کا اصل جواب ایک ہی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ المرسلات : 12) یعنی جب تمام رسول دوبارہ اٹھا کر مبعوث ہو جائیں گے.اس سے کیا مراد ہے؟ اصل میں اس کا حل اس عظیم الشان اور بے مثل کشف میں ہے، جس کو اسراء کہا جاتا ہے.اسراء میں اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء کی امامت کراتے ہوئے دکھایا.(تفسیر ابن جرید جلد نمبر 15 صفحه 6) 195
ارشاد فرموده 26 اکتوبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اس کشف کا ظاہری طور پر پورا ہونا ، اس طرح بھی مقدر تھا.آپ کو ایک ایسا غلام عطا ہو، جو تمام انبیاء کا مظہر ہو کر آپ کی غلامی کا اقرار کرے.اور واقعہ گویا تمام انبیاء اس کے وجود میں حضرت مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وعلی وآلہ وسلم کی غلامی کا اقرار کریں.بلکہ اس کی غلامی پر فخر کریں.ایک طرف وہ مسیح ہے، جسے عیسائیوں نے خدا کا بیٹا قرار دیا.اور یہاں وہ مسیح ہے ، جو کہتا ہے کہ میں تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی جوتیوں کا غلام ہوں.میرا سارا فخر اسی میں ہے کہ میں نے جو کچھ پایا، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قدموں سے پایا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ سارے دعاوی اس معنی میں ہیں کہ جتنے بھی انبیاء پہلے مبعوث ہوئے ، ان کی یا ان کے بارے میں کسی نہ کسی رنگ میں آئندہ آنے کی ، جو پیشگوئیاں ملتی تھیں ، وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام کی شکل میں پوری ہو چکی ہیں.خواہ کرشن نے آنا ہو یا بدھ نے آنا ہو.یا زرتشت نے آنا ہو یا کسی اور نے آنا ہو.یہ وجود الگ الگ نہیں آئیں گے.بلکہ ایک وجود نے ظاہر ہونا تھا.اور حضرت نے فرمایا کہ یہ ساری پیشگوئیاں میری ذات میں پوری ہو چکی ہیں.یہ تو ہے دعوئی ، اب سوال یہ ہے کہ اس دعوے کا ثبوت کیا ہوگا ؟ جب تک ہم کوئی معین ثبوت پیش نہ کریں، خالی دعوے سے تو بات نہیں بنے گی.یہ بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ فلاں عیسی کا غلام ہے اور ساری دنیا کے انبیاء کا مظہر ہے.لہذا اس سے ثابت ہو گیا کہ عیسی افضل ہیں.پس ایک احمدی کو معقول بات کرنی چاہئے.اپنی بات کو صرف دعوے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے.اس دعوے کا ثبوت یہ ہوگا کہ جماعت احمد یہ کے ذریعے تمام دنیا کے ادیان اسلام میں داخل ہو جائیں گے.تمام دنیا کے انبیاء کے پیرو کار مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں داخل ہو کر یہ ثابت کریں گے کہ ہاں واقعہ یہی ہمارا وہ امام تھا، جس نے آنا تھا.اور وہ امام رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی غلامی میں پیدا ہوا ہے.پس اس کا اصل مثبوت اسلام کا ادیان باطلہ پر وہ غلبہ ہے، جو احمدیت کے ذریعہ مقدر ہے.اور جس کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں.جب تک آپ ثبوت کی طرف قدم نہ اٹھائیں ، آپ کو دعوؤں کا کوئی حق نہیں.جو احمدی محنت اور قربانی کے ذریعے اس دعوے کا ثبوت مہیا کرنے کی کوشش نہیں کرتا ، اسے خالی دعوے کرنے اور نعرے لگانے کا بھی حق نہیں رہتا.تو ان پیشگوئیوں کی اصل تعبیر اس وقت ظاہر ہوگی ، جب ساری دنیا میں ہر مذہب کی اکثریت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی غلامی کا دم بھر کے اقرار کرلے گی کہ ہمارے انبیاء آپ کے غلام تھے.( مطبوعه روزنامه الفضل 13 جون 1983ء) 196
تحریک جدید - ایک الہی تحریک بیوت المحمد سکیم کا اعلان اقتباس از خطبه جمعه فرموده 129اکتوبر 1982ء خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اکتوبر 1982ء....اس مضمون پر غور کرتے ہوئے میری توجہ مسجد بشارت سپین کی طرف منتقل ہو گئی اور میں نے سوچا کہ ساری دنیا میں جماعت احمد یہ اللہ کی حمد کے ترانے گا رہی ہے اور سب دنیا پر یہ حقیقت واضح کر رہی ہے کہ مسجد بشارت کی تعمیر کی جو تاریخ ساز سعادت ہمیں نصیب ہوئی، بی محض ہمارے رب کی رحمانیت اور رحیمیت کے طفیل ہے.اسی نے ہمیں اس مہم کا آغاز کرنے کی توفیق بخشی اور اس نے تکمیل کے مراحل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی.یعنی جو کچھ بھی ہم نے کیا محض اس کی رحمانیت اور رحیمیت کے جلووں کے تابع کیا.ہمارے دل بھی اس ولولہ کو اور رحمن اور رحیم خدا کے احسانات کو بڑی شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور اس کے احسانات کا تصور دل میں محبت کے طوفان اٹھا رہا ہے.اور ہر احمدی کا دل پہلے سے بڑھ کر رحمن ورحیم خدا کی محبت کا جوش محسوس کرتا ہے.میں نے سوچا کہ حمد کی یہ دو شرطیں تو ہم نے پوری کر دیں.تیسری شرط کس طرح پوری کریں؟ یعنی اعمال میں اس حمد کو کس طرح جاری کریں؟ اس سلسلہ میں بہت سے مضامین میرے ذہن میں روشن ہوئے کہ یہ یہ طریق ہیں، اس حمد کو جاری کرنے کے.خدا کے اور گھر بنانا، ان کی آبادی کے سامان پیدا کرنا ، اس کے لیے جد و جہد کرنا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے مضامین مجھ پر روشن فرمائے ، جن کے نتیجہ میں یورپ میں بھی بعض اقدامات کئے گئے اور یہاں آکر بھی ان اقدامات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا مضمون بھی سمجھایا ، جس کا میں اب یہاں اعلان کرنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے گھر بنانے کے شکرانہ کے طور پر خدا کے غریب بندوں کے گھروں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.اس طرح یہ حد کی عملی شکل ہوگی ، جوہم اختیار کریں گے.اور اپنے اعمال سے گواہی دیں گے کہ ہاں واقعہ ہم اللہ کی اس رضا پر بہت راضی ہیں کہ اس نے ہمیں اپنا گھر بنانے کی توفیق بخشی.پس ہم اس کے غریب بندوں کے گھروں کی تعمیر کی طرف توجہ کر کے اس کے اس عظیم احسان کا عملی اظہار کریں گے.اس شکل میں جب میں نے غور کیا تو میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ سب سے پہلے اس مقصد کے لئے میں خود نمونہ کچھ پیش کروں.غریبوں کے گھر بنانے کے لئے ایک فنڈ قائم کیا جائے.ایک 197
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 اکتوبر 1982 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم کمیٹی ہو، جو اس بات پر غور کرتی رہے کہ کن غرباء کو کس حد تک ہم نے امداد دینی ہے؟ یہ تو ایک ظاہر بات ہے کہ جماعت احمدیہ پر اتنے مالی بوجھ ہیں اور حمد کے اظہار کے اتنے بکثرت اور مختلف ذرائع ہمارے سامنے کھلے ہیں کہ ہم کسی ایک ذریعہ پر اپنی ساری قوتیں خرچ نہیں کر سکتے.ہمارے پاس جو کچھ ہے، وہ محدود ہے.ہر چند تمنا میں بے قرار ہیں اور بے انتہاء ہیں.رستے تو بے شمار کھلے ہیں ، حمد کے عملی شکرانے کے اظہار کے لئے لیکن تو فیق سر دست بہت محدود ہے.اس لئے ہر کام کی طرف حصہ رسدی توجہ ہی کر سکیں گے.اللہ تعالیٰ کے شکرانے کا یہ ایک ایسا عملی پہلو تھا، جو آج تک خالی پڑا تھا.اس کی طرف بھی توجہ ضروری تھی کہ خدا کے گھر بنائیں تو خدا کے غریب بندوں کے گھر بھی بنائیں تا کہ خالق کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا ہوں“.ہمارا فرض ہے کہ ان کے لئے کچھ نہ کچھ کریں.جتنی توفیق ہے.تھوڑی سہی ، تھوڑی کریں.لیکن اللہ تعالی کی حد کا عملی صورت میں ایک یہ اظہار بھی کریں کہ ہم اس کے بندوں کے گھروں کی طرف کچھ توجہ دے رہے ہیں.ویسے تو یہ اتنی بڑی ضرورت ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں بھی اس کو پورا نہیں کر سکتیں.مگر مجھے اللہ کے فضل سے توقع ہے کہ چونکہ جماعت احمد یہ اس زمانہ میں وہ واحد جماعت ہو گی، جو محض رضاء باری تعالیٰ کی خاطر یہ کام شروع کرے گی.اس لئے اللہ اس میں برکت دے گا اور کروڑوں روپوں کے مقابل پر ہمارے چند روپوں میں زیادہ برکت پڑ جائے گی.اور اس کے نتیجہ میں جماعت کے غرباء کا ایمان بھی ترقی کرے گا اور اللہ کے فضل بھی ان پر نازل ہوں گے.یہ کن شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے؟ میں اس سکیم کا آج اعلان کرنا چاہتا ہوں.سب سے پہلے تو میں اپنی طرف سے دس ہزار روپیہ کی ایک حقیری رقم اس مد میں پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے دولاکھ روپے اس مد میں پیش کرتا ہوں.انجمن کی جو بچت ہوتی ہے، اس کا اکثر استعمال تعمیرات پر ہوتا ہے.تو ان تعمیرات کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں جو تمہیں عطا فرمائی ہیں، اس کے شکرانے کا بھی یہ ایک اظہار ہو گا کہ اس میں سے دولاکھ روپے غرباء کی عمارات کے لئے ان کی مدد کے لئے وقف ہوگا.اور انشاء اللہ تعالی سال بہ سال اس کی جو شکلیں بنیں گی ، وہ ہمارے سامنے آتی چلی جائیں گی.تحریک جدید اور وقف جدید اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کے مالی حالات اس وقت میرے سامنے نہیں ہیں.لیکن ان کو بھی میں تحریک کرتا ہوں کہ یہ انجمنیں اور تنظیمیں اپنی توفیق کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور اس پر میں وقف کریں.مطبوعہ روزنامہ الفضل 27 نومبر 1982ء) 198
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع افتتاح مسجد ناصر سیرالیون مساجد خالصہ اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر کے لیے مخصوص ہیں پیغام بر موقع افتتاح مسجد ناصر سیرالیون منعقدہ 29 اکتوبر 1982ء وو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ جو مسجد زیر تعمیر تھی، وہ بفضل خدا اکمل ہو چکی ہے.اور اس کے افتتاح کے لئے آپ نے 29 اکتوبر کی تاریخ تجویز کی ہے اور منظوری کے لئے لکھا ہے.آپ کو اجازت ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے ، اس تاریخ کو مسجد کا افتتاح کر دیں.افتتاحی تقریب کے لئے میری طرف سے وہی پیغام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے مساجد کے بارہ میں فرمایا:.أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا مساجد خالصہ اللہ کی عبادت اور اس کی پرستش اور اس کے ذکر کے لیے مخصوص ہیں.مساجد کی آبادی اور خوبصورتی اور ان کا حسن، خلوص قلب سے اس میں ذکر الہی اور عبادت کرنے میں ہے.وہی مسجد خدا کے حضور مقبول ہے، جو تقویٰ کی بناء اور تقویٰ کی دیواروں پر استوار کی گئی ہے.، میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ، جنہوں نے اس مسجد کے بنانے میں کام کیا اور قربانی پیش کی، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.اور اخلاص اور قربانی کو قبول فرمائے.اور مسجد کو صحیح معنوں میں آباد ہونے کی توفیق دے.جماعت کی روحانی، اخلاقی ترقی کا باعث ہو.اور سب بنی نوع کو توفیق نصیب ہو، بغیر کسی امتیاز کے ، وہ خدا کے گھر میں آکر اس کی عبادت کریں اور اس کے احکام کی تعمیل کے لئے روحانی قوت کی توفیق پائیں.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد ( مطبوعه روزنامه الفضل 05 دسمبر 1982 ء 20 جنوری 1983ء) 199
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از ارشادات فرمودہ 04 نومبر 1982ء ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنے کا بوجھ، کوئی معمولی بوجھ تو نہیں ارشاد فرمودہ 04 نومبر 1982ء غیر از جماعت احباب سے ملاقات کے آخر پر حضور نے جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.رو....بهاری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنے کا بوجھ، کوئی معمولی بوجھ تو نہیں.صرف سپین میں ایک مسجد بنوانا کافی نہیں.صرف سپین کے علاقے میں تبلیغ کرنے کے لیے اگر ساری جماعت بھی اپنی طاقتیں خرچ کرے، تب بھی وہ ملک ہم سے زیادہ ہے.اور ایک پین کیا ، ساری دنیا میں ہمارے مشن ہیں اور تبلیغ کا کام ہورہا ہے.اس کے لیے بے شمار اخراجات کی ضرورت ہے، آدمیوں کی ضرورت ہے اور خدمت کرنے والوں کی ضرورت ہے.ہمیں تو اس کام میں دلچسپی ہے.اس کام کے لیے ہمیں آپ لوگوں کی ضرورت ہے.ہمیں اپنی ذات سے کوئی دلچسپی نہیں.ہمارے پاس تو جو کچھ ہوتا ہے، وہ ہم خدا کی راہ میں پیش کر ہی دیتے ہیں.یہ کوئی پیری مریدی تو نہیں ہے کہ جتنے آدمی بڑھ جائیں اور پیسے دیں.ہمیں تو دین کے لیے قربانی کرنے والے چاہئیں.جن کو کسی فرد واحد پر نہیں بلکہ خدا کے دین پر خرچ کر کے زندگی کا مزا آنا شروع ہو جائے.وہ ایک بڑے مقصد کے لیے زندہ رہیں.لوگوں سے ماریں بھی کھائیں اور پھر بھی اپنے آپ کو خدا کی خاطر پیش کریں.اور آپ کو یہ دلچسپی ہونی چاہیے کہ جس ماحول میں آپ بیٹھے ہیں، اس سے اپنے آپ کو بچائیں.کیونکہ وہ دن بدن اسلام سے دور جا رہا ہے.آدمی ایک ایسی کشتی میں سوار ہو جو منجدھار کی طرف جارہی ہو اور سمجھے کہ مجھے کچھ نہیں ہوگا، یہ بالکل غلط بات ہے.سارا معاشرہ گر رہا ہے.اگر آپ اپنے گرد پیش معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ دن بدن گمراہی کی طرف جا رہا ہے.حکومتوں کی تمام تر اصلاحی کوششوں کے باوجود، جیسا کہ خود صدر محترم نے اپنے ایک اخباری انٹرویو میں بیان کیا تھا، رشوت بڑھ رہی ہے، بددیانتی بڑھ رہی ہے، ظلم بڑھ رہا ہے ، سفا کی بڑھ رہی ہے.اور اس کے ساتھ یہ کہ اپنے مقاصد سے بے علمی ہے.یعنی پتہ ہی نہیں کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمارا 201
اقتباس از ارشادات فرمودہ 04 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم منصب اور مقام کیا ہے؟ گویا کچھ بھی باقی نہیں رہا.تو ایک یہ کشتی ہے، جس پر ہر ایک قوم سوار ہے اور نہیں جانتی کہ بالآخر یہ سفر اسے کہاں لے جائے گا؟ لیکن باہوش آدمی دوٹوک فیصلہ کر سکتا ہے.اور ایک ہم لوگ ہیں، جنہیں خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کی توفیق ا دے رہا ہے.ہم میں ایسے بھی ہیں، جود نیوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگیاں خدمت اسلام کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور مزے کی زندگی گزار رہے ہیں.خدا کی خاطر آپ سے ماریں بھی کھاتے ہیں اور گالیاں بھی سنتے ہیں اور پھر بھی خوش رہتے ہیں کہ ہم یہ سب ایک اعلیٰ مقصد کے لیے کر رہے ہیں.اس لیے جب ہم ساری دنیا میں انقلاب برپا کرتے ہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے والے پیدا کرتے ہیں تو پھر معاند مولویوں کی آوازوں سے ہمیں کیا تکلیف ہو سکتی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ احمدی کا فر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں.اور دنیا گواہی دیتی ہے کہ ہم انہیں کی وجہ سے تو اسلام سیکھ رہے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے لگ گئے ہیں.تو یہ عمل کی زندگی ہے، یہ نظر آنی چاہیے.جھوٹا تو ایسے لوگ پیدا نہیں کر سکتا.عجیب بات ہے کہ جو بچے ہوں، ان کو تو یہ تو فیق نہ ملے.جو جھوٹے ہوں ، وہ دنیا میں اسلام کی عظیم الشان خدمتیں کر رہے ہیں.یہ تو بہت بڑا تضاد ہے“.مطبوعه روزنامه الفضل 12 دسمبر 1982ء) 202
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچی تھی المسيح خطبہ جمعہ فرمودہ 05 نومبر 1982ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تحریک جدید کے آغاز کو آج اڑتالیس سال گزر چکے ہیں اور اب ہم 49 ویں سال میں داخل ہورہے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1934ء میں سب سے پہلے قادیان میں اس تحریک کا آغاز فرمایا.یہ وہ دن تھے، جب ابھی فضا میں احرار کے ان دعوؤں کی آواز گونج رہی تھی کہ ہم مینارة کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور قادیان کو اس طرح مسمار کر دیں گے کہ وہاں قادیان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا.اور ایک وجود بھی ایسا نہیں رہے گا، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام لینے والا ہو.فضاؤں میں بہت ارتعاش تھا اور احمدیوں کی طبیعت میں بھی ایک ہیجان تھا، ایک جوش تھا اور ایک ولولہ تھا.جتنی قوت کے ساتھ جماعت کو دبانے کی کوشش کی جارہی تھی، اتنے ہی زور کے ساتھ یہ جماعت اچھلنے کے لئے تیار بیٹھی تھی.ایک آواز کا انتظار تھا، یعنی خلیفۃ المسیح کی آواز کا کہ وہ جس طرح چاہیں، جس طرف چاہیں، قربانیوں کے لئے بلائیں.لیکن دل سینوں میں اچھل رہے تھے کہ کب یہ آواز بلند ہو اور کب ہمیں آگے بڑھ کر نحن انصار اللہ کہنے کی توفیق عطا ہو.چنانچہ اس پس منظر میں 1934ء میں حضرت مصلح موعود نے اس تحریک کا آغاز فرمایا.اس وقت کے اقتصادی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور اس وقت کی جماعت کی غربت کو مد نظر رکھتے ہوئے ، آپ نے اپنے اندازے کے مطابق ستائیس ہزار روپے کی تحریک فرمائی.اور اس پر بھی آپ کا یہ تاثر تھا کہ اس وقت کے جماعت کے اقتصادی حالات مستقل طور پر یہ بوجھ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.یا یوں کہنا چاہئے کہ اقتصادی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ مستقل طور پر یہ تحریک جاری نہ کی جائے.بلکہ چند سال کے لئے قربانی مانگی جائے.چنانچہ آپ نے تین سال کے لئے اس چندے کا اعلان فرمایا، جس کے ذریعے سے تمام دنیا میں تبلیغ اسلام کی داغ بیل ڈالی جانی تھی.اس وقت حاضرین اس بات کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے.بہت سے ایسے تھے، جنہوں نے سمجھا کہ یہ تحریک صرف ایک سال کے لئے ہے.چنانچہ 203
خطبہ جمعہ فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک انہوں نے بظاہر اپنی توفیق سے بہت بڑھ کر چندے لکھوائے.سلسلہ کے بعض کلرک ایسے تھے ، جن کو اس زمانے میں پندرہ روپے مہینہ تنخواہ ملا کرتی تھی.انہوں نے تین ، تین مہینے کی تنخواہیں لکھوادیں.بعض ایسے تھے، جنہوں نے دو مہینے کی تنخواہ لکھوادی.اور ذہن پر یہی اثر تھا کہ ایک، دو سال کے اندر ہم ادا کر دیں گے.سلسلہ کے بہت سے ایسے بزرگ بھی تھے، جو اگر چہ کچھ زائد تنخواہ پانے والے تھے.لیکن اس زمانے میں بھی ان کی تنخواہ دنیا کے لحاظ سے بہت کم تھی.مثلاً ناظروں کے معیار کے لوگ اور سلسلہ کے پرانے خدام اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی کبھی خدمت کی توفیق پائی تھی، پچاس، ساٹھ ستر روپے ماہوار سے زیادہ ان کی تنخواہیں نہیں تھیں.ان میں سے بھی بعض نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر چندے لکھوائے.مثلاً حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اڑھائی سو روپے چندہ لکھوایا.اسی طرح دیگر بزرگوں میں سے مولوی ابوالعطاء صاحب (جو اس وقت کی نسل میں نسبتاً چھوٹے تھے.) اور مولوی جلال الدین صاحب شمس نے بھی پچاس پچاس روپے، پچپن پچپن روپے لکھوائے.جو اس زمانے کے لحاظ سے ان کی آمد کے مقابل پر بہت زیادہ تھے.لیکن اس وقت یہ بات کھل کر سامنے نہیں آئی تھی کہ یہ تحریک مستقل نوعیت کی ہے.ہاں بعد میں جب یہ اعلان کیا گیا کہ یہ ایک سال کے لئے نہیں بلکہ تین سال کے لئے تھی تو ان زیادہ لکھوانے والوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا، جس نے یہ درخواست کی ہو کہ غلط نہی میں زیادہ لکھوادیا گیا ہے، طاقت سے بڑھ کر بوجھ ہے، اس لئے ہمیں اجازت دی جائے کہ اس چندے کو کم کر دیں.بلکہ خود حضرت مصلح موعود نے پیشکش فرمائی کہ اگر کسی نے غلط فہمی سے اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ لکھوا دیا ہے تو اس کو کم کروانے کی اجازت ہے.یہ درخواستیں تو موصول ہوئیں کہ حضور! ہمیں یہ چندہ اسی طرح ادا کرنے کی اجازت دی جائے اور دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس عہد پر قائم رہیں.لیکن کوئی یہ درخواست نہیں آئی کہ ہمارے چندے کو کم کر دیا جائے.بعد میں جب یہ بات اور کھل گئی کہ یہ تحریک تین سال کے لئے نہیں بلکہ ایک مستقل اور ایسی عظیم الشان تحریک بننے والی ہے، جس کے نتیجے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچنی تھی اور جس کے نتیجے میں حضرت مصلح موعودؓ نے زمین کے کناروں تک شہرت پانی تھی، تب بھی کوئی پیچھے نہیں ہٹا.بلکہ قربانیوں میں آگے بڑھتے چلے گئے.بزرگوں کا بھی یہی عالم تھا، امیروں کا بھی یہی عالم تھا ، متوسط طبقے کے لوگ، جو سلسلے کے کاموں سے براہ راست متعلق نہیں تھے، ان کی بھی یہی کیفیت تھی اور غرباء کی بھی یہی کیفیت تھی.تمام جماعت کے ہر طبقے 204
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 05 نومبر 1982ء نے قربانی میں ایک ساتھ قدم اٹھایا ہے.اور آج جب ہم اعداد و شمار پرنگاہ ڈالتے ہیں تو ان کے تجزیے سے ہرگز یہ بات سامنے نہیں آتی کہ کسی طبقے نے زیادہ قربانی کی تھی اور کسی نے کم.امراء نے اپنی توفیق کے مطابق بہت بڑے بڑے قدم اٹھائے.بڑی بلند ہمتوں کے ساتھ ( دعوؤں کے ساتھ نہیں ) وعدے لکھوائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو پورا کیا.اسی طرح غرباء اپنی توفیق کے مطابق، بلکہ توفیق سے بڑھ کر اس میں شامل ہوئے.جوش اور ولولے کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ جب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان فرمایا کرتے تھے تو جو لوگ سب سے پہلے دفتر تحریک جدید میں پہنچ کر اپنے چندے لکھواتے تھے ، ان میں دو دوست پیش پیش تھے.ایک کا نام محمد رمضان صاحب تھا، جو مددگار کارکن تھے اور دوسرے کا نام محمد بوٹا ” تانگے والا تھا.جب تک وہ زندہ رہے، ایک سال بھی اس بات میں پیچھے نہیں رہے.خدا نے ان کو جتنی توفیق بخشی تھی ، اس کے مطابق وہ لکھواتے تھے اور ادائیگی میں بھی السابقون میں شامل ہوتے تھے.اور وہ لوگ جو سب سے پہلے پرائیویٹ سیکرٹری کے باہر انتظار کر رہے ہوتے تھے، (اس زمانے میں لوگ پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں پہنچا کرتے تھے.ان میں یہ دونوں دوست پیش پیش ہوتے تھے.مزدوروں کا یہ عالم تھا کہ سیالکوٹ کے ایک مزدور، جو ان دنوں دو روپے ہاڑی کمایا کرتے تھے ، یعنی دو روپے یومیہ ان کی مزدوری تھی، انہوں نے اس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑا یعنی نہیں روپے چندہ لکھوایا.ایک اور صاحب تھے ، وہ بھی غریب اور کمزور حال تھے، انہوں نے دس روپے چندہ لکھوایا.تو قربانی کرنے والوں کا یہ حال تھا.جہاں تک اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا تعلق ہے، وہ فضل ان لوگوں پر بارش کی طرح، اس طرح بر سے ہیں کہ ان پر نگاہ پڑتی ہے تو قربانیاں کہتے ہوئے بھی شرم آنے لگتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ان خاندانوں کی کایا پلٹ دی.ان کی نسلوں کے رنگ بدل گئے.خدا نے ایسے فضل نازل فرمائے کہ پہچانے نہیں جاتے کہ یہ کون سے خاندان تھے ، کس حالت میں رہا کرتے تھے اور کس تنگی ترشی میں گزارہ کیا کرتے تھے ؟ وہ مزدور ، جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور جس نے تمیں روپے سے اپنے چندے کا آغاز کیا تھا، آج ان کا چندہ تین ہزار، پانچ سوروپے سالانہ ہے.اور وہ مزدور ، جس نے دس روپے سے اپنے چندے کا آغاز کیا تھا، آج اس کا چندہ 5000 روپے سالانہ ہے.اور وہ بچہ جس نے پانچ روپے کے ساتھ اپنے چندے کا آغاز کیا تھا، گزشتہ سال اس کا چندہ پانچ ہزار روپے سالانہ سے زائد تھا.پس ہر عمر کے لوگوں کو خدا تعالیٰ نے 205
خطبہ جمعہ فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم پنے فضل سے نوازا.ہر طبقے کے لوگوں کو اپنے فضل سے نوازا.روحانی لحاظ سے بھی ان لوگوں نے بہت ترقیات حاصل کیں اور دنیوی لحاظ سے بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے.اور ان کی اولادوں نے بھی ان کی قربانیوں کا اتنا پھل کھایا کہ میری کے مقام تک پہنچ گئے.اور وہ فضل ابھی ختم ہونے میں نہیں آتے.وہ ایک نسل سے تعلق رکھنے والے فضل نہیں ہیں.بلکہ وہ دوسری نسل میں بھی جاری ہیں، تیسری نسل میں بھی جاری ہیں اور یہ معاملہ آگے بڑھتا چلا جارہا ہے.زمانے کے لحاظ سے بھی لمبا ہو رہا ہے اور وسعت کے لحاظ سے بھی پھیلتا جا رہا ہے.یہ دفتر اول دس سال تک بلا شرکت غیر جاری رہا.یعنی 1934ء سے 1944ء تک کوئی اور دفتر اس کا رقیب نہیں تھا.جو لوگ بعد میں شامل ہوئے ، وہ بھی اس دفتر میں شامل ہوتے تھے.لیکن 1944ء میں ایک نئے دفتر کا آغاز ہوا، جسے دفتر دوم کہا جاتا ہے.دفتر دوم کے جاری ہونے کے بعد دفتر اول میں داخلے کے رستے بند ہو گئے اور نکلنے کے رستے جاری رہے.یعنی پانچ ہزار یا اس سے کچھ زائد چندہ دہندگان، جو دفتر اول میں شامل تھے، ان کو اللہ کی تقدیر بلاتی رہی اور وہ اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے رہے.اس لئے اس دفتر میں شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھانے کے رستے بند تھے.اور اب جس احمدی نے بھی تحریک جدید میں شامل ہونا تھا، اس کے لئے صرف دفتر دوم کا دروازہ کھلا تھا.چنانچہ عظیم الشان قربانیاں کرنے والا یہ گروہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگا اور آج ان میں سے صرف دو ہزار زندہ باقی ہیں، جنہوں نے دفتر اول میں حصہ لیا تھا.اور ان کے چندے کی مقدار، جو اس وقت تک بیان کی گئی ہے، وہ ایک لاکھ پچیس ہزار ہے، جو میرے نزدیک غلط ہے.میں نے از سر نو چھان بین کے لئے کہا ہے.کیوں غلط ہے؟ میں اس کی وجہ بتاؤں گا.بہر حال دفتر اول میں حصہ لینے والوں کی تعداد، جہاں تک زندہ لوگوں کا تعلق ہے، وہ گر کر دو ہزار تک پہنچ گئی ہے.لیکن تحریک جدید نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں، جو مرنے کے باوجود بھی چندہ ادا کر رہے ہیں.کیونکہ ان کی نسلیں ان کی طرف سے دے رہی ہیں.ان کو لسٹ سے خارج کرنے کا کس کو حق ہے؟ اگر ان کا نام تحریک جدید نے اپنی لسٹ سے نکال دیا ہے تو یہ ان کی غلطی ہے.حضرت مصلح موعود کی مثال لیجئے.وفات کے وقت آپ کا چندہ بارہ ہزار اور چند سو تھا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس وقت جماعت میں سب سے زیادہ چندہ آپ کا تھا.بلکہ جہاں تک میراعلم ہے، ( ہوسکتا ہے کبھی استثناء بھی ہو گیا ہو ) اگر سو فیصدی نہیں تو اکثر سالوں میں آپ کا چندہ باقی سب جماعت کے انفرادی چندوں سے ہمیشہ زیادہ رہا.آپ کے وصال کے 206
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 05 نومبر 1982ء بعد آپ کے بچوں نے اپنے پہلے مشترکہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ مشترکہ جائیداد کے حساب میں سے سبہ پہلے ہم حضرت مصلح موعود کا یہ چندہ دیتے رہیں گے اور اس چندے میں کمی نہیں آئے گی.اس کے علاوہ بھی بچوں نے اپنے طور پر حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے چندے لکھوائے ہیں، جو دہ ادا کرتے ہیں.پس اس رقم میں اضافہ ہورہا ہے، کمی نہیں ہوئی.جس کا چندہ جاری ہے، وہ کس طرح مر سکتا ہے؟ اس لئے دفتر اول کی از سر نو تر تیب کرنی پڑے گی.میری خواہش یہ ہے کہ یہ دفتر قیامت تک جاری رہے.اور جو لوگ ایک دفعہ اسلام کی ایک مثالی خدمت کر چکے ہیں، ان کا نام قیامت تک نہ مٹنے پائے.اور ان کی اولادیں ہمیشہ ان کی طرف سے چندے دیتی رہیں.اور ایک بھی دن ایسا نہ آئے، جب ہم یہ کہیں کہ اس دفتر کا ایک آدمی فوت ہو چکا ہے.خدا کے نزدیک بھی وہ زندہ رہیں اور قربانیوں کے لحاظ سے اس دنیا میں بھی ان کی زندگی کی علامتیں ہمیں نظر آتی رہیں.پس اس نقطہ نگاہ سے تحریک جدید کو دفتر اول کی از سرنو تر تیب قائم کرنی پڑے گی ، اس کو پھر منظم کرنا پڑے گا اور وہ بچے، جو اپنے والدین یا بزرگوں کی طرف سے رقمیں ادا کر رہے ہیں، اگر وہ بزرگ مر بھی چکے ہیں تو وہ زندہ شمار ہونے چاہئیں، جہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے.اور ان کے نام اس فہرست سے نہیں نکالے جائیں گے.بچوں کے چندوں میں سے اتنا کم کر کے، جو انہوں نے اپنے والدین کے نام پر لکھوایا ہے، اس فہرست میں منتقل کیا جائے، جو دفتر اول کی فہرست ہے.اور پھر سیح صورت حال پیش کی جائے کہ اب کیا شکل بنتی ہے؟ مجھے امید ہے اور بھاری توقع ہے کہ انشاء اللہ تعالی ان بزرگوں کے بچے ان کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اور کبھی بھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ دفتر اول کے چندے کی مقدار کم ہونی شروع ہو جائے.یہ انشاء اللہ تعالیٰ بڑھتی رہے گی.دفتر دوم کا آغاز 1944ء میں ہوا اور اب یہ دفتر از تمیں سال کا ہو چکا ہے.اس نے بھی ایک عرصہ تک بلا شرکت غیر چندے دینے والے وصول کئے.یعنی اگر چہ دفتر اول میں داخلے کا رستہ بند ہو چکا تھا لیکن اس دفتر میں داخلہ جاری رہا اور اکیس سال تک یہ بغیر کسی رقابت کے جماعت کے چندہ دہندگان حاصل کرتا رہا.ان میں سے کچھ جاتے بھی رہے اور خدا کے حضور پیش ہوتے رہے لیکن زیادہ تعداد اندر آنے والوں کی تھی.یہاں تک کہ 1965ء میں اس دفتر کو بند کر دیا گیا ، ان معنوں میں کہ اس کے داخلے کے رستے بند ہو گئے (ویسے یہ دفتر جاری ہے.) اور دفتر سوم کا آغاز ہوا.اس وقت تک اس کے چندہ دہندگان کی جو تعداد تھی، وہ تو میرے سامنے نہیں آئی.لیکن اس عرصے میں، جو سترہ سال کا عرصہ ہے، لا زمان 207
خطبہ جمعہ فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ایک بڑی تعداد فوت ہوگئی ہوگی.مگر کم ہونے کے باوجود اس وقت ان کی تعداد اٹھارہ ہزار، پانچ سویا اٹھارہ ہزار، چھ سو کے قریب ہے.اور ان کا مجموعی چندہ تیرہ لاکھ سے زائد اور چودہ لاکھ سے کچھ کم ہے.یعنی تیرہ اور چودہ لاکھ کے درمیان ہے.اس دفتر والوں کو بھی میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ جو دوست فوت ہو چکے ہیں، دفتر دوم کی آئندہ نسلیں ان کے نام کو زندہ رکھنے کی خاطر یہ عہد کریں کہ کوئی فوت شدہ اس لسٹ سے غائب نہ ہونے دیا جائے گا اور ان کی قربانیاں جاری رہیں گی.تاکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اللہ کے نزدیک وہ فعال شکل میں زندہ نظر آئیں.یعنی ایک تو زندگی ہے ہی کہ نیک لوگ جو خدا کے حضور حاضر ہوتے ہیں، وہ زندہ رہتے ہیں.لیکن نیک اعمال کی صورت میں اگر ان کی وفات کے بعد ان کی طرف سے قربانیاں جاری رکھی جائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خبر دیتے ہیں اور ان سے زیادہ سچی خبر دینے والا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا کہ وہ نیک لوگ ، جو نیک کام کرتے ہوئے فوت ہو جائیں اور ان کی اولا دان کی نیکیوں کو جاری رکھے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان نیکیوں کا ثواب ان کو پہنچتا رہتا ہے.اس لحاظ سے میرا مطلب ہے کہ وہ عملاً بھی اس دنیا کی فعال زندگی میں زندہ رکھے جائیں گے.- تیسرے دفتر کو قائم ہوئے ، آج سترہ سال ہو چکے ہیں.اور اس سترہ سال کے عرصے میں اس دفتر میں جتنے شامل ہونے چاہئیں تھے، اس سے بہت کم تعداد میں شامل ہوئے ہیں.یعنی مشکل سے صرف پانچ ہزار تک پہنچے ہیں.حالانکہ دفتر اول کے وقت جماعت کی جو تعداد تھی اور بچے پیدا ہونے کی جو رفتار تھی، اس کے لحاظ سے دس سال کے اندر پانچ ہزار کی تعداد کو حاصل کرنا کافی نہیں.اور جبکہ خدا کے فضل سے جماعت کا عظیم الشان پھیلاؤ ہو چکا ہے اور روزانہ مجھے بچوں کے جس قدر نام رکھنے پڑتے ہیں، وہی اتنے ہیں، خدا کے فضل کے ساتھ کہ اب تک پانچ ہزار کیا، اگر دفتر سوم میں شامل ہونے والوں کی تعداد تیں، چالیس ہزار بھی ہو جاتی تو مجھے تعجب نہ ہوتا.پس معلوم ہوتا ہے کہ دفتر سوم کی طرف غفلت کی گئی ہے.ہوسکتا ہے، اس میں منتظمین کا بھی کچھ قصور ہو.اور ہو سکتا ہے، ہمارا بحیثیت جماعت یہ قصور ہو کہ ہم نے آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت نہیں کی.تربیت کے لئے یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے کہ بچوں سے بہت بچپن ہی سے چندہ لینا شروع کرو.ان کو ہفتہ وار یا ماہانہ کچھ رقم دو اور پھر ان سے کچھ خدا کے نام پر لو اور ان کو بتاؤ کہ ہم یہ کس غرض کے لئے لے رہے ہیں؟ 208
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 05 نومبر 1982ء اس لحاظ سے دفتر سوم کے لئے بہت ہی وسیع گنجائش موجود ہے.اور اگر چہ یہ گنجائش پاکستان میں بھی ہے لیکن پاکستان سے بہت بڑھ کر غیر ممالک میں ہے.کیونکہ غیر ممالک کا چندہ عام اور چندہ وصیت اس وقت پاکستان کے چندہ عام اور چندہ وصیت سے دگنے سے بھی زائد ہے.لیکن ان کا چندہ تحریک جدید، انجمن احمدیہ پاکستان کے چندہ کا تقریباً نصف ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کم از کم چار گنا گنجائش موجود ہے.اسی طرح چندہ عام اور چندہ وصیت میں بھی ابھی بہت گنجائش ہے.اللہ کے فضل سے جماعتیں تیزی کے ساتھ چندہ با شرح دینے کی طرف آ رہی ہیں اور بہت خوشکن رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں.لیکن میرا جو ابتدائی جائزہ تھا، اس سے یہی معلوم ہوا کہ ابھی بہت بھاری تعداد ایسی موجود تھی، جو چندہ ادا ہی نہیں کر رہی تھی.یا اگر ادا کرتی بھی تھی تو شرح کے مطابق نہیں دے رہی تھی.اور چندہ دہندگان میں سے ایک بھاری تعداد ایسی تھی، جس نے سرے سے تحریک جدید میں شمولیت ہی نہیں کی.تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ تحریک جدید نے بیرونی آمد کو بڑھتا ہوا دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ اب تحریک جدید کے چندے کی طرف توجہ کی ضرورت نہیں.اور یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے.قربانی کرنے والی کسی جماعت کو قربانی کی بعض راہوں سے محروم کر دینا، بہت بڑا ظلم ہے.یعنی اچھے بھلے قربانی کرنے والے، نہایت مخلص لوگ ، دوسرے چندے دے رہے ہیں لیکن ان کو توجہ ہی نہیں دلائی جارہی کہ تم نے تحریک جدید کا چندہ بھی دینا ہے.ذراسی توجہ دلائیں تو وہ بڑے جوش کے ساتھ آگے آئیں گے.دراصل ہوا یہ کہ بیرون پاکستان، جو اس وقت ہندوستان تھا، جتنی جماعتیں تھیں، ان میں جہاں تک تبلیغ کا اور تحریک جدید کے مشنز کا تعلق ہے، ان کا تعلق صرف چندہ تحریک جدید سے تھا.اور جہاں تک حصہ آمد اور چندہ عام کا تعلق ہے، وہ صدر انجمن احمدیہ کے نام شمار ہوتا تھا.مگر کچھ عرصے کے بعد حضرت مصلح موعود کے وقت میں ہی انتظامی تبدیلی کی گئی اور تمام چندہ عام ہو یا چندہ وصیت، وہ تحریک جدید کی طرف منتقل کر دیا گیا.جب تک یہ نہیں ہوا تھا تحریک جدید کوفکر رہتی تھی کہ ہم نے اپنا خرچ کس طرح پورا کرنا ہے؟ اس لئے وہ تحریک جدید کے چندے کی طرف توجہ کرتی تھی.جب اچانک ان کو Wind Fall ( درختوں کا جھاڑ.وہ پھل جو خود بخود نیچے آ رہتا ہے، اس کو Wind Fall کہا جاتا ہے.مل گئی تو ان کو خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی سہولت حاصل ہوگئی.بہت ساز اندروپیہ، جس کا ان کو گمان بھی نہیں تھا، وہ ان کومل گیا.اور انہوں نے کہا، اب یہ تھوڑا ساتحریک جدید کا چندہ ہے، اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس کو بے شک چھوڑ دو.حالانکہ تحریک جدید کا تھوڑ اسا چندہ، جو ان کو نظر آ رہا ہے، اس کی تو کوئی بھی حقیقت نہیں.وہ بے شمار اخلاص، 209
فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم جو ضائع ہو رہا ہے، اس کی حقیقت ہے.یعنی تھوڑے سے چندے کو دیکھتے رہے اور یہ نہ دیکھا کہ بے شمار اخلاص ہے جماعت کا، جس کو یہ ضائع کر رہے ہیں، ان کو قربانی کے مواقع سے محروم کر رہے ہیں.تحریک جدید کا کیا حق تھا کہ جماعتوں کو قربانی کی راہوں سے اپنی غفلت کی وجہ سے محروم کر دیں؟ اس لئے میں نے تحریک جدید میں ایک نئی وکالت قائم کی ہے تا کہ وکالت مال کا بوجھ بٹ جائے.اور اب وکالت مال ثانی خالصہ بیرونی دنیا میں چندہ تحریک جدید کے لئے وقف ہوگی.یعنی اس کے آمد و خرچ کا حساب اس کے ساتھ متعلق ہوگا.اور بہت سے زائد بوجھ ان پر پڑے ہوئے تھے، اب وہ ہٹا دیئے گئے ہیں.جہاں تک چندہ عام اور چندہ وصیت کا تعلق ہے، آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ باوجودان کمزوریوں کے، جن کا میں نے ذکر کیا، پاکستان کا چندہ ایک کروڑ ، چار لاکھ ہے.اس کے مقابل پر بیرونی دنیا کا دو کروڑ میں لاکھ ہے.یعنی دگنے سے بھی زائد ہے.اور یہ سارا بجٹ نہیں ہے.جہاں تک بیرونی بحث کی کل آمد کا تعلق ہے، وہ خدا کے فضل سے پانچ کروڑ ہو چکی ہے.یعنی ایک لاکھ سے تحریک جدید کا آغاز ہوا تھا، جواب خدا کے فضل سے پانچ کروڑ تک پہنچ چکا ہے.لیکن تحریک جدید کے لحاظ سے یعنی چندہ تحریک جدید کے لحاظ سے غفلت کا یہ عالم ہے کہ یہاں یعنی پاکستان میں تو ہیں لاکھ سے زائد ہے (اس وقت تک خدا کے فضل سے توقع ہے، ہمیں لاکھ سے زائد آمد ہو چکی ہوگی.) اور با ہر صرف گیارہ لاکھ کے قریب ہے.اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے صحیح طور پر اس طرف توجہ نہیں کی.لیکن امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی جب تحریک جدید کا یہ شعبہ، وکالت مال ثانی پوری طرح یہاں کی مشکلات اور ضروریات سے فارغ الذہن ہو کر بیرونی دنیا کی طرف توجہ کرے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ بہت تیزی کے ساتھ وہاں چندے بڑھیں گے.اول تو مجھے توقع ہے کہ چندہ عام اور چندہ وصیت بھی بہت جلدی کم از کم ڈیڑھ گنا ہو جائے گا.اور اگر دو گنا بھی ہو جائے تو تعجب کی بات نہیں.لیکن تحریک جدید میں تو بہت زیادہ گنجائش ہے.باہر کا جو گیارہ لاکھ ہے، اس کو ذراسی توجہ کے ساتھ بچاس، ساٹھ لاکھ کیا جا سکتا ہے.اور ایسا کرنا، ذرا بھی مشکل نہیں ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جو اس وقت کا بگڑا ہوا توازن ہے، وہ درست اور برقرار ہو جائے گا.اور بیرونی دنیا کی تحریک جدید کی قربانی بھی پاکستان کی قربانی کے مطابق ہو جائے گی.لیکن خود پاکستان میں بھی ابھی بڑی گنجائش موجود ہے.اس لئے جب ہم ان کو تیز کریں گے تو اپنے آپ کو نہیں بھلا سکتے.یعنی پاکستان میں بسنے والے احمدی بحیثیت پاکستانی احمدیوں کے اپنے آپ کو نہیں بھلا سکتے.علا سکتے.میرا 210
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 05 نومبر 1982ء جائزہ یہ ہے کہ یہاں بھی دفتر سوم میں بڑی بھاری گنجائش موجود ہے.یہ کام میں لجنہ اماءاللہ کے سپرد کرتا ہوں.کیونکہ اس سے پہلے دو دفتروں میں سے ایک دفتر یعنی دفتر اول، خدام الاحمدیہ کی خصوصی تحویل میں دے دیا گیا ، ان معنوں میں کہ وہ چندوں کی طرف خصوصی توجہ کریں.دفتر دوم، انصار اللہ کے سپرد کیا گیا کہ وہ اس طرف توجہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انصار نے اس میں بڑی محنت سے کام کیا ہے.تیسرا دفتر ، دفتر سوم کسی ذیلی تنظیم کے سپردنہیں کیا گیا.ہو سکتا ہے یہ بھی وجہ ہو، اس میں غفلت اور کمزوری کی.تو امید ہے کہ لجنہ اماءاللہ، انشاء اللہ تعالی بڑی تیزی کے ساتھ اس طرف توجہ کرے گی.اور لجنہ کا تجربہ یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کی طرف توجہ کرتی ہیں تو ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مردوں کو شرمندہ کریں اور ان کو پیچھے چھوڑ جائیں.اور بسا اوقات وہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں.اس لئے مرد بھی کمر ہمت کس لیں.جب وہ دوڑیں گی تو آپ کو بھی دوڑنا پڑے گا.آپ قوام ہیں، آپ کو اپنا وقار اور اپنا مقام قائم رکھنے کے لئے قربانیوں میں لازماً آگے بڑھنا ہوگا.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ کا ایک بہت ہی حسین منظر ہمارے سامنے آ جائے گا.یعنی جماعت کے تمام حصے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے دوڑ رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم دنیا کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ہر آن بڑھتی ہوئی قربانی پیش کرتے رہیں.خدمت کے نئے نئے میدان ظاہر ہورہے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں.اور دنیا کی طرف سے آپ کو بڑی کثرت کے ساتھ بلا وادیا جارہا ہے.آپ کو جو جماعت احمدیہ کے خدام ہیں، جو جماعت احمدیہ کے انصار ہیں، جو جماعت احمدیہ کی لجنات ہیں، دنیا کے ممالک آپ کو بلا رہے ہیں کہ آؤ اور ہمیں بچاؤ.اگر آپ نے اس آواز پر لبیک نہ کہا تو کوئی اور ایسا کان نہیں ہے، جس کے پر دے اس آواز سے لرزنے لگیں اور یہ آواز ان کے دلوں میں ارتعاش پیدا کر دے.اول تو ان کو کوئی بلا نہیں رہا.اور اگر بلائے گا بھی تو سننے والے کان نہیں ہیں.اور اگر سننے والے کان بھی ہوں تو وہ دل میسر نہیں ہیں، جو خدا کی خاطر قربانیوں کے نام پر ہیجان پکڑ جاتے ہیں اور وہ اعضاء میسر نہیں ہیں، جو عمل کے لئے بے قرار ہو جاتے ہیں.یہ توفیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو عطا ہوئی ہے.اس لئے ساری دنیا کے تقاضے آپ نے ہی پورے کرنے ہیں.پس دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان پھیلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ہمیں آگے بڑھنے اور لبیک لبیک اور اللھم لبیک کہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.211
خطبہ جمعہ فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.آج چونکہ انصار اللہ کا اجتماع ہوگا، جو غالباً ساڑھے تین یا پونے چار بجے شروع ہونے والا ہے.اس لئے سابقہ روایات کے مطابق ان دینی مصروفیات کے پیش نظر آج عصر کی نماز جمعہ کے ساتھ جمع ہوگی.اس کے بعد جنہوں نے کھانا کھانا ہے یا دوسری ضروریات سے فارغ ہونا ہے، وہ فارغ ہو کر ( خدام اور انصار ) زیادہ سے زیادہ تعداد میں مقام اجتماع میں پہنچ جائیں، جو مسجد کے ساتھ ہی ملحق ہے.مطبونه روزنامه الفضل 02 دسمبر 1982ء) 212
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء جو لطف وقف کی زندگی میں ہے، وہ کسی اور میں نہیں خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ مرکزیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا بہت ہی احسان ہے اور اس کی حمد کے گیت گانے چاہئیں کہ وہ جماعت احمدیہ کو مسلسل نیکی کے ہر میدان میں پہلے سے آگے ہی آگے بڑھاتا چلا جارہا ہے.ہمارا ہر اجتماع خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پہلے سے زیادہ با برکت اور زیادہ پر رونق ہوتا ہے.اور ہر اجتماع پر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ شامل ہونے والے نئی امنگیں اور نئے ولوے لے کر واپس جاتے ہیں.اور ان کا آنے والا سال پچھلے سال سے ہر پہلو سے بہتر ہوتا چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا یہ ایک ایسا زندہ نشان ہے، جسے دنیا کی کوئی مخالفت کبھی بھی جماعت احمدیہ سے چھین نہیں سکی.اور کبھی بھی دنیا کی کوئی مخالفت اللہ کی اس اور نصرت کے نشان کو جماعت احمدیہ سے چھین نہیں سکے گی.ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس کے فضل اور اسی کے رحم کے ساتھ اسی کی رحمت اور نصرت اور برکتوں کے سایہ تلے آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں گے.اعداد و شمار کے لحاظ سے بعض پہلوؤں سے اگر چہ تعداد میں معمولی سی کمی نظر آتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، مجموعی لحاظ سے خدا کے فضل سے تعداد میں یعنی آج پہلے دن شامل ہونے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے.مجالس کی تعداد کی شرکت کا جہاں تک تعلق ہے، گزشتہ سال سے یہ شرکت کم ہے.یعنی 732 کے مقابل پر آج جس وقت رجسٹریشن بند کی گئی، اس وقت تک 671 مجالس شریک ہوئی تھیں.اور اراکین کی شرکت کے لحاظ سے بھی بہت معمولی یعنی 31 کی کمی ہے.لیکن اس کے مقابل پر زائرین جو رجسٹرڈ نہیں ہوئے اور اس تعداد میں شامل نہیں.ان کی تعداد گزشتہ سال سے تقریبا 996 زیادہ ہے.ایک پہلو سے جو معمولی سی کمی واقع ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دوسرے پہلو سے اسے کو پورا فرما دیا ہے اور تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور ہمارے دل اس کی رضا پر بہت راضی ہیں.الحمد للہ علی ذالک جہاں تک سائیکل سوار ان کا تعلق ہے، خدا تعالیٰ کے فضل سے اس دفعہ انصار نے نئی منزلیں طے کی ہیں.اس میں بہت سی ایسی مجالس شامل ہوئی ہیں، جو اس سے پہلے کبھی شامل نہیں ہوئی تھیں.مثلاً 213
خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جھنگ، سیالکوٹ، راولپنڈی، ملتان اور اوکاڑہ کی مجالس پہلے کبھی سائیکل سوار بھیجنے کی توفیق نہیں پاتی اب اللہ کے فضل سے انہوں نے بھی انصار سائیکل سوار وفود یہاں بھجوائے ہیں.علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کچھ اور منزلیں بھی اس لحاظ سے طے ہوئی ہیں کہ پہلے جو انصار سائیکلوں پر آیا کرتے تھے، ان کی اوسط عمر بالعموم چھوٹی ہوتی تھی.یعنی خدام کی عمر سے نکل کر جب وہ انصار اللہ میں داخل ہوتے تھے تو قریب کے زمانہ میں وہ اپنے آپ کو اس قابل سمجھتے تھے کہ سائیکل پر سفر کر سکیں.گزشتہ سال خدا تعالیٰ کے فضل سے کچھ دوست نسبتا زیادہ عمر کے بھی سائیکلوں پر تشریف لائے تھے.لیکن اس سال ان کوششوں میں بہت نمایاں اضافہ ہوا، جو انصار کی جواں ہمتی کا اس لحاظ سے ایک نشان ہے کہ سائیکل سواران میں ایک اسی (80) سالہ بزرگ بھی شامل ہیں.یہ بزرگ مکرم چوہدری عطا اللہ صاحب ہیں، جو خدا اتعالیٰ کے فضل سے توفیق پاتے ہوئے بڑی جواں ہمتی کے ساتھ چک نمبر 117 چھور ضلع شیخو پورہ سے سائیکل پر ربوہ پہنچے ہیں.یہ تو نسبتا نزدیک کا فاصلہ ہے.انصار کے ایک جواں ہمت رکن مکرم علی محمد صاحب، جن کی عمر 75 سال ہے، تھر پارکر سندھ سے 700 میل کا سفر کے یہاں پہنچے ہیں.ان کے ساتھ ایک نو مسلم نوجوان ہیں، جن کے والدین ابھی تک ہندو ہیں.تھوڑا ہی عرصہ ہوا، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے قبول اسلام کی توفیق پائی ہے.اس سال خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر بھی سائیکل پر آئے تھے.ان کو ایسا لطف آیا کہ اب انصار اللہ کے اجتماع پر بھی ساتھ چل پڑے اور اس بزرگ دوست علی محمد صاحب کے ساتھ ساتھی بن کر پھر تشریف لائے ہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، احمدی بوڑھے دن بدن جوان ہوتے جارہے ہیں.انصار اللہ کے لئے یہ خوشی کی بات ہے اور خدام الاحمدیہ کے لئے ایک لحاظ سے لمحہ فکریہ.بوڑھوں اور جوانواں کا ایک مقابلہ ہے، جس میں پہلے تو میں انصار کے ساتھ ہوا کرتا تھا.یعنی چھ مہینے پہلے تک یہی کیفیت تھی کیونکہ میں بھی با قاعده مجلس انصاراللہ کا ایک رکن تھا.اگر چہ خدام بھی ہمارے اپنے بھائی اور بچے ہیں لیکن مقابلہ کی اسلامی روح کے پیش نظر میری دلی کوشش بھی پہنی ہوتی تھی اور دعا بھی ہوتی تھی کہ انصار آگے بڑھیں.لیکن اب تو دونوں میں سانجھا ہو گیا ہوں.اس لئے یہ بہت مشکل ہے کہ ایک کے لئے دوسرے سے زیادہ دعا کروں.اب تو یہ حال ہے کہ دونوں میں سے جو جیتے گا، اسی کی خوشی ہوگی.آپ کو اپنے اپنے دائرہ میں یہ رشک کا مقابلہ جاری رکھنا چاہئے اور اپنے اپنے دائرہ میں پہلے سے بڑھ کر دعائیں کرنی چاہئیں.کر انصار کی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے اوپر سے بڑھاپے کا داغ مٹائیں اور جوانوں کو جواں ہمتی سے 006 214
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء چیلنج کریں.اور جوانوں کی بھی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو صحت اور توانائی زیادہ بخشی ہے، وہ اس کی لاج رکھیں اور بوڑھوں کو آگے نہ نکلنے دیں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.ہماری اجتماعی زندگی کے بعض پہلو ایسے ہیں، جن میں انصار کو بہر حال خدام پر فوقیت حاصل ہے.وہ عمر کے لحاظ سے جماعت کے ایسے طبقہ میں شامل ہیں، جن کو عموماً عبادت کی زیادہ توفیق ملاتی ہے، دعاؤں کی زیادہ تو فیق ملتی ہے.بعض انصار تو ایسے بھی ہیں، جو لیٹے رہتے ہیں، کچھ بھی نہیں کر سکتے.مگران کی دعاؤں میں اتنی قوت اور اتنی شوکت ہوتی ہے کہ وہ لیٹے لیٹے ہزاروں چلنے پھرنے والوں سے آگے نکل جاتے ہیں.ایسے ہی انصار بزرگوں میں سے حضرت مولوی محمد دین صاحب ایک ہیں، جن کی عمر اس وقت سو (100) سال سے کچھ تجاوز کر چکی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور نہایت مخلص خدام میں سے ہیں.چار پائی پر پڑے ہوئے ہیں، بولنے کی بھی پوری طاقت نہیں.لیکن جب میں سپین سے واپس آکر ان سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ تمام عرصہ وہ دعائیں کرتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مسجد بشارت سپین کی افتتاحی تقریبات کو کامیاب کرے.نیز فرمایا کہ میرے دل میں یہ حسرت رہی کہ کاش میں بھی شامل ہو سکتا.میں نے کہا: آپ کی جگہ خدا تعالیٰ کے فرشتے شامل ہو رہے تھے.آپ کی یہ دعائیں قبول ہونے کے منظر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں.اس لئے آپ سے زیادہ اور کون اس تقریب میں شامل تھا.پس انصار اللہ میں ایسے بھی بزرگ ہیں، جو بہت بوڑھے ہیں، بستر پر پڑے ہوئے ہلنے جلنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے.دوسرے لوگ سہارا دیتے ہیں تو حرکت کرتے ہیں.لیکن ان کے دل زندہ اور ہمتیں جوان ہیں، ان کی دعاؤں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ عرش کے پائے ہلا دیتی ہیں، غرض اس لحاظ سے انصار اللہ کا یہ کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور دعاؤں کی برکت سے بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھیں.بڑھاپے کی کمزوریاں ان کے کام میں جو کی پیدا کر دیتی ہیں، اس کی کمی کو دعاؤں کی برکت سے وہ پورا کر سکتے ہیں بلکہ پورا کرنے سے بھی زیادہ اپنے دامن کو برکتوں سے بھر سکتے ہیں.میں نے آج خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے سال نو کے آغاز کا اعلان کیا تھا اور تحریک جدید کے مالی قربانی کرنے کے پہلو کو خصوصیت کے ساتھ جماعت کے سامنے رکھا تھا.لیکن تحریک جدید کے نظام میں اور بھی بہت سے پہلو ہیں، جو مالی قربانی کے ساتھ پہلو بہ پہلو چلنے چاہئیں.ان میں سے ایک وقف زندگی ہے.وقف زندگی سے متعلق میں آج انصار اللہ کو تحریک کرنا چاہتا ہوں، وہ خصوصیت کے ساتھ وقف کی طرف توجہ کریں.اس وقت سلسلہ کو خدمت کرنے والوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے.خدمت کے کام پھیل 215
خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے ہیں اور اس کے ساتھ ہر شعبہ میں کارکنوں کی کمی محسوس ہورہی ہے.جو کام اس وقت ہاتھ میں ہیں، ان کو پورا کرنے کے لئے بھی مزید انسانی قوت کی ضرورت ہے.لیکن جو کام ابھی تشنہ پڑے ہوئے ہیں، بعض ابھی توجہ طلب ہیں ، ان کے لئے اور بھی زیادہ کثرت کے ساتھ انصار چاہیں.سورۃ صف کی ان آیات میں جو آپ کے سامنے ابھی تلاوت کی گئی تھیں، یعنی من انصاری الی اللہ ، اس میں خدا کی طرف لے جانے والے انصار، خدا کی خاطر اپنے نام پیش کرنے والے انصار مراد ہیں.اس میں شک نہیں کہ انصار کے لفظ میں صرف وہی لوگ شامل نہیں، جن کی عمر چالیس (40) سال سے زیادہ ہے.من انصاری الی اللہ کے اس اعلان میں بوڑھے بھی شامل ہیں اور بچے بھی.جوان بھی شامل ہیں اور عورتیں بھی.غرض زندگی کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے اور عمر کے ہر دور سے تعلق رکھنے والے اس میں شامل ہیں.لیکن انصار کو خصوصیت کے ساتھ میں اس وجہ سے مخاطب ہوں کہ ہماری بعض ضرورتیں فوری طور پر انصار پوری کر سکتے ہیں.ہمارے بہت سے ایسے انصار ہیں، جو ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچنے والے ہیں.بہت سے ایسے بھی ہیں، جو ریٹائر منٹ کو پہنچ چکے ہیں.ان میں سے کئی ایسے بھی ہوں گے، جن کو ذریعہ معاش کی کچھ اور صورتیں حاصل ہو گئی ہوں.روزی کمانے کے کچھ نئے رستے میسر آگئے ہوں.لیکن کچھ ایسے بھی ہوں گے اور غالباً زیادہ تعداد ایسے دوستوں کی ہوتی ہے، جن کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کام نہیں ملتا.پس جن کو کام نہیں ملتا، ان کی اس سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی بقیہ عمر خدا کے دین کے خدمت کے لئے رضا کارانہ طور پر وقت کر دیں؟ ( یہ وقف، خصوصی وقف ہے.اس لئے یہ رضا کارانہ طور پر ہو گا.اس میں سلسلہ ان کو مالی لحاظ سے کچھ بھی نہیں دے گا.اگر وہ گھر بیٹے گزارہ کر لیتے ہیں تو مرکز میں آکر بھی گزارہ کر سکتے ہیں.ہاں اگر کوئی مجبور ہو، گھر سے جدا ہو کر وہ علیحدہ خوراک وغیرہ کے انتظام کی سکت نہ پاتا ہو تو اس کے کھانے اور رہائش وغیرہ کے انتظام کی حد تک رعایت دی جاسکتی ہے.مگر بہر حال چونکہ کام بہت بڑھ رہا ہے ، اس لئے خالص رضا کارواقفین کی بھی ضرورت ہے.) دوسرے وہ دوست ، جو ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد رزق کے بعض اور رستے پالیتے ہیں، ان کو نئے نئے ذرائع معاش میسر آ جاتے ہیں.ان سے میں یہ کہتا ہوں کہ آپ نے زندگی کا ایک بڑا حصہ دنیا کمانے میں صرف کیا.اب یہ چھوٹی سی آزمائش آپ کو در پیش ہے، اب اس قصہ کو ختم کریں.کیا پتہ خدا کی طرف کس وقت کسی کو بلاوا آ جائے؟ اگر چہ عمر کا ایک بڑا حصہ آپ نے مقامی طور پر خدمت کرنے میں گزارا.لیکن با قاعدہ واقف کے طور پر نہیں.سلسلہ کے کاموں میں پیش پیش رہ کر خدمت کی توفیق ملی.216
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء اس سے انکار نہیں لیکن جو لطف ساری زندگی پیش کر دینے میں ہے، وہ لطف اس قسم کی خدمتوں میں میسر نہیں آسکتا.یہ لطف بھی کیا لطف ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے اپنی رضا کی گردن پر چھری رکھ دے.اور وہ پھر اپنا ہاتھ اٹھالے اور سلسلہ سے کہے کہ اب جس کے ہاتھ میں چاہو، چھری پکڑا دو.ہم اف نہیں کریں گے.پس اگر انسان اپنے دل میں کوئی امنگ نہ رہنے دے، کوئی تمنا نہ رہنے دے، وہ یہ فیصلہ کر لے کہ دنیا کی زندگی کے جو مزے لوٹنے تھے، وہ لوٹ چکا ہوں، اب سب کچھ خدا کے لئے ہے.اس ارادہ، اس اخلاص اور اس نیت کے ساتھ زندگی پیش کرنے کا ایک الگ لطف ہے.اس لئے ایسے انصار ، جن کو دنیا کے ذرائع معاش میسر ہوں، وہ اگر اپنے دل میں یہ ہمت پاتے ہوں، اگر ان کے حالات اجازت دیتے ہوں.تھوڑے ہی گزارہ کرنے کی توفیق پالیتے ہوں تو ان کو میں یہی کہوں گا کہ یہ بہت بہتر راستہ ہے.وہ اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کریں اور سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں حصہ لیں.کیونکہ جتنے زیادہ واقفین اس وقت میسر آئیں گے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی ہی تیزی کے ساتھ اسلام کو چہار دانگ عالم میں فتح نصیب ہوگی.علاوہ ازیں ایسے واقفین بھی چاہئیں، جو یہ توفیق رکھتے ہوں کہ مرکز سے باہر جا کر بھی خدمت دین کر سکیں.یہ بھی اس قسم کا رضا کارانہ وقف ہوگا.اس تحریک سے پہلے ہی بعض دوستوں نے اپنے نام اس و سلسلہ میں پیش کئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ایک ہوا چلی ہے انگلستان میں بھی ، یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی.واپس آیا تو کراچی میں بھی اور یہاں آنے کے بعد پنجاب کی مختلف جماعتوں سے بھی ایسے نام پہنچ چکے ہیں، جنہوں نے اسی ارادہ کا اظہار کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.چنانچہ بعض دوستوں نے تو یہاں تک اصرار کیا کہ ابھی اسی وقت ہمارا وقف قبول کیا جائے اور اسی وقت خدمت سپرد کی جائے.چند دن ہوئے سرگودہا کے ایک دوست تشریف لائے.کہنے لگے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، ابھی تک میرا اوقف قبول نہیں ہوا.میں نے کہا: ہمیں تو بڑی ضرورت ہے، آپ کو انشاء اللہ کسی جگہ لگا دیں گے.انہوں نے کہا: مجھے چین نہیں آئے گا، مجھے ابھی لگا ئیں.اور کوئی کام نہیں تو مجھے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں کلرک لگا دیں.یہ نہیں تو بے شک مدد گار کا رکن بنادیں.میں کوئی شکوہ نہیں کروں گا، کوئی سوال نہیں ہو گا کہ مجھے کس آسامی پر لگایا جا رہا ہے؟ پر ابھی لگا ئیں ورنہ میرے دل کو چین نصیب نہیں ہو گا.چنانچہ اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب پاس کھڑے تھے، میں نے ان سے کہا: کوئی کام ان کے سپرد کر دیں.اللہ کے فضل سے انہوں نے اسی وقت کام شروع کر دیا.217
خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم They also serve, who stand and wait پس ایسے زندہ دل اور ایسے جواں ہمت انصار کی ضرورت ہے، جو ان نیک ارادوں کے ساتھ اپنے نام پیش کریں کہ انہیں جہاں بھی جس شکل میں بھی خدمت کے کام پر لگایا جائے گا، وہ اس کو انعام سمجھیں گے، اللہ کی رحمت تصور کریں گے.اگر ادنیٰ سے ادنی کام پر بھی لگایا جائے گا، تب بھی وہ خوش ہوں گے کہ خدا کے نوکر ہیں.اگر کام نہیں بھی ہوگا، ان کا وقت بظاہر ضائع بھی ہو رہا ہو گا ، تب بھی وہ یہ سمجھیں گے کہ خدا کی خاطر بیٹھے انتظار کر رہے ہیں.اس سے بہتر زندگی اور کیا ہو سکتی ہے؟ خدا کی خاطر یہ بریکاری بھی ہزار ہا کا موں سے بہتر ہوتی ہے.ملٹن نے اس مضمون کو سمجھا.اس نے اپنے شعر میں اس کو بیان کیا.ملٹن وہ شاعر ہے، جو آخری عمر میں اندھا ہو گیا تھا.ایک ایسا آدمی جس کی فعال زندگی گزری ہو، تمام عمر کاموں میں صرف ہوئی ہو، وہ اگر آخری عمر میں اندھا ہو جائے تو اس کے دل کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے.وہ قدم قدم پر بڑا دکھ محسوس کرتا ہے.ملٹن میں نیکی بھی پائی جاتی تھی، وہ خدا کا ایک خاص خوف بھی دل میں رکھتا تھا، اس کی محبت بھی رکھتا تھا.چنانچہ اس نے اپنی ایک نظم میں اپنی اس کیفیت کو ظاہر کرتے ہوئے اپنے دل کو اسی طرح تسکین دی، اس نے کہا :.کہ اے ملٹن ! تم غم نہ کرو، وہ بھی تو خدمت ہی میں ہوتے ہیں، جو کھڑے ہو کر حکم کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں.ہم لوگ تو اس سے کہیں زیادہ عارف باللہ ہیں.وہ تو ایک تصوراتی خدا سے محبت کرتا تھا، ہم ایک حقیقی خدا کے بندے ہیں.ہم ایک ایسے خدا کے بندے اور عاشق اور محبت ہیں، جو سب حقیقتوں سے زیادہ کچی حقیقت ہے.پس ہمیں اس سے کہیں زیادہ عاجزی اور گریہ وزاری کے ساتھ اپنے نفوس کو خدا کے حضور پیش کرنا چاہئے.اور ایسے لوگ کثرت کے ساتھ اپنے نام پیش کریں، جو زندگی کا ایک بڑا حصہ دنیا میں گزار چکے ہیں، ان کے بچے بڑے ہو گئے ہیں، وہ اپنے آپ کو سنبھالنے لگ گئے ہیں.کافی ہوگئی دنیا کی خدمت، اب سلسلہ کو ختم کرنا چاہئے اور اللہ کے حضور حاضر ہو کر یہ عہد کریں کہ جو بھی خدمات ان کے سپرد کی جائیں گی ، وہ ان کو بجالائیں گے اور ذمہ داریوں کو خوشی خوشی اٹھا ئیں گے.وہ اپنے آپ کو بڑا ہی خوش قسمت سمجھیں کہ وہ آخری سانس جو لیں گے، وہ خدا کی خاطر حاضر ہونے والے انصار کے طور پر سانس لے رہے ہوں گے.وقف کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ نو جوان آگے آئیں.اس لحاظ سے بھی انصار بہت بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں.کیونکہ انصار عمر کے لحاظ سے جماعت کا وہ گروہ ہے، جن کے بچے اللہ تعالی کے فضل 218
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء سے ان کے ساتھ محبت رکھتے ہیں، ان کے ساتھ خلوص اور عقیدت رکھتے ہیں.ماں باپ یا گھر کے بزرگوں کے طور پر ان کا خاص احترام کرتے ہیں.اس لئے انصار کی طرف سے کہی ہوئی بات ان کے دل پر خاص اثر کرتی ہے.اس لئے انصار کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں اور عزیزوں ، خواہ وہ ان کے اپنے بیٹے ہوں یا بھائی یا بہن کے بیٹے ہوں، ان کو بار بار نصیحت کریں، ان کو یہ باور کرائیں کہ سب سے زیادہ امن کی زندگی ، وقف کی زندگی ہے.سب سے زیادہ سکیت اور طمانیت کی زندگی ، وقف کی زندگی ہے.اللہ تعالیٰ واقفین کو بھی ضائع نہیں کرتا.جو واقفین وفا کے ساتھ اپنے عبد پر قائم رہتے ہیں، ان کو خدا کبھی ضائع نہیں کرتا ، ان کی اولادوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.دنیا بھی پھر ان کے پیچھے چلی آتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ طمانیت بخش کوئی زندگی نہیں ، جو خدا کے دین کی خدمت میں صرف ہو رہی ہو.غرض انصار کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائیں.دنیا کے لحاظ سے ان کو زیور تعلیم سے خوب مزین کریں اور پھر ان سے کہیں کہ اب اپنے نام خدمت دین کے لئے پیش کرو.یہ ایک عمومی تحریک ہے، جس میں انصار سلسلہ کی بہت بڑی مدد کر سکتے ہیں.گھر گھر چر چا کر سکتے ہیں اور ایک نئی روچلا سکتے ہیں.تاکہ اس کثرت کے ساتھ واقفین پیش ہوں کہ ہمیں ان میں سے چناؤ کرنا پڑے.یہ خیال نہ ہو کہ واقفین کم ہیں بلکہ یہ احساس ہو کہ واقفین زیادہ آگئے ہیں، فی الحال ضرورت اتنی نہیں ہے.جب تک ہم ان کے لئے جگہ نہ بنالیں، ان کا وقف قبول نہیں کر سکتے.اس کیفیت اور اس شان کے ساتھ جماعت اس سے پہلے وقف کی تحریک میں کئی بار حصہ لے چکی ہے.مجھے یاد ہے، قادیان کے زمانہ میں جبکہ ابھی جماعت کی تعداد بھی بہت تھوڑی تھی ، حضرت مصلح موعود نے آغاز میں وقف کی تحریک کی تو بڑی کثرت کے ساتھ نام آتے تھے.ایسی درد بھری درخواستیں لے کر نوجوان آیا کرتے تھے کہ ان کو پڑھ کر دل پکھل جاتا تھا.وہ اپنی ہر چیز نذرانہ کے طور پر لے کر حاضر ہو جاتے تھے.وہ کہتے تھے: اے خدا کے خلیفہ ! ہم تیرے حضور حاضر ہیں، ہمارا اوقف قبول کر.ہم کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہیں لائیں گے.جو گزارہ دیں گے، ہم اس کو قبول کریں گے.بعض خطوط میں نے بھی دیکھے ہیں.ان کو پڑھتے ہوئے آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے اور دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کیسے پیارے عشاق عطا فرمائے ہیں.پس انشاء اللہ الہی دیوانوں کے ذریعہ سے آج دنیا میں انقلاب برپا ہو گا.فرزانوں کے ہاتھوں تو دنیا بہت ویران ہو چکی اور اب بالکل تباہی کے کنارے پر جا کھڑی ہے.احمدیت کے دیوانوں نے دنیا ہو پر جا.219
خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم کو اس تباہی سے بچانا ہے.پس ہمیں ان دیوانوں کی ضرورت ہے، جو دنیا کی چمک دمک کی پروانہ کریں بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کو رد کر دیں، اس کو دھتکار دیں اور کہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں ، خدا کے حضور حاضر ہوں گے، تیری طرف ہرگز مائل نہیں ہوں گے.غرض انصار اللہ کو عمر کے لحاظ سے ایک ایسا مقام حاصل ہے کہ اگر وہ اپنے اپنے ماحول میں خدام کو وقف زندگی کے لئے آمادہ کریں، ان کے دلوں میں غلبہ اسلام کے ولولے پیدا کریں، خدمت دین کی امنگیں پیدا کریں تو یہ بھی ان کی طرف سے بہت بڑی خدمت کے مترادف ہے.تیسرے نئی نئی بد رسوم کے خلاف جہاد کا کام ہے، جسے میں خصوصیت کے ساتھ انصار اللہ کے سپرد کرتا ہوں.تحریک جدید کے بہت سے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ دوست اپنی زندگی کو تعیش سے بچا کر سادگی کی طرف لے آئیں.دنیا نے آج مختلف زیتوں اور تعیش اور کئی قسم کے لہو ولعب کے سامان ایجاد کر لئے ہیں.اگر انسان ان میں مبتلا ہو جائے یا کوئی قوم یا معاشرہ ان میں مبتلا ہو جائے تو پھر ان سے اپنا دامن چھڑا کر اپنے آپ کو خدمت کے کاموں کی طرف مائل کرنا بہت مشکل کام ہو جاتا ہے.اس لئے خدمت اسلام کی جس راہ پر ہم گامزن ہیں، اس کا یہ تقاضا ہے کہ حرام تو حرام بعض حلال چیزیں بھی ہم چھوڑ دیں تا کہ وہ معاشرہ پیدا کیا جاسکے، جو ہمارے مقاصد کے حصول میں محمد ہو.ہر ماحول میں ہر قسم کا پھل دار درخت نہیں لگا کرتا.بعض جگہ بعض زمینوں میں بعض آب و ہوا میں بعض قسم کے پودے لگتے ہیں اور نشو و نما پاتے ہیں.لیکن بعض دوسری قسم کی آب و ہوا میں وہی پودے چند دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے.پس ایسی قو میں، جنہوں نے عظیم الشان کام کرنے ہوں، جنہوں نے عظیم الشان خدمات بجالانی ہوں، جنہوں نے اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنی ہوں، ان کے معاشرہ میں لازما سادگی کی آب و ہوا ہونی چاہئے.ورنہ عیش کی آب و ہوا میں پلنے والے پودے سادگی کی آب و ہوا میں زندہ نہیں رہ سکتے.اور سادگی کی آب و ہوا میں پلنے والے تعیش کی آب و ہوا میں زندہ نہیں رہ سکتے.پس ہمیں اپنا ایک ماحول پیدا کرنا پڑے گا، اپنی ایک فضا پیدا کرنی پڑے گی.جس ملک میں بھی ہم رہیں، اس ملک کی فضا سے اس حد تک مختلف ہوگی، جس میں مذہبی اقدار زیادہ ہوں گی، اس میں سنجیدگی زیادہ ہوگی ، اس میں سادگی زیادہ ہوگی، اس میں زندگی کی لذتوں کے رخ مختلف ہوں گے.لذتیں تو پھر بھی ہم حاصل کرتے رہیں گے.مگر یہ لذتیں ، اعلیٰ لذات ہوں گی.یہ وہ لذتیں ہوں گی، جو قربانی کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں، جو خدمت کے ن میں حاصل ہوتی ہیں ، عظمت کردار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لذتیں دنیا کی یل دنیا کی 220
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء لذتوں سے بہت زیادہ بالا اور بہت زیادہ فائق ہوا کرتی ہیں.اس لئے کسی بے لذت زندگی کی طرف تو آپ کو نہیں بلایا جارہا ہے.زیادہ پاکیزہ، زیادہ باقی رہنے والی اور زیادہ عظیم الشان لذتوں کی طرف بلایا جارہا ہے.جو آپ کی زندگی پر ایک دفعہ اگر قبضہ کر گئیں تو پھر آپ چاہیں گے بھی تو ان سے نکل کر باہر نہیں جاسکیں گے.نیکیوں میں بھی لذت ہوا کرتی ہے اور بدی کی لذت سے زیادہ ہوا کرتی ہے.اس لئے اپنے معاشرہ میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں.مرورے زمانہ سے جو بدیاں رفتہ رفتہ ہمارے معاشرہ میں داخل ہو گئی ہیں، ان کی بیخ کنی کا کام شروع کریں.بیاہ شادی پر بعض بد رسوم ہمارے معاشرہ میں داخل ہو رہی ہیں.اسی طرح بے پردگی پھیلتی جارہی ہے، اس کے خلاف ایک جہاد کرنا پڑے گا.اسی طرح دنیا کی لذتوں کے حصول کے لئے باہمی دور شروع ہو گئی ہے اور ذوق بگڑ رہے ہیں.یہ دنیا کا حال ہے، جو میں بیان کر رہا ہوں.ہماری جماعت اس سے متاثر ہو رہی ہے.ہماری جماعت کے لوگ اس قسم کے معاشرہ میں مغلوب ہو جاتے ہیں.یعنی زیادہ وسیع تعداد کے معاشرہ کے اندر تھوڑے رہتے ہیں.لازما ان پر کچھ اثر پڑتا ہے اور رفتہ رفتہ ہمارے کناروں پر بیماری کا اثر ظاہر ہونے لگ جاتا ہے.قرآن کریم ہمیں اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیتا ہے.فرماتا ہے: اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو، اگر تم اپنی اقدار کو زندہ رکھنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو.یعنی بیماری کو باہر جا کر پکڑو.اس کو موقع نہ دو کہ وہ اندر داخل ہو جائے.چنانچہ سرحدوں کی حفاظت میں غفلت کے نتیجہ میں بعض دفعہ بیماریاں اندر اتر آتی ہیں.یعنی جلد کی بیماریاں خون میں داخل ہو جاتی ہیں.خون کی بیماریاں گلینڈ ز میں چلی جاتی ہیں.پھر زیادہ Vital یعنی نہایت اہم گلینڈز میں داخل ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ جب وہ اور زیادہ زندگی کے اندر ڈوبتی ہیں تو کینسر بن جاتی ہیں.پس پیشتر اس کے کہ معاشرہ کی خرابیاں ہمارے اندر مزید نفوذ کریں، ہمیں اپنے دفاع کو کناروں پر مضبوط کرنا چاہئے.اور اپنی سوسائٹی کو آج کل کے معاشرہ کی برائیوں سے کلیہ محفوظ کر دینا چاہئے.اس ضمن میں بھی مجھے انشاء اللہ تعالیٰ توقع ہے کہ انصار ایک نمایاں کردار ادا کریں گے.ان کی تلقین اور تعلیم کے ذریعہ خدا کے فضل سے نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوں گی.جماعت احمد یہ ایک بہت ہی پیاری اور پاکیزہ جماعت ہے، جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے.اس میں کمزوریاں تو داخل ہوتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں.لیکن بنیادی طور پر یہ ہیرے، جواہرات سے زیادہ قیمتی جماعت ہے.ان کو معمولی سا اشارہ کر دو، تھوڑ اسا جگا دو تو یہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اصل مقام 221
خطاب فرمودہ 05 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کی طرف واپس لوٹتے ہیں.یورپ کے حالیہ دورہ میں مجھے بعض جگہ توجہ دلانے کا موقع ملا، بعض جماعتوں میں بعض کمزوریاں نظر آئیں، میں نے ان کو توجہ دلائی تو انہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ اس پر رد عمل دکھایا.حالانکہ مجھے بہت بلند تو قعات تھیں لیکن بعض جگہ میری توقعات سے بھی بہت بڑھ کر رد عمل ظاہر ہوا.اور ہر معاملہ میں تعاون کا ایسا حیرت انگیز نمونہ دکھایا کہ میرا سارا وجود حمد سے بھر گیا اور درود سے بھر گیا.میں نے کہا: دیکھو! اللہ کی شان ہے، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہے، جس کے عظیم غلام کو ایسی روحانی قوت عطا کی گئی کہ جب وقف زندگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اس کی طرف منسوب ہونے والے اپنے سارے وجود کو دین کے لئے پیش کر دیتے ہیں اور کچھ بھی باقی نہیں رکھتے.ان میں کوئی انانیت باقی نہیں رہتی.کمزوریاں ہو جاتی ہیں، غفلتیں بھی ہو جاتی ہیں، وقتی طور پر تو میں بھی سو جایا کرتی ہیں لیکن زندہ قوموں کو ذرا سا جگاؤ تو بیدار ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ مستعدی کے ساتھ کام کرنے لگ جاتی ہیں.پس یہ اتنا مشکل کام نہیں ہے، جو انصار کے سپرد کیا جا رہا ہے.یہ تو لہو گا کر شہیدوں میں داخل ہونے والی بات ہے.انصار ذراسی بھی محنت کریں گے تو انشاء اللہ بہت ہی شاندار، وسیع ، گہرے اور دیر پا نتائج پیدا ہوں گے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں توفیق عطا فرمائے.خدا تعالی دن بدن جماعت احمدیہ کو اس اعلیٰ مقصد کی طرف تیزی کے ساتھ لے جانا شروع کرے، جس کا ہمیں انتظار کرتے ہوئے ایک لمبا عرصہ گذر چکا ہے.اب تو دل بے قرار ہے، خدا جلد از جلد فتح کا وہ دن کھائے، جب ساری دنیا میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جھنڈا بلند ہو رہا ہو اور دوسرے سارے جھنڈے سرنگوں ہو جائیں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 6 جون 1983 ء ) 222
تحریک جدید- ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 06 نومبر 1982ء اہل یورپ کا مطالبہ ہم ہی نے پورا کرنا ہے خطاب فرمودہ 06 نومبر 1982ء حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی سفر یورپ سے کامیاب مراجعت کی خوشی میں انصار اللہ مرکز یہ ربوہ کی طرف سے حضور کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا، اس موقع پر حضور نے درج ذیل خطاب فرمایا:.تشہد وتعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے فرمایا:.مغربی قوموں میں یہ رواج ہے کہ ڈنر یعنی رات کے کھانے کے بعد تقاریر ہوتی ہیں.مہمان خاص جس کو مدعو کیا جاتا ہے، وہ After Dinner یعنی کھانے کے بعد تقریر کرتا ہے.لیکن قرآن کریم سے اس کے بالکل برعکس رواج کا پتہ چلتا ہے.حضرت یوسف علیہ السلام نے کھانے سے پہلے تقریر فرمائی اور ان کے دو ساتھی قیدیوں کو، جن کو تبلیغ کرنا مقصود تھا، فرمایا کہ جب تک کھانا نہیں لگتا، ہم بیٹھ کر تبلیغی باتیں کرتے ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی لاہور میں کھانے کے انتظار میں احباب کو مخاطب فرمایا.آج جب انصار نے مجھ سے پوچھا کہ ہم کھانے کے بعد گفتگو کا پروگرام رکھیں یا کھانے سے پہلے تو میرے ذہن میں یہی دومثالیں تھیں، جن کے پیش نظر میں نے کہا کہ کھانے سے پہلے رکھ لیں.یورپ اپنے رواج قائم کرتا ہے اور ہم اپنے رواج قائم کریں گے.اس لئے اب ہم کھانے سے پہلے چند منٹ باتیں کرتے ہیں.کھانے سے پہلے تقریر رکھنے میں کئی حکمتیں ہیں.ایک تو یہ کہ مقرر کو بھی کھانے کا خیال ہوتا ہے اور سننے والوں کو بھی ہوتا ہے، ضرورت سے زیادہ لمبی تقریر نہیں ہوسکتی.دوسرے یہ کہ کسی کو کھانے کے بعد کا خمار نہیں ہوتا اور لوگ پورے ہوش و حواس کے ساتھ تقریریں سنتے ہیں.کھانے کے بعد کی تقریروں میں تو سوتے اور جھومتے ہوئے آدمی نظر آ جاتے ہیں.کھانے سے پہلے کی تقریر میں اس طرح نظر نہیں آسکتے.اور بھی بہت سی حکمتیں ہوں گی لیکن یہ دو میرے ذہن میں آئیں اور میں نے بیان کر دیں ہیں.223
خطاب فرمودہ 06 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الهی تحریک جلد ششم سپاسنامے میں جس سفر کا ذکر کیا گیا ہے، اس کا مرکزی نقطہ وہی ہے، جو پہلے بیان کر دیا گیا کہ جو بھی اس سفر میں میسر آیا محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میسر آیا.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میں کیا اور میری بساط کیا.یہ وہی یورپ ہے، جہاں کبھی خیمہ لے کر کبھی Haver Sack پیچھے کھ کر میں پھرا کرتا تھا اور انہیں گلیوں سے گزرتا تھا نیکن کسی کو پروا نہیں تھی کہ کون آیا اور کون گزرگیا ؟ تبلیغی گفتگوکا بھی موقع ملتا تھا تو زیادہ سے زیادہ ایک، دو، تین یا چار کو متوجہ کر سکتا تھا.یہ وہی وجود ہے، اس میں کوئی فرق نہیں.لیکن جب اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت کے ساتھ مجھے اس سفر کی توفیق عطا فرمائی تو بالکل کایا پلٹ گئی.اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی اور ہمت عطا کی.لوگ سمجھتے تھے کہ میں تھک گیا ہوں گا لیکن مجھے تو پتہ ہی نہیں لگتا تھا کہ تھکاوٹ کیا چیز ہے؟ حالانکہ بعض دفعہ ایسا پروگرام ہوتا تھا کہ بظاہر تھک جانا چاہیے.لیکن اس میں کوئی تکلف نہیں تھا.اللہ تعالیٰ نے خود بخود ایک طبعی طاقت پیدا فرما دی تھی، جس کے نتیجہ میں تھکاوٹ کا کوئی احساس نہیں رہتا تھا اور ساتھ ساتھ ایسی روحانی غذا ملتی تھی ، جو در حقیقت ایک توانائی پیدا کر رہی تھی.جو مستغنی کر رہی تھی ، ہر دوسرے آرام سے.مثلاً جب ہم جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جلد جلد ہونے والی پاک تبدیلیاں دیکھتے تھے، پہلے بھی وہ ایک پاک جماعت ہے، اس میں کوئی شک نہیں.اس کے باوجود روحانی ترقی کے میدان میں تو کوئی آخری منزل نہیں ہے.ایک منزل کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری، یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے ) جب احمدی احباب کو نئی منزلیں طے کرتے دیکھتے تھے تو دل اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ بھر جاتا تھا.بارہا ایسے نظارے دیکھے ہیں کہ ایسے نوجوان، جو پہلے نمازوں میں ست تھے ، (جیسا کہ بعد میں انہوں نے خود ذ کر کیا کہ ہم تو پانچ وقت نمازیں بھی نہیں پڑھا کرتے تھے ) تہجد میں حاضر ہونے لگے، بڑے درد اور کرب کے ساتھ دعائیں کرنے لگے اور دعاؤں کے لئے کہنے لگے.اور ان کی دعاؤں کی درخواست یہ نہیں ہوتی تھی کہ ہمیں دنیا ملے.دعا کی درخواست یہ ہوتی تھی کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ دین احمد کے لئے فدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ وہ روحانی غذا ہے، جس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے.یہ جسم کے انگ انگ کو سہلاتی تھی تسکین پہنچاتی تھی ، اور نئی طاقت اور توانائی سے بھر دیتی تھی.پھر غیروں کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے فضلوں کے نظارے دکھائے.بسا اوقات ایسا ہوا کہ پریس کانفرنس میں بڑی معاندانہ نظروں سے دیکھا گیا.بعض اوقات تو وہ اس طرح Cross Examine کرتے تھے کہ منہ سے تو نہیں کہتے تھے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو مگر سمجھتے یہی تھے کہ جھوٹ بول رہے ہیں.ان 224
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 06 نومبر 1982ء کی گفتگو سے ایسا معلوم ہوتا تھا.تعداد کے اوپر Criticism کرتے.ہر بات، جو ہم بیان کرتے تھے، اس کو بڑی تنقیدی نظر سے دیکھتے تھے لیکن رفتہ رفتہ رنگ بدل جاتا، دیکھتے دیکھتے ان کی طبیعتیں نرم پڑ جاتی تھیں اور ملائم ہو جاتی تھیں، آنکھوں میں ادب آجا تا تھا اور محبت پیدا ہو جاتی تھی.دوخر ہے جو بار ہا استعمال کئے گئے ، دونوں نے ہی ہمیشہ الٹا اثر دکھایا، ان کے نقطہ نگاہ سے.ایک تو همینی صاحب کو ہمیشہ نشانہ بنایا جاتا تھا.جب وہ دیکھتے تھے کہ اسلام کی رو سے ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور اثر پیدا ہو رہا ہے تو باقاعدہ ایک مجادلے یا مناظرے کی شکل بن جاتی تھی، پریس کا نفرنس تو محض نام تھا.پھر وہ ثمینی صاحب تک پہنچ جاتے تھے.اس کا اللہ تعالیٰ نے جو جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی ، وہ میں انشاء اللہ کل ذکر کروں گا.محض اس غرض سے کہ تا آپ کو معلوم ہو کہ بعض باتوں کا جواب کس طرح دینا چاہیے؟ کیونکہ وہ جواب میں نے موثر دیکھا.اور یورپ کے ہر ملک میں، ہر مجلس میں مؤثر دیکھا.ایک بھی ایسی جگہ نہیں، جہاں اس جواب کو سننے کے بعد بے اطمینانی کا اظہار ہوا ہو.بلکہ ہمیشہ شرمندگی میں سر جھکتے دیکھے ہیں.دوسرے عورت کے مقام کے متعلق پوچھا جاتا.اور یہ سوال ہمیشہ عورتوں کی طرف سے ہوتا تھا.عورتیں پریس کی نمائندہ بہت کثرت سے ہوتی ہیں.اور یہ اللہ تعالیٰ کی شان تھی کہ پریس کی مجلس کے دوران جوابات کے بعد وہ نمائندگان بلند آواز سے اقرار کرنے لگتی تھیں کہ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ اسلام عورت کو زیادہ بلند مقام دیتا ہے.اور پریس کی طرف سے اتنا کھلم کھلا اقرار حیرت میں ڈال دیتا تھا.پریس کانفرنسیں ہی نہیں ہوئیں بلکہ بہت سی ایسی مجالس بھی منعقد ہوئیں، جن میں معززین کو بلایا جاتا تھا، بے تکلفی سے باتیں ہوتی تھیں اور میں محسوس کرتا تھا کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایک پاک تبدیلی پیدا ہورہی ہے.اور یورپ میں ایک خاص ہوا چلی ہے، جو دلیل کو سننے کے لئے ان کو آمادہ کر رہی ہے اور ان کے اندر خطرات کے احساس کو بیدار کر رہی ہے.اسی لئے طبیعت میں بڑی فکر پیدا ہوتی تھی کہ ہماری کوششیں اس کے مقابل پر کچھ بھی نہیں ہیں.ہمیں لازماً ان کوششوں کو تیز کرنا پڑے گا ، لازماً واقفین کی تعداد بڑھانی پڑے گی.اور بکثرت اپنے بوڑھوں ، بچوں ، جوانوں اور عورتوں کو اس میدان میں جھونکنا پڑے گا.کیونکہ جب مطالبے بڑھ جائیں تو ان کو بہر حال پورا کرنا پڑے گا.اور ہمیں پورا کرنا پڑے گا.ہمارے سوا ہے ہی کوئی نہیں.ہمیں چنا ہے اللہ تعالیٰ نے ان مطالبوں کو پورا کرنے کے لئے.اس احساس کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ توفیق عطافرماتا تھا.کئی قسم کی سکیمیں ذہن میں داخل فرماتا تھا، ان کو بیان کرنے کی توفیق بخشا تھا اور ان کو قبول کرنے کے لئے جماعت میں ایک رو چلا دیتا تھا.225
خطاب فرمودہ 06 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس یہ چند باتیں ہیں، جو میں یہاں مختصراً عرض کر سکتا ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ، آپ کی بھوک آپ کو یاد کر رہی ہوگی اور مجھے اگر چہ بھوک تو نہیں ہے.لیکن یہ یاد ہے کہ کھانا بہر حال کھانا ہے.باقی باتیں انشاء اللہ کل سہی.میں آپ کا بہت ممنون ہوں، آپ نے بڑی محبت کے ساتھ اور بڑے پیار کے ساتھ سلوک فرمایا.اب بھی اور اس سے پہلے بھی، جب تک انصار سے وابستہ رہا ہوں، بہت ہی غیر معمولی تعاون فرمایا ہے.حالانکہ میری کوئی حیثیت نہیں تھی، میری کوئی بساط نہیں تھی.میں یہاں تھا ہی نہیں، جب آپ نے مجھے صدر چنا تھا.اس وجہ سے میں اپنے آپ کو بڑا اوپر محسوس کرتا تھا.عمر کے لحاظ سے اگر چہ بوڑھا تو تھا لیکن اپنے آپ کو بوڑھا ماننے کے لئے تیار نہیں تھا.اس لئے بھی اوپر الگتا تھا کہ بوڑھا بھی بنوں بلکہ بوڑھوں کا صدر بن کے بیٹھ جاؤں.اور دوسرے اس لئے کہ مجھے سے پہلے جیسا کہ آپ کو علم ہے، میرے بڑے بھائی مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بہت لمبا عرصہ تک انصار کی صدارت فرماتے رہے ہیں اور مجھے کسی مجلس عاملہ میں بھی شامل ہونے کا موقع نہیں.پہلے میں خدام الاحمدیہ کے کاموں میں مصروف رہا، پھر دوسرے کاموں میں مصروف رہا.اس لئے بالکل تجر بہ نہیں تھا کہ اس مجلس کے کیا آداب ہیں؟ اس کو کس طرح چلاتا ہے؟ اس وجہ سے پریشانی تھی.مگر حقیقت یہ ہے کہ نام تو لگ جاتے ہیں، جس کے ذمہ کام لگایا جاتا ہے.ورنہ جماعت کے کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے.اور ساری جماعت ایک وجود کے طور پر ہے، جو تمام پاک کوششوں میں شامل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کارکنوں کو جزائے خیر عطا فرمائے ، جنہوں نے کسی نہ کسی حیثیت سے محض اللہ تعاون فرمایا اور یہ مجلس پہلے سے آگے بڑھتی رہی.ایک دور کا سوال نہیں ہے، ہر دور میں یہ مجلس آگے بڑھے گی.میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ آگے بڑھنا آپ کے مقدر میں لکھا ہوا ہے.ہر اگلے دور میں محسوس ہوگا کہ یہ مجلس پچھلے دور سے آگے بڑھ گئی.لیکن نہ پچھلوں کا قصور ہوگا، نہ انگلوں کی خوبی.حقیقت یہ ہے کہ جس قوم کے مقدر میں آگے ہی آگے جانا ہے، اس نے آگے بڑھنا ہے، اس کے لئے بھی ٹھہرنے کا وقت نہیں آئے گا.نہ آپ کے لئے آسکتا ہے، نہ انشاء اللہ تعالیٰ آئے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہمارے اعمال اس راہ میں حائل نہ ہو جائیں.کیونکہ جہاں تک تقدیر الہی کا تعلق ہے، وہ یہی ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 08 جون 1983ء) 226
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء سوممالک میں احمدیت کی تبلیغ کے سلسلہ میں منصوبہ بندی تحریک جدید کا کام ہے خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ مرکزیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان اور کرم ہے کہ ہر پہلو سے مجلس انصار اللہ کا یہ اجتماع خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہا اور پہلے اجتماع کی نسبت بڑھ کر رہا.افتتاحی تقریر میں، میں نے آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ اگر چہ چند پہلوؤں سے گزشتہ سال سے یہ اجتماع پیچھے ہے لیکن عمومی طور پر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نمایاں ترقی نظر آرہی ہے.اس دوران معلوم ہوتا ہے مجلس مرکز یہ نے پھر کچھ کوشش کی ہے اور کچھ اعداد و شمر کی دوبارہ چھان بین کی گئی ہے.اس وقت جو نتیجہ سامنے ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جہت سے ہمارا یہ سال بھی گزشتہ سال سے آگے نکل گیا ہے.چنانچہ بیرون ربوہ پاکستان سے 942 مجالس، ربوہ ایک اور بیرون پاکستان سے 9 مجالس یہ کل 952 مجالس شریک ہوئی ہیں.جب کہ گزشتہ سال 842 مجالس شریک ہوئیں تھیں.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے نمایاں ترقی ہے.اس دفعہ باہر سے آنے والوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے.اور جہاں تک تعداد اراکین کا تعلق ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی نمایاں اضافہ ہوا ہے.اس سال 700 اراکین زیادہ تشریف لائے ہیں.جہاں تک زائرین کا تعلق ہے، اس میں خدا کے فضل سے 1138 کا اضافہ ہوا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں ایک عمومی بیداری کا رحجان ہے اور عمومی ولولہ اور جماعتی کاموں میں دلچسپی بڑھ رہی ہے.کیونکہ جہاں تک انصار کا تعلق ہے، لازما مجلس مرکزیہ کی کوششوں کا اس میں دخل ہوگا ، اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول فرمایا اور پہلے سے بہتر حاضری ہوئی ہے.لیکن جہاں تک زائرین کا تعلق ہے، یہ جماعت کے عمومی رجحان کا پتہ دیتا ہے.پچھلے سال زائرین کی تعداد 3147 تھی، اس کے مقابل پر امسال یہ تعداد 4275 ہے.پس اللہ تعالیٰ کا بہت ہی احسان ہے اور ہم امید رکھتے ہیں، اس کے فضلوں سے کہ وہ ہمیشہ ہمیں انشاء اللہ پہلے سے آگے بڑھاتا رہے گا.جہاں تک سائیکل سواروں کا تعلق ہے، اس میں ہمیں بہت ہی نمایاں کامیابی نصیب ہوئی ہے.انصار سائیکل سوار اتنی تعداد میں اور اس کثرت سے پہلے کبھی نہیں آئے تھے.ایک دفعہ 1973ء میں 35 227
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ششم انصار سائیکل سوار آئے تھے.اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا.کیونکہ یہی سمجھا جانے لگا کہ خدام کا کام ہے کہ وہ سائیکلوں پر آئیں، انصار نہیں آسکتے.پچھلے سال یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا.گزشتہ سال 82 انصار سائیکلوں پر تشریف لائے تھے.اس کے مقابل پر امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے 197 تشریف لائے ہیں.ایک سائیکل سوار ممبر انصاراللہ، جنہوں نے انعام لیا ہے، ان کی عمر ما شاء اللہ اسی (80) سال ہے اور آپ نے دیکھ لیا ہے کہ انعام لینے کے لئے وہ کس طرح دو سیڑھیاں چڑھے تھے.ان کی ہمت کا اندازہ کریں کہ وہ ما شاء اللہ سارا رستہ (117 چھور ضلع شیخوپورہ تار بوہ.ناقل ) سائیکل پر طے کر کے آئے.صرف ربوہ کی چڑھائی پر آکر رہ گئے تھے.دریائے چناب کے جو دو پل ہیں، وہاں ان کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ اب میں سائیکل پر تو جا نہیں سکتا، پیدل جاؤں یا کسی اور ذریعہ سے پہنچوں.پھر ان کے ساتھیوں نے مدد کی.انہوں نے کہا: آپ سائیکل پر بیٹھے رہیں، ہم آپ کو دھکا دے کے لے جاتے ہیں.چنانچہ ان کو دھکا دیا گیا لیکن سائیکل سے نہیں اتر نے دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی ہمت ہے.کیونکہ جو چڑھائی نہیں چڑھ سکتا، اس کے لئے پیدل چڑھنا بھی مشکل تھا.اس لئے اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں تھا کہ وہ سائیکل پر بیٹھے رہیں اور دھکا دے کر ان کو آگے کیا جائے.دوسرے صاحب جو سائیکل پر تشریف لائے تھے، انہوں نے تو بہت ہمت کی 75 سال کی عمر ہے اور تھر پارکر سے آئے ہیں.اور صرف ایک دن میں انہوں نے 110 میل سائیکل چلایا.ان کے ساتھی جو نسبتا جوان ہیں، (غالباً 42 سال کی عمر ہوگی ) انہوں نے کل مسجد مبارک میں نماز مغرب کے بعد یہ واقعہ سنایا کہ جب ہم چلنے لگے تو میر ا صرف یہی ایک ساتھی تھا اور تھا کوئی نہیں، مجھے بڑی فکر پیدا ہوئی، میں نے صاف جواب دے دیا کہ میں ان کے ساتھ نہیں جاسکتا.پھر میں نے مزید تسلی کی خاطر ان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا: بابا جی! کدی گوڈے وچ درد ہوئی اے؟ وہ کہتے ہیں: انہوں نے جواب دیا ، کری ہٹی نہیں.ہوئی تے ہوئی ہٹی کدی نہیں“.یہ تھے دوسائیکل سوار جور بوہ آنے کے لئے تیار بیٹھے تھے اور کوئی تیسر ا شامل نہیں ہورہا تھا.اس پر قائد صاحب ضلع نے اس نوجوان نو مسلم کو جو پچھلے سال بھی آئے تھے اور اس سال خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر بھی سائیکل پر تشریف لائے ، کھڑے پاؤں کہا کہ آپ تیار ہو جائیں.انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، میں حاضر ہوں.تب ان کو ہمت ہوئی، ان کو ساتھ لانے کی.یہاں تو ان کو بابا جی کے اوپر باتیں کرنے کا موقع ملا.کہتے ہیں، سوسنار دی تے اک لوہار دی.یعنی سوسنار کی ، ایک لوہار کی.ان باتوں کے بعد میں نے باباجی سے پوچھا کہ آپ بتائیں آپ کو رستے میں گھٹنے کی درد نے پھر تکلیف نہیں دی ؟ انہوں نے کہا: سارے رستے ہوئی ہی نہیں.اس کو ہوتی رہی ہے اور اتنی ہوئی ہے کہ اس نے درد کے لئے تیل کی ایک بوتل ساتھ لی اور وہ کہیں جھنگ میں بھول گیا تو سارا رستہ رونا آیا کہ 228
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء میری تیل کی بوتل رہ گئی ہے.خدا کے فضل سے انصار جوان ہونے کا ارادہ کرتے ہیں تو خدا کے فرشتے اوپر سے جوانی کا حکم دے دیتے ہیں کہ ہو جاؤ جوان.اس لئے آپ اپنی ہمتیں جو ان کریں، آپ پر اللہ کے فضل نازل ہوں گے اور ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا.کل شام میں نے کھانے کے موقع پر اپنے نہایت مختصر خطاب میں ایک واقعہ سے متعلق وعدہ کیا تھا کہ انشاء اللہ کل اس کے متعلق کچھ عرض کروں گا.وہ واقعہ یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی ہم یورپ میں گئے ہیں، مینی صاحب ساتھ رہے ہیں.اس موقع پر ایک طرف سے کچھ آواز میں آئیں.حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا آواز ٹھیک نہیں آ رہی؟“ یہ بتانے پر کہ روشنی آنکھوں پر پڑ رہی ہے.حضور نے فرمایا:.یہ لائٹ کس کو تنگ کر رہی ہے مجھے یا ان کو؟ ان کو کیسے تنگ کر رہی ہے وہ تو ایک طرف بیٹھے ہوئے ہیں اور لائٹ اس طرف ہے؟“ فرمایا: ” آپ لائٹ کا قصہ چھوڑ دیں اور اس وقت آواز پر دھیان دیں.پھر فرمایا:.بات یہ ہے کہ لائٹ کی مجبوری ہے.باہر کی جو جماعتیں اور مجالس ہیں، ان میں مرکز کی تمام تقاریب کو وڈیو ٹیپ ریکارڈنگ کے ذریعہ دیکھنے کا بڑار جحان پیدا ہوا ہے اور ان کا حق ہے کہ ان کے لئے فلمیں تیار کی جائیں.اس کی اس لئے بھی شدید ضرورت ہے کہ اگر وڈیو کا استعمال ان ذرائع میں نہ ہوا تو بچے گندی ، لغو اور بیہودہ فلمیں دیکھ کر خراب ہوتے ہیں.لیکن جب ان کو ایسی تقاریب دکھائی جاتی ہیں تو ان میں بھی نئے ولولے پیدا ہو جاتے ہیں اور ان کا مذاق درست ہو جاتا ہے.اس لئے جماعت کی یہ اشد ضرورت ہے کہ نئی ایجادات کو خدمت دین کے لئے استعمال کیا جائے.اس وجہ سے یہ لائٹ تو رکھنی پڑے گی.اگر بعض دوستوں کو پوری طرح نظر نہیں آرہا تو مجبوری ہے، کیا کیا جائے“.(اس موقع پر محسوس ہوا کہ جنریٹر کے شور کی وجہ سے آواز ٹھیک نہیں پہنچ رہی.اس پر حضور مکرم ناظر صاحب اصلاح و ارشاد کو توجہ دلائی کہ وہ انتظام کو ٹھیک کریں.) پھر فرمایا:.”جہاں تک خمینی صاحب کا تعلق ہے، وہ ایک معززقوم کے ایک معزز سردار ہیں.ان کی عزت و احترام سب پر فرض ہے.جس حد تک ظاہری اخلاق اور معاملات کا تعلق ہے، ہمیں ہر قومی سردار کی عزت کرنی ہر 229
خطاسبه فرموده 07 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک چاہئے.جہاں تک بعض کمزوریوں کا تعلق ہے، وہ کس قوم میں نہیں ہوتیں.بعض لوگ کئی غلط فیصلے کر دیتے ہیں، جن کے نتیجے میں بداثرات پیدا ہو جاتے ہیں.چنانچہ انہی بداثرات کے نتیجے میں یورپ کی پریس کانفرنسوں میں ہر جگہ ثمینی صاحب کا نام لیا گیا.سارے یورپ میں اور مغربی ممالک میں یہ بھیانک تصویر کھینچی جاتی کہ اس وقت انتہائی ظلم ہورہا ہے، شدید ظلم ہورہا ہے کہ گویا شاہ کے زمانے کے مظالم اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اور یہ سارا ظلم اسلام کی طرف سے ہو رہا ہے، جس کے نمائندہ اس وقت خمینی ہیں.یہ وہ پس منظر ہے، جس میں یہ سوال کیا جاتا تھا اور مقصد ان کا یہ تھا کہ اگر ہم مینی صاحب کے خلاف کوئی کلمہ بولیں تو سارے یورپ کے اخبار اس کو اچھالیں اور کہیں کہ دیکھو! خمینی کو Condemn یعنی بدنام کیا جارہا ہے.اور اگر ہم کچھ نہ کہیں تو سارا یورپ سمجھ لے کہ یہ بھی اسی قسم کا ایک اسلام ہے، جو آج ہمارے پاس آگیا ہے.اور ہمیں اس اسلام میں کوئی دلچسپی نہیں ، جو مظالم کی تعلیم دیتا ہو.یہ وہ مشکل رستہ تھا ، جس پروہ مجھے کھینچ کر لانا چاہتے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اس کا مؤثر جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی.یہ جواب میں اس لئے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں بعض تبلیغی حکمتیں ہیں، جن کا آپ کے سامنے کھول کر رکھنا ضروری ہے.اس کا ایک جواب تو میں نے ان کو یہ دیا کہ جب آپ مینی صاحب پر حملہ کرتے ہیں اور مظالم کی داستان کو اچھالتے ہیں تو آپ یہ فرق نہیں کرتے کہ مسلم قوم اور مسلم لیڈر ایک اور چیز ہے اور اسلام ایک اور چیز.اسلام ایک مذہب کا نام ہے، اس کی ایک تعلیم ہے.اس کی طرف منسوب ہونے والے سیارے کے سارے اس تعلیم پر ہر پہلو سے کار بند نہیں ہیں.اگر اسلام پر آپ نے حملہ کرنا ہے تو اسلام کی تعلیم کی رو سے حملہ کریں.مجھے بتائیں کہ اسلامی تعلیم میں کہاں مظالم کی تلقین کی گئی ہے؟ کہاں بنی نوع انسان کے حقوق غصب کرنے کی تلقین کی گئی ہے؟ لیکن ایک مسلمان کے کردار کو سامنے رکھ کر، جس کو خود آپ نے پینٹ کیا ہے اور ہمیں پتہ نہیں کہ آپ کا بیان کس حد تک درست ہے؟ اور کس حد تک غلط ہے؟ ہم نہیں جانتے کہ اصل واقعات کیا ہیں؟ آپ مجھ سے فتوئی چاہتے ہیں، ان باتوں کے متعلق، جن کی آپ نے یک طرفہ تصویر کھینچی ہے.اور اسلام کی انصاف کے بارہ میں تعلیم مجھے اس بات سے منع کرتی ہے کہ میں یک طرفہ فتوی جاری کرو.لیکن اگر سو فیصدی تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ کا بیان ہے، وہ نہایت ظالم ہیں.انہوں نے اسلام کے نام پر حد سے زیادہ مظالم کئے ہیں ، تب بھی آپ کو اعتراض کا کوئی حق نہیں.آپ اپنی تاریخ کو بھلا کر کس طرح اعتراض کر سکتے ہیں.یورپ کی ایسی بھیانک تاریخ آپ کے سامنے کھلی پڑی ہے کہ ایک ایک ملک کی ایک ایک ملکہ نے اپنی تھوڑی سی زندگی کے دور ورس 230
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء ے ہو میں پانچ ، پانچ ہزار معصوم لوگوں کو زندہ آگ میں جلوا دیا.اس الزام پر کہ وہ جادو گری کرتی تھیں.یعنی ایسی عورتیں ، جن کے اوپر الزام تھے کہ یہ جادو گر نیاں ہیں.اور وہ چیختی چلاتی، انکار کرتی رہیں کہ جادو گری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں.ہمیں علم ہی نہیں کہ جادوگری ہوتی کیا ہے؟ اس کے باوجود انہیں جلا دیا گیا.میں صرف ایک ملکہ کا ذکر کرتا ہوں، جو انگلستان کی ملکہ تھی.تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ صرف اس کے زمانے میں پانچ ہزار عورتوں کو زندہ آگ میں جلایا گیا ہے.اس الزام کے نتیجے میں کہ وہ جادو گر نیاں تھیں.میں نے ان سے کہا کہ سپین کی Inquisition کی تاریخ آپ کے سامنے ہے.الزامات کے نتیجے میں عیسائی نے عیسائی پر ایسے ایسے دردناک مظالم کئے ہیں کہ اس تاریخ کے مطالعہ سے ہی انسان کے رونگٹے کھڑ.جاتے ہیں.آدمی پڑھتے پڑھتے پاگل ہونے والا ہو جاتا ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان پر اتنے مظالم کر سکتا ہے؟ پھر جرمنی کی تاریخ آپ کے سامنے پڑی ہے.تمام عیسائی مؤرخین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جرمنی کو تبلیغ کے ذریعے عیسائی بنانے کے لئے چرچ کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں اور اس قوم نے کلیہ عیسائیت کو رد کر دیا.تب ہم نے تلوار پکڑی اور تلوار کی کاٹ پر زبردستی ان کو عیسائی بنایا ہے.ایک جرمن بھی از خود عیسائی نہیں ہوا.پس ساری جرمن قوم گواہ ہے کہ آپ نے تلوار کے زور سے ان کو ز بر دستی عیسائی بنایا ہے.آپ ایک ثمینی پیش کر رہے ہیں، آپ کے گریبان میں تو ہزاروں خمینی شور مچارہے ہیں.آپ اس کو گریبان کی آواز کو کیوں نہیں سنتے ؟ آپ کو صرف اسلام کا ایک خمینی نظر آرہا ہے اور اس غمینی کی آواز پر آپ اسلام کو متہم کر رہے ہیں.اس لئے آپ کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں.پرا.جب تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا تھا تو ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں اور بلا استثناء ایک جگہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی پریس کانفرنس میں یا مجلس میں، جہاں بڑے بڑے رؤسا اور صاحب فکر مدعو ہوا کرتے تھے، یہ سوال کرنے والوں نے پھر کوئی ایسا لفظ بولا ہو.جب میں دیکھتا تھا کہ ان کہ سر جھک گئے ہیں اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں تو پھر میں ان کو اصل مقصد کی طرف لاتا تھا.کیونکہ میرا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ اسلام کی طرف سے محض ایک فتح کا اعلان کیا جائے.ہمارا مقصد تو دل جیتنا ہے.صرف احساس شکست دلا دینا اور تذلیل کرنا نہیں.لیکن بعض دفعہ دل جیتنے سے پہلے تکبر توڑے جاتے ہیں اور احساس شکست پیدا کرنا پڑتا ہے.جو فی ذاتہ مقصد نہیں ہے.اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ کس طرح وہ اس قابل ہو جائیں کہ ان کے دل تیار ہوں اور ہم اسلام کے لئے ان کو جیتیں.جب یہ قدم اٹھ جاتا تھا اور ان کے دلوں کی زمین تیار ہو جاتی تھی تب میں ان سے ایک اور بات کہتا تھا.231
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں ان سے کہتا تھا کہ آپ دیکھیں اسلامی اخلاق اور آپ کے اخلاق میں کتنا بڑا فرق ہے؟ آپ کے پاس ایک مینی آیا اور آپ نے شور مچاتے مچاتے گلے پھاڑ لئے اور اس ایک مینی کا انتقام آپ اسلام سے لے رہے ہیں.ہمارے پاس آپ کے ہزار ہا مینی میں لیکن ہم نے عیسائیت کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا.کیوں نہیں نکالا؟ اس لئے کہ اسلام ہمیں انصاف کی تعلیم دیتا ہے.ہم جانتے ہیں کہ جب وہ مظالم عیسائیت کے نام پر ہورہے تھے تو عیسائیت کا ایک ذرہ بھی قصور نہیں تھا.ان جاہلوں کا قصور تھا، ان تاریکی کے بچوں کا قصور تھا، جنہوں نے خدا کے ایک پاک مذہب، محبت کے مذہب کو اس قدر ذلیل اور رسوا کیا کہ اس محبت کے نام پر مظالم کی ایک ایسی تعلیم دی اور مظالم کی تعلیم پر ایسا عمل کر کے دکھایا کہ ساری دنیا کی بہیمانہ تاریخ بھی اس سے شرما جاتی ہے.لیکن ہم آپ کے مذہب کا دفاع کرتے ہیں.ہم کہتے ہیں، خبر دار ! عیسائیت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولنا، یہ سچا مذ ہب تھا، اللہ کا مذہب تھا.عیسائیت کا ایک ذرہ بھی قصور نہیں.ان ظالم لوگوں کا قصور ہے، جن کوحق نہیں تھا، عیسائیت کی طرف منسوب ہونے کا.لیکن وہ منسوب ہوئے.میں نے کہا: اسلامی اخلاق اور آپ کے اخلاق میں یہ فرق ہے.ہم آپ کی زیادتی کے باوجود آپ کے دل مجروح نہیں کرنا چاہتے.جب ان کو یہ بات بتائی جاتی تھی تو ان کے چہروں کی کیفیت بالکل مختلف ہو جاتی تھی.شکست کا جو احساس تھا، وہ طمانیت میں بدل جاتا تھا.وہ سمجھ جاتے تھے کہ ہاں عیسائیت پر کوئی حملہ نہیں ہوا.لیکن ساتھ ہی اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیم کی برتری بھی از خود ان کے دلوں پر ظاہر ہو جاتی تھی.میں یہ واقعہ آپ کے سامنے اس لئے کھول کر رکھ رہا ہوں کہ طریق تبلیغ میں یہ ساری چیزیں ضروری ہیں.بعض دفعہ غیرت کا تقاضا ہوتا ہے کہ جوابی حملہ کیا جائے.اگر آپ محض کمزور دفاع پر یا یک طرفہ دفاع پر رہیں تو آپ اپنے مقصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے.یہی طریق ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سکھایا.جب عیسائیوں نے اسلام پر اور سرور دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک پر حملے کئے تو آپ نے ان لوگوں کو اچھی طرح لتاڑا.غیرت کا تقاضا تھا کہ سخت جواب دیا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ نا پاک حملوں کے نتیجہ میں کس طرح دل دکھتے ہیں.اور یہ بتایا جائے کہ تمہاری مثال تو ایسی ہے کہ چھاج بولے سو بولے، چھلنی کیا بوئے“ تم تو اسلام کی چھاج کے مقابل پر چھلنی کی طرح ہو.تم پر تمہاری اپنی زبان میں اتنے خوفناک الزام عائد کئے جا سکتے ہیں کہ جب تم ان کو پڑھو گے اور تمہارا دل زخمی ہو گا تب تمہیں سمجھ آئے تھی کہ مصطفیٰ " کے غلاموں کا تم نے کس طرح دل دکھایا.232
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء چنانچہ اسی طرز جہاد نے ہمیں روشنی عطا فرمائی.اب دیکھیں! آپ کے فن جہاد کا کتنا حیرت انگیز کمال ہے.عیسائیوں کے جواب میں آپ حضرت عیسی پر تو حملہ کر نہیں سکتے.حضرت مسیح کو تو ایک پاک رسول سمجھتے تھے.اس لئے ایسا عمدہ اور پیارا طریق اختیار کیا کہ آپ بار بار سیح کو بچاتے رہے اور مسیح کی پاکیزگی بھی بیان فرماتے رہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ مسیح، جس پر ہم ایمان لاتے ہیں، وہ تو قرآن والا سیج ہے، جو نہایت پاکیزہ رسول، نہایت نیک، ہر لحاظ سے اچھا اور خدا کا برگزیدہ اور پیارا تھا.لیکن وہ مسیح ، جو تم پیش کر رہے ہو، وہ یسوع جو تم پیش کر رہے ہو، جس کو بائبل خدا کا بیٹا کہتی ہے، جس کا ہمارے نزدیک کوئی وجود نہیں.مگر تمہارے نزدیک وہ حقیقت ہے.تمہاری اپنی بائبل کی زبان میں وہ ایسا تھا اور وہ ایسا تھا.کیسی شان کے ساتھ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی غیرت اور محبت کا اظہار بھی فرما دیا.اور ساتھ ہی قرآن کا بھی دفاع کیا اور مسیح کا بھی دفاع کیا.یہ ہے جہاد کا وہ اسلوب، جو فرما دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سکھایا ہے.اور ہر میدان میں ہمیں اسی اسلوب کے ساتھ نکلنا پڑے گا.یہ وہ بنیادی ہتھیار ہیں، جن کے ساتھ لیس ہو کر جب مسلمان نکلتا ہے تو اس کے لئے شکست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پھر آپ نے جس طرح دلجوئیاں فرمائیں، وہ بھی ہمارا فرض ہے.حملے کا جواب حملے سے دینا اور محض دفاع تک محدود نہ رہنا فن حرب میں انتہائی ضروری ہے.مجھے یاد ہے، ہمیں بچپن میں ایک دفعہ قادیان میں گر کا دیکھنے کا موقع ملا.( گت کا تو خیر ہم کھیلا بھی کرتے تھے.گنے کا مقابلہ دیکھنے کا حضرت خلیفة المسیح الثانی کو بہت شوق تھا.آپ نے صحت کو برقرار رکھنے کی طرف بہت توجہ دلائی.مختلف ذرائع بتاتے رہتے تھے کہ گھوڑ سواری سیکھو، گڑ کا سیکھو اور مردانہ کھیلوں میں حصہ لو.آپ نے قادیان میں گننے کو بہت رواج دیا.ایک دفعہ حضور کو خیال آیا کہ یہ جو گنگے باز ہیں، یہ صرف قانونی ایچ پیچ ہیں یا واقعی ان کو دوسروں پر فضیلت بھی حاصل ہو جاتی ہے.چنانچہ آپ نے ایک مضبوط زمیندار جاٹ کو بلایا اور گستکے کے استاد کو بھی.اس کو آپ نے کہا کہ تم تو گنی کا جانتے ہو، بڑے ماہر ہو، تم نے صرف دفاع کرنا ہے اور اس پر جوابی حملہ نہیں کرنا.اس نے صرف حملہ کرنا ہے.آپ دونوں کا مقابلہ کروا کے دیکھتے ہیں کہ کون جیتا ہے؟ اس جاٹ نے اندھوں کی طرح لاٹھیاں چلانی شروع کیں.اس نے دورو کیں، چار روکیں، پانچ روکیں، پھر کوئی لاٹھی اس کی ٹانگ پر پڑی کوئی پیٹ پر، کوئی سر پر آئی.لوگ ہنس پڑے کہ دیکھو جی! گنتکے کا استاد بنا پھرتا ہے اور ایک جاٹ سے ہار گیا.اس نے کہا: حضور ! بات یہ ہے کہ گلے میں تو حملہ بھی ہوتا ہے اور دفاع بھی ہوتا ہے.اگر کسی کو صرف دفاع پر مجبور کیا جائے تو یہ ناممکن ہے.233
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کہ وہ صحیح دفاع کر سکے.جب تک اگلے کو یہ خوف نہ ہو کہ مجھ پر بھی پڑے گی ، اس وقت تک اس کو مارنے کا سلیقہ بھی نہیں ہوتا.اور دفاع کے لئے تو ایک آدمی کے ہاتھ باندھے جاتے ہیں.تو تھوڑ اسا گت کا اس طرح بھی کروا دیں کہ اس کو کہیں کہ تم پر بھی پڑے گی.پھر میں دیکھوں گا کہ وہ مارنے کے لئے بچتا بھی ہے کہ نہیں.خیر حضور ہنس پڑے، آپ نے فرمایا: میں جانتا ہوں تمہاری بات ٹھیک سے پس مسلمانوں کے ساتھ پہلے یکطرفہ مقابلہ ہوتا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور آپ نے اسلوب بدلا.مسلمان بے چارے مجبور تھے.حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی مانتے تھے اور وہ یکطرفہ حملے پر حملہ کرتے چلے جاتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور امہات المومنین پر نہایت خوفناک گندا چھالتے تھے.اور مقابل پر مسلمان کیا کرتا تھا ؟ اٹھتا تھا اور چاقو مار دیتا تھا.اس طرح دنیا میں اور زیادہ ذلیل ہوتا تھا.لوگ کہتے تھے.ان کے پاس کوئی دفاع نہیں ہے.سوائے چاقو کے اور کچھ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور مقابلے کے سارے رنگ بدل دیئے.آپ نے فرمایا: میں بھی حملہ کروں گا اور زیادہ شان کے ساتھ حملہ کروں گا اور خدا کے شیروں کی طرح تم پر چھپلوں گا..تم میرے آقا مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کی جرات کرتے ہو، کس طرح بچ کر جاؤ گے مجھ سے؟ پھر ایک اور عجیب منظر ہمارے سامنے آتا ہے.اسلام کا ایک یہ عظیم الشان پہلوان، جری الشان پہلوان، جری اللہ فی حلل الانبیاء تو اس شان کے ساتھ اسلام کے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اور امہات المؤمنین کے انتقام لے رہا تھا اور پیچھے ایک شور پڑ گیا ان مسلمانوں کی طرف سے، جن کے دفاع میں یہ پہلوان لڑ رہا تھا.انہوں نے کہا کہ تم عیسی پر حملے کرتے ہو، تم فلاں نبی کی بے عزتی کرتے ہو، تمہارا کوئی تعلق نہیں اسلام کے ساتھ.یعنی اسلام کے لئے لڑنے والا اور اس شان کے ساتھ جنگ کو نئے اسلوب عطا کرنے والا، اس کی پشت محفوظ نہیں تھی.پیچھے سے اس پر حملے ہورہے تھے، وہ مڑتا تھا اور چوکھی لڑائی لڑتا تھا.ان کو بھی جواب دیتا تھا، سامنے والوں کو بھی جواب دیتا تھا.دائیں بھی لڑتا تھا اور بائیں بھی لڑتا تھا.ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کے مجاہد کے طور پر زندہ رہے اور اسی حالت میں آپ نے جان دی.پس اس آقا کا نام لیتے ہیں تو اس کے رنگ بھی تو سیکھیں.بڑھاپا کوئی ایسی چیز نہیں ، جو مجاہدے کی راہ میں حائل ہو سکے.نبی آخری دم تک لڑتا ہے اور آخری دم تک پیغام دیتا ہے، اپنے ماننے والوں کو کہ اس اسلوب پر چلو گے تو میرے ساتھ دفاع کے وعدے پورے ہوں گے.ورنہ پورے نہیں ہوں گے.اس لئے تمام انصار کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ وہ مجاہدین اسلام ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے لئے جہاد کے جو طریق بیان فرما دیئے ہیں اور ہمارے سامنے کھول دیتے ہیں، ان کو چھوڑ کر ہم 234
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء نے نہیں لڑنا.ان کے دائروں کے اندر رہ کر لڑنا ہے.پھر آپ دیکھیں، فتح ونصرت لازماً آپ کے قدم چومے گی اور اس کے سوا آپ کے مقدر میں کوئی اور چیز نہیں ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے گر ہی وہاں دورے کے دوران میرے کام آئے ہیں.جہاں بھی غیروں کے ساتھ اسلام کی طرف سے مقابلے ہوئے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا سکھایا ہوافن جنگ ہی تھا، جو ہمیشہ میرے کام آیا.پس میں اپنے تجربے کے بعد آپ کو بتارہا ہوں کہ دنیا میں کسی طرف سے بھی حملہ ہو، جوفنون حرب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں سکھا گئے ہیں، ان سے باہر نکلنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں.اس چار دیواری کے اندر ہتے ہوئے ہم عظیم الشان فتوحات حاصل کر سکتے ہیں.دوسرا حصہ جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانی چاہتا ہوں، وہ ان ذمہ داریوں سے تعلق رکھتا ہے، جو مسجد بشارت (سپین) کے افتتاح کے بعد خصوصیت کے ساتھ ہم پر عائد ہوتی ہیں.میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ مسجد بشارت (سپین) کی تعمیر اور اس کا افتتاح ایک عام مسجد کی تعمیر اور ایک عام مسجد کا افتتاح نہیں ہے.اور اگر یہی مقصود ہو تو اس کے کوئی بھی معنی نہیں ہیں.یعنی کسی جگہ ایک مسجد بنادی جائے اور ساری دنیا میں اپنی فتح کے گیت گاتے پھریں کہ عظیم الشان فتح ہوگئی پین فتح ہو گیا، اس سے بڑی بے وقوفی کوئی نہیں ہوگی.جنت الحمقاء میں بسنا اسی کا نام ہے.مسجد کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، وہ پورے کرنے پڑیں گے.اور وہ عظیم الشان تقاضے ہیں، جو بے انتہا سمتوں میں پھیلے پڑے ہیں.مجھ سے پین میں جب یہ سوال ہوا کہ اس مسجد کے بعد آپ اگلی مسجد کہاں بنائیں گے اور کب بنا ئیں گے؟ تو میں نے کہا کہ آپ کو یہ فکر لگی ہوئی ہے.مگر مجھے تویہ فکر ہے کہ اس مسجد کے لئے نمازی کہاں سے آئیں گے.میں انشاء اللہ تعالیٰ پہلے پین میں نمازی پیدا کروں گا.جب یہ مسجد بھر جائے گی اور اس کی دیوار میں پھٹنے والی ہوں گی تب ہم اس کو بھی وسیع کریں گے اور نی مسجدیں بھی بنائیں گے، انشاء اللہ تعالی.پس اس پیغام کے تحت میں نے یورپ کی مجالس اور جماعتوں کے سامنے مختلف پروگرام رکھے اور آپ کے سامنے بھی رکھتا ہوں.سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جس قوم کو آپ نے مخاطب ہونا ہے، اس قوم کی زبان ہی اگر آپ کو نہ آتی ہو تو آپ مخاطب کس طرح ہوں گے؟ اس قوم کے کردار کا آپ نے مطالعہ نہ کیا ہو تو کو آپ کیا پتہ لگے گا کہ کس طرح اس کے دل جیتے جاسکتے ہیں؟ اس کی تاریخ کا آپ کو علم ہونا چاہئے، سیاسی رجحانات کا آپ کو علم ہونا چاہئے.اور اس ملک کی زبان پر مقدرت حاصل کرنے کے بعد آپ کو وہاں بکثرت مبلغ بھیجنے چاہئیں.ایک یا دو یا تین مبلغوں سے تو ملک فتح نہیں ہوا کرتے.آپ کو ایسی پلانٹنگ کرنی پڑے گی 235
خطاسبه فرمودہ 07 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم کہ سپین کے ہر حصے میں مستقلاً رابطے کا انتظام ہو اور پھر اس زبان میں لٹریچر پیدا کیا جائے.اس زبان کی ضرورتوں کو صوتی آلوں کے ذریعہ بھی پورا کیا جائے اور نشر و اشاعت کے ذریعے بھی پورا کیا جائے.یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اگر خدا تعالیٰ توفیق نہ دے تو اس کو سرانجام دینا ناممکن ہے.اگر ہم صرف سپین پر ہی اپنی ساری قوتیں اور روپیہ صرف کر دیں، تب بھی ہماری ضروریات پوری نہیں ہوتیں.اس لئے اپنے دماغ سے یہ بات کلیہ نکال دیں کہ کسی جگہ مبلغ بھیج دیا اور ہماری ذمہ داری پوری ہوگئی.ہر گز پوری نہیں ہوئی.مبلغ تو ایک جرنیل کے طور پر جاتا ہے.جس نے وہاں جائزہ لینا ہے اور مختلف امور میں رہنمائی کرنی ہے.اس ملک میں بسنے والے احمدیوں کی جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے، یہ ہر احمدی کا کام ہے.اور ہر احمدی کو اس میں حصہ لینا پڑے گا.فوجیں صرف جرنیلوں سے تو سر نہیں ہوا کرتیں.ایک جگہ جرنیل بھیج دو لیکن کوئی فوج اس کو مہیا نہ کرو، گولہ بارود مہیا نہ کرو، کوئی Infantry مہیا نہ کرو اور کہو کہ اکیلے جاؤ اور فتح کر لو.یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ دنیا میں تو اس کا سوال نہیں پیدا ہوتا.مذہب کے معاملات میں بھی ایسے نہیں ہوا کرتا.جب موسیٰ علیہ السلام سے ان کی فوج نے یہ کہا تھا کہ جاتو اور تیرا خدالڑو، ہم یہاں بیٹھے رہتے ہیں تو خدا نے کیا جواب دیا تھا؟ وہ چاہتا تو اکیلے موسیٰ کے ہاتھ پر سارے علاقے کو فتح کر سکتا تھا.لیکن خدا نے انہیں کہا: اچھا! اب بیٹھ رہو.بیٹھ رہنے والی قوموں کو میری نصرت نہیں ملے گی.تو موسی سے بڑھ کر بھی آپ کوئی مبلغ پیدا کر سکتے ہیں؟ یہ وہ جرنیل تھا، جسے خدا نے خود اپنی آنکھوں کے سامنے تیار کیا تھا.جو پیدائش سے بھی پہلے اللہ کے پیار کی نظر میں تھا.وہ ، جو اللہ کے حکم سے لہروں پر ایک صندوق میں تیرتا رہا اور لہروں کو توفیق نہ ملی اس کو غرق کرنے کی.وہ، جس کے مقابل پر جب اس دنیا کا سب سے بڑا جبار بادشاہ آیا تو انہیں لہروں میں وہ غرق ہو گیا اور اس کو کوئی چیز بیچانہ سکی.جب اس کی قوم نے کہا کہ جاتو اور تیرا خدا کیلے لڑتے پھر تو اللہ کی تقدیر نے کہا: نہیں، فتح تمہارے مقدر میں نہیں ہے.اس کے لئے تمہیں انتظار کرنا پڑے گا.جب تک تم میرے اس جرنیل کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تمہارے مقدر میں کوئی فتح نہیں لکھی جائے گی.چنانچہ وہ چالیس سال تک بھٹکتے رہے اور ان کے ساتھ خدا کا یہ بندہ موسیٰ بھی ویرانوں میں بھٹکتا رہا.پس خدا کی تقدیر کو چھوڑ کر آپ کس طرح ملکوں کو فتح کر سکتے ہیں؟ ایک جرنیل مہیا کر دینا اور کہا کہ اب تم اکیلے لڑو اور ہم بیٹھ رہتے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا.سارے احمدیوں کو اپنی ساری طاقتیں استعمال کرنی پڑیں گی.اور صرف سپین میں نہیں بلکہ ہر ملک میں وسیع پیمانے پر آپ کو اپنی ساری طاقتوں کو اسلام کے لئے جھونکنا پڑے گا.236
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء چنانچہ چین کے متعلق تو میں نے یورپ میں یہ تحریک کی کہ ہمارے جتنے احمدی نوجوان ہیں، وہ فوری طور پر سپینش زبان سیکھنا شروع کریں.جو ریٹائر ہو رہے ہیں، وہ وقف عارضی میں اپنے نام لکھوائیں.یعنی سال بہ سال ریٹائر منٹ کے بعد کا جو وقف ہوتا ہے، وقف عارضی سے کچھ مختلف نوعیت کا ، اس میں اپنے نام پیش کریں.اور بتائیں کہ ہم اپنے خرچ پر کتنا عرصہ پین جا کر تبلیغ اسلام کر سکتے ہیں؟ اور جو نام لکھوائیں، وہ ابھی سے زبان سیکھنی شروع کریں.پھر چھٹیوں میں وہاں سیر کے لئے جاتے ہیں، وہ وہاں تبلیغ بھی کریں.میں نے ان سے کہا کہ سپین کی طرف تو آج کل سارے یورپ اور امریکہ کا رجحان ہے.سیر کے لئے بڑی پیاری جگہ ہے.آپ کے لئے تو ایک پنتھ اور دو کاج والا معاملہ ہے." اگر آپ تبلیغ اسلام کے لئے نکلیں گے تو سیر پیچھے تو نہیں رہ جائے گی.آپ کی سیر میں مزا بہت بڑھ جائے گا.یورپ اور امریکہ تو وہاں اس لئے جاتا ہے کہ روپیہ خرچ کر کے ان کو عیاشی کے نئے رستے دکھائے ، اور ان کو ذلیل اور رسوا کرے.وہ تو اس لئے جاتے ہیں کہ تا اہل سپین زیادہ سے زیادہ شیطان کی آغوش میں چلے جائیں.اور اس وقت سپین میں جو امن ہے، وہ بھی باقی نہ رہے.یہ امر واقعہ ہے اور یہی ہو رہا ہے.وہ چنانچہ وہاں کی مجالس میں جب مجھ سے بے تکلف سوال ہوئے اور ان سے بات ہوئی تو انہوں نے خود بھی یہ خطرہ محسوس کیا کہ امریکن اور مغربی قوموں کا جو Influence Tourists ( ٹورسٹس یعنی سیاحوں کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے، یہ ہمارے اندر بڑی خرابیاں پیدا کر رہے ہیں.بے حیائی بڑھی ہے اور اس کے علاوہ عیاشی کے نئے نئے ذریعے ہمارے سامنے آرہے ہیں.ہم ایک غریب قوم ہیں، ہمارے اندر اس کی توفیق نہیں.جب توفیق سے بڑھ کر عیاشی سامنے آتی ہے تو ہمیشہ کر پشن پیدا ہوتی ہے، ہمیشہ رشوت ستانی داخل ہو جاتی ہے.یہ بے چینیاں میں نے ان کے اندر محسوس کی ہیں.میں نے کہا: ایک طرف یہ بے چینیاں پیدا کرنے والے جارہے ہیں تو دوسری طرف خدا کے بندے بے چینیاں دور کرنے والے بھی جانے چاہئیں.آپ جائیں اور ان کو پاکیزہ معاشرے کی طرف بلائیں.آپ جائیں اور ان سے پاکیزہ دوستیاں کریں.ان کو بتائیں کہ ہم اسلام کی طرف سے امن اور صلح اور محبت اور آشتی کا پیغام آپ کے لئے لے کر آئے ہیں.مختلف دیہات میں جائیں اور ان تک یہ پیغام پہنچائیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی Response ہوئی.یعنی بڑے جوش و ہوش کے ساتھ وہاں احباب نے وعدے کئے کہ ہم اس کام کے لئے حاضر ہیں.جب بھی خدا ہمیں توفیق دے گا ، ہم اپنی چھٹیاں سپین میں گزاریں گے.لیکن اس کے لئے کچھ نظم وضبط اور ترتیب کی ضرورت ہے.چنانچہ وہاں میں 237
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء ردیا جا.تحریک جدید - ایک الہی تحریک نے یہ ہدایت دی تھی اور اب تحریک جدید کو یہ ہدایت دیتا ہوں کہ وہ یہاں سے اس پروگرام کو منظم کرے.مثلاً اندلس کی سرزمین ہے.اس میں چونکہ اسلام کا زیادہ اثر رہا ہے، اس لئے وہاں کے لوگ زیادہ خلیق اور زیادہ محبت کرنے والے ہیں.اور اندلس کی سرزمین ہی میں ہم نے مسجد بنائی ہے.وہ کافی وسیع علاقہ ہے.وہاں چار، پانچ صوبے ہیں اور کافی آبادی ہے.اگر تحریک جدید اندلس کے علاقے ، واقفین کی تعداد معلوم کر کے تقسیم کر دے کہ یہ حصہ جرمنی کے سپرد ہے، یہ حصہ سوٹزر لینڈ کے سپر د ہے، یہ ڈنمارک کے، یہ ناروے کے، یہ سویڈن کے، یہ فرانس کے اور اسی طرح فلاں حصہ انگلستان کے سپرد ہے.تو سپین میں بہت جلد اسلام پھیل سکتا ہے.نقشے کے اوپر معین کہ ہم آپ کو یہ قلعے دیتے ہیں، آپ نے سر کرنے ہیں.اور مقابلہ ہو گا کہ کون سا ملک پہلے وہاں اسلام کا جھنڈا گاڑتا ہے؟ یہ سارے واقفین مبلغ وہ ہوں گے، جو عارضی طور پر اور طوعی طور پر اپنے نام پیش کر رہے ہوں گے اور سلسلے پر ان کا کوئی بوجھ نہیں ہوگا.ان واقفین کی مدد کے لئے کہ لئے یہ سکیم بنائی گئی ہے ( یہ بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ اس طرف میری توجہ کو پھیرا ) کہ ہمارے پین کے مبلغ، جو بہت اچھا بولنے والے ہیں اور خصوصاً ان کے بیٹے منصور احمد صاحب، جو نہایت ہی پاکیزہ شستہ سپینش بولتے ہیں اور ان کے اندر خدمت کا بڑا جذبہ ہے، ( ڈاکٹر ہیں لیکن طومی طور پر اسلام کی خدمت کرنے کا بہت شوق رکھتے ہیں ) ان کے سپرد یہ کام کر دیا جائے کہ جس طرح یہاں سوال و جواب کی کیسٹ ہوتی ہے، اسی طرح وہ اپنے تجربے کی روشنی میں چین کے ماحول کے لئے پانچ یا چھ کیسٹ تیار کریں اور سپینش احمدی اور کچھ دوسرے سپینش دوست اکٹھے ہوں اور اس مجلس میں سوال و جواب ہوں اور مؤثر جواب ریکارڈ کر کے تمام یورپ کے مشنوں کو یہ کیسٹ بھجوادی جائیں.اور ان کے ساتھ ان کا لکھا ہوا ترجمہ بھی جائے.یہ جو واقفین عارضی جائیں گے ، ان کو زبان سیکھنے میں کچھ وقت لگے گا اور ہماری حالت تو وہی ہے، جو غالب نے کہی عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک کہاں ہم انتظار کریں کہ یہ زبانیں سیکھیں، تب وہاں تبلیغ ہو؟ اس لئے وہ اپنے ساتھ یہ کیسٹ لے جائیں اور کیسٹ کے شروع میں یہ آواز ریکارڈ ہو کہ ہم آپ کی زبان نہیں جانتے مگر ہمارے دل میں آپ سے باتیں کرنے کے بڑے ولولے ہیں.اس لئے یہ کیسٹ ہیں، آپ ان کو سنیں اور اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو آپ ہمیں لکھ کر دیں یا کیسٹ میں ریکارڈ کروادیں.ہم اپنے مبلغ کو بھیجیں 238
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء گے، ان کا پتہ یہ ہے اور آپ ان سے براہ راست گفتگو بھی کر سکتے ہیں.پس مختلف موضوعات پر ہسپانوی زبان میں کیسٹ تیار ہوں.مسلمان بننے کے طریقے بتائیں جائیں، مسلمان بننے کے بعد کی ذمہ داریاں بتائی جائیں.اسی طرح نماز پڑھنے کے طریقے ، طہارت کے مسائل اور اسلامی معاشرے کے روز مرہ کے مسائل پر مشتمل کیسٹ تیار ہوں.اور ان واقفین کے پاس یہ کیسٹ موجود بھی ہوں تا کہ جب کوئی اسلام قبول کرے تو ساتھ ہی اس کو تربیت کا تحفہ بھی پیش کر دیں کہ اب تم پوچھنا چاہو گے کہ اسلام کیا ہے اور اس پر کس طرح عمل ہوتا ہے؟ یہ کیسٹ سن لو.اس میں اسلام کی ساری باتیں آگئی ہیں.اس طرح ہم بغیر کسی انتظار کے انشاء اللہ تعالیٰ وسیع پیمانے پر سپین کے ملک میں تبلیغ کر سکیں گے.جہاں تک دیگر دنیا کا تعلق ہے، اس کے متعلق پین کی مجلس شوریٰ میں سکیم طے ہوئی اور ایک ہدایت جاری کی گئی.اس پر کہاں تک عمل شروع ہو چکا ہے، اس کا ابھی جائزہ لینا باقی ہے؟ اب میں پھر تحریک جدید کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں.اس وقت جو صدر مجلس انصار اللہ ہیں، وہی وکیل اعلی تحریک جدید بھی ہیں.وہ سن رہے ہیں، وہ نوٹ کریں گے اور انشاء اللہ ذمہ داری کے ساتھ اس پر عمل درآمد کی کوشش کریں گے.وہ سکیم یہ ہے کہ سو سالہ جوبلی منانے سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور کچھ تھے پیش کرنے چاہئیں.خالی نعرے تو خدا تعالیٰ قبول نہیں فرمائے گا.اس کے لئے تو ایسا عمل صالح چاہئے ، جو ہماری اللہ اکبر کی آواز کو رفعت عطا کرے گا.یہ نکتہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ تمہارے نیک ارادے اور بلند بانگ دعاوی (خواہ منتیں بھی اچھی ہوں ) اپنی ذات میں اڑنے کی طاقت نہیں رکھتے.وہ زمین پر پڑے رہتے ہیں.کون سی چیز ان کو اٹھا کر خدا کے عرش تک پہنچاتی ہے، وہ تمہارے نیک اعمال ہیں.اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر (11) جب نیک اعمال کی قوت ان کو نصیب ہوتی ہے تو تم دیکھو گے کہ وہ عظیم الشان طریق پر اڑنا شروع کر دیں گے اور اتنی بلند پروازی اختیار کریں گے کہ وہ آسمان کے کنگروں تک جا پہنچیں گے.یہ ہے وہ مضمون ، جو قرآن کریم ہمیں سکھا رہا ہے.اور بڑا سائنٹیفک مضمون ہے.جس طرح آپ ایک بہت اچھا جہاز بنا کے رکھ دیں اور اس میں پٹرول نہ ڈالیں تو وہ بیچارہ یونہی پڑا رہے گا.خواہ کتنی بھی اچھی صنعت ہو.جہاز میں اگر طاقت نہیں ہوگی تو وہ کس طرح اڑ سکے گا ؟ تو اسلام سائنٹیفک مذہب ہے کہ مختلف حصوں کی ضروریات کوکھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اپنی اپنی جگہ ہر ایک کی ضروریات کو تسلیم کرتا ہے.محض کہانیوں میں بسنے والا مذ ہب نہیں ہے.239
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس اسلام کی اس تعلیم کے پیش نظر اگر چہ نعرہ ہائے تکبیر بہت ہی پر لطف چیز ہیں اور بلند ارادے اور دعاوی اور فتح کے خواب دیکھنا بھی بڑا ضروری ہے.کیونکہ اسی کے نتیجے میں منصوبے بنتے ہیں.لیکن محض یہ چیزیں تو کافی نہیں.منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے خون کی ضرورت ہے.مگر وہ کون سا خون ہے، جو ان منصوبوں میں بھرا جائے گا تو وہ زندہ ہوں گے؟ وہ آپ کے اعمال صالحہ کا خون ہے.جب تک آپ اعمال صالحہ کے خون سے ان نیک ارادوں کو نہیں بھرتے ، یہ نیک ارادے زندہ نہیں ہوں گے اور خدا کے حضور قبول نہیں کئے جائیں گے.پس ہم سو سالہ جشن کس طرح منائیں؟ اور اپنے رب کے حضور کیا پیش کریں؟ بہت سی باتوں میں سے ایک یہ بات میرے پیش نظر ہے کہ ہم یہ عہد کریں کہ کم از کم سو 100 ممالک میں تبلیغ کے ذریعے اسلام کا جھنڈا گاڑ دیں گے.یعنی احمدیت کے ہر سال کے لئے ہم ایک نیا ملک فتح کرلیں گے.اس کے لئے بھی بہت بڑے منصوبے کی ضرورت ہے.اور بڑی تیزی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت پڑے گی.بہت سے ایسے ممالک ہیں، جہاں کی زبان نہیں نہیں آتی.وہاں بھی کیسٹ کا طریقہ بڑی عمدگی کے ساتھ کام کر سکتا ہے.اس کے بعد لٹریچر Follow up کرے گا.ہم انتظار بہر حال نہیں کر سکتے.زبان نہیں آتی تو بغیر زبان کے ہی جانا پڑے گا.اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق جو ہتھیار میسر ہیں ، وہ لے کر نکلنا پڑے گا.خدا تعالیٰ یہ تو کہتا ہے کہ تم میری آواز پر لبیک کہو اور جو کچھ ہے، حاضر کر دو.مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:4) ہے، جس کی وہ ہم سے توقع رکھتا ہے.مگر توفیق سے بڑھ کر کی توقع ہم سے نہیں رکھتا.اس لئے جو کچھ میسر ہے، اگر ہم اسے لے کر تبلیغ کے لئے نکل جائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل آسمان سے نازل ہوگا اور ہر کمی کو پورا کر دے گا.اس سکیم کو اس طرح چلانا ہے کہ تمام ممالک کے سپر د کچھ اور ممالک کئے جائیں.جہاں جہاں جماعتیں قائم ہیں، ان کو صرف یہ نہ کہا جائے کہ اپنے ملک میں جماعتیں بڑھائیں بلکہ تحریک جدید کی طرف سے معین کر دیا جائے.مثلاً ماریشس ہے، اسے کہا جائے کہ افریقہ کے کسی قریبی ملک میں، جہاں وہ جاسکتے ہوں، وہاں انہوں نے احمدیت کا جھنڈا گاڑنا ہے.افریقہ کے ممالک، جو دنیا کے کناروں پر ہیں اور جہاں احمدیت قائم ہے، وہ اندر کی طرف حرکت کر سکتے ہیں.شمال کی طرف کمی ہے تو وہاں جاسکتے 240
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء ہیں.فرینچ سپیلنگ افریقہ (Frech Speaking Africa) یعنی فرانسیسی بولنے والے افریقی ممالک میں کمزوری ہے تو وہاں داخل ہو سکتے ہیں.اٹالین سپیلنگ افریقہ (Italian Speaking Africa) یعنی اٹالین بولنے والے افریقی علاقوں میں کمی ہے تو وہاں داخل ہو سکتے ہیں.اصولی اور عمومی منصوبہ بندی کرنا تحر یک جدید کا کام ہوگا.پھر تفصیلی منصوبہ وہ ملک تیار کرے گا.پھر وہ تحریک جدید کو بھیجے گا اور اس کو منظور کروانے کے بعد ایک اجتماعی مرکزی منصو بہ قائم کرے گا.اس سکیم کے تحت ( سوسالہ جو بلی منانے کے لئے ہمارے پاس صرف پانچ ، چھ سال رہ گئے ہیں ) اگر تین مہینے کے اندراندر ہم چھلانگ مارنے کے لئے تیار ہو جائیں اور دعائیں کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے توقع ہے کہ ہر سال ہمیں نئے نئے پھل ملنے شروع ہو جائیں گے، انشاء اللہ تعالی.اس سکیم میں پاکستان کا ایک حصہ دعا کا ہے.بڑی کثرت کے ساتھ دعائیں کریں اور بڑی با قاعدگی کے ساتھ دعائیں کریں.اتنا گہر اثر ہوتا ہے دعا کا اور اتنا حیرت انگیز اور معجزانہ اثر ہوتا ہے کہ انسان تصور میں بھی نہیں لاسکتا.اس سفر کے دوران کئی لحاظ سے مجھ پر بہت بوجھ تھا.ایک کے بعد دوسری مجلس میں جانا پڑتا تھا اور خیالات کو مجتمع کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا.یہاں تک کہ بعض دفعہ بڑے بڑے اہم خطابات کرنے کے لئے چند منٹ بھی میسر نہیں آتے تھے.ادھر ملاقاتیں ختم ہوئیں ، ادھر جا کر خطاب کیا.میرے پاس تو صرف یہی دعا کا حربہ تھا اور میں سمجھتا تھا کہ یہ اتنا بڑا حربہ ہے کہ اس کے بعد مجھے فکر ہی نہیں رہتی تھی.میں دعا کرتا تھا کہ اللہ میاں! تیرے کام کے لئے نکلا ہوں، تو نے ہی سکھانا ہے.میری اپنی حیثیت ہی کوئی نہیں.وقت ملتا بھی اور توفیق نہ ملتی تو بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا.اس لئے اپنے فضل سے آپ ہی دماغ میں ڈال ، آپ ہی جواب سکھا، آپ ہی مضمون روشن فرما اور توفیق عطا فرما کہ ایسی زبان میں ادا کروں کہ لوگ سمجھ سکیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کا فضل ہوا اور ایسی مجالس میں بھی، جہاں بالکل اچانک خطاب کرنے کا موقع ملا، وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے پاک تبدیلی نظر آئی.چنانچہ ایک ایسی ہی مجلس میں ایک انگریز آیا ہوا تھا، جو بالکل نیا تھا اور اس کو مذہب میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں تھی.ایک دوست اسے پکڑ کر لے آئے.اس نے صرف ایک سوال کیا اور اس سوال کا جو جواب خدا نے مجھے سکھایا، وہ میں نے دے دیا.چند دن ہوئے، اس کا خط آیا ہے کہ میں نے ایک ہی سوال کیا تھا اور اس کے جواب سے میرے دل پر اتنا گہرا اثر پڑا ہے کہ مجھے جواب سنتے سنتے یہ یقین ہو گیا تھا کہ یہ بچے لوگ ہیں.اس لئے آپ میرے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ مجھے قبول حق کی توفیق عطا فرمائے.241
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک پس اصل چیز سچائی ہے.آپ کے جواب میں سچائی ہونی چاہئے.اور سچائی کی توفیق بھی دعا ہی سے ملتی ہے اور سچائی کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بھی دعا ہی سے ملتی ہے.پس دعا ئیں کریں اور کثرت کے ساتھ دعا ئیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے سارے منصوبوں کو کامیاب فرمائے.اور ان منصوبوں کی کمزوریوں کو دور فرمائے.نئی نئی راہیں ہم پر کھولے اور ان راہوں پر قدم مارنے کی توفیق بخشے.ہر فتح کی امید کو ایک حقیقی فتح میں تبدیل کر دے.ہر فتح و نصرت کی خواب کو ایسی بچی تعبیر میں تبدیل کر دے کہ دنیا بھی اس کی تعبیر کو دیکھنے لگے.صرف خواب بین کو وہ نظارہ نظر نہ آرہا ہو بلکہ دنیا کے سامنے وہ نظارہ نقشوں میں ابھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہو.یہ وہ مقصد ہے، جو دعاؤں کے ذریعے سے ہم نے حاصل کرنا ہے.اور اگر درد مندانہ دعاؤں کے ساتھ پاکستان کی ساری جماعت کوشش کرے تو ہر ملک جو فتح ہوگا، اس میں آپ کا حصہ شامل ہو جائے گا.یہ ٹھیک ہے کہ روپے پیسے کے ذریعے اب ہم مدد نہیں کر سکتے.یہاں کی سکیموں میں تو مدد کر سکتے ہیں اور کریں گے انشاء اللہ.مگر قانون ایسے ہیں کہ ہم اپنا روپیہ باہر نہیں بھجوا سکتے.پاکستان اور ہندوستان کے لئے جو پہلے مزے تھے، اب وہ نہیں رہے کہ ساری دنیا کا بوجھ پہلے ہندوستان نے اٹھارکھا تھا.پھر پاکستان نے اٹھارکھا تھا.روپیہ باہر بھجوانے میں روکیں پیدا ہورہی ہیں.لیکن کام کے رستے میں روکیں پیدا نہیں ہورہی ہیں.ہماری تمناؤں اور خواہشوں کے رستے میں روکیں ضرور پیدا ہو جاتی ہیں.جہاں تک کام کا تعلق ہے ، وہ تو جاری ہے.جتنا روپیہ ہم یہاں سے بھجواتے تھے ، اس سے سینکڑوں گنا زیادہ باہر سے ملنا شروع ہو گیا ہے.پس کام تو انشاء اللہ جاری رہیں گے.ہمیں صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش! ہم اب بھی روپے کے ذریعے اسی طرح مدد کرتے ، جس طرح پہلے کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ یہ روکیں بھی دور فرمادے گا.اور یہ بھی دعاؤں کے ذریعہ سے ہی ہوگا، انشاء اللہ.جہاں تک پاکستان کی جماعت کا تعلق ہے، میں مجلس انصار اللہ کے سامنے خصوصیت سے یہ پروگرام رکھتا ہوں (پہلے بحیثیت صدر مجلس انصاراللہ یہ پروگرام آپ کے سامنے رکھا تھا) کہ ایک ایسے گاؤں میں احمدیت کو قائم کرنے کی کوشش کریں، جہاں پہلے احمدیت قائم نہیں ہے.اگر ہر مجلس ہر سال ایک نئے گاؤں میں احمدیت نافذ کر دے تو اللہ کے فضل سے چند سالوں کے اندر اندر اس ملک کی فضا تبدیل ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دشمن بھی منصوبے بناتا ہے اور مکر کرتا ہے.اور اللہ بھی منصوبے بناتا ہے اور ایک مکر کرتا ہے.242
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ (ال عمران : 55) اور اللہ کا مکر بہتر ہوتا ہے، اپنی خوبیوں کے لحاظ سے بھی اور انجام کا بھی وہی غالب آیا کرتا ہے.پس جتنادہ مکر کر رہے ہیں آپ کو ذلیل اور رسوا کرنے کے لئے اور مٹانے کے لئے اور آپ کی جڑیں اکھاڑنے کے لئے ، آپ بھی مقابل پر مکر کریں.اور وہ مکر کریں، جو اللہ کا مکر ہوتا ہے، جو خیر الماکرین کا مکر ہوتا ہے.دیکھتے دیکھتے اللہ کی تائید کے ساتھ یہ ساری بستیاں انشاء اللہ احمدی ہو جائیں گی.یہاں احمدیت کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا.پس وہ جو ہمیں مٹانے کے خواہاں ہیں ، ان لوگوں کی خوا ہیں کبھی پوری نہیں ہوں گی.وہی خواب پوری ہوگی ، جو میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خواب تھی، جو آپ کے عاشق کامل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواب تھی.ساری دنیا میں آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا جھنڈا گاڑا جائے گا اور دشمن اسلام کی ساری خواہیں ناکام ہو جائیں گی.پوری نہیں ہوں گی اور نامراد کلیں گی.اور ہر جگہ، ہر بستی، ہر قریہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جھنڈا گاڑا جائے گا.یعنی وہی جھنڈا، جو در حقیقت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا جھنڈا ہے.تمام دشمنان اسلام کی ہر خواب نامراد جائے گی.اگر آپ دعا ئیں کریں گے ، اگر آپ احسن تدبیر سے کام لیں گے، اگر آپ برائی کا بدلہ حسن و احسان سے دیں گے اور صبر سے کام لیں گے تو یہی ایک تقدیر ہے، جو پوری ہونی ہے.اس کے سوا اور کوئی تقدیر نظر نہیں آتی.اس کے لئے منصوبہ بنائیں.اس کے لئے مجلس مرکز یہ سر جوڑ کہ بیٹھے اور معین دیہات تقسیم کر کے آپ کے ذمے لگائیں.اور پھر ضلع وار مقابلے کروائیں اور دیکھیں کہ کون پہلے نئے نئے دیہات میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا جھنڈا گاڑتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اب تمام انصار بھائی کھڑے ہو کر عہد دہرائیں، اس کے بعد دعا ہو گی اور پھر انشاء اللہ تعالیٰ ، رخصت“.آخر میں حضور نے فرمایا:.میں یہ اعلان کر دوں کہ ایک تو حسب روایات سابقہ کل 8 نومبر کو ) تمام مرکزی دفاتر کے انصار کارکنان کو چھٹی ہوگی.دوسرے یہ کہ اب ہم ایک بج کر چند منٹ پر یہاں سے الگ ہوں گے کہ آپ کے کھانے کا یہاں انتظام ہے.اڑھائی بجے انشاء اللہ مسجد مبارک میں ظہر و عصر کی نمازیں جمع کی جائیں گی تا کہ جنہوں نے رخصت ہونا ہے ، وہ یہیں نماز پڑھ کر سہولت کے ساتھ سفر پر روانہ ہوں.243
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو، آپ کا حافظ و ناصر ہو، جس طرح آپ یہاں سے خوشیاں سمیٹ کر جارہے ہیں، اس طرح خوشیوں کے ساتھ ہی گھر پہنچیں.بلکہ ان خوشیوں کو ہر لحاظ سے برکتیں ملیں اور آپ کی خوشی سے واپسی کی خبریں مل کر ہمارے دل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ، اس کی حمد کے ساتھ اور اس کے شکر کے ساتھ بھر جائیں.مطبوعه روزنامه الفضل 09 جون 1983ء) 244
تحریک جدید - ایک البی تحریک خطاب فرمودہ 21 نومبر 1982ء اسلام کے ہزاروں لاکھوں بیٹے منتظر ہیں کہ احمدی عورتیں ان کو غیرت دلائیں خطاب فرمودہ 21 نومبر 1982ء سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے سفر یورپ سے کامیاب مراجعت کی خوشی میں لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ کی طرف سے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا گیا، اس موقع پر حضور نے درج ذیل خطاب فرمایا:.وو تشہد وتعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے فرمایا:.سب سے پہلے تو میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ تقریب منعقد کر کے مہمان نوازی کا ثبوت دیا.اس موقع پر اعزاز بخشا بھی کہا جاتا ہے لیکن وہ ایک رسمی فقرہ ہے.اس لیے یہاں تک پہنچ کر میں رک گیا اور میں نے سوچا کہ حقیقت کیا ہے؟ حقیقت میں یہ ایک مہمان نوازی کا ہی اظہار ہے یا خلوص و محبت کا اظہار ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزاء عطا فرمائے.اس وقت جو نظم پڑھی گئی ہے، اس نے دل پر کچھ عجیب کیفیت طاری کر دی ہے.اس نے کچھ یادوں کو تازہ کیا اور کچھ سفر کے ان واقعات کی طرف ذہن منتقل کر دیا، جو خواب کی طرح گزرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.پھر سپاسنامہ میں بھی ، جن باتوں کا ذکر ہوا، اس سے وہ یادیں اور تازہ ہوگئی.حقیقت یہ ہے کہ سارا سفر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی بے اختیاری کی حالت میں گزرا ہے، جس میں بندہ کا کوئی دخل نہیں ہوا کرتا.ایک خواب کی سی کیفیت تھی، ایک رو میں بہتے ہم چلے جارہے تھے.اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے دلوں کو اسلام کی طرف مائل بھی کر رہا تھا اور ان میں پاک تبدیلیاں بھی پیدا کر رہا تھا.اور غیروں کا رجحان بھی بڑی تیزی سے اسلام کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا تھا.مخالف پریس والے بھی دیکھتے دیکھتے تبدیل ہوتے معلوم ہوتے تھے.بعد میں پریس نے جس طرح coverage دیا ہے، اس کے بعض حصوں سے تو یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے کوئی مخلص احمد ی ہے، جو کوشش کر کے مضمون لکھ رہا ہے کہ جماعت کا نیک اور اچھا اثر قائم ہو.یہ ساری چیزیں وہ ہیں، جن پر بندہ کا کوئی اختیار نہیں.بہت ہی بابرکت تھا، مسجد بشارت سپین کی بنا ڈالنے کا یہ اقدام اور بہت ہی بابرکت ہیں، اس کے باقی رہنے والے اثرات.245
خطاب فرمودہ 21 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اس ذکر میں مجھے حضرت مصلح موعود کا وہ خطبہ یاد آ جاتا ہے، جو آپ نے بڑے درد کے ساتھ قادیان میں ایک موقع پر دیا تھا.آپ نے اس بادشاہ کا ذکر کیا، جس نے آخری مرتبہ (جب الحمر المکمل ہوا تو تکمیل کے معا بعد ) الحمرا کی چابیاں اپنے ہاتھ سے ایک عیسائی بادشاہ کو پکڑائیں اور اپنے چند ساتھیوں کو لے کر سر زمین پین سے ہمیشہ کے لیے جدا ہونے کے لیے روانہ ہوا.وہاں ایک پہاڑی ہے، جہاں سے اگر مڑ کر دیکھا جائے تو الحمرا کا سارا علاقہ بلکہ اندلس کا بہت بڑا علاقہ دکھائی دیتا ہے.جب اس کا گھوڑا اس پہاڑی پر پہنچا، اس نے مڑ کر نظر ڈالی تو اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسووں جاری ہو گئے.تب اس کی ماں نے اس سے کہا کہ اے میرے بیٹے! یہ آنسوؤں کا وقت نہیں تھا.یہ خون بہانے کا وقت تھا.تمہیں شرم آنی چاہیے کہ اب رخصت ہوتے ہوئے عورتوں کی طرح ٹسوے بہار ہے ہو.جس چیز کی تم مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکے، اب عورتوں کی طرح اس پر روتے ہو.وہ ایک عورت تھی، جس نے اسلامی عورت کی یاد کو اس ایک اظہار درد سے پین کی سرزمین میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا، اس پہاڑی کو سپنیش زبان میں ” elul time sespare del moro " کہتے ہیں.یعنی مسلمان بادشاہ کی آخری آہ اور وہ آج تک اسی نام سے یاد کی جاتی ہے.وہ آہ سنی نہیں گئی.ایک مدت تک خاموش آہ میں تبدیل رہی.قادیان میں ایک کان نے اس آہ کو سنا اور وہ مصلح موعود کا کان تھا.ایک دل نے اس آہ کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور وہ مصلح موعود کا دل تھا.چنانچہ آپ کے خطبہ میں اس قدر بے قراری تھی ، اس قدر درد تھا، اس قدر سسک تھی ، اس قدر تکلیف تھی کہ سننے والوں کی آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے.حضور نے کہا، ہم ضرور واپس جائیں گے اور اندلس کی سرزمین کو پھر فتح کریں گے.لیکن یہ فتح دلیل اور محبت کی فتح ہوگی.پھر ہم کبھی اس سرزمین سے نہیں جائیں گے، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں سے بزور شمشیر چھین لی وو کا گئی.اب وہ زمین ہم محبت سے فتح کریں گے اور یہ فتح انشاءاللہ دائی ہوگی.پس جب میں مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے لیے گیا تو میرے کانوں میں بھی وہی الفاظ گونج رہے تھے.اور جب پریس کے ایک نمائندہ نے مجھ سے سوال کیا کہ ایک فقرہ میں آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟ تو مصلح موعود کا وہی فقرہ تھا، جو میں نے اس کے سامنے دہرایا.میں نے کہا، وہ سرزمین، جو ہمیں بہت پیاری ہے لیکن تم نے تلوار کے زور سے ایک دفعہ چھین لی ، اب ہم محبت کی طاقت سے اسے دوبارہ جیتنے کے لیے آگئے ہیں.یہ فقرہ اس کو اتنا پیارا لگا کہ اس نے اپنے اخبار میں اس فقرہ کو شہ سرخی کے ساتھ بڑا نمایاں کر کے شائع کیا.اور اس کی گونج یورپ کے کئی دوسرے ملکوں میں بھی جا 246
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 21 نومبر 1982ء پہنچی.چنانچہ سوئٹزر لینڈ کے ایک کثیر الاشاعت اخبار اور دوسرے اخباروں نے بھی اس فقرہ کو پکڑا اور آگے چلاتے گئے.پس یہ حقیقت ہے کہ ہمارے پاس اس وقت محبت ، بجز اور انکساری کے ہتھیاروں کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں.لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بظاہر یہ نرم اور بے زور نظر آنے والے ہتھیار دنیا کے سب ہتھیاروں سے زیادہ طاقتور ثابت ہوا کرتے ہیں اور ان کی فتح دائمی ہوا کرتی ہے...قرآن کریم میں عباد الرحمان کی جو تصویر کھینچی گئی ہے، اس کا آغاز ہی اس بات سے کیا گیا ہے کہ عباد الرحمان زمین پر نرمی اور انکساری سے چلتے ہیں.بظاہر ان میں کوئی طاقت نظر نہیں آتی.تکبر نام کو نہیں ہوتا.سر جھکا کر چلتے ہیں.جب کوئی جاہل ان سے جاہلانہ خطاب کرتا ہے تو جواب میں ان کے منہ سے سلام کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا.لیکن دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور قوم وہی ہوتی ہے، جو عباد الرحمان کہلانے کی مستحق ہو جائے.پس پین کی سرزمین کو اگر ہم نے دوبارہ جیتنا ہے تو ہمیں عباد الرحمان بننا پڑے گا.یہی وہ طاقت ہے، جس کے ساتھ ہم نے سپین ہی کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو فتح کر کے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا پڑے گا.میں نے یہ واقعہ، جو حضرت مصلح موعود سے سنا تھا اور بعد میں تاریخ میں پڑھنے کا موقعہ ملا، اس لیے بیان کیا کہ وہ ایک عورت ، جس نے اپنے بیٹے کو غیرت دلانے کی کوشش کی تھی ، اس بیٹے کو تو غیرت نہیں آئی.لیکن اسلام کے ہزاروں لاکھوں بیٹے منتظر ہیں کہ احمدی عورتیں ان کو غیرت دلائیں اور وہ غیرت حقیقتا جوش میں آکر طاقت کا ایک سمندر بن جائے.وہ جوش ایسی طاقت میں تبدیل ہو جائے ، جو اندلس کی ساری سرزمین پر چھا جائے.اور اس کا مقابلہ کرنا سر زمین اندلس کے لیے ممکن نہ ہو.یہ کوئی خواب نہیں ہے.یہ قصے نہیں ہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ اسی جذبہ کے ذریعہ سے ہم نے دوبارہ سپین کو فتح کرنا ہے.اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے جو بھی منصوبہ سمجھایا تھا، اس کا آغاز کر دیا گیا ہے.اس سلسلہ میں ماؤں نے جو کردار ادا کرنا ہے، بہنوں اور بیٹیوں نے جو کر دار ادا کرنا ہے، وہ آپ کا کام ہے کہ اس کو سمجھیں اور پوری قوت اور عزم کہ ساتھ اس کو جاری کریں.منصوبہ یہ ہے کہ سپین میں مبلغین پر اکتفا نہ کیا جائے.بلکہ اطراف عالم سے احباب چھٹیوں کے ایام سپین میں گزاریں اور تبلیغی مہم میں حصہ لیں.کیونکہ صرف ایک یا دو مبلغ حقیقتا نا کافی ہیں.اگران کے اوپر بناء کر کے ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے اندلس کی سرزمین کو فتح کرنے کی بنیادیں رکھ دی ہیں تو یہ ایک دیوانے کا خواب ہے.اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.پین کے وسیع علاقے میں عیسائیت کا گہرا 247
خطاب فرمودہ 21 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اثر ہے.جہاں عیسائیت کا اثر نہیں، وہاں اشتراکیت نے مضبوطی سے پنجے گاڑ رکھے ہیں.ایسی صورت میں یہ تصور کر لینا کہ ایک، دو، تین تو کیا تین سو مبلغ بھی کافی ہو سکتے ہیں محض ایک بچگانہ خیال ہے.اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.جبکہ وسائل کا یہ حال ہو کہ ہمارے پاس ساری دنیا میں تین سو مبلغ نہیں.اس طرح وہاں ایک مسجد بنادینا اور یہ خیال کر لینا کہ ہم نے چین کو دوبارہ فتح کر لیا ہے.یہ بھی ایک رومانوی تصور کہلا سکتا ہے، حقیقت سے اس کا بھی کوئی تعلق نہیں.مسجدیں تو وہاں آج تک ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں.بنانے والوں نے وہاں اتنی مسجدیں بنائیں کہ بعد میں گرجوں میں تبدیل کرنے والے آج تک تبدیل کرتے رہے، پھر بھی مساجد باقی رہ گئیں.گویا سات سو سال تک مسجدوں کو گر جا گھروں میں تبدیل کرنے والے اپنا زور لگاتے رہے اور ہر سال کچھ مسجدمیں گرجا گھروں میں تبدیل ہوتی رہیں.لیکن پھر بھی آج ہزاروں مسجدیں باقی ہیں، جو نمازیوں کو بلا رہی ہیں.ان مسجدوں کے ہوتے ہوئے بھی پین کی سرزمین سے اسلام کا نام مٹ گیا.اس لیے مسجد میں اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں، جب تک ان مسجدوں کو زندہ کرنے والے موجود نہ ہوں.اور مسجد میں عباد الرحمان سے زندہ ہوا کرتی ہیں، خدا کی راہ میں آنسو بہانے والوں سے زندہ ہوا کرتی ہیں، ان پیشانیوں سے زندہ ہوتی ہیں، جو خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہیں، مسجد میں ان دلوں سے زندہ ہوتی ہیں، جو خدا کے حضور خشیت سے پارہ پارہ ہور ہے ہوتے ہیں.پس عبادالرحمان پیدا کرنے پڑیں گے.اور پہین میں غلبہ اسلام کی مہم تیار کرنی ہوگی.اس غرض سے خصوصاً یورپ میں، میں نے یہ تحریک کی تھی کہ لوگ اپنے شوق سے ہر سال چھٹیاں گزار نے باہر جاتے ہیں.اور سپین میں بھی بڑی کثرت سے لوگ جاتے ہیں.کیوں نہ وہ خالصہ اس نیت سے وہاں جائیں کہ انہوں نے چین کی سرزمین کو اسلام کے لیے فتح کرنا ہے.لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تیاری کریں، زبان سیکھنا شروع کریں، بچوں کہ دلوں میں ولولے پیدا کریں.بڑے بھی جائیں ، چھوٹے بھی جائیں.مرد بھی جائیں عورتیں بھی جائیں.لوگوں سے تعلقات قائم کریں.اور پھر جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ، وہ بحیثیت احمدی مسلمان اپنی خدمات مسجد بشارت سپین میں واقع مشن کے سپرد کر دیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یورپ کی جماعتوں نے بڑی گرمجوشی سے اس سکیم پر لبیک کہا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ بہت جلد اس پر عمل شروع ہو جائے گا.پاکستان سے بھی بعض احباب نے اپنے نام پیش کیے ہیں کہ وہ اپنی چھٹیاں انشا اللہ تعالیٰ اپنے خرچ پر چین میں جا کر 248
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 21 نومبر 1982ء گزاریں گے.اس سے مجھے خیال آیا کہ یہاں بھی خدا تعالیٰ نے جن دوستوں کو توفیق عطا فرمائی ہے، ان تک بھی اس تحریک کے فیض کو عام کر دینا چاہیے.اس وقت میرے سامنے احمدی خواتین بیٹھی ہیں، ان سے بھی میں کہتا ہوں کہ ایسی احمدی خواتین، جن کے خاوند یا بیٹے یا بھائی توفیق رکھتے ہوں، ان کو تیار کریں، ان کے دلوں میں ولولے پیدا کریں.اگر وہ تیار ہو جائیں تو وہ خود بھی ساتھ جائیں.کیونکہ سپین میں صرف مرد کافی نہیں ہوں گے.وہاں کا معاشرہ، ایک ایسا معاشرہ ہے، جہاں عورت مرد کے پہلو بہ پہلو چلتی ہے.اگر آپ بیک وقت مردوں کے ساتھ عورتوں کے دل بھی نہ جیتیں تو ایک غیر متوازن سوسائٹی قائم ہو جاتی ہے، جس کے بعد میں بڑے نقصانات پہنچتے ہیں.چنانچہ وہ غیر متوازن سوسائٹی، جس میں مرد زیادہ احمدی ہو رہے ہوں اور عورتیں پیچھے رہ رہی ہوں، اس کے بعض دفعہ اتنے بداثرات ظاہر ہوتے ہیں کہ اگلی نسلیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں.چنانچہ میرے ذہن میں ایسی مثالیں ہیں، انگلستان میں بھی اور دیگر ممالک میں بھی، جہاں مردوں کو تبلیغ کی گئی اور عورتیں محروم رہیں.اس کے نتیجہ میں ہماری ساری عمر کی کمائی انگلی نسل کی صورت میں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی.ان کے والد بھی بڑی حسرت سے دیکھتے رہے لیکن ان کی کوئی پیش نہیں گئی.اس لیے ضرورت ہے کہ عورتیں بھی اس تحریک میں بھر پور حصہ لیں.عورتیں عورتوں میں تبلیغ کریں، ان کے ساتھ تعلقات بڑھائیں، اپنے نیک اثرات ان پر مرتب کریں.پس میں چاہتا ہوں کہ پوری کی پوری قوم ایک نئے ولولے کے ساتھ اس نیک کام میں مصروف ہو جائے.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.اس تحریک کا دوسرا پہلودعا سے تعلق رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے دعا میں بڑی طاقت رکھی ہے.دعا میں غیر معمولی تبدیلی کا مادہ پایا جاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے ہمارے سامنے دعا کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل مسب الاسباب بھی دعا ہی ہے.انسان بظاہر یہ سمجھتا ہے کہ اسباب کی دنیا الگ ہے اور دعا کی دنیا الگ ہے.لیکن حضرت مسیح موعود نے حکمت کا یہ نکتہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اسباب کی توفیق بھی میسر نہیں آتی، جب تک دعا کی توفیق میسر نہ آئے.چنانچہ سورۃ فاتحہ ہی سے استنباط کرتے ہوئے آپ نے ہماری توجہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا کی طرف مبذول کروائی.آپ نے فرمایا، ایاک نعبد (اے خدا! ہم تیری عبادت کرتے ہیں.) کی دعا مکمل نہیں ہوتی ، جب تک ایاک نستعین کی پکار اس کے ساتھ شامل نہ ہو جائے.249
خطاب فرمودہ 21 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کہ مدد بھی ہم تجھ سے مانگتے ہیں.دراصل ایاک نعبد کا دعوی ایک بہت بڑا دعوی ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں، تیری ہی عبادت کریں گے، تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے تو یہ اتنا بڑا دعوی ہے کہ گویا انسان کی ساری زندگی پر حاوی ہو جاتا ہے.یہ اتنا بڑا دعوی ہے کہ اس سے ایک عارف باللہ کے دل پر خوف طاری ہو جاتا ہے.وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے، میں اس کو کیسے نباہوں گا؟ میں چھوٹے چھوٹے جو وعدے کر لیتا ہوں ، ان کو تو نباہ نہیں سکتا، اپنے رب سے، اپنے خالق سے اتنا بڑا عہد کہ میں تیرا غلام بن رہا ہوں، کس طرح پورا کروں گا ؟ کیونکہ عبد کا مطلب صرف نماز پڑھنے والا یعنی عبادت کرنے والا نہیں.عبد کا مطلب ہے کہ انسان اپنے سارے وجود کو خدا کے حضور پیش کرے.پس ایاک نعبد کا یہ معنی ہے کہ انسان یہ دعا کرے کہ اے میرے رب ! آج میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں کلیۂ تیرا ہو گیا.میرا اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہا.نہ میرا جسم باقی رہا، نہ میری جان.نہ میرادل باقی رہا، نہ میرا دماغ.میری سب دولتیں تیرے حضور پیش ہیں.میرے مکان ، میرے کپڑے ہر چیز تیری ہوگئی.میرے بچے ، میرے بھائی ، میرے بیٹے غرض جو کچھ بھی تھا، میں نے تیرے حضور پیش کر دیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں یہ توجہ دلاتے ہیں کہ جب انسان یہ دعوی کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک لرزہ طاری ہو جاتا ہے.ہر سوچنے والا انسان اس خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میرے بس میں تو کچھ بھی نہیں ہے.یہاں تک کہ اگر خدا اسے توفیق نہ دے تو اس میں عزم کرنے کی بھی طاقت پیدا بھی نہیں ہوتی.اس لیے وہ دعا کرتا ہے، اے خدا! اگر تو تو فیق عطا فرمائے تو میری عبادت قائم رہے گی.اگر تیری طرف سے توفیق نصیب نہیں ہوگی تو میں اپنی خواہش کے باوجود تیرا بندہ نہیں بن سکوں گا.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ دنیا کے تمام اسباب کو حرکت دینے کی یہی چابی ہے.دعاؤں کے ذریعہ اسباب حرکت میں آتے ہیں.اور دعاؤں کے ذریعہ انسان کو ہر چیز کی توفیق عطا ہوتی ہے.پس یہ کام جس کو میں نے دوسرے نمبر پر رکھا ہے، بظاہر بہت چھوٹا ہے اور گھر بیٹھے ہوسکتا ہے.دن کو بھی ہوسکتا ہے، رات کو بھی ہوسکتا ہے.بستر پر لیٹے لیٹے بھی ہو سکتا ہے.لیکن اتنا عظیم کام ہے اور جماعتی زندگی میں اتنا اہم کام ہے کہ ہمارے دوسرے کام اس پر منحصر ہیں.پس دعاؤں کی طرف توجہ دیں اور بڑی کثرت کے ساتھ دعائیں کریں.اور دعائیں کرنا چھوڑیں نہیں.آپ کو جب بھی خدا توفیق عطا فرمائے ، جب بھی دلوں میں حرکت پیدا ہو، اس وقت دعا کریں کہ اے اللہ ! ہم نے تیری خاطر، محض تیری رضا کی خاطر سپین میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی.حقیقت میں وہ علاقہ روحانیت کے لحاظ سے ایک ویرانہ کی 250
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 21 نومبر 1982ء طرح ہے.مکہ کے علاقہ کی اس وقت حالت جب ابراہیم نے وہاں خدا کے ایک گھر کی بنیاد رکھی تھی محض ایک بے آب و گیاہ ویرانہ کی تھی.جس طرح وہ دنیا کے لحاظ سے بنجر اور بے آب و گیاہ سر زمین نظر آتی تھی، اسی طرح سپین کا علاقہ آج روحانی لحاظ سے بنجر دکھائی دیتا ہے.تو جس طرح حضرت ابراہیم نے کامل تو کل کے ساتھ بڑی گریہ وزاری کے ساتھ اور بڑی انکساری اور عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور دعا کی کہ اے خدا! اس علاقہ کو ایک امن والے شہر میں تبدیل فرما دے، ہمیں اس طرح دعاؤں کی ضرورت ہے.تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسی دعائیں نا مقبول نہیں ہوا کرتی.حضرت ابراہیم کو کچھ اسباب بھی میسر نہ تھے.ایک بیوی تھی اور ایک بچہ انہوں نے یہ دونوں خدا کے حضور پیش کر دیئے.کون کہ سکتا ہے، کون سی عقل اس بات کو تسلیم کر سکتی ہے کہ ایک بے آب و گیاہ صحرا میں انسان اپنی بیوی اور چھوٹا بچہ چھوڑ کر چلا جائے اور کہے کہ میں نے اس سارے علاقہ کی فتح کے سامان کر دیئے ہیں؟ جہاں پینے کو پانی نہ ہو، بچہ پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہا ہو اور ماں بے قرار ہو کر پہاڑیوں کے درمیان دوڑے اور کہے اے خدا! میں کیا کروں؟ میرا کچھ بس نہیں چلتا، میرا بچہ میری آنکھوں کے سامنے پیاس سے مر رہا ہے.یہی اسباب مہیا تھے ناں؟ اس سے زیادہ تو کچھ نہ تھے.پھر وہ اسباب کہاں سے آئے ، جنہوں نے اس علاقہ کی کایا پلٹ دی ؟ یہ اسی دعا کا کرشمہ تھا، جو خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم کے دل سے بلند ہو رہی تھی.اسی دعا کی قبولیت نے سارے اسباب مہیا کر دے.اسی نے قافلوں کے رخ اس طرف پھیر دیئے ، اسی نے ایڑیوں کے نیچے سے پانی بہادیا اور اسی نے وہاں بلد امین پیدا کر دیا.جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی.پس دعا عظیم الشان طاقت کا ایک سرچشمہ ہے.اس سے غافل رہ کر انسان بسا اوقات بہت سی نیکیوں اور بہت سے پھلوں سے محروم رہ جاتا ہے.پس آپ محض رسمی دعاؤں پر اکتفا نہ کریں.ایسی دعا کریں، جو دل کی گہرائیوں سے نکلے.اور جب نکلے تو زندگی پر ایک لرزہ طاری کر دے.اور یہ محسوس ہو جائے کہ ہاں یہ مقبول دعا دل سے اٹھ رہی ہے.اسی لیے سپین میں جب مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ کس طرح تبدیلی کریں گے؟ میں نے کہا، میرے پاس آنسوں کے سوا کچھ نہیں.تمہاری نظر میں ان کی قیمت کچھ نہیں ہوگی مگر ہمارے خالق و مالک کی نظر میں یہ آنسو ہیرے، جواہرات اور موتیوں سے بھی بہت زیادہ قیمتی ہیں.میں نے کہا، ہم نے یہ پروگرام بنایا ہے کہ ہم گھر گھر پہنچیں گے اور ان کے دروازے کھٹکھٹائیں گے اور خدا سے دعا کریں گے کہ یہ 251
خطاب فرمودہ 21 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک دروازوں کی دستک ، دلوں کی دستک میں تبدیل ہو جائے.یہ دستک دلوں میں ایک شور بپا کر دے.ہم خدا کے حضور روئیں گے اور آنسو بہائیں گے.اور یقین رکھتے ہیں کہ آنسووں کے ہر قطرہ سے اللہ تعالی محض الشان روحانی وجود پیدا کرے گا.پس یہ سرمایہ ہے، جو ہم لے کر آئے ہیں.تم اس کا مقابلہ کر سکتے ہو تو کر لو تمہارے لیے یہ ایک چیلنج ہے.اور یہ چیلنج اتنا قوی، اتنا مضبوط ، اتنا یقینی ہے کہ تمہاری ساری طاقتیں ان آنسوؤں کے مقابل پر نا کام ہو جائیں گی.ہم خلوص نیت کے ساتھ تمہارے دلوں کے جب دروازے کھٹکھٹائیں گے تو لازماً تمہارے دل بیدار ہوں گے.اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دلے جائیں گے.اور کوئی ان کو پھر بند نہیں کر سکے گا.وه پس دعا کی یہی وہ طاقت ہے، جس پر ہماری ساری بناء ہے.اس لیے مستورات کو بھی چاہیئے کہ وہ کثرت سے دعا ئیں کریں.مردوں کے مقابل پر ان کے دل پہلے ہی خدا نے نرم بنائے ہوتے ہیں، اس لحاظ سے اگر سوچیں تو عورت کے لیے دعا کے زیادہ مواقع مہیا ہوتے ہیں.کیونکہ وہ نسبتا زیادہ نرم دل بنائی گی ہے.اور دعا کے لیے دل کی نرمی ایک بہت ہی ضروری چیز ہے.کیونکہ منہ سے نکلی ہوئی دعا کی تو کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی.دعا تو وہ ہوتی ہے، جو دل کی گہرائی سے اٹھے.پس اس طرح دعائیں کریں، جس طرح قرآن کریم دعا کے نقشے کھینچتا ہے.اور کہتا ہے کہ عباد الرحمان ایسی نمازیں پڑھتے ہیں کہ خاشعین ہو جاتے ہیں.خدا کے حضور روتے اور گڑگڑاتے ہوئے جھک جاتے ہیں.ایسے لوگوں کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں.پس بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.ہم تبلیغ واشاعت اسلام کا جو پروگرام بنائیں ، ادنی اور حقیر سہی ، بظاہر بہت معمولی سہی ، دنیا کی نظر میں خواہ اس کی کوئی حیثیت نہ ہو مگر خدا کی خاطر ہم جو پروگرام بھی بنائیں، اللہ تعالیٰ کی رحمت اسے قبول فرمائے.اور ہماری دعا ئیں بارگاہ الہی میں اس طرح پہنچیں کہ ایک ماں کی آہ ساری امت کی آہ میں تبدیل ہو جائے.اور وہ آہیں خدا قبول کرے اور با غیرت بیٹے ہمیں عطا کرے، جو اپنی جان، اپنا مال حتی کہ اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں لٹانے کے لئے تیار ہو جائیں.اور پھر سر زمین اندلس میں پہنچیں اور اپنے خون سے اس مردہ زمین کی آبیاری کریں.محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے زندگی بخش جام ان کو پلائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق فرمائے“.مطبوعه روزنامه الفضل 15 دسمبر 1982ء) 252
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام فرمودہ 24 نومبر 1982ء غلبہ اسلام کی مہم آپ سے مالی جہاد کا مطالبہ کرتی ہے پیغام فرمودہ 24 نومبر 1982ء میرے عزیز بھائیو اور بہنو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں ادائیگیوں کا اس وقت نواں مرحلہ ہے، جو 28 فروری 1983ء کوختم ہوگا.دنیا کے مختلف ممالک کے مخلصین جماعت نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور اب ان کی مرحلہ وار ادائیگی ہورہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مخلصین کے اموال ونفوس میں برکت ڈالے اور وہ اپنی تابندہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش از پیش قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں.غلبہ اسلام کی مہم آپ سے مالی جہاد کا مطالبہ کرتی ہے.اور جو لوگ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کی اولادوں کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اجر عظیم عطا فرماتا ہے.میں عالمگیر جماعت احمدیہ کے تمام عہدیداران کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس امر کا اہتمام کریں کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ کے وعدوں اور وصولی کا جائزہ لیں کہ کیا فردا فردا اور اجتماعی طور پر وعدہ کا 9/15 حصہ ادا ہو چکا ہے یا نہیں؟ فردا فرد وعدہ کنندگان سے رابطہ کریں.جہاں کمی ہے، اس کے ازالہ کے لیے بھر پور کوشش کریں.اسی طرح جو نو جوان صد سالہ جوبلی منصوبہ کے اجراء کے بعد کسی وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے برسر روزگار ہوئے ہوں، ان سے وعدہ لے کر ان کو بھی اس قربانی میں شامل کریں.اور جن دوستوں کو اللہ تعالی نے مزید فراخی اور وسعت عطا فرمائی ہو، ان کو بھی فردا فردا توجہ دلائی جائے کہ وہ اپنے وعدوں پر نظر ثانی کریں اور اللہ تعالیٰ نے ان پر جو مزید فضل نازل فرمائے ہیں، وہ اپنے وعدوں کو بڑھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے.آمین اللهم آمين.والسلام خاکسار مرزا طاہر خليفة المسيح الرابع مؤرخ 24/11/82 مطبوعه روزنامه الفضل 02 دسمبر 1982ء) | 253
تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد ششم خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء دنیا کی کوئی طاقت سپین کے بارے میں خدا کے فیصلے کو بدل نہیں سکے گی خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کی سفر چین سے کامیاب مراجعت پر صوبہ پنجاب کے امراء اضلاع نے حضور کے اعزاز ایک استقبالیہ دیا.اس موقع پر حضور رحمہ اللہ نے درج ذیل خطاب فرمایا:.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے اس عاجز کو وہ کام کرنے کی توفیق بخشی، جن کا کچھ تذکرہ مختصراً اس سپاسنامہ میں کیا گیا ہے، جو مکرم مرزا عبد الحق صاحب نے پڑھا ہے.یہ خلاصہ ہے، ایک بہت لمبی اور تفصیلی داستان کا.جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مختلف ممالک کے مختلف طبقات میں اسلام کا پیغام، جس احسن رنگ میں، میں سمجھتا تھا، اس احسن رنگ میں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پیش کرنے کی سعادت بخشی.الحمد للہ علی ذالک تمام یورپین ممالک کے واقعات کا بیان کرنا تو بہت مشکل ہے.کیونکہ یہ تو ایک بہت ہی لمبی داستان ہے.جو کچھ ٹیپ ریکارڈنگز وہاں سے آئی ہیں، وہی اتنی لمبی ہیں کہ بعض دفعہ سوال و جواب کی ایک ایک مجلس اڑھائی اڑھائی، تین تین گھنٹے تک جاری رہی.اس کے بعد پھر انفرادی طور پر ملنے والے اپنے رنگ میں سوال کرتے رہے.لیکن یہ ایسی گفتگو تھی، جو ریکارڈ میں نہ آسکی.ایسی گفتگو کی مجالس بعض اوقات چار چار، پانچ پانچ گھنٹے تک مسلسل جاری رہیں.اور خدا تعالیٰ کے فضل کا خاص پہلو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ قومیں بہت مصروف ہیں اور معین اوقات سے آگے پیچھے جانا ، ان کی عادات میں داخل نہیں لیکن جب تقریبات کے اختتام کا اعلان کیا جاتا تھا اور ہماری طرف سے یہ اعلان ہوتا تھا کہ بہت سے دوست شاید اپنی تہذیب اور اخلاق حسنہ کے نتیجہ میں اٹھ کر جانا پسند نہ کرتے ہوں، ان کو ہماری طرف سے اجازت ہے.جو دوست تھک گئے ہوں یا جنہیں اور کام ہوں، وہ بے شک تشریف لے جائیں.مگر سوائے اکا دکا کے اور وہ بڑی معذرت کے ساتھ اپنی وجہ بیان کر کے رخصت ہوتا تھا.مگر بھاری اکثریت وہیں بیٹھی رہتی تھی اور اسلام کے مختلف پہلوؤں پر ، دنیا کی مشکلات اور عالمی مسائل پر مختلف رنگوں میں 255
خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک مسلسل سوال کرتے رہتے تھے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے، یہ ایک بہت ہی طویل داستان ہے.میں اس موقع پر صرف سپین سے متعلق کچھ بیان کروں گا.پیشتر اس کے کہ میں سپین میں مسجد بشارت کی افتتاحی تقریب کے متعلق کچھ کہوں، میں سمجھتا ہوں کہ سپین کی اسلامی تاریخ کا پس منظر بیان کرنا بہت ضروری ہے.یہ تاریخ بھی بہت طویل ہے.آٹھ صدیوں پر پھیلی پڑی ہے.اور اس وقت یہ بھی ممکن نہیں کہ ساری تاریخ کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے.اس لئے میں اس کے آخری حصہ سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.گیارہویں صدی عیسوی، وہ صدی ہے، جس میں مسلمان حکومت تقریباً تین سو سال سپین کے کے بیشتر حصہ پر قائم رہنے کے بعد انحطاط پذیر ہوئی.اور اس انحطاط کی وجہ ان کی باہمی لڑائیاں تھیں.مختلف رؤساء اور امراء اپنی اپنی انانیت میں مبتلا ہو گئے اور اسلام کے مفادات کو نظر انداز کر دیا.چنانچہ اس حالت میں پھر شمال کی جانب سے عیسائیوں کی لہریں اٹھیں اور ایک کے بعد دوسری لہر نے کچھ نہ کچھ حصہ مسلمانوں سے ہتھیا نا شروع کر دیا.سب سے پہلے فرڈی ننڈ اول نے، جو گیارہویں صدی میں سپین کی تاریخ میں خاص شہرت رکھتا ہے، شمال مغربی علاقہ مسلمانوں سے ہتھیا لیا.پھر مشرق کی طرف سے، جہاں فرانس کی جنوب مشرقی سرحد پین سے ملتی ہے، یعنی Pyrenees ( پیرا نیز ) کے علاقہ میں مختلف عیسائی ممالک کے جتھوں نے حملے کر کے وہاں سے بھی کوئی نہ کوئی ٹکڑا مسلمانوں سے چھینا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا.اگر چہ بسا اوقات کچھ تھوڑی سی سرزمین مسلمان واپس لینے میں کامیاب بھی ہو جاتے رہے لیکن عمومی رحجان یہی نظر آتا ہے کہ عیسائی شمال سے جنوب کی طرف مسلسل بڑھتے چلے گئے.یہاں تک کہ قرطبہ کی عظیم الشان سلطنت پر بھی قابض ہو گئے.قرطبہ پر قبضہ کرنے میں عیسائیوں کو کئی سو سال لگے ہیں.تمام عیسائی مؤرخین یہ لکھتے ہیں کہ اس انحطاط کے وقت بھی مسلمانوں کی طاقت اتنی عظیم تھی اور جنگ کے وقت وہ اس مہارت کے ساتھ لڑتے اور اس قربانی کے جذبہ کے ساتھ اپنی جانیں فدا کرتے تھے کہ ان سے عیسائیوں کا اپنے پرانے ملک کو چھینا کوئی آسان کام نہیں تھا.اور وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ بلاشبہ مسلمانوں کی شکست کی تمام تر ذمہ داری ہمیشہ غداروں پر عائد ہوتی رہی ہے.غداری ہی مسلمانوں کی پسپائی کا سبب ہمیشہ بنتی رہی ہے.چنانچہ ان میں سے کوئی نہ کوئی غدار پیدا ہوتا رہا، کوئی نہ کوئی حاسد انہی میں سے ایسا اٹھ کھڑا ہوا ، جس نے عیسائیوں کے ساتھ ساز باز کی اور مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچایا.اگر یہ نہ ہوتا تو عیسائی مؤرخین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سپین کو از سر نو مسلمانوں سے چھین لینا، عیسائی طاقتوں کے بس کا کام نہ تھا.256
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء 271 ہجری یعنی 884ء وہ سال ہے، جو مسلمانوں کی تاریخ میں ایک پہلو سے انتہائی دردناک اور تاریک سال ہے.یہ اس کی تاریکی ہی تھی، جس نے بعد میں سپین پر سائے ڈالے.یہ وہ سال ہے، جب پوپ نے سپین کے مسلمان بادشاہ سے مل کر بغداد کی مرکزی حکومت کے خلاف ساز باز کی اور دوسری طرف وہ حسد، جو مرکزی حکومت کو اندلس کی عظیم الشان حکومت سے تھا، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیصر روم نے بغداد کی حکومت سے یہ معاہدہ کر لیا کہ جب ہم چین کے مسلمانوں سے لڑیں تو تم دخل نہیں دو گے اور یہ معاملہ چلتے چلتے یہاں تک جاپہنچا کہ بالآخر قرطبہ کا سارا علاقہ عیسائیوں نے ہتھیا لیا اور پھر ملاگا کی طرف بڑھنا شروع ہوئے.ملاگا سپین کے جنوبی حصہ کا ایک صوبہ ہے.اور جبرالٹر ( جبل الطارق) بھی اسی کے قریب واقع ہے.ملاگا کی طرف جب عیسائیوں نے پیش قدمی کی تو اس وقت اندلوسیہ کی سب سے طاقتور حکومت غرناطہ میں قائم تھی.اور عیسائی فرڈی نینڈ پنجم کے ماتحت اس علاقے میں پیش قدمی کر رہے تھے.یہ فرڈی منڈ وہ ہے، جس کا نام مسلمانوں نے اکثر ناولوں میں پڑھا ہوگا.ازابیلا ( Isabella) اور فرڈی ننڈ کے قصے صدیوں سے مسلمانوں میں رائج ہیں اور ان کو پڑھ پڑھ کر ہماری کئی نسلیں آنسو بہاتی رہیں.یہ وہ ملکہ اور بادشاہ ہیں ، جنہوں نے عیسائی طاقتوں کو مجتمع کیا اور انگلستان، آسٹریا، فرانس اور دیگر ممالک سے فوجیں طلب کر کے اپنے آپ کو اس مقصد پر وقف کئے رکھا کہ سازشوں سے، رشوت ستانی کے ذریعہ، دھوکہ دہی کے ذریعہ اور جبر کے ذریعہ ایک ایک انچ زمین مسلمانوں سے چھین لینی ہے.چنانچہ ملاگا پر حملہ سے پہلے انہوں نے اس وقت کے مسلمان بادشاہ ابوالحسن کے بیٹے ابو عبد اللہ سے ساز باز کی.اس بیٹے کو تاریخ دان سپین کا آخری مسلمان بادشاہ کہتے ہیں.یہ ایسا ظالم اور سفاک تھا کہ اس نے اپنے باپ کے خلاف اور مسلمان حکومت کی خلاف از ابیلا اور فرڈی ننڈ کا مہمان بن کر ان سے ایک معاہدہ کیا.اور وہ معاہدہ یہ تھا کہ تم مسلمان سلطنتیں ایک کے بعد دوسری ہضم کرتے چلے جاؤ کیونکہ وہ میری دشمن ہیں اور مجھے طاقت میں آتا دیکھنا پسند نہیں کرتیں.پس تم مسلمان حکومتوں پر حملے کرو، میں یہ کوشش کروں گا کہ غرناطہ کی حکومت اس میں دخل اندازی نہ کرے.چنانچہ ابوعبداللہ نے اپنے باپ ابوالحسن کے خلاف سب سے پہلے بغاوت کا علم بلند کیا.جس میں اس کی ملکہ یعنی ابو عبد اللہ کی ماں عائشہ کا بہت بڑا دخل تھا.عائشہ وہ مسلمان ملکہ تھی ، جس کا مسلمان قبائل میں بڑا اثر و رسوخ تھا.ابوالحسن کی دوسری بیوی ملکہ شریا تھی ، جو عیسائی تھی.جس کو نہ عائشہ پسند کرتی تھی اور نہ مسلمان قبائل پسند کرتے تھے.اس بات نے ابوعبداللہ کے لئے زمین ہموار کر دی 257
خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اور اس نے سپین کا جنوب مشرقی حصہ اپنے باپ سے ہتھیا لیا.اس کے بعد بھی اس نے بار بار کوشش کی کہ وہ سپین کی پوری حکومت پر قابض ہو جائے.لیکن ابوالحسن زیادہ سمجھدار اور اس بغاوت کے باوجود بھی اتنا طاقتور تھا کہ اس نے قبضہ نہیں کرنے دیا.اس زمانہ میں ابوالحسن کو سب سے زیادہ مضبوط بازو اپنے بھائی کی شکل میں ملا.جس کا نام الزغل بیان کیا جاتا ہے.یہ بہت ہی مخلص مسلمان اور قابل جرنیل تھا.ابوالحسن نے اپنے اس بھائی کی بدولت ابوعبداللہ کی ہر سازش کوناکام بنایا اور اس کے مقابل پر ہمیشہ سینہ سپر رہا لیکن ابوالحسن کی وفات کے بعد الزغل کے لئے تنہا مقابلہ کرنامشکل ہو گیا.خصوصاً اس لئے بھی کہ جب وہ کبھی عیسائی حملہ کی خبر پا تا تھا، فوج کا ایک بہت بڑا دستہ لے کر ان مسلمانوں کی مدد کے لئے نکل کھڑا ہوتا تھا، جن کو عیسائیوں نے گھیر رکھا ہوتا تھا.وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ پیچھے اس کے بھتیجے کو سازشوں کا موقع مل جائے گا.چنانچہ اس کا بار بار باہر جانا اور عیسائیوں سے لڑنا، بھتیجے کو فائدہ دیتارہا اور وہ اپنی حکومت مضبوط بناتا رہا.یہاں تک کہ جب عیسائیوں نے ملاگا پر سب سے خطر ناک حملہ کی تیاری کی اور الزغل فوج لے کر روانہ ہوا تو اس کے اس بھتیجے نے عیسائیوں کو اس کی خبر دے دی.انہوں نے اس کی فوج پر شب خون مار اور ملاگا پہنچنے سے پہلے پہلے اس کو تتر بتر کر دیا.الزغل اپنی بچی کچھی فوج کو لے کر واپس غرناطہ گیا تو اس کے بھتیجے ابو عبد اللہ نے غرناطہ کے دروازے ان پر یہ کہہ کر بند کر دیئے کہ یہ غدار ہیں.عیسائیوں کے ساتھ مل کر عمد ا میدان چھوڑ کر بھاگے ہیں.چنانچہ اس پر الزغل کو مجبوراً غرناطہ کے مرکزی علاقہ سے ہٹ کر سرا نیواڈا کے پہاڑی علاقوں میں پناہ لینا پڑی.یہ وہاں پھر بھی فوجیں اکٹھی کرتا رہا اور جو بھی بچے کھچے غیرت مند مسلمان تھے ، ان کو اپنے گرد اکٹھا کر کے عیسائیوں پر حملوں کا جواب دیتا رہا.پھر جب ملاگا پر آخری حملہ ہوا تو یہ اس وقت بھی وہاں مسلمانوں کی مدد کو جا پہنچا.لیکن ایک تو اس کی فوج تھوڑی تھی، دوسرے اس مرتبہ ابو عبداللہ کی فوج نے ان پر حملہ کر کے ان کو تتر بتر کر دیا تھا.اس لئے وہ ناکام ہو کر پھر پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا.ملاگا پر عیسائیوں کے قبضہ کی داستان بہت ہی درد ناک ہے.وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑا ہی باغیرت جرنیل عطا کیا.لیکن بدقسمتی سے ایک تو چونکہ باہر سے کوئی مدد نہ پہنچی، دوسرے محاصرہ اتناز بر دست اور طویل تھا کہ بالآخر جب شہر فاقوں سے تنگ آ گیا تو ان کو اپنے دروازے کھول دینے پڑے.اس وقت بھی اس مسلمان جرنیل نے قوم کے سامنے آخری احتجاج کیا اور کہا کہ یہ حرکت نہ کرو کیونکہ اس کے بعد تمہارے لئے پھر کوئی امن نہیں ہوگا.لیکن بھوک سے نڈھال شہری مجبور ہو گئے.انہوں نے قلعہ کے دروازے کھول دیئے.چنانچہ رو سا سمیت سب لوگوں کو غلام اور لونڈیاں بنالیا گیا.ان کی 258
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء ساری جائیداد میں ضبط کر لی گئیں، وہ تنگے بدن، ننگے پاؤں شہروں میں گھمائے گئے.ہر قسم کی ذلت ان پر تھوپی گئی.جس کسی نے بھی غیرت کا اظہار کیا، اسے تہ تیغ کر دیا گیا.خود اس مسلمان جرنیل کو ایک (ڈنجن ) قلعہ کے تہہ خانہ میں پھینک دیا گیا.جس کے بعد اس کی کوئی خبر نہیں کہ پھر اس کے ساتھ کیا بیتی؟ ملاگا کی فتح کے بعد فرڈی منڈ نے ابو عبد اللہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ جو معاہدہ میرا تمہارے ساتھ ہوا تھا، اس کی ساری شرطیں میں نے پوری کر دیں ہیں.اب ایک شرط تم نے بھی پوری کرنی ہے اور وہ شرط اس وقت سامنے آئی.اور وہ یہ تھی کہ جب عبداللہ کے سارے دشمنوں کو فرڈی ننڈ شکست دے دے گا تو پھر غرناطہ ابو عبد اللہ خود اس کے حوالے کر دے گا.اس معاہدہ میں صرف ایک چھوٹی سی گھنڈی تھی ، جوابو عبد اللہ نے اپنے لئے رکھی ہوئی تھی.اور وہ یہ تھی کہ ایسا کرنے میں ایک معین وقت لگے گا.وہ سمجھتا تھا کہ اس وقت کے اندرا گر مراکش اور مصر کی حکومتوں نے مسلمانوں کو کمک بھیج دی تو پھر وہ اس معاہدے کو پورا کرنے کا پابند نہیں ہوگا.اگر کسی نے کمک نہ بھیجی تو پھر وہ اپنا قلعہ لازماً عیساؤں کے سپر د کر رہے گا.ابوعبداللہ کو یہ وہم تھا.کہ اتنی کھلی غداری کے باوجود مسلمان اس کی مدد کے لئے آمادہ ہو جائیں گے.مگر اس کا یہ و ہم پورا نہ ہوا.اس نے بار بار پیغام بھیجے لیکن مصر یا مراکش سے ایک بھی سپاہی مدد کو نہ پہنچا.ادھر اس کے چا الرنل کو بالآخر جب عیسائیوں نے پکڑا تو اس کی ذاتی شرافت اور عظمت کے نتیجہ میں اس سے نسبتاً بہتر سلوک کیا گیا.وہ ایک ہی مسلمان ہے، جس کے ساتھ عیسائیوں نے کچھ حسن سلوک کیا اور اس کو اجازت دی کہ وہ اپنے علاقہ میں بادشاہ کے طور پر اپنی سلطنت کو جاری رکھے.لیکن وہ اتنا با غیرت تھا کہ وہ ان حالات میں وہاں ٹھہر نا برداشت نہ کر سکا اور اس خیال سے کہ اگر وہ خود مراکش جائے اور وہاں ان دردناک حالات کو بیان کرے تو ممکن ہے، مراکش کے مسلمان غیرت میں آکر دوبارہ سپین پر حملہ کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں.وہ ساری جائیداد چھوڑ کر مراکش چلا گیا.وہاں فیض میں اس وقت کے مسلمان بادشاہ نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ اس کی دونوں آنکھیں نکلوادیں اور اسے فقیر بنا کر گلیوں میں چھوڑ دیا.اس نے ایک چغہ پہنا اور اس پر یہ عبارت لکھوائی.ر مسلمان اندلس کا سب سے آخری بادشاہ ، جو اس بد قسمتی کا شکار ہوا.اس کے بعد وہ ساری عمر ایک فقیر کی طرح مراکش کی گلیوں میں پھرتا رہا.جہاں تک ابو عبد اللہ کا تعلق ہے، جب ایک خاصی مدت گزرگئی اور کوئی بھی اس کی مددکو نہ آیا.اس کا یہی ایک چا تھا، جو اس کے کام آسکتا تھا.اس کے ساتھ بھی اس نے ساری عمر ظلم کا سلوک روا رکھا اور غداری کرتا رہا.اور اس کے ساتھ مراکش میں جو سلوک ہوا، وہ میں نے پہلے بیان کر دیا ہے.چنانچہ جب 259
خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وقت گزر گیا اور کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آیا تو فرڈی ننڈ نے پیغام بھیجا کہ اب میں آرہا ہوں.اس وقت ابو عبداللہ کے سارے جرنیلوں نے یہ مشورہ دیا کہ اب سوائے اس کے کہ ہم ہتھیار ڈال کر اپنی جانیں بچائیں اور کوئی چارہ نہیں.صرف ایک موسیٰ تھا، جس نے بہت پر جوش تقریر کی اور کہا کہ ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ہم اپنی زمین کے ایک ایک انچ کے لئے لڑیں گے.اس نے فرڈی ننڈ کو پیغام بھجوایا کہ اگر تمہیں ہمارے ہتھیار چاہیں تو آؤزور بازو کے ساتھ ان ہتھیاروں کو لے لو.چنانچہ فرڈمنڈ چالیس ہزار فوج لے کر غرناطہ پر حملہ آور ہوا.موسیٰ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس فوج پر شب خون مارتا رہا.یہاں تک کہ فرڈی منڈ کی فوج دل چھوڑنے لگی اور قریب تھا کہ اس کا پانسہ پلٹ جاتا مگر فرڈی ننڈ کے جرنلوں نے اس کو یہ مشورہ دیا کہ اب زیادہ دیر تک محاصرہ کی صورت میں انتظار درست نہیں ہے.اس کا اب ایک ہی علاج ہے کہ اس سارے علاقہ کے اناج کے ذخائر اور پھلوں کو کلیتہ تباہ کر دیا جائے اور باہر بہٹ کر شہر بسایا جائے اور پھر مسلمانوں پر بھی شب خون مارے جائیں.چنانچہ یہ ترکیب کار گر ثابت ہوئی.غرناطہ کے ارد گرد کا سارا زرخیز علاقہ کلیتہ تباہ کر دیا گیا.غرناطہ کے قریب انہوں نے ایک نیا شہر آباد کیا، جو آج تک وہاں موجود ہے.پھر جب م فاقوں سے مجبور ہوئے تو ابو عبد اللہ نے پھر مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ تمام جرنیلوں نے مشورہ کیا کہ اب ہتھیار ڈالنے کے سوا اور کوئی صورت نہیں.ایک موسیٰ تھا، جس نے اب بھی ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا.اس نے ہتھیار سجائے ، زرہ بکتر پہنی اور گھوڑے پر سوار ہو کر ان کو الوداعی سلام کرتا ہوا عیسائی فوج پر اکیلا حملہ آور ہوا.عیسائی مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کا حملہ اتنا شدید تھا کہ عیسائی فوج کی کئی ٹولیاں اس نے بلاک کیں.بالآخر وہ گھوڑے سے گر پڑا اسے جان بخشی کی پیش گئی (انگریزی میں اسے quarter (کوارٹر) دینا کہتے ہیں) مگر اس نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور لڑتے ہوئے گھٹنوں کے بل سرکتا ایک دریا کے کنارے پہنچ گیا اور بالآخر اس خیال سے دریا میں چھلانگ لگادی کہ شاید وہ تیر کر اس کو پار کر جائے گا.لیکن اس نے بہت بھاری ذرہ بکتر پہنی ہوئی تھی، جس کے باعث وہ اسی دریا میں ڈوب گیا.تب وہ قلعہ خالی کیا گیا، جس کو الحمراء کہتے ہیں.مسلمان ابو عبد اللہ اپنی فوج کے بچے کھچے آدمیوں اور اپنی ماں کو لے کر پہاڑی علاقوں کی طرف روانہ ہوا، جن کے دوسری طرف وہ سمندر تھا، جہاں سے انہوں نے کشتیاں پکڑنی تھیں.ایک پہاڑی پر پہنچ کر اس نے اپنے گھوڑے کو ٹھہرایا اور مڑ کر دیکھا، حسرت سے اس سارے مسلمان علاقے پر نظر ڈالی اور بے اختیار رونے لگا.تب اس کی ماں نے کہا کہ او بد بخت ! اب عورتوں کی طرح ٹسوے بہاؤ اس کھوئی ہوئی عظمت پر، جس کی مردوں کی طرح تم حفاظت نہیں کر سکے.260
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء چنانچہ یہ واقعات تاریخ کا ایک حصہ بن گئے.25 نومبر 1491ء کا یہ واقعہ ہے.(The Moors in Spain By Stanlay Lane Pool) یعنی آج کے دن جب کہ مسلمانوں نے الحمراء کی چابیاں عیسائیوں کے حوالے کرنے کے معاہدہ پر دستخط کیے.اور پھر عملاً سپین سے ان کی صف پیسٹ دی گئی.یہ ایک اتفاق ہے کہ آج ہی کے دن سپین کے ذکر کے لئے یہ تقریب منعقد کی گئی.نہ اس وقت میرے ذہن میں یہ بات تھی، نہ تاریخ مقرر کرنے والوں کے ذہن میں تھی.لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے.اب ایک تو یہ پس منظر ہے چین کا، جس کا آپ کو علم ہونا چاہیئے.ایک دوسرا پس منظر کہ 1944ء میں امام جماعت احمدیہ نے سب سے پہلے ایک خطبہ جمعہ میں ان سارے واقعات کا نہایت درد انگیز رنگ میں ذکر کیا اور اپنے متبعین کو ایک غیر معمولی جوش دلایا اور کہا کہ دیکھو تمہیں موسیٰ کے خون کا ایک ایک قطرہ اپنی طرف بلا رہا ہے.تمہیں اس باغیرت ماں کی آہیں سنائی دینی چاہئیں، جس نے پہاڑ کی چوٹی پر اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ اوبے غیرت ! ردو اور ٹسوے بہاؤ.کیونکہ جس عظمت کو تم مردوں کی طرح اپنے قبضہ میں نہیں رکھ سکے ، اسے تم نے عورتوں کی طرح کھو دیا ہے.اب تمہاری قسمت میں رونے کے سوا کچھ نہیں.اس ماں کی آہوں کو سنو اور سرزمین سپین کو دوبارہ اسلام کی خاطر فتح کرنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاؤ.(67.The Moors In Spain P میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ، اس پہاڑی کا نام اسپینش میں Elul Sespiro Delmoro یعنی مسلمان بادشاہ کی آخری آہ دیا گیا ہے.) جب جماعت کے سامنے یہ تحریک رکھی گئی تو یہ وہ دن تھے، جب سپین کی حکومت اتنی منتشہد تھی اور رومن کیتھو سلزم (Roman Catholicism) کا اتنا مضبوط غلبہ تھا کہ دوسرے عیسائی فرقوں کو بھی وہاں تبلیغ کی اجازت نہیں تھی.ایسی صورت میں اس بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ سپین کی حکومت ایک مسلمان مبلغ کو ویزہ دے اور اسے اسلام کی تبلیغ کی اجازت دے دے.چنانچہ آپ نے فرمایا: مجھے ایسے مبلغ کی ضرورت نہیں، جس کو ہم باقاعدہ خرچ بھی دیں اور جس کی نگہداشت کریں اور وہاں جا کر با قاعدہ ایک قانون کے مطابق وہ اپنی زندگی گزارتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کر سکے.مجھے تو دیوانے چاہئیں.پین کے لئے مجھے ایسا آدمی چاہئے ، جس کو ہم ایک پائی بھی نہیں دیں گے اور نہ دے سکتے ہیں، جس کی حفاظت کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوگی.چنانچہ جب یہ اعلان ہوا تو ہر واقف زندگی کی اس وقت یہ تمنا تھی کہ میں ہی اس کام کے لئے چنا جاؤں.اس خطبہ کے بعد اور بھی بہت سے ملکوں کے لئے واقفین 261
خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک زندگی متعین کئے گئے.ان واقفین زندگی میں ایک نوجوان کرم الہی ظفر بھی تھا.وہ شخص بڑے اخلاص کے ساتھ اپنی زندگی کا نذرانہ لے کر حاضر ہوا تھا.جب یہ اعلان ہوئے کہ کس کو کہاں مقرر کیا گیا ہے تو کرم الہی ظفر کا نام کسی تقرری میں شامل نہیں تھا.وہ بڑے درد کے ساتھ خون ہوا دل لے کر واپس لوٹ رہا تھا کہ کاش! میری قربانی بھی قبول ہوتی.کاش! مجھے بھی اسلام کے لئے کسی سرزمین کو فتح کرنے کے لئے مقرر کیا جاتا کہ اتنے میں چند اور واقف دوست اس کو دوڑ کر ملے اور گلے لگایا اور مبارکباد دینی شروع کر دی.اس نے کہا: میر اول تو خون ہو رہا ہے، تم مجھے کس بات کی مبارک دیتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم تمہیں اس بات کی مبارکباد دیتے ہیں کہ تمام محاذوں پر جہاں اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا جارہا ہے، سب سے مشکل محاذ تمہارے سپرد کیا گیا ہے.مگر غلطی سے تمہیں یہ پیغام نہیں مل سکا.حضرت صاحب نے بعد میں پیغام بھجوایا کہ کرم الہی ظفر کو میں نے سپین فتح کرنے کے لئے مقرر کیا ہے.چنانچہ کرم الہی ظفر صاحب وزیٹر Visitor ویزا لے کر پین پہنچے.مگر چند مہینے سے زیادہ وہاں ٹھہر نہ سکے.کیونکہ ایک تو ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، دوسرے تبلیغ کی راہ میں بہت ہی مشکلات تھیں.چنانچہ ان کو یہ ہدایت کی گئی کہ آپ کچھ دیر کے لئے انگلستان چلے جائیں.وہاں انہوں نے عطر سازی کا کام سیکھا اور پھر دوبارہ اپنے طور پر پین پہنچ گئے اور بقیہ اب تک کی ساری زندگی انہوں نے عطر سازی کے کام میں صرف کی.عطر بیچ کر وہ تبلیغ بھی کرتے تھے، لٹریچر بھی مہیا کرتے تھے اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھی پالتے تھے.ان کی تبلیغ کا طریقہ کار یہ تھا کہ ایک ریڑی لگا کر جس پر عطر سجائے ہوتے تھے، وہ لوگوں کو دعوت دیتے تھے کہ آؤ اور ایک ایشیائی خوشبو مجھ سے لو.جب لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے تو پھر وہ کہتے تھے کہ دیکھو، یہ ایشیائی خوشبو و چند نوں کا قصہ ہے، آج نہیں تو کل اڑ جائے گی یا تمہارے کپڑوں میں دھل جائے گی.لیکن ایک ایسی خوشبو بھی میرے پاس ہے، جو دائمی ہے.وہ کبھی نہیں مٹ سکتی ، اسے موت کا غسل بھی نہیں دھو سکتا.چنانچہ حیرت انگیز دلچسپی کے ساتھ لوگ انتظار کرتے تھے کہ ہمیں اس خوشبو کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے.تبلیغ کا ایک ایسا ہی نظارہ میں نے خود دیکھا.میں سپین میں پہلی مرتبہ 1957 ء کے اواخر میں گیا تھا.کرم الہی صاحب ظفر نے مجھے خود ساتھ لے جا کر اپنی تبلیغ کا طریق کار دکھایا.چنانچہ میں نے دیکھا، جب عطر میں دلچسپی لینے والے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے ایشیائی خوشبو کے بارے میں یہ جملہ کہا تو لوگوں نے بے اختیار کہنا شروع کر دیا کہ ہمیں بتاؤ، وہ کون سی خوشبو ہے؟ انہوں نے کہا: وہ اسلام کی خوشبو ہے، 262
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء جس کا پیغام لے کر میں یہاں آیا ہوں.چنانچہ میں نے دیکھا کچھ لوگ ناراضگی سے بڑ بڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے ، کچھ لوگ انتظار کرنے لگ لگے کہ جانے والے چلے جائیں اور ہماری بات نہ سن سکیں تو پھر اپنے دل کی بات کہیں.چنانچہ دو، چار آدمی جو ٹھہر گئے ، ان سے ان کی سپینش میں باتیں ہوئیں اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ کارڈز (Cards) تبدیل ہوئے اور پھر مجلس اختتام پذیر ہوئی.مجھے انہوں نے بعد میں بتایا کہ یہاں کھلے بندوں میں تبلیغ نہیں کر سکتا.میرے لئے جو خطرہ ہے ، وہ تو خیر میں خود مول لے بھی سکتا ہوں.لیکن ان سننے والوں کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے.اس لئے ہمارا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ یہی طریق کار چلتا ہے.ہم ایک دوسرے کے ساتھ کارڈ ز تبدیل کر لیتے ہیں.اور پھر ان جگہوں پر چھپ چھپ کر تبلیغی گفتگو کرتے ہیں، جو ملنے کے لئے مقرر ہوتی ہیں.چنانچہ اس طرح جب پین کی مسجد کا افتتاح ہوا ہے، اس وقت تک مختلف وقتوں میں ہمارے مبلغ وہاں تقریباً ایک سو آدمیوں کو مسلمان بنا چکے تھے.یہ پین کا دوسرا پس منظر ہے.ایک تیسرا پس منظر یہ ہے کہ مجھ سے پہلے جماعت احمدیہ کے جو امام تھے ، یعنی حضرت خليفة المسيح الثالث مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالٰی ، وہ چند سال پہلے جب سپین گئے تو ان کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی وہ باتیں یاد تھیں، جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.وہ سخت بے قرار تھے کہ کسی طرح سپین میں مسجد کے لئے جگہ ملے اور ہم مستقل طور پر پاؤں جما سکیں.لیکن اس وقت تک جنرل فرانکو کی حکومت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں تھا.انہوں نے کرم الہی ظفر سے کہا کہ یہ میری تمنا ہے.اس کے پورا ہونے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی.کرم الہی ظفر نے کہا: میں ان لوگوں کو جانتا ہوں ، یہ بڑے متعصب ہیں، دوسرے عیسائی فرقوں کو بھی جگہ نہیں دیتے.اس لئے اگلے 20 سال تک تو بظاہر اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ہمیں مسجد کے لئے جگہ مل سکے.اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے دعا کی.وہ کیا دعا تھی؟ کس رنگ میں کی گئی ؟ اس تفصیل سے تو ہمیں آگا ہی نہیں ہے.لیکن یہ معلوم ہے کہ اس دعا کے بعد آپ کو ایک الہام ہوا.اور اس الہام کو انہوں نے کرم الہی صاحب ظفر کے سامنے بیان کیا اور کہا کہ خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد سپین میں اسلام کے داخلے کے سامان پیدا کر دے گا.چنانچہ اس واقعہ کے دو سال بعد اس پرانی حکومت کا خاتمہ ہوا اور جمہوریت نے مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا.تب ہمیں وہاں مسجد بنانے کے لئے زمین کا ایک ٹکڑا خریدنے کا موقع ملا.یہ جگہ قرطبہ سے قریباً 30 کلو میٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے.دو 263
خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم سال قبل میرے پیشر و حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے وہاں مسجد کا سنگ بنیا درکھا اور اب مجھے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ موقع عطا فر مایا کہ میں اس مسجد کے افتتاح کا اعلان کر دوں.وہ کیا منظر تھا ؟ وہاں کیا باتیں ہوئیں؟ کس طرح کمپینیش قوم نے اپنے دروازے اسلام کے لئے کھولے؟ کس طرح وہاں کے اخبارات نے غیر معمولی طور پر اسلام کے پیغام کو من وعن بغیر کسی مبالغے یا بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے شائع کیا؟ یہ ایک بہت ہی دلچسپ اور لمبی داستان ہے.مسجد بشارت سپین کے متعلق الفضل کا جو خصوصی نمبر شائع ہوگا، اس میں وہ تمام اقتباسات اصل زبان میں بھی اور ان کے ترجمے بھی شائع ہو جائیں گے.وہ ہیں بھی اتنے طویل کہ اس مجلس میں ان کا بیان کرنا، ویسے بھی ممکن نہیں.میں اس کی صرف ایک مثال دے دیتا ہوں.لاغوزا (Lavoz) قرطبہ کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار ہے.اس نے ایک ہی دن میں چار جگہ افتتاحی تقریب کی خبر دی اور پورے دو صفحات پر جماعت احمد یہ اور اسلام کے متعلق ایک مضمون میں بتایا کہ اسلام کس ارادہ کے ساتھ پین میں دوبارہ داخل ہو رہا ہے؟ اور اس کے کیا منصوبے ہیں؟ اس کے علاوہ ایک ادارتی نوٹ بھی لکھا، جس میں اس نے کہا: ہم آپ کو اھلاً وسهلاً ومرحباً کہتے ہیں.آپ چونکہ محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں ، آپ چونکہ امن کا پیغام لے کر آئے ہیں اور دلائل کے زور سے ہمارے دل جیتنے کی کوشش کریں گے ، اس لئے اب ہمارے اور تمہارے درمیان ایک کھلی جنگ ہے.آگے چل کے ایڈیٹر لکھتا ہے: اہل سپین کو میں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اس جنگ میں وہی ہتھیار استعمال کریں، جو یہ کر رہے ہیں.لیکن کوئی فاول گیم نہیں کھبانی.اس کے باوجود اگر یہ دل جیت لیتے ہیں تو جیت لیں، ہم ان کو اهلاً و سهلاً و مرحبا کہتے ہیں.ہمارے دروازے ان کے لئے کھلے ہیں.تو یہ نہایت ہی عظیم الشان خراج تحسین ہے، جو اس نے بھی دیا اور بعض دوسرے اخبار نے بھی.تاہم یہ ساری باتیں، جو دنیا کی نظر میں تو اہمیت رکھتی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں ، ان کے اندر کوئی ایسا اہم پہلو نہیں ہے، جو باقی رہنے والا ہو.البتہ ان باتوں کی تہ میں کچھ اور باتیں بھی وہاں ہو رہی تھیں اور میرے نزدیک وہ سب سے زیادہ قیمتی اور بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں.وہ باتیں یہ تھیں کہ اس تقریب میں شریک ہونے والے جتنے زائرین باہر سے آئے تھے، ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کا ایسا تصرف تھا اور اس قدر شدت کے ساتھ وہ دعاؤں کی طرف مائل تھے کہ یوں لگتا تھا گویا ساری فضاروحانی جذب اور اثر میں ڈوبی ہوئی ہے.مسجد میں جب جمعہ کی نماز ہوئی تو عام شامل ہونے والے، جن کی تعداد ہزاروں میں تھی، بلا استثناء سب کے سب بچوں کی طرح بے اختیار بلک بلک کر 264
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء رور ہے تھے اور سجدہ گاہوں کو اپنے آنسوؤں سے تر کر رہے تھے.چنانچہ پین کے ایک اخبار نویس نے لکھا اور اسی واقعہ کو بعض دوسرے یورپین ممالک کے اخباروں نے بھی بیان کیا کہ ان لوگوں کی جو کیفیت ہم دیکھ کر آئے ہیں، وہ جیتنے والوں کی کیفیت ہے.عجیب بے قرار تھے یہ لوگ.اپنے خدا کے حضور اس طرح گریہ وزاری کر رہے تھے کہ تعجب ہوتا تھا ان کو دیکھ کر.یہ ایسا گہرا اثر چھوڑنے والی بات تھی کہ ٹیلی ویژن کے جو نمائندگان جمعہ کی نماز کے وقت بھی آئے اور بعد میں افتتاحی تقریب کے وقت بھی موجود تھے، انہوں نے بعد میں مسلسل ایک ہفتہ تک اس تقریب کی فلم نصف نصف گھنٹے کی اہل سپین کو دکھانی شروع کی.اور از خود اس کی کاپیاں نہ صرف یورپین ممالک کو فراہم کیں بلکہ اسلامی ممالک کو بھی بھجوائیں.لیکن خود اپنے ملک کے ذرائع ابلاغ کا رد عمل سراسر نا قابل فہم تھا.یوں لگتا تھا کہ اخباری اصطلاح کے بموجب عمل اس بات پر کیا جارہا ہو کہ Kill Spain یعنی سپین سے آمدہ خبروں کا گلا گھونٹ دو اور ردی کی ٹوکری میں پھینک دو، ہرگز انہیں شائع نہ ہونے دو.پس واقعتہ یہی ہوا کہ اس عظیم تاریخی واقعہ کا کوئی ذکر پاکستانی اخبارات میں نہ آیا، جودنیا بھر کے اخباروں کی توجہ کھینچنے کا موجب بنا ہوا تھا اور عرب دنیا کے موقر جرائد نے بھی نمایاں طور پر اس خبر کا ذکر کیا.اس کے برعکس ایک عجیب و غریب خبر ایسی تھی، جو پاکستانی اخبارات کے سروں پر مسلط تھی.اس خبر کا تعلق جنوبی افریقہ کی عدالت کے اس فیصلے سے تھا کہ بعض مسلمان فرقے اپنے مملوکہ قبرستان میں کسی احمدی کی نعش کی اجازت نہیں دیتے تو بوجہ اس کے کہ وہ قبرستان ان کا ملوکہ ہے، ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ ضرور احمدی کو وہاں دفن ہونے دیں.یہ وہ خبر تھی، جسے احمدیت کے مقابل پر دیگر فرقوں کی عظیم الشان اور تاریخ ساز فتح تصور کر کہ بعض اخبارات کے صفحات جس سے مسلسل کالے کئے جارہے تھے.گویا کوئی مخفی آواز انہیں حکم دے رہی ہو کہ Flash South Africa یعنی ساؤتھ افریقہ کی عدالت کے عظیم کارنامے کی داستان کو اچھالو.گویا صدیوں کے تعطل کے بعد اندلس کی سرزمین میں بنائی جانے والی تاریخی مسجد کا ذکر تو باعث شرم تھا.مگر قابل فخر تھا یہ ذکر کہ مردوں کو بعض نجی قبرستانوں میں دفن نہیں ہونے دیا گیا.چنانچہ تمام دنیا میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ خبریں پہنچیں اور اخبارات میں جو اشاعت ہوئی ہے، اس کی تعداد تو کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے.یعنی اگر وہ سارے اخبارات، جن میں یہ خبریں شائع ہوئیں اور اسلام پر مضامین آئے یا جنہوں نے پریس کانفرنس کو Cover کیا، جتنی تعداد میں وہ اخبارات چھپتے ہیں، اگر ان کا شمار کیا جائے تو یہ تعداد کروڑوں تک جا پہنچتی ہے.ہمارے یہاں کے بڑے سے بڑے اخبار بھی 265
خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم میرے خیال میں دو سے تین لاکھ سے زیادہ شائع نہیں ہو سکتے.وہاں ایک ایک اخبار چھ چھ ، سات سات ملین کی تعداد میں شائع ہوتا ہے.اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یورپ کے پریس نے جو Coverage دیا ہے، وہ کتنا وسیع ہوگا.اس کو کروڑوں کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہے.اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی جتنی آبادی ہے، اتنے اخباروں کی کاپیوں میں اسلام کا تذکرہ ہوا اور مسجد بشارت کے افتتاح کی کاروائی شائع ہوئی تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا.اسی طرح جب ان لوگوں نے ہم سے یہ پوچھا کہ تمہارے پاس ہے کیا؟ تم یہاں کیا لینے آئے ہو؟ تو ہم نے ان کو یہی جواب دیا کہ ہم تو تمہارے دلوں کے دروازے کھٹکھٹانے آئے ہیں.ہم ایک درویش صفت جماعت ہیں، ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں.اتنے کمزور ہیں کہ اپنے ملک میں غیر مسلم قرار دیئے جا چکے ہیں.تمہیں اسلام کی طرف بلانے والوں کی یہ حالت ہے.لیکن ہمارے دل اللہ کی راہ میں پکھل رہے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہماری آنکھوں سے ایک ایک آنسو جو یہاں گرے گا، اس سے ابن رشد جیسے صاحب علم پیدا ہوں گے.اس سے وہ عظیم صوفیاء اور بزرگ لوگ پیدا ہوں گے، جنہوں نے ایک دفعہ پہلے بھی سپین کی تاریخ کو بدل دیا تھا.اس کے سوا ہمارے پاس کوئی دولت نہیں ہے، جو ہم پیش کر سکیں.چنانچہ ان کے اخباروں نے اس کو نمایاں کر کے شائع کیا.وہ سچائی کے قائل ہیں.باوجود اس کے کہ وہ لوگ مذہبی لحاظ سے نسبتاً نہایت ہی ادنی مذاہب کی طرف منسوب ہوتے ہیں.ان کے معاشرے میں اخبار کے اندر دیانت کا ایک معیار پایا جاتا ہے.وہ سچائی پر قائم رہتے ہیں.سارے یورپ میں ایک بھی اخبار نے کوئی خبر شائع نہیں کی ، جسے بد دیانتی پر محمول کیا جاسکتا ہے.بلکہ بعض ایسی خبروں کو انہوں نے اچھالا ، جن کے نتیجہ میں وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح یہ لوگوں پر اثر انداز ہوں گے.چنانچہ بیلجیئم کے ایک اخبار کا نمائندہ بیڈ رو آباد پہنچا.اس نے انٹرویو لیا، جسے اس نے بیلجیئم کے اخباروں میں شائع بھی کروایا اور ریڈیو سے نشر بھی کروایا کہ یہ تو محبت کے ذریعہ دلوں کو جیتنے کے لئے آئے ہیں.سوئٹزر لینڈ کے مشہور شہر جنیوا سے چھپنے والے ایک اخبار نے لکھا کہ اگر چہ وہاں ایک پادری بیٹھا یہ باتیں کر رہا تھا کہ آئے تو ہیں لیکن ان کی کچھ پیش نہیں جائے گی.جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم ان کو عیسائی بنائیں ، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ یہ ہمیں مسلمان بنا لیں.اس لیے یہ ایک آنی جانی بات ہے.ایک واقعہ ہوا اور گزر گیا.فکر نہ کریں.اس کے بعد اس نے لکھا کہ مسجد میں ایک اور واقعہ گزرا تھا، جسے میں دیکھ کر یہ سمجھتا ہوں کہ وہاں جو دعویٰ کیا جارہاتھا، اس میں زیادہ قوت تھی، اس میں زیادہ پینے کی طاقت موجود تھی.پھر اس نے میرا ذکر کر کے بطور خاص لکھا کہ امام جماعت 266
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء احمد یہ یہ اعلان کر رہا ہے کہ تم صرف سپین کا کہہ رہے ہو، ہم نے تو ساری دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرنا ہے.اس عالمی غلبہ کے مقابلہ پر جو اسلام کو بہر حال نصیب ہونا ہے، پین کی تو کوئی حقیقت نہیں.پس میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری اصل دولت اور ہماری اصل طاقت اس الہی خلوص میں تھی ، جس کو خدا کے قدموں میں پیش کرنے کی توفیق خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی.اس تمام عرصہ میں جب کہ ہم سپین کے دورہ میں الحمراء گئے.ان پرانی یادگاروں کو دیکھا، جن کو بڑے بڑے مسلمان بادشاہ، رؤساء اور بزرگ اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے.ان مسجدوں کو بھی دیکھا ، جن کو عیسائیوں نے اپنی عبادت گاہوں میں تبدیل کر دیا تھا.یعنی کلیسا بنا دیا گیا تھا.ان ویران مساجد کو دیکھا، جو ابھی تک خالی پڑی تھیں.یعنی پانچ سو سال تک مساجد کو کلیساؤں میں تبدیل کرنے کے مسلسل عمل کے باوجود اب بھی بہت سے بچی پڑی ہیں، جن میں کچھ بھی نہیں ، صرف ایک ویرانہ ہے.یہ سب کچھ دیکھ کر ہر قدم پر ہمارے دل خون ہوئے.پرانی یادوں نے ایسا نڈ پایا اور اتنار لایا کہ ایک شعر مجھے یاد آیا.ایک شاعر نے اس قسم کی کیفیت کا اظہار یوں کیا.وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزوهی یا رب مرے دونوں پہلوؤں میں دل بے قرار ہوتا میں نے سوچا کہ شاعرتو دو پہلوؤں میں دل مانتا ہے، ہمارا تو ذرہ ذرہ دل بے قرار بن کر تڑپ رہا ہے.کیا پھر بھی اللہ کورحم نہیں آئے گا؟ کیا اللہ تعالیٰ کو اسلام کے لئے تڑپنے والوں کی کوئی قدر نہیں ہوگی ؟ یقینا ہوگی.میرے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ یہ آنسو، جو اس وقت ہم خدا کی راہ میں بہار ہے ہیں، ان کے ساتھ وہ قربانیاں شامل ہیں، جو ان کی سچائی کا اعلان کر رہی ہیں.یہ کوئی ناول پڑھنے والوں کے آنسو تو نہیں تھے.جنہوں نے گویا رات کو لحافوں میں لیٹ کر بڑے مزے کے ساتھ ناول پڑھے اور پین کی یاد میں آنسو بہائے اور سو گئے.بلکہ یہ ان لوگوں کے آنسو تھے، جنہوں نے وہ سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا، جو خدا نے انہیں عطا فر مایا تھا.انہوں نے ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کا بیڑا اٹھایا اور اس کے لئے قربانیاں دیں.اس میں ان عورتوں کی قربانیاں شامل ہیں، جنہوں نے اپنے زیور پیش کر دیئے.ان غریبوں کی قربانیاں شامل ہیں، جنہوں نے دو آنے میسر تھے تو دو آنے پیش کر دیئے.ان مہاجر پٹھان عورتوں کی قربانیاں شامل ہیں، جن کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہیں تھا.وہ جماعت احمدیہ سے وظیفہ پاتی تھیں.جب یہ اعلان سنا تو ان میں سے ایک نے اپنے امام کی خدمت میں حاضر ہو کر دور پے پیش کیے اور روتے ہوئے یہ عرض کیا کہ اے ہمارے آقا ! ساری جماعت قربانیاں پیش کر رہی ہے اور میں تڑپ رہی تھی کہ میرے پاس تو کچھ نہیں.267
خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم یہ کپڑے بھی وہ ہیں، جو جماعت نے دیئے ہیں.یہ جوتی بھی وہی ہے، جو جماعت نے دی ہے.یہ سرکا دوپٹہ بھی وہی ہے، جو جماعت نے دیا ہے.اور یہ دو روپے بھی وہی ہیں، جو آج تک جماعت کے دیئے ہوئے پیسوں میں سے تھے.میں نے آڑے وقت کے لئے بچا کر رکھے ہوئے تھے، یہ قبول فرمالیں.حضرت خلیفة المسیح الثانی جن کے زمانے کی بات ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جب سپین میں تبلیغ اسلام کے لئے اعلان کیا گیا تو بڑی بڑی قربانیاں میرے سامنے پیش ہوئیں.مگر جس طرح اس عورت کی قربانی نے میرا دل ہلایا اور جوان دور و پیوں کی میری نظر میں قدر و قیمت ہے، وہ ہزاروں ، لاکھوں کی قربانیوں کی قیمت نہیں.یہ خلوص کی قربانی تھی، جسے روپوں میں نہیں ناپا جاسکتا.اس کو دل کے جذبات کے ساتھ ناپا جا سکتا ہے.اور اس کی قدر و قیمت انسان نہیں کر سکتا بلکہ خدا کر سکتا ہے.یہ سب کچھ تو فیق پانے کے بعد ملک میں ہمارا استقبال بالکل اور انداز کا ہوا.جو باتیں سننے میں آئیں اور اخبارات نے جو تبصرے کئے ، ان کا خلاصہ یہ تھا کہ انہیں سپین میں مسجد بنانے کی توفیق کیوں ملی ؟ یہ گویا خدا کے خلاف غصہ کا اظہار تھا.کیونکہ تو فیق تو وہی عطا کرتا ہے.کہا اور لکھا یہ گیا کہ خدا کے گھروں سے ان کا کوئی تعلق نہیں بنتا.اور اس لئے نہیں بنتا کہ ہم انہیں غیر مسلم قرار دے چکے ہیں.ایسے لوگوں کو، جنہیں ہم غیر مسلم قرار دے چکے ہیں، آزاد دنیا کے کسی بھی خطہ میں اللہ تعالیٰ نے مسجد بنانے کی توفیق کیوں دی؟ ان کی یہ مسجد اور تمام دوسری مسجدیں، جو انہوں نے یورپ میں بنائی ہیں، گرادینی چاہئیں.حیرت زدہ تھادل اور خون کے آنسور ورہا تھا کہ پین کی تاریخ سے بھی انہوں نے عبرت حاصل نہیں کی.وہاں بھی تو یہی کچھ ہوا تھا.اسلام کے نام پر اسلام کو برباد کیا گیا تھا.ان مجاہدوں کو جو اپنے خون کی قربانیاں دینے کے لئے صف اول میں لڑنے کے لئے نکلتے تھے، غدار قرار دیا جاتا تھا.تو میں جب بد قسمت ہو جاتی ہیں تو وہ اپنی دینی اور ملی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی بجائے انہیں اپنے ذاتی انا اور تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا کرتی ہیں.لیکن میں اللہ تعالیٰ کے فضل پر کامل یقین اور توکل رکھتا ہوں.دنیا کی کوئی طاقت اب خدا کے اس فیصلہ کو نہیں بدل سکتی ، جو سپین کے بارہ میں ظاہر ہو چکا ہے.ہم نے جو دعائیں کی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں خوشخبریاں دیں ہیں کہ دعائیں قبول کی گئیں.ان واضح خوشخبریوں کے بعد اگر ہمارا انگ انگ بھی کاٹ کر پھینک دیا جائے ، تب بھی لازما سپین میں اسلام فتحیاب ہو گا اور کوئی اس تقدیر کو اب بدل نہیں سکے گا.ایک عیسائی مستشرق لکھتا ہے: جب سپین کے آخری مسلمان بادشاہ نے ایک آہ بھری، اس وقت سپین کی مساجد کے میناروں سے ہلالی جھنڈے چاک چاک کر کے زمین پر پھینک دیئے گئے اور تمام میناروں 268
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء پر صلیبیں بلند کی گئیں اور صلیب کے پجاری خداوند یسوع کے حضور جھک گئے اور شکر ادا کیا کہ ایک عظیم الشان فتح خداوند یسوع مسیح نے ان کو عطا کی ہے.لیکن ساتھ ہی وہ یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ اسلام کا سورج جب سپین میں ڈوبا تو عیسائیت کا چاند نمودار ہوا.لیکن اس کی روشنی مستعار روشنی تھی.اس کی روشنی اس نور سے حاصل کردہ تھی، جو مسلمانوں کا سورج پیچھے چھوڑ رہا تھا.رفتہ رفتہ وہ چاند تاریک ہو گیا اور ایک ایسی گہری تاریکی میں ڈوب گیا، جس سے آج تک نہیں نکل سکا.وہ پین، جو مسلمان سلطنتوں کے ایام میں یورپ کی عظمتوں کا گہوارہ تھا، تنزل کا ایسا شکار ہوا کہ اب یورپ میں سب سے زیادہ پسماندہ ملک بن چکا ہے.پس ہم یقین رکھتے ہیں کہ چین کی تاریخ اسی سورج سے وابستہ ہے، جو وہاں سے ایک دفعہ غروب ہوا تھا، وہ سورج ضرور طلوع کرے گا اور سارے پین کو روشن کر دے گا.اور سارے یورپ میں اس کی شعاعیں پھیلیں گی.یہ خدا کی تقدیر ہے، اسے کوئی بدل نہیں سکتا.اور یقینا اور یقینا وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اسلام دنیا میں لازماً واحد مذہب ہوگا، جو تمام دنیا کے مذاہب پر غالب ہو کر رہے گا.لیکن ان قربانیوں کے نتیجے میں، جو خدا کی راہ میں پیش کی جائیں گی.ان آنسوؤں کے نتیجہ میں، جو خدا کی راہ میں بہائے جائیں گے.اور اس خون کے نتیجہ میں کہ جب مانگا جاتا ہے تو قربانی کرنے والے بڑی بشاشت کے ساتھ خدا کی راہ میں پیش کرتے ہیں.ان لئے ہوئے گھروں کے نتیجے میں، جو خدا کی راہ میں قربان کرنے پڑتے ہیں.ہر ایک ملک، جہاں احمدیت پھیلی ہے، اس بات کا گواہ ہے کہ خدا کی راہ میں جائیداد میں لٹ گئیں ، گھر تباہ ہو گئے ، جانیں دینی پڑیں ، عورتوں تک پر ظلم ہوئے ، صرف اس لئے کہ وہ خدائے واحد کو مانتی ہیں اور خدا کے تازہ نشانات پر یقین رکھتی ہیں.پس یہ وہ قربانیاں ہیں، جن کے نتیجہ میں مذہب میں تبدیلی آیا کرتی ہے اور خدا کی رحمت جوش میں آتی ہے.یہ ایک ایسا ازلی ابدی قانون ہے، جس میں آپ کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.جب سے دنیامذ ہب سے آشنا ہوئی ہے، یہی ہوتا چلا آیا ہے.جن قوموں نے خدا کی راہ میں یقین کامل کے ساتھ قربانیاں پیش کیں، وہ کبھی مغلوب نہیں ہوئیں.وہ ہمیشہ فتح مند ہوئی ہیں اور فتح ونصرت کی کلیدان کو عطا کی گئی ہے.پس ہم اس وجہ سے یقین رکھتے ہیں کہ ہم اسلام کو دنیا میں لازما غالب کریں گے.کیونکہ اس راہ میں جب بھی ہم سے قربانیاں مانگی جاتی ہیں، ہم پیش کر دیتے ہیں اور کبھی پیچھے نہیں ہے.ہمیشہ ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کرتے ہیں.اس لئے خدا کے فضل سے آگے سے آگے اور بھی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان منازل کو قریب تر کر دے، جن کی تمنائیں لئے ہم جیتے ہیں.اپنے فضل سے اسلام کی دشمنی کی اس عارضی رات کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے، جو اس وقت یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک پر طاری ہے“.269
خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء اس تقریر کے بعد حضور نے فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک " آج کی اس تقریب کا پروگرام کچھ لمبا ہو گیا ہے.لیکن ایسے پروگراموں میں یہ توقع رکھی جاتی ہے، کچھ لمبے ہو جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں.اس لئے میں نے منتظمین سے کہا تھا کہ خطاب کے بعد اگر کوئی دوست سوال کرنا چاہیں تو بے شک کر لیں.چنانچہ ایک سوال یہ آیا کہ جب آپ باہر جا کر تبلیغ کرتے ہیں تو آپ کی تبلیغ میں اور دوسرے مسلمانوں کی تبلیغ میں فرق کیا ہے؟“ حضور نے اس سوال کا درج ذیل جواب دیا.آپ نے فرمایا :.اس ضمن میں یہ بات کھول دینی چاہتا ہوں کہ واپسی پر ہم پر جو اعتراضات ہوئے ، ان میں یہ تاثر دیا گیا کہ ہم مسلمان ہونے کا اعلان کر کے دنیا کو دھوکہ دیتے ہیں.دنیا غلطی سے یہ سمجھنے لگ جاتی ہے کہ ہم پاکستان کی نمائندگی میں آکر لوگوں کو تبلیغ کر رہے ہیں.گویا یہ پاکستان کی عظمت ہے، جو اثر ڈالتی ہے.اور ہمیں لوگ پذیرائی کے طور پر ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں.یہ محض ایک ایسی غلط فہمی ہے، جس کا باہر کی دنیا میں کوئی تصور بھی نہیں پایا جاتا.اول تو دنیا اتنی سادہ اور بھولی نہیں ہے اور نہ ہی آج کل کے یورپین پریس کے نمائندے ایسے احمق اور بے وقوف یا نکھے ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہ ہو کہ وہ کس سے کیا پوچھنے جارہے ہیں؟ یہ تو نہیں کہ سوتے سوتے اٹھے اور آنکھیں ملتے ہوئے پریس کانفرنس میں پہنچ گئے.یہ تو پہلے سے پوری تیاری کرتے ہیں.ان کو وقت دیا جاتا ہے، بتایا جاتا ہے، ایک ہنڈ آوٹ جاری کیا جاتا ہے.اس میں بتانا پڑتا ہے کہ ہم کون ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ اور پھر وہ پوری تیاری کر کے سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں.ان کو جھوٹ کی عادت نہیں ہے.اس لئے جب وہ دشمن کو زیر کرنا چاہیں تو چونکہ جھوٹ سے کام نہیں لیتے ، اس لئے اتنی ہی زیادہ ان کو محنت کرنی پڑتی ہے.وہ سوالات کرتے وقت بہت ہوشیاری سے کام لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آنے والے مہمانوں سے بدتمیزی کئے بغیر ان کو زیر کر لیں.اور قوم کے سامنے ان کا ایک ایسا حلیہ پیش کریں ، جو قوم کے لئے کسی طرح باعث دلچپسی نہ بنے یا دلربا نہ ہو.چنانچہ اس معاملہ میں یعنی مسلم، غیر مسلم کے سلسلہ میں کوئی ایک پر یس کا نفرنس بھی ایسی نہیں تھی ، جہاں سب سے پہلے یہ سوال نہ کیا گیا ہو اور اس میں بڑی حکمت ان کے مد نظر تھی ، وہ قوم کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ یہ جو تمہیں مسلمان بنانے کے لئے نکلے ہیں، ان کے تو اپنے گھر لئے ہوئے ہیں.ان کا تو کوئی ہے ہی نہیں.ان کی پشت پناہی پر کون ہے، آخر جو تمہیں اسلام کا پیغام دینے آگئے ہیں؟ چنانچہ سب سے پہلے وہ یہ سوال کرتے تھے کہ جناب آپ تشریف تو لائے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ کی خاطر 270
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء گھروں سے نکلے ہیں، پہلے گھروں کی خبر دیجیے، آپ کو آپ کی قوم کیا بجھتی ہے؟ اور آپ میں اور دوسرے مسلمانوں کے اندر اعتقادی فرق کیا ہے؟ اس فرق میں الجھا کر ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ نہیں یورپ کے سامنے حقیر اور بے حقیقت اور بے بس دکھا دیا جائے.چنانچہ ایسے سوالات کے جوابات میں نے کس طرح دیئے ؟ ہم ان کو کس طرح تبلیغ کرتے تھے؟ اس کا میں ایک نمونہ پیش کرتا ہوں.میری یہ کوشش ہوتی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیشہ اس میں کامیابی عطا فرمائی کہ اندرونی جھگڑوں کی بحث میں پڑنے کی بجائے مجلس کو اسلام اور عیسائیت کے درمیان جنگ میں تبدیل کر دیا جائے.چنانچہ اس سوال کا رخ میں اس طرح موڑا کرتا تھا کہ ان سے میں کہتا تھا بھائی ! آپ نے ایک عجیب سوال کیا ہے، جو آپ جیسے صاحب علم آدمی کے لئے بڑا تعجب انگیز ہے.معلوم ہوتا ہے، آپ نے مطالعہ تو کچھ کیا ہے لیکن پورا نہیں کیا.آپ کا سوال بہت محدود ہے.جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ میں اور دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ تو آپ کا سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ آپ میں اور دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ تو آپ کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ آپ میں اور دوسرے مسلمانوں اور عیسائیوں میں کیا فرق ہے؟ وہ کہتے تھے، یہ کیا بات ہوئی ؟ یہ تم نے عجیب سوال کیا ہے.ہم ایسا سوال کیوں کریں؟ میں نے کہا: میں بتاتا ہوں کہ فرق مشترق ہے.فرق یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام ) جن کو تم خدا کا بیٹا مانتے ہو اور یہ بھی مانتے ہو کہ وہ زندہ آسمان پر ہیں.انہیں مسلمان خدا کا بیٹا تو نہیں مانتے لیکن وہ ان کی زندگی کے عقیدہ میں تمہارے شریک ہیں.بائبل نے بھی خبر دی ہے کہ وہ دوبارہ آئیں گے اور بعض احادیث میں بھی کہا گیا ہے کہ وہ آئیں گے.پس تم دونوں مانتے ہو کہ وہ زندہ ہیں اور بعینہ اسی جسم کے ساتھ دوبارہ آئیں گے ، جس جسم کو لے کر وہ آسمان پر چڑھ گئے تھے.ہم کہتے ہیں، یہ سارے حقیقی علم کو نہ سمجھنے کے قصے ہیں.جب قو میں اپنی مذہبی اصطلاحوں کو سمجھنا چھوڑ دیتی ہیں، جب ان کے فلسفہ اور حکمت سے ناواقف ہو جاتی ہیں ، تب وہ ظواہر پر ان باتوں کو شمول کر لیا کرتی ہیں.مسیح کا دوبارہ آنا تو مقدر تھا لیکن تمثیلی طور پر آنا تھا.جس نے آنا تھا، اس کو مسیح کا نام دیا جانا تھا.میں نے کہا: تم یہ کہو گے، یہ تو تمہارا دعوی ہے.میں نے کہا: آپ تو اسلام پر ایمان نہیں رکھتے ، قرآن کی دلیلیں تو نہیں سن سکتے.اس لئے اب میں بائبل کے دلائل بتادیتا ہوں ، پھر آپ مجھے بتائیں کہ محض دعویٰ ہے یا ثبوت بھی موجود ہے.چنانچہ اس طرح وہ سوال، جو ہمارے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ کو اچھالنے کے لئے وہ کیا کرتے تھے، وہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان ایک تقابلی صورت میں تبدیل ہو جاتا تھا.چنانچہ 271
خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم میں ان کو بائبل کے حوالے دیتا تھا اور کہتا تھا کہ آپ کی بائیل خود دیکھتی ہے اور اس کے سوا کوئی اور تشریح اس کی ممکن نہیں کہ بائبل کی طرف آپ جو بات منسوب کر رہے ہیں، وہ خلاف عقل ہے.کیونکہ بائبل تو کھلم کھلا لکھ چکی ہے اور تین پہلوؤں سے پرانے مسیح کی صلیب سے نجات اور بعد ازاں طبعی موت کی خبر دیتی ہے.اور یہی ہمارا بھی عقیدہ ہے.اور اسی میں فرق ہے، ہمارا اور دوسرے مسلمانوں کا.اور اسی کے نتیجہ میں بالآخر ہم ان کے ہاں غیر مسلم قرار دیئے گئے ہیں.چنانچہ جب ان عیسائیوں سے گفتگو ہوتی تھی تو میں ان سے کہتا تھا دیکھو، پیشگوئی کے رنگ میں دیکھ لو مسیح نے واقعہ صلیب سے پہلے بائبل کے بیان کے مطابق پیشگوئی کی کہ میں تمہیں چھوڑ کر جانے والا ہوں.کہاں جانے والا ہوں؟ اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کی طرف.اور یہ بات آج تک بائبل کے (New Testament) یعنی نئے عہد نامہ میں لکھی ہوئی موجود ہے.میں نے کہا: اب تم مجھے یہ بتاؤ کہ اس کے بعد وہ گئے کہاں؟ یا تو یہ مانو کہ مسیح سے پہلے اسرائیل کی ساری گم شدہ بھیڑیں آسمان پر چلی گئی تھیں اور وہ وعدہ پورا کرنے کے لئے آسمان پر چلے گئے.اگر تمہاری اپنی اصطلاح تمہیں یہ بتاتی ہے کہ بھیڑوں سے مراد گم شدہ قبائل ہیں تو پھر بائبل کی رو سے مسیح نعوذ باللہ جھوٹا ٹھہرتا ہے یاوہ آسمان پر نہیں گیا.ظاہر ہے، وہاں گیا، جہاں گم شدہ قبائل رہتے تھے.پھر میں ان سے یہ کہتا تھا کہ اب دوسری پیشگوئی سنو.جب نشان مانگنے کے لئے لوگ مسیح کے پاس آتے تھے تو وہ ان لوگوں کو کہا کرتے تھے کہ دیکھو تمہیں یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان نہیں دیا جائے گا.اور وہ کیا نشان تھا؟ سارے لوگ جانتے ہیں، وہ نشان یہ تھا کہ یونس نبی تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہے لیکن مرے نہیں، زندہ رہے.بظاہر موت کے سارے مواقع اور اسباب موجود تھے لیکن زندہ گئے اور زندہ ہی باہر آئے.یعنی مچھلی نے باہر اگل دیا.اسی طرح صلیب میں بعینہ یہ واقعہ دہرایا گیا تھا.میں نے کہا: اگر تم جماعت احمدیہ کی یہ تشریح قبول نہیں کرتے تو پھر نتیجہ بائبل جھوٹی ٹھہرتی ہے.ادھر مسیح نعوذ باللہ جھوٹا بنتا ہے، یہاں بائبل جھوٹی ٹھہرتی ہے.جو تمہارے بیان کے مطابق کہتی ہے کہ تین دن مرکز رہے.پھر میں بائیل کی رو سے صلیب کے واقعات بتا تا تھا کہ وہ تو کہتے ہیں کہ ہم نے جو نیزہ مارا، اس سے پہلو میں زخم ہوا تو خون ابل ابل کر نکلا.(gushed out بھی انگریزی ترجمہ ہے، بائیل میں اور rushed out بھی.دونوں طرح بائبل میں آتا ہے.میں نے کہا: مردہ کے جسم سے اول تو خون نکلا ہی نہیں کرتا لیکن اہل ایل کے نکلنا تو بالکل عقل کے خلاف ہے.زندہ تھے تو خون نکلا.پھر بائبل کہتی ہے کہ حواریوں نے مسیح کو مرہم لگائی ، جس میں بارہ اجزاء شامل تھے، جو زخموں کو مندمل کرنے والے، در دکور و کنے والے، انفیکشن 272
تحریک جدید- ایک الہی تحریک..خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء کا مقابلہ کرنے والے، جلد کو ملائم کرنے والے وغیرہ اجزاء تھے.میں نے ان سے کہا کہ مردہ کو اس کی کیا ضرورت تھی؟ بائبل تو کہتی ہے کہ مرہم لگائی گئی تھی.تمہارے محققین کہتے ہیں کہ یہود کا یہ دستور نہیں تھا.دستور کے خلاف واقعہ ہوا ہے.زندہ تھے تو واقعہ ہوا.غرضیکہ اور بہت سی باتیں تھیں، جن کو بیان کر کے ہم پریس کانفرنس کو جلد از جلد ایک ایسی کانفرنس میں تبدیل کر دیتے تھے، جو عیسائیت بمقابلہ اسلام بن جاتی تھی.یہ ایک مثال ہے، جس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارا طریق تبلیغ کیا تھا؟ چنانچہ جب عیسائیت اور اسلام کا مقابلہ شروع ہو جاتا تھا تو پھر ان کو دوسری باتوں کی ہوش نہیں رہتی تھی.یہاں تک کہ پھر آخر امام خمینی صاحب پر جا کر ان کی تان ٹوشتی تھی.یعنی جب دیکھتے تھے کہ یہ تو میدان جیت رہے ہیں، وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے یہ رپورٹنگ کی تو لوگوں پر ان کا اثر پڑ جائے گا.(اس کے باوجود وہ یہی رپورٹنگ کرتے تھے اور یہ ان کی دیانت داری کے معیار کی علامت ہے کہ وہ مجبور تھے، صحیح رپورٹنگ کرنے پر) اس لئے پریس کانفرنس کا رخ موڑنے کے لئے کہتے تھے، اچھا ٹھیک ہے، نظریاتی باتیں تو ہوگئیں، عملا تمہارا کیا حال ہے؟ ثمینی صاحب اسلام کے نمائندہ ہیں لیکن بقول ان کے ان کی سفا کی کا یہ عالم ہے کہ ان کے اصلاحی دور کے صرف ایک سال میں اس سے زیادہ مظالم توڑے گئے ہیں، جو بادشاہ نے ساری عمر میں تو ڑے تھے.اور اس سوال کا ایسا اثر جماتے تھے کہ ان کا خیال تھا، پہلے جتنی مرضی دلیلیں یہ دے دیں، جب یہ سوال آئے گا تو پھر اسلام کا سارے کا سارا مفاد دھرے کا دھرارہ جائے گا.عیسائیوں کی اسلام سے ساری دلچسپی ختم ہو جائے گی.میں تحمل سے ان کی بات سنتا تھا.ان سے کہتا تھا کہ دیکھیں، آپ نے ایک بڑا اور اہم نکتہ اٹھایا ہے.لیکن اسلام مجھے یہ سکھاتا ہے کہ انصاف سے کام لوں.مجھے پوری طرح پتہ نہیں ہے کہ جتنی باتیں آپ نے خمینی صاحب کی طرف منسوب کی ہیں، وہ صحیح بھی ہیں یا نہیں؟ آپ اپنا انتقام لے رہے ہیں.کیونکہ انہوں نے آپ کو باہر نکالا ہے اور کتنے واقعات درست ہیں؟ یہ تو جب فضا بدلے گی اور تاریخ دان چھان بین کرے گا، تب ان باتوں کی حقیقت کھل کر سامنے آئے گی.اس سوال سے بھی اس قوم کی بہت بڑی ہوشیاری مترشح ہوتی ہے.وہ یہ چاہتے تھے کہ یا تو میں ضمینی صاحب کو برا کہوں یا ان کی تردید کر دوں.اگر برا کہوں تو اگلے روز سارے یورپین اخبار یہ سرخیاں لگا دیں کہ دیکھ لو پاکستان سے ایک مسلمان راہ نما آیا ہے اور وہ کھلے بندوں خمینی صاحب کے خلاف تقریر کر رہا ہے.اس طرح عالم اسلام میں پھوٹ پڑ جائے گی ، پاکستان واپس جائیں تو ان کو جینے نہ دیں.ایرانی 273
خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جہاں جہاں ہیں، احمدیت کے دشمن بن جائیں اور اس طرح ان کے خلاف مخالفت کا ایک اور محاذ کھل جائے.یہ فرڈی سنڈ والی پالیسی تھی ، جو یہاں چلی جارہی تھی.اور دوسری طرف ان کی کوشش یہ تھی کہ اگر یہ مینی صاحب کی تائید کردیں تو سارا یورپ یہ کہہ کر ان کے خلاف ہو جائے کہ کیسے پاگل لوگ ہیں ، ظلم کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی اسلام ہے.پس ان دو مصیبتوں کے درمیان سے گزرنا ہوتا تھا.چنانچہ طریق تبلیغ کا سوال کیا گیا ہے تو میں بتاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کس طرح اس سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق فرماتا تھا.یہ محض اس کا فضل تھا.میں ان سے کہتا تھا کہ اب میں تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیتا ہوں کہ یہ سب کچھ درست ہے.لیکن آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کوئی مسلمان راہ نما آپ کے خیال میں اسلام کے نام پر ظلم کرے تو کیا آپ کا یہ حق ہے کہ اس کے عمل کی وجہ سے اسلام کو مطعون کریں؟ جس وقت یہ حق آپ تسلیم کرلیں گے، میں اس وقت آپ کو آپ کی تاریخ بتانی شروع کر دوں گا.اور نمونے اس تاریخ کے یہ ہیں کہ عیسائیت کے نام پر یورپ میں ایک ایک عیسائی بادشاہ کے وقت میں اتنے مظالم ہوئے ہیں کہ ایک خمینی کیا، سو مینی بھی وہ مظالم کر رہے ہوں، جو آپ بیان کرتے ہیں، تب بھی وہ ان سے لگا نہیں کھا سکتے.میں نے ان سے کہا: کیا آپ انگلستان کی تاریخ کو بھول گئے ہیں.ایک ملکہ میری (Merry) کے زمانے میں ہی پانچ سو معصوم عورتوں کو زندہ آگ میں جلا دیا گیا.اس الزام میں کہ وہ جادوگرنیاں ہیں اور انہیں دفاع کا کوئی موقع نہیں دیا گیا.سپین کی سینکڑوں سال کی (Inquisition) یعنی مذہب کے نام پر تشدد کی تاریخ اتنی دردناک ہے کہ جب مادام توسو کی نمائش میں وہ آلات دکھائے گئے ، جو سپین کے مظالم کی تاریخ یاد دلاتے تھے تو لوگوں نے احتجاج کئے کہ یہ اتنے بھیانک ہیں کہ ان کو دیکھ کر ہی ہماری عورتیں اور بچے ڈر جاتے ہیں.کجا یہ کہ واقعہ یہ ظلم ہورہا ہو.چنانچہ وہ آلات وہاں سے اٹھوا دیے گئے.جرمنی کے متعلق آپ خود کہتے ہیں کہ ہم نے اسے بزور شمشیر عیسائی بنایا ہے.ایک جرمن بھی تبلیغ کے ذریعہ عیسائی نہیں ہوا.اسی طرح آپ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جب 1400ء میں طاعون کی وبا پھیلی تھی تولا کھوں یہودیوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا.اس الزام میں کہ تمہاری نحوست کی وجہ سے طاعون پھیلی ہے.میں نے کہا: آپ ایک خمینی کو رور ہے ہیں، آپ کے سینوں میں ہزاروں خمینی شیخ رہے ہیں اور پھر بھی آپ اسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے بدنام کرتے ہیں.میں نے کہا: میرا مذ ہب مجھے یہ تعلیم نہیں دیتا.ان سب باتوں کے باوجو داب میں آپ کا دفاع کرتا ہوں کیونکہ اسلام مجھے انصاف کی تعلیم دیتا ہے.میں کہتا ہوں کہ عیسائیت کا کوئی قصور نہیں تھا.جب 274
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 25 نومبر 1982ء زمانہ کے امتداد سے زمانے کی قدریں بگڑ جاتی ہیں تو اس وقت اگر بگڑے ہوئے نظریات کو مذہب کا نام دے کر کوئی ظلم کرتا ہے تو وہ ظالم ہے، مذہب ظالم نہیں.پس عیسائیت ظالم نہیں تھی، عیسائیت نے درویشی کی تعلیم دی تھی، محبت کی تعلیم دی تھی.یہ کہا تھا کہ کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال بھی آگے کر دو.پس ایسی صورت میں اگر کوئی عیسائیت کے نام پر ظلم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے.اس لئے اگر ایک مسلمان ایسی باتیں کرتا بھی ہے، جو آپ نے اس کی طرف منسوب کی ہیں تو اس سے بڑا ظلم آپ یہ کر رہے ہیں کہ اس کی حرکات کو مذہب کی طرف منسوب کر کے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اب بتائیں کہ اس کے بعد ان کے سوال کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی تھی؟ میرے اس جواب نے ان کو کتنا مغلوب کیا کہ سارے پریس نے ایک جگہ بھی اس جواب کا ذکر نہیں کیا.یہ حیرت کی بات ہے.دیانتدار ہونے کے باوجود تبلیغ والا پہلو تو ذکر کر دیا.لیکن پتہ تھا کہ اگر ہم نے یہ ذکر بھی چھیڑ دیا تو ساری پولیٹیکل گورنمنٹمیں ہمارے خلاف ہو جائیں گی اور کہیں گی کہ اس وقت تو خمینی کو اشو (Issue) بنانا چاہئے تھا، اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنی چاہئے تھی ، تم نے یہ بیان کیوں شائع کر دیا؟ کیونکہ وہاں مذہب کے مقابل پر پالیٹکس کی زیادہ قیمت ہے، اس لئے انہوں نے جمینی کے بارہ میں ساری بحث کو Totally black out کر دیا اور بالکل ذکر تک نہیں کیا.لیکن اپنی طرف سے بنا کر کوئی جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی کسی ایک اخبار نے بھی یہ لکھا کہ انہوں نے خمینی کے خلاف کچھ کہایا ایسا جواب دیا ، جس سے ہماری تسلی نہیں ہوئی.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ایک ایک مجلس اڑھائی اڑھائی ، تین تین گھنٹے بلکہ بعض جگہ پانچ ، پانچ گھنٹے تک جاری رہی ہے.مجالس ختم بھی ہو گئیں تو تب بھی لوگ آتے رہے اور بیٹھ جاتے رہے.وہ یورپ کی سیاست پر باتیں پوچھتے رہے کہ یورپ کا کیا بنے گا؟ ڈیما کریسی کیا چیز ہے؟ اسلام کا نظام حکومت کیا ہے؟ کمیونزم کے پھیلنے کے کیا امکانات ہیں؟ ایٹمی جنگ کس وقت آئے گی؟ اور یہ کیا ہوگا اور وہ کیا ہو گا؟ ان مجالس کی ساری باتیں تو یہاں دہرائی نہیں جاسکتیں.یہ ناممکن ہے، اس لئے مختصرا میں نے اسلام کی تبلیغ کا نمونہ پیش کر دیا ہے.اب میرا خیال ہے کہ کھا نا شروع کرائیں، کچھ لوگوں کو بھوک لگی ہوگی.ایک اور سوال ہے، مسلمان کیوں دن بدن منزل میں جارہے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں، اس کا جواب یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے.کیونکہ یہ ہماری تاریخ کا ایک دردناک باب ہے اور یہ اتنی صدیوں پر پھیلا ہوا ہے کہ اس کا میں ذکر چھیڑ دوں تو بہت لمبا قصہ چلے گا اور پھر تکلیف کا موجب بنے گا، اس لئے میرا خیال ہے، اس ذکر کو اس وقت رہنے دیا جائے.مطبوعه روزنامه الفضل 03 مئی 1983ء) 275
تحریک جدید -- ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سری لنکا بکوشیداے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سری لنکا منعقدہ 27، 28 نومبر 1982 ء برادران جماعت و حاضرین جلسه! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مکرم مولوی محمد عمر صاحب نے آپ کے سالانہ جلسہ کے لئے پیغام بھجوانے کو کہا ہے.اس بارے میں میرا پیغام حضرت مسیح موعود مہدی مسعود علیہ السلام کا یہ شعر ہے:.بکوشید اے جواناں تا بدین قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے.مفسرین نے قرآن مجید کی آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف:9) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ تمام ادیان پر اسلام کا غلبہ مسیح موعود علیہ السلام سے وابستہ ہے.یہی وجہ ہے کہ جہاں صادق و مصدوق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح و مہدی کی آمد کی خبر دی وہاں فرمایا:.وجب على كل مؤمن نصره او قال اجابته.(ابوداؤد، کتاب الملاحم ، باب ما یذ کرفی ذکر المهدی) کہ مہدی موعود آئے تو ہر مسلمان پر اس کی مدد اور اس کی آواز پر لبیک کہنا واجب ہے.اور اس غلبہ کے لئے ہمیں اپنی جدو جہد کو انتہاء تک پہنچانا ضروری ہے.خدا کی مدد موقوف ہوتی ہے، اس امر پر کہ بندے اس کی تقدیر کو پورا کرنے کے لئے کس حد تک اپنے فرض کو پورا کرتے ہیں.دیکھئے مامور زمانہ اپنی ابتدائی کتاب فتح اسلام میں فرماتے ہیں:.وو...اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا، جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے.اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا، جیسا کہ پہلے چڑھ چکا 277
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سری لنکا تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے، جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کرلیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا“.فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 13 صفحه 10) پس آپ دعاؤں، قربانیوں، محنت اور جانفشانی سے اس دن کو قریب لانے کی سعی فرماویں، جب خدا کی یہ تقدیر پوری ہو.ہم نے لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا ہے، دلائل اور نیک نمونہ سے.مذہب کی اشاعت کے لئے کسی تشدد اور جبر کی ضرورت نہیں.دلوں میں ایمان کا بیج بونے کے لئے ، نیک تبدیلی کے لئے سختی کی نہیں ، نرمی، محبت اور دعاؤں کی ضرورت ہے.اور دعوت اسلام کے لئے قرآن نے ہمیں ایک بنیادی ہدایت دی ہے.اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے:.ادْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل :125) کہ اپنے رب کی راہ کی طرف دانائی سے بلاؤ.اس کے احکام کی فلاسفی لوگوں کو جتلاؤ.اور اس طرح نصیحت کرو کہ لوگوں کے دل تمہاری موعظ کی طرف مائل ہوں.احسن طور پر خدا کا پیغام پہنچاؤ.شیریں کلامی اور دلائل، جب ان کے ساتھ اچھے اخلاق ہوں، اثر پیدا کئے بغیر نہیں رہتے.آپ خاص طور پر بدھوں میں تبلیغ کی طرف توجہ کریں ، انہیں اسلامی نجات کی فلاسفی اور اس کی اعلیٰ تعلیم سے آگاہ کریں.ابھی تک بدھوں میں تبلیغ کی طرف ہم نے توجہ نہیں کی.اسلام کی تعلیم عالمگیر ، اہم گیر ہے اور آفاقی ہے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ اپنے بدھ بھائیوں کی طرف ہم توجہ نہ کریں.اگر ہم انہیں یہ باور کر اسکیں کہ روح کی شناختی اور خدا کا قرب اب صرف اسلام میں ہی ہے تو انشاء اللہ وہ لوگ بھی اسلام کی طرف توجہ کریں گے.اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ آپ پر اپنے فضلوں کی بارش نازل فرمائے.آپ کی مساعی میں برکت عطا فرمائے.آپ میں باہم الفت اور مودت پیدا فرمائے.جس کی طرف کشتی نوح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے.ایک دوسروں کے قصوروں اور کوتاہیوں کو معاف کرو.بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلیل کرو.نفس کی فربہی چھوڑ دو.اور ایسے ہو جاؤ، جیسے ایک ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے دو بھائی.278
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سری لنکا خدا کرے آپ اور ہم سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے آقا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.آمین یا رب العالمین.والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روز نامہ الفضل 19 دسمبر 1982ء) 279
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ششم تحریک جدید کی ذمہ داریاں خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی سفر یورپ سے کامیاب مراجعت کی خوشی میں تحریک جدید انجمن احمدیہ کی طرف سے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا گیا، اس موقع پر مکرم محترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ نے ایک سپاسنامہ پیش کیا.اس کے جواب میں حضور نے درج ذیل خطاب فرمایا:.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ عطا کر کے مسلمانوں پر ایک ایسا عظیم الشان احسان فرمایا ہے کہ اگر انسانی نسلیں قیامت تک سورہ فاتحہ ہی کے الفاظ میں الحمد للہ پڑھتی رہیں، تب بھی اس احسان کا حق ادا نہیں ہوسکتا.ہر شکر کے موقع پر، ہر غم کے موقع پر، ہر کامیابی پر اور ہر نقصان پر اس سے بہتر مضمون پڑھنے کے لئے انسانی دماغ تصور نہیں کر سکتا.ایسا اظہار ہے جذبہ تشکر کا اور ایسی کامل دعا ہے، ہر مختلف صورت حال کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے فوائد یا نقصانات کے موقع کے لئے اور مستقبل کے خدشات سے بچنے کے لئے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.انسان کے دل میں کتنا بڑا طوفان ہی کیوں نہ موجزن ہو، یہ دعا ان چند کلمات کے ذریعے انسان کو اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کا موقع عطا کر دیتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور جو کچھ بھی انسان عرض کرنا چاہتا ہے، وہ ایسی زبان میں عرض کر دیتا ہے کہ کہنے والا تو سمجھ رہا ہوتا ہے مگر ضروری نہیں کہ سننے والوں کو بھی معلوم ہو کہ ان الفاظ میں اس مرتبہ کیا کہا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ سورہ فاتحہ جب بھی پڑھی جائے ، انسانی قلب کی کیفیت کو ایسے خاص انداز میں ادا کرتی ہے کہ جس پر وہ کیفیت گذرے، صرف وہی جان سکتا ہے کہ ان الفاظ میں اپنے رب کے حضور کیا پیش کیا گیا ہے.تو اظہار بھی ہے اور اخفاء بھی ہے.یہ ایسی عظیم الشان سورۃ ہے کہ اس پر جتنا بھی غور کریں، جتنا بھی اس میں غوطے لگائیں، اتنا ہی انسان اس کی عظمت کا پہلے سے بڑھ کر قائل ہوتا چلا جاتا ہے.اس لئے ہر اہم موقع پر خلفاء کی یہ سنت اور طریق رہا ہے کہ وہ سورہ فاتحہ سے آغاز کیا کرتے اور جہاں تک میر اعلم ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے یہ سنت جاری 281
خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ششم ہوئی ہے کہ آپ ہر اہم موقع پر سورۂ فاتحہ کی تلاوت سے اپنی گفتگو کا آغاز فرمایا کرتے تھے.چنانچہ میں بھی ہر ایسے موقع پر اپنے جذبات تشکر کے اظہار کے لئے سورۃ فاتحہ ہی سے آغا ز کیا کرتا ہوں.لیکن اس وقت جو بات میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں ، وہ میرے دورہ یورپ کے ایک خاص حصے سے متعلق ہے.میری مراد تحریک جدید کی ان ذمہ داریوں سے ہے، جو اس دورے کے نتیجہ میں میرے سامنے کھل کر آئی ہیں.اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر چہ وہ ذمہ داریاں ہمیشہ سے تحریک جدید ہی کی ذمہ داریاں ہیں لیکن ایک وقت تک وہ مخفی ذمہ داریاں رہیں، خوابیدہ ذمہ داریاں رہیں، اب اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا فرمائے ہیں کہ وہ پوری قوت کے ساتھ بیدار ہورہی ہیں.مثلاً اس دورے کے دوران مختلف مجالس شوریٰ میں جو تجاویز سامنے آئیں اور اجتماعی طور پر مغربی ممالک میں تبلیغ اور دیگر فرائض کی سرانجام دہی کے سلسلے میں پین کی مجلس شوری میں جو تجاویز پیش ہوئیں، اگر آپ ان پر غور کریں تو دو قسم کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں.ایک تو انسان ہیجان میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کرنے والے کام تو اتنے زیادہ ہیں، ہم کیسے کر سکیں گے اور کس طرح ان حقوق کو ادا کریں گے اور کس طرح ترجیحات قائم کریں گے؟ دوسرے اپنی کم مائیگی اور بے بسی کا احساس بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے کام تو وہ ہیں، جو لا زمان کرنے والے ہیں.لیکن ہمارے موجودہ وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے.موجودہ تنظیمی حالات اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ مزید محنت کی جائے.جہاں تک مرکز سلسلہ میں کارکنوں کا تعلق ہے، وہ کام کے مقابل پر بہت ہی تھوڑے نظر آتے ہیں.جہاں تک عمارتوں کا تعلق ہے، وہ بھی کام کے مقابل پر بالکل بے معنی سی دکھائی دیتی ہیں.اور حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہر ایک شعبہ بیدار ہو تو ہر ایک کے لئے پوری ایک ایک عمارت کی ضرورت ہے.میں اس بات کو واضح کرنے کے لئے صرف چند مثالیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.جہاں تک تصنیف اور لٹریچر کا تعلق ہے، جو چند فیصلے مختلف ممالک میں ہوئے ، وہ میں آپ کے سامنے گنواتا ہوں.اس سے آپ اندازہ کرسکیں گے کہ صرف اس ایک شعبے کے لئے کتنی بڑی عمارت کی ضرورت ہے، کتنے زیادہ کارکنوں کی ضرورت ہے، کتنے بڑے ماہرین کی ضرورت ہے، کتنے بڑے مالی وسائل کی ضرورت ہے اور کتنی بڑی انتظامی ضرورت سامنے آئی ہے.جو ساری دنیا پر نظر رکھ کر حالات کا جائزہ لیتے ہوئے تدریجی لحاظ سے اس بات کی نگرانی کرے کہ تمام ممالک اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ 282
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982 ء ایک فیصلہ جس کا تمام مشنوں کو پابند کیا گیا تھا، وہ یہ ہے کہ دنیا میں جتنی زبانوں میں بھی آج تک احمدیت کا کسی موضوع پر لٹریچر شائع ہوا ہے، وہ تمام ممالک کے مشنوں میں بطور لائبریری موجود ہونا چاہیے.مثلاً اگر جاپانی زبان میں مختلف وقتوں میں کوئی رسالہ یا کتاب شائع کی گئی تو اس کی کم از کم دودو کا پیاں تمام دنیا کے مشنوں کی لائبریری میں موجود ہونی چاہئیں.اسی طرح اگر چینی زبان میں ، انڈونیشین زبان میں، یورپ، افریقہ اور دیگر ممالک کی زبانوں میں اس قسم کا لٹریچر شائع ہوا ہو تو وہ بھی تمام مشنوں میں ہونا چاہیے.اگر آپ جائزہ لیں تو سب سے پہلے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تحریک جدید میں ایک مرکزی دفتر اس مقصد کے لئے قائم ہونا چاہیے کہ آج تک جتنا بھی لٹریچر شائع ہوا ہے، وہ پہلے یکجائی طور پر اس کی فہرست منضبط کرے اور پھر معلوم کرے کہ کس کتاب کی اشاعت کب ہوئی تھی ؟ وہ کتاب کس نے لکھی ، کس نے اس کا ترجمہ کیا اور اس کی موجودہ حیثیت کیا ہے؟ اور پھر اس کی Availability یعنی اس کے مہیا ہونے پر غور کرے.اور یہ بھی جائزہ لے کہ ان میں سے جو کتابیں ضروری ہیں لیکن اس وقت مہیا نہیں ہیں، ان کی دوبارہ اشاعت پر کتنے اخراجات ہوں گے؟ اور انہیں تمام دنیا میں پھیلانے کا کیا انتظام ہوگا ؟ ان ساری ذمہ داریوں کو کون ادا کرے گا اور کس طرح ادا کرے گا؟ اس کے لئے ایک پورا ڈیپارٹمنٹ چاہئے.پھر جب تک ہر کتاب کا اردو اور انگریزی میں ترجمہ نہ ہو، مشن اس سے استفادہ نہیں کر سکتے.ہر مشن میں اندھی کتابیں پڑی ہوں، جن کے متعلق مبلغ کو معلوم ہی نہ ہو کہ ان میں کیا لکھا ہوا ہے؟ تو وہ کس طرح ایک مہمان سے تعارف کروا سکتا ہے کہ آپ کے لئے میرے پاس فلاں فلاں موضوع پر کتب موجود ہیں.اس لئے لازما ہر کتاب کا خلاصہ بھی تیار کروانا پڑے گا.اور پھر اسے خوبصورت جلدوں میں سب مشنوں کو مہیا کرنا پڑے گا.تا کہ اگر دنیا کے کسی بھی علاقے کا کوئی انسان ہمارے کسی مشن میں جائے تو ہمارا مبلغ بڑی ہمت اور حو صلے کے ساتھ اس کو کہہ سکے کہ آپ کی زبان میں پیش کرنے کے لئے میرے پاس لٹریچر موجود ہے.اس کا ایک حصہ وہ ہے، جس کا تعلق طبع شدہ کتابوں سے ہے.اور دوسرا حصہ وہ ہے، جو خلا کی صورت میں ہمارے سامنے ابھرے گا.وہ بھی بہت سی ذمہ داریاں سامنے لاکھڑی کرے گا.دنیا کی بہت سی اہم زبانیں ہیں، جن میں دنیا کو پیش کرنے کے لئے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں.اس حصے کا مشنوں کی آئندہ پلانگ اور پالیسی کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.مثلاً اٹلی میں جب بھی خدا تعالیٰ توفیق دے اور زمین کا معاملہ طے ہو جائے، وہاں ہم نے ایک مشن قائم کرنا ہے.یہ فیصلہ شدہ بات ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو دینے کے لئے اٹالین زبان میں لٹریچر کہاں ہے؟ اور اس قوم کو مخاطب کرنے کے لئے کس قسم کے لٹریچر کی ضرورت ہے؟ وہ کون تیار کرے گا ؟ 283
خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جب کون کی بات شروع ہوگی تو ذہن مربیوں کی طرف چلا جائے گا کہ کیا اتنے مربی موجود بھی ہیں، جو ان قوموں کی زبانیں جانتے ہوں؟ اور اگر نہیں ہیں تو پھر ہمیں دو قسم کے زبان دان تیار کرنے پڑیں گے.ایک تصنیف کے کام کے لئے اور ایک تبلیغ کے کام کے لئے.دونوں آپس میں متبادل بھی ہو سکتے ہیں.لیکن تصنیف کے بعض خاص تقاضے ہیں.اسی طرح تبلیغ کے بعض خاص تقاضے ہیں.ہر انسان الگ الگ مزاج رکھتا ہے اور وہ ہر تقاضے کو پورا بھی نہیں کر سکتا.تو یہ جائزہ لینا ہوگا کہ اس وقت ہمارے پاس کتنے مربی یا واقفین ہیں؟ کون اس بات کا اہل ہے کہ اٹالین زبان سیکھے اور پھر تصنیف کا کام کرے؟ اور کون اس بات کا اہل ہے کہ وہ اٹلی میں تبلیغ کا کام کرے؟ پھر یہ کہ ان واقفین کی تیاری کہاں کہاں ہوگی ؟ جب آپ اس پہلو سے دیکھتے ہیں تو اتنے بڑے خلا سامنے ابھر آتے ہیں کہ انسان لرزنے لگتا ہے کہ اتنے بڑے اور وسیع تقاضوں کو کیسے پورا کر سکوں گا ؟ پھر شین یعنی روسی قوم ہے، جو دو عظیم طاقتوں میں سے ایک بڑی طاقت ہے.پہلے تو اور بہت ساری طاقتیں بھی سپر یعنی عظیم کہلایا کرتی تھیں.کسی زمانے میں پانچ طاقتیں تھیں.پھر تین رہ گئیں.اب صرف دو سپر طاقتیں رہ گئی ہیں.ایک سپر طاقت امریکہ ہے اور ایک رشیا.روس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کشف ہے کہ میں روس میں اپنی جماعت کو ریت کے ذروں کی طرف پھیلا ہوادیکھتا ہوں.( تذکره صفحه 813 طبع سوم ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ان الفاظ میں خدا کا جو وعدہ ہے، اسے بہر حال کسی نے پورا کرنا ہے.اور ہمارا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم نے ہی اسے پورا کرنا ہے.لیکن کس طرح پورا کریں گے جبکہ آج تک ہمارے پاس رشین یعنی روسی زبان میں کوئی لٹریچر ہی نہیں ہے؟ جو خلا سامنے آتے ہیں، یہ بھی علیحدہ علیحدہ ڈیپارٹمنٹ کا تقاضا کر رہے ہیں.کہیں رشین ڈیپارٹمنٹ قائم کرنا پڑے گا، کہیں portuguese یعنی پرتگالی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنا پڑے گا اور کہیں اٹالین ڈیپارٹمنٹ قائم کرنا پڑے گا.اس کے لئے ہمارے پاس کتنے آدمی ہیں، وسائل کتنے ہیں، زبانیں سکھانے میں کتنا وقت لگے گا؟ کتنی ہم میں صبر کی طاقت ہے اور اس کام کے سلسلہ میں پہلے کیا کیا جائے؟ یہ سارے امور ایسے ہیں کہ جب آپ ان پر غور کریں ، تب پتہ چلتا ہے کہ ہم کتنے بے بس اور بے حیثیت لوگ ہیں.اور اس احساس کے ساتھ ہی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.ان دعاؤں کی طرف ، جو اس کامل یقین سے پھوٹتی ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں.اتنے بڑے کاموں کے کرنے کا دعوی لے کر نکلنے والی 284
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء جماعت اپنے موجودہ حالات پر غور کر رہی ہو اور صرف ایک چھوٹے سے شعبے میں اتنے مسائل سامنے ابھر آئیں تو اس کے اندر سوائے انکساری پیدا ہونے کے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.ایک ایسی انکساری کہ جو جتنی بھی کی جائے ، مبالغہ نہیں بن سکتی.اس انکساری میں آپ جتنا بھی بڑھیں ، وہ ایک عارفانہ انکساری ہو گی.اور ہر عارفانہ انکساری کے نتیجے میں دعا نکلتی ہے.دعا اور انکساری میں اللہ تعالیٰ نے ایسا طبعی جوڑ رکھا ہوا ہے، جس کو کوئی دنیا میں الگ نہیں کر سکتا.پس دعاؤں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے لیکن اس غور کے نتیجہ میں.ہاں اگر آپ غور نہ کریں اور روٹین Routine میں چلتے رہیں تو پھر کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا.اس سلسلے میں سب سے اہم ضرورت یہ سامنے آئی کہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے ہمارے پاس قرآن کریم کے اہم تراجم بھی نہیں ہیں.اور جو ترجمے ہو چکے ہیں، ان پر جب غور کیا گیا تو پتہ لگا کہ وہ ساری دنیا میں اس طرح پھیلے پڑے ہیں کہ کسی ایک جگہ بھی ان کا ریکارڈ نہیں ہے.کسی زبان میں ترجمہ ایک ملک میں پڑا ہوا ہے اور کسی اور زبان میں ترجمہ کہیں اور جگہ پڑا ہوا ہے.کچھ ریکارڈ یہاں مرکز میں پڑا ہوا ہے اور اس کی ڈپلیکیشن (Duplication) یعنی نقل باہر نہیں ہے.اور جو ریکارڈ باہر پڑا ہوا ہے، اس ( Duplication ) یہاں نہیں ہے.اس کو اکٹھا کر وانے اور ایک جگہ منضبط کروانے کے لئے ہمہ وقت آدمیوں کی ضرورت ہے.اور مختلف جگہوں میں ضرورت ہے.چنانچہ جب انگلستان میں اس ضمن میں تحریک کی گئی تو بعض دوستوں نے اپنی خدمات پیش کیں.صرف انگلستان میں تین آدمیوں کی ایک.ص کمیٹی اس پر کام کر رہی ہے کہ وہاں قرآن کریم کے تراجم کے جو مسودات موجود ہیں، ان کا جائزہ لے کر اندازہ لگایا جائے کہ ان کی کیا حیثیت ہے اور کس حد تک وہ قابل اعتماد ہیں؟ اور جماعت پر اس ذمہ داری کے جو تقا ضے آتے ہیں، ان کو پورا کرنے کے لئے کیا ذرائع اختیار کئے جائیں؟ پھر ان کی اشاعت اور تقسیم کا سوال ہے.مثلاً اگر آپ صرف پ صرف لائبریریوں میں ہی قرآن کریم کے تراجم کی مختلف زبانوں کی ایک ایک نقل رکھوانے کا انتظام کریں تو صرف شمالی امریکہ میں پچھتر ہزار لائبریریاں ہیں.اب آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ذمہ داریاں کتنی پھیلی پڑی ہیں اور اس کے مقابل پر ہمارے وسائل اور ہماری حیثیت کیا ہے.یعنی قرآن کریم انگریزی کا اگر ایک ایک نسخہ لائبریریوں میں رکھوایا جائے تو صرف شمالی امریکہ کی لائبریریوں میں پچھتر ہزار نسخے صرف ہو جاتے ہیں.پھر دنیا بھر کی یونیورسٹیاں ہیں اور اہل دانش ہیں، ان کے لئے ان کی زبان میں لٹریچر مہیا کرنا پڑے گا.یہ کہنا تو آسان ہے کہ مختلف زبانوں میں لٹریچر ہونا چاہیے.لیکن جب آپ آگے بڑھیں گے اور 285
خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہلی تحریک جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر زبان میں ہر طبقے کے لئے لٹریچر ہونا چاہیے.یہ پہلو بھی سامنے آیا.جب اس کا جائزہ لیا گیا تو پتہ لگا کہ باقی زبا نہیں تو الگ رہیں ، صرف انگریزی میں ہی جہاں اچھی خاصی جہتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس لٹریچر موجود ہے، وقت کے نہایت اہم تقاضوں سے متعلق لٹریچر موجود نہیں.نئے نئے تقاضے پیدا ہورہے ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لئے ہمارے پاس لٹر پچر کافی نہیں.بہت سے موضوعات ہیں، جن کے لئے چھان بین کی جارہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانے سے لے کر اب تک جو لکھا جا چکا ہے، اس کو تلاش کر کے ان ارتھ Unearth کیا جائے اور نکالا جائے.ہو سکتا ہے بہت بہتر مضمون ادا ہو چکا ہو لیکن اس وقت ہمارے ذہن سے فراموش ہو چکا ہو اور ہماری نظر میں نہ رہا ہو.ایسے مضامین نکالے جائیں اور پھر ان کی اشاعت کا انتظام کیا جائے.لٹریچر کے یہ جو تقاضے ہیں کہ ہر ملک کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر ان سے خطاب کیا جائے ، جب میں نے اس پر نظر ڈالی اور سرسری جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس کام کے لئے بہت بڑی بڑی نہمیں چاہئیں.ہمارے جو موجودہ مرکزی علماء ہیں، ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اپنے مفوضہ فرائض سر انجام دینے کے ساتھ یہ کام بھی کریں.اگر وہ اپنے وقت کا ہر لمحہ بھی قربان کر دیں اور اپنی ذات کو جھونک دیں ، تب بھی یہ کام نہیں ہو سکتا.اس کا عشر عشیر بھی نہیں کر سکتے.تو یہ کی بھی سامنے آجاتی ہے.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے جب مسٹر منگمری واٹ Mr.Montgomery Watt سے میری ملاقات ہوئی تو اس ملاقات کے دوران اور اس سے پہلے بعض بالکل نئے تقاضے سامنے آئے.مثلاً یه که موجودہ دور میں مستشرقین ایک باقاعدہ پالیسی کے تحت اسلام کے ہمدرد بن کرلٹریچر شائع کر رہے ہیں.اور ساتھ ساتھ اسلام پر نہایت ناپاک اور گندے حملے کر رہے ہیں.اور اس طرز پر کر رہے ہیں کہ کسی کو پتہ ہی نہ لگے کہ خنجر گھونپا جا رہا ہے اور خنجر گھونپ دیا جائے.مسٹ منٹگمری واٹ سے گفتگو سے پہلے میں نے ان کی کتابوں کے خلاصے تیار کر والیے کافی بڑے خلاصے تھے لیکن تھے Abridge Fom میں.یعنی یہ نہیں تھا کہ پڑھنے والا اپنی مرضی سے تیار کرلے.میں نے خلاصے تیار کرنے والوں سے کہا کہ کتاب کہ جتنے اہم باب ہیں، ان میں سے بنیادی بات لازماً آنی چاہیے.جب میں نے ان کا مطالعہ کیا تو تب مجھے پتا چلا کہ مسٹر نتگمری واٹ اسلام کے متعلق کیا سوچتے ہیں، ان کی کیا پالیسی ہے اور نئی جنریشن ( Generation) یعنی نئی نسل کو انہوں نے کیا دیا ہے؟ دنیا کے سامنے ان کی اس وقت یہ تصویر ہے کہ وہ اسلام کے نہایت ہی ہمدرد اور نئی نسل کے راہنما ہیں اور اسلام کے معاملے میں وہ اپنے استادوں تک کے 286
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء باغی ہیں.وہ اپنے استادوں کو کہتے ہیں کہ تم لوگوں نے بڑا ظلم کیا ہے اور یہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے.چنانچہ اس تصویر کے نتیجے میں اس کے پاس صرف ایک مسلم ملک سے پچاس طالب علم اسلام سیکھنے کے لئے پہنچے ہوئے ہیں.یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر ایک احمدی ٹیچر کے ساتھ اسلامیات کا نام لگ جائے تو وہ اتنا نا قابل برداشت ہو جاتا ہے کہ بعض دفعہ ہنگامے کھڑے ہو جاتے ہیں.لیکن دوسری طرف یہ غیر مسلم صاحب، جو بڑی حکمت کے ساتھ اپنے نقطہ نگاہ سے اسلام پر حملہ کرتے ہیں اور بعض مسلمان ممالک اپنے خرچ پر، یو نیورسٹی کی بے شمار فیسیں دے کر اپنے طلبہ کو ان کے پاس اسلام سیکھنے کی خاطر بھجوا رہے ہیں اور ساری دنیا میں ان کے شاگردوں نے آج جس قسم کا اسلام پھیلایا ہے، وہ میں آپ کو بتاتا ہوں.ان کی ابتدائی کتاب، جس میں انہوں نے اس زمانے میں بے تکلفی سے اپنی پالیسی Discuss کی ہوئی ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو یہ کہا جائے کہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی کتاب ہے، خدا کی نہیں ہے تو وہ تم میں دلچسپی کھو دیں گے.اس لئے یہ کہو کہ ہاں یہ خدا کی کتاب ہے ، تم بالکل ٹھیک کہتے ہو.لیکن باتیں وہ بیان کرو، جو ظاہر کریں کہ محمد کی کتاب ہے، خدا کی ہے ہی نہیں.چنانچہ ان کے بہت سے اقتباسات پر میں نشان لگا کر اپنے ساتھ لے گیا اور اپنے ذہن میں بھی رکھے.جب ان سے گفتگو ہوئی تو میں نے ان سے کہا: آپ کا فلاں بات کے متعلق کیا خیال ہے اور فلاں کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے Explaination یعنی وضاحت کرنی بھی چھوڑ دی.باتیں میرے ذہن میں تھیں اور ان کی کتابوں کے حوالے بھی ساتھ تھے، اگر انکار کرتے تو حوالے دکھائے جا سکتے تھے.لیکن یہ لوگ انکار نہیں کرتے.ان میں ایک Integritiy یعنی دیانتداری بہر حال پائی جاتی ہے.اگر یہ مستشرقین اسلام کے دشمن بھی ہیں تو کسی قاعدے اور قانون سے حملہ کرتے ہیں.اس طرح نہیں کرتے کہ یونہی جھوٹ بول جائیں یا غلط بیانی سے کام لیں.چنانچہ مسٹر منگمری واٹ تسلیم کرتے گئے کہ ہاں ٹھیک ہے، میں نے ایسے ہی لکھا تھا.بہر حال کئی ایسے پہلو سامنے آئے کہ ہمدرد بن کر مستشرقین نے اسلام پر حملے کئے ہوئے ہیں اور نئی نسل میں وہ اتناز ہر پھیلا رہے ہیں کہ ہر ہفتے بے شمار کتابیں شائع ہو رہی ہیں.اگر تحریک جدید صرف انہیں کا پیچھا کرے اور سارے وسائل استعمال کرلے، تب بھی حق ادا نہیں ہو سکے گا.چنانچہ اس علم کے تحت میں نے انگلستان میں تحریک کی کہ تمام دنیا میں ہمیں دو قسم کے سٹیشن قائم رنے پڑیں گے.یعنی ایک Tracking سٹیشن اور ایک Monitoring سیشن.اور Tracking 287
خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک سٹیشن کے لئے احمدی اپنے آپ کو وقف کریں.خصوصاً لائبریرین یا اس مضمون سے تعلق رکھنے والے دوست ان کے لئے یہ کام بہت آسان ہے.کمپیوٹرائز ڈانفارمیشن دنیا کی ہر کتاب کے متعلق آج کل لائبریریوں میں موجود ہے.اور لائبریرین اگر یہ معلوم کرنا چاہیں کہ پچھلے پچاس سال میں اسلام کے متعلق کسی زبان میں کتنی کتابیں لکھی گئیں تھیں؟ تو وہ آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں.تو ایسے دوست جو اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں ، وہ ایسی کتابیں معلوم کر کے ان کی لسٹیں مہیا کریں.اور جب یہ کام ہو جائے تو پھر نسبتا زیادہ علمی مذاق رکھنے والے لوگوں کی ایک ٹیم ہو، جو اپنا وقت پیش کرے.مختلف ممالک میں ایسی کتابیں ان کے سپرد کی جائیں اور انہیں کہا جائے کہ آپ ان کا مطالعہ کر کے ان کے اعتراضات کی نشاندہی کریں اور وہ مرکز کو مہیا کریں کہ فلاں فلاں کتاب میں اس قسم کے اعتراضات ہیں.یہاں علماء کا ایک سیل Cell جوابات تیار کرے.پھر پاکستان کے احمدیوں میں سے بھی واقفین اس رنگ میں طلب کئے جائیں کہ وہ اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کریں گے.یہاں مرکز میں آکر با قاعدہ حاضری دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ اپنے ہاں رہتے ہوئے اور اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے وقت پیش کریں گے کہ فلاں کتاب یا جو بھی مقرر کی جائے ، اس کا جواب لکھنے کے لئے جس تحقیق کی ضرورت ہے، میں وہ تحقیق کرنے کے لئے تیار ہوں.کراچی، لاہور، اسلام آباد وغیرہ بڑے شہروں میں لائبریریاں موجود ہیں اور حقیق کے بڑے مواقع مہیا ہیں.تو ایسے دوست اپنی شامیں وقف کریں.راتوں کو بے شک گیارہ بارہ بجے گھر لوٹیں لیکن یہ خدمت کا کام ہے، جوان کو کرنا چاہیے.ورنہ علماء سلسلہ کے پاس تو اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ ان باتوں کو Pursue کر سکیں.پھر چھن کر جو معلومات آئیں، ان سے یہاں ہم اپنی ہدایت کے مطابق کتابیں لکھوائیں یا یہ معلومات وغیرہ باہر کے احمدی سکالرز کو بھیجیں کہ تم اس اس طرح کتابیں لکھو.جب اس بارے میں تحقیق کی گئی تو جو ابتدائی معلومات انگلستان سے ملی ہیں، ان سے معلوم ہوا کہ وہاں اس قسم کی کتابیں اتنی زیادہ ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ہم ان کے تقاضے کس طرح پورے کر سکیں گے.اور یہ صرف ایک زبان ہے.ایسی کتابیں فریج میں لکھی جارہی ہیں، جرمن میں بھی لکھی جا رہی ہیں، ڈچ زبان میں بھی لکھی جارہی ہیں.اور بہت سی دوسری زبانوں میں لکھی جارہی ہیں.اور ایک ایک کتاب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو جاتی ہے.اس کے بعد یہ مسئلہ آتا ہے کہ اس کو کس طرح Pursue کرنا ہے؟ یعنی اس جواب کو کس طرح دنیا میں بھجوانا ہے؟ میں نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے پاس صد سالہ منصوبے کی جس قدر رقم ہے، اگر اس میں سے ہم ایک آنہ بھی کسی اور جگہ خرچ نہ کریں تو صرف انگریزی زبان میں جواب کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمیں اس سے زیادہ رقم کی ضرورت ہے.! 288
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء اس کا کیا حل ہے؟ کچھ حصل تو ہم نے سوچے ہیں اور اللہ تعالیٰ کچھ اور بھی سمجھائے گا.انشاء اللہ.کم سے کم روپے میں ہم اس کا کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں؟ اس کے کئی ذرائع ہیں، جو اختیار کئے جاسکتے ہیں.ان میں سے ایک ذریعہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے.ان کو اس رنگ میں چیلنج دیا جائے کہ وہ Debate یعنی مباحثہ کروانے پر مجبور ہو جائیں.اگر ہم ذہنی طور پر اور علمی طور پر پوری طرح تیار ہوں تو اللہ تعالٰی بعد میں ان چیزوں کو آسان فرما دیتا ہے.ابھی تین دن ہوئے، میر محمود احمد صاحب ناصر مبلغ سپین کی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ خود ہی ایسے انتظام فرمارہا ہے کہ ہماری کم مائیگی کے بدلے ان لوگوں کی دوستیں ہمارے کام آنے لگی ہیں.اور اللہ تعالی اسلام کے حق میں ان کے وسائل استعمال کرنے کے مواقع مہیا فرما رہا ہے.چنانچہ میر صاحب کو سپین کے ریڈیو نے دعوت دی کہ آپ ایک عیسائی پادری کے ساتھ مذاکرہ کریں اور یہ مذاکرہ ہم اپنے پروگرام میں نشر کریں گے.چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ تک میر صاحب کو وہاں تقریر کرنے کا موقع ملا.میر صاحب اردو میں بول رہے تھے.اور ہمارے مبلغ عبدالستارخان صاحب مترجم تھے.مکرم میر صاحب بڑی اچھی طرح تیار تھے.ویسے بھی ان کا عیسائیت کے بارہ میں علم اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا گہرا ہے.یہاں جامعہ احمدیہ میں عیسائیت کے پروفیسر بھی رہے ہیں.انہوں نے چند سوال کئے ، جن سے پادری صاحب اتنا گھبرا گئے کہ انہوں نے اپنا وقت استعمال ہی نہیں کیا اور اس وقت کا اکثر حصہ میر صاحب کو سارے سپین کو تبلیغ کرنے کے لئے مل گیا.پس اگر ایک طرف نظر ڈالیں تو بے بسی اور کم مائیگی کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا.اور تقاضے اتنے زیادہ ہیں کہ انسان (اکسائیٹڈ Exited) مضطرب ہو جاتا ہے اور ہیجان پکڑ جاتا ہے کہ میں کیا کروں اور کس طرح ان کو پورا کروں؟ دوسری طرف اس بے بسی کے نتیجہ میں دل سے دعا نکلتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے اور کچھ بھی نہ ہونے کے باوجود ذرائع مہیا فرما دیتا ہے.اب اندازہ کریں کہ سارے پین کے لئے خدا تعالیٰ نے کتنی جلدی تبلیغ کا انتظام کر دیا.مجھے کامل یقین ہے اور ہر احمدی کو بھی یہ یقین ہے کہ اگر ہم دیانتداری کے ساتھ جو کچھ ہمارا ہے، وہ پیش کر دیں گے تو جو کچھ خدا کا ہے، وہ اس میں مل جائے گا.پھر ہمیں کوئی بھی کمی نہیں رہے گی.کیونکہ سب کچھ خدا کا ہے.اس نے اپنے ساتھ اتنا پیارا سودا کرنے کا ارشاد فرمایا ہے کہ اپنا قطرہ میرے سمندر میں ڈال دو، میر اسمندر بھی تمہارا ہو جائے گا اور تمہارا قطرہ میرا ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ” جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہوا“ ( تذکره صفحه 471 طبع سوم ) 289
خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں بھی یہی فلسفہ بیان ہوا ہے.کتنا آسان سودا ہے.فرماتا ہے : میں تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے تمہیں دیا ہے، اس کو واپس میری راہ میں خرچ کر دو.اگر تم ایسا کرو گے تو جو کچھ میرا ہے، وہ سارے کا سارا تمہارا ہو جائے گا.اس لئے اگر ہم خدا کا سب کچھ لینا چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً اپنا سب کچھ اس کی خاطر جھونکنا پڑے گا.جو کچھ ہمارے پاس مہیا ہے، اگر وہ ہم اس کی راہ میں خرچ کر دیں تو ساری دنیا کے تقاضے پورے ہو جائیں گے.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام شروع ہو چکا ہے.لیکن اگر آپ صرف اس ایک شعبے کے متعلق سوچیں، جس کا تعلق مستشرقین کی کتابوں کے تعاقب اور پھر اس کے نتیجہ میں لٹریچر تیار کرنے سے ہے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنے بڑے کام ہیں، جو ہم نے کرنے ہیں.اس شعبے کو مرکزی طور پر جگہ کی ضرورت ہے، وہ ہمارے پاس ہے یا نہیں؟ اس کے لئے کتنے نگران چاہئیں؟ عام تحریکات کی جائیں تا کہ ایسے آدمی مہیا ہو سکیں.میرے علم کے مطابق باہر کی دنیا کو ابھی اس تحریک کا پوری طرح علم نہیں ہے.انگلستان سے جو Response ہوئی، وہ خدا کے فضل سے بڑی خوشکن تھی.کیونکہ وہیں اس کے متعلق خطبہ دیا گیا تھا.مگر باقی دنیا سے ابھی کوئی Response نہیں ہو رہی.جس کا مطلب یہ ہے کہ یا وہ خطبہ شائع نہیں ہوایا تحریک جدید کے پاس اتنے کام پڑے ہوئے ہیں کہ اس حصے کی طرف ابھی توجہ نہیں ہوسکی.جب آپ یہ تحریک دنیا کے مشنوں تک بھیجیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ اس کے مطابق جواب بھی آنے شروع ہو جائیں گے.مبلغین کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بھی ہمیں لازماً اس قسم کی سکیمیں چلانی پڑیں گی.چنانچہ سپین کے لئے واقفین عارضی کی جو تحریک کی گئی تھی، اس سلسلہ میں لنڈن سے اطلاع ملی ہے کہ خدا کے فضل سے صرف مجلس انصار اللہ لنڈن نے سترہ واقفین پیش کئے ہیں، جن میں سے دو اس وقت تک سپین کے لئے روانہ بھی ہو چکے ہیں.مگر ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے.نہ وہاں کی زبان آتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس اس زبان میں لٹریچر ہے.جب تک زبان سیکھیں گے، اس وقت تک کہیں گے کیا اور کریں گے کیا؟ اس کے لئے ہم نے ٹپس کی جو سکیم شروع کی تھی ، اس پر بے شمر کام ہونے والا ہے.اس کے لئے ایک بڑا وسیع شعبہ ہیے.وہ حکیم یہ ہے کہ دنیا کی ہر اہم زبان میں احمدیت کا تعارف اس زبان کے مختلف ریجنز Regions یعنی علاقوں کے تقاضوں کے مطابق ٹپس کی صورت میں تیار کر دیا جائے.یہ کام ابتدائی تیاری کے لحاظ تو بڑا مشکل ہے.لیکن اخراجات کے لحاظ سے اتنا آسان اور سستا ہے کہ آپ چند لاکھ روپے میں دنیا کے ہر مشن کو وہاں کی زبان میں سیٹ کے طور پر ٹپس مہیا کر سکتے ہیں.اگر آپ چھ چھ ، آٹھ آٹھ ٹیپس کا سیٹ ہر 290
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء مشن کو مہیا کر دیں تو میں نے اندازہ کیا ہے کہ اس پر صرف چند لاکھ روپے خرچ آئے گا.اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی مشن میں آئے تو اس کو یہ ٹیپس سنائی جاسکتی ہیں.لٹریچر پر تو بہت زیادہ وقت لگے گا اور اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں ہوسکتا.پس تو ایک عارضی کام کرتی ہیں.لیکن بہر حال جب تک لٹریچر شائع نہ ہو، ہم کس طرح صبر سے بیٹھ سکتے ہیں.اگر تحریک جدید ٹپس کی تیاری کی طرف توجہ کرے تو اس کے پاس نہ تو تیار کرنے والے آدمی ہیں اور نہ ہی اس وقت سامان مہیا ہیں.Duplicating مشین تک بھی نہیں ہے.پھر وڈیوریکارڈ سے استفادہ کرنا چاہیے.علاوہ ازیں جو نو جوان احمدی ہوں گے، ان کے تربیتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے لٹریچر کی ضرورت ہے.تربیت کے لئے ان کو کیا مواد مہیا کرنا ہے؟ کس طرح نماز سکھانی ہے؟ کس طرح ان کی بد عادات ان سے ترک کروانی ہیں؟ تو تحریک جدید کو اس قسم کا لٹریچر بھی شائع کرنا ہوگا.یہ ساری باتیں، جن کا میں نے مختصر اذکر کیا ہے، وہ ہیں ، جو سفر یورپ کے دوران مختلف مجالس شوری میں زیر بحث آچکی ہیں.لیکن ساری باتیں، جو وہاں زیر بحث آئیں ، یہاں بیان نہیں ہوئیں ، نہ ہو سکتی ہیں.کیونکہ وہ تو کئی دنوں پر پھیلی ہوئی ہیں.چند ایک کو بیان کر دیا گیا ہے.ضرورتوں کے نہایت باریک پہلو سامنے آئے ہیں.احمدی کو اللہ تعالیٰ نے ایسا روشن ذہن عطا فرمایا ہے کہ جب وہ دیانتداری کے ساتھ غور کرنا شروع کر دیتا ہے اور بہیجان پکڑتا ہے تو بڑے بڑے پیارے پوائنٹ اور سکتے اس کے ذہن میں بھی آتے ہیں.ہر ملک سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت ہی عمدہ اور اعلیٰ تجاویز سامنے آئی ہیں.ان سب کو عملی شکل میں ڈھالنا بہت بڑا کام ہے.ان کو منضبط کر کے دنیا کے ہر مشن کی ذمہ داری کو معین کرنے کا کام بھی ابھی تک نہیں ہو سکا.اس کے لئے بھی بڑی محنت کی ضرورت ہے.تحریک جدید کے جن کارکنان کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے، وہ خدا کے فضل سے کر رہے ہیں.ہمارا تو بالکل وہی حال ہے " کو میری لیلی تے کنوں کنوں دواں“.یہ بچپن کی ایک پنجابی کھیل تھی، جو ہم کھیلا کرتے تھے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دین کے کام اتنے پھیل گئے ہیں اور تقاضے اتنے وسیع ہو گئے ہیں کہ ہم سارے مل کر ایک لیلای“ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.یہ کہاں کہاں جائے اور کس کس کام میں صرف ہو؟ انسان جب یہ سوچتا ہے تو پھر وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ خدا کے حضور جھکنے کے سوا چارہ ہی کوئی نہیں پوری بے بسی کا عالم نظر آتا ہے.میں یہ باتیں اس موقع پر اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ تحریک جدید کے جتنے بھی واقفین ہیں، ان کو اپنے طور پر بھی سوچنا چاہیے کہ اگر ان میں کوئی سستی ہے تو اس کو ختم کر دیں.اب ان کو اپنے دن رات 291
خطاب فرمودہ 02 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیش کرنے پڑیں گے.یہ بھول جائیں کہ دفتر کا وقت کب ختم ہوتا ہے اور کب شروع ہوتا ہے؟ دنیا میں جن لوگوں نے بڑے بڑے کام کئے ہیں، ان کے وقت تو اور طرح شروع ہوا کرتے تھے اور اور طرح ختم ہوا کرتے تھے.یہ کیسے ممکن ہے کہ دین میں ہم اتنے تقاضے بھی پورے نہ کریں، جتنے دنیا والے پورے کر چکے ہیں.نیوٹن کا وقت اس طرح شروع ہوتا تھا کہ سورج نکلنے سے پہلے اپنے کام پر ہوتا تھا اور رات کے بارہ بجے کی گھنٹی وہ اپنے کام پر سنا کرتا تھا.ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ کام کی لذت انسان کو پکڑتی ہے.اور سب سے زیادہ لذت دین کے کام میں ہے.کام نہیں کریں گے تو لذت نہیں پکڑے گی.لیکن اگر آپ روح اور جذبہ کے ساتھ کام کریں گے اور سمجھ لیں گے کہ آج کے بعد میں اور میرا خدا ہیں، تیسرا کوئی بیچ میں نہیں.نہ ہمارا وکیل ، نہ وکیل اعلیٰ ، نہ صدر، نہ خلیفہ.میں جانوں اور میرا خدا جانے.میں نے اس کو حساب دینا ہے.جو کچھ میرا ہے، وہ میں نے اس کے حضور پیش کر دینا ہے.چاہے Recognise ہو یا نہ ہو.چاہے کسی کو نظر آئے یا نہ آئے کہ کس طرح میں کام کرتا ہوں؟ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہو.لیکن میں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کو دینا ہے.اگر موجودہ سارے واقفین اس نیت کے ساتھ اپنا کام شروع کر دیں اور اس نیت کو لے کر نئے واقفین آنے شروع ہو جا ئیں تو کچھ نہ کچھ تسکین کے سامان بھی ساتھ ساتھ شروع ہو جائیں گے.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ فضل فرما رہا ہے اور فرماتا چلا جائے گا.جتنا زیادہ آپ اس کی راہ میں ڈالیں گے، اتنازیادہ خدا کا فضل کئی گنا زیادہ ہو کر آپ کے اوپر ظاہر ہوگا.یہ جماعت احمدیہ کا تجربہ ہے اس کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.ملکوں کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے اور صرف فارایسٹ Far East یعنی مشرق بعید ہی کو دیکھیں، وہاں کا اکثر حصہ احمدیت سے خالی پڑا ہے.وہاں کچھ بھی نہیں.صرف ایک انڈونیشیا کے تقاضے ہی ہم پورے نہیں کر سکتے.جب ہم نے اس پہلو سے غور کیا ، اس وقت مجالس شوری میں بھی بے شمار چیزیں سامنے آئی ہیں، وہ ساری ٹیپیں موجود ہیں.اس وقت تحریک جدید دن رات کام کر رہی ہے کہ ان ہدایات کو الگ الگ کر کے مختلف مشنوں کو تک پہنچائے.میں نے تو صرف چند باتیں پیش کی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آخری بات یہی ہے کہ دعائیں کریں.کیونکہ دعا کے بغیر ہم سے کچھ بھی نہیں ہوتا.اتنے کام پڑے ہوئے ہیں کہ سوائے اللہ کے فضل کے اور سوائے اس کے کہ خدا ہم پر رحم کرے، ہم سے یہ تقاضے پورے نہیں ہو سکتے“.292 ( مطبوعه روزنامه الفضل 24 فروری 1983 ء ) |
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء صد سالہ جوہلی کے نظام کا تعلق دراصل تحریک جدید سے ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.صد سالہ جوبلی کا جو منصوبہ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے سامنے پیش فرمایا تھا، اس وقت اگر چہ آپ کے پیش نظر اڑھائی کروڑ روپے کی تحریک تھی لیکن بہت جلد احباب جماعت کے غیر معمولی اخلاص کے اظہار سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جماعت اس موڈ میں تھی کہ وہ دس کروڑ سے زائد پیش کرے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے جماعت کو یہی توفیق عطا فرمائی اور تمام دنیا کی جماعت ہائے احمدیہ نے اڑھائی کروڑ کی بجائے دس کروڑ ستر لاکھ، اکہتر ہزار، دوسو ستائیس (10,77,71,227 ) روپے کے وعدے پیش کئے.یہ منصوبہ ، جس کا نام صد سالہ جشن احمدیت بھی رکھا گیا اور جشن ہی کا انگریزی ترجمہ جو بلی ہے، اس کا غرض کے لئے تو نہیں بنایا گیا تھا کہ سوسال انتظار کے بعد کروڑ ہا روپے کو ہم میلے کی شکل میں خرچ کر دیں.اور جس طرح دنیا کی قو میں بے معنی اور کھو کھلے جشن مناتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی یہ جماعت بھی لغویات میں مبتلا ہو کر ایک بے معنی اور بے ہودہ خوشی کا اظہار کرے.اگر یہ مقصد ہو تو یہ سارا روپیہ ضائع ہونے والی بات ہے.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جماعت احمدیہ کے مقاصد کی گردن پر چھری پھیرنے کے مترادف ہے.اس منصوبے کے کچھ اور مقاصد تھے، جو مختلف وقتوں میں جماعت کے سامنے کھول کر پیش کئے جاتے رہے.اس غرض سے ایک منصوبہ بندی کمیشن بھی بنایا گیا اور میں بھی اس کا ایک ممبر تھا.بڑے تفصیلی غور و خوض کے بعد تمام دنیا کے حالات کا جائزہ لے کر اور تمام دنیا سے کوائف اکٹھے کر کے وقتا فوقتا اس منصوبے کی مختلف شکلیں ابھرتی رہیں.ان دنوں حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ سے وقت لے کر بھی ساری کمیٹی پیش ہوتی رہی اور کبھی سیکر ٹری منصوبہ بندی کمیشن.اور بعض دفعہ گھنٹوں اکٹھے بیٹھ کر اس کی تفصیلی چھان بین کی جاتی رہی.اور بالآخر وہ منصوبہ ایسی شکل میں منظور ہوا کہ اگر چہ اس کے بعض پہلوا بھی بھی قابل غور ہیں، لیکن خدا کے فضل سے اکثر شکلیں اپنی سوچ اور فکر کے لحاظ سے پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہیں.293
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اس غرض کے لیے جو اخراجات در پیش ہیں، وہ اس نوعیت کے نہیں ہیں کہ آخری وعدوں کی آخری وصولی آخری سال یعنی 1989ء میں ہو، تب بھی ہمارا کام چل جائے.اخراجات میں سے ایک بہت بڑا حصہ اس نوعیت کا ہے کہ صد سالہ جشن سے چند سال پہلے اگر ساری وصولی ہو سکے تو زیادہ عمدگی کے ساتھ کام چل سکتے ہیں.اور اگر اس میں تاخیر ہو جائے تو یہ بھی خطرہ ہے کہ بعض بنیادی اور اہم ضرورت کے کام تشنہ تکمیل رہ جائیں.لیکن اس وقت وصولی کی جو شکل سامنے آئی ہے ، وہ انتہائی فکر انگیز ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار چونکہ ایک الگ محکمے سے تعلق رکھتے تھے، یعنی اس کے لئے ایک سیکرٹری صد سالہ جو بلی برائے وصولی چندہ الگ مقرر تھا.اس لیے منصوبہ بندی کمیشن کے سامنے چندہ کی تدریجی وصولی کے اعداد و شمار نہ پیش ہوئے ، نہ ان سے اس کمیشن کا کوئی تعلق تھا، لیکن اب جب میں نے یہ اعداد و شمار نکلوائے تو یہ فکر انگیز صورت سامنے آئی کہ تدریجی وصولی کے لحاظ سے اب تک جتنا وقت گزر چکا ہے، اس نسبت سے جو وصولی ہونی چاہئے تھی، وہ نہیں ہوئی.یعنی دس کروڑ ستر لاکھ، اکہتر ہزار دوسو، ستائیس (10,77,71,227) میں سے چھ کروڑ، بیالیس لاکھ، چھیانوے ہزار، آٹھ سو، ترین (6,42,96,853 رو پید اب تک وصول ہو جانا چاہئے تھا.اس کے مقابل پر اس وقت تک کل وصولی صرف تین کروڑ ، پچپن لاکھ، انسٹھ ہزار دوسو، چونتیس (3,55,59,234) روپیہ ہے.گویا دس کروڑ ستر لاکھ کے وعدوں میں سے سات کروڑ روپیہ بقیہ چند سالوں میں قابل وصول پڑا ہوا ہے.اس کا مزید تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پاکستان کاکل وعدہ پانچ کروڑ ، بیالیس لاکھ ، اکانوے ہزار دوسو، تر اسی روپے تھا.اس کے مقابل پر پاکستان کو اب تک وصولی کی شکل میں تین کروڑ ، پچیس لاکھ ، چوہتر ہزار، سات سو انہتر (3,25,74,769) روپے پیش کر دینا چاہئے تھا.لیکن ادائیگی صرف ایک کروڑ ، ستاون لاکھ ، نواسی ہزار ، نوسو، اٹھارہ (1,57,89,918) روپے ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک بھی پاکستان کی جماعتیں اس چندے میں اللہ تعالیٰ کی ایک کروڑ ، ستاسٹھ لاکھ ، چوراسی ہزار ، آٹھ سو، اکاون (1,67,84,851) روپے کی مقروض ہو چکی ہیں.اور بقیہ وعدہ اگر تدریجا دیں اور جلدی نہ دیں، حالانکہ جلدی دینے کی ضرورت ہے، ( ضرورت یہ ہے کہ آخری سال سے دو، تین سال پہلے سب روپیہ وصول ہو جائے.تب بھی ایک کروڑ ، ستاسٹھ لاکھ ، چوراسی ہزار روپے کا مزید باران کے اوپر ایسا پڑا ہوا ہے، جو بظاہر پورا ہوتا نظر نہیں آتا.سوائے اس کے کہ جماعتیں غیر معمولی قربانی اور فکر اور ہمت سے کام لیں.تو پاکستان کی جماعتوں کو اب تک جو ادا کرنا چاہئے تھا، اس میں سے نصف بھی ادا نہیں ہو سکا.یعنی اس کی وصولی صرف 48 فیصدی ہے.294
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء بیرون پاکستان کی یہ شکل بنتی ہے کہ وہاں کی جماعتوں نے پانچ کروڑ ، چونتیس لاکھ ، اناسی ہزار، نوسو، چوالیس (5,34,79,944 روپے کا وعدہ لکھوایا.جس میں سے اب تک ان کو تین کروڑ سترہ لاکھ ، بائیس ہزار، چوراسی (3,17,22,084) روپے ادا کرنا چاہئے تھا.مگر ادائیگی صرف ایک کروڑ ستانوے لاکھ، انہتر ہزار، تین سو سولہ ( 1,97,69,316) روپے ہوئی ہے.تو بیرونی جماعتیں پاکستان کے مقابل پر تدریجی وصولی میں کچھ آگے ہیں.یعنی ان کو اب تک جو سو (100) دینے تھے، ان میں سے باسٹھ (62) روپے دیئے ہیں اور 38 روپے ان پر قرض ہو چکا ہے.جبکہ پاکستان کی جماعتوں نے سو (100) میں سے صرف 48 روپے دیئے ہیں اور ان پر 52 روپے کا قرض ہو چکا ہے.اس نسبت سے بیرون پاکستان وصولی کی رفتار قدرے بہتر ہے.لیکن اور بہت سے پہلو ایسے ہیں، جن کے لحاظ سے بہت سے بیرونی ممالک پاکستان کی جماعتوں کی قربانی کے معیار سے ابھی پیچھے ہیں.جب یہ صورت حال سامنے آئی تو مزید جائزہ لیا گیا اور پتہ لگا کہ کراچی اور لاہور کی جماعتیں باوجود اس کے کہ باقی چندوں میں وہ بہت مستعد ہیں، اس چندے میں نمایاں طور پر پیچھے رہ گئی ہیں.اکیلے کراچی کا وعدہ ایک کروڑ ، پچپن لاکھ پچپن ہزار، پانچ سو پچپن (1,55,55,555) روپے تھا.جس میں سے دو تہائی ابھی ان کے ذمے قرض پڑا ہوا ہے.اسی طرح لاہور کا وعدہ تر اسی لاکھ، انہتر ہزار ایک سو، چھہتر (83,619,176 روپے تھا.اس میں سے بھی بیشتر ان کے ذمہ ابھی قرض پڑا ہوا ہے.دوسری طرف چندوں کی بہتری کی جو تحریکات چل رہی ہیں اور اس کے لیے ایک روچلی ہوئی ہے، اس طرف بھی لازماً جماعت کی توجہ ہے.پھر تحریک جدید ہے ، وقف جدید ہے، اسی طرح اور بہت سی تحریکات ہیں، مثلاً ”بیوت الحمد کا منصوبہ بھی سامنے آیا ہے، یہ سارے بوجھ جماعت نے بہر حال اٹھانے ہیں.میں ان کو بوجھ اس لیے کہتا ہوں کہ اردو محاورے میں یہی لفظ سامنے آتا ہے.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بوجھ نہیں ہیں.عربی زبان میں تو دو الگ الگ ایسے لفظ استعمال ہوئے ہیں، جن سے فرق ہو جاتا ہے.ذمہ داریوں کے لئے قرآن کریم حمل کا لفظ استعمال کرتا ہے، جیسا کہ فرمایا:.اور رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا (البقرة:287) 295
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں اصر کا لفظ دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے.قرآن کریم اصر کا لفظ اس بوجھ کے لیے استعمال کرتا ہے، جس کو قوموں نے ذمہ داریاں سمجھ کر اٹھایا.مگر پھر ان سے بے پرواہی کی.تب وہ ذمہ داریاں ان کے اوپر بیٹھ گئیں اور یہ ان کو بوجھ سمجھ کر اٹھائے پھرتے رہے.حقیقت میں وہ بوجھ نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت اور انعام تھا.پس جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اصر کا لفظ قرآن کریم میں عموماً اس قسم کے بوجھوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جہاں شریعت کی ذمہ داری کو عرف عام میں بوجھ اور مصیبت اور بے گار کہا جاتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک صفت یہ بیان فرمائی:.يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ (الاعراف: 158) کہ وہ ان کے اوپر سے بوجھ اتارتا ہے.اگر اصر سے شریعت کی ذمہ داریاں مراد ہوں تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ شریعت کی ذمہ داریوں سے آزاد کرانے آئے تھے.حالانکہ آپ تو ذمہ داریاں ڈالنے والے تھے نہ کہ اتارنے والے.پس مراد یہ تھی کہ پرانی شریعتوں نے جن چیزوں کو بوجھ سمجھ لیا یا شریعت سے زائد ذمہ داریاں قبول کرلیں ، جو واقعہ بوجھ تھیں، ان سب کو اتار پھینکا.نفسیاتی لحاظ سے رجحان میں بھی تبدیلی پیدا کی اور وہ ذمہ داریاں ، جو خدا نے نہیں ڈالی تھیں، ان کو بھی دور فرما دیا.چونکہ اردو میں کوئی دوسر الفظ نہیں ملتا، اس لئے میں مجبور ہوں کہ بوجھ کہوں.مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور اس کا احسان ہے.اللہ تعالیٰ جس جماعت کو قربانی کے لئے بلائے اور اس پر انحصار کر دے دنیا میں انقلابات لانے کا، اس پر بناء رکھ دے، ایک نئی زمین اور اک نئے آسمان کی تعمیر کی ، اس کے لیے اس سے بڑا انعام اور احسان اور کیا ہو سکتا ہے.یعنی اس ساری دنیا میں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہی چنا ہے، انقلاب اور تبدیلی لانے کے لئے.حالانکہ آج دنیا میں اربوں ارب روپیہ کمانے والے ایسے افراد موجود ہیں، جو جماعت احمدیہ کی کل دولت سے زیادہ اکیلے دولت رکھتے ہیں.پھر بے شمار کمپنیوں میں سے ایسی Multi National کمپنیاں موجود ہیں، جو بعض بڑے بڑے ملکوں کی دولت سے زیادہ دولت اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں.پس جہاں تک دولتوں کے سمندر کا تعلق ہے، ہم اس کا ایک قطرہ بھی شمار ہونے کے اہل نہیں ہیں.پھر جہاں تک دنیاوی طاقتوں اور سیاسی طاقتوں کا تعلق ہے، دنیا میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے.اس لئے خدا کا ہمیں اس بات کے لئے چن لینا کہ ساری دنیا کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا لو اور میں تمہارے ساتھ ہوں، اس سے بڑا احسان اور اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا 296
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے.اس لئے یہ ہماری خوش قسمتی ہے اور جب تک خوش قسمتی سمجھ کر ہم ان ذمہ داریوں کوادا کرتے رہیں گے، ادائیگی کی بھی توفیق ملتی رہے گی.اور اس کے بدلے میں ہم بے انتہا فضلوں کے بھی وارث بنائے جائیں گے.لیکن اگر ہم نے اس انعام کو اصر سمجھ لیا، ایسا بوجھ ، جو چٹی کے طور پر پڑ جاتا ہے تو پھر ہماری قربانیاں بھی رائیگاں گئیں اور ان کے مقاصد بھی حاصل نہیں ہو سکتے.سوال یہ ہے کہ ایسی جماعت، جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں اخلاص کے لحاظ سے ایک بے مثل مقام رکھتی ہے اور جب وہ وعدہ کرتی ہے تو پورے اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ اسے پورا کرتی ہے، وہ اتنے اہم چندے میں پیچھے کیوں رہ گئی؟ میں نے مختلف حیثیتوں میں بطور سائق بھی کام کیا ، بطور زعیم بھی کام کیا، بطور قائد بھی اور بطور صدر مجلس بھی.اسی طرح وقف جدید میں بھی مجھے موقع ملا.جماعت کے مالی نظام کے متعلق میرا سالہا سال کا تجربہ ہے کہ جماعت احمدیہ، بحیثیت جماعت کسی قربانی سے پیچھے رہنے والی جماعت نہیں ہے.نظام جماعت کے جو کارندے ہیں، بعض دفعہ ان میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں جماعتیں چندوں میں پیچھے رہنا شروع ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ غفلت کی حالت میں بعض دفعہ واقعہ وہ اتنا پیچھے رہ جاتی ہیں کہ پھر مزید ذمہ داری کا اٹھانا، ان کے لئے بوجھ بن جاتا ہے، ذمہ داری نہیں رہتی.یہ جو حالت ہے ، اس میں لازماً ایک حصہ اس نظام سے بھی تعلق رکھتا ہے، جس کا فرض تھا کہ ہر سال جماعت کو بیدار کرتا رہے اور جھنجھوڑ تار ہے اور یاد کرا تار ہے کہ یہ تمہاری ذمہ داری ہے اور تم اس کی ادائیگی میں پیچھے رہ رہے ہو.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس منصوبے کے جو اعلیٰ مقاصد ہیں، ان کو جس طرح کھل کر بار بار جماعت کے سامنے پیش ہونا چاہئے تھا، اس کا کوئی موقع نہیں آیا.یعنی حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی میں جو منصو بہ کھول کر پیش کیا تھا، اس کے سارے نقوش چھپ چکے ہیں لیکن وہ ایسی صورت میں چھپے ہیں کہ جس طرح اخبار الفضل جماعت کے سامنے پیش کرتا ہے یا دوسرے رسائل.اس طرح وہ جماعت کے سامنے بار بار نہیں آسکے، جس طرح ان کا حق تھا.وہ یا شوری کی کارروائی میں پڑے ہوئے ہیں یا منصوبہ بندی کمیشن کے سامنے جو ہدایات ہیں یا کمیشن کی سوچ و بچار کے جو نتائج ہیں، وہ ان کی فائلوں میں دبے پڑے ہیں.تو جماعت کے سامنے کھل کر بار بار یہ بات پیش نہیں ہوئی کہ یہ یہ کام ہیں، جن پر اتنا خرچ آتا ہے اور تمہاری غفلت یا نیند نے اب تک یہ نقصان پہنچادیا ہے.منصوبہ بندی کے سارے کو الف تو میں آپ کے سامنے پیش نہیں کر سکتا.لیکن خلاصہ چند باتیں میں نے نوٹ کی ہیں، جو میں اس وقت آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ کتنے عظیم 297
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء ہیں، تحریک جدید - ایک الہی تحریک مقاصد ہیں، جن کے لئے یہ روپیہ خرچ ہوتا ہے اور بعض ضرورتیں کتنی تیزی کے ساتھ سامنے آکھڑی ہیں.اور اگر ان کی طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو پھر اتنا وقت ہی نہیں رہے گا کہ ان کی طرف توجہ دی جا سکے.جلسہ سالانہ قریب آنے والا ہے، اس لئے ہم یہاں سے بات شروع کرتے ہیں.جب سو سالہ جلسہ سالانہ ہو گا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا سے کس طرح جوق در جوق احمدی پروانوں کی طرح جلسہ پر حاضر ہوں گے.اور جلسے کی یہ شکل تو نہیں رہے گی، جو اس وقت ہے.اس کے انتظامات ہر پہلو سے کئی گنا پھیل جائیں گے.عمارتوں کے تقاضے ہیں، نئی جلسہ گاہ بنانے کے تقاضے پھر لنگروں کے نئے تقاضے پیدا ہوں گے.پھر اس جلسے سے تعلق رکھنے والے جشن کے بعض ایسے پہلو ہیں، جو اسی وقت سامنے آئیں گے اور جلسے سے پہلے ہی ان پر کام مکمل ہو چکا ہو گا.گویا وہ سارا سال ہی عملاً جشن میں گذرے گا.اور بعض پہلو ایسے ہیں، جن کی تیاری پر ابھی سے خرچ کرنا پڑے گا اور ابھی سے محنت کرنی پڑے گی.مثلاً تعمیرات ہیں، اس کے لئے زمین حاصل کرنے کا کام ہے.(اس کا ایک حصہ تو ہو چکا ہے.پھر یہ جائزہ کہ اس زمین کو کس طرح بہتر رنگ میں جلسہ سالانہ کے لئے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کس قسم کی تنصیبات کی ضرورت ہے؟ کس قسم کی تعمیرات کی ضرورت ہے؟ نقشے بنتے بنتے ہی کافی وقت لگ جاتا ہے.پھر جب "گو آرڈر (Go Order) یعنی کام شروع کر دو، کہا جائے گا تو اس کے لئے کئی سال درکار ہیں.پھر ضروری کتب اور پمفلٹ کی اشاعت ہے.تمام ملکوں میں خدمت اسلام کی با تصویر تاریخ ہم نے وہاں پیش کرنی ہے.تصنیف کا یہ ایک شعبہ جلسہ سالانہ سے تعلق رکھنے والا ہے.غانا، نائیجیریا، سیرالیون، امریکہ، انگلستان، جرمنی اور دیگر ممالک، جہاں جماعت احمدیہ کے با قاعدہ مشن قائم ہیں، ان تمام مشنوں کی پوری تاریخ الف سے کی تک اور پھر وہاں جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کیا کیا کامیابیاں نصیب ہوئیں، نہایت اعلی قسم کی با تصویر کتابوں کی شکل میں پیش کرنی ہے.جس سے ہر بڑی زبان میں پڑھنے والا معلوم کر سکے کہ کیا پیش کیا گیا ہے؟ چھوٹے چھوٹے کپشنز (Captions) یعنی عنوانات مختلف زبانوں میں تیار ہوں.کچھ فرنچ میں، کچھ اٹالین میں، کچھ جرمن میں، کچھ اردو میں، کچھ عربی میں، کچھ سواحیلی میں، کچھ روسی اور لاطینی میں.غرض یہ کہ مختلف زبانوں میں ہمیں ساتھ ایک ایک لائن کا تعارف دینا پڑے گا.اب صرف یہی اتنا بڑا اور وسیع کام ہے کہ اس کی تیاری کے لئے اخراجات کی ضرورت ہے.اور بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہے، جو ابھی سے ہمہ تن وقف ہو کر یہ کام شروع کر دیں.علاوہ ازیں دنیا کی ایک سو زبانوں میں اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا کام ہے.اس کام کے لئے ان زبانوں کے ماہرین کی تیاری کی ضرورت ہے.اس پر بہت سا روپیہ خرچ ہو گا.298
خطبہ جمعہ فرموده 03 دسمبر 1982 ء تریک جدید - ایک الہبی تحریک - گر اپنے ماہرین تیار نہیں ہو سکتے تو دوسرے ماہرین کو لینا پڑے گا.پھر پمفلٹ کی اشاعت کی تیاری اور اس کی تقسیم کی تیاری ہے کہ وہ تقسیم کس طرح ہوگی؟ تا کہ دنیا کی ایک سوزبانوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچ جائے.یہ ہے ہمارا جشن.اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے.اس کام کے لئے ہم یہ تو نہیں کر سکتے کہ ساری دنیا کی کمپنیوں کو کہیں کہ ہمارا کام کر دو، ہم پیسے بعد میں دے دیں گے.ہمارے پیسے آنے والے ہیں ، انتظار کرو.یہ تو کوئی بھی نہیں مانے گا.آج کل بہت سے کام ایسے ہیں، جن پر پیشگی خرچ کرنا پڑتا ہے.پھر ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ایک سو ملکوں میں جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم ہو چکی ہو.آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کوشش کے لئے کتنی محنت اور کس قدر اخراجات کی ضرورت ہے.جن نئے ملکوں کا انتخاب کیا جائے گا، (اور وہ انتخاب ساتھ ساتھ ہو رہا ہے.ان میں مشنوں کا قیام وہاں مبلغوں کا بھجوانا اور ان کی وہاں کی ضروریات کا پورا کرنا ہے.اگر فی الحال صرف کرائے پر مکان لے کر ہی کام شروع کیا جائے تو اس پر بھی بے انتہا خرچ کا اندازہ ہے.آپ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ باہر کی دنیا خصوصاً مغربی دنیا میں روپے کی کیا قدر اور حیثیت رہ گئی ہے.اور وہاں چھوٹے چھوٹے مشنوں کے قیام کے لئے کتنے اخراجات کرنے پڑتے ہیں.پھر مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر ہے.سو (100) جگہ تو با قاعدہ جماعتیں قائم کرتی ہیں لیکن اس کے علاوہ ہر جگہ عمارت خرید کر یا اپنی عمارت تعمیر کر کے مشن کا قائم کرنا اس وقت ہمارے لئے ناممکن ہے.میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے، اکثر صورتوں میں مکان کرائے پر لے کر گزارہ کرنا پڑے گا.ایک کمرہ بھی مل جائے تو مبلغ وہاں تبلیغ کا کام شروع کر سکتا ہے.دو مشنوں یعنی اٹلی اور برازیل کے لئے تو خدام الاحمدیہ پہلے ہی روپیہ پیش کر چکی ہے.لیکن ان کے علاوہ جو ملک ہمارے پیش نظر ہیں، ان میں یونان ہے، پرتگال ہے، آسٹریا ہے، آئر لینڈ ہے، آسٹریلیا ہے، نیوزی لینڈ ہے، اسی طرح ایسے افریقی ممالک ہیں، جہاں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے.اور ابھی تک ہمارا وہاں کوئی نفوذ نہیں ہوا.سوائے بہین اور ماریشس کے، جوفرانسیسی بولنے والے ممالک ہیں، ابھی تک جماعت احمد یہ کو فرانسیسی کالونیز میں پھیلنے کا موقع نہیں ملا.دنیا کا یہ ایک بڑا حصہ ہے، جو احمدیت سے خالی پڑا ہے.پھر ساؤتھ ایسٹ ایشیا یعنی جنوب مشرقی ایشیا یا فار ایسٹ یعنی مشرق بعید وغیرہ.( جو جو اصطلاحیں جغرافیائی حالات پر پوری اترتی ہیں، ان کی روشنی میں، میں کہہ رہا ہوں.) یہ سارے علاقے عملاً محتاج پڑے ہوئے ہیں.یہاں احمدیت کا پیغام نہیں پہنچا.پھر بدھسٹ (Buddhist) دنیا ہے.دنیا میں بدھوں کی بہت بڑی 299
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک البی تحریک تعداد پائی جاتی ہے.سارے مسلمانوں کی کل تعداد سے دگنے سے بھی یہ زیادہ ہیں.لیکن ان میں ابھی تک جماعت کا کوئی نفوذ نہیں.بدھ ممالک میں مشنوں کا ایسا قیام ہو کہ بدھ قوم کو تبلیغ کی جائے.بدھ ممالک میں اس وقت ہمارے جتنے بھی مشن کام کر رہے ہیں، وہ ہندوستانی نسل کے آباد کاروں میں تبلیغ کرتے رہے ہیں اور انہی میں سے جماعتیں بنا چکے ہیں.لیکن جہاں تک بدھ دنیا کا تعلق ہے وہاں خلا پڑا ہوا ہے.پھر آپ جنوبی امریکہ میں چلے جائیں.جو عملاً ایک عظیم الشان کانٹینٹ یعنی براعظم ہے.ایک بر اعظم ساؤتھ امریکہ کا بن جاتا ہے اور ایک نارتھ یعنی شمالی امریکہ کا بن جاتا ہے.جغرافیائی لحاظ سے تو شایدان دونوں کو ایک ہی براعظم کہیں لیکن جغرافیائی تقسیم ایسی ہے کہ حقیقت میں ساؤتھ امریکہ ایک الگ بر اعظم ہے.وہاں ایک برازیل سے تو بات نہیں بنے گی.اور برازیل میں صرف ایک مشن قائم کرنے سے تو بات نہیں بنے گی.وہاں دسیوں اور ممالک ہیں، چھوٹے بھی اور بڑے بھی اور ان کے جزائر ، جو بہت پھیلے ہوئے ہیں، ان سب میں ہمیں کام کرنا پڑے گا.تو یہ کام بھی قرض سے تو نہیں چل سکتا کہ ہم ان سے کہیں، ہمیں یہاں مشن بنانے دو مگر پہلے تم اپنی طرف سے خرچ کر دو، ہم تمہیں بعد میں دے دیں گے.اس معاملے میں تو کسی نے آپ کے ساتھ معمولی سا بھی تعاون نہیں کرنا.ان مشنوں کی تعمیر کے لیے ہی حقیقت میں کروڑوں روپیہ درکار ہے.لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی ذمہ داریاں ہیں، جو اس منصوبے کے علاوہ جماعتوں نے خود ادا کرنی ہیں.اور وہ پہلو بہ پہلو جاری رہیں گی.مثلاً جرمنی میں جماعت کا جو پھیلاؤ ہے، اس کے لحاظ سے وہاں مشن بہت تھوڑے ہیں.مغربی جرمنی کے لیے ہم نے جو منصوبہ بندی وہاں کی تو پتہ چلا کہ کم از کم تین اور مشنوں کا قیام وہاں ضروری ہے.نیز موجودہ دونوں مشنوں یعنی ہمبرگ اور فرینکفورٹ کی توسیع ضروری ہے.مسجد ہمبرگ میں بھی اور مسجد فرینکفورٹ میں بھی جو حاضرین تھے، ان کا اور فلو (Over flow) کناروں تک باہر چلا جاتا تھا.یعنی صحن بھی بھر جاتا اور لوگ سڑکوں تک پہنچ جاتے تھے.نتیجہ یہ نکلا کہ ہمسایوں کو شکایت پیدا ہوئی.بہت سے ہمسائے تو بڑے خلیق اور ہمدرد ہیں لیکن ان میں بعض اسلام کے دشمن بھی تھے، انہوں نے اعتراض کئے.یہاں تک کہ اب وہ توسیع کے معاملے میں بھی روک بنے ہوئے ہیں.یہ تو سیعات اس منصوبے کے علاوہ ہیں.پھر انگلستان میں باوجود اس کے کہ قریب کے عرصہ میں خدا کے فضل سے چھ مشن قائم ہوئے ہیں، وہاں ہماری مرکزی مسجد بہت چھوٹی رہ گئی ہے اور وہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ جگہ کی کمی کی وجہ سے دوست باہر کھڑے ہونے پر مجبور ہوتے ہیں.پارکنگ کی ضروریات پوری ہونے والی 300
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء ہیں.احمدیوں کی کاروں سے تمام سڑکیں بھر جاتی ہیں.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمسایوں کو تکلیف ہوتی ہے اور ان کی تکلیف کا اظہار جائز بھی ہے.یہ ٹھیک ہے کہ وہ بڑی مہذب قومیں ہیں.لیکن برداشت کی بھی کچھ حدیں ہوتی ہیں.اب ہر جمعہ کو دوست مسجد میں اکٹھے ہوں اور تمام سڑکیں بھر دیں اور گزرنے والوں کے لیے ایک مصیبت کھڑی کر دیں تو وہ کہاں تک برداشت کر سکتے ہیں؟ اس لیے وہاں کاروں کی پارکنگ کے لیے جگہ کی ضرورت ہے.اور اس کے لیے بہت سارو پیہ چاہئے.امریکہ میں کم از کم پانچ مشن فوری طور پر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے.یہ بھی اس منصوبے کے علاوہ ہے اور وہاں کی جماعتوں نے یہ بوجھ بھی اٹھانے ہیں.پس اتنے وسیع کام پڑے ہوئے ہیں، جو ہم نے کرنے ہیں.اور ابھی تو میں نے سارے کام آپ کے سامنے پیش ہی نہیں کئے.ان میں سب سے بڑا اور سب سے اہم کام قرآن کریم کے تراجم کی مختلف زبانوں میں اشاعت ہے.بہت سی زبانوں میں ابتدائی مراحل پر ترجمے مکمل ہو چکے ہیں.ان کی نظر ثانی ، پھر نظر ثانی اور پھر مزید احتیاط، یہ مراحل ابھی باقی ہیں.لیکن بسم اللہ کی سب سے لے کر الناس کی اس تک کا ترجمہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہے اور مسودات پڑے ہوئے ہیں.ان کے اوپر کمیٹیاں قائم کی جارہی ہیں.ماہرین ڈھونڈے جارہے ہیں تا کہ یہ مسودات بھی جلد سے جلد طباعت کی شکل میں دنیا کے سامنے آئیں.اخراجات کے سلسلے میں سوئٹزرلینڈ کی ایک کمپنی سے جب فرانسیسی زبان کے صرف ترجمے سے متعلق بات کی گئی کہ ترجمے کو اس درجے تک پہنچادو کہ پروف ریڈنگ تک کا کام ہو جائے (اس کے بعد باقی سب خرچ جماعت نے کرنا تھا.) تو ان کا اندازہ پچپن (55) لاکھ روپے کا تھا.اور اس کے بعد پچاس، ساٹھ لاکھ روپے اس کی اشاعت پر خرچ ہونا تھا.پھر اس کی تقسیم کا کام ہے کہ وہ کیسے ہوگی؟ اس کے لیے بھی اخراجات درکار ہیں.تو قرآن کریم کی ایک ایک اشاعت کے لیے ایک، ایک کروڑ روپے کی تو ضرورت پیش آئے گی.قرآن کریم کی اشاعت کا پور احق تو انسان ادا ہی نہیں کر سکتا.لیکن جہاں تک تمنا بے قرار ہے، ہم کچھ تو کریں.الغرض یہ سارے کام وہ ہیں، جو ا بھی ہونے والے ہیں.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، عمومی تصویر اب یہ بن رہی ہے کہ جماعت کے اوپر ابھی تک دو تہائی قرضہ پڑا ہوا ہے ان وعدوں کے لحاظ سے، جو جماعت نے یقینا بڑی محبت اور خلوص اور دیانتداری کے ساتھ پیش کیے تھے.میں یہ تفصیلات اس لیے بتا رہا ہوں کہ جماعت کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ یہ سارے کام ہم نے ہی کرنے ہیں.کسی اور نے آکر نہیں کرنے.اس لیے جہاں سے چاہیں، لیں اور جس طرح چاہیں، کریں.لیکن یہ قرض ، جو ان کے ذمہ 301
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے، اسے جلدا تاردیں.چاہے قرض اٹھائیں، بچوں کا پیٹ کاٹیں ، اپنی دوسری ضروریات پیچھے کر دیں، اپنے گھروں کی تعمیر پیچھے ڈال دیں.اور جو کچھ بھی وہ کریں گے، خدا کی خاطر کریں گے.کسی پر احسان تو نہیں ہے.بلکہ جو بھی توفیق خدمت کی ملے گی ، یہ ان پر احسان ہوگا.اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ خودان پر اپنے فضلوں کی بارش کرے گا.یہ ان کا اور خدا کا معاملہ ہے.نظام جماعت پر کسی کا ایک ذرے کا بھی احسان نہیں ہے.کیونکہ یہ سودا ہی اللہ تعالیٰ کا ہے.فرماتا ہے:.إنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (توبه (111) کہ تمہارا سودا تو اللہ کے ساتھ ہوا ہے، نہ کہ کسی انسان کے ساتھ.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جا کر احسان جتانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کو فرمایا ، ان سے کہ دو:.لَا تَمُنُّوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ (الحجرات: 18) تم کہہ رہے ہو کہ ہم نے یہ قربانیاں کیں.مجھ پر اپنا اسلام ہرگز نہ جتلاؤ.مجھ پر تمہارا کوئی احسان نہیں ہے.بلکہ میں تمہارا حسن ہوں، جو تمہیں اعلیٰ مقاصد کی طرف بلا رہا ہوں.میری وجہ سے تو تمہیں توفیق مل رہی ہے کہ تم خدا کی خاطر نہایت ہی اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے اپنی زندگیاں پیش کرو.پس یہ احسان تم پر ہے، نہ کہ مجھ پر.جہاں تک قربانیوں کا تعلق ہے، اسلام تو ایک بڑاہی منصفانہ مذہب ہے.اگر احسان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہیں، آپ کے نظام پر نہیں تو وہ قربانیاں گئیں کہاں؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کہیں نہیں گئیں ، وہ میرے پاس ہیں.إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ اللہ فرماتا ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ ایک سودا کیا ہے.میں نے تمہارا سب کچھ خرید لیا ہے.تمہاری جانیں بھی خرید لی ہیں، تمہارے اموال بھی خرید لیے ہیں، تمہاری جائدادیں بھی تمہاری عزتیں بھی تمہاری ساری تمنائیں بھی میں لے چکا ہوں.اس لیے کہ بسان لهم الجنة.یعنی ان لوگوں کے لیے میری جنتیں پیش کی جائیں گی.اور حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ دینے کے بعد وہ جنت، جو رضائے باری تعالیٰ کی جنت ہے اور جو دائی ہے، اگر وہ مل جائے تو ان چیزوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی.یہ سودا بھی نام کا ہی سودا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ محبت اور پیار کے اظہار کے لیے سودا کہہ دیتا ہے.ورنہ سودا 302
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء کیسا؟ جو کچھ دیا ہے، وہ بھی تو اسی نے دیا تھا.وہ جب دوبارہ ہم اس کے سامنے پیش کر دیں تو اللہ میاں کہتا ہے، میں تم سے سودا کر رہا ہوں.وہ اگر چاہے تو چھین بھی لیتا ہے.دیکھتے دیکھتے بڑے بڑے تاجروں کے جیسے بگڑ جایا کرتے ہیں اور ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.زمینداروں کے پاؤں تلے سے زمینیں نکل جاتی ہیں.تو سو (100) طریق ہیں اس کے لینے کے ، مگر وہ نہیں لیتا.عجیب حوصلہ دکھاتا ہے بنی نوع انسان کے ساتھ.لیکن چاہتا یہ ہے کہ جب میں لوں تو طوعی طریق پر لوں.تاکہ دینے والوں کے اندر عظمت کردار پیدا ہو اور اس کے نتیجے میں وہ مزید فضلوں کے وارث بنیں.یہ ہے فلسفہ اس چندے کا ، جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا سے طلب کیا.پس یہ سارے کام ہم نے کرنے ہیں، لیکن کسی پر احسان نہیں.خودان پر احسان ہے، جنہوں نے اپنا سب کچھ پیش کرنا ہے.یہ ان کا اور خدا کا معاملہ ہے.اور جب خدا کے ساتھ خلوص کا معاملہ پڑتا ہے تو خدا اس معاملے کو انسان کے لیے کبھی بھی نقصان کا معاملہ نہیں بنے دیتا.یہ صرف بے وقوفی ہے، بدظنی ہے، جہالت ہے انسان کی کہ وہ سمجھے کہ میں قربانی کروں گا تو مصیبت میں مبتلا ہو جاؤں گا.حالانکہ قربانی نہ کرنے والے تو مصیبت میں مبتلا دیکھے گئے ہیں، قربانی کرنے والے کبھی مصیبت میں مبتلا نہیں دیکھے گئے.نہ وہ مبتلا ہوتے ہیں ، نہ ان کی اولاد ہیں، نہ اولادوں کی اولادیں.محاورہ ہے کہ اولیاء کی اولادیں سات پشت تک اپنے باپ دادا کی نیکیوں کا پھل کھاتی ہیں.اور جسے اللہ تعالیٰ بڑھانا چاہے، اگر سات پشتوں میں ایک بھی نیک پیدا ہو جائے تو یہ نظام جاری رہتا ہے.خدا تعالیٰ کی جزا کا نظام تو کبھی ختم ہی نہیں ہوسکتا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ ہم نے ساری دنیا کے سامنے اس نقطہ نگاہ سے پیش کرنی ہے کہ ظالموں نے آپ کی ذات مقدس پر جتنے بھی اعتراض کیے ہیں، ان سب کے جوابات ساتھ ہوں اور دنیا کی سب زبانوں میں وہ تراجم پیش کیے جائیں.یہ جو دوسرے رائج الوقت نظام کے قائل ہیں، مگر سرے سے خدا کے قائل ہی نہیں ، جب تک ان کے سامنے خدا تعالیٰ کی ذات کو پیش نہ کیا جائے اور ایسے پر اثر اور مدلل مضمون نہ لکھے جائیں، جن سے وہ سمجھنے لگیں کہ ہاں، واقعہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہئے ، اس وقت تک یہ ساری چیزیں ان پر کچھ بھی اثر نہیں کریں گی.نہ وہ قرآن کو سمجھیں گے، نہ سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھیں گے اور نہ ہی دوسرے پمفلٹ اور رسائل کی ان کے نزدیک کوئی قیمت ہوگی.جب وہ خدا تعالیٰ کی ذات پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں ، تب قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور دوسرے مضامین ان کے 303
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک سامنے پیش کئے جائیں.ان کی دلچسپیوں کو اسلام کی طرف کھینچنے کے لیے بعض اور ضروری ذرائع ہیں.اگر و آپ وہ اختیار نہیں کریں گے تو لاکھ کوشش کریں، یہ لوگ آپ کی طرف مائل نہیں ہوں گے.مثلاً اسلام کا اقتصادی نظام ہے.ان کو بتایا جائے کہ کیوں یہ نظام اشترا کی نظام سے بہتر ہے؟ کیوں یہ Capitalistic سسٹم یعنی سرمایہ دارانہ نظام سے بدرجہا بہتر ہے؟ یہ لوگ مذہبی اقدار کو بھلا بھی دیں، اگر خالصۂ دہریہ کے نقطۂ نگاہ سے حسابی نظر کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلام کا پیش کردہ اقتصادی نظام باقی سب نظاموں سے بہتر ہے.جماعت کی طرف سے اس کو بار ہا ثابت کیا جا چکا ہے، لیکن وہ کافی نہیں.نٹے بین الاقوامی تقاضوں کے لحاظ سے، اور نئے حالات کے لحاظ سے اس چیز کو ایک نئے رنگ میں پیش کرنے کی ضرورت ہے.اقتصادیات تو کوئی غیر متبدل چیز نہیں ہے کہ اگر اس کے اوپر آج سے پچاس سال پہلے ایک کتاب لکھی گئی تو وہ ہمیشہ کے لیے جاری رہے گی.صرف قرآن ہے، جو ہمیشہ کے لیے جاری رہتا ہے.باقی ساری انسانی کتابیں خواہ وہ کتنے بڑے بزرگوں اور علماء کی لکھی ہوئی ہوں ، وقت سے پیچھے رہ جاتی ہیں.اس لیے بڑی جرأت اور بڑی قوت کے ساتھ ہمیں ان کو بتانا پڑے گا کہ موجودہ وقت کے نقطہ نگاہ سے اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسلام کیا نظام پیش کرتا ہے؟ اور دلائل سے منوانا پڑے گا کہ یہ نظام بہتر ہے اور تمہارا نظام اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا.پھر اس نظام کے ساتھ جو مزید فوائد وابستہ ہیں اور جن کا تصور بھی ان کے نظاموں میں نہیں پایا جاتا ، وہ بھی ان کے سامنے پیش کرنے پڑیں گے.ان باتوں کے وہ قائل ہوں گے تو اسلام میں دلچسپی لیں گے.ورنہ دنیا کی بھاری اکثریت دہر یہ ہوچکی ہے.ان کو اس بات میں ایک کوڑی کی بھی دلچسپی نہیں کہ مذہب کیا چیز ہے؟ میں نے ایسے لوگوں سے بار با گفتگو کی ہے.ابھی یورپ میں بھی کئی جگہ گفتگو کا موقع ملا.جو عیسائی کہلانے والے ہیں، ان میں سے بھی اکثر عملاً دہر یہ ہو چکے ہیں.ان کے اندر کوئی ایسی دلچسپی نہیں ہوتی تھی کہ ہم ایک دم عیسائیت اور اسلام کی باتیں شروع کر سکتے.اس لیے ایسی مجالس منعقد ہوتی تھیں، جن میں ان کے ہر قسم کے سوالات کے جواب قرآن کریم کی روسے دیئے جاتے تھے.نتیجہ جب وہ دیکھتے تھے کہ ان کے دنیاوی سوالات کا حل قرآن کریم میں ہے تو پھر ان کے اندر دلچسپی پیدا ہوتی تھی.پس باتیں تو ساری ہی قرآن کریم کے حوالے سے ہوں گی.خواہ اقتصادیات کی باتیں ہوں، خواہ فلسفے کی باتیں ہوں، خواہ سائنس کی باتیں ہوں.لیکن سائنسدان کو سائنس کی زبان سمجھ آئے گی ، فلسفہ دان کو فلسفہ کی زبان سمجھ آئے گی اور اقتصادیات کے ماہر یا اقتصادیات میں دلچسپی لینے والی دنیا کو 304
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء اقتصادیات کی زبان سمجھ آئے گی.یہ سارے کام ایسے ہیں، جو ابھی ہونے والے ہیں.ان کے لئے اخراجات کی ضرورت ہے.پھر جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، ہمیں ایسی قوموں کے لئے ، جن کو قرآن کریم کے ساتھ کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے، قرآن کریم کی ایسی آیات کا انتخاب کرنا پڑے گا، جو ان پر اثر کریں.خواہ کوئی دہریہ ہو یا غیر دہریہ، قرآن کریم کی تلاوت اس کے دل پر گہرا اثر کرتی ہے.قرآن کریم میں یہ طاقت ہے کہ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ (الزمر : 24) انسان کے اندر ایک قسم کا تزلزل پیدا کر دیتی ہے اور وہ خدا کی عظمت کے احساس سے کانپنے لگ جاتا ہے.اس قدر برادر است قوت ہے، اس کلام میں.تو ایسی آیات کا انتخاب کر کے نہایت ہی پاکیزہ آواز والے قاریوں سے ان کی تلاوت کروائی جائے.فنی لحاظ سے جو قاری ہیں، وہ میرے ذہن میں نہیں ہیں.بلکہ ایسے قاری ہوں، جو معانی سمجھتے ہوں.اور ان معانی میں ڈوب کر اور پورا دل اور جان ڈال کر تلاوت کریں.پھر مختلف زبانوں میں ان آیات کے ترجمے ہوں.میرے ذہن میں تو یہ نقشہ ہے کہ ہمیں کم از کم سو زبانوں میں قرآن کریم کی تلاوت کی نہیں تیار کرنی چاہئیں.یعنی چھوٹی چھوٹی علاقائی زبانوں میں بھی تیار ہوں.لیکن دنیا کی بڑی بڑی زبانوں کی طرف تو ہمیں فوری توجہ دینی چاہئے.دس پندرہ ایسی زبانیں ہیں.جن کی اکثریت کے علاقوں کو ہم کور (Cover) کر سکتے ہیں.یعنی وہاں تک ہم پہنچ سکتے ہیں.علاوہ ازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام یعنی حدیث ہے.مختلف موضوعات پر احادیث کی ٹیپیں تیار کی جائیں.کچھ اقتصادی پہلو سے تعلق رکھتی ہوں، کچھ نظریات سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق آپ کا بیان ہے، حشر و نشر کے متعلق آپ کا بیان ہے، اسی طرح آپ کی اور بہت سی پیاری باتیں ہیں.انسان تقریروں میں لاکھ مہارت حاصل کر جائے ، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا.ایک ایک کلمہ بعض دفعہ اتنا گہرا اثر کرتا ہے کہ کوئی چیز اس اثر کو روک نہیں سکتی.وہ ہر مدافعانہ طاقت کو تو ڑ کر دل میں اتر جاتا ہے.اس میں سچائی ہے، وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.اس میں ایسانور ہے، جو انسان بناہی نہیں سکتا.جو بناتا ہے ، وہ اس نور سے لے کر بناتا ہے.اس کی طاقت سے طاقت حاصل کر کے آگے اس کے کلام میں عظمت پیدا ہوتی ہے.اس لئے جب تک ہم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے (اور اس میں سے بھی صرف انتخاب پیش کر سکیں گے ) اور پھر اس کے تراجم پیش نہیں کرتے ، دنیا کو کیا پتہ کہ کون ہم سے مخاطب ہے؟ 305
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ہے.اللہ کے عشق میں آپ نے جو گیت گائے ہیں، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جو گیت گائے ہیں اور قرآن اور اسلام کی محبت میں جو گیت گائے ہیں، ان کو مختلف اچھی آواز والوں سے ریکارڈ کروا کر مختلف زبانوں میں منظوم ترجمے کروانے ہیں.اور پھر ان منظوم تراجم کو کیسٹ میں بھرنا ہے یا وڈیو کی شکل میں اتارنا ہے.اور ساری دنیا میں پھیلانا ہے.تا کہ جب یہاں سو سالہ جشن منایا جارہا ہوتو ہر قوم قرآن کی تلاوت کرتی ہوئی آئے اور احادیث پڑھتی ہوئی آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ نغمے الاپنی آئے ، جو آپ نے قرآن اور حدیث اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں کہے.یہ ہے ہمارا جشن.ہم کسی ڈھول ڈھمکے کے تو قائل نہیں.جب تمام دنیا سے قافلے یہ گیت گاتے ہوئے ربوہ میں داخل ہوں گے ، وہ ہو گا اصل جشن ، جس سے روحیں ایک عجیب سرور حاصل کریں گی اور خدا کی راہ میں قربانیوں کے لئے ایسی نئی قوت پائیں گی کہ اگلے سو سال کے لئے وہ قوتیں کام دیں گی.لیکن اس جشن کی تیاری کے لئے جو ضروریات ہیں، ان کو پورا کرنے کے سلسلہ میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اب سوائے اس کے کہ ہر وہ شخص جس نے صد سالہ جو بلی میں وعدہ لکھوایا ہے، جب تک غیر معمولی طور پر توجہ اور الحاج کے ساتھ دعا نہ کرے، اس وقت تک اس کے یہ فرائض پورے نہیں ہو سکتے.میں بھی دعا کروں، آپ بھی دعا کریں.بچے بھی ، بڑے بھی ، عورتیں بھی ، مرد بھی ، سب کے سب اس طرح دعائیں کریں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جس طرح پین کی مسجد کی تعمیر کے وقت آپ کی دعائیں پوری ہوتی آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی تھیں.یوں لگتا تھا کہ خدا کے فرشتے بارش کے قطروں کی طرح اتر رہے ہیں.یہ ہوتا ہے دعاؤں کا مزہ کہ ہر آنکھ کو دکھائی دے کہ ہاں کچھ ہو رہا ہے.اور ایک عجیب پاک تبدیلی پیدا ہورہی ہے.ایسے آنسو بہانے کی ضرورت ہے، ایسی دعائیں کرنے کی ضرورت ہے.ورنہ آپ سو سالہ جشن کے حقوق ادا نہیں کر سکیں گے.نہ قربانی کے لحاظ سے اور نہ دوسرے فرائض کے لحاظ سے، جن کا خلاصہ میں نے اس وقت پیش کیا ہے.بلکہ خلاصہ بھی نہیں، بہت بڑے وسیع کاموں میں سے چند ایک عنوانات آپ کو سنائے ہیں.پس دعا کریں، پھر دعا کریں اور پھر دعا کریں.اشکوں کی راہ سے اپنے خون بہائیں، خدا کی راہ میں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا اور سارے کام بنا دے گا.پتہ بھی نہیں لگے گا کہ بوجھ کس چیز کا نام ہے.بوجھ خود بخود اتر تے چلے جاتے ہیں اور قربانیوں کی توفیق ملتی جاتی ہے.306
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء دعا ایک ایسی عظیم الشان چیز ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں برکت کے.اس کا وہ کنارا بھی با برکت ہے، جہاں سے یہ اٹھتی ہے اور وہ کنارا بھی بابرکت ہے، جہاں یہ پہنچتی ہے.دعا کرنے والے کو قبولیت دعا سے پہلے دعا کی کچھ برکتیں نصیب ہو جاتی ہیں.کیونکہ دعا کرنے والے کے دل میں ایک عظمت پیدا ہو جاتی ہے.دعا اس کے اندر اپنے پیچھے ایک سچائی چھوڑ جاتی ہے.اس کے اندر بعض ایسی اعلیٰ صفات پیدا کر جاتی ہے کہ ابھی قبول بھی نہیں ہوئی ہوتی اور اپنی برکتیں عطا کر دیتی ہے.پھر جب دعا عرش الہی کے کنگروں تک پہنچتی ہے تو بے انتہائی برکتیں لے کر نازل ہوتی ہے.تو جس کے دونوں کنارے با برکت ہوں، اس سے کیوں فائدہ نہ اٹھایا جائے؟ ایسی دعاؤں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی برکتوں - جماعت احمدیہ کو بے انتہا فوائد پہنچیں گے.حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ قرآن کریم میں دنیا کی یا کائنات کی مثالیں پیش کر کے انہی مضامین بیان فرماتا ہے، اسی طرح دعا پر بھی غور کریں تو دنیا میں اس کی ایک بڑی عجیب مثال نظر آتی ہے.جب پانی سے بخارات اٹھتے ہیں تو وہ بجلی کی ایک قوت سمندر میں چھوڑ جاتے ہیں اور ایک دوسری قوت آسمان میں لے جاتے ہیں.یعنی اٹھتے وقت بھی قوت پیدا کر جاتے ہیں اور جہاں پہنچ رہے ہیں، وہاں بھی قوت پیدا کر دیتے ہیں.بجلی کی ایک قسم مثبت یا منفی ( کہیں مثبت، کہیں منفی) سمندر کی سطح پر رہا جاتی ہے اور ایک قوت اٹھ کر آسمان پر چلی جاتی ہے اور دونوں مختلف سطحوں سے مختلف قسم کی قوتیں اٹھ رہی ہوتی ہیں.کہیں سے مثبت اٹھ رہی ہے، کہیں سے منفی.کہیں منفی پیچھے رہ رہی ہے، کہیں مثبت پیچھے رہ رہی ہے.نتیجہ سارا آسمان قوت سے بھر جاتا ہے.اور پھر جب بجلی کی وہ طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ عمل کرتی ہیں تو اس کے نتیجے میں فضلوں کی وہ بارش پیدا ہوتی ہے، جو آپ دیکھتے ہیں.کچھ اس قسم کا نظام میں نے دعا کا بھی دیکھا کہ جب دعا خلوص کے ساتھ اور سچائی کے ساتھ دل سے اٹھتی ہے تو ایسی دعا انسان کو پاک کر دیتی ہے.انتظار نہیں کرواتی کہ میری قبولیت کا انتظار کرو.اس کی ساری محنت کا بلکہ اس کی محنت سے کہیں بڑھ کر پھل اس کو عطا کر جاتی ہے.پھر جب وہ فضل بن کر نازل ہوتی ہے تو انسان کہتا ہے کہ یہ تو فضل ہی فضل ہے.میری دعا تو میرا اجر اور پھل مجھے دے گئی تھی.جو کچھ ہے محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.پس اس جذبے کے ساتھ اور دعا کے اس فلسفے کو سمجھتے ہوئے دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو، ہمیں ساری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.وہ خود ہمارے بوجھ اٹھانے والا ہو اور جس طرح باپ اپنے بچوں کا بوجھ پیار کے ساتھ اٹھاتا ہے اور بتاتا یہ ہے 307
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کہ گویا وہ اٹھا رہے ہیں، اسی طرح ہم بھی اپنے بھول پن میں یہی سمجھتے رہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو کام کیا ادا کر لیا.مگر حقیقت یہ ہے کہ ساری ذمہ داریاں اللہ ہی ادا کرے گا.اسی کی طاقت میں ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.ہے..خطبہ میں، میں ایک بات کہنی بھول گیا ، وہ دراصل اس کا حصہ ہی ہے.کچھ انتظامی وضاحتیں بھی ضروری تھیں، وہ ایک، دو فقروں میں، میں کر دیتا ہوں.یہ جوصد سالہ جو بلی کا نظام ہے، در اصل اس کا تعلق تحریک جدید سے ہے.لیکن ابتداء میں ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ ایک الگ چھوٹی سے آرگنا ئزیشن بنادی جاتی ہے تا کہ وہ فوری طور پر اس کام کو سنبھال لے.یہ ایک نیا منصوبہ تھا، اس کے سارے خدو خال اس وقت کھل کر سامنے نہیں آئے تھے.اب میں نے انتظامی پہلو پر غور کیا ہے، اس لحاظ سے یہ انجمن کا حصہ بننے کی نسبت تحریک جدید کا حصہ بننے کے زیادہ اہل ہے اور قریب تر کیونکہ اس کے اکثر تقاضے بیرونی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں.اور جہاں تک جشن کا تعلق ہے تو اس کے لئے ایک الگ کمیٹی مقرر ہے.اس لئے اس پر کوئی فرق ہی نہیں پڑتا.چاہے، اس منصوبے کو تحریک کا حصہ بنایا جائے یا انجمن کا.منصوبہ بندی کمیشن اپنا آزاد کام کرتار ہے.یہ میں اس لئے واضح کر رہا ہوں کہ اب سے یہ تحریک جدید کی ذمہ داری ہے، ان کا فرض ہے کہ وہ ساری دنیا میں کوشش کر کے جلد از جلد جماعت کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں.اور امید ہے، انشاء اللہ بہت جلد حالات بہتر ہو جائیں گے.آئندہ سے سیکرٹری صد سالہ جو بلی کی بجائے اس شعبے کا انچارج وکیل ہوگا.اور وہ وکیل برائے صد سالہ جو بلی فنڈ کہلائے گا یا علماء جو بھی اس شعبہ کا ایک مختصر سا اور بہتر نام تجویز کریں، اس کے مطابق وہ رکھ لیا جائے گا.آج ہی حسن اتفاق سے ہمارے وہ سینئر مبلغ ربوہ پہنچے ہیں یا پہنچنے والے ہیں، جو اس منصوبے کے لئے میرے ذہن میں تھے.تو اللہ تعالیٰ نے ایسا تطابق فرمایا اور ایسا تو ارد ہو گیا کہ جمعہ پر آنے سے معاً پہلے پتہ چلا کہ میر مسعود احمد صاحب ( مبلغ انچارج ڈنمارک) آج ہی پہنچ رہے ہیں.ان کے استقبال کے لئے دوست فیصل آباد گئے ہیں اور وہی میرے ذہن میں تھے کہ وہ آجائیں تو ان کے سپرد یہ کام کیا جائے.اس لئے میں ان کو اس کام کے لئے وکیل مقرر کرتا ہوں.جس طرح تحریک جدید میں باقی وکلاء ہیں، اسی طرح یہ بھی وکیل ہوں گے اور وکالت علیا کے تابع ، وکیل اعلیٰ کی ہدایت کے مطابق کام کریں گے.اور انشاء اللہ آئندہ سے اس شعبے کے حسابات تحریک جدید کی طرف منتقل کر دیئے جائیں گئے.( مطبوعه روزنامه الفضل 21 فروری 1983ء) 308
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام برموقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کینیا خدا کی نگاہ میں وہی احمدی شمار ہوگا ، جو بیچ بیچ تقومی کی راہوں پر قدم مارتا ہوگا پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کیفیا منعقد و 08 تا 10 دسمبر 1982ء بر بسم.الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر عزیز بھائیو اور بہنو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ جماعت ہائے احمد یہ کینیا اپنا آٹھواں جلسہ سالانہ مورخہ 8,9,10 دسمبر کو Ugenya میں منعقد کر رہی ہیں.خدا تعالیٰ اس جلسہ کو بہت بابرکت کرے اور اس میں شامل ہونے والے اور اس کے جملہ انتظامات کرنے والے بھائیوں اور بہنوں کو بھی اپنے فضلوں سے نوازے اور اپنی رحمتوں سے حصہ عطا فرما دے.آمین آپ نے اس موقع پر مجھ سے پیغام کی خواہش کی ہے.میرا پیغام وہی ہے، جو ہمارے آقا حضرت مسیح موعود کا پیغام ہے.اور میں اسی طرف آپ کو بلاتا ہوں، جس طرف حضرت مسیح موعود بلاتے تھے.پس اس موقع پر آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری یہ جماعت عام دنیاوی جماعتوں اور تحریکوں کی طرح کی جماعت نہیں ہے.اس جماعت کی بنیادی اینٹ خدائے بزرگ و برتر نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے.اور اس غرض سے یہ سلسلہ قائم کیا ہے کہ تادین اسلام کا شرف اور مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو.اور ہمارے ہادی و مقتدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور آپ کے عالی مرتبہ کی لوگ شناخت کر لیں.اور تالوگ جان لیں کہ ہمارا خدا در حقیقت ہے.اور وہ آج بھی اسی طرح بولتا ہے، جس طرح پہلے بولتا تھا.اور آج بھی اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے، جس طرح پہلے سنتا تھا.یہ وہ مقصد ہے، جس کے حصول کے لیے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے.اور یہ وہ فریضہ ہے، جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے.309
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کینیا تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس اس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اپنے نفسوں اور اپنی اولادوں کو اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے تیار کریں.اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اپنے نفسوں کا مطالعہ کریں اور جائزہ لیں کہ کیا آپ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے قابل ہیں؟ کیا آپ خدا کی طرف سے عائد کردہ فرائض ادا کرنے کے اہل ہیں؟ کیا آپ نے اپنی اور اپنے اہل اور اپنی اولاد کی تربیت صحیح خطوط پر کی ہے؟ ان سب باتوں پر غور کرتے رہیں اور یہ جائزہ لیتے رہیں کہ کہیں ہم اپنی ذمہ داریوں سے غفلت تو نہیں برت رہے؟ کہیں ہم اپنے فرائض سے پہلو تہی کے مرتکب تو نہیں ہورہے؟ پس اس وقت میں آپ کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اپنے آپ کو احمدی کہلا کر اور حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شمار کر کے آپ کی ذمہ داری پوری نہیں ہو جاتی.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہی شخص حضرت مسیح موعود...کی جماعت میں شمار کیا جائے گا، جو سچ مچ تقومی کی راہوں پر قدم مارتا ہوگا.جو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرتا ہو گا کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہے.جو اپنے روزوں کو خدا کے لیے کامل صدق اور وفا کے ساتھ پورا کرتا ہوگا.اور جو قرآن کریم کے جملہ احکام پر عمل کرنے کے لئے مقدور بھر کوشش کرتا ہوگا.پس نیکی کوسنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.اور ہمیشہ یادرکھو کہ کوئی عمل خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچتا ، جو تقویٰ سے خالی ہو.یاد رکھو کہ ہر ایک نیکی کی جڑ تقوی ہے.اور جس عمل میں یہ جڑ نہ ہو، وہ ضائع ہو جائے گا.سو تم اپنے دلوں کو سیدھا کر کے اور صاف کر کے اور اپنی زبانوں کو اور اپنی آ آنکھوں کو پاک کر کے اس مہربان خدا کی طرف آجاؤ کہ وہ تمہیں قبول کرے گا اور ایک لازوال عزت تمہیں بخشے گا.دنیا میں بھی اس کی رحمتوں سے حصہ پاؤ اور آخرت میں بھی اس کی رضا کو حاصل کرنے والے بنو.ظاہری لحاظ سے ہم ایک دوسرے سے دور ہیں لیکن میں تمہیں ہمیشہ اپنے دل کے قریب پاتا ہوں ، تمہارے ہر دکھ اور پریشانی کی سخنی میں اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں اور تمہیں ملنے والی ہر خوشی اور مسرت پر میرا دل اپنے رب کے حضور جھکتا اور اس کا شکر ادا کرتا ہے.میں ہمیشہ تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرتا رہتا ہوں اور ہر آن تمہارے لئے اس کے فضلوں کا طالب ہوں.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعه روزنامه الفضل 25 جنوری 1983 ء ) | 310
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 17 دسمبر 1982ء جو خدا فکرمیں پیدا کرتا ہے، وہی ان کو دور کرنے کے سامان بھی مہیا فرما دیتا ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 17 دسمبر 1982ء اسی انتظام (جلسہ سالانہ.ناقل ) کے سلسلے میں سوچتے ہوئے، مجھے یہ خیال آیا کہ صد سالہ جو بلی کا جلسہ، جو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ وسیع ہوگا اور بہت زیادہ وسیع تر انتظام کے تقاضے لے کر آئے گا، اس کی ذمہ داریوں کو ہم کس طرح ادا کریں گے؟ بے شمار ایسے کام پڑے ہوئے ہیں، جن کا ابھی تک ہم نے آغا ز بھی نہیں کیا.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کئی سالوں کی مدت درکار ہے.پھر یہ فکر بھی لاحق ہوئی کہ وہ روپیہ کہاں سے آئے گا، جس کی ضرورت ابھی پیش آ گئی ہے؟ اور بعض دوست سمجھ رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ آخر میں ادا کر دیں گے.اسی لیے میں نے ایک گزشتہ خطبہ جمعہ (فرمودہ 03 دسمبر 1982 ء.ناقل) میں اس چندہ کی ادائیگی کی تحریک بھی کی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے اور اس کی غیر معمولی رحمت اور فضل و کرم ہے کہ جتنی فکر میں پیدا کرتا ہے، اتناہی ان فکروں کے دور کرنے کے سامان بھی مہیا فرما تا رہتا ہے.اور فکر کے نتیجے میں تکلیف نہیں آتی بلکہ تعلق باللہ بڑھتا ہے.البی جماعتوں کے ساتھ یہ ایک ایسا نظام جاری ہے، جس پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر فکر اللہ کا احسان بن جاتا ہے.چنانچہ گزشتہ مرتبہ جب میں نے صد سالہ جوبلی کے چندے کی طرف توجہ دلائی تو ابھی وہ خطبہ تمام دنیا کی جماعتوں میں پوری طرح شائع بھی نہیں ہوا کہ بعض دور دور کی جماعتوں سے بھی مثلاً یوگنڈا اور اسی قسم کے اور کئی ممالک کی جماعتوں سے بڑی کثرت کے ساتھ یہ اطلاعیں آرہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے غیر معمولی توجہ شروع کر دی ہے.نہ صرف صد سالہ جوبلی کے چندے کی ادائیگی کی طرف بڑے انہماک کے ساتھ متوجہ ہورہے ہیں بلکہ تحریک جدید کا چندہ بھی بعض صورتوں میں کئی گنا بڑھا دیا ہے.پاکستان کی جماعتوں سے بھی جو خبریں موصول ہو رہی ہیں، وہ بھی عموماً خوشکن ہیں.ایک بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے اور تمام کارکن کیریوں کی طرح دن رات کام کر رہے ہیں.اور کوشش کر رہے ہیں کہ گزشتہ کو تاہی کی پاداش ہو اور تلافی مافات ہو.اس طرح اللہ تعالیٰ ان خوش کن خبروں کے ذریعے تسلی بھی دیتا ہے.311
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک انفرادی طور پر بھی جو خطوط موصول ہوتے ہیں، ان میں بھی بعض ایسی پیاری اور درخشندہ مثالیں سامنے آتی ہیں کہ دل خدا کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے کہ اس نے خود اپنے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کو ایسے عظیم الشان فدائی عطا فرمائے ہیں.چنانچہ کل رات ہی میں نے لاہور کی ایک احمدی خاتون کا خط پڑھا، جس میں انہوں نے لکھا کہ میں ایک عام غریب سی عورت ہوں لیکن بہر حال میں نے اپنے شوق کے مطابق صد سالہ جوبلی کا چندہ لکھوا دیا.بعد میں کچھ ایسے حالات پیش آتے رہے کہ میں اپنا چندہ وقت کے مطابق سال بہ سال ادانہ کر سکی، یہاں تک وہ ذمہ داری کا ایک پہاڑ بن کر سامنے آکھڑا ہوا.انہوں نے لکھا کہ جتنا بھی چندہ تھا، مجھے محسوس ہوا کہ یہ بوجھ میری توفیق اور طاقت سے آگے نکل گیا ہے.جب آپ نے توجہ دلائی تو کئی دن تو میں نے بڑے ہی کرب میں گزارے.خدا کے حضور روئی ، گریہ وزاری کی کہ تو نے ہی اپنے فضل سے وعدے کی توفیق بخشی تھی ، اب تو ہی اسے پورا کرنے کی بھی توفیق عطا فرما.اسی دوران میری نظر اپنے زیور پر پڑی تو معا میرے دل میں خیال آیا کہ جو کچھ میرے بس میں ہے، وہ تو پیش کر دوں.چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ سارے کا سارا زیور چھوٹا ہو یا بڑا، جماعت کے سامنے رکھ دیتی ہوں تا کہ اپنے خلوص کا یہ ثبوت تو پیش کروں کہ جو میرے بس میں تھا ، وہ میں نے کر دیا.صرف یہی نہیں بلکہ (وہ لکھتی ہیں کہ ) جب میں نے یہ فیصلہ کیا تو اس زیور سے مجھے ایسی نفرت ہوگئی کہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا ، یہ میرے دل پر بوجھ بن گیا ہے.اس لئے خدا کے واسطے اس زیور کو میرے گھر سے دور کریں اور مجھے بتائیں کہ میں کس کو ادا کروں؟ تاکہ میرے دل پر سے یہ بوجھ اتر جائے.کیسا عجیب خدا ہے، کتنے احسان کرنے والا خدا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسی پیاری جماعت عطا کی ہے کہ قرون اولیٰ کے زمانوں کی یاد کو زندہ کر دیا.جب میں نے یہ خط پڑھا تو میرے دل سے یہ دعا نکلی کہ اے اللہ ! اس عورت کو زیور ایمان سے آراستہ فرما.جیسا کہ اس نے خود خواہش ظاہر کی ہے.اور سر سے پاؤں تک اس کے ظاہر و باطن کو اپنی رضا کے زیور سے مزین فرما دے.پھر میں نے سوچاد نیا میں کتنی ہی عورتیں ہوں گی ، ( کروڑوں ہوں گی ) جن کو اللہ تعالیٰ نے زیور کی زیبائش سے محروم رکھا ہے.ان کے سر، ان کے ہاتھ ، ان کے گلے اور ان کے پاؤں خالی پڑے ہیں.لیکن ان میں سے کتنی ہوں گی، جنہوں نے رضائے باری تعالیٰ کی خاطر اپنے ہاتھوں کو، اپنے سرکو ، اپنے گلے کو اور اپنے پاؤں کو زیور سے عاری کیا ہو گا.بہت کم ایسی مثالیں نظر آئیں گی.اور اگر کوئی مثالیں ہوں گی تو وہ ساری کی ساری جماعت احمدیہ میں ملیں گی.پہلے بھی جماعت احمدیہ کی تاریخ ایسے نظارے پیش کر 312
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1982ء چکی ہے، آج بھی پیش کر رہی ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ پیش کرتی چلی جائے گی.اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ جن خواتین کو ایسی عظیم الشان قربانیوں کی توفیق ملی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو کبھی خالی نہیں چھوڑا.دنیا میں کتنی ہی عورتیں ہیں، کروڑوں ہوں گی ) جن کو خدا تعالیٰ نے زیور بھی عطا کئے ہیں.مگر کون ہے، وہ زیوروں والی، جو خدا تعالیٰ کی نظر میں زینت کے لحاظ سے اس عورت کا مقابلہ کر سکے، جس کے ہاتھ اور پاؤں اور سر اور گردن محض خدا کی خاطر زیور سے خالی ہوئے ہیں؟ وہ سر سے پاؤں تک بھی ہیروں اور جواہرات سے بھر جائیں ، پھر بھی وہ اس عورت کی زینت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.خدا کا ایسا احسان ہے کہ اپنے ہاتھوں کو زیور سے خالی کرتے ہوئے اس عورت کو یہ احساس تک نہیں ہوا کہ میں اب قابل رحم ہوگئی ہوں، میں محروم ہورہی ہوں.بلکہ معاخدا تعالیٰ نے اس کے دل کو ایک ایسے جذبے سے بھر دیا کہ وہ زیور سے نفرت کرنے لگی اور ایسی شدید نفرت کا اظہار ہے کہ گویا گھر میں زہر پڑا ہوا ہے.اسے دور کریں ورنہ مجھے چین نصیب نہیں ہوگا.یہ محض اور محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے.پس جو خدا افکریں پیدا کرتا ہے یا فکر والے حساس دل عطا کرتا ہے، وہی فکروں کو دور کرنے کے سامان بھی مہیا فرما دیتا ہے.اس ساری جدو جہد کا ماحصل کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ احمدی پہلے سے بھی بڑھ کر اپنے رب کے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے.یہ فکریں اور فکروں کو دور کرنے کا نظام تو محض بہانہ ہو گیا.فی تو الحقیقت ان کی کوئی بھی حیثیت نہ رہی.کام سارے خدا ہی نے کرنے ہیں اور کرتا چلا جاتا ہے.لیکن اس جدو جہد کے دوران ہمارا ماحصل کیا ہے؟ وہ ہے، اپنے رب کی رضا.ہم دن بدن پہلے سے زیادہ اپنے ا پیارے محبوب ، اپنے خالق و مالک کے قریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں.پس کیسا عظیم الشان سودا ہے، جو ہم نے اپنے رب سے کیا ہے.ہمارا کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا اور ہر دفعہ ہم پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا کی دولت سے مالا مال ہوتے چلے جارہے ہیں.( مطبوعه روزنامه الفضل 14 مارچ 1983ء) 313
تحریک جدید - ایک الہی تحریک وو 23 اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء اسلام کا زندہ ہونا ، ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1982ء بر موقع جلسہ سالانہ جلسہ سالانہ کے دوسرے دن کی تقریر عموماً جماعت احمدیہ کی کاروائی کی مختصر رپورٹ پر مشتمل ہوتی ہے.اور خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ان بے انتہا فضلوں اور احسانوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جو دوران سال بارش کی طرح جماعت احمدیہ پر نازل ہوتے ہیں.پھر کچھ ایسے منصوبے بھی پیش کیے جاتے ہیں اور ایسے کاموں کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے، جن کو آئندہ سال خصوصیت کے ساتھ جماعت احمدیہ کا مطمع نظر بنانا مقصود ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ملفوظات کا انگریزی ترجمہ، جو محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کیا تھا اور جو Essence of Islam کے نام سے لنڈن مشن کی طرف سے شائع ہوا ہے، یہ بھی اس سال کے غیر معمولی نمایاں کاموں میں داخل ہے.اس سلسلے میں جماعت عرصے سے یہ کمی محسوس کر رہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی اشاعت کی طرف اتنی توجہ نہیں ، جتنی ان کی طلب اور مانگ ہے.جماعت کے سامنے کچھ دقتیں بھی ہیں، وہ اپنی جگہ درست ہوں گی.لیکن جب دوسری کتابیں شائع ہوتی ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی اشاعت میں جو دقتیں ہیں، وہ بھی اسی توجہ اور محنت کے ساتھ دور ہونی چاہیں.چنانچہ آپ کو یہ معلوم کر کے خوشی ہوگی کہ اس سلسلے میں نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف نے دو بہت ہی اچھے منصوبے تیار کئے ہیں.ایک تو یہ کہ حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام کتب کو از سر نو اس طرح شائع کیا جائے گا کہ ہر کتاب کم و بیش ایک ہی برابر جلد میں ہو.یعنی جلدوں میں اتنا تفاوت نہ ہو کہ وہ بدزیب لگیں.اشاعت کا یہ منصوبہ صرف پاکستان سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ساری دنیا سے تعلق رکھتا ہے.اس کے لئے میں یورپ میں بھی تحریک کر آیا ہوں.امریکہ بھی تحریک بھجوائی گئی ہے.انڈونیشیا کے احمدی بھی متوجہ ہوں کہ تمام دنیا کی طرف سے پہلے مانگ آنی چاہئے.جو دوست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے مکمل سیٹ خریدنا چاہتے ہیں، وہ اپنے اپنے مشن کی معرفت اپنی طلب بھجوائیں.اور اگر ممکن ہو تو پہلے وہاں پیسے جمع کروائے جائیں.315
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اس منصوبہ کے تحت ہم جو کتب پیش کریں گے، وہ نہایت اعلیٰ اور معیاری ہوں گی.اگر یہاں نہیں چھپ سکیں گی تو باہر چھپیں گی.کام تو بہر حال نہیں رک سکتے.اس لئے انشاء اللہ نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف بہت ہی پیاری عمدہ دیدہ زیب اور اعلیٰ معیار کی کتب جماعت کے سامنے پیش کرے گی.ایک اور کمی ، جو جماعت بڑی شدت سے محسوس کر رہی ہے، وہ تفسیر کبیر کا فقدان ہے.یہ تفسیر اتنی عظیم الشان ہے کہ بہت سے غیر مذاہب والے جب اس تفسیر کے کچھ حصے میں سے گذرے تو صرف اس تفسیر کے نتیجہ میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا.اس لئے تفسیر کبیر کی اردو شاعت کی بھی بہت ضرورت ہے.اور انگریزی اشاعت کی بھی بہت ضرورت ہے.کیونکہ ہمارا ایک بہت بڑا طبقہ انگریزی بولنے والا ایسا ہے، جس کو اردو سمجھ نہیں آسکتی.ہمیں لازماً ان کا حق پورا کرنا ہے.اسی طرح مجھے بہت سے عرب ملے ہیں، جنہوں نے تفسیر کبیر کے ایسے حصے کا مطالعہ کیا، جس کا انگریزی سے عربی میں ترجمہ ہو چکا تھا.مثلاً ہمارے مصری بھائی بسیونی صاحب نے کچھ ترجمہ کیا تھا، وہ عرب اس تفسیر سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے کہا: ہمیں تو ایک خزانہ ہاتھ آگیا.ہم تو حیران ہو گئے کہ قرآن کریم کی عظمت ہے کیا ؟ یہ تفسیر اتنی عظیم الشان ہے اور آپ ہمیں اس سے محروم رکھ رہے ہیں.چنانچہ تفسیر کبیر کی اشاعت کی طرف اب اس رنگ میں توجہ دی جارہی ہے کہ سب سے پہلے تفسیر کو نسبتاً چھوٹی شکل میں شائع کیا جائے.اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ حل لغات کے بہت سے حصے، جو عام آدمی کے کام نہیں آتے ، صرف علماء کے کام آتے ہیں، اس میں سے نکال دیئے جائیں.اسی طرح بعض ایسے حصے بھی نکال دیئے جائیں ، جن سے مضمون میں کوئی کمی نہ آئے.اس طرح الفاظ میں تبدیلی کئے بغیر اور مضمون کو زیادہ نقصان پہنچائے بغیر.( یعنی اس کا بہت معمولی حصہ شاید کم ہو.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے نسبتا کم جلدوں میں عوام الناس کے سامنے یہ تفسیر رکھ سکتے ہیں.تا کہ اس کا خریدنا بھی ان کی حد استطاعت میں ہو اور سمجھنے کے لحاظ سے بھی ان کے لئے آسانی ہو.یعنی زیادہ گہرے ٹھوس اور علمی حصے، جو عموماً ان کو ویسے ہی سمجھ نہیں آتے ، ان کے بغیر ان کو تفسیر کبیر کا مرکزی حصہ مہیا ہو جائے.چونکہ تفسیر کبیر کی جلد اشاعت کی ضرورت ہے اور وسائل کم ہیں، اس لئے فی الحال نسبتاً چھوٹی صورت میں شائع کی جارہی ہے.ورنہ تو ساری تفسیر کبیر شائع ہونی چاہیے اور انشاء اللہ تعالی ساری بھی شائع ہوگی.بہر حال فوری ضرورت کے پیش نظر یہ منصوبہ بنایا گیا ہے کہ اردو میں بھی، انگریزی میں بھی اور عربی میں بھی اسے جلد شائع کیا جائے.اس کام کے لئے سلسلہ کے بعض علماء مقرر ہو چکے ہیں اور انہوں نے کام شروع کر دیا دیا.316
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے.اور جو حصہ انہوں نے مجھے دکھایا ہے، میں اس سے بہت مطمئن ہوں.اصل کے ساتھ موزانہ کر کے دیکھا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رنگ میں تفسیر کے اقتباسات نکالے گئے ہیں اور ان کو ترتیب دیا گیا ہے کہ اس سے انشاء اللہ جماعت کو کسی کمی کا احساس نہیں ہوگا“.وو اسلام کا اقتصادی نظام انگریزی زبان میں بھی شائع ہو چکا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پر جو اہم خطابات فرمائے تھے، ان سب کو یکجا کر کے سیرۃ طیبہ کے نام سے شائع کیا گیا ہے.اسی طرح آپ کی کتاب اسلام اور کمیونزم کا انگریزی ترجمہ Islam and Communism کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے.مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تصنیف حضرت مولوی نورالدین خلیفة المسيح الاول انگریزی میں ایک بہت ہی اعلیٰ پائے کی کتاب ہے اور انگریزی دان طبقے کو حضرت خلیفة المسيح الاول سے روشناس کرانے کے لئے ایک بہت اچھا کردار ادا کرتی ہے.یہ کتاب باہر سے شائع ہوئی ہے لیکن غالبا یہاں بھی دستیاب ہے“.وو وو مطبوعه روزنامه الفضل 19 مئی 1983 ء ) مرکز سے شائع ہونے والے جرائد ورسائل میں الفضل، ریویو آف ریلیجنز ، تحریک جدید مصباح، خالد تحمید الاذہان اور انصار اللہ شامل ہیں اپنی اپنی ہمت کے مطابق بڑا اچھا کام کر رہے ہیں.لیکن مجھے سب سے زیادہ احساس ریویو آف ریچز کا ہے.بلکہ یہ معلوم کر کے گہرا صدمہ پہنچا ہے کہ یہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہو رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تمناؤں کا اندازہ کریں کہ اس زمانہ میں جبکہ جماعت کے وسائل آج کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ رسالہ کم از کم دس ہزار شائع ہونا چاہیے.اس نوے سالہ عرصہ میں اشاعت کی تعداد کا صرف ایک ہزار رہنا، انتہائی تکلیف دہ امر ہے اور برداشت سے باہر ہے.اس لئے ریویو آف ریجنز کے متعلق میں صدر انجمن کو یا تحریک جدید کو، جن کا بھی یہ کام ہے، توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوری طور پر منصوبہ بنا ئیں کہ ایک سال کے اندر کم از کم دس ہزار شائع ہونا شروع ہو جائے.اگر اس کا خرچ مہیا نہیں ہوتا تو وہ میری ذمہ داری ہے.پیسے کی بالکل پرواہ نہ کریں.یہ سال ختم نہیں ہونا چاہیے، جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش کے اظہار کو ہم پورا نہ کر دیں.میں تو انشاء اللہ کھڑے کھڑے نہیں تھکوں گا، آپ کہیں بیٹھے بیٹھے نہ تھک جائیں.ابھی بہت سی باتیں کرنی ہیں.اللہ تعالیٰ نے سلسلہ پر اتنے فضل نازل فرمائے ہیں اور ہر آن نازل فرمارہا ہے کہ ان کو شمار 317
اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم کرنا، کسی کے بس کی بات نہیں.اور ایک سال کی باتیں میں اس تھوڑے سے وقت میں کس طرح بیان کر دوں گا.بہر حال میں نے بہت خلاصہ نکالا ہے، نوٹس کا کافی موٹا تھا تھا، جس کو کم کرتے کرتے اب یہ چند صفح رہ گئے ہیں.اب میں تحریک جدید کے متعلق کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں.آپ کو یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوگی کہ تحریک جدید ، جس کا بجٹ دس سال پہلے 56لاکھ تھا، اب اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ یہ بجٹ پانچ کروڑ ، انتالیس لاکھ ستر ہزار ہے.( نعرے) اس کا بیشتر حصہ بیرونی جماعتیں ادا کر رہی ہیں.یا ان سکیموں سے پورا ہورہا ہے، جو بیرون پاکستان سے متعلق ہیں.اور پاکستان کی جماعتوں کا حصہ صرف 37 لاکھ 25 ہزار روپے ہے.لیکن اس کو دیکھ کر غلط اندازے نہیں ہونے چاہیں.حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی جماعتیں ہی ہیں، جن کی قربانیوں کو یہ پھل لگا ہے.اور ان کے چند ہزار روپے آج کروڑوں میں تبدیل ہو گئے ہیں.(نعرے) 1978ء میں مجھے پہلی دفعہ امریکہ جانے کا موقع ملا.میں اپنے طور پر اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر سیر کے لئے گیا تھا.جماعت احمدیہ میں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی احمدی سیر کے لئے نکلے اور وہ صرف اس کی ذاتی سیر رہے.وہ سیر ذاتی بھی بن جاتی ہے اور جماعتی بھی بن جاتی ہے.چنانچہ میرے ساتھ بھی یہی ہوا.وہاں واشنگٹن میں ایک دفعہ مجھے معلوم ہوا کہ بعض امریکن عورتیں یہ اعتراض کرتی ہیں کہ ہم اتنی قربانی دے رہے ہیں اور امریکہ کا بجٹ اتنا زیادہ ہو گیا ہے.لیکن ہمارے مشن ہاؤس کی حالت تو بہت بری ہے اور تم لوگ ناروے میں اور سویڈن وغیرہ میں اتنے اچھے مشن بنارہے ہو.وہاں کے مبلغ صاحب بڑے پریشان تھے کہ اس قسم کے اعتراض ہورہے ہیں، میں کیا جواب دوں؟ میں نے کہا: آپ کوئی جواب نہ دیں، ان کو اکٹھا کریں، میں جواب دوں گا.چنانچہ ان کو اکٹھا کیا گیا.میں نے ان سے کہا کہ تحریک جدید کا آغاز اس طرح ہوا تھا کہ کچھ غریب عورتیں تھیں، ان کے پاس سوائے ایک ایک کڑے یا بندے کے اور کوئی چیز نہ تھی.انہوں نے وہی پیش کر دیئے.کچھ غریب مزدور تھے، انہوں نے ایک ایک مہینے کی مزدوری پیش کر دی.کچھ وہ لوگ تھے، جن کو جماعت کی طرف سے وظیفے ملتے تھے.انہوں نے وظیفوں میں سے رقم بچائی اور جماعت کو پیش کر دی.ایک وہ عورت بھی تھی ، جس کے پاس صرف ایک بکری تھی ، اسی کا دودھ اس کے بچوں کی خوراک تھی.وہ آئی اور اس نے یہ بکری پیش کر دی.حضرت مصلح موعود نے فرمایا: تمہاری ضرورت کیسے پوری ہوگی؟ اس پر وہ بے اختیار رونے لگی اور کہا کہ میں کیا کروں اور کس 318
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982 ء طرح اپنی تمناؤں کا اظہار کروں؟ یہ بکری مجھ سے لے لیجئے ، مجھے اس بکری سے اب نفرت ہو گئی ہے.میں برداشت نہیں کر سکتی کہ یہ میرے گھر میں رہے، جبکہ آپ تحریک فرما رہے ہیں اور لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں.ایک عجیب کیفیت تھی ہر احمدی قربان ہوتا چلا جا رہا تھا.جو کچھ اس کے بس میں تھا، وہ فدا کرنے پر تلا بیٹھا تھا.انہوں نے بڑا لمبا عرصہ کھانوں میں تنگی اختیار کی، پہنے میں تنگی اختیار کی اور رہن سہن میں تنگی برداشت کی اور اپنی خواہشات کو قربان کیا.اور تحریک جدید پروان چڑھی.تحریک جدید کے اس چندے سے ایک مشن بھی نہ ہندوستان میں قائم کیا گیا اور نہ ہی پاکستان میں.ایک بھی مسجد نہ ہندوستان میں بنائی گئی اور نہ ہی پاکستان میں بنائی گئی.میں نے ان سے کہا کہ اس کے باوجود 1934ء سے لے کر آج تک ایک آواز بھی میرے کان میں نہیں پڑی کہ ہمارا روپیہ کہا جاتا ہے؟ تمہیں آج جو قربانی کی توفیق مل رہی ہے، یہ ان غریب احمدیوں کی قربانیوں کے نتیجے میں مل رہی ہے اور تم اتنی جلدی حوصلہ ہار بیٹھے ہو.اور کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہمارا چندہ کہاں جاتا ہے؟ جب میں نے بات ختم کی تو میں نے دیکھا کہ اکثر کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ سخت پریشان تھیں اور شرمندہ تھیں کہ ہم نے یہ کیا کہہ دیا ہے.پس آج بیرون پاکستان کی جماعتوں کا تحریک جدید کا جو چندہ کروڑوں کی شکل میں نظر آ رہا ہے اور تحریک جدید کی سکیموں کے نتیجہ میں جو برکت مل رہی ہے، یہ سب ابتدائی غریب احمدیوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے.اس لئے اگر پاکستان کی جماعت تحریک جدید کے چندے میں بیرونی جماعت سے پیچھے رہ گئی تو پاکستانی جماعت پر کوئی حرف نہیں آتا.یہ خدا کا کام ہے، اس نے تو بہر حال پھیلنا ہے.اب بیرون پاکستان کی جماعتوں کو ساری دنیا میں خدمت کی جو تو فیق مل رہی ہے، پاکستان کی جماعتوں کو وہ تو فیق مل ہی نہیں سکتی.کیونکہ پاکستان کی جماعتوں کا مقابلہ پہلے صرف دو، تین ملکوں سے ہوا کرتا تھا اور اب بیسیوں ممالک سے ہے.اگر احمدیوں کو شمار کیا جائے تو وہ ممالک جہاں احمدی پائے جاتے ہیں، ان کی تعداد 116 بنتی ہے.( نعرے) ان سب کی قربانیوں کا مقابلہ ہم پاکستانی احمدی کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر چہ 28 ممالک میں اس وقت 391 مبلغین کام کر رہے ہیں لیکن مشغوں کی تعداد زیادہ ہے.باقی ممالک میں جماعتیں قائم ہوئی اور احمدیت پھیلی، وہاں انفرادی طور پر احمد ی گئے اور ان کی تبلیغ سے لوگ احمدی ہو گئے.یا پاکستانی احمدی وہاں جا کر آباد ہوئے اور ان کی تبلیغ سے مقامی لوگ احمدیت میں داخل ہو گئے.مثلاً جزیرہ مڈغاسکر ہے، وہاں احمدیت پھیلنے کی داستان یہ ہے کہ مرچنٹ نیوی کے ایک احمدی کو وہاں جانے کا اتفاق ہوا، انہوں نے لٹریچر تقسیم کیا.اور حسن اتفاق سے یا تقدیر الہی کہنا چاہیے، اس کا اتنا اثر ہوا کہ ایک، دو سال کے اندراندروہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے با قاعدہ جماعت قائم ہوگئی.319
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم پس یہ سلسلے ساتھ ساتھ جاری ہیں.لیکن جہاں تک مبلغین کی تعداد کا تعلق ہے، اب محسوس ہو رہا ہے، بہت کم رہ گئی ہے.تقاضے اتنے زیادہ پھیل رہے ہیں کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.جن ملکوں میں سے اس وقت ہمارے 391 مبلغین کام کر رہے ہیں، وہاں سے مسلسل مطالبے آرہے ہیں کہ ہماری ضرورت پوری نہیں ہو رہی.جیسا کہ میں ابھی بیان کروں گا، ہمارے کام نے بہت پھیلنا ہے.اسی لئے میں نے وقف کی تحریک کی تھی.یہ وقف خالصتاً رضا کارانہ ہوگا.جو دوست وقف کریں گے، انہیں جماعت کی طرف سے کوئی پیسہ نہیں دیا جائے گا.آج کل کے زمانے میں کروڑوں روپے تو کوئی چیز ہی نہیں.اگر ہم ان ملکوں کا بوجھ ہی اٹھا لیں، جہاں ہمارے مشن قائم ہیں تو بہت بڑی چیز ہے.آئندہ ہم نے جن ملکوں میں پھیلنا ہے، وہاں تو ہمیں طوعی طور پر کام کرنے والے چاہئیں.اپنا بور یہ بستر اٹھا ئیں اور اپنے رزق کو خدا تعالیٰ پر چھوڑتے ہوئے باہر کی دنیا میں نکل جائیں.لیکن باقاعدہ انتظام کے تابع جائیں.جس حد تک ممکن ہو، ان کی پہلے تربیت کی جائے گی اور پھر ان کو انشاء اللہ مختلف ممالک میں بھجوایا جائے گا.ان کے علاوہ نو جوانوں کی ضرورت ہے، ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.جہاں موقع آئے گا، اس ضرورت کو بیان کروں گا.امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے (9) نوممالک میں چوبیس (24) مساجد تعمیر کی گئیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف 24 مساجد بنائی گئی ہیں.مطلب یہ ہے کہ مرکزی اخراجات کے تابع 24 بڑی وسیع اور پختہ مساجد تعمیر ہوئی ہیں، جو وہاں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کافی ہیں.ورنہ تو افریقہ کے بعض علاقوں میں اللہ کے فضل سے ہر روز ہی نئی مسجدیں بن رہی ہوتی ہیں.آٹھ ممالک میں نئے مشن ہاؤس اس سال قائم ہوئے ہیں.ان کے نام یہ ہیں: امریکہ انگلستان، زمبابوے، انڈونیشیا، سیرالیون، یوگنڈا، نائیجیریا اور پین.چین کے مشن ہاؤس سے مراد وہ مشن ہے، جواب غرناطہ میں کھولا گیا ہے.اس طرح اب وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو (2) مشن ہاؤس ہو گئے ہیں.انگلستان میں جنگھم کے مقام پر ایک نیا مشن ہاؤس خریدا گیا ہے.زمبابوے میں 45 ہزار ڈالر کی ایک عمارت خریدی گئی ہے.فلاڈلفیا (امریکہ ) میں چالیس ہزار ڈالر کی ایک عمارت خریدی گئی.یوسٹن (امریکہ ) میں ہمارے ایک عرب بھائی نے، جو نہایت مخلص احمدی ہیں ، نہایت عمدہ جگہ پر دو (2) بہت قیمتی پلاٹ مشن ہاؤس کے لئے پیش کئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.مشن ہاؤسز کی ضرورتیں بھی بڑھ رہی ہیں اور اللہ تعالی ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں میں تحریک بھی چلاتا جا رہا ہے.320
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء جہاں تک تراجم قرآن کریم کا تعلق ہے، جماعت احمد یہ اس وقت تک دنیا کی مندرجہ ذیل زبانوں میں تراجم مکمل کر کے شائع کر چکی ہے:.انگریزی ، ڈچ ، جرمن، اسپرانٹو سواحیلی ،لوگنڈی ،انڈونیشین ، دینش اور گورکھی.اس وقت جو تراجم زیر نظر ہیں، ان میں خاص طور پر فرانسیسی ، اٹالین ، برازیلین اور ایک افریقی زبان کا ترجمہ شامل ہیں.ہماری یہ کوشش ہوگی کہ جلد سے جلد یہ ترجمے چھپ جائیں.لیکن یہ مشکل در پیش ہے کہ قرآن کریم کے ترجمے کی ذمہ داری بہت عظیم ہے.قرآن کریم کا دوسری زبان میں ترجمہ کرنے والا خواہ کتنا ہی اعلیٰ معیار کا عربی دان اور دینی امور سے واقف ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ اس زبان کو بھی اچھی طرح نہ جانتا ہو، ہم اس پر اعتماد نہیں کر سکتے.دوسری زبانوں میں تو خرچ کر کے بھی ترجمے کروائے جا سکتے ہیں، اس معاملے میں جماعت کنجوسی سے کام نہیں لے گی.لیکن یہ اطمینان کہ خرچ کر کے جو ترجمہ کر وایا جائے گا، وہ صحیح ہوگا بھی یا نہیں اور قرآن کریم کی ذمہ داریوں کو ادا کرے گا یا نہیں، یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے.اس لئے اس بارے میں ہم ہرگز جلدی نہیں کر سکتے.اس ضرورت کے پیش نظر کثرت سے احمدیوں کو مختلف زبانیں سیکھنی چاہئیں.تا کہ جلد از جلد تراجم قرآن کو دنیا میں شائع کیا جائے.میں نے زبانیں سیکھنے کی جو تحریک کی ہے اور اس پر زور دے رہا ہوں، اس کا بڑا مقصد دراصل قرآن کریم کی اشاعت ہے.اس سلسلے میں اب تک چند مہینے میں جو کام ہو چکا ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی قرآن کریم کا ترجمہ کسی وقت کیا گیا، ان سب تراجم کو یکجا کیا جا رہا ہے.اس کا ایک مرکز انگلینڈ میں بنایا گیا ہے.ایک سنٹر مرکز سلسلہ میں ہوگا.اور اگر مناسب سمجھا گیا تو کسی اور جگہ بھی ایسا سنٹر قائم کیا جائے گا تا کہ سارے نسخ محفوظ ہو جا ئیں.علاوہ ازیں ایسے احمدی سکالرز کی تلاش کی جارہی ہے، جو عربی بھی جانتے ہوں اور جس زبان میں ترجمہ مقصود ہے ، وہ زبان بھی کم از کم اتنی جانتے ہوں کہ اس کے محاورے کا اندازہ کر سکیں.الغرض ترجمہ قرآن کریم کے اہم کام کی طرف اولین توجہ دی جارہی ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت کی دعائیں شامل رہیں تو اللہ تعالیٰ بڑی تیزی کے ساتھ ہمیں اس خدمت کی توفیق بخشے گا.جماعت احمدیہ کی طرف سے اس وقت مختلف زبانوں میں جو جرائد شائع ہورہے ہیں، ان کی تعداد 25 ہے.321
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اب میں مختصر انصرت جہاں سکیم کا ذکر کرتا ہوں.حضرت خلیفة المسیح الثالث کے کارناموں میں یہ ایک انتہائی عظیم کارنامہ ہے کہ نصرت جہاں سکیم کو جاری کرنے کے بعد اس کی ایسی عمدہ رہنمائی فرمائی کہ دیکھتے دیکھتے اللہ کے فضل نے اسے برکتوں کے پھلوں سے بھر دیا.اور جماعت نے بھی ایسا تعاون کیا کہ اس نظارے کو دیکھ کر روح عش عش کر اٹھتی ہے.جب احمدی ڈاکٹروں کو تحریک کی گئی کہ آپ افریقہ کے مختلف ممالک میں جا کر کام کریں تو ہمارے ڈاکٹر ایسی جگہ بھی پہنچے، جہاں نہ پینے کو پانی میسر تھا، نہ کوئی رہائش کا معقول انتظام تھا.انہوں نے جھونپڑیوں میں رہ کر گزارے گئے.حالانکہ ان میں سے بعض بڑے ذی ثروت لوگ تھے.یہاں کوٹھیاں چھوڑ کر گئے تھے، بڑے اعلی پیمانے پر زندگی بسر کر رہے تھے.لیکن انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی.بیمار ہوئے ، دل کے دورے پڑے، انتڑیاں تباہ ہوئیں لیکن زبان پر قطعا کوئی شکوہ نہیں لائے.اور اپنی صحت کو قربان کرتے ہوئے ان ملکوں کے غرباء اور امراء کی صحت کی طرف توجہ دینے لگے.نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے ہاتھ میں اللہ نے بڑی برکت رکھ دی.چنانچہ حکومت کے بڑے بڑے عمائدین ان جھونپڑیوں میں آکر رہا کرتے تھے، جہاں علاج ہوا کرتا تھا.اور حالت یہ تھی کہ ایک معمولی میز پر لٹا کر بڑے بڑے آپریشن ہوتے تھے.ہمارے ڈاکٹر ان سے بڑے تعجب سے پوچھتے تھے کہ تمہیں اعلیٰ قسم کے ہسپتال مہیا ہیں، تم امریکہ جا سکتے ہو، یورپ جا سکتے ہو، تمہاری مت (عقل) ماری گئی ہے کہ علاج کے لئے ہمارے پاس آ رہے ہو؟ وہ کہتے کہ ہماری مت (عقل) نہیں ماری گئی بلکہ ہماری آنکھیں گواہی دے رہی ہیں کہ شفانہ یورپ میں ہے، نہ امریکہ میں ہے.شفا اگر کہیں ہے تو وہ احمدی ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہے.(نعرے) پس حضرت خلیفة المسیح الثالث کے اخلاص اور دعاؤں نے اور جماعت کے عمومی ایثار اور جذبے نے اور جماعت کی قربانیوں کی لہلہاتی ہوئی روح نے اس تحریک کو ایسے بابرکت پھل لگائے کہ جو تحریک 3 5 لاکھ روپے کے سرمائے سے شروع کی گئی تھی ، اس کا صرف اس سال کا بجٹ چار کروڑ ، انہتر ، ، لاکھ روپے ہو چکا ہے.(نعرے) امسال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دولاکھ بیس ہزار افراد کو اس تحریک کے نتیجے میں شفا عطا فرمائی اور چار ہزار، چارسو، اکہتر کامیاب آپریشن کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی.اس لئے ہمیں ابھی اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.کچھ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں ، جن کو کئی بار باہر جانا پڑا اور ہر بار وہ بشاشت سے گئے.ان میں ایک وہ ڈاکٹر بھی ہیں، جن کو دل کا دورہ پڑا اور وہاں کے ڈاکٹروں نے کہا کہ کام کے قابل وہ بلائے لیکن اب یہ کام کے قابل نہیں رہے، ان کو فور اواپس بلایا جائے.چنانچہ وہ یہاں واپس بلا لئے گئے.لیکن یہاں.322
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد آتے ہی جس طرح بھی ان کا بس چلا، انہوں نے ڈسپنسری کھولی اور دوبارہ کام شروع کر دیا.سلسلہ کو جب ان کی دوبارہ ضرورت پڑی اور انہیں تحریک کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، میرے دل کا مالک خدا ہے، میں دوبارہ جانے کے لئے تیار ہوں.چنانچہ اس وقت وہ غانا میں خدا کے فضل سے کام کر رہے ہیں اور ان کے ہاتھ میں بڑی برکت ہے اور بڑی شفا ہے.پس ہمیں اور ڈاکٹروں کی بے حد ضرورت ہے.اس لئے میں ڈاکٹروں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس نیک کام میں حصہ لیں.آپ تاریخ کو چھوڑیں، آپ یہ نہ سوچیں کہ تاریخ میں آپ کیا نام حاصل کریں گے ؟ یہ سوچیں کہ اگر آپ محض اللہ کی رضا کی خاطر اس تحریک میں حصہ لیں گے تو اللہ کے کس پیار کی نظریں آپ پر پڑیں گی؟ غانا کے ایک نمائندے حسن عطا صاحب نے کل ہی ملاقات کے دوران بتایا کہ ہمیں آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر کی بڑی شدید ضرورت ہے.اور آج صبح ملاقات میں جب ایک ڈاکٹر نے تعارف کروایا کہ وو میں آنکھوں کا ڈاکٹر ہوں تو میں نے کہا: پھر باہر جانے کی تیاری کرو.انہوں نے کہا: حاضر ہوں.یہ روح ہے جماعت احمدیہ کی.دنیا کے پردے پر بھلا ایسی جماعت نظر آسکتی ہے؟ کون ہے، جو اس روح کا مقابلہ کرے؟ یہ تو وہ روح ہے، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلاموں کو عطا کی.اور اب یہ ان کے لئے خاص ہو چکی ہے.غیر غلام کے نصیب میں نہیں ہے کہ اس کو یہ روح عطا ہو.پس جماعت احمدیہ کے اندر یہ روح پائی جاتی ہے، دنیا میں کونسی طاقت اس کا مقابلہ کرسکتی ہے؟ ( نعرے) جہاں تک صد سالہ جو بلی کا تعلق ہے، اس میں ایک پہلو سے کچھ کی ہے.دس کروڑ ہستتر لاکھ، اکہتر ہزار روپے کا جو وعدہ تھا، اس میں سے ابھی تک صرف چار کروڑ ، چوبیس لاکھ، اٹھائیس ہزار چارسو، ستر روپے وصول ہوئے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا، مجھے اس کی قطعا کوئی فکر نہیں ہے.میں نے ایک خطبہ جمعہ میں چھوٹی سی تحریک اس سلسلے میں کی تھی اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ اثر قبول کرنے والی جماعت عطا ہوئی ہے.اس میں تحریک کا سوال نہیں ہے بلکہ ان دلوں کا سوال ہے، جو خدا کی خاطر پاک تحریکوں کو قبول کرتے ہیں.قربانی کے ایسے عظیم الشان مظاہرے سامنے آئے ہیں کہ ان کو دیکھ کر آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے.اور ان لوگوں کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلی تھیں.ایک دوست ایک لاکھ روپیہ لے کر آگئے اور کہا کہ میں سب سے پہلے یہ رقم صد سالہ جو بلی میں دوں گا.اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائے کہ میں جلد از جلد اس ذمہ داری کو ادا کر سکوں.ان کو خدا نے ایک لاکھ کی توفیق دی.323
اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک لاہور کی ایک ایسی غریب احمدی عورت تھی، جس نے صد سالہ جو بلی میں کچھ چندہ لکھوایا.لیکن اب دینے کے لئے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا.خطبہ جمعہ سننے کے بعد چند دن اس نے بڑے ہی کرب میں گزارے اور خدا کے حضور بہت روئی.پھر اس نے بڑے اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے خط لکھا کہ الحمد للہ خدا نے میری سن لی اور میرا دل اس طرف مائل کر دیا کہ اپنا سا راز یور پیش کر دوں.ہوں تو میں ایک غریب عورت اور یہ زیور اتنا مہنگا بھی نہیں ہے.مگر جو کچھ بھی میرے پاس ہے ، وہ خدا کے حضور پیش کرتی ہوں.پھر اس کو وہم ہوا کہ میں اس کی حالت پر رحم کھاتے ہوئے شاید انکار نہ کر دوں کہ اتنی بڑی قربانی قبول نہیں کرنی.اس لئے اس نے ساتھ یہ لکھا کہ آپ اس زیور کو جلد از جلد منگوانے کا انتظام کریں کیونکہ خدا کی قسم ! مجھے اب زیور سے اتنی نفرت ہوگئی ہے کہ میں اسے گھر میں دیکھ ہی نہیں سکتی.اس قسم کے نمونے بڑی کثرت کے ساتھ دیکھنے میں آتے ہیں.ہر روز مجھے بکثرت ایسے خط ملتے ہیں کہ میں ان کو پڑھتے پڑھتے اللہ کی حمد میں ڈوب جاتا ہوں اور کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہوں.اللہ تعالی کے بڑے بڑے عجیب فضل ہیں، جو نازل ہو رہے ہیں.ان فضلوں کو نہ آپ گن سکتے ہیں اور نہ ہی صفحہ قرطاس پر اتار سکتے ہیں.اور خدا کے بعض فضل تو نا قابل بیان ہیں.جن دلوں پر وہ طاری ہوتے ہیں، وہی محسوس کر سکتے ہیں کہ اللہ کے فضل ہیں کیا.( نعرے) صد سالہ جو بلی فنڈ کے ماتحت جو بہت اہم کام کئے گئے ہیں، ان میں چھ مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر ہے.اس تعداد میں سابقہ بھی شامل ہیں.یہ ممالک حسب ذیل ہیں:.سویڈن، ناروے، جاپان، بھارت اور سب سے آخر پر لیکن سب سے زیادہ شاندار کارنامہ مسجد سپین کی تعمیر ہے.جس کو مسجد بشارت کہتے ہیں.نائیجیریا میں یورو با زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہو چکا ہے.وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ صد سالہ جوبلی فنڈ کے زیر انتظام شائع ہوگا.اسی طرح دیباچہ تفسیر القرآن بھی فرانسیسی زبان میں اس منصوبے کے تحت اشاعت پذیر ہوا.(جیسا کہ میں نے بتایا تھا، بیان کرنے والے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ وہ حد استطاعت سے باہر نکل گئے ہیں.میں نے کچھ نوٹس لکھے تھے لیکن میں کہاں تک بیان کروں گا “.وو ( مطبوعه روزنامه الفضل 21 مئی 1983 ء )...اس ضمن میں، میں تحریک جدید کے مبلغین کے متعلق بھی ایک بات کہنی چاہتا ہوں.مبلغین کی قربانی ایک ایسی عظیم الشان قربانی ہے کہ اس قربانی کا بیان انسان کے بس میں نہیں ہے.324
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء حقیقت یہ ہے کہ یہ قربانی اتنی عظیم الشان، اتنی گہری اور اتنی وسیع ہے کہ باہر والے یعنی جو خود مبلغ نہیں ، ان لوگوں سے ایسی ہی نسبت رکھتے ہیں، جیسے کوئی کنارے پر بیٹھا طوفان کا نظارہ کر رہا ہو.ان مبلغین کے بیوی بچوں کے جو حالات ہیں، ان میں کئی قسم کی پریشانیاں لاحق ہو جاتی ہیں.ایک طرف واقف زندگی ہے، جس سے بہت ہی اعلیٰ معیار کے تقاضے وابستہ ہوتے ہیں، دوسری طرف عدم تربیت کے نتیجہ میں ان کی اولاد میں بعض کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، وہ بے چارے بالکل بے بس ہوتے ہیں.دور بیٹھے ہوتے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے.اور پھر جماعت کی طرف سے انگلیاں اٹھتی ہیں کہ فلاں مبلغ کے بیٹے نے یہ حرکت کی یا فلاں مبلغ کی بیٹی سے یہ حرکت سرزد ہوئی.لیکن وہ مبلغ دور بیٹھا ہوا کچھ نہیں کر سکتا.اس غریب کا دل رور ہا ہوتا ہے، وہ خدا کے حضور ہلکان ہو رہا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں؟ میری کچھ پیش نہیں جاتی.پھر ان کی بیماریاں ہیں، ان کی ضرورتیں ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ جماعت ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن خدا کے کچھ ایسے بھی محروم بندے ہیں، جن کی عزت نفس کا معیار بہت بلند ہے.وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہماری ضروریات کا کسی کو پتہ نہ چلے.اس لئے ان کے بارے میں ہمیشہ بڑی فکر رہتی ہے کہ وہ کس طرح گزارہ کر رہے ہیں؟ اور ان کی کیا تکالیف ہیں، جن کو دور کرنے کوشش کرنی چاہیے؟ ان کے حالات کی تفصیل بیان کرنے کا تو یہ موقع نہیں ہے مگر میں محض دعا کی خاطر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مبلغین دعاؤں کے حقدار ہیں بلکہ ان کے بیوی بچے بھی سارے کے سارے ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں.چنانچہ الحمدللہ کہ تحریک جدید نے ایک اور بہتر قدم یہ اٹھایا ہے کہ اب ایک ایسی اصلاحی کمیٹی بنائی گئی ہے، جو تمام ایسے مبلغین کی اولاد کی سر پرستی کرے گی ، جو باہر گئے ہوئے ہیں اور ان کو ان فکروں سے آزا در کھے گی.ان کو یہ اطمینان ہوگا کہ مرکز میں کوئی ایسی کمیٹی ہے، جو باپ کا حق بھی ادا کر رہی ہے اور مربی کا حق بھی ادا کر رہی ہے.اور جور پورٹیں اب تک آئی ہیں، ان سے میں بہت خوش ہوں کہ خدا کے فضل سے بڑی نمایاں اور پاک تبدیلی پیدا ہوئی ہے.ایک موقع پر کمیٹی کی طرف سے سفارش آگئی کہ فلاں لڑکے نے یہ حرکت کی ہے، اس لئے اس کو سزادی جائے.میں نے کہا: سزا کی تم نے بڑی جلدی سفارش کر دی ہے، یہ بھی تو بتاؤ کہ تم نے اصلاح کا حق ادا کر دیا تھا؟ تم نے اس بچے کی کیا نگرانی کی ہے، جس کے لئے سزا کی سفارش کر رہے ہو؟ جب تحقیق کی گئی تو پتہ لگا کہ کوئی حق ادا نہیں ہوا.بہر حال چونکہ جرم اس نوعیت کا تھا کہ اسے کلیۂ نظر انداز بھی نہیں کیا 325
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جاسکتا تھا، اس لئے کچھ نہ کچھ اصلاحی کا روائی کرنی پڑی.لیکن اس کے نتیجہ میں یہ فائدہ ہوا کہ تحریک جدید اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس فرض کو بڑی بیدار مغزی کے ساتھ ادا کرنے لگی ہے“.وو سلسلہ کی طرف سے جو متفرق کام کئے جارہے ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مستحقین اور محرومین اور سائلین کی ایسی ضرورتوں کو پورا کیا جائے ، جو ملک کے اقتصادی حالات کے پیش نظر عام انسان کے بس کی بات نہیں رہی.چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس منصوبے کی طرف خصوصی توجہ فرمائی اور سال بہ سال اس رقم میں اضافہ ہوتا رہا، جو کارکنان سلسلہ اور محرومین پر خرچ کی جاتی ہے.اس سال کارکنوں پر تیرہ لاکھ ، چوراسی ہزار روپے کی رقم خرچ ہوئی.جبکہ غیر کارکنوں پر خرچ ہونے والی رقم 11 لاکھ 46 ہزار چھ سو، پینتیس تک جا پہنچی.اس میں صدر انجمن ،تحریک جدید ، وقف جدید فضل عمر فاؤنڈیشن اور دوسری ساری تنظیمیں ہیں.وو میں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے پھل ختم بھی نہیں ہوتے کہ مزید آنے شروع ہو جاتے ہیں، اس لئے خدا کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.ابھی میں نے ریویو کے متعلق کہا تھا کہ اسی سال دس ہزار شائع ہونا ضروری ہے.اور یہ بھی کہا تھا کہ اخراجات کی فکر نہ کریں.اللہ تعالی نے اس کا انتظام ابھی فرما دیا ہے.چنانچہ کراچی کے ایک دوست کلیم اللہ خاں صاحب نے کہا ہے کہ یہ سارا خرچ میں خود برداشت کروں گا، بڑے شوق سے اس سکیم کو آگے چلائیں.( نعرے) پس جس جماعت کا خدا اتنا محسن ہو اور اتنا کرم کرنے والا ہو، اس کو دنیا کا کیا خوف ہے.ساری دنیا کی مخالفتیں جو دکھ آپ کو پہنچاتی ہیں، ایک دن اور ایک رات میں اللہ کے جو فضل نازل ہوتے ہیں ، وہ سارے دکھوں کو دور کر دیتے ہیں.جہاں تک حالیہ دورہ سپین اور یورپ کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کے ساتھ اس دورہ کو اسلام کے لئے بہت ہی کامیاب فرمایا.جیسا کہ بارہ مختلف رنگ میں بیان کیا جا چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہماری حقیر کوششوں کو ایسے شیریں پھل عطا فرمائے ، جو انشاء اللہ تعالی آئندہ بڑھتے ہی چلے جائیں گے.وہ خدا کے ایسے عطا کردہ پھل ہیں کہ ان کو آپ جتنا بھی کھائیں ، وہ کم نہیں ہوتے بلکہ اور بڑھ جاتے ہیں.اس سلسلے میں، میں پہلے بہت سی مثالیں دے چکا ہوں، اس لئے ان کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں.لیکن بہر حال میں اس وقت چند ایک باتیں بیان کر دیتا ہوں.یورپ کے سفر کے جو عمومی تاثرات ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جماعت کو عبادت کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ ہوئی.ایک دو نہیں بلکہ بیسیوں ایسے نوجوان ہیں، جنہوں 326
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء نے خود تسلیم کیا اور اظہار کیا کہ ہم آہستہ آہستہ اتنے دور چلے گئے تھے کہ نمازوں کی عادت بھی نہیں رہی تھی.یہ نوجوان نہ صرف نمازوں کے عادی ہوئے بلکہ تہجد بھی پڑھنے لگے.اور تہجد بھی ایسی گریہ وزاری کے ساتھ ادا کر نے لگے کہ ان کو دیکھ کر دوسرے دوستوں کو رشک آتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں کیسا سوز و گداز پیدا کر دیا ہے.پس یورپ کے احمدیوں کو عبادت کی طرف غیر معمولی توجہ میرے نزدیک اس سفر کا سب سے بڑا پھل ہے.ان لوگوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے دعائیں کرتے ہوئے بکثرت آنسو بہائے ہیں.ان میں سے ہر آنسو انشاء اللہ بڑھے گا، پھیلے گا اور نشو و نما پائے گا.اور نئے پاک وجودوں کی پرورش کرے گا اور آبیاری کرے گا.یہ ایک ایسا پھل ہے، جس کو شمار میں بھی نہیں لایا جا سکتا اور اہل دنیا کا حساب اس کو سمیٹ ہی نہیں سکتا.جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے، اس میں بھی جماعت حیرت انگیز طور پر آگے بڑھی ہے.مثلاً ناروے کی جماعت ہے، وہاں کے امیر کمال یوسف صاحب جلسہ پر تشریف لائے ہوئے ہیں، انہوں نے کی اعداد و شمار پیش کر کے بتایا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں وہاں کی جماعت کی جو کل آمد تھی ، صرف پچھلے تین مہینوں میں اس سے زیادہ ہو چکی ہے.اور وہ مشن، جواب تک خود کفیل نہیں تھا، وہ اب خود کفیل ہو چکا ہے.اس سلسلے میں جرمنی سے اور دوسری جگہوں سے بھی بڑی کثرت کے ساتھ خطوط آ رہے ہیں.ان کو پڑھ کر میرادل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے اور اس کے فضلوں کو دیکھ کر اس کی حمد کے ترانے گانے لگتا ہے.اور ایسا مزا آتا ہے کہ ایک وجد آور نشے کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.ایک جماعت کے سیکرٹری صاحب مال نے لکھا کہ میں سالہا سال سے کوشش کر رہا تھا کہ جماعت کے دوست با شرح چندہ ادا کرنا شروع کریں.اس کے لئے مختلف کوششیں کی گئیں.ان کے بزرگوں سے بھی کہلوایا گیا لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا.انہوں نے ہمیں مارک مقرر کر لئے تھے کہ اس زیادہ چندہ نہیں دینا.انہوں نے لکھا ہے کہ آپ کے دورے کے بعد جماعت کے یہ دوست خود بخود میرے پاس آنے لگے.کسی نے کہا: میرا چندہ ایک سو ہیں مارک لکھ لیں اور کسی نے کہا: ایک سو پچھیں مارک لکھ لیں.گویا وہ خود آ کر شوق سے کئی گنازیادہ چندہ پیش کرنے لگے ہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں، دلوں پر تو کسی کو تصرف حاصل نہیں.اللہ تعالیٰ کے یہ فضل کئی شکلوں میں نازل ہوئے اور نازل ہو رہے ہیں اور تمام ملکوں میں یہی کیفیت ہے.لنڈن کی جماعت پہلے ہی بڑی مستعد تھی اور اس کا چندے کا معیار باقی کئی ملکوں کی جماعتوں کی نسبت بہتر تھا لیکن ابھی مکرم شیخ 327
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم مبارک احمد صاحب کا خط آیا ہے کہ صرف لنڈن کے بجٹ میں تمہیں فیصدی اضافہ ہو چکا ہے.الغرض جوں جوں جماعت کی ضروریات پھیل رہی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو پورا کرنے کا بھی انتظام کرتا چلا جارہا ہے.غانا کے ایک احمدی دوست نے اتنی ہزار سڈی (غانا کا سکہ) مالیت کی ایک بڑی دین مشن کے لئے خریدی ہے اور اس پر لاؤڈ سپیکر بھی نصب ہیں.اور کہا ہے کہ اب یہ تبلیغ کے لئے وقف ہے، سارے ملک میں گھماتے اور تبلیغ کرتے پھرو.اسی طرح سیرالیون میں ایک دوست نے ایک وسیع مکان جماعت کو تحفہ پیش کر دیا ہے.اب ان دونوں ملکوں کا تو میں نے دورہ نہیں کیا تھا.اس لئے اگر کوئی یہ کہے کہ دورے کا اثر ہے تو ہرگز ایسا نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جو خود بخو دنازل ہو رہا ہے.اس قسم کی اور بھی خوش کن خبریں ہیں، جو ہمارے دلوں کو مطمئن کرتی ہیں اور یقین دلاتی ہیں کہ یہ خدا کا کام ہے، ہمارا کام نہیں.جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ ہم اخلاص کے ساتھ پیش کرنے کے لئے تیار ہیں.پھر جو کی رہ جائے گی، وہ ساری خدا پوری کرے گا ، جو کل کائنات کا مالک ہے اور جس کے قبضہ اقتدار میں ہر چیز ہے.آپ کام کرتے چلے جائیں، اللہ تعالی ساری ضروریات پوری فرماتا رہے گا.مجھے ڈر ہے، کہیں وقت زیادہ نہ ہو جائے اور بعض منتظمین کو انتظامی دقتیں پیش نہ آئیں، اس لئے میں تقریر کو نسبتاً چھوٹا کرنے کی کوشش کرتا ہوں.) سپین کے دورہ کے متعلق بھی بار باذ کر آچکا ہے.جہاں تک مسجد بشارت کی افتتاحی تقریب کا تعلق ہے، ایک اندازے کے مطابق مختلف ممالک سے قریباً دو ہزار احمدی اس میں شریک ہوئے.اور جہاں تک جماعتوں کی نمائندگی کا تعلق ہے، چھتیں (36) ممالک کے احمدی نمائندے شامل ہوئے.مقامی طور پر اندلس کے تین ہزار باشندوں نے اس میں شرکت کی اور مختلف ممالک کے اخباری نمائندگان، جنہوں نے اس تقریب میں شمولیت اختیار کی ، ان کی تعداد پچاس سے زائد تھی.پھر وہاں کے اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ نہایت ہی اچھے انداز میں تبلیغ کرتے ہوئے ہماری خبروں کو شائع کیا.چنانچہ اب تک 35 مختلف اخبارات کے تراشے پین سے موصول ہو چکے ہیں.جن میں سے بعض اخبارات اکیلے اکیلے لکھوکھا کی تعداد میں شائع ہونے والے ہیں.افتتاحی تقریب کی خبر کو یورپ کے بعض ایسے اخبارات نے بھی شائع کیا ، جن کی اشاعت کئی ملین ہے.اور ایسے عمدہ رنگ میں شائع کیا کہ یوں معلوم ہوتا ہے، وہ داستان کسی احمدی مبلغ نے لکھی ہے، کسی اخباری نمائندے نے نہیں لکھی.افتتاحی تقریب کا ایک خوش کن پہلو یہ ہے کہ پین کی 328
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982 ء حب حیثیت شخصیتیں جو کسی نہ کسی پہلو سے عظمت کا مقام رکھتی ہیں، اس موقع پر تشریف لائیں اور ان کو بہت لطف آیا.انہوں نے اس دعوت پر بے حد شکریہ ادا کیا اور بعد میں جماعت سے تعلق کو قائم رکھا.اور جو شامل نہیں ہو سکے ، ان کے ابھی تک معذرت کے خط آ رہے ہیں.کیونکہ اس تقریب کا اتنا پروپیگنڈا اور چرچا ہورہا ہے کہ وہ حیران ہیں کہ ہم ایسی اچھی تقریب میں شمولیت سے کیوں محروم رہے؟ وہاں کے بڑے بڑے لوگوں مثلاً پارلیمنوں کے ممبران سابق وزراء اور موجودہ REGIME یعنی حکومت کے افسران اور پارٹی کے ممبران کے خطوط آرہے ہیں کہ ہمیں افسوس ہوا کہ کسی مصروفیت کی وجہ سے ہم اس تقریب میں شامل نہ ہو سکے.جب تک دل پر اثر نہ ہو، کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اتنی دیر کے بعد خط لکھ کر شامل نہ ہونے پر اظہار افسوس کرے؟ نئی سکیموں کے ضمن میں، میں جماعت کو بعض امور کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانی چاہتا ہوں.منصوبہ یہ ہے کہ صد سالہ جشن سے پہلے پہلے دنیا کے کم از کم ایک سو ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں.اگر چہ مشنوں کی تعداد تو زیادہ ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، صرف 28 ممالک ایسے ہیں، جہاں ہمارے مرکزی مبلغین کام کر رہے ہیں.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ نئے مشوں کی کتنی ضرورت ہے؟ اور جہاں مشن قائم ہو چکے ہیں، وہاں کی ضروریات بھی اب بہت وسیع ہو گئی ہیں اور بہت پھیل گئی ہیں.مثلاً جب امریکہ کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا صرف امریکہ میں ہی کم از کم پانچ نئے مشن چاہئیں.اسی طرح کینیڈا میں نئے مشعوں کی ضرورت ہے.یہی حال یورپ کا ہے.غرض یہ کہ ہر ملک جہاں احمدیت داخل ہو چکی ہے، وہاں ضروریات اتنی تیزی سے پھیل رہی ہیں کہ ہر مسجد چھوٹی ہوگئی ہے اور ہر مشن ہاؤس چھوٹا ہو گیا ہے.اس سلسلے میں ایک اور بات بھی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں.میں نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا تھا کہ 1982ء کو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے.یہ اہمیت اس پہلو سے بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وسع مکانک کا الہام 1882ء میں ہوا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس الہام کے ایک سو سال کے بعد وسع مکانک کا ایک نیا دور جماعت کے سامنے آنے والا ہے.اس لئے کمر ہمت کس لیں اور تیار ہو جائیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے گھروں کو بھی برکت دی جائے گی اور وہ وسیع کئے جائیں گے.اسی 329
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم طرح آپ کے مشنوں کو بھی برکت دی جائے گی اور وہ وسیع کیے جائیں گے.آپ کی مساجد کو بھی برکت دی جائے گی اور وہ وسیع کی جائیں گی.الغرض یہ الہام ایک نئی شان کے ساتھ اس صدی میں پورا ہونے والا ہے.(نعرے) سپین کے لئے تحریک وقف عارضی) اس سلسلے میں انگلستان کی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی اچھا نمونہ دکھایا ہے.صرف انصار الله، لنڈن نے سترہ (17) واقفین عارضی پیش کر دیئے ہیں.اسی طرح پاکستان اور دیگر ممالک کی جماعتوں سے بھی واقفین کے نام موصول ہورہے ہیں ، جب یہ دوست کثرت کے ساتھ چین جا کر اپنے تعلقات کے دائرے کو وسیع کریں گے تو امید ہے، انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد میٹھے پھل لگنے شروع ہو جائیں گے.میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ دنیا حق کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے.چنانچہ میں نے اپنے دورے میں اس چیز کو محسوس کیا ہے.پہلے زمانے میں بھی ہم گفتگو کیا کرتے تھے.جب میں طالب علم تھا تو اس وقت بھی ہم دن رات عیسائیوں وغیرہ کے ساتھ مذہبی بحثوں میں دماغ کھپایا کرتے تھے.لیکن وہ اثر نہیں ہوتا تھا، جو اس دورے میں دیکھا ہے.چنانچہ جہاں جہاں بھی غیر مسلم ہماری مجلسوں میں شامل ہوئے ہیں، انہوں نے اپنے طور پر وہاں سے خط لکھ کر اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے.ان میں سے بعض احمدی ہو گئے اور بعض نے اظہار کیا کہ ہم بڑی تیزی کے ساتھ احمدیت کی طرف آرہے ہیں.ہمارے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جلد قبول احمدیت کی توفیق عطا فرمائے.بریڈ فورڈ (انگلستان) میں کچھ انگریز آئے ہوئے تھے، ان میں سے ایک انگریز نے اپنے طور پر ایک سوال کیا.جس کا مذہب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا.اس نے کہا کہ APARTHIED یعنی نسلی امتیاز وغیرہ پر کچھ بتائیں؟ چنانچہ میں نے اسلامی تعلیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے نسلی امتیاز کے متعلق کچھ کہا.وہاں سے واپس آنے کے بعد اس کا خط موصول ہوا کہ اگر چہ میرے سوال کا مذہب سے براہ راسہ کوئی تعلق نہیں تھا لیکن آپ نے جو جواب دیا ہے، اس میں اتنی سچائی ہے کہ وہ جواب میرے دل کی گہرائی تک اتر گیا ہے اور میں مجبور ہو گیا ہوں کہ اسلام میں دلچسپی لوں.میں نے کچھ کتابیں پڑھی ہیں اور ان کو پڑھنے کے بعد میں اسلام کے قریب تر آ گیا ہوں.دعا کریں، اللہ تعالیٰ مجھے تو فیق عطا فرمائے کہ میرا یہ سفر آسانی سے اور جلدی طے ہو جائے.بریڈ فورڈ سے جو دوست جلسہ پر تشریف لائے ہیں، انہوں نے بتایا ہے کہ یہ انگریز اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہو چکا ہے.الحمد للہ.آپ سب کو مبارک ہو.330
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1982ء سوئٹزر لینڈ میں جو پبلک لیکچر تھا، اس میں شامل ہونے والوں نے حیرت انگیز طور پر دلچسپی لی.جو وقت لیکچر کے لئے مقرر تھا، اس سے زیادہ وقت ہو گیا تھا لیکن وہ جانے کا نام نہیں لیتے تھے.حالانکہ ان لوگوں کو عادت ہی نہیں ہے کہ اتنی دیر بیٹھے رہیں.ان کے وقت مقرر ہوتے ہیں.کسی لیکچر میں ایک گھنٹہ بیٹھ جانا، بہت بڑی بات سمجھی جاتی ہے.لیکن ہمارے پروگرام میں وہ نہ صرف بیٹھے رہے بلکہ لیکچر کے بعد سوال و جواب کا ایسا سلسلہ شروع کر دیا کہ وہ چھوڑتے ہی نہیں تھے.اور پھر سوالات بھی زیادہ تر عیسائیت کے متعلق.جواز خود انہوں نے شروع کیے.لطف کی بات یہ ہے کہ مسلسل ساڑھے تین گھنٹے تک وہاں بیٹھے رہے.گویا چالیس منٹ یا ایک گھنٹے کی جو دعوت تھی، وہ ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہی.اور جو بہت مجبور ہوئے ، وہ بڑی معذرت کے ساتھ وہاں سے گئے اور بعض نے واپس جا کر خط لکھے کہ ہمیں بڑا افسوس ہے کہ ہم اس مجلس میں زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکے.لیکن یہ صرف گنتی کے لوگ تھے.ان میں سے ایک نو جوان اب سوئٹزر لینڈ کی فوج میں ہے.انہوں نے عیسائیت کے متعلق سوال شروع کئے تھے اور سوالات سے متشد د عیسائی لگ رہے تھے.ان کا خط آیا کہ میرے دل پر اس مجلس کا بہت گہرا اثر ہے.اس کے بعد میں دو (2) دفعہ آپ کے مشن سے رابطہ قائم کر چکا ہوں اور احمدیت کا مطالعہ کر رہا ہوں.میرے چند سوال ابھی باقی ہیں، دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائے کہ میں احمدی ہو جاؤں.الغرض ایک دو نہیں بلکہ ایسی بیسیوں مثالیں ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنے فضل کے ساتھ ایک مجلس میں دلوں کو بدلا ہے.انگلستان سے ایک احمدی نوجوان کا خط آیا کہ ھم میں جو استقبالیہ دیا گیا تھا، اس میں میرے ایک انگریز استاد بھی شامل تھے، جنہیں مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی.چند دن ہوئے ، وہ مجھے ملے اور کہنے لگے کہ یہ عجیب بات ہے کہ استقبالیے میں After Dinner یعنی رات کے کھانے کے بعد ایک چھوٹی سی تقریر تھی لیکن اسلام کے بارے میں جو کچھ کہا گیا، وہ اتنا سا تھا کہ میرے دل میں گھر کر گیا ہے.اور میں جود ہر یہ اور لامذہب تھا، اب ایک مذہبی انسان بن گیا ہوں.اس لئے مجھے لٹریچر دو تا کہ میں اسلام کا مزید مطالعہ کروں.پس یہ ساری اسلام کی برکتیں ہیں.اسلام ایک ایسی عظیم الشان صداقت ہے کہ جو غالب آنے کے لئے قائم کی گئی ہے اور لازما غالب آکر رہے گی.ہم نے تو صرف لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونا ہے.اس وقت دنیا کی ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں اور تقاضے بھی پھیل رہے ہیں، اس لئے آپ تیاری کریں، آپ میں سے ہر ایک کو مبلغ بننا پڑے گا.اب دس یا ہیں یا تئیں یا چارسو یا پانچ سویا ہزار مبلغ کا بھی کام نہیں رہا، اب تو یہ تقاضے بہت پھیل چکے ہیں.331
اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1982ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک ہے تو وہ لطیفہ لیکن یہاں وہ ضرور صادق آتا ہے.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک مراثی اور ایک چوہدری کو اکٹھے کشتی میں سفر کرنے کا موقع ملا.آپ جانتے ہیں، میراثی بڑے حاضر جواب ہوتے ہیں اور چھیڑ چھاڑ میں بڑی مہارت رکھتے ہیں.چوہدری صاحب جب بھی مراثی کو ذلیل اور شرمندہ کرنے کوشش کرتے تھے تو میراثی ایسا کرارا جواب دیتا تھا کہ بیچارے چوہدری صاحب کو خود شرمندہ ہونا پڑتا تھا.اتفاق سے مراثی قریباً کھودا تھا.یعنی اس کی داڑھی کے صرف دو بال تھے ، باقی داڑھی اگی ہی نہیں تھی.جب کشتی ڈولی اور ہچکولے کھانے لگی تو (جیسا کہ ہمارے ملک کا رواج ہے) کشتی بان نے اعلان کیا کہ خواجہ خضر کے نام کی کچھ خیرات دے دی جائے تاکہ ہم اس طوفان سے بچ جائیں.چوہدری صاحب کو سو بھی کہ اب میراثی سے بدلہ لینے کا وقت ہے.اس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ سب سے اچھی قربانی یہ ہوگی کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی داڑھی کے دو دو بال کھینچ کر اس دریا میں خواجہ خضر کی خیرات ڈال دیں.اس نے سوچا کہ مراثی کے صرف دو بال ہیں اور اس طرح دونوں نکل جائیں گے.مراثی نے مٹر کر حیرت سے دیکھا اور جواب دیا.چوہدری جی ! الہیہ دوہاں دا ویلا اے، کہیڑ افلاں اے جہیز اساری داڑھی نہ پٹ کے سٹ دے.یعنی بات کر رہے ہو، یہ کوئی دو بالوں کا وقت ہے؟ آج تو وقت ہے، ساری داڑھی پھینک دی جائے.لیکن خدا کی قسم ! اسلام کے معاملے میں یہ لطیفہ آج سچا ثابت ہو رہا ہے.آج یہ وقت نہیں رہا کہ دس یا ہیں یا سویا ہزار مبلغ کام کریں.آج ساری جماعت کو اسلام کی خاطر ہمیں جھونکنا پڑے گا.اس کے بغیر اسلام زندہ نہیں ہوسکتا.(نعرے) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسلام کا زندہ ہونا ، ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اس راہ میں مرنا“.فتح اسلام صفحہ 16) پس آئے ، ہم عہد کریں کہ اسلام کی ضروریات بہر حال پوری کی جائیں اور اپنی ہر ضرورت کو اسلام کی ضرورت پر قربان کر دیا جائے گا.اسلام جانیں چاہتا ہے تو ہم جانیں لے کر حاضر ہوں گے ، اسلام اموال چاہتا ہے تو ہم اموال لے کر حاضر ہوں گے، اسلام عزتیں چاہتا ہے تو ہم عزتیں لے کر حاضر ہوں گے.اسلام بہنوں، بیٹیوں اور عورتوں کی قربانیاں چاہتا ہے تو ہماری ساری عورتیں اپنی ساری جانیں پیش کر دیں گی.اسلام بچوں کی قربانیاں چاہتا ہے تو آج اسلام کو ایسی مائیں ملیں گی، جو خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوں گی.اسلام باپوں کی قربانیاں چاہتا ہے تو اسلام کے بیٹے یعنی احمدیت 332
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1982ء کے سپوت اپنے باپوں کی قربانیاں پیش کر دیں گے.غرض یہ کہ آج اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سب کچھ اپنے خدائے واحد ولا شریک کے حضور پیش کر دیں.میں یقین رکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات شیخ کی طرح گاڑ دی ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ جماعت ان سارے تقاضوں کو پورا کرے گی اور فتح کے وہ دن جو خواب کی طرح دور نظر آ رہے تھے، وہ ہمیں بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دیں گے.یہاں تک کہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھ لیں گئے“.(نعرے) ( مطبوعه روزنامه افضل 22 مئی 1983ء) 333
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تنفیذ کی ساری ذمہ داری اب تحریک پر آئے گی ارشادات فرمود و 30 دسمبر 1982ء بر موقع مجلس شوری ممالک بیرون حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مجلس شوری بیرون کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا :.انسان پر اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے یہ ایک بہت ہی عظیم احسان ہے کہ اسلام جیسی عض الشان اور کامل اور جامع اور مانع تعلیم عطا فرمائی اور اسلام کے احسانات میں سے مجلس شوری کا نظام بھی ایک امتیازی شان کا احسان ہے.اس کی کوئی مثال دنیا کے پردے پر کسی مذہبی نظام میں یا غیر مذہبی نظام میں نہیں ملتی.مسلمانوں کو اجتماعیت پر قائم رکھنا اور ان کے انفرادی حقوق کی حفاظت اور پھر اس کے باوجود ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا اور وحدت کی لڑی میں پروئے رکھنے کے لئے یہ نظام ایک عظیم الشان کردار ادا کرتا ہے.ساری قوم میں ایک ایسی فعال خواہش کو بیدار رکھنے میں یہ بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے کہ ہر فرد بذات خود اسلام کی ذمہ داریوں سے منسلک ہو جائے اور ہر فرد بذات خود اجتماعی نظام کا اپنے آپ کو ایک ایسا حصہ تصور کرے کہ گویا اسی کے اوپر ہر ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور وہی بنیاد ہے.اس وسعت کے ساتھ احساس ذمہ داری کی تقسیم سوائے اسلامی نظام شوری کے کسی اور نظام میں ممکن نہیں.چنانچہ یورپ کے سفر میں نہ صرف میں نے بلکہ تمام احباب جماعت نے یہ محسوس کیا کہ مجلس شوریٰ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے افراد میں غیر معمولی جذبہ خدمت پیدا ہوا.اور بہت سے ایسے اعتراضات، جو لاعلمی کے نتیجہ میں پیدا ہو کر ایمان کو گھن کی طرح ضائع کر رہے تھے ، وہ از خود رفع ہو گئے اور بہت سے ایسے دوستوں نے مجھ سے بیان کیا کہ شورٹی میں شمولیت سے پہلے ہمیں احمدیت کا پورا تصور ہی نہیں تھا.جب شامل ہوئے تو ایک بالکل نیا جہان احمد بیت کا ہم پر روشن ہوا.اور یہ بات پاکستانیوں نے نہیں بلکہ یورپین نو مسلم احمد یوں نے کہی.اور انہوں نے جو وقت کی قربانی کا مظاہرہ کیا ، اس کے بعد وہ بھی انتہائی عظیم الشان ہے.بالکل فدائیوں کی طرح اپنی ساری قدروں کو احمدیت کے لئے پیش کر دیا.اور بعض مربیان کی طرف سے جو ان کے متعلق رپورٹیں مل رہی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی گویا کا یا پلٹ گئی ہے.335
ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک تو یہ ایک دو برکتیں ہیں، جن کے بیان کا یہاں وقت تھا.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اسی مضمون پر جو نہایت ہی حقیر کوششوں کو اللہ تعالیٰ پھل عطا فرما چکا ہے، اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو بہت لمبا وقت درکار ہے.اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کا انسان حق تو کیا ، اس کا پوری طرح ذکر بھی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا.اس نوعیت کی یہ پہلی مجلس شوری ہے کہ جس میں مرکز ربوہ میں تمام دنیا کے احمدی جماعتوں کے نمائندگان کو شمولیت کی توفیق مل رہی ہے.ظاہر ہے کہ ساری دنیا کی جماعتوں کے مسائل پر تفصیلی گفتگو تو اس چھوٹی سی مجلس میں ہوئی ممکن نہیں.جو باہر سے دوست تشریف لائے ہوتے ہیں، ان کو وقت بھی اتنا نہیں.اور جو یہاں موجود ہیں، ان کے بھی اور بہت سے کام ہیں.اس لئے اگر ساری دنیا کی مجالس شوری کی نمائندگی اس شوری کو ان معنوں میں حاصل ہو کہ تمام دنیا کی جماعتوں کے انفرادی جماعتی مسائل پر تفصیلی گفتگو ہو تو ایسا ہونا ممکن نہیں.اس لئے اس شوری کے انعقاد سے قبل تمام جماعتوں کو یہ مطلع کر دیا گیا تھا کہ آپ اپنے اپنے ملکوں کے مسائل پر وہاں مجلس شوریٰ منعقد کریں اور ان پر تفصیلی گفتگو کے بعد جو پڑھے ماحصل ہو، وہ مرکز میں بھیجوائیں.جس طرح پر مجلس شوری کی کاروائی خلیفة المسیح کے پاس منظوری کے لئے پیش ہوتی ہے، وہ بھی پیش ہوگی.اور ان میں سے اگر بعض ایسے مسائل سامنے آئے ، جن کو اس مرکزی مجلس شوری میں رکھنا ضروری سمجھا گیا یا ایسے مسائل سامنے آئے ، جن کا ایک ملک سے نہیں بلکہ وسیع ) تر دنیا کی دیگر جماعتوں سے بھی تعلق ہے تو ایسے معاملات کی چھان بین کے بعد ایک الگ ایجنڈا مرتب کیا جائے گا، جو اس مجلس شوریٰ میں پیش کرنے کے لئے ہوگا.آئندہ کے لئے بھی یہی طریق کا را نشاء اللہ تعالی جاری رہے گا.جب تک اللہ تعالٰی اس میں کوئی تبدیلی نہ پیدا فرمادے.لیکن اس وقت چونکہ وقت تھوڑا تھا، اس لئے پوری طرح اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوا.ایک تو بہت چھوٹا نوٹس دیا گیا باہر کی جماعتوں کو.خدا کے فضل سے اس تھوڑے وقت میں بھی احباب نے وقت کی قربانی کی اور دور دور سے اکٹھے ہوئے اور مسائل پر غور ہوا.لیکن ان کے غور پر یہاں تفصیلی غور کا وقت نہیں ملا.آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ چونکہ زیادہ وقت میسر ہوگا، اس لئے نسبتا بہتر رنگ میں اس فیصلے کی تنفیذ ہو سکے گی.اس وقت ہم نے ایک ایسا ایجنڈا تیار کیا ہے، جس میں جماعت کی عمومی صورتحال، جس کا براہ ست تعلق مجلس شوری سے ہے، وہ مختصر رپورٹوں کی شکل میں آپ کے سامنے رکھی جائے گی.تاکہ آپ کے ذہن میں بھی ایک انگیخت ہو ، Excite ہوں ذہن اور ان باتوں کی روشنی میں واپس جا کر اپنے اپنے ملکوں میں ان باتوں پر مزید غور کریں، ان مسائل کے اوپر باقی احباب کو بھی توجہ دلائیں.336
ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...اصل شوری کا مقصد یہ ہے کہ سارا اجتماعی اسلامی ذہن متحرک ہو جائے اور ہیجان پکڑ جائے.اور اس کے نتیجے میں ایک دماغ نہیں بلکہ سارا جماعتی دماغ ایک نقطہ پر ارتکاز پکڑ کے پھر اس ایک مرکزی دماغ کو جلا بخشے ، جس نے آخر فیصلہ کرنا ہے.یہ روح ہے، شوری کی.اس روح کو مدد دینے کے لئے امید ہے کہ آج کی شوری کسی نہ کسی حد تک ممد و معاون ثابت ہوگی.پھر آخری نقطہ فیصلے کا حقیقت میں وہ ایک مرکزی دماغ نہیں کرتا.آخری نقطہ فیصلے کا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی راہنمائی پر منحصر ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا:.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اگر فیصلہ اللہ کی مرضی کے بغیر ہو تو پھر تو کل علی اللہ کے معنی کوئی نہیں کہ فیصلے تم کرتے رہو اور ذمہ داریاں میری ہیں.یہ بڑی عجیب سی بات بنتی ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہے کہ تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایسی غیر حکیمانہ باتیں نہیں ملتیں.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جانتا ہوں کہ تیرے عزم کا کوئی پہلو بھی میری مرضی سے باہر نہیں.اس وجود کو مخاطب کیا جا رہا ہے، جس کے متعلق خود فرمایا:.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ جس کا سب کچھ خدا کے لئے ہو چکا ہو، جس کی اپنی مرضی باقی نہ ہو، اس وجود کا فیصلہ ہے، جس کے متعلق فرمایا ہے:.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ پس وہی عکس ہے، جو اسلامی نظام میں درجہ بدرجہ منتقل ہوتا ہے.رجہ منتقل ہوتا ہے.حسب توفیق جس کو بھی خدا تعالیٰ اس منصب پر فائز فرمائے ، اس کے دل میں اپنے لئے کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور کوئی انانیت کا حصہ باقی نہیں رہنے دیتا.اس وقت جو فیصلہ ہوتا ہے، اجتماعی دماغ کی مدد اور کوشش کے بعد وہ یقینا اللہ تعالیٰ کی مرضی کا پہلو اپنے اندر رکھتا ہے.اور اس پر یہ حکم ہے.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ یہ نظام ہے، جس کا ساری دنیا سے تعارف ہونا ضروری تھا.ورنہ بہت سے ممالک میں بعض ایسے مسائل پیش آرہے تھے اور بعض جگہ وہ بڑھ رہے تھے، زیادہ سنگین نوعیت اختیار کر رہے تھے ، جو نظام 337
ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم شوری اور نظام اسلام کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں اگر اسی طرح بڑھتے رہتے تو بہت خطرناک نتائج پر منتج ہو سکتے تھے.چنانچہ بعض Delegations نے جو یہاں تشریف لائے ، انفرادی ملاقات کا ان سے موقع ملا، انہوں نے کہا کہ یہ پہلا نمونہ جو شوری کا ہم نے دیکھا ہے، اپنے اپنے ملکوں میں اسی سے ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی جلالی ہے اور اتنی روشنی عطا ہوئی ہے ذہن کو کہ اب ہم اپنے آپ کو احمدیت کے لئے پہلے سے زیادہ قربانی پر آمادہ پاتے ہیں.تو آئیے ! اب ہم اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ، اس کا روائی کا آغاز کرتے ہیں.اپنے فضل سے خدا تعالی برکت دے اور اس نظام کو مزید نشو ونما عطا فرما تار ہے اور ہمیں یہ توفیق نہ عطا کرے کہ اس کی مرضی کے خلاف ہم کوئی مشورہ دے سکیں یا کوئی مشورہ قبول کر سکیں.وو پہلی تجویز : صد سالہ جو بلی سے قبل ایک سو ممالک میں تبلیغ اور جماعتوں کا قیام سب سے پہلے ایک ایسی تجویز ہے، جس کا تعلق صد سالہ جو بلی منانے سے ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، ہمارا اصل جشن تو یہ ہے کہ خدا کے حضور تبلیغ اسلام کے تحائف پیش کریں.اگر ان تحائف سے ہمارا دامن خالی رہا تو محض ربوہ کو سجانا یا گیٹ لگا نا تو اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا.اس لئے 100 ممالک میں نئی جماعتیں قائم کرنے کا تحفہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ طور پر پیش کرنا ہے.اس مقصد کے لئے وکالت تبشیر کو میں نے ہدایت دی تھی کہ اس مجلس شوری سے پہلے ساری دنیا کا جائزہ لے کر وہ ممالک تجویز کریں اور ان کو بعض ایسے ممالک کے ذمہ لگا ئیں، جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں قائم ہیں.اور وہ اگر اس بارے میں کچھ کہنا چاہیں کہ کیا کیا ذرائع اختیار کر سکتے ہیں یا کئے جائیں گے؟ تو اس بارے میں ان کو موقع دیا جائے گا اور واپس جا کر پھر اپنے ملک میں بھی غور کریں اور پورا تفصیلی منصوبہ بنائیں کہ جو ممالک ہمارے ذمہ لگائے گئے ہیں، جلد سے جلد ہم ان میں اسلام کا جھنڈا اس مضبوطی کے ساتھ نصب کر دیں کہ مقامی مٹی سے پیدا ہونے والے لوگ مستقل وہاں کے باشندے ایک مستقل دانگی جماعت کی شکل اختیار کر جائیں“.....یه جور پورٹ آپ نے سنی ہے، اس میں ایک تو اعداد و شمار کی درستی ہونے والی ہے.یہ جو 100 ممالک میں احمدیت کا جھنڈا گاڑنے کا پروگرام آپ کے سامنے رکھا گیا ہے، اس کا آغاز مجھ سے نہیں ہوا.بلکہ میں نے خطبہ جمعہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات بیان کی تھی کہ حضرت خلیفة المسيح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جو صد سالہ جوبلی منانے کے لئے پلاننگ کمیشن بنایا تھا، اس میں ان امور پر غور ہوا اور یہ فیصلے ہوئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی زندگی میں ہی ان کی منظوری ہو گئی تھی.تنفیذ کے لحاظ سے یہ سکیم باقی پڑی تھی اور وقت تھوڑا رہ گیا ہے.Unfortunately جو قدم 338
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء اٹھانے چاہئیں، ان میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں.تو یہ دراصل تحفیذ کا منصوبہ ہے، کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے، جو جماعت کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے.دوسرے اس مسئلہ پر غور کرتے ہوئے ، مشورے دیتے وقت اس ذہنی نقشے کو ملحوظ رکھیں ، جو اس وقت میرے ذہن میں ہے کہ اس کی بہترین تعمیل کس طرح ہوگی ؟ ممالک کی جو تقسیم کی گئی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض جگہ ایسے ممالک کا نام بھی لیا گیا ہے، جہاں خدا کے فضل سے جماعت موجود ہے.اور اثر یہ پڑ رہا ہے کہ وہاں جماعت نہیں ہے.تبشیر نے غالباً صرف Technical نکتہ نگاہ سے ان کو شامل کیا ہے.مثلاً آسٹریا.آسٹریا میں جب ہم گئے تو جس قصبے میں ہم ٹھہرے، (انگلس یا اجلس ) وہاں سے واپس آنے کے بعد ہمیں سوئٹزر لینڈ میں پتہ لگا کہ وہاں ایک نہایت ہی مخلص مقامی احمدی موجود تھا.اسی طرح وہاں جیل میں متعد د احمدی ہوئے ، آسٹریا میں.کیونکہ قید کی حالت میں دوسری دہنی عیاشیوں کا وقت نہیں ہوتا ، کچھ خوف بھی ہوتا ہے، خدا کا.اس لئے دل نرم ہوتے ہیں.وہاں تبلیغ کا موقع ملا بعض قیدیوں کو بعض دوسرے قیدیوں کو تبلیغ کرنے کا، جن کا اپنی آزادی کے زمانے میں مشن سے رابطہ تھا.تو میرے علم میں 30 بیعتیں آسٹریا میں اس قید کے زمانے میں ہو چکی ہیں.وہ منتشر ہوں گے ، ان کو منظم کر کے ایک جماعت بنانا ہوگا.لیکن یہ جو تاثر پیدا ہورہا ہے کہ گویا آسٹریا میں جماعت ہی نہیں مقامی ، یہ غلط تاثر ہے.اس طرح اور بہت سے ممالک جب لٹیں پڑھی جارہی تھیں، میرے ذہن میں آرہا تھا.مثلاً مڈغاسکر میں تو اب جماعت قائم ہو چکی ہے، باقاعدہ.وہی اب technicality والی بات ہے.چونکہ اس وقت ماریشس مشن کے تابع ہے، مڈغاسکر کی جماعت، اس لئے تبشیر نے اس کو مڈغاسکر شمار کرلیا.یہ غلطیاں چھان بین کے بعد دور ہو جائیں گی.تو ہو سکتا ہے کہ وہ 116 والی بات بھی درست ہی نکلے بلکہ شاید آگے ہی بڑھ جائے ، یہ تعداد.کیونکہ یہ رپورٹ سے معلوم ہو رہا ہے کہ بہت ہی زیادہ احتیاط سے کام لیا جارہا ہے.جہاں تک تقسیم کا تعلق ہے، ممالک کا.یہ Open Question ہے بالکل.کھلا سوال ہے.تبشیر نے ابتدائی غور کر کے ایک مشورہ پیش کیا ہے، اس کی کوئی آخری حیثیت نہیں ہے، اس وقت.آپ کے سامنے اس لئے رکھا جارہا ہے کہ اس مشورے کو ملحوظ رکھ کے آپ اپنی جماعتوں میں جا کر غور کریں اور پھر پوری بشاشت اور شرح صدر کے ساتھ جو عزم کر سکتے ہوں، وہ عزم ہمیں بھجوائیں.تا کہ ایک Revised Version ہو، اس سکیم کی.اور تبشیر پھر اس کو بعد منظوری پھر نا فذ کرنے کی کوشش کرے.یعنی آپ کو یادہا نیاں کرائے ، ذمہ داریاں وغیرہ اور ضرورتیں پوری کرے.339
ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ++ یہ جو دوسرا پہلو ہے ، یہ بہت اہم ہے.زبانوں کے لحاظ سے بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اس سکیم میں کہ کن کن ممالک میں کتنی زبانیں زیر استعمال آئیں گی ؟ ان زبانوں کے لئے تیاری کا کیا منصوبہ ہے؟ پہلے تو ابتدائی طور پر ڈھانچہ مکمل ہوگا.اس وقت جس ملک نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم فلاں ملک میں انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کا جھنڈا یعنی اسلام کا جھنڈا گاڑیں گے، ان کا ساتھ یہ بھی فرض ہوگا کہ وہ بتا ئیں کہ اس سلسلہ میں مسائل کیا کیا در پیش ہیں؟ کس طرح سفر کرنے پڑیں گے اور وسائل کتنے مہیا ہیں ؟ کس قسم کا لٹریچر تیار کرنا ہوگا ؟ اور وہ لٹریچر کون تیار کرے گا؟ مرکز کی کتنی ذمہ داری ہے، مقامی جماعت کتنا بوجھ خود اٹھائے گی ترسیل کی ، اس کی سیکیم؟ خصوصیت کے ساتھ ہر تبلیغ میں نوجوان کو پیش نظر رکھیں.احمدی نوجوان کو بھی اور بیرونی دنیا کے نوجوان کو بھی.احمدی نوجوانوں کو Involve کرنا ہے.جتنا بھی نوجوان ہے، سو فیصدی اس سکیم میں Involve کرنا ہے.اس لئے منصوبہ بندی بناتے وقت احمدی نوجوانوں کا پورا حصہ ہونا چاہیے، منصوبہ بندی کمیشن میں.ان کو پتہ ہونا چاہئے ، ان کی ذمہ واریاں کیا ہیں ؟ خواہ وہ مزدور نو جوان ہوں یا کالج کے تعلیم یافتہ کسی بھی طبقے کے ہوں.نوجوانوں کی نمائندگی ضروری ہے.اور بیرونی دنیا میں جب آپ مخاطب کریں گے، ان ممالک کو تو سب سے پہلے نو جوانوں کو پکڑیں.یہ تو قابل بحث بات ہی نہیں ہے.جتنی جلدی نوجوان متاثر ہوتے ہیں اور متاثر کر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے، دوسرے Age گروپ کے ساتھ اس کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے.یعنی بوڑھوں میں بھی تبلیغ کرنا، ہمارا فرض ہے.لیکن جب ہمارے پاس وقت تھوڑا ہو اور زمین زیادہ ہو تو لازما پہلے اچھی زمین منتخب کی جاتی ہے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ زمین بے شمار پڑی ہو.پہلے کل ٹھیک کرنا ہے، بعد میں نرم زمین کی طرف آتا ہے.پہلے اچھی زمین پکڑیں اور نرم زمین پکڑیں، بیچ میں بعض دفعہ کلر زمین کے ٹکڑے بھی آجاتے ہیں، ان کی طرف بھی توجہ کرنی پڑتی ہے.یعنی بوڑھے بھی ہوں گے ، وہ بالکل مستقلی نہیں.جو خود آتے ہیں، جن کے اندر نرمی ہے طبیعت میں، ان کو چھوڑ نا نہیں ، یہ بھی سکیم کا حصہ ہو گا.اب ایک اور پہلو ہے، جو بہت وضاحت کے ساتھ سامنے رہنا چاہیے.فاصلوں کی باتیں ہوئی ہیں کہ کچھ ممالک کتنے فاصلے پر ہیں؟ حالانکہ میرے ذہن میں جو نقشہ ہے، وہ یہ ہے کہ وہ فاصلے ضروری تو نہیں کہ آپ جا کر کم کریں.وہ آپ کے پاس آکر بھی تو فاصلے کم کر دیتے ہیں.ہر ترقی یافتہ ملک میں تقریباً ہر ملک کے نمائندے موجود ہیں.اگر مثلاً انگلستان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ہم نے سین کو مسلمان بنانا ہے تو 340
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک جلد ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء Spainish آبادی انگلستان میں ہی اتنی موجود ہے کہ جماعت کے وسائل سارے بھی divert کئے جائیں تو شاید وہ کم محسوس ہوں.اسی طرح امریکن ممالک میں Latin امریکن آبادیاں ہیں، جنوبی افریقہ کے بے شمار لوگ ہیں.یعنی ضروری نہیں کہ وہاں جائیں اور پھر تبلیغ کریں ، وہ جو آگئے ہیں، ان کو کیوں نہیں سنبھالتے ؟ اس لئے اس سے بہت زیادہ وسیع ہو جائے گا ، ہمارا Contact، جو اس رپورٹ سے بظاہر نظر آ رہا ہے.ہر ملک میں جو باہر سے لوگ آئے ہوئے ہیں، ان کو پکڑا جا سکتا ہے.اس پہلو سے جو ممالک ہیں، ان کی فہرست بھی چھوٹی نظر آ رہی ہے.مثلاً مشرق وسطی ہے، اس کو اگر حکمتاً نظر انداز کیا گیا ہے تو میرے خیال میں تو حکمت کا یہ تقاضا ہے ہی نہیں.جب صلحائے عرب والا الہام پڑھا جا رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارادے اور کتابیں ببانگ دہل کہہ رہی ہیں کہ تم احمدیت کی خاطر پیدا کئے گئے ہو، یعنی حقیقی اسلام کی خاطر تو اسلام میں لوٹنا پڑے گا تمہیں.یہ جو زندگی ہے، اسلام میں رہ کر اسلام سے باہر کی زندگی ، یہ کوئی زندگی نہیں ہے.تو ان کو منصوبے میں شامل کرنا چاہیے.اور وہاں نہیں ہوسکتی تبلیغ تو باہر وہ نکلتے ہیں، ان کو بہت اچھے مواقع میسر آتے ہیں.زیادہ نسبتا ان کے دل نرم ہوتے ہیں، بیرونی ماحول میں.افغانستان ہے، وہاں بھی جماعت تو قائم ہے لیکن کم ہے.مشرقی یورپ سارا خالی پڑا ہے.اس کا ذکر سوائے پولینڈ کے نہیں ملا.جہاں پہلے ہی خدا کے فضل.جماعت قائم ہو گئی ہے.بہر حال ابھی زوخ صاحب نے جو اطلاع دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میرے سوا اور بھی بہت سے مسلمان ہیں.بعض پرانے مسلمان جو عملاً مذ ہب سے کٹ کے الگ ہو چکے تھے ، اب وہ ارد گردا کٹھے ہورہے ہیں اور باقاعدہ جماعت کا جزو بن رہے ہیں اور یہ خالصہ پولش جماعت ہے.اسی طرح پرانے زمانوں میں ہنگری وغیرہ میں جو تبلیغ ہوئی تھی، اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بے حد مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے.ہوسکتا ہے، مبالغہ کا بھی ایک حصہ ہو یا یوں کہنا چاہیے کہ خوش فہمی اور نیک تمناؤں کی چھلانگ کچھ آگے نکل گئی ہو، کچھ مبالغہ آرائی ہو.لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ ہنگری کے اس وقت کے احمدی ہوئے ہوئے لوگ باہر کی دنیا میں ٹریس ہوتے رہتے ہیں.مثلاً ارجنٹینا میں جیسا کہ بیان کیا گیا ہے، وہ ہنگری کے جنگ سے پہلے کے زمانے میں جو مسلمان ہوئے تھے ، خدا کے فضل سے وہ وہاں ملے اور انہوں نے رابطہ کیا اور بتایا کہ ہاں، ہم خدا کے فضل سے احمدی مسلمان ہیں.تو ٹرکی ہے، وہاں احمدیت خدا کے فضل سے موجود ہے، ٹرکش نمائندوں میں.روس اتنی بڑی مملکت، اتنے بے شمار اس کے چھوٹے ممالک، اتنا بڑا علاقہ ہے روس کا کہ صرف یورپیئن رشیا کا رقبہ کینیڈا سے کچھ زیادہ بنتا ہے.یورپین رشیا سے مراد ہے 341
ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم جس میں Rushian Speeking ریاستیں ہیں.بہت بڑا مجموعہ ہے.آپ اس کو کیوں محروم کرتے ہیں، بے چارے کو؟ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں وہاں اپنی جماعت کو ریت کے ذروں کی طرح پھیلا ہوا دیکھتا ہوں.یہ سارے حصے ہیں اور ان میں پھر ان کی زبانوں کے مسائل لینے ہیں.ساری دنیا کی جماعتیں اپنا اپنا حصہ لے کر پورے انہماک سے اس میں غرق ہوں اور بے انتہا سوچوں کو پھیلائیں اور گہرا کریں اور وسعت عطا کریں ان کو اور پھر تیل کا ایسا منصوبہ بنائیں، جو حسب توفیق ہو.سوچ کی چھلانگ تو بعض دفعہ بڑی وسیع چلی جاتی ہے.تعمیل کے وقت اپنی حیثیت دیکھنی پڑتی ہے.تعمیل ایسی کریں کہ حیثیت دیکھ کر ہو اور پھر وسعت پھیلتی چلی جائے.اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں تو انشاء اللہ تعالیٰ بہت زیادہ ہم کام کر سکتے ہیں.سوممالک سے مراد یہ تھی کہ کم از کم سوممالک.اگر آپ نے سو ممالک ہی چننے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ معافی دے کہیں سے ستی ہو گئی تو اس میں کمی آجائے گی.اس لئے سوممالک کے لئے تو منصوبہ بنا چاہیے کم از کم ساری دنیا کو Cover کرنے والا.توقع یہ رکھنی چاہیے کہ اے خدا! کم از کم سودے دے.اس سے زیادہ جتنا تیرا فضل ہو، موجیں ہی موجیں ہوں گی ہماری.تو اس رنگ میں یہ منصوبہ مکمل ہونا چاہیے.بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، یہ جوابتدائی سوچ بھی ہوئی ہے، اس کو بھی میں سرسری دیکھ سکا تھا.اس کے لئے اتنا بھی وقت نہیں تھا کہ میں تفصیلی غور اس سے پہلے کر سکوں.پھر یہ اطمینان بھی مجھے تھا کہ آپ کے سامنے یہ بات پیش ہوئی ہے، وضاحت کر دوں گا.کچھ یہاں غور کریں، کچھ اپنے گھر وں میں جا کرغور کریں.یہ جو ٹیسٹس کی سکیم ہے، وہ بھی مدنظر رکھیں.وہ بھی اسی وجہ سے پیش کی گئی تھی کہ ہر ملک میں ہر ملک کے باشندے تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کی زبان جاننے والے احمدی نہیں ہو سکتے.اور لٹریچر کی تیاری میں بڑا وقت لگ جائے گا.اس لئے یہ بھی سکیم کا حصہ ہے کہ ہر قسم کے مذاہب کو اور خیالات کو مد نظر رکھ کے پہلے اردو میں Master taps تیار ہوں.ان کی ٹرانسلیشن کروانا بڑا آسان ہے اور معمولی خرچ پر ہو جائیں گی.وہ ساری دنیا کی زبانوں میں جو منصوبے کا حصہ ہوں گی.ٹرانسلیشن کروا کے ہر مشن میں ایک Cassettes Library ہو duplicated اور Duplication کا انتظام بڑے مشنوں میں لازماً ہو.وہاں جو احمدی دوست مقرر ہوں گے، بعض لوگوں کو بلانے پر، ابتداء میں تو وہ صرف اشاروں سے ہی دعوت دیں گے شاید کہ آؤ! ایک پیالی چائے پی لو اور پھر ان کی زبان میں ان کو وہ سنائی جائیں گی ٹیسٹس وغیرہ.تو تبلیغ شروع ہو جائے گی.باوجود اس کے کہ آپ زبان نہیں جانتے ہوں گے.اس کے لئے آہستہ آہستہ پھر انشاء اللہ ساتھ 342
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء یہ بھی منصوبہ ہوگا کہ زبان دان جلدی تیاری کریں.کیونکہ خالی کیسٹس تو کافی نہیں ہوتیں.انسانی رابطہ بڑا ضروری ہے اور انسانی ذہن اتنا وسیع ہے کہ کوئی پروگرام بھی آپ سوچیں، وہ حاوی نہیں ہو سکتا.تبھی Languages کے کمپیوٹرز ابھی تک فیل ہورہے ہیں.انسانی ذہن کی پوری عکاسی کرنا کسی مشین میں یا کسی کمپیوٹر میں، کسی کیسٹ میں یہ ہو ہی نہیں سکتا.تو یہ ایک ابتدائی لقمہ ہے اس کے بغیر تو آگے ہم چل ہی نہیں سکیں گے نا.یہ اس لئے کہ جو کم از کم غذا ضروری ہے، یہ بھی تیار کرنی ہے.33 یہ جو آسٹریلیا کی طرف سے سوال اٹھایا گیا ہے، یہ ان کی لاعلمی کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے.ان کے یہاں آنے سے پہلے ہی ہم نے وہاں کے امیر صاحب کو لکھ دیا تھا کہ آپ وہاں فوری طور پر جائزہ لیں، زمین خریدنے کے لئے.بلکہ جتنی ان کی پہلی چھلانگ تھی، اس سے کئی گنا زیادہ زمین خریدنے کے لئے ان کو تاکید کی گئی ہے، آسٹریلیا کے مشن کے لئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے روپیہ مہیا ہو جائے گا، اس کی فکر نہیں ہے.وہ ہم نے بعض ایسی جماعتوں کے ذمے لگا دیا ہے، جن جماعتوں میں فی الحال اپنے ہاں مشن قائم کرنے کی گنجائش نہیں ہے.لیکن خدا تعالی کے فضل سے توفیق ہے کہ وہ مشن کے لئے روپیہ پیش کریں.تو وہ آمادہ ہیں جماعتیں، خدا کے فضل سے جوش رکھتی ہیں.روپیہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے، آپ تیاری کریں.دوسری بات یہ ہے کہ آپ کی جماعت وہاں خود کمزور ہے مالی قربانی میں.یعنی یہ تو ٹھیک ہے کہ آپ اپنا حصہ پورا دے دیں تو باقی مل جائے آپ کو لیکن یہ کہ سارا ہی باہر والے دیں اور آپ اپنا حصہ ڈالیں ہی نہ ، یہ جائز نہیں ہے.آپ جا کے یہ توجہ دلائیں.نہ جماعتوں سے مراد کچھ میں نے تشریح کی تھی، وہ یہ ہے کہ مقامی طور پر وہاں کے باشندگان اتنی تعداد میں وہاں احمدی ہو جائیں کہ خدا کے فضل سے مستقل نوعیت کی ایک جماعت قائم ہو جائے.یہ ہے، جماعت کی تعریف.پاکستانی جو عارضی طور پر جا کے آباد ہوتے ہیں اور جماعت بناتے ہیں، وہاں اگر جماعت بنی بھی ہو تو اس منصوبے میں وہ تعریف نہیں.اس منصوبے کے لئے یہ Revised Version جماعت کا ہے، یہ ذہن میں رکھیں.جہاں تک مشنز کا تعلق ہے، بہت بہتر ہو کہ ان سو ممالک میں با قاعدہ مشن بھی بن جائیں.لیکن جو غور ہوئے منصوبہ بندی کمیشن کے سامنے جب معاملات آئے تھے تو اس وقت بظاہر اتنی توفیق نہیں لگتی.لیکن واقفین اگر زیادہ آجائیں اور رضا کارانہ وقف کی جونئی تحریک کی گئی ہے، اس میں ایسے دوست مل جائیں ، جو مناسب ہوں مبلغ کے طور پر تو انشاء اللہ تعالیٰ خواہش یہی ہوگی اور یہی کوشش ہوگی کہ بڑا مشن ہاؤس نہ سہی، جہاں جماعت قائم ہوتی ہے، وہاں ایک مرکزی نمائندہ بطور مبلغ کے وو 343
ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ضرور پہنچے.اور دوسری بڑی کوشش یہ ہوگی اور وہ انشاء اللہ بڑی آسان بھی ہے اور بڑی بھی ہے کہ مشن کا آغا ز سنت نبوی پر کیا جائے.کسی بڑی بلڈنگ کی بجائے اگر جھونپڑی بھی بنادی جائے مشن کے نام پر تو بڑی بابرکت ہوگی.یہ جو خواہ مخواہ کا تصور ہے کہ عظیم الشان ، عالی شان مشن بنایا جائے ، دنیا کے پیمانے پر سبھی مشن ہوتا ہے، یہ غلط ہے.ضرورتوں کے پیش نظر بڑی بڑی عمارتیں بھی بنائی جارہی ہیں، بنانی پڑیں گی.لیکن انتظار تو ہم نہیں کر سکتے کہ جب تک بڑی عمارت نہ بنائیں ، اس وقت تک مشن قائم نہیں ہو سکتا.جھونپڑیوں میں بھی مشن بن جائیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ.تو ان معنوں میں پھر یہ مشن کی ، جو اول تعریف ہے، وہ بھی ان جماعتوں پر صادق آجائے گی.جہاں تک دوسری جماعتوں کا تعلق ہے، فاصلوں کا.وہ کچھ وضاحت میں نے کی تھی اور کچھ مزید یہ کرتا ہوں کہ یہ سارے فیصلے مقامی جماعتوں نے کرنے ہیں.آپ یہاں سے ایک سوچ کا ڈھانچہ تیار کر کے واپس جا کے اپنی جماعتوں کو مشورے دیں گے.اور وہ پھر اپنی سہولتوں کے مطابق اور حالات کے مطابق معین ذمہ داری قبول کریں گے.اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے وہ منصوبہ ہوگا.یہ منصوبہ نہیں ہے، یہ صرف ایک عارضی تجویز ہے.وو اس پر پہلے ہی خدا کے فضل سے عمل ہورہا ہے.جہاں جہاں جماعت قائم ہوئی ہے، ایک بھی احمدی ہے، اس سے رابطہ قائم کیا جارہا ہے اور مشورے لئے جارہے ہیں کہ آپ کی قوم کو احمدی بنانے کو کے لئے ، مسلمان بنانے کے لئے کیا مشورے ہیں؟ کون سا طریقہ کار زیادہ بہتر اور آسان رہے گا ؟ ان کے خیالات کس قسم کے ہیں؟ پھر اگر وہاں سے ان کی واقفیت ہوا چھے خاندانوں سے ہو تو ان کے بچے کہاں کہاں دنیا میں پڑھ رہے ہیں؟ ان سے کہاں رابطہ کیا جاسکتا ہے؟ یہ ساری باتیں اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے زیر تعمیل ہیں“.دوسری تجویز : اشاعت لٹریچر.اس رپورٹ میں جو پریس کے متعلق کہا گیا ہے، وہ یہ کوئی ابھی آخری فیصلہ نہیں ہے کہ URWIN پریس کو ہی آرڈر دیا جائے گا.کیونکہ جو جائزہ لیا گیا تھا، وہ فی الحال انگلستان سے جائزہ ملا ہے، باقی ممالک سے بھی جائزہ لیا جا رہا ہے.اگر امریکہ میں زیادہ سہولت ہوئی دو حصے ہیں اس میں دیکھنے والے بلکہ عملاً تین:..ایک یہ کہ ابتدائی اخراجات اشاعت کے اچھے ہوں اور بہت دیدہ زیب بھی ہو ساتھ.یعنی اعلیٰ معیار کی اشاعت کے اخراجات نسبتا باقی ممالک سے کم ہوں.344
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء ii.ترسیل کا انتظام اچھا ہو.اب امریکہ میں اگر ستا چھپے اور اکثر جماعتیں ہماری یورپ اور پاکستان میں ہوں.وہاں تک پہنچانے کے لئے اخراجات اتنے زیادہ آ جائیں کہ وہ اصل خرچ سے کہیں زیادہ بڑھ جائے تو یہ بھی دیکھنا پڑے گا.اس لئے اس کا بھی جائزہ لینا ہے ابھی.اس لئے اتنی جلدی اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا.جب تک سارے جائزے نہ لے لئے جائیں.iii.تیسرا اس کی Storage capacity ہے.ہرمشن کی اپنی اپنی ہوتی ہے.کتابیں اتنی تعداد میں شائع ہوں کہ ان کو سنبھالا بھی جاسکے.نعوذ باللہ من ذالک دیمک کھا جائے یا مٹی لگ جائے تو ٹھیک نہیں ہے.تو یہ تین جائزے ہیں، یہ مکمل ہوں گے.اگر تو مستعد ہوں مشنریز انچارج اپنے اپنے ملک میں جا کر ان تین پہلوؤں سے جائزہ لے کر رپورٹ کریں تو ایک مہینے کے اندر اندر فیصلہ ہوسکتا ہے....دوسری بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے متعلق جو یہ کہا گیا ہے کہ 84ء میں جاکے پیش ہوں گی، یہ درست نہیں ہے.فیصلہ تو یہ اسی لئے کیا گیا تھا کہ ہم فوری طور پر جماعت کے سامنے وہ کتب پیش کرنی شروع کردیں.اور وہ اک مشکل نے ایک سہولت بھی ہمارے لئے پیدا کر دی.ہے.رات سے اللہ تعالیٰ دن نکال لیتا ہے.یہاں جو دقتیں پیش آئیں اشاعت وغیرہ کی ، ان کے سلسلہ میں یہ بات سامنے آئی کہ اگر جو پرانی طبع شدہ کتاب ہے، اس کا فوٹوسٹیٹ نکال کے اس سے طبع کیا جائے تو وہ وقتیں کم ہو جاتی ہیں.اور جب دیکھا گیا تو پرانی کتابت اتنی اچھی ہے، اتنی خوبصورت ہے، پتھر کے اوپر چھپی ہوئی سلوں کے اوپر کہ اس کا عکس جو چھوٹا کیا گیا ہے تو موجودہ کاتبوں کی نسبت بہت زیادہ خوبصورت طباعت ہے.اس میں جو تیں درپیش آئیں سامنے، وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں.بظاہر تو یہ ہے کہ فوری اٹھا لیا اور شائع کر دیا.اس میں ایک وقت یہ ہے کہ پرانے زمانے میں جو طریق تھا، وہ حاشیے کا اور پھر حاشیے در حاشیے کا اور اس وقت کے علماء اسی طریق سے واقف تھے اور اسی کے مطابق وہ پڑھنے کے عادی تھے.چنانچہ گزشتہ جتنی کلاسیکل کتابیں ہم نے پڑھیں ، ان میں حاشیے پر حاشیے اور پھر اس کے بعد حاشیے اور بسا اوقات کتاب کا اصل متن بہت چھوٹا ہوتا ہے اور حاشیے بھرے پڑے ہوتے ہیں.تو یہ ایک طرز ہے، جو زمانے سے تعلق رکھتی ہے.کوئی ایسی طرز نہیں ہے کہ جس کی لازماً حفاظت کی جائے.لازما گویا کہ ہمارے دین کا حصہ ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں بھی وہی طریق 345
ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک البی تحریک رائج رہا، جو اس زمانہ میں موجود تھا.لیکن موجودہ زمانے کی پبلک اس سے واقف نہیں ہے اور اس کی طبیعت اور ذہن پر بوجھ پڑتا ہے.اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اصل متن کو مسلسل شائع کیا جائے اور نمبر لگائے جائیں، وہاں حاشیوں کے اور پھر حاشیے ساتھ منسلک کئے جائیں.اور جب دیکھے آدمی ، چاہے تو اکٹھا پڑھ لے اور چاہے تو نمبر سے اس کی طرف رجوع کرے اور حاشیہ مکمل کر کے پھر واپس لوٹے.تو یہ سہولت اس طریق میں پیدا کرنی مشکل ہے، جو موجودہ طریق ہے.یہ ایک وقت ہے، غور کر رہے ہیں.مگر تا خیر اس لئے کہ یہ سہولت جو ہے، یہ مہیا نہ ہو تو ہم تاخیر کریں، یہ نہیں ہو سکتا.اتنی ضرورت ہے زمانے کو کتب کی کہ اس کے لئے ہم انتظار نہیں کر سکتے.اس لئے اگر یہ دقت نہ بھی دور ہو تو جلد از جلد یہ کام کروا کے تو آگے بھیجیں.صرف ایک چھوٹی سے بات اس میں یہ کرنی پڑے گی کہ اگر کتابت کی غلطی سے کوئی لفظ رہ گیا ہے.اور وہ فیصلہ ہوگا بڑی احتیاط کے بعد.یعنی ایسی غلطی تولا ز ما اور یقینا غلطی ہے، مثلاً قرآن کریم کی کوئی آیت.آج بھی جب ہم کوئی کتابیں شائع کرتے ہیں، بعض کا تب غلط لکھ جاتے ہیں، بعض کا تبوں کی عادت ہے، اصلاح کرنے کی بھی.ان کو سمجھ نہ آئے ، وہ فوراً اصلاح کر دیتے ہیں تو اس قسم کی غلطیاں، جو یقینی ہیں، وہ تو بہر حال ٹھیک کرنی پڑیں گی.یعنی حفاظت کے نام کا یہ مطلب تو نہیں عذ باللہ غلطیوں کی بھی حفاظت کی جائے.غلطی کا مطلب ہے، کوئی بات جو راہ نہیں پا جانی چاہیے تھی، وہ راہ پا جائے.تو حفاظت کا تقاضا ہے کہ اس کو باہر نکالو.لیکن اس کا ساتھ یہ بھی تقاضا ہے کہ اتنی احتیاط کرو کہ اس بات میں پھر غلطی کا کوئی امکان نہ رہے کہ نعوذ باللہ من ذالک جس کا اصل حق ہے، اس کو بھی مکان سے باہر نکال دو.یہ کوئی غلطی نہ ہو، کسی قسم کی اور اس احتیاط کے ساتھ یہ بھی احتیاط ہو گی کہ نوٹ دیا جائے گا کہ فلاں کتاب میں یہ درستی کیوں کی گئی ہے؟ اس کے دلائل کیا ہیں؟ اور اصل میں جس سے یہ اٹھایا گیا ہے، اس میں یہ تھا کہ وہاں پھر correction کرنے کے بعد پھر اس کا عکس شائع کیا جائے گا.تو یہ ہے پوری سکیم.اللہ تعالیٰ توفیق دے، جلد از جلد جماعت کے سامنے یہ چیزیں آئیں.کیونکہ محرومی کا احساس بہت ہو رہا ہے.اور یہاں جو جماعت ہے، یہاں کے لئے شاید ابھی کچھ دقتیں باقی ہوں باہر سے منگوانی کتاب وغیرہ اس کے لئے بھی پلاننگ کرنی پڑے گی.لیکن اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.آہستہ آہستہ انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہوتا جائے گا“.23 اس سلسلہ میں جو کام ہو چکا ہے، وہ میں بتا دیتا ہوں تا کہ ان چیزوں کے چھیڑنے کی دوباره ضرورت نہ ہو.اس وقت یہ تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے کہ کون کون سائر بچر فارسی میں موجود ہے؟ اور 346
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء شیعه ازم کو موجودہ صورت میں، اس شیعہ ازم کو مخاطب کرنے کے لئے ، جو ایران میں رائج ہے، کیا ذرائع ہو سکتے ہیں؟ اس پر آدمی مقرر ہیں.جو خود بھی کام کر رہے ہیں اور لٹریچر ہمیں تازہ ترین بھجوا رہے ہیں.اور خدا کے فضل سے جولٹر پچر آرہا ہے، اس کا ساتھ ساتھ خلاصہ تیار ہو کے مجھے پہنچ جاتا ہے.اس کو دیکھ کے ہم دو کا پیاں کر لیتے ہیں.ایک میں اپنے پاس رکھ لیتا ہوں اور ایک تصنیف میں واپس چلا جاتا ہے.اس سلسلے میں جو جائزہ ابتدائی لیا گیا، یہ بات بھی کھل کے سامنے آئی کہ ایک تو یہ کہ ہمارا لٹریچر جو پرانا ہے، وہ ایسی فارسی زبان میں ہے، جو موجود الوقت فارسی سے بہت مختلف ہو چکی ہے.اس لئے اس کے باوجود ہمیں جدید لٹریچر تیار کرنا پڑے گا.دوسری یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہاں ان لوگوں کو احمدیت کے متعلق اتنی غلط فہمی ہے کہ جب احمدیت کا نام سنتے ہیں تو بہائیت کے ساتھ نعوذ باللہ من ذالک بریکٹ کرنے لگ جاتے ہیں.اور بہائیت کے خلاف خود وہ بیدار ہورہے ہیں، خطرہ محسوس کر رہے ہیں.لیکن ان کے پاس بہائیت کے خلاف دلائل نہیں ہیں.اس لئے سب سے پہلا لٹریچر، جو ہم ایرانی کو مخاطب کرنے کے لئے تیار کریں گے.اور کام اس پر شروع کر دیا گیا ہے، وہ ہے، ” بہائیت کے خلاف اسلام کا دفاع اور اس کو کثرت کے ساتھ سب جگہ جہاں جہاں ایرانی ہیں، مہیا کریں گے.ایک تو خدمت اسلام ہے، براہ راست.اسلام کے نام پر بہائیت کا جو حملہ ہے، وہ بڑا خطرناک ہے.کہیں یہ اسلام کی نمائندہ بن جاتی ہے، کہیں اسلام کی دشمن بن جاتی ہے، کہیں عیسائیت کا نمائندہ بن جاتی ہے.چھلاوہ ہے، ایک قسم کا.ماڈرن زندگی کا Half Goblin ہے.اس لئے اس کو فوری طور پر ہمیں شامل کرنا پڑے گا، اپنے جہاد کے اندر.اس کے نتیجہ میں بہت ساری غلط فہمیاں خود بخود دور ہو جائیں گی.تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام اور تعارفی لٹریچر بھی اتنی دیر میں تیار ہو جائے گا.پھر انشاء اللہ تعالیٰ مہیا کیا جائے گا.یہ فارسی زبان میں تھا.اب جو بات سامنے آئی.مشورے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اہل فارس کو مخاطب کرنے کے لئے عربی زبان کی بڑی ضرورت ہے.تو جزاکم اللہ احسن الجزاء.انشاء اللہ اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھ لیا جائے گا“.یہ جو تجویزیں ہیں، ان پر جو اس وقت عمل درآمد ہو رہا ہے ، وہ میں عرض کر دیتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ لٹریچر کے متعلق دو تین زاویوں سے فیصلہ طلب باتیں ہیں.اس وقت یہ ہورہا ہے کہ ہر مشن اپنے رنگ میں اپنی اپنی ضروریات کے مطابق کچھ نہ کچھ لٹریچر شائع کرتا رہتا ہے.ایک تو اس قسم کے سارے لٹریچر کا معیاری ہونا محل نظر ہے.دوسرا اشاعت کے اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں.معیار بھی 347
ارشادات فرموده 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک الگ الگ ہو گئے ہیں بالکل.تعلیم مختلف جہت میں دی جارہی ہے.اس میں بھی یہ ضروری نہیں کہ یکسانیت باقی رہے.تو یہ جائزہ لیا جارہا ہے کہ مرکزی طور پر کہ سارا لٹریچر جو شائع ہوا ہے، اس کی اپنی تناسبی قدر کیا ہے؟ نسبتی قدر کیا ہے؟ اس کی Value کیا ہے، دوسرے کے مقابل پر ؟ ایک تو ان کو اختیار کر کے پھر یہ بھی جائزہ لیا جائے گا کہ کیوں نہ بعض حصے امریکہ کے سپر د کر دیئے جائیں ، بعض کسی اور مشن کے بعض کسی اور مشن.اور اگر یہ قابل عمل ہو ا قتصادی لحاظ سے اور ترسیل کے اخراجات زیادہ نہ پڑتے ہوں تو پھر بعض مشن مثلاً پچاس ہزار ایک کتاب شائع کریں اور وہ ساری دنیا میں سپلائی ہو جائے.بعض اور مشن Participate کریں کسی اور کتاب میں اور وہ اس طرح شائع کر دیں.ان چیزوں کے لئے وقت درکار ہے.مشکل یہ ہے کہ اگر آپ Planning میں جلدی کریں گے تو تنفیذ میں خرابیاں پیدا ہو جائیں گی.اس لئے بعض باتوں میں لازماً ہمیں کچھ صبر کرنا پڑے گا.فی الحال جو فوری سکیم ہے، وہ یہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کی موجودہ تقریریں ساری ترجمہ کر کے باہر بھجوادی جائیں گی ، مختلف زبانوں میں.چاہے یہ تعداد میں تھوڑی شائع ہوں.جنہوں نے اس میں سے کوئی چیز شائع کرنی ہوگی، آگے وہ اپنے طور پر کریں گے.اس سے فی الحال جماعتیں محروم ہیں.جلسہ سالانہ کے موقع پر تربیت اولاد کے سلسلہ میں اور موضوعات پر جن کی آپ کو ضرورت ہے.علماء نے اتنی اچھی اچھی محنت کے ساتھ تقریریں تیار کی ہوئی ہیں اور وہ سارا انبارد با پڑا ہے.تو بجائے اس کے کہ نئے مصنفین بیٹھیں ، نئی منتیں کریں.حسب ضرورت آپ کی طرف سے ضرور تیں ہم تک پہنچیں اور فورا متعلقہ تقریر وہاں سے نکال لی جائے یار یویو میں جو چھپے ہوئے مضامین ہیں، ان کی بھی فہرستیں بنائی گئی ہیں کہ فلاں ریویو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں اس موضوع پر قلم اٹھایا گیا تھا اور وہ اتنا مؤشر ہے مضمون کہ میں نے جب پہلے دیکھا تو بے اختیار دل سے گواہی اٹھی کہ یہ تو ہے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام مولوی محمد علی صاحب کا ہوگا.پھر میں نے تحقیق کی تو پتہ لگا کہ مولوی محمد علی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھوایا کرتے تھے اور پھر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے گواہی دی کہ میں نے حضرت میاں بشیر احمد صاحب سے براہ راست یہ روایت سنی ہے کہ واقعہ یہ ہوتا تھا.اس لئے conjecture کی بات یا تصور کی بات نہیں رہی.ہوتا ہی یہی تھا.اس لئے ان کی بے حد قیمت ہے.تو ہمارے پاس بہت سا کام موجود ہے.ہمیں پتہ نہیں اس وقت کہ کہاں کہاں کیا کیا پڑا ہوا ہے؟ آپ جا کر اپنے مطالبے بھیجیں معین.ان مطالبوں کو اکٹھا کریں گے تو وہ ہمیں بڑی مدد دیں گے.مطالبوں کو ہم اکٹھا کریں گے اور پھر اشاعت کی سکیم بنانے میں انشاء اللہ تعالیٰ بہت سہولت پیدا ہو جائے گی“.348
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد وو ارشادات فرموده 30 دسمبر 1982ء یہ ایک خوشخبری ہے کہ Essance of Islam کی تیسری اور چوتھی جلدیں، جن کا ترجمه مکرم و محترم چوہدری صاحب مکمل فرما چکے ہیں اور دہرائی بھی ہو چکی ہے.وہ طباعت کا انتظار کر رہا ہے.اس میں تربیت اولاد سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وہ اقتباسات، جو مرزا غلام احمد قادیانی“ نام پر شائع ہونے والی کتاب میں میر داؤ د احمد صاحب نے اخذ کئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے ان کا ترجمہ مہیا ہو جائے گا.مزید انشاء اللہ مضامین کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ علماء سلسلہ نے اس موضوع پر مختلف سالوں میں تقریریں کی ہیں، اس میں قرآن کریم کے احکامات ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات، خلفائے سلسلہ اور دیگر بزرگان کے ارشادات اور تجارب بڑے بڑے دلچسپ مضمون ہیں، ان کی جب اشاعت شروع ہوگی ، ترجموں کے ساتھ تو انشاء اللہ ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں گی."According to the American people they are not reasonable.They say there are some books have been inforced upon us, which we can fully at least half that price in our country, but they have been published in London and we are expected to buy those books while for the same money we could buy twice as much or produced price is much.So these things as I mentioned in London Majlis-e- Shoora have to be sorted out"."I think perhaps there is lack of informations or the administration has not taken due interest in this subject.So America would buy those books.Inshallah.I have no doubt about it as well as is one suggestion on supplying informations of all the publications by any mission to the rest of the missions in the world.I have to observe that this instruction has already been issued to all the missions in a modified form that:- 1.All the literature published so far should be supplied to every other mission, right from the first to the present time.Now 349
تحریک جدید - ایک البی تحریک ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء there would be some difficulties.Some books would not be available and then we will go into the question of whether they should be produced or not.That is a different thing, but whatever literature is available with them at present should be sent two copies each to every other mission.And from now on every year each publication would be sent two copies each to all the missions of the world.With this condition, that in Urdu or English or both, at least Urdu.The introduction of the book should be made and effixed to that book, that this is a book on this subject, and if it is a translation then translator is so and so, and it deals with this subject, and what is the effect of this on the public here who receive this book and so on and so forth.So a comprehensive introduction of the book should be attached with that book in Urdu at least so that the missionary incharge could translate it into this own language and effix it.That would be an exhibition library all over the world.Books will be used only for reference and those books will not be for distribution.For distribution is somebody wants to come and sit here and he is interested, his order is on his behalf would be placed with the mission concerned.These arrangements have already been under taken by the grace of Allah.But as you can see it.It is a huge task, and it will take some time.By and by we shall reach the object"."Thank you for your comments about Malik Mubarkik Ahmad.You know how it happened.Taha Kazak's son one of his sons who is living abroad Jordan.He wrote a letter to me after Taha 350
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء Kazak preached him.That was a nice letter to me.In reply I wrote a letter in Urdu and gave it for translation to Malik Mubarik Ahmad Sahib.He took about one or two months in translating that letter, but the translation was of such a high order and such excellency that when it reached the son, he got extremely excited.He tele-phoned his father and said look here what beautiful Arabic.What a beautiful language and I am so excited, there is such a man out side the Arab-world, who can write such Arabic, so he conveyed this to me.These things was discussed Hadhrat Khalifa tul Massih III in his life time had appointed him to translate the Tafseer work.But the difference which have been made now is this that he has been relieved of all other duties, while previously he had to attend Jamia regularly and do a lot of work in Jamia and most of his time was devoted to jamia.Now he has been completely relieved of this.So Inshallah the Arabic which he would produce would be acceptable and Inshallah enjoyable even for you." به تصویر زیادہ کینیڈا میں ابھری ہے، آپ نے خطر ناک نقشہ کھینچا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کولڑائیوں سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ پتہ کریں، کوئی لٹریچر دنیا میں شائع بھی ہوا ہے کہ نہیں مجھے بھی عارضی طور پر تبشیر میں کام کرنے کا موقع ملا ہے اور میرے بھائی بھی گواہ ہیں کبھی بھی کینیڈا کی جماعتوں نے اس طرف توجہ نہیں دلائی کہ ہمیں کیا ضرورت ہے اور کیا نہیں ؟ سوائے لڑائیوں کے خط کے کوئی خط ہی نہیں آتے.تو اپنا کیا ہے، اس کا نقصان پہنچ رہا ہے.پندرہ بیس سال ایک نسل کو سامنے بڑھتا ہوا دیکھا اور ان کی فکر نہیں کی.کوئی اچانک تو ان میں انحراف پیدا نہیں ہوا.اس سارے عرصے میں وہ بد قسمت نسل، جو ایسے والدین کے تابع تھی، جس نے ان کی پرواہ نہیں کی کہ وہ کدھر جا رہی ہے، وہ پرورش پاتی رہی ہے اور مرکز کو بھی نہیں اطلاع کہ کیا ہو رہا ہے؟ میں ابھی وہاں دورہ اپنے طور پر کر کے آیا ہوں.دوسرے باتیں کرتے تھے.لٹریچر کے متعلق 351
ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وہاں بھی کسی نے بات نہیں کی کہ ہمارے پاس لٹریچر نہیں ہے.حالانکہ مغربی افریقہ کے ممالک نے بڑا اچھا لٹریچر تیار کیا ہوا ہے.انگلستان میں خدا کے فضل سے بچوں کے اوپر بہترین لٹریچر موجود ہے.آپ پوچھیں تو پتہ لگے نا کہ کہاں موجود ہے اور کہاں نہیں؟ شائع شدہ چیزیں موجود ہیں، فکر ی کوئی نہیں.اب تو آپ کو فورس فیڈ نگ ( Force feeding) کرنی پڑے گی.اس کا مطلب ہے، تبشیر کو خیال کرنا چاہیے کہ اس قسم کے بیمار ملک بھی ہیں، جن کی بیماری کی آواز بھی نہیں پہنچ رہی.تو وہاں آپ کو خود مشنری سے مطالبہ کریں اور اس سے پوچھیں کہ وہ بیٹا کیا کر رہا ہے؟ کیوں اطلاعیں نہیں کر رہا؟ اور وہاں پھر انشاء اللہ ان کی ضرورت کی چیزیں مہیا کریں، جس طرح بھی ہو سکے.نہیں خرید سکتے تو مفت دیں ان کو“.تیسری تجویز: بجٹ تحریک جدید و وصولی جو بلی فنڈ....اس سلسلہ میں کسی مزید تبصرے کی ضرورت تو نہیں ہے.جو اعداد و شمار ہیں، وہ خود بول رہے ہیں.یہ جو بعض مثالیں دی جاتی ہیں، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ باقی لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں.اور میرا تجربہ ہے خود مجھے بھی اس سے بڑا فائدہ پہنچا ہے.جب لوگ خط لکھتے ہیں کہ ہم یہ کر رہے ہیں، ہم نے یہ کر دیا ہے تو میرے دل میں اسی طرح تحریک پیدا ہوتی ہے.چنانچہ میں نے بھی اللہ کے فضل سے جو وعدہ تھا صد سالہ جو بلی میں جو ایک لاکھ کچھ ہزار کا تھا، اس کو کل تک پورا کر کے ڈبل کر دیا ہے.تو خدا جماعت کی توفیق بڑھاتا ہے تو میری بھی ساتھ تو فیق بڑھا رہا ہے.میری بڑھائے تو آپ کی بھی بڑھائے گا.یہ ہوتا ہے مزا، تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى کا.تو اس سے انشاء اللہ امید ہے، جب باتیں پھیلیں گی تو ساری جماعتوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے معیار خود بخود اونچا ہو جائے گا.مشرق وسطیٰ کے ممالک کی یہ تصویر تو واقعی پسندیدہ نہیں کہ وہ صد سالہ جوبلی میں پیچھے رہ گئے کے یہ کہ وہ صدسالہ رہ ہیں.مگر میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ بہت حد تک اس میں انتظام کا قصور ہے.بہت مخلص نوجوان ہیں، جو گئے ہیں.بڑے محنتی اور قربانی کرنے والے لوگ ہیں.اور پھر ان کو یہ بھی ایک فائدہ ہے کہ ان کی زندگی کا معیار انگلستان کے زندگی کے معیار کی نسبت بہت چھوٹا ہے.یعنی ان کا عفو کا پہلو زیادہ ہے، یعنی بچنا.جتنا ان کو بچتا ہے، وہ انگلستان والوں کی نسبت زیادہ بچتا ہے.لیکن وہ بڑے Responsive ہیں.اگر ان کو تحریک صحیح کی گئی تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ ہر پہلو سے باقی جماعتوں سے آگے نکلیں گے.مثلاً ان کو تحریک کی گئی 352
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تھی کہ آسٹریلیا کے مشن کا خرچ انہوں نے برداشت کرنا ہے.اور اس کا چار، پانچ لاکھ روپے کا اندازہ ہے.چند آدمی جو کل میٹنگ میں حاضر تھے ، جو وکالت علیاء کی طرف سے غالبا بلائی گئی تھی.انہوں نے وہیں کھڑے پاؤں تئیس ہزار ڈالر کا وعدہ کر دیا.حالانکہ یہ کچھ بھی نہیں ، معمولی تعداد ہے، جو ان کی نمائندگی کی ہے.تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے، تھوڑ اسا اسے نم کریں، آنسوؤوں سے، کچھ خلوص سے، کچھ باتیں بتا کے، کچھ گوڈی ووڈی کرنے کی ضرورت پڑتی ہے.کئی دفعہ تلائی کرنے ضرورت پڑتی ہے.تو ایسا لہلہاتا ہوا چمن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں کھلے ہیں پھول میرے بوستاں میں کہ وہ زمانے جب لوگوں پر خزاں آجاتی ہے، یہ چمن لہلہاتا رہتا ہے.اس لئے اس کے متعلق کوئی بدظنی کا اظہار نہ کریں.اپنے اوپر غور کریں ، ہم نے کیا غفلت کی ہے؟ ہم نے صحیح طور پر ان کو ہدایت نہیں کی.پیچھے رہ گئے تو وہ خمیازہ تو بہر حال بھگتنا ہے.لیکن انشاء اللہ مجھے بڑی امید ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں گی.چوتھی تجویز : بیرون پاکستان قضاء کا نظام وقوانین پڑھے گئے ہیں کہ یہ حضرت خلیفة المسیح الثالث" کے ارشاد پر مکرم محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے تجویز کئے تھے لیکن وہ کہیں کاغذات میں ادھر ادھر ہو گئے اور کہیں نہیں دستیاب نہیں تھے.نہ یہاں مرکزی کا غذات میں مجھے مل سکے، نہ انگلستان میں مجھے کا پی لی.تو وقتی طور پر چونکہ وہاں نظام قضاء تو انتظار نہیں کر سکتا.میں نے کچھ ہدایات دی تھیں، وہ بھی آپ کو پڑھ کر سنادی گئی ہیں.اب جو قوانین سنے ہیں عملاً تو ان میں کوئی بھی بنیادی فرق نہیں ہے.اس کی جو ایک ماہر حج، تجربہ کار جج ان ہدایات کو جو شکل دے گا ، با قاعدہ قانونی یہ وہی شکل ہے.اس لئے کوئی بھی اختلاف کی چیز مجھے نظر نہیں آئی.صرف ایک فرق ہے کہ اپیل خلیفۃ المسیح کے نام پر لکھا ہوا ہے.جس کو میں نے عمداً Avoide کیا تھا.میرے ذہن میں یہ نقشہ ہے کہ صدر قضاء بورڈ مرکزیہ کے نام اپیل ہوا اور خلیفہ وقت کم سے کم Involve ہو.اگر ایسی صورت کوئی ہو تو خلیفہ وقت کا Prioritive ہے، وہ سن سکتا ہے.لیکن Normal Courts میں ان جھگڑوں کو اتنانہ چلا ئیں.اتنے وقت کم رہ گئے ہیں.کام زیادہ ہو گئے ہیں کہ اب اپیلوں میں ہی آدمی مبتلا ہو جائے تو یہ برداشت نہیں ہوسکتا.اس لئے سوائے اس کے کہ بعض خاص معاملات میں ایسی صورت پیدا ہو جائے اور 353
ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم صدر بھی سمجھے کہ ہو جانی چاہیے، اس صورت میں تو ہم استثناء خود کر لیا کریں گے.لیکن قانون کے اندر الفاظ کیا کیا میں مرکزی صدر بورڈ قضاء کا نام رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے."But again that has already been explained, that is open for every body every Ahmadi.But in the legal structure of Qaza it will not be mentioned.This right of appeal to Khalifa-tul-Masih is open to every Ahmadi.He can write to him, and if the Khalifatul Massih chooses, he can direct the institution concerned to explain and to submit a report so that will be done.You should make it known to every body that this is a systems of Jamaat Ahmadiyya.It is the responsibility of missionaries to make the system known to everybody, so they feel completely satisfied relived and they should be put at ease"."No this is wrong.This I do not want to happen that every decision will be directly taken by Khalifatul Masih and only then it will satisfy.This is absolutely wrong.That means there is some thing wrong with your up bringing of that community.They should be asked to behave under the norms of Islamic laws.That's all".وو میں آپ کو وضاحت سے سمجھا دیتا ہوں.جب یہ فیصلہ ہوگا کہ ہر جگہ کی اپیل قضاء بورڈ میں آئے گی تو قضاء بورڈ کے جوتو انہین ہیں، وہ اپنی جگہ نافذ العمل رہیں گے.پھر بھی قضاء بورڈ کے خلاف جو اپیل کا سٹم یہاں رائج ہے، وہ پھر بھی take over کرے گا.اس لئے وہاں لکھوانے کی کیا ضرورت ہے، یہ؟ پوائنٹ یہ ہے کہ قضاء بورڈ کو پہلے ہی اس بارے میں واضح ہدایت دی جاچکی ہے اور وہ جماعتوں میں مشتہر کر دی جائے گی کہ قضاء بور ڈ کیا چیز ہے؟ اس کے اختیارات کیا ہیں؟ اور اس کے خلاف اپیل کا کیا طریق کار ہوگا؟ اس میں خلیفۃ المسیح کا ذکر آتا ہے تو جب ہم نے سب کو قضاء بورڈ کی طرف Refer کر دیا تو آگے پھر اس تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت ہے کہ اس کے بعد کیا ہونا ہے؟ قضاء بورڈ کے قوانین میں یہ بات داخل ہے کہ ان کے خلاف اپیل کی کیا شکل ہوگی؟“ 354
تحریک جدید - ایک الہی تحریک "" پانچویں تجویز: تزئین ربوہ و تعمیر ہال ارشادات فرموده 30 دسمبر 1982 ء اس ضمن میں فی الحال میرا خیال ہے، تجویز کی ضرورت نہیں ہے.جو کام ہو چکا ہے مختصراً میں آپ کو بتا دیتا ہوں.صد سالہ جو بلی کا منصوبہ بندی کمیشن ہے، اس میں یہ بات لمبے عرصے تک ہر پہلو سے زیر غور رہی.تمام دنیا سے جتنے Stadiams ہیں، بستی عمارات، ان کے نقشے منگوائے گئے.مختلف کے constructions کے اوپر جو متبادل اخراجات ہیں اور فوائد اور نقصانات ہیں، ان کے اوپر تفصیلی گفتگو ہو کے تحریر میں وہ شکلیں ظاہر کی گئیں اور یہ بھی دیکھا گیا کہ نیچے اگر دفتر بنائیں یا کمرے بنا ئیں تو اس سے کیا اخراجات پر اثر پڑتا ہے؟ تو خلاصہ یہ ہے اس کا کہ اگر نیچے کمرے وغیرہ بنائے بھی جائیں تو اس سے بظاہر تو عمارت میں افادیت پیدا ہوگی.لیکن عملاً ایک بے ضرورت چیز زائد ہورہی ہے، جس کا خرچ بہت ہی زیادہ ہو جاتا ہے.یعنی اگر اس قسم کی عمارت بنائی جائے کہ نیچے کمرے ہی ہوں تو پھر اس کی تمام بیرونی شکل میں تبدیلی آجاتی ہے.پھر صرف کھلی کھلی گیلیاں نہیں لگا سکتے بلکہ ہر چیز اسی عمارت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے مطابق بنائی جائے گی.تو کئی گنا زیادہ خرچ بڑھ جاتا ہے جبکہ عموماً وہ دفاتر بے کار رہیں گے، وہ جگہیں بے کار ہیں گی.اس نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا گیا کہ وہاں جلسہ کے مہمان ٹھہریں، اس کے پہلوؤں پر بھی غور ہوا.پتہ لگا کہ یہ Feasable نہیں ہے رپورٹ.اور مزید بھی تلاش ہو رہی ہے، ایسے نقشوں کی، جو ہمارے لئے مفید ثابت ہوں.بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اتنے بڑے سٹیڈیم کے لئے جگہ کہاں ہوگی ؟ جو جگہ مہیا ہو سکی ہے، اس پر ابھی تک اس لئے اطمینان نہیں ہے کہ وہاں flood کا پانی آ جاتا ہے اور flood کے پانی کی روک تھام کے لئے جو سکیم بنی تھی، اس پر توقع رکھ کر وہ غالباً جگہ لی گئی تھی.وہ ابھی تک کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے.تو یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور وہ جلد ہم اس پر اپنی توفیق کے مطابق جتنی عمارت ہو، بنا سکیں.جہاں تک وسائل کا تعلق ہے، ٹھیک ہے اس وقت اگر ہم اس پر دس کروڑ بھی لگا ئیں ، تب بھی وہ کم ہو جائے گا، اتنے بڑے وسیع سٹیڈیم کے لئے.آج کل دس کروڑ کوئی چیز نہیں ہے.اور ہمارا صد سالہ جوبلی منصوبے کا کل خرچ یعنی آمد و خرچ کا بجٹ دس کروڑ کچھ ہے.لیکن جیسا کہ چوہدری صاحب نے فرمایا انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ سامان مہیا کر دے گا اور ہماری ضرورت وہاں کی پوری ہو جائے گی.مجھے امید ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل پر.اس کا ایک پہلو یہ ہے، جس کی طرف اشارہ ہوا تھا.لیکن سڑکوں کے ضمن میں بات ہوئی اور ہال کی بات بعد میں بھی ہوئی لیکن یہ بات کھل کر سامنے نہیں آئی کہ کھل کر اتنا بڑا اہال بنانا، جس میں تین لاکھ آدمی 355
ارشادات فرمودہ 30 دسمبر 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک - سما سکے.بلکہ دو ہال بنانے کیونکہ ابھی تک اس دفعہ کی جو جلسہ کی حاضری کی رپورٹ ہے، بارش کے باوجود گنتی کے لحاظ سے 83 ہزار مردوں کی تعداد تھی اور 72600 عورتوں کی تعداد تھی.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے، باہر بھی لوگ کھڑے تھے، لنگر خانوں میں بھی تھے اور مسجد مبارک سے باہر اس طرف جو قصر خلافت کا احاطہ ہے، اس میں بھی بہت خواتین تھیں اور گھروں میں پھر وہاں لوگوں نے سنا.تو تعداد اللہ کے فضل سے بڑھ رہی ہے اور سو سالہ جو ہوگا ہمارا جشن ، وہاں کا جلسہ تو انشاء اللہ تعالیٰ بہت وسیع ہو جائے گا.تو ان کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اگر ہال بنایا جائے تو وہ تو میرا خیال ہے ، ساری دنیا میں کوئی ایسا بال نہیں ہے.وہ اگر ہو تو ارب ہا ارب روپیہ بھی ناکافی ہوگا اور وقت بھی تھوڑا رہ گیا ہے.اس وقت اگر خدانخواستہ بارش ہو، اول تو دعائیں کرنی چاہئیں ابھی سے کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے موسم اچھے رہیں.ہمیں کسی چھت کی پناہ کی ضرورت نہ پڑے، سوائے اللہ کی چھت کے.مگر اگر ضرورت پڑ جائے تو ہمارا فرض ہے، احتیاطاً تیاری رکھیں.کیا امکانات ہو سکتے ہیں؟ اس کا میرے ذہن میں یہ نقشہ ہے کہ موجودہ جتنی جگہیں مہیا ہیں، مثلاً لجنہ کا ہال بھی اب بن جائے گا اور خدام الاحمدیہ کا اور دوسرے ہال اور روم کمیٹی رومز سب میں space کا جائزہ لیا جائے کہ زیادہ سے زیادہ کتنے وہاں بیٹھ سکتے ہیں.وہاں کم از کم لاؤڈ سپیکر اور اگر ممکن ہو تو کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کا انتظام کیا جائے.اور یہ مستقل انتظام ہو.اس کے علاوہ ناصر بال بنانے کی ایک تجویز ہے.وہ میں نے اس لئے پیش نہیں کی اس دفعہ کہ پہلے میرے ذہن میں ہے کہ ہم مالی لحاظ سے کم از کم معیار پر آجائیں اور یہ جو جو بلی وغیرہ کی ضروریات ہیں، ان سے جماعت عہدہ برآ ہو جائے، پھر اس کی تجویز ہوگی، انشاء اللہ.وہ ہال جو ہے، اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سکیم کے تحت تو انشاء اللہ بہت سی ضروریات ہماری پوری ہو جائیں گی.مگر براہ راست اتنا بڑا اہال بنانا کہ اس میں یہ سب سما جائیں ، یہ نہیں ہو سکتا، فی الحال.اللہ کرے بعد میں ایسا بڑا ہال مل جائے کہ ساری دنیا میں ایسا نہ ہو.مگر جب وہ ہال ملے گا تو جماعت بھی تو بڑی ہو جائے گی.تو پھر وہ ہال چھوٹا ہو جائے گا.یہ تو ہماری تقدیر ہے.ہمارے کپڑوں نے چھوٹا ہونا ہی ہے، ہم نے بڑھنا ہی بڑھنا ہے." ہاں ، یہ ٹھیک ہے.اور جتنے خرچ میں انہوں نے وہ ہال بنایا ہے، اس سے آدھے میں ہم بنالیں گے، انشاء اللہ.اس لئے سب سہولتیں ہیں لیکن اتنے بڑے ہال کے لئے جو روپے کی ضرورت ہے اور وقت کی اور planning کی ، میرا خیال نہیں کہ اتنی دیر میں یہ ساری چیزیں ہو سکیں.وجہ یہ ہے کہ Priorities ہیں نا.اب ہال کا استعمال ہے، بڑی ضرورت ہے.مگر تھوڑی دیر کے لئے ہونا ہے.ساری 356
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ارشادات فرموده 30 دسمبر 1982ء دنیا میں تبلیغ کے تقاضے ہیں، لٹریچر کے تقاضے ہیں، ریڈیو سٹیشن قائم کرتے ہیں، پریس قائم کرتے ہیں.بے انتہا ایسے کام ہیں، جن کو جب آپ فیصلہ کریں گے ، یہ یا وہ تو اس کو چھوڑ دیں گے اور ان کو لے لیں گے.اس لئے کچھ درمیانی درمیانی راہ اختیار کرنی پڑے گی.بہر حال دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور سڑکوں کی حالت بہتر کرنے کے لئے کچھ اور حالتیں بھی بہتر ہونے والی ہیں، اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.دعا کریں کہ ہم میں جو تمنا کیں ہیں اپنے شہر کو اچھا بنانے کی ، خدا تعالیٰ ایسے حالات پیدا فرمائے کہ ہماری وہ تمنا ئیں پوری ہو جائیں“.وو یہ نوٹ کریں جی.اب تو تحریک پر ہی آئے گی ذمہ داری تنفیذ کی ساری“.( غیر مطبوعہ، ٹرانسکر پشن ) 357
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء سپین میں تلوار سے جو کچھ چھینا گیا تھا، ہم محبت سے دوبارہ فتح کریں گے خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء سفر یورپ سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی کامیاب مراجعت پر جماعت احمد یہ لاہور کی طرف سے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا، اس موقع پر حضور نے درج ذیل خطاب فرمایا:.تشہد اور تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مذہب یا خدا کے نام پر قائم ہونے والی حکومتوں کی دوانتہائی شکلیں ہمارے سامنے آتی ہیں.مذہب اور خدا کے نام پر قائم ہونے والی ایسی بھی حکومتیں دنیا میں آئیں، جن میں حکمران تقوی سے خالی نہ تھے.ان کے دلوں میں اس خدا کا خوف تھا، جس کے نام پر وہ حکومت کرتے تھے.اور ایسی حکومتیں بھی ہمارے سامنے آئیں، جن میں نام تو خدا کا لیا گیا اور اپنے آپ کو مذہب کی طرف منسوب کیا گیا لیکن حکومت کرنے والوں کے دل تقویٰ سے اسی طرح خالی تھے، جیسے ایک گھونسلا ہو، جسے پرندہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ گیا ہو.اس کے گھونسلے میں گند تو ماتا ہے، پرانے بوسیدہ پروں کے نشان تو ملتے ہیں مگر وہ رونق نہیں ہوتی، جو ہر مسکن کو زندگی سے نصیب ہوا کرتی ہے.اس تاریخی عمل کے مطالعہ کے لئے تمام دنیا کے ممالک میں سب سے زیادہ مواد سپین کی سرزمین میں ملتا ہے.یہ دونوں عمل وہاں بڑے واضح رنگ میں جاری ہوئے اور اپنی انتہاء کو پہنچے.چنانچہ آج کی دنیا کی تاریخ میں اگر ایک ملک کا انتخاب کرنا ہو، جس میں دونوں قسم کی مثالیں اپنے درجہ کمال کو پہنچی ہوئی دیکھنی ہوں تو یہ ملک بلا اختلاف اور بلاشبہ اندلس کی سرزمین ہے.ایک دور وہاں ایسا آیا جبکہ متقی اور خدارسیدہ مسلمانوں کی حکومت تھی، ان میں کمزوریاں بھی تھیں، ان میں نسبتاً کم تقویٰ شعار لوگ بھی تھے لیکن اس حکومت کی عمومی حالت یہ تھی کہ تقویٰ کا رنگ ان پر ہمیشہ غالب رہا.اس کے نتیجہ میں سپین کی سرزمین پر ایک ایسی حکومت حکومت قائم ہوئی کہ آج تک مخالف سے مخالف یورپین مؤرخ بھی یہ کہنے سے نہیں ہچکچاتا کہ تمام یورپ کی تاریخ میں کبھی کسی نے ایسی شاندار حکومت نہیں دیکھی، ایسی انصاف پسند حکومت نہیں دیکھی جیسی کہ مسلمانوں 359
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ے زمانہ میں بہی کے زمانہ عروج میں اندلس کی سرزمین میں دیکھی گئی.اس کی داستان بہت لمبی ہے.مسلمانوں کی اس حکومت میں حیرت انگیز فراخ دلی اور وسیع حوصلگی کا مظاہرہ کیا گیا.یہاں تک کہ وہ بد قسمت یہودی، جو خدا جانے کس بات کا انتقام آج مسلمانوں سے لے رہے ہیں، ان کا تمام تر عروج مسلمانوں کی مرہون منت تھا.مسلمانوں کی طرف سے حیرت انگیز وسیع حوصلگی کے ساتھ ان کو پنپنے اور پرورش پانے کا موقع دیا گیا، یہاں تک کہ دنیا کے تمام علوم میں انہوں نے ترقی کی.دنیا کے تمام فنون میں انہوں نے کمال حاصل کیا اور جب یہ حکومت ٹوٹی تو اس کے کھنڈرات پر ہی دراصل یورپ کی دیگر حکومتوں کی تعمیر کی گئی.اسی طرح عیسائیوں کے ساتھ بھی مسلمانوں کے حسن سلوک کے بے شمار واقعات ملتے ہیں اور عیسائی مورخین جب ان کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا سر ندامت کے ساتھ جھک جاتا ہے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس روشن تاریخ سے نکل کر انہیں لازماً اس ظلماتی تاریخ میں بھی داخل ہونا پڑے گا.جب ان کے اپنے زعم کے مطابق عیسائیت پوری شان شوکت کے ساتھ پین میں جان نشین تھی.یہ دور اس برعکس صورت کی انتہائی مثال ہے.از ابیلا اور فرڈی منڈ کے آنے کے ساتھ تاریکی کا یہ دور شروع ہوتا ہے.اس سے پہلے بھی سپین میں اگر چہ انکیو زیشن (Inquisition) کی institution انسٹی ٹیوشن پوپ کی اجازت سے 1290ء میں قائم کی گئی تھی.مگر جلد ہی پوپ نے محسوس کیا تھا کہ اس Inquisition کا اتنا غلط استعمال شروع ہو گیا.ہے کہ عیسائیت کو اس سے شدید نقصان پہنچے گا.چنانچہ پوپ کی طرف سے یہ اجازت واپس لے لی گئی.لیکن از ابیلا اور فرڈی سنڈ ، جنہوں نے آکر مسلمان حکومت کا خاتمہ کیا.انہوں نے 1480ء میں دوبارہ اس انسٹی ٹیوشن کو زندہ کیا.شروع میں اس انسٹی ٹیوشن کے ذریعہ عیسائیوں پر مظالم ہوئے کیونکہ ان کا دعوی یہ تھا کہ Inquisition کے نظام کا تعلق صرف عیسائیوں سے ہے اور یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے.اور اس کا کسی بین الاقوامی ضابطہ اخلاق سے کوئی تعلق نہیں.ہم اپنے ماننے والوں پر جس قسم کی عقوبت چاہیں عائد کر سکتے ہیں.یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے.چنانچہ Inquisition کی تاریخ میں یہ بات لکھی گئی کہ صرف عیسائی ہی نہیں بلکہ رومن کیتھولک عیسائی فرقے کو مذہبی سزائیں دینے کے لئے Inquisition کے نام پر ایک انسٹی ٹیوشن قائم کیا جاتا ہے.چنانچہ از اپیلا اور فرڈی بنڈ نے پہلے تو خود عیسائیوں پر کچھ مظالم کئے.لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان کی نیت کچھ اور تھی.چنانچہ جب 1492ء میں مسلمانوں کا سپین سے انخلاء ہوا تو اس انسٹی ٹیوشن کو خالصہ مسلمانوں کو سزا دینے کے لئے استعمال کیا جانے لگا.پہلے پہل یہ دعوی کیا گیا کہ Inquisition کے ذریعہ کسی غیر مذہب کو سزا نہیں دے سکتے.لیکن مسلمان کے لئے اب دوہی 360
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء صورتیں ہیں یا تو وہ عیسائیت قبول کریں اور یا ہمیشہ کے لئے اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں.اس کے بعد مختلف حیلوں اور بہانوں سے انہوں نے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو عیسائی بننے پر مجبور کر دیا اور جب وہ عیسائی بن گئے تو پھر Inquisition کا اطلاق کر کے تاریخ کے ایک ہی سال میں تین ہزار مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا.کیونکہ اب ان پر عیسائیت کی چھاپ لگ چکی تھی اور کہا یہ گیا کہ تم عیسائی تو ہو مگر دل سے عیسائی نہیں.جب اس پر بھی پوری طرح اطمینان نہ ہوا تو وہاں کے لارڈ بشپ نے یہ تجویز پیش کی کہ باقی ماندہ مسلمان کو اس ملک سے ختم کرنے کے لئے یہ قانون بنا دیا جائے کہ یا تو وہ کلیہ ملک چھوڑ دیں یا مردوں، عورتوں اور بچوں کو بلا استثناء تہ تیغ کر دیا جائے.لیکن اس نے اپنی تجویز میں عیسائیت کے فروغ کے لئے یہ پہلو باقی رکھا کہ اگر ان میں سے کوئی عیسائی ہو جائے تو اس کو معاف کر دیا جائے گایا جو پہلے سے عیسائی ہیں تو ان کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا.لیکن ایک اور سر پھرا اور مخبوط الحواس پادری ایسا بھی تھا، جس نے اس تجویز کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ جو پہلے عیسائی ہو چکے ہیں، ان کو باقی رکھنے کا تمہارے پاس کیا جواز ہے؟ تمہیں تو پتہ ہی نہیں کہ وہ دل سے عیسائی ہوئے ہیں یا نہیں؟ یہ تو خدا بہتر جانتا ہے.اب بات کتنی سچی اور حقیقی ہے.انسان کو کیا پتہ کہ کوئی دل سے کیا ہے؟ لیکن اس کا نتیجہ کتنا خطر ناک اور غلط نکلا جا سکتا ہے.یہ اس کی مثال ہے.اس نے کہا: چونکہ تم یہ نہیں جان سکتے کہ ان کے دل میں کیا ہے؟ عیسائیت ہے یا اسلام ہے؟ اس لئے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سب کو قتل کر دو.خدا آپ ہی چھان بین کر لے گا کہ کون جہنمی ہے اور کون جنتی ہے؟ اس نے جس کو جہنم میں پھینکنا ہوا، جہنم میں ڈالے گا.جس کو جنت میں داخل کرنا ہو ، اس کو وہ جنت میں داخل کر دے گا.ظلم کون سا ہو گیا اس میں؟ چنانچہ اس ترکیب پر بھی عمل کیا گیا.پین کی تاریخ ایسی خوفناک اور سیاہ کاری سے داغدار ہے کہ اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا.جس کے نتیجہ میں ہزار ہا ان عیسائیوں کو بھی تہ تیغ کیا گیا، جو پہلے مسلمان تھے.اور دوسری طرف لکھوکھا مسلمانوں کو واقعہ قتل کر دیا گیا.اس پر بھی ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوا.کیونکہ ابھی مسلمانوں کی خصوصا جنوب کے پہاڑی علاقوں میں ایک بہت بڑی تعداد آباد تھی.40،30 لاکھ تک وہ تعداد بتائی جاتی ہے.ان سب کو تہ تیغ کر دینا یا زندہ جلا دینا، کوئی آسان کام نہ تھا.چنانچہ ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہا کہ ان کو ملک بدر کر دیا جائے اور ملک بدر کرتے ہوئے راستے میں قزانوں اور قاتلوں کی ایسی ٹولیاں مقرر کی گئیں، جوحتی المقدور ایک مسلمان کو بھی ملک سے باہر نہ جانے دیں.چنانچہ مسلمانوں کے ایسے جتنے قافلے بھی روانہ ہوئے ، ان پر کیا بیتی؟ اس کی تفصیل میں تو عیسائی مؤرخین اختلاف کرتے ہیں.کوئی زیادہ تعداد 361
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک بتاتا ہے، کوئی کم بتاتا ہے.لیکن ایسے ہی ایک واقعہ کے متعلق مسلمہ اعداد و شمار یہ ہے کہ ایک لاکھ، چالیس ہزار کا جو قافلہ روانہ ہوا تھا، اس میں سے ایک لاکھ تہ تیغ کر دیئے گئے اور بقیہ چالیس ہزار کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ سمندر کی موجوں نے بھی رحم کیا یا نہیں ؟ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکے یا نہیں؟ یہ وہ بھیانک تاریخ ہے.یعنی اس تاریخی عمل کا دوسرا پہلو ہے، جس کے متعلق میں نے یہ بتایا ہے کہ مذہب کے نام پر قائم ہونے والی حکومتیں جب مذہب سے عاری ہو جاتی ہیں یا جب تقویٰ سے عاری ہو جاتی ہیں تو انتہائی بھیانک اور خوفناک حکومت وجود میں آجاتی ہے.چنانچہ اس کے متعلق مشہور مؤرخ لین پول یہ لکھتا ہے کہ ازابیلا کے دور میں جب مسلمانوں کا انخلا کر دیا گیا تو کچھ دیر تک عیسائی حکومت بظاہر ایک شان کے ساتھ چمکتی رہی اور اس میں دنیاوی ترقیات کے آثار بھی ہمیں ملتے ہیں.لیکن آج جب ہم مڑکر ان واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں اور بعد میں ظاہر ہونے والی تاریخ کے پس منظر میں اس کو دیکھتے ہیں تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ روشنی، ایک مستعار روشنی تھی.اسلام کے غروب ہونے والے سورج نے جو روشنی پیچھے چھوڑی تھی ، وہ شام کے دھندلکوں میں رفتہ رفتہ غائب ہوتی چلی گئی.اور پھر ایک ایسی رات نے سین کو گھیر لیا ، جس سے آج تک پین باہر نہیں نکل سکا.وہ ملک، جو یورپ میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تھا ، جس نے احیائے علوم کی بنیاد ڈالی تھی ، وہ اس زمانہ سے لے کر آج تک یورپ کا انتہائی پسماندہ ملک کہلاتا ہے.تمام علوم وفنون اس کو چھوڑ گئے اور تمام رونق اور بہار اس کے چہرے سے اڑ گئی.یہ وہ چین ہے، جب جماعت احمدیہ نے تبلیغ اسلام کی بنیاد ڈالی تو اس وقت اعلیٰ اخلاقی قدروں کا کوئی نشان دہاں نہیں ملتا تھا.ہاں، وہ Institution ( انسٹی ٹیوشن) جو Inquisition ( انکیوزیشن ) کہلاتا تھا، اس کے آثار بھی زندہ تھے.مذہبی منافرت کی اقدار ابھی تک وہاں اگر پوری طرح قائم نہیں تھیں تو اس نے نتیجہ میں پیدا ہونے والی نفرت بر سر عام مشاہدہ کی جاسکتی ہیں.یہ میں 1945ء کی بات کر رہا ہوں.اس وقت اگر چہ سپین میں ڈکٹیٹر شپ قائم تھی لیکن سب اہل بصیرت جانتے ہیں کہ اس ڈکٹیٹر شپ کے پس منظر میں ایک مضبوط عیسائی جتنا کام کر رہا تھا، بظاہر ایک آزادڈ کٹیٹر جنرل فرانکو کی حکومت قائم تھی لیکن ایک شعفہ کا بھی اس بات میں اختیار نہیں تھا کہ مذہبی معاملات میں اس جنتا کی رائے کو رد کر دے.اس حالیہ تاریخ تک یعنی 1945ء کی تاریخ کے زمانہ تک بلکہ اس کے بعد تک حالت یہ تھی کہ رومن کیتھولزم کے سوا کسی اور فرقے کو وہاں تبلیغ کی اجازت تھی نہ اپنا گر جابنانے کی.362
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء چنانچہ ہمارے اس وقت کے امام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قادیان میں ایک خطبہ میں سپین کی یادوں کو اس طرح زندہ کیا کہ سننے والوں کے دل خون ہو گئے.آپ نے اس درد کے ساتھ قربانی کرنے والوں کو پکارا کہ ہر دل بے قرار تھا کہ کاش مجھے اس بات پر مامور کیا جائے کہ میں اسلام کے لئے اس سرزمین کو دوبارہ فتح کروں.آپ نے موسیٰ کی یاد دلائی.یہ وہ آخری جرنیل تھا، جو بد قسمت ابو عبد اللہ کی سرکردگی میں غرناطہ کا آخری محافظ جرنیل کہلا سکتا ہے.جب ابو عبد اللہ نے فیصلہ کیا کہ غرناطہ کی چابیاں عیسائیوں کے سپرد کر دی جائیں گی تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، تم یہ چابیاں ان کے سپرد کر دو مگر مجھے اجازت دو کہ میں اس شہر میں اب نہ رہوں اور مجھے باہر نکلنے کے لئے اتنا موقع دو کہ گیٹ کھول دیئے جائیں اور پھر میں واپس کبھی نہیں آؤں گا.وہ ہتھیاروں سے لیس ہوا، زرہ بکتر پہنی اور تن تنہا عیسائی فوج پر پل پڑا.اس نے کب تک لڑائی کی اور کتنے قتل کئے؟ یہ بحث بے تعلق ہے.لیکن عیسائی مؤرخ لکھتے ہیں کہ جب تک اس کے دم میں دم تھا، وہ لڑ تا رہا.جب اس کے گھوڑے کا دم ٹوٹ گیا تو وہ زمین پر گر پڑا تو گھٹنوں کے بل کھڑا چاروں طرف سے حملہ آور عیسائیوں کا مقابلہ کرتا رہا.معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل کی ایک دعا تھی کہ اے خدا! میں آخری مسلمان ہوں، جو اس سرزمین پر تیرے نام کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ بہانے کے لئے نکلا ہوں.تو مجھے ان ظالموں کے ہاتھ میں نہ دینا.یہ ناپاک ہاتھ میرے جسم کو نہ لگیں.چنانچہ مورخ لکھتے ہیں کہ وہ اس حال میں لڑتا اور سرکتا ہوا، اس شوریدہ پہاڑی کے نالے کے کنارے تک پہنچ گیا، جس سے بیچ نکلنا بظاہرممکن نہیں تھا.ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس نے خود کشی کی.کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ اس نے تیر کر اس کو پار کرنے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ کے لیے اس نالے کی موجوں کی نذر ہو گیا.حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بڑے درد کے ساتھ اور بڑے قرب کے ساتھ اس واقعہ کی یاد دلائی اور اپنے ماننے والوں کو پکارا کہ چین کی سرزمین تمہیں قربانیوں کی طرف بلاتی ہے.طارق کی داستان تو پرانی ہوگئی مگر موسیٰ کے خون کا ایک ایک قطرہ تمہیں اپنی طرف بلا رہا ہے.کون ہے، جو اس آواز پر لبیک کہے ؟ اور کون ہے، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دوبارہ اس سر زمین پر بلند کرنے کے لئے اپنے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لئے تیار ہو.اس زمانہ میں واقفین کی ایک بہت بڑی تعداد وہاں موجود تھی.اب تو اس میں اور بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے.لیکن اس وقت تک سینکڑوں ایسے نوجوان تھے ، جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگیاں خدمت اسلام کے لیے وقف کر دی تھیں.صرف پین کا سوال نہیں تھا بلکہ یورپ اور افریقہ اور دیگر ممالک کے لئے بھی مبلغین 363
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک تقسیم کئے جارہے تھے.چنانچہ اس خطبہ کے بعد جب تقسیم شروع ہوئی تو ہر دل میں یہ تمنا بے قرار تھی کہ کاش سپین کی سرزمین کے لئے میرا نام ہو.وہ نام تقسیم ہوئے اور لوگ جن کو مختلف فرائض سونپے گئے ، وہ خوش خوش اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے لیکن ایک نوجوان کرم الہی ظفر سر جھکائے آبدیدہ اپنے گھر کو واپس لوٹ رہا تھا.اس کو اس بات کی حسرت تھی کہ خدا جانے کہ میری کیا شامت اعمال ہے یا میری نیت کا کیا قصور ہے کہ مجھے کسی جگہ بھی تبلیغ کے لئے پسند نہیں کیا گیا.قادیان میں ایک چھوٹی سی جگہ ہے، جہاں ریت کا ایک چھتہ سا بنا ہوا ہے.ہم اسے ریتی چھلہ کہتے تھے.وہ ریتی چھلے پہنچا تو بعض واقفین نے اس کو آگے بڑھ کر سینے سے لگالیا اور مبارک بادیں پیش کرنے لگے.اس نے تعجب سے کہا کہ مجھے کیا مبارک بادیں دیتے ہو، میں تو مبارک کے لائق نہیں ہوں.مجھے تو میرے امام نے اس قابل نہیں سمجھا کہ میں دین کی خدمت کر سکوں.مبارک کے قابل تو تم ہو.انہوں نے کہا تمہیں علم نہیں، تم جب چل پڑے تو اس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ سرزمین سپین کے لئے تمہیں پہلا مبلغ بنایا جائے.معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں ایک گہرے درد کی آواز تھی، جسے خدا نے قبول فرمالیا لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، اس زمانہ میں بھی سپین کی حکومت انتہائی متشدد مذہبی حکومت تھی.اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ ان کو کیسے بھجوایا جائے؟ کس طرح ان کے گزارے کا سامان مہیا کیا جائے؟ وہاں کی حکومت سے اجازت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.چنانچہ ان سے یہ کہا گیا کہ آپ کا نام تو سپین کے لئے چن لیا گیا ہے لیکن جماعت احمد یہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کرے گی کہ آپ کو سپین میں داخل ہونے تک کا کرایہ دے گی.اس کے بعد آپ جانیں اور خدا جانے.جس طرح بھی آپ کی پیش جائے اور بس چلے ، اس طرح اپنا گزارہ کریں.انہوں نے کہا: مجھے منظور ہے.چنانچہ جب پہلی دفعہ پین گئے تو تین مہینے کے اندر اندر اس عذر پر ملک سے نکال دیئے گئے کہ آپ کے پاس چونکہ اپنی آمد کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور باہر سے آپ کو کوئی امداد نہیں ملتی ، اس لئے آپ کا سپین میں رہنے کا کوئی حق نہیں.اس پر وہ انگلستان آئے اور وہاں چھ مہینے ٹھہرے رہے.اس عرصہ میں انہوں نے عطر سازی کا کام سیکھا.جیسی تیسی بھی عطر سازی وہ کرتے تھے، اس کو اپنی آمد کا ذریعہ بنا کر وہ دوبارہ پین چلے گئے اور تبلیغ کا ایک خاص طریق اختیار کیا.میں پہلی مرتبہ اکتوبر 1957ء میں جب سپین گیا تو ان کے کمرے میں اس وقت جب انہوں نے اجلاس بلایا تو خدا کے فضل سے میں نو مسلم اکٹھے ہوئے تھے.مجھے اتنی تعداد دیکھ کر تعجب ہوا.میں نے کہا: آپ نے اتنے خطرناک حالات میں اتنی کامیاب تبلیغ کیسے کی ؟ انہوں نے کہا: میاں ! کل میرے 364
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ساتھ چلیں میں آپ کو بتادوں گا کہ کیسے تبلیغ کی.میں نے کہا: ٹھیک ہے.صبح جب ہم روانہ ہوئے تو ان کے ہاتھ میں نہ کوئی کتاب تھی، نہ کوئی بگیا اور نہ عطر کا کوئی اور سامان تھا.میں تعجب سے دیکھتا اور ان کے نہ ، کا اور ساتھ چلتا رہا.یہاں تک کہ ہم ایک دکان پر پہنچ گئے.انہوں نے دکاندار سے سپینش زبان میں کچھ کہا.اس نے دکان کے تختے کے نیچے سے کواڑ کھول کر ریڑھی نکالی، اندر سے ایک نگچا دیا ، جس میں عطر وغیرہ کا سامان تھا.پھر ایک اور تھیلا دیا، جس میں کچھ لٹریچر تھا.جسے انہوں نے ریڑھی میں سجایا اور میڈرڈ ( عربی ) میں اسے ماترید کہتے ہیں) کے ایک چوک میں لے جا کر آواز بلند کرنی شروع کی.ایک پرانی طرز کا عطر سپرے کرنے والا پمپ ان کے پاس تھا.یعنی ربڑ کا ایک گولا سا تھا ، جس کو دبا کر عطر سپرے کرتے تھے.وہ اپنی طرف توجہ دلانے کے لئے آواز بلند کرتے جاتے تھے اور راہ گیروں پر عطر سپرے کرتے تھے.چنانچہ اس اثناء میں، میں نے دیکھا بہت سے راہ گیر اس دلچسپ نظارہ سے متاثر ہو کر اور کچھ ایشیائی خوشبو سے اثر لے کر وہاں کھڑے ہو گئے.اس طرح جب ایک مجمع لگ گیا تو انہوں نے سپینش زبان میں کہا.اس کا بعد میں ترجمہ کر کے بتایا.وہ یہ تھا کہ بھائیو! آج میں تمہارے اوپر ایک خوشبو چھڑک رہا ہوں اور میں ایک خوشبو بیچنے والا انسان ہوں.تم میں سے جس کو پسند آئے گی ، وہ خرید کر چلا جائے گا.لیکن میرا فرض ہے کہ اس خوشبو کی بعض کمزوریاں بھی تمہیں بتاؤں.یہ خوشبو عارضی ہے.آج نہیں تو کل تمہارے کپڑوں کو سے زائل ہو جائے گی.بہت دیر بھی لگی تو پھر بھی تمہارے کپڑوں سے دھل جائے گی.اور اس کا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا.لیکن میرے پاس ایک اور خوشبو بھی ہے.جسے میں بیچنے کے لئے مفت دینے کے لئے آیا ہوں.اور وہ ایک ایسی خوشبو ہے، جس کا اثر موت کے بعد بھی زائل نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارے ساتھ چلے گی.یہ اسلام کی خوشبو ہے.اگر کسی کے دل میں دلچسپی پیدا ہوتو شوق سے میں اسے دعوت دیتا ہوں.یہ میرا کارڈ ہے، اسے لے لیں.پبلک میں یہاں تو مجھے اجازت نہیں کہ اسلام کے بارہ میں آپ کو کچھ کہوں.آپ جب چاہیں، ہمارے گھر تشریف لائیں.میں آپ سے گفتگو کروں گا.اور اگر ، کوئی دوست مجھے اپنا کارڈ دینا چاہیں تو وہ شوق سے مجھے کارڈ دے جائیں.چنانچہ کچھ لوگ تو بڑ بڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے اور کچھ اور لوگوں نے کارڈ (exchange) تبدیل کئے اور اس کے بعد پھر شام کو کبھی کسی کا فون آیا اور کبھی کسی کا.انہوں نے ملاقات کے لئے وقت مانگا.غرض اس تمام عرصہ میں ان کو فاقے بھی پڑے، ان کو تکلیفیں بھی آئیں ، ان کو تھانے بلا کر کئی کئی دن محبوس رکھا گیا.ان کے چھوٹے سے حجرے پر حملے بھی ہوئے.میں نے خود اپنی آنکھوں سے ان کے 365
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم Balterd door یعنی اینٹیں اور روڑے مار مار کر وہ دروازہ توڑنے کے نشان دیکھے.جب کسی پادری کو یہ علم ہوتا تھا کہ کوئی مسلمان ہو گیا ہے تو وہ مشتعل ہو جاتا اور اپنا ایک گروہ لے کر حملہ آور ہوتا تھا.کبھی ان کو پولیس کے پاس لے جاتے تھے.انہوں نے یہ ساری تکلیفیں اٹھائیں لیکن اسلام کی تبلیغ کا کام جاری رکھا.اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ ملکہ عطا فر مایا تھا کہ میٹھی زبان کے ساتھ اور پیار کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے چلے جارہے تھے.چنانچہ 1945ء سے لے کر 1957 ء تک انہوں نے سپین میں ایک خاص مقام پیدا کر لیا تھا.وہاں کے بڑے بڑے سیاستدانوں، رؤسا، حکومت کے افسران اور انٹیلی جینشیا ، پروفیسر ، وكلاء وغیرہ کے طبقہ میں خوب اچھی طرح معروف اور متعارف ہو چکے تھے.جب میں بازار میں ان کے ساتھ شاپنگ کے لئے گیا تو میں نے دیکھا کہ تقریبا ہر موڑ پر اور ہر چند قدم پر ان کو سلام پڑتے تھے.پس ایک طرف وہ نفرتیں تھیں اور دوسری طرف وہ محبتیں تھیں، جن کی وجہ سے نفرتیں آہستہ آہستہ محبتوں میں تبدیل ہورہی تھیں.یہ دونوں نظارے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور قرآن کریم کی اس آیت کی صداقت کا مشاہدہ کیا:.ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ( حم السجدة: 35) کہ دیکھو ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں، جس میدان میں تم نے قدم رکھا ہے، یہ روحانی جہاد کا میدان ہے.جس میں تمہیں لازماً ہر برائی کا بدلہ حسن اور احسان کے ساتھ دنیا پڑے گا.اگر تم اس بات پر قائم ہو گئے ، تب فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ تو پھر یقینا تم دیکھو گے کہ وہ جس کو تم سے دشمنی تھی ، وہ جان نثار دوست میں تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا.چنانچہ یہ وہ عظیم نظارہ بھی میں نے اپنی آنکھوں سے اس زمانہ میں دیکھا.اور حقیقت یہ ہے کہ ایک موقع پر یہی ان کا اثر اور یہی حسن خلق تھا، جو میرے کام آیا اور مجھے پین کی پولیس سے آزادی دلوائی.اور یہ بھی پین میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک دلچسپ واقعہ ہے.میں جب سپین آیا تو مجھے کرم الہی ظفر صاحب نے بڑی نصیحت کی کہ یہ ملک ہے تو بظاہر یورپین لیکن اخلاقی لحاظ سے بہت گرا ہوا ملک ہے.یہاں اتنے جیب کترے ہیں کہ کسی دوسرے ملک میں اتنے 366
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء نہیں ہوں گے.اس لئے اپنے Documents یعنی ضروری کاغذات وغیرہ کی حفاظت کرنا.پیسے تو چلو غائب ہو گئے تو پھر آ بھی جائیں گے لیکن اہم کاغذات کے بغیر چارہ نہیں ہے.چنانچہ انہوں نے مجھے اتنا ڈرایا کہ جب غرناطہ میں الحمراء دیکھنے گیا تو پاسپورٹ گھر چھوڑ گیا.انہوں نے مجھے ڈرایا تو بہت لیکن یہ بتانا بھول گئے کہ ہر گاڑی میں پولیس چیک کرتی ہے.چنانچہ ابھی میں گاڑی میں جا کر بیٹھا ہی تھا تو دیکھا کہ پولیس والے آگئے ہیں.انہوں نے کہا: جناب نکالیں، اپنے ڈاکومنٹس (Documents) اشاروں میں سپینش کے ایک دو لفظوں کا تو پتہ لگ ہی جاتا تھا.میں نے معذرت کی.میرے ایک دوست میر محمود احمد صاحب، جو میرے عزیز بھی تھے، میرے ساتھ سفر کر رہے تھے.انہوں نے پاسپورٹ نکال لیا تو مجھے انہوں نے کہا: اب تو تمہیں قید کرنا پڑے گا.اور یہاں کوئی جیل نہیں ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم ہمارے ساتھ آؤ فرسٹ کلاس کے ڈبہ میں خالی جگہ تھی، مجھے تھرڈ کلاس سے اٹھا کر فرسٹ کلاس میں قید کر دیا گیا.بڑی اچھی رات گزری.سات آٹھ گھنٹے ریل کا سفر بڑے مزے سے کٹ سے گیا.غرناطہ پہنچے تو انہوں نے مجھے ایک تھانے میں پہنچا دیا.میں نے ان سے کہا: میں تو الحمراء دیکھنے آیا ہوں، یہ تم نے میرے ساتھ کیا قصہ کیا ہے.لیکن پولیس اہلکار نہ میری بات سمجھے، نہ میں اس کی سمجھوں.آخر اتفاق سے ایک سپاہی تھایا کوئی مقامی آدمی تھا، اس نے مجھے بتایا کہ یہاں ایک امریکن ہوٹل ہے، اس میں ایک ترجمان بہت اچھا موجود ہے.کہو تو اس کو بلوا دوں؟ میں نے کہا: ضرور بلواؤ.چنانچہ جب امریکن ترجمان کو بلوایا گیا تو میں نے کہا: مجھے اور کچھ نہیں چاہیے، تم میڈرڈ فون کرو، وہاں ہمارے ایک دوست ہیں کرم الہی ظفر ، ان سے میری بات کروا دو.اس نے فون کیا، میں نے ان سے کہا کہ یہ واقعہ ہوا ہے.اس پر زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ گزرا ہوگا ، میڈرڈ سے پولیس چیف کا فون آیا، جو سارے سپین کا چیف تھا اور اتنا مشتعل تھا، اس بات پر کہ میں نے تو صرف پولیس افسر کی یہ حرکت دیکھی کی سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا اور بات اس سے کرتا تھا اور سلوٹ مجھے مارتا تھا اور نہایت عاجزی اور گریہ وزاری کے ساتھ مجھ سے اس نے معافی مانگی اور بڑی عزت کے ساتھ ایک آدمی کو میرے ساتھ بھیجا کہ ان کو سارا الحمراء دکھالا ؤ.یہ زمانہ بھی مجھے یاد ہے.غرض اس پس منظر میں ہم نے وہاں مسجد بنائی.مسجدیں تو بنتی رہتی ہیں اور اگر ظلم کا شکار ہو کر کھنڈرات میں تبدیل نہ ہو جائیں تو Monuments (مانومنٹس) یعنی یادگاروں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں.اور جب نمازی نہ رہیں تو یہ ماضی کی شان شوکت کی داستانیں بن جایا کرتی ہے اور دیکھنے والوں کے لئے ایک نظارہ عیش پیدا کرتی ہیں اور بس.مگر اس مسجد میں ایک خاص بات ہے اور وہ یہ کہ مسجد انتہائی 367
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک دردناک پس منظر میں اور بڑی قربانیوں کے نتیجہ بنائی گئی.اور یہی وجہ ہے کہ اگر چہ ہم باہر کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزار ہا مسجدیں تعمیر کر چکے ہیں اور کرتے چلے جارہے ہیں لیکن ان کا ایسا ذ کر آپ نے نہیں سنا، جتنا اس مسجد کا ذکر سنا ہے.یہ مسجد جب تعمیر کی گئی، اس سے دو سال پہلے تک یعنی تعمیر کے آغاز سے دو سال پہلے تک سپین میں وہی سختی کا عالم طاری تھا، جس کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے.کسی کو اجازت نہیں تھی.یہاں تک کہ پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو بھی کوئی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت نہیں تھی.اس وقت میرے پیش رو حضرت خليفة المسيح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ وہاں تشریف لے گئے تو کرم الہی ظفر صاحب نے بڑے درد کے ساتھ کہا کہ اتنی مدت ہو گئی ہے، میں تبلیغ کر رہاں ہوں.ایک طرف سے مسلمان ہورہے ہیں اور دوسری طرف سے مرکزی مشن ہاؤس اور مسجد نہ ہونے کی وجہ سے ضائع بھی ہوتے چلے جارہے ہیں.اس لیے اگر آپ مستقل طور پر حقیقتا قوم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک مرکز کا قیام ضروری ہے.اور پھر یہ بھی کہا کہ اس قوم کے حالات سے مجھے اندازہ ہے کہ بیس سال بعد شاید اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے دے تو ہم مسجد بنالیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے دل پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا.آپ نے رات کو بڑے درد کے ساتھ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوشخبری دی کہ میں سال دور کی بات ہے، ہم بہت جلد وہ سامان پیدا کر دیں گے، جن سے تمہارے دل کی آرزوئیں پوری ہو جائیں گی.آپ نے صبح کرم الہی ظفر کو بلا کر کہا کہ تمہیں خوشخبری ہو، اللہ تعالیٰ مجھے فرمایا ہے کہ ہم بہت جلد تمہارے لیے خوشخبری کے سامان پیدا کرنے والے ہیں.چنانچہ اس واقعہ کے بعد جب آپ واپس آگئے تو اس کے تھوڑے ہی عرصہ کے اندر سپین کی حکومت بدل گئی.سپین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہبی آزادی کا اعلان کیا گیا.اس اعلان کے نتیجہ میں نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ دنیا کے دوسرے مذاہب اور فرقوں کو بھی وہاں داخل ہونے کی اور کھلم کھلا اظہار رائے کی اجازت دی گئی.جوں ہی یہ اعلان ہوا، مسجد کے لئے زمین کی تلاش اور مسجد کی تعمیر کی تیاریاں شروع کردی گئیں.دو سال کے عرصہ میں یہ مسجد مکمل ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ جس نے اس مسجد کی بنیاد ڈالی تھی ، اس کے مقدر میں اس کا افتتاح کرنا نہیں تھا.ہر انسان کا ایک وقت مقرر ہے.حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا بھی ایک وقت مقرر تھا.خدا نے آپ کی یہ آرزو پوری کر دی کہ اپنے ہاتھ سے اس کی بنیاد ڈالیں اور یہ نظارہ بھی دکھادیا کہ آپ کی زندگی میں یہ مسجد مکمل ہوگئی.لیکن اس کے افتتاح 368
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کی توفیق مجھے عطا فرمائی.ہم موت و حیات کا ایک مختلف فلسفہ پیش نظر رکھتے ہیں.ہم جانتے ہیں کہ انسان عارضی طور پر ایک ہیئت تو بدلتا ہے لیکن موت ان معنوں میں طاری نہیں ہوتی ، جن معنوں میں پتھر اور پہاڑ اور دوسری مادی چیزیں مردہ کہلاتی ہیں.ہمارے نقطہ نظر سے انسان خدا کے فضل سے ایک دائمی زندگی پاتا ہے.اس لئے صرف جگہ یا شکل بدلنے کا نام موت ہے.پس میں یقین کرتا ہوں اور اس وقت بھی، جس وقت میں مسجد کا افتتاح کر رہا تھا، میرے دل سے نہ صرف دعا اٹھ رہی تھی بلکہ حضرت خلیفة المسیح الثالث کے ساتھ ایک قلبی رابطہ قائم تھا.چونکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصدق الصادقین ہیں، آپ نے ہمیں یہ خبر دی تھی کہ تمہاری نیکیوں اور نیک اعمال کی خبر تمہارے عزیزوں کو خدا اس دنیا میں پہنچاتا رہتا ہے.اور یہ واضح ارشاد فرمایا تھا کہ تم مجھ پر جو درود اور سلام بھیجو گے، وہ ہمیشہ مجھے پہنچتے رہیں گے.ان معنوں میں کہ روحانی طور پر آپ زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے.اور محبت اور پیار سے جو درود اور سلام مجھے بھیجے جائیں گے، وہ مجھ تک پہنچیں گے.پس اس یقین کے ساتھ اگر چہ آنکھیں آبدیدہ تھیں لیکن دل اس لحاظ سے خوش بھی تھا کہ یقیناً آپ کی روح ابدی دنیا میں مسرت محسوس کر رہی ہوگی.مطبوعه روزنامه الفضل 19 مارچ 1984ء) قربانی کی اس تاریخ نے وہاں ایک اور عجیب منظر بھی پیدا کیا.اہل سپین جماعت کی کوششوں سے دیر سے آشنا تھے.اہل سپین کا ایک بہت بھاری طبقہ جانتا تھا کہ یہ دیوانے لوگ ہر قسم کی قربانیوں کے ذریعہ اس بات پر تلے بیٹھے ہیں کہ انہوں نے اسلام کو لازماً یہاں داخل کر کے چھوڑنا ہے.چنانچہ پین نے اس موقع پر جو استقبال کیا ہے، وہ کوئی اتفاقا رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے، کوئی انقلابی بات نہیں ہے.بلکہ ایک تدریجی اور ارتقائی عمل تھا، جو بالآخر اپنے نقطہ کو پہنچا اور اتنا حیرت انگیز استقبال ہوا کہ انسانی عقل اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی.اس کے پس منظر میں ایک اور بات بھی تھی، جو اپنے اندر ایک بہت بڑی قوت اور ٹھوس حقیقت رکھتی ہے.اگر مسلمان اس کو اختیار کر لیں تو ان کی ہر کمزوری طاقت میں بدل سکتی ہے.اور یہ حقیقت دعا ہے جو حیرت انگیز اثر دکھاتی ہے.ہم نے اس سفر پر روانہ ہونے سے بہت پہلے دعا کی تحریک کی.جس پر ساری دنیا میں احمدی راتوں کو اٹھ کر گریہ وزاری کرنے لگے کہ اے خدا! تیرے نام کی خاطر اور خالصہ تیرے دین کے وقار کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہم نے یہ ایک غریبانہ قدم اٹھایا ہے.تو اس میں برکت دے.وہ لوگ اسلام سے متنفر ہیں، ان کی ساری تاریخ ظلم وستم کی تاریخ ہے.وہاں ہم تیرا نام لے کر جا رہے ہیں تو ہماری 369
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک حفاظت فرما، تو اپنے فضل سے ان کے دلوں کو بدل دے اور اسلام کے لئے ان کے سینوں کو کھول دے.چنانچہ ساری دنیا میں یہ دعائیں ہورہی ہیں.انگریز کیا اور امریکن کیا ، کالے کیا اور گورے کیا ، چینی کیا اور جاپانی کیا، ساری دنیا میں جماعت باقاعدہ راتوں کو اٹھ کر تہجد میں یہ دعائیں کر رہی تھی کہ اے خدا! اس تقریب کو کامیاب فرما.پس دعا ایک ایسی طاقت ہے، جن سے دنیا واقف نہیں.اس کے تصویر میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ آج کے زمانہ میں ایسے پاگل لوگ بھی موجود ہیں، جو ایک آواز پر راتوں کو اٹھ اٹھ کر خدا کے حضور آنسو بہا سکتے ہیں.چنانچہ وہاں میں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح برستے دیکھا ہے، جس طرح ان دعا کرنے والی آنکھوں سے آنسو برسا کرتے تھے.ایسی حیرت انگیز اور پاک تبدیلی پیدا ہوئی کہ اہل یورپ، جو اہل سپین کو خوب اچھی طرح جانتے تھے، وہ بھی حیران و ششدر رہ گئے.چنانچہ نیک تمنائیں رکھنے والوں کے لئے بھی یہ بات تعجب انگیز تھی.مثلاً جرمنی اور سیکنڈے نیوین ممالک کے مسلمان مجھے یہ کہہ کر ڈرا ر ہے تھے کہ اس ملک کو آپ نہیں جانتے ، ہم یورپ میں رہتے ہیں، ہم ان کو اچھی طرح جانتے ہیں.آپ اونچی تو قعات لے کر وہاں نہ جائیں.یہاں تک کہ سوئٹزر لینڈ سے مجھے بار بار خط بھی ملے ، تاریں بھی آئیں، فون بھی آئے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ نے کوئی تیاری نہیں کی.وہاں تو انہوں نے آپ کی خبروں کو بلیک آوٹ کر دینا ہے.جب تک آپ لاکھوں ڈالر خرچ نہیں کریں گے اور ایجنسیز کو روپیہ نہیں دیں گے، اس وقت تک آپ کی خبریں شائع نہیں ہوں گی.اور آپ کوئی انتظام نہیں کر رہے.میں نے ان کو جواب دیا کہ میں نے تشہیر کا معاملہ اس ذات کے سپرد کر دیا ہے، جو ہر دل کا مالک ہے.وہ جب چاہے گا، جس طرح چاہے گا، وہ تشہیر فرمائے گا.یہ خدا کے دین کا کام ہے.رب کعبہ وہ ہے، میں نہیں ہوں.چنانچہ میں نے اس کی مثال کے طور پر وہ مشہور واقعہ بیان کیا اور وہ واقعہ یہ ہے کہ حبشہ کے حکمران ابرہہ نے مکہ پر چڑھائی کی تو اہل مکہ نے حضرت عبدالمطلب کو نمائندہ بنا کر اس کے پاس بھجوایا کہ اس کو خدا کا خوف دلائیں.لوگوں کے لئے یہ ایک حرم ہے، امن کی جگہ ہے، تمام بنی نوع انسان کے درمیان ایک مشترک جگہ ہے.تم کیا ظلم کر رہے ہو کہ اس کو ڈھانے کے ارادہ سے نکل کھڑے ہوئے ہو ؟ چنانچہ جب وہ ابرہہ کے پاس گئے تو انہوں نے ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی اس سے نہیں کی اور ابرہہ سے جا کر کہا کہ میرے سو اونٹ گم ہو گئے ہیں اور مجھے شک ہے کہ تمہاری فوج نے کھالئے ہیں.اس لئے سردار کے طور پر میں ایک سردار کے پاس حاضر ہوا ہوں اور میں مطالبہ کرتا ہوں کہ یا میرے اونٹ دلوائے جائیں یا ان کی قیمت دلوائی جائے.ابرہہ نے کہا: اونٹ تو میں دلوا دوں گا لیکن آج کے بعد عربوں 370
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم خطاب فرموده 15 جنوری 1983ء کی رہی سہی عزت بھی میرے دل سے مٹ گئی ہے.تم عربوں کے سردار بن کر ان کی نمائندگی میں آئے ہو اور ایسے بے فکر ہو کہ خانہ کعبہ ، جس کو منہدم کرنے کے لیے میں نکلا ہوں، اس کا ذکر تک تم نے نہیں کیا اور اپنے اونٹوں کا قصہ لے بیٹھے ہو.حضرت عبد المطلب نے کہا: بھئی آپ نہیں سمجھے، میں اونٹوں کا رب ہوں، میں اپنے اونٹوں کی فکر کرہا ہوں.خانہ کعبہ کا بھی ایک رب ہے اور وہ اس کی حفاظت کرے گا، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں.چنانچہ عبد المطلب یہ پیغام دے کر واپس آگئے.دوست جانتے ہیں ، ساری دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اپنے گھر کی حفاظت فرمائی.چنانچہ میں نے بھی دوستوں سے کہا کہ میں تو کوئی داروغہ نہیں.جماعت احمدیہ جس کا میں امام ہوں، ایک چھوٹی سی جماعت ہے، جس کے تھوڑے سے ذرائع ہیں.ان پیسوں کو ہم کہاں کہاں استعمال کریں گے، جو بڑی قربانیوں سے اکٹھے کئے جاتے ہیں؟ یہ اس لئے تو نہیں کہ ہم اشتہار دینے والی کمپنیوں کی نظر کر دیں.اس لئے مجھے کامل ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انتظام فرمائے گا.چنانچہ جس شان کے ساتھ خدا تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا، اس پر ہماری روحیں سجدہ ریز رہیں، ہماری آنکھیں سپین کی سرزمین پر آنسو بہاتی رہیں.یہ ایک ایسی روح پرور کیفیت تھی ، جس کا ذکر انسان کے بس میں نہیں.خواہ وہ کتنا ہی بلیغ اور فصیح البیان ہی کیوں نہ ہو.ہم نے وہاں خدا کی قدرت کے جو نظارے دیکھے، جن سے ہمارے دل گداز اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتوں کا حیرت انگیر طور پر نزول ہوا.اب یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور رحمت ہی تو تھی کہ احمدیوں کا ہر قافلہ جو وہاں اترتا تھا، اہل سپین ان کے بچے ان کو دیکھ کر لا اله الا الله، لا اله الا الله پڑھنے لگ جاتے تھے.خود ہم جب پید رو آباد میں داخل ہوئے ہیں تو بچوں کی قطاریں لگ گئیں اور انہوں نے لا اله الا الله، لا اله الا الله پڑھنا شروع کر دیا.جب بھی وہ کسی کو دیکھتے تھے کہ یہ مسجد کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے کے لئے آیا ہے تو زبان تو وہ کسی کی جانتے نہیں تھے تو ان کا سوال یہ ہوتا تھا، لا الہ الا الله ؟ یعنی کیا تم وہ لوگ ہو، جو لا الہ الا اللہ کہتے ہو؟ یہ کیسی حیرت انگیز تبدیلی تھی کیسی پاک تبدیلی تھی.ان مشرکوں کی زبان پر بھی، جو رومن کیتھولک مشرک تھے، خدا تعالیٰ نے لا الہ الا اللہ جاری کر وا دیا تھا.جن ہوٹلوں 371
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم میں احمدی ٹھہرے، جس جگہ گئے ، جہاں قیام کیا، وہاں لوگوں نے ان کے ساتھ بڑی محبت کا سلوک کیا.یہاں تک کہ ایک ہوٹل والوں نے تو چابیاں ہمارے دوستوں کے سپرد کر دیں، اب تم مالک ہو اس کے، جس طرح چاہوں، کھاؤ پکاؤ اور خوش رہو.کیونکہ تم ہمارے مہمان ہو.چنانچہ بغیر کسی کوشش کے بغیر کسی جدو جہد کے جہاں جہاں ہم گئے، وہاں ہمارا حیرت انگیز استقبال ہوا.اسی طرح پولیس نے جو (coverage) کو ریج دیا ہے، وہ بھی حیرت انگیز ہے.دنیا کی کوئی ایجنسی کروڑوں روپے میں بھی اس طرح آرگنا ئز نہیں کر سکتی تھی.میں جب ربوہ سے چلا ہوں، اس وقت تک 35 مختلف اخباروں کے تراشے موصول ہو چکے تھے ، جنہوں نے اپنی متعدد اشاعتوں میں مسجد چین کا ذکر کیا اور پھر جاری رکھا.اور اتنے احسن رنگ میں ذکر کیا کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان لوگوں کو ہو کیا گیا ہے؟ یعنی وہ ہر بات کی تان اسلام کی فتح پر توڑتے تھے.جینیوا (سوئٹزرلینڈ) کے ایک اخبار، جو دنیا کے چوٹی کے اخبارات میں شمار ہوتا ہے، اس نے نہ تو ہم سے کوئی رابطہ قائم کیا، نہ اس کا ہمیں کوئی علم تھا.لیکن جب اس نے سپین کے اخباروں کا یہ چرچا دیکھا تو اس کے نمائندہ نے ایک مضمون لکھا، جس میں بڑی تفصیل سے میرے دورے پر روشنی ڈالی.اس نے کہا: ہم نے مختلف لوگوں کے انٹرویو کئے ہیں، جن میں پادریوں سے بھی انٹرویو شامل ہیں اور سیاستدانوں سے بھی، پولیس والوں سے بھی انٹر ویولتے ہیں اور عام پبلک سے بھی لئے ہیں.اس نے کہا: پادری تو یہ کہ رہے تھے کہ یہ آئے ہیں اور چلے جائیں گے.جس طرح یہ عیسائی نہیں ہو سکتے ، اسی طرح ہم مسلمان نہیں ہوسکیں گے.لیکن مسجد سے جماعت احمدیہ کا خلیفہ جو اعلان کر رہا تھا، اس میں ایک شوکت تھی، اس میں ایک طاقت تھی اور اس کی آواز سب آوازوں پر بھاری تھی کہ تم سپین کی باتیں کرتے ہو ، ہم ساری دنیا کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں لاکر کھڑا کر دیں گے.پھر اس نے لکھا کہ ایک اخبار والے نے جب یہ پوچھا کہ آپ کے پاس ہے کیا ؟ آپ اتنی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، آپ کیا کریں گے؟ تو انہوں نے (امام جماعت احمدیہ نے ( جواب دیا کہ ہم تمہاری گلیوں میں درویشانہ پھریں گے اور تمہارے گھروں کے دروازوں کی کنڈیاں کھٹکھٹائیں گے.اور ہم کامل یقین رکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ خدا کے فرشتے بھی تمہارے دلوں کی کنڈیاں کھٹکھٹا رہے ہوں گے.پس چونکہ ہم کامل اخلاص اور قربانی کے جذبہ سے معمور ہو کر تمہارے پاس اسلام لے کر حاضر ہوئے ہیں ، ہم یقیناً کامیاب ہوں گے.پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اخباری نمائندوں نے یہاں تک دیانت داری اور ہمدردی کا ثبوت دیا کہ جب میں غرناطہ پہنچا یعنی پید رو آباد جانے سے پہلے جب ہم ملا گا ایئر پورٹ سے پہلے غرناطہ گئے تو 372
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم.خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء چونکہ میں نے منتظمین سے یہ کہا ہوا تھا کہ غرناطہ میں الحمراء کے اندر جو ہوٹل ہے، اس میں ہم نے ٹھہرنا ہے.اس سے خاص درد بھری یادیں وابستہ ہیں.وہاں ٹھہریں گے تو دعا کی تحریک ہوگی.چنانچہ ہم ہوٹل میں داخل ہوئے تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب مجھے اهلا و سهلا و مرحباً، اهلا وسهلا و مرحباً كى آواز آئی.دیکھا تو وہ پریس کے نمائندے تھے، جو پہلے سے اھلا و سهلا و مرحبا یا د کر کے تیار کھڑے تھے.انہوں نے کہا کہ آپ تھکے ہوئے تو ضرور ہوں گے لیکن ہمیں سخت شوق ہے، ہم آپ کا ابھی انٹرویو لینا چاہتے ہیں.میں نے کہا: آپ بڑے شوق سے انٹرویو لیں.یہ تو آپ میرے دل کی بات کہ رہے ہیں.ابھی اوپر کمرے میں آجائیں اور ایک کافی کی پیالی پر بیٹھ کر گفتگو کر لیتے ہیں.چنانچہ اس انٹرویو میں، جو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا، اس میں ایسی باتیں پوچھی گئیں، جو ساری کی ساری اسلام کی تائید میں تھیں.ان میں ایک خاتون نمائندہ بھی تھیں، اس نے سب سے زیادہ عمدہ کردار ادا کیا.وہ سوال کرنے کے لئے ایسے فقرے چھنتی تھی ، جن کے متعلق وہ یہ بھتی تھی کہ یہ لوگوں کے دل پر زیادہ اثر ڈالیں گے.پریس کانفرس میں بعض دفعہ بھول چوک بھی ہو جاتی ہے، دشمن پر لیس اس کو اٹھاتا ہے.لیکن پریس کے نمائندگان نے ایسی ساری باتوں کو نظر انداز کر دیا اور اگلے دن اخباروں میں عنوان لگے کہ اہل سپین نے اسلام کے لئے اپنے دلوں کے دروازے کھول دیئے ہیں.جب یہ پریس کانفرنس ختم ہوئی اور نمائندگان جانے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ کل آپ کا کیا پروگرام ہے؟ میں نے کہا : کل تو ہم انشاء اللہ الحمراء دیکھیں گے، اس کے بعد پید رو آباد جائیں گے.چنانچہ یہ پوچھ کر وہ چلے ، گئے لیکن اگلے دن پریس کے یہی نمائندے الحمراء پہنچے ہوئے تھے.سارا دن ہمارے ساتھ پھرتے رہے، سپینش لوگ جو ہمیں تعجب سے دیکھ رہے تھے اور گروہ در گروہ اکٹھے ہورہے تھے، یہ ان کو ہماری طرف سے تبلیغ کرتے تھے.گزشتہ روز پریس انٹرویو میں جوتبلیغی باتیں سنی تھیں، وہ ان کے سامنے ہماری طرف سے بیان کر رہے تھے.خدا تعالیٰ نے بڑے اچھے ترجمان عطا فر ما دیئے تھے.جب وہ الوداع ہونے لگے تو اخبار کا ایک نمائندہ ، جو بعد میں وہاں پہنچا تھا، اس نے کہا کہ مجھے ایک فقرہ میں کوئی ایسی بات بتا دیں کہ میں اسے اہل سپین میں (flash) فلیش کردوں.میں نے کہا: پھر وہ فقرہ یہ ہے کہ ہم نے تلوار کے ذریعہ سپین میں جو کچھ کھویا تھا، اب محبت سے دوبارہ فتح کرنے کے لئے آگئے ہیں.اس ایک فقرہ کا ایساز بر دست چرچا ہوا کہ ایک اخبار سے دوسرے اخبار نے پکڑا، دوسرے سے تیسرے نے پکڑا اور اس فقرہ کی صدائے بازگشت سارے یورپ میں سنائی دینے لگی.لیکن جہاں تک اہل سپین کا تعلق تھا، ان کو یہ یقین ہوتا چلا گیا کہ یہ تلوار کے زور سے کچھ لینے نہیں آئے بلکہ محبت کے زور سے ہمارے دلوں کو فتح کرنے آئے ہیں.373
خطاب فرموده 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اس وقت سپین کی نفسیاتی حالت ایسی ہے کہ وہ محبت کو ترس رہے ہیں.کیونکہ وہ انسٹی ٹیوشن، جس کو ( Inquisition) انکیو زیشن کہا جاتا ہے.جب مسلمان اس کی زد سے نکل گئے تو پھر سینکڑوں سال تک وہ خود عیسائیوں پر ظلم ڈھاتی رہی.چنانچہ اس کے نتیجہ میں سپین میں غلط مذہبی حکومت کے خلاف سخت نفرت پیدا ہو چکی ہے.جنرل فرانکو کی حکومت اس نفرت کے سامنے ایک بندہ تھا، جو ٹوٹ نہیں سکتا تھا لیکن اہل دانش کے سارے اندازے غلط ثابت ہو گئے.کیونکہ یہ بند اب ٹوٹا ہے تو چرچ کی زیادتیوں کے خلاف ملکی فضا شدید نفرت میں تبدیل ہو چکی ہے.چنانچہ اندلوسیہ میں جو اشتراکیت پھیل رہی ہے، اس کا پس منظر بھی یہی ہے.لوگ مذہب سے سخت متنفر ہو چکے ہیں، اس لئے جب ان کو محبت کا پیغام ملا اور مذہب کے نام پر محبت کی بات کی گئی تو وہ حیران رہ گئے اور جوق در جوق مسجد دیکھنے کے لئے آنے لگے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے.ایک دن بھی ایسا نہیں آیا، جب سپین کے علاقوں کے لوگ بکثرت مسجد دیکھنے نہ پہنچے ہوں.ہر رپورٹ میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ آج ڈیڑھ سو آدمی آئے ، آج تین سو آدمی آئے، آج اتنے لوگوں کو لے کر آئے.چنانچہ با قاعدہ مسجد دیکھنے کے لئے لوگ پہنچتے ہیں.اور یہ لوگ اپنے واقعات بتاتے ہیں کہ ہم نے کہاں سے سنا.کوئی دور دراز جگہ کے اخبار کی بات بتاتا ہے، کوئی ریڈیو کی بات بتا تا ہے، کوئی ٹیلیویژن کی بات بتاتا ہے.سپین کے ٹیلی ویژن Net work ( نیٹ ورک) نے سات دن مسلسل سپین کی مسجد کی خبر دینے کے علاوہ وہ باتیں، جو ہم نے عیسائیت کے خلاف اور اسلام کے حق میں کہتے تھے ، بیان کرنی شروع کیں.کہنے والے نے تو یہ کہا تھا اور ڈرانے والے نے تو یہ کہہ کر ڈرایا تھا کہ اس تقریب کا بائیکاٹ ہو جائے گا اور کوئی اخبار اس آواز کو شائع نہیں کرے گا لیکن یہ تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے کام کر رہے تھے، جو نہ تھکتے ہیں اور نہ ماندہ ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے.اس کا صرف میری ذات سے تعلق نہ تھا، اس کا اسلام کی تائید میں دھڑ کنے والے دلوں کی آواز سے تعلق تھا.چنانچہ ایک حیرت انگیز بات میر محمود احمد صاحب نے چند ہفتے پہلے مجھے لکھی، یہ وہاں کے موجودہ مبلغ ہیں.انہوں نے لکھا کہ سپین کے ریڈ یونیٹ ورک نے ان کو دعوت دی کہ وہ ان کے ایک پادری سے ریڈیو پر مناظرہ کریں اور اس کے لئے انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے کا وقت مقرر کیا.اسلام کی تبلیغ کے لئے اگر ہم ریڈیو سے وقت مانگتے تو چند منٹ کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کرنے پڑتے لیکن ان کو تبلیغ کے لئے ڈیڑھ گھنٹے کا وقت دیا گیا.میر صاحب چونکہ جامعہ احمدیہ میں پروفیسر تھے اور خدا کے فضل سے عیسائیت کے بہت ماہر ہیں، انہوں نے لکھا کہ چند سوالات میں ہی پادری صاحب اتنا گھبرا گئے کہ انہوں نے اپنا وقت 374
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء چھوڑ دیا اور پورے ڈیڑھ گھنٹے تک وہی اسلام کی تبلیغ کرتے رہے.یہ خدا کے فرشتے ہیں، جو دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کر رہے ہیں.وہاں کی پولیس کا یہ حال تھا کہ وہی پولیس، جس نے مجھے قید کیا تھا، اب اس دفعہ حفاظت کے لئے میرے آگے پیچھے گھوم رہے تھے.پولیس کی موجودگی میں پریس کے نمائندوں نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ 1957ء میں جب آپ سپین آئے تھے، اس وقت میں اور اب کے پولیس کے رویے میں کیا فرق دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ایک پہلو سے تو کوئی فرق نہیں دیکھا.اس وقت بھی میں نے قید ہو کر غرناطہ دیکھا تھا، اب بھی قید ہو کر غرناطہ دیکھ رہا ہوں.لیکن اس وقت مجھ سے لوگوں کی حفاظت کی جارہی تھی ، اب لوگوں سے میری حفاظت کی جارہی ہے.میں نے تو یہ فرق دیکھا ہے.اس کو بھی انہوں نے پسند کیا اور اخبار نے اچھالا کہ پین میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ پہلے ایک بے چارے مسافر سے غلط نہی میں لوگوں کی حفاظت ہورہی تھی کہ کہیں لوگوں کو مارنہ بیٹھے اور اب اسی مسافر کی حفاظت لوگوں سے کی جارہی ہے کہ لوگوں سے اس کو کوئی شر نہ پہنچے.اور وہ اس بات کو ایسی محبت سے کر رہے تھے، جو عام طور پر پولیس میں دیکھنے میں نہیں ر آتی.یعنی فرض شناس پولیس افسر بڑی اچھی طرح عوام کی خدمت کرتا ہے.لیکن جب تک محبت کا پہلونہ ہو، وہ باتیں ہرگز رونما نہیں ہو سکتیں، جو ہم نے وہاں دیکھیں.مثلاً رات کو جب ہم پریس انٹرویو سے فارغ ہوئے تو پولیس کے جو دوست حفاظت پر متعین تھے، وہ اس رات ڈیڑھ بجے تک ہمارے دروازے کے سامنے کھڑے تھے اور اس کا مجھے اس طرح پتہ لگا کہ میں ایک منٹ کے لئے باہر آیا کیونکہ ہم نے صبح کی نماز کا وقت مقرر کرنا تھا.خیر جب میں باہر آیا تو دیکھا کہ وہ دروازے پر کھڑے ہیں.میں نے ان سے کہا: آپ آرام فرما ئیں ، بہت تھک گئے ہوں گے.تو انہوں نے کہا کہ میں اس شرط پر آرام کروں گا کہ آپ مجھ سے وعدہ کریں، صبح جب تک میں نہ آجاؤں، آپ ہوٹل سے باہر نہیں نکلیں گے.ہوٹل میں تو ہم نے نماز وغیرہ پڑھنے کے لیے باہر نکلنا ہی تھا.پھر ان کا حال یہ تھا کہ دروازہ کھولنے کے لئے بعض دفعہ دوڑتے تھے.جس طرح ڈرائیور آگے بڑھ کر دروازہ کھولتے ہیں، اس طرح آگے پیچھے انہوں نے خود بھی اور ان کے دستے نے بھی ہماری حفاظت کی.ہمیں تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت حاصل تھی، کوئی پرواہ نہیں تھی.مگر انہوں نے اپنی طرف سے اس طرح خدمت کا حق ادا کیا کہ میں سمجھا کہ کوئی جو نیز آفیسر ہے.جب میں نے اس کے متعلق اپنے مبلغ سے کہا کہ ذرا پتہ کرو، یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ غرناطہ کے چیف آف پولیس ہیں یا اس علاقے کے چیف ہیں، جس میں ہم رہائش پذیر تھے.مجھے صحیح پتہ نہیں، ان کا سٹم کیا ہے؟ مگر وہ 375
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم تھے وہاں کے چیف.میں حیران رہ گیا.میرے دل میں ان کی بڑی عزت پیدا ہوئی.مگر یہ کیوں ہو رہا تھا؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے حضور جماعت کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.اللہ تعالیٰ کا فضل جب بر سنے کے لئے تیار ہو تو بہانے ڈھونڈا کرتا ہے.جب ہم غرناطہ سے چلنے لگے تو جس وقت ہم نے چلنا تھا، اس سے دیر ہوگئی.مثلاً نو بجے روانہ ہونا تھا تو دس ساڑھے دس بجے کا وقت ہو گیا.میں نے دوستوں سے کہا: پتہ تو کریں کہ پولیس ہمیں کیوں نہیں جانے دیتی ؟ تو انہوں نے بتایا کہ پولیس کہتی ہے کہ وہ رستہ، جس سے آپ نے شہر سے گزرنا ہے، وہ safc یعنی محفوظ نہیں ہے.اب آپ کی اتنی شہرت ہو چکی ہے، اخباروں میں آچکا ہے، کوئی بھی شرارت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اس لئے سارے رستے کو جب تک ہم خالی نہ کروالیں، اس وقت تک آپ کو نہیں لے کر جانا.چنانچہ انہوں نے پہلے رستہ خالی کروایا اور پھر ہمیں یہ کہا کہ اب آجائیں، اب رستہ قدرے محفوظ ہے.اب سوائے اس کے کہ دل میں ایک غیر معمولی محبت اور احترام پیدا ہو چکا ہو، اس کے بغیر تو آدمی ایسی حرکتیں نہیں کر سکتا.اور یہ ایک نہیں، دو نہیں، ایسے سینکڑوں مناظر ہیں، جو میری آنکھوں نے بھی دیکھے اور میرے دل نے بھی محسوس کئے.ہر جانے والے نے دیکھے اور محسوس کئے.the یہ صرف سپین کی ایک مختصر داستان ہے.اس کی تفصیلی باتیں، جو وہاں کے اخبارات میں شائع ہوئیں، پریس والوں سے جو گفت و شنید ہوئی ، عیسائیوں سے وہاں جو تبادلہ خیال ہوا، اسلام کی طرف سے ہم نے کیا کہا ؟ انہوں نے عیسائیت کی طرف سے کس طرح ہم پر حملے کرنے کی کوشش کی؟ یہ بڑی دلچسپ اور لمبی داستان ہے.مگر ایسی مجالس میں تو یہ داستانیں نہیں چھیڑی جاسکتیں.دوستوں کا وقت بھی بہت قیمتی ہے.بڑے حوصلے سے انہوں نے میری لمبی باتوں کے سنے کو برداشت کیا ہے.اس لئے اب میں اجازت چاہتا ہوں.غالباً چند منٹ سوالات کے لئے وقفہ ہوگا.اس دوران اگر کوئی دوست سپین سے متعلق یا یورپ کے دیگر ممالک کے دورے سے متعلق کسی قسم کی کوئی بات پوچھنا چاہیں تو ان کو اجازت ہوگی.پھر فرمایا: "بارش کی بات ہوئی تھی ، ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ بارش کا پہلا قطرہ ذرا مشکل سے آتا ہے، جب ایک دفعہ بارش کا پہلا قطرہ برس پڑے تو پھر بارش سنبھالنی مشکل ہو جایا کرتی ہے.یہی میرا تجربہ ہے.بیرونی ممالک کے دورے میں سوالات کی محفلوں میں پریس تو خیر سوالات کرنے کا عادی ہوتا ہے، انٹیلی جیشیا سے ہماری جو باتیں ہوا کرتی تھیں، ان میں پہلا سوال بڑی مشکل سے آتا تھا اور آخری سوال بڑی مشکل سے جاتا تھا.چنانچہ اس آخری سوال کے سلسلہ میں، میں آپ کو ایک دلچسپ بات سنا دتیا ہوں.376
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء ہمبرگ میں جو انٹیلی جینشیا آیا ہوا تھا، اس میں مختلف ممالک کے لوگ بھی تھے.مثلاً غانا کے بھی تھے تو ایک غنائین نے جو سوال کرنے شروع کئے تو مجلس لمبی ہوگئی اور اس کے سوال ختم ہونے میں ہی نہ آئیں.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ بھئی اب آپ کوئی آخری سوال بھی کریں کیونکہ بعض دوسرے دوست بے چارے بے چین ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی سوال کریں.انہوں نے کہا کہ اچھا میرا آخری سوال یہ ہے.اور اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اب میرا آخری سوال یہ ہے.پھر انہوں نے کہا اب میرا آخری سوال یہ ہے.پھر انہوں نے کہا اب میرا آخری سوال یہ ہے.تو میں نے آخر پر مذاقا ان سے کہا: آپ کا نواں آخری سوال یہ تھا تو انہوں نے کہا: بہت اچھا، یہ میرا واقعی دسواں آخری سوال ہو گا.تو میں نے کہا: بہت اچھا، اب آپ اپنا آخری دسواں سوال کریں.تو اس کے بعد انہوں نے کہا: اس سوال کا ایک دوسرا حصہ باقی ہے، اب میں وہ پیش کرنا چاہتا ہوں.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے، سوال جب ایک دفعہ آنا شروع ہو جاتے ہیں تو ان کا جانا مشکل ہو جاتا ہے.اس موقع پر ایک دوست کی طرف سے یہ سوال کیا گیا کہ تبلیغ کے نتیجہ میں پین میں کتنے احباب 86 مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں؟ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.بہت اچھا میں بتاتا ہوں.کسی بیرونی ملک میں بالکل اسی نوعیت کا سوال جب میرے پیش رو حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے کیا گیا تو اس کا آپ نے جو جواب دیا تھا، میں اس کو دھراتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ تمہارے مسیح جب اور جس رنگ میں بھی دنیا سے رخصت ہونے لگے تھے تو اس وقت ان کی ساری عمر کی جو کمائی تھی، ہمارے پاس اس سے دو زیادہ ہیں.پس امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت تک سپین میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سو سے کچھ زیادہ مسلمان ہو چکے ہیں.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوئے ہیں، ان کے اخلاص کا معیار کیا ہے؟ وہ خدا کے فضل سے بہت اچھا ہے.میں اس کا ایک نمونہ بتاتا ہوں.وہ میں نومسلم احمدی دوست ، جو 1957 ء میں اکٹھے ہوئے تھے ، جن کا میں نے ابھی ذکر کیا تھا، ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے، جو اپنی اتوارمیں مسلسل اسلام کے لئے وقف کر رہے تھے.جبکہ سارا چین اتوار کو عیش وعشرت اور شراب خوری میں مبتلا ہو جاتا ہے.لیکن وہ ہر اتوار کومسجد میں آتے اور عطر سازی میں ہمارے مبلغ کی مدد کرتے تھے.پھر اپنے حصہ کا عطر اپنے ساتھ لے جاتے تھے، اس کو بیچتے تھے اور جو کچھ اس سے حاصل ہوتا تھا، اس سے اسلامی لٹریچر تیار کر کے شائع کرتے تھے.اور یہ وہی لٹریچر ہے، جو آج تک وہاں تقسیم ہوتا رہا ہے.377
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء.تحریک جدید - ایک الہی تحریک پھر جب میں چین سے واپس ہوا اور ہمارا جہاز وہاں سے روانہ ہونے لگا تو اس وقت ایک عجیب واقعہ رونما ہوا.اب تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ کیونکہ آپ جماعت کے امام ہیں، اس لئے انہوں نے محبت کا اظہار کرنا ہی کرنا تھا.لیکن اس وقت تو میں ایک غیر معروف اور معمولی طالب علم تھا اور سپین والوں سے تو ویسے بھی میرا کوئی رابطہ ہی نہیں تھا.وہاں ائیر پورٹ پر جو دوست مجھے الوداع کہنے کے لئے آئے ، ان میں ایک ایسا نوجوان بھی تھا کہ جب دعا ختم ہوئی تو باقی سب نے آمین پر ہاتھ چھوڑ دیئے لیکن اس کے نہ آنسو تھے اور نہ ہاتھ گرے.میں جہاز میں سوار ہو کر رخصت ہو گیا.پاکستان پہنچ کر مجھے پین کے مبلغ کا خط ملا کہ جب تک تمہارا جہاز نظر سے غائب نہیں ہو گیا، اس نوجوان کے نہ آنسو تھے ہیں، نہ ہاتھ گرے ہیں.وہ دعا کرتا رہا.میرے دل سے بے اختیار درود نکلا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو پورے خلوص کے ساتھ پہنچایا جائے تو اس میں عظیم الشان طاقتیں آج بھی موجود ہیں.چودہ سو سال گزر گئے لیکن ان طاقتوں میں کوئی کمی نہیں آئی.کیسی پاک تبدیلی ہے کیسی حیرت انگیز تبدیلی ہے کہ کل تک جو لوگ اسلام کے دشمن تھے، وہ آج مسلمان ہوئے ہیں تو ایک دوسرے ملک سے آنے والے سے ایسی محبت کرنے لگ جاتے ہیں، جس طرح بھائی بھائی سے بھی کم کرتا ہوگا.پس ہمیں کو الٹی میں دلچسپی ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کچھ پیدا کرنا چاہتے ہیں ، وہ یہی ہے کہ وہ اسلام کے معیار کے مطابق بہترین لوگ ہوں.ایسے لوگ مرا نہیں کرتے.یہ ہے اصل فلسفہ کہ کوالٹی کبھی نہیں مرتی ، تعداد مر جایا کرتی ہے.یہ ٹھیک ہے کہ اب تک ہماری کوششوں کے نتیجہ میں جو کچھ ہمیں حاصل ہوا ہے، وہ بہت تھوڑا ہے.یہ اتنا ہی ہو سکتا تھا بلکہ کوششوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے پھل دیا.ہم تو خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہیں.لیکن اب جو حالات ظاہر ہورہے ہیں، مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ قبول اسلام کی رفتار بڑھ جائے گی“.ایک اور سوال یہ تھا کہ پچھلے دنوں جنوبی افریقہ کی عدالت میں احمدیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے ایک کیس دائر کیا گیا.مسلمانوں کے وکلاء نے یہ کیس جیت لیا.آپ کی طرف سے بھی اس میں دلائل پیش کئے گئے ، نتیجہ مسلمان کامیاب ہوئے.اسی طرح یہاں بھی 1974ء میں احمدیوں کے خلاف تحریک چلی تھی تو علماء اور وکلاء نے دلائل پیش کئے، اسمبلی میں بحث ہوئی ، نتیجہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا.تو کیا آپ کے اتنے ہی weak points ہیں کہ آپ وہاں بھی اپنے کیس کو piend (پلیڈ ) نہیں کر سکے تھے ؟ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 378
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء میں آپ کو اس کا جواب دیتا ہوں.لیکن یہ تو آپ نے ایک ایسا سوال چھیڑا ہے کہ بہتر تھا کہ اس مجلس میں نہ ہی چھیڑا جاتا.مگر میں کوشش کروں گا کہ اس سوال کے مضرات سے بچ کر جواب دوں.بات یہ ہے کہ جو آپ نے جنوبی افریقہ میں کیا، وہ تھا کیا؟ یہی کہ ان کی لاشوں کو اپنے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دینا.وہاں تو صرف یہ حاصل کیا گیا.یہاں حال ہی میں آپ اس سے بہت بڑھ کر حاصل کر چکے ہیں.یہ کیوں بھول گئے ہیں؟ یہاں تو ایک ایسے احمدی کی نعش اکھاڑ کر پھینکی گئی ، جو بیس دن سے دفن تھا اور گاؤں والوں نے دفن ہونے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا.بعد کی اشتعال انگیزی کے نتیجہ میں یہ سب کچھ ہوا.جس کو آپ کے اخباروں نے اسلام کی ایک عظیم انشان خدمت کے طور پر پیش کیا ہے.پس جنوبی افریقہ کی باتیں، جو اس سے بہت کمزور ہیں، ان کے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہاں اپنے وطن کی باتیں موجود ہیں.اتنی شاندار فتوحات ہو رہی ہیں، آپ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟ البتہ فرق یہ ہے کہ فتوحات کے تصور الگ الگ ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے:.قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلًا (بنی اسرائیل : 85 ) ہم خدا کی خاطر ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں.قرآن کریم کے ترجمے شائع کر رہے ہیں.مسجد میں بنارہے ہیں.مسجدیں آباد کر رہے ہیں.لوگوں کے دلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں.ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہے اسلام کی خدمت.ہمارے وطن میں اگر ہماری قبریں اکھیڑ کر نعشیں باہر پھینکی جائیں گی تو ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں.اسلام کی خدمت سے ہم باز نہیں رہ سکتے.ہمارے لئے وہی رہنما بات ہے، جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک معترض کے سامنے کہی تھی.آپ نے جب یہ فیصلہ کیا کہ حضرت اسامہ بن زید کی قیادت میں شام کی سرحد پر لڑنے کے لئے جو لشکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال سے قبل تیار فرمایا تھا ، وہ روانہ ہوگا.تو بڑے بڑے کبار صحابہ گھبرا گئے.ان میں سے ایک نے عرض کیا کہ اے خلیفة الرسول! یہاں تو حالات اتنے خطرناک ہیں، بہت سے عرب قبائل نے بغاوت کر دی ہے.اس نازک صورت حالات میں آپ اس لشکر کے بھجوانے کا حکم جاری کر رہے ہیں، جو شام کی سرحد پر جائے گا اور اس کو اس بات کی خبر بھی نہیں ہوگی کہ یہاں پیچھے مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑا ہی گہرا اور پر حکمت جواب دیا.آپ نے فرمایا! دیکھو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال سے پہلے آخری حکم یہ تھا کہ یہ قافلہ روانہ ہو.ابن ابی قحافہ کی مجال کیا ہے کہ اپنے 379
خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم پہلے حکم میں محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری حکم کو بدل دے.خدا کی قسم مدینہ کی گلیوں میں اگر عورتوں اور بچوں کی لاشوں کو درندے گھسیٹتے پھریں، تب بھی یہ شکر جائے گا اور ضرور جائے گا اور لازما جائے گا.پس لوگ ہماری قبریں اکھاڑیں، جو مرضی کریں.ہمارے قافلے تو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ضرور جائیں گے.حقیقت یہ ہے کہ یہ قبریں اور یہ عارضی جسم کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے.دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کس مقصد کے لئے قبریں اکھاڑی جاتی ہیں؟ اور ہم کس مقصد کے لئے قربانیاں کر رہے ہیں؟ یہ وہ اصل بات ہے، جو اپنے اندر ایک حقیقت رکھتی ہے اور غور کے لائق ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک صحابی حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) جب شہید کئے جانے لگے تو تلوار چلنے سے پہلے انہوں نے یہ شعر پڑھے جو ہمیشہ کے لئے ہمارے لئے مشعل راہ اور زندگی کا پیغام ہیں.انہوں نے شہادت سے پہلے یہ شعر پڑھا:.فلست ابالي حين اقتل مسلماً علی ای شی کان لله مصرعی وذلك فى ذات الاله وأن يشاء يبارك على اوصال شلو ممزعی کہ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ جب میں خدا کی خاطر مارا جارہا ہوں اور خدا کے نام پر مارا جا رہا ہوں تو جب میر اسر کئے گا تو میں کس کروٹ پر گروں گا.کسی کروٹ پر بھی میری لاش گرے اور اس سے کیسا ہی سلوک کیا جائے.خدا کی قسم وہ ذات جس کی خاطر میں قربانی دے رہا ہوں، اگر وہ چاہے تو میرے جسم کے ذرہ ذرہ پر رحمتوں کی بارش بر سادے اور میرے کٹے پھٹے جسم کے ٹکڑوں کو برکتوں سے بھر دے.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ 1974ء میں آپ کی پیشکش کے باوجود آپ کو موقع دیئے جانے کے باوجود آپ کو غیر مسلم کیوں قرار دیا گیا؟ تو یہ ایک بنیادی سوال ہے، جس پر غور کرنا چاہیے.میں اہل علم اور اہل عقل کو اس پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں کہ کیا دنیا میں کسی مذہب کی تقدیر کا فیصلہ اکثریت اور اقلیت کے ذریعہ پہلے کبھی ہوا ہے.قرآن کریم کی تاریخ کو لے لیجئے ، جو سب سے زیادہ یقینی اور قطعی تاریخ ہے.اس تاریخ سے کوئی ایک واقعہ نکال کر دکھلا دیجئے کہ اکثریت کے فیصلے کو قرآن کریم نے تسلیم کر لیا ہو.ہر موقع پر قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ اکثریت نے اقلیت کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا.مثلاً حضرت نوح کی اقلیت تھی.تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان کی قوم ، ایک متمدن قوم تھی.جس زمانہ میں حضرت نوح مبعوث ہوئے ہیں، تمدن کی اونچی لہر آئی ہوئی تھی.civilization ( سویلائزیشن) کا ایک خاص زمانہ تھا.تب 380
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 15 جنوری 1983ء حضرت نوح ان کی اصلاح کے لئے آئے تو تمام قوم ایک طرف تھی اور فتوے دے رہی تھی کہ (نعوذ باللہ ) حضرت نوح مرتد ہیں ، اپنے دین سے پھر گئے اور بے دین ہو گئے ہیں.اس وقت کون سی اقلیت تھی، جو آپ کے ساتھ چھٹی ہوئی تھی.وہی، جو ایک کشتی سما گئے تھے.ہم تو ایک کشتی میں نہیں آسکتے.سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی کشتی ہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت نوح کے مقابل آنے والی اکثریت مٹادی گئی اور آپ کی پیروی کرنے والی اقلیت زندہ رہی.یہاں تک کہ آج دنیا اسی اقلیت کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتی ہے.آج ایک شخص بھی خواہ اس کا کسی مذہب سے تعلق ہو، اپنے آپ کو اس اکثریت کی طرف منسوب نہیں کرتا ، جس نے حضرت نوح کا انکار کیا تھا.پس چاہئے کہ لوگ تاریخ سے سبق لیں اور اولوالالباب بنیں.قرآن کریم بار بار عقل اور رشد کی طرف بلاتا ہے.جو تاریخ انبیاء ہے، وہ تو قرآن نے پیش کی ہے.اور جو تاریخ مذاہب ہے، وہ بھی قرآن نے پیش کی ہے.اس مستند تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھیں کہ یہ کیا واقعہ ہوتارہا اور کیوں ہوتا رہا؟ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ جائز ہو یا نا جائز ہوا؟ یہ تو بحث ہی بعد میں اٹھتی ہے.جب پہلے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کسی institution (انسٹی ٹیوشن) کو خدا نے یہ حق عطا فر مایا ہے کہ محض عددی اکثریت کی وجہ سے وہ ایک مذہبی فیصلہ صادر کر دے.اگر الہی صحیفے یہ حق عطا کر دیں تو پھر یہ بحث چلتی ہے.لیکن تنزل کے طور پر میں ایک قدم پیچھے جاتا ہوں اور سوال کرنے والے دوست سے ہی یہ عرض کرتا ہوں کہ ہماری ساری کوششیں تو رائیگاں گئی ہیں، ہم تو بار بار مطالبے کر چکے مختلف ممالک سے اس بارہ میں احتجاج ہو چکے کہ خدا کے لئے اس کا روائی کو شائع کرو.وہ کارروائی اگر واقعہ جماعت کے لئے اتنی damaging تھی، اگر ہمارے جواب اتنے بودے اور بے معنی تھے تو اس کی تشہیر کر دتا کہ رہی سہی.احمدیت بھی مٹ جائے.وہ احمدیت جو جبر اور تشدد سے نہیں مٹ سکی تھی ، وہ لازما دلائل سے مٹ جائے گی.کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے:.وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةِ (الانفال:42) جو دلیل کی بنا پر زندہ ہے، وہ زندہ رہتا ہے.اور جو دلیل کی بنا پر مر جائے، اس کو کوئی بچا نہیں سکتا ، وہ لاز م مر جایا کرتا ہے.پس ان دلائل کو جو آپ کے وکلاء اور علماء نے پیش کئے ہیں، ان کو شائع کریں.وہ کہاں ہیں؟ کیوں بند پڑے ہیں؟ دلائل کے انبار کو باہر نکالیں اور ساری دنیا میں اس کی تشہیر کریں.آخر اگر آپ نے اتنا بڑا مار کہ مارا ہے تو اس کی رپورٹ کو شائع کیوں نہیں کرتے؟" مطبوع روزنامه الفضل (20 مارچ 1984ء) | 381
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء تمام دنیا کے احمدیوں کو لازما مبلغ بننا پڑے گا خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۂ ختم السجدہ کی آیت کریمہ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا:.(آیت : 34) ”دنیا میں ایسے جتنے بھی لوگ ہیں، جو کسی مطلوب کی طرف بلانے والے ہوا کرتے ہیں، خدا تعالیٰ کے نزدیک ان میں سے سب سے زیادہ پیاری، سب سے زیادہ مستحسن اور سب سے زیادہ قابل تعریف آواز اس بلانے والے کی ہے، جو اپنے رب کی طرف بلائے.لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کچھ شرطیں بھی مقرر فرما دیں.پہلی شرط یہ رکھی کہ وہ بلانے والا اپنے رب کی طرف بلا رہا ہو اور اس کا عمل اس کے قول کی پوری تصدیق کرتا ہو کہ وہ اپنے رب ہی کی طرف بلا رہا ہے، اپنی نفسانی خواہشات کی طرف یا شیطانی خیالات کی طرف نہیں بلا رہا اور عمل صالح اس کے قول کو حسین بنا رہا ہو.کیونکہ قول کا حسن عمل کے قابل نفرت ہونے کے ساتھ زائل ہو جایا کرتا ہے.بلانے والا خواہ کتنے ہی خوبصورت مقصود اور مطلوب کی طرف بلائے ، اگر اس کا عمل مکر وہ ہو تو اس کے قول کا حسن بھی جاتا رہتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے عمل صالح کی شرط ساتھ لگا دی اور اس کے ساتھ ایک اور شرط بھی لگادی.فرمایا:.وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ساتھ ہی پھر یہ دعویٰ بھی کرے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں.کیونکہ اگر خدا کی طرف بلانے والا ہو اور بظاہر عمل صالح بھی رکھتا ہو لیکن اگر وہ اسلام کی طرف دعوت نہیں دیتا اور خود کو مسلمانوں میں سے قرار بھی نہیں دیتا تو یہ تیسری شرط باطل ہو جائے گی اور قول حسن کو بھی ساتھ ہی باطل کر دے گی.غرض ہر وہ شخص، جسے اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک حسین داعی الی اللہ کا کردار ادا کرنا ہے اور ہر وہ شخص جو یہ چاہتا ہے کہ 383
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم جب میں بلاؤں تو خدا کے پیار کی نظریں مجھ پر پڑیں اور میرا قول حسین ہو جائے ، اس کے لئے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق یہ تین شرطیں لازم ہیں.وہ بلائے اپنے رب کی طرف اپنی خواہشات کی طرف نہ بلائے، اپنے ذاتی مقاصد کی طرف نہ بلائے اور خدا کے نام پر بلا کر پس پردہ کچھ اور مقاصد نہ رکھتا ہو، خالصہ اللہ کے لئے بلا رہا ہو.مثلاً جماعت احمد یہ دنیا کو خدا کی طرف بلا رہی ہے.اگر کسی جگہ اس دعوت الی اللہ کا مقصد یہ ہے کہ ہماری تعداد بڑھ جائے اور ہم دنیا وی غلبہ حاصل کر لیں تو یہ اللہ کی طرف بلانا نہیں رہے گا.ہماری دعوت محض اللہ کے لئے ہے.اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ اللہ کے سوا کوئی اور مقصود اس میں شامل نہ کرے تا کہ یہ بات اس دعوی کو گندا نہ کر دے.نہ کوئی ذات، اس کا مقصود ہو اور نہ کوئی جماعت ، نہ کوئی اور اللہ اس کا مقصود ہو اور نہ کوئی خواہش.وہ خالصہ اللہ کی طرف بلا رہا ہو اور اس کا عمل صالح اس بات کی تصدیق کرے کہ ہاں اپنے رب ہی کی طرف بلا رہا ہے.عمل صالح کیا ہے؟ اس سلسلہ میں رب کی طرف بلانے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک سودے کا اعلان فرمایا ہے اور اس نسبت سے عمل صالح کا خلاصہ اس سودے کے بیان کے اندر پیش فرما دیا گیا.فرمایا: إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (سورة التوبة : 111) کہ وہ لوگ، جو میرے ہو گئے ، جو میری طرف بلانے والے لوگ ہیں، جو خالصہ مجھ سے ایک سودا کر چکے ہیں ، ان کا سودا یہ ہے کہ اِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ خدا نے ان سے ان کے نفوس بھی خرید لئے ہیں اور ان کے اموال بھی خرید لئے ہیں.بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ اور اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ انہیں جنت عطا فرمائے گا.اس آیت کے کئی بطن ہیں.اس لئے اس کی مختلف تفاسیر کی جاسکتی ہیں اور مختلف تو جیہات پیش کی جاسکتی ہیں.لیکن اس موقع پر میں خصوصیت کے ساتھ اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے یہ آیت پڑھ رہا ہوں کہ نفوس اور اموال دونوں اس سودے کا لازمی حصہ ہیں.نہ محض نفوس اس سودے کی شرط کو پورا 384
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء کریں گے، نہ محض اموال اس سودے کی شرط کو پورا کریں گے.پس ایسے لوگ ، جو عمل صالح کے دعویدار ہوں، اگر ان دونوں چیزوں میں سے ایک کی بھی کمی آگئی تو ان کے عمل صالح میں نقص پڑ جائے گا اور اسی نسبت سے ان کی دعوت الی اللہ میں بھی نقص پیدا ہو جائے گا.جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ تمام دنیا کی جماعتوں میں، خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں یا کسی سیاست سے تعلق رکھتی ہوں، ایک نمایاں امتیاز کے ساتھ پیش پیش ہے.جہاں تک نفوس کی قربانی کا تعلق ہے، بلاشبہ اس پہلو سے بھی جماعت احمد یہ دنیا کی دوسری جماعتوں سے آگے ہے.اگر چہ دوسری جماعتوں کی قربانی کے معیار مختلف ہیں لیکن ہماری قربانی کے معیاران سے بالکل مختلف اور بلند تر ہیں اور اتنے بلند ہیں کہ ان کی قربانی کے معیار کے مقابل پر ہماری قربانی کے معیار کو وہی نسبت ہے، جو زمین کو آسمان سے ہوسکتی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر مومن سے سودا کیا ہے.وہ ایک جماعت کے چند لنفوس پر راضی نہیں ہوتا، چند بلانے والوں پر راضی نہیں ہے بلکہ مسلمان کی تعریف میں اس بات کو داخل فرما دیا کہ اگر تم مسلمان ہو تو تمہیں لازماً خدا کی طرف بلانا پڑے گا اور تمہیں اپنے اسلام کو چھپانے کی اجازت نہیں دی جائے گی.اگر تم اسلام کو چھپا کر خدا کی طرف بلاؤ گے تو خدا کے نزدیک تمہارا یہ قول قول حسن نہیں رہے گا.پس اسلام کی قربانی کا معیار تو اتنا بلند اور اتنا وسیع ہے کہ ایک فرد بشر میں جو اپنے آپ کو ان لوگوں میں داخل کرنا چاہے، جن کا قول خدا کے نزدیک حسین ہو جایا کرتا ہے، اسے قربانی کے دونوں معیار پر پورا اتر نا چاہیئے.یعنی مالی قربانی کے لحاظ سے بھی عمل صالح ہو اور نفس کی قربانی کے لحاظ سے بھی عمل صالح ہو.اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہر مسلمان کے لئے نفس کی قربانی لازمی ہے اور دعوت الی اللہ بھی لازمی ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان اپنے دوسرے کاموں میں مشغول اور اپنی زندگی کی بقا کی جدو جہد میں مبتلا ہوتے ہوئے اپنا سارا نفس کس طرح خدا کے حضور پیش کر سکتا ہے؟ تو اس سلسلہ میں قرآن کریم نے مختلف مواقع پر مختلف قسم کے گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کچھ سابقون ہیں، کچھ درمیانے درجہ کے لوگ ہیں، کچھ نسبتا پیچھے رہنے والے لوگ ہیں.کچھ تیز قدموں سے چلنے والے لوگ ہیں، کچھ درمیانے درجہ کے لوگ ہیں، کچھ نسبتا آہستہ چلنے والے لوگ ہیں.غرض قرآن کریم نے مختلف قسم کے انسان اور ان کی قربانی کا ذکر کر کے یہ باور کرا دیا ہے کہ ہر نفس کو کسی نہ کسی رنگ میں یہ بہر حال پیش کرتی ہو گی.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو اپنا سارانفس جماعت کے سامنے پیش کر کے دعوت الی اللہ کرتے ہیں اور 385
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اپنے وقت کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتے.وہ کہتے ہیں کہ ہمارا جو کچھ بھی ہے، وہ خدا کا ہے.ہماری زندگی کا ہرلمحہ دین کے لئے قربان ہے.اب جس طرح چاہو ، کام لو.جس طرح چاہو، خدمت لو.ہمارا اپنا کچھ نہیں رہا، سب کچھ خدا کے لئے وقف ہے.ان میں سے اکثر اپنے اس دعوئی پر پورے اترتے ہیں اور اپنے عمل صالح کے ساتھ اپنے اس دعوئی کی تصدیق کر دیتے ہیں.اور کچھ وہ لوگ ہیں، جو کچھ نہ کچھ وقت دے سکتے ہیں.دنیا کے دھندوں میں لازماً قوم نے مبتلا ہونا ہے.اجتماعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھی دنیا کمانا ضروری ہے.لیکن مقصودان کا بھی خدمت دین ہوتی ہے.چنانچہ جو اموال بڑی محنت کے ساتھ کماتے ہیں، وہ خدا کے حضور پیش کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ بھی اپنے دعوی کو سچا کر کے دکھاتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نفوس بھی میرے حضور پیش کرنے ضروری ہیں.بلکہ نفوس کا پہلے ذکر فرماتا ہے.اس لئے ہر وہ احمدی، جو مالی قربانی تو کر رہا ہے لیکن وقت کی قربانی پیش نہیں کر رہا، وہ قرآن کریم کی اس آیت کی رو سے ایک لنگڑ ا مسلمان ہے.اس کی دو ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ نہیں ہے.اور لنگڑا ہونے کے نتیجہ میں انسان اپنی اجتماعی قوت کے سود میں حصہ کے قابل بھی نہیں رہا کرتا.یعنی دو ٹانگوں میں سے صرف ایک ٹانگ کے کٹنے کے نتیجہ میں انسان کی قوت آدمی نہیں ہو جاتی بلکہ بعض اوقات سوواں حصہ بھی نہیں رہتی.اس لئے مسلمان دعویدار آدھا مسلمان رہ جائے ، یہ تو ایک بہت بڑا نقص ہے.پس اگر پہلے ضرورت تھی کہ نفوس کی قربانی میں جماعت بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھے تو آج اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہمارے جتنے مبلغ میدان میں کام کر رہے تھے، آج اس کا سوواں حصہ بھی نہیں کر رہے.جبکہ ضرورتیں پھیل چکی ہیں اور ہمارے Contact Points بہت بڑھ گئے ہیں.اس زمانہ میں ہندوستان ایک ایسا ملک تھا ، جہاں جماعت احمدیہ کا رابطہ اور واسطہ زیادہ تر اسلام کے دشمنوں کے ساتھ تھا.لیکن اب تو دنیا میں شاید گنتی کے چند ملک ایسے ہوں گے، جہاں جماعت قائم نہ ہو.ورنہ کوئی ایسی جگہ آپ کو نہیں ملے گی، جہاں جماعت کا رابطہ کسی نہ کسی رنگ میں نہ رہا ہو یا اس وقت موجود نہ ہو.مثلاً روس ایک ملک ہے.باوجود اس کے کہ وہاں تبلیغ کی اجازت نہیں، وہاں کے ایک رسالہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جماعت احمد یہ روس کے علاقوں میں بھی موجود ہے.اگر چہ ان کا اپنے مرکز سے رابطہ نہیں.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں ہر جگہ احمدی پائے جاتے ہیں تو اسی کی بنا پر کہتا ہوں.یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کا وجود چین میں بھی ہے، روس میں بھی ہے، مشرقی یورپ میں بھی ہے.بلکہ مشرقی یورپ کے ایک ملک کے متعلق ایک 386
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد شم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء مصدقہ اطلاع یہ ملی ہے کہ وہاں اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے جتنے مسلمان ہیں، ان میں ایک بھاری اکثریت جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب Contact Point وسیع ہو گیا ہو تو خدمت کی ضرورت اور بھی زیادہ پیش آیا کرتی ہے.لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جتنا احمدی مبلغ تھا اور دعوت الی اللہ کیا کرتا تھا، آج اس سے کم ہے.اس وقت ہر احمدی مبلغ تھا، ہر شخص دعوت الی اللہ کر رہا تھا.ایک زمیندار کھیتوں میں ہل چلاتا تھا تو وہ بھی تبلیغ کر رہا ہوتا تھا.ایک تاجر جب لفافوں میں سودا ڈال کر گاہکوں کے ہاتھ فروخت کر رہا ہوتا تھا تو اس وقت بھی وہ تبلیغ کر رہا ہوتا تھا.ایک حکیم جب دوائیوں کی پڑیاں بنا کر کسی کو دیتا تھا یا ڈاک میں پارسل بھیجتا تھا تو وہ ساتھ تبلیغ کر رہا ہوتا تھا.کوئی احمدی کسی بھی حیثیت کا ہو، خواہ وہ وکیل ہو یا ڈاکٹر ہو، خواہ وہ تاجر ہو یا کوئی اور پیشہ ور ہو، خواہ نجار ہو یا لوہار ہو، ہر حیثیت میں وہ پہلے مبلغ تھا اور اس کی دوسری حیثیت بعد میں تھی.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے لیکچر لدھیانہ میں یہ بات واضح فرمائی کہ جہاں تک بیعتوں کے اعداد و شار کا تعلق ہے، دو ہزار، چار ہزار، چھ ہزار تک بیعتیں موصول ہوتی ہیں.اگر مبلغ نہیں تھے تو یہ بیعتیں کہاں سے آ رہی تھیں ؟ اس زمانہ میں ہر ماہ چھ چھ ہزار بیعتیں عام روٹین (Routine) یعنی معمول کے مطابق ہوا کرتی تھیں.جس کا مطلب ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بہتر ہزار بیعتیں سالانہ ہوا کرتی تھیں.علاوہ ازیں بعض ایسے اوقات بھی آتے تھے، جب غیر معمولی شان کے ساتھ کوئی نشان ظاہر ہوتا تھا تو اچانک بیعتوں کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ ہو جایا کرتا تھا.بعض اوقات ڈا کیا پھیرے مارتے مارتے تھک جاتا تھا.بیعتوں کا ایک تھیلا اٹھا کر لایا ، پھر دوسرا تھیلا لے جانے چلا جاتا تھا، پھر وہ تیسر الینے چلا جایا کرتا تھا.یہ برکت اس وجہ سے تھی کہ نفوس کی قربانی میں بھی برکت تھی.خدا تعالیٰ کی برکتیں ہماری قربانیوں کی برکتوں کے ساتھ ایک نسبت رکھتی ہیں.یہ درست ہے کہ ہماری قربانیوں سے سینکڑوں گنازیادہ اللہ کے فضل ہوتے ہیں مگر وہ نسبت پھر بھی قائم ہے.اگر ایک اور سو کی نسبت آپ کہیں تو جب دس قربانیاں نازل کریں گے تو ہزار فضل نازل ہوں گے.یہ تو نہیں کہ ایک قربانی کے بعد سو اور دس کے بعد بھی سوہی رہیں.اس لئے فضلوں کو بڑھانے کی بھی تو کچھ ادا ئیں ہوا کرتی ہیں، وہ ادا ئیں اختیار کرنی پڑیں گی.اس وقت تمام دنیا میں جو عیسائی مبلغ کام کر رہے ہیں، ان کی تعداد دو لاکھ پچھتر ہزار کے قریب ہے.اور یہ وہ عیسائی مبلغ ہیں، جو عام پادری نہیں، جو چہ چوں میں عبادت کی خاطر مقرر ہوتے ہیں.بلکہ یہ 387
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم خالصہ تبلیغی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد تبلیغ کے سوا اور کچھ نہیں.اگر صرف ان کی تنخواہوں ہی کا حساب لگا کر آپ دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے.اس کے علاوہ بے شمار دوسرے خرچ ہیں، جو ہر ایک پادری کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.مثلاً لٹریچر کی اشاعت ہے، دولت کی مفت تقسیم ہے، لوگوں کو سامان مہیا کرنا، ان کو ہر قسم کے لالچ پیش کرنا، ہسپتالوں ، سکولوں اور کالجوں کے ذریعہ ان کی مدد کرنا وغیرہ.یہ اتنی بھاری رقم بن جاتی ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.صرف ان کی تنخواہوں پر ہر سال ارب ہا ارب روپیہ خرچ ہورہا ہے.جبکہ ہم بے چارے تو غریب لوگ ہیں.ہمارے پاس سالانہ بجٹ چند کروڑ میں ہے.اگر یہ سارا روپیہ بھی ہم مبلغوں پر خرچ کر دیں اور ایک آنہ بھی دوسری جگہ خرچ نہ کریں، تب بھی تعداد میں ہزاروں مبلغوں سے آگے نہیں بڑھ سکتے.اور وہ دولاکھ پچھتر ہزار کے لگ بھگ ہیں.اعداد و شمار دینے والے مختلف لوگ ہیں.کچھ فرق سے اعداد و شمار دیتے ہیں لیکن جو میں نے جائزہ لیا ہے، اس کے مطابق تقریباً پونے تین لاکھ باقاعدہ عیسائی مبلغ اس وقت دنیا میں کام کر رہے ہیں اور اگر اس کے ساتھ مارمن چرچ کے پچاس ہزار سالانہ واقفین زندگی کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد سوا تین لاکھ بن جاتی ہے.اب سوال یہ ہے کہ سواتین لاکھ کے مقابل پر ہمارے سو، دو سویا تین سو مبلغ کس طرح نبرد آزما ہوسکیں گے؟ اس کا علاج قرآن کریم نے بیان کر دیا ہے اور یہ کیسا آسان اور کیسا پاکیزہ علاج ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم بلا ؤ اور عمل صالح کے تقاضے پورے کرو اور عمل صالح کے تقاضوں میں یہ بات داخل کر دی ہے کہ انسان نفوس کی قربانی بھی دے اور اموال کی قربانی بھی دے بلکہ مسلمان کی شرط میں یہ داخل کر دیا کہ دعوت الی اللہ کرنے والا ہو.اس سے زیادہ کھول کر اور کیا بات کی جاسکتی ہے؟ گویا یہ آیت یہ کہ رہی ہے کہ تم اسلام کا بے شک دعوی کر وہ تمہیں کوئی نہیں روکتا.لیکن اگر ایسے اسلام کا دعوی کرو گے، جو خدا کی نظروں میں حسین اسلام ہے بلکہ سب حسنوں سے زیادہ حسن رکھنے والا اسلام ہے.تو پھر دعوت الی اللہ لازمی اور پہلی شرط ہے.پھر دوسری شرط عمل صالح ہے.پھر اجازت ہے کہ اب کہو کہ ہاں میں مسلمان ہوں.نہ صرف اجازت ہے کہ بلکہ فرض ہے کہ پھر یہ کہو کہ میں مسلمان ہوں.غرض مبلغین کی کمی کا علاج ہمیں بتا دیا.اگر ہر احمدی اپنے آپ کو اول طور پر مبلغ بنالے اور نفس کی قربانی میں سب سے زیادہ اہمیت دعوت الی اللہ کو دے تو آپ کے مبلغوں کی تعداد ساری دنیا کے عیسائی مبلغوں کی تعداد سے بڑھ جاتی ہے.بعض جگہ ایک ایک ملک میں آپ کے مبلغوں کی تعداد ساری دنیا کے عیسائی مبلغوں کی تعداد سے بڑھ جاتی ہے.اور یہ خیال کر لینا کہ مبلغ ہونے کے لئے با قاعدہ جامعہ سے پاس ہونا ضروری ہے، بڑی ہی بیوقوفی اور نادانی ہے.انسان اپنی حیثیت کو نہ پہچاننے کے نتیجہ میں یہ بات سوچتا ہے.388
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء امر واقعہ یہ ہے کہ ہر مسلمان، جو میدان جہاد میں داخل ہونا چاہے، اس کا سب سے بڑا ہتھیار دعائیں ہیں.انسان جب اللہ کی طرف بلاتا ہے تو مدد بھی تو اللہ ہی سے مانگتا ہے.اسی لئے وہ ہر روز پانچ وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں إيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پڑھتا ہے کہ اے خدا! میں تیری ہی عبادت کروں گا.وعدہ کر چکا ہوں ، نیت یہی ہے لیکن اب مدد بھی میں نے تجھ سے مانگنی ہے.تو مددگار ہوگا تو حق ادا ہوں گے.پس دعوت الی اللہ کا سب سے بڑا ہتھیار تو اللہ کی مدد ہے اور دعا ہے.دعا کے ذریعہ ایک مسلمان جب میدان جہاد میں داخل ہوتا ہے تو ساری دنیا کی طاقتیں اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.اس لئے تمام دنیا کے احمدیوں کو میں اس اعلان کے ذریعہ متنبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ پہلے مبلغ نہیں تھے تو آج کے بعد ان کو لازماً مبلغ بننا پڑے گا.اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے بہت وسیع تقاضے ہیں.اور یہ بہت بڑا بوجھ ہے، جو جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے.عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا کوئی معمولی کام نہیں.لیکن عیسائی دنیا کے اندر جو مزید بگاڑ پیدا ہو چکے ہیں، وہ اتنے خطرناک اور خوفناک ہیں کہ ان کی اصلاح کا کام ایک بہت بڑا منصوبہ چاہتا ہے.اور بے انتہا ذہنی اور عملی قو تیں اس پر صرف کرنی پڑیں گی.یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت عیسائیت کے نتیجہ میں دنیا میں بہت گند پھیل چکا ہے.کئی قسم کی روحانی بیماریاں جڑیں پکڑ چکی ہیں.بعض بیماریاں کینسر کی شک اختیار کر چکی ہیں.دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ چاہے تو اصلاح فرما دے.لیکن عملاً جہاں تک انسان غور کرتا ہے، انسان کے بس میں ان کی اصلاح نظر نہیں آتی.اسی طرح دہریت نے دنیا میں جتنا فروغ حاصل کیا ہے، اس کی اصل ذمہ داری بھی عیسائیت پر عائد ہوتی ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے:.كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ اِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا شکل (الكيف : 06) بعض نادان سمجھتے نہیں ، وہ کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا کیا نقصان ہے؟ اگر ہم نے ایک شریک بنالیا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم نے اپنا ہی نقصان کیا.آخر خدا کیوں عیسائیت کے اتنا پیچھے پڑ گیا ہے؟ کیوں بار بار یہ کہتا ہے کہ تین خدا بنا لئے اور ظلم ہو گیا اور اندھیر نگری ہو گئی ؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ آج کی تاریخ اور انسانی انحطاط کا تجزیہ کریں تو اکثر بیماریوں کی ذمہ داری عیسائیت پر عائد ہوگی.وہ سر چشمہ بنتی ہے، 389
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ششم آج کی ساری بیماریوں کا.یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ اگر نظر یہ نا معقول ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں بالآخر جس طرف وہ نظر یہ بلانے والا ہے، اس پر بھی یقین اٹھ جاتا ہے.چنانچہ عیسائیت نے دہریت کو جنم دیا ہے، عیسائیت نے اشتراکیت کو جنم دیا ہے، عیسائیت نے بے حیائی کی ہر تحریک کو جنم دیا ہے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کا عقیدہ بنیادی طور پر انسانی عقل سے ٹکرا رہا تھا.وہ قابل قبول نہیں تھا.ظاہر ہے، جب خدا کی طرف بلانے والے ایک نا معقول بات کی طرف بلانے لگیں تو خدا کی ہستی کا اعتبار اٹھ جاتا ہے.چنانچہ اس وقت عیسائی دنیا کے وسیع جائزہ سے جو اعداد و شمار مشہور امریکی رسالہ "Time" میں شائع ہوئے ہیں، ان سے یہ معلوم ہوا ہے کہ عیسائی کہلانے والوں میں سے صرف 22 فیصد ایسے ہیں، جو یہ دعویٰ کرتے ہے کہ وہ خدا کی ہستی کے قائل ہیں.باقی عیسائی کہلانے والے خدا کی ہستی کے قائل ہی نہیں.اور جو عیسائیت کے قائل ہیں، ان کی بیماریاں بھی بے شمار ہیں.پس نا معقول نظریہ کے نتیجہ میں دنیا دکھوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اور ایسے خطرناک فتنے پھوٹتے ہیں، جو انسان کے لئے بڑی وسیع تباہی کا موجب بنتے ہیں.یہ اس تجزیہ کا وقت تو نہیں لیکن اشارۃ آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ اگر آپ غور کریں اور تدبر سے کام لیں تو آج کے زمانہ کی اکثر بیماریاں اور مصیبتیں عیسائیت سے پھوٹتی ہوئی نظر آئیں گی.اس لئے عیسائیت کے خلاف سب سے زیادہ جہاد کی ضرورت ہے.اور اس جہاد میں ہر احمدی کو لازماً شامل ہونا پڑے گا.مجھے یقین ہے، اگر ہر.احمدی اس جہاد میں شامل ہو جائے تو ہماری تعداد ان کے مبلغین سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے.تبلیغ کے نتیجہ میں علم خود بخود آ جاتا ہے.پہلے علم حاصل کر کے تبلیغ کرنا بھی اچھی بات ہے لیکن جس شخص کو یہ توفیق نہ ہو اور اکثر کونہیں ہوتی ، ان کو انتظار کئے بغیر میدان میں کودنا پڑے گا.اس سلسلہ میں دعا اصل چیز ہے.میں ایک لمبا عرصہ تبلیغ کے کام سے منسلک رہا ہوں.میرا یہ تجربہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی بڑے سے بڑے عالم کی کوششیں ثمر آور نہیں ہوتیں، جب تک وہ بنیادی طور پر متقی اور دعا گو نہ ہو.اور بڑے بڑے ان پڑھ میں نے دیکھے ہیں، جن کو دین کے لحاظ سے کوئی وسیع علم نہیں تھا لیکن ان کی باتوں میں نیکی اور تقویٰ تھا، ان کو دعاؤں کی عادت تھی ، وہ بڑے کامیاب مبلغ ثابت ہوئے.اس لئے جو اصل ہتھیار ہے، وہ تو ہر ایک احمدی کو مہیا ہے.پھر وہ باقی چیزوں کا انتظار کیوں کرتا ہے؟ ہاں، جب تبلیغ کے میدان میں وہ کو دیں گے تو رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ خود ان کی تربیت فرمائے گا، ان کے ذہنوں کو جلا بخشے گا، ان کے علم میں برکت ڈال دے گا.یہ ایسے ہی ہے، جیسے ایک عام انسان جب کوئی کام شروع کرتا ہے تو قانون قدرت خود بخود انتظام کرتا ہے کہ اس کا کام پہلے سے بہتر ہوتا چلا جائے.مثلاً بچہ ہے، وہ پہلے چلنا 390
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء سیکھتا ہے تو پھر دوڑنے لگتا ہے.دوڑتا ہے تو پھر بڑے بڑے عظیم الشان کارنامے سرانجام دینے لگ جاتا ہے.ہر ورزش کے نتیجہ میں (سوائے اس کے کہ انسانی طاقت سے بڑھ کر کی جائے) پہلے سے بڑھ کر طاقت پیدا ہوتی ہے.اسی طرح آپ تبلیغ کے میدان میں جائیں گے تو خدا تعالیٰ خود آپ کو مضمون سکھائے گا.اور عیسائیت تو اتنی بودی ہے، اتنی بے معنی ہے، اتنی بے حقیقت ہے، اس کا نظریہ اتنا لچر ہے کہ کسی احمدی کے لئے عیسائیت کے مقابل پر کسی تیاری کی کیا ضرورت ہے؟ جس کے عقیدہ میں عیسائی خدا کے بیٹے کی موت داخل ہوگئی ہو، جس کی گھٹی میں یہ عقیدہ پڑا ہو کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو چکے ہیں، جس کو ماں نے دودھ میں یہ بات پلائی ہو کہ کوئی فانی انسان دنیا میں کبھی ابدی زندگی نہیں پاسکتا.صرف ایک خدا ہے، جو ابدی زندگی پانے والا ہے، تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں.تو ایسے احمدی کو عیسائیت کے سامنے جانے سے کیا عار ہوسکتی ہے یا اس کو کیا تر در پیدا ہو سکتا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ عیسائی احمد یوں سے بھاگتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے اور اپنی صداقت کے ثبوت میں یہ بات غیروں کے سامنے پیش فرمائی ہے کہ دیکھو! خدا تعالیٰ نے مجھے کسر صلیب کے لئے بھیجا تھا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک عام احمدی، جو میری طرف منسوب ہوتا ہے، جب وہ عیسائی پادریوں کے سامنے جاتا ہے تو ان کو جب یہ پتہ لگتا ہے کہ یہ شخص احمدی ہے تو وہ خود بخود بھاگ جاتے ہیں، مزید کسی بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی.ہم نے بچپن میں خود تجربہ کر کے دیکھا ہے.باوجود اس کے کہ ہم معمولی بچے تھے اور علم کے لحاظ سے بھی عملا کورے تھے ، پھر بھی بعض عیسائی پادری ہمارے مقابل پر آنے سے کترا گئے.مجھے یاد ہے، ایک دفعہ ڈلہوزی میں ایک چرچ میں ہم چلے گئے ، اس وقت ہم سکولوں میں پڑھتے تھے.وہاں ایک دیسی پادری صاحب تھے، ان سے ہم نے گفتگو شروع کر دی.کچھ دیر کے بعد ان کا ایک بڑا پادری آگیا.مجھے پتہ نہیں عیسائیت کے کسی فرقہ سے وہ تعلق رکھتا تھا؟ لیکن یورپین تھا.اس نے جب ہماری باتیں سنیں تو کچھ دیر کے بعد اس کو ہماری باتوں سے اندازہ ہو گیا کہ ہم احمدی ہیں.اس نے آگے بڑھ کر ہم سے پوچھا: بچو! تم کون ہو؟ کیا تم جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہو؟ ہم نے کہا: ہاں، ہم احمدی ہیں.اس نے کہا: اچھا! پھر تم سے ہمیں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے.یہ کہہ کر اس نے ہمیں رخصت کر دیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جود عولی فرمایا تھا، اس کو تو احمدی بچوں نے بھی سچا ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.اس لئے بالغ نظر احمدی، جو دنیا کی تعلیم سے بھی مزین ہیں اور ساری دنیا میں پھیلے پڑے ہیں، ان کے لئے عیسائیت کے سامنے جانے میں کون سا خطرہ ہے؟ وہ پہلے سے ہی علمی لحاظ سے ہتھیار 391
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم بند ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم کلام نے احمدی کے ذہن میں ایک ایسی روشنی پیدا کردی ہے اور ایک ایسی جلا بخش دی ہے کہ جس نے عیسائیت کا مطالعہ نہ بھی کیا ہو ، وہ بھی عیسائی پادریوں سے ٹکر لینے کا اہل ہے.اس لئے کسی انتظار کی ضرورت نہیں ہے.صرف ایک ذہنی تبدیلی کی ضرورت ہے.آج کے بعد اگر ہر احمدی یہ سوچ لے کہ وہ جس ملک میں اور جہاں بھی ہے، وہ لا زما د نیا کمائے گا کیونکہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے اور دین کی خاطر کچھ پیش کرنے کے لئے اسے دنیا کمانی چاہئے.لیکن وہ ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھے کہ اس کا مال کمانے کا مقصد بھی اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہوگا اور اس کی زندگی کے ہر لمحہ کا جواز اس بات میں مضمر ہو گا کہ وہ خدا کی خاطر جیتا ہے اور خدا کی طرف بلانے کے لئے جیتا ہے.اس عہد کے ساتھ جب وہ کام شروع کرے گا تو آپ دیکھیں گے، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا میں کس کثرت کے ساتھ اور کس تیزی کے ساتھ وہ انقلاب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا، جس کی ہم تمنا لئے بیٹھے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ انقلاب آپ کی راہ دیکھ رہا ہے، آپ کے خلوص کی راہ دیکھ رہا ہے، آپ کی بلند ہمتی کی راہ دیکھ رہا ہے، آپ کے قلب کے عزم صمیم کی راہ دیکھ رہا ہے.ان چیزوں کے بغیر جب آپ اس انقلاب کے پیچھے جاتے ہیں تو یہ انقلاب زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آپ سے دور بھاگ رہا ہوتا ہے.آج اگر دنیا کا ہر حمدی یہ عزم کرلے کہ اس نے اپنے نفس کی قربانی داعی الی اللہ کے رنگ میں خدا کے حضور پیش کرنی ہے اور خدا کی طرف بلانا ہے تو وہ انقلاب، جو ہم سے دور بھاگتا ہوا نظر آرہا ہے، آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک مقام پر ٹھہر گیا ہے، پھر وہ پلٹا ہے، پھر وہ آپ سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آپ کی طرف جھپٹتا ہوا نظر آئے گا.تب کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ ہم انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں یا انقلاب ہماری طرف بڑھ رہا ہے.اس وقت کیفیت یہ ہو جائے گی کہ جیسے ماں دیر کے بعد بچھڑے ہوئے بچہ کو دیکھتی ہے اور بچہ دیر کے بعد بچھڑی ہوئی ماں کو دیکھتا ہے کوئی نہیں کہہ سکتا کون کس کی طرف زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ جھپٹا تھا، دل سے ایک بے اختیار شیخ نکلتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کی طرف لپکتے ہیں.اسی طرح اگر ہر احمدی اپنے دل میں عزم صمیم پیدا کر لے کہ وہ خدا کی خاطر زندہ ہے اور خدا کی خاطر زندہ رہے گا اور خدا کی طرف بلاتا رہے گا تو پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ عظیم الشان انقلاب، جو ہم نے دنیا میں برپا کرنا ہے، وہ ہم سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہماری طرف جھپٹے گا.وہ ہم سے دور جاتا ہوا دکھائی نہیں دے گا.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ داعی الی اللہ بننے کا عزم کریں اور دعا کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.زمانہ بڑی تیزی کے ساتھ ہلاکتوں کی طرف بڑھ رہا ہے.اس کے قدم روکنے ہیں تو ہم نے روکنے 392
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1983ء ہیں، اس کی نجات کے سامان پیدا کرنے ہیں تو خدا کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ ہم نے پیدا کرنے ہیں.اسے خدا کے قدموں میں حاضر کرنا ہے تو ہم نے حاضر کرنا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.اس اعلان کے تتمہ کے طور پر یہ بات بھی میں احباب کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ دعاؤں کے خط لکھتے ہیں، وہ اگر اپنے خطوں میں اس بات کا ذکر بھی کر دیا کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے داعی الی اللہ بن چکے ہیں اور انہوں نے دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیا ہے تو ان کے اس خط کے ساتھ میرے لئے یہ بہترین نذرانہ ہوگا.اور امر واقعہ یہ ہے کہ نذرانہ کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ کسی کے ساتھ تعلق محبت کے نتیجہ میں دل میں بے اختیار دعا پیدا ہو.اور جتنا تعلق بڑھتا ہے، اتنی زیادہ دعا دل سے اٹھتی ہے.پس جہاں تک میرے دل کا تعلق ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سے زیادہ پیارا اور اس سے زیادہ عزیز نذرانہ میرے لئے اور کوئی نہیں ہوگا کہ احمدی خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا مجھے دعا کے ساتھ یہ لکھے کہ میں خدا کے فضل کے ساتھ ان لوگوں میں داخل ہو گیا ہوں، جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں، جن کا عمل صالح ہے اور جو خدا کے فرمان کے مطابق یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں.جب یہ بات ساتھ لکھی ہوئی ملے گی اور اس کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعد میں بیعتیں بھی آنی شروع ہوں گی تو پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح میرے دل سے دعائیں پھوٹ پھوٹ کر نکلیں گی.میرے دل ہی سے نہیں ، ہر احمدی کے دل سے ان لوگوں کے لئے پھوٹ پھوٹ کر دعا میں نکلیں گی.اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے نذرانے دینے والا بنا دے اور مجھے ایسے نذرانے قبول کر کے ان کا حق ادا کرنے والا بنا دے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 26 اپریل 1983ء) 393
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم ارشاد فرمودہ 02 فروری 1983ء ضرورت ہے کہ ہر احمدی اسلام کا مبلغ بنے ارشاد فرمودہ 02 فروری 1983ء احباب جماعت کو عیسائیت کے متعصبانہ اور مخالفانہ رویہ اور سوچ کے متعلق آگاہی کے لئے اور ایسے زہر آلو دلٹر پچر کے جوابات کی تیاری کے سلسلے میں ان کے فرائض کی یاد دہانی کے لئے مجلس عرفان میں مسٹر جیکب نیڈل مین کی تصنیف The New Religion کا خلاصہ پیش ہونے پر حضور نے فرمایا:.یہ کتاب جس کا خلاصہ پڑھا گیا ہے، اس کے بارے میں کوئی دوست کوئی سوال کرنا چاہیں یا اظہار خیال کرنا چاہیں، دونوں باتوں کی اجازت ہے.اس پر ایک دوست نے کہا کہ اس کتاب میں ایسی باتوں کا ذکر ہے، جو آج ہم نے پہلی بارسنی ہیں.جماعت احمد یہ امریکہ میں ایک لمبے عرصہ سے اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے لیکن مصنف نے احمدیت کا ذکر نہیں کیا.اس کی کیا وجہ ہے؟ حضور نے فرمایا:.یہ جتنی تحریکات ہیں، امریکہ کے لئے یہ تماشے ہیں.اس کتاب میں دراصل تماشوں کا ذکر ہے، مذہب کا ذکر نہیں ہے.جماعت احمد یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مذہبی تحریک ہے، تماشا نہیں ہے.مغربی دنیا پر اس وقت جو مایوسی کا عالم طاری ہے، یہ سارے اس پر شکار کرنے بیٹھے ہوئے ہیں.جس طرح مردہ جسم کے اوپر جراثیم آجاتے ہیں، گدھیں اور اس قسم کے دوسرے جانور آ جاتے ہیں، اسی طرح ساری دنیا سے امریکہ میں ان تحریکات کی لاش پر جو گد ھیں وغیرہ اکٹھی ہو رہی ہیں، اس کتاب میں ان کا نقشہ کھینچا گیا ہے.احمدیت تو اللہ کے فضل سے گدھ نہیں ہے.یہ تو اپنا تازہ شکار کرنے والی چیز ہے.مصنف اگر ہمیں ان تحریکات میں شمار کرتا ہے تو ہم اس کو احتجاج کا خط لکھتے کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ دنیا کو اس وقت شدید پیاس ہے.اس کتاب کا خلاصہ اس نقطۂ نظر سے سننے والا تھا.حق کی تلاش کی اتنی شدید پیاس ہے کہ ہر د ہر یہ یا ہر پاگل اٹھ کر جب ایک دعوی کر بیٹھتا ہے تو دنیا اس کی طرف دوڑنے لگ جاتی ہے.اور وہ دنیا کے لحاظ سے اپنے مذہب کو آسان کرتا جاتا ہے.تاکہ لوگوں کے لئے اس کو ماننا مشکل نہ ہو.احمدیت تو اسلام کے ایک ذرہ سے بھی منحرف نہیں ہو سکتی.دنیا مانے یا نہ مانے یہ الگ بحث ہے.395
ارشاد فرموده 02 فروری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس جن لوگوں کا اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے، وہ آزادلوگ ہیں.ان میں کچھ پاگل ہیں، کچھ دھر یہ ہیں، جو دنیا کو پاگل بنارہے ہیں.دنیا ان لوگوں کے دام میں بھی آرہی ہے.یہاں تک کہ امریکہ جیسے آزاداور تعلیم یافتہ ممالک بھی ان سے محفوظ نہیں.یہ ان کی دنیا سے مایوسی کی شدت کا اظہار ہے.وہ Scape یعنی پناہ چاہتے ہیں اور دوڑنا چاہتے ہیں کہ کسی طرف ان کو نجات کا رستہ ملے.ان کو نہ عیسائیت میں نجات ملی ، نہ مغربی تہذیب میں نجات ملی.حقیقی نجات کی راہ اسلام دکھاتا ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ ہر احمدی اسلام کا مبلغ ہے.اسی لئے میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ اب وہ وقت نہیں رہا کہ دو سویا چارسو مبلغ کی بات ہو.لکھوکھا مبلغ ہمیں میدان میں جھونکنے پڑیں گے.تا کہ دنیا کو اسلام میں داخل ہونے کے لئے چھوٹے چھوٹے دروازے مل جائیں.امریکہ کی جماعت کو بھی چاہیے کہ وہ کثرت کے ساتھ رابطہ پیدا کرے اور لوگوں کو یہ بتائے کہ نجات اور امن کا اصل دروازہ یہ ہے.اسی وجہ سے ان کتابوں کے خلاصے سنائے جارہے ہیں تاکہ ہمارے یہاں کے لوگوں کو جہاں نئی تحریکوں کا علم ہو کہ وہ کس کس طرح لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں؟ وہاں انہیں اپنی صداقت پر مزید اطمینان حاصل ہو.اس کتاب کا مصنف ماشاء اللہ بڑا ذہین ہے.اس نے آخر پر بہت اچھا خلاصہ نکالا ہے.اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس نے کسی مذہب کی طرف اس کے دشمنوں کی بات منسوب نہیں کی.بلکہ خودان میں ڈوب کر جس طرح وہ اپنے آپ کو پیش کرنا چاہتے تھے، اسی طرح پیش کیا ہے.ان میں سے بعض مذاہب کا میں نے خود بھی مطالعہ کیا ہے.عموماً مغربی محققین اپنا ذاتی عناد اور دشمنیاں شامل کر لیا کرتے ہیں اور دوسرے مذاہب کی غلط تصویریں پیش کرتے ہیں.لیکن یہ مصنف بڑا منصف مزاج لگتا ہے.اس نے کسی مذہب پر بھی اس کے ماننے والوں کی مرضی کے خلاف بات نہیں ٹھونسی.قرآن کریم پر اس نے جو تبصرہ کیا ہے، ماشاء اللہ بہت ہی پیارا ہے.اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ذہین آدمی نے دیانتداری سے مطالعہ کیا ہے.اس لئے بشیر رفیق صاحب کو چاہیے کہ اس کو Appreciation یعنی تعریف کا خط لکھیں.اور اس کو کہیں کہ تم احمدیت کا سنجیدگی سے مطالعہ کرو ہمیں ایسے ذہین اور دیانتداری سے بات کہنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے.اس کے بعد مشہور جریدہ اکانومسٹ کے نامہ نگار گاڈ فرے جیسن کی کتاب Militant Islam کا خلاصہ پیش ہونے پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:." کتاب کا خلاصہ آپ نے سن لیا ہے.اس کتاب سے متعلق دوست کچھ کہنا چاہیں یا پوچھنا چاہیں تو ان کو اجازت ہے.396
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ارشاد فرمودہ 02 فروری 1983ء اس پر ایک دوست نے عرض کیا کہ مصنف نے کہا ہے کہ اسلام اور عیسائیت کی آخری جنگ مکتب میں ہوگی.یہ بات اس نے ٹھیک کہی ہے.حضور نے پوچھا: کس طرح ؟ انہوں نے عرض کیا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے، ہم قلم سے جہاد کریں گے.اور ہمارے خیال میں اس کا اشارہ اسی طرف تھا.فرمایا: ”ہاں، اگر یہ اشارہ ہے تو پھر آپ کی بات ٹھیک ہے.لیکن یہ پتہ نہیں کہ اس کا ادھر اشارہ ہے بھی یا نہیں؟“ فرمایا: ” اس کتاب سے ایک بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ جماعت احمدیہ کے سوا اس وقت کوئی جماعت ایسی نہیں ہے، جس کو ایک دفاعی قوت کے طور پر باہر کی دنیا محسوس کر رہی ہو.مصنف نے ہر طرف کیڑے نکالے ہیں لیکن جماعت احمدیہ میں اس کو ایک صرف کیر انظر آیا ہے کہ چونکہ یہ عوام الناس میں مقبول نہیں ہو رہی، اسی لئے اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں.ادھر جہاں تک خطرات کا تعلق ہے، صرف جماعت احمدیہ کا ذکر کیا ہے.اور کہا ہے، یہ بے حدقوت ہے، جو عیسائیت سے ٹکرا رہی ہے اور باہر کی دنیا اس کو محسوس کر رہی ہے.اسلام کی اس دفاعی قوت کا محسوس ہونا تو بڑی واضح بات ہے.اس میں کوئی شک نہیں، مصنف کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ابھی ساری جماعت نہیں ٹکرائی.جماعت احمدیہ کا عشر عشیر ٹکرایا ہے.جس وقت اسلام کے دفاع میں سارے احمدی جاگ کر شیر کی طرح پڑیں گے، تب سمجھ میں آئے گی کہ احمدیت کس چیز کا نام ہے؟ ہماری بہت بڑی تعداد ہے، جو دنیا میں سوئے ہوئے شیروں کی طرح پڑی ہوئی ہے اور اس نے براہ راست عیسائیت کے ساتھ فکر نہیں لی.یہ تو صرف چند مبلغین یا ان کے ساتھی ہیں، جنہوں نے اس وقت دنیا میں قیامت ڈھائی ہوئی ہے.ایک تو مصنف کے اندازہ کی یہ غلطی ہے، جو انشاء اللہ زیادہ دیر نہیں رہے گی.دنیا اب بڑی جلدی محسوس کرے گی.دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ نوشتہ تقدیر ہے کہ عوام الناس احمدیت کو نظر انداز کرتے چلے جائیں.لیکن جن مایوسیوں کا وہ ذکر کر رہا ہے، وہی مایوسیاں عوام الناس کو مجبور کریں گی کہ احمد بیت کی طرف جائیں اور احمدیت میں پناہ ڈھونڈیں.اور خدا کے فضل سے اس کی تیاری ہوتی ہوئی ہمیں نظر آرہی ہے، صرف ہر احمدی کا فعال ہونا باقی ہے.جب آپ اسلام کی خاطر مر مٹنے کے لئے تیار ہو جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ چند دنوں کے اندر اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا اور مصنف کے دونوں اندازے غلط ثابت ہو جائیں گے.پھر انشاء اللہ اہل مغرب کے ساتھ اصل ٹکر ہوگی اور اسلام کی عیسائیت کے ساتھ جنگ کا مزہ آئے گا“.مطبوعه روزنامه الفضل 18 جون 1983ء) 397
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ارشاد فرموده 09 فروری 1983ء تمام دنیا کے اہل علم احمدی اپنے آپ کو علمی مجاہدے کے لئے تیار کریں ارشاد فرموده 09 فروری 1983ء بر موقع مجلس عرفان حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.میں نے اعلان کیا تھا کہ ساری دنیا میں عیسائیت کی طرف سے اسلام پر جو حملے ہورہے ہیں، ان کے دفاع کے لئے دوست اپنے آپ کو پیش کریں.لیکن اس طرف ابھی پوری توجہ نہیں ہوئی.ہمارے بہت سے ایسے دوست ہیں، جو علمی ذوق رکھتے ہیں اور انگریزی دان بھی ہیں، ان کی ضرورت ہے.اس سلسلے میں وہ بہت بڑی خدمت گھر بیٹھ کر سکتے ہیں.مقصد یہ ہے کہ جہاں جہاں اسلام پر حملے ہوئے ہیں، ان کا جواب دیا جائے.مخالفین نے یا تو مسلمانوں کی کتابوں سے غلط استنباط کر کے اسلام پر حملے کئے ہیں یا بعض مسلمان علماء کی غلطی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، ان کی کتابوں کے حوالے دے کر.ان کو گو یا قرآن اور حدیث کی باتوں کے طور پر پیش کیا ہے.ان سب کا تسلی بخش جواب دینا، ہمارا فرض ہے.بہر حال بہت سے تحقیقی کام کرنے والے پڑے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے تنہا اپنی زندگی میں دیگر مذاہب پر جتنی تحقیق کی تھی ، جماعت اس پر جتنا اضافہ آج تک کرسکی ہے، وہ آپ کے سامنے ہے.بہت کم اضافہ ہوا ہے.اکثر و بیشتر ہم انہی باتوں سے استفادہ کر رہے ہیں.جب کہ اعتراضات کی دنیا پھیل چکی ہے.اس لئے یہ سکیم جاری کی گئی تھی کہ اعتراضات کی پھیلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو پوار کرنے کے لئے جماعت کے علمی دفاع کے دائرے بھی ساتھ ساتھ پھیلنے چاہئیں.اور جہاں بھی دشمن بڑھتا ہے، ہمارا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ طریق کے مطابق آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کریں.اب ہمیں نئے اصول تو دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہے.روحانی جنگ کی حکمت عملی بڑی واضح ہو چکی ہے.اسلام کی ہر دفاعی جنگ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اصولی روشنی ڈال چکے ہیں اور عمل کر کے بھی دکھا چکے ہیں.پس احمدی علماء کو اس میدان میں پوری طرح آگے بڑھنا چاہیے.لیکن میں نے جائزہ لیا ہے کہ دشمن کا حملہ ہمارے دفاع سے آگے نکل چکا ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو راہ دکھائی تھی، وہ ہمیں آگے بڑھانے کے لئے دکھائی تھی.راہ کو بند نہیں کیا تھا.ان دو چیزوں میں بڑا فرق ہے.399
ارشاد فرموده 09 فروری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم جب میں کہتا ہوں کہ علماء آگے آئیں تو میری مراد سلسلہ کے وہ علماء نہیں، جو اس وقت خدمت پر ہمہ تن مامور ہیں.ان کا وقت تو اب ان کا رہ ہی نہیں.ان کو تو جماعت جو کام دیتی ہے، اسے وہ کر رہے ہیں.ان کے سپرد پہلے ہی اتنے کام ہیں کہ ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہی ہر طرف پھیل جائیں اور ہر کام وہی سرانجام دیں ، تکلیف مالا يطاق ہے.علماء سے میری مراد ساری دنیا میں پھیلے ہوئے اہل علم احمدی ہیں.ان میں بہت سے ایسے ہیں، جن کا وقت ضائع ہو رہا ہے.ان کو اس میدان میں آگے بڑھنا چاہیے اور مرکز کا ہاتھ بٹانا چاہیے.ادارہ تحریک جدید میں وکالت تصنیف کے تابع با قاعدہ ایک سیل (CELL) قائم کیا جا چکا ہے.وکالت کو ان اہل علم احمدیوں کے نام چاہئیں.شعبہ تصنیف جو مواد اکٹھا کر رہا ہے، اسے وہ ان علماء میں تقسیم کرے گا.یہ تقسیم بطور مصنف، بطور کتاب اور بطور زبان کے ہوگی.مثلاً فرانسیسی زبان یا سپینش زبان میں اسلام پر اعتراضات.اسی طرح ساری دنیا میں ہر قسم کے اعتراضات کے جواب دینے کے لئے مختلف موضوعات مختلف زبانیں اور مختلف مصنفین تقسیم کئے جائیں گے.یہ کام اتنا بڑا ہے کہ اگر تحریک جدید کا ڈیپارٹمنٹ سارے کا سارا یہ کام کر رہا ہو، تب جا کر بمشکل اس سے نبرد آزما ہوسکتا ہے.اس کام کی وسعت کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ فرانسیسی مستشرقین نے اسلام پر جو گندا چھالا ہے اور فرانسیسی عوام پر جو برا اثر ڈال رہے ہیں، وہ ابھی تک ہمارے علم میں نہیں ہے.پھر جرمنوں نے اپنی زبان میں لکھا ہوا ہے.روسیوں نے لکھا ہے.اسی طرح GREEKS یونانیوں نے اسلام کے خلاف لکھا ہے.اور ہر ایک قوم نے اپنے اپنے علاقے میں خاص قسم کا ہر پھیلایا ہوا ہے.ان سب اعتراضات کو اکٹھا کرنا ، ان کا جواب لکھنا اور پھر ان زبانوں میں جواب لکھنا یا ان میں ترجمہ کروانا، یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے.اس کے علاوہ اسلام پر جو بالواسطہ حملے کئے گئے ہیں، وہ بے انتہا ہیں.آپ یورپ کے کسی بھی مصنف کو لے لیں، اس کی تصنیف اسلام پر حملے سے خالی نہیں ہوگی.ہسٹورین (HISTORIAN) ہے تو اس نے بھی اسلام پر حملہ کیا ہے.سائیکالوجسٹ (PSYCHOLOGIST) ہے تو اس نے بھی حملہ کیا ہے.اگر وہ PHYSICIST ہے تو اس نے بھی جہاں داؤنگا، اسلام پر حملہ کیا ہے.ڈاکٹر ہیں تو وہ بھی حملے سے باز نہیں آئے.فرائڈ جیسے لوگوں نے اپنے ذہنی گند کو اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات پر اچھالنے کی کوشش کی ہے کہ اس کو پڑھا نہیں جاتا.اور پھر خود اپنے رسولوں کو بھی معاف نہیں کیا.اس کام کے لئے پہلے ہر قسم کے لٹریچر کا مطالعہ کرنا ہوگا تا کہ معلوم ہو سکے کہ کہاں کہاں یہ گند پھیلا ہوا ہے.پھر اسے متعلقہ علماء کے سپرد کرنا ہو گا، جو اس کا 400
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد شم ارشاد فرموده 09 فروری 1983ء جواب دے سکیں.یعنی صاحب علم لوگوں کا، جو کسی خاص فن کے ماہر ہیں، دینی علم کے ماہرین کے ساتھ مل کر ایساد فارع اور جواب تیار کرنا، جو اس فن کے غیر مسلم ماہرین کو بھی قابل قبول ہوا اور دینی نقطہ نگاہ سے بھی کامل ہو.اس کے لئے بعض جگہ جوڑے بنانے پڑیں گے.مثلاً آنحضور کے (نعوذ باللہ ) (EPILEPSY) مرگی میں مبتلا ہونے پر جب دشمن حملہ کرتا ہے تو دینی عالم کا کام ہے کہ وہ ان کی روایات کا جائزہ لے اور غلط اور جھوٹی روایات جو لکھنے والے نے اکٹھی کی ہیں، ان پر حملہ کرے.اور مخالف اسلام ڈاکٹر، جو یتی بحث اٹھاتا ہے تو اس کا جواب دینا، احمدی ڈاکٹر کا کام ہے.جو اسی کی زبان میں طبتی بحث میں اسے شکست دے.اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو بہت زیادہ کام پھیلا ہوا ہے.او پس میں تمام دنیا کے اہل علم احمدیوں سے کہتا ہوں کہ جس حد تک ممکن ہو، اپنے وقت کو بچا کر اپنے آپ کو علمی مجاہدے کے لئے تیار کریں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانے میں علمی میدان میں بکثرت اسلامی مجاہدین کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.مطبوعه روزنامه الفضل 15 فروری 1983ء) 401
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد ششم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون اپنی زندگیوں کو اسوہ حسنہ کے حسین سانچے میں ڈھالیں پیغام بر موقع جلسه سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ میرے عزیز بھائیو اور بہنو! هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے معلوم کر کے انتہائی مسرت ہوئی ہے کہ آپ 14 سے 16 فروری 83 ء تک اپنی سالانہ کا نفرنس منعقد کر رہے ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس موقع پر اپنے افضال آپ پر نازل فرمائے اور ان تمام برکات وحسنات کا مورد بنائے ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موقع کے لئے اپنے رب کریم سے طلب کی ہیں.میں اس موقع پر آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم وہ لوگ ہیں ، جن کے کندھوں پر اس نے اپنے آخری اور کامل پیغام یعنی مقدس بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری اور جامع ترین پیغام کی اکناف عالم میں تبلیغ واشاعت کی ذمہ داری ڈالی ہے.اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے ہم جتنی زیادہ کوشش کریں گے، اتنی ہی زیادہ برکات ہمارے اور ہماری نسلوں کے شامل حال ہوں گی.لیکن اس سلسلہ میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام احمدیوں کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ اپنے محبوب ترین آقاسید و مولی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے حسین سانچے میں اپنی زندگیوں کو ڈھالیں.میرے بھائیو اور بہنو! آیئے اس عہد کی تجدید کریں کہ ہم سب اسلام کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں گے اور اسلام کی تبلیغ واشاعت کریں گے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے.403
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون تحریک جدید - ایک الہبی تحریک آئیے ! ہم اپنے رب کریم سے دعا کریں کہ وہ ہمارے خیالات اور عمل کو صحیح سمت عطا کرے اور وہ سب کچھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، جس کی بجاطور پر ہم سے توقع کی گئی ہے.(آمین) اپنے ملک کے تمام احمدیوں کو میر اسلام پہنچائیں اور سیرالیون کے تمام شہریوں تک میری نیک تمنائیں پہنچا دیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنے افضال کی بارش نازل فرمائے.آمین.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعه روزنامه الفضل 102 اپریل 1983 ء ) 404
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1983ء خوفناک وقت سے بیچنے کے لئے ضروری ہے کہ تبلیغ کے کام کو تیز کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1983ء غرض اس طریق پر اگر آپ داعی الی اللہ بنیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر گھر میں انشاء اللہ ایک انقلاب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ ہر داعی الی اللہ کو میٹھے پھل عطا فر مائے گا.اس لئے صبر کریں اور دعائیں کریں اور خدا کی راہ میں دکھ اٹھانے کے باوجو د راضی رہیں اور اپنی شکائتیں لوگوں سے نہ کریں بلکہ اللہ سے کریں وہ کافی ہے.نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ اس سے بہتر کوئی اور مولیٰ نہیں ہے.اس کا سہارا آپ کو مل جائے تو کسی اور سہارے کی آپ کو ضرورت نہیں ہے.اور پھر وہ آپ کا بہترین وکیل ہے.آپ کے سب جھگڑے وہ اپنے فضل سے طے کروائے گا اور وہ سب سے زیادہ تو کل کے لائق ذات ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ساری جماعت جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، بہترین رنگ میں داعی الی اللہ بن جائے.کیونکہ زمانہ کے کتنے تیور بگڑ چکے ہیں، خوفناک ہلاکتیں منہ پھاڑے تیزی کے ساتھ دنیا کی طرف بڑھ رہی ہیں.یہ وقت گزر گیا تو پھر یہ تو میں آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گی.آج نفسیاتی لحاظ سے اس سے بہتر اور کوئی وقت نہیں ہے کہ آپ ان کو حق کی طرف بلائیں اور ان کے لئے امن کا انتظام کریں.ورنہ اگر عالمی مصیبتیں ٹوٹیں تو پیشتر اس کے کہ ہم دنیا کو ہدایت دے سکیں، کہیں بدوں کے ساتھ نیک بھی پس کر نہ رہ جائیں.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس عذاب سے ڈرو، جس میں بدوں کے ساتھ نیک بھی پھر پس جایا کرتے ہیں.یہ بھی قرآن کریم کا کمال ہے کہ کوئی بھی صورت حال ہو، اس کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے، جسے قرآن کریم بیان نہ کرتا ہو.نہ چھوٹی بات چھوڑتا ہے، نہ بڑی بات چھوڑتا ہے.ایسے استثنائی وقت بھی آجایا کرتے ہیں ، جب قومیں غفلت کے نتیجہ میں دنیا کو ہلاک ہونے دیتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر بیچ میں تمہارا بھی حصہ ہو گا.عذاب تو ان کو مل رہا ہو گا لیکن آٹے کے ساتھ گھن پستا ہے.یہاں تو یہ فرمارہا ہے کہ گھن کے ساتھ آٹا پس جائے گا.کیونکہ اکثریت تو گھن کی ہے.405
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس ایسے خوفناک وقت سے بچنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے تبلیغ کے کام کو تیز کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آپ کو حوصلہ دے، صبر دے، دعاؤں کی توفیق دے، اپنے نشانوں کے ساتھ آپ پر دن کو بھی ظاہر ہو اور رات کو بھی.آپ کو یہ محسوس ہو کہ ایک زندہ خدا ہمارے ساتھ ہے، ایک طاقتور ہستی کے سایہ میں بڑھتا ہوا انسان خوف نہیں کھایا کرتا بلکہ دلیر ہو جاتا ہے.کہتے ہیں، گھر میں بلی بھی شیر ہوتی ہے.آپ کا مقام تو اس سے بہت بلند ہے.خدا کی حفاظت گھر کی حفاظت سے کہیں زیادہ قوی اور مضبوط حفاظت ہے.یہ مقام اپنے دل میں پیدا کریں، اپنی عظمت کا احساس پیدا کریں ، پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی داعی الی اللہ کسی سال پھل سے محروم رہے.ایک ایک، دو دو، تین تین، چار چار پھل آپ کو لگیں گے.جس طرح خدا تعالیٰ کے فرشتے مختلف پروں کے ہوتے ہیں، اسی طرح داعی الی اللہ بھی مختلف طاقتوں کے ہوا کرتے ہیں.کوئی دو دو، کوئی چار چار پروں والا ہوتا ہے اور کوئی آٹھ آٹھ پروں والا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جس کو چاہتا ہے، پھر اس سے بھی بڑھا دیتا ہے.خدا تعالیٰ آپ کی طاقتوں کے پروں میں اضافہ کرتا چلا جائے اور ہمیشہ اس کے فضل کے سایہ تلے آپ آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 15 مئی 1983 ء ) | 406
تحریک جدید- ایک الہی تحریک ارشادات فرموده 23 فروری 1983ء جماعت اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے حیرت انگیز قربانیاں کر رہی ہے ارشادات فرمودہ 23 فروری 1983ء بر موقع مجلس عرفان جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد کیا ہے؟ وہ کون سے مقاصد ہیں، جن کے پیش نظر یہ جماعت قائم کی گئی ہے؟ حضور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:.جماعت احمدیہ کا وہی مقصد ہے، جو امام مہدی کے آنے کا ہے.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں جب امت دینی لحاظ سے بھی خراب ہو جائے گی اور فلاں فلاں علامتیں ظاہر ہوں گی تو اس وقت مسیح ابن مریم آکر ان کی اصلاح کریں گے.اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی وہ زمانہ آچکا ہے؟“ حضور نے احادیث نبویہ کی روشنی میں ثابت کیا کہ یہ وہی زمانہ ہے، جس میں مسیح موعود اور امام مہدی نے آنا تھا اور امت کے مختلف اختلافات کو مٹا کر مذہبی اور نظریاتی لحاظ سے وحدت پیدا کرنی تھی.چنانچہ جماعت احمدیہ کا قیام بھی اس مقصد کے پیش نظر عمل میں آیا.حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اپنے ماننے والوں کے نظریات کی درستی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ان کو جانی اور مالی قربانی کے رستے پر ڈال کر ان کی ترقیات کے سامان پیدا کئے.قربانی سے قو میں بنتی اور ترقی کرتی ہیں.چنانچہ جماعت احمد یہ نظریاتی اور عملی دونوں لحاظ سے اس بات کو ثابت کر چکی ہے کہ وہ سنت الہیہ پر قائم ہے اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے حیرت انگیز قربانیوں کا مظاہرہ کر رہی ہے.یہ نوجوان کہنے لگا، میری عمر تو 25 سال ہے، میں اپنے والد صاحب سے سنتا آیا ہوں کہ ناصر آباد خاصے عرصہ سے آباد ہے.لیکن ہمیں کسی نے بھی اس رنگ میں جماعت احمدیہ کے متعلق نہیں بتایا، جس رنگ میں آپ نے بتایا ہے.) اس پر حضرت صاحب نے فرمایا:.آپ کا شکوہ جائز اور درست ہے.دراصل جماعت کی یہی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ یوں تو وہ ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے لیکن اپنے گھروں کو اور اپنے ہمسایوں کو نظر انداز کر رہی ہے.یہ ان کی بہت بڑی غفلت ہے.ان کو احمدیت کی شکل میں بہت بڑی نعمت ملی ہے.انہوں نے سچائی دیکھی، 407
ارشادات فرمودہ 23 فروری 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم امام وقت کو قبول کرنے کی سعادت پائی، ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں لیکن اتنی توفیق نہیں ملتی کہ اپنے ہمسایوں کو بلا کر کہیں کہ آؤ تم بھی اس میں شامل ہو جاؤ.یہی بات حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ یہاں فرمائی تھی.آپ نے فرمایا تھا: دیکھو! میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اگر تم نے اس زمین کا حق ادا نہ کیا، جس کا تم نمک کھاتے ہو تو تمہیں شدید نقصان پہنچے گا.پس مقامی احباب کا یہ پہلا حق ہے کہ ان کی خدمت کی جائے ، ان سے بھائی چارہ پیدا کیا جائے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کی جائے“.ایک دوست نے عرض کیا کہ نظارت اصلاح و ارشاد پہلے سال میں ایک، دو دفعہ مربیان کو بھیج کر ہماری اوور ہالنگ کرا دیتی تھی ، اب ایسا نہیں ہوتا.اس لئے کچھ ستی پیدا ہو گئی ہے.حضرت صاحب نے فرمایا:.مبلغین اور مریبان کے ذریعہ میں نے جماعت کو اور بال نہیں کرانا.یہ سائیکل کی دکان نہیں، یہ الہی سلسلہ ہے.اس میں آپ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے تو ساتھ چل سکیں گے.مربی پر انحصار کرتے ہوئے تربیت کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیتے ہیں اور خود اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو جاتے ہیں.کہتے ہیں: ہم اس بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے ، اس لئے مریبان کے سپرد کر دیتے ہیں کہ تم یہ دین سنبھالو، ہم دنیا سنبھال لیتے ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دنیا کمائیں اور دینی مسائل کو سلجھانے یا اصلاح و ارشاد کی مہم چلانے کی بات ہو تو یہ مربیان جانیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اچھے لوگ ہیں، اچھے تاجر ہیں، اچھے وکیل یا سائنسدان ہیں، ہمیں تربیت اولاد کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام مربیان کا ہے، وہ کریں.ایسے لوگوں کی نسلیں دین سے خالی ہو جاتی ہیں.جن کے اوپر یہ بوجھ ڈالے جاتے ہیں ، وہ بھی پھر آہستہ آہستہ خراب ہونے لگ جاتے ہیں.دوستوں کو دین کا علم نہیں رہتا، وہ مربیان سے پوچھتے ہیں، یہ من مانے معنی کرتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح باقی امور میں بگاڑ شروع ہو جاتے ہیں، اسی طرح یہاں بھی بگاڑ شروع ہو جائیں گے.اس لئے میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے.ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ دینی لحاظ سے بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو.ہر گھر کا فرض ہے کہ وہ دین سیکھے اور اپنے بچوں کو سکھائے اور اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت کرئے.مطبوع روزنامه الفضل 16 فروری 1984ء) 408
تحریک جدید- ایک الہی تحریک.اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1983ء آپ ہی ہیں، جنہوں نے دنیا کو موت کے بدلہ زندگی بخشنی ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1983ء پس میں تمام احباب جماعت کو توجہ دلا تا ہوں کہ تمام دنیا کے انسان کو خدائے ھی و قیوم کی طرف بلائیں.مشرق کو بھی بلائیں اور مغرب کو بھی بلائیں.کالے کو بھی بلائیں اور گورے کو بھی بلائیں.عیسائی کو بھی بلائیں اور ہندو کو بھی.بھٹکے ہوئے لوگوں کو بھی بلائیں اور دہریوں کو بھی.مشرقی بلاک کو بھی بلانا ، آج آپ کے سپرد کیا گیا اور مغربی بلاک کو بلانا بھی آج آپ کے ذمہ لگایا گیا ہے.یہ آپ ہی ہیں.جنہوں نے دنیا کوموت کے بدلہ زندگی بخشتی ہے.اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو مرنے والے مر جائیں گے اور اندھیروں میں بھٹکنے والے ہمیشہ بھٹکتے رہیں گے.اس لئے اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! اور اے دین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالو!! اب اس خیال کو چھوڑ دو کہ تم کیا کرتے ہواور تمہارے ذمہ کیا کام لگائے گئے ہیں؟ تم میں سے ہر ایک مبلغ ہے.اور ہر ایک خدا کے حضور اس بات کا جواب دہ ہوگا.تمہارا کوئی بھی پیشہ ہو، کوئی بھی تمہارا کام ہو، دنیا کے کسی خطہ میں تم بس رہے ہو، کسی قوم سے تمہارا تعلق ہو، تمہارا اولین فرض یہ ہے کہ دنیا کو حمد مصطفی " کے رب کی طرف بلا ؤ اور ان کے اندھیروں کو نور میں بدل دو اور ان کی موت کو زندگی بخش دو.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.مطبوعه روزنامه الفضل 23 مئی 1983ء) 409
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ششم وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 مارچ 1983ء احمدیت دنیا کو ہلاکتوں سے بچانے کا آخری ذریعہ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 04 مارچ 1983ء...ایسے خطرناک دور میں جب کہ انسان کی تقدیر لامذہبی طاقتوں کے ہاتھ میں جاچکی ہو، احمدیت پر کیا ذمہ داریاں آتی ہیں؟ یہ ہیں وہ باتیں، جو ہر احمدی کو سوچنی چاہئیں.امر واقعہ یہ ہے کہ احمدیت دنیا کو ہلاکتوں سے بچانے کا آخری ذریعہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے.آخری ذریعہ ان معنوں میں کہ اگر یہ بھی ناکام ہو جائے تو دنیا نے لاز م ہلاک ہونا ہے.پھر اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں.اور آخری ذریعہ ان معنوں میں کہ اگر یہ کامیاب ہو جائے تو پھر اللہ تعالی کے فضل سے دنیا کو اس قسم کی ہلاکت کا کوئی خوف ایک لمبے عرصے تک دامن گیر نہیں ہو گا.یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے.اسی لئے میں بار بار یہ اعلان کر رہا ہوں کہ داعی الی اللہ بنو، دنیا کو نجات کی طرف بلاؤ، دنیا کو اپنے رب کی طرف بلاؤ.ورنہ اگر بے خدا انسان کے ہاتھ میں دوسروں کی تقدیر چلی جائے تو ان کی ہلاکت یقینی ہو جاتی ہے.اور اس وقت امر واقعہ یہی ہے.نہ صرف یہ کہ بے خدا انسان کے ہاتھ میں لوگوں کی تقدیر گئی ہوئی ہے بلکہ اس کے ہاتھ اتنے مضبوط ہو چکے ہیں اور ان میں ایسے 66 خوفناک ہتھیار آچکے ہیں کہ وہ جب بھی چاہے، دنیا کے تمام انسانوں کو ہلاک کر سکتا ہے..ان حالات میں ایک احمدی پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان کو پورے شعور ، پوری بیداری اور بیدار مغزی کے ساتھ ادا کرنا پڑے گا.کیونکہ اب وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے.جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمد یہ ساری دنیا میں فعال ہو جائے اور تیزی کے ساتھ بنی نوع انسان کو ہدایت کی طرف بلانا شروع کر دے اور دنیا واقعہ متاثر ہو کر اسلام کی طرف آنے لگے تو اللہ تعالیٰ یقین ہلاکت اور تباہی کی مہلت کو بڑھا دے گا.کیونکہ وہ عذاب میں جلدی نہیں کرتا.اس کی رحمت ہر دوسری صفت پر غالب ہے.اس لئے اگر آپ دنیا کو تبلیغ کریں اور پھر وہ اس تبلیغ کو سنے اور اسلام کی طرف مائل ہونے لگے تو آپ بلا خوف و خطر اور بغیر کسی اشتباہ کے اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ خطرات لاز مائل جائیں گے.اور انسان کو خدا یہ موقع نہیں دے گا کہ وہ ہلاکت کے اتنے اہم اور خطرناک فیصلے کر سکے.اگر ایسا نہ کیا گیا اور آپ نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کیا تو پھراس دنیا کے بیچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے.411
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 04 مارچ 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم یہ خیال کہ اسلام نے بہر حال غالب آتا ہے، اس لئے لازما ساری دنیا بچائی جائے گی.اس کے اندر تھوڑی سی Fallacy، غلط نہی اور ایک ابہام سا پایا جاتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ خدا کے انبیاء غالب تو ضرور آیا کرتے ہیں لیکن وہ غلبہ دو قسم کا ہوا کرتا ہے.ایک غلبہ تو یہ ہے کہ ساری قوم یا اس کی اکثریت ایمان لے آئے.اور ایک ایسا غلبہ کہ ایمان نہ لانے کے نتیجہ میں انسان کی اکثریت کو ہلاک کر دیا جائے.یہ دونوں قسم کے غلبے ہمیں قرآن کریم میں ملتے ہیں.اس لئے اس بارے میں بہر حال کوئی شک نہیں کہ اسلام لازما غالب آئے گا.مگر اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو لوگ اسلام کے پیغام کو نہ سنیں ، ان کو بہت وسیع پیمانے پر ہلاک کر دیا جائے اور پھر جو بچے ، ان پر اسلام غالب آجائے.اب سوال یہ ہے کہ ہم نے کونسا غلبہ اپنے لئے پسند کرنا ہے؟ وہ غلبہ ، جو کم سے کم ہلاکت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے یاوہ غلبہ جو زیادہ سے زیادہ ہلاکت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے.اگر تو حضرت نوح علیہ السلام ہمارے امام ہوتے تو ہمیں دوسرے غلبے کا حاصل ہونا، کوئی بعید نہیں تھا اور کوئی تعجب کی بات نہیں تھی.مگر ہمارے - امام تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جن کے غلبے میں کم سے کم جانی اتلاف اور نقصان ہوا ہے" پس ہمارے لئے جو مقصد حیات مقرر کیا گیا ہے، وہ تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ کے نمونے پر انقلاب برپا کرنا ہے.اس لئے ہلاکتوں والا انقلاب تو ہمیں سجتا نہیں.ہمیں تو ایسا انقلاب چاہئے ، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں بر پا کر کے دکھایا.اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ہم غیر معمولی بیداری کے ساتھ کام کریں.جو وقت کھو یا جا چکا ہے، وہ تو اب واپس نہیں آسکتا.لیکن جو وقت ہمیں میسر ہے، اس کا ایک ایک لمحہ ہمیں بہترین رنگ میں استعمال کرنا ہوگا.اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہر احمدی بلا استثنا مبلغ بنے.وہ وقت گزر گیا کہ جب چند مبلغین پر انحصار کیا جاتا تھا.اب تو بچوں کو بھی مبلغ بنا پڑے گا ، بوڑھوں کو بھی مبلغ بننا پڑے گا.یہاں تک کہ بستر پر لیٹے ہوئے بیماروں کو بھی مبلغ بننا پڑے گا.اور کچھ نہیں، وہ دعاؤں کے ذریعہ ہی تبلیغ کے جہاد میں شامل ہو سکتے ہیں.دن رات اللہ سے گریہ وزاری کر سکتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم چل پھر کر تبلیغ کر سکیں، اس لئے بستر پر لیٹے لیٹے تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو دلوں کو بدل دے.ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیں اور اس جذبے کے ساتھ کام شروع کر دیں تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ دنیا کی ہلاکت کی تقدیر اللہ کے فضل سے مل سکتی ہے..دنیا کے اس ہلاکت سے بچنے کے متعلق بعد میں آنے والے مؤرخین مختلف وجوہات نکالیں گے.کوئی کہے گا کہ امریکہ کے فلاں صدر نے فلاں حکمت کا کام کیا، اس لئے دنیا ہلاکت سے بچ گئی.کوئی 412
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 مارچ 1983ء یہ سوچے گا کہ روس کے صدر نے فلاں حکمت کا کام کیا یا صبر کا نمونہ دکھایا، اس لئے دنیا ہلاکت سے بچ گئی.کوئی یہ خیال کرے گا کہ اہل یورپ کو اللہ تعالیٰ نے دانش عطا فرمائی تھی اور ان کی حکمتوں کے نتیجہ میں دونوں بلاک یعنی روس اور امریکہ سمجھ گئے اور لڑائی ٹل گئی.اور بعض یہ سوچیں گے کہ شاید چین کی طاقت جو Develop ہورہی تھی اور ترقی کر رہی تھی ، اس نے ایک ایسا رول Play کیا ، ایسا کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں دنیا ہلاکت سے بچ گئی.لیکن خدا کی تقدیر جانتی ہوگی اور بعد میں آنے والا انسان بھی اس بات کی گواہی دے گا کہ دنیا کی ہلاکت صرف اس بار یک دھا گے پرلٹکی ہوئی تھی کہ وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف توجہ کرتی ہے یا نہیں؟ چنانچہ احمدی بیدار ہوئے ، ان کو بشدت اس بات کا احساس ہوا کہ آج دنیا کے ہلاک ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس امر پر ہوگا کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے اس طرف توجہ کی گریہ و زاری سے دعائیں کیں، نیک اعمال کئے اور دنیا کو خدا کی طرف بلایا اور محض اور محض اس وجہ سے دنیا ہلاکت سے بچائی گئی.یہ ہے تقدیر کا فیصلہ اور یہی درست ہوگا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے سوا اور کوئی طریق انسان کے بچنے کا نہیں ہے.بعد میں آنے والا جو ایک لمبے عرصہ کے بعد پیدا ہوگا ، وہ بھی یہی سوچے گا اور اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ حقیقت میں دنیا کی نجات احمدیت پر منحصر تھی.احمدیوں نے اپنے فرض کو کما حقہ ادا کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کو بچالیا.اس لئے میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ بار بار آپ کو تو جہ دلا رہا ہوں کہ داعی الی اللہ بننے کی کوشش کریں.داعی الی اللہ بننے کے لئے کچھ ذمہ داریاں ہیں، کچھ فرائض ہیں، کس طریق پر آپ کا میاب داعی الی اللہ بن سکتے ہیں؟ کونسی باتیں کرنی چاہئیں؟ اور کونسی نہیں کرنی چاہئیں؟ اس سلسلہ میں ، میں چند باتیں انشاء اللہ تعالیٰ اگلے خطبے میں آپ کے سامنے رکھوں گا.اس وقت صرف یہ کہہ کر خطبے کو ختم کرتا ہوں کہ جو ذمہ داری میں نے اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق آپ سب پر ڈالی ہے اور توقع رکھتا ہوں کہ ہر احمدی اس ذمہ داری کو پوری توجہ، پورے انہماک اور پورے خلوص کے ساتھ قبول کرے گا، اس کے لئے ساری جماعت کو خصوصیت سے دعا کرنی چاہئے.میری زندگی کا تجربہ ہے کہ جب بھی دعا کی طرف سے غفلت ہوئی کامیابی نہیں ہوئی اور جب بھی دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی بظاہر مشکل اور ناممکن کام بھی بن گئے.موجودہ حالات میں یہ کہنا کہ ہر احمدی مبلغ بن جائے ، اتنا مشکل نظر آ رہا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے میں ایک ناممکن بات کہہ رہا ہوں.لیکن ساتھ ہی یہ یقین بھی رکھتا ہوں کہ اگر میں نے دعاؤں میں کمی نہ کی اور اسی طرح جماعت نے بھی کوئی کمی نہ کی تو یہ بات، جو بظاہر ناممکن نظر آ رہی ہے، ضرور ممکن ہو جائے گی.اسی حقیقت کو حضرت مصلح موعود نے اپنے شعر میں یوں بیان فرمایا ہے:.413
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 مارچ 1983ء ات تحریک جدید - ایک الہی تحریک ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے مرے زور دعا دیکھو تو فلسفیو زور دعا اس کلام کی سچائی کا جماعت بار ہا مشاہدہ کر چکی ہے.اس لئے ہر احمدی بہر حال اس بات سے اپنی تبلیغ کا آغاز کر دے کہ فوری طور پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ دعا کرے اور روزانہ پانچوں وقت اس کو اپنے اوپر لازم کر لے.وہ خدا سے یہ التجا کرے کہ اے خدا! ہمیں یہ تو فیق عطا فرما کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں اور تیری نظر میں داعی الی اللہ بننے کا جو حق ہے، اس کو ادا کرنے لگ جائیں.اور اے خدا! دنیا کو بھی یہ توفیق عطا فرما کہ وہ ہماری باتوں کو سنے ، لوگوں کے دل نرم ہوں، ان کی عقلیں صاف اور سیدھی ہو جائیں اور وہ تیرے پیغام کو قبول کرنے لگیں.اس کے ساتھ یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ نے آنے والوں کو حوصلہ دے اور ان کو طاقت بخشے کہ وہ مخالفتیں برداشت کر کے بھی حق کو قبول کریں، ان کو برکتیں عطا کرے اور ان سے پیار کا سلوک فرمائے تا کہ وہ دوسروں کے لئے نیک نمونہ بنیں.پھر روزانہ بلاناغہ یہ دعائیں بھی کریں کہ اے خدا! ہر آنے والا داعی الی اللہ بنے، مبلغ احمدی بنے اور پھلجھڑی کا سا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے کہ ایک شمع روشن ہو تو وہ آگے دوسری شمع روشن کرتی چلی جائے.اگر ساری جماعت یہ دعا ئیں شروع کر دے تو دیکھتے دیکھتے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں عظیم الشان انقلاب برپا ہونے لگیں گے.پس دعا پر بہت زور دیں، دعا پر بہت زور دیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ اول بھی دعا ہے، آخر بھی دعا ہے.اگر داعی الی اللہ بنا ہے تو اللہ سے دعائیں کرنی ہوں گی.اس سے مدد مانگے بغیر کس طرح داعی الی اللہ بن جائیں گے؟ جس کی طرف بلانا چاہتے ہیں، اس سے محبت اور پیار کئے بغیر اس کی طرف کیسے بلائیں گے؟ لیکن ان امور سے متعلق مزید تفصیلات انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں آپ کے سامنے رکھوں گا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم بہت دعائیں کریں اور خلوص دل کے ساتھ کریں.اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے ، ہم ان کے نیک اثرات دیکھیں ، ہماری طبیعت میں بشاشت پیدا ہو اور مایوسی ختم ہو جائے ، دلوں میں ایک یقین اور عظمت کردار کا احساس پیدا ہو جائے.ہم جاننے لگیں کہ ہم دوسروں سے مختلف ہیں.ہم خدا والے ہیں اور خدا کی طرف یقین کے ساتھ بلانے والے ہیں.یہ وہ احساسات ہیں، جو دعا کے نتیجہ میں بیدار ہوتے ہیں اور پھر تبلیغ کامیاب ہوا کرتی ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 31 مئی 1983 ء ) 414
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 مارچ 1983ء وو احمدیت کے غلبہ کی تقدیر، ایک اہل تقدیر ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 مارچ 1983ء دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ جب سے مذہب کا آغاز ہوا ہے، اہل مذہب کی ایک ایسی تقدیر ہے، جسے آپ کبھی بھی تبدیل ہوتا نہیں دیکھیں گے.میری مراد مذاہب کے آغاز سے بھی ہے اور مذاہب کے ان ادوار سے بھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے احیاء نو کی خاطر ان میں نئے امام بھیجے.جب بھی یہ واقعات ہوئے ہیں اور جب بھی خدا کی طرف سے آنے والے نے آواز بلند کی ہے، خواہ وہ صاحب شریعت نبی تھا یا غیر شارع تابع نبی تھا، ایک واقعہ ایسا ہے، جو ضرور رونما ہوا ہے.اور وہ یہ کہ تمام دنیا نے ماننے والوں کو تباہ و برباد کرنے کی ہر کوشش کی ہے.تمام دنیا نے پورا زور لگایا ہے کہ الہی سلسلہ کو نیست و نابود کر دے اور اس ضمن میں جواز اور عدم جواز کی ساری بخشیں چھوڑ دی گئی ہیں.بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان سلسلوں کو مٹانے کے لئے جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں، وہ ساری کی ساری ناجائز ہیں.ایک بھی جائز کوشش نہیں کی گئی.کیونکہ حق کو مٹانے کے لئے کوئی وجہ جواز ہے ہی نہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلند ہونے والی آواز کو نیست و نابود کرنے کے لئے عقلاً کوئی جائز وجہ ہو ہی نہیں سکتی.جبکہ وہ آواز صرف یہ کہہ رہی ہو کہ ہم نے اللہ کی طرف سے ایک منادی کی آواز کو سنا اور انا کہہ دیا اور اب ہم تمہیں بھی اسی کی طرف بلاتے ہیں.یہ آواز اتنی معصوم اور اتنی بے ضرر ہے کہ اس کو مٹانے کے لئے کسی کے پاس کوئی جائز وجہ نہیں ہوسکتی.اس لئے طبعی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جھوٹ اور فساد اور فتنے اور تمام نا جائز ہتھیاروں کو استعمال کر کے ان سلسلوں کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے، جو ایک طرف تمام الہی سلسلوں کو لاحق ہے اور دوسری طرف ان کی سچائی کا اعلان کر رہی ہوتی ہے اور تیسری طرف اس بات کی بھی ضمانت دیتی ہے کہ ان میں صرف بچے ہی داخل ہوں گے.کیونکہ جھوٹوں کو یہ توفیق نہیں ہو سکتی کہ کسی بات کو قبول کرنے کے لئے ادنی سی بھی قربانی کریں.بڑے مرد میدان کا کام ہوتا ہے کہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے اور پھر آگے قدم بڑھائے.اس لئے وہ سلسلے جن کے ارد گرد خدا کی تقدیر آگ کی ایک دیوار کھڑی کر دیتی ہے، ان میں صرف وہی 415
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 مارچ 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک داخل ہونے کی جرات کرتے ہیں، جنہوں نے ابراہیمی صفات سے ورثہ پایا ہو.وہ ابرا تیمی صفات بات کی بھی ضامن ہوا کرتی ہیں کہ اس آگ کو گلزار بنا دیا جائے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے، جو جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی ایک اہل تقدیر کے طور پر ہمیشہ جاری رہے گی.اس جماعت میں کمزور دلوں کا کام نہیں، اس جماعت میں ان لوگوں کا کوئی کام نہیں ، جو اپنے رب پر تو کل نہیں رکھتے اور جو خدا کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لئے دل و جان سے آمادہ نہیں ہیں، اس جماعت میں تو صرف وہی لوگ آئیں گے اور وہی رہ سکتے ہیں کہ جنہوں نے داخل ہوتے وقت یہ فیصلہ کر لیا تھا یا تجدید بیعت کے وقت ذہنی طور پر ارادہ کر چکے تھے کہ ہم نے اپنی جانیں، اپنے اموال، اپنی عزتیں ، اپنی آبرو اور اپنے عزیز ترین اقرباء کو بھی اللہ کے ہاتھ پر بیچ دیا ہے.اور اب ہمارا کچھ بھی نہیں رہا.جو کچھ بظاہر ہمارا ہے، یہ اس وقت تک ہمارا ہے، جب تک خدا کی تقدیر سے بخوشی ہمارے پاس رہنے دیتی ہے.جب خدا کی تقدیر کی یہ رضا ہوگی کہ یہ ہمارے پاس نہ رہے تو ہماری رضا بھی یہی ہوگی کہ یہ ہمارے پاس نہ رہے.یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس : 63) جو لوگ سب کچھ پہلے ہی دے بیٹھے ہوں، ان کو کوئی خوف ہو ہی نہیں سکتا.ہاں اگر نیت میں کھوٹ ہو اور انسان نے واقعتہ نہ دیا ہو بلکہ صرف زبانی طور پر منہ کی باتوں کے لحاظ سے دیا ہو تو ایسا انسان ہمیشہ ترساں ولرزاں رہتا ہے کہ کہیں واقعتہ یہ قربانی دینی نہ پڑ جائے.لیکن جو پختہ ارادے کے ساتھ اپنے رب سے ایک سودا کرتے ہیں، وہ لازماً خوف سے آزاد کئے جاتے ہیں اور ان کو تو کل کے ایک اعلیٰ مقام الله پر کھڑا کر دیا جاتا ہے.چنانچہ اس کا سب سے دلکش اور حسین نظارہ دنیا نے جنگ بدر کے موقع پر دیکھا.جب کفار مکہ کا ایک ایلچی مسلمانوں کے کیمپ کا جائزہ لینے کے لئے آیا تو اس نے واپس جا کر ایک رپورٹ پیش کی.اس نے کہا کہ میں وہاں کچھ لنگڑے دیکھ کر آیا ہوں، کچھ کمزور دیکھ کر آیا ہوں، کچھ بوڑھے دیکھ کر آیا ہوں ، کچھ بچے دیکھ کر آیا ہوں، کچھ ایسے لوگ دیکھ کر آیا ہوں، جن کا اوپر کا بدن نگا ہے، کچھ ایسے دیکھ کر آیا ہوں، جن کے ہاتھ میں لکڑی کی تلواریں ہیں اور کچھ ایسے دیکھ کر آیا ہوں، جن کے پاس ٹوٹے پھوٹے ہتھیار ہیں.پھر ان کی تعداد بھی تمہارے مقابل پر بہت کم ہے، یعنی صرف 313.وہ باتیں کر رہا تھا اور سننے والے خوش 416
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 مارچ 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہور ہے تھے کہ یقینی فتح کی خوشخبری دی جارہی ہے.لیکن دیکھنے والے نے کچھ اور نتیجہ نکالا.اس نے کہا کہ میں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد تمہیں واپس جانے کا مشورہ دیتا ہوں، تمہارے مقدر میں یقیناً شکست لکھی گئی ہے.کفار مکہ کے سرداروں نے بڑے تعجب سے اس سے سوال کیا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم باتیں کچھ اور کر رہے ہو اور نتیجہ کچھ اور نکال رہے ہو.اس نے کہا: میں بالکل ٹھیک نتیجہ نکال رہا ہوں.کیونکہ میں نے وہاں تین سو تیرہ (313) زندہ نہیں دیکھے، تین سو تیرہ موتیں دیکھی ہیں، جو تمہارے مقابل پر نکلی ہیں.ان میں سے ہر ایک کے چہرے پر یہ عزم لکھا ہوا تھا کہ میں مر کر واپس جا سکتا ہوں.اس کے سوامیدان جنگ سے ملنے کا کوئی اور رستہ نہیں.پس وہ لوگ جو موت کا ارادہ کر کے مرمٹنے والوں کی شکل میں نکلے ہوں، ان کو دنیا میں کوئی ہلاک نہیں کر سکتا.انسان کی تلوار ان کو ہلاک نہیں کر سکتی.کیونکہ ان کے اپنے ضمیر کی آواز ان کو ختم کر چکی ہوتی ہے، ان کا اپنا اندرونی فیصلہ ان کو مار چکا ہوتا ہے.اس لئے اس اینچی نے کہا کہ تم ان موتوں پر فتح نہیں پاسکتے.یہی موتیں تمہیں بلاک کریں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اس اندازہ لگانے والے کا اندازہ کتنا صحیح تھا اور وہ کتنا ذہین انسان تھا.یہ وہ تقدیر ہے، جو ہمیشہ سے جاری ہے اور اس کا لازمی نتیجہ وہ ہے، جو ابھی میں نے بیان کیا ہے.جب بھی الہی جماعتیں اپنے پہلے عہد میں ہی اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دیتی ہیں اور اپنا کچھ بھی نہیں رہنے دیتیں ، ان کو کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی.یہ وہ کنگال ہیں ، جن پر دنیا کے عظیم ترین اور متمول انسان بھی فتح نہیں پاسکتے.یہ وہ نہتے ہیں، جن پر دنیا کی سب سے زیادہ سلح اور ہتھیار بند قو میں بھی فتح نہیں پاسکتیں.کیونکہ ان کے مقدر میں شکست باقی نہیں رہتی.اور اللہ تعالیٰ اس بات کی ضمانت دیتا ہے که شکست ان کے نصیب میں نہیں لکھی جائے گی.یہ تو ایک دنیا دار لیکن ذہین انسان کا فیصلہ تھا کہ ایسی قومیں ، جو پہلے ہی سب کچھ فدا کر کے نکلی ہوں ، کبھی شکست نہیں کھایا کرتیں.جس طرح طارق نے کشتیاں جلائی تھیں تو دنیا کے مفکرین نے یہ سمجھا کہ کشتیاں جلانے کے نتیجے میں اسے فتح نصیب ہوئی تھی.لیکن اہل اللہ کے لئے ایک اور تقدیر بھی کام کرتی ہے اور ان کے حق میں جاری ہوتی ہے.اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتی.وہ اس یقین کامل کے ساتھ زندہ رہتے ہیں کہ ہم سب کچھ اپنے خدا کو دے چکے ہیں اور ہمارا خدا بھی اپنا سب کچھ ہمیں دے چکا ہے.ہمارے اموال اب سا تجھے ہو چکے ہیں.جو کچھ ہمارا ہے، وہ خدا کا ہو چکا ہے.لیکن جو کچھ خدا کا ہے، وہ بھی ہمارا ہو چکا ہے.اور جس قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قوت اور اس کے غلبہ کی 417
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 مارچ 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم تقدیر شامل ہو جائے ، اسے دنیا میں کون شکست دے سکتا ہے؟ اس لئے اس یقین کامل کے ساتھ وہ قوم زندہ رہتی ہے اور یہ یقین ہمیشہ سچا نکلتا ہے.آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک اور پھر اس زمانے میں اپنی تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ، کس دن خدا نے اپنے ان کمزور بندوں کو اکیلا چھوڑا ہے؟ کس دن خدا نے اجازت دی ہے کہ دنیا والے ان نسبتے درویشان انہی کو شکست دیں؟ نہ پہلے کبھی ایسا ہوا، نہ آئندہ کبھی ایسا ہو گا.6 tho اس لئے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ کی نصرت اب بھی ضرور آئے گی.آپ دعاؤں سے کام لیں.ہمارے ہتھیار دعائیں ہیں، ہمارے تمام اسباب کا شہتیر دعائیں ہیں.اسباب کے بالے دعاؤں کے شہتیر پر لٹکے ہوئے ہیں.اگر آپ دعاؤں سے غفلت نہیں کریں گے، اگر آپ کا تو کل کامل ہوگا تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ آپ کا ساتھ دے گی.یہ ایک اہل تقدیر ہے، جو لازما آپ کے لئے ظاہر ہوگی اور پہلے بھی ہمیشہ ظاہر ہوتی رہی ہے.خدا ایک ایسا وفادار دوست ہے کہ دنیا میں اس جیسی وفادار ہستی کبھی کسی نے نہیں دیکھی.وہ ایک ایسا طاقتور دوست ہے کہ اس کے مقابل پر دنیا کی ساری طاقتیں بیچ ہو جایا کرتی ہیں.اور جس طرح سیلاب کے مقابل پر تنکے بہہ جاتے ہیں، اسی طرح دنیا کی طاقتیں خدا کی طاقت کے مقابل پر بہ جایا کرتی ہیں اور کوئی نشان باقی نہیں رہتا.کبھی وہ خاک بن کر اڑ جاتی ہیں کبھی وہ اپنی ہی آگ میں بھسم ہو جایا کرتی ہیں.خدا کی ایک تقدیر میں ہزار تقدیریں ہیں، جو اپنا کام کر دکھاتی ہیں.اس لئے آپ ثابت قدم رہیں، آپ اپنے تو کل کے مقام سے نہ نہیں، آپ اپنی دعاؤں میں انتہا کر دیں.پھر دیکھیں کہ کس طرح میرے مولیٰ کی نصرت آپ کی مدد کے لئے دوڑی چلی آئے گی.چند دن صبر کر کے دیکھیں، آپ لازم یہ نظارہ دیکھیں گے کہ یہ جو آفات و مصائب کے بادل ہیں، جو خون برسانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، انہی میں سے آپ کے لئے قطرات محبت نیکیں گے.ان جان لینے والوں میں جان فدا کرنے والے دوست پیدا ہوں گے.احمدیت کے غلبہ کی تقدیر، ایک اٹل تقدیر ہے.اس نے جاری وساری رہنا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت نہیں، جو اس تقدیر کو بدل سکے.انشاء اللہ تعالی.( مطبوعه روزنامه الفضل 07 جون 1983ء) 418
تحریک جدید - ایک ابھی تحریک...جلد ششم - ارشادات فرمودہ 02 اپریل 1983ء رشتہ ناطہ کے مسائل اور نظام جماعت کی ذمہ داری ارشادات فرمودہ 102 اپریل 1983ء بر موقع مجلس شوریٰ اس مسئلہ کا ایک اور پہلو بھی ہے، جس پر غور نہیں ہوا.اور وہ ہے، جماعت کی بین الاقوامی حیثیت.اسی لئے میں نے بار بار تحریک جدید سے کہا تھا کہ وہ اپنا نمائندہ پیش کرے.اب تحریک جدید کی جو بین الاقوامی انتظامی حیثیت ہے، اسے بھی مد نظر رکھ لیں تو رابطہ کے لئے پھر تین صورتیں سامنے آتی ( یعنی ضلعی ، بین الاضلاعی اور بین الاقوامی) ایک ضلع میں اندرونی رابطہ، جسے ضلع کی سطح پر بہت حد تک احسن رنگ میں حل کیا جا سکتا ہے.جس کی بہتر صورت یہ ہے کہ امراء اضلاع باپ کے فرائض ادا کریں اور اپنی مجالس کو ایسا پاکیزہ رنگ دیں کہ ان کے اندرونی مسائل بڑے اہتمام اور احتیاط سے اس طرح زیر بحث آئیں ، جس طرح ایک گھر کے اندرونی مسائل زیر بحث آتے ہیں.دوسرا ہے، ضلعوں کا آپس کا رابطہ.اور تیسرا ہے، ملکوں کا آپس کا رابطہ.اس کے لئے کیا شکل ہو گی ؟ بہت سی جماعتیں ایسی ہیں، جہاں یہ مسائل انتہائی سنگین صورتیں اختیار کر گئے ہیں.اور پاکستان کو بھی لازما ان سے تعاون کرنا پڑے گا اور رابطہ کا نظام قائم کرنا ہوگا.یہ ہے اصل قابل توجہ مسئلہ، جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں.مثلاً سری لنکا ہے اور اس قسم کے علاقے ہیں، مثلاً ماریشس ہے اور کشمیر بھی ان علاقوں میں سے ہے، جہاں کثرت سے یہ مسائل سامنے آنے لگے ہیں.یہ ایک طبعی بات ہے کہ رشتہ ناطہ کے مسائل میں جب تک تعد اوزیادہ نہ ہو، رشتہ ناطہ کے مسائل از خود حل نہیں ہوتے.ان معاملات میں Law of Large numbers کام کرتا ہے.اگر کسی ملک میں بکثرت احمدی ہو جائیں تو اس مسئلہ پر ایک نظام از خود کا ٹھی ڈال لیتا ہے.اور ایک دوسرے سے با ہم رابطہ سے مسائل خود بخود حل ہونے لگ جاتے ہیں.لیکن تبلیغ کے ذریعے پھیلنے والی جماعت جب ایک نئے ملک یا نئی قوم میں داخل ہوتی ہے، جیسا کہ تھر پارکر میں نو مسلم بن رہے ہیں، ایسی قوموں سے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں، جنہیں اچھوت سمجھا جاتا تھا ، وہاں جو مسائل پیدا ہوں گے ، انہیں حل کرنے کی ذمہ داری ساری جماعت پر عائد ہوتی ہے.419
ارشادات فرمودہ 102 اپریل 1983ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، سیلون، ماریشس اور اب امریکہ میں بھی یہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں.جب آپ مجموعی طور پر طائرانہ نظر ڈالیں گے تو جماعت بحیثیت مجموعی Large nubmers بن جائے گی.میرے علم میں ہے کہ بعض ممالک میں لڑکوں کے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور بعض ممالک میں لڑکیوں کے مسائل پیدا ہور ہے ہیں.اس لئے ان کے اندرونی رشتوں کے نظام کو بڑی حکمت کے ساتھ جاری کرنے کی ضرورت ہوگی.اس احتیاط کے ساتھ کہ ہم صرف تجویز کریں گے، اس کے بعد پھر والدین کا اپنا کام ہے کہ پوری ذمہ داری سے اسے قبول کریں یارڈ کر دیں.جماعت کا کام صرف کوائف مہیا کرنا ہو گا.اس کے متعلق غور ہونا چاہئے.وہ کیا طریق کار ہے، جو اختیار کیا جائے؟ اس بارے میں ایک نیا نظام مرکز سلسلہ میں قائم کرنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ رشتہ ناطہ کے سلسلہ میں بین الاقوامی مسائل حل کرنے کے لئے اور کوائف کے بین الاضلاع تبادلہ کے لئے اور بین الاقوامی تبادلہ کے لئے ایک مرکزی کمیٹی قائم کی جائے گی، اس میں تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ کے دو، دو نمائندے ہوں گے، جو وہ بعد میں پیش کر دیں گے.اور دو نمائندگان امراء اضلاع میں سے پیش کئے جائیں گے.صوبائی امیر کی حیثیت سے مکرم مرزا عبدالحق صاحب اس موقع پر اپنے دائرہ کار کو پاکستان تک ممتد کر دیں اور سارے پاکستان میں سے دو امراء پیش کریں، جو ان مسائل پر ضلعی نقطہ نگاہ کو اس کمیٹی کے سامنے پیش کیا کریں گے.صوبہ سرحد کا ذکر کرنا میں بھول گیا تھا، وہاں بھی بعض جگہوں پر یہ مسائل کافی سنگین شکل اختیار کر گئے ہیں.اس کمیٹی کا ایک کام تو یہ ہوگا کہ وہ بین الاضلاع، بین الا قوام اور بین المالک رابطه احسن رنگ میں قائم کرنے پر غور کرے گی اور دوران سال غور وفکر کے بعد اپنی تجاویز منظور کروا کران پر عملدرآمد کا بھی انتظام کرے گی.اس کمیٹی کا دوسرا کام یہ ہوگا کہ وہ مسائل جو بحیثیت مسائل قابل توجہ ہیں یعنی جماعت میں بد رسومات داخل ہورہی ہیں یا غلط رجحانات روک بن گئے ہیں.مثال کے طور پر کہیں خاندانی رسم و رواج سراٹھا کر اسلامی رشتہ ناطہ کے نظام میں حائل ہورہے ہیں یا اچھوت کا تصور حائل ہورہا ہے.کمیٹی اس کا تجزیہ کرے کہ ایسے تصورات کس حد تک جائز طور پر حائل ہورہے ہیں اور کہاں تک ناجائز طور پر حائل ہو رہے ہیں؟ جائز طور پر اس طرح حائل ہو سکتے ہیں کہ اچھوت اقوام کے رشتوں میں مشکل یہ نہ ہو کہ قومی نفرت کی وجہ سے وہ رڈ کئے جارہے ہوں بلکہ یہ روک ہو کہ اسلام کفو کی جو شرط لگا رہا ہے اور دین کی جو شرط عائد کر رہا ہے، وہ پوری نہیں ہو رہی.اس لئے ہم لازماً اس بات کو رد نہیں کر سکتے کہ چھوت چھات کو بالکل 420
تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد ارشادات فرمودہ 102 اپریل 1983ء ختم کر دیا جائے.اس معنوں میں بھی ختم کر دیا جائے کہ اس قوم کی جو نئی نئی اسلام میں داخل ہوئی ہے، کفو بھی نہ دیکھا جائے اور دینی حالت بھی نظر انداز کر دی جائے.اس لئے بڑی گہری اور تفصیلی نظر کے ساتھ یہ کمیٹی ان مسائل کا بھی مطالعہ کرے اور تجویزیں پیش کرے کہ ان مسائل کے حل کے لئے ہمیں بحیثیت جماعت کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟ اس دوران رشتہ ناطہ کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ناظر صاحب اصلاح وارشاد پہلے سے زیادہ توجہ کریں.صرف انسپکٹر ان پر انحصار نہ کریں بلکہ مربیان پر انحصار کریں.اور نصیحت کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں.مربیان اس امر کے ذمہ دار ہوں گے کہ وہ پیش آمدہ مسائل ناظر صاحب اصلاح وارشاد کے سامنے پیش کریں اور وہ اپنے اپنے ضلع میں نظر رکھیں کہ فلاں جگہ واقعی بعض احمدیوں کو مشکلات نے مجبور کر دیا ہے.( اگر نا جائز طور پر ہی مجبور ہوئے ہوں جواز نہ تھا لیکن حالات کا دباؤ بہر حال ایسا تھا) کہ ان کے اخلاص کا معیاران کا مقابلہ نہیں کر سکا اور وہ ان معنوں میں اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اپنی بچیاں غیر احمدیوں میں دے دیں یا بعض جگہ دنیاوی حرص و ہوا کے نتیجہ میں یاد نیوی تعلقات کو فوقیت دے کر احمدی لڑکوں نے غیر احمدی لڑکیوں سے بغیر نظام جماعت کی اجازت کے شادی کی.یہ مسائل اس وقت سامنے رکھے جاتے ہیں، جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے.مجھے چٹھیاں آتی ہیں کہ ہفتہ کے اندر اندر شادی ہونے والی ہے، اس لئے فوری طور پر انتظام کریں.باشعور قوم کا کام ہے کہ مسائل کو محسوس کرے اور سونگھے اور جہاں خطرات در پیش ہوں، وہاں قبل اس کے کہ مسائل سراٹھائیں، ان پر غور کرے اور ان کے حل کرنے میں مدد کرے.پس مربیوں کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ جماعتوں کے دورے کرتے وقت امیر ضلع سے اس بارہ میں بھی رابطہ رکھیں اور دیکھیں کہ رشتہ ناطہ کے ایسے مسائل کہاں پیدا ہو چکے ہیں، جو آئندہ خطرناک صورت اختیار کر جائیں گے؟ اگر جماعت نے فوری طور پر نگرانی نہ کی تو وہ بغاوت پر منتج ہو جائیں گے اور پیشتر اس کے کہ وہ خطرناک صورت حال پیدا ہو، اصلاح و ارشاد کے ناظر صاحب اگر وہ اس کمیٹی کے ممبر ہوئے اور میرے خیال میں تو انہیں ہونا چاہئے ، اس لئے انہیں ابھی مقرر کر دیتا ہوں، رشتہ ناطہ کی مرکزی کمیٹی کے اصلاح وارشاد کے ناظر صاحب بھی ممبر ہوں گے.اس کمیٹی کے راستہ سے بھی وہ کوشش کریں اور دیگر نظام سے جہاں تک مدد ہو سکتی ہے، وہ طلب کریں اور انشاء اللہ بروقت مدد کی جائے گی.421
ارشادات فرموده 102 اپریل 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک تقاریر سے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ مہینہ میں لازماً ایک دفعہ کی جائے.جب بھی آپ رٹ میں پڑا جاتے ہیں تو اصل روح ختم ہو جایا کرتی ہے اور محض رٹ باقی رہ جاتی ہے.اس لئے کسی ایسی تجویز کو قبول نہیں کیا جاسکتا، جو مجبور کر دے کہ ہر مہینہ یا پندرہ دن میں ایک دفعہ تقریر ہو.لیکن ناظر صاحب اصلاح و ارشاد اور امراء اضلاع بیدار مغزی سے جائزہ لیتے رہیں اور حسب موقع ضلع میں ضلعی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اور پاکستان میں پاکستان کے مسائل سامنے رکھتے ہوئے، ایسی تقاریر کروائی جائیں اور وکیل التبشیر صاحب اس بات پر نظر رکھیں کہ دیگر ممالک میں جہاں جہاں بھی رشتہ ناطہ کے سلسلہ میں غیر اسلامی روایات جڑ پکڑ رہی ہیں یا کچھ مشکلات پیدا ہورہی ہے، انہیں مد نظر رکھتے ہوئے مرکزی اجلاسات ( جس جس ملک میں ہوتے ہوں وہاں ) اس موضوع پر تقاریر کروائی جائیں.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ کیم تا03 اپریل 1983ء) 422
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 03 اپریل 1983ء تحریک جدید کے مالی و دیگر مطالبات سے متعلق متفرق ہدایات وو ارشادات فرمودہ 103 اپریل 1983ء بر موقع مجلس شوریٰ میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے، الفضل میں تحریک جدید کی طرف سے بعض مطالبات پر خصوصی توجہ دلائی جاتی ہے.پس Categorically یہ کہ دینا کہ مطالبات کو بھلا دیا گیا ہے، یہ درست نہیں ہے.لیکن آئندہ بھی خاص پروگرام کے تابع ان کی یاد دہانی ہوتی رہنی چاہئے اور جماعتوں کو بھی پروگرام جانا چاہئے کہ وہ اپنے اجلاسات میں ماہانہ تقریروں میں کبھی بھی ان مطالبات کے بعض حصوں کو نمایاں طور پر پیش کیا کریں.میرا مطلب یہ ہے کہ اس کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی کام لیں.واقفین عارضی کے سپر د بھی کچھ کریں.اکٹھا ایک طرف سے زور دیا جائے تو دماغ Confuse ہو جاتا ہے.وہ سارے کام کر بھی نہیں سکتا.چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے کوئی کسی تحریک کی طرف سے آجائیں، کوئی کسی ذریعہ سے سامنے آجائے تو حالات انشاء اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ بہتر ہو جائیں گئے.33 میں نے ایک دفعہ پہلے بھی بیان کیا تھا اور کسی خطبہ میں بھی وجہ بیان کی تھی.اصل وجہ یہ ہے کہ پہلے بیرون ملک معیار قربانی کم تھا اور اب اس کمی کو پوار کرنا شروع کر رہے ہیں.اور ابھی بھی انہوں نے پاکستان کی قربانی کے معیار کے مطابق تحریک جدید کے چندہ میں قربانی نہیں دی.کیونکہ جب پچھلی دفعہ میں نے توجہ دلائی تو اس وقت بیرون پاکستان 11,00,000 کا بجٹ تھا اور اندرون پاکستان 20,00,000 کا تھا.اور واقعہ ہے کہ اندرون پاکستان اور بیرون پاکستان کوئی دو ملک تو نہیں ہیں، جو برابر کے ملک ہوں.ایک اندرون پاکستان اور ایک بیرون پاکستان یہ تو محاورہ میں باتیں آگئی ہیں ورنہ اعداد و شمار کے معاملات تو اس طرح حل نہیں ہوں گے کہ اندرون پاکستان ایک تکڑی میں اور بیرون پاکستان دوسری تکڑی میں.بیرون پاکستان بڑی وسیع دنیا ہے اور اس میں بہت سے ممالک ہیں.ان میں جماعتیں ہیں، اس لئے برابری کا معاملہ تو ہو ہی نہیں سکتا، سوائے اس کے کہ اعداد و شمار سے ثابت کیا جائے کہ پاکستان کی جماعت کی کل تعداد بیرون پاکستان کی ساری جماعتوں کی تعداد کے برابر ہے.تب جا کر نہیں یہ حسابی سوال پیدا ہوں گے.423
ارشادات فرمودہ 103 اپریل 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم دوسرے اگر یہ ثابت بھی ہو جائے تو آمدنی per capita کو بھی دیکھا جائے گا اور اس سے بھی زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے.وہ چند آدمی ، جنہوں نے پاکستان کو چھوڑ کر دوسری جگہ دنیا میں ذرائع آمد تلاش کئے ، ان کے خاندانوں کے سارے افراد جو پیچھے رہ گئے ہیں، اس کے مقابل پر اس ایک ایک فرد کی آمد بعض صورتوں میں زیادہ ہے.تو اس لئے یہ حسابات اس طرح نہیں کئے جا سکتے کہ بیرون ملک اور اندرون ملک تعداد برابر ہو جائے، تبھی برابر نتیجہ نکلنا چاہیے.اقتصادی حالات مختلف ہیں.اس لحاظ سے ابھی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت پاکستان کی قربانی کا معیار زیادہ اونچا ہے، بہ نسبت اس معیار کے، جو اس وقت تک بیرون پاکستان حاصل کیا گیا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، وہ اور بھی بہت ساری خامیوں میں مبتلا تھے.مثلاً با شرح چندہ دینے میں بیرون پاکستان بہت ہی پیچھے رہ گیا تھا.اب وہ اس طرف بھی توجہ کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی نمایاں قربانی میں اضافہ ہورہا ہے.اس لئے ان پر بھی ایک دم تو بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا.ان چند مہینوں کے اندر اندر کی اطلاع یہ ہے کہ تحریک جدید کا باہر کا چندہ تین گنا بڑھ گیا ہے اور چندہ عام اور حصہ وصیت پونے دو گنا ہو چکا ہے.تو یہ ایک طرف تو ہمارے دل حمد سے بھر جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیرون پاکستان کی دنیاؤں کو غیر معمولی توفیق عطا فرمائی کہ وہ معیار قربانی بلند کریں ، دوسری طرف ہم پر امید نگاہ سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ کب وہ کم از کم معیار پر پورے اتریں گے.یعنی ابھی ان کی ایک بھاری تعداد ایسی ہے، جو چندوں میں تو قعات پر پورا نہیں اتر سکی.ابھی تک بھاری تعداد تو نہیں ہوئی ہوگی مگر میرا خیال ہے کہ کم از کم 33 فیصد تو ضرور ایسے ہوں گے، جو نہیں آسکے.اور ایک حصہ وہ بھی ہے، جو چندوں میں شامل ہی نہیں ہے.اسی طرح پاکستان میں بھی ایک حصہ ہے، جو چندوں میں شامل نہیں ہے.اس سے متعلق میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ جو لازمی چندوں میں شامل نہ ہوں، انہیں ہم طوعی چندوں میں شامل نہیں کریں گے اور وہ چندہ ہمیں نہیں چاہیے.سوائے اس کے کہ کوئی دے تو ہم اس کی اجازت سے اسے لازمی چندہ میں داخل کر لیں.فرض کے بغیر نفل نہیں ہو سکتے.ناک نقشہ ہو تو سنگھار ہوگا ، ناک نقشہ ہی نہ ہو تو سنگھار کوئی کیا کرے گا.یعنی آنکھیں ہیں ہی نہیں اور سرمہ ڈالے جارہے ہیں.ناک ہے ہی نہیں، ناک کی تیلی تلاش کی جارہی ہے.یہ سارے لغو قصے ہیں.اس لئے جماعت کے بنیادی نقوش ہمارے لئے سب سے اہم توجہ کا مرکز ہونے چاہئیں.جب وہ نقوش صحیح حالات پر بیٹھ جائیں ، پھر دوسرے نفلی کام شروع ہوں گے.پس اس ضمن میں ایک یہ بھی میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اب ہمیں سیکرٹریان مال کے ساتھ ایک نائب سیکرٹری کا اضافہ کرنا ہوگا.جس کا کام صرف یہ ہوگا کہ نادہندوں کو 424
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ارشادات فرمودہ 03 اپریل 1983ء تلاش کرے، ان کی فہرست بنائے ، ان کی کی طرف توجہ دے.اور جب انہیں چندہ دہندہ بنالے تو اس کی فہرست سے خارج ہو جائیں.اس کی فہرست ہمیشہ نادہندگان پر مشتمل رہے اور اس کی فہرست میں نو مبائع بھی داخل ہوں گے.جب تبلیغ کا کام ساری دنیا میں وسعت پذیر ہے تو ان کو سنبھالنے کا انتظام کئے بغیر صحیح نتیجے سامنے نہیں آسکتے.یہ امر واقعہ ہے کہ نو مبائع کو اگر شروع میں مالی قربانی میں شامل کر لیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی سے پھر ترقی کرتا ہے.اور اگر شروع میں شامل نہ کیا جائے تو وہ اسی حالت میں منجمد ہو جاتا ہے.پھر گویا اس کی جو شکل شروع میں بنی ہے، جب وہ تازہ تازہ آیا تھا، اس میں ایک گرمی اور ایک نرمی ہے.اس وقت آپ اسے جس شکل میں چاہیں، Mould کر لیں.وہ اس میں ڈھل جائے گا.پھر جب وہ اپنی ایک شکل بنا کر بیٹھ جائے گا اور وہ یہ سمجھے گا کہ میں احمدی ہوں، نادہندہ ہوں اور مجھے اسی طرح قبول کیا گیا ہے، پھر بہت بڑی محنت کی ضرورت پڑتی ہے.عملاً جب لو با نرم ہوتا ہے تو اسے معمولی سے اشارے سے بھی شکلوں میں ڈھالا جاسکتا ہے.جب وہ سخت ہو جاتا ہے تو پھر اسے mould کرنے کے لئے یا اسے نئی شکل میں ڈھالنے کے لئے بعض دفعہ لاکھوں ٹن زیادہ طاقت استعمال کرنی پڑتی ہے.یہ قانون قدرت ہے اور انسانوں میں بھی وہی قانون مختلف شکلوں میں جاری ہے.اس لئے یہ جو نئے اسٹنٹ سیکریٹری مال ہوں گے، ان کا یہ کام بھی ہوگا کہ انہیں نو مبائعین کی فہرست دی جائے اور وہ فوری طور پر ان میں کام شروع کر دیں.اور جو فہرست منتقل ہوتی رہے، اس کو پھر جماعت کا سیکریٹری مال اور دوسرا نظام اسی طرح سنبھال لے.اس وقت صدر انجمن احمدیہ کے چندہ دہندگان کی تعداد 30,000 بیان کی گئی ہے اور تحریک جدید کی 25,000 ہے اور ان میں موصی بھی شامل ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ 30,000 ہزار میں سے 12,000 موصی ہوئے اور باقی چندہ عام والے تقریباً 18,000 ہیں.یہ بہت ہی تھوڑی تعداد ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی جو ساری جائیداد ( اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں) جماعت احمدیہ کی شکل میں بغیر استعمال کے پڑی ہوئی ہے، اسے استعمال میں لے کر آئیں پھر دیکھیں کہ خدا کے فضل سے ہمارے چندوں میں کتنا نمایاں اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا.پس اس طرف بڑی توجہ کی ضرورت ہے.جب سارے چندہ دہندگان شامل ہو جائیں گے تو ہمارے چندوں کی کوئی نسبت ہی نہیں رہے گی.پاکستان میں پہلا ٹارگٹ فی الحال میں 50,000 کا دیتا ہوں 30,000 سے 50,000 تعداد جتنی جلدی ممکن ہو، پوری کریں.ویسے کم سے کم ایک لاکھ ہونی چاہیے.بلکہ جب تبلیغ بھی خدا تعالیٰ کے 425
ارشادات فرمودہ 03 اپریل 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک فضل سے جاری وساری ہو اور ادھر سے بھی کوششیں ہوں تو ہمیں بہت جلد اس ٹارگٹ تک پہنچنا چاہیے.وباللہ التوفیق.اسسٹنٹ سیکرٹری کا لفظ صرف پاکستان کے لئے ہے.وہ اس لئے کہ جو ہمارا دستور ہے، اس میں غالباً ایک ہی سیکریٹری مال کا ذکر ہے.تو اس میں نائب کے اضافہ کی تو گنجائش رہتی ہے.ورنہ دستور بدلنا پڑے گا.جہاں تک بیرون پاکستان کا تعلق ہے، وہاں ایڈیشنل کے نام پر نئے سیکرٹریان مال مقرر کئے جا رہے ہیں اور اب تک غالباً اکثر مقرر ہو چکے ہیں.تو اس غرض کے لئے اگر کہیں پہلے اسسٹنٹ سیکرٹری مال مقرر ہو چکے ہیں تو ٹھیک ہے، ورنہ باقی سب جماعتوں میں بھی مقرر ہونے چاہئیں.33 یہ بھی بات بیان ہوئی ہے کہ اگر چہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اکثر احمدی جو باہر گئے ہیں، وہ نظام کا حصہ بن گئے ہیں.مگر بعض دفعہ لاعلمی کے نتیجہ میں ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ کس سے رابطہ پیدا کرنا ہے.چنانچہ ایسے ممالک، جہاں ہمیں خیال بھی نہیں تھا کہ وہاں پوری جماعت بن بھی سکتی ہے، وہ اس طرح علم ہوا کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کے وصال پر تجدید بیعت ہوئی اور باہر سے بکثرت تعزیت کے خطوط آئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ فرانس اور یونان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی تعداد احمدیوں کی موجود ہے، جو باقاعدہ جماعت بن سکتے ہیں.تو ان معلومات سے فائدہ اٹھا کر جماعتیں قائم کی گئیں ہیں.لیکن ابھی بھی بعض ایسے آدمی علم میں آرہے ہیں کہ جو بہت بعد میں دریافت ہوئے.تحریک جدید کی خواہش ہے کہ ( اس معاملہ میں ایک اعلان بھی غالباً الفضل میں شائع ہوا تھا کہ ) تمام پاکستان میں بسنے والے وہ ماں باپ، جن کی اولادیں باہر کام کر رہی ہیں، ان کی حفاظت کی خاطر اور ان کو نظام جماعت کا ایک جاری حصہ بنانے کے لئے وہ تحریک جدید کو پتہ جات ارسال فرمائیں کہ میرا بچہ فلاں جگہ ہے، اس کا پتہ یہ ہے.تو جو پہلے ہی ریکارڈ میں ہیں، وہ فہرست چیک کر لیں گے.وہ تو خیر کوئی اضافہ نہیں ہو گا لیکن اگر کوئی گمشدہ بھیٹر مسیح موعود علیہ السلام کی مل جائے تو اسے ملنا چاہئے.گم شدہ بھیڑ نہیں، اللہ کے فضل سے گمشدہ شیر کہنا چاہیے.وجہ یہ ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الثالث نے اس کی اجازت دی تھی کیونکہ ایک لمبے عرصہ تک اس حکم کی پابندی میں بھی ساری تبدیلیاں پیدا ہوئیں معاشرہ میں اور زندگی کے معیار بدلے.تو یہ بات حضرت خلیفة المسیح الثالث کے سامنے کئی دفعہ پیش کی گئی کہ بیاہ اور موت فوت میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے.یعنی بالکل ہی ویسی ہی خاموشی طاری ہو، جیسی کسی کے فوت ہونے پر اور کچھ بھی وو 66 426
ارشادات فرمودہ 03 اپریل 1983 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک فرق نہ ہوتو یہ اچھا نہیں لگتا.آخر خوشیاں منانا بھی تو انسان کی زندگی کا ایک حصہ ہے.اس لئے حضرت خليفة المسيح الثالث" سے عرض کیا گیا کہ حضور اتنی سی اجازت دے دیں کہ گرمیوں میں پانی پیش کر دیا.جائے، سردیوں میں چائے کی پیالی یا پان وغیرہ قسم کی کوئی چیز پیش کر دی جائے.تو اس پر حضور نے اجازت دے دی تھی اور اس پر عمل درآمد ہوا.اس لئے جس کام کے کرنے پر حضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت ہو، اسے گناہ سمجھنا، بڑی غلطی ہے“.وو.آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ اس طرف پہلے ہی توجہ دی جارہی ہے.تحریک جدید میں با قاعدہ ایک شعبہ اس بات پر دن رات کام کر رہا ہے کہ تمام مشتر کی تاریخ مرتب کی جائے.اس کے اہم واقعات کو مستقل طور پر احمدیت کی تاریخ میں زندہ رکھنے کا انتظام کیا جائے.پھر ہر مشن پر مشتمل الگ ایک خوبصورت فولڈر کی شکل میں شائع کیا جائے.اور نہ صرف اندرون پاکستان استعمال کئے جائیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں ان کے ذریعہ تعارف کروایا جائے.اس طرح احمدیوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور غیر از جماعت لوگوں کو علم ہو گا کہ جماعت کیا کر رہی ہے؟ نیز اس طریق سے اگلی نسل کے بچوں کی تربیت بھی ہو گی.انہیں یہ احساس ہوگا کہ ہم اس عظیم الشان جماعت سے منسلک ہیں، جواتے عظیم کام اللہ تعالیٰ کے وو 66 فضل سے کر رہی ہے.میں ایک وضاحت کردوں، ایک دوست نے لکھا تھا کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ جولوگ چندہ عام نہیں دیتے ، فرائض پورے نہیں کرتے ، انہیں نوافل میں بھی شامل نہیں کرنا.اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ جن لوگوں پر چندہ عام فرض ہی نہیں ہے، انہیں بھی رد کر دیا جائے ، یہ ہرگز مراد نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ جو فرائض میں حصہ نہیں لیتے ، فرائض تو ان پر فرض ہوں گے تو فرائض بنیں گے.جن پر کوئی فریضہ ہے ہی نہیں، ان کے لئے تو نفل ہی نفل ہے.اس لئے جو Dependents ہیں چندہ دہندگان کے، جن پر کوئی چندہ عام یا حصہ آمد فرض نہیں بنتا، ان سے آپ چندے لیں بلکہ انہیں ضرور شامل کریں.اس سے تربیت ہوتی ہے.اس نسبت سے اس وقت اگر صدر انجمن احمدیہ کے چندہ دہندگان کی تعداد میں ہزار ہے، جس کے متعلق امید ہے کہ وہ انشاء اللہ اسے پچاس ہزار تک پہنچائیں گے.تحریک جدید کا اس سے کم از کم دو گنا ہونا چاہیے.کیونکہ ایک چندہ دہندہ تحریک میں شامل ہوا اور اس کے ساتھ کم از کم ایک Dependent ہو تو آسانی کے ساتھ ایک لاکھ بن جانا چاہیے.اور ابھی آپ کی چندہ دہندگان کی تعداد صدرانجمن احمدیہ کے چندہ دہندگان سے کم ہے.آپ کی تعداد 25 ہزار ہے جبکہ صدر انجمن احمدیہ کی تہیں ہزار ہے.تو یہ اس 427
ارشادات فرمودہ 103اپریل 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وضاحت کے ساتھ میں بتا رہا ہوں کہ جو چندہ دے سکتا ہے اور نہیں دے رہا تو وہ عمداً مجرم بن رہا ہے، اس سے طوعی چندہ نہیں لینا.آپ کو یہ معلوم کر کے خوشی ہوگی کہ خدا کے فضل سے بالکل اسی طرح پر ہی کام ہورہا ہے.تحریک جدید کی فہرست کے مطابق جتنے افراد دفتر اول میں شامل تھے، انہیں Trace کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے.جن کے ورثاء سے جہاں جہاں بھی ان کے پتے ملے اور رابطہ ہوا تو انہوں نے اس کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے بہت تعاون کیا.لیکن ایک حصہ ابھی تک ایسا ہے کہ ان سے رابطہ نہیں ہو سکا.اس سلسلہ میں، میں نے جو وکیل المال صاحب سے آخری رپورٹ منگوائی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ابھی 5200 میں سے 833 باقی ہیں.یہ خوشی کی بات ہے کہ اللہ تعالٰی کے فضل سے ایک بڑی تعد ادل بھی گئی اور ان سے رابطہ بھی ہو گیا اور ان کی مالی قربانی کو اس دنیا میں بقا دینے کا انتظام ہو گیا.800 اور کچھ رہتے تھے، اس سے متعلق میں نے انہیں کہا ہے کہ الفضل میں بھی شائع کرنے کے علاوہ دیگر ذرائع بھی اختیار کریں.جتنے بھی زیادہ ممکن ہوں شامل ہو جانے چاہئیں.اس سلسلہ میں انصار سے بھی تعاون لے رہے ہیں“.ذکر ہوا کے انسپکٹر ان تحریک جدید کے دیگر مطالبات کی طرف توجہ نہیں دلاتے ، اس طرف توجہ ہونی چاہیے.اس پر حضور نے فرمایا:." نہیں ! یہ انسپکٹر کا کام ہی نہیں ہے.جو ان کا کام ہی نہیں ، وہ اس طرف توجہ کیوں دیں؟ ان کے جتنے انسپکٹر ہیں، وہ تعداد کے لحاظ سے بمشکل صرف مالی اعداد و شمار سے ہی نیٹ سکتے ہیں.اس لئے ان کے سپرد یہ کام کیا ہی نہیں گیا.جس آدمی کے سپر د جو کام کیا گیا ہو، اس کے دائرہ میں رہنا چاہیے.تحریک جدید اس کام کے لئے مربیان یا نظام جماعت سے کام لے گی.اس لئے آپ غلط طرف منہ کر کے ایک بات کا انتظار کر رہے ہیں.اس طرف سے آنی ہی نہیں.تحریک جدید کے انسپکٹروں کا یہ کام نہیں ہے.آپ کی یہ بات تو درست ہے کہ تحریک کا فرض ہے کہ وہ اس کے لئے مناسب ذرائع اختیار کرئے“.یہ جو تجنید والا حصہ ہے، یہ بہت اہم ہے.اگر چندہ دہندگان کے ساتھ اعداد و شمار بھی ہوا کریں تو اس سے مفید نتائج نکلتے ہیں.میں جب وقف جدید میں تھا تو ہم ہر سال وقف جدید کے بجٹ میں یہ اعداد و شمار نہ صرف پیش کرتے تھے بلکہ مختلف جہت سے ان کا تجزیہ بھی پیش کیا جاتا تھا کہ کتنے فیصد اضافہ ہے.تحریک جدید کے چندہ دہندگان کے مقابل پر ضلع وار وقف جدید کی کیا پوزیشن ہے؟ صدر 428
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم ارشادات فرمودہ 3 10 اپریل 1983ء انجمن احمدیہ کے چندہ دہندگان کے مقابل پر وقف جدید کی کیا پوزیشن ہے؟ لیکن بعد ازاں اعداد و شمار مبیا ہونے میں روکیں پڑگئیں.تو پھر یہ طریق جاری نہیں رہا.تو میں سمجھتا ہوں اعداد و شمار سے متعلق صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کو بھی چندہ دہندگان کی تعداد کو داخل کر لینا چاہیے.اس سے توجہ رہے گی کہ کہاں کمزوری ہے اور کہاں اضافے ہو سکتے ہیں.اب یہ دیکھیں کہ یہ اعداد وشمار کتنے خوش کن ہیں.صرف روپوؤں کی شکل میں نہیں بلکہ ایک پہلو سے اس سے بھی زیادہ کہ بعض ہمارے کھوئے ہوئے احمدی جو محروم تھے ، وہ اب توجہ دلانے کے نتیجہ میں غیر معمولی زور کے ساتھ آگے بڑھے ہیں.فیصل آباد میں پہلے تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد 611 تھی ، اب 2266 ہوگئے ہیں.تو بہت بڑا فرق پڑا ہے.اس لئے چندہ دہندگان کی تعداد بڑھانی بہت ضروری ہے.2266 اضافہ ہے، وہ پہلے جو 611 تھے ، وہ اس میں جمع ہوں گے تو یہ ماشاء اللہ اور بھی زیادہ خوش کن ہے یا فیصل آباد کی اور بھی زیادہ تکلیف دہ حالت ہے، دونوں صورتیں ہیں کہ پہلے اس طرح چپ کر کے سوئے بیٹھے تھے کہ اپنے اتنے آدمی ثواب سے ضائع اور محروم کر رہے تھے.جہاں تک باقی جماعتوں کا تعلق ہے، وہ بھی فکر کریں.ہر جگہ ایسے لوگ موجود ہوں گے.لیکن اس تعداد کے بڑھنے کی ایک حد ہے.یعنی یہ صرف وہ لواحقین ہیں، جو چندہ دہندگان کے ہیں.جو اپنے فرائض پورے کر رہے ہیں وہ نہیں ہزار کے جتنے لواحقین ہو سکتے ہیں، اتنے ہی ہوں گے.اس لئے جب تک صدر انجمن احمد یہ آگے قدم نہ بڑھائے اور لازمی چندہ دینے والوں کی تعداد میں اضافہ نہ کرے، اس وقت تک آپ کی یہ Limitation قائم رہے گی.پس امید ہے کہ اگلے سال یہ دونوں چیزیں بڑھیں گی تو اللہ تعالیٰ نہایت خوشکن نتیجہ پیدا کر دے گا.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ کیم تا03 اپریل 1983ء) 429
تحریک جدید- ایک الہی تحریک فاستبقوا الخيرات اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 اپریل 1983ء خطبہ جمعہ فرمود و 15 اپریل 1983ء وو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَلِكُلِّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ہر قوم کا ایک نصب العین ہوا کرتا ہے، ایک مقصود اور مطلوب ہوتا ہے، جس کی وہ پیروی کرتی ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ پس اے مسلمانو! تمہارے لئے میں یہ نصب العین مقرر کرتا ہوں کہ ہر اچھی بات میں ایک دوسرے سے آگے نکل جاؤ.کتنا عظیم الشان اور کتنا وسیع پروگرام ہے اور کتنے اعلیٰ مقاصد ہیں، اس پروگرام کے ہر حصے کے.یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ صرف عبادتوں میں آگے نکل جاؤ یا صرف فلاں خوبی کو اختیار کرو اور اس میں آگے نکلو.بلکہ فرمایا کہ تمہارا نصب العین ہر خوبی میں آگے بڑھ جاتا ہے.دیکھئے ایک نہایت مختصر بات میں دنیا کی ہر بھلائی کو رکھ دیا گیا اور پھر اس بھلائی کے اعلیٰ رخ کو بیان کیا گیا اور اس میں سے بھی جو چوٹی کا حصہ ہے ، وہ مسلمانوں کے لئے مقرر کیا گیا.پس اس نقطہ نگاہ سے جماعت احمدیہ کے سامنے قرآن کریم نے جو منصوبہ رکھا ہے، وہ انسانی زندگی کی ہر دلچپسی پر حاوی ہے.وہ دین پر بھی حاوی ہے اور دنیا پر بھی حاوی ہے.وہ معاشیات پر بھی حاوی ہے اور اقتصادیات پر بھی حاوی ہے.وہ تمدن پر بھی حاوی ہے اور تہذیب پر بھی حاوی ہے.وہ حاوی ہے، ہماری تجارت پر.وہ حاوی ہے ، ہماری سائنس پر.وہ حاوی ہے، ہماری صنعت اور حرفت پر.اور وہ ہماری کھیلوں پر بھی حاوی ہے.غرضیکہ انسانی زندگی کی دلچسپی کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جو سوچا جا سکتا ہو اور یہ آیت ایک مسلمان کو اس میں آگے بڑھنے کی تعلیم نہ دے رہی ہو.وو پس جماعت احمدیہ کو چاہئے کہ دنیا کے جس ملک میں بھی جماعت پائی جاتی ہے، وہاں کی مقامی کھیلوں کو بھی فروغ دے اور ان کھیلوں کو بھی فروغ دے، جو اس وقت دنیا میں مسلم ہو چکی ہیں.ہمیں 431
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک چاہئے کہ ہر کھیل میں باقی سب سے آگے بڑھیں.اس لئے جو سلمہ کھیلیں ہیں، ان کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں.یہ درست ہے کہ آہستہ آہستہ کبڈی افریقہ میں بھی رائج ہو سکتی ہے، انڈونیشیا میں بھی رائج ہو سکتی ہے.بلکہ موسم کے لحاظ سے جہاں جہاں انسان اس کو قدرتی طور پر طبیعی طور پر کھیل سکتا ہے ، وہاں رائج ہو جانی چاہئے.لیکن جو مروجہ کھیلیں دنیا کو سلم ہو چکی ہیں، ہم ان کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے.اور ان میدانوں میں بھی وو ہمیں لازم دوسروں کو شکست دینی ہوگی.میری خواہش ہے کہ ہر کھیل میں مسلمان آگے بڑھیں“.تمام دنیا کے احمدیوں کو چاہئے کہ جہاں جہاں کسی کھیل کا کوئی اچھا کھلاڑی موجود ہو، وہ مجلس صحت مرکزیہ کو اطلاع دے تا کہ با قاعدہ نظم وضبط کے ساتھ ان کو مختلف ٹیموں میں ڈھالا جا سکے.اور پھر جہاں تک ممکن ہو، یہ کوشش کی جائے کہ ہر کھیل کی ایک احمدی ٹیم دنیا میں پیدا ہو جائے.یہ درست ہے کہ کھیلوں کا جو طریق اس وقت رائج ہے، اس کے لحاظ سے ہم انٹر نیشنل یعنی بین الاقوامی مقابلوں میں احمدی ٹیم کے طور پر ان کو داخل نہیں کر سکتے.لیکن اگر ہم ایسانہ بھی کر سکیں ، جب بھی یہ احساس کہ نہایت اعلیٰ معیار کی ایک احمدی ٹیم تیار ہو چکی ہے، جو واقعہ دنیا کی صف اول کی ٹیموں میں شمار ہو سکتی ہے، ایک بہت بڑی نعمت ہے.یہ احساس ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کی حمد کو اجاگر کرے گا اور اس کی حمد کی طرف توجہ پیدا کرے گا.ہم خدا کا شکر ادا کریں گے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں گے کہ آپ نے ہمارے لئے کتنا شاندار صح نظر مقرر فرمایا.اور پھر اس کی پیروی کی راہیں بھی ہم پر آسان کر دیں.اور آج ہم دنیا کو کہہ سکتے ہیں کہ فاستبقوا الخیرات کے طمح نظر کے پیش نظر ہم فلاں چیز میں سبقت لے گئے.پھر بین الاقوامی مقابلوں میں جہاں میڈل ملتے ہیں، وہاں بیشک احمدی ٹیمیں داخل نہ ہوسکیں لیکن دنیا کی کوئی کلب بھی کسی نام پر بھی اچھی ٹیموں کو چیلنج کر سکتی ہے اور کھیل سکتی ہے.اس طرح عملاً دنیا کے سامنے ہم یہ ضرور ثابت کر سکتے ہیں کہ خواہ تم ہمیں میڈل دویانہ دو اور خواہ تمہاری کھیلوں کا نظام ہمیں بحیثیت احمدی ٹیم کے (Recognise) یعنی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ غلام اس میدان میں بھی دوسروں کے آگے نکل جائیں گے.انشاء اللہ.یہ وہ مقصد ہے، جسے ہم نے انشاء اللہ پورا کرنا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، یہ صرف ایک چھوٹا سا شعبہ ہے.ہمیں تو ہر نیکی میں آگے بڑھنا ہے بلکہ نیکی کی ہر شاخ میں آگے نکلنا ہے.اسی غرض سے میں نے مجلس شوری میں توجہ دلائی تھی کہ ہمیں ٹریڈ اور انڈسٹری میں بھی تمام دنیا سے آگے نکلنا ہے، سائنس میں بھی آگے نکلنا ہے.اور پھر سائنس کے نتیجے میں جو انسان عملاً جو صنعتی ایجادات کرتا اور انڈسٹری 432
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1983ء قائم کرتا ہے، اس میں بھی جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سب سے آگے نکلنا ہوگا.چنانچہ اس مقصد کے لئے فی الحال تحریک جدید میں ایک مرکزی سیل قائم کر دیا گیا ہے اور انشاء اللہ صد را مجمن احمدیہ میں بھی قائم کیا جائے گا.پھر وہ مشترکہ طور پر اس بات پر غور کریں کہ تمام دنیا کے احمدی صنعت کاروں کے دماغ سے کس طرح استفادہ کیا جائے، تمام دنیا کے احمدی تاجروں کے دماغ سے کس طرح استفادہ کیا جائے اور تمام دنیا کے احمدی سائنسدانوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ وہ صرف نظریاتی طور پر سائنسدان نہ رہیں بلکہ ایسے فعال، سوچنے والے اور ہر وقت نئی چیزوں کی ایجاد میں منہمک سائنسدان بنیں.جن کی قوت فکر کو جماعت احمدیہ قوت عمل میں ڈھالے اور ان کی ایجادات سے استفادہ کرے.اور جس طرح بعض قو میں مثلاً جاپانی اپنے اعلیٰ اور لطیف فکر اور پھر اس فکر کے نتیجے میں اعلی صنعتیں پیدا کرنے کے لحاظ سے مشہور ہیں یا امریکن یا یورپ کی دوسری قو میں جیسے جرمنی ہے، جو خاص طور پر ان صنعتوں میں آگے نکل آئی ہیں، اسی طرح جماعت احمدیہ کے سائنسدان بھی احمدی سائنسدان کے لحاظ سے دنیا میں ایک نام پیدا کریں.احمدی ایجادات پر احمدیت کی ایسی چھاپ ہو، جس سے معلوم ہو کہ یہ چیز لازماً اپنی نوع میں بہترین ہے.لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دیانتداری کی بھی بہت ضرورت ہوا کرتی ہے.کیونکہ سائنسدان تو ایک ایجاد پیش کر دیتا ہے لیکن اگر صنعت کار دیانتدار نہ ہو تو وہ اس ایجاد کو ضائع بھی کر سکتا ہے اور اس کا وقار کھو بھی سکتا ہے.اور اپنی دیانتداری کی وجہ سے اس کا وقار بھی قائم کر سکتا ہے اور آگے بھی بڑھا سکتا ہے.لیکن دیانتداری صرف اس میدان میں ہی ضروری نہیں بلکہ ہر دوسرے میدان میں بھی ضروری ہے.کیونکہ دیانتداری کے بغیر کوئی انسان کسی چیز میں بھی آگے نہیں بڑھ سکتا.یہ کھیل میں بھی ضروری ہے اور تجارت میں بھی ضروری ہے.اس لئے احمدی تجار کو بھی اور احمدی صنعت کاروں کو بھی اور احمدی سائنسدانوں کو بھی بلکہ ہر میدان میں آگے بڑھنے کا ارادہ رکھنے والوں کو بھی لازماً اپنی دیانت کے معیار کو بڑھانا ہوگا“.پس جب میں جماعت احمدیہ سے کہتا ہوں کہ وہ صنعت میں بھی سب سے آگے نکل جائے اور تجارت میں بھی سب سے آگے نکل جائے اور اس مقصد کے لئے مرکز میں ایسے سیل قائم کئے جائیں، جہاں ان سب کے تبادلہ خیالات کے لئے ایک مرکز قائم ہو اور ایک دوسرے سے استفادہ کا نظام قائم ہو تو یہ ہو نہیں سکتا، جب تک جماعت کے دیانت کے معیار کو بھی اونچانہ کیا جائے.اس لئے ہمارے سارے تجار کو چاہئے کہ وہ لازماً ایک Devotion کے ساتھ، ایک وقف کی روح کے ساتھ اپنی دیانت کے معیار کو بلند کریں.اسی طرح تمام صنعتکاروں کو بھی چاہئے کہ اسی روح کے ساتھ صنعت میں اپنی دیانت کے معیار کو بلند کریں.433
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اپریل 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ہم قرآنی ارشاد فاستبقوا الخیرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے محض اللہ ایسا کریں گے، اگر ہمارا مقصود یہ ہوگا کہ اللہ کے حکم کے تابع ہم نے اسلام کا جھنڈا بلند کرنا ہے تو یہ درست ہے کہ ہماری صنعتوں کو بھی فائدہ پہنچے گا، ہماری تجارتوں کو بھی فائدہ پہنچے گا، ہماری طبابت کو بھی فائدہ پہنچے گا اور ہماری اقتصادیات کا ہر شعبہ اس سے فائدہ اٹھائے گا.لیکن سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ ہم سے راضی ہوگا، اللہ کی طرف سے ہماری کوشش کو بہت برکت کے پھل لگیں گے اور جب انسانی محنت کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل ہو جاتی ہے تو پھر دنیا کی کوئی قوم ایسے لوگوں کو شکست نہیں دے سکتی.یہ ایک ایسا عنصر ہے، جو آپ کو دنیا کی تجارتوں میں بھی نظر نہیں آتا صنعتوں میں بھی نظر نہیں آتا اور یہ علم طب میں بھی نہیں پایا جاتا.یہ صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان غلاموں کو عطا ہوگا ، جو خدا کی خاطر کام کرتے ہیں اور پھر دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہتے ہیں.ان کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی برکتیں عطا فرماتا ہے.یہ ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے لیکن دنیا کے عام انسان اس کو سمجھ نہیں سکتے.مثلاً ہمارے طبیب اور ڈاکٹر جو افریقہ میں کام کر رہے ہیں، وہ بکثرت ایسے واقعات پیش کرتے رہتے ہیں کہ بظاہر دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے بہت بہتر طبیب موجود تھے، بظاہر ان کے ہسپتالوں سے بہت بہتر ہسپتال بھی موجود تھے، جن پر حکومتوں کا کروڑ ہاروپیہ خرچ ہورہا تھا، اس کے باوجود بڑی چوٹی کے مریض ، جن کو حکومت کے کارندے ہونے کے لحاظ سے وہاں مفت علاج میسر آ سکتا تھا، وہ ان ہسپتالوں کو چھوڑ کر احمدی ہسپتالوں کی طرف مائل ہوئے.وہ اعلیٰ ہسپتالوں کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی کٹیا میں آگئے ، جہاں ایک میز پڑی ہوتی تھی، جہاں پوری طرح اوزار بھی مہیا نہیں تھے، جہاں پوری طرح روشنی کا انتظام بھی نہیں تھا اور پوری طرح Disinfect کرنے کا انتظام بھی نہیں تھا.انہوں نے کہا کہ ہم احمدی ڈاکٹروں سے آپریشن کروائیں گے اور دوسرے ہسپتالوں میں نہیں کروائیں گے.چنانچہ انہوں نے ایسی نوعیت کے کامیاب آپریشن کروائے، جن میں زندگی اور موت ایک بہت ہی باریک دھاگے کے درمیان لٹکی رہتی ہے.بعض دفعہ ہمارے ڈاکٹروں نے تعجب سے پوچھا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ہمیں یہ پتہ ہے کہ دنیاوی و جاہت اور دنیاوی سامان تو دوسرے ہسپتالوں میں ہیں لیکن شفا آپ کے پاس ہے.کیونکہ ہمیں یہی پتہ لگتا ہے کہ جتنے مریض آپ کے پاس آتے ہیں، وہ اللہ کے فضل سے شفا پا جاتے ہیں لیکن دوسرے ہسپتالوں میں شفا کا یہ معیار نہیں ہے.اگر ظاہری اسباب کو دنیا کے کمپیوٹر میں ڈالا جائے تو یہ نتیجہ نہیں نکلنا چاہئے.یہ نتیجہ اس لئے نکلتا ہے کہ ہمارے ہاں اللہ کی رضا کا عصر داخل ہو جاتا ہے.نیتیں نیک اور پاک ہیں، ان کے اندر خلوص ہے، 434
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1983ء اللہ کی رضا کی خاطر ہمارے ڈاکٹر باہر گئے ہیں اور اللہ کی خاطر وہاں کام کر رہے ہیں اور جب اللہ کی رضا کا عصر بیچ میں داخل ہو جاتا ہے تو سارے نتائج کی کایا پلٹ جاتی ہے.یہ چیز اتنی تفصیل کے ساتھ ہمارے معاملات میں دخل دیتی ہے کہ اگر انسان کھلی آنکھوں کے ساتھ مطالعہ کرے تو اس کے لئے شک کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی.یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی یہ چیز کار فرما نظر آتی ہے.مثلاً کھیل کے میدان میں میچ ہو رہا ہے اور احمدی ٹیم کو شکست ہو رہی ہو لیکن وہاں اچانک کا یا پلٹتی ہے، کیوں؟ اس لئے کہ اللہ کی رضا کا عنصر بیچ میں داخل ہو جاتا ہے.مجھے یاد ہے، ایک دفعہ بٹالہ میں ایک میچ ہو رہا تھا، ایک عیسائی ٹیم کے ساتھ احمدی ٹیم کا بڑے زور کا مقابلہ تھا.اور وہاں یہ Issue بن گیا کہ دیکھیں، مسلمان جیتے ہیں یا عیسائی ؟ عیسائی ٹیم کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ ہماری ٹیم جو بظاہر کمزور تھی ، وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ اسلام کی خاطر ایک فضل کرنا تھا، وہاں یہ بہانہ بن گیا، حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ڈلہوزی سے واپس قادیان جاتے ہوئے وہاں سے گزر ہوا.آپ کی نظر پڑی کہ ایک جگہ کوئی ہنگامہ سا ہے اور بہت سے احمدی بھی وہاں موجود ہیں.آپ نے موٹر ٹھہرائی اور دریافت فرمایا کہ کیا ہورہا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ حضور ! یہاں تو بڑا سخت مقابلہ ہورہا ہے ، ہماری ٹیم شکست کھا رہی ہے اور یہ مقابلہ گویا اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ بن گیا.ہے، آپ دعا کریں.چنانچہ حضرت صاحب نے سفر کو ٹال دیا اور آپ وہیں کھڑے ہو گئے اور فرمایا: میں دعا کرتا ہوں.حضور نے دعا کرائی اور دیکھتے دیکھتے کا یا پلٹ گئی اور احمدی کمزور کھلاڑی بھی مخالف ٹیم کے طاقتور کھلاڑیوں پر غالب آنے لگے.یہ کیا واقعہ ہوا تھا؟ ان کی جسمانی حالت میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی.صرف اللہ کا ایک خاص فضل شامل حال ہوا، جس نے ظاہری مقابلے کے بالکل برعکس نتیجہ پیدا کیا.پس جب آپ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر دیانتداری اختیار کریں گے تو فائدہ تو آپ کو ہی پہنچے گا.وہاں بھی جیتی تو قادیان کی ٹیم تھی اور فائدہ بظاہر کھلاڑیوں کو پہنچا تھا.لیکن اللہ کی محبت بھی حاصل ہوگئی.اس لئے جب اللہ کی رضا شامل ہو جائے گی تو احمدی تاجروں کو ، احمدی صنعت کاروں کو اور احمدی سائنسدانوں کو اور احمدی وکلاء کو اللہ کا پیار نصیب ہو جائے گا.جب وہ خدا کی رضا کی خاطر اس سے دعائیں مانگتے ہوئے ہر شعبہ کی زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے تو خدا کا غیر معمولی فضل ان کے شامل حال ہوگا.پھر یہ کوشش بھی کرنی ہے کہ پوری سخاوت کے ساتھ اپنے گر اور ہنر جماعت کو پیش کریں.یہ وہ آخری حصہ ہے، جس کی طرف میں خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں.تاجروں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ 435
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 اپریل 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ان کو کوئی گر مل جائے یا کوئی اچھا موقع تجارت کا میسر آجائے تو وہ اسے اپنے تک محد و در کھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کوئی اور اس میدان میں داخل نہ ہو.ہمارے اطباء میں بھی یہ مرض پایا جاتا ہے.لوگوں کو تو شفا دیتے ہیں لیکن ان کو اپنے اس مرض کی شفا نہیں.کوئی اچھا نسخہ ہاتھ آ جائے ، جس سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچتا ہے تو وہ دبا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ چٹکلا صرف ان سے ہی ملے گا.اسی طرح ہمارے صنعتکاروں میں بھی یہ بیماری ہے بلکہ ہمارے دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں بھی یہ بیماری پائی جاتی ہے.اس بیماری کے ساتھ بعض صورتوں میں فرد کی ترقی کی ضمانت تو دی جاسکتی ہے لیکن قومی ترقی کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی.بلکہ یہ علامت قومی تنزل کی ضمانت بن جاتی ہے.چنانچہ آپ مشرق اور مغرب کی ترقیات کا مقابلہ کریں یا تنزل اور ترقی کا مقابلہ کریں تو ایک بہت بڑا امر، جو کار فرما نظر آئے گا، وہ یہی ہے.ہمارے ہاں یہ بات رواج پکڑ گئی کہ جس کو کوئی علم ملا، اس نے سینہ بہ سینہ اپنی اولاد میں چلانا شروع کر دیا.اور یہ سینہ بہ سینہ کا محاورہ سوائے مشرق کے دنیا میں اور کہیں ملتا ہی نہیں.عجیب و غریب محاورہ ہے.اور لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ راز سات پشتوں سے سینہ بہ سینہ ہمارے خاندان میں چلا آرہا ہے.راز سینہ بہ سینہ تو آرہا ہے لیکن ساری قوم کو دفن کر گیا.مغرب نے اس کے برعکس اپنے علوم کو تر ویج دی ہے.اگر کسی کے ہاتھ چھوٹا سا نکتہ بھی آیا ہے تو اس نے اس کی تشہیر کی ہے اور تمام قوم کو اس میں شامل کیا ہے.نتیجہ یہ نکلا کہ ہر فردا کی دولت ساری قوم کی دولت بن گئی ، صرف اس کی ذاتی دولت نہ رہی.اس طرح ہر فرد نے جو سیکھا، وہ بھی اس کو مل گیا اور اس نے آگے دوسروں کو بھی عطا کیا.37 پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا، وہ اعلیٰ مقصد ہے، جس کی طرف قرآن کریم مسلمانوں کو بلاتا ہے.اور جس کی طرف قرآنی ارشاد فاستبقوا الخیرات کے تابع میں تمام احباب جماعت کو بلا رہا ہوں.میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ اپنے دیانت اور تقویٰ کے معیار کو بلند رکھتے ہوئے محض خدا کی خاطر ہر بھلائی میں دنیا سے آگے نکل جائیں گے.اور جتنا زیادہ آگے بڑھیں گے، اتنا زیادہ دنیا پر خرچ بھی کریں گے.آپ کی تو کوئی حد نہیں ہے.آپ تو وہ قوم ہیں، جن کے امام کے متعلق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا ہوگا.فرمایا.لو كان الايمان عند الثريائناله رجال او رجلٌ من هؤلاء ( بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة الجمعة باب قوله تعالى واخرین مهم لنا الحقوا بهم 436
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اپریل 1983ء کہ وہ تو اتنی عظیم ہمت والا انسان ہوگا، اتنی بلند جست ہوگی اس کی کہ اگر ایمان دنیا سے اٹھ کر ثریا پر بھی پہنچ گیا تو وہ اسے کھینچ کر دوبارہ دنیا میں لے آئے گا.پس جو امام اس شان کا ہو اور اتنی بلند ہمت رکھنے والا ہو کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو یہ خوشخبری دے رہے ہوں کہ ہاں تو جائے گا اور آسمان کی بلندیوں سے بھی ایمان کو کھینچ کر دوبارہ لے آئے گا، تیرے قدم ثریا پر پڑ رہے ہوں گے ، اس کے ماننے والے، اس کے پیچھے چلنے والے ہیں ہم، اس لئے لازماً ہمیں اپنے ارادے بلند کرنے پڑیں گے اور بلند ارادوں کے ساتھ اپنے اعمال کے معیار کو بھی بڑھانا ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 14 جولائی 1983ء) 437
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بنام احباب جماعت احمد یہ عالمگیر صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے قیام کا مقصد غلبہ اسلام کی مہم کو تیز کرنا پیغام بنام احباب جماعت احمد یہ عالمگیر الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ میرے عزیز بھائیو اور بہنو! هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته یکم مارچ 1983ء سے صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ اپنے دسویں مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے.نویں سال کے آخر تک وعدہ جات کا 9/15 حصہ یعنی 60 فیصد ادا ہو جانا چاہئے تھا.لیکن دفتر کی طرف سے جو اعداد و شمار ملے ہیں، اس کے مطابق ابھی تک وصولی 35 فیصد ہوئی ہے، جو انتہائی قابل فکر ہے.صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کے قیام کا مقصد غلبہ اسلام کی مہم کو تیز کرنا اور بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنا کر توحید کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.جس کی ذمہ داری ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالی گئی ہے.اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں ہر قسم کی مالی، جانی اور جذباتی قربانیاں دینی ہوں گی.جو اخراجات درپیش ہیں، وہ اس نوعیت کے ہیں کہ وعدوں کی پوری وصولی کو آخری سال یعنی 1989ء تک مؤخر نہیں کیا جاسکتا.اگر تاخیر ہو جائے تو خطرہ ہے کہ بعض بنیادی اہم ضرورت کے کام تشنہ تکمیل رہ جائیں گے.لیکن اس وقت وصولی کی جو شکل سامنے آئی ہے، وہ انتہائی فکر انگیز ہے.میں عالمگیر جماعت احمدیہ کو تحریک کرتا ہوں کہ اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں، سابقہ کوتاہیوں کو دور کریں اور کوشش کریں کہ 29 فروری 1984 ء تک اپنے بقایا وعدہ کا کم از کم 1/4 حصہ ادا کر دیں.439
پیغام بنام احباب جماعت احمد یہ عالمگیر 440 تحریک جدید - ایک الہی تحریک اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے اور ہر طرح حافظ و ناصر ہو.آمین ، اللهم آمین والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روزنامه الفضل 18 اپریل 1983ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 129 اپریل 1983ء قرآن کریم میں بیان فرمودہ انبیاء کے رنگ ڈھنگ اختیار کریں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اپریل 1983ء میں نے ایک گزشتہ خطبے میں جماعت کو ان انبیاء کے واقعات کی طرف توجہ دلائی تھی ، جن کو قرآن کریم نے ہمارے لئے نصیحت کے طور پر محفوظ کیا ہے.قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ جو بھی تعلیم دیتا ہے یا جن باتوں سے منع فرماتا ہے، تاریخ مذاہب سے ان کی ایسی عملی مثالیں بھی ہمارے سامنے رکھتا ہے، جو اپنے مضمون میں ایک خاص شان رکھتی ہیں.پس کسی موضوع پر بھی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آپ قرآن کریم کی طرف رجوع کریں تو آپ کو نہ صرف تعلیم ملے گی بلکہ اس کے عملی نمونے بھی قرآن کریم میں نظر آئیں گے.آج کل میں جماعت کو خاص طور پر داعی الی اللہ بنے کی تلقین کر رہا ہوں.اسی سلسلے میں، میں نے نصیحت بالحق، جس کو تواصوا بالحق کہتے ہیں ، اس کی طرف متوجہ کیا تھا.اسی طرح نصیحت بالصبر کی طرف بھی متوجہ کیا تھا.انبیاء کی تاریخ جو قرآن کریم میں محفوظ ملتی ہے، اس میں ان دونوں امور کے نہایت ہی اعلیٰ نمونے نظر آتے ہیں.اور اگر ہم اس تاریخ پر اس نقطہ نگاہ سے نظر دوڑائیں کہ ہمیں بہترین نصیحت کے طریق معلوم ہوں نصیحت حق کے ساتھ کیسے کی جاتی ہے؟ کس بات کو نصیحت بالحق کہا جاتا ہے؟ اور صبر کے بہترین طریق معلوم ہوں تو ان قصص پر ہمیں غور کرتے رہنا چاہئے“..پس اگر جماعت احمدیہ ابنیاء کی طرح اپنی باتوں میں اثر پیدا کرنا چاہتی ہے تو انبیاء کے وہ رنگ ڈھنگ اختیار کرے، جن کا ذکر قرآن کریم میں پایا جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو طریق نصیحت بیان فرمایا ہے، وہی بہتر ہے اور اسی میں سب سے زیادہ طاقت ہے.کیونکہ صاف اور سیدھی باتوں سے زیادہ کسی دلیل میں وزن نہیں ہو سکتا.خواہ وہ ظاہری لحاظ سے کتنی ہی شاندار نظر آئے.اللہ تعالیٰ ہمیں بہترین رنگ میں داعی الی اللہ بننے کی توفیق عطا فرمائے اور انبیاء کی سنت کے مطابق ہمیں ایسی گہری اور وزنی باتیں کرنے کی توفیق دے، جن میں ہمارا تقویٰ شامل ہو.اور ان کا انکار کرنا مخالف کے بس میں نہ ہو.دل سے نکلیں اور دل میں ڈوب جائیں.کوئی پردہ نہ ہو، جو درمیان میں حائل ہو سکے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی ہی توفیق عطا فرمائے.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل (09 اگست 1983ء) 441
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام فرموده 02 مئی 1983ء خداوند کریم آپ سب خدام کو الداعی الی اللہ بنادے پیغام فرمودہ 02 مئی 1983ء مجالس خدام الاحمدیہ آندھراپردیش کے سالانہ اجتماع منعقدہ 29, 28 مئی 1983ء کے موقع پر حضور نے درج ذیل پیغام ارسال فرمایا :.بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلي على هوا له الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ مکرم محترم حمیدالدین شمس صاحب! هو المناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کی 2 چٹھیاں مورخہ 9/9/83 موصول ہوئی ہیں.میری دعا ہے ، خداوند کریم آپ سب خدام کو الداعی الی اللہ بنادے اور آپ کی دعوت الی اللہ میں تاثیر پیدا فرمائے.لوگوں کے دلوں کو آواز حق و صداقت کے قبول کرنے کے لئے کھول دے.خداوند کریم کی تو حید اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت دنیا میں قائم ہو، شریعت قرآنیہ کا نفاذ ہو اور ساری دنیا اخوت اسلامی میں داخل ہو کر امن و سکون اور اطمینان کا سانس لے اور فلاح دارین نصیب ہو.خداوند کریم آپ کو اپنے فضل و کرم سے نوازتا چلا جاوے اور مقبول خدمت دین کی توفیق ملتی رہے.خداوند کریم ہر آن آپ کا حافظ و ناصر ہو اور اس کے سایہ تلے بڑھتے چلے جاؤ.آمین والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفه المسيح الرابع *1983 02 ( مطبوعه روزنامه الفضل 07 جولائی 1983ء بحوالہ ہفتہ روزہ بدر 23 جون 1983ء) 443
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خلاصہ خطاب فرمودہ 05 مئی 1983ء آنحضور کے اسوہ پر عمل کرنے سے ہی دنیا میں حقیقی انقلاب لایا جائے گا خطاب فرمودہ 05 مئی 1983ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے خدام اور لجنات کی تربیتی کلاس کے بخیر و خوبی اختتام پذیر ہونے پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور فضلوں کا شکر ادا کیا.اور طلبہ وطالبات کو اس بنا پر قابل ستائش قرار دیا کہ انہوں نے بہت انہماک اور توجہ سے اس میں حصہ لیا.حضور نے فرمایا:.وہ سارے کارکن اور کارکنات، جنہوں نے خدام اور لجنہ کی تربیتی کلاسوں کے انتظام و انصرام میں حصہ لیا، طلبہ وطالبات کی دعاؤں کے مستحق ہیں.کیونکہ استاد ہمیشہ محسن ہوتا ہے اور احسان کا بدلہ سوائے احسان کے کچھ نہیں ہوسکتا.فرمایا:.اس بات کے ذکر سے توجہ لازماً دنیا کے سب سے بڑے محسن کی طرف پھر جاتی ہے.دنیا کے - سب سے بڑے محسن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جن کے احسانات کا جاری چشمہ قیامت تک کبھی ختم نہ ہوگا.حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے کبھی غافل نہ رہیں.حضور نے فرمایا:.مومن کی زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے تشکیل پاتی ہے“.حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈال کر دنیا بھر پر آنحضور کے احسانات کی چند نہایت لطیف مثالیں بیان فرما ئیں اور طلبہ وطالبات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ سب لوگ آنحضور کی زندگی کے رنگ میں رنگین ہو جا ئیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ دنیا کو بدل دیں گے.اور حقیقی انقلاب دنیا میں اسی طریق پر آئے گا.آنحضرت کی سیرت 445
خلاصہ خطاب فرمودہ 05 مئی 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں اتنی عظمت ہے کہ جب کسی میں یہ سیرت جاری ہو جائے تو یہ ساری دنیا پر غالب آتی ہے.کوئی دوسرا اس پر غالب نہیں آسکتا.دنیا کو فتح کرنے کا راز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر عمل پیرا ہونے میں ہی مضمر ہے.حضور نے طلباء وطالبات کو نصیحت فرمائی کہ اس پیغام کو پلے باندھ کر آپ لوگ جب واپس جائیں گے تو یقینا ایک کامیاب داعی الی اللہ ن سکیں گے.اور دین اسلام کے غلبہ کے اس انقلاب کو بہت جلد عملی صورت میں ڈھالنے والے بن جائیں گے، جو ہمارا مطلوب مقصود ہے“.446 مطبوعه روزنامه افضل 09 مئی 1983ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن یورپ کو بتانا ہوگا کہ آپ کا طرز زندگی ان سے بہت بہتر ہے پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن منعقدہ 22, 21 مئی 1983ء حضرت خلیفة المسیح الرابع کے انگریزی پیغام کا ترجمہ درج ذیل ہے:.میرے پیارے خدام! السلام عليكم مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ کی مجلس اپنا سالانہ اجتماع 21 22 مئی کو منعقد کر رہی ہے.میں اس کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس اجتماع کا انعقاد خدام الاحمدیہ کی بلند روایات کے عین مطابق ہوگا.آپ ایک ایسے معاشرہ میں رہ رہے ہیں، جو باوجود یکہ مادی ترقی یافتہ ہونے اور اپنے آپ کو تہذیب یافتہ کہلانے کے، اخلاقی طور پر انتہائی خراب ہے.جس میں ہر قسم کی برائیاں موجود ہیں.کیونکہ یہ وہ معاشرہ ہے، جہاں انسان نے اللہ تعالیٰ سے، اپنے پیدا کرنے والے سے منہ موڑ لیا ہے.ان لوگوں کی حالت بہت قابل رحم ہے.ان کے طور طریق اور برے اطوار کے نتائج بھیا نک سے بھیانک تر صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور وہ خود اس کے چشم دید گواہ ہیں.صرف اللہ تعالیٰ ہی ان کو اس حالت سے نجات دے سکتا ہے.ہمیں امید رکھنی چاہیے اور دعائیں کرنی چاہئیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے ہوں.یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں.لیکن صرف آپ کے الفاظ نہ تو ان کو متاثر کریں گے اور نہ ہی وہ اس طرح سے اپنا طرز عمل بدلیں گے.بلکہ ان کو اسلام کی طرف بلانے کے لئے یہ بتانا ہوگا کہ آپ کا طرز زندگی ان کے طرز زندگی سے بہت بہتر ہے.آپ کو انہیں نہ صرف باتوں سے بلکہ اپنے اسلامی طرز عمل سے یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ، جو صرف خدائے واحد پر یقین رکھتے ہیں اور پھر اسی کو اپنا وجو د سونپ دیتے ہیں، حقیقت میں وہی نیکی کی زندگی گزار سکتے ہیں اور صرف نیکی کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے.447
پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے اندر اسلامی اقدار پیدا کرنے کی توفیق دے اور پھر آپ میں سے ہر ایک اسلام کی سچائی کا ایک زندہ ثبوت بن سکے.والسلام مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع 448 مطبوعه روزنامه الفضل 23 جون 1983ء)
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ اڑیسہ اپنی زندگیوں کے مقصود کو پانے کے لئے سیرت طیبہ کا مطالعہ اور پیروی کریں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ اڑیسہ منعقدہ 21، 22 مئی 1983ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود عزیز بھائیو اور بہنو! خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ جماعت ہائے احمد یہ اڑیسہ اپنا انیسواں سالانہ جلسہ مورخہ 21، 22 مئی 1983ء کو کیرنگ میں منعقد کر رہی ہے.خدا تعالی اس جلسہ کو بہت برکت بخشے اور آپ سب کو ، جو اس میں شریک ہورہے ہیں، اپنی رحمتوں سے وافر حصہ عطا فرمائے.آمین خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن کریم میں تمام مومنوں کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے.اور فرمایا ہے کہ نجات کے طالبوں اور رضائے الہی کے متلاشیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلیں.اور آپ کی پیروی اور اطاعت کریں اور آپ کی طرز زندگی کے موافق اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز زندگی اور آپ کے اخلاق و عادات وہ پیمانہ ہیں، جن کے مطابق آپ کے ہر ماننے والے کے اخلاق کو پر کھا جائے گا اور اس کے عادات و اطوار کو جانچا جائے گا.اور آپ کی پیروی، آپ کے قدم پر قدم مارنا ہی وہ راستہ ہے، جو انسان کو نجات کا مستحق اور خدا تعالیٰ کی رضا کا حقدار بناتا ہے.اور یہی وہ راہ ہے، جو انسان کو ظلمت سے نکال کر روشنی میں لاتی ہے اور انسان کے سینہ و دل کو پاک وصاف کر کے خدا تعالیٰ کے نور کو قبول کرنے کے لئے تیار کرتی ہے.پس ہم ، جو اپنے آپ کو آپ کے ماننے والوں میں شامل کرتے ہیں اور خود کو مسلمان کہتے ہیں اور آپ کی امت میں سے ہونے کے دعویدار ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کے اسوہ حسنہ کو ہمیشہ اپنے 449
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ اڑیسہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک سامنے رکھیں اور زندگی کے مختلف ادوار میں آپ کے کردار اور عمل کا جائزہ لے کر آپ کے طریق اور آپ کے اوصاف اور آپ کے اخلاق کو اپنی زندگیوں میں جاری کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہیں.یہ وہ طلح نظر ہے، جو ہر احمدی مسلمان کے ہمیشہ پیش نظر رہنا ضروری ہے.اور اسی کے حصول کے لئے ہر احمدی مسلمان کو اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق سعی کرنی چاہئے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرمایا ہے:.إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ اور یہ حقیقت ہے اور ہم دو اور دو چار کی طرح اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں کہ صرف آپ ہی کی ذات بابرکات ہے، جو جامع صفات حسنہ ہے.اور آپ ہی کا وجود مبارک، جو تمام اخلاق فاضلہ کا کامل ترین نمونہ ہے.کہیں آپ فصاحت بیانی سے ایک قوم کو حیران کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں آپ کی خاموشی گویائی کی طرح بولتی دکھائی دیتی ہے.سخاوت پر آتے ہیں تو سونے کے پہاڑ بھی بخش دیتے ہیں اور فقر اور غنا پر آتے ہیں تو تمام انسانی تاریخ میں آپ سا صاحب فقر نظر نہیں آتا.ایک وقت آتا ہے کہ تیرو تلوار کے ساتھ میدان جنگ میں بڑھ بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں تو صبر کے وقت آپ کے صبر کے سامنے صبر ایوبی پیچ نظر آتا ہے.غرض کوئی ایسا خلق اور کوئی ایسا وصف نہیں ، جس کا اعلیٰ سے اعلیٰ اور کامل سے کامل نمونہ آپ نے نہ دکھایا ہو.آپ کی مثال تو ایک ایسے شجر سایہ دار کی ہے، جس کے گھنے سایہ میں بیٹھ کر انسان اپنی ہر ضرورت پوری کرلے.اور جس کا ہر جزو، اس کا پھول، اس کا پھل، اس کی چھال اور اس کے پتے ہر چیز سفید اور سود مند اور راحت رساں اور سرور بخش ہو.اگر ہم ، جو اپنے آپ کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں اور آپ سے غلامی کی نسبت پر فخر کرتے ہیں حقیقی معنوں میں آپ کے غلام بننا چاہتے ہیں اور ان برکات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، جو آپ کی ذات بابرکات سے وابستہ ہیں اور اگر ہم وہ حسن اور خوبصورتی اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں، جو آپ کے حسن اور آپ کی خوبصورتی کا پرتو ہو اور اگر ہم اپنے خالق اور مالک کی رضا اور اس کی خوشنودی اور اس کے پیار اور محبت کے خواہاں ہیں تو ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے اور وہ اطاعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے.پس اس موقع پر کہ جماعت ہائے احمد یہ اڑیسہ کے بھائی اور بہنیں کیرنگ میں جمع ہیں، میں آپ سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی زندگیوں کے مقصود کو پانے کے لئے اور اپنے رب کے قرب کے حصول کے لئے 450
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ اڑیہ اور اپنے خالق و مالک کی پیار اور محبت کی نظر کا مورد بننے کے لئے اپنے آقا و مولیٰ سید ولد آدم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں اور کوشش کریں کہ آپ کی ہر حرکت اور ہر سکون اپنے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کے تتبع میں ہو.اور زندگی کے مختلف ادوار اور مختلف حالات میں آپ کا طرز عمل اور کردار حتی الوسع او حتی المقدور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل اور کردار کی پیروی میں ہو.جب ہم ایک پختہ عزم اور پکے ارادے کے ساتھ اس کے لئے جد جہد کریں گے اور آپ کے اخلاق کریمانہ کی روشنی میں اپنے اخلاق سنوارنے کی کوشش کریں گے تو یقیناً خدا تعالیٰ ہماری طرف رحمت کے ساتھ رجوع کرے گا اور ہمارے دلوں کو قوت اور ہمارے قدموں کو ثبات بخشے گا اور ہمیں اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے اور آپ کی بتائی ہوئی راہ پر گامزن ہونے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرے گا.اور تب ہی اپنے خالق و مالک کی نگاہ میں اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کرنے والے قرار پائیں گے اور تب ہی ہم آسمان پر حقیقی مسلمان لکھے جائیں گے.اور اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی سچی خوشحالی اور دائمی فلاح کے حقدار ٹھہریں گے.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی رحمت کا سایہ آپ پر رکھے.خدا تعالیٰ میرے ان الفاظ میں برکت بخشے اور خدا کرے کہ یہ الفاظ آپ کے دلوں پر اثر کرنے والے اور آپ کی زندگیوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کا موجب ہوں.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعہ روزنامه الفضل 10 ستمبر 1983ء بحواله هفته روزه بدر 11 اگست 1983ء) 451
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام برموقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ مغربی کینیڈا اپنے مقام کی شناخت کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت ہائے احمد یہ مغربی کینیڈا امنعقدہ 22 مئی 1983ء عزیز بھائیو اور بہنو! الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ جماعت ہائے احمد یہ مغربی کینیڈا اپنا جلسہ سالانہ مورخہ 22 مئی 1983ء/1362ھش کو کیلگری میں منعقد کر رہی ہے.خدا تعالیٰ اس جلسہ کو بہت بابرکت کرے اور آپ سب کو ، جو اس جلسہ میں شریک ہیں ، اپنے فضلوں سے نوازے.آمین ایک بات جو آپ میں سے ہر ایک کو مد نظر رہنی ضروری ہے، یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے بابرکت ہاتھوں سے جماعت احمدیہ کا قیام اس غرض سے فرمایا تھا کہ تا ان کو ، جو اپنے حقیقی خالق اور مالک سے دور ہیں، توحید خالص پر جمع کیا جائے.اور ان سب کو ، جو مختلف مذاہب اور مختلف ادیان کے ماننے والے ہیں، دین واحد کی طرف دعوت دی جائے اور انہیں اسلام کی حسین تعلیم سے روشناس کرائے.حضرت سید ولد آدم خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کیا جائے.یہی ایک احمدی کی زندگی کا اولین مقصد ہے اور یہی ہماری جماعت کے قیام کی بنیادی غرض ہے.اس نکتہ نظر سے آپ سب کا فرض ہے کہ آپ ان لوگوں کو ، جو کینیڈا میں آباد ہیں، حقیقی اسلام کی طرف بلائیں اور انہیں اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر جمع کرنے کے لیے کوشش کریں.کینیڈا میں آباد تمام لوگوں اور تمام اقوام تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا اور انہیں اسلام کے محاسن اور قرآن پاک کے معارف سے آگاہ کرنا، ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے.اور ہر بڑی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے مناسب تیاری ، ان تھک محنت اور طویل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے.453
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ مغربی کینیڈا تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس آپ کے اس سالانہ جلسہ کے موقع پر میں آپ سب سے، جو اس جلسہ سالانہ میں شریک ہیں اور آپ کے توسط سے کینیڈا میں آباد حضرت مسیح موعود کے تمام جاں شاروں سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ دین حق کی طرف بلانے کی اس عظیم مہم کے لیے اپنے آپ کو ، اپنے اہل خانہ کو اور اپنے بچوں کو تیار کریں.آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ جائزہ لیں کہ کیا آپ خودان احکام اور تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں.جن کی طرف لوگوں کو بلانے کے لیے آپ اس جماعت میں داخل ہوئے ہیں؟ کیا آپ پورے یقین اور سچے دل کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ آپ ایمان لے آئے ہیں؟ ایسا ایمان، جس کے ساتھ دنیا کی ملونی اور نفسانی اغراض کا گند نہیں.ایسا ایمان، جو نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں.ایسا ایمان، جو اطاعت اور فرمانبرداری سے محروم نہیں.کیا آپ صحت نیت اور صفائی قلب کے ساتھ یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ آپ بچے ایمان اور حقیقی پاکیزگی کے حصول اور گندی زندگی اور کا ہلا نہ اطوار سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے پورے دل اور پورے زور کے ساتھ کوشاں ہیں؟ کیا آپ پورے ایمان اور کامل یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اپنے اندر ایک واضح، نمایاں اور پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لیے جد و جہد شروع کر دی ہے؟ کیا آپ پورے ارادے اور پختہ عزم کے ساتھ اپنے آقا و مولیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کے لیے خود کو تیار پاتے ہیں؟ یہ سب باتیں آپ کے سوچنے کی ہیں.اور یہ سب سوال ایسے ہیں، جن کے جواب آپ اپنے اندرونہ پر نظر کرنے سے ہی حاصل کر سکتے ہیں.خدا کا مسیح اور اس زمانے کا مامور علیہ السلام ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے اور کیسی تبدیلی اپنے اندر لانا چاہتا ہے، یہ وہ امر ہے، جس کے بارے میں ہمیں غور کرنا چاہیے.کیونکہ اس مطالبے کو پورا کرنے میں ہی ہماری کامیابی اور ہماری فلاح ہے.اور اپنے نفوس میں تبدیلی لانے کے بعد ہی ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ آسمان پر امام آخرالزمان کی جماعت میں شامل سمجھے جائیں.اور تب ہی ہم حقیقی معنوں میں داعی الی اللہ کہلانے کے حقدار بن سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود ہم سے کیا چاہتے ہیں اور ہمیں کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس سلسلے میں حضور نے اپنی تحریرات میں بارہا ہماری راہنمائی فرمائی ہے.تبلیغ رسالت میں اسی موضوع پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.وہ ، جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے 609 ہیں، اس سے غرض یہ ہے کہ تاوہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقومی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بد چلنی ان کے نزدیک نہ آسکے.وہ پنجوقتہ نماز 454
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ مغربی کینیڈا با جماعت کے پابند ہوں، وہ جھوٹ نہ بولیں، وہ کسی کو زبان سے ایذاء نہ دیں، وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں.اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اورفتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں.غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں.اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں.اور کوئی زہر یلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے.اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچادیں.اور چجوقتہ نماز کونہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اور نین اور رشوت اور اتلاف حقوق اور بے جا طرف داری سے باز رہیں اور کسی بد صحبت میں نہ بیٹھیں.اور چاہیے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو.اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو اور چاہیے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گزرنہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گئے“.تبلیغ رسالت جلد مفتم صفحه 42.43) جب تک ہم حضور کے ان ارشادات کے مطابق اپنی زندگیوں میں تبدیلی نہیں لاتے اور برائی اور نفسانی خواہشات سے اپنا دامن نہیں چھڑاتے اور اس دنیا میں رہتے ہوئے اس دنیا سے کنارہ نہیں کرتے ، اس وقت تک ہم دعوت الی اللہ کی اس عظیم مہم میں شمولیت کی لا انتہاء برکات سے حصہ نہیں پا سکتے.جب ہم مسیح پاک کے ان نصائح پر عمل کرنے کے لیے کمر ہمت کس لیں گے اور پورے ارادہ اور پختہ عزم کے ساتھ آپ کے بتائے ہوئے راستہ پر گامزن ہو جائیں گے ، تب ہی ہم ان برکات کے حقدار بن سکیں گے، جو موعود ادیان عالم کے جاں نثاروں کے لیے ازل سے مقدر کر دی گئی ہیں.اور تب ہی ہم سید ولد آدم سید الانبیاء رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا دعوی کرنے میں حق بجانب ہوں گے.اور تب ہی ہم اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کے بے پایاں سمندر سے سیراب ہوسکیں گے.اور تب آسمانی روشنی ہمارے دلوں کو سکیت اور ہمارے قدموں کو ثبات بخشے گی اور ہماری زبانوں کو وہ قوت عطا کرے گی، جو دلوں پر اثر کرنے والی اور سینوں کو کھولنے والی ہوگی.455
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ مغربی کینیڈا تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس اس موقع پر میں آپ سے یہی کہتا ہوں، اپنے مقام کی شناخت کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.جس غرض کے لئے آپ اس جماعت میں داخل ہوئے ہیں، اس غرض کے حصول کے لیے مناسب تیاری کریں.اپنے خدا کے حضور جھکیں کہ اس کی مدد کے بغیر کوئی ارادہ پورا نہیں ہو سکتا اور اس کی نصرت کے بدوں کوئی کوشش پھل نہیں لاسکتی.اپنی راتوں کو زندہ کریں اور اپنے دانوں کو ذکر الہی سے روشن تر بنا ئیں کہ یہی وہ راستہ ہے، جو فلاح اور کامیابی اور نجات اور خوشحالی کا راستہ ہے.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے نفوس اور اموال میں بہت برکت بخشے.آپ اس دنیا میں بھی اس کی رضا کے مورد ہوں اور دوسری دنیا میں بھی اس کے پیار کی نظریں آپ پر پڑیں.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مرسله: وکالت تبشیر ربوه مطبوعه روزنامه الفضل 20 اکتوبر 1983ء) 456
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 مئی 1983ء جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہ کسی ایک قوم سے ہے، نہ کسی ایک زمانے سے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی 1983ء آج قرآن کریم کی آیت (قلنا یانار کونی برداً وسلاماً علی ابراهیم ناقل) کی صداقت کی سب سے بڑی گواہ جماعت احمد یہ اور دوسرے حصے کی بھی گواہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جب حضرت ابراہیم کی قوم نے کہا کہ اب ابراہیم کو آگ میں ڈالے بغیر چارہ نہیں رہا تب ہم نے کہا:.يُنَارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى ابْرُ هِيمَ کہ اے آگ ! میرے ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا اور امن کی جگہ بن جا.وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْتُهُمُ الْأَخْسَرِينَ انہوں نے بھی ایک تدبیر کی لیکن ہم نے ان کی تدبیر کو الٹ دیا اور وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہو گئے.پس جس جماعت نے قرآن کریم کی گواہی کے ایک حصے کو بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتے دیکھا ہے اور اس کے بعد کے حصے کو بھی بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتے دیکھا ہے اور بار ہا ایسے واقعات گزر چکے ہیں.اس کو دنیا کی کون سی آگ ڈرا سکتی ہے؟ خواہ وہ ظاہری آگ ہو، تب بھی وہ آگ مسیح موعود علیہ السلام کی غلام اور آپ کے غلاموں کی غلام بن کر رہے گی.خواہ وہ باطنی آگ ہوا اور لفظ آگ معنوی طور پر استعمال کیا گیا ہو، تب بھی میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں کہ وہ آگ مسیح موعود علیہ السلام کی غلام اور آپ کے غلاموں کی غلام بن کر رہے گی.اور جس طرح پہلے ابراہیم پر آگ ٹھنڈی کی گئی تھی ، اس ابراہیم پر بھی ٹھنڈی کی جائے گی.یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے، جس کو دنیا کی کوئی قوم بدل نہیں سکتی، کوئی حکومت تبدیل نہیں کر سکتی.تمام دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اس کو تبدیل نہیں کر سکتیں.دراصل یہ ایک جاری وساری حقیقت ہے، کوئی نئی چیز نہیں ہے.جب سے آدم آئے اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کا سلسلہ جاری رہے، ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا.وہ لوگ جو خدا کے نام پر کوئی اعلان حق کرتے ہیں، ان کے لئے لازما آگ جلائی جاتی ہے.اور لازما ان کے لئے اس آگ کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور گلزار میں تبدیل کر دیا جاتا ہے.یہ دو لفظوں میں سچائی اور جھوٹ 457
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 مئی 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک کے مقابلے کی کہانی ہے، جسے قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ پر آخر پر نتیجہ نکال کر ہمارے سامنے پیش کیا.اس میں شک نہیں کہ دلائل یقینا سچائی کے ساتھ ہوا کرتے ہیں اور براہین قاطعہ ہمیشہ بچوں کے ساتھ ہوا کرتی ہیں.اور یہ دلائل مختلف شکلیں بناتے ہیں اور مختلف قوموں کے سامنے مختلف صورتوں میں آتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ متنبہ کرنا چاہتا ہے کہ تم یہ نہ سمجھ لینا کہ چونکہ دلائل ہمارے ساتھ ہیں، اس لئے دلائل کے زور پر ہم فتح پا جائیں گے.جن قوموں سے تمہارا مقابلہ ہے، ان میں ایسی بھی ہیں، جو دلائل کو نہیں مانیں گی.وہ دلائل کے میدان میں جتنی زیادہ شکست کھائیں گی، اتنازیادہ ان کا غصہ بڑھتا چلا جائے گا.پس محض دلائل کے برتے پر تم اس دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے.تمہیں لازما میری طرف جھکنا پڑے گا اور مجھ سے تعلق بڑھانا پڑے گا.کیونکہ ایسا وقت آنے والا ہے کہ تمہارے سارے دلائل بے کار چلے جائیں گے اور تمہیں بچانہیں سکیں گے بلکہ برعکس نتیجہ پیدا کر دیں گے.تمہارے دلائل دلوں کو نرم کرنے کی بجائے انہیں اور زیادہ سخت کر دیں گے.احساس خفت انتقام میں تبدیل ہو جائے گا.تب صرف میں ہوں، جو تمہیں بچا سکتا ہوں.اس لئے دلائل پر انحصار نہیں کرنا، ہمیشہ میری ذات پر انحصار کرنا ہے، میری طرف جھکنا ہے، مجھ سے تعلق جوڑنا ہے.پس اس راز کو کسی احمدی کو کبھی نہیں بھلانا چاہیے.آج ہمارا مختلف زمانوں سے مقابلہ ہے، کسی ایک زمانے سے مقابلہ نہیں ہے.ایسی قومیں بھی آج دنیا میں آباد ہیں، جن کے عقائد ان لوگوں جیسے ہیں، جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام سے مقابلہ کیا تھا.ایسی قو میں بھی آباد ہیں ، جن کے عقائد ان لوگوں جیسے ہیں، جنہوں نے حضرت نوح علیہ السلام سے مقابلہ کیا تھا.ایسی قومیں بھی ہیں، جن کے اعمال حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے اعمال کی طرح ہو گئے ہیں.اور ایسی قومیں بھی ہیں جن کے اعمال لوط کی قوم کے اعمال کی طرح ہو گئے ہیں.پس وقت آ گیا ہے کہ قرآن کی یہ پیشگوئی پوری ہو، وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ (المرسلات : 12) کیونکہ آج سب نبیوں کی تو میں ہمیں مختلف خطہ ہائے ارض پر پھیلی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں.عقائد کے لحاظ سے بھی وہ سارے باطل عقائد آج دنیا میں موجود ہیں، جو مختلف انبیاء کے زمانے میں پیدا ہوتے رہے اور اعمال کے لحاظ سے بھی وہ سارے بد اعمال آج دنیا میں موجود ہیں، جو مختلف انبیاء کے زمانے میں قوموں کو گندگی سے بھر دیتے رہے.458
تحریک جدید- ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 مئی 1983ء پس جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہ کسی ایک قوم سے ہے، نہ کسی ایک زمانے سے.ہم وہ ہیں، جن کے اس زمانے کے امام کے متعلق فرمایا گیا:.جرى الله في حلل الانبياء ( تذکر طبع چہارم ص (79) کہ خدا کا پہلوان مختلف نبیوں کے لبادے اوڑھ کر آیا ہے.اس کو کبھی ایک بدی کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور کبھی دوسری بدی کا.اس وقت جتنی بھیا تک بدیاں اور تصورات ہمارے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں، ان میں ہر قوم کے بد تصورات موجود ہیں اور ہر قوم کی بدیاں موجود ہیں.موسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر دہریت کا اعلان کرنے والے بھی آج موجود ہیں.اس لئے جہاں آپ کو ان سب بدیوں سے نبرد آزما ہونا ہے، وہاں یہ یقین کامل بھی ہمیشہ رکھنا ہے کہ ان سب قوموں کا خدا آپ کے ساتھ ہے.اس خدا سے تعلق جوڑیں کہ وہ سارے معجزات آپ کے حق میں رونما ہوں گے ، جو مختلف نبیوں کے حق میں کبھی رونما ہو چکے ہیں.جتنا خطرناک مقابلہ ہے، اتنا ہی شاندار انجام بھی آپ ہی کا ہے.پس دعا کریں اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھیں.بہت ہی خوش قسمت ہے، وہ قوم جس کو اس عظیم الشان کام کے لئے چنا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو.ہمیں ہر لحاظ سے وہ اپنے ساتھ رکھے.اور اپنے پر توکل کرنے کے طریقے سکھائے.وہ اسلوب سکھائے ، جس سے ہم خدا والے بن جائیں.اور پھر وہ ہر معاملے میں ہر دوسرے سے بڑھ کر ہمارے لئے غیرت دکھائے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.( مطبوعه روزنامه الفضل 16 اکتوبر 1983ء) 459
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ برطانیہ داعی الی اللہ بن جاؤ اور دنیا کو مسیح پاک کا پیغام پہنچا دو پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ برطانیہ منعقدہ 04 جون 1983ء دیار غرب میں بسنے والے میرے عزیز انصار بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مکرم محترم شیخ مبارک احمد صاحب امیر و مشنری انچارج نے یہ اطلاع بھجوائی ہے کہ انگلستان میں مجلس انصار اللہ کا اجتماع جون میں منعقد ہو رہا ہے.انھوں نے اس مبارک اجتماع کے لیے پیغام بھیجوانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس اجتماع میں شامل ہونے والے اور بوجہ مجبوری شامل نہ ہو سکنے والے بھی پر اپنے فضلوں کی موسلا دھار بارش نازل فرمائے.آمین الحمد للہ کہ ذیلی تنظیمیں بھی بیرونی ممالک میں دن بدن مضبوط ہوتی جارہی ہیں اور اپنے فرائض کو پہچان رہی ہیں.چالیس سال سے زائد عمر کے احمدیوں کی اس تنظیم کا نام انصار اللہ ، حضرت مصلح موعود نے تجویز فرمایا تھا.اور یہ آپ جانتے ہیں کہ اس نام کے ساتھ جانثاری اور فدائیت کی روایات وابستہ ہیں.اللہ تعالیٰ اپنی پاک کتاب میں فرماتا ہے:.فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ أَمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (ال عمران: 53) کہ جب خدا کے ایک بندے نے اپنی قوم سے انکار کا خطرہ محسوس کیا تو اپنے مخلص ساتھیوں کو یہ کہہ کر آواز دی که من انصاری الی اللہ “ کہ کون ہے، جو آج محض اللہ کی خاطر میرا مددگار بنے کو تیار ہے؟ اس کے جواب میں مخلصین نے یہی نعرہ بلند کیا کہ نحسن انصار اللہ “.اور یہ جواب ان کا خدا پر پختہ ایمان کی وجہ سے تھا.اور پھر انہوں نے اپنے عمل سے گواہی دی کہ نحن انصار الله.انھوں نے اپنی گردن اطاعت خدا کی رضا کی چھری کے نیچے رکھ دی.واشهد با نا مسلمون کا یہی مفہوم ہے کہ ان کا 461
پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم عمل ان کے قول کی تائید کرتا تھا.اس زمانہ میں جب ہر طرف کفر جوش پر تھا اور اعدائے اسلام زور دکھا رہے تھے.مامور زمانہ نے فرمایا:.هر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بیکس ہیچو زین العابدین مامورزمانہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، ہم نے نحن انصار اللہ کا نعرہ بلند کیا.اس لیے ہمیں انہی روایات کو زندہ کرتا ہے، جو روایات انصار اللہ کے ساتھ وابستہ ہیں.انصار مدینہ کے ایثار، جانثاری سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے.احد کی وادی گواہ ہے کہ کس طرح انصار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ ثانیہ میں ہونے والے عہد کو نبھایا.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سند پائی:.فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ میرے عزیز انصار بھائیو! اس قربانی کی توفیق ملتی ہے، حقیقی ایمان اور کامل یقین ہے.ایسا ،ایمان، جو ہماری زندگیوں کو بدل کر رکھ دے.اگر احمدیت کی کشتی میں سوار ہونے کے بعد ہم ان آداب کو ملحوظ نہیں رکھتے ، جو اس کشتی کے نگہبان نے تجویز کیے تھے تو ہم آج دجالیت، دہریت اور مادیت کے ہلاکت خیز طوفانوں سے بچ نہیں سکتے.اس زمانہ کے مامور سید نا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.بیا بشتاب سوتے کہ ایں کشتی ازاں کہ میری اس کشتی یعنی پاک تعلیم کی طرف جلد آؤ کہ یہ کشتی رب عظیم کے منشاء سے بنی ہے.اور جو اس کشتی کا حقیقی سوار نہیں ہوگا، اسے آپ نے بے نصیب اور بدقسمت کہا ہے.آپ فرماتے ہیں:.و الله کہ ہمچو کشتی نوحم ز کردگار بے دولت آنکه دوریما از لنگرم کہ خدا کی جانب سے میں نے نوح کی طرح کشتی بنائی ہے اور جو اس کے لنگر سے دور رہے گا، وہ بد نصیب ہوگا ، اسے کوئی طوفان سے بچا نہیں سکتا.اس کشتی کے معمار نے اس میں سوار ہونے والوں کو فرمایا ہے اور یہ فرمان انصار کے لئے عمر کے لحاظ سے زیادہ قابل توجہ ہے.23 ایک ذرہ بدی کا بھی قابل پاداش ہے.وقت تھوڑا ہے اور کار عمرنا پیدا.تیز قدم اٹھاؤ کہ شام نزدیک ہے.جو کچھ پیش کرنا ہے، وہ بار بار دیکھ لو.ایسا نہ ہو کہ کچھ 462
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ رہ جائے اور زیاں کاری کا موجب ہو.یاسب گندی اور کھوٹی متاع ہو، جوشاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26 ) پس جلد جلد قدم اٹھاؤ کہ خدا کے انعامات تمہارا انتظار کر رہے ہیں.خدا کی رضا کا حصول مقصود ہے تو جیبوں میں کھرے سکے رکھو کہ کھوٹے سکے اس کے دربار میں قابل قبول نہیں.اور یہ یقین رکھو کہ اس قا در خدا کے وعدے پورے ہو کر رہیں گے.دنیا کی طاقت اس تقدیر میں روک نہیں بن سکتی.پس قوت یقین میں ترقی کرو کہ مامور زمانہ فرماتے ہیں:.یقین ہی وہ دیوار ہے، جس پر شیطان چڑھ نہیں سکتا.نیز فرماتے ہیں:.اے خدا کے طالب بندو! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں.یقین ہی ہے، جو گناہ سے چھڑاتا ہے.یقین ہی ہے، جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے.یقین ہی ہے، جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے.کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو؟ کیا تم جذبات نفس سے بغیر یقینی بجلی کے رک سکتے ہو؟ کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلی پاسکتے ہو؟ کیا تم بغیر یقین کے کوئی کچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو؟ کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو؟“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 66) انصار ! عمر اور تجربہ کے لحاظ سے آپ کا فرض ہے کہ آپ آنے والی نسل کی اچھی تربیت کریں، ان کے لئے نیک نمونہ بنیں.آپ کو یہ فکر دامن گیر رہنی چاہیے کہ آپ احمدیت کی امانت امین ہاتھوں میں سونپ رہے ہیں.داعی الی اللہ بن جاؤ اور دنیا کو سیح پاک کا یہ پیغام پہنچا دو.ہر دروازہ کھٹکھٹاؤ اور کہو کہ مامور زمانہ کہ یہ الفاظ سن لو.آپ فرماتے ہیں:.مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا.میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں.بدقسمت ہے وہ، جو مجھے چھوڑتا ہے، کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 61) 463
پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم پس دنیا کو یہ پیغام دے دو کہ اگر ہلاکت خیز طوفانوں سے بچنا چاہتے ہو تو اس زمانہ کے نوح کی کشتی میں سوار ہو جاؤ.ہر طرف ہلاکت منہ کھولے ہے.یہی اور صرف یہی ایک امن کی راہ ہے.تامخلوق خالق سے اپنا رشتہ استوار کر لے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم داعی الی اللہ بن جائیں.ہم اس کشتی کے حقیقی سوار بن جائیں.آمین ، اللهم آمین.والسلام مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعه روزنامه الفضل 04اکتوبر 1983ء) 464
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بنام جماعت احمد یہ امریکہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرے گا پیغام بنام جماعت احمد یہ امریکہ پیارے بھائیو اور بہنو! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مخلصین میں نے امریکہ میں پانچ مشن خریدنے کی جو تحریک کی تھی، اس کے نتیجہ میں بہت سے مخا نے حیرت انگیز مثالی قربانیوں کے مظاہرے کئے ہیں اور میرے دل سے دعا ئیں لوٹی ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.صرف اس دنیا ہی میں نہیں ، اس دنیا میں بھی ان کو بے حساب جزاء دے گا اور سات پشت تک ان کی نسلیں اپنے ان مخلص آبا ؤ اجداد کی قربانیوں کا انعام پاتی رہیں گی.لیکن یہ سب انعام ایک طرف اور اللہ کا پیارا ایک طرف اللہ کے پیار کے مقابل پر ان انعامات کی کوئی بھی قیمت نہیں.اگر کسی کے مقدر میں وہ ساعت سعد آ جائے کہ اس کی کسی قربانی پر اس کے مولی کے پیار کی نظر پڑ جائے، جو اسے ہمیشہ کے لئے اپنا بنا لے اور اپنا کہہ دے تو وہ خوش نصیب یہ والہانہ نعرہ لگانے کا حق رکھتا ہے کہ فزت برب الكعبة رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا، کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.مجھے یقین ہے کہ ایسے بہت سے خوش نصیب آج جماعت احمدیہ امریکہ میں بھی موجود ہوں گے.ان غیر معمولی قربانی کرنے والوں کے سوا کچھ ایسے لوگ بھی ضرور ہوں گے ، جو سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں اور شدید خواہش کے باوجود حسرتوں کے سوا کچھ پیش نہیں کر سکتے.ان کے حق میں بھی کے حق میں 465
پیغام بنام جماعت احمد یہ امریکہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم میری دعا ہے کہ اللہ ان کے اخلاص پر رحمت اور شفقت کی نظر ڈالے اور ان کے حالات درست فرما دے اور ان کو بھی خدمت دین کی راہوں پر آگے بڑھ بڑھ کر اپنی حسرتیں نکانے کی توفیق دے.ان دوگروہوں کے سوا ایک بھاری تعداد ایسے احمدیوں کی بھی ہے، جو غافلانہ نظر سے ان قربانیوں کو دیکھ رہے ہیں اور طوفانوں کی موجوں سے کھیلنے کی جرات نہیں.ہاں سبک ساران ساحل بن کر ان نبرد آزما مجاہدین کا نظارہ کرنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں.یہ گروہ بالخصوص آج میرا مخاطب ہے.میں نے تمام امریکہ کے چندہ دہندگان کی فہرست کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے.اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر ہر چندہ دہندہ، جو بڑے بڑے وعدے پیش نہیں کر سکتا ، 3,800 ڈالر پیش کر دے تو سلسلہ کی سب فوری ضروریات پوری ہو جاتی ہیں.اور امریکہ کے اقتصادی حالات میں یہ کوئی ایسا بوجھ نہیں ، جو اٹھایا نہ جاسکے.لہذا اگر تمام چندہ دہندگان یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ تین ہزار آٹھ صدڈالر کا نہ صرف وعدہ کریں گے بلکہ آئندہ چند ماہ کے اندر تمام رقم ادا کر کے فارغ ہو جائیں گے تو یہ ایک بڑا نیکی کا کام ہوگا.موجودہ صورت یہ ہے کہ صرف وعدوں کے ٹارگٹ میں کمی ہی پریشانی پیدا نہیں کر رہی بلکہ وصولی کی رفتار بھی اتنی ست ہے کہ اس رفتار پر تو اگلے دس سال میں بھی یہ رقم پوری ہوتی نظر نہیں آتی.پس ان دونوں امور کو مدنظر رکھتے ہوئے ، میں نے یہ حل نکالا ہے کہ 1.ہر امریکن چندہ دہندہ کوشش کرے کہ 3,800 ڈالر سے کم چندہ نہ لکھوائے.2 کل چندہ دہندگان کی اکثریت اس چندہ کو یکمشت ادا کر دے.3.جن کو یکمشت ادا کرنے کی توفیق نہیں، وہ خود اپنا جائزہ لے کر جماعت کو مطلع کریں کہ زیادہ سے زیادہ کتنی ادائیگی آئندہ تین ماہ کے اندر کر سکتے ہیں اور بقیہ کتنی مقسطوں میں کریں گے.گویا صرف وعدے لکھوانے پر اکتفانہ ہو، ساتھ ہی ادا ئیگی کا گوشوارہ بھی تیار ہو جائے.4.جن مخلصین نے 25,000 یا زائد کا وعدہ کیا ہے، وہ کوشش کریں کہ جلد از جلد 10,000 ڈالر نقد ادا کر دیں اور بقیہ ڈیڑھ سال میں.بہر حال ان کے لئے بھی ضروری ہوگا کہ اپنی ادائیگی کے منصوبہ سے جماعت کو آگاہ کریں.کیونکہ اس تخمینہ کے بغیر کہ ہمیں آئندہ دو، تین سال میں کتنی کتنی رقوم ملیں گی ، ہم کوئی کارآمد منصو بہ نہیں بنا سکتے.5.جن کا دس ہزار کا وعدہ ہے، وہ کم از کم پانچ ہزارڈالر نقد ادا کریں اور بقیہ آئندہ ڈیڑھ سال میں.6.جن کا پانچ ہزار کا وعدہ ہے، وہ کم از کم تین ہزار آٹھ سوڈ الرفوری ادا کریں.تا کہ اوسط معیار پر پورے اتر آئیں.466
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم پیغام بنام جماعت احمدیہ امریکہ 7.جو احباب و خواتین کم از کم مقررہ وعدہ کرنے سے بھی قاصر ہیں، ان پر کوئی حرف نہیں.بلکہ ان کی حالت دعا کی محتاج ہے.اللہ تعالیٰ ان پر بھی فضل فرمائے.اور اگر مالی مشکلات حائل ہیں تو مشکلات دور فرمائے.اگر دلوں پر گا نھیں ہیں تو وہ گانٹھیں کھول دے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کے حوصلے بخشے.ایسے احباب کو بھی حتی المقدور حصہ لینے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے اور یہ کوشش بھی کہ اگر صرف ہزار کا وعدہ ہی کر سکتے ہیں تو یکمشت ادا کر کے کم از کم ادائیگی ہی میں مسابقت لے جائیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو بہترین اور مقبول قربانی کی توفیق بخشے اور آپ کی توفیق کو بڑھاتا چلا جائے.سعادات دارین عطا کرے اور ہر قسم کی مشکلات اور دکھوں سے نجات بخشے اور آپ پر راضی ہو.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعه روزنامه الفضل 22 جون 1983ء) 467
تحریک جدید - ایک الہی تحریک مسجد محمود کے قیام پر میں سال پورے ہونے پر پیغام مسجد انسان کی اپنے خالق سے دلی محبت اور فدائیت کی زندہ علامت ہے مسجد محمودز یورک کے قیام پر بیس سال پورے ہونے پر پیغام 22 جون 1983ء کو مسجد محمود زیورک سوئٹزرلینڈ کے قیام پر بیس سال پورے ہونے پر جماعت احمد یہ سوئٹزر لینڈ نے ایک تقریب منعقد کی ، اس موقع پر حضور رحمہ اللہ نے جو انگریزی پیغام بھجوایا، اس کا اردو تر جمہ درج ذیل ہے:.سوئٹزر لینڈ میں تعمیر ہونے والی سب سے پہلی مسجد کے قیام پر ہمیں برس پورا ہونے پر آج آپ با برکت تقریب منارہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس تقریب سعید کو اپنے فضلوں سے نوازے اور آپ سب کو ان فن اقدار کی سر بلندی اور تحفظ کی توفیق بخشے ، جو مساجد کے قیام کی غرض وغایت ہیں.مسجد نہ صرف انسان کی اپنے خالق سے دلی محبت اور فدائیت کی ایک زندہ علامت ہے بلکہ انسانی پیدائش کی علت غائی یعنی رب العالمین کی عبادت گزاری کا ذریعہ ہے.پس مسجد کے قیام کی تقریب منانے کا ایک ہی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت پہلے سے بڑھ کر فدائیت، خلوص اور عاجزی سے کی جائے.ایسی عبادت ہی کسی مسجد کی عظمت کو اس کے شایان شان خراج ہے.ہمیشہ یادرکھیں کہ کسی مسجد کا واحد حسن اس مسجد میں خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے والوں کا تقویٰ ہے.تقویٰ سے مراد خوف خدا خدا کی ناراضگی کا مورد بنے اور اس کی عنایات سے محرومی کا خوف.اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنے افضال کی بارش نازل فرمائے.نیز آپ کو مسجد کے قیام کی تقریب کو انتہائی مناسب حال رنگ میں منانے کی توفیق عطا فرمائے.مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روزنامه الفضل 28 جون 1983ء) 469
تحریک جدید- ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 جون 1983ء نصر الله کاشور بلند کردو خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 1983ء اس جماعت احمدیہ کے لئے خوشخبری ہے.ان کے لئے بھی خوشخبری ہے، جن کی امنگیں پوری کی جائیں گی اور جن کی التجاؤں کو اس رنگ میں قبول کیا جائے گا کہ اللہ ان کی پیش ہونے والی قربانیوں کو قبول فرمالے گا، ان کی پیش کی جانے والی جانوں کو قبول فرمائے گا، ان کے پیش کئے ہوئے گھروں کو قبول فرمائے گا، ان کے پیش کئے ہوئے عمر بھر کے اثاثوں کو قبول فرمائے گا.لھم البشری، ان کے لئے خوشخبری ہے.فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وہ ان لوگوں میں شامل ہو گئے، جنہوں نے اپنی امنگوں کو پورا کر لیا.اور ان کے لئے بھی خوشخبری ہے، جن کے لئے خدا کی غیرت جوش میں آئے گی اور دنیا کو اس بات کی استطاعت نہیں ہوگی ، اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ ان کو مٹا سکے.جس پہلو میں بھی ان کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی ، وہ پہلے سے زیادہ بڑھ کر اور طاقتور ہو کر نکلیں گے.یعنی خدا اپنے پورے جلال کا اظہار ان کے لئے کرے گا.پس ان کے لئے بھی خوشخبری ہے ، گھاٹے کا سودا تو نہ اس طرف ہے، نہ اس طرف.پس ایسے مقابلے کے لئے ہم تیار ہیں.ہم ان قوموں میں سے نہیں ہیں، جو بزدل ہوتی ہیں اور مقابلے سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں.ہم ہر چیلنج کا جواب دیں گے ( انشاء اللہ ) اور ہر حملہ کا سامنا کریں گے.لیکن ہمارے ہتھیار اور ہیں اور حق کے مخالفوں کے ہتھیار اور ہیں.ان کا طرز کلام اور ہے اور ہمارا طرز کلام اور ہے.ان کی طحن مختلف ہے اور ہماری بلحن مختلف ہے.وہ عناد اور بغض کی آگ جلانے کے لئے نکلیں گے تو ہم محبت کے آنسوؤں سے اس آگ کو بجھائیں گے.وہ دنیا کے تیر چلا کر ہماری چھاتیوں کو برما ئیں گے اور ہم راتوں کو اٹھ کر گریہ وزاری کے ساتھ دعاؤں کے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے.پس اے احمدی! اس رمضان کو فیصلہ کن رمضان بنادو.اس الہی جہاد کے لئے تیار ہو جاؤ.مگر تمہارے لئے کوئی دنیا کا ہتھیار نہیں ہے.دنیا کے تیروں کا مقابلہ تم نے دعاؤں کے تیروں سے کرنا ہے.471
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 جون 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک یہ لڑائی فیصلہ کن ہوگی.لیکن گلیوں اور بازاروں میں نہیں، صحنوں اور میدانوں میں نہیں بلکہ مسجدوں میں اس لڑائی کا فیصلہ ہونے والا ہے.راتوں کو اٹھ کر اپنی عبادت کے میدانوں کو گرم کرو اور اس زور سے اپنے خدا کے حضور آہ و بکا کرو کہ آسمان پر عرش کے کنگرے بھی ہلنے لگیں.مَتى نَصْرُ اللهِ کا شور بلند کر دو.خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے اپنے سینوں کے زخم پیش کرو، اپنے چاک گریبان اپنے رب کو دکھاؤ اور کہو کہ اے خدا! قوم کے ظلم سے تنگ آ کے مرے پیارے آج شور محشر ترے کوچہ میں مچایا ہم نے پس اس زور کا شور مچاؤ اور اس قوت کے ساتھ مَتَى نَصْرُ اللهِ کی آواز بلند کرو کہ آسمان سے فضل اور رحمت کے دروازے کھلنے لگیں اور ہر دروازے سے یہ آواز آئے:.أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ سنو! سنو!! کہ اللہ کی مدد قریب ہے.اے سننے والو! سنو کہ خدا کی مدد قریب ہے.اے مجھے پکارنے والو!! سنو کہ خدا کی مدد قریب ہے اور وہ پہنچنے والی ہے“.مطبوعه روزنامه افضل 29 جون 1983ء) 472
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 27 جولائی 1983ء ربوہ کے چندہ جات میں اضافہ کی بڑی گنجائش موجود ہے خطاب فرمودہ 27 جولائی 1983ء لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کے نو تعمیر شدہ دفتر کے افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفة الـ الرابع رحمہ اللہ نے حسب ذیل خطاب فرمایا ہے.حضور نے فرمایا:.بھی ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اس عمارت کی تکمیل پر اکٹھے دعا کریں گے.اس سے قبل میں مختصر طور پر بعض باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس عمارت کو ہر لحاظ سے بابرکت بنائے اور جو چھوٹا سا بیج بویا گیا ہے، اپنے فضل سے اس کی نشو و نما کے سامان بہم پہنچائے.عمارتیں اپنی ذات میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں لیکن ان عمارتوں کے سہارے تنظیموں کے کاموں کو استقلال اور استحکام ملتا ہے، سہولتیں حاصل ہوتی ہیں.اس لحاظ سے کسی تنظیم کے لیے اچھی عمارت کا ہونا بھی ضروری ہے.کام میں بعض خلاء جو عمارت کی تعمیر سے پہلے محسوس نہیں ہوتے ، بعد میں از خود سامنے آجاتے ہیں.اس طرح سے پہلے سے کہیں بڑھ کر عمارت کی تعمیر کے بعد کام شروع ہو جاتا ہے.جہاں تک ربوہ میں چندوں کی وصولی کا تعلق ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ 1974ء کے دور ابتلاء کے بعد اس میں اتنا غیر معمولی اضافہ ہوا ہے کہ اس پر جتنا بھی شکر کریں کم ہے.اس کے شکر کا حق ادا نہیں ہو سکتا.تاہم میں نے جو جائزہ لیا ہے، اس کے مطابق ابھی بھی ربوہ میں اضافے کی بڑی گنجائش ہے.میں اس ضمن میں سرسری جائزہ کے علاوہ تفصیلی جائزہ بھی لیتارہا ہوں.نام بنام سارے ربوہ کا جائزہ تو نہیں لے سکا.لیکن مختلف حلقوں کے چیدہ چیدہ لوگوں کا جائزہ لیا ہے.اس سرسری جائزے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ربوہ میں اضافے کی بہت بڑی گنجائش موجود ہے.جہاں تک کارکنان سلسلہ کا تعلق ہے، وہ اپنی آمد نہ چھپاتے ہیں اور نہ چھپا سکتے ہیں.لیکن جہاں آمد چھپانے کی گنجائش موجود ہے، وہاں خاصی تعداد میں اسے چھپایا جا رہا ہے.آمد چھپائیں نہیں ، اگر آپ کم چندہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو کم ادا کریں.جتنا حوصلہ ہے، اتنی ادا ئیگی کریں.لیکن یہ تو ممکن نہیں کہ آپ کے بچے کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں پڑھتے ہوں اور آپ کے گھر کا معیار زندگی بڑا اعلیٰ ہو، رہن سہن آرام دہ ہو، اس کے باوجود آپ کی آمدنی ساٹھ 473
خطاب فرمودہ 27 جولائی 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک روپے ماہوار ہو.یہ دھوکا نہ تو خدا کو دیا جا سکتا ہے اور نہ کسی پاگل سے پاگل آدمی کو.یہ تو اپنے نفس کو دھوکا دینے والی بات ہے اور بڑی بیوقوفی کی بات ہے.جب اس معاملے میں چھٹی نہ تھی، اس وقت بھی حقیقت چھپا کر جھوٹ بولنانا جائز تھا.اب جبکہ کہہ دیا گیا ہے کہ جتنا دینا ہے دیں، مگر جھوٹ نہ بولیں تو اب تو سچائی کو چھوڑ نا کسی قیمت پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا.باہر کی جماعتوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حیرت انگیز تبدیلیاں آرہی ہیں.پاکستان میں بھی اور بیرونی ممالک میں بھی.باہر کے ممالک کا حال یہ ہے کہ شروع میں ایسی چٹھیاں آنی شروع ہوئیں کہ پاکستان سے یہاں آنے کے بعد ابھی پوری طرح سیٹ نہیں ہوئے، قرضوں کا بوجھ ہے، ہنگی ہے، اس لئے کم چندہ ادا کرنے کی اجازت دی جائے.میں نے کہا: شوق سے اجازت لو.مگر یہ اجازت کا خط ان تک پہنچنے سے پہلے ان کا خط آگیا کہ ہم نے بڑی غلطی کی کہ کم چندہ دینے کی اجازت کا خط لکھ دیا.اب ہم کو خدا تعالیٰ نے حوصلہ اور طاقت دے دی ہے، ہم پورا چندہ ادا کریں گے.ایسے لوگ بھی تھے، جنہوں نے لکھا کہ بڑی تنگی ہے ، حالات خراب ہیں، چندہ میں کمی کی اجازت دی جائے.مگر تھوڑی ہی دیر میں اللہ نے ایسا فضل ان پر فرمایا کہ وہ نہ صرف لازمی چندے بلکہ طوعی چندوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے.بہت بڑی برکات ان کو مل رہیں ہیں.آپ لوگ چندوں کا مطالبہ نہ کریں، سچائی کا مطالبہ کریں.نفس کی سچائی کا اور جھوٹ نہ بولنے کا مطالبہ کریں.یہ اصل بات ہے، اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس بارے میں سسٹم کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے.تاجروں کو براہ راست نہیں تو بالواسطہ ایسی صورت پیش آجاتی ہے کہ ان سے بات کرو تو وہ کئی قسم کے اخراجات گنا دیتے ہیں کہ گھر کا اعلیٰ معیار تو تجارتی مصالح کی بناء پر ہے.اس کے علاوہ فلاں فلاں خرچ ہے.اس طرح سے سو بہانے مل جاتے ہیں، جھوٹ بولنے کے.ایسے لوگوں سے ہم یہ کہتے ہیں کہ زیادہ تفصیل میں نہ جائیں، فی الحقیقت جو ان کا واجب الا دا چندہ بنتا ہے ، وہ ضرور ادا کریں اور کہیں کہ سو بنتا ہے یا دوسو بنتا ہے، اتنا چندہ ادا کروں گا.ایک اور بات یہ ہے کہ ربوہ کے حلقوں میں صد سالہ جوبلی کے چندوں میں بڑی کمی نظر آتی ہے.باقی جماعتوں کے سالانہ چندوں میں اور صد سالہ جوبلی کے چندوں میں ازخود ایک نسبت طے پاگئی ہے.لیکن ربوہ میں اس نسبت سے اس میں بہت کمی ہے.ربوہ کا چندہ عام اور چندہ حصہ آمد کراچی کے برابر ہے.کراچی کا جوبلی کا چندہ ایک کروڑ ، چالیس لاکھ روپے ہے.لیکن ربوہ کا صد سالہ جو بلی کا چندہ 474
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 27 جولائی 1983ء صرف میں لاکھ ہے.اب شاید کچھ بڑھ گیا ہو.یہ تو کوئی نسبت ہی نہیں.اور پھر ربوہ کے چند آدمیوں کا جو بلی کا چندہ سات، آٹھ لاکھ روپے ہے.باقی چندہ اہل ربوہ کا ہے.اس ضمن میں کارکنوں سے غفلت ہوئی ہے، صیح طور پر توجہ نہیں دلائی گئی.اس کی طرف توجہ کریں.دفتر اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوش اسلوبی سے بن گیا ہے اور اس طرح سے آپ کا ایک اور قدم آگے بڑھ گیا ہے لیکن آپ جتنے قدم آگے بڑھاتے ہیں، حسد پیدا ہورہا ہے.ربوہ کے ماحول میں بعض ایسے مخالف ہیں، جو اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح سے اللہ نے ان کو جو دیا ہے، اس کا بدلہ چر کے لگا کر اتاریں.ترقی تو ان سے رک نہیں سکتی، اس لئے وہ آج کل اس کوشش میں ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بہانوں سے فساد پیدا کریں.اس ضمن میں احمدی نوجوانوں کو بار بار نصیحت بھی کی جاتی ہے، پھر بھی بعض نوجوان برداشت نہیں کر سکتے اور جواب دے دیتے ہیں.تمام دنیا کے حالات کے حوالے سے ایسی صورت حال میں اشتعال آنا درست ہوتا ہے لیکن جماعتی نقطہ نظر سے ایسی صورت حال کے جواب میں چھوٹے سے چھوٹا قدم اٹھانا بھی درست نہیں.ربوہ میں ہم نے کسی قیمت پر بھی فساد پیدا نہیں ہونے دینا.آج سب محلوں کے صدر صاحبان یہاں جمع ہیں، میں ان سب کو پابند کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے محلے میں ایسے نو جوانوں کو سمجھا ئیں، جو شتعل ہو جاتے ہیں.ان پر پابندیاں لگائیں کہ وہ ایسے ابتلاء سے الگ ہو جائیں.کسی قیمت پر بھی اہل ربوہ کی طرف سے دشمنوں کو بہانہ نہیں ملنا چاہیے اور آپ اس ضمن میں جو کاروائی کریں، اس کی اطلاع صدر عمومی کے توسط سے مجھے بھی دیں.اللہ کے فضل سے اب آپ کا دفتر بن گیا ہے، اب کام کی رفتار میں تیزی آنی چاہیے اور آئندہ سال یہ محسوس ہونا چاہیے کہ آپ کے کام میں ایک نئی چھلانگ لگائی گئی ہے.آئیں اب مل کر دعا کر لیں.مطبوعه روزنامه الفضل 31 جولائی 1983 ء) 475
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کینیڈا ہر طرف آواز دیتا ہے ہمارا کام آج پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کینیڈا منعقدہ31, 30 جولائی 1983ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر مسیح پاک کے درخت وجود کی سرسرانے والی سبز شاخو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته عزیزم مکرم منیر الدین صاحب شمس امیر و مشنری انچارج کے خط سے معلوم ہوا کہ جماعت ہائے احمدیہ کینیڈا کا چھٹا جلسہ سالانہ امسال انشاء اللہ 30 اور 31 جولائی کو منعقد ہوگا.فالحمد للہ علیٰ ذالک و بارک الله فی سعیکم اس موقع پر پہلی بات ، جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ ہمارے جلسہ سالانہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں سے رکھی گئی تھی.اس جلسہ کی غرض اکٹھے ہو کر ذکر الہی ، دعائیں کرنا ، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا علم حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا ہے.یہ ایک خالص دینی اجتماع ہے، اس لئے ان دنوں کو خالصة لوجہ اللہ بسر کریں.دوسرا امر، جس کی جانب میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ قریباً 3 کروڑ کی آبادی میں ابھی آپ کی تعداد 3 ہزار کے قریب ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے موجب ہمارا کام یہ ہے:.ہر طرف آواز دیتا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار تین کروڑ تک ہم نے احمدیت کے پیغام کو پہنچانا اور اس کی غرض و غایت کو ان کے ذہن نشین کرنا ہے.یہ بھی ممکن ہے، جب ہر احمدی داعی الی اللہ بن جائے.اپنی بے بضاعتی کو سامنے رکھیے اور اپنے کام 477
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کینیڈا تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم کی عظمت کا تصور ذہن میں لائے تو ایک ہی عملی صورت ہو سکتی ہے کہ خدا کے حضور گر جائیں، اس سے مدد چاہیں.اور ہر شخص اصلاح وارشاد کا فرض ادا کرے.جب احمدیت کی اشاعت خدا کی تقدیر مبرم ہے تو کیوں نہ ہم اپنی تدابیر کو خدا کی تقدیر سے ہم آہنگ کریں.اپنے فرض اور کام کی عظمت کو سامنے رکھیں او اس کے حصول کے لئے سر توڑ کوشش کریں.اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہر احمدی داعی الی اللہ اور بن جائے.تبلیغ ہر احمدی کا فریضہ ہے اور اس میں غفلت ہوگی تو ہم خدا کے حضور جوابدہ ہوں گے.تیرا امر، جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ خدا کی تقدیر آپ کو ایسی جگہ لے گئی ہے، جہاں رزق کی فراوانی ہے.یہ خدا کا ایک فضل ہے.اور اس کے فضل اور نعمت کا قولی اور عملی شکر یہ لازم ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.آمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کہ خدا کی نعمت کا شکریہ ادا کرو اور شکر ادا کرنے والوں سے اس کا وعدہ ہے، لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں اپنی نعمت تمہیں مزید عطا کروں گا.اور عملی شکر کے دو طریق آپ کو بتانا چاہتا ہوں.ایک دیانتداری سے لازمی چندوں کی با شرح ادا ئینگی.حقوق العباد کو ادا کرتے ہیں تو حقوق اللہ کو بھی ذوق و شوق سے ادا کریں.مجھے یہ خوشکن خبریں باہر سے آ رہی ہیں کہ جماعتوں نے اپنے بجٹ کو دو گنا یا تین گنا کر دیا.فالحمد لله وجزاهم الله.دوسرے اپنے ملک میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر کریں.سلسلہ احمدیہ کے قدیمی بزرگ حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت اقدس نے مجھے نصیحت فرمائی کہ میں جہاں جاؤں، جماعت کو مسجد بنانے کی طرف توجہ دلاؤں کہ اس میں جماعت کی ترقی اور استحکام ہے.اس بارہ میں قربانی کے لحاظ سے کینیڈا کے احباب جماعت، امریکہ سے کوسوں پیچھے ہیں.عزیز احمد یو! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے گھر برکتوں سے بھر جائیں تو خدا کے نام پر اس کے گھر تعمیر کیجئے کہ مسجد بنانے والوں سے خدا کا وعدہ ہے.من بنى لله مسجد أبنى الله له بيتافى الجنة.جو خدا کے لئے مسجد تعمیر کرے گا، اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کرے گا.478
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کینیڈا جنت یعنی خدا کی رضا آپ کو نصیب ہوگی.خدا کی تقدیر آپ کو باہر اس لیے لے گئی ہے تا ان کی ملکوں میں احمدیت پھیلے.خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا یہ پودا وہاں بھی پروان چڑھے.اس لئے اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور یگانگت پیدا کریں.ہر ایک اپنے بھائی کے گناہ معاف کر دے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فداہ ابی و امی کا ارشاد ہے:.له المسلم أخو المسلم لا يخذله مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اسے بے سہارہ نہ چھوڑے، اپنے بھائی کو رسوا نہ کرے.ایک دوسرے سے احسان کا سلوک کرے.احسن كما احسن اللہ الیک.خدا آپ کے ساتھ ہو.نیکی میں آپ کو ترقی عطا فرمائے.اس کا فضل ہمیشہ آپ کے شامل ہو.میں آپ کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں، آپ احمدیت کے لئے دعائیں کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے.آمین یا رب العالمین.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روز نامه الفضل کیکم نومبر 1983ء، بحوالہ احمدیہ گزٹ کینیڈا جولائی اگست 1983 صفحہ 9تا12) 479
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 31 جولائی 1983ء ضروری ہے کہ داعی الی اللہ پیغام حق پہنچانے میں ہوش کا مظاہرہ کریں خطاب فرمودہ 31 جولائی 1983ء فضل عمر تعلیم القرآن کل اس کی اختتامی تقریب کے موقع پر حضور رحمہ اللہ نے جو خطاب فرمایا ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.حضور نے پیش کی جانے والی رپورٹ پر خوشی کا اظہار فرمایا اور اسے ہر پہلو سے بے حد خوش کن قرار دیا.کلاس کی کامیابی پر حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے اتنے فضل نازل ہوئے ہیں کہ انسان کا سر اللہ تعالیٰ کے سامنے حمد اور شکر سے جھک جاتا ہے.یہ بہترین نتائج محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئے ہیں“.فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق آپ اس نیک گروہ میں شامل ہیں، جو دین کی تعلیم اور قرآن کا علم حاصل کرنے آتے ہیں اور واپس جا کر یہ تعلیم پھر لوگوں میں پھیلاتے ہیں“.حضور نے فرمایا:.ربوہ کی مشکلات کے باوصف جو بات دل کو اللہ کی حمد سے بھر دیتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ سب طلباء نے مرکز کی شدید گرمی اور بعض نا موافق باتوں پر کوئی شکوہ نہیں کیا.ایک بھی خط شکایت کا مجھ تک نہیں پہنچا.حضور نے مزید فرمایا کہ آپ میں اس جذبے کا پیدا ہو جانا کہ معمولی مشکلات سے کم حوصلہ نہیں ہونا اور دین کی خاطر مشکلات برداشت کرنی ہے، بہت ہی خوش آئند ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ جذبہ برقرار رکھے.(آمین).حضور نے طلباء کو نصیحت فرمائی کہ اب یہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ یہاں سے واپس جا کر باقی سارا سال جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ لوگوں میں پھیلائیں اور دینی تعلیم کو عام کریں.481
خلاصہ خطاب فرمودہ 31 جولائی 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک آخر میں حضور نے طلباء کو یہ اہم نصیحت کی کہ داعی الی اللہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ پیغام حق پہنچانے میں ہوش کا مظاہرہ کریں، جوش کا مظاہرہ نہ کریں.قرآن کا ارشاد ہے کہ:.اُدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ یعنی حکمت کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچاؤ.حضور نے فرمایا:." جس طرح ماں اپنے بچے کو منت سماجت سے کھلاتی پلاتی ہے، اسی طرح آپ بھی کریں.کوئی طرز عمل ایسانہ ہو کہ کوئی آپ سے ناراض ہو جائے یا آپ کی بات سننے سے انکار کر دے“.مطبوعه روزنامه الفضل 02 اگست 1983ء) 482
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 اگست 1983ء دنیا کو مخلصانہ خدمت کرنے والوں کی بے حد ضرورت ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 05 اگست 1983ء خطبہ ثانیہ کے دوران مولا نا عبد المالک خان صاحب کی وفات پران کا ذکر خیر کرنے کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.وو غم کتنا بھی ہو، ہم تب بھی اپنے اللہ کی رضا سے راضی ہیں.آنکھوں سے آنسوگر نا تو انسانی فطرت کا تقاضا ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نرم دل بنا دیا اور انسانیت سکھائی.لیکن جزع فزع کی ہمیں اجازت نہیں.نہ ہی وہ ہماری سرشت میں داخل ہے.نہ مایوسی کا ہمیں سبق دیا گیا ، نہ مایوسی ہم آشنا ہیں.قو میں زندہ رہتی ہیں اور افراد گزرتے چلے جاتے ہیں.اور زندہ قو میں قطعاً اس بات کی پرواہ نہیں کرتیں کہ کون آیا اور کون گیا؟ بحیثیت قوم ان کی زندگی کا سفر ہمیشہ آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.جماعت احمدیہ بھی ایک زندہ قوم ہے.جانے والوں سے دکھ تو ضرور پہنچتا ہے لیکن مایوسی پیدا نہیں ہوتی.مجھے امید ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر جانے والے کے مقابل پر سینکڑوں، ہزاروں اس جیسے پیدا کر دیا کرے.ایک عبدالمالک کو بلائے تو جماعت کو ہزاروں ، لاکھوں عبد المالک عطا کر دیا کرے.کیونکہ دنیا کو مخلصانہ خدمت کرنے والوں کی بے حد ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے اور ہمارا دامن خدمت کرنے والوں سے کبھی تہی نہ رکھے اور دن بدن واقفین کی جماعت کی رونق میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے.روز بروز خدا کے فرشتے دلوں میں تحریک کریں کہ ایک کی جگہ خالی ہوئی ہے، تم دس ہیں، سو اور ہزاروں آگے بڑھو اور لبیک کہہ کر اپنے آپ کو پیش کرو کہ ہم اس جگہ کو پر کرنے کے لئے حاضر ہیں.مطبوعه روزنامه الفضل 28 اگست 1983 ء ) 483
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ دنیا کی عارضی اور بے کیف لذات سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیں پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ منعقدہ 7, 6 اگست 1983ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر میرے عزیز خدام واطفال! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ کہ مجالس خدام الاحمدیہ اور مجالس اطفال الاحمدیہ برطانیہ 6 اور 7 اگست کو ہانسلو میں اپنا نواں اجتماع منعقد کر رہی ہے.خدا تعالیٰ اس اجتماع کو بہت برکت بخشے اور آپ سب کو ، جو اس میں شامل ہو رہے ہیں، یہ توفیق عطا فرمائے کہ آپ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں.مجھے امید ہے کہ اجتماع کے ان بابرکت ایام میں آپ دعاؤں پر بہت زور دیں گے اور خدا تعالی کی مدد اور نصرت کے طالب ہوں گے.اس موقع پر میں برطانیہ میں بسنے والے تمام خدام اور اطفال کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خالص اور حقیقی اسلام ایک بہت بڑی آسمانی دولت اور عظیم نعمت ہے.ہم خوش نصیب ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بغیر ہمارے کسی استحقاق کے ہمیں اس عظیم آسمانی نعمت سے بہرہ ور ہونے کا موقع عطا فرمایا ہے.خدا تعالیٰ ہمیں یہ توفیق بھی بخشے کہ ہم اپنے رب کے اس عظیم احسان کا شکر بجالا سکیں اور اپنی زندگیوں میں قرآنی تعلیمات کو جاری کر کے دائمی خوشحالی اور ابدی نجات کے وارث ہو سکیں.دین اسلام کا مقصد کیا ہے؟ یہی کہ ہم اپنے خالق و مالک جی و قیوم اور قادر و تو انا خدا کی شناخت کر لیں اور اس سے ایک زندہ اور زندگی بخش تعلق قائم کریں کہ یہی ہماری زندگی کا مقصود اور منتہا اور یہی ہماری پیدائش کی اصل غرض و غایت ہے.یہی وہ رشتہ ہے، جسے جوڑنے کے لئے تمام مذاہب دنیا میں قائم 485
پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہوئے.اور یہی وہ تعلق ہے، جس کے قیام کے لئے تمام انبیاء علیہم السلام دنیا میں بھیجے گئے.حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں:.انبیاء علیہم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ تالوگ خدا تعالیٰ کی شناخت کریں.اس زندگی سے، جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلو زندگی کہتے ہیں، نجات پائیں“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 11) پھر اپنی بعثت کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.....وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے، اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص سے تعلق کو دوبارہ قائم کروں“.یکھر لاہور صفحہ 34 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 180) پس آپ جو سیح اخر الزمان علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہیں اور خود کو آپ کے جان نثار غلاموں میں شامل کرتے ہیں، اپنے نفوس کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آپ نے کس حد تک اس زندگی بخش تعلق کے قائم کرنے لئے کوشش کی ہے؟ اور پیار اور محبت سے اخلاص کے اس رشتہ کو جوڑنے کے لئے آپ نے کیا سعی کی ہے؟ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارا خداوہ ہے، جس نے اپنی کامل قدرت سے ہر ایک چیز کو بنایا.اس کی قدرت عجیب عظمت اپنے اندر رکھتی ہے، جس کے بغیر کوئی چیز وجود نہیں پکڑتی.اور جس کے سہارے کے بغیر اس عالم کی کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.ہمارا خدا بے شمار قدرتوں والا اور بے شمار حسن و احسان والا ہے.پس ہمیں چاہئے کہ ہم اس از لی اور ابدی خدا کے حضور جھکیں اور اپنے تمام ارادوں اور اپنی تمام خواہشات کو اس کی مرضی اور اس کے ارادہ کے تابع کر کے اس سے مدد اور نصرت کے طالب ہوں.وہی ہے، جو اپنی بارگاہ کی طرف ہماری رہنمائی کر سکتا ہے.اور اس کے اذن کے بغیر کوئی اس کے دربار میں رسائی حاصل نہیں کر سکتا.پس اس موقع پر میں آپ سب کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے خالق و مالک رب کی قدر پہچانیں اور اس کے ساتھ پیارا اور محبت، اخلاص اور فدائیت اور صدق اور صفا پر مبنی ایک نہ ٹوٹنے والا 486
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ رشتہ جوڑیں، اس کی قدرتوں کے جلووں سے اپنی آنکھوں کو بینا اور اپنے دلوں کو منور کریں، اس کی صفات میں خود کو رنگین کرنے کی کوشش کریں.وہی ہماری دولت ہے اور اس میں ہماری بقا ہے.یا د رکھیں کہ اس سے ملنے اور اس کے ساتھ رشتہ جوڑنے میں ہی اصل لذت ہے.اس لذت.کے مقابل پر دنیا اور اس کی تمام لذات بیچ اور بے کیف ہیں.پس اس دنیا کی عارضی اور بے کیف لذات سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیں کہ یہ اصل حقیقی لذات سے غافل کر دیتی ہیں.اور اپنے ذوق بلند کریں اور اپنے مذاق کی اصلاح کے لئے سعی کریں.ہر خوبی اور ہر بھلائی، ہر حسن اور ہر خوبصورتی ہمارے رب میں پائی جاتی ہے.اور وہی تمام لذات کا سرچشمہ ہے.پس اسی میں اپنی لذات تلاش کریں.اس سے ملنے کے لئے اپنے جسم اور جان کی تمام قوت کے ساتھ کوشش کریں.کیونکہ یہ دولت لینے کے لائق ہے، اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے، اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.والسلام مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روزنامه الفضل 13 ستمبر 1983ء) 487
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ امریکہ تن من دھن کی بازی لگا کر ہر فرد تک اسلام کا پیغام پہنچائیں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ امریکہ منعقدہ 12 تا 14 اگست 1983 ء | 92 میرے لئے یہ بات بہت خوشی کا باعث ہے کہ آپ اپنا بیسواں سالانہ کنونشن 12 تا 14 اگست 1983ء منعقد کر رہے ہیں.میری طرف سے آپ دلی مبارک باد قبول فرمائیں.اللہ تعالیٰ اس کنونشن کو شاندار کامیابی عطا فرمائے اور آپ کو اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے کہ آپ ریاست ہائے متحدہ امریکہ خود اور اس کے گردو نواح کے ممالک میں اسلام کی ترقی کے لئے ایک مؤثر پلان بنا سکیں.آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے کہ آپ نے احمدیت کے پیغام یعنی حقیقی اسلام کو اپنے عظیم ملک کے لوگوں تک پہنچانا ہے.اور یہ اسی وقت ایک مؤثر اور کامیاب طریق سے ظہور پذیر ہوگا، جبکہ آپ خود اس سلسلہ کے اغراض و مقاصد اور اسلامی نظریہ سے بخوبی واقف ہوں گے.میں یہاں حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی تحریرات سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت ، جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقوی وطہارت، جو اس زمانہ میں نہیں پائی جاتی، اسے دوبارہ قائم کرے.عام طور پر تکبر دنیا میں پھیلا ہوا ہے.علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبر میں گرفتار ہیں.فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہورہی ہے.ان کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا.ان کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے.اس لئے ان کے مجاہدے اور ریاضتیں بھی کچھ اور ہی قسم کے ہیں، جیسے ذکرارہ وغیرہ.جن کا چشمہ نبوت سے پتہ نہیں چلتا.میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں.صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے.جس میں روحانیت کا کوئی نام ونشان نہیں.یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں.پس یہ زمانہ اب بالکل خالی ہے.نبوی طریق جیسے کہ کرنے کا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کو بھلا دیا گیا ہے.اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آجاوے اور تقوی وطہارت پھر قائم ہو اور اس کو اس نے اس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے“.489
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ امریکہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک مندرجہ بالا اقتباس سے یہ امر صاف طور پر واضح ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی سب سے اہم غرض یہ ہے کہ انسانوں کا تعلق اپنے خالق خدا سے قائم ہو جائے.اور ان میں ایک روحانی انقلاب بر پا کر دیا جائے.ایک ایسا انقلاب، جو کہ قبول کرنے والوں کی زندگی میں ایک مکمل تبدیلی پیدا کر دے.انہیں راستی پر قائم کر دے.دلوں کو پاکیزگی بخشے اور متقی انسان بنا دے.اس لئے میرے بھائیو اور بہنو! آپ نے اپنی زندگیوں میں اسلام کی تمام اخلاقی اور روحانی اقدار پیدا کرنی ہیں.تا کہ آپ بے داغ، پاکیزہ اور مفید وجود بن کر کامیاب اور حقیقی اسلامی زندگی کا قابل رشک نمونہ بن جائیں.آپ میں سے ہر ایک کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم ہو کہ یہی روحانیت کا نچوڑ ہے.آپ وہ ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے تمام دنیا کے لوگوں میں سے چن لیا ہے.تاکہ آپ با تمام اخلاص و انکساری پوری جدو جہد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جائیں.اور آپ کا بے عیب اخلاق اور ذاتی نمونہ تمام دنیا کے لئے ایک زندہ مثال بن جائے.اس لئے آپ کو اس اسلامی انقلاب کے ظہور کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنا ہوگا.اور آپ انتہائی انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کی مدد حاصل کرنے کے لئے دعا کرتے رہیں.آپ اپنے دلوں میں یہ بات مضبوطی سے راسخ کر لیں کہ یقینی طور پر احمدیت کا مستقبل بہت شاندار ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جو درخت لگایا ہے، تو میں اس کے سایہ کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہو جائیں گی.احمدیت کے مستقبل کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور اقتباس آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.وو...خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا.اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا، یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جائے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا، یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! 490
تحریک جدید - ایک الٹی تحریک....جلد ششم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد بیامریکہ ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے، جو ایک دن پورا ہوگا.اسلام کے عروج اور تمام دیگر ادیان پر غلبہ کے بارہ میں یہ پیشگوئی ایک صدی پہلے کی گئی تھی اور اس ایک صدی کے دوران احمدیت نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی ہے.اور بہت سے نئے علاقوں میں داخل ہو چکی ہے.اب دنیا پر اسلام کی تعلیمات کی سچائی اور معقولیت آشکارا ہورہی ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا مشن دنیا کے سامنے پیش کیا، اس وقت وہ تن تنہا تھے.ان کے ظہور کے وقت اسلام ایک انتہائی مجبوری اور کسمپرسی کی حالت میں سے گزر رہا تھا.مجبوری اور کمزوری کی اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا:.وو قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا، نہ کند ہو گا.جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید ، جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس پیشگوئی کے بعد سے تغیر کی ایک تازہ ہوا تمام عالم میں چل رہی ہے.تمام ادیان پر اسلام کے غلبہ کے دن قریب ہیں اور اسلامی فتوحات اور ترقیات افق عالم پر روشن ہو رہی ہیں.لیکن یہ حقیقت ہم پر عظیم ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہے.کام بہت ہی مشکل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پورا ہو سکتا ہے.آپ کا منتہائے نظر بہت بلند ہے اور آپ کی ذمہ داری بھی بہت سخت ہے.یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلام کا پیغام باحسن طریق اور اعلیٰ حکمت کے ساتھ دوسروں تک پہنچائیں.رسم ورواج اور تمدن کا فرق اسلام کا پیغام پہنچانے کی راہ میں حائل نہ ہو.اسلام میں تبلیغ ایک بہت ہی بڑی نیکی ہے.اس بارہ میں میری آپ کو یہی نصیحت ہے کہ آرام سے نہ بیٹھیں اور تن من دھن کی بازی لگا کر اپنے ملک کے ہر ایک فرد تک اسلام کا پیغام پہنچانے میں مصروف ہو جائیں.آخر میں میری آپ سے یہ گزارش ہے کہ آپ اپنے مالی قربانی کے معیار میں تبدیلی پیدا کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 10 جولائی 1903ء کو اخبار الحکم میں ایک پیغام شائع فرما کر انتہائی مؤثر رنگ میں جماعت کو اس ذمہ داری کے ادا کرنے کی طرف متوجہ فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں:.دنیا میں آج کل کون سا سلسلہ ہوا ہے یا ہے، جو خواہ دنیوی حیثیت سے ہے یا دینی که بغیر مال چل سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ایک کام اس لئے کہ عالم 491
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد بی امریکہ تحریک جدید- ایک الہبی تحریک.اسباب ہے، اسباب سے ہی چلایا ہے.پھر کس قدر بخیل و ممسک وہ شخص ہے کہ جو ایسے عالی مقصد کی کامیابی کے لئے ادنی چیز مثل چند پیسے خرچ نہیں کرسکتا پس میں تم میں سے ہر ایک کو، جو حاضر یا غائب ہے، تاکید کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو چندہ سے باخبر کرو.ہر ایک کمزور بھائی کو بھی چندہ میں شامل کرو.یہ موقع ہاتھ آنے کا نہیں.کیسا یہ زمانہ برکت کا ہے کہ کسی سے جانیں مانگی نہیں جاتیں اور یہ زمانہ 66 جانوں کے دینے کا نہیں بلکہ فقط مالوں کے بقدر استطاعت خرچ کرنے کا ہے.اس لئے میرے بھائیو اور بہنو! آپ مالی قربانی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور یہ ذمہ داری کما حقہ ادا کریں.میں نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ جماعت کا ہر برسر روزگار فرد، جو کہ موصی نہیں ہے، وہ اپنی آمدن کا 16\1 حصہ پیش کرے.یہ آپ کے ماہانہ چندہ کا مقررہ معیار ہے.لیکن اگر آپ کے مالی حالات اجازت نہیں دیتے اور مقررہ معیار سے کم ادا کرنے پر آپ مجبور ہوں تو اپنے امیر صاحب کی معرفت آپ اجازت حاصل کریں، جو کہ آپ کو مل جائے گی.لیکن جنہوں نے وصیت کی ہوئی ہے، انہیں ہر صورت اپنے عہد کے مطابق اپنی آمدن کا1/10 تا 1/3 حصہ ادا کرنا ہے.اپنے ماہانہ چندوں کے علاوہ آپ کو اس طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حسب توفیق آپ امریکہ میں پانچ مشنز کے قیام کے لئے جو فنڈ جمع کیا جارہا ہے، اس میں بھی شمولیت اختیار کریں.میری پہلی اپیل پر امریکہ نے بہت حوصلہ افزار عمل دکھایا ہے.صاحب استطاعت احباب نے جو وعدہ جات لکھوائے ہیں، وہ بہت ہی قابل تعریف ہیں.لیکن مجھے توقع ہے کہ ہر ایک احمدی اپنی انتہائی استطاعت کے مطابق اس تحریک میں شامل ہوگا.اپنی جماعت کے مخلص اور فعال احباب سے میں امید رکھتا ہوں کہ پہلے سے بڑھ کر مالی قربانی کا مظاہرہ کریں گے.حال ہی میں، میں نے ہر ایک فرد جماعت سے گزارش کی ہے کہ کم از کم 3800 ڈالرز اس فنڈ میں دے.مجھے یقین ہے کہ میری توقعات سے بڑھ کر آپ اس میں حصہ لیں گے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو یہ عزم عطا فرمائے کہ آپ اسلام کی خاطر اللہ کے مددگار بنتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی قربانی پیش کرنے کی توفیق دے، جو کہ اس کی جناب میں قابل قبول ہو.آمین.492 والسلام مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روزنامه الفضل 03اکتوبر 1983ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک گہرے غم میں لپٹی ہوئی خوشی کی خبر خطبه جمعه فرموده 12 اگست 1983ء خطبه جمعه فرموده: 12 اگست 1983ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:.) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصُّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ لا وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِيْنَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ أُولَيْكَ عَلَيْهِمْ صَلَاتٌ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ) (البقرة: 154 تا 158) اور پھر فرمایا:.آج میں جماعت کو ایک گہرے غم میں لپٹی ہوئی ، خوشی کی خبر سنانا چاہتا ہوں.بعض سننے والے یہ تعجب کریں گے کہ کیا ایسی بھی کوئی خوشی کی خبر ہو سکتی ہے، جو گہرے غم میں لپیٹ کر پیش کی جائے ؟ تو ان کو میں یہ بتاتا ہوں کہ ہاں ایک خبر ایسی ہی ہے، جو بڑی خوشی کی خبر ہے لیکن ہمیشہ غم میں لپیٹ کر پیش کی جاتی ہے.اور وہ شہادت کی خبر ہے.شہادت میں یہ عجیب بات نظر آتی ہے کہ وہ بڑی عظیم بشارت اور خوشی کی خبر ہونے کے باوجود ایک گہرا غم بھی پیدا کر دیتی ہے.جس شہادت کا میں ذکر کرنے لگا ہوں، وہ ایک تاریخی نوعیت کی شہادت ہے.اس لئے کہ امریکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مخلص احمدی نوجوان کو پہلی مرتبہ شہادت کا رتبہ عطا فرمایا ہے.اور امریکہ کی سرزمین نے جو شہادت کا خون چکھا ہے، وہ امریکہ کے لحاظ سے تاریخ احمدیت کا پہلا واقعہ ہے.اور یہ شہادت ایک عظیم نوعیت کی شہادت ہے.ہمارے ایک نہایت ہی مخلص اور فدائی نوجوان ڈاکٹر مظفراحمد ، جوڈیٹرائٹ میں 493
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم خطبه جمعه فرموده 12 اگست 1983ء رہتے تھے.اور اپنے اخلاص اور دینی کاموں میں پیش روی کے نتیجہ میں انہیں قائد علاقہ امریکہ مقرر کیا گیا تھا.اور پھر وہ جماعت ہائے امریکہ کے نیشنل سیکرٹری بھی رہے اور شہادت کے وقت اسی عہدہ پر فائز تھے.ان کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا.کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اسلام کی تبلیغ کا موقع عطا فرمائے اور وہ اس سے مستفید نہ ہوں.چنانچہ آج سے تین روز قبل بلیک امریکنز میں سے ایک بدقسمت شخص ان کے گھر آیا اور تبلیغ کے بہانے سے ان سے کچھ دیر گفتگو کی.اس سے قبل بھی وہ اس وسیلہ سے آپ کا تھا اور ان کی مہمان نوازی سے بھی فیض یاب ہو چکا تھا.چنانچہ انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ واقعہ اپنی دلچسپی میں مخلص ہے، ان کو پھر گفتگو کا موقع دیا.جب وہ اسے گھر کے باہر تک چھوڑنے کے لئے جارہے تھے اور چھوڑ کر پلٹے ہیں تو اس نے فائر کر کے ان کو وہیں شہید کر دیا.اس رات دو اور واقعات بھی ہوئے.جس سے یہ پتہ چلتا تھا کہ یہ واقعات ایک بڑی گہری سازش کے نتیجہ میں رونما ہوئے ہیں.ایک واقعہ تو یہ کہ ہمارے دوست لیق بٹ صاحب، جو پہلے وہاں کی مقامی جماعت کے صدر تھے، اب بھی شاید ہوں، ان کے گھر پر بھی حملہ کیا گیا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ محفوظ رہے.اور پھر اسی رات جماعت احمدیہ کے مشن ہاؤس کو بم سے اڑا دیا گیا.اس مشن ہاؤس کے متعلق صبح کے وقت جو پہلی خبر مجھے پہنچی، اس میں تشویش کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ دولاشیں وہاں سے دستیاب ہوئیں.فوری طور پر تحقیق کی گئی تو جلد ہی یہ تسلی ہوگئی کہ کسی احمدی کی لاش نہیں.اور امریکہ کی جماعت میں کسی احمدی کے لاپتہ ہونے کا علم نہیں ہو سکا.لیکن بعد میں جب پولیس نے تحقیق کی تو اس واقعہ میں ایک عظیم الشان نشان نظر آیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حیرت انگیز تائیدی معجزہ ظاہر ہوا.ثابت یہ ہوا کہ وہی قاتل، جو مظفر احمد کو شہید کر کے وہاں سے الگ ہوا، اس کا ایک ساتھی بھی تھا اور یہ دونوں لیق بٹ صاحب کے مکان پر حملہ آور ہوئے اور وہاں سے یہ دونوں مسجد کو بم سے اڑانے کے نیت سے مسجد تک پہنچے لیکن اسی بم سے دونوں خود بھی ہلاک ہو گئے.امریکہ میں یہ واقعہ ایک بہت ہی بڑی حیثیت رکھتا ہے.کیونکہ جن لوگوں کو امریکہ کے حالات کا علم ہو، وہ جانتے ہیں کہ وہاں اگر اس قسم کا قاتل ہاتھ سے نکل جائے تو اس کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا.بعض تنظیمیں ذمہ داری قبول کر لیتی ہیں اور پھر یہ معاملہ اسی طرح الجھے کا الجھا رہ جاتا ہے.اور خصوصا ایک کمزور اور رہتی اور معصوم جماعت، جس کا ملک میں کوئی بڑا رسوخ نہ ہو، اس کی خاطر تو کوئی بھی جدوجہد نہیں کرسکتا.پولیس کی تحقیق کے مطابق بلیک مسلم آرگنائزیشن اس جرم کی ذمہ دار ہے.یہ وہ لوگ ہیں، جن کو اسلام کے نام پر بعض غیر ممالک ایسی غلط اور مکروہ تعلیمات دیتے ہیں اور ان کے دل میں کچھ ایسا یقین 494
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اگست 1983 ء جاگزیں کر دیتے ہیں کہ غیر مسلم کا قتل عام تمہیں غازی اور شہید بنادے گا اور بغیر کسی وجہ کے غیر مسلم کا قتل تمہارے لئے جنت کی ضمانت ہے.یہ لوگ اس سے پہلے بھی کئی قسم کے بھیانک جرم کر چکے ہیں اور بڑے لمبے عرصہ تک تلاش کے باوجود اور کروڑوں روپیہ خرچ کرنے کے باوجود یہ پکڑے نہیں جا سکے.چنانچہ دو، تین سال پہلے کی بات ہے، سان فرانسسکو میں اس قسم کے بھیانک قتلوں کی واردات کا ایک سلسلہ شروع ہوا.عموماً نو جوان جوڑوں کو اچانک ظالمانہ طور پر قتل کر کے پھینک دیا جاتا تھا اور ان کے اس طرح قتل کے پیچھے کوئی ایسا محرک نظر نہیں آتا تھا، جس کے ذریعہ پولیس قاتلوں تک پہنچ سکے.چنانچہ ایسے چو میں قتل ہوئے.سارے امریکہ میں خوف و ہراس کی ایک لہر دوڑ گئی.یہ بہت ہی بھیانک جرائم تھے.ایک ہی شہر میں یکے بعد دیگرے چو میں قتل ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں.امریکہ کی تمام Investigation Agencies نے بہت زور مارا لیکن یہ لوگ نہیں پکڑے گئے.بالآخر کسی اور جرم میں ایک شخص اتفاقاً پکڑا گیا.اس سے جب تفتیش آگے بڑھی تو پتہ لگا کہ یہ وہی گروہ ہے، جولوگوں کو قتل کیا کرتا تھا.ان سے کچھ ایسا لٹریچر بھی دستیاب ہوا اور کچھ انہوں نے خود بتا بھی دیا کہ ہمیں جو اسلام سکھایا گیا ہے، اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ ہر غیر مسلم کو قتل کر دو.جتنے زیادہ قتل کرو گے، اتنے زیادہ ثواب کے مستحق ٹھہرو گے.پس وہاں بیچاری ایسی ہی کئی تنظیمیں ہیں، جن کو اسلام کے ساتھ اس طرح متعارف کرایا جارہا ہو ہے.وہ معصوم لوگ ہیں، ان کا اتنا قصور نہیں ، جتنا ان لوگوں کا ہے، جو ان کو براہ راست یہ تعلیم دیتے ہیں اور ان کے سامنے اسلام کی یہ تصویر بیچ رہے ہیں.اور یہ معصومیت کے ساتھ ان کے قابو آ جاتے ہیں.اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو پیشہ ور مجرم ہیں، ان کو پیسے دیئے جاتے ہیں کہ یہ جرم کرو.چنانچہ جب یہ معاملہ پکڑا گیا اور پکڑا بھی اس طرح گیا کہ مرنے والوں میں سے ایک کی جیب سے ایک کارڈ صحیح سلامت نکل آیا اور اس کارڈ پر پولیس نے تحقیق شروع کی.اب اس میں ایک اور مجزانہ تائید کا پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں امریکہ میں قاتلوں کو پھانسی نہیں دی جاتی.قاتل پکڑے بھی جائیں تو ان کو موت کی سزا نہیں دی جاتی.اس وجہ سے وہ اور بھی زیادہ دلیر ہو جاتے ہیں.اور جہاں آر گنائزڈ کرائم Organized Crime ہوں، وہاں شہادت پر بڑا دباؤ ڈالا جاتا ہے.اور پھر جیلوں کو توڑ کر بھی قاتلوں کو رہا کروا لیا جاتا ہے.پس ایک احمدی معصوم کا قاتل بالکل صاف ہاتھ سے نکل کر بچ جاتا.لیکن خدا کی تقدیر نے اس کو ایک قدم بھاگنے نہیں دیا اور اسی ہم سے وہ دونوں ہلاک ہو گئے ، جس ہم سے وہ مسجد کو اڑانے کے لئے آئے تھے.495
خطبه جمعه فرموده 12 اگست 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پولیس نے جب مزید تحقیق کی تو بعض بڑے ہی تکلیف دہ اور قابل افسوس اور قابل شرم پہلو سامنے آئے ہیں.چنانچہ پولیس کی رپورٹ یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں ، جن کو ایک بدقسمت ملک کے مولویوں نے اپنے خرچ پر بلوایا اور وہاں ان کو اس بات کی تربیت دی کہ احمدی انتہائی قابل نفرت چیز ہیں، ان کا قتل سب سے عظیم انعام تمہیں عطا کرتا ہے.اور پھر دنیا میں پیسوں کا لالچ دیا اور عقلی میں جنت کا.چنانچہ اس طرح تیار کر کے ان کو بھجوایا گیا.پس یہ دونوں کوئی اتفاقی جوش میں آنے والے لوگ نہیں تھے بلکہ ایک گہری سازش کے نتیجہ میں تیار کئے ہوئے، دو مجاہدین تھے.چونکہ معین وقت پر یہ کیس پکڑا گیا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے توقع ہے کہ مجرموں کا یہ سلسلے کا سلسلہ بنگا کر دیا جائے گا.بہر حال جو بھی واقعہ ہوا ہے، اس سے اگر کچھ لوگوں کے دماغ میں یہ خیال ہے کہ احمدی ڈر جائے گا یا اس کے نتیجہ میں تبلیغ سے باز آجائے گا تو یہ ان کا بڑا ہی احمقانہ خیال ہے.احمدی تو ڈرنے کی خاطر پیدا ہی نہیں کیا گیا.احمدی کے دل اور اس کے حوصلے سے ایسے لوگ واقف ہی نہیں ہیں.احمدی تو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور سپاہی ہیں.لوگوں کی نگاہیں ہماری شان سے نا واقف ہیں، ان کو علم نہیں کہ ہم کون لوگ ہیں؟ ہم یہ جانتے ہیں کہ قدم قدم پر اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ ہے.اس لئے اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ڈیٹرائٹ امریکہ یاد نیا کے کسی گوشہ میں اس قسم کی ظالمانہ حرکتوں کے نتیجہ میں احمدی تبلیغ سے باز آجائے گا.وہ تو بہر حال دعوت الی اللہ دے گا اور دیتا چلا جائے گا.اور ایک سے سواور سو سے ہزار اور ہزار سے لاکھوں داعی الی اللہ پیدا ہوتے چلے جائیں گے.اس لئے کسی خوف اور خطرہ کا ہرگز مقام نہیں ہے.شہادتیں تو دعوت الی اللہ کا کام کرنے والی قوموں کے مقدر میں ہوتی ہیں.اور یہ شہادتیں انعام کے طور پر مقدر ہوتی ہیں، سزا کے طور پر مقدر نہیں ہوا کرتیں.اس لئے میں ان لوگوں کو ، جو اس صدمہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ، یعنی ڈیٹرائٹ کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ اے ڈیٹرائٹ اور امریکہ کے دوسرے شہروں میں بسنے والے احمد یو! اور اسے مشرق و مغرب میں آبا د اسلام کے جاں شارو!! اس عارضی غم سے مضمحل نہیں ہونا کہ یہ ان گنت خوشیوں کا پیش خیمہ بننے والا ہے.اس شہید کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہے.اور اس راستہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹو ، جس پر چلتے ہوئے وہ مرد صادق بہت آگے بڑھ گیا.تمہارے قدم نہ ڈگمگائیں تمہارے ارادے متزلزل نہ ہوں.دیکھو ! تم نے خوب سوچ سمجھ کر اور کامل معرفت اور یقین کے ساتھ اپنے لئے راستی کی وہ راہ اختیار کی ہے، جس پر صالحیت کی منزل کے بعد ایک شہادت کی منزل بھی آتی ہے.اسے خوف و ہراس کی 496
خطبه جمعه فرموده 12 اگست 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک منزل نہ بناؤ.یہ تو ایک اعلیٰ وارفع انعام کی منزل ہے.جس پر پہنچنے کے لئے لاکھوں ترستے ہوئے مر گئے اور لاکھوں ترستے رہیں گے.خالد بن ولید کا وقت یاد کرو، جب بستر مرگ پر روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی اور ایک عیادت کرنے والے نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کی تلوار ! تو جو میدان جہاد کی ان کڑی اور مہیب منزلوں میں بھی بے خوف اور بے نیام رہا، جہاں بڑے بڑے دلاوروں کے پتے پانی ہوتے تھے.آج تو موت سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے؟ تجھے یہ بزدلی زیب نہیں دیتی.خالد نے اسے جواب دیا کہ نہیں نہیں ، خالد بن ولید موت سے خائف نہیں ہے.بلکہ اس غم سے نڈھال ہے کہ راہ خدا میں شہادت کی سعادت نہ پاسکا.دیکھو یہ وہی خالد تھا، جو ہر میدان جہاد میں یہ تمنا لے کر گیا کہ کاش میں بھی ان خوش نصیبوں میں داخل ہو جاؤں، جو اللہ کی راہ میں شہید کئے جاتے ہیں.یہ تمنا لئے ہوئے وہ ہر خطرہ کے بھنور میں کود پڑا، ہر اس گھمبیر مقام پر پہنچا، جہاں سرتن سے جدا کئے جارہے تھے اور گردنیں کاٹی جارہی تھیں اور سینے برمائے جارہے تھے اور اعضائے بدن کے ٹکڑے کئے جارہے تھے لیکن ہر ایسے مقام سے وہ غازی بن کر لوٹا اور شہادت کا جام نہ پی سکا.پس بستر مرگ پر اس سوال کرنے والے کو خالد نے اپنے بدن کے وہ داغ دکھائے ، جو میدان جہاد میں کھائے جانے والے زخموں نے پیچھے چھوڑے تھے.اپنے بدن سے کپڑا اٹھایا اور اپنا پیٹ دکھایا اور اپنی چھاتی دکھائی اور اپنے بازو ننگے کئے اور کندھوں کے جوڑ تک.اپنے داغ داغ بدن کا ماجرا اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا اور کہا کہ دیکھو اور یہ دیکھو اور یہ دیکھو اور یہ دیکھو اور اے دیکھنے والے مجھے بتاؤ کہ کیا ایک انچ بھی ایسی جگہ تمہیں دکھائی دیتی ہے، جہاں اللہ کی راہ میں خالد نے زخم نہ کھائے ہوں؟ لیکن وائے حسرت اور وائے حسرت کہ خالد شہید نہ ہو سکا.یہ غم، جو آج مجھے کھائے جارہا ہے، ان زخموں کے دکھ سے کہیں زیادہ جاں سوز ہے، جو شوق شہادت میں، میں نے کھائے تھے.پس اے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے دروازے سے راہ سلوک میں داخل ہونے والو! تمہاری زندگی کے سفر میں لازماً صالحیت سے بالاتر مقام بھی آئیں گے.خوب یا درکھو کہ یہ خوف و ہراس اور نقصان و زیاں کا راستہ نہیں بلکہ لامتناہی انعامات کا ایک پہاڑی راستہ ہے.جس کے انعام کی ہر منزل پہلی سے بلند تر ہے.پس خوشی اور مسرت اور عزم اور یقین کے ساتھ آگے بڑھو.تبلیغ اسلام کی جو جوت میرے مولیٰ نے میرے دل میں جگائی ہے اور آج ہزار ہا احمدی سینوں میں یہ لو جل رہی ہے، اس کو بجھنے نہیں دینا، اس کو سمجھنے نہیں دینا تمہیں خدائے واحد و یگانہ کی قسم اس کو سمجھنے نہیں دینا.اس مقدس امانت کی حفاظت کرو.میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اس شمع کوالالالالالا کم کھا کر کہتا ہوں کہ تم اس 497
خطبه جمعه فرموده 12 اگست 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک نور کے امین بنے رہو گے تو خدا اسے کبھی بجھنے نہیں دے گا.یہ و بلندتر ہوگی اور پھیلے گی اور سینہ بہ سینہ روشن ہوتی چلی جائے گی اور تمام روئے زمین کو گھیر لے گی اور تمام تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دے گی.اے احمدیت کے بدخواہو! تمہارے نام بھی میرا ایک پیغام ہے.اے نگاہ بد سے اس لوکو دیکھنے والو! سنو کہ تم ہرگز سے بجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے.یہ ارفع چراغ وہ نہیں، جو تمہاری سفلی پھونکوں سے بجھایا جا سکے.جبر کی کوئی طاقت اس نور کے شعلہ کو دبا نہیں سکتی.چشم بصیرت سے دیکھو کہ مظفر آج بھی زندہ ہے بلکہ پہلے سے کہیں بڑھ کر زندگی پا گیا.پس اے مظفر ! تجھ پر سلام کہ تیرے عقب میں لاکھوں مظفر آگے بڑھ کر تیری جگہ لینے کے لئے بے قرار ہیں.اور اے مظفر کے شعلہ حیات کو بجھانے والو ! تم نے تو اسے ابدی زندگی کا جام پلا دیا.زندگی اس کے حصہ میں آئی اور موت تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی.مذہبی آزادی کا قرآنی تصور تو ایک بہت پاک اور اعلیٰ اور ارفع اور وسیع تصور ہے.اسے جبر و اکراہ کے مکروہ اور مجزوم تصور میں بدلنے والو! اور اے مذہب کے پاک سر چشمہ سے پھوٹنے والی لازوال محبت کو نفرت اور عناد میں تبدیل کرنے والو!! اے ہر نور کونار میں اور ہر رحمت کو زحمت میں بدلنے کے خواہاں بدقسمت لوگو !!! جو انسان کہلاتے ہو، یاد رکھو کہ تمہاری ہر سفلی تدبیر خدائے برتر کی غالب تقدیر سے ٹکرا کر پارہ پارہ ہو جائے گی.تمہارے سب ناپاک ارادے خاک میں ملا دیئے جائیں گے اور رب اعلیٰ کے مقدر کی چٹان سے ٹکر ٹکرا کر اپنا سر ہی پھوڑو گے.تمہاری مخالفت کی ہر جھاگ اٹھاتی ہوئی لہر ساحل اسلام سے ٹکرا کرنا کام لوٹے گی اور بکھر جائے گی اور اسے پیش قدمی کی اجازت نہیں ملے گی.اے اسلام کے مقابل پر اٹھنے والی ظاہری اور مخفی، عیاں اور باطنی طاقت !! سنو کہ تمہارے مقدر میں ناکامی اور پھر نا کامی اور پھر نا کامی کے سوا کچھ نہیں اور دیکھو کہ اسلام کے جاں نثار اور فدائی ہم وہ مردان حق ہیں، جن کی سرشت میں ناکامی کا ضمیر نہیں.اللہ تعالیٰ دکھائے گا، وہ دن دور نہیں کہ ہر وہ لفظ، جو آج میں نے آپ سے بیان کیا ہے، سچا ثابت ہوگا.کیونکہ یہ میرے منہ کی بات نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا ایسا اٹل فیصلہ ہے، جو بھی تبدیل نہیں ہوا اور کبھی تبدیل نہیں ہوگا.احمدیت نے کبھی نا کام نہیں ہونا، کسی منزل پر نا کام نہیں ہونا، آگے سے آگے بڑھنا ہے.پس اے دوستو! جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہوتے ہو، تم اللہ کی راہ میں جتنی زیادہ شہادتیں پیش کرنے کی توفیق پاؤ گے، اتنی ہی زیادہ کامیابیاں تمہارے مقدر میں لکھی جائیں گی.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور جلد اسلام کی فتح کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 22 اگست (1983ء) 498
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1983ء براعظم آسٹریلیا میں سب سے پہلی احمد یہ مسلم مسجد کی بنیاد رکھی جانے والی ہے خطبہ جمعہ فرموده 19 اگست 1983ء وو اب میں جس دعا کی تحریک کرنے لگا ہوں ، وہ اس سفر کے متعلق ہے، جو میں چند روز تک اختیار کرنے والا ہوں.اس سفر کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں.آپ کو یہ معلوم کر کے خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ براعظم آسٹریلیا میں سب سے پہلی احمد یہ مسلم مسجد کی بنیاد رکھی جانے والی ہے.یہ براعظم آج تک باقاعدہ احمد یہ مشن سے خالی تھا.اس سے قبل اور کوئی براعظم ایسا نہیں تھا، جہاں جماعت احمدیہ کے ایک یا ایک سے زیادہ مشن قائم نہ ہو چکے ہوں.صرف یہی باقی رہ گیا تھا، انشاء اللہ تعالیٰ اس سال ہم یہ کہہ سکیں گے کہ جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے دنیا کے تمام بر اعظموں میں مساجد اور مشن ہاؤس تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.آسٹریلیا براعظم بھی ہے اور ملک بھی.دونوں چیزیں یہاں اکٹھی ہو گئی ہیں.لیکن میں براعظم کے نقطہ نگاہ سے بات کر رہا ہوں.ورنہ ملک تو بے شمار ایسے ہیں، جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں قائم ہو چکیں ہیں.اور جماعت یہاں بھی پہلے سے قائم ہے، صرف مسجد اور مشن ہاؤس کی کمی تھی، جو اب انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہو جائے گی.یہ بہت ہی اہم ملک ہے.کیونکہ مشرق اور مغرب کے درمیان یہ ایک قسم کا پل بنا ہوا ہے.مشرق میں ہوتے ہوئے بھی یہ ایک مغربی ملک ہے.یہاں کے لوگوں کا مزاج باقی مغربی قوموں کے مقابل پر زیادہ حوصلہ افزا ہے.اور مذہبی ٹالرنس Tolerance ( رواداری ) ان میں بہت زیادہ ہے.یہ ایک ایسا ملک ہے، جہاں آپ کو کسی بھی نوعیت کے مذہبی فساد نظر نہیں آئیں گے.کیونکہ ان سے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ ایک لمبے تجربہ کی بناء پر اختلاف رائے کا وسیع حوصلہ رکھتے ہیں.اس نقطۂ نگاہ سے جماعت احمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا موقع ہے.اس کے علاوہ بھی آئی لینڈ، جسے زمین کا کنارہ کہا جاتا ہے، وہاں بھی انشاء اللہ تعالی جانے کا پروگرام ہے.یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، جہاں سے ڈیٹ لائن Date line گزرتی ہے.یعنی وہ فرضی 499
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جغرافیائی خط، جس پر آپ کھڑے ہو کر جتنی دفعہ چاہیں، ماضی یا مستقبل میں چلے جائیں.ایک قدم پر لی طرف رکھیں تو کل کی تاریخ اور ایک قدم ادھر رکھیں تو آج کی تاریخ آجائے گی.گویا یہ وہ ملک ہے، جہاں ماضی اور مستقبل کے افق مل رہے ہیں.اگر چہ خط تو سمندروں پر سے ہر جگہ گزر رہا ہے لیکن ایک باقاعدہ آباد ملک نبی ہی ہے، جہاں سے وہ خط گزرتا ہے.اس لئے اسے خاص اہمیت حاصل ہے.اور اسی نقطۂ نگاہ سے اسے زمین کا کنارہ بھی کہا جاتا ہے.کیونکہ زمین تو گول ہے، اس کا ویسے تو کوئی کنارا نہیں ہوسکتا.ہاں جہاں دن رات ملتے ہیں اور جہاں تاریخیں بدلتی ہیں، اس پہلو سے ایک کنارہ ضرور آجاتا ہے.پس اس نقطہ نگاہ سے اسے ہمارے علم کلام میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.تو ظاہری معنوں میں بھی یہ ایک کنارہ ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو تبلیغ پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی.اور اب میں بھی وہاں اسی نیت سے جارہا ہوں کہ جماعت کو منظم کروں اور وہ ایک نئی روح اور نئے ولولے کے ساتھ بہت تیزی سے اس ملک میں روحانی لحاظ سے غالب آجائے.لہذا بہت کثرت سے دعاؤں کی ضرورت ہے.کیونکہ جیسا کہ میں نے گزشتہ سفر میں تجربہ کیا تھا، ہماری ساری طاقت اور ہر کام کی بناء دعا پر ہے.جتنی کثرت سے لوگ اللہ تعالیٰ سے نہایت عاجزی، گریہ وزاری، محبت اور پیار کی اداؤں سے مانگیں گے، اتنا ہی وہ عطا کرتا چلا جائے گا.اس کے ہاں کوئی کمی نہیں.اس لئے احمدیوں کو ان دعاؤں میں لگ جانا چاہئے.ہر احمدی جو دعا کر بے گا، اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ضرور فضل ظاہر فرمائے گا.جتنی زیادہ دعائیں ہوں گی ، اتنے ہی زیادہ وہ فضل فرمائے گا.اس کے علاوہ بھی بعض ملک ہیں، جہاں اس سفر کے دوران کچھ عرصہ کے لئے قیام ہو گا.مثلاً ایک سنگا پور ہے ، وہاں انشاء اللہ تعالیٰ قیام کا خیال ہے.اور پھر واپسی پر آخری قدم سیلون پر رکھ کر انشاء اللہ تعالیٰ کراچی واپس آنا ہے.پروگرام مختصر ہے، زیادہ لمبا نہیں.تقریباً سوا مہینہ کا پروگرام ہوگا.لیکن مصروفیات بہت زیادہ ہیں.ایسی جماعتیں، مثلاً مجھی اور آسٹریلیا والے روز روز یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ خلیفة المسیح وہاں ان کے پاس پہنچے.اس لئے ان کا رجحان اس موقع پر ویسا ہی ہوتا ہے، جیسے سونے کے انڈے دینے والی بطخ کے متعلق ایک شخص کا رجحان تھا.اس نے کہا یہ تو روز ایک انڈا دیتی ہے، اب اتفاق سے قابو آئی ہوئی ہے، اسے ذبح کر کے سارے انڈے اکٹھے ہی کیوں نہ نکال لوں ؟ تو ایسی 500
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1983ء جماعتیں جہاں بہت دیر سے کوئی پہنچتا ہے، طبعا اور فطرتا ان میں یہ رجحان ہوتا ہے کہ خوب کام لیا جائے.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے ، کام سے تو میں بالکل نہیں ڈرتا.لیکن جب غیروں میں بکثرت لیکچرز ہوتے ہیں تو وہاں ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.کیونکہ میں اپنی ذات کے طور پر تو ان کے سامنے پیش نہیں ہورہا ہوتا بلکہ جماعت احمدیہ کے نمائندہ کے طور پر پیش ہو رہا ہوں گا.پس اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کرنی چاہئے کہ وہ مجھے اس نمائندگی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آج ہی مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ بیرونی جماعتوں کی طرف سے بعض علمی لیکچرز رکھ دیئے گئے ہیں.ان کی تیاری کا تو وقت کوئی نہیں.پرسوں یا ترسوں انشاء اللہ روانگی ہے.اس لئے طبعی بات ہے کہ ذہن میں کچھ فکر تو پیدا ہوتی ہے.لیکن میرا گزشتہ تجربہ یہ ہے کہ اگر چہ پہلے بھی یہی حال تھا لیکن اللہ تعالی نے اپنے فضل سے تو فیق عطا فرما دی تھی اور جب وہ وقت گزر گئے تو اتنے آسان اور ہلکے پھلکے نظر آئے ، جیسے کوئی بوجھ ہی نہ تھا.یہ بوجھ تو آپ سب نے میرے ساتھ مل کر اٹھانا ہے.میں نے اکیلے نہیں اٹھانا.کیونکہ میں اپنی ذات کا نمائندہ نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کا نمائندہ ہوں.پس بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر پہلو سے اسے بابرکت بنائے اور اس کے ذریعہ اسلام کی عظیم الشان فتوحات کی بنیادیں رکھی جائیں.ایسے نئے دروازے کھلیں، جن سے بڑی شان کے ساتھ نئی فتح کے علم بلند کرتی ہوئی جماعت احمد یہ نئے میدانوں میں نکل آئے اور نئی نئی تو میں فتح ہوں اور نئے نئے دل مسخر کئے جائیں اور اس حال میں خدا تعالیٰ اس سفر کو ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ سفر ختم ہورہا ہو اور اسلام کی عظیم الشان فتوحات کا آغاز ہورہا ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(مطبوعہ روزنامہ الفضل 20 ستمبر 1983ء) 501
تحریک جدید - ایک البی تحریک.خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء جن کا مولیٰ اللہ ہو جائے ، ان کو لا ز ما فتح عطا ہوتی ہے خطبہ جمعہ فرمود 26 اگست 1983ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ وقفة اور پھر فرمایا:.وقفة (البقرة: 287) " قرآن کریم انذار اور تبشیر کے تانے بانے سے بنی ہوئی ایک عجیب و غریب صنعت ہے کہ اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.بعض اوقات یہ تانا بانا نمایاں طور پر نظر آتا رہتا ہے.اب تبشیر شروع ہوئی اور اب انذار کا دھاگا آگیا.اور بعض اوقات یہ بنتی اتنی باریک ہو جاتی ہے کہ ظاہری نظر اس کا فرق نہیں کر سکتی.اور بعض اوقات ایک ہی آیت میں انذار اور تبشیر دونوں اس طرح مل جاتے ہیں کہ گویا ایک دوسرے کے اندر جذب ہو جاتے ہیں اور کامل طور پر ان کا اتحاد نظر کو عجیب لگتا ہے.یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے، اس بات کی مثال ہے، جو میں بیان کر رہا ہوں.انسان جب ان عظیم ذمہ داریوں پر نگاہ ڈالتا ہے، جو اس پر ڈالی جاتی ہیں تو خواہ وہ کسی منصب سے تعلق رکھتا ہو، کسی حیثیت کا انسان ہو، اگر وہ باشعور ہے اور اپنے حالات کا جائزہ لینے کی اہلیت رکھتا ہے اور بصیرت رکھتا ہے تو اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوگا کہ میں ان ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کا اہل نہیں ہوں اور یہ ذمہ داریاں میری طاقت سے بڑھ کر ہیں.ایک زمیندار خواہ مزارع ہو یا مالک ہو ، وہ بھی نہ زمین 503
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم کے تقاضے پورے کر سکتا ہے، جو بحیثیت زمیندار اسے پورے کرنے چاہئیں.اور اگر وہ اہلیت رکھتا بھی ہو تو بہت سی چیزیں اس کے اختیار میں نہیں ہیں اور بے بس ہو جاتا ہے.ایک مزدور اپنی مزدوری کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا تعمیراتی کام کا ایک نگران تعمیر کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا، غرض یہ کہ اس سے بحث نہیں کہ کسی پر کتنی بڑی ذمہ داری ڈالی گئی یا کتنی چھوٹی ؟ انسان ایک بے بس چیز ہے، بے اختیار چیز ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ ہر ذمہ داری، جو انسان پر ڈالی جاتی ہے، وہ اسے طاقت سے بڑھ کر معلوم ہوتی ہے.دل میں خوف پیدا ہوتا ہے اور انسان سوچتا ہے کہ یہ ذمہ داری کیسے ادا کروں گا ؟ دوسری طرف قرآن کریم کی اس آیت پر نظر پڑتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک عظیم الشان خوشخبری دی جارہی ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کہ اللہ تو کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا اور اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے.وہ اپنی ہر تخلیق کی کہنہ تک واقف ہے، اپنی ہر تخلیق کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے اور اس کے ان پہلوؤں سے بھی واقف ہے، جو بطور خوبیاں ودیعت کی گئیں.ان دونوں پہلوؤں پر جس علیم و خبیر ہستی کی نظر ہو، اگر وہ یہ کہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اللہ کی نفس پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا تو یہ ایک عظیم الشان خوشخبری ہے.اور گویا یہ پیغام ہے کہ تمہیں بوجھ زیادہ نظر آرہے ہیں، حقیقت میں زیادہ بوجھ نہیں تمہاری وسعت کے مطابق ہیں.یہاں ایک فرق کرنا ضروری ہے ، ورنہ احباب کے ذہن میں مضمون الجھ جائے گا.فرق یہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ انسان دوسرے انسان پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.یہ بھی نہیں فرمایا کہ انسان اپنے او پر اپنی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.کیونکہ یہ دونوں واقعات دنیا میں ہمیں روزانہ دکھائی دیتے ہیں.بسا اوقات انسان دوسرے انسانوں پر ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ ان بوجھوں تلے ٹوٹ جاتے ہیں اور تب بھی کام کا حق ادا نہیں کر سکتے.بعض اوقات انسان اپنی جان پر اپنی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال لیتا ہے.یہاں اس عام انسانی کیفیت اور حالات کا ذکر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ پنے متعلق فرماتا ہے کہ میں کسی انسان پر یا کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.وہ انسان جو دوسروں پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنا نہیں چاہتے اور یہ ادعا کرتے ہیں کہ ہم طاقت کے مطابق بوجھ ڈالتے ہیں، وہ بھی دراصل اپنے ادعا میں خام ہوتے ہیں، ان کے دعوی کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.کیونکہ جب تک کوئی یہ جائزہ لینے کا اہل نہ ہو کہ اس کی طاقت کیا ہے؟ اس وقت تک وہ یہ دعوی کر ہی نہیں سکتا کہ 504
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء میں طاقت کے مطابق بوجھ ڈالتا ہوں یا طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.اشتراکیت کا ایک نعرہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق دو اور اس کی طاقت کے مطابق اس سے کام لو.یہ دونوں نعرے اسی پہلو سے کھو کھلے ہیں کہ ہر انسان کا مزاج، اس کی اندرونی کیفیات، اس کا ماحول، اس کے ماں باپ کے مزاج کے اثرات، اس کی اپنے بعض کمزور یا بعض مضبوط پہلو، یہ سارے مل کر اس کی ایک شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں.اور یہ جو شخصی تعمیر ہے، یہ ضرورت کا فیصلہ کرتی ہے کہ اس کی ضرورت کیا ہے؟ اور انسان کے لیئے ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی دوسرے انسان کی ضرورت کی تعیین کر سکے.صرف خدا کے لئے ممکن ہے.اور اسی طرح جب کہتے ہیں کہ طاقت کے مطابق کام لوتو ہر ایک کی طاقت کا فیصلہ کرنا ہر ایک کے بس کی بات ہی نہیں ہے.مختلف مزاج کے لوگ ہیں، ان کے مختلف حالات ہیں، بعض اندرونی کمزوریاں ہیں ، بعض دفعہ انسان کہتا ہے کہ مجھے بڑی سخت کمزوری ہو گئی ہے اور دوسرا آدمی کہتا ہے کہ بکواس کر رہا ہے ، جھوٹ بولتا ہے، بہانے کر رہا ہے، اس کو ہرگز کوئی کمزوری نہیں، اس کے اوپر بوجھ ڈالنا چاہئے.اب ہوسکتا ہے، کوئی اسے ظالم سمجھے.لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی وسعت میں ہی نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو سمجھ سکے اور اس نے ایک اندازہ لگایا ہے.وہ اپنی جگہ بے اختیار ہے، یہ اپنی جگہ بے اختیار ہے.انسان کے حالات اندرونی طور پر بہت مختلف ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک معقول آدمی سارے علم کے باوجود بھی دوسرے آدمی کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا.چنانچہ ایک پاگل کے متعلق ذکر آتا ہے کہ اس کو یہ وہم تھا کہ وہ شیشے کا ہو چکا ہے اور لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ مجھے زور سے ہاتھ نہ لگانا، میں ٹوٹ جاؤں گا.اور بہت ہی احتیاط سے اور ملائمت کے ساتھ گدے وغیرہ رکھ کر چیزوں پر بیٹھتا تھا اور ہر طرح سے اپنا خیال رکھتا تھا کہ میں کسی دن ٹوٹ نہ جاؤں.ایک ماہر نفسیات کے پاس اسے لے جایا گیا اور ماہر نفسیات یہ سمجھتے تھے کہ ہمیں پتہ ہے، یہ سب بکواس ہے، انسان کہاں ٹوٹ سکتا ہے؟ چنانچہ انہوں نے اس کا یہ علاج سوچا کہ اچانک بہت زور سے اس کو تھپڑ مارا، یہ ثابت کرنے کے لئے کہ دیکھو، تم نہیں ٹوٹ گئے، تمہیں اپنے آپ پر اعتماد ہونا چاہئے.لیکن اس کی اندرونی کیفیت اتنی نازک ہو چکی تھی کہ اس کے منہ سے چھن چھن کی آواز نکلی اور وہ و ہیں حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے گر کر مر گیا.اس کو اتنا یقین تھا کہ میں شیشے کا ہوں کہ اس یقین کے احساس نے اس کا دل بند کر دیا.پس انسانی حالات کے مختلف تقاضے ہیں، جن میں باریک فرق ہیں کہ کوئی دوسرا انسان خواہ کسی فن کا ماہر کیوں نہ ہو، نہ اس کی وسعتوں کا پتہ کر سکتا ہے اور نہ اس کی ضرورتوں کا اندازہ کر سکتا ہے.صرف اللہ ہی ہے، جو یہ کہہ سکتا ہے کہ 505
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وَسْعَهَا پس اس پہلو سے اس میں ایک بڑی بھاری تبشیر ملتی ہے اور وہ ذمہ داریاں ، جو خدا ڈالتا ہے، ان کے متعلق تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے اہل ہیں.تبشیر کا یہ پہلو جب انسان کو مزید غور پر متوجہ کرتا ہے تو پھر ایک خوف کا اثر آہستہ آہستہ غالب آنے لگتا ہے.مثلاً جماعت احمدیہ ہے.جماعت احمدیہ کی ذمہ داری کیا ہے، جو خدا تعالیٰ نے ڈالی ہے؟ تمام دنیا کو مسلمان بنانا، تمام ادیان باطلہ پر اسلام کو غالب کرنا اور اس انسان کی تقدیر کو بدل دینا.جس کے متعلق خدا فرماتا ہے:.وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ زمانہ کی قسم زمانہ گواہ ہے کہ یہ انسان لازما گھانا کھانے والا ہے.اپنے سود و زیاں کا تو انسان کو پورا ہوش نہیں ہوتا.سارے زمانہ کے زباں کو سود میں بدل دینا، سارے نقصان کو فائدہ میں تبدیل کر دینا، یہ ذمہ داری ہے، جو ہم پر ڈالی گئی ہے.ایک طرف یہ آیت تبشیر بھی کر رہی ہے، دوسری طرف جب انسان اپنی کمزوریوں پر نگاہ ڈالتا ہے یعنی بے بسی اور بے اختیاری کو دیکھتا ہے، کام کے بے شمار ہجوم نظر آتے ہیں اور دنیا کا واقعاتی جائزہ لیتا ہے تو انسان سمجھتا ہے، میں اس کا بالکل اہل نہیں ہوں.مجھ میں کہاں طاقت ہے کہ میں کسی ایک ملک کو بھی بدل سکوں.صرف ایک ہندوستان پر ہی اگر جماعت احمد یہ اپنی تمام توجہ مبذول کر دے تو جہاں تک دنیا کے حالات کا تعلق ہے اور جہاں تک ہمارے ذرائع کا تعلق ہے، ہم ایک صوبے کے ہندوؤں کو بھی بظاہر مسلمان بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے.پھر آپ دنیا کی وسعتوں پر نظر ڈالیں ، کتنے بڑے بڑے وسیع ممالک ہیں، جود ہر یہ ہو چکے ہیں، وہ خداہی کو نہیں مانتے.ہم ان کی زبانیں نہیں جانتے ، ان کے خیالات سے واقف نہیں ہیں، ان کی قومی عادات سے واقف نہیں ہیں، ان تک پہنچنے کی طاقت نہیں ہے، راہوں میں Barrier اور روکیں ہیں اور اس کے باوجود دل میں یہ یقین ہے کہ خدا سچ کہ رہا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ہم پر جو بوجھ ڈالا ہے، وہ ہم اٹھانے کے اہل ہیں.لیکن کیسے؟ اب آسٹریلیا کا سفر در پیش ہے اور اسی سلسلہ میں غور کرتے ہوئے میری توجہ مبذول ہوئی کہ آسٹریلیا ایک براعظم ہے، جس کو آج تک کسی غیر مذہب نے فتح نہیں کیا.عیسائیت نے وہاں Aborigines میں کچھ نفوذ کیا.لیکن جو عیسائی وہاں آباد ہوئے ، آج تک کسی نے ان کے قلوب کو فتح نہیں کیا.اور ایک بڑی قوم ہے.ایک بہت بڑا پھیلا ہوا براعظم 506
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983 ء ہے.اور وہاں ہم ایک مشن کی تعمیر کرنے کے لئے جارہے ہیں.اور ایسی ایک دنیا نہیں، ایسی سینکڑوں دنیا ئیں ہیں، جہاں ابھی تک ہم کوئی نفوذ نہیں کر سکے.نجی ہے، جو بظاہر ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے.لیکن اب تک کی کوششوں کے نتیجہ میں پانچ ہزار کے لگ بھگ وہاں احمدی ہیں.اور اس میں لاکھوں کی آبادی ہے.وہاں Aborigines تو نہیں لیکن قدیم باشندے، جو افریقن ممالک سے ہجرت کر کے آئے تھے، ان کی ایک بھاری تعداد ہے.ہندو بھی وہاں بھاری تعداد میں موجود ہیں.اور آسٹریلیا کو تو چھوڑیئے نجی میں بھی ان سب کو مسلمان بنانا بہت مشکل نظر آتا ہے.پھر سیلون ہے، وہاں کے حالات یہ ہیں کہ بدھسٹ اکثریت میں ہیں اور ان بدھسٹ میں آج تک ہم نفوذ نہیں کر سکے.ہماری وہاں جو تبلیغ ہوئی ہے ، وہ زیادہ تر ہندوستانی نسل کے باشندوں میں ہوئی ہے.وہی ہیں، جن میں احمدیت نے کسی طرف سے راستہ بنایا اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں سے کچھ لوگ احمدی ہوئے.لیکن باقی جو بدھسٹ لوگ ہیں اور یہ دراصل بدھسٹ کا ملک ہے، ان کی غالب اکثریت ہے.ان میں شاذ کے طور پر احمدی ہوئے ہیں.لیکن بحیثیت قوم کے انہوں نے قبول نہیں کیا.وہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے.اس جزیرہ پر بھی ہم اسلام کو پوری طرح غالب کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ، جہاں تک اپنے ظاہری حالات کے جائزہ کا تعلق ہے.پس یہ مضمون سوچتے ہوئے میری توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ وسعتیں کہیں ایسی تو نہیں ، جن کو کو ہم نے ابھی کھنگال کر دیکھا نہ ہو.ایسی وسعتیں تو نہیں، جن کو ہم نے ابھی تک دریافت نہ کیا ہو.خدا کی بات تو بہر حال درست ہے کہ ہمارے اندر وسعت موجود ہے.لیکن اگر Untapped Resources پڑی رہیں، اگر انسان جو کچھ خدا تعالیٰ نے اسے ودیعت کیا ہے، اس سے پوری طرح استفادہ نہ کرے تو پھر انسان تو جھوٹا ہوگا ، خدا جھوٹا نہیں ہے.معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہماری کچھ وسعتیں ایسی ہیں ، جن کو ہم نے پوری طرح مولا نہیں اور ٹولنے کے بعد محسوس کر کے ان پر ذمہ داری کی کاٹھی نہیں ڈالی ، ان کی تربیت نہیں کی ، خدا کی راہ میں خدمت کے لئے پیش کرنے کی.جب تک ہم اپنے نفس کو ٹول کر اس کی صلاحیتوں کی تربیت نہ کریں، وہ اس لائق نہیں ہے کہ اسے خدا کے حضور پیش کیا جا سکے.اس لئے انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی میں نے نظر ڈالی تو بے شمار وسعتیں ہیں، جن سے استفادہ نہیں کیا جا رہا.ہر احمدی اگر اپنی ذات پر غور کرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو جو طاقتیں ودیعت کی ہیں، ان سے وہ پورا استفادہ نہیں کر رہا.اور خصوصاً دین کے معاملہ میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے.وہ اپنے بچوں کی تربیت نہیں کر رہا، اپنی بیوی کی تربیت کا حق ادا نہیں کر رہا.وہ طاقتیں ، جو خدا نے اسے دی ہیں، انہیں ضائع کر 507
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم رہا ہے.کھیل کو د اور لہو و لعب میں اپنی جائز ضرورت سے بڑھ کر خرچ کرتا ہے.کچھ تو انسان کا تفریح کا حق ہے، وہ اس کی بناوٹ میں داخل ہے لیکن کچھ اس سے زائد ہوتا ہے اور جب تو میں تفریح کے حق سے بہت زیادہ وقت خرچ کرنے لگ جائیں تو وہ اپنی قوتوں کو ضائع کر رہی ہوتی ہیں.پھر بہت سی ایسی زبانیں ہیں، جو دین کی خاطر گھر بیٹھے سیکھ سکتے ہیں.بہت سا علم ہے دین کا ، جو آپ پڑھا سکتے ہیں.اس کی طرف پوری توجہ نہیں.عبادت ہے، اس کی طرف پوری توجہ نہیں.جتنا کہ حق ہے، ویسی ہونی چاہئے.غرضیکہ آپ اپنی نظر کو پھیلاتے چلے جائیں تو ہر انسان کے اندر آپ کو ایسے بے شمار گوشے نظر آئیں گے، جہاں اللہ تعالیٰ نے وسعتیں تو عطا فرمائی ہیں لیکن ان وسعتوں سے ہم پورا فائدہ نہیں اٹھا ر ہے.اس لئے جب جماعت کی ایک اجتماعی شکل بنتی ہے تو ایسے بکثرت احمدی جماعت میں شامل ہیں، جن کی وسعتوں میں سے ایک تھوڑا سا حصہ جماعت کو ملا ہوا ہے.اور پھر جماعت کی جو اجتماعی شکل بنتی ہے، اس میں تمام ذمہ دار کارکنان ، جو جماعت میں شامل ہیں یا جن پر بوجھ ڈالے جاتے ہیں، وہ آگے پھر اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا نہیں کرتے اور اپنی وسعتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے.ایسے مربیان بھی ہیں، بیرونی ممالک کے مبلغین بھی ہیں، دفتروں میں کام کرنے والے بھی ہیں، اگر وہ اپنے آپ کو ٹولنا شروع کریں تو محسوس کریں گے کہ ابھی وہ بہت کچھ اور بھی کر سکتے تھے.لیکن نہیں کر سکے یا نہیں کیا.تدبر کی باتیں دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو تدبر کا ایک ملکہ عطا فرمایا ہے، فکر کا ملکہ عطا فرمایا ہے اور مسائل کو جانچنا اور ان میں تدبر کرنا اور فکر کے نتیجہ میں نئی نئی راہیں تلاش کرنا، یہ انسان کی فطرت میں ودیعت ہے.لیکن اس پہلو سے بھی ہر وقت ایک احمدی کا جماعتی مسائل میں منہمک ہونا ، یہ ہمیں نظر نہیں آتا.بسا اوقات اکثر احمدی اپنے دنیاوی اور گھریلو مسائل میں تو ا لجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن بہت کم ہیں، جو دن رات اس فکر میں غلطاں ہوں کہ دین کا کیا بنے گا؟ ہم اپنی ذمہ داریاں کیسے ادا کریں گے؟ کاموں کو آسان کرنے کے کیا ذرائع ہیں؟ ہم کس طرح تھوڑی کوشش کے ساتھ زیادہ حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ بھی ساری Resources Untapped پڑی ہیں.لیکن میں نے یہ سب کچھ سوچا اور اندازہ لگایا ، اس کے باوجود میرے دل کا دیانت دارانہ فیصلہ یہ تھا کہ اگر سارے احمدی اپنی ساری طاقتیں بھی جھونک دیں ، تب بھی یہ ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے.ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے.جہاں ہمارے دائرے پھیل رہے ہیں، وہاں اندرونی ذمہ داریاں بھی مزید پیدا ہوتی چلی جارہی ہیں.اگلی نسلوں کی تربیت کے مسائل ہیں، ان میں پیغام کو زندہ رکھنے کا سوال ہے.ایک 508
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک نیکی پر قائم ہو کر پھر اسے چھوڑنے کا جو رجحان قوموں میں ملاتا ہے، تن آسانی کارجحان ملتا ہے، یہ بھی ایک بڑی خطرناک چیز ہے.پس جہاں دائرے پھیلتے جاتے ہیں، وہاں اندرونی تربیت کے معاملات بھی زیادہ سنگین نوعیت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں.پھر تیزی کے ساتھ اگر آپ پھیلنا بھی شروع کر دیں تو ان کی تربیت کے اتنے خطرناک مسائل سامنے آئیں گے کہ اگر ہمارے اندر ان نئے آنے والوں کی تربیت کی پوری اہلیت نہ ہوئی تو جس تیزی کے ساتھ وہ آئیں گے، اس تیزی کے ساتھ احمدیت کو بگاڑنے لگ جائیں گے، اسی تیزی کے ساتھ دین کو نقصان پہنچانے لگ جائیں گے.پس ان پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ قرآن کریم سے انسان ہدایت نہیں پا سکتا، جب تک تقویٰ کے ساتھ ہدایت کی تلاش نہ کرے.اور تقویٰ یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کی کوئی بات سمجھ آئے یا نہ آئے تم کہہ دو کہ ہاں سمجھ آگئی.تقویٰ یہ ہے کہ جس بات کی سمجھ نہیں آئی، اس حد تک تسلیم کرے کہ ہاں ہمیں سمجھ نہیں آئی.میرے نفس نے بڑی دیانت داری کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ جہاں تک احمدیت کی وسعت کا تعلق ہے، ہر فرد اور جماعت کی اندرونی طاقتوں کے مجموعہ کا نام ہی جماعت کی وسعت ہے.اس وسعت پر اگر ہم نظر ڈالیں تو ہم ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے اہل نہیں ہیں، جو ذمہ داریاں تمام دنیا میں اسلام کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں.اسلام کی تبلیغ کے لئے ، اس کے نفاذ کے لئے اور اسے زندگی کا ایک ناقابل تقسیم جز و بنادینا، یہاں تک کہ وہ نسلاً بعد نسل فطرت ثانیہ کے طور پر لوگوں کی رگوں میں جاری ہو جائے.یہ ہے اسلام کی تبلیغ کا بنیادی تقاضا ، جسے ہم نے پورا کرنا ہے اور ہم اس کے اہل نہیں ہیں.پھر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ توجہ مبذول کراتا ہے اور فرماتا ہے:.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا تمہارے اندازوں میں کوئی غلطی ہوگی.ہوسکتا ہے، بعض وسعتیں تم نے دیکھی نہ ہوں، پھر نظر دوڑاؤ، پھر تلاش کرو، عین ممکن ہے کہ کچھ ایسی وسعتیں ہوں، جن پر تم نے نظر نہ ڈالی ہو.اس پہلو سے جب میں نے دوبارہ غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ انسان کی وسعتیں صرف اس کی ذات تک یا اس کی جماعت تک محدود نہیں ہوا کرتیں بلکہ اس کے تعلقات اور اس کی دوستیاں بھی تو وسعتوں میں شامل ہوا کرتی ہیں.ایک چھوٹا سا ملک اگر ایک بڑے ملک کا دوست ہو تو کیسی جرات سے آنکھ اٹھا کر بڑی بڑی طاقتوں کو چیلنج کرتا ہے.کہتا ہے تم مجھے نہیں مٹا سکتے ، اس لئے کہ فلاں ملک میری پشت پناہی کر رہا ہے.غالب نے بھی تو کہا ہے کہ 509
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے تو انسانوں کی آبروئیں اور طاقتیں ان کی دوستیوں کے ساتھ بدلتی ہیں.ان کے تعلقات کے دائرے جتنے وسیع ہوں، اتنی ان کی وسعتیں پھیلتی چلی جاتی ہیں.تو لازماً اس سمت میں کوئی حل ہے، جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے.معا دیکھا کہ اگلی آیت یہی سکھا رہی ہے.اس کے معا بعد دعا کا مضمون شروع ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأنَا اے خدا! ہم تو بالکل بے کار اور ناکارہ لوگ ہیں، ہماری وسعتوں میں تو نے اپنا تعلق داخل کر دیا، تبھی ایسے عظیم الشان کام ہمارے سپر د کر رہا ہے، جو ناممکن ہیں، انسان کی بساط میں نہیں ہے کہ ان کو پورا کر سکے.تو جب تک ہمارا دوست ہے، ہماری وسعت ہے.جب تو نے تعلق توڑ دیا تو ہماری کوئی بھی وسعت نہیں.اور جب خدا خود ذمہ داریاں ڈالتا ہے تو اس وجود، قوم کی وسعت میں جس پر ذمہ داریاں ڈالتا ہے، پنے تعلق کو بھی شامل کر لیتا ہے.ورنہ تو ناممکن ہے کہ وہ کام کیا جاسکے.اس پہلو سے معا بعد آنے والی دعا نے سکھا دیا کہ دراصل ہماری وسعتیں ہمارے خدا میں ہیں.ہماری تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہمارا خدا ہے.اور جتنا زیادہ گہرا تعلق ہم اپنے رب سے کریں گے، ہماری وسعتیں پھیلتی چلی جائیں گی اور چونکہ اس کی طاقتیں لامتناہی ہیں، اس لئے بلاشبہ ہماری وسعتیں بھی لامتناہی ہیں.یہ ہم پر منحصر ہے کہ اپنے تعلق کو کس حد تک بڑھاتے چلے جاتے ہیں.اگر خدا کی ذات میں اپنے وجود کو مدغم کر دیں، اگر اپنا کچھ بھی نہ رہنے دیں، نہ اپنی تمنائیں اپنی رہیں ، نہ اپنی خواہشات، نہ اپنی محبت اور نہ نفرتیں کچھ بھی اپنا نہ رہے تو پھر ہماری وسعتیں، ہمارے خدا کی وسعتیں بن جائیں گی.اور اس کے آگے کوئی بھی چیز انہونی نہیں اور کوئی بھی چیز مشکل نہیں ہے.وہ جو کن فیکون کا مالک خدا ہے، اس سے تعلق کے بعد انسان کیسے وہم کر سکتا ہے کہ میری حیثیت چھوٹی ہے اور میری وسعتیں محدود ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے معا بعد دعا سکھا کر ( اور پھر دعا میں ان تمام باریک پہلوؤں کو روشن کر دیا، جو اس مضمون سے گہرا تعلق رکھتے ہیں.) حوصلہ دے دیا ہمیں، سبق بھی دیا، وہ راستہ دکھا دیا، جس راستے پر چل کر ہماری طاقتیں پھیلتی چلی جائیں گی اور وسیع تر ہوتی چلی جائیں گی.چنانچہ فرمایا :.رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأنَا 510
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء اے خدا! انسان طاقتیں ضائع بھی کر دیتا ہے.جو کچھ حاصل ہے، اس سے بھی تو پور استفادہ نہیں کر سکتا.اور وسعتوں میں سے وہ حصہ منفی ہوتا چلا جاتا ہے.اور وہ دو طریق پر ہے، بعض دفعہ بھول چوک کے ذریعہ، بعض دفعہ خطاؤں کے ذریعہ تو ہماری پہلی درخواست تو یہ ہے کہ ہمیں یہ توفیق عطا فرما کہ جو ہماری وسعتیں ہیں، ہم ان سے تو پورا فائدہ اٹھائیں.خطائیں کی ہیں تو معاف فرما دے.خطاؤں کی جو سزائیں مقرر ہیں یا خطاؤں کے جو طبعی نتائج تو نے مقرر فرمائے ہوئے ہیں، ان سے ہمیں نجات بخش اور ایسی توفیق عطا فرما کہ آئندہ خطائیں نہ کریں.اگر خطائیں ہو بھی جائیں تو کم سے کم ہوں اور اسی طرح ہمارے بھول چوک کے مضمون میں بھی تو داخل ہو جا اور بھولی ہوئی چیزوں کے بدنتائج سے محفوظ فرماتا چلا جا.پھر فرمایا:.رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا یہ کہنے کے بعد ہماری توجہ گزشتہ قوموں کی طرف مبذول کروادی.فرمایا: یہ پہلی دفعہ تو واقعہ نہیں ہوا کہ خدا نے کسی قوم کے سپر دایک ذمہ داری کی ہے اور پہلی دفعہ یہ واقعہ نہیں ہوا کہ خدا توقع رکھتا ہے کہ تم اس ذمہ داری کو ادا کرو گے.انسان کی ماضی پر نگاہ پڑتی ہے تو بہت سی قومیں نظر آتی ہیں، جنہوں نے ان ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہیں کیا یا ادا کرنے کے بعد بہت جلد بھلا دیا.اور خدا تعالیٰ نے جو نعمتیں دی تھیں، ان کو لعنتوں میں تبدیل کر دیا.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماضی کے انسان سے بھی سیکھو.تمہاری کچھ وسعتیں ایسی ہیں ، جو ماضی میں بھی پھیلی پڑی ہیں.کچھ کمزوریاں تم نے پرانی قوموں سے ورثہ میں پائی ہیں.کچھ بد عادات ایسی ہیں، جو پہلے انسان میں پیدا ہوتی رہی ہیں، اس طرف بھی توجہ کرو.صرف اپنی کمزوریوں سے بخشش کی یا نجات کی دعائیں نہ کرو، سابقہ قوموں کی غلطیوں سے بھی بخشش اور نجات کی دعا ئیں کرو.یہ ابھی تک منفی مضمون چل رہا ہے.فرمایا کہ دیکھو! پہلے ایسی تو میں تھیں، جن کے بداثرات ورثہ میں چلے جاتے ہیں.ان بداثرات سے بچنے کی کوشش کرو، ان غلطیوں سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرو اور یہ کام بھی دعا کے بغیر نہیں ہوسکتا.فرمایا: دعا کرو:.رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ اب اس مضمون میں داخل ہونے کے بعد بظاہر ایک تضاد نظر آتا ہے.ابھی تو خدا تعالیٰ فرمارہا تھا کہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا خدا کسی جان پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہی نہیں.اور اب کہ رہا ہے، رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ 511
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک یہ دعا کرو کہ اے خدا! ہماری طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالنا.ان دو باتوں میں تو بظاہر تضاد ہے.جو خدا تم سے یہ عہد کر چکا ہو، ابھی ایک آیت پیچھے کہ میں ہر گز تم پر تمہاری طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالتا ہی نہیں، اس پر اعتماد کیوں نہیں کرتے ؟ اس بات پر یقین کیوں نہیں کرتے اور کیوں پھر یہ دعا کرتے ہو کہ اے خدا!! ہم پر ہماری طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالنا؟ یہ جو مضمون ہے، اس میں بعض لطیف حکمتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیں.امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کی طاقتوں اور وسعتوں میں ایک فرق ہے.اور جب آپ وسعت اور طاقت کو ہم معنی بنا ئیں تو وہاں یہ اعتراض اٹھتا ہے.جہاں اس فرق کو محوظ رکھ لیں، وہاں یہ اعتراض نہیں اٹھتا.مثلاً ایک بچہ ہے، اس کی وسعت میں یہ بات داخل ہے کہ جب وہ اپنی Peak (یعنی اپنے عروج ) کو پہنچے گا تو ایک عظیم الشان پہلوان بنے گا ، اگر اس نے پہلوان بنا ہو.اگر مثلاً اس نے دنیا کا سب سے بڑا ویٹ لفٹر یعنی بوجھ اٹھانے والا بننا ہو تو اس کی وسعت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ ایک زمانہ میں جا کر بوجھ اٹھانے کے میدان میں بہت ہی عظیم الشان پہلوان ثابت ہوگا اور ایسا ریکارڈ قائم کرے گا کہ دنیا میں پھر کوئی اسے تو ڑ نہیں سکتا.لیکن اس کی طاقت میں یہ بات داخل نہیں.کیونکہ بچہ ابھی اس وسعت تک پہنچا نہیں ہے، ابھی اس مقام سے پیچھے ہے.اس کی طاقت میں تو ابھی یہ بات داخل ہے کہ آپ ہاتھ پکڑ کر چلائیں ورنہ گر پڑے گا.اپنا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتا.پس خدا تعالیٰ نے انسان کے ذہن کو ایک عظیم الشان مضمون میں داخل کر دیا اور فرمایا کہ دیکھو! وسعتیں تو تمہاری بہت ہیں.لیکن تمہیں ان وسعتوں کا قرینہ بھی تو ہم ہی سکھائیں گے.تمہاری طاقتوں کو رفتہ رفتہ ہم ہی بڑھائیں گے.تم یہ دعائیں کرو کہ اے خدا! تیری تقدیر ہم سے اچانک مشکل کاموں کا سامنانہ کرا دے، جو ہماری وسعت میں تو ہیں لیکن ہم نے اپنی غفلتوں کے نتیجہ میں ابھی تک حاصل نہیں کئے.یہاں یہ مضمون پھر دوشاخہ مضمون بن جاتا ہے.اس لئے تحمل اور غور سے ہمیں آگے بڑھنا پڑے گا.خدا تعالی وسعت اور طاقت کے مطابق بوجھ ڈالتا ہے، یہ درست ہے.اور خدا تعالیٰ سے ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ہماری طاقتوں سے بڑھ کر ہم پر بوجھ نہ ڈال.لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری طاقتیں اور ہماری وسعتیں ایک منزل پر اکٹھی ہو جائیں.اگر ہم نے ذمہ داری ادا کی ہو تو ہمیں اس وقت اپنی وسعتوں کے اندر رہتے ہوئے ایک خاص طاقت لینی چاہئے.یہ بھی تو ایک واقعہ ہے، جو انسانی زندگی میں گزرتا ہے.اس کو مزید سمجھانے کی خاطر میں مثال دیتا ہوں کہ ایک انسان اگر دوڑنا شروع کرے اور اپنی طاقتوں 512
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء سے فائدہ اٹھانا شروع کرے تو اس کے جسم میں نشو ونما پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.اور ایک انسان اگر لیٹا ر ہے اور آرام طلب بن جائے تو بعض دفعہ وہ دو قدم بھی نہیں چل سکتا.اگر ان دونوں کو سمجھا دیا گیا ہو کہ تمہاری یہ ذمہ داریاں ہیں اور فلاں وقت ہم نے تمہیں فلاں سفر پر روانہ کرنا ہے تو وہ شخص جو لیٹا رہا اور اس نے اپنی طاقتوں کو ضائع کر دیا، اس وقت وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے طاقت نہیں ہے.اس پر بات خوب کھول دی گئی تھی ، ذمہ داریاں بیان کر دی گئی تھیں.اس لئے اس کی وہ طاقت ہونی چاہئے تھی.اور اگر اس پر کوئی اس وقت ذمہ داری ڈالے تو نا انصافی نہیں ہوگی.پس بسا اوقات یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری وسعتوں کے اندر ایک چیز ہو اور ایک خاص وقت کی منزل پر جا کر ہمیں جو خدا تعالیٰ نے خوب کھول کر ہماری ذمہ داریوں کو بیان فرما دیا ہے، اس وقت پر جا کر ہم پر وہ بوجھ پڑنا ہو.لیکن اپنی غفلت اور اپنی نالائقی کے نتیجہ میں ہم نے اپنی وہ طاقت Develop ڈویلپ نہ کی ہو.ایسے موقع پر اگر خداوہ بوجھ ڈالے تو یہ نا انصافی نہیں ہوگی.وسعت کے مطابق بھی ہوگا اور اس طاقت کے مطابق بھی ہوگا ، جو ہونی چاہئے تھی.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو ہمارے ذہنوں میں داخل فرمایا اور ہماری توجہ اس طرف مبذول فرمائی کہ تم ہر قدم پر ایک کمزور چیز ہو.نہ اپنی وسعتوں سے پورا فائدہ اٹھا سکتے ہو، نہ اپنی طاقتوں سے پورا فائدہ اٹھا سکتے ہو.اس لئے پھر تمہاری وسعتوں میں دعا داخل نہیں ہوگی تو تم کچھ بھی نہیں کر سکو گے.مجز داخل نہیں ہو گا تو تم کچھ بھی نہیں کر سکو گے.اس لئے یہ بھی ہم سے مانگنا اور یہ عرض غفلتس بھی کیا کرنا کہ اے خدا! ہماری طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈال.یعنی جس منزل پر چاہے، حائل ہوگئی ہوں، جس منزل پر جو طاقت ہے تو اتنا رحم فرمانا کہ اس سے زیادہ بوجھ نہ ڈال دینا ورنہ ہم مارے جائیں گے.ہو سکتا ہے، اس سے زیادہ طاقت ہمیں حاصل کرنی چاہئے تھی لیکن ہم نہیں کر سکے.یہ اقرار کرنے کے بعد اور یہ منت کرنے کے بعد کہ اے خدا! تو عالم الغیب ہے تو جانتا ہے ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا؟ تمام تفاصیل پر تیری نظر ہے.لیکن ساتھ ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ ہم خطا کار ہیں، ہم نسیان کے بھی شکار ہیں.بار بار ہمیں نصیحت کی جاتی ہے، پھر باتیں بھول جاتے ہیں.بار بار یاد کرائی جاتی ہیں، پھر ذہن سے اتر جاتی ہیں.ذمہ داریاں دکھلا دی جاتی ہیں، پھر نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں.ہم اتنے کمزور لوگ ہیں، اس لئے ہم سے رقم کا سلوک فرما اور ہماری جو طاقت ہونی چاہئے ، اس پر فیصلہ نہ کرنا، جو طاقت ہمیں کسی منزل پر میر ہو، اس کے مطابق ہم سے سلوک کرنا.لیکن پھر ان طاقتوں کو بڑھاتے چلے جانا.آگے ایک مضمون آئے گا ، جو بالآخر بات کھول دے گا کہ ہم نے کہاں تک پہنچنا ہے؟ اور کیا مانگنا ہے؟ 513
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا تحریک جدید - ایک الہی تحریک اے خدا! دو قسم کے معاملات ہم سے فرما.پہلا یہ کہ درگز رفرما درگز رفرما نا اور مغفرت فرمانا ، ان دونوں چیزوں میں ایک نسبت ہے اور ایک کے بعد دوسرے کو رکھا گیا ہے.و اغفر لنا اس چیز کو کہتے ہیں کہ ایک غفلت ہورہی ہے، اس سے روکا بھی جاسکتا ہے لیکن انسان اس کو لائسنس دے دیتا ہے، چھٹی دے دیتا ہے، کہتا ہے، کوئی بات نہیں کر لو بے شک، کچھ نہیں ہوتا.چنانچہ ماں باپ بعض دفعہ بچوں کو بعض کھیلیں کھیلنے دیتے ہیں، جن سے ویسے وہ منع کرتے رہتے ہیں.لیکن اگر تھوڑی سی کھیل وہ کھیل لیں، ذرا سا مشغلہ کر لیں تو وہ اعراض کر لیتے ہیں، آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور بعض دفعہ جب بچے بیہودہ حرکتیں کر رہے ہوں تو ماں باپ ان کی طرف دیکھتے نہیں، عمداً ان کی آنکھوں میں ایک غفلت کی آجاتی ہے کہ گویا ہم نے دیکھا ہی کچھ نہیں.اس کو کہتے ہیں، واعف عنا کہ اے خدا! ہم سے عفو کا سلوک فرما.چنانچہ میں نے دیکھا ہے، حضرت مصلح موعود کا بھی یہی طریق تھا.کیونکہ انہوں نے اپنی عادتیں قرآن سے سیکھی تھی.بچے کبھی بعض دفعہ لڈو کھیلتے ہیں اور حضرت صاحب پسند نہیں کیا کرتے تھے کہ وقت ضائع کریں.لیکن سمجھتے تھے کہ آخر بچے ہیں، کبھی کبھی لڈو کھیلنے بھی دیتے تھے اور اس طرح کہ آئے ہیں اور اس طرف نظر ہی نہیں ڈالی.اوپر نظر سے باتیں کر کے واپس چلے گئے.گویاد یکھاہی نہیں اور جب دیکھتے تھے کہ زیادتی کرنے لگ گئے ہیں تو پھر وہ نظر نیچے ڈالتے تھے اور ہمیں بتا دیتے تھے کہ اب میں پکڑنے پر آیا ہوں.پس انسان سے اگر کوئی عفو کر نے والا سلوک کر رہا ہو تو پھر غلطیوں کا امکان اس وجہ سے بھی بعض دفعہ ہو جاتا ہے.بہت ہی پیار اور عفو کرنے والا وجود ہو، اس کے نتیجہ میں بھی بعض دفعہ گناہوں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں.اس کے نتیجہ میں بھی تو بعض دفعہ انسان جان بوجھ کر غلطیاں کرنے لگ جاتا ہے کہ بہت ہی مہربان ہے، ہمارا آقا.اس لئے اے خدا! جب تو عفو کا سلوک فرمائے گا تو پھر بخشش کی تیاری بھی کر لینا.ہم سے لازماً پھر کچھ اور غلطیاں بھی ہوں گی اور وارحمنا نے بات کھول دی کہ اے خدا ! دراصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے طور پر اپنی طاقتوں پر اپنے ذرائع سے کچھ نہیں کر سکتے.ہم پر رحم فرما، ہم بے کا ر لوگ ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ ہم بے کارلوگ ہیں.رحم فرما اور جو تو نے ذمہ داریاں ڈالی ہیں، ان میں ہماری وسعتوں پر نگاہ نہ کر، اپنی وسعت پر نگاہ فرما.انت مولانا نے یہ بات کھول دی.آخری تان اس بات پر ٹوٹی کہ ہم نے مضمون اس طرح شروع کیا کہ خدا نے ہمیں سب کچھ عطا فرمایا ہے، وسعتیں عطا کی ہیں، ہم اپنے آپ کو ٹولیں اور دیکھیں اور اس کام میں آگے بڑھیں.چنانچہ ! 514
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء پوری ذمہ داری کے ساتھ بڑھنے لگے.پھر محسوس ہوا کہ سب ذمہ داریاں ادا کرنے کے باوجود بھی ہم میں طاقت نہیں، کام بہت زیادہ ہے.پھر نظر نے ڈھونڈا تو پتہ چلا کہ ہماری وسعتیں تو دراصل خدا کی طرف ہیں.اس سمت میں کھلے ہوئے ہیں راستے وسعتوں کے.اس سمت میں آگے بڑھے تو ایک بہت ہی پیارا مضمون نظر آیا.ہر قدم پر مغفرت ہے، بخشش ہے ، خطاؤں کی معافی ہے اور محبت اور پیار کا سلوک ہے.اور بالآخر خدا کہتا ہے کہ تم تعلق مجھ سے رکھ لو، میری طرف جھکنا سیکھ لو.بس یہ میں تمہیں کہتا ہوں، پھر میری وسعتیں تمہاری وسعتیں ہو جائیں گی.پھر تم اس مقام پر کھڑے ہو گے کہ کہو کہ أنتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ کہ اے خدا! اب بات تو یہیں ختم ہوتی ہے کہ ہمارا دوست تو ہے اور جس کا تو دوست ہو، اس کے مقدر میں شکست کیسی ؟ جس کو تیری طاقتیں نصیب ہو جائیں، وہ کسی اور کے در سے کیوں مدد مانگے ؟ کیوں کسی اور طرف جھکے اور کہے کہ ہمارے فلاں معاملہ میں ہماری مدد کرو؟ وہ تو صرف تجھ سے مانگے گا اور اس بات پر ناز کرے گا کہ اللہ ہمارا مولا ہے.لیکن اس مقام پر پہنچنے کے لئے انسان کو اپنے نفس کی تربیت کرنی پڑتی ہے.اور اس مقام پر کھڑے ہونے کے لئے اپنے رب سے ایک گہری سچائی کا تعلق رکھنا پڑتا ہے.ایک گہری محبت اور عشق کا تعلق اپنے رب سے رکھنا پڑتا ہے.ورنہ خالی منہ سے مولانا کہ دینے سے بات بنتی نہیں.کیونکہ ولایت کا مضمون دو طرفہ ہے.آپ جب تک خدا کا دوست نہ بنا چاہیں یا خدا کی طرف دوستی کا ہاتھ نہ بڑھائیں، خدا آپ کا مولا نہیں بن سکے گا، نہ بنے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس مضمون کا شاہکار ہیں.سب سے زیادہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے دوستی کا حق ادا کیا.اور سب سے زیادہ اللہ آپ کا دوست بنا.اسی لئے سورۃ محمد میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہے، خدا تعالیٰ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:.ذلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِينَ امَنُوا وَ اَنَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ که محمد مصطفی نے تمہیں یہ مضمون سکھا دیا ہے.أَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا اللہ ایمان لانے والوں کا مولا بن جاتا ہے.وَأَنَّ الْكَفِرِيْنَ لَا مَوْلَى لَهُمْ اور جو انکار کرنے والے ہیں، ان کا کوئی مولا ہی نہیں.تو مولا والے ہی فتح پائیں گے، ان لوگوں پر جن کا مولا کوئی نہیں ہے.اسی لئے فرمایا: یہ دعا کرو کہ 515
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اگست 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ کہ تو ہمارا مولا بن چکا ہے اور کافروں کا مولا کوئی نہیں.اس لئے لازمی نتیجہ نکلنا چاہئے کہ ہمیں فتح نصیب ہو.مثلاً جنگ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومدد کی بڑی شدید ضرورت تھی.313 کمزور صحابہ کا جن کے پاس ہتھیار بھی پورے نہیں، ان میں بیمار اور بوڑھے بھی تھے اور بچے بھی شامل تھے، جو ایڑیاں اٹھا اٹھا کر جوان بن کر بیچ میں داخل ہوئے تھے.لیکن ایڑیاں اٹھانے سے تو قد اونچے نہیں ہو جایا کرتے اور نہ انسان جوان ہو جاتا ہے.اس کمزوری کی حالت میں عرب کا ایک مشہور پہلوان، جو فنون حرب کا چوٹی کا ماہر سمجھا جاتا تھا، وہ آیا اور اس نے کہا کہ میں بھی مسلمانوں کی طرف سے شامل ہو کر اہل مکہ کے خلاف لڑنا چاہتا ہوں.اس کی کچھ دشمنیاں تھیں، جو اتارنا چاہتا تھا.اب وہ شخص جس نے خدا کو مولانہ بنایا ہو، وہ شخص جس کا کامل تو کل اپنے رب پر نہ ہو ، وہ یہ جواب دے ہی نہیں سکتا ، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا.آپ نے صحابہ سے فرمایا: اس کو واپس کر دو.مجھے خدا کے معاملہ میں کسی مشرک کی ضرورت نہیں ہے.کتنی شدید ضرورت تھی.عام حالات میں انسان خوش ہو جاتا ہے، الحمد للہ ایک مدد گار مل گیا ہے.اور نفس یہ بھی بہانہ بنالیتا ہے کہ خدا نے بھیجا ہے، مین ضرورت کے وقت چیز آئی ہے، خدا نے بھیجی ہوگی.لیکن وہ کامل موحد، جو تو کل کے مضمون کو جانتا تھا، جو جانتا تھا کہ خدا کے سوا میرا کوئی مولی نہیں ہے، اس نے یہ جواب دیا کہ نہیں ، مجھے کسی مشرک کی ضرورت نہیں.یہ وہ مضمون ہے، جس تک پہنچنے کے لئے سچائی کی ضرورت ہے، تقویٰ کی ضرورت ہے.بچے دل سے آپ اپنے رب کے بنیں گے تو وہ مولیٰ بنے گا.اگر منہ کی باتیں ہوں گی تو نہیں بنے گا.دوستی کے حق ادا کرنے کوئی مشکل نہیں ہیں.خدا سے پیار کا تعلق بڑھانا پڑے گا.اور یہ آسان منزلیں ہیں، جیسا کہ میں نے بیان کیا، یہ ساری دعا ئیں ہمیں بتا رہی ہیں، یہ نہایت ہی آرام دہ سفر ہے.عفو سے مغفرت میں آپ داخل ہوئے، پھر رحم میں داخل ہو گئے اور آخر پر مولیٰ کہہ کر سارا بوجھ ہی خدا پر ڈال دیا.اس سے زیادہ بھی کوئی آسان سفر ہو سکتا ہے.لیکن بد قسمت ہے انسان، جو یہ سفر بھی اختیار نہیں کرتا.اس میں جذبات کا رخ خدا کی طرف موڑنا پڑتا ہے، بچے پیار کا تعلق اپنے رب سے پیدا کرنا پڑتا ہے، اس سے سچی محبت کرنی پڑتی ہے، اس کو اپنے وجود پر غالب کرنا پڑتا ہے.جب تک یہ باتیں نصیب نہ ہوں، اس وقت تک یہ سفر بظاہر آسان ہونے کے باوجود بھی انسان اختیار نہیں کر سکتا.اس لئے اپنی ذمہ داریوں کو لوظ رکھیں.بے انتہا کام ہیں.516
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمود : 26 اگست 1983ء ناممکن ہے کہ جماعت اپنی ان طاقتوں سے، جو بظاہر اس کی سرشت میں خدا کے علاوہ ہیں ، ان طاقتوں کے ذریعہ وہ دنیا میں ان ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں.نوے سال ہو گئے ، اس ملک میں یا اس برصغیر میں جماعت کو قائم ہوئے اور اپنی طاقتیں ، جن میں خدا کے بہت سے فضل شامل ہیں، وہ ملا کر بھی آج ہماری یہ کیفیت ہے کہ اس ملک میں ہمیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا حق نہیں دیا جارہا.تو اگر بنارکھیں گے اپنی طاقتوں پر تو کچھ بھی نہیں کر سکیں گے.اس لئے ہمیں اپنے رب کی طرف زیادہ متوجہ ہونا پڑے گا.زیادہ پیار اور محبت کا تعلق پیدا کرنا پڑے گا.جتنی کثرت کے ساتھ اہل اللہ پیدا ہوں گے، ہم ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل ہوتے چلے جائیں گے.مولا کے مقابل پر اللہ نے ولی کا لفظ رکھا ہے.بندوں کے لئے اس کے مقابل پر ولی کا لفظ آتا ہے.خدا ان کا مولا ہوتا ہے، جو اپنے رب کے ولی ہوتے ہیں.اس لئے آپ کو ولی ہونا پڑے گا.آپ میں سے ہر ایک ایسا ہو کہ اسے یقین ہو کہ خدا میرا دوست ہے اور وہ مجھ سے پیار کرتا ہے.اگر یہ ہو جائے تو پھر آپ دیکھیں کہ سارے کام خود بخود کس تیزی سے ہونے لگیں گے.ہماری الٹی بھی سیدھی ہو جائیں گی ، ہماری خطائیں بھی نیک نتائج پیدا کریں گی ، ہمارے نسیان بھی ان لوگوں سے زیادہ عظیم الشان کام دکھائیں گے، جو اپنے فرائض کو بھولتے نہیں ہیں ، ہماری ہر بات سیدھی ہوتی چلی جائے کیونکہ ہمارا مولا اللہ ہوگا اور جن کا مولا اللہ ہو جائے ، ان کو لازماً کافروں پر فتح عطا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 14 ستمبر 1983ء) 517
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سوئٹزر لینڈ اب ہم پر فیصلہ کن جہاد کی ساعت سعد آنی ہے، اس لیے تیار ہو جاؤ پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سوئٹزر لینڈ منعقدہ 27,28 اگست 1983ء.پیارے حاضرین جلسه السلام عليكم ورحمة الله وبركاته جماعت احمد یہ سوئٹزر لینڈ کی مجلس عاملہ نے اپنے ملک میں پہلے جلسہ سالانہ کے انعقاد کے موقع پر مجھ سے پیغام بھیجنے کی خواہش کی ہے.سوعزیزان ! یادر ہے کہ جماعت احمدیہ میں سالانہ جلسوں کا جو مفید نظام رائج ہو چکا ہے، اس کی بنیاد مامور زمانہ حضرت مسیح موعود نے 27 دسمبر 1892ء میں قادیان دارالامان کی مبارک بستی میں رکھی تھی.جس کے پہلے جلسہ سالانہ 1892ء میں 75 مخلصین شریک ہوئے تھے.آج یہ بیج ایک تناور درخت بن چکا ہے.مرکز ربوہ میں اس جلسہ کی حاضری اب ڈیڑھ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے.اور دنیا میں متعدد ممالک میں اس کا انعقاد ہو رہا ہے.اس سال 1982ء میں مرکز میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ 16 ممالک سے 97 مندوبین شریک ہوئے.یو کے سے آنے والے متعدد مہمان، جو اپنے عزیزوں کے ہاں ٹھہرے، وہ اس کے علاوہ تھے.فالحمد للہ علی ذالک.اور یہ خدا کی تقدیر ہے کہ یہ تعداد بڑھتی جائے گی.انشاء اللہ العزیز ہمارا جلسہ سالانہ کسی طاقت یا شان و شوکت کے اظہار کے لئے نہیں ہے.اس کی غرض کو حضرت مسیح موعود نے خود واضح فرما دیا ہے.آپ نے فرمایا :.دو.اس جلسہ کی اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تاہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں.اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو.پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے.ماسوا اس کے کہ اس جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے 519
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سوئٹزرلینڈ تحریک جدید - ایک الہی تحریک کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لیے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں.کیونکہ اب سیر ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں.ہولا زم ہے کہ اس جلسہ پر ، جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے، ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لاویں، جوز ادراہ کی استطاعت رکھتے ہوں.اور مکر رکھا جاتا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے، جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قو میں تیار کی ہیں، جو عنقریب اس میں آملیں گی.کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے، جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا، نہ نیچر کی تفریط پسند اور اوہام پرست مخالفوں کا.نہ خوارق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے اور نہ ان میں بے ہودہ اور بے اصل اور مخالف قرآن روایتوں کو ملانے والے اور خدا تعالی اس امت وسط کے لئے بین بین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا.وہی راہ، جس کو قرآن لا یا تھا، وہی راہ ، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو سکھلائی تھی.وہی ہدایت، جو ابتداء سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے.یہی ہوگا، ضرور یہی ہوگا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے.مبارک وہ لوگ ، جن پر سیدھی راہ کھولی جائے“.(اشتہار 7 دسمبر 1892ء) سواے عزیزو! جلسہ سالانہ کے اس بنیادی مقصد کو ہمیشہ مدنظر رکھو.اور یہ بھی یادر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق تبلیغ و اشاعت اسلام کا کام بلا د مغرب میں عرصہ سے شروع ہو چکا ہے.اور اب ہم پر فیصلہ کن جہاد کی ساعت سعد آنی ہے.اس لیے تیار ہو جاؤ.یہ کوئی معمولی کام نہیں تبلیغ کے لیے جہاں دلائل و براہین عقل و نقل کی ضرورت ہے، وہاں اعلیٰ کردار اور نیک نمونہ کی بے حدضرورت ہے.مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شہداء کا خطاب دیا ہے.فرماتا ہے:.وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (البقرة:144) 520
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سوئٹزرلینڈ کہ اے مسلمانو! ہم نے تمہیں اعلیٰ درجہ کی امت بنایا ہے.تا کہ تم دوسرے لوگوں کے نگران ہو اور یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم پرنگران ہو.شاہد کا مفہوم ہے کہ اپنے عمل سے لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی طرف بلائے.ہم داعی الی اللہ تبھی بن سکتے ہیں، جب ہمارا قول اور عمل لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتا ہو.پس اپنے اندر نیک تغیر پیدا کریں تا حضرت مسیح موعود کے قول کے مطابق جلسہ سالانہ میں شریک ہونے والے مشاہدہ کریں.اور ان میں اگر خدا تعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدے سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق و شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے“.میں اپنے پیغام کو حضرت مسیح موعود کے اس دعائیہ کلمات پر ختم کرتا ہوں، جو آپ نے جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے والوں کے لیے فرمائے.کہ ہر ایک صاحب، جو اس لکھی جلسہ کے لیے سفر اختیار کریں، خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم فرمائے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم وغم دور فرمائے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے.اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھا دے، جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفران کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا! اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشایه تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر ایک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے.آمین ثم آمین.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مرسله وکالت تبشیر ربوہ ( مطبوعه روزنامه الفضل (07 نومبر 1983ء) 521
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد شم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 ستمبر 1983ء ہرنی مسجد کی تعمیر پر ایک نئے عزم کے ساتھ ہمیں عبادت پر قائم ہو جانا چاہیے "" خطبہ جمعہ فرمودہ 02 ستمبر 1983ء ابھی چند دن تک انشاء اللہ تعالیٰ ہم مشرق کے دورہ پر پاکستان سے روانہ ہوں گے.اور اس دورہ میں براعظم آسٹریلیا میں سب سے پہلی احمد یہ مسجد کی بنیادرکھنے کا سب سے اہم فریضہ ادا کرنا ہے.یہ مسجد کی بنیاد بھی ہوگی اور مشن ہاؤس کی بنیاد بھی ہوگی.یعنی اس مسجد کے ساتھ ایک بہت ہی عمدہ مشن ہاؤس کی عمارت بھی تعمیر ہوگی.جہاں مبلغ اپنے ہر قسم کے فرائض پورے کر سکے گا.اس لحاظ سے یہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم مسجد ہے کہ ایک نئے براعظم میں ہمیں اس کی بنیا د رکھنے کی توفیق مل رہی ہے.اس سے قبل براعظم آسٹریلیا خالی پڑا تھا.اور جماعت یہ تو کہہ سکتی تھی کہ دنیا کے ہر براعظم میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کا پیغام پہنچایا ہے.لیکن براعظم آسٹریلیا میں اگر پیغام پہنچا تو اتفاقاً انفرادی کوشش سے پہنچا.جماعت کی طرف سے کوئی باقاعدہ مشن نہیں بنایا گیا اور کوئی مسجد نہیں بنائی گئی تھی.مسجد کے لئے جو زمین لی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت با موقع اور کافی بڑا رقبہ ہے.آسٹریلیا کا ایک مشہور شہر سڈنی ہے.سڈنی سے تقریباً پچاس میل کے فاصلے کے اندر یہ جگہ واقع ہے.اور بڑے بڑے شہروں میں پچاس میل کا فاصلہ کوئی چیز نہیں ہوا کرتا.127ایکڑ سے کچھ زائد رقبہ ہے، جس میں انشاء اللہ مسجد بھی بنائی جائے گی اور مشن ہاؤس بھی.اور آئندہ جماعت کی دلچسپیوں کے لئے ہر قسم کے مواقع وہاں مہیا ہو سکیں گے.127 ایکڑ میں تو ماشاء اللہ ہمارا جلسہ سالانہ ہوسکتا ہے.اس لئے ہم بڑی امید لے کر اتنا بڑا رقبہ لے رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ جلد اس کو بھر بھی دے اور چھوٹا بھی کر دے اور یوں ہماری تو قعات نا کام ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اس سے بہت آگے نکل جائیں.ان دعاؤں کے ساتھ انشاء اللہ اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا.و ظاہری تعمیر کی کوئی بھی حقیقت نہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ایسی ایسی حکومتیں ہیں، جو خدا کے گھر بنارہی ہیں کہ ہمارے صد سالہ منصوبے پر جتنی رقم خرچ ہوتی ہے، اس سے کئی گنا زیادہ رقم وہ ایک مسجد کی تعمیر پر لگادیتی ہیں.یعنی ہمارا صد سالہ منصوبہ دس کروڑ کا تھا اور اس میں سے ابھی تک نصف 523
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم کے قریب رقم وصول ہوئی ہے.یعنی ساری جماعت کی غریبانہ کوششوں کا یہ حال ہے.اور دوسری طرف یہاں اس ملک میں بھی ایسی مساجد عطیہ کے طور پر بنائی گئی ہیں، جن کے اوپر ایک ارب روپے سے زیادہ لاگت اٹھ رہی ہے.اور بعض کئی کئی ارب روپے کی ڈیزائن ہو رہی ہیں.پس جہاں تک ظاہری شان و شوکت کا تعلق ہے ، ہم تو اس میدان کے کھلاڑی ہی نہیں ہیں.نہ اس سے ہمیں کوئی فرق پڑتا ہے.لوگ کہتے ہیں: دیکھو فلاں نے کتنی شاندار مسجد بنوائی ہے.ہم کہتے ہیں: ٹھیک ہے، بہت شاندار بنوائی ہوگی.لیکن ہمیں تو وہ شان چاہئے ، جس پر اللہ کے پیار کی نظر پڑے، جسے خدا کے انبیاء کا دستورالعمل شاندار قرار دے.اور وہ شاندار عمارت تو جیسا کہ میں نے بتایا، بڑی غریبانہ حالت میں تعمیر ہوئی تھی.وو پس اول اور آخری دو مسجدیں ہمیں معلوم ہیں کہ جو ساری مساجد میں سب سے زیادہ شاندار ہیں اور میری دعا ہے کہ ہم ہمیشہ جب بھی مسجدیں بنائیں، انہی مساجد کے نمونہ پر بنائیں ، اسی طرح دعاؤں کے ساتھ اور گریہ وزاری کے ساتھ بنائیں اور بھول جائیں، اس بات کو کہ ان کی ظاہری شان و شوکت دنیا کو پسند بھی آتی ہے یا نہیں؟ ہاں، یہ دعا کریں کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کی کہ اے خدا! ان میں پھر عبادت کرنے والے پیدا کرنا ، جو عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں“.وو پس جماعت احمدیہ کو ان دو مساجد سے جن کا میں نے ذکر کیا ہے، یعنی اول بیت اور اخر المساجد سے سبق لینا چاہئے.اور یا درکھنا چاہئے کہ یہ مساجد محض عبادت کی خاطر تعمیر کی گئی تھیں.اگر ہم ساری دنیا میں مساجد آباد کرنے کا پروگرام بنائیں، اگر خدا ہمیں توفیق دے کہ براعظم آسٹریلیا کا کیا سوال، ہر ہر شہر اور ہر ہر بستی میں مساجد بنائیں لیکن اگر مساجد بنانے والوں کے دل تقویٰ سے خالی ہوں اور وہ خود خدا کے گھروں کو آباد کرنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں، اگر ان کے اندر وہ ابراہیمی صفت نہ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کا رنگ نہ ہو، وہ خالص نیتیں نہ ہوں، جو اللہ کے لئے خالص ہو جایا کرتی ہیں، وہ زیشنیں نہ ہوں، جو زمینیں لے کر متقی خدا کے گھروں تک پہنچا کرتے ہیں تو پھر ان گھروں کی تعمیر کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی ، یہ سارے سفر بے کار ہیں اور یہ سارے پیسے ضائع کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی حقیقت نہیں.اس لئے جماعت احمد یہ ہر دفعہ جب کوئی مسجد بناتی ہے تو ایک نئے عزم کے ساتھ ہمیں عبادت پر قائم ہو جانا چاہتے.میں اس یقین کے ساتھ ملک سے باہر جاؤں کہ جماعت احمدیہ میں جو پہلے عبادت میں کمزور تھے، اب وہ عبادت میں اور زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں.اور جو پہلے عبادت کرتے تھے ، وہ پہلے سے بھی بڑھ 524
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم - اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 02 ستمبر 1983ء کر عبادت کا حق ادا کرنے لگے ہیں.مجھے وہاں یہ محسوس ہو کہ جماعت اپنی عبادت میں اس طرح ترقی کر رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور رحم کی نظریں ہم پر پڑ رہی ہیں.آپ کی عبادت ہی ہے، جس نے اس پروگرام کو رونق بخشی ہے.آپ کی عبادت ہی ہے، جو اس پروگرام میں خلوص اور سچائی بھر دے گی.ورنہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے، دنیا تو اس سے بہت بڑی بڑی مسجدیں بنا رہی ہے.ان کے مقابل پر ہماری مسجد کی کوئی بھی حیثیت نہیں.آپ خلوص نیت کے ساتھ عبادت پر قائم ہو جائیں، عبادت کا حق ادا کرنا سیکھ لیں.اپنی بیوی اور بچوں کو نمازیں پڑھائیں اور سمجھ کر نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں.اللہ تعالیٰ کا پیار اور محبت پیدا کریں.پھر دیکھیں کہ جس طرح اس پہلے گھر کی طرف لوگوں کے دل مائل ہو گئے تھے، اسی طرح خدا کے اس نئے گھر کی طرف اہل آسٹریلیا کے دل مائل ہو جائیں گے.پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس گھر میں آنے سے روک نہیں سکے گی.اور وہ ویرانہ یعنی آسٹریلیا ، جو روحانی لحاظ سے ویران پڑا ہوا ہے، وہاں خدا کی عبادت کی خاطر ہم جو گھر بنانے والے ہیں، اس کی مثال بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس گھر سے ملتی جلتی ہے.وہ ظاہری طور پر بھی ویران جگہ تھی اور روحانی طور پر بھی.لیکن آسٹریلیا روحانی طور پر کلیۂ ویران ہے.اس لئے دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالٰی ہماری نیکی اور خلوص اور ہماری عبادت کی سچی روح کو قبول فرمائے اور کثرت کے ساتھ دلوں کو اس گھر کی طرف مائل کر دے، جو ہم وہاں بنانے لگے ہیں.اور یہ گھر ایک نہ رہے بلکہ اس گھر کے نتیجہ میں پھر وہاں ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں گھر بنیں اور ہر گھر خدا کی عبادت سے بھرتا چلا جائے.یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے، یہی ہماری جنت ہے، اللہ تعالیٰ کی یہی وہ رضا ہے، جو ہمیں نصیب ہو جائے.تو ہم سمجھیں گے کہ ہم دنیا میں کامیاب ہو گئے اور ہماری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا“.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:.جمعہ کی نماز کے آخری سجدہ میں خصوصیت کے ساتھ آسٹریلیا میں مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کی کامیابی کے لئے اور اسے اس تمام علاقے میں اسلام کا نور پھیلانے کا موجب بننے کے لئے دعائیں کریں.مطبوعه روز نامہ الفضل 08 ستمبر 1983ء) | 525
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد ششم پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ ناروے انصاراللہ اس وقت واقعی اور حقیقی انصار بن جائیں پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ ناروے منعقدہ 09 ستمبر 1983ء برادران عزیز انصار اللہ کے لئے میرا پیغام یہی ہے کہ وہ اس وقت واقعی اور حقیقی انصار بن جائیں.اپنی متضرعانہ دعاؤں، جن سے رحمت خداوندی جوش میں آجائے اور اپنی مخلصانہ جدو جہد سے دنیا کی تاریکی کو دور کر دیں.تا مخلوق خدا اپنے خالق کو پہچان لے اور اس ارحم الراحمین کے سایہ رحمت و عاطفت میں لوٹ آئے.نور خداوندی سے منور ہو، حقیقی سکون وراحت اور طمانیت قلب نصیب ہو.یا درکھیں ، جس خطہ ارض پر آپ آباد ہیں، اس کی تاریکی دعاؤں سے دور ہوگی.دلوں کا بدلنا خدا کے قبضہ میں ہے اور آپ بھائیوں کی دعوت الی اللہ میں اثر پیدا ہونا بھی اس کے فضل اور اذن پر منحصر ہے.لہذا اسی مولیٰ کریم ، عزیز، حکیم، خدا کا دروازہ کھٹکھٹاؤ، اس پر تو کل کرتے ہوئے اپنے پروگراموں پر عمل کرو ، اسی سے راہنمائی حاصل کرو.سستیاں ترک کرو کہ اب دوڑنے کا وقت آچکا ہے.خداوند کریم آپ کو اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو کامیاب و با برکت بنائے ، اپنی خاص تائید و نصرت سے آپ کو نوازے.آپ کے اعمال و افکار کو اور آپ کی سوچ اور جد و جہد کو سی نہج پر ڈالے رکھے اور آپ کو ہر آن اپنی حفظ و امان میں رکھے.آپ کی خدمات اور قربانیوں کو قبول فرمائے.خدا حافظ.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روزنامه الفضل 18 اکتوبر 1983ء) 527
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء جے تو میر اہور ہیں سب جگ تیرا ہو خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.یہ سفر جو میں نے اختیار کیا ہے، یہ کئی لحاظ سے بڑی اہمیت بھی رکھتا ہے اور جماعت کی تاریخ میں کئی لحاظ سے ایک نمایاں مقام بھی رکھتا ہے.اس کی ایک نمایاں خصوصیت تو یہ ہے کہ ایک نئے براعظم میں جماعت کی طرف سے باقاعدہ مسجد اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیا در کھا جانے والا ہے.اگر چہ اس براعظم میں پہلے سے رضا کارانہ طور پر تبلیغ اسلام کا کام 1913ء سے شروع ہے لیکن باقاعدہ مشنری کے ذریعہ اور با قاعدہ مشن کی بنیا درکھ کر پہلے کام نہیں ہوا.دوسرے یہ کہ اس دورے کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے.اور وہ یہ ہے کہ جماعتی لحاظ سے اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی خلیفہ کو مشرق کے دورے کی توفیق نہیں ملی تھی.جہاں تک مجھے یاد ہے، بحیثیت خلیفہ کسی نے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کا دورہ بھی نہیں کیا.مجھ سے پہلے جو خلیفہ تھے، یعنی حضرت خلیفة المسیح الثالث " وہ خلافت سے قبل مشرقی پاکستان تشریف لے جاتے رہے اور میں بھی اس حیثیت سے مشرقی پاکستان میں گیا کہ جماعت کے وفد کے ایک ممبر کے طور پر بار بار ہاں جانے کا موقع ملا لیکن بحیثیت خلیفة المسیح میں سمجھتا ہوں کہ اس سے پہلے نہ کوئی مشرقی پاکستان اور نہ سیلون بلکہ اس رخ پر بھی کوئی دورہ کسی خلیفہ کا نہیں ہوا.اس لئے مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر مشرق کے لئے اسلام کی نئی ترقیات کا دروازہ کھولنے کا فیصلہ کر چکی ہے.اور اس پہلو سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ایک اور رنگ میں بھی پوری ہو رہی ہے کہ سورج مغرب سے طلوع کرے گا.کیونکہ مشرق بعید کی جتنی قومیں ہیں ان پر مغرب کا سورج بذریعہ احمد بیت طلوع کرنے والا ہے.لیکن اس دورے میں ایک کمی محسوس ہو رہی ہے اور وہ ہمارا انڈونیشیا نہ جاسکتا ہے.کیونکہ اس سے پہلے جب بھی خلفاء کی مشرق یا مشرق بعید آنے کی باتیں ہوئیں ، ہمیشہ سب سے نمایاں اور سب سے اہم ملک، جو سامنے آتا رہا، وہ انڈونیشیا ہی تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بعض احمد یوں کو ایسی رویا 529
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم دکھائی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشیا نہ جا سکنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ پہلے سے ہی تقدیر الہی میں مقدر تھا.لیکن اس کے بدنتائج نہیں نکلیں گے.بلکہ ان خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس فعل بھی برکت ڈالے گا اور انڈونیشیا کے لئے بھی ترقی کے بہت سے سامان پیدا فرمائے گا.جب ہم نے انڈونیشیا کے دورہ کے متعلق سوچنا شروع کیا تو آغاز میں اس معاملہ کو جماعت پر روشن نہیں کیا گیا بلکہ تحریک جدید کے وہ چند عہدیدار ، جن کا اس دورے کے انتظامات سے تعلق تھا، صرف ان کو ہی بتایا گیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے دو مختلف آدمیوں کو، جن (کو) اس دورے کا کوئی بھی علم نہیں تھا، بذریعہ خواب اس دورہ کے متعلق اطلاع دی.ان میں سے ایک دوست ہمارے خاندان سے ہی تعلق رکھتے ہیں، ان کا بڑے تعجب کے اظہار پر مشتمل پر ایک خط مجھے ملا اور انہوں نے یہ پوچھا کہ میں نے ایک ایسی خواب دیکھی ہے، جس سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ کہیں آپ انڈو نیشیا جانے کا پروگرام تو نہیں بنار ہے.ان کی خواب یہ تھی کہ میں انڈونیشیا سے باہرلیکن قریب ہی کسی جگہ بیٹھا ہوا ہوں اور انڈو نیشیا میں تبلیغ اسلام کی سکیم بنارہا ہوں.اور انہوں نے جو تبلیغی سکیم بناتے ہوئے دیکھا، مجھے تو وہ جانتے تھے، باقی دوستوں کو انہوں نے نہیں پہچانا کہ وہ کون ہیں؟ لیکن ایک ایسا کمرا ہے، جس میں میرے سوا اور بھی چند لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم بڑے انہماک کے ساتھ انڈو نیشیا کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے لئے بڑے پیمانے پر فتح کرنے کا پروگرام بنا ر ہے ہیں.یہ خواب حیرت انگیز طور پر پوری ہوئی.کیونکہ ان کے اس خط کے ملنے سے پہلے ہی ہمیں یہ اطلاع مل گئی تھی کہ ہمیں انڈونیشیا جانے کی اجازت نہیں ہوگی.اور یہ فیصلہ بھی کیا جا چکا تھا کہ انشاء اللہ سنگا پور میں انڈونیشیا کے دوستوں کو بلا کر وہاں ان سے مشورہ کر کے آئندہ کے پروگرام بنائیں گے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں انڈو نیشیا کو بھی جہاں تک اس دورے کے فوائد کا تعلق ہے، شامل فرمالیا گیا ہے.بالکل اسی مضمون کی خواب اللہ تعالیٰ نے ایک اور ایسے شخص کو دکھائی ، جس کا ہمارے خاندان سے تو کوئی تعلق نہیں اور ویسے بھی جماعت میں وہ کوئی معروف آدمی نہیں ہیں، ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں، ان کا وہم بھی نہیں جا سکتا تھا انڈونیشیا کی طرف اور اس طرف کہ انڈونیشیا جانے کا پروگرام ہو اور وہاں جانے کی توفیق نہ ملے.بہر حال اس دورے کی اہمیت کے پیش نظر میں چند امور آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.یہ وہ علاقے ہیں، جو بعض پہلوؤں سے بہت ہی بد قسمت ہیں.کیونکہ اسلام کو اگر چہ ایک زمانہ میں یہاں نفوذ کی 530
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء توفیق ملی.لیکن کئی سو سال سے یہ تاریخ بن رہی ہے کہ بدھسٹ عیسائیت تو قبول کر رہے ہیں لیکن اسلام کی طرف مائل نہیں ہور ہے.اسی طرح کنفیوشس کے ماننے والے اور تاؤ ازم کے مقلدین کو بھی اگر چہ عیسائیت کی طرف توجہ ہورہی ہے لیکن انہوں نے ابھی تک اسلام کی طرف وسیع پیمانے پر توجہ نہیں شروع کی.گزشتہ چند سالوں سے اس طرز عمل میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے.لیکن وہ بھی بعض پہلوؤں کے لحاظ سے اتنی خوشکن نہیں، جتنی کہ وہ اپنے اندر بعض خطرناک پہلو رکھتی ہے.اور یہ دونوں تاریخی عمل یعنی سب سے پہلے ان قوموں کا عیسائیت کی طرف مائل ہونا اور گزشتہ چند سال سے اسلام میں دلچسپی لینا، بنیادی طور پر ایک ہی نفسیاتی توجہ کو ظاہر کر رہے ہیں.وہ وجہ یہ ہے کہ عیسائیت میں بھی ان کی دلچسپی در اصل مادہ پرستی میں دلچسپی کا نتیجہ تھی اور عیسائیت کو چونکہ انہوں نے ایک وسیع طاقتور قوم کے طور پر دیکھا، جس سے ان کے مالی اور سیاسی مقاصد وابستہ ہو سکتے تھے اور فوائد پہنچ سکتے تھے، اس لئے حقیقت میں انہوں نے کسی مذہب کو قبول نہیں کیا بلکہ ایک متمول سیاسی قوم کے اثر کوقبول کیا ہے.چنانچہ یہی دنیاداری کا رجحان اب ان کو اسلام میں دلچسپی لینے پر مجبور کر رہا ہے.کیونکہ تیل کی دولت نے سب دنیا کی توجہ مشرق وسطی کی طرف کھینچی ہے اور اس سے استفادہ کرنے کے لئے بعض ایسی قو میں توجہ کر رہی ہیں، جو دراصل مادیت میں دلچسپی رکھتی ہیں.کیونکہ ان کے سابقہ مذاہب نے بھی انہیں خدا کا کوئی واضح تصور عطا نہیں کیا.چنانچہ چند سال قبل جاپان کی مسلم ایسوسی ایشن کے بعض عہد یداروں سے میری ملاقات ہوئی تو دوران گفتگو یہ بات کھل کر میرے سامنے آئی کہ ان کو اسلام سے زیادہ ان علاقوں میں دلچسپی ہے، جہاں مسلمان قابض ہیں اور تیل دریافت ہو چکا ہے.چنانچہ ان لوگوں نے محض نام تبدیل کئے اور اسلام کو گہرائی سے سمجھے بغیر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا.جس خطرہ کی میں نے نشاندہی کی تھی کہ اس میں فوائد سے زیادہ خطرہ نظر آتا ہے.وہ خطرہ یہ ہے کہ چونکہ وہ اسلام کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے، اس لئے مسلمان کہلانے کے باوجود مذہب اسلام کو نقصان پہنچانے کا موجب بن سکتے ہیں.چنانچہ اس کے دو ثبوت مجھے ان جاپانی مسلمانوں سے گفتگو کے دوران یہ ملے کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ اسلام میں جو شراب حرام ہے، وہ جاپان کے حالات کی رو سے حرام نہیں ہے.اس لئے ہماری مسلم ایسوسی ایشن نے با قاعدہ فتویٰ شائع کر دیا ہے کہ جاپان میں مسلمانوں کے لئے شراب پینا جائز ہے.کیونکہ جن حالات میں منع ہے، جاپانی قوم پر وہ اطلاق نہیں پاتے.اسی طرح سور کھانا بھی جاپان کے مسلمانوں کے لئے جائز ہے.کیونکہ یہ بہت صاف ستھرا جانور ہے، اسے اچھی طرح حفاظت سے پال کر ذبح کیا جاتا ہے.تو جاپانی حالات میں شراب بھی حلال ہوگئی اور سور کا گوشت بھی ر 531
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم حلال ہو گیا.اسی طرح دیگر اسلامی احکامات میں بھی ان لوگوں کا دخل دینا بعید از قیاس نہیں ہے.بلکہ جہاں تک عبادات کا تعلق ہے، عملا وہ یہی سمجھتے ہیں کہ کبھی شوقیہ کوئی نماز پڑھ لی جائے تو یہی بہت کافی ہے.اور جہاں تک روزوں کا تعلق ہے، بعض ایسے مسلمانوں سے جب میں نے پتہ کیا تو انہوں نے کہا: ہم ایک آدھ روزہ رکھ لیتے ہیں، اس سے زیادہ روزہ اس زمانہ میں نہیں رکھا جاسکتا.تو گویا ایسا اسلام قبول کیا جارہا ہے، جو ان کے نزدیک نہ صرف مختلف قوموں کے لئے مختلف شکلیں اختیار کر جاتا ہے بلکہ مختلف زمانوں سے الگ الگ سلوک کرتا ہے.پس اگر چہ عیسائیت کو قبول کرنے اور اسلام کو قبول کرنے کی بنیادی وجہ بظاہر ایک ہی نظر آتی ہے لیکن عیسائیت کو کوئی خطرہ نہیں اور اسلام کو خطرہ ہے.عیسائیت کو اس لئے خطرہ نہیں کہ عیسائیت تو پہلے ہی جتنا بگڑ سکتی تھی ، بگڑ چکی ہے.اس میں اگر کوئی تبدیلی کی جائے تو ہو سکتا ہے، اصلاح ہو جائے.اس میں مزید بگاڑ کا کوئی امکان نظر نہیں آتا.چنانچہ گزشتہ ایک صدی نے یہی حقیقت ظاہر کی ہے کہ عیسائیت میں فی زمانہ ہونے والی تبدیلیوں نے عیسائیت کے چہرے مہرے کو پہلے سے بہتر کیا ہے، بگاڑا نہیں.مثلاً طلاق کا مضمون ہے، آج سے چند سو سال پہلے تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ عیسائی دنیا طلاق کی اجازت دے گی.اسی طرح اگر عورت کی صحت اجازت نہ دے تو اسلام اس بات سے منع نہیں کرتا کہ بچے کو ضائع کر دیا جائے.کیونکہ جو زندگی ماں کی ہے، وہ بچے کے مقابل پر زیادہ عزیز ہے.لیکن عیسائی اس کے قائل نہیں تھے.گزشتہ ایک، دو سو سال کے اندر اندر یہ نمایاں تبدیلی بھی ہمیں نظر آ رہی ہے کہ اب عیسائی دنیا اس کو جائز سمجھنے لگی ہے.سوائے ایک دو ملکوں کے باقی سب عیسائی فرقے اور مختلف ملکوں کے عیسائی اس کو جائز قرار دینے لگے ہیں.پس ایک بیمار اور نیم جان اور نیم مردہ مذہب میں اگر کوئی تبدیلیاں کی جائیں تو اس کو فائدہ ہی بخشتی ہیں، اس کی مزید موت کا کوئی خطرہ نہیں بنتیں.لیکن ایک زندہ مذہب اس بات کا متحمل نہیں ہوتا کہ اس میں تبدیلیاں کی جائیں.پس عیسائیت کو نہ صرف کوئی خطرہ نہیں بلکہ فوائد بھی حاصل ہوئے.کیونکہ ان کے مقصد دنیاوی تھے.اس وقت عیسائی دنیا جہاں جہاں بھی تبلیغ کر رہی ہے، اس کے پیچھے مغرب کے سیاسی اثر کو وسیع کرنا اور بڑی طاقت اور مضبوطی کے ساتھ وہاں مغربی تہذیب کے قدم جمانا، یہ دو بنیادی مقاصد کار فرما ہیں.اور یہ دونوں مقاصد ان کو عیسائیت کی قربانی دیئے بغیر حاصل ہو جاتے ہیں.لیکن اسلام کو تو کسی سیاسی عروج میں دلچسپی نہیں.یہ تو انسان کی روحانی زندگی میں دلچسپی رکھتا ہے.اور بندہ کے خدا سے تعلق میں دلچسپی رکھتا ہے.اس لئے ایسی قوموں میں اسلام کا نفوذ، جو اسلام کو 532
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء بگاڑنے لگ جائیں اور ان کے لئے نگرانی کا کوئی انتظام نہ ہو سکے، یہ محض نقصان کا سودا ہے.اس سے اسلام کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.پس ہمیں تو اسلام سے سچی محبت اور پیار ہے.ہم کہیں بھی اس صورت میں اسلام کا آنا پسند نہیں کرتے کہ اس کا ہاتھ نعوذ باللہ طاغوتی طاقتوں نے پکڑا ہو اور بعض غیر اسلامی قدریں لے کر وہ کسی ملک میں داخل ہو.پس اس پہلو سے احمدیت کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں.نام کے اسلام سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں.ہمیں تو حقیقت اسلام میں دلچسپی ہے اور نہ صرف یہ کہ نئی قوموں کو ہم نے سچا اسلام دینا ہے بلکہ ان لوگوں کو جو اسلام کا غلط تصور لے رہے ہیں یا اسلام میں بگاڑ پیدا کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے اور کوئی ان کے ہاتھ روک نہیں رہا، ان کی اصلاح کرنا بھی اب جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے.یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے مقابل پر جو ہمیں ظاہری توفیق حاصل ہے، وہ کچھ بھی نہیں.اور اگر محض دنیوی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو ہرگز جماعت کی یہ طاقت نہیں کہ وہ اس عظیم الشان کام کو سر انجام دے سکے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت ہی آسان طریق ناممکن کاموں کو ممکن بنانے کا مقرر فرما رکھا ہے.وہ بہت ہی آسان اور بہت ہی پیارا اور بہت ہی دلنو از طریق ہے، جس میں کوئی مشکل اور مشقت نہیں بلکہ لطف ہی لطف ہے.پرسوں کراچی میں ایک غیر از جماعت دوست کے سوال کے جواب میں، میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پنجابی الہام بیان کیا.اس الہام میں یہ بات بیان کی گئی ہے، جو میں آپ کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں.وہ الہام شعر کے ایک مصرعہ میں ہے:.جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو پس دنیا کو اپنا بنانے کے لئے دور ستے ہیں.ایک یہ ہے کہ براہ راست دنیا کے پیچھے پڑا جائے اور دنیا کو اپنا بنایا جائے.یہ بہت ہی مشکل اور وسیع کام ہے.اور ایک چھوٹی سی جماعت کے لئے ناممکن ہے کہ ساری دنیا کے پیچھے پڑ کر اسے اپنا بنا سکے.اس کا سب سے آسان طریق یہ ہے کہ دنیا کے مالک کو اپنا بنالیا جائے ، جو ایک ہی ہے.اور اس سے تعلق جوڑنا ، ہر بندہ کے بس میں ہے.پس اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اتنی بڑی ذمہ داری سونپی کہ آج کے زمانہ کی دنیا کو خدا کے نام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اکٹھا کیا جائے تو بظاہر یہ کام ناممکن تھا.لیکن ایک چھوٹے سے مصرعہ میں اس کا حل بھی بیان فرما دیا کہ اس طریق پر یہ کام کرو.اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی احمدی موجود ہیں، خواہ وہ احمدی انڈونیشیا کا ہو یا سنگاپور کا، برما کا ہو یا ملائشیا کا، جاپان کا ہو یا چین کا ، ان 533
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم میں سے ہر احمدی اللہ تعالٰی کا ہونے کی کوشش کرے.کیونکہ جب تک وہ خدا کا نہیں ہوتا، اس کی خاطر جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے، دنیا کو اسلام کی طرف لانے کی اس میں استطاعت نہیں ہوگی.یہ اتنا عظیم الشان الہام ہے اور اس کی اتنی گہرائی ہے اور ایسی عظیم الشان حکمت اور فوائد کی باتیں اس میں بیان کر دی گئی ہیں کہ انسان اس پر جتنا غور کرتا چلا جائے ، اتنا ہی زیادہ طبیعت لطف اٹھاتی چلی جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور روح جھکتی چلی جاتی ہے.اس میں عمل سے نہیں روکا گیا، نہ اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ سب دنیا کو اپنی طرف کھینچ کر لاؤ بلکہ دنیا کوکھینچ کر لانا مقصد رکھا گیا ہے، صرف طریق کار بتایا گیا ہے کہ اگر تم دنیا کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہو تو اس کے لئے پہلے خدا کی طرف جاؤ.اس کے بغیر تمہیں دنیا نہیں ملے گی.یعنی اس الہام میں کسی ایسی صوفیانہ تعلیم کا ذکر نہیں ہے کہ دنیا سے قطع تعلق کر کے انسان صرف خدا کا ہو جائے اور بے عملی کی زندگی میں مبتلا ہو جائے اور سمجھے کہ اسی طرح میں نے سب کچھ حاصل کر لیا.بلکہ مومن کے اس مقصد کو تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ ایک مجاہد کی زندگی اختیار کرتا ہے اور بالآخر اس نے ساری دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرنا ہے.اور یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے.اس الہام میں صرف طریق کار بتایا گیا ہے کہ خدا کی طرف گئے بغیر ، خدا کو اپنا بنائے بغیر اگر تم دنیا کے پیچھے بھاگتے رہو گے تو کبھی بھی دنیا تمہاری نہیں ہوگی.ہاں یہ خطرہ ہے کہ تم نہ صرف یہ کہ خدا کے نہ رہو بلکہ دنیا کے بن کر رہ جاؤ.پس اس الہام میں در اصل قرآن کریم کی ایک آیت کی طرف اشارہ ہے.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کردار بیان فرمایا گیا اور آپ کا طریق تبلیغ واضح کیا گیا ہے.یعنی آپ جو مجاہد بنے اور تمام دنیا کو خدا کی طرف لانے کے لئے آپ نے ایک مہم شروع کی تو آپ نے پہلے کیا کیا تھا؟ وہ آیت یہ ہے ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنى & (النجم :10 ,09) اور اسی مضمون کو خدا تعالیٰ نے ایک اور جگہ بھی کھول کر بیان کیا ہے.لیکن پہلے میں اس حصہ کے متعلق بیان کر دینا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اپنے رب کے قریب ہوئے اور قریب ہو کر وہاں ٹھہرے نہیں رہے.دو باتیں ہیں ، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار اور صفات حسنہ کی یہاں نمایاں طور پر بیان ہوئی ہیں.اول خدا سے پیار کا راستہ پہلے اختیار کیا ہے اور خدا کے قریب ہوئے بغیر دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوئے.پھر جب خدا کو پالیا تو خود غرضی نہیں دکھائی، یہ نہیں سوچا کہ میرا مقصد پورا ہو گیا، اب دنیا جائے جہنم میں.جو بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے، ہوتا 534
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم - خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء پھرے.میں نے تو اپنے رب کو پالیا.بلکہ معا اپنے بھائیوں کی طرف توجہ ہوئی ، فتند لی پھر ان کی طرف جھکے یہ بتانے کے لئے کہ میں نے کتنی عظیم الشان دولت پائی ہے، ہم بھی اس میں شریک ہو جاؤ.اس مضمون کو مزید کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ سورۃ الضعھی میں بیان فرماتا ہے:.وَوَجَدَك ضَا لَّا فَهَدَى وَوَجَدَكَ عَابِلًا فَاغْنى اضحی : 08,09) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ خدا کی تلاش میں سرگرداں تھے.ضآلا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گمراہ.ضآلا کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی چیز کی محبت اور تلاش میں اپنے وجود کو بھی کھوڈا لے.یعنی دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جائے.اور وہ جذبہ اس پر اس قدر غالب آجائے کہ اور کسی چیز کی اسے ہوش نہ رہے.لیکن عجیب بات ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو نے ہمیں تلاش کیا، تو ہماری محبت میں سرگرداں تھا، جب ہم نے تیرا مقصد تجھے عطا کر دیا، ہم تجھے مل گئے، تجھے اپنی طرف ہدایت دے دی تو ہم نے دیکھا کہ تو تو بڑا عیال دار ہے، تو نے سوال کو پھیلا دیا ہے، سارے بنی نوع انسان کے لئے.اور کہا: اے خدا! میں اکیلا تو نہیں ہوں، نہ میں اکیلے لے کر راضی ہوں گا، میں تو سب دنیا کا ہوں اور بہت بڑا عیال دار ہوں، ساری کائنات کے لئے مانگنے آیا ہوں.پھر خدا نے آپ سے عجیب سلوک فرمایا.خدا نے آپ کو کہا کہ اے محمد ! تو ، تو ایک بندہ ہے.بندہ ہوکر تیرا دل اتنا وسیع ہے کہ اپنے سارے بھائیوں کو ، سارے زمانہ کے انسانوں کو اس نعمت میں شریک کرنا چاہتا ہے، جو میں نے تجھے عطا کی تو میں خالق اور مالک ہو کر تجھ سے پیچھے کیسے رہ سکتا ہوں؟ فاغنی، پھر خدا نے ایسا غنی کر دیا کہ کسی دوسری تعلیم کا محتاج نہیں رہنے دیا، کسی دوسری نعمت کا محتاج نہیں رہنے دیا.اور کہا کہ ہم تجھے کوثر عطا کرتے ہیں.ایسے خزانے دیں گے، جو بنی نوع انسان میں قیامت تک بانٹتے چلے جاؤ گے تب بھی ختم نہیں ہوں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے کہ تم بھی دنیا کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے نکالے گئے ہو، تم بھی بنی نوع انسان کو خدا کی طرف بلانے کے لئے نکالے گئے ہو.لیکن پہلے خدا کے بنو گے تو پھر دنیا تمہاری ہوگی.کیونکہ خدا کے بنے بغیر تم تہی دست کے تہی دست رہو گے.دنیا یوں ہی تو کسی کی طرف توجہ نہیں کیا کرتی.اب میں نے مثال دی تھی ، دنیوی قوموں نے ان لوگوں کو کچھ دیا ہے، ان کے پاس دولتیں ہیں، ان کے پاس مادی طاقتیں ہیں، اس کی خاطر دنیا ان کی طرف آئی.تو خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے، اس مضمون کو.آپ کو پتہ تھا کہ جب تک میرے پاس دولت نہیں ہوگی، میں کیسے دنیا کو بلاؤں گا ؟ وہ دولت اپنے رب سے حاصل 535
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کی.اور جب خدا نے آپ کو اتناغنی کر دیا، اتنا نی کردیا کہ اپنے زمانے کے انسان ہی نہیں بلکہ سارے زمانہ کے انسانوں کو دیتے چلے جائیں اور وہ دولت ختم نہ ہو تب پھر وہ دنیا کو بلانے کے لئے نکلے.پس آپ کا مقابلہ بھی دنیا کی بہت بڑی بڑی قوموں کے ساتھ ہے.اور وہ ساری قو میں کچھ نہ کچھ حرص اور کچھ نہ کچھ لالچ دے کر دنیا کو اپنی طرف بلا رہی ہیں.اور وہ مادی دولتیں ہیں، جو وہ عطا کرتی ہیں.اس کے مقابل پر صرف ایک ہی چیز ہے، جس میں آپ کو برتری حاصل ہو سکتی ہے.اور وہ یہ ہے کہ آپ حقیقتا خدا کے ہو جائیں اور خدا سب کچھ آپ کا بنادے.پھر دنیا کی کوئی قوم بھی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اور یہ جو غنا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے، اس کا آغا ز صرف مذہبی دولت سے ہوتا ہے.خدا کو پالینا مقصود ہوتا ہے اور خدا کو پالینے والے بندے بڑی جرات اور طاقت کے ساتھ اور بڑی قوت کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے.اس لئے جس کو دین چاہئے ، وہ بھی ادھر آئے اور جس کو دنیا چاہئے ، اس کو بھی ادھر آئے بغیر چارہ نہیں.کیونکہ ہم خدا کے نمائندہ بن چکے ہیں.لیکن اس اعلان کے باوجود کہ اب خدا بھی یہیں ملے گا اور خدا کی بنائی ہوئی طاقتیں بھی ، غرض ہر چیز یہیں حاصل ہوگی.اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس رستے میں ایک آزمائش کا نظام مقرر فرما دیا.تا کہ جو خدا کے فضلوں کو لینے والے ہوں، وہ تو داخل ہو سکیں اور جو حض دنیا کی لالچ میں آنا چاہیں ، ان کے لئے روک بن جائے.چنانچہ شرط یہ رکھی کہ پہلے اللہ کا فضل حاصل کرو، دنیا بعد میں آئے گی.اور اللہ کو پانے کی شرط یہ ہے کہ جو دنیا تمہیں حاصل ہے، وہ بھی خدا کی خاطر لٹا دو، پھر خدا ملے گا.اس کے بغیر سودا نہیں ہو سکتا.جب یہ اعلان ہورہا ہو کہ جو ہاتھ میں ہے، وہ دے دو.پھر ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں بعد میں بہت کچھ دیا جائے گا.تو صرف وہی آدمی داخل ہو سکتا ہے، جس کو کامل یقین ہو کہ وعدہ کرنے والا بھی موجود ہے اور عطا کرنے والا بھی موجود ہے.ورنہ جس کو کسی غائب پر ایمان نہ ہو یا کسی ایسی ہستی پر ایمان نہ ہو، جو آنکھوں سے نظر نہیں آرہی، وہ اس کے خیالی وعدے پر اپنے ہاتھ کی دنیا کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ ایسی دنیا دار قوموں کے محاورے تو ان قوموں کے محاوروں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں، جو خدا پر اور غیب کی چیزوں پر ایمان لانے والی ہوتی ہیں.یہ لوگ تو یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ a bird in hand is better than two in a bush.اور خدا والے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ 536 (التوبة: 111)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء کہ اے دنیا والو! تم تو ایک پرندہ کا دو پرندوں کے ساتھ تبادلہ بھی قبول نہیں کر سکے ، اگر وہ وعدہ دور کا ہو.لیکن ان لوگوں کا یہ حال ہے اور ان کا ایمان اتنا بلند ہو چکا ہے کہ یہ اپنی جان بھی پیش کر دیتے ہیں، یہ اموال بھی پیش کر دیتے ہیں، اس جنت کے لئے ، جو دینے والے کی طرح خود غائب ہے اور اس سے آپ اندازہ کریں کہ ایسے لوگوں میں کتنی عظیم الشان قوت عمل پیدا ہو جاتی ہے، جو خدا کی رضا کی خاطر اپنی جان اور اپنے مال اس وجہ سے پیش کر دیتے ہیں کہ مرنے کے بعد ان کو کچھ ملے گا.اس دنیا میں جو نعمتیں ان کے سامنے ہوتی ہیں اور جو فتوحات ان کے سامنے ہوتی ہیں، ان کے لئے تو ان کی قوت عمل کی تو کوئی انتہا نہیں رہ سکی.نسبتا کمزور ایمان والوں میں بھی غیر معمولی عمل کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے کہ دنیا دار آگے نہ آجائیں اور واقعہ اللہ پر ایمان رکھنے والے آگے آئیں اور ایک عظیم الشان زندہ قوم پیدا ہو، یہ شرط رکھ دی کہ جو کچھ ہم تم سے لیں گے، وہ تو حاضر ہوگا، وہ تمہیں نظر آرہاہوگا اور جو کچھ ہم تمہیں دیں گے، وہ وعدوں پر ہوگا اور تمہیں نظر نہیں آرہا ہوگا.پس ایسے رستے پر صرف وہی لوگ چل سکتے ہیں، جن کو غیب پر کامل ایمان ہو اور اول اور آخر مقصد سو فیصد خدا تعالیٰ ہی ہو.اور اس کی خاطر وہ اپنے ہاتھ آئی ہوئی زندگی کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.ایسے لوگوں کو جب خدا ماتا ہے تو پھر ان کو بعد کی جنت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا.خدا کے ساتھ ساتھ یہ دنیا بھی ان کو ملنی شروع ہو جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ویسے آزمائش کی خاطر ہم وعدے تو یہ کرتے ہیں کہ مرنے کے بہت دیر بعد ہم ان کو دیں گے لیکن جب ان کے دل کی صفائی دیکھتے ہیں، جب ان کو ہر قربانی پر آمادہ پاتے ہیں کہ خدا کی خاطر سب کچھ لٹانے کے لئے تیار ہو گئے ہیں تو پھر اس دنیا میں بھی وہ جنت عطا کر دیتے ہیں، ں کے وعدے دیئے جاتے ہیں.چنانچہ فرشتے نازل ہو کر ان کو یہ خبریں دیتے ہیں:.وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ( حم السجدة: 31) کہ جن جنتوں کے تم سے وعدے کئے گئے تھے کہ تمہاری موت کے بعد ملیں گی، اللہ اس موت کا انتظار نہیں کرے گا.وہ اسی دنیا میں وہ جنتیں تمہیں دینے کا فیصلہ کر چکا ہے.پس اس دنیا میں جو جنت عطا ہوتی ہے، وہ دراصل تسکین قلب کی صورت میں ملتی ہے.وہ ایک لذت ہے خدا کو پالینے کی اور وہی لذت در اصل جنت ہے.لیکن اس کے علاوہ وہ جنت دنیا میں ان کو عطا کی جاتی ہے، یہ بھی ایک تقدیر الہی ہے.چنانچہ یہ لوگ پھر آگے جا کر دو قسم کے سلوک کرتے ہیں.جہاں تک خدا کو پانے کی جنت ہے، اسی پر راضی 537
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہو جاتے ہیں اور جو دنیا ان کو عطا ہوتی ہے، اس میں پھر یہ دلچسپی نہیں لیتے.اس کے لئے پھر مزید دنیا کو عطا کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں اور دنیا والوں کو بانٹنے لگ جاتے ہیں اور خود محض خدا کے فضلوں پر راضی ہو جاتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم آغاز ہی میں اس مضمون کو اسی ترتیب سے بیان فرمارہا ہے:.الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:04) کہ یہ لوگ جو ہدایت پانے والے ہیں، جو خدا کو پالیتے ہیں ، ان کی تین منازل ہیں.پہلی شرط جیسا کہ میں نے بیان کی تھی ، وہ یہ ہے کہ یہ غیب پر ایمان لاتے ہیں.غیب پر ایمان لائے بغیر ان کو حاضر میں کچھ عطا نہیں ہوتا.اس کے بعد ان کو دو جنتیں ملتی ہیں.ایک عبادت کی جنت اور ایک رزق کی.عبادت کی جنت میں تو یہ منہمک رہتے ہیں اور رزق سے یہ سلوک کرتے ہیں کہ وَمِمَّا رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ جو کچھ پاتے چلے جاتے ہیں ، وہ سب کا سب اپنے لئے ہی نہیں رکھ لیتے بلکہ بڑی فراخ دلی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا جاری سلسلہ ہوتا ہے.نہ اللہ تعالیٰ ان کو عطا کرنے سے اپنا ہاتھ روکتا ہے، نہ وہ اس خوف سے کہ یہ رزق ختم ہو جائے گا، خدا کی راہ میں خرچ سے اپنا ہاتھ روکتے ہیں.پس یہ وہ نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں، جو ہدایت پر قائم ہونے والوں کو عطا ہوتے ہیں.اور اس زادراہ کو لے کر وہ دنیا کو جیتنے کے لئے نکلتے ہیں.پس اگر آپ مشرق کو خدا کے لئے جیتنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ پہلے آپ خود خدا کے بن جائیں.وہ لوگ جو خدا کے ہو جاتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی طاقتیں عطا فرماتا ہے.وہ زیادہ علم نہ بھی رکھتے ہوں، زیادہ لمبے چوڑے دلائل پر قدرت نہ بھی رکھتے ہوں، تب بھی ان کی چھوٹی سی بات میں اللہ تعالی غیر معمولی اثر رکھ دیتا ہے.پھر ان کو یہ شکوہ نہیں رہتا کہ ہم تو بہت تبلیغ کرتے ہیں، ہماری بات کو کوئی سنتا نہیں.وہ تو تھوڑی بھی تبلیغ کریں تو لوگ سننے لگ جاتے ہیں.وہ پیج اتفاقا بھی پھینک دیں تو اس بیج کو برکت ملتی ہے اور اس سے تناور درخت پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.یہ ہے تبلیغ کا وہ کامیاب رستہ، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو سکھایا اور جس پر چل کر انہوں نے ثابت کر دیا کہ اس رستہ کے سوا کامیابی کا اور کوئی رستہ نہیں ہے.پس مشرق بھی بآسانی جیتا جا سکتا ہے.خواہ کتنی بڑی مصیبتوں کے پہاڑ آپ کے سامنے ہوں، خواہ مقابل پر تعداد کے لحاظ سے اور قوت کے لحاظ سے کتنی ہی عظیم الشان قو میں نظر آتی ہوں گو یا ہمالہ کی 538
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء چوٹیاں سامنے کھڑی ہیں، اگر آپ رفعتوں والے خدا سے تعلق جوڑ لیں ، جو ایسی رفعتیں رکھتا ہے، جن کی کوئی انتہا نہیں تو ہمالہ کی چوٹیاں کیڑوں کے گھروندوں سے بھی زیادہ چھوٹی نظر آنے لگیں گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں بعض دفعہ ایسی ہی شوکت نظر آتی ہے.جب یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا آپ کی رگوں میں دوڑ رہا ہے.آپ فرماتے ہیں:.جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار اس لئے آپ خدا کے شیر بنیں اور وہ طاقت حاصل کریں، جس کے بعد دنیا کی طاقتوں کو اس بات کی توفیق نہیں مل سکتی کہ وہ آپ پر ہاتھ ڈال سکیں.آپ کسی بھی ملک کے باشندے ہوں، آپ دیکھیں گے کہ آپ کو غیر معمولی طاقتیں عطا کرے گا.اور یہ کہ آپ کے دشمنوں کا خدادشمن بن جاتا ہے اور آپ کے دوستوں کا دوست بن جاتا ہے.موسی میں تو طاقت نہیں تھی کہ وہ فرعون کا سر نیچا کرے لیکن موسی کے خدا میں طاقت تھی اور اس نے اس شان کے ساتھ فرعون کے تکبر کو توڑا ہے کہ آج تک تاریخ میں وہ عبرت کا نشان بنا ہوا ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو یہ طاقت نہیں تھی کہ کسری کی حکومت کو پارہ پارہ کر دے.آپ " کو تو کسری اس قدر کمزور دیکھ رہا تھا اور اتنا بے حقیقت سمجھ رہا تھا کہ اس نے اپنے ایک معمولی گورنر کو یہ حکم دیا کہ ایک سپاہی بھیج کر اسے پکڑ کر بلو اؤ اور اس کو ہلاک کر دو.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یمن کے گورنر کا وہ ایچی، جو کسری کا نمائندہ تھا، حاضر ہوا تو اکیلا تھا.اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے.اور اس میں دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حد سے زیادہ (نعوذ باللہ ) تذلیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ہمیں تو تمہارے پاس کوئی ہتھیار بند سپاہی بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں ہے.تمہیں پیغام ملے گا اور تمہیں لازماً حاضر ہونا پڑے گا.چنانچہ اینچی نے آکر یہی پیغام دیا کہ ہمارے شہنشاہ عالم کسری نے حکم دیا ہے ہمارے گورنر کو کہ تمہیں بلوائیں.اس لئے میں پیغام دینے آیا ہوں کہ آپ ان کے دربار میں حاضر ہو جائیں.آپ نے فرمایا: تم اپنے شہنشاہ کے حکم کے پابند ہو، میں اپنے شہنشاہ کے حکم کا پابند ہوں.اور جب تک میں اللہ سے پوچھ نہ لوں، اس وقت تک میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا.پس رات آپ نے خدا کے حضور دعا کی.ہم نہیں جانتے کہ وہ دعا کیا تھی ؟ اور کیسی گریہ وزاری تھی ؟ لیکن صبح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اینچی کو جو جواب دیا ، وہ یہ تھا کہ جاؤ، اس گورنر کو بتا دو کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو قتل کر دیا ہے.پس وہ یہی جواب لے کر واپس پہنچا تو یمن میں کچھ عرصہ کے بعد 539
خطبہ جمعہ فرموده 09 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم وہاں شہنشاہ کسریٰ کی طرف سے سفیر آیا اور پرانے کسری کا بیٹا اس وقت تک کسری بن چکا تھا اور اس نے یہ پیغام بھیجا کہ ہم نے اپنے باپ کے مظالم اور گندگیوں کی وجہ سے اس کو قتل کر دیا ہے اور اب ہم شہنشاہ بنائے گئے ہیں.پس جب خدا کسی کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس میں عبرت کا یہ پہلو ہوتا ہے کہ اس ہلا کہ میں ایک غیر معمولی ذلت بھی پائی جاتی ہے.اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو بھی اپنی نصرت اور اپنے پیار کے غیر معمولی نشان دکھائے ہیں.اس لئے آپ کے لئے اس غیب پر ایمان لانا کوئی مشکل نہیں، جو بارہا آپ کے لئے حاضر بن چکا ہے.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے دل کو اپنے رب کے لئے صاف کریں، اسے اپنے دل میں حاضر ہونے کے لئے درخواست کریں، دعوت دیں.جس طرح ایک بڑے آدمی کو دعوت دی جاتی.لیکن یہ ایک ایسی بڑی ہستی ہے کہ جو اپنی عظمت کے باوجود ادنیٰ سے ادنی دل میں اترنے کے لئے تیار بیٹھی ہے.اس لئے انسان کی کوئی عاجزی، اس کا کوئی انکسار اس راہ میں حائل نہیں ہو سکتا کہ میں اس عظیم الشان ذات کو اپنے پاس آنے کی کیسے دعوت دوں، جو میرے مقابل پر اتنی عظمت رکھتا ہے کہ کوئی نسبت ہی قائم نہیں ہوسکتی؟ اس بات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دل کی عظمت در اصل دل کے حوصلے کی عظمت اور دل کی وسعت کی عظمت ہی ہوا کرتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی اصل شان یہ ہے کہ وہ تمام طاقتوں کا سر چشمہ ہونے کے باوجود اتنا وسیع حوصلہ رکھتا ہے کہ فرماتا ہے:.وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ کہ میری رحمت ہر دوسری چیز پر حاوی ہوگئی ہے.میری عظمتوں سے بالا ہے، میری رحمت اور میری شفقت.پس آپ نے اس خدا کو بلانا ہے، جس کا اعلان ہے:.وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ وہ تو آپ سے بڑھ کر آپ کے پاس آنے کے لئے تیار بیٹھا ہے.چنانچہ حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خدا کو بلانے کا جو تجربہ کیا، اس کو اپنے ان پیارے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ بندہ جب خدا کی طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ کئی قدم اس کی طرف بڑھ جاتا ہے اور جب انسان قدم قدم اس کی طرف جاتا ہے تو وہ دوڑتا ہوا، اس کی طرف بڑھتا ہے.پس در اصل یہ مضمون ہی وہی وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ والا مضمون ہے.جس کی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں.540
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1983ء پس اب اس سارے مضمون کو سمجھ لینے کے بعد کسی احمدی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہتا کہ وہ تبلیغ سے باز رہے یا اپنے آپ کو کمزور سمجھے یا کم علم سمجھے.شرط اول یہ ہے کہ وہ خدا کا ہو جائے.باقی ساری شرطیں خداد یکھے گا کہ کس طرح پوری کرنی ہیں؟ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم اپنے کام سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں، اس لئے میں شدید فکر لے کر اس دورہ پر نکلا ہوں اور یہ دعا کرتے ہوئے نکلا ہوں کہ اے خدا! تو ہی اپنے فضل سے میرے الفاظ میں طاقت رکھ دے.میں نے دعا کی کہ اے خدا! تو میری آواز کو ہر احمدی کی آواز بنا دے.اور اے خدا! میرے دل کی ہر دھڑکن ہر احمدی کو عطا فرما اور ہر سینے میں اپنے دین کی خدمت کی ایک آگ لگادے.وہ ہر طرف سے اس روشنی کی طرف بلائے، جو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی ہے.اور جس طرح پروانے آگوں کو جلتا ہوا دیکھتے اور بے تحاشا اس طرف دوڑتے اور اڑتے ہوئے وہاں پہنچتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ جل جائیں گے، اسی طرح دنیا محبت سے مجبور ہو کر بے اختیار اس روشنی کی طرف لپکے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہے تو میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو یہ خدا کا کلام ہے اور اگر آپ اس کو آزما کر دیکھیں گے تو یقیناً ہمیشہ اس کو سچا ہوتا دیکھیں گے“.مطبوعه روزنامه الفضل 25 ستمبر 1983ء) 541
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصہ خطبہ عید الاضحیہ فرمود 0 17 ستمبر 1983ء اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کے لئے ابراہیمی قربانیوں کا وقت ہے خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 17 ستمبر 1983ء حضور نے اس بابرکت موقع پر فرمایا:.یہ عید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم الشان قربانیوں کی یاد دلاتی ہے.آپ نے فرمایا:.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے اسماعیل کو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ جانا، اسے ذبح کرنے کے مترادف تھا.اور اس میں بڑے گہرے سبق تھے کہ وہی مذاہب زندہ رکھنے کے قابل سمجھے جاتے ہیں، جو قربانیاں دینے کے لئے آمادہ رہیں، اللہ کی راہ میں مٹ جانا اور فنا ہو جانا، قبول کر لیں.حضور نے فرمایا:." آج اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کے لئے ابراہیمی قربانیوں کو زندہ کرنے کا وقت ہے.اس لئے ضروری ہے کہ احباب جماعت ان پیغامات کو سمجھیں ، جن کی ہر سال یہ عید یاد دلاتی ہے.اسلام کی تبلیغ کے لئے خود بھی پورے خلوص کے ساتھ سرگرم عمل رہیں اور اپنی اولاد کی بھی اسی رنگ میں تربیت کریں.جماعت احمدیہ کا ہر فرد، کیا مرد اور کیا عورتیں، کیا چھوٹے اور کیا بڑے، سب اپنے اندر قربانی کی روح پیدا کریں.اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل کو خدا کی خاطر قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.تا ہمارے درخت وجود کو ابراہیمی پھل لگیں اور ہمیں خدا کی رضا حاصل ہو جائے“.23 فرمایا:.جماعت احمد یہ ناندی ( جہاں سے نجی کے دورے کا آغاز ہورہا ہے ) کے لئے آج کا دن اس لحاظ سے ایک تاریخی دن ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ کے ساتھ عید منارہی ہے.یہ عیدان کے لئے حقیقی عید بھی بنے گی، جب وہ عید کے پیغام کو یاد رکھیں.اپنے بچے ابراہیمی روح کے ساتھ خدمت دین کے لئے وقف کریں اور اس وقت تک دم نہ لیں، جب تک جزائرمینی کو احمدیت کے نور سے منور نہ کر لیں“.مطبوعه روزنامه الفضل 19 اکتوبر 1983ء) 543
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد ششم خلاصہ خطاب فرمود : 17 ستمبر 1983ء موجودہ مسائل کا یہی ایک حل ہے کہ ہم مشتر کہ اقدار پر ا کٹھے ہو جائیں خطاب فرمودہ 17 ستمبر 1983ء بر موقع استقبالیہ تقریب ناندی مذہب کی ضرورت و اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ” یہ صرف اسلام ہی ہے، جو خدا کی وحدانیت کا صحیح تصور پیش کرتا ہے اور اس سے حقیقی تعلق پیدا کرنے کی راہیں بتاتا ہے.اور انسان اور انسان کے درمیان محبت و پیار اور مسلح و آشتی کی فضا پیدا کرتا ہے.66 آپ نے فرمایا کہ اسلام اس بات میں بھی منفرد ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ نفرت اور تعصب، حقارت اور تنگ نظری سے دور رہیں، باہمی محبت اور یگانگت کو فروغ دیں.آپ نے تفصیل میں جا کر بتایا کہ وو وہی مذہب حقیقت کے قریب ہے اور سچائی کا حامل ہے، جو خوشگوار ماحول میں باہمی تبادلہ خیالات کی اجازت دیتا ہے اور ہر قسم کے تعصب اور تنگ نظری سے بالا رہ کر امن کی فضا پیدا کرتا ہے.اور یہ اسلام ہی ہے، جوان خصوصیات کا حامل ہے“.حضور نے زور دے کر فرمایا کہ میرا پیغام اور خواہش یہ ہے کہ ایک دفعہ پھر دنیا میں عقل و خرد، علم و دانش اور روحانی ہم آہنگی اور معاشرتی یک رنگی کا دور شروع ہو جائے ، جو آئندہ نسلوں کے لئے نہ صرف علم و معرفت میں ترقی کا موجب ہو بلکہ امن وسلامتی کا گہوارہ بھی بن جائے.اس کے لئے ہمیں کوئی درمیانی راہ اختیار کرنی چاہیے.اور وہ آج سے چودہ سو سال پہلے سے معین ہے.حضور نے مزید فرمایا:.موجودہ زمانہ کے بگڑے ہوئے معاشرہ کے تمام مسائل کا یہی ایک حل ہے کہ مذاہب کے اختلافات کو موضوع بحث بنانے کی بجائے ہم مشترکہ اقدار پر اکٹھے ہو جائیں اور وہ فضا قائم کر دیں، جس میں ہر آدمی دوسرے کی عزت و احترام کرنے لگ جائے اور خدائے واحد و یگانہ کی عبادت ہونے لگے.مطبوع روزنامه الفضل 19 اکتوبر 1983ء) 545
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خلاصہ خطاب فرمودہ 18 ستمبر 1983ء جماعت احمدیہ کے ذریعہ دین اسلام کو غالب کرنے کی کوششیں رنگ لائیں گی خطاب فرمودہ 18 ستمبر 1983ء برموقع افتتاح مسجد فضل عمر منجی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس موقع پر انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے غیر مسلم شرفاء کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا:.جماعت احمدیہ بچی کے لئے یہ بڑا بابرکت موقع ہے.تا ہم حضور نے اس خیال سے اتفاق نہیں فرمایا کہ دنیا داروں کی طرح فیتہ کاٹتے ہوئے یا سختی کی نقاب کشائی کرتے ہوئے مسجد کا افتتاح کیا جائے.آپ نے فرمایا:.مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں، ان کو نمائش کی جگہ نہیں بنانا چاہیے صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر بنائی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی خاطر جو گھر بنائے جاتے ہیں، ان کا دنیا دارانہ طریق پر افتتاح جائز نہیں.کوئی بڑی شخصیت بھی مسجد کو برکت نہیں دیتی.مسجد شخصیتوں کو برکت دیتی ہے.لہذا اللہ تعالی کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ مسجد کے افتتاح کا اعلان کرتے ہوئے واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس مسجد کے دروازے ہر اس شخص کے لئے کھلے رہیں گے، جو خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہتا ہے.حضور نے فرمایا:.بد قسمتی سے اسلام کو غلط سمجھا گیا ہے.یہ جنگ و جدل اور جبر و اکراہ کامذہب نہیں ہے.یہ تو آزادی ضمیر کا سب سے بڑا علم بردار ہے.اسی لئے اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام کیا جائے.یہاں تک کہ قرآن کریم نے اسلام کے اشد ترین مخالفین یعنی یہودیوں کے معبدوں کا احترام کرنا بھی ضروری قرار دیا ہے.اگر اسلام اس قسم کی اعلیٰ رواداری کی تعلیم نہ دیتا تو عبادت گاہیں، گر جا گھر اور معبد منہدم ہو جاتے.یہ قرآن کریم کا کمال ہے کہ اس نے نہ صرف مساجد کا احترام سکھایا ہے بلکہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی عزت و تکریم کی تعلیم دی ہے“.فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو اسلام کے احیائے نو کے لئے بھیجا ہے.آپ نے یہ دعوی کیا کہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں اور اسلام کو دوبارہ 547
خلاصہ خطاب فرمودہ 18 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک زندہ کرنے کے لئے آیا ہوں.اور تمام دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی عظیم الشان خدمت میرے سپرد ہوئی ہے.اس اہم مقصد کے لئے آپ نے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی ، جو قرآن کریم کے پیغام کو جانی اور مالی قربانی کے ذریعہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے پر کمر بستہ ہے.اور اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ خدا کی تو حید کو دنیا میں قائم کرنے کا بیڑا اٹھانے والے لوگ خواہ کتنے ہی تھوڑے اور کمزور کیوں نہ ہوں، بالآخر وہی فتح یاب ہوتے ہیں.جماعت احمدیہ کی تاریخ اور اس کے عزائم اسی Phenomena کے مظہر ہیں.گویا درمیانی عرصہ میں بعض دفعہ ہم پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا، ہمارے رستے میں مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے، ہمیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور ایذا رسانی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی رہی لیکن بایں ہمہ احمدیت کا قافلہ مخالفت کی آندھیوں اور طوفانوں میں سے زندہ و سلامت گزر کر ترقی کی نئی سے نئی منزلوں سے ہمکنار ہوتا رہا.اس لئے یہ ہمار ا یقین اور ایمان ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ دین اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کی کوششیں رنگ لائیں گی اور اللہ تعالیٰ اس کے شیر میں شمرات عطا فرمائے گا.مطبوعه روز نامه افضل 19 اکتوبر 1983ء) 548
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء اگر آپ خدا والے بن جائیں تو سارے نجی کی تقدیر بدل جائے گی خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء برتقریب استقبالیہ لمبا سانجی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا یہ لاکھ لاکھ احسان ادا کرتے ہیں کہ اس نے آج ہمیں یہاں اکٹھے ہونے کا موقع عطا فرمایا.جتنی آپ کو یہ تمنا تھی کہ آپ مجھے دیکھیں، اسی قدر میرے دل کی بھی تمنا تھی کہ میں آپ کو دیکھوں اور آپ سے ملوں.پس ہم سب کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل کا یہ خاص نشان ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانہ میں، جبکہ آپ قادیان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک گوشہ میں زندگی بسر کر رہے تھے، کوئی بھی آپ کو جانتا نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا کہ: میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.خدا کا یہ وعدہ حیرت انگیز رنگ میں پورا ہونا شروع ہوا.آپ کی مخالفت میں بہت بڑی بڑی مہمات چلائی گئیں، بڑی بڑی کوششیں کی گئیں کہ کسی طرح احمدیت کو مٹادیں، کسی طرح اس کے چاروں طرف ایسی دیوار میں کھڑی کر دیں کہ احمدیت کا یہ عالمگیر طوفان باہر نہ نکل سکے.لیکن ہم نے خدا کی عجیب شان دیکھی کہ جتنی بڑی دیواریں کھڑیں کی گئیں، خدا نے احمدیت کی موجیں اتنی ہی بلند کر دیں.اور کوئی دیوار احمدیت کی ترقی کو روک نہ سکی، کوئی کوشش اس کی راہ میں حائل نہ ہو سکی.نہ یہ تحریک قادیان میں رک سکی ، نہ یہ پنجاب میں رک سکی ، نہ یہ ہندوستان میں رک سکی ، نہ یہ ایشیا میں رک سکی، نہ یہ امریکہ میں رک سکی.بلکہ ہر طرف اور ہر جگہ خدا کے فضل سے احمدیت کی موجیں اچھل اچھل کر پھیلتی رہیں.چنانچہ اس دور میں حیرت انگیز نشانات ظاہر ہوئے.احمدیت کو جگہ جگہ قربانیاں بھی پیش کرنی پڑیں.قربانیاں تو ایک زندہ الہی جماعت کی تقدیر میں بہر حال داخل ہیں.لیکن ہر قربانی کے نتیجے میں خدا نے بہت فضل نازل فرمائے.پھر ایک وقت ایسا بھی آیا، جب کہ سارے ہندوستان میں مخالفت کی ایک آگ لگ گئی.دشمنوں کی آنکھ کو بے انتہاء تکلیف پہنچی کہ ہم یہ کیا دیکھ رہے ہیں؟ چنانچہ 1933ء میں احمدیت کے خلاف ایک مشہور تحریک چلائی گئی، جس کا نام احرار MOVEMENT (تحریک) ہے.قادیان میں، میں اس میں، میں 549
خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وقت بچہ تھا.مگر مجھے یاد ہے کہ چاروں طرف سے بڑے بڑے جتھے قادیان کو گھیرنے کے لئے آگئے تھے.اور ہمارے گھروں کے قریب ہی لاؤڈ سپیکروں پر دن رات گالیاں دی جاتی تھیں اور ان کے بڑے بڑے رہنما یہ اعلان کرتے تھے کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے.اور ایک گھر بھی یہاں باقی نہیں رہے گا، جس میں کوئی احمدی سانس لینے والا نظر آجائے.یہاں تک دعوے کئے گئے کہ احمدیت کا نشان مٹا دیا جائے گا.احمد بیت تاریخ کا ایک حصہ بن جائے گی.لوگ قادیان میں آکر پوچھیں گے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کون تھا ؟ تو قادیان کے باشندے بتا نہ سکیں گے کہ وہ کون تھا ؟ ادھر یہ اعلان اور دعوے ہو رہے تھے، ادھر پنجاب کی برٹش گورنمنٹ جماعت کے خلاف سخت ACTION (ایکشن لینے پر تیار بیٹھی ہوئی تھی.اور حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو بار بار نوٹس مل رہے تھے کہ آپ نے جواب میں ہر گز کوئی کارروائی نہیں کرنی.یعنی ایک طرف تو دشمن کو کھلی چھٹی تھی ، دوسری طرف اپنا دفاع کرنے والوں کو پوری طرح قید و بند میں رکھا جارہا تھا.یہ ویسی ہی بات ہے، جیسے ایک شاعر نے کہا ہے کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد کہ بعض بستیوں کے قانون کچھ ایسے الٹ جاتے ہیں کہ وہاں کتوں کو تو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ اینٹ اور پتھر ، جن سے دفاع کیا جاسکتا ہے، جن سے اپنا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، ان کو زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے.اس وقت احمدیت کی بھی یہی کیفیت تھی.احمدی ہاتھوں کو زنجیروں میں جکڑا جارہا تھا.اور ہاتھ کاٹنے والوں کو کھلی چھٹی دی جارہی تھی.چنانچہ اس پر آشوب زمانہ میں حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ایک دن جمعہ کے خطبہ میں یہ اعلان فرمایا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے ، مگر لاز مایہ الہام پورا ہو گا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.کسی ماں نے وہ لیڈر پیدا نہیں کیا، کسی قوم نے وہ جوان پیدا نہیں کئے ، جو احمدیت کی ترقی کی راہ میں روک پیدا کر سکیں.آپ نے فرمایا: ” احرار قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن میں ان کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی دیکھ رہا ہوں.اس قدر جوش اور جلال سے آپ نے یہ فرمایا کہ ہر سننے والے احمدی کے دل کی گہرائی تک یہ آواز اتر گئی اور اس کی زندگی اور ایمان کا حصہ بن گئی.چنانچہ چنددنوں کے اندر اندر ہم نے یہ دیکھا کہ سارے پنجاب سے ان کی صف لپیٹ دی گئی.جوان کے دوست تھے، وہ دشمن بن گئے.جو ان کی مدح میں گیت گایا کرتے تھے ، وہ ان کی ہجو لکھنے لگ 550
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء گئے.ان کے اندر کی بدیانتی اور ان کی بے ایمانی پکڑی گئی اور بر سر عام ظاہر ہوگئی.اور تمام مسلمانوں پر یہ راز کھل گیا کہ انہوں نے غیروں سے مل کر اسلام سے غداری کی ہے.پس جس جماعت نے ایسے کھلے کھلے نشان دیکھے ہوں، اس جماعت کے حو صلے اور ایمان کیسے کم ہوسکتے ہیں؟ کبھی کسی راہ میں چلتے ہوئے ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ روڑے اٹکائے گئے ہوں، پتھر مارے گئے ہوں اور جماعت احمد یہ رک گئی ہو.چنانچہ جتنی روکیں ڈالی گئیں ، اتنی ہی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ جماعت آگے بڑھی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب میں سے تھے، وہ سب سے پہلے مبلغ کے طور پر جب امریکہ پہنچے تو بندرگاہ پر امریکن حکومت کی طرف سے مقرر کردہ گورنر نے ان کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہ دی.اس زمانہ میں سمندری جہازوں پر سفر ہوتا تھا اور اگلے جہاز کی انتظار میں کنارے پر ہی کہیں رکنا پڑتا تھا.چنانچہ ان کو ساحل سمندر پر واقع ایک جیل میں قید کر دیا گیا اور ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی.انہوں نے جیل میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی.چنانچہ ان کی تبلیغ سے اس کثرت سے قیدی مسلمان ہونا شروع ہو گئے کہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے احتجاج کیا اور کہا کہ اس کو فوراً یہاں سے نکالو ورنہ ساری جیل مسلمان ہو جائے گی.چنانچہ حکومت مجبور ہو گئی ، ان کو وہاں سے نکال کر ملک کے اندر بھیجنا پڑا.پس اللہ تعالیٰ اپنی عجیب و غریب تقدیر ظاہر فرماتا ہے.احمدیت کی ترقی کی راہ میں کبھی نہ روک پڑی ہے، نہ آئندہ پڑے گی.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ہمیشہ اپنی شان میں پہلے سے بڑھ کر اور وسعت میں پہلے سے زیادہ پھیل کر پوری ہوتی رہی ہے.اور آج میرا دل خدا کی حمد سے لبریز ہے اور روح اس کے حضور سجدہ کر رہی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچ چکی ہے.آپ واقعہ زمین کے کنارے پر آباد ہیں.جس طرح بھی دیکھا جائے، نجی ایک دور کی جگہ ہے.ہر ملک کے لینے والے انسان کے لیے نجی ایک دور کا مقام ہے.اور خدا کی تقدیر یہ ہے کہ ڈیٹ لائن بھی یہیں سے گزر رہی ہے.اور واقعہ یہ ملک زمین کا کنارہ بن گیا ہے.اس لیے آج کا دن صرف آپ کے لیے خوشی اور خدا کی حمد کرنے اور اس کا شکر ادا کرنے کا دن نہیں بلکہ میرے لیے بھی اور میرے ساتھیوں کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد کے بے حد گیت گانے کا دن ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو بے شمار فضلوں سے نوازے، آپ کے ایمانوں کو زندہ کرے اور ہمیشہ بڑھاتا چلا 551
خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جائے.اللہ تعالیٰ آپ کی دنیا بھی سنوار دے اور آپ کی آخرت بھی سنوار دے.اللہ تعالیٰ آپ کے دل میں تبلیغ کے جذبے پیدا کرے، ان جذبوں کو نشو و نما دے کر ان کی حفاظت فرمائے.اللہ تعالیٰ آپ سے محبت اور پیار کا سلوک کرے، آپ کی دعاؤں کو قبول کرے، آپ کو کچی خوا ہیں دکھائے.آپ کو خدا اپنے وجود کا یقین اس طرح دلا دے کہ گویا آپ اپنے رب کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں.جب خدا سے تعلق گہرا ہو جائے گا تو پھر آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ آپ تقریر کریں.جب آپ خدا والے بن جائیں گے تو پھر یہ تدبیریں کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ کس طرح آپ کی اولادوں کو سنبھالا جائے اور ان کے بچوں کی تربیت کی جائے؟ کیونکہ خدا والوں کا وہ خود کفیل ہو جایا کرتا ہے.وہی ان کو علم دیتا ہے، وہی ان کی تربیت کرتا ہے، وہی ان کو سکھاتا ہے اور وہی ان کو پڑھاتا ہے.رہا مرکز سے دوری کی وجہ سے پیدا ہونے والا مسئلہ تو اس کا سب سے بڑا اور سب سے اہم حل یہ ہے کہ آپ اپنے رب کریم سے تعلق پیدا کر کے اس کے قریب ہو جائیں.ہمارا خدا تو کسی سے دور نہیں ہے.اس کے لیے تو کوئی فاصلے نہیں ہیں، وہ تو ہر جگہ موجود ہے اور ہر دل کے پاس منتظر ہے کہ اس دل کے دروازے کھلیں اور وہ اس میں داخل ہو جائے.پس مرکز سے دوری کا غم اس قوم کو کیوں ہو گیا ، جس کا خدا اس کی رگ جان سے بھی قریب ہے؟ سو اس مشکل کا اصل حل اور اس مسئلہ کو حل کرنے کا طریق ایک ہی ہے کہ آپ اپنے اللہ سے پیار کریں، اپنے اللہ سے قریب ہوں، اس کے دروازے کھٹکھٹائیں اور اس کے حضور یہ التجا کریں کہ اے خدا! ہمارے لئے سب دوریاں ہٹا دے.اور جن لوگوں کے ہم قریب ہونا چاہتے ہیں، ہمیں روحانی لحاظ سے ان کے قریب تر کر دے.یہ حقیقت ہے کہ جب خدا قریب کرنا چاہے تو نہ جغرافیائی فاصلے دور رکھ سکتے ہیں، نہ وقت کے فاصلے دور رکھ سکتے ہیں.اور ایسے حیرت انگیز واقعات رونما ہوتے ہیں کہ بعد میں آنے والے پہلوؤں سے مل جاتے ہیں اور دور بیٹھے ہوئے دور رہنے والوں سے مل جاتے ہیں.چنانچہ حضرت اویس قرنی کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دور تھے اور ان کو آپ کا دیدار بھی نصیب نہیں ہوا.لیکن چونکہ وہمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق صادق تھے اور چونکہ خدا سے ان کا پختہ تعلق تھا، اس لئے اللہ نے ان کو ایسا قریب کر دیا کہ وہ صحابہ میں لکھے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر سلام بھیجا.پس فاصلوں کی دوری نیک لوگوں کی راہ میں حائل نہیں ہوا کرتی.اس سے بھی زیادہ عظیم الشان واقعہ یہ رونما ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ حیرت انگیز خبر دی کہ میں آخرین میں دوبارہ تمہیں اس طرح بھیجوں گا کہ کوئی تمہارا 552
تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء نمائندہ آخرین کو اولین سے ملا دے گا.یعنی یہ جو تمہارے صحابہ نہیں ، ان سے رتبہ میں بعد میں آنے والے کچھ لوگ ملائے جائیں گے اور وہ آخرین میں پیدا ہوں گے.اب اس فاصلہ کا آپ ذرا اندازہ کیجئے ، جو ان کے درمیان حائل تھا.دو قسم کے فاصلے حائل تھے.ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آخر میں آنے والوں کے درمیان تیرہ سو سال حائل ہیں اور یہ کوئی معمولی وقت نہیں.اور دوسری طرف مکانی لحاظ سے عرب اور پنجاب ( قادیان) کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہے.اور قرآن کریم میں خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ بعد میں آنے والوں کو اولین سے یعنی تم لوگوں کے ساتھ ملا دوں گا.تو وہ فاصلے بھی پائے گئے، وہ دوریاں بھی ختم کر دی گئیں.سالوں کے لحاظ سے بھی کوئی فاصلہ نہ رہا اور میلوں کے لحاظ سے بھی نہ رہا.اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا، بعد میں آنے والے اولین سے ملا دیئے گئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:.صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا جس شخص نے مجھے پالیا ہے، خدا کے ارشاد کے مطابق ، خدا تعالی کی پیشگوئی کے مطابق وہ صحابہ سے مل گیا.چنانچہ دین کے نام پر و تکلیفیں صحابہ کو دی جاتی تھیں اور جو جو مظالم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ پر ہوتے رہے، وہ سارے مظالم اور وہ سارے دکھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے مانے والوں کو بھی دیئے گئے.یہ محض دعوی نہیں تھا.ورنہ دعوئی تو ہر شخص کر سکتا ہے کہ میں فلاں سے مل گیا.اس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے اپنے خون بہانے پڑتے تھے.اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے خدا کی راہ میں ماریں کھانی پڑتی تھیں.کافر کہلانا پڑتا تھا.اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے اپنے گھر جلوانے پڑتے تھے.بچے قتل کروانے پڑتے تھے.تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.ایک شخص دعوی کر دے کہ میں پرانے سے مل گیا ، اگر وہ جھوٹا ہے تو زبانی دعوئی ہوگا.اور اگر سچا ہے تو جو کچھ آفات پرانوں پر گزریں ، اس پر بھی گزریں گی اور اس کے ماننے والوں پر بھی گزریں گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحبت یافتہ خوش نصیبوں نے اپنے اموال سے اپنی جانوں سے اپنی عزتیں فدا کر کے حتی کہ اس راہ راہ میں اپنی جان کی بازی لگا کر واقعہ ثابت کر دکھایا کہ ہم صحابہ نبی اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم سے ملنے کا حق رکھتے ہیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیکچر کے لیے سیالکوٹ تشریف لے گئے.جو پنجاب کا ایک شہر ہے.خدا تعالیٰ نے بہت بڑی مخلوق کے دل مائل کر دیئے.کثرت سے خلق خدا وہاں پہنچی اور بہت بیعتیں ہوئیں.سیالکوٹ میں ہر طرف احمدیت کا چرچا ہوا.لیکن ساتھ ہی دشمن بھی بہت مشتعل ہو 553
خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم گیا.جلسہ گاہ کے ارد گرد ہزارہا کی تعداد میں دشمن جھولیوں میں پتھر اور ڈنڈے سوئے لے کر انتظار میں کھڑے ہو گئے کہ جب یہ احمدی جلسہ سے واپس جائیں گے تو پھر جہاں جہاں داؤ لگے گا، ان کو خوب ماریں گے.گویا اسلام کو اس طرح ڈنڈوں کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے اور ڈنڈوں کے ساتھ حق کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے.وہی واقعہ جو پہلے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوا ، اسی طرح یہاں ہوا.دیکھئے شکل ملنی شروع ہو گئی.جب یہ کہا کہ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا تو ایسے انتظام بھی ہوئے کہ واقعہ وہ شکلیں ملنی شروع ہو گئیں.اس وقت بہت سے احمدی، جو لوگوں کے ہاتھ آئے ، ان کو بہت مارا گیا، گالیاں دی گئیں.اس کے باوجود وہ سارے بہت مطمئن اور خدا سے خوش اپنے گھروں کو واپس لوٹے.اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحبت یافتہ ایک خوش قسمت کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، وہ میں آپ کو بتاتا ہوں.ہوا یہ کہ جب وہ جلسہ سے واپس آرہے تھے تو راستہ میں کچھ لوگوں نے ان کو پکڑ لیا، بہت مارا.جس حد تک ذلیل کیا جا سکتا تھا، ذلیل کیا.سر میں خاک ڈالی، کپڑے پھاڑ دیئے.لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا، وہ مسکراتے رہے.آخر تنگ آکر ایک شخص نے کہا: اس کو اور زیادہ ذلیل کرو، اس کے بغیر یہ درست نہیں ہوگا.ڈھیٹ کا ڈھیٹ ہے، کچھ سنتاہی نہیں، اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا.مارتے ہیں، تب مسکراتا ہے.گالیاں دیتے ہیں، تب اس کو غصہ نہیں آتا.یہ کیا بلا ہے؟ اس کوٹھیک کرنا چاہیے.پاس گائے کا گو بر پڑا ہوا تھا.انہوں نے وہ گو بر اٹھایا اور ان کے منہ میں ، آنکھوں میں ، ناک میں گو برمل دیا اور کہنے لگے: اب تمہیں پتہ لگا ہے کہ تم کیا چیز بن گئے ہو؟ ان کا نام برھان الدین تھا.انہوں نے پنجابی میں نعرہ مار کر کہا: ”واہ او بر ہانیا! تیری کی شان ائے کہ اے برھان الدین تیری بھی کیا شان ہے.اس پر ان لوگوں کے نے سمجھا کہ پاگل ہو گیا ہے.ہم اس کے منہ پر گو برمل رہے ہیں، ناک میں، آنکھوں میں گو بر ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ واہ برھان الدین! تیری بھی کیا شان ہے.کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ تو پاگل ہو گیا ہے.کیا بات کر رہا ہے؟ انہوں نے کہا: میں پاگل نہیں ہو گیا، تمہیں میرے دل کے حال کا پتہ نہیں.ایک زمانہ تھا کہ میں اسلام کی تاریخ پڑھا کرتا تھا.اس میں یہ واقعات پڑھتا تھا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت سختیاں کی گئیں، آپ کو بہت دکھ دیئے گئے ، آپ کے ماننے والوں کو گلیوں گھسیٹا گیا، پتے ہوئے صحراؤں میں ریت پر لٹایا گیا، جب کہ وہاں کا درجہ حرارت اتنا 554
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء بڑھ جاتا ہے کہ کوئی ننگے پاؤں کھڑا نہیں ہو سکتا تھا، وہاں زمین پر لٹا کر چھاتیوں پر پتھر رکھے گئے ، چلتی ہوئی بھٹیوں سے کوئلے نکال کر ان پر لٹایا گیا اور ان کے خون اور چھالوں سے کو ملے ٹھنڈے ہو گئے.گلیوں میں کتوں کی طرح پاؤں میں زنجیریں باندھ کر گھسیٹا گیا.وہ کہتے ہیں: جب میں یہ واقعات پڑھا کرتا تھا تو میرے دل سے یہ حسرت اٹھتی تھی کہ اے میرے خدا!! کاش میں بھی ہوتا تو میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیوانوں میں لکھا جاتا.کاش! میں بھی اس زمانے میں ہوتا تو مجھے بھی خدا کے نام پر یہ تکلیفیں دی جاتی.لیکن میرا کوئی بس نہیں چل رہا تھا.فاصلے بہت ہیں.کہاں مکہ مدینہ اور کہاں میں پنجاب کا ایک عام انسان ! کہاں تیرہ سو سال پہلے کے یہ ایمان افروز واقعات کہاں آج کی باتیں.میں کیسے پاسکوں؟ تو آج جب تم لوگوں نے مجھ سے یہ سلوک کیا تو میں نے درود بھیجا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کے اس عاشق صادق اور غلام کامل مرزا غلام احمد پر.اور میں نے کہا: واہ او بر ہانیا! تیری بھی کیا شان ہے.خدا نے تیرے دل کی حسرت پر محبت اور رحم کی نظر ڈالی اور تیری دعاؤں کو قبول کر لیا.مرزا غلام احمد قادیانی نے تجھے ان لوگوں سے ملا دیا ، جن سے ملنے کا تجھے کوئی چارہ نہیں تھا، کوئی بس نہیں تھا.پس میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ جب خدا کی طرف سے بچے آتے ہیں تو وہ پچھلوں کو اگلوں سے ملا دیا کرتے ہیں.اس میں نہ وقت کے فاصلے حائل ہوا کرتے ہیں، نہ کوئی دوسری رکاوٹیں پیدا ہوتیں ہیں.آپ بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں.آپ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی پیغام ہے کہ خدا کے نام پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں، خدا کے بچے بندے بن جائیں، پھر آپ دیکھیں گے کہ خدا فاصلوں کا بھی مالک ہے اور وقت کا بھی مالک ہے.پھر آپ کسی ہستی سے کسی جانب سے دور نہیں جائیں گے.خدا چاہے تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارتیں آپ کو کروائے.کبھی کشف میں کبھی خوابوں کے ذریعہ آپ کی تمناؤں کو اللہ ہر طرح سے پوری کر سکتا ہے.اس لیے جتنی دوری زیادہ ہے، اتنی ہی اپنی ذات کی فکر کریں.کوشش کریں کہ آپ خدا والے ہو جائیں ، اس کے بچے عبد بن جائیں.اگر آپ خدا والے بن گئے تو سارے نجی پر آپ کا احسان ہوگا.کیونکہ آج کے زمانہ میں خدا والے بہت کم ہیں.ملک کے ملک ویران پڑے ہیں.کروڑ با کروڑ کی آبادیاں ہیں لیکن روحانی لحاظ سے ویرانی کا عالم ہے.کوئی خدا والا کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا.دنیا والے بہت ہیں.دنیا کی عزتیں ہیں، بدمعاشیوں کے اڈے ہیں، گناہوں کے انتظام ہیں لیکن اگر آپ ڈھونڈ نے نکلیں تو آپ کو خدا والا کوئی نہیں ملے گا.555
خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اس لیے میں پھر کہتا ہوں کہ اگر آپ خدا والے بن جائیں تو سارے نبی کی تقدیر بدل جائے گی.نجی میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے، جن کے راستہ سے نجی والے اپنے اللہ کو پالیں گے.اس سے بڑا احسان اور کیا ہو سکتا ہے؟ پس اس ہمت کوشش اور یقین کے ساتھ کام کریں کہ مخلوق خدا کی ہدایت کی ساری ذمہ داری آپ پر ہے.ساری قوم آپ کی منتظر بیٹھی ہے، آپ کی راہ دیکھ رہی ہے کہ کب آپ ان کو ہدایت کی طرف بلائیں؟ اور کب آپ ان کی اصلاح کریں؟ کب آپ ان کو اللہ کا پیار عطا کریں؟ کب آپ انہیں رب سے ملادیں؟ کیونکہ انسانی زندگی کا یہی مقصد ہے.وہ جو خدا کو پالیتا ہے، کامیاب ہو جاتا ہے.ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ ہماری مدد کی جائے، مرکز سے کوئی تربیت یافتہ مبلغ بھجوایا جائے.لیکن ساتھ ہی بہت ہی ملائمت سے اور بڑی نرمی سے آپ کے علاقہ کے امیر صاحب نے فرمایا کہ ہم جانتے ہیں، مرکز کے پاس آدمی تھوڑے ہیں.یورپ، امریکہ، ایشیاء کے ممالک، مشرقی کمیونسٹ ممالک، افریقی ممالک، جنوبی امریکہ کے ممالک کہاں کہاں ہم مبلغ بھیج سکتے ہیں؟ غرض انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ہم خواہش تو یہ رکھتے ہیں لیکن ہم کوئی مطالبہ نہیں کرتے.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مرکز کے پاس آدمی بہت تھوڑے ہیں.لیکن میں ان کو بتاتا ہوں کہ نبی کے دورے میں، میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ انشاء اللہ یہاں مبلغوں کی تعداد بڑھائی جائے گی.اور انشاء اللہ آپ کے جزیرہ کو بھی ایک مبلغ دیا جائے گا.اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ نبی قوم ، بہت اچھی قوم ہے.یہاں کے بسنے والے نجیئن بھی اور دوسرے بھی بہت اچھے لوگ ہیں.میں نے ان کے اندر بڑی شرافت دیکھی ہے، ان کے اندرا بھی انسانیت زندہ ہے.اس لیے کہ یہ ایک دور دراز کے جزیرہ میں آباد ہیں.اس کا آپ کو ایک فائدہ بھی ہے.جو لوگ بڑے بڑے ملکوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، وہ بہت گندے ہو چکے ہیں، ان میں انسانیت کی قدیر یں زوال پذیر ہیں، وہ دن بدن (inhuman) ہوتے جارہے ہیں.ان کی زندگی مادہ پرستی کی خوگر ہو کر رہ گئی ہے.ان میں حوصلے کم اور نفرتیں زیادہ ہیں.ان میں کئی قسم کی (terrorism) دہشت پسندانہ تحریکیں چل رہی ہیں، جنہوں نے ملکوں کے ملک تباہ کر رکھے ہیں.مذہب کو مذہب سے لڑایا جا رہا ہے، قوم کو قوم سے لڑایا جا رہا ہے، غریب کو امیر سے اور امیر کو غریب سے لڑایا جارہا ہے.دنیا میں ہر طرف فساد پھیل گیا ہے.اللہ کا آپ پر یہ احسان ہے کہ آپ اس گندی دنیا سے دور ہیں.اس کا آپ کو فائدہ یہ ہے کہ آپ کی قوم میں ابھی تک نیکی کا اثر باقی ہے.میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ کے دلوں میں انسانیت کا اچھا خاصا جذ بہ موجود ہے.اس لیے میں نے سوچا کہ جہاں زمین زرخیز ہو، انسان اپنی کوششوں کا رخ اسی 556
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد + خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء طرف موڑ دیا کرتا ہے.آپ کی زمین مذہبی اور روحانی لحاظ سے مجھے زرخیز نظر آرہی ہے.جس زمین میں چیزیں جلدی اگنے لگ جائیں، جہاں زیادہ کوشش کیے بغیر جلدی درخت اور بیج اگنے شروع ہو جائیں ، اس کو زرخیز زمین کہتے ہیں.اور پھر آسمان سے پانی کا بھی انتظام ہو، وہاں تھوڑی محنت کے بھی بہت اچھے نتیجے نکلتے ہیں.اس لیے میں سمجھتا ہوں، میرا نبی آنا، میرے لیے بہت مفید ثابت ہوا ہے.کیونکہ یہاں کہ جائزہ نے مجھے تبلیغ اسلام کی مہم کو تیز سے تیز تر کرنے کے لیے کئی نئی باتیں سمجھا ئیں ہیں، جن کے متعلق دور مرکز میں بیٹھ کر مجھے خیال بھی نہیں آسکتا تھا.پس آپ کو انشاء اللہ تعالیٰ مبلغ بھی دیا جائے گا اور آپ کی تربیت کے لیے بعض اور کوششیں بھی کی جائیں گی تاکہ مرکز سے دوری کا احساس کم ہو اور یہاں بیٹھ کر آپ اچھی تربیت حاصل کر سکیں.مثلاً ایک تجویز ہے کہ میں آپ کو مختلف موضوعات پر چھوٹے چھوٹے جلسوں کے پروگرام کیسٹ کر کے بھجوا دوں.ہر کیسٹ کے شروع میں کسی اچھی آواز میں قرآن کریم کی صحیح تلفظ کے ساتھ تلاوت کروائی گئی ہو اور پھر اس کا ترجمہ بھی کیا گیا ہو.تا کہ آپ لوگ اور آپ کے بچے اور عورتیں سب اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کو اچھی آواز میں سنیں اور اس کا ترجمہ بھی سنیں اور خوب یاد کریں.پھر اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی نظم بھی اچھی آواز میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی تشریح کی گئی ہو.وہ آپ کو سنائی جائے تا کہ آپ لوگ جن کی اردو اچھی نہیں ، ان کو آہستہ آہستہ یاد ہو جائے.اس کے بعد مختلف مضمونوں پر چھوٹی چھوٹی تقریریں ہوں گی.مثلاً حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ پر کہ حضور ا کرم مقام کیا تھا؟ آپ کے اخلاق کیا تھے؟ آپ کیا پیغام لے کر آئے تھے؟ کیوں دنیا میں آپ کی مخالفت کی گئی ؟ کس طرح خدا نے آپ کو کامیاب فرمایا ؟ اس موضوع پر آپ کو ایک نہیں، دو نہیں، بہت سی چھوٹی چھوٹی تقریروں کی ضرورت ہوگی.تا کہ آپ کو آہستہ آہستہ اپنے پیارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سن کر ان سے سچی محبت پیدا ہو جائے، ذاتی تعلق پیدا ہو جائے.صرف نام کی محبت نہ رہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کے واقعات بڑے اچھے طریقے سے بیان کیے جائیں.پھر آگے چل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف ، آپ کے خلفاء اور جانثاروں کی باتیں ہوں.یہ ایک مضمون ہے.پھر اختلافی مسائل سے متعلق باتیں ہوں.جماعت احمدیہ کا عقیدہ کیا ہے؟ کیا اختلاف ہے؟ ہمارے پاس دلیل کیا ہے؟ اس موضوع پر تو بہت سی ٹپس TAPS تیار ہیں، وہ تو انشاء اللہ تعالیٰ جلدی بھجوائی جاسکتی ہیں.پھر یہ بتایا جائے کہ نماز صحیح پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟ آمین کس طرح کہنی ہے؟ اونچی آواز میں یا آہستہ؟ اگر 557
خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اونچی کہنی ہے تو کتنے زور سے کہنی ہے؟ ربنا و لک الحمد کس طرح پڑھنا چاہئے؟ نماز کا تلفظ کیا ہے؟ نماز کا ترجمہ کیا ہے؟ نماز کے مسائل کیا ہیں؟ وضو کیسے کرنا ہے؟ اور چھوٹے موٹے مسائل ہیں، جو انسان کو معلوم ہونے چاہئیں، وہ بیان کیے جائیں.مثلاً جنازہ وغیرہ کے مسائل کیا ہیں؟ غلط رسمیں کیا چل پڑی ہیں، جن کو آپ نے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے؟ اس قسم کے بہت سے چھوٹے چھوٹے لیکچر ٹیپ کروا کر آپ کو دیئے جائیں گے.ہر شخص کے پاس تو کیسٹ ریکارڈ نہیں ہوتا.لیکن آپ کے لیے وہ جلسوں کے پروگرام ہوں تو گے.جلسہ نمبر 1، جلسہ نمبر 2 ، جلسہ نمبر 3.اس طرح دس یا پندرہ یا ہمیں جلسے آپ کو مل جائیں گے.کسی مبلغ کی ضرورت نہیں رہے گی.ایک چھوٹا سا کیسٹ ریکارڈ آپ لے لیں اور لوگوں کو اکٹھا کریں کہ آؤ تمہیں جلسہ سناتے ہیں.اس میں تلاوت قرآن کریم بھی آجائے گی نظم بھی آجائے گی ، آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی سیرت بھی آجائے گی.پھر جب آپ مضمون بدلنا چاہیں اور اپنے دوستوں کو اپنے بارہ میں متعارف کرنا چاہیں تو آپ کہیں آؤ جی جلسہ ہے، ہمارے متعلق معلوم کریں.ہم کیا کہتے ہیں؟ اس طرح میرا خیال ہے انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو بہت مدد ملے گی.مبلغ بھی ضرور دیں گے، اس کی تو بہر حال ضرورت ہے.لیکن یہ ٹپس بھی آپ کو بہت فائدہ دیں گی.اسی طرح پھر ان ٹیسٹس میں آپ کو یہ بھی بتایا جائے گا، جماعت میں چندہ کیا ہوتا ہے؟ کیوں دیا جاتا ہے؟ کس کام آرہا ہے؟ کتنا دینا چاہیے؟ چندہ کی روح کیا ہے؟ پھر اس موضوع پر گفتگو ہوگی کہ نظام جماعت کیا ہے؟ خلیفة المسیح کون ہوتا ہے؟ اس کو کس طرح منتخب کیا جاتا ہے؟ خدا تعالیٰ کا انتخاب ہے یا بندوں کا چناؤ ہے؟ سلسلہ کا مرکزی نظام کیا ہے؟ انجمنیں کون کون سی ہیں؟ خدام الاحمدیہ کے کیا کام ہیں؟ انصار اللہ کے کیا کام ہیں؟ آپ جتنا غور کرتے چلے جائیں، اتنا ہی آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ بہت بڑا مضمون ہے، جو کئی شاخوں میں پھیل جاتا ہے.باوجود اس کے کہ ٹیپس ایک لحاظ سے مبلغ کی ضرورت کو پورا جاتا نہیں کر سکتیں.لیکن ایک لحاظ سے مبلغ سے زیادہ کام بھی کر سکتی ہیں.کیونکہ مبلغین کا دماغ ہر وقت ہر طرف نہیں رہتا.کچھ دیر کے بعد وہ آہستہ آہستہ ایک رٹ پر چل پڑتے ہیں.لیکن جب ہر قسم کے مضمون پر ٹیپس TAPS آپ کے پاس ہوں گی، اس میں آپ کو بتایا جائے گا، وقار عمل کس طرح کرنا ہے؟ خدمت خلق کس طرح کرنی ہے؟ بچوں کی تربیت کس طرح کرنی ہے؟ اچھی ماؤں کا کیا فرض ہے؟ عورتوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ تو بہت بڑے اور عمدہ مضمون آپ کے ہاتھ آجائیں گے.اس سے پھر مبلغ کے لئے بھی آسانی پیدا ہو جائے گی اور پریزیڈنٹوں کے لئے بھی.جب بھی وہ کوئی خرابی یا کمزوری دیکھیں گے، 558
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 21 ستمبر 1983ء دوستوں کو بلا کر متعلقہ ٹیپ سنادیں گے.اور چونکہ یہ ٹپس مرکزی مبلغین اور علماء کی تیار کردہ ہوں گی، اس لئے بڑا اثر کرنے والی ہوں گی.ان کے اندر یقینی معلومات ہوں گی.اس سے آپ کی اردو زبان بھی اچھی ہوگی انشاء اللہ.اور رفتہ رفتہ ان کوسن کر آپ کے اندر اسلام کی تبلیغ کا جذبہ بھی بڑھے گا.اور یہ ٹپس آپ کو یہ بھی بتا ئیں گی کہ اسلام کا پیغام کیا ہے؟ اور اسے کس طرح دوسروں تک پہنچانا ہے؟“ اس موقع پر حضور نے محترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید سے دریافت فرمایا کہ وہ کتنی دیر میں یہ ٹپس ان کو بھجوا دیں گے، دو مہینے میں، تین مہینے میں ؟ محترم چوہدری صاحب نے عرض کیا: انشاء اللہ تین، چار مہینے کے اندر اندر مکمل سیٹ بھجوا دیا جائے گا.) حضور نے فرمایا:.55 ، چوہدری صاحب تحریک جدید کے وکیل ہیں، میرے ساتھ سفر کر رہے ہیں.دنیا کے ملک ملک میں تبلیغ اسلام کا کام، جس انجمن کے ماتحت ہو رہا ہے، یہ اس کے افسر اعلیٰ ہیں.ان سے میں نے یہ کہا ہے.ان کی ذمہ داری ہے، جو بات میں بیرونی ممالک کے لئے تجویز کروں، اس پر عمل کر کے دکھا ئیں.چوہدری صاحب فرما رہے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ چار ماہ کے اندر اندر آپ کی جماعت تک وہ TAPS ٹپس پہنچ جائیں گی.ایک مہینے میں پہنچنی شروع ہو جائیں گی اور چار مہینے میں یہ پروگرام مکمل کر لیں گے.پھر منی کی مرکزی جماعت کا کام ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ ہر احمدی تک اس کے ذریعہ آواز پہنچتی ہے یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو ایک فوری فائدہ تو یہ پہنچنا شروع ہو جائے گا.پھر مبلغ بھی انشاء اللہ آئیں گے.مبلغین میں سے ہم آپ کو ایسے مبلغ بھی دیں گے، جن کو دیکھ کر بھی قوم یہ سمجھے کہ یہ ان میں سے ہیں.اگر چہ بعض تحقیق کرنے والوں کے نزدیک محین قوم اصل افریقی بلڈ (BLOOD) ہے لیکن بعض کہتے ہیں کہ نہیں ہے، یہ پولی نمیشن بلڈ (POLYNESIAN BLOOD) ہے.تا ہم محبین کا رنگ افریقین سے ملتا ہے.اگر چہ افریقین کا رنگ فیمین کے رنگ سے نسبتا زیادہ کالا ہوتا ہے.لیکن بہر حال رنگت، گھنگریاے بال اور مضبوط جسم اور طرز افریقتوں سے کچھ قریب ہے، البتہ رنگ کا فرق ہے.فحسین کا رنگ زیادہ اچھا ہے، افریقن کا ذرا زیادہ گہرا ہوتا ہے.لیکن اگر کوئی ایسا مبلغ ہو، جو افریقن جیسا ہو تو وہ ان کو ایشین کی نسبت زیادہ قریب نظر آئے گا.اس لئے اگر ہم کوئی افریقن یہاں بھیج سکیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ سمجھیں کہ ہمارا بھائی آگیا ہے، جو ہمارے زیادہ قریب ہے اور اس کی بات زیادہ محبت سے سنیں.پس آپ کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بہر حال توجہ کی جائے گی ، آپ مطمئن رہیں.مطبوعه روز نامه الفضل یکم فروری 1984ء) 559
تحریک جدید- ایک الہی تحریک خطبه جمعه فرمودہ 30 ستمبر 1983ء اسلام کی جو آزادی ہے، وہ دراصل اللہ کی غلامی میں ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:."آج کا دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اور آسٹریلیا کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا دن ہے.کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل کرتے ہوئے ، آج انشاء اللہ تعالیٰ یہاں پہلی احمد یہ مسجد اور احمد یہ مشن ہاؤس کی بنیاد رکھیں گے.یہ دن جہاں بے حد برکتوں کا حامل دن ہے، اللہ تعالیٰ کے بہت سے فضل اس دن نازل ہوں گے ، ان کے اثرات خدا تعالیٰ کے فضل ہی کے ساتھ بہت دیر تک ہم دیکھتے رہیں گے، وہاں اس کے ساتھ ہی یہ دن بہت سی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے.خصوصیت کے ساتھ وہ احمدی، جو آسٹریلیا کو اپناوطن بنا چکے ہیں، ان پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں.ان کو قبول کرنے کے لئے آسٹریلین احمدی دوستوں کو پوری طرح تیار ہو جانا چاہئے.آسٹریلیا ایک ایسا ملک ہے، جس میں دہریت اور مادہ پرستی یورپ کے بہت سے دوسرے ملکوں سے بھی زیادہ ہے.شاید مشرق میں رہتے ہوئے یہاں کے لوگوں میں یہ احساس کمتری پیدا ہو گیا کہ جب تک ہم دنیا پرستی میں سب سے آگے نہیں نکلیں گے، اس وقت تک اس غلط فہمی سے بچ نہیں سکتے کہ ہم مشرقی لوگ نہیں.اس لئے ہر وہ قدر، جو انسان کو خدا سے دور لے جاتی ہے، ہر وہ رجحان، جس سے روحانیت کا انکار ہوتا ہے، وہ اس قوم میں پایا جاتا ہے.یہاں آنے سے پہلے مجھے اس کا اتنا گہرائی کے ساتھ اندازہ نہیں تھا، جتنا اب ہوا ہے.چنانچہ یہاں آکر ان کا معاشرہ دیکھا، ان سے گفتگو کا موقع ملا تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی سوائے سکنڈے نیوین میں سے بعض ملکوں کے، اتنی زیادہ دہریت اور مادہ پرستی نہیں پائی جاتی.اس ملک میں جو احمدی موجود ہیں، ان کی بھی کسمپرسی کی حالت ہے.مرکز سے دوری ، احمد یہ مشن کا نہ ہونا اور تعداد کی کمی، یہ سارے ایسے محرکات ہیں، جنہوں نے ان پر بداثر ڈالا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں ایسے مخلصین موجود ہیں، مرد بھی اور عورتیں بھی، 561
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم جنہوں نے یہ عزم کر رکھا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس معاشرہ پر غالب آئیں گے اور ان کے کردار میں خدا تعالیٰ کے فضل سے زندگی کے آثار نظر آتے ہیں.لیکن بالعموم یہ کہنا درست ہے کہ جماعت کو اس ملک میں جس شان کے ساتھ دیکھنے کی میں توقع رکھتا ہوں، وہ پوری نہیں ہوئی.امر واقعہ یہ ہے کہ ان حالات میں دو قسم کے ہی رد عمل ہو سکتے تھے اور ہو سکتے ہیں.ایک رد عمل ہے، حد سے زیادہ دہر بیت اور مادہ پرستی کے سمندر میں ڈوب کر اس سے مرعوب ہو جانے کا.اور رفتہ رفتہ ان قدروں سے دور چلے جانے کا، جن کو لے کر ہم اپنے ملکوں میں یہاں آئے تھے.اور دوسرار عمل ہے، اس کے مقابل پر اور زیادہ بختی اختیار کرنے کا، بے چینی محسوس کرنے کا، فکر محسوس کرنے کا اور وہ رستے تلاش کرنے کا ، جن پر چل کر ہم ان کے بداثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں.یہ دوسرار عمل ، جس قوت کے ساتھ نظر آنا چاہئے تھا، اس قوت سے یہاں نظر نہیں آ رہا.امر واقعہ یہ ہے کہ قانون قدرت کو بھلا کر دنیا کی کوئی قوم بھی درحقیقت زندہ نہیں رہ سکتی.قانون قدرت کو نظر انداز کر کے دنیا کی کوئی چیز بھی غالب آنے کا دعوی ہی نہیں کر سکتی، کجا یہ کہ وہ زندہ رہ سکے.انسانوں کی زندگی کو دیکھئے یا حیوانوں کی زندگی کو دیکھئے ، وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں اور ہمیشہ دو طرح سے متاثر ہوتے ہیں.بعض حیوانات کو مخالف حالات مٹادیتے ہیں اور نابود کر دیتے ہیں، بعض حیوانات میں ایک ردعمل پیدا ہوتا ہے اور وہ ان حالات پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں اور قانون قدرت انہیں وہ نئے وسائل عطا کر دیتا ہے، نئے ذرائع انہیں میسر آ جاتے ہیں، جن سے وہ پیش آمدہ حالات کا بہتر رنگ میں مقابلہ کر سکتے ہیں.یہی ہے خلاصہ، اس سارے انسانی یا حیوانی ارتقا کا، جس میں زندگی کی موت کے ساتھ ایک مسلسل جد و جہد نظر آتی ہے.اور دوہی طرح کے رد عمل ظاہر ہوتے ہیں، تیسرار عمل ہمیں کوئی نظر نہیں آتا.یا تو یہ نظر آتا ہے کہ زندگی نے غیر معمولی کوشش کی اور موت پر غالب آگئی اور یا پھر زندگی موت کا شکار ہوگئی.اور یہی وہ دورد عمل ہیں، جو انسانی نظریات کی جنگ میں ہمیں نظر آتے ہیں.پس جب احمدی دوست اس دور دراز براعظم میں آئے اور یہاں رہنے کا فیصلہ کیا تو ان کوکھل کر یہ بات نظر آنی چاہئے تھی کہ اگر انہوں نے غیر معمولی جدو جہد کے بغیر یہاں رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو پھر اس بات پر بھی ان کو تیار ہو جانا چاہئے کہ وہ انگلی نسلوں کو اپنے ہاتھ سے کھو دیں گے اور رفتہ رفتہ اسی ماحول کا شکار ہو کر انہی لوگوں میں سے ہو کر رہ جائیں گے.یا اس کے برعکس انہیں عام حالات کی نسبت زیادہ ذمہ داری ، زیادہ کوشش اور زیادہ جد و جہد کے ساتھ زندہ رہنا ہوگا.گرمی کا موسم ہو تو انسان کا گزارہ عام کپڑوں 562
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء میں ہو جاتا ہے.گرمی کے موسم میں بغیر کپڑوں کے بھی انسان اپنے جسم کی حرارت کو محفوظ رکھ سکتا ہے بلکہ وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ یہ حرارت کسی اور ذریعہ سے جسم سے نکلنی شروع ہو جائے تاکہ گرمی کا احساس کم ہو.لیکن اگر آپ North Pole یا South Pole ( قطب شمالی یا قطب جنوبی) کے برفانی علاقوں میں چلے جائیں تو سنگے جسم کا تو سوال کیا، عام سردیوں کے موسم میں بھی جو کپڑے پہنے جاتے ہیں، وہ کافی نہیں ہوا کرتے.وہاں زندگی کی جدو جہد کے لئے کچھ مزید چیزوں کی تلاش کرنی پڑتی ہے.اندرونی طور پر گرمی پیدا کرنے کے لئے خاص غذاؤں کی ضرورت پڑتی ہے، بیرونی طور پر موسم سے حفاظت کے لئے غیر معمولی لباس کی ضروریات پڑتی ہے.میری مراد یہ ہے کہ موسم میں جتنی زیادہ خنکی پیدا ہو، اتنی جد و جہد بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے.اگر ایسا نہیں کریں گے تو پھر زندگی کی توقع لے کر بیٹھنا محض حماقت ہے.پس جتنا زیادہ دہریانہ ماحول ہو، جتنی زیادہ دنیا پرستی ہو، اتنا ہی احمدی کو کسی لباس کی تلاش کرنی چاہئے.اس لباس کے بغیر وہ اس ماحول کی موت کی سردی سے بچ نہیں سکتا.وہ کون سا لباس ہے، جو اس کو بچا سکتا ہے؟ قرآن کریم نے اس لباس کا نام لیا اور فرمایا:.وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ (الاعراف: 27) ایک ہی لباس ہے اور وہ تقویٰ کا لباس ہے، جو مادہ پرستی کے سردخانوں میں بھی آپ کو زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے.دنیا کے پردے پر آپ کہیں بھی چلے جائیں ، وہ آپ کی حفاظت کرے گا اور آپ کو دنیا کے ہر شر سے محفوظ رکھے گا.اور لباس التقویٰ ہی ہے، جو کبھی انسان کا لباس بنتا ہے اور کبھی اس کے لئے زادراہ بن جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اسی تقویٰ کو زاد راہ بنا کر بھی دکھایا اور فرمایا: تم تقویٰ کی زاد کو پکڑو.یہی زادراہ ہے، جو تمہارے کام آسکے گا.یہ تقویٰ ہی ہے، جو آپ کی حفاظت کے لئے اندرونی غذا کا کام بھی دیتا ہے اور آپ کی حفاظت کے لئے بیرونی لباس کا بھی.اور جتنا زیادہ ما حول مخالف ہو، اتناہی زیادہ تقویٰ کی تلاش ہونی چاہئے.یہ کیا چیز ہے؟ تقویٰ کس کو کہتے ہیں؟ تقویٰ کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان ہر فعل میں اور ہر سوچ میں اللہ کی طرف نگاہ ڈالنی سیکھ جائے اور یہ سوچنا شروع کرے کہ میں خدا کی خاطر زندہ ہوں.تقویٰ کا ایک معنی خوف بھی ہے.تقویٰ کا معنی ڈر بھی ہے.لیکن وہ ڈر نہیں جو کسی جانور یا سانپ یا بچھو سے ہوتا ہے.بلکہ تقویٰ ایسے خوف کو کہتے ہیں، جو محبت کرنے والے کے پیار کو کھو دینے کا ڈر ہوتا ہے.ہمیشہ یہ خطرہ دامن گیر ہو کہ 563
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں کوئی ایسا فعل نہ کروں، میری سوچ کوئی ایسی راہ اختیار نہ کرے کہ جس سے میرا پیارا اور محبوب خدا مجھ سے ناراض ہو جائے ، اس کا نام تقویٰ ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ طرز فکر اختیار کرو گے تو دنیا کے پردہ پر جہاں بھی تم جاؤ گے، یہ طرز فکر تمہاری زندگی کی حفاظت کرے گی، تمہارا لباس بھی بن جائے گی، تمہاری خوراک بھی ہو جائے گی اور پھر تم کسی غیر اللہ کے شر سے خوف کھانے کی فکر میں مبتلا نہیں ہو سکتے کبھی غیر کے شر کے خوف میں مبتلا نہیں ہو سکتے.کیونکہ خدا کا خوف ہر دوسرے خوف پر غالب آ جاتا ہے تو گویا قرآن کریم کے نزدیک اگر تم چاہتے ہو کہ بے خوف زندگی بسر کرو تو صرف ایک راہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرو، اس کی رضا سے دور جانے سے ڈرو.اس پہلو پر میں کچھ مزید مختصری روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.منہ سے یہ کہہ دینا کہ تقویٰ خدا کی محبت کا نام ہے، تقویٰ خدا کی محبت کے کھو دینے کے ڈر کا نام ہے، انسان ہر وقت یہ خیال رکھے کہ میں اللہ کی راہ پر قائم رہوں اور خدا مجھ سے ناراض نہ ہو.یہ منہ سے کہہ دینا بظاہر آسان بات ہے لیکن عملی زندگی میں ہر روز اس قسم کے امتحانات پیش آتے ہیں کہ ہر انسان اگر ہوش کے ساتھ زندہ رہے تو وہ یہ محسوس کر سکتا ہے کہ میرا عقیدہ اور ہے اور میر اعمل اور ہے.میرا دعویٰ اور ہے اور وہ زندگی ، جو میں نے اختیار کر لی ہے، وہ اور ہے.ہر روز آپ کے لئے ایسے مواقع پیش آتے ہیں، مردوں کے لئے بھی اور عورتوں کے لئے بھی، جہاں آپ خدا کی محبت کے کھو دینے کی نسبت ان لوگوں کی محبت کے کھو دینے کے خوف سے مغلوب ہو جاتے ہیں، جن میں آپ رہ رہے ہوتے ہیں.ان ] کے تاثرات جو آپ کے متعلق ہوں گے، وہ آپ کی زندگی کے نقشے بنارہے ہوتے ہیں اور دماغ میں یہ ہوتا ہے کہ خدا کا تصور ہماری زندگی کا نقش بنا رہا ہے.آپ اپنے ماحول سے ڈرتے ہیں، اپنے ماحول کی باتوں سے خوف کھاتے ہیں، یہ ہمت نہیں پاتے کہ ماحول کے مخالف کوئی طرز زندگی اختیار کر سکیں اور سر اونچا کر کے ان لوگوں میں چل سکیں.ہمیشہ یہ خوف دامن گیر رہتا ہے، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی کہ اگر ہم نے یہ کیا تو یہ لوگ کیا کہیں گے؟ ہمارے متعلق کیا سمجھیں گے ؟ اگر ہم نے اسلامی لباس پہنا تو ان کو کیا محسوس ہوگا ؟ اگر یہ لوگ ننگے پھر رہے ہوں اور ہماری عورتوں نے برقعے اوڑھ لئے تو یہ ہمارے متعلق کیا سمجھیں گے کہ کون سی بلائیں آگئی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ پہلا خوف ہے، جو تقویٰ کے مقابل پر انسانی زندگی میں راہ پاتا ہے اور مذہبی معاشروں کو تباہ کر دیا کرتا ہے.جس طرح ایک تقومی خدا کا خوف ہے، اسی طرح ایک تقویٰ دنیا کا خوف بھی ہوا کرتا ہے.اور ان دونوں کے درمیان وہ جنگ ہے، جو ہمیشہ جاری رہتی ہے اور ہمیشہ جاری 564
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء رہے گی.تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اللہ کی رضا کھو دینے کا خوف بہر حال ہماری زندگی پر غالب رہے گا.یہ وہ لوگ ہیں، جو دنیا کے خوف سے بچائے جاتے ہیں.اور کچھ وہ لوگ ہیں، جن پر دنیا کی رضا کھو دینے کا خوف ہمیشہ غالب رہتا ہے.وہ بظاہر نیک بھی ہوں، بظاہر نمازیں پڑھنے والے بھی ہوں، بظاہر اعمال میں بڑے صاف دکھائی دیں اور لوگ ان پر اعتراض نہ کرسکیں لیکن عملاً وہ بازی ہار چکے ہوتے ہیں.کیونکہ اصل لڑائی نظریات کی دنیا میں ہوا کرتی ہے.پس یہ دو قسم کے خوف ہیں، جن کے درمیان جد و جہد ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی.وہی آزاد مرد ہے، جو دنیا کے خوف سے آزاد ہوتا ہے.جو دنیا کے خوف سے آزاد نہیں ہوتا ، وہ ہر گز آزاد نہیں.اس نے آج نہیں تو کل لازماً دنیا کی غلامی اختیار کرنی ہے.اس لئے میں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے نفسوں کو دنیا کی آلائشوں سے آزاد کریں اور اپنے دلوں میں خدا کا خوف پیدا کریں اور خدا کے خوف کو اپنے او پر غالب کر لیں.اللہ کے پیار اور محبت کو اس طرح اپنی غذا اور اوڑھنا بچھونا بنالیں کہ غیر اللہ اس میں داخل نہ ہو سکیں.اسی کا نام تقویٰ ہے، اسی کا نام تو حید ہے، اسی کا نام زندگی ہے، اسی کا نام انسانی ضمیر کی آزادی ہے.گو اسلامی اصطلاحوں میں ان چیزوں کے مختلف نام ہیں لیکن حقیقت ایک ہی رہتی ہے.پس احمدیوں کے لئے بہت ہی اہم اور بنیادی حقیقت یہ ہے کہ وہ اس دنیا کے رعب سے آزاد ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لئے جو دعائیں کیں، ان میں ایک چھوٹے سے مصرعے میں بہت ہی پیاری بات فرمائی.آپ نے فرمایا:.نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال کہ اے خدا! میں یہ دعا کرتا ہوں کہ ان کے گھروں میں دجال کا رعب داخل نہ ہو.کیونکہ ہمیشہ قو میں رعب سے مارکھا جایا کرتی ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے فتح کا نسخہ عطا فر مایا.اس میں یہی رعب کا لفظ استعمال فرمایا.فرمایا: نصرت بالرعب کہ اے مسیح ! تو دنیا میں یہ اعلان کر سکتا ہے کہ مجھے بھی ایک رعب عطا کیا گیا ہے اور میں اس رعب کے ذریعہ سے دنیا پر غالب آؤں گا.پس احمدی اگر اپنے معاشرہ میں اپنا رعب نہیں رکھتے ، اگر ان کو یہ یقین نہیں ہے کہ ہم ایک زندہ معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو دنیا پر غالب آنے والا ہے، اگر وہ پوری طرح پر اعتماد نہیں ہیں کہ جن 565
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک قدروں کو لے کر ہم چل رہے ہیں، یہ اچھی اور بہتر قدریں ہیں اور دنیا کی قدروں سے بہت بالا ہیں تو اگر وہ یہ نہیں کر سکتے تو وہیں وہ بازی ہار دیتے ہیں.پھر لاشے پھرتے ہیں اور خالی جسم نظر آتے ہیں.آج نہیں تو کل دن بدن ان پر موت کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے.اس لئے اس بات کی طرف میں بار بار توجہ دلاتا ہوں کہ آپ اپنے نفسوں کی فکر کریں، اپنی طرز فکر کی فکر کریں.یہ ایک لمحہ آپ کی زندگی کے فیصلہ کو زندوں میں بھی داخل کر سکتا ہے اور غلط فیصلہ کے نتیجہ میں مردوں میں بھی داخل کر سکتا ہے.آپ کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم کس کی خاطر جنیں گے؟ کیا ہم اس بات کی خاطر جئیں گے کہ ہمارا خدا ہم سے راضی رہے؟ یا اس بات کی خاطر جئیں گے کہ جہاں ہم جائیں، وہاں کے لوگ ہم سے راضی رہیں؟ اس دوسری قسم کی سوچ کے لوگ تو پھر بہروپئے بن جاتے ہیں.جہاں گئے ، وہیں کے ہو کر رہ گئے.جس قوم میں داخل ہوئے ، ویسے بن گئے.جب یہ لوگ واپس اپنے معاشرہ میں آتے ہیں تو رفتہ رفتہ نیک بھی نظر آنے لگ جاتے ہیں، ان کے رنگ بدلتے ہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کہیں کے بھی نہیں ہوتے.کیونکہ ان کے اندر ایک بنیادی کمزوری ہوتی ہے، ان کے اندر کوئی کردار نہیں ہوتا.وہ ایسے ماحول میں جائیں گے، جہاں قدامت پرستی ہے تو قدامت پرست بھی بن جائیں گے.کسی دوسرے ماحول میں جائیں تو ویسے بن جائیں گے.اور یہ طرز زندگی جو بغیر کردار کے ہوتی ہے اور بغیر عظمت کے ہوتی ہے، اسلامی اصطلاح میں منافقت کہلاتی ہے.لَا إلَى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلَى هَؤُلَاءِ نہ وہ ادھر کے رہتے ہیں اور نہ وہ ادھر کے رہتے ہیں.وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا أَمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيْطينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُونَ دلا (بقرة:15) جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں یا ان کے معاشرہ میں چلے جاتے ہیں، جو ایمان لانے والے ہیں تو کہتے ہیں، دیکھو! ہم تو ایمان لانے والے ہیں.وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيْطِينِهِمْ جب وہ اپنے شیاطین کی طرف جاتے ہیں، جو ان کے دلوں میں برے خیالات ڈالتے اور بد اعمالیوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو تمہارے رنگ میں رنگے 566
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء ہوئے ہیں ، تم خواہ مخواہ ہمیں قدامت پسند سمجھ رہے ہو اور پرانے زمانوں کے لوگ کہہ رہے ہو ، ہم میں اور تم میں تو کوئی فرق نہیں.یہ وہ روح ہے، جس کا قرآن کریم نے کھلا کھلا تجزیہ کیا ہے.کیسی عظیم کتاب ہے کہ جس کی نظر سے کوئی باریک سے باریک روحانی بیماری بھی چھپی ہوئی نہیں.اور پھر ان کا علاج بتاتی ہے.اور اس کا علاج صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کرو.مذہبی بیماریوں کا اس کے سوا اور کوئی علاج نہیں.یہ ہر علاج کا مرکزی نقطہ ہے.زندگی کے چشمہ سے تعلق پیدا نہیں ہوگا تو بیماریوں کا مقابلہ کیسے ہو سکے گا؟ تو انائی کیسے آئے گی؟ اس لئے اللہ سے تعلق ہے، جو دراصل آپ کا علاج ہے.اللہ تعالیٰ سے پیار اور ایسا ذاتی اور - قطعی تعلق پیدا کیا جائے کہ جس کے مقابل پر دنیا بالکل حقیر اور بے معنی اور بے حقیقت نظر آنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب کے دل میں اللہ کا وہ پیار تھا اور پھر ساتھ عظمت کردار بھی تھی.وہ لباس پہنا کرتے تھے.ہر قسم کا لباس پہن لیتے تھے.لیکن لباس ان کا غلام رہتا تھا ، وہ لباس کے کبھی غلام نہیں بنے.کھانے اچھے بھی کھاتے تھے، اچھی جگہوں پر بھی رہتے تھے لیکن ہمیشہ ان چیزوں سے آزادر ہے اور وہ چیزیں ان کی غلام بنی رہیں.اس لئے کہ خدا کے تعلق اور محبت نے ان کو ان چیزوں سے بے نیاز کر دیا تھا.وہ انگلستان بھی پہنچے تو وہاں بھی آزاد مردوں کی طرح پہنچے.حقیقت یہ ہے کہ نقال قومیں دراصل زندہ رہا ہی نہیں کرتیں.ان کی زندگی کی حقیقت کوئی نہیں، یوں ہی دکھاوا ہے.اور آزاد قو میں دنیا کی چیزوں اور اس کے ماحول سے بے نیاز ہو کر زندہ رہا کرتی ہیں.پس وہ رعب، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہام میں بیان کیا تھا، وہ آپ کے اصحاب کو عطا ہوا تھا.ان سے لوگ راہیں پکڑتے تھے، وہ لوگوں کی راہیں نہیں پکڑا کرتے تھے.جس پر دنیا کا رعب آجائے ، اس کا نقشہ الٹ جاتا ہے.چنانچہ یہ باتیں، جن کے متعلق پسماندہ قو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتیں کہ ہم یہ طرز اختیار کر سکتے ہیں لیکن جب وہ لوگ جن کا ان پر رعب ہے ، وہ طرزیں اختیار کرتے ہیں تو پسماندہ قومیں ان کے رنگ میں رنگین ہو جاتی ہیں.مثلاً ایک زمانہ تھا، جب ہمارے معاشرہ میں ٹنڈ کروانا یعنی استرے سے اچھی طرح سرمنڈوا دینا، ایک بہت ہی بے ہودہ چیز سمجھا جاتا تھا.اور جب قدامت پرست ماں باپ بعض دفعہ زبردستی اپنے بچوں کے سروں پر استرے پھر وادیا کرتے تھے تو بچے رویا کرتے تھے اور شرم کے مارے رومال باندھ کر پھرتے تھے.اس لئے کہ ان کا دل کہتا تھا کہ ایک بے ہودہ چیز ہے.لیکن جب آزاد قوموں میں سے بعض نے اپنے سر مونڈے اور ٹنڈ کروا 1 567
خطبہ جمعہ فرمود 300 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کر باہر نکلے تو یہی لوگ جو پہلے شرمایا کرتے تھے ، انہوں نے ان کی پیروی کرنی شروع کر دی.اور اپنے معاشرہ میں اسی طرح سر منڈوا کر پھرنے لگے کہ اب یہ فخر کی بات ہے.ایک طرف ایک آزاد قوم ہے جس کا رعب ہے.دوسری طرف ایک غلام ذہنیت ہے، جو اس رعب کے تابع ہے.اور چپ کر کے اسے اختیار کرتی چلی جاتی ہے.کسی زمانہ میں کوئی آدمی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ حلیہ بنا کر ہپیز (Hippies) کی طرح کوئی انسان اپنی سوسائٹی میں پھرے.بلکہ جس زمانہ میں انگریز قوم ایک خاص لباس پر غیر معمولی توجہ دیا کرتی تھی، یعنی اکڑے ہوئے کالر اور خاص قسم کی ٹائیاں اور خاص قسم کے ہیٹس (Hats) تو یہ وہ لوگ ہیں، جو اس زمانہ میں اس سے کم لباس کو جہالت سمجھتے تھے اور اپنی قوم کو حقارت سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے ، بھلا یہ بھی کوئی لوگ ہیں، جو دنیا میں بس رہے ہیں اور شلوار میں پہنی ہوئی ہیں بیوقوفوں کی طرح اور چونے پہنے ہوئے ہیں اور احمقانہ زندگی بسر کر رہے ہیں.پگڑی کا تو تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.لیکن جب مغربی قوموں نے یہ باتیں شروع کیں تو انہوں نے حد سے زیادہ بے ہودہ اور لغو لباس اختیار کر لیا اور یہ ان کے لئے فخر کا نشان بن گیا.انہوں نے آزادی سے یہ کیا ہے، وہ غلام نہیں تھے.ان کی آزادی نے ایک غلط راستہ اختیار کر لیا.انہوں نے آزادی کا مطلب یہ سمجھا کہ اب ہم آزاد ہیں، دنیا جہان کی ہر بیت اختیار کرنے پر اور ہر گندگی اختیار کرنے پر.اور ان کی آزادی جب اس راستے پر چلی تو غلام لوگوں نے ان کی پیروی ان راستوں پر بھی شروع کر دی.پس حقیقت یہ ہے کہ دو نظریات کی جنگ ہے.اس کو سمجھنا پڑے گا.یا وہ رعب ہے، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمایا اور آپ کو ایک ایسا معاشرہ بخشا، جو دنیا کے رعب سے بے نیاز کر دیتا ہے.اور یا وہ دنیا کا رعب ہے، جو جہاں چاہے گا، آپ کو لئے پھرے گا.کوئی اس میں مقام نہیں ہے، کوئی اس کی منزل نہیں ہے، کوئی رخ معین نہیں ہے، جس طرف وہ آزاد تو میں اپنے دماغ کے پھرنے کے نتیجہ میں پھر جانے کا فیصلہ کریں گی، آپ لوگ ان کے پیچھے پیچھے پھریں گے.اور اس وقت وہ معاشرہ ایسی گندگی میں داخل ہو چکا ہے کہ سوائے دکھوں کے اس کا اور کوئی انجام نہیں رہا.ان قوموں میں اندرونی طور پر بڑی تیزی سے یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہماری کوئی زندگی نہیں.لذتوں کی تلاش ان کو ایسی بھیانک جگہوں پر لے جاچکی ہے کہ وہاں لذتوں کی بجائے گندگی ہے.اور اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا.مغربی قوموں نے اس آزادی کے نتیجہ میں لذت یابی کے ایسے ایسے خوفناک طریق سیکھتے ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.مثلاً ایک Sadism ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک 568
تحریک جدید- ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء جانوروں کی طرح کسی کو مارو نہیں اور تقریباً ادھ موانہ کر دو، اس وقت تک نہ جنسی لذت اس میں پیدا سکتی ہے اور نہ اس میں پیدا ہو سکتی ہے.اب لذت یابی کا ایک یہ تصور ہے.کچھ دیر Sadism پر رہے، اب اس نے ایک اور شکل اختیار کرلی ہے کہ جب تک چھوٹے بچوں کو ہوس کا نشانہ نہ بناؤ، اس وقت تک تمہیں کوئی جنسی لذت حاصل نہیں ہوگی.چنانچہ امریکہ کے موجودہ اعداد و شمار کے مطابق وہاں کی آبادی کے 30 فیصد لوگ بچوں پر ظلم کرنے کی طرف مائل ہورہے ہیں.اور جو بچے ان کے مظالم کا شکار ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ کے لئے زندگی کی لذت کھو بیٹھتے ہیں.چنانچہ اس کے نتیجہ میں ان کے پاگل خانے بھر رہے ہیں، اعصابی مریض دن بدن بڑھتے جارہے ہیں، جرم بڑھتا جا رہا ہے.لیکن اندھی تقلید کرنے والے اس خیال سے کہ یہ ماڈرن قومیں ہیں، ان کے پیچھے پیچھے بھاگے چلے جارہے ہیں.لیکن جماعت احمدیہ کے افراد کوتو سراو نچا کر کے ان کو اپنی طرف بلانا ہے کہ ادھر آؤ، ہم تمہیں تہذیب سکھاتے ہیں.تم غلط راستے پر چل رہے ہو، تمہاری راہیں غلط ہیں، تم دنیا کے کیڑے بنتے چلے جا رہے ہو، تمہیں اس کا کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا.اب ظاہر ہے، اگر اس کی بجائے آپ خود ہی ان سے متاثر ہو جائیں، ان سے شرمانے لگ جائیں اور یہ خیال اپنے اوپر غالب کر لیں کہ دنیا ہمارے متعلق کیا کہے گی ؟ تو پھر تو آپ دنیا کا کوئی کام نہیں کر سکیں گے.اس لئے میں احباب جماعت سے یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنے اندر احساس برتری پیدا کریں اور اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کریں کہ اسلام کی جو آزادی ہے، وہ دراصل اللہ کی غلامی میں ہے.یہ ایک ایسا لفظ ہے، جو آزادی کے تصور کا خلاصہ پیش کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ آپ تفصیلی جائزہ لے کر دیکھ لیں، اس سے بہتر تعریف اور کوئی نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم میری غلامی اختیار کرو تو تمام جھوٹے خداؤں سے تم آزاد ہو جاؤ گے.یہ غلامی تمہیں ہر دوسرے جذبہ اور ہر دوسرے نظریہ سے آزادی عطا کرے گی.جب کہ خدا کی غلامی سے نکلنا نام ہے، ہر دوسری چیز کی غلامی کا.یہ ہیں وہ دو نظریات ، جن کی آپس میں جنگ جاری ہے.میں نے آپ کو اس کے متعلق مختصر آبتایا ہے.ورنہ گھنٹوں اس کی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ کس طرح خدا کی اطاعت کتنی ہی قسموں کی غلامیوں سے آزاد کرتی ہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکلنا، انسان کو دنیا کا غلام در غلام بناتا چلا جاتا ہے.وہ رسموں کا غلام بن جاتا ہے، معاشرہ کا غلام بن جاتا ہے، پیٹ کا غلام بن جاتا ہے، نفسانیت کا غلام بن جاتا ہے.غرضیکہ غلامی کے تصور کی کوئی ایسی بھیانک چیز نہیں ہے، جو اس میں نہ پائی جاتی ہو.اس لئے صرف نام رکھ لینا تو آزادی نہیں کہلاتی.اس میں کوئی 569
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک حقیقت ہونی چاہئے.اس وقت آپ کو دنیا میں جو آزاد قو میں نظر آ رہی ہیں، وہ صرف خدا اور خدا کے تصور سے آزاد ہوئی ہیں.یہی ایک ”آزادی“ ہے، جس نے ان کو دوسری چیزوں کا غلام بنا دیا ہے.اور اس غلامی میں وہ دن بدن زیادہ جکڑی جارہی ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ جن لوگوں نے ان کو آزاد کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے، وہ پہلے خود اپنی آزادی کی فکر کریں.اگر خدانخواستہ وہ خود ہی اپنے ہاتھوں میں رسم ورواج کی زنجیر پہن لیں گے اور ان کے پاؤں میں دنیاوی آلائشوں کی بیٹیاں چلی جائیں گی تو ان قوموں کو کس طرح زندہ کریں گے؟ اس لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت میں داخل ہوں اور اس سے پیار کریں اور اس سے سچا تعلق جوڑیں.اس کے نتیجہ میں پھر وہ چیز نصیب ہوتی ہے، جس کو بعض لوگ معجزہ کہتے ہیں.یعنی خدا کا تعلق انسان کی عملی زندگی میں الہی نصرت بن کر داخل ہو جاتا ہے اور وہ نصرت انسان کو خود بھی نظر آنے لگتی ہے.آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ ایک زندہ اور صاحب اقتدار ہستی میرے ساتھ ہے اور غیروں کو بھی وہ نصرت نظر آنے لگتی ہے.یہ وہ دوسرا حصہ ہے، اس مضمون کا ، جسے روحانیت کہتے ہیں.روحانیت کے بغیر آپ مادیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے.جب تک آپ اس یقین کے ساتھ زندہ نہیں رہتے کہ خدا میرے ساتھ ہے، وہ مجھ سے پیار کرتا ہے، خدا ایک صاحب اقتدار ہستی ہے، جو میرے لئے دنیا میں تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہے اور کرتی ہے، دنیا جو چاہے کرے لیکن خدا میری حفاظت فرمائے گا، اس وقت تک دنیا میں روحانی انقلاب بپا نہیں کیا جاسکتا.یہ وہ حقیقت ہے، جو انسان کے مقاصد کو واضح اور اس کی کامیابی کے سامان پیدا کیا کرتی ہے.اس کا پہلا قدم انسان کے اپنے نفس کی آزادی ہے.یعنی خدا کی غلامی میں آ جانا، پہلا قدم ہے.تقومی کی حفاظت کرنا یعنی اللہ کی یاد کو اپنا اوڑھنا بچھونا اور کھانا پینا سب کچھ بنا لیا جائے اور ہر چیز پر خدا تعالیٰ کو فضیلت دی جائے، یہ وہ چیزیں ہیں، جو بندہ خدا کے حضور پیش کرتا ہے.لیکن خدا ان چیزوں کو سمیٹ کر نہیں بیٹھ جاتا.خدا اپنے ان بندوں پر اپنی قدرتیں ظاہر کرتا ہے، ان سے محبت اور پیار کا سلوک فرماتا ہے، ان کو تقویت دیتا ہے، ان کو حو صلے بخشتا ہے، ان کی نگاہوں کو حقیقی آزادی عطا کرتا ہے.پھران کے لئے کوئی جھجک نہیں رہتی.وہ کوشش کر کے آزاد نہیں ہوتے بلکہ آزادی ان کی فطرت بن جاتی ہے.دنیا جن چیزوں کو بہت پسند کرتی ہے اور ان میں لذتیں ڈھونڈتی ہے، ان کو ان چیزوں میں حقارت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ، گندگی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا.ایسے انسانوں کے، جو باخدا ہو جائیں ، نظریئے بدل جاتے ہیں، معیار بدل جاتے ہیں، ان کی آنکھیں ، ان کے وقت، ہر چیز میں فرق پڑ جاتا ہے.570
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء چنانچہ ایسے لوگ، جب دنیا کی پیروی کرنے والوں کو دیکھتے ہیں تو کبھی ان کو وہم بھی نہیں آتا کہ پتہ نہیں ہم کیا چیز کھو بیٹھے ہیں؟ اور کیا ان کو حاصل ہو رہا ہے؟ ان کے لئے تو وہی مثال ہے، جس طرح مردار خور جانور کسی مردار پر بیٹھے ہوئے منہ مار رہے ہوں اور کوئی انسان پاس سے گزرے تو کیا بھی وہ یہ سوچے گا کہ اوہ میں کس نعمت سے محروم ہوں؟ یہ تو اپنی مرضی کے مطابق ہر چیز کھا رہا ہے، اس کی موجیں ہی موجیں ہیں، ہر گندگی سے بھی لذت پارہا ہے، مجھ بیچارے کو دیکھو میں محروم ہوں.جب تک خاص قسم کا کھانا نہ ہو، میں کھا نہیں سکتا.جب تک حفظان صحت کے اصول کا خیال نہ رکھوں ، اس وقت تک بچ نہیں سکتا.اور اس جانور کو دیکھو، کتنا خوش نصیب جانور ہے.کبھی آپ کو اس قسم کا خیال نہیں آئے گا.اس لئے کہ آپ کے معیار بدل چکے ہیں، آپ کے ذہن میں اگر خدا کا تصور موجود ہے.تو آپ خدا کا شکر کریں گے کہ مردار خور جانوروں کی طرح ہمیں نہیں بنایا.ان گندگیوں سے پاک کیا، ہمیں پاک غذا ئیں عطا فرمائیں، ہمارے مذاق اونچے کئے.پس اہل اللہ بھی جب دنیا داروں کو دیکھتے ہیں تو ان کا طبعی رد عمل بھی یہی ہوتا ہے.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو لذتیں عطا کرتا ہے، ان کے ساتھ رہتا ہے، ان کے لئے معجزے دکھاتا ہے.مجھے یاد آ گیا، کل ہی کی بات ہے، ایک دوست نے مجھ سے یہاں یہ سوال کیا تھا کہ معجزہ کیا ہوتا ہے؟ آپ نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی معجزہ دیکھا ہے؟ میں نے ان سے کہا تھا: ایک معجزہ نہیں، متعدد بلکہ بعض پہلوؤں سے ان گنت معجزے بھی کہہ سکتے ہیں، جو میں نے دیکھے ہیں.جماعتی معجزے بھی ہیں، گزشتہ خلفاء کے معجزے بھی ہیں، میری اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کے معجزانہ سلوک بھی ہیں.انہوں نے کہا: مجھے بھی کچھ بتا ئیں.چنانچہ میں نے ان سے کہا: بتانے کا یہاں سوال نہیں ، جب بھی جماعت میں کوئی ایسا موقع آئے گا، خطبات یا حسب حالات کچھ نہ کچھ انسان بیان کرتارہتا ہے.اور میں پہلے بھی بیان کرتا رہا ہوں.لیکن اب یہ جو خود ذکر چلا معجزہ کا اور خدا کی اطاعت کا تو مجھے خیال آیا کہ احباب کو ایک ایسا واقعہ بتاؤں، جس سے آپ کو اندازہ ہو کہ اطاعت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کس طرح انسان کو آزادیاں بخشتا ہے.اطاعت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ دوسری چیزوں کو انسان کا غلام بنادیتا ہے اور خدا کا یہ سلوک نظر آتا ہے.چنانچہ یہ جو اطاعت ہے، ضروری نہیں کہ براہ راست اللہ کی اطاعت ہو.یہ اطاعت بعض دفعہ خدا کے مقرر کردہ خلفا کی یا ان کے مقرر کردہ امراء کی اطاعت ہوتی ہے.بعض دفعہ ان امراء کے مقرر کردہ چھوٹے چھوٹے عہد یداروں کی اطاعت ہوتی ہے.یہ بھی اللہ کی اطاعت بن جاتی ہے.اس لئے جب میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ اطاعت کرنا سیکھیں اور خدا کی اطاعت کرنا سیکھیں تو مراد صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ 571
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو فرمایا ہے، وہی اطاعت ہے.خدا تعالیٰ کے نظام کو چلانے کے لئے جو بھی خدا کی طرف سے مقرر ہوتا ہے، اس کی اطاعت بھی خدا کی اطاعت بن جاتی ہے.اس کے مقرر کردہ عہد یداران کی اطاعت بھی خدا کی اطاعت بن جاتی ہے.اور یہ مضمون آگے تک چلتا ہے، یہاں تک کہ بعض لوگ تکبر سے یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ تو چھوٹا آدمی ہے، ہم اس کی بات نہیں مانیں گے.ہاں خلیفہ وقت کی مان لیں گے، اس کی بیعت کی ہے.حالانکہ وہ اس روح کو سمجھتے نہیں ہیں کہ خلیفہ وقت کی پھر کیوں مانو گے؟ وہ بھی تو ایک انسان اور حقیر انسان ہے.پھر تم براہ راست خدا سے کہو کہ وہ تم سے کلام کیا کرے اور تمہیں براہ راست ہدایت دیا کرے.اگر تمہارے اندر اتنا تکبر ہے، تمہاری اتنی شان ہے تو پھر خلیفہ وقت کے نمائندہ کی بات بھی نہ مانو بلکہ اس کی بھی نہ مانو ، پھر نبی کی کیوں مانو گے؟ وہ بھی تو ایک انسان ہے، پھر تو براہ راست اللہ سے مطالبہ ہونا چاہئے کہ اے خدا! تو خود بتا کہ کیا کرنا ہے؟ تب ہم مانیں گے ورنہ کسی انسان کی نہیں مانیں گے.اور اگر یہ حرکتیں کریں گے تو اسی کا نام قرآن کریم شیطانیت اور ابلیسیت رکھتا ہے.اس لئے جس اطاعت کے بدلہ پھل ملتا ہے، وہ اطاعت کوئی معمولی چیز نہیں ہے.اس کے اندر بڑی گہری روح ہے.اس میں تو انسان سب سے پہلے اپنے نفس سے آزاد ہوتا ہے.تب جا کر اطاعت کرتا ہے.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ نفس کا غلام ہو اور اللہ کا مطیع ہو.یہ دونوں چیزیں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں.چنانچہ میں آپ کو جو مثال دے رہا تھا کہ اطاعت آپ کو آزاد کر دیتی ہے، دوسری چیزوں سے اور دوسری غلامیاں آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرنے دیتیں.یہ اس کی مثال ہے.سب سے پہلے نفس کو پاک کرنا پڑے گا ، اپنے ضمیر کو آزاد کرنا پڑے گا کہ میں صرف اور صرف خدا کے سامنے جھکتا ہوں اور خدا کی نمائندگی میں اگر مجھ سے بہت ہی ادنی آدمی بھی مجھ پر حاکم مقرر ہو تو میں اس کے سامنے بھی جھکوں گا.یہ ہے اسلامی اطاعت کی روح.اس کی اگر تربیت مل جائے تو اس اطاعت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بعض دفعہ انسان کو بہت سے معجزات دکھاتا ہے اور یہ بتانے کے لئے اور یقین پیدا کرنے کے لئے کہ میری خاطر تم نے کیا ہے، میں تمہاری خاطر دنیا کو تمہارا غلام بناؤں گا.میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں.ایک دفعہ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک وفد مشرقی پاکستان بھجوایا ، جس میں میں بھی شامل تھا.وہاں سے واپسی پر مجھے کراچی میں ربوہ سے حضور کا فون پر یہ پیغام موصول ہوا کہ پہلی فلائٹ پر یہاں پہنچ جاؤ.رپورٹ کا انتظار تھا.ہمارے بھائی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بھی تھے اور ہمارے ایک اور بھائی کرنل مرزا داؤ د احمد صاحب، جن کے ہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے ، انہوں نے 572
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء فون پر پتہ کیا تو بتایا یہ گیا کہ اس دن کی ساری (Flights) پروازیں Booked ہیں.صبح کی Flights کا تو سوال ہی نہیں.اور جب انہوں نے پوچھا کہ Chance پر کوئی جگہ مل سکتی ہے، یعنی اتفاقا کچھ لوگ رہ جاتے ہیں تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اتنا Rush ہے کہ Chance پر بھی سینکڑوں آدمی بیٹھے ہوئے ہیں.اس جلوس کے آخر پر اگر ہم ان کا نام لکھ لیں تو پھر بھی شائد کئی دن کے بعد باری آئے.یہ اس وقت Rush کی حالت تھی.تو انہوں نے کہا: پھر تور بوہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تم چند دن ٹھہرو، تمہاری سیٹ بک کروا دیتے ہیں.جب باری آگئی، چلے جانا.میں نے ان سے کہا کہ آپ کی یہ سوچ ہو گی.ٹھیک ہے اور اس پر میں اعتراض نہیں کر سکتا.لیکن مجھے حضرت صاحب کا حکم ہے کہ تم نے کل ضرور پہنچنا ہے، اس لئے میں نے تو ضرور جانا ہے.انہوں نے کہا: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تم جاہی نہیں سکتے.میں نے کہا: سوال بیشک نہ پیدا ہوتا ہو، میں نے ائیر پورٹ پر جانا ہے، کوشش کرنی ہے، پھر اللہ کی جو مرضی.مگر یہاں میں چین سے نہیں بیٹھ سکتا کہ خدا تعالیٰ کا خلیفہ مجھے حکم دے کہ تم پہنچو اور میں آپ کے ساتھ بیٹھا آرام سے انتظار کرتا رہوں کہ جو کوشش کرنی تھی کر لی.کوئی Chance ہے، وہ بھی خدا کے ہاتھ میں ہے، کوشش تو کرنی چاہئے.خیر میں جب صبح روانہ ہوا تو سب نے مذاق سے ہنس کر کہا کہ ہم تمہارا ناشتہ پر انتظار کریں گے، واپس آ کر ناشتہ ہمارے ساتھ کرنا.میں ائیر پورٹ پر گیا، انہوں نے کہا: سیٹ ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں.میں نے کہا: بہت اچھا نہیں ہے تو میں یہاں کھڑا رہتا ہوں.میں نے کہا: ? Chance انہوں نے کہا: Chance کا بھی کوئی سوال نہیں.میں نے کہا: کوئی حرج نہیں، میں انتظار کرتا ہوں، دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے؟ چنانچہ میں ابھی انتظار کر رہا تھا کہ اتنے میں وہ جو رجسٹر ہوتا ہے، وہ انہوں نے بند کیا اور Call دی کہ جہاز چلنے والا ہے، مسافر سوار ہونے کے لئے چلے جائیں.چنانچہ رجسٹر Pack کر کے روانہ ہو گیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایسا یقین ڈال دیا تھا کہ میں نے جانا ہی جانا ہے.میں وہیں کھڑا رہا.ایک نوجوان لڑکا میرے پاس دوڑتے ہوئے آیا اور کہنے لگا: آپ کو لاہور کے لئے ٹکٹ چاہئے؟ میں نے کہا: ہاں، مجھے چاہئے.کہنے لگا: میرے نام کا ہے، آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں، میرے نام پر سفر کرنے میں.میں نے کہا: نہیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں.میں نے اسی وقت اس کو پیسے دیئے، باوجود اس کے کہ اعلان ہو چکا تھا کہ جہاز پرواز کرنے والا ہے، رجسٹر وغیرہ Pack کر کے جہاز کے عملہ کے لوگ روانہ ہو چکے تھے.میں نے اس کو پیسے دیئے اور ٹکٹ لے لیا.کیونکہ پاکستان میں اگر کوئی آدمی (Internal Flight) اندرون ملک پروازوں میں جہاز Miss کرے تو اسے کافی جرمانہ ادا کرنا 573
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم پڑتا ہے، اس لئے وہ بے چارا گھبرایا ہوا تھا.خیر میں کھڑا تھا کہ اتنے میں جہاز کے عملہ کا ایک آدمی دوڑتے ہوئے آیا اور کہا: ایک سواری کم ہے، کوئی مسافر پیچھے تو نہیں رہ گیا.میں نے کہا: میں ہوں.اس نے میرا سامان پکڑا اور کہا: یہ ساتھ ہی جائے گا کیونکہ اب الگ لوڈ کرنے کا وقت نہیں ہے.چنانچہ سوٹ کیس ہاتھ میں پکڑا اور ہم دوڑتے دوڑتے جہاز میں سوار ہوئے اور روانہ ہو گئے.اب یہ جو واقعہ ہے، کوئی دنیا دار آدمی ہزار کوشش کرے، اس کو اتفاق ثابت کرنے کی لیکن جس پر گزرا ہو، وہ اسے کیسے اتفاق سمجھ سکتا ہے.اس کو سو فیصدی یقین ہے کہ ان سارے واقعات کی یہ (Chain) زنجیر جو ہے، یہ اطاعت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام تھا.اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ یہ ہوائی جہاز اور ان کے عملہ وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں.تم اگر میرے غلام بنتے ہو تو یہ تمہارے غلام بن جائیں گے.تمہارے لئے حالات تبدیل کئے جائیں گے.بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن جس کے ساتھ یہ بات گزرے، اس کی زندگی پر یہ بہت گہرا اثر ڈالتی ہے.اتنا گہرا اثر کہ ہمیشہ کے لئے دل پر اللہ کا پیار اور اس کا احسان نقش ہو جاتا ہے.پس میں آپ سے بھی یہ کہتا ہوں کہ آپ کیوں ان تجربوں میں سے نہیں گزرتے ؟ جب تک آپ ان تجربوں میں سے نہیں گزرتے ، آپ اللہ کو نہیں پاسکتے.اگر آپ اللہ سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو خدا تعالیٰ سے پیار اور محبت کا اتنا گہرا اور اتنا کامل اور اتنا غیر متزلزل تعلق پیدا کرنا پڑے گا کہ دنیا کی کوئی صورت حال آپ کے ارادہ کو بدل نہ سکے.آپ عزت کے ساتھ سراٹھا کر ہر جگہ گھو میں پھر میں اور محسوس کریں کہ آپ آزاد ہیں اور یہ لوگ غلام ہیں.ایک دفعہ انگلستان میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہوا.وہاں ہر سال یکم جنوری کولوگوں کی جو حالت ہوتی ہے ، وہ آپ نے سنی ہوگی.رات بارہ بجتے ہیں اور بے حیائی کا ایک طوفان سڑکوں پر امڈ آتا ہے.اس وقت ہر شخص کو آزادی ہوتی ہے، وہ جس کو چاہے گلے لگائے اور پیار کرے.خواہ وہ کتنا ہی گندا ہی کیوں نہ ہو.اس کے منہ سے شراب کی بدبو آتی ہو یا اور کئی قسم کی غلاظتیں لگی ہوں.خیر رات کے بارہ بج رہے تھے، میں پوسٹن کے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا.میں وہاں کسی کام کے لئے گیا ہوا تھا.اس وقت فارغ ہو کر واپس گھر جارہا تھا.تو جس طرح دوسرے احمدیوں کو یہ خیال آتا ہے کہ ہم سال کا نیا دن نفل سے شروع کریں، اسی طرح مجھے بھی یہ خیال آیا.چنانچہ میں نے وہاں نفل پڑھنے شروع کر دیئے.کچھ دیر کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے پاس ایک آدمی کھڑا رورہا ہے اور رو بھی اس طرح رہا ہے، 574
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء جس طرح بچے ہچکیاں لے لے کر روتے ہیں.میں اگر چہ اس حالت میں نماز پڑھتار ہا لیکن تھوڑی سی Disturbance ہوئی کہ یہ کیا کر رہا ہے؟ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو جب میں اٹھ کر کھڑا ہی ہوا تھا تو وہ دوڑ کر میرے ساتھ لپٹ گیا اور میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا.میں نے کہا: کیا بات ہے؟ میں تو آپ کو جانتا نہیں.اس نے کہا: آپ نہیں مجھے جانتے لیکن میں آپ کو جان گیا ہوں.میں نے کہا: آپ کا کیا مطلب ہے؟ اس نے کہا کہ سارالندن آج نئے سال کے آغاز پر خدا کو بھلانے پر تلا ہوا ہے اور ایک آدمی مجھے ایسا نظر آ رہا ہے، جو خدا کو یا در رکھنے پر تلا ہوا ہے، میں کیسے آپ کو نہ پہچانوں.غرض اس چیز نے اس پر اتنا گہرا اثر کیا کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، وہ بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رونے لگ گیا.پس آپ کی اصل آزادی خدا کی یاد میں ہے.دوسری ساری دنیا غلام ہے، اپنے رسم ورواج کی، شیطانیت کی، جنسیات کی اور اپنی ہوا و ہوس کی.لیکن یہ آپ ہیں، جنہوں نے خود بھی آزادی سے پھر نا ہے اور ان لوگوں کو بھی آزادی بخشتی ہے.اگر آپ ان کے معاشرہ سے متاثر ہو گئے اور ان کے غلام بن گئے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ کون نام لیوا ہو گا، جو ان کو آزادی بخشے گا ؟ آپ ہی نمائندہ ہیں، اس لئے عظمت کردار پیدا کریں.اپنے اللہ سے تعلق جوڑیں، وہ آپ کے لئے پھر معجزے دکھائے گا.پھر آپ کو یہ پوچھنا نہیں پڑے گا کہ معجزہ کیا ہوتا ہے؟ پھر آپ لوگوں کو یہ بتائیں گے کہ معجزہ کیا ہوتا ہے؟ اس لئے یہ جو مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں سنگ بنیادرکھنے کا دن ہے، اس کو اپنے لئے فیصلہ کن دن بنا ئیں.یہ عہد کریں کہ اب چاہے باہر سے کوئی مبلغ آئے یا نہ آئے ، آپ اسلام کے لئے مبلغ بنیں گے.آپ نے ان لوگوں کی کایا پلٹنی ہے.آپ نے ان کے معاشرہ میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.آپ نے ان سے آزادرہ کر پھرنا ہے.اپنی عورتوں کو سنبھالیں، اپنی بچیوں کو سنبھالیں ، ان کے چہرے پر ان کی نظروں میں بعض دفعہ ایسی بے اعتنائی نظر آتی ہے کہ جس سے انسان ڈرتا ہے.ایک ایسا اطمینان نظر آتا ہے، دنیا پر اور دین سے ایسی لا پرواہی نظر آتی ہے کہ وہ مستقبل کے معاملہ میں انسان کو خوفزدہ کر دیتی ہے.اصل اطمینان وہی ہے، جو دین کی پیروی کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے.جو لوگ دنیا پر مطمئن ہونے لگ جائیں، خدا اور خدا کا دین ان کے ہاتھ سے جاتا رہتا ہے.وہ پھر اپنے لئے کوئی اور خدا بنا لیتے ہیں.اس لئے اپنے بچوں کی حفاظت کریں، اپنی بیویوں کی ، اپنی بیٹیوں کی اپنی بہنوں کی حفاظت کریں.اپنی ماؤں کو سمجھانا پڑے تو ان کو بھی سمجھا ئیں کہ تم خدا کے ہو کر رہو، اللہ سے پیار کرو اور اس بات کی حفاظت کرو کہ ہوکر خدا تمہیں کبھی کسی اور کی غلامی میں نہ جانے دے.تم سب دعا ئیں کرو کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری 575
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم چیزیں دعاؤں سے ملتی ہیں.اب تمہیں بہت کثرت سے دعا ئیں کرنی پڑیں گی.آج میں نے بھی بہت دعا کی ہے.خاص طور پر آپ سب کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو جس کا آج سنگ بنیا درکھا جانے والا ہے، ایسے لوگوں سے آباد کرے، جو مسجد کی آبادی کا حق رکھتے ہیں، جن کو مسجد میں آباد کرنا آتا ہے، جن پر خدا کے پیار کی نظر پڑتی ہیں.اور دن بدن یہ آبادی بڑھتی رہے اور جلد وہ وقت آئے ، جب یہ مسجد آپ کو چھوٹی نظر آنے لگے.پھر یہ فکر پیدا ہو کہ اس مسجد کو کس طرح بڑھانا ہے؟ اس لئے اب اس مسجد کے سنگ بنیا درکھنے کے وقت سے آپ سب کی ذمہ داری غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہے.اب آپ ہی یہاں خدا کے نمائندہ ہیں.آپ ہی وہ لوگ ہیں، جنہوں نے خدا کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے اور عبادت کو قائم رکھنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.مطبوعہ روزنامہ الفضل 22 نومبر 1983ء) 576
خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم آج کا دن جماعت احمدیہ اور آسٹریلیا کے لئے عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا.خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء برتقریب سنگ بنیاد بیت الہدی آسٹریلیا اشهد ان لا اله الا الله وحده لاشريك له واشهدان محمد أعبده ورسوله اما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمان الرحيم اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ ُوضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبْرَكًا وَهُدًى لِّلْعَلَمِينَ فِيْهِ ايَتَ بَيْنَتُ مَّقَامُ إِبْرَهِيْمَةً وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ مِنَّا ہے وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ (آل عمران : 97,98) ترجمہ: سب سے پہلا گھر ، جو تمام لوگوں کے فائدے کے) لئے بنایا گیا تھا، وہ ہے، جو مکہ میں ہے.وہ تمام جہانوں کے لئے برکت والا (مقام) اور (موجب) ہدایت ہے.اس میں کئی روشن نشانات ہیں.(وہ) ابراہیم کی قیام گاہ ہے اور جو اس میں داخل ہو ، وہ امن میں آجاتا ہے.اور اللہ نے لوگوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اس گھر کا حج کریں (یعنی) جو (بھی) اس تک جانے کی توفیق پائے ، وہ.(اس گھر کا حج کرے.) اور جو انکار کرے تو ( وہ یادر کھے کہ اللہ تمام جہانوں سے بے پرواہ ہے.آج جبکہ ہم براعظم آسٹریلیا میں پہلی احمد یہ مسلم مسجد کا سنگ بنیا در رکھنے کی غرض سے اکٹھے ہوئے ہیں، یہ دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک نئے سنگ میل کا اضافہ کر رہا ہے.آج ہمارے دل اپنے رب کی حمد سے لبریز ہیں اور اس کے احسان پر اس کی حمدوثنا کے ترانے گا رہے ہیں.بلاشبہ یہ دن آسٹریلیا کی تاریخ میں بھی ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.کیونکہ ایسی جماعت، جو اس دور میں اللہ کی توحید کو تمام دنیا پر غالب کرنے کا عزم لے کر اٹھی ہے، اس عظیم بر اعظم میں پہلی مرتبہ خدائے واحد یگانہ کی پرستش کے لئے ایک گھر تعمیر کرنے کی توفیق پارہی ہے.یہ پہلی اینٹ ہے، جو خالصہ اللہ اس کی عبادت کی خاطر 577
خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک تعمیر ہونے والے اس گھر کی بنیاد میں رکھی جارہی ہے.لیکن یہ اینٹ آخری نہیں رہے گی اور نہ خدائے واحد کا یہ گھر آخری گھر ہوگا.بلکہ یہ تو خانہ ہائے خدا کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ کا ایک نہایت عاجزانہ آغاز ہے.بظاہر یہ ایک عام سی بنیاد ہے، جو میں رکھ رہا ہوں اور یہ مٹی میں دب کر نظروں سے غائب ہو جائے گی.لیکن ان بنیادوں پر ایک ایسی عمارت بلند ہوگی، جو زمین پر ہوتے ہوئے بھی اپنی ذات میں ایک آسمانی عمارت ہوگی.اور جو عرش کے خدا تک رسائی پائے گی.دن میں پانچ وقت اس کے میناروں سے اللہ کی وحدت اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اعلان بلند ہوں گے.اس مسجد کے مینارے اس مادی دور میں بسنے والے مردوں اور عورتوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلائیں گے کہ اصل اور حقیقی رفعتیں مادی ترقی سے نہیں بلکہ روحانی ترقی سے حاصل ہوتی ہیں.اب جبکہ ہم یہاں ایک عمارت کی تعمیر کے لئے جمع ہوئے ہیں، ہمیں مادی چیزوں میں شکست و ریخت اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے.جو نہی تعمیر مکمل ہوتی ہے، اسی لمحہ سے شکست و ریخت کا عمل شروع ہو جاتا ہے.کوئی نہیں، جو وقت اور زمانہ کے اس عمل کو روک سکے.اور کوئی نہیں ، جو اس عمل کے منتہائے مقصود کو نیچا دکھا سکے.قرآن مجید زمانہ کے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے:.كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ ® (الرحمن : 27,28) ترجمہ: اس (یعنی زمین) پر جو کوئی بھی ہے، آخر ہلاک ہونے والا ہے اور صرف وہی بچتا ہے، جس کی طرف تیرے جلال اور عزت والے خدا کی توجہ ہو.لیکن فنا کے اس ظاہری عمل سے کہیں بڑھ کر پر ہیبت اور پر جلال وہ باطنی عمل ہے، جو ایک زمانہ اور ایک دور میں ایک کار فرما نظریہ حیات اور اس کی روح کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیتا ہے.ازمنہ گزشتہ کی عظیم تہذیبوں کا اگر کچھ سراغ ملتا ہے تو مادی عمارتوں کے بچے کچے کھنڈرات سے ہی ملتا ہے.ان کے آدرش اور ان کے نظریات بے نشاں ہوئے بغیر نہیں رہے.فراعنہ مصر کے تعمیر کردہ اہرام کی مثال ہمارے سامنے ہے.ان میں سے بعض اہرام ریت کے نیچے دفن ہو گئے.کچھ نے کھنڈرات کی شکل اختیار کر لی.صرف چند ایک ہی ہیں، جو آج بھی سر بلند اور ایستادہ نظر آتے ہیں.لیکن کیا انہیں تعمیر کرنے والوں کے فلسفہ حیات اور سطح نظر کا درجہ رکھنے والے نظریات کے بھی کہیں کوئی آثار ملتے ہیں؟ کوئی ایک ذی روح بھی آج ایسا ہے، جوان کے نظریات پر عمل پیرا ہو؟ ایک بھی نہیں اوہ سب فنا کی آغوش میں چلے گئے ہیں.کوئی خفیف ترین نشان بھی تو پرعمل پیرا 578
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء ان کا کہیں نظر نہیں آتا.لیکن مصر کی ان عالیشان اور پر شکوہ عمارتوں کے بالکل برعکس اس دنیا میں ایک نہایت معمولی اور بظاہر بے ڈھنگے ساخت کے پتھروں کی ایک ایسی عمارت بھی بنائی گئی تھی، جس کی کہانی دنیوی قوموں کی تعمیر کردہ عمارتوں کی کہانی سے بالکل مختلف اور جدا ہے.میری مراد چھ ہزار برس سے زائد عرصہ قبل تعمیر کئے جانے والے اس قدیم گھر سے ہے، جو اس دنیا میں پہلی مرتبہ خالصہ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کے لئے بنایا گیا.چنانچہ قرآن کریم اس عظیم اور منفرد واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:.إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبرَكًا وَهُدًى لِّلْعَلَمِينَ فِيهِ أَيتُ بَيِّنتُ مَّقَامُ إِبْرَهِيْمَةٌ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ مِنَّا ترجمہ: یعنی وہ پہلا گھر جو زمین پر تمام بنی نوع انسان کے لئے خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کی خاطر بنایا گیا، وہ مکہ میں ہے.وہ گھر مبارک ہے اور تمام انسانوں کی ہدایت کا موجب ہے.اور اس کے ساتھ کھلے کھلے نشان وابستہ ہیں.اور وہ ابراہیم کا مقام بھی ہے.اور جو کوئی اس میں داخل ہوگا، وہ یقیناً امن میں آجائے گا.اس گھر کا آغاز عظیم دنیوی قوموں کی یاد گار تعمیرات کے آغاز سے مختلف تھا.کوئی شاہی خزانے اس کی تعمیر میں بے دریغ خرچ نہیں ہوئے.نہ کسی آرکیٹیکٹ نے اپنے ذہن رسا کے زرخیز تخیل میں اسے ڈیزائن کیا اور نہ کسی ماہر تعمیر نے اس کے عمارتی کام کی نگرانی کی کسی غلام قوم سے اس کی تعمیر میں بریگار نہیں لی گئی.خدا کے اس پہلے گھر کا آغاز کمال سادگی اور عاجزی کا آئینہ دار تھا.تواریخ عالم میں اس عظیم واقعہ کا اشارہ بھی تو ذکر نہیں ملتا.صرف قرآن ہی وہ کتاب ہے، جس نے اس عمارت کے آغاز کا اجمالاً ذکر کیا ہے.یہ گھر بھی شکستہ در بخت کی دست برد سے باہر نہ رہا.یہ بھی بالآخر منہدم ہوا.لیکن خدا کی تقدیر نے اسے معدوم نہ ہونے دیا.چنانچہ ایک عظیم الشان نبی یعنی ابراہیم کے سپر د خدا تعالیٰ نے یہ کام کیا کہ وہ خدا کے اس گھر کو انہی قدیمی بنیادوں پر از سر نو تعمیر کریں.قرآن مجید اس خدائی تقدیر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:.وَاذْ يَرْفَعُ اِبْراهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاسْمَعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.(البقرة: 128) ترجمہ: اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ابراہیم اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہا تھا اور (اس کے ساتھ ) اسماعیل بھی.(اور وہ دونوں کہتے جاتے تھے ) اے ہمارے رب! ہماری طرف سے (اس خدمت) کو قبول فرما.تو ہی ( ہے جو ) بہت سننے والا (اور ) جاننے والا ہے.579
خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اس طرح خدا تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے کھنڈرات میں تبدیل نہ ہونے دیا جائے.اسے قدیمی بنیادوں پر از سرنو تعمیر کرنے کا وقت آ پہنچا تھا.خدا نے اس کی تعمیر کے لئے جن معماروں اور مزدوروں کا انتخاب کیا، ان کا تعمیر کے فن سے دور کا بھی تعلق یا واسطہ نہیں تھا.یہ معمار خدا کا برگزیدہ نبی ابراہیم تھا اور مزدور اس کا اپنا وعمر بیٹا اسماعیل تھا.جو غالباً عمر کے لحاظ سے ابھی اتنا پختہ نہیں ہوا تھا کہ آج کل کے لیبر قانون کے مطابق اسے مزدوری کی اجازت دی جاسکتی.یہ ایک ایسی عمارت کی تعمیر نو تھی ، جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ دنیا کی تمام عمارتوں سے زیادہ رفیع الشان ہوگی اور اسے آباد کرنے اور اسے آبا در رکھنے والے عرش کے خدا سے باتیں کریں گے.سو گویا خانہ خدا کی یہ عمارت مجسم صلائے عام تھی کہ اے علو مرتبت کے خواہاں انسانو! اور اے روحانی رفعتوں کے متلاشیو! اگر تم بھی اس بلندی تک پہنچنا چاہتے ہو، جہاں عمارتوں اور عمارتوں میں بسنے والے آسمان سے نہیں بلکہ آسمان کے خدا سے باتیں کرتے ہیں تو تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے ادھر آؤ اور ان روحانی زمینوں کو طے کرو ، جن کے کواڑ یہ عمارت تم پر کھول رہی ہے.جب ہم اس پہلو سے ان واقعات پر پھر نظر ڈالتے ہیں تو یہ عقدہ حل ہو جاتا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے لئے ایک نبی اور اس کے بیٹے کو کیوں منتخب کیا گیا؟ خانہ خدا کی یہ مادی اور جسمانی تعمیر اپنی ذات میں فی الاصل ایک عظیم روحانی تعمیر کو آشکار کرنے والے ایک ظاہری نشان کی حیثیت رکھتی ہے.مقصود بالذات کوئی مادی تعمیر نہ تھی بلکہ اصل مقصود وہ روحانی عمارت تھی، جو اس کے باطن میں تعمیر ہونا تھی.یہ ایک ایسی عمارت تھی ، جس کے لئے دنیوی فن تعمیر کے ماہرین کی نہیں بلکہ روحانی فن تعمیر کے ماہرین کی ضرورت تھی.پس خدا تعالیٰ کی حکمت بالغہ نے ابراہیم کی صورت میں روحانی فن تعمیر کے ایک چوٹی کے ماہر کا انتخاب فرمایا اور اس کی مدد کے لئے اس کا تربیت یافتہ بیٹا یعنی اسماعیل اسے عطا کیا.ایک ایسی عمارت کی تعمیر کے لئے اس سے بہتر معماروں کا انتخاب ممکن نہ تھا.یہ انتخاب تعمیر کے اصل مقصد کے عین مطابق تھا.وہ سادہ گھر جسے ابراہیم اور اس کے بیٹے اسمعیل نے خدائی حکم کے تحت از سرنو تعمیر کیا تھا، آج بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنی جگہ ایستادہ ہے اور اپنی اور اپنے اصل مقصد کی عظمت کو آشکار کر رہا ہے.جبکہ اس کے مقابل فراعنہ مصر کے تعمیر کردہ بچے کچے اہرام سراسر ویران اور متروک حالت میں عبرت کی ایک تصویر نظر آتے ہیں.ابراہیم اور اسمعیل کے ہاتھوں تعمیر ہونے والا خدا کا وہی سادہ سا گھر آج خدائے واحد کے لاکھوں اور کروڑوں پرستاروں کا کعبہ مقصود بنا ہوا ہے.اور ہر سمت سے وہ اس کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں.580
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983 ء ان دو متقابل تعمیرات ( یعنی خانہ کعبہ اور اہرام مصر) کی مختلف اور متضاد حیثیتوں سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟ وہ کیا چیز ہے، جس نے خدائے واحد کے اس سادہ سے گھر کو زندگی سے معمور کر رکھا ہے جبکہ فراعنہ مصر کی عظیم یادگاری عمارتوں یعنی اہرام مصر پر ویرانی چھائی ہوئی ہے اور وہ حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ ایک عمارت کا پیش کردہ فلسفہ حیات آج بھی زندہ ہے اور اپنے زندہ بخش ہونے کا ثبوت دے رہا ہے.جبکہ دوسری عمارتیں جس فلسفہ حیات کی آئینہ دار تھیں، اس کا نام ونشان بھی باقی نہیں ہے؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اول الذکر عمارت شکست و ریخت اور انحطاط وزوال کے اصول کو شکست دینے میں کامیاب رہی جبکہ مؤخر الذکر عمارتیں اور ان کے پیش کردہ فلسفے معدوم ہوئے بغیر نہیں رہے.جبکہ فی الوقت عمارتوں کا تذکرہ ہورہا ہے، اس تسلسل میں، میں ایک اور زبردست عمارت کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں.یہ وہ عمارت تھی، جو اس غرض سے بلند کی گئی تھی کہ خدا کے وجود کو چیلنج کرے اور اللہ کو او اللہ والوں کو نیچا دکھائے.قرآن کریم اس عمارت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:.وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَأَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ اللَّهِ غَيْرِى فَا وَ قِدْ لِي يُهَا مَنُ عَلَى الطِينِ فَاجْعَلْ لِي صَرْحًا لَّعَلَّى أَطَّلِعُ إلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَذِبِينَ (القصص: 39) یعنی فرعون نے اپنے سرداروں سے کہا کہ مجھے تو اپنے سوا تمہارا اور کوئی معبود نظر نہیں آتا.(پھر) یہ موسیٰ نہ جانے کس خدا کی باتیں کر رہا ہے؟) پس اے ہامان ! میرے لئے مٹی کو پختہ کرنے کے لئے آگ بھڑ کا ؤ اور ایک بلند و بالا عمارت تیار کرو تا کہ میں ذرا موسیٰ کے خدا کو دیکھوں تو سہی.لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ میں اسے جھوٹا سمجھتا ہوں.قرآن کریم کی یہ آیت نہ صرف اس واقعہ کا ذکر کر رہی ہے، جو آج سے قریباً 3300 سال پہلے گذرا بلکہ ایک ایسے مادہ پرست انسان کی نفسیاتی حالت اور ذہنی کیفیت کا نقشہ کھینچ رہی ہے، جس کے دماغ میں تکبر کے زیر اثر یہ سودا سمایا ہوا ہو کہ وہ انسانی حدود و قیود سے آزاد ہو چکا ہے اور اس کا علم غیب و شہود یعنی ہر حاضر و غائب پر حاوی ہے.چنانچہ عصر حاضر یعنی خود ہمارے زمانہ میں بھی اسی نفسیاتی حالت اور ذہنی کیفیت کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جبکہ ایک عظیم مادی طاقت کے خلانورد نے اپنی معمولی سی خلائی چھلانگ کے نشہ میں بے قابو ہو کر یہ تعلی کی کہ میں تو خلا میں ہر طرف دیکھ آیا ہوں، مجھے کسی خدا کا کوئی نشان 581
خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم کہیں نظر نہیں آیا.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو آج کے زمانہ کے راکٹ بھی گزرے ہوئے زمانہ کی سر بفلک عمارتوں کی طرح انسان کی اپنی جھوٹی عظمت اور بے حقیقت سرفرازی کے زعم میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں.لیکن اس زمانہ کے انسان کا یہ تفاخر بھی اسی طرح عارضی اور لاشی ہے، جس طرح گزری ہوئی قوموں کا تفاخر تھا.پس قرآن مجید اس عمارت کا ذکر کر کے دراصل غرور میں مبتلا اسی مادہ پرستانہ ذہنیت کو آشکار کر رہا ہے، جو ماضی میں ہمیشہ ہی مذہب سے نبرد آزما رہی ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ نبرد آزمار ہے گی.یہی وہ مادہ پرستانہ ذہنیت ہے، جو اپنی مادی آنکھ سے مذہب کی روحانی اقدار کو جانچنے اور پر کھنے پر اصرار کرتی ہے.لیکن تاریخ مذاہب سے ہمیں یہ غیر فانی سبق ملتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اور کل بھی ان مادی طاقتوں کے مقدر میں شکست اور نامرادی لکھی جائے گی.کوئی مادی فلسفہ وجہ نہیں بیان کر سکتا کہ غریب بے یارومددگار کیلا موٹی مصر کے باجبروت حاکم یعنی فرعون کو جو بجز اپنے کسی خدا کا قائل نہیں تھا، شکست دینے اور نیچا دکھانے میں کیسے کامیاب ہوا؟ سوچنے کی بات ہے کہ موسیٰ ایسا بیکس انسان، جو غریب اور بے حیثیت ماں باپ کے گھر پیدا ہوا تھا کب یہ گمان کر سکتا تھا کہ ایک دن وہ فرعون ایسے طاقتور بادشاہ کو ہار ماننے اور بے بس ہونے پر مجبور کر دے گا.آج فرعون مصر منفتاح اور ہامان کی بنائی ہوئی عمارت کا کوئی نشان نظر نہیں آتا.جو اس غرض سے بنائی گئی تھی کہ آسمان کی بلندیوں کو چھو کر ذرا موسیٰ کے خدا کی خبر لے آئیں.کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ منفتاح سے پندرہ پشت قبل کے فراعنہ مصر کی بنائی ہوئی بعض عمارتیں اہرام کی شکل میں آج بھی موجود ہیں.لیکن اگر نشان نہیں ملتا تو اس عمارت کا ، جو آسمان کے خدا سے پوچھ گچھ کرنے کے لئے بڑے گھمنڈ اور تکبر سے بنائی گئی تھی.وہ ایسی پیوند خاک ہوئی کہ جیسے کبھی بنائی ہی نہ گئی ہو.اگر اس کے وجود کا کچھ پتا ملتا بھی ہے تو صرف اس بات سے کہ وہ معدوم ہو چکی ہے.لیکن قطع نظر اس سے کہ وہ عمارت کب اور کہاں بنی اور کتنی بلندی تک پہنچی اور کب مسمار ہوئی؟ ایک بات قطعی اور یقینی ہے اور وہ یہ کہ خدا کے ایک غریب اور عاجز اور بے کس بندہ کے مقابل پر جب ایک صاحب جبروت اور دنیوی عظمتوں کا حامل ایک عظیم بادشاہ آیا اور اس سے ٹکر لینا چاہی تو وہ ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہا.اس کی اپنی تہذیب مٹ گئی، اس کا تمدن قصہ پارینہ بن گیا، اس کا تکبر خاک میں مل گیا، اس کے دعوی خدائی کا ایسا عبرتناک انجام ہوا کہ آج روئے زمین پر ایک متنفس بھی ایسا نہیں، جو اس کو خداستسلیم کرنا تو در کنار اس کی طرف منسوب ہونا بھی اپنے لئے باعث فخر سمجھے.لیکن خدا کا بندہ موسیٰ آج بھی زندہ ہے.وہ خاک ایسی پا کی بھی پہنچ خاک نشین ایسی رفعتیں پا گیا، جس تک فرعون کی اونچی سے اونچی تصوراتی جست اور چھلانگ بھی نہیں پہنچ سکتی 582
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تھی.آج موسی" کے دعوی کو دنیا کی تین عظیم ترین مذہبی تو میں تسلیم کرتی ہیں.اس کے بلند مرتبہ کا اقرار کرتی ہیں اور ادب و احترام سے اس کا نام لیتی ہیں.مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت میں کمی آنے کی بجائے مزید وسعت اور مزید رفعت پیدا ہوتی چلی جارہی ہے.ان حالات کی طرف متوجہ کر کے قرآن کریم ہمارا ذہن اس ازلی ابدی سچائی کی طرف مبذول کرواتا ہے کہ مادی اقدار اور ترقیات، مذہبی اقدار اور ترقیات کے مقابل پر محض بے حقیقت اور لاشی ہیں.کیونکہ ان کا پیغام مردہ ہے، جبکہ مذہبی اقدار کے اندر ایک زندہ روح کارفرما ہوتی ہے.خدائے واحد کی عبادت کے لئے تعمیر ہونے والے پہلے گھر کی طرف عود کرتے ہوئے ، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس معمولی اور ظاہری لحاظ سے بے حقیقت عمارت پر بھی اگر چہ امتداد زمانہ نے اپنے سب حربے استعمال کئے اور فنا کا ہاتھ اگر چہ اس پر بھی اسی طرح مصروف عمل رہا، جس طرح دنیا کی دوسری عالیشان عمارتوں پر ، جو محض مادی اغراض کے لئے بنائی گئی تھیں.اور اگر چہ اسے بھی پرانی بنیادوں پر از سر نو تعمیر کیا گیا تاہم خدا کے اس گھر کی معمولی سی عمارت میں اور دنیوی عمارتوں میں ایک فرق بڑا مین اور واضح ہے.اور وہ یہ کہ دنیوی عمارتوں میں سے ایک بھی تو ایسی نہیں ، جو اپنے مقام اور مقاصد کے اعتبار سے زندہ ہو.اہرام مصر تو ہیں مگر بے جان لاشے کی طرح.ان کے جسم سے عصر فرعونی کی روح پرواز کر چکی ہے.یہ ایسی حنوط شدہ لاشوں کی طرح ہیں، جن کے بدن روح سے خالی ہوں.ان عمارتوں کی حیثیت ایسے غیر آباد گھونسلوں کی سی ہے، جن میں بسیرا کرنے والے پرندے ہمیشہ کے لئے ان میں سے پرواز کر گئے ہوں.فرعون مصر کے وہ مقاصد، جوان عمارتوں کے ساتھ وابستہ تھے، ہزار ہا برس پہلے مر چکے ہیں.آج کون ہے، جو فراعنہ مصر کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا پسند کرتا ہے؟ اور کون ہے، جو ان کی ناموس کے لئے غیرت رکھتا ہو یا ان کی خاطر کٹ مرنے کو تیار ہو ؟ اب ذرا اس کے مقابل پر خانہ کعبہ کو ازسر نو تعمیر کرنے والے ابراہیم کو دیکھو! اس کے مقدس ہاتھوں کی ظاہری تعمیر آج بھی اسی طرح محفوظ ہے.یہی نہیں، اس کی حدود نئی وسعتوں سے اور اس کی عمارت نئی سر بلندیوں سے ہمکنار ہوتی چلی آرہی ہے.یہ آج بھی زندہ ہے اور اپنی زندگی کا پہلے سے کہیں بڑھ کر ثبوت دے رہی ہے.یہی حال ان مقاصد کا بھی ہے، جو اس کی تعمیر کے ساتھ وابستہ کئے گئے تھے.وہ پہلے سے کہیں بڑھ کرشان کے ساتھ زندہ اور سر بلند ہیں.آج موسیٰ کی پیروی کرنے والے اپنے آپ کو ابراہیم کا بھی پیرو کا رظاہر کرتے ہیں.اسی طرح مسیح کے ماننے والے بھی یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ابراہیم 583
خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کے پیروکار ہیں.لیکن دوسروں سے کہیں بڑھ کرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین اپنے آپ کو ابراہیم کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ابراہیم کا پیر شمار ہونے میں یک گونہ فخر محسوس کرتے ہیں اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں.آج دن میں پانچ دفعہ بلند ہونے والی آذان پر کروڑوں لوگ ( جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے ) کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور اس کے میناروں سے دی جانے والی اذان، جو کبھی صرف قرب وجوار میں بسنے والوں تک ہی پہنچتی تھی ، ایام حج میں اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ دنیا کے کونہ کونہ اور بستی بستی میں سنائی دیتی ہے.اور چاروں طرف سے کرہ ارض کو گھیر لیتی ہے اور دنیا کے کونہ کونہ سے کروڑ ہا بندگان خداس آواز کا جواب دیتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ:.لبیک اللهم لبیک لاشریک لک لبیک لك الحمد والنعمة نبيك ترجمہ: اے ہمارے اللہ! ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں.تیرا کوئی شریک نہیں، ہم حاضر ہیں.سب تعریف تیرے ہی لئے ہے اور ہر نعمت تجھ سے ہے، ہم تیرے حضور حاضر ہیں.لیکن اس کے بالمقابل فرعون کی وہ آواز ہمیشہ کے لئے بند ہوگئی ، جو ایک دن بڑے تکبر سے یہ کہہ رہی تھی کہ :.”اے ہامان ! مٹی کو پختہ کرنے کے لئے آگ جلاؤ اور ایک بلند و بالا عمارت تیار کرو تا کہ میں بھی ذرا دیکھوں تو سہی کہ موسیٰ کا خدا کن بلندیوں میں بستا ہے؟ لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ میں موسیٰ کو جھوٹوں میں شمار کرتا ہوں.پس آج یہ کہنا کہ جس گھر کا سنگ بنیا در رکھنے کے لئے ہم اس وقت جمع ہوئے ہیں، یہ اپنی رفعتوں میں اونچی سے اونچی اور بلند سے بلند تعمیر سے بھی بالاتر ہے.اور دنیوی اغراض کے لئے انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا کوئی بلند سے بلند ٹاور بھی خدائے واحد کے اس گھر کے قدموں کو نہیں چھوسکتا.بلکہ ہمالہ کی چوٹیاں بھی اس کے مقابل پر کوتاہ قامت ہیں.تو یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ یہ تو مذہب کی اصطلاحیں ہیں، جو مادی نہیں بلکہ روحانی معنی رکھتی ہیں.لیکن یہ اصطلاحیں محض فرضی اصطلاحیں اور خوش فہمی کے قصے نہیں بلکہ باقی رہنے والی ٹھوس حقیقوں اور تاریخی شواہد پر مبنی ہیں.ایک بات میں نے اس خطاب کے آغاز میں ایسی کہی تھی ، جو آسٹریلین کانوں کو بہت عجیب لگی ہوگی.وہ بات میں نے یہ کہی تھی کہ آج کا دن صرف جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ آسٹریلیا کی 584
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تاریخ میں بھی ایک عظیم اور منفرد تاریخی دن ہے.شاید کوئی سنے والا یہ سوچے کہ یہ محض ایک فضول تعلی ہے.نہ تو آسٹریلیا میں تعمیر ہونے والی یہ پہلی مسجد ہے، نہ ہی باشندگان آسٹریلیا کے نزدیک مساجد تعمیر کرنے کی کوئی اہمیت ہے، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی.اہل آسٹریلیا نے نہ پہلے کبھی ان معمولی واقعات کا نوٹس لیا ہے اور نہ مستقبل قریب میں آئندہ کبھی لیں گے.پھر اس مسجد کو بطور خاص وہ کون سا امتیاز حاصل ہے، جس کے سنگ بنیاد کا دن آسٹریلیا کی تاریخ میں ایک عظیم سنگ میل شمار کیا جائے اور ایک اہم تاریخی دن کے طور پر یا د رکھا جائے؟ آپ کا یہ حق ہے اور مجھ پر یہ لازم ہے کہ اس دعوے کی وضاحت کروں.لیکن پہلی بات جو میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں، وہ آپ کے تعجب کو کم کرنے والی نہیں بلکہ اس میں مزید اضافہ کرنے والی ہوگی.شاید آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ جماعت احمدیہ، جو آج اس مسجد کی تعمیر کا آغاز کر رہی ہے، ایک ایسی جماعت ہے، جسے مسلمانوں کے اکثر دوسرے فرقے مسلمان تسلیم نہیں کرتے حتی کہ پاکستان میں بھی جہاں اس کا عالمی ہیڈ کوارٹر ہے، اس جماعت کو 1974ء سے مسلمان تسلیم نہیں کیا جاتا.اس علم کے بعد تو اس مسجد کی تعمیر اہل آسٹریلیا کو اور بھی زیادہ معمولی اور بے حقیقت دکھائی دے سکتی ہے.جس طرح کسی بے نام مفلس کی جھونپڑی کی تعمیر افراد کی دنیا میں کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں ہوتا، اسی طرح ایک ایسی جماعت کی مسجد کی تعمیر بھی قوموں کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں پاتی، جسے خود اپنے ہم مذہبوں نے اپنے میں سے خارج کر دیا ہو.جسے اس بنیادی حق سے بھی محروم کیا جارہا ہو کہ وہ اپنے مذہب کا نام خود رکھ سکے.یہ بات کتنی ہی عجیب کیوں نہ ہو، یہ ایک حقیقت ہے کہ جس مذہب کی عظمت اور جلال کے لئے وہ تمام دنیا میں جان، مال، وقت اور عزت کی قربانیاں پیش کر رہی ہو ، خود اسی مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت کی نظر میں وہ متروک و مردود ہو.بایں ہمہ اس جماعت کا سربراہ آسٹریلیا کی سرزمین میں اپنی پہلی غریبانہ مسجد کی تعمیر کے دن یہ دعوی بھی کر رہا ہو کہ آج کا دن آسٹریلیا کی تاریخ میں بھی ایک عظیم ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے.آخر کیوں اور کیسے؟ یہ معمہ سلجھانے اور آپ کو سمجھانے کے لئے ضروری ہے کہ میں مختصر الفاظ میں پہلے جماعت احمدیہ کا تعارف کروادوں اور اس امر سے آگاہ کر دوں کہ اس کے قیام کی غرض وغایت کیا ہے؟ جماعت احمدیہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والے اور مسلمانی کا دعویٰ کرنے والے تمام فرقہ ہائے اسلام میں وہ واحد جماعت ہے، جس کا بانی اس زمانہ میں خدا کی طرف سے مبعوث اور مامور ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.اور یہ دعوی کرتا ہے کہ میں وہی مسیح اور وہی مہدی ہوں، جن کے بارہ میں بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے 585
خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اپنی امت کو یہ خوشخبری دی تھی کہ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہو کر مسلمانوں کی حالت زار کا علاج کریں گے اور بگڑی ہوئی حالت کو سدھاریں گے اور از سر نو اسلام کو ایک نئی قوت اور نئی شان کے ساتھ زندہ کریں گے.اور تمام ادیان عالم پر اسلام کے آخری فیصلہ کن غلبہ کے لئے ایک عالمی روحانی جہاد کی مہم کا آغاز کریں گے.جماعت احمدیہ کے مقدس بانی کا نام مرزا غلام احمد قادیانی تھا.آپ نے دعوی کیا کہ یہ ایک تمثیلی پیشگوئی ہے اور یہ کہ مہدی اور مسیح دو الگ وجود نہیں ہیں بلکہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.آپ نے یہ بھی دعوی کیا کہ مسیح ابن مریم حقیقی معنوں میں اللہ کے بیٹے نہیں تھے بلکہ یہ لفظ ان کے حق میں محض اللہ کے پیار کے اظہار کے لئے بولا گیا.وہ انسانوں میں سے ایک انسان تھے لیکن مرتبے میں بہت بلند کیونکہ خدا کے ایک خاص برگزیدہ رسول تھے.رسول کی حیثیت میں اللہ نے اپنی تائید کا یہ نشان ان کو دکھایا کہ صلیب کے چنگل سے نجات بخشی اور صلیب پر مرنے نہیں دیا بلکہ وہ بیہوشی کے عالم میں صلیب سے اتارے گئے اور بہت جلد شفا یاب ہو کر بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں فلسطین سے مشرق کی طرف ہجرت کر گئے.لیکن بحیثیت انسان وہ موت سے بالا نہ تھے اور بالآخر اپنے مشن کی تکمیل کے بعد دیگر انبیائے مقدسہ کی طرح وہ بھی طبعی طور پر وفات پا کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے.جماعت احمدیہ کے مقدس بانی نے دعوی کیا کر مسیح کے دوبارہ آنے کی خوش خبری محض تمثیل ہے.یعنی کسی آنے والے وجود کو تمثیلی طور پر یس کا نام دیا جانا مقصود تھا.جیسے اس سے پہلے یوحنا بپتسمہ دینے والے کو بھی ایلیاہ کا نام دیا گیا.پس آپ کا دعوی یہ تھا کہ میں ہی وہ تمثیلی مسیح اور میں ہی وہ مہدی ہوں، جس نے آخری زمانہ میں اسلام کے غلبہ کے لئے ظاہر ہونا تھا.آپ کے اس دعوی کو مسلمانوں کی اکثریت نے رد کر دیا.یہی وجہ ہے کہ آپ کے ماننے والوں کو بعض اسلامی ممالک میں دوسری مسلمان اکثریت کی طرف سے ناٹ مسلم قرار دیا جا چکا ہے.لیکن قطع نظر اس سے کہ اللہ کی نظر میں سچا اور حقیقی مسلمان کون ہے اور محض نام کا مسلمان کون، اس حقیقت سے انکار نہیں ہوسکتا کہ مسلمانوں میں سے آج صرف ہماری جماعت ہی ہے، جو خدائی جماعت ہونے کی دعویدار ہے.یہ ہر قسم کی مخالفتوں اور اس کے خلاف روار کھے جانے والے تشدد کے باوجود تمام عالم میں تبلیغ اسلام کا جال بچھائے ہوئے ہے.اس کے مقابل پر دیگر تمام مسلمان کہلانے والے فرقے غلبہ اسلام کی عالمی مہم کے لئے مستقبل کے کسی ایسے خوش نصیب دن کی طرف دیکھ رہے ہیں، جب دو ہزار برس کا معمر مسیح آسمان کے کسی گوشہ سے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے نازل ہوگا اور بعد نزول وہ اور امام مہدی اپنی متفقہ کوششوں سے اسلام کو سب دنیا پر غالب کرنے کی مہم کا آغاز کریں گے اور مسلمانوں کو تمام دنیا کی سلطنتوں اور خزانوں کی چابیاں 586
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء چاندی کی طشتری میں سجا کر پیش کر دیں گے.اس بارہ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دور کے سہانے ڈھول ہیں یا ان کی حیثیت سنہری خوابوں سے زیادہ نہیں ہے.جہاں تک حقیقت حال کا تعلق ہے، یہ بات تو بہر حال مسلم ہے کہ آج دنیا کے پردہ پر صرف ایک ہی جماعت ہے، جس کا دعویٰ یہ ہے کہ آسمانی نوشتوں میں جس جماعت کے لئے غلبہ اسلام مقدر تھا، وہ یہی جماعت ہے.اور وہ ساعت سعید آچکی ہے، جو اسلام کے غلبہ نو کی ساعت ہے.اس مہم کا آغاز ہو چکا ہے، جس نے عالمی انقلاب بر پا کرنا تھا.اگر یہ جماعت اپنے اس دعوئی میں سچی ہے.اگر حقیقتا اللہ ہی نے اس غریب اور بے نوا جماعت کو اس آخری انقلاب عظیم کے لئے چن لیا ہے، جس نے بالآخر دنیا کی تقدیر بدل دینی ہے اور مذہبی اور فرقہ ورانہ منافرتوں کا قلع قمع کر کے انسان کو ایک دفعہ پھر اخوت اور محبت اور ایثار اور انکسار کے درس دینے ہیں.تو یہ جماعت، جس نئے براعظم یا ملک یا قوم میں بھی پہلی مرتبہ اپنے قدم جمائے گی اور روحانی انقلاب کی عظیم ترین مہم کا آغاز کرے گی، بلاشبہ وہ دن اس براعظم یا ملک یا قوم کی تاریخ میں ایک عظیم تاریخی دن ہوگا.اور وہ ایک ایسا عجیب سنگ میل ہوگا، جو ہم عصر انسان کی نظر سے اوجھل ہونے کے باوجود مستقبل کے انسان کی آنکھ کو بہت بڑا اور نمایاں اور روشن ہو کر دکھائی دے گا.اور امتدادزمانہ اس کی عظمت کو کم کرنے کی بجائے اس کی عظمت وشان کو بڑھاتا چلا جائے گا.مادی و مذہبی دنیا کی تاریخ میں یہی تو ایک حیرت انگیز ما بہ الامتیاز ہے کہ دنیاوی قوموں کی عظمت کو گزرتا ہوا وقت دھندلا تا اور مدھم کرتا چلا جاتا ہے.بڑھتے ہوئے وقت کے فاصلے ان کی حیثیت کو چھوٹا اور خفیف سے خفیف تر دکھانے لگتے ہیں.لیکن مذہبی قوموں کی عظمت کا حال اس سے برعکس ہے.وہ واقعہ جو بظاہر اتنا چھوٹا اور اتنا معمولی ہوتا ہے کہ ہم عصر مؤرخ کی آنکھ اس کو دیکھ نہیں سکتی.آنے والی نسلوں کو وہ بڑا ہو کر دکھائی دینے لگتا ہے.اور گزرتا ہوا وقت اسے چھوٹا دکھانے کی بجائے بڑھاتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ اس کی عظمت اپنے زمانہ کے ہر دوسرے واقعہ کو ڈھانپ لیتی ہے اور اس کی روشنی ہر دوسری روشنی کو ماند کر دیتی ہے.یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے کہ صرف یہی ایک روشنی اپنی چمک دکھلا رہی ہوتی ہے اور ہر دوسری حقیقت مدھم اور بے حقیقت ہو کر بجھتی چلی جاتی ہے.دیکھو جب مسیحیت کا آغاز ہوا تو نصف کرہ ارض کو رومی سلطنت کی عظمت اور جلال نے ڈھانپ رکھا تھا.اور واقعہ صلیب اس کے مقابل پر ایسا مد ھم اور بے نور اور بے حقیقت تھا کہ اس واقعہ کے دوران تو در بعد بھی روی تحریری میں کا اشارہ ذکر نہیں ما لکین در کنار 34 سال بعد تک بھی کسی روی تاریخی تحریر یا دستاویز میں اس کا اشارہ بھی اس کا ذکر نہیں ملتا.لیکن 587
خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک آج جب ہم مڑ کر دیکھیں تو واقعہ صلیب کی روشنی افق تا افق تمام سلطنت روما پر چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہے.بلکہ اس زمانے میں روئے ارض پر رونما ہونے والا سب سے زیادہ اہم اور جلیل القدر اور روشن واقعہ آغاز مسیحیت میں ہی دکھائی دیتا ہے.گو یا وقت کا بوڑھا مصور دو ہزار سال سے پیہم اس عمل میں مصروف ہے کہ عصر صیح کے ہر دوسرے نقش کو مدھم کرتا اور مٹاتا چلا جائے اور آغاز مسیحیت کو ہر لمحہ پہلے سے بڑھ کر اجاگر کرتے ہوئے ، اس میں نئے رنگ بھرتا رہے.پس اگر جماعت احمد یہ وہی جماعت ہے، جو امت محمدیہ میں پیدا ہونے والے مسیح ثانی نے قائم کرنی تھی تو آج آسٹریلیا کے اس عظیم بر اعظم میں احمدیہ مسلم مشن کا آغاز بلاشبہ آسٹریلیا کی تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہے.میں جانتا ہوں کہ میرے اس دعوی کو باور کرنے کی راہ میں ایک بہت بڑا اگر حائل ہے.یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس غریبانہ اور عاجزانہ آغاز کا انجام کیا ہے؟ لیکن مجھے اتنا ضرور کہنے دیجئے کہ اہل بصیرت اور اولو الباب کسی صداقت کو پہچاننے کے لئے مستقبل کا انتظار نہیں کیا کرتے.انہیں اس ننھے سے بیچ میں ہی وہ آثار دکھائی دیتے ہیں، جو ایک عظیم درخت کا خاکہ اپنے اندر رکھتا ہے.وہ شفق صبح کی پیش رو علامتوں ہی سے بھانپ لیتے ہیں کہ کتنے بڑے اور روشن دن کی صبح طلوع ہونے والی ہے.آپ اہل آسٹریلیا، جو اس وقت میرے مخاطب ہیں، شاید اپنی تاریخ کے حوالے سے میری بات کو آسانی سے سمجھ سکیں.اس لئے آئیے ! اب میں آپ کو یہ بتاؤں کہ آسٹریلیا کی سابقہ تاریخ کے پس منظر میں آج کے دن کی حیثیت کیا ہے؟ میرے نزدیک یہ دن آسٹریلیا کی روحانی اور مذہبی دریافت کا پہلا دن ہے.گویا آج ہم نے آپ کو اعلیٰ مذہبی اور روحانی اقدار سکھانے کی غرض سے از سرنو دریافت کیا ہے.پس اس دن کو اس دن سے ایک گونہ مناسبت ہے، جس دن کیپٹن جیمز کک نے آسٹریلیا کو از سرنو دریافت کیا تھا.(World mark encyclopedia of the nations vol 4 13) page گواس سے پہلے ولندیزی اور پرتگالی ملاح اسے دریافت کر چکے تھے.لیکن کیپٹن جیمز لک وہ شخص ہے، جس نے انگلستان کی نو آبادی کے طور پر اسے از سر نو دریافت کیا.اسی طرح آج جماعت احمدیہ آپ کو اسلام کے لئے از سر نو دریافت کر رہی ہے.اور دم نہیں لے گی ، جب تک اس پورے براعظم کو محبت و پیار اور عقل و دانش اور مضبوط عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ جیت نہ لے.یہ ایک روحانی فتح کا پروگرام ہے، جس کا جغرافیائی اور سیاسی غلبہ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.یہ ایک دل جیتنے کا منصوبہ ہے، جس کا جبر واکراہ سے کسی قسم کا واسطہ نہیں.588
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم علاقہ نہیں.ود خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء یہ ایک عقل اور دلیل کی جنگ ہے، جس کا تیر و تفنگ اور توپوں اور راکٹوں سے کوئی بعید کا بھی یہ امن کا پیغام ہے، جو دلوں کی راجدھانی سے تعلق رکھتا ہے.یہ ایک نئی تہذیب اور نئے تمدن کے نفاذ کا سوال ہے، جو اس زمانہ کے تمام مسائل کا حل اور اس مادی دور کی ہر بے چینی کا علاج پیش کرتا ہے.یہ انسان کو از سرنو انسانیت کی اعلیٰ اقدار سکھانے اور اسے حیوانی سطح سے ایک مرتبہ پھر انسانی سطح تک بلند کرنے کی ایک مہم ہے، جو سخت جانکاہی اور جانسوزی اور صبر اور استقلال کا تقاضا کرتی ہے.لا یہ انسان کو انسانیت سکھانے کے بعد اسے اپنے رب اور خالق سے ملانے کا ایک عظیم پروگرام ہے، جو صرف اس دنیا میں ہی وصل خداوندی کے وعدوں پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس دنیا میں ہی وصل انہی کی ایک قوی امید دلاتا ہے اور اپنی تائید میں قطعی شواہد پیش کرتا ہے اور دکھلاتا ہے کہ اس راستہ پر چل کر پہلے بھی ہزار ہا بندگان خدا، باخدا اور خدا نما انسان بن گئے.خالق کے لئے مخلوق کے دل جیتنے کی خاطر کسی نئے براعظم یا ملک یا خطے کی دریافت جماعت احمدیہ کی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں.اور وہ ان مسائل سے پوری طرح باخبر ہے، جو نئے علاقے دریافت کرنے والوں کو در پیش ہوتے ہیں.جب انگلستان نے براعظم آسٹریلیا کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس کی آبادی کی تاریخ کتنی محنتوں اور مشقتوں سے اور دکھوں اور لرزہ براندام کرنے والے مظالم کی داستانوں سے بھری پڑی ہے.جماعت احمدیہ کی روحانی نو آبادی کی تاریخ بھی اسی قسم کے واقعات سے معمور ہے.لیکن اس ظاہری مشابہت کے باوجود دونوں میں اہم اور بنیادی فرق ہے.اور دونوں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہوئے بھی مشابہ نہیں رہتے.جب 1831ء میں انگلستان کے شمالی علاقوں میں ظالمانہ زرعی قوانین کے خلاف فاقہ کش کسان نے آواز احتجاج بلند کی تو اس جرم کی سزا میں ہزار ہا بوڑھوں اور نو جوانوں کو ملک بدر کر کے آسٹریلیا بھجوا دیا گیا.(Raipon land regulation world mark encyclopedia of the nations vol 4 page 13) ان دنوں باٹنی بے Botany Bay کا نام عوام الناس کی زبان میں آسٹریلیا کا ہی متبادل نام تھا.چنانچہ باٹنی بے کی طرف بھجوائے جانے والے مظلوموں پر جو کچھ گزری اور ان کی یاد میں جو پچھلوں پر بیتی اس کے دردناک ذکر پر مشتمل متعدد واقعات اور گیت انگریزی اور سکاٹش لٹریچر میں ملتے ہیں.ان میں 589
خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہی سے ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک عورت کا اکلوتا نوعمر بیٹا بھی محض شغل کے طور پر ان لوگوں میں شامل ہو گیا ، جو ظالمانہ قوانین اور زمینداروں کے بہیمانہ سلوک کے خلاف پر امن احتجاج کر رہے تھے.اس موقع پر جو ہزار ہا احتجاجی قید کئے گئے ، ان میں وہ نو جوان لڑکا بھی تھا.ان قیدیوں کو حکومت برطانیہ نے کچھ عرصہ تک نہایت اذیت ناک حالات میں مقید رکھ کر بالآخر بھیڑ بکریوں کی طرح ان جہازوں میں ٹھونس دیا ، جو انہیں باٹنی بے کی طرف لے جانے کے لئے تیار کئے گئے تھے.ان کے اعزاء واقرباء کو صرف اتنا علم ہوسکا کہ وہ لوگ باٹنی بے چلے گئے.وہاں ان پر کیا گزری یا کتنے ان میں سے راستے میں ہی ہلاک ہو گئے ؟ اس کی ان کو کچھ خبر نہ ہو سکی.ان دنوں باٹنی بے کی طرف جانے والا قیدیوں کا راستہ ایک ایک طرفہ راستہ تھا.ان کو لے جانے والی ہوائیں صرف انگلستان سے باٹنی بے کی طرف چلتی تھیں، الٹ کر کبھی واپس نہیں آئیں.اس لڑکے کا تو کچھ پتانہیں چل سکتا کہ اس پر کیا حالات گزرے؟ ہاں ، اس ماں کا ذکر آج تک محفوظ ہے.جو بچے کی جدائی کے غم میں دماغی توازن کھو بیٹھی.ہر روز بلا ناغہ اس کا یہی کام تھا کہ جنوب مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتی کہ میرا بیٹا اس طرف گیا ہے اور اسی طرف سے واپس آئے گا.وہ ہر روز اس کے استقبال کی تیاری کرتی اور حسب توفیق اس کی مدارت کا سامان مہیا رکھتی.لیکن کوئی اس طرف سے نہ آیا اور انتظار کے دن لمبے ہو گئے.وہ عورت اسی انتظار میں بوڑھی ہوگئی اور بالآخر اس کی ٹانگوں پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئی.اس حالت میں بھی اس کا دستور یہی رہا کہ اپنے عزیزوں سے کہہ کر موسم کے مطابق کبھی صحن میں اور کبھی برآمدہ میں اپنی کرسی اس طرح رکھواتی کہ منہ باٹنی بے کی جانب رہے.اور تمام دن اس سمت سے کسی آنے والے کا انتظار کیا کرتی.لوگ اسے پاگل کہتے تھے، وہ لوگوں کو پاگل سمجھتی تھی.اور کہتی تھی کہ جب بھی میرا بیٹا لوٹے گا، وہ یہ دیکھ کر کتنا خوش ہوگا کہ میری ماں مجھے بھولی نہیں اور آج تک میرے انتظار میں ہے.احمدیت کی روحانی نو آبادیات کی تاریخ میں بھی اس سے ملتے جلتے واقعات نظر آتے ہیں.مگر بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ جبری قربانی کے واقعات نہیں بلکہ طوعی قربانی کے واقعات ہیں.جماعت احمدیہ کی طرف سے پہلے پہل جب مولانا رحمت علی صاحب کو انڈونیشیا تبلیغ کی غرض سے بھجوایا گیا تو اس میں جبر کا کوئی پہلو نہیں تھا بلکہ محض خدمت دین کے جذبہ سے سرشار ہو کر مولانا نے خود اپنی زندگی اس وقت کے امام جماعت احمدیہ خلیفة المسیح الثانی کے حضور پیش کی تھی.جماعت احمدیہ کی غربت کا ان دنوں یہ حال تھا کہ مبلغ بھجوانے کے لئے تو پیسے جمع کر لئے جاتے مگر واپس بلانے کا خرچ مہیا نہیں ہوتا تھا.چنانچہ 590
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء مولانا کو بھی جب بھجوایا گیا تو سال پر سال گزرتے گئے لیکن جماعت کو یہ توفیق نہ مل سکی کہ انہیں ان کے بیوی بچوں سے ملنے کے لئے واپس بلائے.ان کے بچے باپ کی محبت سے محروم یتیموں کی طرح پل کر بڑے ہونے لگے.ایک دن ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے جواب سکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، اپنی ماں سے پوچھا کہ اماں اسکول میں سب بچے اپنے ابا کی باتیں کرتے ہیں.اور جن کے ابا با ہر ہیں، وہ بھی بالآخر واپس آ ہی جاتے ہیں.اور اچھی اچھی چیزیں اپنے بچوں کے لئے لاتے ہیں.پھر یہ میرے ابا کہاں چلے گئے کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتے ؟ ماں یہ سن کر آبدیدہ ہوگئی اور جس سمت میں اس نے سمجھا کہ انڈونیشیا واقع ہے، اس سمت میں انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ بیٹا تمہارے ابا اس طرف خدا اور اس کے رسول کا پیغام پہنچانے گئے ہیں اور اسی وقت واپس آئیں گے، جب خدا کو منظور ہو گا.اس عورت کے جواب میں در دتو تھا مگر شکوہ نہیں تھا.احساس بے اختیاری تو تھا لیکن احتجاج نہیں تھا.کیونکہ وہ خود بھی قربانی کے جذبہ سے سرشار تھی.مولوی صاحب کو انڈونیشیا گئے ہوئے دس سال گذر چکے تھے.جب آپ کو پہلی مرتبہ انڈونیشیا سے کچھ عرصہ کے لئے بلوایا گیا.لیکن پھر جلد ہی انڈونیشیا بھجوادیا گیا.انڈونیشیا میں اپنے اہل و عیال سے الگ رہ کر تبلیغ میں جو وقت انہوں نے صرف کیا، اس کا عرصہ 26 سال بنتا ہے.بالآخر جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ان کو مستقلاً واپس بلوالیا جائے.تب ان کی بیوی جواب بوڑھی ہو چکی تھیں، اپنے امام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بڑے درد سے یہ عرض کیا کہ دیکھیں ، جب میں جوان تھی تو اللہ کی خاطر صبر کیا اور اپنے خاوند کی جدائی پر اف تک نہ کی ، اپنے بچوں کو کسمپرسی کی حالت میں پالا پوسا اور جوان کیا.اب جبکہ میں بوڑھی اور بچے جوان ہو چکے ہیں، اب ان کو واپس بلانے سے کیا فائدہ.اب تو میری یہ تمنا پوری کر دیجئے کہ میرا خاوند مجھ سے دور تبلیغ اسلام کی مہم ہی میں دیار غیر میں مرجائے یا مارا جائے اور میں یہ فخر سے کہ سکوں کہ میں نے اپنی تمام شادی شدہ زندگی دین اسلام کی خاطر قربان کر دی.ان دونوں مثالوں کے انطباق میں یہ ایک عجیب تو ارد ہے کہ اگر شمالی پنجاب میں کھڑے ہو کر کوئی انڈونیشیا کی عمومی سمت کی طرف رخ کرے تو اسی سمت میں آگے باٹنی بے (Botany Bay) بھی واقع ہے.ان دونوں واقعات میں مذکور خواتین کا رخ باٹنی بے کی ہی جانب تھا.لیکن اس ظاہری مماثلت کے باوجودان دونوں واقعات میں بعد المشرقین ہے.ایک باٹنی ہے جبر اور بے اختیاری کی ایک درد ناک داستان کی مظہر ہے اور ایک باٹنی بے عظیم مقصد کے لئے باشعور اور با اختیار طوعی قربانی کی ایک دل گداز مگر ایمان افروز داستان.591
خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اب میں ایک اور اہم امر کی طرف آپ کی توجہ مرکوز کرانا چاہتا ہوں.اور وہ یہ کہ تمام نو آبادیات کے ساتھ نو آبادیات میں بسنے والے قدیم باشندوں کے خلاف شدید مظالم کی داستا نہیں بھی وابستہ ہوا کرتی ہیں.چنانچہ آسٹریلیا کی جغرافیائی تسخیر کے ساتھ بھی انتہائی ظلم کی ایسی ہی داستانیں وابستہ ہیں.آسٹریلیا میں آباد ہونے والی نو آباد قوموں نے پرانی قوموں سے یہاں تک بہیمانہ سلوک کیا کہ ان کی شیکاری ٹولیاں ہتھیاروں سے مسلح ہو کر جنگلوں کی طرف پرانے باشندوں کے شکار کے لئے نکل کھڑی ہوتی تھیں اور جنگلی جانوروں کی طرح ان کو گولیوں کا نشانہ بنا کر یہ مقابلے ہوتے تھے کہ کسی شکاری نے کتنے زیادہ پرانے باشندوں کا شکار کیا ہے؟ یہ ظلم کسی لڑا کا قوم کے خلاف روا نہیں رکھا گیا بلکہ مؤرخین ہمیں بتاتے ہیں کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندے تو جنگجو اور خونخوار نہیں تھے بلکہ نہایت امن پسند صلح کل لوگ تھے.روحانی تسخیر کے ساتھ بھی اسی قسم کے ظالمانہ مظالم کی داستانیں وابستہ ہوتی ہیں.لیکن اس بنیادی فرق کے ساتھ کہ بچی مذہبی قو میں دوسروں کا شکار نہیں کرتیں بلکہ خودان کا شکار بنائی جاتی ہیں اور پر اپنے باشندے شکاری بن کر مذہبی قوموں کا شکار کرتے ہیں.دیکھو ! عیسائیت نے جب سلطنت روما کو مذہبی تسخیر کے لئے دریافت کیا تو یہ نو آباد کار عیسائی ہی تو تھے، جنہیں اہل روم کے ہاتھوں وحشی درندوں سے پھڑوایا گیا اور شیروں اور بھیڑوں کے سامنے پھینکا گیا.احمدیت کی نو آبادیاتی تاریخ میں بھی غریب اور بے کس احمدیوں کے خلاف ایسے ہی دردناک مظالم کے واقعات بکثرت ملتے ہیں، جو ملک ملک دنیا بھر میں پھیلے پڑے ہیں.مثلاً آج سے تقریباً 45 سال پہلے کا یہ واقعہ ہے کہ سنگا پور میں ہمارے ایک مبلغ غلام حسین صاحب ایاز کو تبلیغ کے جرم میں مشتعل ہجوم نے مار مار کر نیم جان کر دیا اور زخموں سے چور بدن کو رات کے وقت ایک سنسان سڑک پر پھینک دیا.ان کو اچانک ہوش اس طرح آیا کہ آوارہ کتے غراتے ہوئے ان کے زخموں کو بھنبھوڑ رہے تھے.پس اے اہل آسٹریلیا! اگر ہم وہی ہیں، جو اس عزم اور اس صبر اور اس استقلال اور اس شان فقیرانہ کے ساتھ نئی روحانی بستیاں آباد کیا کرتے ہیں اور دوسروں کے خون سے نہیں بلکہ خود اپنے ہی خون سے بے رنگ زمینوں کو رنگ بخشتے ہیں اور بے آب و گیاہ صحراؤں کو چمن زار بنا دیتے ہیں.اگر ہم وہی ہیں جو بالآخر دلوں پر فتح پاتے ہیں اور روحوں کی تسخیر کرتے ہوئے خیالات اور نظریات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں تو یا درکھنا کہ آج کا دن جبکہ ہم اپنی پہلی مسجد اور اپنے پہلے مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں، براعظم آسٹریلیا کی تاریخ کا عظیم ترین دن ہے.یہ وہ دن ہے، جس کی آب و تاب گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی.اور وہ دن جب کیپٹن جیمز لک نے پہلی مرتبہ آسٹریلیا کی سرزمین پر 592
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1983ء جب قدم رکھا تھا، اس نئے دن کی روشنی کے سامنے پھیکا اور ماند پڑ جائے گا.وہ زمانہ بہت دور نہیں، ج آسٹریلیا کے باشندے جوق در جوق اس مسجد کی زیارت کے لئے آیا کریں گے اور اس خانہ خدا میں عبادت کرتے ہوئے اس عظیم دن کو یاد کریں گے، جب کہ اللہ کے ایک عاجز بندے نے بڑی متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا.وہ اس مسجد کے صحن میں آنسو بہاتے ہوئے دعائیں دیں گے، ان سب مخلصین کو ، جنہوں نے اسلام کی فتح کے اس پہلے یادگاری نشان یعنی اس خانہ خدا کی تعمیر میں مال اور جان کی قربانی پیش کی تھی.اور حسرت کریں گے کہ کاش ہم بھی اس زمانہ میں ہوتے تو ہمارا نام ان مجاہدین کی صف میں لکھا جاتا، جنہوں نے آسٹریلیا میں اسلام کے غلبہ کی داغ بیل ڈالی.آخر پر میں اس خطاب کو بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی اس پر شوکت پیش گوئی کے الفاظ پر ختم کرتا ہوں کہ اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے، جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا، جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے، نامرادر کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں ،سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھوٹے گا اور کوئی نہیں، جو اس کو روک سکے.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 166,67 سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا ، نہ کند ہو گا ، جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دئے.تبلیغ رسالت جلد 6 ، صفحہ 8 ( مطبوعه روزنامه الفضل یکم اکتوبر 1983ء) 593
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اسلام کی امتیازی خصوصیات خطاب فرمودہ 105 اکتوبر 1983ء خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مشرق بعید کے دورہ میں آسٹریلیا کے دار الحکومت کینبرا میں آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی فیکلٹی آف آرٹس کے لیکچر ہال میں Some Distinctive Features Of Islam.کے موضوع پر جو خطاب فرمایا، اس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے:.اشهد ان لا اله الا الله وحده لاشريك له و اشهدان محمد أعبده ورسوله اما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ & اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِيْنَ اسلام کی امتیازی خصوصیات کا ذکر چلے تو سب سے پہلے اور سب سے دلکش اسلام کا جو امتیازی حسن آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے، وہ اس کی یہ ادائے دلبری ہے کہ سچائی کا اس طرح اجارہ دار نہیں بنتا کہ گویا اسلام کے سوا کبھی دنیا میں کوئی سچاند ہب نہیں آیا اور عرب قوم کے سوا کبھی اللہ تعالیٰ نے کسی اور قوم کو اپنے پیار سے نہیں نوازا.بلکہ اسلام وہ منفر د مذہب ہے، جو سچائی پر کسی مذہب یا قوم یار تنگ اور نسل کی اجارہ داری کو یک قلم موقوف فرماتا ہے.اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے جاری ہونے والی ہدایت کا سلسلہ ایک رحمت عام ہے، جو ہر زمانہ میں اس مخلوق پر فیض رساں رہا اور ہر قوم اور ہر نسل کے انسان کو اس نے اپنے نور ہدایت سے نوازا.اور کوئی خطہ زمین یا قوم نہیں، جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر نہ آئے ہوں.چنانچہ فرماتا ہے:.595
خطاب فرمودہ 05 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد:08) اس کے برعکس ہم تعجب سے یہ دیکھتے ہیں کہ کسی دوسرے مذاہب کی الہامی کتاب میں کسی دوسری قوم یا سرزمین میں ظاہر ہونے والے مذہب کی صداقت کا اعلان نہیں.بلکہ اس کے برعکس اس قدر زور ایک محدود دائرہ میں ظاہر ہونے والے مذہب کی سچائی پر دیا جاتا ہے اور ایسی بے اعتنائی دیگر قوموں اور انسانوں سے برتی جاتی ہے کہ گویا خدا بس ایک قوم اور ایک ہی نسل اور ایک ہی مذہب کا ورثہ پانے والوں کا خدا تھا.اور دیگر کل عالم میں بسنے والے انسانوں سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا.مثلاً بائبل صرف بنی اسرائیل کے خدا کو پیش کرتی ہے.اس میں بار بار ایسا ذ کر ملتا ہے کہ " خداوند اسرائیل کا خدا ابدالآبا د مبارک ہو.تواریخ 16/36 ، نیز دیکھیں سموئیل 25/32، سلاطین 1/48، تواریخ 6/4 ، زبور 76/18) لیکن اشارہ بھی کسی اور قوم یا خطہ زمین پر پیدا ہونے والے مذہبی مصلحین کی سچائی کی تصدیق نہیں ملتی.پس یہود کا یہ عقیدہ کہ بنی اسرائیل کے سب نبی صرف اسرائیل کے گھرانے کے لئے آئے تھے.بائبل کی تعلیم اور منشاء کے عین مطابق ہے.حضرت مسیح نے بھی اپنے آپ کو صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث قرار دیا اور کہا:.میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.اور اپنے حواریوں کو یہ تعلیم دی کہ وو (15/25621) وہ چیز جو پاک ہے، کتوں کو مت دو اور اپنے موتی سوروں کے آگے مت پھینکو.(716) اسی طرح ہندو مذہب میں بھی وید کو شض اونچی ذاتوں سے مخصوص کیا گیا ہے.جیسا کہ لکھا ہے:.اگر کوئی شودر میں دید سن لے تو راجہ سیسے اور لاکھ سے اس کے کان بھر دے وید منتروں کا اچارن (تلاوت) کرنے پر اس کی زبان کٹوادے اور اگر وید کو پڑلے تو اس کا جسم ہی کاٹ دئے.( گوتم سمرتی ادھیائے 12 ) 596
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 05اکتوبر 1983ء اس منفی تعلیم کو نظر انداز بھی کر دیا جائے اور اس کی خواہ کوئی بھی توجیہ پیش کی جائے، یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ ہندوؤں کی کتب مقدسہ میں کسی ایک بھی دوسری قوم یا علاقے کے مذہب کی سچائی کا کوئی اعلان انشار پہ بھی نظر نہیں آتا.یہی حال دیگر کتب مقدسہ کا ہے اور نہ تو کنفیوشزم میں کسی غیر قوم یا ملک میں ظاہر ہونے والے مذہبی رہنما کی سچائی کی تصدیق ملتی ہے، نہ بدھ ازم میں ، نہ زرتشی مذہب میں.گویا ہر ایک کو اپنے کام سے کام ہے.اور ہر ایک کا خدا، بس اسی ایک قوم کا خدا ہے.جس کا دیگر مخلوقات سے کوئی تعلق نہیں.یہاں یہ بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ سب مذاہب سچے تھے تو خدا کے تصور کو اس حد تک محدود کر کے پیش کرنے میں کیا حکمت تھی؟ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہ ہوگا کہ ان کی کتب مقدسہ محدود علم کی پیداوار میں اور دیگر بنی نوع انسان سے ان کی بے تعلقی لا علمی پر دلالت کرتی ہے.پس وہ کیا خدا ہے، جو صرف ایک ہی قوم کو ہدایت کے لئے چن لے اور اپنے دیگر تمام بندوں سے بے رخی اور بے اعتنائی کا سلوک کرے؟ جب ہم اس پہلو سے قرآن کریم پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ اس الجھن کا یہ حل پیش فرماتا ہے کہ نزول قرآن سے قبل اور بعثت محمد مصطفیٰ سے پہلے اگر چہ ہر قوم کی طرف ہر خطہ زمین کی طرف خدا تعالیٰ کے رسول آئے لیکن ان سب کی حیثیت قومی اور مقامی تھی.اور انسانی تمدن ابھی اس حد تک ارتقاء پذیر نہیں ہوا تھا کہ کوئی عالمی نبی عالمی پیغام لے کر ان کی طرف بھیجا جاتا.پس قرآن قومی اور مقامی انبیاء کے وجود کا تو ذکر کرتا ہے.بعثت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کسی ایسے نبی کا ذکر نہیں کرتا، جو عالمی پیغام لایا ہو.اس نکتہ کو سمجھ کر جہاں ایک ذہنی الجھن سے نجات ملتی ہے، وہاں اسلام کی ایک اور امتیازی حیثیت کا علم بھی حاصل ہو جاتا.یعنی یہ ایک ہی مذہب ہے، جو کل عالم کے انسانوں کو مخاطب کرتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ انسان اپنے ارتقاء کی اس منزل تک پہنچ جاتا ہے، جہاں اسے قومی اور علاقائی مذہب کی حدود سے نکال کر اسلام کی صورت میں ایک عالمی مذہب عطا کیا جاتا ہے.اسلام کی کتاب کا پہلا ورق ہی الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ یعنی تمام جہانوں کی ربوبیت کرنے والے خدا کی حمد پر مشتمل ہے اور اس کے آخری صفحہ پر رَبِّ النَّاسِ یعنی تمام انسانیت کے رب سے دعائیں کرنے کی تلقین کی گئی ہے.گویا اس کتاب کا اول و آخر تمام جہانوں کے خدا کا تصور پیش کرتا ہے، نہ کہ محض عربوں یا مسلمانوں کے خدا کا.597
خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کوئی شخص نہ تھا، جس نے ساری دنیا کو دعوت کی ہو.اور قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہ تھی ، جس نے ساری دنیا کو مخاطب کیا ہو.دنیا میں پہلی مرتبہ یہ اعلان رسول اسلام کے حق میں کیا گیا:.وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا اور فرمایا:.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا اور قرآن کو (29:-) (الاعراف :159) إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَلَمِينَ ) (تکویر: 28) کہہ کر تمام عالمین کے لئے ایسی نصیحت قرار دیا، جس سے انسانیت کا شرف وابستہ ہے.دوسرے مذاہب میں عالمگیریت کا دعویٰ ان کی الہامی کتب سے نہیں ملتا اور اگر بعد میں سینٹ پال وغیرہ نے عیسائیت کی تبلیغ کو عام کر بھی دیا تو یہ اس مذہب کا حصہ نہیں کہلا سکتی.کیونکہ یہ سی کی ہدایت کے خلاف ہے.پھر طرفہ یہ کہ اس نام نہاد دعویٰ عالمگیریت کا کوئی ثبوت بھی اس مذہب کے پاس نہیں ہے.اس کے مقابل پر اسلام عالمگیر ہونے کا دعوی کر کے اس کا ثبوت بھی پیش کرتا ہے.اور ثبوت بھی ایسا نا قابل تردید، جو ایک طرف دوسرے مذاہب کے عالمگیر ہونے کے دعویداروں کو جھوٹا ثابت کر رہا ہے تو دوسری طرف اسلام کی زبر دست امتیازی شان ظاہر کرتا ہے.وہ یہ کہ توریت اور انجیل میں کہیں نہیں آیا کہ غیر قوموں میں بھی نبی آئے ہیں اور بنی اسرائیل کے سوا اور لوگوں کو بھی مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا شرف حاصل ہوا.الغرض خالق عالم کے اپنی باقی مخلوق کے ساتھ رشتہ اور تعلق کا کوئی ذکر کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتا.پس وہ مذہب کیسے عالمگیر ہوسکتا ہے، جو کسی اور خطہ کے انسانوں سے خدا کی ہم کلامی تسلیم ہی نہیں کرتا اور مذہب کی عالمگیر حیثیت سے ہی انکاری ہے.ایک اسلام ہی ایسا مذ ہب ہے، جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہر زمانہ میں ہر قوم سے خدا تعالیٰ کا تعلق رہا ہے، فرماتا ہے:.وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ (فاطر: 25) 598
تحریک جدید - ایک الہی تحریک وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ خطاب فرمودہ 05 اکتوبر 1983ء (الرعد : 8) کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں، جس میں نبی نہ آئے ہوں.بلکہ ہر قوم اور زمانہ میں کوئی نہ کوئی ہادی ضرور آیا ہے.اس عظیم الشان اعلان سے عالمی کیریکٹر ظاہر ہو گیا.پس اسلام ہی ہے، جو انسان اور مذہب کی عالمی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے.اور یہ امر جہاں اسلام کے عالمگیر ہونے کا ہے، وہاں اسلام کی عظیم برتری دوسرے مذاہب کے مقابل پر ظاہر کرتا ہے.پھر اس مضمون کا دوسرا رخ اسلام کی ایک اور امتیازی خوبی ظاہر کر کے اس کا عالمگیر ہونا ثابت کرتا ہے.فی الحقیقت عالمگیر مذہب کا دعوی کرنے کے لئے صرف یہ کافی نہیں کہ دوسرے مذاہب میں کسی ہادی یار ہنما کا آنامان لیا جائے.بلکہ جب تک دوسرے مذاہب کے بانیوں کو تسلیم نہ کیا جائے عالمگیر ہونے کا دعوی کیا ہی نہ جا سکتا.یہ خوبی بھی کسی دوسرے مذہب میں نظر نہیں آتی.اسلام کو یہ فخر حاصل ہے.کہ وہ دوسرے تمام مذاہب کے بانیوں اور پیشواؤں کو (جو اپنے وقت میں بچے تھے مانتا اور قبول کرتا ہے.قرآن شریف کو بار بار دوسری کتابوں کا مصدق کہا گیا ہے.اور مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جس طرح اپنے نبی کا مانا ان پر فرض ہے، دوسری قوموں کے نبیوں اور رسولوں پر ایمان لانا بھی فرض ہے.اور ایمان کے لحاظ سے کسی رسول میں کوئی تفریق جائز نہیں کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ ما نہیں.فرماتا ہے:.امَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلَكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ (البقرة : 286 ، نیز 05) اس لئے ہر مسلمان انبیاء کی معروف تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ( یا کم و بیش ) پر صدق دل سے ایمان لاتا ہے.پس بلا تمیز رنگ و نسل اور بلالحاظ زمانہ و قوم تمام امتوں کے رسولوں کو سچا تسلیم کرنے اور ان کی تکریم کا اصول ہی قوموں میں صلح کی صحیح بنیاد اور مذاہب میں اتحاد کی منفرد راہ ہے.اور یہ جہاں عالمگیریت کے دعوئی کا ایک بڑا تقاضا ہے، وہاں اسلام کی عالمگیریت کی بین دلیل ہے.یہاں اس سوال کا جواب خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ عالمگیریت میں اپنی ذات میں کیا خوبی ہے؟ اور اسلام اس پر کیوں زور دیتا ہے؟ سویا درکھنا چاہیے کہ جب سے اسلام وحدت اقوام کا پیغام لے کر آیا 599
خطاب فرمودہ 05اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ہے.اتحاد اقوام کی طرف دنیا کا سفر تیز سے تیز تر ہوا چلا جارہا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں مختلف ممالک کی فیڈریشنز لیگ آف نیشنز، یو این او کا قیام اور مذہبی دنیا میں ورلڈ کانفرنس آف ریلیچنز اس کی چند مثالیں ہیں، جو انسان کے وحدت اقوام کے اس طویل سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں.پس وہ چیز جس کی ضرورت آج کا ترقی یافتہ انسان محسوس کرتا ہے، قرآن شریف نے آج سے چودہ سو سال قبل بطور پیج کے اپنی تعلیم میں شامل کر دی تھی.اور آج تو ذرائع رسل و رسائل اور نظام مواصلات کے ذریعہ وحدت اقوام کی طرف قوموں کا سفر زیادہ برق رفتاری سے جاری ہے.لیکن اس جگہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور وقت اس حقیقت کو ثابت کرے گا کہ اس سفر میں آخری منزل اسلام ہے.جو ابتداء سے بھی عالمگیر ہونے کا مدعی ہے.اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب مذاہب کے بانی خدا کی طرف سے تھے تو پھر مختلف مذاہب کی تعلیم میں اختلاف کی وجہ کیا ہے؟ کیا ایک خدا مختلف تعلیمیں دے سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب سوائے اسلام کے اور کوئی دوسران ہب پیش نہیں کرتا.اور یہ امتیاز بھی اسلام کی شریعت کو حاصل ہے.اسلام اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ بنیادی طور پر اختلاف مذہب کی دو وجوہ ہیں.اول: یہ کہ مختلف حالات میں مختلف تعلیم کی ضرورت تھی.اس لئے اس حکیم و خبیر ہستی نے اس انسانی ضرورت کا لحاظ رکھتے ہوئے مختلف زمانوں اور قوموں اور ملکوں کی ضروریات کے مطابق تعلیم دی.مذہب میں اختلاف کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ مرور زمانہ سے سابقہ مذاہب کی تعلیم محفوظ نہ رہی.لوگ حالات اور ضروریات کے مطابق ان میں خود تبدیلی کرتے رہے.اور وہ الہامی کتب اس شکل میں نہ رہیں ، جس میں وہ نازل ہوئی تھیں.تب بھی تعلیم کی ضرورت پیش آئی.ایک اور محرک سابقہ تعلیموں کے محفوظ نہ رہنے کا یہ بھی ہوا کہ جوں جوں زمانہ نبوت سے دوری ہوتی گئی ، شریعت کی سختی کے رد عمل کے طور پر مذہب کے آزادی کے تصور اور خواہشات نفسانی کی غلامی نے مذہبی تعلیمات پر تحریف کے ایسے نشتر چلائے ، جو بعد میں آنے والے بچے مذاہب کے لئے اختلافات کا ناسور بن گئے.گردش زمانہ سے پھر ایک حصہ تعلیمات کا نسیان کی نذر بھی ہو گیا اور اس طرح وہ کتب محفوظ نہ رہیں.جیسا کہ فرماتا ہے:.يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظَّا مِمَّاذُ كِرُوا بِهِ (المائدة: 14) 600
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء اگر چہ بائبل کے جدید نظر ثانی شدہ ایڈیشنز کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کئی آیات جو پر ایڈیشنز میں متن تھیں، ان کو اب حاشیے میں اور جو پہلے حاشیہ میں تھیں، ان کو اب متن میں شامل کر دیا گیا ہے.انجیل مرقس باب 16 آیت 109 تا 20 مطبوعہ 1928ء ومطبوعہ 1977ء 1888 ءلدھیانہ، انجیل متی باب 17 آیت 21 مطبوعہ 1888 ولد حیانه ) لیکن یہ تو ایک بالکل معمولی اور ادنیٰ مثال ہے.بائبل میں یا دیگر کتب مقدسہ میں تحریف کا مضمون ایک بہت ہی وسیع مضمون ہے.جس پر تحقیق کرنے والے صدیوں سے کام کرتے چلے آرہے ہیں.اور ایک بات بہر حال قطعی طور پر ثابت ہے کہ بعض ایسی بنیادی تبدیلیوں اور تضادات کا پتہ چلتا ہے، جن سے صرف نظر ممکن نہیں.اسے ہم بددیانتی کا نام نہ بھی دیں تو کم از کم اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ انسان ان کتب میں تبدیلیاں کرنے پر مجبور رہا ہے.اسلام یہ دعوی نہیں کرتا کہ تمام مذاہب اپنی موجودہ شکل میں تمام تر بچے ہیں.بلکہ آغاز سے لے کر انجام تک مسلسل تبدیلی اور انحطاط اور تعمیر نویا انہدام کے عمل پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتا ہے.پس اسلام صرف اس حد تک دیگر مذاہب کی سچائی کا مصدق ہے کہ وہ آغاز میں بچے تھے لیکن رفتہ رفتہ تحریف و تبدیل کے عمل نے ان کے چہرے بدل دیئے.یہ تحریف و تبدیل کا عمل کتب مقدسہ کے متن میں بھی ہوتا رہا اور نظریات و عقائد میں بھی.اور اس کا رخ ہمیشہ وحدت سے کثرت اور توحید سے شرک کی طرف رہا.اگر ہم قرآن کے پیش کردہ اس اصول کی روشنی میں مذاہب میں اختلاف کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ جتنا کسی مذہب کے منبع کے قریب جائیں گے، اختلافات کم ہوتے چلے جائیں گے.مثلاً عیسائیت اور اسلام کے مابین تقابلی جائزہ کو سیح کی زندگی اور انجیل اربعہ کے مطالعہ تک محدود رکھیں تو انجیل اور قرآن کے مابین اصولی تعلیم کے لحاظ سے کم اختلاف نظر آئیں گے لیکن زمانے میں جتنا آگے بڑھیں گے، ان اختلافات کی خلیج انسانی ہاتھوں کی کرشمہ سازی سے وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جائے گی.یہاں تک کے اس کا پاٹنا کسی انسان کے بس کا روگ نہیں رہے گا.دیگر مذاہب کے تاریخی مطالعہ سے بھی یہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے پیش کردہ نظریہ کی تائید میں بھی قوی قرائن ملتے ہیں کہ تبدیلی کا رخ ہمیشہ توحید سے شرک اور حقیقت سے افسانہ کی طرف رہا ہے.قرآن شریف اس اصول کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:.وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ (النحل: 37) 601
خطاب فرمودہ 05 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم کہ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے، جنہوں نے ایک خدا کی عبادت کرنے اور شیطانی امور سے بچنے کی تعلیم دی.پھر فرماتا ہے:.تَاللهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ أَعْمَالَهُمُ لَ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمُ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيْهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ ) ( النحل 64.65) ہمیں اپنی ذات کی قسم کہ ہم نے تمام امتوں کی طرف اپنے پیغمبر بھیجے.انہوں نے ان کو ہمارے احکام سے آگاہ کیا.پھر شیطان نے ان کے بد اعمال خوبصورت کر کے دکھائے.سو آج وہی ان کا آقا بنا ہوا ہے اور وہ اس کے پیچھے جارہے ہیں.ان کے لئے دردناک عذاب مقدر ہے.اور ہم نے تجھ پر اس کتاب کو اس لئے اتارا ہے کہ جس بات سے متعلق انہوں نے باہم اختلاف کر لیا ہے، اس کی اصل حقیقت کو وہ کتاب ان پر روشن کرے اور نیز جو اس پر ایمان لائیں، ان کے لئے یہ کتاب ہدایت اور رحمت کا موجب ہو.آغاز مذاہب سے متعلق قرآن کریم کے اس نظریہ کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہریذ ہب اپنے آغاز میں سچا ہوتا ہے.بلکہ قرآن کریم ہر بچے مذہب کے بگڑ جانے کے باوجود اس کی سچائی کی یہ قطعی پہچان ہمیں بتاتا ہے کہ جو مذہب بھی سچا اور خدا کی طرف سے ہے، اس کی صداقت کو پہچانے کا قطعی اور یقینی ذریعہ یہ ہے کہ اس کے ماخذ کی پڑتال کرو.اگر اس کے ماخذ میں توحید کی تعلیم نظر آئے اور خالصہ للہ عبادت اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی کی ہدایت ملے تو ایسے مذاہب میں پیدا ہونے والی بعد کی تبدیلیوں کے باوجود تمہیں اس حد تک اس کی صداقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ان کے بانی بچے اور پاکباز لوگ تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے برحق رسول تھے اور بلا تفریق ان کی صداقت پر ایمان لانا ضروری ہے.اسلام کو دوسرے مذاہب پر ایک اور یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ صرف عالمی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ ابدی اور دائمی ہونے کا دعوی بھی کرتا ہے.اور اس دعویٰ کے پیدا ہونے والے تقاضے بھی پورے کرتا ہے.مثلا کسی پیغام کے دائی ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر پہلو سے کامل بھی ہو اور محفوظ بھی ہو.یعنی اس کی کتاب مقدس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ضمانت بھی دی گئی ہو کہ وہ ہمیشہ انسانی دست برد 602
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء سے محفوظ رکھی جائے گی.چنانچہ قرآن کریم کی پیش کردہ تعلیم کے بارہ میں خود قرآن کریم ہی میں یہ دھوئی بھی موجود ہے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة :04) یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج کہ دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین ہر رنگ میں کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر کے اس بات پر راضی ہو گیا ہوں کہ اب اسلام ہی تمہارا دین رہے.جیسا کہ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں، کسی تعلیم کے دائمی ہونے کے لئے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ کامل ہو بلکہ اس کی دائمی حفاظت کی ضمانت بھی ضروری ہے.چنانچہ قرآن کریم اس اہم عقلی تقاضے کو بھی پورا کرتا ہے اور قرآن کو نازل کرنے والا خدا غیر مبہم الفاظ میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (10:30) کہ ہم نے ہی اس کتاب کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے.یعنی اللہ تعالیٰ خود اس کی حفاظت کرے گا اور اسے بگڑنے نہ دے گا.چنانچہ قرآن کریم کی لفظی حفاظت کا اللہ نے یہ انتظام فرمایا کہ لاکھوں حفاظ ہر زمانے میں موجود رہے اور آج بھی موجود ہیں.اور معنوی حفاظت کا یہ انتظام کیا کہ ہر صدی پر مجددین کا سلسلہ جاری فرمایا.اور آخری زمانہ میں پیدا ہونے والے ایک عظیم الشان مجدداور مصلح کے آنے کی خوشخبری دی، جسے خود اللہ تعالیٰ امام بنائے گا اور وہ خدا تعالیٰ کی ہدایت کے تابع اسلام کے بارہ میں پیدا ہونے والے اختلافات کا فیصلہ کر کے تعلیم قرآن کی معنوی حفاظت کرے گا.قرآن کریم کے بارہ میں کتاب محفوظ ہونے کا دعوی بھی اسلام کی ایک امتیازی شان ہے.اسلام کے سوا ہمیں کوئی ایسامذہب نظر نہیں آتا، جس کی مذہبی کتب نے اپنی حفاظت کا دعوی کیا ہو یا عملاً وہ اسی طرح محفوظ ہوں ، جس طرح وہ نازل ہوئی تھیں.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اس دعوئی کے حق میں کوئی قطعی تائیدی شہادت بھی ملتی ہے یا یہ محض ایک دعوی ہی ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ بکثرت ایسے غیر مسلم محققین موجود ہیں، جن کی انتہائی کوشش اور جستجو کے باوجود وہ یہ دکھانے سے عاجز آ گئے کہ قرآن کریم میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے بعد کسی قسم کی کوئی تبدیلی کی گئی 603
خطاب فرمودہ 05 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہو.اور بہت سے غیر مسلم محققین کھلے لفظوں میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ ایک غیر مبدل اور محفوظ کتاب ہے.چنانچہ سرولیم میور اپنی کتاب ”لائف آف محمد میں لکھتے ہیں.ترجمہ: "ہم نہایت مضبوط قیاسات پر کہہ سکتے ہیں کہ ہر ایک آیت، جو قرآن میں ہے، وہ اصل ہے.اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی غیر محرف تصنیف ہے".پھر مزید لکھتے ہیں کہ (لائف آف محمد صفحہ 562) ترجمہ: ”اس کے علاوہ ہمارے پاس ہر ایک قسم کی ضمانت موجود ہے.اندرونی شہادت کی بھی اور بیرونی کی بھی کہ یہ کتاب جو ہمارے پاس ہے، یہ وہی ہے، جو خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی اور اسے استعمال کیا کرتے تھے“.(لائف آف محمد صفحہ 561) ایک اور غیر مسلم محقق نولڈ کے کا قول ہے:.ترجمہ: "ممکن ہے کہ تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں ( طرز تحریر کی ) ہوں تو ہوں لیکن جو قرآن عثمان نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا، اس کا مضمون وہی ہے، جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے پیش کیا تھا.گو اس کی ترتیب عجیب ہے“.(انسائیکلو پیڈیا برٹینی کا زیر لفظ قرآن) جہاں تک اسلام کے اس منفرد اور امتیازی دعوئی کا تعلق ہے کہ قرآنی تعلیم کامل ہے اور اس لائق ہے کہ ہر زمانہ کے انسان کے لئے ہدایت بن سکے، اسلام کا یہ دعوی بھی بلا دلیل نہیں اور اس کی تعلیم قطعی اندرونی شہادتیں اس امر کی رکھتی ہے کہ یہ کامل بھی ہے اور زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے.یہ تو ممکن نہیں کہ اس مختصر وقت میں اسلامی تعلیم کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جا سکے.بعض اصولی پہلوؤں کی نشان دہی اور چند وضاحتی مثالوں پر ہی اکتفا کروں گا.سب سے پہلے یہ جانا ضروری ہے کہ اسلام اس کوشش میں کس طرح کامیاب ہوتا ہے کہ گزرتے ہوئے زمانہ کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے باوجود اس کی تعلیم میں کسی تبدیلی کی ضرورت پیش نہ آئے.اس پہلو سے اسلام کی حکمت عملی کا مطالعہ ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے، جس کے چند پہلو بطور نمونہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.604
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد شم خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء اصولی تعلیم کا بیان اور ایسی تفصیلات سے گریز، جو وقت اور حالات کے بدلنے کے ساتھ تبدیلی کی محتاج ہوں.2.انسان کے چینی، تمدنی اور سیاسی ارتقاء پر نظر ڈالتے ہوئے ایسی تعلیم دینا، جو ہر امکانی صورت حال کو پیش نظر رکھے اور اس ٹھوس مشاہدہ پرمبنی ہو کہ کبھی کسی زمانہ میں بھی مختلف قومیں ترقی کے لحاظ سے ایک مقام پر کھڑی نہیں ہوتیں بلکہ ہر زمانہ میں متعدد ایسی قومیں ملتی ہیں، جو اپنی نشو ونما اور ترقی کے اعتبار سے بعض دوسرے زمانوں سے تعلق رکھتی ہیں.مثلاً آج بھی یہ ممکن ہے کہ اس دنیا میں پتھر کے زمانے کے انسان بھی موجود ہوں یا ہزار برس پہلے کے زمانہ سے تعلق رکھنے والے گروہ یا قو میں موجود ہوں، جو شعور اور تمدن اور سیاست اور ارتقاء کے اعتبار سے بظاہر اس زمانہ میں ہوتے ہوئے بھی دراصل گزشتہ زمانوں کے لوگ ہوں.مثلاً آسٹریلیا کے قدیم باشندے یا کانگو کے پگمیز ہیں، جن پر اس زمانے کے جدید سیاسی نظریات کو ٹھونسنا محض حماقت ہوگی.ایسی تعلیم ، جو انسانی فطرت کے سب امکانی تقاضوں کو ملحوظ رکھے اور اس وقت تک غیر مبدل رہے، جب تک انسانی فطرت میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی.مطبوعه روزنامه الفضل 30 جنوری 1984ء) اسلام کے اسلوب تعلیم کی یہ چند شکلیں بطور مثال پیش کی گئی ہیں.اب میں ان پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہوں تا کہ میرا مافی الضمیر بغیر کسی ابہام کے سمجھ آسکے.اسلام سود کی ہر حالت میں مذمت کرتا ہے اور دنیا بھر سے سودی نظام کی مکمل بیخ کنی کی بشدت تلقین کرتا ہے.اور اقتصادی پیسے کو چلانے کے لئے سود کی بجائے زکوٰۃ کو قوت محرکہ کے طور پر پیش کرتا ہے.وقت اور موقع کی مناسبت سے اس تفصیلی بحث کی تو یہاں گنجائش نہیں کہ سودی نظام کے مقابل پر زکوۃ کے نظام کو کیا کیا فوقیت حاصل ہے؟ لیکن صرف اس پہلو سے میں یہاں کچھ گفتگو کروں گا کہ اس تعلیم کو زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کے لئے قرآن کریم کیا طریق اختیار کرتا ہے؟ زکواۃ سرمایہ پر ایک ٹیکس کا نظام ہے، جو امراء سے وصول کیا جاتا ہے اور ریاست کی ضروریات کو اس ٹیکس سے پورا کرنے کے علاوہ اس کا بڑا مقصد یہ ہے کہ غرباء کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے.غرضیکہ یہ کہ ایک ایسا نظام ہے، جو حکومت کی ضرورتوں کے علاوہ سوشل ویلفیئر کے تقاضے پورے کرنے کا ضامن ہے.اگر قرآن کریم انسان کے ہاتھ کا بنایا ہوا کلام ہوتا تو ضرور اس زمانہ کے عرب کے حالات مد نظر رکھ کر 605
خطاب فرمودہ 05اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اس ٹیکس کی کوئی شرح معین کر دیتا.لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بیسیوں مرتبہ زکواۃ دینے کے مؤکد احکامات کے باوجود ایک جگہ بھی قرآن کریم میں زکوۃ کی شرح معین نہیں کی.لیکن اس کے باوجود ایسی اصولی رہنمائی کر دی گئی ہے، جس کے پیش نظر ہر ملک اور زمانے کے حالات کے مطابق دینی امور میں تفقہ کرنے والے معین فیصلہ کر سکیں.چنانچہ فرمایا:.وفي أَمْوَالِهِمْ حَتَّى لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريات: 20) کہ جن لوگوں کے پاس بنیادی ضروریات سے زائد ہے ، ان کے مال میں ان لوگوں کا حق ہے، جو بصورت سائل یامحروم سوسائٹی میں اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں ان کی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہیں.اب اس اصول کی روشنی میں ہر زمانہ ، ملک، قوم اور معاشرہ میں انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا، اس کا کم از کم حق تسلیم کیا گیا ہے.اور اس بنیادی حق کی ادائیگی کا ذمہ داران لوگوں کو ٹھہرایا ہے، جن کے پاس بنیادی ضرورت سے زیادہ ہے اور اس کا انتظام حکومت کے ذمہ ہے کہ وہ ادائیگی حقوق کا عادلانہ نظام اس اصول کی روشنی میں قائم کرے.آج کے زمانہ کا دوسرا بین الاقوامی مسئلہ نظام حکومت کی تعیین ہے کہ کہاں ، کون سا نظام رائج ہو؟ اس سلسلہ میں بھی اسلام کے رہنما اصولوں کو لیں تو وہ ایسے لچکدار لیکن ٹھوس اور پختہ اصول ہیں کہ اپنی سچائی اور عظمت کی آپ دلیل ہیں.اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ مختلف نظام حکومت اپنے مخصوص حالات اور تقاضوں کے پیش نظر موزوں یا غیر موزوں قرار دیئے جاتے ہیں.اور ہر زمانہ میں ہر قوم اور ہر خطہ کے بسنے والوں کے لئے ایک ہی سیاسی نظام مفید ثابت نہیں ہو سکتا.اس لئے اسلام کوئی ایک نظام حکومت معین نہیں کرتا.وہ نہ ڈیما کریسی یا سوشلزم کو بطور نظام حکومت کے پیش کرتا ہے اور نہ بادشاہت ڈکٹیٹر شپ یا فاشسٹ حکومت کی طرف رہنمائی کرتا ہے.بلکہ وہ حکومت بنانے سے بڑھ کر حکومت چلانے کے رہنما اصول بیان کرتے ہوئے یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ حکومت خواہ کسی ڈھب کی ہو، حکومت کی ذمہ داریاں لازماً انصاف، عدل اور انسانی ہمدردی اور بنیادی انسانی حقوق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ادا کی جائیں گی.اب ظاہر ہے یہ تعلیم عین انسانی فطرت اور مزاج کے مطابق ہے.چنانچہ بہت سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک آج بھی بطور مثال پیش کئے جاسکتے ہیں، جو اپنے جدا گانہ مزاج کے باعث برٹس 606
خطاب فرمودہ 05 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ڈیما کریسی کو رائج نہیں کر سکتے.یہی نہیں بلکہ خود مغربی ممالک میں ایسے ممالک کا فقدان نہیں، جہاں ڈیما کریسی کا تجربہ ناکام رہا ہے.یا اگر ڈیمار کسی ہے تو محض نام کی ہے.اور عملا ڈیما کریسی کے نام پر ایک منظم اور طاقتو را قلیت حکومتوں پر قابض ہے.پس اسلام ڈیما کریسی کی تعریف کے پہلے جرہ by the people کے کھو کھلے نعرے پر اس قدر زور نہیں دیتا، جتنا اس امر پر زور دیتا ہے کہ حکومت جس طرز کی بھی ہو، لازماً اسے for the people ہونا چاہیے.چنانچہ جہاں جمہوریت کا ذکر کرتا ہے، وہاں بھی زور اس امر پر ہے کہ فرضی جمہوریت نہ ہو بلکہ عوام میں اس بات کی صلاحیت ہو اور وہ اس صلاحیت کو پوری دیانت داری سے بروئے کارلائیں کہ حکومت کا انتخاب کرتے وقت صرف اہل لوگوں کو منتخب کریں.چنانچہ انتخابی عمل کو اس شرط کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے فرماتا ہے:.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ (النساء:59) یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جب تم اپنے حاکموں کا انتخاب کرو تو ووٹ صرف اہلیت کو مد نظر رکھ کر دو.اور جو بھی حکومت اس کے نتیجہ میں قائم ہو، اس کو پابند کرتا ہے کہ بلا تمیز رنگ و نسل ، مذہب و ملت، وہ حکومت کے کاموں کو انصاف کے ساتھ چلائے.اگر اس تعلیم کو نظر انداز کر دیا جائے تو بسا اوقات آپ کو یہ صورت حال بھی دکھائی دے کہ جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی بہت سی حکومتیں بادشاہتوں اور آمریتوں سے بھی بڑھ کر حقوق انسانی کو پامال کرنے والی ہوتی ہیں.پس کوئی بھی نظام ہو اور جو بھی حاکم ہو، خواہ بادشاہ ہو یاڈ کٹیٹر یا جمہوری حکومت کی صورت میں بعض افراد کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہو ، اگر وہ کوئی آئین دنیا میں نافذ کرتے ہیں، جو قر آنی ہدایات سے مطابقت رکھتا ہے اور اس میں احساس ذمہ داری پایا جاتا ہے اور انسان کے بنیادی حقوق ادا کرنے کی ضمانت دیتا ہے تو لازماً اس کے نتیجہ میں ایک مثالی اور نافع الناس حکومت قائم ہوگی.اب میں خلاصہ وہ اصول بیان کرتا ہوں، جو قرآن شریف سے کسی بھی نظام حکومت کے لئے بطور بنیادی اصولوں کے مستنبط ہوتے ہیں..ہر نظام حکومت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرے.2.ہر حاکم کے لئے ضروری ہے کہ وہ افراد اور قوم کے درمیان عدل کرے.(النساء:59) 607
خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک 3.قومی معاملات مشاورت سے طے ہوں.(الشوری: 39) -4- حکومت ہر ایک شخص کے لئے کم از کم ضرورت یعنی خوراک لباس اور مکان مہیا کرنے کی ذمہ دار ہو.(119) 5 - حکومت لوگوں کے لئے ہر قسم کا امن مہیا کرے.اور ہر شخص کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کا انتظام کرے.6 اقتصادی حالات درست کرے.7.عوام کی صحت کا خیال رکھے.8.ملک میں مذہبی آزادی قائم کی جائے.9 - مفتوح قوم کے ساتھ عدل کا سلوک کیا جائے.10 - جنگی قیدیوں کو خاص طور پر مراعات دی جائیں.11 - معاہدات کی پابندی کی جائے.12.معاہد قوم کو کمزور یا مجبور پا کر معاہدات ختم نہ کئے جائیں.(البقرة : 206) (البقرة: 257) (المائدة: 09) (انفال: 68 محمد :05) (انفال: 59) 13 - مسلمان رعایا کا فرض ہے کہ جو نظام حکومت بھی قائم ہو، جب تک وہ اسلامی تعلیم کی واضح مخالفت نہ کرے یا اس میں روک نہ ڈالے، اس کی اطاعت کرے.-14.اگر امراء سے کبھی اختلاف ہو جائے تو ان اختلافات کو اصول کے مطابق طے کیا جائے ، جو اللہ اور رسول نے مقرر کئے ہیں.اور ذاتی خواہشات کی پیروی نہیں کرنی چاہیے.(النساء:60) 15.خیر و بھلائی اور فلاح و بہبود کے کاموں میں عوام کو حکومت سے تعاون کا حکم ہے اور عدم تعاون کی تحریکوں کی ممانعت ہے.اسی طرح حکومت پابند ہے کہ وہ فلاح و بہبود کے کاموں میں خواہ وہ انفرادی شکل میں ہوں یا گروہوں کی شکل میں روک نہ ڈالے بلکہ حتی الامکان تعاون کرے.(المائدة:03) 608
تحریک جدید - ایک اپنی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء 16.ایک طاقتور اور مضبوط حکومت کو یہ ہدایت ہے کہ وہ دوسرے ممالک پر طمع کی نظر نہ رکھے اور صرف دفاعی جنگ کرنے کی اجازت ہے.(132) اب اسلام کی یہ تعلیم کیسی جامع اور ہر پہلو سے مکمل تعلیم ہے.اگر اسلام کسی ایک نظام کے رائج کرنے کا حکم دیتا تو یہ اعتراض پڑ سکتا تھا کہ جہاں یہ نظام ممکن ہی نہیں، وہاں کیسے رائج کیا جائے؟ کیونکہ مختلف قوموں اور ملکوں میں معاشی و معاشرتی ارتقاء کی رفتار کے مطابق آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی مختلف قومیں اور تہذیبیں آباد ہیں اور آج کا انسان بظاہر ایک زمانہ میں رہتے ہوئے عملاً مختلف زمانوں میں بس رہا ہے.کیا افریقہ کی بعض غیر متمدن قومیں یا آسٹریلیا کے PIGMY اور انگلستان یا امریکہ کے باشندے علمی و دینی اور معاشی و معاشرتی لحاظ سے برابر ہو سکتے ہیں؟ اور کیا ایک ہی نظام حکومت ان کو مطمئن کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.بلکہ یہ خلاف عقل اور خلاف فطرت بات ہوگی اور اسلامی قانون تو عین فطرت کے مطابق ہے.اور انسانی فطرت کی ہر شاخ کی پرورش کرتا ہے.اس لئے اسلام نے ہر چیز کے بارہ میں ایسی کامل تعلیم دی ہے، جو زمان و مکان کی نسبتوں سے بالا ہے.جیسا کہ نظام حکومت کے بارہ میں اسلامی تعلیم سے ظاہر ہے.اسلامی مذہب کے کامل اور دائی ہونے کے سلسلہ میں قرآن شریف سے دوسری قسم کی مثالیں ایسی تعلیمات کی بھی ملتی ہیں، جوائل ہیں اور حالات اور زمانہ جن کو بدل نہیں سکتے.اور جتنا مرضی کوئی زور لگالے، وہ تعلیمات غیر مبدل ہی رہیں گی.اس سلسلہ میں بھی میں ایسی اہم مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں، جن کی آج دنیا کو بہت ضرورت ہے.) پہلی مثال اسلام کی تعلیم عدل وانصاف کے بارہ میں ہے.لیکن اس کی حقیقت اور اس کی عظمت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوگا کہ کسی قدر دوسرے مذاہب کی تعلیم عدل وانصاف کا ذکر کیا جائے.تا کہ تمدنی ترقی کے تاریخی عمل میں اسلام کی انصاف کی تعلیم کا صحیح مقام متعین کیا جاسکے.جب ہم بعض دوسرے مذاہب کا جائزہ لیتے ہیں تو اول تو عدل و انصاف پر مشتمل کوئی تفصیلی تعلیم نظر ہی نہیں آتی.اور اگر ملتی بھی ہے تو وہ ایسی نہیں، جس کا آج کے زمانہ کے انسان پر اطلاق ہو سکے.بلکہ اس کے بعض حصے تو آج کے انسان کی فہم ، طرزفکر اور احساسات سے شدید طور پر متصادم دکھائی دیتے ہیں.اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یا تو یہ تعلیم امتداد زمانہ سے بگڑ چکی ہے یا پھر اس زمانہ کے مخصوص حالات کے پیش نظر مجبوراً ایک محدود علاقے اور محدود وقت کے لیے دی گئی ہوں گی.ورنہ انسانی ضمیر انہیں غیر نہیں 609
خطاب فرمودہ 05 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ایک عمومی تعلیم کے طور پر بھی قبول نہیں کر سکتا.مثلاً یہودیت کہتی ہے کہ یعقوب کی اولاد ہی خدا کو پیاری ہے، باقی سب اس کی غلامی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اخبار باب 25 آیت 45,46) اب اگر اس مذہب کی حکومت ہو تو یقینا اس ظلم کے نتیجہ میں ظلم ہی پیدا ہو گا.پھر یہودیت صدقہ و خیرات کے بارہ میں کہتی ہے کہ صدقہ وخیرات صرف اپنے ہی ہم قوموں کے لئے ہیں.اب اگر کوئی یهودی بادشاہ ہو تو اس تعلیم کے ماتحت سارے ٹیکس یہود کو ہی ملیں گے، غیر یہودی کا کوئی حق نہیں.اسی طرح ہندو مذہب میں بھی عدل و انصاف کا جومحدود تصور ملتا ہے، کسی قدیم زمانہ میں تو وقتی مصالح کے پیش نظر اس کا اطلاق شائد جائزہ قرار دیا جا سکے مگر ایک عمومی اور دائمی تعلیم کے طور پر انسان اسے کبھی قبول نہیں کر سکتا.مثلاً یہ حکم ہے کہ اگر براہمن نے ایک پیج سے قرض لیا ہو لیکن وہ ادا نہیں کر سکتا تو شودر کا فرض ہے کہ وہ برہمن سے کوئی روپیہ نہ لے.لیکن اگر شودر نے برہمن کا روپیہ دینا ہو اور شودر غریب ہو تو اونچی ذات والوں کی مزدوری کر کے برہمن کے قرض کو ادا کرے گا“.وو منوادھیائے 10 شلوک 35) پھر یہودیت میں بھی دشمنوں کے ساتھ تو انصاف کا کوئی تصور نظر ہی نہیں آتا بلکہ لکھا ہے:.جب کہ خداوند تیرا خدا انہیں تیرے حوالے کرے تو انہیں مار یو.نہ تو ان سے کوئی عہد کیجو کیا ورنہ ان پر رحم کیجئے.(استثناء 6/7) اس کے مقابل پر اسلام کی عدل و انصاف کی تعلیم کے چند نمونے اب ہم پیش کرتے ہیں، جو زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے.قرآن کریم یہ ہدایت دیتا ہے کہ 1.اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو.(النساء: 59) 2 تمہاری ہر ایک گواہی خدا کی رضا اور انصاف کے قیام کے لئے ہو.خواہ تمہاری گواہی سے خود تمہیں یا تمہارے والدین اور قریبی رشتہ داروں کو نقصان پہنچتا ہو.610 (النساء : 136)
تحریک جدید- ایک الہی تحریک قائم کرو کہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء -3 اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو تم انصاف کو ہر حال میں (المائدة: 09) -4 اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف ان سے جنگ کرد، جنہوں نے تمہارے خلاف جنگ کی ہو.اور اس معاملے میں کسی قسم کی زیادتی نہ کرو.(البقرة: 191) گویا جنگ میں بھی جنگجو قوم سے بے انصافی نہیں کرنی.5- دوران جنگ میں بھی اگر دشمن صلح پر آمادہ ہو جائے تو اس کی یہ پیشکش ٹھکرائی نہ جائے.(الانفال: 62) ب.اسلام کی غیر مبدل تعلیم کی دوسری مثال عفوہ انتقام کے بارہ میں دوں گا.جو گردش زمانہ کے باوجو دائل اور فیصلہ کن تعلیم ہے.اور جس سے بہتر تعلیم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.اس پہلو سے جب ہم اسلام کا دوسرے مذاہب سے موازنہ کرتے ہیں تو بائبل کا یہ حکم آج کے انسان کے کانوں کو عجیب لگتا ہے کہ اور تیری آنکھ مروت نہ کرے کہ جان کا بدلہ جان، آنکھ کا بدلہ آنکھ، دانت کا بدلہ دانت، ہاتھ کا بدلہ ہاتھ اور پاؤں کا بدلہ پاؤں ہوگا“.(استثناء 19/21) انتقام پر اتنا زور دیکھ کر آج کا انسان تعجب کرتا ہے اور تکلیف محسوس کرتا ہے.لیکن میں اس تعلیم پر کسی تنقید کے نقطہ نظر سے یہ نمونہ پیش نہیں کر رہا بلکہ یہ مجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ قرآنی تعلیم کی روشنی میں اس بظاہر نہایت جابرانہ تعلیم کے جواز میں بھی ایک دلیل میسر آجاتی ہے.یہ بھی اسلامی تعلیم کا ایک امتیازی حسن ہے.جن مذاہب سے تعلیم کا ٹکراؤ بھی ہے، ان کی بھی مذمت کرنے کی بجائے ان کی تعلیم کو سمجھنے کے لئے نہایت حکیمانہ اصول پیش فرماتا ہے.چنانچہ قرآن کی رو سے یہ لازماً انتقام لینے کی تعلیم ایک مخصوص دور کے وقتی تقاضوں کے عین مطابق تھی.اور اس زمانہ کے یہودی ایک مدت تک محکومیت و مظلومیت میں رہنے کی وجہ سے نہایت بزدل ہو چکے تھے اور اپنے جائز حقوق کی حفاظت کے اہل نہیں رہے تھے اور ساری قوم احساس کمتری کا شکار ہو چکی تھی.(البقرة:50) 611
خطاب فرمودہ 05اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس ان کے ابھارنے کے لئے اور ان کے حوصلے بڑھانے کے لئے اس آیت پر زور دینے کو اشد ضرورت تھی کہ تم بدلہ ضرور لو اور آنکھ کے بدلہ آنکھ اور دانت کے بدلہ دانت توڑا جائے.اگر بدلہ لینے پر اس قدر شدت اختیار کرنے کی بجائے انہیں معاف کرنے کی تلقین زیادہ شدت سے کی جاتی تو ایک مقہور اور مظلوم قوم، جو پہلے ہی بدلہ لینے سے ڈرتی رہی ہو، وہ تو فورا اپنی بزدلی کو معافی کی چادر میں ڈھانپ لے گی اور مردانہ صفات سے اس طرح عاری رہے گی، جس طرح پہلے تھی.پس قرآن کے نزدیک یہ سخت متشد تعلیم بھی اس وقت کے سیاق و سباق میں نہایت حکیمانہ بلکہ لا بدی تھی.اور یقیناً ایک حکیم علیم خدا کی طرف سے تھی.اب اس کے برعکس ہم عہد نامہ جدید کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عہد نامہ قدیم کے برعکس بدلہ کی بجائے عضو پر اتنا غل کیا جارہا ہے کہ بنی اسرائیل کو بدلہ لینے کے بنیادی حق سے ہی محروم کیا جا رہا ہے.در اصل بات یہی تھی کہ جب ایک زمانہ گزر گیا اور نسلاً بعد نسل بنی اسرائیل نے اس قاعدہ پر عمل کیا تو ان کے اندر ایک قسم کی خونخواری اور سخت دلی پیدا ہوگئی.(البقرة:75) اب اس کے سوا ان کا علاج نہ تھا کہ ایک تاریخی عہد تک ان سے بدلہ کا حق چھین لیا جائے.چنانچہ مسیح کے ذریعہ بنی اسرائیل کو یہ تعلیم دی گئی.دوستم سن چکے ہو کہ کہا گیا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تیرے داہنے ہاتھ پرطمانچہ مارے، دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے.اور اگر کوئی چاہے کہ تجھ پر نالش کر کے تیری قبا لے کرتے کو بھی اسے لینے دے.اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار لے جاوے، اس کے ساتھ دو کوس چلا جا.اپنے دشمنوں کو پیار کرو اور جو تم پر لعنت کریں ، ان کے لئے برکت چاہو.جو تم سے کینہ رکھیں، ان کا بھلا چاہو اور جو تمہیں دکھ دیں اور ستائیں ، ان کے لئے دعا مانگو.(5/4535) پس اسلام عیسائیت پر بھی تنقید نہیں کرتا اور دونوں تعلیموں کی حالات کے ساتھ مطابقت اس طرح کرتا ہے کہ پہلی تعلیم اپنے وقت کی ایک بزدل قوم کے واسطے تھی تو دوسری ایک سفاک قوم کے لئے.یہ وہ زمانہ تھا کہ انسان ابھی اپنی تادیب اور تربیت کے ابتدائی مراحل میں سے گزر رہا تھا اور بلوغت کو نہیں 612
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم - خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء پہنچا تھا.اس لئے ان کی تعلیم بالغ نظر انسان کے لئے قابل عمل نہیں ہو سکتی.اور نہ ایسی تعلیم سے آج دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ بنی نوع انسان کی اصلاح ممکن ہے.اس لئے اسلام نے جب ایک بالغ نظر ترقی یافتہ انسان کو مخاطب کیا تو ایسی تعلیم دی، جو عارضی اور وقتی تقاضوں سے پاک ہے.فرماتا ہے:.وَجَزَوَا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ (الشوری:41) قرآن شریف ایک طرف موسوی شریعت کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے کہ بد کار کو اس کی بدی کے اندازہ کے مطابق سزا دو.تو دوسری طرف مسیحی تعلیم کو بھی قبول کرتا ہے کہ تو بدی کے بدلہ میں اعلیٰ سے اعلیٰ نیک سلوک کر اور ان دونوں تعلیموں سے زائد بات یہ بیان فرماتا ہے کہ عفو کی اجازت ہے.لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معافی کے نتیجہ میں اصلاح ہو.اگر معافی کے نتیجہ میں یہ خطرہ لاحق ہو کہ مجرم اصلاح کی بجائے جرم اور ظلم پر بھی دلیر ہو جائے گا تو اس صورت میں معافی کی اجازت نہیں.غرض دونوں سلوکوں میں سے جو سلوک بھی موقع اور محل کے مناسب حال ہو، اختیار کیا جائے.اس تعلیم کی بنیاد فطرت انسانی کی طرح غیر مبدل ہے.اور زمانہ کی دست برد سے بالا ہے.اور آج بھی اسی طرح قابل عمل ہے، جیسے 1400 برس پہلے تھی.یہ ایک سادہ سی عام فہم تعلیم ہے لیکن سہل ممتنع کی ایک عجیب مثال ہے.جہاں تک میں نے نظر دوڑائی، مجھے کسی مذہب کی کتاب مقدس میں ایسی تعلیم دکھائی نہیں دی.سامعین کرام! اسلام کے نمایاں امتیازات کا مضمون تو بہت وسیع ہے.یہ چند وہ اہم نکات تھے، جو اس وقت تفصیل سے بیان کرنا میں ضروری سمجھتا تھا.باقی خصوصیات کی طرف وقت کی مناسبت سے صرف اشارے ہی کئے جاسکتے ہیں.1.اسلام کا ایک امتیازی کمال مذہب کے بنیادی تصور کے بارہ میں یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی خالقیت کو تسلیم کر کے دوسرے مذاہب کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی توحید کو ایسی قابل سمجھ صورت میں پیش کرتا ہے، جسے ایک بدوی اور ایک عالم و فلاسفر برابر سمجھ سکتے ہیں.جو اس کی ذات و صفحات کی عظمت دلوں میں قائم کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ سب خوبیوں کا جامع اور سب عیبوں سے پاک ہے.اور یہ واحد اور قادر مطلق زندہ خدا ہر زمانہ میں اپنی قدرتیں دکھاتا اور اپنے پیارے بندوں سے محبت کا سلوک فرماتا ، ان کی دعاؤں کو سنتا اور ان سے کلام کرتا ہے.پس یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو زمان و مکان پر برابر حاوی بتلاتا 613
خطاب فرمودہ 05اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے.اور ذات وصفات دونوں میں اسے واحد دکھلاتا ہے اور کسی زمانہ میں بھی اس کی صفات کو معطل نہیں بتاتا.اور ہر زمانہ کے بندوں کے لئے وصل اور مکالمہ مخاطبہ کی راہ کھلی ہونے کا اعلان عام کرتا ہے.2 اسلام کی تعلیم کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے، اس کی رو سے خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے کام، یعنی اس کے قول و فعل میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں.اور اس طرح اسلام انسان کو مذہب اور سائنس کے جھگڑوں سے آزاد کر دیتا ہے.کیونکہ وہ بعض دوسرے مذاہب کی طرح قوانین قدرت کو نظر انداز کر کے اس کے خلاف باتوں پر یقین رکھنے کی تعلیم نہیں دیتا.بلکہ قانون قدرت پر غور کر کے ان سے فائدہ اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے.اسلام کی ایک امتیازی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیم محض دعوؤں اور تحکم سے نہیں منوا تا بلکہ ہرامر کے لئے عقلی دلیل دیتا ہے.اور ایسے زبردست دلائل سے ایمانیات کے مسائل ثابت کرتا ہے کہ عقل انسانی مذہبی تعلیم کے ساتھ اس یقینی علم کو پا کر مطمئن ہو جاتی ہے.-4.اسلام کی بنیاد صرف قصوں پر نہیں بلکہ وہ ہر شخص کو تجربہ کی دعوت دیتا ہے.اور کہتا ہے کہ ہر سچائی کسی نہ کسی رنگ میں دنیا میں پر کھی جاسکتی ہے.-5 اسلام کی الہامی کتاب بے نظیر اور بے مثال کتاب ہے، جو اسے سب مذاہب سے ممتاز کرتی ہے.آج تک قرآن شریف کے واشگاف اعلان اور دعویٰ کے باوجود اسلام کے سب دشمن مل کر بھی اس کے کسی ایک جزو کی مثل بنانے پر قادر نہیں ہو سکے.اور قرآن کی یہ بے نظیری صرف اس کی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اس کی جامعیت اور اعلیٰ تعلیمات کے لحاظ سے بھی ہے.اور اگر کسی کو شبہ ہے تو آج بھی قرآن شریف کا یہ چیلنج اسے دعوت فکر دیتا ہے کہ قرآنی تعلیم کی مانند یا اس سے بہتر کوئی تعلیم پیش کرے.قرآن کا دعوی یہ ہے کہ ایسا نہ کوئی کر سکا ، نہ کر سکے گا.کسی بھی دوسری مذہبی کتاب میں اپنے بارہ میں نہ یہ دعوی ہے، نہ اس نوع کا کوئی چیلنج موجود ہے.6.قرآن شریف کا ایک اور امتیازی کمال یہ ہے کہ وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ قرآنی تعلیم گزشتہ مذاہب سے کامیہ کٹی ہوئی اور جدا نہیں.بلکہ صحف سابقہ کی ہر قابل ذکر اور باقی رکھنے کے لائق صداقت اس کتاب میں جمع کر دی گئی ہے.چنانچہ فرمایا:.614 فِيهَا كُتُبْ قَيْمَةٌ (السبية : 03)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پھر فرمایا:.خطاب فرموده 05 اکتوبر 1983ء اِنَّ هُذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى ® لى (الاعلی :20:19) 7- اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ جو الہامی کتاب اس مذہب کو پیش کرتی ہے، اس کی زبان (عربی) زندہ ہے.اور زبان کی زندگی، کتاب کی زندگی پر دلالت ہے.پس باقی ماندہ تمام الہامی زبانوں کا مردہ ہو جانا اور قرآن کی زبان کا رہنا، اس کی عظیم الشان خصوصیت ہے.-8 اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی نہ صرف تعلیمات اعلیٰ و جامع ہیں بلکہ اس کا رسول انسانی زندگی کے ہر قسم کے دور سے گزرا اور یتیمی سے لے کر شہنشاہی تک اس کی تاریخی زندگی ہر قدم اور ہر موڑ پر درخشندہ مثالیں قائم کرتی چلی جاتی ہے.ایسا کامل اور قابل اتباع نمونہ، جو اپنی وسعت اور تنوع میں ہمہ گیر ہو، صرف اسلام کا رسول ہی پیش کرتا ہے.جس کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے اور زندگی کا کوئی گوشہ مخفی نہیں بلکہ تمام تفصیلات محفوظ ہیں.اور ایک کامل نمونہ کے لئے ایسا ہونا ضروری تھا.اس کے مقابل پر باقی انبیاء کو انسانی زندگی اور مسائل کے ایسے وسیع تجارب حاصل ہوئے ، نہ ہی ان کی سوانح حیات مکمل طور پر محفوظ ہیں اور زندگی کا اکثر حصہ نظروں سے اوجھل ہے.9.اسلام کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں بے شمار پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں، جو ہر زمانہ میں پوری ہو کر لوگوں کو اسلام کی سچائی اور زندہ خدا کی ہستی پر یقین پیدا کرتی رہی ہیں اور کرتی رہیں گی.کوئی زمانہ ایسا نہیں ، جس میں کوئی نہ کوئی پیشگوئی پوری نہ ہوئی ہو.اور یہ زمانہ تو اس بارہ اپنی مثال آپ ہے.مثلاً حضرت موسیٰ کے زمانہ کے فرعون کی لاش کا دستیاب ہونا، ایسے عذاب کی خبر ، جس میں ذروں میں بند آگ انسان کو ہلاک کرنے کے لئے تیار کی جائے گی، جو پھٹنے سے پہلے کھینچ کر لیے اور عمودی ہو جائیں گے.10.اسلام کا یہ بھی ایک نمایاں امتیاز ہے کہ جب حیات بعد الموت کی خبریں دیتا ہے تو ساتھ ہی اس دنیا سے تعلق رکھنے والی بعض پیشگوئیاں بھی کرتا ہے، جو پوری ہو کر حیات آخرت والی پیش خبروں پر بھی یقین پیدا کر دیتی ہے.11.اسلام عدل وانصاف کی انفرادی، قومی اور بین الاقوامی تعلیم دینے کے لحاظ سے تمام دوسرے مذاہب سے ممتاز ہے.یہ تعلیم ایسی جامع ہے کہ تعلقات کے ہر امکانی دائرہ پر ہاوی ہے.بڑوں، چھوٹوں ، آجر اور مزدور ، دوست اور دشمن، افراد اور قوموں کے حقوق اور فرائض پر حیرت انگیز رہنمائی کرتی ہے.جو دائگی ، غیر مبدل اصولوں پر مبنی ہے.615
خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم 12.اسلام انسان ، انسان کے درمیان مساوات کا علمبردار ہے.اس میں ذات پات نسل اور قوم کی کوئی تمیز نہیں ہے.بلکہ سب انسانوں کو بلحاظ انسانیت یکساں قرار دیتا ہے.پھر اسلام عزت اور اکرام کے ماپنے کا ایک نیا پیمانہ پیش کرتا ہے.جیسا کہ فرمایا:.إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَيكُمْ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْ مِنْ (الحجرات :14) فَأُولَبِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابِ (المؤمن : 41) 13.اسلام گناہ اور نیکی کی ایسی تعریف کرتا ہے، جو اسے دیگر تمام مذاہب سے ممتاز کرتی ہے.انسان کی فطری خواہشات کو یہ بدی قرار نہیں دیتا بلکہ ان کے بے محل استعمال کا نام بدی رکھتا ہے.اور تمام طبعی تقاضوں کی تعدیل اور تربیت کرتے ہوئے ان کی مناسب نشو نما کی تعلیم دیتا ہے.14.اسلام ایک منفرد مذ ہب ہے، جس نے ورثہ میں ہی عورت کے حقوق کو قائم نہیں کیا بلکہ مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا قیام کرنے کے باوجود مساوات پر ایسا غلط زور نہیں دیا کہ جو مرد اور عورت کے تخلیقی فرق کو نظر انداز کر دے.آخر پر میں ان تمام افراد اور قوموں کو جو امن کے خواہاں ہیں، یہ عظیم خوش خبری دیتا ہوں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے، جو آج انفرادی، معاشرتی، تمدنی، اقتصادی، قومی، بین الاقوامی امن کی ضمانت دیتا ہے.اس کی امن کی تعلیم ان شعبہ ہائے زندگی پر حاوی ہے.اسلام ہی وہ منفر د مذہب ہے، جس کا نام امن ہے.اور جس سے منسلک ہونے والا مسلم کہلاتا ہے.یعنی خود امن میں آنے والا ، غیروں کو امن دینے والا اور ہر اس فعل سے پر ہیز کرنے والا، جو فساد پیدا کرنے والا ہو.اسلام کا رسول بھی اول المسلمین کہلایا.یعنی سب امن کا پیام دینے والوں کا سردار.آپ نے فرمایا:.مسلم وہی ہے، جس کے قول و فعل کے شر سے ہر امن پسند محفوظ رہے.حج الوداع کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری خطاب قیام امن کے موضوع پر ایک لافانی چارٹر ہے.جو ہر قوم و نسل اور مذہب وملت کے لئے آج بھی یکساں واجب العمل ہے.616
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 05اکتوبر 1983ء اسلام کے مفہوم میں صرف بندے اور بندے کے درمیان امن کا تصور داخل نہیں بلکہ بندے اور خدا کے درمیان بھی امن کا مفہوم شامل ہے.چنانچہ اس پہلو سے اسلم وہ کہلائے گا، جس سے خدا کی مخلوق اور اس کا قانون امن میں رہے.اور جو خدا تعالیٰ سے ایسے تعلقات قائم کرے کہ اس کی سزا اور عقوبت سے امن میں آجائے.الغرض لفظ مسلم کے اندر امن و سلامتی کا ایسا وسیع مفہوم ہے، جو اس دنیا پر بھی حاوی ہے اور اگلے جہان پر بھی.انسانوں کے تعلقات پر بھی پھیلا ہوا ہے اور اللہ اور بندہ کے تعلق پر بھی.اور ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ نظام کائنات میں کوئی خلل پیدا نہ کرے اور اللہ کا مطیع بندہ بن کر رہے.وہ اپنوں کے لئے بھی سراپا امن ہو جائے اور غیروں کے لئے بھی سراپا امن ہو.اسلام کی تعلیم اس لائق ہے کہ آج قومیں اس سے استفادہ کریں اور ہولناک تباہی سے بیچ جائیں.یہ اس پہلو سے منفرد ہے کیونکہ کسی دوسرے مذہب میں جب بین الاقوامی تصور ہی موجود نہیں تو وہ بین الاقوامی تعلیم کیسے پیش کر سکتا ہے؟ لیکن یہ ایک الگ اور مستقل مضمون ہے، جس کی تفصیل میں اس وقت میں نہیں جاسکتا.گزشتہ سال زیورک (سوئٹزرلینڈ) میں اپنے ایک لیکچر میں، میں نے اسلام کی بین الاقوامی تعلیم امن اور عدل و انصاف کے بارہ میں نسبتا زیادہ تفصیل سے بیان کیا تھا.یہ مضمون THE REVIEW OF RELIGIONS RABWAH اور DER ISLAM ZURCH میں شائع ہو چکا ہے.لیکن اس میں بھی وقت کی مناسبت سے اس حد تک اختصار سے کام لینا پڑا کہ اسے سیر حاصل نہیں کہا جاسکتا.آخر پر میں اسلام کے ایک اور عظیم الشان امتیاز کا ذکر کر کے اپنے خطاب کو ختم کرتا ہوں.اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور خدا اور بندے کے تعلقات کو آج بھی اسی طرح قائم کرنے کا دعویدار ہے، جیسے از منہ سابقہ میں خدا اور بندہ کے تعلقات کا ذکر ملتا ہے.اسلام وحی اور الہام کو ایک قصہ پارینہ کے طور پر پیش نہیں کرتا بلکہ ہر زمانہ کے انسان کو خوش خبری دیتا ہے کہ جس راستہ پر نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسی نے اپنے رب کی لقاء حاصل کی اور جس راہ پر گامزن ہو کر خاتم النتین محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خدا سب پہلوں سے بڑھ کر جلوہ گر ہوا، آج بھی وہ وصل کی راہیں کھلی ہیں.اور صلائے عام ہے، ہر اس شخص کے لئے جو وصل الہی کا متمنی ہے.چنانچہ فرمایا:.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الْهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًان (الكيف:111) 617
خطاب فرمودہ 105 اکتوبر 1983ء پھر فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ( حم السجدة: 31) جماعت احمدیہ کے نزدیک آج قرآن کریم کے ان دعاوی کا زندہ ثبوت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کا وجود ہے، جو 1835ء میں INDIA کے ایک گمنام گاؤں قادیان میں پیدا ہوئے اور نیکی اور تقویٰ کی اسلامی تعلیم پر گامزن ہو کر وحی اور الہام سے مشرف کئے گئے اور اسی زندگی میں لقائے باری تعالیٰ کے اعلیٰ مقصد کو پالیا.آپ نے اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اسی کے امر کے مطابق 1889ء میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی اور اسلام کی تبلیغ اور خدمت کرنے والی لاکھوں افراد پر مشتمل ایک فعال جماعت پیچھے چھوڑ کر 1908 ء میں اس دنیا سے رخصت ہوئے.آپ کے بعد آپ کا احیاء اسلام اور غلبہ اسلام کا مشن نظام خلافت کے ذریعہ جاری ہے.اپنے بھیجے جانے کی غرض بیان کرتے ہوئے بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.مجھے بھیجا گیا ہے تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے، جو زندہ مذہب اور وہ کرامات مجھے عطا کیے گئے ہیں، جن کے مقابل سے تمام غیر مذاہب والے اور ہمارے اندرونی اندھے مخالف بھی عاجز ہیں.میں ہر یک مخالف کو دکھلا سکتا ہوں کہ قرآن شریف اپنی تعلیموں اور علوم حکمیہ اور اپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رو سے معجزہ ہے.موسیٰ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسی کے معجزات سے صد ہا درجہ زیادہ.پھر فرماتے ہیں:.(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 61 ، روحانی خزائن جلد 1 1 صفحہ 345).اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں.جو شخص میری پیروی کرتا ہے، وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا، جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لیے تیار کئے ہیں.مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو بچے خدا کی طرف رہبری کروں.اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کر دوں اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کی تسلی پانے کے لئے آسمانی نشان بھی عطا فرمائے ہیں.مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 13) 618
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 105اکتوبر 1983ء آخر پر میں اپنے خطاب کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ان الفاظ پر ختم کرتا ہوں، جو تمام بنی نوع انسان کو ایک دعوت عام دے رہے ہیں:.وڑ وہ آئینہ، جس سے اس برتر ہستی کا درشن ہو جاتا ہے، خدا کا وہ مکالمہ اور مخاطبہ ہے، جس کا میں ابھی ذکر کر چکا ہوں.جس کی روح میں سچائی کی طلب ہے، وہ اٹھے اور تلاش کرے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر روحوں میں کچی تلاش پیدا ہو اور دلوں میں کچی پیاس لگ جائے تو لوگ اس طریق کو ڈھونڈیں اور اس راہ کی تلاش میں لگیں.مگر یہ راہ کس طریق سے کھلے گی اور حجاب کس دوا سے اٹھے گا؟ میں سب طالبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ صرف اسلام ہی ہے، جو اس راہ کی خوشخبری دیتا ہے.اور دوسری قو میں تو خدا کے الہام پر مدت سے مہر لگا چکی ہیں.سو یقینا سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے مہر نہیں بلکہ محرومی کی وجہ سے انسان ایک حلیہ پیدا کر لیتا ہے اور یقیناً یہ سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں ، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں.میں جوان تھا، اب بوڑھا ہوا مگر میں نے کوئی نہ پایا، جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو.اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 128 129 روحانی خزائن جلد 10 صفحه 443،442) بلاشبہ ہر امن کے متلاشی بے قرار انسان کے لئے آپ کی یہ دعوت مردہ جانفزا کی حیثیت رکھتی ہے.( مطبوعه بروز نامه افضل 31 جنوری 1984.619
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرموده 10 اکتوبر 1983ء خدا کی محبت میں اور اسلام کی تبلیغ میں دیوانے بن جائیں خطاب فرمودہ 10 اکتوبر 1983ء حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے دورہ مشرق بعید کے دوران سری لنکا کی ایک جماعت نگمو سے حسب ذیل خطاب فرمایا:.تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا حسان ہے کہ اس نے آج مجھے اور میرے ساتھیوں کو نکمبو میں آنے کی توفیق عطا فرمائی.جماعت احمد یہ نکمو کے متعلق ہم نے بہت پہلے سے سن رکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سلیون میں یہ سب سے زیادہ مستعد اور قربانی کرنے والی جماعت ہے.لیکن میں نے یہاں آکر دیکھا کہ کولمبو کی میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اخلاص پایا جاتا ہے.اور وہاں کے خدام بھی اور انصار بھی بنیادی طور پر بہت اچھے احمدی ہیں.مگر معلوم ہوتا ہے کہ شہر کے فاصلے زیادہ ہونے کی وجہ سے اور اچھا مرکز نہ ہونے کی وجہ سے ان میں تنظیم اور تربیت کی کمی ہے.آپ لوگ چونکہ چھوٹی جگہ پر رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی اقتصادی حالت بھی عموماً اچھی معلوم ہوتی ہے.پھر ایک دوسرے سے ملنے اور بھائی چارہ کا موقع بھی زیادہ ملتا ہے، اس لئے آپ کے چہروں پر زیادہ بشاشت نظر آ رہی ہے.دو دن پہلے جب آپ کی مستورات بھی کولبوگئیں تو میری اہلیہ اور میری بچیوں نے بھی مجھے یہی بات بتائی کہ نگمو کی عورتوں میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی محبت اور اخلاص پایا جاتا ہے.اور ان سب کے چہروں سے احمدیت کی محبت ٹپکتی ہے.تعداد کے لحاظ سے آپ کولمبو کے احمدیوں سے کچھ زیادہ لگتے ہیں.کیونکہ چندہ دہندگان کے جو اعداد و شمار ہمارے سامنے آئے ہیں، ان سے پتہ لگتا ہے کہ آپ ان سے زیادہ نہیں تو برا بر ضرور ہیں.ہو سکتا ہے کہ وہاں تعداد زیادہ ہو لیکن چندہ دہندگان کم ہیں.اس کی تحقیق میں نے ابھی نہیں کروائی.مگر جواسٹیں (lists) پیش ہوئی ہیں، ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگ تعداد میں کچھ زیادہ ہی ہیں.اب کولہو اور نگمو کی دونوں جماعتوں کا مقابلہ ہے.دیکھنا یہ ہے کہ کون جلدی پھیلتا ہے؟ اور کون زیادہ تیزی کے ساتھ اپنی جماعت کو اس قابل بناتا ہے کہ سری لنکا میں احمدیت کا مرکز کو لبو کی بجائے نگمبوبن جائے یا نگمو کی بجائے کولمبوہی مرکز بنا ر ہے؟ 621
خطاب فرموده 10 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم یادرکھیں، جماعت احمد یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے.ہمارا دنیا کے جغرافیوں سے کوئی تعلق نہیں.ساری دنیا کا جو پہلا مرکز تھا ، وہ مکہ مکرمہ تھا اور اب بھی ہے.اور اس کا دنیا کے مرکزی شہروں سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اسلام کی خاطر جب دوبارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کے مطابق ایک امتی نبی کو بھیجا تو قادیان کو چنا.جو نہ ہندوستان کا مرکز تھا، نہ پنجاب کا.بلکہ ایک معمولی اور چھوٹا سا گاؤں تھا.لیکن اب وہ ساری دنیا میں تحریک احمدیت کا مرکز بن گیا ہے.اس لئے یہ ہر گز ضروری نہیں کہ جماعت احمد یہ سری لنکا کا مرکز بھی کولمبو ہی رہے.اب آپ کی دوڑ ہے اور آپ کو خدا کے فضل سے بہت اچھا موقع ملا ہے.اگر آپ نمایاں طور پر آگے نکل جائیں اور پھیل جائیں تو آپ کولمبو سے مرکز چھین کر یہاں لا سکتے ہیں.آپ کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے ایک بہت بڑا اعزاز بخشا ہے، جو دنیا میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے.اور اس دور میں شہادت کا اعزاز کا اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے.شہید خود بھی زندہ ہو جاتا ہے اور جن لوگوں میں پیدا ہوتا ہے، ان کو بھی زندہ کر جاتا ہے.اس لیے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس شہادت کا اتنا انعام عطا فرمائے کہ آپ کے دل اپنے رب سے راضی ہو جا ئیں اور شہید مرحوم کی زندگی آپ کی زندگی بن جائے اور آپ کے اندر کثرت کے ساتھ ایسے روحانی لوگ پیدا ہوں، جو تبلیغ اسلام کے اعلیٰ مقصد کے لئے جان کی بازی لگا دینے سے بھی دریغ نہ کریں.کل میں نے کولمبو میں بھی جماعت کو یہ نصیحت کی تھی کہ تبلیغ کے لئے سب سے بڑا ہتھیار اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے.آپ کو بھی میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ علم سے بھی لولگا ئیں لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا پیار بھی حاصل کریں.کیونکہ سب سے زیادہ اثر دکھانے والا ہتھیار یہی ہے.جس شخص کو یہ نصیب ہو جائے ، وہ لاز م دنیا پر فتح پالیتا ہے.اس لیے اگر آپ اس علاقے میں پھیلنا چاہتے ہیں، اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو روحانی غلبہ عطا ہو تو اس کا طریق صرف اور صرف یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور پیار کا تعلق جوڑیں.اپنے بچوں کو بھی اور عورتوں کو بھی خدا کی محبت اور اس کی عبادت کرنا سکھائیں اور خود بھی اللہ تعالیٰ کی محبت اور یاد میں زندگی بسر کرنا سیکھ لیں.اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایک ایسی عجیب طاقت ہے کہ وہ انسان کی ساری زندگی کی کایا پلٹ دیتی ہے.اور ان لوگوں میں حیرت انگیز انقلاب برپا کر دیتی ہے، جو خدا کی محبت اختیار کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کے ساتھ خدا کی ساری قدرتیں شامل حال ہو جاتی ہیں.خدا کی ساری طاقتیں ان لوگوں کے وجود میں داخل ہو جاتی ہیں، جو خدا سے پیار کرتے ہیں.وہ ان کی تائید میں حیرت انگیز نشان ظاہر فرماتا ہے.اور دنیا کی آنکھیں دیکھ لیتی ہیں کہ اب یہ کچھ مختلف لوگ 622
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطاب فرمودہ 10 اکتوبر 1983ء ہیں.ہم میں سے ہوتے ہوئے بھی اب یہ ہم جیسے نہیں رہے.ان کے اندر کچھ ایسی تبدیلیاں پیدا ہوگئی ہیں، جو عام دنیا والوں میں دکھائی نہیں دیتیں.یہ عجیب بات ہے، جود نیا میں ظاہر ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کے لحاظ سے جاہل ہوتے ہیں، جن کو علم نہیں ہوتا ، وہ جب خدا کی محبت میں سرگرداں ہوتے ہیں تو محبت الہی ان کو ایسا علم عطا کرتی ہے، ان کو ایسی معرفت عطا کرتی ہے کہ وہ ساری دنیا کے استاد بن جاتے ہیں.تاریخ اسلام کو اٹھا کر دیکھیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس ملک میں اور کس زمانہ میں پیدا ہوئے تھے ؟ آج سے چودہ سو سال پہلے جبکہ ساری دنیا میں جہالت کا دور دورہ تھا، اس وقت سب سے زیادہ جاہل ملک یعنی عرب میں آپ پیدا ہوئے.پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن ایک چیز تھی، جو آپ کو سب سے زیادہ عطا ہوئی تھی.اور وہ تھی اللہ تعالیٰ کی محبت.وہی محبت آپ کی قوت بھی بن گئی.اس نے آپ کے لئے ایسا عظیم انشان معجزہ دکھایا کہ آپ کی قوم دنیا میں سب سے طاقتور بن گئی.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہالت کے گہوارے میں پیدا ہونے والے لوگ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی برکت سے دنیا کے معلم بن گئے.اور دنیا میں علم و ہدایت کا چشمہ مکہ سے پھوٹنے لگا.اللہ تعالیٰ کی محبت میں ان کو صرف دینی اور روحانی علوم ہی عطا نہیں کئے گئے بلکہ دنیوی علوم میں بھی ان کو دنیا کی باقی قوموں پر فضیات عطا کی گئی.اور ایک وقت ایسا تھا کہ دنیا دین سیکھنے کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کے علوم سیکھنے کے لئے بھی اسلامی دنیا کی طرف رخ کرتی تھی.پس یہ الہی محبت ہے، جو ہر رنگ اختیار کر لیتی ہے.انسان کو جس چیز کی ضرورت ہو، اللہ کی محبت اس کے لئے وہی چیز بن جاتی ہے.خدا کی راہ میں جو دکھ اٹھانے پڑتے ہیں، یہ اللہ کی محبت ہی ہے، جو ان دکھوں میں پہنچنے والے زخموں کی مرہم بن جاتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہی ہے، جو انسان کے لئے شفا بن جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت دیکھوں کا مدادا بن جاتی ہے، دکھوں کو لذتوں میں بدل دیتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام اللہ کی محبت کی تعریف کرتے ہوئے اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر فرماتے ہیں:.اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کر دی اے محبت تو عجیب آثار دکھا رہی ہے، تو نے حیرت انگیز کرشمے دکھا دیئے.یہاں تک کہ میرے محبوب کے رستے میں لگنے والے زخموں کو اور مرہم کو تو نے ایک ہی چیز بنا دیا ہے.خدا کے رستے میں جو زخم اٹھانے پڑتے ہیں، وہ زخم زخم نہیں بلکہ مرہم بن جاتے ہیں.دنیا ان لوگوں کو پہچان نہیں سکتی.وہ بھی مجبور 623
خطاب فرموده 10 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ہے.کیونکہ ان کی نظر میں یہ دیوانے ہیں.ظاہر ہے، وہ لوگ جو زخم کھا کر لذتیں پارہے ہوں، ان کو دنیا کیسے پہچان سکتی ہے؟ اسی لئے دنیا ان لوگوں کو دیوانہ اور پاگل کہتی ہے.انبیا علیہم السلام کو اپنے رب کریم سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے.اس لئے سب سے زیادہ انہی کو دیوانہ کہا جاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس محبت کا نام دیوانگی بھی رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تا نه دیوانه شدم ہوش نیا مد بسرم اے جنوں گرد تو گردم کہ چہ احسان کر دی جب تک میں اپنے رب کی محبت میں دیوانہ نہیں ہو گیا، مجھے کوئی ہوش نہیں تھا.مجھے تو عقل ہی خدا کی محبت میں دیوانہ ہونے کے نتیجہ میں آئی ہے.اے عشق الہی کے جنون ! اور اے محبت کی دیوانگی!! میں تو تیرے گرد طواف کرتا ہوں.تو نے مجھ پر عجیب احسان کیا ہے کہ دیوانگی کے نتیجہ میں مجھے فرزانگی اور عقل عطا کر دی ہے.اگر ہم دنیا پر ذرا نظر دوڑا کر دیکھیں تو یہ بات معلوم کرنی مشکل نہیں کہ محبت بظاہر ہر جگہ ایک ہی طرح کے اثر دکھاتی ہے.اور دنیا کی محبت والے بھی دیوانے ہو جایا کرتے ہیں.مجنوں کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے کہ وہ شہروں کو چھوڑ کر صحراؤں میں بس گیا.وہ محبت ہی کی دیوانگی تھی ، جس نے اسے شہروں کی بجائے صحرانوردی پر مجبور کیا.لیکن یہ مشابہت بس اتنی ہی ہے، اس سے آگے نہیں بڑھتی.اس کے بعد ان دونوں محبتوں میں بڑی نمایاں تبدیلی پیدا ہوتی ہے، ان کے اثرات بالکل مختلف ہوتے ہیں.مجنوں کی طرح خدا کی محبت کرنے والوں کے متعلق بھی ہمیں علم ہے کہ انہوں نے شہروں کو چھوڑا اور صحرا میں چلے گئے.لیکن ان کے لئے پھر صحر اشہر بنا دیئے گئے.جب کہ دنیا کی محبت کرنے والوں کے صحرا صحرا ہی رہے اور وہ ان صحراؤں میں کھو گئے اور ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہا.پس ایک مجنوں تو وہ ہے، جو دنیا کا مجنوں تھا.اس نے بھی شہر چھوڑے اور ویرانوں میں آباد ہوا.لیکن ویرانے اس کو کھا گئے اور اس کا نشان اب کتابوں، قصوں اور کہانیوں کے سوا کہیں نہیں ملتا.لیکن ایک خدا کی محبت کا مجنوں وہ تھا، جو ابراہیم علیہ السلام کی شکل میں ہمیں نظر آتا ہے.اس نے بھی خدا کی محبت میں شہر چھوڑے اور ویرانے میں اپنی اولاد کو آباد کیا.لیکن جہاں اس کی اولاد آباد ہوئی، اب وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز بن چکا ہے.اور دنیا کا کوئی ایسا شہر نہیں، جس کی زیارت کے لئے اس کثرت سے لوگ جاتے ہوں، جتنے آج مکہ کی زیارت کے لئے جاتے ہیں.پھر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو 624
خطاب فرموده 10 اکتوبر 1983ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک دیکھیں، کس طرح خدا کی محبت آپ کو شہروں کی رونقوں سے ہٹا کر غاروں میں لے گئی.آپ نے غار حرا میں چھپ کر اپنے رب کو یاد کرنا شروع کیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو غار کے اندھیروں میں نہیں رہنے دیا بلکہ اس سے نکالا اور رفعتوں پر رفعتیں عطا کیں.یہاں تک کہ نبیوں میں سے سب بلند مقام عطا کیا، جو سورج اور چاند سے کہیں زیادہ بڑھ کر روشن تھا.اور آج ساری دنیا کے روحانی آسمان کے آپ سورج.کہلاتے ہیں.اور یہ نام آپ کو خدا نے قرآن کریم میں عطا فرمایا ہے.چنانچہ اس زمانہ کے انسان کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت جس طرح گذشتہ زمانوں میں حیرت انگیز کرشمے دکھاتی تھی، اس زمانے میں بھی وہ حیرت انگیز کرشمے دکھا سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا.آپ نے بھی خدا تعالیٰ کی محبت کی خاطر شہرت کو چھوڑا اور گمنامی اختیار کی.اپنے خاندان کی عزتوں کو ترک کیا اور مسجد کے گوشوں میں جا چھپے اور اپنے رب کی یاد میں محو ہو گئے.آپ کا خاندان علاقے کا ایک معزز خاندان تھا.جن کے نزدیک مولوی بننا، ایک ذلت کی بات تھی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد سخت پریشان اور شرمندہ تھے کہ میرے بیٹے کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ خاندانی عزت کے رستے چھوڑ کر دین کے گمنام رستے پر چل پڑا ہے.چنانچہ جب بھی ان سے کوئی پوچھا کرتا تھا کہ آپ کا بٹیا کہاں ہے؟ تو وہ شرمندگی کے ساتھ اور غصے کے اظہار کے طور پر یہ کہتے تھے کہ جاؤ ، مسجد میں دیکھو کسی صف میں لپٹا ہوا ہوگا.لیکن خدا تعالیٰ نے پھر وہی سلوک فرمایا، خدا کی محبت نے ایک بار پھر وہی کرشمہ دکھایا، گمنامی کے گوشے سے نکال کر آج آپ کی تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچا دیا ہے.چنانچہ اس عشق اور محبت کے معجزے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیان کدھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو بھی خبر نہ تھی اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا ایک مرجع خواص یہی قادیان ہوا پس یہ محبت ہی ہے، جو یہ مجزے دکھاتی ہے.اسی محبت نے قادیان کی گمنام بستی کو آج سارے عالم میں شہرت بخشی ہے.اور دنیا کا کوئی کو نہ نہیں، جہاں قادیان کا نام نہ پہنچ گیا ہو.پس آج اگر اس چھوٹی سی بستی 625
خطاب فرموده 10 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک نامیوکوسری لنکا کا مرکز بنانا چاہتے ہیں تو یہی ایک ذریعہ ہے، جو آپ کو میسر ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے پیدا کر دیں.خدا کے پیار سے اپنے گھروں کو رونق بخشیں.اپنے دلوں کو محبت الہی کے رنگا رنگ پھولوں سے سجائیں.پھر دیکھیں آپ پر کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں.اور نکموسری لنکا میں احمدیت کا مرکز بن جاتا ہے اور سب کی نظریں محبت اور پیار کے ساتھ آپ کی طرف اٹھنے لگتی ہیں.لیکن زمانہ بڑی تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے.آج ہمیں ایک مکمبو کام نہیں آسکتا.آج تو ہمیں یہاں کی بستی بستی کو احمدیت کا نگمبو بنانا پڑے گا.جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری درویشوں کی طرح نکل کھڑے ہوئے تھے.ان کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں تھا، ان کی جیب میں کوئی دولت نہیں تھی.صرف اللہ کی محبت کا نام لے کر وہ دنیا میں نکلے اور آخر کا ر انہوں نے ساری رومن سلطنت کو عیسائی بنالیا.آپ تو مسیح محمدی کے غلام ہیں، آپ کو تو ان سے زیادہ طاقت بخشی گئی ہے.اس لئے اگر آپ یہ فیصلہ کریں اور دعا کریں اور اللہ پر توکل کریں تو ہر گز بعید نہیں کہ چند سال کے اندر اندر آپ کی درویشانہ اور فقیرانہ بلکہ مجنونانہ جدو جہد کے نتیجہ میں سارے ملک کی کایا پلٹ جائے.پس آخر پر میرا پیغام آپ کو یہی ہے کہ آپ خدا کی محبت میں اور اسلام کی تبلیغ میں دیوانے بن جائیں.ایک مخلص نوجوان رشید احمد نے اپنا خون دے کر آپ کے لئے جو رستہ بنایا ہے، اس رستہ پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.میری یہ دعا ہے کہ اللہ ہمارے اس شہید مرحوم کے خون کے ہر قطرہ سے ایک نیار شید پیدا کرے اور اس کا خون سارے ملک میں اللہ کی محبت اور پیار کا ایسا رنگ بھر دے کہ روحانی لحاظ سے یہ ویرانے گل و گلزار بن جائیں.اور یہ گزار بستی بستی میں بہار جانفزا دکھانے لگیں اور اسی رنگ میں رنگین ہو جائیں، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستان کا رنگ ہے.ہم کیا اور ہماری کوششیں کیا.یہ سب کام دعا سے ہوں گے.اس لئے خدا کے حضور دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.دعاؤں کے نتیجہ میں سب کام آسان ہو جاتے ہیں.ساری طاقتیں ہمارے رب کریم کو حاصل ہیں، اس سے پیار کریں، اس سے دعا کریں اور اس پر توکل رکھیں.محبت الہی اور عاجزانہ دعاؤں کے نتیجہ میں آپ اس بستی میں حیرت انگیز معجزے دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو بہت جلد جلد بڑھائے گا اور پھیلائے گا.یہاں تک کہ آپ سارے علاقے کو اپنی محبت کے زور سے اور خدا کے فضل اور رحم کی طاقت کے ساتھ خدا اور اس کے رسول کے لئے فتح کرلیں گے.اب چونکہ ہم نے کولمبو واپس جانا ہے، واپس جانے کا وقت ہو گیا ہے.آگے اور بھی کئی پروگرام ہیں، اس لئے اب میں اجازت چاہوں گا.آپ سب سے مل کر جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، مجھے بہت ہی 626
خطاب فرموده 10 اکتوبر 1983ء تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد ششم خوشی ہوئی ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احمدیت کے حق میں ایک معجزہ ہے کہ اتنی دور ایک مختلف قوم میں خدا تعالیٰ نے اس طرح محبت کرنے والے فدائی احمدی عطا فرمائے ہیں.اب میں دعا کراؤں گا لیکن یہاں مسجد میں دعا کرانے کی بجائے رشید شہید کے مزار پر دعا کریں گے، (یہ مزار مسجد کی بائیں جانب قریباً ایک سوگز کے فاصلے پر تھا.مرتب ) و ہیں سب دوست اس دعا میں شامل ہو جائیں.(مطبوعہ روزنامہ الفضل 07 جنوری 1984ء ، ماہنامہ خالد جنوری 1984ء) 627
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرموده دوران دوره مشرق بعید 1983ء جہاں جہاں احمدی آباد ہیں، وہ اپنے اندر نیکی پیدا کریں ارشادات فرموده دوران دورہ مشرق بعید 1983ء 09 ستمبر، سنگاپور حضور رحمہ اللہ احباب میں رونق افروز رہ کر انڈونیشین اور ملائیشین احباب کو تبلیغ اسلام کی مہم کو تیز سے تیز تر کرنے کی ہدایات سے نوازتے رہے.جن میں کیسٹس کا انگریزی سے انڈونیشین ، ملائی اور فلپائن کی زبان میں ترجمہ کر کے رائج کرنے کی ہدایت بھی شامل تھی.11 ستمبر، سنگا پور (مطبوعه روزنامه الفضل 22 ستمبر 1983ء) حضور نے تمام عہدیداران کو جماعتوں میں تحریک کرنے کی ہدایت فرمائی کہ 22 جلسہ سالانہ میں زیادہ سے زیادہ احباب مرکز سلسلہ میں پہنچیں اور جلسہ سالانہ کی وڈیو فلم تیار کر کے اپنی اپنی جماعتوں میں دکھا ئیں.علاوہ ازیں خود انڈونیشیا ایک وڈیو فلم تیار کرے، جسے بعد میں مرکز کی زیر ہدایت تیار ہونے والی بین الاقوامی وڈیو فلم میں شامل کر کے ایک جدت پیدا کی جاسکتی ہے.حضور نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ دوست اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے حصول کے لئے اپنی سہولت کے مطابق ربوہ یا قادیان بھجوائیں.انڈونیشیا سے شائع ہونے والے مسینار اسلام میں ریویو آف ریلیجنز کے مضامین شائع کئے جائیں.جن میں عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کے دفاع کو اولیت دی جائے.حضور نے انڈونیشیا کے نیشنل پریذیڈنٹ کو یہ ہدایت بھی فرمائی کہ وو وہ ایک کمیٹی بنادیں، جس کی نگرانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام کا انتخاب کر کے اس کا نظم میں انڈونیشین ترجمہ کروا کر اچھی آواز میں ریکارڈ کروایا جائے.نیز اسی طرح اچھی تلاوت قرآن کریم کی کیسٹ بھی تیار کروا کر اشاعت اسلام کی مہم کو تیز تر بنایا جائے.ایک خاتون کہنے لگیں: میری سہیلی تبلیغی گفتگو میں دلچسپی نہیں لیتی ؟ 629
ارشادات فرموده دوران دوره مشرق بعید 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک حضور نے فرمایا:.” آپ اپنی ذات میں ایسی نیک اور نمایاں تبدیلی پیدا کریں کہ وہ آپ میں دلچسپی لینے لگ جائے.فرمایا : یادرکھیے تبلیغ کوئی آسان کام نہیں ہے.یہ گہری سوچ و بچار کا متقاضی اور حق و حکمت کے ساتھ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے.اس لئے پہلے خود اپنے مذہب کا فلسفہ اور اس کے مقتضیات کو سمجھیں اور پھر حکیمانہ طریق پر بات چلائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عورتیں آپ کی تبلیغ سے متاثر نہ ہوں“.(مطبوعہ روزنامه الفضل 24 ستمبر (1983ء) 16 ستمبر ، ناندی آپ کے اس دورے کا مقصد کیا ہے؟ حضور نے فرمایا: ” جماعت احمدیہ کے سربراہ ہونے کی حیثیت میں مجھے جماعت ہائے احمدیہ کی تمام شاخوں کا دورہ کرنا پڑتا ہے.جو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں.ان سب کا مرکز میں آنا مشکل ہوتا پڑتا ہے، اس لئے مختلف ملکوں کے دورے کے ذریعہ تبادلۂ خیالات کر کے ان کے مسائل معلوم کئے جاتے ہیں اور جماعت کی بہتری کے منصوبے بنائے جاتے ہیں.پھر اس لئے بھی کہ بھی بڑا خوبصورت ملک ہے، سیاحوں کے لئے بڑی کشش رکھتا ہے، اس میں سے ڈیٹ لائن گزرتی ہے.میں اس سفر میں سنگا پور کا دورہ کر چکا ہوں، اب مجھی کا ہفتہ عشرہ کا دورہ کروں گا.پھر سڈنی جاؤں گا، جہاں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد اور مشن ہاؤس کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا.اگر چہ اس سے قبل آسٹریلیا میں 1913ء سے ہمارا مشن کام کر رہا ہے لیکن اب با قاعدہ طور پر میشن کا آغاز ہوگا.جہاں تک نجی کے دورے کا تعلق ہے، احباب جماعت ہائے احمد یہ بھی سے وسیع پیمانے پر ملاقاتیں ہوں گی ، سوال وجواب کے اجلاس ہوں گے، جن میں احباب سیاست کے سوا ہر قسم کے موضوع پر سوال کر سکیں گے.پبلک میٹنگ کا بھی پروگرام ہے.فرمایا: مسجد کے قریب رہنے والے تمام احمدی گھرانے نماز با جماعت کے لئے مسجد میں آیا کریں.تا کہ نماز با جماعت کی برکتوں سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد کی آبادی اور رونق بھی قائم رہے.قرآن کریم کا میچین (Fijian) زبان میں جو ترجمہ ہورہا ہے، اس کا ذکر ہوا تو حضور نے اس کو جلد سے جلد مکمل کرنے کی ہدایت فرمائی.630 (مطبوعه روزنامه المفضل 10 اکتوبر 1983ء) |
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جد 17 ستمبر، ناندی ارشادات فرموده دوران دوره مشرق بعید 1983ء مارو کی جماعت کی اجتمائی ملاقات کے دوران دوستوں نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور از راہ شفقت مارو میں بھی تشریف لائیں.حضور نے وعدہ فرمایا کہ مارو کو بھی پروگرام میں شامل کیا جائے گا“.مارو کے بعد اٹو کا کی جماعت کی اجتماعی ملاقات شروع ہوئی تو اس میں بھی یہی درخواست کی گئی کہ حضور لٹو کا میں بھی تشریف لائیں.حضور نے ان سے بھی وعدہ فرمایا کہ ونجی سے آسٹریلیا روانگی والے دن تھوڑا سا وقت نکال کر انشاء اللہ ضرور لٹو کا بھی آئیں گئے“.احباب کے تعارف کرانے پر معلوم ہوا کہ زیادہ تر اساتذہ ہیں.اس پر حضور نے فرمایا:.اساتذہ کے نیک اثر کی وجہ سے تبلیغ میں بڑی مددل سکتی ہے.لڑکوں کو پڑھاتے رہنے سے ان کو بات کرنے کا سلیقہ آجاتا ہے.بچپن میں اچھے استاد سے پڑھے ہوئے لوگ ساری عمران کو یا در کھتے ہیں.تبلیغی امور کے ذکر پر حضور نے فرمایا:.اس معاملہ میں ہر جماعت کو اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا چاہیے.اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ کیا عورتیں اور کیا مردہ بھی داعی الی اللہ بن جائیں.اگر وہ بچے دل سے عہد کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو غیر معمولی طور پر تو فیق بھی دیتا چلا جائے گا“.مطبوعہ روز نامه الفضل 19 اکتوبر 1983ء) گفتگو کے دوران مکرم حاجی محمد حنیف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ لٹو کا (Loutoka نے اپنا ایک خواب بیان کیا جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ مسجد اقصیٰ ناندی کے پہلو میں ہمارا گنے کا ایک کھیت ہے، جس میں سے حضور نے گنے توڑے ہیں اور ان کو چھیل کر گنڈیریاں بنائی ہیں، جو دیکھتے ہی دیکھتے مصری کے ڈلے بن گئی ہیں.حضور نے اس خواب کو سن کر فر مایا:.یہ تو بہت مبارک خواب ہے.اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی تبلیغ کی کوششوں کو بڑے میٹھے پھل عطا کرے گا.حضور نے فرمایا:.گنا ایک خاص مقصد کے لئے تو ڑا جاتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ اس سے میٹھا بنایا جائے.تبلیغ کے لئے آپ جو کوششیں کرتے ہیں، اگر وہ آدھے رستے میں رہ جائیں تو شیریں پھل نہیں بنتے.آپ کی 631
ارشادات فرموده دوران دوره مشرق بعید 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک تبلیغی کوششوں کا عمل میرے آنے کے بعد انشاء اللہ مکمل ہو جائے گا.اور نجی کی جماعت اسلام کی تبلیغ کے لئے جو کوششیں کرے گی ، ان کو غیر معمولی برکت عطا ہو گی.اور تھوڑی سی کوشش کو بھی اللہ تعالیٰ جلدی پھل لگادے گا، گنوں کو کارخانوں میں نہیں ڈالنا پڑے گا.بس آپ کے ہاتھ ہلانے کی ضرورت ہے.آپ ہمت کریں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بڑی جلدی نتیجہ عطا فرمائے گا“.18 ستمبر ،Pacific Harbour حضور نے فیمین نسل کے مقامی نئے احمدی دوست ناصر آموری صاحب سے فرمایا:.” ہم آپ کے پاس پہلے نہیں پہنچ سکے.اب اس طرف توجہ ہوئی ہے.آپ نئے احمدی اور نحین میں Pioneer ہیں.آپ کے ذریعہ لوکل آبادی میں اسلام کی تبلیغ کا رستہ کھل گیا ہے.اپنے سارے گاؤں کو اسلام کے نور سے منور کرنے کی کوشش کریں.18 ستمبر، صودا خدام الاحمدیہ کی تعداد دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ صرف ایسے خدام کو تجنید میں شامل کیا گیا ہے، جو مجلس کے کاموں میں سرگرمی سے حصہ لینے والے ہیں.تعاون نہ کرنے والوں کو تجنید میں شامل ہی نہیں کیا گیا.اس پر حضور نے پیار سے سمجھایا کہ "" سب نوجوان جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ان کی تجنید کریں.خواہ وہ عملی طور پر کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں“.ان کو بھی مجلس میں شامل کریں اور پھر آہستہ آہستہ سب کو فعال خدام بنانے کی کوشش کریں.پھر دریافت فرمایا کہ نیشنل پریذیڈنٹ کی حیثیت اور دائرہ کار کیا ہے؟“ جب حضور کو اس کے متعلق بتایا گیا تو فرمایا:.کا کا یہ تو ایسے ہی ہے، جیسے پاکستان میں نائب امیر ہوتا ہے.اختیارات کی بات پر حضور نے فرمایا:.اگر احمدیت کو سمجھ لیا جائے تو اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ کسی عہدیدار کے بارے میں تادیبی کاروائی کی نوبت آئے.یہ مسائل دراصل وہاں پیدا ہوتے ہیں، جہاں مرکز سے دوری ہوتی ہے، لوگوں کو مرکز سلسلہ میں جانے کا موقع نہیں ملتا.اس لئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ نظام سلسلہ کے طریق کار اور اس کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرے.اسی طرح بیرونی جماعتوں کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے کیا کیا 632
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ارشادات فرموده دوران دوره مشرق بعید 1983ء اختیارات ہیں؟ پھر اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پورے جذبہ کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں دینا چاہیے.جو بھی امیر مقرر کیا جائے، اس کے ہر معروف حکم کو ماننے کے لئے تیار رہنا چاہیے.اگر کوئی مشنری انچارج اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو مرکز میں اس کی رپورٹ کی جائے.جب تک مرکز کوئی کارروائی نہیں کرتا، شکایت کنندہ خاموش رہے.اسی طرح اگر کوئی امیر اپنے اختیارات سے بڑھ جائے تو اس کی شکایت بھی کی جائے.لیکن امیر کی معرفت کی جائے.اس طرح ایک تو امیر زیادہ محتاط ہو جائے گا، دوسرے شکایت کرنے والا جب بھی امیر کی وساطت سے شکایت کرے گا تو زیادہ ذمہ داری اور احتیاط سے بات کرے گا.شکایت میں ذاتی تلخیوں کو داخل نہ کیا جائے.شکایت بر وقت ہو، ایسا نہ ہو کہ جماعتی نقصان ہو رہا ہو اور دوست خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.و نیشنل پریذیڈنٹ اور امیر کے درمیان (Friction) اختلاف کی وجہ سے کبھی کبھی نیشنل پریذیڈنٹ کا عہدہ ختم کر دیا جاتا رہا ہے.لیکن اب آئندہ کے لئے ایسا نہیں ہوگا.جو شخص (Friction) اختلاف پیدا کرتا ہے، وہ قابل مواخذہ ہوگا اور اس کو معزول کیا جائے گا.خواہ وہ امیر ہو یا نیشنل صدر ہو“.فرمایا: ”میں بار بار جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ نفرت کی بجائے باہمی محبت پیدا کریں، ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ قائم اور اخوت کی روح کو زندہ رکھیں“.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعض مصالح کے پیش نظر جماعت ہائے احمد یہ نجی کی مجلس شوری کے پروگرام میں تبدیلی فرمائی.اس پر ایک دوست نے عرض کیا کہ مجلس مشاورت کسی چھٹی والے دن رکھنی چاہیے.اس پر حضور نے فرمایا:.خلیفہ وقت آپ کے پروگرام کے تابع نہیں ہے ، آپ کو خلیفہ وقت کے پروگرام کے تابع ہونا چاہیے.66 نیز فرمایا کہ دو مجلس شوری، جس میں خلیفہ وقت موجود ہوں، وہ بہت غیر معمولی شوری ہوتی ہے.اور ایک (Ideal) آئیڈیل موقع ہوتا ہے، جس میں نوجوانوں کی تربیت مقصود ہوتی ہے.اس لئے اس میں نو جوانوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے.عہدیدار ( Office Bearars) تو زیادہ تر بوڑھے ہوتے ہیں، نوجوانوں کو موقع دیں تا کہ وہ آگے چل کر ذمہ داریوں کے بوجھ اٹھانے کے اہل بنیں.وہ شوریٰ کی کاروائی سنیں اور اس سے سبق سیکھیں.میں خدام کو بہت سے کاموں کا ذمہ دار بنانا چاہتا ہوں.اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ نوجوان شوری میں شریک ہو کر مشورے دیں.633
ارشادات فرموده دوران دورہ مشرق بعید 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک چنانچہ حضور نے امیر ومشنری انچارج تھی سے فرمایا کہ آفس پیر رز کے کے علاوہ جن لوگوں کو شوری میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے، ان کی فہرست دکھا ئیں.انہوں نے حضور کی خدمت میں جو فہرست پیش کی، اس میں اکثریت آفس بیررز کی تھی.اور حضور کی واضح ہدایت کے باوجود نوجوانوں کو شامل نہیں کیا گیا.اس پر حضور نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:.آپ نے قول سدید سے کام نہیں لیا.بعد ازاں کئی پہلوؤں سے انتظامی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد حضور اس نتیجہ تک پہنچے کہ امارت کی تبدیلی ضروری ہے.چنانچہ حضور نے نئے امیر صاحب کو یہ ہدایت فرمائی کہ نو جوانوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لئے شوری میں ان کو شامل کیا جائے“.مطبوعه روزنامه الفضل 19 اکتوبر 1983 ء) 20 ستمبر ، سودا فضل عمر مسجد سووا میں مجلس مشاورت منعقد ہوئی، جس کی صدارت حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمائی.نجی کے مرکز اور مختلف جماعتوں سے چھیاسٹھ نمائندگان نے شرکت کی.دو پہر اور شام کو مجلس مشاورت کے دو اجلاسات منعقد ہوئے ، یہ دونوں اجلاس مجموعی طور پر آٹھ گھنٹے تک جاری رہے.مجلس مشاورت میں نجی اور جنوبی بحرالکاہل کے دو اور مجمع الجزائر میں تبلیغ کا منصوبہ تفصیلی طور پر زیر بحث آیا.حضور رحمہ اللہ نے حکم دیا کہ جنبی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کیا جائے“.یہ ترجمہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے.حضور نے ارشاد فر مایا کہ اس پر بڑی احتیاط سے تفصیلی نظر ثانی کے بعد ترجمہ شائع کیا جائے“.اس کے علاوہ تربیتی اور مالی معاملات بھی زیر بحث آئے.حضور نے ارشاد فرمایا کہ احمدی بچے بچی کی زبان سیکھیں اور ان میں سے بعض کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مرکز سلسلہ ربوہ بھجوایا جائے.634 مطبوعه روزنامه الفضل 25 ستمبر 1983ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرموده دوران دوره مشرق بعید 1983ء 10 اکتوبر، لاہور حضور نے فرمایا:.آسٹریلیا بہت بڑا براعظم ہے، جہاں مختصری جماعت ہے.مگر ان کے ارادے بڑے بلند ہیں 65 اور ان میں بہت جوش اور ولولہ پایا جاتا ہے.نجی کے بارے میں حضور نے فرمایا:.وو وہاں ہماری توقع سے کئی گنا زیادہ مخلص جماعت قائم ہے، جنہوں نے مجھے بڑا متاثر کیا.وہاں جا کر بڑی تعداد میں لوگوں سے تعلق قائم ہوا.وہاں کی جماعت نے حیرت انگیز طور پر تعاون پیش کیا.یہ بڑی مخلص جماعت ہے اور بڑی قربانی کے لئے تیار ہے.وہاں کے احمدی نبی کو روحانی طور پر بہت جلد فتح کرنے کا عزم رکھتے ہیں“.حضور نے فرمایا:.وو " منی میں غیر مبائع احمدیوں سے بھی رابطہ ہوا، جن کے دلوں میں محبت اور احترام تھا.وہ با قاعدگی سے ہماری مجالس میں شامل ہوتے رہے اور نظام سے تعاون کرتے رہے.فرمایا:.مجھے کھا دو مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں.یہاں کے غیر مبائع کی طرح ان کے دل میں تعصب بالکل نہیں.مجھےان شکوہ کے غیر کی حضور نے پریس کے بارے میں بتایا کہ اخبارات کا رویہ ہماری توقعات سے بہت بڑھ کر اچھا تھا.آسٹریلیا کا چوٹی کا مذہبی امور پر لکھنے والا بہت متاثر ہوا اور اس نے اور اخبار نویسوں کو بھی میرے پاس بھیجا.حضور نے فرمایا:.اللہ ہی ہے، جو سارے کام کر رہا ہے ہے.ورنہ ہماری کوتاہیاں اللہ تعالیٰ کے فضل کی مستحق ہی تھیں“.فرمایا کہ اس دورے کے دوران مخالفت بھی ہوئی اور بڑی منظم مخالفت ہوئی.مگر اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز طور پر ان مخالفتوں میں سے کامیابی کا راستہ نکال دیا.پھر فرمایا:.دنیا کو نیکی کی تلاش ہے، جہاں بھی نیکی ہوگی ، وہ اسے قبول کریں گے.اس لئے جہاں جہاں احمدی آباد ہیں، وہ اپنے اندر نیکی پیدا کریں اور دنیا کو احمدیت کی دعوت دیں.صرف نیکی پیدا کرنا ہی کافی نہیں، نیکی کی دعوت دینا بھی ضروری ہے.66 635
ارشادات فرموده دوران دوره مشرق بعید 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضور نے فرمایا:.اس دورے کے دوران بعض جگہ دلوں کی تبدیلی کے حیرت انگیز مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں.بدھ مذہب کے مانے والے چین میں سے آج تک کوئی احمدی نہیں ہوا.وہ بھی بہت متاثر ہوئے.ایک بدھ اتنا متاثر ہوا کہ روانہ ہوتے وقت اس نے مصافحہ کیا تو اس پر اتنی رقت طاری ہوئی کہ اس نے میرا ہاتھ بھگو دیا.یہ بات کرتے وقت حضور کی آواز بھرا گئی، فرمایا:.یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں ، وہ جب تک دلوں کو نہ بدل دے، یہ ممکن نہیں ہے.فرمایا: ” ایسی ایک دو نہیں ،کئی مثالیں ہیں“.حضور نے فرمایا:.آج کل دلائل کی زیادہ ضرورت نہیں.بلکہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر تم اپنے رب کی طرف نہ آئے تو تباہ ہو جاؤ گے.اگر سارے احمدی یہ کام شروع کردیں تو بڑی جلدی کا یا پلٹ سکتی ہے.مطبوعه روزنامه الفضل 15 اکتوبر 1983 ء ) 636
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1983ء انشاء اللہ بہت جلد فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ہونے والے ہیں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1983ء میں کل مشرق بعید کے دورے سے واپس کراچی پہنچا تھا.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے اس دورے کے بہت سے حقوق اور ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اپنے فضل سے وہ راستے آسان فرما دیئے ، جن راستوں پر چلنے کی میری ذات میں ہمت اور طاقت نہ تھی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دلوں کو کھول دیا اور میری بات میں اثر پیدا کیا اور ایسا انتظام فرمایا کہ تربیت کا بھی موقع ملا اور تبلیغ کا بھی.اور پیغامات پہنچانے کے وہ ذرائع مہیا ہوئے ، جو ہمیں میسر نہیں تھے.ان علاقوں میں چونکہ جماعت کا کوئی خاص اثر نہیں تھا، اس لئے بظاہر کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہماری درخواست پر ہمارے لئے وہ مہیا کئے جائیں.اسی طرح رسل و رسائل اور ریڈیائی ذرائع بھی میسر آئے.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور جماعت کے لئے لوگوں کے دلوں کو نرم کر دیا.انہوں نے ہمارے ساتھ بڑا تعاون کیا اور ان کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا پیغام لکھوکھا انسانوں تک پہنچا.اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ بہت مصروف وقت گزرا.یوں محسوس ہوتا ہے کہ سوا مہینے میں کئی سال کے کام ہوئے اور کئی سال کے بعد واپس لوٹ رہا ہوں.اصل بات تو یہی ہے کہ وقت گھڑی سے نہیں بلکہ واقعات سے جانچا جاتا ہے.ایک ست انسان جس کی زندگی خالی ہوتی ہے، وہ اگر سوسال بھی جئے تو عملاً ایک مصروف آدمی کی چند دن کی زندگی کے برابر زندہ رہتا ہے.اور اللہ تعالیٰ اگر تو فیق عطا فرمائے اور واقعات تیزی سے انسانی زندگی میں گزرنے لگیں تو بہت تھوڑے وقت میں یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ کئی سال گزر چکے ہیں.آج صبح کی بات ہے، میں کراچی میں ایک دوست کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا.میں نے اس سے کہا کہ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی کی زندگی میں ایک ہزار آدمی سے ذاتی اور تفصیلی تعارف پیدا ہو جائے اور وہ گہرے طور پر ایک دوسرے کے واقف ہو جائیں اور ایک دوسرے سے مل کر ان کے اندر جذباتی تعلق قائم ہو جائے اور آپس میں مودت کے گہرے رشتے پیدا ہو جائیں.لیکن اس میں کوئی بھی رشتے پیدا میں کوئ 637
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1983ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک مبالغہ نہیں کہ اس دورے میں کئی ہزار دوستوں سے گہرا تفصیلی تعلق قائم ہوا، محبت کے رشتے قائم ہوئے، بچوں کے ساتھ بھی، بڑوں کے ساتھ بھی اور ہم نے ایک دوسرے کو قریب سے دیکھا اور سمجھا.پس باقی ساری باتیں اگر چھوڑ بھی دیں ، تب بھی صرف یہی پہلو بہت وزنی ہے.اور اتنی مصروفیت رہی ملاقاتوں کے لحاظ سے ہی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ سفر پر نکلے ہوئے مدتیں گزر گئی ہیں.فلم کی طرح چہرے سامنے آتے رہے اور پھر چہروں سے آگے بات بڑھی اور روحوں سے شناسائی ہوئی محبت اور مودت کے تعلقات قائم ہوئے.ان کا بھی ایمان بڑھا، ان کو دیکھ کر اور مل کر میرے ایمان میں بھی رونق آئی.پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا اور میرے ساتھیوں کا سارا وقت بہت مصروف رہا.اور اس احسان کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں، کم ہے.زبان میں طاقت نہیں کہ کما حقہ شکر ادا کر سکے.مگر یہ صرف میرے لئے شکر کا مقام نہیں ہے بلکہ ساری جماعت کے لئے شکر کا مقام ہے.کیونکہ میں اپنی ذاتی حیثیت میں تو یہ دورہ نہیں کر رہا تھا.نہ میرے ساتھی ذاتی حیثیت میں میرے ساتھ تھے.اللہ تعالیٰ کے احسانات ساری جماعت پر ہیں.جیسا کہ میں نے گزشتہ سفر میں واپسی پر کہا تھا: مجھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ احباب جماعت کی دعائیں قبول ہو کر پھل بن کر ہم پر نازل ہورہی ہیں اور خدا کی رحمت آتی ہوئی نظر آتی تھی.یوں لگتا تھا کہ جس طرح کوئی توقع نہیں ہے.اچانک غیب سے دست قدرت آتا ہے اور وہ مددکر دیتا ہے.تو از ما اس میں ساری جماعت شامل ہے.خلیفہ اور جماعت دو الگ وجود نہیں.بلکہ ایک ہی وجود کی دو حیثیتیں اور دو نام ہیں.اس لئے صرف میرے لئے نہیں بلکہ ہم سب پر اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے.اس نے اپنے فضل سے ہم پر بہت بڑے احسانات فرمائے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ایک مجلس میں یا کئی مجالس میں بھی یہ تفصیلی باتیں تو بیان نہیں ہوسکتیں.اس لئے میں نے سوچا ہے کہ آج آپ کو نبی سے متعلق کچھ باتیں بتاؤں.تو ایسی باتیں، جن کو سن کر آپ کے اندر ذمہ داریوں کے احساس بھی بیدار ہوں اور دین کے لئے پہلے سے بڑھ کر خدمت کا جذبہ پیدا ہو اور مستقبل میں آپ دیکھیں کہ ہمارے سامنے کیا کیا ذمہ داریاں آ رہی ہیں، ان کو سنبھالنے کے لئے آئندہ تیاری کرنی پڑے گی.چنانچہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے، ان کا اسی موقع سے تعلق ہے.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِيْنِ اللَّهِ أَفْوَاجًان کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ایک خوشخبری دی ہے.فرمایا: ایسا وقت آنے والا ہے کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے اور خدا کی طرف سے فتح آئے گی اور خدا کی طرف سے نصرت ملے گی.638
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1983ء اس مضمون میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف خوشخبری دی بلکہ بعض ایسی باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جن کی طرف عام طور پر انسان توجہ نہیں کیا کرتا.جب بھی کسی کو فتح ملتی ہے، جب بھی کسی کو نصرت عطا ہوتی ہے، دماغ میں ایک کیڑا آ جاتا ہے کہ یہ میری کوشش سے ہوا ہے، میری چالاکیوں سے ہوا ہے، میرے علم سے ایسا ہوا ہے، میں نے کیسی اچھی تنظیم کی تھی، کیسی اچھی تدبیر کی تھی، کیا اچھا لیکچر دیا تھا، کیسی اچھی کوشش کی تھی ، انسانی نفس انسان کو اس قسم کے تو ہمات میں مبتلا کرتارہتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ نصرت اور فتح تمہاری کوشش سے ہوگی.تم اپنی کوشش سے تو دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کر سکتے.تم اس لائق نہیں ہو تم اس قابل نہیں ہو کہ عظیم الشان کام کر سکو اور دلوں میں ایک انقلاب برپا کر سکو.یہ خدا کا کام ہے.اس لئے اللہ کی نصرت آئے گی، اللہ کی طرف سے فتح آئے گی اور یہ خدا ہی ہے، جو لوگوں کو فوج در فوج اسلام میں داخل کرے گا.فرماتا ہے:.فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ جب خدا کی طرف سے فتح ونصرت عطا ہو تو اس وقت تمہیں چاہئے کہ خدا کی تسبیح کرو اور اس سے استغفار کرو.بظاہر تو اس کا فتح سے کوئی تعلق نہیں ہے.فتح کے وقت تو یہ کہا جاتا ہے کہ شادیانے بجاؤ ، اچھلو اور کو دو اور جشن مناؤ لیکن خدا تعالیٰ نے ان چیزوں میں سے کسی کا ذکر نہیں فرمایا.بلکہ فرمایا: جب خدا کی طرف سے نصرت آئے اور فتح ملے.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ تو خدا تعالیٰ کی تسبیح بھی کرنا، اس کی حمد کے ترانے بھی گانا اور استغفار بھی کرنا.تا کہ تمہارے نفس میں انانیت کا اگر کوئی ادنی سا بھی کیڑا پیدا ہو تو وہ کچلا جائے.تمہاری توجہ اس طرف پھر جائے کہ جس ہستی نے یہ نصرت عطا کی ہے، میں اس کی حمد کے گیت گاؤں.جس نے ہمیں یہ فتح نصیب فرمائی ہے، اس کی تسبیح کروں.تسبیح وتحمید اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر اس فتح کا فائدہ کوئی نہیں ہو سکتا، جو فتح دین کی فتح ہوا کرتی ہے.اگر آپ تسبیح اور تحمید کے بغیر دین میں کوئی فتح حاصل کریں گے تو وہ ضائع چلی جائے گی.اور بجائے فائدہ کے بسا اوقات نقصان بھی پہنچ سکتا ہے.دین کا ایک غلبہ تو مقدر ہوتا ہے.لیکن بعض دفعہ وہ مقدر ایسے وقتوں میں آ جاتا ہے، جب دین بگڑ چکا ہوتا ہے.خدا نے تو وہ وعدہ پورا کر دیا، اس نے دین کو فتح عطا کر دی.لیکن لوگ بگڑ چکے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے عملا وہ فتح بر کار ہو جاتی ہے.چنانچہ ایسی کئی قومیں ہمارے سامنے ہیں، جن کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے تو ان کو فتح عطا فرما دی لیکن بد قسمتی سے 639
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وہ لوگ بگڑ چکے تھے اور فتح سے استفادہ نہ کر سکے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت ملے اور فتح عطا ہو تو فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ اپنے رب کی تسبیح کے ترانے گانا اور اس کی حمد کرنا.یعنی دو طرح کی قوتیں اپنے رب سے حاصل کرنا.ایک تو یہ کہ تسبیح کے ذریعہ خدا کے حضور یہ عرض کرنا کہ ہم تو نقائص سے پاک نہیں ہیں، ہماری تو ہر چیز میں غلطیاں ہیں، اس لئے اے خدا! تو غلطیوں سے پاک ہے، ہم تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں.اس فتح میں ہماری غلطیوں کے نتیجہ میں جو کمزوریاں رہ جائیں، ان سے ان قوموں کو محفوظ رکھنا ، جو اسلام میں داخل ہورہی ہیں.یہ نہ ہو کہ ہم اپنی بدبختی سے اپنی کمزوریاں ان میں داخل کر دیں.اور چونکہ یہ بھی کمزوریوں سے پاک نہیں ہیں، اس لئے یہ نہ ہو کہ جب یہ لوگ ہمارے اندر آئیں تو اپنے بد خیالات اور بد رسوم اور کمزوریاں لے کر داخل ہو جائیں.اور امر واقعہ یہ ہے کہ جب بھی مذاہب غلبہ پاتے ہیں ، یہ Process اور یہ واقعہ ضرور رونما ہو جاتا ہے.چنانچہ ایک طرف تو یہ ہوتا ہے کہ داخل ہونے والے جب پہلوں کی کمزوریاں دیکھتے ہیں تو ان میں سے بعض ٹھو کر کھاتے ہیں اور واپس پھر رہے ہوتے ہیں یعنی مرتد ہورہے ہوتے ہیں.وہ لوگوں کو قریب سے دیکھتے ہیں، ان کو نظر آتا ہے کہ ان میں تو بہت سی بیماریاں ہیں، یہ تو اتنے اچھے نہیں، جتنے سمجھ کر ہم داخل ہوئے تھے تو دوسری طرف بعض لوگ جو واپس نہیں جاتے بلکہ اکثر ہیں، جو واپس نہیں جاتے مگر وہ ان کمزوریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، جو پہلے موجود ہوتی ہیں.وہ کہتے ہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا.جس طرح پہلے تھے، اس طرح اب بھی ہیں.اور پہلے اگر کمزور تھے تو یہ لوگ بھی تو کمزور ہیں.ان کمزوریوں اور بدیوں میں مبتلا ہونے میں کوئی حرج نہیں.پس وہ قوم بڑی بد قسمت ہوتی ہے، جس کو خدا فتح نصیب کرے اور وہ خدا کی عطا کردہ اس فتح کے مزاج کو بگاڑ دے.دوسری طرف یہ لوگ برائیاں لے کر آتے ہیں.چنانچہ دیکھ لیں ، اسلام کی تاریخ میں اکثر بدعات اور نقائص ملکی حالات سے تعلق رکھتے ہیں.ہندوستان کی اور قسم کی بدعات ہیں، وہاں اور قسم کی رسوم ہیں، جنہوں نے اسلام میں رواج پایا، ایران کی فتح کے وقت اور قسم کی بدیاں داخل ہوئیں.عیسائی آئے تو کچھ اور قسم کی بدیاں لے کر آئے، یہودی داخل ہوئے تو وہ اپنے مزاج کی بدیاں لے کر آئے، مشرک کچھ اور بدیاں لے کر آگئے.تو آنے والے بھی اپنی ساری بدیاں چھوڑ کر نہیں آیا کرتے.وہ کچھ بدیاں ساتھ لے کر آتے ہیں، جن کی اصلاح کرنی پڑتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے تسبیح کے ذریعہ ہمیں یہ پیغام دیا کہ نہ آنے.640
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 14 اکتوبر 1983ء والے پاک ہیں، نہ تم پوری طرح پاک ہو.اگر تم نے اپنے رب کی تسبیح نہ کی اور اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے اور عاجزانہ یہ عرض نہ کیا کہ اے خدا! نہ صرف یہ کہ ہماری بدیاں ان تک نہ پہنچیں بلکہ انہیں بھی پاک فرمادے تا کہ ان کی بدیاں ہم میں داخل نہ ہوں.اس وقت تک یہ فتح تمہارے کسی کام نہیں آسکتی.بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس فتح کو تم بالکل اس لائق نہ رہنے دو کہ مذہبی تاریخ میں اس کی کوئی حیثیت باقی رہے.یہ ایک لمبا مضمون ہے، میں اس سے اگلے قدم میں داخل ہوتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے حمد کا پیغام دیا.خدا کی حمد کے گیت گانے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی گویا ہماری حمد کا پیاسا بیٹھا ہوا ہے کہ ا پہلے تسبیح کر دیں، پھر حد کر دیں تو اسے اس فتح کی جزامل جائے گی، جو اس نے عطا کی ہے.اگر کسی کے دماغ میں یہ خیال ہے تو نہایت لغو خیال ہے.وہ تو تسبیح وتحمید سے بھی مستغنی ہے، وہ تو ساری کائنات کا مالک ہے، انسان پیدا ہو یا نہ ہو، یہ زمین اور یہ زمانہ ہو یا نہ ہو، وہ ساری کائنات پر حاوی ہے، سارے زمانوں پر حاوی ہے.یہ جو پیغامات دیتا ہے، یہ ہمارے فائدہ کے لئے دیتا ہے.فرماتا ہے: جب خدا کی حمد میں داخل ہو گے تو یہ دعا کرنا، جس سے تمہارے دل میں بے قرار تمنا خود بخو داٹھنے لگے گی.اللہ کی ذات پر غور کرو گے، اس کی صفات پر غور کرو گے تو پھر تمہارے دل سے یہ دعا نکلنی چاہئے کہ اے خدا! جہاں بدیوں کا بائیکاٹ ہو جائے ، نہ وہ ہم سے لیں ، نہ ہم ان سے لیں ، وہاں حمد دونوں طرف سے بہنے لگے.وہ اپنی خوبیاں لے کر ہمارے اندر داخل ہوں اور ہم اپنی خوبیاں ان کے اندر داخل کر رہے ہوں اور ایک عظیم الشان قوم وجود میں آ رہی ہو.تو اسلامی فتح کا یہی وہ تصور ہے، جسے احمدیوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے.کیونکہ مجھے ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ انشاء اللہ بہت جلد فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ہونے والے ہیں اور مشرق بعید میں خدا تعالٰی نے نئی فتح کے دروازے کھول دیئے ہیں.ایسے دلوں میں انقلاب برپا ہورہے ہیں کہ وہ سننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.جب اسلام کا پیغام سنتے ہیں تو شکوے کرتے ہیں اور کہتے ہیں ، تم لوگ پہلے کہاں تھے؟ ہمارے پاس کیوں نہیں آئے ؟ اس لئے میں نے سوچا کہ اس فتح نے تو آنا ہی آنا ہے.اب یہ خدا کی تقدیر ہے، جو لکھی گئی.کوئی نہیں، جو اس تقدیر کو بدل سکے.آپ ان لوگوں کو محبت اور پیار کے ساتھ وصول کرنے کی تیاری کریں.اپنے دل صاف کریں، اپنے اخلاق اور اطوار کو درست کریں ، اپنے خیالات کو پاکیزہ بنائیں، اپنے اعتقادات کی حفاظت کریں، آپ پر بہت بڑی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں.آپ ان کے میزبان بننے والے ہیں.اس لئے بدیوں کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط کریں تا کہ جب ان نئی قوموں سے آپ کا 641
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم وسیع طور پر تعلق قائم ہو تو ان کی بدیوں کو رد کرنے والے ہوں اور اپنی بدیوں کو پہلے دور کر دینے والے ہوں.یا استغفار کرتے ہوئے کم از کم ایسا انتظام کریں کہ وہ بدیاں ان میں داخل نہ ہوں.پھر حمد کے ترانے گائیں، اپنے اندر خوبیاں پیدا کریں، اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر اس دنیا میں جنت پیدا کریں.اکثر لوگ مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا وہ Utopia (یو پیا یعنی مثالی معاشرہ ) جولوگوں کے تصور میں ایک خواب ہے ، ایک کہانی ہے کہ دنیا میں ایک عظیم الشان سنہری زمانہ آ جائے گا، جس میں ہر طرف امن ہو گا اور انسان اس جنت کو پالے گا، جس کی خاطر غالبا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کو پیدا کیا گیا ہے.تو میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ وہ جنت تو قریب آ رہی ہے، وہ اسلام کی فتح ہی کی جنت ہے.مگر اس کے لئے ہر احمدی کو زبر دست تیاری کرنی پڑے گی.اسی طرح ہر احمدی کو پھر حمد کے مضمون میں بھی داخل ہونا پڑے گا.اس ارادے کے ساتھ کہ خدا کی خاطر مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان کو ادا کرنے کے لئے مجھے اپنے خیالات کو درست کرنا ہے، اپنے اخلاق کو سنوارنا ہے، اپنی عادات کو سنوارنا ہے، اپنے مزاج کو سنوارنا ہے.اور یہ سب روز مرہ کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والے واقعات ہیں.یہ کوئی فرضی حمد نہیں ہے کہ آپ نماز میں چند منٹ کے لئے تصوراتی حمد کرلیں اور پھر باہر آ کر بھول جائیں کہ آپ نے کیا کہا تھا.حالانکہ تسبیح و تحمید کا مضمون اور برائیوں کو دور کرنے کا مضمون تو روز مرہ کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے.وہ خوابوں میں بھی ساتھ رہتا ہے، اٹھنے کے وقت بھی ساتھ رہتا ہے.جس وقت آپ کھانا کھا رہے ہوتے ہیں، اس وقت بھی ساتھ ہوتا ہے.جس وقت آپ وضو کر رہے ہوتے ہیں، اس وقت بھی ساتھ ہوتا ہے.جس وقت آپ معاملات کر رہے ہوتے ہیں، اس وقت بھی ساتھ ہوتا ہے.بیوی بچوں کے تعلقات میں بھی اور غیروں کے تعلقات میں بھی ساتھ ہوتا ہے.غرضیکہ ہر روز انسان کی زندگی میں ایسے بے حد اور بے انتہا مواقع نظر آتے ہیں، جہاں وہ اپنی بعض برائیاں دور بھی کر سکتا ہے، اگر وہ بیدار مغزی کے ساتھ اپنا مطالعہ کرے.اور بعض وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کر رہا ہوتا ہے.مثلاً بول چال میں بداخلاقی کو چھوڑ دیتا ہے، کلام میں تیزی اور مزاج میں درشتی کو نرمی میں بدل دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آج میں نے یہ برائی چھوڑ دی ہے، اب میں نے وہ برائی چھوڑ دی ہے.اس طرح جب وہ خدا کی حمد کے گیت گائے گا اور اس کی صفات کے مضمون میں ڈوبے گا تو الہی صفات کے رنگ پکڑنا شروع کر دے گا اور اس طرح اخلاق کو درست کرنے کا اس سے بہتر طریق اور کوئی نہیں“.منی میں جماعت احمدیہ کی تعداد بہت تھوڑی ہے.غیر از جماعت مسلمانوں کی تعداد ہمارے مقابل پر نہ صرف بہت زیادہ ہے بلکہ وہ مؤثر بھی ہے.اور اتنے مؤثر ہیں کہ نہ صرف وہ نجی کی 642
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1983ء موجودہ حکومت کے ساتھ ہیں بلکہ ہمیشہ ہی وہ حکومت کے ساتھ رہتے ہیں.اور ان کا لازماً ایک وزیر ہوتا ہے.وہ محبین قوم ہے اور اس وقت وہاں حکومت کرتی ہے.ان کو اسلام کا کچھ پتہ نہیں.تفریق کا کوئی علم نہیں اور فرقوں کی تقسیم کا کوئی پتہ نہیں.وہ اپنا جو کچھ تاثر لیتے ہیں، ان مسلمانوں سے لیتے ہیں.اگر کوئی مسلمان کہلائے گا تو وہ ان سے پوچھیں گے کس قسم کا ہے؟ اس کو منہ لگا نا چاہئے یا نہیں لگانا چاہئے.ان حالات میں نبی کے احمدی بھی پریشان تھے اور میں بھی فکر مند تھا لیکن مایوس نہیں تھا.مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے انتظام کرے گا کہ وہاں تبلیغ کے راستے کھول دے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ناندی میں جہاں ہم نے پہلے دن ہوائی جہاز سے باہر قدم رکھا، وہاں کے میٹر ائیر پورٹ پر تشریف لائے.اور اس لحاظ سے انہوں نے بڑے خلق کا مظاہرہ کیا.اور اس کے بعد دوسرے دن ان کی دعوت پر ہم Civic Center پر لیکچر کے لئے بھی گئے.اس اثناء میں اتنی تفصیل سے جماعت کی مخالفت میں تنظیم قائم کر دی گئی تھی کہ ایک ایک مسلمان کو یہ پیغام پہنچایا گیا تھا کہ تم نے احمدیوں سے کلیتہ بائیکاٹ کرنا ہے، ان کے کسی جلسے میں شامل نہیں ہونا.اور پھر غیر مسلم مین کو بھی ڈرایا جارہا تھا اور ان کو بھی روکا جارہا تھا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہوا تھا اور جیسا کہ میں نے کہا ہے ، جب مالک فیصلہ کر لے تو جو مالک نہیں ہے، اس کا بس نہیں چلتا.بے چارے کی خواہش ہی رہ جاتی ہے، ایک حسرت رہ جاتی ہے، وہ کچھ کر نہیں سکتا.چنانچہ ہم نے دیکھا کہ ان لوگوں کے لئے بے بسی کا ایسا عالم تھا کہ باقیوں کو تو چھوڑو، وہاں کے ایک بہت بڑے لیڈر، جن کا میں اس وقت مصلحتا نام نہیں بتانا چاہتا، ان کی بیٹی بھی تقریر سننے کے لئے وہاں پہنچ گئی اور وہ شدید مخالف ہی نہیں تھی بلکہ اس نے پورا مطالعہ کیا ہوا تھا اس لٹریچر کا، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بالکل غلط تاثرات بلکہ نہایت ہی خوفناک تاثرات قائم کرتا ہے.اس نے اپنے والد سے کتابیں لے کر ان کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا.وہ بھی اس مجلس میں موجود تھیں.جیمز بھی تھے اور غیر از جماعت مسلمان بھی تھے.اگر چہ بائیکاٹ تھا لیکن بعض علماء نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اپنے ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچیں گے اور ایسے اعتراض کریں گے کہ ان کی کوئی پیش نہیں جائے گی.اور یہ بھی کہ ہم ان کو ذلیل و رسوا کر دیں گے.چنانچہ ایسے ہندوستانی علماء جو دینہ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے اور بڑے چوٹی کے علماء تھے ، وہ اپنے شاگردوں اور ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریر ہوئی اور پھر جب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو احمدیت تو خدا کے فضل سے صداقت ہے، اس کے لئے کسی خوف کا سوال ہی نہیں.بھلا روشنی بھی کبھی اندھیرے سے ڈرتی ہے.میں تو ان کو صاف اور کھل کر بتا تارہا ہوں کہ اگر ہم روشنی 643
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم ہیں تو تمہیں منہ چھپانا پڑے گا.اندھیرے کے لئے روشن دانوں پر پردے ڈالے جاتے ہیں ، گرمیوں میں سورج کی تمازت سے بچنا چاہیں تو ہزار کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح روشنی اندر داخل نہ ہو.پس لوگ ڈرتے ہیں، سورج تو اندھیرے سے کبھی نہیں ڈرا.پس یہی کیفیت ہم نے وہاں دیکھی.میں بڑی بے تکلفی کے ساتھ مگر اس کامل یقین کے ساتھ ان کے سوالات کا جواب دیتا تھا اور سمجھتا تھا کہ دیکھتے دیکھتے کھل جائے گی.اس لئے میں ان سے کہتا تھا.جس کسی نے جو بھی سوال کرنا ہے، کرے.بے شک تلخ سے تلخ سوال بھی کیوں نہ ہو؟ میں اس کا جواب دوں گا.چنانچہ تھوڑے عرصہ کے اندر جو سوال ہوئے ، ان میں خدا تعالی کے فضل سے سوالات کرنے والوں نے خود ہی اطمینان کا اظہار شروع کر دیا.ایک طرف سوال کرتے تھے اور دوسری طرف تھوڑی دیر کے بعد کہہ دیتے تھے کہ ہاں بالکل ٹھیک ہے، ہماری تسلی ہوگئی.سر ہلانے لگ جاتے تھے، کہنے لگ جاتے تھے.چنانچہ وہاں ایک محبین پادری صاحب بھی آئے ہوئے تھے.ان کی کیا پوزیشن ہے؟ مجھے یاد نہیں.ان کا ایک چرچ سے تعلق ہے اور شاید وہاں کے کسی تعلیمی ادارے کے لیکچرار بھی تھے.بہر حال ان کی اچھی پوزیش تھی.نجی قوم سے تعلق رکھتے تھے.انہوں نے ایک سوال کیا، اس کے بعد ان کے چہرے پر بشاشت آئی.پھر انہوں نے ایک اور سوال کیا اور اس کے بعد کھڑے ہو کر شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ ہاں ہماری تسلی ہوگئی.نہ صرف بعد میں احمدیوں سے ملے اور درخواست کی کہ میں تو لمبی ملاقات چاہتا ہوں.اب تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں نے ملنا ہے اور مزید باتیں کرنی ہیں.لیکن چونکہ وقت بہت ہی تھوڑا تھا، پہلے سے پروگرام طے شدہ تھے، اس لئے مصروفیت کی وجہ سے میں ان کو وقت نہیں دے سکا.اب انشاء اللہ میرا ارادہ ہے کہ خط و کتابت کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم رکھوں.پس جب یہ اثر دیکھا تو ایک مولوی صاحب، جو اپنی ٹیم کے ساتھ تشریف لائے ہوئے تھے، وہ بڑے پریشان ہوئے اور انہوں نے پھر سوال و جواب کا معاملہ اپنے ہاتھ میں سنبھال لیا.انہوں نے ایک سوال کیا، میں نے جب اس کا جواب دیا تو اس سوال کے پہلے حصہ سے مکر گئے.خدا تعالیٰ نے ان کی ایسی عقل ماری کہ ان کے سوال کرنے کا پہلا حصہ خود ہی دوسرے حصہ کی نفی کر رہا تھا.جب وہ بڑے لہک لہک کر سوال کرنے لگے اور انہوں نے خوب اردو بولی تو چونکہ وہاں اکثر مجالس انگریزی میں ہوتی تھیں مگر وہ کہتے تھے، مجھے انگریزی نہیں آتی.پہلے تو یہ جھوٹ بولا کہ مجھے اردو بھی نہیں آتی اور بعد میں جب مجبور ہو گئے تو اردو بولی اور اتنی فصیح و بلیغ کہ سارے حاضرین حیران رہ گئے کہ مذہبی آدمی اور اتنا جھوٹا.کسی سے کہلوایا کہ اردو کا ایک لفظ بھی مجھے نہیں آتا اور بعد میں پتہ لگا کہ وہ اچھے بھلے یوپی کی اردو بولنے والے 644
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1983ء ہیں.خیر اسی طرح ایک جھوٹ تو پکڑا گیا.جب انہوں نے سوال مکمل کیا تو میں نے مسکراتے ہوئے تسلی سے ان سے کہا کہ مولوی صاحب! آپ کے سوال کا آخری حصہ یہ ہے اور پہلا حصہ یہ ہے.جواب تو آپ خود ہی دے چکے ہیں.اس پر وہ پہلے حصہ سے مکر گئے کہ میں نے تو یہ کہا ہی نہیں تھا.میں نے کہا : بہت اچھا یہ حسن اتفاق ہے کہ کیسٹ ریکارڈنگ ہو رہی ہے اور وڈیوریکارڈنگ بھی ہو رہی ہے.اگر آپ فرمائیں تو آپ کو یہ حصہ سنادیں تو اسی وقت گھبرا کر پیچھا چھڑانے لگے کہ نہیں ، کوئی ضرورت نہیں ، میں نے کہا ہو گا لیکن اب میں ایک اور سوال کرتا ہوں.جب دوسراسوال شروع کیا تو میں نے قرآن کریم اور حدیث سے جواب دینا شروع کیا تو پریشان ہو گئے کہ نہیں، آپ کون ہوتے ہیں، قرآن کریم کی تشریح کرنے والے؟ میں نے کہا: مولوی صاحب ! عقل کی بات کریں.آپ نے خود ہی مذہب کے بارے میں سوال کیا ہے اور آپ نے خود ہی یہ کہا ہے کہ میں آپ کے سوال کا قرآن کریم کے ذریعہ جواب دے کر آپ کو مطمئن کروں.اس لئے میں تو قرآن سے جواب دوں گا.بولے نہیں قرآن تو ہمارا ہے.گویا ان کی Monoply اجارہ داری ہے.میں نے کہا: آپ نے سوال کیا ہے اور قرآن سے جواب مانگا ہے.اس لئے اب آپ کو اس کا جواب سننا پڑے گا.کیونکہ سائل کا پھر یہ حق نہیں ہے کہ وہ دخل اندازیاں کرے.کم از کم اسلامی شرافت تو سیکھیں.یہاں آئے ہیں تو اسلامی تہذیب کے اندرر ہیں.یہاں ہندو بھی بیٹھے ہیں اور عیسائی بھی، مجیز بھی ہیں اور ایشیز بھی ، آپ جوحرکتیں کر رہے ہیں، ان کو دیکھ کر لوگ کیا سمجھیں گے؟ آپ ان پر کیا اثر ڈالیں گے؟ آپ کو تہذیب کے دائرہ کے اندر رہنا پڑے گا.میں نے کہا: آپ باقی لوگوں کو دیکھیں، وہ سوال کرتے ہیں، پھر ان کو جواب سننے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے.خیر تھوڑی دیر جب جواب سنا تو ان کو یہ خطرہ پیدا ہوا یہ بالکل بجا تھا کہ دوسرے مسلمان جو سن رہے ہیں اور جن کے وہ پیر بن کر آئے تھے، وہ تو تائید میں سر ہلانے لگ گئے ہیں.تب انہوں نے سوچا کہ اب میں کیا کروں؟ چنانچہ آدھے سوال سے ذرا از ائد جواب ہوا تھا کہ گھبرا کر اٹھے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مجلس چھوڑ کر بھاگ گئے.لیکن اکثر وہاں بیٹھے رہے ، ان کے ساتھ گنتی کے چند آدمی گئے.وہ مخالف خاتون ، جن کا میں نے ذکر کیا ہے، وہ بھی بیٹھی رہیں.چنانچہ انہوں نے پھر دوبارہ مجھ سے وقت لیا.کہنے لگیں، میں تو کچھ اور سمجھا کرتی تھی.احمدیت تو بالکل اور چیز ہے.مجھے تھوڑا سا وقت دیں.جب وہ ملنے کے لئے آئیں تو انہوں نے اعتراض دہرانے شروع کر دیئے ، جو آپ نے اکثر سنے ہوئے ہیں.مثلا محمدی بیگم کا اور اس قسم کے دوسرے اعتراضات.645
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے راستے کھولتا رہا ہے اور جتنی مخالفت ہوئی ہے، اتنا فائدہ پہنچا ہے.کیونکہ اس وقت جو غیر قوموں والے تھے ، وہ حج بن کر بیٹھ گئے تھے.جب مقابلہ شروع ہوا تو وہ دیکھ رہے تھے کہ کون آدمی معقول باتیں کر رہا ہے اور کون کج بحثی کر رہا ہے؟ کون انصاف کی بات کر رہا ہے اور کون ضد کر رہا ہے اور لغو باتیں کر رہا ہے؟ چنانچہ سب حاضرین پر احمدیت کا ایک بہت ہی پیارا تاثر پیدا ہونا شروع ہو گیا اور جو غیر مبائعین شامل ہوئے تھے، وہ اس کے نتیجہ میں بڑی تیزی کے ساتھ ہماری طرف مائل ہوئے.انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم سے تعلق قائم کیا.اب یہ بات عام ہوگی تو یہاں کے غیر مبائعین بڑے کی گھبرائیں گے اور پریشان ہوں گے کہ ان کے شاید گنتی کے کچھ لوگ وہاں موجود ہیں، وہ بھی ہاتھ سے جاتے نہ رہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا تو ان کے ہاتھ سے جاتے رہیں گے.کیونکہ میں ان کی آنکھوں میں محبت اور تعلق اور سمجھ کے آثار دیکھ کر آرہا ہوں.مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ ان کے دل مائل ہو چکے ہیں.پس یہ ایک دن کی مجلس تھی، جس میں ہم نے خدا تعالیٰ کے بڑے فضل دیکھے، غیر معمولی تائید دیکھی ، نصرت دیکھی اور دلوں کو احمدیت کی طرف مائل ہوتے دیکھا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں اسی شہر میں اپنے احمدی دوستوں کے ساتھ جو مجالس ہوئیں، ان کے نتیجہ میں دیکھتے دیکھتے یوں لگتا تھا کہ احمدیوں کی کایا پلٹ رہی ہے.جب ہم وہاں پہنچتے ہیں تو اور قسم کے چہرے دیکھتے تھے، پھر جب ناندی سے روانہ ہورہے تھے تو کچھ اور قسم کے چہرے ظاہر ہو چکے تھے.ان میں عزم تھا، ان میں ارادے تھے.نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے خود ملاقاتوں اور مجالس میں کھل کر کہا کہ ہوگیا، جو ہونا تھا.غفلت کی جو حالت تھی، وہ گزرگئی.اب ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آج سے ایک مبلغ کی طرح اپنی زندگیاں وقف رکھیں گے.ہمارے دل میں خدمت اسلام کا ایک غیر معمولی جذبہ پیدا ہو چکا ہے.ہم اسلام کی تبلیغ کریں گے اور ہر طرف خدا کا پیغام پہنچائیں گے.یہ پاک تبدیلیاں اللہ تعالیٰ پیدا فرمارہا تھا.ایسی صورت میں کوئی بڑا ہی بے وقوف اور جاہل ہوگا، جو یہ سمجھے کہ اس میں اس کی کوششوں کا دخل ہے.اس میں کسی انسانی کوشش کا دخل نہیں محض اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں.چنانچہ چین پر یس کے نمائندے پہنچ گئے.حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے، دوسروں کا پر لیس کے اوپر بھی بڑا اثر تھا.لوگ پریس کے نمائندوں کو روکتے تھے کہ ان کی باتیں نہیں سنتیں.لیکن اس کے باوجود پریس پہنچا اور بہت اچھا Coverage یعنی اخباری خبریں دیں.صرف یہی نہیں، ریڈیو نجی نے اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی قریباً ایک گھنٹے کا انٹرو یولیا اور پھر نشرکیا اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ لوگ انہیں کیا کہتے 646
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1983ء ہیں؟ پھر اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے کہا: ہم آپ کی بیگم صاحبہ کا بھی انٹرویو لینا چاہتے ہیں.چنانچہ انہوں نے بیگم صاحبہ کا بھی انٹرویو لیا.پس یہ سامان کس نے کیا تھا؟ میں نے تو نہیں کیا تھا.نہ میرے اندر طاقت تھی اور نہ ہمارے حسین احمدیوں میں تھی، جو بے چارے دینی لحاظ سے بہت کمزور ہیں.وہ چند ہزار کی تعداد میں ہیں، کوئی دنیوی طاقت انہیں حاصل نہیں.محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اس نے طاقت عطا فرمائی.سارے نبی کو اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق عطافرمائی.اور بھی بہت سے نشان، بڑے دلچسپ واقعات ہیں، جن کا ذکر انشاء اللہ بعد میں اجتماعات پر کروں گا.پھر جلسہ سالانہ ہے، اس میں بھی ذکر چلے گا.یہ لمبی باتیں ہیں.میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے، یوں معلوم ہوتا تھا کہ تھوڑے سے وقت کے اندر واقعات اس طرح اکٹھے ہو گئے ہیں، جس طرح کہتے ہیں کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے.یعنی کندھے سے کندھا ملا کر ایک جلوس جارہا ہوتا ہے، اس طرح واقعات ایک دوسرے سے مل کر چل رہے تھے.یوں معلوم ہوتا تھا، ایک مودی پلیٹ فارم (Movie Plat Form) ہے.ایک حرکت کرنے والا پہیہ ہے، جس پر ہم سوار ہو گئے ہیں.ایک طرف سے ڈوبے ہیں، دوسری طرف سے کراچی پہنچ گئے ہیں.اور اس سارے عرصہ میں واقعات کا ایک مسلسل جلوس تھا، جو ایک دوسرے کے ساتھ جاری رہا.میں بھی اور میرے ساتھی بھی اس حال میں واپس لوٹے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے ہمارے سینے معمور ہیں اور زبانوں پر خدا تعالیٰ کی حمد کا ایک نہ ختم ہونے والا سمند ر جاری ہے.پس میں آپ کو بھی یہی پیغام دیتا ہوں کہ اپنے سینوں کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید سے بھر دیں.یہی تسبیح اور تحمید ہے، جواب ہمارے کام آئے گی.ورنہ اس کے بغیر یہ فتح اور نصرت ہمارے ہاتھوں سے ضائع ہو سکتی ہے.اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا ہے.کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی کما حقہ تسبیح اور تحمید نہیں کر سکتا.اگر چہ وہ اپنی طرف سے تسبیح و تحمید کا پورا پورا حق ادا کرتا ہے.پھر بھی بعض غلطیاں رہ جاتی ہیں.اس لئے تسبیح اور تحمید کے ساتھ ہی فرمایا: تم عجز کے ساتھ استغفار بھی کیا کرو.فتح و نصرت ملنے کے بعد خدا کے حضور یہ عرض کیا کرو کہ اے اللہ ! یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ہمیں یہ پتہ ہے کہ اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا تو ہم بخشے جانے کے لائق نہیں ٹھہریں گے.ہم محض تیری بخشش کے سہارے زندہ ہیں.ہم اس امید پر زندہ ہیں کہ جب تیرے حضور حاضر ہوں گے تو اے خدا تو ہم پر رحمت اور شفقت کی نظر کرے گا اور بخشش کی نگاہ ڈالے گا.ورنہ یہ فتوحات جو تو نے ہمیں عطا کی تھیں، ہم ان کا حق ادا کرنے کے لائق نہیں.اس جذبے کے ساتھ دوست جب اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کریں گے اور استغفار کریں گے اور رب 647
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم کریم کے ساتھ پیار اور محبت کا تعلق جوڑیں گے تو پھر دیکھیں گے کہ انشاء اللہ وہ فتح ونصرت ، جس کے آثار میں دیکھ کر آیا ہوں ، وہ کس شان کے ساتھ آتی ہے.اس سے دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا ہو گا.انسان کو ایک نئی جنت عطا ہوگی.لیکن وہ جنت، وہی جنت ہے، جس کا پہلے آپ کے دلوں میں قائم ہونا ضروری ہونا ہے.یہی وہ جنت ہے، جو آپ کے دلوں سے اچھل اچھل کر باہر نکلے گی اور دنیا میں پھیلے گی.اور یہ اللہ تعالٰی کی تسبیح اور تحمید کی جنت ہے.یہ استغفار کی جنت ہے، جس سے دنیا کی کایا پلٹ جائے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل 11 دسمبر 1983ء) 648
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہر احمدی کو داعی الی اللہ بننا ہو گا پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ بنی پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ فی منعقدہ 18 اکتوبر 1983ء یہ جلسہ سالانہ سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو کامیاب بنائے.اپنی برکتوں اور رحمتوں سے نوازے اور آپ کے ایمان میں مضبوطی عطا کرے.جب میں نجی میں تھا تو اس بات پر زور دیا تھا کہ ہر احمدی کو داعی الی اللہ بن ہوگا.ہر ایک کو مین زبان سیکھنی ہوگی.جس سے اس قوم میں تبلیغ کرنا آسان ہوگا.اور میں بہت خوش ہوں کہ میرے دورہ فجی سے وہاں نمایاں تبدیلی ہوئی ہے.اور مجھے خوش کن رپورٹیں ملی رہی ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کا یہ جلسہ سالانہ کامیاب ہو.ہر ایک کو میرا السلام علیکم کہیں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 28 فروری 1984ء) 649
تحریک جدید- ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرمودہ 20 اکتوبر 1983ء ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنا ، احمدیوں کی ذمہ داری ہے وو خطاب فرمودہ 20اکتوبر 1983ء انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹکیٹس اینڈ انجینیئرز سے خطاب.مثلاً صد سالہ جوبلی کے نتیجہ میں جو ذمہ داریاں پڑنی ہیں، ان پر تو ایک پوری ٹیم کا کام ہے.ایک، دو آدمی کا کام نہیں ہے.یعنی بلڈنگز جو بنیں گی، ان کے علاوہ بازاروں کے روٹس (ROUTS) ڈیزائن کرنے ، ان میں جہاں پلیاں وغیرہ آئیں گی ، ان کی نشاندہی اور یہ فیصلہ کہ وہ کس طرز کی بنائی جائیں.اور بھی کئی قسم کی سہولتیں ہیں، جو اس موقع پر مہیا کرنی پڑیں گی.مثلا ریلوے کی کراسنگ پر ایک عبوری راستہ ڈیزائن کرنے کی ضرورت پڑے گی بابل کے نیچے سے ایک الگ سڑک گزارنا پڑے گی.آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فی الحال یہ ہمارا کام نہیں، کمیٹی کا کام ہے.لیکن عملاً چونکہ ہم پر بوجھ پڑتا ہے، جب تک ہم ان کو تیار کر کے لقمہ بنا کر منہ میں نہیں ڈالیں گے، اس وقت تک انہوں نے نہیں کرنا.اس لئے ہمیں بہت سی طوقی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑیں گی.اور جو جماعتی بلڈنگز ہیں، وہ تو بہر حال سو فیصدی ہم نے خود ہی تعمیر کرنی ہیں.....دوسرا حصہ، جس کا ذکر کیا گیا، وہ بیرونی دنیا میں مشن ہاؤسز کی تعمیر ہے.اس سلسلہ میں بھی آرکیٹیکٹس پر ہی زیادہ بوجھ ہے.کیونکہ اس وقت تک تو جماعت کی خدمت میں سب سے زیادہ فعال شعبہ آرکیٹکچر رہا ہے.ہمیں اب ایسے ڈیزائنز چاہیں کہ جو ہم دنیا میں ہر جگہ معمولی رد و بدل کے ساتھ ، جو مقامی ملکی قوانین اور رواج کے نتیجہ میں کرنے پڑتے ہیں ، ہر ملک میں استعمال کر سکیں.گویا انہیں بنابنا یا نقشہ دے دیں کہ معمولی ترامیم کے ساتھ اس نقشہ کے مطابق تم مشن ہاؤس بناؤ.مشنز کو جو ضرورتیں پڑتی ہیں، وہ کم و بیش واضح ہو چکی ہیں.مثلاً تجربوں سے یہ پتہ چل چکا ہے کہ مسجدیں اور مشن ہاؤس ڈیزائن کرتے وقت لازماً اسے دس گنا پھیلانے کے امکانات کو مد نظر رکھ کر ڈیزائن بنانا چاہیے.یعنی کم از کم اتنا ہو کہ اگر موجودہ تعداد سے دس گنا نمازی آئیں تو مسجد میں یہ امکان ہو کہ وہ سیکشنز (SECTIONS) میں تعمیر کر کے وسیع تو کی جاسکے.لیکن پہلے سے پلان (PLAN) ہو اور اس کے لئے منظوری پہلے ہی لے لی گئی ہوتا کہ کوئی بعد میں دقت پیدا نہ ہو.651
اقتباس از خطاب فرمودہ 20اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پس مساجد اور مشن ہاؤسز کے اس قسم کے نقشے چاہئیں، جو ہماری روزمرہ کی ضرورتیں پوری کر سکیں.اب آسٹریلیا کی مسجد کا بھی ابھی نقشہ منظور نہیں ہوا.( آخری شکل میں) کیونکہ وہاں جا کر میں نے دیکھا تو اس میں ابھی کئی خامیاں تھیں.اسی طرح آرکیٹیکٹ سے شرائط بھی ابھی طے نہیں ہو ئیں.بہر حال چونکہ مجھے نقشہ پر پوری تسلی نہیں ہے، اس لئے وہ نقشہ بھی از سرنو ایک نئے IDEA کے ساتھ تجویز کرنا ہو گا.نہایت خوبصورت عمارت لیکن اس میں سادگی ہو.توحید کا جو تصور ہے، وہ عمارت کی ساخت سے نمایاں ہو.کیونکہ یہ پہلی مسجد ہے، جو جماعت کی طرف سے وہاں بنائی جانے والی ہے.لہذا خوب غور و فکر سے اس کا نقشہ تجویز ہونا چاہیے.انشاء اللہ تعالیٰ اس عمارت پر آئندہ آسٹریلیا میں توحید کی بنیاد ڈالی جائے گی اور سارے آسٹریلیا کو یہ مرکز تو حید پر اکٹھا کرنے والی ہوگی.وباللہ التوفیق.پس اس کے ڈیزائن میں کچھ ایسا حسن ہونا چاہیے، جو وحدت کا اعلان کر رہا ہو.غرض یہ کہ اس قسم کے کام ہیں، جو آرکیٹیکٹس کے سامنے ہیں.بہت ہی بھر پور کام کرنا پڑے گا.یہ کام وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کر بھی رہے ہیں لیکن مزید ضرورت ہے.اس کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ آپ کے صدر صاحب ایسے آرکیٹیکٹس کو لکھ کر پہلے ساری دنیا میں ضرورتیں بیان کریں، انہیں بتائیں کہ یہ یہ جماعتی خدمات آپ کے سامنے پڑی ہوئی ہیں، ان میں آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کس حد تک مدد کرنے کے لئے تیار ہیں؟“ وو پس اس لحاظ سے بڑی غیرت کا مقام ہے اور یہ جب میں سوچتا تھا تو بڑی تکلیف پہنچتی تھی کہ مشرق میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے، جو سائنس کے علاوہ ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ رہا ہو.اور ایک بھی ملک کی چھاپ آپ کو نظر نہیں آتی کہ یہ فلاں ملک کی ACHIEVEMENT ہے، جو مسلمان ملک ہے.اب ان کی ذمہ داری بھی آپ نے اٹھانی ہے.خدا تعالیٰ نے آپ پر ڈال جو دی ہیں.اس لئے جب ہم کہتے ہیں کہ مسلمان ملک آگے نہیں آرہا تو جن میں خدا تعالیٰ نے ایک نئی زندگی کی لہر چلائی اور اسلام کو ہر شعبہ میں فتح مند کرنے کی ذمہ داریاں ان پر ڈال دی ہیں ، جوز یر الزام آئیں گے.اگر وہ اس سے غافل ہیں تو سب کی غفلت کا داغ انہی پر لگے گا، جو عند اللہ ذمہ دار بنائے گئے ہیں کہ اس دنیا میں اسلام کی ساری دنیا قدروں کی حفاظت کریں اور اسلام کی ساری قدروں کو اپنا کر آگے بڑھا کر چلیں.اس لئے جب میں یہ کہتا ہوں کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کے سخت پسماندہ رہ جانے سے سخت تکلیف پہنچتی ہے تو اس تلافی کا مداوا کرنا اور اس پانسے کو پلٹنا، اولین طور پر احمد یوں کی ذمہ داری ہے.وہ جن کا دعوی یہی ہے کہ سارے عالم اسلام کا درد ہمارے جگر میں ہے.اس درد کا مداوا کرنا بھی تو انہی کا کام ہے.اگر احمدی آگے 652
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطاب فرموده 20اکتوبر 1983ء نہیں بڑھیں گے تو پھر اور کون یہ بوجھ اٹھانے کے لئے آگے آئے گا.اپنے طور پر انفرادی اقتصادی دباؤ کے نتیجہ میں کچھ دیر کے بعد رفتہ رفتہ ہر میدان میں پسماندہ تو میں بھی آگے قدم بڑھا ہی لیتی ہیں.لیکن ایک دینی روح اور ملی غیرت سے قوت پا کر خاص ولولے کے ساتھ قدم بڑھانا ایک اور بات ہے.یہ بات میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے اندر پیدا کریں.پس اس وقت صف اوّل میں آپ کو آنا چاہیے.اگر آپ نہیں آئیں گے تو ایک بہت بڑا اعزاز، جو خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے رکھا ہوا ہے، یہ ہاتھ سے کھو دیں گے.اس لئے ہر لائن میں ہر سطح پر آگے آنے کی کوشش کریں.آگے قدم بڑھائیں گے تو بڑھ جائیں گے اور بڑھتے چلے جائیں گے.ہر ترقی اور پروگرس (PROGRESS) ہمیشہ شروع میں آہستہ ہوتی ہے.پھر اس میں تیزی آنا شروع ہو جاتی ہے اور TOMPO بنا شروع ہو جاتی ہے.پھر تیز سے تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے.اس لئے میں آپ سے کوئی اچھنبے معجزات کی توقع نہیں رکھ رہا.ایک ہی معجزہ ہے، جو آپ نے دکھانا ہے کہ آپ بیدار ہو جائیں اور شعور کے ساتھ صف اول میں آنے کی یعنی دنیا کی صف اول میں آنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ توفیق دے اور ساری دنیا میں ہر ایجاد میں ہر شعبہ میں اللہ تعالیٰ احمدی انجینئر زکو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ صف اول میں آ جائیں.اور اسلامی غیرت کے جو تقاضے ہیں، وہ پورے ہوں.اور ہر کوئی کہہ سکے کہ ہاں مسلمان دنیا اس وقت سب سے آگے نکل آئے ہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.(مطبوعہ روزنامه الفضل یکم دسمبر 1983ء) 653
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1983ء مشرق و مغرب ہر طرف رضائے باری تعالیٰ کے مواقع میسر ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 21اکتوبر 1983ء تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیت قرآنی تلاوت فرمائی:.وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ اِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرة: 116) اور پھر فرمایا:." قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ، جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے، مختلف رنگوں میں مومنوں کو خوشخبریاں دے رہی ہے.اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ مشرق و مغرب اللہ ہی کے لئے ہیں ، پس خواہ تم مشرق کی طرف منہ کرو یا مغرب کی طرف تم ہر جگہ وہ اللہ کو حاصل کر سکتے ہو.اللہ وسعت دینے والا اور خوب جاننے والا ہے.وجہ اللہ کے معنی کئی طرح سے کئے جاسکتے ہیں.اس موقع پر میں جو معانی اخذ کر رہا ہوں، ان سے مراد رضائے باری تعالیٰ ہے.پس ایک معنی اس آیت کریمہ کا یہ بنے گا کہ مشرق اور مغرب دونوں اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اسی کی ملکیت ہیں، پس وہ مومن جو رضائے باری تعالیٰ کے حصول کی خاطر نکلتے ہیں، خواہ وہ مشرق کی طرف منہ کریں یا مغرب کی طرف انہیں دونوں جگہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے مواقع میسر آئیں گے.اِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ اللہ تعالیٰ ان مواقع کو وسعت دیتا چلا جائے گا اور ان لوگوں پر خدمت دین کی نئی نئی راہیں کھولتا چلا جائے گا، جو اس نیت سے سفر اختیار کرتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے مواقع تلاش کریں.اسی معنی کا دوسرا پہلو یہ بنے گا کہ وہ لوگ جو رضائے باری تعالیٰ کی خاطر سفر اختیار کرتے ہیں، خواہ وہ مشرق کی طرف منہ کریں یا مغرب کی طرف، وہ دیکھیں گے کہ انہیں مشرق میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل رہی اور مغرب میں بھی.رضائے باری تعالیٰ کوئی محدود چیز نہیں.اللہ تعالیٰ اس رضا کو اپنے بندوں کے لئے وسعت دیتا چلا جاتا ہے.پس وہ اللہ کی رضا کو نئے نئے رنگ میں ظاہر ہوتا دیکھیں گے اور خدا 655
خطبہ جمعہ فرمودہ 21 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک تعالیٰ اسے وسعت دیتا چلا جائے گا.کس حد تک؟ کس کے لئے اور کتنی وسعت دینی ہے؟ ان امور کا فیصلہ فرمانا، خدائے علیم کا کام ہے.نیت جتنی صاف اور پاک ہوگی ، جذ بہ جتنا گہرا اور شدید ہوگا، ارادے جتنے بلند ہوں گے ، علیم خدا انہی کی نسبت سے اپنے خدمت کرنے والے بندوں کے لئے مواقع بھی وسیع کرتا چلا جائے گا.اور اپنی رضا کے اظہار میں بھی وسعت اختیار فرماتا چلا جائے گا.حالیہ سفر، جو اسلام کی خدمت کی نیت سے خالصة لوجہ اللہ اپنے دل کو صاف اور پاک کرتے ہوئے ، ہم نے یعنی میں اور میرے ساتھیوں نے اختیار کیا، اس میں اس آیت کے یہ دونوں مفہوم ہم پر خوب اچھی طرح روشن ہوئے.باوجود اس کے کہ آج کل کے زمانہ میں بکثرت خط و کتابت کے ذریعہ، Telecommunication مبلغین اور اخبارات کے ذریعہ دنیا کی خبریں ہر جگہ پہنچ رہی ہیں.اور باوجود اس کے کہ ان علاقوں میں ہمارے اور اگر وہ نہیں تو ایسے احمدی ان علاقوں میں موجود ہیں کہ جو اپنے جائزہ اور مطالعہ کے مطابق مرکز سلسلہ کو ہمیشہ مطلع رکھتے ہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے؟ خدمت دین کے کون سے مواقع میسر ہیں؟ اس لئے بظاہر تو اس سفر کے ذریعہ کوئی نئی راہیں نظر نہیں آنی چاہئیں.کیونکہ ہر جگہ احمدی آنکھ موجود ہے، ہر جگہ نظام جماعت موجود ہے اور ہر احمدی کے ذہن میں جو خدمت دین کا موقع ابھرتا ہے، اس کی اطلاع مرکز کو کرتا رہتا ہے.لیکن اس کے با وجود قرآن کریم نے جب یہ فرمایا کہ جب بھی تم اللہ سفر اختیار کرو تو رضائے باری تعالیٰ کے نئے مواقع بھی تمہیں میسر آئیں گے اور اللہ ان مواقع میں وسعت دیتا چلا جاتا ہے.تو لازماً یہ حقیقت پوری ہونی تھی.چنانچہ ہم نے اس سفر میں یہی دیکھا کہ ربوہ میں رہتے ہوئے پا پاکستان میں بیٹھے ہوئے جو باتیں وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتی تھیں کہ اللہ کی خدمت کے یہ نئے راستے ہیں، وہ ہم پر کھلتے چلے گئے.سنگار پور میں، جہاں سے ہم نے سفر کا آغاز کیا، وہاں بھی بالکل نئی نئی راہیں سامنے آئیں.اور نجی میں بھی، جہاں دوسرا قدم رکھا، خدا تعالیٰ کے فضل سے نئی نئی راہیں اور مواقع سامنے آئے.اور اسی طرح آسٹریلیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمت دین کے نئے نئے طریق اور نئے مقامات آنکھوں کے سامنے آئے اور اللہ تعالیٰ نے نئے اسلوب سمجھائے.اسی طرح جب ہم سری لنکا پہنچے تو سری لنکا میں بھی خدا تعالیٰ نے خدمت دین کے مواقع میں حیرت انگیز طور پر وسعتیں پیدا فرما دیں.پس ہم نے اس پہلو سے بھی اس آیت کو بڑی شان کے ساتھ پورے ہوتے دیکھا اور اس پہلو سے بھی کہ ہر جگہ اللہ تعالیٰ ، اپنی رضا اور فضل، رحم اور پیار کے حیرت انگیز نمونے دکھاتا رہا.اللہ تعالیٰ نے ان احباب کو بھی، جو وہاں 656
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 1983ء موجود تھے اور ہم مسافروں کو بھی غیر معمولی رحمتوں اور فضلوں کے نشان دکھائے.پس ہم ان دو معانی میں اس آیت کی صداقت کا مشاہدہ کر کے واپس آ رہے ہیں.یہ بہت بڑی تفصیل ہے.اور اس سفر کے دوران جن ممالک کا دورہ کیا گیا، ان میں سے صرف ایک ملک کے حالات ہی اگر بیان کئے جائیں تو ایک لمبا مضمون بنتا ہے.اس لئے میں نے ذہن میں یہ نقشہ بنایا ہے کہ آج آپ کو نجی سے متعلق کچھ باتیں بتاؤں گا اور وہ بھی چند ایک باتیں ہوں گی ، ساری تو بہر حال ممکن نہیں.بعض تفصیلی پروگرام بھی مختلف اوقات میں بنائے گئے ہیں.بعض امور ، جن کا ان سے تعلق ہے، وہ ان کے سامنے کھولے جائیں گے اور اس کے بعض حصے، جن کا تعلق عمومی جماعت سے ہے، وہ ساری جماعت کے سامنے بیان کئے جائیں گے.لیکن بہر حال ایک خطبہ میں تو نیچی کے حالات اور وہاں کی مصروفیات پر روشنی ڈالنا بھی ممکن نہیں ہے.آپ اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ نجی میں مختلف ہدایات اور مشوروں اور خطابات کی جو کیسٹیں تیار ہوئی ہیں، وہ 66 گھنٹے کی ہیں.جب کہ ساری کیسٹیں تو تیار نہیں ہو ئیں.بہت سی ایسی مصروفیات ہیں، جو کیسٹ میں نہیں آتیں.پس اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جہاں 66 گھنٹے اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی ہو یعنی ایسے امور پر جن میں وہاں کی جماعت کو یا ہمیں دلچسپی تھی کہ جماعت کو سمجھائیں ، وہ ایک یا آدھ گھنٹہ کے خطبہ میں کس طرح بیان ہو سکتی ہیں ؟ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے احمدی دوستوں ، بچوں ، مردوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بہت اشتیاق ہے کہ میں کچھ باتیں ان کے سامنے بیان کروں، اس لئے آج کے خطبہ کے لئے میں نے نجی کو موضوع بنایا ہے.یعنی نبی کا بہت ہی مختصر تعارف اور بعض اہم باتیں، جو ہمیں وہاں پیش آئیں اور ہمارے سامنے ابھریں.وہ میں آپ کے سامنے بیان کروں گا.فنجی ایک چھوٹا سا ملک ہے، جو Pacific Ocean یعنی بحر الکاہل کے درمیان واقع ہے.اس کے جزائر کی تعداد 500 ہے.لیکن آبادی اور اقتصادیات کا زیادہ تر انحصار چند جزیروں پر ہے.جن میں سے دو بڑے بڑے اور بعض چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں.نجی کی آبادی پانچ لاکھ اسی ہزار ہے.آخری Cens کے مطابق فجی کا کل رقبہ سات ہزار میل ہے.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ ایک چھوٹی سی جگہ ہے.5لاکھ 80 ہزار کی آبادی میں سے چائینز کی تعداد 5 ہزار کے لگ بھگ ہے اور یورپین کی کچھ اس سے کم.اس طرح متفرق اقوام کی تعداد 12 ہزار کے لگ بھگ ہے.یورپین میں سے کچھ Mixed Races ( مخلوط نسلیں ) ہیں.ان کی تعداد کم و بیش دس ہزار کے قریب ہے.اس کے علاوہ باقی آبادی میں 657
خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1983 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم معمولی اکثریت ہندوستانیوں کو حاصل ہے.یعنی ہندوستانی نژاد، جن میں پاکستانی علاقوں کے لوگ بھی شامل ہیں اور نصف سے کچھ کم نھین لوگ ہیں.محبین کون ہیں؟ ان سے متعلق مختلف مؤرخین نے مختلف آراء پیش کی ہیں.ان کی تاریخ یقینی تفصیل کے ساتھ محفوظ نہیں ہے.بہر حال ماہرین نے مختلف پہلوؤں سے جو اندازے لگائے ہیں، اس کے مطابق محبین قوم پولی نیشین (Polynesian) اور ملائیشین کے امتزاج سے بنی ہے.اور اس پر کچھ Negroid اثر بھی موجود ہے.دو بڑی قومیں ہیں.پولی نمیشین Polynesian قوم Pacific کے علاقوں میں آباد ہیں.پولی نمیشین Polynesian اور ملائیشین دونوں کا دائرہ زیادہ تر انڈونیشیا سے شروع ہوتا ہے اور پھر آگے نبی تک چلا جاتا ہے.ملایا میں بھی یہی نسل آباد ہے.یہ لوگ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ اس سے متعلق ماہرین کی مختلف آراء ہیں.بعض کہتے ہیں کہ ان کا آغاز عرب سے ہوا.بعض کا خیال ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے.یا یوں کہنا چاہئے کہ مشرق وسطی کے قدیم باشندے جو Arian نسل سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بعد میں آ کر پہلے پہل انڈونیشیا میں آباد ہوئے، پھر وہاں سے پھیلنا شروع ہوئے.لیکن جہاں تک نبی کا تعلق ہے، اس میں دونوں طرف سے لوگ آئے ہیں.مشرق کی طرف سے اور مغرب سے بھی آئے ہیں اور ان کے خون کا امتزاج ہو گیا ہے.بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کا Origin یا ان کا آغاز افریقہ سے ہوا تھا اور افریقہ میں بھی وہ خاص طور پر یوگنڈا کے بعض علاقوں کے نام بتاتے ہیں کہ وہ وہی ہم شکل نام ہیں، جو یہاں پائے جاتے ہیں.لیکن ان سب آراء پر غور کرنے کے بعد آج کل کے محققین جو نتیجہ نکالتے ہیں، وہ یہی ہے کہ یہ قوم مختلف قوموں اور مختلف قسم کے خون کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے اور کسی ایک قوم کی طرف اسے منسوب نہیں کیا جاسکتا.کچھ کیریکٹر پولی میشین (Polynesian) بحر الکاہل کے جزیروں میں آباد تو میں ) ہیں، کچھ ملائیشین ہیں اور غالباً ملائیشین اثر زیادہ ہے.خیال یہ ہے کہ پہلے ملائیشین تھے، بعد میں Polynesian آ گئے اور ان سے ملاوٹ ہوئی اور کچھ Negroid اثر ہے.اس لئے انہیں نہ تو سفیدوں میں شمار کیا جاسکتا ہے، نہ کالوں میں، نہ زردوں میں.ان کے بیچ کی کوئی چیز ہے.بال گھنگھریالے، رنگ گندمی سے کچھ گہرا اور بعض جگہ کھلتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، کشادہ سینے، قد لمبے، بڑی مضبوط قوم ہے اور مزاج کی بھی اچھی ہے.اس میں وحشت زیادہ نہیں پائی جاتی.اگر چہ پرانے زمانوں میں یہاں آدم خور بھی پائے جاتے تھے.تعلیم یافتہ طبقہ بہت سلجھے ہوئے مزاج کا ہے.ضد اور تعصب نہیں ہے.دلائل سن کر فوراً اور بے تکلف تسلیم کرتے ہیں.658
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ، خطبہ جمعہ فرمودہ 21 اکتوبر 1983ء یہ قوم بالعموم پسماندہ ہے اور ان کے بہت سے حصے ابھی تک جنگلی زندگی گزار رہے ہیں.وہ مختلف قبائل میں بے ہوئے ہیں لیکن انگریزوں نے انہیں آزاد کرنے سے پہلے ایسی کانسٹی ٹیوشن دے دی کہ جس کے نتیجہ میں ہمیشہ اس بات کی ضمانت ہو کہ زمینوں کی اصل ملکیت بھی نجین کی رہے گی اور حاکم بھی نہین ہی رہیں گے اور کانسٹی ٹیوشن کے مطابق فحسین کے حقوق کی غیر معمولی حفاظت کی گئی ہے.اس لئے یہ قوم ان لوگوں کی نظر میں، جو یہاں اسلام پھیلانا چاہیں، بہت ہی اہم ہے.ہندوستانی آبادی کے لوگوں میں اکثریت ہندوؤں کی ہے، جن میں ایک حصہ سکھوں کا ہے.اور ہندوؤں میں سے سناتن دھرمی زیادہ ہیں اور آریہ نسبتا کافی کم ہیں.اور مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کی آٹھ فیصد ہے.وہاں کا ماحول تبلیغی نقطہ نگاہ سے بہت بہترین ہے.کیونکہ ان میں باہمی محبت اور سلوک پایا جاتا ہے اور ان میں مذہبی اشتعال انگیزیاں اور منافرتیں نہیں ملتیں.اور ہندو، سکھ اور مسلمان سارے بڑی محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے رہ رہے ہیں.اسی طرح عیسائیوں کی (یورپین میں سے مچین میں سے بھی ایک بہت بڑی تعداد مسلمانوں اور ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مل جل کر رہ رہی ہے.مجیز کے قدیم مذاہب کی شکلیں کچھ افریقین مذاہب سے ملتی ہیں اور ان میں عمومی طور پر کچھ شرک پایا جاتا ہے.جو مذاہب کے بگڑنے کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ راہ پالیا کرتا ہے.مجینز (Fijians) کا ایک مذہب بیان کرنا ممکن نہیں.وہ خدا کے قائل ہیں اور ایک تخلیقی روح کے بھی قائل ہیں.اس کے علاوہ قبائل کے اپنے اپنے اولیاء ہیں، جنہیں خدا بنا لیا گیا ہے اور انہیں بہت اہمیت حاصل ہے.بعض اوقات بنالیا گیا اور نیشنل ہیرو کو جس نے کسی زمانہ میں اپنی قوم کی بڑی خدمت کی ہو، بہت اونچا مقام دے دیا جاتا ہے.جس طرح مرده پرستی کارجحان دنیا میں ہر جگہ پایا جاتا ہے، وہاں بھی پایا جاتا ہے.تو وہاں بھی رفتہ رفتہ ان مردوں کو خدا کا مقام دے دیا گیا ہے.کوئی مردہ جنگ کے لئے مفید ہے، کوئی بارشوں کے لئے اور کوئی کھیتی باڑی میں برکت دینے کے لئے.غرض کہ کئی قسم کے توہمات ہیں، جس نے قوم کوگھیر رکھا ہے.فیمین جادو گری کے بہت قائل ہیں اور آج بھی اس قوم میں پرانے زمانہ کی روایات کے مطابق جادوگر موجود ہیں.جو برکت دیتے ہیں اور لوگ ان سے مشکلات حل کرواتے ہیں.نیز اپنے دشمنوں کے خلاف تعویذ حاصل کرتے ہیں.غرضیکہ جہالت کی جتنی باتیں ممکن ہو سکتی ہیں ، وہ ساری اس قوم میں موجود ہیں.اس ملک میں مجھے احمدیوں کی تعداد آٹھ ہزار بتائی گئی لیکن میرے نزدیک اس سے کم ہے.چند ہزار کہہ سکتے ہیں.لیکن جو احمدی موجود ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھنے کی غیر معمولی طاقتیں 659
خطبه جمعه فرموده 21اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم موجود ہیں.سب سے اہم بات، جو احمدیوں سے متعلق قابل ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ تربیت حاصل کرنے کا مادہ بہت پایا جاتا ہے.جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت ان کی کیفیت بالکل مختلف تھی اور وہاں بہت جلدی یہ محسوس ہوا کہ باوجود اس کے کہ وہاں ایک لمبے عرصہ سے مبلغین موجود رہے ہیں لیکن نظام جماعت کو سمجھانے کے سلسلہ میں بہت ہی معمولی کام ہوا ہے.اور اکثر شکایتیں، جو نبی کی جماعت کے بعض دوستوں سے متعلق یہاں آیا کرتی تھیں، ان کی بنیادی وجہ ان کے ایمان کی کمزوری نہیں بلکہ نظام جماعت سے لاعلمی ہے.اور یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ مبلغین نے یہ محنت اور کوشش ہی نہیں کی کہ انہیں نظام جماعت سے متعلق کچھ باتیں بتا ئیں.اس میں بعض صورتوں میں ان کا قصور نہیں ہے.کیونکہ ان کی توجہ جاتے ہی زیادہ تر تبلیغی کاموں میں لگ جاتی ہے.اور ربوہ قادیان کے تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے ان کے احساس کا معیار بڑا بلند ہو چکا ہوتا ہے.ان کے دماغ میں نظام جماعت اس طرح رج چکا ہوتا ہے کہ اس کے خلاف معمولی سی بات سے وہ مشتعل ہو جاتے ہیں، گھبرا جاتے ہیں اور پریشان ہو جاتے ہیں.لیکن ہمارے مبلغین نے یہ نہیں سوچا ( ان کی غیرت نظام جماعت کے لئے تو اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ محبین کے متعلق یہ تو معلوم کرلیں کہ انہیں نظام جماعت کا علم بھی ہے کہ نہیں؟ ان سے یہ توقع رکھنا کہ جس طرح قادیان کے تربیت یافتہ اور قدیمی بزرگوں کے پالے ہوئے لوگ ہیں، ویسے ہی وہ بھی نمونہ دکھائیں گے، جب تک انہیں بتائیں گے نہیں، کیسے دکھا ئیں گے؟ صرف میرا ہی یہ تاثر نہیں تھا بلکہ میرے ساتھیوں کا بھی یہی تاثر تھا کہ اکثر شکائتیں ان کی نا مجھی اور لاعلمی کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں.چنانچہ جب ہم نے ان سے اس موضوع پر گفتگو شروع کی اور ساری شکایات سنیں ، حالات کا تجزیہ کیا تو انہیں اس معاملہ میں بالکل بے قصور پایا.انہوں نے اپنے اندر حیرت انگیز طور پر تبدیلی پیدا کی اور اخلاص میں اس تیزی کے ساتھ ترقی کی کہ یہ چیز الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی.ان کی فدائیت کا جذبہ کسی پہلو سے بھی پاکستان کے مخلص احمدیوں سے کم نہیں ہے.ان میں خدمت کی روح نہ صرف موجود ہے بلکہ جب ہم نے اسے چھیڑا تو یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ چھلک چھلک کر کناروں سے باہر نکل رہی ہے.وہ لوگ تبلیغ کے لئے مستعد ہیں اور خدا کی خاطر ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.شروع شروع میں اس قدر بے اعتنائی کا رنگ تھا اور ان کی آنکھوں میں نا واقفیت کی وجہ سے جو ایک اجنبیت ہی پائی جاتی تھی، چند دن کے بعد ہی جب ہم واپس آئے ہیں تو ان میں گہری محبت نے جگہ لے لی اور ان کی آنکھوں، اداؤں اور چہروں کے آثار میں نہایت گہرا خلوص نظر آنے لگا اور ان کی پیشانیوں سے پختہ ارادے ظاہر ہونے لگے.660
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1983ء اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ ان کی نمازیں جو پہلے خشک تھیں، پھر تر ہونے لگیں.اور بکثرت ایسے احمدی دیکھے جو پہلے ہمارے ساتھ ایک ہلکی سی ناواقفیت سے نماز پڑھتے تھے.پھر ان کی کیفیت میں ایسی گہری تبدیلی پیدا ہو گئی کہ ان کی سجد گا ہیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے انہیں عشق کی حد تک بڑی گہری محبت ہے.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ جب ہم نے انہیں قریب سے دیکھ کر ان کی تربیت شروع کی تو چند دن کے اندر اندر ہی یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک نئی قوم وجود میں آگئی ہے.چنانچہ جب یہاں سے اوکاڑہ کے ناصر احمد شہید کی خبر وہاں پہنچی تو ان لوگوں کی جو کیفیت تھی ، وہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.اور ان کے امیر نے الوداع کے وقت جو آخری تقریر کی ، اس میں اس بات کا بھی ذکر تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس جماعت نے جو اثر قبول کیا ہے، اس کا وہ اظہار کرنا چاہتے ہیں.اس کے علاوہ بھی کئی موقعوں پر انہوں نے یہ بیان کیا کہ ہم غفلت کی حالت میں رہے ہیں، جس کے لئے ہم کثرت سے استغفار کر رہے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری گزشتہ غفلتیں معاف فرمائے اور ہم نے جو نئی زندگی حاصل کی ہے، نیا جنم لیا ہے، اللہ تعالی اس میں ہمیں پیش از پیش ترقیات عطا فرماتا چلا جائے.انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب تو جو ہماری کیفیت ہے، اسے ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے.ہمارا ایک نیا وجود ابھر آیا ہے اور آج ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ احمدیت کیا ہے؟ اور اس علم کے بعد اب ہمارے جذبات یہ ہیں کہ ہمارا بچہ بچہ، ہماری عورتیں، ہمارے بوڑھے، ہمارے جوان شہادت کے لئے بخوشی تیار ہیں.انہوں نے کہا کہ ہم مبالغہ نہیں کر رہے، ہم یقین دلاتے ہیں کہ اسلام کی خاطر ہم سب کی جانیں حاضر ہیں.اگر وہ بکریوں کی طرح ذبح کی جائیں، تب بھی ہمیں کچھ بھی پرواہ نہیں ہوگی.ہمارے اموال، ہماری عزتیں حاضر ہیں.اور اس یقین کے ساتھ آپ واپس لوٹیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل - خدمت کی جس راہ پر بھی آپ بلا ئیں گے، ہم حاضر ہوں گے.ایسا روح پر وروہ نظارہ تھا کہ اگر چہ میرا دل پہلے بھی ان کی زبان سمجھ رہا تھا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.لیکن جب الفاظ میں انہوں نے بیان کیا تو میری توجہ اس واقعہ کی طرف پھر گئی، جو عظمت میں اس سے بہت بلند ہے لیکن دراصل اسی کے صدقے اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں.جنگ بدر کا وہ منظر جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلاموں سے پوچھا تھا کہ مجھے مشورہ دو.یہ ایک لمبا واقعہ ہے، جو بار بار آپ سن چکے ہیں لیکن پھر بھی اس کا مزہ آتا ہی رہتا ہے.اس کا باقی 661
خطبہ جمعہ فرمودہ 21اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم متعلقہ حصہ یہ ہے کہ جب انصار نہیں بولے اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار پوچھا کہ مجھے مشورہ دو تو تب انصار کے ایک نمائندہ نے کہا: یا رسول اللہ ! شاید آپ کی مراد یہ ہے کہ جب آپ ابتدا میں تشریف لائے تو اس وقت ہم نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ مدینہ کے اندر تو ہم آپ کے ساتھ لڑیں گے لیکن مدینہ سے باہر نکل کر نہیں لڑیں گے.شاید اس معاہدہ کی طرف حضور کی توجہ منتقل ہو رہی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت تک ہم آپ کی ذات اور مرتبہ کو پہچانتے ہی نہ تھے، اس وقت ہم اسلام سے ناواقف تھے.اب تو ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے، آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے ، آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور ممکن نہیں کہ کوئی ہاتھ ، کوئی وجود، کوئی جسم آپ تک پہنچ سکے، جب تک وہ ہماری لاشوں کی روندتا ہوا نہ آئے.یہ ایک بہت ہی عظیم الشان واقعہ ہے.اور ایسا پیارا جواب ہے کہ تاریخ عالم میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.اسی نوعیت کے چھوٹے چھوٹے واقعات ان عظیم واقعات کی برکت سے پیدا ہور ہے ہیں.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بچے غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تعارف جب پوری شان کے ساتھ کسی قوم کے ساتھ ہو تو پھر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں.پس وہ لوگ بھی جب یہ بیان کر رہے تھے تو وہ میری نظر میں ایسا ہی مقام رکھتے تھے کہ جن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حیثیت اور مرتبہ پوری طرح روشن نہ تھا، احمدی ہونے کے باوجود بھی مقام مسیحیت ان پر پوری طرح روشن نہیں تھا اور وہ احمدیت کی روح کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ جب ان پر یہ روشن ہوا تو یہ قربانی کا جذبہ ایک طبعی امر اور قدرتی چیز تھی ، جس نے ظاہر ہونا ہی ہونا تھا.ایک قانون تھا، جسے کوئی بدل نہیں سکتا.پس سب سے بڑا پھل، جو لے کر ہم لوٹے ہیں، جس سے دل کناروں تک اللہ تعالیٰ سے راضی ہے، وہ یہی ہے کہ جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک حیرت انگیز نمایاں، پاک اور عظیم الشان انقلابی تبدیلی واقع ہورہی ہے.اور وہاں کے نوجوان، بوڑھے اور بچے خدمت دین کے جذبہ سے اس قدر سرشار ہوئے کہ انہیں دیکھنے سے ایمان تازہ ہونے لگا.چنانچہ جب ہم سفر سے روانہ ہوئے تو اس وقت جو ان کے دلوں کی کیفیت تھی ، حقیقت ہے کہ وہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی.اخلاص کا ایک عجیب سمند ر تھا اور ان کی آنکھیں یہ پیغام دے رہی تھیں کہ ہم ہر وہ بات یاد رکھیں گے، جو آپ نے ہمیں کہی.ہم اپنے تصور میں بھی یادرکھیں گے، اپنے دل میں بھی یادرکھیں گے، اپنے عمل میں بھی یادرکھیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ ہم سے اچھی خبریں آئیں گی.662
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 21 اکتوبر 1983ء جب ہم آسٹر یلیا پہنچے تو نفی کے ایک نوجوان ، جن کی معمولی اقتصادی حالت تھی اور انہیں اتنی توفیق نہیں تھی کہ وہ کرایوں میں اتنی رقمیں خرچ کریں، وہ ہمارے پیچھے پیچھے آسٹریلیا پہنچ گئے.جب پوچھا کہ آپ کس طرح آئے؟ تو انہوں نے کہا کہ میرا دل اس قدر بے قرار ہو گیا تھا کہ برداشت نہیں ہو رہا تھا.اس لئے میں نے سوچا کہ خواہ کچھ بھی ہو ، آسٹریلیا پہنچ جاؤں.اس طرح کچھ اور ساتھ رہنے کا موقع مل جائے گا.وہاں وہ مکمل طور پر نہ صرف ساتھ رہے بلکہ خدمت کا اس قدر شوق تھا کہ مقامی خدام سے بھی منت کر کے اور مانگ کر وقت لے لیا تھا اور پھر دوبارہ والنٹیئر زمیں شامل ہو گئے.اور وہاں انہوں نے بڑی حکمت اور محبت سے دن رات جماعت کی خدمت کی.پس یہ وہ کیفیات ہیں، جن کا بیان کرنا بھی ممکن نہیں اور ان کا شکر ادا کرنا بھی ناممکن ہے.میں یہ باتیں آپ کو اس لئے بتا رہا ہوں کہ آپ بھی خاص طور پر اپنے دلوں کو ٹولیں اور توجہ کریں.خدمت دین کے لئے نئی نئی تو میں آگے بڑھنے کو تیار ہو رہی ہیں اور بڑا بلند اور پختہ عزم رکھتی ہیں.اب آپ کا ان سے مقابلہ ہونا ہے.اس لئے باوجود اس کے کہ جماعت احمدیہ پاکستان خدا کے فضل سے بڑی مخلص ہے اور اخلاص میں مزید ترقی کر رہی ہے.میرا یہ فرض ہے کہ میں آپ کو بر وقت متنبہ کردوں کہ آپ لاعلمی میں نہ بیٹھے رہیں کہ بعض دور کی جماعتوں سے آپ کا مقابلہ ہے، جن کی تربیت نہیں ہے.اچھی تربیت نہ ہونے کے باوجود اب وہ اس بات کے لئے تیار کھڑی ہیں کہ پورے زور سے آپ کے ساتھ دوڑیں اور فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ کی دوڑ میں حصہ لیں اور ساتھ ہی دعاؤں کی طرف بھی توجہ کریں.کیونکہ اس عظیم الشان کام کے لئے ، جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپر دفرمایا ہے، دعاؤں کی بے انتہا ضرورت ہے.یہ تو طویل داستان ہے.میں نے سوچا ہے کہ باقی حصہ انشاء اللہ تعالیٰ اجتماع پر بیان کروں گا.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، نجی کی باتیں بھی ایک آدھ گھنٹہ میں بیان کرنی ناممکن ہیں.آج انشاء الله اجتماع ہوگا، نمازیں جمع ہوں گی اور اس کے بعد ہم ساڑھے تین بجے مقام اجتماع میں اکٹھے ہوں گے.نجی کے مضمون کا بقیہ دوسرا حصہ میں وہاں بیان کروں گا.اس وقت تو میں صرف دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.دعاؤں کی شدید ضرورت ہے.کیونکہ جیسا کہ ہمارے سفر کے ایک ساتھی چوہدری انور حسین صاحب نے واپس آکر تبصرہ کیا، بالکل وہی کیفیت میں اپنے دل کی پاتا ہوں.انہوں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہم ذمہ داریوں کے پہاڑ لے کر واپس لوٹے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ایک ایک ملک میں جو خدمت کے نئے مواقع میسر آئے ہیں، وہ بہت 663
خطبہ جمعہ فرمودہ 21اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم وسیع ہیں اور ذمہ داریاں بہت بوجھل محسوس ہوتی ہیں.اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس چھوٹے سے سفر سے ہم ذمہ داریوں کے پہاڑ سمیٹ کر واپس آئے ہیں.پہاڑ کا بوجھ اٹھانا تو ہمارے بس کا کام نہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے، جو فضل فرمائے اور ہمیں ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونے کی توفیق عطا فرمائے.پس خاص طور پر یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ بیرونی احباب جماعت کے اخلاص کو بھی بڑھائے اور ہمیں بھی کسی صورت میں ان سے پیچھے نہ رہنے دے.ان کے اخلاص کو بھی دوام بخشے اور ہمارے اخلاص کو بھی دوام بخشے.باہر والے احمدیوں کا بھی ہر قدم ترقی کی طرف جاری رہے اور ہمارا ہر قدم بھی ہمیشہ ترقی کی طرف جاری رہے.اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل کا سلوک فرماتے ہوئے ، ہماری کمزوریوں سے پردہ پوشی فرمائے ، ہماری غفلتوں سے درگزر فرمائے اور ہماری طاقتوں کو بڑھاتا چلا جائے.اور اپنے فضلوں کو اس کے مقابل پر اتنا زیادہ بڑھا دے کہ ہماری کوشش کا نتیجہ میں کچھ بھی دخل نظر نہ آئے بلکہ یوں محسوس ہو کہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جو پورا ہوتا نظر آ رہا ہے.دعا کا یہ حصہ خاص طور پر قابل توجہ ہے.اس لئے میں اس مضمون کو ذرا سا کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں.انسان کی کوششیں جتنی بھی بڑھ جائیں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے سوا ان کو پھل نہیں لگ سکتے.اور جہاں تک خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کا تعلق ہے، وہاں یہ حقیقت اور بھی زیادہ قطعی طور پر ہمارے سامنے آتی ہے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی کوششوں میں تو کوشش اور پھل میں ایک نسبت ہوتی ہے.مگر دین کی خدمت میں اگر آپ بنظر غائر دیکھیں تو حقیقتا کوئی بھی نسبت نظر نہیں آتی.اس لئے کوششوں پر انحصار کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.ہاں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالٰی ہماری استطاعت کے مطابق ہمیں کوششوں کی ضرور تو فیق عطا فرمائے.تا کہ ہمارے دل بھی راضی ہوں کہ ہم نے خدا کی خاطر کچھ کیا ہے اور جتنی توفیق تھی اتنا ضرور کر دیا ہے.لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ اگر خدا تعالیٰ صرف ہماری کوششوں کا ہی پھل عطا کرے گا تو ہم دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے.اور خواہ ان کوششوں کو کتنی ہی وسعت مل چکی ہو، کام اتنے عظیم الشان اور اتنے وسیع ہیں اور بظاہر ایسے ناممکن نظر آتے ہیں کہ آپ میں سے ہر بچہ، ہر مرد اور ہر عورت اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں جھونک دے ، تب بھی وہ انقلاء نہیں، جو ہم بر پا کرنا چاہتے ہیں.اس لئے اللہ کا فضل ہی ہے، جو سب کچھ کرے گا.پس یہ دعا کریں کہ اے خدا! تو ہمیں تسکین قلب کی خاطر توفیق عطا فرما کہ ہم سب کچھ تیری راہ میں ڈال دیں لیکن جو نتیجہ پیدا فرما، وہ اپنے فضل کا نتیجہ پیدا فرما.گویا ہماری کوششوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں.جو کچھ ملے، خالصہ تیری رحمت اور تیرے فضل کے نتیجہ میں ملے.664
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 1983ء پس یہ وہ دعا ہے، جس کی طرف میں جماعت کو مختصراً توجہ دلاتا ہوں.اس دعا کے نتیجہ میں ایک تو دل فور أصاف ہوتارہے گا اور کسی قسم کا تکبر پیدا نہیں ہوگا اور جب بھی خدا تعالیٰ فضل فرمائے گا، اس وقت حمد کی طرف ہی توجہ مائل ہوگی، انانیت کی طرف توجہ مائل نہیں ہوگی.اس لئے اس دعا سے ہماری بڑی گہری تربیت ہوگی.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہی اصل دعا ہے، جو کرنی چاہیئے.میں امید کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ آپ ان دعاؤں میں درد بھی پیدا کریں گے.صرف منہ سے نکلی ہوئی دعا ئیں نہ ہوں بلکہ دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی دعائیں ہوں، پیار سے نکلی ہوئی دعائیں ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا بڑی تیزی سے ہلاکت کی طرف جارہی ہے، اگر ہم نے اپنی دعاؤں میں جان پیدا نہ کی، اللہ تعالیٰ کی محبت کے نتیجہ میں دعائیں نہ نکلیں تو پھر اس دنیا کو ہلاکت سے بچانے ولا کوئی نہیں.اس لئے خصوصیت کے ساتھ اپنے اندر یہ تبدیلیاں پیدا کریں.دعا وہ کریں، جو دل کی گہرائی سے نکلے.صرف ہونٹوں سے نہ نکل رہی ہو.دعا کی ایسی کیفیت پیدا کر لیں کہ جس کے نتیجہ میں آپ کے جذبات ہی دعا بن چکے ہوں.آپ کے دل میں جواللہ کا پیار ہو، وہ ہر وقت دعا بنار ہے اور بھاپ کی طرح اڑتا رہے.جس طرح سمندروں سے بخارات از خود اٹھتے رہتے ہیں، ویسی کیفیتیں پیدا کرلیں کہ سوتے ہوئے بھی اور جاگتے ہوئے بھی دعا بلند ہو رہی ہو.اور توجہ کا مرکز ہی دعا بن جائے.اگر ہم ایسا کر سکیں اور خدا کرے کہ ہم ایسا کرسکیں تو یہ ذمہ داریوں کے جتنے بھی پہاڑ ہم اٹھا کر لائے ہیں، آپ دیکھیں گے اور آپ کو ایک عجیب انقلاب نظر آئے گا اور یوں معلوم ہوگا کہ یہ پہاڑ نہیں بلکہ رائی کے دانے تھے، جن کا کوئی بھی بوجھ باقی نہیں رہا.اور سارے معاملات اس آسانی سے حل ہونے شروع ہو جائیں گے کہ حیرت ہوگی کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے اتنے عظیم الشان کام لے لئے.پس دعا ہی ہے، جو یہ انقلاب برپا کرے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں دعا کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین..مطبوعه روز نامه افضل 15 جنوری 1984ء) 665
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطاب فرموده 121اکتوبر 1983ء نجی قوم اللہ تعالی کے فضل سے قبول اسلام کے لئے بالکل تیار بیٹھی ہے خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1983 ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ وو دوسرا پہلو جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں، وہ جیسا کہ میں نے آج خطبہ جمعہ میں کہا تھا، نجی کے دورے کے مزید حالات بیان کرنے سے متعلق ہے.لیکن جب میں نے اجتماع کا پروگرام دیکھا تو مجھے خیال آیا کہ پہلے ہی خاصی دیر ہو چکی ہے، پروگرام کے مطابق سوا چار بجے اس افتتاحی خطاب کو ختم ہونا چاہئے اور کھیلوں کا پروگرام شروع ہونا چاہئے تھا.لیکن چونکہ پروگرام کچھ تاخیر سے شروع ہوا ہے، اس لئے سکچھ وقت تو میں زائد لے سکتا ہوں.لیکن بہر حال خدام نے کھیلوں میں حصہ لینا ہے، یہ بھی پروگرام کا حصہ ہے، اس لئے اس حصے کو کلیۂ قربان نہیں کیا جاسکتا.اس لئے خوشخبریوں سے تعلق رکھنے والی ایک دو اہم باتیں بیان کرنے کے بعد میں انشاء اللہ افتاحی دعا کروادوں گا.پھر آپ اپنے پروگرام جاری رکھیں.آخری دن کی تقریر میں چونکہ نسبتا زیادہ وقت مل جاتا ہے، اس وقت میں اسے دورے کے بقیہ امور آپ کے سامنے رکھوں گا.سب سے پہلے تو ایک ایسی خوشخبری کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، جس کا میں پہلے کراچی کی جماعت میں بھی ذکر کر چکا ہوں.لیکن خدام کے اس وسیع اجتماع میں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو غیر معمولی خوشخبریں عطا فرمارہا ہے.اس دورے پر روانہ ہونے سے ایک دن پہلے سندھ کے ایک گاؤں کے ایک دوست کا خط ملا، جس میں انہوں نے اپنی رؤیا لکھی تھی کہ میں نے دیکھا کہ انیس الله بکاف عبدہ کی ایک انگوٹھی ہے، جس کے حروف میں سے شعاعیں نکل رہی ہیں.پھر وہ حروف باہر آکر روشنی میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور فضا کو روشنی سے بھر دیتے ہیں.اس وقت مجھے بتایا گیا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ہے.چنانچہ اس خواب سے میں یہی سمجھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وعدے پورے فرمائے ہیں اور ان وعدوں کا ایفاء ویسے تو جاری وساری ہے لیکن خاص طور پر ان وعدوں کا ایفاء ہوتا میں دیکھوں گا.اور اس سفر میں اللہ تعالیٰ کئی طرح سے یہ جلوے دکھائے گا کہ میں اپنے بندے کے لئے کافی ہوں.اس سے مجھے بہت خوشی اور حوصلہ ہوا.667
اقتباس از خطاب فرموده 21 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک چنانچہ جب میں سفر پر گیا تو مجھی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسی رو یاد کھائی، جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اس کا بھی دراصل اسی رویا سے تعلق تھا، جو ہمارے لئے دکھائی گئی تھی.اس رویا میں ، میں نے دیکھا کہ ایک معزز اور بزرگ خاتون ہیں، جن کو میں جانتا ہوں، ان کا نام لینے کی ضرورت نہیں.میری والدہ کے ساتھ اکٹھے انہوں نے دودھ پیا ہوا ہے.وہ بچپن سے ہی برص کی مرض میں مبتلا ہوگئی تھیں، اس لئے شادی بھی نہیں کی.معمر خاتون ہیں.میں نے ان کے متعلق کبھی رویا نہیں دیکھی ، زندگی میں پہلی دفعہ ان کو رویا میں نجی میں دیکھا کہ وہ مادرانہ محبت اور شفقت سے مجھے گلے لگارہی ہیں اور خواب میں، میں بڑا تعجب کر رہا ہوں کہ انہوں نے پہلے تو کبھی اتنا پیار کا اظہار نہیں کیا تھا.باوجود اس کے ان کے جسم پر ایک بیماری کا اثر ہے، اس سے قطعا کسی قسم کا کوئی تر در محسوس نہیں کرتا اور اسی طرح ان کی محبت کا جواب دیتا ہوں.صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں یہ خواب بھول چکا تھا اور بالکل ذہن سے اتر چکی تھی.اب اس کا اگلا پہلو بہت دلچسپ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس رویا کا یاد کروانے کا انتظام کیا.میرا طریق یہ تھا کہ صبح کی نماز کے بعد تھوڑا سا آرام کر کے پھر میں ڈاک دیکھتا تھا.پھر دفتر چلا جاتا تھا.وہاں چوہدری حمید اللہ صاحب کو ڈاک کے متعلق مختلف ہدایات دیتا تھا، کچھ ڈاک ان کے پاس پڑی ہوتی تھی، وہ پھر میں وہاں دیکھتا تھا.تو انہوں نے جو ڈاک دی، اس میں ایک خط نکلا، جو میری ہمشیرہ کی طرف سے تھا.اور اس میں ان کا نام لے کر یہ لکھا ہوا تھا کہ ان کے لئے دعا کریں، وہ بیمار ہیں.اور زندگی میں یہ بھی پہلا واقعہ ہوا ہے کہ خط میں ان کا ذکر آیا ہو.اسی وقت میں سمجھ گیا کہ خدا تعالیٰ نے اس میں بھی ایک حکمت رکھی تھی کہ میں اس کو بھول جاؤں اور پھر خاص طور پر یاد کر وایا جاؤں تا کہ میں یہ نہ سمجھوں کہ کوئی عام خواب ہے.ورنہ ایسا انسان بعض دفعہ تاثر لے لیتا ہے کہ ایک عام خواب ہے.اتفاق سے خواب میں انسان اپنے کسی رشتے دار کو دیکھ بھی لیتا ہے.دراصل اس میں دو پیغام تھے، جس کا اس خوشخبری سے تعلق ہے، جو پاکستان میں ایک دوست کو خواب کے ذریعہ دی گئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اليس الله بكاف عبده کو روشن حروف میں دکھایا جا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ پیشگوئی تھی، جس کا بائبل میں ذکر ہے کہ کنواریاں اس کا انتظار کریں گی اور مسیح کے متعلق اس کی صفات میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ برص زدہ کو اچھا کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے اسے رویا میں دو خوشخبریاں عطا فر ما ئیں ایک یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جن کنواریوں کو برکت بخشنے کی خوشخبری دی گئی ہے، اس سفر میں انشاء اللہ ایسی 668
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرموده 21 اکتوبر 1983ء کنواری قوموں سے ہمارا واسطہ پڑے گا.اور پھر برص دکھائی گئی، جو مسیح سے تعلق رکھتی ہے.مسیح جس بیماری کو شفا بخشے گا، اس میں سے ایک برص ہے.تو خدا تعالیٰ نے دلوں کو اکٹھا کر دیا.ایک خاتون ہیں، جو کنواری بھی ہیں اور جن کو برص ہے اور ذاتی طور پر ان کے اندر نیکی پائی جاتی ہے.اور یہ بھی خوشخبری تھی کہ یہ بیماری سطحی ہے، گہری نہیں ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاموں میں سے جو یہ اہم کام ہے کہ نئی قوموں کو اسلام کے روشناس کروائے گا، اس کا وقت آپہنچا ہے.چنانچہ اس رؤیا کے بعد جب بھی قوم سے ہمارا تعارف ہوا تو معلوم یہ ہوا کہ نبی قوم بھی ان قوموں میں سے ایک قوم ہے، جس کو خدا تعالیٰ نے بطور کنواری اور بیمار دکھایا.صورت یہ ہے کہ جب میں نے جائزہ لیا تو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ فجینز (FJIANS) میں مسیحیت تو پھیلی ہے لیکن اسلام نہیں پھیلا.اور اسلام کے نقطہ نگاہ سے نبی قوم بالکل کنواری بیٹھی ہوئی ہے.حیرت کی بات ہے کہ ایک لمبے عرصے سے مسلمان بھی وہاں آباد ہیں اور عیسائی بھی آباد ہیں لیکن عیسائیوں کو تو توفیق ملی کہ وہ نجی قوم کو اپنے مذہب میں داخل کریں.چنانچہ عیسائیت کی طرف سے بڑے وسیع پیمانے پر ان میں کام کیا گیا ہے.لیکن بڑے دکھ کا موقع ہے اور بڑی تکلیف کا مقام ہے کہ عیسائیوں کی اس کوشش کو دیکھنے کے بعد بھی مسلمانوں کے دل میں گدگدی نہیں اٹھی ، ان کو یہ خیال نہیں آیا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جاں بخش پیغام ان کو پہنچا ئیں.کیونکہ اب مسیحیت میں زندہ کرنے کی کوئی طاقت باقی نہیں رہی.اب زندگی بخش ساری قوتیں حضرت محمد مصطفیٰ " کو عطا کر دی گئی ہیں.اسی لئے قرآن کریم فرماتا ہے:.اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال : 25) آج ایک ہی آواز ہے، جو تمہیں زندہ کرنے کے لئے اپنی طرف بلا رہی ہے اور وہ محمدمصطفی سکی آواز ہے.پس مجھے بڑا دکھ پہنچا یہ دیکھ کر کہ جہاں زندگی کا چشمہ تھا، اس طرف تو بلانے والوں نے نہیں بلایا اور جہاں موت کو درہی تھی اور شرک بہہ رہا تھا ، جہاں پانی کے اندر ایساز ہر ملا دیا گیا تھا کہ وہ پانی، جو کسی زمانہ میں زندگی بخشتا تھا، اب موت عطا کرنے والا پانی بن چکا تھا، اس کی طرف لوگ بڑی کثرت کے ساتھ بلا رہے تھے اور نادان اس کی طرف جا بھی رہے تھے اور نقصان بھی اٹھا رہے تھے.غرض اس رویا نے مجھے متوجہ کر دیا کہ خاص طور پر نجی قوم میں تبلیغ کے لئے کوشش کی جائے اور با قاعده منصو بہ بنایا جائے.اور اللہ تعالیٰ نے بڑا افضل کیا کہ اس کے بعد جب ہم نے مختلف زاویوں سے 669
اقتباس از خطاب فرموده 21 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک حالات کا جائزہ لیا، نفی قوم کا گہری نظر کے ساتھ مطالعہ کیا اور بعض فجینز سے ملاقاتیں کیں تو معلوم ہوا کہ یہ قوم اللہ کے فضل سے قبول اسلام کے لئے بالکل تیار بیٹھی ہے.پس معمولی سی کوشش کی ضرورت ہے.شفا بخشنے والا تو اللہ ہے، انسان تو کسی مبروص کو شفا نہیں دے سکتا.دم مسیح تو خوامخواہ مشہور ہے، اصل تو میرے اللہ کی برکت تھی ، جس دم میں بھی آجائے ، وہ دم مسیح بن جایا کرتا ہے.اس لئے ہم کمزوروں کے ہاتھوں اگر خدا نے یہ شفا مقدر فرمائی ہے تو یہ اس کا احسان ہے.اور مجھے یقین ہے کہ ضرور شفا عطا فرمائے گا کیونکہ یہ رؤیا اس کے بغیر دکھائی نہیں جاسکتی تھی.چنانچہ اس واقعہ کے دوسرے یا تیسرے دن ہم ایک ایسے جزیرے میں بھی پہنچے، جس کا نام VANUALEVU (وبنوالیوہ) ہے.لیکن اس کے صدر مقام کا نام لمبا سا ہے.وہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شیدائی کافی تعداد میں موجود ہیں.وہاں جب ان سے ملاقاتیں ہوئیں تو انہوں نے شام کو ایک پروگرام رکھا ہوا تھا، جس میں بعض نجیز ، جو اس علاقہ کے معززین شمار ہوتے تھے، ان کو بھی مدعو کیا ہوا تھا.اور پروگرام تو یہ تھا کہ صرف سرسری ملاقات ہوگی، چند باتیں ہوں گی ، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنے کے بعد پھر ہمارا جماعت کا پروگرام شروع ہو جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی غیر معمولی طور پر خودہی یہ انتظام فرما دیا کہ تبلیغی گفتگو چل پڑی.ایک ہندو دوست بھی آئے ہوئے تھے، انہوں نے ایک سوال چھیڑ دیا.پھر سوال کے بعد ایک اور سوال ، پھر اور سوال.اس طرح وہاں اچھی خاصی لمبی مجلس لگ گئی اور جو نہین دوست تھے، وہ عیسائی ہیں.لیکن تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے گہری دلچسپی لینی شروع کر دی.اور یہ دیکھ کر مجھے تعجب ہوا کہ باوجود اس کے کہ ایک چھوٹی سی مجلس لگی ہے، ایک دم تو انسان کے خیالات نہیں بدلا کرتے.لیکن ان میں، میں نے یہ حوصلہ بھی دیکھا، یہ ذہانت دیکھی ، یہ دل کی سچائی دیکھی کہ جب بات میں ان کو سمجھاتا تھا تو وہ تسلیم کرتے تھے.ساتھ کہتے تھے ہاں، یہ ٹھیک ہے.اور جتنے مسائل بھی ہوئے ہیں، ایک کے متعلق بھی اختلاف پیدا نہیں ہوا.یہاں تک کہ جو ہندو دوست شامل تھے، انہوں نے بھی تائید شروع کر دی.اور بعد میں انہوں نے کہا کہ آج جو مجلس لگی ہے، اس کی ساری باتوں سے ہمیں اتفاق ہے.چنانچہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور اس نے اس رویا میں جو خوشخبری دی تھی، ساتھ ہی اس کو پورا ہوتے دیکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائی.اور یہ سمجھا دیا کہ ان کی بیماریاں صرف سطحی ہیں، اگر ذرا بھی توجہ دی جائے گی تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ لوگ شفا پا جائیں گے.علاوہ ازیں اور بھی کئی جگہ نمین سے رابطہ پیدا ہوا.ہم نے ہر موقع پر ان کو اچھا دیکھا ، جلدی متاثر ہوتے ہوئے دیکھا.چنانچہ ایک مہین احمدی وہاں تشریف لائے ہوئے تھے ، ہمارے ساتھ ایک دن سیر پر 670
اقتباس از خطاب فرموده 21 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک بھی گئے.ان کو نہ پوری طرح انگریزی آتی تھی، نہ اردو آتی تھی.وہاں تو زبان یا اردو چلتی تھی یا انگریزی چلتی تھی.لیکن اس کے باوجود بڑے ہی انہماک سے صبح سے رات تک مجلسوں میں بیٹھے رہتے تھے.سیر پر گئے تو وہ بھی ساتھ تھے.میں نے ان سے چند باتیں کیں.مقامی دوستوں نے ہمیں ایک دوسرے کو اپنا مفہوم سمجھانے میں کچھ مدد دی.انہوں نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے، احمد بیت گئی ہے اور چھ احمدی ہو چکے ہیں.اور اگر آپ آدمی بھیجیں دوبارہ تو مجھے یقین ہے کہ تھوڑی دیر میں سارا گاؤں احمدی ہو جائے گا، اللہ کے فضل سے.چنانچہ جب میں نے جائزہ لیا کہ اب کس طرح دیہات میں تبلیغ کی جائے؟ تو یہ کمزوری سامنے آئی کہ اکثر احمدی وہاں فیمین زبان نہیں جانتے.یعنی ساری زندگی وہاں بسر ہوتی ہے، بچپن وہاں گزرتا ہے، جوانی وہاں آتی ہے، بڑھاپے تک بھی پہنچتے ہیں اور کئی نسلوں سے یہ ہو رہا ہے لیکن فحسین کی کاویتی زبان کی طرف توجہ نہیں کی.پہلے جب کہ انگریزی حکومت تھی اور عیسائی پادری آیا کرتے تھے، انہوں نے ان کے کلچر کا مطالعہ کیا، ان کی مختلف عادات، ان کے رہن سہن اور ان کے خیالات پر بڑی بڑی کتابیں لکھیں اور بڑی گہری تحقیق کی اور پھر ان کی زبانیں سیکھیں.تب جا کر انہوں نے کام کیا ہے.تو اب میں نے احمدی نوجوانون کو خصوصیت سے متوجہ کیا ہے کہ آپ نے خدمت کے عہد کر رکھے ہیں اور اب میں آپ کے چہروں پر بڑا بھاری عزم بھی دیکھ رہا ہوں.مجھے نظر آرہا ہے کہ آپ جو کہتے ہیں، سچ کہہ رہے ہیں.آپ کی خواہش ہے کہ اسلام کی خدمت کریں تو اس خدمت کی تیاری کی بھی تو کوشش کریں.بغیر تیاری کے کس طرح خدمت ہو جائے گی؟ اس لئے آپ اپنے بچوں کو شروع سے ہی اس نیت کے ساتھ نجی سکولوں میں داخل کرنا شروع کریں کہ وہ نجی زبان سیکھیں اور اس زبان کو صرف سیکھیں ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ تعلقات استوار کریں.بچپن سے ان کے خاندانوں میں داخل ہوں ، ان سے میل جول رکھیں ، ان کے دیہات میں پھر جانا شروع کریں، جو بڑے ہیں، وہ بھی سیکھنا شروع کریں.چنانچہ اس کا انتظام کیا گیا ہے.وہاں ہمارے ایک سے زائد مشن ہاؤسز ہیں.مساجد اور مشن کی عمارتیں ہیں، وہاں با قاعدہ کلاس لگا کرے گی.خدام کے لئے ، بڑوں کے لئے اور جہاں تک ممکن ہو، عورتیں بھی سیکھیں گی اور بچوں کو فنی سکولوں میں داخل کیا جائے گا.اور یہ بھی پتہ لگا کہ ایک احمدی بچی ہے، جو اتفاق سے نجی سکول میں داخل کی گئی.اصل میں اس کے والد بڑے مخلص اور فدائی احمدی ہیں اور تبلیغ کا بڑا جوش ہے.چنانچہ ان کو یہ خیال آیا کہ میں اپنی بچی کو چین پڑھاؤں تا کہ نبی قوم کے ساتھ رابطہ بھی قائم ہو جائے اور پھر تبلیغی کام ، ترجموں کے.671
اقتباس از خطاب فرمودہ 21اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کاموں میں آسانی پیدا ہو جائے.قرآن کریم کی خدمت میں اس بچی کا علم کام آئے.تو اس بچی کو اللہ تعالی نے یہ توفیق دی کہ اپنے سکول میں نجی زبان میں اول آئی.حالانکہ باقی سب فجین بچے تھے.تو اس سے مجھے امید اور بھی بڑھ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے احمدی دماغ کو چمک عطا فرمائی ہوئی ہے، غیر معمولی ذہانت بخشی ہوئی ہے.احمدی تھوڑی سے کوشش کریں گے تو اللہ کے فضل کے ساتھ بڑی جلدی اس زبان میں مہارت حاصل کرلیں گے.چنانچہ اس کا اب مکمل انتظام کیا جا چکا ہے.اور وہاں جماعت نے وعدہ کیا ہے کہ نہ صرف ہم اپنے بچوں کو کاویتی سکولوں میں داخل کرائیں گے بلکہ بڑے بھی سیکھیں گے اور اس کے علاوہ تعلقات کے دائرے بھی بڑھا ئیں گے.بلکہ ان سب امور میں براہ راست آپ کور پورٹ کریں گے.کیونکہ آخر میں، میں نے ان کو یہ تاکید کی تھی کہ ان باتوں میں صرف مجھے دفتری رپورٹ بھیج کر آپ تسلی نہ پایا کریں، مجھے آپ کی براہ راست رپورٹ چاہیے کہ آپ نے کتنے بچوں کو با قاعدہ نجی سکولوں میں داخل کرا دیا ہے؟ کتنی جگہ کلاسیں شروع ہو گئی ہیں؟ کتنے بڑے باقاعدہ زبان سیکھ رہے ہیں؟ اس کے علاوہ وہاں ایک بات میں نے محسوس کی، جو بہت خوشکن تھی کہ تعداد کے لحاظ سے تو جماعت بہت تھوڑی ہے لیکن اثر کے لحاظ سے غیر معمولی اثر رکھتی ہے.یہاں تک کہ ہندو اور سکھ لیڈر ، جو ہماری مجالس میں آئے ، انہوں نے بڑے کھلے لفظوں میں جماعت کی تعریف کی اور کہا کہ یہ عظیم الشان لوگ ہیں ، یہ اس زمانے کے قابل احترام وجود ہیں، جن کی وجہ سے سو سائٹی زندہ ہے.ان کا ماحول پر نیک اثر ہے.ایسے لوگوں سے جو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں، اس قسم کی کھلے لفظوں میں تعریف کا سننا یہ ایک حوصلہ بڑھانے والی بات تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مجھے بہت ہی اطمینان نصیب ہوا کہ جماعت کے اندر پھیلنے کا اور اثر قائم کرنے کا مادہ موجود ہے.پھر وہاں بعض ایسے اساتذہ ہیں، جن کے ہاتھوں سے کئی نسلیں تعلیم حاصل کرتی ہوئی نکلی ہیں.احمدی اساتذہ کی نیکی اور بچوں سے شفقت اور پیار اور سچی ہمدردی کا بڑا گہرا اثر پایا جاتا ہے، وہاں کی سوسائٹی میں.چاروں طرف ان کے شاگرد پھیلے پڑے ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں.وہ اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے ہیں.پس نبی کی جماعت میں اللہ کے فضل کے ساتھ کام کرنے کی بڑی صلاحیت موجود ہے.اور وہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ کام کریں گے.میں نے ان کو دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ آپ کی محنت کو پھل نہیں لگے گا، جب تک آپ دعا ئیں نہیں کریں گے.میں نے ان سے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں بھی انشاء اللہ تعالی دعاؤں میں یاد رکھوں گا.چنانچہ مجھے جہاں تک توفیق ملتی ہے، میں ان کو با قاعدہ 672
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرموده 21 اکتوبر 1983ء دعاؤں میں یا درکھتا ہوں.لیکن آپ کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ آپ بھی ان کے لئے بکثرت دعا ئیں کریں.اللہ تعالیٰ ان کی توقعات سے بڑھ کر پھل عطا فرمائے ، ان کی عقلیں حیران رہ جائیں کہ اس طرح خدا تعالٰی فضلوں کی بارش برسایا کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ نجی کوئی بڑی جگہ نہیں ہے.چند دنوں کا قصہ ہے، بس ایک قدم اور ایک چھلانگ اور ایک جھپٹا مارنے کی دیر ہے، سارانچی اللہ تعالیٰ کے فضل سے محمد رسول اللہ کے قدموں میں پڑا ہو گا.اس لئے میں بڑا پر امید ہو کر لوٹا ہوں اور اپنے رب سے بہت ہی تو قعات وابستہ کر کے آیا ہوں.لیکن میں جانتا ہوں کہ میں کیا اور میری توقعات کیا، میرے خدا کے فضل لا انتہاء ہیں اور اس کی عطا کرنے کی قوتیں لامحدود ہیں.جب وہ فضل کرنے پر آئے گا، جب وہ رحم فرمائے گا تو میری تو قعات اس کے مقابل پر اس طرح لگیں گی، جیسے کیڑی کا گھر دنداہو اور کوہ ہمالہ کے دامن میں پڑا ہوا ہو.کوئی بھی اس کی حیثیت نظر نہیں آئے گی.پس آپ بھی دعائیں کریں اور میں بھی دعائیں کروں گا.ساری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا انتظار کرے.کیونکہ میں دیکھ چکا ہوں، مجھے نظر آ رہا ہے کہ خدا کے فضل بارش کی طرح نازل ہونے والے ہیں اور ساری دنیا میں انشاء اللہ تعالی اسلام کے پھیلنے کے دن قریب آگئے ہیں.مطبوعہ روزنامہ الفضل 04 جنوری 1984ء، ماہنامہ خالد جنوری 1984ء) 673
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء دنیا کی گندی تحریکات کے مقابلہ کے لئے بچوں کی طرف سے تحریک چلانی چاہیے خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983 ء برموقع سالانہ اجتماع مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ و" تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دنیا میں شیطان نے اپنے دام میں انسان کو پھنسانے کے لئے مختلف قسم کے جو جال پھیلائے ہیں، وہ زندگی کے ہر شعبہ پر پھیلائے جا رہے ہیں.ان سے صرف بڑے لوگ ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ چھوٹوں کو بھی متاثر کیا جارہا ہے.چنانچہ اب ریڈیو کے، ٹیلیویژن کے ذریعہ اور اسی قسم کے نئے مواصلات کے ذریعہ اور کیسٹ اور وڈیو کیسٹ ریکارڈنگ کے ذریعہ بچوں کے مزاج کو بگاڑا جا رہا ہے اور انہیں نت نئی گندگیوں کی طرف مائل کیا جاتا ہے تا کہ جب وہ بڑے ہوں تو خدا کے نہ رہیں اور بلوغت تک پہنچتے پہنچتے ان کے رجحانات ہی بالکل بدل جائیں.بچو! تم اس جگہ بیٹھے یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ دنیا میں شیطان نے کس طرح انسانی فطرت کو بگاڑنے کی زبر دست مہم شروع کر رکھی ہے اور کتنی مخرب اخلاق چیزیں ہیں، جن میں بچوں کو بھی رفتہ رفتہ ملوث کیا جارہا ہے.ان میں سے ایک چیز ہے، جس کو (PRONO GRAPHY) پورن گرافی کہتے ہیں.اس سے امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک اتنے متاثر ہو چکے ہیں کہ اب وہ اس کے چنگل سے آزاد ہونا بھی چاہیں تو نہیں ہو سکتے.اور یہ ایک نہایت ہی مکر وہ خیال ہے اور ایک ایسا بھیانک تصور ہے، جو معصوم زندگیوں کو وسیع پیمانے پر تباہ و برباد کر رہا ہے.اس کے ذریعہ معصوم بچوں کو ایسی گندگی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کا بیچارے تصور بھی نہیں کر سکتے.ابھی وہ بالغ ہوئے نہیں ہوتے لیکن بچپن ہی سے ان کو گندگیوں میں ملوث کیا جا رہا ہے.ننگی تصویریں کھینچ کر بھی اور دوسرے ذرائع سے بھی.یہاں تک کہ اب امریکہ میں بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے، جو انسانی جذبات سے کلیۂ محروم ہوگئی ہے.حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک کی ان آزاد سوسائٹیوں میں بچوں پر اتنا ظلم کیا جانے لگا ہے کہ اس کے نتیجہ میں وہ نفسیاتی مریض بن کر بڑے ہوتے ہیں.اور ایک نہیں، دو نہیں بلکہ ایسے بچے لکھو کھا کی تعداد میں ہیں، جن کی زندگی سے انہوں نے ساری لذتیں چھین لی ہیں اور وہ بڑے ہو کر یا پاگل خانوں میں پہنچ جاتے ہیں یا ایسی زندگی بسر کرتے ہیں، جس میں لذت یابی کی خصوصیت ہی باقی نہیں رہتی.675
خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ان سارے امور پر نظر کرتے ہوئے ، میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ان گندی اور غلط تحریکات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے بڑوں کی تقریروں اور ان کا تصنیف کردہ لٹریچر کافی نہیں ہے.بلکہ ہمیں ایک مقابل کی تحریک چلانی چاہئے ، جو بچوں کی طرف سے جاری ہو اور ہمارے بچوں میں ان چیزوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت پیدا کی جائے.اور اس کے لئے اگر چہ بڑے پروگرام بنائیں اور مضامین لکھ کر بچوں کی مدد کریں لیکن اس میں زیادہ تر ہمارے بچے حصہ لیں.مثلاً جب ہم بچوں کو نماز پڑھانے کا طریق بتاتے ہیں یا بچوں کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کے قصے سناتے ہیں یا بچوں کو بتاتے ہیں کہ اس طرح پرانے زمانوں میں یا اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں کس طرح بچے چھوٹی عمر میں ہی خدا والے بن گئے تھے تو وہ یہ باتیں ہیں، جن کو بجائے اس کے کہ کوئی بڑا ان کو سنائے ، بچوں کے پروگرام بنائے جائیں اور ان کی وڈیوریکارڈنگ کی جائے.اور پھر ان کو مختلف زبانوں میں ڈھال کر انگریز بچے انگریزی میں اور جرمن بچے جرمن میں اور چینی بچے چینی میں اور انڈو نیشین بچے انڈونیشین میں اپنی اپنی قوم کے بچوں کو سنبھالنے کا انتظام کریں.اور وہ ان کو نمازیں پڑھنے کے طریق سکھائیں، نماز کے آداب بتائیں.آنحضرت صلی اللہ وآلہ وسلم کے بلند مقام کے متعلق بچوں کو آگاہ کریں تا کہ انگلی نسل کی پوری پوری تربیت ہو اور ہمارے احمدی بچے ساری دنیا کی رہنمائی کرنے لگیں.اس سلسلے میں سب سے پہلی ذمہ داری پاکستان کے بچوں پر عائد ہوتی ہے.کیونکہ پاکستان میں سلسلہ کا مرکز قائم ہے اور روحانی طور پر فائدہ اٹھانے کا جتنا موقع یہاں کے بچوں کو حاصل ہے، اتنابا ہر کے بچوں کو تو میسر نہیں آسکتا.اس لئے مجلس خدام الاحمدیہ کے شعبہ اطفال کے تحت اب ایسے پروگرام بننے چاہیئیں کہ جن کے نتیجہ میں ساری دنیا میں نئی قسم کی دلچسپیوں کے پروگرام اور طریقے رائج کئے جائیں.کیسٹس (Cassettes) سے بھی فائدہ اٹھایا جائے.بچوں کی معلوماتی فلموں سے بھی فائدہ اٹھایا جائے اور وڈیو ریکارڈنگ سے بھی فائدہ اٹھایا جائے.بیچارے بچوں کو اس قدر پاگل بنایا جارہا ہے کہ اب ان کے تصورات ہی بگڑ گئے ہیں.انسانی زندگی کے احساسات وغیرہ، جن کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا، ان کے علاوہ میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں.یعنی وہ تو محض گندگی ہے، جس کو پور نا گرافی (PORNOGRAPHY) کہتے ہیں.بچوں کے عام خیالات بھی بگاڑے جارہے ہیں.چھوٹی چھوٹی اور ادنی اونی چیزوں کی طرف بچوں کے میلان بڑھائے جارہے ہیں.مثلاً بیہودہ حرکتیں ، خوشی کے لغو اظہار ، جن میں کوئی حکمت نہیں ہوتی ، کوئی معنی نہیں 676
خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہوتے.ٹیلیویژن کے اشتہارات بھی بچوں میں نئے نئے خیالات پیدا کرتے چلے جارہے ہیں.یہاں تک کہ بچوں کا Out look یعنی زندگی کا نظریہ ہی بدل گیا ہے.ان کے خیالات مسموم ہو چکے ہیں.ان کو پتہ نہیں، کچی خوشی کس کو کہتے ہیں؟ بنی نوع انسان کے ساتھ تعلق میں اور غریب لوگوں کی خدمت میں کیا لذت محسوس ہوتی ہے؟ ان چیزوں سے وہ بالکل ہی نا واقف ہو چکے ہیں.اب تو یہ حال ہے کہ بچے کوئی اچھا چا کلیٹ دیکھیں تو کوئی اچھی آئس کریم دیکھیں تو ان کو یہ پتہ ہے کہ کس طرح اچھلتا ہے؟ کس طرح شور مچانا ہے؟ اور کس طرح منہ سے رالیس پیکانی ہیں؟ اور ان کے اشتہار بھی ان کو یہی تربیت دے رہے ہیں.پاگلوں والی حرکتیں کر رہے ہیں اور ایسے ایسے لغو قصے ان کو بتائے جارہے ہیں کہ جن سے بچوں کے ذہن اور تصور کی دنیا ہی بگڑ رہی ہے.مثلاً اب ان کو یہ بتایا جارہا ہے کہ کس طرح دوسری دنیا کے راکٹ آرہے ہیں اور ان کے ساتھ لڑائیاں ہو رہی ہیں اور بچے ان کو فتح کر رہے ہیں.اور اسی طرح ایسے کھلونے ان کے لئے بنادیئے گئے ہیں، ایسی کھیلیں ایجاد کر دی گئی ہیں، جن کے ذریعہ بچے منٹوں کے اندر آسمان سے ٹیلیکسیز کوختم کرتے اور ستاروں کو زمین پر مار گراتے ہیں، ستاروں کی مخلوق تباہ کر دیتے ہیں اور اپنی طرف سے ان کا دماغ بہت بلند کیا جارہا ہوتا ہے کہ دیکھو ! ہم کتنے بلند اور طاقتور ہیں؟ چنانچہ ایک امریکن نے ایک رسالہ میں اس کا ذکر کیا ہے.میں نے خود پڑھا ہے.اس نے لکھا ہے، میر اوہ چھوٹا سا بچہ، جو بیٹھا ہو استاروں کے ستاروں کو تباہ کر رہا ہو بلکہ ستاروں کے جھرمٹ کو کھیلوں کے ذریعہ ہلاک کر رہا ہو اور بڑی بڑی آسمانی مخلوق پر غلبہ پارہا ہو، اس بچے کو میں یہ کیسے بتاؤں کہ ذرا اپنا ناک تو صاف کرو؟ یعنی ناک سے گندگی بہہ رہی ہے اور کھیلیں یہ کھیل رہا ہے کہ وہ ساری دنیا کے بڑے بڑے ستاروں پر غلبہ پارہا ہے.یہ محض جہالت کے قصے ہیں اور رجحانات کو تباہ کرنے والی باتیں ہیں.یہ صرف کھیلیں ہیں، جو چیزیں بیچنے والوں نے ایجاد کی ہیں تا کہ بچے ان میں زیادہ سے زیادہ دیپی لیں.سوائے مادی مقصد کے ان کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا.ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ قوم کے بچوں کی تربیت ہورہی ہے کہ نہیں ہو رہی ہے؟ ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا ہور ہے ہیں کہ نہیں ہور ہے؟ صرف اقتصادی دنیا ہے، جس میں دولت کے حصول کے لئے ہر کوشش جائز ہو چکی ہے.اسی میں بچوں سے بھی کھیلا جا رہا ہے، اسی میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، ایسے رسالے نکل رہے ہیں، جو دنیا کو زیادہ گندگی کی طرف مائل کرتے جارہے ہیں اور بچوں کو بھی آلہ کار بنایا جارہا ہے.پس ان چیزوں کے مقابل پر احمدی بچوں کو جنگ لڑنے کے لئے تیار ہونا چاہئے.اس کے لئے نئے آلات کے ذریعہ ایسی اعلیٰ تصویریں بنائی جائیں اور ایسے اچھے کردار پیش کئے جائیں کہ ان کو دیکھ کر 677
خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم احمدی بچے بھی سنبھلیں، ان کو بھی پتہ لگے کہ ہمارا رستہ اور ہے.اور غیر بھی دیکھیں تو ان کو بھی محسوس ہو کہ احمدی بچے کے کیا افکار ہیں؟ اس کی کیا بلند پرواز یاں ہیں؟ وہ محض تصور میں آسمان کے ستاروں کو سر نہیں کر رہا بلکہ ان ستاروں کے خدا سے تعلق جوڑنے کی سوچ اور فکر کر رہا ہے.وہ مخلوق کو فتح کرنے کے ہوائی منصوبے نہیں بنارہا بلکہ خالق کی نظر میں محبوب اور مقرب بننے کی کوشش کر رہا ہے.احمدی بچے کا یہ کتنا بلندتر مقام ہے، دنیا کے اس بچے کے مقابل پر، جس نے محض مادی تسخیر ہی کو اپنی زندگی کامد عا بنالیا ہے.صرف یہی نہیں بلکہ احمدی بچوں کو مغربی تہذیب کی اچھی باتوں، دلچسپ چیزوں اور سائنسی علوم سے آشنا کرنے کے لئے کوئی مناسب اور دلچسپ انتظام بھی ہمیں بہر حال کرنا چاہیے.مثلاً ایسی وڈیو ریکارڈنگ اور ایسی تصویریں، جن میں سائنس کی ترقیات ، زندگی کے واقعات اور جانوروں کے حالات اور اس قسم کی دوسری چیزیں دکھائی جائیں، جن کو دیکھ کر بچے لطف بھی اٹھاتے ہیں اور ان کا علم بھی بڑھتا ہے، اس قسم کی چیزوں کو رواج دینا چاہئے.ٹیلیوژن کے بیہودہ کھیلوں اور گانوں کی بجائے ایسی ویڈیوریکارڈنگ تیار ہونی چاہیے، جس میں بچہ نہایت ہی سریلی آواز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام سنا رہا ہو یا او نظمیں پڑھ رہا ہو.اسی طرح تلاوت بھی بچوں کی نہایت ہی سریلی آواز میں سنائی جائے اور سکھائی جائے.اس قسم کے بہت سے پروگراموں کی ہمارے پاس گنجائش موجود ہے.باہر سے بھی مطالبے ہور ہے ہیں.چنانچہ میں جن ملکوں میں بھی گیا ہوں، وہاں کی ہر جماعت کی طرف سے یہ مطالبہ بڑی شدت کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے کہ بچوں کو گندے ماحول سے بچانے کا انتظام کیا جائے.وہ کہتے ہیں، ہم اپنے بچوں کو ایسے سکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں، جہاں وہ مغربی تہذیب کی برائیوں سے متاثر ہوتے ہیں.ایسے اثرات کو مٹانے کے لئے جماعت ہماری مدد کرے.ورنہ اگر ان باتوں میں زیادہ دیر گزرگئی تو ہوسکتا ہے کہ ا ہمارے بچے ہاتھ سے نکل جائیں یا ان کے رجحانات بدل جائیں.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ احمدی بچوں میں ابھی سعادت اور نیکی کا مادہ موجود ہے.اس عمر میں ان کو سنبھالا جائے تو جلدی سنبھل سکتے ہیں.چنانچہ جہاں کہیں مجھے جانے کا موقع ملا، میں نے دیکھا کہ جب ہم شروع میں جاتے تھے تو اس ماحول کے پیدا ہوئے ہوئے بچوں کی آنکھوں میں عجیب اجنبیت پائی جاتی تھی.بچوں کی طرز زندگی ، ان کا اٹھنا بیٹھنا ہم سے بالکل مختلف ہوتا تھا.وہ سمجھتے تھے، پتہ نہیں کس دنیا کے یہاں لوگ آگئے ہیں اور ہم سے کیا باتیں کریں گے؟ جب ان کے والدین کبھی پیار سے سمجھا کر اور کبھی تھوڑا سا ڈانٹ کر مجالس میں لے کر آتے تھے اور بٹھاتے تھے اور ان کو باتیں سناتے تھے.پھر ان کو کہتے 678
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء تھے کہ تم اپنے سوال بھی کرو.چنانچہ بعض بچے اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے متعلق سوال بھی کرتے رہے.تو بلا استثناء ہم نے یہ دیکھا کہ تھوڑے عرصے کے اندر اندر ہی ان بچوں کی کیفیات بدل گئیں.ان کے اندر غیر معمولی محبت اور پیار کا جذبہ پیدا ہو گیا.احمدیت کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم ہو گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کی نگاہوں کا اجنبی پن بالکل مٹ گیا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اب باہر کی چیزیں نہیں رہے بلکہ اندر کی چیزیں بن گئے ہیں.وہ جماعت کے وجود کا ایک حصہ بنتے نظر آرہے تھے.پس ان کا یہ مطالبہ تو درست ہے کہ ان کے بچوں کی تربیت کے لئے جماعت ان کی مدد کرے.لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ مرکز کی طرف سے ایسے دورے ہوں کہ گویا ساری دنیا میں مرکز کا کوئی نہ کوئی آدمی ہر وقت موجود ہے.مربیان ہیں، ان کی تعداد بھی تھوڑی ہے اور وہ ہر جگہ، ہر ملک میں نہ تو موجود ہیں.جہاں موجود بھی ہیں، وہاں احمدیوں کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی زیادہ ہے کہ سب بچوں کی تربیت کر ہی نہیں سکتے.اس لئے صرف لٹریچر کے ذریعہ اس طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ نئے آلات کے ذریعے ہمیں تربیت کے پروگرام بنانے پڑیں گے.اور میں بچوں سے یہ کہتا ہوں کہ اب آپ نے بڑے ہو کر ساری دنیا کے بوجھ اٹھانے ہیں.اس لئے ابھی سے اپنی فکر کریں.اس عمر میں اگر آپ کی صحیح تربیت ہو جائے تو پھر ہمیشہ کے لئے آپ کو ضمانت مل جائے گی.آج جو اچھی عادتیں آپ اپنے اندر پیدا کرلیں گے، وہ آپ کو ساری زندگی میں کام دیں گی.آج کا بچہ کل کا احمدی نوجوان بن رہا ہو گا، پرسوں کا احمدی بوڑھا بن رہا ہو گا.اس لئے آج ہی اپنے اخلاق کی طرف توجہ کریں، اپنی عادات کی طرف توجہ کریں، اپنے حالات کی طرف توجہ کریں اور ان کو درست کرنے کی کوشش کریں.بچو! آپ سے ایک چھوٹا سا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آپ عہد کریں کہ ہمیشہ سچ بولیں گے اور گندی زبان استعمال نہیں کریں گے.لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کتنے احمدی بچے ہیں، جو اس عہد کو خاص طور پورا کر رہے ہیں.(اس موقع پر بہت سے اطفال نے ہاتھ اٹھالئے تو حضور نے فرمایا ہاں ، ٹھیک ہے، میں نے ابھی ہاتھ اٹھانے کے لئے نہیں کہا تھا.خدا کرے، یہ سارے بچے اپنے عہد کو پورا کر رہے ہوں.لیکن بعض دفعہ کوئی احمدی گالی دیتا ہے تو اس کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں گالی دے رہا ہوں.اس لئے اپنی طرف سے آپ نے سچائی سے بھی ہاتھ کھڑے کئے ہوں لیکن ابھی تک یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سارے بچے وہ ہیں، جو بالکل گالی نہیں دیتے.جن کو گالی کی عادت پڑ گئی ہو، ان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ گالی دے رہے ہیں.679
خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک قادیان میں ایک بزرگ ہوتے تھے، جن کو لوگ مانا صاحب کہتے تھے.ماٹا مرحوم کے متعلق قصہ یہ مشہور ہے کہ ویسے تو وہ بڑے نیک آدمی تھے لیکن پیدائشی احمدی نہیں تھے.ان کو بچپن سے گندی گالیاں دینے کی عادت پڑی ہوئی تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کسی نے شکایت کی کہ حضور! آپ ان کو سمجھا ئیں، آپ اس سے بڑا پیار کرتے ہیں.گو یہ اچھے نوجوان ہیں اس زمانہ میں تو نو جوان ہی تھے ) لیکن گندی گالیوں کی عادت ہے.چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الاول نے ان کو بلایا اور بڑے پیار سے سمجھایا کہ دیکھیں! آپ بڑے اچھے آدمی ہیں، نیک ہیں، نمازی ہیں لیکن یہ جو آپ لوگوں کو گندی گالیاں دیتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں.یہ بات آپ کو بھی نہیں.اس پر وہ نہایت گندی گالی دے کر کہنے لگے کہ کس جھوٹے نے حضور کو بتایا ہے، میں تو گالی دیتا ہی نہیں.غرض بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا.اس لئے یہ نظام سلسلہ کا کام ہے کہ وہ بچوں پر نظر رکھے اور ان کو یہ بات بتائے کہ تمہارے اندر یہ یہ برائیاں موجود ہیں.تم ان کو دور کرنے کی طرف توجہ دو اور اپنی اصلاح کی فکر کرو.بچو! یا درکھو، سچ ایک ایسی چیز ہے، جو انسان کے کردار کو بناتی ہے.مگر اب بیچ غائب ہوتا جارہا ہے.اب تو بڑوں کی سوسائٹی میں یہ ایک ایسا جانور بن گیا ہے، جس کو شاید کہیں کہیں آپ دیکھیں.ورنہ عام طور پر یہ کہیں نظر ہی نہیں آتا.اور بیچارے انسان کا عجیب حال ہے کہ دنیا کے جو عام جانور ہیں، جب وہ کم ہونے شروع ہو جائیں تو اس کو ان کی فکر پڑ جاتی ہے اور کہتا ہے کہ ان کو بچانے کا انتظام کرو.چنانچہ آسٹریلیا میں ابھی لاکھوں کی تعداد میں کینگرو ہے لیکن ان کو فکر پڑی ہوئی ہے کہ یہ جانور نظروں سے غائب نہ ہو جائے.یہ کم ہوتا چلا جارہا ہے، اس کی حفاظت کا انتظام کیا جائے.اسی طرح طوطوں کی حفاظت کا انتظام ہو رہا ہے، چیلوں کی حفاظت کا انتظام ہو رہا ہے، گدھوں کی حفاظت کا انتظام ہو رہا ہے، کو آلہ ( Kuala) ایک جانور ہے، اس کی حفاظت کا انتظام ہورہا ہے.غرض ان قوموں کو تو یہ فکر ہے کہ جانور بھی نظروں سے غائب نہ ہو جائیں.لیکن یہاں سچ غائب ہورہا ہے اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے.بلکہ کہتے ہیں کہ یہ جانور غائب ہو ہی جائے تو اچھا ہے.جہاں بھی ظاہر ہوتا ہے، مصیبت ہی ڈالتا ہے.مگر اے بچو! آپ نے اس کی حفاظت کرنی ہے.آپ احمدی بچے ہیں، آپ نے اس میدان کو جیتنا ہے.اگر آپ نے سچ کی حفاظت نہ کی تو آئندہ کبھی کوئی اس کی حفاظت کرنے والا نظر نہیں آئے گا.یہ سچ کی عادت ہے، جو انسان کے کام آیا کرتی ہے.اگر آج آپ کو خدانخواستہ جھوٹ کی عادت پڑ گئی تو پھر بڑے ہو کر آپ کو کوئی سچا نہیں بنا سکے گا.اگر بنا سکے تو پھر اس پر بہت محنت کرنی پڑے گی.680
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء جھوٹ ایک ایسی گندی عادت ہے کہ وہ انسان کے اندر آہستہ آہستہ راسخ ہو جاتی ہے.اور پھر جھوٹے کو بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے.وہ جھوٹ بولتا چلا جاتا ہے، کہانیاں بنائے جاتا ہے.یہ اس کی عادت بن جاتی ہے.چنانچہ ہمارے جھنگ کے ماحول میں ایسے لوگ بڑی کثرت سے ملتے ہیں، جن کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے.اس ضلع میں بہت زیادہ کثرت سے جھوٹ بولا جاتا ہے.جو لوگ جھوٹی باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور نظر آرہا ہوتا ہے کہ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن ان کو پتہ ہی نہیں لگ رہا ہوتا.وہ بیٹھے بیٹھے جھوٹی کہانیاں بنائے جاتے ہیں.پس اگر خدانخواستہ احمدی بچوں نے بھی جھوٹ بولنا شروع کر دیا تو پھر اس قوم کو سنبھالے گا کون؟ پھر تو یہ قوم ہمارے ہاتھ سے نکل گئی.کیونکہ یہ سچائی ہی ہے، جو انسانی زندگی کے کام آتی ہے.سچائی سے ہی دنیا بنتی ہے اور سچائی سے ہی دین بنتا ہے.سچائی سے ہی مادی ترقیات نصیب ہوتی ہیں اور سچائی ہی کے ساتھ روحانی ترقیات نصیب ہوتی ہیں.جھوٹ کے تو نہ یہاں قدم سکتے ہیں، نہ وہاں قدم سکتے ہیں.اس لئے اے بچو! آپ کی دنیاوی ترقی کا راز بھی اس بات میں مضمر ہے کہ آپ بچے ہو جائیں اور آپ کی دینی ترقی کا راز بھی اس بات میں ہے کہ آپ کچے احمدی بن جائیں اور سچ کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کریں اور جھوٹی بات کو سنا بھی برداشت نہ کریں.اگر کوئی بچہ مذاق میں بھی جھوٹ بولتا ہے، اس کے جھوٹ پر بھی آپ بالکل نہ ہنسیں.بلکہ حیرت سے دیکھیں اور اسے کہیں : یہ تم کیا بات کر رہے ہو؟ یہ تو مذاق کا قصہ نہیں ہے.مذاق کرنا ہے تو بچے مذاق کرو.ایک دوسرے کو لطیفے سناؤ اور اس قسم کی باتیں کرو، جن سے حاضر جوابی کا مظاہرہ ہوتا ہو.جھوٹ بولنے سے مذاق کا کیا تعلق.یہ تو گندگی ہے.جہاں بھی جھوٹ دیکھیں ، وہاں اس کو دبائیں اور اس کی حوصلہ شکنی کریں.بلکہ اگر آپ کے ماں باپ میں یہ عادت ہے تو ان سے بھی ادب سے کہیں کہ ابا امی ! آپ نے تو ہمیں سچائی سکھانی تھی.یہ آپ کیا کر رہے ہیں یا کیا کہہ رہے ہیں؟ احمدی والدین ہو کر جھوٹ بول رہے ہیں.یہ بات آپ کو بھی نہیں.پس اگر سارے بچے سچ بولنے کی عادت ڈالیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ ان کو اللہ کی طرف سے کتنی نعمتیں اور کتنے فضل نصیب ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ ان ہی لوگوں کو ملتا ہے، جو بچے ہوں.اگر آپ بچے بن جائیں گے تو اس بچپن کی عمر میں بھی آپ کو خدامل جائے گا.اگر اس عمر میں جھوٹ بولنے کی عادت پڑ گئی تو بڑے ہو کر نہ خود خدا کے فضل حاصل کر سکو گے، نہ دنیا کو خدا کی طرف بلا سکو گے.اس لئے میں سب بچوں کو بہت تاکید کرتا ہوں کہ ہمیشہ سچ بولیں اور سچائی کو بڑی مضبوطی کے ساتھ پکڑیں.681
خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم بچو! اب آخر پر میں آپ سے ایک چھوٹی سی بات یہ کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، شاید میں نے گزشتہ سال بھی آپ سے یہ کہا تھا کہ مجالس میں ٹوپی پہنا کریں.احمدی مجالس میں ٹوپی پہن کر بیٹھنا چاہئے.لیکن اس وقت مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ اکثر بچے ننگے سر اس لئے بیٹھے ہیں کہ وہ گھر سے ٹوپی لے کر نہیں چلے.معلوم ہوتا ہے کہ ٹوپی پہنے کی عادت اتنی مٹ گئی ہے کہ انہوں نے ٹوپی کو ادراہ میں شامل ہی نہیں کیا.اب یہاں پہنچ کر شریف بچے اپنے سر کے گرد چادر میں لپیٹ رہے ہیں، کوئی قمیص اونچی کر کے سرڈھانک رہا ہے، کسی نے چادر سر پر رکھ لی ہے، کسی نے رومال لپیٹنا شروع کیا ہے، کسی نے مظفر باندھنا شروع کیا ہے.مگر بعضوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے.وہ بیچارے کیا کریں؟ اب وہ قمیص اتار کر سر پر تو نہیں پہن سکتے.گو تھوڑی اور ٹو بہت تو شرم اور حیادکھائی دیتی ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ٹوپی پہنے کا تصور مٹتا جا رہا ہے.حالانکہ یہ بہت اہم چیز ہے اور بچوں کے کردار سنوارنے میں اس کا بڑا دخل ہے.اس لئے بچے اس کو معمولی چیز نہ سمجھیں.اگر سارے بچے ایک ہی قسم کی ٹوپیاں پہن کر یہاں بیٹھے ہوتے تو اندازہ کریں، یہ مجلس کتنی خوبصورت لگتی.اس وقت میرے سامنے جو بچے بیٹھے ہوئے ہیں، وہ ٹوپیاں پہن کر آئے ہیں.ان کو دیکھیں ، ماشاء اللہ کتنے اچھے لگ رہے ہیں.ان کے اندر ذمہ داری کا احساس نظر آرہا ہے.یہ بے ٹوپیوں والوں کی نسبت زیادہ پیارے لگ رہے ہیں اور زیادہ اچھے دکھائی دے رہے ہیں.اس لئے میں ان بچوں سے، جو ٹوپی نہیں پہنتے ، یہ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی تہذیب کو کیوں اپناتے ہیں؟ وہ احمدی بچے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدیت نے دنیا کو ایک نئی تہذیب دینی ہے.اور اس تہذیب میں یہ بات داخل ہے کہ ہم اپنے سر ڈھانک کر رکھیں.اس سے ذمہ داری کا بہت بڑا احساس پیدا ہوتا ہے.پس اطفال الاحمدیہ کی مجالس میں آئندہ سے کوئی بچہ ننگے سر نظر نہیں آنا چاہئے.مجلس خدام الاحمدیہ یا اطفال الاحمدیہ کے شعبے کو چاہئے کہ وہ سارا سال اطفال کو تحریک کرتے رہیں کہ وہ ٹوپی پہنیں.اور اگر ممکن ہوتو ایک ٹوپی سستی سی لیکن خوبصورت ڈیزائن کی مجلس خدام الاحمد یہ تیار کر کے اس کو عام رواج دے.اور وہ اطفال الاحمدیہ کی ٹوپی ہو، جس پر مثلا کلمہ طیبہ لا الہ الا الله محمد رسول الله لکھا ہوا ہو.یہ ٹوپی ہر احمدی بچے کا نشان بن جائے گا.بہت پیاری سی ٹوپی پر کلمہ طیبہ کی خوبصورت سی مہر بن جائے.آج کل بچوں میں جو کپڑے رائج کئے جاتے ہیں، ان پر عجیب اوٹ پٹانگ فقرے لکھے ہوئے ہوتے ہیں اور ایسی زبانوں میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں، جن کا بچوں کو کچھ پتہ ہی نہیں لگتا.بچے آنکھیں بند کر کے ان فیشنوں کے پیچھے چلتے رہتے ہیں.ہمیں اپنے بچوں کو کوئی بہتر فیشن دینا پڑے گا.تا کہ وہ بھی کوئی چیز دنیا کے سامنے پیش کریں ، ان میں سے ایک یہ ٹوپی ہے.682
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء یہ ضروری نہیں کہ ٹوپی کے اوپر ضرور کچھ نہ کچھ لکھا ہوا ہو.یہ میرا مقصد نہیں.میں کوئی حکم نہیں دے رہا.لیکن ایک خیال ظاہر کر رہا ہوں کہ یہ تجربہ بھی کیا جا سکتا ہے.اور نہیں تو آپ کا جو بیج تھا، جس پر کلمہ لکھا ہوتا تھا، اس کو ساتھ پہننے کا رواج دیں.میں نے دیکھا ہے، پرانے زمانے میں جب اطفال اجتماع پر آیا کرتے تھے تو اسی بیج کو وہ اپنی ٹوپی پر بھی ٹانک دیا کرتے تھے یا بعض دفعہ اپنی قمیص یا کوٹ کے او پر پہنا کرتے تھے.پس یہ جو رواج ہیں، یہ قوم کے اچھے اخلاق اور قومی روایات کی حفاظت کرتے ہیں.اس لئے ان کو معمولی سمجھ کر بھلا نہیں دینا چاہئے.ورنہ آج جو ننگے سر بچے بڑے ہو رہے ہیں ، ان کے متعلق اس بات کا زیادہ احتمال ہے کہ وہ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر کئی قسم کی خرابیوں کا شکار ہو جائیں.پھر اگر مغربی تہذیب کہے گی کہ سرمنڈوانا شروع کرو اور استرے پھر واؤ اور (SKIN HEAD) سکن ہیڈ بن کر نکلو تو یہی وہ لوگ ہیں، جنہوں نے بڑے ہو کر سر مونڈھنے ہیں.لیکن جن کو بچپن سے ٹوپی پہننے کی عادت ہوگی ، ٹوپی ان کی حفاظت کرے گی.اور ایسے بچے مغربی تہذیب سے اول تو متاثر نہیں ہوں گے.اگر ہوئے بھی تو بہت کم ہوں گے.اس لئے یہ بہت اہم چیزیں ہیں، ان کی طرف آپ کو بہت توجہ کرنی چاہئے.اب ہم دعا کر لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے احمدی بچوں کو تعظیم کردار عطا کرے.اور بڑے ہو کر ساری دنیا کی تربیت کی توفیق عطا فرمائے.(اس موقع پر بچوں نے زور زور سے آمین کہنی شروع کر دی تو حضور نے فرمایا) بچو! آہستہ دل میں آمین کہو.خدا کوئی بہرایا گونگا تو نہیں ہے، نعوذ باللہ من ذالک یا اس کے کان خراب تو نہیں ہو گئے کہ جب تک آپ اونچی آواز نہیں کہیں گے ، اس کو سنائی نہیں دے گا.بعض دفعہ اونچی آمین کہنے کے نتیجہ میں دل ساتھ حرکت کر ہی نہیں رہا ہوتا.صرف زبان سے ہی آمین نکل رہی ہوتی ہے.اس لئے آمین کا مطلب سمجھیں.آمین کا مطلب ہے، اے میرے اللہ ! میری اس دعا کو قبول فرما.تو اس آمین کہنے میں تو عاجزی ہونی چاہئے.مگر آپ کی آمین کہنے سے تو لگتا ہے کہ جس طرح آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے قبول کر لیا ہے.اس لئے آپ دل میں آمین کہیں.یہ خدا کی آواز ہے، جو سب دنیا کی آوازوں سے اونچی ہے اور ساری دنیا میں سنائی دیتی ہے.اگر وہ آپ کی دعا قبول کرتے ہوئے آپ پر فضل نازل فرمائے تو پھر تو مزہ بھی آئے گا.لیکن آپ اونچی آمین کہہ رہے ہوں اور اللہ میاں توجہ ہی نہ کرے کیونکہ دل سے آواز نہ اٹھ رہی ہو تو یہ اچھی بات نہیں ہے.اس لئے جب میں دعا کا کہتا ہوں تو میرا مطلب یہ ہے کہ دل میں دعا کریں اور اگر آمین کہتا ہوں تو بالکل ہلکی آواز میں کہیں.یعنی منت اور بجز اور انکساری کے ساتھ دعا کے رنگ میں آمین کہیں.683
خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم میں دعا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ ہمارے احمدی بچوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ حضر نہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رنگ میں رنگین ہو کر اخلاق فاضلہ سیکھیں، ان کے اندر اعلیٰ کردار پیدا ہو، دنیا کو فتح کرنے والا کردار.احساس کمتری ان کے دل سے بالکل مٹ جائے.ان کو اس بات کا یقین ہو کہ وہ ایک اچھے معاشرہ کے محافظ ہیں اور دنیا کو اچھی قدریں دینے کے لئے نکلے ہیں.ان کو یہ بھی پتہ ہو کہ وہ دنیا کے رہنما بننے والے ہیں.دنیا سے جھوٹ اور جھوٹی عزتوں کو مٹا کر انہوں نے ساری دنیا کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں داخل کرنا ہے.خدا کرے، ایسا ہی ہو.ہماری نسلیں صحیح تعلیم و تربیت پا کر بڑی ہو رہی ہوں اور دنیا کی خدمت اور رہنمائی کی عظیم ذمہ داریوں کو کما حقہ اٹھانے والی ہوں.اللہ کرے ہم بھی وہ دن دیکھیں“.مطبوعه روز نامہ الفضل 08 جنوری 1984ء ، ماہنامہ تشخید الاذہان جنوری 1984 ء) 684
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1983ء لجنہ اماءاللہ عالمی سطح پر یکساں اسلامی اقدار کے قیام کی نگرانی کریں خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ وو...اس زمانے کا تقاضا یہ ہے کہ عورتیں زیادہ تیز رفتاری سے آگے آئیں کیونکہ کثرت سے اسلام پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اسلام نے اپنی عورتوں کو دبا کے رکھا ہوا ہے اور ایسی قید و بند کا پابند کر دیا ہے کہ وہ دنیا کے کسی کام کی اہل نہیں رہیں.اس اعتراض کے نظریاتی جواب تو ہم دیتے رہتے ہیں اور جہاں تک اللہ تعالی توفیق دے، لوگوں کے دلوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن اس کا اصل جواب احمدی عورتوں کا عمل کے میدان میں آگے بڑھنا ہے، وہ اس قوت اور زور کے ساتھ آگے بڑھیں کہ اہل دنیا کے اسلام کے خلاف تمام اعتراضات کو جھٹلانے کے لئے ان کا عمل ہی کافی ثابت ہو جائے.اس ارادے کے ساتھ آگے آئیں کہ آج محض باتوں کا وقت نہیں رہا بلکہ دنیا نمونے کو تلاش کرتی ہے.آج احمدی عورت کا فرض ہے کہ وہ دنیا پر یہ ثابت کرے کہ ہم اسلامی پردے کی حدود میں رہتے ہوئے بھی تمام نیک کاموں میں بھی آگے بڑھنے سے کسی پہلو سے بھی محروم نہیں کی گئیں.اور یہ بھی ثابت کریں کہ ہمارا معاشرہ زیادہ امن کا معاشرہ ہے، زیادہ عزت کا معاشرہ ہے، زیادہ طمانیت کا معاشرہ ہے.ابھی ہمیں ان امور میں بہت سے سفر طے کرنے ہیں.بہت سے قدم آگے بڑھانے ہیں اور میرے ذہن میں ایک پروگرام ہے، جس کے تحت میں چاہتا ہوں کہ رفتہ رفتہ احمدی عورت ان سارے کھوئے ہوئے میدانوں کو دوبارہ حاصل کرلے، جن میدانوں کو حاصل کئے بغیر اسلام کو دنیا پر فتح نصیب نہیں ہو سکتی.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ آج اسلام پر جو شدید اعتراضات وارد ہوتے ہیں، ان میں سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے اپنی عورت کو نیک کاموں میں شرکت سے محروم کر دیا ہے، ترقی کی راہیں اس کے لئے مسدود کر دی ہیں.اور اسلام کی تعلیم پر رہتے ہوئے عورت کو اس کے حقوق عطا نہیں ہو سکتے اور وہ لاز ما مردوں سے پیچھے بلکہ بہت پیچھے رہے گی.چنانچہ میں نے جب اس دفعہ مشرق بعید کا سفر اختیار کیا تو ایک بھی ملک ایسا نہیں پایا، جہاں پر یہ اعتراض نہ اٹھائے گئے ہوں.بلکہ جہاں تک آسٹریلیا کا تعلق ہے، میرا وہی تجربہ ہوا ، جو یورپ کا تجربہ تھا.685
اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک گویا یہ بھی ایک مغربی ملک ہی ہے اور عیسائی ملک ہے.ان کے رجحانات اس لحاظ سے بہت ملتے جلتے ہیں.اسلام کی دوسری تعلیم کے متعلق سوالات و جوابات کے دوران جب بھی انہوں نے محسوس کیا کہ لوگ متاثر ہورہے ہیں تو سب سے بڑا حربہ جو انہوں نے ہمارے خلاف استعمال کیا ، وہ یہی تھا کہ آخر پر عورت سے متعلق ایک سوال بچا کر رکھا ہوتا تھا اور پھر وہ بڑا مسکرا کر اور بڑی لہک کے ساتھ یہ سوال پیش کیا کرتے تھے کہ اب بتاؤ، اس کے بعد مغربی دنیا پر اسلام کا کیا اثر باقی رہ سکتا ہے؟ جب تم عورت کے معاملے میں بتاؤ گے کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے ، تب ہم دیکھیں گے کہ کس طرح تم ہمارے دل جیت سکتے ہو؟ پس بیان کا رجمان تھا.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ اسلامی تعلیم کسی مقام پر بھی شکست نہیں کھاتی.اور جب تحمل اور حوصلے کے ساتھ انہیں اسلامی تعلیم کے مختلف پہلو بتائے گئے تو بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ جو مستورات شامل تھیں، انہوں نے اقرار کیا کہ ہاں یہی تعلیم بہتر ہے.چنانچہ آسٹریلیا ہی میں ایک ایسی مجلس میں شرکت کا موقع ملا، جہاں ایک سو عیسائی آسٹریلین باشندے شامل ہوئے.ایک احمدی خاندان نے ان کی دعوت کی ہوئی تھی اور بڑے اخلاص سے انہوں نے اس کا انتظام کیا ہوا تھا.ان کا دائرہ اثر خاصہ وسیع ہے، اس لئے چھوٹے سے قصبہ کے تمام قابل ذکر لوگ بکثرت اس میں شامل ہوئے تھے.وہاں سوالات و جوابات بھی ہوئے.اس میں عورت کا بھی سوال اٹھایا گیا.اور اگر چہ میں سمجھتا ہوں کہ وہاں بدنیتی سے نہیں اٹھایا گیا کیونکہ وہاں سارے ماحول میں بڑی محبت اور دوستی کا رنگ پایا جاتا تھا.مگر بہر حال یہ سوال اکثر اوقات کیا جاتا ہے.اس مجلس کے اختتام کے بعد دوسرے دن ایک عورت اس خاندان کے پاس آئی اور اس کا تاثر یہ تھا اس مجلس کے متعلق ، اس نے کہا: میں نے ایک فیصلہ تو کر لیا ہے اور میرا دل اس یقین سے بھر گیا ہے کہ آخر ہمیں لازما مسلمان ہونا پڑے گا.لیکن اس کے لئے بھی کچھ ہمت چاہیے، کچھ مزید مطالعہ کی ضرورت ہوگی.تاہم ایک فیصلہ میں نے آج ہی کیا ہے کہ جب مسلمان ہونا ہی ہے تو کم سے کم نماز پڑھنی تو سیکھ لوں.اس لئے تم مجھے ابھی سے نماز شروع کروادو.اور دوسرے اس نے کہا کہ میں معمر عورت ، موت کاکوئی پتہ نہیں ، اس لئے میں چاہتی ہوں کہ اگر میر اوقت آئے تو میں خدا سے یہ تو کہہ سکوں کہ اسلام سیکھتے سکھتے مری ہوں.پس دنیا میں عورتیں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلامی تعلیم سے متاثر ہو رہی ہیں.اور جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ اسلام تمہارے لئے زیادہ امن اور زیادہ خوشحالی کی زندگی پسند کرتا ہے.اور تمہیں مختلف قسم کی قیدوں سے آزاد کرتا ہے، نہ کہ قیدوں میں مبتلا کرتا ہے تو وہ اس بات کو سمجھ جاتی ہیں.لیکن 686
اقتباس از خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جب یہ ساری باتیں ہو چکتی ہیں تو بسا اوقات یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ کہاں ہے؟ کس خطہ عالم میں وہ موجود ہے، جس کا تم ذکر کر رہے ہو؟ تا کہ ہم بھی دیکھیں.یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب سب سے زیادہ مشکل ہے.کیونکہ جہاں تک عالم اسلام کا تعلق ہے، آپ مشرق میں جائیں یا مشرق بعید میں، جہاں مسلمانوں کی کافی تعداد موجود ہے یا پھر مشرق وسطی میں آجائیے یا برصغیر پاک و ہند کے حالات پر نظر دوڑائیے، کوئی ملک ہم پیش نہیں کر سکتے ، جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ وہاں کی عورت اسلامی معاشرے کی علمبر دار ہے.اور اگر تم عورتوں کا اسلامی معاشرہ دیکھنا چا ہو، مطالعہ کرنا چا ہو تو فلاں ملک میں چلے جاؤ.اس لئے مجھے اس سوال کے جواب میں ہمیشہ وقت محسوس ہوتی ہے.میں انہیں یہ تو کہتا ہوں کہ جہاں تک ہمارا اختیار ہے، ہم کوشش کرتے ہیں.اور پھر انہیں ربوہ کی مثال دیتا ہوں اور ربوہ آنے کی دعوت بھی دیتا ہوں.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جب تک ایک پورے ملک کی تمام مستورات اسلامی معاشرہ پر قائم نہ ہو جائیں ، اس وقت تک جہاں تک دنیا کا تعلق ہے، ان کے سامنے کھلی مثال پیش نہیں کی جاسکتی.اس کا دوسرا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم تمہارے ملک میں جہاں بسے ہوئے ہیں، وہاں کی عورتیں اسلام کے معاشرے کی علمبردار ہیں، جو احمدیت سے تعلق رکھتی ہیں.لیکن اس پہلو سے بعض جگہ کمزوریاں ہیں، اس لئے یہ جواب ہر ملک میں نہیں دیا جاسکتا.اس لئے لجنہ اماءاللہ کو بین الاقوامی حیثیت سے اس طرف کوشش کرنی چاہئے.اس طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اسلامی معاشرے کا عملی نفاذ بہت ہی ضروری امر ہے اور ساری دنیا کی لحنات میں اس لحاظ سے یکسوئی اور ہم آہنگی پیدا ہونی چاہئے.یہ تو درست نہیں ہے کہ لجنہ اماءاللہ ربوہ اور طرح سے نشو و نما پارہی ہو ، لجنہ اماء اللہ کراچی اور طرح سے نشو و نما پارہی ہو، امریکہ میں اسلام کا اور تصور، ہندوستان میں اور تصور سمجھا جارہا ہو.اسلام تو کوئی علاقائی مذہب نہیں ہے.اسلام تو ایک عالمی مذہب ہے.اس لئے اسلام کا معاشرہ بھی لازما بین الاقوامی ہوگا.اس پہلو سے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو توجہ کرنی چاہئے کہ ساری دنیا کی لجنہ کا ایک مزاج پیدا کریں اور جہاں تک اسلامی اقدار کا تعلق ہے، ان کی بڑی گہری نگرانی کریں کہ تمام دنیا کی لجنات ایک مزاج پر نشو و نما پارہی ہوں.چنانچہ اس سفر میں، میں نے فیصلہ کیا کہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو یہ کہوں گا کہ آپ عالمی دورے شروع کروائیں اور ایسی خواتین کا انتخاب کریں، جو تجربہ کار ہوں اور نسبتا معمر ، درمیانی عمر کی ہوں، یعنی بچیاں نہ ہوں.اور انہیں نہ صرف یہ کہ تجربہ ہو بلکہ ان کا اللہ سے تعلق بھی ہو.جہاں تک انسان اندازے لگا 687
اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم سکتا ہے، اس کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں.ویسے تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کا تعلق ہے اور کس کا نہیں ہے؟ مگر جہاں تک ان کے خواہر کا تعلق ہے، جہاں تک ان کے نظر آنے والے اعمال کا تعلق ہے، ان میں اینی کمزوریاں نہیں ہونی چاہئیں کہ جب وہ دوسروں کو نصیحت کریں تو وہ ان کی کمزوریاں انہیں دکھائیں.اس کے علاوہ جہاں تک ممکن ہو، ان خواتین کومختلف زبانیں بھی آنی چاہئیں.انگریزی اگر آتی ہو تو چونکہ دنیا کا ایک بڑا حصہ انگریزی جانتا ہے، اس لئے اس سے گزارہ چل سکتا ہے.علاوہ ازیں اگر دوسری مشرقی زبانیں آتی ہوں تو بہت بہتر ہے.اور زبانوں سے متعلق میں نے پچھلے سال بھی کہا تھا کہ زبانیں سکھانے کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.عربی کے علاوہ مشرقی اور یور چین زبانیں سکھانی چاہیں.پس ایسا مرکزی دورہ ہونا چاہیے، جو اس بات کی نگرانی کریں اور واپس آکر رپورٹ کریں کہ ہم نے فلاں فلاں لجنہ میں کیا کیا خامیاں دیکھیں؟ اور کس پہلو سے ان کی تربیت کی ؟ سب سے بنیادی چیز جس کی آج ضرورت ہے، وہ عورت کی آزادی ہے.ہماری عورتیں اس بات کا حق رکھتی ہیں کہ انہیں آزادی دلائی جائے.مگر کس چیز سے آزادی؟ اس کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں.آسٹریلیا ہی میں ایک عیسائی نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ مجھے بتائیے ، باقی باتیں تو سب ٹھیک ہیں، بعورت کی آزادی کے متعلق آپ کیا کوشش کر رہے ہیں؟ میں نے اسے جواب دیا کہ عورت کی آزادی کا مسئلہ میرے لئے سب سے زیادہ پریشان کن ہے.اور سب سے زیادہ مجھے اس بات کی فکر رہتی ہے کہ ہم عورت کو کس طرح آزاد کروائیں؟ اس نے میرے جواب کے اس حصہ کو سن کر بڑی دلچسپی لی.مگر میں نے اس سے کہا کہ آپ کے آزادی اور میرے آزادی کے تصور میں کچھ فرق ہے.مجھے سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ مغربیت سے عورت کو کس طرح آزاد کروائیں؟ کیونکہ سب سے بڑا ز ہر ، سب سے بڑی ہلاکت، جس نے دنیا کو تباہ کر رکھا ہے، وہ مغربیت ہے.نہ آپ کی سوسائٹی کا اس نے کچھ رہنے دیا ہے، نہ ان مشرقی ممالک کا کوئی حال چھوڑا ہے، جو مغربیت کی ظاہری کشش سے متاثر ہو کر رفتہ رفتہ اس کے جادو تلے محصور ہوتے چلے جارہے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ اس مغربیت نے نہ آپ کو امن دیا، نہ ان پسماندہ ممالک کو امن بخشا، جہاں رفتہ رفتہ یہ اپنے جال پھیلا رہی ہے.اور لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں گھر برباد کر دیئے ہیں.عورت کی عصمت کی حفاظت کرنے کا تصور تو در کنارا سے آزادی کے نام پر جانور بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ یہ آزادی محض چند بد بخت عیاشوں کا تصور ہے، جو انہوں نے ساری دنیا کی عورتوں کو اپنا غلام بنانے کے لئے اختیار کیا ہے.آج عورت کھلونا بن گئی ہے اور ایک ادنی 688
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1983ء ترین جنسی سکون کے حصول کا ذریعہ بنادی گئی ہے.آپ کے سامنے تو میں مفصل بیان نہیں کر سکتا لیکن ان کے سامنے کسی حد تک کچھ باتیں بیان کیں کہ آج کل جو مغربی تہذیب پر نظر رکھنے والے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کس قدر وحشیانہ طریق پر عورت کو ان مقاصد کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، جن مقاصد کے لئے وہ پیدا کی گئی تھی.اس کی عزت و احترام کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے.صرف ایک کھیل بنایا جارہا ہے اور ایک دھوکا دیا جا رہا ہے.اور پھر آزادی کے نام پر اس سے مزدوریاں بھی لی جارہی ہیں، گھر کے بوجھ بھی اور باہر کے بوجھ بھی اس پر ڈالے جارہے ہیں.حالانکہ اسلام اقتصادی لحاظ سے مرد کے کندھے پر ذمہ داری ڈالتا ہے.عورت کو منع نہیں کرتا ، اگر وہ چاہے تو کمائے.لیکن ذمہ داری مرد کی ہے.اور اگر مرد اسلام کے مطابق عمل نہیں کرے گا ، اگر وہ خود ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے عورت کے مال پر، اگر وہ کمارہی ہے، نظر رکھے اور اسے مجبور کرے کہ وہ بچوں پر خرچ کرے تو اس عورت کی مرضی ہے اور اسے آزادی ہے، چاہے تو کرے، چاہے تو نہ کرے.اسلام نے اس معاملہ میں اسے کلیہ آزادی عطافرمائی ہے.لیکن مغربی تہذیب اسے دن بدن اقتصادی شکنجوں میں بھی جکڑ رہی ہے.اور پھر اس کے حقوق بھی وہ نہیں ، جو اسلام دیتا ہے.مثلاً وراثت میں عورت کوئی حق نہیں پاتی.سوائے اس کے کہ آج کل کی آزاد سوسائٹی میں جہاں عیسائیت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، وہاں بعض صورتوں میں رواج کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے.بعض عورتیں ایسے لوگوں کا ورثہ پا جاتی ہیں، جن کے پاس کوئی مرد ورثہ لینے کے لئے نہیں رہتا، یا اتفاق سے کوئی بڑھیا کسی لڑکی کو پسند کرتی ہے اور اس کے نام پر کچھ لکھ جاتی ہے.مگر جہاں تک مغربی دنیا کے دستور کا تعلق ہے، عام دستور یہی ہے کہ عورت ورثہ نہیں پائے گی اور کمائی میں شریک ہوگی اور سخت کام بھی برابر کے کرے گی اور پھر اسے مرد کے مقابل پر پیسے بھی کم دئے جائیں گے.چنانچہ آسٹریلیا کی عورتوں نے مجھے بتایا کہ آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں، یہاں تو بڑا ظلم ہورہا ہے.ہم سے کام پور الیا جاتا ہے اور وہی کام جو مرد کرتا ہے، اسے ہم سے دگنے پیسے دیتے ہیں اور عورت سمجھ کر ہمیں پاگل بنا رہے ہیں کہ تم کم کام کر سکتی ہو.حالانکہ PRODUCTION کے لحاظ سے OUT PUT کے لحاظ سے ہم اتنا ہی کام کرتی ہیں.تو حقیقت میں یہ بہت بڑا دھوکا ہے، دجالیت ہے، جس نے ساری دنیا میں عورتوں کو پاگل بنانے کا انتظام کر رکھا ہے.پس اسلام ہے، جو آپ کو ان سب چیزوں سے آزادی دلا رہا ہے.تو میں نے ان صاحب کو سمجھایا کہ مجھے تو تم سے بہت زیادہ آزادی کی فکر ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ عورت کو مغربیت سے آزاد.689
اقتباس از خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کرانا، سب سے بڑا مسئلہ ہے.کیونکہ اس میں ظاہری طور پر چمک پائی جاتی ہے.ظاہری طور پر جو وقتی قدم ہے، وہ یقینا سہولت کا اٹھتا ہے.اس لئے ہماری مستورات، جو ایک دفعہ مغربی سوسائٹی سے متاثر ہو جاتی ہیں، انہیں واپس کھینچ لانا، ایک بہت بڑا کام ہے.انہیں بڑی مشکل سے سمجھانا پڑتا ہے، انہیں بتانا پڑتا ہے کہ آپ کے لئے زیادہ عزت، زیادہ سکون، زیادہ اطمینان اسلامی تعلیم کے دائرے میں رہنے سے ہے.اس پہلو سے میں لجنہ کو خاص طور پر ایک ایسے سوال کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، جو بار بار مختلف صورتوں میں میرے سامنے رکھا گیا ہے.بہت سی کارکنات، جو اس معاملے میں بہت کوشش کر رہی ہیں کہ اسلامی تہذیب کو رائج کریں اور ان خواتین کو جو احمدیت سے بھی تعلق رکھتی ہیں لیکن بدقسمتی سے رفتہ رفتہ مغرب زدہ ہو گئیں.انہیں واپس کھینچ کر لائیں.ایسی کارکنات کی طرف سے کئی صورتوں میں مجھ سے سوال ہوا ہے کہ فلاں نہیں مانتی اور فلاں نہیں مانتی ، اس لئے بتائیں کہ ہم کیا کریں؟ جہاں تک سوال کا تعلق ہے، یہ جائز ہے.لیکن اس سوال کے پیچھے میں نے بعض دفعہ غصہ کے سختی کے آثار پائے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ کارکنات یہ چاہتی ہیں کہ ہمیں کوئی جبر کا پروانہ پکڑاؤ کیونکہ یہ عورتیں باتوں سے نہیں مانتیں یا ان کا اخراج جماعت کر دیا مقاطعہ کر دیا ان پر بہت سختیاں کرو اور انہیں خوب کھلی کھلی سناؤ تا کہ کچھ ہمارے دل ٹھنڈے ہوں، کچھ ان کے دل جلیں اور ان کو پتہ تو چلے کہ جن کا انکار کیا کرتی تھیں، ان کا بھی کوئی طرفدار ہے.تو یہ وہ روح ہے، جو پسندیدہ نہیں ہے.مجھے آپ کی تربیت کے لئے ہر بار توجہ دلانی پڑتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل اپنائے بغیر تربیت نہیں ہو سکتی.وہ دل سختی کا دل نہیں تھا، وہ دل غصے اور نفرت کا دل نہیں تھا.وہ دل ایک دردمند دل تھا، جس کا نام رحمۃ للعالمین رکھا گیا.پس جب تک آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل اختیار نہیں کرتیں، اس وقت تک آپ صحیح معنوں میں ناصح بنے کی اہل نہیں بنتیں.اس لئے سختی کی طرف مائل نہ ہوں.بعض اوقات ہوسکتا ہے کہ انتظامی اقدامات بھی کرنے پڑیں.لیکن سختی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ وہ بھی دردمندی کے نتیجہ میں ہوں گے.اس لئے نہیں کہ بعض عورتوں کو ہم کہیں گے کہ اچھا تم نہیں مانتیں تو پھر جبر ہے اور ہم تمہیں نکال کر باہر کریں گے.اس کے پیچھے ہر گز یہ روح نہیں ہوگی.بلکہ مجبور شاید ایک ایسا وقت آئے کہ یہ روح اس کے پیچھے کام کرے کہ ہماری وہ بچیاں ، جو صحیح فطرت ہیں اور باتیں مانتی ہیں ، ان پر بعض لوگوں کا یہ اثر پڑ رہا ہے اور انہیں بچانے کی خاطر یہ بہت ہی مجبوری در پیش ہے کہ اب انہیں اپنی سوسائٹی سے الگ کر دیا جائے ، جو بداثر ڈالنے والیاں ہیں.اس نقطہ نگاہ سے کہ شاید یہ 690
اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1983 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقدام ان کے دلوں میں تبدیلی کا موجب بن جائے اور انہیں ہلا کر رکھ دے.اس لئے بعض دفعہ اس نوع کی اصلاحی کاروائیاں اس خیال سے بھی کرنی پڑتی ہیں.لیکن جو کرتا ہے، اس کا بھی دل دکھتا ہے.بلکہ بعض اوقات زیادہ دکھتا ہے.میرا تجربہ ہے کہ بعض اوقات جنہیں نکالا گیا ہے، ان کے دل کم رکھتے ہیں اور جو نکالنے والا ہے، اس کا دل زیادہ دکھتا ہے.تو یہ فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کے تابع ہی ہوتا ہے.اگر نہ ہو تو اس میں کوئی برکت نہیں پڑ سکتی.پس آپ میں سے، جو نصیحت کا علم بلند کر رہی ہیں اور اس سلسلہ میں بہت محنت کر رہی ہیں، میں جانتا ہوں کہ انہیں دن رات یہی دھن سوار ہے کہ ہم کسی طرح احمدی عورتوں کی تربیت کریں اور ان کو مغربیت کے اثر سے بچا کر واپس لے آئیں، انہیں میں کہتا ہوں کہ حوصلہ، ہمت اور صبر سے کام کریں.نصیحت کریں اور اس نصیحت میں محبت اور پیار شامل کر دیں.تو اس طرح آپ کی نصیحت ، پیار، محبت اور سادگی کے ساتھ قوت پا جائے گی.نصیحت میں صرف ان کی محبت نہ ڈالیں بلکہ اس میں اپنے اللہ کی محبت ڈال دیں اور اللہ کا تقوی شامل کر دیں.پس یہ وہ چیزیں ہیں، جونصیحت کو غیر معمولی قوت عطا کر دیتی ہیں.بڑی بڑی پڑھی لکھی تعلیم یافتہ عورتوں کی بات جہاں ضائع چلی جاتی ہے، جہاں بے نتیجہ ثابت ہوتی ہے، وہاں متقی اور خدا سے محبت کرنے والی عورت کی زبان بہت زیادہ قوی ثابت ہوتی ہے اور دل پر بہت زیادہ اثر رکھنے کی طاقت رکھتی ہے.چنانچہ مجھے یاد آیا کہ چور ہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی کتاب ”میری والدہ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے والدہ سے یہ سوال کیا کہ ہم تو بڑی لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں اور کافی دلائل دیتے ہیں اور سرکھپاتے ہیں مگر ہماری بات کا اتنا اثر نہیں ہوتا، جتنا آپ کے چند کلموں کا ہو جاتا ہے.مجھے بھی یہ راز بتائیں کہ آخر کیا بات ہے؟ کیا طاقت ہے، آپ کی بات میں؟ جس کی وجہ سے آپ کی بات جلدی اثر کر جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ آپ کی بات کا اثر قبول کر کے احمدیت میں داخل ہوتے ہیں.تو ان کی والدہ نے انہیں کہا کہ بیٹا! میں تو لاعلم عورت ہوں، میں تو کچھ بھی نہیں جانتی.کوئی علم مجھے نہیں ہے لیکن میرے پاس دو باتیں ہیں، میں تو انہی کی قوت سے کام کرتی ہوں.ایک خدا کا تقوئی ہے اور دوسرے اللہ کی محبت ہے.مجھے پتہ نہیں کہ یہ کس طرح اثر کرنے والی چیزیں ہیں؟ لیکن میرے پاس صرف یہی دو چیزیں ہیں ، اس کے سوا میرے پاس کوئی چیز نہیں.حقیقت یہی ہے کہ جب یہ دو ہتھیار نصیحت کرنے والے میسر آجائیں تو یہ ہتھیار کبھی ناکام نہیں ہوا کرتے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی تو یہی ہتھیار تھے، آپ تو امی تھے، دنیا کے علم سے تو 691
اقتباس از خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم آپ بے بہرہ تھے لیکن ساری دنیا کے معلم بنائے گئے.اور جب آپ " کو رحمتہ للعالمین کہا گیا تو اس کی بنیاد بھی اللہ کی محبت ہی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جو خالق سے سچی محبت کرتا ہے ، وہ اس کی مخلوق سے بھی لازماً محبت کرتا ہے.اور مخلوق سے محبت کے سارے دعوے جھوٹے ہیں.اگر خالق کی محبت میں اس کی جڑیں نہ ہوں اور وہ دعوے عارضی ثابت ہوتے ہیں اور معمولی زلازل سے بھی ان کا پول کھل جاتا ہے.خدا کی محبت کے بغیر دنیا میں بنی نوع انسان کی ہمدردی کی جتنی بھی سوسائٹیاں ہیں، جب بھی قوموں پر مصائب کے دن آتے ہیں تو ان کی محبت کا کھو کھلا پن ظاہر ہو جاتا ہے.جب اپنی خود غرضیوں سے دوسروں کے مصائب ٹکرائیں تو وہی دل انسان کے لئے بڑے ظالم بن جاتے ہیں.پس حقیقت یہی ہے کہ بنی نوع انسان کی سچی محبت، اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہی پیدا ہوتی ہے.اس راز کو سمجھئے اور جب آپ خدا تعالیٰ کی محبت اور تقویٰ سے بات کریں گی تو لازماً اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ آپ کے دل میں بات نہ مانے والوں کے خلاف نفرت پیدا نہیں ہوگی بلکہ ان کے لئے ہمدردی پیدا ہوگی ، ان پر رحم آئے گا کہ ہم ان کی بھلائی کے لئے کام کرتی ہیں اور یہ ہماری بات نہیں مان رہیں.اگر اس طرح نصیحت کریں گی تو مجھے نظر آرہا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ احمدی عورتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے نیکی قبول کرنے کا مادہ رکھتی ہیں.آپ صبر سے کام لیں تو دن بدن آپ کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جائے گا.وہ عورتیں ، جو آپ کو BORDER پر یعنی احمدیت کے کناروں پر نظر آرہی ہیں، وہ اندر کی طرف حرکت کرنی شروع کریں گی.اور ہمیں نظر آرہا ہے کہ ساری دنیا میں کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے، جہاں احمدی عورت نے یہ بات ثابت نہ کی ہو کہ نیکی کے اثر کو قبول کرنے کا مادہ اس میں موجود ہے.اس لئے گھبراہٹ کی کوئی ضرورت نہیں.یہ دیکھیں کہ دن بدن آپ کی زمین پھیل رہی ہے کہ نہیں.آج کا اجتماع بھی اس بات کا مظہر ہے کہ لجنہ اماءاللہ کی زمین اللہ کے فضل سے پھیلتی جارہی ہے.لوگ زیادہ سے زیادہ لجنہ کے اثر کے تابع آتے چلے جارہے ہیں.اس لئے مایوسی کا کون سا مقام ہے.آپ کو تو یقین سے بھر جانا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کوششیں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت پارہی ہیں اور دن بدن خدا تعالیٰ ان کو برکت دیتا چلا جارہا ہے.جب اللہ تعالیٰ سے محبت کی بات ہو تو تعلق باللہ ، جس کے نتیجہ کی طرف بھی ذہن پھر جاتا ہے.وہی در اصل انسانی زندگی کی غذا ہے، روحانی زندگی کی غذا ہے.جس کے نتیجہ میں انسان دنیا کی زندگی سے کٹ کر بھی لذت کی زندگی پالیتا ہے.جب ہم مغربیت سے آزادی کی بات کرتے ہیں تو بظاہر یہ ایک منفی بات ہے.بظاہر ایک پیغام ہے کہ تم دنیا کی لذتوں سے کٹ جاؤ اور خدا کی خاطر ایسا کرو.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم لذتوں 692
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1983ء سے محروم کرنا چاہتے ہیں.ہم تو انہیں تعلق باللہ کی لذتوں کی طرف بلاتے ہیں.اور اگر ایسانہ کریں تو پھر ہماری کوششیں دیر پا ثابت نہیں ہو سکتیں.دن بدن ہماری احمدی عورتوں میں اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہنا چاہیے.اور جگہ جگہ ہر مجلس میں ایسی مستورات پیدا ہونی چاہئیں، جو دکھاوے کی دعا گو نہ ہوں.ان میں انکسار ہو، ان میں دنیا سے چھپنے کی تمنا ہو لیکن اس کے باوجود ان سے خدا کی محبت کی خوشبو آ رہی ہو.اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی تائید کے نظارے ان کے ہاتھوں پر ظاہر ہو رہے ہوں.جب تک جگہ جگہ ایسی مستورات پیدا نہیں ہو جاتیں، اس وقت تک آپ کی کوششوں کو دوام نہیں مل سکتا.دوام تو تبھی ملے گا، جب ایسے کچھ نمونے ہر جماعت میں پیدا ہونے شروع ہوں گے، جہاں دیکھنے والے دیکھیں کہ ہاں اس درخت کو پھل لگتے ہیں.اور پھل بھی ایسے لگتے ہیں کہ ان کی خوشبو کا مقابلہ نہیں ہو سکتا.ان کے مزے کا مقابلہ نہیں ہوسکتا اور پھر وہ گلتے سڑتے نہیں ہیں بلکہ دائمی رہتے ہیں.اور وہ تعلق باللہ کے پھل ہیں، جو انشاء اللہ تعالیٰ احمدی خواتین کو زیادہ مضبوطی اور زیادہ قوت ایمانی عطا کرتے چلے جائیں گے.جہاں تک کوشش اور توجہ کا تعلق ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ کوشش دل میں ایک تبدیلی سے شروع ہوتی ہے.اور وہ تبدیلی اتنی ہلکی اور نہ نظر آنے والی ہے کہ آپ محسوس نہیں کر سکتیں کہ کب واقعہ ہو گیا؟ لیکن اس کے نتیجہ میں آپ کی بعد کی زندگی تبدیل ہو جاتی ہے.آپ کی کایا پلٹ جاتی ہے، اس ایک واقعہ کے ساتھ.اور وہ دل کا ایک فیصلہ ہے کہ میں نے اپنے اللہ کو دنیا پر ترجیح دینی ہے.ہر بات میں یہ ثابت کرنا ہے کہ میری محبت کچی ہے اور میں اپنے رب کے لئے جیتی ہوں.وہ محبت جو محض جذباتی ہو، اس کے نتیجہ میں تبدیلیاں پیدا نہیں ہوا کرتیں.وہ محبت جو زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کی اہل ہو اور عمل میں راسخ ہو جائے ، وہی محبت ہے، کام کی محبت ہے.پس اس خدا سے تعلق جوڑیں تو پھر اس کا حق ادا کریں اور یقین رکھیں کہ یہ تعلق آپ کی زندگیاں بھی سنوار دے گا.اور آپ کی آئندہ نسلوں کی زندگیاں بھی سنوار دے گا.اور اللہ تعالی نسلاً بعد نسل محبت اور پیار کا سلوک آپ پر فرماتا رہے گا.پس ہم کسی وہم اور کسی نظریاتی جنگ میں مبتلا نہیں ہیں.ہم ایک حقیقت لے کر دنیا کے سامنے نکلے ہیں اور ہم دنیا کو یہ بتارہے ہیں کہ ہمارا خدا ہماری عورتوں سے بھی محبت کرتا ہے.تم کس آزادی کی فکر کر رہے ہو.یہ وہ آزادی ہے، جو دنیا کی تمام آلائشوں سے پاک کر کے عورتوں کو باخدا بنا دیتی ہے.پس ایسی عورتیں آپ کو ہر جگہ پیدا کرنی پڑیں گی.عورتیں ہی ہیں، جنہوں نے حقیقت میں دنیا میں انقلاب برپا کرنا ہے.پس میں آپ کو تعلق باللہ کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہوں.راضی نہ ہوں، جب تک ہم میں سے ہر ایک یہ دیکھ نہ لے کہ خدا اس کے ساتھ ہے“.وو ہے 693
اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1983ء 3.5 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ہمیں تمام دنیا میں بہت بڑے کام کرنے ہیں اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، میرے نزدیک سب سے اہم چیز تعلق باللہ والی عورتوں کا پیدا ہونا ہے.اس کام کو آپ بچپن سے شروع کریں کیونکہ یہ کام وقت لیتا ہے.یہ تو نہیں ہوا کرتا کہ ایک ہی لمحہ میں آپ تعلق باللہ والی عورتیں بن جائیں.آپ فیصلہ تو کر لیں گی لیکن پھر وقت لگے گا اور اللہ تعالیٰ حسب حالات آپ سے رحمت کا سلوک فرمائے گا، آپ کے قریب ہوگا، آپ پر ظاہر ہوگا.لیکن اللہ تعالیٰ ہر شخص پر اس کے ظرف کے مطابق ظاہر ہوتا ہے.یہ خیال نہ کریں کہ فوراً آپ پر الہامات شروع ہو جائیں گے اور جب تک اللہ تعالیٰ آپ کو اچانک یہ کہنا نہ شروع کر دے کہ میں تیرے ساتھ ہوں، آپ کی تسلی نہ ہو.خدا تعالیٰ کا تعلق دل میں پیدا ہوتا ہے اور دل میں ہی اطمینان پیدا کرتا چلا جاتا ہے.جس کا تعلق اپنے رب سے ہو جائے ، وہ محسوس کرنے لگ جاتا ہے یا محسوس کرنے لگ جاتی ہے.اور دونوں صورتوں میں مرد ہو یا عورت ، دن بدن اپنے دل میں ایک امن کا احساس اور امن کا ایک جذبہ محسوس کرتا ہے، جسے الفاظ میں بیان کرنے میں، میں مشکل پا رہا ہوں.وہ اپنے دل میں ایک یقین محسوس کرتا ہے کہ میں اپنے رب کے قریب ہوتا جارہا ہوں اور وہ یقین دن بدن بڑھتا چلا جاتا ہے“.اس لئے اس بات کا بھی خیال کریں کہ خدا سے محبت میں آپ جتنا آگے بڑھیں گے، اتنا ہی زیادہ آپ کو عجز میں بھی آگے بڑھنا پڑے گا.اور دونوں میں دراصل چولی دامن کا ساتھ ہے.ہماری زندگیاں محدود ہیں اور ذمہ داریاں بہت وسیع ہیں.میں تو سفر کے دوران بھی حیران رہا اور سفر کے بعد بھی میرے دل میں اور زیادہ یقین پیدا ہو گیا کہ ہماری ساری بھی اجتماعی قوتیں اس قابل نہیں ہیں کہ وہ انقلاب پیدا کرسکیں ، جس انقلاب کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے.سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہے.بے اختیاری کا عالم ہے.جب تک ہم خدا سے تعلق کرنے والوں کی تعداد میں ہم اضافہ نہیں کرتے ، ہم دنیا میں یہ انقلاب بر پا نہیں کر سکیں گے.اس لئے میں آپ کو بار بار کہتا ہوں کہ مجھے عورتوں میں سے بھی ضرورت ہے، خدا والیوں کی، مجھے بچوں میں سے بھی ضرورت ہے، خدا والوں کی، مجھے نوجوانوں میں سے بھی ضرورت ہے، بوڑھوں میں سے بھی ضرورت ہے.یہی وہ سرمایہ ہے، جس کے ساتھ آج اسلام نے دنیا میں ترقی کرنی ہے.یہی وہ ہتھیار ہیں، جنہوں نے دنیا کے دل جیتنے ہیں اور دنیا میں انقلاب برپا کرنے ہیں.خدا کرے کہ ہمیں یہ توفیق نصیب ہو.(آمین).( مطبوعہ روزنامہ الفضل 10 جنوری 1984ء، مطبوعہ ماہنامہ مصباح دسمبر 1983ء) 694
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء جذ بات کو واقعات سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء مشرق بعید کے دورہ سے کامیاب مراجعت پر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے اعزاز میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے استقبالیہ کی ایک تقریب منعقد کی گئی، اس موقع پر حضور نے حسب ذیل خطاب فرمایا:.اس موقع جو سپاسنامہ پیش کیا گیا، اس کے متعلق حضور نے فرمایا:.وو سپاسنامہ تو مناسب نہیں ہے کہ خواہ مخواہ بیٹھ کر میری تعریف شروع کر دیں، نعوذ باللہ من ذلک.یہ فضول رسم ہے.اگر ویسے سفر سے میری واپسی پر اللہ تعالیٰ کے شکر کے اظہار کے طور پر کچھ کہنا چاہتے ہیں تو پھر بے شک کہیں.سپاسنامے پیش کرنے کی رسم کو توڑیں، اس بات کو ختم کریں.یہ فضول چیز ہے، اس سے بچیں.ہاں، اس موقع پر دعائیہ کلمات کہہ دیئے جائیں تو اچھی بات ہے.لیکن لمبے چوڑے سپاسنامے پیش کرنے سے پھر آہستہ آہستہ آپ غلط راستوں پر چل پڑیں گے.ایک وقت تک ہو گیا، اگر ہوا ہے.بات حد کے اندر ر ہے تو ٹھیک رہتی ہے.لیکن جتنا آپ دور نبوت سے دور جاتے ہیں، اتنا احتیاط زیادہ کرنی پڑتی ہے.ورنہ یہ چیزیں اگر شروع میں معصومیت میں بھی کی گئی ہوں تو پھر آگے جا کر ان سے بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے.پھر خواہ مخواہ زمین آسمان کے قلابے ملنے شروع ہو جاتے ہیں.اس لئے میں ان چیزوں کو پسند نہیں کرتا.اب آپ نے کچھ کہنا ہے تو وہ جو مبالغہ آمیزیاں ہیں، ان کو چھوڑ کر آپ بے شک کہیں.اگر اس میں کوئی غلط بات ہوئی تو میں کہہ دوں گا کہ یہ غلط ہے.تشہد وتعوذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا:.میں مجلس خدام الاحمدیہ کے تمام راکین کا مجلس عاملہ کا بھی اور مجالس عاملہ کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس دعوت پر مجھے مدعو کیا اور اپنے اس خطاب میں جو ابھی استقبالیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اس میں جملہ خدام کی قربانی کے جذبات کو نہایت عمدہ لفظوں میں پیش کیا گیا ہے.یہ درست ہے کہ ہر احمدی کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت میں فدا ہونا چاہیے اور یقیناً اس کے دل کے جذبات وہی ہوں گے، جو پیش کئے گئے ہیں.یعنی یہ کہ جان، مال، عزت، آبر و غرضیکہ زندگی کا ذرہ ذرہ 695
خطاب فرموده 123 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک خدا کے دین پر نچھاور کرنے کے لئے تیار رہیں گے.لیکن اگر آپ واقعاتی لحاظ سے حالات پر نظر ڈال کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ہمارے اندر بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں.نظریاتی قربانیوں کا معیار اونچا ہے اور عملی قربانیوں کا معیار نیچا ہے.اور ان کے درمیان پلیٹ فارمز کا فرق ہے.ایک اور پلیٹ فارم پر واقع ہے اور دوسری اور پلیٹ فارم پر واقع ہے.تاہم یہ مراد نہیں ہے کہ نعوذ باللہ سب کا یہ حال ہے.سب ایسے نہیں.لیکن ایسے واقعات کثرت سے نظر آتے ہیں کہ جب ادنی ادنی ابتلاء آئیں تو لوگ گھبرا جاتے ہیں.چھوٹی سی قربانی کرنی پڑے تو بعض پیچھے ہٹ جاتے ہیں.قائد خدام الاحمدیہ بلانے کے لئے جاتا ہے تو اندر سے پیغام آجاتا ہے کہ ابا جان گھر پر نہیں ہیں.قائد مجلس کسی اجلاس کے لئے ان کو روکتا ہے.تو کہتے ہیں، ہمیں جلدی ہے، ہم نے جاتا ہے.ان کا نفس کئی بہانے بناتا ہے.ان واقعات کو دیکھ کر محض لفظوں پر دل کس طرح تسلی پاسکتا ہے.اس لئے میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جذبات کے لحاظ سے یہ درست ہے کہ ہمیں تیار ہونا چاہیے.لیکن نظریات کو جب تک واقعات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کریں گے، جب تک جذبات کو واقعیت عطا نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم بڑے انقلابات کے خواب نہیں دیکھ سکتے.دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کی کوئی تعبیر نہیں ہوگی.کیونکہ یہ بھی خواہیں ہیں اور وہ بھی خواہیں ہیں.ان سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.اس لئے میں آپ کو پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک خلافت کے ساتھ محبت کا تعلق ہے، اس کا اظہار بے شک کریں.میں خود اس دور سے گذر چکا ہوں.میرا اپنا بھی جذبہ تھا، میری اپنی بھی یہی کیفیت تھی اور اب بھی ہے، جو آپ کی ہے.منصب خلافت کی خاطر میری ہر چیز قربان ہے.ان جذبات میں تو کوئی مبالغہ نہیں ہے.یہی ہونا چاہیے.کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے جو دنیا کو ایک لمبے عرصہ کی محرومی کے بعد دوبارہ عطا ہوا ہے، اس لئے اس کو میں ہرگز مبالغہ نہیں کہتا.خلافت سے محبت وعقیدت کے جذبات کو بڑھنا چاہیے.مگر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جذبات محبت کو حقیقت بھی تو بننا چاہیے.صرف دلوں کے ساتھ کھیلنے والے جذبات نہیں ہونے چاہئیں.صرف نظریات میں بسنے والے جذبات نہیں ہونے چاہئیں بلکہ تمام عہدیداران کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہر احمدی کے قربانی کے معیار کو بلند کیا جائے.اور جب اس کا دل کسی تقاضے سے گھبرائے تو اس کو نچو کا دیا کریں، اس کو جگایا کریں، اس سے پوچھا کریں کہ تم یہ جو باتیں کرتے ہو کہ ہم یہ کریں گے، وہ کریں گے اور ہر دفعہ عہد دوہراتے ہوئے کہتے ہو کہ میں جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا.تو کیا یہ دم ، وہ دم نہیں ہے، جس دم کے تم نے وعدے کئے تھے؟ کیا یہ عزت ، وہ عزت نہیں ہے؟ کیا یہ مال، وہ مال نہیں ہے؟ جسے قربان کرنے کے لئے تم نے عہد کیا تھا.696
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء حقیقت یہ ہے کہ عزتوں کی قربانی میں بھی معیار بہت کمزور ہے.کیونکہ بہت سی باتوں پر لوگ بڑی جلدی سیخ پا ہو کر شکایتیں بھیجتے رہتے ہیں کہ یوں ہماری عزت میں فرق پڑ گیا.فلاں نے اس طرح ہم سے سلوک کیا، فلاں نے یوں کیا.حالانکہ زندگی کی یہ ساری باتیں ہمارے عہد کے اندر داخل ہیں.یہ باتیں ہوتی رہتی ہیں.اگر کسی عہدیدار کی غلطی سے کسی کی بظاہر بے عزتی بھی ہو جائے ، تب بھی جس نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ میرا رہا ہی کچھ نہیں، سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان ہے.وہ شکایت تو بعد میں کر دے تا کہ زیادتی کرنے والے کی اصلاح ہو جائے.لیکن اپنا صدمہ اس کو نہیں ہونا چاہیے.کیونکہ جس کے دل میں سچا ایمان اور خلوص ہوتا ہے، بہر حال اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ جتنا میں کسی کی غلطی سے گرایا گیا ہوں، اتنا اللہ کی نظر میں اٹھایا گیا ہوں اور خدا کی نظر میں میرا مرتبہ بڑھ چکا ہے.یہ ہے وہ حقیقت حال ، جس کے ساتھ خدام کو زندہ رہنا چاہئے.دوسری بات میں یہ کہوں گا کہ اس وقت قرآن کریم کی تلاوت کے لئے جن آیات کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ کچھ اس قسم کی باتیں سپاسنامہ میں کریں گے.چنانچہ سپاسنامہ کے بارے میں میرار عمل اسی وجہ سے تھا.میں نے آپ کو بارہا سمجھایا ہے.میرا فرض ہے، میں آپ کو سمجھاؤں ، آپ کے جذبات محبت کی قدر بھی کروں لیکن آپ کو حقائق کی دنیا میں رکھوں اور آپ کے دائرہ کار سے آپ کو باہر قدم نہ رکھنے دوں.قرآن کریم کی اس طرح کی تفسیر کر دینا کہ گویا کہ ایک خلیفہ وقت نے پچھلے سال مغرب کا سفر کیا اور پھر اب مشرق کا سفر کیا تو گویا وہ ذوالقرنین بن گیا، سیج نہیں ہے.یہ تو انسان کے بس کی باتیں نہیں ہیں.نہ آپ کے ساتھ اس کا تعلق ہے.تفسیر قرآن اگر کرنی ہے تو اس نے کرنی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا.جس کو اس منصب پر مقرر کیا ہے، اس کی جب رہنمائی فرمائے گا تو وہ تفسیر کرے گا.لیکن ان باتوں میں اتنی جلدی فیصلے کر لینا اور ان کو قوی فیصلے بنالینا اور ان کو نعروں میں اتار لینا اور سپاسناموں میں پیش کرنا، یہ چیز مجھے پسند نہیں ہے.اور اس لئے پسند نہیں ہے کہ یہ غلط طریق ہے.مجھے اس میں خطرات نظر آرہے ہیں.اگر اس رجحان کو بند نہ کیا جائے تو اس طرح قوم آہستہ آہستہ بگڑنے لگ جاتی ہے.پس اس کا ایک فائدہ تو ہو گیا ہے کہ جو غلطی مجھے نظر آرہی تھی، وہ کھل کر سامنے آگئی.پہلے اشاروں اشاروں میں باتیں ہو رہی تھیں اور میں انتظار میں تھا کہ کہیں کھل کر باتیں ہوں تو میں پکڑوں.ذوالقرنین کے متعلق قرآن کریم میں جو مضمون بیان ہوا ہے، ایک بہت وسیع مضمون ہے.اس کو ایک چھوٹے سے دائرے میں محدود کر کے بچگانہ ترجمہ کرنا صحیح نہیں ہے.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ 697
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء وسلم کے عظیم دور سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے، جو کئی ٹکڑوں میں پھیلا ہوا ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے اور عجز کے ساتھ اس سے مانگا جائے کہ خدا موجودہ خلافت کے دور میں بھی اس کی بعض خوشکن صورتیں ظاہر فرمادے اور ہمیں اس کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ تو بڑی نیک خواہش ہے، اس کے لئے دعا کرنی چاہیے.نہ کہ نعرہ بازی کرنی چاہیے.حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ اس مضمون کی تفصیل میں جائیں تو پتہ لگتا ہے کہ مغرب میں جانے اور مشرق میں آنے کا اس سے کوئی تعلق نہیں.البتہ اس کا ایک پہلو ہے، جس کا حضرت مسیح موعود علیہ لصلوۃ و السلام کے زمانہ سے تعلق ہے.مشرق اور مغرب کے سفر کی جو تمثیل ہے، وہ اور رنگ میں پوری ہوئی ہے.اصل بات یہ ہے کہ خدا نے دنیا کو دورشتوں میں تقسیم کر رکھا تھا اور مغرب اور مشرق کے درمیان تقدیر الہی کی ایک دیوار حائل تھی.مشرق کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ موجزنی کرتے ہوئے مغرب پر حاوی ہو جائے یا مغرب موجزنی کرتے ہوئے مشرق پر حاوی ہو جائے.حیرت انگیز ہے قرآن کریم کا یہ کلام ، جو گزشتہ ساری تاریخ میں پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے.چنانچہ مشرق کی موجیں چلتی تھیں تو کبھی وی آنا سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی تھیں اور کبھی سپین تک پہنچتیں اور واپس آگئیں.آگے بڑھ کر ان کو مغربی دنیا میں داخل ہونے کی توفیق نہیں ملی.مؤرخین یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور ان کو وجہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا بات ہے کہ مشرق سے ایک رو چلتی ہے اور مغرب سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہے اور اسے مغرب میں داخل ہونے کی توفیق نہیں ملتی ؟ حالانکہ اس وقت مشرق طاقتور تھا.مشرق کو مغرب کی حفاظت کا ذریعہ بنایا گیا تھا.کیونکہ خدا کی تقدیر نے مغرب کو اٹھانا تھا اور دجال نے وہاں سے پیدا ہونا تھا.پھر دجال کو روکنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مدد مانگی جانی تھی.آپ نے روحانی طور پر وہ انتظام فرمانے تھے، جس کے نتیجہ میں دجال کے بداثرات سے قوموں کو بچایا جانا تھا.پس یہ تو اس تفسیر کا ایک پہلو ہے.اس کے بعض پہلو بہت وسیع ہیں اور مختلف زمانوں میں ان کے مختلف حصے پورے ہوتے رہے ہیں.ان چیزوں کے سوچنے کا یہ وقت نہیں ہے.پہلے آپ بلوغت تک تو پہنچیں.محبت ایک الگ اور بڑی قابل قدر چیز ہے.لیکن محبت کے نتیجہ میں آپ کے اعمال میں ٹھوس تبدیلیاں رونما ہونی چاہئیں، جو آپ کی محبت کو سچا کر دکھا ئیں.محبت کے نتیجہ میں ساری قوم کو تیار رہنا چاہیے کہ جو کچھ وہ کہتی ہے، جب وقت آئے تو عملاً سب کچھ پیش کر کے اپنے دعوے کو سچا کر دکھائے.لیکن محبت کے نتیجہ میں آپ کو مبالغہ آمیزیاں کرنے یا ان مسائل میں دخل اندازیاں کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں، جو آپ کے لئے بنائے نہیں 698
تحریک جدید - ایک البی تحریک خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء گئے.کیونکہ آپ کا دائرہ کار اور ہے.ہاں اگر خدا تعالی کسی خلیفہ کو خبر دے کہ میں تمثیلی طور پر تجھے فلاں بنا تا ہوں اور وہ یہ اعلان کرے تو ہر مومن احمدی کا دل خود بخود حمد سے بھر جائے گا اور وہ تسلیم کرے گا.لیکن یہ آواز (MASSES) عوام الناس سے نہیں اٹھ کر اوپر جائے گی.یہ بالکل جھوٹا تصور ہے.اس طرح قومیں تباہ ہو جایا کرتی ہیں.جب عوام الناس کسی کے مرتبے بڑھانے شروع کردیں.بعضوں کی زندگی میں شروع کر دیتے ہیں اور بعضوں کی موت کے بعد شروع کر دیتے ہیں.یہ تاریخ کا اتنا دردناک سبق ہے اور آپ اس کو بھول جاتے ہیں.اس لئے اپنی فکر کریں اور حکمت کے ساتھ بات کیا کریں.جذبات کو الگ رکھیں.عقل اور تقویٰ کے ساتھ جذبات کو قابو میں رکھیں.اگر چہ عقل بھی جذبات پر حاوی ہے لیکن سب سے بڑی چیز ، جو جذبات پر حاوی ہوتی ہے، وہ تقویٰ ہے.پس جہاں تک آپ کی خدمت اور خلوص کے جذبات کے اظہار کا تعلق ہے ، وہ مجھے قبول ہیں.ان کے نتیجہ میں میرے دل میں بھی محبت کی جوابی لہریں اٹھ رہی ہیں.میں آپ کو ان معنوں میں نہیں ڈانٹ رہا کہ میں آپ سے ناراض ہوں.آپ کو سمجھانا میرے فرائض میں شامل ہے.اس لئے میں نے بہر حال آپ کو سمجھانا ہے.چاہے آپ کو میری بات پسند آئے یا نہ آئے.اس لئے دعا کریں کہ ذوالقرنین کی پیشگوئی، جو دراصل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے تعلق رکھتی ہے، اس کے کچھ خوشکن پہلو اللہ تعالیٰ ہمارے ذریعہ بھی پورے فرمادے.میرے ذریعہ بھی اور آپ کے ذریعہ بھی.لیکن ا وہ پورے ہوں گے تو دنیا کو نظر آئیں گے.پھر آپ کو یہ نہیں بتانا پڑے گا کہ یہ واقعہ ہو گیا ہے.دنیا دیکھے گی ، آپ کے دل حمد باری سے بھر جائیں گے اور آپ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہے گی.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیوں دماغ میں یہ باتیں آنی شروع ہوئیں؟ میں سمجھتا ہوں، اس کی وجہ بنی کی وہ ڈیٹ لائن ہے، جو مطلع الشمس بنتی ہے.یہ تو ٹھیک ہے کہ وہ مطلع الشمس ہے لیکن وہ ظاہری معنوں میں مطلع الشمس ہے.وہاں تک پہنچ کر اس لحاظ سے تو ہمارا دل ضرور ایمان سے بھر گیا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ خوشخبری دی تھی کہ زمین کے کناروں تک تمہارا پیغام پہنچاؤں گا اور مشرق تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کے پہنچنے سے آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ ذوالقرنین کی پیشگوئی کا ایک حصہ پورا ہو گیا اور معنوی طور پر احمدیت کی صداقت کے لیے پورا ہوا ہے.اس صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ذوالقرنین کے مظہر بنیں گے.مگر وہ ذوالقرنین نہیں ، جو پر انا بادشاہ بیان کیا جاتا ہے.بلکہ ذوالقرنین ان معنوں میں کہ یہ پیشگوئی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ 699
خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وسلم کے لئے اور آپ کے دو ادوار کے لئے تھی.آپ کو دو ادوار نصیب ہوئے.آپ دو قرنوں کے مالک ہیں.آپ کے ایک دور کے مظہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں تو ان معنوں میں یہ درست ہے کہ یہ پیشگوئی کچھ پہلے پوری ہو چکی ہوگی اور آئندہ بھی پوری ہوتی رہی گی.لیکن ایک خلافت کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا ایک سلسلہ ہے، جو ہمیشہ سے جاری ہے.اس دفعہ جو کچھ حصہ پورا ہوا ہے، اس کا ایک پہلو میں بیان کر دیتا ہوں.ابھی جب یہ تلاوت ہو دفعہ رہی تھی، اس وقت مجھے خیال آیا کہ جہاں تک مطلع الشمس کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر جغرافیائی نقطۂ نگاہ سے کسی جگہ کو مطلع الشمس قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ وہی DATE LINE ہے.کیونکہ ویسے تو سورج چونکہ 24 گھنٹے ہر وقت ابھر رہا ہے.اس لئے یا تو ساری دنیا مطلع الشمس ہے یا پھر کوئی ایک جگہ ہے تو لا زما دی جگہ ہوسکتی ہے، جہاں تاریخ بدلتی ہے.یعنی جہاں سورج ایک نئی تاریخ لے کر آتا ہے، وہاں تاریخ بتانے والی ایک فرضی لائن بنی ہوئی ہے، جو نبی کے ایک جزیرہ پر سے گزر رہی ہے.وہاں ایک طرف گزرا ہوا دن ہے تو دوسری طرف آج کا دن ہے.ایک طرف آج کا دن ہے تو دوسری طرف آنے والا کل ہے.ایک قدم آپ ادھر رکھ دیں تو آج میں آجائیں گے، ایک قدم آپ ادھر رکھ دیں تو آنے والے کل میں چلے جائیں گے.یہ معاملہ آپ کو سمجھ نہیں آئے گا.میں نے اس کو جغرافیہ پر بڑا غور کر کے سمجھا ہے.لیکن عام آدمی اس پر صرف ایمان بالغیب لائے گا کہ ہاں یہ ہو جاتا ہے.پس اس لحاظ سے یہ ایک دلچسپ جگہ ہے کہ یہاں ایک طرف آج ہے اور دوسری طرف کل ہے.اس لائن پر اگر آپ کھڑے ہوں تو 12 بجے رات ایک ایسا وقت آئے گا، جب مثلاً ہفتہ ہے تو ساری دنیا پر سو فیصدی ہفتہ ہو گا.اور پہلی دفعہ جب ہفتہ اتوار میں تبدیل ہوتا ہے تو وہاں ہوتا ہے.رات کے 12 بجے کا وقت تو ان کے حسابی لحاظ سے ہوتا ہے.سورج کے لحاظ سے جب سورج کی پہلی شعاعیں وہاں دکھائی دیتی ہیں تو اس وقت اس دنیا کو ایک نیا دن ملتا ہے.ان معنوں میں یہ مطلع الشمس ہے.اور وہاں اتفاق سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تابع سوالات مجھ سے یہ ہوئے کہ ہمیں نصیحت کریں کہ دنیا کے بداثرات سے بچنے کے لیے ہم کیا کریں؟ دنیا پر اس وقت خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں.چنانچہ واضح طور پر یا جوج اور ماجوج یعنی روس اور امریکہ کا ذکر کر کے مجھ سے پوچھا کہ ان کی آپس کی جو لڑائیاں ہیں اور دنیا کے لیے جنگ کے خطرات ہیں، ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ چنانچہ میں نے ان کو یہی نصیحت کی کہ آپ کے لئے سب سے بڑا اور مہلک خطرہ مادہ پرستی کا خطرہ ہے.جب تک آپ مادہ 700
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء پرستی کی لعنت سے نہیں بچے، اس وقت تک آپ امن میں آہی نہیں سکتے.اس لئے مغربیت سے بھی بچھیں اور دہر بیت سے بھی بچیں.اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اپنے فضل سے آپ کو ان سب خطرات سے محفوظ رکھے.نجی ایک دور کا مقام ہے، ابھی تک بہت سی بدیاں وہاں نہیں پہنچیں.اس لئے میں نے ان کو یہ نصیحت کی کہ ان خطرات سے وہ اپنی حفاظت کریں.قرآن کریم کا یہ پیغام، جس میں یا جوج اور ماجوج یعنی امریکہ اور روس دونوں سے خطرہ کی نشاندہی کی گئی ہے.یعنی دائیں طرف کی قوموں سے بھی خطرہ ہے اور بائیں طرف کی قوموں سے بھی.یہ صرف فجی کو نہیں ، ہم سب اس سے دو چار ہیں.اور اس کا علاج یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے ، اللہ کی حفظ وامان میں آجائیں.خدا تعالیٰ کی حفاظت اور تقدیر کی دیوار بیچ میں قائم کریں، جو آپ کو ان سب خطرات سے بچالے گی.یہ پس ان آیات کو آپ وقت کے لحاظ سے الٹا کر ایک مضمون چلا ئیں گے تو اور جواب آجائے گا.ایک دوسرا مضمون چلائیں گے تو اور جواب آجائے گا.اس لئے قرآن کریم کی تفسیر کا معاملہ اور بیان شدہ تمثیلات کا مضمون بڑے گہرے مطالعہ کا متقاضی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خاص راہنمائی کے بغیر انسان پر یہ مضمون نہیں کھلتے.خصوصاً ایسے موقع کی سمجھ نہیں آتی، جیسا کہ یہ ذوالقرنین والے واقعہ سے جو بڑا الجھا ہوا نظر آ رہا ہے، اس کی تفسیر کرنا، انسان کے بس کی بات نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے، جو انسان کو روشنی عطا کرتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اگر چہ تفسیر کبیر میں اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.لیکن وہاں بھی تشنگی رہ جاتی ہے.معلوم ہوتا ہے، ابھی کچھ چیزیں بیان نہیں ہوئیں.یا خدا نے کچھ چیزیں مخفی رکھی ہوئی ہیں اور ان کے ظاہر کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا.مگر رفتہ رفتہ خدا جب چاہے گا تو یہ مضمون واقعاتی لحاظ سے بھی کھلتے چلے جائیں گے.پس ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ اپنے فضل سے ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ ان پیشگوئیوں کے جو اچھے پہلو ہیں، ان کو پورا کرنے کا ہم ذریعہ بن جائیں.خدا تعالیٰ خود ہی ہمیں اس کا موقع دے، خود ہی اس کی توفیق عطا فرمائے اور خود ہی اس کی جزا بھی دے.سب کچھ اسی نے کرنا ہے.ہماری ذات کی کوئی حقیقت نہیں ہے.اس لئے میں آپ کو ایک بار پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ نعرہ بازی سے اجتناب کریں.جو آپ کا مقام نہیں ہے، اس میں خوامخواہ دخل اندازی نہ کریں اور دعائیں کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ہزاروں 701
خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک سال احمدیت کا پیغام ظاہری اور معنوی حفاظت کے ساتھ آگے سے آگے بڑھاتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے.اسی طرح آپ نے خلافت کی حفاظت کا جو وعدہ کیا ہوا ہے، اس میں بھی یہ بات داخل ہے کہ خلافت کے مزاج کو نہ بگڑنے دیں.خلافت کے مزاج کو بگاڑنے کی ہرگز کوشش نہ کریں.ہمیشہ اس کے تابع رہیں.ہر حالت میں امام کے پیچھے چلیں.امام آپ کی راہنمائی کے لئے بنایا گیا ہے، اس لئے کسی وقت بھی اس سے آگے نہ بڑھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور مجھے بھی توفیق عطا فرمائے کہ میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کروں.آداب دعا کر لیں.702 مطبوعه روزنامه الفضل 11 فروری 1984ء)
تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد خطاب فرموده 23 اکتوبر 1983 ء احمدی نوجوانو! اٹھو تم سے دنیا کی تقدیر وابستہ ہے خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ حضور رحمہ اللہ نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے احسانات پر شکر کا حق ادا کرنا، انسان کے بس کی بات نہیں.ہاں اللہ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کا شکر ادا کرنا، انسان پر فرض ہے.یہ ہجوم ، جو اجتماع میں شرکت کے لئے بہت بڑی تعداد میں یہاں پہنچا ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے ایک عظیم احسان کو آشکار کر رہا ہے.اس نے دلوں کو اللہ کی طرف اور مائل کر دیا ہے اور ہمارے سینوں کو شکر کے جذبات سے بھر دیا ہے.حضور نے اپنے دورہ مشرق بعید کے ضمن میں نجی کے ملک کے حالات بیان فرمائے اور ملک کی جغرافیائی اور اقتصادی صورت پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور فرمایا:.یہ امن پسند، سادہ اور بے تکلف لوگ ہیں.بہت پیار کرنے والے ہیں.ان میں آپس میں کوئی منافرتیں نہیں ملتیں ، سوائے جماعت احمدیہ کی مخالفت کے.اور اس کا ہمیں اس لئے فکر نہیں کہ یہ ہمارا مقدر ہے اور ہماری صداقت کا ثبوت ہے.اور یہ وہ چیز ہے، جس پر اہل نجی کا کوئی اختیار نہیں“.حضور نے اس مخالفت کا تفصیل سے ذکر کیا اور بتایا کہ ” سارے ملک میں بڑے منظم طور پر ہمارے مخالفت کی گئی.آغاز میں ہی پہلے کوشش کی گئی کہ امام جماعت احمدیہ کو وی آئی پی درجہ نہ ملے.یہ کوشش ناکام رہی.ناندی شہر کے میئر کی طرف سے Civic Centre میں استقبالیہ دینے کا پروگرام مخالفین نے منسوخ کرا دیا.پھر وہاں کے وزیر کی مداخلت ؟ تقریب استقبالیہ منعقد ہوئی.جب یہ کوشش بھی ناکام رہی تو بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی کہ کوئی اس تقریب میں نہ جائے.اس کے باوجود ہال بھرا ہوا تھا.پھر یہ کوشش کی گئی کہ تقریب میں شریک امام جماعت احمدیہ پر سوالات کی بوچھاڑ کر کے ان کا تاثر زائل کیا جائے.چنانچہ ایک عالم دین پوری تیار کر کے آئے مگر چند منٹ کی گفتگو میں ہی لاجواب ہو کر اٹھ کر چلے گئے.ان کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہی اٹھ کر گئے ، باقی لوگ اطمینان سے بیٹھے رہے اور کارروائی کامیابی سے جاری رہی.پھر ایک عیسائی نے سوال کیا اور خود تسلیم کیا کہ اس کی تسلی ہوگئی.703
خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء حضور نے فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک اسی طرح سے غیر مبائعین نے بھی اخلاص کا اظہار کیا.نجی کے غیر مبائعین ، شریف الطبع اور نیک دل لوگ ہیں، وہ برابر شامل ہوتے رہے.فرمایا:- اس دورے کا ایک اور اہم فائدہ خود احباب جماعت احمدیہ کو حاصل ہوا.بہت سے احمدی، جو بے تعلق ہو چکے تھے، وہ پھر سے مخلص اور پر جوش احمدی بن گئے.اور اہل نجفی نے بے اختیار کہا کہ آپ کے آنے سے ہمارے بچے ہمیں واپس مل گئے.جماعت کے ایک بہت بڑے معترض احمدی نے بڑی ندامت سے کہا کہ مجھے تو علم ہی نہیں تھا کہ احمدیت یہ چیز ہے.آج کے بعد آپ میرے بارے میں کوئی شکایت نہ سنیں گے.ایک احمدی نوجوان نے ، جس کی آنکھوں سے مجلس کی ابتداء میں بے تعلقی اور بیزاری جھلک رہی تھی مجلس کے اختتام پر بڑی محبت بھری نظروں سے دیکھا اور کہا کہ میں آج سے صحیح احمدی ہوا ہوں“.حضور نے فرمایا:.یہ محض اللہ کا احسان ہے.دلوں کا بدلنا صرف اسی کے اختیار میں ہے.ان سب باتوں کے پیچھے صرف میرے مولا کا ہاتھ کارفرما ہے اور کچھ نہیں.سووا میں ہال میں جو لیکچر ہوا، اس کو ناکام بنانے کے لیے کوشش ہوئی.بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی کہ لوگ نہ جائیں.اس کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ آئے.وہاں بھی علماء کا ایک گروہ تیاری کر کے آیا ہوا تھا.تقریر شروع ہونے کے دس منٹ بعد ایک مولوی صاحب اٹھے اور دس پندرہ آدمیوں کے ساتھ نکل گئے.باہر جا کر انہوں نے اپنے ساتھیوں کے استفسار پر بتایا: چلو چلو، کوئی سوال نہیں کرنا ، وہ پسینے چھڑا دے گا.فرمایا:.جو پسینے چھڑانے آئے تھے ، ان کے خود پسینے چھوٹ گئے.ہر تقریب میں اللہ کے فرشتے کام کر رہے تھے.شریروں کے شرارے ہم نے خودان پر پڑتے دیکھے“.مطبوعه روزنامه الفضل 25 اکتوبر 1983 ء) نجی میں منعقد کی جانے والی مجلس شوریٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے بے شمار فائدے حاصل ہوئے.نہ صرف اس ملک کو روحانی طور پر جیتنے کے پروگرام بنائے گئے بلکہ ارد گرد کے جو چار جزیرے ہیں، ان کو روحانی طور پر فتح کرنے کے لئے میں نے کہا کہ مجھے 704
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء ان کی فتح کے لئے سپہ سالار چاہئیں، جو اپنے خرچ پر وہاں جا کر احمدیت کی تبلیغ کریں.چنانچہ اس محفل دو بھائیوں نے اس تحریک پر لبیک کہا کہ جزیرہ ٹونگا کی فتح ہمارے ذمہ ہے.حضور نے فرمایا:.میں نے انہیں کہا کہ آپ ہی خرچ کریں گے، آپ ہی ذرائع ڈھونڈیں گے ، آپ ہی مبلغ اور آپ ہی سپاہی ہوں گے.یہ عہد کرتے ہیں تو منظور ہے.چنانچہ ان دونوں بھائیوں نے اسی طرح عہد کیا.اور ایک اور احمدی دوست نے جو استاد ہیں، ایسی ہی پیشکش کی.چنانچہ ان کے سپر د سموا کا جزیرہ کیا گیا.انہوں نے کہا کہ وہ وہاں جا کر روزگار تلاش کریں گے اور احمدیت کی تبلیغ کریں گے.اسی طرح ایک مجلس میں اندرون نجی کے لئے بھی تبلیغی منصوبہ بندی کی گئی اور نجی کے احمدیوں نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ بہت جلد سارے جزیرہ نبی کو احمدیت کے لئے جیت کر دم لیں گے.فرمایا کہ ونجی میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا ہوا رکھا ہے.اب اس ترجمے پر نظر ثانی کے لئے ایک کمیٹی بنادی گئی ہے، جو چند ماہ میں خود بھی غور کر کے اور ماہرین کو بھی دکھا کر ترجمہ شائع کرا دے گی.انشاء اللہ.یہ یمین زبان میں قرآن کریم کا پہلا ترجمہ ہوگا، جس کی اشاعت کی سعادت جماعت احمدیہ کے حصے آئے گی.حضور نے فرمایا:.ونجی میں ترجمہ قرآن کریم سکھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا.اسی طرح ان کی اردو زبان بھی ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے اور تلفظ بھی بہت خراب ہے.اگر چہ وہ حضرت مسیح موعود کا کلام بہت خلوص اور محبت سے پڑھتے ہیں.مگر غلط تلفظ سے بہت کوفت ہوتی تھی.ان کو صحیح اردو سکھانے ، خصوصاً صحیح تلفظ سکھانے کے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ یہاں سے مختلف جلسوں کی کیسٹ ان کو بھیجی جائیں گی.و فرمایا:.اس ملک میں مبلغین کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا“.حضور نے فرمایا:.سارے سفر کے دوران میں نے محسوس کیا اور پہلے بھی میں یہ کہتا رہا ہوں کہ ہماری ساری جماعت کی مجموعی طاقت بھی اس لائق نہیں کہ دنیا میں انقلاب بپا کر سکے.لیکن ہمارے اندر کچھ ایسی وسعتیں ضرور ہیں، جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم فرض ہمارے اوپر ڈالا ہے.یہ وسعت نبی کریم صلی 705
خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی وسعت ہے.اس لئے ضروری ہے کہ ہم دنیا میں انقلاب پیدا کرنے کے قابل بننے کی کوشش کریں.حضور نے فرمایا:.میں نے محسوس کیا ہے کہ نوجوانوں میں عبادت کی طرف ابھی پوری توجہ نہیں.اس لئے ضروری ہے کہ آپ نماز با جماعت کو بڑے زور کے ساتھ قائم کریں.نماز میں اللہ کے تعلق کو ہمیشہ یاد رکھیں.جہاں جہاں احمدی خدا تعالیٰ کا سب سے زیادہ عبادت گزار ہوگا، وہاں ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ دنیا کے مقابل پر عبادت کرنے والے کو ہلاک کر دے.دنیا کے ہاتھ میں سب طاقتیں اور وسائل ہیں ، صرف ایک چیز یعنی عبادت نہیں ہے.اگر عبادت آپ کے اندر صحیح طور پر قائم ہو جائے تو دنیا آپ کو کبھی شکست نہیں دے سکتی.دوسری بات حضور نے یہ بیان فرمائی کہ بنی نوع انسان کی گہری ہمدردی اپنے اندر پیدا کریں.آپ کے خلاف کی جانے والی نفرتیں، جو بھی روپ دھار لیں، وہ آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتیں.بشرطیکہ آپ رحمتہ للعالمین کی غلامی کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عزم کرلیں اور اپنے جذبہ رحمت پر آنچ نہ آنے دیں.ہر نفرت کا جواب آپ کو محبت سے دینا ہوگا.آج دنیا کو خدا کی محبت کی ضرورت ہے.عبادت اور بنی نوع سے محبت کا مطلب خدا تعالی سے تعلق قائم کرنا ہے اور یہی تعلق ہر کامیابی کا ذریعہ ہے.حضور نے فرمایا:.66 آج یورپ اور امریکہ میں مغربیت کی لے پر شیطان بنسی بجارہا ہے.اور یورپ کی ایک پرانی کہانی کے بچوں کی طرح خدا کے بندے اپنی تباہی سے بے پرواہ ہو کر ہلاکتوں کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں.اس جادو کا مقابلہ کس طرح ہوگا؟ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہا نا بتایا گیا کہ ایک نبی کرشن تھا، بنسی بجانے والا.اس کے نام پر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کو بھی بنسی بجانے والا کرشن کن بیا قرار دیا گیا ہے.اور خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ یہ بنسی جیتے گی اور شیطان کی بنسی اس کے مقابل پر ٹوٹ پھوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی.حضور نے با آواز بلند فرمایا:.اے احمدی نوجوانو! اٹھو اور دنیا میں پھیل جاؤ.خدا کی محبت کی بنسی بجاؤ، جو سیح موعود نے تمہیں عطا کی ہے.اب شیطان کی بنسی کے دن گنے جاچکے ہیں.خدا کی بنسی ، وہ ہنسی ہے، جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:.706
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدرج میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے اسی لئے جب تم عشق خدا اور عشق رسول کی لے پر بنسی بجاتے ہوئے دنیا میں نکل جاؤ گے تو فرشتے تمہاری لے پر گائیں.حضور نے پر جلال لہجے میں فرمایا:.احمدی نوجوانو! اٹھوتم سے دنیا کی تقدیر وابستہ ہے.جاؤ! فتح و نصرت تمہارے قدم چومے گی.کوئی نہیں ، جو اس تقدیر کو بدل سکتے“.آخر میں حضور نے فرمایا:.آئیں ، اب ہم مل کے الحاج اور درد سے اپنے رب کے حضور جھکیں.اللہ تعالیٰ آپ کے نیک ارادوں کو دوام بخشے، آپ کی توقعات سے بھی بڑھ آپ کو اپنی ایسی محبت عطا کرے، جو ساری محبتوں پر غالب آئے.حضور نے نہایت پر یقین اور پر عزم آواز میں فرمایا:.اسلام کا غلبہ بہت نزدیک ہے.میں خدا کی قسم کھا کر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اسلام کی فتح کے قدموں کی چاپ سن رہا ہوں.آپ اپنے دل بدلیں.یہی بات ہے، جو میں آپ کو بار بار کہتا ہوں“.مطبوعه روزنامه الفضل 26 اکتوبر 1983ء) 707
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1983ء تحریک جدید کو چاہیے کہ تمام مطالبات پر توجہ دے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1983ء تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:." آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق تحریک جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر اس سال فضل اور احسان کی جو بارشیں برسائیں، ان میں سے ایک حصہ تحریک جدید نے بھی وصول کیا.اور جس طرح جماعت کے دیگر شعبوں میں ہر پہلو سے ہر ملک میں غیر معمولی ترقیات نصیب ہوئیں، تحریک جدید کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی کے میدان میں بہت آگے بڑھنے کی توفیق عطا ہوئی.اب تک جو اعداد و شمار موصول ہو چکے ہیں، ان کو دیکھ کر دل اللہ کی حمد سے اور بھی زیادہ بھر جاتا ہے.چنانچہ جیسا کہ میں نے بار ہا بیان کیا ہے، ہمارے ظرف محدود ہیں اور اللہ کی حمد بہت زیادہ اور بڑی وسیع ہے.اس کے احسانات اتنے زیادہ ہیں کہ وہ ہمارے دل میں سمانہیں سکتے.اس لئے یہ ناممکن ہے کہ الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا جاسکے، اعمال میں ان کا شکریہ ادا کیا جا سکے، احساسات میں اور تصورات میں ان کا شکریہ ادا کیا جا سکے.صرف ایک بے حسی کا احساس پیدا ہوتا ہے، کم مائیگی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور رے شکر کا خلاصہ یہی احساس ہے اپنے عجز کا اور اپنے انکسار کا اور اپنی کم مائیگی کا کہ اے خدا! تیرے احسانات ہماری طاقت سے بڑھ کر آگے آگے دوڑ رہے ہیں اور نا ممکن ہے کہ کسی پہلو سے بھی یعنی زبان سے تصور سے عمل سے، کسی لحاظ سے بھی ہم تیرے شکر کا حق ادا کر سکیں.تحریک جدید کے گزشتہ سال کے اعلان کے وقت میں نے پاکستان کے احباب جماعت کو یہ توجہ دلائی تھی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں، روپے کی قیمت کم ہو رہی ہے اور تنخواہوں میں بھی نمایاں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے، اس لئے وہ اپنے وعدوں کو میں لاکھ تک پہنچاد ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بڑا افضل فرمایا ، اندرون پاکستان تحریک جدید کے وعدے خدا تعالیٰ کے فضل سے 24,06,477 روپے سے بڑھ کر 30,47,472 روپے ہو گئے.اس کے مقابل پر وصولی کی کیفیت بہت خوشکن ہے.گزشتہ سال اس تاریخ کے 709
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1983ء تک وصولی 13,91,650 روپے تھی.اس کے مقابل پر امسال وصولی 21,89,764 روپے ہے.بقیہ - وصولی اس سال کے اس مہینے میں اور بعد کے مہینوں میں یعنی جنوری سے پہلے پہلے انشاء اللہ پوری ہو جائے گی.کیونکہ گزشتہ سالوں میں یہی دستور رہا ہے کہ بعض دفعہ جماعتوں میں وصولی ہو تو جاتی ہے لیکن اطلاعات ذرادیر سے آتی ہیں.اور کچھ وصولیاں پیچھے بھی رہ جاتی ہیں.بہر حال گزشتہ سال 13,91,650 کی وصولی کے مقابل پر وصولی 21,89,764 روپے تک پہنچ گئی.تو چونکہ اس سال وعدوں کے مقابل پر وصولی کی رفتار گزشتہ سال سے تدریجا بھی زیادہ ہے، اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالی تمیں لاکھ کا یہ بجٹ نہ صرف پورا ہو جائے گا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ جائے گا.علاوہ ازیں میں نے دفتر سوم کے متعلق یہ تحریک کی تھی کہ ہماری نئی نسلوں میں خدا کے فضل سے ایسی بہت بڑی تعداد بالغ ہورہی ہے، جو تحریک جدید کے کسی دفتر میں شامل نہیں ہوسکی.چنانچہ اس سلسلہ میں، میں نے لجنہ اماءاللہ کے اوپر ذمہ داری ڈالی تھی کہ وہ دفتر سوم میں اضافہ کی خصوصیت کے ساتھ کوشش کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرمایا.گزشتہ سال تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد 27,209 تھی.جبکہ امسال لجنہ اماءاللہ کی خصوصی کوشش کے نتیجہ میں یہ 599, 39 ہوگئی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سال 12,390 از ائد احمدیوں کو تحریک جدید میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.لجنہ نے بڑی ہمت کی ہے.خصوصاً کراچی، راولپنڈی، ربوہ، فیصل آباد، لاہور، سیالکوٹ ، خان پور اور کھاریاں کی بجنات نے بہت محنت سے کام کیا ہے.مجھے سب سے زیادہ خوشی ان چندہ دہندگان کی تعداد کے بڑھنے کی ہے.کیونکہ یہ وہ لوگ تھے، جو ایک نیکی سے محروم تھے.یہ 12,390 احمدی، جو پہلے تحریک جدید کے چندہ میں شمولیت سے محروم تھے محض خوشخبریوں میں شامل ہوا کرتے تھے اور قربانیوں میں شامل نہیں تھے ، اب اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے کہ ان کو اس عظیم قربانی میں حصہ لینے کی توفیق بخشی ہے.اور جب نیکی کی ایک دفعہ توفیق مل جائے تو یہ ایک تجربہ ہے اور قانون قدرت ہے کہ پھر لا زما آگے بڑھنے کی توفیق ملتی ہے.یہ وہ خوش قسمت ہیں، جن کو اس سال تحریک جدید میں شمولیت کی توفیق ملی.انشاء اللہ وہ آئندہ بھی اپنے رب کریم سے اس سے بہت بڑھ کر تو فیق پاتے رہیں گے.جماعت احمدیہ کی قربانی کرنے والی فوج میں اس غیر معمولی اضافہ پر ہم اللہ تعالیٰ کے بے حد احسان مند ہیں.اور جتنا بھی شکر کریں کم ہے.710
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1983ء ایک تحریک میں نے کھاتوں سے متعلق کی تھی کہ دفتر اول کے جو بزرگ ابتدائی قربانیوں میں شامل ہوئے تھے، ان کے نام ایسے نہیں کہ وہ بھلا دیئے جائیں.میں نے ایسے بزرگوں کے ورثا کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے فوت شدہ بزرگوں کے نام کو قیامت تک زندہ رکھنے کے لئے مرحومین کی طرف سے چندے ادا کرتے رہیں.تا کہ دنیا ان کو ہمیشہ ہمیش کے لئے یادر کھلے کہ یہ وہ پہلے پانچ ہزار تھے، جنہوں نے تمام دنیا میں اسلام کی فتح کی داغ بیل ڈالی.اور عمر بھر وفا کے ساتھ اور غیر معمولی تکلیفیں اٹھا کر بھی انہوں نے قربانیاں کیں.چنانچہ میرے توجہ دلانے پر اس تحریک میں حصہ تو لیا گیا ہے لیکن ابھی اس میں مزید گنجائش موجود ہے.ایسے 200 فوت شدگان تھے ، جن کے چندے بند ہو چکے تھے.لیکن ان کے ورثا کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ، انہوں نے مرحومین کے دوبارہ کھاتے جاری کروائے اور اب ان کے کھاتے انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ ان کے ورثا نے عہد کئے ہیں، ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری رکھے جائیں گے.اس میں مشکل یہ ہے کہ تحریک جدید کے بہت سے چندہ دہندگان ایسے تھے ، جن کے ورثا کے متعلق یہ پتہ نہیں لگ سکا کہ وہ کہاں ہیں؟ اور اس کے لئے الفضل میں جو مختصر سی جگہ مہیا ہوتی ہے، اس میں اعلانات کے باوجود بہت سے لوگ ایسے ہیں، جن کی نظر میں یہ بات آتی نہیں.ورنہ یہ ممکن نہیں ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ہمارے بزرگوں نے یہ قربانیاں دی تھیں اور اب ان کے نام کے کھاتے بند ہورہے ہیں تو وہ قدم آگے نہ بڑھائیں.مجھے یقین ہے کہ جس کو بھی علم ہوتا چلا جائے گا ، وہ انشاء اللہ تعالی ضرور اس تحریک میں شامل ہوتا چلا جائے گا.تحریک جدید کو چاہئے کہ مجاہدین تحریک جدید کی پہلی فہرست ایک کتاب کی صورت میں شائع کر کے مختلف جماعتوں میں بھجوائے.کیونکہ الفضل میں توممکن نہیں ہے کہ ان فہرستوں کو بار بار شائع کیا جا سکے.جماعتوں میں یہ فہرستیں پڑھ کر سنائی جائیں اور پھر جماعتی سطح پرتحقیق کی جائے کہ ہر جماعت سے تعلق رکھنے والے ایسے کتنے لوگ ہیں، جن کے بزرگان تحریک جدید کی صف اول میں شامل تھے لیکن ان کے کھاتے بند ہیں؟ یه تو اندرون ملک کی کیفیت ہے، چندوں کی ادائیگی کی.اور جیسا کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر پہلو میں غیر معمولی ترقی عطا فرمائی ہے.جہاں تک بیرون پاکستان کی جماعتوں کا تعلق ہے، میں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ جہاں تک حصہ آمد اور چندہ عام کا تعلق ہے، باہر کی جماعتوں کا چندہ پاکستان کے چندوں کے دگنے سے زائد ہے.اور جہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے، وہ نصف سے کم تو نہیں، تقریباً نصف بنتا تھا.اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ باہر کی جماعتوں میں کم از کم چار گنازیادہ 711
خطبہ جمعہ فرمودہ 28اکتوبر 1983ء تحریک جدید -- ایک الہی تحریک گنجائش موجود ہے.اس وقت ان کا چندہ گیارہ لاکھ تھا.چنانچہ مجھے یہ اندازہ تھا کہ اگر جماعت کوشش کرے تو چار گنا بلکہ پانچ گنا بھی اضافہ ہو سکتا ہے.یعنی خدا توفیق دے تو 44 لاکھ سے 50 لاکھ تک بلکہ اس سے بھی بڑھ سکتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں حیرت انگیز فضل فرمایا اور اس ایک سال کے اندر اندر باہر کی جماعتوں کا چندہ گیارہ لاکھ سے بڑھ کر 53,60,000 روپے ہو چکا ہے.حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالی از خود فرشتوں کے ذریعہ دلوں میں تحریک فرما رہا ہے.چنانچہ اتنے حیرت انگیز اضافے ہوئے ہیں اور ایسی ایسی جگہوں سے چندہ آیا ہے، جہاں سے انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مزید گنجائش ہوگی.باہر بعض ایسی جماعتیں ہیں، جو بڑی مستعد ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ پہلے اپنی توفیق کے مطابق چندے دے رہی تھیں.پھر آمدنیوں کی نسبت مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے.یعنی صرف پاکستان میں مہنگائی نہیں ہے، ساری دنیا مالی لحاظ سے بحران کا شکار ہے اور دنیا کا جینا دوبھر ہورہا ہے.خصوصا وہ لوگ جو محنت مزور دی کر سکے گزارہ کرتے ہیں، ان کو مکانوں کے بہت زیادہ کرائے دینا پڑتے ہیں.پھر خوراک مہنگی ہوگئی ، لباس مہنگے ہو گئے.غرضیکہ باہر کی دنیا بڑی مشکل سے گزارے کر رہی ہے.اس کے باوجود غیر معمولی اضافے ، یہ حیرت انگیز بات ہے.اور صرف وعدوں میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس کے ساتھ وصولی میں بھی امسال اسی شان سے غیر معمولی اضافہ ہوا ہے.چنانچہ اب تک 40,59,480 روپے وصول ہو چکے ہیں.جو گزشتہ سال کی وصولی کی نسبت سے بھی زیادہ ہیں اور کئی گنا اسی نسبت سے زیادہ ہیں، جس سے وعدے زیادہ ہوئے ہیں.پس ہم امید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ بقیہ وصولی بھی بہت جلد ہو جائے گی.کیونکہ یہ جماعتیں ساری دنیا میں پھیلی پڑی ہیں، اس لئے وہاں سے بر وقت اطلاع آنا زیادہ مشکل کام ہے.وکیل المال صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ ایسے بہت سے ملک ہیں، جن کی وصولی اس میں شامل نہیں ہوسکی.بعض جماعتوں کی اطلاع جولائی کی ہے، بعض کی اس سے بھی پہلے کی ہے.غرضیکہ ہرگز بعید نہیں کہ آج تک ان کی وصولی 53,00,000 کے لگ بھگ ہو چکی ہو.اور اس کی اطلاع آتے آتے شاید ایک مہینہ اور لگ جائے.بہر حال مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو وعدوں کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا.اور یہ بعید نہیں کہ وصولی وعدوں سے بھی آگے بڑھ جائے.جہاں تک وصولی میں غیر معمولی اضافوں کا تعلق ہے، جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، بعض جماعتیں مستعد ہونے کے باوجود اس معاملہ میں بہت تیزی سے آگے بڑھی ہیں.712
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1983ء بیرون پاکستان نمایاں طور پر کام کرنے والی جماعتوں میں سے امریکہ کا اضافہ تین گنا ہے، کینیڈا کا ساڑھے پانچ گنا اور ٹرینیڈاڈ کا دس گنا، سرینام کا چھ گنا، برطانیہ کا تین گنا، جرمنی کا دو گنا ہے.کئی نوجوان جو جرمنی میں کام کرتے ہیں ، ان کی تعداد میں کمی آئی ہے.کیونکہ ان میں سے بہت سے دوسرے ملکوں میں ہجرت کر گئے ہیں.کچھ دوستوں کو جرمن قانون کے مطابق مزید ٹھہرنے کی اجازت نہیں ملی.یہ جماعت پہلے بھی چندوں میں بڑی مستعد جماعت تھی، اس لئے ان کا دو گنا اضافہ بھی مالی قربانی کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے.ڈنمارک کا پانچ گنا اصافہ ہوا ہے.سویڈن کا سات گنا، ناروے کا چار گنا اضافہ ہوا ہے.اور بھی زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ مالی قربانی کے اس جہاد میں افریقن ممالک بھی خدا کے فضل سے پیچھے نہیں رہے.چنانچہ نائیجیریا کا بارہ گنا اضافہ ہے اور نانا کا ساڑھے پانچ گنا.غانا کے اقتصادی حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ وہاں کی جماعتوں کا ساڑھے پانچ گنا اضافہ ایک غیر معمولی قربانی ہے.کیونکہ وہاں تو اس قدر مہنگائی ہو چکی ہے اور اقتصادی حالت دن بدن اتنی خطرناک ہو رہی ہے کہ لوگوں کو کھانے کے لئے روٹی نہیں ملتی.پٹرول غائب ہے.موٹریں موجود ہیں لیکن چل نہیں سکتیں ، اس لئے اپنی اپنی جگہ پر کھڑی ہیں.ٹیوب ویل اگر ہیں تو بند پڑے ہیں.کھانے کے لئے گندم بھی مہیا نہیں ہو رہی.جو افریقن جنگلوں میں رہتے ہیں، وہ تو جڑیں کھا کر گزارہ کر لیتے ہیں.لیکن وہ جڑیں بھی اب کم ہو رہی ہیں.کیونکہ پچھلے چھ مہینے سے بارش نہیں ہوئی.اس لئے قحط سالی کا بڑا خطرہ ہے.افریقن قوموں کے لئے بھی جو جنگلوں میں رہتے ہیں اور وہیں سے ان کی غذا مہیا ہوتی ہے، ان کے لئے بھی قحط سالی کا خطرہ ہے اور جو لوگ شہروں میں رہ رہے ہیں، ان کی بھی بہت بری حالت ہے.ان حالات میں غانا کی جماعتوں کے چندے میں ساڑھے پانچ گنا اضافہ، ایک غیر معمولی اور بہت بڑا قدم ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ اس نیکی کے بدلہ میں اللہ تعالی سارے ملک پر رحم فرمائے.یہ جتنے بھی اضافے میں نے بیان کئے ہیں، ضروری نہیں کہ جس نسبت سے اضافہ ہوا ہے، اسی نسبت سے اخلاص میں بھی ترقی ہوئی ہو.یا اخلاص کے اندر بھی وہی نسبت پائی جاتی ہو.یہ اندازہ لگانا، یہ اربعے لگانا درست نہیں.کیونکہ مختلف ممالک مختلف اقتصادی پلیٹ فارمز پر کھڑے ہیں، ان کی اقتصادی حالت ایک جیسی نہیں ہے.چنانچہ پہلے مختلف ممالک کی قربانی کا معیار مختلف تھا.بعض ایسے ممالک تھے، جو تحریک جدید میں پہلے ہی بڑی اچھی اور نمایاں قربانی کر رہے تھے.مثلاً انگلستان کی جماعتیں ہیں، ان کے چندے میں تین گنا کا اضافہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے.مگر اس کے مقابل پر بعض جماعتیں چندوں کو 713
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں بہت پیچھے تھیں.ان کا اگر دس گنا بھی اضافہ ہو گیا ہے تو یہ مطلب نہیں ہے کہ انگلستان کے مخلصین کے مقابل پر ان کا اخلاص بھی اتنے گنا زائد ہے.یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان چندوں کے پیچھے کس جماعت کو کتنی قربانی کی توفیق ملی اور ان کے اخلاص کی قیمت خدا کی نظر میں کیا ہے؟ ہم تو محض خدا کے احسانات کا تصور باندھنے کی خاطر یہ تخمینے پیش کرتے ہیں اور یہ نسبتیں قائم کرتے ہیں تا کہ مختلف زاویوں سے ہم اللہ کے فضلوں کا نظارہ کریں اور دل اس کی حمد سے بھرتا چلا جائے.ورنہ اگر نسبتوں کا تصور باندھا جائے تو اس لحاظ سے تو پھر بیلجیئم دنیا کی سب سے بڑی مخلص جماعت بنے گی کیونکہ ان کا اضافہ ساڑھے چالیس گنا ہے.بات یہ ہے کہ پہلے وہاں مبلغ نہیں تھا، چند احمدی تھے اور وہ بھی بکھرے ہوئے تھے، ان کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں تھا.چندوں میں بھی وہ بہت پیچھے تھے.اس لئے یہ ان کا پہلا قدم ہے.اور پہلے قدم میں ان کو چھیالیس منزلیں طے کرنے کی توفیق ملی ہے.آئندہ سال جب یہ شرحیں تقریباً برابر ہو جائیں گی تو پھر بیرونی ممالک کی جماعتوں کا اصل مقابلہ شروع ہوگا.جب بیرونی جماعتیں قریبا ایک ہی سطح پر آجائیں گی تو پھر دیکھیں گے کہ کون سی جماعت آگے بڑھتی ہے.مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہر جگہ برابر کوشش ہوگی.بیرونی ممالک کے چندہ دہندگان کی تعداد کے لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرمایا ہے.اور اس میں بھی تحریک جدید کی رپورٹ کے مطابق بجنات کو بہت بڑی خدمت کی توفیق ملی ہے.چنانچہ بجنات میں سے برطانیہ، کویت، مسقط، جاپان، کینیڈا، منجی ، سویڈن، مغربی جرمنی، ہالینڈ سرینام ڈیٹن اور بالٹی مور امریکہ کی لجنات نے نمایاں کام کیا ہے.معلوم ہوتا ہے امریکہ کی اکثر بجنات کو تو فیق نہیں ملی.صرف ڈیٹن اور بالٹی مور کی لجنات نے غیر معمولی کام کیا ہے.بہر حال ان کی کوششوں کو اللہ تعالی نے قبولیت عطا فرمائی.چنانچہ بیرون پاکستان کی جماعتوں کے وعدہ کنندگان کی تعداد گزشتہ سال صرف 2,028 تھی.اس کے مقابل پر اس سال 13,470 تک پہنچ گئی ہے.یعنی وعدہ کنندگان کی تعداد میں 11,442 کا اضافہ ہوا ہے.پس کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے، جس میں ہم تشنگی محسوس کریں.اور تحریک جدید کی طرف سے جتنی کوشش کی گئی ہے، اس کو ان پھلوں سے کوئی نسبت نہیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے ہیں.حالانکہ وہی عام کوشش ہے، جو ہمیشہ ہوتی ہے.وہی وکیل مال ہیں ، وہی عملہ ہے.عملے میں بھی کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا.اور اسی طرح اخلاص سے دن رات کوشش کر رہے ہیں، جس طرح پہلے کیا کرتے 714
تحریک جدید - ایک اپنی تحریک...جلد شم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1983ء تھے.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ جماعت کو فضلوں کے ایک نئے دور میں داخل کر رہا ہے.اور ہمارے اوپر نئی ذمہ داریاں ڈالنے والا ہے.- اصل بات یہ ہے کہ جب زادراہ بڑھایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لمبا سفر در پیش ہے.جب قوتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو مارچ آرڈر (March Order) سے پہلے ساری تیاریاں مکمل کرلی جاتی ہیں.پس در حقیقت جو اصل فضل ہیں، وہ تو ابھی سامنے پڑے ہوئے ہیں.یہ تو فضلوں کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، جو مہیا کیا جارہا ہے.معلوم یہ ہوتا ہے اور جیسا کہ دوسری علامتوں سے بھی بڑا قطعی طور پر ظاہر ہورہا ہے، اللہ تعالی ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کے لئے جماعت سے عظیم الشان خدمات لینے والا ہے.اور ان خدمات کے لئے ہمیں زادراہ مہیا فرما رہا ہے، جماعت کے اخلاص کو بڑھارہا ہے، ایمان کو بڑھا رہا ہے، قربانیوں کی توفیق کو بڑھارہا ہے، وقف کی روح میں نئی جلا پیدا کر رہا ہے اور ہر پہلو سے ہمیں تیار کیا جارہا ہے کہ آگے بڑھو اور ساری دنیا کومحمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لو.اس مبارک دور میں ہم داخل ہونے والے ہیں اور ہورہے ہیں.یہ کوئی ایسی دیوار تو نہیں ہوا کرتی کہ اس کو پھلانگا تو نیا دور شروع ہو گیا.یہ تو ایک جاری سلسلہ ہے اور نئی صدی کے قرب کے ساتھ اس کا تعلق ہے.اور جیسا کہ رت خليفة المسيح الثالث نور اللہ مرقدہ بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ یہ پہلی صدی تو غلبہ اسلام کی تیاری کی صدی ہے اور اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہوگی.تو جتنا جتنا ہم اس صدی میں داخل ہونے والے ہیں اور اس کے قریب ہوتے چلے جارہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ تیاری میں جو کمیاں رہ گئی تھیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ جلدی جلدی پوری کر رہا ہے.تاکہ ہمیں پھر بعد میں یہ احساس نہ ہو کہ فلاں چیز بھی تیاری والی رہ گئی تھی اور فلاں بھی رہ گئی تھی اور فلاں بھی رہ گئی اور فلاں بھی رہ گئی.واپس تو ہم مر نہیں سکتے.انسان جب سفر پر روانہ ہوتا ہے تو بعض دفعہ گھر میں کچھ چیزیں رہ جاتی ہیں اور وہ اپنا رخ گھر کی طرف موڑ بھی لیتا ہے.کہتا ہے : چلو واپس جا کر وہ بھی لے آؤں.لیکن غلبہ اسلام کی شاہراہ پر ہمارا ج سفر جاری ہے، اس میں تو ہم واپس نہیں مڑ سکتے.اس میں تو لازماً ہر قدم آگے بڑھے گا.اس لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل نے ہماری تیاریاں مکمل کروانی شروع کی ہوئی ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ جب ہم اگلی صدی میں داخل ہوں گے تو اس قدر تیز رفتاری سے داخل ہوں گے کہ گویا پہلی رفتار سے بعد کی رفتار کو کوئی نسبت نہیں ہوگی.اور یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے.خدا تعالیٰ جس طرح غیر ممالک میں جماعت پر فضل فرما رہا ہے اور جماعت کی طرف لوگوں کی توجہ پیدا ہورہی ہے اور جس 715
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک طرح باہر سے مطالبے آ رہے ہیں اور ترقی کے نئے نئے رستے کھل رہے ہیں، وہ اگر یہاں بیان کئے جائیں تو اس کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں.اور وہ بھی مختصر بیان کئے جاسکیں گے.مجھے سارا سال جو ڈاک موصول ہوتی ہے.اس کی اوسط سات سو خطوط روزانہ ہے.ان خطوط میں سے ایک بڑی تعداد بیرونی ممالک سے آتی ہے.یا مختلف ممالک کی خبروں سے متعلق دفاتر کے ذریعہ موصول ہوتی ہے.چنانچہ حالات کو پڑھ کر دل اللہ کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ کس طرح روزانہ ترقی کے نئے نئے میدان ہمارے سامنے کھل رہے ہیں.پس اگر سال کے 365 دنوں میں ہر روز بیسیوں ترقی کے نئے میدان سامنے آ رہے ہوں تو یہ کہنا کہ ان کو بیان کرنے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں، قطعاً کوئی مبالغہ نہیں.اصل واقعات کا خلاصہ تو گھنٹوں میں پیش کیا جاسکتا ہے لیکن ان پر تفصیلی روشنی نہیں ڈالی جاسکتی.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک جن جن ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور جہاں جہاں ترقی کے نئے رستے کھل رہے ہیں، وہاں وہاں تحریک جدید دن رات کوشاں ہے اور پورا زور لگارہی ہے.تحریک کے دفاتر میں بھی وسعت پیدا ہورہی ہے.واقفین زندگی طوعی طور پر کاموں کے لئے جو وقت دیتے ہیں، سمجھتا ہوں، اب وہ پہلے سے بڑھ کر وقت دے رہے ہیں.ان میں بیداری کی ایک عام رو پیدا ہو گئی ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک نشان ہے کہ کارکنوں میں ایک غیر معمولی احساس پیدا ہو چکا ہے کہ اہم کام ہمارے سپرد ہونے والے ہیں ہمیں بھی تیاری کرنی چاہئے.یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی نشاندہی کر رہی ہیں.اور جماعت کو میں اس لئے بتا تا ہوں کہ وہ ایک نئے ولولے اور نئے جوش کے ساتھ نئے سال میں داخل ہوں.اور اپنی قربانیوں کے معیار کو اور بھی بڑھائیں.گویا نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز اپنی جنس کی قیمت کو بالا کر دے کہ ابھی بھی تو ارزاں ہے، ابھی تو سستا ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کی قدرو قیمت کا تعلق ہے، یہ تو قربانیوں سے وابستہ ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اندرا بھی بھی قربانیوں کے بہت میدان کھلے پڑے ہیں.اگر آپ تلاش کریں تو آپ کو ایسے ہزار ہا احمدی مل جائیں گے، جو ابھی لازمی چندہ جات میں بھی شامل نہیں ہوئے.اور ہزار ہا کو ان کے خاندانوں کی تعداد سے ضرب دے دیں تو وہ تعداد ایسی ہے، جو تحریک جدید میں شامل ہو سکتی ہے لیکن ابھی شامل نہیں ہو سکی.اس لئے یہ کہنا کہ ہم اپنے منتہا کو پہنچ گئے ہیں اور اتنی ہی جماعت کو تو فیق ہے، بالکل غلط بات ہے.ہمارے 716
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1983ء اندر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف یہ کہ خدمت کی توفیق زیادہ ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس تو فیق کے مقابل پر جماعت جس تیزی سے پھیل رہی ہے، وہ بھی تو ایک ایسا میدان ہے، جو قربانیوں میں اضافے کے مزید تقاضے کرتا رہے گا.خدا کے فضل سے ساری دنیا میں لوگ احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں اور ساری دنیا کے ممالک میں جماعت وسعت پذیر ہو رہی ہے.جماعت میں نئے آنے والوں کی تعداد ہی کو شامل کر دیا جائے تو اگلے سال نمایاں فرق ہونا چاہئے.اس لئے مجھے تو مزید ترقی کے بہت کھلے میدان نظر آرہے ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں اور خدا کا ہمیشہ یہ سلوک رہا ہے کہ جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب حد ہو گئی ، اس سے آگے بظا ہر کوئی قدم بڑھنے کی جگہ نہیں رہی تو اللہ تعالیٰ پھر نیا میدان کھول دیتا ہے، پھر جماعت اور زیادہ آگے قدم بڑھاتی ہے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو مزید توفیق عطا فرمائے گا اور ہم بفضلہ تعالیٰ تحریک جدید کی قربانیوں کے ہر میدان میں آگے بڑھیں گے.اس ضمن میں ہمیں بعض باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہئے.دوستوں کو یاد ہوگا کہ تحریک جدید کے آغاز میں ایک 19 نکاتی پروگرام بھی پیش کیا گیا تھا.اور یہ پروگرام اس غرض سے تھا کہ جماعت رفتہ رفتہ زندگی کی ایسی دلچسپیوں کو کم کرتی چلی جائے، جن میں ان کا روپیہ اسلام کے سوا دوسری جگہ خرچ ہوتا ہے.اور وہ روپے سمیٹ کر جہاں جہاں سے بھی انسان بچا سکے، ضرور بچائے.اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دے.اس سارے پروگرام کا آخری مقصد تو یہی بنتا تھا.لیکن اس مقصد کے حصول کے دوران جماعت کے اندر جو حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہوتی تھی، وہ اپنی ذات میں ایک بہت بڑا پھل تھا.مثلاً سادہ زندگی کا مطالبہ ایسے زمانہ میں جب کہ دنیا مادہ پرستی میں مبتلا ہو رہی ہو.اسی طرح لہو و لعب سے پر ہیز جبکہ دنیا میں ایسی چیزیں ایجاد ہو چکی ہوں کہ جنہوں نے قوموں کے کریکٹر تباہ کر دیئے ہیں اور لہو ولعب کی طرف توجہ نے خدا سے غافل کر دیا ہے.یہ دونوں چیزیں مثال کے طور پر ایسی ہیں، جن کی پابندی سے آپ کے چندوں میں اضافہ ہوگا.لیکن چندوں کا اضافہ اپنی جگہ ہے اور بالکل الگ مقصد ہے.یہ دونوں باتیں اپنی ذات میں ایسے عظیم الشان مقاصد ہیں کہ جس قوم کو حاصل ہو جائیں، وہ آزاد قوم کہلا سکتی ہے.تحریک جدید کو چاہئے کہ وہ اس پہلو کی طرف بھی توجہ کرے.جہاں مالی قربانی میں اضافہ ہورہا ہے، وہاں وقتا فوقتا تحریک جدید کے 19 نکاتی پروگرام کو مختلف رنگ میں جماعت کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے.تا کہ ہمارے قدم متوازن طور پر آگے بڑھیں.ہمارے کردار میں بھی برکت مل رہی ہو اور ہمارے قربانیوں کے معیار میں بھی برکت مل رہی ہو.ا 717
خطبہ جمعہ فرمودہ 28اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو تو اس کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ ایسا ضرور ہوگا.کیونکہ اللہ تعالیٰ جس طرح جماعت پر فضل فرمارہا ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمارے دل کی نکلی ہوئی دعائیں ہوں اور وہ قبول نہ ہوں.اللہ تعالیٰ تو ہم پر اتنے احسان فرما رہا ہے کہ بعض دفعہ دعا کا خیال آتا ہے تو وہ اسے قبول فرما لیتا ہے.کجا یہ کہ ساری جماعت اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کے ساتھ اور در دوالحاح کے ساتھ دعائیں کر رہی ہو اور اللہ تعالیٰ ان کو قبول نہ فرمائے.یہ ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے ہم اس یقین کے ساتھ تحریک جدید کے اس نئے سال میں داخل ہورہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنے فضلوں اور رحمتوں کو پہلے سے زیادہ اور زیادہ بڑھاتا چلا جائے گا.مطبوعه روزنامه الفضل 27 نومبر 1983ء) 718
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطاب فرموده 30 اکتوبر 1983ء آسٹریلیا میں بکثرت ایسے دل ہیں، جو بڑی جلدی اسلام میں داخل ہوں گے خطاب فرمودہ 130اکتوبر 1983ء برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ مرکزیہ 23...اب جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا، میں آسٹریلیا سے متعلق کچھ باتیں آپ کو بتانا چاہتا ہوں.کیونکہ مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں، میں نے نجی سے متعلق کچھ باتیں بیان کی تھیں اور یہ کہا تھا کہ تقسیم کر کر کے مختلف اجلاسوں میں مختلف باتیں بیان کروں گا.انصار اللہ کے لئے میں نے آسٹریلیا کا مضمون رکھا تھا.خدام الاحمدیہ کہیں یہ نہ سمجھیں اور شکوہ نہ کریں کہ خود بوڑھا ہے، اس لئے ان کی رعایت کی ہے.انصار کے ساتھ ایک تعلق تو بہر حال ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ انصار جماعت کا دماغ ہیں اور سب سے بالا حصہ ہیں، اس لئے ان کی یہ حیثیت تو ہم کسی صورت میں بھلا نہیں سکتے.جہاں تک میری محبت کا تعلق ہے، وہ سب کے لئے برابر ہے.بڑھوں، جوانوں اور بچوں سب کے لئے ایک جیسی ہے.لیکن انصار کے مقام کے لحاظ سے ان کی اپنی ایک عظمت ہے، جس کو خدا بھی نہیں بھلاتا.انہیں ایسی عظمت حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ بھی بوڑھوں اور جوانوں میں تفریق فرماتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں مقبول دعاؤں کا ذکر فرمایا ہے، وہاں نیکی کی بحث اٹھائے بغیر یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ کہتا ہے کہ جب کوئی سفید سر والا بڑھا دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو مجھے شرم آجاتی ہے کہ میں اس کا انکار کروں.اس لئے عمر کا ایک تقاضا ہے.انصاراب دنیا سے رخصت ہونے والی عمر میں داخل ہوئے ہوئے ہیں.کوئی آج کوئی کل جانے والا ہے.ویسے تو جوان بھی جاتے رہتے ہیں لیکن بحیثیت عمر انصار کو خدا نے بزرگی کا اور تقویٰ کا ایک اعلیٰ مقام بخشا ہے.اور بحیثیت عمران کی دعا ئیں زیادہ قبول ہوتی ہیں.اس لئے مجلس انصار اللہ میں بیان کرنے کے لئے میں نے اگر خاص حصہ رکھ لیا تو وہ بھی اس اجتماع میں اس وقت شامل ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے بوڑھوں اور جوانوں کو ہمیشہ روحانی لحاظ سے بھی برابر کا جوان رکھے.مشرق بعید کے سفر میں آسٹریلیا میں مسجد کی جو بنیا د رکھی گئی ہے، اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک غیر معمولی اہمیت یہ بھی حاصل ہے کہ جیسا کہ آپ سن چکے ہیں، براعظم آسٹریلیا میں جماعت احمدیہ کی طرف سے بنائی جانے والی یہ پہلی مسجد کی بنیا تھی، جس کے ساتھ ایک مشن ہاؤس بھی انشاء اللہ تعمیر کیا 719
اقتباس از خطاب فرمودہ 30 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جائے گا.اس کے لئے 27 ایکڑ کا وسیع رقبہ لیا گیا ہے، جو سڈنی کے مضافات میں ایک مشہور قصبہ (Black town) بلیک ٹاؤن کی میونسپلٹی اور اس کی ایک آؤٹ پوسٹ رورسٹون (River stone) کے بالکل درمیان میں واقع ہے.بلیک ٹاؤن کا قصبہ آگے پھیل رہا ہے.سکیم منظور ہو چکی ہے، امید ہے، ایک دو سال کے اندر یہ با قاعدہ سڈنی کا ایک حصہ بن جائے گا.مسجد کی جگہ کھلی اور بڑی پر فضا ہے.دو بڑی سڑکیں پاس سے گزرتی ہیں.مسجد کی تعمیر کے لحاظ سے یہ جگہ نہایت ہی با موقع اور مناسب ہے.20 ستمبر کو مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جاتا تھا، اس دن جب ہم وہاں گئے تو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ جماعت کی توقع کے مقابل پر حاضری بہت تھوڑی تھی.چنانچہ تعجب تو ہوا لیکن مایوسی مجھے بالکل نہیں ہوئی کیونکہ اتفاق سے یا تصرف الہی کہنا چاہیے، اس مسجد کے سنگ بنیاد کے موقع پر میں نے جو مضمون تیار کیا تھا، اس کی بنیاد ہی اس بات پر تھی کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک لق و دق صحرا میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کی تھی ، اسی طرح ہم آج یہاں مسجد کی بنیاد رکھیں گے.اور اس یقین کے ساتھ رکھیں گے کہ یہ صحرا بھی خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ روحانی آبادیوں میں تبدیل ہو جائے گا.گو آج اہل آسٹریلیا اس بات سے غافل ہیں کہ یہاں ایک واقعہ ہو رہا ہے لیکن کل کی نسلیں حسرت کے ساتھ یاد کیا کریں گی کہ کاش ہم ہوتے اور ہم اس تقریب میں شامل ہوتے.پس جو مضمون تھا ، حالات بعینہ اس کے مطابق ظاہر ہوئے.مقامی جماعت تو بڑی سخت شرمندگی محسوس کر رہی تھی اور میں ان کو تسلیاں دے رہا تھا.میں نے کہا: آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ اللہ کا فضل ہے اور اسی میں مجھے اللہ کی ایک تقدیر کارفرما نظر آ رہی ہے.اور جہاں تک خدا کی تقدیر کا تعلق ہے، تبلیغ اسلام کے معاملہ میں، وہ بھاری رہے گی.آپ بالکل مطمئن رہیں، اللہ تعالیٰ ضرور موقعے عطا فر مائے گا.بہر حال مقامی جماعت نے جو عذر پیش کیا، وہ یہ تھا کہ غیر از جماعت مسلمانوں کو بڑی کثرت سے دعوت دی گئی تھی اور انحصار کیا گیا تھا کہ وہی اس تقریب میں زیادہ شامل ہوں گے.لیکن اس کے مقابل پر بعض بین الاقوامی تنظیمیں ، جو گویا جماعت کی مخالفت کی خاطر بنائی گئی ہیں، انہوں نے بڑا روپیہ خرچ کیا اور بڑی محنت کی.یہاں تک کہ تقریباً پچاس ہزار مسلمان باشندوں کو ، جو آسٹریلیا میں رہتے ہیں ، خطوط بھی لکھے اور لٹریچر بھی بھجوایا، مساجد میں خطبے بھی دیئے گئے اور پوسٹر بھی لگائے گئے کہ کوئی مسلمان اس تقریب میں شامل نہ ہو ورنہ وہ مسلمان نہیں رہے گا.یعنی خدا کا گھر بنایا جارہا ہے، اس لئے سارے تو بہ اور استغفار کریں اور اس گھر کے قریب نہ پھٹکیں.چنانچہ اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہونے والے اس حد تک متاثر ہوئے کہ بعض احمدی نہ 720
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اقتباس از خطاب فرموده 30 اکتوبر 1983ء دوستوں نے کہا کہ ہمارے بعض بڑے قریبی اور گہرے دوست تھے، انہوں نے پکے وعدے کئے ہوئے تھے کہ وہ ضرور آئیں گے لیکن آخری وقت پر یہ معذرت کر دی کہ اتنا شدید دباؤ ہے کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے.اس لئے ہم مجبور ہو گئے ہیں، ہم اس تقریب میں شامل نہیں ہو سکتے.میں نے کہا: اگر وہ نہیں آتے تو جہاں تک اس مسجد کا تعلق ہے، اس کو تو ایک ذرہ کا بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا.کیونکہ یہ مسجد خالصہ اللہ بنائی جا رہی ہے.اور اللہ کے رسول نے ہمیں جو خوشخبریاں عطا فرمائی ہیں، وہ اتنی عظیم الشان ہیں کہ مسجدوں کی رونق اور عبادت کی رونق کا انسانوں کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں رہنے دیا.ان معنوں میں کہ اس کا انسانوں کے دلوں کے ساتھ تعلق ہے، ان کی تعداد کے ساتھ تعلق نہیں.ان کے خلوص اور تقویٰ کے ساتھ تعلق ہے، ان کی نفری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.چنانچہ ایک موقع پر ایک عرض کرنے والے نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ فرماتے ہیں کہ باجماعت نماز پڑھا کرو تو میں تو ایک گڈریا ہوں، مجھے صحرا میں باہر بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے نماز کا وقت آجاتا ہے، میں کیسے باجماعت نماز پڑھوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم اذان دیا کرو.اگر کوئی مسافرسن لے گا تو وہ آجائے گا اور تمہاری نماز کو باجماعت کر دے گا.لیکن تمہارے دل کی نیکی اور تمہارا ارادہ اس بات سے مستغنی ہے کہ کوئی آتا ہے کہ نہیں آتا.اگر کسی مسافر نے بھی تمہاری آواز نہ سنی تو خدا آسمان سے فرشتے نازل کرے گا، وہ تمہارے پیچھے نماز پڑھا کریں گے اور تمہاری نماز کو نماز با جماعت بنادیں گے.پس یہ خدا ہو، جس قوم کا اور یہ رسول ہو، جس امت کا ، اس کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آدمی تھوڑے آئے تھے یا زیادہ آئے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ دل کی نیکی اور دل کا تقویٰ ہی وہ چیز ہے، جو اللہ کے حضور قبول ہوتی ہے.اور اس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ خدا نے اس کو قبول فرما لیا ہے.چنانچہ اس کی خوشخبریاں بھی دیں اور بعد میں پھر جس رنگ میں پیار اور محبت کا سلوک فرمایا، وہ بھی ایک دیکھنے والی چیز تھی.وہ جماعت، جس کا چہرہ تقریب سنگ بنیاد کے وقت اترا ہوا تھا، رات کے وقت اس کے چہرے پر سے خوشیاں پھوٹی پڑتی تھیں اور دلی خوشی کا اظہار کر رہے تھے.کیونکہ اسی شام کو اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کا ایک عظیم الشان موقع مہیا فرما دیا.ایک احمدی دوست جو مسجد سے قریباً 40-30 میل کے فاصلے پر Wisemans Ferry کے مقام پر رہتے ہیں، انہوں نے ایک کلب میں رات کے کھانے کی دعوت دی تھی، جس پر انہوں نے اپنے آسٹریلین دوستوں کو بلایا ہوا تھا.اس جگہ اکثر معززین ریٹائر ہو کر زمینیں 721
اقتباس از خطاب فرموده 30 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک خریدتےاور شوقیہ زمیندارہ کرتے ہیں.مغربی قوموں میں یہ رواج ہے.یہ بہت ہی چھوٹا مگر بہت ہی پیارا گاؤں ہے.بڑے (Intellectual) یعنی صاحب علم و دانش لوگ وہاں رہتے ہیں.اس کے علاوہ لوگ بڑی کثرت سے وہاں سیر کے لئے جاتے ہیں.چنانچہ جب ہم مسجد کی جگہ سے وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر ہمیں حیرت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سارے کے سارے مدعوین پہنچ گئے تھے اور ان میں سے ایک بھی غیر حاضر نہیں تھا.ایک طرف بائیکاٹ تھا، مسجد کا مسلمانوں کی طرف سے اور دوسری طرف عیسائی آ رہے تھے، اپنے آپ کو تبلیغ کروانے اسلام کی.وہاں کھانے کے بعد جو مجلس لگی، وہ اللہ کے فضل سے نہ ،.صرف بہت دلچسپ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے دل حیرت انگیز طور پر اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے اور وہ اس کا بے اختیار اظہار کر رہے تھے.چنانچہ اس موقع پر ایک لمبی مجلس سوال و جواب ہوئی، جس میں تمام اہل فکر طبقہ کی طرف سے مختلف رنگ میں سوالات کئے گئے ، جن کے میں نے وہاں جواب دیئے.جن کا ایک نتیجہ تو وہ تھا، جو اس تقریب میں شامل ہونے والے احباب جماعت کو نظر آرہا تھا اور ان کے دل محسوس کر رہے تھے اور کچھ اظہار ایسے تھے، جو الفاظ میں ہوئے یا موقع پر بعض ایسی باتیں ظاہر ہوئیں، جن سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرمایا ہے.ایک صاحب تھے، جو سوال کر رہے تھے لیکن ان کی آواز پوری طرح نہیں آ رہی تھی.میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کی آواز ریکارڈ کرانا چاہتا ہوں، اس لئے آپ سوال کرنے کے لئے یہاں میرے پاس سٹیج پر تشریف لے آئیں.وہ تشریف لائے تو بڑے سخت پریشان اور گھبرائے ہوئے تھے لیکن جب پاس آئے تو پھر انہوں نے دو سوال کئے اور اطمینان سے بیٹھ گئے.اور جب میں نے ان کے سوالوں کے جواب دیئے تو کہنے لگے: میرے سوالوں کا جواب مجھے مل گیا ہے.چنانچہ وہ بڑی تسلی کا اظہار کر کے سٹیج سے چلے گئے تو انہوں نے ایک احمدی دوست کو بتایا کہ میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ ہوا ہے.انہوں نے میرے متعلق بتایا کہ جب میں ان سے دور تھا تو میری طبیعت میں سخت گھبراہٹ تھی لیکن پھر میں جتنا جتنا ان کے قریب ہوتا گیا، میرے دل کو طمانیت اور سکون ملتا چلا گیا اور جب میں ان کے سامنے آیا تو ہرقسم کی بے چینی میرے دل سے دور ہوگئی اور میرا دل کامل طور پر مطمئن ہو گیا.جتنی دیر میں بیٹھا رہا، میرے دل پر طمانیت کا سایہ رہا اور میں اس کی یاد لے کر واپس آیا ہوں.یہ اس کے دل کی حالت تھی اور میں اس کو اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ اس میں انسانی کوشش کا کوئی دخل نہیں تھا بلکہ یہ اللہ کا فضل تھا، جو آسمان سے نازل ہورہاتھا اور دلوں کو اسلام کی طرف مائل کر رہا تھا.722
اقتباس از خطاب فرمودہ 30اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الهی تحریک...جلد ششم وہاں ایک اور صاحب بھی تھے، انہوں نے آخر پر سوال کیا.پہلے کہا کہ میں لکھ کر سوال کروں گا.میں نے کہا: ٹھیک ہے، آپ لکھ کر دے دیں.انہوں نے سوال لکھنے میں کچھ دیر لگائی.پھر کہا کہ بس میں نے ارادہ چھوڑ دیا ہے، میں نہیں لکھتا.میں نے ان سے کہا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، میں یہاں سوال کرنا نہیں چاہتا، میں علیحدگی میں آپ سے وقت لینا چاہتا ہوں اور آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا: ٹھیک ہے، مجلس کے بعد آپ تشریف لائیں، میں آپ کو الگ طور پر وقت دوں گا.وہ صاحب جب الگ ہوئے تو میرے ساتھ گلے لگ گئے اور کہنے لگے کہ مجھے مجلس میں یہ کہتے ہوئے شرم محسوس ہورہی تھی کہ میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ ساری عمر جس شخص کی تلاش رہی ، خدا نے مجھے وہ عطا فرما دیا ہے.پھر کہنے لگے: میرے دل کی جو کیفیت ہے، وہ میں بیان نہیں کر سکتا.اب میری صرف ایک درخواست ہے کہ میرے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ مجھے نیکی کی توفیق عطا فرمائے.میں نے ان کا پتہ پوچھا، اپنا پتہ ان کو دیا.بعد میں یہ معلوم کر کے مجھے تعجب ہوا کہ وہ صاحب وہاں کے ٹیلیوژن کے پروگراموں میں آنے والے ایک تھے ، جو عمدا اندھیرے میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے اور اسی لئے سوال بھی سب کے سامنے نہیں کرنا چاہتے تھے.انہوں نے بعد میں ایک احمدی دوست کو بتایا کہ یہاں اتنا معروف ہوں کہ اگر میں آجاتا تو لوگوں نے مجھ سے آٹو گراف لینے کی مصیبت ڈال دینی تھی ، اس لئے میں پبلک کے سامنے آنے سے جھجک رہا تھا.اندھیرے میں پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور وہاں آکر انہوں نے بڑی محبت کا اظہار کیا.ہمارا پتہ لیا اور بڑی عجیب طمانیت تھی ان پر.وہ تو دیکھنے والی بات تھی، جو نظر آ رہی تھی ، الفاظ میں بیان کی ہی نہیں جاسکتی.غرض خدا کا فضل شامل حال رہا.بعد میں سب نے یہ شکوہ کیا کہ آپ نے تھوڑ اوقت کیوں دیا ہے؟ میں نے کہا: میرا قصور نہیں ہے، انہوں نے اندازہ لگایا تھا کہ ڈیڑھ دو گھنٹے کا وقت کافی ہوگا، اس لئے ہال بک ہی اتنی دیر کے لئے کروایا گیا تھا.لیکن ان کو شکوہ رہا کہ نہیں ہم تو کئی گھنٹے تک بیٹھ سکتے ہیں.آپ بے شک خص بیٹھے رہیں، ہم تیار ہیں.میں نے کہا یہ مجلسیں اللہ تعالیٰ کی توفیق اور فضل کے ساتھ جاری رہیں گی.دوسرے یا شاید تیسرے دن انہوں نے اپنے میزبان سے مل کر اس عشائیہ کے متعلق باتیں شروع کیں اور اپنے اپنے تاثرات بیان کرنے لگے.ایک بہت دلچسپ تاثر معلوم ہوا.میزبان کی ایک بیٹی ہیں، وہ بڑے اخلاص سے خدمت کرتی رہیں.اس دوران ان کے اندر بڑی پاک تبدیلی پیدا ہوئی.انہوں نے بتایا کہ ایک معمر خاتون میرے پاس آئیں اور مجھے یہ کہا کہ میں ان کو فورا نماز سکھانی شروع کروا دوں.723
باقتباس از خطاب فرمودہ 30 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کیونکہ کل کی مجلس کے بعد مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں لازماً مسلمان ہونا ہی پڑے گا.میری عمر کا کچھ پتہ نہیں، کب مر جاؤں؟ اس لئے میں اللہ سے یہ تو کہہ سکوں گی کہ میں نماز سکھتے سیکھتے مری تھی.چنانچہ وہ نماز کی کتاب بھی لے کر گئیں اور پہلا سبق بھی لیا.اس کے علاوہ خدا تعالی کے فضل کے ساتھ وہاں جو متفرق تبصرے موصول ہوئے، ان سے دل کو بڑا ہی سکون ملا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیسا موازنہ فرمایا ہے.جن سعید روحوں کو وہ ہدایت دینا چاہتا ہے، کوئی ان کو روک نہیں سکتا.اور جو فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے ہدایت کے قریب نہیں جانا، کوئی ان کو زبردستی ہدایت کی طرف لا بھی نہیں سکتا.یہ تقدیر الہی ہے اور یہ بھی لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کا ایک مظہر ہے.کہ کسی رنگ میں بھی دین میں خدا نے جبر نہیں رکھا.جس کی خواہش ہے اور جو چاہتا ہے، وہ ہدایت پا جائے گا.جو نہیں چاہتا، اللہ تعالیٰ اس کو زبردستی ہدایت نہیں دے گا.اس سے معلوم یہ ہوا کہ ہمارے بس میں تو کچھ بھی نہیں.یہ تو خدا کا کام ہے اور ہمیں دعا ئیں کرنی چاہئیں، جو لوگ نہیں چاہتے ، اگر ہم عاجزانہ دعائیں کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو بھی بدل سکتا ہے اور وہ اپنے رحم اور شفقت کے ساتھ زیادہ لوگوں کو ہدایت دینے کا فیصلہ فرما سکتا ہے.کچھ لوگ بے اعتنائی کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ تو نہیں کہ ہم بھی ان سے بے اعتنائی کریں.ایسی صورت حال پر ہی تو غالب کا یہ شعر چسپاں ہوتا ہے.بہرہ ہوں میں تو چاہیے دونا ہو التفات سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر کہ میں بہرا ہوں، چکوٹھیک ہے.لیکن دستور تو یہ ہے کہ بہروں سے بار بار بات کی جاتی ہے.مکرر بات کی جاتی ہے اور اونچی آواز میں بات کی جاتی ہے.اس لئے میں بھی مکرر کہے بغیر سنتا نہیں.پس اگر ہمارے بھائیوں کا یہی سلوک ہے تو میں ان کو بتاتا ہوں کہ ہم اپنی بات مکرر اور مکرر اور مکر رکہتے ہی چلے جائیں گے، یہاں تک کہ خدا ہمارے دلوں کی کیفیت کو بھانپے گا اور ہم پر رحم فرمائے گا اور ان کو سننے کے کان عطا فرمائے گا اور ہماری باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فر مائے گا.پس دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ دے اور دل ان کو جو نہ دے ہم کو زباں اور اگر ہمارے کہنے میں کچھ کمزوریاں رہ گئیں ہیں تو ان کمزوریوں کو دور فرمائے.اگر ان کے دلوں کے زنگ حائل ہیں تو ان کے دلوں کے زنگ دور فرمائے.ہم نے تو یہ بات سنا کے چھوڑنی ہے اور پہنچا کے چھوڑنی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ ہم وہ قوم نہیں ہیں، جن کی سرشت میں ناکامی کا خمیر ہوتا ہے.ہم صاحب عزم 724
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطاب فرموده 30اکتوبر 1983ء لوگوں کی اولاد ہیں اور صاحب عزم سرداروں کے غلام ہیں.اس لئے عزم اور ہمت کی اس چٹان پر قائم ہیں، جس کو دنیا کی کوئی طاقت تو ڑ نہیں سکتی.چنانچہ یہ تو ایک نمونہ ہے ورنہ ہم تو دن رات اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے احسانات کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ دلوں میں پاک تبدیلیاں فرماتا رہا، اپنوں کے دلوں میں بھی اور غیروں کے دلوں میں بھی.وہ ایک عجیب پر لطف نظارہ تھا.ان دنوں خدا کے فضلوں کو دیکھ کر جو لطف آتا تھا، دنیا کا کوئی سیاح اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ چیز کیا ہے؟ اور خدا کے لطفوں کی سیر کا کیا مزہ ہے؟ باہر جانے والے براعظم آسٹریلیا کی پتہ نہیں کہاں کہاں کی سیریں کرتے ہیں؟ ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کی سیر کی ہے اور خوب پیٹ بھر کر سیر کی ہے.پنجابی میں کہتے ہیں، اللہ نے رجا یا اپنے فضلوں سے.وہی ہماری کیفیت ہے.ایسی حیرت انگیز باتیں ہوئی ہیں کہ صاف پتہ چلتا تھا، خدا کی تقدیر کا ہاتھ کام کر رہا ہے.اب مثلاً جن پچاس ہزار آدمیوں کو جماعت کے خلاف زہر یلا لٹریچر بھجوایا گیا اور نہایت ہی ظالمانہ جھوٹ بولے گئے اور لوگوں کو جماعت احمدیہ سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی ، اس کا ازالہ کرنے کے لئے نہ تو ہمارے پاس لوگوں کے پتہ جات تھے، نہ ہمیں یہ طاقت تھی کہ ان پچاس ہزار آدمیوں کو خط لکھیں، نہ اس کام کے لئے وسائل موجود تھے.اگر ہوتے بھی تب بھی ہم یہ کام نہیں کر سکتے تھے.اب اس کا کیا حل تھا؟ سوائے دعا کے اور کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی.چنانچہ ہم نے یہی دعا کی کہ اے اللہ! تو اپنے فضل سے ہی سامان پیدا فرما تا کہ ہماری زبان میں بھی یہ لوگ احمدیت کے متعلق کچھ سن سکیں.چنانچہ ہمارے ایک احمدی دوست نے جو غیر مبائعین میں سے آئے ہیں اور بڑے اچھے اور نیک فطرت آدمی ہیں، انہوں نے اس دوران جہاں جماعت کے بہت سے اچھے کام کئے ، وہاں ایک ریڈیو اسٹیشن سے بھی رابطہ پیدا کیا.چنانچہ اس ریڈیو اسٹیشن کے نمائندہ نے انٹرویو کے لئے حامی بھر لی.وہ ایک ایسار یڈیو اسٹیشن ہے، جس کے پروگرام کو سارے پاکستانی اور ہندوستانی شوق سے سنتے ہیں.کیونکہ اس میں فلمی گانے بھی ہوتے ہیں اور پھر اچانک بڑے دلچسپ انٹرویو بھی آجاتے ہیں.یعنی یہ نہیں بتایا جاتا کہ کیا ہونے والا ہے؟ بس گانا سنتے سنتے اچانک اعلان ہوتا ہے کہ اب سینے ایک بڑا دلچسپ انٹر ویو اور وہ سارے سننے والے اس کو سنتے ہیں.چنانچہ ریڈیو آسٹریلیا کی اس اردو سروس کے نمائندہ ، جو ایک مسلمان ہی تھے ، وہ انٹرویو لینے کے لئے تشریف لائے اور اس کے لئے انہوں نے بڑی تیاری کی ہوئی تھی.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے بعد جو جھوٹے مدعیان پیدا ہوئے ، ان سب کے نام 725
اقتباس از خطاب فرموده 30اکتوبر 1983ء ** تحریک جدید - ایک الہی تحریک بھی ان کو یاد تھے.اور سوال میں ان کو شامل کیا ہوا تھا کہ اب تو معاملہ بڑا Confuse یعنی مبہم ہو گیا ہے.ایک طرف آپ کہتے ہیں، اللہ نے حضرت مرزا صاحب کو نبی بنایا ہے، دوسری طرف فلاں خدا یار اور فلاں س اور فلاں شخص اور عبد الطیف یہ سارے دعویدار ہیں.ہم کس کس کی بات مانیں گے ؟ کس کس کو پرکھیں گے؟ خدا تعالیٰ نے ان کے سوالات کے مؤثر رنگ میں جوابات دینے کی توفیق عطا فرمائی.میں نے ان سے کہا کہ آپ کے لئے محنت کرنے یا تکلیف اٹھانے کی ضرورت ہی کوئی نہیں.آپ مجھے صرف یہ بتائیے کہ خدایا ر اور عبد اللطیف کا ماننے ولا کوئی دنیا میں موجود ہے؟ لیکن ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مسیح موعود کے ماننے والے پھیلے ہوئے ہیں.آپ کو کیا مصیبت پڑی ہے، تلاش کر کے معلوم کرنے کی کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے؟ خدا کی تقدیر واضح کر چکی ہے.جو سچا تھا، اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے بچوں والا سلوک فرمایا اور جو جھوٹے تھے، ان کے حق میں جھوٹوں والا سلوک رونما ہوا.بہر حال جب یہ انٹرویو ختم ہوا تو اس کی باتوں سے ہمیں یہ محسوس ہوا کہ یہ انٹرویو کا میاب ضرور ہے، اس کے نزدیک.کیونکہ وہ صاحب وعدے سے پھر گئے اور انٹر ویو نشر کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کی.حالانکہ پکا وعدہ کر کے گئے تھے کہ فلاں دن میں یا انٹرویو نشر کروں گا.معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے ڈر گئے.حالانکہ خود بڑے شریف آدمی تھے.مگر آج کل شرفاء کچھ زیادہ ہی دل کے کمزور ہوتے ہیں.وہ جو نسبتاً زیادہ گندے ہیں، ان کو گندگی اچھالنے میں بڑی جرات ہے، ان کو بڑے حوصلے مل گئے ہیں.اور شرافت بے چاری دبی ہوئی ہے، خاموش بیٹھی ہے.حالانکہ کثرت سے ہے لیکن پھر بھی ڈرتی ہے.بہر حال کچھ بھی وجہ ہو، انہوں نے انٹرویو لینے کے بعد خاموشی اختیار کی.اب ایک بات ان کے ذہن سے اتر گئی تھی کہ آسٹریلیا کا ایک قانون ہے کہ اگر کوئی انٹرویو لینے کے لئے درخواست کرے اور انٹرویو لے تو اس کا فرض ہے کہ اس کو ضرور نشر کرے ورنہ اس کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ ہو سکتا ہے اور بڑا بھاری حرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے.چنانچہ انبی بشیر احمد صاحب نے ، جو اللہ کے فضل سے غیر مبائعین سے آئے ہیں اور بڑے مخلص احمدی ہیں، انہوں نے فوراً اس کو شو کا ز show cause کا نوٹس دے دیا کہ بتاؤ کیوں نہ تم پر ہتک عزت کا اور حرجانہ کا مقدمہ کیا جائے؟ انہوں نے فور معذرت کی اور کہا: اگلے جمعہ ( 7 اکتوبر ) کو آپ سن لیجئے.چنانچہ ان پچاس ہزار آدمیوں کو اللہ تعالیٰ نے میری آواز میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی صورت پیدا کر دی.علاوہ ازیں جہاں تک آسٹریلیا کے انگریزی دان طبقے کا تعلق ہے، اس کو پیغام پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بڑے عجیب عجیب انتظام فرمائے.وہاں ایک ایسا ریڈیو ٹیشن بھی ہے، جو اس لئے خاص طور 726
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطاب فرمودہ 30 اکتوبر 1983ء پر دلچسپی کا مرکز ہے کہ اس میں اچانک ٹیلیفون کے ذریعہ انٹرویو نشر ہوتے ہیں.اور یہ وہاں کے ریڈیو کا سب سے اہم اور ہر دل عزیز پروگرام ہے.یہاں بھی اچانک وہ کہتے ہیں کہ فلاں شخصیت آسٹریلیا میں آئی ہوئی ہے، اس کے ساتھ ہم ٹیلیفون پر باتیں کریں گے اور ٹیلیفون کے ذریعہ جو جواب دیئے جائیں گے ، وہ ساتھ ساتھ نشر ہورہے ہوں گے.اور اگر کوئی ٹیلیفون کے ذریعہ سوال کرنا چاہے تو براہ راست سوال کر سکتا ہے.ریڈیو والے اس کو ، جس کا وہ انٹر ویو لے رہے ہوتے ہیں، پہنچا کر وہیں جواب بھی لے دیں گے.چنانچہ وہ صاحب بھی ٹیلیفون پر انٹرویو کے لئے تشریف لائے اور اگر چہ شروع میں وقت زیادہ دیا گیا تھا.لیکن اس دن آسٹریلیا میں ایک ایسا واقعہ ہوا تھا کہ جس کی وجہ سے سارے آسٹریلیا کی توجہ اس طرف تھی.انہوں نے غالباً 134 سال کے بعد پہلی مرتبہ امریکہ سے بادبانی کشتی کی دوڑ جیتی تھی.چنانچہ اس خوشی کی تقریب کی وجہ سے ریڈیو پر بار بار اعلان ہو رہے تھے ، اس لئے انہوں نے وقت کم کر دیا.لیکن خدا کے فضل سے اس تھوڑے سے وقت میں بھی عیسائیت کے مقابل پر جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ بڑی عمدگی سے پیش کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی.ریڈیو کے نمائندہ نے سوال ایسے اچھے کئے، جس کے نتیجہ میں جو میں چاہتا تھا کہ تبلیغ کا موقع مل جائے ، وہ میسر آ گیا.اور اس پروگرام کو جیسا کہ میں نے بتایا ہے، لکھوکھا آدمی سنتے ہیں.اور چونکہ اس دن خصوصیت سے دوڑ جیتنے کی خبریں بھی نشر ہو رہی تھیں اور اس کے بارہ میں انٹرویو بھی ساتھ نشر ہورہے تھے، اس لئے روزمرہ کے مقابل پر بہت کثرت سے لوگ اس دن ریڈیو پر خبریں سن رہے تھے ، جن میں یہ انٹرویو بھی شامل تھا.جہاں تک اخباروں کا تعلق ہے، وہاں یہ بات بڑی شدت سے محسوس ہوئی کہ براعظم آسٹریلیا میں جماعت احمد یہ کے تعارف میں بڑی کمزوری پائی جاتی ہے.چنانچہ جب سڈنی ہلٹن میں پریس کانفرنس ہوئی تو اخبار نویسوں کو کچھ بھی پتہ نہیں تھا کہ جماعت احمد یہ ہے کیا چیز ؟ اس کے خیالات کیا ہیں؟ کس قسم کے عقائد ہیں؟ اور دنیا کو کیا تعلیم دیتی ہے؟ چنانچہ کچھ اخبار نویس تو تماش بینی کے طور پر آگئے تھے اور کچھ مذہبی نمائندے یعنی مذہب پر لکھنے والے لوگ تھے.ان میں سے ایک مرد اور ایک خاتون تھی، جو اس نیت سے آئے تھے کہ ان کی دھجیاں بکھیر دیں گے، ان پر سخت سوال کر کے ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیں گے.اور یہ انہوں نے بعد میں خود ہی بتایا.چنانچہ شروع میں انہوں نے بڑا سخت معاندانہ اور جارحانہ تنقیدی رویہ اختیار کئے رکھا.لیکن جب پریس انٹر ویو ختم ہوا تو اس وقت تک ان کا رویہ بالکل تبدیل ہو چکا تھا.چنانچہ ان میں سے جو مرد نمائندہ تھا، اس نے بعد میں لکھا کہ میں الگ وقت لینا چاہتا ہوں.میں نے کہا: آپ کے سوال کچھ رہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، بس میں نے ایک بات آپ سے کرنی ہے لیکن 727
اقتباس از خطابه فرمودہ 30 اکتوبر 1983ء تحریک جدید -- ایک الہی تحریک الگ طور پر کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ جب انہوں نے الگ بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کا قصور ہے.ہم نے تو اس لئے حتی کی تھی یا بعض تماش بین آئے تھے کہ ہم سمجھتے تھے کہ آپ لوگوں کی بھی ہرے کرشنا کی قسم کی کوئی تحریک ہے.اور آپ بھی ان کی طرح آکے کچھ چھٹے بجائیں گے اور پیسے مانگیں گے.کیونکہ اس قسم کے مذہب بڑی کثرت سے پھلے ہوئے ہیں.کہنے لگے کہ ہمیں تو اس بات کا تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی جماعت اتنی سنجیدگی کے ساتھ مذہب میں دلچسپی لے رہی ہے اور بڑے Rational رنگ میں اپنے مسلک کو پیش کر رہی ہے، جو دلوں اور دماغوں کو مطمئن کرنے کی طاقت رکھتا ہے.اس لئے ایک تو میں معذرت کے لئے مزید وقت لے رہا تھا، میں شرمندہ ہوں کہ جو شروع کا رویہ تھا، وہ اس وجہ سے تھا.لیکن یہ آپ کی جماعت کا قصور ہے، جو یہاں بیٹھی ہوئی ہے.یہ کیوں چپ کر کے بیٹھی رہی؟ ان کو بتانا چاہیے تھا کہ ہم ہیں کون لوگ ؟ اور ہمارے عقائد کیا ہیں ؟ پھر انہوں نے کہا کہ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہاں مذہب پر لکھنے والے اخباری نمائندوں میں سب سے مؤقر اور سب سے زیادہ صاحب اثر میں ہوں.اور جتنے بڑے بڑے اخبار ہیں، ان سب کی نمائندگی مجھے حاصل ہے.اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی تائید میں لکھنا میں نے ضرور ہے اور جب میں لکھوں گا تو اخبار شائع بھی کریں گے.لیکن ایک بات کی معذرت چاہتا ہوں کہ تھوڑا بہت چٹ پٹا بنانے کی خاطر کہیں کہیں حملہ بھی کرنا پڑے گا ، کوئی ایک آدھ فقرہ خلاف بھی لکھنا پڑے گا ورنہ یہاں کی پبلک کہے گی ، یہ ان کے ہاتھوں بک گیا ہے اور مضمون پھیکا رہ گیا ہے.میں نے کہا: آپ شوق سے حملے کریں.اگر آپ مخالفت ہی پیدا کر دیں گے، میں تب بھی راضی ہوں.کیونکہ ہمارا تو یہ تجربہ ہے کہ مخالفت بھی کام آتی ہے اور دوستی بھی کام آتی ہے.مخالفت کھاد بن جاتی ہے اور دوستی پانی اور ہوا بن جاتی ہے.ہم تو وہ جماعت ہیں، جس کو کوئی چیز نقصان پہنچا ہی نہیں سکتی.آپ شوق سے آزمائش کریں.وہ بڑے خوش ہوئے.کہنے لگے: اچھا، میں اگر وہاں آپ کے ملک میں آؤں.میں نے کہا: ضرور آئیں.آپ ربوہ تشریف لائیں.انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، میں وہاں آؤں گا اور اگر مجھے توفیق ملی تو میں ضرور آپ کے پاس بھی آؤں گا.مجھے اب احمدیت میں بڑی دلچسپی پیدا ہو گئی ہے.جہاں تک ان کی پریس رپورٹنگ کا تعلق ہے، جب انہوں نے مضمون شائع کیا تو اس میں کوئی بھی تیز بات نہیں تھی.معلوم ہوتا ہے، سوچتے سوچتے ان کا دل اتنازیادہ قائل ہو گیا یا مائل ہو گیا کہ انہوں نے چرکے لگانے بھی بالکل چھوڑ دیئے.جماعت کا بہت ہی عمدہ اور بڑے اچھے رنگ میں تعارف کروایا.صرف یہی نہیں بلکہ وہ ہمارے سفیر بن گئے.دوسرے اخباری نمائندوں کو مل مل کر انہوں نے یہ بتانا شروع کیا کہ تم تو ایک چیز مس (Miss) کر رہے ہو، اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ اور جا کر انٹر ویولو.چنانچہ مذہب 728
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطاب فرموده 30اکتوبر 1983ء کے بارہ میں لکھنے والے چوٹی کے دو مختلف نمائندوں نے درخواست کی.ایک کو تو ہم نے آخری دن وقت دے دیا، دوسرے کے لئے بالکل وقت ہی نہیں تھا.پہلے سے بہت زیادہ مصروفیت تھی اور جس کو وقت دینا پڑا، وہ ایک خاتون نمائندہ تھیں، جو سارے چرچ آرگنائزیشن Church Organization کی نمائندگی کر رہی تھیں.وہاں ایک Uniting Church ہے.لیکن یونائٹنگ چرچ کے اوپر ایک اور چرچ ہے، جو چرچ کی جتنی بھی تنظیمیں ہیں، یہ ان سب کا خلاصہ ہے.ان کی ایک خاتون نمائندہ تھیں، جو انٹرویو لینے کے لئے تشریف لائیں.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو انٹرویو لینے کا کس طرح خیال آیا ؟ انہوں نے کہا: بات یہ ہے کہ وہ جو فلاں اخباری نمائندہ ہے، جس نے آپ کے متعلق مضمون لکھا ہے، میرے اس کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات ہیں.وہ صرف میرا ہی گرد نہیں بلکہ ہم سب کا گر د ہے، جن کا نئی پود سے تعلق ہے.اس نے مجھے فون کیا تم مذہب پرلکھتی ہو تم ضرور جا کر انٹرویو کے لئے وقت لو ورنہ تم مس (Miss) کرو گی.اس لئے میں آپ سے انٹرویو لینے کے لئے آئی.لیکن بہر حال جب انٹرویو شروع ہوا تو مجھے یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ مذہب کے بارہ میں لکھنے والی اور عیسائی چرچز کی نمائندہ ہے اور سوالات کرتی تھی اور ان کے جوابات سن کر ساتھ تائید بھی شروع کر دیتی تھی کہ ہاں ٹھیک ہے.یہ بات بالکل ٹھیک ہے.یہ بات بالکل ٹھیک ہے.اور پھر آخر پر اس نے بھی یہی بات کہی کہ اگر میں پاکستان آؤں تو میں ربوہ ضرور آؤں گی.میں نے کہا: پھر آپ کا گرو بھی آرہا ہے، اس کے ساتھ ہی آجائیں ، آپ کا ساتھ ہو جائے گا.اللہ کے فضل سے آپ کو احمدیت کے مرکز کو دیکھنے کا موقع ملے گا.اس نے کہا: ہمیں دلچسپی پیدا ہو گئی ہے کہ جا کر معلوم کریں، مرکز دیکھیں، کیا تنظیم ہے؟ کس قسم کے لوگ ہیں؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہی یہ انتظام فرمارہا تھا.اب وہ اخبارات، جن میں ہماری خبریں شائع ہوتی رہی ہیں لکھوکھا کی تعداد میں چھپتے ہیں.علاوہ ازیں بڑے بڑے مؤقر جرائد ہیں، جن میں ان کے اپنے نمائندگان، جب احمدیت کے حق میں لکھتے ہیں تو لوگ ان کی باتوں کو بہت وزن دیتے ہیں.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ تھا کہ جماعت احمدیہ کی تبلیغ کا انتظام بخیر و خوبی ہوتا چلا گیا.مطبوعه روزنامه الفضل 13 فروری 1984ء) " آسٹریلیا میں جو دلچسپ مجالس ہوئیں، ان میں سے ایک بہت ہی پیاری اور دلچسپ تقریب ایک سکول میں منعقد ہوئی.ہماری مسجد کے قریب River Stone ہائی سکول کے پرنسپل صاحب نے مجھے دعوت دی کہ ہمارے سکول میں آکر بچوں سے خطاب کریں.اور خطاب بھی اس طرح ہو کہ پہلے ساری اسمبلی کو خطاب کریں اور اس میں سکول کے بچوں کے علاوہ بڑی عمر کے بالغ مرد عورتیں سب شامل تھے.729
اقتباس از خطاب فرمودہ 30اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک T انہوں نے کہا: معززین کو بھی بلانا چاہتے ہیں، چرچ کے نمائندوں کو بھی بلانا چاہتے ہیں، بلیک ٹاؤن کا مئیر بھی آئے گا.میں نے کہا: شوق سے آپ بلائیں، جتنے چاہیں، بلائیں.جن صاحب کو پرنسپل صاحب نے کہا تھا ، وہ مجھے بڑے پریشان سے نظر آئے.انہوں نے فارمل طریق پر ایک چھوٹا سا مضمون لکھ کر مجھے دکھایا کہ آپ کو شاید پتہ نہیں، یہاں بڑی Formalities ہوتی ہیں.باقاعدہ ایک جلوس نکلے گا اور آپ کو اس طرح بات کرنی پڑے گی.تو میں آپ کو کچھ لکھ دیتا ہوں.میں نے ان کو وہ چٹ واپس کر دی.میں نے کہا: مجھے اس کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ہے، میں بالکل خالی الذہن ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے جو تو فیق عطا فرمائے گا ، میں کہہ دوں گا.مجھے اس میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں.ان کی Formalities اپنی جگہ ہوں گی، میں تو اپنی شخصیت لے کر جاؤں گا اور اس بے تکلفی سے بات کروں گا، جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہے.چنانچہ وہاں جب گئے تو واقعی با قاعدہ طلبہ کے جلوس نکلے.ان کے ایک خاص قسم کے ہیرالڈ آگے چلنے والے، پھر ان کے پیچھے ایک خاص طبقہ، پھر ان کے پیچھے کچھ اور لوگ.ان کے بعد معززین شروع ہوئے.پھر مئیر صاحب کی باری آئی.پھر میری باری آئی.پھر سکول کے پرنسپل صاحب اور آخر میں میزبان (ڈپٹی پرنسپل) کی باری آئی.اور الٹ ترتیب میں پھر واپسی ہوئی تھی.خیر وہاں اسمبلی کی صورت میں جب ایک تقریب منعقد ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اللہ کے فضل سے بچوں نے بھی اور بڑوں نے بھی اس تقریب میں غیر معمولی دلچسپی لینی شروع کر دی.اور وہ جو Formality اور Tension کا ماحول تھا، وہ یگانگت میں بدل گیا.میں نے بے تکلف انداز میں اسلام کا تعارف کرایا اور ان کو سمجھایا کہ اسلام کے اندر یہ یہ خوبیاں ہیں، اس لئے اسلام کی ان خوبیوں کو دیکھیں، اس پیغام پر غور کریں اور جن کا دل چاہتا ہے، وہ اسے قبول کریں.اس کے بعد پروگرام کے مطابق دو اجلاس ہوئے.ایک سینئر طلبہ کا اور دوسرا جونئیر طلبہ کا.درمیان میں چائے کا وقفہ ہوا.چنانچہ سینئر طلبہ کے اجلاس کے دوران بھی اور بعد میں جونئیر طلبہ کے اجلاس کے دوران بھی میزبان نے کہا کہ آپ طلبہ کو مختصر خطاب کریں اور پھر طلبہ دل کھول کر سوالات کریں.یہ تقریب شروع سے لے کر آخر تک ساڑھے تین گھنٹے میں اختتام پذیر ہوئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ہر دو اجلاس میں بھی میں نے مختصر تعارف کرایا.سینئر طلباء نے بڑے اچھے اچھے سوال کئے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ ساری ریکارڈنگ موجود ہے.جہاں تک میرے اور میرے ساتھیوں کے تاثرات کا تعلق ہے، طلبہ بہت ہی مطمئن ہوئے ، بڑی غیر معمولی محبت ظاہر کی اور 730
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرمودہ 30 اکتوبر 1983ء اسلام میں دلچسپی لینی شروع کی.اور پھر جونئیر نسبتا چھوٹی عمر کے طلباء آئے تو انہوں نے تو حد ہی کر دی.وہ سینئرز سے بھی زیادہ Intelligent نکلے.انہوں نے ایسے ایسے سوال کئے ، جن کے متعلق ہمارا وہم بھی نہیں جاسکتا تھا.جب سب باتیں ہو گئیں، اس وقت میرا دل یہ چاہا کہ ان کو بتاؤں کہ دجال کی بھی پیشگوئی ہے اور دجال کے متعلق یہ یہ باتیں بیان ہوئی ہیں.لیکن خوامخواہ اچانک میں ان کو کہنا شروع کر دیتا کہ آپ لوگ ہی دجال ہیں، اچھا نہیں لگتا تھا.لیکن میری دلی خواہش تھی کہ یہ حصہ بھی پورا ہو جائے.مجھے یہ بتانے کا موقع مل جائے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغربی قوموں کے متعلق ایک خبر دی ہے کہ وہ کس قسم کی ہوں گی؟ اور کس طرح دنیا میں فتنے پھیلیں گے؟ کہ اتنے میں ایک چھوٹا سا بچہ اٹھ کر بولا کہ اینٹی کرائسٹ (Anti christ) کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ اینٹی کرائسٹ دجال کو کہتے ہیں.میں نے اس بچہ کا شکر یہ ادا کیا کہ تم نے تو میرے دل کی بات کہہ دی ہے.چنانچہ دجال کے متعلق میں نے وہ ساری حقیقت بیان کرنی شروع کردی، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ اس طرح ایک کا نادیو ہوگا، جو گدھے پر سوار ہو گا.لیکن میں نے بتایا کہ یہ تمثیلی کلام ہے.دجال اور اس کی سواری کی نشانیوں کے بارہ میں میں نے ابھی تھوڑی سی بات بیان کی تھی تو میں نے پوچھا کہ بچو ! بات سمجھ آگئی ہے.سب نے کہا: ہمیں سمجھ آگئی ہے.پھر میں نے لطیفہ کے طور پر کہا کہ سوائے اس گدھے، جس کا ذکر ہو رہا ہے، باقی سب کو پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ گدھا کون ہے؟ انہوں نے اس لطیفہ کو بہت Enjoy کیا اور بڑے خوش ہوئے.بعد میں جب اس پیشگوئی کی مزید جزئیات کو بیان کیا تو ان کے دل یقین سے بھر گئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچے نبی ہیں.کیونکہ 14 سو سال سال پہلے اس زمانہ کی سواریوں کی ایسی شان سے اور اتنی وضاحت سے پیشگوئی کرنا کہ گویا آنکھوں کے سامنے ایک فلم چل رہی ہے، بتاتا ہے کہ آپ ایک عظیم الشان رسول تھے.میں نے ان کو تفصیل سے بتایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ دجال کا گدھا سمندر میں بھی چلے گا، خشکی پر بھی چلے گا.بادلوں کے اوپر بھی سفر کرے گا اور اس کے پیٹ میں بھی سواریاں بیٹھیں گی اور اندر بجلیاں روشن ہوں گی.چلنے سے پہلے اعلان کیا کرے گا کہ میں جارہا ہوں.میں نیو یارک کے لئے تیار ہوں، میں سڈنی کے لئے تیار ہوں، جس نے آنا ہے ، آ کے بیٹھ جائے.چنانچہ جب میں نے اس تفصیل سے پیشگوئی پر روشنی ڈالی تو طلبہ اس حیرت انگیز واقعہ سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کی شکلیں بدل گئیں.وہ یہ سن کر بہت متاثر ہوئے کہ یہ ساری باتیں حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں.ا 731
اقتباس از خطاب فرمودہ 30اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک طلباء کی اس مجلس میں ایک پادری صاحب بھی موجود تھے ، وہ برداشت نہ کر سکے.اس سے پہلے جب طلبہ کی ان دو مجلسوں کے درمیان چائے ہوئی تھی تو وہ مجھ سے مل چکے تھے.انہوں نے بعض سوال کئے، میں نے ان کے جواب دیئے.میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں کے سامنے سوال کیوں نہیں کرتے ؟ لیکن وہ کچھ گھبرا رہے تھے.کیونکہ انہوں نے جو سوال کئے ، میں نے ان کے جواب دیئے.لیکن ان کے پاس میرے سوالوں کا جواب کوئی نہیں تھا.غرض وہ لوگوں کے سامنے بات کرنے سے گھبراتے تھے.لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ آسٹریلین بچے تو محمد رسول اللہ کے بچے بن رہے ہیں تو ان کے دل میں شدید بے چینی پیدا ہوئی اور اٹھ کر جو سوال کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اندر کس قدر کڑواہٹ اور کس گھل رہی تھی.انہوں نے سوال یہ کیا کہ اصل میں تو مزہ تب آتا کہ اگر آپ کے ساتھ ہم دوسرے مسلمان لیڈروں کو بھی بلاتے اور پھر گفتگو کرواتے.پھر پتہ چلتا کہ بیچ کس کی طرف ہے؟ میں نے کہا: میں آپ کو بتادیتا ہوں کہ انہوں نے کیا کہنا تھا؟ اس لیے آپ مطمئن ہو جائیں کہ آپ نے کچھ بھی Miss نہیں کیا.میں نے کہا: انہوں نے آکر یہ کہنا تھا کہ (معاذ اللہ ) یہ کافر ہیں، یہ دجال ہیں، یہ جھوٹے ہیں، یہ اسلام کے دشمن ہیں، ان کا اسلام سے تعلق ہی کوئی نہیں.ہم ان کو باہر نکال بیٹھے ہیں.ان کا کیا حق ہے کہ خدا اور رسول کی محبت کی باتیں کریں.اور وہ سب کچھ جو ہم سے کر چکے ہیں، وہ سب کچھ آپ کو بتاتے.کچھ میں اور بتا دیتا ہوں کہ فلاں ملک میں ہمارے ساتھ یہ کیا، فلاں ملک میں یہ کیا.یہاں اگر آپ ان کو موقع دیں تو وہ یہاں بھی ہم سے یہی کر کے دکھا ئیں.تو آپ نے Miss کیا کیا ہے، یہ باتیں تھیں، جو Miss کی ہیں.اس کے سوا آپ کو بتانے کے لئے ان کے پاس ہے ہی کچھ نہیں..جب میں نے یہ بتایا تو بچے اور بھی زیادہ متاثر ہوئے اور ان کے چہروں سے خوشی ٹیکنے لگی اور انہوں نے محسوس کیا کہ کیا بے ہودہ بات کی ہے اور کیا اس کو جواب ملا ہے.ایک اور سوال بھی اس نے کیا.لیکن یہ تفصیلی باتیں ہیں، کیسٹ موجود ہیں، ان کے ذریعہ یہ پروگرام سنے جاسکتے ہیں.بہر حال خدا کے فضل کے ساتھ اس تقریب کا جماعت پر بھی بہت اچھا اثر ہوا اور آسٹریلین پر بھی.چنانچہ وہاں سے مظفر احمدی کا مجھے خط ملا ہے.یہ وہی دوست ہیں، جن کے وہ پرنسپل صاحب واقف تھے.انہی کے ذریعہ پرنسپل صاحب نے درخواست کی تھی کہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے.انہوں نے لکھا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک تقریب تو کافی نہیں ہے، اب ہمارے لئے اور تقریبوں کا انتظام کرو.کیونکہ بچوں میں بھی دلچسپی پیدا ہو گئی ہے.تو مظفر نے مجھے لکھا کہ میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ آپ فکر نہ کریں، اب مسجد مکمل ہوگی تو انشاء ہوئی توانہ 732
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اقتباس از خطاب فرموده 30 اکتوبر 1983ء اللہ ایک اور تقریب ہوگی.اور اب تقریبات پیدا ہوتی رہیں گی.یہ راہ و رسم جو جاری ہوئی ہے، اب یہ انشاء اللہ تعالی بد نہیں ہو گی.چنانچہ اس پر پرنسپل صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ سارے سکول میں اسلام کے بارہ میں بڑی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے.اب میرا خیال یہ ہے کہ ان کو ویڈیوفلمیں بھجوائی جائیں اور اگر وہ اچھی نہ ہوں تو کیسٹیں بھجوائی جائیں اور باقی سکولوں میں بھی اس کو جاری کیا جائے.آسٹریلیا کا ایک اور اہم پروگرام بھی قابل ذکر ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، وقت بہت مختصر ہے اور باتیں بہت لمبی ہیں.لیکن یہ پروگرام ایسا ہے، جس کا ذکر بڑا ضروری ہے.اور یہ ہے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کینبرا کی تقریب.ہوا یہ کہ یونیورسٹی کے ایک شعبے نے ہماری جماعت سے درخواست کی کہ ہمیں بھی موقع دیا جائے اور یہاں بھی ایک تقریر ہونی چاہیے.چنانچہ جب جماعت کے ساتھ پروگرام طے ہو گیا تو اس شعبے پر دوسرے مسلمانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ شعبہ اپنے وعدے سے پھر گیا اور بڑی معذرت کے ساتھ ان کی چٹھی آگئی کہ ہم مجبور ہو گئے ہیں، دباؤ برداشت نہیں کر سکتے.اس لئے ہم معذرت کرتے ہیں، ہماری دعوت منسوخ کبھی جائے.اس یونیورسٹی میں ایک اور شعبہ Hebrew اور مذہبی تاریخ کا ہے، جب ان کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا: ہمیں موقع دیا جائے ، ہم تقریر کرواتے ہیں.جب ان کے ساتھ پروگرام طے ہو گیا تو پہلے شعبہ کے سربراہ نے لکھا کہ جی ہمارا موقع ہمیں واپس کر دو غلطی ہوگئی تھی.ہم نے کہا: اب تو واپس نہیں ہو سکتا.اب تو انہوں نے شرافت کا نمونہ دکھایا ہے، ان کا حق ہے.چنانچہ دوسرے شعبہ میں تقریب طے ہو گئی.جس دن ہم نے وہاں تقریر کے لئے جانا تھا، اس سے ایک رات پہلے ہمارے مقامی نیشنل پریذیڈنٹ ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب بڑے پریشان ہو کر تشریف لائے اور کہنے لگے: بہت فکر کی خبریں آ رہی ہیں، ابھی اطلاع ملی ہے کہ اس سربراہ کو، جس نے دعوت دے کر تقریر رکھوائی تھی، بڑی سخت دھمکیاں دی گئی ہیں اور اس قدر باؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ یو نیورسٹی کے وائس چانسلر کے پاس پہنچے اور کہا کہ اب میرے لئے کیا حکم ہے، اس کو منسوخ کر دوں یا جاری رکھوں؟ وائس چانسلر کوئی صاحب دل آدمی تھے، انہوں نے کہا کہ منسوخ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ لاء اینڈ آرڈر اور سکیورٹی کو قائم رکھیں.اس لئے بالکل پیچھے نہیں بنا، صدارت بھی خود ہی کرنی ہے اور تقریب کو جاری رکھنا ہے.اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب بڑے پریشان تھے کیونکہ وہاں بعض ایسے لوگ تھے، جو اخوان المسلمین سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے ارادے بظاہر بہت برے تھے.میں نے ان سے کہا: آپ فکر نہ کریں، دعا کریں، ہمیں تو قطعا کوئی پرواہ نہیں ہے.یہ مخالفتیں تو ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور جب مخالفتیں ہوتی ہیں تو 733
اقتباس از خطاب فرموده 30 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پھر جب خدا کے فضل آتے ہیں تو لطف بھی بہت آتا ہے.اس لئے بالکل مطمئن رہیں، انشاء اللہ کچھ نہیں ہو گا.ہم اللہ کے فضل سے جائیں گے.جو بھی ہوگا، ٹھیک ہے.ہم اللہ کی رضا پر راضی ہیں.جس دن ہم نے صبح کینبرا روانہ ہونا تھا، اس رات میں نے ایک ایسا خواب دیکھا، جس سے میرا دل بہت ہی مطمئن ہو گیا اور میں اس یقین سے بھر گیا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمارا ساتھ نہیں چھوڑے گی.میں نے صبح اٹھ کر بچوں کو بتایا کہ اب مجھے اور بھی زیادہ تسلی ہوگئی ہے.پہلے تو یہ تھا کہ جو ہو، اس پر راضی ہیں لیکن اب یہ تسلی بھی ہوگئی ہے کہ وہ ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے، ان کی کچھ بھی پیش نہیں جائے گی.چنانچہ خواب کا مضمون کچھ اس طرز کا تھا، جس سے انسان کو محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ عام خواب نہیں ہے.میں نے دیکھا کہ ایک موٹر ہے، جس کے دائیں طرف میں بیٹھا ہوں اور اس کا سٹیرنگ کوئی نہیں ہے اور پھر بھی میں اس کو چلا رہا ہوں.میرے بائیں طرف جماعت کے تین، چار عہدیدار بیٹھے ہوئے ہیں.اتنے میں شیخ رحمت اللہ صاحب کراچی والے آتے ہیں اور کہتے ہیں، میں نے ساتھ بیٹھنا ہے.میں نے کہا: میرے دائیں طرف بیٹھ جائیں.جس طرح ہمارے ہاں آج کل جگہ نہ رہے تو ٹرکوں پر رانگ سائیڈ (wrong ) side) پر بٹھانے کا رواج ہے تو میں نے کہا: میرے دائیں بیٹھ جائیں.اور یہ رانگ سائڈ نہیں تھی ، رائٹ سائیڈ تھی.وہاں ان کو بٹھالیا اور وہ بڑی محبت سے میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئے.اور مجھے کوئی تعجب نہیں ہے کہ میں کس طرح موٹر چلاؤں گا، اس میں تو سٹیرنگ کوئی نہیں ہے اور بظاہر کوئی انجن نظر نہیں آتا.لیکن میں بیٹھا ہوا ہوں اور مجھے پورا یقین ہوتا ہے کہ اسی طرح موٹر چلے گی.کچھ دیر کے بعد یہ نظارہ بدلا اور شیخ رحمت اللہ صاحب ( ان کے نام میں اصل پیغام ہے) نے کہا کہ میں ایک منٹ کے لئے ذرا کہیں سے ہو کے آتا ہوں.جب وہ ایک منٹ کے لئے گئے تو ادھر سے ایک دو اور آدمی داخل ہو گئے کہ اچھا موقع مل گیا ہے.اور انہوں نے ساری جگہ پر قبضہ کر لیا اور میں انتہائی دائیں طرف سمٹ گیا اور وہ سب میری طرف آکر بیٹھ گئے.اور وہ سب جماعت کے عہدیدار لگتے تھے کہ ٹھیک ہے، اب ہمیں موقع مل گیا ہے.شیخ صاحب واپس آئے ، انہوں نے کہا: میں کہاں بیٹھوں؟ میں نے کہا: آپ یہاں ساتھ کھڑے ہو جائیں.پرانے زمانہ کی کاروں میں نیچے ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم نکلا ہوتا تھا.اسی قسم کا ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم بھی ان کومل گیا اور وہ میرے ساتھ جڑ کر کھڑے ہو گئے.میں نے کہا: نہیں، اس طرح نہیں ، آپ اندر آجائیں اور میری گود میں بیٹھ جائیں.وہ اندر آئے اور میری گود میں بیٹھ گئے.اور جب وہ بیٹھے تو جگہ نکل آئی اور وہ اتر کر دائیں طرف آرام سے جڑ کر بیٹھ گئے.میں نے اس خواب کے دیکھنے کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہا 734
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطاب فرموده 30 اکتوبر 1983ء کہ یہ اللہ کی طرف سے واضح خوشخبری ہے اور یہ انسانی دماغ کی بنائی ہوئی خواب ہو ہی نہیں سکتی.وقتی طور پر جو پریشانی ہوئی ، اسے دیکھ کر انہوں نے بظاہر یہ سمجھا کہ اللہ کی رحمت جدا ہو گئی ہے اور اب وہ تائید الہی کا سلوک نہیں ہورہا.یہ وہم تھا.اس خواب کے ذریعہ بتادیا گیا کہ خدا کی رحمت جدا نہیں ہوگی.اس نے تو خدا کے فضل سے ہمارے ساتھ جگہ بنانی ہی بنانی ہے.چنانچہ جب ہم کینبرا پہنچے تو ہم نے یہی نظارہ دیکھا.لوگوں نے بائیکاٹ بھی کر رکھا تھا اور اس کے علاوہ وہ تیار ہو کر بھی آئے ہوئے تھے کہ وہاں ایسے سوال کریں گے کہ جس سے ان کا سارا اثر مٹ جائے گا.چنانچہ بعض لوگوں نے بڑے بے ہودہ سوال بھی کئے.مثلاً یہ کہ حضرت مسیح موعود انگریز کا خود کاشتہ پودا تھے.جب تقریر ختم ہوئی تو سوالات شروع ہوئے اور زیادہ تر انہی لوگوں کی طرف سے سوال ہوئے ، جو تیار ہو کر آئے تھے.لیکن خدا نے ایسا فضل کیا کہ ان سوالات کے نتیجہ میں جماعت کا سچا تعارف ہونا شروع ہوا.میرا مضمون تو جماعت احمدیہ اور غیر احمدی فرقوں کے اختلاف کے متعلق تھا ہی نہیں، میرا مضمون تو اسلام کی امتیازی خوبیوں پر تھا.اور سوال اس تقریر کے مضمون کے مطابق ہونے چاہیئے تھے.لیکن ان لوگوں کے ارادے اور تھے ، وہ سوال تیار کر کے آئے تھے.احمدیت اور غیر احمدی فرقوں میں امتیاز اور فرق کیا ہے؟ اس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ جو باتیں میں کہنا چاہتا تھا لیکن اس وجہ سے کہ میرا مضمون اور ہے، میں مجبور تھا کہہ نہیں سکتا تھا، اب مجھے موقع مل گیا ہے.آپ سوال کرتے جائیں، میں جواب دیتا جاتا ہوں.صاحب صدر سے بھی میں نے اجازت لے لی کہ اگر چہ ان کے سوال مضمون سے ہٹ کر ہیں لیکن مجھے کوئی اعتراض نہیں.چنانچہ بڑی دلچسپ مجلس لگی.جو آسٹریلین تھے، وہ سوال و جواب سے خاص طور پر متاثر ہوئے اور جماعت کے قریب آگئے.اور ان کو محسوس ہوا کہ سچائی تو ہے ہی یہاں.یہاں تک کہ سوال کرنے والوں میں کچھ گھبراہٹ اور تلخی شروع ہوگئی.آخر پر جو سوال کیا گیا، اس کا جواب ابھی میں دے ہی رہا تھا کہ صاحب صدر نے کہا: بات یہ ہے کہ یہ ہال 4 بجے سے دوسری پارٹی کے لئے Booked ہے (حضور کی تقریر 2 بجے سے 4 بجے تک تھی) اور ہمیں پتہ ہوتا کہ اتنی دلچسپی لی جائے گی اور اتنی لمبی مجلس ہوگی تو ہم زیادہ دیر کے لئے یہ ہال ریز روکر والیتے تو باوجود اس کے کہ دلچسپی ختم نہیں ہوئی ، ہمارا وقت ختم بھی ہو چکا ہے.بلکہ بیس منٹ اوپر ہو چکے ہیں اور باہر لوگ تنگ کر رہے ہیں.چٹیں آرہی ہیں کہ ہمارے لئے ہال خالی کرو.یہاں نیا گروپ آ گیا ہے.میں نے کہا: ٹھیک ہے، مجبوری ہے، ختم کر دیتے ہیں.یہ بھی ان کی شرافت تھی کہ 20 735
اقتباس از خطاب فرمودہ 30 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک منٹ تک چپ کر کے بیٹھے رہے اور مجھے نہیں بتایا.ان صاحب سے جو سوال کر رہے تھے اور ملیشیا کے رہنے والے تھے، ان سے میں نے کہا کہ میں باہر آپ کا انتظار کرتا ہوں، اگر آپ کو سوال کرنے کی حسرت رہ گئی ہے تو باہر تشریف لے آئیں، وہاں چائے پیئیں گے، مجلس لگے گی.آپ کے ساتھ بات ہو جائے گی.وہ بے چارے سوالوں سے اتنے پشیمان ہو چکے تھے کہ ان کی طرف سے پیغام آگیا کہ میں نے بھی نبی مجلس میں بیٹھنا ہے، اس لئے آپ میرا انتظار نہ کریں، آپ چلے جائیں.دس منٹ کے بعد جب انہوں نے سمجھا کہ ہم چلے گئے ہوں گے تو وہ باہر نکل آئے.میں دیکھتے ہی ان کی طرف بڑھا، میں نے کہا: السلام علیکم، آئیں، سوال کریں.انہوں نے کہا نہیں، میں نے سوال نہیں کرنا ، وہاں سے دوڑ گئے.ایک اور دلچسپ واقعہ، جو یہاں رونما ہوا، وہ یہ تھا کہ جب ہم موٹر میں بیٹھنے لگے تو یو نیورسٹی کے ایک طالب علم ہمارے پیچھے پیچھے آگئے اور کہنے لگے کہ ایک بات تو پکی ہوگئی تاکہ عیسیٰ علیہ السلام فوت : ، ہو گئے ہیں، وہ تو نہیں اب بچتے ان کا قصہ چھوڑیں نیا مسیح آنا ہے تو مجھے یہ بتائیں کہ میں کیوں نہیں ہوسکتا ؟ فلاں کیوں نہیں ہو سکتا؟ یعنی یہ تھا، اس تقریب کے نتیجہ میں ان کی سوچ کا رخ.اب یو نیورسٹی کا ایک سینئر طالب علم ہے اور برملا کہتا ہے کہ یہ غیر احمدیوں نے موقع دیا ہے، ہمیں ان باتوں کے فیصلہ کرنے کا کہ پہلا عیسیٰ فوت ہو گیا ، اس نے اب نہیں آنا تو کہتا کہ میں کیوں نہیں مسیح ہوسکتا ؟ میں نے کہا: کیوں نہیں ہو سکتے ؟ تم بھی ہو سکتے ہو، فلاں بھی ہو سکتا ہے اور فلاں بھی ہو سکتا ہے.لیکن ایک مشکل ہے کہ جسے اللہ نہ کہے کہ تم مسیح ہو ، وہ نہیں ہوسکتا.جس کو خدا نے کہنا تھا، کہہ دیا ہے، تمہیں نہیں کہا.کہتا ہے کہ مصیبت اب یہ ہے کہ بہت سارے دعویدار پیدا ہو جاتے ہیں، اب ہم سچے مسیح کو کس طرح تلاش کریں؟ لیکن یہ سوال اس نے ذرا ٹھہر کر کیا.اس کے بعد جو اس نے بات کی ، وہ اور بھی دلچسپ تھی.کہنے لگا: اگر خدا مجھے کہہ دے تو پھر تو میں ہو سکتا ہوں.میں نے کہا: عقلاً ہو سکتے ہو، جس کو خدا کہہ دے وہ مسیح ہو جائے گا.اس میں کوئی شک نہیں.لیکن یہ بتائیں : آپ کو اس کا شوق کیا ہے؟ تمہیں پتہ ہے، پہلے مسیح سے کیا سلوک ہوا تھا اور تمہیں میں نے تھوڑ اسا بتایا ہے کہ نئے مسیح سے بھی کیا سلوک ہو رہا ہے اور کس طرح ہمارے گھر جلائے جار ہے ہیں اور کس طرح ہمیں اپنے مذہب کا نام رکھنے کا حق نہیں دیا جارہا، کس طرح ہماری دکا نہیں لوٹی جاتی ہیں.اور کس طرح ہمارے زندہ اور فوت شدہ بزرگوں، مردوں اور عورتوں کو گالیاں دی جاتی ہیں.اس کے برعکس حوصلے سے برداشت کرنے کی ہمیں تعلیم دی جاتی ہے.ہمارے سر پر جو کچھ گذر جائے ، ہم نے اس کو برداشت کرنا ہے.جگہ جگہ بچے ذبح کئے جاتے ہیں والدین کے سامنے اور باپ جوان بچوں کے سامنے 736
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطاب فرموده 30 اکتوبر 1983ء ذبح کر دیئے جاتے ہیں.میں نے کہا: یہ ہے، مسیحیت.کہتا ہے یہ مسیحیت ہے تو میری توبہ میں مسیح نہیں بننا چاہتا، میں نہیں مسیح بنتا.میں نے کہا: بس ٹھیک ہے، اب آپ خوب سمجھ گئے ہیں.پھر وہ کہنے لگا کہ اب مجھے آپ یہ بتائیں کہ بچے کا کس طرح پتہ کریں؟ مجھے پریشانی ہے، بہت سے لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صداقت ہماری طرف ہے.ہمیں کس طرح پتہ لگے گا کہ وہ بچے ہیں؟ میں نے کہا: اس کا بڑا آسان علاج ہے.آپ اللہ سے پوچھیں، دعا کریں، وہ تمہیں صحیح راستہ بتائے گا.جس سے ملنے جانا ہو، اس سے راستہ پوچھا جاتا ہے.غیر اللہ کے پاس جاؤ گے تو وہ تمہیں غلط رستہ بتائے گا.اس نے کہا: ہاں ، یہ ٹھیک ہے.اب میں مطمئن ہو گیا ہوں.میں یہ وعدہ کرتا ہوں، میں دعا کروں گا.یہاں میرے احمدی واقف دوست ہیں، انہوں نے مجھے بلایا تھا، جب مجھے تسلی ہوگئی تو پھر میں ان کی معرفت احمدی ہو جاؤں گا.پس آسٹریلین دل کی جو اس وقت کیفیت تھی ، اس کے اظہار کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو ہمارے پاس بھجوادیا.یہی نہیں ہم نے ہر جگہ خدا کے فضلوں کی بارش ہوتے دیکھی اور دلوں کو تبدیل ہوتے دیکھا.آخری بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کی سرزمین پر بکثرت ایسے دل پیدا کئے ہوئے ہیں، جو تھوڑی سی کوشش کا انتظار کر رہے ہیں.اور بڑی جلدی جلدی وہ انشاء اللہ اسلام میں داخل ہوں گے.میں نے ان کو مسجد کی سنگ بنیاد کی تقریب پر جو پیغام دیا تھا، معلوم ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے خاص تصرف کے تابع تھا.اس پیغام کی صداقت کے اظہار کا آغاز ہو چکا ہے.میں نے اہل آسٹریلیا سے کہا تھا کہ تم آئے تھے ، اس ملک میں اس زمانے میں جب کہ یہ ملک نیا یا دریافت ہوا تھا.یعنی انگریز قوم جو بعد میں یہاں آباد ہوئی، اس نے بزور شمشیر اس کو فتح کیا اور ایک نو آبادی بنائی.اور اسے نو آبادی بنانے کے دوران تم نے اصل باشندوں پر بڑے مظالم بھی کئے ہیں.ویسے بھی نو آبادیات کے ساتھ مظالم کا ایسا جوڑ ہے، جو الگ ہو ہی ہوہی نہیں سکتا.آج ہم تمہیں اسلام کی نو آبادی بنانے کے لئے آئے ہیں.اس کے ساتھ بھی ظلم وابستہ ہیں لیکن تم کرو گے اور ہم کہیں گے.یہ مضمون الٹ جایا کرتا ہے.روحانی نو آبادیوں میں پرانے باشندے نئے داخل ہونے والوں پر مظالم کیا کرتے ہیں.جبکہ دنیاوی نوآبادیوں میں نئے باشندے پرانوں پر ظلم کیا کرتے ہیں.یہ ایک تقدیر ہے، جو نہیں بدلا کرتی.پس ہم یہ سب کچھ دیکھ کر آئے ہیں اور تیار ہو کر آئے ہیں اور ہم یہ عزم لے کر آئے ہیں کہ ہم نے تمہیں مسلمان بنا کے چھوڑنا ہے.تم آج ہماری کم مائیگی پر نگاہ نہ کرو، آج یہ خیال نہ کرو کہ ہم اپنے ملک میں بھی مسلمان کہلاتے ہیں کہ نہیں کہلاتے.میں تمہیں بتا دیتا 737
اقتباس از خطاب فرمودہ 30اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہوں کہ خدا کی نظر میں ہم مسلمان ہیں اور جس پر خدا کی محبت کی نظر پڑتی ہے، وہ دنیا میں لازما کامیاب ہوا کرتا ہے.اس لئے تمہیں اب صاحب عزم لوگوں سے واسطہ پڑے گا.جس طرح تم نے اس ملک کو کسی زمانہ میں فتح کیا تھا، اب ہم فتح کریں گے لیکن محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر فتح کریں گے.اور نہیں چھوڑیں گے، جب تک تمہارے دل جیت نہ لیں.پس میں احباب جماعت سے یہ کہتا ہوں کہ آپ سب دعائیں کریں اور اپنی قربانیوں کے معیار کو بلند کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دن رات دعائیں کریں کہ ہمیں اسلام کو چار دانگ عالم میں غالب کرنے کی توفیق عطا ہو.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، اس کثرت کے ساتھ سعید روحیں وہاں پڑی ہوئی ہیں اور ایسی زمینیں ہیں، جن پر ہل نہیں چلایا گیا.وہ کنواریوں کی طرح ہیں اور انتظار کر رہی ہیں، مسیح محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کہ کب اس کا پیغام پہنچے اور ہمارا دولہا ہمیں نصیب ہو.سو اس پیغام کا آغاز وہاں ہو چکا ہے.اس ضمن میں ایک کنواری قوم، جو حقیقت میں کلیۂ اسلام سے بالکل نابلد اور کنواری رہ گئی ہے.اس کا ذکر بھی میں کر دیتا ہوں.وہ قوم ہے، آسٹریلیا کی اصل قوم.یہ ایک ایسی قوم ہے، جو دنیا کی معلوم قوموں میں سب سے زیادہ پرانی تاریخ رکھتی ہے.محققین کا پہلے یہ اندازہ تھا کہ یہ چالیس ہزار سال پرانی قوم ہے.اب نئی تحقیق ہوئی تو ان کے بعض آثار اس سے بھی پرانے نظر آئے.اور یہ کہا گیا کہ یہ پچاس ہزار سال پرانی قوم ہے.ہم اپنے لحاظ سے مدتوں کے ناپنے کے جو پیمانے رکھتے ہیں، ان کے مطابق ہم کہتے ہیں کہ احرام مصر کو بنے ہوئے ساڑھے بارہ ہزار سال ہو گئے ہیں اور یہ گویا ہمارے نقطہ نگاہ سے ایک قدیم قوم ہے.لیکن آسٹریلیا کے اصل باشندوں کے سامنے تو یہ ایک چھوٹا سا بچہ ہے.غرض آسٹریلیا کی اصل قوم قدیم زمانے سے وہاں آباد ہے اور اب محققین یہ کہتے ہیں کہ تعجب نہیں ہو گا اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ لوگ ایک لاکھ سال پہلے سے یہاں آباد ہیں.پس آسٹریلیا کی یہ وہ اصل قوم ہے، جو اسلام سے کلیہ نا آشنا تھی.میں نے وہاں جماعت سے کہا کہ مجھے تو بڑی سخت بے چینی ہے.جب تک ان کے لیڈروں سے ملاقات نہ ہو اور ان کو اسلام کا پیغام پہنچانے کی راہیں نہ کھلیں، میرا یہ سفر مکمل نہیں ہو سکتا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ پیشگوئی ہے کہ کنواریاں اس کا انتظار کریں گی اور آسٹریلین میں تو پھر بھی اسلام کسی نہ کسی رنگ میں داخل ہو چکا ہے.لیکن یہ ایک کنواری قوم ہے اس لحاظ سے کہ اس میں اس وقت ایک بھی مسلمان نہیں ہے.ان میں اسلام کو لازما داخل ہونا ہے.اس لئے ان سے ملاقات کا انتظام کرو.چنانچہ ان کی ایک لیڈر سے بات ہوئی لیکن وہ کچھ گھبراگئیں.معلوم ہوتا ہے، ان پر بھی کچھ دباؤ پڑا 738
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اقتباس از خطاب فرمودہ 30اکتوبر 1983ء ور نہ عموم وہاں یہ رواج نہیں ہے.لیکن آخری وقت میں انہوں نے معذرت کر دی کہ اب میں نہیں آسکتی.ان کے ایک اور بڑے اچھے تعلیم یافتہ لیڈر تھے، انہوں نے حوصلہ دکھایا اور ملنے کے لئے تشریف لائے.چنانچہ ان سے بڑی لمبی گفتگو ہوئی.اور اس گفتگو سے پتہ چلا کہ وہ قوم اگر اپنے دل کھول سکتی ہے تو صرف احمدیت کے لئے کھول سکتی ہے.ان سے بڑی لمبی گفتگو ہوئی.میں اس وقت صرف اس کا خلاصہ بیان کر سکتا ہوں.جب شروع میں ہمارا ایک دوسرے سے تعارف ہوا تو وہ باتیں کرتے ہوئے بہت جھجکتے تھے.چنانچہ ادھر ادھر کی بہت سی باتوں کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ مجھے ایک بات کا تعجب ہوتا ہے کہ آپ کے مذہب کے بارہ میں ہمیشہ سرسری ذکر ہوتا ہے.حالانکہ میں نے آپ کے متعلق بہت سی کتابیں پڑھی ہیں.یہاں آنے سے پہلے تیاری کی تھی اور یہاں آکر بھی کئی کتابیں پڑھی ہیں.لیکن ان میں آپ کے مذہب کے بارہ میں بالکل سرسری ذکر ملتا ہے.گویا کہ آپ کا مذہب ہے ہی کچھ نہیں.لیکن آپ کے متعلق دوسری باتیں تفصیلی بیان ہوئی ہیں.تھوڑے سے تامل کے بعد انہوں نے کہا کہ بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ کو راز کی بات بتاتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ ہم لوگ Profanc یعنی دنیا دار لوگوں سے صرف دنیا داری کی باتیں کرتے ہیں.ہم اپنے مذہب کے متعلق ان کو باتیں بتا کر اپنے مذہب کو پلید نہیں کرنا چاہتے.اس لئے ہمارے بڑے لوگ، بڑے ذہین لوگ ہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ کس قسم کا آدمی ہے.اس لئے لاکھ یہ کوشش کریں، ہم اپنے مذہب کے متعلق خاموش ہو جاتے ہیں.کیونکہ ہم جھوٹ نہیں بولتے ، ہماری عادت ہی نہیں ہے.نہ ہمارا بچہ جھوٹ بولتا ہے اور نہ بڑا.اس لئے میں آپ کو صاف صاف بتا رہا ہوں، مذہب ہمارا ایک Secret ہے، جس کے متعلق ہم بتانا نہیں چاہتے.سنی سنائی باتوں یا ہماری رسموں سے لوگ اندازے کرتے ہیں کہ ہمارا یہ مذہب ہوگا اور بس.پھر جب کچھ مزید باتیں ہوئیں تو میں نے ان کی آنکھوں میں چمک دیکھی ، محبت اور پیار کے ساتھ وہ میرے زیادہ قریب آئے تو مجھے انہوں نے کہا کہ میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ جو کچھ مجھے پتہ ہے، وہ میں بتا دیتا ہوں لیکن مجھے سب کچھ اس کے متعلق پتہ نہیں ہے.تا ہم آپ جو سوال کریں، اس کے متعلق مجھے جو بھی علم ہوگا، بتادوں گا.میں نے کہا: میں آپ کا بے حد ممنون ہوں لیکن میں تو صرف اس پر راضی ہونے والا نہیں ہوں.میں تو آپ کے لئے اسلام کا پیغام لے کر آیا ہوں.اور اس ارادہ سے آیا ہوں کہ میں نے آپ کی قوم کو جیتنا ہے.اس لئے اگر آپ کچھ متاثر ہوئے ہیں تو آپ میری مدد کریں.آپ اپنے رہنماؤں کو جانتے ہیں، ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ کون ہیں؟ کیونکہ بڑی مستند کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ آپ کے مذہبی رہنما ہیں ہی کوئی نہیں.لیکن آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ یہ بالکل غلط بات ہے.ہمارے 739
اقتباس از خطاب فرمودہ 30اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہاں بڑے بڑے مذہبی لوگوں کی ایک جماعت ہے، اس میں معروف لوگ ہیں.لیکن وہ باطنی ہیں، وہ خود بھی لوگوں کی نظروں سے چھپے ہوتے ہیں اور ویسے بھی ان کا صوفیانہ مزاج ہے.جب تک ان میں آپ داخل نہیں ہوتے ، ہماری قوم میں داخل نہیں ہو سکتے.میں نے کہا: ان کے پتہ جات؟ اس نے کہا: میں دیتا ہوں اور آپ کا تعارف بھی کرواتا ہوں.میں نے کہا: تم تو کہتے تھے کہ وہ کسی غیر سے بات نہیں کرتے ؟ تو اس نے کہا کہ اگر آپ جائیں تو میرا اندازہ ہے کہ آپ کے ساتھ کھل کر بات کریں گے کیونکہ میں بھی باتوں باتوں میں آپ سے کھل گیا ہوں.پھر اس نے کہا کہ ہم بے وقوف قوم نہیں ہیں، ہم بڑی گہری فراست رکھتے ہیں.دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیں اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے.اگر ہمارے مزاج کا آدمی مل جائے گا تو ہم نے کوئی ایسی قسم نہیں کھائی ہوئی کہ ہم نے کسی کو کوئی بات بتانی ہی نہیں.ہم اپنے ہم مزاج اور ہم رنگ لوگوں کے ساتھ کھل کر بات کرتے ہیں.میں نے کہا: پھر میں تو جارہا ہوں ، ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب ہیں، ان سے تعارف کروائیں.چنانچہ انہوں نے وعدہ کیا کہ ہاں میں ان کی مدد کروں گا اور ان کا اپنے بڑوں سے تعارف کرواؤں گا.میں نے ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب کو کہا کہ آپ ان سے کوئی بات تکلف سے نہ کریں.سیدھی سادھی سچائی کا پیغام دیں، اللہ کی محبت کی بات کریں.ہمیں اور کچھ چاہتے ہی نہیں.صرف یہی ایک بات کریں.کیونکہ یہ روح سے نکل کر روح میں ڈوب جاتی ہے اور اس کے رستے میں کوئی روک نہیں ہوتی.دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں ، جو اس کی راہ میں حائل ہو سکے.اگر کشش ثقل کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی تو محبت الہی کی راہ میں کیا چیز حائل ہوسکتی ہے؟ کشش ثقل ایک ایسی طاقت ہے کہ اس کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی.اور کشش ثقل دنیوی قانون کی صورت میں محبت الہی کا ایک مظہر ہے.اس لئے کہ مذہب کے دائرہ میں محبت الہی ایک عظیم الشان طاقت ہے، جس کے رستے میں کوئی روک نہیں ہے.اس لئے میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ نے خالصہ اللہ کی محبت کی بات کرنی ہے اور سادہ رہنا ہے، ان سے کوئی لمبی چوڑی تقریریں نہیں کرنیں.شروع میں بس ان سے مل لیں، اپنا تعارف کروائیں کہ آپ کون ہیں ؟ پھر وہ آپ کو پہچانے لگ جائیں گے تو کھل کر باتیں بھی کریں گے.وہاں تبلیغ کا جو نیا رستہ نکلا ہے، اس کے متعلق ایک تو احباب یہ دعا کریں کہ جن احمدی دوستوں کو میں یہ نصیحت کر کے آیا ہوں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھائیں، ان کو بھی خدا تو فیق عطا فرمائے ، وقت کی قربانی کا جذبہ عطا فرمائے ، ان کی باتوں میں اثر پیدا کر دے، ان کو وہ ملکہ عطا ہو اور ان کے منہ سے وہ باتیں نکلیں ، جو اثر کئے بغیر نہ رہ سکیں.740
اقتباس از خطاب فرموده 30 اکتوبر 1983ء تحریک جدید -- ایک الہی تحریک وہ ایک قدیم ترین اور مظلوم قوم ہے.اگر چہ مذہب سے ایک محرومی بھی ہے لیکن خدا نے ان سے پیار کا ایک سلوک بھی کیا ہوا ہے.اور وہ سلوک یہ ہے کہ جب میں نے ان سے یہ پوچھا کہ آپ کے متعلق مغربی لوگوں نے لکھا ہے کہ آپ کی قوم ایک ڈریمی (Dreamy) قوم ہے، یعنی خوابوں میں بسنے والی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ ہماری اصطلاح نہیں سمجھتے.آپ لوگ ہماری باتیں نہیں سمجھ سکتے.میں نے کہا: نہیں، میں سمجھ جاؤں گا، آپ مجھے بتا ئیں.تو جو بات انہوں نے بتائی ، وہ بالکل وہی ہے ، جو کچی خوابوں کا تصور اسلام میں پایا جاتا ہے.انہوں نے کہا کہ یہ مغربی لوگ نہیں سمجھتے کہ ہمارا ایک خالق ہے، ایک تخلیقی روح ہے، جس سے ہمارا تعلق جاری وساری ہے.اور وہ رویا کے ذریعہ ہمیں آئندہ کے حالات بتاتا ہے.کن باتوں سے بچنا ہے، وہ بھی بتاتا ہے.جب ہم اس سے منت کرتے ہیں تو وہ ہمیں خوشخبریاں بھی عطا کرتا ہے.چنانچہ جب مغربی لوگوں کو ان خوابوں کی یہ خبر پہنچتی ہے تو یہ ہے چارے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ڈریخی ان معنوں میں ہیں کہ گویا تصورات کی دنیا میں خواہیں دیکھنے والی قوم ہیں.حالانکہ ایسا ہر گز نہیں.یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے اور ہم سب کو علم ہے کہ یہ تعلق ہے.پھر میں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ کو کشوف بھی ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: سب کو نہیں ہوتے.اور اس بات میں بھی بڑی سچائی تھی.انہوں نے کہا: خواہیں ہم میں سے ہر آدمی دیکھ لیتا ہے.جب وہ اپنی تخلیقی روح سے تعلق قائم کرتا ہے تو اسے ایسی باتیں نظر آ جاتی ہیں.لیکن جہاں تک کشوف کا تعلق ہے، یہ ہمارے Elders یعنی خاص بزرگ لوگوں کو ہوتے ہیں.وہ دن دھاڑے جاگتے ہوئے آنکھیں کھول کر ایسے نظارے دیکھتے ہیں، جو تخلیقی روح کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں اور وہ بالکل اس طرح پورے ہو جاتے ہیں.پھر میں نے اگلے قدم سے متعلق پوچھا کہ الہام بھی ہوتا ہے؟ میں نے بتایا کہ الہام اس چیز کو کہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں الہام ہمیں نہیں ہوتا، صرف سچی خوابوں تک پہنچے ہیں.پھر میں نے کہا کہ آپ کے لئے ھدی للمتقین کا قدم ابھی باقی ہے.حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں داخل ہوں گے تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو خدا روشن ہوا، وہ آپ لوگوں پر روشن ہوگا.تو میں نے سوچا ان کے لئے بھی روحانیت کی بڑی بڑی منازل طے کرنے والی ہیں.یہ جو انہوں نے بتایا ہے، یہ تو پسماندہ قوم کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے غذا ہے تا کہ وہ زندہ رہے اور زندگی کے سانس لیتی رہے.پس ان کے اندر میں نے جو سچائی دیکھی ہے اور ان کی مظلومیت کی جو بڑی لمبی داستان ہے، اس کے نتیجہ میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس قوم کا حق ہے کہ اسے ہدایت نصیب ہو.چنانچہ جب میں نے ان 741
اقتباس از خطاب فرمودہ 30 اکتوبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم کو یہ بتایا کہ آپ کی ساری ترقیات اب اسلام اور احمدیت سے وابستہ ہو چکی ہیں اور انہوں نے بڑی تفصیل سے اپنے مسائل بتائے تو میں نے کہا: ان مسائل کا صرف ایک حل ہے کہ آپ اسلام کی پناہ گاہوں میں آجائیں.پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی آپ کو شکست نہیں دے سکے گی.آپ زمانہ کی دسہ برد مامون و محفوظ ہو جائیں گے.چنانچہ جب میں نے ان کو یہ بتایا تو میں نے دیکھا کہ ان کا چہرہ جو پہلے بے حد مایوسی میں ڈوبا ہوا تھا، اس پر زندگی کی ایک رمق پیدا ہوئی ، امید کی ایک شعاع روشن ہوئی اور ان کے چہرے پر پہلی دفعہ میں نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ دیکھی کہ اچھا! ہم زندہ ہو سکتے ہیں.یہ عجیب بات ہے، میں نے ساری زندگی میں اتی غمگین روح کبھی نہیں دیکھی تھی.ہر لکھنے والا یہ لکھتا تھا اور مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ واقعہ ہو سکتا ہے.چنانچہ ان کے متعلق ہر محقق نے لکھا ہے کہ ان کے ساتھ ظلم و ستم کا جو لمبا سلوک ہوا ہے، اب ان کو اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا.اب یہ ایک گہری مایوسی میں ڈوبی ہوئی قوم ہے، جس کے اندر آپ جھانک کر دیکھیں تو سوائے مایوسی اور تاریکی کے آپ کو کچھ نظر نہیں آئے گا.ان کی ہر ادا میں مایوسی اور غم داخل ہو چکا ہے.چنانچہ جب وہ مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو تھوڑی دیر کے بعد میں نے یہ محسوس کیا، جیسے غم کا سایہ میرے اوپر پڑ گیا ہے.میرے سامنے ایک ایسی روح تھی، جو انتہائی دکھی تھی.ایک دو سال سے نہیں بلکہ ہزار ہا سال سے دیکھوں میں زندگی بسر کر رہی ہو اور اب وہ سمجھ رہی ہو کہ ہمارے لئے بچنے کی کوئی راہ نہیں رہی.پھر انہوں نے کھل کر باتیں بتائیں، اپنے دکھ بتائے کہ یہ ہمارے حالات ہیں اور یہ ہمارے مصائب ہیں، ہمیں ان سے نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آتی.پھر جب میں نے بتایا کہ اسلام آپ کے لئے امن کی راہ ہے اور نجات کی راہ ہے تو پہلی دفعہ ان کے چہرے پر کسی قدر بشاشت آئی.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خدمت کی نئی نئی راہیں کھولیں ہیں اور وہی انشاء اللہ اس میں توفیق عطا فرمائے گا کہ ہم ان راہوں پر آگے سے آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں.دوست دعا ئیں کریں اور بہت دعائیں کریں اور اس الحاج کے ساتھ دعائیں کریں کہ خدا کی رحمتیں پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ بہت زیادہ کثرت کے ساتھ اور بہت زیادہ بے حجابی کے ساتھ ہمارے دلوں پر نازل ہوں.یہاں تک کہ دنیا دیکھ لے کہ خدا کس کے ساتھ ہے.جب تک یہ واقعہ نہیں ہوتا، اس وقت تک ہم فتح حاصل نہیں کر سکتے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.مطبوعه روزنامه الفضل 14 فروری 1984ء) 742
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصه خطاب فرموده 10 نومبر 1983ء غلبہ اسلام کے لئے سب سے بڑا ہتھیار جماعت احمدیہ کی روحانیت ہے خطاب فرمودہ 10 نومبر 1983ء حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کی مشرق بعید کے دورہ سے کامیاب مراجعت پر صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی طرف سے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا.اس موقع پر مکرم محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نے حضور کی خدمت میں ممبران و کارکنان صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے مختصر الفاظ میں مبارکباد پیش کی اور دعا کی درخواست کی.اس موقع پر حضور نے جو خطاب فرمایا، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اس دورہ کی کا میابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ نے فرمایا:.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو کسی کامیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا“.حضور نے اپنے خطاب میں زیادہ تر سنگا پور میں اپنے دورے کی تفاصیل بیان فرمائیں.حضور اس ملک میں کام کی نوعیت باقی تین ممالک (جی، آسٹریلیا اور سری لنکا) سے مختلف تھی.یہاں پر عوام سے رابطہ کا کوئی پروگرام نہ تھا بلکہ جماعت کی تربیت اور اس علاقہ میں آئندہ کے لئے پروگرام مرتب کرنے کا منصوبہ تھا.یہاں پر مقامی جماعت کے علاوہ انڈونیشیا اور ملائیشیا سے آئے ہوئے وفود سے رابطہ قائم ہوا، ان کی مجالس شوری منعقد کی گئیں اور مختلف ریجنز کے حالات کے پیش نظر تفصیلی گفتگو ہوئی.اور ایسی معلومات حاصل ہوئیں، جو یہاں (مرکز میں بیٹھے کسی بھی صورت میں حاصل نہیں ہو سکتی تھیں“.فرمایا:.”یہاں پر میں نے محسوس کیا کہ انڈونیشی اور ملائشی قوم میں روحانیت کا مادہ بہت گہرا ہے.گہری محبت کرنے کا جذبہ موجود ہے.جبکہ چینیوں میں مادہ پرستی کا رحجان بہت ہے اور اس وجہ سے مسلمان اور چینی قوم میں بعد بھی بہت زیادہ ہے.743
خلاصہ خطاب فرمودہ 10 نومبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضور نے مزید فرمایا:.چینیوں میں جو یہاں ( سنگاپور میں ) آباد ہیں، مادہ پرستی کی شدت کی وجہ سے بے چینی اور بے اطمینانی بہت ہے.یہاں عدم تحفظ کا گہرا احساس ہے، بے حیائی عام ہے.غیر ملکوں کے مسافروں کی کثرت سے آنے کی وجہ سے یہ جگہ اخلاق سوز مشاغل سے کا اڈہ بن گئی ہے.شروع میں تو یہاں کے لوگوں نے اسے اچھا سمجھا مگر اب اس کے بداثرات نمایاں ہورہے ہیں اور نمایاں بے چینی محسوس ہورہی ہے.چنانچہ ایک طرف روحانیت کا مادہ ہے اور دوسری طرف مادہ پرستی کے بدنتائج ہیں.فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اگر جماعت احمدیہ کے روحانیت کے مادہ میں مزید جلاء پیدا ہوئی تو غلبہ اسلام کے لیے یہ جماعت احمدیہ کا سب سے بڑا ہتھیار ہوگا.یہ مادہ موجود ہے اور مزید چمکنے اور جلاء پانے کے لیے تیار ہے.تھوڑے سے رابطے میں یہاں کے احمدی مردوں اور خواتین میں اس بارے میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی اور احمدیت سے محبت جاگ گئی ہے.اس سے مجھے بڑا حوصلہ ہوا ہے.یہ زرخیز مٹی ہے، لازماً پھل لائے گی.مطبوعه روزنامه الفضل 14 نومبر 1983ء) سنگاپور کے دورہ کے حالات بتاتے ہوئے ، حضور نے وہاں کے احمدی مردوں، عورتوں اور خصوصاً نو جوانوں میں رونما ہونے والی خوشکن تبدیلیوں کا ذکر فرمایا.حضور نے فرمایا:.سنگاپور کی احمدی خواتین اور مردوں کے علاوہ نو جوانوں میں بھی میں نے جلد جلد رونما ہونے والی خوشکن تبدیلیاں محسوس کیں.جب پہلا رابطہ نو جوانوں سے ہوا تو ان کی آنکھوں میں نمایاں اجنبیت پائی جاتی تھی.مگر چند ہی دن میں یہ کیفیت عاشقانہ رنگ میں ڈھل گئی.اور ایسی حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہوئی، جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا.ان کی عبادت سے اخلاص کا ایک نیا رنگ صاف جھلکتا محسوس ہوتا تھا“.حضور نے فرمایا:.دو وہاں کے احباب جماعت کی روحانیت جلا پا رہی ہے.لیکن اس روحانیت کو کسی نہ کسی رنگ میں کام میں لانا پڑے گا.اس پہلو سے وہاں بہت گنجائش موجود ہے.وہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ سے تفصیل سے باتیں ہوئیں، ان کو بتایا گیا کہ اگر ایک راستہ بند ہو تو آگے کیسے جانا ہے؟ اور جب بات ان کی سمجھ میں آگئی تو ان کی آنکھوں میں ایسی چمک آگئی کہ لگتا تھا کہ ارادہ عمل میں ڈھلنے کے لیے اچھل رہا ہے.اس ضمن میں لجنہ نے تو کام بھی شروع کر دیا ہے.خدام کی کیفیت کا بھی اندازہ یہی ہے کہ لجنہ سے پیچھے نہ رہیں گے.744
خلاصہ خطاب فرمودہ 10 نومبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضور نے فرمایا:.”سنگا پور میں مجھے یہ دیکھ کر دکھ اور تعجب ہوا کہ نہ وہاں کے احمدیوں نے اور نہ غیر احمدی مسلمانوں نے وہاں کی چینی آبادی کی طرف کوئی توجہ دی.حالانکہ عیسائیوں نے ان کو اپنے مذہب میں داخل کرنے کے لیے بڑی کوششیں کی ہیں.جماعت احمدیہ کو غیر احمدی مسلمانوں میں کام کرنے کے لئے اگر چہ مشکلات ہیں اور اب تو عالمی سطح پر جماعت کی مخالفت بڑے منظم رنگ میں شروع ہوگئی ہے لیکن وہاں کے احمدیوں نے یہ نہ دیکھا کہ چینی قوم کا میدان خالی پڑا ہے.یہ قوم سکون حاصل کرنے کے لیے مارشل آرٹس اور کلچر کے نام پر بے معنی باتوں میں الجھی ہوئی ہے.بے قراری ان کی زندگی میں نمایاں ہے.اس کا علاج اسلام کی روحانیت ہے.اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ، اللہ کا پیار قائم کرنے کی ضرورت ہے.دنیا میں یہی طمانیت کا ذریعہ ہے کہ دنیا کو اپنے خالق کی طرف لایا جائے اور غیر قوموں سے روحانیت کے ذریعے تعلق قائم کیا جائے“.فرمایا:.میں نے محسوس کیا ہے کہ دنیا کو یہی چیز اسلام کی طرف مائل کرے گی.اپنے عملی نمونہ سے یہ بتانا پڑے گا کہ فلاں شخص با خدا ہے اور دنیا کے عام لوگوں اور اس میں یہ فرق ہے“.حضور نے فرمایا:.”میرے سارے سفر کا ماحصل یہ ہے کہ چونکہ دنیا مادیت کی طرف تیزی سے جھکتی چلی جارہی ہے، اسی لیے ہمارے ساتھ مقابلے کی فیلڈ سکڑتی جارہی ہے.اب دنیا سے ہمارا مقابلہ کسی دلیل پر نہیں ہو گا بلکہ اس بات پر ہوگا کہ خدا ہے یا نہیں؟ ایک باخدا شخص میں اور بے خدا شخص میں کیا فرق ہے؟ یہ وہ محاذ ہے، جہاں پر آکر ہر بات کی تان ٹوٹے گی.فرمایا کہ حالیہ دورے میں، میں نے محسوس کیا کہ ان علاقوں کے احمدیوں میں روحانیت موجود ہے.پس اس کو ذرا حرکت میں لانے کی ضرورت ہے.پھر امید ہے کہ اس طرف غیر معمولی توجہ پیدا ہوگی“.حضور نے فرمایا:.صرف چینی قوم ہی نہیں بلکہ اس علاقے میں موجود بدھ مذہب کے پیروکاروں کو بھی روحانیت کے ذریعہ اسلام کی طرف لایا جا سکتا ہے.اور مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ یہ بدھسٹ ولی طور پر اسلام کے زیادہ قریب ہیں.لیکن ان کو کمیونزم سے بچانے کی سیاسی چال کے طور پر عیسائیت کی طرف لایا گیا ہے ور نہ یہ اسلام قبول کرنے کی طرف جلد مائل ہو سکتے ہیں..745
خلاصہ خطاب فرموده 10 نومبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم تعلق باللہ کے ذکر کے ضمن میں حضور نے سنگا پور کے علاوہ آسٹریلیا کے دورہ کے بھی چند انتہائی ایمان افروز واقعات سنائے.حضور نے بتایا کہ ایک نوجوان نے سوال کیا کہ معجزہ کوئی چیز ہے بھی یا نہیں؟ یہ نوجوان اور اس کے دو بھائی تینوں جب سے آسٹریلیا آئے ، بے روزگار تھے اور روزگار ملنے کا کوئی امکان بھی نظر نہ آرہا تھا.وہ سخت پریشان اور دلبر داشتہ تھے.میں نے انہیں معجزہ کی حقیقت اور اللہ تعالیٰ کے قادرانہ تصرفات کے بارہ میں تفصیل سے بتایا اور انہیں اللہ پر توکل کرنے کی تلقین کی.اس گفتگو کے چند دن بعد ہی کجا یہ کہ ایک بھائی کو نوکری نہ ملتی تھی، متینوں بھائیوں کو غیر متوقع طور پر کام مل گیا.اس کا ان تینوں بھائیوں پر بہت اثر ہوا.ایک اور ایسا ہی ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ جواحمدی خلافت احمدیہ سے خلوص کا تعلق قائم رکھتا ہے، اگر اس کا خلوص سچا ہے تو اللہ تعالی اس کو تقویت ایمان کے مواقع خود پیدا کرتا رہتا ہے“.حضور نے مغربی جرمنی کے ایک پاکستانی نوجوان اور جرمنی میں آباد ایک امریکن احمدی خاتون کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں انہیں کس طرح معجزانہ طور پر اپنے فضلوں سے نوازا.حضور نے فرمایا:.ایسے واقعات بکثرت احمد یوں کو پیش آتے ہیں اور روزانہ ہی دنیا کے مختلف علاقوں کے احمدی سینکڑوں کی تعداد میں ایسے واقعات کا اپنے خطوط میں ذکر کرتے ہیں، جو روزانہ ڈاک کے ذریعہ مجھے موصول ہوتے ہیں.ان واقعات کو دیکھ کر یہ ممکن نہیں رہتا کہ اللہ کے احسان کے سوا کسی اور امر کی طرف ان باتوں کو منسوب کیا جا سکے.فرمایا:.احمدیت ایک زندہ حقیقت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اتنا بڑا احسان ہے زمانہ پر کہ دنیا بعد میں روروکر ان باتوں کو یاد کیا کرے گی کہ ہم اتنے بڑے مبشر وجود کو گالیاں دیا کرتے تھے.حضور نے فرمایا:.دو صدرانجمن کو چاہیے کہ سارے پاکستان کی جماعتوں میں تعلق باللہ کے حصول کے لیئے مہم چلائے.ہمارے بہت سے احمدی مردوں اور عورتوں کو پتہ ہی نہیں کہ کس زبر دست خدا سے ان کا تعلق ہے.صدرانجمن احمدیہ کو چاہیے کہ وہ ہر احمدی کو باخدا اور باشعور انسان بنانے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 15 نومبر 1983ء) 746
تحریک جدید - ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1983ء بیوت الحمد سکیم،صد سالہ سکیم کا حصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1983ء گزشتہ سال جب اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ پانچ سوسال کے بہت ہی درد ناک تعطل کے بعد سپین میں پہلی مسجد کا افتتاح کرے تو اس کے بعد حمد اور شکر کے طور پر میں نے ”بیوت الحمد“ کی تحریک کی.کیونکہ عبادت کا بنی نوع انسان کی ہمدردی سے گہرا تعلق ہے.چنانچہ میرے ذہن میں یہی تاثر تھا، جس کی بنا پر میں نے مسجد کا شکرانہ ادا کرنے کے لئے ایک اور نیکی کی تعلیم دی.تا کہ عبادت کا دوسرا پہلو، یعنی خدا کی خاطر بنی نوع انسان کے ساتھ تعلق پیدا کرنا اور ان کی ہمدردی کرنا یہ بھی پورا ہو جائے.اور اپنے رب کے حضور شکرانے کا ایک اظہار بھی ہو جائے.چنانچہ اب مسجد آسٹریلیا کی بنیا ڈالنے کی توفیق ملی ہے تو میں اسی تحریک کو ہرانا چاہتا ہوں.اب یہ تحریک میرے ذہن میں نسبتا زیادہ وسعت اختیار کر چکی ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہر سال مساجد کی تعمیر کی توفیق دیتا ہی چلا جا رہا ہے.اور عبادت کرنے والے بھی دن بدن جماعت احمدیہ میں بڑھ رہے ہیں.اس لئے عبادت کے دوسرے پہلو کا حق بھی ساتھ ساتھ اسی طرح ادا ہوتے رہنا چاہئے.چنانچہ غرباء کی ہمدردی میں جو مختلف تحریکات جماعت احمدیہ میں جاری ہیں اور ہمیشہ سے جاری ہیں، ان میں ایک بیوت الحمد کا اضافہ ہو چکا ہے“." جیسا کہ تمام احباب جماعت کو علم ہے کہ ہم پر دوسری ذمہ داریاں بھی کچھ کم نہیں.ان میں عبادت سے تعلق رکھنے والی بھی ہیں اور خدمت خلق کے دوسرے تقاضوں کو پورے کرنے والی بھی اتنی زیادہ ہیں کہ ہم اپنی خواہش کے مطابق فی الحال غرباء کی ہمدردی میں اتنا خرچ نہیں کر سکتے ، جتنا کہ ہماری تمنا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری توفیق کو انشاء اللہ بڑھاتا چلا جائے گا.اور جوں جوں توفیق بڑھے گی، ہم اس میدان میں بھی آگے بڑھتے چلے جائیں گے.میرے دل کی یہ خواہش ہے کہ ساری دنیا میں ہمدردی کرنے والوں میں سب سے زیادہ ہمدردی کا عملی اظہار جماعت احمدیہ کی طرف سے ہو“.747
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1983ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں یہ چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ بنی نوع انسان کی ہمدردی میں ایسے عظیم الشان کام سرانجام دے، جو اپنی وسعت کے ساتھ اپنی شدت میں بھی بڑھتے رہیں.یہاں تک کہ جماعت احمد یہ ساری دنیا میں بنی نوع انسان کی سب سے زیادہ ہمدردی رکھنے والی اور ہمدردی میں عملی قدم اٹھانے والی جماعت بن جائے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو اس پہلو سے بھی ساری دنیا کے ادیان پر غلبہ نصیب ہو جائے“.اس سکیم کو میں وسعت دینا چاہتا ہوں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ جلسہ جو بلی تک ہم کم از کم ایک کروڑ روپے کی لاگت سے مکان بنا کر غرباء کو مہیا کر دیں.یعنی جماعت کے جو سو سال گزر رہے ہیں، ان کے ہر سال پر صرف ایک لاکھ روپیہ اگر ہم ڈالیں تو ایک کروڑ بن جاتا ہے.اور پھر بعد میں انشاء اللہ ایک کروڑ مکانات بھی ہوں گے.لیکن فی الحال ایک کروڑ روپے کی تحریک کی جاتی ہے.میرا گزشتہ سال کا وعدہ دس ہزار روپے کا تھا، جو میں نے ادا کر دیا تھا.بہت ہی معمولی رقم تھی.اب میں اپنے اس وعدہ کو بڑھا کر ایک لا کھ کر رہا ہوں.اور آئندہ چار سال میں انشاء اللہ یہ وعدہ پورا کر دوں گا.باقی دوست، جو ایک لاکھ کے وعدے کر چکے ہیں، وہ غالبا تین یا چار اور ہیں.تو پانچ لاکھ کا تو اس طرح اکٹھا انتظام ہو گیا.جو اس سے پہلے وعدے آچکے ہیں، ان کو شامل کر لیا جائے.یعنی ان پانچ لاکھ کے علاوہ ، اگر ہمیں اسی دوست ایک، ایک لاکھ کا وعدہ کرنے والے مل جائیں تو انشاء اللہ تعالی بڑی آسانی کے ساتھ یہ معاملہ طے ہو جائے گا.لیکن کوشش یہ کرنی چاہئے کہ ادا ئیگی میں جلدی کی جائے.کیونکہ میں اس کو صد سالہ سکیم کا حصہ بنانا چاہتا ہوں.یعنی جس سال ہم صد سالہ جشن منا رہے ہوں ، اس سال ہماری خوشیوں میں بعض ایسے غریب بھی شامل ہوں، جن کے پاس پہلے کوئی مکان نہیں تھا.محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور احمدیت کی برکت سے اس سال ہم ان کو نئے مکانوں کی چابیاں سپرد کر یں.اس لئے اس نئے ایک کروڑ کی ادائیگی میں ہمیں جلدی کرنی چاہئے.اور اگر اس مد میں زیادہ رقم بھی جمع ہو جائے گی تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے.یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ صرف ایک کروڑ ہی ہو.دو کروڑ، تین کروڑیا جماعت کو جتنے کی توفیق مل سکتی ہے، دے دے.لیکن ایک کروڑ کم از کم حد ہے“.وو باقی جو دوست اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکتے ، ان سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں.اور ضروری نہیں ہے کہ ایک لاکھ کی توفیق ہو تبھی اس میں حصہ لیا جائے.اگر زیادہ کثرت کے ساتھ دوست شامل ہونا چاہتے ہیں تو ضرور شامل ہوں.کیونکہ یہ بہت ہی مبارک تحریک ہے.جو لوگ بھی ان مکانوں میں رہیں گے، خدمت کرنے والوں کو ہمیشہ ان کی دعائیں پہنچتی رہیں گی.اس لئے اس 748
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1983ء تحریک میں کم سے کم روپیہ کے لئے میں کوئی حد مقرر نہیں کرتا.اگر کوئی دوست چار آنے دے کر بھی اس میں شامل ہونا چاہے تو سیکر ٹریان مال اس کے چار آنے بھی قبول کر لیں.اس لئے بے شک وسعت پیدا ہو جائے.اگر چہ اس سے حساب میں تھوڑی سی مشکل تو پیدا ہوتی ہے لیکن کوئی حرج نہیں.جو بھی کوئی دے سکتا ہے ، وہ قبول کر لیا جائے.تا کہ لوگ کثرت سے اس ثواب میں شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم عبادت کے تقاضے بھی پورے کر سکیں اور خدمت خلق کے تقاضے بھی پورے کر سکیں.کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ، امر واقعہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں بنی نوع انسان کی خدمت کا فرض سب سے زیادہ مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے.دنیا کی اور پر کوئی تعلیم ایسی نہیں ہے، جس نے بنی نوع انسان کی خدمت پر اتناز ور دیا ہو لیکن بد قسمتی سے اس وقت عالم اسلام کو بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی دنیا کی قوموں میں سب سے کم توفیق مل رہی ہے.وو ہر احمدی کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہونی چاہئے اور اسے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم جلد از جلد خدمت کے ہر میدان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کی ہر قوم کے سردار کے جھنڈے سے اونچا بلند کریں.یہی ہماری دعا ہے اور یہی ہماری تمنا ہے.خدا تعالیٰ ہمیں یہ تمنا پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل 30 نومبر 1983ء) 749
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم پیغام بر شہادت مکرم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب تبلیغ اسلام کی جوت کو سمجھنے نہیں دینا پیغام بنام جماعت احمد یہ امریکہ بر شہادت مکرم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب اے ڈیٹرائٹ اور امریکہ کے دوسرے شہروں میں بسنے والے احمد یو! اور اے مشرق و مغرب میں آبا د اسلام کے جاں شارو !! اس عارضی غم سے مضمحل نہیں ہوتا کہ یہ ان گنت خوشیوں کا پیش خیمہ بننے والا ہے.اس شہید کو مردہ نہ کہیں بلکہ وہ زندہ ہے.اور اس رستہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہو، جس پر چلتے ہوئے وہ مرد صادق پر بہت آگے بڑھ گیا.تمہارے قدم نہ ڈگمگائیں، تمہارے ارادے متزلزل نہ ہوں.دیکھو تم نے خوب سوچ سمجھ کر اور کامل معرفت اور یقین کے ساتھ اپنے لئے راستی کی وہ راہ اختیار کی ہے، جس پر صالحیت کی منزل کے بعد ایک شہادت کی منزل بھی آتی ہے.اسے خوف وہر اس کی منزل نہ بناؤ.یہ تو ایک اعلیٰ اور ارفع انعام کی منزل ہے، جس پر پہنچنے کے لئے لاکھوں ترستے ہوئے مر گئے اور لاکھوں ترستے رہیں گے.اور خالد بن ولید کا وہ وقت یاد کرو، جب بستر مرگ پر روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی.اور ایک عیادت کرنے والے نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کی تلوار ! تو جو میدان جہاد کی ان کڑی اور مہیب منزلوں میں بے خوف اور بے نیام رہا، جہاں بڑے بڑے دلاوروں کے پتے پانی ہوتے تھے، آج تو موت سے اتنا خوف زدہ کیوں ہے؟ تجھے یہ بزدلی زیب نہیں دیتی.خالد نے اسے جواب دیا کہ نہیں نہیں ، خالد بن ولید موت سے خائف نہیں بلکہ اس غم سے نڈھال ہے کہ راہ خدا میں شہادت کی سعادت نہ پاسکا.دیکھو! یہ وہی خالد تھا، جو ہر میدان جہاد میں یہ تمنا لے کر گیا کہ کاش میں بھی ان خوش نصیبوں میں داخل ہو جاؤں ، جو اللہ کی راہ میں شہید کئے جاتے ہیں.یہ تمنا لئے ہوئے وہ ہر خطرے کے بھنور میں کود پڑا اور ہر اس گھمبیر مقام پر پہنچا، جہاں سرتن سے جدا کئے جارہے تھے اور گردنیں کاٹی جارہی تھیں اور سینے برمائے جارہے تھے اور اعضاء بدن کے ٹکڑے کئے جارہے تھے.لیکن ہر ایسے مقام سے وہ غازی بن کر لوٹا اور شہادت کا جام نہ پی سکا.پس بستر مرگ پر اس سوال کرنے والے کو خالد نے اپنے بدن کے وہ داغ دکھائے ، جو میدان جہاد میں کھائے جانے والے زخموں نے پیچھے چھوڑے تھے.اپنے بدن کا کپڑا اٹھایا اور اپنا پیٹ دکھایا اور اپنی چھاتی 751
پیغام بر شہادت مکرم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب تحریک جدید - ایک الہی تحریک دکھائی اور اپنے بازو ننگے کئے اور کندھوں کے جوڑ تک اپنے داغ داغ بدن کا ماجرا اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا.اور کہا کہ دیکھو اور یہ دیکھو اور یہ دیکھو اور یہ دیکھو.اور اے دیکھنے والو! مجھے بتاؤ کہ کیا ایک انچ بھی ایسی جگہ تمہیں دکھائی دیتی ہے، جہاں اللہ کی راہ میں خالد نے زخم نہ کھائے ہوں؟ لیکن وائے حسرت اور وائے حسرت کہ خالد شہید نہ ہو سکا.اور یہ غم جو آج مجھے کھائے جارہا ہے، ان زخموں کے دکھ سے کہیں زیادہ جاں سوز ہے، جو شوق شہادت میں کھائے تھے.پس اے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے دروازے سے راہ سلوک میں داخل ہونے والو! تمہاری زندگی کے سفر میں لازماً صالحیت سے بالاتر مقام بھی آئیں گے.خوب یاد کھو کہ یہ خوف و ہراس اور نقصان و زیاں کا راستہ نہیں بلکہ لامتناہی انعامات کا ایک پہاڑی راستہ ہے، جس کے انعام کی ہر منزل پہلے سے بلند تر ہے.پس خوشی اور مسرت اور عزم اور یقین کے ساتھ آگے بڑھو.تبلیغ اسلام کی جو جوت میرے مولیٰ نے میرے دل میں جگائی ہے اور آج ہزاروں احمدی سینوں میں یہ لو جل رہی ہے، اس کو سمجھنے نہیں دینا.اس مقدس امانت کی حفاظت کرو.میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اس شمع نور کے امین بنے رہو گے تو خدا اسے کبھی سمجھنے نہیں دے گا.یہ لو بلند تر ہوگی اور پھیلے گی اور سینہ بہ سینہ روشن ہوتی چلی جائے گی.اور تمام روئے زمین کو گھیرے گی اور تمام تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دے گی.اے احمدیت کے بدخواہو! تمہارے نام بھی میرا ایک پیغام ہے.اسے نگاہ بد سے اسے دیکھنے والو سنو کہ تم ہر گز اسے بجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے.یہ ارفع چراغ وہ نہیں، جو تمہاری سفلی پھونکوں سے بجھایا جاسکے.جبر کی کوئی طاقت اس نور کے شعلے کو دبا نہیں سکتی.چشم بصیرت سے دیکھو کہ مظفر آج بھی زندہ ہے بلکہ پہلے سے کہیں بڑھ کر زندگی پا گیا.پس اے مظفر! تجھ پر سلام کہ تیرے عقب میں لاکھوں مظفر بڑھ کر تیری جگہ لینے کے لئے بے قرار ہیں.اور اے مظفر کے شعلۂ حیات کو بجھانے والو! تم نے اسے ابدی زندگی کا جام پلا دیا.زندگی اس کے حصہ میں آئی اور موت تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی.مذہبی آزادی کا قرآنی تصور تو ایک بہت پاک اور اعلیٰ اور ارفع اور وسیع تصور ہے.اسے جبر و اکراہ کے مکروہ اور مجزوم تصور میں بدلنے والو! اور اے مذہب کے پاک سر چشمہ سے پھوٹنے والی لازوال محبت کو نفرت اور عناد میں تبدیل کرنے والو!! اے ہر نور کو نار میں اور رحمت کو زحمت میں بدلنے کے خواہاں بدقسمت لوگو، جو انسان کہلاتے ہو! یا درکھو کہ تمہاری ہر سفلی 752
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام بر شہادت مکرم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب تدبیر خدائے برتر کی غالب تقدیر سے ٹکرا کر پارہ پارہ ہو جائے گی.تمہارے سب ناپاک ارادے خاک میں ملا دئیے جائیں گے اور رب اعلیٰ کے مقدر کی چٹان سے ٹکر اٹکرا کر اپنا سر ہی چھوڑو گے.تمہاری مخالفت کی ہر جھاگ اٹھاتی ہوئی ہر ساحل اسلام سے ٹکر ا کرنا کام لوٹے گی اور بکھر جائے گی اور اسے پیش قدمی کی اجازت نہیں ملے گی.اے اسلام کے مقابل پر اٹھنے والی ظاہری اور مخفی عیاں اور باطنی طاقت !!! سنو کہ تمہارے مقدر میں ناکامی اور پھر نا کامی اور پھر نا کامی کے سوا کچھ نہیں.اور دیکھو کہ اسلام کے جاں نثار اور فدائی ہم وہ مردان حق ہیں، جن کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روزنامه الفضل 20 نومبر 1983ء) 753
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک خلاصہ خطاب فرمودہ 24 نومبر 1983 ء وہ دن دور نہیں، جب آسٹریلیا میں اسلام کا سورج پوری شان سے چمکے گا خطاب فرمودہ 24 نومبر 1983ء مشرق بعید کے دورہ سے کامیاب مراجعت پر امراء اضلاع پنجاب کی طرف سے حضرت خلیفة المسيح الرابع رحمہ اللہ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا.اس موقع پر حضور نے جو خطاب فرمایا، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.تشہد تعوذ سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے اس دورے کی کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد امیر صاحب صوبائی پنجاب اور دیگر امراء اضلاع شکریہ کے مستحق ہیں، جنہوں نے اس دعوت کا انتظام کیا اور اس کے علاوہ وہ مہمان ، جو دور دور سے آئے ، ان کی آمد پر ہمارا دل خوشی سے بھر گیا ہے.کیونکہ جب مہمان ایسے حالات کا مقابلہ کر کے آئے ہوں، جو ان کو یہاں آنے کی اجازت نہ دیتے ہوں تو ان کا دوہرا شکر یہ ادا کر نالا زم ہے.حضور نے اپنے خطاب میں اپنے دورہ میں سے صرف آسٹریلیا کے دورے کا ذکر فرمایا.سڈنی کے قریب مسجد اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیا درکھنے کا ذکر کرتے ہوئے ، حضور نے فرمایا:.”یہاں پر 127 ایکڑ زمین اس خیال سے لی گئی ہے کہ بعد میں آنے والے وقت میں یہ جگہ کم نہ ہوجائے.فرمایا: و لیکن یہ جگہ بھی کم ہو جائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ جب یہ جگہ صرف سڈنی کے لیے بھی کافی نہ ہوگی اور کئی مسجد میں اور بنانی پڑیں گی“.حضور نے فرمایا:.” جہاں تک اس مسجد کا سنگ بنیادرکھنے کی تقریب کا تعلق ہے، اس میں زیادہ مہمان نہیں آئے.کیونکہ یہاں پر جماعت احمدیہ کے مخالفین نے لکھوکھار روپیہ خرچ کر کے یہ مہم چلائی اور ایسا جھوٹا اور غلط پرو پیگنڈا کیا کہ احمدیوں کے کئی گہرے دوست عین وقت پر آ کر معذرت کر گئے.تاہم یہ بائیکاٹ اسلام کی تبلیغ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا“.755
خلاصہ خطاب فرموده 24 نومبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اس کی تفصیل بتاتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ دار الحکومت میں واقع یو نیورسٹی آف کینبرا میں میرا ایک لیکچر اسلام کی امتیازی خصوصیات کے موضوع پر ہوا اور اللہ تعالیٰ نے علم کے اس مرکز میں اسلام کا پیغام بہت عمدگی سے پہنچانے کی توفیق دی.وہاں پر بھی شدید مخالفت تھی.یونیورسٹی کے اہل کاروں کو دھمکیاں دی گئیں اور یو نیورسٹی کے اہلکار وائس چانسلر کے پاس گئے کہ یہ تقریب منسوخ کر دیں.مگر وائس چانسلر نے ہمت کی اور دلیری سے کہا کہ یہ تقریب ہرگز منسوخ نہ ہوگی.اسی طرح ایک اور جگہ ایک بولنگ کلب میں ایک احمدی دوست نے ایک دعوت دی، جس میں ایک سو آسٹریلین شامل ہوئے.بڑے طویل سوال وجواب کی محفل ہوئی اور حاضرین کے دلوں کی کیفیت ایک ہی مجلس میں اتنی بدل گئی کہ مجھے یوں لگتا تھا کہ ایک طرف دنیا والے مخالفت میں زور لگار ہے ہیں اور دوسری طرف خدا کے فرشتے لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کر رہے ہیں.آسٹریلیا جیسے ملک میں کسی مجلس میں لوگ کھلم کھلا اٹھ کر اسلام کی تائید کر نا شروع کر دیں تو یہ ایک عجیب بات ہے اور صدر مجلس اٹھ کر یہ کہے کہ آپ نے جتنی باتیں کہی ہیں ، ان سب سے مجھے سو فیصدی اتفاق ہے.حضور نے فرمایا:.عورت کے اسلام میں کردار کے متعلق ہمیشہ سوالات پوچھے گئے اور ایسی جگہ پر جہاں میری بیوی اور بھانجی بھی ایک طرف برقع میں لپٹی ہوئی یہ باتیں سن رہی تھیں.ایسی تقریب میں خود وہاں کی عورتوں کا اٹھ کر عورتوں کے بارے میں اسلام کی تعلیم کی تائید کرنا، خدا تعالیٰ کی تائید کا ایک حیرت انگیز نشان تھا.فرمایا کہ اس ملک میں ریڈیو سے میرے دو انٹر ویو نشر کئے گئے.ایک براہ راست رواں پروگرام کو روک کر بذریعہ ٹیلیفون انٹرویو تھا، دوسرا آسٹریلیا ریڈیو کے اردو پروگرام میں اردو زبان میں ایک انٹرویو تھا“.حضور نے فرمایا:.یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم شان تھی ، ایک طرف لاکھوں روپے خرچ کر کے پاکستان اور ہندستان کے رہنے والے لوگوں کے دلوں میں جماعت احمدیہ کے بارے میں بدظنیاں پھیلائی جارہی تھیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ریڈیو پر انہی لوگوں کے خاص پروگرام میں میرا انٹرو یونٹر کروارہا تھا.حضور نے مزید فرمایا کہ "آسٹریلیا کے مذہبی امور کے ماہر صحافیوں نے خاص طور پر ہمارے بارے میں، ہماری تائید میں لکھا“.756
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد حضور نے فرمایا:.خلاصہ خطاب فرموده 24 نومبر 1983ء ”میرے اس دورے کے نتیجے میں اب آسٹریلیا میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ میں بڑی زبردست وسعت پیدا ہوئی ہے اور اب ہر احمدی بڑی کثرت سے اہل آسٹریلیا کو اسلام کی تبلیغ پہنچارہا ہے“.آسٹریلیا کے ایک سکول کی تقریب کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.وو وہاں طلباء کے ساتھ پرنسپل نے عیسائیوں اور پادریوں کو بھی مدعو کی ہوا تھا.عیسائی پادری نے جس جس مسئلے پر سوال کر کے فضا کو ہمارے مخالف کرنے کی کوشش کی، وہیں پر ایسا پانسہ پلٹا کہ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور سنے والوں کے دلوں پر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اثر کئے بغیر نہ رہی.ایک طرف مخالفت تھی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کا شاندار مظاہرہ تھا.مخالف جو وار کرتا تھا، بالکل الٹا اس کا اثر سامنے آتا تھا.(مطبوعه روزنامه الفضل 28 نومبر (1983ء حضور نے آسٹریلیا کے قدیم باشندوں Aborigines کا بطور خاص ذکر فرمایا اور بتایا کہ وہ وقت جلد آنے والا ہے، جب یہ باشندے اور سارا آسٹریلیا احمدی مسلمان ہو جائے گا“.اس ضمن میں حضور نے اہم الہی بشارات کا نہایت ایمان افروز رنگ میں ذکر فرمایا.نیز حضور نے ان باشندوں پر کئے جانے والے ظلم وستم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ” ان پر اتنے خوفناک مظالم کئے گئے کہ انگریزوں نے پوری کوشش کی کہ ان کی نسل ختم ہو جائے.منصوبے کے تحت ان باشندوں کو گھیر کر لایا جاتا اور ان کو اولاد کے نا قابل بنا کر چھوڑ دیا جاتا.حتی کہ ان کی آبادی گھٹتے گھٹتے بالکل ختم ہونے کے قریب جا پہنچی.نیاز مانہ بدل چکا تھا اور انگریزوں نے یہ خیال کر کے کہ یہ قوم ایک تاریخی ورثہ ہے، انہیں بالکل ختم نہیں ہونا چاہئے ، ان کی حفاظت کے بعض سامان کئے.جس طرح یہ تو میں کسی جانور کی نسل ختم ہوتے دیکھ کر اس کے شکار پر پابندی لگا دیتی ہیں، اسی طرح ان باشندوں کے ساتھ بھی سلوک کیا گیا.اس طرح سے یہ نسل بالکل ختم ہونے سے بچ گئی.حضور نے فرمایا:.اس قوم میں مجھے اس لئے دلچسپی پیدا ہوئی کہ بعض پیشگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسیح موعود کے ذریعے اللہ تعالی کنواری قوموں کو اسلام میں داخل کرے گا.یہ قومیں اس لحاظ سے کنواری ہیں کہ اب تک اس تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا.اس قوم کا دولہا اسلام ہے.66 757
خلاصہ خطاب فرمودہ 24 نومبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضور نے فرمایا:.اس ضمن میں ایک بڑی دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی کہ یہ قوم چالیس ہزار سال پرانی قوم ہونے کا دعوی کرتی ہے.اور آج دنیا کی کسی اور قوم کا یہ دعوی نہیں.اور محققین اور تاریخ دان اس دعوئی کو سچا تسلیم کرتے ہیں.حضور نے اس قوم کی ایک اور اہم بات یہ بتائی کہ یہ غیر ابراہیمی نسل میں سے دنیا کی واحد قوم ہے، جس میں مذہبی فریضے کو طور پر ختنہ کا رواج ہے.اس کے علاوہ ان کے دوسرے مذہبی طریق اسلام کے بہت قریب ہیں.مغربی محقق ان کو خوابوں میں بسنے والی قوم کہتے ہیں.لیکن ان کے لیڈر سے میری جو ملاقات ہوئی ، اس میں اس نے بتایا کہ ہم کو تخلیقی روح وہ خدا کو تخلیقی روح کہتے ہیں) خوابوں کے ذریعے رہنمائی دیتی ہے.ہمیں مستقبل کی خبریں دیتی ہے.6¢ آنے والے خطرات سے ہوشیار کرتی ہے.یہ تصور خوابوں کے اسلامی تصور کے مطابق ہے.فرمایا:.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں ان کا مذہب سچا تھا اوراللہ تعالیٰ سے لازماً ان کا تعلق رہا ہے.حضور نے اس ضمن میں مشہور اسلامی مفکر اور مجد د حضرت ابن عربی کا کشف سنایا، جس میں انہوں نے دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں.انہوں نے طواف کے دوران بعض اجنبی آدمیوں کو دیکھا.ان آدمیوں نے حضرت ابن عربی کو بتایا کہ وہ چالیس ہزار سال پرانے آدم کی اولاد ہیں.حضور نے فرمایا:."آسٹریلیا کے قدیم باشندے بھی چالیس ہزار سال پرانی قوم ہونے کا دعوی کرتے ہیں.اس سے حضور نے یہ استنباط فرمایا کہ اسلام کا اس قوم سے واسطہ ہوتا تھا، اس لئے ایک مجدد کو یہ کشف دکھایا گیا.حضور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی ایک آسٹریلین شخص ملنے آیا تھا.اس کے ساتھ گفتگو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آدم ایک نہیں ہوا بلکہ کئی ہوئے ہیں اور آسٹریلیا اور امریکہ میں جو باشندے آباد ہیں ہممکن ہے، وہ کسی چالیس ہزار سال پرانے آدم کی اولاد ہوں“.فرمایا کہ یہ ساری باتیں اکٹھی کر کے میں نے ان کا بہت گہری نظر سے جائزہ لیا اور ان قدیم باشندوں کے لیڈر سے ملاقات کی.تو اس نے مجھے بتایا کہ آپ سے یہ باتیں کرتے ہوئے ہمارے مذہبی بزرگ کوئی 758
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خلاصہ خطاب فرمودہ 24 نومبر 1983ء بات نہیں چھپائیں گے.مگر مغربی لوگوں سے ہم نفرت کرتے ہیں اور ان کو اپنے مذہب کی باتیں بتا کر اپنے مذہب کو نا پاک نہیں کرنا چاہتے.اس لیڈر نے کہا: ہمارے بزرگوں سے آپ ملیں ، وہ اپنا دل آپ کے لئے کھولنے کو تیار ہوں گئے.حضور نے فرمایا:.”میں نے اس لیڈر کو کہا کہ تمہاری تاریکی کا زمانہ ختم ہونے کو ہے اور روشنی کا زمانہ آنے والا ہے.تمہاری قوم اسلام قبول کر کے دنیا میں ترقی حاصل کرے گی اور بلند مقام حاصل کرے گی.جب یہ باتیں میں نے اسے کہی تو اس کے چہرے پر میں نے پہلی بار مسکراہٹ اور خوشی دیکھی.ورنہ جب وہ مجھے ملا تو اس کے چہرے پر اتنی گہری مایوسی تھی کہ اس کے غم کا سایہ میرے دل پر بھی پڑا.حضور نے مزید فرمایا کہ ”میں نے اسے بتایا کہ جب تمہاری قوم اسلام لائے گی، اس وقت تمہارا انتقام لینے کا وقت آئے گا اور تم مغربی قوموں سے انتقام لو گے.لیکن ہمارا اور تمہارا انتقام، وہی انتقام ہوگا، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا.آنحضرت نے خوفناک مظالم کرنے والوں کو لا تشریب علیکم الیوم کہ کر انتقام لیا تھا.یہ ہمارا انتقام ہے.جب تم اسلام میں داخل ہو گے تو تم ان لوگوں کو معاف کرنے میں ہم سے بھی بڑھ جاؤ گے.تم کہو گے کہ ظلم ہم پر ہوئے تھے ، ہم معاف کریں گئے."" حضور نے پر جلال لہجے میں فرمایا :.وہ دن دور نہیں، جب آسٹریلیا کے براعظم میں اسلام کا سورج پوری شان سے چمکے گا.اب تو آسٹریلیا میں جگہ جگہ مسجدیں بنیں گی.لازما آسٹریلیا کو حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے امن کے سائے میں آنا پڑے گا.ورنہ لازما وہ تباہی کا شکار ہوں گے.نہ صرف آسٹریلیا بلکہ ساری دنیا بے چین ہے.اور ساری دنیا کے لئے امن اور سکون کا ذریعہ صرف اور صرف حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن عافیت ہے.اس کے علاوہ اور کوئی امن و عافیت کی جگہ نہیں.اللہ تعالی ساری دنیا کو اس دامن عافیت میں آنے کی توفیق دے.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل 29 نومبر 1983ء) 759
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ جنوبی امریکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی عظیم دجالی فتنہ کی تباہی مقدر تھی پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ جنوبی امریکہ عزیز بھائیو اور بہنو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ گیا نا ٹرینیڈاڈ اور سرینام کی جماعت ہائے احمد یہ 26, 25 اور 27 نومبر 1983ء کو اپنا اٹھواں سالانہ جلسہ سرینام میں منعقد کر رہی ہیں.خدا تعالیٰ اس جلسہ کو بہت با برکت کرے اور اس جلسہ کو ان ممالک میں اسلام کی تبلیغ کے لئے ذریعہ بنائے اور اس میں شمولیت کرنے والوں کو اپنی رحمتوں سے نوازے.آمین اس جلسہ سالانہ کے موقع پر جبکہ کریبین کونسل کے تینوں ممالک کے احباب جماعت ایک جگہ اکٹھے ہیں، میں آپ سب کو اس آخری زمانہ کے اس سب سے بڑے اور عظیم فتنہ کی طرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں ، جود جالیت کا فتنہ ہے.اور جس نے ایک عالم کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے اور تمام دنیا پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہو چکا ہے.یہ وہ فتنہ ہے، جو براہ راست خدائے واحد دیگا نہ کی توحید پر حملہ آور ہوا ہے.اور ایک عاجز انسان کو، جسے خدائے بزرگ و برتر نے نبوت سے سرفراز فرما کر بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے ناصرہ میں معبوث فرمایا تھا، خدائے واحد کا شریک ٹھہرایا ہے.اس فتنہ کے علم بردار خدائی کے اس جھوٹے دعوی کی تبلیغ کے لئے اور مسیح ابن مریم کو خدا کا بیٹا ثابت کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت اور قوت اور اپنے پورے ذرائع کے ساتھ تمام دنیا میں مصروف عمل ہیں.اور اس کی اشاعت کے لیے ہر قسم کی کوشش اور ہر نوع کی کاروائی کر رہے ہیں.اور تحریف اور تکلمیس سے کام لیتے ہوئے، کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، جس سے اس جھوٹے عقیدہ کی اشاعت ہو.غریب اقوام اور نادار لوگوں کو اپنے دام میں پھنسانے کے لئے انہوں نے دنیا کے خزانوں کے منہ کھول دیئے ہیں.اور پسماندہ ممالک میں اس باطل عقیدہ کی اشاعت کے لئے ہر طرح کے لالچ اور ہر قسم کی دھمکی روار کھتے ہوئے اور بنی نوع انسان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، انہیں خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کے لئے سیدھے اور بچے راستے کے بجائے ایک فانی اور عاجز انسان کی پرستش کی تعلیم دیتے ہیں.761
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ جنوبی امریکہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک نوع انسان کو اس جھوٹے عقیدہ سے نجات دلانے اور ایک ضعیف اور درماندہ مخلوق کو خدائی کے چنگل سے آزاد کرا کے سیدھے راستے پر چلانے کے لئے اور بچے اور واحد خدا کی طرف بلانے کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معبوث فرمایا تھا.اور آپ کے ذریعہ ہی اس عظیم دجالی فتنہ کی تباہی مقدر تھی.اور آپ ہی کے مبارک ہاتھوں اس صلیب نے پاش پاش ہونا تھا، جو اس عظیم فتنہ کی نشانی ہے.پس اس موقع پر میں آپ سب کو جو کریبین آئی لینڈ ز میں آباد ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہیں اور آپ سے محبت کا دعوی کرتے ہیں.یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے فرائض سے آگاہی حاصل کریں.آپ کا سر صلیب علیہ السلام کے پیروکار ہیں اور اس لحاظ سے صلیب کو توڑنے اور بنی نوع انسان کو جہنم میں لے جانے والے اس باطل عقیدہ سے بچانا ، آپ کی ذمہ داری ہے.اور نسل انسانی کو خدائے واحد کی عبادت اور پرستش کے سیدھے راستے پر چلانا، آپ کا فرض ہے.اپنے اس فرض کی ادائیگی کے لئے اور اپنی اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کوشش کریں.اور اپنے جسم اور اپنے ذہن کی تمام قوتوں کے ساتھ عیسائیت کے خلاف اس تبلیغی جہاد کا آغاز کریں.اور کریبین آئی لینڈز کے ہر ملک کے ہر شہر اور ہرقریہ اور ہر بستی میں اپنے بچے اور حقیقی اور واحد خدا کی خدائی کا پرچار کریں.اور اپنے بھائیوں اور اپنی بہنوں کو اس خدا کی طرف بلائیں، جو ہمارا خالق اور مالک ہے.جو اکیلا ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں.جو قادر ہے اور کوئی اس کے مقابل پر کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا.جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا.آپ انہیں بتائیں کہ ہمارا خدادہ ہے، جو ہمیشہ خالق، ہمیشہ رازق، ہمیشہ رب ہمیشہ رحمان اور ہمیشہ رحیم ہے اور رہے گا.آپ انہیں سمجھائیں کہ ایک ضعیف اور کمزور انسان کی خدائی ، انہیں اس دنیا میں یا دوسری دنیا میں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائے گی.پس اگر وہ اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو آنے والی تباہی سے بچانا چاہتے ہیں اور دونوں جہانوں کی خوشیوں اور سعادتوں سے اپنی جھولیاں بھرنا چاہتے ہیں تو اپنے باطل عقیدہ کو چھوڑ کر اور ایک فانی انسان کی عبادت کو ترک کر کے اس خدا کی عبادت کریں، جو بے شمار برکتوں والا اور بے شمار قوتوں والا اور بے شمار حسن والا اور بے شمار احسان والا خدا ہے.مجھے یقین ہے کہ آپ میری اس آواز پر کان دھریں گے اور پوری توجہ کے ساتھ اور اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ اس جہاد کا اعلان کریں گے.762
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جنوبی امریکہ خدا تعالیٰ آپ کو توفیق بخشے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہیں.اور آپ میں سے ہر ایک اس راہ میں قربانی کرنے والا اور اس غرض کے حصول کے لئے اپنی جان، مال اور آبرو کو قربان کرنے کا حوصلہ رکھنے والا ثابت ہو.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی برکتوں اور رحمتوں سے آپ کو نوازے.اور آپ اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی اس کے فضل اور احسان کے جلوے دیکھیں.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفه المسيح الرابع مطبوعه روزنامه الفضل 12 فروری 1984ء) 763
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع صوبائی جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ تنزانیہ احمدیت کے ذریعہ امت واحدہ کا تصور حقیقت کا روپ دھار لے گا پیغام بر موقع صوبائی جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ تنزانیہ منعقدہ 25 تا27 نومبر 1983ء جماعت احمدیہ تنزانیہ کے دور یجز زمور و گورو اور ارنگا کا صوبائی جلسہ سالانہ مورخہ 26, 25 اور 27 نومبر 1983ء کو منعقد ہوا.اس موقع پر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے درج ذیل خصوصی پیغام ارسال فرمایا:.الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود عزیز مکرم عبد الوہاب صاحب مرکزی مبلغ نے اطلاع دی ہے کہ جماعت احمدیہ مورد گورو اور ارنگار بجنز کا صوبائی سالانہ جلسہ 25,26 اور 27 نومبر کو Mikese کے قصبہ میں منعقد ہورہا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.اس مبارک موقع پر حاضرین جلسہ کو میں دلی محبت سے السلام عليكم ورحمة الله وبرکاتہ کا تحفہ پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ آپ کے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے مبارک فرمائے ، اس میں شریک ہونے والوں کو اپنے بے پایاں فضلوں سے نوازے.اور جو احباب جماعت اس مبارک اجتماع میں کسی مجبوری کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے، اللہ تعالیٰ انہیں بھی دین کے لیے اپنے اوقات عزیزہ کو صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اگر کوئی مشکلات حائل ہیں تو وہ مشکلات دور فرمائے.آمین عزیزان! تنزانیہ کا مشن، بہت پرانا مشن ہے.یہاں احمدیت کا پیغام حضرت مسیح موعود کے وقت میں پہنچا تھا.ملک کی آزادی کے بعد حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اب احمدیت کی امانت کا بار آپ کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے انعامات کو جذب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اس کے مطابق اپنی مساعی کو آگے بڑھایا جائے.اپنے قدم تیز کیجیے اور زیادہ سرعت سے آگے بڑھیے.ورنہ وقت کا کارواں آپ کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گا.اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے خدا تعالی نے آپ کو منتخب فرمایا ہے.اس احسان پر آپ خدا کا جتنا شکر ادا کریں ، وہ کم ہے.اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اسلام کا غلبہ ہو کر رہے گا.یہ خدا کی اہل تقدیر ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے 765
پیغام بر موقع صوبائی جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ تنزانیہ.تحریک جدید - ایک الہی تحریک وعدوں پر یقین کرتے ہوئے اپنی مساعی کو تیز کریں اور پیغام احمد بیت کو ہر دروازہ تک پہنچائیں.تنزانیہ کے ہر فرد بشر تک اسے لے جائیں.یہ ہر احمدی کا اٹل ایمان ہے کہ احمدیت اسلام کی حقیقی تعبیر کا نام ہے.اور ہم غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں ، جب انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کے ذریعہ امت واحدة کا تصور حقیقت کا روپ دھار لے گا.لیکن ضروری ہے کہ اس سے پہلے آپ اپنے نیک ارادوں کو عمل کے سانچوں میں ڈھال دیں.اور عقائد اور اعمال کے درمیان فاصلے نہ رہنے دیں.یا درکھیں ، آپ کی ذمہ داری صرف اپنے ملک تک ہی محدود نہیں بلکہ اپنے ملک سے باہر پڑوسی ممالک تک بھی اسلام کا پیغام آپ ہی کو پہنچانا ہے.جس طرح افراد پر ہمسایہ افراد کا حق ہوتا ہے، اسی طرح قوموں پر ان کی ہمسایہ قوموں کا حق ہوتا ہے.لیکن آپ نے تو ابھی اپنے شہر کا بھی حق ادا نہیں کیا.پس بیدار ہوں اور احساس ذمہ داری پیدا کریں.بہت کام کرنے ہیں اور بہت سفر باقی ہیں.حسب توفیق جو کچھ بن پڑے، اس راہ میں خرچ کر دیں.یاد رکھیں، تبلیغ کے لیے ذاتی لگن بہت ضروری ہے.اور دل جیتنے والے اخلاق کے بغیر کامیاب تبلیغ ممکن نہیں.اپنی شخصیت ایسی جاذب نظر بنا ئیں ، آپ کا انداز ایسا دل لبھانے والا ہو، آپ کی باتیں ایسی میٹھی ہوں کہ جو بھی آپ کے قریب آئے ، پھر قریب تر ہوتا چلا جائے.ذاتی تعلقات تبلیغ میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور خدمت اور ایثاران تعلقات کو پروان چڑھاتے ہیں اور دعائیں ان کو پھل عطا کرتی ہیں.پس دعاؤں سے بھی ہر گز غافل نہ ہوں.اور یہ عزم کر لیں کہ آپ نے ہرگز روحانی لحاظ سے ایک بانجھ کی سی زندگی بسر نہیں کرنا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بکثرت روحانی اولاد عطا فرمائے.اور آپ ایک ایک سے ہزار ہزار بنتے چلے جائیں.اور آپ کی وسعتوں کے سامنے یہ دنیا تنگ ہو جائے.خط و کتابت، ترسیل لٹریچر اور وقف عارضی بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں.بعض ممالک سے وقف عارضی کی بہت خوشکن رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں.آپ کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہیے.ہو سکتا ہے، آپ کا چند دن کا وقف کسی ہمسایہ ملک کی قسمت جگادے اور اسے اسلام کی نعمت عطا کرنے کا موجب بن جائے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خدا کے حضور جھک جائیں اور جھکے رہیں اور عاجزانہ دعاؤں سے کبھی غافل نہ رہیں.یہاں تک کہ اسی کے ہو جائیں اور ہر غیر اللہ سے بے نیاز ہو جائیں.اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اس کے احکام پر بدل و جان عمل پیرا ہوں اور کوثر اس کی مخلوق سے ہمدردی اور خیر خواہی کریں.صاحب حیثیت اپنے غریب بھائیوں سے محبت اور احسان کا 766
تحریک جدید - ایک ابھی تحریک....جلد ششم پیغام بر موقع صوبائی جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ تنزانیہ سلوک کریں.اپنی تنظیم کو مضبوط کریں، احمدیت کی تعلیم کو عام کریں.بچے، بوڑھے، نوجوان، مستورات تبلیغ اسلام کے فریضہ میں منہمک ہو جائیں.ہم کیا اور ہماری کوششیں کیا ؟ مگر ہم جانتے ہیں کہ ہمارا رب سچے وعدوں والا ہے، وہ اپنے وعدے ضرور ایفا فر مائے گا اور لازماً اسلام کو غالب کرے گا.لیکن ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم اپنے عہدوں پر قائم رہیں اور اس فرمان خداوندی کو نہ بھلا ئیں کہ أوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ میں نے جو تم سے وعدہ کیا تھا، وہ ضرور پورا کروں گا.پس تم پر بھی لازم ہے کہ تم اپنے عہد پورے کرو.ہم نے حضرت مسیح موعود کی بیعت کرتے ہوئے اقرار کیا ہے:.میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“ اسے ہر وقت مد نظر رکھیں.اللہ تعالیٰ اس عہد کو نبھانے کی آپ کو توفیق عطا فرمائے تا آپ خدا کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسير الرابع (مطبوعه روزنامه افضل 04 دسمبر 1983ء) 767
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کینیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک فوج کے دو محاذ پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کینیا منعقدہ 16 تا 18 دسمبر 1983ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ میرے عزیز بھائیو اور بہنو! هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ جماعت ہائے احمدیہ کیفیا مورخہ 16,17 اور 18 دسمبر 1983ء کو اپنا نواں سالانہ جلسہ Shibinga میں منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو بہت بابرکت کرے اور آپ سب کو، جو اس جلسہ میں شامل ہورہے ہیں ، اپنے فضلوں سے نوازے.آمین اس موقع پر میں آپ سب کو، جو اس جلسہ میں شرکت کے لئے جمع ہورہے ہیں ، مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ نے محض اللہ کی رضا کی خاطر یہ سفر اختیار کیا.آج دنیا میں بہت کم ہیں، جو محض اللہ کی خاطر سفر اختیار کرتے ہیں.پس آپ کا یہ سفر مبارک ہے.میری دعا ہے کہ اللہ اسے قبول فرمائے اور اس کی برکت سے اپنی جانب سفر کرنے کی توفیق بخشے.اللہ کی جانب سفر یہ ہے کہ ہر اس چیز کو ترک کرتے ہوئے ، جو خدا سے دور لے جاتی ہے، ہر اس چیز کو اختیار کیا جائے، جو خدا کے قریب لے جاتی ہے.اور خدا کے پیار کی نگاہیں حاصل کرنے کا موجب بنتی ہے.خدا کرے، ہر آن آپ کا قدم اپنے رب کی طرف بڑھتا رہے.اس موقع پر میں آپ کو اور آپ کے توسط سے تمام احباب جماعت ہائے کینیا کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.آپ سب، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں، دراصل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مبارک فوج کے سپاہی بن چکے ہیں، جو اس زمانہ میں اسلام کو تمام دوسرے ادیان پر غالب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قائم فرمائی ہے.اور جس کے سالار لشکر حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں.769
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کینیا تحریک جدید - ایک الہی تحریک اس حیثیت سے دو محاذوں پر آپ کو شدید محنت اور جاں سوزی کے ساتھ جہاد کرنا پڑے گا.پہلا محاذ یہ ہے کہ تمام غیر اسلامی اخلاق اور رسم و رواج اور گندی عادات اور مادہ پرست مغربی تہذیب کے بد اثرات کو مٹا کر پاکیزہ اسلامی معاشرہ کے قیام کی کوشش کریں.یہ زمانہ ، جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، ایسا زمانہ ہے، جس میں تمام اخلاقی، روحانی اور ایمانی اقدار پامال ہو رہی ہے اور ایک تیز آندھی ضلالت اور گمراہی کی اور بد عقیدگی کی چل رہی ہے.اور حقیقی ایمان کی جگہ چند لفظوں نے لے لی ہے، جن کا محض زبان سے اقرار کیا جاتا ہے.فی الحقیقت دنیا خدا تعالیٰ سے دور جا پڑی ہے اور دنیا کے لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے وجود کی کچھ بھی وقعت اور عظمت نہیں رہی.بلکہ اکثر لوگ الحاد کا شکار ہو چکے ہیں.یا تو کھلم کھلا خدا کے منکر ہیں یا عملاً اس کا انکار کرتے ہیں.محض ایک فرضی خدا کے قائل ہیں ، جو عملاً ان کی زندگیوں میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا.دنیا کمانے کے لئے ہر قسم کے مکر اور ہر نوع کے فریب اور ہر طرح کی چالا کی کو روا رکھتے ہیں.اور طرح طرح کی ناراستی ، بددیانتی اور انتہا درجہ کی رویہ بازی سے کام لیتے ہوئے لالچ اور خود غرضی سے بھرے ہوئے منصوبوں پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں اور بنی نوع کو طرح طرح کے مظالم اور قسم قسم کی تکالیف کا نشانہ بناتے ہیں.پس آپ کے لئے پہلا محاذ ، جسے آپ نے اللہ اور رسول کے لئے جیتنا ہے، تربیتی اور اصلاحی جنگ کا محاذ ہے.یہ محاذ اتنا وسیع ہے کہ اپنے نفس پر بھی حاوی ہے اور غیروں کے نفوس پر بھی.اسلام کی سر زمین میں بھی یہ لڑائی لڑی جائے گی اور غیر اسلامی زمینوں میں بھی.دوسرا محاذ تبلیغ کا محاذ ہے.اور اس محاذ پر اعتقادی اور ایمانی لحاظ سے گھپ اندھیروں میں بھٹکنے والی دنیا کو خدا کی طرف بلانے کا کام آپ کو کرنا ہے.اس عظیم جہاد کی بناڈالتے ہوئے ایسے تاریک زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا.اور آپ کے آنے کے ساتھ وہ صبح صادق ظہور پذیر ہوئی، جس کا وعدہ خدا تعالیٰ کے انبیاء اپنے پاک نوشتوں میں دیتے چلے آئے ہیں.اور آپ کے آنے کے ساتھ وہ نور آیا، جو آسمان سے اتر تا اور دلوں کو سکینت اور اطمینان بخشتا ہے.اور آنکھوں کی بینائی اور قدموں کو ثبات عطا کرتا ہے.آپ نے بنی نوع کو ان کے خالق اور مالک کی طرف بلایا اور بندوں کو اپنے رب تک پہنچانے کے لئے اس سیدھے اور بچے اور صاف راستے کی نشان دہی فرمائی، جس کا نام اسلام ہے.اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بصیرت اور اس کے عطا کردہ علم اور اس کی قدرت اور طاقت اور عظمت سے بھر پور نشانوں کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ اب زمین پر سچاند ہب صرف اسلام ہے.اور سچا خدا 770
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کیفیا وہی خدا ہے، جو قرآن نے بیان فرمایا ہے.اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال و تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا رسول صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جن کے قدموں میں بیٹھنے سے اور جن کی پیروی کرنے سے اور جن سے محبت رکھنے سے انسان اپنے رب کو پا جاتا ہے.اور اس زندگی میں ہی اس جنت کو حاصل کر لیتا ہے، جس کی خواہش ہر دل میں موجزن ہے.پس آپ جو خود کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کہتے ہیں اور اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عظیم روحانی خادم اور فرزند کے جانثاروں میں شمار کرتے ہیں.کیا آپ کو اپنے ان بھائیوں پر رحم نہیں آتا ، جن کی آنکھیں ابھی تک اس نور کو دیکھنے سے معذور ہیں اور جن کے دل اس کیف سے نا آشنا ہیں اور اس لذت سے بے خبر ہیں، جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں بیٹھنے سے اور آپ کو اپنے دل میں بٹھانے سے ملتی ہے؟ اور کیا آپ کا دل اپنے بھائیوں کے لئے درد محسوس نہیں کرتا، جو اپنے پیدا کرنے والے رحمان اور رحیم رب سے دور دنیا اور اس کے اندھیروں میں ٹھوکر میں کھاتے پھر رہے ہیں اور جو اپنے رب کی شناخت سے ملنے والی راحت اور اس کے وصل سے حاصل ہونے والے سرور سے محروم ہیں؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ کے یہ بھائی بھی ان نعمتوں اور ان لذتوں سے بہرہ ور ہوں، جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ملی ہیں.کیا آپ کا یہ فرض نہیں ہے کہ آپ اپنے بھائیوں کو بھی اسی گلشن کی طرف بلائیں، جس میں ہر قسم کی راحت اور ہر قسم کا آرام ہے؟ کیا آپ کی یہ ذم داری نہیں ہے کہ آپ تمام دنیا کے لوگوں کو اسلام کی سیدھی اور سچی راہ کی طرف دعوت کریں اور انہیں بتائیں کہ یہ وہ راہ ہے، جس پر چل کر وہ ہر دکھ اور ہر درد اور ہر تکلیف سے نجات پاسکتے ہیں اور اس جنت کو حاصل کر سکتے ہیں، جس کی تمنا ہر دل کو بے قرار رکھتی ہے؟ پس اس موقع پر میں آپ سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.اپنے بھائیوں کے دکھ اور ان کی تکالیف کو اپنے دل میں محسوس کریں.اور انہیں بد عقیدگی اور دہریت اور ظلمت سے نکالنے کے لئے جدو جہد کریں.انہیں اس روشنی کی طرف بلانے کے لئے کوشش کریں، جس نے آپ کے دل کو منور اور آپ کی آنکھوں کو روشن کر دیا ہے.اس پر قانع نہ ہو جائیں کہ آپ نے سیدھے راستے کو اختیار کر لیا ہے.اور اس بات پر مطمئن نہ ہو جائیں کہ آپ آرام میں آگئے ہیں.بلکہ اپنے پورے زور اور اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنے بھائیوں کو فلاح اور کامیابی کی طرف جانے والے اس راستہ کی طرف بلائیں.یا درکھیں کہ کوئی خوشی ایسی نہیں، جو تنہا منائی جاسکے.اور کوئی راحت ایسی نہیں، جس سے اکیلے لطف اٹھایا جا سکے.پس اپنے بھائیوں کو بھی اس خوشی اور راحت میں حصہ دار بنا ئیں ، جو آپ حاصل کر چکے ہیں.771
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کیفیا تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خدا کرے، آپ میری بات پر کان دھرنے والے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہوں.خدا کرے، آپ اپنے بھائیوں کے دکھ اور درد کو اپنے دلوں میں محسوس کرنے والے ہوں.اور خدا کرے کہ آپ انہیں ان کے رب تک لے جانے والے سیدھے راستے کی طرف بلا کر ان کے مصائب کا مداوا کرنے والے ہوں.میں صرف زبانی تائید اور فرضی اطاعت کا قائل نہیں.اگر آپ عہد بیعت میں صادق ہیں تو میرا یہ پیغام سننے کے بعد ہر وہ شخص جس کے کانوں تک یہ آواز پہنچ رہی ہے، اسے لازماً اسلام کا مبلغ بننا پڑے گا.اور خود ہمیشہ اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ہوگا.جب تک ہر سال کسی کی دعوت الی اللہ کوخدا تعالیٰ میٹھے پھل عطا نہ فرمائے ، نئے نئے لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کی توفیق نہ بخشے، اسے چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی رحمتوں سے آپ کو نوازے.آمین والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعه روزنامه الفضل 26 فروری 1984ء) 772
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد ششم پیغام بر احمدیہ بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ نائیجیریا احمدیت کی کامیابی کے ساتھ ہی دنیا کا شاندار مستقبل وابستہ ہے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ نائیجیر یا منعقدہ 24 تا 26 دسمبر 1983ء آپ کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے سب احباب کو میری طرف سے دلی مبارک باد قبول ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے اس جلسہ کو بہت بابرکت بنائے.اور اللہ تعالیٰ آپ کو نا یجیریا میں اسلام کی ترقی کے کامیاب منصوبے بنانے کی توفیق عطا کرے.آپ کی ذمہ داریاں بہت عظیم اور اہم ہیں.اپنے نمونہ کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالیں.آپ کے اخلاق بھی اسلامی تعلیمات کے غماز ہوں.حالات خواہ کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، احمدیت کی ترقی اور کامیابی یقینی ہے.اور احمدیت کی کامیابی کے ساتھ ہی دنیا کا شاندار مستقبل وابستہ ہے.مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روزنامه الفضل 13 جنوری 1984ء) 773
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء فباى الآء ربكما تكذبن خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1983ء ".آج کا دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانات کے بیان کا دن ہے.گویا بارش کے قطرے اور گننے کا دن ہے، جو انسان کے بس کی بات نہیں.تمام دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت ہائے احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات کی جو بارشیں سال بھر برستی ہیں، انہیں اس تھوڑے سے وقت کے کوزے میں سمیٹا جا ہی نہیں سکتا.لیکن بہر حال اپنی استطاعت کے مطابق، توفیق کے دائرہ میں رہتے ہوئے ، ایک کوشش کی جاتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانات کا ذکر کریں.تا کہ دل اس کی حمد سے بھر جائیں ، آنکھیں اس حمد سے برسنے لگیں اور دعائیں بن بن کر یہ حد دلوں سے بلند ہوتی رہے.تا کہ پھر اللہ کے اور فضلوں کو ہم جذب کرنے کا موجب بن جائیں“.چنانچہ تحریک جدید کے ساتھ بھی یہی ہوا اور انجمن کے چندے بڑھنے کے نتیجہ میں تحریک پر برا اثر نہیں پڑا.گذشتہ سال میں لاکھ، انیس ہزار کے مقابل پر امسال تحریک جدید کی وصولی انتیس لاکھ، اکہتر ہزار ہوئی."" وو مطبوعه روزنامه الفضل 12 اپریل 1984ء) تحریک جدید کا رسالہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی اچھی خدمت سرانجام دے رہا ہے.اس میں انگریزی اور ار دو دونوں سیکشن ہیں اور غیر از جماعت دوست بھی بڑے شوق سے اسے پڑھتے ہیں....ریویو آف ریلیجنز سے متعلق گذشتہ سال میں نے وعدہ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے احترام میں اس کو بڑھا کر اس سال دس ہزار تک پہنچا دینا ہے.تو آپ کو اس خبر سے خوشی ہوگی اور آپ کو مبارک ہو کہ دوماہ سے ریویو آف ریلجنز 11,000 کی تعداد میں شائع ہو رہا ہے.اور اب یہ ساری دنیا میں چیدہ چیدہ لوگوں کو بھجوایا جارہا ہے.اس کا ایک ایڈیشن انڈونیشین زبان میں اور ایک انگریزی زبان میں شائع ہو رہا ہے.سپینش زبان کے لئے بھی تیاری کی جارہی ہے.اسی طرح بعض افریقن زبانوں میں، نیز عربی اور فرانسیسی میں اسے شائع کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے.تو ہم 775
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک امید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ رسالہ دنیا کی تمام بڑی بڑی اہم زبانوں میں شائع ہو کر ساری دنیا کی روحانی ضروریات کو سیراب کرے گا“.ور اسی طرح وکالت تصنیف نے بعض کتب شائع کی ہیں:.Pronouncements of the promised messiah so said the promised Messiah وو فتاوی احمدیہ سے بعض حصص، اقتباسات از ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.(مطبوعہ روزنامہ الفضل 14 اپریل 1984ء) اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ساری دنیا میں ایک عظیم الشان بیداری کی لہر جماعت میں دوڑ رہی ہے.مرد، عورتیں، بچے سارے ہی خدمت دین کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حضور فدا کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.ایسے حیرت انگیز خط ملتے ہیں بعض دفعہ ایسے لوگوں کے جن کو میں جانتا ہی نہیں.مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے لوگ دعائیں کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ دعا کریں، اللہ دعا کریں کہ ہماری شہادت کی تمنا پوری ہو جائے.ہمارا سب کچھ خدا کا ہے، ہم سے طلب کر لیں، ہم سب کچھ دے کر فقیر بننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.اس شان کے ساتھ جماعت قربانی کے میدانوں میں آگے بڑھ رہی ہے کہ اس کے مقابل پر جو حد کا حق ہے، وہ ادا نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ کے احسانات ہماری حمد سے بہت زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے آگے بڑھ رہے ہیں.تحریک جدید کا سب سے اہم شعبہ تبشیر ہے، جو ساری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچارہا ہے.اس وقت 38 ممالک میں 240 با قاعدہ مشن تبشیر کے تحت کام کر رہے ہیں.اور خدا کے فضل سے 102 ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.تین ممالک میں نئے مشن قائم کئے گئے ہیں.سپین میں غرناطہ کے مقام پر ایک اور مشن کا اضافہ ہوا ہے.اور ابھی ایک دوماہ کے اندر میڈرڈ میں بھی ایک مشن کا اضافہ کیا جائے گا.کینیڈا میں ونیکو در میں اضافہ ہوا ہے.انگلستان میں آکسفورڈ میں ایک نیا مشن قائم کیا گیا ہے.اسی طرح گلاسکو میں مشن کے لئے سودا ہو رہا ہے.اور مشرقی لندن میں بھی ایک نیا مشن قائم کیا جا رہا ہے.دس ممالک میں جہاں پہلے سے جماعتیں مستحکم تھیں، امسال 27 نئی جماعتیں قائم ہوئیں ہیں اور 31 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں.تبلیغ کے سلسلہ میں بہت ہی ایمان افروز واقعات موصول ہوتے رہے ہیں.مثلاً نبا نزا صوبہ کے دورہ کے دوران ایک مارکیٹ میں ہمارے ایک احمدی کا عیسائی نوجوان سے یونہی ضمناً تعارف ہو گیا.776
اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وہ کھڑے بازار میں باتیں کر رہے تھے، اس عیسائی نوجوان کو ایسی دلچسپی پیدا ہوئی کہ اس نے کہا کہ آپ کو میرے گاؤں ضرور چلیں، جو سارے کا سارا عیسائی ہے.چنانچہ وہ ہمارے احمدی کو گاؤں لے کر گیا اور خود ہی لوگوں کو اکٹھا کیا اور چالیس حاضرین مہیا کئے کہ اب ان کے سامنے اسلام کی خوبیاں بیان کریں.اسی مجلس میں اس وقت ہیں نبیعتیں ہو گئیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک نئی جماعت وہاں قائم ہو گئی.گھانا میں ایک ہی وقت میں چھ پرانے پادری اسلام میں داخل ہوئے ہیں، جو اپنے اپنے فرقوں کے سربراہ تھے اور بڑی عزت والے لوگ تھے.محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام بن کر زیادہ معزز ہو گئے ہیں.ایک معلم خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اپنے چھپیں ساتھیوں سمیت احمدی ہوا ہے.سیرالیون میں Madinadodo (مدینہ ڈوڈو) ایک جگہ ہے ، وہاں بیک وقت 24 افراد اور ان کے ساتھ ان کے چوراسی لواحقین بھی اسلام میں داخل ہوئے.کمور و آئی لینڈ ایک ایسی جگہ ہے، جہاں چند سال پہلے ایک احمدی مبلغ کو ، جو تبلیغ کے لئے وہاں گیا، حکماً نکال دیا گیا اور تبلیغ کی اجازت نہیں دی گئی.مگر دنیا کے قانون کہاں چلتے ہیں، جب اللہ کا حکم جاری ہو جائے؟ چنانچہ بغیر مبلغ کے اب تک وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے 200 احمدی ہو چکے ہیں.اب وہاں جو ہماری طرف سے ایک نمائندہ وفد دیکھنے کے لئے گیا تو وفد کے ایک رکن نے یہ واقعہ بتایا کہ ان کے ایمان اور اخلاص کا یہ حال ہے کہ ایک دوست سعید عمر درویش صاحب ملے اور کچھ دیر کی گفتگو کے بعد انہوں نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکالا اور کہا: دیکھو، اس پر کیا لکھا ہے؟ میں نے دیکھا تو لکھا ہوا تھا، حضرت صاحبزادہ سید عبدالطیف شہید.انہوں نے کہا: میں نے یہ جیب میں اس لئے رکھا ہے کہ میں ہر وقت اسے یادرکھوں اور ہرفت دعا کرتا رہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت عطا فرمائے.کینیا میں کسو مؤ ایک شہر ہے، وہاں کی مسجد سے ایک احمدی مبلغ کو مار مار کر آدھ موا کر کے نکالا گیا تھا.اب وہاں خدا نے یہ ہوا چلا دی ہے کہ اسی مسجد کا معلم ہمارے احمدی مبلغ کو درخواست کر کے لے گیا کہ آپ آئیں اور احمدیت سے متعلق وہاں کچھ بیان کریں.چونکہ وہاں لوگوں میں پہلے اشتعال پیدا کیا جا چکا تھا، اس لئے کچھ لوگ بھڑک اٹھے.انہوں نے کہا: اس کا کیا حق ہے، یہاں آنے کا ؟ معلم نے کہا: حق کیا ہے؟ میں نے دعوت دی ہے.اور خدا کے گھر سے ہوتا کون ہے، نکالنے والا کسی کو ؟ اس لئے تمہیں سنا پڑے گا.چنانچہ اس مجلس میں خدا کے فضل سے 13 احمدی ہوئے اور وہاں جماعت قائم ہوگئی.777
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک سیرالیون میں ایک عیسائی علاقہ ہے، جہاں مولوی نذیر احمد علی صاحب کو نکال دیا گیا تھا.عیسائیت کا وہاں بہت زیادہ زور ہے.وہاں کا بشپ خود پیراماؤنٹ چیف کے پاس پہنچا کہ یہاں احمدی سکول کی اجازت نہیں دینی چاہیے.اس نے نہ صرف اجازت دی بلکہ پورا تعاون کیا.اور جب وہاں سکول قائم کرنے کی تقریب منعقد کی جارہی تھی تو خدا کے فضل سے 35 بیعتیں وہاں ہوئیں.اللہ تعالیٰ وہاں کے عیسائی چیفس کے دل میں بھی اپنی طرف سے اسلام کی محبت داخل کر رہا ہے اور جماعت احمدیہ کے حق میں ان کے اندر تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے.ایک اور عیسائی علاقہ میں عیسائی چیف پر لوگوں نے زور ڈالا کہ یہاں احمدی سکول نہ کھولنے دور نہ علاقہ کو جو عیسائی علاقہ ہے، یہ مسلمان بنالیں گے.اس نے کہا: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میں جانتا ہوں، یہ لوگ بہت اچھے ہیں.اس لئے سکول تو ان کا کھلے گا ہی.اس نے نہ صرف سکول کی اجازت دی بلکہ ایک بہت بڑا مکان فرنیچر سمیت اور ہیں ایکٹر زمین بھی مشن کو تحفہ دی.جماعت احمدیہ کو مختلف ممالک میں مختلف قسم کی عدالتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.باقی ملکوں کی عدالتوں کے فیصلوں کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے.افریقہ کی عدالتوں کے بعض دلچسپ فیصلے سینے.ایک احمدی کے خلاف ایک غیر احمدی نے عدالت میں مقدمہ کیا کہ یہ اذانیں دیتا ہے، فلاں فلاں کام کرتا ہے اور غیر مسلم ہے.اس لئے اس کو حق نہیں ہونا چاہیے.تو جج نے دونوں کو بلایا کہ دونوں اپنے اپنے ثبوت پیش کرو.تو جو احمدی تھا اس نے فوراً بیعت فارم نکال کر پیش کر دیا کہ یہ میرا عقیدہ ہے، یہ پڑھ لیں، یہ مسلمان والا ہے یا غیر مسلموں والا.اور غیر احمدی کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا.اس لئے حج نے فیصلہ دیا کہ اس کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ احمدی پکا مسلمان ہے.مور و گورو میں مقامی طور پر ایک ہی احمدی کا گھر تھا.اس نے جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ایک بہت ہی با موقع پلاٹ رکھا ہوا تھا اور وہاں جماعت کا مشن اور مسجد بنانا چاہتا تھا.وہاں واحد سیاسی جماعت ہے، جو سب سے زیادہ طاقتور ہے.اس پارٹی کے ممبران نے اس کی مخالفت شروع کر دی اور ساری سیاسی جماعت خلاف ہو گئی کہ اس کو یہاں مسجد اور مشن ہاؤس نہیں بنانے دینا.چنانچہ انہوں نے عدالت میں مقدمہ کیا کہ یہ ایک ہی گھر ہے، اس کا حق کیا ہے کہ یہاں مسجد تعمیر کرے؟ اکیلا آدمی ہے، ایک خاندان ہے، گھر پر نماز پڑھا کرے.حج نے دونوں فریقوں کو لیا اور اس سے پوچھا کہ بری معقول دلیل نظر آتی ہے کہ تم اکیلے آدمی ہو، خدا کا گھر بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس وقت خدا نے 778
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء اس کو یہ دلیل سمجھائی.اس نے کہا: اگر تمہاری دلیل درست ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا کا گھر بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ بھی تو صحرا میں ایک ہی گھر ، ایک ہی خاندان تھا اور اس نے بھی بچے کو چھوڑ کر واپس چلے جانا تھا.تو حج کا فیصلہ سنیے.حج نے یہ فیصلہ کیا کہ لازما یہاں خدا کا گھر بنایا جائے گا اور جماعت کا مشن قائم کیا جائے گا اور میں حکم دیتا ہوں کہ اس تقریب میں سارے مخالفین پہنچیں اور شامل ہوں.انفرادی تبلیغ پر جوز ور دیا جار ہا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بھی بہت ہی خوشکن نتائج نکل رہے ہیں.انفرادی تبلیغ میں پہلے یہ روک تھی کہ بہت سے لوگ افریقہ میں بھی اور یورپ میں بھی سمجھتے تھے کہ ہمیں پورا علم نہیں، اس لئے ہم کس طرح تبلیغ کریں؟ تو بیرونی ممالک کے دورہ کے دوران بھی اور بعد میں بھی ہر جگہ بار بار میں نے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں.علم تو اللہ آپ ہی عطا فر ما دیا کرتا ہے.ضرورت پڑتی تو ہے لیکن ایسی ضرورت نہیں کہ اس کے بغیر پیغام دیا ہی نہ جا سکے.اصل تقویٰ ہے، اصل دل کی سچائی ہے.تمہارے اندر سچا ہمدردی کا جذبہ ہونا چاہیے.تمہاری بات میں سچائی کا وزن ہونا چاہیے.اس لئے تبلیغ شروع کر دو.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی کثرت کے ساتھ باہر سے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ جماعت کے نوجوان بھی ، بوڑھے بھی اور بچے بھی سارے تبلیغ شروع کر چکے ہیں اور بڑے بڑے خوش کن نتائج نکل رہے ہیں.کیسٹس (Cassetes) کو بھی اس میں خوب استعمال کیا جارہا ہے.چنانچہ انگلستان کے ایک نوجوان نے یہ عہد کیا کہ میں ضرور تبلیغ کروں گا.اور ایک ہندو کو تبلیغ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اسے موقع عطا فرمایا اور وہ اس کی تبلیغ سے احمدی ہوا.اس نے لکھا کہ صرف کیسٹس سنوا، سنا کر ہی اس کو میں نے قائل کیا ہے.اور احمدی ہونے کے بعد اس نے چندہ بھی شروع کیا ہے.لیکن کچھ عرصہ کے بعد اسے میرا ایک خطبہ ملا، جس میں تھا کہ جماعت کے بعض لوگ اپنی آمد کم بتاتے ہیں اور چندہ پورا نہیں دیتے تو جھوٹ نہ بولا کریں، جو آمد ہے، وہ صحیح بتا ئیں اور اگر چندہ نہیں دے سکتے تو انہیں معافی مل جائے گی.اگر ضرورت مند ہوں گے تو جماعت مدد بھی کرے گی.یہ خطبہ سن کر وہ شیخ مبارک احمد صاحب کے پاس آیا اور بڑا ہی نادم تھا.اس نے کہا: میں جب سے احمدی ہوا ہوں، اتنا چندہ دیتا تھا حالانکہ دگنا دینا چاہیے تھا تو اب میں پچھلا بھی سارا ادا کر رہا ہوں اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ پورا دیا کروں گا.اسی طرح احمدی نوجوانوں کی تبلیغ سے عیسائی بھی احمدی ہو رہے ہیں اور چینی بھی ہور ہے ہیں اور اس طرح غیر ممالک کے لوگ جو یورپ یا امریکہ میں گئے ہوئے ہیں، ان میں بھی تبلیغ ہورہی ہے.779
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ا ابھی کینیڈا سے ایک خط آیا.اس میں انہوں نے لکھا کہ ایک چینی مسلمان ہوئے.بد ہسٹ تھے وہ، پہلے مسلمان اور پھر احمدی مسلمان ہوئے.ان کے دل میں اتنی محبت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی" وہ اپنے خرچ پر دس ہزار شائع کر کے سرخ چین میں خود اس کی اشاعت کا انتظام کریں گے.اسی طرح ان کے علاوہ امسال مزید دو بدھ بھی احمدی ہوئے ہیں.حالانکہ پہلے بدھوں کو توجہ نہیں تھی.کیسٹ کے پروگرام کو جس طرح حکمت سے بعض جماعتیں استعمال کر رہی ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو سب سے زیادہ نمایاں اور پیاری کامیابی حاصل ہوئی ہے، جو مجھے بہت محبوب ہے.وہ یہ ہے کہ مصطفیٰ ثابت صاحب نے چھ کیسٹ عربی زبان میں تیار کر کے دیئے تھے، جن کو ہم نے ساری دنیا کے مشنز میں بھجوادیا کیونکہ ہر شخص کو مہارت نہیں ہوتی کہ وہ عربی زبان میں کلام کر سکے تو ایک عرب عربوں کو مخاطب کرے.ان کیسٹس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال ہیں عرب احمدی ہو چکے ہیں.جرمنی کا تازہ وعدہ 590 بیعتوں کا ملا ہے.یعنی جب سے وہاں مشن قائم ہوا ہے تو اس وقت سے وہاں گنتی کے چند نو مسلم ہوئے تھے.اب جماعت میں اتنا جوش پایا جاتا ہے کہ ہر آدمی مبلغ بن رہا ہے اور ان کے وعدوں کی تعداد 590 تک پہنچ گئی ہے.اب ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ان کا سہارا بنے ، ان کی کمزوریوں کو دور فرمائے ، انہیں استقامت عطا فرمائے ، ان کی زبان میں اثر پیدا کرے، ان کے اخلاق میں قوت جاذبہ پیدا کرے.ایسا تقویٰ نصیب کرے، جو غالب آنے کے لئے پیدا کیا جاتا ہے، جو لاز ما فتح مند ہوتا ہے.تو ساری دنیا سے انفرادی تبلیغ کی جو رپورٹیں مل رہی ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت خوشکن ہیں اور ساری جماعت کو ان سب کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہیے.خواتین میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا جوش ہے.اور ایک امریکن خاتون، جو جرمنی میں ہیں، ان کی رپورٹیں بھی بڑی کثرت کے ساتھ باقاعدہ ملتی ہیں.وہاں وہ یورپین میں تبلیغ کر رہی ہیں.یورپ میں ، بھی اور دوسرے ممالک میں کچھ ہوں گی.لیکن ابھی بہت کمی ہے، اس لحاظ سے انہیں توجہ کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں کام پھیل رہا ہے اور نیک نتائج بھی پیدا ہور ہے ہیں، وہاں جماعت کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی جارہی ہیں.کچھ ذمہ داریاں تو ایسی ہیں، جن کو پورا کرنا ہماری استطاعت میں ہوتا ہے اور ہم کرتے ہیں.کچھ ایسی ہیں، جو ہماری استطاعت سے باہر ہیں لیکن ہماری دعا کی استطاعت سے باہر نہیں ہیں.مثلاً افریقہ کے بعض ممالک شدید قحط سالی کا شکار ہو چکے ہیں اور نہایت خوفناک بھوک اس 780
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983 ء وقت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کو دیکھ رہی ہے.کئی قسم کی اقتصادی بدنظمیاں ہیں، جو اس کی ذمہ دار ہیں.پھر کئی سال سے بارش بھی نہیں ہو رہی.ابھی جو عالمی رپورٹ شائع ہوئی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ نظر آنے والے مستقبل میں تو بارش کا کوئی امکان نہیں ہے.75 فیصد پانی غائب ہو چکا ہے اور صرف 25 فیصد باقی ہے، جس پر سارے ملک کا گزارہ ہے.سارے افریقہ کے نہایت دردناک حالات ہیں.ہمارے ایک مشنری نے لکھا ہے کہ گھانا میں ایک رات کو بارہ بجے دروازہ کھٹکا.جب میں پہنچا تو ایک شخص بے ہوش ہو کر گر پڑا تھا.دروازہ کھولا تو اس کے جسم کوٹھوکر لگی.میں اس کو اٹھا کر اندر لایا اور اس کے منہ میں کچھ ڈالا.جب اس کو ہوش آئی تو اس نے کہا: میں بھوکا تھا ، مجھ میں طاقت نہیں رہی تھی ، میری اور کوئی بیماری نہیں.اسی وقت انہوں نے کھانا تیار کر کے کھلایا اور وہ دعائیں دیتا ہوا باہر چلا گیا.انہوں نے کہا: دیکھ کر فی کا وقت ہے، اس وقت باہر نہ جاؤ.اس نے کہا: اب چاہے گولی لگ جائے، مجھے پرواہ نہیں ہے.میں تو کھانے سے مایوس ہو چکا تھا.اللہ نے فضل کیا کہ ایک فرشتہ کے پاس بھجوایا، جس نے میرے کھانے کا انتظام کر دیا.اسی طرح اور بھی بڑے دردناک واقعات وہاں سے موصول ہورہے ہیں.پس میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ بڑے درد کے ساتھ باہر کے ممالک کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور خصوصاً گھانا کے لئے بہت دعا کریں کہ وہاں قحط سالی ایک انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے.گزشتہ سال مجلس شوری (برائے ممالک بیرون پاکستان ) جو منعقد ہوئی تھی ، اس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور نذرانہ کے طور پر صد سالہ جو بلی کے موقع پر ہم ایک نذرانہ بھی پیش کریں گے کہ سونئے ممالک میں اسلام کا پودا لگائیں گے.چنانچہ اس فیصلے کے بعد وہ ممالک تقسیم کر دئیے گئے.بعض ممالک کے سپر د ایک سے زائد ایسے ممالک تھے، جو دوسرے ممالک کے بھی سپر د تھے اور یہ ایک کھلی دوڑ دی گئی ہے کہ ہر ایک کوشش کرے، جو آگے بڑھ جائے ، جس کو خدا توفیق بخشے.تو ان کوششوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک سال کے اندر اندر ہی پھل لگانا شروع کر دیا ہے.چنانچہ اس وقت تک اس نئی سکیم کے تابع موریطانیہ، چاڈ، اپروولٹا، گنی بساؤ ، صومالیہ، یوگوسلاویہ، ٹیونس ، چین کو مورو آئی لینڈ، الجزائر اور مراکش میں نئی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.الجزائر اور مراکش کی جماعتیں بھی کیسٹ کے ذریعہ قائم ہوئی ہیں.یہ بھی عجیب بات ہے کہ یہ دونوں ہی وہ کیسٹ ریکارڈنگ، جو مصطفی ثابت صاحب کی تھی، کے ذریعہ قائم ہوئیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، وہ مشنوں کو بھجوائی گئی تھیں.الجزائر سے جو احمدی ہوئے ہیں، ایک بڑے معز رسید خاندان کے فرد ہیں.مجھے ان کی اپنی چٹھی آئی.انہوں نے لکھا کہ میں سوئٹر لینڈ گیا ہوا تھا، 781
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم - وہاں مسجد دیکھنے گیا تو آپ کے مبلغ نے مجھے کچھ کیسٹس دیں.یہ کیسٹس مصطفی ثابت صاحب نے عربی میں عربوں کو پیغام کے لئے ریکارڈ کی ہیں.اور وہ سن کر میرا دل بالکل مطمئن ہو گیا اور میں نے اسی وقت بیعت کر لی.اب مجھے بتائیں میرے دل میں شدید تمنا ہے کہ سارے ملک میں اب احمدیت کا پیغام پہنچاؤں.میری مدد کریں اور میری راہنمائی کریں.پس جب اللہ تعالیٰ فیصلے کر لیتا ہے تو خاک کی چٹکی میں بھی شفا آ جاتی ہے.یہ کیسٹ بے چاری کیا چیز تھی؟ یہ محض خدا کی تقدیر ہے، جو ان کیسٹوں میں بول رہی ہے.حضرت مسیح موعود کی یہ تمنا ہی ہے، جو کام کر رہی ہے.جب نیا نیا گراموفون ایجاد ہوا تھا تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا.آپ نے فرمایا کہ یہ نئی ایجادات تو میری خاطر خدا نے بنائی ہیں اور میری خواہش ہے کہ میں اس میں پیغام بھر دوں اور ساری دنیا کے کونے کونے تک میں اپنی آواز کیسٹ یعنی گراموفون کے ذریعہ پہنچا دوں.تو اب یہ حضرت مسیح موعود کی تمنا ہی ہے، جو برکتیں دکھا رہی ہے اور رنگ لا رہی ہے.یہ لسٹ بہت لمبی ہے، میں اس کو چھوڑتا ہوں.مختلف ممالک میں جن کے سپر د ایک سے زائد ممالک کئے گئے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا، اللہ تعالی محض اپنے فضل سے برکت ڈال رہا ہے.اپروولنا سے متعلق رپورٹ یہ ہے کہ وہاں گھانا کے ذریعہ پہلے سے جماعت قائم تھی لیکن ایک بڑا وسیع منصو بہ بنایا گیا ہے.مثلاً چند سال ہوئے ، کیمرون سے ہمارے ایک احمدی معلم کو انہوں نے نکال دیا تھا.تبلیغ کی اجازت نہیں دی گئی تھی.اب وہاں سے ایک ایسا شخص، جو گزشتہ چونتیس سال سے عیسائی پادری تھا، وہ وہاں از خود مسلمان ہوا اور پھر مسلمان بننے کے بعد اس تلاش میں پھرنے لگا کہ میں اسلام کا کون سا فرقہ اختیار کروں.اس نے بہت کوشش کی.کئی فرقوں میں گیا لیکن اس کے دل کو اطمینان نہیں ہوا.چنانچہ وہ ایک احمدی مسجد میں پہنچا اور اس نے وہاں احمدیت کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور خدا کے فضل کے ساتھ وہ سچا احمدی مسلمان بنا.اور وہ یہ بتا کر گیا ہے کہ میرے ساتھ ایک ہزار کی جماعت ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ ساری کی ساری انشاء اللہ تعالیٰ پیچھے پیچھے آجائے گی.وقف عارضی بیرون بھی خدا کے فضل سے بڑے اچھے کام سرانجام دے رہی ہے.یورپ کے بہت سے ممالک ہیں، جنہوں نے چین میں وقف عارضی کا کام شروع کیا ہے.اس کے علاوہ یوگوسلاویہ میں بھی ایک وقف عارضی کا وفد گیا تھا.ہر طرف سے رپورٹیں مل رہی ہیں کہ اسلام کے لئے دلچسپی بڑھتی چلی جارہی ہے اور بڑے شوق سے لوگ اسلام کی باتیں سنتے ہیں.ہمارے ایک ڈاکٹر نذیر صاحب ہیں، 782
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریکہ جو پہلے ابی سینا میں ہوا کرتے تھے، انہوں نے پہلے عارضی طور پر وقف کیا اور پھر انہیں وقف کا ایسا چسکا پڑا کہ ابھی بھی ان کا خط آیا تھا کہ میں اپنے آپ کو ایک سال کے لئے دوبارہ پیش کرتا ہوں اور اپنے خرچ پر سارا سال سپین میں تبلیغ کروں گا.ان کا رنگ بھی نرالا ہے.کوٹ پر لا اله الا الله محمد رسول اللہ لکھوالیا ہے اور ہاتھ میں حضرت مسیح موعود کی تصویر ہوتی ہے اور وہ گلیوں اور بازاروں میں کیسٹیں لگا کر پھرتے رہتے ہیں اور بڑے شوق سے لوگ ان کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں.یوگوسلاویہ میں ہمارے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ وقف کر کے گئے ہیں.اور وہاں دو، تین دن کے اندر اندر ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے 18 بیعتیں ہو گئیں.ان کو تبلیغ کے جرم میں جیل بھی جانا پڑا.دنیا میں ہر جگہ تعصات ہوتے ہیں، وہاں بھی ہیں.چنانچہ ان کو پکڑ لیا گیا اور ان کی باقاعدہ پیشی ہوئی.اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنے بندوں کو بڑے پیارے جواب سمجھا دیتا ہے.انہوں نے کہا کہ تمہیں کتابیں تقسیم کرنے کا کیا حق تھا ؟ کمیونسٹ ملک ہے، وہاں منظور شدہ لٹریچر کے سوا کسی اور چیز کی تقسیم کرنے کی اجازت نہیں.تو باجوہ صاحب نے کہا: یہ سمجھنے کی کون سی مشکل بات ہے، تم لوگ کہیں جاتے ہو تو چاکلیٹ تحفہ لے کر نہیں جاتے؟ یہ احمدیوں کا چاکلیٹ ہے.معلوم ہوتا ہے، حج پر ایسا اثر پڑا کہ اس نے معمولی سی سزا دے دی.اور وہاں کے وکیل نے کہا کہ بچ گئے ہو، یہاں تو کئی سال بھی تمہیں اندر پھینک دیا جاتا تو پتہ ہی نہیں لگتا تھا.سزا یہ دی کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر یہاں سے نکل جاؤ تو باجوہ صاحب اڑ گئے کہ چوبیس گھنٹے میں تو ہم نہیں نکل سکتے ، 36 گھنٹے کرو.چنانچہ ان کو وہ بھی رعایت دے دی گئی.اور 18 بیعتیں لے کر واپس لوٹے تو اللہ تعالیٰ واقفین عارضی پر بڑا مہربان ہوتا ہے، ان کی دعائیں قبول کرتا ہے، ان کے کام میں برکتیں ڈالتا ہے.جتنے زیادہ سے زیادہ لوگ وقف کریں گے، اتنے ہی زیادہ خدا کے فضلوں کو نازل ہوتا دیکھیں گے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش تھی کہ ہم اپنا ایک احمد یہ ریڈیو اسٹیشن اور احمد یہ ٹیلی ویژن قائم کریں، جس کے ذریعہ دنیا کو پیغام دیا جائے.اس کے لئے تو ابھی کوئی صورت نہیں بن سکی.کیونکہ یہ بہت ہی مہنگا کام ہے.سردست جماعت کے پاس ویسے بھی وہ ذرائع نہیں ہیں.اگر خدا و پیہ مہیا فرما بھی دے تو ممالک کے قوانین ہی ایسے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ہم کسی ملک سے دن رات تبلیغ نہیں کر سکتے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک اور حل فرما دیا ہے.وہ یہ کہ دنیا میں جو بڑے بڑے ممالک ہیں، نہایت ہی عمدہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے انتظامات ہیں، انہوں نے جماعت کے پیغامات خود 783
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم گفتگو نشر کرنے شروع کر دیئے ہیں.اب کینیڈا کی طاقت کا ٹیلیویژن کا نظام تو جماعت قائم نہیں کر سکتی تھی.لیکن خدا کے فضل سے وہاں ہر مہینے جماعت احمدیہ کے مشنری انچارج کو وقت دیا جاتا ہے.وہ اسلام پر گفتہ کرتے ہیں.امریکہ میں بھی خدا کے فضل سے بہت سے ایسے مواقع پیدا ہوئے ہیں.خصوصاً ہمارے - ڈاکٹر مظفر کی شہادت کے بعد تو اس کثرت سے ریڈیو اور ٹیلیویژن پر جماعت کا پیغام پھیلا ہے کہ اربوں روپیہ بھی آپ خرچ کرتے تو وہ نہیں کر سکتے تھے.بینڈل اسٹیٹ،اونڈ واسٹیٹ ، کالابار، سورینام، لائبیریا، کینیا، سیرالیون، گھانا ان سب میں ریڈیو اور ٹیلیویژن کا جماعت کو تعاون حاصل ہے.اور کالا بار سے تو با قاعدہ ہمارے مبلغ کا خطبہ ٹیلی کاسٹ ہوتا ہے.کینیڈا میں سات پروگرام نصف نصف گھنٹہ کے جماعت کو ملتے ہیں.امریکہ میں سات پروگرام دیئے گئے، جن میں سے چار اتنے مقبول ہوئے کہ انہیں 16 مرتبہ دہرایا گیا.اور دو پروگراموں کو چار چار مرتبہ دہرایا گیا.نجی میں بھی باقاعدہ ہر تہوار، ہر موقع پر جماعت احمدیہ کو نمائندگی کا موقع دیا جاتا ہے.سپین میں سات ریڈیو اسٹیشنوں نے ہمارے مشنری کے انٹرویو نشر کیے اور بڑے لیے تفصیلی تبلیغی پروگرام انہوں نے خود نشر کئے.بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تو کوئی حد نہیں ہے، کوئی انتہا نہیں ہے.کس کس چیز کو شمار کریں گے، the فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ کن کن کا انسان انکار کر سکتا ہے.وکالت تصنیف بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھے کام کر رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتاب ست بچن کا انگریزی ترجمہ پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب کر رہے ہیں ، وہ شائع کرنے کا پروگرام ہے.اور گورکھی ترجمہ گیانی عباداللہ صاحب نے مکمل کر لیا ہے، وہ بھی شائع کرایا جائے گا.اسلامی اصول کی فلاسفی چینی زبان میں اس پر نظر ثانی کی جاری ہے.اس کے علاوہ امام مہدی کے ظہور سے متعلق ایک بہت اچھا مضمون عثمان چینی صاحب نے چینی زبان میں لکھا ہے.اس کے علاوہ بھی وہ لٹریچر تیار کریں گے.اب ان کو اس کام پر وقف کر دیا گیا ہے.خطبات کے انگریزی ترجمے تمام دنیا میں تقسیم کرنے کا انتظام تحریک جدید کر رہی ہے.اس سے پہلے مکرم محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب انگلستان میں ہر خطبہ کا ترجمہ فورا کر دیتے تھے.اور برادرم انور احمد صاحب کاہلوں نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا کہ وہ اس کو آگے پھر مختلف ممالک میں مشتہر کر دیتے تھے.چوہدری صاحب تو اب یہاں تشریف لے آئے ہیں، اللہ تعالیٰ کسی اور کو تو فیق عطا فرمائے گا“.784
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک وو اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء عربوں کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری یہ ہے کہ ان کی طرف سے تفسیر کبیر کے عربی ترجمہ کا مطالبہ بار بار آ رہا تھا.چنانچہ گزشتہ سال طہ قذق صاحب نے بڑے درد سے کہا کہ عرب مزاج کو میں سمجھتا ہوں.عرب مزاج کو اس سے زیادہ کوئی چیز قبول نہیں ہو سکتی کہ قرآن کریم کی تفسیر ، جو ان کے علماء کو نہیں آتی ، وہ قادیان کی بستی سے پیدا ہونے والے ایک انسان کو خدا نے ایسی سکھائی کہ اسے پڑھتے جاتے ہیں اور قرآن کا علم دل پر روشن ہوتا چلا جاتا ہے.اس سے زیادہ گہرا اثر کرنے والی کوئی چیز نہیں.چنانچہ ہم نے اس کا انتظام کیا اور اب انشاء اللہ تعالی ساری تفسیر کبیر کا عربی میں ترجمہ ہو کر تمام دنیا میں شائع کی جائے گی.اور اس کی پہلی جلد خدا کے فضل سے تیار ہو چکی ہے.اب وہ ایک دو مہینے کے اندر طبع ہو جائے گی.طہ قذق صاحب بھی خاص دعاؤں کے مستحق ہیں، انہوں نے اس سارے کام کے کل اخراجات کی پیشکش کر دی ہے.اور وہ کہتے ہیں کہ عربوں میں آپ نے جتنی بھی تفسیر کبیر شائع کرنی ہے، اول سے آخر تک وہ ساری میرے خرچ پر شائع ہوگی.اور 20 ہزار ڈالر وہ ادا بھی کر چکے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ کام شروع کرو، انشاء اللہ میں پیچھے نہیں رہوں گا.میں نے جب ایک اور قذق صاحب کو یہ بتایا کہ اس طرح وہ اللہ کے فضل سے بازی لے گئے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہر کام میں وہ اسی طرح کر جاتے ہیں، ہمارے لئے بھی کچھ رہنے دیں گے یا نہیں؟ لیکن وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مخلص نوجوان ہیں، انہوں نے پانچ جلدوں والے انگریزی قرآن کا عربی میں خود ترجمہ کیا ہے اور وہ بھی اب نظر ثانی کر رہے ہیں اور اب انشاء اللہ تعالیٰ جلد شائع ہو جائے گا.قرآن کریم کے تراجم کے سلسلہ میں فرانسیسی ترجمہ قرآن اب بالکل آخری مراحل میں ہے، نظر ثانی ہورہی ہے.ہمارے مبلغ اور بعض بڑے مخلص ماریشین احمدی بھی ساتھ لگے ہوئے ہیں.اور ان کے علاوہ ایک اچھی کمپنی بھی کام کر رہی ہے.انہوں نے مجھے اندازہ یہ بھیجا ہے کہ اگلے تین ماہ کے اندر اندر انشاء اللہ تعالیٰ یہ شائع ہو جائے گا.روسی زبان سے متعلق مجھے بڑی فکر تھی کہ اب تک روسی زبان میں ہم ترجمہ شائع نہیں کر سکے اور دوسرے اخراجات بھی اتنے زیادہ ہیں کہ فوری طور پر خیال ہی نہیں تھا کہ ہم شروع کر سکیں گے.مگر اللہ تعالیٰ نے چوہدری شاہ نواز صاحب کے دل میں یہ تحریک ڈال دی اور چند مہینے ہوئے ، ان کا مجھے خط آیا کہ روسی زبان کے لئے ترجمہ کے سلسلہ میں جتنے بھی اخراجات ہیں، وہ میں ادا کروں گا.آپ یہ کام شروع کروا دیں.نیکی تو بغیر بچہ دیئے نہیں رہتی.اس نیکی نے ایک اور بچہ دے دیا اور کچھ دن کے بعد ان کا مجھے 785
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک یہ خط آیا، میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کی طباعت کے سارے اخراجات بھی میں ادا کروں گا.تو اللہ کے ما سے روسی زبان پر بھی کام شروع ہو گیا ہے.اسی طرح فیجین زبان میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ مکمل ہو کر اب نظر ثانی ہورہا ہے.ڈچ میں اسی سال دوبارہ شائع کیا گیا ہے.اس وقت تک دس مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہو چکے ہیں.اور جو زبانیں زیر نظر ہیں، ان میں میجن ، فرانسیسی ، روی اور اٹالین ہے.اٹالین کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے از خود ہی انتظام فرما دیا ہے.پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے مجھے لکھا کہ آپ جو نظر ثانی کروا رہے ہیں، اس میں تو کافی خرچ آئے گا تو میں یہ سارا خرچ ادا کروں گا اور اپنی نگرانی میں کام کرواؤں گا.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے.چنانچہ وہ بھی یہ کام از خود یعنی جماعت کی طرف سے اجازت کے ساتھ اپنی نگرانی میں کروا ر ہے ہیں.عربی تفسیر میں سے مسجد لندن کو امسال یہ توفیق عطا ہوئی ہے کہ وہ سورہ بروج الطارق اور القارعہ کا عربی ترجمہ شائع کر سکے.چنانچہ یہ ان کی بہت اچھی پیشکش ہے.گویا جلد اول کا مکمل ترجمہ یہ شائع کر چکے ہیں.اس وقت ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کے جرائد ورسائل دس مختلف زبانوں میں شائع ہور ہے ہیں.ڈچ ڈینش، جاپانی، سواحیلی، جرمن، فریج، عربی، انڈونیشن ، بنگالی اور تامل.اسی طرح ڈنمارک سے ایک رسالہ جہاد بھی نیا شائع کیا گیا ہے.ہارٹلے پول سے حال میں ہی ہماری ایک بچی ساجدہ حمید نے بچوں کے لئے انگریزی میں ایک بڑا ہی اچھا رسالہ نکالا ہے، جس کا نام ” کو کب رکھا ہے.اسی طرح جنوبی افریقہ کی خدام الاحمدیہ نے "الخادم اور لجنہ اماءاللہ نے ” البشری کے نام پر رسالہ شائع کیا ہے.نصرت جہاں سکیم کے تحت جس تیز رفتاری کے ساتھ کام چھیل رہا ہے، اس کے خلاصہ کے بیان کی بھی یہاں گنجائش نہیں رہی.میں اس وقت چند اعداد و شمار آپ کو سنا سکتا ہوں.اس وقت تک 23 ہسپتال کام کر رہے ہیں.چار ممالک میں اٹھارہ ہسپتال ہیں اور چار ممالک میں چوبیس سکول کھولے گئے ہیں اور ایک سال کے منافع کی جو کل رقم ہوئی ہے، وہ ایک کروڑ، چوالیس لاکھ، آٹھ ہزار، اناسی روپے ہے.جبکہ چند سال پہلے جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اس کا آغاز فرمایا تھا تو کل پچپن لاکھ روپے کے سرمایہ سے یہ تحریک شروع کی گئی.اور اب ایک سال کا بجٹ ایک کروڑ ، چوالیس لاکھ روپے ہو چکا ہے.لیکن جماعت احمدیہ، افریقہ کو لوٹنے نہیں گئی بلکہ ہر پہلو سے عطا کرنے کے لئے گئی ہے.چنانچہ یہ 786
تحریک جدید - ایک ابھی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1983 ء سارا روپیہ افریقہ میں ہی نیک کاموں پر خرچ ہوتا ہے.ہسپتال کما کر دیتے ہیں اور سکولوں پر وہ خرچ ہو جاتا ہے.چنانچہ خدا کے فضل سے یہ سارے رفاہی کاموں پر روپیہ خرچ کیا جارہا ہے.نصرت جہاں کے ہی وہ کام ہیں، جن کو دیکھ کرنا نیجیریا کے صدر شیخو شغاری صاحب نے ایک پیغام میں جماعت کو یہ لکھا کہ میں نے بنظر غائر دیکھا ہے اور یہ امر میرے لئے باعث سکون ہے کہ جماعت احمدیہ تبلیغ اسلام ،سکولوں اور شفا خانوں کے قیام کے میدان میں بدستور بڑے ثبات کے ساتھ ترقی پذیر ہے“.(مطبوعه روزنامه الفضل 30 مارچ 1980 ء) سیرالیون کے نائب صدر صاحب نصرت جہاں کے ان کاموں سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں کہ میں ہمیشہ سے ہی احمدیت کا مداح اور خیر خواہ رہا ہوں.بعض لوگ اس میری محبت اور عقیدت کو پسند نہیں کرتے.میں انہیں بتاتا ہوں کہ احمدیت ایک سچائی ہے اور سچائی کے لئے دن رات بے لوث خدمت کر رہی ہے.بارہ سیکنڈری سکولز چلانا، کوئی معمولی بات نہیں.یہ کام صرف اخلاص، جذبہ اور نیک نیتی جیسی خوبیوں سے آراستہ ہو کر ہی سرانجام دیئے جاسکتے ہیں.میڈیکل کے میدان میں جماعت احمدیہ کی خدمات آب زر سے لکھی جانے چاہئیں.ہم جو آج مسلمان ہونے کا دعوی لئے پھرتے ہیں، اس میں اولیت کا سہرا احمدی مبلغین کے سر ہے.احمدی مبلغین نے دن رات اس ملک میں خدمت اسلام کر کے اسلام کی لاج رکھ لی ہے.اسی طرح شیخو شغاری صاحب نے ایک موقع پر فرمایا کہ ( مطبوعہ روزنامہ الفضل 19 اپریل 1980 ء) کا کچھ جماعت احمدیہ نے نائیجیریا میں ایک قابل فخر قوم تیار کی ہے.اب آخر پر میں صد سالہ جوبلی سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.صد سالہ جوہلی کی تحریک جب.شروع کی گئی تو غالبا دو تین کروڑ پیش نظر تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ اس تحریک کو دس کروڑ تک پہنچا دیا.میں نہیں جانتا، کیا عوامل کارفرما ہیں؟ جماعت کے مزاج کے یہ بات خلاف ہے کہ وعدے کرنے کے بعد بھول جائے.اور دوسری طرف اس تیزی کے ساتھ مالی قربانی میں آگے بڑھ رہی ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ اس تحریک کو کیوں بھلا دیا؟ چنانچہ دس کروڑ کے جو وعدے کئے گئے ہیں، ان میں سے اب تک بمشکل نصف کے قریب ادائیگی ہوئی ہے.یہ تقریبا پندرہ سال کے عرصہ میں پھیلی ہوئی ادا ئیگی ہوئی تھی.اب یہ بات سمجھ 787
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں نہیں آتی.معلوم یہ ہوتا ہے کہ نظام کی طرف سے کوئی سنتی دکھائی گئی ہے.ورنہ جماعت تو ایسی نہیں ہے کہ مالی قربانی میں اس طرح پیچھے رہ جائے.آپ اندازہ کریں کہ صرف اس سال جماعت احمد یہ بیرون نے چندہ عام، چندہ وصیت اور چندہ تحریک جدید میں دس کروڑ روپے ادا کئے ہیں.اور گزشتہ سال کے مقابل پر دگنی رقم ادا کی ہے.تو جماعت احمد یہ اخلاص میں اتنی عظیم الشان ترقی کر رہی ہے، اس پر بدظنی کا کسی کو حق ہی نہیں ہے کہ پندرہ سال میں پھیلے ہوئے دس کروڑ کے وعدے سے وہ بے توجہی کرتی.غالبا یہی بات ہے کہ امراء یا مشنری انچارج بعض دفعہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے ایک تحریک پر زور دیا تو دوسری تحریک سے پیچھے نہ رہ جائیں.وہ لازمی چندہ جات کی طرف توجہ دیتے رہے ہیں اور اس طرف توجہ نہیں دی.تو بے دھڑک اور بے خوف ہو کر توجہ دیں، پیسے مہیا کرنا ان کا کام ہی نہیں ہے.وہ اللہ کا کام ہے.وسعتیں عطا کرنا، ہمارے خدا کے ہاتھ میں ہے، لازم وہ مہیا فرمادے گا.اس لئے میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ان کے منتظمین ست ہیں تو وہ نہ ستی دکھا ئیں اور جلد از جلد اس کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں.اس سلسلہ میں بھی بہت ہی دلچسپ واقعات موصول ہوتے رہتے ہیں.چنانچہ پچھلے سال جب میں نے تحریک کی کہ جماعت اس میں پیچھے رہ گئی ہے تو اس کثرت کے ساتھ احمدی خواتین نے قربانی کے نمونے دکھائے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.پیچھے پڑ کر منتیں کر کر کے زیوراتار کر پھینکے کہ یہ لے لیں اور ہمارا چندہ پورا کریں اور معذرتیں کیں.صوبہ سندھ ” نواب شاہ کی ایک خاتون ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ افسوس ہے، میں بالکل بھول گئی تھی ، اس طرف توجہ نہیں تھی.میں بہت ہی شرمندہ ہوں.پانچ ہزار تو نفد بجوارہی ہوں ، جو میرے پاس کل سرمایہ ہے اور باقی زیور بیچتے ہی میں انشاء اللہ تعالیٰ سارا ادا کر دوں گی.اس ضمن میں ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ احمدی خاتون کی ذہانت کا بھی ہے اور یہ ایسا واقعہ ہے، جو احمدیت سے باہر ہو ہی نہیں سکتا.یہ خاص احمدیت کی شان کا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں اس قسم کے واقعات رونما فرمارہا ہے.ضلع شیخوپورہ کی ایک خاتون اپنے خاوند کے ساتھ موٹر میں اپنے گاؤں کی طرف آرہی تھی کہ رستہ میں کار کو ڈاکوؤں نے روک لیا.اس سے پہلے وہ کئی بسیں اور کاریں لوٹ چکے تھے.انہوں نے جلدی سے ایک آدھ چیز یعنی زیورا تار کر قدموں میں نیچے پھینک دیئے لیکن اتنی دیر میں ڈا کو نظر ڈال چکے تھے.انہوں نے کہا: ہر گز کوئی حرکت نہیں کرنی ، سار از یور دے دو.وہ سارا زیوران کا لوٹ کر چل پڑے.دیکھئے ! دیکھئے ایہ ترکیب احمدی دماغ کے سوا کسی کو آہی نہیں سکتی.انہوں نے خاوند سے کہا کہ ڈاکوؤں سے 788
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اقتباس از خطابه فرموده 27 دسمبر 1983ء تو یہ زیور واپس نہیں مل سکتا.صرف ایک ترکیب ہے کہ جومیرا بچا ہوا ہے، وہ میں خدا کی راہ میں دے دوں.پھر اللہ اس کی واپسی کا انتظام کر دے گا.چنانچہ وہ زیور لے کر دوڑی دوڑی ربوہ آئیں اور مجھے کہا کہ اس کو صد سالہ جوبلی میں میری طرف سے لے لیں.اس کے سوارستہ ہی کوئی نہیں کہ میرا از یورواپس ملے.چنانچہ ایک ہفتہ کے اندر اندر اس کا خط آیا کہ کچھ سمجھ نہیں آتی کس طرح ہوا لیکن وہ ڈاکو پکڑے گئے اور ہمار از یور بھی ان سے نکل آیا ہے.پس یہ ہے، احمدیت کی شان.یہ ہے، وہ خدا، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہوا.اور آپ کے بعد آپ کے سب سے کامل غلام مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر ہوا تھا.آپ کی تیار کردہ یہ جماعت ہے، آپ ہر وقت خدا کے فضلوں کے سایہ تلے آگے بڑھتے ہیں.کوئی خوف نہ کریں، غربت کا.کوئی خوف نہ کریں، جیبیں خالی ہونے کا.کیونکہ خدا کے خزانے نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں.اس کی رحمت کا سایہ ہمارے سروں پر دراز ہے اور ہمارے آگے آگے چلتا ہے اور پھیلتا چلا جاتا ہے.اس سایہ سے تیز تر آپ نہیں چل سکتے.ہمیشہ وہ سایہ آگے بڑھتا رہے گا.اس لئے آپ وہ جماعت ہیں، جن کو کوئی خوف نہیں اور کوئی حزن نہیں ہے.خدا کی خاطر قربانیوں میں آگے بڑھیں اور خدا کے فضلوں کی بارشوں کو نازل ہوتا دیکھیں.مجھے تو ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے، جو جماعت پر خدا کے فضلوں کو دیکھ کر ان کی راہ میں روکیں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.زمین پر بہنے والے پانی کے سامنے تو کچھ دیر کے لئے روک لگائی جا سکتی ہے لیکن وہاں بھی لمبے عرصہ کے لئے روک نہیں ڈالی جاسکتی.وہ رکے ہوئے پانی چڑھ جایا کرتے ہیں اور ہر بند کو توڑ دیا کرتے ہیں.لیکن وہ بارش جو آسمان سے نازل ہو رہی ہو، اس کو کبھی کبھی چھتوں نے روکا ہے.اور وہ بارش جو مشرق تا مغرب محیط ہو چکی ہو، جو شمال میں بھی برس رہی ہو اور جنوب میں بھی برس رہی ہو، وہ ساری دنیا میں اللہ کے فضلوں کے قطرے بن کر جماعت پر نازل ہورہی ہے.کون ہے، جس کی چھتری اس فضل کو روک دے گی ؟ کون ہے، جس کی چھت اس کی راہ میں حائل ہو جائے گی ؟ اس لئے ہے خوف ہو کر آپ آگے بڑھتے چلے جائیں.دعائیں کریں، ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے، ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے، ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے، اس نے نہ پہلے کبھی ہمیں چھوڑا ہے، نہ آئندہ بھی ہمیں پیچھے چھوڑے گا“.( مطبوعه روز نامہ افضل 15 اپریل 1984ء) 789
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم خلاصہ خطاب فرمودہ 28 دسمبر 1983ء اے احمد یو! اپنی ہر کوشش دنیا میں عدل کے قیام کے لئے صرف کر دو خطاب فرمودہ 28 دسمبر 1983ء بر موقع جلسہ سالانہ تشہد اور تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے آیت قرآنی إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ کی تلاوت فرمائی.اس کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ سال میں نے عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی کے مضمون کا آغاز کیا تھا اور گزشتہ سال صرف عدل کے بارے میں بیان کیا تھا.نے فرمایا:.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے دین کے معاملے میں عدل کا مضمون واضح فرمایا.حضور قرآن کریم نے ہر قسم کے اکراہ کو مذہب سے بالکل ختم کر دیا ہے اور انسان کو کامل آزادی عطا کی ہے کہ کسی مذہب میں داخل ہونے یا اس سے نکلنے میں کوئی جبر نہیں.اسلام نے یہ بتا دیا ہے کہ تلوار کے زور سے کبھی دلوں کو جیتا نہیں جاسکتا.حضور نے فرمایا:.اگر جبر کا حق کسی کو دنیا میں دیا جاسکتا تو اس کے حقدار صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے.کیونکہ آپ سب سے بڑے عادل تھے اور آپ ہی تھے، جن کی خاطر یہ کائنات پیدا کی گئی.لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی نہیں دیا گیا اور اللہ نے کہا کہ تیرا کام صرف نصیحت کرنا ہے.کوئی مانے یا نہ مانے“.حضور نے تاریخ اسلام کا ایک اہم واقعہ بیان کیا کہ ایک کافر کو ایک صحابی نے جنگ میں جب قتل کرنا چاہا تو عین اس وقت اس کا فر نے کلمہ پڑھ دیا مگر صحابی نے یہ جان کر کہ یہ اپنی جان کے خوف سے کلمہ پڑھ رہا ہے، اس کو قتل کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساری بات جاننے کے بعد سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: کیا تم نے اس کا سینہ چیر کر دیکھا تھا کہ وہ 791
خلاصہ خطاب فرمودہ 28 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک دل سے مسلمان ہوا ہے یا نہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز اس شخص کالا اللہ الا اللہ کہنا تمہارے خلاف گواہی دے گا.آنحضرت کی اس بات کو سن کر وہ صحابی کا نپا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے طرز عمل کے ضمن میں پر جلال آواز میں فرمایا:.وہ ایک شخص تو یہ سن کر کانپ گیا تھا کہ اس کے خلاف لا الہ الا اللہ گواہی دے گا.تم کیوں خوف نہیں کرتے کہ تمہارے خلاف لا الہ الا اللہ بھی گواہی دے گا اور محمد رسول اللہ بھی گواہی دے گا ؟ حضور نے اس مضمون کو عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی کی مختلف ارتقائی منازل میں بیان وو فرمایا.اور فرمایا کہ عدل تو ایک ابتدائی مرحلہ ہے، اس کے بعد احسان کا مرحلہ آتا ہے اور پھر اس سے بھی بلند روحانی مرتبہ ایتاء ذی القربیٰ کا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو صرف ایک مقام تک دیکھنا پسند نہیں کرتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ ان کے روحانی درجات مسلسل ترقی پذیر ہیں.حضور نے عبادت میں عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی کے پہلو کو بیان فرمایا.اس کے بعد حج، رہبانیت اور حقوق العباد میں قضاء کے فیصلوں اور شہادات میں اس مضمون کو نہایت احسن رنگ میں واضح فرمایا.حضور نے فرمایا:." آج کی دنیا عدل کے خلاف کام کرنے والی دنیا ہے.آج عدل یا احسان یا ایتاء ذی القربیٰ کا مقام تو در کنار، دنیا واضح ظلم کے ساتھ کام لے رہی ہے.حضور نے اہل دنیا کو اس ظلم سے باز آجانے کی تلقین فرمائی اور احباب جماعت کو فرمایا کہ اے احمد یو! تم ایک پورے جذبہ سے عدل کے خلاف کھڑے ہو جاؤ اور اپنی جان ومال اور اپنی ہر کوشش دنیا میں عدل کے قیام کے لئے صرف کر دو.حضور نے بڑے درد سے فرمایا:.ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے اپنے بھی ہم پر حملہ کر رہے ہیں.ابھی تو ہم نے اسلام سے باہر لوگوں کو اسلامی عدل کے اصول منوانے ہیں.مگر بجائے اس کے کہ اس میں ہماری کوئی مدد کریں ، الٹا ہمیں اس کام سے روکتے ہیں.حضور نے فرمایا:.اے احمدی ! اٹھ اپنوں سے بھی اسلام کی خاطر دکھ اٹھا اور غیروں سے بھی لڑ اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کی خاطر جو تیر بھی تجھ پر چلایا جائے ، اس خوشی سے قبول کر“.مطبوع روزنامه افضل 15 جنوری 1984ء) 792
تحریک جدید- ایک الہی تحریکہ مشن ہاؤسز و مساجد فنڈ پیغام بنام جماعت ہائے احمد یہ کینیڈا بسم الله الرحمان الرحيم پیغام بنام جماعت ہائے احمد یہ کینیڈا نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود مکرم امیر و مبلغ انچارج صاحب جماعت ہائے احمد یہ کینیڈا السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ایک وقت تھا کہ جماعت کینیڈا کا اپنا کوئی مشن ہاؤس نہیں تھا.پھر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور توفیق عطا فرمائی کہ بعض جگہوں پر مشن ہاؤسز قائم ہو گئے.لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ضرورتوں کے تقاضے بڑھتے گئے مگر چندوں کی مقدار اتنی نہیں بڑھی.نتیجہ یہ ہے کہ ان مشن ہاؤسز کی خرید وغیرہ کے سلسلہ میں جماعت کینیڈا پر 4,50,000 ڈالر سے زائد قرض ہو چکا ہے.ابھی بہت سی Expansions ہونی باقی ہیں.اور نئی جگہوں پرمشن ہاؤسز کا قیام بھی ضروری ہے.اس کے لئے کسی پہلی جائیداد وغیرہ پرانحصار کرنا غلط ہے.جماعت کینیڈا کو چاہیے کہ ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ، اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور ایک نئے جوش اور ولولہ کے ساتھ مشن ہاؤسز و مساجد فنڈ کے لئے اپنی توفیق کے مطابق قربانیاں پیش کریں.اس کے لئے عام تحریک کی جائے.ہر فر د جماعت کو اس میں شامل کیا جائے.ہر برانچ کے ذمہ ایک مقررہ رقم لگائی جائے اور با قاعدہ پروگرام کے مطابق اس تحریک کو کامیاب کیا جائے.موجودہ حالات کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ تین سال کے اندر اندر اس فنڈ کے لئے جماعت ہائے احمد یہ کینیڈا چھ لاکھ ڈالر جمع کرے.آپ کے لئے میر اوہی پیغام ہے، جو جماعت احمدیہ امریکہ کے احباب کے لئے ہے.آگے بڑھیں، اپنی کمر ہمت کس لیں اور اس کارخیر میں ہر فرد جماعت اپنی توفیق کے مطابق وعدہ لکھوائے اور کم از کم عرصہ میں اس کی ادائیگی بھی کرے.حضرت مسیح موعود کی جماعت میں بے انتہا اخلاص کا سمندر ہے اور اس کے سینوں میں خدمت کا غیر معمولی جوش ہے.کئی جگہ بظاہر دیکھنے سے یہ احساس نہیں ہوتا لیکن اس نیند کی سی کیفیت سے ذرا جگا 793
پیغام بنام جماعت ہائے احمد یہ کینیڈا تحریک جدید - ایک الہی تحریک دیا جائے تو احمدی اس طرح اٹھتے ہیں، جس طرح سویا ہوا شیر اٹھ کھڑا ہوتا ہے.اور ان کے جذبہ جوش خدمت کے نظارہ کو دیکھ کر انسان کا سر اپنے خدا کے حضور شکر اور حمد سے جھک جاتا ہے.اتنی عظیم الشان جماعت اس مادی دنیا میں اس نے پیدا فرمائی کہ جبکہ ساری دنیا ایک بالکل مختلف مادی نظریہ حیات میں مبتلا اور ڈوبی ہوئی ہے، کس طرح جماعت کے دوست محبت اور خلوص سے ساتھ اپنی عزیزترین چیزیں اللہ تعالیٰ کے قدموں میں ڈالنے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں.اور جہاں تک اس پہلو سے تو فیق کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ بعض دلوں کی توفیق اتنی بڑھا دیتا ہے کہ وہ سب کچھ دینے کے بعد ایک بے قراری محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے کافی نہیں دیا.روتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا ! ہماری ظاہری توفیق کو بھی بڑھا تا کہ ہم اپنے دل کی تمنا ئیں پورا کرسکیں.پس ساری جماعت کو تحریک کریں کہ دعاؤں کے ساتھ ، اخلاص کے ساتھ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دیں اور اس کی رضا حاصل کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.میں ایک دفعہ پھر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جولوگ چندہ عام نہ دے رہے ہوں، جو لوگ وصیت کرنے کے باوجود وصیت کے تقاضے پورے نہ کر رہے ہوں ، ان کو اس تحریک میں شامل نہیں کرنا.ہاں، جو اپنے حالات کی بناء پر اجازت حاصل کر کے شرح سے کم چندہ عام دے رہے ہوں ، ان کو موقع دیا جائے گا کہ وہ طوعی چندوں اور اس قسم کی تحریکات میں شامل ہونے کی توفیق پائیں.والسلام مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روزنامه الفضل 1 3 اگست 1983 ء) 794
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب بر موقع استقبالیہ مجلس انصار الله مرکز به انصار اللہ کو زبا نہیں سیکھنے کے لئے با ضابطہ مہم چلانی چاہیے خطاب بر موقع استقبالیہ مجلس انصار اللہ مرکزیہ 1983ء تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا:.”سب سے پہلے تو میں مجلس انصار اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ تقریب پیدا کی ، جس میں ہم باہمی محبت اور اخوت کے ماحول میں اکٹھے بیٹھ کر آج کھانا کھا ئیں گے.ہر سال یہ تقریب ایک خاص رنگ رکھتی ہے اور اس میں شمولیت کا بہت لطف آتا ہے.میرا خیال تو یہ تھا کہ میں انشاء اللہ تعالیٰ آپ سے کل کے آخری خطاب میں سفر سے متعلق کچھ باتیں کروں گا.پھر اس کے بعد بھی مجلس تحریک جدید کی طرف سے ایک تقریب ہے، اس میں بیان کرنے کے لئے بھی میں نے ایک حصہ ذہن میں رکھا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے سفر چونکہ بڑا مصروف تھا، اس لئے بہت سی ایسی باتیں ہیں، جو پھر بھی رہا جائیں گی اور یاد آتی رہیں گی.اب بھی بعض دفعہ کچھ ایسی باتیں یاد آتی ہیں، جن کی طرف پہلے دھیان نہیں رہا ہوتا.مگر جور پورٹیں شائع ہوں گی، ان میں انشاء اللہ تعالی رفتہ رفتہ بہت ساری باتیں احباب کے میں آجائیں گی.اب جب ایڈریس میں یہ ذکر کیا گیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمین کے ایک کنارہ تک نہ صرف پہنچنے کی بلکہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی تو اس پر مجھے یاد آیا کہ یہ بھی کوئی باقاعدہ سکیم کے تابع نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے از خود ایسا انتظام ہوا کیونکہ ہمارا ارادہ وہاں جا کر محض وہ جگہ دیکھنا تھی اور دعا کرنا تھی.اس سے زیادہ کوئی تبلیغی پروگرام میرے ذہن میں نہیں تھا.لیکن وہاں پہنچنے کے بعد بلکہ عملاً چلنے سے پہلے ہی مجھے یہ بتا دیا گیا تھا کہ وہاں ایک سکول والوں سے ہم نے درخواست کی ہے کہ سکول میں ایک ایڈریس ہو جائے.وہ چونکہ ایک سا چھوٹا سا جزیرہ ہے، اس لئے وہاں زیادہ بڑی جگہ نہیں.وہی سکول ہی ہے، جو ان کی تعلیم کا مرکز ہے اور Intelligentia وغیرہ وہیں آتے ہیں.تو ان کا یہ خیال تھا کہ بچوں سے مختصر آبات کی جائے اور وہ بھی عام نیکی کی سادہ سی باتیں بچوں کو سمجھانے کے لیے اس سے زیادہ کوئی ضرورت نہیں ہے.لیکن جب سکول پہنچا تو ذہن میں ایسی کوئی بات 795
خطاب بر موقع استقبالیہ مجلس انصار اللہ مرکزیہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک نہیں تھی.لیکن تمہید از خود ہی ایسی بن گئی کہ بالآخر حضرت مسیح موعود کی تبلیغ پر جا کرتان ٹوٹی.اور بچوں کی زبان میں آہستہ آہستہ سمجھاتے ہوئے ، میں نے دیکھا کہ بچوں کی آنکھوں میں بھی چمک ہے اور ماشاء اللہ وہ دیسی لے رہے ہیں.اور جو بڑے آئے ہوئے تھے، ان میں ہندو بھی تھے اور عیسائی بھی تھے.انہوں نے بڑی گہری دلچسپی لینی شروع کر دی اور کافی دلچسپ خطاب ہوا.اور وہاں سب کی طرف سے بہت دلچسپی کا اظہار کیا گیا.چنانچہ میں نے انہیں ہدایت دی کہ جولوگ دلچسپی لے رہے ہیں، ان کے ADDRESSES لکھے جائیں اور بعد میں ان سے رابطہ رکھیں.امید ہے کہ جماعت احمد یہ بھی ان سے رابطہ رکھے گی.پس واقعہ اس زمین کے کنارے پر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی..دوسرے وہاں جا کر ہمیں یہ تعجب ہوا کہ وہاں بھی پہلے سے ہی جماعت موجود تھی.حالانکہ جماعتوں کی جو باقاعدہ رسی فہرستیں ہمیں دکھائی گئیں تھیں، ان میں جزیرہ تو یونی (TEVUNI) کا نام نہیں تھا کہ وہاں کوئی جماعت ہے.مگر جب وہاں پہنچے تو وہاں با قاعدہ جماعت موجود تھی اور وہ اپنے محبت کے اظہار کے لئے ہار لے کر آئے ہوئے تھے.ان میں مرد بھی تھے، عور تیں بھی تھیں اور ایک جوڑے سے متعلق تو علم ہوا کہ وہ وہاں بڑا اچھا مبلغ ہے اور کافی تبلیغ کر رہا ہے.تو ان سے میں نے کہا: آپ یہاں ہمارے با قاعدہ رضا کار مبلغ ہیں اور ہم نے آپ سے پوری جماعت لینی ہے تو انہوں نے بڑی محبت اور خوشی سے کہا کہ ہاں ہم انشاء اللہ تعالیٰ تبلیغ کریں گے.پس اللہ تعالیٰ خود ہی اپنی طرف سے جگہ جگہ انتظامات فرما رہا ہے.لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل ظاہر ہورہے ہیں، انہیں سمیٹنے کے لئے بھی تو پوری تیاری ہونی چاہئے.جب پھل پکتے ہیں تو اس وقت بھی ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوا کرتی ہے.پھل پکتے ہیں تو بغیر محنت کے ملنے شروع ہو جایا کرتے ہیں.یہ درست ہے کہ بعض دفعہ صرف درخت کو جھنجھوڑ نا پڑتا ہے لیکن اس پھل کو سمیٹنا اور اس سے استفادہ کرنا بھی محنت چاہتا ہے، یہ مفت میں نہیں آجایا کرتا.چنانچہ ہم نے امریکہ وغیرہ میں دیکھا کہ جب چیریز (CHERRIES) یا سٹرابری (STRAWBERRY) وغیرہ کی فصلیں پکتی ہیں تو وہاں ان کے لئے لیبر پرابلم ہے.جو اتنی مہنگی پڑتی ہے کہ پھر لوگ وہ پھل خرید ہی نہیں سکتے.وہ پھر ایسی لیبر لیتے ہیں، جیسے سکول کے طلباء وغیرہ اور انہیں یہ اجازت ہوتی ہے کہ وہاں جتنا چاہیں، کھائیں.وہ مفت میں ہیں اور کسی کھاتے میں نہیں جاتا.اس طرح 796
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطاب بر موقع استقبالیہ مجلس انصار الله مرکزیہ انہیں سستی لیبرل جاتی ہے اور ان کے شوق پورے ہو جاتے ہیں.سارا دن ٹرپ بھی ہو گئی اور وہ پھل بھی سمیٹا اور پھر ایک ڈالر میں آپ کو ایک ٹوکری دیتے ہیں کہ اپنی مرضی سے جتنا چاہیں، بھر لیں.جو پھل باہر دس یا میں ڈالر میں بھی نہیں آسکتا ، وہ آپ کو ایک ڈالر میں مل جاتا ہے.کیونکہ زیادہ محنت کی قیمت ہے.لہذا جہاں پھل بڑی کثرت سے پیدا ہوتے ہیں، وہاں سمیٹنا ایک مشکل بن جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں سمیٹنے کی توفیق ملے.کیونکہ جس طرح ہر جماعت میں دلچسپی پیدا ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل غیر معمولی طور پر ظاہر ہورہے ہیں، اب تو سمیٹنے کی بڑی سخت فکر پیدا ہورہی ہے.چنانچہ حال ہی میں یوگنڈا سے ہمارا جو وفد آیا ہے، جس میں امیر صاحب کراچی اور چوہدری شبیر احمد صاحب تھے، ان سے جو حالات معلوم ہوئے ہیں، اس پر بڑا تعجب ہوا کہ اکثر جماعتیں، جو اس وقت وہاں موجود ہیں، ان میں سے اکثریت وہ ہے، جو گزشتہ چند سال کے اندر بنی اور تیزی سے پھیل رہی ہیں.جہاں یہ وفد جاتا رہا، وہاں عیسائی بھی اور دوسرے مسلمان بھی بڑی محبت اور شوق سے آتے رہے.اور ان کی موجودگی میں ہی بعض نے ان سے محبت کے اظہار کئے اور یہ کہا کہ ہم تعاون کرتے ہیں، آپ یہاں آئیں.اور بعض بیعتیں بھی ہوئیں.جب انہوں نے ANALYSIS کیا تو یہ پتہ چلا کہ تمہیں میں سے تمھیں نئی بہنیں ہیں.یعنی یوگنڈا میں اس وقت تک تمہیں جماعتیں ہیں، جن میں سے تمھیں گزشتہ دو سالوں میں بنی ہیں.تو وہاں آدمی چاہئیں.اب مثلاً ایک مبلغ، جو وہاں کے باشندے ہیں، محمد علی کائرے وہ تو یہ سارا کام نہیں سنبھال سکتے.اور جو وہاں پاکستانی ہیں، ان میں بد قسمتی سے یہ رجحان ہے کہ زیادہ زبانیں نہیں سیکھتے.میں نے پچھلی دفعہ بھی تحریک جدید کو کہا تھا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بھی بڑی دیر سے کہتے رہے اور بار بار بہت زور دیا اور بعض اوقات خفگی کا بھی اظہار کیا لیکن پتہ نہیں ہمارے مزاج میں خصوصاً پنجابی مزاج میں زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ ہی نہیں.ایک پنجابی کہیں مل جائے سہی تو وہ آپس میں پنجابی بولتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ انگلینڈ میں ایک دوست تھے، جو قریباً 55 سال وہاں رہے اور جب مجھ سے ملاقات ہوئی تو وہ انگریزی کا ایک فقرہ بھی نہیں بول سکتے تھے.ہاں پنجابی ٹھیٹھ بولتے تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی بات یہ ہے کہ جب سے میں یہاں آیا، چھوٹی عمر تھی یعنی چودہ سال کی اور اسی وقت سے مجھے پنجابی ماحول مل گیا اور اس وقت سے ہم آپس میں پنجابی بولتے ہیں.پنجابی میں ہی کہا کہ کھائے کھسماں نوں انگریزی ، یہ کون سیکھے؟ 797
خطاب بر موقع استقبالیہ مجلس انصار اللہ مرکزیہ تحریک جدید - ایک الہبی تحریک پس یہ رحجان بڑا خطرناک ہے.ترقی کرنے والی قو میں جو پھیلنے اور غالب آنے والی ہیں، ان کو میں تو زبان کا جنون ہونا چاہیے.جہاں وہ جائیں ، زبان پر توجہ دیں اور فوراً سیکھنا شروع کر دیں.اس کے لئے بچے والی ذہنیت سب سے اچھی اور مفید ہوتی ہے.بچے کی ذہنیت خدا تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ اس میں کوئی تکلف نہیں، اسے شرم کوئی نہیں ہے.جیسا وہ سنتا ہے، ویسا ہی بے تکلفی سے بول دیتا ہے.شروع میں تو تلی زبان بولتا ہے لیکن وہ سننے والوں کو بڑی پیاری لگتی ہے.جو لوگ نئی زبانیں سیکھتے ہیں، اس قوم کے لوگ جن کی وہ زبان ہے ، وہ اس پر بنتے نہیں بلکہ ان پر انہیں بڑا پیار آتا ہے.میں نے بعض دفعہ اپنے لوگوں کو کہا کہ جب ہمارے عثمان چینی صاحب نئے نئے آئے تھے تو وہ دو چار فقرے ٹیر ھے میٹھے بولتے تھے تو ان پر بڑا پیار آتا تھا.مگر پنجابی سمجھتا ہے کہ میری بے عزتی ہوگی اور یہ لوگ مجھ پر نہیں گے.وہ اپنے آپ کو غلط انگریزی یا دوسری زبان غلط بولنے کے لئے تیار ہی نہیں پاتا.یہ ایک نفسیاتی COMPLEX ہے.حالانکہ نئی زبان چاہے جس قوم کی بھی ہو، وہ دوسرے کے لئے بہر حال غیر زبان ہے.قوم والے تو آپس میں حقارت نہیں کرتے ، وہ خود ہی ایک دوسرے کی نظروں سے شرمندگی سے بچنے کے لئے علم سے محروم رہ جاتے ہیں.چنانچہ میں نے پچھلی دفعہ انگلستان میں لوگوں سے کہا کہ میں انگریزی بولتا ہوں، اس پر مجھے کوئی عبور نہیں ہے، کوئی ملکہ نہیں ہے.میں ہمیشہ تھرڈ کلاس سٹوڈنٹ رہا ہوں لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے ایک فرض ڈالا ہے، اس لئے مجھے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی.جہاں تک اظہار بیان کا سوال ہے، مجھے اتنا پتہ ہے کہ میں بالا خر کر لیتا ہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی ہے.آپ بھی اس طرح کریں.آپ کیوں شرماتے ہیں؟ چنانچہ بعض مبلغین جو پہلے اردو بولا کرتے تھے، انہیں میں نے مجبور کیا اور کہا کہ اب آپ کو حکم ہے کہ آپ نے ان مجالس میں ، جن میں کوئی انگریز آیا ہو، اردو نہیں بولنی.نتیجہ وہ جو آتے رہے ہیں ، وہ سرک بھی جاتے رہے ہیں.وہ سمجھتے تھے کہ یہ ان لوگوں کی جگہ ہے.اب بھی بعض ملکوں میں اس واضح ہدایت کے باوجود بھی پچھلے ہفتہ مجھے بعض شکائتیں ملی ہیں کہ آپ کے مبلغین اپنی زبان بولتے ہیں.جب مجلس لگتی ہے تو پنجابی یا پاکستانی آپس میں باتیں شروع کر دیتے ہیں.اور ہم لوگوں کو ایک طرف باہر رکھا ہوتا ہے.جس طرح ہم اپنے ملک میں بھی غیر ملکی ہیں.بات یہ عجیب ہے کہ ایک تو آپ ان کے دل جیتنے جائیں اور پھر سلوک یہ کریں کہ اپنے ملک میں وہ غیر ملکی محسوس ہوں.پھر وہ پیچھے ہٹنے لگ جاتے ہیں.پچھلے دنوں میں ایک سے زائد ایسے خط آئے ہیں تو اس وقت تحریک جدید کے صدر اور وکیل اعلیٰ بھی موجود ہیں، وہ اس پہلو سے بھی یہ بات نوٹ کریں.798
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد ششم خطاب بر موقع استقبالیہ مجلس انصار اللہ مرکزیہ آپ سے میں یہ کہتا ہوں کہ آپ زبانیں سیکھئے.جتنے انصار ہیں آپ کی عمرایسی نہیں ہے کہ آپ سیکھ نہ سکیں.پس آپ کو خدا تعالیٰ نے جو بچپن کا ملکہ عطا فرمایا ہے، وہ حاصل کر لیں اور سیکھنے میں بے تکلف ہو جائیں، کوئی شرم محسوس نہ کریں.ٹوٹے پھوٹے جتنے فقرے سیکھے جاتے ہیں، بیشک سیکھیں اور انہیں بولیں.اور اپنے لئے زبانیں چنیں.کیونکہ اب اگر آپ کو باہر جانے کی توفیق نہ ملے تو باہر والوں نے تو یہاں آنا ہی آنا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے رخ پڑ چکا ہے، وہ دن بہ دن پھیلتا چلا جائے گا.انہیں سنبھالنے کے لئے مرکز میں ایسے آدمی ہونے چاہئے ، جو ان کی زبانیں جاننے والے ہوں اور بول سکتے ہوں.پس انصار اللہ کو یہ مہم چلانی چاہیے اور کوشش کریں کہ کوئی نہ کوئی زبان آجائے.اگر باہر کی نہیں سیکھ سکتے تو اپنے ملک کے دوسری زبانیں سیکھئے.سندھ میں ہمارے مربی ہیں اور اکثر ایسے ہیں، جنہیں سندھی نہیں آتی.وہ کام کس طرح کریں گے؟ کچھ سمجھ نہیں آتی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض کو تو آتی ہے لیکن ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ ان کی پوسٹنگ میں یہ پرابلم بن جاتی ہے.تو انجمن کو بھی چاہیے کہ اپنے مربیان کی زیادہ دلچسپی کے ساتھ نگرانی کرے.اگر آپ نے تیاریاں نہ کیں تو یہ پھیلتے ہوئے کام آپ سے سمیٹے نہیں جائیں گے.جو جہاد کی تیاری کرتا ہے، وہی اللہ تعالیٰ سے پھل پاتا ہے.اسی کو پھر ہمت کی توفیق ملتی ہے.ورنہ ایسے وقت میں پکڑا جاتا ہے کہ تیاری نہیں ہوتی.وقت باہر جانے کا آتا ہے اور وہ ابھی جو تیاں تلاش کر رہے ہوتے ہیں.تو پھر وہ لوگ ایسے موقعوں سے پیچھے رہ جایا کرتے ہیں.اب چونکہ TEMPO تیز ہو رہا ہے اور اللہ تعالی ساری دنیا میں انقلابی تبدیلیاں پیدا فرمارہا ہے، اس لئے اب انصار میں کوئی بڑھا نہیں رہنا چاہیے.سارے جوان ہوں ماشاء اللہ.اور ہمت اور کوشش کے ساتھ قدم آگے بڑھائیں.اللہ تعالی مدد فرمائے ، اللہ تعالٰی راہنمائی فرمائے اور حو صلے اور طاقتوں میں وسعتیں عطا فرمائے.(آمین).مطبوع روزنامه الفضل 09 جنوری 1984ء) 799
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام بر موقع جلسہ سالانہ قادیان 1983ء الہی جماعتیں پھولوں کی سیج پر سے گزر کر منزل مقصود کو نہیں پہنچا کرتیں پیغام برموقع جلسہ سالانہ قادیان 1983ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الـ الموعود دیار سیح میں بسنے والے میری جان سے عزیزو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته خدا کی رحمت اور امان کا سایہ ہمیشہ تمہارے سروں پر ہو، اس کے فضلوں کی بارش تمہارے گھر بار پر ہو.تم اس مقدس بستی میں اکٹھے ہوئے ہو، جہاں مامور زمانہ نے جلسہ سالانہ کی بنیا د رکھی تھی.ہاں ہاں !! اس بستی میں، جہاں اس موعود کے مبارک قدم پڑے تھے اور جہاں وہ ابدی نیند سوتے ہیں.خدا کے لا تعداد نشان اس بستی میں ظاہر ہوئے.اس بستی میں وہ انسان ظاہر ہوا ، جو ایمان کو ثریا سے لایا.اس بستی میں اس مبارک مصلح نے اسلام کی ترقیات کے لیے عاجزانہ پر سوز دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ وعدے، جو خدا نے اپنے پاک مسیح سے کیسے، وہ پورے ہو رہے ہیں.اس سال زمین کے ایک کنارے تک خود مجھے جانے کا اتفاق ہوا.وہ سچے وعدوں والا ہے، ابھی احمدیت کے قیام پر ایک صدی نہیں گزری کہ ساتویں براعظم میں احمدیت کا جھنڈ ا نصب کر دیا گیا.فالحمد لله علی ذلک و سبحان الذي صدق وعده وايد عبده.میرے عزیزو! الہی جماعتیں پھولوں کی سیج پر سے گزر کر منزل مقصود کو نہیں پہنچا کرتیں.ان کا راستہ تو بہت کٹھن اور خاردار ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے، انہیں امتحان میں ڈالتا ہے تا کھوٹے اور کھرے کی پہچان ہو جائے اور مومنوں کا ایمان بڑھے.خدا تعالیٰ فرماتے ہیں:.أمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَستَهُمُ الْبَاسَاءُ وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (البقرة: 215) 801
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ قادیان 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک میں دیکھتا ہوں کہ جوں جوں اللہ تعالیٰ جماعت کو ترقی دے رہا ہے، حاسدین کا حسد بڑھ رہا ہے.لیکن یہ مخالفتیں ہمارے قدم نہیں روک سکتیں.ہم دعاؤں، نرمی اور محبت سے ان نفرتوں کو بدلیں گے.خدا کے سارے وعدے پورے ہوں گے.انشاء اللہ العزیز نفرتوں کے بادل چھٹ جائیں گے ، حق وصداقت کا سورج طلوع ہوگا اور حضرت مسیح موعود کے اس شعر کی صداقت ظاہر ہوگی:.امروز قوم من نه شناسد مقام من روزے بگریه یاد کند وقت خوشترم اس دن کو لانے کے لیے ضروری ہے کہ جبین نیاز اس احکم الحاکمین کے سامنے جھکی رہے.پہلے بھی اسلام دعاؤں سے غالب آیا تھا، اب بھی دعاؤں سے غالب آئے گا.لیکن دعا رسمی نہیں.وہ دعا ہونی چاہیے، جو عرش کے پائے ہلا دے، جو رحمت خداوندی جذب کرلے، جو خدا کی تقدیر کوزمین پر لے آئے.عزیزو! میرا پیغام یہی ہے کہ خدا کے ہو جاؤ.ایسا نیک تغیر پیدا کریں کہ فرشتے بھی آسمان پر رشک کریں.اور دعاؤں پر زور دیں کہ سب قدرتیں اس قوی و عزیز کو حاصل ہیں.اس کے ایک کن کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ دنیافیکون کا نظارہ دیکھتی ہے.خدا آپ کے ساتھ ہو، خدا آپ کے ساتھ ہو، خدا آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ( مطبوعه روزنامه الفضل 23 جنوری 1984ء) 802
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء متفرق معاملات کے متعلق نہایت اہم ہدایات ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء بر موقع مجلس شوری ممالک بیرون وو پہلی تجویز : سوممالک میں جماعتوں کے قیام کی سکیم دوسری تجویز : صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے تحت مراکز اور مساجد کا قیام یہ جو نئے ممالک میں مشن قائم کرنا ہیں، اس میں عملی وقت سب سے بڑی یہ ہے کہ ہمارے پاس اس زبان کا ماہر آدمی کوئی نہیں.اس زبان کا لٹریچر کوئی نہیں.وہاں اگر مشن قائم کر دیں اور بتانے کے لئے کوئی آدمی نہ ہو پاس کوئی لٹریچر موجود نہ ہو تو خالی عمارت کھڑے کرنا تو کوئی مقصد نہیں.سب سے بڑی یہ دقت ہے.اس لئے میں نے کہا تھا کہ تحریک جدید کو کہ وہ زبان سکھانے کے لئے آدمی Detail کریں.وو تو اس کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.اور دوسرے کچھ لٹریچر، جس طرح اٹالین میں شروع کروادیا گیا ہے، تیار کرنا، اس طرح برازیلین میں بھی لٹریچر تیار کروائیں.جس میں تعارف جماعت احمدیہ کا ہو.ایک fundamental لٹریچر تیار کر لیں نا جو نئے ممالک کے نقطہ نگاہ سے، جہاں عیسائیت ہو.اور اس کو پھر پہلے اردو میں منضبط کر لیں.حضرت مسیح موعود کے اقتباسات کے ذریعے اور جو بھی آپ پسند کریں.اس کی prototype سے آگے ان زبانوں کی ٹرانسلیشن پیسے دے کر بھی کروانی پڑے تو فورا ہو سکتی ہے.تو سب سے پہلے تو لٹریچر ہے، اہم.اس لٹریچر کے ذریعے ساری دنیا میں برازیلین سے contact establish کرنا اور اٹلی میں ان کی زبان میں کرنا ہے، یہ ابتدائی تیاریاں وو ہیں.پھر انشاء اللہ تعالیٰ اس عرصہ میں زمین بھی لے لیں گے اور وہاں پہنچ جائیں گے.زبان کی دقت محسوس ہو رہی ہے ، بڑی دیر سے.اور اس کے لئے جو انتظام جامعہ میں ہے تعلیم کا وہ پہلے سے ہی موجود ہے.لیکن بدقسمتی سے ہمارے سارے ملک میں ہی انگریزی کا معیار بہت گرا ہوا ہے.اور جس قسم کی سکولنگ آپ چاہتے ہیں، اس قسم کی سکولنگ کا انتظام سوائے چند convent کے، سکولوں کے یا بعض اور پرائیویٹ سکولوں کے، موجود نہیں ہے.اور وہاں سے جامعہ کو بچے نہیں ملتے، عموماً 803
ارشادات فرموده 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ان جگہوں سے.اول تو احمدی کم ہی جاتے ہیں، وہاں لیکن ملتے کم ہیں.اس ہم نے اس کے لئے کچھ ذرائع تجویز کئے ہیں.مثلاً ایک تو یہ خوشخبری ہے کہ ایک school of languages اور Institute of translations اس کی بنیاد ڈالی جائے گی، انشاء اللہ عنقریب.اس کے لئے عمارت کا نقشہ بن رہا ہے اور روپیہ اس کے لئے الگ موجود ہے، خدا کے فضل سے.اس لئے خیال یہ ہے کہ اس میں دنیا کے بہترین زبان دان ، جو زبان سکھا سکتے ہوں، اسی ملک کے باشندے ہمارے بچوں کو وہ زبانیں سکھائیں.سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر جب تک انگریز انگریزی سکھانے والا نہ ملے، صحیح معنوں میں وہ زبان نہیں سکھا سکتا.دوسرے ہمارے جو پاکستان میں اور انڈیا میں سیکھے ہوئے ہیں، ان کو اپنا تلفظ ہی unlearn کرنے میں بڑا وقت لگ جاتا ہے اور جو بچپن کی عادتیں ہیں، ان کو مٹانا بہت مشکل کام ہے.مجھے اپنا تجربہ ہے کہ نہایت گندی سکولنگ تھی، جس کی وجہ سے جب میں لندن گیا ہوں تو سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ جو سیکھا ہوا تھا، جتنا بھی سیکھا ہوا تھا، اس کو تو بھلاؤں پہلے کسی طریقے سے.تو جہاں بچپن سے ہی زبان ایسی سکھائی جاتی ہو، اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک دم انگلستان میں جا کر سیکھ لیں گے، یہ ہے غلط بات.اس لئے جامعہ کو میں نے کہا ہے کہ نئی طرز پر کورسز تجویز کریں.اور کمیٹی بیٹھی ہوئی ہے اور شروع سے ہی بہترین زبانیں سکھانے کا انتظام کیا جائے.ایک سے زائد زبانوں کا.انگریزی کا بھی، عربی کا بھی.اب عربی میں بھی بڑی سخت دقت ہے.ہمارے پاس کوئی سکالرز نہیں ہیں، جو عربوں کی طرح شستگی کے ساتھ عربی بول سکیں.تو توجہ تو کریں گے لیکن اس کے نتائج فور انہیں پیدا ہو سکتے.فی الحال تو آپ کو گزارہ کرنا پڑے گا جو بھی شکل ہے، اسی میں“.جہاں تک مشنرز کا تعلق ہے، اس کے متعلق مشورہ کیا گیا تھا، جماعت امریکہ سے.وہاں مشنری انچارج کے ساتھ ایک کمیٹی بنائی گئی تھی.انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ ان ان جگہوں پر مشن ہونے چاہیں پہلے.اور اس کے علاوہ بعض چھوٹے چھوٹے اور بھی مشن تجویز کئے تھے، جو زیر نظر ہیں.مگر اس میں بڑی وجہ جماعت کی موجودگی تھی.مثلاً ساؤتھ میں ہمارے سوائے ، نارتھ اور ساؤتھ ویسٹ میں سوائے لاس اینجلز کے کوئی ایسی sizable جماعت نہیں ہے کہ جہاں مشن ہاؤسز بنا دیے جائیں.تو وہ اس کو سنبھال لے اور چلائے اور ان کی ضروریات پوری ہوں.لیکن ڈیٹرائٹ میں خدا کے فضل سے بڑی جماعت ہے، شکاگو میں بڑی ہے، واشنگٹن میں ہے، نیو یارک میں ہے.اب واشنگٹن میں ، لاس اینجلز میں ہے ، سان فرانسسکو میں ہے.سان فرانسسکو کے لئے بھی غالباً کہہ دیا گیا ہے، وہ اس کے علاوہ ہوگا.یہ جو 804
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء پانچ مشنوں کی تجویز تھی، یہ obviate نہیں کرتی، دوسری ضروریات کو.یہ بڑی جماعتوں کے نقطہ نگاہ سے تجویز ہوئے تھے.اس کے علاوہ جو چھوٹی ضروریات مثلاً یوسٹن اور ایک جماعت ہے ہماری چھوٹی ی پورٹ لینڈ میں بھی انہوں نے بھی کچھ جمع کیا ہوا ہے، Willing brough میں بھی.تو یہ چھوٹے چھوٹے مشن بھی اس کے علاوہ بنیں گئے.32 نایجیر یا تو ہے ہی، پہلے ہی شامل ہے، ماشاء اللہ.آپ بنا ئیں سکیمیں.جلدی جلدی کام کریں.ایک اور آپ نے وہاں کام کرنا ہے، ایک نیا ہسپتال.ایک سٹیٹ ہے وہاں ، وہ زمین بھی انہوں نے دی ہے.Bouchi سٹیٹ ہے، وہاں پر فوری ہسپتال بھی بنائیں.ہسپتال تو آپ کی capital انوسٹمنٹ ہے اور بعد میں بڑی profitable ہو جاتی ہے.آپ جنیوا کے متعلق غور کریں کہ جنیوا میں جگہ ہو مناسب، جہاں مشن قائم کیا جائے.اتنی دیر میں ابھی فریج speaking مبلغ بھی تو تیار کرنے ہیں اور لٹریچر کی کمی ہے، وہاں پر.وہ تو خیر فریج میں تو موجود ہے ہل جائے گا، انشاء اللہ تعالی.تو یہ آپ جائزہ لیں واپس جا کر.جنیوا کے لیے مرکز چاہیے.یہ تجویز مجھے پسند ہے، اس پر مزید غور کر کے مجھے اطلاع کریں“."I gave this guideline last year as well, and also in passing mentioned some points in one of the earlier reference to this subject.The guideline is simply this, that those of you who can afford to visit these places on their own expenses and are also capable of addressing people on religious subjects, they should offer their names, and their services to the Jamaat and their program should be so organized that round the year, one after the other they go.Once they return, their experience should be jotted down, their report should be made in black and white, the complete reports with all the addresses of the people they have met.So that when the new delegation goes there, he should know who has been approached and what is the reaction of such-and-such person.So he should 805
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرموده 31 دسمبر 1983ء pickup the thread from where it was left, and a repeated contact should be made with these peoples by different people.This is exactly what I told the Japanese mission to do with Korea.Their first tour was by the grace of Allah, very successful tour and they have fed us with some very important information And the second part is that, when you make contacts there, also write to the center about or direct contact with the certain people if possible.You may suggest that so and so or such-and-such person belongs to that nationality.It is not necessary that he is a local person, he speaks that language.We need literature on this and that, so center should help us in these regards, then center will do whatever best can be done about it.And secondly some direct literature can be sent from other countries like in Korea, they advised us that such-and-such person require this type of literature which was naturally not available in Japan.So I instructed Tahrik Jadid to provide/send them literature and to send them directly from the center or from some other country like England and so on.So that should also be kept in mind.Thirdly, you should find out people from that area who are living in Indonesia temporarily or permanently and a plan should be made to contact them and they should be approached while they are in Indonesia.So people living closer to them should be given this particular task of approaching them and through them their [relatives, if they were once converted, relatives and friends can be 806
ارشادات فرموده 31 دسمبر 1983 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد approached in their respective countries e.g.So there are certain countries where we cannot go, but Allah has sent such people outside, like China.Last year a Chinese came to Karachi, within a matter of one or two sittings, he accepted Ahmadiyyat and he was so enthusiastic that after returning home he remained in touch with us.He is preaching there on his own and is asking for certain literature which we are providing.So according to his reports, perhaps, within foreseeable future thousands of local people will accept Ahmadiyyat.So, there are places where we cannot go, but Allah sent them out to us.Similarly as I mentioned in perhaps on Jalsa speech in Canada, a very scholarly Chinese has accepted Ahmadiyyat and he has offered to publish by ten thousand on his own and to distribute it in China on his own.He does not need any other help, he is quite able to do it.Only I stopped him because the previous version for rendering of the Chinese is not proper.There are so many mistakes so Mr.Usman Chu en Lai is working on it.His Chinese is quite good and his knowledge of religion is quite deep by the grace of Allah.So, I have told him to devote all his time to this task first and he promised within a period of three months, that is only a month and a half is left now, he will be complete with this.So go for such openings, look for such possibilities and use them to the best of your advantage.So far I have to say only that much.Later on there will be a question of producing the literature, who should be able to do 807
ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک that and what literature is required.And through the reports when you send us, their experience will guide us in fact,we are in total darkness to these new countries, light is provided by experience when you submit your reports, we will begin to see new avenues of وو تیسری تجویز: رشتہ ناطہ کے مسائل کے سلسلہ میں غور " انشاء اللہ explorations رشتہ ناطہ کا مسئلہ بہت اہم ہے.آپ اندازہ نہیں کر سکتے ، ان کا کیا حال ہے، ان لوگوں کا ، جن کی بچیاں بڑی ہو رہی ہیں اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا.ان کے لئے نہایت تکلیف دہ صورت حال ہے.اس لئے آپ لوگ واپس جا کر بھی اپنی جماعتوں میں اس بات پر زور دیں.چھوٹی جماعتوں میں جہاں تعداد تھوڑی ہو ، وہاں یہ مسائل ایک قانون قدرت کے طور پر پیدا ہوتے ہیں.یہ large number کا معاملہ ہوتا ہے، رشتہ ناطہ.جتنا بڑا نمبر ہو exchangable اتنی سہولت ہوتی چلی جاتی ہے، پھر فٹ ہو جاتا ہے خود بخود.تو ہمارے ہاں چھوٹی چھوٹی جماعتیں مختلف جگہ develop ہو رہی ہیں، ان کی واقفیت دوسروں سے نہیں ہے.اس لئے بہت بچیوں کے لئے بڑی شدید تکلیف دہ صورت حال ہے.اور اس صورت حال کو زیادہ خراب کرنے کا وہ نوجوان موجب ہیں، جو خود غیروں میں شادیاں کر لیتے ہیں اور اپنی بہنوں اور ماؤں اور باپوں کے لیے نہایت دکھ چھوڑ جاتے ہیں، پیچھے.وہ سمجھتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم نے ڈھونڈلی ہے، ایک اپنی مرضی کی لڑکی.حالانکہ وہ ایک احمدی لڑکی کو قربان کر کے ایسا کر رہے ہوتے ہیں.تو یہ دوسرا پہلو جو ہے، اس پر بھی بہت اب توجہ کہ ضرورت ہے.یہ جو lax atmosphere ہے، اب اس کو بدلیں.اور تبشیر بھی بار بار یاد کروائے.اور آپ بھی واپس جا کر ایک Public opinion develop کریں کہ احمدی نوجوان کو اگر احمدی لڑکی نہ میسر ہو تو پھر وہ باہر دیکھے.قانون یا شرعاً ایک ا اجازت ہونا اور بات ہے، ایک انتظامی ضرورت ہونا اور بات ہے.ایک احمدی بچی کی ضرورت کو قربان کر کے تو ہم اجازتیں نہیں دے سکتے ان کو.باقی سب ممالک کا data exchange ہونا ضروری اور سب سے اہم چیز ہے.وہ data ہی ابھی تک تیار نہیں ہوا.وہ تو رشتہ ناطہ مرکزیہ نے نہیں کرنا ، وہ تو تبشیر کا کام ہے کہ وہ وہاں سے data منگوائے.اور امیر خاص طور پر اس میں براہ راست دلچسپی لیں.اور پھر یہ بہت بڑا غور طلب معاملہ ہے کہ مثلاً افریقین گروپ بنایا جائے ، جن میں معاشرہ ایک دوسرے 808
تحریک جدید- ایک الہی تحریک ارشادات فرموده 31 دسمبر 1983 ء سے ملتا ہے.کلچر ایسا ہے، ایک ملک کی بچی دوسرے ملک میں آسانی سے سموئی جاسکتی ہے.اور انڈیا کے ساتھ کون کون سے ممالک چلنے چاہئیں کہ مثلاً نبی ہے، ماریشس ہے.اسی طرح بعض احمدی بچیوں کو یورپین کلچر کے اختلاف کے باوجود بہت خوشی سے قبول کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیاب شادیاں ہوئیں ہیں.تو ان کو یہ ان بچیوں کا data بھیجا جاسکتا ہے، یورپین نو مسلموں کو.تو تبلیغ تیز ہوگی تو انشاء اللہ یہ سہولتیں بھی پیدا ہو جائیں گی.چنانچہ ابھی بھی بعض نئے احمدی جو ہورہے ہیں، انہوں نے مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ ہمیں احمدی بچی بتائی جائے ، شادی کے لئے.بہت سے پہلو ہیں، ان کی طرف گہرے توجہ کی ضرورت ہے."You know I agree there are, certain points which do not appear proper, which you read from one angle but looking at the same points from another angle.If these things are not mentioned, they create difficulties in the way of finding suitable matches for such girls, where prospective husband would require to know these things before they decide.So it is a two way affair which is very | difficult.As I have told you, it is just optional, nothing is necessary, nothing is compulsive, whatever one wants to freely opt, he and she should do that and the missionary incharge should be left content with whatever reports he received, whatever part of the form is filled.So do not read it as compulsive form in which each part has to be filled.If you want to omit so many parts, do it, but then the difficulty which will be created because of that will be the responsibility of the person who has omitted certain items of that form.But that should be apologetically mentioned on the form as well, so that some body is not hurt.I think when Tabshir should approve away the forms where these delicate matters should be handled in the same spirit and it should be mentioned very politely, 809
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرموده 31 دسمبر 1983ء that because some people demand for such information, so we have included in these forms, but some people do not want to give this information.So they are at liberty not to, so do not be offended please.With that language, I think all the problem will be solved"."Thank you, but now you have touched upon a part of the issue, and aspect of the question, which has no relevance with this issue directly.The missionary's wives are the choice of the missionaries themselves in their personal capacity and they hale from various social status, and their educations differ from girl to girl, and it is impossible to control this or to strike this a standard of harmony between them, or to create some thing which will be acceptable to all the countries.So count them out, in principle you simply cannot depend on the wives of the missionaries.It would be wrong to accept this, it would be wrong to look in that direction because this is something where the Jamaat Ahmadiyya has no control and the administration has no control.All we can do is this, and which we are doing, that before a wife is decided to send to her husband, we try to inform her of the various problems she should be facing there, the expectations of the people and responsibilities, and we try to teach her and admonish her about these things.But as I have told you that wives belong to so different groups of educational background and social background and cultural background, that is impossible to expect them to be helped to the missionaries.Even sometimes they are a draw back, so what we do is, in those cases rather we call the missionary back than send the 810
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء wife to him.Yet it is a personal need so we have to send the wives.Sometime out of compulsion of that missionary's need, that missionary could be very good and he sometimes realizes that his wife cannot be any help to the community, yet he needs the wife.So do not involve all these issues to make the matters further complicated.Leave them alone, if the wife can be of any help, well and good, if not, you teach that wife, you help that wife.Take the responsibility on yourselves to cultivate better understanding in that wife of your country and to make her useful part of that country.But, Tabshir cannot have a responsibility of sending only such wives, as would become a sort of missionaries to your country.As far as the local needs of America are concerned, this issue has to be discussed at the local platform.Here, what we need is a generalized advice on this issue broadly speaking, but every country will have different local problems.For that, a body should be set up in the respective country and they should handle those problems in details.So brother Muzaffar! You create a platform for dealing with these social problems as has been mentioned by Mrs.Yahya Sharif and you know the job yourselves, you are also connected with this job professionally so they should be handled there locally, and as far as requirements of assistance from other country are concerned, you can always submit those requirement and Tabshir will Insha Allah cooperate with you"."So it was wrong to marry them in non-Ahmadis.That is a mistake they committed.They were not permitted by Islam to marry 811
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ار شهادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء among Christians, if they were previously Ahmadi ladies and the missionary incharge did not take notice of this fact that they married against the verdicts of Islam, against the injunction of Islam, into non-Muslim religion.I mean into Christian or Pagans.At that step the moment they did it, they should have been externed from the Jamaat.So, no problem, I mean that their problem does not remain the Jamaat's problem after they decide to act against the dictates of Jamaat Ahmadiyya"."Of course, they may be....I am not talking about their religion, I am talking of their remaining members of Ahmadiyya community.Organizationally there are two different things, we cannot deprive any one of the right of profession of Ahmadiyyat, it is a matter between him and God, He knows whether he is truly Ahmadi or not so when we declare to somebody to be non Ahmadi or we extern some body, it only means that he is no longer a live part of the organization of Ahmadiyya community, which is working under a Caliph.So they may call themselves Ahmadi, but they are no longer our responsibility, when they decide to walk out of the organization.We will only be responsible for those who remain within the organization"."This is exactly the scheme as you have put it.There would be made certain focal points all over the world, but they could not be disseminated irresponsibly.I mean it is a data which has an aspect of privacy, confidence in it and that cannot be entirely 812
ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ignored.It has to be respected from that angle.So, this is why we have decided, once the data is collected, then it will be disseminated to the focal points, as you put it.The missionaries, or Omara Jamaat (1) where there are no missionaries, they would keep it with them but this data will be made available to all those who require to know things.But, later on, I must make very clear, that Jamaat will not own any responsibility if the match does not prove to be a success.Matchmaking is not the job of the Jamaat.To assist people is the job of the Jamaat, and these two things are quite apart and different.This is why I hesitated, to begin with, in using the word match and matchmaking.Matchmaking is the job of the old ladies and they should do it.But Jamaat Ahmadiyya will not be a matchmaker.It involves a lot of responsibility and later on who is going to face the music, if things do not turn out to be as they should be.So Jamaat should provide assistance in providing data, and in data, the missionaries should only provide such data, as they are satisfied to the basic correction of that data.And wherever they are not satisfied, its formal language should be used where they should disown their responsibility, as they should say that what has been given to us by Mr.so and so, so that the people who are interested, they should check up themselves.That is the maximum we can do"."It has to be a global data, otherwise we can't solve the problem.Because in smaller communities they will remain in 813
تحریک جدید - ایک ابی تحریک ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء smaller numbers (Mr.Saadat Ahmad said exactly) and this problem can't be solved unless we turn them into a large number group, and once the global data is available to every small branch then they will become a part of an ocean, not a small stream.So, that is how the problem can be easily solved.This is what I had in my mind"."Thank you, but in this regard I think there are certain American problems regardless of what denomination these Americans belong to.They have their own problems being Americans (Mr.Brother Muzafar Ahmad said yes Sir).And they are being now shifted to Ahmadiyyat.The problems you have mentioned, they are the problems of breaking homes in America everywhere.That culture in society is so toxicated now that every house is falling apart.So when they become Ahmadis they bring those American problems along with them.So in particular I would be interested in dividing these problems into two different categories.Those ladies whose homes are broken because of this background, they should also be helped, but the priority must be given to the second part which is, such Ahmadi girls, who are growing old without marriage and who are not getting married outside just because of this taboo by Ahmadiyyat.They are respecting this injunction of the Holy Quran, that you should not marry outside.They are our first responsibility.So pay special attention to them first, (Mr.Brother Muzafar Ahmad said yes Sir), and the other problems, if solved without being very cautious can 814
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء add to further problems.For example if we suggest that some Pakistanis go there and get married there.They have their own ways of life.They have a very fixed habit.Those new marriages also may fall apart entirely, so they should be handled there, try to convert some widowers for such ladies".وو یہ نہیں ہورہا.واقعہ یہ ہورہا ہے کہ جو لوگ وہاں سے آتے ہیں، وہ بغیر امیر کی وساطت کے براہ راست بعض جگہ تعلق قائم کر لیتے ہیں اور سبز باغ دکھاتے ہیں، اپنی کمزوریوں کو چھپاتے ہیں، قول سدید سے کام نہیں لیتے.اور یہ لوگ اتنے excite ہو جاتے ہیں کہ یہ چاہتے ہی نہیں.آنکھیں بند کرنا چاہتے ہیں خود.ان کی خواہش ہی نہیں ہوتی کہ ہمیں معلوم ہو کوئی بات.چنانچہ بعض ایسے معاملات میرے علم میں جب اتفاقاً آئے تو میں نے پھر سمجھایا اور بیچ میں دخل دیا اور بعضوں کو روک دیا اور ان کو یہی سمجھایا کہ جب تک آپ پہلے تسلی نہ کرلیں، براہ راست امیر کی معرفت بھی اور براہ راست بھی ، اس وقت تک آپ ہر گز قدم نہ اٹھائیں.تو یہ جو problems ہیں، یہ ویسے ہوتی رہتی ہیں.لیکن جب ہمارے علم میں آئے تو چیک ہوں گی.علم میں نہ آئیں تو چیک کس طرح ہوں گی.قادیان کا مسئلہ یہ ہے کہ قادیان میں اجازت ہی نہیں ہے، ان کو براہ راست شادی کرنے کی.خلیفة المسیح سے اجازت لینی پڑتی ہے، قادیان کے درویشوں کو اپنی بچیاں باہر کسی جگہ بھیجنے کے لئے.تو اس لئے وہ مجبور ہیں.وہ چاہیں بھی تو کر ہی نہیں سکتے.اس لئے قادیان کے امیر صاحب کی وساطت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا.پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے.نہ ہی اتنا وسیع نظام ہے کہ ہم یہ کر بھی نہیں سکتے.اور دوسری بات یہ ہے کہ عام طور پر جولڑکوں والے ہیں انگلستان میں وہ اپنی بچیوں کی شادیاں اپنے رشتہ داروں میں کر لیتے ہیں.وہ بہر حال ان کا ایک حق ہے.لیکن ہماری جو بچیاں ہیں، ان کے لئے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے کوئی problem نہیں.وہاں اگر problem ہے تو بچیوں یا ان کے والدین نے خود create کی ہیں“.23 ایک ضمنا میں بتاؤں کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی کے خطبات نکاح شائع ہو چکے ہیں اور ان کو میرا خیال ہے، انگریزی میں بھی ترجمہ کروانا چاہئے.وہ آپ کے باون سالہ دور خلافت کے خطبات ہیں اور اس میں شاید ہی کوئی پہلورہ گیا ہو باہر.ورنہ جتنی متعلقہ ہماری ضرورتیں ہیں ، وہ ساری 815
ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک نصائح اس میں شامل ہو گئیں ہیں.ان کو باہر کی جماعتوں کو اس میں داخل کرانا چاہیے.اور جو نصاب آپ نے کہا تھا، لجنہ بنائے ، اس میں ایک تو بنا بنا یا نصاب موجود ہے.یہ تو ہر بچی، بچے کو تھہ بھی ملنے چاہیں اور تربیت کا حصہ بنا دینا چاہیے، ان خطبات کو.تو بعض باتیں ہیں، جو محنت طلب ہیں.اور ہمیں جدو جہد کرنی پڑتی ہے.صرف انتظامی فیصلوں سے حل نہیں ہوں گئیں.ایک مستقل جہاد ہے، شیطان کے خلاف.ایک اچھے معاشرے کا قیام یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے.تو محنت کریں گے، انشاء اللہ اور کر رہے ہیں.دعا بھی کریں، اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ہمارا معاشرہ ایسا بن جائے کہ پھر اس کے حق میں بولنے کی ضرورت نہ پڑے.وہ خود کشش کا موجب بن جائے.غیروں کو آپ جتنا مرضی اسلامی معاشرے کی فضیلت کی باتیں بتائیں ، جب تک وہ یہ نہ دیکھیں کہ احمدی گھر زیادہ حسین ہیں، زیادہ دلکش ہیں.وہ جنت " جس کے پیچھے ہم دوڑ رہے ہیں، وہ یہاں ملتی ہے.اس وقت تک ہمیں عملاً کامیابی نہیں ہوسکتی..اس سلسلے میں پہلے بھی ایک دو ممالک میں سوال اٹھے تھے، ان کو سمجھایا تھا کہ تعزیری کارروائی ایسا قدم ہے، جس سے پہلے حجت تمام ہونا ضروری ہے.اگر رواجا ایک نرمی اختیار کی جاچکی ہو، اگر سالہا سال سے اور شرعاً بھی اس کے خلاف objection نہ ہو تو اس وقت تعزیر میں جلدی مناسب نہیں ہے.سب سے پہلے تو سمجھانا ضروری ہے.اس پر لٹریچر ہو، تقریریں ہوں، نوجوانوں کو براہ راست اپیل کی جائے دردناک طریق پر کہ تم یہ غیر ذمہ داری کی حرکتیں کرتے ہو ، سوچتے نہیں ہو کہ تمہاری اپنی بہنیں دیکھوں میں مبتلا ہوتی ہیں اور نقصان پہنچتا ہے.اس رنگ میں ایک تو آپ پہلا phase نصیحت کا کریں.پھر جب آپ یہ سمجھیں یا جس ملک کا امیر یہ سمجھے گا کہ اس نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ہے اور اب ڈھٹائی کر کے کوئی یہ کام کرے تو کرے.تو اس وقت وہ مرکز کو مشورہ دے کہ میرے نزدیک اب یہاں لازمی کر دینا چاہیے کہ کوئی احمدی لڑکا بغیر اجازت کے ہر گز غیر احمدی سے شادی نہ کرے.اگر ایسا وہ کرے گا تو چونکہ وہ عہد بیعت سے پھر رہا ہے، اس لئے اس کو جماعت سے فارغ کر دیا جائے گا.لیکن پہلے اس کے لئے یہ تیاری ضروری ہے.ان خطوط پر کام شروع کریں، آپ اب واپس جا کر.چوتھی تجویز مبلغین کے لئے مخصوص لباس، شیروانی وغیرہ ضروری ہو > یہ سب کچھ سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کوئی ایک لباس مقرر کر نا ضروری نہیں ہے.دوسرے شیروانی کے تقاضے اپنے ہیں جو پورے نہیں ہوتے.بڑا مشکل لباس ہے، کوئی آسان لباس نہیں ہے یہ.تو چھوڑ دیتے ہیں اب اس کو.816
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء پانچویں تجویز: مقامی زبانوں میں کیسٹس کی تیاری کے حوالے سے ممالک بیرون کی سکیم و کیسٹ سے متعلق جو میں نے کہا تھا، ایک شروع میں ہدایت یہ دی تھی کہ پہلے آپ بنیادی کیسٹس یہاں تیار کروائیں کسی ایک زبان میں اور بعض خاص regions کوملحوظ رکھتے ہوئے.مثلاً عیسائیوں میں، اشترا کی لوگوں میں، جو د ہر یہ مزاج کے لوگ ہیں، ہندو کلچر والے لوگوں میں سکھوں کے لئے مختلف مذاہب، مختلف ممالک کو محوظ رکھتے ہوئے یہاں سیٹ تیار کریں.پہلے اردو میں ماسٹر کیسٹ، پھر ان کو ٹرانسلیشن کروا کے باہر بھجوائیں اور ان ٹرانسلیشنز کو مجالس بنا کر وہاں پھر ریکارڈ کروائیں اور ان لوگوں کی زبان میں کروائیں، جو مقامی زبان بولنے والے لوگ ہیں.اچھا ملکہ بھی رکھتے ہیں، ان کی آواز کی کوالٹی بھی ایسی ہے، جو کیسٹس میں جا کر بھی اچھی لگے.تو یہ ہے، اصل سسٹم.یہ جو چیزیں آپ نے بیان کی ہیں، یہ at random پیدا ہونے والی بیچ میں چیزیں ہیں.ان میں سے جو جماعتوں میں آپ دیکھیں کہ مفید ہیں، ان کو بھیج دیں، ترجموں کے لئے.لیکن یہ جو fundamental ماسٹر کیسٹوں کی تیاری ہے، اس پر ابھی پورا کام نہیں ہوا."" - مثلاً یہ جو آپ نے کہا کہ البانین میں، اب البانین والا کوئی اور چیز تیار کر رہا ہو، اور کوئی اور تیار کر رہا ہو.ہر زبان کے لئے ایک نیا مضمون لکھا جائے ، یہ سسٹم ٹھیک نہیں.البانین جب آپ کہتے ہیں تو آپ کے ذہن میں وہ مسلمان ہے، جو یوگوسلاویہ کا باشندہ ہے.اس کے لئے مسلمانوں والے اعتراض جو ہیں، وہ ہی کام آئیں گے.بنیادی طور پر البانین زبان میں آپ کو خاتم النبیین کے متعلق جماعت احمدیہ کا مسلک، وفات مسیح سے متعلق ، امام مہدی کی آمد، واقعہ جو ہو چکا ہے دنیا میں رونما.اور کس طرح جماعت پہنچانی جائے؟ جماعت پر جو مظالم ہورہے ہیں اور یہ قائم ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے استقامت دکھا رہی ہے.ایسی چیزیں جو تمام مسلمانوں میں مشترک ہیں، ان کے اوپر کیسٹس تیار کریں.اس میں صرف یہ نہیں ہو کہ مسائل ، بلکہ مسائل کے لئے جو ماحول تیار کیا جاتا ہے، ان کو قبول کرنے کے لئے، واقعاتی شہادتیں، قبولیت دعا کے واقعات، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شخصیت.اس رنگ میں ایک آپ تیار کر لیں، پھر وہ سب زبانوں میں ڈھل جائے گا.انگریزی میں بھی ، افریقن زبانوں میں بھی.پھر عیسائیت کو مد نظر رکھ کر ایک الگ سیٹ تیار کر لیں.اس کو بھی پھر ڈھال دیں، اس طرح.پھر آپ کیمونسٹ ممالک کوملحوظ رکھتے ہوئے.اس میں خدا کا تصور، ایک تو ہے دلائل کے ذریعے پیش کرنا، اس سے وہ اتنے قابو نہیں آئیں گے.کیونکہ یہ وہ ایک قسم کی Mechanical approach 817
ار شهادات فرموده 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے.ان کو بتائیں کہ خدا والا پیدا ہو چکا ہے، یہ وہ کام کر رہا ہے، اس سے تعلق ہے.ایک حقیقت ہے اور پھر جو ٹیکنیکل پرانے دلائل ہیں، وہ وہاں کام نہیں کریں گے.موجودہ scientific advances کے ذریعے ، جو پہلے ان کے خیالات تھے کہ خدا ہو نہیں سکتا، اس کے مخالف ایسے evidences آچکے ہیں کہ مجبور ہورہے ہیں، وہ خود ماننے پر.یہاں تک کہ بعض رشین سائنٹسٹ کا میں نے پڑھا ہے، وہ حوالے دیئے جا سکتے ہیں.وہ کہتے ہیں، مثلاً کائنات میں جو یونیفارمٹی ہے، وہ ایسی ہے کہ ہم اس کو explain نہیں کر سکتے اور ہم مجبور ہیں، کچھ سوچنے پر.کیوں ہو رہا ہے ایسا؟ مثلاً ایک سائنٹسٹ رشین وہ لکھتا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ ایٹم کے مرکز اور ایٹم کے گرد جو چھ سات خول میں الیکٹرانز کے.ان کے سائز کی ratio وہی ہے، جو سورج اور اس کے گرد سیاروں کے فاصلوں کی ratio ہے.and this is understadable.وہ اتنا کہہ کے چھوڑ دیتا ہے.پھر وہ یہ بتاتا ہے کہ یہ جو فا صلے ہیں ، سورج اور اس کے سیاروں کے درمیان، ان کے درمیان ایک set فارمولا کام کر رہا ہے، جو سائنٹفک قانون ہیں، ان سے علاوہ فارمولہ ہے.وہ یعنی laws of dynamics کے نتیجہ میں جو فارمولہ بننا چاہیے، وہ نہیں ایک orbitrary فارمولہ ہے.اور ہے، وہ یقینی طور پر کام کرتا ہے.چنانچہ اس قسم کی چیزیں میری مراد ہیں.وہ احمد کی scientists سے بھی پتہ کریں.بعض facts پیش کریں، wonders کے Origin of life اور بعض mathematical چیزیں سامنے آئی ہیں، ان پر محنت بھی کروانا پڑے گا اور پھر لٹریچر تیار کروانا پڑے گا.اور سب سے بڑی چیز ہے، نبوت کو پیش کرنا.اس زمانے میں خدا تعالیٰ آچکا ہے.تمہارے مسائل کا حل ہی کوئی نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کو accept کرو اور جتنے تم زیادہ ذلیل ہوتے جارہے ہو اور مصائب اٹھا رہے ہو اور شکنجوں میں جکڑے گئے ہو، اس قسم کی approach کریں تو یہ جب آپ تیار کریں ماسٹ تو وہ پھر شین ہو، چائینیز ہو سب جگہ برابر کام کرے گا.اس کے لئے آپ ساری جماعتوں کو لکھیں، وہ آپ کی بھی مدد کریں.یعنی بار بار یہ مسائل پیش کر کے جو احمدی لکھنے والے اچھے ہیں، ان چیزوں پر وہ لکھ کر بھجوائیں.تا کہ ایک یونیفارمٹی کے ساتھ اور ایک مرکزی خاص شکل کے ساتھ ساری دنیا میں جلدی کام کر سکیں.یہ تو تحریک جدید کو چاہیے کہ وہ تلاش کرے، جو یہاں کی مجالس ہیں.شیخو پورہ کے ساتھ یا لیہ یا سرگودھا ، ان مجالس میں، میں نے ان کو خود بھی توجہ دلائی تھی.بعض دفعہ میں نے عمد ادلائل جو قرآنی اور نقلی دلائل ہیں، ان کو چھوڑ کر میں نے straight man to man talk کی ہے.جس کو سن کر چاہے وو 818
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء خواہ وہ دنیا میں کسی جگہ کا بھی آدمی ہو ، وہ سن کر احمدیت کا قائل ضرور ہو جاتا ہے ایک دفعہ کہ یہ ہیں، بچے لوگ.اس نقطہ نگاہ سے اس کو بھی کرنا چاہیے translate“.وو یہ تو کہ دیا ہے پہلے ہی، یہ ہی ہدایت پہلے ہی تحریک جدید کو دی جا چکی ہے.اور میرا خیال ہے، وہ تیار کر رہے ہیں.اور ایک چیز جو میں بتانا بھول گیا تھا، وہ سب سے اہم ہے یہ کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ پیش ہوا تھا یعنی گراموفون کی ایجاد کا معاملہ تو اس پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہماری خاطر ہی ایجاد کیا ہے.اور میری ایک خواہش ہے کہ میں آواز بھرواؤں اور وہ دنیا کے کونے کونے میں، زمین کے کناروں تک وہ آواز پہنچے.تو میں نے تحریک جدید کو کہا تھا کہ مجھے حضرت اقدس مسیح موعود کے ایسے اقتباسات نکال کے دیں ، جس کو میں خود بھروں تا کہ ایک قسم بحیثیت خلیفة المسیح بھی نمائندگی کروں.مناسب ہوگی میں کروں؟"....پھر اس کو دنیا کی ساری زبانوں میں translate کریں.جن کا تلفظ میں صحیح ادا کرسکتا وو ہوں، میں خود اور دوسروں زبانوں میں مبلغ خود بھریں وہاں جا کر.وو حضرت مسیح موعود کے اپنے الفاظ میں خدا کیا ہے؟ دین کیا ہے؟ میں نے کیا پایا؟ اور میں کیوں آیا ہوں؟ کیوں خدا نے مجھے بھیجا ہے؟ یہ پیغام تو کیسٹ کے ذریعہ ساری دنیا کی زبانوں میں مشتہر ہو جانا چاہیے، کیسٹ کے ذریعے.اور اس کو ذرا priority دے تحریک جدید.وو لازما ہاں جی، کیسٹ کے ساتھ ہر کیسٹ کا پمفلٹ چھپنا چاہیے اور بڑا خوبصورت سیٹ بنا کر پیش کیا جائے.وو یہ تو اب Independent department بن گیا ہے.اس کے لیے الگ وکالت بن گئی ہے.اس لیے یہ ارتقاء ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ گیا کہ محسوس ہوا کہ پوری وکالت کی ضرورت ہے اور ان کے سپر داب یہ کام ہے کہ نہ صرف کیسٹ تیار کروا کے بھجوائیں بلکہ وہاں سے رد عمل بھی منگوائیں اور مشورے بھی منگوائیں کہ کون سی مفید ہے؟ کون سی نہیں مفید ہے؟ تا کہ آہستہ آہستہ، ڈھلتے وو ڈھلتے، چمکتے چمکتے، نہایت خوبصورت چیز آخر میں آکر پیدا ہو جائے ؟“ جائے؟“ جی ٹھیک ہے.یہ جو ہمارے وکیل ہیں، اس شعبہ کے ایڈیشنل وکیل ہیں آپ یا نائب وکیل ہیں؟ انچارج شعبہ ہیں ابھی وکالت پوری نہیں بنائی ہاں جلسہ کے بعد انشا اللہ بنادیں گے.یہ ہمارے محمود احمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ کی ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ اس شعبہ کے انچارج ہیں.819
ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک البی تحریک یہ کہتے ہیں کہ ہم نے 4 کیسٹیں، جس میں تلاوت بھی ہے اور انگریزی سوال جواب دین سے متعلق ، جو مجالس آسٹریلیا میں ہوئی تھیں یا بعض جگہ یہ خلاصہ نکال کر 4 تیار کر لی ہیں ، کیسٹ.تو ان دوستوں کو دے دیں، واپسی پر لے جائیں اور پھر وہاں سے comments بھیجیں کہ ان کا کیا فائدہ ہے؟ یا ان پر نئے اعتراض کیا پیدا ہوئے ہیں؟ تاکہ پھر اس کی counter اعتراض کی کیسٹیں بھی تیار کی جاسکیں.suplementry بھی تیار کی جاسکیں“."Let me clarify one particular thing regarding programme of cassettes.The cassettes should not be mixed up with the requirements of literature.They are two different things and cassettes have their own role to play but they simply could not displace the literature nor should be confused with each other.Cassette programme has certain advantages for example in certain countries where the standard of literacy is low the ideal approach is cassettes.Secondly where you want immediately to translate your preaching efforts into all languages without loss of time, cassettes is the only answer.You can't go for large scale publications in all the languages, because they involve so many finances and other administrative problems, where to stock them, and how to distribute them.But cassette can be reproduced at will, at the need of the hour.So cassette programme has a certain advantage over the literature.But it should not be confused or mixed up with the requirements of the literature, which are independent and can't be dispelled or displaced by cassettes.So such requirements of education and teachings and upbringing, as have been mentioned, they need literature not cassettes.Because these are the 820
ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد requirements all over the globe and for Ahmadis as such these things should be produced.Only where the literature can't be produced, these things can be converted into cassettes.But, what I understand is this, that education on these topics, as some of them has been mentioned by Aftab Ahmad Khan sahib, can be done, brought about better by way of literature.Because cassettes have some disadvantages as well.It is very difficult to go through all the list of cassettes and pick one out and then listen to it.It also requires some forms and some sacrifices on one's part.On the other hand literature can be utilized in a much easier way at leisure while travelling, while doing some other certain things.Both have their own points and places, so to begin with I am interested in cassette programme for those fundamental things which we want to convey and convey soon to the people and in a manner that sound also plays its part in carrying the message home.And for that we have got a complete plan.Hudur asked, "have you got copy with it?" A complete plan has been made which contain almost all the suggestions which have made, plus some.And a very scientific approach has been made in this.But it is time consuming.Insha Allah, they will come up.What happens is to begin with, a thing develops at random, takes its own course.Then new ideas are born out of it.Then they have to be consolidated and scientifically arranged.This stage has now reached.To begin with it just grows out of itself Insha Allah Taala.We are looking properly into the 821
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ار شهادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء matter and investigating possibilities of improving things.But you may ask why we are asking for your advice then, if everything is all well prepared and cut to size.What I mean to say is that we don't want detailed plannings at this juncture.But after you have heard certain cassettes, if you want to make certain suggestions, particular suggestions, some comments for improvement here and there, they will be most welcome.But we don't want a regular complete planning at this time.This is what I want to clarify this.Any observations, for example negative observations that such and such cassettes contain this thing which is not well received, which creates wrong impression, no things like that or certain ideas which you have got from hearing cassettes to further improve and further explore for a certain avenue, such things I would like to welcome"."You will be glad to learn that new department I mentioned is named audio visual aids.It already contains preparation of slides as well as video films and this Jalsa has been fully video-recorded"."And we are going to spread video films all over the world Insha Allah"."And you can make best use of that.Also this department is already in contact with foreign missions for asking them to send slides of their local functions, and videos of the local functions.So that we prepare another video here, by collecting all the videos and slides from all over the world, to be shown in other countries.To edit them and then after that to produce a beautiful compact form of 822
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء video.This is being done with the grace of Allah, and I am grateful for your suggestion.It is really as I heard from some other sources as well.It produced a great impact in Uganda, these slides | programme etc ".وو ” دیکھئے پیغام تو خطبے میں ہوتے ہیں سارے.ہر وقت اور حالات کے مطابق وقت بدلتا رہتا ہے، اس کے مختلف تقاضے پیدا ہوتے رہتے ہیں، میں صرف ربوہ کو تو مخاطب نہیں کرتا ، ساری دنیا کو مخاطب کرتا ہوں.وہ تو مل رہے ہیں پیغام.مجھے جو دلچسپی ہے، آپ اس بارے میں روشنی ڈالیں.میرے ذہن میں تو نقشہ یہ تھا کہ نائیجریا میں مثال کے طور پر، یوروبا میں اور دوسری مقامی زبانوں میں آپ جلد از جلد انہیں لوگوں کی زبان سے کیسٹیں تیار کروائیں اور جنگل میں ایک احمدی بھی رہتا ہو ، اگر کچھ اس کی مدد بھی کرنی پڑے تو اس کو چھوٹا سا ایک cassette recorder لے دیں اور اکثر شوق بھی ان میں بہت ہیں، موجود ہیں.تو گھر گھر مبلغ پیدا ہو.مجھے تو زیادہ یہ دلچسپی ہے، اس وقت.تربیت کے لحاظ سے پاکستانی کی تو اللہ کے فضل سے ہو رہی ہے.ٹھیک ہے، آپ کی بات کہ الفضل سے پڑھنے کی بجائے جو سنے کا اثر ہوتا ہے، وہ زیادہ ہوتا ہے.ایک آواز میں ایک براہ راست ذاتی تعلق پیدا ہو چکا ہوتا ہے.وہ تو جماعت فائدہ اٹھا ہی رہی ہے، پہلے.مجھے تو نئی چیزیں یہ چاہیں اور اس طرف میں توجہ بھی دلانا چاہتا ہوں آپ سب کو.اس لئے چھیڑا بھی تھا یہاں کہ ہر ملک کی زبان میں ، مقامی طور پر اب کیسٹیں تیار کی جائیں.مرکزی کیسٹ سے استفادہ کر کے.اور ان میں جیسا کہ آفتاب احمد خان صاحب نے فرمایا تھا اور بالکل صحیح کہا ہے: precision ہونا چاہیے.اب یہاں بھی مرکزی کیسٹس میں ، میں نے ہدایت پہلے سے دے دی ہے کہ جب کوئی حوالہ آئے تو اگر وہاں بیچ میں نہیں پڑھنا، چونکہ تسلسل ٹوٹتا ہو تو کیسٹ کے آخر پر سب حوالے سنا دیئے جائیں کہ یہ جو References آئے ہیں، اس کا یہ حوالہ ہے، اس کا یہ حوالہ ہے، اس کا یہ حوالہ ہے.تا کہ کیسٹ والا جو ہے، اس کو armed ہو جائے اور اس کو پتہ ہو کہ کن کتابوں میں ان کا ذکر ہے.اس طرح سے نائیجریا، غانا اور افریقن ممالک میں جہاں تعلیم کم اور تقاضے پھیل گئے ہیں، وہاں گھر گھر مبلغ پیدا کر دیا جائے، یہ ہے، اصل منشاء.اس پر کچھ نہیں کہہ رہے آپ لوگ.نہ افریقن ممالک کے، نہ دوسرے.امریکہ وغیرہ کے لئے تو video زیادہ مناسب رہے گا.developed ممالک جو ہیں، کیسٹ سننے کی بجائے آنکھوں سے نظر آرہا ہو، وہ زیادہ اچھا اثر ڈالتا ہے.اس طرح بعض عربوں نے 823
ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم کا مجھے لکھا کہ ہمیں چاہیے آپ کا صرف خطبہ نہیں بلکہ video چاہیے.اور ساتھ یا تو ڈب کیا ہو عربی میں یا آپ خود اس کا ترجمہ کروا کے تو عربی میں بولیں تو یہ ہمارے نزدیک زیادہ مفید ہو گا.تو اس طرح ویڈیو پروگرام بھی اگر آپ کے وہاں video available ہو تو مبلغ بیٹھے، ایک مجلس لگائے.پہلے سے آرگنائزڈ مجلس ہو، وہاں اٹھ کر افریقن سوال کر رہے ہوں، وہ ان کے جواب دے رہا ہو تو بہت دلچسپ نظارہ پیدا ہوگا اور بڑی دلچسپی پیدا ہوگی.ایک مبلغ کہاں کہاں جاسکتا ہے؟ لیکن آپ سو کا پیاں کروالیں تو سو مبلغ بن جائیں گے.ہزار کیسٹس تیار کر لیں تو ہزار مبلغ ہو جائے گا.Arm کریں ان کو ، ان چیزوں سے.اور میرا یہ تجربہ ہے کہ اگر ان پڑھ آدمی کے پاس اس قسم کی چیز ہو تو پڑھے لکھے آدمی کی نسبت زیادہ جوش سے اس کو دکھاتا پھرتا ہے وہ.مشنری سپرٹ کے ساتھ وہ پھرتا ہے کہ میرے پاس یہ چیز ہے، اس کو سنو اور اس کا جواب دو.اس سے بہت تیزی آجائے گی تبلیغ کے کام میں.یہ ہے، اصل مقصد."You promised that you will do it, because there are certain thing.We cann't do here better than you yourself.You know the German mind, their approach, you know the requirement of the time, and what they would be pleased with, and what they would be displeased with, and so on.So these things can only be prepared better by you, so go and do it.When you return home, prepare these things and send us the copies of these preparations, both in cassettes and videos.Because what I want to do is that, what you prepare for the German people there, if we get the copies of those, we will distribute them to all our missions all over the world, with the result that if a German goes to Japan Mission, the Japanese missionary over there can say look here, I cann't speak German, but if you have a cup of tea with me, I will put this cassette on, If you are interested then you can listen, and I can give you a copy, like this.Then all over the world the missionaries will also become 824
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ارشادات فرموده 31 دسمبر 1983ء German missionaries with the help of these cassettes.This is the general programme in my mind but you prepare it there and send us thecopies"."And this is the same for every body here.In your respective countries try to produce certain cassettes, which we don't know, and we cann't produce in the manner you can, so do it and send us copics.So if they are good, if they are productive and beneficial, we can always reproduce them, and send to other missions as well.For that if an American goes to Japan or Indonesia, he also listens to some American speaking to him in his own style and the best approach which would be sinking to his heart".ہم نے مخزن تصاویر مرکز یہ قائم کیا ہے اصل میں جس طرح صاحبزادہ مرزا مظفر احمد آہ صاحب نے توجہ دلائی تھی، اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ تمام دنیا کی جماعتی Activities کو اس کے تاریخی اعتبار سے محفوظ کرتے ہوئے اور ساتھ مختصر ذکر کرتے ہوئے تصویری زبان میں شائع کیا جائے.اس کے لیے ہم نے ایک محکمہ قائم کر دیا ہے.جو گزشتہ ایک سال سے ہمارے شائق صاحب ہیں ، ان کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے.انہوں نے بھی وقف کیا ہوا ہے، اپنے آپ کو بغیر کسی معاوضے کے.اور خدا کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں.مقصد یہ ہے.میں اس لئے اس کی تفصیل بتانا چاہتا ہوں تا کہ آپ واپس جا کر آپ ایسے اعداد و شمار بھجوائیں.وہ اعداد وشمار مثلاً کب جماعت قائم ہوئی تھی کوئی ؟ کس کے ذریعہ ہوئی تھی ؟ یہ صرف ملک کے لحاظ سے نہیں بلکہ ہر جماعت کے چاہئیں.افریقہ میں، امریکہ میں، آسٹریلیا میں.جہاں کہیں دنیا میں کوئی جماعت قائم ہوئی ہے، اس کا manner ہمیں چاہیے کہ کس کے ذریعہ ہوئی تھی؟ کیا کوئی نیا مبلغ نے کوئی نیا احمدی پیدا کیا تھا؟ یا باہر سے کوئی مہاجر بن کر وہاں آکر settle ہوا تھا؟ اس طرح جماعت قائم ہوئی.کس سن میں ہوئی تھی ؟ وہاں خدا تعالیٰ کے کوئی خاص نشانات جو ظاہر ہوئے ہوں.مخالفت کے نتیجے میں ان کے مخالفوں کی شرمندگی کے طور پر یا اللہ تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت کے لحاظ سے، جو اپنوں کے حق میں ظاہر ہوئی ہو.وہ بھی چاہیے.اور پھر کتنی دیر کے بعد کتنے 825
ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک البی تحریک احمدی اس وقت اس تاریخ تک ہو چکے ہیں؟ اور وہاں کے مقامی حالات کیا ہیں؟ مذہب کیا ہے؟ کس قسم کے مذاہب ہیں؟ اس مختصر تعارف اور جماعت کا.یہ سارا data ہمیں چاہیے، ساری دنیا کا.اور سال ساتھ تاریخ ضروری ہو، جس تاریخ کو جماعت قائم ہوئی ہے.پھر تصویریں.اگر وہاں کے کوئی بزرگ مثلاً خانا کے کسی گاؤں میں کسی نے قربانی کی ہے تو ان کی تصویر اگر مہیا ہو سکتی ہو تو تفصیل ہو کہ یہ وہ بزرگ ہیں، جنہوں نے احمدیت پہلے قبول کی.مسجد پہلے کیا شکل تھی ؟ جھونپڑی کی.اب وہاں کیا ہے؟ اور پہلے مخالفت کے نتیجے میں کیا شکل تھی؟ اب تائید میں غیروں کی طرف سے کوئی تائیدی بات ہو.تو اس قسم کے ایمان افروز واقعات تاریخ سمیت ، یہ جمع ہورہے ہیں.دوسرا حصہ ہے، مخزن، تصاویر کا ، current functions کی تصاویر.وہ بھی اس میں شامل کی جائیں گی.سکیم یہ ہے کہ کم از کم سوممالک کے متعلق ، ایک تو ہر ملک کی اپنی کتاب شائع ہو اور وہ تصویری کتاب ان کو پھر مہیا کی جائے.اس کو widely طور پر distribute کرنے کے لئے.اور ایک مرکزی کتاب، جس میں ساری دنیا کی جھلکیاں ہوں اس میں اور اس کی تفصیل اپنی اپنی کتاب میں ہو.اس لئے اب اس کے سلسلے میں آپ یادرکھیں اچھی طرح ہمیں بہت مدد چاہیے.لکھتے ہیں لیکن جواب بہت کم آتے ہیں.data بڑی مشکل سے اکٹھا ہوتا ہے.دوسرا data collection میں صحت بڑی ضروری ہے.بہت احتیاط سے صحت کے ساتھ کرنا چاہیے.جو نہیں ملتا data ، اس کے انتظار میں تاخیر نہ کریں.feed کرنا شروع کر دیں کہ اتنافی الحال یہ چیزیں ہمیں معلوم ہیں، باقی اتنی جماعتیں ہیں، ان میں کوشش کریں گے، جب ہو جائے گا، پھر بھیج دیں گے، انشاء اللہ.پھر لٹریچر کے متعلق معلومات تفصیلی کہ یہاں کی production کیا ہے؟ کب لٹریچر پیدا ہوا؟ کسی لٹریچر نے اثر کیا؟ اب اس کی availability کیسی ہے؟ اور مزید ضرورت ہے اور نہیں ہورہا؟ یہ چیزیں بھی ساتھ بھجوائیں تا کہ پھر ایک مرکزی لٹریچر کے لئے ہمارا جو cell قائم ہوا ہے، وہ جلدی جلدی اس کو feed کرنے کا انتظام کرے."In your tapes you should also mention in the beginning that this is their concept of Islam, that no more prophets would ever come whatever happens to humanity.You see, you can say the same thing turning it into your favour because as I understand the psychology of the present day European, they will be abhorred by a 826
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء concept that God has seized to speak to humanity and has abandoned it forever and for good.So use it to your advantage.When you prepare a tape always mention it in the beginning that this is the main difference that all the non Ahmadis sects believe that God will never send any body again, because he has seized to speak to humanity and he does not care.The only sect of Islam, which believes in this, is Ahmadiyyat and this is why we have been ex-communicated, with that you can take hold of the imagination of the local people and go ahead with it.So, because I am quite certain that every normal person will favour Ahmadiyyat in this difference between us and them.Don't you think so?" "This is a normal reaction now of a European, because I have read certain books on religion for example 1 remember the name of one author Jailds who has written so much on religion, he says that the greatest objection to Islam which he has is this, is their concept of finality of the prophethood, that the whole mankind may go to hell, but Allah will never send any reformer again.He has said in such words....so even such authors can be quoted".وو چھٹی تجویز: ریویو آف ریلیجنز کی بابت ریویو آف ریلیجنز کا نیاissue اب شائع ہونا شروع ہوا ہے.اور خدا کے فضل سے جو حضرت اقدس مسیح موعود کی خواہش تھی ، وہ تو اللہ کے فضل سے اس سال پوری ہونے کا آغاز ہو گیا ہے.لیکن اس کا معیار بہت بلند ہونا چاہیے.اتنا بلند کہ کوئی دنیا کا مذہبی رسالہ اس کے قریب نہ پھٹکے.stature ایک اپنا قائم ہو.اس کے لیے ساری دنیا سے احمدی سکالرز کولکھنا چاہیے.مثلاً شیخ ناصر احمد صاحب ہیں، پھر خلیل احمد صاحب ناصر ہیں، مثال کے طور پر مصطفی ثابت ہیں اور ہمارے احمدی سکالرز جو آئے ہوئے 827
ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک ، سب دنیا سے.ناصر وارڈ صاحب ہیں.یعنی مختلف ملکوں سے مختلف nationalities کے انڈونیشین ہیں، وہ سارے حصہ لیں.participate کریں اور ایسے دلچسپ مضامین لکھیں ، جس سے دنیا کو پتہ ہو کہ کسی رسالے میں اس طرح انٹر نیشنل ویو Tepresent نہیں ہوتا، کسی مذہب کے متعلق یا کسی topic کے متعلق ، جتنا اس میں ہے.یہی تحریک کرنے کی خاطر اس کو ایجنڈا میں رکھا گیا تھا اور اس کے متعلق کوئی مشورہ دینا چاہتے ہیں تو بے شک دیں.اس ضمن میں یہ بات کر دوں کہ بعض رسالوں کو ریویو کی وجہ سے بند کر دیا گیا ہے.مثلا " ہیرلڈ ہے اور اب ایک امریکہ کا جو ایک ہمارا رسالہ ہے، اس کو بھی بند کرنے کا سوچا جا رہا ہے.ذاتی طور پر میرا رجمان یہ ہے کہ اگر تو اقتصادی مشکلات کی وجہ سے اور انتظامی مشکلات کی وجہ سے بند کرنا پڑے یا مجبوری ہو جائے تو اور بات ہے، ورنہ مقامی رسالوں کی اپنی ایک ضرورت ہے.یہ مرکزی رسالہ اس کو displace نہیں کر سکتا.لندن والوں کی، انگلینڈ والوں کی اپنی ضروریات ہیں.وہاں کی جماعت کو اپنا وقار پیدا کرنے کے لئے ایک پروجیکشن چاہیے اور پھر وہ آزاد ہیں.اب مرکز سے جو رسالہ نکلتا ہے، وہ ہر topic سے اس بے تکلفی سے بات نہیں کر سکتا.بعض issues take up نہیں کر سکتا.لیکن مقامی رسالے اپنی مرضی سے جو چاہیں، کریں.اس لیے یہ رحجان بند کرنے کی tendency نہیں ہونی چاہیے.مجبوری ہے اگر بے اختیاری ہے تو بتا ئیں.مجبوریاں کیا ہیں؟ تو پھر دیکھیں گے، بند کرنا چاہیے ان کو کہ وو نہیں؟ لیکن حتی الامکان رسالے جاری رہنے چاہیں بلکہ مزید رسالوں کا اضافہ ہونا چاہیے.لیکن اس کا مزاج رسالے کا determine کرنے کے لیے بہترین طریق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی اپنی نگرانی میں جو رسالے شائع ہوئے تھے، ان رسالوں میں جس قسم کے مضامین آئے ہیں اور جو طرز اختیار کی گئی ہے، اس کی حفاظت کی جائے.کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود کے ذہن میں ایک نقشہ تھا کہ ریویو آف ریلیجنز کیا کرے؟ اور وہ آپ کی نگرانی میں ہوئے.یہاں تک مولوی محمد علی صاحب کے نام پر اکثر مضامین جو شائع ہوئے ہیں، وہ حضرت مسیح موعود dictate کروا دیا کرتے تھے.اور ان کو پھر وہ اپنی زبان میں ڈالتے تھے.تو میں editorial board کو یہ توجہ دلاتا ہوں.اس میں یہ بھی ہیں مضامین، جس طرح آپ نے کہا ہے، یعنی بدھ ازم کیا چیز ہے؟ اس قسم کا اور شنٹو ازم کیا ہے؟ ایسے مضامین بھی آئیں گے، بیچ میں.تو یہ بات درست ہے آپ کی ، اس پہ ہمارے authors کو توجہ کرنی چاہیے کہ جب وہ کسی مذہب کا حوالہ دے کر بتا ئیں کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ اس میں بڑی دیانت داری 828
تحریک جدید - ایک الہی تحریک 406 ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء سے کام لیں.یہاں جو ویسٹرن سکالرشپ ہے، وہ فیل ہوگئی ہے.اکثر ویٹرن socalled orientalists جو ہیں، وہ جب ہمارے مذہب کے متعلق لکھتے ہیں تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ یا وہ سمجھے نہیں یادہ بددیانتی سے کام لے رہے ہیں.اگر ہم لکھیں کسی کے متعلق تو پھر یہ پہلو بھی ( مد نظر ) رکھ لینا مثلاً میں نے پڑھا ہے، بعض comparative religion یہ لکھنے والوں کو ، انہوں نے نوازم کو جو پیش کیا، وہ تو مجھے پتہ نہیں لیکن ہندو ازم کو یا بدھ ازم کو یا اسلام کو پیش کیا، اس کے متعلق مجھے پتہ ہے کہ یہاں یہ غلطیاں کی ہیں.تو ہمارے احمدی سکالرزان غلطیوں کو point out کر سکتے ہیں.اور ان کی favour میں بات لکھ سکتے ہیں.یہ بہت اچھا ایک طریق کار ہوگا.اس سے پڑھنے والے کو یقین پیدا ہو گا کہ دیانت دارلوگوں کے ہاتھ میں ہے، یہ معاملہ.وو میں کہتا ہوں کہ آپ کل شروع کر دیں، بے شک.ایک ہزار کاپی کی اگر گنجائش ہے، وہاں سواحیلی میں ریویو کی.جو جتنی جلدی شروع کریں، اچھا ہے.میری تو خواہش ہے کہ ساری دنیا کی زبانوں میں ریویو چھپنا شروع ہو جائے.ہم تو اس لئے زور نہیں دے رہے کہ آپ کی جماعت پر اتنا load نہ پڑ جائے کہ پھر اور کام کرنے میں وقتیں پیدا ہوں.اگر آپ کر سکتے ہیں تو go and do it بس ٹھیک ہے.اللہ مبارک کرے.رو مثلاً بعض بڑے اچھے اچھے ہمارے احمدی intelligent مرد اور عورتیں ابھی سے اس لائن پر چل پڑے ہیں.ہمارے ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی بیگم یورپین ہیں.انہوں نے ایک سکالر کا criticism لکھا تھا کہ یہ اسلام پر لکھ رہا ہے.اتنا بڑا اس کا نام ہے اور یہ بنیادی غلطیاں کر رہا ہے.یہاں قرآن کو misquote کیا ہے اس نے.یہاں احادیث کو misquote کیا ہے.یہاں ایسی بات لکھ گیا، جس کا کوئی وجود ہی نہیں.وہ میں نے آپ کو بھجوایا تھا.اس قسم کی چیزیں اب وہ ریویو میں آجانی چاہیے.تا کہ ہم ان کو پکڑیں اور اونچے پلیٹ فارم سے چیلنج کریں.تم سکالر بنے ہوئے ہو، کم از کم Honesty تو دکھا ؤ، اسلام کے بارے میں کوئی پکڑنے والا نہیں ، ان کو.ریویو نے یہ کام کرنا ہے.وو ہ یہ جو ہے نا کہ ریویو میں یہ بھی آجائے ، وہ بھی آجائے.اس میں یہ بات یا درکھ لیں.اب مثلاً میٹھا کھانے کے لیے ایک برتن ہوتا ہے تو اس میں آپ میٹھا ڈالیں اور تھوڑی دیر بعد خیال آئے کہ اس میں تھوڑے سے stakes بھی آجائیں، تھوڑی سی noodles بھی آجائیں.تو اپنی اپنی ذات میں تو اچھی چیز ہے.لیکن اس purpose کے خلاف ہے، جس purpose کے لیے وہ خاص برتن پیدا کیا گیا 829
ارشادات فرموده 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے.ریویو کا اپنا ایک برتن ہے.یہ تو آپ کو ضرور کہنا چاہیے اور آپ کا حق ہے، اس مطالبے کا کہ ریویو کا ! معیار اتقابلند کر دیا جائے ، اپنے دائرے میں کہ دنیا یہ کہے کہ ریویو جیسا ہم بھی نہیں.لیکن ریویو اور چیز ہے.ر اور ڈائجسٹ اور چیز ہے.اسی لیے میں نے کہا تھا کہ مقامی رسالے جاری رکھیں.جو اچھی چیزیں دوسری ہیں، وہ ان میں داخل کریں.عمد امیں نے ایمان افروز واقعات یہاں سے نکلوا دیئے کیونکہ دنیا جب ریویو آف ریلجنز کے نام پر رسالہ دیکھتی ہے تو اس میں وہ اس قسم کے تبلیغی، ایمان افروز واقعات کی توقع ہی نہیں رکھتی.وہ کہیں گے کیا بچپن والی، بچوں والی باتیں ہیں.کہتے کچھ اور ہیں، کر کچھ اور رہے ہیں یہاں.اس لیے نہ وہاں تھیں، حضرت مسیح موعود کے زمانے میں، اس قسم کی چیزیں.اس کے لیے آپ کے مقامی رسالے ہیں.نائیجیریا میں Guidance نکلتا ہے اور دوسرے رسالے.ان میں بے شک جتنے مرضی ایمان افروز واقعات شائع کریں.لیکن ریویو کا ایک کریکٹر ہے، اس کو نہیں بدلنا بالکل.اس کریکٹر کے اندر رہتے ہوئے ، جتنا تنوع ممکن ہے، بے شک پیدا کردیں.لیکن کریکٹر چھوڑ کر نہیں پیدا کرنا“."Do it yourself in America start collecting the comments of some scholars.Send them and with a note of course, that we are sending you this magazine for the purpose of some comments from you.So, get some comments and also organize some groups for interviews" وو ساتویں تجویز: تراجم قرآن کریم کے متعلق دیکھنا یہ چاہیے کہ ان زبانوں میں موجود بھی ہے کہ نہیں ایسی public، جو اس کو پڑھے.چنانچہ نبی سے متعلق مجن زبان کے متعلق فیصلہ کرنے سے پہلے ہم نے فوری طور پر جائزہ لیا تھا کہ اخبار کوئی شائع ہو رہا ہے؟ کتنے لوگ ہیں، جو پڑھ سکتے ہیں؟ کتابوں کی پوزیشن کیا ہے؟ مارکیٹ market review یہ ضروری ہے.آپ کی بات، بالکل درست تبشیر تحریک جدید کو policy matter کے طور پر پہلے یہ حصے معلوم کر لینے چاہیے.صرف نام کا ایڈیشن تو نہیں ہم نے کرنا ، مقصد پورا کرنا ہے.یہ بڑا اہم پوائنٹ ہے، لائبریریز والا بھی.اس کو نوٹ کریں.ہم نے لندن میں دیکھا، یہ مسر صالحہ بیگم جو ماہر ہیں، لائبریری کے کام کی ، انہوں نے کہا کہ میں نے Wandsworth کی صرف لائبریریوں کا جائزہ لیا تو کئی سو بنتی ہیں اور ان میں جماعت کا کوئی لٹریچر نہیں تھا.جس علاقہ میں ہم ہیں اور جا کے دیکھا تو پتہ لگا کہ ان کی ضرورت ہے، ڈیمانڈ ہے، تو لاکھوں تو لائبریریاں ہیں.830
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء United States میں اگر ہمیں صحیح channel کا علم ہو جائے ، کس طرح داخل ہونا ہے تو 39 ایک سے دوسرا رستہ نکلتا آئے گا.بہت اہم ہے یہ معاملہ.لائبریریوں میں لٹریچر رکھوانا“.آپ پہلے تو یہ معلوم کریں کہ جاپان کو کیا ضرورت ہے، ٹھوس لٹریچر کی ؟ جب تک یہی نہ طے ہو جائے ، ہم بات کس طرح آگے بڑھا سکتے ہیں.اس کے بعد پھر جلد سے جلد خرچ کر کے بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہیے.اس وقت تک جتنی رپورٹیں دیکھ رہا ہوں ، وہ یہی بات ہے، جو اس وقت یہ کہہ رہے ہیں.اشتہار بازی ہے اور اشتہار کے بعد کچھ نہیں ہے، دینے کے لیے.کیا کریں گے وہ آگے جا کر پھر.کچھ ٹھوس چیز ضرور پیدا کرنی چاہیے.جاپانی مزاج کے لحاظ سے آپ لوگ وہاں سے جا کے مشورہ کر کے آپس میں بھیجیں.ہمارے نزدیک جاپان کو اپیل کرنے کے لیے جماعتی لٹریچر میں سے فلاں فلاں زیادہ مؤثر ثابت ہو گا.کیا اقتصادی نظام سے متعلق اگر لٹریچر چاہیے، وہ کون سا مفید رہے گا ؟ اسلامی اصول کی فلاسفی تو خیر ہے ہی.اس کے علاوہ میں کہہ رہا ہوں کہ انشاء اللہ کریں گے اور پھر جا کر یہ جائزہ بھی لیں، واپس جا کے کہ کون کون سے سکالرز اس کام میں اچھے ہیں اور اس پہ کتنے اخراجات آئیں گے؟“ میں نے تحریک سے پہلے بھی کہا تھا کہ ساری دنیا کی کتب کی جو ضرورت ہے، وہ پہلے معین " کریں.اور یہی بات پہلے انہیں کہی جا چکی ہے کہ بعض کتابیں بعض مشنز کے سپرد کریں.یعنی اس وجہ سے نہیں کہ یہ وقت سامنے تھی بلکہ اس وجہ سے کہ اکٹھا چھپوانے میں سہولت رہتی ہے.اور distribute تو کرنی ہی ہے، سب جگہ.ایک مشن ایک لاکھ کتاب اکٹھی شائع کرے وہ اور خرچ آئے گا، اگر سارے مشن پانچ پانچ ہزار کریں تو بہت مہنگی پڑے گی.اس لئے وہ حساب، جائزہ لے کے تو سنٹرز قائم کر دیں، مختلف جگہوں کی کتابوں کی اشاعت کے.اور ان کو معین آرڈر جایا کریں کہ تم نے یہ کتاب شائع کرنی ہے اور اس طرح distribute کرنی ہے.تو اس میں ہم آپ کے ذمہ میں رکھ لیں گے، انشاء اللہ.تو آپ مگر اس کی بہترین اشاعت کی گارنٹی underwrite کریں اس کو کہ ایسی اعلیٰ طباعت ہوگی اور یہ خرچ آئے گا.وہ سب ہمیں تفصیل لکھیں.پھر اس کو barter سسٹم سے تبادلے کروا دیا کریں گے، آپ کے انشاء اللہ.یعنی امریکہ کو بھیجیں، یورپ کو بھیجیں، جرمنی کو بھیجیں، جاپان کو بھیجیں.ان سے اس کے بدلے میں کتابیں لے لیا کریں.وو آٹھویں تجویز : شعبہ مال اور چندہ جات کے متعلق خدا کا بڑا افضل ہے لیکن جو حصہ قابل توجہ ہے، اس کی طرف اب فکر کرنی چاہیے.ہمارا آؤٹ کا انتظام اس معیار کا نہیں ہے، جس معیار کا بجٹ ہے.اور ساری دنیا میں اس پر بہت زور دینے کی 831
ارشادات فرموده 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ضرورت ہے.Independent آڈٹ کا نظام ہو ، جو direct رپورٹ کرے مرکز کو.اس کے سامنے مرکزی قوانین اور گذشتہ سال کے بجٹ کو پیش نظر رکھا جائے.اگر امیر transgress کرتا ہے اور بعض مدات کو اپنے اختیار کے بغیر بڑھا دیتا ہے، کہیں سے کاٹ دیتا ہے تو immediate مرکز کور پورٹ ہوئی چاہیے.یہ حصے ہیں، بہت اہم.اگر خدانخواستہ ان میں ستی ہوگئی تو اس وقت تو غفلتیں ہیں.پھر یہ غفلتیں بعض دفعہ جرموں میں بھی بدل جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ معاف رکھے ہمیں.اور اس کی احتیاط کی طرف جتنی توجہ دیں گے، اتنا ہی فائدہ پہنچے گا.تو بعض ممالک میں ہو گیا ہے، اچھا آڈٹ کا نظام، خدا کے فضل سے.لیکن اکثر ممالک میں نہیں ہے.اور جب آڈٹ کروایا گیا تو پتہ لگا کہ مجلس عاملہ کو بھی پتہ نہیں ، مرکز کو بھی پتہ نہیں اور اتنی نمایاں تبدیلیاں اصل budget میں ہوئی ہیں کہ وہ کسی قیمت پر بھی قابل برداشت نہیں یعنی بددیانتی پیسے کی نہیں ہے، بددیانتی اس ذمہ داری میں کی گئی ہے، جو امانت تھی ان کے پاس.ان کا حق ہی نہیں تھا، مرکزی نظام کوتو ڑ کر اپنے طور پر آگے آگے بھاگیں اور جو چاہیں کریں.یہ بددیانتی کا پہلا قدم ہے.پھر اگر خدانخواستہ اس کو آپ نے چیک نہ کیا، irresponsibility پیدا ہوگئی تو پھیل سکتی ہے بات.اس لئے اس کی طرف اب زیادہ زور دیں.ساری دنیا میں آڈٹ کا انتظام ہو، جو براہ راست صدر مجلس تحریک جدید کور پورٹ کرے اور یا مجھے بھی بے شک کا پی بھجوائے.اگر وہ سمجھے کہ ایسی باتیں ہیں، جو میرے علم میں آنی چاہئیں تو اس کو چاہیے کہ وہ مجھے بھجوائے ، promote کرے بے شک اور نقل دے امیر کو.یہ امیر کے تابع نہیں ہے، نظام اس سے independent ہے“.....یہ بات نوٹ کریں کہ جو عرب ممالک کے اندر جو کتب بھجوانی ہوں تو ان کو ایک ایک، دو دو کر کے پوسٹ کریں.اکٹھی نہ بھجوائیں کسی کو اور سارے عرب مشنز کو ڈسٹری بیوٹ کریں.ان سے سکیم منگوا کر فوری طور پر distribute کریں."Another thing that Tehrik Jadid should note, that no one from Rabwah should be permitted to write letters to the Arabs on their own, because sometimes they make a blunder.They are very injudicious in the choice of subject and the manner of writing and it has caused some problems.So, tell all possible suspects.....that they should cease to do this.Take permission and let us know what they 832
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء are writing, because I have received some positive complaints from certain Mukhlis Arabs like Hussain Qazaq, he was almost sent into Jail by some ulema innocently".وو تمام قوانین جتنے بھی ہیں، سب جماعتوں کو جانے چاہئیں.ہر قسم کے جو financial issues ہیں، قواعد کیا ہیں؟ اختیارات کیا ہیں؟ فرائض کیا ہیں؟ اور مجلس عاملہ کے اختیارات کیا ہیں ؟ امیر کے کیا ہیں؟ کس حد تک وہ deviate کر سکتا ہے؟ کس معاملہ میں؟ بہت تفصیل کے ساتھ سارا چھپوائیں اور نمونہ مرکزی فارم کا چھپوا دیں اور وہ ساری دنیا کی جماعتوں کو بھجوائیں پھر.پھر انشاء اللہ تعالی discrepancies ختم ہو جائیں گی.misunderstanding اور confusion ختم ہو جائیں گی.نویس تجویز: صد سالہ جوبلی منصوبہ اور فنڈ کے متعلق وو یہ جو حصہ ہے، اس کے متعلق میں کچھ بتانا چاہتا ہوں.یہ جو شروع میں حضرت خلیفة المسیح الثالث نے سکیم پیش کی تھی.اس کے اوپر باقاعدہ صد سالہ احمد یہ جو بلی پلاننگ کمیٹی بنائی گئی تھی.اس نے پھر جو ابتدائی خاکہ تھاوہ حضرت خلیفة المسیح الثالث کے ذہن میں اس کو لو ظ ر کھتے ہوئے پھر تفصیلی غور بھی کئے.ان میں ممالک میں جوبلی منانے سے متعلق بہت کچھ غور ہو چکے ہیں.وہ کہاں ہیں؟ وہ حصے تو سامنے آنے ہیں، اس کے بغیر تو ساری محنت رائیگاں جائے گی.جو پہلے کام ہو چکے ہیں، ایک تو اس کو فوٹوسٹیٹ کروا کے پہلے مجھے دکھا دیں، پھر اس کو فائنل کر کے وہ فوٹوسٹیٹ سارے ملکوں میں جانی چاہیے.دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ جو باتیں بیان کی گئی ہیں، ان میں ایک چھوٹی سی contradiction پیدا ہو گئی ہے.بعض ممالک بعض دوسرے ممالک میں جائیں گے، اور ہر ملک کا سنٹر.اس کی دو شکلیں ہوں گی.ایک تو یہ کہ بعض ممالک کو ملا کر ایک سنٹر بنایا جائے گا اور وہ وہاں جائیں.ایک یہ ہے کہ ہر ملک میں صد سالہ احمد یہ جوبلی منائی جائے اور اس میں اردگرد سے لوگ شریک ہوں اور پھر مرکز میں بھی شریک ہوں.سوال یہ ہے کہ اگر اس طرح ہم نے عمومی ہدایت یہ دے دی تو بڑا confusion سا ہو جائے گا.یہ ممکن نہیں ہوگا لوگوں کے لئے کہ وہ دوسرے ملک میں بھی جائیں اور مرکز میں بھی آسکیں.اور یا پھر جن کے لئے ممکن نہ ہوگا ، مرکز میں صرف وہی جاسکیں گے اور پھر اپنی جو بلی میں بھی شامل ہوں.یہ کچھ طاقت سے بڑھ کر لوڈ نظر آتا ہے.کیونکہ اور بھی بہت سے اخراجات ہونے ہیں، اس موقع پر.اس لئے تحریک جدید کو پہلے تو یہ اصولی طور پر طے کر لینا چاہیے کہ باہر جو جو بلی منانی ہے، وہ ریجن وائز منانی ہے یا ملک کے 833
ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک لحاظ سے.اگر ملک کے لحاظ سے منانی ہے تو سارے ملکوں میں منصوبہ بندی اپنی اپنی شروع ہو جانی چاہیے.اگر علاقوں کے لحاظ سے منافی ہے تو پھر علاقے تجویز ہو جائیں کہ امریکہ کے ساتھ یہ ہے علاقہ - فلاں کے ساتھ یہ علاقہ ہے.اور یہ directive معین ہو جائے.ان کے اپنے فیصلے پر نہ چھوڑیں، اس بات کو.اور اگر ان کا مشورہ لینا ہے تو پہلے مشورہ لے لیں ،directive دینے سے پہلے.مگر بہر حال یہ اس کو موجودہ شکل میں ایک کچی شکل میں پیش کرنا مناسب نہیں ہے.دوسرا حصہ ہے، جو بلی کس طرح منائی جائے ؟ اس میں کیا کیا main features ہوں گے؟ وہ حصہ جہاں تک مجھے یاد ہے، میں بھی چونکہ پلاننگ کمیشن کا ممبر تھا، یہ غالباً طے ہو چکا ہے، پہلے ہی.لیکن ضروری نہیں ہوگا کہ بعینہ اسی طرح ہر ملک کے حالات اجازت دیں.ہو سکتا ہے کچھ مقامی ترمیمیں کرنی پڑیں.اور وقت تھوڑا رہ گیا ہے، اس لئے جلد از جلد یہ بھی کروانا چاہیے.یعنی اطلاع مل جانی چاہیے.اس کے اوپر comments معلوم کر لینے چاہیں.ممالک کے ابھی comments نہیں آئے کسی قسم کے بھی.ایک حصہ یہ ہے کہ بعض لوگ جلسہ سالانہ پر آتے ہیں بڑی کوشش سے اور ہر سال آ بھی نہیں سکتے.تو جوبلی کے جلسے پر ان کو ابھی سے نوٹس دینا چاہیے.اگر زیادہ سے زیادہ آدمیوں نے آنا ہے تو انہوں نے وہاں پیسے بچانے ہیں، جو بلی کے لئے.اس لئے ابھی ساری جماعتوں میں مشتہر ہو جانا چاہیے کہ فلاں سال جو بلی کا ہے اور یہ اس طرح پھیلا ہوا ہوگا پروگرام.اس کا مرکزی حصہ اتنا ہو گا.ان کو پتہ تو ہو کتنی چھٹیاں لینی ہیں؟ کتنے اخراجات کی ضرورت ہوگی؟ اور ابھی سے وہ تیاری شروع کریں گے تو آسکیں گے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ جو بلی کے جلسے سے ایک، دو سال کے جلسوں میں ہمیں رونق کی قربانی بھی کرنی پڑے، بیرونی دنیا کے لحاظ سے.مگر یہ بھی کہنا چاہیے کہ ابھی سے project کرنا شروع کریں.اور معلوم کرنا شروع کریں کہ انداز ا کتنے آدمی ارادہ رکھتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، کس کو تو فیق ملتی ہے ؟ کون زندہ رہتا ہے؟ جو بھی شکل بنے مگر ارادے کا اس وقت تو فیصلہ ہو سکتا ہے، بہر حال.زیادہ سے زیادہ تعداد کے متعلق ہمیں علم ہو جائے تاکہ اس کے لئے یہاں تیاری کرنی ہے.یہاں اتنے گیسٹ ہاؤس بنے ہیں، لکھوکھا روپیہ خرچ ہورہا ہے.ہر سال اس کے باوجود جب ہم جگہ دیکھتے ہیں تو اتنی تھوڑی ہے کہ بمشکل ڈھائی سو آدمیوں کے لئے یہاں گیسٹ ہاؤسز میں جگہ ہے.اور اگر دو ہزار کا اندازہ لگایا جائے ، جو بلی کے لئے بیرونی مہمانوں کا تو اس کے لئے بہت بڑا بلڈنگ پروگرام بھی ہم نے بنانا ہے.اس لئے بہت لیٹ ہو گئے ہیں.ان کا بہت جلدی جلدی exchange of views ہونا چاہیے.تو صد سالہ احمد یہ جو بلی کا جو یکشن ہے، وکیل صاحب ہیں یہاں.ان کو یہ ہمارے سیکرٹری صاحب صد سالہ احمد یہ جوبلی کے طور پر آپ 834
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ششم ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء منگوانا شروع کر دیں اور ہر ان کو متعلقہ مواد مہیا کر دیں اور یہ انفار میشنز جلد سے جلد بھیج کے comments مہینے ایک رپورٹ مجھے آنی چاہیے کہ جو بلی کی تیاری کے سلسلے میں کیا پروگریس ہو رہی ہے؟ publications ہیں، یہ بھی اس کا حصہ ہے.کچھ تو آپ یہاں مرکز میں بھیجیں گے، ہم مرکز سے آپ کو بھیجیں گے.یہاں Coverge کریں گی ساری سلائیڈ ز اور بہت ساری چیزیں.آپ کی تصویریں، آپ کی ہسٹری.ہم یہاں سے بہت خوبصورت چیزیں تیار کر کے آپ کو واپس بھیجیں گے.بہت سا کام بٹ، جائے گا آپ کا.لیکن کچھ ایسی چیزیں ہیں، جو آپ نے مقامی طور پر بھی تیار کرنی ہوں گی.پھر اس کی پبلسٹی کرنی ہے، contact ریڈیو، ٹیلی وژن وغیرہ سے.بے شمار کام پڑا ہوا ہے.اس شیح پر تو یہ بالکل کچا ہے."It is a very good idea, if one hundred or thousand buses come from Europe or other places, all along they will be preaching Ahmadiyyat and exhibiting slogans, on Islam.That will be a beautiful idea included in your plan........"I mean, this idea can be employed both for those who intend to come to Rabwah for participation and to those who want to go to center of a region, buses can be employed for both these purposes.Idea in itself is good"."That's all.Now that is all for today.Alhamdullilah we have covered a lot of ground with the grace of Allah.So now we pray together, now the only thing I want to say to you is this, that whatever you have heard, you kindly convey to all your country members.The Ahmadis in your countries should be made to know what passed among us here today.And for this purpose Tehrik Jadid will provide you with cassettes of today's programme to remind you.But make it well known and widely known all over your country and also do not forget to pray and remind others to pray for the centenary Jalsa.This one very important feature, which 835
ارشادات فرمودہ 31 دسمبر 1983ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک has not been touched upon so far.And this is my experience and every body else's experience among Ahmadis that prayers are so vitally essential for our existence and for the betterment of our plans and for their implementations that without the prayer we can't do anything, we can't achieve anything at all.When one begins to pray, then things become so easy.They flow automatically without any effort.So, this reminder should be made every month from now on for the prayers of the centenary Jalsa.All members should pray regularly but reminder should be once a month at least.And later on it can be expedited, the pace can be enhanced as we come closer to closer to Jalsa.But take this note that when you go back, every Ahmadi of every country should remind people, that pray in earnest.That reminder should not be just a formal dry reminder.By that reminder I mean make a moving reminder every time in a different way.Sometimes quote certain examples of Hadrat Masih Mau'ud (A.S.)'s prayers.Sometimes quote traditions of the Holy Prophet (S.A) telling you how prayer should be best offered and how Allah should be beseeched for certain requirements, for certain necessary of yours and so on.So the method of prayer and certain illustrations of prayers which have been accepted by Allah and all that.They should go along with your reminder, so when they hear reminder their heart is also softened and mentally they are prepared to pray.So Insha Allah that will be very great help to us and ultimately all our difficulties will be removed and things will begin to move of themselves.With that let us join hands in prayer and part".( غیر مطبوعہ، ٹرانسکر پیشن) 836
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ سیرالیون اسلام کے لئے نئی روحانی مملکتوں کی تسخیر جاری رکھیے پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ سیرالیون منعقدہ 06 جنوری 1984ء اس موقع پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے دو پیغام بھیجوائے ، ان میں سے پہلا پیغام، جو بذریعہ تار موصول ہوا، اس کا اردو تر جمہ حسب ذیل ہے:.اللہ تعالیٰ آپ کے اجتماع کو بابرکت بنائے.اسلام کے لئے نئی روحانی مملکتوں کی تسخیر جاری رکھیے.خدا کرے، امید امن اور محبت کے متلاشی انسان آپ کے زیر سایہ تسکین پائیں اور سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کے ساتھ ہر آن و هر لحظ نئی عظمتوں سے ہمکنار ہوتے ہیں.خليفة المسيح ( مطبوعه روزنامه الفضل 28 مارچ 1984ء) 837
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ سیرالیون اسلام کے غلبہ کے حصول کی جدو جہد میں شکست کا تصور بھی دماغ میں نہ آئے پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ سیرالیون منعقد ہ 06 جنوری 1984 اس موقع پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے دو پیغام بھجوائے ، ان میں سے دوسرا پیغام ، جو بذریعہ خط موصول ہوا ، اس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:.میرے عزیز انصار بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنی مجلس کا سالانہ اجتماع جنوری 1984ء میں منعقد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس انصار کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.ان مقدس اصحاب نے اپنے اموال حتی کہ عزیز جانیں بھی رضائے باری تعالیٰ کے حصول کے لئے نچھاور کر دیں اور اس راہ میں وہ ہمیشہ سرگرم رہے.اور انہیں اپنے قدم روکنے یا پیچھے ہٹانے کا لمحہ بھر خیال نہ آیا.اسلام کے دائمی غلبہ کے حصول کی جدو جہد میں واپسی یا شکست کا تصور بھی ایک لحظہ کے لئے آپ کے دل و دماغ سے گزر نہ پائے.اس راہ میں ہمیشہ کامل یقین اور عظیم الشان اعتماد و توکل کے ساتھ رواں دواں رہیے.یہ یادر ہے کہ موجودہ نسل آپ سے اسلام کا نور حاصل کر کے دنیا کی آنے والی تمام نسلوں کو منور کرے گی.لہذا اس خدائی نور کی اپنی تمام قوت کے ساتھ حفاظت کیجئے.اور اسے خاص طور پر محبوب و مرغوب رکھیے.محبت الہی کی یہ مقدس آگ ہمیشہ آپ کے قلوب میں زندہ رہے.ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہے.اس موقع پر میں آپ کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ عزت و تکریم کا اصل منبع مولیٰ کریم کی ذات ہے.پس اس مقصد کے لئے صرف ذات باری کو اپنا محور بنائیے.وہی رحیم ، مہربان آقا ہمارا وکیل ، ولی اور کارساز ہے.ہمیشہ یادرکھیے کہ دعا ہمارا مضبوط ترین ہتھیار ہے.اور غلبہ اسلام کی راہ میں درپیش آنے والے تمام مجاہدات اس ناقابل شکست ہتھیار کے ذریعہ فتح مبین سے ہمکنار ہوں گے.- 839
پیغام بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ سیرالیون ہو.آمین.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم پس دعا کی اہمیت اور ضرورت جتنی بھی واضح کی جائے کم ہے.خدا تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ والسلام 840 خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع وکالت تبشیر ) ( مطبوعه روزنامه الفضل 28 مارچ 1984ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ گھانا خدا کی تقدیر ہے کہ سرزمین افریقہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں خاص رول ادا کرے گی پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ گھانا منعقدہ 12 تا 14 جنوری 1984ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود گھانا کی سرزمین میں بسنے والے میرے پیارے بھائیو اور بہنو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته عزیزم مکرم عبدالوہاب بن آدم امیر و مشنری انچارج گھانا نے مجھ سے آپ کے سالانہ جلسہ پر پیغام بھجوانے کے لئے کہا ہے.اس جلسہ میں شامل ہونے والے اور گھانا کے ہر باشندے کو میرا محبت بھرا پر خلوص سلام پہنچے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اپنی رحمتوں اور فضلوں کے سایہ تلے رکھے.وہ آسمانی آقا آپ کو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اس کا پیار آپ کو میسر ہو، اس کا قرب آپ کو نصیب ہو.آمین یا رب العالمین آپ کا یہ جلسہ سالانہ ، اس جلسہ کا ظل ہے، جس کی بنیاد 1892ء میں مامور زمانہ نے قادیان میں رکھی.اور اس جلسہ کی غرض حضور نے یہ بیان فرمائی:.وو.اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں.اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو.اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں.اور انکسار اور تواضع اور راست بازی ان میں پیدا ہو.اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں.شہادت القرآن صفحہ 98، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394) اس اقتباس کے ایک ایک لفظ پر غور کریں اور پھر محاسبہ کریں کہ کیا ہم جلسہ کی اغراض کو پورا کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے دل آخرت کی طرف جھک گئے گئے ہیں؟ اور ہم دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں 841
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ گھانا تحریک جدید - ایک الہی تحریک دیکھتے ؟ کیا اخوت کو وہ نمونہ ہم دکھا رہے ہیں، جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم ایسے ہو جاؤ، جیسے ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے دو بھائی؟ کیا خدا کا خوف دلوں میں جاگزیں ہو گیا ہے؟ ایسا خوف کہ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.گر آں چیزے کہ مے بینم غریزاں نیز دیدندے زونیا توبه کردند بچشم زار و خوانبارے کہ وہ چیز ، جو میں دیکھتا ہوں، دوسرے عزیز بھی دیکھیں تو دنیا سے توبہ کرلیں اور خون کے آنسو روئیں.کیا زہد، خداترسی، تقوی، پرہیز گاری، نرم ولی جیسے اعلیٰ خلق، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جلسہ کے ذریعہ ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے، وہ ہم میں پیدا ہو گئے ہیں؟ کیا دینی مہمات کے لئے ہم کمر بستہ ہو گئے ہیں؟ کیا ہم نے اس بار کو اٹھانے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لیا ہے، جو ہمارے کندھوں پر رکھا گیا ہے؟ کیا ہم دوسروں کے لئے نیکی میں نمونہ بن گئے ہیں؟ کیا انکساری، تواضع اور راست بازی ہمارا شعار بن چکا ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خدام کو یہ ماٹو دیا تھا کہ: تیری عاجزانہ را ہیں اس کو پسند آئیں" پس عاجزی سے، نمناک آنکھوں سے شکر گزار دل سے آگے بڑھیں اور اس سے دعائیں کرتے ہوئے عمل میں جت جائیں کہ ہمارے خدا کو عاجزی اور انکساری پسند ہے.متکبر تو خدا سے لڑتا ہے.اور خدا سے لڑنے والا کب کامیاب ہوتا ہے؟ کبر اور بڑائی خدا کا لباس ہے، عاجز بندوں کو یہ لباس زیب نہیں دیتا.شہادت القرآن میں مامور زمانہ فرماتے ہیں:.وو مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا مجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے ہیں.اور کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے اور اپنے رب اور کریم کو یا درکھتے ہیں اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں.( شہادت القرآن صفحہ 102 ، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398) شجر احمدیت کی سرسبز شاخو! اس کے بعد میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ افریقہ میں تبلیغ اسلام چاہتا تبلیغ کی طرف حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خاص وجوہات کی بنا پر توجہ فرمائی تھی.خدا کی تقدیر ہے کہ 842
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ گھانا سرزمین افریقہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں خاص رول ادا کرے گی.یہ سرزمین نہ صرف یہ کہ خود اسلام کے نور سے منور ہوگی بلکہ یہ اس روشن دنیا کو بھی منور کرے گی.اور دنیا أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا کے جلوہ کو مشاہدہ کرے گی.افریقہ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.وہاں کے باشندوں میں اسلام کا تعارف اور استحکام نہ صرف ان لوگوں کی زندگی کا باعث ہوگا بلکہ ساری دنیا کو زندہ کرنے کا موجب بن جائے گا“.عزیز بھائیو! خوشی سے اچھلو کہ خدا کی نگاہ انتخاب تم پر پڑی ہے.نہ صرف یہ کہ آپ کو نئی زندگی نصیب ہوگی بلکہ آپ دوسروں کو زندہ کرنے کا موجب ہوں گے.آپ کے ہاتھوں میں آج آب حیات کے جام تھمائے گئے ہیں.اٹھو اور پیاسی دنیا کو اسلام کے پیغام سرمدی سے روشناس کرو.غلبہ اسلام کا جو وعدہ اللہ نے اس آیت میں بیان فرمایا :.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ یہ مہدی موعود کے وقت میں پورا ہوگا.پس اپنی کوششوں کو خدا کی تقدیر سے ہم آہنگ کروتا اس کی منشاز مین پر آ جائے.میں ان قدموں کی چاپ سن رہا ہوں، جو فوج در فوج اسلام کے دامن اور قلعہ میں داخل ہوں گے.ان شاء اللہ ، وہ دن دور نہیں، جب دنیا يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرے گی.میری آنکھ اسلام کے جھنڈے کو بلند ہوتے اور کفر کے سارے جھنڈوں کو سرنگوں ہوتے دیکھ رہی ہے.یہ خدا کی تقدیر ہے، جو پوری ہو کر رہے گی.دنیا کی کوئی طاقت اب اس کو روک نہیں سکتی.جب کابل میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف نے اپنے خون سے شجر احمدیت کو سینچا تو مامور زمانہ نے اپنی کتاب تذکرۃ الشهادتين تالیف فرمائی.جس میں شہید مرحوم کی ایمانی جرات اور صدق و وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.”اے عبداللطیف! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا.اور جولوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد ر ہیں گے، میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے؟“ ( تذكرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد 20 صفحه 60) 843
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ گھانا اس کتاب کے آخر میں حضور فرماتے ہیں:.اور ڈر تحریک جدید - ایک الہی تحریک اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے، جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا، جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور ہر ایک کو، جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے، نامرادر کھلے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحه (66) پس اٹھو اور دیکھو کہ افق پر غلبہ اسلام کو سوبر طلوع ہو رہا ہے.غفلت کے لحاف پھینک دو اور اس کے استقبال کے لئے تیار ہو جاؤ اور آگے بڑھو.ان دنوں کے استقبال کے لئے ، اس کی حمد اور کبریائی کے ترانے گاتے ، آگے آؤ.خدا آپ کے ساتھ ہو.آپ کے قدموں کو استحقام بخشے.آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے.آپ کو غلبہ اسلام کے لئے ان مساعی کی توفیق بخشے، جو اس کی رضا کا موجب ہوں.مجھے امیر صاحب کے خط سے معلوم ہوا ہے کہ اب گھانا کے معاشی حالات قدرے سدھرے ہیں.اللہ ہم ضعیف بندوں کی دعاؤں کو قبول فرمائے.میں اور جماعت کے دوسرے احباب آپ کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ملک کو ہر مصیبت سے نجات دلائے اور آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ ملکی ترقی کے لئے بھی دوسروں سے بڑھ کر خدمات بجالا سکیں.یہ آپ کا دینی اور ملی فرض ہے.آپ مصیبت زدہ بھائیوں کی ہر طرح مدد کریں کہ ان کی خدمت آپ کا ملکی اور ملی فرض ہے.خدا آپ کے ساتھ ہو.آپ کا حافظ و ناصر ہو.آپ کے قدموں کو ثبات و استحکام عطا فرمائے.آپ کو دین و دنیا میں ترقیات عطا فرما دے.(آمین) والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد ( مطبوعه روز نامه الفضل 24 جنوری 1984ء) 844
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد شم پیغام بر موقع آل کیرالہ احمدیہ بر انسانیت کو بچانے کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے پیغام بر موقع آل کیرالہ احمدیہ مسلم کا نفرنس منعقدہ 13 تا 15 جنوری 1984ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ عزیز بھائیو اور بہنو! هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ جماعت ہائے احمدیہ کیرالہ اپنا سالانہ جلسہ مؤرخہ 13,14 اور 15 جنوری کو Kodyathur میں منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو بہت بابر کت کرے.اسے کیرالہ فضلوں سے میں اور تمام بھارت میں اشاعت اسلام کا ذریعہ بنائے.اور شامل ہونے والوں کو اپنے نوازے.اور انہیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ وہ جو کچھ اس جلسہ میں سیکھیں، اس پر عمل کر سکیں.آمین گزشتہ سال مشرق بعید کے دورہ سے واپسی پر سری لنکا میں بھارت کی جماعت ہائے احمدیہ کے احباب اور نمائندگان سے ملنے اور ان کے حالات معلوم کرنے اور تبلیغ اسلام کے لئے نئی تجاویز سوچنے اور نئے منصوبے تیار کرنے کا موقع بھی ملا تھا.اور اس موقع پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سپرد کی گئی، اس عظیم ذمہ داری کو پورا کر نے لئے میں نے ہدایات بھی دی تھیں.مجھے امید ہے کہ آپ اور بھارت کے دیگر احمدی دوست ان ہدایات پر عمل کرنے کے لئے کوشاں ہوں گے.اور تبلیغ اسلام کے کام کو وسیع کرنے کے لئے مقدور بھر کوشش کر رہے ہوں گے.حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا کا ہر ملک اور ہر قوم ایک عظیم خطرے سے دوچار ہے اور ایک بھیانک تباہی اس کی منتظر ہے.انسانیت کو اس عظیم خطرے اور تباہ کن انجام سے بچانے کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے.پس آپ کے اس جلسہ کے موقع پر میں آپ کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اپنی اس ذمہ داری کا احساس کریں اور تمام دنیا کوتاہی سے بچا کر فلاح اور کامیابی اور امن اور سلامتی کی راہ پر لے جانے 845
پیغام بر موقع آل کیرالہ احمد یہ مسلم کا نفرنس تحریک جدید - ایک الہی تحریک والی اس عظیم مہم کے لئے اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو تیار کریں.تقویٰ کی راہ پر قدم ماریں.دنیا اور اس کی لذتوں پر فریفتہ مت ہوں کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں.اپنے خالق و مالک سے اپنے پیوند کو مضبوط کریں.خدا کے لئے تھی کی زندگی کو اختیار کریں کہ وہ درد، جس سے خدا راضی ہو ، اس لذت سے بہتر ہے، جس سے خدا ناراض ہو جائے.اور شکست، جس سے خدا خوش ہو جائے ، اس فتح سے بہتر ہے، جو غضب الہی کی موجب ہو.اپنے دلوں، اپنے ذہنوں، اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں کو پاک کر کے اپنے خدا کے حضور جھکیں اور اس سے مدد مانگیں کہ وہ آپ کو اس ذمہ داری کو پورا کرنے اور اس فرض کو ادا کرنے کی ہمت بخشے، جو اس نے آپ کے سپرد کیا ہے.دنیا کو مصائب اور آلام سے نجات دلانے اور امن اور سلامتی کی راہ پر چلانے کا یہ عظیم بوجھ اٹھانا، ہمارے بس کی بات نہیں.یہ کام ہماری طاقت سے بڑھ کر اور یہ ذمہ داری ہماری ہمت سے نہیں زیادہ ہے.پس اپنے خدا کے حضور جھکیں کہ وہی ہے، جو تمام طاقتوں اور تمام قوتوں کا سر چشمہ ہے.اور وہی ہے، جو ہماری کوششوں اور قربانیوں میں برکت ڈال سکتا ہے.اپنی راتوں کو زندہ کریں اور اپنی آنکھوں کے پانی سے اپنی سجدہ گاہوں کو تر کر دیں.اور بے چین دل اور مضطرب روح کے ساتھ اپنے قادر و توانا خدا کے حضور عرض کریں کہ اے ارحم الراحمین! آج دنیا تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے اور ایک ہولناک مستقبل تیری مخلوق کے انتظار میں ہے.اے ہماے آقا! اور اے ہمارے مالک !! تو نے دنیا کو اس تباہی سے بچانے کا عظیم کام ہمارے سپرد کیا ہے اور ہمارے دلوں میں یہ تڑپ پیدا کی ہے کہ ہمارے بھائی تباہی اور بربادی کی طرف لے جانے والے اس راستہ کو چھوڑ کر امن اور سلامتی کی راہ پر قدم ماریں.تو اے ہمارے رحمن اور رحیم خدا! ہمیں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی توفیق بھی عطا فرما.اے جی و قیوم خدا! ہماری عاجزانہ دعائیں سن اور ہمیں وہ قوت دکھا کہ دنیا ایک اور رنگ میں آجائے.اور مصائب اور آلام اور تکالیف کے بادل چھٹ جائیں اور تمام انسانیت سلامتی اور امن کے شہزادہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.اے ہمارے قادر خدا! ہمیں یہ تبدیلی دنیا میں دیکھا اور ہماری دعائیں قبول کر کہ ہر طاقت اور قوت تجھ ہی کو ہے.والسلام خاکسار ( وشخط) مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روز نامه الفضل یکم مارچ 1984ء، نیشکر هفت روزه بدر قادیان 9 فروری 1984 صفحه 5 846
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جنوری 1984ء وو بندگی کے ساتھ دعا کرنے کی عادت ڈالیں خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جنوری 1984ء گذشتہ خطبہ جمعہ میں، میں نے دعا کی ایک تحریک کی تھی.احباب اسے بھولیں نہیں.یہ بہت ہی بے صبری ہوگی بلکہ گستاخی ہوگی اور کبر اور انانیت ہوگی کہ ایک ہفتہ کی دعا کے بعد لوگ یہ سوچنے لگیں کہ اللہ نے دعا قبول نہیں کی، اس لئے اب دعا کرنا چھوڑ دو.ایسے ایسے بزرگوں کے ذکر بھی ملتے ہیں، جنہوں نے دعائیں کرتے ہوئے عمر کا ایک حصہ گزار دیا اور خدا تعالیٰ ان کو نا منظوری کی اطلاع دیتا تھا.اور وہ صبر سے قائم رہے.یہاں تک کہ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سارے عرصہ کی تمام دعائیں قبول فرما لیں.اس لئے بندہ بہنیں اور بندگی کے ساتھ دعا کرنے کی عادت ڈالیں اور بجز اور انکساری کے ساتھ دعائیں کرتے رہیں.وہ مالک ہے، ہم اس کے بندے ہیں، وہ جب چاہتا ہے، ہماری دعا ئیں حیرت انگیز طور پر قبول فرما کر ہمارے دلوں کو خوشی سے بھر دیتا ہے.اور جب دعائیں قبول نہیں کرتا تو ہمیں بتاتا ہے کہ میں مالک ہوں ہم بندے ہو، بجز اور بندگی کے مقام پر قائم رہو.اس لئے رحمت باری کے لئے دعا نہیں چھوڑنی.اور جیسا کہ میں نے کہا تھا، صرف اپنے ملک کے لئے بارش کی دعا نہ کریں بلکہ افریقی ممالک کے لئے بھی دعا کریں.ان کی حالت بہت ہی دردناک ہے.بی بی سی کی خبروں میں، میں نے سنا کہ آدھا افریقہ گویا بھوک سے مرنے کی راہ دیکھ رہا ہے.یعنی افریقہ کی آدھی آبادی کے متعلق اب ماہرین کو یہ خطرہ نظر آ رہا ہے کہ اگر اب بارشیں نہ ہوئیں تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے.غرض بڑی تکلیف دہ اور دردناک حالت ہے.یہاں تک کہ لاکھوں جانور بھوک سے مر چکے ہیں اور بعض علاقوں میں جانوروں کے پنجروں کے پنجر پڑے ہوئے نظر آتے ہیں.اس لئے درد اور الحاح سے دعا ئیں جاری رکھیں.جب دوسروں کا درد محسوس کریں گے تو اللہ آپ پر بھی زیادہ رحمتیں نازل فرمائے گا.پس ان دعاؤں کو نہیں بھولنا اور نہیں چھوڑنا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بارشیں برسائے.اور اسی طرح جیسا کہ میں نے تحریک کی تھی ، عرب بھائیوں کو بھی اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے یاد رکھیں اور اس دعا کو بھی بالکل نہیں چھوڑنا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ان پر بھی نازل ہونے لگیں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 18 مارچ 1984 ء ) 847
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک وو اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 جنوری 1984ء درد سے دعائیں کرتے رہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جنوری 1984ء گذشتہ دو خطبات میں، میں نے دعا کی طرف توجہ دلائی تھی.آج پھر انہیں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ایک تو بارش کے لئے دعا جاری رکھیں.اپنے ملک کے لئے بھی اور دنیا کے دیگر ممالک کے لئے بھی ، جہاں خشک سالی ایک بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے.گذشتہ جمعہ جو ہم نے دعا کی تحریک کی تھی ، خاص طور پر گھانا کے متعلق بہت ہی فکر تھی ، وہاں جماعتیں بھی بڑی تعداد میں ہیں اور بڑے دردناک واقعات کی اطلاعات وہاں سے مل رہی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ اتوار کوگھانا سے چلی ہوئی تار موصول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ملک میں بڑی وسیع بارش فرمائی ہے.اور اس سے دل بہت خوش ہوئے ہیں.تو ہم بھی ان کی خوشی میں شریک ہیں اور جن ملکوں میں ابھی بارش نہیں ہوئی، ان کے متعلق دعا جاری رکھیں.اسی طرح عربوں کے متعلق بھی خاص طور پر دعا جاری رکھیں.بہت ہی پیار اور محبت ہونی چاہیے عرب قوم کے لئے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس قوم سے تشریف لائے.اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سچا عشق ہو تو آپ کی قوم سے محبت تو ایک طبعی بات ہے.کہتے ہیں، لیلی کے کتے سے بھی مجنوں کو پیار تھا.تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم قوموں سے ہمیں پیار نہ ہو، یہ ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے عربوں کے لئے بالخصوص بہت درد سے دعائیں کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حالات بدل دے اور ان کی طرف سے ہم خوشیوں کی خبریں پائیں.( مطبوعه روز نامه افضل 26 مارچ 1984ء) 849
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون جو آج اس غلبہ اسلام کے لئے سرگرداں ہیں، عزت کا تاج ان کے سروں پر ہوگا پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون منعقدہ 10 تا12 فروری 1984ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر مسیح پاک کے دامن سے وابستہ ہونے والو! اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے علم بردارو!! میرے پیارے احباب جماعت سیرالیون !!! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کے اس اجتماع کو ہر جہت سے آپ کے لئے ، آپ کے ملک کے لئے بابرکت فرمائے.جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لئے مسیح پاک علیہ السلام نے جو دعائیں کی ہیں ، وہ سب آپ کو پہنچیں.جو احباب کسی مجبوری کی وجہ سے اس بار شامل نہیں ہو سکے، اللہ تعالیٰ انہیں ان کی نیتوں کے مطابق ثواب عطا فرمادے اور آئندہ سالوں میں انہیں اس اجتماع میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمادے.عزیزو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیعت کے وقت جن امور کی تاکید فرمایا کرتے تھے، ان میں سے ایک اطاعت ہے.حضرت عبادہ بن صاحت روایت کرتے ہیں کہ :.بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة في منشطنا ومكرهنا وعسرنا ويسرنا واثرة علينا ولا تنازع الدمراهله کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امر پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے.خواہ وہ امر ہماری مرضی کے مطابق ہو یا خلاف.خواہ تنگی ہو یا آسائش.خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے.اور یہ کہ جن کے سپر د ہمارا معاملہ ہے، ان سے جھگڑا نہ کریں گے.851
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون تحریک جدید - ایک الہی تحریک اسلام کے پہلے عرب اپنی خود پسندی اور انانیت کی وجہ سے اس امر پر فخر کرتے تھے کہ ہم کسی کی اطاعت نہیں کرتے.ہم مطیع نہیں، مطاع ہیں.اور اپنی جھوٹی انا کی خاطر بعض اوقات خون ریز جنگیں لڑتے ، بیسیوں خاندان تباہ ہو جاتے اور کئی جانیں تلف ہو جاتیں.اس کی وجہ سے کئی دفعہ ان کی قومی زندگی خطرہ میں پڑا جاتی.اسلام نے آکر انہیں وحدت کا سبق دیا، اطاعت کی تلقین کی.عرب، جو ریت کے ذروں کی مانند متفرق تھے ، اب ایک مضبوط چٹان بن گئے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنی اس نعمت کا ذکر یوں فرماتا ہے:.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا (آل عمران: 104) کہ خدا کی رسی کو اکٹھے ہو کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو.اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم باہم دشمن تھے ، اس خدا نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کی.جس کے نتیجہ میں تم بھائی بھائی بن گئے.تم آگ کے گڑھے کے کنارہ پر تھے، خدا نے تمہیں اس سے بچالیا.اس سورۃ میں آگے چل کر فرمایا:.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنَتُ وَأُولَكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمُ (آل عمران : 106) کہ دیکھو اب ان لوگوں کی طرح نہ ہونا، جنہوں نے تفرقہ اور اختلاف کیا بعد اس کے کہ ان کے پاس کھلے کھلے نشانات آئے.یہی لوگ ہیں، جن کے لئے درد ناک عذاب ہے.ابن جریح راوی ہیں کہ جب یہ آیت اتری.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ کہ اے ایمان دار و اللہ کی اطاعت کرو، اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے امیروں کی اطاعت کرو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.فقد من اطاعني فقد اطاع الله ومن يعصنى الله ومن يعطع الأمير فقد اطاعنى ومن يعص الأمير فقد عصاني 852 (مسلم باب وجوب طاعتہ الامراء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون کہ جس نے میری اطاعت کی، اس نے خدا کی اطاعت کی.اور جو میری نافرمانی کرے گا ، و خدا کا نافرمان ہے.اور جو امیر کی اطاعت کرتا ہے، اس نے میری اطاعت کی.اور جو امیر کی نافرمانی کرتا ہے یا کرے گا، اس نے میری نافرمانی کی.واضح رہے کہ عربی میں مضارع ، حال اور مستقبل دونوں زمانوں پر حاوی ہوتا ہے.پس میری پہلی نصیحت اور پیغام آپ سے یہی ہے کہ اطاعت کا سبق اختیار کیجئے.اطاعت صدیق بناتی ہے، اطاعت نور الدین بناتی ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.صحابہ کے دلوں پر نور اطاعت رسول کے نتیجہ میں نازل ہوا.المفوظات جلد اوّل صفحہ 188 حضرت مسیح موعود کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں پھر ایک ہاتھ پر جمع کیا ہے.ہم نے حبل اللہ کو تھاما ہے.اس کو مضبوطی سے تھام لو اور ہر قسم کے تفرقہ سے بچو کہ تفرقہ اور اختلاف جماعتی طاقت کو کمزور کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمُ (انفال: 47) کہ آپس میں اختلاف نہ کر دور نہ دل چھوڑ بیٹھو گے اور تمہاری طاقت جاتی رہے گی، ہوا اکھڑ جائے گی.حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.من فارق الجماعة شبراً فمات مية جاهلية“.(مسلم باب وجوب معذرت جماعت اسلمین ) کہ جو جماعت سے ایک بالشت بھی ادھر ادھر ہوا ، وہ گویا اسلام سے پہلے جاہلیت کی زندگی کی طرف عود کر گیا.پس سیرالیون میں بسنے والے احمد یو! میرا پیغام یہ ہے کہ اطاعت کو لازم پکڑو کہ یہ خدا کے فضلوں کو جذب کرنے کا ذریعہ ہے.تفرقہ نہ کرو کہ یہ جماعت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے اور خدا کی ناراضگی کا سبب.تاریخ اسلام شاہد ہے، جب تک مسلمانوں میں خلافت راشدہ رہی، نبوت سے متعلق انعامات مسلمانوں کو ملتے رہے.وہ ایک ہاتھ پر جمع رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے راشدین کے طریق کو اپنانے کی تلقین فرمائی.آپ فرماتے ہیں:.علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين 853
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اب پھر یہ نعمت خلافت بموجب حدیث خدا نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمائی.اس نے مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے یہ نعمت عطا فرمائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب شہادۃ القرآن میں خلافت کا فلسفہ بیان فرماتے ہوئے یہی فرماتے ہیں کہ نبوت کی نعمت کو لمبا کرنے کے لئے خدا خلافت کے سلسلہ کو جاری فرماتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے قدرت ثانیہ کے نام سے موسوم فرمایا ہے.اور اسے ہمارے لئے بہتر اور دائمی قرار دیا ہے.احمدیت کی تاریخ گواہ ہے کہ جو گروہ خلافت سے وابستہ رہا، ترقی کی منازل کی طرف وہی گامزن ہوا.اور جنہوں نے خدا کی اس نعمت کی ناقدری کی ، وہ اوج ثریا سے زمین پر آرہے.پس عزیز و دوسری میری نصیحت اور پیغام آپ سے یہ ہے کہ خلافت احمدیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے تحت قائم ہوئی.اس نعمت کی قدر کرو.خدا کی نعمت کی قدر اس کی برکت کو آپ کے لئے بڑھائے گی.مسیح پاک کے درخت وجود کی سرسبز شا خو! مسیح پاک فرماتے ہیں.میں وہ درخت ہوں، جو قادر خدا نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.آپ کے آنے کی غرض خدا نمائی تھی.اس غرض کو وہی پورا کرتا ہے، جو اپنے اعمال میں لاہمیت پیدا کرتا ہے.جس کے اعمال ، حرکات و سکنات خدا کے لئے ہیں، جس کی اپنی کوئی غرض نہیں، جس نے اپنی خواہشات اور ارادے خدا کے لیے وقف کیے، وہی مقبول بارگاہ اللہ ہے اور وہی خداوند کریم سے ثواب کا مستحق ہے.پس دین کو خالص اللہ کے لئے کرو کہ خدا کی رضا کے دروازے سے کوئی نفس کی فربہی رکھنے والا داخل نہیں ہوسکتا.وہ فرماتا ہے:.أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ (زمر:04) که سنو! سنو!! دین کو خدا کے لئے خالص کرو.تقوی اختیار کرو کہ ہر نیکی کی جڑ تقویٰ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یدا ہامی مصرعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے کلام میں بار بار تقویٰ کے حصول کی طرف توجہ دلائی ہے.آپ فرماتے ہیں:." یقیناً یادرکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا، جو تقویٰ سے خالی ہے.ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے.جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی ، وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا“.کشتی نوح صفحه 15 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17) 854
تحریک جدید - ایک الہی تحریک یام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون حضور فرماتے ہیں:.” جب تک کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں متقی نہ بن جائے ، خدا کی نصرت اس کے شامل حال نہیں ہو سکتی.عزیز و! اگر خدا کی نصرت حاصل کرنا چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو.پاک تبدیلی پیدا کرو کہ اللہ انہیں سے خارق عادت سلوک کرتا ہے، جو اپنے اندر خارق عادت تبدیلی پیدا کرتے ہیں.اور آخری نصیحت اور میرا پیغام آپ کو یہ ہے کہ عجب اور دریا سے پر ہیز کر و.خود پسندی اور دکھلاوے کے لئے کام نہ کرو.یہ خدا کو پسند نہیں بلکہ وہ اس کی ناراضگی کا باعث بنتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.من برائ برائ الله به ومن يسمع يسمع الله به“.ترندی باب ما جاء في الرياء والسمعة ) کہ جولوگوں کے دکھلاوے کے لئے کام کرتا ہے، اللہ اس کے عیوب کو ظاہر کرتا ہے.اور جو اپنے کاموں کی تشہیر کی خاطر کام کرتا ہے، اللہ اس کے عیوب کی تشہیر کرے گا.امام ترمذی اس باب میں ایک لمبی حدیث شفیا اور بیجی سے لائے ہیں کہ قیامت کے دن ایک مالدار، ایک قرآن کا قاری، ایک عالم لایا جائے گا.خدا ان سے دریافت فرمائے گا، تمہیں مال ، علم ، قرآن، دیا تھا، بتاؤ تم نے کیا کیا؟ وہ کہیں گے، خداوند! امال ، علم، قرآن سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا.اللہ کہے گا تو نے یہ سب کچھ اس لئے کیا تھا کہ لوگوں سے واہ واہ حاصل کرے، سو تمہیں یہ غرض حاصل ہو گئی.جاؤ، اب مجھ سے کس ثواب کے امید وار ہو.حدیث میں آتا ہے، یہ تین وہ پہلے آدمی ہوں گے، جن پر جہنم کی آگ بھڑ کائی جائے گی.پس تکبر اور ریا سے بچو.خود نمائی کو ترک کر دو کہ مومن صرف خدا کے لئے نیکیاں بجالاتا ہے.اور یہ دونوں بدخلق تو نیکیوں کو ضائع کرتے ہیں.مامور زمانہ فرماتے ہیں:.عجب اور ریاء بہت مہلک چیزیں ہیں، ان سے انسان کو بچنا چاہیے.انسان ایک عمل کر کے لوگوں کی مدح کا خواہاں ہوتا ہے.بظاہر وہ عمل عبادت وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے، جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو.مگر نفس کے اندر ایک خواہش پنہاں ہوتی ہے کہ فلاں فلاں لوگ مجھے اچھا کہیں.اس کا نام ریا ہے.اور عجب یہ کہ انسان اپنے 855
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سیرالیون تحریک جدید - ایک الہی تحریک عمل سے اپنے آپ کو اچھا جانے کہ نفس خوش ہو.ان سے بچنے کی تدبیر کرنی چاہئے کہ اعمال کا اجر ان سے باطل ہو جاتا ہے..ریا اور عجب بڑی بیماریاں ہیں، ان سے بچنا چاہیے اور بچنے کے لئے تدابیر بھی کرنی چاہئیں اور دعا بھی کرنی چاہیے.( ملفوظات جلد 6 صفحہ 336-335 عزیز و ا تم خوش قسمت ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے مسیح کے لئے منتخب فرمایا.آج اسلام کے غلبہ کی مہم کے لئے اس قادر مطلق نے تم کو چنا.سو اپنے فرض کو پہچانو ، خدا کی نعمت کا شکر ادا کرو.جس حبل اللہ کو تم نے تھاما ہے، اسے مضبوطی سے تھامے رکھو.میں وہ دن سامنے دیکھ رہا ہوں، جب دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا، یعنی اسلام اور ایک ہی حکم ہوگا.لا الہ الا الله محمد رسول الله جو آج اس غلبہ اسلام کے لئے سرگرداں ہیں ، عزت کا تاج ان کے سروں پر ہو گا.ان کی نسلیں اس خدمت پر فخر کریں گی.لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ نیکی میں قدم آگے بڑھاتے جاؤ اور کوئی ایسا عمل اور حرکت نہ کرو، جو اس مشن کو کمزور کرنے کا موجب ہو.اسلام کے قلعہ کے سپاہی بنے ہو تو سینے تان کر آگے بڑھو.اس نیک مقصد کے لئے جانیں نچھاور کرو کہ جو اس کے لئے موت کو قبول کرتا ہے، اللہ اسے نئی زندگی عطا کرتا ہے.پس زندگی کے خواہاں بنو.خدا تمہیں ابدی زندگی عطا کرے.آمین.یا رب العالمین.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع مطبوعه روزنامه الفضل 27 فروری 1984ء ) | 856
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبه جمعه فرمودہ 30 مارچ 1984 ء واقفین زندگی کی ضرورت اور صد سالہ جو بلی فنڈ کی ادائیگی کی تلقین خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مارچ 1984ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ساتھ ساتھ جو روز وشب وسعت پذیر ہیں، جماعت احمدیہ کے کام بھی پھیلتے جاتے ہیں، کاموں کے تقاضے بھی بڑھ رہے ہیں اور ذمہ داریاں بھی پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اور بڑھتی چلی جارہی ہیں.یہ وسعتیں، جو کاموں میں اور ذمہ داریوں میں ہیں، مزید فضلوں کا تقاضا کرتی ہیں.لیکن یہ ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل پھر کاموں کو بڑھا دیا کرتے ہیں، کم نہیں کیا کرتے.اور ذمہ داریوں کو بھی پہلے سے زیادہ بلند کر دیتے ہیں اور ان میں وسعت پیدا کر دیتے ہیں.بہر حال ہم اس آگے بڑھنے والی، ہمیشہ آگے بڑھنے والی دوڑ پر بہت راضی ہیں.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ فضل کرتے ہوئے تھکتا ہے، نہ ایسی جماعتوں کو تھکنے دیتا ہے، جو اس کے فضلوں کی وارث بنتی ہیں.آج میں خاص طور پر اس نقطہ نگاہ سے دو امور کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.صدر انجمن میں بھی اور تحریک جدید میں بھی جس تیزی سے کام پھیل رہے ہیں، اس کا تقاضا یہ ہے کہ نئے نئے واقفین آگے آئیں.جب گزشتہ سال میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد وقف کی تحریک کی تھی تو خدا تعالیٰ کے مل سے ایک بہت بڑی تعداد نے اپنے آپ کو پیش کیا.اور یوں لگتا تھا کہ وہ ضرورت سے بڑھ جائے گی تعداد.اور جب ان کو مختلف شعبوں میں لگایا گیا تو معلوم یہ ہوا کہ شعبے آنے والوں کی تعداد کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیلنے لگے.صدر انجمن میں ہی مثلاً اس سال تصنیف و اشاعت کا کام بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، ان کو نئے آدمی بھی دیے لیکن پھر بھی ابھی ضرورت پھیلتی چلی جارہی ہے.تعلیم کا جو کام زیر نظر ہے، اس کے پیش نظر موجودہ اسٹاف کام نہیں کر سکتا، پورانہیں اتر سکتا اس کام پر.اور چند مہینے کے اندر اندر ایسے واقفین کی ضرورت پڑے گی، جو تعلیم کے ماہرین ہوں.جہاں تک مستورات کا تعلق ہے، خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ واقفات مل گئیں ہیں، جنہوں نے بچیوں کو تعلیم دینے کے سلسلہ میں اپنے نام پیش کئے ہیں.اور پانچوں نے ساتھ یہ لکھا ہے کہ ہم خالصہ 857
خطبه جمعه فرمودہ 30 مارچ 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم رضا کارانہ کام کریں گی.اور اگر ہمیں کہا جائے تو فوری طور پر استعفیٰ دے کر بھی آنے کے لئے تیار ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خواتین میں بھی جذبہ بہت ہی بڑھتا چلا جارہا ہے ،خدمت کا.لیکن لڑکوں کے سکولوں کے لئے اور بہت سے ایسے کام زیر نظر ہیں، جن کے لئے اسی طرح ایسے اساتذہ کی ضرورت ہوگی، پروفیسرز کی ضرورت ہوگی ، جو دنیا میں اپنے کام کرنے کے بعد یہ محسوس کریں کہ اب کافی ہوگئی.اب ہمیں بقیہ زندگی خدا تعالیٰ کی خاطر خالصہ وقف کر دینی چاہئے.ایک وقت تک انسان کے لئے دنیا کمانا بھی ضروری ہے، انہی لوگوں کا پیسہ پھر سلسلہ کو بھی ملتا ہے اور پھر کئی طرح سے فائدے پہنچتے ہیں.لیکن بہت سے ایسے طبقے ہیں، جن میں ایک عرصہ تک خدمت، دنیا کمانے کے بعد پھر اتنا پس انداز کر لیتے ہیں اور بعض دفعہ ان کو نئے ذرائع آمدمل جاتے ہیں.بعض دفعہ فارغ ہو جاتے ہیں، بچوں سے اور جو پینشن ہے ، وہی کافی ہو جاتی ہے، بقیہ وقت کے لئے.تو ایسے لوگ میرے پیش نظر ہیں، وہ بآسانی بقیہ وقت خالصہ اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں.اور اب تک جنہوں نے کیا ہے، ان کا معیار خدا کے فضل سے بہت ہی بلند ہے.پرائیوٹ سیکرٹری میں بھی کام بہت وسعت پذیر ہے.اور بہت سے کاموں کا بوجھ واقفین نے اٹھایا ہوا ہے.اور باوجود اس کے ایک دمری بھی سلسلہ سے وہ نہیں لے رہے.کام وہ اتنا کرتے ہیں کہ بعض دفعہ وہ راتوں کو گھر کام لے جاتے ہیں اور وہاں جا کر بہت دیر تک گھروں پر بھی ان کو کام کرنا پڑتا ہے.لیکن ان کا رد عمل یہ ہے، اس کام کے نتیجہ میں کہ بعض نے ہمیں کہا کہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں زندگی کا مزہ اب آیا ہے.اور پہلے تو یوں لگتا تھا کہ کام سے فارغ ہو کر موت کا انتظار ہے.اب ایک بالکل نئی زندگی ملی ہے، جو پہلی زندگی سے بہت بہتر ہے اور بہت زیادہ پر لطف ہے.اسی طرح ہمارا ایک نیا شعبہ قائم ہوا ہے، اعداد و شمار اکٹھے کرنے کا.سمعی و بصری شعبہ ہے، تحریک جدید میں.تمام دنیا کے کوائف کو چارٹس کی صورت میں ڈھالنا.اس میں مشتاق احمد صاحب شائق ہیں، مثلاً واقف زندگی، بہت ہی اچھا کام ہورہا ہے، ان سب شعبوں میں اور مزید ضرورت محسوس ہورہی ہے.یعنی پہلے لگتا تھا کہ یہ سٹاف کافی ہو جائے گا ، اب جو کام پھیلا ہے تو اور بہت سے ماہرین کی ضرورت ہے، جو اپنے اپنے فن میں دین کی خدمت کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.امور عامہ کا کام بھی بہت بڑھ گیا.فضل عمر ہسپتال امور عامہ کے ساتھ منسلک ہے.اس میں بھی بہت سی نئی آسامیوں کے اضافے ہوئے ہیں.بکثرت اور تعمیرات بھی نئی ہو رہی ہیں اور بہت زیادہ اس کی و 858
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مارچ 1984ء وسعت ابھی پیش نظر ہے.کئی نئے شعبے اس میں قائم کرنے ہیں.تو ڈاکٹر ز کی بھی ضرورت ہے، کمپوڈرز کی بھی ضرورت ہے کلینکل ٹیسٹ کرنے والوں کی بھی ضرورت ہے، نرسز کی بھی ضرورت ہے ، لیڈی ڈاکٹرز کی ضرورت ہے.امور عامہ کے ساتھ جو کام وابستہ ہیں خدمت خلق کے، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ اب صدر انجمن نے یہ مشور دیا ہے کہ ایک نظارت خدمت خلق الگ قائم کی جائے.اور وہ نظارت کے کام، جوان کے پیش نظر ہیں، وہی اتنے زیادہ ہیں کہ ایک بہت اچھی خاصی مضبوط نظارت قائم کرنی پڑے گی.تو ایک نظارت کے لئے پھر نیا سٹاف چاہئے ہوگا.شعبه زود نویسی کا کام بہت بڑھ گیا ہے، پہلے سے تعمیرات کے لئے ایک الگ شعبہ قائم کیا گیا تھا.کئی واقفین بھی اس میں آئے لیکن اب محسوس ہورہا ہے کہ اور بہت سے خدمت کرنے والوں کی ضرورت ہے.ریٹائر ڈ انجینئر ز اور سٹیر ز،نقشہ بنانے والے.غرض یہ کہ ہر طرف نظر ڈال کے دیکھیں تو کام پھیلتا چلا جا رہا ہے.اور یہ اللہ تعالی کا غیر معمولی احسان ہے، جماعت کے اوپر کہ وہ ہمارے کام بڑھا رہا ہے.تو اس کے لئے واقفین چاہئیں.اگر کسی شخص کے حالات ایسے ہوں کہ وہ کلیہ سو فیصدی رضا کارانہ وقف نہ کرسکتا ہوتو ہمارا طریق کار یہ ہے کہ حسب حالات ان سے معاملہ طے کر لیتے ہیں.بعض ایسے واقفین ہیں، جو کہتے ہیں میں حاضر ہو جاتا ہوں لیکن دو جگہ خاندانوں کے بوجھ اٹھانے پڑیں گے اور کئی ذمہ داریاں ہیں، اس لئے معمولی گزارہ جو خوشی سے جماعت دے سکتی ہے، اس پر میں راضی ہوں.تو ایسے واقفین بھی ان میں سے ہیں، جن کے ساتھ ہم یہ معاملہ طے کر لیتے ہیں اور افہام وتفہیم کے ذریعہ اچھی طرح گزارہ چل جاتا ہے.تو بہر حال بہت وسیع پیمانے پر اب ہمیں ایسے فن کاروں کی ضرورت ہے، جو کسی نہ کسی فن میں تجربہ رکھتے ہوں.اور اپنے نام پیش کریں.جہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے، تحریک جدید میں کئی وکالتوں کا اضافہ ہو چکا ہے.ایک وکیل التصنیف ایڈیشنل بنایا گیا ہے، وکالت مال ثالث، نئی وکالت قائم ہوئی ہے، وکالت صد سالہ جوبلی، وکالت اشاعت سمعی و بصری، شعبہ شماریات بھی تحریک جدید کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اس کے ساتھ ایک اور شعبہ مخزن تصاویر ہے، جو ساری دنیا میں مختلف وقتوں میں جو جماعت نے جو خدمات کی ہیں، ان کو تصویری زبان میں اکٹھا کرنے کا کام کرے گا.اور بہت سی تصویریں ہیں، جواب مل سکیں گی.بعد میں ضائع ہو جائیں گی، پھر ہاتھ ہی نہیں آسکیں گی.مثلاً ہمارے واقفین نے افریقہ میں جو ابتدائی خدمات کیں ، کن جھونپڑیوں میں وہ ٹھہرے، کس قسم کے واقفین انہیں کام کرنے والے ابتدا میں میسر آئے.کچھ نہ کچھ تصویریں اس وقت 859
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مارچ 1984ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم موجود ہیں، جو اکٹھی ہو سکتی ہیں.لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تصویریں غائب ہوتی چلی جاتی ہیں.پھر نئے کام جو پھیل رہے ہیں ، ان سب کو تصویری زبان میں ڈھالنا، یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے.پھر ہمیں بیرونی ممالک میں ٹائیسٹس کی ضرورت ہے، اکا ؤنٹنٹس کی ضرورت ہے، دفتری امور اکاونٹ چلانے والے تجربہ کار آدمیوں کی ضرورت ہے.اس وقت یہ ہورہا ہے کہ واقفین زندگی جو جامعہ کے فارغ التحصیل ہیں، باقاعدہ مبلغین ان پر انتظامی بوجھ بہت ہیں اور ان کو خط و کتابت ٹائپ بھی خود کرنی پڑتی ہے.پھر ان کو اکا ؤنٹس بھی رکھنے پڑتے ہیں، رجسٹر سنبھالنے پڑتے ہیں.یہ اتنا زیادہ بوجھ ہے کہ بعض جگہ تو کچھ رضا کاران کومل گئے ہیں مگر ا کثر جگہ ان کے لئے تبلیغ میں یہ بوجھ حارج ہو رہا ہے.بجائے اس کے کہ وہ خالصہ الگ ہو کر فارغ الذہن ہو کر تبلیغی کاموں میں اپنی قوتوں کو صرف کریں، نئے نئے منصوبے بنائیں، عمومی نگرانی کریں، ہر احمدی کو جو داعی الی اللہ بنانے کا کام ہے، اس کی طرف توجہ دیں، تصنیف کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دیں، یہ سارے کام ہیں مگر ان کا بہت سا وقت ضائع ہو جاتا ہے، ان دفتری کاموں میں ، جولازمی حصہ ہیں.یعنی ان کے بغیر گزارہ بھی نہیں ہو سکتا.تو ایسے ٹائپسٹ ، جو ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہوں یا ایسے سپریٹنڈنٹ، جو دفتری کاموں کا تجربہ رکھتے ہوں.اکاؤنٹنٹس ، جنہوں نے ایک وقت تک دنیا اتنی کمالی ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ باقی وقت ہم اپنے آپ کو خدا کے لئے وقف کر سکتے ہیں، خالصہ.تو یہ سارے نام آگے آنے چاہئیں.باہر کے ممالک میں تعمیری کام بھی ہورہے ہیں.غانا میں مثلاً ایک اودر سیر نے وقف کیا تھا اور خدا کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں، وہاں جا کے.اسی طرح اور ممالک میں ہیں، ان کو سمیٹنا اور یکجا کرنا.پھر لائبریریوں کا قیام ہے، مختلف ممالک میں.اس طرف بھی ہم ابھی تک پوری توجہ نہیں دے سکے.منصوبہ یہ تھا کہ ساری دنیا میں ایک ایسی لائبریری ہر مشن میں موجود ہو، جس میں دنیا کی ہر زبان میں جماعت احمدیہ کا تبلیغی لٹریچر موجود ہو.اور اسلام کے اوپر وارد ہونے والے مختلف مذاہب کے اعتراضات کے جوابات موجود ہوں.اور پھر انڈیکس موجود ہو، جس سے وہ فورا معلوم کر سکے کہ کس مضمون کو کس زبان میں، میں کہاں سے حاصل کر سکتا ہوں؟ چنانچہ ہر ملک کا مشن ساری دنیا کا مشن بن جائے گا.اور اگر کوئی جاپانی افریقہ کے کسی ملک میں جاتا ہے تو مبلغ کے لئے کسی قسم کی ہچکچاہٹ کی ضرورت نہیں ہوگی.وہ فوراً اس کو جاپانی لٹریچر نکال کے دے سکتا ہے.کوئی ترک چلا جاتا ہے، کوئی یوگوسلاویہ چلا جاتا ہے تو ہر ایک لئے اس کی زبان میں لٹریچر بھی ہونا چاہئے ، کیسٹس (Cassettes) ہونے چاہئیں، وڈیوریکارڈنگز بھی 860
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبه جمعه فرمودہ 30 مارچ 1984ء ہونی چاہئیں.تا کہ اگر کوئی آرام سے بیٹھ کر دیکھنا چاہے مقرر کو، اس کی آواز بھی سنے ، اس کو دیکھے بھی تو وڈیو چلا دیا جائے اور وہ تسلی سے بیٹھ کر جس مضمون میں چاہے، کسی مقر کو بولتا سنے بھی اور دیکھ بھی لے.آج کل اس کا رحجان بڑھ رہا ہے.پھر یورپین ایسے ممالک ہیں، جن کی الگ الگ چھوٹی چھوٹی زبانیں ہیں لیکن بہت اہم ہیں، وہ ممالک اسلام کے لئے.فن لینڈ ہے، چیکوسلواکیہ ہے، ان زبانوں میں آغاز ہی نہیں ہوا کام کا.ان سب کو مرتب کرنے کے لئے ایک پوری وکالت کی ضرورت ہے.اب ہمیں ایک اچھا واقف زندگی مل گیا ہے.بڑے تجربہ کار لائبریرین ہیں ، جو اس فن کے بہت ماہر ہیں.قاضی حبیب الدین صاحب لکھنوی نے بڑے شوق اور اخلاص کے ساتھ وقف کیا ہے اور اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے اور ان کے سپر د میں نے یہ کام کیا ہے.لیکن جب کام انہیں سمجھایا ( یہ تو میں نے صرف چند باتیں آپ کے سامنے رکھی ہیں) تو انہوں نے کہا کہ یہ اتنا کام ہے کہ اس کے لئے تو کمپیوٹر کی ضرورت پڑ جائے گی ، فوری.یعنی کمپیوٹر کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے، جب آدمیوں کے بس سے بات نکل جاتی ہے.تو ابھی تو انہیں سٹاف چاہئے، پہلے کچھ سٹاف مہیا ہو.کام اپنے کسی نہج پر چند قدم چل پڑے پھر انشاء اللہ تعالٰی اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا تو کمپیوٹر بھی مہیا کرنے پڑیں گے، جماعت کو.تو یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں.اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ واقفین کی کتنی شدید ضرورت ہے، جماعت احمدیہ کو.اور وقت کے تقاضے ہیں کہ یہ ضرورت لازماً پوری کی جائے.کیونکہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے فضلوں کی ہوا چلتی ہے، ایک موسم آجاتا ہے نشو ونما کا ، وہی وقت ہوتا ہے کام کا.اگر ہم پیچھے رہ جائیں گے تو اس موسم کے پھلوں سے محروم رہ جائیں گے.اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ، جتنا یہ ابر بہار ہمارے لئے فوائد لے کر آیا ہے.اس کثرت سے قوموں میں توجہ پیدا ہورہی ہے، جماعت احمدیہ کی طرف کہ ہر روز نئی نئی خبریں ایسی آتی ہیں، جس سے دل کھل اٹھتا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے.اور ساتھ ہی پھر وہ ذمہ داریوں کا بوجھ بھی آپڑتا ہے، پھر انسان فکرمند بھی ہو جاتا ہے، پھر دعا کی بھی توفیق ملتی ہے اور نئے نئے خدمت کرنے والے بھی اپنے آپ کو پیش کرتے چلے جارہے ہیں.تو ایک عجیب دنیا ہے یہ جماعت احمدیہ کی، جس کی کہیں اور کوئی مثال نہیں ہے.یہ ساری دنیا میں ایک الگ دنیا ہے.حیرت انگیز خدا تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہورہی ہے.اور جہاں سے کوئی توقع نہیں ہوتی، وہاں سے اطلاع آجاتی ہے کہ یہاں ایک نیا میدان کھل گیا ہے، اسلام کی خدمت کا.مثلاً کوریا گیا ہماراوند ، آنریری ورکرز کا، رضا کاروں کا گیا اور ان 861
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مارچ 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کی طرف سے جور پورٹ آئی ہے، وہ اتنا (Excite) کرنے والی ہے، اتنا ہیجان پیدا کرنے والی ہے، وہ کہتے ہیں کہ پورا میدان کھلا پڑا ہے اور اس قدر شوق سے لوگوں نے ہم سے مطالبے کئے ہیں، کتابیں خریدیں ہیں، لائبریریاں مطالبے کر رہی ہیں، پروفیسر ز مطالبے کر رہے ہیں کہ ہمیں سکھاؤ اسلام.اور جماعت احمد یہ جو اسلام سکھاتی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے علم کلام کی برکت سے وہ تو ذہنوں کو بھی روشن کر دیتا ہے، دلوں کو بھی مطمئن کرتا ہے.اور اس زمانہ کے انسان کے مزاج کے مطابق ہے، وہ.کیونکہ محض دعاوی سے آج انسان نہیں مان سکتا.جب تک فلسفہ بھی اتنا مضبوط نہ ہو، قوی نہ ہو اور اتنا پر اثر نہ ہو کہ ذہن اور دل دونوں کو مطمئن کر سکے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ہتھیار تو سارے ہمارے پاس موجود ہیں.پھر ترجمہ کرنے والوں کی ضرورت ہے، جو پھیلتی چلی جارہی ہے.تو یہ سارے جو کاموں کے میں نے نام لئے ہیں، جن کے عنوان بیان کئے ہیں، ان سے تعلق رکھنے والے جتنے احمدی جہاں ہیں ، وہ اپنے حالات کا جائزہ لیں اور اپنے آپ کو پیش کریں.بیرونی ممالک کے اس میں بیرونی باشندے بھی شامل ہیں، میرے اس خطاب میں.صرف پاکستانی، ہندوستانی یا انگلستان اور امریکہ کے چند آدمی نہیں بلکہ دنیا کی ہر قوم کے آدمیوں کے لئے ضرورت ہے کہ وہ وقف کریں.کیونکہ ان کاموں کو سنبھالنے کے لئے لازماً اچھے زبان دان بھی ہمیں چاہئیں ہوں گے.اس وقت تو ہم طلباء کو باہر بھجوا کر زبان سکھانے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن یہ کافی نہیں ہے.ربوہ میں لازماً ایک بہت ہی بڑا عظیم الشان زبانوں کا انسٹیٹیوٹ ہمیں قائم کرنا پڑے گا.اس کے لئے اتنا پیج تو بویا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نقشہ بھی تعمیر کا مکمل ہو گیا ہے اور اخراجات بھی کسی حد تک مہیا ہو گئے ہیں.تو امید ہے انشاء اللہ ایک سال کے اندر اس انسٹیٹیوٹ کی عمارت کھڑی ہو جائے گی.مگر اس عمارت کو بسانے کے لئے پھر زبان دان چاہئیں.انگریز وقف کریں، اٹالین وقف کریں ، چینی، جاپانی وقف کریں.یہاں آکر بیٹھیں خود اور آکر اپنی اپنی زبان کو سنبھالیں.پھر آگے ان کے اپنے لئے بھی پڑھنا ضروری ہوگا ، ہر زبان دان کے لئے ہر مضمون پر ایک غلبہ پانے کی ضرورت ہوتی ہے.یعنی آپ اردو دان ہیں لیکن اگر آپ نے سائنسی مضمون اردو میں نہیں پڑھے تو آپ کو سائنسی مضمونوں پر اردو میں غلبہ نہیں ہے.اگر آپ نے خاص قسم کے ادبی مضمون نہیں پڑھے تو ان میں آپ کو اردو نہیں آتی گویا کہ تو محض زبان دان ہونا کافی نہیں ہوا کرتا، کسی خاص مضمون پر اس زبان دان کو مقدرت ہونا، اس کو قادر الکلامی نصیب ہونا، یہ بہت ضروری ہے.تو ایسے واقفین جب آئیں گے، 862
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مارچ 1984ء پھر ان کو دینی علوم پر قدرت دینے کی کوشش کی جائے گی ، ان کو بھی سکھانا پڑے گا.پھر جا کر ہمارے اچھے زبان دان تیار ہوں گے، جو اسلام کی خدمت کر سکیں.یہ تو واقفین والا پہلو تھا.دوسرا ہے، مالی ضروریات اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بھی بہت بڑھ رہی ہیں.اور جہاں تک روزمرہ کی ضروریات کا تعلق ہے، انجمن کے باقاعدہ چندے اور تحریک جدید کے با قاعدہ چندے یہ ضرورت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ان میں کسی غیر معمولی تحریک کی ضرورت نہیں پیش آتی.سال میں ایک خطبہ انجمن کے چندوں سے متعلق دیا جاتا ہے، جماعت توقع سے آگے بڑھ کر خدا کے فضل سے قربانیاں کر رہی ہے.لیکن ایک چندہ ایسا ہے، جس میں ابھی تک پیچھے ہے.اور وہ ہے، صد سالہ جو بلی.گزشتہ سال بھی میں نے توجہ دلائی تھی.اس کے بعد اگرچہ پاکستان میں غیر معمولی طور پر چندے میں اضافہ ہوا ہے.اور ایک سال میں چھپن لاکھ روپیہ وصول ہوا ہے، صد سالہ جو بلی کا.لیکن ابھی تک بیرونی جماعتیں بھی اور پاکستان بھی بہت پیچھے رہ گیا ہے، وقت سے مختصر کوائف میں آپ کو بتا تا ہوں.اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کہتا چندہ ابھی قابل وصول پڑا ہوا ہے.اور جو کام کرنے والے ہیں، صد سالہ جوبلی کے، ان کی فہرست اگر آپ کے سامنے بیان کی جائے تو کئی خطبے چاہئیں.ناممکن ہے کہ ایک خطبہ میں ان کاموں کو بیان کیا جا سکے، جو صد سالہ جو بلی نے 1989ء سے پہلے پہلے مکمل کرنے ہیں.ان کی تفاصیل جب آپ کے سامنے رکھی جائیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کتنا بڑا کام ہے، کتنا اس کا پھیلاؤ ہے اور اس کے لئے روپے کی فوری ضرورت ہے.کیونکہ بہت سے کام ہیں.مختلف ممالک میں مشنز کا قیام، مختلف زبانوں میں قرآن کریم کی اشاعت، مختلف زبانوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے تراجم اور مساجد کا قیام.ایسے ایسے نئے ممالک ہیں، جہاں ایک بھی احمد می اس وقت نہیں ہے، وہاں نئی جماعت کو قائم کرنا، آدمی مہیا کرنا، اخراجات تو اس وقت سے شروع ہو چکے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اب ہمارا پیٹ بھر و.اور جو چندہ کی رفتار ہے، وہ مقابلہ است ہے.اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ باقی انجمنیں وصولی کا ایک باقاعدہ نظام رکھتی ہیں، ان کے انسپکٹر ز بھی ہیں، ان کے بڑے بڑے دفاتر ہیں یاد دہانیوں کے.اور جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی میں پیچھے نہیں رہتی.یاد دہانی اور تذکیر ضروری ہے، جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے.ہر انسان کا ایک معیار نہیں ہوتا.اکثر انسان یاددہانی کے محتاج ہوتے ہیں.تو صد سالہ جو بلی اپنے یاد دہانی کے نظام کو اتنا پھیلا سکتی نہیں ہے.کیونکہ عارضی کام ہے نسبتا اور اگر اتنا بڑا سٹاف رکھا جائے تو بہت بڑا خرچ بڑھ جائے 863
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مارچ 1984ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم گا.اس لئے عمومی نصیحت کے سوا اور چارہ نہیں ہے، ہمارے پاس.تو میں نے سوچا کہ چونکہ صد سالہ جو بلی کا دفتر محدود ہے، کام کے مقابل پر، اس لئے میں جماعت کو یاد دہانی کروادوں.کل وعدہ، جو پاکستان کا تھا ، وہ پانچ کروڑ ، چار لاکھ ، اناسی ہزار روپے (5,04,79000) کا تھا.جس میں سے 28 فروری 1983 ء تک صرف ایک کروڑ ، اکسٹھ لاکھ (1,61,00,000) کی وصولی ہوئی ہے.یعنی آئندہ ادائیگی کے چار سال باقی ہیں اور گزشتہ گیارہ سال میں جو وصولی ہوئی ، وہ پانچ کروڑ کے مقابل پر ایک کروڑ ، اکسٹھ لاکھ.تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ چندہ دہندگان کے اوپر بقیہ سالوں میں کتنا بڑا بوجھ پڑنے والا ہے.جتنی تاخیر کر رہے ہیں، اتنا ہی یہ کام ان کے لئے مشکل ہوتا چلا جائے گا.لیکن دوران سال جو پاکستان میں وصولی ہوئی ، وہ خدا کے فضل سے بہت خوش کن ہے، گزشتہ وصولیوں کے مقابل پر.چنانچہ چھپن لاکھ ، اکیاسی ہزار (56,81,000) وصولی کی وجہ سے اب دو کروڑ ، اٹھارہ لاکھ بستر ہزار (2,18,77,000) وصولی ہو چکی ہے.اور یہ آپ گیارہ سال کی وصولی سمجھیں.اس کے مقابل پر اس سال کو شامل کر کے چار سال وصولی کے رہتے ہیں.کیونکہ 1988 ء میں تو پھر کام اتنا زیادہ ہو چکا ہوگا کہ اس وقت وصولیوں کا انتظار پھر نہیں ہو سکتا.1984ء کا بقایا ایک سال سمجھ لیں 85ء 86ء اور 87ء.یہ پورے چار سال ہیں، وصولی کے.ان سالوں میں دو کروڑ ، چھیاسی لاکھ روپے (2,86,00,000) ابھی جماعت نے ادا کرنا ہے.جو جماعتوں کو یاد دہانیاں کروائی گئیں تھیں اور ٹارگٹس دیئے گئے تھے، اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ربوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام دنیا کی جماعتوں میں اس قربانی میں اول آیا ہے.کیونکہ ربوہ کے سپر د جو ٹارگٹ کیا گیا تھا، دسویں مرحلے پر ، وہ تین لاکھ کا تھا.لیکن ربوہ کی وصولی (13,54,000) روپے ہوئی ہے.جب کہ اس سے پہلے 83 ء تک کل وصولی گیارہ سال میں نو لاکھ ، اٹھاسی ہزارتھی.تو اس سے یہ بھی علم ہو گیا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے رزق میں برکت کا ایک ایسا نظام جاری کر دیا ہے کہ جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے، وہ بھی پورا ہو جاتا ہے، توقع سے بہت بڑھ جاتا ہے.کہاں گیارہ سال میں نو لاکھ ، اٹھاسی ہزار کی وصولی اور کہاں ایک سال میں تیرہ لاکھ، چون ہزار وپے کی وصولی.بہت بڑا فرق ہے.لیکن ایک بات باقی شہروں کے حق میں یہ بیان کرنی ضروری ہے کہ بعض باقی بڑے شہروں نے اپنا چندہ بہت زیادہ لکھوایا تھا، اس لئے وہ وصولی میں پیچھے رہ گئے.ربوہ میں چندہ کی جو توفیق تھی، اس کے مقابل پر صد سالہ جوبلی میں بہت کم چندہ لکھوایا گیا تھا.مثلاً بجٹ کے لحاظ سے ربوہ، 864
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمود و 30 مارچ 1984ء کراچی، لاہور وغیرہ سے زیادہ پیچھے نہیں ہے.زیادہ جو باقاعدہ بجٹ ہے.لیکن وعدہ میں بہت پیچھے تھا.لاہور کا وعدہ تھا تر اسی لاکھ روپے کا اور کراچی کا ایک کروڑ ، پچپن لاکھ کا اور ربوہ کا صرف میں لاکھ تھا.تو اس لئے وہ چونکہ پہلے ہی اپنی ہمت سے بہت کم دے رہے تھے ، اس لئے ان کے کام میں نمایاں اضافہ نظر آیا.لیکن اگر آپ ملحوظ بھی رکھیں اس فرق کو ، تب بھی گزشتہ سال ربوہ کی قربانی ان سب شہروں سے زیادہ ہے.کیونکہ کراچی کی گزشتہ سال کی وصولی ڈیڑھ کروڑ بجٹ کے مقابل پر نو لاکھ ہے اور لاہور کی وصولی تر اسی لاکھ بجٹ کے مقابل پر سات لاکھ ہے.اس لحاظ سے ربوہ کی وصولی تیرہ لاکھ فی ذاتہ بھی خدا کے فضل سے بہت نمایاں اور قابل تحسین ہے.اللہ تعالیٰ اس جماعت کو جزا دے اور توفیق کے مطابق مزید آگے بڑھنے کی توفیق بخشے.کیونکہ ابھی ربوہ میں گنجائش بہر حال موجود ہے.C جہاں تک کراچی کا تعلق ہے، یہ خیال ہو سکتا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد کا بجٹ ان کی توفیق سے زیادہ تو نہیں.کیونکہ باقی جو جماعتیں اس سائز کی ہیں، ان کے وعدوں کے مقابل پر کراچی کے وعدے یقیناً بہت زیادہ ہیں.اس لئے یہ وہم ہو سکتا ہے کہ شاید کراچی جوش میں آکر زیادہ وعدے لکھوا گیا ہو اور اب اس کی توفیق نہ ہو، ادائیگی کی.لیکن میرے نزدیک یہ محض وہم ہے.اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ کے ساتھ جو سلوک ہے، وہ عام حسابی قاعدوں سے نہیں پر کھا جا سکتا.یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیب سے آخری پیسہ نکل آیا ہے اور پھر جب خدا تعالیٰ کا نظام جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے تو پھر جیب بھری ہوئی مل جاتی ہے.پھر آپ نچوڑ لیں سب کچھ، پھر خدا تعالیٰ کا نظام جب دوبارہ ہاتھ ڈالتا ہے تو پھر جیب بھری ہوئی مل جاتی ہے.کون سا قاعدہ کام کر رہا ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے.ہمیں تو اتنا علم ہے کہ کچھ اس قسم کا قاعدہ ہے، جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ خندق کے موقع پر ایک صحابی نے اور اس کی بیگم نے دعوت کی اور پتہ تھا کہ بہت دیر کا فاقہ ہے تو انہوں نے یہ سوچا کہ چند آدمی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آجائیں اور ایک چھوٹا سا بکرا ذبح ہوا ہے، دس، بارہ آدمیوں کے لئے کافی ہو جائے گا.تو انہوں نے اشارہ سے ہلکی سی آواز میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اللہ ! کچھ تیار ہے، چند صحابہ کے ساتھ تشریف لائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کادل تو ایک نہ ختم ہونے والا سمندر تھا اور ساری کائنات پر آپ کی رحمت محیط تھی.یہ کیسے ممکن تھا کہ فاقے کے وقت باقی لشکر کو چھوڑ دیتے اور صرف آپ چند صحابہ کے ساتھ چلے جاتے.آپ نے فرمایا: اچھا اعلان کر دو کہ جس جس کو بھوک لگی ہوئی ہے، سارے آجائیں.اور وہ سارے بھوکے تھے، یہ بات سن کر وہ بہت پریشان ہو کر واپس دوڑا، اپنی بیگم کی طرف.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو! 865
خطبه جمعه فرمود و 30 مارچ 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کپڑے سے آٹے کو بھی ڈھانک دواور یاد رکھو کہ ہانڈی سے ڈھکتا نہیں اتارنا، جب تک میں نہ آ جاؤں.اور شروع نہیں کرنا، جب تک میں خود اپنے ہاتھ سے شروع نہ کروں تقسیم نہیں کرنی.خیر اوہ واپس گیا، بیوی کو اس نے پیغام دیا کہ اللہ ہی آج عزت رکھ لے، یہ واقعہ ہو گیا ہے.تو اس نے کہا: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوفرمایا ہے، اسی طرح کرو، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا.چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، کپڑا اٹھایا آٹے سے اور ہاتھ لگایا اور اس کو کہا کہ شروع کرو، روٹی پکانا.اور ساتھ ہی ہانڈی سے ڈھکنا اٹھا کر تقسیم شروع کر دی.خود ہی اب وہ صحابی خود بیان کرتے ہیں اور ایک سے زیادہ روایتوں میں یہ واقعہ بیان ہے کہ لوگ کھاتے چلے گئے اور نکلتا چلا گیا، آٹا بھی بڑھتا گیا اور ہانڈی سے سالن بھی نکلتا ہی چلا گیا اور ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ یہاں تک کہ جب سارے لشکر کا پیٹ بھر گیا تو اتنا کھانا بچا ہوا تھا کہ گھر والے اور اس کے علاوہ اپنے دوستوں میں سے کسی کو بھیجنا چاہیں تو بھیج سکتے تھے.( صحیح بخاری ، کتاب المغازی، باب في غزوة الخندق) تو جو خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہوا اور آپ سے اس قدر رحمت اور فضلوں کا سلوک فرمایا، ہم بھی تو اسی خدا کے، اسی محبوب کے غلام ہیں اور اسی کے نام پر کام کر رہے ہیں.اس لئے دنیا کے حساب سے چاہے بالکل جاہلانہ باتیں ہوں لیکن جماعت احمدیہ کے تجربہ میں ہے یہ بات سو سالہ مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جماعت کی قربانی کی توفیق کو بڑھاتا ہے اور روپے میں کمی نہیں آنے دیتا.ان کی ذاتی ضرورتیں بھی پہلے سے بڑھ کر پوری کر دیتا ہے اور بعض دینے والے ایسے ہیں کہ جب وہ دیتے ہیں تو اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ گویا اپنی توفیق سے بڑھ کر وعدہ لکھوادیا اور ایک، دو سال کے اندرہی خدا ایسی برکت دے دیتا ہے کہ وہ شرمندہ ہو جاتے ہیں کہ ہم نے وعدہ کم لکھوایا تھا.چنانچہ ابھی کل ہی مجھے پتہ لگا، لاس اینجلز سے ایک ڈاکٹر صاحب ہیں ہمارے بڑے مخلص، فدائی، انہوں نے مشنز کے لئے پچیس ہزار ڈالرز کا وعدہ لکھوایا تھا اور بعض ان کے جاننے والوں کا خیال تھا کہ شاید یہ بہت وعدہ لکھوا دیا ہے، انہوں نے.اب دو تین دن کے عرصے کے اندران کی طرف سے خط آیا ہے اور کل اس کی تحریک (جدید) نے مجھے رپورٹ بھجوائی کہ وہ کہتے ہیں کہ جو میرے موجودہ حالات ہیں، ان کے پیش نظر پچیس ہزار ڈالرز کم ہے، اس لئے میں اس کو بڑھا کر پچاس ہزار ڈالر کرتا ہوں.تو یہ دیکھ لیجئے کس طرح خدا کا سلوک ہوتا ہے.اور اس کثرت سے اس مضمون کے خط دنیا سے آرہے ہوتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے پھر نیا حوصلہ ملتا ہے.اور میں یہ رحم اس بات میں نہیں سمجھتا کہ اب مانگنا بند کر دوں.866
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مارچ 1984ء کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ خدا کے فضل کے دروازے بند کر دوں.میں اقتصادی رحم جماعت پر یہ سمجھتا ہوں کہ اور مانگو اور مانگو تا کہ خدا کے فضل لامتناہی طور پر نازل ہونے شروع ہو جائیں.اس لئے اس تجربہ اور اس یقین کے ساتھ میں احباب جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ کمر ہمت کہیں اور اس گزشتہ کمی کو جو گیارہ سالہ کمی ہے، اسے چار سال میں نہیں بلکہ کوشش کریں کہ ایک، دو سال کے اندرہی پوری کر دیں.اللہ تعالیٰ پھر دیکھیں کس طرح ان پر فضلوں کی بارش نازل فرماتا ہے، کس طرح ان کی جیبوں کو پھیلاتا چلا جاتا ہے.ان کی ضرورتوں کو خود پوری کرتا ہے اور یہ سارا نظام جب مکمل ہو جائے گا، یہ دائرہ تو آخر پر یہ خلصین جو اپنی توفیق سے بڑھ کر ادا ئیگی کی کوشش کر رہے ہوں گے، شرمندگی محسوس کریں گے کہ اوہو! ہم تو بہت بڑا تیر مار رہے تھے اپنی طرف سے، اللہ تعالیٰ نے تو اتنے فضل کر دیئے ہیں کہ ہم حق ادا نہیں کر سکے.یہ ہے جماعت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تعلق.خدا کرے، یہ مراسم اسی طرح جاری رہیں، ہمیشہ ہمیش کے لئے ، ہم خدا کی محبت اور پیار میں قربانیاں دیتے چلے جائیں اور ہماری محبت اور پیار کو لامتناہی طور پر اور بڑھانے کے لئے اللہ اپنے فضلوں کو اتنا بڑھاتا چلا جائے کہ ہم ہمیشہ شرمندہ ہی رہیں، اپنے رب سے کہ ہم تو کچھ بھی نہیں کر سکے، تیرے فضل ہم سے جیت گئے.(مطبوعہ خطبات ظاہر جلد 13 صفحہ 173 تا 185) 867
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم ارشاد فرمودہ 28 اپریل 1984ء دنیا کی ساری طاقتیں بھی مل کر آپ کو شکست نہیں دے سکتیں ارشاد فرمودہ 28 اپریل 1984ء میں آپ کو صبر کی تلقین کرنا چاہتا ہوں.یا درکھیں ، سب سے بڑی طاقت صبر کی طاقت ہے، جو ؟ الہی جماعتوں کو دی جاتی ہے اور جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.صبر دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور دعاؤں میں قوت پیدا کرتا ہے.اور الہی جماعتوں کا صبر روحانیت میں تبدیل ہونے لگتا ہے.اس لحاظ سے میں دیکھ رہا ہوں کہ جماعت ایک نئے روحانی دور میں داخل ہو ہی ہے.لہذایہ غم جو آپ کو ملا ہے، اس کی حفاظت کریں اور اس کو دردناک دعاؤں میں تبدیل کرتے رہیں.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو دعاؤں اور گریہ وزاری سے عرش کے کنگرے بھی لرزنے لگیں گے.پس اس غم کی حفاظت کریں اور اسے ہر گز نہ مرنے دیں.یہاں تک کہ خدا کی تقدیر خود اسے خوشیوں میں تبدیل کر دے.اگر آپ ایسا کریں گے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں مری جان ہے کہ دنیا کی ساری طاقتیں بھی مل کر آپ کو شکست نہیں دے سکتیں ، لازماً آپ کامیاب ہوں گئے“.(مطبوعه روزنامه الفضل 04 مئی 1984) 869
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پیغام فرمودہ یکم مئی 1984ء الہی جماعتیں کسی حال میں بھی اپنے فرائض سے غافل نہیں رہتیں پیغام فرموده یکم مئی 1984ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ میرے نہایت پیارے احباب جماعت احمدیہ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته و آپ ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور رحمت کے سائے تلے رہیں اور ہر آن اس کی نصرت اور قربت اور پیار کے جلوے دیکھیں.وہ آپ کے ہر خوف کو امن میں بدل دے اور ہر بے چینی کو سکینت اور طمانیت میں تبدیل فرما دے.ہر حال میں آپ اس سے راضی رہیں اور اس کی رضا کی راہوں سے باہر قدم نہ رکھیں.اور اٹھتے بیٹھتے ہوتے جاگتے اس کی رضا آپ کو حاصل رہے.اور پیار کی نگاہیں آپ پر پڑیں.جیسا کہ آپ جانتے ہیں خالصہ اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے میں نے سفر اختیار کیا ہے.اور احباب جماعت ربوہ اور احباب جماعت پاکستان سے یہ عارضی چند ماہ کی جدائی قبول کی ہے.میرا دل آپ کی جدائی سے سخت بے قرار ہے اور آنکھیں اس دن کی راہ دیکھ رہی ہیں، جب میری نظریں آپ کو دیکھ کر ایک نا قابل بیان روحانی لذت پائیں گی.لیکن عارضی جدائیاں کوئی نئی بات نہیں اور کوئی پہلا تجربہ نہیں.گزشتہ دو سالوں میں میرا یہی دستور رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے ماتحت دیگر عالمی جماعتوں سے ملاقات اور ان کی تعلیم و تربیت کی غرض سے اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر اور تمام جماعت کی بہبود کے لئے ایسے عارضی سفر اختیار کرتا رہا ہوں اور آئندہ بھی جب تک اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتارہے گا، ایسا ہی کرتا رہوں گا.یا درکھیں کہ الہی جماعتیں، جو اللہ کے ذکر کے ساتھ زندہ رہتی ہیں، کسی حال میں بھی اپنے فرائض کی سرانجام دہی سے غافل نہیں رہتیں.روشنی ہو یا اندھیرا، ہر حال میں وہ آگے بڑھتی ہیں اور گرجتے ہوئے بادلوں کی ظلمات اور رعد اور برق ان کے قدم روک نہیں سکتیں.لہذا موجودہ سنگین اور مخدوش حالات 871
پیغام فرمودہ یکم مئی 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم کے باوجود میں نے اس سفر کو منسوخ نہیں کیا، جو کئی ماہ پہلے سے تبشیر کی طرف سے تجویز کیا جا چکا تھا.نہ صرف یہ کہ میں نے اسے منسوخ نہیں کیا بلکہ اس کے دائرے میں کچھ اضافہ کرنا بھی ضروری سمجھا اور بعض نئے ممالک کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے.میں آپ کے لئے مجسم دعا ہوں ، آپ بھی اس سفر کی ہر لحاظ سے کامیابی کے لئے بکثرت دعائیں کریں.إِنَّمَا أَشْكُوا بَى وَحُزْنِ إِلَى اللهِ ترجمہ میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ کے حضور کی ہی کرتا ہوں.☆ رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ترجمہ: اے میرے رب اپنی بھلائی میں سے جو کچھ تو مجھ پر نازل کرے، میں اس کا محتاج ہوں.ان نازک ایام میں میری آپ کو نصیحت بلکہ تاکیدی حکم یہ ہے کہ کسی حالت میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.اور قرآن کریم کی غلامی اور حضرت اقدس سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں سے بہر حال چھٹے رہنا ہے.حق طریق سے حق بات کی نصیحت کرتے رہیں.صبر پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتے رہیں.مظلومیت ایک عظیم اور نا قابل تسخیر طاقت ہے، کسی قیمت پر اسے ظالمیت میں تبدیل نہیں کرنا.کسی کی طرف سے کوئی زیادتی آپ کو جو اب زیادتی پر آمادہ نہ کرے.آپ اس بات پر امین بنائے گئے ہیں کہ امن کو قائم رکھیں.آپ کی طرف سے شر نہیں بلکہ ہمیشہ خیر دوسروں کو پہنچے.اور فساد پھیلانے والے نہ ہوں بلکہ سلامتی کے شہزادے بنیں.عالم الغیب خدا آپ کے ظاہری دکھوں سے بھی واقف ہے اور سینوں میں مخفی سکتے اور بلکتے ہوئے عموں پر بھی اس کی نظر ہے.خدا کے حضور بہنے والے آنسوؤں میں بہا کر اپنے ان غموں کا بوجھ ہلکا کریں.اور دردناک دعاؤں کے ذریعہ اپنے دلوں کے بخارات نکالیں.اللہ پر توکل رکھیں اور اس سے بے وفائی نہ کریں.پہلے کب اس نے آپ کو تنہا چھوڑا ہے، جو آج چھوڑ دے گا ؟ پاکستان کے احمدیوں کے نام بالخصوص میرا یہ پیغام بھی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقدس فرمان کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور حرز جان بنائیں کہ حب الوطن من الايمان وطن کی محبت ایمان ہی کا ایک جز ہے.وطن کی محبت میں اپنی سنہری درخشندہ تاریخ کی حفاظت کریں.یہ وہ عزیز وطن ہے، جس کے قیام میں آپ نے عظیم الشان قربانیاں پیش کی ہیں.اور قائد اعظم محمد علی 872
تحریک جدید - ایک الہی تحریک پیغام فرموده یکم مئی 1984ء جناح نے جس خدمت کے لئے آپ کو بلایا، آپ نے پورے خلوص کے ساتھ ان کی آواز پر لبیک کہا.جب بھی وطن عزیز کو کوئی خطرہ پیش آیا، آپ صف اول کی قربانیاں کرنے والوں میں شامل رہے.تاریخ پاکستان میں دوسرے محبان وطن کے دوش بدوش آپ کے نام بھی انمٹ سنہری حروف میں کندہ رہیں گے.یا درکھیں ، آپ نے اپنی اس حیثیت کو ہمیشہ برقرار رکھنا ہے.صف اول کی شہری کی یہی حقیقی تعریف ہے.بلاشبہ وہی صف اول کا شہری ہوتا ہے، جو ابتلاؤں اور خطرات اور قربانیوں کے میدان میں صف اول کا محب وطن ثابت ہو.اگر آپ اپنے اس امتیاز کی حفاظت کریں گے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو صف دوم یا صف سوم یا صف چہارم کا شہری بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی.دوسروں کے حقوق کے استحصال سے آپ کبھی صف اول کا شہری نہیں بن سکتے.ہاں اہل وطن کی خاطر اپنے حقوق کی قربانی سے آپ بلا شبہ ہمیشہ صف اول کے شہریوں میں اپنے ممتاز مقام کو قائم رکھیں گے.آخر پر میں اس مختصر پیغام کو حضرت اقدس مسیح موعود کے مقدس الفاظ پر ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور سلامتی ابد الآباد تک آپ پر نازل ہوتی رہیں:.وو میں اس وقت اپنی جماعت کو، جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے، خاص طور پر سمجھاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پر ہیز کریں.مجھے خدا نے جو مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے، اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پر ہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجالاؤ.اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ گے.کیا ہی گندہ اور نا پاک وہ مذہب ہے، جس میں انسان کی ہمدردی نہیں.اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے، جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے.سو تم ، جو میرے ساتھ ہو، ایسے مت ہو.تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے؟ کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزادی تمہارا شیوہ ہو؟ نہیں.بلکہ مذہب اس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے، جو خدا میں ہے.اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی.بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں.خدا کے لئے سب پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو.آؤ میں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں، جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے.اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدرد نوع انسان ہو جاؤ.اور خدا میں کھوئے جاؤ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ 873
پیغام فرموده تیم مئی 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک طریق ہے، جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اترتے ہیں.مگر یہ ایک دن کا کام نہیں.ترقی کروہ ترقی کرو.اس دھوبی سے سبق سیکھو، جو کپڑوں کو اول بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیے جاتا ہے.یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیریں تمام میل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہے.تب صبح اٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پھروں پر مارتا ہے.تب وہ میل ، جو کپڑوں کے اندر تھی اور ان کا جزو بن گئی تھی ، کچھ آگ سے صدمات اٹھا کر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مارکھا کر یکدفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں، جیسے ابتداء میں تھے.یہی انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے.اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے.یہی وہ بات ہے، جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكْهَا یعنی وہ نفس نجات پا گیا، جو طرح طرح کے میلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا...دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور دردمندوں کے ہمدرد نہیں.زمین پر صلح پھیلائیں کہ اس سے ان کا دین پھیلے گا.اور اس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا اے حق کے بھو کو اور پیاسو ! سن لو کہ یہ وہ دن ہیں، جن کا ابتداء سے وعدہ تھا.خدا ان قصوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا.اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دور دور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں، ایسا ہی ان دنوں میں ہو گا.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد 1.5.1363/1984 مطبوعه روزنامه الفضل 08 مئی 1984ء 874
تحریک جدید- ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 18 مئی 1984ء لوائے ما پنه هر سعید خواهد بود خطبہ جمعہ فرمودہ 18 مئی 1984ء اس لئے مبارک ہو آپ کو کہ ان کے ارادے بہت بد ہیں کیونکہ خدا کے ارادے بہت ہی نیک ہیں.ہمارے حق میں ہر بد ارادے کو توڑ دیا جائے گا اور الٹ نتیجے پیدا کئے جائیں گے.لیکن ایک یہ پیدا بات بھی ہے کہ جب خدا کی تقدیر کی ہوا چلتی ہے تو ہماری تقدیروں کو بھی تو اس کی سمت میں چلنا چاہئے.اسی طرف قدم اٹھانے چاہئے.یہ تو نہیں ہوا کرتا کہ خوش گوار ہوائیں چلیں تو کشتی والے اپنے بادبان لپیٹ لیں.وہ تو کھول دیتے ہیں بادبانوں کو اور اسی کا نام تدبیر ہے.خدا کی تقدیر کے رخ پر قوموں کو تدبیر اختیار کرنی چاہئے.اس وقت تو بعض اوقات چیو بھی لہرانے لگتے ہیں ساتھ کہ پھر کبھی ایسی اچھی ہوا ملے کہ نہ ملے.اس لئے اپنے دست بازو کی کوشش کو بھی ساتھ شامل کر لو.آج وہی وقت ہے، جماعت پر.اس لئے ہر تدبیر کے مقابل پر ہم بھی ایک خدا کی تقدیر کے تابع ہیں.اس کی ہواؤں کے رخ پر چلنے والی تدبیر کو ظاہر کریں گے اور یہی جماعت کا ہمیشہ سے طریق رہا ہے اور یہی انشاء اللہ تعالیٰ ہو کر رہے گا.چنانچہ اس ضمن میں، میں ایک سات نکات کا پروگرام آپ کے سامنے رکھتا ہوں.عبادت کو روکنے کی انہوں نے کوشش کی ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.تمام دنیا میں ہر احمدی اپنی عبادت کے معیار کو بلند کر دے.یعنی اپنے عجز کو، بجز کے معیار کو ایسا بلند کرے کہ خدا کے حضور اور زیادہ جھک جائے ، اس کی روح سجدہ ریز رہے، خدا کے حضور.اور وہ اپنی زندگی کو عبادت میں ملا جلا دے.ایسے گویا کہ اس کی زندگی عبادت بن گئی ہو.عبادت والوں کو خدا کبھی ضائع نہیں کیا کرتا اور عبادت سے روکنے والوں کو خدا نے کبھی پنپنے نہیں دیا.سب سے زیادہ قوی ہتھیار عبادت ہے، ایک روحانی جماعت کے ہاتھ میں.یہ دعائیں وغیرہ، یہ سب عبادت کا حصہ ہیں.اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہم عبادت سے روکیں گے تو ہم عبادت میں پہلے سے بڑھ جائیں گے.یہی جواب ہونا چاہیے.مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کی سی آئی ڈی پھر رہی ہے.ہر جگہ ہر جگہ لوگ ٹوئیں لیتے پھر رہے ہیں کہ ان کا رد عمل کیا ہے؟ کہ ہمارا رد عمل تو وہی ہوگا، جو الہی جماعتوں کا ہوا کرتا ہے.جس سمت میں تم روکیں ڈالو گے، اس سمت کے مخالف ہمارا رد عمل ہوگا.اللہ 875
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 مئی 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کی تقدیر کے مطابق ہمارا رد عمل ہوگا.ایک مذہبی جماعت کا اول رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب خدا سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اور خدا کے قریب ہو جاتی ہیں.پس عبادت سب سے اہم بات ہے.لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمیں قربانی کی طرف بلاؤ، بتاؤ کیا کرنا ہے؟ آپ اگر اپنا وقت خدا کی خاطر قربان نہیں کر سکتے ، اگر آپ اللہ کے حضور عبادت کا حق ادا نہیں کر سکتے تو باقی قربانیاں بے معنی ہیں.کیونکہ یہی مقصد حیات ہے.اس کی خاطر خدا نے انسان اور جن کو پیدا فرمایا.اس لئے عبادت پہلا جواب ہے.اور یہی سب سے اہم طریقہ کار ہے.ہمارے ہاتھ میں یہی سب سے بڑی تدبیر ہے، ہماری.اس لئے اس تدبیر پر زور ماریں.جس حد تک ممکن ہے، عبادت کی طرف توجہ کریں.اپنے گھروں کا جگا دیں.عبادت کے لئے بچہ بچہ، بوڑھا بوڑھا، عورتیں، مرد سارے عبادت گزار خدا کے بندے بن جائیں.دوسرا ہمیں تبلیغ سے روکا جا رہا ہے.اس لئے ظاہر بات ہے کہ الٹ رد عمل ہوگا.رد عمل تو کہتے ہی اس بات کو ہیں کہ کوئی چیز جس طرف سے روکے، اس کے مخالف ایک قوت پیدا ہو جائے.اور یہی زندگی کی ایک نشانی ہے.اس لئے ہم تو زندہ قوم ہیں، اللہ کے فضل سے ہمیں تو جس سمت میں تم روکو گے، اس سمت میں آگے بڑھیں گے، اپنے رب کے فضل کے ساتھ اور اس کی نصرت کے ساتھ.اس لئے تبلیغ کو پہلے سے کئی گنا زیادہ تیز کر دیں.مجھے علم ہے کہ پہلے سے بہت زیادہ تعداد میں لوگ تبلیغ میں مصروف ہیں.کئی نوجوان بھی ہیں ہمارے ہاں، اس وقت اس جمعہ میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں کہ ایک ہندو سے مسلمان ہونے والے نوجوان، جن کو احمدی نوجوانوں نے تبلیغ کی ہے، عیسائیوں سے بھی انفرادی تبلیغ کے نتیجہ میں مسلمان ہو رہے ہیں.تو ہر جگہ، ہر مذہب میں، ہر طبقہ فکر میں تبلیغ کو تیز کرنا ہے اور انفرادی تبلیغ پر زور دینا ہے.اور ہر احمدی عہد کرے کہ اب میں نے اگر پہلے ایک بنانا تھا تو اب پانچ بناؤں گا.اور اگر اور زور ڈالیں گے کہ تبلیغ بند کرنی ہے تو پھر میں دس بنا کے دکھاؤں گا.اور اللہ کے فضل سے جب آپ خدا کی خاطر یہ عہد کریں گے تو خدا پورا کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے گا.اور اس میں ہر طبقہ کے احمدی کو شامل ہونا ضروری ہے.ہمارے اندر کوئی چوہدریوں کا طبقہ نہیں ہے کہ وہ سمجھیں کہ ہم چونکہ بڑے لوگ ہیں، اس لئے ہم تبلیغ نہیں کر سکتے.ہم اپنے طبقے میں شرماتے ہیں، تبلیغ کرنے سے.یہ تو درمیانے لوگوں کا کام ہے.اگر یہ درمیانے لوگوں کا کام ہے تو درمیانوں کو خدا بڑا کرے گا اور ان کو چھوٹا کر دے گا، جو اپنی بڑائی کی وجہ سے تبلیغ سے باز رہتے ہیں.خدا کی خاطر تبلیغ سے شرمانا ! کون ہے، جو خدا کے حضور بڑا ہو سکتا ہے؟ وہی جو خدا کے حضور گرنا جانتا ہو.اس لئے ہر گز کوئی خیال نہیں کرنا کہ میں ٹکس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں.لوگ کیا کہیں 876
گے؟ اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 مئی 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم سیاست دان تھا، اتنا بڑا سائنس دان تھا، یہ اتنا بڑا بیورو کریٹ تھا، اس کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنے دوستوں میں تبلیغ شروع کر دی ہے.اچھے بھلے ہمارے تعلقات، اچھے بھلے ہمارے مراسم، اس کا مذہب اپنی جگہ، میرا اپنی جگہ تبلیغ تو کبھی اس نے نہیں کی تھی پہلے.اس شرم کو تو ڑنا ہے.یہ جھوٹی شرم ہے اور احمدیت کی راہ میں روک بنی ہوئی ہے.اس لئے جب دشمن نے للکارا ہے تو غور کریں کہ کیا نقائص ہیں، آپ کے؟ ان نقائص کو دور کریں.لٹریچر کی اشاعت پر پابندی ہے.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم اور اس کی توفیق کے ساتھ ساری دنیا میں اشاعت لٹریچر کے کام کوکئی گناہ زیادہ بڑھا دینا ہے.اتنا کہ ان سے سنبھالا نہ جائے.جتنی فرضی دنیا کی دولتیں ان کی پس پشت پر ہوں، میں جانتا ہوں کہ کس قسم کا لٹریچر یہ شائع کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں اور کہاں سے پیسہ آرہا ہے؟ لیکن ہمارے غریبانہ پیسے میں جو خدا نے برکت دینی ہے، اس کے ساتھ دنیا کے پیسے کا مقابلہ ہی کوئی نہیں ہو سکتا.اس پیسے میں تو جلنے کی سرشت شامل ہے.اس لئے وہ پیسہ تو جل کر خاک ہو جائے گا.جماعت احمدیہ کا پیسہ تو آنسوؤں سے بنتا ہے، یہ تو جل ہی نہیں سکتا، دنیا کی طاقتوں کے مقابل پر.اس لئے جماعت کے پیسے میں بہت برکت ہوگی، انشاء اللہ تعالی.تمام دنیا میں اشاعت کتب کا، اشاعت لٹریچر کا ایک بہت زبردست منصوبہ ہے، میرے ذہن میں.جس کو انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق آہستہ آہستہ کھولوں گا اور جہاں تک خدا توفیق عطا فرمائے گا ، اس پر عملدرآمد شروع کیا جائے گا.لٹریچر کی اشاعت میں نئی زبانوں کو شامل کرنا ہے.اور اس ذریعہ سے کثرت کے ساتھ ایسے ممالک میں داخل ہونا ہے، جہاں ابھی تک احمدیت داخل نہیں ہوئی.ایسی قوموں میں داخل ہونا ہے، جہاں ابھی تک احمدیت داخل نہیں ہوئی.ایسے طبقات میں داخل ہونا ہے، جہاں ابھی تک احمدیت داخل نہیں ہوئی.اور بہت سے جزیرے بنے ہوئے ہیں، بہت سے خلا ہیں.کئی قسم کے لوگ ہیں، کئی قسم کی بولیاں بولنے والے، کئی قسم کے طبقات فکر سے تعلق رکھنے والے.اتنے بڑے بڑے خلا ہیں، جن تک ہم ابھی اس لئے نہیں پہنچ سکتے کہ ہمارے پاس لٹریچر نہیں ہے.تو نہ صرف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اور موجودہ لٹریچر کو زیادہ شائع کرنا ہے بلکہ نئی زبانوں میں لٹریچر پیدا کرنا ہے.لہذا ترجمہ کرنے والوں کی ضرورت پیش آئے گی.ترجمہ کرنے والوں کو اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کرنا پڑے گا.اور کثرت سے ایسے رضا کار چاہئے ہوں گے، جو دن رات اس کام میں مدد کریں.مثلاً ہمارے یہاں ایک گجراتی جاننے والا خاندان ہے، انہوں نے ہی مجھے مشورہ دیا اور لکھا ایک خط چند دن ہوئے کہ گجراتی زبان میں بہت بڑا خلا 877
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 مئی 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے، اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ بالکل درست ہے.اور گجراتی لوگوں میں نیکی بھی.احمدیت کی مخالفت نیکی کی وجہ سے کرتے ہیں اپنی طرف سے.اور ان کو کچھ علم نہیں کہ جماعت احمد یہ کیا ہے؟ چنانچہ بسا اوقات ایسا ہوا ہے، جو لکھوکھا روپیہ دیا کرتے تھے ، جماعت کی مخالفت میں، جب ان کو علم ہوا کہ کس تماش کے لوگوں کو دے رہے ہیں اور کیسے لوگ ہیں، جن کی مخالفت میں دے رہے ہیں تو وہ باز آ گئے.فوراً انہوں نے ہاتھ روک لیا.تو ان کے اندر ایک سادگی بھی ہے.ایک بنیادی شرافت موجود ہے.اس لئے اس طبقے کو ضرور ہمیں مخاطب کرنا چاہئے.اور جو لوگ گجراتی جانتے ہیں، ان کو پیش کرنا چاہئے کہ ہم گجراتی میں تیار ہیں، لٹریچر کے تراجم کے لئے.اسی طرح فریج میں تو پہلے بھی ہیں مگر بہت زیادہ ضرورت ہے.اٹالین تقریباً خالی پڑی ہے.سپینش میں اللہ تعالیٰ نے آدمی دے دیئے ہیں لیکن ابھی کافی کام باقی ہے.اسی طرح پولش ہے، چیکوسلواکین ہے اور اس طرح یوگو سلاو کی کئی زبانیں ہیں.البانین ہے ، سلاوک اور ایک زبان کہلاتی ہے.رشین زبان میں تو بہت بڑا خلا ہے.ہنگرین زبان ہے.بہت ساری زبانیں ہیں، جن میں تقریباً خلا ہے، کلیتہ جماعت کے لٹریچر کا تو اس کے لئے انشاء اللہ کوشش کی جائے گی.اور لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ سمعی و بصری ذرائع کے متعلق ایک الگ پروگرام ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں میری بعض غیر ملکوں سے بات ہوئی ہے اور وہ اس بات پر تیار ہیں کہ اگر انگریزی میں ان کو ہم لیسٹس تیار کر دیں تو وہ اپنی زبان میں کچھ اجرت پر اور بعض دیسے تیار تھے شوقیہ کہ ہم خدمت کے لئے تیار ہیں، اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کریں گے.اور پھر اچھی طرح بھر پور آواز کے ساتھ اس کو بھر دیں گے.تو بکثرت یہ کام پھیلایا جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.لٹریچر کی تقسیم میں بھی بعض وقتیں ہوتی ہیں.لٹریچر کی طباعت میں بھی بعض وقتیں ہوتی ہیں اور زیادہ روپیہ پھنسانا پڑتا ہے.لیکن آڈیو ویژول یعنی سمعی و بصری ذرائع کو اگر ہم استعمال کریں تو فوری کام شروع ہو سکتا ہے اور تھوڑے خرچ سے.اور آج کل زمانہ بھی ایسا ہے کہ آہستہ آہستہ طبیعتیں نظر کونرمی کا عادی بنا رہی ہیں.یعنی آسانی پیدا کر رہی ہیں.نظر کے لئے بھی بیٹھ کر passively وہ ایک نظارہ دیکھ لیں اور خود بخود کانوں میں ایک آواز آرہی ہو، اس کو زیادہ پسند کرتے ہیں.یہ نسبت اس کے کہ محنت سے توجہ سے پڑھیں.تو اس میں کچھ خرابیاں بھی ہیں، کچھ بد قسمتی بھی ہے، اس دور میں.لیکن فوائد بھی کچھ ہیں.تو ہمیں دونوں طرح کے مزاج کے لوگوں کو احمدیت اور اسلام کی طرف متوجہ کرنا ہے.اس لئے یہ ایک الگ سکیم چلے گی ساتھ.قرآن کریم کی اشاعت کے کام کو تیز کرنا ہے.اور نئی زبانوں میں اب اس کو شائع کرنا ہے.اس وقت اب خدا کے فضل سے فرانسیسی کا کام تقریباً مکمل ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ ایک مہینہ یا دو 878
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 مئی 1984ء مہینے میں جیسا کہ آفتاب احمد خان صاحب، جن کے سپرد یہ کام ہے، وہ مجھے تسلی دلاتے ہیں کہ مہینے یارو مہینے تک انشاء اللہ پریس میں چلا جائے گا.اٹالین کے متعلق ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے ذمہ داری لی تھی کہ ترجمہ اور اس کی تصیح اور دہرائی وغیرہ وہ سارا اپنے خرچ پر کریں گے.چنانچہ ان کی طرف سے ان کی بیگم نے تین دن ہوئے خوشخبری دی تھی کہ آدھا کام ہو چکا ہے، اللہ کے فضل سے.اسی طرح اور زبان روسی ہے.روسی میں قرآن کریم کا ترجمہ موجود تو ہے لیکن ہمیں ابھی تسلی نہیں کہ وہ بعینہ قرآن کے مطابق بھی ہے کہ نہیں.اس لئے کچھ روسی جاننے والے سکالرز کی ضرورت ہے اور کچھ کو ہم تیار کر رہے ہیں.وہ تو ایسے اللہ کے فضل سے جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہیں، دین کا علم بھی خوب جانتے ہیں اور اگر وہ روسی زبان علم سیکھ جائیں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ تسلی ہوگی کہ یہ جو ہمارا ترجمہ ہے، قرآن کے مطابق ہے، بالکل.مگر اور بھی اگر دنیا میں کہیں روسی زبان کے احمدی ماہرین ہوں، جیسا کہ ہندوستان میں مجھے علم ہے کہ ایک ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ کچھ ٹھنڈے ہو گئے ہیں، خدمت دین میں.تو بہر حال جس کے کان میں بھی میری آواز پڑے، وہ روسی زبان میں مدد کر سکتا ہو، اسے اپنا نام پیش کرنا چاہئے.ان اغراض کو پورا کرنے کے لئے ایک بہت بڑے Complax کی ضرورت ہے.اور ایک جگہ نہیں، کئی جگہ کہ جن مختلف ملکوں میں ہم ایسی تعمیرات کریں، ایسے بڑے بڑے مشن قائم کریں، جن میں ان ساری چیزوں کے لئے سامان مہیا ہوں اور پھر مختلف ملکوں کے سپر د مختلف کام کر دیں.کیونکہ یہ بہت بڑے کام ہیں.یہ انگلستان کے بس کی بات ہی نہیں ہے.یا جرمنی کے بس کی یا صرف امریکہ کے بس کی.تمام دنیا میں ایسے بڑے بڑے مراکز قائم کرنے پڑیں گے، جن کے سپرد کر دیا جائے گا کہ اس کام کا بیڑا آپ اٹھا لیں.اس کام کا فلاں مشن اٹھائے.اس کام کا فلاں مشن اٹھائے.اس غرض سے امریکہ میں پہلے سے میری سکیم یہ تھی کہ پانچ بڑے مراکز قائم کئے جائیں.اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت امریکہ نے بہت وسعت قلبی سے قربانی کا مظاہرہ کیا ہے.اور بعض جگہ تو حیرت انگیز قربانی کا مظاہرہ ہوا ہے کہ انسان کی روح وجد کرنے لگتی ہے.اپنی ساری عمر کی کمائیاں بعض لوگوں نے پیش کر دی ہیں اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مکان چھوڑ دیئے، دوسرے کام چھوڑ دیئے اور اس طرف توجہ کی.لیکن ایک ابھی بڑا طبقہ وہاں بھی موجود ہے، جو اپنے معیار اور توفیق کے مطابق ابھی سامنے نہیں آیا.لیکن بہر حال مجھے شیخ مبارک احمد صاحب نے جائزہ لینے کے بعد تسلی دلائی ہے کہ اس وقت تک ہمیں تسلی ہے کہ انشاء اللہ تعالی امریکہ اس بوجھ کو اٹھا لے گا اور کام پیچھے نہیں رہیں گے، پیسے کی کمی کی وجہ سے.چنانچہ تین 879
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 مئی 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک مشن اس وقت تک وہاں نئے پروگرام کے مطابق لئے جاچکے ہیں اور وسیع زمین خریدی جا چکی ہے.ایک جگہ عمارت خریدی گئی ہے.تو انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد وہاں اس کام کو بڑھا دیا جائے گا.دونئے مراکز یورپ کے لئے بنانے کا پروگرام ہے.ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں.انگلستان کو یورپ میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے.اس لئے انگلستان میں بہر حال ایک بہت بڑا مشن چاہئے.جس ضرورت کو یہ مشن پورا نہیں کر سکتا.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اب تو.آپ کو عید کی نماز کے لئے بھی مشکل پڑ جاتی ہے، جمعہ کی نماز کے لئے بھی مشکل پڑ جاتی ہے.روز کی شام کی مجلس کے لئے بھی مشکل پڑ جاتی ہے.تو یہ مسجد تو کافی نہیں ہے، اس کے لئے.پھر دفاتر ہیں، کئی قسم کی ضروریات ہیں، جونئی سامنے آئیں گی.اس لئے ایک انگلستان میں بہت بڑا مرکز قائم کرنا ہے، انشاء اللہ تعالی.اس کے لئے کمیٹی بٹھا دی گئی ہے.اور ایک جرمنی میں.کیونکہ جرمنی کی جماعت بہت مخلص اور تبلیغ میں دن رات منہمک ہے بہت بچارے غریب مزدور پیشہ لوگ ہیں، علم بھی زیادہ نہیں.پاکستان سے نہایت غریب سوسائٹی سے اکثر تعلق رکھنے والے ہیں.لیکن ایسا اللہ نے ان کو اخلاص بخشا ہے کہ جب چندے کی ضرورت پڑی تھی تو جرمنی کا مشن بہت سے دوسرے مشنوں کے لئے کفیل بن گیا تھا اور حیرت انگیز قربانی کے مظاہرے انہوں نے کئے تھے.اب جب تبلیغ کا کہا تو لاعلمی کے باوجود انہوں نے کیسٹس پکڑیں اور ٹپس (Tapes) اٹھا ئیں اور ہر طرف تبلیغ شروع کر دی.اور خدا کے فضل سے ایک انقلاب آ رہا ہے، جرمنی میں تبلیغی نقطہ نگاہ سے.تو جرمنی کی جماعت کا حق ہے کہ اسے بہت وسعت دی جائے.اس لئے ایک مشن وہاں بنانا ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ رو پید اپنے فضل سے مہیا کرے گا.ایک ہمشیرہ ہیں ہماری ، سعیدہ، جو غالبا عبد اللطیف صاحب ایڈوکیٹ ہیں ان کے رشتہ دار ہیں ) بہر حال سعیدہ بیگم نام ہے.انہوں نے اس علم سے پہلے ہی کہ میں کیا سکیم پیش کرنے والا ہوں، چھ ہزار کچھ سو پونڈ ، جو ایک لاکھ روپے کے برابر رقم بنتی ہے، از خود مجھے بھجوا دیئے ہیں، چیک کی شکل میں.اور کہا کہ اس کو جماعت کی نئی ضروریات سامنے آرہی ہیں ، ضرور پیدا ہوں گی ، اس لئے میں ان کے لئے یہ پیش کرتی ہوں.تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے.انشاء اللہ تعالیٰ روپیہ تو آئے گا، اللہ کے فضل سے.کبھی یہ ہوا ہی نہیں کہ ضرورت پڑی ہو اور روپیہ مہیا نہ ہو گیا ہو.اس طرح میں اس تحریک کا آغاز کرتا ہوں اور یہ یورپی ممالک کے لئے ہے.یعنی یورپین ممالک میں بسنے والے احمدی اس میں حصہ لیں گے.لیکن فی الحال ہر ملک میں نہیں بلکہ ان دو ممالک میں مراکز قائم کئے جائیں گے، جو سارے یورپ کے لئے ہوں گے.ان کے مشترکہ کاموں کو سرانجام دیں 880
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 مئی 1984ء گے.بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، ہم نے تو وہی کرنا ہے، جس کی خاطر خدا نے ہمیں پیدا فرمایا ہے اور ہمیشہ یہی کرتے چلے آئے ہیں.ہمارے کام تو رکنے نہیں ہیں اور جتنی بڑی روکیں دشمن ڈالتا چلا جاتا ہے، ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ خدا کا فضل اتنا ہی زیادہ قوت پیدا کرتا چلا جارہا ہے.ہماری روش میں اور پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہم آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.اس لئے ان بادلوں سے ڈریں ت مصلح موعودؓ نے بہت ہی خوب فرمایا تھا کہ تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطرات محبت ٹپکیں گے بادل آفات و مصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو ( کلام محمود صفحه 154) اس لئے بجلیاں ہیں تو کسی اور کے لئے ہوں گی، ہمارے لئے تو رحمت کی بارشیں ہی ہیں.اس لئے ہرگز کوئی خوف نہیں کرنا اور پہلے سے زیادہ ہمت اور توکل کے ساتھ خدا کی راہ میں آگے قدم بڑھانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر ہمیشہ پورا ہوتا رہے گا اور ایک دن ایسا نہیں آئے گا، اس شعر کی راہ میں کوئی دن کھڑا ہو سکے.ایک رات ایسی نہیں آسکتی ، جو اس شعر کے مضمون پر اندھیرا ڈال سکے.لوائے ما پنہ ہر سعید خواهد بود ندائے فتح نمایاں نشان ما باشد ( در شین فارسی صفحه 195) کہ یہ ہمارا جھنڈا ہوگا، جو ہر سعید فطرت کے لئے پناہ کا موجب بننے والا ہے.اور کوئی جھنڈا نہیں ہے، دنیا میں.نہ امریکہ کا جھنڈا، نہ روس کا جھنڈا ، نہ چین کا جھنڈا، نہ جاپان کا جھنڈا.اگر سعید فطر توں کو کسی جھنڈے کے نیچے پناہ ملنی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جھنڈے کے نیچے پناہ ملنی ہے.جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے.آپ ہی کی غلامی میں دوبارہ کھڑا کیا گیا ہے.لوائے ما پنہ ہر سعید خواهد بود ندائے فتح نمایاں نشان ما باشد ہمارا نمایاں نشان تو یہ ہے کہ فتح نمایاں کی آواز جب اٹھے گی ، ہماری سمت سے اٹھے گی.یہ اعلان بلند ہوگا، یہ نعرہ بلند ہو گا کہ نمایاں فتح نصیب ہوئی تو یاد رکھنا ہمیشہ ہماری سمت سے یہ آواز اٹھے گی.کسی اور سمت سے کسی کو یہ آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ملے گی.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 253 تا 267) 881
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم مکتوب محرر : 30 مئی 1984ء سلسلہ کے تمام کارکنوں کو اور تمام احباب جماعت کو محبت بھر اسلام مکتوب محررہ 30 مئی 1984ء حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مکرم محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلی وامیر مقامی ( آپ اس وقت ایڈیشنل ناظر اعلیٰ تھے.ناقل ) کو ایک خط میں احباب جماعت کے نام سلام بھجواتے ہوئے فرمایا:.” میری طرف سے سلسلہ کے تمام کارکنوں کو خواہ مستقل ہوں یا رضا کار، ربوہ میں ہوں یار بوہ سے باہر اور تمام احباب جماعت کو میرے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا محبت بھر اسلام پہنچادیں.مجھے معلوم ہے کہ آپ سب کے حق میں میری دردناک دعائیں مقبول ہورہی ہیں.اللہ کے کچھ فضلوں کو تو آپ نازل ہوتا دیکھ رہے ہیں لیکن جو ابھی پردہ اخفاء میں ہیں، ان کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے“.مطبوعه روزنامه الفضل (07 جون 1984ء) 883
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم مراکز وو لازماً جماعت احمد یہ جیتے گی اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جون 1984ء خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 1984ء یہ جماعت کوئی مٹنے والی جماعت تو نہیں ہے.کون دنیا کی طاقت ہے، جو ایسی جماعت کو مٹا سکے؟ جو ہر ظلم کے وقت زیادہ روشن ہوتی چلی جائے ، ہر اندھرے پر اس کو نیا نور خدا کی طرف سے عطا ہو.چنانچہ باہر کی جماعتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی اخلاص، یہی جذبہ ہے.گزشتہ خطبہ میں، میں نے مالی قربانی کی تحریک پیش کی تھی کہ یورپ میں سر دست دو یورپ کے مرا کز بنانے کا ارادہ ہے.کیونکہ سلسلہ کے کام بہت تیزی سے پھلتے چلے جارہے ہیں اور یہ چھوٹا سا رقبہ ، جو کسی زمانے میں بہت بڑی جگہ نظر آیا کرتی تھی، یہ تو بالکل ناکافی ہو چکا ہے.لنڈن کی جماعت کے لئے بھی ناکافی ہو چکا ہے، کجا یہ کہ انگلستان یا یورپ کے ایک حصہ کا مرکز بنے.اور پھر جو تبلیغ کے لئے منصوبے نئے بن رہے ہیں عظیم الشان.ان کے لحاظ سے تو بہت بڑے بڑے کام ہونے والے ہیں.بہت بڑے بڑے دفاتر کی ضرورت ہے، مشینوں کی ضرورت ہے، کام کرنے والوں کی ضرورت ہے.اس لئے لازما ہمیں سر دست دو مرکز ضرور یورپ میں بنانے پڑیں گے، وسیع پیمانے پر.ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں.پھر آہستہ آہستہ اور مراکز بن جائیں گے اور ایک ایک ملک کا ایک مرکز ہو جائے گا.تو اس تحریک کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے اب تک اگر چہ بہت سے احباب کے وعدے آنے والے ہیں لیکن جو سر دست وعدے آئے ہیں، انگلستان کے وعدے ایک لاکھ ، اکانوے ہزار سات سو، باون پاؤنڈ کے وصول ہو چکے ہیں اور مغربی جرمنی کی طرف سے پچاسی ہزار، پانچ سو، پچاس پاؤنڈ کے وعدے آچکے ہیں.اسی طرح امریکہ کی طرف سے ایک لاکھ ، چالیس ہزار ، آٹھ سو پینتالیس پونڈ کے وعدے وصول ہو چکے ہیں.اور کل وعدے اب تک چار لاکھ ، انیس ہزار ایک سو سینتالیس پاؤنڈ کے بنتے ہیں.جن میں سے پینتالیس ہزار پاؤنڈ سے کچھ اوپر یا چھیالیس کے قریب یہ تو نقد وصول ہو گئے ہیں اور بعض دوستوں نے مثلاً ایک ہمارے انگلستان کے ایک بڑے مخلص دوست ہیں، انہوں نے پچاس ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کیا ہے.وہ فرماتے تھے کہ میں جون میں ادا کر دوں گا.وہ آج کل بیمار بھی ہیں، ان کے لئے 885
اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جون 1984ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم دعا بھی کریں، اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.اور اسی طرح امریکہ کے ایک نوجوان ڈاکٹر نے باوجود اس کے کہ امریکہ کو براہ راست مخاطب نہیں کیا گیا تھا، پچاس ہزار ڈالر کا وعدہ کیا ہے، جو وہ عنقریب بھجوا دیں گے، انشا اللہ تعالٰی.یہ وعدے تو ہیں عموماً موٹی موٹی رقموں کے.لیکن جماعت کے دونوں کنارے اللہ تعالیٰ نے قربانی اور اخلاق کے ساتھ مزین کر رکھے ہیں.ایک طرف ایسے ایسے مخلص افراد ہیں، جو لکھوکھا کے وعدے کر رہے ہیں اور دوسرے طرف ایسے غرباء ہیں، جن کے پاس سو پاؤنڈ جمع تھے یا دو سو پاؤنڈ جمع تھے، کسی ضرورت کے لئے رکھے ہوئے تھے ، بلاتر دو انہوں نے وہ پیش کر دیتے ہیں.اور پھر وہ نظارہ نظر آرہا ہے، جو تحریک جدید کے آغاز پر مستورات کا میں بچپن میں اپنے گھر میں دیکھا کرتا تھا.عورتیں بچیاں کسی نے چوڑی پکڑی ہوئی ، کسی نے کڑا پکڑا ہوا، کسی نے بندے اور بڑے عجیب جذبے، جوش کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھیں کہ ہماری یہ قربانی قبول فرمائیں.انگلستان کی جماعت میں بھی بکثرت ایسی مستورات ہیں، جنہوں نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ اپنے ہاتھوں کے کنگن اتار دیتے ، اپنی چوڑیاں اتار دیں، اپنے بندے اتار دیئے، اپنے سر کے زیور اتار دیئے.اور بعضوں نے تو ایسی پیاری ادا کے ساتھ بھیجوایا ہے کہ بچیوں کی انگوٹھیاں اور ان کے بندے چھوٹے چھوٹے ہر ایک کا نام لکھ کر سجا کر جس طرح جاہل لوگ دنیا میں بکرے سجاتے ہیں، وہ تو اپنی ریاء کی خاطر سجاتے ہیں لیکن خدا کے بندے اپنے تحفوں کو خدا کے حضور سجا کے پیش کرتے ہیں.کسی ریاء کی خاطر نہیں بلکہ محض للہی محبت میں.تو بڑے پیار میں ان زیوروں کو سجا کر بھجوایا گیا.بعض نوجوان جوڑوں نے اس قربانی کا مظاہرہ کیا.خصوصاً ان کی بیویاں تو غیر معمولی طور پر دعاؤں کی مستحق ہیں کہ خاوند نے اپنی جگہ چندے دیئے اور بیوی کی تسکین نہیں ملی.اس نے کہا کہ جب تک میں زیور نہیں دوں گی، مجھے تو چین نہیں ملے گا.چنانچہ باوجود اس کے کہ خاوند نے سارے خاندان کو شامل کیا ہوا تھا ، انہوں نے پھر بھی اپنا زیور بھجوادیا.ایک بچی نے معلوم ہوتا ہے کہ اپنا وہ سیٹ بھی بھجوا دیا ہے، جو اس کو بری میں ملا تھا.اور وہ بھی بھجوا دیا، جو جہیز میں ملا تھا.کیونکہ دو مکمل سیٹ ہیں اور بڑی عاجزی کے ساتھ یہ عرض کرتے ہوئے کہ اس کو قبول فرما ئیں اور میرے دل کی تسکین کا سامان کریں.تو عجیب دنیا ہے یہ.کچھ لوگ ہیں ، جو ناحق لوگوں کے چھین کر اپنے ہاتھوں میں پہنتے ہیں اور لوگوں کی دولتوں کو اپنی گردنوں کے کڑے بنا دیتے ہیں، جو آخر طوق بننے والے ہیں.لیکن ایسے بھی لوگ دنیا میں ہیں اور کچھ ایسے ہیں، جن کو اپنے ہاتھوں کے زیور برے لگنے لگتے ہیں، ان سے نفرت ہونے لگتی ہے.وہ اپنے گلوں کے ہارا تار دیتے ہیں خدا کی خاطر اور اس بات ا میں ان کو تسکین ملتی ہے کہ ہم خالی ہو گئے ہیں، اپنے رب کے حضور.886
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده کیم جون 1984ء اس جماعت کو دنیا کی کون سی طاقت مار سکتی ہے؟ بڑا ہی جاہل ہے، وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ میں اٹھا ہوں، اس جماعت کو تباہ کرنے کے لئے.بڑے بڑے پہلے آتے ہیں، بڑے بڑے ہم نے دیکھے ہیں، آئے اور نیست و نابوت ہو گئے ، ان کے نشان مٹ گئے اس دنیا سے.لیکن ان غریبوں کی قربانیوں کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمایا اور پہلے سے بڑھ کر عظمت اور شان عطا کی.جنہوں نے اپنے گھر خدا کے لئے خالی کئے ، ان پر اتنی برکتیں نازل فرمائی کہ آج ان کی اولادیں بھی ان کی نیکیوں کا پھل کھا رہی ہیں اور وہ ختم نہیں ہو رہا.تو اس نئی قربانی کے دور میں جماعت جو داخل ہوئی ہے، نئی خوش خبریوں کے دور میں داخل ہوئی ہے، نئی عظیم الشان ترقیات کے دور میں داخل ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ اب ہم ان مقاصد کو بھی حاصل کر رہے ہیں، جن کی خاطر ان چندوں کی تحریکات کی گئی تھیں.چنانچہ آج ہی امریکہ سے یہ خوشخبریاں موصول ہوئی ہیں، جو جماعت کو معلوم ہونی چاہئیں.کیونکہ جہاں اللہ کی راہ میں دکھ کا مزہ ہے، وہاں خدا کی طرف سے جو فضل نازل ہوتے ہیں، ان کا بھی تو ایک مزہ ہے.اور وہ عجیب مزہ ہے.اس لئے یہ دونوں باتیں اکٹھی چلنی چاہئیں.اور مومن کی عجیب شان ہے، اس کے دکھ میں بھی لذت ہے، اس کی خوشی میں بھی لذت ہے.اس کا دکھ بھی آنسو بن کر گرتا ہے، خدا کے حضور.اس کی خوشیاں بھی خدا کے حضور آنسو بن کر گرتی ہیں.یہ دنیا ہی الگ ہے.اور دنیا والے اس دنیا کو سمجھ نہیں سکتے.بہر حال جو واشنگٹن سے شیخ مبارک احمد صاحب نے خوشخبریاں بھجوائی ہیں، وہ میں آپ کو بتا تا ہوں کہ نیو یارک میں ایک بہت ہی عظیم الشان بہت ہی مفید اور سلسلہ کی ضروریات کو بہت حد تک پورا کرنے والی عمارت کا چار لاکھ ، ستاون ہزار ڈالرز میں سودا ہو چکا ہے.اور ماہرین نے جو دیکھا ہے، وہ انہوں نے کہا ہے کہ یہ اس کی قیمت چھ لاکھ ڈالرز سے کم نہیں تھی.یہ جماعت کی خوش قسمتی ہے کہ اتنی اچھی عمارت نیو یارک میں اتنی اچھی جگہ پر ان کو میسر آ جائے.اور ساتھ ہی ایک احمدی دوست نے یا بعض احمدی دوستوں نے مل کر ایک ملحقہ پلاٹ، جس پر رہائشی مکان بھی موجود ہے ، انہوں نے جماعت کو تحفہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے.تا کہ مبلغ جو وہاں ٹھہرے، اس کی ضروریات الگ بھی پوری ہو سکیں اور ایک مہمان خانہ بھی مل جائے.لاس اینجلس میں چارا یکڑ کا پلاٹ خریدا جا چکا ہے.اور شکاگو میں پانچ ایکڑ کا پلاٹ خریدا جا چکا ہے.ڈیٹرائٹ میں جہاں مظفر شہید ہوئے تھے ، سات ایکڑ کا ایک پلاٹ کا سودا ہو چکا ہے.اور اس کے ساتھ مکان بھی شامل ہے.اور واشنگٹن میں جو ہمارا مرکز ہے، وہاں خدا کے فضل سے چوالیس ایکڑ کا رقبہ خرید لیا گیا ہے.اور اب صرف Formalities باقی ہیں.یہ تو پانچ وہ مراکز ہیں، جن کے متعلق میں نے 887
اقتباس از خطبه جمعه فرموده تیم جون 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک نشان دہی کر کے اہل امریکہ سے کہا تھا کہ یہ پانچ مراکز وہ جلد از جلد قائم کریں.لیکن ساتھ ہی میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر دس ہو جائیں اور باقی جو پانچ ہیں ، وہ جماعت مقامی طور پر اس قربانی کے وہ کوشش کر کے بنائے تو اس سے مجھے بہت خوشی پہنچے گی.ایک تحریک کا ذریعہ تھا، چنانچہ جماعت نے اس کو بھی قبول کیا اور یارک میں ایک عمدہ عمارت اس چندے کی تحریک کے علاوہ خریدی جا چکی ہے.اور وہ یارک کا سنٹر بن گیا ہے.اور نیوجرسی میں ایک کونے کا نہایت عمدہ پلاٹ جو ایک ایکڑ کا ہے، وہاں کے ایک مخلص احمدی ڈاکٹر ، جو پچیس ہزار ڈالر چندے کا اس تحریک میں بھی دے چکے تھے، انہوں نے خواہش ظاہر کی ہے بلکہ خرید کر پیش کر دیا ہے اور کاروائی مکمل ہو رہی ہے.تو یہ خوش خبریاں بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.اور آج ہم انشاء اللہ تعالیٰ شام کو ایک پلاٹ دیکھنے جائیں گے، جو آپ کے یورپ کے پہلے مرکز کے لئے خریدا جا رہا ہے.احباب دعا کریں، اللہ تعالی اس میں ہماری راہنمائی فرمائے.اور وہ ایک غالباً سولہ ایک یا اٹھارہ ایکٹر ، سولہ سے اٹھارہ ایکڑ کا رقبہ ہے، جس میں ایک عمارت بھی بنی ہوئی ہے اور ساتھ وسیع پیمانے پر زمین بھی مل رہی ہے.میرا جو اندازہ تھا ، وہ یہ تھا کہ پانچ پانچ لاکھ پاؤنڈ کے دومراکز ہم سر دست قائم کریں گے تو اس لحاظ سے تو امید نظر آ رہی ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے گا.کیونکہ پانچ لاکھ کے لگ بھگ تو چندے کے وعدے آچکے ہیں اور زیورات کی قیمتیں لگ کر ابھی اس میں داخل کرنا باقی ہے.تو بہر حال جو بھی اللہ تعالیٰ عطا فرمائے ، اس کے بہترین مصرف کی توفیق عطا فرمائے.اور جو ہم عمارت خریدیں، اس کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے اسلام کی خدمت میں، ہر ہر اینٹ اس کی اسلام کی خدمت میں استعمال ہو، ہر ہر کو نہ اس کا ہر سائے کی جگہ، ہر دھوپ کی جگہ، اندر اور باہر اللہ کی برکتیں اس پر نازل ہوں.اور قیامت تک کے لئے وہ عمارتیں ان لوگوں کے لئے دعا بن جائیں، جنہوں نے ان کی خرید میں قربانیاں پیش کی ہیں اور اس کی تعمیر میں حصہ لیا ہے.تو ایک اہم عمارت کا جائزہ لینے ہم آج جائیں گے، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.جرمنی کو بھی ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ جلد از جلد جائزہ لیں.تو دشمن تو ہمیں مارنے کے منصوبے بنا رہا ہے.ہمیں کچھ اور نظر آرہا ہے.بالکل الٹ نتائج ظاہر ہورہے ہیں.زیادہ قوت، زیادہ شان کے ساتھ جماعت آگے بڑھ رہی ہے.اور تمام دنیا سے میرا ارادہ ہے اور ایک حصہ اس کا پورا بھی ہو چکا ہے کہ باری باری مختلف جگہوں سے وفود منگوا کر ان سے ان علاقوں میں خصوصی تبلیغ کی مہم تیز کرنے کے لئے مشورے ہوں گے اور پھر ان منصوبوں پر عمل درآمد ہو گا.888
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده کیم جون 1984ء چنانچہ ایک وفد حال ہی میں رخصت ہوا ہے.ابھی تقریباً ہفتے سے زائد انہوں نے یہاں پر قیام کیا.ان کا سے بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی اور نہایت مفید مشورے ہوئے.ایسے ایسے Avenues، ایسے ایوان کھلے کاموں کے کہ پہلے اس کے طرف تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.تو اس طرح مختلف جگہوں کے بعض جگہ دورہ کرنا ہے، بعض جگہ لوگوں کو یہاں بلوانا ہے.تو میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح ہمیشہ دشمن کو اس کی مخالفت اس کی توقع سے زیادہ مہنگی پڑی ہے، یہ مخالفت اتنی مہنگی پڑے گی ، اتنی مہنگی پڑے گی کہ اس کی نسلیں پچھتائیں گی ، جودشمن رہیں گی اور آپ کی نسلیں دعائیں دیں گی ، ایک وقت آکر ان لوگوں کو، جن کی بے حیائی کے نتیجہ میں اللہ نے اتنے فضل ہمارے اوپر فرمائے ہیں.ایک یہ بھی طریق ہوتا ہے جواب کا کہ ہم دعا دیتے ہیں، ظالم تجھے کہ تیرے ظلم کے نتیجہ میں اتنے فضل خدا نے ہم پر نازل فرما دیئے.چنانچہ ایک دفعہ ایک ایسا ہی واقع گزرار بوہ میں، ایک پرانے زمانے کی بات ہے.یعنی اتنی پرانی بھی نہیں لیکن تقریباً تیرہ، چودہ سال کی ، ایک پیپلز پارٹی کے راہنما جو وزیر بھی تھے ، وہ ربوہ دیکھنے کے لئے آ گئے.اور حضرت خلیفة المسیح الثالث نے مجھے فرمایا کہ تم ان کو دکھاؤ.چنانچہ ان کو دکھاتے دکھاتے ، جب میں نے تحریک جدید کا دفتر دکھایا تو انہوں نے کہا: یہ کی چیز ہے؟ میں نے کہا: یہ آپ لوگوں کا تحفہ ہے.انہوں نے کہا: ہم نے کون سا تحفہ دیا ہے؟ میں نے کہا نہیں، آپ سے پہلے لوگ دے چکے ہیں.اور پھر : وقف جدید کا دکھایا تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ بھی آپ لوگوں کا تحفہ ہے.پھر انہوں نے تعجب کیا تو میں نے کہا: یہ آپ سے پہلے لوگ دے چکے ہیں تحفہ.لیکن میں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ آپ بھی ایک تحفہ دینے والے ہیں اور وہ بعد میں ظاہر ہوگا.تو آخر انہوں نے بے چین ہو کر کہا کہ کچھ بتاؤ تو سہی اب کہ کیا کہہ رہے ہو ؟ کن معموں میں باتیں کر رہے ہو؟ میں نے کہا: تحریک جدید کا آغاز اس وقت ہوا تھا جبکہ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے توفیق پا کر مسلمانوں کی ایک بہت عظیم الشان خدمت کی تھی، یعنی کشمیر میں.اور بد قسمتی سے اس دور کے راہنماؤں نے سمجھا کہ اب اگر اس خدمت کو قبول کر لیا گیا تو جماعت بڑی تیزی سے پھیل جائے گی.اس لئے اس کا بدلہ ظلم کے سوا اور کوئی بدلہ نہیں ہے.چنانچہ مجلس احرار قائم ہوئی اور یہ ارادے ہوئے کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے.یہ دعوے ہوئے کہ ایک بھی نہیں بچے گا یہاں اس بستی میں، جو مرزا صاحب کا نام بھی جانتا ہو.اس وقت ایک اور آواز ہم نے اٹھتی ہوئی سنی اور وہ آواز یہ اعلان کر رہی تھی کہ میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی ہوئی دیکھ رہا ہوں.اور اس کثرت سے خدا ہمیں پھیلا دے گا اور دنیا کے کونے کونے میں کناروں تک اللہ اپنے فضل کے ساتھ مسیح موعود کی تبلیغ کو 889
اقتباس از خطبه جمعه فرموده کیم جون 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک پہنچائے گا.چنانچہ وہی ہوا اور اس ظلم کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے تحریک جدید کے طور پر ہم پر فضل نازل فرمائے.تو یہ ایک ایسا تحفہ ہے تمہارے ظلم کا کہ جب خدا کی تقدیر ہم تک پہنچانے سے پہلے پہلے اسے فضل میں بدل دیتی ہے، جو تم ظلم دے کر چلاتے ہو، وہ فضلوں میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے.میں نے کہا: یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، یہ ازل سے اسی طرح ہوتا آیا ہے.ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟ آگ ہی بھڑ کائی گئی تھی نا لیکن ابراہیم تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ گلزار میں تبدیل ہو چکی تھی.ينَارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (الانبياء (70) کی آواز حائل ہو جاتی ہے، رستہ میں تو تحفے تو تمہارے ہی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں.لیکن اللہ کی تقدیر ایک Swarm) کرتی چلی جاتی ہے.جس طرح گندگی کو نہایت ہی خوبصورت پھولوں اور پھلوں میں تبدیل کر دیتی ہے، خدا کی تقدیر اللہ سے کون لڑ سکتا ہے؟ تم گندگی کے تحفے بھیجتے ہو، وہ رحمتوں سے پھول بن کر ہم پر برستے ہیں.تم ظلم کے تھے بھیجتے ہو، وہ فضل بن کر ہم پر نازل ہوتے ہیں.تو ہے تمہارا ہی تحفہ اس میں کوئی شک نہیں.لیکن تقدیر الہی سے ہو کر آیا ہے، ہم تک.پھر وقف جدید کا میں نے بتایا اور ابھی وہ موومنٹ نہیں چلی تھی، جو بعد میں پیپلز پارٹی نے چلائی.تو میں نے ان کو کہا کہ آپ دیکھیں گے کہ آپ بھی ایک تحفہ دیں گے ہمیں.اور اس تحفے کو بھی خدا فضلوں میں تبدیل کرے گا.اور جماعت پہلے سے بہت زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھے گی.چنانچہ یہی ہم نے دیکھا.تو جس خدا کی یہ اہل تقدیر جماعت نے دیکھی ہو اور ہر دکھ کو رحمتوں اور فضلوں اور خوشیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا ہو، اس جماعت کے حوصلے کون مٹا سکتا ہے؟ اس جماعت کو شکست کون دے سکتا ہے؟ اس لئے لازماً جماعت احمد یہ جیتے گی.لازماً آپ جیتیں گے اور خدا کے یہ عاجز اور غریب بندے جیتیں گے، جن کو آج دنیا کمزور سمجھ کر، جو ظالم اٹھتا ہے، اس پر ظلم شروع کر دیتا ہے.مگر تقدیر الہی نے آپ کا کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا.کبھی ہمت نہ ہاریں، ہمیشہ دعاؤں اور صبر کے ساتھ اپنی اس راہ پر قائم رہیں اور دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کثرت کے ساتھ آپ پر فضل نازل فرماتا ہے.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 281 تا 295) 890
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 جون 1984ء امریکہ و یورپ کے مراکز کی تحریک پر والہانہ لبیک خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1984ء....اس ماہ کے آغاز میں، میں نے یورپین مراکز کے قیام کے لئے تحریک کی تھی کہ دو مراکز کے لئے یورپ کے احباب چندہ دیں.اور ایک مرکز اس سے انشاء اللہ تعالیٰ جرمنی میں بنانے کا ارادہ تھا اور ایک انگلستان میں.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے غیر معمولی اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے اور قربانی کے نئے سنگ میل رکھتے ہیں.اسی طرح میں نے امریکہ میں پانچ مراکز کے لئے دو سال قبل تحریک کی تھی اور امریکہ کی جماعت کا ایک حصہ بھی خدا کے فضل سے قربانی کے میعار میں بہت آگے ہے.اور بعض انفرادی نمونے قربانی کے تو حیرت انگیز ہیں.لیکن ان دونوں مراکز میں ، جو اس وقت صورت حال نظر آ رہی ہے ، وہ یہی ہے کہ اس تحریک کو مزید پھیلانا پڑے گا.جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، امریکہ میں تو ابھی ایک حصہ ایسا ہے، جو قربانی میں حصہ لینے کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی حصہ نہیں لے رہا.معلوم ہوتا ہے، امریکہ کی جماعت کا یہ حصہ عدم تربیت کا شکار رہا ہے اور اس طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے.اور ایک طبقہ ان میں سے ایسا بھی ہے، جو خواہش رکھتا ہے، بلند ارادے رکھتا ہے لیکن ان کو توفیق نہیں ہے.اور ایک مخلصین کا ایسا حصہ ہے کہ جو صف اول میں بھی سابقون میں ہیں.یعنی صف اول کے اگلے حصوں میں نمایاں ہیں.اور یہ وہ حصہ ہے، جس کے متعلق میں نے تجربہ کیا ہے کہ جب بھی مجھے جماعت امریکہ کی طرف سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ ابھی ضرورت پوری نہیں ہوئی، ابھی ہم ضرورت سے پیچھے ہیں، آپ دوبارہ تحریک کریں تو جب میں تحریک کرتا ہوں تو یہی لوگ دوبارہ پھر اسی میں حصہ لیتے ہیں اور سہ بارہ تحریک کروں ، تب بھی یہی لوگ حصہ لیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں.پھر اور بعض تو اپنی استطاعت کے آخری کناروں تک پہنچ گئے ہیں.پہلے کسی نے اگر دس ہزار ڈالر کا وعدہ کیا تھا، دوبارہ تحریک کی تو پچیس ہزار کا کر دیا.حالانکہ دوبارہ ان کو تحریک نہیں کی گئی تھی.پھر جب تحریک کی گئی کہ ابھی امریکہ کی جماعت کو مزید ضرورت ہے تو بچھپیں کی بجائے پچاس ہزار کر دیا.تو گوشیخ مبارک احمد صاحب کا خط آیا تھا، ان کو میں نے جواب یہ دیا ہے کہ اب میں امریکہ میں * 891
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک مزید تحریک نہیں کروں گا کیونکہ مجھے علم ہے کہ وہی لوگ، جو حد استطاعت تک پہنچ چکے ہیں، انہوں نے مزید قربانیاں کرنی ہیں.اور اپنے وہ حقوق بھی وہ تلف کر دیں گے، جن کے متعلق قرآن کریم حفاظت کرنے کی تلقین فرماتا ہے.اولاد کے بھی حقوق ہیں، دوسرے بھی حقوق ہیں نفس کے بھی حقوق ہیں.اور یہ نہیں ہوسکتا کہ خلیفہ وقت اس جرم میں شریک ہو جائے کہ اتنا زیادہ قربانی طلب کرے اور قبول کرلے کہ جو قرآن کریم کی ہدایات کے خلاف ہوں.چنانچہ افریقہ سے بھی ایک احمدی خاتون کا خط آیا ہے.آپ مانگیں، نہ مانگیں ، میں نے تو زیور دے دیا ہے.اب اٹھا لیں، اس کو.جس طرح مرضی کرنا ہے.ہم کیوں محروم رہیں، اس نیکی سے.چنانچہ ان کو میں نے لکھا کہ ٹھیک ہے، آپ محروم نہیں ہوں گی.آپ جماعت کو زیور پیش کر دیں.اسی طرح بہت سے دیگر ممالک سے خط آ رہے ہیں.ایک پاکستان سے ایک بچی نے خط لکھا مجھے ایک غیر متوقع طور پر پچاس ہزار روپیہ خدا تعالیٰ نے عطا فر ما دیا تو وصیت کا میرا باقی تھا، وہ میں نے ادا کر دیا ہے.باقی پندرہ ہزار بچے ہیں اور یہ آپ نے مانگا تو نہیں ہے مگر میں نے دے کے چھوڑنا ہے.یورپ والی جو تحریک ہے، اس میں آپ ضرور مجھ سے لے لیں.وہ بچی ہماری عزیز ہے.بے تکلف ہے، وہ اسی قسم کے خط لکھا کرتی ہے کہ بس میں نے دینا ہی ہے.اب آپ جس طرح بھی ہے، لینا ہی پڑے گا ، اس کو.اور امانت پڑی ہوئی ہے، مجھے فور ابتائیں کہ کہاں داخل کراؤں؟ اسی طرح پاکستان کی ہی ایک اور بچی کا خط آیا ہے کہ میں نے کافی دیر سے جوڑ کر ڈیپ فریزر کی خواہش میں پیسے جمع کئے تھے.لیکن میری خوش قسمتی کہ جب اتنے پیسے ہوئے، جتنے میں اس وقت ڈیپ فریزر آتا تھا.جب میں نے جمع کرنے شروع کئے تھے اور وہ میرا ٹارگٹ تھا تو بجٹ آ گیا اور قیمتیں بڑھ گئیں، ڈیپ فریزر کی.اور ساتھ ہی یورپ کی تحریک بھی میرے کانوں تک پہنچ گئی تو اس وقت میں نے اپنی خوش قسمتی پر ناز کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح مجھے بچالیا ہے.ورنہ میں خرید لیتی.اور یہ روپیہ اب میں یورپ کی تحریک کے لئے پیش کر رہی ہوں.تو خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے والے مچل رہے ہیں.ہر جگہ بے قرار ہیں، روھیں.ایک بیمار عورت، جو ہسپتال میں ہے، اس کا خط آیا ہے کہ میرازیور تو ایسی جگہ پڑا ہے کہ میں جاؤں خود ہی نکالوں جا کے.اور میں بڑی بے قرار ہوں کہ میرا پتہ نہیں کیا بنتا ہے؟ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جلد توفیق دے.میرے پر ایک بوجھ بن گیا ہے، زیور.جب تک میں دے نہ لوں، مجھے تسلی نہیں ہوگی.892
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 جون 1984ء ہسپتال سے فارغ ہوں اور جاؤں اور پھر تلاش کر کے دوں.اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جو میرے ہاتھ میں ہے، اس وقت وہ تو میں دے رہی ہوں.تو خدا کے کام تو نہیں رکیں گے.سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ایک ملک کی ضروریات ، اگر وہ ملک پوری نہیں کر سکتا تو دوسرے ملک ان ضروریات کو پورا کریں گے.لیکن فکر کرنی چاہئے ، ایسے احمدیوں کی جن کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے.خصوصاً ایسے حالات میں جب کہ قوم بہت عظیم خطرات کے دور میں سے گزر رہی ہو.اس وقت قوم کے ایک حصہ کو غیر معمولی قربانیاں کرتے ہوئے دیکھنا اور پھر خاموش بیٹھے رہنا، یہ اتنا بڑا گناہ ہے، اتنی بڑی سخت دلی ہے کہ اگر ان کو فور اسنبھالا نہ گیا تو یہ لوگ ضائع ہو جائیں گے اور خدا کی ناراضگی کے نیچے آجائیں گے.اس لئے ان کی فکر کریں.ان سے بالکل پیسہ نہ مانگیں ، ان کو پیار سے سمجھا ئیں محبت سے جماعت کے قریب لائیں.معلوم کریں کیا وجہ ہوگئی ؟ کیوں یہ اکھڑ گئے ہیں؟ عبادتوں میں کمی تھی یا کوئی اور دنیا داری کی چیزوں نے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے؟ بہر حال ایک مہم چلا کر ان کی تربیت کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.اب میں آپ کو چند مثالیں دیتا ہوں کہ کس طرح جماعت کے دوست قربانی میں اپنے اخلاص، اپنی محبت میں کیسے کیسے بلند مقامات کو چھورہے ہیں.زیورات کی تحریک تو نہیں کی گئی تھی.مستورات نے خود ہی انگلستان کی مستورات نے زیورات دینے شروع کئے اور بہت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے ، انگلستان کی خواتین نے.جب اس کا ذکر آیا جمعہ میں تو بات پھیل گئی اور جرمنی میں جو احمد کی نو جوان ہیں ، ان کی بیویوں نے بھی اس میں حصہ لینا شروع کیا.اور جہاں تک جرمنی کی جماعت کا تعلق ہے، اب تک کے اعداد و شمار سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ بعد میں آنے کے باوجود آپ سے آگے بڑھ گئے ہیں.یعنی انگلستان کی جماعت سے.اور غیر معمولی طور پر اپنی آمد کے مقابل پر انہوں نے خدا کی راہ میں زیادہ کھل کر چندے دیئے ہیں.یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ انفرادی طور پر ہر فرد آگے بڑھ گیا.یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا کہ انفرادی طور پر کون آگے بڑھ رہا ہے؟ دل کے حالات پر خدا کی نظر ہے.کمزوریوں پر مجبوریوں پر خدا کی نظر ہے.اس لئے یہ فتویٰ تو نہ میں دینے کا اہل ہوں ، نہ مجاز ہوں، نہ دوں گا.لیکن جو عمومی نظر آتی ہے چیز، ایک تصویر عمومی ابھرتی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی کی جماعت اللہ کے فضل سے بہت آگے بڑھ گئی ہے.چنانچہ آپ اس سے اندازہ کریں، جہاں تک تعداد جماعت کا تعلق ہے، انگلستان کی جماعت جرمنی کی جماعت کے مقابل پر چھ سات گنا کم سے کم زیادہ ہے.اور اگر مالی حالات 893
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 29 جون 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم برابر سمجھے جائیں، حالانکہ برابر نہیں ہیں، کیونکہ وہاں بہت سے نوجوان بے کار بھی ہیں اور کئی قسم کی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں، کئی ہیں، جو صرف حکومت سے جو گزارے مل رہے ہیں، اسی پر رہ رہے ہیں.یہاں بھی ایسے ہوں گے مگر وہاں تعداد زیادہ ہے.تو بہر حال چھ، سات گنا زیادہ تعداد ہے، انگلستان کے احمدی احباب کی.اور اب تک انگلستان کی طرف سے پاؤنڈوں میں اگر پیش کیا جائے تو دولاکھ، ترانوے ہزار تین سو، نناوے پاؤنڈ چندہ موصول ہوا ہے.یعنی وعدے موصول ہوئے ہیں اور جرمنی کی طرف سے اب تک دولا کچھ بتیس ہزار دوسو، چالیس پاؤنڈ کے وعدے موصول ہو چکے ہیں.جہاں تک دیگر قربانیوں کے نمونوں کا تعلق ہے، اس لحاظ بھی خدا کے فضل سے جرمنی پیچھے نہیں ہے.بلکہ بعض بڑے دلچسپ ایمان افروز واقعات پہنچ رہے ہیں.مثلاً ایک نو جوان آئے ہوئے تھے میٹنگ کے سلسلے میں فرینکفرٹ اور وہیں ان کو اطلاع ملی کہ یورپ کے لئے تحریک ہوئی ہے.اس سے پہلے ان کے وکیل کی چٹھی آچکی تھی کہ تمہارا جو کیس چل رہا ہے عدالت میں، اس کی میری دو ہزار مارک فیس ہے، وہ تیار رکھو کیونکہ اس کے بغیر وہ کیس نہیں چلے گا.تو دو ہزار مارک ہی ان کے پاس تھا اس وقت.انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں نے تو اب اس تحریک میں حصہ لینا ہی ہے.دیکھا جائے گا، ملک مجھے باہر نکالتا ہے یا رہنے دیتا ہے؟ وکیل کی فیس دے سکوں یا نہ دے سکوں؟ کانوں میں آواز پہنچ گئی ہے، اس لئے میں نے بہر حال یہ روپیہ دے دینا ہے.چنانچہ وہاں سے وہ دے کر اٹھے اور واپس جانے کے بعد ان کو وکیل کی طرف سے چٹھی آئی کہ تم بالکل فکر نہ کرو، حکومت نے تمہاری طرف سے فیس ادا کر دی ہے.عجیب اللہ کی شان ہے.اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ دل کی کیا کیفیت تھی، قربانی کے وقت؟ اور خدا تعالیٰ کس حالت میں انسان کو پاتا ہے؟ اور کس طرح اس پر رحمت کی نظر فرماتا ہے؟ ہم تو جو اطلا میں ملتی ہیں، ان سے اندازہ لگاتے ہیں.مگر خدا عالم الغیب ہے، عالم الشہادۃ ہے، ہر چیز پر نظر رکھتا ہے.یہ یقینی طور پر ایک ضمانت ہے کہ خدا کسی قربانی کرنے والے کی کسی محسن کی قربانی کو ضائع نہیں فرمائے گا.بلکہ بندے اسے ہمیشہ غفور اور رحیم پائیں گے.ایک جرمنی میں ایک احمدی دوست نے چٹھی لکھی، مبلغ کو.وہ انہوں نے پھر مجھے بھجوا دی.اس میں ایک عجیب نقشہ کھینچا ہوا تھا.جو کچھ ان کے پاس تھا، وہ تو انہوں نے چندہ میں دے دیا اور واپس جا کر ساتھ ٹیپ لے گئے ، کیسٹ ایک خطبہ کی ، جس میں قربانی کرنے والوں کا ذکر تھا اور اپنی بیوی کو سنانی شروع کی.وہ معلوم ہوتا ہے، غریب لوگ ہیں، زیادہ ان کے پاس زیور نہیں تھا، خاتون کے پاس.لیکن انہوں نے جو نقشہ کھینچا ہے، وہ بڑا ہی دردناک ہے.کہتے ہیں، وہ ٹیپ سنتی جاتی تھی اور بلک بلک کر رو رہی تھی کہ 894
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 جون 1984ء تحریک جدید - ایک اللہی تحریک کاش میرے پاس بھی ہوتا تو میں پیش کرتی.اور جو ہے، وہ اتارتی جاتی تھی ، ساتھ ساتھ.اور بالکل خالی ہو گئی.یہ جو کچھ ہے، یہ تو فوراً بھجواؤ.لیکن میں اس بات پر رو رہی ہوں کہ کاش میرے پاس ہوتا.یہ تو پیش کرنے والی چیز کوئی نہیں ہے.اس خاتون کو بھی میں خوشخبری دیتا ہوں تمہارا بھی قرآن کریم میں ذکر اللہ تعالیٰ ان رونے والوں کا جب ذکر فرماتا ہے تو تم بھی اس میں شامل ہو.کتنی عجیب کتاب ہے، کیسا عظیم کلام ہے اور کیسے عظیم ہمارے آقا ہیں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کہ جس حالت میں بھی ہمیں وہ خدا پاتا ہے آپ کی غلامی میں، ہم پر رحمت اور فضل ہی کی نظر ڈالتا ہے.ایک اور بچی کے متعلق اطلاع ملی کہ نئی نئی دلہن پاکستان سے آئی تھی.اور زیورات جو دئیے تھے، اس کی خواہش تو یہی تھی کہ جاؤں گی خاوند سے ملوں گی تو زیورات پہن کر سچ کر پھر مجالس میں جایا کروں گی.تو جب اطلاع ملی تو ابھی اس نے زیور پہنا نہیں تھا کوئی.چنانچہ ایک دفعہ بھی نہیں پہنا، ساراز یوراسی وقت جماعت کی خدمت میں پیش کر دیا.اور پھر ایسے جو قربانی کرنے والے ہیں، وہ اپنے اوپر کوئی رحم نہیں کرتے.یعنی یہ خیال نہ کریں کہ وہ بڑے درد محسوس کرتے ہیں کہ ہم سے یہ کیا ہو گیا ، ہمارے ہاتھ خالی ہو گئے.کیونکہ جو خط آتے ہیں، اس میں اصل لطف کی بات یہ ہے، وہ اتنے پیار اور محبت سے اپنے خالی ہاتھوں پر نظر ڈالتی ہیں عورتیں، پھر جب شیشوں میں دیکھتی ہیں اپنے چہروں کو کہ وہاں جھوم نہیں ہیں کوئی، کوئی بندے باقی نہیں رہے، کوئی بالی باقی نہیں رہی تو بڑا ہی سرور حاصل کرتی ہیں.کہتی الحمد للہ.یہ ہے زینت، جو خدا کی راہ میں ہمیں نصیب ہوئی ہے.تو یہ ایک ایسی جماعت ہے، جس کی کوئی مثال نہیں.ساری کائنات میں جماعت احمد یہ جیسی آج کوئی جماعت نہیں ہے.یہ خلاصہ ہے کا ئنات کا.کیسے ممکن ہے کہ خدا اس جماعت کو مٹنے دے.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.بڑے بڑے متکبر آئے ہیں، پہلے بھی مٹانے کے لئے.اور خود مٹ کر صفحہ ہستی سے غائب ہو گئے.اور ابھی بہت آئیں گے.کیونکہ جماعت کا جو رستہ ہے، یہ تو رستہ ہی قربانیوں کا رستہ ہے.لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان بندوں کو خدا انہیں مٹنے دے سکتا، جن کے اندر خدا کی محبت اس طرح ٹھاٹھیں مار رہی ہو.اور جو کچھ خدا نے دیا ہو، وہ پیش کرتے ہوں اور پھر روتے ہوں کہ ہم پیش کچھ بھی نہیں کر سکے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، بہت سے خطوط ہیں.اس کثرت سے روزانہ آتے ہیں کہ جو زخم غیر لگاتے ہیں، وہ ان کے اوپر لگتا ہے، پھاہ رکھ رہے ہیں.یعنی بیک وقت ایسی اطلاعیں ملتی ہیں کہ جماعت کے دوستوں کے اوپر ظلم ہورہا ہے، احمدیت پر مظالم ہورہے ہیں، جس سے سینہ چھلنی ہو جاتا ہے.895
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 29 جون 1984ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ یہ اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے.اس قسم کے نمونوں کے ساتھ کہ جماعت کے اندر جو ا خلاص بڑھ رہا ہے ، پہلے سے محبت بڑھتی چلی جارہی ہے، قربانی کی روح بڑھتی چلی جارہی ہے.جس طرح وہ اظہار کرتے ہیں، اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں پیش کرنے کی تمنائیں لے کر آتے ہیں.وہ ساری ایسی چیزیں ہیں، جو ساتھ ساتھ ان زخموں کو مندمل کرتی چلی جاتی ہیں.ورنہ جس قسم کے حالات میں سے جماعت گزر رہی ہے، وہ کوئی زندہ رہنے والے حالات نہیں ہیں.یہ جماعت کا اخلاص ہی ہے، جو بچائے چلے جا رہا ہے، سہارے دیتا چلا جا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا ایک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا سرمه چشم آربیه، روحانی خزائن جلد دوم، صفحه 52) تو بیک وقت غم اغیار بھی ہے اور دلبرا کی پیاری نگاہیں بھی ہیں، جو ثم اغیار کے جھگڑے کو کاٹتی چلی جاتی ہیں.ایک انگلستان کی بچی کے ذکر کے بعد میں اس مضمون کو فی الحال ختم کرتا ہوں.بچیوں کا بھی تو ذکر آنا چاہئے کہ احمدی بچیاں کس مزاج کی ہیں؟ ایک بچی لکھتی ہے کہ یہ جو پاؤنڈ ہے، ایک پاؤنڈ ، یہ مجھے فلاں وقت حضرت چھوٹی آپا نے انعام دیا تھا.اور یہ جو پیسے ہیں، یہ سیدہ مہر آیا جب آئی تھیں تو انہوں نے انعام دیا تھا.اور یہ جو پیسے ہیں، یہ طاہرہ صدیقہ جب تشریف لائی تھیں، پچھلی دفعہ تو انہوں نے میری حسن تلاوت یا حسن قرات پر انعام دیا تھا.اور یہ جو پیسے ہیں، یہ سکول نے مجھے اچھی تقریر پر انعام دیا تھا.اور یہ جو پیسے ہیں، یہ مجھے فلاں وقت انعام میں دیا تھا.اور میں نے سب جمع کئے ہوئے تھے.اب تحریک سن سے میں سارے پیش کر رہی ہوں.لیکن اس التجا کے ساتھ کہ دعا یہ کریں ، اب کہ آئندہ جب بھی مجھے خدا دیا کرے، میں تھوڑے سے اپنے پاس رکھ لیا کروں باقی سارے خدا کی راہ میں پیش کر دیا کروں.عجیب نمونے ہیں، جو میں کہہ رہا تھا کہ نئے سنگ میل رکھے جارہے ہیں، اس کوئی مبالغہ نہیں.چھوٹی سی عمر کی بچی، اس کے جذبات کا اندازہ کریں کہ کس طرح خدا کی راہ میں پیش کر رہی ہے اور پھر یہ تمنا لے کر آتی ہے، درخواست یہ کر رہی ہے کہ آئندہ بھی ساری زندگی کے لئے میرے لئے یہ دعا کریں کہ تھوڑ اسا اپنے پاس رکھا کروں باقی سارا اپنے اللہ کی راہ میں پیش کر دیا کروں.تو جماعت جس درد کے دور سے گزر رہی ہے، اس کے ساتھ انعام بھی تو نازل ہو رہے ہیں ، خدا کے.دن بدن ، لمحہ بہ لمحہ اس جماعت کی کایا پلٹ رہی ہے.نئی رفعتیں حاصل ہو رہی ہیں.آج جماعت اس 896
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 جون 1984ء مقام پر نہیں کھڑی ، جس پر جماعت آج سے دو مہینے پہلے کھڑی تھی.اگر آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو جس طرح پیچھے بہت بلند پہاڑوں پر چڑھنے والے کوہ پیما جایا کرتے ہیں تو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ نیچے نظر ڈالتے ہیں تو بہت پیچھے بہت نیچے اپنی پرانی جگہیں دکھائی دیتی ہیں تو مجھے تو یوں ہی لگ رہا ہے کہ میں ایک عظیم پہاڑ کے اوپر چڑھ رہا ہوں، جماعت کے ساتھ اور ہر آن جب میں نظر ڈالتا ہوں تو پہلا مقام بہت پیچھے اور بہت نیچے دکھائی دیتا ہے.اس لئے خدا سے بھی شکوہ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوسکتا.جو مصیبتوں کے وقت بھی ایسے فضل اور ایسے انعام لے کر آتا ہے.پس اپنے صبر کا معیار بھی بڑھائیں، اپنے شکر کا معیار بھی بڑھا ئیں.اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دن بدن کتنی ترقیات عطا فرمائے گا.اور ابھی اس کے نزدیک یہ ابتلاء کا دور ہے، انعام کے دروازے ابھی کھلنے والے ہیں.یہ ابتلاء ہیں، جو انعام بن کر آرہے ہیں ، جماعت کے لئے.اور اس کے بدلے میں پھر انعام آنے والے ہیں.اللہ کے فضلوں کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی.اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے، اس کے فضلوں کے سمندر کا کہ جس تک آپ پہنچ کر کہیں کہ اب ہم یہاں پہنچ گئے.اس لئے آپ کی زندگی اس کے فضلوں کے اندر ختم ہوگی.اس کے فضل آپ کی زندگیوں میں ختم نہیں ہو سکتے.ایسے خدا سے ہم نے تعلق جوڑا ہے، ایسے خدا سے سودا کیا ہے.آخر پر میں اب یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ وہ سب دوست ، مردوخواتین، جو مجھے باہر سے خطوط لکھ رہے ہیں کہ نہیں بھی ضرور موقع دیں.کیونکہ یہ آج کل خاص ایام ہیں اور غیر معمولی لذت پاتی ہے، جماعت قربانی میں.اس لئے میں اپنے پہلے فیصلے کو بدلتا ہوں اور یورپ اور امریکہ کے مراکز کے لئے سیاری جماعت کو اجازت دیتا ہوں کہ جس جس جگہ سے بھی کوئی مخلص کچھ پیش کرنا چاہے ، وہ پیش کر دے.لیکن یہ خیال رکھیں کہ حد اعتدال میں رہیں.بعض اوقات ایسے آتے ہیں قوموں پر جبکہ ابھارنا پڑتا ہے کہ ابھی تمہارا معیار تھوڑا ہے اور بلند کرو.آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، مجھے اب یہ فکر ہے کہ ذرا کم کرو.اتنا زیادہ آگے نہ بڑھو کیونکہ مجھے ذہن میں ہمیشہ وہ حقوق آتے ہیں، جو خدا تعالیٰ نے فرض فرما دیئے ہیں.اور یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ وہ بنیادی حقوق تلف کر کے کہیں قربانی کی راہوں میں آگے نہ بڑھیں.اس لئے توازن کو قائم رکھتے ہوئے ، اپنے دوسرے حقوق ادا کرتے ہوئے عفو کا جو طریق خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جو بچتا ہے، پھر وہ سب کچھ پیش کر دو.تو ساری دنیا کی جماعتیں اب آزاد ہیں کہ حسب توفیق عفو کے مطابق قرآنی تعلیم کی حدود میں رہتے ہوئے ، وہ بھی ان لذتوں سے حصہ پائیں ، جن لذتوں سے آج اہل یورپ بالخصوص اور اہل امریکہ کا ایک حصہ، ایک طبقہ بڑے نمایاں طور پر حصہ پارہا ہے.مطبوعہ خطبات طاہر جلد 3 ، صفحہ 335 تا 348 897
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد Yours will be the final eid پیغام فرمودہ 30 جون 1984ء پیغام فرمودہ 30 جون 1984ء برموقع عیدالفطر اس موقع پر حضور رحمہ اللہ کا خصوصی پیغام بھی سنایا گیا.حضور کے اس جملہ سے احباب جماعت کی آنکھوں میں چمک اور چہروں پر بشاشت نکھر آئی.حضور نے فرمایا:.In this hour of trial Allah will never abanden you, yours will be the final eid.انشاء الله ( مطبوعه روزنامه الفضل 18 اگست 1984ء) 899
تحریک جدید- ایک الہی تحریک آخر کار حقیقی عید آپ ہی کو عطا ہوگی پیغام موصولہ 03 جولائی 1984ء پیغام موصولہ 03 جولائی 1984ء برموقع عید الفطر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے امیر مقامی و ناظر اعلی مکرم محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مرحوم کے نام جو پیغام ارسال فرمایا ، اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:.براہ کرم تمام احباب جماعت کو میری طرف سے محبت و شفقت سے معمور السلام علیکم اور عید مبارک پہنچا دیں.ہم نے حال ہی میں روحانی احیائے نو کا ایک مہینہ گزارا ہے.اس مہینہ کی تکالیف برداشت کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عید کی خوشیوں سے نوازا ہے.اسی طرح یقینا اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بھی بہت بڑی عید سے نوازے گا.اللہ تعالیٰ کی خاطر جواذیتیں برداشت کی جارہی ہیں، اس کے نتیجہ میں آج کے اس دور ابتلاء میں دنیا بھر کے احمدیوں نے زبر دست اخلاص ، وفا اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا.آخر کار حقیقی عید آپ ہی کو عطا ہوگی.( انشاء اللہ ).مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ (مطبوعہ روز نامہ الفضل 05 جولائی 1984ء) 901
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 1984ء وو جماعت احمدیہ کے جذبہ قربانی کی چند مثالیں خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 1984ء مالی قربانی کے متعلق پہلے بھی میں بیان کر چکا ہوں.یہ رد عمل ہے دل آزاری کا رد عمل ایک وہ ہے اور ایک یہ ہو رہا ہے.اور عجیب بات ہے کہ یہ خاص دور ہے.پہلے دوروں میں زبردستی مالی قربانی ہم سے لی جاتی تھی ، غیر کی طرف سے.اور جماعت تو طوعی قربانی کرتی چلی آئی ہے.لیکن اس دفعہ اس میں کمی آئی ہے اور اس کو خدا نے اس طرح پورا فرما دیا کہ جماعت از خود دونوں ہاتھوں سے اپنے اموال کو لٹا رہی ہے.ایک بچی لکھتی ہے، میں اپنے زیور کے سیٹ میں سے ایک سیٹ دینا چاہتی ہوں، جو میں نے ابھی پہنا نہیں ہے.اور شاید وہ میرے استعمال میں اسی لئے نہیں آیا کہ احمدیت کے لئے وقف تھا.آپ اس سیٹ کو جس مرضی تحریک میں شامل کر لیں.چاہے یورپ کی تحریک میں شامل کر لیں ، چاہے امریکہ کی تحریک میں شامل کر لیں.میں نے یہ سیٹ وقف کر دیا ہے، اب آپ جس مرضی تحریک میں شامل کر لیں.لیکن پلیز (Please) مجھے انکار نہ کریں.اگر خدانخواستہ انکار بھی کیا تو یہ سیٹ میرے کسی کام کا نہیں رہے گا اور نہ کبھی میں اس کو استعمال کروں گی.اس لئے پلیز میرے اس سیٹ کو کسی بھی تحریک میں ضرور شامل کر لیں اور میرے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بھی زیادہ قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائے.ایک نوجوان لکھتے ہیں: پیارے آقا عید الفطر کی نماز پر فرینکفرٹ گیا تھا، ہائی وے پر کار کو او ور ٹیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ اس رفتاری میں مسابقت کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ سوائے اس کے کہ مال و جان کا نقصان اور اس کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں.اور پھر یہ سوال پیدا ہوا کیوں نہ اس مسابقت کی روح کو مذہبی دنیا میں تبدیل کیا جائے؟ اور میں نے نیت کر لی کہ یورپین مراکز کی تحریک میں جس شخص کا سب سے زیادہ وعدہ ہوگا، اس سے بڑھ کر وعدہ اور ادائیگی کروں گا.مسجد پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایک تاجر احمدی دوست جو یہاں مستقل رہائش پذیر ہیں، انہوں نے چالیس ہزار ڈ منیش مارک کا وعدہ کیا ہے.میں نے پوری تحقیقات کرنے کے بعد کہ اس سے بڑھ کر کسی کا وعدہ نہیں ہے، چالیس ہزار پانچ 903
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم سوڈینیش مارک کا وعدہ اپنے دل میں خدا تعالیٰ کے ساتھ کر لیا.چالیس ہزار مارک جو میرا اندوختہ ہے اور پانچ سو انشاء اللہ تعالیٰ اس ماہ کی تنخواہ سے مل جائیں گے.میں مجبور ہوں، میرا قصور نہیں، میرے بس کی بات نہیں.میں کیا کروں؟ دشمن کی دن رات کی ذلیل حرکتوں اور کاروائیوں سے جو آپ کو تکلیف پہنچ رہی ہے، میرا دل یہ کرتا ہے کہ جو مجھ سے ہو سکے، وہ تو کر گزروں.ایک نوجوان یہ خبر دے رہے ہیں اور یہ عجیب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دین کا ، اس کی عطا کا سلسلہ بھی اس شدت کے ساتھ جاری ہے کہ کوئی اس میں ادھار نہیں ہے.قرض نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ.ایک نوجوان جرمنی کے لکھتے ہیں کہ میں بہت ہی دلبر داشتہ تھا کہ میرے پاس کچھ زیادہ نہیں.اور مجھے جو آٹھ سو مارک ملتے ہیں، یہ حکومت کی طرف سے ہیں.اس میں مجھے نوکری نہیں ملی ہوئی.کوئی اس میں سے چار سو کرائے کے نکل جاتے ہیں اور باقی چار سو میں گزارہ کرنا مشکل ہوتا ہے.لیکن ایسی سخت میرے دل میں تمنا تھی کہ میں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر وعدہ کر لیا اور دوسرے ہی دن اللہ تعالیٰ نے مجھے نوکری عطا فر مادی اور میں نے یہ چندہ جتنا بھی لکھوایا تھا، وہ خدا کے فضل سے پورا ادا کر دیا ہے.ہالینڈ کی جماعت کے متعلق اطلاع ہے کہ مربی لکھتے ہیں کہ جس والہانہ انداز سے انہوں نے آواز پر لبیک کہا ہے، مستورات نے زیور دے دیئے اور سب نے اپنی توفیق سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں، وہ معجزہ سے کم نہیں.احباب کو جلد از جلد ادائیگی کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے.ان سب منا مخلصین کے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 103 صفحہ 363 تا374) 904
تحریک جدید - ایک الہی تحریک خلاصه خطاب فرمودہ 27 جولائی 1984ء امام جماعت کی ہر تحریک پر لبیک کہ کر نعمتوں اور برکتوں سے حصہ پائیں.خطاب فرمودہ 27 جولائی 1984ء بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ یورپ وو اجتماع کے آخری روز حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے خدام سے ایک ولولہ انگیز تاریخی خطاب فرمایا.اس خطاب میں حضور نے تحریک جدید کے آغاز ، پس منظر اور اس کے عظیم الشان نتائج پر روشنی ڈالی.حضور نے فرمایا کہ ” جب بھی امام جماعت کی طرف سے کوئی تحریک جاری ہوتی ہے تو اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان حکمتیں مضمر ہوتی ہیں.جو وقت کے ساتھ ساتھ بے نقاب ہوتی چلی جاتی ہیں.اس لئے امام جماعت کی ہر تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ان نعمتوں اور برکتوں سے حصہ پانا چاہئے.یورپین مشنز کی تحریک میں احباب جماعت نے جس والہانہ انداز سے قربانی کے عظیم الشان نمونے پیش کئے ہیں، حضور نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.اس ضمن میں حضور نے خدام کے جذبہ قربانی کو سراہا اور خدام کو بیش قیمت نصائح سے نوازا.مطبوعه روزنامه الفضل 18 اگست 1984ء) 905
تحریک جدید - ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 اگست 1984 ء احمدیت ،ساری دنیا سے مختلف ایک قوم بن کر ابھری ہے خطبه جمعه فرموده 10 اگست 1984ء چنانچہ یہ جو مختلف وقتوں میں جماعت کی طرف سے قربانی کی اطلاعیں آرہی ہیں اور مختلف ممالک سے یہ اس کثرت کے ساتھ ہیں کہ ناممکن ہے، انہیں ایک دو خطبات میں بیان کیا جاسکے.بلکہ ہرا ہا صفحات کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں.میں نے بعض قربانیوں کا ذکر گزشتہ ایک خطبہ میں کیا تھا لیکن اس کے بعد بعض ایسے غرباء کی بعض بچوں کی بعض کمزور لوگوں کی ایسی عظیم الشان قربانیوں کی اطلاعیں ملی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کو بھی اس ذکر میں شامل کرنا ضروری ہے.کیونکہ جماعت کے امیر بھی جس طرح قربانی کر رہے ہیں ، اسی طرح جماعت کے غریب بھی قربانیاں کر رہے ہیں.اور جماعت کے غرباء کی بعض صورتوں میں قربانیاں اتنی عظیم الشان ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ یہ قربانیاں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں خدا کی نظر میں یا امراء کی قربانیاں.آج تو یہ کیفیت نظر آتی ہے کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز امیر اور غریب اپنی قربانیوں میں بالکل ایک صف میں کھڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں.مگر پھر بھی غریب چونکہ اس سطح پر اپنی اقتصادی لحاظ سے اس ادنی سطح پر واقع ہوتا ہے کہ جب وہ قربانی دیتا ہے تو اسے بھوک کی شدت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے، اسے دوسری تنگیاں بھی اٹھانی پڑتی ہیں، اس لئے اس پہلو سے وہ یقیناً امراء پر فضیلت لے جاتا ہے.اور بعض لوگ کچھ بھی پیش نہیں کر سکتے ، سوائے رونے کے.اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کے وہ آنسو ہیں، جو خدا کی نظر میں موتیوں سے بڑھ کر قیمتی ہو جاتے ہوں گے.چنانچہ ایک صاحب اس سلسلہ میں مجھے لکھتے ہیں کہ آپ نے جو نئے مشن کی تحریک فرمائی، اس کی کیسٹ گھر میں سن رہے تھے، میری بچیاں بھی ساتھ بیٹھی تھیں.جب آپ نے یہ فرمایا کہ فلاں بچی نے زیور دیا اور فلاں بچی نے یہ روپیہ دیا تو یہ آواز سن کر اس عاجز کی بچیاں آنکھوں سے آنسو بہا کر پکار اٹھیں کہ کاش ہمارے پاس بھی زیور یا روپیہ ہوتا تو حضور کے قدموں میں رکھ دیتیں.اس وقت تو قرضہ کا بوجھ اس قدر ہے کہ یہ خط لکھتے وقت اپنی بچیوں کا وقت یاد آ گیا اور میری آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہیں.907
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 اگست 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک تو یہ وہ جماعت ہے، جس کا رد عمل ان مصیبتوں اور دکھوں کے وقت اللہ کی راہ میں اور بھی زیادہ قربانیاں دینے کی تمنا کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے.بچوں کے متعلق ایک دوست لکھتے ہیں کہ میرے بچوں نے جو پیسے ان کے پاس تھے ، کہا کہ امی ہم نے یہ رقم دینی ہے.میری ایک بچی جس کی کراچی سے روانہ ہوتے وقت آخری دن آپ کی ملاقات ہوئی تھی اور آپ نے از راہ شفقت اس کو قلم دیا تھا، اس نے اپنے جیب خرچ میں سے اپنے گلہ میں ، وہ مٹی کا برتن، جس میں پیسے جمع کرتے ہیں بچے، جو کچھ بھی جمع کیا ہوا تھا، وہ سارا اس نے پیش کر دیا.ایک بچہ، جو بڑی عمر کا ہے نسبتا، اس نے موٹر سائیکل کے شوق میں پیسے جمع کئے ہوئے تھے اور اب تک اس کے پاس 2,100 روپے جمع ہو چکے تھے.اس نے مجھے لا کر دیئے کہ ابا میں بالکل موٹر سائیکل لینا نہیں چاہتا، مجھے کوئی شوق نہیں رہا، اس لئے یہ ساری رقم یورپ کے ان مراکز کے چندے میں پیش کر دیں.اور میری طرف سے درخواست کریں کہ مولا ہماری یہ حقیر قربانی قبول فرمائے.ایک بچی لکھتی ہے، ہمارے ایک مبلغ کی بچی ہے کہ میں نے تین سال کی عرصہ میں جیب خرچ اور عیدی کی ساری جمع شدہ رقم کا گلہ مشنری انچارج (Missionary Incharge) یعنی اپنے ابا کے سپر د کر دیا ہے.جو پانچ صد شیلنگ بنتے ہیں.اس رقم کو قبول فرمائیں.ایک مربی سلسلہ اطلاع کرتے ہیں اور جتنے بھی خدا کے فضل سے مربیان سلسلہ ہیں، ان سب کا یہی حال ہے.کوئی ایک کا ذکر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی دوسرا قربانی میں پیچھے ہے.صرف نمونہ جماعت کے سامنے لانے کے لئے بعضوں کو میں نے چنا ہے.کہتے ہیں : نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد سیدھا مر بی ہاؤس گیا فوراًبیوی سے ملا اور اس کی طرف دیکھتا رہ گیا کیونکہ میں اس امید کے ساتھ گیا تھا کہ میرے جانے سے قبل میری بیوی اپناز یورا تار چکی ہوگی.جاتے ہی مجھے کہے گی کہ یہ لو، اسے حضور کی خدمت میں پیش کر دو.میں نے جب اس کے بدن پر زیور دیکھا تو میں نے اس سے کہا کہ میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ میں تو اس امید سے آیا تھا کہ تم سارا زیور اتار چکی ہوگی.اس پر اس نے کلائی میری طرف بڑھائی اور کہنے لگی کہ خودا تارو.اور کہنے لگی: خدا کی قسم! میں تو یہ زیور اس وقت سے وقف کر چکی ہوں، جب حضور نے تحریک فرمائی تھی.اور انتظار کر رہی تھی کہ کب ہمیں بھی اجازت ہو، اس تحریک میں شامل ہونے کی ؟ لو، اسے اتارو، اب میں اسے نہیں پہن سکتی.کہنے لگی: کچھ زیور میرا فلاں گھر پڑا ہے ، وہاں سے منگوالو.ایک ہلکا سا لاکٹ اور بالیاں کانوں میں دیکھیں تو میں نے کہا: یہ کیوں نہیں اتار رہی؟ تو اس نے جواب دیا کہ 908
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 اگست 1984ء حضور نے فرمایا ہے کہ کچھ اپنے بچوں کے لئے بھی رکھو.میں محض خدا کی ناراضگی کے خوف سے یہ نہیں اتارتی کہ نافرمانی نہ ہو جائے.لیکن جو ہلکا زیور ہے، وہ اپنے بچوں کے لئے رکھ لیا ہے اور جو کچھ بھاری زیور تھا، وہ خدا کی راہ میں پیش کر دیا ہے.ایک پرانے خادم سلسلہ، جو اکثر زندگی کا حصہ کلرک کے طور پر گزارتے رہے اور ابھی بھی کلرک کی او پر کی سطح کے آدمی ہیں.وہ یہ لکھتے ہیں: اس وقت دل میں اپنے مولی کے ساتھ آپ کی تحریک میں مبلغ تیرہ ہزار روپے (13000:RS) جو میری ساری عمر کی کوڑی کوڑی پس انداز کی ہوئی رقم ہے، دینے کا وعدہ کر لیا ہے.میری یہ پس خوردہ رقم حاضر ہے، جس مرکز کے لئے چاہیں، خرچ کریں.اور مجھے جمع کروانے کا ارشاد فرمائیں.اللہ تعالیٰ میری یہ حقیر قربانی قبول فرمائے.آئندہ بھی محض اپنے فضل سے مزید قربانیوں کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے.یہ پس انداز کی ہوئی رقم کچھ رقم تو بچیوں کے وظیفوں کے تھی، کچھ تھوڑی تھوڑی اپنی بچت اور کچھ بڑے بچے کی دی ہوئی امداد، یہ سب اس لئے اکٹھی کر رہا تھا کہ دو بڑی بچیاں، جن کا نکاح جلسہ پر ہوا تھا، ان کا رخصتانہ کرنا باقی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ ان بچیوں کے رخصتانے کا انتظام تو خود فرمادے گا.لیکن یہ حیرت انگیز قربانیاں تو ایسی نہیں ہیں، جو خدا والوں کے سوا کوئی اس دنیا میں پیش کر سکے.احمد بیت تو یوں لگتا ہے، ساری دنیا سے مختلف ایک اور قوم بن کر ابھری ہے.اس زمانے میں اس دنیا کے لوگ ہی یہ نہیں نظر آتے.اگر خدا نے ہمیں نہ بتایا ہوتا، اتنا پیارا پیارا محاوراد بیون تو ہم نہیں کہہ سکتے تھے کہ ان کو کیا کہیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا نام ربیون رکھ دیا ہے.رب والے لوگ ہیں.یہ دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں.ایک غریب استانی لکھتی ہیں: آپ کی باتیں سن کر دل ابھر آیا اور آنکھیں نم ناک ہوگئیں، قربانی کے لئے دل مچل اٹھا.لیکن میرے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں، جس کو جماعت کی نظر کر سکوں.کوئی زیور نہیں، کوئی بینک بیلنس نہیں.ہاں، ایک سفید پوشی کا بھرم ہے.تمام اخراجات کے بعد میرے پاس ساٹھ روپے بچتے ہیں، جو کہ میں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ ہر ماہ چندہ دیا کروں گی.روزانہ کھانے پینے کے اضافی اخراجات کو امرکافی حد تک ختم کرنے کی کوشش کروں گی.قادیان کی لجنات کے متعلق مجھے ایک رپورٹ ملی ہے اور اس کا مجھے انتظار تھا.کیونکہ جب تحریک جدید کی قربانیوں کا آغاز ہوا تھا تو قادیان کی مستورات کے غیر معمولی قربانی کے مظاہرہ کی توفیق ملی تھی.اب تو بہت تھوڑی خواتین وہاں رہ گئی ہیں.لیکن جتنی بھی ہیں، مجھے انتظار تھا کہ ان کے متعلق بھی 909
اقتباس از خطبه جمعه فرمود: 10 اگست 1984ء تحریک جدید - ایک الہلی تحریک جلد ششم اطلاع ملے.کیونکہ ان کا حق ہے کہ وہ قربانی کے میدان میں آگے رہیں اور قادیان کا نام جس طرح اس کو زمانے میں خواتین نے اونچا کیا تھا، آج پھر اسے اونچا کریں.تو الحمد للہ کہ وہاں کی رپورٹ بھی موصول ہوئی ہے.صدر لجنہ اماءاللہ بھارت اطلاع دیتی ہے کہ میں نے قادیان کی لجنہ اور ناصرات کے وعدے نئے مراکز کے لئے حضور کی خدمت میں 16 جولائی کو لکھے تھے.حضور کے خطبات نے ایک تڑپ یہاں کی عورتوں میں پیدا کر دی اور محض اللہ کے فضل سے جو کچھ ان کے پاس تھا، انہوں نے پیش کر دیا ہے.لیکن پیاس ہے کہ ابھی نہیں بھی، اتنی شدید تڑپ ابھی ہے کہ اور ہو تو خدا کے کاموں کے لئے اور بھی پیش کر دیں.چھوٹی چھوٹی بچیوں نے اپنی کجیاں ، جن میں پانچ پانچ ، دس دس پیسے کر کے کچھ جمع کیا تھا، تو ڑ تو ڑ کر جو کچھ نکلا، اللہ کے حضور پیش کر دیا.اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ اس وقت تک قادیان کی عورتوں اور بچیوں کا وعدہ زیور کی قیمت لگا کر اور نقدی ملا کر چھیالیس ہزار نوسو، تیرہ روپے اور ادائیگی چھتیں ہزار، آٹھ سو، چونسٹھ روپے ہو چکی ہے.لیکن قادیان کی لجنہ کی شدید خواہش ہے کہ حضور دعا کریں، اللہ تعالی محض اپنے فضل سے نہیں اور دے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم مزید اس مد میں ادا کرسکیں.ایک عورت لکھتی ہیں کہ میں نے جب یہ تحریک سنی، بڑا دردناک خط ہے کہ میرے دل کی کیا حالت ہوئی.میں نے جب سنا کہ عورتوں نے یہ قربانی کی اور زیوروں کے سیٹ اتارا تار کر دیئے تو دل کی جو کیفیت تھی ، وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے.میرے پاس تو کچھ نہیں ہے.میرے آقا! میرے پاس کوئی زیور، کوئی جائیداد نہیں.ہم غریب طبقے کے لوگ ہیں.لیکن میرے پاس تین لڑکے ہیں، میں اپنا ایک بیٹا قربانی کے لئے دینا چاہتی ہوں، اسے قبول فرمائیں.ایک خاتون لکھتی ہیں کہ جب میں نے سنا کہ ہمیں بھی اجازت مل گئی ہے تو میرا دل خوشی سے بھر گیا.میرا ساراز یور آج سے چھ سال قبل چوری ہو گیا تھا، ایک نیکلس ہاراس بکس میں پڑا ہوا ہے، جو چوروں کی نظر سے بچ گیا تھا.اس ہار کو میں آقا کے حضور اس تحریک میں پیش کرتی ہوں.سید وہ جماعت ہے، جس کو مٹانے کا بعض بدقسمت لوگ منصوبہ بنارہے ہیں.بڑی بدبختی ہے کہ جو یہ خلاصہ ہوں کا ئنات کا، جن سے انسانیت کی اقدار زندہ ہوں، جو گزشتہ مذہبی تاریخوں کو کہانیوں سے نکال کر عمل کی دنیا میں ڈھال دیں، ان کو برباد کرنے کے در پر ہو جائے دنیا.اس سے زیادہ بدم ہ بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے؟ خطبات طاہر جلد 3 ، صفحہ 427 تا 442) 910
تحریک جدید - ایک الہی تحریک وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 اگست 1984ء دنیا بھر میں تبلیغی ثمرات اور افضال الہی خطبہ جمعہ فرمود و 24 اگست 1984ء جانی قربانی اور مالی قربانی اور جذبات کی قربانی سے متعلق اور ان جہات میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر میں بارہا پہلے کرتا آیا ہوں.اب میں تبلیغ کے موضوع پر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں تبلیغ کی ایک نئی روچل پڑی ہے.اور ایسے ممالک، جہاں بہت ہی سست رفتار تھی ، وہاں بھی خدا کے فضل سے بڑی تیزی آرہی ہے.اور ایسی قو میں، جن میں احمدیت کا نفوذ بہت ہلکا تھا، است روی پائی جاتی تھی، ان میں بھی بڑی تیزی سے اب جماعت کی طرف رجوع ہو رہا ہے.چنانچه گذشتہ ایک، دوماہ کے اندر عربی بولنے والی قوموں میں سے خدا کے فضل سے 27 بیعتیں موصول ہوئی ہیں.اور اہل عرب خالص بھی ہیں اور شمالی افریقہ کے عرب بھی اس میں شامل ہیں.تو یہ رحجان پہلے نظر نہیں آتا تھا.یورپ کے دو ممالک میں بلکہ تین میں خدا کے فضل سے عربوں نے وہاں بیعتیں کیں اور بڑے مخلص ہیں.ڈنمارک میں تو اوپر تلے دو عرب نوجوانوں نے بیعتیں کی ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ وہ اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں.لٹریچر لے رہے ہیں، توجہ دلا رہے ہیں، مشورے دے رہے ہیں کہ کس طرح کو ہماری قوم میں تبلیغ ہونی چاہیے؟ اور اچھے خاصے وہاں کے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ خاندانوں کے افراد ہیں.تو یہ بھی ایک اللہ کا غیر معمولی فضل ہے، جس کو نظر میں رکھنا چاہیے.صرف درد کے ساتھ دعا نہیں ہونی چاہیے، شکر کے ساتھ بھی دعا ہونی چاہیے.یہ پہلو جو ہے، اس کو آپ نظر انداز نہ ہونے دیں، کبھی بھی.کیونکہ درد سے ہلکی سی شکایت پیدا ہو جاتی ہے.جتنا زیادہ ادب کا مقام ہو، اتنا انسان اس شکایت کو دبا لیتا ہے، اپنی آواز میں.لیکن اس کی سسکیاں پھر بھی بیان کر دیتی ہیں اس شکایت کو چھپ تو نہیں سکتی.اس لئے خدا کے حضور جہاں درد بھری سسکیاں لیتے ہیں، وہاں شکر کا بھی اظہار کیا کریں کہ ان اندھیروں میں بھی وہ روشنی کے سامان پیدا فرما رہا ہے.جرمنی کے متعلق میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ یورپ کے سب ملکوں میں سب سے آگے ہے، خدا کے فضل سے.اور سو (100) کا جو میں نے ان کو سال کا ٹارگٹ دیا تھا، اس میں سے وہ نصف تک پہنچ 911
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 اگست 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم چکے ہیں.یعنی نصف جولائی تک ساڑھے چھ مہینے میں خدا کے فضل سے 50 بیعتیں وہاں ہو چکی ہیں اور ابھی ساڑھے پانچ ماہ باقی ہیں.اور جس طرح چندوں میں دیکھا جاتا ہے کہ آخر پر جا کر رفتار تیز ہو جاتی ہے، اگر اس طرح ہم ان سے امید لگائیں تو امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ سو سے آگے بڑھ جائیں گے.انگلستان دوسرے نمبر پر ہے.اس میں 8 بیعتیں ہوئی ہیں.حالانکہ جماعت بہت بڑی ہے.کچھ خطوں سے لگتا ہے کہ توجہ شروع ہوئی ہے.لیکن چونکہ Late Starters ہیں، بعد میں آنے والے ہیں اور اس میدان میں اس لئے کچھ وقت لگے گا.تبلیغ کے لئے تو پہلے تیاری ہوا کرتی ہے، واقعیت پیدا کرنا، تعلقات بڑھانے ، پھر ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، زمینیں بدلنی پڑتی ہیں ، بعض تجربے کئے ناکام رہے، پھر دوسری جگہ شروع کئے.بعض طرز اختیار کی ، وہ ناکام رہی ،نئی طرز پھر بدلی تو رفتہ رفتہ فن آئے گا.ایک ہی دن میں تو انسان پہلوان نہیں بن جایا کرتے.امید ہے، انشاء اللہ تعالیٰ جس طرح مجھے خطوط سے اندازہ ہو رہا ہے، انگلستان کی جماعت بھی جب پوری طرح انہماک سے تبلیغ شروع کرے گی تو 7، 8 کا قصہ نہیں بلکہ سینکڑوں میں بات جا پہنچے گی ، انشاء اللہ تعالی.ڈنمارک اور سویڈن میں بھی جیسا کہ میں نے بتایا تھا، بیعتیں ہوئی ہیں.اور دو جگہوں پر ایسی بیعتیں ہیں، جو خاص طور پر قابل ذکر ہیں.(Iron Curtain) جو کہلاتا ہے، یعنی اشترا کی دنیا اس میں ایک تو یوگوسلاویہ میں پہلے ہی خدا کے فضل سے جماعت قائم ہے اور وہاں جب بھی وقف عارضی والے گئے ہیں، ان کو خدا تعالیٰ نے نیا پھل عطا فر مایا ہے.وہاں امکانات ہیں اور جو یوروپین ممالک، ایسے یوروپین ممالک، جن میں یوگو سلاو زیادہ کثرت سے جاتے ہیں، ان کو ان کی طرف توجہ کرنی چاہیے.ان میں بیداری پیدا ہورہی ہے، اسلام کی طرف.اسلام کی طرف رحجان پایا جاتا ہے.اس لئے ان کو ضرور خاص طور پر پیش نظر رکھیں.دو ملکوں کی بیعتیں ، جن کا میں نے ذکر کیا ہے، وہ اس کے علاوہ ہیں.پولینڈ سے ابھی تازہ اطلاع وقف عارضی کے وفد کی طرف سے آئی ہے کہ خدا کے فضل.بیعتیں ہوئی ہیں اور امام زک کی کوششوں سے خدا کے فضل سے پھل مل ہے.واقفین عارضی نے لکھا ہے کہ یہ ہماری محنت سے نہیں بلکہ امام زک نے پہلے سے تیار رکھی ہوئی تھیں.اور پولینڈ میں چونکہ پہلے بھی اسلام کا اثر ہے اور اب چونکہ ایک بددلی پیدا ہو رہی ہے اشترا کی فلسفے سے، اسی لئے عیسائیت وہاں دوبارہ پنپ رہی ہے.تو اسلام کے پنپنے کے بھی خدا کے فضل سے امکانات ہیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ، ان کو مزید.تو ایک بنیاد بن رہی ہے، جو انشاء اللہ تعالیٰ ایک مضبوط جماعت پر منتج ہوگی.ترو 912
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 اگست 1984ء Greece (یونان) میں پہلی مرتبہ گریکس کے مسلمان ہونے کی خوشخبری ملی ہے.بیعت ہوئی تو انگلستان میں ہی ہے.لیکن دوگر یک مائیں ہیں، جنہوں نے احمدیت قبول کی ہے.اور ان کے بچے بھی ساتھ ہیں، خدا کے فضل سے تو یہ بہت خوشخبری کی بات ہے.ایک تو واپس چلی گئی ہیں، یہاں سے.اور بہت ہی نیک ارادے لے کر گئی ہیں اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ جا کے میں اپنے خاندان میں اور علاقے میں تبلیغ کی کوشش کروں گی.امریکہ میں اگر چہ جماعت بہت تعلیم یافتہ ہے اور مقامی طور پر امریکن بھی خدا کے فضل سے کافی تعداد میں احمدی ہیں لیکن تبلیغ میں امریکہ پیچھے ہے.ایک ڈیٹن کی جماعت کبھی کبھی جوش دکھاتی ہے اور ایک دم پنپنا شروع کرتی ہے.پھر ان پر نیند بھی آجاتی ہے، پھر کچھ دیر آرام کرتے ہیں.تو امریکہ کو توجہ دلانی چاہئے.کچھ امریکن نمائندے یہاں موجود ہیں اس وقت ، ان کو میں خاص طور پر پیش نظر رکھ رہا ہوں کہ امریکہ میں پاکستانی بالکل تبلیغ نہیں کر رہا.جو امریکن افریقن ہیں، وہ تو خدا کے فضل سے کر بھی لیتے ہیں.اور ان میں وائٹس (Whites) بھی کرتے ہیں اور پچھلے سال بھی سفید فام امریکنوں میں بھی بیعتیں ہوئیں.لیکن وہ بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، کبھی اٹھتے ہیں، کبھی سو جاتے ہیں.ایک استقلال، جو مومن کی زندگی میں نظر آنا چاہئے ، وہ نہیں ہے.اور پاکستانی تو تبلیغ میں بہت ہی سکتے ہیں بیچارے.زیادہ سے زیادہ جو بہت مخلص کہلاتے ہیں، وہ چندے میں مخلص ہیں.اور بعض لوگ اپنے بچوں کو قرآن شریف وغیرہ پڑھا دیتے ہیں گھر میں اور تربیت بھی کر رہے ہیں.یہ بڑا اہم کام ہے، بہت بنیادی کام ہے.لیکن تبلیغ میں پیچھے رہ گیا ہے، امریکہ.خصوصاً امریکن پاکستانی شاید ان کو خدا تعالیٰ نے چونکہ سہولتیں زیادہ دی ہیں، ان کے مقام زیادہ بلند ہیں مالی دنیاوی لحاظ سے تو شاید وہ سمجھتے ہوں کہ ہم تبلیغ والے لوگ نہیں ہیں.تبلیغ تو نچلے آدمیوں کا کام ہے.تو یہ درست نہیں ہے.میں نے پہلے بھی کہا تھا: اونچاوی ہے، جو تبلیغ میں اونچا ہے.اور وہی اونچے ہوں گے آئندہ اور انہی کی نسلیں اونچی کی جائیں گی، جو تبلیغ میں اونچے ہوں گے.جو اس میں گر جائیں گے، ان کی نسلوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے.نائیجیریا سے فضل الہی صاحب انوری اطلاع دیتے ہیں، بعض خوشخبریاں دے رہے ہیں، ایک تو نسروا کے مقام پر بارہ ایکٹر زمین برائے سکول مل گئی ہے.وہاں ایک نیا سکول جاری کیا جائے گا، انشاء اللہ.اور اوگا تو نسر وا موشا سے پندرہ میل دور ایک قصبہ میں 16 افراد نے بیعت کی ہے اور ایک نئی جماعت وہاں خدا کے فضل سے قائم ہوگئی ہے.اور 16 سے 31 جولائی یعنی پندرہ دن میں 81 بیعتیں ہوئی ہیں، نائیجیریا میں.جو گزشتہ رجحان کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ رجحان بلندی کی طرف مائل ہے.913
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 اگست 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک یوگنڈا میں پچھلے دو سال کے اندر 23 نئی جماعتیں قائم ہوئی تھیں.لیکن گزشتہ چند ماہ سے وہاں کمزوری آگئی ہے ، ستی آگئی ہے.اس لئے یوگنڈا کو توجہ کرنی چاہئے.وہ اپنے پہلے Momentum کو قائم رکھیں ورنہ پھر وہیں.اگر جماعتوں کو اسی حالت میں نیند آ گئی تو پھر دوبارہ جگانا مشکل ہو جائے گا.چنانچہ وہاں سے دو دو، چار چار، پانچ پانچ بیعتوں کی تو اطلاعیں مل رہی ہیں، مختلف علاقوں سے.مثلاً کمپالا سے دو ہوئیں.یا محمد علی صاحب کا ترے جہاں ہیں، وہاں سے اطلاع مل رہی ہے.لیکن جو پہلے رو چلی تھی ، وہ اب رو والی شکل نہیں رہی.تنزانیہ میں خدا کے فضل سے مورد گور ومشنری ٹریننگ کالج کا افتتاح ہو گیا ہے.اور ایک خوشکن رپورٹ یہ بھی ہے کہ 51 افراد غیر مسلموں میں سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں.جو پہلے اپنی بدقسمتی کے نتیجہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے پر خاش رکھتے تھے اور نفرت رکھتے تھے اور اب ایسی محبت میں ان کی حالت بدل گئی ہے کہ دل و جان نچھاور کر رہے ہیں.نئے ممالک میں جماعتوں کے قیام کا منصوبہ جو بنایا گیا تھا، سب ممالک کے سپرد کئے گئے تھے کہ تم نے فلاں ملک میں نئی جماعت قائم کرنی ہے.اس میں بہت سے لوگ ستی سے کام لے رہے ہیں اور با قاعدہ رپورٹیں نہیں بھیج رہے.تو ان کا اگر یہ خیال ہو کہ میں بھول جاؤں گا ، یہ غلط ہے.یہ تو میری زندگی کا مقصد ہے.میں کیسے بھول سکتا ہوں.میں نے توجہ دلائی ہے تبشیر کو کہ بار باران کو لکھ کر پوچھیں اور وہ خود بھی خیال کریں.اور آپ کے انگلستان کی طرف سے بھی اس بارہ میں کوئی رپورٹ نہیں مل رہی.حالانکہ یہاں تو دو ہفتے کا کیا سوال ہے، ہر چوتھے پانچویں دن تبلیغی صورت حال کے متعلق رپورٹ مل سکتی ہے.تو ہر ملک کے امیر کو چاہئے کہ وہ ہر رپورٹ میں لازما ذ کر کرے کہ اس مہینہ میں کتنے احمدی ہوئے ہیں ، مقامی طور پر.سال سے اب تک کتنے ہوئے ہیں.اور نئے ممالک جو سپر د کئے گئے تھے، ان میں سے کن ممالک میں خدا کے فضل سے پودا لگا ہے اور نئی جماعتیں بنائی تھیں.یہ بھی ایک سکیم کا حصہ تھا.تو تمہاری جماعتیں اگر سو (100) ہیں تو ان کو ڈبل کرو، دو سو (200) کرو.بعض بڑے اچھے مبلغ ہیں، جو توجہ سے ان باتوں کی طرف رپورٹیں کرتے ہیں.اور بعض پھر سو جاتے ہیں، سمجھتے ہیں، بھول گئے ہوں گے، سارے.تو تنزانیہ کے مبلغ جو ہیں، وہاب صاحب، انہوں نے بڑی اچھی رپورٹ کی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہمارے سپر د جو نئے ممالک میں جماعتوں کے قیام کا منصوبہ تھا، اس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جسے روانڈا کہتے ہیں، میں 16 مئی کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے 22 افراد پر مشتمل جماعت احمدیہ کی بنیا درکھ دیا 914
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 اگست 1984ء گئی ہے.اور اب ایک نیا ملک بھی جماعت احمدیہ کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے.پہلے بھی اس میں تبلیغ ہو کے کچھ احمدی ہوئے تھے.لیکن باقاعدہ جماعت کا قیام اب ہوا ہے.اور روانڈا کے علاقے کے چیف نے جس جگہ بیعتیں ہوئی ہیں، چارا یکڑ زمین وقف کی ہے.جو ایک نہایت ہی خوبصورت پہاڑی پر اونچی جگہ پر واقع ہے اور باوجود شدید مخالفت کے اور سازشوں کے وہ اپنی بات پر قائم رہا ہے.اور اس نے قطعاً کوئی تر در نہیں کیا ، یہ تحفہ جماعت کو پیش کرنے میں.اللہ تعالیٰ اس کو بھی جزاء دے.سیرالیون میں سیکنڈری سکول لیوٹن کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے، جس کے اللہ تعالیٰ نے ڈیڑھ لاکھ لیون کا تو فورا ہی انتظام فرما دیا یعنی ستر ہزار پونڈ کا اور بقیہ جماعت اپنی طرف سے کوشش کر کے مزید کٹھا کرلے گی ، انشاء اللہ.فری ٹاون میں مسجد اور دفتر کی عمارت کا کام شروع ہو گیا ہے اور پندرہ روزہ رپورٹ جو آتی ہے، اس میں 35 بیعتوں کا ذکر ہے.سیرالیون کے لحاظ سے یہ بھی بہت تھوڑی ہیں.ان کو مزید توجہ کرنی چاہیے.مگر گزشتہ کے مقابل پر اگر نظر ڈالیں تو بہت خدا کا فضل ہے.ہر جگہ سے بالعموم الا ماشاء اللہ اکثر ملکوں سے رحجان تیزی کی طرف دکھائی دے رہا ہے.خانا میں چندہ کی رپورٹ جو انہوں نے بھیجی ہے، وہ تو یہ ہے کہ لجنہ کے اجتماع میں 36 ہزار، خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں 40 ہزار اور وا کی ریجنل کانفرنس کے موقع پر 5 لاکھ اور ٹیما کی ریجنل کانفرنس کے موقع پر 2 لاکھ 70 ہزارسیڈیز اکٹھی ہو ئیں.اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ اگر چہ اقتصادی لحاظ سے بہت ہی گری ہوئی حالت ہے، خانا کی.لیکن چندوں کے لحاظ سے گرنے کی بجائے بڑھ رہی ہے.جس کا مطلب ہے کہ جماعت میں اخلاص بڑا ترقی پر ہے.تو یہ جو چندوں کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، دراصل یہ اخلاص کے پیمانے کے طور پر کہ شدید گرتی ہوئی اقتصادی حالت میں جہاں فاقے پڑا رہے ہوں بلکہ فاقوں سے لوگ مررہے ہوں، وہاں احباب جماعت چندوں میں اضافے کر رہے ہوں، یہ حیرت انگیز نشان ہے ، خدا کے فضل کا کہ اخلاص میں کمی آنے کی بجائے ترقی ہو رہی ہے.اور جہاں تک بیعتوں کا تعلق ہے، ان کی سو، ڈیڑھ سو بیعتیں ماہانہ کی اطلاعیں آتی ہیں.لیکن ان کے لحاظ سے بہت کم ہے.سابقہ کے مقابل پر وہ خوش ہیں اور اس میں وہ حق بجانب ہیں کہ پہلے سے رفتار تیز ہے.لیکن غانا جیسے ملک میں جہاں جماعت کا غیر معمولی اثر ورسوخ ہے، وہاں رفتار زیادہ تیز ہو جانی چاہیے.بلکہ بیسیوں گنا سے زیادہ تیز ہونی چاہئے.بہر حال یہ خوشکن خبر ہے.وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات میں تبلیغ کی راہیں وسیع کر دی ہیں.اور جب سے پاکستان سے احمدیوں پر مظالم کی خبریں آنی 915
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 اگست 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک شروع ہوئی ہیں، عوام الناس کے علاوہ بڑی تیزی کی ساتھ اہم شخصیات اور اداروں کا جماعت کی طرف رحجان بڑھتا چلا جارہا ہے.تو اس کے نتائج بھی انشاء اللہ اکٹھے نکلیں گے.کیونکہ یہ رحجان جب پیدا ہوتے ہیں تو چند دنوں میں تو نہیں وہ بیعتوں میں بدلا کرتے ، کچھ وقت لگتا ہے.مگر امید ہے، انشاء اللہ تعالیٰ اس کا بہت اچھا پھل ہمیں وہاں عطا ہو گا.متفرق بعض ممالک ہیں، ان میں بھی بعض میں تو بالکل غیر معمولی رحجان میں تیزی آئی ہے.گیمبیا والے نمبر تو لگا رہے ہیں، بیعتوں پر.لیکن یہ نہیں بتارہے کہ یہ کتنی دیر کے نمبر لگے ہوئے ہیں.مثلاً ان کا جواب نمبر آیا ہے آخری ، وہ 2109 کا ہے.اب یہ نہیں پتہ لگ رہا کہ ایک سال کے ہیں یا پانچ سال کی ہیں.تو اس لئے جو بھی رپورٹیں بھیجا کریں، اس میں وضاحت کر دیا کریں.آئیوری کوسٹ چھوٹا سا ملک ہے، جماعت بھی چھوٹی سی ہے لیکن وہاں خدا کے فضل سے جولائی کے مہینے میں 57 بیعتوں کی اطلاع ہے.اور نبی میں 6 بیعتوں کی اطلاع ہے.اور ایک نیا جزیرہ جہاں دو رومن کیتھولک عیسائی، رومن تھے یا دوسرے چرچ سے مگر بڑے شدت کے عیسائی تھے، دو احمدی ہوئے تھے، ان میں سے ایک تربیت حاصل کرنے کے لئے نجی سووا (Suva) پہنچا.وہاں اس نے بڑے جوش و خروش سے تربیتی کلاس میں حصہ لیا اور نئے ارادے لے کے اپنے جزیرہ میں واپس لوٹ رہا ہے.وہ بھی دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو وہاں کا مبلغ بنادے.ٹرینیڈاڈ کچھ عرصہ سے بالکل خاموش ہو گئی تھی.اب پچھلے مہینے وہاں سے 47 بیعتوں کی اطلاع ملی ہے.ماریطانیہ بھی نیا ملک ہے، جہاں جماعت قائم ہوئی ہے.وہاں سے بھی 16 بیعتوں کی اطلاع ملی ہے.اور بعض جگہ تو خدا کے فضل سے وہ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا کے رحجان ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں ، وہاں سے اطلاعیں آرہی ہیں.(النصر : 03) مطبوعہ خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 459 تا 471) 916
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم پیغام موصولہ 06 ستمبر 1984ء قربانیوں کے نتیجہ میں میسر آنے والی حقیقی عید تمہارے لئے ہی مقدر ہے پیغام موصولہ 06 ستمبر 1984ء برموقع عید الاضحیہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے عید الاضحیہ کے موقع پر جملہ افراد جماعت کے نام جو انگریزی پیغام ارسال فرمایا، اس کا اردو تر جمہ درج ذیل ہے:.جمله افراد جماعت تک میری طرف سے انسلام عليكم ورحمة الله وبرکاتہ کی دعا اور عید مبارک کا محبت بھرا تحفہ پہنچادیں.عید الاضحیہ خدا تعالیٰ کی خاطر کی جانے والی قربانیوں کے حق میں ایک تمثیل کا درجہ رکھتی ہے.مزید برآں یہ اس یقین سے مالا مال کر دکھاتی ہے کہ خدا کی راہ میں کی جانے والی قربانیاں رائیگاں نہیں جاتیں.وہ ضروران کا اجر دیتا ہے.احمدیوں کے لئے تو یہ عید حوصلہ افزا بشارتوں کا ایک پیغام ہے.آج کوئی نہیں، جو احمدیوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی پیش کرنے کی ہمہ گیر اہمیت کی حقیقی معرفت سے بہرہ ور ہو.وہ حقیقی عید، جو بالآخر قربانیوں کے نتیجہ میں میسر آتی ہو، وہ تمہارے لئے ہی مقدر ہے.اس ایمان اور یقین پر قائم رہو اور ثبات قدم اور استقامت کا ثبوت دیتے چلے جاؤ.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فضلوں سے نوازے.響 - (خليفة المسيح) ( مطبوعه روزنامه الفضل 09 ستمبر 1984ء) 917
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26اکتوبر 1984ء دنیا میں کثرت سے جماعتوں کا پھیل جانا، دفتر اول کی قربانی کی برکت ہے وو خطبہ جمعہ فرمود 1260اکتوبر 1984ء.....یہ جمعہ اس سال کے اکتوبر کا آخری جمعہ ہے.اور حسب روایت اس جمعہ میں، جو اکتوبر کا آخری جمعہ ہوتا ہے، عموماً تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے.اور اگر کسی وجہ سے اس جمعہ میں نہ ہو سکے تو پھر نومبر کے پہلے جمعہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے.وو نا.بہر حال یہ جمعہ چونکہ مجلس تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کا جمعہ ہے، اس لئے میں آج مجلس تحریک جدید کے نئے مالی سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.اور اس ضمن میں سب سے پہلی خوشخبری جماعت کو یہ دینی چاہتا ہوں کہ گزشتہ سال نئے سال کے آغاز کے وقت میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ چونکہ پچاس سال تحریک جدید کو پورے ہو رہے ہیں اور آئندہ سال جب اعلان ہو رہا ہوگا آغاز کا تو اس وقت اکاون واں سال شروع ہو چکا ہو گا.اور چونکہ یہ ایک جماعت کی تاریخ میں ایک Landmark ہے، ایک خاص نشان منزل ہے، اس لیے پہلے تو وعدے پچاس سال تک لاکھوں میں ہوتے رہے، اب میری خواہش ہے کہ آئندہ سال ہم کروڑ تک پہنچ جائیں اور آئندہ پھر کروڑوں میں باتیں ہوں.یہاں تک کہ صدی کے آخر پر جا کر تحریک جدید کا بجٹ اربوں میں پہنچ چکا ہو.الحمد للہ خدا تعالیٰ نے احسان فرمایا اور نا مساعد حالات کے باوجود اور باوجود اس کے کہ دوسری بہت سی تحریکات بھی تھیں اور بہت اقتصادی بوجھ بھی تھا جماعت پر ، اب تک اس سال کے وعدے، جو گزشتہ سال گزرا ہے، ایک کروڑ، تین لاکھ، انتہبر ہزار (1,03,69,000) تک پہنچ چکے ہیں.اور جماعت پاکستان نے بھی اس معاملہ میں غیر معمولی قربانی کا اظہار کیا ہے اور باہر کی جماعتوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمایاں اضافہ کے ساتھ وعدے پیش کئے.پاکستان کے اضافے بیرونی دنیا کے اضافوں سے نسبت کے لحاظ سے زیادہ آگے ہیں.جہاں تک انگلستان کا تعلق ہے، جماعت انگلستان کے گزشتہ سے قبل سال کے وعدے بائیس ہزار پاؤنڈ (22,000 تھے.اور گزشتہ سال یعنی جواب ختم ہو رہا ہے، اس میں یہ وعدے بڑھا کر چھبیس ہزار 919
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 26 اکتوبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک (26,000) تک پہنچا دیئے گئے.لیکن وصولی میں ابھی انگلستان کچھ پیچھے ہے.اور وصولی اکتیس اکتوبر تک وصولی اکیس ہزار پاؤنڈ (21,000) تک پہنچی ہے.یعنی بیاسی فیصد (820) تو یہ بہت معمولی سا فرق ہے.معلوم ہوتا ہے، عدم توجہ کی وجہ سے یا غالباً یوروپین مشنز کی تحریک ہے، اس کے نتیجہ میں شاید کچھ غفلت ہوگئی ہو.مگر میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ ذراسی کوشش سے ہی چند دن کے اندر یہ کی بھی پوری ہوسکتی ہے.پاکستان کا جو مجموعی وعدہ ہے، اس کے مقابل پر بھی وصولی میں کچھ کمی ہے.لیکن گزشتہ سال کے مطابق اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں عموماً اکتوبر میں جو فصلیں آتی ہیں، ان پر ادا ئیگی ہوتی ہے.اس لئے چند دن پاکستان کی جماعتیں تاخیر سے ادائیگی کرتی ہیں.کیونکہ اکثر زمیندار جماعتیں ہیں.چنانچہ گزشتہ سال اکتوبر تک اکیس لاکھ ، پچاس ہزار (21,50,000 ) کی وصولی تھی لیکن سال کے آخر تک تمہیں لاکھ، گیارہ ہزار (30,11,000) تک پہنچ گئی.اس سے توقع رکھتے ہوئے میں امید رکھتا ہوں کہ اب انشاء اللہ پاکستان کا وعدہ اپنے نہ صرف معیار کو پہنچے گا بلکہ آئندہ سال انشاء اللہ اور بھی آگے بڑھ جائے گا.بیرون پاکستان اور پاکستان کی جماعتوں کے موازنہ کے لئے چند چارٹس تیار کروائے گئے ہیں، وہ میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں.پاکستان کا جہاں تک تعلق ہے، سال 49 میں اڑ میں ہزار، ایک سو بیاسی (38,182) وعده کنندگان نے حصہ لیا اور تمیں لاکھ بجٹ تھا.اکتوبر تک وصولی اکیس لاکھ ، پچاس ہزار روپے (21,50,000) تھی.لیکن سال کے اختتام کے بعد چند دن کے اندر اندر کل وصولی تمہیں لاکھ، گیارہ ہزار دوسو تنیس روپے (30,11,233) تک پہنچ چکی تھی.اور سال رواں جو گزررہا ہے، اس میں وعده کنندگان ہی انتالیس ہزار، نوسو، آٹھ (39,908) تک پہنچ گئے.یعنی خدا تعالیٰ کے فضل سے سترہ سو چھیں (1726) وعدہ کنندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا.یہ وعدہ کنندہ گان کا اضافہ زیادہ تر دفتر سوم میں ہے.اور دفتر سوم میں خصوصی کوشش چونکہ لجنہ اماءاللہ کے سپرد ہے، اس لئے اس کا سہرا ایک حد تک لجنہ اماء اللہ کے سر پر بھی بنتا ہے.اللہ تعالی خواتین کو جزا دے.ان کے سپر د جب بھی جماعت کی طرف سے کوئی کام کیا جاتا ہے تو وہ نہایت ہی مستعدی سے اسے سرانجام دیتی ہیں.اور تمام دنیا کی عورتوں کا یہ اعتراض کہ ایک مسلمان عورت پردہ میں بٹھا کر لکھی بنادی گئی ہے، یہ جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے.کیونکہ جہاں تک جماعت کی تاریخ کا تعلق ہے، سب سے زیادہ کام کرنے والی پردہ دار عورت ہے.اور تمام نیک تحریکات میں سب باتوں میں آگے بڑھنے والی خدا تعالیٰ کے فضل سے پردہ دار عورت ہے.بلکہ مردوں کے لئے کام کرنے والی بھی ، جوتحریکات مردوں سے تعلق رکھتی ہیں، اگر 920
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اکتوبر 1984 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ان میں کمی ہو اور عورتوں کے سپرد کی جائیں تو اس میں بھی آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ بٹاتی ہیں.تو یہ اعتراض تو عمل سے جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے کہ پردہ کے نتیجہ میں قوموں کے اندر کچھ ستی پیدا ہو جاتی ہے، ایک وجود کا حصہ معطل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی وجود میں تو اس کے بالکل برعکس نمونے نظر آرہے ہیں.جو بے پردہ عورتیں ہیں، ان کے رجحانات دنیا داری اور دنیاطلبی کی طرف زیادہ ہیں اور دوسرے مشاغل اور فیشن پرستیاں بھی ان کے اوپر برے رنگ میں اثر انداز ہوتی ہیں.لیکن لجنہ کی پردہ دار خواتین اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی اور خدمت کے ہر معیار میں بہت ہی پیش پیش ہیں.اور آزاد قوموں کی عورتوں کی کوئی تنظیم بھی اپنی مستعدی اور وقت کے بہترین مصرف کے لحاظ سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتی.اور اصل جواب، جو موجودہ دنیا میں اسلام پر حملوں کے ہیں، وہ عملی لحاظ سے پیش کرنے چاہئیں اور وہی قابل قبول ہوا کرتے ہیں.تو دفتر سوم میں لجنہ اماءاللہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمایاں کام کیا.اور گزشتہ سال بھی میں نے محسوس کیا تھا کہ بہت ہی اچھا کام کیا ہے.اور غیر معمولی اضافہ کیا ہے، وعدہ کنندگان میں بھی اور چندوں کی مقدار میں بھی.بجٹ سال 49 کا تمیں لاکھ روپے تھا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ، اگر چه وسط اکتوبر تک صرف اکیس لاکھ روپے وصولی تھی لیکن سال کے آخر اور کچھ دن بعد تک تمہیں لاکھ سے بڑھ گئی.اس مرتبہ بجٹ چالیس لاکھ رکھا گیا اور وسط اکتو بر تک ستائیس لاکھ اسی ہزار (27,80,000) وصولی ہو چکی تھی.اور اگر گزشتہ سال کی نسبت کوملحوظ رکھا جائے تو امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ وصولی توقع سے بڑھ جائے گی.بجٹ میں اضافہ امسال %33 کیا گیا تھا اور گزشتہ کے مقابل پر یہ اضافہ %29 تھا.جواللہ تعالٰی کے فضل سے پورا ہو چکا ہے.دفتر اول، دفتر دوم اور دفتر سوم کے مواز نے بھی اعداد و شمار کی صورت میں موجود ہیں.لیکن ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.صرف دفتر اول کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دفتر اول سے متعلق میں نے یہ تحریک کی تھی کہ دفتر اول چونکہ ایک بہت ہی عظیم الشان تاریخی حیثیت کا دفتر ہے، اس لئے جماعت اس دفتر کو کبھی بھی مرنے نہ دے.یعنی وہ لوگ جنہوں نے سب سے پہلے اس تحریک کی قربانیوں میں عظیم الشان حصہ لیا تھا، ہمارے ماں باپ یا بعضوں کے دادا ہوں گے اور ان لوگوں نے پہلا قدم اٹھایا ہے، عظیم الشان نیکی کی طرف.اور یہ تمام دنیا میں جو کثرت کے ساتھ جماعتیں پھیل گئی ہیں اور ملک ملک اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے خدام نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں اور غیروں کو اسلام سکھا 921
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اکتوبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک رہے ہیں، یہ ساری برکت ان قربانی کرنے والوں کی قربانی کی ہے، جنہوں نے دفتر اول کا آغاز کیا تھا.عورتیں کیا ، مرد کیا اور بچے کیا، عجیب عاشقانہ رنگ میں نہایت ہی غریبانہ حالت کے باوجود انہوں نے بہت بڑا بوجھ اٹھایا.جو توقع سے بڑھ کر تھا.اور پھر اس کو مسلسل تا زندگی وفا کے ساتھ نبھاتے رہے.اس لئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ جن کے والدین نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا اور وہ فوت ہو گئے ، وہ صدقہ جاریہ کے طور پر اور اپنے والدین کے احسان کے طور پر اپنے دادایا اور بزرگوں کے احسان کے طور پر جہاں سے وہ چندہ منقطع ہوا تھا ، وہاں سے اس چندہ کو دوبارہ شروع کر دیں.اور چونکہ اس زمانہ کے مالی حالات کے پیش نظر وہ بہت بڑی رقمیں نظر نہیں آتیں، آج کل کے حساب سے اگر دیکھا جائے تو.اس لئے ہر شخص کے بس میں ہے.کیونکہ ان لوگوں کے خاندان اللہ کے فضل سے بہت دنیاوی وجاہت پاگئے ہیں اور مالی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو کشائش عطا فرمائی ہے، سہولتیں عطا فرمائی ہیں.اس لئے اگر وہ سابقہ بقایا بھی دینے کی کوشش کریں تو ہر گز بعید نہیں ہے کہ وہ نہ صرف دیں بلکہ بڑھا کر دیں.چند بچے بھی اگر مل کر یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے اپنے ماں باپ کے نام کو مرنے نہیں دینا اور قیامت تک ہماری نسلیں ان کی طرف سے چندے دیتی رہیں گی تو یہ بہت ہی ایک عظیم الشان قدم اٹھایا جائے گا.اور جولوگ اس میں حصہ لیں گے، ان کے بھی نام اللہ کے رجسٹر میں ہمیشہ زندہ رہیں گے.بہر حال نسلاً بعد نسل اس دفتر کو ہم نے زندہ رکھنا ہے.اور یہ دفتر ویسے بھی بہت ہی عظیم الشان معززین کا دفتر ہے.اس میں صحابہ کرام شامل ہیں، اس میں احمدیت کے نام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام سننے کے بعد شامل ہو کر قربانیاں دینے والے بکثرت لوگ شامل ہیں.اور پھر تا بعین بھی اول نسل کے شامل ہیں.اس لئے یہ دفتر جماعت کا خلاصہ ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کے ملک میں بھی اگر کسی کے علم میں ہو کہ ان کے ماں باپ تحریک میں حصہ لیتے تھے تو وہ ضرور کوشش کریں کہ ان کے نام کو زندہ رکھیں.جو اطلاعیں ملی ہیں، غالباً سولہ سو ایسے کھاتے تھے، جن کو آپ Dead کھانہ کہتے ہیں.یعنی مرا ہوا کھا نہ.اور چونکہ ان لوگوں کی قربانیاں خدا کی نظر میں زندہ رہنے کے قابل تھیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں تحریک ڈال دی اور جب میں نے تحریک کی تو سولہ سو (1600) کھاتے سے کچھ زائد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک زندہ ہو چکے ہیں اور ان کے ورثا نے بڑی محبت اور عشق کے اظہار کے طور پر قربانیاں پیش کی ہیں اور سارے بقایا جات پورے کر دیئے ہیں.اور اب وہ آئندہ یہ عہد کر چکے ہیں کہ ہم ان کو جاری رکھیں گے.اور ہمارے بعد وہ دعا کرتے ہیں کہ ہماری نسلیں بھی انشاء اللہ اس کو جاری رکھیں 922
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26اکتوبر 1984ء گی.لیکن بہت سے نام ایسے ابھی باقی ہیں، جن کے متعلق تحریک جدید کے پاس ریکارڈ نہیں ہے کہ ان کے بچے کہاں گئے ہیں؟ اور باوجود اس کے کہ جماعتوں کو سرکلر دیا گیا تھا لیکن عموما یہ ہوتا ہے کہ سرکلر امیر مربی تک پہنچتا ہے، پھر بعض کارکنان تک پہنچ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کے اندر کمزوری آنی شروع ہو جاتی ہے اور یہ محنت نہیں اٹھائی جاتی کہ ساری جماعت کے ایک ایک فرد تک پیغام پہنچ جائے اور پھر یاد دہانی کروائی جائے.اس لئے اس خطبہ میں، میں خود یاد دہانی کرواتا ہوں.کیونکہ اب تو کیسٹس ( Cassettes) کے ذریعہ ساری دنیا میں پیغام پہنچ رہا ہوتا ہے.تو جس جس احمدی کے کانوں تک یہ آواز پہنچے، وہ تلاش کرے خود کہ میرے والدین یا میرے دادا، پر دادا نے یا بعض اور بزرگوں نے حصہ لیا تھا کہ نہیں، تحریک جدید میں؟ اور اگر لیا تھا تو پھر اسے وہ زندہ کرنے کی کوشش کرے.اگر کوئی ایسے بزرگ ہوں، جن کی اولاد نہ ہو، لاوارث مرچکے ہوں، خدا نخواستہ ایسے بھی ہوتے ہیں، بہر حال تو میری تحریک جدید سے یہ گزارش ہے کہ ان کے نام میرے سپرد کریں.میری خواہش ہے کہ میں ان کی طرف سے بھی چندہ دوں اور آئندہ بھی میری اولاد کی جو بھی شکل ہو، ان کو بھی وصیت کروں کہ اللہ تعالیٰ ان کے نام زندہ رکھنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین.ایک حصہ تحریک جدید کا اعمال کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے.اس کے متعلق میں چند باتیں بعد میں بیان کروں گا.اس سے پہلے کہ میں شروع کروں.تحریک جدید کے بیرونی حصہ سے متعلق کچھ اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.گزشته سال بیرونی ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ ترپن لاکھ ، اٹھاون ہزار، تین سو پچاس روپے (53,58,350) کے وعدے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس میں بھی نمایاں اضافہ ہوا.اور اب تریسٹھ لاکھ، انسٹھ ہزار چارسو، چونتیس روپے (63,59,434) کے وعدے بیرونی ممالک سے وصول ہو چکے ہیں.ان میں جو نمایاں قربانی کرنے والی جماعتیں ہیں، ان میں سے چین نے اضافہ کیا ہے.تعداد تو اگر چہ تھوڑی ہے لیکن بہر حال ان کے اخلاص کا معیار کافی بلند ہے.ایک سوتر اسی فیصد اضافہ کیا ہے ، پین نے.سری لنکا پیچھے تھا جو اور گزشتہ دورہ ہوا وہاں اس کے نتیجہ میں جماعت میں ایک نئی بیداری پیدا ہوئی.تحریک جدید میں کبھی انہوں نے خدا کے فضل سے ایک سوا کہتر فیصد (171%) اضافہ کے ساتھ چندے دیئے.سیرالیون میں ایک سو چھپیں فیصد (125) اضافہ، سنگا پور میں سو فیصد ( %100)، برما میں پچھتر فیصد ( %75)، سوئٹزرلینڈ اڑسٹھ فیصد ( 68 ) ، گیمبیا میں چونی 923
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اکتوبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک فیصد ( %64)، لائبیریا میں تریسٹھ فیصد ( %63 ) ، گی آنا میں اڑتیس فیصد (380) ، آئیوری کوسٹ میں لتیس فیصد (310) ، یوگنڈا میں پینتیس فیصد ( 350 ) ، غانا میں تھیں فیصد (300)، ناروے میں اٹھائیس فیصد (280) ٹرینیڈاڈ پچیس فیصد (250) اور شرق اوسط میں اٹھاون فیصد ( %58) اضافہ ہوا ہے.الحمد للہ اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا عطا فرمائے.باقی جو ممالک ہیں، جن میں معمولی اضافہ نسبتاً ہے ، ان کی فہرست پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن کچھ ممالک ایسے ہیں، جو پیچھے بھی ہٹے ہیں اور میرا یہ خیال ہے کہ اس میں انتظامی دقت ہے یعنی انتظامی کمزوری ہے ورنہ یہ ناممکن ہے کہ جماعت کا قدم پیچھے ہے.کیونکہ ہمارا تجربہ تو یہی ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے:.يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ جماعت کے اوپر چاہے تنگی کا زمانہ ہو، چاہے خوشحالی کا زمانہ ہو، یہ بہر حال آگے قدم بڑھاتی ہے.چنانچہ ربوہ کی مثال آپ دیکھ لیجئے.ربوہ میں، جو فہرست ہے شہروں کی، پاکستان کے شہروں کی، اس میں سب سے زیادہ حیرت انگیز طور پر ربوہ میں اضافہ ہوا ہے.حالانکہ ربوہ میں نسبتا غرباء کی تعداد بہت زیادہ ہے.اور ایک بہت بڑی تعداد تو ایسی ہے کہ جن کو اگر سلسلہ گندم اور ضروریات مہیا نہ کرے تو ان کے لئے رہن سہن مشکل ہو جائے.بہت ہی تکلیف دہ حالات پیدا ہوں اور بہت سے واقفین ہیں.اسی طرح مختلف مصائب کے مارے ہوئے پناہ کے لئے باہر سے یہاں آجاتے ہیں.تو عمومی معیار، اللہ تعالیٰ اس کو بلند فرمائے ، فی الحال یہ بہت کم معیار ہے.لیکن گزشتہ تین سال کے اندر ربوہ نے اخلاص میں جو ترقی کی ہے، وہ اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ سال 48 میں دو لاکھ ان کا وعدہ تھا اور اس سے آئندہ سال تین لاکھ، انہتر ہزار کا ہوا اور امسال جو گزرا ہے، خدا تعالیٰ کے فضل سے چار لاکھ سے کچھ اوپر وعدہ ہو چکا ہے.یہ وعدہ نہیں ہے، وصولی ہے.ربوہ کے تین سال پہلے یعنی آج سے تین سال پہلے جو وصولی تھی ، وہ دولاکھ نو ہزار (2,09,000) تھی اور آج اس کی وصولی چار لاکھ، ایک ہزار نو روپے ہو چکی ہے.حالانکہ حالات ایسے خطرناک رہے ہیں ربوہ میں اور ایسی پریشانیاں رہی ہیں کہ خطرہ یہ تھا کہ سب سے زیادہ ربوہ کے چندوں پر برا اثر پڑے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے جو مومنوں کی صفات بیان فرمائی ہیں قرآن کریم میں ، ان میں ایک یہ ہے:.وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ کہ وہ اللہ کی ضروریات کو یعنی دین کی ضروریات کو اپنی ذاتی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں.خواہ دہ جنگی کی حالت میں ہی اور نہایت مشکلات کی حالت میں گزارہ کر رہے ہوں.تو یہ تعریف اللہ تعالیٰ کے 924
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 26اکتوبر 1984 ء ضل سے سب جماعتوں پر پورا اترتی ہے.لیکن ربوہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ خاص مقام عطا فر مایا کہ فیصد اضافہ کے لحاظ سے سارے پاکستان کی بلکہ ساری دنیا کی جماعتوں میں آگے بڑھ گیا ہے.دوسرے نمبر پر سیالکوٹ آتا ہے.یہاں اضافہ %54.5 ہے.لیکن سیالکوٹ کا جو اضافہ ہے، وہ اس لحاظ سے اتنازیادہ خوشکن نہیں کہ سیالکوٹ کی جماعتیں کچھ ضرورت سے زیادہ دیر سے سوئی ہوئی ہیں اور جو ان کے اندر اصل معیار ہے، جو خدا تعالیٰ نے ان کو استطاعت عطا فرمائی ہے، اس سے ابھی بھی پیچھے ہیں.چنانچہ سارے سیالکوٹ کا بڑھنے کے بعد بھی 36,000 تک وعدہ پہنچا ہے.اور ربوہ کا ایک شہر کا چار لاکھ سے اوپر ہے.حالانکہ سیالکوٹ ہی میں اس وقت سب سے زیادہ جماعتوں کے تعداد ہے.لیکن مشکل یہی ہے، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک سیالکوٹ نے نیند کے مزے اڑائے ہیں یا ایک اور بات بھی ہے کہ سیالکوٹ والے سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا میں جو قربانیاں دے رہے ہیں احمدی، ان میں سب سے آگے سیالکوٹی ہیں، اس لئے وہی کافی ہیں ہماری طرف سے.وہ کام کرتے رہیں، ہماری صف اول بن کر ہم ان کے ثواب میں حصہ لیتے رہیں گے.یہ امر واقعہ ہے کہ سارے پاکستان میں بھی بلکہ ساری دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیالکوٹیوں کو غیر معمولی طور پر جماعتی خدمات کی توفیق ملی ہے اور مل رہی ہے.تو یہ میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ آپ سیالکوٹ بیچارے کو بالکل ہی نکمانہ سمجھ لیں.اس میں بھی جان ہے خدا کے فضل سے.لیکن باہر جا کر زیادہ جان پڑتی ہے، سیالکوٹ میں رہ کر کم پڑتی ہے.باہر کے سیالکوٹیوں کو بھی چاہئے کہ کچھ ان کی طرف فکر کریں.اپنے عزیزوں کو لکھیں، ان کو کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمہیں کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا تھا، اس کی لاج رکھ لو اور جس طرح ہم باہر نکل کر قربانیوں میں پیش پیش ہیں، تم بھی پیش پیش ہو.یہ درست ہے کہ وہاں جو پیچھے رہنے والے ہیں، ان کے مالی حالات بہت قابل فکر ہیں، بہت حد تک.اور زمینیں چونکہ بٹ گئی ہیں، پھر اور بٹ گئیں.اس کے نتیجے میں کچھ اختلاف بھی پیدا ہوئے، کچھ بے برکتیاں بھی پیدا ہوئیں اور اس کی وجہ سے مالی حالات پر برا اثر ہے.لیکن مالی حالات اچھے کرنے کا بھی یہی علاج ہے کہ چندے دیں.یہ نکتہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے.جو لوگ قربانیاں کرتے ہیں خدا کی خاطر اور اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں دین کی ضرورت کو ، اللہ تعالیٰ ان کے گھر بھی برکتوں سے بھرتا ہے اور ان کی نسلوں کے گھر بھی برکتوں سے بھر دیتا ہے.اور کبھی بھی کوئی انگلی خدا کی طرف اس شکوہ کے ساتھ نہیں اٹھ سکتی کہ ہمارے ماں باپ نے قربانیاں دی تھیں تو ہم 925
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 26 اکتوبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک فقیر رہ گئے.ان کی نسلیں کھاتی ہیں، ماں باپ کی قربانیوں کو.اس لئے سیالکوٹ کی مالی مشکلات کا بھی یہی حل ہے کہ وہ چندہ میں آگے بڑھیں.مجھے آج ہی میں جو میں ڈاک دیکھ رہا تھا، اس میں ایک دلچسپ خط ملا.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے پچھلے سال اپنی آمد کا 1/3 کم لکھوایا چندہ میں اور اگر چہ آپ کی آواز میرے کانوں تک پہنچی تھی کہ اگر نہیں دے سکتے پورا تو دیانتداری سے کہہ دو، ہم تمہیں معاف کر دیں گے.لیکن جھوٹ نہیں بولنا.لیکن وہ ان صاحب سے غلطی ہوگئی.حالانکہ تاجر آدمی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آمد اچھی تھی.وہ کہتے ہیں : 1/3 لکھوا دیا.اللہ تعالیٰ نے مجھے کچھ سبق اس طرح دینا تھا کہ آخر پر جب میں نے حساب کیا تو گزشتہ سال کی جو آمد تھی، اس سے بعینہ 1/3 کم آمد ہوئی.اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ مجھے بچانا چاہتا ہے.چنانچہ میں نے پھر اس آمد پر نہیں لکھوایا بلکہ اس سے پچھلے سال کی جو زائد آمد تھی، اس پر بجٹ لکھوایا، جو اس سال گزر رہا ہے.اور نتیجہ یہ نکلا کہ میری گھی ہوئی چیزیں واپس مل گئیں، چوری کئے ہوئے مال واپس آنے شروع ہو گئے ، جو پیسے مارے گئے تھے، وہ واپس آنے شروع ہو گئے اور اس سے بھی آمد میری بڑھ گئی.تو اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں سے بعض دیکھنے ہوتے ہیں، خاص سلوک ہوتے ہیں.اور جماعت ہر سے تو یہ سلوک مجھے علم ہے اور وسیع علم کی بنا پر میں بتا رہا ہوں کہ ایسا پختہ، ایسا یقینی ہے کہ کبھی اس سلوک میں آپ تبدیلی نہیں دیکھیں گے.اس لئے سیالکوٹ والے اگر کچھ کمزور ہیں تو ان کا علاج بھی یہی ہے کہ وہ قربانیوں میں آگے بڑھیں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان پر فضلوں کی بارشیں نازل فرماتا ہے.فیصل آباد میں بھی خدا کے فضل سے نمایاں ترقی ہوئی ہے.یعنی تین سال پہلے اٹھاون ہزار تھا، اب پچاسی ہزار ہے.لیکن فیصل آباد میں بھی ایک مشکل یہ ہے کہ وہاں ابھی مجھ پر یہ تاثر ہے کہ جس قدر توفیق ہے، اتنا وہ آگے نہیں آرہے.لاہور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر چہ %44 اضافہ ہوا ہے.یعنی فیصل آباد اور سیالکوٹ سے پیچھے ہے.لیکن 3,49,000 کی رقم بتاتی ہے کہ لاہور کا قربانی کا معیار ما شاء اللہ اچھا ہے.راولپنڈی میں بھی نمایاں اضافہ کا رجحان ہے.پشاور بہت پیچھے چلا گیا تھا، اس میں بھی اب خدا کے فضل سے نمایاں اضافہ کا رجحان ہے.کوئٹہ میں بھی ، حیدرآباد میں بھی اور کراچی میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمایاں اضافہ کا رجحان ہے.ان کا وعدہ بھی چار لاکھ، دس ہزار تک پہنچ چکا ہے.اللہ تعالیٰ ان جماعتوں کو بہترین جزاء عطا فرمائے اور پہلے کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی توفیق بخشے.آمین 926
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اکتوبر 1984 ء جو بعض جزائر کی جماعتیں ہیں، ان میں ماریشس اور بچی کو توجہ کرنی چاہئے.وہ بدقسمتی سے ان جماعتوں میں ہیں، جن کی یا اطلاع نہیں پہنچ سکی یا واقعہ وہ گزشتہ سال کی نسبت کچھ پیچھے رہ گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی حالت پر رحم فرمائے اور گزشتہ کمی کو پورا کرنے کی توفیق بخشے.اعد او د شمار تو بہت لمبے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ خلاصہ پیش کرنے کے نتیجہ میں آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اس وقت مالی لحاظ سے جماعت باوجود مشکلات کے خدا کے فضل سے چندوں میں آگے جارہی ہے.اور یہ چندے کے لئے تھرما میٹر کے طور پر کام کرنے والی چیز ہے اور یہ دراصل اخلاص کا مظہر ہیں.روپے تو کوئی ایسی حقیقت نہیں رکھتے خدا کے سامنے.اگر خدا تعالیٰ نے ویسے روپے دینے ہوتے کاموں کے لئے تو آسمان سے بھی پھینک سکتا ہے، خزانے کھول سکتا ہے اپنے.وہ آپ کے ذریعہ کیوں روپے وصول کرتا ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ اس میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ آپ کا اخلاص ترقی کرتا ہے اور تزکیہ نفس ہوتا ہے.اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ہیں، دونوں چیز ہیں.جو لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے عزیز مال سے جدا ہوتے ہیں، ان کی کیفیت اس قربانی کے بعد کچھ اور ہوتی ہے، اس قربانی سے پہلے کچھ اور ہوتی ہے.ان کی محبت خدا سے بڑھ چکی ہوتی ہے، ان کا تعلق زیادہ بڑھ گہرا ہو جاتا ہے، خدا کے پیار کے زیادہ جلوے وہ پہلے کی نسبت دیکھنے لگتے ہیں اور ان کی کیفیات میں فرق پڑ جاتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے عام طور پر چندہ کا نام زکوۃ رکھا ہے.زکوۃ کا مطلب ہے، بڑھنے والی چیز اور بڑھانے والی چیز.جس کو ادا کرنے کے بعد آپ کی کمی نہیں ہوتی بلکہ اموال بڑھنے لگتے ہیں.اور زکوۃ کا مطلب ہے، پاکیزگی.چنانچہ ایک ہی لفظ میں دونوں پیغام دے دیئے کہ چندے ادا کرنے والے، خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے والے، اپنے مالوں میں بھی برکت دیتے ہیں اور جہاں ان کا مال جاتا ہے، وہاں بھی برکت پڑتی ہے اور اپنی روحانیت اور اخلاص میں بھی برکت دیتے ہیں.اور ان کو دیکھ کر دوسرے بھی برکت پکڑتے ہیں.تو یہ ہے فلسفہ چندے کا.کیوں اللہ تعالیٰ انسانوں کو اس بات پر آمادہ کر کے ان کے بھی پیسے لیتا ہے؟ اور جہاں تک اس کے کھاتے کا تعلق ہے، پہلا بھی اسی کا دیا ہوتا ہے.لیکن بعد میں پھر اتنا زیادہ دے دیتا ہے کہ دینے والا اگر غور کرے تو صرف شرمندہ ہو گا کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا.آئندہ مجھ سے وعدے کئے جنت کے، مجھ پر فضلوں کی بارشیں نازل فرمائیں، مجھے سے پیار کا سلوک کیا اور جتنا میں نے دیا تھا، وہ بھی زیادہ واپس کر دیا.تو اللہ کا سلوک ہے جہاں تک، وہ تو یہی رہا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ یہی رہے گا.927
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26اکتوبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک اب میں مالی حصہ کے علاوہ جو عملی کام ہیں، ان میں سے ایک کی طرف متوجہ کرتا ہوں.میں نے تحریک کی تھی کہ انفرادی تبلیغ کو بڑھایا جائے.جب تک جماعت انفرادی طور پر تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتی، اس وقت تک ہماری ترقی کی باتیں، ہمارے غلبہ کی باتیں، اسلام کے تمام دنیا پر چھا جانے کی باتیں محض خواہیں رہیں گی.اور اتنا تو ہمیں ملتا رہے گا کہ ہم زندہ رہیں لیکن غلبہ حاصل کرنا، غیروں میں نفوذ کر کے قوموں کے اعداد و شمار بدل ڈالنا، یعنی جہاں عیسائی آبادی اکثریت میں ہے، وہاں مسلمان آبادی اکثریت میں ہو جائے، اس کے لئے تو غیر معمولی قربانی کی ضرورت ہے، بہت زیادہ تیز اقدام کی ضرورت ہے.اور وہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ آپ میں سے ہر ایک مبلغ بن جائے.پس اس لئے اس کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.جو تعداد شروع میں تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی مقرر کی گئی تھی ، وہ پانچ ہزار تھی.اب یہ تعداد بڑھ کر تقریباً پچاس ہزار ہو چکی ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے پانچ لاکھ مبلغ مانگے تھے جماعت سے، اگر اس میں وقت لگنا ہے اور واقعی وقت لگے گا.کیونکہ مبلغ بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے.اور اپنی سابقہ عادتوں کو توڑنا اور بدلنا، ایک آدمی بوڑھا ہوگیا بغیر تبلیغ کئے، دوستوں کے ساتھ اس نے روابط قائم کئے لیکن ان سے بات کبھی نہیں کی، اس کی راہ میں بڑی نفسیاتی الجھنیں حائل ہو جاتی ہیں.ایک ایسا شخص ، جس کے ساتھ مراسم میں تبلیغ شامل نہیں ہوئی، اچانک اس کو تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.اس لئے بہت وقت لگے گا اور پھر تبلیغ کو مؤثر طریق پر کرنا اور ساتھ ساتھ تربیت حاصل کرنا، تعلیم کی طرف توجہ دینا، لٹریچر کا حصول، پھر جماعت کے اندر یہ استطاعت کہ جس جس جگہ، جس جس احمدی کو، جس قسم کے لٹریچر کی ضرورت ہے ، وہ مہیا کرے، یہ نظام وقت چاہتا ہے.اور جہاں تک جماعت احمدیہ کی مرکزی تنظیموں کا تعلق ہے، اس کی طرف توجہ دی جارہی ہے.اور امید ہے کہ ایک سال یا دو سال کے اندر اندر انشاء اللہ تعالی بڑی کثرت کے ساتھ ہر زبان میں ضروری لٹریچر مہیا کر دیا جائے گا.اور اس کے علاوہ ٹپس کی شکل میں اور وڈیو کیسٹس کی شکل میں بھی مددگار مواد مہیا.کیا جائے گا.لیکن پہلا ٹارگٹ جو مبلغین کا ہے، ان مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ، میں یہ مقرر کرتا ہوں کہ جتنے چندہ دہندگان ہیں، کم سے کم اتنے مبلغ ضرور نہیں.اور صرف تحریک کی ایک ٹانگ نہ ہو آگے بڑھنے کی، دونا نگیں مکمل ہو جائیں.ایک ٹانگ سے دوڑتے دوڑتے کہیں پہنچ گئی ہے.خدا کے فضل سے زمین کے کناروں تک پیغام پہنچ گیا ہے.اب اندازہ کریں کہ جب یہ دوسری ٹانگ مکمل ہوگی تو پھر کس تیز - 928
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 26 اکتوبر 1984ء رفتاری کے ساتھ جماعت آگے بڑھے گی.آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کتنا حیرت انگیز Impact دنیا پر ہو گا، جب پچاس ہزار چندہ دہندگان کے ساتھ پچاس ہزار مبلغین بھی ساتھ شامل ہو جائیں گے.اور مجھے یہ خوشی ہے کہ تمام دنیا کے خطوط سے اندازہ ہو رہا ہے کہ لوگوں میں بے قراری شروع ہوگئی ہے اور بعض لوگ تو سخت بے چینی کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم تو اب راتوں کو اٹھ کر روتے بھی ہیں ، خدا کے حضور کہ ہمیں جلدی پھل دے.ہمارے دل کی تمنا پوری ہو.اس لئے آپ بھی مدد کریں، دعا کے ذریعے کہ اللہ تعالیٰ جلد ہمیں پھل دے.اور پھر پھلوں کی بھی ایسی اچھی اچھی پیاری پیاری اطلاعیں آنی شروع ہوگئی ہیں کہ بہت ہی طبیعت خوش ہوتی ہے.ایسے علاقوں سے بھی جہاں شدید دشمنی ہے جماعت کی ، وہاں بھی ایسے نو آموز مبلغین ، جن کو زیادہ علم بھی نہیں تھا ، ان کو خدا تعالیٰ نے پھل دینا شروع کر دیا ہے.چنانچہ پاکستان کے ایک شدید دشمنی کے علاقہ سے ایک نوجوان نے یہ اطلاع دی ہے کہ ایک اس کی تبلیغ کے نتیجہ میں ایک نوجوان احمدی ہو گیا ہے اور اس کے ماں باپ نے اس کی مخالفت بھی کی.لیکن وہ قائم رہا اور اس نے مجھے خط لکھا کہ ان حالات میں اس نوجوان نے قربانی کی ہے اور اس طرح اس کی اپنی خواہش ہے کہ اس کے والدین بھی احمدی ہو جائیں.تو کہتا ہے کہ آپ نے جو جواب مجھے لکھا، میں نے وہ اس کے والدین کے سامنے جا کر اس کو پڑھ کے سنایا.جب وہ جواب سن رہے تھے تو ان کی آنکھوں میں مجھے ایسی چمک نظر آئی کہ مجھے لگا کہ اب انہوں نے آہی جانا ہے، بہر حال.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور آج کا جو خط تھا، اس کے ساتھ اس نے ایک ہی خاندان کی 12 بیعتیں بھجوائی ہیں.تو ہر جگہ، جہاں خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمارہا ہے، احمدی کو اخلاص کے ساتھ اور دعا کرتے ہوئے وہاں پھل لگنے شروع ہو گئے ہیں.تمام دنیا سے اطلا میں آرہی ہیں.افریقہ کے ممالک سے، جنہوں نے تبلیغ شروع کی ہے، خدا ان کو پھل دے رہا ہے.جرمنی نے ایک سو کا وعدہ کیا ہے.اور کل کی اطلاعات کے مطابق پینسٹھ یا چھیاسٹھ تعداد ان کی بیعتوں کی ہو چکی ہے.اور ان میں سے بھاری اکثریت وہی ہے، جو مبلغ کے ذریعہ نہیں.یعنی مرکزی مبلغ کے ذریعہ بلکہ یہ جو نئے رضا کار مبلغ ہیں، ان کے ذریعہ احمد کی ہو رہے ہیں.اور جو تیاری کی اطلاعیں ہیں، اس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ انشاء اللہ تعالی سال کے اختتام سے پہلے وہ (100) سے بھی بڑھ جائیں تو ہر گز تعجب نہیں ہوگا.انگلستان بیچارہ کچھ پیچھے تھا اس میں اور ابھی بھی پیچھے ہے.لیکن جن لوگوں نے کام شروع کیا ہے، ان کو خدا پھل بھی دینے لگ گیا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، یارک شائر (York Shire) 929
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26اکتوبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک شہر کے دو خاندان ہیں، ڈاکٹر سعید اور ان کا خاندان اور ڈاکٹر حامد اللہ خان اور ان کا خاندان ، جن کو بڑا تبلیغ کا جنون ہے.اور پہلے اللہ کے فضل سے یہاں سے خوشخبری ملی تھی، جو ( Greek) فیملی کے احمدی ہونے کی.اب یہاں دو، ایک میاں بیوی، دونوں اساتذہ ہیں.وہ پیچھے انصار اللہ کے اجتماع پر آکر بیعت کر کے گئے ہیں.انہیں کی کوششوں کے نتیجے میں.اس کے علاوہ دو پاکستانی بھی وہیں ان کی کوششوں کے نتیجے میں ایک اور نوجوان، جو ان کے ساتھ کام کرتے ہیں، وہ بھی خدا کے فضل سے احمدی ہوئے ہیں.اور مزید انہوں نے لکھا ہے کہ بڑی تیزی سے رجحان ہے اور بعض لوگ تو انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خواب کے ذریعہ اب ان کی رہنمائی کرے تو وہ قدم اٹھا لیں.ایسے بھی ہیں ان میں سے، جو پہلے احمدیت کا نام تک نہیں سننا چاہتے تھے.یعنی ایک وہاں صوفی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے انگریز ہیں، ان کی بیوی کا رجحان ہو گیا اور وہ اس قدر شدید نفرت کرتے تھے احمدیت سے کہ انہوں نے لکھا ہے کہ جب ہم نے بیوی کو Tapes دینی شروع کیں اور اس پر زیادہ اثر ہوا تو ایک دن وہ بلانے گئے ، بیوی کو اطلاع دینے کے لئے کہ فلاں میٹنگ میں تم نے آنا ہے.خاوند اس دن گھر پر تھا.تو اس نے کہا کہ تم یوں کرو کہ یہ کیسٹ تم اپنی واپس لے جاؤ اور یہ میں میوزک کا ٹیچر ہوں، یہ میوزک کی ٹیپ تم لے جاؤ.جتنی تمہیں اس میں دلچسپی ہوگی ، اتنی مجھے اس میں دلچسپی ہے، جو تم ٹیمیں (Tapes) رہے ہو.اور میں نہیں پسند کرتا.خیر انہوں نے ہمت نہیں چھوڑی.اور ایک کیسٹ تھی ، غالباً سوال وجواب کی، جس میں یعنی متفرق باتیں تھیں، یہاں کی جو مجلس ہوتی ہے، وہ انہوں نے پھر بیوی کو دی اور اس نے ایسے وقت میں لگائی، جب خاوند بیٹھا گھر میں ہی تھا اور وہ سنے پر مجبور ہو گیا.اور جب اس نے سنی تو اس نے خود مطالبہ بھیجا کہ مجھے اور چاہئیں.اور پھر اس نے مٹینگز میں حاضر ہونا شروع کیا اور اب وہ دعا کے لئے کہہ رہے ہیں کہ بس اب دعا یہ بات رہ گئی ہے.دعا کرو کہ میں بھی ساتھ شامل ہو جاؤں.اسی طرح ایک Moroccan (مراکشی) نے بھی یہاں حال ہی میں بیعت کی ہے.تو جماعت انگلستان میں بھی اللہ کے فضل سے تبلیغ کی طرف توجہ ہو رہی ہے.لیکن رفتارا بھی تھوڑی ہے.جتنی ہماری Man power ہے یہاں ، اس کو اگر آپ استعمال کریں اور سارے بوڑھے، بچے ، عورتیں، مرد سارے مصروف ہو جائیں تو انشاء اللہ تعالیٰ بہت عظیم الشان یہاں امکانات ہیں.اور آپ کو بالکل بدلی ہوئی فضا نظر آئے گی ، ایک سال کے اندر اندر تبلیغ کرنے والی جماعتوں کی تو کیفیت ہی بالکل اور ہو جایا کرتی ہے.شرابیوں کا محاورہ ہے کہ ظالم تو نے پی ہی نہیں، تجھے کیا پتہ کہ کیا چیز ہے؟ یہ سب سے زیادہ محاورہ مبلغ پر صادق آتا ہے.مبلغ جس کو عادت پڑ جائے تبلیغ کی اور جس کو خدا تعالیٰ یہ مزہ دے دے کہ اس 930
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26اکتوبر 1984ء کے ذریعہ کوئی احمدی ہو گیا ہے، وہ دوسروں کو کہتا ہے، زبان حال سے، اگر ویسے نہ کہے کہ ظالم تو نے تو پی ہی نہیں ، تجھے کیا پتہ کہ تبلیغ میں کتنا مزہ ہے اور روحانی اولاد میں کتنا مزہ ہے؟ روحانی اولاد میں، جو مبلغ کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے یا رضا کار کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، اس میں ایک اور فرق بھی ہے.مبلغ کے ذریعہ جو احمدی ہوتے ہیں، وہ مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے لوگ، ایسے لوگ بھی ، جن کا ذہنی طور پر ضروری نہیں کہ مزاج مبلغ سے ملے اور ایسے لوگ جن کا ذاتی خاندانی تعلق مبلغ سے نہیں ہوتا، یہ لوگ بھی ہوتے رہتے ہیں.تو مبلغ جتنے احمدی بناتا ہے، ان کی تربیت کی استطاعت نہیں ہوتی ، اس میں نہ اتنا رابطہ وسیع ، ظاہری فاصلوں کی دوری کی بنا پر یا مزاج کی اختلاف کی بنا پر یا خاندانی روابط کی کمی کے نتیجہ میں کئی مشکلات ہیں، وہ ذاتی تربیت میں اتناوقت نہیں دے سکتا.لیکن جو انفرادی تبلیغ کے ذریعہ احمد کی ہوتے ہیں، عموماً ان میں پہلے مراسم چلتے ہیں، دوستیاں ہوتی ہیں، خاندان ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور جب ان کے ذریعہ کوئی احمد می ہو جاتا ہے تو ایک دم محبت میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے.تو ہر احمدی ہونے والے کو ایک مربی خاندان ساتھ مل جاتا ہے.اس لئے اصل دیر پا طریق ، جو تبلیغ کا ہے ، وہ کہی ہے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ دن بدن اس میں نمایاں اضافہ ہوگا.ایک خوش خبری آخر پر آپ کو دینی چاہتا ہوں.جہاں تک لٹریچر کی اشاعت کا تعلق ہے، بہت کمی تھی، بہت سی زبانوں میں ، بہت سے مسائل پر لٹریچر کی.اس کو ایک باقاعدہ منصوبہ کے ماتحت پورا کرنے کے لئے نہ صرف سیکیم مرتب کی گئی ہے بلکہ نئے مضامین لکھوائے جارہے ہیں.گزشتہ سابقہ زبانوں سے سکتا ہیں اکٹھی کر کے ان کو دوبارہ از سر نو شائع کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے.کام بہت وسیع ہے.کیونکہ ہر کتاب کا جائزہ لینا پڑتا ہے کہ اگر وہ بیس سال پہلے مفید تھی تو آج بھی مفید ہے کہ نہیں؟ اور ہر قوم کے حالات کا جائزہ لینا پڑتا ہے کہ ان کے رجحان بدل چکے ہیں، ان کو اب کس مضمون کی ضرورت ہے؟ پھر اس کے لئے لکھنے والے ڈھونڈے جاتے ہیں.پھر ان سے پیچھے پڑھ کر مضامین لکھوائے جاتے ہیں.پھر ان کو دوبارہ دیکھا جاتا ہے، زبان کے لحاظ سے اور مسائل کے لحاظ سے، پیشکش کے لحاظ سے.تو بہت ہی وسیع کام ہے.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس میں انصار بھی مہیا کر رہا ہے اور بکثرت طوعی طور پر خدمت دین کرنے والے اس کام میں مدد کر رہے ہیں اور کچھ لٹریچر تیار ہو کر طبع ہو چکا ہے.اور کچھ ایسا ہے، جو عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ طبع ہو جائے گا.اس وقت ہم پتے اکٹھے کر رہے ہیں.اور لٹریچر کی اشاعت سے پہلے سکیم یہ ہے کہ ایک تو احمدی براہ راست اپنے روابط وسیع کر لیں اور مبلغ بن چکے ہوں تا کہ جب ان کو ضرورت پیش آئے ، ہم اس وقت 931
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اکتوبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک انہیں مہیا کریں اور ذاتی تعلق کی بنا پر وہ لٹریچر پیش کریں.دوسرے پتے اس کثرت سے اکٹھے ہو جائیں کہ ڈاک کے ذریعے بیس ہزار تمہیں ہزار فی الحال میرا اندازہ یہ ہے کہ اس کو بڑی جلدی بڑھا کر ایک لاکھ تک پہنچا دیا جائے.ایک لاکھ پتوں کا میں نے مطالبہ کیا ہے.اور ابھی تک بعض جماعتوں کی طرف سے اس میں کمزوری ہے.انگلستان بھی پتے مہیا کرنے میں کمزور ہے.حالانکہ میں نے بار بار تاکید کی تھی.بعض دور کے ممالک نے بڑی اچھی Response دکھائی ہے لیکن انگلستان میں ابھی کمزوری ہے.میں نے اہل عرب کے پتے مانگے تھے تو انہوں نے وہ ڈائریکٹری اٹھا کے یا شاید عرب Embassies کی کتابیں منگوا کر ان سے پتے نوٹ کر کے بھیج دیئے.حالانکہ اس قسم کے پتے نہیں چاہئیں.پتے ایسے چاہئیں کہ جہاں پتہ بھیجنے والے کی نظر ہو کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے؟ عمر اس کی کتنی ہے؟ رجمان کیا ہیں؟ ضروری تو نہیں کہ جتنے پتے آپ بھیجیں، ان سب کولٹریچر بھجوا نا مناسب بھی ہو.اس لئے یہاں بھی کافی چھان بین کرنی پڑتی ہے.تو ایک پہلو سے تو انگلستان نے ابھی کمزوری دکھائی ہے لیکن ایک اور پہلو سے غیر معمولی طور پر خدمت بھی کی ہے.یہ سارا کام پتوں کو مرتب کرنا اور پھر یاد دہانیاں کروانا، لجنہ اماءاللہ یو کے کر رہی ہے اور نہایت مستعدی سے کام کر رہی ہے.قریباً تیں ہزار پتہ جات کو وہ مرتب کر چکے ہیں.اور پھر ان کو کارڈ پر منتقل کرنا اور پھر ان کو کمپیوٹر میں Feed کرنا، بہت بڑا کام ہے، تیاری کا.لیکن مجھے اندازہ.ہے، انشاء اللہ تعالیٰ جس وقت ہم لٹریچر کے لحاظ سے تیار ہوں گے، اس کے ساتھ یہ بھی تیار ہو چکا ہوگا.تو ایک نئے دور میں جماعت داخل ہونے والی ہے، بہت وسیع تبلیغ کے دور میں.اس کے لئے آپ بھی تیاری کریں اور جو علم دوست ہیں، احباب، وہ اپنی خدمات پیش کریں اور مضامین لکھیں، غیروں کے لٹریچر کی نگرانی کریں.امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ یہ کام اب بڑی تیزی سے آگے بڑھے گا.ایک بہت بڑی خوش خبری اسی ضمن میں یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا کہ وہ Italian ترجمہ قرآن کا کام اپنی نگرانی میں مکمل کروائیں.چنانچہ پرسوں وہ آکر مجھے وہ آخری شکل میں مسودہ دے گئے ہیں.مکمل ہو چکا ہے خدا کے فضل سے.بہت سی کمپنیوں کی رائے لینے کے بعد گزشتہ ترجموں کو رد کر دیا گیا، ان میں خامیاں تھیں.اس ترجمہ کے متعلق اب رائے یہی ہے کہ بہت ہی عمدہ، اعلیٰ معیار کا ترجمہ ہے.چونکہ قرآن کریم میں احتیاط زیادہ کرنی پڑتی ہے، اس لئے تھوڑی سی اور احتیاط کی جائے گی اور پھر انشاء اللہ امید ہے کہ اسی سال پہ شائع ہونے کے لئے دے دیا جائے گا.فرانسیسی ترجمہ بھی تمام مراحل سے گزر کر اب مکمل ہو چکا ہے.روسی ترجمہ ، جو حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کے زمانہ میں یہاں سے کروایا گیا تھا ، وہ حسن اتفاق سے ایسا اچھا کیا گیا کہ اس کی 932
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اکتوبر 1984ء زمانہ کے سارے ترجمہ آج کے صاحب علم لوگوں نے رد کر دیئے ، سوائے روی ترجمہ کے.اور روی ترجمہ سے متعلق جہاں رائے ملی ہے، انہوں نے حیرت انگیز تعریف کی ہے.روسیوں نے بھی، جو مثلاً پاکستان میں سکالرز ہیں، یہاں کے ماہرین نے بھی.سب نے کہا ہے کہ بہت ہی اعلیٰ معیار کا ترجمہ ہے.صرف لکھنے کی طرز میں اس زمانے سے اب کچھ تبدیلی پیدا ہوئی ہے، اس کو ماہرین کہتے ہیں: ٹھیک کروالیا جائے تو ہر لحاظ سے معیاری ہے.تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین نئی زبانوں میں قرآن کریم شائع کرنے کے لئے تیار کھڑے ہیں.اور اس کے لئے روپیہ بھی موجود ہے.Italian ترجمہ کے لئے ڈاکٹر (عبد السلام ) صاحب نے پیش کش کی تھی کہ میں اپنی طرف سے پیش کرنا چاہتا ہوں.اور چونکہ نیکی سے آگے بڑے بچے پیدا ہوتے ہیں، نیکی بڑی Fertile چیز ہے.جب مکمل کر لیا تو ان کا اتنا لطف آیا اس کا کہ وہ ساتھ ہی یہ درخواست کر گئے ہیں کہ اس کی طباعت کا خرچ بھی مجھے برداشت کرنے کی اجازت دی جائے.تو جس اخلاص اور محبت سے انہوں نے ترجمہ کروایا تھا اور جس.طرح انہوں نے ظاہر کیا تو میں نے ان سے حامی بھر لی ہے کہ ہاں ٹھیک ہے، آپ شائع کروا ئیں.اسی طرح روسی زبان کے متعلق چوہدری شاہ نواز صاحب نے پہلے ترجمہ کے متعلق درخواست کی تھی.ان کا پیچھے پیچھے خط پہنچ گیا کہ اس کے سارے اخراجات میں برداشت کرنا چاہتا ہوں.ان کو بھی میں نے اس کے لئے اجازت دے دی اور وہ خدا کے فضل سے بالکل تیار ہیں.تو فرانسیسی کے لئے صد سالہ جو بلی سے رقم مل جائے گی انشاء اللہ.یعنی پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے.جماعت کے لئے کاموں کی تیاری رکھے جماعت، آگے بڑھنے کے لئے تیاری کرے تو اللہ تعالی کوئی کمی کسی طرح کی بھی رستے میں حائل نہیں ہونے دے گا ، انشاء اللہ تعالیٰ.اور یہی ہے، اصل ہمارا انتقام دشمنوں سے.وہ جتنا بدیوں میں بڑھتے چلے جارہے ہیں، ہم اتنا نیکیوں میں ترقی کر رہے ہیں.جتناوہ ہمیں اسلام سے کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، اتنازیادہ تیزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جارہا ہے.ایسی جماعت سے کون مقابلہ کرسکتا ہے، جس کی دوڑ ہی نیکیوں میں ہے؟ اور وہ مخالف سمت میں دوڑ رہے ہیں؟ کیسی بے وقوفی کی بات ہے.قرآن کریم نے فرمایا تھا:.وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرُتِ کہ ہم تمہارے لئے دوڑ مقرر کرتے ہیں اور وہ دوڑ یہ ہے کہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو.اور ہم تو نیکیوں کو قبلہ بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں.اور دوڑنے کی خواہش ان کو ہے لیکن سمت کا پتہ 933
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 26اکتوبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک نہیں، بیچاروں کو.وہ برعکس سمت میں دوڑ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے آگے نکل جائیں گے.جن کا قبلہ اور رخ اور ہو چکا ہو، وہ کیسے آگے نکل سکتے ہیں؟ وہ تو جتنا دوڑیں گے، اتنا زیادہ ہمارے فاصلے بڑھتے چلے جائیں گے.ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہوش عطا فرمائے.نیکی میں کسی نے مقابلہ کرنا ہے تو ساری دنیا کو چیلنج ہے ہمارا کسی سے ہم ڈرنے والے اور خوف کھانے والے نہیں.اگر بدیوں کا مقابلہ ہے تو پھر تمہیں مبارک ہو.ہم بہر حال اس میدان کے شیر نہیں ہیں.اللہ تعالی ان بھائیوں کو بھی توفیق عطا فرمائے اور ہر آئندہ سال مجھے بھی توفیق بخشے کہ جماعت کے لئے نئی سے نئی ، تازہ سے تازہ خوشخبریاں پیش کر سکوں.تاکہ دوسری طرف سے جو ان کو زخم پہنچتے ہیں، وہ نہ صرف مندمل ہوں بلکہ نئی خوشیوں کے پھول ان کے دلوں میں کھلتے رہیں.(مطبوعہ خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 617-599) 934
تحریک جدید- ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 09 نومبر 1984ء ساری کائنات مٹ سکتی ہے لیکن احمدیت کی روح نہیں مٹ سکتی دو خطبہ جمعہ فرمودہ 09 نومبر 1984ء ابھی پچھلے دنوں بہت زیادہ چرچا ہوا ہے، ابے سینیا میں یعنی حبشہ میں فاقہ کی آفات کا.اور اچانک ٹیلی ویژن میں، ریڈیو میں، اخباروں میں بڑی شدت سے وہاں کے متعلق خبریں آنے لگی ہیں اور قومیں حرکت میں آئی ہیں.یورپ حرکت میں آگیا ہے، امریکہ حرکت میں آگیا ہے، روس حرکت میں آ گیا ہے.اور اس سے پچھلے سال سینی گال میں اور دوسرے ممالک میں اس قدر فاقے پڑے ہیں کہ جانور تباہ ہو گئے بھوک سے، انسان تباہ ہو گئے ، بچے مارے گئے.اتنے خوفناک مناظر ہیں، اس زمانے کے، جو بعد میں تصویروں میں پیش کئے گئے کہ علاقے کے علاقے صحرا پنجروں سے بھرے پڑے ہیں.جو جانور ایک ساتھ رہ نہیں سکتے ، بھوک کی شدت نے ان کو ایک انسانی زندگی کے انس کے نتیجہ میں اکٹھا کر دیا.شیر بھی وہیں مرا پڑا ہے، بکری بھی وہیں مری پڑی ہے.ہاتھی بھی وہیں مرا پڑا ہے، خرگوش بھی وہاں مرا پڑا ہے.اور ان کے پنجر بتا رہے ہیں کہ ان میں یہ بھی استطاعت نہیں رہی تھی آخر پہ آ کر کہ وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچا سکیں.پانی نہیں تھا، جب پیاس کی شدت ہو جائے اور جسم نڈھال ہو جائے تو کھانے کی خواہش ہی باقی نہیں رہتی.ہاتھیوں نے پاؤں سے گڑھے نکالے، کنویں نکالے، جس حد تک بھی ہاتھی کو استطاعت ہے اور وہ کافی گہرا گڑھا کھود لیتا ہے.ان کے نکالے ہوئے کنوؤں سے مٹی چوس چوس کے جانوروں نے پانی پئے.یہاں تک انسان وہاں پہنچتے رہے، وہ پانی بھی خشک ہو گیا اور کوئی قوم حرکت میں نہیں آئی.نہ روس کو خیال آیا کہ اس طرح انسانیت بھوکوں مررہی ہے اور نہ امریکہ کو خیال آیا.نہ یورپ کی تو میں جا گئیں.اب افریقہ ایک حصہ میں صرف یعنی ابی سینیا میں جو بھوک پڑی ہے تو اچانک یہ بیدار ہو گئے ہیں.وجہ یہ ہے کہ وہاں ان کی سیاسی کشمکش چل رہی ہے.دونوں گروہوں یعنی مشرق اور مغرب کی طاقتیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں.ان کو پتہ ہے کہ آج جو ان کا پیٹ بھرے گا ، وہ اس کے غلام ہو جائیں گے، اس کے ساتھ اس کے سیاسی روابط بڑھ جائیں گے.تو جب مغرب کو یہ پتہ چلا کہ روس نے کثرت کے ساتھ ٹرکس بھجوانے شروع کر دیئے ہیں اور کچھ گندم کے ذخائر 935
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 نومبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک بھجوانے لگے ہیں تو اچانک ان کی دلی ہمدردی، انسانی ہمدردی جاگ گئی اور بڑی تیزی کے ساتھ وہاں ایک دوسرے سے انہوں نے دوڑ شروع کر دی.اور دوڑ کا آخری مقصد کیا ہے کہ اس ساری قوم کو ہم اپنا غلام بنائیں.اس کے ساتھ چاڈ بھی ہے، وہاں بھی لوگ بھوکوں مر رہے ہیں ، اس کا کوئی خیال نہیں آرہا اور دیگر ممالک بھی ہیں.میں جب مجھے یہاں کے بعض دوستوں نے بھی توجہ دلائی لیکن اس سے پہلے ہی میں سوچ رہا تھا، افریقہ کے لئے بھی تحریک کروں تو بعض دوستوں کے خطوں سے مجھے خیال آیا کہ وہ سمجھ نہیں رہے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ چنانچہ ایک صاحب نے تو از خود ہی ان کو چندہ دے دیا، ابے سینیا کے لئے.ان کو جواب میں ، میں نے یہ لکھا:.الامام جنة يقاتل من ورائه ( صحیح بخاری، کتاب الجهاد والسیر ، باب یقاتل من وراء الامام و یتقی به) امام تو ڈھال ہوتا ہے، اس کے پیچھے رہ کر لڑنا چاہیے.تم نے جلد بازی کی ہے.مجھے خود احساس ہے، تم سے زیادہ احساس ہے کہ کیا ہورہا ہے؟ ساری دنیا کی ضرورتیں میرے پیش نظر ہیں.اسلام کی ساری ضروریات پیش نظر ہیں.اور تمہارے لکھنے سے پہلے میں فیصلہ کر چکا تھا کہ تمہیں ساری بات سمجھا کر پھر تحریک کروں گا.جہاں تک جماعت کی استطاعت کا تعلق ہے، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ساری جماعت اپنی ساری دولت بھی لٹا دے تو اس وقت جو بھوک کا دن آگیا ہے، اس کو دور نہیں کر سکتی.آٹے میں نمک کے برابر بھی ہمارے اندر توفیق نہیں کہ ہم ان لوگوں کی تکلیف دور کر سکیں.لیکن اس وقت ایک میدان خالی ہے، جہاں يَّتِيمَا ذَا مَقْرَبَةِ موجود ہے یا أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةِ بھی موجود ہے.کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ چاڈ کے فرانس سے تعلقات ہیں، وہ مدد دے یا لیبیا سے تعلقات ہیں، قذافی کیوں نہیں دیتا ان کو؟ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ نائیجر کا فرق ہی کوئی نہیں پڑتا ، جتنے مرضی بھوکے مر جائیں.ان سے کیا فرق پڑتا ہے؟ نہ وہ اس طرف کے اور نہ وہ اس طرف کے.936 أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةِ بھی وہاں موجود ہیں.
تحریک جدید - ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 09 نومبر 1984ء چنانچہ پیشتر اس کے کہ میں تحریک کرتا، میں نے تمام افریقہ کے مبلغین کو یہ لکھوایا ہوا ہے کہ آپ پوری طرح جائزہ لیں کہ کس طرح ان غریبوں کی جماعت مدد کر سکتی ہے؟ کون سا بہترین ذریعہ ہے اور اس میں مسائل کیا در پیش ہوں گے؟ صرف ٹرانسپورٹ ہی ایک ایسی چیز ہے کہ اگر ہم ٹرانسپورٹ پیدا کرنے کی کوشش کریں اپنے لئے تو سارے وسائل کام آجائیں گے لیکن ہم نہیں کر سکیں گے.لیکن اس سے قطع نظر ہمیں اپنے دل کا اطمینان ہونا چاہیے.میں جو تحریک کر رہا ہوں، وہ اس وجہ سے کر رہا ہوں کہ قطع نظر اس کے کہ کام ہماری طاقت سے بڑھ کر ہے.ہماری نیت یہ ہونی چاہئے کہ ہم اپنے رب کے حضور اپنے ضمیر کو مطمئن پائیں.ہمارے دل میں یہ تسکین ہو کہ ہم بھی ان لوگوں میں شامل تھے، جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.شدید مشکلات میں مبتلا تھے، اپنے وطنوں میں احمدی بے وطن ہورہے تھے، ان کے اقتصادی ذرائع پر ضر میں لگائی جا رہی تھیں، ان کو ہر طرح بدحال اور مفلوک الحال کیا جار ہا تھا ، ان پر دنیا کو احمدی مسلمان بنانے کی ذمہ داریاں تھیں، ان کو بے شمار میدانوں میں لٹریچر پر خرچ کرنا تھا تنظیموں پر خرچ کرنا تھا، مساجد پر خرچ کرنا تھا، نیکیوں کے نئے سے نئے رستے کھلتے چلے آرہے تھے اور ہر آواز پر وہ اپنی ساری طاقتیں خرچ کر کے اپنی طرف سے جیبیں خالی کر چکے تھے، اس وقت خدا کی نظریہ دیکھے گی اور دیکھ رہی ہے کہ اسی جماعت کو جب تحریک کی گئی کہ آج اس بھوک کے دن مٹانے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ پیش کرو تو وہ ضرور کچھ نہ کچھ پیش کرتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں، جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.اور یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ان لوگوں میں سے بنایا ہے.قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم ہیں؟ احمدی ہیں یادشمن ہیں احمدیت کے؟ جہاں بھی تکلیف ہوگی ، وہاں جماعت احمدیہ ضرور تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرے گی.چنانچہ ابھی کراچی میں کچھ عرصہ پہلے جب بہت خطرناک بارش ہوئی اور بہت ہی زیادہ تکلیف پہنچی ہے، غریب گھرانوں کو تو احمدی عورتیں لجنہ کی ، جو کچھ ان کے بس میں تھا، کوئی کمبل، کپڑے، کوئی کھانا لے کر غریبوں کے گھر پہنچیں اور خدمت شروع کی.اور کوئی تبلیغ کی نیت نہیں تھی، نہ ان کا ارادہ، نہ اس خیال سے وہاں وہ گئیں.صرف تکلیف دور کر رہی تھیں تو بعض احمدی بہنوں نے مجھے جو یہ واقعات لکھے ہیں، حیرت انگیز ہیں.وہ کہتی ہیں کہ بعض لوگ اکٹھے ہو کر ہمارے پیچھے پڑ گئے کہ تم ہمیں بتاؤ تم کون ہو اور کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم تمہیں نہیں بتانا چاہتے تمہیں تکلیف ہوگی.اور اگر ہم نے بتادیا ، ہوسکتا ہے، تم ہم سے لینا بند کر دو.تم اپنی ضرورت پوری کرو، تمہیں اس سے کیا غرض ہے؟ کون آیا تھا؟ کیوں آیا تھا؟ کیا دے گیا ؟ اس پر وہ کہتے ہیں کہ عجیب نظارے ہم نے دیکھے.بعض لوگوں نے کہا کہ دیکھو، ہم یہ جانتے ہیں 937
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 نومبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک اس بھرے پاکستان میں اور کسی کو خیال نہیں آسکتا، تم احمدی تو نہیں ؟ تمہارے دل پر بیتی ہے اور کسی اور کے دل پر نہیں بیتی ہم نے ہمارا دکھ محسوس کیا اور کسی اور نے محسوس نہیں کیا.ہم تمہاری پیشانیوں سے پہچانتے ہیں، تم چھپاؤ، جو چاہو کرو، ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ تم کون ہو؟ چنانچہ مجبوراً پھر ان کو بتانا پڑا.تو جس قوم نے مظالم کی حد کر دی تھی ، جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے یا آئندہ پہنچے گی تو تب بھی انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ پیش پیش ہوگی اور جہاں تک جیبوں کا تعلق ہے، یہ نہ میں نے بھری تھیں، نہ آپ نے بھری ہیں.یہ اللہ تعالیٰ عطا کرنے والا ہے اور اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کا نقشہ یہ کھینچا ہے:.وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ہم نے جو ان کو عطا کیا ، اس سے وہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.اور جتنا وہ خرچ کرتے.جاتے ہیں، ہم عطا کرتے چلے جاتے ہیں.یعنی ایک سلسبیل ہے، ایک جاری سلسلہ ہے، جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا.ایک طرف سے پانی بہہ رہا ہے لیکن بہنے کے سوراخ تو چھوٹے ہیں کیونکہ انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں، ایک طرف سے پانی آ رہا ہے اور وہ آسمان کا سوراخ ہے، جو خدا کے ہاتھوں کا بنایا ہوا ہے.اس لئے ناممکن ہے کہ آنے والی راہ نکلنے والی راہ سے چھوٹی ہو جائے.ایک جاری مضمون ہے، وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ہمیشہ ایسا ہوتا چلا جاتا ہے.پس جماعت احمدیہ کو تو اس بات کا کوئی خوف نہیں، جتنی توفیق ہوگی ، ہم اتنا ضرور دیں گے.اور صرف یہی نہیں کریں گے کہ آج کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کریں بلکہ جس طرح ہم نے افریقہ میں پہلے سے ہی پروگرام شروع کر دیا ہے، ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ہم نے جو کوشش کرنی ہے، یہ آتے ہیں اور فقیروں کی طرح تقسیم کر کے چلے جاتے ہیں.اور یہ نہیں دیکھتے کہ ان کو زراعت میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے، ان کو زراعت میں خود کفیل کرنے کی ضرورت ہے، اس معاملہ میں وہ بالکل بے خبر، بے پرواہ ہوتے ہیں.تا کہ وہ قومیں ہماری محتاج رہیں اور جب احتیاج ہو تو پھر ہماری طرف دوڑیں.ہم نے افریقہ میں ایک سکیم شروع کی تھی اللہ کے فضل سے بہت کامیاب رہی.اور ساری قوم نے اس کو امید کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے.ایک ہزارا ایکٹر کا فارم لے کر اگر چہ پہلے سال شدید نقصان ہوا لیکن میں نے ان سے کہا کہ اب جاری رکھیں، کوئی پرواہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی خاطر ہم کر رہے ہیں، وہ خود فضل کرے گا.چنانچہ اس دفعہ رپورٹ یہ آئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر فصل بہت ہی اچھی ہوئی ہے اور نہایت کامیاب تجربہ رہا ہے.938
تحریک جدید- ایک الہی تحریک اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 09 نومبر 1984ء اسی طرح نائیجریا کو ہم نے خود کفیل بنانے کے طریق سکھانے شروع کر دیئے ہیں.بہر حال ہم سکھا تو سکتے ہیں اور حتی المقدور کوشش بھی کر سکتے ہیں.اس لئے باقی ممالک میں بھی ہم اس سکیم کو عام کریں گے اور بعض احمدی وہاں وقف کر کے گئے ہیں، اسی نیت سے.جنہوں نے ان کو کام سکھانے کی نیت کی ہوئی ہے، ان کی خاطر وہ بڑی مشکلات میں مصیبتوں میں پڑ کر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن رات محنت کر رہے ہیں.اور آہستہ آہستہ سلیقہ دے رہے ہیں، ان کو.ان کو بالکل علم نہیں تھا کہ چاول کس طرح لگایا جاتا ہے، گندم کس طرح لگائی جاتی ہے، ان سب چیزوں سے وہ نابلد تھے.تو یہ اللہ کا احسان ہے کہ وہ ہمارے لئے نیکیوں کی راہیں کھول رہا ہے.اور نیکی کی راہوں میں ہمیں آگے سے آگے بڑھاتا چلا جارہا ہے.ان فضلوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو پھر ان کے دیئے ہوئے دکھ، ان کی دی ہوئی گالیاں ، ان کی لغو باتیں، ان کے فضول قصے، بالکل حقیر اور بے معنی دکھائی دینے لگتے ہیں.اس وقت دل حمد سے بھر جاتا ہے اور اللہ کے حضور حمد و شکر سے بھر کر آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور یہ عرض کرتی ہیں اپنے رب سے کہ: ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا (در شین) تو خدا کے فضل اس کثرت سے نازل ہو رہے ہیں اور ہر جگہ نازل ہو رہے ہیں کہ آپ باوجود اس علم کے کہ ہورہے ہیں، پھر بھی تصور نہیں کر سکتے.کیونکہ آپ کو ساری اطلاعیں اس کثرت سے نہیں آ ر ہیں، جس طرح مجھے آتی ہیں.کوئی جاپان سے خط آ رہا ہے اور کوئی پاکستان سے خط آ رہا ہے.کوئی افریقہ کے ممالک سے خط آ رہا ہے، کوئی ہندوستان سے آ رہا ہے.گاؤں کے گاؤں احمدی ہوتے چلے جارہے ہیں.ایسی تیزی آگئی ہے تبلیغ میں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.انگلستان بھی جاگ رہا ہے، اللہ کے فضل سے.پہلے میں نے آپ کو خوشخبری دی تھی کہ ایک جوڑا، نہایت ہی سلجھا ہوا مخلص انگریز میاں بیوی کا نوجوان جوڑا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشان دیکھ کر احمدی ہوا ہے.اسی جگہ سے یعنی یارک شائر سے.اب کل رات مجھے چٹھی ملی ہے کہ ایک اور خاتون احمدی ہوئیں تھیں، کچھ عرصہ پہلے وہ ایک اور خاتون کو ساتھ لانے لگیں اور کل انہوں نے ایک بہت زبردست تبلیغی پارٹی کی ہوئی تھی.بڑا ہی خدا کے فضل سے ان کو جنون ہے، یعنی ڈاکٹر سعید اور سلمی سعید، جو ان کی بیگم ہیں.تو اسی 939
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 نومبر 1984ء * تحریک جدید - ایک الہی تحریک (80) آدمی قریب بلائے ہوئے تھے، اڑھائی گھٹے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تبلیغ کا موقع ملا اور کثرت سے پہلے کئی دن دعائیں کرتے رہے کہ اے اللہ! ہمیں تو علم نہیں ہے، تو ہمیں روشنی عطا فرما، حکمت عطا فرما، ہماری زبان کھول.سلمی سعید لکھتی ہیں کہ میں حیران ہو گئی تھی کہ مجھے جواب کیسے آرہے ہیں اور کس طرح میری زبان چل رہی ہے، خود بخود یہاں تک کہ اس کثرت سے فون آنے شروع ہوئے کہ اب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ تمہارا اسلام سچا ہے اور باقی سب جو قصے ہیں، فرضی باتیں ہیں.بعض لوگوں نے کہا کہ ہمیں تو نفرت تھی.اسلام کے نام سے.یہ جو ملا ازم اسلام پیش کر رہا ہے، جس قسم کے تنگ نظر وہ اسلام کی طرف منسوب کر کے پیش کرتے ہیں، جس قسم کا تمہارے رسول کا تصور انہوں نے بنایا ہوا ہے، انہوں نے بتایا سلمی سعید کو کہ ہم تو دن بدن نفرتوں سے بھر رہے تھے.آج ہمارے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوگئی ہے.بعضوں نے دعا کے لئے کہا کہ دعا کرو، اب ہمیں اللہ جلد ہدایت نصیب کرے.ایک لڑکی ، جس کا میں نے ذکر کیا ہے، اس نے کہا کہ میں نے ابھی بیعت کرنی ہے.جو ساتھ لے کر آئی ہوئی تھی، اس نے کہا کہ بی بی ابھی بیعت نہ کرو، کچھ اور سوچ لو.ابھی تو تم نئی ہو.اس نے کہا: تمہیں نہیں پتہ کیا بات ہے.میں نے چند دن ہوئے ایک خواب دیکھی اور اس خواب میں ایک موسیٰ کا ذکر تھا اور ایک کفن کا ذکر تھا.اعصائے موسیٰ اور اس کا جیت جانا.اور ایک کفن کا ذکر تھا، جو مسیح کا کفن تھا اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ خواب کیا ہے؟ جب یہ سلمی سعید سوال کا جواب دے رہی تھیں تو جو الفاظ ان کے منہ سے نکلے بعینہ وہی خواب میں مجھے بتائے گئے تھے.اور کفن کا جوذ کر انہوں نے کیا ہے، وہی ذکر خواب میں چل رہا تھا.تو اب تو میں ایک منٹ بھی نہیں رہ سکتی.چنانچہ وہاں سے واپس جا کر گھر پھر انہوں نے فون کیا ، انہوں نے کہا: میں بے قرار ہو گئی ہوں، مجھ سے ابھی بیعت لو.چنانچہ انہوں نے پھر بلایا اور بیعت ان کی لی.اور اب خدا کے فضل سے وہ بیعت مجھے رات ہی بھجوا دی گئی.- جرمنی میں خدا کے فضل سے ستر سے اوپر احمدی ہو چکے ہیں.اللہ کے فضل سے جو تازہ اطلاع ملی ہے اور رحجان بڑھ رہا ہے، تیزی سے.ہندوستان میں جیسا کہ میں نے بیان کیا، گاؤں کے گاؤں بعض علاقوں میں احمدی ہورہے ہیں.کل ایک خط آیا ہے کہ وہاں جب احمدیت کے پھیلنے کی خبریں ملیں تو دور دراز سے بڑے بڑے علماء پہنچے، نفرتیں پھیلانے کے لئے پہنچے.اور ان لوگوں کو علماء کو گاؤں والوں نے نکال دیا.انہوں نے کہا کہ ہمیں تمہارا اسلام نہیں چاہئے.تم نفرتیں لے کر آئے ہو، تم گالیاں لے کر آئے ہو.انہوں نے تو ہمیں زندہ کر دیا ہے، انہوں نے تو ہمیں خدا کا پیار عطا کیا ہے.تم کیا باتیں کرتے ہو.یہ کس طرح 940
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 09 نومبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جھوٹے ہو گئے، جو خدا کی باتیں اور رسول کی باتیں کرتے ہیں.جنہوں نے ہمیں اللہ کی محبت سکھائی، جنہوں نے ہمیں نماز ، روزہ بتایا اور تم ہمیں آکر ان کے خلاف گالیاں دے کر ان سے بدظن کرنا چاہتے ہو.تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں.بعض گاؤں والوں نے ان سے کہا: یہ ہند و علاقہ تھا، جب ہندو ہمیں ہندو بنا تھے، جب ہماری تہذیب تباہ ہورہی تھی، اس وقت تمہارا اسلام کہاں سویا ہوا تھا؟ تمہیں کوئی خیال نہیں آیا کہ علاقوں کے علاقے ایسے پڑے ہوئے ہیں ہندوستان میں، جہاں ہندو کلچر مسلمانوں کو تباہ کر رہا ہے.اور دن بدن ان کو اسلام سے متنفر کر کے خاموشی کے ساتھ ہندو ازم کی طرف واپس لے جا رہا ہے.اس وقت تمہارے کانوں پر جوں نہیں رینگی.اور اب جبکہ احمدی یہاں پہنچے ہیں، ہمیں اسلام سکھانے کے لئے اور ان سے مقابلہ سکھانے کے لئے غیروں سے تو اب تم آگئے ہو کہ ان کو چھوڑ دو.رہے.افریقہ میں جو صد سالہ سکیم تھی، اس کے تابع ہم نے بعض ممالک کے سپردہ، بعض ممالک کئے تھے، جہاں کوئی بھی احمدی نہ تھا.اور یہ فیصلہ تھا کہ اللہ کے فضل کے ساتھ ہر ملک سو سالہ جو بلی کے تحفے کے طور پر دو یا تین ملک ایسے خدا کے حضور پیش کرے، جہاں پہلے احمدیت نہیں ہے.چنانچہ افریقہ کے ایک ملک کے متعلق پہلے بھی اچھی خبر آئی تھی ، اب کل پھر اطلاع ملی ہے، غانا کے سپر د کیا گیا تھا کہ خدا کے فضل سے وہاں دیہات کے دیہات احمدی ہوئے ہیں.اور اب ان کی طرف سے مطالبہ آیا ہے کہ فوراً آکر ہمارے اندر جماعتیں قائم کرو، ہمیں نظام سکھاؤ.اور اللہ کے فضل سے رجحان ایسا تیزی سے پھیل رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں : ہمیں فوری طور پر وہاں مبلغ مقرر کرنے کی ضرورت ہے.چنانچہ ان کو میں نے لکھا ہے: آپ خود جا ئیں تنظیم قائم کریں اور آگے پھر اس کو سنبھالیں تو خدا کی دین ہے، وہ تو نہیں رکتی.جتنا یہ روک رہے ہیں، اتنا ہی خدا کھولتا چلا جارہا ہے، ہماری راہیں.جتنا یہ ہمارے رزق پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے چندوں میں برکت ڈالتا چلا جارہا ہے.ے جتنا یہ گندی گالیاں ہمیں دیتے ہیں، اتنا ہی اللہ تعالیٰ ہمیں روحانی وجود بناتا چلا جارہا ہے.جتنا یہ متنفر کرتے ہیں، ہمارے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے، اتنا ہی زیادہ عشق بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اسی کثرت سے احمدی درود بھیج رہا ہے.جتنا یہ مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں، اتنا زیادہ احمدیوں میں حضرت مسیح موعود کی محبت موجیں ماررہی ہے.یہ دو الگ الگ واقعات رونما ہور ہے ہیں.ایک مغضوب علیہم اور ضالین کی راہ ہے، جو پہچانی جاتی ہے.اور ایک وہ راہ ہے، جن پر خدا نے انعام فرمایا اور وہ بھی پہچانی جاتی ہے.941
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 نومبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک چنانچہ وہ کام جو ہماری تربیتی تنظیمیں کبھی بھی نہیں کر سکتی تھیں، وہ کام خود بخود خدا کی تقدیر ظاہر فرما رہی ہے.اس کثرت سے اطلاعیں ملتی ہیں، ایسے احمدیوں کی ، جو یا تقریباً بے دین خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی وجہ سے تھے یا بے تعلق تھے یا نمازوں میں ست تھے.کوئی دین کی محبت ان میں نہیں تھی یا چندے ادا نہیں کرتے تھے.ان کی چٹھیاں پڑھتا ہوں میں تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ خدا کی حمد سے دل کس طرح بھر جاتا ہے.اور کس طرح آنکھیں اللہ کے حضور شکر کے آنسو بہاتی ہیں.ٹھیک ہے، بہت گند بکنے والے لوگ ہیں ، اس دنیا میں.ٹھیک ہے، بہت دکھ دیئے ہیں.لیکن ان انعامات کو بھی دیکھیں کہ اس کے مقابل پر آپ سے خدا کیا سلوک کر رہا ہے.پس پاکستان کے احمدیوں کو خصوصا میں توجہ دلاتا ہوں کہ خدا کی پیاری نگاہوں کو دیکھنا شروع کر دیا کریں، جب یہ دکھوں اور مصیبتوں کے انبار آپ پر پھینکتے ہیں.ایک ہی علاج ہے اور اس علاج کے سوا کوئی علاج نہیں ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ کے لطفوں کو یاد کیا کریں.اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد کیا کریں.خدا کے کرم جو بارش کی طرح برس رہے ہیں، ان کو دیکھا کریں.چنانچہ میں آپ کو ایک بچے کا مثال کے طور پر میں نے بعض خط چنے ہیں، ایک نوجوان کا خط میں آپ کو بتاتا ہوں.یہ ایک مثال نہیں ہے، ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں اور ہزار ہا اور ایسی مثالیں ہیں.لیکن ہر نوع کے احمدیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک پاک تبدیلی پیدا ہورہی ہے.ایک صاحب لکھتے ہیں، غیر ملک سے یعنی پاکستان کے باہر کسی ملک سے کہ میں گزشتہ چھ سال احمدیت سے کافی دور چلا گیا تھا.نہ نماز نہ روزہ.لیکن اس آرڈینینس کے بعد خدا کے فضل اور بزرگوں کی دعاؤں سے واپس کھنچا چلا آیا ہوں.میں نے خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی توبہ کی اور نمازیں اور روزے شروع کئے اور ہر نماز میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے دوبارہ مجھے نیکی کی توفیق عطا فرمائی.گویا کہ یہ آرڈینینس میرے لئے تو بڑا ہی بابرکت ثابت ہوا.اور اس وقت آپ کے یہ الفاظ میرے کان میں گونج رہے ہیں کہ اگر مسلمان کو آگ میں ڈالا جائے تو وہ کندن بن کر نکلتا ہے.اس تبدیلی کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ آرڈینینس کے معابعد میں نے اپنے والدین، جو کہ پاکستان میں ہیں، ان کو خط لکھا کہ آپ لوگ اپنے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی مجھے بھیجیں تا کہ میں آپ کا ویزہ بھیج کر آپ لوگوں کو یہاں بلوالوں.اس خط کا جواب اس طرح آیا، اگر بیٹا تم نے سیر کی غرض سے بلوایا ہوتا تو ہم ضرور آتے لیکن تم حالات سے ڈر کر ہمیں بلوار ہے ہو تو یہ ذہن سے نکال دو کہ ہم ڈر کی وجہ سے آجائیں گے.ہم تو شہید ہونے کے لئے بے چینی سے وقت کا انتظار کر رہے ہیں.وہ بچہ لکھتا ہے کہ خط مجھ پر بجلی بن کر گرا اور اس کے بعد پھر 942
تحریک جدید -- ایک الہی تحریک اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 نومبر 1984ء میں نے احمدیت کی کتابیں پڑھنی شروع کیں اور اب تو جہاں موقع ملتا ہے تبلیغ کی بھی کوشش کرتا ہوں.میری اس تبدیلی کو دیکھ کر دوست احباب حیران ہو جاتے ہیں کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ تو یہ ایک انعام ہے، جو اللہ تعالیٰ عطا کر رہا ہے، جماعت کو.اور کثرت سے عطا کر رہا ہے.چھوٹے چھوٹے بچے ولی بن رہے ہیں اور خدا کی راہ میں آنسو بہانے لگے ہیں.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ بعض اوقات تو بڑے رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آتے ہیں، جب ہم خطبات کی کیسٹس (Cassettes سنتے ہیں تو دوست اتنا روتے ہیں، اتنا روتے ہیں کہ بعض دفعہ برداشت نہیں ہوتا تو اونچی آوازوں سے رونا شروع کر دیتے ہیں.وہ دوست، جن کو کبھی نمازوں میں ست دیکھا جاتا ، وہ بھی اب عبادت کے وقت زار و قطار آنسو بہانے لگتے ہیں.سمجھ نہیں آتی کہ اتنی جلدی ، چند ماہ میں یہ حیرت انگیز تبدیلی پیدا کیسے ہوگی؟ جہاں تک چندوں کا تعلق ہے، اس کثرت سے خطوط ہیں، حیرت انگیز قربانیوں کے کہ ناممکن ہے کہ میں آپ کو بتا سکوں.وہ محفوظ کئے جارہے ہیں اور انشاء اللہ تعالی آئندہ زمانے کے لئے یہ تاریخ محفوظ کی جائے گی.ایسے عجیب خدا تعالٰی نے دلوں کے اوپر تصرفات فرمائے ہیں اور ایسی ایسی ہمتیں عطا کی ہیں، قربانی کے لئے ایسا جوش پیدا کیا ہے، ایسی لذتیں عطا کی ہیں، قربانی کرنے والوں کو کہ یہ تو اب ٹھہرنے والا قصہ ہی نہیں ہے، یہ تو میں روکتا ہوں تو رکتے نہیں ہیں.بعض دفعہ میں واپس کرتا ہوں کہ یہ تمہاری طاقت سے بڑھ کر ہے منتیں کر کے دوبارہ دیتے ہیں.کئی دفعہ ایسا ہوا، ایک دفعہ نہیں ہوا.ایک نوجوان سے میں نے کہا کہ یہ تمہاری ساری عمر کی کمائی ہے.علم ہے، میں یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی راہ میں یہ منظور ہو گئی ہے اور میں یہ تمہیں واپس کر رہا ہوں.تم بالکل فکر نہ کرو لیکن اتنا حصہ میں تمہارا قبول کرتا ہوں.اس کی وہ کیفیت ہوئی خط پڑھ کر کہ میری قربانی کو گو یار د کر دیا گیا ہے کہ ایسا روحانی عذاب میں بے چارہ مبتلا ہوا کہ بعد میں یہ مجھے پتہ چلا تو شدید مجھے دکھ پہنچا کہ میں نے کیوں اسے ایسا کہا تھا.اور آخر اس نے وہ دے کر ہی چھوڑا.تو بظا ہر جو لوگ محروم رہے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ اب ایسی روحانی لذتیں عطا کر رہا ہے ، اس کا تصور بھی کوئی دنیا میں نہیں کر سکتا.ایک غریب عورت نے یہ لکھا کہ جب میں نے دیکھا اپنی بہنوں کو قربانی کرتے ہوئے ، ہر طرف تو اس قدر مجھے شدید تکلیف تھی کہ میں کیا کروں؟ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے.کہتی ہیں: اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ جو گائے میں نے لی ہے، بچوں کو دودھ پلانے کے لئے، یہ تو ہے.تمہارے پاس اگر تمہیں اس گائے سے محبت ہے اور دل میں خواہش قربانی کی زیادہ ہے تو پھر اس گائے کو پیش کر دو.چنانچہ 943
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 09 نومبر 1984ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک آج کے بعد سے یہ گائے میری نہیں ہے.جب تک آپ اس کو سنبھال کر یا بیچ کر انتظام نہیں کر لیتے ، اس وقت تک جو دودھ میں اس سے لوں گی، اس کے پیسے ادا کروں گی.عجیب دیوانے لوگ ہیں.دنیا تو تصور بھی نہیں کر سکتی کہ احمدی کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ وہ تو آپ کے ظاہر کو بھی نہیں پہچانتی.آپ کے باطن میں کیسے اس کی نگاہیں اتر سکتی ہیں؟ ایک بچی کا بہت پیارا خط آیا.کہتی ہے: (Cassette) کیسٹ چل رہی تھی، عورتوں کی قربانیوں کے، جو آپ واقعات بیان کر رہے تھے، چھوٹی بچی ہے، وہ کہتی ہے کہ میرے دل میں عجیب تڑپ اٹھی اور میں نے اپنی ماں کو کہا کہ امی آپ کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا.کہتی یہ کہتے کہتے ، جو میری نظر اٹھی تو دیکھا کہ ماں اپنی بالیاں اتار رہی ہے اور روتی چلی جارہی ہے.اس وقت مجھے خیال آیا کہ میں نے اپنی ماں پر بدظنی کی تھی.وہی بالیاں اس کے پاس تھیں.اور ادھر بیٹی کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی، ادھر وہ ماں کے ہاتھ پہلے ہی اس طرف اٹھ چکے تھے.یہ قوم ہے، جس کو ظالم ہٹائیں گے.خدا کی قسم آپ نہیں مٹ سکتے.آپ ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحیں ہیں، جو آپ کے اندر زندہ ہو رہی ہیں.یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات ہیں، جو آپ کو نئی زندگی عطا کر رہی ہیں ، ان کو خدا مٹنے دے گا.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، یہ ناممکن ہے.ساری کائنات مٹ سکتی ہے لیکن احمدیت کی روح نہیں مٹ سکتی.کیونکہ یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی روح ہے اور خدا اس روح کو کبھی مٹنے نہیں دے گا“.خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 641 تا 661) 944
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم ارشاد فرموده 11 نومبر 1984ء دنیا کے تمام ممالک میں جماعتیں قرآن مجید حفظ کرنے کی طرف زیادہ توجہ دیں ارشاد فرموده 11 نومبر 1984ء سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے لنڈن میں 11 نومبر 1984 ء کی مجلس عرفان میں جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ ”دنیا کے تمام ممالک میں جماعتیں قرآن مجید حفظ کرنے کی طرف زیادہ توجہ دیں“.اس ضمن میں حضور نے بتایا کہ " خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی بیرونی ممالک کے بچے حفظ قرآن مجید کی کلاس میں قرآن مجید حفظ کر رہے ہیں اور کچھ حفظ کر کے واپس جاچکے ہیں.ان حفاظ اور دوسرے حفاظ کے ذریعہ جو پہلے سے موجود ہیں مختلف ممالک میں حفظ قرآن مجید کی کلاسوں کا انعقاد ہو سکتا ہے.اس بارہ میں حضور انور نے احمدی خواتین کو قرآن مجید حفظ کرنے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ لڑکوں کی نسبت بچیوں کی دلچسپیاں اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ ان کے لئے قرآن کریم کے حفظ کرنے کے زیادہ مواقع ہیں.ان کو ان سے فائدہ اٹھانے کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے.( مطبوعه روزنامه الفضل یکم دسمبر 1984ء) 945
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 نومبر 1984ء ایک ہی خدا ہو اور ایک ہی رسول ہو اور ایک ہی راجدھانی ہو وو وو خطبہ جمعہ فرمودہ 16 نومبر 1984ء تمام دنیا میں تمام جماعت کے ذرائع اس بات پر صرف ہورہے ہیں کہ احمدی جلد از جلد مبلغ بن جائے.اور اس کوشش کے نتیجے میں اس وقت جو منظر ہے، وہ یہ ہے کہ کہیں کہیں سے کوئی سبزی کا دانہ پھوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے.اس کے پیچھے جماعت کی انتظامیہ کی طاقت ہے، جو اس پیج کی طرح ابھی ان کی سر پرستی کر رہی ہے، اس روئیدگی کو بڑھا رہی ہے.لیکن عنقریب آپ دیکھیں گے کہ جب ساری دنیا کا احمدی روئیدگی بن کر پھوٹے گا اور پھر مبلغ کی کونپل اس سے نکلے گی اور مضبوط ہو جائے گی اور پھر وہ ایک تناور درخت کی طرح اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا.تو ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عظیم انقلاب بر پا ہو جائے گا.یہ فرضی باتیں نہیں ہیں.ہر جگہ نئے مبلغ پیدا ہور ہے ہیں.نئے آدمی اپنے آپ کو دن رات تبلیغ کے لئے وقف کر رہے ہیں، دعائیں کر رہے ہیں اور ابھی ان کی کوششیں بھی پوری طرح روئیدگی میں تبدیل نہیں ہوئیں کیونکہ ساری جماعت کی کوششیں مبلغ بنانے والی تو ابھی نسبتا بہت ہی کم ہیں، جو روئیدگی کی صورت میں پھوٹی ہیں.میں تو اس تصور کے ساتھ ہی ایک عجیب عالم میں پہنچ جاتا ہوں، خوشی کے کہ جب ساری جماعت اللہ کے فضل سے مبلغین کی جماعت بن چکی ہو اور لکھوکھا احمدی ساری دنیا میں مختلف ادیان کے اوپر اسلام کو اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب لانے کے لئے دن رات وقف کئے ہوئے ہوں.اور یہ تصور ہی اتنا پیارا ہے، اتنا حسین ہے کہ اس میں کھو کر انسان جنت میں پہنچ جاتا ہے.جب یہ ہوتا دیکھیں گے ہم تو کیا عالم ہوگا، ہمارے دل کا.ساری دنیا کی طاقتیں آپ کو سمیٹنے کی کوشش کریں گی ، تمام دنیا کی طاقتیں آپ کے گرد باڑ میں لگانے کی کوشش کریں گی، تمام دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں دیوار میں کھڑی کریں گی.جس طرح پاکستان کی حکومت آج کل دیوار میں کھڑی کرنے میں مصروف ہے.لیکن خدا کی قسم آپ کے اندر ایسی قوتیں پیدا ہو جائیں گی، خدا کی طرف سے کہ آپ چھلانگیں لگاتے ہوئے ہر اونچی دیوار کو پھلانگ کر آگے نکل جائیں گے، ہر حد کو توڑ دیں گے اور لازماً اسلام کی یہ لہر ساری دنیا پر غالب آتی چلی جائے 947
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 نومبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم - گی.یہ مقدر ہے احمدیت کا، جو مجھے اس دشمنی کے پار اس کے دوسری طرف نظر آ رہا ہے.اس لئے جماعت کارد عمل یہی ہونا چاہئے ، جو قرآن کریم نے مقرر فرمایا ہے.اس غیظ و غضب کو بھول جائیں اور اپنی ترقی کی طرف نگاہ کریں اور روئیدگی کی طرح پھوٹیں اور پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں.پھر اس کے بعد جو مبلغ بن جائے گا، پھر اس کو جماعت کو کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی.یہ نقشہ بھی قرآن کریم نے کھینچا ہوا ہے.اور بالکل فطرت کے مطابق ہے.ابتداء میں مبلغ کو بنانے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے.وہ بیج سے طاقت لے کر مبلغ بنتا ہے.مگر ایک دفعہ بن جائے تو پھر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.بیج جس کے ساتھ وابستہ ہی نہیں رہا کرتا، وہ تعلق بھی بعض دفعہ ٹوٹ جاتا ہے، پھر بھی بڑھتا ہے اور پھولتا ہے اور پھلتا ہے اور نشونما پاتا ہے.یہ ایک ایسا چسکا ہے کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا، جس کو تبلیغ کا چسکا ایک دفعہ لگ جائے، پھر اس کو کہنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی کہ تم تبلیغ کرو.ہاں بعض دفعہ روکنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ میاں ذرا ہوش سے، آہستگی سے، ملامت سے، نرمی سے، اتنا بھی زیادہ زور نہ دکھاؤ، روکنا پڑتا ہے.پھر کئی مبلغین جن کو مجھے سمجھانا پڑتا ہے کہ اتنی تیزی سے نہ کرو، کچھ حکمت سے بھی کام لو.ذرا نرم روش اختیار کرو.لیکن جو مبلغ بنا ہوا ہو، اس کو پھر یہ Coax کرنے کی یا انگیخت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ تم نے تبلیغ کرنی ہے.بعض گھرانے جو مبلغ بن چکے ہیں، وہ رفتہ رفتہ اتنا بڑھ گئے ہیں کہ نہ ان کے اپنے آرام ان کے پیش نظر ہیں، نہ بچوں کے آرام پیش نظر ہیں.بعض دفعہ انگلستان میں ہی بعض خاندان ہیں، ساری ساری رات پھر وہ تبلیغ میں صرف کر دیتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں تو لگتا ہے، باہر والے قربانی دے رہے ہیں.لیکن ان سے پوچھیں تو وہ ایک ایسی لذت پاتے ہیں کہ ان کو روکنے والا ، ان کو برا لگتا ہے کہ یہ مجھے کیا کہہ رہا ہے.پس وہ کیفیت ہے، جماعت کی جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم اس کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اور بھی زیادہ تیزی سے قدم بڑھائیں گے.ابھی تک افریقن ممالک اور انڈونیشا کے بعد جرمنی اپنی بیداری کے لحاظ سے آگے آگے بڑھ رہا ہے.اور انگلستان ابھی بہت پیچھے ہے.چودہ صرف بیعتیں ہوئی ہیں، ان کی ، جب سے میں آیا ہوں.اور جرمنی کی ستر سے اوپر ہو چکی ہیں، اللہ کے فضل سے.اور جو تیاری کی خبریں آرہی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ بہت سے بیچ ، جوبس پھوٹنے کے لئے تیار بیٹھے ہوئے ہیں.اسی طرح ہالینڈ خدا کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہا ہے.بہت چھوٹی سی جماعت ہے لیکن گزشتہ چند مہینوں میں سات بہت اچھے قابل تعلیم یافتہ احمدی ہوئے ہیں.جن کے ساتھ انشاء اللہ ان کا خاندان بھی آئے گا.948
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 16 نومبر 1984ء اور پھر جو احمدی ہوتے ہیں، ان کے ساتھ خدا تعالیٰ اپنے فضل کے بھی عجیب عجیب کھیل کھیلتا ہے.ایسی معجزانہ شان سے ان پر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعات، عجیب رو پرور واقعات ہیں.کثرت سے مختلف لوگ وہ واقعات لکھتے ہیں.بعض نواحمدی خود اپنے واقعات لکھتے ہیں کس طرح خدا نے ان سے پیار کا سلوک کیا.خوابوں کے ذریعہ ان پر ظاہر ہوا، ان کو تقویت دی اور پھر معجزانہ طور پر اپنے قرب کا اور اپنے پیار کا جلوہ دکھا کر ان کے دلوں کو زیادہ مطمئن کیا.اپنی ذات پر زیادہ گہرا ایمان ان کے اندر پیدا کر دیا.ان واقعات میں سے ایک ہالینڈ کا واقعہ میں آپ کو بتاتا ہوں.ایک تعلیم یافتہ عیسائی دوست تھے ، ان کو اسلام میں دلچسپی پیدا ہوئی.انہوں نے مسجد سے رابطہ قائم کیا.اور یہ دلچسپی در اصل پیدا اس لئے ہوئی تھی کہ وہ کینسر کے مریض تھے اور ڈاکٹروں نے یہ اعلان کر دیا تھا ان کے متعلق یعنی ظاہر کر دیا تھا کہ ہماری سائنس کے مطابق پندرہ دن سے زیادہ یہ زندہ نہیں رہ سکتا.تو ان کو شدید گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ میں مرنے سے پہلے سچا رستہ تو پالوں.اپنے رب کے حضور جاؤں گا تو اس سوال کا کیا جواب دوں گا کہ تم نے مجھے تلاش بھی کیا تھا یا کہ نہیں؟ اس جذبہ سے اس فکر کے نتیجہ میں انہوں نے جستجو شروع کی اور جب وہ ہالینڈ مسجد پہنچے تو ایک دو دن کے اندر ہی ان کو اطمینان ہو گیا اور انہوں نے کہا: الحمد للہ اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے اور بیعت فارم پر کر دیا.اور ساتھ ہی دعا کے لئے کہا کہ اب دعا کرو، اللہ تعالیٰ مجھے کچھ زندگی اسلام میں دے تا کہ میں اسلام میں رہ کر کچھ خدمت کر سکوں.چنانچہ وہ پندرہ دن کی جو پیشگوئی تھی ، اس کو اب سات مہینے گزر چکے ہیں اور ان کی صحت بجائے گرنے کے اتنی بہتر ہوگئی کہ اب وہ سفر پر آج کل امریکہ گئے ہوئے ہیں.اور وہ خود حیرت زدہ ہیں کہ یہ مجھ سے کیا ہو گیا.میں نے تو جانے کی تیاری میں بیعت فارم پر کیا تھا، یہ تو میرے جانے کے تو دن ہی ٹل گئے.وو اللہ تعالیٰ نے پہلے مجھے رویا کے ذریعہ بعض خوشخبریاں عطا فرما ئیں اور پھر ایک بہت ہی پیارا کشفی نظارہ دکھایا، جو میں آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.چند روز پہلے، تقریبا دو ہفتے پہلے شاید اچانک میں نے ایک نظارہ دیکھا کہ اسلام آباد، جو انگلستان میں ہے، اس وقت ہمارا یورپین مرکز انگلستان کے لئے ، وہاں میں داخل ہورہا ہوں.اس کمرے میں جہاں ہم نے نماز پڑھی تھی اور سب دوست صفیں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں، اسی طرح انتظار میں.تو عین مصلے کے پیچھے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی اس عمر کے ہیں، نظر آرہے ہیں، جو 20/15 سال پہلے کی تھی.اور رومی ٹوپی پہنی ہوئی ہے، وہ جو پرانے زمانہ میں پہنا کرتے تھے.اور نہایت ہشاش بشاش عین امام کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں.مجھے دیکھتے ہی وہ اور ** 949
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 نومبر 1984ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک نماز کی خاطر اٹھ کر کھڑے ہوئے اور میں ان کی طرف بڑھنے لگا کہ پوچھوں چوہدری صاحب آپ کہ گئے ، آپ تو بیمار تھے؟ اچانک کیسے آنا ہوا ؟ تو وہ نظارہ جاتا رہا.آنکھیں کھلی تھیں اور جو منظر سا سامنے ویسے تھا ، وہ سامنے آگیا.تو اللہ تعالیٰ ایسی خوشخبریاں بھی عطا فرمارہا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نصرت اور اس کے ظفر کے وعدے انشاء اللہ تعالیٰ جلد پورے ہوں گے.تو یہ باتیں ان کے علاوہ ہیں.جماعت تو ہر حال میں ترقی کر ہی رہی ہے.جتنا خدا انتظار کروائے، ہم کریں گے، انشاء اللہ.کیونکہ ہم کو کچھ نہیں رہے، ہمارے ہاتھ سے جا کچھ نہیں رہا.ایک دیکھ ہے اللہ کے لئے ، جو ہمیں پہلے سے زیادہ اور آگے بڑھاتا چلا جارہا ہے.اس لئے نقصان کا کوئی سودا تو ہے ہی نہیں.میں اس لئے تسلی نہیں دے رہا.مگر میں یہ بتا رہا ہوں کہ اللہ کے رنگ عجیب ہیں.وہ بظاہر قربانی لیتا ہے اور حقیقت میں وہ ترقی ہورہی ہوتی ہے.اور پھر اس مزے اس روحانی لذت کے بھی بدلے عطا فرماتا ہے.یہ وعدے ہیں خدا کے، جن کی طرف میں آپ کو توجہ دلا رہا ہوں.چنانچہ اس کشفی نظارہ کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے ایک اور کرم یہ فرمایا : جن دنوں پاکستان کے حالات کی وجہ سے بعض شدید کرب میں راتیں گزریں تو صبح کے وقت الہا ما بڑی شوکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: السلام علیکم.اور ایسی پیاری، ایسی روشن، پکھلی آواز تھی اور آواز مرزا مظفر احمد کی معلوم ہو رہی تھی.یعنی بظاہر جو میں نے سنی آواز اور یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ میرے کمرے کی طرف آتے ہوئے، السلام علیکم کہتے ہوئے ، باہر سے ہی شروع کر دیا، السلام علیکم کہنا.اور اندر داخل ہونے سے پہلے السلام علیکم کہتے ہوئے آنے والے ہیں.تو اس وقت تو خیال بھی نہیں تھا کہ یہ الہامی کیفیت ہے.کیونکہ میں جاگا ہوا تھا پوری طرح.لیکن جو ماحول تھا اس وقت، اس سے تعلق کٹ گیا یا.چنانچہ فور امیر ارد عمل ہوا کہ میں اٹھ کر باہر جا کر ملوں ان کو اور اسی وقت وہ کیفیت جو تھی، وہ ختم ہوئی.اور مجھے پتہ چلا کہ یہ تو خدا تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ السلام علیکم کا وعدہ دیا ہے بلکہ ظفر کا وعدہ بھی ساتھ عطا فر ما دیا ہے.کیونکہ مظفر کی آواز میں السلام علیکم پہنچانا، یہ ایک بہت بڑی اور دوہری خوشخبری ہے.اور پہلے بھی ظفر اللہ خاں ہی خدا تعالیٰ نے دکھائے اور دونوں میں ظفر ایک قدر مشترک ہے.تو اس لئے میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں، یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ علم کی آگ بھڑ کا نا بند کردیں گے.ابراہیم علیہ السلام کے مخالفین نے ظلم کی آگ بھڑ کانی بندتو نہیں کی تھی.بھڑ کانے کے نتیجہ میں خدا نے فرمایا تھا.ينَارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (الانبياء: 70) 950
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد ششم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 نومبر 1984ء چنانچہ آگ شاید اور بھی بھڑ کا ئیں.لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ آگ اسی طرح آپ کی بھی غلام ہوگی، جیسے مسیح موعود علیہ السلام کی غلام بنائی گئی تھی.اور خدا تعالیٰ کی سلامتی کا وعدہ آپ کی حفاظت فرمائے گا.بالکل بے خوف ہوں اور شیروں کی طرح غراتے ہوئے اس میدان میں آگے بڑھتے چلے جائیں.امر واقعہ یہ ہے کہ اس الہام کے بعد مجھے کامل یقین ہے، ایک ذرہ بھی اس میں شک نہیں.سارے میرے خوف خدا نے دور فرما دیئے ہیں.اور میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ یہ چند مولویوں کی لعنتیں کیا چیز ہیں.ساری دنیا کی زمینی اگر لعنتیں ڈالیں گے، کروڑوں، اربوں لعنتیں بھی اگر زمین سے اٹھیں گی تو خدا کی قسم زمین کی لعنتیں آپ کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گی.میرے خدا کا ایک سلام ایسی قوت رکھتا ہے کہ ساری لعنتیں اس سے ٹکرا کر پارہ پارہ ہو جائیں گی اور نا کام ہوں گی اور نامراد ہوں گی.خدا کی آواز میں السلام علیکم جماعت کو میں پہنچاتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ یہ سلامتی آپ کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے.کوئی نہیں ، جو اس سلامتی کو مٹا سکے.یہ کیا چیز ہیں؟ ان کی گالیاں کیا چیز ہیں؟ ان کا ایک ہی جواب ہے.پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آپ آگے بڑھیں.زیادہ شان کے ساتھ اسلام کا قافلہ شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے.یہ شور و غوغا یہ تو قافلوں کے مقدر میں لکھا ہوا ہے.ان کی آوازیں بے معنی اور حقیر ہیں اور یہ پیچھے رہ جانے والی آوازیں ہیں.ہر منزل پر نئے شور آپ سن سکتے ہیں.لیکن ہر منزل کے شور مچانے والے پیچھے رہتے چلے جائیں گئے.ایک ہی علاج ہے کہ اپنی رفتار کو تیز سے تیز تر کر دیں.یہاں تک کہ ان کا شور و غوغا آپ کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکے.اس تیزی کے ساتھ اس شان کے ساتھ غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے بڑھتے چلے جائیں کہ دیکھتے دیکھتے وہ وعدہ ، جو اس آیت میں کیا گیا ہے:.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ آپ کے ذریعہ، ہاں آپ کے ذریعہ وہ دن ہم اپنی آنکھوں کے ساتھ ابھرتا ہوا دیکھیں ، وہ سورج اپنی آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہوا دیکھیں کہ اسلام سارے ادیان پر غالب آچکا ہو اور میرے آقا و مولا ، آپ کے آقا ومولا ، ہمارے آقا و مولا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا پر غالب آچکے ہوں.ایک ہی خدا ہو اور ایک ہی رسول ہو اور ایک ہی راجدھانی ہو اور وہ اسلام کی راجدھانی ہو.(آمین).خطبات طاہر جلد 13 صفحہ 663 تا 682 951
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم اشاریہ 1 آیات قرآنیہ 2.احادیث مبارکہ 3 کلید مضامین -4 اسماء 5 مقامات 6.کتابیات اشاریہ 953
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد ششم الفاتحة 27,31,41,91,119,137, آیات قرآنیہ اشاریہ آیات قرآنیہ بايها الذين امنوا استعينوا (493158154 ان الله وانا اليه راجعون ( 133157) 213,227,249,255,281,282,293, 359,383,445,503,529,549,561, 621,655,675,703,709,743,755, 791,857, الحمد لله رب العلمين.......( 71 ) 55,249,389,595,597,941 ام هسبتم ان تدخلوا.....(215)472,801 لا اكراه في الدين ( 724257 امن الرسول بما انزل.....(286)599 بنا لا تواخذنا ان نسينا أو اخطانا.....(287) 56,295,503,504,506,509,510,511, 514-516 البقرة 608,611,612 آل عمران فلما احس عيسى منهم الكفر......( 53 )461 هدى للمتقين ( 03 )741 الذين يؤمنون بالغيب.......( 04 ) 240,538,938 واذ القوا الذين امنوا قالوا امنا.....( 15 )566 او فو بعهدى اوف بعيد كم....(41)767 في الاخرة عذاب عظیم (115)177 ولله المشرق والمغرب.....(116)655 والله خير الماكرين....( 55 )243 لى تنالوا البر.....( 93 )46 اون اول بيت وضع للناس....(97,98)577,579 واعتصموا بحبل الله ولا تكونوا كالذين 852(104)....852(106) ينفقون في السراء والضراء....( 135 )924 شاورهم في الامر......(160)12 فإذا عزمت فتوكل على الله....( 160 )337 وا نيرفع ابراهيم القواعد من البيت...( 128 (579) وكذلك جعلتكم امة...( 144 )520 ولكل وجهة هو موليها فاستبقا لغيرات (149) 211,431,663,933 وما الحيوة الدنيا.......(186)175,176 النساء 608,610 ان الله يأمركم أن تؤدوا.....( 59 )607 955
اشاریہ، آیات قرآنیہ ايها الذين اطيعوا الله.852( 60 )....تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم بونس ا الى هولا ، ولا الى هولاء ( 144 )566 الا ان اولياء الله لا خوف....( 63 )416 المائدة 608,611 تعاونوا على البر والتقوى......( 02 )352 اليوم اكملت لكم دينكم....(04)603 يحرفون الكلية.حي صو اضعه....( 14 )600 بلغ ما انزل اليك.....( 68 )62 الانعام )...قل ان صلاتی و نسکی ( 163 )337 الاعراف ولباس التقوى ذالك خير....( 27 )563 قل من حرم.....( 33 )81 در همتي وسعت كل شيء.....( 157 (540 يضع عنهم أمرهم....( 158 (296 قل يا يها الناس الى سوا ل الله...( 159 )598 الانفال 608,611 هود تزدرى اعينكم....( 32 )44 عليه توكلت......( 89 )56 يوسف انما الكويتي وحزني الى الله ( 87287 الرحم انما انت منذر ولكل قوم نهاد ( 08 ) 596,599 ان الله لا يغير.....( 12 )97 ابر القيم لئن شكرتم لأزيدنكم.....( 8 ) 154,155,478 الحج انا نحن نزلنا الذكر......( 10 )603 النحل ولقد بعثنا في كلامة.601(37) تالله لقد ارسلنا الى اسم......( 64,65 (602 استجيبو الله وللرسول اذا دعا كم...( 25 )669 ان الله يامر بالعدل.نعم المولى ونعم النصير ( 41 )405 ويحي من حي عن بيئته ( 42 )381 والا تنارعوا ( 47 )853 التوبة ليظهره على الدين....( 33 ) 102,103,951 ان الله اشترى.302,384,536 ( 111 )...791(91) ادع الي سبيل ربك.....(126) 124,278,482 بنى اسرائيل اعرض ونابجانبه.....( 84 )96 وانامسه الشر.....( 84 )96 قل كل يعمل على شاكلته.....( 85 (379 956
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم الكهف كبرت كلمة تخرج من افواهم...( 06 (389 قل انما انا بشر مثلكم....(111)617 طه 70,608,609 ويسلونك عن الجبال ( 106 109 (115 الانبياء ینار کونی بردا و سال ها....( 70 ) 457,890,950 و ارادو به كيرا.....( 71 )457 القصص رب الى لما أنزلت الى من خير فقير ( 25 )872 وقال فرعون يايها الملاء....( 39 )581 الروم ظهر الفساد......( 42 )137 الاحزاب فمنهم من قضى نحبه.....( 24 ) 462,471 Ly وما ارسلنك الا كافة الناس.....( 29 ) 598 فاطر اليه يصم.....( 11 )239 وان من امة الدخلا فيها نذير ( 25 )598 الزهر الا الله الدين الخالص ( 85404 فتره مصفرا.....( 22 )181 اشاریہ، آیات قرآنیہ تقشعر منه جلود.اشرقت الارض.المؤمن 305(24) 843(70) و من عمل صالحا من ذكر اونشی...( 41 )616 حم السجدة شد ان الذين قالو ربنا الله....( 31 )537,618 وابشر وابالجنة التي.....( 31 ) 537 و من احسن قولاً.دعا....( 34 )383 ادفع بالتي هي احسن....( 35 )366 الشورى 608 وجزوا سيئة سيئة منها (41)613 ذالك بأن الله مولی.....( 11 ) 515 والله غني.....( 39 )49 الهجرات ان أكرمكم عند الله....( 14)178,616 لا تمشوا على اسلا مكم....( 18 )302 الذاريات وفي امو الرسم حو اللمسائل....( 20 )606 النجم ثم دنا فتدلى....( 9,10)534 الرحمان كل من عليهافان.....27,28 (578 957
اشاریہ، آیات قرآنیہ هل جزاء الإحسان.....( 61 )56 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم الاعلى فهاى الاء ربكما تكذبن ( 14 )775,784 ان هذا في الصحف الاولى...( 19,20 (615 اله جات لعرض السماء.....( 22 )178 الحشي ويو ثرون على انفسهم...( 92409 الصف 216 لبظهره على الدين كله...( 09 ) 277,843 الجمعة ب أهم الكتاب....(3)164 ذالك فضل الله.....( 04 (178 القلم انك لعلى خلق عظيم....( 05 )450 الجن ان المسجد الله.....( 19 ),199 المرسلة واذا الرجل اقتت.....( 12 )195,458 التكوير ان هو الا نذكر للعالمين ( 28 ) 598 البروج 786 البلد يتيماذا مقربة.....( 16,17)936 الشمس افلح من زكاها.....( 09 (874 الضحى ووجدك ضالا فريدي ( 8,9 (535 اما بنعمته ربك فصرت ( 12 )478 البيئة فيها كتب قيمة ( 03 )614 القارعة 786 العصر والعصر - ان الانسان لفي خسر ( 2,3 (506 النصر اذاجاء نصر الله والفتح ( 2 تا 4 ) 638-640,843,916 الفلي قل اعوذ برب الفلق.....( 02-06 )100-95 الناس الناس ( 02 (597 الطارق 786 958
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم ولا فخر.......08 احادیث مبارکہ اشاریہ، احادیث مبارکہ آخری زمانہ میں ہولناک جنگ کی پیشگوئی 70 ايرها الناس الا ان ربكم........33,616 سائل کو فرائض اور نوافل کے متعلق بتانا 81 وجب على كل مؤمن نصره 277.اطاعت امیر 83 لو كان الإيمان عند الثريا........436 امام الصلوۃ کی اطاعت 84 من بنى الله مسجداً المسلم اخوا المسلم احسن كما احسن لا تشريب عليكم اليوم بايعنا رسول الله على السمع 478 479 479 759.851.......مسلم کی تعریف 125 بوقت پیدائش بچے کے کان میں اذان اور تکبیر کہنا 172 صدقہ جاریہ کا ثواب 208 ظهور مسیح و امام مہدی کی علامات 407,586 جنگ بدر میں ایک مشرک پہلوان کی مدد لینے سے انکار 516 من اطاعني فقد اطاع الله..........852 مغرب سے طلوع آفتاب کی پیشگوئی 529 کسری کی حکومت کے متعلق پیشگوئی 539,540 ع فارق الجماعة شبراً........853 من من برای سراى الله بندہ اور خدا کا ایک دوسرے کی طرف بڑھنا 540 عليكم بسنتي وسنة الخلفاء.......853 حضرت اویس قرنی کو سلام بھیجنا 552 ابتداء اسلام میں مسلمانوں پر مظالم 554,555 جنگ بدر کے موقع پر انصار سے مشورہ 661,662 855........B 872.حب الوطن من الإيمان.السلام جنة يتقاتل من ورائه احادیث بالمعنى ہر ایک کو مبلغ بنانا 15 ایک غلام سے پیار کرنا 43,44 دجال کی نشانیاں 45,731 قبولیت دعا کا راز 52,53 936 دنیاوی امور میں دجالی اقوام کی برتری 57,59 بوڑھوں کی دعاؤں کا مقبول ہونا 719 صحرا میں نماز با جماعت کے لئے اذان کا ارشاد 721 کلمہ پڑھنے کے باوجود صحابی کا قتل کر دینا 791,792 قیامت کے دن ایک مالدار، ایک قاری اور ایک عالم دین کا پیش ہونا 855 جنگ خندق کے موقع پر ایک صحابی کا دعوت کرنا 865,866 959
اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد ششم کلید مضامین 150,154,164,205,206,213,214,224,227, T آخرت 81,615 آخری زمانہ 115 آؤٹ 832 آرید / آرید دهرم 35 آزادی 41,688,689,692,693 مذہبی آزادی 263,368,791 آزادی ضمیر 547 آزمائش ( نیز دیکھئے ابتلا ) 23,801 آسائش 81 آشتی 68,237,545 آمریت 86,606 آمین آہستہ آواز میں آمین کہنا 683 الله رخدا تعالیٰ 245,289,315,326-328,335,336,370,371, 376,445,485,637,638,647,673,703,709, 718,725,746,775,784,792,897,939,942 ایمان باللہ 68 تائید الی 92 تعلق بالله 66,311,458,459,485487 490,515-517,533-536,538-541,545,552, 555,556,567,569,570,572,574,575,589, 622,623,648,693,694,706,746,766,846 تقدیر الهی 236,530 توحید 34,453,548,601,602,652,761,762 توکل علی اللہ 15,337,459,516,872,881 حدود الله 81 حقوق اللہ 24,32 حمد باری ,24,31,32,41,52,53,101,105 106,137,138,197,198,213,222,244,481, 31,34,36,37,38,50, 88,95,100,130,137,154,160,161,162, 309,485-487,510,540,595,596,641,745 اللہ تعالیٰ سے افضال احسانات رانعامات 551,577,639-642,647,648,709,747,775 ذکر الہی 101,180,199,456,477 رحمت الهی 540 رضا الهی 180,198,313-23,37,103,177 434-436,456,463,537,655,656,769,854 961 23,55,91,101,105,117,137-140,143-145,
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم 1,8,9,11,15,17,23,24,26,28,34,35,36, اشاریہ، کلید مضامین شکرالہی 24,36,97 38,41,46,48-51,55,60,61,63,64,66-68, 101,117,154,155,197,198,244,245,281, 73-79,82,86-88,109,110,119,136,139, 282,445,478,481,485,551,638,695,703, 143,151,157,162,166,173,178-181,191, 709,710,743,747,755,765,795,897,911 196-198,201-203,211,213,221,222,224, صفات الهيه 31,161,189,190,197 240,242,243,267,283,323,332,335,340, 341,347,362,371,384,385,387,395-397, 405,407,411-413,416,418,431-433,453, 457,462,471,483,489-491,499-501,506, 509,524,525,529,530,533,540,543,547- 106,623-626,691-694,695,706,740,839 549,551,585-588,590,592,618,622,641, عشق الہبی 707 قرب الہی 313,769 کلام الہی 129 محبت الہی معرفت الہی 489 652,679,703,705,715-717,727,735,744, 745,747,748,765,766,771,773,789,801, 811,812,844,885,887,890,895-897,907- ہستی باری تعالی 613,614,619 یا دالہی 24 ابتلاء / مصائب / تکالیف 897,901 ابلیسیت 572 ابن اللہ کی حقیقت 586 اتحاد 68,69,479,852,853 انیم 166 اٹیم بم 167,168 احرار / تحریک احرار 551,889-549 احساس کمتری 60,166,167,168 احکام اسلامی احکام 532 احمد بیت جماعت احمدیہ سلسلہ احمدیہ 910,930,933,936-939,942-944,948,949 تاریخ احمدیت 189,523,529,530,561,577 جماعت احمدیہ کو خراج تحسین 786 خلیفہ وقت اور جماعت 638 دنیا میں احمدیت کی مقبولیت 776-780,782,783,796,797, 861,862,911-916,929,930,939-941,948 قبول احمدیت کا واقعہ 151 یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن 169,173-157 احمدية اختلاف اختلافات 962
اشاریہ، کلید مضامین 239,240,245,248,262,263,268-271,273, 274,277,278,286,287,309,330-333,335, 341,369,376,379,396,397,399,403,407, 411,412,434,435,446-448,453,485,491, 506,525,529-534,543-548,587,593,597, 616-619,642,643,652,653,669,673,685- 687,689,738,739,742,745,749,756-759, 766,769,770,773,778,839,843,947,951 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد ششم باہمی اختلافات 133 اخلاص 48,55,100,138,139,377 378,621,660,662-664,721,744,746,793, 794,891,893-896,901,924,927,942-944 اخلاق / اخلاقیات 34,35,713,714 اخلاق عالیہ 68 اخلاق فاضلہ 19,684 اخلاقی اقدار 57 اخلاقی انحطاط 27,28 اخلاقی مسائل 189 اخوت 32,479,587,633,842 استغفار 639,647,648 استقام 496,901 استقلال 23,60 اسٹیشن ٹریکنگ اسٹیشن 287 مونیٹر نگ اسٹیشن 287 اسراء 19 اسقاط حمل 532 اسلام 1,26,28,29,34 اسلام کا مطلب 84 اسلام کی امتیازی خصوصیات 619-595 اسلامی احکام 532 اسلامی اقدار 73,74,77,448,490,687 اسلامی تعلیمات 34,81,188,686,773 اسلامی تہذیب 690 اسلامی غیرت 652,653 اسلام کا اقتصادی نظام 304 اسلامی معاشی نظام 64 اشاعت اسلام 202 تاریخ اسلام 58,189,640 تبلیغ اسلام 203 خدمت اسلام 118 دشمنان اسلام 73,75,76,77,91 دفاع اسلام 74,76,77,232,233,234,235,629 دائمی مذہب.اسلام 613-602 963 36,37,47,48,58,59,66,67,69,73-75,77, 78,81,86,88,91,102,106,1 111,119,122, 124,125,139,140,151-153,157,159,162, 182,189,192,195,196,220,230,232,237,
اشاریہ، کلید مضامین زندہ مذہب اسلام 617,618 عالمگیر مذہب اسلام 600-597 کامل مذہب اسلام 613-602 اسوہ حسنہ 451-403,445,446,449 اشاعت 149,150 اشاعت اسلام 202 اشتراکیت 91,248,505 اشعار و مصرعے تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بد گمان سے 21 اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی 39 رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے 56 خود کنی و خود کنانی کارما 56 آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام 106 ان کو آتا ہے پیار پر غصہ 108 اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار 109 يا قلبي اذكر احمد احمدا 114 ياعين فيض الله والعرفاني 114 تیری نعمت کی کچھ قلت نہیں ہے 117 کچھ ان کے آتے ہی ساقی کے ایسے ہوش اڑے 136 میں کبھی آدم کبھی موت کبھی یعقوب ہوں 195 They also serve, who stand and wait 218 عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب 238 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں 353 فلست ابالی حین اقتل مسلماً 380 غیر ممکن کو ممکن میں بدل دیتی ہے 414 ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو ا فواج یزید 462 بیا بشتاب سوئے کشتی ما 462 واللہ کہ بیجوکشتی نوتم زکر دگار 462 قوم کے ظلم سے تنگ آ کے مرے پیارے آج 472 ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج 477 ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا 510 چے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو 533,541 جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں 539 سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد 550 صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا 553,554 اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی 623 تانه دیوانه شدم هوش نیامد بسرم 624 میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر 625 آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام 707 نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز 716 بہرہ ہوں میں تو چاہیے دو نا ہو التفات 724 دے اور دل ان کو جو نہ دے ہم کو زباں اور 724 امروز قوم من نه شناسد مقام من 802 گر آں چیزے کہ نے بیتم عزیز اں نیز دیدندے 842 وہ مزاد یا تڑپ نے کہ یہ آرزو تھی یارب 267 تم دیکھو گے کہ انہیں میں سے قطرات محبت ٹپکیں گے 881 بکوشیداے جواناں تابدین قوت شود پیدا 277 تو مشق ناز کرخون دو عالم میری گردن پر 337 لوائے ماپنہ ہر سعید خواہر بود 881 ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز 896,939 964
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود ایاز 907 اصلاح 66,680,770 اصلاح نفس 118,310,489,515,641,642 اطاعت 83-85,569-572,574,702,772,851-853 اطفال الاحمدیہ 684-485,675 اعتدال 95 اعمال 239,240,413,437,447,520,521,698 اعمال صالحہ 383,384,388 افریقن لوگوں کی امداد کی تحریک 939-935 اقتصادیات 304 اسلام کا اقتصادی نظام 304 اقدار 58,60 اخلاقی اقدار 57 اسلامی اقدار 73,74,77,448,490,687 قرآنی اقدار 74,75 مادی اقدار 584-580 مذہبی اقدار 584-178,180,579 مشترکہ اقدار 545 الزامی جواب 234-232 الہام الہامات / وحی 263,617-619,741,951 23,25,26,667,668 اشاریہ، کلید مضامین میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا 204,500,549-551 زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا 204 جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو 289 وسع مکانک 329 جری اللہ فی حلل الانبیاء 459 جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو 533,541 امام الصلوة 84 السلام علیکم 950 امتحان ( نیز دیکھئے ابتلا) 801 امداد افر ملقن لوگوں کی امداد کی تحریک 939-935 امن 32,37,124,125,237,464 545,589,616,617,701,742,759,845,846 انبیاء ورسل 441,486,595,596,624 ایمان بالرسل 68 جری اللہ فی حلل الانبياء 195,196,458,459 کامل نبي 615 انتخاب مجلس شورٹی کے ممبران کا انتخاب 12,13 انتشار روحانیت 165,166 انتقام 759,933 الیس الله بکاف عبده آرکیٹکٹس اینڈ انجینیئرز 653-651 انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی 965
اشماریہ، کلید مضامین انحطاط اخلاقی انحطاط 27,28 اندھیرہ اندھیرے مبلغ کے لئے دو قسم کے اندھیرے 3 اندار 503 انصار اللہ (مقام، فرائض، ذمہ داریاں) 61,131,152,198,211- 221,223,226-229,234,242,243,290,330, 461-463,527,621,719,795,799,837,839 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم بد رسوم کے خلاف جہاد 220,221 بدظنی 19,21,22 بدعت بدعات 41 بدھ بدھ مت, 193,278-190 299,300,531,597,636,745,780,828,829 بدی 616 بردباری 35 انصاف 5,6,7,35,89,274,606,609-613,615 انقلاب برکت / برکات 49,50,130 331,335,456,547,561,865,866,922,927 تحریک جدید کی اہمیت اور برکات 205,206 بصارت 82 51,58,115,369,445,490,587,665,694,706 ثقافتی انقلاب 68 اولاد تربیت اولاد 4,182,310,349,543,552 ایتاء ذی القربی 792 ایشار 587 ایجادات 166 ایمان / ایمانیات 189 ایمان بالله 68 ایمان بالرسل 68 ایمان بالغیب 538,540-536 تقویت ایمان 746,949 بعثت حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض 34 بغض 32,35,37,68,107,873 ( بگ بین 160 بنی نوع انسان / انسان / انسانیت 34 38,66,67,69,411,747-749,845,846,873 انسانیت کا مستقبل 65 انسانی طاقت 515,517-504 انسانی وسعت 515,517-504 بہائیت 347 بے پردگی 133,221 بے چینی 237 بیعت 52 966
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم بيوت الحمد سکیم 749-197,198,295,747 پارٹی بازی مبلغ کا مقام پارٹی بازی سے بالا ہونا چاہیے 5 پراپیگنڈا 88 اشاریہ، کلید مضامین تا وازم 531 تائید الہی 92 نتباہی ( دیکھئے ہلاکت ) تبشير 503,506 7,8,15,17,19,28,29,42-44,58, پرده 685,920,921 61-63,65,66,92,105,110,111,114,117, 123-126,128,129,132,136,139,140,151, بے پردگی 133,221 پریس ا پریس کانفرنس (الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ) 152,159,183,187,191-193,201,209,223, 25,63-70,92, 230,232,236-238,240,242,243,247,248, 93,106,119,139,140,146-154,224,225, 261-263,267,268,270,271,274,278,282, 229,230-233,235,246,247,264-268,270- 284,289,300,328,338-343,357,362,364- 275,328,329,357,370-374,376,377,630, 366,374,375,377,379,387,390,391,395,| 635,637,643,644,646,647,725-729,756 403,406-408,412,425,447,453,454,489, 491,496,497,500,520,530,532,534,538, 541,543,551,552,557,586,590-592,618, 622,626,629-632,634,637,643,646,649, پورناگرافی 675,676 پیار ( دیکھئے محبت ) پیپلز پارٹی 889,890 پیشگوئی پیشگوئیاں 67,70,103,115 660,669-671,705,715,721,722,724,739, 195,196,490,593,615,701,738,757,844 740,751,752,755,757,761,762,766,767, 770-772,776-780,782-784,795-797,805- تاریخ 807,837,842,845,860,876,877,880,885, 381,418,441,588,825,826 888,911-916,928-932,939-941,947,948 تاریخ احمدیت 189,523,529,530,561,577 تاریخ اسلام 58,189,640 تاریخ مشنز 298,427 تبلیغ کا طریق 15,17 تبلیغ کی ذمہ داری 15 967
اشماریہ، کلید مضامین تبلیغ اسلام 203 تحدیث نعمت 478 تحریک / تحریکات تحریک احرار 551,889-549 افریقن لوگوں کی امداد کی تحریک 939-935 افریقن ممالک کے لئے دعا کی تحریک 847,849 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم وکالت تبشیر ,7,87,338,339,351,352,456 521,776,808,809,811,830,840,872, وکالت تصنیف 284,400,776,784 وکالت سمعی و بصری 819,822,858,859 وكالت صد سالہ جوبلی 308,859 وکالت مال 87 تحریک جدید وکالت مال ثالث 859 3,4,198,205-207,209, وکالت مال ثانی 210 210,215,220,238-241,281-283,287,290- 292,295,308,311,318,319,324-326,352, 353,357,400,419,420,423-429,433,530, 709-714,716-719,775,776,784,795,797, 798,806,818,819,830-832,835,857-859, 863,866,886,889,890,905,909,919-628 مخزن تصاویر 825,826,859 عربوں کے لئے دعا کی تحریک 847,849 گندی تحریکات کا مقابلہ 678-676 متحمل 4 تخلیق تخلیق کائنات 160 تحریک جدید کا آغاز اور پس منظر 203,204 تدبير 875 تحریک جدید کی اہمیت اور برکات 205,206 مطالبات تحریک جدید 428,717-423,426 سادہ زندگی 220,221,426,427,717 دفاتر تحریک جدید دفتر اول 923-206,207,211,428,921 دفتر دوم 208,211,921-206 دفتر سوم 209,211,710,920,921-207 تربیت 10,17,61,67,95,132-7 208,408,463,507-509,557,575,633,637, 676,678,679,683,690-693,770,815,816 تربیت اولاد 4,182,310,349,543,552 ترجمہ اتراجم تراجم قرآن کریم شعبہ شماریات 858,859 صنعت و تجارت 432,433 968 285,301,321,324,379,630,634, 705,785,786,830,863,878,879,932,933
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم تراجم کتب حضرت اقدس مسیح موعود 71,72,863 ترقی /ترقیات 95,97,101,716,802 مادی ترقی 27 روحانی ترقی 224 تزکیه نفس 11,12,19,61,454,455,874 تزئین ربوه 355,356 تعلق باللہ ,66,311,458,459,485487 19-22,43,100,489,572,855 تکلیف / تکالیف (دیکھئے ابتلاء ) تمدن 380,589 تنظیمیں جماعتی رذیلی تنظیمیں 461 تنگ نظری 80 توبہ استغفار 639,647,648 490,515-517,533-536,538-541,545,552, 555,556,567,569,570,572,574,575,589, 622,623,648,693,694,706,746,766,846 توحید / قیام توحید اشاریہ، کلید مضامین 34,453,548,601,602,652,761,762 توکل علی اللہ 15,337,459,516,872,881 تعلیم / تعلیمات اسلامی تعلیمات 34,81,188,686,773 تہذیب قرآنی تعلیم 485 تعمیر ہال 355,356 تفاخر 175,178 تقدیر 418,875-415 تقدیر الهی 236,530 تقدیر مبرم 97 تقوی,9,46,83,118,178 310,359,436,454,469,489,509,524,563- 567,570,691,692,779,842,846,854,855 تقویت ایمان 746,949 تكاثر 175,178,179 اسلامی تہذیب 690 ٹریکنگ اسٹیشن 287 ٹوپی پہنے کی عادت 682,683 ٹیٹری کی مثال 28 ثقافت ثقافتی انقلاب 68 ج جامعہ احمدیہ 186-158,173,183 192,351,374,388,803,860 969
اشاریہ، کلید مضامین جذبہ جذبات 697,699 جذبات کو واقعات ہم آہنگ کرنا ضروری ہے 696 جری اللہ فی حلل الانبياء 195,196,458,459 جزا سزا 27 جلسہ سالانہ 298,311,355,356 477,519-521,629,841,842 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم چنده ( وعده، ادائیگی ، وصولی) 23,24,46,50,61,68, 203-211,253,303,312,318,319,352,353, 423-429,466,467,473-475,478,491,492, 621,709-714,717,748,775,779,788,794, 831,832,863,866,880,885-888,891-896, 903,904,907-910,919,920,923-927,943 جماعت جماعت احمدیہ ( دیکھئے احمدیت ) جماعتوں کا قیام (سو ممالک میں ) 338-344,781,782,863,941 جمہوریت 12,606,607 جنگ لڑائی آخری جنگ 397 چندہ جات کے متعلق بنیادی اصولی ہدایات 18 چین ری ایکشن 51 حب الوطنی 872,873 جبل الله 852,853,856 حدود الله 81 こ سرد جنگ 28 عالمی جنگ 70 جنگ بدر 416,417,516,661 جنگ خندق 865 جہاد 235,253-122,123,233 بد رسوم کے خلاف جہاد 220,221 جہالت 82 جھوٹ 45,50,129,130,680,681 حدیث ( دیکھئے احادیث مبارکہ) 190 حرمت حرمت شراب 531 حرمت سؤر 531 حمد 35,97,98,99,107,475,802 حفاظت حفاظت قرآن 603,604 حفظ چ حفظ قرآن 945 چرچ 69 حق / حقوق رومن کیتھولک چرچ 144,261-91,142 970 6,7,8,606,689,892,897
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم حقوق اللہ 24,32 حقوق العباد حقوق انسانی 32 حکمت 86,124,230,278,630 حکومت / حکومتیں اشاریہ، کلید مضامین جماعت احمدیہ کو خراج تحسین 786 خصوصیات اسلام کی امتیازی خصوصیات 619-595 خطيم مذہب کے نام پر قائم ہونے والی حکومتیں 359,362 خطبہ حجۃ الوداع 32,33,616 حلم 35 حمد باری 24,31,32,41,52,53,101,105 106,137,138,197,198,213,222,244,481, 551,577,639-642,647,648,709,747,775 فلا 69 خلافت خلافت احمد یہ خلیفہ وقت 1,11-13,17,18,67,82,84-88,336, 353,354,633,696,702,746,854 حیات حیات بعد الموت 615 فلسفہ موت و حیات 369 خالق / خالقیت 741,758 نظام خلافت 618 خلیفہ وقت اور جماعت 638 خ خاندان حضرت اقدس مسیح موعود 49 خدام الاحمدیہ 1,105,106,108 خواب ( دیکھئے رویا ) خود پرستی 96 خودنمائی 855,856 خوشی 41,51 خوف 416,417,496,751,752,789,881 117,131,137,152,198,211,212,214,215, 226,299,445,447,485,621,632,667,671, 676,682,695,703,706,707,719,744,905 خیر / خیرات مسابقت في الخيرات 436,933,934-431 خدمت 34,38,64,66,107,379,671,715,749,844 خدمت اسلام 118,207,363 خدمت خلق 747,749 خراج تحسین دانش مندی 86 دجال اینٹی کرائسٹ / دجالیت 45,59,731,761,762 درود شریف 52,53,103,202,222 دست ویرد 971
اشماریہ، کلید مضامین انسانی دست و برد 600,601 دشمن دشمنی 68,69,74,75 دشمنان اسلام 73,75,76,77,91 دفاتر ( تحریک جدید) دفتر اول 923-206,207,211,428,921 دفتر دوم 208,211,921-206 دفتر سوم 209,211,710,920,921-207 دفاع اسلام 235,629-74,76,77,232 وتها تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم 411,413,414,441,443,446,455,463,464, 477,478,482,496,521,527,631,649,772 وکھ 60 دنیا 773 دنیاوی زندگی 179,181-175 دوره دوره جات دورہ چین کے حالات 139 141,143-154,224,225,230-233,235,246, 247,255,264-267,326-331,367,371-376 دورہ مشرق بعید کے حالات 647-638,642-630 656-663,667-673,685-689,700,701,703- 706,719-742,743-746,755-759,795-797 دہریہ دہریت 51,160 دھوکہ دھوکہ دہی 270 دیانت دیانتداری 50,433,435,436,478 دین 106 ڈیٹ لائن 499,500,551,699,700 ذرائع آڈیو وڈیو ڈ رائع 126,127,229,629,676-679, 783,784,822-824,860,878,928 3-5,15,29,31,41,44-46,51,52,55, 56,59,60,95-98,100,101,103,118,155, 182,215,241,242,249-252,263,268,278, 281,284,285,306,307,325,369,370,376, 389,392,393,405,406,412-414,418,445, 459,471,477,485,499-501,510-514,521, 525,527,541,575,576,593,626,627,663- 665,673,684,701,707,718,748,766,794, 802,836,839,840,844,847,849,869,911 قبولیت دعا 52,53,746 افریقن ممالک کے لئے دعا کی تحریک 847,849 عربوں کے لئے دعا کی تحریک 847,849 دعوت الی اللہ 383-385,387,389,392,393,405,406,409, 972
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ذکر الہی 101,180,199,456,477 ذمہ داریاں رواداری 547 روحانی روحانیت 745-570,743 انتشار روحانیت 165,166 28,29,31,61,84,100,111,282,296, 297,300,310,408,411,439,447,453,456, 491,503,504,506,508,511,513,515,533, 561,638,639,652,653,663,664,694,762, 765,766,769,771,772,780,845,846,857 تبلیغ کی ذمہ داری 15 اشاریہ، کلید مضامین روحانی ترقی 224 روحانی خزائن ( نیز دیکھئے کتب حضرت اقدس مسیح موعود ) 77,78,345,346,877 تراجم کتب حضرت اقدس مسیح موعود 71,72,863 رومن کیتھولک 144,261-91,142 رشتہ ناطہ کے مسائل اور نظام جماعت کی ذمہ داریاں رویا/ کشوف/ خواب 419-422,808-816 ذوالقرنین کا مضمون 701-697 119,120,121,123,195,196,284,342,530, 667,668,734,735,741,758,940,949,950 ریاضی 161 راستی راست بازی ( نیز دیکھئے سچ وصداقت وصدق ) 35 ریڈ شفٹ فارمولا 160 رقم 34,514 ریا کاری 855,856 ریڈیو رحمت 37 رحمت الهی 540 رسوم ہد رسوم کے خلاف جہاد 220,221 رشتہ ناطہ رشتہ ناطہ کے مسائل اور نظام جماعت کی ذمہ داریاں 419-422,808-816 جماعت احمدیہ کا اپنا ریڈیو اسٹیشن 357 زبان سیکھنا، اہمیت ، ضرورت، اشاعت لٹریچر ) 157-159,168-173,183-188,235-238, 240,248,284,290,298,321,340,508,634, 649,671,672,688,797-799,803,804,862 رضا الهی 180,198,313-23,37,103,177 گندی زبان سے اجتناب 679 434-436,456,463,537,655,656,769,854 زبان دان 284 رمضان المبارک روزے صیام 901 زرتشت ازم 597 973
اشماریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم زكوة 605,606,927 زمانه آخری زمانہ 115 زندگی حقیقی زندگی 447 دنیاوی زندگی 179,181-175 سادہ زندگی 220,221,426,427,717 زنده زندہ مذہب.اسلام 617,618 زوال مسلمانوں کا عروج و زوال 140,141 142,143,246,256-261,268,269,359-363 زینت 179,313-177 سادہ زندگی 220,221,426,427,717 سائیکالوجی 170 سائنس 57,161,162,167,168,304 مذہب اور سائنس 160,614 سید سالار مبلغ کا منصب سپہ سالار کا ہے 7 سچ سچائی ( نیز دیکھئے راستی و صداقت وصدق) 34,130,242,330,448,458,474,516,680 سچ کی عادت 681-679 کچاند ہب 770 سلامتی 84,845,872,951 سلسلہ سلسلے المی سلسلے 415,416,801,871,875 سلسلہ عالیہ احمد یہ (دیکھئے احمدیت) سود 605 سوسائٹی غیر متوازن سوسائٹی 249 ش سیرت 189 شادی شادیوں کے مسائل 89 شدت پسندی 80 شر 101-96 شرک / مشرک مشرکین 45,51,812 شعبہ شماریات 858,859 شفقت 84,85 شکایت 87,88 شکر الہی 24,36,97 101,117,154,155,197,198,244,245,281, 282,445,478,481,485,551,638,695,703, 709,710,743,747,755,765,795,897,911 شنٹوازم 828,829 شوری 974
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم 48,335-338,633,634,704 اشاریہ، کلید مضامین 306,308,311-313,323,324,352,353,439, 474,475,523,787-789,863-865,867,933 شوری کا نظام 11,12,17 مجلس شوری کے ممبران کا انتخاب 12,13 تمام ممالک میں شوری کے نظام کا اجراء 13 شوری کی ضرورت 13 صدق ( نیز دیکھئے راستی، سچ، صداقت) 843 صفات الہیہ 31,161,189,190,197 32,37,68,237,545 مجلس شوری کا طریق 17 شہادت صنعت و تجارت 432,433 493-496,498,622,626,751,752 ض شہید 751 شیطان شیطانیت 572,675 آزادی ضمیر 547 شیعه ازم 347 b ص طاقت 130 مبر 23,101,284,405 406,475,847,869,872,897 صحابہ کرام 164,189 صداقت ( نیز دیکھئے راستی و پیچ وصدق) 129,331 صدر انجمن احمدیہ 71,198,209,326,420 425,427,429,433,743,746,775,857,863 صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ 241-239 انسانی طاقت 515,517-504 غیر مرئی طاقت 130 طلاق 532 ظلم / مظالم 34,107,140-143,230-232,274, 360-362,553,589,592,737,741,757,895 253,288,293-295,297-301,303-306,308, 311,324,329,338-344,355,356,439,523, 651,748,781,787,803-807,833-835,941 صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ 253,293-295,301,302, عاجزی مجزه ع 52,59,105,108,247,285,694,842 عادت ٹوپی پہنے کی عادت 682,683 عبادت / عبادات 975
اشاریہ، کلید مضامین 25,26,31,32,36,52,68,110,180, 199,469,508,524,525,532,538,547,593, 706,744,747,749,762,792,846,875,876 عبادت گاہوں کا احترام 547 عبد / عباد 250 عباد الرحمان 247,248,252 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم عہدیداران 634-87,632-82 عیسائی رعیسائیت 35,142 144,153,189,191,231,232,247,248,261, 263,268,269,271,272-275,331,360,361, 372,374,376,387-391,395,397,399,435, 531,532,587,592,669,732,745,778,812 عدل عید 32,89,606,609-613,615,791,792 حقیقی عید 543,899,901,917 عروج غ مسلمانوں کا عروج و زوال 140,141 غلبه 15,26 142,143,246,256-261,268,269,359-363 عزم و ہمت 496 عشق 106 عشق الى 707 عشق رسول 707 130 عفو 514,613 عقائد 585,586,826,827 مذہبی عقائد 68 علم/ علوم / علماء 82,159-171,173,183,184,390, 391,399–401,436,481,622,623,678,779 مادی علوم 57 علم فلکیات 160 علم کلام 392 976 58,66,67,102,119,196,220,248,253,269, 277,278,331,407,412,418,439,446,490, 491,506,543,548,586-588,593,618,639, 640,673,707,715,738,748,759,765,767, 769,802,839,843,844,856,881,947,951 غنا 536 ایمان بالغیب 538,540-536 غیبت 87 غیرت اسلامی غیرت 652,653 فتح 38,63,95,102,103,105-107,122,222, 236,242,246,269,333,418,446,498,501,
اشاریہ، کلید مضامین 162,172,175,176,181,188,189,223,239, 247,278,304,305,380,381,389,396,405, 436,441,503,509,534,603,614,615,672 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم 506,530,534,588,592,593,626,638-642, 647,648,673,705,738,843,881,890,950 فتنه و فساد 32,37,107,556,758 فخر 95 فرض فرائض 8,81,84 فسق وفجور 138 فضل (دیکھئے اللہ تعالیٰ کے افضال ) فضل عمر فاؤنڈیشن 326 فقہ 188,189 فلسفه 304 فلسفہ موت وحیات 369 معاشرتی فلسفہ 64 حفاظت قرآن 603,604 حفظ قرآن 945 تراجم قرآن کریم 285,301,321,324,379,630,634, 705,785,786,830,863,878,879,932,933 قرآنی اقدار 74,75 قرآنی تعلیم 485 قرب الہی 313,769 قربانیاں (روحانی، جانی، مالی، دینی ، اولا د اور وقت کی ) 24-26,41-49,51, 81,103,109,110,118,123,125,138,196, 199,203-206,208-211,220,267-269,278, 296,302,303,312,313,318,319,322-325, 327,328,332,333,363,364,369,371,380, 385-388,407,415-417,424,439,465,466, 471,478,491,492,536-538,543,548,549, 553,555,585,590,591,621,635,660,662, 695-697,709-711,713-717,763,776,789, 846,863,866,867,872,876,879,880,885- 888,891-897,903-905,907-910,917,919, 921,922,924,925,927,938,943,944,950 977 فلکیات 160 فلم دینی فلمیں 135 مسجد بشارت کے افتتاح کی فلم 135 فنا 578,579 قانون/ قوانین ملکی قوانین 135 قبولیت قبولیت دعا 52,53,746 قضاء کا نظام 353,354 ق قرآن کریم - 3,11,60,65,70,73 75,77,78,81,83,95-97,102,123,159,160,
اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم قضاء بورڈ 89 قواعد 833 قوت قوت قدسیه 129 قوت یقین 463 کارکنان 282,291,292,326,473,883 کا سر صلیب 762 کافر کفر 45 کائنات تخلیق کائنات 160 کشف ( نیز دیکھئے رویا ) کلام کلام الہی 129 کلام حضرت اقدس مسیح موعود 105,106,114,129,130,131,306 779-782,817-827,860,878,880,928,930 گ گالی گلوچ سے اجتناب 679 کتیکا 233 گناہ 486 گندی تحریکات کا مقابلہ 678-676 ل لائبریری (لائبریریوں کی ضرورت واہمیت وقیام) 283,285,288,830,831,860 لذت الذات جنسی لذات 568,675 لٹریچر (ضرورت، اہمیت، اشاعت ) 126,127,190,191,236, 282-284,286,290,291,298,299,303,315- 317,319,321,326,340,344-352,357,388, 679,766,784-786,803,805-807,820-822, 826,831,832,860,877,878,928,931,932 علم کلام 392 کمیونزم 745 کنفیوشس ازم 597 کھیل 431,432 کیسٹس کی تیاری و نظام - 114,127 134,187-190,192,193,238-240,290,305, 306,342,343,557-559,629,676,678,705, 978 لجنہ اماءاللہ عورت 119-124,126,128,130-134,152,153, 198,211,225,245,247,249,312,313,318, 445,616,685-694,710,744,756,857,858, 892,893,895,896,903,907-910,920,921 لغو/ لغويات 678-675
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم لہو ولعب 179,220-45,175,177 ماده پرستی مادیت,563,567-531,556,561 568,571,575,700,701,743-745,770 مادی اقدار 584-580 مادی ترقی 27 محاوره / محاورے اشاریہ، کلید مضامین Bat out of the hell 153 اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں 192 Wind Fall 209 مادی علوم 57 مالی بد معاملگی 89 مایوسی 177,742,759-175 سوسناردی تے اک لو بار دی 228 چھاج بولے سو بولے چھلنی کیا بولے 232 ایک پنتھ دو کاج 237 اکوں میری لیلوی نے کنوں کنوں دواں 291 دم مسیح 670 مبائع / مبائعين غیر مبائعين 635,704 مبلغین امر بیان مبشرین ( مقام، فرائض، ذمہ داریاں) 3-10,15,28,29,48,58,59,61,79,80, 82,192,193,235,236,238,247,248,261, 290,319,320,324,325,331,332,343,363, 364,386-390,396,408,412,421,428,523, 556,558,559,575,590-592,646,660,679, 705,777,797,798,805,810,811,813,816, 824,825,860,908,928,929,941,947,948 مبلغ کے لئے دو قسم کے اندھیرے 3 going to face the music 813 محبت ( پیار) 5,6,32,35,37-39,48,53,55,66,68,92,100, 106-110,125,237,246,278,366,545,587, 621,624,627,633,661,679,696,698,699 محبت الہی 106,623-626,691-694,695,706,740,839 مخالف/ مخالفین / مخالفت 23,203,379,457,498,548,549- 551,586,635,643-645,703,704,720-722, 725,732,733,735,752,753,755-757,778, مبلغ کا مقام پارٹی بازی سے بالا ہونا چاہیے 5 مبلغ کا منصب سپہ سالار کا ہے 7 مبلغین کو نصائح 10-3 مجلس صحت 432 802,881,889,890,940-942,947,950,951 مخزن تصاویر 825,826,859 مذہب مذاہب 35,37,69,91 415,531,532,545,595,690,691 979
اشاریہ، کلید مضامین مذہبی اقدار 584-178,180,579 مذہبی عقائد 68 مذہب اور سائنس 160,614 مذہب کے نام پر قائم ہونے والی حکومتیں 359,362 عالمگیر مذہب اسلام 600-597 مذاہب میں اختلاف کی وجوہات 600,601 دائی مذہب اسلام 613-602 کامل مذہب.اسلام 613-602 سچا مذ ہب 770 زندہ مذہب اسلام 617,618 مذہبی آزادی 263,368,791 مرکز مرکزیت 5,9,10 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم 525,529,547,561,575-578,585,592,593, 630,651,652,671,719-721,755,759,863 مساجد فنڈ 793,794 مساجد و مراکز کا قیام 807-803 مسلم مسلمان 164,525,616,617,749,812 مسلمانوں کا عروج و زوال 1,140,141,142 143,246,256-261,268,269,359-363 غیر مسلم 378,380 مسئله / مسائل 38 شادیوں کے مسائل 89 اخلاقی مسائل 189 رشتہ ناطہ کے مسائل اور نظام جماعت کی ذمہ داریاں 419-422,808-816 مسیح موعود کی علامات 668,669 17,75,76,86,111,191,282,351,420,552, 556,557,561,621,622,626,632,676,806 تعلیم کی غرض سے بچوں کو مرکز میں بھیجوانا 629,634 مشن ہاؤسز (ضرورت، اہمیت، قیام) مساجد و مراکز کا قیام 807-803 مسابقت في الخيرات 436,933,934-431 مساوات 32,36,616 مستشرقین 73,75,77,268,286 287,290,395,396,399-401,604 مسجد / مساجد ( ضرورت، اہمیت، قیام ), 29,31 32,36,37,41,45,48,51,52,55,66-68,91, 92,108,143,158,199,235,248,299,300, 320,324,330,367,368,469,478,499,523- 299,300,319,320,324,329, 330,343,344,368,465,466,478,492,499, 507,523,525,529,561,592,630,651,652, 671,719,720,793,794,804,863,866,879, 880,885-888,891-897,903-905,907-910 تاریخ مشنز 298,427 مشن ہاؤس فنڈ 793,794 مصیبت / مصائب ( دیکھئے ابتلاء) مطالبات تحریک جدید 423,426428,717 980
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم اشاریہ، کلید مضامین معاشرہ 28,51,86 نصائح 3 اسلامی معاشرہ 89,119,179,685,687,770 مبلغین کو نصائح 10-3 مغربی معاشرہ 57 معاشرتی فلسفہ 64 معاشی اسلامی معاشی نظام 64 معجزه معجزات 571,574,575,746 معرفت الہی 489 مغربیت 692,701,706 نصرت جہاں سکیم 322,323,434,786,787 نظام نظام جماعت ( نیز دیکھئے احمدیت) 9,632,633,660,680 رشتہ ناطہ کے مسائل اور نظام جماعت کی ذمہ داریاں 419-422,808-816 نظام حکومت 609-606 مغفر 175,177-180,514,515, مقبولیت دنیا میں احمدیت کی مقبولیت 776-780,782,783,796,797, نظام خلافت 618 اسلامی معاشی نظام 64 اسلام کا اقتصادی نظام 304 شوری کا نظام 11,12,17 861,862,911-916,929,930,939-941,948 ملائکہ 60,154 منافقت 566,567 موت فلسفہ موت و حیات 369 مونیٹر نگ اسٹیشن 287 ناشکری 96 نا عاقبت اندیشی 95 نبی رسول ( دیکھئے انبیاء) تمام ممالک میں شوری کے نظام کا اجراء 13 قضاء کا نظام 353,354 کیسٹس کی تیاری و نظام - 114,127 134,187-190,192,193,238-240,290,305, 306,342,343,557-559,629,676,678,705, 779-782,817-827,860,878,880,928,930 نظریہ ارتقاء 161 نظم وضبط 5 نعمت تحدیث نعمت 478 نجات 66,105,396,411,413,456,486,742 نعرہ بازی 101,102,196,239,240,701 981
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم 202,215-220,237,248,288,320,330,343, 363,386,433,543,646,715,766,782,783, اشاریہ، کلید مضامین 32,37,108,366 نفرت نفس اصلاح نفس 118,310,489,515,641,642 تزکیہ نفس 11,12,19,61,454,455,874 نفل/ نوافل 81 نماز صلوة 61,110,310 نوجوان 110,340,475,633,634 نور / انوار نور نبوت 165 46,49,107,213,310,616,635,678 نیک انیکی نیک نیتی 434 و واقعہ صليب 587,588 واقفین زندگی ,5,44,45,79,80,110 805,806,857,858,861,862,912,939,947 وقف جدید 1,188,198,295 297,326,428,429,889,890 وکالت تبشیر 7,87,338,339,351,352,456 521,776,808,809,811,830,840,872, وکالت تصنیف 284,400,776,784 وکالت سمعی و بصری 819,822,858,859 وکالت صد سالہ جوبلی 308,859 وکالت مال 87 وکالت مال ثالث 859 وکالت مال ثانی 210 ولایت 517-515 ویلفیئر سٹیٹ 64 217,225,238,261,262,284,288,290-292, 363,364,423,483,716,857-863,877,924 وحدت اقوام 599,600 وسعت 705,706 انسانی وسعت 515,517-504 وفا 23,901 وفات مسیح ناصری 391,586 وقف / وقف زندگی جائیداد / آمد / اولاد 3,77,80,157,158, ہجرت 871 ہدایت 411 ہستی باری تعالی 613,614,619 ہلاکت ,67,180,392-27,36,65 405,411-413,464,617,665,845,846 ہمدردی, 35,37,47,48,125,606 706,747,748,766,873,935,936 ہمدردی خلق 602 982
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم ہندو ہندومت 35,597,829,941 یا جوج ماجوج 700,701 یا دالہی 24 یقین قوت یقین 463 کامل یقین 536 یہودی یہودیت 142 ی اشاریہ، کلید مضامین 983
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم T اسماء اعجاز الحق، ڈاکٹر 733,740 آدم ، حضرت علیہ السلام 32,195,418,457 اکرام الله 163 آصفہ بیگم حضرت سیدہ 92,152,153 آفتاب احمد خان 72,821,823,879 آیت اللہ، امام خمینی 1,152,225,229 230,231,232,273,274,275 الزغل 258,259 امتہ المتین ، صاحبزادی 45 امة الرؤوف، صاحبزادی 119 امة المجيب 163 انور احمد کاہلوں 784 ابراہیم ، حضرت علیہ السلام 1,195,251 انور حسین، چوہدری 663 457,458,524,525,543,577,579, 580,583,584,617,624,720,779,890 ابرہہ 149,370 اویس قرنی ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 552 المياه 586 ابن جریح ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 852 ابن رشد، علامه 52,266 بابر، شهنشاه 140 ابن عباس ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 853 بسيونى 316 اشاریہ، اسماء Antonio Caronel 36 ابن عربی، علامہ 52,758 ابوالحسن 257,258 ابو العطاء، مولوی 204 بشری بیگم ، حضرت سیدہ (مہر آپا) 896 بشیر احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا، رضی اللہ تعالٰی عنہ 124,125,317,348 ابو بکر صدیق، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 379 بشیر احمد 726 ابو عبد الله 259,260,363-257 ازابیلا 257,360 بشیر احمد رفیق، امام 396 بشیر الدین محمود احمد، مرزا، حضرت خليفة المسيح اسامہ بن زید ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 379 الثاني، المصلح الموعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اسماعیل، حضرت علیہ السلام 543,579,580 2,42,122,123,190,203- 985
اشاریہ، اسماء 207,209,219,233,246,247,263,268, تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم خ ,318,363,408,413,435,461,514,550 | خالد بن ولید حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 590,701,797,815,842,843,881,886 بدھ، حضرت 196 497,751,752 حبیب بن عدی، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 380 برهان الدین حضرت مولوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 554 خضر ، خواجہ 332 سینٹ پال 598 ترندی، امام 855 ثریا ملکہ 257 ج جلال الدین شمس، مولوی 204,932 جیمز لک، کیپٹن 588,592 Jailds 827 خلیل احمد ناصر 827 خورشید احمد، صاحبزادہ مرزا 743,883 داؤداحمد ، سید میر 349 داد د احمد، کرنل صاحبزادہ مرزا 572 درد، خواجہ میر 176 دوست محمد شاہد، مولوی 189 و ڈارون 161 چرچل سر ونسلٹ 169 حامد اللہ خان، ڈاکٹر 930 حسن عطاء 323 حسین قزق 833 حمیدالدین شمس 443 چ حمید اللہ ، چوہدری 46,239,281 349,355,559, 668,784,798 ذوالقرنین حضرت 697,699,701 رحمت اللہ، شیخ 734 رحمت علی ، مولوی 590 رشید احمد 626,627 زرتشت، حضرت 196 زک ، امام 912 زکریا 186 زوخ 341 986
اشاریہ، اسماء 93,100,105-107,110,111,113-115, 117-123,126-139,143-155,157-163, 168,169,171, 172,176,179-186,188, 191-193,197-199,201,207-210,212- 217,221-227,229,230,232,234,235, 237,242,243,245-251,253,255,256, 262-264,266-268,270-275,279,281, 282,286,287,291-293,296,297,299, 301,303-305,307-312,317-321,323- 326,328-330,333,335,338,339-342, تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم ساجدہ حمید 786 سپائنوزا 161 سٹینلے لین پول 261 سعادت احمد 814 سعید، ڈاکٹر 930,939 سعید عمر درویش 777 سعیده 880 سلمی سعید 939,940 سیف الرحمان، ملک 186,188-183 344,345-347,351,352,355,356,359, | Sr.Jose Luis Lopes Derigo 36 362,364-380,384,386,389-391,393, 395-397,399-401,404,407-409,413, 415,417-419,421,423,424,427-429, 432,435,439-441,443,445-451,454- 456,464,461,462,465,466,469,473, 477-479,481-483,485,487,489-493, 497,499-501,503,506-509,512-514, 519,521,523-525,527,529-532,535, 538,541,545,547,549,551,556,557, 562-566,569,571-576,578,584,585, 588,595,605,609,613,616,617,619, 621,622,627,629-638,641-649,652, 653,655-659,661,663-665,667-673, 987 ش شاہ نواز ، چوہدری 785,933 شبیر احمد، چوہدری 797 شعیب، حضرت علیہ السلام 458 شیخو شغاری 787 صالح بیگم 830 ط طارق بن زیاد 363,417 طاہر احمد ، مرزا، حضرت خلیفة المسیح الرابع 1,2,5,6-13,15, 17-19,22-25,28,31,37-39,41-43,45- 48,50-52,55-57,61-80,83-85,87,89-
اشاریہ، اسماء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد ششم ,677-691,693-697,699-711,715-719 عبد اللطیف ایڈوکیٹ 880 ,721,723,726-730,733,734,736-743 | عبد اللہ وا گس ہاؤزر 1 -745,748,755-757,759,761-763,765 عبد المالک خان 483 ,773,776,779,782,784,785- 767,771 | عبد المطلب ، حضرت 149,370,371 ,787-789,791-796,798,799,802-805 | عبد الوہاب 765 ,817,818,823-828,830-833,839-841 عبد الوہاب آدم 841 844,846,847,849,851,853-858,862, عثمان چینی 784,798,807 ,864-867,869,871-880,883,885-893 | عثمان غنی ، حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ 604 895-897,899,901,902,905,906,909- عطاء اللہ ، چوہدری 214 ,913,917,919,921,923,925,928,931 | علی ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 8 932,934,937,940-943,945,947-951 علی محمد 214 طاہر ہ صدیقہ حضرت سیدہ 896 عیسی ، حضرت مسیح علیہ السلام 34,35,69 183,350,351,785 JOL 196,233,234,271,272,391,586,593, ظ ظفر اللہ خاں، حضرت سر چوہدری، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 148,149,315,353,691,784,949,950 عائشہ ، ملکہ 257 ع 598,612,617,618,736,761,873,940 غ غالب، اسد اللہ خاں 238 غلام احمد قادیانی ، مرزا، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام 2,6,9,19,21 عباداللہ ، گیانی 784 عبدالحق،مرزا 255,420 عبد الستارخان 289 عبد السلام ، ڈاکٹر 1,148,149 163,164,786,879,932,933 عبد اللطیف شہید، حضرت صاحبزادہ سید رضی اللہ تعالیٰ 777,843 988 22,25,26,34,35,39,47,49,62,71,72, 74,76-78,80,105,106,109,114,129- 131,133,134,138,139,161,164-166, 190,195,196,203,204,211,215,219, 223,224,232,234,235,243,249,250, 277-279,284,286,289,306,310,312,
تحریک جدید - ایک الہی تحریک 315,317,329,332,341,342,345,347- اشاریہ ، اسماء ق ,349,353,386,387,391,392,397,399 قیصر ( عیسائی بادشاہ ، شاہ روم ) 257 401-403,414,426,453,454,457,477, ک ,491,500,519,521,529,533 486,489 کرشن ، حضرت 1,195,196706 ,535,539,543,547,549-551,553-555 | کرم الہی ظفر، مولوی 42,43,92,145 557,565,567,568,575,586,593,596, 148,262,263,364,366,367,368 ,618,619,623-626,629,643,661,662 کسری ( شاہ ایران ) کسری 539,540 ,667-670,676,678,698-700,705,706 | کلیم اللہ خاں 326 -725,726,735,738,745,748,753,757 کمال یوسف ، امام 327 759,761-763,765,767,769-771,775, 776,780,782-784,789,793,795,796, نفیوشس ، حضرت 165,531 ,801-803,817,819,827,828,830,842 لیق بٹ 494 ,843,851,853-855,862,863,873,877 ملین پول 362 881,889,896,922,925,941,942,951 غلام احمد ، صاحبزادہ مرزا 158,169,171,183 ماٹا 680 غلام حسین ایاز 592 مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا 226,348,798 غلام مر مرتضی ، حضرت مرزا 625 مبارک احمد شیخ 45,328 ف 461,779,879,887,891 فرانکو، جنرل 263,362,374 مبارک احمد ، ملک 350,351 فرائڈ 400 مجنوں 624 فرڈی نینڈ 256,257,259,260,274,360 محمد اسلم ، قاضی 71,72 فرعون 539,578,581,582,583,584,615 محمد اسماعیل منیر، مولوی 193 فضل الہی انوری 913 فضل الى حكيم 190,191,193 محمد بوٹا ، ٹانگے والا 205 محمد حنیف ، حاجی 631 989
اشاریہ، اسماء محمد دین ، مولوی 215 محمد رمضان 205 محمد شفیع اشرف ، مولوی 189 محمد صادق ، حضرت مفتی، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 204,478,551 محمد عاشق ، قاری 189 محمد علی جناح، قائد اعظم 872 محمد علی، چوہدری 784 محمد علی کا ترے 797,914 محمد علی، مولوی 348,828 محمد عمر ، مولوی 277 محمد مصطفیٰ ، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم 541,552-555,557,558,578,584,585, 591,597,603,604,608,616,617,622- 626,661,662,669,673,676,684,690- 692,697,699,700,705-707,715,719, 721,731,732,738,741,748,749,752, 757,759,769,771,777,789,791,792, 837,839,846,849,851-855,865,866, 872,881,895,914,941,944,947,951 محمدی بیگم 645 محمود احمد بنگالی 819 محمود احمد ناصر ، سید میر 42,45,144,145, 289,367,374 ,8,9,11,12,15,32-34,4345,52,53,55 | محمودہ بیگم، حضرت سیدہ (ام ناصر ) 122 57-61,70,73-77,81,83-86,102,103, مریم بیگم حضرت سیدہ ام طاہر ) 122 ,108-111,115,118,125-127,129-131 | مریم صدیقہ حضرت سیدہ (ام متین، چھوٹی آپا ) 126,896 مسعود احمد ، سید میر 308 مشتاق احمد باجوہ، چوہدری 187,783 مشتاق احمد شائق 825,858 مصطفی ثابت 780,781,782,827 مظفر احمد ، حافظ 190 مظفر احمد، ڈاکٹر (شہید) 493,498,751,752,887 مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا 572,811,814,825,950 138,139,146,148-150,164,172,182, 189,195,196,202,208,222, 232-234, 243,246,247,251,252,277,279,281, 282,287,296,302,303,305,306,309 323,337,349,363,369,372,378-380, 400,401,403,407,409,412,418,432, 434,436,437,443,445,446,449-451, 453-455,462,477,479,483,496,515, 516,520,521,524,529,533-536,539- 990
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم مظفر احمدی 732 اشتہاریہ، اسماء نذیر احمد علی ، مولوی 778 ملٹن 218 نوح ، حضرت علیہ السلام منٹگمری واٹ 76,286,287 380,381,412,462,617 منصور احمد، حضرت صاحبزادہ مرزا 55,901 نور احمد بولستاد 63 منصور احمد 238 منفتاح 582 منیرالدین شمس 477 نورالدین، الحاج حکیم مولانا، حضرت خلیفة المسيح الاول ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ موسیٰ ، حضرت علیہ السلام 195,236,539 نولڈ کے 604 317,680,853 581,582,583,584,615,617,618,940 موسیٰ ( جرنیل) 260,261,363 میری (ملکہ Merry) 274 میغیل گارسیا 70 ناصر آموری 632 ناصر احمد شہید 661 ناصر احمد ، شیخ 827 نیوٹن 292 ولیم میور، سر 604 ہامان 581,582,584 ی یحی امستر 811 یعقوب ، حضرت علیہ السلام 195,610 ناصر احمد، مرزا، حضرت خلیفة المسیح الثالث یوسف، حضرت علیہ السلام 223 1,7,37,41,63,67,72, یوحنا 586 ,187,263,264,293,297 ,143,163,164 یونس، حضرت علیہ السلام 272 322,326,338,351,353,368,369,377, 426,427,529,572,715,783,786,833, 842,889,932,933,934,937,945,948 نپولین بونا پاٹ 38 نذیر احمد ، ڈاکٹر و بیگم صاحبہ 782,829 991
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم مقامات آسٹریا 257,299,339 آسٹریلیا 299,343,353,499,500, 506,507,523-525,561,577,584,585, افریقہ 83,92,158 اشاریہ مقامات 190,240,241,283,320,352,363,609, 658,778-781,786,787,825,842,843, 847,859,860,892,929,935-939,941 افغانستان 341 ,588,589,592,595,605,609,630,631 اقصیٰ مسجد ( ناندی) 631 ,635,652,656,663,680,685,686,688 انگلس / اجلس 339 689,719,720,725-727,729,733,737, 738,743,745,747,755-759,820,825 آکسفورڈ 163,776 آئرلینڈ 299 آئرن کرشن 159 آئیوری کوسٹ 916,924 f الى سينا 783,935,936 اپروولٹا 781,782 158,283,284,803 ارجنٹینا 341 ارون 350 الجزائر 781 الحمراء 141,144,146,147, 246,260,261,267,367,373 امریکہ 48,92 102,140,143,148,159,167,176,237, 284,285,298,300,301,315,318,320, 322,329,344,345,348,349,395,396, 412,413,420,465,466,478,489,492- 496,520,549,551,556,569,609,675, 687,700,701,706,714,751,758,779, 784,793,796,823,828,831,804,811, 814,825,830,831,834,862,879,881, 885-888,891,897,903,913,935,949 ارنگا 765 اڑیسہ 449,450 اسرائیل 121,272 اسلام آباد 288,949 اندلس 55,144,238,246 257,265,328,359,360 اندھرا پردیش 443 993
اشاریہ، مقامات اونڈواسٹیٹ 784 انڈونیشیا 28,58,61,62,143 190,292,315,320,431,529,530,533, 590,591,629,658,743,806,825,948 انڈو چائنا 158 انڈیا 191,618 انگلستان / انگلینڈ 45,68,75,77,82,89,90 107,119,121,126,131,132,142,148, 157,179,217,231,249,257,262,274, 285,287,288,290,298,300,320,321, 330,331,340,341,344,352,353,364, 461,567,574,588-590,609,776,779, 797,798,804,806,815,828,862,879, تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم بحر الكامل 657 برازیل 158,300 برطانیہ 461,485,713,714 برما 533,923 بریڈ فورڈ 107,330 بشارت، مسجد (بین) 31,92,101,105,107,113, 135,137,147,149,150,151,197,215, 235,245,248,256,264,266,328,747 بغداد 257 بیلجئم 131,150,266,714 بلغاریہ 170 بلیک ٹاؤن 720 ,880,885,891,893,894,896,912,913 | بنگلہ دیش / مشرقی پاکستان 529,572 914,919,920,929,932,939,948,949 اوسلو 63,152 اوکاڑہ 214,661 اوگا تو نسر و موشا 913 اہرام مصر 578,580,581,583,738 ایران 152 بوچی اسٹیٹ 805 بھارت 117,519 بیت الہدی ، آسٹریلیا 577,747 بینڈل اسٹیٹ 784 بینن 299 ایشیاء 57,60,190,549,556 ایران 114,347,640 ElulTime Sespiro Delmoro 246,261 باتنی بے 590,591 بالٹی مور 714 بٹالہ 435 994 پاکستان 1,55,58,72,92,100,123,124, 127,135,166,176,180,191,193,209, 210,227,241,242,248,266,273,288, 294,295,311,315,318,319,330,345, 378,419-421,423-427,474,519,523, 573,585,632,656,660,663,676,711,
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم جرمنی 123 712,713,729,743,745,781,804,863, 864,871,872,892,895,915,919,920, 925,929,930,933,939,942,947,950 اشاریہ، مقامات 25,29,114,131,132,170,186,238, 274,298,300,327,370,433,676,709, 713,714,745,780,831,879,880,885, پرتگال 299 پشاور 926 پنجاب 80,217,255 549,550,553,555,622 پورٹ لینڈ 805 پولینڈ 159,341,912 بیڈ رو آباد 67,70,143,144,266,372,373 888,891,893,894,911,929,940,948 جلنگهم 320,331 جنوبی افریقہ 265,341,379,786 جنوبی امریکہ 158,761 جنیوا 151,266,372,805 جھنگ 214,228,681 632 pacific harbour | چاؤ 781,936 چ چھور ( چک نمبر 117 ) 214,228 چیکوسلواکیہ 861 ترکی 341 تنزانیہ 765,766,914, چین چائنا ,28,58,102,159,165,386 تھر پارکر 214,228,419 413,533,636,780,781,807,881 تو یونی (جزیره) 796 ٹرینیڈاڈ 713,761,916,924 ٹونگا 705 ٹیونس 781 کیلئے 55 ج جاپان 102,132,143,187,324,531, 533,714,806,824,825,831,881,939 جبرالٹر ( جبل الطارق ) 257 حبشہ 370,935 جراء غار 625 حیدرآباد 926 خ خانہ کعبہ ( بیت اللہ شریف) 149,150 251,371,577,579-581,583,720,758 خان پور 710 خلافت لائبریری 173 ڈلہوزی 391,435 995
اشاریہ، مقامات ڈنمارک 17,71.93 238,308,713,911,912 ڈیٹن 714,913 ڈیٹرائٹ 493,496,751,887 J راولپنڈی 214,710,926 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم 142-147,149-151,159,201,215,235- 239,245-251,255-258,261-269,282, 289,290,306,320,326,328,330,340, 359,360,362-364,366,368,371,372, 374-378,698,747,776,782-784,923 سڈنی 523,630,720,727,731,755 ربوه ,1,5 55,70,100,133,173,214,223,227, 228,245,306,308,336,338,372,473- 475,481,519,521,572,573,629,634, 656,660,687,710,728,729,823,832, 835,862,864,865,871,889,924,925 روانڈا 914,915 سرائے فضل عمر 3 سرحد 420 سرگودها 124,217,818 سری لنکا 277,419,621 622,626,656,743,845,923 سر بینام 713,714,761,784 سری نگر 19 روس (رشیا) 38,159,169,171,195,284 سعودی عرب 184 341,385,386,413,700,701,881,935 روستون 720 روم 592 ریقی چھلہ 364 زمبابوے 320 زیورک رز یورچ 469,617 س سان فرانسسکو 495 31,36-38, River Stone 720 سکاٹ لینڈ 58 سموا (جزیره) 705 سندھ 214,667,788,799 سنگاپور 500,530,533,592,629 630,656,743,744,745,923 سوک سنٹر 703 سووا صووا 632,634,704 سویڈن 15,65,238 318,324,447,713,912 سوئٹزر لینڈ 29,131,149 41,42,44,51,52,65,67,69,91,92,100, 101,105-107,113,135,137,139,140, 996 151,186,187,238,247,266,301,331, 339,370,372,469,519,617,781,923
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد ششم سیالکوٹ 205,214,553,710,925,926 اشاریہ، مقامات سرا نیواڈا 258 سیرالیون 778,784,787,837,839,851,853,915 سیکنڈے نیویا 561 سینی گال 935 سیلون 193,420,500,507,529,621-190 فجی آئی لینڈ 499 500,507,543,547, 549,556,557,559,630,631-635,638, 199,320,328,403,404,777, 642-644,646,647,649,656,657,660, 663,667-671,673,699-701,703-705, 714,719,743,784,809,830,916,927 فضل عمر مسجد (نجی) 547,634 شام 379 شینگا 769 شکاگو 887 شمالی افریقہ 911 شیخو پوره 124,214,228,788,818 ص فضل عمر، ہسپتال (ربوہ) 858 فرانس 131,238,257,426,936 فرینکفورٹ 29,60,300,894,903 فلاڈلفیا 320 فلپائن 629 فلسطين 69,586 فن لینڈ 861 صومالیہ 781 فیصل آباد 308,429,926 ع عرب 75,114,121,149,150,158,164 265,316,320,341,351,516,553,595, فیکلٹی آف آرٹس ( آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی) 595 ق قادیان دارالامان 1,117,118,122 605,623,658,785,832,847,849,852 غ غانا 298 323,328,377,713,777,781,782,784, 826,841,849,844,860,915,924,941 غرناطه 92,113 203,219,233,246,363,364,435,519, 549,550,553,618,622,625,629,660, 680,785,801,815,84,889,909,910 قاہرہ 47 قرطبه 67,92,147,256,257,263,264 قصر خلافت (ربوہ) 356 ک کابل 843 141,144,145,146,147,257,258,260, 320,363,367,372,373,375,376,776 997
اشاریہ، مقامات کالابار 784 کانگو 605 کراچی 217,288,295,326 گلاسگو 60 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم گوٹن برگ 65 ,474,500,533,572,637,647,667,687 گورنمنٹ کالج لاہور 78 710,734,797,807,865,908,937,938 کریبین آئی لینڈز 762 كسومو 777 19,419,889 کمپالا 914 گنی بساؤ 781 گی آنا 924 گیمبیا 923 ل لاس اینجلز 866 کمور و آئی لینڈ 777,781 کوپن ہیگن 66 کوریا 158,806,861 کولمبو 621,622,626 کوئٹہ 184 کویت 714 لاس اینجلس 887 لاہور 135,223,288,295 312,359,635,710,865 لائبیریا 784,924 لٹوکا 631 لمباسا 670 کھاریاں 710 لندن 60,290,315,327,328,349,575 کیرالہ 845 776,786,804,828,830,885,945 کیرنگ 449,450 ليبيا 936 کیلگری 453 لیہ 818 کیمرون 782 مادام توسو 142,274 کینبرا 595,733,734,735,756 کینیا 309,769,777,784 مارو 631 کینیڈا 148,329,341,351,477,47,453 ماریش 240,299,339,419,420,809,927 454,713,714,776,780,784,793,807 کینیڈی 191 998 Kodyathur 845 مبارک, مسجد (ربوہ) 228,243,356 محمود مسجد ( زیورک) 469 مام بینه منوره 43,462,555 مدینہ ڈوڈو 777
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم مدینہ یونیورسٹی 643 مغاسکر 319,339 مراکش 781 مسقط 714 اشاریہ، مقامات 773,787,805,823,83,913,939 نجانزا 776 نسروا 913 نگمو 193,626 مصر 47,114,183,578,579,580,582 نواب شاہ 788 مغربی جاوا 61 نیوجرسی 888 مغربی جرمنی 885 مکه مکرمه 251,370,416,417 555,577,579,622,623,624 ملاگا (چین) 257,258 ملا گا ائیر پورٹ 372 ملائیشیا 533,736,743 ملایا 658 ملتان 163,214 موروگورو 765,778 موريطانيه 781,916 میڈرڈ / ماترید 365,367,776 مينارة المسيح 203 نیوزی لینڈ 299 نیویارک 731,887 واٹرلو (میدان) 38 واشنگٹن 318,887 وینکوور 776 Manislor Kuningan 61 Mikese 765 Vanualevu 670 Willingbrough 805 Wisemans Ferry 721 ہارٹلے پول 786 ہالینڈ 114,714,904,948,949 بنسلو 485 ہمالیہ 538,539,584,673 ہمبرگ 29,60,300,377 ہند ہندوستان 28 ناروے 11,64,128,238 318,324,327,527,713,924 ناصر آباد 407 ناصر، مسجد ( سیرالیون) 199 ناندی 543,545,630,631,643,646,703 نائیجیریا 131,298,320,324,713 140,166,176,193,209,242,318,319, 324,385,506,549,622,640,658,687, 756,804,809,845,879,910,940,941 ہنگری 341 999
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم اشاریہ، مقامات ی یارک شائر 929,939 من 539 یوپی 644 یورپ 65-24,27,28,37,63 69,92,100,102,114,117,119,123, 126,127,138,139,150,157,160,164, 168,175,179-181,187,222-225,229, 235,237,238,245,246,248,255,266, 268,269,271,274,275,281-283,291, |304,315,322,326-329,335,341,345 359,360,362,363,366,367,370,373, 376,400,433,447,520,556,561,685, 706,779,780,782,831,835,880,885, 888,891,892,897,903,908,911,935 یوسٹن 320,574,805 یو کے 519 یوگنڈا 311,320,658,797,914,924 یوگوسلاویہ,15,132,186,781 782,783,817,860,878,912 Ugenya 309 یونان 299,426,913 1000
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد ششم کتابیات اشاریہ، کتابیات اخبار 610 استثناء 610,611 انجیل 598,601 انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا 604 بائیل Militant Islam 396 The New Religion 395 The Moors in Spain 261 world mark encyclopedia of the nations 588,589 93,195,233,271-273,596,601,668 تزک بابری 140 تفسیر ابن جرید 195 تواریخ 596 توریت 598 جامع ترمذی 855 زبور 596 سلاطین 596 سموئیل 596 سنن ابی داؤد 84 حیح بخاری 81,83,866 صحیح مسلم 852,853 عہد نامہ جدید 272 گوتم سمرتی 596 لائف آف محمد 604 متی 596,601,612 مرقس 601 منو 610 وید 596 کتب سلسلہ عالیہ احمدیہ اربعین 35 اسلام اور کمیونزم 317 اسلام کا اقتصادی نظام 317 اسلامی اصول کی فلاسفی 619,784,807,831 پیغام صلح 34 تبلیغ رسالت 593 تذکره 195,284,289 تذكرة الشهادتين 593,843,844 تفسیر القرآن 324 تفسیر کبیر 316,701,785 حضرت مولوی نورالدین خليفة المسيح الاول 317 حقیقة الوحی 71 خطبات طاہر 60,78,90,867 در تشین (فارسی) 39 روحانی خزائن 21,34,35,463,486,593,618,619 ست بچن 784 سيرة طيبه 317 1001
اشاریہ، کتابیات شہادت القرآن 841,842,854 ضمیمہ انجام آتھم 618 فتادی احمد یہ 776 فتح اسلام 277,278,332 کشتی نوح 34,278,463,854 گورنمنٹ انگریزی اور جہاد 35 لیکچر لاہور 486 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد ششم 244,252,253,264,275,279,292,308, 310,313,317,324,333,423,426,428, 464,467,469,475,479,482,483,492, 498,501,517,521,525,527,541,543, 545,548,559,576,593,605,619,627, 629-631,634,636,648,649,653,665, 711,775,776,787,789,792,794,799, 823,837,840,846,847,849,856,869 لیکچرلدھیانہ 387 مسیح ہندوستان میں 618 بیٹی 66 ملفوظات 21,315,486,853,856,776 میری والدہ 691 نزول مسیح 21 انصار الله 317 تحریک جدید 317,775 تشحيد الاذہان 317 315,349 Essence of Islam | جہاد 786 Pronouncements of promised | خالد 317,627 messiah so said the promised | ریویو آف ریلیجز, 192,317,326,348 617,629,775,827,828,829,830 | messiah 776 سینمار اسلام 629 اخبارات ورسائل واشتہارات اخبار احمدیہ 1 کوکب 786 لاغوزا (Lavoz) 264 البدر 118,846 البشرى 786 الحام 491 الخادم 786 الفضل 1,10,13,15,18,26,29,39,53,56, 62,65,66,67,70-72,93,111,115,118, 134,136,145,155,162,173,182,193, 196,198,199,202,212,222,226,230, 1002 مصباح 317 ہیرلڈ 828 Arbetet 65 Der Islam Zurch 617 Goteborg Posten 65 Time 390