Language: UR
حضرت حافظ مرزاناصر احمد صاحب، خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے تحریک جدید کے قیام، اغراض و مقاصد اور عالمگیر ترقیات متعلق خطبات، خطابات اور ارشادات پر مشتمل یہ کتاب وکالت الدیوان تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ کی مرتب کردہ ہے۔ جلد چہارم میں 1965 سے 1973 تک اور جلد پنجم میں 1974 سے 1982 تک کا مواد جمع کیا گیا ہے۔ قریبا دو ہزار صفحات مشتمل ان دونوں جلدوں کے آخر پر تفصیلی انڈیکس موجود ہے۔
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم ارشادات حضرت خلیفہ لمسح الثاث رحمہ اللہ تعالی بابت تحر یک جدید ۱۹۷۴ء تا ۱۹۸۲ء
تحریک جدید - ایک الہی تحریک Tahrik-e-Jadid - A Divine Institution Volume - V (Urdu) Speeches, Sermons & Sayings of Hadhrat Mirza Nasir Ahmad, 1974 - 1982 rb Khalifatul Masih III Islam International Publications Ltd.Published by: Nazarat Nashro Isha'at Sadr Anjuman Ahmadiyya Qadian - 143516, Distt.Gurdaspur (Pb.) INDIA Printed at : Fazle Umar Printing Press, Qadian.Copies : 2000 Present Edition Published in India in 2013 ISBN 978-81-7912-325-3
الله الرحمن الرحيم پبلشر نوٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ وہ دور ہے جس میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ مقدر ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے ساتھ اس دور سعید کا آغاز ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپکو ایک فرزند جلیل کی پیدائش کی خبر دی.جسے تاریخ احمدیت مصلح موعود کے نام سے یاد کرتی ہے.خلافت حقہ اسلامیہ کے قیام کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ایک کو نیل نما جماعت کے تناور درخت بننے کے سامان پیدا کر دئے.خلافت احمد یہ اولی کے بعد قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر جب خلافت پر متمکن ہوئے تو چوطرفہ مخالفت نے دم تو ڑنا شروع کر دیا.جماعت احمدیہ کی آواز کو قادیان سے باہر نہ نکلنے دینے کا دعوی کرنے والے اس وقت بالکل پسپا ہو گئے.جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کا اعلان فرمایا تو مخالفین احمدیت کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی.صداقت کی آواز کو دبانے والوں نے دیکھا کہ یہ آواز دیکھتے ہی دیکھتے اکناف عالم میں پھیل گئی.آج دنیا کی کوئی تحریک اس تحریک کا مقابلہ نہیں کر سکتی.کسی بھی دیکھنے والے کو ایک رتی بھر بھی اس میں شک نہیں ہوسکتا کہ واقعی یہ ایک الہی تحریک تھی اور ہے.حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تحریک جدید ایک الہی تحریک کے عنوان سے مرتب شدہ کتاب کو قادیان سے شائع کرنے کا ارشاد فرمایا ہے.پیارے آقا کے ارشاد پر اس کتاب کی پانچویں جلد افادہ عام کے لئے شائع کی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ اسکی اشاعت کو ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین والسلام خاکسار ناظر نشر و اشاعت قادیان
بسم الله الرحمان الرحيم پیش لفظ الہی سلسلوں کی مثال اس سپرنگ کی طرح ہوتی ہے جس کو جس قدر دبایا جائے ، وہ اسی قدر زور سے پھیلتا ہے.الہی سلسلوں کی بھی جتنی زیادہ مخالفت ہوتی ہے، وہ اتنی ہی زیادہ ترقی کرتے ہیں.اور جتنی زیادہ ترقی ہوتی ہے، مخالفت میں بھی اتنی ہی تیزی اور پھیلا ؤ آجاتا ہے.اور یہ شکش اس آخری فتح مبین تک جاری رہتی ہے، جو ہمیشہ سے الہی سلسلوں کا مقدر ہوتی ہے.1974 ء سے جماعتی تاریخ کے جس دور کا آغاز ہوا، وہ بھی اسی کشمکش کا ایک باب ہے.جماعت احمدیہ کے قیام توحید اور غلبہ اسلام کے منصوبوں میں تیزی اور شدت پیدا کرنے کے لئے 1973ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالث نے صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کا آغا ز فرمایا اور 1974ء میں وہ حالات پیدا کر دیئے گئے ، جو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور تاریخ کا حصہ ہیں.حضرت خليفة المسيح السالت اس کشمکش اور ان حالات کا ذکر یوں فرماتے ہیں:...اس وقت تک اسلام کی اشاعت میں ہماری جو جد و جہد تھی ، اس کی شکل حقیقی طور پر بین الاقوامی گروہوں کی بین الاقوامی کوشش کے خلاف نہیں تھی.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعوی کیا تو پہلے پنجاب اور پھر سارے ہندوستان نے مخالفت کی اور لوگوں نے کوشش کی کہ اس آواز کو دبا دیا جائے ، جس کو آسمانوں نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے اس دنیا میں مہدی معہود کے منہ سے بلند کر وایا تھا.پس پہلے پنجاب میں اس آواز کو دبانے کے لئے ، غلبہ اسلام کی اس جدو جہد کے راستہ میں روکیں ڈالنے کے لئے مخالفت شروع ہوئی.اور پھر کچھ عرصہ کے بعد سارے ہندوستان میں مخالفت شروع ہو گئی.1947 ء تک یہی حالت رہی...پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں بڑھنے لگیں...جب یہ صورت پیدا ہوئی تو پھر ہر اس ملک میں جہاں احمدیت کو ترقی ہو رہی تھی، مخالفت شروع ہوگئی.گویا ہروہ ملک، جس میں جماعتیں قائم ہوئیں، وہ جماعتی کوششوں کے خلاف کھڑا ہو گیا....اور جوں جوں جماعت بڑھتی گئی، اس مخالفت میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی.لیکن مخالفانہ عنصر اسی ملک کے ساتھ تعلق رکھتا تھا، جس میں جماعتیں قائم تھیں.یعنی ہر ملک میں
جماعت احمدیہ کی مخالفت مقامی نوعیت کی حامل تھی.اور گذشتہ جلسہ سالانہ تک یہی حالت رہی.اب جماعت احمدیہ کی طرف سے غلبہ اسلام کی اس عظیم اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہونے والی جد و جہد کی مخالفت ایک نئی شکل میں اور ایک اور رنگ میں شروع ہوئی ہے.اور وہ بین الاقوامی متحدہ کوشش کی شکل میں ہے...ظاہر ہے کہ پہلے صوبے کی مخالفت تھی ، پھر ملک کی مخالفت تھی، پھر ملک ملک کی مخالفت تھی، مخالفت میں ترقی ہوتی چلی گئی.اب ممالک کے اکٹھے ہو کر مقابلے میں آ جانے کا جو منصوبہ ہے، اس سے بڑھ کر اس کرہ ارض پر اور کوئی منصوبہ تصور میں بھی نہیں لایا جاسکتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جوخدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے اور اسی پر اپنا تو کل رکھتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ غلبہ اسلام کی آخری گھڑی قریب آگئی ہے.خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1974ء) گوصد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کا تعلق صرف تحریک جدید انجمن احمدیہ سے نہیں بلکہ ساری جماعت سے تعلق رکھنے والا یہ منصوبہ ہے.لیکن کیونکہ اس منصوبہ کی تکمیل بہت حد تک تحریک جدید کے ذریعہ ہوئی ، لہذا اس منصوبہ سے متعلقہ مواد کو بھی اس جلد میں شامل کیا گیا ہے.صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کا دیگر جماعتی تنظیموں اور تحریکوں سے تعلق کو واضح کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:..اس منصوبہ کا صحیح مقام جماعت کو سمجھنا ضروری ہے.جماعت احمدیہ کا مقصد ہی یعنی خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے اس کے قائم کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کیا جائے.پس جماعت احمدیہ کی پہلی کوشش اور جماعت احمدیہ میں جو پہلی تنظیمیں قائم ہوئیں اور جاری ہوئیں، وہ وہی مقاصد رکھتی ہیں، جو مقصد کہ موجودہ منصو بہ رکھتا ہے.ان کا ایک ہی مقصد ہے.چونکہ مقاصد ایک ہی ہیں، اس لئے اگر کوئی تنظیم یہ سمجھے کہ تحریک جدید اور ہے اور یہ منصوبہ اور ہے.یا صدرا حجمن احمد یہ کے کام اور ہیں اور یہ منصوبہ اور ہے.یا وقف جدید کے کام اور ہیں اور یہ منصوبہ اور ہے.یا خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریاں اور ہیں اور یہ منصوبہ اور ہے.یا انصار اللہ کے فرائض اور ہیں اور یہ منصوبہ اور ہے.بالجنہ اماءاللہ کی کوششیں اور ہیں اور یہ منصوبہ اور ہے.یا وقف عارضی کی تحریک اور ہے اور یہ منصوبہ اور ہے.یا فضل عمر فاؤنڈیشن اور نصرت جہاں ریز روفنڈ یا نصرت جہاں کا منصوبہ کوئی اور حقیقت رکھتا ہے اور یہ منصوبہ
اور ہے.یہ غلط ہے.ہم نے جو سارے منصوبے بنائے اور اندرونی تنظیمیں قائم کیں اور تحریکیں چلائیں ، وہ اسی جہت کی طرف ایک کوشش تھی.وہ ایک محدود کوشش تھی.اب ان ساری کوششوں کو مجموعی طور پرBoost دینے کے لئے ان میں شدت اور تیزی پیدا کرنے کے لئے یہ صد سالہ جوبلی منانے کا منصوبہ قائم کیا گیا ہے“.خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974 ء ) تحریک جدید انجمن احمد یہ کے قیام کی غرض اور اس کے ثمرات کے متعلق فرمایا:.اس زمانہ میں جو ساری دنیا میں ایک جال پھیلنا تھا تبلیغ اسلام کا ، اشاعت اسلام کا، اس حسین تعلیم کو دنیا کے سامنے رکھنے کا ، اس پیاری تعلیم سے پڑھے لکھوں کو متعارف کرانے کا، اس کے لئے ایک وقت میں جماعت احمدیہ کی تاریخ میں وہ وقت آیا کہ خدا کی طرف سے ہمیں باہر نکنے کا حکم ہوا اور اس کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کو قائم کیا.جیسا کہ ہراچھے درخت کی ابتداء بھی ایک چھوٹے سے نحیف اور کمزور پودے سے ہوتی ہے.تحریک جدید کی ابتداء بھی اسی طرح ہوئی.لیکن آج وہ ایک بہت بڑا درخت بن گیا ہے اور سارا سال ہی پھلوں سے لدا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس درخت میں اتنی برکت ڈالی ہے کہ اس کی شاخیں ایک طرف افریقہ کے صحراؤں میں پھیلی ہوئی ہیں اور دوسری طرف شمالی امریکہ کی گنجان اور تہذیب نو کی آبادیوں کے اندر پھیلی ہوئی ہیں...پھر ایک طرف اس کی شاخیں جاپان میں چلی گئیں اور آسٹریلیا میں چلی گئیں ، جنوبی امریکہ میں چلی گئیں، یورپ اور انگلستان میں اور اس مڈل ایسٹ میں چلی گئیں.بہر حال تحریک جدید سے جو ایک چھوٹا سا کام شروع ہوا تھا، اب وہ بہت پھیل گیا ہے.اب اس کی شکل بدل گئی ہے.(خطبہ جمعہ فرموده 07 نومبر 1975ء) تحریک جدید انجمن احمدیہ کے عظیم الشان کام پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:." حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے علاوہ اور بہت سے اہم کاموں کے تحریک جدید کے نام سے ایک بہت بڑا روحانی بند تعمیر کیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کو اتنی روحانی رفعتیں عطا ہوئیں کہ روئے زمین پر جماعت احمدیہ کی شکل بدل گئی.گو
پہلے چند بڑے بڑے ملکوں میں جماعت قائم تھی لیکن اس میں وسعت نہیں تھی.پھر جب تحریک جدید کا روحانی بند تعمیر ہوا تو جس طرح نہریں نئے سے نئے نجر علاقوں میں پانی لے جا کر ان کو آباد کرتی ہیں، اسی طرح تحریک جدید کے اس بند کے ذریعہ احمدیت نے افریقہ میں دور دور تک اسلام کے روحانی پانی کو پہنچایا.پھر یورپ میں پہنچایا، امریکہ میں پہنچایا اور جزائر میں پہنچایا.یہ ایک عظیم الشان روحانی بند تھا، جس سے جماعت احمدیہ کو اسی طرح طاقت حاصل ہوئی، جس طرح مادی پانی کے بند ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ بجلی کی طاقت بھی پیدا ہوتی ہے اور اس سے انسان دوسرے فائدے بھی اٹھاتا ہے.خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1974 ء ) ایک اور موقع پر فرمایا.تحریک جدید نے اس تمام عرصہ میں ساری دنیا میں اسلام کی بنیادیں مضبوط کرنے اور اس پر خوبصورت اور عالیشان عمارت تعمیر کرنے کے سلسلہ میں جو کام کیا ہے، وہ اپنی ذات میں بہت ہی مہتم بالشان اور حسین کام ہے“.خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975 ء ) تحریک جدید انجمن احمدیہ کے ذریعہ دنیا میں رونما ہونے والے انقلاب اور آئندہ ذمہ داریوں کے متعلق فرمایا: ایک وقت آیا، ایک دور کے بعد دوسرا دور گزرا (اس طرح کئی دور آتے رہتے ہیں.ایک دور کے بعد دوسرا دور آتا ہے.) اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے.آپ نے بیرون پاکستان (اس وقت ابھی پاکستان نہیں بنا تھا بلکہ ہندوستان تھا.) دنیا کے مختلف ممالک میں اسلامی تعلیم کو پھیلانے کے لئے ایک الہی تحریک جاری کی، ایک منصوبہ تیار کیا اور اس کا نام تحریک جدید رکھا.1934ء میں تحریک جدید کی ابتداء ہوئی.پھر اپنی ابتداء سے ترقی کرتے ہوئے اس نے بڑھنا شروع کیا اور پھیلنا شروع کیا.دنیا اس بات کو نہیں سمجھتی بلکہ اعتراض کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صرف اس منصوبہ کے نتیجہ میں ہی لاکھوں عیسائیوں اور ,
مشرکین کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی توفیق دی.لاکھوں ! ایک یا دو نہیں، سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں بلکہ صرف افریقہ میں ہی لاکھوں عیسائی اور مشرک مسلمان ہوئے لیکن دنی لاکھوں افراد پر تو مشتمل نہیں.وہ تو کروڑہا افراد پر کئی ارب افراد پر مشتمل ہے.اور ان سب کو اسلام کی طرف لانا اور پیشگوئیوں کے مطابق بڑے تھوڑے سے وقت میں لانا ، بنی نوع انسان کو جن کی اتنی بڑی تعداد ہے اور ان کے پھیلاؤ میں اتنی وسعت ہے کہ وہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.لیکن یہ ہو گا ضرور اور ہو گا اس تھوڑے سے وقت میں“.خطبہ جمعہ فرمود : 129 اکتوبر 1976 ء ) تحریک جدید انجمن احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.’اب تو تحریک جدید کے مشن اور اس کے تحت قائم ہونے والی جماعت ہائے احمد یہ قریباً ساری دنیا میں پھیل چکی ہیں.ایک وقت تھا، یعنی جب قیام پاکستان سے بہت پہلے، جب تحریک جدید کا سارا بار ہندوستان کی جماعتوں پر تھا.لیکن آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی.جس کے نتیجہ میں بیرونی ملکوں میں مشنوں اور جماعتوں کا قیام عمل میں آیا؟ وہ مشن اور جماعتیں خود کفیل ہوتے چلے گئے.یہ انقلابی تبدیلی اس تحریک کی وجہ سے پیدا ہوئی ، جسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید “ کے نام سے جاری فرمایا.تحریک جدید کی مساعی کے نتیجہ میں مشرق و مغرب کے بیرونی ممالک میں ایسی مخلص اور فدائی روحیں پیدا ہو گئیں ہیں کہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اخلاص یہاں کے احمدیوں میں زیادہ ہے یا وہاں کے احمدیوں میں زیادہ ہے.66 (خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977 ء ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت اور جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض کو پورا کرنے کے لئے ہی تحریک جدید کا اجرا کیا گیا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس تحریک کے تمام مطالبات پر عمل کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں، جس غرض کے لئے ہم احمدی ہوئے ہیں.آمین
محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایده الله تعالى بنصرہ العزیز کی دعاؤں اور منظوری سے وکالت دیوان تحریک جدید صد سالہ خلافت جو بلی کے موقع پر ، تحریک جدید سے متعلقہ خلفاء کرام کے خطبات، خطابات اور ارشادات کو تحریک جدید.ایک الہی تحریک کے نام سے کتابی شکل میں شائع کرنے کی توفیق پارہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.اس سلسلہ میں اس کتاب کی پہلی چار جلدیں، جو بالترتیب 1934ء تا1939ء 1940ء شتمل تا1947ء اور 1948ء تا1964ء اور 1965ء تا1973ء کے خطبات ، خطابات اور ارشادات پر تھیں، شائع ہو چکی ہیں.یہ اس سلسلہ کی پانچویں جلد ہے.جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے 1973ء تا1982ء کے خطبات ، خطابات اور ارشادات پر مشتمل ہے.اسی طرح مجالس شوری کی رپورٹس سے بھی متعلقہ مواد شامل کیا گیا ہے.مجالس شوری کے علاوہ باقی مواد کو تاریخ وار رکھا گیا ہے.جبکہ مجالس شوری کی رپورٹس سے متعلقہ مواد ہر سال کے آخر پر درج کیا گیا ہے.و
فہرست نمبر شمار 01 02 888 03 04 05 06 385 عناوین ساری دنیا پر جماعت احمدیہ کی پہلی روحانی یلغار تحریک جدید کے ذریعہ ہوئی * 1974 اسلام کے قلعے کو وسیع تر اور بلند تر کرنا، جماعت احمدیہ کا نصب العین ہے صد سالہ جشن فنڈ حمد اور عزم اگلے سولہ سال کے بنیادی ماٹو انگریزی دان احباب آگے آئیں اور اپنی زندگیاں وقف کریں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کا ایک عظیم منہ نصور جماعت احمدیہ کا ہر قدم دنیا کی ہر جہت میں غلبہ اسلام کی طرف اٹھ رہا ہے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ غلبہ اسلام کا ایک عظیم منصوبہ ہے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ اللہ تعالی نے اپنے فضل سے جاری کرایا ہے آپ کو جو بلی فنڈ کی اشاعت اسلام سے متعلق اہمیت کو سمجھنے کی تو فیق عطا ہو اہل یورپ کا سنجیدہ طبقہ اسلام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے خواہش ہے کہ توحید اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا میں قائم ہو حمد اور عزم، ان دوستونوں کے اوپر ہم نے زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے تحریک جدید ایک بہت بڑا روحانی بند ہے رہے اللہ تعالیٰ جماعت پر جتنی ذمہ داریاں ڈالے گا، اتنے سامان بھی پیدا کرے گا اپنی اپنی استعداد کے مطابق حمد اور شکر کو انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے امراء جماعت ہائے احمدیہ کے نام ایک نہایت ضروری ارشاد تاریخ فرموده صفحه نمبر 01 09.11.1973 13 05.01.1974 15 10.01.1974 17 18.01.1974 19 25.01.1974 25 01.02.1974 39 08.02.1974 51 15.02.1974 57 22.02.1974 65 67 06.03.1974 69 08.03.1974 75 15.03.1974 81 29.03.1974 85 05.04.1974 91 02.05.1974 99 03.05.1974 101 08.05.1974 i 08 09 10 11 12 13 14 15 16 17 18
103 17.05.1974 107 24.05.1974 109 31.05.1974 113 16.08.1974 119 01.11.1974 127 21.11.1974 133 29.03.1974 167 31.03.1974 171 31.03.1974 183 03.01.1975 185 10.01.1975 191 17.01.1975 199 201 29.08.1975 205 28.09.1975 207 30.09.1975 209 03.10.1975 213 07.10.1975 217 17.10.1975 223 235 21.11.1975 247 06.12.1975 249 14.12.1975 251 26.12.1975 دنیا کو امت واحدہ بنانے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے یہ سمجھنا غلطی ہے کہ آرام کے ساتھ ہم آخری غلبہ کو حاصل کر لیں گے ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی غلبہ اسلام کے خدائی منصوبہ کو نا کام نہیں بنا سکتیں سخت گھڑیوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کے اظہار کا لطف آتا ہے تو حید کو دنیا میں قائم کرنے کا ایک دور تحریک جدید کی شکل میں آیا ہے جامعہ احمد یہ احمدیت کا جامعہ ہے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے تحت ہونے والے بعض کاموں کا تفصیلی ذکر دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی خدا تعالیٰ کے وعدوں کو نہیں ٹال سکتیں صد سالہ جوبلی منصوبہ جماعتی کوششوں میں تیزی پیدا کرنے کے لئے ہے * 1975 ہم اشاعت اسلام کے عالمگیر منصوبہ کے لئے خدا کی نصرت کے طالب ہیں جماعت احمدیہ کے قیام کا اصل مقصد دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے اسلام کی ابدی صداقتوں کو نئی نسل کے سامنے دہراتے چلے جائیں ہمیں اپنے اموال قربان کرنا ہوں گے ، اپنے آرام سے ہاتھ اٹھانا ہوگا اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ وہ احمدی بچوں کو بڑے اچھے ذہن عطا کر رہا ہے آپ نے غلبہ اسلام کے لئے جدو جہد کرنے کا اپنے خدا سے عہد کیا ہے سیکنڈے نیویا میں غلبہ اسلام کے لئے اوسلو میں بھی مسجد کا ہونا بہت ضروری ہے محبت اور ہمدردی سے احمدیت نے نوع انسان کے دل جیتے ہیں خوش ہو اور خوشی سے اچھلو جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صداقت نے کبھی شکست نہیں کھائی آج تحریک جدید بہت بڑا درخت بن گیا ہے اور سارا سال پھلوں سے لدا رہتا ہے 07.11.1975 صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا منصوبہ ہے اس وقت ضرورت ہے کہ بہت کچھ لکھا جائے اور نی تحقیق کی جائے زندگیوں کو وقف کر دینے کا جو سبق دیا گیا ہے، اسے ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے اپنے پیارے رب سے بے وفائی کبھی نہ کرنا 28 19 2222 20 21 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 ==
255 27.12.1975 269 28.03.1975 271 29.03.1975 275 30.03.1975 43 44 45 74 46 47 48 49 50 51 52 53 54 تحریک جدید میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے بے انداز برکت ڈالی ہے خود کو دنیا کے لئے ایک ایسا نمونہ بنا ئیں ، جس نمونے کی دنیا کو پیاس ہے اب وقت آگیا ہے کہ ساری دنیا میں اسلامی مساوات کا نمونہ قائم کیا جائے جماعت احمدیہ کی بین الاقوامی حیثیت نمایاں ہو کر دنیا میں نظر آرہی ہے $1976 واقفین زندگی کی جو بیویاں ہیں، وہ بھی واقفات ہی ہیں خدا کہتا ہے کہ جتنا تمہاری طاقت میں ہے، وہ دے دو باقی مجھ پر توکل رکھو ہر احمدی کسی نہ کسی رنگ میں واقف زندگی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو غیر معمولی قربانی کرنے والی جماعت عطا کی ہم دنیا کو پھر خدا تعالیٰ کی طرف واپس لانا چاہتے ہیں اس زمانہ میں دنیا کو کمل تباہی سے بچانے کی ذمہ داری ہم پر ڈالی گئی ہے حضرت مسیح موعود کی بعثت کے ذریعہ عظیم الشان عید کی بنیاد رکھی جا چکی ہے دنیا خدا تعالیٰ کے اس منصو بہ کو نا کام نہیں کر سکتی بنی نوع انسان کی نجات صرف اور صرف اسلام میں مضمر ہے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہمارے خدا کو عاجزانہ راہیں ہی پسند ہیں ہونا وہ نہیں ، جو میں نے یا آپ نے چاہتا ہے بلکہ ہو گا وہ، جو خدا چاہے گا اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا جانا ضروری ہے ایک احمدی کی زندگی کا نمایاں امتیاز $1977 مومن اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تمام نعمتوں کو اسی کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں 283 01.04.1976 285 02.04.1976 293 15.07.1976 295 23.07.1976 303 309 07.08.1976 317 25.08.1976 319 29.10.1976 329 343 11.12.1976 345 11.12.1976 349 26.03.1976 357 27.03.1976 !! 359 28.03.1976 361 03.05.1977 363 05.08.1977 365 14.09.1977 369 28.10.1977 := 55 56 57 58 အ 59 60 اسلام کے غلبہ اور نوع انسانی کے امت واحدۃ بن جانے کی صدی آ رہی ہے مبلغین کے لئے دعائیں کریں تحریک جدید ایک الہی تحریک ہے 61 62 63 64
نبی اکرم کے ذریعہ بپا ہونے والے عظیم انقلاب کا عروج مہدی کے زمانہ میں مقدر ہے 04.11.1977 383 397 06.11.1977 405 407 409 26.12.1977 413 27.12.1977 423 28.12.1977 425 01.04.1977 437 02.04.1977 !! 441 03.04.1977 453 03.04.1977 آخری غلبہ کے لئے کامل اتحاد اور کامل یک جہتی ضروری ہے قوموں کی راہنمائی سے قبل ہمیں اپنی تعلیم و تربیت کرنی ہوگی 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 دنیا پر اثر پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر مکمل انقلاب پیدا ہو غلبہ اسلام کے لئے جن قربانیوں کی ضرورت ہے، ان کی ذمہ داری آب آپ پر ہے تحریک جدید کی مساعی اور اللہ تعالیٰ کے افضال کا ذکر مبلغین اسلام ہماری دلی دعاؤں سے مستحق ہیں ہم اس وقت جماعت احمدیہ کی زندگی کے ایک نہایت اہم موڑ پر ہیں جو چندہ نہ دیتا ہو، اس کو چندے کی افادیت بتاؤ، ضرورت بتاؤ، سمجھاؤ جامعہ احمدیہ کی غرض جامعہ کے ماحول کے بغیر نہیں پوری ہو سکتی دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے +1978 ہمارا فرض ہے کہ ہم انسان کو تباہ ہونے سے بچائیں مبلغین کے لئے دعا کی تحریک یہ زمانہ رسول کریم کے عالمگیر نبی ہونے کے وعدوں کے پورا ہونے کا ہے حضرت بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی ہی نجات کا واحدہ ذریعہ ہے جواب دعوت تبادلہ خیال از برٹش کونسل آف چرچز اپنے حسن و احسان کے ذریعہ دین اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر مقدر ہے رسول اللہ کی پیروی میں دنیا کی اصلاح کے لئے مسیح موعود کو مامور کیا گیا نصرت جہاں حکیم تمہید ہے، صد سالہ جوبلی منصوبہ کی اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا ملک ملک میں پیج پھینکا ہوا ہے سماری دنیا کی ہدایت کی ذمہ داری جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے تحریک جدید کے اجراء کے بعد دنیا میں بڑی عظیم تبدیلیاں پیدا ہوئیں حالات کے ساتھ قربانیوں کی شکل بدلے گی، ان کی مقدار میں فرق نہیں آئے گا نور کی ظلمات سے آخری گھمسان کی جنگ کے وسط میں ہم کھڑے ہیں 455 457 28.04.1978 463 05.05.1978 469 04.06.1978 471 04.06.1978 473 09.06.1978 479 16.06.1978 483 14.07.1978 485 499 13.10.1978 513 20.10.1978 521 21.10.1978 537 29.10.1978 لالا لالالا 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 د.
89 90 91 92 22 93 94 نئی نسل کی فعال شرکت کے بغیر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہماری روحانی آنکھ حالات کے افق پر غلبہ اسلام کے آثار کو دیکھ رہی ہے ساری دنیا میں توحید کے قیام تک ہم اپنی جدو جہد کو جاری رکھیں گے اسلام کا عالمگیر غلبہ کی ایک نسل کی قربانی پر موقوف نہیں احمدیوں میں مخلص علم دین سے واقف، سوز بانوں کے ماہر ہونے چاہئیں ہم نے خدا تعالیٰ اور محد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہر انسان سے پیار کرنا ہے $1979 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد عالمی اسلامی نظام قائم کرنا تھا اپنی زندگی کو آپ کے دین کی سر بلندی کے لئے وقف کر دو وقت قریب ہے کہ لوگ اسلام کے پیغام پر متوجہ ہونے پر مجبور ہو جائیں گے غلبہ اسلام کی مہم کو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم سے باندھا ہے وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے، جبکہ تو میں اس چشمہ سے سیراب ہوں گی جب بھی احمدی دعائیں مانگے گا، رحمت کے سامان مہیا ہو جائیں گے آئندہ صدی کے استقبال کے لئے خود کو تیار کریں یہ جماعت مرنے کے لئے نہیں، زندہ کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے 555 557 03.12.1978 561 27.12.1978 563 567 02.04.1978 573 02.04.1978 577 22.01.1979 579 581 07.07.1979 583 24.07.1979 585 587 06.09.1979 593 595 21.10.1979 599 603 28.10.1979 609 611 27.12.1979 633 31.03.1979 دنیا جو دوری کی راہیں اختیار کئے ہوئے ہے، خدا کرے وہ قرب میں بدل جائیں 26.10.1979 سورۃ انفال میں بیان فرمودہ مومنین کی نوصفات اور صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ ہمیں خود کو اور اپنی اولادوں کو غلبہ اسلام کی صدی کے لئے تیار کرنا چاہیے ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی احمدیت اسلام کے اونی خادم کی حیثیت سے اپنے مشن میں کامیاب ہوگی $1980 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد میں ایک انقلاب عظیم برپا ہو 635 15.02.1980 645 649 23.03.1980 651 دنیا میں انقلاب بپا کرنے کے لئے پہلے اپنی زندگیوں میں انقلاب لانا ضروری ہے 00.02.1980 کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیاں اسلام کی تعلیم کے مطابق گزاریں خود کو اس طرح تیار کریں کہ آنے والی صدی کا شایان شان استقبال کر سکیں V 108 109 110 111
112 113 114 115 116 117 118 119 120 غلبہ دین خاتم الانبیا کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے ہر وقت مستعدر خدا تعالی کی نصرت اور تائید سے اور آگے بڑھو اسلام کا موعودہ غلبہ ایٹم بم وغیرہ کے ذریعہ نہیں بلکہ علمی تفوق کی بناء پر ظاہر ہوگا ہر احمدی کو ہمیشہ اپنا مقام اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اللہ تعالیٰ کے بعض نئے غیر معمولی نوعیت کے فضلوں اور منصوبوں کا ذکر غلبہ اسلام کا جہاد متقاضی ہے کہ ہم زندگی کے ہر میدان میں سبقت لے جائیں آج اسلام کے لئے قربانی کی ضرورت ہے نفرت ہمیشہ شکست کھاتی ہے اور فتح ہمیشہ محبت کو ہی حاصل ہوتی ہے تحریک جدید کے کام کی شعاعیں ہمیں ساری دنیا میں نظر آنے لگی ہیں 121 جو انقلاب بپا ہورہا ہے، وہ مطالبہ کرتاہے کہ صحیح اسلام دنیا کے سامنے پیش کیا جائے 31.10.1980 اتنا آگے بڑھو کہ دنیا قائل ہو جائے کہ ہر میدان میں احمدی ہم سے آگے نکل گیا چودہویں صدی میں چودہویں صدی نے کیا پایا اور اسلام کو کیا ملا ؟ 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 133 134 135 136 137 اسلام کا باغ ، باغ محمدی اور اس کے ثمرات ہمیشہ باقی رہیں گے پندرھویں صدی میں انسانوں کو خدا بنانے کا زمانہ ختم ہو جائے گا اللہ تعالیٰ خود سامان مہیا کرتا ہے، خود کام کرتا ہے اور خود ہی جزا بھی دے دیتا ہے اسلام کی آخری فتح کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہو پندرھویں صدی اقوام کے ایک ہو جانے کی صدی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے دنیا بدل رہی ہے، انقلاب عظیم برپا ہورہا ہے غلبہ اسلام کی خاطر انتہائی جدوجہد اور قربانیوں کے لئے تیار رہیں اس دور میں اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے تئیں تیار کریں صرف خدا اور محمد کا نام رہ جائے گا باقی سب دنیوی چیزیں غائب ہو جائیں گی دنیا میں تحریک جدید کے تحت سر انجام پانے والے مختلف کاموں کا ذکر 653 03.05.1980 655 13.06.1980 657 04.07.1980 661 24.07.1980 665 08.08.1980 669 15.08.1980 675 05.10.1980 677 701 31.10.1980 711 721 02.11.1980 733 07.11.1980 743 08.11.1980 749 09.11.1980 753 09.11.1980 755 757 14.11.1980 767 15.11.1980 769 17.11.1980 771 15.12.1980 773 775 27.12.1980 777 27.12.1980 795 797 29.03.1980 803 30.03.1980 جتنی غلبہ اسلام کی صدی قریب آرہی ہے، اتنی ہی ہماری ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں 28.03.1980 تحریک جدید کی مثال بڑ کے درخت کی ہے غلبہ اسلام اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں vi
*1981 138 139 140 141 142 143 144 145 146 147 148 اشاعت لٹریچر کی سکیم کے متعلق بعض نہایت اہم ہدایات اس صدی کے آغاز میں اسلام کے لئے اپنی قربانیوں میں نمایاں اضافہ کریں آپ سب ہر وقت اسلام کی حدت کے لئے کمر بستہ رہیں انعامات کو حاصل کرنے کے لئے خود کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی تیار کریں غلبہ اسلام کا دن تو بہر حال آئے گا مگر اس کے لئے ہم کو قربانیاں دینی ہوں گی آج اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے وقت کا تقاضا ہے کہ غلبہ اسلام کے لئے اپنی کوششوں کو تیز تر کر دیں جو کچھ سیکھیں، اس پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی عمل کی تلقین کریں غلبہ اسلام کے عظیم منصوبہ کی کامیابی کے لئے دعاؤں کی بھی بہت ضرورت ہے 26.03.1981 جماعت کے ہر فرد کو عموماً اور ہر کارکن اور معلم اور مبلغ کو خصوصاً اپنا محاسبہ کرنا چاہیے 22.05.1981 جماعت احمدیہ کی زندگی کی ایک بنیادی حقیقت 149 اگر سائنسی ترقی کا ساتھ نہ دیا تو ہم اپنے فرائض سے پہلو تہی کرنے کے مجرم ہوں گے ہر احمدی اپنے مقام کو پہچانے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے ہماری عید اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار رحمتیں کیس 150 151 152 153 154 155 156 157 158 اسلام کی فتح کے لئے بھر پور جد و جہد کرتے رہو جب تک ہر فرد اسلامی تعلیم کا نمونہ نہیں بنتا، وہ دوسرے کومتاثر نہیں کر سکتا غلبہ اسلام کے لئے ہر شعبہ زندگی میں اقوام عالم پر بالا دستی ضروری ہے تعلیمی منصوبہ جاری کرنے کا مقصد جماعت احمد یہ اللہ تعالی کے شکر گزار بندوں پر مشتمل ہے ہماری ساری کوششیں ، سارے منصوبے قیام تو حید کے لئے وقف ہیں اللہ تعالی کے حضور گڑگڑائیں کہ وہ دنیا کو شیطان کے چنگل سے جلد نجات دے 159 صد سالہ جو بلی فنڈ کے اس مرحلہ میں پچھلے تمام مراحل سے زیادہ ادائیگی ہونی چاہئے 160 161 میری مانو اور خدا کے دامن سے چمٹ جاؤ اور اسے بالکل نہ چھوڑو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے کندھوں پر تنظیم ذمہ داری ہے 811 02.01.1981 815 817 819 821 823 829 831 833 835 845 12.06.1981 847 849 853 02.08.1981 855 857 859 23.10.1981 875 26.10.1981 877 30.10.1981 883 885 887 889 13.11.1981 891 - vii
893 895 27.12.1981 899 27.12.1981 911 915 03.04.1981 923 04.04.1981 925 05.04.1981 آپ اس آخری زمانہ میں اسلام کے محافظ اور اس کے نور کو پھیلانے والے ہیں ہر چیز کو بھول کر اپنے دین کو غالب کرنے کی مہم میں اپنی زندگیاں وقف کر دو احمدیت لوگوں کے ذہنوں میں بڑا خوشگوار انقلاب پیدا کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین رکھیں اور قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں خدا کے منصوبوں کو کسی کا تعصب یا کمزوری یا بے پرواہی نا کام نہیں کر سکتی ہے اہل یورپ کو پیغام حق پہنچانے کا ایک طریق صد سالہ حد یہ جو بلی تعلیمی منصوبہ اور اس کی افادیت $1982 اجتماعی زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ جانے والوں کی قائمقام نسل پیدا ہو 22.01.1982 غلبہ اسلام کی مہم کو کامیاب بنانے میں اپنی مساعی کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں اسلام کی ترقی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہنا چاہئے جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ قرآن کریم کی صحیح تفسیر دنیا کے ہاتھ میں پہنچائے غلبہ اسلام کی مہم آپ سے مالی جہاد کا بھی مطالبہ کرتی ہے اقوام عالم کو تنبیہ اور جماعت کو دعا کی ہدایت حال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے جو مخلص واقف زندگی ہے، اس کو دنیا کی کوئی پرواہ نہیں انسان کو ہلاکت کے گڑھے سے بچانے والا باز و جماعت احمد یہ ہے اشاریہ آیات قرآنیہ احادیث مبارکہ 931 935 937 939 19.02.1982 945 947 16.04.1982 949 26.03.1982 953 27.03.1982 957 28.03.1982 965 969 971 1007 1013 1021 کلید مضامین اسماء مقامات کتابیات 162 163 164 165 166 167 168 169 170 171 172 173 174 175 176 177 178 179 180 181 182 183 viii
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 نومبر 1973ء ساری دنیا پر جماعت احمدیہ کی پہلی روحانی یلغار تحریک جدید کے ذریعہ ہوئی خطبہ جمعہ فرمودہ 09 نومبر 1973ء مندرجہ ذیل خطبہ جمعہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چہارم میں شامل ہونے سے رہ گیا تھا، اس لئے اسے جلد پنجم کے شروع میں درج کیا جارہا ہے.مرتب ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے جمعہ، ہفتہ اور اتوار کومجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع تھا.اس کے معابعد دوران سر کا بڑا شدید حملہ ہوا، جس کا اثر ابھی تک باقی ہے.اس وقت میں تحریک جدید کے چالیسویں سال کا اعلان کروں گا.تحریک جدید جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے.تحریک جدید کی ابتداء سے قبل اگر چہ احمدیت دنیا کے ملک ملک میں پہنچ چکی تھی اور قریبا ہر ملک میں دو ایک خاندان احمدیت کی طرف منسوب ہونے والے تھے لیکن منتظم طور پر اس وقت کے ہندوستان سے باہر بھی کام نہیں شروع ہوا تھا.اگر چہ جماعت اپنے مرکز اور اس ملک میں جہاں جماعت کا مرکز تھا، مضبوط ہو رہی تھی اور پھیل رہی تھی اور وسعت اختیار کر رہی تھی اور طاقت پکڑ رہی تھی.لیکن اپنے مرکز کے ملک سے باہر منظم اور وسیع اور مؤثر اور کامیاب کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا.پھر ”تحریک“ کی ابتدا ء1934ء میں ہوئی تو جس طرح کوئی طاقت اپنی حدود میں سمانہ سکے اور پھر وہ زور لگا کر باہر نکلے اور پھیلے، اس طرح جماعت احمدیہ کی طاقت، جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لئے قائم کیا تھا، ملک ہند میں سمانہ سکی.پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ وہ ملک ہند سے باہر نکلی اور بڑے زور اور جذبہ اور قربانیوں کے ساتھ جماعت نے بیرون ہند غلبہ اسلام کی مہم کی کامیاب اور شاندار ابتداء کی.ہماری جماعتیں، جو بڑی کثرت سے نائجیریا میں باغان یا سیرالیون میں پائی جاتی ہیں یا مشرقی افریقہ کے بہت سے ممالک میں ہیں یا یورپ کی مساجد یا وہاں کے مشن ہاؤسز (Mission Houses) اور یورپ میں جو لمبے عرصہ سے ایک کام ہو رہا ہے، یہ بھی تحریک جدید کا کام ہے.صرف ایک مہ 1
خطبہ جمعہ فرموده 09 نومبر 1973ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم انگلستان میں اس سے پہلے بنی تھی.لیکن وہ بھی انگلستان میں تبلیغ کی ابتداء تھی.اور انسان کی تدبیر پر اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آتی ہے اور انسان کے منصوبوں پر اللہ تعالیٰ کا منصوبہ حاوی ہوتا ہے.ہمیں اسلام کو غالب کرنے کے لئے تدبیر کرنے اور منصوبے بنانے کا حکم ہے.لیکن ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ ہم جس رنگ میں کوئی تدبیر یا منصوبہ بناتے ہیں، اللہ تعالی اس سے مختلف رنگ میں کامیابی بخشتا ہے اور اس کے اثر کو بڑی شدت کے ساتھ ایک دوسری شکل میں دنیا بھر میں قائم کرتا ہے.انگلستان میں اگر چہ مسجد اور مبلغ کا مکان یا مشن ہاؤس جو خریدا گیا تھا، وہ تحریک سے پہلے بن گیا تھا.قریباً دس سال پہلے اس کی ابتداء ہوگئی تھی.پھر کچھ وقت اس کو بنے میں لگا.لیکن منصوبہ پہلے تیار ہو چکا تھا اور آہستہ آہستہ کام ہو رہا تھا.اور زیادہ تر کام یہ ہورہاتھا کہ وہ لوگ جو اسلام کے متعلق غلط فہمیوں میں اس وجہ سے مبتلا تھے کہ ان تک خبریں پہنچانے والے متعصب جان بوجھ کر غلط باتیں اسلام کے ماضی اور اس کی انفرادیت کے متعلق اور اسلام کی عظمت کو گرا کر ایک پستی کی شکل میں پادری لوگ اس دنیا میں ، جس کا میں ذکر کر رہا ہوں ( یعنی یورپ میں پیش کر رہے تھے.پھر اس محاذ پر یعنی خیالات میں تبدیلی پیدا کرنے کے محاذ پر ایک جنگ لڑی گئی اور کافی حد تک کامیابی کے ساتھ وہ اپنے آخری دور میں پہنچ رہی ہے.ایک متوازی حرکت - تھی.ایک طرف انسان کی ، اس انسان کی ، جو مہدی معہود پر ایمان لا کر خدا تعالیٰ کا فدائی بن چکا تھا.ایک مہم تھی، جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ فرمایا ہے.وہ یہ تھی کہ وہ بنیا دی چیزیں، جو اسلام کے مقابلہ میں غلط ہیں لیکن کھڑی کی جاتی ہیں، ان کی وجہ سے اسلام کی راہ میں مشکلات ہیں، ان کو مٹادیں.مثلاً جہاں تک عیسائی دنیا کا تعلق ہے اور یہ بہت وسیع دنیا ہے، تثلیث کا مسئلہ، کفارہ کا عقیدہ اور مسیح علیہ السلام کی غلو والی محبت.یہ تین چیزیں بنیادی طور پر اسلام کے راستہ میں روک تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی تقدیران روکوں کو دور کرے گی.چنانچہ اب بہت جگہ آپ کو عجیب نظارہ نظر آئے گا یا ماحول آپ دیکھیں گے کہ کیتھولک سے اگر آپ بات کریں تو وہ کہتے ہیں، ہم تو خدائے واحد کو ماننے والے ہیں اور ایک سے زائد خدا پر ایمان نہیں رکھتے.تمہارا سارا ماضی تثلیث اور اس کی حمایت کے لئے تحریر و تقریر سے بھرا پڑا ہے ، تمہاری آواز میں فضا میں ابھی تک گونج رہی ہیں، آج تم انکار کرتے ہو؟ یہ تبدیلی اس عرصہ میں ہوئی ہے، جس کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتوں کو نازل کر کے حالات کو بدلے گا.کفارہ کے مسئلہ کا نام آج تمسخر کے لئے تو لیا جا سکتا ہے.وہ خود کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے اور نا معلوم کن لوگوں نے کس خیال کے له 2
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم.خطبہ جمعہ فرمودہ 09 نومبر 1973ء ماتحت ایسا مسئلہ گھڑا تھا؟ ہم تو اسے نہیں مانتے.اور جہاں تک مسیح علیہ السلام کی محبت کا سوال ہے، وہ تو دلوں سے اس طرح مٹی کہ ہمارے لئے دکھ کا باعث بن گئی.اس دورہ میں ایک جگہ میں نے کھل کر ( اور ویسے عام طور پر باتوں باتوں میں ) اس کا ذکر کیا اور پریس کانفرنس میں مجھے کہنا پڑا، میں نے کہا، دیکھو! ہم مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یا خدا نہیں مانتے لیکن ہم مسیح علیہ السلام کو خدا کا ایک برگزیدہ رسول مانتے ہیں.ان کی رسالت پر جیسا کہ باقی تمام انبیاء کی رسالت پر ایک مسلمان کا ایمان لانا ضروری ہے، ہم ایمان لاتے ہیں.لیکن ہم حیران ہیں کہ تم جو بڑی شدت کے ساتھ اور غلو کے ساتھ ان کے پیار کا دعویٰ کرتے ہو، تمہارے پیار کا یہ نتیجہ ہے کہ ایک بشپ صاحب نے چرچ کے اندر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ ساری عمر کی تحقیق جو میں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کے متعلق کی ، اس کا نتیجہ میں یہ نکالتا ہوں کہ میں نے کہا یہ تمہاری محبت کا تقاضا ہے.سووہ غلوتو ٹوٹ چکا.ہم نے نہیں تو ڑا، نہ ہم اس حد تک تو ڑ سکتے تھے.کیونکہ ہم تو مسیح علیہ السلام کو خدا کا ایک برگزیدہ نبی مانتے ہیں.لیکن ان کے دلوں کو جھنجوڑا گیا اور وہ صداقت پر قائم رہنے کی بجائے چھلانگ لگا کر دوسری طرف چلے گئے.اور پہلے ایک انتہا پر تھے، اب دوسری انتہاء پر پہنچ گئے.صراط مستقیم نہ پہلے ان کے پاس تھا، نہ بعد میں رہا.لیکن شکل بدل گئی.اور یہ ہمیں پہلے سے بتایا گیا تھا.پس یہ متوازی حرکتیں تھیں، ایک جماعت احمدیہ کے مخلصین کی ، خدا کی راہ میں جدو جہد اور مجاہدہ، جو خیالات میں تبدیلی پیدا کر رہا تھا، لٹریچر تقسیم کر کے، صداقت ان کے سامنے رکھ کر، تقریر سے، گفتگو سے تحریر سے، اخبارات میں مضمون شائع کرنے سے.اور پہلے بھی میں نے بتایا، مثلاً اس مرتبہ میں نے جو اسلام کی تعلیم کا رخ اور پہلوان کے سامنے رکھا.اسلام کی تعلیم تو بڑی وسیع ہے، اس کی تفاصیل گھنٹے یا دو گھنٹے کی پریس کانفرنس میں تو نہیں بتائی جاسکتیں.بعض پہلوؤں کا انتخاب کر کے ان کو قائل کرنے کے لئے بتانے پڑتے ہیں.تو کسی ایک شخص نے کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں کہا کہ جو باتیں آپ ہم سے کر رہے ہیں اور اسلام کا یہ پہلو جو آپ ہمارے سامنے رکھ رہے ہیں، ہم اس سے اختلاف کرتے ہیں اور اسے ماننے کے لئے تیار نہیں.بلکہ ہر جگہ ان کے سر اقرار میں ہے.جیسا کہ میں نے کہا، ایک دو افراد نے مجھے سے یہ سوال کیا کہ آپ جو باتیں ہمیں بتا رہے ہیں، یہ بہت اچھی ہیں اور اس کی تعلیم بہت ہی اچھی ہے اور حسین ہے.لیکن ہمارے عوام تک پہنچانے کے لئے آپ نے اس کا کیا انتظام کیا ہے؟ تحریک جدید نے پڑھے لکھے لوگوں کے خیالات میں جو کہ اسلام کے خلاف فضا کو خراب کرنے والے تھے، تبدیلی پیدا کی.3
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 نومبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم لیکن ابھی عوام تک پہنچنے کا وقت نہیں آیا تھا.اس لئے ایسا سوال کیا گیا.جس کا جواب یہی تھا کہ تمہار.عوام تک پہنچنے کی بھی کوشش کریں گے.بہر حال ساری دنیا پر روحانی یلغار پہلی مرتبہ خدا تعالیٰ کے محبوب مہدی علیہ السلام کی جماعت نے جو کی ، وہ تحریک جدید کے ذریعہ ہوئی.اور جس طرح ایک بہادر اور شجاع اور نڈر اور ایک جانثار فوج کی صفیں بے دھڑک دشمن کے علاقہ میں گھستی چلی جاتی ہیں، اسی طرح ہمارے مبلغین دنیا کے ملک ملک میں جہاں بھی انہیں بھیجا گیا، وہاں چلے گئے.اور کوئی پرواہ نہیں کی کہ وہاں کے حالات کیا ہیں اور ہمیں کیا تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی؟ اور ایک لمبی جدو جہد کے بعد، جس کی ابتداء قریباً چالیس سال پہلے ہوئی ، یہ ہماری زندگیوں کے لحاظ سے بڑی لمبی جد و جہد ہے، اجتماعی اور قومی اور جماعتی زندگی میں تو یہ چالیس سال کا زمانہ ایسا لمبازمانہ نہیں.لیکن انفرادی طور پر ایک نسل کی زندگی میں بڑا زمانہ ہے.اتنی جدو جہد کے بعد ملک ملک میں انہوں نے اپنے مقام ہدایت اور روشنی کے مینار کھڑے کئے اور کام کیا.اور صف اول کا کام کیا.اور پہلی صف میں جو خلا پیدا ہو جاتا ہے، اس کو پر کرنے کے لئے ہمارے مبلغین جاتے ہیں.ان کو وہ تکلیف تو برداشت کرنا نہیں پڑتی.ہمارے نذیر احمد علی صاحب شہید اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بہت بلند کرے.سیرالیون میں مدفون ہیں.جب وہ پہلی مرتبہ بھیجے گئے.وہ خدا کا ایک دلیر سپاہی تھا.مجھے افریقیوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے یہ کرنا شروع کیا کہ کتابوں کی گٹھڑی کچھ اپنے سر پر کچھ کسی دوسرے کے سر پر رکھ کر ایک گاؤں میں گئے، وہاں کے لوگوں نے کہا، ہم تمہیں ماریں گے، نکل جاؤ یہاں سے ! انہوں نے جواب دیا ٹھیک ہے، میں لڑنے نہیں آیا، میں تو ایک صداقت تمہارے سامنے رکھنے آیا ہوں.تمہیں پسند نہیں تو میں چلا جاتا ہوں.پھر اگلے گاؤں میں گئے ، پھر وہاں سے بھی نکالے گئے.یہاں تک کہ دو چار گاؤں کے بعد پھر کسی شریف آدمی نے کہا کہ کہاں مارے مارے پھرو گے، تمہیں پناہ دے دیتا ہوں.پھر وہاں انہوں نے قیام کیا اور انہیں باتیں بتا ئیں.سچی باتیں دل پر اثر کرتی ہیں.اس طرح انہوں نے تبلیغ کی.اب جو ہمارا نوجوان سیرالیون میں جاتا ہے، جہاں ان کی قبر ہے تو وہ ایک بنے بنائے مضبوط قلعے میں جاتا ہے، اس کو تو کوئی تکلیف نہیں.اس کو سر کے اوپر کتابوں کا بنڈل رکھ کر نہیں گھومنا پڑتا.پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں زیادہ تکلیف ہے.ان کے مقابلہ میں تمہیں زیادہ تکلیف کیسے ہوگئی ؟ بہر حال صف اول کی تحریک جدید کو بیرون مرکز تبلیغ کی ابتداء کرنے اور کامیاب کرنے کی خصوصیت حاصل ہے.ایک صف نکلی تھی، جو علاقوں میں پھیل گئی.اب ہماری دوسری صفیں مثلاً نصرت 4
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 09 نومبر 1973ء جہاں کی سکیم کے ماتحت کنسولی ڈیشن (Consolidation) یعنی ان پہلی صفوں کو استحکام بخش رہی ہیں ، جن علاقوں میں انہوں نے احمدیت قائم کی.احمدیت کے اثر ورسوخ کو مستحکم اور زیادہ کرنے کے لئے اور پھر ان مبلغین کو اس معنی میں امداد کرنے کے لئے کہ لوگ زیادہ توجہ کریں اور صحیح اسلام کو سیکھنے کی کوشش کریں.اس کے لئے ہم کثرت کے ساتھ اب استاد اور ڈاکٹر بھیج رہے ہیں اور وہاں سکول کھولے گئے ہیں.ایک نیا سکول کھلا ہے.پرسوں مجھے ایک خط آیا ہے کہ پرانے سکولوں سے سرٹیفکیٹ لے کر ہماری طرف آ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.بہر حال اس وقت جہاں تک غلبۂ اسلام کی مہم کا سوال تھا، شکل تو بدل گئی ہے لیکن یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ پہلی صف جو دنیا پر اسلام کے غلبہ کے لئے روحانی ہتھیار لے کر روحانی اسلحہ کے ساتھ جو آگے بڑھے اور انہوں نے یلغار کی ، وہ تحریک جدید اور بعض لحاظ سے اس کی صف اوّل ہے.یہ کام بڑا اہم تھا اور شاندار نتائج کا حامل بنا.اور اپنے ان بھائیوں کے لئے جو اس میں شامل ہوئے اور جنہوں نے ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے ملک ملک میں جا کر خدا کے نام کو بلند کیا اور اس کی تو حید کو قائم کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیار دلوں میں بٹھایا، یہ صف اوّل، تحریک جدید کی صف ہے.تحریک جدید کے قیام سے پہلے اس طرح کی کوئی مہم نہیں تھی.اور تحریک جدید کے قیام کے بعد اور بہت سی صفیں پیدا ہو گئیں اور آئندہ بھی ہوں گی.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا، نصرت جہاں سیکیم، جس کا کام ابھی تک مستحکم کرنا تھا، یعنی تحریک جدید کی صف اول نے جن علاقوں کو خدا کے نام پر اسلام کے لئے فتح کیا تھا، ان علاقوں میں اسلامی تعلیم کی مد د معاون ہونے کے لئے ایک سکیم چلائی گئی ہے اور اس کی اپنی برکتیں ہیں اور اس کے اپنے نتائج ہیں.اس کے بعد دوسری صفیں آئیں گی اور ان صفوں میں سے نکل کر آگے گذر جائیں گی.جیسا کہ دنیا کا طریق ہے.جیسا کہ قانون قدرت ہے کہ ہر ابر کے بعد ایک دوسری بہر آتی ہے، جو اس پانی کو آگے لے کر جا رہی ہوتی ہے.جس طرح مادی پانی کو سمندر کی لہریں یکے بعد دیگرے اس کے مد کے وقت آگے ہی آگے پہنچاتی ہیں، اسی طرح اس روحانی پانی کی پہلی لہر، جس نے ظلمات کے کناروں پر یلغار کی اور آگے بڑھی، وہ تحریک جدید ہے، وہ صف اول ہے، وہ پوانیئر (Poinear) یعنی ہر اول دستے ہیں، وہ ہم میں سے پہلے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین اور احسن جزا دے، جنہوں نے غلبہ اسلام کی ایسی مہم میں پہل کی اور دنیا میں نکلے اور علاقوں کو خدا اور اس کے رسول کے لئے فتح کیا.5
خطبہ جمعہ فرموده 09 نومبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اب یہ ایک دوسری لہر آئی ہے، جو استحکام کا کام کر رہی ہے.اور آگے بڑھنے کے لئے حالات پیدا کر رہی ہے.پھر ایک اور صف پیچھے سے آئے گی، جو ان صفوں سے آگے نکل جائے گی.یہاں تک کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آجائے گا اور خدا تعالیٰ کا وعدہ اپنی پوری شان اور کامل عروج کے ساتھ پورا ہوگا.اور ہمارے دل ، جن کی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ یہ حالات پیدا کرے گا ، خدا کی حمد سے اور خدا کی پیدا کردہ خوشیوں سے معمور ہو جائیں گے.بہر حال تحریک جدید کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی.نہ ان کو بھلایا جا سکتا ہے، جنہوں نے ان مشکلات کے وقت میں دنیا میں مہدی کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کے لئے باہر نکل کر تکالیف برداشت کیں اور اسلام کے لئے کام کیا.یہ کام ختم نہیں ہوا.یعنی تحریک جدید کا حملہ ایک جگہ تک گیا.پھر اور صنفیں تیار ہورہی ہیں، مبلغ تیار ہورہے ہیں، کتابیں طبع ہو رہی ہیں، وہ بھی جائیں گے.جماعت میں وسعت پیدا ہورہی ہے.کسی اور نام کے ساتھ بھی لوگ باہر جائیں گے لیکن تحریک جدید کا نام ہماری تاریخ سے محو نہیں کیا جاسکتا، اسے قیامت تک چلنا ہے اور اسے کامیاب رکھنے کے لئے جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے، بہر حال اللہ تعالٰی کی رحمت اور اس کے فضل سے ہم نے ان قربانیوں کو اس کے حضور پیش کرنا ہے.تحریک جدید کی اہمیت کے ایک پہلو کو نمایاں کر کے میں نے اس وقت آپ کے سامنے رکھا ہے.انتالیس سال گزر چکے ہیں اور قیامت تک خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے، کتنے سال اور گذریں گے.ہر سال ہم نے پہلے سے آگے قدم رکھنا ہے.ہر سال ہمارے کام میں وسعت اور شدت پیدا ہوگی.اور ہر سال جماعت کی وسعت کے ساتھ جماعت کی قربانیوں میں بھی ایک وسعت پیدا ہوگی.اس وقت میں چالیسویں سال کا اعلان کر رہا ہوں.اس سے قبل چونتیسویں سال سے لے کر انتالیسویں سال کے وعدوں کی رفتار یہ ہے، تحریک جدید کے چونتیسویں سال میں پانچ لاکھ، پچاس ہزار روپے کے وعدے تھے.پینتیسویں سال میں چھ لاکھ، میں ہزار کے وعدے تھے.چھتیسویں سال میں چھ لاکھ، پینسٹھ ہزار روپے کے وعدے تھے.سینتیسویں سال میں ملک کے حالات کے لحاظ سے ایک جھٹکا لگا.گو ہمارا قدم پیچھے تو نہیں ہٹا لیکن وعدوں میں کمی آگئی.اور اس سال چھ لاکھ، اڑتیس ہزار روپے کے وعدے تھے اور پھر جماعت نے سنبھالا لیا اور ظاہری طور پر بھی پیچھے تو جماعت کبھی نہیں ہٹی ، نہ ایک جگہ ٹھہری ہے لیکن ملک کے حالات کی وجہ سے، جس کی تفصیل میں اس وقت جانا مشکل ہے، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وعدے کم ہیں.لیکن عملاً کم نہیں.اڑتیسویں سال میں چھ لاکھ پچھتر ہزار روپے کے وعدے اور انتالیسویں سال میں 6
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 نومبر 1973ء سات لاکھ، دس ہزار روپے کے وعدے تھے.اور اگر آپ کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ میری دعائیں قبول فرمائے تو میں نے جو سات لاکھ نوے ہزار روپے کا نشانہ مقرر کیا ہے، اس سال وہ آپ پورا کر دیں.وہ میں نے آپ کے سامنے ایک آئیڈیل (Ideal) ( مثالی) چیز رکھی ہے.اس سال سات لاکھ نوے ہزار روپے کے وعدے ضرور آجانے چاہئیں.وعدوں کے لحاظ سے آمد قریباً ہر سال ہی زیادہ ہوتی ہے.اس واسطے اس کی تفصیل میں میں نہیں جاتا.آپ سات لاکھ نوے ہزار کے وعدے کریں اور اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے گا ، اس سے زیادہ قربانیاں اس کے حضور پیش کرنے کی.وعدے پیش کرنے اور دفتر میں ریکارڈ کروانے کی آخری تاریخ (۳۱ فتح هش ۱۳۵۲) 31 دسمبر 1973ء ہے.اسے نہ افراد بھولیں، نہ جماعتیں اسے نظر انداز کریں.اور 31 دسمبر تک چالیسویں سال کے وعدے سات لاکھ نوے ہزار تک پہنچائیں.سات لاکھ، دس ہزار کے مقابلہ میں اسی ہزار کا اضافہ کوئی مشکل امر نہیں ہے.ہمت کریں اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے گا.بعض نے وعدے پیش کر دیئے ہیں.غالباً بعض جماعتوں کی طرف سے بھی آگئے ہیں.ہماری آپا صدیقہ صاحبہ (جنہیں آپ ام متین کہتے ہیں.) انہوں نے ابھی مجھے اپنا وعدہ بڑھا کر اور عزیزہ امتہ العلیم صاحبہ ( بنت صاحبزادہ مرز اوسیم احمد صاحب) کا وعدہ یہاں آتے ہوئے دیا تھا اور بھی بہت سے وعدے ہو جائیں گے.لیکن دسمبر کے آخر تک پورے کے پورے وعدے آجانے چاہئیں.ہمارا وعدوں کا سال نومبر کے اوائل سے شروع ہوتا ہے اور ہماری ادائیگیوں کا سال اپریل کے آخر میں ختم ہوتا ہے.یہ جو بیچ کا زمانہ ہے، اس میں سب وعدے آتے ہیں اور کچھ ادائیگیاں بعض لوگ ہمت کر کے کر دیتے ہیں.یا جنہوں نے اپنا معمول یہ بنالیا ہے کہ اس عرصہ میں پہلے دے دیں گے.اور بعض کا معمول ویسے ہی کسی وجہ سے شروع سے یہ بن گیا کہ وہ ادائیگیاں یکم مئی کے بعد کریں گے.بے خیالی میں انہوں نے اپنا معمول یہ بنالیا ہے.اور پھر ایک سال میں دو سال کے وعدے تو نہیں دے سکتے.اس لئے ان کا وہی معمول چل رہا ہے.بعض لوگ پہلے ہی دے دیتے ہیں.بہر حال تحریک جدید کا سال نومبر کے شروع میں شروع ہوتا ہے اور اسی کے چالیسویں سال کی ابتدا کا میں اعلان کرتا ہوں.اس اعلان کے ساتھ کہ وعدے 31 دسمبر تک سات لاکھ نوے ہزار ہو جانے چاہئیں.اور اس امید کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ کہ سال رواں کے جو وعدے سات لاکھ ، دس ہزار روپے کے ہیں ، جماعت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے اس سے زیادہ رقم اس سال کے تحریک جدید کے چندوں میں اپریل کے آخر تک ادا کر دے گا.اور پھر دوسرا ابھی یہ کچھ عرصہ ہے، جس میں کھتائی کے لحاظ سے دونوں سال اکٹھے چلتے ہیں.7
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 نومبر 1973ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے، کچھ اور صفیں تیار کی گئیں اور کچھ اور قربانیاں دینے والے آگے آئے اور تحریک جدید کے ان علاقوں میں جن پر تحریک جدید کی پہلی صف نے روحانی طور پر قبضہ کیا.جسمانی اور مادی اور ظاہری سیاست میں احمدی کو کوئی دلچسپی نہیں.اس لئے جب ہم ایسے الفاظ بیان کرتے ہیں یا ایسی اصطلاحیں ہماری زبان پر آتی ہیں تو صرف روحانی طور پر مراد ہوتی ہے.پس روحانی طور پر بعض علاقوں پر تحریک جدید کی پہلی صفوں نے قبضہ کیا اور انہیں مستحکم کرنا شروع کیا اور نصرت جہاں آگے بڑھوں کے منصوبہ کے ماتحت اس میں اور استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی.اور بعض نئی جگہوں پر اس ہتھیار کے ساتھ جو خدمت کا زبردست ہتھیار ہے، اس کے ذریعہ سے فضا کو سازگار کرنے کی مستقل طور پر کوششیں کی جارہی ہیں.اور تحریک جدید نے اور بھی بہت سے کام کرنے ہیں.زمانہ کے حالات جب سے آدم پیدا ہوئے بدل رہے ہیں.ہمارے ملک میں ایک وقت میں زرمبادلہ کی کوئی کمی نہ تھی، جتنی ہمیں ضرورت ہوتی تھی ، ہم باہر خرچ کر سکتے تھے.پھر اللہ تعالیٰ کے علم میں تو تھا کہ اس قسم کی ایک دقت پیدا ہونے والی ہے.اتنی دقت پیدا ہوئی کہ اب ہمیں اپنے ملک سے کوئی زرمبادلہ باہر بھجوانے کے لئے نہیں ملتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے بیرون پاکستان جماعت کو اتنا استحکام بخشا ہے کہ بیرون پاکستان کی جماعتیں بیرون پاکستان اپنے تمام اخراجات پورے کرنے کے بعد اپنے ریزرو (Reserve) (اندوختے ) بنا رہی ہیں.حالانکہ 1944ء سے پہلے ایک دھیلہ بھی ان کی کھائی میں نہیں آیا تھا.اتنا عظیم انقلاب 1944ء سے 1973ء کے درمیان ہو گیا ہے.زمانہ میں تبدیلی کے ساتھ ہماری سوچ اور فکر کا انداز بھی بدلتا ہے اور اللہ تعالیٰ نئی را ہیں ہمارے لئے کھولتا ہے اور مختلف نئے دروازے ہمارے لئے پیدا کرتا ہے.اخلاص کی نئی بارشیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں اور احمدی کے سینہ و دل کو معمور کر دیتی ہیں اور وہ قربانی دیتا ہے.باہر کی جماعتیں اتنی قربانی دینے لگی ہیں کہ بعض دفعہ یہ شک ہوتا ہے کہ کہیں قربانیوں میں وہ مرکز کی جماعتوں سے آگے نہ نکل جائیں.پھر جتنی وسعت ملک سے باہر پیدا ہوگی ، اسی نسبت سے اس سے کہیں زیادہ وسعت اور استحکام اور مضبوطی اور بنیادوں میں پھیلاؤ ہمارے ملک میں مرکز میں ہونا چاہیے، اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سامان پیدا کرتا ہے.اس کے لئے بھی آپ قربانیاں دیں اور میں تو اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے والا نمبر ایک ہوں.ہم اس کی راہ میں قربانیاں دیں گے.8
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 نومبر 1973ء کیونکہ ایک فرض انفرادی ہوتا ہے اور ایک عہدہ کے لحاظ سے فرض ہوتا ہے.ہر احمدی پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں.لیکن احمدی عہدیداروں پر اپنی ذمہ داریاں ہیں.عہدے کے لحاظ سے وہ ہرفرد جماعت کی ذمہ داریوں سے مختلف ہیں.وہ بھی ایک ذمہ داری ہے اور جو امام اور خلیفہ وقت ہوگا.اس کی سب سے بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس شخص کا خلیفہ اور نائب ہے،جس کی زبان سے یہ کہلایا گیا ہے.أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ وہ اوّل ہونے کے لحاظ سے قربانیاں دینے میں بھی اول ہے.اور مجھ سے پہلوں نے بھی قربانیاں دیں اور ہم بھی ہر وقت تیار ہیں.جس قسم کی قربانی کی بھی ضرورت ہوگی، اس میں اول نمبر تمہارا امام ہوگا.ہم سائق نہیں، قائد ہیں.آگے جا کر آپ لوگوں کو پیچھے دوڑانے والے ہیں کہ آؤ خدا کی راہ میں یہ قربانیاں دیں.اور جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتی ہے.جس قسم کی بھی قربانیاں اللہ تعالیٰ ہمارے ملک میں یا دوسرے ملکوں میں لینا چاہتا ہے تو جماعت خدا کے فضل سے تربیت یافتہ ہے اور ایثار پیشہ ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں خلیفہ وقت اور امام وقت کی قیادت میں ہر قربانی دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہے.اور عملاً اس کے نمونے وہ پیش کر رہی ہے.جو مطالبہ کیا جاتا ہے، اسے پورا کر رہی ہے.تحریک جدید کی مہم کے لئے بھی غیر ممالک زرمبادلہ جمع کریں گے.ہم یہاں سے روپیہ نہیں دے سکتے.کتابیں بھجوا سکتے ہیں، مبلغ بھجوا سکتے ہیں، مبلغوں کے قیام پر خرچ کر سکتے ہیں لیکن زرمبادلہ کی شکل میں ہم باہر رقم نہیں بھجوا سکتے.اس وقت میں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرون پاکستان کی احمدی جماعتوں کو بھی اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے کم از کم دوشن ایسے ہیں، جہاں کی مسجد میں مرمت طلب ہیں.اور ان پر میرے اندازے کے مطابق دس ہزار پاؤنڈ کے قریب رقم (جو زیادہ نہیں ہے.) خرچ آئے گی.اس کا انہیں انتظام کرنا چاہیے.اس کے علاوہ ہمیں دونئی جگہ مساجد کی تعمیر اور مشن ہاؤسز (Mission Houses) کی تعمیر کرنا ہوگی.اور اس کے لئے بھی ہمیں ممکن ہے، ہیں ہزار یا شاید میں ہزار پاؤنڈ خرچ کرنا پڑیں گے.پس بیرون پاکستان کی احمدی جماعتوں کو ابھی سے اس ذمہ داری کو ساتھ اٹھانے کے لئے تیاری شروع کر دینی چاہیے.جہاں ہماری ضرورتیں اب سامنے آرہی ہیں، ان میں سے ایک ناروے ہے اور ایک سویڈن ہے.پھر اس کے بعد ان قریب قریب چار ممالک میں سے فن لینڈ رہ جائے گا، جہاں اس لئے ضرورت ہے کہ وہ اشتراکیت کے علاقوں کی سرحدوں پر ہے.اور وہاں مشن کا کھولا جانا بہت ضروری ہے.اور ممکن 9
خطبہ جمعہ فرموده 09 نومبر 1973ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ہے، یورپ کے بعض اور علاقے ہوں ، جہاں ہمیں مشن کھولنا پڑیں.اور جب وہ مشن کھلیں گے تو وہاں ان کے لئے لٹریچر ان زبانوں میں مہیا کرنا اور دوسرے ایسے اخراجات جو یہاں ہو سکتے ہیں، ان کا انتظام کرنا ، یہاں کی جماعتوں کا کام ہوگا.ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جماعت کے وہ نوجوان ، جن کو اللہ تعالیٰ نے زبان سیکھنے کا ملکہ عطا کیا ہو، وہ صرف اس حد تک اپنے آپ کو وقف کریں کہ مجھے اطلاع دیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے زبان سیکھنے کا ملکہ عطا کیا ہے اور ہم غیر زبان بڑی سہولت اور آسانی سے سیکھ سکتے ہیں.پھر ان میں سے انتخاب کر کے اور اللہ تعالیٰ جنہیں تو فیق عطا کرے، ان کو ٹرینینگ دلوا کر بہت سے ایسے نوجوان تیار کرنا پڑیں گے، جو دوسری زبانیں جانتے ہوں.خود اپنے ملک میں بھی ایسی سندھی جانے والے جو دقیق مذہبی اصطلاحات کا ترجمہ کر سکتے ہوں، ان کی ہمیں ضرورت ہے.ایسے پشتو بولنے والے، جو دقیق مذہبی اصطلاحات کا پشتو میں ترجمہ کر سکیں ، ان کی ضرورت ہے.فارسی جاننے والوں کی ضرورت ہے اور عربی کے لئے تو بہت کچھ سہولتیں ہمارے پاس ہیں.اتنی سہولت فارسی زبان کی نہیں.حالانکہ ہمارے لئے اول نمبر پر عربی زبان ہے، دوسرے نمبر پر اردو ہے اور تیسرے نمبر پر فارسی زبان ہے.فارسی بڑی اہم ہے.جماعت کے لئے اہم ترین تین زبانوں میں سے فارسی اس لئے بھی ہے کہ مہدی معہود، جن کے آنے کی پیشگوئی تھی اور جو آ چکے، ان کو فارس انسل کہا گیا تھا.اور دوسرے دنیا میں جو مسلمان خطے کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں.ان میں بہت بڑا علاقہ فارسی بولنے والوں کا ہے، جو روس کے اندر تک گیا ہوا ہے.اور دنیا میں تبلیغ کے لئے جو زبانیں ہمیں چاہئیں، ان میں سے پہلے محض انگریزی ہمارا کام کر دیتی تھی.اس لئے کہ دولت مشترکہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور انگریزی بولنے والے ملک ملک میں تھے.یہاں تک کہ یورپ کے وہ ممالک، جو دولت مشترکہ کا حصہ نہیں تھے بلکہ انگریزوں سے برسر پیکار رہتے تھے، وہ بھی اپنے بچوں کو انگریزی ضرور سکھاتے تھے.مثلاً جرمنی، اس کی دو مرتبہ انگریزوں سے لڑائی ہوئی لیکن دوسری جنگ سے معا پہلے جب میں آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا تو چھٹیوں میں ادھر ادھر پھرا کرتا تھا، مجھے کر یدکر پوچھنے کی عادت ہے.اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ جرمن سکولوں میں انگریزی ضرور پڑھائی جاتی ہے.وہاں دو قسم کے سکول ہیں، ایک سائنس کے اور ایک آرٹس کے.آرٹس کے سکولوں میں دوزبا نہیں جرمن زبان کے علاوہ ضرور پڑھائی جاتی ہیں.ان میں سے ایک انگریزی ہے، یعنی عام طور پر ان کا اتنی فیصد طالب علم انگریزی جانتا تھا.لیکن اب وہ حالت نہیں رہی.اب تو اتنا فرق پڑ گیا ہے کہ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ جرمن ملک میں 10
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 09 نومبر 1973ء اسی فیصد کی بجائے انگریزی جانے والے شاید 10 فیصد رہ گئے ہیں.اور یہاں تک کہ جرمنی میں فرینکفرٹ کے مقام پر میری پریس کانفرنس ہوئی اور زیورک (سوئٹزر لینڈ ، جہاں کا ایک بڑا حصہ جرمن زبان جانتا ہے.وہاں بھی ایک پریس کانفرنس ہوئی تو بہت سے پڑھے لکھے صحافی تھے، جن کو بس واجبی سے انگریزی آتی تھی.فرینکفرٹ میں ایک صحافیہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے لئے وضاحت کرتی تھی کہ میں یہ کہہ رہا ہوں.وہ بجھتی تھی کہ اس کے ساتھی جو میں کہہ رہا ہوں، وہ سمجھ نہیں رہے.پس پہلے جوا کیلی انگریزی زبان ہمارا کام کرتی تھی ، وہ اب نہیں کر رہی.اب ہمیں جرمنی میں تبلیغ کرنے کے لئے جرمن زبان کے ماہر اور فرانس میں تبلیغ کرنے کے لئے فرانسیسی زبان کے ماہر اور سپین میں تبلیغ کرنے کے لئے سپینش زبان کے ماہر اور ڈنمارک میں تبلیغ کے لئے ڈینیش زبان کے ماہر اور سویڈن میں تبلیغ کے لئے سویڈش زبان کے ماہر اور ناروے میں تبلیغ کے لئے نارویجئین زبان کے ماہر اور فن لینڈ میں تبلیغ کے لئے فینش زبان کے ماہر اور یوگوسلاویہ میں تبلیغ کے لئے یوگوسلاوین اور البانین (وہاں کی دو زبانیں ہیں ) ان کے ماہر اور اٹلی میں تبلیغ کے لئے اٹالین زبان کے ماہر چاہئیں.غرضیکہ ملک ملک کی زبان احمدیوں کو گروپ کے لحاظ سے آنی چاہیے.ایک گروپ ایسا ہو، جو اٹالین زبان سیکھ رہا ہو، ایک، جو فرانسیسی زبان سیکھ رہا ہو، وغیرہ وغیرہ.پھر افریقہ کی قبائلی زبانیں ہیں.وہ ان کی نیم قومی زبانیں ہیں.وہاں شاید ہی کوئی ملک ہو، جہاں کی قومی زبان کوئی ایک ہو.صرف سواحیلی زبان مشرقی افریقہ میں ہے، جو زبان بولی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے بعض ماہر اس زبان کے دے دیئے تھے.اور قرآن کریم کا ترجمہ ہو گیا.ہمارے یہاں خود پاکستان میں سندھی میں تفسیر صغیر کا ترجمہ نہیں ہوسکا.اب میں نے ایک دوست کو لگایا ہے.ان کو میں نے تاکید کی ہے کہ ایک سال کے اندراندر مجھے دس پاروں کا ترجمہ دو تا کہ پہلی جلد ہم سندھی میں شائع کر سکیں.اور پھر اس کے بعد ہر سال ایک ایک جلد شائع ہو.اور تین سال بعد ی مکمل ہو جائے.پھر اکٹھا شائع کریں، پھر اس کے اوپر تنقید ہوگی ، تبصرے ہوں گے.کچھ غلط تبصرے ہوں گے اور کچھ صحیح.اس کے نتیجہ میں اگر زبان کا کوئی محاورہ غلط استعمال ہو گیا ہو تو اس کی تصحیح کرنی پڑے گی.لیکن اب سندھی میں بھی گجراتی زبان، جو بمبئی وغیرہ میں بولی جاتی ہے اور سندھ یہ کسی زمانہ میں ایک ہی یہ رہا ہے.کراچی میں اور حیدر آباد میں اور سندھ کے مختلف علاقوں میں نیز دوسرے بہت سے مہ گجراتی بولنے والے ہیں.اور مطالبہ تو بہر حال میرے پاس آنا ہے ، وہ آ جاتا ہے کہ ہم نے فلاں جگہ تبلیغ کی، وہ کہتے ہیں کہ گجراتی زبان میں لٹریچر دو.اب اگر آپ گجراتی نہیں پڑھیں گے اور اس کے ماہر نہیں بنیں گے تو میں گجراتی زبان میں کہاں سے لٹریچر مہیا کروں گا ؟ مسلمان 11
خطبه جمعه فرمود 09 نومبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم بہر حال یہ کام تو انسان نے کرنا ہے، آسمان سے فرشتوں نے آکر زبانوں میں تراجم نہیں کرنے.یہ ہماری ذمہ داری ہے.ان تراجم کے نتیجہ میں دنیا میں اثر پیدا کرنا، یہ فرشتوں کی ذمہ داری ہے.لیکن تراجم کرنا، یہ ہماری ذمہ داری ہے.کام بٹا ہوا ہے تقسیم کار ہے.جو ہمارا کام ہے، وہ ہم نے کرنا ہے، کسی اور نے نہیں کرنا.ملائکہ نے بھی نہیں کرنا.جو ملائکہ کا کام ہے، وہ ہم کر ہی نہیں سکتے.ڈاکٹر بھیجنا، ہمارا کام تھا، وہ ہم نے بھیج دیئے.نسخہ لکھنا، ڈاکٹر کا کام تھا، وہ نسخہ لکھ دیتا ہے ، شفاد دینا، اللہ تعالیٰ کا کام ہے.آسمانوں سے فرشتے آئے اور انہوں نے ہمارے ان ڈاکٹروں کے ہاتھ میں، جو نصرت جہاں سیکیم کے ماتحت باہر گئے تھے، شفا رکھ دی اور ان کے علاج میں برکت ڈالی.اور ان کا اثر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور مریض ان کی طرف کھنچے چلے آئے اور تبلیغ کے مواقع پیدا ہو گئے.پس جو ہمارا کام ہے، وہ ہم نے خود کرنا ہے.جو فرشتوں کا کام ہے، وہ وہی کریں گے.کیونکہ ان کے متعلق تو کہا گیا ہے کہ وہ انکار کر ہی نہیں سکتے.يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُونَ (النحل: 51) جو حکم ہو، اس کی پابندی کرتے ہیں.انسان کو یہ آزادی دی ہے، کبھی وہ بغاوت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھے.کبھی وہ غفلت اور ستی برتا ہے.انسان اللہ تعالی کی پناہ میں رہے.لیکن بہر حال اپنے کام ہم نے کرنے ہیں کسی اور نے آکے نہیں کرنے.پس اس کے لئے تیار رہنا چاہیئے.اور پھر اہل ربوہ کو میں مختصراً کہتا ہوں کہ جلسہ آ رہا ہے.جلسہ کے لئے تیاری کرو.ربوہ کو صاف ستھرا بنا کے اور اپنے چہروں کو پہلے سے بھی زیادہ اس بات کی عادت ڈال کر کہ آنے والوں کا استقبال بشاشت اور مسکراہٹوں کے ساتھ اہل ربوہ کریں گے.اللہ تعالیٰ اہل ربوہ کو بشاشت اور مسکراہٹ کی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ پہلے سے بھی زیادہ کثرت کے ساتھ باہر سے آنے والوں کو بھی اس بشاشت اور ان مسکراہٹوں کے وصول کرنے کی توفیق دے.آمین.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 12
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ عید الاضحیہ 05 جنوری 1974ء اسلام کے قلعے کو وسیع تر اور بلند تر کرنا ، جماعت احمدیہ کا نصب العین.خطبہ عیدالاضحیہ 05 جنوری 1974ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جلسہ سالانہ کے بعد مجھ پر انفلونزا کا شدید حملہ ہوا تھا.جس کا اثر بھی تک باقی ہے.لیکن بعض دفعہ دوستوں کی ملاقات بھی شفا کا موجب بن جاتی ہے، اس لئے میں عید کی نماز پڑھانے کے لئے یہاں آ گیا ہوں.تا کہ احباب کو اس رنگ میں عید کی مبارک باد کہوں، جس کا ابھی میں مختصر اذکر کروں گا.یوں تو پہلے نبی سے لے کر بعثت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک نوع انسانی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی کامل شریعت کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی تربیت دینے کا کام کسی نہ کسی رنگ میں جاری رہا.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے اس تربیت کے کام میں خاص طور پر شدت پیدا ہوگئی.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور پھر آپ کی اولاد نے اس خطہ ارض میں، جہاں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مقدر تھی اور اس قوم کو ، جس نے اپنے کندھوں پر سب سے پہلے اس بار عظیم کو اٹھانا تھا، اس کی تربیت کے کام کو پورے زور کے ساتھ جاری رکھا.اور ہزاروں سال کی تربیت کے بعد عرب کے مکینوں کو فطری قومی کے لحاظ سے اس قابل بنایا کہ وہ قرآن کریم کی شریعت کو اٹھا سکیں اور اس کامل شریعت کی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں.گویا یہ ایک بنیاد تھی، جسے ایک نبی کے بعد دوسرے نبی کے ذریعے مضبوط سے مضبوط تر بنایا جارہا تھا.اور پھر ہزاروں سال کی اس تربیت اور تیاری کے بعد حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی.آپ انسانیت کا نچوڑ تھے.آپ ہی کی خاطر عالمین کو، کائنات کو پیدا کیا گیا تھا.آپ کی ذات میں نوع انسانی نے خدا تعالیٰ کی صفات کے حسین تر جلوے دیکھے.آپ کے وجود میں نوع انسانی نے انسانی قوتوں کی کمال نشو و نما کا مشاہدہ کیا.پس ظاہر ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ انسان کے کندھوں پر ایک نئی قسم کی ذمہ داریاں ڈالی گئیں.آپ سے پہلے نسل انسانی کو ان ذمہ داریوں کو اٹھانے کی تربیت دی جارہی تھی.آپ کی بعثت کے بعد اس بنیاد پر منزل بہ منزل روحانی محل کو بلند سے بلند تر کیا جانے لگا اور اس میں وسعت پیدا ہونی شروع ہوئی.یہاں تک کہ ہمارے اس زمانہ میں یہ وسعت اپنی انتہائی شدت اختیار کرنے کے لئے تیار کھڑی ہے.13
خطبہ عیدالاضحیہ 05 جنوری 1974ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اب نوع انسانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی قلعہ میں سا جائے گی.اور شیطان کے ہر قسم کے حملوں سے محفوظ ہو کر لوگ خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے امن کی زندگی گزارنے لگیں گے.دین اسلام کو وسعتوں کی اس انتہا تک پہنچانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کے دائرہ کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی ذمہ داری امت محمدیہ کے کندھوں پر ڈالی گئی تھی.اور اب اس زمانہ میں یہ ذمہ داری انتہائی شکل میں امت محمدیہ کے اس گروہ پر ڈالی گئی ہے، جسے جماعت احمدیہ کا نام دیا گیا ہے.اور جس کی بناء حضرت مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی ہے.یہی وہ جماعت ہے، جو اللہ تعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کر رہی ہے.اور اس ایثار کا نمونہ دکھا رہی ہے، جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور آپ کی محبت کے سرچشمہ سے پھوٹتا اور دنیا کو اپنے حسن و احسان سے گرویدہ بنا کر خدائے واحد و یگانہ کی طرف لانے والا ہے.گویا اس جماعت کا یہ نصب العین ہے کہ وہ اسلام کے قلعے کوحتی الامکان وسیع سے وسیع تر اور بلند سے بلند تر کرنے کے لئے کوشاں رہے.پس جماعت احمدیہ کمزور اور بے بس ہونے کے باوجود، حقیر سمجھے جانے کے باوجود، دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حضور بشاشت سے قربانیاں دینے میں آگے ہی آگے بڑھ رہی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس روحانی عمارت میں وسعت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کر رہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.ہماری یہ عید در اصل قربانیوں کی یاد دلاتی ہے.اس عید سے خدا تعالیٰ کے حضور ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے قربانیاں دینے کی یاد تازہ کی جاتی ہے.اس وقت جماعت احمدیہ کے سب افراد، مرد بھی اور عورتیں بھی ، بڑے بھی اور چھوٹے بھی چونکہ خدا کی راہ میں قربانیاں دینے میں مشغول ہیں، اس لئے میں سب کو اس عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں.اور دعا کرتا ہوں کہ ان قربانیوں کے نتیجہ میں جو برکات حاصل ہو رہی ہیں، اللہ تعالیٰ ان میں اور بھی زیادتی کرے.اور آپ سب اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے وارث بنیں، جن کی ہمیں بشارتیں دی گئی ہیں.یہ وہ بشارتیں ہیں، جن کا پہلے نبیوں نے بھی ذکر کیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عظیم نعمتوں کی بشارتیں دی ہیں اور آپ کے عاجز متبعین نے بھی ان کا ذکر کیا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.تا کہ ہمیں وہ ساری نعمتیں مل جائیں، جن کی ہمیں بشارتیں دی گئی ہیں.اور اس طرح قربانی کی اس عید سے، جو حقیقی برکات وابستہ ہیں، خدا کرے کہ ہم سب کو وہ برکتیں نصیب ہوں.اللهم آمین.(مطبوعه روزنامه الفضل 16 جنوری 1974ء) 14
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم صد سالہ جشن فنڈ پیغام فرمودہ 10 جنوری 1974ء بسم الله الرحمان الرحيم پیغام فرمود: 10 جنوری 1974ء نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران کرام! هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت ہائے بیرون کی تربیت اور اشاعت اسلام کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے اور غلبہ اسلام کے دن کو قریب سے قریب تر لانے کی ایک مہم کا آغاز کرتے ہوئے ایک بہت بڑے منصوبے کا اعلان کیا تھا.اس ضمن میں ، میں نے مخلصین جماعت سے آئندہ سولہ سال میں اس عظیم منصوبہ کی تکمیل کے لئے اڑھائی کروڑ روپیہ جمع کرنے کی اپیل کی تھی.اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انشاء اللہ یہ رقم پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گی.اس اعلان کے ذریعہ میں مخلصین جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اس سلسلہ میں دوست تین باتیں یا درکھیں :.صد سالہ جشن فنڈ کے وعدہ جات مجھے مجلس مشاورت سے قبل بھجوادیے جائیں.ب.وعدہ جات بھجواتے ہوئے ، صرف موجودہ آمد ہی کو مد نظر نہ رکھا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اس کے بھروسے پر آئندہ سولہ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ آپ پر جو بے انتہا فضل اور رحمتیں نازل فرمائے گا اور آپ کی آمدنیوں میں آپ کی امید سے کہیں بڑھ کر برکتیں دے گا ، انھیں بھی مد نظر رکھ کر وعدہ بھجوایا جائے.ج.اس سلسلہ میں نقد رقوم اور چیک ( اس ہدایت کے ساتھ کہ یہ رقم صد سالہ جشن فنڈ کی مد میں داخل کی جائے.) براہ راست افسر صاحب خزانہ صدر انجمن احمدیہ کے نام بھجوائی جائیں.15
پیغام فرموده 10 جنوری 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاص میں برکت دے اور آئندہ آپ کو پہلے سے کہیں بڑھ کر قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان قربانیوں کو محض اپنے فضل سے قبول فرمائے.(آمین) مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث 10 صلح / جنوری 1353ھ /1974ء ( مطبوعه روزنامه الفضل 12 جنوری 1974ء) 16
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 جنوری 1974ء وو حمد اور عزم اگلے سولہ سال کے بنیادی ماٹو خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 1974ء میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کو یہ بتایا تھا کہ یہ عظیم منصوبہ جس کا میں اعلان کر رہا ہوں، اس کا ماٹو (Motto) دو بنیادی حقیقتیں ہیں.جن کو ہم حمد اور عزم کے دو لفظوں سے پکار سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہم عاجز بندوں پر مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ بڑی ہی رحمتیں نازل کرنی شروع کی ہیں.اور ہم حمد کے ترانے گاتے ہوئے ، پختہ عزم کے ساتھ اس راہ پر گامزن ہیں ، جس کی تعیین غلبہ اسلام کے لئے آسمانوں سے ہوئی.اور ہمارا ہر قدم اس شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے.اور عنقریب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے وہ دن آنے والا ہے، جب اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا اور تمام ملتیں مٹ جائیں گی ، سوائے اسلام کے.جس کا گھر ہر انسان کا سینہ ہو گا اور جس خدا کو اس نے پیش کیا، اس کی محبت میں ہر دل مستانہ وار اپنی زندگی گذار رہا ہوگا“.وو " پس یہ حمد اور عزم اگلے سولہ سال کے بنیادی ماٹو ( Motto) ہیں.یہ دو چیزیں ہیں، جن کی برکت سے ہم نے اسلام کو غالب کرنا اور نوع انسانی کے دل خدائے واحد دیگانہ کے لئے جیتنا ہے“.مطبوعه روزنامه الفضل 27 جنوری 1974ء ) 17
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1974ء انگریزی دان احباب آگے آئیں اور اپنی زندگیاں وقف کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1974ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:.وَيُقَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمُ پھر فرمایا:.”دنیا پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو اس وقت یہ صورت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ایک طرف دہریت، اشتراکیت کی شکل میں ساری دنیا پر چھا جانے کی کوشش کر رہی ہے.دوسری طرف مذہب سیرمایہ داری کا سہارا لیتے ہوئے ، اس یلغار کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے.جہاں تک ترقی یافتہ مغربی ممالک کا تعلق ہے، یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی جارہی ہے کہ اب ان میں اشتراکیت کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہی اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ کسی وقت بھی یہ ممالک اس کشمکش میں ہتھیار ڈال دیں اور دہریت ان ممالک پر قابض ہو جائے.اس وقت سرمایہ داری اور (اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کا آپس میں اشتراک ہے.جس رنگ میں اس دنیا کے سامنے، جو اشترا کی دنیا یا سوشلسٹ دنیا کہلاتی ہے، مذہب کو پیش کیا گیا، اس رنگ میں کوئی بھی سمجھ دار انسان مذہب کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.کیونکہ مذہب کو ان ممالک نے میں لفظ مذہب میں اسلام کے علاوہ سب مذاہب کو شامل کر رہا ہوں.اس رنگ میں پیش کیا کہ نہ انسان کے لئے وہ مقام شرف اور عزت کا باقی چھوڑا، جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کا ایک بنیادی حق قرار دیا ہے، نہ اس کی دیگر صلاحیتوں کی نشو و نما کے لئے جن مادی سامانوں کی ضرورت تھی اور جن سے وہ لوگ محروم تھے ، ان کا حقدار سمجھا گیا.اگر مذہب ( نعوذ باللہ ) انسان کی تمام صلاحیتوں کی نشو و نما میں روک ہے تو انسان کا فرض ہے ، مذہب کو دھتکار دے.اس رنگ میں اشتراکیوں نے اسے دھتکار دیا.لیکن حقیقی مذہب تو ایسا نہیں ہے.جو مذہب، جو ابدی صداقت، جوحسین شریعت، جو احسان عظیم کی مالک ہدایت اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی شکل میں دی، وہ تو اس کے برعکس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ 19
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم انسان کی ان تمام صلاحیتوں کی ، جو اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں، کامل نشو و نما کے سامان پیدا ہونے چاہئیں.اور جب ہم دہریت، اشتراکیت ،سوشلسٹ کا مطالعہ کرتے ہیں تو نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ انسان کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں، ان کا تصور بھی اشتراکیت اور اس قسم کے دوسرے ” از مرز میں نہیں پایا جاتا.اس وقت ان ترقی یافتہ ممالک میں، جو اشتراکیت کے خلاف برسر پیکار ہیں، سرمایہ دارانہ نظام تو معرض زوال میں ہے اور مذہب میدان سے بھاگتا نظر آتا ہے.اسی لئے میں نے جماعت کو پہلے بھی کہا کہ ان علاقوں میں ایک خلا پیدا ہو رہا ہے.اب اس خلا کو دو طاقتیں پر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں.ایک طاقت لامذہبیت اور دہریت کی ہے اور دوسری طاقت اسلام اور احمدیت کی ہے.ہمارا اصل مقابلہ ان لادینی طاقتوں سے ہے اور اس مقابلہ میں ایک شدت پیدا ہورہی ہے.وہ بھی ان علاقوں کے انسانوں کا دل خدا سے دور لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور جماعت احمد یہ بھی ان علاقوں میں بسنے والے انسانوں کے دل خدائے واحد ویگانہ کے لئے جیتنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے.جہاں تک مادی وسائل کا سوال ہے ، غیر مذاہب اور خدا کے اس دشمن کے مقابلہ میں ہماری کوئی طاقت ہی نہیں ہے.مادی وسائل ان کے مقابلہ میں ہمارے پاس ہزارواں کیا ، لاکھواں حصہ بھی نہیں.لیکن ہم نے اپنی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مشاہدہ کیا ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا اور مغفرت کی چادر میں خود کو اس معنی میں ڈھانپتا ہے کہ وہ اس کے حضور جھکتا اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے، جو بشری کمزوریاں ہیں، وہ سرزد نہ ہوں اور جو بشری صلاحیتیں ہیں، ان کی کامل نشو و نما ہو جائے.اور خدا کے علاوہ ہر شئی کو لاشئے محض سمجھتے ہوئے اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو ان حالات میں اللہ تعالی بڑی سے بڑی مادی طاقتوں کو ملیا میٹ کر دیتا اور ہلاک کر دیتا ہے.اور اپنے بندے کی مدد اور نصرت کے لئے آسمانوں سے سامان پیدا کرتا ہے.ہماری زندگیوں میں بھی یہ بات ایک حقیقت کی صورت میں موجود ہے.یہ کوئی فلسفہ نہیں بلکہ ہمارے وجود نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے کہ تمام مادی سامان اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے حکم کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے.پس یہ تو درست ہے کہ اس روحانی جنگ میں، اس اخلاقی جنگ میں، اس مذہبی جنگ میں مادی مسائل دہریہ اقوام کے پاس ہم سے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہمارے مادی وسائل ذکر کے قابل بھی نہیں.یہ ایک حقیقت ہے، ہم اس سے انکار نہیں کرتے.لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کمزور بندوں کی کوششوں میں اپنی زبر دست تدابیر کو چھپا کر دنیا میں اپنی قدرت 20
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1974ء کے ہاتھ کا ایک زبر دست جلوہ ظاہر کرے.یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں تک ہماری طاقت ہے یا جہاں تک ان وسائل کا تعلق ہے، جن سے ہم اپنی طاقت کو بڑھا سکتے ہیں ، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس طاقت کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوں اور اس کوشش میں لگے رہیں کہ جو طاقت اور قوت کو بڑھانے کے وسائل اور راہیں ہیں، وہ ہمیں میسر آئیں.اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں، جس کی میں نے سورۃ فاتحہ کے بعد تلاوت کی ہے، یہ حکم فرمایا ہے کہ اگر تم استغفار کرو اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو تو تمہاری خوشحالی کے سامان آسمانوں سے پیدا کئے جائیں گے.اور اللہ تعالیٰ اگر تمہاری زندگیاں اس کی رضا کے حصول کے لئے لگی ہوئی ہوں گی تو تمہیں قوت کے بعد مزید قوت عطا کرتا چلا جائے گا.اس وقت جیسا کہ میں نے بتایا، دشمن انسانیت اور دشمن روحانیت اور دشمن مذہب کے خلاف ہماری جو جد و جہد اور لڑائی ہے، اس کے لئے ہمیں دشمن کے مادی وسائل کے اثر کو کالعدم کرنے کے لئے ایسی روحانی طاقت کی ضرورت ہے، جو خدا سے حاصل ہوتی ہے.اور جس کے حصول کا ایک ذریعہ اس آیت میں استغفار اور تو بہ بتایا گیا ہے.اور جس کے نتیجہ میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ برکتوں کے سامان پھر آسمان سے پیدا ہوں گے اور قوت کے بعد مزید قوت عطا ہوتی چلی جائے گی ، ان وسائل سے.خدا تعالیٰ ہر قدرت کا اور قوت کا اور طاقت کا اور عزت کا اور غلبہ کا اور قہر کا سر چشمہ ہے.اس سے قوت لے کر ہمیں اس میدان میں دشمن اسلام، دشمن روحانیت، دشمن مذہب اور اللہ تعالیٰ کے خلاف صف آراء ہونے والی فوجوں کا مقابلہ کرنا ہے.اور کامیابی کے ساتھ کرنا ہے.اس وقت جیسا کہ میں نے بتایا، ایک خلا پیدا ہورہا ہے اور جلدی جلدی بڑھ رہا ہے.اس کے لئے تدبیر جتنی ہم کر سکتے ہیں، وہ ہمیں کرنی چاہئے.اس کے لئے ہمیں اس سے زیادہ مجاہد چاہیں ، اس سے زیادہ مبشر چاہئیں، اس سے زیادہ مبلغ چاہئیں، جتنے کہ مبلغ بنانے والے ہمارے ادارے اس وقت بنا رہے ہیں.اعلی پیمانہ پر مبلغ بنانے والا ادارہ تو جامعہ احمدیہ ہے.دوسرے بھی بعض ادارے ہیں لیکن وہ اس معیار کے مبشر پیدا نہیں کر سکتے.نہ ان کے قیام کا یہ مقصد ہے کہ جو غیر ممالک جا کر اسلام کے جرنیل کی حیثیت میں ان طاقتوں کا مقابلہ کریں.اگر ہم صرف جامعہ احمدیہ پر انحصار کریں تو جس قدر انسانوں کی مخلص انسانوں کی ، مومن انسانوں کی، صاحب فراست انسانوں کی، اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے انسانوں کی ، خدا سے اخلاص کا تعلق رکھنے والے انسانوں کی ، خدا سے عہد وفا ، جو انہوں نے باندھا ہے، اس پر عزم کے ساتھ اور استقامت کے ساتھ قائم اور قائم رہنے والے انسانوں کی ضرورت ہے، اتنے انسان تو یہ ادارہ ہمیں شاید اگلے سو سال میں بھی نہ دے سکے لیکن ہمیں آج ضرورت ہے.21
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1974ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں ان بڑی عمر کے احمدیوں کی ضرورت ہے، جو اگر چہ جامعہ احمد یہ یا اس قسم کے کسی ادارہ میں تو نہ پڑھے ہوں لیکن ان کی زندگی صحیح او حقیقی اسلام کے مطالعہ میں خرچ ہوئی ہو.اور جن کے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے معمور ہوں اور جن کا اپنے رب سے اخلاص کا تعلق ہو اور جن کی ہمت جوان ہو.اگر چہ عمر کے لحاظ سے وہ جواں نہ ہوں.وہ آگے آئیں.وہ ریٹائر ہو گئے، دنیوی کاموں سے، وہ جو ریٹائر ہو سکتے ہیں، (ملازمت کا ایک ایسا حصہ ہے، جس میں انسان اپنی مرضی سے ریٹائر ہو جاتا ہے اور اس کی پینشن پر خاص فرق نہیں پڑتایا بعض دفعہ بالکل ہی فرق نہیں پڑتا.ایسے لوگ اپنی زندگیوں کو وقف کریں.تا کہ ہم انہیں ان ممالک میں بھجوا سکیں.ایسے لوگ جن کی خصوصیات اور اہلیت کے کچھ پہلو تو میں نے ابھی بتائے ہیں لیکن زبان کے لحاظ سے انہیں انگریزی زبان اچھی طرح آنی چاہیے، کیونکہ یہ ہر جگہ غیر ممالک میں کام دے جاتی ہے، انہیں وقف کرنا چاہیے.اس وقت ہمیں بڑی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے، اس قسم کے مخلصین ،مجاہدین، باوفا انسانوں کی ، جوان غیر ممالک میں جا کر کام کریں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا، ہمارا ایک ہی ادارہ ہے، جو مبلغ پیدا کر رہا ہے.اور اب تعداد کچھ زیادہ ہوئی ہے.جامعہ میں ایک وقت میں تعداد بہت ہی گر گئی تھی.پھر جو آج امتحان پاس کرتا ہے یا جس نے دو سال پہلے جامعہ احمدیہ سے شاہد کیا ہے، وہ اپنے تجربہ کے لحاظ سے اور اپنے معیار کے لحاظ سے آج اس قابل نہیں ہے کہ اسے ہم باہر بھیج دیں.اس لئے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا.لیکن اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ایسے انگریزی دان احمدی ہیں، جنہوں نے اخلاص سے اپنے زندگیاں گزاریں ہیں، جنہیں اپنی گزشتہ زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی ، جو تفسیر ہمارے سامنے رکھی ہے، اس کے مطالعہ کا شغف رہا ہے، جوعلی وجہ البصیرت حقیقی اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں، جنہوں نے اسی مطالعہ کے دوران دوسرے مذاہب کے ساتھ مذہب اسلام کا موازنہ کیا ہے اور جن کو دعا کی عادت ہے، جو اس مقام پر کھڑے ہیں کہ جہاں دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کیا جاسکتا ہے، جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش مار رہی ہے اور جن کے سینوں میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا میں بلند کرنے کی ایک تڑپ پائی جاتی ہے، ایسے سینکڑوں، ہزاروں احمدی جماعت احمدیہ میں موجود ہیں.آج میں ان کو آواز دے رہا ہوں کہ اسلام کی خاطر دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوانے کے لئے مجاہدین کی آج ضرورت ہے.اور اس قسم کے لوگ ہی آج کے حالات میں اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں.اس لئے وہ آگے آئیں اور اپنے ناموں کو پیش کریں.اگر وہ ریٹائر ہو چکے ہوں اور اپنی ملازمتوں سے فارغ ہو چکے ہوں ، تب بھی، اگر وہ آسانی سے فارغ ہو سکتے ہیں، تب بھی.ہر قسم کے انگریزی دان 22
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1974ء افراد خواہ وہ ڈاکٹر ہوں، انجینئر ہوں، ٹیچر ہوں، پروفیسر ہوں وغیرہ وغیرہ، اپنے آپ کو پیش کریں.لیکن شرط یہی ہے کہ وہ لوگ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے ہوں، جن کی زندگیاں اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کے مطالعہ میں گذری ہیں اور جو دوسروں سے تبادلہ خیالات کرتے رہے ہیں.ایسے لوگوں نے جماعت میں (پہلے مثالیں موجود ہیں.) بڑا اچھا کام کیا ہے.ہمارے جو مبلغین ابتداء میں امریکہ یا انگلستان یا یورپ گئے ، وہ جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل نہیں تھے.یعنی بی اے، ایم اے کر کے زندگی وقف کر کے جماعت کے کاموں میں مصروف ہو گئے تھے.یا جو باہر کام کر رہے تھے لیکن دفتری اوقات سے باہر سات سات، آٹھ آٹھ گھنٹے روزانہ بلاناغہ وہ جماعت کے کاموں میں خرچ کر رہے ہیں.( میرے علم میں ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا ہے، بیسیوں ایسے احباب کو میں جانتا ہوں.ایسے لوگ سامنے آئیں اور اپنے نام پیش کریں.تا کہ اس وقت جو ایک خلا پیدا ہو رہا ہے، جس کے نتیجہ میں ہمارے دلوں میں ایک فکر پیدا ہورہا ہے کہ ہم اس خلا کو اگر پر نہ کر سکے تو خدا کے نام کو اس دنیا سے مٹانے کا دعویٰ کرنے والوں کی کوششیں کہیں کامیاب نہ ہو جائیں.اس وقت اسلام کے ایک ادنی خادم کی حیثیت سے میں جماعت کے ان احباب کو آواز دیتا ہوں کہ آگے بڑھو ! زندگیوں کو وقف کرو! اور اخلاص کے ساتھ سب کام چھوڑ کر باہر جاؤ.اور تبلیغ اسلام کے فریضہ کی جو ذمہ داری ہے، اسے اپنے کندھوں پر اٹھاؤ اور دنیا کو یہ بتاؤ، اپنی دعاؤں کے ساتھ اور میری اور جماعت کی دعاؤں کے ساتھ کہ مذہب اسلام، جود نیاوی لحاظ سے، علمی لحاظ سے، اخلاقی لحاظ سے تعلیم دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے، اشتراکیت وغیرہ اس کے مقابلہ میں کسی میدان میں بھی ٹھہر نہیں سکتی.لیکن انسانوں کی اکثریت غافل ہے اور انہیں بیدار کرنے کی ذمہ داری ہم پر ہے.اور ہمارے مادی وسائل تھوڑے ہیں.ہمیں روحانی وسائل اور روحانی ہتھیاروں کی طرف رجوع کرنے کی اشد ضرورت ہے.استغفار کے ساتھ اور توبہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہماری دعا کو قبول کرے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو نباہ سکیں.اور اللہ تعالیٰ جماعت کے ایسے مخلصین کو تو فیق عطا کرے کہ وہ اپنی زندگیوں کو وقف کریں اور بیرونی ممالک میں جا کر ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے اپنے بیوی بچوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ، اس اہم ذمہ داری کی طرف توجہ کریں اور اسے کامیاب طریقے پر نباہنے کی کوشش کریں.اے خدا تو ایسا ہی کر !!؟".( مطبوعه روزنامه الفضل 20 فروری 1974ء) 23
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کا ایک عظیم منصوبہ خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گذشته جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے جماعت احمدیہ کے سامنے اشاعت اسلام کا ایک منصوبہ رکھا تھا.اس منصوبہ کی معیاد قریباً سولہ سال بنتی ہے.آج سے قریبا پندرہ سال اور دو مہینے کے بعد جماعت احمدیہ، جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے رکھی گئی تھی، اپنی زندگی کی دوسری صدی میں داخل ہو رہی ہوگی.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ سوسال گذرنے پر ہم خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے صد سالہ (اس وقت میں نے نام لیا تھا ) جشن منائیں گے.اور اس سولہ سال کے عرصہ میں یہ بات بھی ہمارے مد نظر رہے گی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے پہلی صدی کی بنیادوں کو مضبوط کریں اور دوسری صدی کے استقبال کے لئے حالات کو سازگار بنانے کی کوشش کریں.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ اس تحریک کا تعلق ہے، پہلی صدی زیادہ تر اس کی بنیادوں کو بنانے اور مضبوط کرنے پر خرچ ہوئی ہے اور ہوگی.لیکن دوسری صدی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشارتیں دی ہیں، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے بابرکت، مقدس، ارفع، اعلیٰ اور افضل وجود کے ذریعہ اور پھر صلحائے امت کے ذریعہ جو بشارتیں ملی ہیں اور اب اس زمانے میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ جو بشارتیں ملی ہیں، ان سے استدلال کرتے ہوئے مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ ہماری جماعت کی دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ.ہماری زندگی میں ، سلسلہ عالیہ احمدیہ کی زندگی میں دوسری صدی میں اسلام قریباً ساری دنیا میں غالب آجائے گا اور پھر جو تھوڑا بہت کام رہ جائے گا ، جماعت کو اسے شاید تیسری صدی میں کرنا پڑے.پس جماعت احمدیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے اور صد سالہ زندگی گزارنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے پختہ عزم کے ساتھ یہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے.اس منصوبے کی بہت سی شقیں ہیں.میں نے جلسہ سالانہ کی تقریر میں بتایا تھا کہ میں اس کی تفاصیل جماعت کی میل جماعت کی 25
خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم مجلس شوری کے سامنے رکھوں گا.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس وقت تو میں صد سالہ جشن کے نام سے اس منصوبہ کے متعلق بات کروں گا، بعد میں مشورہ کر کے اس کا جو نام مناسب ہوگا ، اس کا اعلان کر دیا جائے گا.چنانچہ اب مشورہ کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کا نام ”صد سالہ احمد یہ جوبلی ہو گا.صد سالہ احمدیہ جو بلی اس حصہ کا نام ہوگا، جس کو میں نے جشن کہا تھا.اور اس کے لئے میں نے جماعت کے سامنے جو منصوبہ پیش کیا تھا، اس کو ہم ” صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کہیں گے.اور اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے میں نے مالی قربانیوں کی جو تحریک کی تھی، اسے ہم ”صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کا نام دیں گے.اس منصو بہ کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لئے میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر دو کروڑ پچاس لاکھ روپے کی تحریک کی تھی.ساتھ ہی میں نے اس بات کا بھی اعلان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر امید رکھتے ہوئے ، اگر چہ میں پرتحریک اڑھائی کروڑ روپے کی کر رہاہوں لیکن یہ تم پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی.میں نے اس وقت یہ کہا تھا کہ دوست اپنے وعدے مجلس مشاورت سے قبل بھجوادیں.پھر میں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ رقوم میرے پاس نہ بھجوائیں کیونکہ اس سے میر اوقت ضائع ہوتا ہے.رقوم خزانہ صدرانجمن میں جانی چاہئیں اور وعدے میرے پاس آنے چاہئیں.کیونکہ اس سے وعدہ کرنے والوں کے لئے دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے.ویسے تو اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے لیکن ہم عاجز بندوں کا یہ فرض ہے کہ اس کے حضور دعاؤں میں مشغول رہیں اور اس کی رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کریں.مجلس مشاورت میں تو ابھی قریباً دو مہینے کا عرصہ باقی ہے اور ابھی بہت سی پاکستانی جماعتوں کے وعدے نہیں آئے.مثلاً شیخوپورہ کی طرف سے سوائے انفرادی یا ایک جماعت کے اجتماعی وعدوں کے ضلع کی طرف سے جماعتی وعدے ابھی تک نہیں پہنچے.اسی طرح سرگودھا شہر کا وعدہ پہنچ گیا ہے لیکن ضلع کا وعدہ نہیں پہنچا.پاکستان کے اور بھی بہت سے علاقے ہیں، جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں لیکن ان کے وعدے ابھی تک نہیں پہنچے.بہت سے ایسے اضلاع ہیں، جنہوں نے اس تحریک میں بہت پڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے.لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ یہ ان کی پہلی قسط ہے اور یہ ان کی طرف سے دوسری قسط ہے یا یہ ان کی تیسری قسط ہے.اس کے علاوہ وہ اور اقساط بھی بھجوائیں گے.پس جہاں تک جماعت ہائے احمد یہ پاکستان کا تعلق ہے، بہت سی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک وعدے موصول نہیں ہوئے.تاہم وہ اس سلسلہ میں کام کر رہے ہیں.مشاورت سے پہلے پہلے وہ اپنے وعدے ضرور بھجوادیں گے.جہاں تک بیرون پاکستان کی احمدی جماعتوں کا تعلق ہے، انگلستان میں ہمارے مبلغ یہاں موجود تھے.انہوں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو وعدہ کیا تھا، اس کے ساتھ جب میں نے چوہدری محمد ظفر 26
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء اللہ خان صاحب کا وعدہ بھی ملادیا تو یہ ایک کروڑ روپے کا وعدہ بنتا تھا.ہمارے مبشر نے ہمیں اس کی یہیں اطلاع دے دی تھی.لیکن جب وہاں کی جماعت کو معلوم ہوا تو وہاں کی جماعت کی مجلس عاملہ نے اپنی میٹنگ میں بھی یہی وعدہ کیا اور مجھے بذریعہ تارا اطلاع دی.اس کے علاوہ ڈنمارک کی جماعت کے سارے تو نہیں لیکن بہت سے وعدے ہمیں مل گئے ہیں.گویا بیرونی جماعتوں میں سے اب تک ہمیں صرف ان دو ممالک سے وعدے موصول ہوئے ہیں.ان کے علاوہ وہ احمدی دوست، جو دیگر ملکوں میں بستے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ اس جماعت کی مالی تحریکوں میں حصہ لیتے ہیں یا جن ممالک کی طرف سے مثلاً نصرت جہاں ریز روفنڈ میں وعدے آئے تھے، وہاں سے ابھی تک وعدے نہیں آئے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، انگلستان سے قریباً سارے وعدے آگئے ہیں.ڈنمارک سے سارے تو نہیں لیکن بہت سے وعدے آگئے ہیں.ان کے علاوہ جن ممالک میں احمدی دوست بستے ہیں اور جن میں سے بعض ممالک میں ہماری بڑی مضبوط اور مخلص جماعتیں قائم ہیں اور جن کی طرف سے ہمیں ابھی تک وعدے موصول نہیں ہوئے اور مجلس مشاورت تک وعدوں کا انتظار ہے، وہ مندرجہ ذیل ملک ہیں :.1.امریکہ 2.کینیڈا 3 مغربی جرمنی 4.ہالینڈ 5.سوئٹزرلینڈ 6.سویڈن 7 سین 8.فرانس.یوگوسلاویہ 10.سعودی عرب 11 - مصر 12.ترکی 13- ایران 14.مسقط 15.ابو ظہبی 16- عدن 17.بحرین 18- کویت 19.قطر 20.دبئی 22.ملائیشیا 23.آسٹریلیا 21.انڈونیشیا 24.جاپان 28.برما 25.جزائر فجی 26.ماریشس 27.سماء 29 افغانستان 30 مسلم بنگال 31.بھارت 32- تنزانیہ 33.یوگنڈا 34.کینیا 35.نائیجیریا 37 - سیرالیون 38- لائبیریا 39- گیمبیا 40.آئیوری کوسٹ 41- ليبيا 36.غانا 42.آسٹریا 43.سینیگال 44.ناروے 45.آئرلینڈ 46.گی آنا 47.ٹرینیڈارڈ 48.سری لنکا 49.شام 50- زیمبیا 51.سوڈان 27
خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم افریقہ کے بعض دوسرے ممالک میں جہاں ہمارے مشن تو نہیں لیکن جماعتیں قائم ہیں.ان کے نام دفتر نے مجھے نہیں دیئے ، وہ بھی اس میں انشاء اللہ شامل ہو جائیں گے.پس یہ 51 ملک ہیں.ان میں بھی کسی میں تھوڑی اور کسی میں بہت زیادہ احمدی جماعتیں قائم ہیں.انہوں نے ” نصرت جہاں ریزروفنڈ میں حصہ لیا تھا مگر ان کی طرف سے ابھی تک صد سالہ جو بلی فنڈ میں وعدے نہیں پہنچے.میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان میں بہت سی جماعتیں ہیں، جن کے ابھی تک وعدے نہیں پہنچے.اس کے باوجود اس وقت تک اڑھائی کروڑ کی مالی تحریک کے مقابلے میں تین کروڑ تمیں لاکھ سے زائد رقم کے وعدے موصول ہو چکے ہیں.فالحمد للہ علی ذالک.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ کے زمانہ میں ایک ایسی جماعت بنادی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہے.یہی وہ جماعت ہے، جس کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو، نوع انسانی کے دل خدا اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لئے جائیں.اس لئے اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے تو یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ اشاعت اسلام کے اس عظیم منصوبہ کے لئے سولہ سال میں پانچ کروڑ سے بھی زائد رقم اکٹھی ہو جائے.جہاں یہ بڑی خوشی کی بات ہے، وہاں ان ممالک کی تعداد پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے لئے فکر کے لمحات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ ابھی دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں، جہاں ہماری منتظم جماعتیں اور مشن قائم نہیں ہوئے.اسی لئے اس منصوبے کے ایک ابتدائی حصے کی رو سے یہ تجویز تھی، کم از کم سو زبانوں میں (یعنی دنیا کے مختلف ملکوں میں بولی جانے والی مختلف سوز بانوں میں ) اسلام کی بنیادی تعلیم کے تراجم کر کے بیرونی ملکوں میں کثرت سے اشاعت کی جائے اور اس ذریعہ سے وہاں کے باشندوں کی تربیت و اصلاح اور ان کو اسلام کی طرف لانے کی کوشش کی جائے.صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں اب تک جو وعدے ہوئے ہیں، ان کے متعلق باہر سے خطوط کے ذریعہ دوست پوچھتے رہتے ہیں کہ ان کی ادائیگی کا کیا طریق اختیار کرنا چاہیے؟ کیا وہ ہر سال کا اپنا سولہواں حصہ دیں یا کوئی اور شکل ہو؟ چنانچہ میں اس بارے میں سوچتارہا ہوں.اگر چہ قانون تو اندھا کہلاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو تو سو جا کھا اور صاحب بصیرت اور صاحب بصارت بنایا ہے.میں نے سوچا کہ مختلف شکلوں میں لوگوں کو روپیہ ملتا ہے.یعنی آمدنی کی شکلیں مختلف ہیں.انسانوں کا ایک گروہ تو وہ 28
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد پنجم خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء ہے، جس کے ہر فرد کی ماہانہ آمد بندھی ہوئی ہے.مثلاً کہیں نوکر ہیں یا مزدور ہیں، اس لئے نوکری کی تنخواہ یا مزدوری کے علاوہ کوئی اور ذریعہ آمد نہیں ہے.ایک معین رقم ہے، جو ہر ماہ ان کومل جاتی ہے اور بس.ایسے لوگوں سے تو میں یہ کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جتنی بھی توفیق عطا فرمائی ہے اور انہوں نے اس کے مطابق اس فنڈ میں وعدے کئے ہیں، وہ اپنے وعدہ کو سولہ پر تقسیم کر دیں.اس طرح ہر سال کا جو حصہ بنے گا، اسے وہ سال کے بارہ مہینوں پر تقسیم کر کے ماہ بماہ اپنا وعدہ دیتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ان کے مال میں برکت ڈالتا چلا جائے گا.اس طرح شاید ان کو اس سے زیادہ دینے کی توفیق مل جائے، جتنا وہ آج سمجھتے ہیں کہ وہ دے سکتے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ کی ذات عزوجل سب خزانوں کی مالک ہے، اس کی رحمتیں ہماری قربانیوں اور ایثار کا انتظار کر رہی ہیں کہ کب ہم عاجزانہ قربانی اور ایثار کے ساتھ اس کے حضور جھکتے اور اس سے اس کی رحمتوں کو حاصل کرتے ہیں.غرض وہ لوگ جن کی ماہانہ بندھی ہوئی آمد ہے، وہ ماہانہ کے حساب سے ادا ئیگی کریں گے.تاکہ ان کو بعد میں پریشانی لاحق نہ ہو.پس یہ قاعدہ تو ان لوگوں سے متعلق ہے، جن کی ماہوار آمد بندھی ہوئی اور مقرر ہے.لیکن باقی لوگ، جن کی آمدنیوں کے ذرائع اور طریق مختلف ہیں، ان کے متعلق بھی اصولاً یہی قاعدہ ہو گا کہ وہ ہر سال، اس سال کا جو حصہ بنتا ہے، وہ ادا کر دیں گے لیکن چونکہ اس مالی منصوبہ کے لئے پورے سولہ سال نہیں بلکہ پندرہ سال اور کچھ مہینے ہیں، اس لئے پہلے دو سال کا جو وعدہ ہے، وہ دو سال کی نسبت سے یعنی کل وعدہ کا 1/8 حصہ 28 فروری 1975 ء سے پہلے ادا ہو جانا چاہیے.اور اس کے بعد دوست سال بہ سال عام قاعدے کے مطابق ادا کریں گے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ایک تو ماہ بماہ ادا کرنے والے ہوں گے اور دوسرے دیہات میں بسنے والے زمیندار اور بعض دوسرے لوگ بھی ہوں گے، جن کی رہائش دیہات میں ہے، ان کی آمد عام طور پر ششماہی کے حساب سے ہوتی ہے.(یعنی سال میں دو بار آمد ہوتی ہے.اگر وہ خیال کریں کہ سال میں آمد کے دو موقعوں پر ادا کریں گے تو اس لحاظ سے 1/32 ہو جائے گا.گویاوہ ہر آمد یا ہر فصل کی پیداوار کے موقع پر 1/32 اور ہر سال 1/16 ادا کریں گے.سوائے پہلے سال کے، جس میں انہوں نے چار فصلوں کی آمد کے لحاظ سے اپنے وعدے کا 1/16 ادا کرنا ہے.ان کے علاوہ تاجر پیشہ لوگ ہیں، ڈاکٹر ہیں، وکیل ہیں، انجینئر ہیں اور صنعتکار ہیں ، ان کی نہ معین ماہوارآمد ہے اور نہ قریباً معین ششما ہی آمد ہے.مثلاً ڈاکٹر ہے، کسی ماہ اسے زیادہ فیس مل جاتی ہے، 2 29
خطبہ جمعہ فرموده یکم فروری 1974ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم کسی ماہ اسے کم فیس ملتی ہے.اسی طرح آزاد انجینئر ہے، وکیل ہے، تاجر ہے اور صنعت کار ہے، ان کی بندھی ہوئی یا مقررہ آمدنی نہیں ہوتی.بلکہ ان کی آمد میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے.ان کی آمد ایک خاص حد کے اندر گرتی بڑھتی رہتی ہے.کبھی کم ہو جاتی ہے اور کبھی زیادہ ہو جاتی ہے.تاجروں کے لئے مختلف موسم ہیں، جو مختلف وقتوں میں آتے ہیں.پس میں ان ( تاجروں، ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئروں اور صنعت کاروں ) سے یہ کہوں گا کہ ہم نے چونکہ کام کی ابتدا ابھی سے کرنی ہے اور چونکہ ابتدائی کاموں کے لئے ہم پر بہت سے ابتدائی اخراجات پڑ جائیں گے، اس لئے وہ ہمت کر کے شروع میں اپنے اپنے وعدہ کے سولہویں حصے کی بجائے جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں، دے دیں.یعنی وہ شرح کا خیال نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس کو جتنی توفیق عطا فرمائی ہے، اتنا ادا کر دے.تاہم میں ان کو یہ نہیں کہوں گا کہ وہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر ایسا کریں.لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ تکلیف میں پڑے بغیر وہ پہلے سوا سال میں یعنی 28 فروری 1975ء سے پہلے پہلے اپنے وعدہ کا جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں، وہ دے دیں.تاکہ شروع میں جو ابتدائی کام کرنے ہیں، وہ کئے جاسکیں.کیونکہ ہم ان کاموں کو 1/16 کی نسبت سے تقسیم نہیں کر سکتے.مثلاً میں نے کہا تھا کہ کئی جگہ ہمیں نئے مشن کھولنے پڑیں گے، وہاں مسجدیں بنانی پڑیں گی، مشن ہاؤسز بنانے پڑیں گے اور کئی اخراجات ہوں گے، جو ابتدا میں اٹھانے پڑیں گے.اب مثلاً جہاں مشن ہاؤسز بننے ہیں، وہاں ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم انہیں 16 سال میں مکمل کریں گے اور ہر سال ان پر 1/16 حصہ خرچ کریں گے.ان پر تو ہمیں جب بھی حالات اور ذرائع میسر آجائیں گے، فوری طور پر خرچ کرنا پڑے گا.مثلاً زمین مل جائے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے کی اجازت مل جائے تو وہاں فوراً مکان بنانے پڑیں گے.آج کل غیر ممالک میں خصوصاً ( اور یہاں بھی عمو مالوگ ) جب زمین دیتے ہیں تو شرط لگاتے ہیں کہ اتنے عرصہ کے اندر مثلاً دو سال میں یا تین سال میں جس غرض کے لئے زمین دی گئی ہے، اس کے لئے عمارت مکمل کرو.غرض ابتدا میں بہر حال نسبت سے زائد خرچ ہوں گے.اس لئے جماعت میں سے ایک گروہ ایسا نکلنا چاہیے، جو مذکورہ نسبت سے زیادہ ادائیگی کرنے والا ہو.تا کہ اشاعت اسلام کے کاموں میں کوئی روک پیدا نہ ہو.مثلاً قرآن کریم کے تراجم کروانے ہیں، ان کو شائع کرنا ہے، قرآن کریم تو برکت سے معمور کتاب ہے، خدا تعالیٰ نے اسے ہماری روح کی تسکین کا ذریعہ بنایا ہے، اس لئے جہاں تک قرآن کریم کے تراجم کا سوال ہے، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم قرآن کریم کے ترجمے شائع تو کر سکتے ہوں مگر پھر بھی 30
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد پنجم خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء 16 سال کا انتظار کریں.جب بھی خدا تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی، ہم بہر حال ان کی اشاعت کریں گے.تا کہ ان ممالک میں جہاں وہ زبان بولی جاتی ہے، وہ علاقے اسلام کی روشنی سے منور ہوں.یہی ہماری اصل غرض ہے، جس کے لئے جماعت کو مالی قربانیوں میں حصہ لینے کی تحریک کی جاتی ہے.پس چونکہ بنیا دوں کو تو ہم نے بہر حال مضبوط کرنا ہے، اس لئے ہم نے کام شروع کرنے میں انتظار نہیں کرنا.اس لئے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے، اپنا سارا وعدہ ادا کرنے کی ، وہ سارا دے دیں.اور پھر آنے والے سالوں میں تھوڑی بہت جتنی بھی خدا توفیق دے، وہ دیتے چلے جائیں یا 3/16 یا 4/16 دے دیں.مگر وہ اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالیں کیونکہ اس کی بھی ہمیں اجازت نہیں ہے.بعض دفعہ اس طرح اس قسم کی تنگی پیدا ہو جاتی ہے، جو انسان کے لئے ابتلاء کا موجب بن جاتی ہے.اس لئے وہ دوست، جن کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے یا اچانک ان کی آمد کا کوئی ذریعہ پیدا ہو گیا ہے، وہ آگے بڑھیں اور خود کو تکلیف میں ڈالے بغیر نسبت کے لحاظ سے نہیں بلکہ جو ضرورت ہے، اس عظیم منہ منصوج کی ، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلے سال جتنا زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہیں، دے دیں.غرض اصولاً تو سوائے پہلے سوا سال کے، جس میں ہر ایک کو اپنے وعدہ کا2/16 حصہ ادا کرنا ہے، ہر سال 1/16 کے حساب سے ادائیگی ہونی چاہئے.بندھی ہوئی آمدنی والے دوستوں کے لئے سہولت اسی بات میں ہے کہ وہ ہر ماہ اس نسبت سے ادا کر دیا کریں.دیہاتوں میں رہنے والے دوست، جن کی عام طور پر سال میں دو دفعہ برداشت ہوتی ہے اور آمد کا ذریعہ پیدا ہوتا ہے، وہ ان دو موقعوں پر کم از کم 1/16 ہر سال دے دیا کریں.مگر پہلے سو سال میں 2/16 کے حساب سے ادا کریں.تیسرے وہ دوست ہیں، جن کی آمد کبھی بڑھ جاتی ہے اور کبھی کم ہو جاتی ہے.مثلاً وکیل یا تاجر پیشہ لوگ ہیں یا صنعت کار ہیں، جو ملک کی اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں.اگر اور جب اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں فراخی کے غیر معمولی سامان پیدا کردے ( میری دعا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسا ہی کرے.تو وہ نسبت سے ادائیگی کا انتظار نہ کریں بلکہ تنگی میں پڑے بغیر جتنازیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں، دے دیں.اس طرح ہمارے کام شروع ہی سے تیز سے تیز تر ہوتے چلے جائیں گے اور ہمارا یہ جو منہ ہے، جس کی کامیابیوں کی شکل اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نتیجہ میں سولہ سال بعد ظاہر ہوتی ہے، اس میں عظمت اورشان پیدا ہوتی چلی جائے گی.ہم نے اپنے خون اور پسینے کی کمائی سے، ہم نے اپنے جذبات کی قربانیوں سے ، ہم نے اپنی جانوں کی قربانیوں سے اور ہم نے دنیا والوں سے دکھ اٹھا کر خدا تعالیٰ کے حضور 31
خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم سب کچھ پیش کرنے کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا کرنے ہیں.اس لئے ہماری جو ذمہ داریاں ہیں، وہ کسی وقت بھی ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہئیں.تا کہ اللہ تعالیٰ کی بشارتیں پوری ہوں اور اس کی رحمتیں ہم پر نازل ہوں.ہم عاجز بندے ہوتے ہوئے بھی پورے وثوق اور توکل کے ساتھ یہ امید رکھتے ہیں کہ جتنی ہماری کوشش ہے، اللہ تعالیٰ کا فضل اس سے ہزار گنا، لاکھ گنا بلکہ کروڑ گنا زیادہ نتائج نکال دے گا.اور ایسا ہی ہوگا ، انشاء اللہ تعالیٰ.یہ ایک منصوبہ ہے اور بڑا پھیلا ہوا منصوبہ ہے.اس لئے اس کا حساب رکھنے کی بھی شروع ہی سے فکر کرنی چاہئے.اس کے لئے ابھی باقاعدہ دفتر تو نہیں کھلا لیکن میں نے ایک دوست کو اپنے ساتھ معاون کے طور پر لگایا ہوا ہے.ان کو میں نے یہ ہدایت کی ہے کہ جس طرح لائبریری میں کتب کے کارڈ ہوتے ہیں، اسی قسم کی کیبنٹ (چھوٹی سی الماریاں ) بنا کر شروع ہی سے اس میں اپنا پورا ریکارڈ رکھیں.مثلاً کراچی ہے، یہ ک" کے نیچے آجائے گی اور پھر اس کے نیچے حروف تہجی ہی کے لحاظ سے دوستوں کے نام آجائیں گے.اس طرح ریکارڈ مکمل ہو جائے گا.اگر شروع ہی سے حساب باندھ دیا جائے تو آسانی رہتی ہے.لیکن اصل جو ریکارڈ ہے حساب وغیرہ رکھنے کا یا رجسٹر وغیرہ مکمل کرنے کا اس کا انتظام ضلع کی جماعتوں کو کرنا چاہیے.اگر ضلعی نظام سہولت سے ایسا کر سکے تو انہیں ضرور کرنا چاہیے.اگر نہ کر سکے تو پھر بڑی جماعتوں کو آزادانہ طور پر یہ کہا جائے کہ جس طرح وہ دوسرے چندوں کے حساب رکھتے ہیں، اسی طرح یہ حساب بھی رکھیں.لیکن نگرانی ضلعی نظام کرے.تا کہ حسابات شروع سے بالکل صاف اور ستھرے ہوں.کسی وقت بھی ہمیں یہ پریشانی نہ ہو کہ دس پندرہ دن تک پانچ، سات آدمی لگیں گے تب حساب کی صحیح شکل ہمارے سامنے آئے گی.پس جس طرح شروع ہی سے حساب باندھا جاتا ہے، (اور اس میں بھی انسانی عقل کافی ترقی کر چکی ہے.اس طرح اس کا بھی حساب رکھا جائے.اور یاد دہانیاں کرائی جائیں ”ذکر“ کے حکم کے ماتحت لوگوں کے دلوں میں بشاشت پیدا کی جائے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق.اور جماعت کو ان کی قربانیوں اور ایثار کی طرف توجہ دلائی جائے، حکمت کے ساتھ.اور اسی طرح انہوں نے خدا کی راہ میں جو تکالیف برداشت کرنی ہیں، وہ بھی ان کے سامنے لائی جائیں.اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو بشارتیں دی ہیں، وہ بھی ان کو بتائی جائیں.تاکہ دل میں بشاشت اور انشراح صدر پیدا ہو.حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عظیم مہم ہے، جو آسمانوں سے چلائی گئی ہے.یہ ایک ایسی تحریک ہے، جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.نہ احمدیت کے باہر کوئی اس کا تصور کر سکتا ہے اور نہ احمد بیت کے اندر خدا 32
33 33 تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی اس کا تصور کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم منصو بہ بنایا اور اس نے جماعت احمدیہ جیسی کمزور جماعت کو کھڑا کر کے کہا کہ میں تجھ سے یہ کام لوں گا.غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ، اتنا بڑا منصوبہ ہے کہ نوع انسانی میں اتنا بڑا اور کوئی منصوبہ نہیں ہے.اس لحاظ سے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نوع انسانی کے لئے جن برکات کا سامان پیدا کیا گیا تھا، ان برکات کو ہر فرد بشر تک پہنچانا ہے اور کامیابی کے ساتھ ان کے دل کو جیتنا ہے.یعنی یہ وہ منصوبہ ہے، جس کی ابتدا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود سے ہوئی.اور جس کی انتہا بھی آپ ہی کی قوت قدسیہ اور روحانی برکات کے ساتھ مہدی معہود کے ذریعہ مقدر ہے.پس یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے، جو دنیا میں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کے لئے جاری کیا گیا ہے.انسان جب اس کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کا سر چکرا جاتا ہے.اگر ہمیں خدا تعالیٰ کا پیار نہ ملتا، اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو اپنی زندگیوں میں مشاہدہ نہ کرتے اور اگر ہمارے دماغ میں یہ خیال نہ ہوتا کہ ہم دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صرف اللہ تعالی کی تائید اور اس کی نصرت ہی سے جیت سکتے ہیں تو ہم بھی خود کو پاگل سمجھنے لگتے.لیکن اللہ تعالیٰ کے جس پیار کے نمونے ہم نے اپنی زندگیوں میں خود اپنے وجود میں مشاہدہ کئے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے اور اس علم حقیقی کے حصول کے بعد کہ اللہ تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک ہے اور تمام خزانوں کا مالک ہے اور حکم اس کا چلتا ہے اور وہ اپنے حکم پر اور اپنے امر پر غالب ہے.ہم اس علم و معرفت کے بعد اپنی کمزوری اور عاجزی پر نگاہ ڈالنی چھوڑ دیتے ہیں.ہم آسمانوں کی طرف اپنی نگاہ کو اٹھاتے اور اس قادر و توانا خدا کی قدرتوں کے متصرفانہ جلوے دیکھ کر خدا پر توکل کرتے ہوئے اعلان کر دیتے ہیں کہ ایسا ہو جائے گا.ورنہ ہم کیا اور ہماری طاقت کیا ؟ بظاہر یہ ناممکن ہے.لیکن خدا نے آج آسمانوں پر یہی فیصلہ کیا ہے کہ اس کی تقدیر سے یہ بات بظاہر ناممکن ہونے کے باوجود بھی ممکن ہو جائے گی.اور دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لئے جائیں گے.ایک نیا دورنئی صدی میں شروع ہونے والا ہے.میں نے بتایا ہے، پہلی صدی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے ہے اور دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے.اب یہ صدی اور آئندہ آنے والی صدیاں مہدی معہود کی صدیاں ہیں.کسی اور نے آ کر نئے سرے سے اشاعت اسلام کے کام نہیں سنبھالنے.یہ مہدی ہی ہے، جو اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ میں اسلام کے جرنیل کی حیثیت میں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محبوب روحانی فرزند کی حیثیت میں دنیا کی طرف بھیجا گیا ہے.جماعت احمدیہ کی پہلی
خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم صدی بھی اسلام کے جرنیل کی حیثیت سے مہدی معہود کی صدی ہے اور دوسری صدی بھی مہدی معہود کی صدی ہے، جس میں اسلام غالب آئے گا.اس کے بعد تیسری صدی میں تھوڑے بہت کام رہ جائیں گے، اور وہ جیسا کہ انگریزی میں ایک فوجی محاورہ ہے، Moppling up operation ( یعنی جو چھوٹے موٹے کام رہ گئے ہوں، ان کو کرنا.) جب تیسری صدی والے آئیں گے، وہ خود ہی ان کا موں کو سنبھال لیں گے.لیکن ہم جن کا تعلق پہلی اور دوسری صدی کے ساتھ ہے کیونکہ میرے سامنے اس وقت بھی جو چھوٹی سی جماعت کا ایک حصہ بیٹھا ہوا ہے، ان میں سے بہت سے وہ ہوں گے، بلکہ میرا خیال ہے، یہاں بیٹھنے والوں کی اکثریت وہ ہو گی، جو اسی دلیری اور شجاعت اور فرمانبرداری اور ایثار کے جذبہ کے ساتھ پہلی صدی کو پھلانگتے ہوئے ، دوسری صدی میں داخل ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے حضور دینی قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں گے.اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے کہ اسلام کے غلبہ کے لئے دوسروں کے دلوں میں بھی کوئی شک اور شبہ نہیں رہا.ہمارے دلوں میں تو آج بھی نہیں ہے.لیکن دنیا کی اکثریت بلکہ مسلمانوں کی اکثریت بھی اس شبہ میں ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اسلام ساری دنیا پر غالب ہو جائے.ان کو یہ نظر نہیں آرہا کہ اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں.ہم خدا کی رحمت سے مہدی معہود کے زمانے کو پانے اور آپ کو شناخت کرنے والے ہیں، ہمیں یہ نظر آ رہا ہے.ان بشارتوں کو پورا ہوتے دیکھ کر جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے دی گئی ہیں اور خدا کے اس سلوک کو دیکھ کر جو اس کا جماعت سے ہے اور خدا تعالیٰ کے ان معجزات کو دیکھ کر جو ہمارے بڑوں اور ہمارے چھوٹوں نے دیکھے ہیں اور جو ہمارے مغرب اور ہمارے مشرق اور ہمارے شمال اور ہمارے جنوب میں ظاہر ہور ہے ہیں ، ہم علی وجہ البصیرت اس مقام پر کھڑے ہیں کہ غلبہ اسلام کا زمانہ آگیا.اور یہ زمانہ مہدی معہود کا زمانہ ہے.اور وہ صدی جس میں عملاً اسلام دنیا میں غالب آنا شروع ہو جائے گا، وہ شروع ہونے والی ہے.اس سے پہلی ( یعنی موجودہ ) صدی میں اسلام کے عظیم محل اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم قلعہ کی عمارت کو بنانے کے لئے جن مضبوط بنیادوں کی ضرورت تھی، وہ تیار ہوتی رہیں.اب صدی ختم ہو رہی ہے، قریباً سولہ سال باقی رہ گئے ہیں.گویا پہلی صدی میں قربانیاں دینے کے لحاظ سے ایک آخری دھکا لگانارہ گیا ہے.اس کے لئے یہ 16 سالہ سکیم بنائی گئی ہے تاکہ اسلام کے غلبہ کے سامان جلد پیدا ہوں.پس اسلام تو انشاء اللہ خدا کے فضل اور اس کی رحمت سے ساری دنیا پر غالب آئے گا.دوسرے مذاہب اسلام کے عالمگیر غلبہ کا ابھی احساس نہیں رکھتے.البتہ اپنی موت کا احساس ان کے اندر پیدا ہو گیا 34
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء ہے.اگر دوسرے سارے مذاہب نے مٹ جانا ہے اور اگر اسلام نے بھی غالب نہیں آنا تو پھر دنیا سے مذہب مٹ جائے گا اور اس کی جگہ دہریت آجائے گی.جو لوگ اس وقت دہر یہ ہیں، وہ اسی زعم میں ہیں.ان کا یہ خیال ہے کہ اب وہ دنیا پر غالب آجائیں گے.کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی بہت بڑی مادی اور فوجی طاقت ان کے ہاتھ میں ہے.اور دنیا کی مجموعی دولت کا ایک بڑا حصہ ان کے پاس ہے.اس لئے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کی وجہ سے اور اپنی دولت کے نتیجہ میں دنیا پر غالب آجائیں گے.مگر ہم ، جو ایک کمزور جماعت کی طرف منسوب ہونے والے ہیں، ان کی باتوں کو سنتے اور ان کی جہالت پر مسکراتے ہیں.کیونکہ ساری دنیا کی مادی طاقتیں اور مادی دولتیں مل کر بھی اللہ تعالیٰ کی طاقت کے مقابلہ میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی کھڑی نہیں ہو سکتیں.غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ ، جو صدیوں پر پھیلا ہوا نظر آتا ہے، یہ اتنا لمبا اس لئے نہیں تھا کہ اللہ تعالٰی ایک سیکنڈ میں ایسا نہیں کر سکتا تھا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر میں ساری دنیا کو دین واحد پر جمع کرنا چاہتا تو اس کے لئے میرا حکم دینا کافی تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ بندوں کو ایک مخصوص دائرہ کے اندر آزاد چھوڑ دے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ رضا کارانہ طور پر دوڑتے ہوئے اس کی طرف آئیں اور محبت الہیہ کو حاصل کریں.اور اس طرح وہ اس شلجم سے کہیں زیادہ اللہ کے مقرب بن جائیں ، جو ایک ترکاری ہے اور خدائی مشیت کے تحت خدا کی رحمت کو حاصل کرتی ہے.ظاہر ہے، شام کے اندر جو غذائی خاصیتیں ہیں، ان کو اس نے اپنے زور سے حاصل نہیں کیا.خدا نے کہا کہ شلجم کے اندر یہ یہ خاصیتیں پیدا ہو جائیں، وہ پیدا ہوگئیں.اب اگر انسان کی بھی یہی حالت ہوتی ، اگر وہ بھی ایک سحن “ کے حکم پر جبراً مسلمان ہو جاتا ہے، یعنی جس طرح شلجم پر جبر ہے، خدا کی طاقت نے اس کو پکڑا اور کہا کہ تو میری معین کردہ حدود سے باہر نہیں جاسکتا یا مٹر ہے یا جانوروں میں سے مثلاً گھوڑا ہے یا بیل ہے یا اونٹ ہے یا سمندری جانور ہیں یا درخت ہیں، پھلدار اور دوسرے کام آنے والے یا سمندر ہیں، دریا ہیں یا فضا ہے، سورج ہے اور اس کی روشنی ہے، یہ سب قانون قدرت میں بندھے ہوئے ہیں.لیکن اپنے اپنے دائرہ میں بندھے ہوئے ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کر رہے ہیں.اگر حیمی و قیوم خدا ان پر اپنی رحمت کا سایہ نہ ڈالے رکھتا تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی ان کا زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا.لیکن جو رحمت اس نے انسان کے لئے مقدر کر رکھی ہے، اس میں اور اس رحمت میں، جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے، زمین اور آسمان کا فرق ہے.ایک وہ رحمت ہے، جو خدا کی رضا کے حصول کے لئے انسان کی رضا کارانہ اور عظیم اور 35
خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم مقبول جد و جہد کے نتیجہ میں آسمانوں سے نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالی بڑے پیار اور محبت کے ساتھ اپنے بندہ کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے.اس رحمت کا مقابلہ دوسری رحمتوں کے ساتھ جن کے مورد عموماً نباتات اور جانور وغیرہ ہوتے ہیں نہیں ہو سکتا.گویا اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس دنیا میں ہر وجود، جونظر آتا ہے، کبھی موجود ہوا، اب ہے یا آئندہ ہوگا ، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر نہ تو وجود میں آسکتا تھا، نہ نشو ونما حاصل کر سکتا تھا اور نہ وہ فائدہ مند چیز بن سکتا تھا.لیکن یہ اور قسم کی مربیانہ رحمتیں ہیں، جو اس کائنات کی ہر چیز میں نظر آتی ہیں.انسان کے لئے ابدی رحمت مقدر ہے.اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا تھا کہ وہ اس کی عبادت میں ہمہ تن مشغول رہ کر اس کی رحمتوں سے حصہ لے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ تک ایسے سامان پیدا کئے کہ انسان ارتقائی مدارج طے کرتا ہوا اس دور میں داخل ہو، جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مقدر تھی.اور جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اور مشن پورا ہونا تھا.اور جس کی انتہا اس بات پر ہونی تھی کہ دنیا کا ہر انسان اپنے خدا کی معرفت حاصل کر چکا ہو اور اس کی رحمت سے، اس کے پیار سے، اس کی رضا سے اس دنیا میں بھی اور اس (آخری) دنیا میں بھی اس کی جنتوں سے حصہ لینے والا ہو.پس بڑا عظیم کام ہے، جو ہونا ہے.بڑا عظیم کام ہے، جس کی تکمیل کے لئے اس کی ساری عظمتوں کے باوجود میرے اور تمہارے جیسے کمزور کندھوں کو چنا گیا ہے.ہمیں اس کے لئے قربانیاں دینی ہیں.یہ ہمارا کام ہے.ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم اس وقت خدا کے حضور پیش کرتے ہیں ، وہ فی ذاتہ کوئی چیز نہیں.کیونکہ اسلام کے مخالفین میں سے ایک ایک آدمی اسلام کے خلاف چلنے والی مہموں کے لئے بسا اوقات پانچ، پانچ کروڑ روپے دے سکتا ہے.پس سوال پانچ کروڑ روپے کا نہیں یا دس کروڑ روپے کا نہیں.سوال تو یہ ہے کہ کس اخلاص کے ساتھ ، کس جذبہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کس پیار کے نتیجہ میں اور وفا کے کس جذبہ کے ساتھ ہم نے اپنی حقیر قربانیاں اس کے حضور پیش کیں، جسے قبول کر کے اس نے اپنی قدرت کی تاروں کو ہلایا.اور دنیا نے یہ سمجھا کہ جماعت احمدیہ نے یہ قربانیاں دیں اور اسلام غالب آیا.حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کا وجود اپنی تمام قربانیوں کے باوجود ایک ذرہ نا چیز سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے اس مادی دنیا میں تدبیروں میں چھپے ہوئے ظاہر ہوتے ہیں.اس نے ایک تدبیر کی اور اس کی تدبیر ہی ہمیشہ غالب آیا کرتی ہے.اس کے مقابلے میں جو تدابیر کی جاتی ہیں، وہ غالب نہیں آیا کرتیں.36
37 37 تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1974ء پس دعاؤں کے ساتھ ، قربانیوں کے ساتھ، ایثار کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے ہم نے اشاعت اسلام کے اس عظیم منصو بہ کو عملی جامہ پہنانا ہے.اس سلسلہ میں میرے ذہن میں کچھ نفلی عبادتیں بھی ہیں.محض پانچ کروڑ روپے کی تو خدا کو ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کو نوافل کی ضرورت ہے.لیکن ہمیں ہر چیز قربان کرنے کی ضرورت ہے.اس لئے جہاں تک نفلی عبادتوں کا سوال ہے، اس کے متعلق انشاء اللہ میں اگلے خطبہ میں بتاؤں گا کہ اس عرصہ (یعنی 16 سال) میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کرنے کے لئے ہمیں کیا کیا اور کتنی کتنی نفلی عبادتیں کرنی چاہئیں؟ غرض ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں مالی قربانیوں کی بھی توفیق دے اور نفلی عبادتوں کی بھی توفیق دے.اور پھر اپنے عاجز بندوں کی ان نہایت ہی حقیر کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے اپنے وعدہ کے مطابق نہایت ہی عظیم الشان نتائج نکال دے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“.( مطبوعه روزنامه الفضل 10 فروری 1974ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1974 ء جماعت احمدیہ کا ہر قدم دنیا کی ہر جہت میں غلبہ اسلام کی طرف اٹھ رہا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1974ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے تسبیح و درود پر مشتمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ الہامی دعا پڑھی:.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اللهمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّد - پھر حضور انور نے یہ ادعیہ پڑھیں.أَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ - رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَبَتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ اللهم إن تَجْعَلَكَ فِى نُفُورِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ - پھر حضور انور نے فرمایا:.انسان آج ہلاکت کے کناروں پر کھڑا ہے اور انسانیت خطرہ میں ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو حسن اعظم ہیں، جو محافظ انسانیت ہیں، جو رحمة للعالمین ہیں، آپ کی رحمت کے سایہ تلے آئے بغیر آج انسان اس ہلاکت سے، جو اس کے سامنے کھڑی ہے، بیچ نہیں سکتا.اور جیسا کہ بتایا گیا تھا، یہ زمانہ وہ ہے، جس میں انسانیت کی جنگ شیطنت سے اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے.یہ زمانہ وہ ہے، جس میں نور کی طاقتوں نے ظلمات کے ساتھ ایک آخری اور نہایت شدید جنگ لڑ کر ظلمت کو دنیا سے ہمیشہ کے لئے مٹادینا ہے.یہ وہ زمانہ ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم مہم جو چودہ سو سال سے شروع ہے، وہ اپنے آخری ارتقائی دور میں سے گزرتی ہوئی ساری دنیا پر غالب آکر استحصال کے لئے نہیں، ساری دنیا پر غالب آ کر انسانوں کی بھلائی اور خیر کے لئے.ان کے دلوں کو جیت کر اللہ تعالیٰ ، جو واحد و یگانہ ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، جس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ کوئی باپ، جس کا کوئی ہمتا نہیں ، جو اپنی تمام صفات میں ریگانہ اور یکتا ہے، وہ پیار کرنے والا ہے اپنے بندوں سے، انتہائی پیار کرنے والا ، جس نے انسان کو اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا، انسان کو عبد کی حیثیت سے اور انسانیت کو اپنی تمام صفات کے 39
خطبہ جمعہ فرموده 08 فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد پنجم ساتھ اور تمام طاقتوں کے ساتھ جو اس میں پیدا کی گئی ہیں، اکٹھا کر کے امت واحدہ بنا کر خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.یہ وہ زمانہ ہے، جس میں یہ کوشش شروع ہو چکی ہے ، مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آسمانی نزول کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان روحانی برکتوں کے ساتھ ، جن کا وعدہ اس مسیح اور اس مہدی کو دیا گیا تھا، اس پیار کے ساتھ ، جس پیار سے اس پاک فرزند محمد کا وجود بھرا ہوا ہے، یہ مہم شروع ہو چکی ہے.ایک صدی گزرنے والی ہے.صدی کی انتہا پندرہ سال اور ایک ڈیڑھ ماہ تک ہونے والی ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے ، اس سے دعائیں کرنے کے بعد، اسی کی دی ہوئی توفیق سے ایک منصوبہ جماعت احمدیہ کے سامنے رکھا گیا ہے.یہ منصوبہ ہے، انسان کے دل کو جیت کر خدا کے ساتھ ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم کرنے کا.یہ منصوبہ ہے، ہر انسانی دل میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو پیدا کرنے کا.اس کے بہت سے پہلو ہیں، جن کا اجمالاً میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ذکر کیا تھا.اور اس منصوبہ کو چلانے کے لئے اپنی سمجھ کے مطابق مالی قربانیوں کی میں نے تحریک کی تھی.جیسا کہ میں نے پچھلے جمعہ میں بتایا تھا، اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور جو کم سے کم میری تحریک کی رقم تھی یعنی اڑھائی کروڑ روپیہ، اس سے بڑھ چکا.پچھلے جمعہ تک تین کروڑ اور میں لاکھ سے زائد کے وعدے وصول ہو چکے تھے اور جو میرے، اس عاجز بندے کے نزدیک بڑی سے بڑی رقم کی امید کی جا سکتی تھی یعنی پانچ کروڑ روپیہ، اس کے اور کم سے کم یعنی اڑھائی کروڑ کے درمیان اس رقم کے وعدے پہنچ گئے.اب تو میرا خیال ہے، چار کروڑ کے قریب پہنچے ہوئے ہوں گے.بہر حال جو حالات اس وقت نظر آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اس پیاری جماعت کے دل میں خدا اور محد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی جو محبت پیدا کی گئی ہے، اسے دیکھتے ہوئے کوئی بعید نہیں کہ یہ رقم پانچ اور دس کروڑ کے درمیان کہیں پہنچ جائے.شاید پانچ کی نسبت دس کروڑ سے زیادہ قریب.جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی دی جاتی ہے اور دی جاسکتی ہے.جہاں تک دینے والوں کی نیتوں کا سوال ہے، بعض دفعہ سوچتے سمجھتے ہوئے بھی نیت میں خلوص نہیں ہوتا.بعض دفعہ جہالت کی وجہ سے انسان بعض ایسے کام کر جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہوتے ہیں.اور قربانیاں قبول نہیں کی جاتیں بلکہ واپس دینے والے کے منہ پر مار دی جاتی ہیں.ایسا بھی ہو جاتا ہے.جیسا کہ میں نے نصرت جہاں کے منصوبہ کے وقت جماعت کو یہ کہا تھا کہ مجھے فکر نہیں کہ روپیہ 40
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1974 ء کہاں سے آئے گا اور کیسے آئے گا؟ مجھے یہ فکر نہیں کہ ڈاکٹرز، جن کی ضرورت ہے یا پروفیسر ز ور لیکچررز جن کی ضرورت ہے، وہ کہاں سے آئیں گے اور کیسے آئیں گے؟ جب خدا تعالیٰ نے اپنی منشاء کوظاہر کیا تو وہ یہ سامان بھی پیدا کر دے گا.جو مجھے اور آپ کو فکر ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ جو حقیر قربانی ہم اس کے حضور پیش کریں، اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر فرد واحد کی قربانی کو قبول کرے.اور اس کے نتیجہ میں جو اس کی رحمت نجے میں کی کے، پیار کے جلوے انسان دیکھتا ہے، وہ پیار اور رحمت کے جلوے ہم میں سے ہر شخص پر ظاہر ہوں.یہ فکر کرنی چاہیے.اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے، بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.پس ایک منصوبہ تو اپنی سمجھ کے مطابق بنایا، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے.جماعت نے بحیثیت مجموعی بڑی قربانی کا ارادہ اور عزم کیا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو بحیثیت جماعت اور ہر فرد جماعت کو انفرادی حیثیت میں اپنی رحمتوں کی چادر میں لپیٹ لے لیکن ہم میں سے ہر ایک کے لئے خوف کا مقام ہے اور دعاؤں کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے تضرع کے ساتھ ، عاجزی کے ساتھ بہت دعائیں کرنے کی ضرورت ہے.پھر جو منصوبہ، ایک کوشش، ایک جدوجہد اور ایک جہاد کا بنایا گیا ہے، اس کے بہترین نتائج نکلنے کے لئے آسمانی طاقت کی ضرورت ہے.اور یہ طاقت بھی جو آسمان سے آتی اور زمین کی ہر مخالفت کو پاش پاش کر دیتی اور مٹادیتی ہے، اس آسمانی طاقت کے حصول کے لئے بھی انتہائی عاجزی کی ضرورت ہے، تضرع کی ضرورت ہے، ہر وقت دعاؤں کی ضرورت ہے.پچھلے خطبہ میں، میں نے آپ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ دعاؤں کا بھی ایک پروگرام اگلے خطبہ میں ( یعنی جو آج میں دے رہا ہوں.) آپ کے سامنے رکھوں گا.اس کے متعلق اس عرصہ میں بھی اور پہلے بھی میں نے دعائیں بھی کیں اور میں نے سوچا بھی.جو میں چاہتا ہوں، جو میری خواہش ہے، جو میں سمجھتا ہوں، اپنے مقصد میں کامیابی کی خاطر اور اپنی قربانیوں کے جو کہ حقیری قربانیاں ہیں، ان کے بہترین نتائج نکالنے کی خاطر ، جن عاجزانہ دعاؤں کی یا دیگر عبادات کی ہمیں ضرورت ہے، وہ میں آپ کے سامنے رکھوں.جماعت میں کچھ کمزور بھی ہیں اور طاقت ور بھی ہیں.کمزور اپنی تربیت کے لحاظ سے بھی ہیں، بڑے بھی ہیں اور چھوٹے بھی ہیں.اور سب کو (یعنی طفل کی عمر تک کو ) میں عبادات کے اس منصوبہ میں شامل کرنا چاہتا ہوں.مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی ہیں.بعض ایسی نفلی عبادتیں ہیں.( میں اس وقت سب نفلی عبادتوں کا ذکر کروں گا.) بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ بعض عبادتیں کرنے کے قابل نہیں ہیں.بعض ایسے ہیں کہ جتنی میں نے کم سے کم حد مقرر کی ہے، اس سے زیادہ بھی کر 41
خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم سکتے ہیں.ان ساری چیزوں کو سامنے رکھ کر ایک سمو یا ہوا، درمیانہ درجہ کا مطالبہ میں نفل عبادات کے سلسلہ میں اپنے بھائیوں اور اپنی بہنوں، اپنے بزرگوں اور اپنے بچوں کے سامنے اس وقت رکھنا چاہتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اس منصوبہ کے لئے ، آسمان پر برکات کے حصول کے لئے جماعت کو روزے بھی رکھنے چاہئیں اور اس کے لئے میرے ذہن میں یہ تجویز آئی ہے کہ یہ جو اس منصوبہ کے کم و بیش ایک سو، اسی ماہ ہیں، ان میں ہر ماہ ایک روزہ ہر احمدی، جو روزہ رکھنے کے قابل ہے، وہ روزہ رکھے.اس طرح قریباً ایک سو، اسی ( پندرہ سال کے اور جو ابھی دو ماہ رہتے ہیں، وہ بیچ میں شامل ہو جائیں گے.لیکن بعض لوگوں کو اطلاع دیر سے پہنچے گی، اس لئے میں نے پندرہ سال پر ہی اپنے حساب کی بنیاد رکھی ہے.ہر احمدی ، جو روزہ رکھ سکتا ہے اور آج بھی روزہ رکھنے کی اہمیت اور طاقت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں برکت ڈالے اور اس کی صحت میں برکت ڈالے.آئندہ پندرہ سال تک وہ روزہ رکھنے کی طاقت پاتا رہے، ہر وہ احمد می ایک سو، اسی روزے اس نیت کے ساتھ کہ ان روزوں میں وہ اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے یعنی غلبہ اسلام کے لئے یعنی نوع انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے ، یعنی انسانیت ، جو ہمیں اس وقت خطرہ میں نظر آ رہی ہے، اس خطرہ سے اسے نکالنے کے لئے وہ یہ روزہ رکھے گا اور ان روزوں میں وہ ان تمام شرائط کوملحوظ رکھے گا، جو فرض روزوں کے متعلق اسلام نے قائم کی ہیں.میں نے سوچا اور اندازہ لگایا کہ اگر پانچ لاکھ ایسے احمدی مرد اور عورتیں اور وہ بچے ، جو روزہ کی عمر کے قابل ہیں ، ایسے صحت مند پانچ لاکھ افرا دل جائیں تو اس منصوبہ کے زمانہ میں نو کروڑ روزے رکھے جائیں گے.اگر آپ کی مالی قربانیاں ساڑھے چار کروڑ تک پہنچیں تو آپ اپنی مالی قربانی کے ہر روپے میں برکت کے پیدا کرنے کے لئے آپ خدا تعالی سے فی روپیہ دوروزے رکھ کر دعائیں کر رہے ہوں گے اور اگر آپ کی مالی قربانی نو کروڑ تک پہنچے توفی روپیہ آپ ایک روزہ رکھ کے آپ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے ہوں گے کہ اے خدا! یہ مال ہم تیرے حضور پیش کر رہے ہیں، اسے قبول فرما اور اپنی ساری برکتیں اس مال کے اندر ڈال دے.کیونکہ تیرے نام کو بلند کرنے کے لئے اور تیرے پیدا کردہ انسان کو تیری طرف واپس لانے کے لئے یہ ساری مہم جاری کی گئی ہے.پس ہر ماہ میں ایک روزہ رکھنا ہے.میں دن کی تعین نہیں کرنا چاہتا کیونکہ دن کی تعیین روزوں میں پسندیدہ نہیں کبھی گئی.لیکن ایک اجتماعی کیفیت بھی پیدا کرنا چاہتا ہوں، اس لئے میں نے یہ سوچا کہ میں دن کی تعیین کئے بغیر جماعت سے یہ توقع رکھوں کہ ہر ماہ کے آخری ہفتہ میں ہر شہر، گاؤں، قصبہ یا محلہ میں جیسا آپ چاہیں ایک دن مقرر کر لیا کریں.یعنی ایک تاریخ مقرر کر لیا کریں اور اس تاریخ 42
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 08 فروری 1974ء کو حتی الوسع اس دائرہ میں ( محلے میں یا قصبہ میں شہر میں ) ساری جماعت روزہ رکھے.اس طرح ہر ماہ کا آخری ہفتہ قریباً سارا ہفتہ ہی روزہ کا ہفتہ بن جائے گا.اگر چہ ایک روزہ رکھا جائے گا لیکن کسی تاریخ کو کسی مقام پر کسی دوسری تاریخ کو کسی اور مقام پر سارا ہفتہ ہی اللہ کے حضور گڑ گڑا کر عاجزانہ دعائیں کرنے کا موقع مل جائے گا کہ روزے کے اندر دعا بھی شامل ہے.روزہ حقیقتا ہے ہی دعا.اور پھر تلاوت قرآن کریم ہے.میں نے کہا ہے کہ روزے کی شرائط اختیار کی جائیں.روزے میں صدقات کی طرف توجہ کرنا بھی شامل ہے اور بہت سی شرائط ہیں.ان تمام شرائط کے ساتھ ایک روزہ آدمی رکھے.عام طور پر بھوکے کا خیال رکھے ، ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کی طرف توجہ ہو.وہ دن ایسا ہو، جس میں اگر روزانہ ایک شخص مثلاً ایک ربع کی تلاوت کرتا ہے تو اس دن ایک سپارہ کی کرے.ایک سپارہ کی تلاوت کرنے والا اس دن دو، تین سپاروں کی تلاوت کرے.اور اگر اس طرح کیا جائے تو قرآن کریم کی تلاوت بھی اس نیت کے ساتھ کہ اس منصوبہ میں خدا سے ہم نے برکت حاصل کرنے کے لئے ایک عاجزانہ سعی اور جہاد کرنا ہے.قرآن کریم کے بھی لاکھوں دور ہو جائیں گے.پس فی ماہ ایک روزہ مہینہ کے آخری ہفتہ میں کسی دن جس کا فیصلہ شہر یا محلہ یا قصبہ یا گاؤں کرے.اس دن علاوہ روزے کے ( وہ دعاؤں کا دن ہے، جس طرح ہماری رمضان کے آخر میں اجتماعی دعا ہوتی ہے.جس دن جو علاقہ مہینے کے آخری ہفتہ میں روزے کے لئے مقرر کرے، اس دن عصر کے بعد یا مغرب کے بعد جو بھی ان کے لئے سہولت ہو، وہ اپنے علاقے کی ،اپنے حلقے کی ، اپنے گاؤں کی ، اپنے قصبے کی ، اپنے محلے کی اجتماعی دعا کا بھی انتظام کریں.اور اپنی زبان میں جو ہم نے دعائیں کرنی ہیں، علاوہ ان دعاؤں کے جن کا میں ابھی ذکر کروں گا.اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے مانگیں.اپنی عاجزی کے پورے احساس کے ساتھ کہ اے خدا! اتنا بڑا بوجھ تو نے ہم پر ڈالا اور اتنے کمزور ہم انسان ہیں اور بشری کمزوریاں بھی ساتھ لگی ہوئی ہیں اور علمی کمزوریاں بھی ہیں، جسمانی طاقت کے لحاظ سے بھی کمزوریاں ہوتی ہیں.پوری طاقت تو شاید لاکھ میں سے ایک ہی آدمی ایسا ہوگا، جس کو سو فیصد جو اس کی صحت کا معیار ہونا چاہیے، اپنی اندرونی طاقتوں کے لحاظ سے ، وہ اسے حاصل ہو.کبھی ہوا چلتی ہے تو نزلہ ہو جاتا ہے، کبھی ٹھنڈ لگ جاتی ہے، کبھی گرمی پڑتی ہے تو ہیٹ سٹروک ( Heatstroke ) ہو جاتا ہے.موسم بدلتے ہیں تو ہمیں فائدہ بھی پہنچاتے ہیں.موسم بدلتے ہیں تو ہمیں دوسرے اسباق بھی دیتے ہیں.خدا کے حضور جھکیں اور خدا سے کہیں کہ اے ہمارے پیارے ربّ! تو نے ہمیں یہ کہا ہے کہ شیطان سے انسان کی یہ آخری جنگ ہے اور یہ انسان ، جو آج 43
خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم تیرے مہدی معہود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تیری طرف لونا اور تیرے قدموں پر آ کر گر گیا ہے، یہ کمزور انسان ہے.جو تو نے منصوبہ بنایا ہے، اس سے تیری شان کے مطابق جو نتائج نکلنے چاہئیں، تو ہماری تدبیروں میں وہی برکتیں ڈال دے.ولا فخر اور ہمیں کوئی فخر نہیں.فخر کر ہی نہیں سکتا انسان.یہی ہم نے سنت نبوی سے سیکھا اور یہی ایک حقیقت ہے.جیسا کہ میں نے کہا، اگر پانچ لاکھ احمدی بڑا اور چھوٹا مردو زن اس روزے کی طرف ( جو میں تحریک کر رہا ہوں ، عبادات میں سے نمبر ایک) اس کی طرف توجہ کرے تو نو کروڑ روزے اس منصوبہ کے زمانہ میں رکھے جائیں گے.اور نو کروڑ دنوں میں اس کے لئے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور اجتماعی دعائیں ہوں گی.دوسری تحریک نوافل کی ہے.یعنی با قاعدہ جس طرح نماز پڑھی جاتی ہے، نماز میں فرض بھی ہیں اور سنتیں بھی ہیں اور نوافل بھی ہیں.نوافل کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر احمدی، جس پر نماز فرض ہے ( بعض تو ایسے بچے ہوتے ہیں، جن کو شوقیہ اور شوق پیدا کرنے کے لئے اور نماز کی عادت ڈالنے کے لئے ہم نماز پڑھاتے ہیں.ایک ایسی عمر ہے، جہاں نماز فرض ہو جاتی ہے.تو ہر وہ احمدی بچہ یا بڑایا عورت، جن دنوں میں اس پر نماز فرض ہے، جس پر بھی نماز فرض ہے، وہ دورکعت نفل روزانہ پڑھے.اس منصوبہ میں برکت پیدا کرنے کے لئے ، دعائیں کرنے کی غرض سے اور روزوں کے متعلق میرا اندازہ پانچ لاکھ افراد کا تھا لیکن نفلوں کے متعلق میرا اندازہ دس لاکھ افراد کا ہے.اور دس لاکھ احمدی اگر روزانہ دو نفل پڑھ رہا ہو تو فی روپیہ ( نو کروڑ روپیہا اگر آ جائے اس کے لحاظ سے فی روپیہ) ایک سو، بائیس نوافل بنتے ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور جو ایک روپیہ قربانی کے لئے پیش کیا جائے ، ایک سو بائیس نوافل پڑھ کر دعائیں کر کے پیش کریں.تا کہ عاجزی کا اور نیستی کا احساس ہمارے دلوں میں پیدا ہو.اور ہمیں محسوس ہو کہ روپیہ دینا فخر کی بات نہیں ہے کہ ہم نے ایک روپیہ دے دیا یا ایک لاکھ روپیہ دے دیایا نو کروڑ رو پید اجتماعی طور پر دے دیا.اصل تو یہ کہ جب تک نیک نیتی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہوئے مالی قربانی نہیں کی جاتی ، وہ اپنے نتائج نہیں نکالا کرتی.تو روزہ ہر ماہ ایک اور نوافل ہر روز دورکعت.اور ان کا جو وقت ہے، وہ عشاء سے لے کر صبح کی اذان کے درمیان یا نماز ظہر کے بعد کوئی وقت مقرر کر لیں.یہ انفرادی ہے، سوائے اس کے کہ کہیں اکٹھے ہو کر بھی پڑھ لیں، مسجدوں میں جہاں تک ممکن ہو.لیکن بہر حال یہ انفرادی نوافل ہیں.جو بچے ہیں، وہ بعض دفعہ تو عشاء کی نماز میں بھی اونگھ رہے ہوتے ہیں.ان کو یہ کہنا کہ تم تہجد پڑھو یا نماز عشاء کے بعد 44
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1974ء نوافل پڑھو، یہ ان کو ایسی تکلیف دینا ہے، جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے.لیکن ظہر کے بعد وہ دورکعت نفل پڑھ سکتے ہیں.یہ دو نفل ان نوافل سے زائد ہیں، جن کی پہلے سے کسی احمدی کو عادت ہے اور وہ نفل کی صورت میں پہلے سے پڑھ رہا ہے ، ان کو یہ دو فل زائد کرنے پڑیں گے.ذکر : ( روزه، نفل نماز پڑھنا اور ذکر ) ذکر کے مختلف پہلو ہیں، جن کو میں اس وقت بیان کر رہا ہوں.ایک ہے، ذکر سورۃ فاتحہ کی تلاوت.سورۃ فاتحہ قرآن کریم کا نچوڑ بھی ہے اور خالی نچوڑ نہیں بلکہ اتنا حسن ہے، اس اختصار میں ، اور اتنی تفصیل ہے، اس اجمال میں، اور اتنے پیار کی جھلک ہمیں نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ کے اس احسان میں کہ قرآن کریم کا خلاصہ ہمیں سورۃ فاتحہ کی شکل میں دے دیا اور اتنی خوشبو ہے، اس کی روحانیت میں کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے.پس سورۂ فاتحہ بہت بڑا ذ کر ہے.ہم اسے بہت دفعہ پڑھتے ہیں، نماز کی ہر رکعت میں ہم پڑھتے ہیں.لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ جتنی باراب ہم پڑھ رہے ہیں، اس سے زیادہ سات بار روزانہ ایک احمدی سورہ فاتحہ کو پڑھے اور اس کے مطالب پر غور کرے.اور اس کے لئے میرا اندازہ ہے کہ اگر دنیا میں بسنے والے سب احمدی اس طرف توجہ کریں تو تمہیں لاکھ احمدی ایسا ہوگا ، جوسورۂ فاتحہ سات بار روزانہ پڑھ سکتا ہے.اور اگر میں لاکھ احمدی بچہ، بڑا سات بار روزانہ پڑھے مگر اس میں ، میں یہ ضرور کہوں گا کہ ماں باپ اپنے گھر میں بچوں کو اکٹھی سات مرتبہ نہیں پڑھائیں کیونکہ اس سے وہ اکتا جائیں گے بلکہ دو دفعہ سے زیادہ کسی وقت نہیں، اپنے بچوں سے سورہ فاتحہ پڑھائیں.جو چھوٹے بچے ہیں، پانچ یا سات سال کے، اور خدام الاحمدیہ کے قواعد کے مطابق ابھی اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں داخل نہیں ہوئے ، ان سے بھی پڑھا ئیں.اور جو چھوٹے بچے ہیں، ان کی تعداد بے شک کم ہی ہو کیونکہ یہ اصل میں تو ان کے لئے ہے، جن پر نماز فرض ہو گئی.وہ سات بار پڑھیں.اور جو اپنی عمر کے لحاظ سے ایسا ہے، جس پر نماز فرض نہیں ہوئی، وہ اپنی طاقت کے مطابق، جس کا فیصلہ اس کے نگران یا ماں باپ یا بڑے بھائی نے کرنا ہے.اگر وہ اس گھر میں ہے اور ماں باپ کہیں باہر گئے ہوئے ہیں.اگر تمیں لاکھ آدمی سات بار سورہ فاتحہ روزانہ پڑھیں تو جماعت کی مجموعی مالی قربانی کے فی روپیہ کے مقابلہ میں سورہ فاتحہ کی ایک سو اٹھائیس مرتبہ تلاوت ہوگی.یعنی فی پیسہ کے مقابلہ میں ایک دفعہ سے زائد سورہ فاتحہ جیسا عظیم اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھے اور اس دعا کے ساتھ ، بڑی عجیب دعا ہے کہ اے خدا! پیسہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر تیرے اس عظیم کلام کے صدقے سے ہم تجھ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے دھیلے میں تو برکت ڈال اور اس کے وہ نتائج نکال، جو آج ہم کمزور بندے چاہتے ہیں کہ نکلیں اور اسلام ساری دنیا پر غالب آئے.ذکر کا الف حصہ ہے.45
خطبه جمعه فرموده 08 فروری 1974ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم ب.دوسری بات، جو میں چاہتا ہوں کہ اتنی تعداد میں احمدی تسبیح وتحمید اور درود پڑھنے والے ہوں اور اگر تمیں لاکھ احمدی تینتیس بار سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظيم - گیا اللهم صل على محمد و آلِ محمد موجودہ جود وروہ کر رہے ہیں، اس کے علاوہ تینتیس بار پڑھیں تو فی روپیہ جو ہم اللہ کے حضور پیش کر رہے ہوں گے تو اس کے مقابلہ میں اس روپیہ میں برکت کی خاطر سات سو ستائیس دفعہ نبی تجمید اور درود پڑھ رہے ہوں گے.یہ نو کروڑ کے حساب سے ہے ورنہ ساڑھے چار کروڑ روپے اگر ہوں تو یہ چودہ سو سے اوپر فی روپیہ ہو جائے گا.اصل روپیہ نہیں ، اصل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کرتے ہوئے اورمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے آسمانی برکات کے حصول کی کوشش کی جائے.تا کہ ہمارا یہ منصوبہ کامیاب ہو.پس تسبیح و تحمید اور درود جیسا کہ میں نے ابھی خطبہ کے شروع میں پڑھا اور پہلے بھی بڑی تعداد میں یہ پڑھا جاتا رہا ہے.لیکن اب میں نے بتایا ہے کہ سب کچھ سوچ کر تعداد میں نے تھوڑی رکھی ہے کیونکہ بہت سی دعا ئیں اس کے اندر آ گئیں.تینتیس بار سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم - اللهم صَلِّ عَلَى شما مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدِ - پڑھتا ہے.ج.تیسرے نمبر پر استغفار اور تو بہ ہے.استغْفِرُ الله رَبِي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ - تینتیس بار روزانہ اس گنتی سے زائد ، جس کی عادت اور جس کا دستور کسی شخص نے بنایا ہو.یہ زائد استغفار اور توبہ کرنی ہے.تا کہ جیسا کہ خطبہ میں، میں نے ایک آیت قرآنی پڑھ کے آپ کو بتایا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آسمانوں سے بارش کی طرح خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی اور خلوص نیت رکھنے والوں کی زبانوں پر جب استغفار اور توبہ کے کلمات جاری ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس شخص یا اس جماعت کو قوت کے بعد اور قوت دی جاتی ہے اور ایسا ہوتا ہی چلا جاتا ہے..چوتھے یہ کہ ربنا افرغ علينا صبر أو ثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الكافرين - اللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِى مُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ - 46 45
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1974ء یہ گیارہ بار پڑھی جائے.کیونکہ پہلی جو ہے، اس کی عادت بھی ہے اور میرا اندازہ ہے کہ نو جوانوں نے بھی اپنا لیا ہوگا.اس میں میرا اندازہ ہے کہ شاید میں لاکھ احمدی شاید نہ پڑھ سکیں ، اس لئے میرا اندازہ ہے کہ کم از کم ( یہ سارے اندازے میرے کم از کم کے ہیں ) دس لاکھ احمدی مرد وزن گیارہ بار ان دو دعاؤں کو پڑھیں.ایک قرآن کریم کی اور ایک حدیث نبوی کی ہے.اور اس طرح ہر روپیہ، جو ہم خدا کے حضور پیش کریں گے.چھیاسٹھ بار ہم خدا سے یہ کہیں گے کہ اے خدا! جو تیرے نام کو مٹانا چاہتی ہیں، ان طاقتوں کے مقابلہ پر تیرے یہ عاجز بندے کھڑے ہوئے ہیں.اور کمزور ہیں، ہر لحاظ سے.ہم نے ایک منصوبہ بنایا ہے.اس منصوبہ کے مطابق تیری محبت کو انسان کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن دشمن انسان کو.وہ دشمن، جو اے خدا! تیرا بھی دشمن ہے اور انسانیت کا بھی دشمن ہے.تیرے انسان کو تجھ سے دور لے جانا چاہتا ہے.اس واسطے ہم تیرے حضور جھکتے ہیں اور بار بار جھلکتے ہیں.اپنی ایک مادی کوشش کے لئے چھیاسٹھ بار تیرے حضور جھکتے اور تجھ سے یہ طلب کرتے ہیں.عاجزانہ طور پر تجھ سے مانگتے ہیں، گڑ گڑاتے ہیں، تیرے حضور تڑپتے ہیں، تیرے پاس آ کر کہ تو ہماری اس مادی قربانی کو قبول کر اور اس میں برکت ڈال.اور ہمارے اس منصوبہ کو جو تیرے انسان کے فائدے اور اپنی روح کے فائدے اور تیری رضا کو حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، اسے تو کامیاب کر دے.پس ذکر کے اندر یہ چار پہلو ہیں.سورۃ فاتحہ کا سات بار روزانہ پڑھنا.(علاوہ اس تعداد کے، جو ہمارا معمول ہے.ہر ایک کا اپنا معمول ہوتا ہے.غور وفکر کرنے والے سورۃ فاتحہ کو ویسے بھی بار بار پڑھ رہے ہیں ) اور سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظيم - اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّد و ال مُحَمَّد - ینتیس بار روزانہ.اور اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبِ وَاتُوبُ إِلَيْهِ تینتیس بار روزانہ پڑھنا.اور بنا افرغ علينا صبر أوثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الكافرين - الكريم إنا جعلكَ فِى نُصُورِهِمْ وَتَفُوذُبِكَ مِنْ شُرُورِ ھم.اس دعا کا گیارہ بار روزانہ پڑھنا.یہ ذکر کے ماتحت ایک نفلی عبادت ہے، جو اس منصوبہ میں برکت ڈالنے کی خاطر اس وقت میں جماعت کے سامنے رکھ رہا ہوں.اس کے علاوہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا دو نفل روزانہ اور ہر ماہ میں ایک روزہ اس طریق پر جو ابھی میں نے بتایا اور ان شرائط پر جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی ہدایت کے 47
خطبه جمعه فرموده 08 فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم مطابق قائم کیا ہے.جس میں نوع انسانی کی دنیوی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی شامل ہے.جس میں نوع انسانی کی اخروی و روحانی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی شامل ہے.جس میں اپنے نفس کا خیال رکھنا بھی شامل ہے.یہ بنیادی طور پر تین شرائط مختلف شکلوں میں ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر غور کرنا.قرآن کریم پڑھتے وقت جو اللہ تعالیٰ کی صفات سامنے آتی ہیں، ان پر غور کرنا.قرآن کریم پڑھتے وقت انسان کی صلاحیتیں یعنی جن طاقتوں اور صلاحیتوں اور استعدادوں کو لے کر انسان پیدا کیا گیا ہے، وہ سامنے آتی ہیں، ان کی نشو ونما کی ذمہ داری سامنے آتی ہے.قرآن کریم نے ان تمام صلاحیتوں کی نشونما کے طریق بتائے ہیں.یہی چیز ہے، جو ہم نے دنیا میں قائم کرنی ہے اور اسی غرض کے لئے اس منصو بہ کو بنایا گیا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا ذ کر کے عنوان کے ماتحت جن دعاؤں کا میں نے ذکر کیا ہے، ان کے علاوہ اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور تضرع کے ساتھ گڑ گڑاؤ اور اس کی مدد حاصل کرنے کی اور اس کی رضا کے حصول کی اور اس سے طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرو.کیونکہ یہ عظیم منصو بہ یا ایک پاگل سوچ سکتا ہے یا ایک مخلص جانثار، جو اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو پہچانتا ہو، اس کے دماغ میں آ سکتا ہے.تو اگر آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو پہچانتے نہیں تو پھر آپ پاگل ہیں، جو منصوبہ سوچ رہے ہیں.اگر آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت نہیں رکھتے اور اس قادر و توانا خدا کے اوپر آپ کا تو کل نہیں ہے، اگر آپ اپنی زندگیوں میں اس کی متصرفانہ قدرتوں کے جلوے نہیں دیکھتے ، وہ جلوے موجود تو ہیں لیکن اگر آپ ان کا مشاہدہ نہیں کرتے تو پھر یہ منصوبہ جنون کی علامت ہے.لیکن نہیں جماعت احمد یہ مجنون نہیں.چاہے دنیا اسے مجنون سمجھے.صاحب فراست جماعت خدا تعالیٰ نے پیدا کی.یہ ایک وہ جماعت ہے، جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کا جھنڈا دیا ہے.اور جس کا ہر قدم دنیا کی ہر جہت میں غلبہ اسلام کی جانب اٹھ رہا ہے.لیکن پھر میں کہوں گا اور پھر میں کہوں گا اور پھر میں کہوں گا کہ وَلا فَخُر فخر کا کوئی مقام نہیں ہے.رونے کا اور عاجزی کا مقام ہے کہ کہیں انسان نفس کو دھوکا دے کر کئے کرائے پر پانی نہ پھیر دے.پس عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ ان نفلی عبادتوں کے ساتھ جس کا منصوبہ ابھی میں نے آپ کے سامنے پیش کیا، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کریں.اور ان برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے بعد خدا تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے اس یقین کے ساتھ کہ اسلام نے بہر حال غالب آنا ہے، غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے نوازے.اللہ تعالی ہم 48
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1974ء سب کو اپنی طاقت سے حصہ عطا کرے اور اپنے نور سے ہمیں علم عطا کرے.اور ہمیں یہ توفیق دے کہ شیطان کی تمام ظلمات کو اس زمانہ میں دنیا سے مٹا کر توحید کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے پر اور محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت ہر دل میں ایک پختہ، اندر گھس جانے والی میخ کی طرح گاڑ کر اس مقصد کے حاصل کرنے والے ہوں ، جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے.اور جس مقصد کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی عظیم ہستی کو دنیا کی طرف مبعوث کیا گیا.اور جس غرض کے لئے قرآن کریم جیسی بہت ہی عظیم اور حسین اور احسان کی طاقتیں رکھنے والی شریعت کو ، جو انسان کی تمام صلاحیتوں کی نشو و نما کی اہلیت رکھتی ہے، اسے دنیا کی طرف ابدی شریعت کے لحاظ سے قیامت تک قائم رہنے والی شریعت کے لحاظ سے بھیجا گیا ہے.دعاؤں کے ساتھ ، دعاؤں میں مشغول رہ کر ، ان دعاؤں کو بھی پڑھتے ہوئے ، اس طریق پر ، جو میں نے بتایا.اور اپنی زبان میں بھی ہر شخص اپنے فہم اور اپنی قوت کے مطابق ، اپنے علم اور اپنی فراست کے مطابق خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور ایک چیز سامنے رکھے کہ غلبہ اسلام کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.اور اس مقصد کے حصول کے لئے اگر ہمارے جسموں کا قیمہ بنا دیا جاتا ہے تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں.اور دنیا کو ایک نہایت بھیانک ہلاکت سے بچانے کی خاطر ہم اپنے پر ہر قسم کا دکھ اور ظلم سہنے کے لئے تیار ہیں.اور انشاء اللہ جیسا کہ وعدہ دیا گیا ہے، اگر آپ خلوص نیت سے کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اس سے زیادہ آپ پر نازل ہوں گی ، جس کو آپ کا ذہن اپنے تصور میں لاسکتا ہے.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 49 49
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم " اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 فروری 1974ء صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ غلبہ اسلام کا ایک عظیم منصوبہ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1974ء جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت احمدیہ کے سامنے جو صد سالہ احمد یہ جو بلی منصوبہ رکھا گیا تھا، اس سلسلہ میں ایک دو باتیں میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک جو وعدے موصول ہو چکے ہیں، ان کی رقم قریباً چار کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے، الحمد للہ تاہم ابھی ہمارے اندرون ملک سے بھی بہت سے مقامات بلکہ بہت سے ضلعوں کے مجموعی وعدے بھی نہیں ملے.اس لئے کہ وعدہ کرنے اور وعدوں کو یہاں پہنچانے کی معیاد شوری تک رکھی گئی ہے.اور بیرون ملک، جن چالیس، پچاس ممالک میں احمدی بستے ہیں، ان میں سے بھی میرے گذشتہ سے پیوستہ خطبہ جمعہ کے بعد صرف ایک ملک کے وعدے پہنچے ہیں.اور وہ بھی غالباً پہلی قسط کے طور پر ہیں.گویا بیرون ملک سے بھی وعدے آنے والے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ بعض بیرونی ممالک میں بھی اتنی مضبوط جماعت ہائے احمد یہ قائم ہو چکی ہیں کہ ان کے سالانہ بجٹ تھیں لاکھ روپے سے بھی زائد ہوتے ہیں.یعنی صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے مجموعی بجٹ کا پچاس فیصد.غرض بڑی مضبوط اور قربانی کرنے والی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.ان کی طرف سے بھی اس منصوبے کے وعدوں کی ابھی اطلاع نہیں آئی.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دل میں اب یہ جو خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اڑھائی کروڑ کی اپیل میں اللہ تعالیٰ اس قدر برکت ڈالے کہ عملاً نو کروڑ روپیہ جمع ہو جائے ، اس کے پورا کرنے کے آثار نظر آرہے ہیں.میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ کم از کم اتنی رقم اگلے پندرہ سولہ سال میں ضرور جمع ہو جائے گی.اس سکیم کے بہت سے حصے ایسے ہیں، جنہیں میں بعد میں کسی وقت بیان کروں گا اور ) جن کی وجہ سے آمد زیادہ ہو جائے گی.یہ منصوبہ جس وقت میرے ذہن میں آیا تو بعض دوستوں نے بھی مشورہ دیا اور خود میرے دماغ نے بھی اس کے متعلق سوچا اور مطالعہ کیا.اس دوران میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بعض فرمان بھی میری نظروں سے گزرے.اس وقت یہ ایک لحاظ سے مبہم سا منصوبہ تھا.کیونکہ تفاصیل تو ذہن میں نہیں 51
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1974ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم تھیں اور نہ آسکتی تھیں.بس یہ خواہش تھی کہ نہ صرف یہ کہ صد سالہ جشن منایا جائے بلکہ جماعت احمدیہ کی زندگی میں جب دوسری صدی شروع ہو اور وہ صدی جیسا کہ میں گذشتہ خطبہ جمعہ میں بتا چکا ہوں، غلبہ اسلام کی صدی ہے، اس لئے اس کا استقبال کرنے ، اس کے کاموں کی بنیادیں رکھنے اور ان کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں اگلے پندرہ سولہ سال میں انتہائی کوشش کرنی چاہئے.جلسہ سالانہ کے بعد بعض باتیں علم میں آئیں.لیکن جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو اس منصوبہ کی تفاصیل انشاء اللہ مجلس مشاورت میں جماعت کے سامنے رکھوں گا.اس لئے یہ منصوبہ، جو ایک خاکہ کی صورت میں پیش کیا گیا تھا، اس کے متعلق تفصیلی باتیں تو مجلس شوری میں پیش ہوں گی.لیکن میں چاہتا ہوں کہ دعا کی تحریک کی غرض سے دوستوں کے سامنے جس حد تک ان باتوں کو ظاہر کرنا ممکن ہے، ان کو ظاہر کر دوں.اس وقت تک اسلام کی اشاعت میں ہماری جو جد و جہد تھی، اس کی شکل حقیقی طور پر بین الاقوامی گروہوں کی بین الاقوامی کوشش کے خلاف نہیں تھی.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعوی کیا تو پہلے پنجاب اور پھر سارے ہندوستان نے مخالفت کی اور لوگوں نے کوشش کی کہ اس آواز کو دبا دیا جائے ، جس کو آسمانوں نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے اس دنیا میں مہدی معہود کے منہ سے بلند کر وایا تھا.پس پہلے پنجاب میں اس آواز کو دبانے کے لئے ، غلبہ اسلام کی اس جدو جہد کے راستہ میں روکیں ڈالنے کے لئے مخالفت شروع ہوئی.اور پھر کچھ عرصہ کے بعد سارے ہندوستان میں مخالفت شروع ہو گئی.1947ء تک یہی حالت رہی.پھر بیرون پاکستان بھی اللہ تعالیٰ ہی کے فرشتوں نے کوئی ایسی تحریک کی کہ جماعت احمدیہ کی طرف اور جماعت کے اس مقصد کی طرف، جس کی خاطر مہدی معہود کی بعثت ہوئی تھی، افراد کو ، خاندانوں کو توجہ پیدا ہونی شروع ہوئی.اور ایسی جگہوں پر بھی جہاں ہمارے علم کے مطابق نہ کوئی مبلغ پہنچا تھا اور نہ کتب پہنچی تھیں لیکن کسی ذریعہ سے احمدیت کا پیغام پہنچا تھا، وہاں اکا دکا افراد اور خاندان احمدی ہونے لگے.گوان کی تعداد تھوڑی تھی لیکن غلبہ اسلام کی تحریک آہستہ آہستہ وسعت اختیار کرنے لگی.گویا غلبہ اسلام کی وہ آواز ، جو قادیان سے بلند ہوئی تھی ، وہ ہندوستان سے باہر نکلی اور دنیا کے اکثر ممالک میں پھیلنے لگی.چنانچہ جب وہاں اکا دکا لوگ احمدی ہوئے تو ان کی مخالفت بھی بڑی معمولی سی تھی.یعنی جس ملک میں کوئی اکا دکا احمدی ہوتا ، اس ملک کی مجموعی مخالفت سامنے نہیں آتی تھی.اللہ تعالی اشاعت اسلام کے لئے اپنی تدبیر کرتا ہے، اس لئے ایسی مخالفت کہیں بھی اور کسی شکل میں بھی کسی ملک میں پیدا نہیں ہوئی ، جو ہماری کوششوں کو کسی ایک محدود دائرے میں کلیہ نا کام بنادے.52
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 فروری 1974ء پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں بڑھنے لگیں اور بعض ممالک میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہماری جماعتیں تعداد کے لحاظ سے وہاں کی آبادی میں دس فیصد سے زیادہ ہیں اور مالی قربانیوں کا یہ حال ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے ملک کی جماعتوں کا بجٹ تھیں لاکھ سے زیادہ ہوتا ہے.ان کی آبادی ہمارے مقابلہ میں دس فیصد ہے لیکن بجٹ ہمارے مقابلہ میں پچاس فی صد ہے.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قربانی دینے والی جماعتیں قائم ہو گئیں.جب یہ صورت پیدا ہوئی تو پھر ہر اس ملک میں جہاں احمدیت کو ترقی ہو رہی تھی، مخالفت شروع ہوگئی.تاہم مخالفت سے گھبراہٹ کبھی پیدا نہ ہوئی.کیونکہ مخالفت کا پوری جدو جہد کے ساتھ مقابلہ کرنا تو ہماری زندگی کا ایک ضروری حصہ ہے.بہر حال جب ہماری اجتماعی زندگی میں توانائی پیدا ہوئی تو مخالفت میں زور پیدا ہوا.اور ہونا بھی چاہیے تھا.گویا ہر وہ ملک ، جس میں جماعتیں قائم ہوئیں، وہ جماعتی کوششوں کے خلاف کھڑا ہو گیا.مثلاً افریقہ کے بہت سے ممالک ہیں، جہاں ہماری جماعتیں قائم ہوئیں اور انہوں نے ترقی کی اور انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقبولیت حاصل ہوئی.تو وہاں کے لوگوں نے (غیر مسلموں نے بھی اور ان مسلمانوں نے بھی، جنہوں نے ابھی تک حقیقت کو نہیں پایا.) مخالفت شروع کر دی.اور جوں جوں جماعت بڑھتی گئی، اس مخالفت میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی.لیکن مخالفانہ عنصر اسی ملک کے ساتھ تعلق رکھتا تھا، جس میں جماعتیں قائم تھیں.یعنی ہر ملک میں جماعت احمدیہ کی مخالفت مقامی نوعیت کی حامل تھی.اور گذشتہ جلسہ سالانہ تک یہی حالت رہی.جلسہ سالانہ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں صد سالہ احمد یہ جو بلی کا منصوبہ ڈالا اور اس کے متعلق بڑے زور کے ساتھ تحریک ہوئی کہ جلسہ سالانہ پر اس کا اعلان کر دیا جائے کہ اگلے پندرہ ، سولہ سال بڑے اہم ہیں، بڑے سخت ہیں، بڑی قربانیوں کے سال ہیں، خود کو سنبھالنے کے سال ہیں، نئی نسلوں کی از سر نو تر بیت کرنے کے سال ہیں.چنانچہ جلسہ سالانہ پر جب صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کا اعلان کیا گیا.اس کے بعد بعض ایسی اطلاعات موصول ہوئیں کہ جن کو پا کر دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے چشمے پھوٹے.اللہ تعالٰی علام الغیوب ہے، ہمیں علم نہیں تھا لیکن اس کو علم تھا.اس نے جماعت کو اس طرف متوجہ کردیا کہ قربانیاں دینے کے لئے تیار ہو جاؤ.اب جماعت احمدیہ کی طرف سے غلبہ اسلام کی اس عظیم اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہونے والی جدوجہد کی مخالفت ایک نئی شکل میں اور ایک اور رنگ میں شروع ہوئی ہے.اور وہ بین الاقوامی متحدہ کوشش کی شکل میں ہے.پہلے ہر ایک ملک، اپنے ملک میں مخالفت کر رہا تھا.یہاں بھی مخالفت تھی اور زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ بعض لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ 53
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کے خلاف مکہ اور مدینہ سے کفر کے فتوے حاصل کر لئے.لیکن اس کفر کے فتووں کی مہم کے نتیجہ میں جماعت میں کمزوری پیدا نہیں ہوئی.جماعت نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو ، جس رنگ میں حاصل کیا ہے، اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی.بہر حال ملک ملک میں مخالفت تھی یہ کہ ممالک اکٹھے ہو کر جماعت کی متحدہ مخالفت کریں، اس رنگ میں جماعت کو مخالفت کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا.میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے، اسلام کو غالب کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا منصوبہ ہے.یہ اتنا بڑا منصوبہ ہے ( جو آسمانوں سے اترا اور انسان کے کمزور ہاتھوں میں دیا گیا ہے ) کہ اگر خدا تعالیٰ کی رحمتوں، اس کی طاقتوں اور قدرتوں اور اس کے غالب اور قہار ہونے پر تو کل نہ ہو تو اس کا تخیل و تصور ہی انسان کو پاگل بنا دیتا ہے.لیکن جہاں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کرنے کا اتنا عظیم منصوبہ مہدی معہود کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں دیا، وہاں ہر احمدی کے دل میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر تو کل پیدا کیا کہ وہ تمام عقلی پہلوؤں کو اپنے پاؤں تلے روندتے اور خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھا.ظاہر ہے کہ پہلے صوبے کی مخالفت تھی ، پھر ملک کی مخالفت تھی ، پھر ملک ملک کی مخالفت تھی ، مخالفت میں ترقی ہوتی چلی گئی.اب ممالک کے اکٹھے ہو کر مقابلے میں آجانے کا جو منصوبہ ہے، اس سے بڑھ کر اس کرہ ارض پر اور کوئی منصوبہ تصور میں بھی نہیں لایا جا سکتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے اور اسی پر اپنا تو کل رکھتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ غلبہ اسلام کی آخری گھڑی قریب آگئی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.کیونکہ جب منصوبہ اپنی انتہا کو پہنچا تو ہمارے ہر دل نے یہ کہا بح نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں (درمین صفحه (50) اب اس بین الاقوامی منصوبہ کے خلاف جماعت نے اسلام کو کامیاب اور غالب اور فاتح کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی جہاد کرنا ہے.اس جہاد کے لئے آپ کو تیار ہونا چاہیے.اس کی تفاصیل تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی رحمت پر تو کل کرتے ہوئے مجلس شوری میں پیش کروں گا.لیکن اس وقت اس مرحلے پر کہ پہلے ہمیں خدا نے کہا کہ بہت بڑے پیمانے پر قربانی دینے کے لئے تیار ہو جاؤ اور پھر ہمارے علم میں بعد میں یہ بات آئی کہ ایک بین الاقوامی منصوبہ کئی ملکوں نے اکٹھے ہو کر بنایا ہے کہ اسلام غالب نہ ہو.اس کی کوشش دونوں طرف سے ہوئی ہے.جو مسلمان ہیں ، وہ تو اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ وہ حقیقت کو سمجھتے نہیں.اور جو غیر مسلم ہیں، وہ اس لئے کہ وہ ہمیشہ سے اسلام کو 54
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 فروری 1974ء مٹانے کی کوششیں کرتے چلے آئے ہیں اور اب ان کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں ان کے مذہب پر اسلام غالب نہ آجائے.اور جود ہر یہ ہیں، وہ کہنے لگ گئے ہیں کہ اس وقت دنیا میں دہریت اور اشتراکیت کے رستے میں انہیں ایک ہی روک نظر آتی ہے.اور وہ جماعت احمد یہ ہے.پس ایک بین الاقوامی متحدہ حملے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تا اسلام دنیا پر غالب نہ آئے.اس بین الاقوامی منصوبہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی منشاء سے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ بنایا گیا ہے.جس کی رو سے مالی قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے.پس غیر مسلموں کی طرف سے یہ انتہائی مخالفت نشاندہی کرتی ہے، اس بات کی کہ اسلام کے انتہائی غلبہ کے دن اللہ تعالیٰ کے فضل سے نزدیک آگئے ہیں.ہم نے تو اڑھائی کروڑ روپے کا سوچا تھا اور اس وقت ( جلسہ سالانہ پر ) اپیل بھی یہی کی تھی.مگر ساتھ ہی کہ دیا تھا کہ یہ رقم پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نظر آرہا ہے کہ یہ فنڈ اس سے بھی آگے نکلے گا، شاید نوکر وڑ روپے تک چلا جائے.لیکن اصولی طور پر جو چیز مجھے نظر آئی اور جس نے میرے دل میں حمد کے جذبات پیدا کر دیئے اور میں چاہتا ہوں کہ احباب جماعت بھی اللہ تعالیٰ کی حمد میں میرے ساتھ شریک ہوں، وہ یہ تھی کہ یہ جواڑھائی سے پانچ کروڑ تک اور پھر پانچ سے 9 کروڑ روپے تک جمع ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر ہم اخلاص کے ساتھ اور پاک نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی قربانیاں پیش کریں گے تو اسلام کے غلبہ کے لئے خدا کے نزدیک جس قدر بھی مادی ذرائع کی ضرورت پیدا ہوگی، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عطا کئے جائیں گے.اور اس کام کے لئے جس قدر دعاؤں کی ضرورت ہوگی، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو یہ تو فیق عطا کرے گا کہ وہ دعائیں کریں.تا کہ جہاں تک ہمارے امکان میں ہے، ہم تدبیر اور دعا کو انتہا تک پہنچادیں.اور خدا تعالیٰ کے آلہ کار بنتے ہوئے اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کا ذریعہ بنیں اور اس کی رحمتوں کے وارث بن جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“.( مطبوعه روزنامه الفضل 05 مارچ 1974ء ) 55
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جدہ پنچم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 فروری 1974ء صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جاری کرایا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 22 فروری 1974ء تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.بارش کے موسم میں گھروں میں نماز پڑھ لینا اور جمعہ کے لئے جامع مسجد میں نہ آنا، اس کی اجازت ہمیں دی گئی ہے.لیکن چونکہ میرا خیال تھا کہ بعض دوست اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے اور مسجد میں پہنچ جائیں گے ، اس لئے میں نے سمجھا کہ میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں.اور یہاں آ کر سورج کی مسکراہٹوں سے لطف اندوز بھی ہو رہا ہوں.اگر میری طرف سے صبح اعلان کر دیا جا تا کہ نماز جمعہ کی بجائے گھروں میں دوست نمازیں پڑھ لیں تو پھر تو اور بات تھی.لیکن بہر حال جیسا کہ میرا خیال تھا، کافی دوست یہاں موجود ہیں.جب بھی اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے، خشیت اللہ رکھنے والی نگاہ اس میں امتحان اور آزمائش کا پہلو بھی دیکھتی ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے.هذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي وَاشْكُرُ امْ أَكْفُرُ تو جہاں بھی فضل نازل ہو ، وہاں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ جس فرد پر یا جس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوا، وہ فرد اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے یادہ جماعت خدا کا شکر ادا کرتی ہے یا ناشکری کی راہوں کو اختیار کرتی ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ کے بے شمار ایسے فضل نازل ہو رہے ہیں، جو اس کی قائم کردہ جماعتوں پر ہی نازل ہوتے ہیں.اور دنیا میں کہیں اور اس کی مثال ہمیں نہیں ملتی.اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے بعد اس کی محبت اور اس کے عشق میں مست ہو کر اس کی راہ میں اسی کی عطا میں سے دینا، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں.اور ہم نے دیکھا کہ اس قسم کے فضل بھی خدا تعالیٰ کی قائم کردہ اس جماعت پر بڑی کثرت سے نازل ہورہے ہیں.جواڑھائی کروڑ روپے کا منصوبہ میں نے جماعت کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر جلسہ سالانہ کے موقع پر رکھا تھا اور میں نے اپنے رب پر توکل رکھتے ہوئے یہ اعلان بھی اسی وقت کر 57
خطبہ جمعہ فرموده 22 فروری 1974ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم دیا تھا کہ یہ پانچ کروڑ تک بھی پہنچ سکتا ہے.غالبا گذشتہ سے پیوستہ خطبہ جمعہ میں، میں نے کہا تھا کہ جماعت کا وعدہ چار کروڑ روپے کے قریب قریب پہنچ گیا ہے.کل جور پورٹ مجھے ملی ہے اور جس کے تیار کئے جانے کے بعد لاکھوں روپے کے وعدے مجھے ملے ہیں اور جو بھی دفتر میں نہیں پہنچے.جو وعدے میرے پاس آتے ہیں، وہ میرے دفتر میں جاتے ہیں.پھر جس دوست کو میں نے مقرر کیا ہوا ہے، اس کے پاس جاتے ہیں.میرا اندازہ ہے کہ وہ بھی بارہ ، پندرہ لاکھ کے قریب ہوں گے، جو ابھی تک اس میں شامل نہیں کئے گئے.وعدہ بھیجوانے کی آخری تاریخ میں ابھی وقت باقی ہے.بیرون ملک جماعتوں میں سے ابھی بہت سی رجسٹر ڈ جماعت ہائے احمد یہ ہیں، جن کی طرف سے ابھی وعدے نہیں آئے.خود پاکستان کے بہت سے ضلعوں سے مجموعی وعدے ابھی نہیں آئے.انفرادی وعدے یا جو جماعتیں مختلف ضلعوں میں ہیں، ان میں سے بعض کے وعدے ابھی پہنچے ہیں.بیرون ملک جو جماعت ہائے احمد یہ ہیں، ان کے متعلق میں نے رجسٹرڈ" کا لفظ عمداً بولا ہے.اس لئے کہ ہمارے بہت سے نوجوانوں بلکہ بعض بڑی عمر کے لوگوں کو بھی شاید یہ علم نہ ہو یا شاید ان کے ذہن میں یہ بات مستحضر نہ ہو کہ مختلف ممالک میں جہاں جماعتیں مضبوط ہو چکی ہیں، وہاں جماعت احمد یہ مستقل حیثیت میں ایک رجسٹر ڈ جماعت ہے.اور وہ صدر انجمن احمد یہ یا تحریک جدید انجمن احمدیہ کے اس طرح ماتحت نہیں، جس طرح وہ خلافت کے ماتحت ہیں.خلافت کے ماتحت تو ساری دنیا کے مبائع احمدی ہیں کیونکہ بیعت ہی اطاعت کی ہے.اور نیکیوں کی جو ترغیب دی جاتی ہے اور قربانیوں کی جو اپیل کی جاتی ہے، اس میں سب اسی طرح بشاشت کے ساتھ لبیک کہتے ہیں، جس طرح کسی دوسرے ملک کے احمدی لبیک کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ) مثلاً انگلستان کا اپنا دستور ہے اور وہاں رجسٹر ڈ جماعت ہے.اسی طرح افریقہ کے ممالک اور یورپ وغیرہ میں ان کے اپنے رجسٹر ڈ دستور ہیں.وہ صدرانجمن احمد یہ پاکستان کے ماتحت نہیں.ویسے وہ صدر انجمن احمدیہ کی اس معنی میں شاخیں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری دنیا کے لئے صدر انجمن احمد یہ کو قائم کیا تھا.لیکن اس معنی میں شاخیں نہیں ہیں کہ ان پر پاکستان کا حکم لگنے لگ جائے.ان پر انگلستان ہی کا حکم لگے گا.اور جہاں تک دنیوی احکام اور قوانین کا تعلق ہے، ان پر انگلستان کے ہی احکام اور قوانین کی پابندی فرض ہے.جو قوانین ہیں نائیجیریا کے، نائیجیریا کی جماعت پر ان کی پابندی لازمی ہے.غانا، سیرالیون اور گیمبیا، جرمنی، ہالینڈ اور سوئٹزر لینڈ اور ڈنمارک وغیرہ وغیرہ ، درجنوں یسے ممالک ہیں، جہاں ہماری جماعتیں مضبوط ہو گئی ہیں.وہاں ان کا اپنا ایک دستور ہے، جو وہاں اس ملک 58
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 فروری 1974 ء میں رجسٹرڈ ہے.تو ایسی بات نہیں ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کا کوئی ریزولیوشن ان پر لاگو ہوتا ہے.وہ خود اپنے فیصلے کرتے ہیں.ہر دستور میں جو بنیادی چیز ہے، وہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی اطاعت بالمعروف ضروری ہو گی.عام نگرانی تو ہے لیکن وہ اپنے فیصلے کرتے ہیں اور بڑی بشاشت سے کرتے ہیں.مثلاً جلسہ سالانہ پر لنڈن کے مشنری انچارج امام بشیر رفیق صاحب یہاں تھے.ان کو میں نے پہلے بتایا تھا کہ یہ تحریک ہورہی ہے.انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ کے وعدے انگلستان کی رجسٹر ڈ باڈی جماعت احمدیہ کی طرف سے میں پیش کرتا ہوں.اور جس وقت میری طرف سے یہ اعلان ہوا اور ان کو اس کی اطلاع ملی تو جس طرح یہاں صدر انجمن احمدیہ ہے، اس طرح جو ان کی مرکزی مجلس عاملہ ہے، انہوں نے میٹنگ کی اور باہمی مشورہ کیا اور انہوں نے دو، ایک روز کے اندر ہی تار کے ذریعہ مجھے یہ اطلاع دی کہ ہمیں پتہ لگا ہے کہ آپ نے یہ تحریک کی ہے اور ہم ایک کروڑ ، ایک لاکھ روپے کے وعدے کرتے ہیں.اب وہاں سے جو اطلاعات آرہی ہیں، ان سے پتہ لگتا ہے کہ وہاں جماعتوں میں قربانی کی بڑی بشاشت پیدا ہورہی ہے.اور وہ کہتے ہیں کہ جو ابتدائی اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل تھی ، ہم کوشش کریں گے کہ وہ اڑھائی کروڑ روپیہ جماعت ہائے احمد یہ انگلستان دے دیں.اس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں.اور اس کی اطلاع انشاء اللہ مشاورت تک مجھے امید ہے، آجائے گی.( یہ وعدے عملاً اڑھائی کروڑ سے اوپر نکل چکے ہیں.کیونکہ انہوں نے اس سلسلہ میں پہلی میٹنگ جو لندن میں کی ، اس میں صرف 158 احمدی شامل ہو سکے تھے.وہاں تو کئی ہزار احمدی ہیں.میرے خیال میں اس وقت انگلستان میں شاید دس پندرہ ہزار سے زیادہ احمدی ہوگا.اس میٹنگ میں 158 احمدی تھے.اس میں دو لاکھ پاؤنڈ سے اوپر یعنی 50 لاکھ روپے کے وعدے ہو گئے تھے.انہوں نے چار لاکھ پاؤنڈ کا وعدہ کیا ہے.(ساڑھے تین لاکھ پاؤنڈ جمع چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا50 ہزار پاؤنڈ کا وعدہ، جواب انہوں نے بڑھا کر ایک لاکھ پاؤنڈ کر دیا ہے.ممکن ہے، اس سے زیادہ وہاں کی جماعت دے دے.(وعدے اڑھائی کروڑ سے اوپر نکل چکے ہیں.) بہر حال رجسٹرڈ میں نے اس لئے کہا کہ بعض دفعہ ہمارے احمدی دوستوں کو چونکہ علم نہیں ہوتا ، وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں سے صدر انجمن احمدیہ کا کوئی ریزولیوشن چلا جاتا ہے، جس کی پابندی ان کو کرنی پڑتی ہے.ایسا نہیں ہے.بلکہ ان کی اپنی ایک رجسٹر ڈ انجمن ہے اور وہ صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت نہیں.بلکہ خلیفہ وقت کے ماتحت ہے.اس معنی میں ، جس معنی میں کہ صدر انجمن احمد یہ پاکستان خلیفہ وقت کے ماتحت ہے.اس موضوع پر میں کسی وقت تفصیل سے بات کروں گا لیکن سر دست چند فقروں میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت جو روحانی سلسلہ خلافت اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق مہدی معہود کی بعثت کے بعد 59
خطبہ جمعہ فرمود و 22 فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم جاری ہوا، یہ سلسلہ خلافت دنیا کو امت واحدہ بنانے کے لئے قائم ہوا ہے.اور اس سلسلہ کا کوئی خلیفہ بھی بھی کسی علاقے کا حاکم وقت اور بادشاہ وقت نہیں بنے گا اور دنیا کی سیاست میں خلیفہ وقت نہیں آئے گا.کیونکہ ہر ملک کی اپنی سیاست ہے اور ہر ملک کے باشندوں کے ساتھ امام وقت اور خلیفہ وقت نے پیار کرنا ، ان کی ہدایت کے لئے دعائیں کرنا ، ان کو مشورے دینا، ان کو اپنے وجو د روحانی کا ایک جزو بنانے کی کوشش کرنا ہے.تا کہ سب مل کر ایک وجود بن جائیں.جیسا کہ میں دنیا کے سامنے کچھ عرصہ سے اس بات کو پیش کر رہا ہوں کہ میرا ( مرزا نا صراحہ نہیں بلکہ خلیفة المسیح النسالت کا ) اور جماعت احمدیہ کا ایک ہی وجود ہے.ان دو میں کوئی فرق نہیں.تو جو اس وقت حالات ہیں اور جو کام مہدی معہود کے سپرد ہیں ، ان کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی خلافت، سیاست میں کبھی ملوث نہیں ہوگی.کیونکہ اس صورت میں خلافت وہ فرائض سرانجام نہیں دے سکتی ، جو بحیثیت نائب مہدی علیہ السلام اس کے سپرد کئے گئے ہیں.لیکن نیکیوں کی تحریک کرنا اور جماعت میں بشاشت پیدا کرنا، یہ خلیفہ وقت پر ایک بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ قربانیاں بھی لے اور بشاشت کو بھی قائم رکھے.یہ تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کرتا ہے اور بندہ تو کمزور ہے اور سب سے زیادہ کمز ور تو خلیفہ وقت ہے کیونکہ ساری ذمہ داریاں اس کے کندھوں پر ڈال دی گئیں.وہ دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہے.لیکن ذمہ داریاں تو دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں.اللہ تعالیٰ ہی کام کرتا ہے.تو خدا تعالیٰ نے اس کو جن کاموں کے کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے، اس کی اسے طاقت بھی دیتا ہے یا فرشتوں کو کہتا ہے کہ جاؤ اس کے کام کر دو.جماعت احمد یہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.اور وہ لوگ ، جنہوں نے نہ کبھی خلیفہ وقت کو دیکھا تھا، نہ کبھی مرکز میں آئے تھے، غلبہ اسلام کے ساتھ ان کا عشق آپ سے کم نہیں.میں 70ء میں مغربی افریقہ میں گیا اور بلا مبالغہ میں کہتا ہوں کہ جتنا پیار اور محبت جماعت احمدیہ کے ساتھ اور مہدی معہود کے ساتھ اور جتنا پیاراور محبت جماعت میں مہدی معہود نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پیدا کیا، وہ آپ لوگوں کو حاصل پیار سے کم نہیں.بلکہ جو آپ میں سے چوٹی کا ایک گروہ ہے، اس کے پہلو بہ پہلووہ لوگ کھڑے ہیں.اور ان کے خلوص اور محبت کو دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے.پس یہ سب کام تو فرشتے ہی کرتے ہیں.بہر حال اس وقت تک جو وعدے یہاں پہنچے ہیں، وہ 4,23,00,000 ( چار کروڑ ، تمیں لاکھ) سے زیادہ ہیں.اور اس میں پچھلے دو، تین دن کے ایسے وعدے جو میرے دفتر میں پڑے ہیں یا کچھ ڈاک کے تھیلے جو میرے گھر میں پڑے ہیں، وہ شامل نہیں ہیں.میرا خیال ہے کہ وہ ملا کر یہ رقم 4 کروڑ 30 لاکھ 60
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 فروری 1974ء سے اوپر چلی گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ اللہ تعالی فضل کرے گا.پتہ نہیں کیوں نو کروڑ کے اعدادو شمار میرے ذہن میں آتے ہیں کہ وہاں تک پہنچ جائیں گے.انشاء اللہ.اخلاص کچھ وضاحتیں بھی طلب کرتا ہے.جتنا کوئی مخلص ہو، اتنا ہی وہ ڈرتا بھی ہے.تو ان میں سے بعض وضاحتیں اس وقت میں کرنا چاہتا ہوں.مثلاً ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میری عمر اس وقت 77 سال ہے اور وعدوں کی ادائیگی کا پھیلاؤ پندرہ سال سے کچھ زائد عرصہ پر ہے.تو بظاہر تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انتقالمبا عرصہ میں زندہ رہوں.ویسے اللہ تعالیٰ فضل کرے اور عمر دے تو اور بات ہے.لیکن سنتر سال میں پندرہ جمع کریں تو 92 سال ہوتے ہیں.لیکن اس ملک میں تو 0 7 یا اسی سال بڑی عمر مجھی جاتی ہے.تو انہوں نے یہ سوال کیا کہ اگر میں پندرہ سال کا وعدہ کروں اور میری وفات ہو جائے تو کیا مجھے گناہ ہو گا ؟ یا میری وفات کے بعد وعدہ کی وہ ذمہ داری میری اولاد پر پڑ گئی اور اس نے غفلت برتی تو کیا اس پر گناہ ہوگا ؟ حالانکہ اولاد نے تو وعدہ نہیں کیا ہو گا.وعدہ تو انہوں نے اپنا کیا ہے.پس ایک تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک زندگی اور موت کا سوال ہے، پانچ سالہ بچہ بلکہ ایک دن کے بچے سے بھی موت اتنی ہی قریب ہے، جتنی 77 سال کے بوڑھے سے قریب ہے.زندگی اور موت تو ہمارے اختیار میں نہیں.اس لئے عام طور پر ہم اخلاص کی وجہ سے یہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور اتنی زندگی مل جائے گی.لیکن کوئی شخص یقین نہیں رکھتا.ایک پل کا یقین نہیں ہوتا تو پندرہ سال تو بے شمار پلوں کا مجموعہ ہے.لیکن بعض 90 یا95 سال کی عمر کے ہیں یا بعض ایسے مریض ہیں، مثلاً ایک سل کا مریض ہے، یہ بیماری ایسی ہے کہ وہ بظاہر زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا.باقی اللہ تعالیٰ سب قدرتوں کا مالک ہے، اس کی قدرتوں میں تو کمی نہیں ہے.لیکن بظاہر حالات خدا تعالیٰ کا جو قانون چلتا ہے، وہ ڈاکٹروں کے نزدیک یہی ہے کہ ایک سل کے مریض کو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ چالیس سال تیری عمر ہے.کئی لوگوں کی عمر ڈاکٹروں کے کہنے کے خلاف اس سے بڑھ بھی جاتی ہے یا پھر کینسر کا مریض ہے.یہ حالات استثنائی حالات ہیں.ان صورتوں میں کہ مثلاً کینسر کا مریض ہے یا مثلاً اسی سال عمر کا ہے، اس صورت میں ایک راہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ یہ وعدہ کرے کہ میں اپنی آمد کے لحاظ سے سولہ سال کا یہ وعدہ کرتا ہوں اور میں یہ وضاحت کر دیتا ہوں کہ اگر کوئی دوست فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی اولاد پر ذمہ داری نہیں پڑتی.دوسرے یہ کہ اگر وہ فوت ہو جاتے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں.کیونکہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا 61
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم لیکن جو خلص دل ہے، میرے نزدیک ایک مخلص دل کو یہ کرنا چاہیے کہ ہر سال کا یہ طوعی چندہ، جو صد سالہ جو بلی فنڈ کا ہے، وہ سال کے ابتدا میں ادا کر دے گا.کیونکہ وہ اس سال میں داخل ہو گیا ، جس کا کچھ حصہ اس نے زندگی کے دن گزارے.اگر وہ سال کے بیچ میں فوت ہو جائے یا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ اتنا میں دینا چاہتا ہوں.مثلاً ایک شخص ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ میرے حالات ایسے ہیں کہ میں سوروپیہ سالانہ دے سکتا ہوں.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سولہ سال کا چندہ ( یونٹ تو سولہ سال ہے، اگر چہ سولہ سال پورے تو نہیں، پندرہ ہیں.) میں سولہ سو روپیہ دے سکتا ہوں اور نیت میری یہی ہے.لیکن میں وعدہ پہلے دو سال کے یونٹ کا کرتا ہوں.دوسو روپیہ میں اب دے دوں گا اور ہر سال میں وعدہ کی تاریخ کے لحاظ سے یکم تاریخ کو وعدہ کروں گا اور ادائیگی کرتا چلا جاؤں گا.یہ بھی ایک شکل ہے.ویسے یوں ہونا چاہیے کہ جس میں جتنی ہمت ہے، آج وہ ادا کرے.جو بڑی عمر کے ہیں یا سخت بیمار ہیں، وہ اپنا وعدہ کریں اور سال کے شروع میں ادا کر دیں.تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کو اللہ تعالیٰ سولہ سال کی ادائیگی کا ہی ثواب دے دے گا.کیونکہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيات - اور جونیت ہے، اس نیت کا اخلاص انسان کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس بات کا مستحق قرار دیتا ہے کہ وہ اپنی رحمت کا دروازہ ایسے شخص پر کھولے.(سوائے اس کے کہ کوئی اور مصلحت خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو.اور اسے ثواب اتنا دے دے، جتنی اس کی نیت ہے.پس سولہ سال کی نیت کرو اور آگے ادا ئیگی جس شکل میں بھی کر وہ ثواب تمہیں مل جائے گا.گناہ نہ تمہیں ہوگا، نہ تمہارے وارثوں کو.ایک اور شکل سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص ہے.وہ بڑا ذ مہین ہے.اس نے بڑی ترقی کی اور ملازمت کے سلسلہ میں وہ آگے نکلا.دو، تین ہزار روپے ماہوار اس کی تنخواہ تھی.یکدم اس کو موقع مل گیا کہ وہ ورلڈ بینک یا یو این او (U.N.O) یا اس قسم کی جو بین الاقوامی تنظیمیں ہیں، ان میں سے کسی میں چلا گیا.ایسی تنظیمیں بہت پیسے دیتی ہیں.پیسے تو وہ بہت دیتی ہیں لیکن ان کا معاہدہ ایک وقت میں دو سال کا ہوتا ہے.ایسے بھی متعدد آدمی ہیں.میرے خیال میں ایک درجن سے زیادہ ہوں گے، جوان بین الاقوامی تنظیموں میں ہیں.ان کو بہت پیسے مل رہے ہیں.ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم کس طرح اندازہ لگا ئیں اور اپنے وعدہ کی بنیاد کس آمدنی پر رکھیں؟ اس وقت تو دو سال کے لئے ہمیں پچاس ہزار روپیہ ماہواریل رہا ہے اور دو سال کے بعد ہمیں تین ہزار روپیہ ماہوار ملے گا.تو ہم اپنے وعدہ کی بنیاد پچاس ہزار روپے مہینہ پر رکھیں یا تین ہزار روپیہ ماہوار آمد پر رکھیں؟ جس نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا، اس کو میں نے 62
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 فروری 1974ء یہی سمجھایا تھا کہ آپ وعدہ کر دیں، پچاس ہزار روپے کی بنیاد پر.اور پچاس ہزار میں سے تین ہزار روپیہ ماہوار دینے کا وعدہ کر دیں اور دو سال کے بعد آپ کو تین ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ملنے لگے، وہ آپ ادھر دے دیں اور گھر میں گزارے کے لئے کچھ نہ ہو اور خدا آپ کو یہ کہے کہ سارے کے سارے پیسے دے دو.یہ بات تو نہیں ہے.پس تم پہلے کہ دو کہ حالات کے مد نظر دو سالوں میں، میں اتنا دوں گا اور اس کے بعد جو نئے حالات پیدا ہوں گے، اس کے مطابق میں رقم کی تعیین کردوں گا.یا تین ہزار جو عام آمد ہے، اس کے مطابق یہ وعدہ کرو اور ساتھ یہ کہو کہ جن سالوں میں میری آمد بڑھ جائے گی ، اسی نسبت سے جو آمد اور اس موجودہ وعدہ کی ہے، میں اپنا وعدہ بڑھا دوں گا یا اس نسبت میں کمی یا زیادتی کر دوں گا.یہ کوئی ایسی تکلیف نہیں ہے، جس کا حل نہ ہو.اس ضمن میں اس سے ملتی جلتی شکل یہ سامنے آتی ہے کہ ایک آدمی تین ، چار ہزار روپے تنخواہ پارہا ہے اور دو سال یا پانچ سال بعد اس نے ریٹائر ڈ ہو جانا ہے.پھر تو اسے پنشن ملے گی.یہ سارے حالات سامنے رکھتے ہوئے آپ اپنی نیت میں اخلاص پیدا کریں تو قطعا آپ کو کوئی گناہ نہیں ہوگا.اپنے بدلے ہوئے حالات کے مطابق خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی دیتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے آپ کے لئے کھلتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.قرآن کریم نے خیر کے مقابلہ میں بڑی خیر کا وعدہ دیا ہے.اور بعض جگہ تو کہہ دیا کہ اتنے گنازیادہ ثواب ملے گا.اور بعض جگہ حد نہیں مقرر کی اور صرف یہ کہا کہ اس سے زیادہ ثواب ملے گا.اب زیادہ جو ہے، وہ 50 فیصد بھی زیادہ ہے اور پچاس کروڑ فی صد بھی زیادہ ہے.یعنی ایک نیکی کے مقابلہ میں پچاس لاکھ گنا ثواب بھی زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ نے بڑی امید دلائی ہے اور بڑا تو کل دل میں پیدا کیا ہے اور بڑی بشاشت دل میں پیدا کی ہے.اصل میں تصوریہ ہمیں دیا گیا کہ انسان کی قربانی کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا کی کوئی حد بست ہی نہیں ہے.اخلاص پیدا کرتے چلے جاؤ اور اس کی رحمتوں سے حصہ لیتے چلے جاؤ.پس اس قسم کی تفصیل سے گھبرانے کی ضرورت نہیں.خلوص نیت کے ساتھ جو حالات ہیں لکھ دو یا اس کے مطابق نیت کر لو، اللہ تعالیٰ نواب دے گا اور اجر دے گا.اس کی رحمتوں کے دروازے کھلیں گے.بہر حال چار کروڑ تیس لاکھ تک ہم پہنچ چکے ہیں.ابھی کچھ وقت باقی ہے اور ابھی بہت سے علاقے بھی باقی ہیں، جن سے وعدہ جات آنے ہیں.مثلاً ایک ضلع کا مجھے علم ہے.وہ کہتے ہیں ، ہم ہیں لاکھ سے آگے نکلیں گے.اور ابھی تک میرا خیال ہے، سات، آٹھ لاکھ سے زیادہ بحیثیت مجموعی اس ضلع کے وعدے نہیں ہوئے ، جو ہم تک پہنچے ہیں.یہ کام تو بشاشت سے ہونے والے ہیں اور ہوں گے.63
خطبہ جمعہ فرمود : 22 فروری 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم میں نے بتایا تھا کہ ہمیں تو پتہ نہیں تھا، ایک منصو بہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے عاجز بندوں کے ذریعہ جاری کر دیا اور پھر وہ باتیں سامنے آ گئیں، جو اس منصوبہ کی متقاضی تھیں.اور دل میں یہ یقین پیدا ہوا کہ جس بالا ہستی نے ، قادر و توانا نے ، جس کے علم میں ضرورت تھی ، اس نے ہمارے دماغ میں صرف منصوبہ ڈال دیا.بعد میں کہا یہ ضرورت ہے، جس پر ہمیں یقین ہے کہ وہ ضرورت پوری ہوگی.یعنی ہماری یہ جد و جہد کامیاب ہوگی اور ساری دنیا اکٹھی ہو کر بھی اللہ تعالیٰ کے اس منصو بہ کو ناکام بنانے کی کوشش کرے تو خود نا کام ہو جائے گی ، خدا تعالیٰ کا منصوبہ نا کام نہیں ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہوگا.رضِينَا بِاللَّهِ رَباوَ بِمُحَمَّدٍ رَسُولًا - ( مطبوعه روزنامه الفضل یکم مئی 1974 ء ) 64
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پیغام فرموده بر موقع سالانہ کانفرنس سیرالیون آپ کو جو بلی فنڈ کی اشاعت اسلام سے متعلق اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا ہو پیغام فرموده بر موقع سالانہ کانفرنس جماعت ہائے احمد یہ سیرالیون برادران و خواهران! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته خدائے قادر قیوم آپ کی سالانہ کانفرنس کو ہر لحاظ سے مبارک بنائے اور آپ سب کو اپنے اوقات کو ذکر الہی اور غلبہ اسلام کے لئے اس کے حضور دعاؤں میں بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.حال ہی میں، میں نے مرکز یہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت احمدیہ کے جشن صد سالہ کو شایان شان طریق سے منانے کے لئے مناسب حال تیاری کے سلسلہ میں ایک عظیم الشان سکیم پیش کی ہے.23 مارچ 1989ء کو جماعت احمدیہ کے آغاز پر سو برس کا عرصہ پورا ہو گا.اس مقصد کے لئے میں نے احمدیہ جشن صد سالہ فنڈ قائم کیا ہے اور جماعت سے اپیل کی ہے کہ اس فنڈ کے لئے اڑہائی کروڑ روپے جمع کرے.اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ، میں نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ اس مد میں پانچ کروڑ روپے تک رقم جمع ہو جائے گی.مجھے توقع ہے کہ بفضلہ تعالیٰ جماعت اس فرض سے بطریق احسن سبکدوش ہو گئی.یہ امر میرے لئے باعث مسرت ہے کہ سیرالیون کے مخلص احمدی ہمیشہ ہی اس قسم کی تحاریک میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیتے رہے ہیں.مجھے امید ہے کہ اس موقع پر بھی وہ انعامات خداوندی کو یاد کر کے اور ان افضال کو بھی مد نظر رکھ کر جن کے وہ مستقبل میں مورد ہوں گے، اس فنڈ میں بھی فراخدلی سے حصہ لیں گے، جو سولہ سال کے عرصہ میں مکمل ہوگا.وعدہ کرتے وقت اس پہلو کو بھی مدنظر رکھیں کہ سولہ سال کے عرصہ میں بالاقساط ادا ہونے والے وعدہ کی رقم گزشتہ تین سال میں پیش کئے جانے والے نصرت جہاں ریز روفنڈ کی رقم سے متناسب ہو.خدا تعالیٰ آپ کو اس جو بلی فنڈ کی ، اسلام کی اشاعت اور اس کی عظمت و شوکت سے متعلق اہمیت اور افادیت کو سمجھنے اور اس فنڈ میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے.خداوند کریم ہماری ان عاجزانہ قربانیوں کو از راہ تلطف شرف قبولیت سے نوازے.آمین.خاکسار (مرزا ناصر احمد ) الثالث خليفة المسيح مطبوعه روزنامه الفضل مورحہ 03 مئی 1974 ء) 65
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرموده 06 مارچ 1974ء اہل یورپ کا سنجیدہ طبقہ اسلام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے ارشاد فرموده 06 مارچ 1974ء یورپ میں عیسائیت اعتقاد اقریب الاختام ہے.اب وہاں ایک مذہبی خلاء پیدا ہورہا ہے اور اس کو پر کرنے کے لئے دہریت پر تول رہی ہے.اگر ہم اسلام کو یورپ میں پھیلانے کے لئے بیدار نہ ہوئے تو وہاں دہریت کے چھا جانے کا خطرہ ہے.اہل یورپ کا سنجیدہ طبقہ اسلام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے.کیونکہ ان کے سامنے جب بھی اسلام کی حقانیت بیان کی جاتی ہے تو وہ اسے بنظر تحسین دیکھتے بلکہ کثرتو یہ گلہ بھی کرتے ہیں کہ ایسی حسین تعلیم کو ہم لوگوں تک پہنچانے کا کیا انتظام کیا گیا ہے؟“ ( مطبوعه روزنامه الفضل 12 مارچ 1974 ء ) 67
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 مارچ 1974ء وو میری سرشت میں ناکامی کا ضمیر نہیں ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 08 مارچ 1974ء غرض خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا دل میں پیدا ہو جانا اور اس سے پیار کا اتنا بڑھ جانا کہ خود اپنے نفس کو بھی کوئی چیز نہ سمجھنا اور دنیا کی طاقتوں کو خیر کا منبع تسلیم نہ کرنا ، یہ وہ صلاحیتیں ہیں، یہ وہ اخلاق ہیں اور یہ وہ باتیں ہیں، جن کی موجودگی میں انسانی فطرت نا کام نہیں ہوا کرتی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے.یہی حالت آپ کی جماعت کی ہے، جو آپ کے نقش قدم پر غلبہ اسلام کے لئے کوشاں ہے.تا ہم غلبہ اسلام کا منصوبہ، ایک بہت بڑا منصوبہ ہے، جس کی تکمیل خدا تعالیٰ نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈال دی ہے.ظاہر ہے، ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.اس وقت آدھی سے زیادہ دنیا خدا کی منکر ہو چکی ہے.آدھی سے کچھ کم دنیا بظاہر مذہب کا نام لیتی ہے.مگر در حقیقت مذہب کی روح سے نا آشنا ہے.وہ یہ جانتی ہی نہیں کہ مذہب کیا چیز ہے؟ وہ مذہب اور وہ شریعت اور وہ ہدایت، جو خدا کے عاجز بندوں کو خدا تک پہنچاتی ہے، وہ صرف اسلامی شریعت ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والے بھی کتنے ہیں، جو اسلام کی شان اور قرآن کریم کی عظمت کی معرفت رکھتے ہیں؟ یہ شرف صرف ایک چھوٹی سی جماعت کو حاصل ہے کہ جو اگر چہ دنیا کی دھتکاری ہوتی ہے، جس کی دنیا کی نگاہ میں کوئی عزت نہیں، جس کے خزانوں میں دنیا کی دولتیں نہیں ، جس کے پاس سونا اور جواہرات نہیں، جس کے پاس سونا اگلنے والی زمینیں نہیں.لیکن پھر بھی اس یقین پر قائم ہے کہ ہمارا خدا، ایک زندہ خدا ہے.اور انسان کو زندہ خدا کی طرف واپس لے جانے کی جو کوشش اور جد و جہد ہورہی ہے، اس میں بالآخر یہی جماعت کامیاب ہوگی“.خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ آخری زمانہ میں خدا کا دین غالب آئے گا.جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس فیصلہ کا نفاذ اور اس منصوبے کی تکمیل زمین پر شروع ہو چکی ہے.گو اس وقت یہ ایک چھوٹی سی 69
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم جماعت ہے اور بے اثر ہے، سیاسی لحاظ سے اور بے ہنر ہے، علم کے لحاظ سے.لیکن یہ ایک ایسی جماعت ہے، جو ایک طرف اللہ تعالیٰ کی عظمت، اس کے جلال کا عرفان رکھتی ہے، خدا کو سب قدرتوں کا مالک سمجھتی ہے، اس کے بغیر کسی اور چیز پر بھروسہ نہیں رکھتی ، وہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اگر خدا کی عظمت اور جلال کے مقابلے میں ساری دنیا کی طاقتیں بھی اکٹھی ہو کر آجائیں تب بھی وہ کامیاب نہیں ہو سکتیں.دوسری طرف اللہ تعالیٰ سے اتنا پیار رکھتی ہے اور اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ اتنا عشق ہے کہ وہ اپنے نفس کو بھی بھول چکی ہے.وہ ان عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتی ہے، جن کے اختیار کرنے کی تلقین کی گئی تھی.وہ کبر و غرور اور تکبر دریا میں ملوث نہیں ہوتی.اشاعت اسلام کا جو تھوڑا بہت کام کرتی ہے تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہے کہ اس کی توفیق سے یہ صورت پیدا ہوئی، ورنہ اتنا سا کام کرنے کے بھی قابل نہ تھے.پس اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے جلوے دیکھنے والی یہ جماعت اپنے سروں کو ہمیشہ زمین کی طرف جھکائے رکھتی ہے.حتی کہ اپنے نفس کو بھی کچھ نہیں سمجھتی.اور ہر خیر اور بھلائی اور تمام نیکیوں اور کامیابیوں کا سرچشمہ صرف خدائے قادر و توانا کی ذات کو بجھتی ہے اور اسی کی محبت میں غرق رہتی ہے.اور خدا تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتی ہے اور ہمیشہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتی ہے.اور یہی اس کی اجتماعی سرشت ہے، جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ”میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے.اس لئے کہ ایک طرف ہم خدا کی عظمت اور جلال کو پہچانتے ہیں اور دوسری طرف ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمارے نفسوں میں اپنے طور پر کوئی نیکی اور بھلائی یا کوئی طاقت اور قوت نہیں ہے.بلکہ ہم ہر خیر خدا تعالیٰ ہی سے حاصل کرتے ہیں.اس لئے ہمارے دلوں میں کوئی فخر نہیں پیدا ہوتا.ہمارے سر اونچے نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ خدا کے حضور جھکے رہتے ہیں.ہم بندوں کی خدمت میں مگن ہیں.وو اسلامی تعلیم پر مسلمانوں نے مجموعی طور پر نشاۃ اولیٰ میں عمل کیا.پھر بعد میں آنے والے مختلف لوگوں یا گروہوں نے مختلف اوقات میں اور مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں اس پر عمل کیا اور اب پھر امت محمدیہ میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس کی بنیا درکھ دی گئی ہے.اسلام دنیا میں غالب ہوگا اور ایک حسین معاشرہ قائم ہو گا، جس میں ہر انسان کو اس کے حقوق ملیں گے.کوئی شخص انسانی حقوق کو غصب کرنے کی جرات نہیں کرے گا.تاہم اس کے لئے ہمیں عاجزانہ راہوں کے اختیار کرنے کی ضرورت ہے.اپنے نفس کو ایک مردہ کیڑے سے بھی بیج سمجھنا لازمی ہے.70
تحریک جدید- ایک اپنی تحریک...جلد پنجم وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 08 مارچ 1974ء میں نے یہ بتایا ہے کہ جب انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال پیدا ہو جاتا ہے اور پھر انتہائی طور پر بجز کا احساس اور قربانی کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے تو اس کے بعد انسان نا کام نہیں ہوا کرتا.ہماری جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے مگر خشية الله اور انفاق فی سبیل اللہ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.گذشتہ جلسہ سالانہ پر میں نے جماعت کے سامنے ایک منصوبہ رکھا تھا.میں نے اس منصوبے کے اعلان سے پہلے بڑا غور کیا، بہت دعائیں کیں، دوستوں سے مشورے کئے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس سلسلہ میں میری طرف سے صرف اڑھائی کروڑ روپے کی مالی تحریک ہونی چاہیے.تاہم میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے، اس لئے یہ رقم پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی.چنانچہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جب میں نے اس منصوبہ کا اعلان کیا تو میں نے اس کا ایک خاکہ بیان کیا تھا، اس کی تفصیل میں انشاء اللہ مجلس مشاورت پر بتاؤں گا.ساتھ ہی میں نے یہ بھی اعلان کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے امید ہے کہ یہ رقم اڑھائی کروڑ سے بڑھ کر پانچ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی.آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس منصوبہ کے لئے وعدوں کی رقم پانچ کروڑ سے اوپر نکل چکی ہے.فالحمد لله علی ذلک.اور اب میرا یہ خیال ہے کہ یہ رقم نو کروڑ روپے بلکہ شاید اس سے بھی آگے نکل جائے گی.میں نے اپنے ایک پچھلے خطبہ میں نام لے کر بتایا تھا کہ 51 بیرونی ممالک کی جماعتوں کے وعدے نہیں ملے.ان میں سے اب تک صرف 11 ملکوں کے وعدے ملے ہیں.پھر ابھی اندرون ملک کی بہت سی جماعتوں کے وعدے موصول نہیں ہوئے.کیونکہ میں نے مشاورت تک وعدہ جات کی وصولی کی میعاد مقرر کر رکھی ہے.اور ابھی مشاورت میں کئی دن باقی ہیں.علاوہ ازیں وہ نسلیں ، جو موج در موج احمد بیت میں داخل ہوں گی یا ہمارے بچے اور نو جوان تعلیم سے فارغ ہو کر اگلے پندرہ سال میں کمانے والی دنیا میں داخل ہوں گے، وہ تو ابھی اس منصوبہ میں شامل نہیں ہوئے.ان کا تو ہمیں بھی پتہ نہیں اور ان بچوں کو بھی پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس قدر اقتصادی رحمتیں بھی ان پر نازل کرے گا.پس ابھی تو وقت ہے.کئی اور لوگوں کی طرف سے اپنے اپنے وقت پر وعدے آئیں گے اور وہ بھی بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیں گے.اور اس طرح تو شاید یہ رقم 9 کروڑ روپے سے بھی بڑھ جائے گی.ویسے اصولاً ہمارا یہ تجربہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ جائے اور انسان نہایت عاجزی اور تضرع کے ساتھ خدا کے حضور جھک جائے اور بغیر ریاء کے اور بغیر فخر کے دعاؤں میں لگ جائے تو خدا تعالیٰ اسے کسی چیز سے محروم نہیں رکھتا.71
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ جس اصول کے ماتحت اللہ تعالیٰ اپنی اس محبوب جماعت کو مادی ذرائع سے نوازتا ہے.جس قدر ضرورت پڑتی ہے، اتنا مال عطا کر دیتا ہے.اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہمیں ایک دھیلا بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں ملا.جماعت کو بڑا محتاط رہنا چاہیے اور بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے اموال کی حفاظت بھی کرنی چاہیے اور بڑی احتیاط سے ان کا خرچ بھی کرنا چاہیے.بہر حال میں بتا یہ رہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اس صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کی تکمیل کے دوران کسی ایسے مقام پر پہنچے کہ جہاں اشاعت اسلام ہم سے بیس کروڑ روپے کی قربانی کا مطالبہ کرے تو اللہ تعالیٰ میں کروڑ کے بھی سامان پیدا کر دے گا.انشاء اللہ العزیز بہر حال ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھرے ہوئے ہیں کہ وہ جو ایک دل کی آواز تھی اور جس کے متعلق مشورہ کرنے کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا تھا کہ میں اس کا مطالبہ نہ کروں لیکن اس کا اظہار کردوں.آج خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ( اپنی گردنیں اوپر نہ اٹھانا کیونکہ اللہ تعالی کے فضل کے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتا تھا.) اور محض اپنی رحمت سے اور محض اپنی برکت ہے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ تحریک کی گئی ، اڑھائی کروڑ روپے کی اور خواہش دل میں پیدا کی گئی تھی ، پانچ کروڑ روپے کی.چنانچہ اس وقت تک پانچ کروڑ ، تین لاکھ سے بھی اوپر کے وعدے مل چکے ہیں اور ابھی ڈاک کے ذریعہ روزانہ وعدے موصول ہو رہے ہیں.پس میری تو یہ دعا ہے اور ہر احمدی کی یہ دعا ہونی چاہیے کہ اے خدا! تو نے ہی اپنے قادرانہ تصرف سے غلبہ اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے.اب اس غرض کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہو، مادی ذرائع ہوں یا غیر مادی ذرائع ہوں، اے خدا! تو اپنے فضل سے ان کے حصول کے سامان پیدا کر دے.اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم تیری منشاء کے مطابق اسلام کو ساری دنیا پر غالب کر دیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیار بنی نوع انسان کے دل میں پیدا کر دیں.ہم نے ایک عظیم منصوبہ کی ابتدا کی ہے، اے خدا! تو اپنے فضل سے اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے جو سامان درکار ہیں ، وہ ہمیں مہیا فرما.ہم نہ تو غیب کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہماری نگاہیں اس دنیا کی زندگی کی وسعتوں کا احاطہ کر سکتی ہیں.ہماری تو کوتاہ نگاہیں ہیں لیکن اے ہمارے رب! تو علام الغیوب ہے.تیری نظر سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے.تو اپنی متصرفانہ قدرتوں سے ایسے تغیرات رونما فرما جو غلبہ اسلام کے لئے ضروری ہیں.اسلام کا عالمگیر غلبہ ہماری زندگی کا منتہائے مقصود ہے.ہم میں سے ہر ایک آدمی کی بچہ ہو یا جوان، چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت یہی خواہش ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے غلبہ اسلام کو دیکھ لے.72
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 مارچ 1974ء اسی صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کو لے لیں، جو ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا ایک نمایاں کام ہے، اس سلسلہ میں مجھے روزانہ بیسیوں ایسے خطوط ملتے ہیں، جو 75-70 بلکہ 80 سال کے احمدی دوستوں کے ہوتے ہیں اور وہ بھی اس منصوبہ میں بڑی گرم جوشی سے حصہ لے رہے ہیں اور باوجود بڑی عمر کے ان کی بھی یہی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی نگاہوں سے یہ نظارہ دیکھ لیں.پس ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں تو پتہ نہیں کتنے مال کی ضرورت ہے اور کتنے سامان کی ضرورت ہے؟ ہماری تو یہ خواہش ہے کہ ہماری زندگیوں میں اسلام غالب آئے اور ہم اپنی آنکھوں سے بنی نوع انسان کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے دیکھ لیں.غرض دوست یہ دعائیں کریں ، عاجزی کے ساتھ اور تضرع کے ساتھ اور خدا کا شکر ادا کریں اور اس کی حمد کے گیت گائیں کہ تمہارے اندر نیکی کی جو بھی خواہش پیدا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آسمانوں سے فرشتے بھیج کر اسے پورا کرنے کے سامان پیدا کر دیتا ہے.( مطبوعه دروز نامه الفضل 28 مارچ 1974 ء ) 73
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مارچ 1974ء خواہش ہے کہ توحید اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا میں قائم ہو خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مارچ 1974ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:.فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ اور فرمایا:.(الروم :61) اللہ تعالی کے فضل اور اس کی رحمت سے صد سالہ جو بلی فنڈ کے وعدے چھ کروڑ سے او پر نکل گئے ہیں.فالحمد للہ علی ذلک.جلسہ سالانہ پر میں نے اڑھائی کروڑ کی اپیل کی تھی.جو وعدے بیرون پاکستان سے مل رہے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ بیرون پاکستان کے وعدے بھی تین کروڑ سے اوپر پہنچ جائیں گے.انشاء اللہ.اس وقت بھی دوکروڑ ہیں لاکھ کے وعدے بیرون ملک سے پہنچ چکے ہیں.اور مجھے علم ہے کہ پچاس لاکھ کے وعدے اس کے علاوہ بھی دو، ایک ہفتوں میں پہنچ رہے ہیں.لیکن ہمیں بہت سے بیرونی مقامات کے وعدہ جات کا علم نہیں.میرا اندازہ ہے کہ تین کروڑ کے لگ بھگ شاید تین کروڑ سے او پر بیرون پاکستان کے وعدے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے بشاشت سے ان قربانیوں کو دینے کی توفیق جماعت احمدیہ کو دی.اس قدر وعدے وصول ہو جائیں گے! اتنی ذمہ داری مالی لحاظ سے جماعت اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے گی !! ہمارے ساتھ جو تعلق رکھنے والے ہیں اور ابھی جماعت سے باہر ہیں ، ان کو بھی کبھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا.لیکن ہر گھڑی ہماری زندگی کی ، اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے خالی نظر نہیں آتی.یہ اسی کی رحمت ہے، جس کا یہ نتیجہ نکلا ہے.ہمیں شیطانی یلغار سے محفوظ رہنے کی تدبیر بھی کرنی چاہیے.ہمیں یہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ طاقت عطا کرے کہ ان وعدوں سے بھی زیادہ اموال اس کے قدموں پر رکھ پائیں.اور اللہ تعالٰی ہماری ان حقیر قربانیوں کو قبول کرے اور ان کے وہ نتائج نکالے، جو ہمارے وہم وگمان میں بھی اس قدر اچھے اور حسین اور احسن نتائج نہیں آسکتے.75
خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم - اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ جب خدا تعالیٰ قربانیوں کو قبول کرتا ہے تو دنیا میں حسد بھی پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجہ میں حاسدین کا ایک گروہ پیدا ہو جاتا ہے.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کے الہام میں بھی اس طرف متوجہ کیا گیا ہے.اور حاسدین کے اس گروہ کے سامنے آجانے سے دو فائدے ہیں، جو ہم حاصل کرتے ہیں.ایک تو یہ کہ ہمارے سامنے ہماری عاجزی زیادہ نمایاں ہو کر آ جاتی ہے.اور دوسرے ہمارے عزم اور ہماری ہمت میں ایک جوش پیدا ہوتا ہے.اور ہماری زندگی کا یہ پہلو اور ہماری روح کا یہ زاویہ کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کے بعد خدا تعالیٰ کے فضلوں کے ہم وارث بننے والے ہیں اور ہماری سرشت میں ناکامی کا ضمیر نہیں ہے، یہ بات ہمیں زیادہ شدت کے ساتھ مقابلہ کرنے پر آمادہ کرتی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو الہی وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کا یہ یقین نہیں، مثلاً اس زمانہ میں یہ ہم کہیں گے کہ جن کو یہ یقین نہیں کہ مادی دنیا کی اس قدر ترقی کے زمانہ میں اسلام کے دوبارہ غالب آجانے کا کوئی امکان ہے.جن کو یہ یقین نہیں، وہ اس جماعت کو بھی اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں، جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اور اس پختہ یقین پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدے بچے ہیں، وہ پورے ہوتے ہیں اور دنیا کا کوئی منصوبہ انہیں نا کام نہیں کرسکتا.قرآن کریم نے فرمایا:.لَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوْقِنُوْنَ جو خدائی وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے ، وہ دھوکہ دہی سے مومن کو اس کے مقام معرفت اور مقام یقین سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں.ان کے دھوکے میں مومن نہیں آیا کرتا.مومن کو تو یہ حکم ہے (اور اس کی زندگی اس حکم کی عملی مثال ہے ) کہ فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہوگا.اس لئے استقلال کے ساتھ اور صبر کے ساتھ انتہائی قربانیاں دیتے ہوئے، مالی بھی اور جانی بھی اور دوسری ہر قسم کی ، آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ.کیونکہ تمہاری ہی جھولیوں میں خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کے پورا ہونے سے حاصل ہونے والی برکتوں کا پھل گرنے والا اور تمہیں ہی ان سے فائدہ پہنچنے والا ہے.مخالف اپنی مخالفت میں بڑھتا ہے اور مومن اپنے یقین میں ترقی کرتا ہے.مخالف اپنے منصوبوں کو تیز کرتا ہے اور مومن اپنے سر کو اور بھی جھکا کر خدا تعالیٰ کی 76
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مارچ 1974ء راہ میں وہ اعمال بجالاتا ہے، جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیارا سے حاصل ہوتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت اسے ملتی اور فرشتوں کی فوجیں آسمان سے نازل ہوتیں اور اس کا ہاتھ بٹائیں اور کامیابی کی منزل مقصود تک پہنچا دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کے حضور متضرعانہ جھک کر یہ درخواست کرتے رہنا چاہیے کہ ہم کمزور ہیں.ہم کمزور ہی اے ہمارے رب ! لیکن ہم نے تیرے دامن کو پکڑا ہے اور تیرے اندر کوئی کمزوری نہیں.اس لئے جب ہم تیری پناہ میں آگئے تو ہمیں ڈرکس بات کا ؟ سوائے اس ڈر کے کہ کہیں اپنی کسی غفلت اور کوتاہی اور کمزوری اور بے ایمانی کے نتیجہ میں تو ہمیں جھٹک کر پرے پھینک دے اور تیری حفاظت ہمارے شامل حال نہ رہے.جب تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت انسان کے ساتھ ہے، جب تک اسے اس کی نصرت ملتی رہتی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کے پیار کا سایہ اس کے سر پر ہوتا ہے ، جب تک اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کی مدد کے لئے آسمانوں سے اترتے رہتے ہیں، اس وقت تک مومن، جو خدا کی طرف خود کو منسوب کرتا اور اس کے حضور قربانیاں پیش کرنے والا ہے، صبر اور استقلال کے ساتھ اس مقصد کی طرف ( جو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے، جس کے متعلق کہا گیا ہے، ان وعد الله حق ) حرکت کرتا ہے.اور آخر کامیاب ہوتا ہے.اور اس دنیا میں بھی وہ پاتا ہے، جو خدا سے دور رہنے والے کبھی پا نہیں سکتے اور عقبی میں بھی وہ اس کو ملے گا ، جس تک خود مومن کا بھی تخیل اس دنیا میں نہیں پہنچ سکتا.کہا گیا، وہاں وہ ہوگا، جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا.ان لذتوں کا تو ذکر ہی کیا.کیونکہ ہمارے ادراک سے وہ باہر ہیں اور ہماری عقل وہاں تک پہنچ نہیں سکتی.لیکن اس دنیا میں جو جنت اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لئے پیدا کی اور جسے صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں حاصل کیا، یہ جنت آج پھر ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے اور آسمان کے سارے دروازے ہمارے لئے کھول دیئے گئے ہیں.ہمت کر کے عزم کے ساتھ ، اپنے پورے ایمان اور اخلاص اور قربانی اور ایثار کے ساتھ ہم نے ان دروازوں کی طرف بڑھنا ہے اور ان میں داخل ہو کر اس زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنت کو حاصل کر لینا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ.اس لئے بے وقوف ہے، وہ مخالف خواہ وہ سیاسی اقتدار رکھتا ہو، دنیا وی وجاہت رکھتا ہو یا مادی اموال رکھتا ہو، جو یہ سمجھتا ہو کہ چونکہ اسے الہی وعدوں پر یقین نہیں، اس لئے وہ جماعت احمدیہ کو بھی الہی وعدوں سے پرے ہٹانے میں کامیاب ہو جائے گا.یہ تو ہو نہیں سکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی رحمت 77
خطبه جمعه فرمودہ 15 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم سے ہمیں ایمان اور یقین اور معرفت اور محبت اور ایثار کے مقام پر کھڑا کیا ہے.اگر اس کا فضل نہ ہوتا تو یہ کمزور انسان ایک لحظہ کے لئے بھی ان تمام مخالفتوں کے ہوتے اس مقام پر کھڑا نہ رہ سکتا.ہمارے سر اس کے حضور جھکتے ہیں، ہماری روح اس کی حمد سے بھری ہوئی ہے، ہم اس کے پیار کو دیکھتے ہیں، ایک لحظہ کے پیار کو دنیا کی ساری دولتوں سے زیادہ قدر والا اور زیادہ قیمتی پاتے ہیں اور اسے چھوڑ کر کسی اور طرف منہ نہیں کر سکتے.دھوکہ میں ہیں وہ، جو جماعت کے متعلق اس کے خلاف کچھ سمجھتے ہیں.اور مجنون ہیں وہ ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی دھن کے پکے لوگوں کا یہ گروہ ، جو احمدیت کے نام سے موسوم ہوتا ہے، یہ نا کام ہوسکتا ہے.جو پیدا کرنے والے رب کی گود میں بیٹھ کر زندگی گزارنے والا، جو اس کے پیار کے ہاتھ کو اپنے سر پر اور اپنے سینہ پر اور اپنی پیٹھ پر پھرتے محسوس کرنے والا ہے، جس کے کان میں اس کی آواز آ رہی ہے کہ اسلام غالب آکر رہے گا اور تمہارے ذریعہ سے غالب آئے گا، جس کے دل میں یہ یقین ہے کہ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے ہیں، وہ قربانیوں سے ڈرا نہیں کرتا.وہ اپنے مقام کو چھوڑا نہیں کرتا.اس لئے میں کہتا ہوں کہ مجنون ہے وہ ، جو یہ سمجھتا ہے کہ جماعت احمد یہ اپنے مشن ، اپنے مقصد میں کہ اسلام پھر دنیا میں غالب آئے ، ناکام ہوگی.اسلام غالب آئے گا، انشاء اللہ.اور احمد بیت خدا تعالٰی کے پیار کو حاصل کرے گی ، انشاء اللہ.اس کے راستہ میں کوئی روک نہیں ہے.چند دنوں میں آپ نے یہ نظارہ دیکھا.آپ میں سے بھی کئی ہوں گے، جو یہ سمجھتے ہوں گے کہ اڑھائی کروڑ کی اپیل کر دی ہے، اتنی بڑی مالی قربانی تو شاید یہ جماعت نہ دے سکے.لیکن ایسے بھی تھے، جنہوں نے مجھے یہ پیغام بھیجے، اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے کہ آپ نے تھوڑی قربانی مانگی ہے، اڑھائی کروڑ سے بہت زیادہ مانگنی چاہئے تھی.اپنے عمل سے انہوں نے ثابت کیا کہ جو کہا گیا تھا، وہ بھی دیا (یعنی اڑھائی کروڑ کے وعدے کر دئیے.) اور جو امید ظاہر کی گئی تھی کہ پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گا، اس خواہش کو بھی پورا کر دیا.اور اس اصول کو بھی عملاً ظاہر کر دیا، جو اللہ تعالیٰ کا ایک اصول ہے، ایک بنیادی چیز ہے، بنیادی سلوک ہے، اس کا ہمارے ساتھ کہ جتنی ضرورت ہوتی ہے، اتنادہ سامان کر دیتا ہے.اس لئے میں نے پچھلے خطبہ میں لاہور کی جماعت سے کہا تھا.لاہور میں، میں نے خطبہ دیا کہ دراصل تو اڑھائی کروڑیا پانچ کروڑ یا نو کروڑ کا سوال نہیں.اگر خدا تعالیٰ کے علم غیب میں غلبہ اسلام کے لئے ان پندرہ سالوں میں نہیں کروڑ کی ضرورت ہوئی تو اللہ تعالیٰ اپنے علم غیب کے نتیجہ میں جتنی بھی ضرورت ہوگی ، وہ تمہیں دے دے گا اور اس کے راستہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکے گی.78
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مارچ 1974ء لیکن جو ہماری ذمہ داری ہے، جس کی طرف میں بار بار توجہ دلاتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ فخر نہ پیدا ہو، غرور نہ پیدا ہو، تکبر نہ پیدا ہو، سر ہمیشہ زمین کی طرف جھکے رہیں.تاکہ وہ حدیث ہمارے حق میں بھی پوری ہو، جس میں کہا گیا تھا کہ جب خدا کا ایک مخلص بندہ عاجزی اختیار کرتا ہے اور تواضع کی راہوں پر چلتا ہے تو اللہ تعالی ساتویں آسمان تک اس کی رفعتوں کا سامان کر دیتا ہے.ساتویں آسمان تک پہنچ کر بھی ہمارا دل خوش نہیں بلکہ اس سے بھی بلند تر اور ارفع جو چیز ہے، یعنی خدا تعالیٰ کا پیار، وہ ہمیں ملنی چاہیے.اس میں یہی اشارہ ہے کہ تمہاری کوشش کے نتیجہ میں ساتواں آسمان تمہیں ملے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجہ میں اس کا ثواب، جو کوشش سے زیادہ ملا کرتا ہے، یعنی اس کی رضا وہ تمہیں مل جائے گی.پس ہم تو خدا کے پیار کے بھوکے ہیں اور ہمارے دل میں تو یہ خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہو اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظمت قائم ہو انسان کے دل میں، جس عظیم مقام پر اللہ نے آپ کو کھڑا کیا.ہماری تو یہ خواہش ہے، ہم تو ناچیز ذرے خدا تعالیٰ کے پاؤں کی گرد سے بھی حقیر ہیں.اگر تمثیلی زبان میں خدا تعالیٰ کے پاؤں کا ذکر کیا جائے تو خدا تعالیٰ کے پاؤں کے ساتھ جو ذرے مٹی کے لگ سکتے ہیں، ہم میں تو وہ بھی طاقت نہیں ہے.لیکن یہ اس کی رحمت ہے کہ وہ پیار سے ہمیں پکڑتا، پیار سے ہمیں اٹھاتا اور اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور ہمیں یہ تسلی دیتا ہے کہ ادھر ادھر کیوں دیکھتے ہو؟ ساری دنیامل کر بھی تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ، ساری دنیامل کر بھی تمہیں نا کام نہیں کرسکتی.پس ہمارے دل حمد سے لبریز ہیں کہ چھ کروڑ سے اوپر تک وعدے پہنچ گئے.اور ہماری روح اور ہمارا ذہن اس کے حضور نہایت عاجزی سے جھکا ہوا، یہ دعائیں کرتا ہے کہ وہ اپنی رحمت سے، نہ ہمارے کسی فعل سے اور ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں ہمیں کامیاب کرے.اور ہمیں غلبہ اسلام کے دن دیکھنے نصیب ہوں“.( مطبوعه روز نامہ الفضل 11 اپریل 1974-) 79
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مارچ 1974ء حمد اور عزم ، ان دوستونوں کے اوپر ہم نے زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مارچ1974ء حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی گئی کہ اسلام اب قیامت تک کے لئے قائم رہے گا.یہ ایک بشارت ہے، جو اسلامی شریعت نے ، اسلامی ہدایت نے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی ، اس وحی نے ہمیں دی.مثلاً ہمیں یہ بشارت دی گئی کہ تمام دنیا امت واحدہ بن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے مہدی معہود کے زمانہ میں جمع ہوگی.یہ ایک عظیم بشارت ہے.پھر اس عظیم بشارت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب اسلام کو انتہائی کامیابی اور آخری غلبہ حاصل ہو جائے گا تو جو اس وقت بھی مسلمان نہیں ہوسکیں گے، ان کی مثال ایسے ہی ہوگی، جیسے کسی ملک میں چوہڑوں چماروں کی ہوتی ہے کہ شاید وہ ہزار میں سے ایک ہوتا ہے.وہ محروم رہتا ہے، بدقسمت ہوتا ہے.لیکن اتنی بھاری اکثریت دوسروں کی ہوتی ہے کہ اس ملک کے باشندے چوہڑوں اور چماروں کو کسی میں شمار نہیں لاتے.یہی حالت مسلم اور غیر مسلم کی ہو جائے گی.اتنا غلبہ حاصل ہوگا.ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے کے لئے اس کی آگے شاخیں ہیں.اور ہمارے دلوں میں ایک قوت پیدا کرنے کے لئے ہمیں ان خطہ ہائے ارض کے متعلق کہا گیا.بڑے بڑے مخالف علاقے جو تھے، جہاں اسلام کے لئے کوئی میدان نہیں تھا، نہ داخل ہونے کا ، نہ کامیاب ہونے کا.مثلاً رشیا (Russia) ہے.کہ دیا گیا وہ رشیا، جو کمیونسٹ (Communist) ہے، جس نے اعلان کیا تھا کہ میں زمین سے خدا کے نام کو اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو مٹا دوں گا، اس ملک کے لئے اسی بشارت کے ماتحت کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا، یہ بشارت دی کہ میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں“.( تذکرہ 692) یہ بڑی زبر دست بشارت ہے اور اسی عظیم بشارت کے ماتحت ہے کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آئے گا.دنیا کا ایک حصہ رشیا ہے.اس کے متعلق پیش گوئی کر دی.کیونکہ اس کے متعلق بظاہر ایک ناممکن 81
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم چیز نظر آرہی تھی.اسی طرح دوسرے ہمارے بھائی مسلمان اپنی نا کبھی کی وجہ سے ہمارے خلاف ہو گئے ہیں اور انہوں نے مکہ کو مرکز بنا لیا، احمدیت کے خلاف منصوبے بنانے کا.وہ مکہ اور مدینہ، جو مرکز ہے اور بنے گا ، غلبہ اسلام کے منصوبوں کا.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی کہ اہل مکہ اور اہل حجاز فوج در فوج احمدیت میں داخل ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں یہ نظارہ دکھایا.اصل پیشگوئی وہی ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی کہ اسلام مہدی معہود کے زمانہ میں ساری دنیا میں غالب آئے گا.اور اس کی ذیل میں اس کی تفاصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں بتائی گئیں.اور ہمارا پختہ یقین ہونا چاہیے اس پر.ان کو صداقتیں سمجھ کر ہمارے دل کو تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا کے حالات جیسے بھی ہیں، رہیں اور مخالفانہ طاقتیں جس قدر بھی مضبوط ہوں، کوئی فرق نہیں پڑتا.خدا نے کہا ہے کہ یہ ہو گا ، اس لئے یہ ضرور ہو گا.اور جب قلب سلیم کی یہ کیفیت ہو، ایک مومن کی یہ کیفیت ہو تو مومنانہ جرات کے ساتھ وہ تبلیغ بھی کرتا ہے اور انتہائی قربانی اور ایثار اور بشاشت کے ساتھ اعمال صالحہ بجالا رہا ہوتا ہے.اور عام طور پر جماعت احمدیہ کی اللہ کے فضل سے اسی کی رحمت سے یہ کیفیت ہے کہ دنیا مخالفت میں لگی ہوئی ہے اور احمدی دل اس یقین پر قائم ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت غلبہ اسلام کی اس تحریک کو روک نہیں سکتی.اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہوگا.اور جماعت احمدیہ کے دل میں ایک بشاشت ہے.بشاشت اس لئے کہ کمزور جماعت ہے، دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ہے، دنیا کی دولتوں سے محروم جماعت ہے، دنیا کا سیاسی اقتدار اس کے پاس بھی نہیں پھٹکا ، اس کے باوجود خدا نے اسے اٹھایا اور کہا میں تیرے ذریعہ سے اسلام کو دنیا میں غالب کروں گا.کتنے بڑے پیار کا اظہار ہے، جو خدا نے ہم سے کیا.اور اس کے مقابلے میں کتنا عظیم ایثار اور قربانی کا جذبہ ہمارے دل میں پیدا ہوتا ہے.دنیا حیران رہ جاتی ہے.بعض دفعہ خود ہم بھی حیران رہ جاتے ہیں.گذشته جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے ایک منصوبہ جماعت کے سامنے پیش کیا اور بعد میں اس کا نام ”صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ رکھا گیا.اس کی تفصیل جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ آج شوری کے سامنے پیش کر کے کوئی لائحہ عمل تیار کر لیا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.جلسہ سالانہ میں، میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ میں شوری تک یعنی مارچ کے آخر تک وقت دیتا ہوں، دوست مارچ کے آخر تک صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے لئے اپنے وعدے پہنچا دیں.اور اس وقت میرے دل کی جو کیفیت تھی ، وہ اپنے اندر دو پہلو رکھتی تھی اور اس کے مطابق میں نے اس وقت اعلان کیا.لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو دیکھتے ہوئے میرے دل 82
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 29 مارچ 1974 ء میں کچھ اور خواہشات بھی پیدا ہوئیں اور پھر میں نے ان کا اعلان کیا.جلسہ سالانہ پر میں نے کہا کہ میں اس منصوبہ کے لئے اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل کرتا ہوں اور اسی وقت میں نے یہ اعلان بھی کیا کہ میری یہ خواہش ہے اور مجھے امید ہے کہ ایسا ہو جائے گا کہ اس فنڈ میں پانچ کروڑ کی رقم آجائے گی.بعد میں اللہ کے فضلوں کو دیکھ کر گذشتہ دنوں اپنے چند روزہ قیام لاہور کے دوران 08 مارچ 1974ء کے خطبہ جمعہ میں ، میں نے یہ اعلان کیا کہ نظر ایسا آرہا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ فنڈ نو کروڑ تک پہنچ جائے گا.اور ساتھ میں نے یہ کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ سوال اڑھائی کروڑ یا پانچ کروڑ یا نو کروڑ کا نہیں ، سوال ہے، اسلام کو غالب کرنے کے منصوبے اور تدابیر جو ہمارے ذہن میں آتی ہیں، ان کو عملی جامہ پہنانے کا.چونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام ساری دنیا پر غالب آئے اور چونکہ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جماعت احمدیہ کو چنا ہے، اس لئے اصول یہ ہے کہ اس منصو بہ کو کا میاب کرنے کے لئے جتنی بھی رقم کی ضرورت ہوگی، اللہ تعالیٰ اس کا سامان پیدا کرے گا.خواہ وہ رقم نہیں کروڑ تک کیوں نہ ہو.ضرورت کا ہمیں علم نہیں.ان پندرہ سالوں میں پندرہ مختلف گروہ جماعت میں داخل ہونے والے ہیں.جو نئے سرے سے کمانے لگیں گے.ان کی قربانیاں تو ہمارے سامنے نہیں آئیں.پھر اللہ تعالیٰ کس رنگ میں کتنی رحمتیں کرتا ہے، اس کا بھی ہمیں علم نہیں.لوگ اب بھی اپنے وعدے بڑھا رہے ہیں.دو مہینے میں بھی بعض لوگوں نے اپنے وعدے بڑھا دیئے ہیں.اس عرصہ میں بھی بڑھاتے رہیں گے.پس میں یہ بتارہا تھا کہ جب انسان کا دل اللہ اور اس کی بنائی ہوئی فطرت سے موافقت رکھتا ہے، جسے ہم قلب سلیم کہتے ہیں تو مومنانہ جرات کے ساتھ بیان کی بھی اسے توفیق ملتی ہے.اور مومنانہ قربانی اور ایثار سے بشاشت کے ساتھ اعمال صالحہ بجالانے کی بھی اسے قوت عطا کی جاتی ہے.چنانچہ آج میں اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہو کر اور اس کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ابھی شوری نہیں شروع ہوئی ، اس میں چند گھنٹے باقی ہیں اور صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں عطایا کے وعدے نو کروڑ ، ہمیں لاکھ تک پہنچ گئے ہیں.اور اس میں بھی وہ وعدے شامل نہیں، جن کا مجھے علم ہے.لیکن جن کی اطلاع متعلقہ دفتر کو ابھی نہیں پہنچی اور وہ بھی میرا خیال ہے کہ شاید 50 لاکھ کے لگ بھگ ہوں گے.اور ابھی وعدے آ رہے ہیں اندرون ملک سے بھی آرہے ہیں، باہر سے بھی آرہے ہیں.دیکھو! خدا کتنا پیار کرنے والا ہے.اس نے مجھ سے اعلان کروایا کہ جماعت اڑھائی کروڑ کی قربانی دے اور مجھے اور جماعت کو توفیق دی کہ وہ یہ قربانی دے.پھر مجھ سے اس خواہش کا اظہار کر وایا کہ 83
اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد پنجم پانچ کروڑ تک یہ رقم پہنچ جائے.اگر چہ میں اپیل اس کی نہیں کرتا.اس وقت میں نے صرف خواہش کا اظہار کیا تھا.جماعت نے پانچ کروڑ کے وعدے کر دیئے.پھر میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس رنگ میں نازل ہوتی ، مجھے نظر آرہی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ نو کروڑ تک پہنچ جائیں گے.پھر میں نے کہا تھا، جتنی ضرورت ہوگی ، پہنچیں گے.ضرورت کا مجھے علم نہیں مگر میرے رب کو اس کا علم ہے.اس کے مطابق خدا تعالی مال کا انتظام کرتا چلا جائے گا.اور اس وقت جو دفتر میں رجسٹر میں لکھے جاچکے، وہ وعدے نو کروڑ ہیں لاکھ تک چلے گئے.یعنی نو کروڑ سے آگے نکل گئے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ان وعدوں کا رخ اس ضرورت کی طرف ہے، جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے.ہمارے علم میں نہیں.پس مخلصانہ طور پر تہہ دل سے اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہو کر زبان سے اور اپنے افعال سے اور اپنے خیالات سے اور جذبات سے سُبحَانَ الله وَالْحَمْدُ لِلہ پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر اور اس کے پیار کے بغیر اور اس کی رحمت کے بغیر اور اس کی قدرت کے بغیر انسان کو اس کی راہ میں قربانیاں دینے کا موقع بھی نہیں ملتا.اور درود پڑھیں، اس عظیم ہستی پر، جس کے طفیل دنیا آہستہ آہستہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو پہچانے لگی ہے، یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ تعالیٰ ہمیں اس حمد کے ساتھ اس عزم کی بھی توفیق دے کہ جو میں نے اس پندرہ سالہ عرصہ کا ایک ماٹو جماعت کے سامنے رکھا تھا کہ اگلے پندرہ سال میں حمد اور عزم، ان دوستونوں کے اوپر ہم نے زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا کرے کہ اس کی توفیق کے بغیر ہم اپنے پیدا کرنے والے رب کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں مخلصانہ شکر ادا کرنے کی توفیق دے.تا کہ یہ جو وعدہ دیا گیا ہے کہ تم شکر کرو گے تو میں مزید دوں گا.وہ مزید ہمیں ملے.اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ جب مزید ہمیں ملے تو ہم مزید قربانیاں اس کے حضور پیش کر کے اس سے بھی بڑھ کر حاصل کرنے کی توفیق پائیں.اور یہ ایک تسلسل، ایک چکر چلتا ہی رہے اور ہما را قدم بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے.اللھم آمین.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 84
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 اپریل 1974ء رو تحریک جدید ایک بہت بڑا روحانی بند ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1974ء ہماری جماعت کے ایک تو عام چندے ہیں.چندہ عام ہے، چندہ وصیت ہے، چندہ جلسہ سالانہ ہے، یہ عام چندے ہیں، جن کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روحانی لحاظ سے بلند سے بلند تر ہورہی ہے.لیکن بلندی کی طرف اس کی حرکت میں اتنی تیزی نہیں، جتنی روحانی بند باندھنے کے ساتھ آنی چاہیے.پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ میں نظام خلافت قائم فرمایا.خلیفہ وقت کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ روحانی بند (Dam) بنائے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے علاوہ اور بہت سے اہم کاموں کے تحریک جدید کے نام سے ایک بہت بڑا روحانی بند تعمیر کیا.تحریک جدید کی مالی قربانیاں عام چندوں سے مختلف تھیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کواتنی روحانی رفعتیں عطا ہوئیں کہ روئے زمین پر جماعت احمدیہ کی شکل بدل گئی.گو پہلے چند بڑے بڑے ملکوں میں جماعت قائم تھی لیکن اس میں وسعت نہیں تھی.پھر جب تحریک جدید کا روحانی بند تعمیر ہوا تو جس طرح نہریں نئے سے نئے بنجر علاقوں میں پانی لے جا کر ان کو آباد کرتی ہیں، اسی طرح تحریک جدید کے اس بند کے ذریعہ احمدیت نے افریقہ میں دور دور تک اسلام کے روحانی پانی کو پہنچایا.پھر یورپ میں پہنچایا، امریکہ میں پہنچایا اور جزائر میں پہنچایا.یہ ایک عظیم الشان روحانی بند تھا، جس سے جماعت احمدیہ کو اسی طرح طاقت حاصل ہوئی، جس طرح مادی پانی کے بند ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ بجلی کی طاقت بھی پیدا ہوتی ہے اور اس سے انسان دوسرے فائدے بھی اٹھاتا ہے.پھر خلافت ثالثہ کے زمانہ میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے نام سے ایک چھوٹا سا روحانی بند تعمیر کیا گیا.اس سے بھی خدا کے فضل سے جماعت کو بہت ترقی مل رہی ہے.اس سے ذرا بڑا بند نصرت جہاں ریز روفنڈ کے نام سے بنایا گیا.اس روحانی بند کے ذریعہ مغربی افریقہ میں ایک سال کے اندراندرسولہ ہسپتال قائم ہو گئے اور بہت سے نئے سکول اور کالج کھل گئے.اس مالی قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے برکتیں عطا فرمائیں.لوگوں کو خدمت دین کا شوق پیدا ہوا.مجھے نائیجریا سے ایک دوست کا خط آیا ہے کہ 85
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 105 اپریل 1974ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم سعودی عرب کے سفیر کہتے ہیں کہ احمدیوں کو حج پر نہیں جانا چاہیے.مگر ہم ایک کے بعد دوسری مسجد بنا رہے ہیں.اس وقت تک انہوں نے درجنوں نئی مسجدیں بنادی ہیں.ان میں اسلام کی ایک نئی روح پیدا ہوگئی ہے.وہاں کئی نئی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.اور یہ اس روحانی بند کی برکت ہے، جسے نصرت جہاں منصوبہ اور ریز روفنڈ کا نام دیا گیا تھا.جماعت احمدیہ کی روحانی ترقی میں شدت پیدا کرنے کے لئے اور اس کی رفتار ترقی کو بڑھانے کے لئے اب ایک اور زبر دست روحانی بند صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ ہے.اس منصوبہ کے لئے فنڈ ا کٹھا ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو اس منصوبہ میں مالی قربانی پیش کرنے کی بے مثال توفیق عطا فرمائی ہے.پچھلے جتنے بھی بند تھے، ان سے روحانی نہریں نکلیں اور بنجر علاقے سیراب ہوئے.اور جماعت احمدیہ نے انفرادی اور اجتماعی ہر دورنگ میں روحانی ترقی کی.اور اس کے نتیجہ میں اس نئے بند کی تعمیر ممکن ہوئی اور جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی ہے.نصرت جہاں ریز روفنڈ کے وقت بہت سے دوستوں کا یہ خیال تھا کہ شاید میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکے گی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کے جتنے سال ہیں، اتنے لاکھ روپے جمع ہو جائیں.مگر جماعت نے اس فنڈ میں بڑی قربانی دی.چنانچہ میری خواہش تو 51 لاکھ روپے کی تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے تین سالوں میں قریب 3 5 لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیں.فالحمد للہ علی ذالک.یہ ان رفعتوں کا نتیجہ ہے کہ جماعت احمدیہ میں روحانی طور پر بصیرت پیدا ہوگئی.قوم کو دور بین نگاہ ملی اور ان کی فراست تیز ہوگئی اور ان کے ایمان بڑھ گئے اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے سے ان کے دلوں میں بشاشت پیدا ہوگئی.چنانچہ دوستوں نے صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ میں اب تک قریباً دس کروڑ کے وعدے کر دیئے ہیں.میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ نو کروڑ بیس لاکھ روپے کے وعدے آچکے ہیں اور پھر دو گھنٹے کے بعد مجلس مشاورت کے افتتاحی اجلاس میں نو کروڑ ، چون لاکھ کا اعلان کیا تھا.میرا خیال ہے، اب تک نو کروڑ ستر ، اسی لاکھ تک وعدے پہنچ چکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے.اب کبھی تو یہ حال تھا کہ بڑی تنگ ودو کے بعد اور بڑی فکر کے بعد، بڑی دعاؤں کے بعد جماعت نے نصرت جہاں ریز روفنڈ میں 53 لاکھ روپے کی مالی قربانی دی.لیکن اب ایک نیا بند باندھنے کا منصوبہ خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھا تو جماعت نے بڑی بشاشت کے ساتھ 53لاکھ کے مقابلے میں قریب دس کروڑ روپے کی قربانی کے وعدے کر دیئے.اور جیسا کہ میں نے مجلس مشاورت پر بھی بتایا تھا، دراصل یہ ایک زبر دست تیاری ہے، نئی صدی کے استقبال کی.اس پندرہ ، سولہ سال کے عرصہ میں ہم نے نے مشن کھولنے ہیں، نئی مساجد بنانی ہیں، 86
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 اپریل 1974ء قرآن کریم کی کثرت سے اشاعت کرنی ہے.کم از کم سوزبانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم پر مشتمل کتاب شائع کرنی ہے.اور جیسا کہ میں نے اعلان کیا تھا کہ میں علی وجہ البصیرت انسان ہوں، اس لئے غلطی کر سکتا ہوں.اس یقین پر قائم ہوں کہ جب ہم دوسری صدی میں داخل ہوں گے تو جماعت احمدیہ کی زندگی کی یہ دوسری صدی، غلبہ اسلام کی صدی ہوگی.اس دوسری صدی میں ہم غلبہ اسلام کے اتنے زبردست جلوے دیکھیں گے کہ ان کے مقابلے میں پہلی صدی ہمیں یوں نظر آئے گی کہ گویا ہم نے غلبہ اسلام کے لئے تیاری کرنے میں سو سال گزار دیئے.دوسری صدی میں ہم کہیں گے کہ پہلی کوششوں کے نتائج اب نکل رہے ہیں.جو باغ پہلی صدی میں لگایا گیا تھا، اب ہم اس کا پھل کھا رہے ہیں.گویا دوسری صدی میں اسلام غالب آجائے گا.اور اس کے بعد کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے علاقے ایسے رہ جائیں گے، جن میں اسلام کی تبلیغ کا کام کرنا پڑے گا.تاہم اس وقت ایک بڑا کام، جو باقی رہ جائے گا، وہ ہر نسل کی تربیت کا کام ہوگا.خدا کرے اس وقت تک کہ جب کافروں پر قیامت آنا مقدر ہو، سو سال تو نہیں، پانچ سوسال بلکہ ہزار سال تک احمدیت کی ایک نسل کے بعد دوسری نسل پوری تربیت یافتہ ہوکر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والی بن جائے.اب بند اور دریا کا جو تعلق ہے، وہ واضح ہو چکا ہے.یعنی اگر بند نہ باندھے جائیں تو پانی کی رفتار میں تیزی نہیں پیدا ہوگی.جس طرح ایک ہوا خوری کرنے والا آدمی خراماں خراماں چلتا ہے ، اسی طرح دریا کا پانی بھی آہستہ آہستہ بہتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے.جو پانی کی شکل ہے، وہی روحانی طور پر رفعتوں کی طرف روحانی حرکت کی حالت ہے.اگر روحانی بند نہ باندھے جائیں ، تب بھی جماعت ترقی تو کرے گی لیکن بہت آہستہ آہستہ ترقی کرے گی.لیکن جس طرح دریاؤں کو بند باندھنے سے پانی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، مختلف نہریں نکالنے کی سہولتیں میسر آتی ہیں، لاکھوں کلوواٹ بجلی مہیا ہوتی ہے، اسی طرح روحانی طور پر بھی منصوبے (جنہیں میں روحانی بند کہتا ہوں.) بنائے بغیر تیزی اور شدت نہیں پیدا ہو سکتی.لیکن اگر دریا میں پانی نہ ہوتو بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں.بند کا فائدہ تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ دریا میں پانی ہو.اسے ایک خاص جگہ پر روک کر اکٹھا کیا جائے اور پھر بلندی سے نیچے گرا کر اس میں غیر معمولی تیزی پیدا کی جائے.اور اس سے کئی فوائد حاصل کئے جائیں.اور اگر دریا میں پانی ہو اور اس پر بند نہ باندھا جائے تو دریا کے پانی میں تیزی نہیں پیدا ہوتی.اس لئے ترقیات کے لئے ہر دو کاوجود آپس میں لازم و ملزوم ہے.دریا میں عام معمول کے مطابق پانی بھی ہونا چاہیے، ورنہ بند کے اندر پانی حسب ضرورت جمع نہیں ہو سکے 87
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 105 اپریل 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم گا.اور اگر بند نہ ہوں تو پانی کا ضیاع ہے.مثلاً جہاں ضرورت نہیں یا کم ضرورت ہے، وہاں پانی زیادہ پہنچے اور جہاں پانی کی زیادہ ضرورت ہے، وہاں پہنچ نہ سکے.گویا اس کے مختلف فوائد ہیں.یہی حالت روحانیت کی ہے.اگر ہم روحانی بند نہ بنائیں تو ہمارے کاموں میں شدت اور تیزی پیدا نہیں ہوگی.رفعتوں کی طرف ہماری حرکت میں اگر تیزی پیدا نہیں ہوگی، ہماری ترقی کی رفتار بہت ست پڑ جائے گی.میں نے ابھی تحریک جدید اور نصرت جہاں ریزروفنڈ کی مثالیں دی ہیں.ہر آدمی کو یہ نظر آ رہا ہے کہ ان کی وجہ سے جماعت کی ترقی کی رفتار میں غیر معمولی تیزی آگئی ہے.لیکن اگر عام چندے نہ ہوں تو پھر بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں.کیونکہ بند میں جمع ہونے کے لئے پانی نہیں جائے گا.یعنی بند باندھنے کے باوجود اس میں شدت پیدا نہ ہوگی.اس لئے معمول کے مطابق جس طرح دریا میں پانی رہنا چاہیے، اسی طرح عام چندوں کی ادائیگی بھی از بس ضروری ہے.جس طرح مختلف موسموں میں دریا کا پانی بڑھتا رہتا ہے، اسی طرح عام چندوں کو بھی آہستہ آہستہ بڑھتے رہنا چاہیے.کیونکہ جماعت احمدیہ کا قیام بتاتا ہے کہ بہار آ گئی ہے.ہمارے لئے عید کا سماں پیدا ہو گیا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے عید کی مبارک بادل گئی ہے.پس جس طرح سورج کی تمازت بڑھتی ہے تو برف زیادہ پگھلتی ہے اور دریاؤں میں پانی زیادہ آ جاتا ہے، اسی طرح ہماری جماعتی زندگی کا یہ سماں متقاضی ہے کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی گرمی جوش مارے تا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ریزروائر کی برف پچھلے اور ہمارے پانی (یعنی مالی قربانی ) میں زیادتی کا موجب بنے.اور ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ ہماری اجتماعی فطرت کا تقاضا یہی ہے.اگر ہم اس میں کمزوری دکھائیں، یعنی ہماری ترقی تدریجی رنگ میں اور آہستہ آہستہ ہو رہی ہو ، یعنی چندہ عام، حصہ آمد یا چندہ جلسہ سالانہ کی ادائیگی کی رفتار ست ہو تو پھر بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے.اور اگر بند نہ باندھیں تو عام چندوں کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکتے.اس لئے بند باندھنے کی بھی ضرورت ہے.اب ایک نیا روحانی بند بن رہا ہے.ہم نے پہلے جو روحانی بند باندھے تھے، ہم ان سے روحانی فیض حاصل کر رہے ہیں.اس وقت تحریک جدید بھی بڑا کام کر رہی ہے.وقف جدید اور فضل عمر فاؤندیشن بھی اپنے اپنے رنگ میں بڑا کام کر رہی ہے.مثلاً فضل عمر فاؤنڈیشن نے پہلے جماعت کو ایک لائبریری بنا کر دی تھی.اب اس کے زیر اہتمام باہر سے آنے والے مہمانوں کے لئے ایک گیسٹ ہاؤس کا ایک بہت بڑا منصوبہ زیر تکمیل ہے.اس کے پہلے مرحلے پر شاید پانچ سات لاکھ روپے خرچ ہوں گے.پھر اس کا ایک دوسرا مرحلہ ہے، جو بعد میں تعمیر ہو گا.اس پر بھی بہت خرچ آئے گا.88
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 اپریل 1974ء پھر نصرت جہاں ریز روفنڈ کا منصوبہ ہے، جس کے تحت کئی ہسپتال بن گئے ہیں، سکول کھل گئے ہیں.اس عرصہ میں کئی مخالفانہ روکیں پیدا ہوئیں، ہمارے صبر کی آزمائش ہوئی.پھر ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوا.بعض متعصب افسروں کی وجہ سے (وہ ملک متعصب نہیں.لیکن بیچ میں کوئی بیلجیئم کا باشندہ یا بنگال کا متعصب ہندو آجاتا ہے.ایک جگہ ہمارا ہسپتال نو مہینے تک بند پڑا رہا.لوگوں نے ہمارے ڈاکٹر کو یہ مشورہ دیا کہ تم اس ملک سے چلے جاؤ.اس نے مجھے لکھا تو میں نے کہا، آرام سے بیٹھے رہو.یہ مقابلہ ہمارے صبر اور ہمت کا اور ان کے تعصب کا ہے.ان کا تعصب کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ہمارا صبر اور ہماری قوت برداشت ہی بالآخر کامیاب ہوگی.چنانچہ ہم نے نو مہینے تک ڈاکٹر اور اس کے سٹاف کو فارغ نہیں کیا.میں نے ہدایت کی تھی کہ سب کو تنخواہیں دیتے چلے جاؤ.ہمیں خدا تعالیٰ دیتا ہے تو تم بھی لوگوں کو دیتے چلے جاؤ.اگر متعصب لوگ یہ تما شا د یکھنا چاہتے ہیں تو یہ بھی دیکھ لیں کہ خدا تعالیٰ کی جماعت کا قدم پیچھے نہیں ہٹا کرتا.چنانچہ نو مہینے کے بعد اب وہاں کی حکومت نے ہسپتال کی اجازت دے دی ہے.وہ لوگ ہمارے ہسپتال کی عمارتوں کے متعلق عجیب و غریب شرطیں لگا دیتے ہیں.ہم وہ بھی پوری کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ خدمت دین کے لئے ہمیں پیسے دیتا ہے، ہم خرچ کر دیتے ہیں اور بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہو جاتے ہیں.بہر حال افریقی ممالک میں بڑی زبر دست حرکت ہے.اور یہ نصرت جہاں منصوبے کی برکت ہے.وہاں سے ہمارے چیف گا مانگا صاحب جلسہ سالانہ پر آئے تھے.وہ بڑے زیرک اور صاحب فراست اور بڑے مخلص احمدی ہیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ نصرت جہاں سکیم کے بہت ہی خوشکن نتائج نکل رہے ہیں.اور اب تو یوں لگتا ہے کہ سارا ملک ہی بڑی جلدی احمدی مسلمان ہو جائے گا.دوست دعا کریں کہ یہ ملک بھی جلد احمدی مسلمان ہو جائیں.دوسرے ممالک بھی احمدی مسلمان ہو جا ئیں لیکن ہماری دعا یہ ہے کہ جلدی جلدی احمدی ہو جائیں.تا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والا بن جائے.پس جس طرح دریا میں مادی پانی کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح روحانی پانی کا ہونا بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم کشف میں دودھ دکھایا تھا.اب جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دودھ کی نہریں چلائی ہیں.لیکن دودھ کی بھی مادی فطرت نشیب کی طرف ڈھلک جانے کی ہے لیکن جو روحانی دودھ ہے، وہ 89
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 105 اپریل 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا کا مصداق ہے.اور اس کی فطرت کا تقاضالر فعنہ کی رو سے بلندیوں کی طرف پرواز کرنا ہے.اس بلند پروازی میں روحانی بند کے ذریعہ شدت اور تیزی پیدا کرنے کی ضرورت ہے.گویا مادی اور روحانی طور پر بند باندھنے کے دو متضاد نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں.مادی بند کے نتیجہ میں پانی میں نشیب کی طرف جانے کی حرکت میں شدت پیدا ہوتی ہے اور روحانی بند باندھنے کی وجہ سے الہی سلسلوں اور جماعتوں میں بلندیوں کی طرف پرواز کرنے میں تیزی اور شدت پیدا ہوتی ہے.اس لئے ان ہر دو کا وجود ضروری ہے.ہم نے ایک بڑاز بر دست بند باندھا ہے، صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے نام سے.یہ ایک ر منصوبہ ہے.اس کو پورا پانی بہم پہنچانے کے لئے ہمارے روحانی دریا میں، جسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری فرمایا تھا اور جس کی غرض بنی نوع انسان کو روحانی طور پر سیراب کرنا تھا، اس میں پہلے کی نسبت پانی بڑھ جانا چاہیے.تا کہ اس بند کے پر ہو جانے سے غلبہ اسلام کے حق میں شاندار نتائج برآمد ہوں.( مطبوعه روزنامه الفضل 18 اپریل 1974 ء ) 90
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 02 مئی 1974ء اللہ تعالیٰ جماعت پر جتنی ذمہ داریاں ڈالے گا، اتنے سامان بھی پیدا کرے گا خطاب فرمود : 02 مئی 1974 ء بر موقع سالانہ تربیتی کلاس خدام الاحمدیہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مجھے افسوس ہے کہ بیماری کی وجہ سے میں اس سے قبل آپ سے مل نہیں سکا.نہ باتیں کر سکا ہوں.کئی سال سے میرے لئے گرمی مستقل بیماری بن گئی ہے.گرمی لگ جاتی ہے، جس کو انگریزی میں ہیٹ سٹروک (heatstroke) کہتے ہیں اور وہ بڑی تکلیف دہ چیز ہے.گرمی کا بھی اثر ہے.میں باہر گیا ہوا تھا.راولپنڈی میں مجھے (summer diarrhoea) سمر ڈائیریا، جو وبا کی صورت میں پھیلا ہوا ہے، اس کا حملہ ہو گیا.اس نے بڑا کمزور کر دیا.اور کبھی بیچ میں دوران سر یعنی چکروں کی تکلیف بھی ہو جاتی ہے.جو کل بہت زیادہ تھی.مجھے خوف لاحق ہوا کہ یہاں آج میں آسکوں گا یا نہیں.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ایک مختصر سی ملاقات کا موقع مل گیا ہے.جو بنیادی حقیقت ایک احمدی کی زندگی کی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے اور آپ کے سامنے بڑے اہم کام ہیں، جو ہم نے کرنے ہیں.بڑی وزنی ذمہ داریاں ہیں، جو ہم پر ڈالی گئی ہیں.بہت بوجھ ہیں، جنہیں اٹھانے کی نہیں تلقین کی گئی ہے اور حکم دیا گیا ہے.اگر صرف یہ بات ہوتی تو ہمارے دل دھڑکنے لگتے ، خوف ہم پر طاری ہوتا.لیکن جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے ایک احمدی کو اس آخری انتہائی جنگ کے لئے منتخب کیا، جو اس زمانہ میں ہونے والی تھی اور جس کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لئے اسلام ساری دنیا پر غالب آنے والا تھا، وہاں اس نے ہمیں یہ خوشخبری بھی دی کہ تمہارے اوپر بوجھ تو بہت ڈالا جارہا ہے لیکن جتنا بھی بوجھ ڈالا جائے گا اور حالات تم سے جتنی بھی قربانیوں کا مطالبہ کریں گے ، اتنی ہی طاقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں دے دی جائے گی.اب دیکھو! میرے اس زمانہ خلافت میں سب سے پہلے ایک تحریک فضل عمر فاؤنڈیشن کے نام سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یاد میں ہوئی.کچھ خدمت انسانی کے کام اور کچھ بھلائیوں کے تسلسل کو قائم رکھنے کا کام ذہن میں تھا.اور کچھ قربانی اس وقت جماعت نے تین سال سے کچھ زائد عرصہ میں دی 91
خطاب فرمودہ 02 مئی 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم (قریب 37 لاکھ).اس کے بعد نصرت جہاں کا منصو بہ اللہ تعالٰی نے ذہن میں ڈالا.اور اس کے لئے جماعت نے علاوہ دیگر چندوں کے 53 لاکھ سے کچھ زائد رضا کارانہ اور طوعی مالی قربانی میں حصہ لیتے ہوئے رقم جمع کی.اور 1970ء کے اس منصوبہ کے بعد 1973ء کے جلسہ سالانہ پر جوصد سالہ جو بلی اور دوسری صدی کے استقبال کا منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا گیا، اس کے لئے جیسا کہ الفضل میں آپ پڑھ چکے ہوں گے یا آپ کے علم میں لایا جانا چاہیے تھا.(کیونکہ جماعت پر جو اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں، جماعت کے بڑے چھوٹے ، مردوزن کو اس کا علم ہونا چاہیے.میری طرف سے اڑھائی کروڑ روپے کا اعلان ہوا تھا.اور پھر جوں جوں حالات واضح ہوتے گئے اور میں نے جماعت میں جذبہ دیکھا، میں نے اپنے اندازے لگائے ، دعاؤں کے بعد.اس وقت جلسہ سالانہ پر بھی میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کر دیا تھا کہ اگر چہ اڑھائی کروڑ روپے کی میں اپیل کرتا ہوں لیکن مجھے امید ہے کہ یہ رقم پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گی.یہ دسمبر 1973ء میں میرا اندازہ تھا.لیکن دسمبر 1973ء کے بعد اپریل تک چار مہینے گزرے ہیں.اس عرصہ میں جوں جوں حالات سامنے آتے رہے اور دعاؤں کی توفیق بھی ملتی رہی، خواہش بھی بڑھ گئی اور جماعت کا جذ بہ بھی بڑھتا گیا.مشاورت کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک خوشخبری دی تھی اور اس کی تائید میں جماعت کو اللہ تعالیٰ نے رویا صالحہ کے ذریعہ خوشخبریاں دیں.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے.اور مشاورت پر میں نے اعلان کیا کہ غالباً 9 کروڑ 53 لاکھ کے وعدے آچکے ہیں.اور اب اس سے بڑھ گئے ہیں، جس کا اعلان میں کل انشاء اللہ تعالٰی جمعہ میں کروں گا.بہر حال 9 کروڑ سے او پر وعدے مشاورت کے موقع پر پہنچ گئے تھے.اتنے تھوڑے عرصہ میں، یعنی تین سال کے اندر بیس گنا زیادہ ترقی کر جانا اور پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دینا، خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں.آپ یہاں کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں.اگر کھیلوں کی زبان میں بات کریں تو کوئی پانچ فی صد سے، کوئی دو فیصد سے، کوئی ایک فی صد سے اور کوئی اعشاریہ کچھ فی صد کے فرق سے ریکارڈ توڑا کرتا ہے.لیکن جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہیں گنا، یعنی دو ہزار فیصد یعنی سو کے مقابلہ میں دو ہزار کی نسبت سے اپنے طوعی اور رضا کارانہ جذ بہ اور ایثار کا مظاہرہ کیا.اور 53 لاکھ سے بڑھ کر مشاورت پر یہ رقم ساڑھے نو کروڑ تھی ، جو اب بڑھ چکی ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ جو بوجھ اٹھانے کی توفیق عطا کرتا ہے، وہ ہمیں بتارہا ہوتا ہے کہ کس نسبت سے بوجھ ہم پر زیادہ ڈالا گیا ہے.جہاں یہ حقیقت ہے کہ نصرت جہاں منصوبہ کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو حض اپنے فضل سے (نہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں ) سو کے مقابلہ میں دو ہزار یعنی 20 سو 92
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 02 مئی 1974ء فیصد زیادہ قربانیوں کی توفیق دی.تو اس اصول کے مطابق جو میں نے ابھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ جتنا بوجھ ڈالتا ہے، اس کے مطابق توفیق اور طاقت بھی عطا کرتا ہے، ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو قربانیاں ہم نے دی ہیں اور جو بوجھ ہم پر ڈالا گیا ہے، جس کے نتیجہ میں عام مالی قربانی کے علاوہ ہم نے قربانی دینی اور ایثار کا اظہار کرنا ہے اور جو ہم نے جدوجہد کرنی ہے، وہ 70ء کے مقابلہ میں اس زمانہ میں، جس میں ہم داخل ہو چکے ہیں، بیس گنا زیادہ ہے.یعنی اس میں 20 سو فیصدی اضافہ ہوا ہے.عمر کے لحاظ سے اس کا اثر ہماری جماعت پر دو قسم کا پڑتا ہے.ایک وہ لوگ ہیں، جو بلوغت کو پہنچنے کے بعد جماعت احمدیہ کے ایک عظیم انقلابی جہاد میں حصہ لے رہے ہیں.ان کو پہلے سے ہیں گنا زیادہ قربانی کے ساتھ اور جذبہ کے ساتھ اور عزم کے ساتھ اس جہاد میں حصہ لینا پڑے گا.یہ آثار ہیں، کیونکہ اتنی طاقت ہمیں مل گئی.جہاں ہم بوجھ دیکھتے ہیں، اس کے مقابلہ میں ہم خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ امید رکھتے ہیں کہ جماعت کو اتنی زیادہ توفیق مل جائے گی.اور جب ہم تو فیق دیکھتے ہیں تو جو اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دیتا ہے اور ہماری نظر کے سامنے آتی ہے، اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسی نسبت کے ساتھ ہم پر زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک منصوبہ بنایا.اور وہ منصوبہ ہے، اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کا.وہ منصوبہ یہ ہے، تمام ملکوں اور ان میں بسنے والے انسانوں کے دل جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دینے کا.یہ اتناز بر دست منصوبہ ہے کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں ، آپ کے کانوں میں بار بار یہ بات ڈالنا چاہتا ہوں کہ آدم کی پیدائش کے بعد سے اتنا بڑا منصوبہ کبھی نہیں بنایا گیا.آدم سے لے کر آج تک اتنی زبر دست جنگ ( روحانی جنگ، مادی ہتھیاروں سے نہیں ) شیطانی قوتوں کے خلاف نہیں لڑی گئی ، جتنی اس زمانہ میں، جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے، لڑی جانے والی ہے.ہمارا سپہ سالار، ہمارا سپریم کمانڈر، ہمارا ہادی، ہمیں راہ راست دکھانے والا اور اپنی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اس پر قائم رکھنے والا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.باقی جس طرح سپریم کمانڈر کے ماتحت ایک زمانہ میں مختلف محاذوں پر مختلف جرنیل لڑ رہے ہوتے ہیں.مثلاً ہمارے ہاں اس وقت پاکستان کی بری فوج کو، جود نیوی فوج ہے، پانچ حصوں میں تقسیم کر کے پانچ کورکمانڈرز مقرر کئے گئے ہیں.اور اس کے علاوہ فضائیہ کا ایک انچارج ہے اور بحریہ کا ایک انچارج ہے.تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جو کمانڈر یا سپہ سالا راعظم ہے، اس کے اختیارات میں کوئی فرق پڑ گیا یا اس کی کمان اس سے چھین لی گئی.93
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 02 مئی 1974ء مطلب نہیں نکلتا.ہم پر مخالف اعتراض کرتے ہیں، اس لئے میں یہ بات آپ کو سمجھا رہا ہوں.اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو سپریم کمانڈر ہے، اس کا مقام بہت بڑا ہے.مثلاً پاکستان میں اگر پانچ کور کمانڈر ہیں تو امریکہ میں میرے خیال میں سو کے قریب یقینا ہوں گے.پھر جو ہتھیار ہیں، اس لحاظ سے فوج کی تقسیم ہے.مثلاً بری فوج ہے ، فضائیہ ہے، بحریہ ہے اور اب انسان نے ترقی کی اور نئے سے نئے ہتھیار بنالئے ہیں.پہلے لڑنے والی فوج کے یہ تین باز و سمجھے جاتے تھے.اور اب دنیا کے بعض ملکوں نے تین کی بجائے پانچ باز و بنالئے ہیں.میزائل، جو زمین سے اڑ کر جہازوں کو نشانہ کرتی ہے یا زمین سے زمین پر نشانہ کرتی ہے، وہ اتنی ترقی کر گئی ہے کہ جس طرح فضائیہ کا ایک علیحدہ بازو ہے، میزائل کا بھی علیحدہ باز و بنالیا گیا ہے.اور ابھی ماضی قریب میں (rocketory) راکٹری، جو میزائل سے مختلف ہے، ایک ملک نے اس کا علیحدہ باز و بنالیا.اور پانچ باز و ہو گئے.جب فوج کے تین باز و تھے، اس وقت سپریم کمانڈر کا یا سالا را عظم کا جو مقام تھا، وہ دنیاوی لحاظ سے اتنا بڑا نہیں تھا، جتنا بڑا مقام اب اس ملک کے سپریم کمانڈر یا کمانڈر انچیف کا ہو گیا ہے، جس میں تین کے بجائے پانچ بازو فوج کے ہیں.لیکن ہم روحانی جہاد اور روحانی مقابلوں اور عظیم روحانی جنگ اور روحانی قربانیوں کی بات کر رہے ہیں.اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لئے روحانی فوجوں کے سالا را عظم بنا دیئے گئے ہیں.یعنی آپ کو خاتم النبین کا لقب عطا ہوا ہے.اور آپ کے ماتحت جن سالاروں نے پیدا ہونا تھا، ان کی تعداد تین، چار، دس یا دس سونہیں بلکہ ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ جب تنزل کے آثار تھے، اس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ امت محمدیہ میں لاکھوں لاکھ مقر بین الہی پیدا ہوئے.اور مقرب الہی ہی روحانی فوج کا سالار ہوتا ہے.اور اس وقت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوگئے ، بسیج دنیا کی طرف آگئے.اس عظیم جنگ کا معرکہ....جنگ تو شروع ہوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ لیکن....اس جنگ کا آخری معرکہ ، جس کی شدت انسانی عقل اپنے تصور میں نہیں لاسکتی، وہ زمانہ آ گیا.مہدی آگئے اور اسلام کے اندر شیطان سے جو آخری معرکہ ہونا تھا، اس کا زمانہ آ گیا.اسی لئے ہمارے چودہ سوسالہ عرصہ میں جو کتب مسلمان علماء اور اولیاء اور خدا کے برگزیدہ اور مقربین نے لکھی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اتنا عظیم مقام ان کو مہدی کا بتایا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خود انہیں علم دیا تھا کہ اس کا مقام اور شان کیا ہوگی.اتنا عظیم مقام اور شان بتائی ہے کہ ہم حیران ہوتے ہیں، جب ان کتب کو پڑھتے ہیں.تو ان بزرگوں کی طرف منسوب ہونے والوں نے مہدی کا زمانہ تو پایا مگرا سے شناخت نہیں کیا.اور 94
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 02 مئی 1974ء ان کے جو ہادی اور رہنما تھے ، جن کی طرف یہ منسوب ہوتے ہیں، انہوں نے مہدی کا زمانہ تو نہیں پایا مگر اسے شان اور مقام کے لحاظ سے شناخت کیا اور اس کی عظمت اور شان کے متعلق اپنی کتب میں لکھا.یہ جنگ شروع ہو چکی ہے اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، اس جنگ میں اس آخری معرکہ میں، جو معرکہ مہدی موعود نے اسلام کی خاطر اور توحید کو قائم کرنے کے لئے اور نوع انسانی کے دل جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دینے کے لئے لڑنا تھا، اس معرکہ میں بھی یہ وقت ، جس میں ہم اس جلسہ سالانہ کے بعد داخل ہو گئے ہیں، یہ بڑی اہمیت کا مالک ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو میں دیکھ رہا ہوں اور جو میرے کان آسمانی آواز سن رہے ہیں اور جو میری قوت شامہ خوشبو سونگھ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ جو اس صدی کے یعنی جماعت احمدیہ کی زندگی کی پہلی صدی کے یہ آخری پندرہ سال ہیں، اس صدی کے بہ پندرہ سال اس لحاظ سے سب سے اہم ہیں کہ اس صدی میں اس سے قبل وہ تیاری ، جودوسری صدی کے لئے ہمیں پہلی صدی میں کرنی تھی، اتنی شدت اور اتنی وسعت کے ساتھ اور اتنے بڑے پیمانہ پر کبھی نہیں کی ، جوان پندرہ سال کے اندر ہم نے کرنی ہے.اور پھر اس کے بعد ہماری زندگی کی...اس معرکہ کی زندگی کی یہ معرکہ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اور جیسا کہ قرآن کریم میں اشارے پائے جاتے ہیں، قریباً دوصدیوں اور کچھ سالوں تک پھیلا ہوا ہے.) جو چیز میں دیکھ رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ پہلی صدی تیاری کی تھی.چنانچہ ہم مثلاً پچاس ں میں چلے گئے.اب ان اگلے پندرہ سال میں ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں ہم چلے جائیں گے.ہم پچاس ایسے ملکوں میں چلے گئے ، جہاں کے چندے بھی ہمارے رجسٹروں پر آتے ہیں اور دنیا کا بہت بڑا حصہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس عظیم جہاد کے احاطہ میں اور دائرہ کے اندر لے لیا ہے.لیکن کچھ ملک ایسے بھی ہیں، جہاں اکا دکا احمدی ہو گا لیکن وہاں جماعتیں نہیں ہیں.نہ جماعت فی الحال بن سکتی ہے.کیونکہ کوئی ایک احمدی ایک شہر میں اور کوئی دوسرا دوسو میل دور.میں نے بتایا تھا کہ سوڈان میں ایک ہی خاندان 1930ء میں احمد کی ہوا اور وہ بھی ابھی تک احمدی ہے.اس کا رابطہ مرکز سے کوئی نہیں تھا ، اب اچانک ہوا.وہ بھی مغربی افریقہ کے ایک ملک میں.تو اس طرح احمدی تو شاید ہر ملک میں ہوگا.لیکن جہاں جماعتیں بنائی جاسکیں، ایسے حالات میں وہ کام بھی ہم نے ان پندرہ سالوں میں کرنا ہے.اور بہت سی تیاری کرنی ہے.تو یہ صدی، دوسری صدی کے استقبال اور اس کی تیاریوں کی تکمیل کے لئے ہے.اور تیاری کے نقطہ نگاہ سے اس صدی کے یہ سال بہت اہم ہیں.95
خطاب فرمودہ 02 مئی 1974ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم آپ خود سوچیں، اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی ، صحت مند، تقوی کی بنیادوں پر گذرنے والی زندگی عطا کرے، آپ میں ایسے بھی ہیں کہ جب وہ اس صدی میں داخل ہو رہے ہوں گے تو تمہیں ، پینتیس سال کے ہوں گے، کوئی چالیس سال کی عمر کو پہنچ رہے ہوں گے اور اس صدی میں داخل ہورہے ہوں گے.بہر حال جو نئی اور جوان نسل ہے، اس کی ذمہ داریاں بڑوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں.کیونکہ بڑے تو اپنی عمر کے لحاظ سے اپنے وقت میں اس دنیا کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے انعام حاصل کرنے کے لئے دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں.یہی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے.لیکن اکثر نوجوان اور بچے ، (اطفال بھی یہاں آئے ہوئے ہیں.جس وقت اپنی بھر پور جوانی میں پہنچیں گے اور جس وقت انتہائی قربانیوں کا وقت آئے گا اور وہ اللہ کے فضل سے قربانیاں دے رہے ہوں گے، ان کے اوپر بڑا بوجھ پڑے گا.اسی لئے ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ ہمارے بچے اور خدام آئیں.اور خدام الاحمدیہ کے منتظمین کو اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ صحیح رنگ میں آپ کی تربیت کرنے کی توفیق دے.بہت سے مضامین ہیں، جو نئے ہیں، اس لئے کہ نئے مسائل کو ان کے ذریعہ ہم نے حل کرنا ہے.ان کی طرف معلوم نہیں، آپ کو توجہ دلائی گئی ہے یا نہیں.مجھے تو افسوس ہے کہ میں بیماری کی وجہ سے زیادہ آپ کے پاس نہیں آسکا.بہر حال ذمہ داریاں آپ پر بے حد پڑنے والی ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو یہ بشارت دی ہے کہ جتنی بھی زمانہ کے حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ پر ذمہ داریاں ڈالے گا، اسی کے مطابق اپنے فرشتوں کی افواج کو بھیج کر اور اپنی رحمت کے دروازے آسمانوں سے کھول کر آپ کے لئے ان ذمہ داریوں کے اٹھانے کی توفیق و ہمت حاصل کرنے کے سامان بھی پیدا کرے گا اور آپ کی طاقتوں میں اضافہ کرے گا.اور کوئی بوجھ جو آپ کے کندھوں پر ڈالا جائے گا، وہ نا قابل برداشت نہیں ہوگا.یہ آپ کبھی نہیں کہیں گے کہ بوجھ تو زیادہ ڈال دیا گیا مگر اس کے مقابلہ میں ہمارے رب نے ہمیں طاقت نہیں دی.کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ جتنا بوجھ ہمارا رب ہم پر ڈالے گا، اس کے مطابق ہمیں طاقت بھی دیتا چلا جائے گا.اس کے لئے ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے.وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ 96
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنچم خطاب فرمودہ 02 مئی 1974ء اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہماری طاقت میں تو اضافہ نہ کر لیکن ہمارے بوجھ میں کمی کر دے.اس آیت کا یہ مفہوم نہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بوجھ میں تو اضافہ کر لیکن ہماری طاقتوں میں اسی کے مطابق اضافہ کرتا چلا جا.اور یہ نسبت قائم رہے کہ جتنی ذمہ داری ڈالی گئی ، اتنی طاقت بھی دے دی گئی.اس کے لئے بھی دعا کیا کرو.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو اسلام اور احمدیت کی روح کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور آپ کے دلوں میں یہ بشاشت بھر دے کہ اس دنیا کی قربانیاں اور تکالیف کو برداشت کرنا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مقابلہ میں کوئی چیز ہی نہیں.اور ہر قربانی دے کر ہر چیز اس کے حضور پیش کر کے عاجزانہ اس کے سامنے جھکتے ہوئے اس سے دعائیں کرتے رہیں.ہم بھی اور آپ بھی یعنی بڑی نسل بھی اور چھوٹی نسل بھی ، سب مردوزن عاجزانہ دعائیں کرتے رہیں کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق جوں جوں ہماری ذمہ داریاں بڑھاتا چلا جائے اور ہمارے بوجھوں کو اور بھی بوجھل کرتا چلا جائے ، اس کے مقابلہ میں اسی کے مطابق ہماری طاقتوں میں اضافہ کرنے والا ہو ، ہماری بشاشتوں میں اضافہ کرنے والا ہو.گذشتہ تین، ساڑھے تین سال میں جماعت احمدیہ پر (چونکہ اس منصوبہ کے ماتحت نئی ذمہ داریاں پڑنے والی تھیں.میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں گنا زیادہ اپنا فضل کیا.اور یہ فضل نمایاں کر کے آپ کے سامنے کر دیا.آپ کے دل اس کی حمد سے بھر گئے اور آپ کے سر اس کے آستانہ پر پہلے سے بھی زیادہ جھک گئے.لیکن وہ جو آپ کو پہچانتے نہیں اور آپ کی مخالفتوں میں لگے ہوئے ہیں، وہ پہلے سے ہیں گنا سے بھی زیادہ گھبرا گئے کہ یہ کیا ہو گیا.اور عجیب و غریب باتیں انہوں نے اب کرنی شروع کی ہیں.جو نہ عقل کے معیار پر پوری اترتی ہیں، نہ انصاف کے معیار پر پوری اترتی ہیں، نہ اخلاق کے معیار پر پوری اترتی ہیں، نہ تقویٰ کے معیار پر پوری اترتی ہیں، نہ انسانیت کے معیار پر پوری اترتی ہیں.ان کے لئے بھی دعائیں کریں کہ خدا نے آپ کے دل میں کسی شخص کی دشمنی نہیں پیدا کی.بلکہ آپ حقیقی معنی میں وہ قوم ہیں، جو صحابہ کرام کے ہمرنگ ہو کر حقیقتا أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے مصداق دنیا کی بھلائی اور بہبود کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور نباہنے کی توفیق عطا کرے اور اپنے فضلوں کا زیادہ سے زیادہ وارث بنائے.آؤ، اب دعا کرلیں.مطبوعه روزنامه الفضل 14 مئی 1974ء) 97
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 مئی 1974ء اپنی اپنی استعداد کے مطابق حمد اور شکر کو انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 03 مئی 1974ء دوسری بات، جو اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں، وہ بھی حمد باری سے تعلق رکھتی ہے، وہ بھی عزم مومنانہ سے تعلق رکھتی ہے.صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ ، جس کا اعلان جلسہ سالانہ پر ہوا تھا اور جس کے لئے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ قائم کیا گیا تھا، اس کے وعدے دس کروڑ سترہ لاکھ سے اوپر نکل چکے ہیں.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذلِک اور ابھی تیرہ بیرونی ممالک کے وعدے ہمیں نہیں پہنچے.ان کا انتظار ہے.اور جب مجھے یہ رپورٹ ملی ہے، اس کے بعد بھی کئی لاکھ کے وعدے آچکے ہیں، جو میرے علم میں ہیں.لیکن میں نے ان کو شامل اس لئے نہیں کیا کہ بعض دفعہ دو جگہ اطلاع آجاتی ہے.ممکن ہے، انہیں پہلے اطلاع ہو گئی ہو اور مجھے بعد میں ملی ہو.لیکن جو وعدے دفتر کے رجسٹر کے مطابق پہنچے ہیں، وہ دس کروڑ ، سترہ لاکھ سے اوپر جاچکے ہیں.اور ہمارے دل اس وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں.کل میں نے اپنے بچوں سے (ان کی تربیتی کلاس کے اختتام کے موقع پر ) کہا تھا کہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کوئی نئی ذمہ داریاں اپنی قائم کردہ جماعت یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر ڈالی ہیں تو اس سے ہم قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ نئی ذمہ داریاں امت محمدیہ کو، جماعت احمدیہ کو بحیثیت مجموعی نئی طاقتیں بھی عطا کریں گی.کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا کہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ واری نہیں ڈالی جاتی.تو نئی ذمہ داریاں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ کچھ نئی طاقتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اس کے بندوں کو اور اس کی جماعت کو ملیں گی.اور جب کسی نئی طاقت کا مظاہرہ ہم دیکھتے ہیں، مثلاً یہی کہ سن 1970ء میں جماعت نے ایک منصوبہ کے لئے صرف 53 لاکھ کے وعدے کئے اور پھر اپنے وقت میں وہ وعدے پورے کر دیئے.اس کے مقابلہ میں تین، ساڑھے تین سال کے بعد جماعت کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت عطا کی جو پہلی طاقت کے مقابلہ میں بیس گنا زیادہ ہے.) کہ دس کروڑ سے زیادہ مالی قربانی میں دے دے.ویسے تو جماعت کی جد و جہد اور کوشش مالی قربانی کے مقابلہ میں دوسرے میدانوں میں بیسیوں گنا زیادہ ہے.لیکن یہ ایک چیز 99
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 مئی 1974ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ہم لیتے ہیں، جو ایک نشان دہی کرنے والی چیز ہے.میں گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تین سال کے بعد مالی میدان میں اپنی حقیر قربانیاں اپنے رب کے حضور پیش کرنے کی طاقت دے دی.اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اس تین سالہ عرصہ کے بعد ایک ایسے زمانہ میں داخل ہو چکے ہیں، جب ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے 1970 ء کے مقابلہ میں بیس گنا زیادہ ذمہ واریاں ڈالی جائیں گی.اور اس کے لئے اس نے طاقت دے دی.اور اس عطا کردہ طاقت نے ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں.اور ہاں اس حقیر جماعت، اس دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت، اس بے کس جماعت ، اس جماعت کو ، جس کو ہر طرف سے ایذاء کی باتیں سننی پڑتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس پر اتنا فضل کیا کہ اس کو تین سال کے اندر پہلے سے ہیں گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ طاقت عطا کی ہے.یہ اس کا فضل ہے.اس کی وجہ سے ہمارے دل اس کے شکر سے معمور ہیں اور ہماری زبانیں اس کی حمد کے ترانے گا رہی ہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قدر فضل جماعت احمدیہ پر کر رہا ہے، اس کا شکر نہ فرد کے بس کی بات ہے، نہ جماعت کے بس کی بات ہے.لیکن جس قدر ہم حمد کر سکیں اور اس کا شکر کر سکیں ، وہ تو ہمیں کرنا چاہیے.یعنی حمد اور شکر کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے.اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ زندگی بھر بھی جتنے اس کے فضل ہو چکے ہیں، ان کا حمد اور شکر نہیں کر سکتے“.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 100
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 08 مئی 1974ء امراء جماعت ہائے احمدیہ کے نام ایک نہایت ضروری ارشاد ارشاد فرموده 08 مئی 1974ء گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا تھا.اور اس عظیم منصوبہ کو جسے غلبہ اسلام کے لئے بنایا گیا ہے، پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے میں نے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کی بھی تحریک کی تھی.میں نے جماعت کے مخلصین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس مد میں اڑھائی کروڑ روپیہ سولہ سال کے عرصہ میں جمع کریں.اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر جو سب قدرتوں کا مالک ہے، تو کل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انشاء اللہ یہ رقم پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گی.اور اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کو دیکھتے ہوئے ، بعد میں ایک خطبہ جمعہ میں کہا تھا کہ یہ رقم نو کروڑ تک پہنچ جائے گی.وعدوں کے بھیجوانے کے لئے میں نے مجلس مشاورت 74 ء تک کی میعاد کبھی تھی.الحمد للہ کہ مجلس مشاورت تک وعدے - 54,48,609, 9 تک پہنچ گئے.ابھی تک وعدے آ رہے ہیں.اور میں بڑی خوشی سے آپ کو یہ اطلاع دے رہا ہوں کہ اس چٹھی کے لکھے جانے کے وقت یہ رقم - 10,24,47,344 ہوگئی ہے اور ہر روز اس میں اضافہ ہورہا ہے.ثم الحمد للہ.وعدوں کا کام قریبا قریبا مکمل ہو چکا ہے، اب ان رقوم کی بر وقت وصولی کا سوال ہے.فروری 75 ء تک ہم نے وعدوں کا 118 ضرور انشاء اللہ وصول کرنا ہے.آپ تمام مخلصین جماعت تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ جس محبت، اخلاص ، جوش اور ولولہ کے ساتھ آپ نے وعدے لکھوائے ہیں، اس محبت، اخلاص، جوش اور ولولہ کے ساتھ ادائیگی شروع کر دیں اور بر وقت ادائیگی کرتے چلے جائیں.کام شروع ہو چکا ہے اور روپیہ کی ضرورت ہے.اپنے حلقوں کی وصولیوں کی رپورٹ مجھے براہ راست بھجواتے رہیں تا کہ دعا ہوتی رہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو اور غلبہ اسلام کی مہم میں ہم سب کول کر کام کرنے اور ساری ذمہ داریوں کو کماحقہ سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.امین اللهم آمین“.والسلام مرزا ناصر احمد الثالث خليفة المسيح ۸ ہجرت ۱۳۵۳ هش ( مطبوعه روزنامه الفضل 12 مئی 1974ء) 101
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 مئی 1974ء دنیا کو امت واحدہ بنانے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 17 مئی 1974ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گذشتہ ہفتہ بیماری کی وجہ سے بہت تکلیف میں گذرا ہے.اس وقت بھی میں کمزوری محسوس کر رہا ہوں.لیکن میں چاہتا تھا کہ جماعت کو دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلاؤں، اس لئے میں جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے آ گیا ہوں.جیسا کہ ہمیں قرآن عظیم سے معلوم ہوتا ہے اور جیسا کہ میں پہلے بھی متعدد بار توجہ دلا چکا ہوں کہ جس قدر عظیم ذمہ داریاں ہوتی ہیں، اسی کے مطابق بشارتیں ملتی ہیں.اور جس قدر عظیم بشارتیں ملیں ، اسی کے مطابق انسان کو ذمہ داریاں اٹھانی پڑتی ہیں.یہ حقیقت ہے کہ امت محمدیہ کو جس قدر بشارتیں ملی ہیں، پہلی کسی امت کو اس قدر بشارتیں نہیں ملیں.امت محمدیہ کے اندر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسلام قبول کرنے والوں اور آپ کی صحبت میں رہ کر تربیت حاصل کرنے والوں کو جو بشارتیں ملیں اور جن کے مطابق انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اور نباہا، اس قدر بشارتیں بعد میں آنے والے افراد امت کو نہیں ملیں.اور نہ اس قدرذمہ داریاں ان پر ڈالی گئیں.اس لئے کہ جب کام شروع کیا جاتا ہے تو ابتداء میں کام کرنے والوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے.ایک چھوٹی سی مثال، بالکل ہی چھوٹی سی مثال میں دیتا ہوں اور چونکہ میری زندگی کا مشاہدہ ہے، اس لئے مختصر بیان کر دیتا ہوں.کچھ باتیں آپ کے سامنے آجائیں گی.اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ کافی فعال مجلس ہے، اس کا ایک اپنا دائرہ عمل اور دستور ہے.اس کے جو ابتدائی کام تھے، وہ بڑی حد تک مکمل ہو چکے ہیں.اب بھی ہمارا نوجوان بہت ہمت اور بڑی قربانی سے کام لینے والا ہے.اور شروع میں بھی یہی حال تھا.جب میں 1938ء میں ولایت سے واپس آیا تو اس وقت مجلس خدام الاحمد یہ نئی نئی قائم ہوئی تھی.اس کا کوئی دستور بھی نہیں تھا.نیا نیا کام تھا.اس کو چلانے کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا.مجھے یاد ہے کہ شروع میں جب قادیان میں باہر کیمپ کی شکل میں خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع کیا تو اس وقت چونکہ یہ نیا نیا کام تھا اور تجر بہ نہیں تھا، اس لئے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ مقام اجتماع کے گرد بانس کیسے لگانے ہیں اور ان پر رسیاں کس 103
خطبہ جمعہ فرمودہ 17 مئی 1974ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم طرح باندھتی ہیں؟ میں اس وقت جامعہ احمدیہ کا پرنسپل تھا.جامعہ احمدیہ کے میرے شاگرد اور میں خود بھی کئی دن خرچ کرتے اور چھوٹے رنبوں کے ساتھ گڑھے کھود کر ان کے اندر بانس لگاتے تھے.بیچارے خدام کے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے.پھر ایک، دو سال کے تجربہ کے بعد یہ پتہ لگا کہ اتنی کوفت اور تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے.بس ایک کلہ بنالیا، دو، چارضر میں لگائیں، بانس کے لئے سوراخ بن گیا.اس کو نکالا آگے چلے گئے.اس طرح جس کام پر ہفتے لگے تھے، وہ دو گھنٹوں میں مکمل ہو گیا.میں نے یہ ایک چھوٹی سی ظاہری مثال دی ہے، خدام الاحمدیہ کے کام کی تاکہ بچے بھی سمجھے جائیں.غرض جس کام کو شروع کیا جاتا ہے، اس کو معیار پر لانے کے لئے بڑی کوفت اٹھانی پڑتی ہے، بڑی قربانی دینی پڑتی ہے.بعد میں آنے والوں کو اس قسم کی قربانیاں نہیں دینی پڑتیں.چنانچہ ساری دنیا کو اللہ تعالیٰ کے نور اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دائرہ میں لانے کا کام جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں شروع ہوا تو یہ اتناعظیم کام تھا اور بھاری ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں اور بڑا بوجھ اٹھانا تھا، اس لئے اس ابتدائی زمانہ کے مسلمانوں کو عظیم بشارتیں دی گئیں.اور ایسے وقت میں دی گئیں، جب کہ غربت کا زمانہ تھا.مسلمان ایک ایسی جنگ میں گھرے ہوئے تھے ، جسے ہماری تاریخ جنگ احزاب کے نام سے یاد کرتی ہے.احادیث میں آتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوک کے احساس کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے تھے.مگر اس ت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ذریعہ آپ کے صحابہ کو بشارت یہ دی گئی کہ کسری اور قیصر کی سلطنتوں پر اسلام غالب آئے گا.چنانچہ بعد میں مسلمان کسری اور قیصر کی سلطنتوں پر غالب آئے.جس طرح چند سال پہلے امریکہ اور روس دنیا کی دو عظیم سلطنتیں کہلاتی تھیں، اسی طرح اس زمانے میں کسرئی اور قیصر کی دون نتیں تھیں.اب دیکھو! مسلمانوں کو کھانے کو میسر نہیں تھا مگر ان کو بشارت دی گئی تھی ، کسری اور قیصر کی دو عظیم سلطنتوں پر اسلام کے غالب آنے کی.چنانچہ بتایا گیا تھا کہ مسلمان ان کی دولت سے فائدہ اٹھائیں گے اور کسری اور قیصر کے پاس جو دنیوی حسنات ہیں، وہ مسلمانوں کو ملیں گی.اس موقع پر یہ بشارت دینا گویا مسلمانوں کو یہ سبق سکھانا تھا کہ جو قربانیاں تم دے رہے ہو، اس سے زیادہ ہماری طرف سے تمہیں بشارتیں دی گئی ہیں.اور تمہیں یہ چیزیں ملنے والی ہیں.امت محمدیہ میں بڑا ہی عظیم وہ گروہ ہے، جس نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت حاصل کی.امت مسلمہ کی زندگی سنوارنے اور امت مسلمہ کے محلوں کی بنیادوں کو مضبوط بنانے اور ان کو مضبوط کرنے اور پھر ان پر اسلام کے عظیم قلعے بنانے کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ 104
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 مئی 1974ء میں قربان کر دیا اور بڑی عظیم بشارتوں کے وارث بنے.چنانچہ انہیں جب بھی بشارتیں ملتی تھیں، ان کو تسلی ہو جاتی تھی اور وہ یقین رکھتے تھے کہ یہ اپنے وقت پر پوری ہو کر رہیں گی.مگر ان کے بعد میں آنے والوں نے ان قلعوں پر جو منزلیں تعمیر کی ہیں، ان منزلوں کی تعمیر کے لئے ویسی ہی قربانیوں کی ضرورت نہیں پڑی ، جیسی قربانیوں کی بنیادوں کو قائم کرنے اور ان کو مضبوط کرنے اور ابتدائی عظیم قلعوں کی تعمیر کے لئے شروع میں ضرورت پڑی تھی.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک اور بشارت دی گئی تھی.اور وہ یہ تھی کہ آپ کی بعثت کا جو آخری مقصد ہے، یعنی تمام اقوام عالم کو امت واحدہ بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کیا جانا اور ہر قوم اور ہر ملک کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار سے اسی طرح حصہ لے رہا ہو، جس طرح کوئی اور ملک یا کوئی اور قوم حصہ لے رہی ہے.یہ کام اب جماعت احمدیہ کے سپر دہوا ہے.جو مہدی معہود اور سیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے.یہ کام اتنا عظیم ہے اور یہ بوجھ اتنا بھاری ہے کہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت محمدیہ کے کسی اور گروہ پر اس قدر عظیم اور اس قد روزنی اور اس قدر اہم ذمہ داری نہیں پڑی.مگر اس عظیم ذمہ داری کے ساتھ بہت بڑی بشارتیں بھی دی گئی ہیں.جنہیں سن کر آج ہمارے وہ احمدی دوست بھی جنہوں نے تھوڑی بہت تربیت حاصل کر لی ہے، ان کے دماغ بھی شاید انہیں قبول نہ کریں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دکھایا گیا تھا کہ کسری اور قیصر مغلوب ہوں گے.آپ کے روحانی فرزند جلیل حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کشف میں رشیا (Russia)(جو اس وقت دنیا کی طاقتور حکومتوں اور ملکوں میں سے ایک ہے اس ) میں ریت کے ذروں کی طرح احمدی دکھائے گئے ہیں.اسی طرح مغربی اقوام ( جو بہت طاقتور حکومتیں ہیں ) جو کسی زمانہ میں سفید فام قو میں کہلاتی تھیں، ان کے کثرت کے ساتھ اسلام میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی ہے.حالات میں ایک نئی تبدیلی ہو چکی.وہ یہ کہ خود مسلمان کہلانے والے بھی مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت میں غفلت برت رہے تھے اور یہ بھی امت محمدیہ کے اندر ایک بہت بڑا فتنہ تھا کہ مہدی آگئے لیکن جن کو شناخت کرنا چاہیے تھا، انہوں نے شناخت نہیں کیا.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک اور کشف بھی دکھایا گیا کہ مکہ میں احمدی ہی احمدی پھر رہے ہیں.اس لئے اگر آج مکہ سے ہمارے خلاف کفر کا فتویٰ جاری ہو جائے تو اس میں رانے کی کوئی بات نہیں ہے.یہ ایک عارضی حالت ہے.لیکن جو ہمیشہ رہنے والی صداقت ہے، وہ یہ ہے کہ مکہ ومدینہ پر اللہ تعالی فضل کرے گا اور وہ مہدی اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت کریں گے 105
خطبہ جمعہ فرمودہ 17 مئی 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اور اس کے جھنڈے تلے جمع ہو کر اپنی ہر چیز کو قربان کر دیں گے.اور دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی مہم میں اسلام کے سب فرقے ایک ہو جائیں گے.پس یہ وہ عظیم بشارتیں ہیں، جو ہمیں دی گئی ہیں.یہ بشارتیں بتاتی ہیں کہ بڑی عظیم ذمہ داریاں ہیں، جن کو ہم نے اٹھانا ہے.ان عظیم ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے اور بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کرنے کے لئے جتنی عظیم ذمہ داریاں ہیں، ان سے کہیں زیادہ عظمت ان بشارتوں کی ہے، جو اس کے مقابلے میں ہمیں دی گئی ہیں.اس لئے اس تمہید کے بعد جو بات میں کہنا چاہتا ہوں اور جسے آپ کے ذہن میں بٹھانا چاہتا ہوں اور جس کے لئے میں آپ کی روح کو جھنجھوڑنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ انسان کمزور ہے ، وہ اپنی طاقت سے کچھ نہیں کر سکتا.اس لئے میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.ہر وقت دعاؤں میں مشغول رہیں.جماعت کے بڑے بھی اور چھوٹے بھی ، مرد بھی اور عورتیں بھی اور بچے بھی اور بچیاں بھی سب دعاؤں کی عادت ڈالیں.اور خدا سے یہ دعا کریں کہ اے خدا! تو نے ہمیں اتنی عظیم بشارتیں دی ہیں، ان بشارتوں کو دیکھ کر ہم یہ سمجھتے ہیں اور ہمارا ذ ہن اور ہماری عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اسی کے مقابلے میں اور اسی نسبت سے ہم پر ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں.لیکن اے خدا! ہم تیرے عاجز بندے ہیں، تیری مدد کے محتاج ہیں.اگر تیری نصرت ہمیں حاصل نہ ہو تو ہم ان ذمہ داریوں کو نباہ نہیں سکتے اور ان بشارتوں کے وارث نہیں بن سکتے.اس لئے اے ہمارے خدا! آسمانوں پر اپنی رحمت کے دروازوں کو کھول اور فرشتوں کو ہماری مدد کے لئے نازل فرما.ہمیں طاقت عطا فرما کہ ہم بشاشت کے ساتھ ان ذمہ داریوں کو نباہتے ہوئے تیری بشارتوں کے وارث بن جائیں.پس دوست بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان عظیم بشارتوں کا وارث بنے کی توفیق بخشے.خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میں ہمارے یہ بھٹکے ہوئے راہی، جنہوں نے امت مسلمہ میں ہوتے ہوئے بھی مہدی کو شناخت نہیں کیا، اللہ تعالیٰ انہیں مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کو شناخت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.تا کہ وہ بھی ہم میں شامل ہو کر اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے جدو جہد کرنے والے بن جائیں کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے.اس کے لئے کوشش کرنی ہے، اس کے لئے تدابیر کرنی ہیں، اس کے لئے دعائیں کرنی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اس میں کامیاب ہونا ہے.(انشاء اللہ تعالی ).( مطبوعه روزنامه الفضل 29 مئی 1974 ء ) 106
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 مئی 1974ء یہ سمجھنا غلطی ہے کہ آرام کے ساتھ ہم آخری غلبہ کو حاصل کر لیں گے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 مئی 1974ء....ہماری جماعت اس وقت مہدی اور مسیح علیہ السلام کی جماعت ہے.اور وہ احمدی، جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں دکھ نہیں دیئے جائیں گے، ہم پر مصیبتیں نازل نہیں کی جائیں گی، ہماری ہلاکت کے سامان نہیں کئے جائیں گے، ہمیں ذلیل کرنے کی کوششیں نہیں کی جائیں گی اور آرام کے ساتھ ہم آخری غلبہ کو حاصل کر لیں گے، وہ غلطی خوردہ ہے.اس نے اس سنت کو نہیں پہچانا، جو آدم سے لے کر آج تک انسان نے خدا تعالیٰ کی سنت پائی.ہمارا کام ہے، دعائیں کرنا.اللہ تعالیٰ کا یہ کام ہے کہ جس وقت وہ مناسب سمجھے ، اس وقت وہ اپنے عزیز ہونے کا ، اپنے قہار ہونے کا جلوہ دکھائے اور کچھ کو ہلاک کر دے اور بہتوں کی ہدایت کے سامان پیدا کر دئے....پس ہمیں خدا تعالیٰ نے بڑا عظیم وعدہ دیا ہے اور بڑی عظیم بشارت دی ہے کہ ہمارے ذریعہ ہم ، جو بالکل کمزور ہیں اور اس دنیا میں ایک دھیلہ بھی ہماری قیمت نہیں ہے، ہمارے ذریعہ سے اللہ تعالی اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرے گا.اور جب دنیا کے بادشاہوں کے جرنیل اس کے کروڑواں حصہ کارنامہ کرتے ہیں تو ان کو بادشاہوں کی طرف سے انعام ملتا ہے.تو وہ جوحقیقی بادشاہ اور عالمین کا بادشاہ ہے، اس کی خاطر سب جماعت کے افراد اور جماعت بحیثیت مجموعی یہ کام کرے گی اور دنیا میں اسلام کو غالب کرے گی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار دنیا کے دل میں میسیج کی طرح گاڑ دے گی تو جو تمام خزانوں کا مالک ہے اور بادشاہوں کا بادشاہ اور حقیقت میں ہے ہی وہی بادشاہ ، باقی تو سب یونہی ہیں، اس کی طرف سے ہمیں کتنا بڑا انعام ملے گا، جس کی ہم توقع رکھتے اور امید رکھتے ہیں.مطبوعه روز نامہ الفضل 08 جولائی 1974 ء) 107
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 31 مئی 1974ء ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی غلبہ اسلام کے خدائی منصوبہ کونا کام نہیں بناسکتیں ,, خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مئی 1974ء امت مسلمہ کو ان آیات میں ان بنیادی صداقتوں سے متعارف کرایا گیا ہے.ایک تو یہ کہ اگر امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے عملاً باہر نکلنے کی کوشش کرے تو ان کے اعمال کا موعود نتیجہ نہیں نکلے گا اور ان کے اعمال باطل ہو جائیں گے.اور دوسرے یہ کہ دنیا جتنا چاہے، زور لگا لے، وہ امت مسلمہ پر ، اگر وہ امت اسلام پر حقیقی معنی میں قائم ہو، کبھی غالب نہیں آسکتی.علو اور غلبہ امت مسلمہ کے ہی مقدر میں ہے.اور اس کی وجہ یہ ہے.فرمایا:.وَاللهُ مَعَكُمْ کہ ان کا ایک حقیقی تعلق اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے.اور جس کا حقیقی عاشقانہ اور عاجزانہ تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو، اس کے نیک اعمال ، وہ اعمال جن کے اچھے نتیجے نکلتے ہیں.جن اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا پہلے سے زیادہ حاصل ہوتی رہتی ہے، ان اعمال میں کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہوتا رہتا ہے.خدا تعالیٰ کی "" صفات کا ہر دوسرا جلوہ پہلے سے بڑھ کر حسین ، پہلے سے زیادہ تعظیم ان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے.دنیا کے کسی دماغ میں اگر یہ بات آئے کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اللہ تعالیٰ کی غلبہ اسلام کی اس تدبیر اور اللہ تعالیٰ کے غلبہ اسلام کے اس منصوبہ کونا کام بن سکتی ہیں، جس غرض کے لئے کہ جماعت احمدیہ قائم کی گئی تھی.تو ہمارے نزدیک وہ روحانیت سے دور ہونے کی وجہ سے نا مجھی کے خیالات رکھنے والا ہے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ منصوبہ ناکام ہو جائے.قرآن کریم نے ، جس کے متعلق ہمارا ایمان ہے اور ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور جس کے اندر کوئی دوسری چیز شامل نہیں ہوئی، نہ ہو سکتی تھی.اور شیطانی دخل سے اسے خدا تعالیٰ نے محفوظ کر رکھا ہے.یہ ہمارا عقیدہ ہے اور ہمارا یہ عقیدہ صرف نظریاتی عقیدہ نہیں بلکہ ہماری زندگیوں نے اس صداقت کو سینکڑوں بار مشاہدہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام بہر حال کلام اللہ ہے اور غیر اللہ کا اس میں کوئی 109
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 31 مئی 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم دخل نہیں ہے.ہم علی وجہ البصیرت اپنی زبان سے بھی ، اپنے عمل سے بھی ، اپنے جذبات سے بھی ، ہم اپنی روح کے ہر پہلو سے دنیا میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس خدا کے کلام میں غیر اللہ ک کوئی دخل نہیں ہے.اور یہ کلام ہم میں سے ہر ایک کے کان میں بڑے پیار کے ساتھ یہ کہہ رہا ہے.انْتُمُ الْأَعْلَوْنَ آخر کار تم ہی غالب رہو گے.جو خدا تعالیٰ سے دور ہونے والے ہیں، جو خدا تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتے ، جو غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں، وہ نامجھیوں کے نتیجہ میں غلط اعلانات کرتے ہیں.ان کی باتیں باطل ہیں اور وہ مٹ جائیں گی.آج جو ہمارا دشمن ہے، وہ یہ حقیقت یا در کھے کہ کل وہ ہمارا دوست ہوگا.وہ اپنے کئے پر پچھتارہا ہوگا.وہ ہم سے مصافحہ کرنے میں فخر محسوس کر رہا ہوگا کہ یہ وہ قوم ہے، جس کو پہچانا نہیں گیا.یہ وہ جماعت ہے، جس کو دھتکارا گیا اور کمزور سمجھا گیا اور دکھ دینے کی کوششیں کی گئیں اور ایذاء پہنچائی گئی.اور اللہ تعالیٰ کے فعل نے یہ ثابت کر دیا کہ یہی جماعت صداقت پر قائم ایک جماعت ہے.خدا تمہیں کہتا ہے:.أَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ کہ بحیثیت جماعت غالب تم نے ہی آنا ہے.اگر کسی جماعت کو یہ یقین ہو ، اگر کسی جماعت کا یہ پختہ عقیدہ ہو کہ خدا تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ غالب انہوں نے ہی آنا ہے، اگر وہ شرائط ایمان اور شرائط اسلام پوری کرنے والے ہوں، پھر ان کو کیا ڈر اور ان کو خدا تعالیٰ کے حضور قربانیاں دینے میں کیا جھجک؟ افراد تو قربانیاں دیا ہی کرتے ہیں.ابتدائے اسلام میں بہتوں نے ایسی قربانیاں دیں.جب ابھی یہ جھگڑے اور لڑائیاں مخالفین اسلام کی طرف سے شروع نہیں کی گئی تھیں.مکی زندگی میں جو ظاہری حالات کے لحاظ سے کمزور زندگی تھی، ( ور نہ مومن کی روحانی زندگی تو کمزور نہیں ہوتی.کیونکہ ساری شیطانی طاقتوں کا وہ مقابلہ کر رہی ہوتی ہے.بہر حال ظاہری لحاظ سے وہ کمزور تھے.حالت یہ تھی کہ ان کی اور ہماری بزرگ مستورات میں سے بعض کو ننگا کر کے ان کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ان کو ہلاک کر دیا گیا.اور اس وقت کے مسلمانوں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنی خاتون کی عزت کی حفاظت کر سکتے.اور خدا نے کہا تھا کہ ہماری اس مخلصہ کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری تم پر اتنی نہیں، جتنی تم پر اس بات کی ذمہ داری ہے کہ تم ہمارا حکم سنو اور بجالاؤ.اور تمہیں حکم یہ ہے کہ صبر اور دعا کے ساتھ ان آفات کا ، ان تکالیف کا ، دشمن کے ان منصوبوں کا مقابلہ کرو.گالی کا جواب گالی سے دے کر نہیں ، پتھر کے مقابلہ میں پتھر پھینک کر نہیں بلکہ پتھر کھاؤ اور صبر کرو اور دعا کرو.اپنے لئے بھی اور ان کے لئے بھی جو پتھراؤ کرتے ہیں.110
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 مئی 1974 ء یہ مقام ہے، ایک احمدی کا.اس مقام کو نہ چھوڑیں اور یہ نہ بھولیں کہ أَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ کا وعدہ اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے، جب اطاعت خدا اور اطاعت رسول کے مقام.آپ کا قدم ادھر ادھر نہ ہو جائے.اور خدا تعالیٰ نے پھر عجیب وعدہ دیا ہے کہ اگر تم اطاعت خدا اور اطاعت رسول پر مضبوطی کے ساتھ اور ثبات قدم کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہو گے اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو انتہائی پختگی کے ساتھ اور انتہائی عشق اور محبت کے ساتھ تم نے تھاما ہوا ہوگا تو نہ صرف یہ کہ تم اعلی ہو گے بلکہ تمہیں اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ حسین اور مقبول اعمال کی توفیق دیتا چلا جائے گا.وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ ان کے اندر کوئی کمی واقع نہیں ہوگی بلکہ اضافہ ہوتا چلا جائے گا.انعام کی عطا کہیں ٹھہرے گی نہیں.حصول انعام کی کوئی آخری منزل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے، میں اس قوم پر انعام پر انعام کرتا چلا جاؤں گا، جس کے افراد انتہائی قربانیاں دے کر میری محبت اور پیار اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا سکہ دنیا میں بٹھانے والے ہوں گے.غصہ تم ان لوگوں پر کرتے ہو، جن کی اولادیں تمہارے کندھے سے کندھا ملا کر اسلام کی راہ میں قربانیاں دینے والی ہیں؟ کیسی نا معقول بات ہے، کس نے تم سے کہا؟ قرآن کریم کی کون سی آیت بتاتی ہے کہ مخالف کو اس کی زندگی میں ابدی لعنت کا طوق پہنا دیا جاتا ہے؟ قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ جو اسلام کا مخالف ہے اور جو صداقت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے، اس کو ہم ڈھیل پر ڈھیل دیتے جاتے ہیں، کبھی پکڑتے ہیں، کبھی چھوڑتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے منصوبہ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لیں.آپ کی بھی یہی کوشش ہونی چاہیے، اگر آپ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں.پس دشمنوں کے لئے بھی دعائیں کرو اور اپنے لئے بھی دعائیں کرو اور صبر کا نمونہ دکھاؤ.اور خدمت اور خیر خواہی کی ایسی مثال قائم کرو کہ جو آج اشد ترین دشمن ہے، وہ بھی اس خیر خواہی اور خدمت اور اس پیار کی تیز دھار سے گھائل ہو.اور پھر ہم سب مل کر یہ کوشش کریں کہ جو آج غیر ہیں ، وہ بھی غیرنہ رہیں.اور ہم سب مل کر اسلام کی کچھ اس طرح خدمت کریں کہ جلد تر ساری دنیا پر اللہ تعالیٰ کے اس منصوبہ کے باعث اسلام غالب آئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈاہر ملک میں بلند ہو.اور آپ کی محبت ہر دل کے اندر اس دل کی دھڑکن کے طور پر دھڑک رہی ہو.مادی دل کی دھڑکن تو کوئی چیز نہیں ہے.جس 111
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 مئی 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم دل میں مادی دھڑکن سے زیادہ نمایاں اور زیادہ مؤثر طریقہ پر خدا اور اس کے رسول کی محبت اور عشق کی دھڑکن ہو، وہ دل ہے، جس کے اوپر یہ عالمین قربان کر دیئے جاتے ہیں.وہ دل اپنے سینوں میں پیدا کرو.اور محبت اور پیار کے ساتھ ان لوگوں کے دلوں کو جیتو ، جو اپنی نا مجھی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کے دشمن ہیں.تم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ تم ان کے دشمن نہیں ہو بلکہ تم ہی ان کے خیر خواہ ہو تم ہی ان سے حقیقی پیار کرنے والے ہو تم ہی ان کے دکھوں کو دور کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو.تم نے ان کے اوپر اتنا احسان کرنا ہے کہ ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کی معرفت حاصل ہو جائے.وہ چوٹی بہت ہی بلند ہے، جہاں تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان پہنچا.لیکن خاردار جھاڑیاں بیچ میں ہیں، وہ نظر نہیں آرہیں.ان خاردار جھاڑیوں کو تم نے محبت اور پیار کے ساتھ صاف کرنا ہے.اور پھر اس محبت اور پیار کے نتیجہ میں جو ایک نورانی فضا پیدا ہو گی ، اس سے انہیں پتہ لگے گا کہ ہمارا حسن اعظم جو تھا، (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کا کیا مقام تھا؟ اس کے لئے کوشش کرنی ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے پڑ کر اپنے اوقات ضائع نہ کرو.اور خواہ وقتی طور پر ہی کیوں نہ ہو، دوسروں کو ابتلاء میں نہ ڈالو.اور جو ایسے منصوبے ہیں، جو غلبہ اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے والے ہیں، ان منصوبوں میں خود کو شامل نہ کرو.تم اس کام کے لئے نہیں پیدا کئے گئے.دعائیں کرو اور صبر سے کام لو اور ہمہ وقت خدمت کے لئے تیار رہو.اور جس شخص کو یہ وہم ہے کہ وہ آپ کا اشد ترین دشمن ہے، اپنی پیاری خدمت کے ساتھ اس کے اس وہم کو دور کرنے کی کوشش کرو.تا کہ جو ہم چاہتے ہیں، وہ ہمیں جلد ترمل جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.مطبوعه روزنامه الفضل 29 جون 1974 ء ) 112
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اگست 1974ء سخت گھڑیوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کے اظہار کا لطف آتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اگست 1974ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.یہ بتلاؤں کا زمانہ ، دعاؤں کا زمانہ ہے.اور سخت گھڑیوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت اور پیار کے اظہار کا لطف آتا ہے.ہماری بڑی نسل کو بھی اور ہماری نوجوان نسل اور اطفال کو بھی ، مردوزن ہر دو کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب مہدی کے ذریعہ غلبہ اسلام کا جو منصوبہ بنایا ہے، اسے دنیا کی کوئی طاقت نا کام نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے منصوبوں کو زمینی تدبیریں ناکام نہیں کیا کرتیں.پس غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ تو انشاء اللہ پورا ہوکر رہے گا.جیسا کہ کہا گیا ہے، اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا.اور جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے نوع انسانی کے دل جماعت احمدیہ کی حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فتح کئے جائیں گے.اور نوع انسانی کو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں رب کریم کے قدموں میں جمع کر دیا جائے گا.یہ بشارتیں اور یہ خوشخبریاں تو انشاءاللہ پوری ہو کر رہیں گی.ایک ذرہ بھر بھی ان میں شک نہیں.البتہ جس چیز میں شک کیا جاسکتا ہے اور جس کے نتیجہ میں ڈر پیدا ہوتا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے اس کمزور جماعت کے کندھوں پر ڈالی ہیں، اپنی بساط کے مطابق وہ ذمہ داریاں ادا کی جارہی ہیں یا نہیں ؟ پس جماعت اپنے کام میں لگی رہے.یعنی تدبیر کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ غلبہ اسلام کے جہاد میں خود کو مصروف رکھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتی چلی جائے.وہ خدا جو ساری قدرتوں کا مالک اور جو اپنے امر پر غالب ہے، اس نے جو کہا ہے، وہ ضرور پورا ہوگا.خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میں ہماری کوششوں کو مقبولیت حاصل ہو اور غلبہ اسلام کے وعدے پورے ہوں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.اس زمانہ میں بالخصوص ان ایام میں دعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے.میں نے اجتماعی دعا کی ایک تحریک کی تھی لیکن مختلف اطراف سے ملنے والی خبروں سے پتہ لگا ہے کہ بعض جگہ وہ ایک خشک بدعت کا رنگ اختیا کر گئی ہے.اس لئے میں آج سے اس طریق کو بند کرتا ہوں.اب نماز مغرب اور فجر کے بعد 113
خطبه جمعه فرمودہ 16 اگست 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اجتماعی دعائیں نہیں ہوں گی.مسجد مبارک میں تو میں نے مغرب کی نماز کے بعد ہدایت کر دی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات وہیں تک محدود رہی.دراصل اس قسم کی اجتماعی دعا سے قبل حالات پر روشنی ڈالنی چاہئے ، حالات کی نزاکت سے احباب جماعت کو آگاہ کرنا چاہئے.اور وہ بشارتیں بھی بتانی چاہئیں، جو جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے لئے دی گئی ہیں.اس کے بعد اجتماعی دعا ہونی چاہئے.سلام پھیر کر یہ کہہ دینا کہ آؤ دعا کر لیں، یہ تو خشک دعا ہے، اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے.بہتوں کو تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ دعا کس رنگ میں کرنی چاہئے.یہ سمجھ بوجھ رکھنے والوں کا کام ہے کہ وہ دوسروں کو بتا ئیں کہ اس طرح دعا کرنی چاہئے.لیکن چونکہ دوستوں کو اس کا طریق نہیں بتایا گیا، اس لئے میں اسے بند کرتا ہوں.باقی رہا، دعا کرنا ، وہ تو ظاہر ہے کہ ہم اب بھی کریں گے.کیونکہ دعا کے بغیر ہماری زندگی نہیں.ہم دعائیں کریں گے اور بہت دُعائیں کریں گے.لیکن مغرب اور فجر کی نماز کے بعد اجتماعی دعا کی جو ہدایت کی گئی تھی اور اس کے مطابق جو دعا ہوتی رہی ہے، وہ میرے نزدیک خشک ہو چکی ہے، اس لئے میں اسے بند کرتا ہوں.لیکن چونکہ دعا کے بغیر ایک احمدی کو زندگی میں کوئی لطف ہی نہیں ہے، اس لئے احباب جماعت کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.انفرادی طور پر دعائیں کریں غلبہ اسلام کے لئے ، انفرادی طور پر دعائیں کریں ملک کی بہبود کے لئے.اس وقت ہمارے ملک کو بھی ہماری دعاؤں کی بے حد ضرورت ہے.احباب اس طرح دعائیں کریں کہ جب ان کی انفرادی دعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچیں تو ساری اکٹھی ہو کر اجتماعی دعا بن جائیں.اور خدا کرے کہ وہ قبول ہوں.اور اس کے نتیجہ میں ہماری زندگی کا مقصد اور ہماری جماعت کی غرض پوری ہو.یعنی اس زمانہ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوں، جو اس زمانہ کے متعلق کی گئی تھیں.اور وہ لوگ جنہوں نے اسلام کو پس پشت ڈال رکھا ہے، جو اسلام کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کر رہے اور جو اپنے خدا کو نہیں پہچانتے اور جو اپنے خدا سے دور ہو چکے ہیں اور خدا تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں اور اس کی محبت سے لا پرواہ ہو گئے ہیں، ان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اسلام کی نعمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فیوض سے حصہ عطا فرمائے گا.مثلاً کمیونسٹ ممالک ہیں، انہوں نے نعرہ یہ لگایا کہ وہ زمین سے خدا تعالیٰ کے نام کو اور آسمان سے خدا تعالیٰ کے وجود کو مٹادیں گے.لیکن جس وجود کو آسمانوں سے مٹانے کا وہ نعرہ لگارہے ہیں، آسمانوں سے اسی وجود نے ہمیں بتایا ہے کہ ریت کے ذروں کی طرح وہاں مسلمان نظر آئیں گے.114
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اگست 1974ء پس یہ دونوں باتیں ایکسٹریم(Extreme) پر دلالت کرتی ہیں.ایک وہ، جو اس منہ سے نکلی ، جس کو اس وقت دنیوی طاقت حاصل ہے.اور ایک وہ ، جو اس منبع سے نکلی، جسے حقیقی طاقت حاصل ہے.اور حکم اسی کے پورے ہوا کرتے ہیں.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے، انسان نے اسی کے حکم پورے ہوتے دیکھے ہیں.ہر مخلوق نے یہی دیکھا کہ حکم اسی کا چلتا ہے.پس جس ہستی کا دنیا میں حکم چلتا ہے ، وہی کہتا ہے کہ میرے وجود کو آسمانوں سے مٹانے والے میرے وجود کی معرفت حاصل کریں گے اور تب ان کے دل میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتہائی پیار پیدا ہوگا.اور وہ یہ دیکھ کر خوشی محسوس کریں گے کہ اس پاک وجود کے ذریعہ انہوں نے اپنے رب کریم کو پایا، جو تمام قدرتوں کا سر چشمہ اور تمام طاقتوں کا مالک ہے.اس کی بنائی ہوئی مخلوق میں مرضی اسی کی چلتی ہے، کسی اور کی نہیں چلتی.اس لئے تم زمین والوں کو بولنے دو.ہوگا وہی ، جو آسمانوں نے فیصلہ کیا.ہوگا وہی، جو ہمارے رب کریم نے ہمیں بتایا ہے.کتنی زبر دست پیشگوئیاں ہیں ، جو پوری ہو رہی ہیں.اتنی زبر دست پیشگوئیاں ہیں کہ اگر ہم نے یہ سوچا ہوتا کہ اپنی طاقت یا اپنی کوشش یا اپنی دولت یا اپنے علم یا اپنے زور کے ساتھ ان پیشگوئیوں کو پورا کر لیں گے تو لوگ ہمیں پاگل کہتے.اور وہ ہمیں پاگل کہنے میں حق بجانب ہوتے.لیکن ہمارے رب کریم نے جو کچھ کہا، اسے سچا کر دکھایا.ہم نے تھوڑی سی طاقت خرچ کی اور ذرہ سازور لگایا مگر اس کا نتیجہ خدائے تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اتناز بر دست نکال دیا کہ انسانی عقل حیران ہو جاتی ہے.ہم ہر وقت سوچتے رہتے ہیں اور دعائیں کرتے رہتے ہیں مگر ہمیں تو کوئی جوڑ کوئی تعلق اپنی کوشش اور اس کا جو نتیجہ نکلا ہے ، اس میں نظر نہیں آتا.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یورپ کے ممالک ہیں، امریکہ ہے، جزائر ہیں، ان میں سے اکثر وہ علاقے ہیں، جہاں لوگوں نے اسلامی تعلیم کا ایک دھندلا ساخا کہ بھی نہیں پایا.مخالفین اسلام نے ان کے کان میں جو باتیں ڈالیں ، وہ جھوٹ اور افتراء تھا.یورپ میں اگر چہ نوجوان نسل عیسائیت کو چھوڑ چکی ہے لیکن ان کے اذہان ان افتراؤں سے پاک نہیں ہوئے ، جو عیسائیوں نے اسلام کے خلاف باندھے تھے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مطہر ذات بابرکات پر تہمتیں لگائی تھیں.یہ افتراء اور یہ ناپاک الزامات ابھی تک ان کے دماغ میں رڑک رہے ہیں.جب میں پچھلے سال مختصر سے دورے پر یورپ گیا تو دو جگہ مجھے یہ طعنہ ملا کہ آپ اسلام کی اتنی حسین تعلیم پیش کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ تو بتائیں کہ ہمارے ملک کے عوام تک آپ نے اس کے پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے؟ یہ طعنہ دینے والا عیسائی تھا یاد ہر یہ یہ تومیں نے نہیں پوچھا.لیکن جہاں تک اس طعنے کا 115
خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اگست 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم تعلق ہے، یہ انتاز بر دست طعنہ تھا کہ اس نے میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیا.چنانچہ میں نے اپنے مبلغین سے مشورہ کیا.میں نے کہا، جماعت احمد یہ ایک غریب جماعت ہے، جتنی طاقت ہے، اس کے مطابق کام کی ابتداء کر دیتے ہیں.میں نے مبلغین سے کہا کہ تم یہ اندازے لگاؤ کہ اگر تمہارے ملک کے ہر گھر میں ایک خط پہنچانا ہو، جس میں صرف یہ لکھا ہو کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے جس مہدی کا دنیا انتظار کر رہی تھی ، وہ مہدی آگئے.جماعت احمدیہ، ان کی جماعت ہے.اور مہدی یہ بشارتیں لے کر آئے ہیں کہ دنیا میں انسانی شرف قائم کیا جائے گا اور انسانی دکھوں کو دور کیا جائے گا.غرض میں نے مبلغین سے کہا کہ اس قسم کا ایک مختصر سا مضمون لکھیں ، جو ایک خط مشتمل ہو.اور اسے ہر گھر میں پہنچا دیں.تاکہ کم از کم ہر گھر کے مکینوں کے کان میں یہ آواز پڑ جائے کہ مہدی آگئے.چنانچہ جب اس کام پر خرچ ہونے والی رقم کا اندازہ لگوایا گیا تو ایک چھوٹے سے ملک کا اندازہ سولہ لاکھ روپے تھا.یعنی صرف ایک ملک کے ہر گھر تک یہ پیغام پہنچانے پر سولہ لاکھ روپے درکار تھے.ایک اور ملک کے مبلغ نے کہا کہ پندرہ ہیں لاکھ روپے کی ضرورت ہے.پھر جب مجموعی اندازہ لگا لیا گیا تو معلوم ہوا کہ صرف اس قسم کے ایک خط کو دنیا کے ہر گھر تک پہنچانے پر کئی ارب روپے کی ضرورت ہے.اور یہ بھی کافی نہیں.پھر کچھ اور سوچا.کیونکہ انسان اپنی طرف سے اپنی عقل وسمجھ کے مطابق تدبیر کرتا ہے.چنانچہ کچھ اور تدبیریں ذہن میں آئیں.اور پھر ہمارے ملک میں یہ حالات پیدا ہو گئے.ہمیں نہیں پتہ اور میں آپ کو سچ بتارہا ہوں کہ مجھے نہیں علم کہ کن فرشتوں نے کہاں کہاں جا کر تاریں کھینچیں کہ دنیا کے ہر انسان نے بلکہ بعض دفعہ دن میں چار چار دفعہ مہدی معہود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کا نام سنا.چند ارب روپے ایک خط پہنچانے پر خرچ ہوتے تھے مگر خدا نے ایسا سامان کر دیا کہ ایک دن میں چار چار، پانچ پانچ بلکہ دس دس دفعہ مہدی علیہ السلام، اسلام اور جماعت احمدیہ کا نام لوگوں کے کانوں میں پڑا.اخبارات روزانہ لکھ رہے تھے.ہمارے ہاں رواج نہیں لیکن بہت سے ملکوں میں اخبارات کے قد آدم پوسٹر چھپتے ہیں.ایک دوست ، جو چند دن کے لئے باہر گئے ہوئے تھے ، وہ جن جن ممالک میں گئے ، وہاں انہوں نے دیکھا کہ ہر صبح اخبارات کے پوسٹر پر جماعت احمدیہ کا ذکر ہوتا تھا.جب ہم ان دکھوں کو دیکھتے ہیں اور ان تکالیف پر نظر ڈالتے ہیں، جن میں سے اس وقت جماعت گزری ہے تو ہمیں دکھ ہوتا ہے.اس میں شک نہیں مگر حقیقی احساس درد، جس دل میں پیدا ہو جاتا ہے، وہ اپنے بھائی کا شریک بن جاتا ہے.اسی لئے جب یہ حالات رونما ہوئے تو ساری جماعت ایک دوسرے کے دکھوں میں شریک ہو گئی.لیکن جب میں نے یہ سوچا کہ اتنی ہی قربانی لے کر اللہ تعالی نے اپنے 116
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اگست 1974ء فضل سے اربوں نہیں کھربوں روپے کا کام کر دیا تو میر اسر اس کے آستانے پر جھک گیا اور میں نے کہا، اے میرے رب کریم ! تیری نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ جیسا کہ تو نے خود قرآن کریم میں فرمایا ہے، انسان کی یہ طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ ان کو گن سکے.اس لئے جن نعمتوں کو انسان گن بھی نہیں سکتا، ان کا شکر کیسے ادا کرے گا.پس اے خدا! تیری جتنی بھی نعمتیں ہیں، ان پر ہماری طرف سے شکریہ قبول کر.ہمیں اتنی زیادہ طاقت نہیں ہے کہ تیری نعمتوں، تیرے فضلوں اور تیری رحمتوں کو ہم شمار میں بھی لاسکیں.ہمارے ملک کی اکثریت اور بہت بڑی اکثریت نہایت شریف ہے.وہ کسی کو دکھ پہنچانے کے لئے تیار نہیں لیکن ملک ملک کی عادتیں ہوتی ہیں.کسی جگہ شریف آدمی مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور کسی جگہ شریف آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میری شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ خاموش رہوں.جن لوگوں نے یہاں تکلیف کے سامان پیدا کئے ہیں، وہ دو، چار ہزار یا پانچ ، دس ہزار سے زیادہ نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ ان کو بھی ہدایت نصیب ہو.ہمارے دل میں تو کسی کی دشمنی نہیں ہے.لیکن آج ملک کو بھی آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے.اس لئے احباب جماعت جہاں غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کریں، وہاں پاکستان، جو ہمارا پیارا اور محبوب ملک ہے، اپنے اس وطن کے لئے بھی بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور یہ دعا کریں کہ اے اللہ ! تو اپنے فضل سے پاکستان کو ان تمام باتوں سے محفوظ رکھ، جو اس کو کمزور کرنے والی ہیں یا جو اس کے استحکام میں روک بننے والی ہیں.اور ہمیں وہ دن نصیب ہو کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہو اور وہ حقوق انسانی جو اسلام نے قائم کئے ہیں، وہ اس ملک میں بسنے والے انسانوں کو ملنے لگ جائیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو.پس وہ اجتماعی دعا جس کا اعلان کیا گیا تھا ، وہ تو آج سے بند کی جاتی ہے مگر اس کے بدلہ میں انفرادی دعاؤں پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دیں اور پہلے سے بھی زیادہ تضرع کے ساتھ اور عاجزی اور انکساری کے ساتھ اور پہلے سے بھی زیادہ چوکس ہو کر اور خدا تعالیٰ کی طاقتوں کی معرفت رکھتے ہوئے اور ان کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے یہ دعا کریں کہ اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے اے رب الوری خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 117
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1974ء تو حید کو دنیا میں قائم کرنے کا ایک دور تحریک جدید کی شکل میں آیا ہے خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1974ء تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:." آج جمعہ کی عید سے تحریک جدید کا سال نو شروع ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر جہت اور ہر لحاظ سے سارا سال ہی ہمارے لئے مختلف الانواع عیدوں کا اہتمام کرتا رہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے دو مقاصد ہوتے ہیں.فرمایا:.وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِيْتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ ایک تو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا مطلوب ہوتا ہے اور دوسرے انسان خود کوان اخراجات کے ذریعہ، جو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کرتا ہے، مضبوط کرتا ہے.سچی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے اموال کی ضرورت نہیں.وہ خود خالق اور مالک ہے.ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، اس کا ہے اور اس کا عطیہ ہے.ہم فقراء ہیں اور وہ غنی ہے.ہم محتاج ہیں اور اس کو کسی چیز کی احتیاج نہیں.ہم اسلام اور مذہب اور اللہ تعالیٰ کی وحی کے محاورہ میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا.اس اصطلاح اور محاورہ کی حقیقت ہمارے ذہن نشین رہنی چاہئے.ہم کہنے کو تو خدا کے حضور پیش کرتے ہیں مگر چونکہ وہ غنی ہے اور اس کو کوئی احتیاج نہیں اور وہ خالق اور خود ہی مالک ہے، اس لئے اس کے حضور پیش کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ اس کی رضا ہمیں حاصل ہو.اور یہ کہ الہی سلسلہ میں ایک مضبوطی پیدا ہو اور نوع انسانی میں ایک حسین اتحاد قائم ہو جائے.ان کو ہم دو حصوں میں اس وجہ سے تقسیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے اللہ کی راہ میں جو اخراجات ہوتے ہیں، وہ دو قسموں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں.اس معنی میں کہ ایک قسم کا خرچ ایک خاص چیز پر زور دے رہا ہے اور دوسری قسم کا خرچ ایک دوسری چیز پر زور دے رہا ہے.ایک یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جائے.اس میں زیادہ تر زور روحانیت پر ہے.اور یہ وہ خرچ ہے، جو انسان خدا 119
خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کے حضور پیش کر کے اس کے بندوں پر اس غرض کے لئے خرچ کرتا ہے کہ اس کے جو بندے تو حید پر قائم ہو چکے ہیں، وہ توحید پر قائم رہیں.یعنی تربیت کے اخراجات ہیں اور اس کے جو بندے تو حید پر قائم نہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت نہیں رکھتے ، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کریں.اسے ہم اصلاح وارشاد کا خرچ کہہ سکتے ہیں.بہر حال جو خرچ تربیت پر ہے یا اصلاح نفوس انسانی کے لئے ہے، اس معنی میں کہ وہ انسان، جو دوری اور بعد میں زندگی گزار رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب اور پیارا نہیں حاصل نہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے اس کا قرب اور اس کا پیار حاصل کریں.اس کو ہم اس طرح بیان کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضات کے حصول کے لئے یہ خرچ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری راہ میں جو خرچ ہوتے ہیں، ان کا ایک حصہ ایسا ہے، جس کے نتیجہ میں الہی سلسلہ میں اتحاد اور پنجہتی پیدا ہوتی ہے.اور وہ ان کوششوں کے نتیجہ میں بُنيان مرصوص بن جاتے ہیں.اور ایک حصہ اس خرچ کا ایسا ہوتا ہے کہ جو نوع انسانی میں اختلافات کو دور کرنے کے لئے اور اتحاد کے قیام کے لئے ہوتا ہے.آخر کار یہ حرکت بھی پہلے حصہ کی طرف ہی ہوتی ہے.اور جب انسان امت واحدہ بن جائے گا اور اسلام تمام اہم پر غالب آکر نوع انسانی کی ایک امت مسلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.پس یہ بھی اسی جہت کی طرف حرکت ہے.توحید کے قیام کے لئے جو کوششیں ہو رہی ہیں، اس سلسلہ میں، میں اس بہت لمبے مضمون کی طرف آج کے خطبہ میں اشارہ کر دیتا ہوں.یہ بد خیال اور وسوسہ آج کے زمانہ میں انسانی ذہن میں شیطان نے ڈالا ہے کہ اسلام صرف انفرادی عبادات پر توجہ دیتا ہے اور جو اجتماعی ذمہ داریاں ہیں ، ان کو نظر انداز کرتا ہے.حالانکہ یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے.کچھ احکامات اسلامی اجتماعی زندگی اور اجتماعی ذمہ داریوں سے تعلق رکھتے ہیں.اور جو احکام، جو اوامر انفرادی عبادت کے رنگ میں ہیں، ان میں بھی اجتماعی زندگی کو استوار کرنے کے لئے بہت زبردست سبق ہمیں ملتے ہیں.اچھے سمجھدار، پڑھے لکھے آدمیوں سے میں نے سنا ہے کہ اسلام بس انفرادی عبادات پر زور دیتا ہے اور اجتماعی ذمہ داریوں سے بالکل اعراض کرتا ہے، اسی وجہ سے دنیا میں فساد ہو جاتے ہیں.اور ایک نے تو مجھے کہا کہ پچھلے دنوں جماعت کے خلاف جو ہوا ، وہ بھی اسی کا نتیجہ تھا کہ لوگ اسلام کی تعلیم کے مطابق انفرادی عبادات کی طرف توجہ کرتے تھے اور اجتماعی ذمہ داریاں، جو انسان کے انسان پر حقوق ہیں، ان کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے.بات یوں نہیں.بات یہ ہے کہ اسلام نے جہاں ہر فرد واحد کے لئے روحانی ترقیات کے سامان پیدا 120
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1974ء کئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی راہیں متعین کیں اور ان کی رہنمائی کی ، وہاں اللہ تعالیٰ نے اس قدر حسین معاشرہ نوع انسانی میں پیدا کیا کہ میں نے اپنی خلافت کے زمانہ میں جو یورپ اور افریقہ کے تین سفر کئے ہیں، وہاں میں نے پریس کانفرنسز کیں اور ان میں اسلامی معاشرہ اور کمیونزم اور بڑے بڑے تمدنی ممالک امریکہ وغیرہ یا سوشلزم کا موازنہ اور مقابلہ کیا تو سوائے اس کے کہ وہ خاموشی کے ساتھ اسلام کی برتری کو تسلیم کریں، ان کے لئے اور کوئی چارہ میں نے نہیں دیکھا.لیکن وہ تو ایک لمبا مضمون ہے، میں نے پچھلے خطبہ میں بتایا تھا کہ ایک جگہ بہت سے غیر مسلم تھے تو آٹھ، دس نکات نکال کر میں نے ان کے سامنے رکھے کہ دیکھو، تم اسلام کے منکر ہومگر پھر بھی تمہاری مخالفت کے باوجود اور بہتوں میں تم میں سے بغض اور عناد بڑا سخت ہے، اس کے باوجود تمہارے جذبات کا بھی خیال رکھا اور تمہارے دنیوی مفاد کا بھی خیال رکھا.اور انشاء اللہ، اللہ نے جب بھی توفیق دی (اس کی طرف بھی ایسی باتیں سن کر میری توجہ پھری ہے.) اس مضمون پر روشنی ڈالوں گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ تم جو بھی خرچ کرتے ہو، اسلامی تعلیم کی روشنی میں تم اس سے دو مقصود حاصل کرنا چاہتے ہو.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل ہو اور دوسرے یہ کہ تمہارا آپس میں اتحاد اور ثبات پیدا ہو.تَثْبِيتًا مِّنُ أَنْفُسِهِمْ سے یہی مراد ہے.جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں سے جو خرچ کرواتا ہے، وہ خرچ بھی ان دو حصوں میں بٹا ہوا ہے.جو تو حید کے قیام کے لئے خرچ کیا جاتا ہے، وہ پاکستان میں بھی ہے اور بیرون پاکستان کے بہت سے ممالک میں بھی ہے.اور ہماری خواہش ہے کہ اگلے دس پندرہ سال میں ہر ملک میں توحید کے قیام کے لئے ہماری کوششیں تیز ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے بھولے بھٹکے بندوں کو واپس لانے کے لئے ہماری تدبیر اللہ کے فضل سے ہماری حقیر کوششوں کے نتیجہ میں کامیاب ہو.باہر جو جماعت احمدیہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تدبیر جل رہی ہے، اس میں زیادہ حصہ ان اموال کا ہے، جو تحریک جدید کے نام سے خدا کی راہ میں خرچ کئے جاتے ہیں.ان اموال میں میرا خیال ہے کہ کوئی دسواں حصہ پاکستان کی جماعت ہائے احمد یہ دیتی ہیں اور حصے بیرون پاکستان کی جماعتیں دیتی ہیں.اللہ کے فضل سے بڑی ترقی ہوگئی ہے.جماعت احمدیہ کی کوششوں کے نتائج اللہ تعالیٰ نے عظیم نکالے ہیں.کجایہ حال تھا کہ اس خرچ کا سو فیصد اس برصغیر کا تھا.جب تحریک جدید شروع ہوئی ہے، اس وقت پارٹیشن نہیں 121
خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ہوئی تھی.تو ہند و پاک کی جماعتیں سارے ثواب خود ہی حاصل کر رہی تھیں.پھر اللہ تعالیٰ نے اس ثواب میں اور وں کو بھی شریک کیا.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے، دسواں حصہ ان اخراجات کا ، ان مالی قربانیوں کا ، اس دولت کو خدا کی راہ میں قربان کر دینے کا پاکستان سے تعلق رکھتا ہے اور 9/10 بیرون پاکستان سے تعلق رکھتا ہے.اس لئے نہیں کہ ہم یہاں کے رہنے والے پیچھے ہٹ گئے بلکہ اس لئے کہ بیرون پاکستان کی جماعتوں کی تعداد میں ایک وسعت پیدا ہوئی اور ان کے ایثار اور قربانیوں اور اخلاص میں بھی ایک مضبوطی اور روشنی پیدا ہوئی.پس یہ جو تھوڑ اسا ہمارا حصہ ہے، اس کی طرف تو ہمیں توجہ دینی چاہیے.پاکستانی جماعتوں کا صرف 1/10 اس کوشش میں حصہ ہے اور 9/10 بیرون پاکستان سے اکٹھا ہوتا ہے.اور چونکہ پاکستان بہر حال دنیا کی آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جوں جوں بیرون پاکستان جماعت ہائے احمد یہ عددی اور مالی ہر لحاظ سے ترقی کرتی چلی جائیں گی، ہمارا حصہ دنیا میں نسبتا کم ہوتا چلا جائے گا.یہ ایک حقیقت ہے، جو ایک لحاظ سے ہمیں نظر آ رہی ہے اور جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں.اور یہ ایک حقیقت ہے، جس کے بغیر دنیا میں کوئی چارہ نہیں.یعنی ساری دنیا کی آبادی نے کٹ کر پاکستان میں تو نہیں آجانا.اور ساری دنیا کی آبادی کے لئے مقدر ہے کہ وہ مہدی معہود کے ان فیوض کے نتیجہ میں، جو مہدی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرکے دنیا میں تقسیم کرنے کے سامان پیدا کئے ، ساری دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونا ہے.تو جوں جوں ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، توں توں جماعت احمد یہ میں پاکستانی احمدیوں کی نسبت کم ہوتی چلی جارہی ہے.اگر ہر سال دنیا کی آبادی کا دو فی صد احمدی ہو تو بیرون پاکستان دنیا کی آبادی کا دو فی صد بہت بڑی تعداد ہے، پاکستان کی آبادی کے دو فی صد کے مقابلہ میں.یہ ایک حقیقت ہے.یہ تو انشاء اللہ اس کے فضل اور اس کی رحمت سے ہونی ہی ہے.لیکن میں جب سوچتا ہوں تو مجھے گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے.کیا ہم محض اس لئے کہ ہماری نسبت تعداد کے لحاظ بیرون پاکستان کے مقابلہ میں تھوڑی ہو رہی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے، کیا ہماری قربانیوں کی نسبت بھی کم ہو جائے گی؟ اس سے طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے.ایک ہی صورت ہے کہ ہم اپنی قربانیاں زیادہ تیز کریں.یہ مقابلہ ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ خیرات میں آگے بڑھنے کے لئے ہماری کوشش ہونی چاہئے.بہر حال یہ تو آئندہ کی فکر ہے اور وہ ہمیں کرنی چاہیے.کیونکہ ایک مومن ماضی سے سبق حاصل کرتا اور حال میں ان اسباق کے بہتر نتائج پیدا 122
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده یکم نومبر 1974ء کرنے کی کوشش کرتا ہے.اور مستقبل میں زندہ رہتا ہے.یہ ماضی، حال اور مستقبل کی جہتوں کے لحاظ سے ایک مومن کی حیات کا نقشہ ہے.دو، ایک سال پہلے میں نے ایک معیار تحریک جدید کی مالی قربانیوں کا جماعت کے سامنے پیش کیا تھا.لیکن اس میں کچھ تاخیر ہوگئی اور پچھلے سال میں نے وہی معیار جب جماعت کے سامنے رکھا تو ان کے وعدے تحریک جدید کے نظام کی زندگی میں پہلی بار اس معیار سے آگے بڑھ گئے.الحمد للہ.لیکن یہ ایک ظلم و تشدد کا لمبازمانہ جماعت کو دیکھنا پڑا اور جماعت کے اخلاص میں برکت ہوئی اور اس میں خدا تعالیٰ نے بڑی پختگی اور تطہیر کی اور نیکی کو مضبوط بنانے کے سامان پیدا کئے.خصوصاً ان علاقوں میں ، جہاں خدا کے لئے احمدی احباب، مردوزن نے تکالیف برداشت کیں اور بعض دفعہ میں حیران ہوتا تھا کہ کس خمیر سے مہدی معہود کی یہ جماعت بنی ہے کہ اپنا سب کچھ لٹا کر ہنستے ہوئے آجاتے تھے اور کہتے تھے، الحمد للہ ہمارے مال لوٹے گئے مگر ہمارے ایمان سلامت رہے.ان حالات کی وجہ سے تحریک جدید کے وعدوں میں اضافے کے باوجود اور اس زمانہ کی تحریک جدید کی وصولیوں کے باوجود، جو پہلے سال سے زیادہ نہیں، پھر اس عرصہ میں کچھ کمی آئی لیکن مومن کو اگر دھکا دیا جائے تو وہ تھوڑا سا لڑھکتا تو ضرور ہے، یہ تو قدرتی بات ہے، لیکن رک نہیں جاتا.اس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا ہے.اس لئے مجھے یقین ہے کہ قبل اس کے کہ وہ تاریخ آئے ، جب اس سال کے حسابات بند کر دیئے جائیں اور آئندہ سال کے حسابات جن کا ابھی میں اعلان کروں گا ، وہ کھولے جائیں، اپنے وعدے جماعت پورے کر چکی ہوگی.بحیثیت مجموعی یقینا ایسا ہی ہوگا.ہوسکتا ہے، بعض ایسے دوست ہوں، جو اپنے مالی نقصانات کی وجہ سے اپنے وعدے پورے نہ کر سکیں.ان پر کوئی الزام نہیں ہے.لیکن کچھ اور دوست ہوں گے، جو یہ وعدے پورے کر دیں گے.اللہ تعالیٰ نے جس طرح میرے لئے خوشی کا سامان پیدا کیا، آپ کے لئے بھی خوشی کا سامان ہے.آپ کو بتا دیتا ہوں.مغربی افریقہ کے ایک دوست نے لکھا کہ (پاکستان میں ) فلاں جگہ کی مسجد جب جلائی گئی اور ہمیں پتہ لگا تو ہم نے کہا کہ اچھا وہاں مسجد جلائی گئی ہے، ہمارے پاس یہاں مسجد نہیں ہے.ہم یہاں بنادیتے ہیں اور باوجو د سامان نہ ہونے کے اس دوست نے لکھا، پہلے میں نے نیت کی ، پھر خدا نے اور سامان پیدا کر دیئے.اب ہماری مسجد (جس کی انہوں نے تصویر بھی بھیجی ہے.قریباً مکمل ہو گئی ہے ا ہے.ان کے ذہن میں خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے یہ ڈالا کہ دنیا میں بحیثیت مجموعی جماعت احمدیہ کی مساجد کم نہیں ہونی چاہئیں.اگر ایک جگہ عارضی طور پر کمی آئی ہے تو دوسری جگہ مستقل طور پر اضافہ ہو جائے.کیونکہ جو کی 123
خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ہے، وہ بہر حال عارضی ہے.اور جو مسجد جلائی گئی ہے، وہ انشاء اللہ اللہ کی توفیق سے بہر حال اس جگہ بنے گی.لیکن اس وقتی کمی کو بھی مخلص دلوں نے، جو غیر ممالک میں بسنے والے ہیں، انہوں نے محسوس کیا.انہوں نے کہا، یہ عارضی کمی بھی نہیں رہنے دیں گے.وہاں مسجد کی ضرورت بھی تھی ، پیسہ نہیں تھا، اس لئے نہیں بنی تھی.چند آدمی وہاں کھڑے ہوئے ، انہوں نے کہا، پاکستان میں ایک مسجد اور جلی ، بیرون پاکستان میں ایک مسجد اور بنے گی تا کہ مجموعی تعداد مساجد احمدیہ کی کم نہ ہو.یہ وہ چیزیں ہیں، جنہیں دیکھ کر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے اس فرمان کی صداقت معلوم ہوتی ہے کہ ” میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں“.اور جماعت کو آپ نے فرمایا:.”میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو!“ پس جماعت اور مہدی معہود ایک ہی روحانی وجود کا نام ہے.اور ہماری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے.ٹھیک ہے، ہم پر وہ پابندیاں ہیں، جو دوسرے نہیں اٹھاتے.مثلاً ہم پر پابندی ہے ظلم نہیں کرنا ، فساد نہیں کرنا ، غلط قسم کے انتظامات نہیں لینے.ایک شیریں انتقام (Sweet Revenge) کا محاورہ | میرے دماغ میں آیا تھا، جب میں 70ء میں مغربی افریقہ کا دورہ کر رہا تھا.کتنا بڑا انتقام ہے اور کتنا حسین انتظام ہے، جور و سائے مکہ سے، جو فتح مکہ کے موقع پر بچ گئے تھے، لیا گیا.یعنی لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ.میں نے مغربی افریقہ میں بسنے والے ان دوستوں کو، جن کی میرے ساتھ ملاقات ہوئی اور جن سے میں نے خطاب کیا، میں نے ان کو یہ کہا کہ جو یورپین ممالک اور حکومتیں یہاں آئی تھیں اور انہوں نے یہاں کا لو نیز بنائی تھیں، وہ تمہاری دولتیں لوٹ کر چلے گئے.اس میں کوئی شک نہیں.لیکن ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، ان لوگوں سے ایک (Sweet Revenge) یعنی شیریں انتقام لینا ہے، بہت میٹھا انتقام.اور وہ یہ ہے ( یہ اس وقت 70ء میں میں نے وعدہ کیا تھا ) میں نے کہا، سفید فام یا بے رنگ آئے اور تمہاری دولت لوٹ کر لے گئے.تمہیں میں ان ملکوں میں مبلغ کے طور پر بھیج دوں گا اور تم جاکر ان میں روحانی خزائن تقسیم کرو گے.وہ دنیا لے گئے ہم روحانی خزائن ان کے اندر جا کر تقسیم کرو گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور عبدالوہاب بن آدم، جو ہمارے غانا کے مبلغ ہیں، وہ کئی سال سے انگلستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور انگریزوں کو تبلیغ کر رہے ہیں.اور وہ بڑا ہی ذہین انسان اور بڑا 124
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1974ء ہی بے نفس انسان اور مجھے کہنا چاہئے کہ بڑا ہی بزرگ انسان ہیں اور top کے احمدیوں میں سے.پاکستانیوں نے کوئی اجارہ داری تو نہیں لی ہوئی.قربانیاں دو گے تو خدا کے پیار کو اس معیار کے مطابق حاصل کرو گے.بہر حال یہ ہے، ہمارا انتقام.جب ہم انتقام لیتے ہیں.خواہ مخواہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ تمہارا رد عمل کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ.ہم نے جب بھی انتقام لیا ، ہمارا حسین انتقام ہوگا ، ہمارا شیر میں انتقام ہو گا تمہیں، جنہوں نے ہمارے اموال کو جلایا، ان میں ہم دنیوی اور دینی اور جسمانی اور روحانی نعمتیں تقسیم کریں گے مگر اللہ کی توفیق سے.یہ ہے، ہمارا انتقام.دکھ دینا اور فساد کرنا، یہ ہمارا انتقام نہیں.میں تو بیعت میں تم سے یہ عہد لیتا ہوں کہ کسی کو بھی دکھ نہیں پہنچاؤں گا.دکھ پہنچانے کے لئے ہم پیدا نہیں ہوئے ، مارنے کے لئے ہم پیدا نہیں ہوئے ، ہم زندہ رکھنے اور زندگی دینے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.اور خوشحالی کے سامان پیدا کرنے کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں.پس یہ ہے ہمارا انتقام، جس کی ہمیں امید ہے.خدا کی توفیق سے ہم یہ انتقام لیں گے لیکن وہ دکھ پہنچانے والا انتقام نہیں ہوگا.وہ ناک کے بدلے ناک اور آنکھ کے بدلے آنکھ نہیں بلکہ والا انتقام ہے.فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ط بہر حال میں تحریک جدید کے متعلق یہ کہہ رہا تھا کہ جن دو اغراض کے لئے ایک مومن خدا کے حضور اموال پیش کرتا ہے، ایک یہ کہ اس کی مرضات حاصل ہوں، یعنی اس کی توحید دنیا میں قائم ہو.اور جیسا کہ ہم خدا تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی تحمید کرنے میں ایک سرور محسوس کرتے ہیں، ہمارے دل میں ایک تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر بندہ خدا کے حضور جھکنے والا اور اس کی تسبیح کرنے والا اور اس کو پاک قرار دینے والا اور اس کی حمد کرنے والا ، تمام تعریفوں کو اسی کی طرف پھیر نے والا ہو.نہ اپنی طرف، نہ غیر اللہ کی کسی اور ہستی کی طرف.یہ ہماری خواہش ہے.اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہم خدا کی راہ میں اموال دیتے ہیں.اور ان کا ایک دور تحریک جدید کی شکل میں آیا ہے.لاکھوں عیسائی ، تثلیث پرست ، جو خدائے واحد و یگانہ کو نہیں مانتے تھے یا بت پرست، جنہوں نے اپنے ہاتھ سے پتھر اور لکڑی کے اور اسی طرح دوسرے مادوں سے بت بنائے اور ان کی پوجا کر رہے تھے، وہ لاکھوں کی تعداد میں جماعت احمدیہ کے طفیل ( اللہ تعالیٰ کے محض فضل اور رحمت سے ہم بالکل لاشی محض ہیں.افریقہ میں مسلمان بنے.لیکن ہماری سیری تو نہیں ہوئی.لاکھوں بن گئے ، جب تک ہم کروڑوں نہ تو ہم نہ 125
خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1974ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم بنالیں، جب تک ہم بنی نوع انسان کو تو حید کی طرف کھینچ کر نہ لے آئیں ، اس وقت تک ہماری پیاس نہیں بجھ سکتی.پس دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ آپ کی اور میری پیاس کو بجھانے کے سامان پیدا کرے.اور جس کے لئے جن اموال کی ضرورت ہے ، ان کو دینے اور خرچ کرنے کی ہمیں توفیق عطا کرے.آج یکم نومبر کو تحریک جدید کے تین دفاتر ، دفتر اول کے اکتالیسویں سال کا اور دفتر دوم کے اکتیسویں سال کا اور دفتر سوم کے دسویں سال کا میں افتتاح کرتا ہوں.جو معیار میں نے پچھلے سال دیا تھا، وہی قائم رہے گا.اور جو ادائیگیوں میں، میں نے بتایا کہ عارضی طور پر کمی ہے ، وہ انشاء اللہ دور ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہوئے ، میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو توفیق عطا کرے گا کہ جو عارضی کمزوری ہے، بیرونی ظلم اور تشدد کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس کمزوری کو اپنے فضل سے دور کرے گا اور آپ کے اخلاص کے مدنظر آپ کو مالی قربانیوں کی بھی توفیق عطا کرے گا“.( مطبوعه روزنامه الفضل 11 دسمبر 1974 ء ) 126
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم جامعہ احمد یہ احمدیت کا جامعہ ہے خطاب فرمودہ 21 نومبر 1974ء خطاب فرمودہ 21 نومبر 1974ء بر موقع افتتاح ہوٹل جامعہ احمدیہ، ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اسلام میں نہ تو priest hood یعنی ملاؤں کا کوئی طبقہ ہے اور نہ priest craft کا کوئی تصور ہے.یعنی مذہب کے نام پر دنیا کو تنگ کرنے اور دنیا کو لوٹنے کا کوئی طبقہ پیدا کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا.priest hood اور priest craft یعنی ہر دو قسم کے ملاؤں کا وجود اسلام سے باہر کی چیزیں ہیں.ویسے بعض چیزیں جسم کے اندر ہوتی ہیں لیکن جسم سے ان کا کوئی رابطہ یا واسطہ نہیں ہوتا.اور اس طرح جسم کی خوشیوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا.بلکہ کینسر کی طرح جسم کے لئے دکھوں کے سامان پیدا کرنے کا ان میں عزم ہوتا ہے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ یہ جامعہ احمدیہ ملا پیدا کرنے کے لئے نہیں بنایا گیا.جامعہ احمدیہ احمدیت کا جامعہ ہے.یعنی اسلام کی حقیقی روح پیدا کرنا، اس کا کام ہے.کیونکہ احمدیت حقیقی ایمان سے تعلق رکھتی ہے.ایمان کا لفظ قرآن کریم کی اصطلاح میں دو معنوں میں بولا گیا ہے.ایک تو ایمان کا لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ہیں، ایمان لانا.اور دوسرا اسم کے طور پر بولا گیا ہے اور اس کے معنی امام راغب نے ” مفردات میں یہ کئے ہیں کہ وہ شریعت ، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی ، گویا ایمان بطور اسم کے شریعت محمدیہ کا نام ہے.پس ایک احمدی مومن کے ماحول میں اور اس کے نظام میں اس قسم کی جو جد و جہد اور کوشش کی جاتی ہے، جیسا کہ اس ہوٹل میں اور اس جامعہ میں آج نظر آرہی ہے، یہ اس لئے نہیں ہوتی کہ جماعت سے مختلف اور علیحدہ کوئی چیز پیدا کی جائے.بلکہ جسم میں مختلف حصے ہوتے ہیں اور ان کا مزاج مختلف ہوتا ہے.مثلاً جسم میں پنڈلیوں کا گوشت ہے اور سینے کے اندر بھی گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جس کا نام دل ہے.اگر چہ گوشت کے ان ہر دوٹکڑوں یعنی پنڈلی کے عضلہ اور دل کا مزاج مختلف ہوتا ہے.یعنی گوشت کے ان ظاہری مادی حصوں کے مزاج میں فرق ہوتا ہے.اس لئے ان پر اثر انداز ہونے والی ادویہ بھی مختلف ہوتی ہیں.ایک ایسی دوائی ہے، جس کا اثر صرف دل کے گوشت پر ہوتا ہے اور پنڈلی پر نہیں ہوتا.اور ایک ایسی دوائی 127
خطاب فرموده 21 نومبر 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم ہے، جس کا اثر پنڈلی پرتو ہوتا ہے، پر دل پر نہیں ہوتا.لیکن پنڈلی اور دل دونوں ایک ہی جسم کا حصہ ہوتے ہیں.نوع انسانی میں سے ہر فرد کے جسم میں آنکھیں ہیں.یعنی جسم کا ایک حصہ آنکھوں پر مشتمل ہے.اور پھر دوسرے حواس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف چیزیں پیدا کیں ہیں.مثلاً سننے کے لئے، چکھنے کے لئے یا جسم میں جلد پر بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں، جو کس سے احساس پیدا کرتی ہیں اور بعض چیزوں کے چھونے سے ایک حس پیدا ہوتی ہے.مگر ساری جلد پر ایک جیسی حس نہیں پیدا ہوتی.اگر آپ ایک پین لیں اور اس پن کو جسم کے بعض حصوں پر چھوئیں تو بعض ایسی جگہیں آئیں گی، جہاں آپ کو اس پن کے چیھنے کا احساس پیدا ہی نہیں ہوگا.گو یا جسم کے مختلف points (پوائنٹس) ہیں، جو مختلف حس رکھتے ہیں.اگر چہ دنیا اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی تمام صفات کا احاطہ نہیں کر سکتی مگر جتنی جتنی کوئی کوشش کرتا ہے، اتنی اتنی ترقی پالیتا ہے.چنانچہ چین میں ایک پرانا فن تھا، اس کو ترقی دی گئی اور اس کا تعلق جسم کے بعض حصوں کو شل کرنے یعنی بے حس کرنے سے ہے.چینی ڈاکٹر بعض خاص points پر سوئی (جس کو انگریزی میں Aqoa puncture کہتے ہیں.) داخل کرتے ہیں تو وہ حصے بے حس ہو جاتے ہیں.چنانچہ انہوں نے اس فن میں اتنی ترقی کی ہے کہ میں نے بعض رسالوں میں تصویریں دیکھی ہیں کہ سینہ کھول کر دل کا آپریشن کیا جارہا ہے.انگریزی محاورہ میں اسے Heart operation کہتے ہیں.مریض بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ نیم دراز ہے اور اس کا سینہ کھلا ہوا ہے اور ڈاکٹر اس کے دل کا آپریشن کر رہے ہیں.ایک مریضہ کی تصویر تھی ، ڈاکٹر اس کا آپریشن کر کے اس کے پیٹ میں سے کینسر نکال رہے تھے.مگر اس کے چہرہ پر بالکل اطمینان تھا، اسے کوئی احساس ہی نہ تھا کہ آپریشن ہو رہا ہے.یوں لگتا تھا جیسا کہ وہ باتیں کر رہی ہے اور اس کی آنکھوں میں جان ہے.پس یہ Aqoa puncture ایک نئی چیز ترقی کر گئی ہے، ( ہے تو پرانی ).اس کا بھی حس کی تقسیم کے ساتھ تعلق ہے.اس کے ذریعہ اس حساس جگہوں کو بے حس کر دیا جاتا ہے.غرض جسم کے مختلف اجزاء ہوتے ہیں، جن کے سپر د اللہ تعالیٰ نے مختلف کام کیسے ہوئے ہیں.اسی طرح انسانی جسم کا ایک حصہ ایسا بھی بنایا گیا ہے یعنی قلب سلیم ، جو اس وقت سے کہ خدا کی طرف سے آسمانوں سے وحی نازل ہونی شروع ہوئی، روحانی میدانوں میں قیادت کرتا چلا آرہا ہے.مگر اسلامی اصطلاح میں اسے priest crafni یا priest hood نہیں کہتے.اسے اسلامی اصطلاح میں جاں شاری کہا جاتا ہے.اور یہ قلب سلیم رکھنے والے خدا کے وہ جانثار اور وفا دار بندے ہوتے ہیں، جن کا خدا تعالیٰ خود معلم بنتا ہے اور ان کو قرآن کریم کے علوم سکھاتا اور ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کے ماتحت نوع انسانی کے مسائل حل ہوتے ہیں.128
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 21 نومبر 1974ء جامعہ احمدیہ میں ہمارے جو بچے آتے ہیں، ہم انہیں جسم انسانی میں اس عضو کی طرح بنانا چاہتے ہیں ، جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.ہم یہ چاہتے ہیں کہ طلبائے جامعہ احد یہ اللہ تعالیٰ سے انتہائی وفا کا تعلق پیدا کریں.اس قد روفا کہ اس سے بڑھ کر ان کے دائرہ استعداد میں ممکن نہ ہو.اور پھر وہ اساتذہ سے علم حاصل کرنے پر اکتفانہ کریں.یہ تو ابتداء ہے، علم سیکھنے کی انتہا نہیں ہے.مبلغین خدا کے بندوں اور جماعت احمدیہ کے اس وقت تک کام نہیں آسکتے ، جب تک ان کا منبع علم یعنی علم سیکھنے کا سر چشمہ خدا تعالیٰ ، جو معلم حقیقی ہے، اس کی ذات نہ بن جائے.جس وقت خدا تعالیٰ ان کے لئے معلم حقیقی کے طور پر بن جائے گا تو وہ سمجھیں کہ انہوں نے جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کی، جو خواہش ظاہر کی اور جس مقصد کے لئے انہوں نے زندگی وقف کی ، وہ مقصد انہوں نے پالیا.اس کے لئے حضرت مسیح موعود نے تو بڑے آرام سے فرمایا دیا کہ خدا کو پانا تو سہل ہے، بالکل آسان ہے، خدا کو پانا تو کوئی مشکل نہیں.وہ جان مانگتا ہے جان دے دو.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جس شخص کو معرفت الہی حاصل ہو، اس کے نزدیک خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جان دے دینا بالکل " ایک سہل چیز ہے.یہ ہے وہ سبق ، جو ہمیں حضرت مسیح موعود نے ایک چھوٹے سے فقرے میں دیا ہے.پس میں طلبائے جامعہ احمدیہ سے یہ کہتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کے لئے ہر وقت تیار رہیں.اور اس بات کو ہمیشہ یادرکھیں کہ جان دینے کے لئے تیار وہی ہوگا، جو جان دینے سے ورے ورے ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے خدا کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرتا رہے گا.جب طلبائے جامعہ احمد یہ ایسے بن جائیں گے تو پھر وہ ہمارے کام کے مبلغ بنیں گے، ورنہ نہیں.کیونکہ انہوں نے دوسروں کے لئے اسوہ بنتا ہے، دوسروں کا رہبر بنتا ہے اور دنیا کی روحانی قیادت کرنی ہے.یہ اہلیت چند سال جامعہ احمد یہ میں چند کتا ہیں پڑھ کر اور یہاں کھیل کود کر تو حاصل نہیں ہوسکتی.ایک اور میدان ہے ان کے عمل کا اور علم کے حصول کا اور اس مقام کو پالینے کا.جس لئے انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں، اس میدان کے وہ شہسوار بنیں گے تو جماعت احمدیہ کے مبلغ بنیں گے، ورنہ priest craft تو اسلام کے کام کی نہیں.جو شخص خدا تعالیٰ کا بندہ بن جاتا ہے، وہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کا خادم بھی بن جاتا ہے، دینی لحاظ سے بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی.جو شخص خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ خدا کی مخلوق کو دکھ نہیں پہنچا سکتا.اگر ذہنیت یہ ہو کہ اس نے خدا کے پیار کو حاصل کرنا ہے تو خدا نے جس چیز کو پیدا کیا ہے، وہ اسے دکھ کیسے پہنچا سکتا ہے؟ خالی یہی نہیں بلکہ مبلغین کو اس میدان کے لیڈر اور قائد اور اس کے رہبر بنا ہے.اگر وہ 129
خطاب فرمودہ 21 نومبر 1974ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اپنے اندر ایسی ذہنیت پیدا کرلیں اور خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت کے حصول کے لئے مجاہدہ کریں اور پھر اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو جائیں تو پھر وہ حقیقی معنی میں واقف زندگی ہیں.ور نہ تو کئی بیچ میں شامل ہوتے ہیں اور بعض ٹوٹ جاتے ہیں.جو جلدی ٹوٹ جائیں، وہ ہمارے لئے کم افسوس کا باعث ہوتے ہیں، بنسبت ان کے جو دیر بعد ٹوٹیں.میں جب تعلیم الاسلام کالج میں پڑھایا کرتا تھا تو کئی بچے، جنہوں نے میٹرک میں سائنس میں اچھے نمبر لئے ہوتے تھے اور ان کے انٹرویو کے وقت مجھے شبہ ہوتا تھا کہ یہ اتنی محنت نہیں کریں گے، جتنی کالج میں سائنس کے طالب علم کو محنت کرنی چاہئے.تو میں شروع میں پہلے دن داخلے کے وقت ان کو یہ مشورہ دیتا تھا کہ مجھ سے شرمانے کی ضرورت نہیں، دس، بارہ دن کے بعد اگر تمہارا ذہن یہ فیصلہ کرے کہ تم ان مضامین کے قابل نہیں ہو تو اپنے ماں باپ سے نہ ڈرنا، میرے پاس خاموشی سے آجانا، میں تمہارے مضامین بدل دوں گا.چنانچہ ہر سال پندرہ، ہمیں طالب علم ایسے آتے تھے، جنہوں نے بظاہر میٹرک میں بڑے اچھے نمبر لئے ہوتے تھے لیکن وہ سمجھتے تھے کہ ہم قابل نہیں ہیں اور مجھے کہہ دیتے تھے.اس لئے اب میں طلبہ جامعہ احمدیہ سے بھی کہتا ہوں کہ وہ روحانی طور پر بھی اپنی زندگیاں خراب نہ کریں اور خدا تعالیٰ کے غضب کو مول نہ لیں.جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ جامعہ میں چل ہی نہیں سکتا، اسے چھوڑ دینا چاہئے.وہ اپنے آپ کو کیوں خراب کر رہا ہے؟ اور خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کو، جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کی راہ میں روک کیوں بننا چاہتا ہے؟ لیکن جنہوں نے خدا کا بندہ بن کر جماعت احمدیہ کے واقفین کی جماعت حزب اللہ میں رہنا ہو، ان کو خدا کا بندہ بننا پڑے گا، ورنہ کوئی فائدہ نہیں.باہر اس وقت مبلغوں کی بہت ضرورت ہے کیونکہ جو دنیا کے فیصلے ہوتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے منصوبوں پر تو اثر انداز نہیں ہوتے.اب آج ہی ایک خط میں نے پڑھا ہے کہ ہمیں انگلستان میں موجودہ حالت میں آٹھ مبلغوں کی ضرورت ہے.مبلغین ہمیں دو طرح ملتے ہیں.کچھ تو جامعہ میں پڑھتے ہیں اور کچھ وہ لوگ ہیں، جو جامعہ میں نہیں پڑھتے لیکن ان کی روح خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ میں جل رہی ہوتی ہے.اور یہ محبت ان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خدا کے دین کی خدمت کریں.انہوں نے اپنی کوشش اور دعاؤں سے اپنے طور پر اتنا علم حاصل کیا ہوتا ہے، یعنی اپنے مجاہدہ کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ کو معلم حقیقی بنا لینے - کہ وہ باہر جا کر بڑے کامیاب ہو جاتے ہیں.ہمارے ماسٹر محمدابراہیم ) جمونی صاحب ساری عمر ہیڈ ނ 130
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 21 نومبر 1974ء ماسٹری کرتے رہے.یہاں کیا تھے؟ وہ ہیڈ ماسٹر تھے اور بس.کوئی حیثیت تو نہ تھی.نہ دنیا کے نزدیک اور نہ اللہ تعالی کی نگاہ میں.اور سچی بات ہے کہ ہم نے انہیں ڈرتے ڈرتے امریکہ بھیجا تھا کہ پتہ نہیں، وہاں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ؟ مگر جب سے وہ امریکہ گئے ہیں، وہاں کے جو امریکن دوست ہیں، ان کی بھی ان کے لئے بڑی Appreciation ہے کہ وہ وقف کی روح کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کے عشق میں مست ہو کر کام کر رہے ہیں اور جماعت کی بڑی اچھی تربیت کر رہے ہیں.اب یہاں ایک وبا پھیل گئی ہے.یہ ٹھیک ہے کہ شاید ہزاروں میں سے ایک عورت ہو، جس کا دل کرتا ہے کہ وہ نقاب سے آزاد ہو جائے.مگر پچھلے سال امریکن دوست جلسہ سالانہ کے بعد جب یہاں سے واپس گئے تو انہوں نے وہاں جا کر باتیں بتائیں، جن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ربوہ میں احمدی عورتیں مسجد میں مردوں کے ساتھ اکٹھی ہو کر نماز نہیں پڑھتیں.جب یہ بات امریکہ کی احمدی مستورات نے سنی تو امریکی ماحول میں رہنے والی ہماری احمدی بہنوں نے کہا کہ ہمارے لئے دیوار بناؤ.چنانچہ مسجد میں پارٹیشن کی گئی اور اب عورتیں علیحدہ پیٹھتی ہیں اور مرد علیحدہ بیٹھتے ہیں.پس وہاں جا کر ان کے لئے کوئی نمونہ ہونا چاہیے.میں نے ایک خطبہ میں بتایا تھا کہ انسان اور حیوان میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ صرف انسان کو اللہ تعالیٰ نے دعا کرنے کی طاقت عطا کی.اور اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو یہ بشارت دی کہ تم دعا کرو گے تو میں قبول کروں گا.یہ طاقت دینا بھی خدا تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان ہے.اور یہ وعدہ کرنا کہ میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یہ بھی اس کا بہت بڑا احسان ہے.اس لئے جو دعائیں کرنے والے نوجوان ہیں، وہ اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے نوجوان ہیں.جیسا کہ میں باہر جانے والوں کو اگر میرے پاس زیادہ وقت نہ ہو تو کہا کرتا ہوں کہ وہ اس بنیادی چیز کو ہمیشہ یادرکھیں کہ اپنے رب کریم سے کبھی بے وفائی نہیں کرنی باقی سب چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی.جو لوگ خدا تعالیٰ کے وفادار بندے ہوتے ہیں ، خدا تعالیٰ ان کو نہیں چھوڑا کرتا.ان کے لئے دنیا کے مال و دولت شاید میسر نہ ہوں لیکن ان کے لئے دلی اور روحانی خوشیوں کے ایسے سامان پیدا کئے جاتے ہیں کہ دنیا داران کا مقابلہ نہیں کر سکتے.ہماری اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے حقیقی اور جاں نثار بندے بنائے اور اپنی مخلوق کے خادموں میں ہمیشہ شامل رکھے اور اس حیثیت میں ہمیں اس دنیا سے اٹھائے.آؤ، دعا کر لیں“.مطبوعه روزنامه الفضل 22 اگست 1975ء) 131
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کے تحت ہونے والے بعض کاموں کا تفصیلی ذکر خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء بر موقع مجلس شوری تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.” ایک بڑا منصوبہ، جس کا تعلق جماعت احمدیہ کی اس صدی کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے شکرانے کے طور پر اور نئی صدی کے استقبال کے لئے جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے جماعت احمدیہ کے سامنے پیش کیا تھا، اس سلسلہ میں کچھ انتظامی کام کرنے ہیں.جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ کی تقریر میں اعلان کیا تھا، اس وقت یہاں ان کے متعلق فیصلے ہونے چاہئیں.جلسہ سالانہ سے لے کر اس وقت تک کا جو زمانہ ہے، وہ وعدوں کی وصولی کے لئے مقرر کیا گیا تھا.کچھ وصولی بھی ہوئی ہے.لیکن زیادہ تر یہ وعدے لینے کا زمانہ تھا.ابھی جمعہ کے خطبہ میں، میں نے بتایا تھا کہ یہ وعدے نو کروڑ ہیں لاکھ کے قریب پہنچ گئے ہیں.گویا جمعہ کی نماز کے وقت تک نو کروڑ میں لاکھ وعدوں کا اندارج ہو چکا تھا.اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بیرون پاکستان میں قریباً پچاس ممالک میں ہمارے احمدی بستے ہیں.جہاں سے ہم توقع کرتے تھے کہ اس منصوبہ کے لئے وعدے آئیں گے.مجھے ابھی ایک دوست، جن کے سپر د میں نے یہ کام رضا کارانہ طور پر کیا ہوا ہے، انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ بیرون پاکستان کے ہیں ممالک کی جماعتوں سے وعدے وصول ہونے باقی ہیں.اس کے باوجود بیرون پاکستان کے وعدے.4,16,47,457 روپے پر مشتمل ہیں اور اندرون پاکستان کے وعدے اس وقت تک-/5,42,03,152 روپے تک پہنچ چکے ہیں.ان کی کل میزان - / 9,54,50,609 روپے بنتی ہے.اور ابھی میں بیرونی ملکوں کی جماعتوں کے وعدوں کی وصولی باقی ہے.اور اندورن پاکستان سے بھی وعدے چلے آرہے ہیں.ان وعدوں کی وصولی کی تاریخ کے متعلق دوستوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس بات پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی کہ اس کے بعد وعدے نہیں ہوں گے.اس وقت تک وعدوں کی کافی بڑی فیصد ہمارے پاس پہنچ چکی ہے.کچھ بیرونی ملکوں کی اور کچھ یہاں کی ڈاک آ رہی ہوگی.کچھ اور وعدے یہاں ئیں گے.بعض دوستوں تک پیغام پہنچ بھی نہیں سکا، وہاں تک ہمارے دوست پہنچیں گے.بیرونی 133
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ممالک میں اس وقت جو جماعت سب سے آگے ہے اور جس نے بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے، وہ انگلستان کی جماعت ہے.ان کے وعدے دس لاکھ پونڈ سٹرلنگ ہیں.یہ رقم اڑھائی کروڑ روپے بنتی ہے.انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابھی اور وعدے بھی متوقع ہیں.پس جیسا کہ میں نے خطبہ جمعہ میں بھی بتایا تھا ، ہم نے تو اپنے اندازے لگانے ہوتے ہیں.لیکن جس قدر مال کی ان منصوبوں کو کامیاب کرنے کے لئے اور اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ضرورت ہے، وہ اللہ تعالیٰ اپنی اس مخلص جماعت کے لئے عطا فرمائے گا.انشاء اللہ.اس پر ہمارا تو کل اور بھروسہ ہے.میں نے جلسہ سالانہ پر جو منصوبہ پیش کیا تھا، اسے میں نے اس وقت مشورہ کے بعد اڑھائی کروڑ کی اپیل تک محدود رکھا تھا.پھر جیسا کہ میں نے خطبہ جمعہ میں تفصیل کے ساتھ بتایا ہے، پانچ کروڑ کی امید رکھی ، پھر خیال تھا کہ یہ رقم نو کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی.اور پھر میں نے یہ اصول بھی لاہور میں بتا دیا تھا کہ نو کروڑ کی بھی حد نہیں، خدائے علام الغیوب کے نزدیک جتنی رقم درکار ہوگی ، جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کو پھیلانے کے لئے اور اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے وہ جماعت کو مل جائے گی.ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بنے رہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اموال کی حفاظت کرنے والے ہوں.جیسا کہ میں نے کئی بار جماعت کو بتایا ہے، ہمیں ایک دھیلہ بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں دیا جاتا.اس کا صحیح مصرف ہونا چاہئے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے اموال میں برکت آتی اور ہمارا تھوڑا پیسہ بہت زیادہ کام کر دیتا ہے.بہر حال عطایا کے اپیل کے لئے جو مشورے کئے گئے تھے، وہ اپنے طور پر تھے.اور دعاؤں کے ذریعہ میرے ذہن میں اس وقت جو منصوبے آئے ، وہ اپنے طور پر تھے.بعد میں بھی میں نے سوچا کہ ان کا تو آپس میں تضاد بن جاتا ہے.مثلاً میں نے ایک بات یہ کہی کہ ہم اسلام کا بنیادی لٹریچر یعنی بنیادی تعلیم انشاء اللہ سوز بانوں میں شائع کریں گے.اگر ہر زبان کی کتاب ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کی جائے اور سوز بانوں میں یہ کتا بیں شائع ہوں، یہ ایک کروڑ نسخے بن جاتے ہیں.ایسی کتابیں چار، پانچ سو صفحات سے تو کم نہیں ہوں گی.آج کل پانچ سو صفحے کی کتاب کی بازار میں دس روپے قیمت ہے.لیکن جیسا کہ ہم امید رکھتے ہیں اور جیسا کہ ہمارا مشاہدہ اور تجربہ ہے، ہمارے اموال میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے، اگر ایک نسخے کی قیمت پانچ روپے ہو تو پانچ کروڑ روپیہ صرف سوز بانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم شائع کرنے پر خرچ آتا ہے.اس لئے اس وقت کی اپیل ، جو مشوروں اور دعاؤں کے بعد کی گئی تھی اور جو منصو بہ جماعت 134
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء کے سامنے رکھا گیا تھا، اس میں اور اس میں موافقت اور مطابقت نہیں تھی.اور اللہ تعالی نے اپنے فضل سے ہمیں یہ سبق دیا کہ جتنی تمہیں ضرورت ہوگی ، وہ تمہیں ملتا چلا جائے گا.چنانچہ دیکھ لو، اڑھائی کروڑ کی اپیل تھی مگر اس وقت اس فنڈ میں وعدوں کی رقم ساڑھے نو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے.یعنی اپیل سے سات کروڑ روپے( چار گنا ) زیادہ ہو چکی ہے.بہر حال جو منصوبہ پیش کیا گیا تھا، اس میں تنوع بھی ہے.کئی قسم کے کام ہیں، جو ہم نے کرنے ہیں.اور اس میں وسعت بھی ہے.اس کے لئے کچھ ابتدائی کام بھی کرنے پڑیں گے.اس کے لئے ایک انتظامیہ بھی چاہئے.اس کو اس وقت میں دوبارہ مشاورت کے نمائندگان کے سامنے مختصراً پیش کروں گا.اور پھر میں سمجھتا ہوں کہ اس کو بجائے کسی بڑی سب کمیٹی کے، بارہ دوستوں پر مشتمل شوری کی سب کمیٹی بنا دی جائے ، جو آج دوسری سب کمیٹیوں کی طرح غور کرے اور پھر اپنی رپورٹ اسی شوری میں پیش کرے.یہ بارہ ممبر اس طرح مقرر ہوں گے کہ ان میں چار، علماء سلسلہ میں سے، چار، بزرگان سلسلہ میں سے، یعنی پرانے بڑی عمر کے تجربہ کار دوستوں میں سے اور چار مخلص نوجوانوں میں سے، جو کام کرنے والے ہوں.یہ بارہ ممبر اپنے سر جوڑیں اور غور کریں اور پھر مجھے مشورے دیں.اور انہیں مجلس مشاورت کے سامنے رکھیں.پھر اور دوست بھی مشورے دیں گے.بہر حال جو چیز یا جو منصوبہ میں نے جماعت کے سامنے پیش کیا تھا، وہ یہ تھا کہ ہمیشہ ہی حمد اور عزم مسلمان احمدی کی زندگی کا طرہ امتیاز رہتا ہے.لیکن اس زمانہ میں، جو آئندہ صدی شروع ہونے سے پہلے کے پندرہ سال اور کچھ مہینے رہ گئے ہیں، خاص طور پر ہم نے اس چیز کو سامنے رکھ کر اور کوشش کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کرنا ہے.ایک ہم ہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نسلاً بعد نسل ہمارے اوپر اشاعت اسلام کی ذمہ داری ڈالی ہے.اس عرصہ میں کئی نسلیں کام کرنے والی جماعت میں شامل ہو چکی ہیں.نئے احمدیوں کی صورت میں پانئے نو جوانوں کی صورت میں Decade انگریزی کا لفظ دس سال کے لئے بولا جاتا ہے.تو آٹھ ، نو نسلیں تو اس طرح شامل ہو جاتی ہیں.کیونکہ احمدیت کے قیام پر 86 سال گزر گئے.پس جماعت احمدیہ کے افراد کو، ان کے بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی ، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی تسلسل کے ساتھ ، لگاتار، استقلال اور استقامت کی روح اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے خدا تعالی کی راہ میں قربانیاں دینے کی توفیق عطا فرمائی.اور قربانیاں دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سامان بھی پیدا کئے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سامان نہ پیدا ہوں تو اگر چہ خواہش تو ہوگی لیکن عملاً کچھ نہ ہو 135
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم گا.ایک وہ غریب انسان کہ جس کے پاس کھانے کے لئے روٹی تک نہیں ہوتی ، وہ ہزاروں کی قربانی کی نہیں دے سکتا.لیکن خدا تعالیٰ نے مال بھی دیا، خدا تعالیٰ نے مال قربان کرنے کا جذ بہ بھی دیا.خدا تعالیٰ نے صحت بھی دی ، خدا تعالیٰ نے اپنی راہ میں صحت قربان کرنے کی توفیق بھی عطا کی.خدا تعالیٰ نے علم اور فراست بھی دی اور خدا تعالیٰ ہی نے اس علم اور فراست کو اس کے دین کو غالب کرنے میں خرچ کرنے کی توفیق بھی عطا کی.خدا تعالیٰ نے تجربہ بھی دیا، تجربے کو بڑھایا بھی اور جوں جوں تجر بہ بڑھتا گیا، توں توں عشق خداوندی بھی بڑھتا گیا اور اس تجربے سے بھی اللہ تعالیٰ ہی کی راہ میں کام کرنے کی توفیق اس جماعت نے پائی، جسے دنیا نے دھتکار دیا تھا.جس کے پاس مال وزر نہیں تھا، سیاسی اقتدار نہیں تھا.مگر وہ چیز تھی، جس کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی.وہ اپنے رب سے راضی تھے اور ان کا رب ان سے راضی تھا.اتنا لمبا عرصہ نسلاً بعد نسل یہ توفیق پاتے چلے جانا، ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہمارے سر ہمیشہ اس کے حضور شکر کے طور پر اس کی حمد کرتے ہوئے جھکے رہیں.اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جو میراشکر گزار بندہ بنے گا، اسے میں پہلے سے زیادہ دوں گا، اس لئے ایک پہلے سے زیادہ بڑھتے ہوئے اور مضبوط اور شدت اختیار کئے ہوئے عزم کے ساتھ ہم نے اس کی راہ پر تیز سے تر ہو کر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانا ہے.پس خاص طور پر ان دو چیزوں کو سامنے رکھنا ہے.یعنی ایک حمد اور دوسرے عزم کو.ہم نے خدا کی خاطر قربانیاں دے کر اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کرنی ہے.پھر جیسا کہ میں نے اعلان کیا تھا، وہ سال جو جو بلی کا سال ہوگا ، وہ 23 مارچ 1989 ء سے شروع ہوگا اور اسی سال جلسہ سالانہ پر اپنی انتہاء کو پہنچے گا.جو بلی سال کے جو پروگرام ہیں، ان کے متعلق ہم آج آخری فیصلہ نہیں کر سکتے.ہم نہیں جانتے کہ ان پندرہ سالوں میں دنیا میں اسلام کے حق میں کیا کیا انقلاب بپا ہونے والے ہیں؟ وہ تو خدا تعالیٰ کے علم میں ہیں.لیکن ہم آج یہ تو سوچ سکتے ہیں کہ ہم نے کس نہج پر اس سال کو، جو 23 مارچ 1989ء کو شروع ہوگا اور جلسہ سالانہ پرختم ہوگا، منانا ہے.جو بلی کا جو سال یورپ میں منایا جائے گا، وہ مثلاً انگلستان میں منایا جائے گا، مختلف وقتوں میں امریکہ میں منایا جائے گا اور اس طرح مغربی افریقہ میں ایک یا ایک سے زائد جگہ منایا جائے گا، مشرقی افریقہ میں منایا جائے گا، انڈونیشیا میں منایا جائے گا اور ہندوستان میں منایا جائے گا اور نبی آئی لینڈ میں منایا جائے گا.یہ تو آج بھی ہم سوچ سکتے ہیں.کیونکہ وہاں جماعتیں بڑی تعداد میں قائم ہو چکی ہیں.لیکن ہو سکتا ہے کہ 10, 5 سال میں بعض ممالک میں جماعتوں کی تعداد اور ان کا اخلاص اتنا بڑھ جائے کہ ہمیں بعد میں اپنا یہ پروگرام بدلنا پڑے.اس لئے ہم نے 136
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم.خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء اس سلسلہ میں نظر ثانی کرتے رہنا ہے.پس پندرہ سال کے بعد جو شکل بنے گی ، اس کے مطابق جو بلی سال منایا جائے گا.جس کی انتہاء جلسہ سالانہ 1989ء پر ہوگی.انشاء اللہ.وبالله التوفيق.ہوگی.انشاءاللہ.گزشتہ جلسہ سالانہ پر میں نے جماعت کے سامنے ایک یہ پروگرام رکھنا تھا.میں کئی ماہ سے سوچ رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ بھی ڈالا کہ جلسہ سالانہ پر باہر کی جماعتوں کے وفود منگوائے جائیں.وقت کم تھا، ہر ملک سے وفود نہیں آسکے.صرف چودہ ممالک سے آسکے اور اللہ تعالیٰ نے ان وفود کی جلسہ سالانہ میں شمولیت سے اتنی برکت ڈالی ہے کہ میں حیران ہو گیا.مثلاً ایک بات کو میں لوں گا ، زیادہ کچھ بیان نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ اس ضمن میں اور بہت سی باتیں کہنا چاہتا ہوں.پہلی دفعہ امریکن باشندے (وہاں کے پرانے رہنے والے پاکستانی دوست، جو کمانے کے لئے وہاں گئے ہوئے ہیں، وہ نہیں ) جو یہاں وفد کی شکل میں آئے ، وہ سات تھے.اور یہ امریکن نمائندے وہیں کے باشندے ہیں.صدیوں سے وہیں رہتے ہیں.انہوں نے یہاں سے اثر لیا اور اتنا مخلصانہ اثر لیا کہ ان کو دیکھ کر رشک آتا ہے.مثلاً ایک شخص نے کہا کہ ہم حج پر بھی گئے اور یہاں بھی آئے.اس وقت ملک کے حالات بوجہ ان علاقوں میں تنزل کے ایسے ہیں کہ ہم نے وہ روحانی غذا جو وہاں ہمیں زیادہ ملنی چاہئے تھی، یہاں آکر حاصل کی.(حالانکہ یہ جلسہ حج کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.بہر حال ان کا یہ بیان تھا کہ ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ روحانی غذا جو مکہ میں ملنی چاہئے تھی، وہ وہاں نہیں ملی.اس کا لا کھواں حصہ بھی نہیں ملا.مگر یہاں ہمیں وہ روحانی سرور مل گیا.کہیں یہ نہ ہو کہ شیطان ہمارے دماغوں میں یہ وسوسہ ڈالے کہ حج کرنے کی بجائے یہیں جلسہ سالانہ پر آجایا کریں.کتنی گہرائی میں گیا، اس شخص کا دماغ ؟ اور کیا خطرہ اس کے سامنے آیا؟ اور اس نے اس بات کا برملا اظہار کیا.اس نے کہا، ہمیں اور آپ کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ حج تو بہر حال حج ہے.وہاں کے حالات اگر آج ایسے ہیں تو کل بدل جائیں گے.لیکن وہاں کا جو احترام ہے، وہ جو کل تھا، آج بھی ہے.وہ تو ہمیشہ سے ہے.پھر یہاں سے جب وہ واپس گئے تو ایک خاص اثر لے کر گئے.اللہ تعالٰی کے فضلوں اور انشانوں کو انہوں نے یہاں دیکھا.جو کچھ سنا تھا، اس سے کہیں زیادہ پایا.ان کے ایمانوں میں ایک جلا پیدا ہوئی.چنانچہ وہاں جا کر انہوں نے اپنے دوستوں کو جو باتیں سنائیں، خصوصاً وہاں کے احمدیوں کو تو اس سے وہاں کے احمدیوں کے ذہنوں پر یہ اثر پڑا، جوان کے ایمانوں کی زیادتی کا موجب بنا.جب ہم نے نصرت جہاں ریز روفنڈ کے عطایا کا مطالبہ کیا تو امریکہ کی ساری جماعت نے کم و بیش 28 ہزار ڈالرز دیے تھے.اور 28 ہزار ڈالرز میں سے ایک بڑی رقم وہ تھی ، جوان پاکستانیوں نے دی تھی، جو 137
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم وہاں کمانے کے لئے گئے ہوئے ہیں.میرا خیال ہے کہ امریکہ کے جو اصل باشندے احمدی ہیں، ان کا اس میں بمشکل 8, 7 ہزار ڈالر کا حصہ ہوگا.یا دس ہزار ڈالر کا ہوگا ، اس سے زیادہ نہیں.لیکن جلسہ سالانہ سے واپس جانے کے بعد جب صد سالہ جو بلی فنڈ کی تحریک ہوئی تو وہاں سے جو وعدے اس وقت تک موصول ہو چکے ہیں، ابھی مزید وعدے متوقع ہیں، وہ 28 ہزار ڈالرز کے مقابلے میں چار لاکھ ڈالرز کے ہیں.اور ان میں بہت بڑا حصہ وہاں کے اصل باشندوں کا ہے.ہمارے پاکستانیوں کے بارہ میں ہمارے مبلغ نے لکھا ہے کہ ان کے پتے بھجوائے جائیں تاکہ ان سب کو اس میں حصہ لینے کی تحریک کی جاسکے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا.اللہ تعالی علام الغیوب ہے اور بڑا پیار کرنے والا بھی ہے.اور اس کا ایک منصوبہ ہے، جو اس کے دست قدرت نے بنایا ہے.جس کے ماتحت اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا نزول ہوا اور آپ کی بعثت ہوئی.اور دنیا کے سامنے اسلام کے غلبہ کا اعلان کیا گیا.اللہ تعالیٰ خود اپنی تدبیریں کرتا ہے.انسان کو تو غیب کا علم ہی نہیں.وہ تو یہ جانتا ہی نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے؟ سوائے اس کے کہ خود اللہ تعالیٰ کسی کو غیب کا علم دے.مثلاً مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک خوشی پہنچائی ہے، وہ میں آپ تک بھی پہنچانا چاہتا ہوں.کیونکہ آپ بھی اس میں شریک ہیں.بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات بعض بڑی محدود قسم کی پریشانی لاحق تھی.کوئی جماعتی پریشانی تھی.بہر حال میرے لئے پریشانی کی رات تھی اور اسی پریشانی میں رات گزری.میں نے اس میں بڑی دعائیں کیں.اور اس پریشانی کے سلسلے میں تو اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا کہ انذار کا پہلو ہے لیکن جب رات گزرگئی تو میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی، میں مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے نہ جا سکا.میں جاگ رہا تھا کہ اذان ہوئی اور پھر اسی وقت نیم غنودگی کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے میری پریشانی کو اس طرح دور کیا کہ ہمارے ایک بچے کے ہاں ایک بڑھیا رہتی ہے، جس کا نام ہے، بشیراں.تو میں نے دیکھا کہ ہمارے برآمدے میں اپنے گھر کے بچے ہیں، بشیراں کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں اور ماحول بڑا روشن ہے اور اس کے چہرے سے خوشی ٹپک رہی ہے.وہ مجھے کہتی ہے، حضور ! عید مبارک ہووے.میں دروازہ کے پاس کھڑا ہوں اور نظر او پر گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ 6, 5 دن کا چاند نظر آیا.میں نے دماغ میں سوچا کہ چاند اتنے دن کا ہو گیا ہے، یہ مجھے کیسی عید مبارک دے رہی ہے؟ پھر اچانگ اس نیم غنودگی میں کچھ اور بیداری کے آثار پیدا ہوئے اور میں نے سوچا کہ ابھی تو عید گذری ہے، اس لئے یہ تو وہ عید نہیں ہے، جو ہر سال آتی ہے.بلکہ یہ تو کوئی بہت بڑی عید ہے.اجتماعی خوشی کو عید کہتے ہیں.پس بہت بڑی اجتماعی خوشی کے سامان اللہ تعالیٰ ہمارے لئے پیدا کر رہا ہے.138
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء اور اس طرح میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد پیدا ہوئی کہ ہماری زندگیاں چھوٹی چھوٹی پریشانیوں میں الجھنے کے لئے تو نہیں.ہمارے اوقات تو اسلام کی خدمت کے لئے وقف ہیں.چنانچہ اس رویا سے مجھے بہت لطف آیا.میں نے خدا تعالیٰ کی بڑی حمد کی.ذراسی پریشانی تھی اور خدا تعالیٰ نے خوشی اتنی بڑی پہنچا دی کہ ساری جماعت کے لئے برکت کے سامان پیدا کئے جائیں گے.پس اس میں میرے لئے بھی خوشی ہے اور آپ کے لئے بھی خوشی ہے.آپ لوگوں نے ، یعنی اہل ربوہ نے باہر سے آنے والے وفود کے ساتھ بڑے حسن سلوک کا نمونہ دکھایا.ہمارے ایک یوگوسلاوین دوست بھی آئے ہوئے تھے.یوگوسلاویہ کمیونسٹ ملک ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ غریبوں کا بہت خیال رکھتے ہیں.ایک اور یوگو سلاوین بھی آئے ہوئے تھے، جو یوگوسلاویہ میں رہتے ہیں.ایک تو سویڈن سے آئے تھے، جن کا خاندان بھی سویڈن میں رہتا ہے.اور ایک سوئٹزر لینڈ سے آئے تھے، جن کا خاندان یوگوسلاویہ میں ہے، صرف وہ نوکری کرنے کے لئے ، مزدوری کرنے کے لئے دس، پندرہ سال سے سوئٹزر لینڈ میں رہ رہے ہیں.جب وہ واپس گئے تو جماعت نے پوچھا کہ ربوہ کے جلسہ کے بارہ میں تمہارے کیا تاثرات ہیں؟ انہوں نے بہت کچھ بتایا.لیکن ایک عجیب بات نظر آئی.ہر شخص کا دماغ الگ ہوتا ہے.مجھے ان کی بات سن کر بڑا لطف آیا.انہوں نے کہا کہ ہمارا وہاں اتنا خیال رکھا گیا کہ جس طرح وہ مرغی جو بچے دینے کے لئے انڈوں پر بیٹھی ہوئی ہو ، جس طرح وہ اپنے انڈوں کا خیال رکھتی ہے کہ ٹوٹ نہ جائیں، اسی طرح ہمارا خیال رکھا گیا.اب وہ یہ پیار لے کر گئے ہیں.ہماری دنیا، پیار کی دنیا ہے، ہم نے اس وقت دنیا کو پیار کا سہارا دینا ہے.بہر حال یہ جو وفود واپس گئے ہیں، اس کے نتیجہ میں امریکہ سے اطلاعات آرہی ہیں.عملا کیا ہوگا؟ والله اعلم لیکن ہم تو امید کر سکتے ہیں کہ شاید اگلے سال وہاں سے سواحمد ی جلسہ سالانہ پر آجائیں.ان کی رہائش کی بعض ضرورتیں ہیں، جو ہم نے پوری کرنی ہیں.اس دفعہ بھی مختلف جگہوں پر ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا.میں خود اس کام کی نگرانی کرتا رہا.بڑا خیال رکھا لیکن کچھ زیادہ ضرورت تھی.اب فضل عمر فاؤنڈیشن نے 20 بیڈ روم یعنی سونے والے کمروں پر مشتمل (مع بڑے ہال کھانے اور بیٹھنے کے ) گیسٹ ہاؤس بنانا شروع کر دیا ہے.یہ ان کا تحفہ ہو گا.جزاکم اللہ.آپ ان کے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ ان کے کاموں میں برکت ڈالے.ایک اور چھوٹا گیسٹ ہاؤس فوراً بنانے کے لئے میں نے صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت کی ہے.ایک انصار اللہ کو کہا ہے کہ وہ بنا لیں اور ایک خدام الاحمدیہ سے کہا ہے کہ وہ بنا ئیں.انصار اللہ 139
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کی طرف سے تو مجھے کوئی رپورٹ نہیں ملی لیکن خدام الاحمدیہ اور صدرانجمن احمدیہ کے گیسٹ ہاؤس تو مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ جلسہ سالانہ تک بن جائیں گے.فاؤنڈیشن کی طرف سے بننے والے بڑے گیسٹ ہاؤس کا کام بھی شروع ہو گیا ہے.انشاء اللہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے بن جائے گا.لیکن اس کے باوجود جس طرح وفود کی باہر سے اطلاعات آرہی ہیں، ہمارے لئے یہ مہمان خانے بھی کافی نہیں ہوں گے.اس لئے ایک چیز میرے ذہن میں تھی، جسے میں بتانا بھول گیا تھا اور وہ یہ ہے کہ جب تک ہم سٹیڈیم کی قسم کا اپنا جلسہ گاہ نہ بنائیں،اس وقت تک ہماری یہ ضرورت پوری نہیں ہوتی.اگر ہم وہ بنالیں تو کئی سو کرے گیسٹ ہاؤس کے طور پر مہمانوں کے لئے میسر آجائیں گے.جس طرح مونو (MONO) ٹائپ کا انتظام ہو گیا ہے،اس چیز کی ان کو عادت پڑ گئی ہے، اس لئے وہ تکلیف میں نہیں ڈالے گا.یعنی کمرے، جن میں یہ سہولت بھی ہو کہ وہ اپنی کافی وغیرہ بناسکیں، اس کے لئے Switch مہیا کر دئیے جائیں گے.چھوٹے چھوٹے کمرے ہوں گے.اور ان کے غسل خانے اکٹھے ہوں گے.ہر کمرے میں نہیں بلکہ باہر نکل کر کچھ فاصلے پر مردوں اور عورتوں کے لیے فلش ٹائپ غسل خانے بنا دیے جائیں گے.یہ کام فوری تو نہیں ہوسکتا.اس پر کم از کم دو، تین سال لگیں گے.اور میرا خیال ہے کہ اس پر 50-40لاکھ روپے خرچ آئیں گے.لیکن یہ خرچ کر دینا چاہیئے.ایک تو اس لئے کہ اس وقت ہماری جو جلسہ گاہ ہے، وہ ضرورت سے چھوٹی بھی بنتی ہے اور بڑی تنگ ہوتی ہے، اس کی وجہ سے ہمیں پریشانی اٹھانی پڑتی ہے.وقت پرلکڑی لاؤ.کبھی یہ چیز نہیں مل رہی، کبھی کوئی اور چیز نہیں مل رہی.ان دنوں میرا بہت سا وقت ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خرچ ہو جاتا ہے اور پھر اتنا اچھا انتظام بھی نہیں ہو پاتا ہے.اس لئے ایک مستقل جلسہ گاہ بنی چاہئے ، جس میں دولاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہو.اس کا نقشہ میں نے تیار کروالیا ہے.جب اس قسم کی جلسہ گاہ تیار ہوگئی تو پھر ہماری ضرورت پوری ہوگی.کیونکہ اس صورت میں تین، چار سو کمرے میسر آجائیں گے، جن میں 500 600 مہمانوں کے ٹھہرانے کا انتظام ہو سکے گا.اگر عورتیں نہ ہوں تو ایک، ایک کمرے میں دو دو، تین تین مہمانوں کو ٹھہر اسکتے ہیں.لیکن میاں بیوی ہوں اور ان کو اکٹھارکھنا ضروری ہو تو ایک چھوٹا کمرہ ان کو دیا جا سکتا ہے.بہر حال یہ خرچ بھی ہوگا اور یہ جو بلی کے لئے ہے.یعنی جو بلی کے سال جماعت احمد یہ اس قسم کی ضرورت کے مطابق جلسہ گاہ بنائے گی (جس کے اور بھی بہت سے فائدے ہوں گے.) اور اس میں مزید وسعت دینے کی گنجائش بھی رکھی جائے گی.اس کا اندر کا میدان 600x600 فٹ تجویز کیا گیا ہے.اس کی سیٹرھیاں قریباً 80 فٹ ہیں.اس طرح یہ 800x800 فٹ بن جاتا ہے.گویا موجودہ جلسہ گاہ سے آٹھ ، 140
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء دس گنا بڑی جلسہ گاہ بن جائے گی.اس کے متعلق نقشہ میں نے قیام انگلستان کے دوران بنوالیا تھا.کیونکہ اسی وقت دماغ میں سکیم آنی شروع ہو گئی تھی.جو باتیں میں نے بیان کی تھیں ، ان کی شق نمبر ا یہ ہے کہ دنیا کے ریجن یعنی علاقوں کو Continent کے مختلف حصوں کو تقسیم کر کے کئی ممالک کا ایک مرکز بنا دیا جائے.وہ مرکزی مشن ہاؤس، ایک ایسا مرکز ہو، جہاں دو یا تین یا چار ممالک کو جن کی زبان مشترکہ ہو ، اکٹھا کر دیا جائے.بعض ممالک ایسے ہیں، جو نئے بنے ہیں، جہاں فرانسیسی حکومت قابض رہی ہے، ایسے ملکوں کو اکٹھا کر کے ایک مرکز بنا دیا جائے، جس میں فرانسیسی بولنے والے مبلغین کو لگایا جائے.اور اسی طرح انگریزی بولنے والے ملک میں انگریزی جاننے والوں کو.ویسے کم ممالک انگریزی بولتے ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ 70 ء کے دورے میں ، میں ایک جگہ خطبہ دینے کے لئے کھڑا ہوا، کئی ہزار کا مجمع تھا تو وہاں کے مبلغ کہنے لگے کہ ان میں سے دس فیصد انگریزی سمجھتے ہیں اور جو باقی ہیں، وہ نصف نصف دو علاقوں کے ہیں اور ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتے.اس لئے آپ کو دو متر جم کھڑے کرنے چاہئیں.چنانچہ میں نے اپنے پہلو میں دو متر جم کھڑے کئے.جب میں بولتا تھا تو پہلے ایک مقامی زبان میں ترجمہ ہوتا تھا، پھر دوسری زبان میں.اور اس کے بعد میرے بولنے کی باری آتی تھی.بہر حال میں نے اس طرح بھی خطبے دیئے ہیں اور تقریریں کی ہیں.لیکن اس سکیم کے لئے بھی تیاری کرنی پڑے گی.اس وقت جو بات ذہن میں آئی ہے، اس کے متعلق مشورہ اور مزید غور کے بعد اس میں مزید تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں.لیکن اگر نقشہ ذہن میں ہو، تبھی انسان غور کر سکتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ مغربی افریقہ میں تین مراکز قائم کئے جائیں گے اور ہر مرکز میں مختلف ممالک ہوں گے.اس طرح ہم مغربی افریقہ میں کام کو پھیلا سکیں گے.اسی طرح مشرقی افریقہ میں حسب ضرورت مختلف علاقے بنا کر مرا کز قائم کریں گے.اس کے علاوہ یورپ میں نئے مقامات پر ہمیں مساجد تعمیر کرنی پڑیں گی اور وہاں مبلغ کی رہائش گاہ بنانی ہے، جہاں احباب جماعت اکٹھے ہوں اور ان کی تربیت کی جاسکے.اس وقت ہمارے مراکز قائم ہیں، ہالینڈ میں اور جرمنی میں اور سوئٹزرلینڈ میں اور ڈنمارک میں اور انگلستان میں.یہاں مساجد بھی ہیں اور مبلغ کی رہائش گاہیں بھی ہیں.لیکن سویڈن میں ہمارا مبلغ ایک کرائے کے مکان میں رہتا ہے.اس کے دو کمرے ہیں، ایک میں ہمارا مبلغ رہتا ہے اور دوسرے میں نمازیں ہوتی ہیں.یورپ میں اٹلی ،فرانس، پین ، ناروے اور سویڈن میں اپنے مضبوط مرکز یعنی مسجد اور مشن ہاؤس ہال اور رہائشی مکان ) بنانے کی ضرورت ہے.اس کام کو پندرہ سال کے اندر اندر پور از ورگا کرمکمل کرتا ہے.141
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم جیسا کہ میں نے بتایا ہے، انگلستان میں ایک مضبوط اور مخلص اور فعال جماعت پیدا ہو چکی ہے.زیادہ تر پاکستانی ہیں یاوہ ہندوستانی ، جو مختلف ممالک میں گئے ہوئے تھے، جب ان کو وہاں سے نکلنا پڑا تو ان کی اکثریت انگلستان میں جا کر آباد ہوگئی.کچھ کینیڈا میں چلے گئے اور کچھ امریکہ میں لیکن ایک بڑی تعداد میں وہ انگلستان میں آباد ہوئے ہیں اور کچھ وہاں کے اپنے باشندے ہیں.یعنی انگلستان کے رہنے والے ہیں.اس مرکز کو مضبوط کرنے کے لئے وہاں جو مشورے ہوئے ، میں سمجھتا ہوں کہ 3 سے 5 تک نئے مبلغ اور کم از کم 3 جگہوں پر نئی مساجد اور مشن ہاؤس بنانے پڑیں گے.امریکہ میں اس وقت بھی خدا کے فضل سے 4 جگہ مساجد ہیں.لیکن وہاں کے حالات یہ ہیں ، ہم ان کے ذمہ دار نہیں اور نہ ان کو پسند کرتے ہیں.لیکن وہاں نسلی تعصب پایا جاتا ہے.رنگ دار نسل سے تعصب برتا جاتا ہے اور خود کو وہ بے رنگ اور بالا سمجھتے ہیں.اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شروع میں وہاں کے رنگ دار زیادہ احمدی ہو گئے اور ان کی وجہ سے Whites میں ہماری تبلیغ کا راستہ بند ہو گیا.کیونکہ وہ آپس میں ملتے جلتے ہی نہیں.یہ جو Barrior ہے اور یہ جو بیچ میں دیوار کھڑی ہے، اسے ہم نے پاش پاش کر دینا ہے.لیکن یہ اپنے وقت پر ہوگا.اسلام اس رنگ ونسل کے امتیاز کوتسلیم ہی نہیں کرتا.اسلام تو انسان کی انسانیت کو مقدم رکھتا ہے.تاہم ان حالات سے ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے.اس لئے اس دیوار کو توڑنے کے لئے بھی اور جو whites یعنی سفید فاموں کا یہ حق ہے کہ اسلام کی تعلیم ان کو بھی پہنچائی جائے ، اس کے لئے ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ بعض ایسے علاقوں میں اپنے مراکز قائم کریں، جہاں صرف سفید فام ہی رہتے ہوں.اس طرح وہاں رنگ ونسل کا سوال پیدا نہیں ہوگا.جب وہ لوگ احمدی ہو جائیں گے ( اور کچھ احمدی ہو بھی گئے ہیں ) تو ان کا سیاہ فام سے تعصب خود بخود دور ہوتا چلا جائے گا اور آپس میں ملاپ ہو جائے گا.یہ کام دوشاخوں میں ہوگا.اس وقت عملاً ایک شاخ کام کر رہی ہے.لیکن اپنی تبلیغ کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے فعال بنانا پڑے گا.ایک علاقہ تو ہے.دوسرے علاقوں کا انتخاب کر کے یہ مہم چلانی پڑے گی اور ان جگہوں پر نئے مشن ہاؤس اور نئے مبلغین بھجوانے پڑیں گے تا کہ سفید فام بھی احمدیت میں داخل ہوں اور پھر ہم تعصب دور کر کے ان کا آپس میں ملاپ کرا دیں.اس وقت کینیڈا میں جماعت قائم ہے.مگر یہ بھی زیادہ تر ان دوستوں مشتمل ہے، جو باہر سے جا کر آباد ہوئے ہیں.وہاں نہ کوئی باقاعدہ مشن ہاؤس اور مسجد ہے اور نہ مبلغ ہے.وہاں بھی مشن ہاؤس بنا کر احمدیت کی تبلیغ کو مضبوط بنیادوں پر شروع کرنا ہے.142
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء جنوبی امریکہ میں ٹرینیڈاڈ وغیرہ، دو جگہوں پر ہمارے مرکز قائم ہیں.لیکن ارجنٹائن اور برازیل وغیرہ میں ہمارا کوئی مرکز نہیں ہے.اس لئے جنوبی امریکہ میں دو مضبوط مراکز قائم کرنے ہیں.اب یہ جو پروگرام ہے، اس سے ہمیں اس ضرورت کا احساس ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں.کہیں فرانسیسی زیادہ بولی جاتی ہے، کہیں سپینش زبان زیادہ بولی جاتی ہے، کہیں افریقہ کی لوکل زبانیں بولی جاتی ہیں.ہمیں اس کے مطابق اگلے سات سال کے اندر اندر کافی تعداد میں نئے مبلغ تیار کرنے ہوں گے، جو ان زبانوں کو جانتے ہوں.اس کے لئے تیاری کرنی ہوگی اور انتظام کرنا ہوگا.جہاں تک شق نمبر 2 کا سوال ہے، اس کا تعلق اشاعت علوم قرآنی سے ہے.یہ شق پھر مختلف حصوں میں تقسیم ہوتی ہے.ایک کام تراجم قرآن کا ہے.اس وقت چھ زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے ہو چکے ہیں.فرانسیسی میں ترجمہ ہو چکا ہے، وہ شائع ہو جانا تھا لیکن میں نے اس کور کو دیا تھا.اب جہاں سے بھی جلدی چھپ سکتا ہو، وہاں سے چھپوانے کی کوشش کریں گے، ایک ڈیڑھ سال کے اندر.اس کے علاوہ روسی ، چینی ، اٹالین، سپنیش، ہوسا، یوگوسلاوین اور انڈونیشین میں اس منصوبہ کے مطابق قرآن کریم کے ترجمے شائع کروانے ہیں.ویسے تو ہماری خواہش ہے کہ اور زبانوں میں بھی ترجمے ہوں لیکن سردست ان زبانوں میں خاص طور پر اس عرصہ میں ترجمے کروا کے دنیا میں اشاعت کرنی ضروری ہے.اور سواحیلی زبان میں ہمارا ترجمہ قرآن کریم چھپ چکا ہے.اس کے علاوہ مشرقی افریقہ میں دو اور زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنا ہے.اسی طرح مغربی افریقہ میں ہو سا کے علاوہ بھی دوزبانوں میں ترجمے شائع کرنے ضروری ہیں.دوسرا حصہ تفسیر قرآن سے متعلق ہے.تفسیر قرآن کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ جو مسلم ممالک ہیں اور مسلمان جو ساری دنیا میں رہتے ہیں، جہاں ان کا ایک حصہ عربی جانتا ہے، مثلاً نائیجریا میں بسنے والوں کا ایک حصہ تھوڑا اسہی مثلاً دو فیصد سہی لیکن وہ عربی جانتا ہے، اسی طرح غانا وغیرہ سارے ممالک میں عربی دان پائے جاتے ہیں اور ان میں سے کچھ احمدی ہو چکے ہیں.مثلاً غا نا میں واہ کا علاقہ ہے.وہاں ہمارے بہت سے احمدی دوست بڑی اچھی عربی جانتے ہیں.چنانچہ میں نے ان کے سامنے عربی زبان میں تقریر کی تھی.اس لئے میں نے جلسہ سالانہ پر یہ اعلان کیا تھا کہ اس عرصہ میں ہمیں عربی کی تفسیر شائع کر دینی چاہیے.عربی بولنے والوں کے دماغوں میں یہ جہالت بھی ہوئی ہے کہ جس کو عربی آتی ہو ، وہ دوسر.سے قرآن کریم کیوں سیکھے.حالانکہ یہ بات غلط ہے.ان کے لئے ترجمہ نہ مسیح لیکن تفسیر ضروری ہے.ان کو بڑے پیار سے سمجھانا چاہیے کہ قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کی عظمت کو پہچاننے کے لئے اگر صرف عربی 143
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم جاننا ضروری ہوتا تو رؤسائے مکہ، جو بڑی اچھی عربی جاننے والے تھے، وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہ کرتے.پس محض عربی جاننا کافی نہیں ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی زندگی میں اور پھر بعد میں جب تک مکہ پر خدا نے رحم نہیں کیا اور وہ مسلمان نہیں ہوئے ، یہ سارا زمانہ بتاتا ہے کہ انہوں نے عربی جاننے کے باوجود ہدایت کو قبول نہیں کیا.بلکہ ان میں سے بہت سے غرباء مسلمان ہوئے ہیں.لیکن یہ جو بڑے بڑے لوگ تھے اور عربی کے لحاظ سے ان کی زبانیں بڑی عمدہ تھیں، وہ مسلمان نہیں ہوئے.پس جو غریب لوگ تھے اور جن کو عربی زبان روسائے مکہ جتنی نہیں آتی تھی ، وہ تو مسلمان ہو گئے لیکن یہ لوگ جوعربی زبان میں بڑے اعلیٰ درجے کے فصیح تھے ، ہدایت سے محروم رہ گئے.اس سے ہماری ہی نہیں بلکہ ہر عقل مند کی عقل یہ نتیجہ نکالے گی کہ قرآن کریم کو پہچاننے اور اس کی عظمت کا دل میں احساس پیدا کرنے کے لئے صرف عربی کا جاننا کافی نہیں ہے.اس کے لئے کچھ اور چیز کی بھی ضرورت ہے.اور یہی سوچنے والی بات ہے کہ اور کیا چاہیے؟ اس کا جواب خود قرآن کریم میں موجود ہے، فرماتا ہے:.لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ عربی جاننے والی زبان کے علاوہ ایک پاکیزہ دل چاہیے.جب زبان بھی آتی ہو اور دل بھی پاکیزہ ہو تو پھر قرآن کریم معنوی لحاظ سے رسائی کے قابل ہو جاتا ہے.اس کے بغیر قرآن کریم کے معنی سمجھ میں نہیں آتے.اس وقت ہمیں اس بحث میں الجھنا ہی نہیں چاہیے کہ ان کو عربی آتی ہے یا نہیں؟ ہم کہتے ہیں، ٹھیک ہے، تمہیں عربی زبان بہت اچھی آتی ہے، لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ جو تفسیر قرآنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ نوع انسانی کے ہاتھ میں دی گئی ہے، وہ تم نہیں جانتے.اور تمہیں پتہ اسی وقت لگے گا، جب تمہارے سامنے ہم پیش کریں گے.اس کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ پانچ سال کے اندراندر بے شک مختصر ہو، عربی زبان میں تفسیر شائع کر دینی چاہیے.اس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی کلام ہونا چاہئے.بڑی جلد بھی نہ ہو اور اتنی چھوٹی بھی نہ ہو.اگر چہ بڑی جلد کا اپنا فائدہ ہے.وہ سکالرز کے کام آسکتی ہے، جو دن رات لائبریری میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں.لیکن عربی میں مختص تفسیری نوٹس پر مشتمل پانچ ، چھ سو صفحات کی کتاب کافی ہے.اور اپنے طور پر بھی عربی تفسیر زیادہ تفصیل کے ساتھ ان تک پہچانے کی کوشش کرنی چاہیے.پھر وہ ایک وقت میں آکر مجبور ہو جائیں، اس بات کو سوچنے پر کہ واقعہ میں قرآن کریم کے علوم سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے اور قرآن کریم کی طہارت اور پاکیزگی سے اپنے 144
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء نفس اور دل کو پاکیزہ اور مز کی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معنی اور تغییر سکھائی جائے.اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سکھائی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی جماعت کو وہ اصول بتائے گئے ہیں، جن کی بناء پراللہ تعالیٰ نئے سے نئے مضامین سکھاتا چلا جاتا ہے.ہمارا علم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت کے نتیجہ میں ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علم اس عشق کے نتیجہ میں ہے، جو آپ کے دل میں خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سمندر کی طرح موجزن تھا.آپ کی محبت خدا اور عشق رسول کیا تھا، وہ ایک ٹھاٹھیں مارنے والے سمندر کی مانند تھا، جس میں سے موتی نکلے.وہ کسی اور کے ہاتھ میں نہیں آئے بلکہ صرف ہمیں حسب استطاعت ان سے حصہ ملا.پس عربی تفسیر چار، پانچ سال کے اندراندر شائع ہو جانی چاہیے.اسی طرح فارسی میں قرآن کریم کے معنی اور تفسیر یعنی تفصیلی نوٹ تفسیر صغیر سے بڑے اور تفسیر کبیر سے کم فارسی زبان میں چھپنے چاہئیں.بہت بڑے علاقے فارسی بولنے والے ہیں یا بہت بڑے عالم ہیں، جو فارسی بھی جانتے ہیں.وہ اس کو پڑھ سکتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اسی طرح اردو میں ایک مختصر تفسیر جماعت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے.جس میں اصول بیان ہو جائیں اور انسانی دماغ آگے سوچنے پر مجبور ہو جائے.ویسے تو یہ سمندر ہے، جو بھی ختم نہیں ہوتا.اگر دنیا کے سمند رسیا ہی بن جائیں اور درختوں کی ٹہنیاں قلمیں بن جائیں ، تب بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے لکھے نہیں جاسکتے.قرآن کریم خدا کا کلام ہے، اس میں بھی وہی وسعت پائی جاتی ہے، جو اس کی خلق کے اندر پائی جاتی ہے.بہر حال ایک مختصر تفسیر اردو میں شائع ہونی چاہیے، جو تفسیر صغیر سے بڑی ہو.بڑے شرم کی بات ہے کہ تفسیر صغیر میں جو نوٹس دیئے گئے ہیں، اکثر لوگ ان سے بھی پورا فائدہ نہیں اٹھار ہے.اس منصوبہ کی شق نمبر 3 ایک سوزبانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم کی اشاعت ہے.یوں تو زبانیں دنیا میں کئی سو ہیں.لیکن ہم نے ان میں سے ان کا انتخاب کرنا ہے، جو نسبتا آسان ہیں.جو میٹی بنے گی ، وہ اس معاملہ میں غور کرے گی.میں نے جب شوری کے لیے نوٹس لئے تو مجھے ایک اور خیال آیا کہ سورۃ فاتحہ خلاصہ ہے، قرآن کریم کا.اس کی تفسیر تو نہیں.البتہ سورۃ فاتحہ مع ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں شائع کر دینی چاہیے.ہو سکے تو ترجمہ ذرا لمبا ہو اور کچھ تفسیری نوٹ بھی اس کے اندر شامل ہو جائیں.کوئی زبان رہ نہ جائے ، جس میں سورۃ فاتحہ مع ترجمہ شائع نہ ہو.اس طرح ہر زبان بولنے والے کے ہاتھ میں قرآن کریم کا خلاصہ یعنی سورۃ فاتحہ پہنچ جائے گی.145
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم غرض اب میں یہ بتا رہا ہوں کہ 100 زبانوں کا انتخاب کرنا اور اس بنیادی لٹریچر کا پہلے اردو میں تیار کرنا اور اس کی بنیاد بنانا ضروری ہے.پھر ملک ملک ضروریات کے مطابق تبدیلی کرنی پڑے گی.اس کے متعلق سوچنا پڑے گا اور مشورے کرنے پڑیں گے.لیکن جہاں اور جس ملک کے لئے ہو سکے، اسے شائع کر دیا جائے.اور اس طرح یہ منصوبہ سال بسال رو بعمل آتا چلا جائے.پندرہ سال کے اندر اندر کم از کم ایک سو زبان میں اسلام کا بنیادی لٹریچر آ جانا چاہیے.ہمیں لوگ اپنی جہالت اور نا واقفیت کی وجہ سے عام طور پر بغیر سوچے سمجھے کا فر کہہ دیتے ہیں.حالانکہ بنیادی چیز تو حید ہے اور توحید پر بھی مختلف فرقوں کا اتحاد اور اتفاق نہیں ہے.ہر مسئلہ میں غلط قسم کے عقائد اور بدعات شامل ہوگئی ہیں اور توحید بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہی.بریلویوں نے اہل حدیث پر یہ الزام لگایا ہے اور اسے ان کے کفر کی وجہ جواز قرار دیا ہے کہ تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ عملاً دل سے جھوٹ بولتا ہے تو تب بھی وہ کا فرنہیں ہوتا.عجیب تمہاری تو حید ہے کہ خدا کے جھوٹ بولنے تک پہنچ گئے ہو.جب یہ بات میرے سامنے آئی تو میں نے سوچا کہ اس قسم کی بدعات جماعت کے سامنے آنی چاہئیں.اس کے لئے میں ایک کتاب تیار کروارہا ہوں، وہ آپ کے سامنے آ جائے گی.میں سمجھتا ہوں کہ یہی ایک وجہ مہدی معہود کی ضرورت کے لئے کافی ہے.ایک فرقہ جس کی بڑی طاقت ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پٹرول کی دولت کے خزانے کھول دیئے ہیں، ان کے اوپر یہ الزام ہے کہ تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ تعالی عملا جھوٹ بولتا ہے، نعوذ باللہ تو تب بھی یہ عقیدہ اسے اسلام سے خارج نہیں کرتا.اسی طرح توحید کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں اور قبروں پر سجدے بھی کرتے ہیں.توحید بھی ہے اور یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہم تو خدا سے دعا کرتے ہی نہیں.ایک دفعہ شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم مجھے کہنے لگے کہ ملتان کا ایک پیر پرست، جو بڑا لکھا پڑھا اور ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت اونچا آدمی ہے، وہ کہتا ہے کہ ہم جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو ہمارا پیر سامنے آکر کھڑا ہو جاتا ہے.ہم اس سے مانگتے ہیں، خدا سے تھوڑ اما نگتے ہیں.یہ عقیدہ ہے اور ساتھ توحید کا اقرار بھی ہے.سوزبانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم کی اشاعت کے وقت بھی ہمیں اس بات کو مد نظر رکھنا پڑے گا کہ مختلف جگہوں پر مختلف بدعات پائی جاتی ہیں، ان کو سامنے رکھ کر تبدیلی کرنی پڑے گی.تا کہ ہر زبان والا جب اسے پڑھے تو اپنے بد عقائد اور بدعات کو اپنے دماغ سے دور کر سکے.پس سوزبانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم کی اشاعت جو ہے، اس میں پہلے سو زبانوں کا انتخاب کرنا ضروری ہے.پھر بنیادی تعلیم کی شکل معین کرنی 146
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء ہے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے، اس کا ایک مسودہ تیار کرنا ہے.وہ بنیادی طور پر اردو میں تیار ہو، پھر اس سے آگے ترجمے ہوں گے.بعض جگہ تبدیلی کے ساتھ اور بعض جگہ بغیر تبدیلی کے ساتھ.اس کے لئے دفتر اور کچھ کارکن ہونے چاہیں ، جو مشاورت کے معا بعد اپنا کام شروع کر دیں.اس منصوبہ کی شق نمبر 4.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری بعثت کی بنیادی غرض یہ ہے کہ میں نوع انسانی کو امت واحدہ بنادوں.یہ بشارت اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی.آپ دنیا میں رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے تھے.جو وجود ساری دنیا کے لئے رحمت بن کر آیا ، دنیا کی بد قسمتی تھی کہ اس رحمت کو ساری دنیا میں پہچانا نہیں گیا.خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ بشارت دی اور ساتھ ہی یہ بشارت بھی دی کہ چونکہ یہ انتہائی مشکل کام ہے، اس لئے یہ آخری زمانہ میں مہدی معہود کے وقت میں ہوگا.بشارتوں میں یہ مذکور ہے کہ آپ کا یہ کام کہ ساری دنیا اور ملک ملک کے انسان، مختلف جگہوں پر بسنے والے اور مختلف بولیاں بولنے والے مختلف کپڑے پہننے والے اور مختلف موسموں کے عادی ایک خاندان بن جائیں گے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کام جو رحمتہ للعالمین کا ایک نہایت شاندار اور یو نیورسل مظاہرہ ہے، اس کا ظہور حضرت مسیح موعود، مہدی معہود علیہ السلام کے وقت میں ہوگا.یہ بشارت ہے، جو مہدی معہود کو دی گئی ہے.اور اس کا وقت آگیا ہے.اور ہم پر اس کی ذمہ داری آپڑی ہے.امت واحدہ بنانے کے لئے ایک بات تو یہ ہے کہ گھر میں ان کو امت واحدہ بنایا جائے.امت واحدہ بنانے کے لئے اصولاً ایک کشمکش اور ایک مجاہدہ تو شروع ہے، آج سے چودہ سو سال پہلے سے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نداء بلند کی ، کفار مکہ کو توحید کی طرف بلایا تو یہ کام شروع ہو گیا کہ تمام بنی نوع انسان جو اللہ کی مخلوق ہیں، وہ خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لا کر ایک امت بن جائیں گے.اور وہ تبھی ایک بن سکتے ہیں کہ جب ان کو تو حید پر قائم کر دیں.یہی ایک بنیادی ذریعہ ہے، جس سے سب دنیا ایک امت بن جاتی ہے.لیکن اس کے راستے ہیں، کچھ عقلی روکیں ہیں یعنی ان کو سمجھ نہیں آتی.کیونکہ ان کی عقلیں موئی ہیں.یا یہ مسائل ان کے سامنے رکھے ہی نہیں جاتے.اگر رکھیں جاتے تو شاید وہ سمجھ جاتے.کچھ ان کے غلط عقائد بالا دینیت یابد مذہبیت ہے، جو ہم نے دور کرنی ہے.کچھ ان کو عادتیں پڑ گئی ہیں، مثلاً روس یہ سمجھتا ہے کہ میں سب سے زیادہ بزرگ ہوں اور امریکہ سمجھتا ہے کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں.ہر بولی اپنے آپ کو سب سے بلند تر ٹھہراتی ہے.انسان کے مقام پر کوئی بھی ٹھہرنے کے لئے تیار نہیں ہے.حالانکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے مقام کو بلند کیا ہے.آپ کے منہ سے کہلوایا گیا کہ 147
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے.میں یہ کہا کرتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے مقام پر کھڑا کیا اور اس طرح ہر انسان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر لا کر کھڑا کر دیا.اتنا شرف انسانی ہے، جو اس اعلان کے مطابق ہمارے سامنے آیا.کیونکہ یہ ہر انسان کے متعلق کہا گیا ہے.در اصل بات یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معلم اور بادی اللہ تعالیٰ تھا.اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور تعلیم کامل تھی.جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری استعدادوں کی نشو و نما اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی.کیونکہ خود خدا تعالیٰ آپ کا ہادی اور معلم تھا.پس اس اعلان کے ذریعہ ہر انسان سے یہ کہا گیا کہ اے انسان! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایسے سامان پیدا کئے جائیں گے کہ تیری ساری استعدادی اپنی نشو و نما کے کمال تک پہنچ جائیں گی.إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کے لحاظ سے ہر انسان کی استعداد میں اپنی نشو و نما کے کمال تک پہنچیں گی.اور جو حقوق ملنے ہیں، ان کے لحاظ سے سارے برابر ہو جائیں گے.پس یہ اعلان کر کے ہر انسان کو بلند کر کے استعدادوں اور صلاحیتوں کی کامل نشو و نما کے مقام پر کھڑا کر دیا اور اس طرح دنیا میں شرف انسانی کو قائم کر دیا.پس تو حید پر قائم کرنا اور اسلامی تعلیم دلوں میں گاڑ دینا، اصل مقصد ہے.اور اس سے وحدت قائم ہو جاتی ہے.لیکن میں نے بتایا ہے کہ عادتیں پڑی ہوئی ہیں، ان کو سمجھ ہی نہیں آتی.مجھے خدا تعالیٰ نے توفیق دی ، یورپ وغیرہ میں میرے سامنے بڑے خطرناک قسم کے اشترا کی بھی آتے رہے ہیں.جب میں کہتا تھا کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے، اس کے مقابلے میں کوئی تعلیم پیش کرو تو کسی نے مجھے یہ نہیں کہا کہ وہ اس سے بہتر پیش کر سکتے ہیں.وہ پیش کر ہی نہیں سکتے.کیونکہ اسلام کی پیش کردہ تعلیم ہی ایک کامل تعلیم ہے.اس کے لئے باہمی محبت اور رابطہ قائم کرنا بھی ضروری ہے.اور یہ چھوٹی چھوٹی تدابیر ہیں.اور اصل یہی ہے کہ تو حید کو قائم کر دیا جائے اور اسلام کی حسین تعلیم کی معرفت ان کو حاصل ہو جائے.پھر ساری دنیا ایک خاندان بن جائے گی.لیکن عادتوں کو آہستہ آہستہ دور کرنا ہے.اس کے لئے میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر احباب جماعت کے سامنے تجاویز رکھی تھیں.ایک بات بیان کر نارہ گئی ہے.قرآن کریم کے تراجم وغیرہ کے ضمن میں پریس بھی آتا ہے.کچھ چھوٹے پریس جو ہماری روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، وہ میں نے انگلستان سے نائیجیریا اور خان میں 148
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء بھجوادیے تھے.گیمبیا کا بھی مطالبہ آ رہا ہے.میں نے کہہ دیا ہے کہ انگلستان سے خرید لو.امریکہ میں پہلے سے پریس موجود ہے.وہ اگر چہ ہے تو ایک فرد کی کوشش کا نتیجہ لیکن اس سے وہ سارے جماعتی کام بھی کرتے ہیں.اشاعت لٹریچر اور تراجم قرآن کریم کے سلسلہ میں ہمارے اپنے پر لیس ہونے چاہئیں.جو چیز دوسروں سے چھپواتے ہیں، وہ اگر اپنے پریس میں چھپوائی جائے تو جو چیز 20 روپے میں آتی ہے ، وہ 5 روپے میں پڑے گی.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس جتنے پیسے ہیں، اگر ان سے ہم ایک لا کھ نسخہ دوسروں سے چھپوا کر شائع کر سکتے ہیں تو اس کی نسبت اس رقم کے اندر چارلاکھ نسخے ہم خود شائع کر سکتے ہیں.* پس اپنے پریس بہت ضروری ہیں.لیکن چونکہ دنیا کے حالات بدل رہے ہیں، نئی نئی تو میں ابھر رہی ہیں، وہ آزادی کا مفہوم قید و بند کی سختی میں تصور کرتے ہیں.ہمارے ملک کی حالت بھی کچھ اسی قسم کی ہے.اب ہمارا وہ چھوٹا پریس مفت آرہا تھا، لیکن امپورٹ کی اجازت دینے پر چار مہینے لگا دیئے.بندہ خدا تمہارے ملک کا فائدہ ہے.ایک چیز مفت آرہی ہے، اس پر اتنی دیر نہیں کرنی چاہیے.جب پوچھتے ہیں تو کہتے ہیں، جی ، اب فلاں محکمے میں کیس گیا ہوا ہے، اب فلاں محکمے میں گیا ہوا ہے.اور کچھ نہیں کر سکتے تھے تو سوچا کہ جماعت کو اس طرح تنگ کرو اور دو، چار مہینے کا وقفہ ڈال دو.اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑا صبر عطا فر مایا ہے.ہم صبر کریں گے.ہم نے ایک بڑا پریس لگانا ہے.لاہور سے پتہ کرایا تو معلوم ہوا کہ لاہور میں جو امپورٹ ایکسپورٹ کا محکمہ ہے، پہلے اس کو یہ اختیار تھا کہ ہمیں پریس کے لئے آفسٹ مشینیں اور دوسری مشینری بھیج دے یا باہر سے منگوانے کی اجازت دے دے.لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ حکم ہے کہ اس کی اجازت صرف مرکز دے سکتا ہے، ہمیں اختیار نہیں ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنی بیوقوفی سے اس پر بھی ناجائز کنٹرول کرنا چاہتی ہے.یہ بات چلے گی نہیں.کیونکہ یہ اثر پیپلز پارٹی کے اندر ایک حصے کا ، جو Leftist یعنی کمیونسٹ ہیں، یہ ان کی تھنگنگ ہے.بھلے مانس لوگوں اور مذہب سے دلچسپی رکھنے والوں کی یہ چھنگنگ نہیں ہے.لیکن بہر حال وہ طبقہ بیچ میں ہے.ہماری قوم اشتراکیت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے.اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بڑے بیوقوف ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں اشتراکی معاشرہ یا اشترا کی اقتصادیات چالو کی جاسکتی ہے.لیکن بہر حال وقتی طور پر ہمیں تکلیف بھی پہنچ سکتی ہے.ہم نے انتظار تو نہیں کرنا کہ جب اللہ تعالیٰ اس ملک کو ہدایت دے، تب ہم اپنا منصوبہ بنائیں گے.ہم نے تو ابھی سے سوچنا ہے.اگر ایک جگہ ہمارا راستہ بند ہوتا ہے تو دوسری جگہ جو راستہ کھلا ہے، اس کو اختیار کیا جائے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں چوہے کی نسبت لاکھوں گنازیادہ عقل اور فراست عطا کی ہے.چوہا کئی سوراخ بناتا ہے.اگر ایک سوراخ بند ہو جائے تو دوسری طرف نکل جاتا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے انسان اور 149
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم صاحب فراست بنایا ہے.اور احمدی کی فراست دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ ہے.اس لئے ہمیں تین جگہیں منتخب کر کے اپنے پریس لگا دینے چاہئیں.اگر تینوں جگہیں ہمارے منشاء اور منصوبے کے مطابق کام کرنے کے قابل ہوں تو دنیا کے تین علاقوں میں تقسیم ہو کر ہماری کتابیں چلی جائیں گی.اور اگر ایک جگہ وقتی طور پر کوئی روک پیدا ہوگی تو دوسری جگہ تیار کرلیں گے.اور اس طرح کام نہیں رکے گا.میرے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ جب تک تیسری عالمگیر جنگ نہیں ہو جاتی.اور آپ بڑی دعائیں کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو تیسری عالمگیر جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے.خدا کرے کہ وہ وقت آئے ہی نہ.لیکن اس وقت تک امریکہ میں ظاہری دنیوی لحاظ سے آزادی بہت زیادہ ہے.ایک پر لیس وہاں لگ سکتا ہے.وہاں دقت یہ ہے کہ ان کا معیار بہت اونچا ہے اور خرچ بہت زیادہ آتا ہے.جو قرآن کریم ہم اپنے پریس سے چھ روپے میں چھوا کر بھیج سکتے ہیں، وہاں اس پر 8,9 ڈالر یعنی 70,80 روپے خرچ آئیں گے.لیکن بے شک زیادہ خرچ آئے، ہم نے تو بہر حال کام کرنا ہے.ہر چیز قربان کر کے بھی ہم نے اشاعت اسلام کا کام کرنا ہے.اور اس میں کوئی کمی اور غفلت اور سستی نہیں ہونے دینی.میں نے بتایا ہے کہ وہاں ایک احمدی نے کام کیا ہے.وہ جماعت کے کام کرتا رہتا ہے.اس کے شاید ایک سے زائد چھوٹے چھوٹے پریس ہوں گے.ان میں سے کسی جگہ کا انتخاب کرکے بڑے پیمانے پر کام شروع کر سکتے ہیں.اس طرح کام سستا بھی ہو جائے گا اور جلد بھی.میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر کسی افریقی ملک کے ساتھ لمبے عرصہ کے لئے سمجھوتہ ہو جائے کہ اتنے عرصہ تک ہمیں تنگ نہیں کیا جائے گا تو وہاں پر یس قائم ہوسکتا ہے.کیونکہ یورپ تیسری عالمگیر جنگ کی سرحدوں پر واقع ہے.اور اگر خدانخواستہ خدانخواسته !! خدانخواستہ !!! یہ عالمگیر جنگ ہوئی تو یورپ تباہ ہو جائے گا.لیکن افریقہ کے بہت سے ممالک کے متعلق ان بگڑے ہوئے حالات میں بھی ہم توقع رکھ سکتے ہیں اور رکھتے ہیں کہ وہ کلی طور پر تباہ نہیں ہوں گے.یعنی مکمل تباہی کا منہ نہیں دیکھیں گے.لیکن یورپ تو بالکل خطرہ میں ہے.ان کو بچانے کے لئے میں چاہتا ہوں کہ اٹلی اور فرانس وغیرہ میں مشن کھولے جائیں اور مضبوط کئے جائیں.کیونکہ ہم نے ان کو یہ وارننگ دینی ہے کہ تم اپنے پیدا کرنے والے اور بڑا پیار کرنے والے اور رحمتیں نازل کرنے والے رب کی طرف واپس آجاؤ تو بیچتے ہو.ورنہ تباہی تمہارے دروازے پر ہے.پس اشاعت علوم قرآن کے لئے تین بڑے پریس لگانے کی ضرورت ہے.جو اس منصوبہ کا حصہ ہے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک ساڑھے نو کروڑ سے زائد کے وعدے ہو چکے ہیں.ابھی اور ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ ضرورت کے مطابق ہمیں مال دے دے گا.اور بھی بہت کچھ ملے گا.150
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء اس وقت بحیثیت مجموعی دنیا کی جو حالت نظر آتی ہے، اس سے ایک اور مسئلہ ہمارے لئے سامنے آتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ کچھ ملک مدت ہوئی آزاد ہو گئے اور انہوں نے دنیا میں طاقت حاصل کر لی.اس وقت وہ اپنی حفاظت کی خاطر ( دنیا پر احسان کی خاطر نہیں اور نہ دنیا سے پیار کے نتیجہ میں ) اور خود اپنے مفاد کے لئے بین الاقوامی ذہنیت یعنی انٹر نیشنلزم کا پرچار کرتے ہیں.کچھ ملک جو نئے نئے آزاد ہوئے ہیں، وہ چونکہ نئے نئے آزاد ہوئے ہیں، ان کے نزدیک انٹر نیشنلزم سے مراد کالونیلزم بن جاتا ہے.البتہ کالونیز کی شکل مختلف ہے.ان کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ انٹر نیشنلزم کا مطلب یہ ہے کہ گویا بہت سے ممالک کو اکٹھا کر کے ان کی Exploitation یعنی استحصال کیا جائے یا ان کی دولت سے ان کو محروم کرنے کی سعی نا پسندیدہ کی جائے.اب مثلاً جب میں افریقہ کے دورے پر گیا تو غانا میں مجھے پتہ لگا کہ ایک، دو آدمی ایسے ہیں، جو کہتے ہیں کہ A Ghanian for Ghana.غانا کا جو عالم ہے اور جسے جماعت احمدیہ نے تیار کیا ہے، ہمارے ملک میں اس کو انچارج ہونا چاہئے.مجھے پتہ لگا تو میں نے ان کو سمجھایا.ان کو میری بات سمجھ آ گئی اور ان میں سے بعض رو پڑے.میں نے کہا کہ تم کیا باتیں کرتے ہو؟ تم کہتے ہو، A Ghanian for Ghana.اور میں یہ کہتا ہوں کہ A Ghanian for England.چونکہ انگلستان نے تم پر ظلم کیا تھا، اس لئے میں تو انگلستان میں تمہارے غانین کو مبلغ بنا کر بھیجوں گا.اسلام اور احمد بیت تو اس نہج پر سوچتی ہے اور منصوبے بنارہی ہے.اور تم اس راہ پر سوچ رہے ہو ، جو کہ غلط ہے.پھر میں نے عبدالوہاب بن آدم کو، جوغا نا کا بڑا مخلص نوجوان ہے اور جامعہ احمدیہ کا فارغ التحصیل شاہد ہے، حسب وعدہ انگلستان کا مبلغ بنا کر بھیج دیا.پھر میری یہ خواہش تھی کہ ہمارا غانا کا کوئی احمدی ہیڈ ماسٹر ہو تو اس کو ربوہ کے سکول کا ہیڈ ماسٹر لگا دوں.کیونکہ جب تک آپ عملاً اس پیار اور اس بین الاقوامی ذہنیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے محض کوئی زبانی دعوئی ان کی تسلی کا موجب نہیں بن سکتا.بہر حال ہم نے اس Mischief اور شرارت کے اس تصور کو دور کرنا ہے کہ جی ہم کیوں مرکز کے ماتحت رہیں.یہ ذہنیت اب بھی پیدا ہوسکتی ہے.پہلے زمانہ میں جب کہ خلافت ختم ہو گئی تھی، لیکن بادشاہت اپنے آپ کو خلافت کہتی تھی تو اس طرح پین آزاد ہو گیا، مصر آزاد ہو گیا.نئی حکومتیں بن گئیں اور مسلمان بٹ گئے.اور ان کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا.یہ تو ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہیں ہونے دینا.انشاء اللہ تعالیٰ.اور یہ بات تبھی ہو سکتی ہے کہ میں، آپ اور ہم سب دوسرے ملکوں کے رہنے والوں کو اپنے گلوں سے لگائیں اور ان سے اتنا پیار کریں کہ وہ بھول جائیں کہ ہم دو ملکوں کے رہنے والے ہیں.151
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم پس نیشنلزم اور انٹر نیشنلزم میں ایسی تفریق کرنا کہ ہمارے کام میں روک بھی نہ بنے اور ان کے ذہنوں کو تسلی بھی ہو جائے ، یہ ضروری ہے.یہاں جلسہ سالانہ پر جو افریقی وفود آئے تھے، ان کو میں نے بڑا سمجھایا.میں نے انہیں کہا کہ جہاں تک تمہارے دنیوی معاملات کا تعلق ہے، مثلاً غانا کے یا سیرالیون کے یا نائیجیریا کے تم بے شک اپنے اپنے Out look میں نیشنلسٹ بنے رہو.زمانہ آپ ہی تمہیں ایک حد تک انٹر نیشنل بنالے گا.لیکن جہاں تک مذہب کا اور احمدیت کا اور اسلام کا تعلق ہے تمہیں اپنے اندر بین الاقوامی ذہنیت پیدا کرنی پڑے گی.کیونکہ خلافت سے کٹ کر تمہاری حالت ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہو جائے گی.میں نے اب اپنے مبلغین کو بھی سمجھانا شروع کیا ہے کہ اس نہج پر کام کرو.مقامی باشندوں کو سکولوں اور کالجوں اور ہسپتالوں کے انتظام میں شامل کرو.اصل میں تو ہمارے مبلغ کی تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کا کام کروائے.اور ان کے ذہنوں میں یہ احساس پیدا کرے کہ جو وہ چاہتے ہیں، وہی ہوگا.تاکہ کوئی خرابی پیدا نہ ہو.اور یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے.ہم ساری عمر ایسا کرتے چلے آئے ہیں.بہر حال افریقی وفود یہاں سے بڑے خوش خوش گئے.پھر یہاں سے اسماعیل منیر سیرالیون گئے تو میں نے ان کو یہی کہا کہ دیکھیں وہاں سکولوں کا انتظام ہے، ہسپتالوں کا انتظام ہے، تم ان لوگوں کو اس انتظام میں شامل کرو.ہم تو ان کی خدمت کے لئے گئے ہیں.لیکن جہاں تک مذہبی عقائد کا سوال ہے، ان کو بہر حال خلیفہ وقت کے فیصلوں اور جماعتی نظام کی پابندی کرنی پڑے گی.تو میں نے ان لوگوں سے کہا کہ ٹھیک ہے، ہم اپنے دنیوی معاملات میں نیشنلسٹ بنے رہو، جب تک کہ دنیا تمہیں اس کی اجازت دے.ان کے ملکوں پر دباؤ پڑ رہے ہیں.لیکن جہاں تک مذہب کا سوال ہے اور احمدیت کا سوال ہے اور مرکزیت کا سوال ہے اور خلافت کا سوال ہے، تمہیں بہر حال اپنے اندر بین الاقوامی ذہنیت پیدا کرنی پڑے گی.ور نہ تم ترقی نہیں کر سکتے.غرض یہ ایک بڑا اہم سوال ہے اور ہماری جماعت کو اس کے متعلق غور کر کے ان Barriers اور ان روکوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.تاکہ جماعت ایک برادری بن جائے اور مہدی معہود کا جو امت واحدہ بنانے کا منصب ہے، اس کے راستہ میں یہ چیز روک نہ بنے.اس کے لئے جو چھوٹی چھوٹی تجاویز ہیں، ان میں سے ایک ٹیلیکس ہے.ٹیلیکس کا اپنا ایک نظام ہے.اور وہ یہ ہے کہ مثلاً لائل پور میں مشین ہے، یہاں سے وہ مشین خود ہی ٹائپ کرتی ہے اور اس طرح ٹائپ کر کے ایک پیغام اس کے اندر رکھ دیتے ہیں.وہ پیغام وائرلیس کے ذریعہ انگلستان پہنچ جاتا ہے.اور انگلستان کے دفتر میں وہ ٹائپ ہورہا ہوتا ہے.وہاں بھی بجلی کی مشین ہے، جو ٹائپ کرتی ہے.اب کل 152
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء ہی مجھے ٹیکس آیا ہے.انہوں نے تار بھی دی تھی.لیکن تاریں بعض دفعہ دس دن کے بعد ملاتی ہیں.اس واسطے انہوں نے ٹیلیکس دیا.وہ لائل پور کی وساطت سے آیا.ہمارے ربوہ میں نہیں لگا.یہاں بھی لگ جائے گا.میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ مشاورت سے پہلے لگ جائے گا.اس میں سپیلنگ کی بھی کوئی غلطی نہیں ہوتی.مضمون کو دیکھ کر اور چیک کر کے کہ کوئی غلطی تو نہیں ہے ہمشین کے اندر رکھ دیتے ہیں اور پھر بجلی کی مشین کے ذریعہ ٹائپ ہو کر جواب آجاتا ہے.جواب بنک کے ذریعہ آیا ہے.ان کے پاس ہمارے پیسے پڑے رہتے ہیں.ہم سے وہ اچھا تعلق رکھتے ہیں.اور یہ ان کے لئے کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ان پر بار ہو.پس ایک تو ٹیکس کا کام ہے اور نیم سیفی صاحب اس بات کے ذمہ وار ہیں.آج جو میں نے اعلان کیا ہے کہ نو کروڑ ، چون لاکھ روپے کے وعدے آگئے ہیں.اس کے متعلق مختصر خبر ٹیلیکس کے ذریعہ انگلستان چلی جائے.اس ہدایت کے ساتھ کہ وہ آگے براعظم یورپ کے دوسرے مشنوں کو بذریعہ فون مطلع کر دیں اور اس کی تاریں نائیجیریا، غانا، سیرالیون، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا اور نیز تنزانیہ، زمبیا، کینیا، بنی ، ماریشس اور انڈونیشیا میں دیں.غرض جہاں ٹیلیکس کا انتظام نہیں ہے، وہاں تاریں بھجوائی جائیں.ویسے پہلے اس ( ٹیلیکس) کی تاریں بچھانی پڑتی ہیں.اس وقت اس کا قریب ترین ہیڈ کوارٹر لا ہور تھا، وہاں سے پتہ کیا تو انہوں نے کہا ہم تار کا کرایہ دس ہزار روپے سالا نہ لیں گے.وہاں ایک دوست تھے.مجھے اس وقت یاد نہیں کہ وہ احمدی تھے یا کسی احمدی کے دوست تھے.انہوں نے کہا کہ وہ 5,6 مہینے کے اندر اندر ایک ہیڈ کوارٹر لائل پور میں بھی کھول رہے ہیں.اور اس کا کرایہ صرف تین ہزار روپے ہوگا.تو آپ دس ہزار روپے سالانہ کیوں دے رہے ہیں؟ ذرا انتظار کریں، تین ہزار میں آپ کا انتظام ہو جائے گا.اب ایک اور چیز آرہی ہے، وہ شاید اس سے بھی زیادہ سہولت والی ہو.لیکن اس کا خرچ زیادہ ہے.ٹیلیکس کا خرچ ٹیلی گرام سے 20 فیصد ہے.یعنی اگر غیر ملکی تار پر 100 روپے خرچ آتے ہوں تو اس پر 20 روپے میں کام بن جاتا ہے.یہ انتظام تار کی نسبت بہت سستا ہے.انگلستان میں ایک کمپنی کو پیسے دے کر نمبر نے لیا ہے.اب کل جو ٹیلیکس جائے گی ، وہ اسی نمبر پر انگلستان جائے گی.اور یہ بڑا سستا ہے.انہوں نے 20 پاؤنڈ سالانہ لے کر نمبر دے دیا ہے.البتہ اس کے وصول کرنے اور بھیجنے کا خرچ اس کے علاوہ ہے.جب ٹیلیکس جائے گی تو وہ Nominal سا خرچ لے کر اسی وقت مسجد لندن میں اطلاع کر دیں گے.جیسے بھی ان کو ہدایت ہو، ڈاک میں یا آدمی کے ہاتھ وہ بھجوا دیں گے.اگر فون پر نوٹ کر لیں تو ان کو آدمی 153
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم بھجوانے کی بھی ضرورت نہ ہوگی.امریکہ میں بھی ٹیلیکس لگ جائے گا.انہوں نے کہا تھا کہ یورپ میں بھی ہماری طرح کی کمپنی ہے.انگلستان کی کمپنی 20,20 پاؤنڈ یا کم و بیش لیتی ہے.جب ہمارے یہاں لگ جائے تو ہم یورپ کے ہر ملک میں دس، بارہ گھنٹے میں عملاً پیغام بھجوا سکتے ہیں.یہ ملاپ کا بڑا اچھاذ ریعہ ہے.اب شوری کی کارروائی کی جو مختصر خبر چھپے گی ، وہ بھی بعض ممالک میں دو، دو مہینے میں پہنچے گی.مگر ٹیلیکس پر کل صبح خبر دیں گے تو وہاں دو پہر تک پہنچ جائے گی.اس لئے پروگرام ہے کہ ساری دنیا میں ٹیلیکس لگایا جائے.اس وقت جہاں جہاں اس کا فائدہ ہے، یعنی جہاں جماعتیں زیادہ ہیں، وہاں لگ جائے گا.کچھ اور سامان اللہ تعالی پیدا کر رہا ہے.مختلف ممالک کے نوجوانوں کا آپس میں ملاپ بڑا ضروری ہے.سر دست یہ بانی کے طور پر ہوگا ، جماعتی نظام کے ماتحت نہیں.لیکن یہ بڑا ضروری ہے کہ نو جوانوں کو قریب آنا چاہیے.غانا کے نوجوان، نائیجیریا کے نوجوان ، امریکہ کے نوجوان، انگلستان کے نوجوان اور جب اللہ تعالیٰ یہاں مناسب حالات پیدا کرے تو پاکستان کے نوجوان Amateur ریڈیو کے ذریعہ آپس میں ملاپ کریں.اس کی مدر کلب، یعنی کلبوں کی ماں انگلستان نے بنالی ہے.جہاں سے یہ سلسلہ آگے پھیلے گا.اس کا نام میں نے Bilal World Radio Amateur Club رکھا ہے.اس کے لئے امتحان پاس کرنا پڑتا ہے.اس لئے دوست اس کی ٹریننگ لے رہے ہیں.یہ چیز ویسے بھی بڑی | مفید ہے.میں نے معلومات حاصل کیں تو پتہ لگا کہ یہ چھوٹے چھوٹے انفرادی کلب، جو کہ خاص طریقے سے باتیں کرنے والے ہوتے ہیں، یہ سینکڑوں جانیں بچاتے ہیں.کیونکہ بعض دفعہ خطرے کا الارم عام ذریعہ سے نہیں پہنچتا.مگر ان کو کسی ذریعہ سے پتہ چل جاتا ہے اور اس طرح سینکڑوں جانیں بچائی جاتی ہیں.بہر حال یہ دوسری چھوٹی تدبیر ہے، یعنی Amateur ریڈیو پلان.بین الاقوامی سطح پر مردوزن کی قلم دوستی.زن کی زن کے ساتھ اور مرد کی مرد کے ساتھ.اس کے لئے بھی یہاں دفتر میں کام کرنا پڑے گا.بہت سارے دوستوں نے مجھے اپنے نام لکھوائے ہیں، میں اس وقت تک دوسری مصروفیات کی وجہ سے انہیں اپنے دفتر میں رکھوا رہا ہوں.بہر حال با قاعدہ سوچ کر میرے مشورہ سے یہ سکیم بنانی پڑے گی.مثلاً سوئٹزر لینڈ ہے، اس میں اگر دس آدمی قلم دوستی کے لئے تیار ہوتے ہیں تو ہمیں دس ملکوں میں (یا اگر پاکستان میں زیادہ رکھنے ہوں تو آٹھ ملکوں میں ) ان دس آدمیوں کی قلم دوستی کرانی پڑے گی.اور مثلاً ہر پندرہ دن کے بعد یا مہینے کے بعد وہ ایک دوسرے کو ایک خط لکھیں گے تو دس آدمیوں کو دس ملکوں سے رپورٹ آرہی ہوگی کہ ہمارا جلسہ ہوا، اس میں اتنے آدمی آئے ، ہم نے اللہ تعالی کا بہ 154
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء نشان دیکھا، اتنی نئی جماعتیں بنیں.افریقہ والا سوئٹزرلینڈ والے کو لکھ رہا ہو گا کہ اس مہینے کے اندر پچاس بت کو پرستوں نے اپنے بہت جلا دیئے اور خدا تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آئے اور مسلمان ہو گئے ، وغیرہ وغیرہ.قلم دوستی سے آپس میں پیار بھی بڑھے گا اور ایمان بھی بڑھے گا اور بشاشت بھی بڑھے گی.لیکن پہلے اس کو Set کرنے کے لئے کافی محنت کرنی پڑے گی.اس کے لئے انتظامیہ ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لائے گا، جب جماعت احمدیہ کی نشریات سینکڑوں ہزاروں براڈ کاسٹنگ اسٹیشنوں سے نشر ہورہی ہوں گی، انشاء اللہ.لیکن اس وقت ہم نے ابتداء کرنی ہے.یہ بڑی چھوٹی ابتداء ہوگی.لیکن پھر ایک ایسا اسٹیشن ہوگا، جو دنیا کا سب سے بڑا اسٹیشن ہوگا.میرے علم میں اس وقت ہمارے ملک کے لحاظ سے اس وقت سب سے زیادہ صاف سنائی دینے والا وہ اسٹیشن ہے، جس کو ہم عام طور سنتے نہیں اور کوئی دلچسپی نہیں لیتے.اور وہ روس کا اسٹیشن ہے.ایسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سامنے بیٹھا ہوا ہے.پس جتنا بڑا وہ اسٹیشن ہے، ہمارا اسٹیشن ULTIMATELY اس سے بھی بڑا ہو گا.اور کوشش یہ ہوئی چاہئے کہ ان پندرہ سالوں میں ہو جائے.ورنہ کم از کم اتنا تو ہو کہ اگر مثلا وہ نائیجیریا میں ہو تو وہ سارے عربی بولنے والے ممالک کو آواز پہنچارہا ہو.اور کچھ یورپین ممالک کو بھی آواز پہنچارہا ہو.نائیجیریا نے ہمیں اجازت دی تھی اور میں نے جلسہ سالانہ پر اعلان بھی کیا تھا، لیکن قانونا وہ جتنے بڑے اسٹیشن کی اجازت دے سکتے تھے، اس کی انہوں نے دے دی تھی.لیکن اس سے بڑے اسٹیشن کی ان کا constittion یعنی دستور ہی اجازت نہیں دیتا.اس کا بعد میں پتا لگا.وہ اسٹیشن ہمارے کام کا نہیں تھا.لیکن یہ کام بھی ہو جائے گا.کیونکہ وہاں یہ کوشش کر رہے تھے کہ دستور بدل دیا جائے.اور پھر اس بدلے ہوئے دستور میں اجازت مل جائے گی.وہاں نہیں تو کسی اور ملک میں اجازت ملے گی.انشاء اللہ کہیں نہ کہیں مل جائے گی.جگہ تلاش کرنے کا کام ہے.جگہ کے بعد اور اجازت ملنے کے بعد کم از کم ایک سال لگ جائے گا.بہر حال ہم نے ان پندرہ سالوں کے اندر ایک ایسا براڈ کاسٹنگ اسٹیشن تیار کرنا ہے، جس میں صبح و شام خدا تعالیٰ کی آواز اور قرآن کریم کی تعلیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو عظمت اور آپ کا جو مقام اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہے اور آپ کے فیض سے حصہ پانے کے لئے آپ کا جو مقام اللہ کی نگاہ میں ہے اور آپ کے فیض سے حصہ پانے کے لئے آپ کا جو مقام احترام انسان کی نگاہ میں ہونا چاہیے، اس کے متعلق نشریات ہوتی رہیں گی اور بہتوں کی بھلائی کا موجب ہوں گی.پھر عربی سیکھانا اور رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً 155
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد پنجم کے ماتحت دنیوی علوم کی تعلیم دینا، یہ سارے کام وہ ریڈیو سٹیشن کرے گا.مونجی کس طرح لگانی ہے؟ گندم کی فصل کو کتنا پانی دیتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ.احمدی نئے تجربے کر رہے ہیں.ہم نے یہ ساری باتیں سب کو سکھانی ہیں.جہاں تک مرکز سلسلہ میں جلسہ سالانہ پر اقوام کے وفود کی شمولیت کا تعلق ہے، اس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں.ان لوگوں کو عیش کے سامان نہیں لیکن ان کے مناسب حال ضرورت کے سامان ان کو ملنے چاہئیں.فی الحال ابھی سینکڑوں کا اور پھر بعد میں شاید ہزاروں کا انتظام کرنا پڑے.اس سلسلہ میں مجھے ایک بات یاد آ گئی.ہر جلسہ پر اسی طرح ہوتا ہے، لیکن اس جلسہ پر نمایاں ہو کر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے ملک کے اچھے بڑے عہدے دار یا بڑے بزنس مین یا بڑے امیر لوگوں نے اپنے واقف اور دوست احمدیوں سے کہا کہ ہمیں جلسہ سالانہ پر لے چلیں، ہم وہاں جا کر دیکھنا چاہتے ہیں.انہوں نے کہا کہ جی وہاں آپ کے مناسب حال انتظام نہیں ہے.اس لئے ہم آپ کو نہیں لے جاسکتے.ایک بات تو یہ ہے کہ مناسب حال انتظام ہو یا نہ ہو، آپ انہیں لے ضرور آئیں.زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کے وہ ایک دن کا جلسہ سن کر شام کو چلے جائیں گے.لیکن ایک دن کا تو سن ہی لیں گے.ان کو یہاں رات بسر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.ممکن ہے کہ وہ دیکھیں کہ ہم کو اس کمرے میں تکلیف ہوگی ، اس لئے ہم رات نہیں ٹھہر سکتے.وہ لاہور میں کسی ہوٹل میں چلے جائیں گے یا لائل پور یا سرگودھا چلے جائیں گے.اگر کوئی کار لے کر آیا ہوا ہے یا گاڑیوں میں جاسکتا ہے تو وہ چلا جائے گا.آپ ایک دن کا جلسہ تو ان کو سنا دیں.ایک دن کے لئے ہم انتظام کر دیں گے.ان کو کھانا ٹھیک مل جائے اور ان کے مطلب کامل جائے اور سروس ان کے مطلب کی ہو، ایسا انتظام ہو جائے گا.یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے.ہم یہاں کچھ نہ کچھ تو کرتے ہیں اور وہ لوگ مہمانان خاص کہلاتے ہیں.غرض جیسا کے میں نے کہا، ان وفود کی وجہ سے اور جماعت کی ضرورت کے لئے ایک بڑے جلسہ گاہ کا انتظام ہونا چاہیے اور اسی جلسہ گاہ کے نیچے ان کی رہائش کے لئے سینکڑوں کمرے بھی مل جائیں گے.بین الااقوامی سطح پر قلمی دوستی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ خطوط لکھیں.بلکہ تصاویر کا بھی تبادلہ ہوا کرے.مثلاً پاکستان میں ہر ملک کے ساتھ 20,25 پاکستانی قلم دوستی کر رہے ہوں گے.ان کی خط وکتابت ہوگی تو وہ اپنے دوستوں کو جلسہ سالانہ اور مشاورت کی تصاویر بھی بھجیں.لاہور والا ، لاہور کے جلسہ کی تصاویر بھیجے.پشاور والا کہے کہ ہم مرکز سے اتنے سو میل دور ہیں اور یہاں بھی اس قسم کے فنکشن 156
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء ہوتے ہیں.کراچی والا کہے کہ ہم سات، آٹھ سو میل دور ہیں اور یہاں یہ فنکشن ہوتے ہیں.اور ایک دیہاتی کہے کہ ہمارا یہ 60,70 گھروں کا ایک گاؤں ہے اور اس میں ہم 15,20 گھرانے احمدیوں کے ہیں.لیکن دیکھو، یہ اللہ کا فضل ہے.یہاں ہمارا جلسہ ہوا اور یہ اس کی تصاویر ہیں.یا یہ کہ ہم نے یہاں شعبہ خدمت قائم کیا ہوا ہے.اس میں عقیدہ اور مذہب اور فرقے کا کوئی سوال نہیں ہے.چنانچہ یہ ہمارے مستحق دوست ہیں، ان کو ہم یہ سامان دے رہے ہیں.ان کے لئے کلب بنائی ہے، ان سے ملتے ہیں اور اس چھوٹے سے گاؤں میں ان کی تعلیم کے لئے ایک ماہر ڈاکٹر نے آکر تقریر کی.اور یہ اس کی تصویر ہے، وغیرہ وغیرہ.اس قسم کی تصویریں وہ بھیجے گا.اس طرح بشاشت پیدا ہوگی اور پتہ لگے گا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ بہت کچھ ہورہا ہے.آپ کو بھی اکثر چیزوں کا پتا نہیں ہے.یہ پتہ لگنا چاہیے.ایک اور تدبیر، یہ چھوٹی تدابیر میں سے نہیں بلکہ بنیادی ہے.وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی ایک غرض یہ تھی کہ امت محمدیہ آپ کی بعثت سے قبل بہتر 72 فرقوں میں بٹ چکی تھی.اور ہر فرقہ دوسرے کو کا فرقرار دے رہا تھا.آپ اس کفر بازی کو مٹانے کے لئے تشریف لائے.وہ ایک دوسرے کو اس لئے کافر کہہ رہے تھے کہ ایک فرقہ دوسرے کو کہتا تھا کہ تمہارے اندر یہ باتیں عقائد اسلام کے خلاف داخل ہوگئی ہیں، اس لئے ہم تمہیں کا فرسمجھتے ہیں.اور اس کے اپنے عقائد میں جو باتیں اسلام کے خلاف بدعات اور بدعقائد کی شکل میں داخل ہوگئی تھیں، اس کو ان کا احساس نہیں تھا.ان کا احساس دوسرے کو ہوتا تھا.اور وہ ایک دوسرے کو کافر کہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اعلان کیا کہ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے روحانی فرزند کی حیثیت سے ایک حکم کی حیثیت سے تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں.اور میں اس لئے آیا ہوں کہ جو کفر بازی کا بازار تم نے گرم کیا ہوا ہے، اسے ختم کروں اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں.حکم کی حیثیت سے میں کہوں گا کہ تمہارے عقائد میں یہ یہ بدعت ہے، ان بدعات کو چھوڑ دو.تم میری بات مانو اور ان کو چھوڑ دو.اور جب سب کی بدعات چھٹ جائیں گی اور خالص اسلام تمہارے پاس ہوگا تو کفر بازی خود ہی بند ہو جائے گی.کیونکہ وجوہ کفر جو تمہیں ایک دوسرے میں نظر آتی ہے، وہ پھر نظر نہیں آئیں گی.پس ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے.ہمیں ان کو قریب لانے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے جلسہ پر بھی اعلان کیا تھا کہ آپس میں اختلافات ہیں، لیکن اس وقت ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ تمہارے اندر یہ بد عقائد ہیں یا نہیں ہیں؟ اس وقت ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں تک ظاہری افراد کا 157
خطاب فرموده 29 مارچ 1974ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم سوال ہے، بنیادی عقائد میں ہم میں کوئی اختلاف نہیں.توحید کے سب قائل ہیں.قرآن کریم آخری شریعت ہے، اس کا ہر فرقہ قائل ہے.اسلام قیامت تک زندہ رہنے والا مذہب ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں، سب مانتے ہیں.اسلام کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہو گیا ہے.لیکن اسلام کے تو سب قائل ہیں.توحید کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے.یعنی بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ، نعوذ باللہ خدا تعالیٰ جھوٹ بھی بول سکتا ہے اور توحید بھی قائم ہے.لیکن اس میں نہ پڑو.اصولی طور پر سب متفق ہیں، اس لئے بنیادی عقائد پر اکٹھے ہو جاؤ، پھر اختلاف کی باتیں کرو لیکن ان پر متحد ہو جاؤ.جب ہم غیر مسلم کے سامنے جائیں تو ہمیں باہمی اختلاف ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں.ہم نے ان کے سامنے اسلام پیش کرنا ہے.پس جو بنیادی عقائد ہیں ، وہ ان کو پیش کرو اور آپس میں لڑو نہیں.لیکن بظاہر وہ ہماری بات مانیں گے نہیں.لیکن یقینی بات یہ ہے کہ ہم بھی خاموش نہیں رہیں گے.بلکہ کوشش کرتے رہیں گے.اس وقت تک کے وہ سارے مہدی معہود کے جھنڈے تلے اکٹھے نہیں ہو جاتے.پس یہ جو تکفیر کا بازارگرم ہے، اس کو مٹانے کے لئے ہم نے کوشش کرنی ہے.صد سالہ جوبلی فنڈ کی جور قوم جمع ہو رہی ہیں، ان کے لئے میں نے شق الف اور ب مقرر کر دی تھیں.ایک تو ہے، وعدہ.وعدہ آپ نے کیا.اور ایک ہے، وصولی کا کام.وہ انشاء اللہ جماعتیں کریں گی.اور جس اخلاص کے ساتھ وعدے کئے گئے ہیں، اس سے زیادہ اخلاص اور توجہ کے ساتھ ان کی ادائیگی کی جائے گی.لیکن جور تم آئے گی، اس کے متعلق بہت کچھ سوچنے والا ہے.مثلاً میں نے بتایا ہے کہ انگلستان کے ڈھائی کروڑ روپے کے وعدے ہیں.اب وہاں جو اقتصادی حالات پیدا ہورہے ہیں، ان کے مطابق وہاں بھی ملک سے باہر روپیہ بھیجنے کی اتنی آسانی نہیں رہی.گواب بھی بہت آسانی ہے.لیکن اتنی آسانی نہیں رہی، جتنی دس سال پہلے تھی.اس لئے یہ سوچنا ہے کہ یہ رقوم کن ممالک میں رکھی جائیں؟ یہ سوچنا ہے کہ کس شکل میں یہ رقوم رکھی جائیں؟ یہ سوچنا ہے کہ ان میں سے کتنا حصہ نفع مند کاموں میں لگایا جا سکتا ہے؟ تاکہ یہ رقوم بڑھیں.ایک حصہ نفع مند کاموں میں لگایا جا سکتا ہے.دنیا میں یہ بھی ایک Specialise برانچ ہے، جو مشورہ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں شیئر ز بڑے معقول ہیں، ان میں کمزوری نہیں ہے، اس لئے ان میں رقم لگا دو.عام طور پر جو محفوظ شیئر ز ہیں، ان کا ڈیویڈنڈ (Dividend) یعنی منافع زیادہ نہیں ہوتا.لیکن بہر حال منافع ہوتا ہے.پس اس طرح کی بہت سی باتیں سوچنے والی ہیں.اس کے لئے ایک انتظامیہ ہونی چاہئے.پھر یہ دیکھنا ہے کہ کتنا حصہ ہم نے خرچ کرنا ہے اور کس نسبت سے 158
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء انتظامیہ پر خرچ کرنا ہے؟ میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ انتظامیہ پر ایک فیصد بھی خرچ نہیں ہوگا اور نہ ہونا چاہئے.یعنی سو میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوگا اور نہ ہونا چاہئے.بلکہ اعشاریہ کچھ خرچ ہونا چاہیے.یعنی سو روپے میں سے صرف چند آ نے خرچ ہونے چاہئیں.غرض یہ ساری چیزیں سوچنے والی ہیں.جو کمیٹی اب بنے گی، وہ بھی ساری تجاویز نہیں سوچ سکتی.لیکن یہ شوری کی مستقل کمیٹی ہوگی.شوری کی ایک فنانس کمیٹی ہے، جو سارا سال کام کرتی ہے.یہ بھی فنانس کمیٹی کی طرح ایک کمیٹی ، مستقل کمیٹی ہوگی ، جو غور کرے گی، مجھ سے مشورہ لے گی اور کام کا ایک ڈھانچہ تیار کرے گی.پھر اس ڈھانچے کو ہم باہر بھیجیں گے.لیکن جتنا کام ضروری ہے ، وہ ہم شروع کر دیں گے.پھر انگلستان ہمیں مشورہ دے گا.پھر یورپ کے ممالک ہمیں مشورہ دیں گے.پھر مصر اور سعودی عرب اور دوسرے عربی بولنے والے ممالک، جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ بڑی دقتیں ہیں اور روکیں ہیں، وہاں ماشاء اللہ بڑے احمدی ہیں اور وہ بڑی رقمیں دے رہے ہیں ، وہ ہمیں مشورہ دیں گے.امریکہ والے مشورہ دیں گے.جزائر مشورہ دیں گے.اور پھر آہستہ آہستہ مشوروں کے بعد اور دعاؤں کے بعد یہ ڈھانچہ پختہ ہوتا چلا جائے گا اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہے جائے گا.لیکن کچھ ایسے کام ہوں گے ، جو بہر حال ہم نے کرنے ہیں.وہ ہم شروع کر دیں گے.میں نے مختصر یہ باتیں دو ہرادی ہیں تاکہ سامنے آجائیں.کیونکہ ساری باتیں ذہن میں نہیں ہوتیں.میرے اپنے ہوا ذہن میں بھی نہیں تھیں.پھر میں نے اپنی تقریر دیکھ کر یہ ساری تفاصیل دوبارہ ترتیب دے کر رکھیں.اس کے علاوہ ایک اور چیز ہے، جو منصوبے کے اندر آپ ہی گھس رہی ہے.اس وقت تک ہماری مخالفت، ہلکی مخالفت تھی یا مقامی مخالفت تھی.یعنی کہیں تو یہ تھا کہ مثلاً ہندوستان میں ایک صوبہ میں ہماری مخالفت ہے تو دوسرے میں نہیں ہے.دیو بند کا جو علاقہ ہے، اس کے ارد گرد کے گاؤں میں زیادہ مخالفت ہے اور دوسو میل پرے ہٹ جاؤ تو اتنی مخالفت نہیں.یا مثلاً مصر میں مخالفت ہے تو سعودی عرب میں نہیں.سعودی عرب میں ہے تو کویت میں نہیں یا شام میں نہیں.ان ملکوں میں ہے تو یورپ میں نہیں.یورپ میں تو افریقہ کے براعظم میں نہیں.یا اس کے مختلف علاقوں میں نہیں.مخالفت پھیلی ہوئی تھی.کہیں ہے، کہیں نہیں لیکن اب اس جلسہ کے بعد ہمارے سامنے بین الااقوامی اتحاد کے ساتھ مخالفت آگئی ہے.میں نے خدا کا شکر کیا ، ہمیں تو اس وقت پتہ نہیں تھا کہ اس کی کیا شکل بن رہی ہے؟ لیکن میں نے کہا کہ ہمارے لئے اس کی ضرورت ہوگی.اللہ تعالیٰ نے اس کا انتظام کر دیا اور ہمیں بشارتیں بھی دے دیں.جیسا کہ ایک بشارت میں نے ابھی بتائی ہے اور بھی بشارتیں ہوئی.اس کے ساتھ ہی بعض اور چیزیں سامنے آئی ہیں.ایک چیز یہ 159
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم سامنے آئی ہے جو کہ بڑی افسوسناک ہے اور بڑا صدمہ ہوتا ہے کہ ایک اسلامی ملک نے ، جو اپنے آپ کو اسلام کا چمپیئن سمجھتا ہے، ہالینڈ کے شدید کٹر مخالفین اور دشمنان اسلام کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے یہ پراپیگنڈا کرناشروع کیا ہے کہ جماعت احمد یہ اسلام کی نمائندہ نہیں ہے، اس لئے اپنے سکولوں اور اپنے چرچز Churched) میں ان کی تقریریں نہ کروایا کرو.(وہاں کلیساؤں میں بھی ہماری تقریریں ہوتی ہیں.اور نہ اپنے سکولوں کے بچوں کو ان کی مساجد میں بھیجو.ان کو تو مسلمان بھی کافر کہتے ہیں.یہ کہاں کے اسلام کے نمائندہ ہیں؟ غرض اسلام کا جو اپنے آپ کو ہمدرد اور بڑا دوست اور چمپیئن سمجھنے والا ملک ہے، اس نے شدید دشمنان اسلام سے مل کر یہ منصوبہ بنایا ہے.ایک تو یہ چیز سامنے آئی ہے.دوسرے یہ چیز سامنے آئی ہے کہ مکہ سے ایک رسالہ نکلتا ہے، دی مسلم ورلڈ لیگ اس میں ہمارے خلاف تین مضمون لکھے گئے ہیں.یہ رسالہ ہمیں ولایت سے بھجوایا گیا ہے.ایک مضمون لکھا ہے، ابوالحسن علی ندوی صاحب نے اور ایک مضمون لکھا ہے، ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے اور ایک مضمون جماعت احمدیہ کے خلاف لکھا ہے، شیخ محمد الخضر حسین صاحب نے.اور مینوں میں سے کسی ایک نے بھی اس شرافت کا مظاہرہ نہیں کیا کہ مضمون لکھنے سے پہلے ہم سے تبادلہ خیال کر لیتے.یہ تو انسان کا حق ہے کہ اگر کسی کی طرف بات منسوب کرنی ہو تو پہلے اسے جان کر بات تو کرنی چاہئے.اور یہ ایسی عجیب چیز ہے کہ کوئی انسانی عقل اس کا انکار نہیں کر سکتی.ایک دفعہ آٹھ ، دس مسلم ممالک کے سفیر ایک دعوت میں اکٹھے تھے.ماریشس کے سفیر نے ہماری دعوت کی تھی اور اس نے بعض ملکوں کے سفیروں کو بھی بلایا ہوا تھا.ملائیشیا کا سفیر وہاں شور مچار ہا تھا.بہت اونچی آواز میں بولتا تھا اور بڑا با تو نی تھا.ایک وقت میں وہ کہنے لگا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہم مرزا غلام احمد (علیہ الصلوۃ والسلام ) کو مسجد دتو مان سکتے ہیں، لیکن جو آپ کا عقیدہ ہے، وہ نہیں مان سکتے.یہ خدا کی شان تھی کہ اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلوا دئیے.میں نے کہا کہ آپ نے مجھ سے تبادلہ خیال تو کیا نہیں کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے؟ اور اس کا انکار کر رہے ہیں، یہ تو بڑی عجیب بات ہے.تو سارے سفیر صاحبان، جن میں نائیجیریا کے سفیر اور شام کے سفیر اور لیبیا کے سفیر اور ایران کے سفیر شامل تھے، ان سب نے قہقہہ لگایا اور انہوں نے کہا، دیکھو تم جواب نہیں دے سکتے.کیونکہ بغیر تبادلہ خیال کے تم یہ اعلان کر رہے ہو کہ جو آپ کا عقیدہ ہے، وہ ہم نہیں مانتے.پس ہمارا اعتراض اول یہ ہے کہ اگر تم خود کوعلماء سمجھتے ہو تو جماعت احمدیہ کے علماء سے تبادلہ خیال کرو.اور پھر اگر تمہیں سمجھ نہ آئے اور نا مجھی کی باتیں لکھو گے تو تم پر یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ تم نے تبادلہ 160
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جدہ پنچم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء خیال کے بغیر یہ مضامین لکھے.اور اگر تم اپنے آپ کو کسی جماعت کا لیڈر اور امام سمجھتے ہو تو جماعت احمدیہ کے امام سے جا کر باتیں کرو.اور پھر اس کے بعد جو کچھ لکھو گے، اگر شرارت سے لکھو گے تو تم ذمہ دار ہو گے.اگر نہ سمجھی سے لکھو گے تو تم ذمہ دار ہو گئے.لیکن یہ اعتراض تم پر نہیں آئے گا کہ تبادلہ خیال نہیں کیا.بات سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور یوں ہی بات منسوب کر دی.مثلا ان میں سے کسی نے لکھ دیا ( یہاں بھی یہ اعتراض کرتے ہیں ) کہ یہ انگریز کا لگایا ہوا پودا ہے.یہ اعتراض اصل میں اہل حدیث نے شروع کیا تھا اور اس کی ایک وجہ تھی ، وہ یہ کہ عرب اور مکہ ومدینہ کایہ دنیوی حاکم یعنی سعودی خاندان ، وہ خاندان ہے کہ جو انگریز کا لگایا ہوا پودا ہے.انگریزوں نے ان کی خاطر جنگ کی.انہوں نے خلافت ترکیہ کو مٹانے کے لئے ان کو خلافت ترکیہ کے خلاف کھڑا کیا.ان سے جنگیں لڑیں، ان کو شکستیں دیں اور پھر ان کو یہاں اقدار ملا.اس واسطے اہل حدیث کے دماغ میں ہمیشہ یہ کھیلی رہتی ہے کہ ہم پر یہ اعتراض ہو جائے گا کہ تم تو انگریز کا لگایا ہوا پودا ہو، اس لئے وہ ہم پر اعتراض کر دیتے ہیں.چنانچہ اگر وہ ہم سے تبادلہ خیال کرتے تو ہم وہ سارے حوالے جو انسائکلو پیڈیا برٹینیکا میں موجود ہیں، ان کے سامنے رکھتے.جو کہ مشہور انگریز حاکمان وقت چرچل وغیرہ کے ہیں.ان کی کتابوں کے اندر لکھا ہے کہ ہم نے یہ تدبیر کی.اور یہ گٹھ جوڑ کیا.اور ان کو منظم کیا اور اس طرح فوجیں بھیجیں اور اتنی رائفلیں دیں.تا کہ ہم ترکی حکومت کی افواج کو شکست دیں اور سعودی خاندان کی وہاں حکومت قائم کریں.اگر وہ ہم سے مل کر جاتے تو پھر وہ کم از کم یہ اعتراض نہ کرتے.خواہ یہ مانتے یا نہ مانتے کہ انگریز نے کس پودے کو لگایا تھا ؟ لیکن ہم سے انہوں نے پوچھا ہی نہیں اور یہ لکھ دیا.بہر حال جو تین مضمون چھپے تھے ، ان میں سے ایک تو اردو میں چھپا.کیونکہ ابوالاعلی مودودی صاحب کو عربی نہیں آتی.اس کا انہوں نے ترجمہ کروایا.ندوی صاحب آج کل مدینہ یونیورسٹی میں ہیں، انہوں نے عربی میں لکھا اور مصری صاحب نے بھی عربی میں لکھا.اور اب مضامین کو ایک کتاب کی صورت میں اکٹھا کرنے کے بعد انہوں نے انگریزی، فرانسیسی، اردو، انڈونیشین، فارسی، ہوسا، ترکی، جرمن، سواحیلی، ملیشیا اور یوروبا میں ترجمہ کر کے اسے دنیا میں شائع کیا ہے.میں اس وقت مخالفت کی بات کر رہا ہوں.اب ہماری مخالفت بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہے.اور افق اسلام پر جو حالات جنگ احزاب کے موقع پر ابھرے تھے کہ اہل کتاب اور مشرقین نے گٹھ جوڑ کر کے مدینہ پرحملہ کیا تھا اور اسلام کومنانے کی کوشش کی تھی ، اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ میں پھر وہی حالات پیدا ہو گئے ہیں.چنانچہ ظاہری علوم رکھنے والے اہل قرآن اور اسلام کے دشمن اہل 161
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کتاب اور انسانیت اور مذاہب کے دشمن اہل الحاد یہ تینوں طاقتیں اکھٹی ہو کر نشاۃ ثانیہ کو مغلوب کرنے کے لئے افق اسلام پر ابھری ہیں.جو وعدہ اس وقت مسلمانوں کو دیا گیا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ انہی آیتوں میں ہمارے لئے بھی وعدہ ہے کہ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَتُونَ الدُّبُرَ ( القمر : 46) تم جمع تو ہو گئے ہو.تم مختلف متضاد طاقتیں ہو، جو اسلام کو مغلوب کرنے کے لئے اکٹھی ہو کر سامنے آگئی ہو.لیکن سيهزم الجمع تمہارا اتحاد تمہیں کامیابی کی طرف نہیں لے جائے گا.بلکہ تم پیٹھ پھیر کے بھاگ جاؤں گے اور نا کام ہو گے، انشاء اللہ تعالی.اس لئے کے زمین کے سینے میں پٹرول کی شکل میں جو دولت باہر نکل رہی ہے اور ہمارے خلاف استعمال ہورہی ہے، وہ اس دولت کا مقابلہ نہیں کرسکتی، جو ایک مسلمان مخلص دل کے قربانی اور ایثار کے چشمے سے نکلتی ہے.اور جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو جذب کرتی ہے.کیا تیل کے چشموں سے حاصل کی ہوئی دولت ایک مومن ایثار پیشہ کے دل کے چشمہ سے نکلی ہوئی دولت کا کبھی مقابلہ کرسکتی ہے؟ جب سے آدم پیدا ہوئے ، اس وقت سے لے کر قیامت تک ایسا کبھی نہیں ہوگا.یہ کبھی نہیں ہوسکتا.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہر مذہب کے ماننے والوں کے سامنے رکھا گیا تھا، جب وہ مذہب دنیا میں آئے.اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں.اسی واسطے یہ مضمون میرے دماغ میں آیا تھا اور آج میں نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے.یہ مضمون ذرا گہرا تھا لیکن مجھے بہت مختصر کرنا پڑا.پس ہر احمدی کے دل کے اندر یہ یقین ہونا چاہئے کہ اِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ خدا تعالیٰ کا وعدہ حق ہے.اس کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا.جب یہ یقین اپنے کمال کو پہنچ جائے تو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کا جذبہ بھی اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے.اور جب کسی قوم میں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کا جذبہ اپنے کمال کو پہنچ جائے تو اس وقت دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو مٹانے کے قابل نہیں ہو سکتی.نہ کبھی ہوئی اور نہ بھی ہوسکتی ہے.یہ اللہ کا فضل ہے، ہم کچھ بھی نہیں ہیں، ہمیں اس کا اقرار ہے.اور ہم یہ کہتے ہوئے شرم نہیں محسوس ہوتی.بلکہ جب ہم دوسروں کے ساتھ باتیں کرتے ہیں تو میں خود اس وقت کہا کرتا ہوں کہ ہم بالکل بے حیثیت لوگ ہیں.لیکن جس ہستی کا ہم نے دامن پکڑا ہے، وہ تو بے حیثیت نہیں.ساری حیثیتیں اسی چشمہ سے نکلتی اور باہر پھیلتی ہیں.پس ہم سے تمہاری جنگ نہیں.بلکہ اپنے پیدا کرنے 162
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء والے رب سے تمہاری جنگ ہے.اور دنیا کی کوئی طاقت خدائے واحد و یگانہ اور قادر مطلق کے مقابلہ میں نہ کامیاب ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے.بہر حال اس وقت افق احمدیت اور افق اسلام پر جو حالات ہیں، وہ میں آپ دوستوں کو بتانا چاہتا تھا.اس کے مطابق آپ کو تدبیر کرنی چاہئے.ہمارا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو روس میں ریت کے ذروں کی طرح احمدی دکھائے.وہ رشیا، جو مذہب کا دشمن ہے اور جس کی اتنی طاقت ہے کہ کوئی حد ہی نہیں ، وہ رشیا، جو اس وقت اپنے کلایمکس (Climax) کو پار کر کے اب اپنے تنزل کی طرف جا تا ہوا ہمیں نظر آ رہا ہے.اس وقت تو وہ ترقی کی طرف تھا ، جس وقت یہ کہا گیا تھا کہ رشیا میں، میں اپنی جماعت کو ریت کے ذروں کی طرح دیکھتا ہوں.اس وقت تو اس کا ہر قدم دنیوی لحاظ سے ترقی کی طرف تھا.انہوں نے ستاروں پر کمندیں ڈالیں.لیکن اب انہی کا ایک بھائی کھڑا ہو گیا ہے.یعنی سوشلزم میں Belive کرنے والا ، چین ، جس نے ان کی ناکامی کا اعلان کر دیا.اس مضمون کو واضح کرنے کے لئے ایک چھوٹی سی بات میں اور بتا دوں.اشتراکیت نے کہا تھا کہ ہماری جو آخری کامیابی ہوگی ، اس کے بعد انسانی معاشرے کی شکل یہ بنے گی.To each acccording to his needs یعنی ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے گا.یہ ان کی آخری کامیابی کی شکل ہے.روس میں To each acccording to his needs نہیں دیا جارہا.یعنی آخری کامیابی انہیں حاصل نہیں ہوئی.اس سے پہلے جو مرحلہ ہے، جو کہ پہلی سٹیج ہے، اس کے متعلق کارل مارکس وغیرہ نے لکھا تھا کہ اس میں یہ اصول چلے گا کہ To each acccording to his work یعنی جتنا کوئی کام کرے، اتنا اس کو دیا جائے.اس مرحلے کے بعد وہ انتہائی کامیابی کا مرحلہ آئے گا، جس میں To each acccording to his needs ہوگا.لیکن قبل اس کے کہ وہ مرحلہ آتا، جس تک پہنچنے کے لئے اتنی جدو جہد کی گئی کہ لاکھوں کی قربانی دے دی گئی.اپنے آپ کو درست کرنے کے لئے ، قومی اصلاح کے لئے خود روس کے اندر علاقوں کا Massacre کیا گیا.اتنی دولت لٹائی گئی کہ کوئی شمار ہی نہیں.دنیا کے علاقے فتح کئے گئے اور ان کی دولتیں اشتراکیت کو قائم کرنے کے لئے خرچ کی گئیں.ملک ملک میں اپنے جاسوس اور ایجنٹ مقرر کئے گئے اور ان پر پانی کی طرح روپیہ بہایا 163
خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم گیا.اتنی بڑی کوشش کسی منصوبے کو کامیاب کرنے کے لئے انسانی آنکھ نے اس سے قبل نہیں دیکھی اور نہ آج تک کسی نے سنا.لیکن اس انتہائی کوشش کے بعد چین کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ روس غلط ہے.وہ تو Revisionist بن گیا ہے.اس نے مارکس اور لینن ازم کے اصول چھوڑ دیئے ہیں.یعنی اتنی بڑی کوشش ناکام ہوگئی.ابھی To each acccording to his needs کے مرحلے میں جو آخری کامیابی ہے، تم داخل نہیں ہوئے اور ناکامی کا تمہارے اپنے بھائیوں نے اعلان کر دیا.ناکامی دووجہ سے ہوتی ہے.یا تو اس وجہ سے کہ اس کے لئے کوشش نہیں ہوتی ، صحیح اور پوری تدبیر نہیں ہوتی.اور یا اس لئے کہ اس منصوبے کے اندر کوئی اندرونی خامیاں ہوتی ہیں.اس کے علاوہ بنیادی طور پر نا کامی کی کوئی اور وجہ نہیں ہے.پس یا تو منصوبے کی کوئی اندرونی کمزوری ہے اور یا اس کے لئے کوشش نہیں کی گئی.جہاں تک کوشش کرنے کا سوال ہے، کوشش کی گئی.اور میں نے بتایا کے ایسی زبر دست کوشش کی گئی کہ انسانی آنکھ نے کسی منصوبے کو کامیاب کرنے کے لئے اتنی زبر دست کوشش آدم سے لے کر آج تک نہیں دیکھی.پس کوشش میں کی تو وجہ نہیں ہوسکتی.اس واسطے لازمی طور پر منصوبے کے اندر کوئی خامی ہے، کوئی نقص ہے، کوئی کمزوری ہے، جس کی وجہ سے کمیونسٹ ناکام ہو گئے.اور یہ بات تمہارا دشمن نہیں کہ رہا بلکہ تمہارا بھائی کہہ رہا ہے.ایک سوشلسٹ کہہ رہا ہے.چین کہ رہا ہے کہ روس Revisionist بن گیا ہے.میں یہ بتا رہا ہوں کہ وعدہ یہ ہے کہ روس میں ریت کے ذروں کی طرح احمدی ہوں گے.ہر احمدی کا دل اس یقین سے پر ہونا چاہیے.گو موجودہ حالات اس سے مختلف ہیں.وہ مذہب کا نام نہیں لیتے ، نہ لینے دیتے ہیں.لیکن ہمارا خدا کہتا ہے کہ رشیا میں احمدی ریت کے ذروں کی طرح دیکھے جائیں گے.جہاں آپ کو ریت نظر آتی ہے، وہاں ریت کے ذرے ہی نظر آتے ہیں.کیا وہاں کچھ اور بھی نظر آیا کرتا ہے؟ شاید چڑیا کی بیٹ وغیرہ نظر آ جائے.پس اتنے زیادہ ریت کے ذروں کا مطلب ہے کہ وہاں احمدی ہی احمدی ہوں گے.پھر حجاز کے متعلق کہہ دیا اور دوسرے ممالک کے متعلق کہہ دیا، یعنی اسلام کے آخری غلبہ کی پیشگوئی کی تفصیل بتادی.یورپ کے متعلق کہ دیا کہ یورپ اسلام کے جھنڈے تلے آ جائے گا.آج ان لوگوں میں الحاد اور خباشت ہے اور بداخلاقی کا اتنا مظاہرہ ہے کہ آپ تصور میں بھی نہیں لا سکتے.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں انہیں ہدایت دوں گا اور ان کے اخلاق کو درست کروں گا.اور ان کے لئے روحانی رفعتوں کے سامان پیدا کروں گا.چونکہ خدا فرماتا ہے، اس لئے یہ ہوکر رہے گا.اور ہورہا ہے، تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہے.164
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 29 مارچ 1974ء آپ اپنی تاریخ دیکھیں.ایک وقت وہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طاقت دنیا کی نگاہ میں بس اتنی تھی کہ مولوی محمد حسین بٹالوی ، جس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی ، وہ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اس شخص کو میں نے ہی اٹھایا تھا اور میں ہی اس کو گراؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام اور آپ کی پوزیشن دشمن کی نگاہ میں اتنی کمز ور تھی کہ ایک شخص کھڑا ہو کر یہ نعرہ لگاہ رہا ہے.ان دنوں میں جب کہ اہل حدیث اور دیو بندیوں وغیرہ کے خلاف بڑا سخت اشتعال تھا اور اب بھی ان کی کوئی حیثیت نہیں، اسی لئے میں ان کی مثال دے رہا ہوں.وہ کھڑے ہو کر یہ اعلان کر رہے تھے.اور آج اتنا انقلاب اور اتنی بڑی تبدیلی آگئی ہے کہ یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ جب تک سب لوگ جمع نہ ہوں، جب تک اہل قرآن، جوصرف ظاہری اسلام پر کار بند ہیں وہ اور اہل کتاب، جو دشمنان اسلام ہیں اور اہل الحاد، جو مذہب کے بھی شدید مخالف ہیں، یہ تین زبر دست طاقتیں اکٹھی نہیں ہوں گی ، احمدیت کو مٹایا نہیں جاسکتا.کتنا بڑا انقلاب بپا ہو گیا ہے، خدا کے فضل سے.اس کے مقابلے میں ہماری کوششیں تو ہیں ہی نہیں.مولوی محمد حسین بٹالوی کا جو اعلان تھا ، وہاں سے چل کر اس اعلان پر آگئے ، جو میں نے ابھی بتایا ہے کہ وہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ احمدیت کو مٹانے کے لئے مخالف طاقتوں کو اکٹھا ہونا چاہئے اور ہالینڈ کے متعلق ہمیں جو علم ہوا ہے، وہ بھی میں نے آپ کو بتا دیا ہے.الحاد کی متعلق جو میں نے کہا ہے، میں اس کی بھی مثال بتا دیتا ہوں.ہمیں یہ علم ہوا ہے کہ روس نے جو کہ مذہب کا دشمن ہے، اس نے ڈنمارک کے غیر احمدیوں میں سے ایک گروہ کو کہا، تم احمدیوں کے مقابلہ میں ان کی مخالفت کرنے کے لئے اپنی ایک مسجد اور مشن بناؤ اور سارے پیسے ہم دیں گے.تم تو مذہب کے ہی دشمن ہوتو مسلمانوں کی مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کے لئے کیسے تیار ہو گئے ؟ میں جب سوچتا ہوں تو میرا دل خدا کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ کجاوہ دن کے محمد حسین بٹالوی جیسے ایک انسان کو یہ جرات ہوگئی کہ وہ کھڑا ہو کر یہ کہے کہ میں نے ہی اس شخص کو بلند کیا اور میں ہی گراؤں گا.اور کجا آج کا دن کہ دنیا یہ سمجھنے لگی کہ جب تک دنیا کی تین کی بڑی طاقتیں اکٹھی نہیں ہو جاتیں، احمد بیت کو شکست نہیں دی جاسکتی.پس تم خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گا ؤ اور یقین رکھو کہ تم کچھ نہیں.لاشئی محض ہو.لیکن اس سے زیادہ یہ یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ سب قدرتوں کا مالک ہے اور اس نے جو فیصلہ آسمان پر کیا ہے، زمین کی مجال نہیں ہے کہ اس کو روک سکے.انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا“.مجلس مشاورت 1974 ء افتتاحی خطاب مورخہ 29 مارچ 1974ء ) 165
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 31 مارچ 1974ء دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی خدا تعالیٰ کے وعدوں کو نہیں ٹال سکتیں ارشادات فرموده 31 مارچ 1974 ء بر موقع مجلس شوری کمیٹی کی اس سفارش کے ضمن میں کہ مرکز سلسلہ میں چندا ہم زبانیں سکھانے کا اہتمام ہونا چاہئے.سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمه الله نے فرمایا:.” زبان سیکھنے کے متعلق جو نئے تجربات ہوئے ہیں، اس حد تک تو ہم ان پر عمل نہیں کر سکتے.،.سوائے ان بچوں کے، جو شروع ہی میں بعض خاندانوں کی طرف سے وقف کر دیئے جاتے ہیں.تجربہ یہ ہوا ہے کہ بالکل چھوٹا بچہ ، جس وقت مادری زبان سیکھ رہا ہوتا ہے، اگر اسی وقت اس کو دس زبانیں سکھا دی جائیں تو اس کے ذہن پر کوئی بار نہیں پڑتا.اور وہ دس زبانیں اسی طرح بول سکتا ہے، جس طرح مادری زبان بول رہا ہوتا ہے.ویسے اس کا تجربہ کرنا چاہئے.بعض ایسے خاندان ہیں، جو بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی کہ دیتے ہیں کہ ہم نے بچے کو وقف کر دیا ہے.ہمارا یہی طریق ہے اور یہی معقول ہے.ہم کہتے ہیں کہ جب یہ بڑا ہو جائے اور تم اس کی ایک وقف زندگی بچے کی حیثیت میں تربیت کرنے میں کامیاب ہو جاؤ تو بڑا ہوکر یہ خود بھی وقف کرے گا اور ہم اسے سینے سے لگا ئیں گے.لیکن بعض بچے بڑے ہوتے ہیں ، ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے مگر تربیت نہیں ہوتی.وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی وقف نہیں کرنا چاہتے.وہ کہتے ہیں، ٹھیک ہے، تم زندگی وقف نہ کرو.وقف زندگی کا مسئلہ تو دل سے تعلق رکھتا ہے، اس حد تک تو ہم جاسکتے ہیں اور کوشش بھی کرنی چاہیے.لیکن عام طور پر ہم ان زبانوں کی تدریس جامعہ میں شروع کریں گے اور جامعہ میں زبا نہیں سکھانے کا کام شاہد کلاس یا بعد میں نہ ہو.بلکہ جب معہدہ میں ہمارے واقف داخل ہوں تو اس وقت ان کے ٹیسٹ لے کر جو زبان سیکھنے کے اہلیت رکھنے والے ہوں، (پھر ان میں ہو سکتا ہے کہ مختلف رجحانات کا ہمیں ایک، دو سال کے اندر علم ہو.) سات سال تک ان کو زبا نہیں سکھائی جائیں اور پھر انتخاب کر لیا جائے.مثلاً پہلے دو سالوں میں تین، چار زبانیں دو، تین گروپس میں بھی ہو سکتی ہیں اور پھر اس کے بعد ایک زبان لے کر اس کی ٹریننگ دی جائے.گویا سات سال تک زبان سیکھنے کا موقع مل جائے گا.167
ارشاد فرمودہ 31 مارچ 1974ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم علمی زبان آنی چاہیے.علمی زبان میں اور اسلامی احمدی زبان میں بھی ایک فرق ہے.کیونکہ ہماری بہت سی اصطلاحات ایسی ہیں، جنہیں دوسرے علوم یا مذاہب استعمال نہیں کرتے.تو وہ اصطلاحات سپینش یا فرنچ، جرمن اور ڈچ وغیرہ میں سکھانی پڑیں گی.صد سالہ جوبلی منانے کے پروگرام کے متعلق حضور نے فرمایا:."سب کمیٹی کی راہنمائی کے لئے میں نے بتایا تھا کہ شوری سے جو بلی منانے کا پروگرام شروع ہو گا.یعنی مرکز سے.شوری مرکز میں ہوتی ہے اور پھر ای مرکز میں جلسہ سالانہ پر یہ پروگرام اپنے عروج کو پہنچے گا.اس کے درمیان آپ نے جو بلی منانی ہے.دنیا کے ہر اس علاقے اور ملک میں جہاں جو بلی منائی جا سکتی ہے، مثلاً ہم یورپ میں منا سکتے ہیں، وہاں بہت بڑا جلسہ کر سکتے ہیں.اور پھر امت واحدہ بنانے کے پیش نظر یہ کوشش کرنی ہے کہ جس جگہ بھی جوبلی منائی جائے، وہاں علاوہ اس علاقے یا ملک کے احمدیوں اور احمدیوں کے دوستوں اور احمدیوں سے تعلق رکھنے والوں کے دنیا کے ہر دوسرے علاقہ سے نمائندہ وفود شامل ہوں.مثلاً اس ضمن میں امریکہ میں جو جلسہ ہوگا، اس میں کینیڈا بھی آئے گا، جنوبی امریکہ کے وفود بھی آئیں گے اور انگلستان اور یورپ سے بھی آئیں گے.جب یورپ میں ہوگا تو اس میں انگلستان آئے گا اور اس میں مشرق اوسط ، یعنی عربی بولنے والے ملک آئیں گے.کیونکہ ان ممالک کے رہنے والے اپنے کاموں کے سلسلہ میں جرمنی اور دوسرے یورپین ملکوں میں آتے رہتے ہیں.اسی طرح کچھ علاقے جو بحیرہ روم کے ہیں، الجزائر وغیرہ یا اوپر کے حصہ میں مرا کو وغیرہ ، یہاں سے انشاء اللہ احمدی آئیں گے.احمدی تو ہر جگہ ہیں لیکن شکلیں بدل جائیں گی.گویا یہ بھی ساتھ ہی پروگرام بنانا پڑے گا کہ جلسہ صرف ایک علاقے یا ملک تک محدود نہ ہو گا.بلکہ وہاں کے ارد گرد کے ملک بھی اس میں شامل ہوں گے.جب یہاں ہوگا تو کوشش یہ کرنی چاہیے کہ چونکہ پاکستان کے علاوہ 2 5 ممالک نے نصرت جہاں ریز روفنڈ میں حصہ لیا تھا اور صد سالہ جوبلی میں حصہ لینے والوں کی تعداد 56 تک پہنچ چکی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ 100 ممالک میں احمدی، جو بلی سال میں موجود ہوں گے.اس لئے مرکز میں سو ممالک کے وفود آنے چاہئیں.ابھی سے یاد دہانیاں کروانے کا کام شروع کر دیا جائے گا.لیکن علاقائی جو بلی منانے کا جو پروگرام ہے، اس میں ہر علاقے کے اردگرد کے احمدی شامل ہوں گے.ان کو اکیلے نہیں چھوڑنا.وہاں بھی اعلان ہوگا.جیسا کہ ہدایت دی گئی تھی کہ ان ملکوں کے نمائندے شامل ہوں ، سواتنے ملکوں کے نمائندے شامل ہورہے ہیں.ساری دنیا کو اکٹھا کرنے کے لئے 168
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرموده 31 مارچ 1974ء ہمیں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا ہوگا.اور اسی طرح آواز اٹھانی پڑے گی ، جس طرح مکہ کے میدان میں اٹھائی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ کو پسند آ گئی تھی.کیا میں نے اعلان نہیں کیا کہ جارحانہ تبلیغ کرو.میں نے اپنے خطبہ میں کہا ہے کہ بے دھڑک ہو کر تبلیغ کرو.اب میں یہی کہوں گا کہ ہمیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے.جو پیش گوئیاں ہیں ، مثلاً یہ پیشگوئی که عرب فوج در فوج احمدیت میں داخل ہوں گے، یہ ان کے سامنے رکھی جائے کہ تم چاہے جو مرضی کر لو، اس پیش گوئی کو نہیں ٹال سکتے.خالی یہی ایک بہت بڑی تبلیغ ہے.اور جو آپ کا اپنا یقین ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی خدا تعالیٰ کے وعدوں کو نہیں ٹال سکتیں.وعدے تو انشاء اللہ پورے ہو کر رہیں گے.اس سے ایک تو آپ بشاشت سے قربانی دیں گے کیونکہ آپ کو یقین ہوگا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا.دوسرا یہ کہ اس کا دشمن پر بڑا اچھا اثر ہو گا.جو اس وقت دشمن ہے.ہم تو کسی کے دشمن نہیں، جو شخص خود کو ہمارا دشمن سمجھتا ہے، اس پر بھی اس کا اچھا اثر پڑے گا.مثلاً اشتراکیوں سے آپ بات کریں اور کہیں ٹھیک ہے، ساری دنیا پر تم حاوی ہو گئے ہو.تمہاری ایک بہت بڑی طاقت ہے اور تم امریکہ کے ساتھ ٹکر لینے کے لئے تیار ہواور ساری دنیا کو بانٹ رہے ہو، لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ایک دن آئے گا کہ وہاں ریت کے ذروں کی طرح احمدی ہوں گے.یہ ہمارا یقین ہے.ایک دفعہ میں نے ایک روسی کمیونسٹ سے بات کی اور بتایا کہ اشتراکیت کے پاس وہ حسن اور احسان نہیں ہے، جو اسلام کے پاس ہے.بعض قرائن سے مجھے یہ پتہ لگا کہ انہوں نے اس بات کی مرکز کور پورٹ کی اور اس کا جائزہ لیا گیا اور ان اعتراضوں کا ، جو میں نے کئے تھے، اتنا وزن سمجھا گیا کہ دو مہینے کے بعد ان کے انگریزی کے پروگراموں میں جواب آنے لگ پڑے.رپورٹ مجلس مشاورت منعقد 29 تا 31 مارچ 1974ء ) 169
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء صد سالہ جوبلی منصوبہ جماعتی کوششوں میں تیزی پیدا کرنے کے لئے ہے خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء بر موقع مجلس شوری صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے بارے میں سب کمیٹی شوری کی رپورٹ پر بحث کے آخر میں حضور نے اپنے اختتامی خطاب میں اس منصوبہ کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد پر روشی ڈالی.چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت ایک خاص مقصد کے پیش نظر تھی.ہمیں یعنی امت محمدیہ کو بڑی وضاحت سے اور کثرت سے یہ بتایا گیا تھا کہ شیطانی اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف جو عالمگیر جنگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے شروع ہوئی ہے، اس کی انتہا چودھویں صدی میں آپ کے ایک محبوب اور پیارے اور بڑی طاقتوں والے اور آپ کا کامل عرفان رکھ کر کلی طور پر آپ کے وجود میں فنا ہونے والے مہدی کے ذریعہ ہوگی.یہ آخری معرکہ بعثت مہدی معہود کے ساتھ شروع ہو گیا اور اللہ تعالی نے اپنے عالمانہ و قادرانہ تصرف سے اس کے لئے ایک منصوبہ بنایا، جو قدم بقدم، درجہ بدرجہ ترقی کرتا چلا گیا.ایک آواز تھی، جو اٹھائی گئی.خدا کی قدرتوں کے نشان اس زمانہ میں خدا کے بندوں نے دیکھے.اور وہ سلیم الفطرت تھے، وہ مہدی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے گرد جمع ہو گئے.مگر ان کی تعداد تھوڑی تھی.جن علاقوں میں وہ بسنے والے تھے، ان علاقوں میں بھی زیادہ وسعت نہ تھی.لیکن پھر تعداد میں بھی اور علاقوں میں بھی وسعت پیدا ہونی شروع ہوئی.اور جو معر کے اس جنگ عظیم کے لڑے جانے والے تھے، ( عظیم اس معنی میں، جس معنی میں عرب اس لفظ کو استعمال کرتا ہے.یعنی ایسی جنگ، جس سے بڑی جنگ تصویر میں نہ آن سکے.) جو دراصل روحانی میدانوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ لڑی جانی شروع ہوئی ، اس کا آخری معرکہ آپ کے ایک جرنیل کے ذریعے چودھویں صدی میں لڑا جانا تھا.چودھویں اور پندرھویں صدی میں.اس جنگ کو پچاسی سال گزر گئے.اور اس میں وسعت اور شدت پیدا ہوتی چلی گئی.جیسا کے ہجرت نبوی کے بعد مدینہ کی جنگوں کی ابتداء ہوئی کہ مسلمانوں کے سارے 313 مجاہد تھے ، جنہوں نے اس جنگ میں کہ جب دنیا نے اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار نکالی تو اس تلوار کی کاٹ کو ہلاک کرنے کے 171
خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم لئے اور تباہ کرنے کے لئے اور اسے کند کرنے کے لیے معرکہ شروع ہوا.وہ معرکہ 313 انسانوں سے شروع ہوا تھا اور پھر آہستہ آہستہ تعداد بھی بڑھتی گئی اور وسعت بھی بڑھتی گئی.اور ایک وقت میں جو کہ دراصل عروج کا معرکہ ہے، یعنی جنگ احزاب، سارے عرب کے قبائل یہودیوں کے مشورہ اور ان کی دولت سے اور کفار مکہ کی سرداری میں اور ان کی زبر دست اور عرب میں مانی جانے والی طاقت کے ساتھ سارے دشمن اکٹھے ہو کر مدینہ پرحملہ آور ہو گئے.اور الہی پیشگوئی کے مطابق انہوں نے شکست کھائی.جنگیں بعد میں بھی ہوئیں، مگر ان جنگوں کا فیصلہ جو کہ بعد میں ہونے والی تھیں، احزاب کے میدان میں ہو چکا تھا.اس وقت جس زمانہ میں ہم داخل ہوئے ہیں، میرے احساس کے مطابق یہ اس سے ملتا جلتا زمانہ ہے، جو جنگ احزاب کے وقت میں آج سے چودہ سو سال پہلے ہمیں نظر آتا ہے.اس وقت بھی افق پر دشمنیاں اور مخالفتیں اور مخالفانہ دولتیں اکٹھی ہو کر اسلام کو مٹانے کے لئے جمع ہوگئی تھیں اور اس وقت بھی دنیا کی دوستیں اور دنیا کی طاقتیں حتی کہ ان کی طاقت بھی ، جو مذہب پر ہی یقین نہیں رکھتے ، مذہب کو مٹانے کے لئے اس اجتماع میں اس الجمیعت میں اکٹھی ہو گئی ہیں.ہماری یہ روحانی جنگ، جس میں ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم اور راکٹوں اور میزائلوں کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے بلکہ روحانی ہتھیاروں.جنگ لڑی جانی ہے.یہ جنگ روحانی ہتھیاروں سے پچھلے پچاسی سال سے لڑی جارہی ہے.حقیقتا اس آخری معرکے کے آخری دور کے اندر جماعت داخل ہو رہی ہے.اس کے لئے ہم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اس کی برکت سے ایک منصوبہ بنایا ہے.اور اس منصوبے کو خدا تعالیٰ نے ضرورت کے مطابق ہمارے ذہنوں میں ایسا ہی بنایا تھا کہ یہ ایک زبردست عالمگیر مقابلہ کی تیاری کا منصوبہ بن جائے.اس منصوبہ کا صحیح مقام جماعت کو سمجھنا ضروری ہے.جماعت احمدیہ کا مقصد ہی یعنی خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے اس کے قائم کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کیا جائے.پس جماعت احمدیہ کی پہلی کوشش اور جماعت احمدیہ میں جو پہلی تنظیمیں قائم ہوئیں اور جاری ہو ئیں ، وہ وہی مقاصد رکھتی ہیں، جو مقصد کہ موجودہ منصوبہ رکھتا ہے.ان کا ایک ہی مقصد ہے.بعثت مہدی کے ساتھ جو کام شروع ہوا، اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ توحید خالص کو دنیا میں قائم کیا جائے.ہر دل میں تو حید خالص کو میخ کی طرح گاڑ دیا جائے.اور اسلام کو اس طرح غالب کیا جائے کہ غیر مسلم کا وجود نہ ہونے کے برابر رہ جائے.پہلے دن سے یہی منصوبہ تھا.لیکن وہ درجہ بدرجہ ترقی کرتا رہا.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اب ہم اس منصوبہ کے، یعنی اس عالمگیر جنگ کے، جو رحمتہ للعالمین کے زمانہ سے شروع ہوئی ہے، آخری معرکہ 172
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء میں داخل ہو گئے ہیں.جنگ محمد کی ہے.اور لڑی جارہی ہے، مہدی کی قیادت میں.وہ مہدی ، جس کا وجود جب ہماری روحانی آنکھیں تلاش کرتی ہیں تو نہیں دیکھ سکتیں.کیونکہ وہ وجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں گم ہو چکا اور غائب ہو چکا اور فنا ہو چکا ہے.اس واسطے من فرق بيني وبين المصطفى فما عرفني وما رأى منصوبہ اور ہماری روح کا احساس ہے.یعنی یہ کہنا کہ مہدی کوئی اور وجود ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اور وجود ہیں، غلط ہے.یہ واقعۂ غلط ہے.ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ غلط ہے، الہام ربانی کہتا ہے کہ یہ غلط ہے.اور ہمارا روحانی احساس کہتا ہے کہ یہ غلط ہے.اس مہدی نے یہ آخری معرکہ لڑ نا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑنا تھا.کیونکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ابدی حیات کے مالک ہیں.آپ کے فیوض روحانی نہ کسی زمانہ میں کئے اور نہ کٹ سکتے ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قیادت میں مہدی معہود نے جو آخری معرکہ اس زمانے میں شروع کیا تھا اور جس پر پچاسی سال گزر چکے ہیں ، وہ آخری معرکہ اپنے آخری دور میں داخل ہورہا ہے.اور یہ آخری دور ایک قسم کا فیصلہ کن دور ہے.یہ پندرہ سال پر پھیلا ہوا ہے.(اس وقت میں نے سولہ سال کا نام لیا تھا کیونکہ سولہویں سال کے کچھ مہینے ، چار مہینے کے قریب اس میں شامل تھے.اس کے لئے ہم نے یہ منصوبہ بنایا ہے، جس کی تفاصیل آپ کے سامنے آئیں ہیں.چونکہ مقاصد ایک ہی ہیں، اس لئے اگر کوئی تنظیم یہ سمجھے کہ تحریک جدید اور ہے اور یہ منہ ہے.یا صدرانجمن احمدیہ کے کام اور ہیں اور یہ منصوبہ اور ہے.یا وقف جدید کے کام اور ہیں اور یہ منصوبہ اور ہے.یا خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریاں اور ہیں اور یہ منصوبہ اور ہے.یا انصار اللہ کے فرائض اور ہیں اور یہ منصوبہ اور ہے.الجنہ اماءاللہ کی کوششیں اور ہیں اور یہ منصوبہ اور ہے.یا وقف عارضی کی تحریک اور ہے اور یہ منصوبہ اور ہے.یا فضل عمر فاؤنڈیشن اور نصرت جہاں ریز روفنڈ یا نصرت جہاں کا منصوبہ کوئی اور حقیقت رکھتا ہے اور یہ منصوبہ اور ہے.یہ غلط ہے.ہم نے جو سارے منصوبے بنائے اور اندرونی تنظیمیں قائم کیں اور تحریکیں چلائیں، وہ اسی جہت کی طرف ایک کوشش تھی.وہ ایک محدود کوشش تھی.اب ان ساری کوششوں کو مجموعی طور پر Boost دینے کے لئے ان میں شدت اور تیزی پیدا کرنے کے لئے یہ صد سالہ جوبلی منانے کا منصوبہ قائم کیا گیا ہے.اس لئے میں ایک ایسی کمیٹی بناؤں گا، جو ان میں تعاون پیدا کرے گی.اور جو اصل مقصد ہے کہ کوششوں میں شدت اور تیزی پیدا کی جائے ، اس کے حصول کے لئے وہ کمیٹی اتنا تعاون پیدا کر دے گی کہ ایک کا دوسرے سے فرق کرنا مشکل ہو جائے گا.173
خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم آپ لوگوں کو سمجھانے کے لئے میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں.ہم نے اپنے منصوبہ میں اشاعت علوم قرآن کے عنوان کے ماتحت تراجم قرآن کی اشاعت کی ایک شق رکھی تھی.میں نے سارے حالات سمجھتے ہوئے علی وجہ البصیرت تراجم قرآن کی اس شق میں فرانسیسی کا ترجمہ رکھا.اگرچہ فرانسیسی کا ترجمہ اس منصوبے کے اعلان سے پہلے ہو چکا تھا اور میرا خیال ہے کہ Revision بھی ہو چکی ہے اور پرنٹ بھی شروع ہے.لیکن میں نے اس کو اس منصوبے کا حصہ بنایا.اور ہے دراصل وہ اسی منصوبے کا حصہ.کیونکہ اس کے طبع ہونے کے بعد پھر اس کی اشاعت وغیرہ میں بہت سارے حصوں میں ہمارا یہ منصو بہ بھی شامل ہو جائے گا.اسی طرح روسی ، سپینش اور اٹالین تراجم ہیں، جن کی نظر ثانی ہونے والی ہے.ان کے مسودے موجود ہیں.ان کو بھی میں نے اس منصوبے کا حصہ بنایا ہے.اس لئے کہ اس منصوبے نے سارے کاموں میں شدت اور تیزی پیدا کرنی ہے.مریخ اور چاند پر جانے والے جو راکٹ ہیں، ان میں بھی BOOSTER ( بوسٹر ) لگائے ہوئے ہیں تو یہ راکٹ جو نوع انسانی کو اجتماعی طور پر ساتویں آسمان پر پہنچانے والے ہیں، ان کے اندر یہ بوسٹر کا کام دینے والا منصوبہ ہے.پس سب کام اکٹھے ہو جائیں گے.جو بکھری ہوئی چیزیں ہیں، ان کے اندر ایک تعاون پیدا ہو گا.اور زیادہ CO-OPERATION اور COORDINATION پیدا ہوگی.اور باہمی طور پر کام چلیں گے.اور ایسا ہو جائے گا کہ ہر تنظیم کا کام نمایاں طور پر ایک دوسرے کے ممدو معاون ہوگا.اور نتیجه یه چیز منصوبہ میں مد و معاون ہوگی.اور ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے اور ان دعاؤں کے نتیجہ میں اور ان روحانی ورزشوں کے نتیجہ میں ، جن کی طرف میں نے آپ کو توجہ دلائی ہے، جو بلی سال میں اس چیز کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ لیں گے.اور اپنے اس مقصد کو پانے میں کامیاب ہو جا ئیں گے، جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ.ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے بڑا سوچا اور دعائیں کیں.اور اس کے بعد میں نے جلسہ سالانہ پر یہ اعلان کیا کہ اس منصوبہ کا تعلق صرف صد سالہ جوبلی منانے سے نہیں ہے.صرف یہ مقصد نہیں ہے کہ سوسال پورے ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکرانے کے طور پر یہ جو بلی منائیں گے.بلکہ اس کے دو حصے ہیں.ایک یہ کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور اس کا شکر کرتے ہوئے ، اپنے اسلامی رنگ میں، جس میں نمائش نہیں ہو گئی ، جس میں فخر اور تکبر کا اظہار نہیں ہوگا، بلکہ عاجزی کا اظہار ہوگا.شکر اور حمد کرنے کے لئے وہ سال منانا ہے.( نو، دس مہینے، جتنا بھی وہ وقت بنے.) اس کے علاوہ میں نے ایک فقرہ یہ بولا 174
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء تھا کہ ہم نے نئی صدی کا استقبال کرنا ہے.نئی صدی کے استقبال سے میرا یہ مطلب ہے کہ جہاں تک میں نے غور کیا اور جہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھ عطا فرمائی ہے، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہماری زندگی کی ہماری حیات کی دوسری صدی، غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس وقت وہ حالات نہیں ہیں.اگر دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے تو اس پہلی صدی کا سواں سال جماعت احمدیہ پر اس طرح آئے اور سویں سال کے ختم ہونے تک جماعت احمدیہ کو اس طرح تیار کر دینا چاہیے کہ وہ جماعت کو اس عالمگیر کوشش کے قابل بنا دے، جو دنیا کو، نوع انسانی کو ، تمام ممالک کو، غرض یہ کہ ہر جگہ بسنے والے انسانوں کو تو حید خالص اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دے.آج آپ اس قابل نہیں ہیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا، سوزبانوں میں لٹریچر شائع کیا جائے گا.کیونکہ اس منصوبہ میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ وہ ساری دنیا کی زبانوں میں اسلام کا بنیادی لٹریچر یعنی بنیادی تعلیم پہنچا سکے.میرے اندازے اور سوچ کے مطابق پہلی صدی کے آخر میں جماعت اس قابل ہوسکتی ہے اور جماعت کو اپنی کوششوں اور اپنی تدبیر اور اپنی دعا کے نتیجہ میں خود کو بحیثیت جماعت اس قابل بنادینا چاہئے کہ اگلی صدی میں ہم دنیا کو روحانی طور پر للکارتے ہوئے ، اسلام کو غالب کرتے ہوئے ، آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.پھر صرف سوزبانوں کا سوال نہیں ہوگا.جب دوسری صدی شروع ہوگی تو ہماری کوششیں سو زبانوں میں محدود نہیں ہوں گی.انشاء اللہ تعالیٰ.اس وقت جماعت احمدیہ کی کوششیں دنیا کی ہر زبان میں دنیا کے ہر طبقہ کے لئے ہوں گی.اس وقت جماعت احمدیہ کی کوششیں دنیا کے ہر ملک میں تیزی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہوں گی.اس وقت کوئی کان اسلام کی بنیادی تعلیم، تو حید اور ختم نبوت سے نا آشنا نہیں رہے گا.اس مقصد کے لئے جماعت کو تیار کرنا ہے.پس یہ منصوبہ جماعت کو اس غرض کے لئے تیار کرنے کے لئے بنایا گیا ہے کہ جس وقت یہ صدی ختم ہو، جو تیاری کی صدی، جو بنیادوں کو مستحکم کرنے کی صدی ہے، جب یہ صدی ختم ہو اور جماعت خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے ہشاش بشاش، اس کی راہ میں قربانیاں کرتی ہوئی ، دوسری صدی میں داخل ہو تو وہ اس قابل ہو کہ ساری دنیا کے کان میں اس کی یہ آواز پہنچ رہی ہو کہ اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف رجوع کرو.ورنہ ہلاکت تمہارے سامنے کھڑی ہے.یہ ہمارا مقصد ہے.اور یہ وہی مقصد ہے، جو پہلے دن سے تھا.اور جہاں تک مقصد کا سوال ہے، اس سلسلہ میں لجنہ اماءاللہ کی کوششیں، خدام الاحمدیہ کی کوششیں انصار اللہ کی کوششیں، فضل عمر فاؤنڈیشن کی کوششیں، نصرت جہاں ریز روفنڈ کی کوششیں، وقف عارضی کی 175
خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کوششیں، وقف جدید کی کوششیں، تحریک جدید کی کوششیں اور صدر انجمن احمدیہ کی کوششیں ایک ہی چیز ہیں.ان میں کوئی فرق نہیں ہے.اور یہ منصوبہ جو ہے، اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کو اب ان راہوں کی طرف موڑ دے، جو جماعت کو اس قابل کر دیں کہ وہ دوسری صدی کا اس طرح استقبال کر سکے ، جس طرح کہ میں نے آپ سے بیان کیا ہے.اس کی مثال یہ ہے کہ دریاؤں کو آپ دیکھتے ہیں کہ ایک دریا کئی شاخیں نکال رہا ہوتا ہے.کوئی ادھر جا رہی ہے، کوئی ادھر جا رہی ہے.اور اس کے پانیوں کے کئی پاٹ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ آگے جا کر ختم ہو جاتے ہیں.اور پھر وہاں پانی نہیں ملتا.اور کئی پاٹ ایسے ہیں کہ وہ پانچ پانچ ، دس دس میل کا چکر کاٹ کر پھر واپس دریا میں آجاتے ہیں.پھر ایک جگہ بند بنایا جاتا ہے اور اس بند میں دریا کا سارا پانی ڈال دیا جاتا ہے.اور پھر اس سے لاکھوں بلکہ کئی ملین کلو واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے.یہ جو منصوبہ ہے، یہ ایک بند کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اب جماعت کی ساری کوششیں اس بند کے اوپر آ کر اکٹھی ہوں گی.اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے وہ طاقت GENERATE (جزیٹ) کرے گی، مہدی معہود کی اس مہم میں وہ طاقت پیدا ہوگی، جو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی.اور اس طرح پر جیسا کہ میں FORESEE کر رہا ہوں، جیسا کے میری | روح اسی یقین کے ساتھ دیکھ رہی ہے، جس طرح آج دن کو دیکھ رہی ہے.وہ صدی ، غلبہ اسلام کی صدی ہوگی.اس صدی میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے اور اسی کی دی ہوئی توفیق سے اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے فرشتوں کی مدد سے دنیا میں وہ انقلاب عظیم پیدا ہو جائے گا، جس انقلاب عظیم کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث کیا گیا اور جس کے لئے چودہ سو سال سے زائد عرصہ میں جنگ لڑی گئی.یہ ہمارا آخری معرکہ ہے.یہ اس جنگ کا آخری معرکہ ہے.پھر جنگ کے آخری معرکے کے بعد تو ثمرات کے اکٹھا کرنے کا وقت ہوتا ہے.اور جب میں کہتا ہوں، غلبہ اسلام کی صدی تو میرا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس صدی میں ہم اسلام کے لئے دنیا کے کونے کونے سے پھل اکٹھے کریں گے اور انسان کا دل بحیثیت نوع انسانی توحید خالص سے پر ہو جائے گا.اور وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور عرفان رکھے گا اور اس کی عظمت اور جلال کا جذبہ اس کے دل میں پیدا ہو گا.وہ اس کے ساتھ ایسی ذاتی محبت رکھے گا، جو دنیا کے کسی عاشق نے اپنے محبوب سے نہ رکھی ہوگی.اور پھر وہ حسین معاشرہ قائم ہو جائے گا، جس معاشرے کے لئے آدم سے لے کر آج 176
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء تک انسان ترستار با، مگر اسے قائم نہیں کر سکا.پھر اس دنیا میں جس ” دنیا کی جنت کا وعدہ دیا گیا ہے، وہ جنت نمایاں ہو کر سامنے آجائے گی.آج کل تو دل کے اندر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے جن دو جنتوں کا وعدہ دیا ہے، ان میں سے اس دنیا کی جنت تو ہمیں ٹھیک طرح نظر نہیں آرہی.جن کو نظر آرہی ہے، ان کو بھی دھندلی نظر آ رہی ہے.لیکن اس وقت وہ جنت نمایاں ہو کر سامنے آجائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہوگا.لیکن یہ آسان کام نہیں ہے لیکن یہ محدود کام نہیں ہے لیکن یہ ایسا کام نہیں ہے، جو ہم سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ نہ کر رہا ہو.اس مقصد کے حصول کے لئے روحانی دریا کے سامنے اتنا بڑا بند ہم اس لئے باندھ رہے ہیں کہ اس قدر طاقت پیدا ہو کہ پھر جو نہریں وہاں سے نکلیں ، ان سے دنیا کا ہر ملک سیراب ہو.اور جو روشنی اس سے پیدا ہو، ہر جھونپڑی میں وہ روشنی پہنچے.یہ مقصد ہم سے قربانی چاہتا ہے، بے حد قربانی ! بے انتہا قربانی !! اس کے لئے آپ تیارر ہیں.کیونکہ یہ آخری معرکہ ہے، اس میں مخالفت اتنی شدید ہوگی کہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر آج آپ کے سامنے بیان کروں تو آپ میں سے بعض کمزور دل کانپنا شروع کر دیں.لیکن مخالفت خواہ کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو جائے، خدا فرماتا ہے اور خدا کا یہ پیغام میں آپ کو پہنچا تا ہوں کہ یہ مخالفت شدید تو ہوگی مگر کامیاب نہیں ہوگی.انشاء اللہ فتح ونصرت فتح و نصرت اسلام کے حق میں مقدر ہے.خدا تعالیٰ کے پیار کو نوع انسانی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض اور قوت قدسیہ کے نتیجہ میں مہدی معہود کے ذریعے پانا ہے.ہر انسان نے وہ پالیتا ہے، جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے.اور ہر انسان کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جانا ہے کہ میں نے وہ پالیا ہے، جس کے لئے میں پیدا کیا گیا تھا.انشاء اللہ تعالی.یہ بڑی چیز ہے.جہاں تک صد سالہ جو بلی ریز روفنڈ کا تعلق ہے، اس کے لئے آپ قربانیاں دے رہے ہیں.آپ نے وعدے کئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان وعدوں کو پورا کرنے کی آپ کو توفیق عطا فرمائے.آپ نے تو وعدے کئے ہیں لیکن وہ نسلیں، جو بھی چھوٹی ہیں اور وہ احمدی، جوا بھی احمدیت میں داخل نہیں ہوئے ، انہوں نے تو یہ وعدے نہیں کئے اور نہ ان قربانیوں میں شامل ہوئے ہیں، خدا کرے کہ جس بشاشت کے ساتھ اور جس ایثار کے ساتھ آپ نے یہ وعدے کئے ہیں اسی محبت اور پیار اور ایثار کے ساتھ یہ دو آنے والی نسلیں بھی قربانیاں دیں.ایک وہ نسل ، جو اس زمانہ میں بالغ ہوگی.اور ایک وہ ، جو اس زمانہ میں احمد بیت میں داخل ہوگی.جیسا کہ میں نے کہا ہے، اب ہمارے سارے Resources اور تنظیمیں بند کے ذریعے ایک جگہ اکٹھی ہو کر زبردست طاقت بننے والی ہیں.اس لحاظ سے آپ کے بجٹ کا جو آج کا معیار ہے، اس کے 177
خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم مطابق اس سارے منصوبے پر عملاً ساڑھے نو کروڑ یا بیس کروڑ ، جو اس میں آئے ، وہی نہیں خرچ ہوں گے، بلکہ اس میں جمع ہوگا، وہ ستائیس کروڑ روپیہ، جو آج کے حساب سے آپ کے بجٹوں میں آنا ہے.لیکن ستائیس کروڑ نہیں، کیونکہ اس چھوٹے سے زمانہ میں جو میری خلافت کا زمانہ ہے، آپ کے چندہ عام اور آپ کے چندہ آمد ( یعنی موصی کے چندے) کی رقم سو فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے.یعنی دگنی ہوگئی ہے.کل اس سلسلہ میں، میں مشاورت کی رپورٹ دیکھ رہا تھا تو 63ء میں ہمارے عمو صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشاورت میں ناظر بیت المال سے یہ پوچھا کہ آپ کے دونوں چندے سارے کتنے ہیں؟ تو آپ کو جواب دیا گیا کہ اٹھارہ لاکھ.اور یہ جو آج کا بجٹ ہے، یہ سینتیس لاکھ کے قریب ہے.سینتیس لاکھ کے قریب آمد اور حصہ وصیت ہے.میں صرف اس کی بات کر رہا ہوں.ویسے صدر انجمن احمد یہ کا کل بجٹ پینتالیس لاکھ کے قریب ہے.تو اس حساب سے اگلے دس سال میں یہ پونے دو کروڑ ، جو آپ کا مجموعی بجٹ ہے، یہ ساڑھے تین کروڑ بن جائے گا.اور اس طرح وہ ستائیس کروڑ نہیں بلکہ چالیس، پینتالیس کروڑ ہو جائے گا، جمع اس منصوبے کی رقم.تو عملاً یہ پچاس، ساٹھ کروڑ کی رقم ہے.لیکن میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے، پچھلے خطبے میں بھی کہا تھا، ایک خطبے میں غالباً لا ہور میں کہا تھا کہ سوال اڑھائی کروڑ کا، سوال پانچ کروڑ کا ، سوال نو کروڑ کا یا میں کروڑ کا نہیں ہے.سوال اس رقم کا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس منصوبے کو کامیاب کرنے کے لئے چاہیے.اور ہم اسے نہیں جانتے.لیکن ہمارا خدا اسے جانتا ہے.اس لئے میں نے اعلان کیا تھا کہ مجھے فکر نہیں ہے.مجھے تو فکر ہے، اپنے اخلاص اور اپنے خدا سے پیار اور اپنی جماعت کی.مجھے اس کی فکر ہے، جس خدا کے علم میں ہے کہ اس منصوبے کے کامیاب کرنے کے لئے کتنی رقم چاہیے؟ جو کہ اس کا اپنا منصوبہ ہے.جس کا تعلق اس چیز سے ہے کہ سارے انسانوں کو اس نے اپنے پیار سے حصہ دینا چاہا ہے.اس کو پتہ ہے کہ کتنی رقم چاہیے؟ کتنی دولت چاہیے؟ وہ خود اس کا انتظام فرمائے گا.ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے.کہا گیا تھا کہ ہمارے اونٹ ہیں، ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے.جس کا مکہ (خانہ کعبہ ) ہے، وہ آپ ہی اس کی فکر کرے گا.یہ منصوبہ خدا تعالیٰ کی مشیت سے جاری کیا گیا ہے، وہ آپ ہی اس کی فکر کرے گا.(وہ بھی کہنے کی طرز ہے، باقی وہاں بھی فرق تو کوئی نہیں.ہم بھی، میں اور تم خدا ہی کے ہیں.لیکن ہم پر ذمہ داریاں ہیں کہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم: 07) 178
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ میرے پیار سے حصہ لینے کے لئے ، میری محبت کو پانے کے لئے ، میری رحمتوں کو بارش کی طرح اپنے پر برسانے کے لئے تمہیں کچھ ذمہ داریاں ادا کرنی پڑیں گی.ہمیں اس کی فکر ہے.چھپی ہوئی نحوستیں، چھپے ہوئے نفاق ، چھپی ہوئی بے ایمانیاں، چھپے ہوئے کفر کے جلوے دلوں کے اندر ہوتے ہیں، ایسی صورت میں جو بظاہر بڑی بڑی قربانیاں ہوتی ہیں ، وہ منہ پر ماردی جاتی ہیں اور قبول نہیں کی جاتیں ہمیں اس کی فکر ہے.اس لئے میں کہتا ہوں اور ہمیشہ کہتا ہوں، اس منصوبے کے اجرا کے ساتھ بھی یہی کہا ہے کہ جہاں آپ دنیاوی لحاظ سے قربانیاں دیں، وہاں خدا تعالیٰ کے حضور جھکیں، روزے رکھیں، نوافل پڑھیں ، خدا کا ذکر کریں، اس کی تسبیح کریں، اس کی حمد کریں، اس سے مغفرت چاہیں، دشمن کے مقابلے میں اسی کو مضبوط اور طاقتور اور سرچشمہ طاقت سمجھیں، استغفار کریں، اسلام کے غلبہ کے لئے دعائیں کریں.اور بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے ایک آگ آپ کے سینوں میں جل رہی ہو.پس خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اس کی رحمت کو جذب کریں اور اپنی تدبیر کو کامیاب کریں.ورنہ جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آسمانوں سے نازل نہ ہوں، تدابیر کامیاب نہیں ہوا کرتیں.پس دعاؤں کے ساتھ ، بے حد دعاؤں کے ساتھ ، مالی قربانیاں پیش کریں.جہاں تک مخالفت کا سوال ہے، ہمیں قرآن کریم میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ تمہاری مخالفت نہیں ہوگی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کو پیار تھا، آپ سے پہلے جو ایک سلسلہ نبوت تھا، جو پہلے نبی وسلم سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام پر ختم ہو گیا، اس میں چھوٹے چھوٹے ملکوں میں اور بعض دفعہ شہروں میں بھی نبی آتے تھے، ان سب کو یہی کہا گیا کہ سوائے خدا کے کسی سے نہ ڈرنا.تم اور میں (یا میں تم کے اندر اپنے آپ کو شامل کرتا ہوں.) تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع ہو اور اس وقت تمہارا جو مہدی ہے، اس کے متعلق احمدیت سے پہلے بزرگوں نے کہا تھا کہ وہ تمام گزشتہ انبیاء سے افضل ہوگا، اس لئے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کال کامل ہے، آج تم اس کے متبع ہو.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ جلائی گئی تھی اور وہ آگ میں کود گئے تھے.میں یہ کہتا ہوں اور یہ بھی ٹھیک ہے اور خدا کا ایک نشان ہے کہ خدا کا ایک بندہ خدا پر اتنا تو کل کرتا تھا کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اگر میں آگ میں جل جاؤں گا تو کیا ہوگا ؟ لیکن نہیں ! ابراہیم علیہ السلام آگ میں اس یقین کے ساتھ کو د گئے تھے کہ یہ آگ مجھے نہیں جلائے گی.پس جماعت کے دوستوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ یہ یقین تمہیں بھی دلایا گیا ہے.اس یقین پر قائم رہیں.تمہارے کانوں میں اس عظیم مہدی معہود کی یہ آواز پڑی ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.179
خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اگر آپ واقعہ میں مہدی معہود کے غلام ہیں.اگر آپ واقعہ میں مہدی معہود کے ساتھ خود کو منسلک کر کے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنی چاکر بنا چاہتے ہیں تو آ گئیں آپ کو ڈرائیں گی یا آگ آپ سے ڈرے گی ، کیا ہوگا؟ آگ ڈرے گی! آپ کو آگ نہیں ڈرا سکتی.آپ کو مخالفتیں نہیں ڈرا سکتیں.قرآن کریم نے آپ کو کہا کہ ان مخالفتوں سے مت ڈرنا.فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَوْنِي صرف مجھ سے خوف کرو اور میری خشیت پیدا ہو.جس دل میں خشیت اللہ پیدا ہو جاتی ہے، وہ وہی دل ہے، جس نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کی معرفت حاصل کی ہو اور جس دل میں خدا تعالیٰ کے عرفان کا احساس بیدار ہو جاتا ہے اور شدت اختیار کر جاتا ہے.تو وہ اسے اس مقام تک لے جاتا ہے کہ انسان واقعہ میں خود کو ایک غیر مرئی مخلوق پر کلی طور پر حاوی، قادر مطلق اور واجب الوجود ہستی کی گود میں محسوس کرتا ہے.یہ محبت کا تقاضا ہے.یہ عظمت اور جلال کا احساس ہے.اس محبت کا روحانی احساس ایک احمدی کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور مہدی معہود کی تعلیم کے ذریعے پیدا ہو چکا ہے.پس دنیا کی طاقتیں ہمیں کیا ڈرا ئیں گی؟ اور دنیا کی طاقتیں ہمارا کیا بگاڑسکتی ہیں؟ خدا کا وعدہ پورا ہوگا اور اسلام دنیا میں غالب آئے گا اور ہمیشہ غالب رہے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اس کے لئے اب بھی دعا کرتے ہیں.جو دعائیں میں نے بتائی ہیں، وہ بعد میں بھی آپ کرتے رہیں اور واپس جا کر جماعت کے ذہنوں کو اس کے لئے تیار کریں.انہیں بتائیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے وعدے جو ہیں، وہ پورے ہوتے ہیں.اور اگر خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کے راستہ میں زمین و آسمان کی طاقتیں بھی حائل ہوں تو وہ روکیں دور ہو جاتی ہیں.اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو جاتا ہے.اس کے لئے نوجوانوں کے ذہنوں کو تیار کریں، بڑوں کے ذہنوں کو تیار کریں، نئے احمدی ہونے والوں کے ذہنوں کو تیار کریں ، عورتوں کے ذہنوں کو تیار کریں.تا کہ ایک ایسا حسین معاشرہ، ایک ایسا اکٹھ جس کے اندر کوئی شرک اور بدکاری داخل ہی نہ ہو سکے ، وہ قائم ہو جائے.جو عورت پر دہ چھوڑ دیتی ہے، اس خاندان سے آپ کا کیا تعلق؟ آپ مہدی علیہ السلام سے اپنا تعلق رکھنا چاہتے ہیں، آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہنا چاہتے ہیں یا اپنی یہ غیر ذمہ دارانہ دوستیاں رکھنا چاہتے ہیں؟ بات کرنا چھوڑ دیں، ان 180
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 31 مارچ 1974ء لوگوں سے، جن کے گھروں میں پردہ نہیں ہے اور جوروایات سلسلہ کے خلاف چل رہے ہیں.اور بالکل اس طرح ایک جان ہو جائیں، جس طرح کہ دنیا میں، اس مادی دنیا میں سب سے زیادہ شدت سے ایک جان ہونے والا ہیرا ہے.لوہا بھی اگر اس کو کاٹنے کی کوشش کرے تو وہ خود کٹ جاتا ہے.لیکن ہیرے کو نہیں کاٹ سکتا.اس قدر اس کے ذرات مضبوطی کے ساتھ اور ایک جان ہو کر اور اگر ہم اس کی زبان استعمال کریں، اگر چہ اس میں جان نہیں ہے.) محبت اور پیار کے ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں.لیکن تمہاری قیمت تو ہیرے سے زیادہ ہے.کیا جو منہ تمہیں اس مادی دنیا میں ہیرا دکھاتا ہے، تم اپنے خدا کو ہ نمونہ نہیں دکھاؤ گے.پس دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اور اللہ تعالیٰ دنیا کی ہدایت کے سامان پیدا کرے.اور اللہ تعالیٰ تیاری کے ان پندرہ سالوں میں جو اس کی نگاہ میں صحیح تیاری ہونی چاہیے، اس کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.جو ہماری بھول ہے، وہ بھول نہ رہے.اللہ تعالیٰ ہماری ہدایت کے سامان پیدا کرے.ہماری ہدایت کے جو سامان ہیں، ہمارے عمل ان کے پورا کرنے میں کو تاہی نہ کریں.پس ہم پوری کوشش کے ساتھ ، تدبیر کو اپنے کمال تک پہنچا کر اور عاجزانہ دعاؤں کو بھی اپنی انتہا تک پہنچا کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے انفرادی اور اجتماعی ہر دو لحاظ سے وارث بنیں.اور خدا کا بول بالا ہو اور اسلام دنیا میں غالب آئے.اب آئیں دعا کر لیں.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 29 تا 31 مارچ 1974ء) 181
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 جنوری 1975ء ہم اشاعت اسلام کے عالمگیر منصوبہ کے لئے خدا کی نصرت کے طالب ہیں 33 خطبہ جمعہ فرمودہ 03 جنوری 1975ء ایک سال آیا اور گزر گیا.ایک نئے سال میں ہم داخل ہورہے ہیں.مومن کا قدم ہمیشہ آگے پڑتا ہے.وہ نہ پیچھے کی طرف دیکھتا ہے اور نہ ایک جگہ پر ٹھہرتا ہے.پچھلا سال کچھ تلخیاں لے کر آیا مگر بہت سے فضلوں، رحمتوں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے سامان بھی لے کر آیا.خدا تعالیٰ کی جو رحمتیں عالمگیر اور بین الاقوامی حیثیت کی تھیں اور بہت سے احمدیوں کی نظر سے بھی اوجھل تھیں، پچھلا سال انہیں نمایاں کر کے ہمارے سامنے لے کر آیا.پچھلا سال صد سالہ جو بلی تحریک کا پہلا سال تھا.جماعت احمدیہ نے پہلی بار اشاعت اسلام کے بین الاقوامی منصوبوں کی ابتدا کی تھی.بعض ملکوں کو اکٹھا کر کے ان میں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کریم کے منصوبے بنائے گئے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں نے انہیں کامیاب بھی کیا.گویا اشاعت اسلام کے عالمگیر اور بین الاقوامی منصوبے کی ابتداء گزشتہ سال یعنی 1973 ء کے جلسہ سالانہ پر ہوئی تھی.جس کے نتیجہ میں ایک عالمگیر بین الاقوامی مخالفت کی بھی ابتدا ہوئی اور ہونی بھی چاہیے تھی.کیونکہ حاسدوں کا حسد ہمیں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پیار دیکھنے کے مواقع میسر کرتا ہے.غرض صد سالہ جو بلی منصوبہ کی ابتدا ہو چکی ہے.یہ اس منصوبہ کا دوسرا سال ہے.بالفاظ دیگر ایک اور سال ہے، ہماری اور جماعت احمدیہ کی زندگی کا، جس میں ہم داخل ہورہے ہیں.انفرادی حیثیت سے ہم میں سے ہر شخص بچہ، جوان اور بوڑھا، مرد اور عورت اپنے بڑھاپے کی طرف حرکت کر رہا ہے.مگر جماعتی حیثیت سے ہم ہر سال اپنی جوانی کی طرف اور اپنی کامیابیوں کی طرف حرکت کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک خاص مقصد کے لئے قائم کیا ہے.اس درخت کو ایک خاص قسم کے پھلوں کے لئے اور خاص قسم کی برکتوں کو بنی نوع انسان تک پہنچانے کے لئے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے کہ نوع انسانی، سوائے استثنائی طور پر چند محروموں کے، اسلام کے اس درخت کے سایہ سے اور اس کے پھلوں سے فائدہ حاصل کرے گی لیکن آج کا زمانہ اس درخت کی نشو ونما کا زمانہ ہے.کچھ خوش نصیب لوگ ہیں، جو اس کی شاخوں پر بسیرا کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں کہ مستقبل 183
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 03 جنوری 1975ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ان کو خدا کے پیار کے نتیجہ میں اس طرف لے آئے گا اور وہ اس کی شاخوں پر بسیرا کریں گے.ایک دن نوع انسانی ساری کی ساری اس درخت کی شاخوں پر بسیرا کر رہی ہوگی.اور وہ منصوبہ جو آسمانوں پر بنایا گیا ہے اور جس کی بشارت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کو دی تھی، وہی منصوبہ کامیاب ہوگا.اور دنیا اپنے پیدا کرنے والے رب کی معرفت حاصل کر چکی ہوگی اور اس کی رحمتوں سے حصہ لینے والی ہوگی.یہ ذمہ داری جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.ہم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بھی ہیں اور اس کے شکر کے ترانے بھی پڑھنے والے ہیں اور اس کے حضور عاجزانہ طور پر یہ دعا بھی کرنے والے ہیں کہ :.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ، اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) کہ اے خدا! ج قو تیں اور استعدادیں انفرادی اور اجتماعی طور پر تو نے ہمیں دی ہیں، ہم حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھائیں.لیکن ہم یہ احساس رکھتے ہیں کہ جب تک مزید قو تیں اور طاقتیں اجتماعی طور پر ہمیں نہیں ملیں گی ، اشاعت اسلام کا وہ عالمگیر منصوبہ ، جو ہمارے سپر دہوا ہے، اس کو ہم کامیاب نہیں کر سکتے.اس لئے خدا تعالیٰ سے استعانت کرتے اور اس کی مدد و نصرت کے ہم ہر آن طالب ہیں.اور عاجزانہ دعاؤں میں اس نصرت کے حصول کے لئے لگے ہوئے ہیں.اور یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ زندگی کے ہر مرحلہ میں اور اس اجتماعی جدوجہد کے ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کرنے والا ہو.اور ہمیں راہ ہدایت اور صراط مستقیم دکھانے والا ہو.اور جماعت کو اجتماعی طور پر بھی صراط مستقیم پر قائم رکھے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے خود ہمارا ہاتھ پکڑے اور ہمیں شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے لے جاتا چلا جائے.پس ہمارا ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا سال، برکتوں کا سال اور رحمتوں کا سال ہوتا ہے.بلکہ ہمارا ہر سال پہلے سے زیادہ برکتوں، پہلے سے زیادہ رحمتوں اور پہلے سے زیادہ فضلوں کا سال ہوتا ہے.اس لئے اس نئے سال کو بھی ہم ان عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ کہیں ہماری کوئی کمزوری ان برکتوں کے حصول کے راستہ میں حائل نہ ہو جائے.بلکہ جیسا کہ پہلے ہوتا چلا آیا ہے، اسی طرح اب بھی یہ نیا سال پہلے سے زیادہ رحمتوں، برکتوں اور فضلوں کو لانے والا ہو.(مطبوعه روز نامه الفضل 17 جنوری 1975ء) 184
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 جنوری 1975ء جماعت احمدیہ کے قیام کا اصل مقصد دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے دو خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جنوری 1975ء ایک لمبا منصو بہ ہوتا ہے، مثلاً یہ ایک لمبا منصوبہ ہے، جو جماعت کے سپرد کیا گیا ہے.ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کی بنیادی غرض یہ تھی کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آئے.یہ ایک لمبا منصوبہ، بنیادی منصوبہ یا غرض یا مقصد مہدی علیہ السلام کا یا ان کی بعثت کا تھا.انسانی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جو منصوبہ یا کام ایک زمانہ پر پھیلا ہوا ہو، اسے وہ مختلف حصوں میں بانٹ کر ایک ایک حصہ کی تکمیل کرتا ہوا اپنی آخری منزل تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے.یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے.انسانی جسم بھی درجہ بدرجہ اپنے کمال کو پہنچتا اور انسان کے اخلاقی اور روحانی قویٰ بھی درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی منازل طے کرتے ہوئے اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں.درجہ بدرجہ آگے بڑھنے کا ایک ایسا اصول ہے، جو بنیادی ہے.خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوق کے ساتھ بھی اور انسان کے ساتھ بھی.ہماری زندگیوں کا اور جماعت احمدیہ کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کو غالب کیا جائے.اس منصوبے نے بھی درجہ بدرجہ ترقی کرنی تھی اور اس وقت تک یہ منصو بہ درجہ بدرجہ ترقی کرتا چلا آرہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وقت جب آپ اکیلے تھے، اس آواز کو بلند کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ میرے ذریعے سے امت محمدیہ میں ایک ایسی جماعت قائم کی جائے کہ جو اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر کے اسلام کو سب ادیان باطلہ پر غالب کرنے والی اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے والی ہو اور بنی نوع انسان کے دل اللہ تعالٰی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جیتنے والی ہو.جس وقت یہ آواز اٹھائی گئی، اس وقت آپ اکیلے تھے.مگر پھر سینکڑوں بنے.پھر ہزاروں بنے.پھر لاکھوں بن گئے.پہلے محدود تھے مکانی لحاظ سے، ہندوستان کے بعض ( تین یا چار محدود مختصر اور چھوٹے چھوٹے علاقوں میں.پھر ان علاقوں میں وسعت پیدا ہونی شروع ہوئی.پھر یہ جماعت پنجاب میں پھیلی ، پھر ہندوستان میں پھیلی ، پھر کہیں کہیں باہر کے ممالک میں جماعت احمدیہ میں لوگ داخل ہونا شروع ہوئے.پھر ملکوں ملکوں میں پھیل کر اپنی اجتماعی زندگی کے ایک خاص موڑ پر آج یہ جماعت پہنچ چکی ہے.185
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 جنوری 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم اور جیسا کہ میں احباب کو بتا چکا ہوں کہ یہ صدی ہماری تیاری کی صدی تھی.اور انشاء اللہ ہماری زندگی کی دوسری صدی دنیا میں اسلام کے غالب ہو جانے کی صدی ہوگی.اور اس کے لئے جو پندرہ سال ہماری زندگی کے پہلی صدی کے باقی رہ گئے ہیں، اس میں ہم نے تیاری کرنی ہے ، غلبہ اسلام کی صدی کے استقبال کی.یہ پندرہ سال جو ہیں، اس کے لئے ہم نے ایک منصوبہ بنایا ، جو صد سالہ جوبلی فنڈ کے نام سے موسوم ہے.اس کے لئے جماعت نے مالی میدان میں بڑی قربانی دی ، جو حیران کن ہے اور شاید لبعض کے لئے پریشان کن بھی ہے.بہر حال ایک عظیم قربانی دی.اس کے لئے ہمیں صرف مالی قربانیوں کی تو ضرورت نہیں.مالی قربانی بھی بڑی ضروری ہے.کیونکہ دوسری قربانیوں کے نتائج نکالنے کے لئے اموال کی ضرورت پڑتی ہے.لیکن اس کے لئے ہمیں اگلی صدی کے شروع میں سینکڑوں، ہزاروں مبلغین کی ضرورت پڑے گی.اور ہزاروں مبلغین کا پیدا کرنا، پندرہ سال کے اندر موجودہ نظام میں ممکن نہیں ہے.اس لئے اس کے متعلق ہمیں کچھ کرنا پڑے گا.پہلے بھی میں تحریک کرتارہا ہوں، وقف بعد ریٹائر منٹ کی.وہ اپنی ایک تحریک ہے.لیکن ضرورت کے موقع پر ممکن ہے، ہزاروں درمیانی عمر کے احمدیوں کو اپنے دنیوی کام چھوڑ چھاڑ کے دین کی خاطر اسلام کے غلبہ کے لئے میدان میں اترنا پڑے.ایک لمبا وقف عارضی جو دو ہفتے کا نہیں شاید تین یا پانچ سال کا ہو یا جو چاہئیں، اس سے زیادہ وقت دیں، ایسا وقف کرنا پڑے گا.اس کی تفاصیل ذہن میں آ رہی ہیں.وہ تو بعد میں کسی مناسب موقع پر میں انشاء اللہ جماعت کے سامنے رکھوں گا.بہر حال ان پندرہ سال میں غلبہ اسلام کی صدی کے استقبال کے لئے ہم نے جو کام کرتے ہیں، وہ بھی درجہ بدرجہ ہمارے سامنے آئیں گے.اور ہم درجہ بدرجہ اس صدی کی طرف حرکت کریں گے، اپنی عاجزانہ کوششوں کے ساتھ ، اپنی مستانہ دعاؤں کے ساتھ کوششوں کو با برکت کرنے کے سامان پیدا کرتے ہوئے.وہ یہ جو پندرہ سال رہ گئے ہیں، ان میں یہ سال، جس میں ہم اب داخل ہو رہے ہیں، گو مارچ میں صد سالہ جو بلی کا سال شروع ہوتا ہے، لیکن جلسہ کی وجہ سے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ پھیری ہے کہ جو ہمارے عقائد ہیں، ان کا ہر چھوٹے بڑے کے لئے اور مردوزن کے لئے جانا ضروری ہے.اور بار بار ان کا درس ہونا چاہیے.میری جلسہ سالانہ کی 28 تاریخ کی جو تقریرتھی ، اس میں، میں نے مختصراً بعض مضامین کو لے کر جماعت کے سامنے رکھا تھا.لیکن ہمارے صرف وہی عقائد تو نہیں ہیں.اسلام نے جو عقائد ہمارے سامنے رکھے، ان میں بہت وسعت ہے.جیسا کہ ہم نے ان کو حضرت 186
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 10 جنوری 1975ء سے.مہدی علیہ السلام کی استدلالی اور تغیری تعلیم کی روشنی میں پہچانا.ان میں بڑی وسعت ہے.مثلا کسی وقت اعلای اسلامی استدلالی اور کی ان میں بڑی مثلا سی قضاوقدر بڑا الجھا ہوا مسئلہ تھا.لیکن مہدی علیہ السلام نے اس کو اس طرح حل کر دیا اور اس کی وہ ساری گنجلکیں نکال دیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کو الجھا ہوا کون کہتا تھا ؟ لیکن اگر ہم اس مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ بڑوں اور چھوٹوں، مردوں اور عورتوں کے سامنے بیان نہ کرتے رہیں تو پھر الجھ جائے گا.یا مثلاً جنت اور دوزخ کے متعلق اسلامی تعلیم ، جس میں حقیقی حسن پایا جاتا ہے، اس حسن کو جس رنگ میں حضرت مہدی علیہ السلام نے ہمارے سامنے رکھا اور وہ ہمارا عقیدہ بن گیا، اس کے متعلق ہر عمر اور سمجھ کے لحاظ سے جماعت کے سامنے ہمیں مسائل کو پیش کرنا پڑے گا.یا مثلاً مرنے کے بعد روح کی جو کیفیت یا کیفیات ہوتی ہیں اور جو دوسری زندگی ہے، اخروی زندگی ، یہ کس قسم کی ہے؟ اور جنت (بعد از قیامت) اور اس سے پہلے کے برزخ کا زمانہ وغیرہ اصطلاحیں استعمال ہو رہی تھیں اور ان کا مطلب اندھیروں میں چھپا ہوا تھا، اس کو اس نور نے ظاہر کیا، جو حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے حضرت نبی اکرم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیا.اس نور کی روشنی میں ایک عجیب چیز ہمارے سامنے آگئی.لیکن یہ حقیقت ہے کہ سارے احمدی تو ان چیزوں کو اس رنگ میں ابھی جانتے نہیں.دو وجہ - ایک تو جماعت چھوٹی ہے اور بڑھتی جارہی ہے.جو نئے ہمارے اندر آ رہے ہیں، ان کو سکھانا پڑے گا.جماعت چھوٹی ہے اور بڑھتی جارہی ہے اور جو بچے ہمارے جوان ہورہے ہیں ، ان کو ہمیں سمجھانا پڑے گا.دو طرح وسعت پیدا ہو رہی ہے، جماعت میں.اور ذکر ایک بڑی اہم ہدایت ہے.ہر وقت یہ چیزیں سامنے آنی چاہئیں.بڑے بڑے ماہر بھی اگر کچھ عرصہ اپنے مہارت والے کاموں سے علیحدہ رہیں تو انگریزی کا محاورہ ہے کہ "I am out of touch" کہ میں تو دیر سے اس چیز کو چھوڑ بیٹھا ہوں ، اس وجہ سے میرے ذہن میں وہ پوری تفاصیل روشن ہو کر نہیں ہیں موجود.اس کو وہ تسلیم کرتے ہیں اور ہر عقلمند، دیانت دار انسان کو تسلیم کرنا چاہیے.جس کا مطلب ہے کہ ہر وقت چوکس ہو کر ان باتوں کو بڑوں کے سامنے، جنہوں نے ایک وقت میں سمجھا، ان کے سامنے بھی لانا چاہیے.پس یہ پہلا سال، پندرہ سالہ کوشش کا پہلا زینہ ہے.جس میں ہم نے اپنے عقائد سے خود کو اور اپنے بھائیوں کو اور بچوں کو، ماؤں کو اور بیویوں کو اور بیٹیوں کو ان سے آگاہ کرنا ہے.اور اس کے لئے ہمیں بڑی محنت کر کے کتابیں لکھنی پڑیں گی.اپنے تخیلات کے نتیجہ میں نہیں اور "Flight of Imagination" کے نتیجہ میں نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس رنگ میں روشنی ڈالی ہے، اس رنگ میں مدون کر کے.اور 187
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 10 جنوری 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اگر کہیں بچوں کی استعداد سے زیادہ علم ہوتو بچوں کو سمجھانے کے لئے بچوں والی زبان میں ان کو لا کر.اس قسم کی کتا ہیں ہمیں لکھنی پڑیں گی.اور اس سال میں، جس میں ہم داخل ہو گئے، اس سال میں ہم صد سالہ جو بلی کے لحاظ سے عنقریب داخل ہونے والے ہیں، ہمیں دو باتیں کرنی پڑیں گی.اس سال کا ہمارا پروگرام یہ ہے:.ایک ، کتابیں تیار کرنا اور شائع کر دینا.اور دوسرے، ہر احمدی کے ہاتھ میں مختصر اصول سے متعلق ایک مختصر، چھوٹی کتاب دے دینا ہے، جسے وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھے اور پڑھے اور آپس میں تبادلہ خیال کرے اور ایک دوسرے کو سمجھائے.اگلے سال جلسہ کے موقع پر انشاء اللہ تعالیٰ ہر آدمی اپنے بنیادی عقائد سے پوری طرح واقف " ہو.تا کہ وہ ان عقائد کی روشنی میں دوسروں سے تبادلہ خیال کر سکے.....بہر حال اس سال کا پروگرام ہے، یعنی ہمارا صد سالہ جوبلی کا جو منصوبہ ہے، جس کا اب پہلا سال گزر چکا ہے اور اب پندرہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چودہ سال باقی رہ گئے ہیں، کیونکہ پچھلا ایک سال تو ہم نے گزار دیا ہے.اور پہلا سال تھا مالی میدان میں وعدوں کا اور حصے کے پورا کرنے کا.اس میں کام ہوا اور وہ مکمل ہو گیا.اس کام میں جماعت میں ایک حرکت پیدا ہوگئی اور دوستوں نے وعدے کرنے میں کمال کر دیا.میں نے بتایا، ہمارے لئے حمد کے سامان پیدا کئے اور حیرانی کے سامان پیدا کئے.خدا تعالیٰ نے اتنی طاقت دی کہ حیرانی کے نتیجہ میں ہی حمد جو ہے، وہ جوش مارتی ہے اور بعض کے لئے پریشانی تھی کہ یہ کیا ہو گیا.اتنی طاقتور ہوگئی جماعت.ہمارا دوسرا سال اب مارچ سے شروع ہو گا.اور اس کے بعد چودہ سال باقی رہ جائیں گے.تو ان پندرہ سال میں سے پہلا سال مالی میدان میں تیاری کرنے کا تھا.دوسر اسال علمی میدان میں تیاری کا ہے کہ جو ہدایت اور جونو ر اور جو روشنی اللہ تعالیٰ نے اسلام میں ہمارے لئے رکھی، جسے ہم نے مہدی علیہ السلام کے ذریعہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل حاصل کیا ہے، وہ روشنی کہیں ہماری آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے.اس لئے تم پکے ہو جاؤ.خود بھی اور پکے کرو اپنی نسلوں کو بھی اور ان کو بھی جو ہمارے اندر شامل ہورہے ہیں.اس کے لئے فوری کام شروع ہونا چاہیے.کچھ میری بھی خواہشات ہیں اور ارادے ہیں، ان کے لئے میں بھی دعا کر رہا ہوں، آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ کچھ میں بھی لکھوں جماعت کے لئے بنیادی طور پر.بڑی دیر سے میرا ارادہ تھا.کچھ کام کیا ہے لیکن دوسرے کاموں کی وجہ سے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی.میرا خیال تھا کہ نوجوانوں کے لئے مختصر آیہ عقائد جو ہیں، اس کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات اکٹھے کر کے جہاں کہیں اپنی طرف سے اس کی وضاحت کرنی ہو، وہ کر کے ایک چھوٹی سی کتاب، جو ہر 188
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 جنوری 1975ء وقت ان کے پاس رہے اور ہر وقت وہ پڑھتے رہیں اور ہم دیکھتے رہیں کہ وہ پڑھتے ہیں تو اللہ تعالٰی نے اگر توفیق دی تو اس کی میں کوشش کروں گا.لیکن وہ تو ایک چھوٹی سی بنیاد ہو گی لیکن اس سے آگے ہمیں جانا چاہیے.ابھی ہمیں دس پندرہ کتابیں لکھنی پڑیں گی.لیکن وہ بہت زیادہ بڑی بھی نہیں ہونی چاہئیں اور بہت زیادہ چھوٹی بھی نہیں ہونی چاہئیں.مختصراً، اختصار کے ساتھ اور وضاحت کے ساتھ ان کو تیار کرنا چاہیے.اس کے لئے بڑی محنت کی ضرورت پڑے گی، بہت کچھ دیکھنا پڑے گا.لیکن یہ جو اس سال کا منصوبہ ہے، یہ صرف ہمارے عقائد سے تعلق رکھتا ہے، یعنی اس میں مناظرانہ رنگ نہیں کہ اس کے مقابلہ میں فلاں کا عقیدہ کیا ہے، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے ایک صداقت تک پہنچا دیا ، ہم چاہتے ہیں کہ وہ صداقت ہماری نظروں سے غائب نہ ہو جائے اور ہماری زندگیوں سے دور نہ چلی جائے، کہیں ہم ناکام نہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی ناکامیوں سے محفوظ رکھے.اس کے لئے ناظر اصلاح و ارشاد اور وکیل التبشیر پرمشتمل دو آدمیوں کی میں کمیٹی اس وقت بنا دیتا ہوں اور باقی وہ مجھ سے مشورہ کر لیں اور اس کام کو فوری طور پر وہ شروع کر دیں.فوری طور سے میری مراد ہے، کل سے شروع کردیں.اور یہ کوشش ہونی چاہیے کہ دو، تین مہینے کے اندر کوئی چیز آ جائے.پھر اس سال کے کہ اندر ہم اپنے اس مقصد کو حاصل کر لیں اور اس کے بعد اسی سال کچھ ہم کریں گے.لیکن اس کے تراجم کے متعلق اس وقت میرے ذہن میں کوئی منصوبہ نہیں.اللہ تعالیٰ خود مجھ عطا کر دے گا، اپنے موقع پر.لیکن بہر حال ہم نے ساری دنیا کی زبانوں میں پھر ان عقائد کی اشاعت کرنی ہے اور یہ بھی ہم نے انتخاب کرنا ہے کہ شروع میں غیر زبانوں کے لئے ہمیں بہر حال مختصر، جو تین، چار سو صفحہ کی اس سائز کی ، جس کا مطلب ہے، سو، دو سو صفحہ کی کوئی کتاب ہو، جس کے ہم ترجمے کرتے چلے جائیں.پھر تفاصیل باہر والوں کے لئے ہم بعد میں دے سکتے ہیں.بہر حال یہ اس کے ساتھ ہی ہے ایک دوسرا پہلو ہے.صرف اردو میں تو نہیں.ساری دنیا میں اگر احمدی پھیل چکے ہیں تو ساری دنیا کی ضرورت پیدا ہو چکی ہے.یہ نہیں کہ ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں، اس وقت آج یہ ایک حقیقت ہے.دنیا میں انسان کی زندگی کی حقیقت ہے کہ ساری دنیا کی زبانوں میں مہدی علیہ السلام نے جس رنگ میں اسلام کی روشنی دنیا میں پھیلانی چاہی ، ان زبانوں میں لٹریچر تیار ہونا چاہیے.بہر حال اس طرف بھی ہم نے توجہ دینی ہے.لیکن اس سال ہم نے یہ اپنے لئے اردو میں ضرور کر دینا ہے، انشاء اللہ، اللہ کی توفیق سے.اور پھر تراجم کی طرف ہم نے متوجہ ہونا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی بھی توفیق دے رجئر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 189
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1975ء اسلام کی ابدی صداقتوں کونئی نسل کے سامنے دہراتے چلے جائیں خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1975ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس وقت جماعت احمد یہ ایک نہایت ہی اہم اور نازک تربیتی دور میں داخل ہو چکی ہے.مخالفت نے اس وقت جو رنگ اختیار کیا ہے، وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم تربیت پر بہت زور دیں.تربیت کی ذمہ داری بچوں پر نہیں ڈالی جاسکتی اور نہ نو جوانوں پر ڈالی جاسکتی ہے.یہ کام بڑوں کا ہے.یعنی عمر میں اور تجربے میں ثقہ اور سبھی ہوئی طبیعتوں والے انصار کا یہ فرض ہے کہ وہ تربیت کی طرف توجہ دیں.چنانچہ آج میں اپنے انصار بھائیوں سے اسی سلسلہ میں مخاطب ہورہا ہوں..الہی سلسلے یا امت محمدیہ کے اندر وہ آخری الہی سلسلہ، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں قائم کیا گیا، اس سے پہلے کے الہی سلسلے تنزل کرتے ہوئے نئے سلسلوں کی شکل اختیار کرتے چلے گئے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو امت بنائی گئی، اس میں مختلف ادوار میں اور مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحین اور مجددین پیدا کئے گئے.جنہوں نے اپنے اپنے علاقوں اور زمانوں میں دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کی ذمہ داری نباہی.اور اس طرح یہ شمعیں نسلاً بعد نسل روشن ہوتی رہیں اور اسلام اپنی خالص اور پیج شکل میں دنیا کے سامنے آتا رہا.یہاں تک کہ مہدی علیہ السلام کا زمانہ آ گیا.اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے اولیاء اللہ کو بھی بتایا ہے اور انہوں نے اپنی کتب میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ مہدی علیہ السلام کا نور قیامت تک ممتد ہو گا.جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک ایک کے بعد دوسری نسل کی تربیت ضروری ہے.تاکہ وہ نور، جو اسلام کا نور ہے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے، جسے دنیا نے مہدی علیہ السلام کے ذریعہ دیکھا، وہ اپنی پوری چمک اور روشنی کے ساتھ قائم رہے.ہمارے دلوں میں بھی اور ہمارے اعمال میں بھی ، ہماری کوششوں میں بھی اور ہماری زندگی کے ہر پہلو میں بھی.تا کہ جس غرض کے لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے ، وہ غرض پوری ہوتی رہے اور ہر انسان ہمارے محبوب آقا، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اپنے رب کی معرفت بھی حاصل کرے اور اس کی رحمتوں کا بھی حصہ دار بنے.191
خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے، پہلے انبیاء کے سلسلوں میں تنزل واقع ہوا اور پھر نئے انبیاء مبعوث ہوئے یا امت محمدیہ میں مجددین ، مصلحین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والوں نے اپنے اپنے وقتوں میں اسلام کے نور کو اور وہ ، جو سراج منیر تھا، اس کی روشنی کو از سر نو قائم کیا تو پھر اس میں تنزل اور تبدیلی جو واقع ہوئی، وہ کیوں؟ وہ اس لئے کہ آئندہ نسلوں کو سنبھالا نہیں گیا اور ان کی تربیت نہیں کی گئی.انہوں نے اپنی آنکھوں سے جن حقائق کو اور جن صداقتوں کو اور جن انوار کو اور جن رحمتوں کو دیکھا تھا ، آنے والی نسلوں کی آنکھوں سے وہ چیزیں اوجھل ہو گئیں.اس لئے وہ صراط مستقیم سے بھٹک گئیں.ہو پس ہماری جماعت کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو صداقتیں کامل اور مکمل شکل میں قرآن عظیم میں پائی جاتی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ایک کامل نبی، جو خاتم تھا تمام روحانی کمالات کا ، اس کے ذریعہ ہمیں عطا ہوئی ہیں، ہم انتہائی کوشش کریں کہ یہ صداقتیں اور یہ انوار اور یہ حقائق اور یہ برکات اور یہ رحمتیں جماعت احمدیہ کی ایک نسل کے بعد دوسری نسل حاصل کرتی چلی جائے.اگلے چودہ سال کا زمانہ میرے نزدیک تربیت پر بہت زور دینے کا زمانہ ہے.جس میں ہزاروں ہزار احمدیوں کو تربیت یافتہ ہونا چاہیے.اور پھر اس کے بعد جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے، غلبہ اسلام کی صدی کا ہم نے استقبال کرنا ہے.بہر حال تربیت ساتھ لگی ہوئی ہے.لیکن بعض اوقات تربیت پر زیادہ زور دینا پڑتا ہے اور بعض اوقات اعمال کی طرف زیادہ توجہ کرنی پڑتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہوتی رہتی ہے.کیونکہ اپنے اندر اسلام کو قائم رکھنے اور شریعت محمدیہ کے انوار کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے اور مستانہ وار جہاد کرنا پڑتا ہے.بہر حال یہ زمانہ تربیت کا زمانہ ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ عمل نہیں کرنا.تربیت کا زمانہ اس معنی میں مراد ہے کہ اس وقت تربیت کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.تاکہ نئی نسل بھی ان ذمہ داریوں کو نباہنے کے قابل ہو کر ہمارے شانہ بشانہ کھڑی ہو جائے.اور اس لحاظ سے بھی کہ انشاء اللہ بڑی وسعت پیدا ہوگی اور بہت زیادہ تعداد میں مربیوں کی ضرورت پڑے گی.ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہیے.کیونکہ ہماری کامیابی کے لئے مربیوں کا ہونا ضروری ہے.ضرورت کے وقت مربیوں کا میسر آنا، یہ بھی اس وقت کا ایک اہم تقاضا ہے.پس اگر ہم خود اپنے نفوس کی اصلاح کر لیں اور اگر ہم یہ کوشش کریں کہ ہمارا ماحول تربیت یافتہ اور اصلاح یافتہ ہو جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر وقت ان صداقتوں کو جو اسلامی عقائکہ میں پائی جاتی 192
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنچم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1975ء ہیں اور ان حقیقتوں کو، جنہیں قرآنی شریعت نے ہمارے سامنے رکھا ہے، ان کو خود سمجھیں اور ان کے مطابق اپنی زندگی گزار دیں اور اپنی چھوٹی نسلوں کو، نو جوانوں کو اور نئے آنے والوں کو بھی اسلامی تعلیمات کی صداقتوں اور قرآنی حقائق سے آگاہ کریں بلکہ ان صداقتوں کو حفظ کرا دیں اور ان کی زندگی کا جزو بنا دیں ، تب ہم خود کو جماعتی ، اجتماعی لحاظ سے اس قابل بنا سکیں گے کہ جو ذمہ داری اگلے تیرہ، چودہ سال میں ہم پر پڑنے والی ہے، - ہم اسے نباہ مکیں.اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکیں اور اس کی خوشنودی کو پاسکیں.جو صداقت، مثلاً اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے متعلق اسلام نے ہمیں بتائی ہے، وہ تو ایک عجیب اور حسین تعلیم ہے.بہت سی حقیقتیں ہیں، جو ہم کو بتائی گئی ہیں.ان کے عرفان اور معرفت کو قرآن کے ذریعہ ہم نے حاصل کیا.مگر انسان یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کی ایک نسل کے بعد دوسری نسل نے یہ صداقتیں بھلادیں اور ان کی طرف توجہ نہیں دی.یہ کیسے ممکن ہوا؟ لیکن جب ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً یہ ممکن ہو گیا.اللہ تعالیٰ کو ماننے والے عملاً بہت سی بدعات کا شکار ہو گئے.اور یہ آج کی بات نہیں، پچھلے چودہ سو سال میں ہزاروں، لاکھوں مصلحین نے یہی اعلان کیا کہ صداقتیں تمہیں دی گئیں، آسمان سے نور تمہارے اوپر نازل ہوا، پھر بھی تم اندھیروں میں جا چھپے اور وہ صداقتیں تم سے اوجھل ہو گئیں اور وہ معرفت اور عرفان جاتا رہا، وہ محبت اور وہ عشق کا ماحول قائم نہ رہا.ایک طرف اتنی عظیم صداقتیں ہیں، اتنا عظیم حسن ہے اور دوسری طرف ان کا نظر سے اوجھل ہو جانا بھی ایک ایسا واقعہ ہے کہ انسانی عقل اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار تو نہیں.لیکن انسان کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایسا واقعہ ہو گیا.اس لئے یہ بڑے خطرے کی بات ہے کہ ہم جو بڑے ہیں، ہم جو انصار اللہ کہلاتے ہیں.ہم اگر اپنے کام سے غافل ہو گئے اور اگر ہم نے اپنی ذمہ داریاں نہ نہا ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جو بعد میں آنے والی نسل ہے یا جو ان کے بعد آنے والی نسل ہے، وہ کمزوری دکھائے اور اللہ تعالیٰ کے قہر کا مورد بن جائے.حالانکہ ان کو اس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو پائیں.خدا تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ تو پورا ہوگا.ہمیں اپنی اور اپنے بچوں کی اور اپنی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے.اس لئے میں انصار اللہ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ہر جگہ جہاں ایک یا ایک سے زائد انصار پائے جاتے ہیں، تربیتی ماحول پیدا کریں.اور اپنے گھروں میں، اپنی مساجد میں ، اپنے ڈیروں میں اور اپنی بیٹھکوں میں ان باتوں کو دہرائیں.اس شکل میں اور اس تفصیل کے ساتھ ، جو مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے رکھی ہیں.اور یہ کوشش کریں کہ اس معرفت کے حصول کے بعد دوسروں 193
خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم کو بھی معرفت سکھائیں.معرفت ایک تو خود اپنے لئے انس اور لگاؤ اور پیار پیدا کرتی ہے، یعنی اعلی تعلیم خود اپنے حسن کی طرف کھینچتی ہے، لیکن وہ تو ایک ذریعہ ہے، منزل تو نہیں.وہ تو ایک راہ ہے، خدا تعالی کا پیار دلوں میں پیدا کرنے کے لئے.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صداقتیں پیش کی ہیں، قرآن کریم نے جو ہدایتیں دی ہیں ، وہ ہر ایک کے سامنے حاضر رہنی چاہئیں.قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق ہمیں جو کچھ بتایا گیا ہے، وہ ہمیں بھول نہیں جانا چاہیے.اسلام کی شرک سے مبرا تعلیم کے ہوتے ہوئے بعض لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں.اسی قسم کی اور بھی بہت سی بدعات ہیں، جو مسلمانوں کے اندر گھس آئی ہیں.انسان اپنے مالک اور اپنے خالق اور اپنے رب کریم اور اپنے خدائے رحمان، رحیم اور مالک یوم الدین کو بھول جاتا ہے اور راہ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے، یہ بڑے فکر کی بات ہے.پہلوں نے جو غلطی کی ، جماعت احمدیہ کو اس غلطی سے محفوظ رہنا چاہیے.اسے محفوظ رکھنا چاہیے.آنے والی نسلوں کے سامنے ایک تربیتی پروگرام کے ماتحت اسلام کی ابدی صداقتوں کو دہراتے چلے جانا چاہئے.تا کہ وہ غلطی سے محفوظ رہیں.بڑی دیر ہو گئی، انصار اللہ سے میں نے باتیں نہیں کیں.بدلے ہوئے حالات کے تقاضے بھی بڑے اہم ہو گئے ہیں.ہم ایک نازک دور میں داخل ہو گئے ہیں.اس لئے انصار اللہ کو چاہیے کہ وہ با قاعدہ ایک منصوبہ بنا ئیں.اس منصوبہ کی تکمیل پر بے شک مہینہ، دو مہینے لگائیں.لیکن ایک جامع منصوبہ تیار ہو.اگر ایک خاندان احمدی ہے تو اس ایک خاندان تک بھی قرآن عظیم کی عظیم صداقتیں پہنچ جائیں.آپس میں تبادلہ خیالات کریں، باتیں کریں اور سوچیں.پہلوں نے اسلامی صداقتوں سے جو کچھ حاصل کیا ، اس کے متعلق غور کریں.اور ان باتوں کو اتناد ہرائیں، اتناد ہرائیں کہ وہ ذہن کا ایک حصہ بن جائیں، انسانی دماغ کا ایک جزو بن جائیں اور کوئی رخنہ باقی نہ رہے کہ جس کے ذریعہ شیطانی وساوس انسان کے دماغ میں داخل ہوسکیں.امید ہے، انصار اللہ اس اہم امر کی طرف توجہ کریں گے اور کوئی ٹھوس پروگرام بنانے سے پہلے مجھ سے مشورہ بھی کرلیں گے.میں نے ہدایت دی تھی کہ کچھ کتابوں پر مشتمل لٹریچر شائع ہونا چاہیے.کتابوں میں لٹریچر پڑا ر ہے تو یہ تو کوئی چیز نہیں، اسے سامنے آنا چاہیے، اس کے متعلق تبادلہ خیالات کرنا چاہیے.باتیں کرنا اور ایک دوسرے سے پوچھنا ضروری ہے.کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں تو بعض پہلو جہالت کی وجہ یا نا مجھی کی وجہ سے یا شرم کی وجہ سے بعض دفعہ چھپے رہتے ہیں اور وہ بچوں اور نئے آنے والوں کے سامنے واضح ہو کر نہیں آتے.194
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1975ء اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کتابوں کو پڑھنے کی ایک رو پیدا کر دینی چاہیے.ایسی کتابیں ہوں، جنہیں احباب ہر وقت اٹھتے بیٹھتے مطالعہ میں رکھیں.آپس میں باتیں کریں.کسی مسئلہ کو لے کر سوچیں کہ اس کی کیا برکتیں ہیں؟ پہلوں نے اس سے کیا حاصل کیا ؟ ہم اس سے کیوں محروم ہیں؟ اس کے لئے ہمیں کس طرح کوشش کرنی چاہیے؟ کس قسم کا پیار ہمیں اپنے دلوں میں پیدا کرنا چاہیے؟ ہمیں کس قسم کا تعلق اپنے رب سے اور اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیدا کرنا چاہیے؟ کس رنگ میں آپ ہمارے لئے اسوہ ہیں؟ کس طرح ہمیں اس اسوہ کو اختیار کرنا چاہیے ؟ کون سی راہ ہے، جس پر چل کر اور کون سا طریق ہے، جس پر گامزن ہو کر اس نور سے حصہ لے سکتے ہیں اور اس سے اپنے سینوں کو اور اپنے ماحول کو اور اپنے خاندانوں کو منور کر سکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ.پس ان باتوں کو یا درکھنا چاہیے، بھول نہیں جانا چاہیے.انسان اپنی آنکھوں سے بھی علم حاصل کرتا ہے، کانوں سے بھی علم حاصل کرتا ہے اور ناک سے بھی علم حاصل کرتا ہے.بعض اور حسیں ہیں، ان سے بھی علم حاصل کرتا ہے.مثلاً وہ اپنی زبان سے بھی علم حاصل کرتا ہے.زبان سے صرف کھانے والی چیزوں کا ذائقہ ہی نہیں حاصل کیا جاتا.کیا انسان خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے زبان سے لذت نہیں حاصل کرتا؟ یقیناً حاصل کرتا ہے.اس لئے محض کھانے کی لذت نہیں، جو زبان سے حاصل ہوتی ہے.بلکہ روحانی لذتیں بھی ہیں، جو زبان سے ہمیں حاصل ہوتی ہیں.مثلاً دعا ہے، دعا زبان سے کی جاتی ہے.ہم خدا سے دعا کرتے ہیں اور اس سے ہمیں ایک قسم کی لذت حاصل ہوتی ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا، ایک دفعہ میرے دماغ میں عجیب خیال پیدا ہوا.میں نے خدا سے یہ دعا کی کہ اے خدا! کھانا پینا یا اس قسم کی اور ہزاروں چیزیں ہیں، جن کے ذریعہ ہم لذت حاصل کرتے ہیں لیکن ان مادی ذرائع کے علاوہ خود اپنی رحمت سے ایسا سامان پیدا کر کہ میں ایک لذت حاصل کروں.عجیب دعا تھی ، جو میرے دل سے نکلی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی وقت اس دعا کو قبول کیا اور 24 گھنٹے تک سر سے پاؤں تک میرا جسم سرور حاصل کرتا رہا.یہ روحانی طور پر زبان کی لذت نہیں تو اور کیا ہے؟ ہم دعائیں کرتے ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں وہ ہم پر پنے فضلوں کو نازل کرتا ہے.آخر دعا ہم زبان سے کرتے ہیں.لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان کا کام صرف چسکے کا ہے کہ کھایا اور مزہ اٹھا لیا.مادی چیزوں سے حظ اٹھانے کے لئے ہی زبان پیدا نہیں کی گئی.وہ بھی ضروری ہے.کیونکہ زندگی اور اس کے قیام کے لئے کھانا پینا بھی ضروری ہے.لیکن زبان کی لذت صرف یہی نہیں.یہ بھی ایک چھوٹا سا حصہ ہے، اس لذت کا ، جو زبان کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے.اصل لذت 195
خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم وہ ہے، جو انسان ذکر الہی سے حاصل کرتا ہے.اسی طرح کان ہے.دنیا بہک گئی.سماع ایک محاورہ بن گیا.عجیب لوگ ہیں کہ صرف گانے سن کر لذت حاصل کرتے ہیں.حالانکہ خدا تعالی کی آواز جب کان میں پڑتی ہے تو جو لذت کان کے ذریعہ انسان حاصل کرتا ہے، اس کا کروڑواں حصہ بھی انسان گانے سن کر حاصل نہیں کر سکتا.ایک وہ لذت ہے، جو وقتی اور چند منٹ کے بعد ختم ہو جاتی ہے.اور ایک وہ لذت ہے، جو انسان کی زندگی کو بدل دیتی ہے، یعنی پیار کی آواز.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں.آپ نے جس رنگ میں اور جس طور پر خدا تعالیٰ کی آواز کو سنا اور جو لذت آپ نے محسوس کی، اس کا آپ نے کئی جگہوں پر ذکر کیا ہے.اس کو بچوں کے سامنے آنا چاہیے.شاعر کی جو آواز گانے کے ذریعہ آتی ہے، یہ قابل التفات اس لئے بھی نہیں کہ شاعر تو بہک جاتا ہے.ایک مصرع میں ایک مضمون ہوتا ہے تو اگلے مصرع میں اس سے الٹ مضمون ہوتا ہے.ایک شعر میں شمال کا مضمون تھا تو دوسرے میں جنوب کا شروع ہو گیا.گویا شاعرانہ تخیل کے اندر ہمیں بالکل متضاد اور ایک دوسرے سے بعد رکھنے والے مضامین نظر آتے ہیں.لیکن ایک وہ آواز ہے، جو کان کے ذریعہ ہمیں لذت دیتی ہے اور اس آواز میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ یہ عارضی ہوتی ہے بلکہ مستقل طور پر ہمیشہ کے لئے ہے.جب تک انسان اپنے مقام پر قائم رہے، یہ آواز لذت پیدا کرتی رہتی ہے.اسی طرح مثلا ناک ہے، وہ صرف خوشبو سونگھنے والا یابد بومحسوس کرنے والا آلہ تو نہیں ہے.انسان ناک سے بہت سی روحانی چیزیں سونگھتا ہے.میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ناک کہتا ہے کہ یہ چیز ہے یا یہ چیز نہیں ہے.تو جیسا کہ یہ محاورہ بھی ہے کہ میں یہ Smell کرتا ہوں.مثلاً دوسروں کی روحانی خوبیاں ہیں ،سوائے روحانی انسان کے دوسرے نے ابھی تک اس کو سمجھا ہی نہیں.لیکن صرف خوشبو سونگھنے یا بد بو سونگھ کر اس سے بچنے کے لئے تو انسان کو ناک نہیں دیا گیا.بلکہ اس کے بہت سے روحانی فوائد ہیں.ہماری جتنی حسیں ہیں ، ان کی افادیت صرف مادی پہلوؤں تک ہی محدود نہیں ہے.بلکہ ان کا اصل فائدہ یہ ہے کہ وہ ہمارے لئے روحانی طور پر لذت اور سرور کے سامان پیدا کرتی رہیں.غرض خدا تعالی کا جو پیار ہے، وہ ایک راستہ سے تو ہم تک نہیں پہنچا.وہ تو ہر راستہ سے ہم تک پہنچتا ہے.بد بخت ہے، وہ انسان جس کو ہر راہ سے پیار نہیں ملا.اور اس سے بھی بد بخت ہے، وہ نوجوان ، جو احمدیت میں پیدا ہوا اور خدا کے پیار سے محروم رہا.اس کی ذمہ داری انصار اللہ پر ہے.پس انصار الله اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور تربیت کا پروگرام بنائیں اور ہر ایک کو معرفت کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش 196
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1975ء کریں.ٹھیک ہے، ہر ایک نے اپنی استعداد اور اپنی قوتوں کے مطابق اس معرفت کو حاصل کرنا ہے.لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہمارا ہر بچہ، جو اپنے دائرہ استعداد کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچتا، وہ مظلوم ہے.اور ہمارے اوپر اس کی ذمہ داری آتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کو ادا کریں.اللہ تعالیٰ ہماری نوجوان نسل کو اور نئے آنے والوں کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنے مقام کو سمجھیں.جس طرح ایک اہلنے والی دیگ، جس کے ابلنے میں کچھ وقت لگتا ہے ، ایک دیگ ، جو اہل رہی ہے، وہ بعض دفعہ آدھے گھنٹہ میں یا گھنٹے میں اس درجہ حرارت کو پہنچتی ہے لیکن اس ابلتی ہوئی دیگ میں دو قطرے ٹھنڈے پانی کے ڈالو تو ایک سیکنڈ میں ابلنے لگتی ہے، اسی طرح ہمارے اندر بھی خدا تعالی کی محبت اور پیار کی اتنی گرمی ہونی چاہیے کہ اس کے مقابلے میں ابلتے ہوئے پانی کی کوئی گرمی نہ ہو.باہر سے آنے والے ہمارے اندر شامل ہوتے ہیں یا ہماری جو نو جوان نسل ہے، جب وہ بڑی ہو کر اپنی ذہنی اور روحانی بلوغت کو پہنچتی ہے تو جس طرح ایک سیکنڈ یا اس کے ہزارویں حصے میں ٹھنڈے پانی کا قطرہ ابلنے لگتا ہے (جو ابلتی دیگ میں ڈالا جائے ) اور حرارت کے بلند درجے کو پہنچ جاتا ہے، اسی طرح یہ بھی خدا کی محبت اور پیار میں انتہائی طور پر گداز ہو جائیں.پس ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دو کو توفیق دے.انصار اللہ کو بھی کہ وہ تربیت کی ذمہ داری کو نباہ سکیں اور نو جوانوں کو بھی کہ وہ اس تربیت کو قبول کر لیں.اور سارے کے سارے بلا استثناء اس مقام تک پہنچ جائیں کہ وہ ہر پہلو سے معرفت الہی اور عرفان باری کو حاصل کر چکے ہوں.اور وہ اس بات کے قابل ہو گئے ہوں کہ جب غلبہ اسلام کی اس عالمگیر اور ہمہ گیر جدوجہد میں وسعتیں پیدا ہوں اور اس وقت ہزاروں مربیوں کی ضرورت ہو تو ہزاروں ، لاکھوں مربی موجود ہوں تا کہ دنیا کو سنبھالا جا سکے اور نوع انسانی کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کیا جاسکے.( مطبوعه روزنامه الفضل 21 فروری 1975ء) 197
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع سالانہ کانفرنس جماعت ہائے نائیجیریا ہمیں اپنے اموال قربان کرنا ہوں گے، اپنے آرام سے ہاتھ اٹھانا ہوگا پیغام بر موقع سالانہ کا نفرنس جماعت ہائے نائیجیر یا منعقدہ 29 ت31 مارچ 1975ء جان سے عزیز بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاص میں برکت دے.اس کی مدد اور نصرت شامل حال رہے اور آپ کو اس کے فضل سے ہمیشہ اس کی خوشنودی اور رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق ملتی رہے.آمین ان دنوں آپ اس کا نفرنس میں شرکت کے لئے جمع ہوئے ہیں.یہ دن اور راتیں ذکر الہی، نوافل اور دعاؤں میں گزاریں اور در و دو تسبیح اور تحمید میں اپنے اوقات صرف کریں.سلسلہ عالیہ احمد یہ خدا کا اپنے ہاتھ سے لگایا ہوا پودا ہے.تند و تیز ہوائیں چلیں ، آندھیاں آئیں، مگر اس پودے کو نقصان نہ پہنچا سکیں.یہ پنپتا رہا، بڑھتا چلا گیا.اس لئے کہ یہ خدا کا اپنے ہاتھ سے لگایا ہوا پودا ہے.کبھی اس کی حیثیت ایک کو نیل کی تھی ، آج یہ خدا کے فضل سے ایک تناور درخت بن چکا ہے.جس کی شاخیں تمام دنیا میں پھیل چکی ہیں.خدا کی باتیں پوری ہو کر رہیں گی اور وہ مقصد، جس کے لئے یہ سلسلہ قائم کیا گیا ہے، پورا ہوگا.ساری دنیا اسلام کے نور سے منور ہوگی.دلوں میں ایک پاک تبدیلی اور ایک تغیر پیدا ہوگا اور ایک دن ساری دنیا خدائے واحد کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگی.انشاء اللہ.وو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا.اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا.اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا، یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت 199
پیغام بر موقع سالانہ کانفرنس جماعت ہائے نائیجیریا تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا.اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے، جو ایک دن پورا ہوگا.تجلیات الہیہ صفحہ 17,18 ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409,410) پس خدا کا کلام ایک دن پورا ہوگا.ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی.یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا مگر اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں اپنے اموال قربان کرنا ہوں گے، اپنے آرام سے ہاتھ اٹھانا ہوگا اور اس کی عزت دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہر قسم کی ذلتیں برداشت کرنا ہوں گی اور نقصان اٹھانا ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری حقیر قربانی قبول فرمائے.مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث ( مطبوعه بروز نامه الفضل 22 مئی 1975ء) 200
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم خلاصه خطبه جمعه فرموده 29 اگست 1975ء اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ وہ احمدی بچوں کو بڑے اچھے ذہن عطا کر رہا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اگست 1975ء تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج میں دو باتوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.ان میں سے ایک بات تو احمدی طلباء اور طالبات سے متعلق ہے.اور دوسری بات کا تعلق صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کی اس ذمہ داری سے ہے، جو انگلستان کی جماعت نے از خود قبول کی ہے.اللہ تعالیٰ اپنی وراء الوراء حکمتوں کے ماتحت قوموں اور افراد کو بے انداز افضال سے نوازتا ہے.اس کے یہ افضال مختلف شکلوں میں نازل ہوتے ہیں اور ان کی مختلف علامتیں ہوتی ہیں.کسی قوم کے حق میں اس کی سب سے بڑی عطا نوجوان نسل کے ذہن ہوتے ہیں.اگر دیکھا جائے تو مادی دولت کا انحصار بھی بنیادی طور پر ذہن پر ہوتا ہے اور روحانی رفعتوں کا تعلق بھی بڑی حد تک ذہن رسا سے ہی ہوتا ہے.اس تمہید کے بعد ایک بات تو میں احمدی بچوں سے کہنا چاہتا ہوں اور دوسرے اس تعلق میں جو ذمہ داری نظام جماعت پر عائد ہوتی ہے، اس کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ جس بچہ کواللہ تعالیٰ ذہن رسا عطا کرتا ہے، اس کی ذہنی نشو وارتقاء کی ذمہ داری خود اس بچہ پر بھی عائد ہوتی ہے اور نظام جماعت پر بھی.بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ ذہین پیدا کرتا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ غفلتوں، بد عادتوں یا بد محبتوں کے نتیجہ میں اپنی پہنی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے.اس طرح وہ ان ترقیات سے محروم رہ جاتے ہیں، جو انہیں یقینا مل سکتی تھیں.بلکہ وہ جماعت اور قوم کو بھی اس فائدہ سے محروم کر دیتے ہیں، جو ان کی خداداد ذہنی صلاحیتوں کی صحیح نشو و نما کی صورت میں اسے پہنچ سکتا تھا.اس لیے ہر احمدی بچے کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ذہنی استعداد کی پوری مستعدی کے ساتھ نشو ونما کرتا رہے.اگر کوئی بچہ ایسا ہے، جو اپنی ذہنی استعداد کی نشو ونما نہیں کرتا تو وہ اپنے نفس کا بھی گناہگار ہے اور جماعت کا بھی مجرم ہے.201
خلاصه خطبه جمعه فرموده 29 اگست 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور احسان ہے کہ وہ احمدی بچوں کو بڑے اچھے ذہن عطا کر رہا ہے.جہاں ہمارے بچے مختلف امتحانات میں اعلیٰ کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں، وہاں ہماری بچیاں بھی تعلیمی میدان میں پیچھے نہیں ہیں.ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ احمدی بچی بی.ایس سی کے امتحان میں اول آئی.ویسے اول آنا ایک اعزاز ہونے کے باوجود اتفاقی امر ہوتا ہے.دراصل ہر سال ایک کلاس اور درجہ سے تعلق رکھنے والے تھیں، چالیس طلباء اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں.ذہنی صلاحیتوں کے لحاظ سے وہ کم و بیش ایک ہی سطح پر ہوتے ہیں.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک لڑکا کسی پرچے میں سب کچھ جاننے کے باوجود کسی نہ کسی وجہ یا کسی وقتی اثر کے ماتحت پورے سوالوں کا جواب لکھ نہیں پاتا، جبکہ دوسرا لڑکا سارے سوالوں کا جواب لکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے.وہ جس نے سارے سوالوں کا جواب لکھا تھا ، اول قرار پاتا ہے، جبکہ دوسرا لڑکا اس اعزاز کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے.لیکن دونوں ذہنی استعداد کے لحاظ سے ہوتے ہیں، ایک ہی سطح پر.سو اول آنے کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے، جتنی اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ جن بچوں کو اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں، ان کی بہر حال نشو ونما ہونی چاہیے.اور ان کی نشوونما کی ذمہ داری خود بچوں پر بھی عائد ہوتی ہے اور جماعت پر بھی.اگر ہمارے نوجوان طالب علم میٹرک، ایف ایس سی بی ایس سی، ایم.اے اور ایم.ایس سی وغیرہ امتحانات میں آگے نکلنے کی کوشش کریں تو وہ بازی لے جاسکتے ہیں.اور ذہنی نشو و نما کے سلسلہ میں ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اسے ادا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں.اگر بعض لڑکے بازی نہ بھی لے جاسکیں تو ان کی اس کوشش کا یہ نتیجہ تو بہر حال نکلے گا کہ اس طرح ان کی ذہنی استعدادوں اور صلاحیتوں کی نشو ونما ہوتی رہے گی.اور وہ جماعت اور قوم و ملک کے لئے مفید وجود بن سکیں گے.اگر ہم بین الاقوامی سطح پر ستر پچھتر فیصد سے اوپر نمبر لینے والے دو، تین سو بچے پیدا کرنے لگیں تو اس کا بہت اثر ہو سکتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کے بہت اچھے نتائج رونما ہو سکتے ہیں.اس کے لئے ایک تو یہ ضروری ہے کہ احمدی بچے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.دوسرا ضروری امر یہ ہے کہ جماعتی سطح پر اس امر کی کوشش کی جائے کہ کوئی بچہ، جسے اللہ تعالیٰ نے ذہنی دولت عطا کی ہے، جماعت اس دولت کو ضائع نہیں ہونے دے گی.ایسے بچوں کی ذہنی نشو و نما ضروری ہے.اور یہ نشو ونما نہیں ہو سکتی ، جب تک کہ دو طرفہ کوشش بروئے کار نہ لائی جائے.202
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصه خطبه جمعه فرموده 29 اگست 1975ء اول یہ کہ بچے اپنی ذہنی استعدادوں اور صلاحیتوں کو ضائع کر کے اللہ تعالٰی کی ناشکری کے مرتکب نہ ہوں.اور اس طرح نہ اپنا نقصان کریں، نہ جماعت کا نقصان کریں اور نہ اپنے ملک کو نقصان پہنچانے کا موجب بنیں.دوسرے یہ کہ جماعتی سطح پر ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ کوئی ایک ذہن بھی ترقی کرنے سے رہ نہ جائے.انگلستان میں اب ایک بڑی جماعت بن چکی ہے.یہاں کے حالات کے مطابق ایک کمیٹی بن جانی چاہیے، جو اس امر کا جائزہ لیتی رہے کہ بچوں کی ذہنی نشو ونما اور ترقی خاطر خواہ طریق پر ہورہی ہے یا نہیں.اور اگر نہیں ہورہی تو کیا اقدامات ضروری ہیں؟ اگر صحیح خطوط پر کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بچوں کی ذہنی نشو ونما کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکے.بہر حال ساری جماعت میری اس نصیحت کو یا در کھے اور عہد کرے کہ کوئی ایک ذہن بھی ضائع نہیں ہوگا، نہ بچہ کی اپنی غفلت کی وجہ سے اور نہ جماعت کی غفلت کی وجہ سے.دوسری بات میں انگلستان کی جماعت ہائے احمدیہ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں خوب بڑھ چڑھ کر وعدے لکھوائے.یہ وعدے پندرہ سال میں ادا ہونے ہیں.پہلا سال اس سال مارچ میں ختم ہوا تھا.اس وقت تک ان وعدہ جات کا پندرہواں حصہ ادا ہو جانا چاہیے تھا.آپ نے جو وعدے لکھوائے ہیں، ان کا پندرہواں حصہ 38,908 پاؤنڈ بنتا ہے.اتنی رقم ہر سال ادا ہونی چاہیے.لیکن پہلے سال وصولی 29,463 پاؤنڈ ہوئی ہے.یعنی اصل رقم سے 445, 9 پاؤنڈ کم وصول ہوئے ہیں.دوسرا سال شروع ہو چکا ہے، جو مارچ 1976ء میں ختم ہو گا.اس وقت تک دو سال کی رقم پوری ہونی چاہیے.صد سالہ احمد یہ جو بلی کے منصوبہ کے تحت ہمیں جو کام انجام دینے ہیں، ان میں سے بعض کام شروع ہو چکے ہیں.ایک کام یورپ میں پانچ نئے مشن کھولنے سے تعلق رکھتا ہے.یہ مشن انشاء اللہ تعالیٰ سویڈن، ناروے، اٹلی ، فرانس اور سپین میں کھولے جائیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کام کی ابتدا ہو ہے.چنانچہ سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں دس کنال کے قریب زمین مل گئی ہے.جس پر مشن ہاؤس اور مسجد تعمیر ہونے کے انتظامات ہورہے ہیں.سو گویا منصوبے کے دوسرے سال ہی یورپ میں ایک نئے مشن کی طرح پڑ گئی ہے.ابھی مزید مشن کھولنے ہیں اور ان کے لئے رقم درکار ہوگی.اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس سے اگلے سال ناروے میں مشن کے قیام کی باری آجائے گی.پھر علی الترتیب سپین، اٹلی اور فرانس میں مساجد اور مشن ہاؤس تعمیر کئے جائیں گے.203
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اگست 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اس ضمن میں میں آپ سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی روایات کو نقصان نہ پہنچائیں اور ثواب سے محروم رہنے کی کوشش نہ کریں.بلکہ اپنے وعدے پوری با قاعدگی اور مستعدی سے پورے کر کے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے میں کوشاں رہیں.پس جہاں میں نے پہلی بات احمدی طلباء اور طالبات سے کی ہے، وہاں دوسری بات جماعت کے کمانے والے مردوں اور عورتوں سے کی ہے.اور وہ یہی ہے کہ وہ ناشکری نہ کریں.خدا تعالیٰ نے انہیں جو مال دیا ہے، اس میں سے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں اپنے حصہ کا چندہ ادا کریں اور تمام تر کوشش اس بات کی کریں کہ پانچ سات سال کے اندر یورپ میں پانچ نئے مشن قائم ہو جا ئیں.خدا تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلنے اور اپنی رضا کے کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین ) ( مطبوعه روز نامہ الفضل 20 ستمبر 1975ء) 204
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرموده 28 ستمبر 1975ء آپ نے غلبہ اسلام کے لئے جدو جہد کرنے کا اپنے خدا سے عہد کیا ہے ارشاد فرمودہ 28 ستمبر 1975ء بیعت میرے ساتھ نہیں بلکہ خدائے قادر و قدوس کے ساتھ ایک عہد ہے، جو آپ نے اس وقت باندھا ہے.ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام دنیا بھر میں غالب آئے گا.سو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق وہ زمانہ آ گیا.ظہور مہدی علیہ السلام کی دوسری صدی، جس کے شروع ہونے میں پندرہ سال رہ گئے ہیں، غلبہ اسلام کی صدی ہوگی.آپ نے غلبہ اسلام کے لئے جدو جہد کرنے اور قربانیاں پیش کرنے کے لئے آج اپنے خدا سے عہد کیا ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 17 اکتوبر 1975ء) 205
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1975ء سیکنڈے نیویا میں غلبہ اسلام کے لئے اوسلو میں بھی مسجد کا ہونا بہت ضروری ہے خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1975ء حضور نے تشہد اور تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.” مجھے آپ دوستوں سے مل کر خوشی کا ہونا ، ایک طبعی امر ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو ایک خاندان بنا دیا ہے.ایک خطہ میں بسنے والے احمدی جب دوسرے خطہ میں جاتے اور اپنے بھائیوں سے ملتے ہیں تو انہیں آپس میں نہ صرف یہ کہ کوئی غیریت محسوس نہیں ہوتی بلکہ انہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ بحمد اللہ کسی غیر جگہ نہیں، اپنے گھر میں ، اپنے ہی بھائیوں کے درمیان ہیں.وہ کیوں نہ ایسا محسوس کریں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاندان کی شکل دے کر باہم بھائی بھائی بنادیا ہے.اس کے بعد حضور نے اپنے ناروے آنے کی غرض پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.”میرے ناروے آنے کی ایک غرض تو یہ تھی کہ میں اپنے دوستوں سے مل سکوں ، سو الحمد للہ، وہ غرض پوری ہوگئی.دوسری غرض میری یہاں آنے کی یہ تھی کہ میں آپ کو یہ بتاؤں اور یہ امر آپ کے ذہن نشین کراؤں کہ سیکنڈے نیویا میں غلبہ اسلام کی مہم کو تیز کرنے اور اسے مثمر ثمرات بنانے کے لئے اوسلو میں بھی مسجد کا ہونا بہت ضروری ہے.کسی ملک میں مسجد تعمیر کرنے کے لئے دعاؤں کے ساتھ ساتھ بہت کچھ مادی جد و جہد بھی کرنا پڑتی ہے.سب سے پہلے تو با موقع اور موزوں قطعہ زمین کی تلاش کا مرحلہ طے کرنا ہوتا ہے.پھر زمین کی خریداری اور اس کا حصول، اخراجات کا تخمینہ، عمارت کا ڈیزائن ، نقشوں کی تیاری، حسب ضرورت ان نقشوں میں ترمیم وغیرہ.الغرض بہت سے مراحل ہیں، جن میں سے گزرنا ہوتا ہے.اور ان مراحل کو طے کرنے کے لئے بڑے صبر واستقلال کے ساتھ مسلسل جدو جہد کرنا ضروری ہوتا ہے.اور اس کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے.اس مرحلہ پر حضور نے سویڈن میں تعمیر کی جانے والی سب سے پہلی مسجد ( جس کا سنگ بنیاد حضور نے 27 ستمبر کو اپنے دست مبارک سے گوشن برگ میں رکھا ہے.) کے مختلف ابتدائی مراحل کا تفصیل سے ذکر کیا اور بتایا کہ مسجد تعمیر کرنے کے لئے کس قدر دوڑ دھوپ اور جدو جہد کرنا پڑتی ہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا:.207
خلاصہ خطاب فرمودہ 30 ستمبر 1975ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ”میری ایک خواہش ہے اور اس خواہش کے پورا ہونے کا انحصار بڑی حد تک آپ لوگوں کی ہمت اور کوشش اور خاص طور پر ہمارے بھائی نوراحمد صاحب بولستاد کی ہمت و کوشش پر ہے.امید ہے کہ گوشن برگ کی مسجد ، جس کا حال ہی میں ، میں نے سنگ بنیا درکھا ہے، اگلے سال تک مکمل ہو جائے گی.اور میں چاہتا ہوں کہ اس مسجد کے مکمل ہونے پر میں اس کے افتتاح کے لئے بھی آؤں.سومیری خواہش یہ ہے کہ آئندہ سال جب میں آؤں تو اوسلو میں مسجد کے لئے زمین کی تلاش کا کام مکمل ہو چکا ہو اور ابتدائی مراحل بھی طے ہو چکے ہوں.سیکنڈے نیویا کی جماعت ہائے احمد یہ ابھی اتنی امیر نہیں ہیں کہ خود اپنے خرچ پر مسجد تعمیر کر سکیں.اخراجات کے لئے زیادہ تر رقم انگلستان اور امریکہ کہ جماعتوں کہ طرف سے آئے گی.سویڈن کی مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد 1978ء کے شروع میں بفضل اللہ تعالیٰ اس قابل ہوں گے کہ ناروے میں مسجد کی تعمیر کا کام شروع کر دیں.سو اس لحاظ سے دو سال آپ کے پاس ہیں، جن میں آپ نے مسجد کے لئے زمین تلاش کر کے نقشوں وغیرہ کے کام کو مکمل کرنا ہے.آپ کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ اگلے سال تک آپ زمین خرید لیں اور اس سے اگلے سال تعمیر شروع کرنے کی تیاری مکمل کر لیں.( مطبوعه روزنامه الفضل 24 اکتوبر 1975ء) 208
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اکتوبر 1975ء محبت اور ہمدردی سے احمدیت نے نوع انسان کے دل جیتنے ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اکتوبر 1975ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.” جب سے اس دنیا میں انبیاء علیہم السلام کی بعثت شروع ہوئی، دو قسم کے انبیاء آتے رہے ہیں.ایک وہ، جو صاحب شریعت اور صاحب حکم ہوا کرتے تھے.اور ایک وہ ، جو کسی شریعت کے تابع ہو کر آتے تھے.اور جو بدعات پہلے سے نازل شدہ دین میں پھیلی ہوئی ہوتی تھیں ، انہیں دور کر کے دین کو اس کی اصلی اور خالص شکل میں از سر نو پیش کرتے تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں انبیاء بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:.إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَةَ فِيهَا هُدًى وَنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوالِلَّذِيْنَ هَادُوا (المائدة: 45) اس آیت سے ظاہر ہے کہ تو رات بطور شریعت کے نازل تو موسیٰ علیہ السلام پر ہوئی تھی لیکن بعد میں ایسے انبیاء آئے ، جو خود بھی اس شریعت پر عمل کرتے رہے اور دوسروں سے بھی اس پر عمل کراتے رہے.يحكم بها النبیون کا یہی مطلب ہے".66 حضور نے دونوں قسم کے انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:." یہ فرق تو انبیاء علیہ السلام کے درمیان اصولی طور پر پایا جاتا ہے.لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ہیں سب ایک جیسے.مثال کے طور پر اصولی اختلاف کے باوجود دونوں میں پائی جانے والی یکسانیت اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ دونوں قسم کے انبیاء کی مخالفت ہوئی اور اس قدر شدید مخالفت ہوئی کہ اپنے مشن میں ان کی کامیابی ناممکن نظر آنے لگی.انبیاء بنی اسرائیل میں سے آخری نبی شریعت موسوی پر عمل کرانے والے حضرت عیسی علیہ السلام تھے.ان کی انتہائی شدید مخالفت ہوئی اور انہیں شدید قسم کی تکالیف برداشت کرنا پڑیں.حتی کہ ان کے بعض ماننے والوں کو عرصہ دراز تک غاروں میں زندگی بسر کرنا پڑی.یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے مقصد میں نا کام ہو جائیں گے.لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں کامیاب کیا.سب سے آخر میں صاحب شریعت نبی، خاتم النبيين ، حضرت محمد رسول الله 209
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 03اکتوبر 1975ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے.آپ کے ہاتھ میں قرآن کریم کی کامل شریعت تھی، جو تا قیامت بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لئے آپ کو عطا کی گئی.آپ کی بھی انتہائی شدید مخالفت ہوئی اور آپ کو بھی اور آپ کے ماننے والوں کو بھی شدید تکالیف اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا.پھر خود امت محمدیہ میں وہ لوگ ، جو علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل کے مصداق تھے، ان میں سے ہر ایک کی خود امت محمدیہ نے مخالفت کی.وہ بزرگ ہستیاں جنہوں نے فقہ میں امت کی رہبری کی اور جن کے لئے ہم آج بھی دعائیں کرتے ہیں، جیسے حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی ، حضرت امام احمد بن جنبل وغیر ہم اپنے اپنے وقت میں انہیں ہر قسم کی تکالیف پہنچائی گئیں اور بعض کو قتل بھی کیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے معاً قبل کی صدی میں نائیجیریا میں حضرت عثمان بن فوری آئے ، انہوں نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا، بدعات سے دین کو صاف کر کے صحیح اسلام لوگوں تک پہنچایا.لیکن ہوا یہ کہ ان پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور ان کے خلاف تلوار اٹھائی گئی ، انہیں اور ان کے مشن کو منانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ، اس کے باوجود وہ کامیاب ہوئے اور اسلام ان لوگوں میں اپنی اصل شکل میں قائم ہوا.اسی ضمن میں حضور نے مزید فرمایا:.آخر میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے وجود میں امام مہدی آئے.مہدی کے متعلق قرآن میں پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا ، جب بھی تم اس کا زمانہ پاؤ، اس کے ساتھ شامل ہو جانا کیونکہ اسلام اس کے ذریعہ سے دنیا میں فتح یاب ہوگا اور غالب آئے گا.چونکہ امت محمدیہ میں مہدی علیہ السلام سے بڑھ کر اور کوئی پیدا نہیں ہوا، اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس قدر پیار اور آپ کے لئے خدمت و فدائیت کا جو جذ بہ مہدی علیہ السلام میں نظر آتا ہے، وہ کسی اور میں نظر نہیں آتا.اور اسی لئے یہ ضروری تھا کہ امت محمدیہ میں ظاہر ہونے والے بزرگوں کی جس قدر مخالفت کی گئی تھی، اس سے بڑھ کر مخالفت مہدی علیہ السلام کی جاتی.پس مخالفت تو ہوگی اور ضرور ہوگی.لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہی وہ زمانہ ہے، جس میں محبت کے ساتھ، پیار کے ساتھ اور غایت درجہ ہمدردی اور غمخواری کے ساتھ احمدیت نے اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ترین رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نوع انسان کے دل جیتے ہیں.210
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اکتوبر 1975ء اس امر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.” یہ پندرہ سال، جن کے اوائل میں سے ہم گزر رہے ہیں، میرے اندازے کے مطابق غلبہ اسلام کی صدی کے لئے تیاری کے سال ہیں.جماعت احمدیہ کی پہلی صدی (جس کے پورا ہونے میں پندرہ سال رہ گئے ہیں.) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے مشابہت رکھتی ہے.ملکی زندگی میں مسلمانوں اور اسلام کی مخالفت آہستہ آہستہ بڑھتی ہی چلی گئی تھی.جو لوگ اس دور میں خدائے واحد پر ایمان لائے تھے اور جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا، انہیں پے در پے تکالیف پہنچائی گئی تھیں.اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا.اسی طرح میرے خیال میں اگلے پندرہ سال میں جو جماعت احمدیہ کی پہلی صدی کے اختتام کا زمانہ ہے، دنیا ہمیں تکالیف پہنچانے اور مٹانے کی کوشش کرے گی.لیکن جس طرح مکہ کے ابتدائی مسلمانوں نے بشاشت کے ساتھ تکالیف برداشت کی تھیں، حتی کہ ان کے ننگے جسموں کو پتھروں پر گھسیٹا گیا تھا.شعب ابی طالب میں محصور کر کے بھوکا اور پیاسا رہنے پر مجبور کیا گیا تھا.پھر بھی صحابہ نے بشاشت کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کیا تھا، اسی طرح ہنستے اور مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ ہمیں بھی تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی.جب مکہ میں حق پرستوں کے سینوں پر گرم پتھر رکھے جاتے تھے اور نیچے زمین پر بھی آگ کی طرح پتے پتھر ہوتے تھے، اس حالت میں بھی ان کے منہ سے یہی آواز نکلی تھی کہ اللہ احد کہ اللہ ایک ہے.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس یقین سے پر تھے کہ فی الحقیقت خدا ہے.وہ اس یقین سے پر تھے کہ ان کا خدا ساری طاقتوں کا مالک ہے، وہ اس یقین سے پر تھے کہ محمد اپنے دعوے میں صادق ہیں اور خدا کے بچے رسول ہیں، وہ اس یقین سے پر تھے کہ اسلام بہر حال غالب آئے گا اور وہ خودان رحمتوں کے وارث بنیں گے، جن کا وعدہ کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجھ پر ایمان لانے والوں کو صحابہ کے سے انعام ملیں گے، لیکن انہیں صحابہ کی سی تکالیف بھی برداشت کرنا پڑیں گی.ہم اس یقین سے لبریز ہیں کہ جو بشارتیں چودہ سو سال سے اس وقت تک دی گئی ہیں اور جو خبریں بطور بشارت حضرت مہدی علیہ السلام کوہلی ہیں، وہ ضرور پوری ہوں گی“.حضور رحمہ اللہ نے مزید فرمایا:.”ہماری جماعتی زندگی پر 85 سال گزر چکے ہیں.جس طرح بتایا گیا تھا، جماعت احمدیہ کی زندگی اسی طرح Unfold ہوئی ہے.میں دو مثالیں بیان کر دیتا ہوں.ان میں سے ایک پوری ہو چکی ہے اور دوسری کے پورا ہونے میں ہمیں ذرہ بھر بھی شک نہیں ہے.پہلی مثال یہ ہے کہ جس دن لینن اور اس کے 211
خلاصه خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اکتوبر 1975ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک.....جلد پنجم ساتھیوں نے سر جوڑ کر انقلاب روس کا منصوبہ بنایا، اس سے دو ہفتہ پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار یه بی پیشگوئی ہے اور یہ اس کا صرف ایک حصہ ہے.جس میں زار روس اور اس کے اقتدار کے خاتمہ کی خبر دی گئی تھی.ایک دفعہ ایک روسی سائنسدان پاکستان آیا، ہم نے اسے دعوت دے کر ربوہ بلایا.جب وہ ربوہ آیا تو میں نے اس سے کہا کہ جب تمہارے لیڈ ر لینن کو ابھی پتہ بھی نہ تھا، ہمیں معلوم تھا کہ تمہارے ملک میں کیا ہونے والا ہے؟ میں نے اور بھی پیشگوئیاں اسے بتائیں.وہ سن کر بہت حیران ہوا اور اس نے بڑے تعجب کا اظہار کیا.الغرض یہ ایک زبر دست پیشگوئی تھی، جو پوری ہوئی اور ہم نے اسے پورا ہوتے دیکھا.اس سے بھی زیادہ ایک عظیم پیشگوئی ہے، جو ابھی پوری ہوتی ہے.اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں نے رویا میں روس کے اندرریت کے ذروں کی طرح احمدی دیکھے ہیں.جو پیشگوئیاں پوری ہو جاتی ہیں، وہ دلوں میں یہ یقین پیدا کر جاتی ہیں کہ جو مزید بشارتیں یا خبر میں دی گئی ہیں، وہ بھی اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی.حضور نے فرمایا:.”یہ تو ایک مثال ہے، جو میں نے بیان کی ہے.ورنہ پچھلے 85 سال میں ہم نے بے شمار بشارتوں کو پورا ہوتے دیکھا ہے.اس لئے ہر احمدی کا دل اس یقین سے لبریز ہونا چاہئے کہ وہ تمام بشارتیں جو ہمیں دی گئی ہیں، وہ اپنے اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی.اور اسلام بہر حال دنیا میں غالب آئے گا.ان کے پورا ہونے میں شک کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے.ہمیں بتایا گیا ہے کہ اسلام اس زمانہ میں اپنے نور، اپنے دلائل، اپنے نشانوں کے ذریعہ پیار اور محبت کے ساتھ بنی نوع انسان کے دل جیت لے گا.ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ ایسا ہوگا اور ضرور ہوگا.دنیا کا کوئی منصوبہ، کوئی دکھ اور کوئی مصیبت ہمیں یقین کے اس مقام سے ہٹا نہیں سکتی.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی ہم سے پیار کرتا رہے اور اپنی رحمتوں سے ہمیں نو از تار ہے اور ایسے اعمال بجالانے کی ہمیں توفیق دیتا ر ہے، جس سے اس کی رضا کی جنتیں ہمیں حاصل ہوں.مطبوعه روزنامه الفضل 29 اکتوبر 1975ء) 212
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خوش ہوا اور خوشی سے اچھلو خلاصہ خطبہ عید الفطر فرموده 07 اکتوبر 1975ء خطبہ عید الفطر فرمودہ 107اکتوبر 1975ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد پہلے تو حضور نے روئے زمین پر بسنے والے احمدی احباب کو عید کی مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا:.مبارک ہو.انگلستان میں بسنے والے اور دنیا کے مختلف حصوں اور علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کو عید پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے ہم پر، ہم دنیا کے جس حصہ میں بھی ہوں، اپنے ہی گھر میں عید کرتے ہیں.کسی حصہ دنیا میں بھی ہمیں غیریت کا احساس نہیں ہوتا.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ملک اور ہر علاقہ میں جماعت ہائے احمد یہ قائم کر کے ہمارے لئے ہر جگہ ہی عید کے سامان کر دیئے ہیں.حضور نے ان عید کے سامانوں کی وضاحت کرتے ہوئے ، جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے لئے کئے ہیں، فرمایا:.بلاشبہ یہ غلبہ اسلام کا وہی زمانہ ہے، جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام نے فرمایا ہے.خوش ہو اور خوشی سے اچھلو اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمارے لئے ہر روز ہی خوشیوں کے سامان کرتا چلا آ رہا ہے.خدا کی شان ہے کہ بے شمار مخالفتوں کے باوجود ہر روز جب اسلام پر سورج طلوع ہوتا ہے، وہ اسلام کو ادیان باطلہ کے مقابلہ میں پہلے سے زیادہ مضبوط و مستحکم پاتا ہے.شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے کی جانب ایک ایسی حرکت وجود میں آچکی ہے، جس میں کمی یا سستی واقع نہیں ہوتی.بلکہ وہ حرکت خدا تعالیٰ کے فضل سے تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے.اور اس کے نتیجہ میں ہمارے لئے مسلسل خوشیوں کے سامان ہوتے چلے آرہے ہیں.213
خلاصہ خطبہ عید الفطر فرموده 07 اکتوبر 1975ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل ظاہر ہونے والے خوشیوں کے ان سامانوں پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے فرمایا:.قدم بقدم آگے بڑھنا بھی ایک عید ہے.اور اس قدم بقدم آگے بڑھنے کے نتیجہ میں درجہ بدرجہ جس نئی منزل پر ہم پہنچتے ہیں ، وہ بھی ہمارے لئے عید کے سامان لاتی ہے.سو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے عید کی خوشی لانے والی ایک نئی منزل تک ابھی حال ہی میں ہم پہنچے ہیں.اور وہ یہ کہ اللہ تعالی نے گوشن برگ میں سویڈن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی توفیق عطا فرما کر ہمارے لئے خوشی کا ایک نیا سامان کیا ہے.اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہاں ایک خوشی پہنچائی.اس کی نوعیت یہ ہے کہ اگر چہ سنگ بنیاد کی تقریب میں احمدی احباب سارے ہی یورپ سے آئے تھے ، تاہم گوٹن برگ میں ان احمدیوں کی تعداد زیادہ ہے، جو کبھی پاکستانی نہیں رہے اور نہ ہیں.ان میں بعض یوگوسلاویہ کے رہنے والے بھی ہیں.گوٹن برگ میں میرے قیام کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کے یوگوسلاوین باشندوں میں سے 14 نئی بیعتیں ہوئیں.چھ مردوں اور آٹھ عورتوں نے بیعت کی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دوہری خوشی کا سامان کر دیا.14 بیعتوں کی اطلاع پر مشتمل جو تاردی گئی تھی ، راستہ میں کسی نے اپنی خوشی کا سامان کرنے کے لئے 14 کے عدد کو چار میں بدل دیا.ہمیں نئے احباب کے جماعت میں داخل ہونے کی خوشی ہوئی.انہوں نے شامل ہونے والوں کی تعداد میں کمی کر کے اپنے لئے خوشی کا سامان کیا.اللہ تعالیٰ انہیں بھی حقیقی خوشی نصیب کرے.کیونکہ یہ تو حقیقی خوشی نہیں ہے کہ دوسروں کی تعداد کو از خود گھٹا کر خوش ہوا جائے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت اسلام کی خدمت کی توفیق پارہی ہے اور اس کے نتیجہ میں حقیقی اسلام کی جڑیں ہر روز پہلے سے زیادہ مضبوط ہورہی ہیں.اور یہی ہماری اصل خوشی ہے.ہم جو آج خوش ہیں تو اس لئے نہیں ہیں کہ ہمیں حکم ملا ہے کہ اچھے کپڑے پہنو اور حسب توفیق اچھے کھانے کھاؤ بلکہ اصل خوشی تو خدا کی اطاعت میں ہے.جب وہ کہتا ہے کہ خوش ہو تو ہم خوش ہوتے ہیں.اس زمانہ میں اس نے کہا ہے کہ خوش ہو کیونکہ اسلام کے غلبہ کے دن آگئے ہیں.پس ہم خوش ہیں، اس لئے کے خدا نے ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا ہے اور اس لئے کے اس کی بشارتوں کے موجب غلبہ اسلام کے آثار دن بدن نمایاں ہورہے ہیں“.214
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اسی تسلسل میں حضور نے مزید فرمایا:.خلاصہ خطبہ عید الفطر فرموده 07 اکتوبر 1975ء چونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے ہمیں منتخب فرمایا ہے، اس لئے اس نے ہمیں دوسروں کو دکھ دینے کے لئے نہیں بلکہ سکھ پہنچانے کے لیے پیدا کیا ہے.اس نے ہمیں دوسروں کو مارنے کے لئے نہیں بلکہ زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.ہمارے سپرد یہ کام ہوا ہے کہ ہم محبت سے، پیار سے دنیا کے سارے انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتیں.اور اس طرح انہیں ایک نئی زندگی سے ہمکنار کرنے کا وسیلہ بنیں.اصل میں تو یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت اس کے فرشتے کر رہے ہیں اور فرشتے اجر و ثواب سے بے نیاز ہیں.جب خدائی منشاء کے تحت اس کے منتخب بندوں کی تھوڑی سی کوشش فرشتوں کی کوششوں میں شامل ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کی کوششوں سمیت سارے کا سارا ثواب اپنے منتخب ہندوں کو دے دیتا ہے“.حضور نے اس امر کو واضح کرنے کے لئے کہ ہمارے واسطے غلبہ اسلام کی مہم میں حصہ دار بنے اور اجر و ثواب کا مستحق قرار پانے کے لیے اپنی قربانی کے معیار کوکس حد تک بلند کرنا ضروری ہے، فرمایا:.بہت خوش قسمت تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام.انہوں نے جس صداقت کو قبول کیا تھا اور قربانی اور ایثار کے جس مسلک کو اپنے لئے پسند کیا تھا، اسے آخر دم تک نہیں چھوڑا.اور ہر قسم کی قربانیاں دے کر اس پر دوام اختیار کئے رکھا.جو برکات اور جو افضال و انعامات صحابہ کو ملے، وہی برکات اور وہی افضال وانعامات پانے کا آج ہمیں موقع دیا گیا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے.صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا لیکن یہ افضال و انعامات پانے کے لئے صحابہ والا اخلاص اور صحابہ والی فدائیت اور صحابہ والی قربانیاں ضروری ہیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم قربانیاں تو پیش نہ کریں اور پھر بھی صحابہ والے انعامات ہمیں مل جائیں.ہر ایک جو خدائی افضال و انعامات کا وارث بنا چاہتا ہے، اسے قربانیاں دینی پڑتی ہے.ہر ایک کو اپنے خاندان ، اپنے علاقے اور نوع انسان کے لئے ایثار دکھانا پڑتا ہے.اس کے لئے وہ نور حاصل کرنے کی ضرورت ہے، جو صحابہ کرام نے حاصل کیا تھا.جتنی روشن شاہراہ اسلام کے غلبہ کی ہمارے سامنے خدا نے رکھی ہے، اتنی ہی روشن شاہراہ اسلام کی نشاۃ اولیٰ میں صحابہ کے سامنے رکھی گئی تھی.اگر ہمارے بچے اور ہمارے نوجوان اس حقیقت کو پہچان لیں اور اس کے مطابق اعمال بجالائیں تو انہیں اللہ تعالیٰ کا ایسا پیار حاصل ہوگا ، جو کبھی ختم نہ ہوگا“.215
خلاصہ خطبہ عید الفطر فرموده 07 اکتوبر 1975ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد پنجم آخر میں حضور نے خاص طور پر احباب انگلستان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.دو گوشن برگ میں خدا کا گھر بنانے کی جو عید ہمارے لئے پیدا ہوئی، اس کے تعلق میں آپ کے لئے دوہری خوشی کا موقع ہے.وہاں میں نے اعلان کیا تھا کہ یورپ اور امریکہ کے پانچ ملکوں کی جماعت ہائے احمد یہ اس کا خرچ برداشت کریں گی.ان میں سے زیادہ بوجھ آپ نے ہی اٹھانا ہے.صد سالہ احمدیہ جوبلی کے آپ کے اسی ہزار پونڈ کے وعدے دو سال کے اندر اندر پورے ہو جائیں.اسی طرح ناروے کی جماعت سے میں نے کہا ہے کہ 1978 ء میں وہ مسجد بنائیں.اس کا بار بھی بڑی حد تک انگلستان کی جماعت کو ہی اٹھانا ہوگا.لہذا آپ کے لئے تو دوہری خوشی کا موقع ہے.اللہ تعالیٰ اس عید کو آپ کے لئے دوہرے طور پر مبارک کرے اور برکت کے سامان آپ کے لئے پیدا کرے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 03 نومبر 1975ء ) 216
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خلاصه خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1975ء جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صداقت نے کبھی شکست نہیں کھائی خطبہ جمعہ فرمودہ 17 اکتوبر 1975ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.انفلوائنزا کی تکلیف ابھی دور نہیں ہوئی اور نہ تا حال اس مرض کی کوئی دوا ایجاد ہوئی ہے.کسی قد رافاقہ کے باوجود تکلیف کا احساس اب بھی ہے.آپ کو آپ کے ایک اہم فرض کی طرف توجہ دلائی تھی ، اس لئے تکلیف کے باوجود یاد دہانی کرانے آ گیا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے گوٹن برگ میں جو مسجد بن رہی ہے، اس کے اخراجات کا اکثر بار آپ کے کندھوں پر ہے.اس کے لئے انگلستان کی جماعتوں کو ستر ، اسی ہزار پاؤنڈا اپنے صد سالہ احمدیہ جو بلی فنڈ کے وعدوں میں سے ادا کرنے پڑیں گے.اس فنڈ میں آپ نے جو وعدے کئے ہیں، ان کے لحاظ سے یہ رقم زیادہ نہیں ہے اور بآسانی ادا ہو سکتی ہے.کیونکہ آپ کے وعدوں کی کل مقدار دس لاکھ پاؤنڈ ہے.یہ وعدے قریب پانچ ، پانچ لاکھ کے دوحصوں میں منقسم ہیں.اپنے ایک حصہ کے وعدوں میں سے جو تم پہلے دو سال میں آپ نے ادا کرنی ہے، وہ اسی ہزار پاؤنڈ ہے.یہ دو سال مارچ 1976ء میں پورے ہو رہے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ اتنی ہزار پاؤنڈ مارچ 1976ء سے پہلے پہلے ادا ہو جانے چاہئیں“.ادا مسجد گوٹن برگ کی تعمیر کے لئے جور قوم درکار ہوں گی اور جس طرح انہیں خرچ کیا جائے گا، اس کی کسی قدر تفصیل بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.و تعمیر کے سلسلہ میں ٹھیکیدار سے جو معاہدہ ہوا ہے، اس کی رو سے اس نے مسجد کی تعمیر جولائی 1976ء میں مکمل کرنی ہے.اسے اخراجات کی رقم جولائی 1976 ء تک قسط وارادا کی جائے گی.اخراجات کا ایک چھوٹا حصہ سیکنڈے نیویا کی جماعت ہائے احمدیہ ادا کریں گی.کیونکہ وہ ابھی اتنی استطاعت نہیں رکھتیں کہ زیادہ مالی بوجھ برداشت کر سکیں.اسی طرح امریکہ کی جماعت ہائے احمد یہ 25 ہزار پاؤنڈ ادا کریں گی.اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اخراجات کا ایک بہت بڑا حصہ آپ ہی کو ادا کرنا ہو گا.اس خیال سے کہ آپ مارچ 1976 ء تک اپنے دو سال کا چندہ ، جواسی ہزار پاؤنڈ بنتا ہے، ادا کرنے میں 217
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 17 اکتوبر 1975ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم ستی سے کام نہ لیں اور آپ کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے، میں آج تکلیف کے باوجود خطبہ پڑھنے آگیا ہوں.صد سالہ جوبلی فنڈ میں آپ کے وعدوں کا دوسرا حصہ، جو پہلے حصہ کی طرح قریبا پانچ لاکھ پاؤنڈ پر مشتمل ہے، اس کی ایک لاکھ پچیس ہزار پاؤنڈ کی پہلی قسط کی ادائیگی 1977ء میں ہوگی.اس کے متعلق میں نے سوچا ہے کہ اس سے ناروے میں مسجد تعمیر کی جائے.حضور رحمہ اللہ نے گوٹن برگ کی مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ایک اور اہم کام انجام دینے کا بھی ذکر فر مایا.چنانچہ فرمایا:.جب آپ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری ادا کر دیں گے تو پھر انگلستان کے مشن کو، جو یورپ میں ایک مرکزی مشن کی حیثیت رکھتا ہے، مضبوط کرنے کا کام کیا جائے گا.اس سلسلہ میں متعدد منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ہوگا“.حضور نے اس اہم کام کی کسی قدر تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جب انسان اندھیرے میں ہوتا ہے اور اسے مستقبل کا کچھ علم نہیں ہوتا، وہ ایسی بات بجھا دیتا ہے، جو بظاہر تو اہم معلوم نہیں دیتی لیکن جب اندھیرا دور ہوتا ہے اور مستقبل حال میں تبدیل ہوتا ہے تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ ایسا کیوں ضروری تھا.میں نے چند سال بیشتر کہا تھا کہ ہمیں دو، تین اعلیٰ درجہ کے پریس مختلف ملکوں میں لگانا ہوں گے تا کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن مجید کی طباعت ہو سکے اور ایسے رسالے شائع کئے جاسکیں ، جو جھوٹے اور بے بنیاد الزامات یا اعتراضات کی تردید یا لوگوں کی غلط فہمیوں کے ازالہ پر مشتمل ہوں.اگر دوسروں کی طرف سے غلط اور جھوٹے اعتراضات نہ کئے جائیں تو ہمیں ایسے رسالے لکھنے اور شائع کرنے کی ضرورت نہیں.ہمارا اصل کام تو دنیا کے سامنے اسلام کی صداقت کو پیش کرنا ہے.ہمارے اور حقیقی اسلام کے خلاف غلط اعتراضات شائع کر کر کے ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم ایسے رسالے بھی لکھیں.دراصل دنیا دو حصوں میں بٹ گئی ہے.ایک تو وہ لوگ ہیں ، جن کا انحصار صداقت پر ہے.اور ایک وہ لوگ ہیں، جن کا انحصار بہت حد تک جھوٹ پر ہے.جب یہ مؤخر الذکر لوگ جھوٹ پر انحصار کرتے ہوئے ہمارے خلاف سراسر جھوٹی باتیں شائع کرتے ہیں تو پھر ہمیں بامر مجبوری ان کی تردید میں رسالے شائع کرنے پڑتے ہیں، ہمیں اس کام میں گھسیٹا جاتا ہے، ورنہ ہمارا اصل کام یہ نہیں ہے.ہمارا اصل کام تو براہ راست صداقت کو پیش کرنا ہے.ویسے اس جھوٹے پراپیگنڈے سے ہم قطعاً ہراساں نہیں ہوتے.218
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرموده 17 اکتوبر 1975ء کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے، صداقت نے کبھی شکست نہیں کھائی.سچ ہی ہمیشہ کامیاب ہوا ہے اور ہمیشہ جھوٹ نے ہی بالآخر شکست کھائی ہے.ایسے لوگ جو جھوٹی باتیں پھیلاتے اور جھوٹ کی اشاعت کرتے ہیں، ان کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ کتابچے اور رسالے شائع کر کے ان کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور انہیں خدا تعالیٰ کی امان کے نیچے لایا جائے.بہر حال قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت کے لئے دو یا تین پر یسوں کا ہونا از بس ضروری ہے.اور بعد کے حالات نے ان کی ضرورت کو اور بھی واضح کر دیا ہے.یورپ میں تبلیغ اسلام کی مہم کو تیز کرنے کے سلسلہ میں بعض اور ضروری اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.”ہم نے پروگرام بنایا ہے کہ آئندہ پندرہ سال میں پانچ نئی مسجد میں یورپ کے مختلف ملکوں میں بنائی جائیں.ایک مسجد اٹلی کے اس حصہ میں تعمیر کرنے کا ارادہ ہے، جو یوگوسلاویہ کے قریب ہے.پھر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا امیچور ریڈیوکلبز (Immature Radio Clubs) کا قیام اور دنیا بھر کے احمد یہ مشنوں میں ٹیلیکس کے نظام کا قیام بھی ضروری ہے.تاکہ مشنوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ قائم ہو اور ایک دوسرے کو غلبہ اسلام کے ضمن میں ضروری معلومات بہم پہنچائی جاسکیں.اللہ تعالیٰ دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کی ترقی کے سامان کرتا ہے اور اسے کامیابیاں عطا فرماتا ہے.لیکن ان کی خوشخبری دوسرے مشنوں کو بہت دیر سے ملتی ہے.اگر ٹیلیکس کے ذریعہ مشنوں کا باہم رابطہ قائم ہو تو ایسی اطلاعات انہیں فوری طور پریل سکتی ہیں اور وہ نزول افضال الہی پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر بجالا سکتے ہیں“.احباب انگلستان کو فی الوقت ان کا سب سے اہم اور مقدم فرض پھر یاد دلاتے ہوئے فرمایا:.اس وقت نمبر ایک کام آپ کے سامنے یہ ہے کہ آپ نے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں اپنے وعدوں میں سے مارچ یا حدا پریل 1976 ء تک پچھتر یا اسی ہزار پاؤنڈ کی رقم ادا کرنی ہے.گوٹن برگ میں مسجد کی تعمیر شروع کرنے کے لئے وہاں فوری طور پر رقم بھیجنے کی ضرورت ہے.پہلے سے جمع شدہ رقوم میں سے ہیں ہزار پاؤنڈ کی رقم تو اس ہفتہ وہاں بھیج دی جائے گی.مزید بیس ہزار پاؤنڈ دسمبر میں بھیجنا ہوں گے.اسی طرح وہاں قسط وار رقوم بھجوائی جائیں گی.کنٹریکٹر نے مجھے کہا تھا کہ اخراجات کی کل رقم بنگ میں جمع کرا دی جائے تا کہ وہ تعمیر شروع کر سکے.اس پر میں نے اسے کہا، کیا میری زبان ضمانت کے طور پر کافی نہیں ہے؟ رقم کی تم پرواہ نہ کرو.وہ حسب ضرورت ساتھ کے ساتھ ہم مہیا کرتے رہیں گے.اس پر 219
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 17 اکتوبر 1975ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اس نے کہا آپ کی زبان میرے لئے کافی ہے، مجھے اور کسی ضمانت کی ضرورت نہیں.جب جماعت کا خلیفہ وہاں زبان دے کر آیا ہے تو کیا آپ اس کا پاس نہ کریں گے اور چندوں سے متعلق اپنے وعدے بر وقت پورے نہیں کریں گے؟“ اسی ضمن میں دوسرے اہم کام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا:.دوسرے نمبر پر خود اس مشن کو وسعت دینے اور اسے اور زیادہ مضبوط بنانے کا کام ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں دن بدن وسعت پیدا کر رہا ہے.جب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے احباب چوہدری صاحب کی صحت و عافیت اور درازی عمر کے لئے دعائیں کریں.وہ مالی قربانیوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں.) موجودہ مشن ہاؤس اور اس سے ملحق محمود ہال تعمیر کروانا شروع کیا تو تعمیر کردہ ہال کو اس وقت کی ضرورت سے زیادہ بڑا اور وسیع خیال کیا گیا تھا.لیکن چند سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مزید ترقی دے کر ثابت کر دکھایا کہ یہ ہال بھی نا کافی ہے اور اب اس سے بھی بڑے ہال کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت سے ہمیں یہ حکم ہے کہ وَسِعُ مَكَانَكَ یعنی یہ کہ ہم اپنے مکانوں کو وسیع کرتے چلے جائیں.چنانچہ ہم اس خدائی حکم کی تعمیل میں پہلے سے زیادہ وسیع عمارتیں بناتے ہیں.لیکن ہر سال ہی جب جلسہ سالانہ آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی ناکافی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں مخاطب کر کے فرمایا ہے:.”میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو!“ بڑا ہی پیارا جملہ ہے، جس سے ہمیں مخاطب کیا گیا ہے.اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ ہمارے لئے من جانب اللہ سر سبزی و شادابی ہی مقدر ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کا ثبوت دیتا چلا آرہا ہے.گزشتہ سال جب حالات بظاہر پریشان کن تھے، میں نے ایک رات اللہ تعالیٰ کے حضور بہت دعا کی.صبح کے وقت الہام ہوا.وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ.یہ ایک بہت بڑی تسلی تھی ، جو اس وقت دی گئی اور ساتھ ہی جماعت کی مزید ترقی کے پیش نظر مکانوں کو وسیع کرنے کا حکم دیا گیا.اس امر کو ایک تازہ مثال سے واضح کرتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کس طرح ہمیں اپنی برکتوں اور کامیابیوں سے نواز رہا ہے، حضور نے فرمایا:.د گوٹن برگ میں جب میں نے مسجد کی بنیاد رکھی تو اس سے اگلے روز چودہ یوگوسلاوین دوست بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے.اس کے بعد جب میں وہاں سے واپس آیا تو کمال یوسف 220
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرموده 17 اکتوبر 1975ء صاحب امام مسجد کو پن ہیگن نے فون پر اطلاع دی کہ سویڈن کے ایک اور شہر میں رہنے والے یوگوسلاوین باشندوں نے گلہ کیا ہے کہ ہمیں تبلیغ کیوں نہیں کی گئی ؟ ہمارے بعض رشتہ دار احمدی ہو چکے ہیں.میں نے کمال یوسف صاحب سے کہا کہ تم فوراً وہاں جاؤ اور ان سے ملو.چنانچہ امام کمال یوسف مبلغ سویڈن منیر الدین احمد ہمارے یوگوسلاوین بھائی شعیب موسیٰ اور عزت اولی وچ وہاں گئے.اس روز وہاں ایک ٹورنامنٹ تھا اور لوگ وہ ٹورنا منٹ دیکھنے گئے ہوئے تھے.ان کی صرف سات آدمیوں سے ملاقات ہو سکی، ساتوں نے بیعت فارم پر کر دیئے اور مزید بیعت فارم بھی لے لئے تا کہ ان کے دوسرے ساتھی بھی فارم پر کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر سکیں.آخر میں حضور نے فرمایا:.الغرض یہ دنیا تو عارضی ہے.اصل اور پائیدار زندگی وہ ہے، جو مرنے کے بعد شروع ہوگی.ہمیں چاہیے کہ اس دنیا میں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور اس دنیا کے ساتھ ساتھ اخروی جہان کے انعاموں کے وارث بنیں.دوست یہ دعا بھی کریں کہ مجھے فلو سے آرام آجائے اور انسان کو اس کی دوا بھی مل جائے ، جو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکی.مطبوعه روزنامه الفضل 05 نومبر 1975ء) 221
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء آج تحریک جدید بہت بڑا درخت بن گیا ہے اور سارا سال پھلوں سے لدا رہتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ اَدْلُكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيْهِ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ( الصف آیات ۱۱-۱۲) اس کے بعد فرمایا:.سورۃ صف کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں ایثار اور قربانی کے وطیرہ کو اختیار کرنے کی برکات کا ذکر کیا ہے اور اس میں مالی جہاد کا بھی ذکر ہے.دراصل مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ میں اللہ تعالٰی نے مومنوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہوتا ہے، وہ اس کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی دی.زندگی کی ایک مدت عطا کی.اللہ تعالیٰ نے انسان کو موت عطا کی.اللہ تعالیٰ نے اس زندگی میں انسان کی ترقیات کے لئے اسے بہت سی قوتیں، صلاحیتیں اور استعدادیں عطا کیں.اللہ تعالیٰ نے ان قوتوں اور استعدادوں کی نشو و نما کے مناسب حالات پیدا کرنے کے لئے وسائل کے طور پر اسے مال اور دولت عطا کئے.گویا ہر جہت سے اور ہر لحاظ سے اس نے اپنی عطا سے ہماری جھولیوں کو بھر دیا اور ہم سے یہ مطالبہ کیا کہ جو کچھ بھی میں نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے میری راہ میں میرے کہنے پر اور میری تعلیم کے مطابق میری توحید کے قیام کے لئے ، میرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو نوع انسانی کے دلوں میں پیدا کرنے کے لئے خرچ کرو.جو سرمایہ ہے، وہ بھی اسی کا ہے.لیکن احسان عظیم فرماتے ہوئے ، وہ ہمیں یہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ تجارت کرو گے تو گھاٹے میں نہیں رہو گے.میرے ساتھ تجارت کرو گے اور میرے ہی مال کو مجھے واپس دو گے، میری ہی عطا کردہ قوتوں کو میری راہ میں خرچ کرو گے، میری ہی دی ہوئی زندگی کے دنوں کو میری عبادات میں، میری تسبیح وتحمید میں اور میرے 223
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم بندوں کی خدمت میں لگاؤ گے اور اگر ضرورت پڑے تو جو موت میں نے تمہارے لئے مقدر کی ہے، اس کو بشاشت سے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے ، اس موت کو میرے لئے قبول کر لو گے، تو تمہیں عذاب الیم سے بچایا جائے گا.اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو عذاب الیم میں مبتلا ہو گے.ان آیات میں بہت لمبا مضمون ہے.مگر اس تفصیل میں، میں اس وقت نہیں جاؤں گا.صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مالی جہاد کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک عظیم جہاد قرار دیا ہے.اور انسان اگر عقل اور فراست رکھتا ہو تو حیران ہوتا ہے کہ وہ خودہی ہمارے ہاتھوں میں دولت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے دو گے (اس میں سے جو میں نے تمہیں دیا ہے.تو میں تمہیں عذاب الیم سے بچالوں گا.پس یہ گھاٹے کا سودا نہیں، یہ تو بڑا ہی نفع مند سودا ہے.اور جولوگ اس سے غفلت برتتے ہیں، جو اس کی طرف توجہ نہیں کرتے، جو اس کو اچھا نہیں سمجھتے ، جو اس کی حقیقت کو نہیں پہچانتے ، جو اپنی نسلوں کی بہبود کا خیال نہیں رکھتے، جو اپنے مستقبل کی پرواہ نہیں کرتے ، جو اخروی زندگی کا تصور اپنے دماغوں میں نہیں لاتے اور اللہ تعالیٰ نے جو بشارتیں دی ہیں، ان بشارتوں کے مطابق خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے حصول کے لئے کوشاں نہیں ، وہ بڑے ہی خسارے میں ہیں.وہی عذاب الیم ہے.جس نے خدا کو ناراض کر لیا، اس سے بڑا اور کیا عذاب اس کو ملے گا.اللہ تعالیٰ نے اس بات کو انسان کی اپنی سمجھ پر نہیں چھوڑا کہ وہ کب اور کس طرح اور کن راہوں پر اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے خرچ کرے.بلکہ ابتدائے اسلام سے اللہ تعالیٰ نے اس کی راہنمائی کا انتظام کیا ہے.ابتداء تو ہوئی اس عظیم ہستی سے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جن کی عظمت اور جلالت کا تصور میں بھی انسانی ذہن احاطہ نہیں کر سکتا.آپ اعلان کرتے تھے کہ خرچ کرو.آپ کی طرف سے یہ اعلان ہوتا تھا کہ یہ راہ ہے خرچ کرنے کی ، اس میں مال دو.کبھی جب دشمن تلوار سے حملہ آور ہوتا تھا تو اس کے مقابلہ کے لئے مال کو خرچ کرنے کی ندا آتی تھی ، اپنے اوقات کو خرچ کرنے کی ندا آتی تھی کہ کاموں کو چھوڑو اور اسلام کی حفاظت کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یا آپ کے مقرر کردہ سپر سالار کی معیت میں کام کاج، ہر چیز کو چھوڑ کر باہر نکلو اور اپنے وقتوں کو خرچ کرو.اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ان کو یہ کہا جاتا کہ شہادت ایک عظیم انعام ہے، ہو سکتا ہے تمہیں وہ بھی مل جائے.زندگی کے لمحات کا خدا کی راہ میں خرچ کرنا، یہ بھی ایک طریق ہے، خدا کی راہ میں زندگی وقف کر دینے کا.اور خدا کی راہ میں شہادت کو قبول کر لینا، یہ موت بھی جو اس نے عطا کی ہے، عظیم احسان ہے.انسان کی موت ایک عظیم پس منظر رکھتی ہے.اس موت کو خدا کے لئے قبول کر لینا اور ابدی جنتوں کا وارث بن جانا، یہ بھی ایک عظیم انعام 224
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء ہے.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلاتے تھے ، اموال کے خرچ کرنے کی طرف بلاتے تھے، اوقات کے خرچ کرنے کے لئے، بلاتے تھے، جانوں کو دے دینے کے لئے مٹھی بھر صحابہ تھے ، جو غیر تربیت یافتہ تھے.ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی ان کو پوری مشقیں نہیں تھیں.ان کی پہلی زندگی کچھ اس رنگ کی تھی کہ ان کو زیادہ تلوار چلانے کی بھی عادت نہیں تھی.لیکن اسے کون دیکھتا تھا کہ مجھے تلوار چلانی آتی ہے یا نہیں؟ وہ تو یہ دیکھتے تھے کہ خدا کی راہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز جب بلائے تو اس آواز پر لبیک کہنا ہماری زندگی کا بہترین ثمرہ اور بہترین انعام ہے.لیکن ہماری زندگیوں میں آج کے زمانہ میں تو تلوار کی جنگ کے لئے نہیں بلایا جاتا.اس زمانہ کے حالات ایسے ہیں کہ دشمن نے جو صدیوں یہ اعتراض کیا کہ اسلام نعوذ باللہ تلوار کے زور سے پھیلا تھا.اگر چہ یہ جہالت کا الزام تھا، یہ حماقت کا الزام تھا، یہ شرارت کا الزام تھا، یہ شیطنت کا الزام تھا مگر تا ہم یہ ایک الزام تھا.دنیا میں اس الزام اور اس اعتراض کو اتنا دہرایا گیا کہ مثلاً عیسائی دنیا عیسائیت کو چھوڑ بیٹھی.لیکن اسلام کے خلاف جو یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، یہ اعتراض ان کے دماغوں سے نہیں نکلا.میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ 1967ء میں زیورچ (سوئٹر لینڈ میں T.V کا ایک گروپ میرے انٹرویو کے لئے آیا.انہوں نے ایک سوال یہ کیا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کو کیسے پھیلائیں گے؟ یہ سیدھا سادھا سوال بڑے ادب سے پوچھا گیا تھا.لیکن دراصل ان کے دماغ کی جو کیفیت تھی ، وہ ی تھی کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلتا ہے اور تلوار ہم نے تمہارے ہاتھوں سے چھین لی ہے، اب تم اسلام کو کیسے پھیلا ؤ گے؟ میں نے سوچا کہ عیسائی پادریوں نے ان کے دلوں میں عیسائیت قائم رکھنے کی جو کوشش کی، وہ اس میں تو نا کام ہو گئے ہیں.لیکن یہ اعتراض ابھی تک ان کے دلوں میں راسخ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.میں نے جو حقیقت تھی ، وہ بغیر کسی تکلف کے اسی وقت ظاہر کر دی.میں نے کہا کہ ہم پیار اور محبت سے تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام کو پھیلائیں گے.ان کا رد عمل اس طرح تھا کہ جس طرح کسی کو پکڑ کے ایک جھٹکا دیا جائے کہ یہ کیا جواب ہمیں مل گیا ہے.اور اس کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا، یہ تو ہم ضرور T.V پر لانا چاہتے ہیں.میں نے کہا کہ میری بھی یہ خواہش ہے کہ ضرور ۷.آپر لاؤ کہ اسلام دلوں کو جیت کر تمہارے ملکوں میں پھیلے گا.اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے یہ تدبیر کی ہے کہ نوع انسانی کو بحیثیت نوع انسانی اسلام میں داخل کرے.الَّا مَا شَاءَ اللہ کچھ لوگ چوہڑے چماروں کی طرح غیر مسلموں میں سے باقی بچ جائیں ، جو اسلام نہ لائیں تو اور بات ہے.لیکن نوع انسانی اسلام کو پیار و محبت کے نتیجہ میں قبول کرے گی اور توحید 225
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم پر قائم ہوگی.اس محبت کے نتیجہ میں جو اسلام ان کے سامنے پیش کرتا ہے.ہمارے ذمے یہ لگایا گیا ہے کہ ہم اسلامی تعلیم کو، اسلام کی پیار کی تعلیم کو اور بے نفس خدمت کی تعلیم کو ان کے سامنے پیش کریں.اس اعتراض کو جو صدیوں سے اسلام پر کیا جارہا ہے، اس اعتراض کو کہ اپنے مذہب کو انہوں نے چھوڑ دیا مگر ان کے دماغ اسلام پر اس اعتراض کو نہیں چھوڑ سکے، اس اعتراض کو آج ہم نے دور کرنا ہے، ان کے دلوں سے اس کو مٹانا ہے، ان کے ذہنوں سے اس نقش کو ہم نے مٹادینا ہے اور ان کو مجبور کرنا ہے.اسلام کی محبت اور پیار کی تعلیم پیش کر کے اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے اسلام کی جو اتنی بڑی تعلیم ہے، وہ ان کے سامنے پیش کر کے اور اس اعتراض کو کلیۂ جڑ سے اکھیڑ کر باہر پھینک دینا ہے.اور اس بات پر انہیں قائم کرنا ہے کہ اسلام واقع میں پیار اور محبت کے ساتھ پھیلا تھا.اور اس قدر ز بر دست انقلابات سے بھری ہوئی اس دنیا میں، اس معمورہ ارض پر ( کہ پہلے اس قسم کا معمورہ نہیں تھا) اسلام کا پیار کے ساتھ پھیل جانا، یہ ثابت کرے گا کہ پچھلے زمانوں میں بھی اسلام پیار سے پھیلا تھا.اور یہ اعتراض غلط ہے کہ اسلام کو اپنی اشاعت کے لئے تلوار کی ضرورت پڑی.اس پیار کو پھیلانے کے لئے ، اس پیار کولوگوں تک پہنچانے کے لئے وقت کی بھی ضرورت ہے، تکالیف کے برداشت کرنے کی بھی ضرورت ہے ، اموال کی بھی ضرورت ہے اور اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام اور اسلامی تعلیم کی روشنی میں ایک مسلمان خدا کی مخلوق کی خدمت پر مامور ہے.بعض نو جوانوں کو بعض حالات میں غصہ آتا ہے تو میں ان کو سمجھایا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں یعنی جماعت احمدیہ کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے، مارنے کے لئے پیدا نہیں کیا.اور حقیقی زندگی وہ ہے، جو خدا میں ہو کر گزاری جائے.باقی تو اگر انسان کی زندگی حیوان کی زندگی سے مختلف نہ ہو تو وہ کیا زندگی ہے؟ لیکن انسان کی وہ زندگی ، جو خدا میں ہو کر گزاری جائے ، وہ انسان کی حقیقی زندگی ہے.اور اس قسم کی زندگی دنیا کو دینے کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر عائد کی گئی ہے.اور میں نے بتایا ہے کہ اس کے لئے جہاں اور بہت سی اور مختلف قسم کی عطایا میں سے خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے، وہاں مال میں سے خرچ کرنے کے لئے بھی بلایا جاتا ہے.پس کبھی تو ان حالات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس تلوار کے، جو اسلام کے خلاف میان سے نکلتی تھی ، فساد اور شر سے مسلمان کو بچانے کے لئے مسلمان کو بلاتے تھے اور کبھی جہاد کے سفر میں راشن کم ہو جا تا تھا تو اعلان کرتے تھے کہ جس کے پاس جو کچھ ہے، وہ خزانے میں جمع کرا دے.جس کے پاس پانچ کھجوریں ہیں ، وہ بھی اور جس کے پاس پانچ من کھجور نہیں ہیں، وہ بھی.اور وہ برابر کی تقسیم ہو جائیں.یہ 226
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء خالصہ انسانی پیار کا جلوہ ہے.مجھے تو یہی نظر آتا ہے.امید ہے کہ آپ کو بھی ایسا ہی نظر آئے گا.پس جس وقت انسان کو بھوک کی تکلیف کا اندیشہ پیدا ہوا تو سب کو برابر کر دیا.انہوں نے کہا کہ اگر تکلیف اٹھائیں گے تو ہم سب اٹھا ئیں گے.اور خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ اس تھوڑے میں برکت ڈالی اور ان کی سیری کے سامان پیدا کئے.میرے علم میں نہیں ہے کہ صحابہ نے کہیں یہ بھی ذکر کیا ہو کہ اس کے باوجود ہمیں بھوک کی بہت تکلیف اٹھانی پڑی.کیونکہ اصل میں غذا کی مقدار نہیں بلکہ اس مقدار کا انسان کے اندر سیری کا احساس پیدا کرنا ، اصل چیز ہے.مختلف آدمی مختلف مقدار میں غذائیں کھاتے ہیں.کسی کو ایک چھٹا تک آٹا سیر کر دیتا ہے اور اس کے اندر سیری کا احساس پیدا کر دیتا ہے اور کسی کو آدھ سیر آٹا بھی سیر نہیں کرتا.ایسے لوگ بھی میرے علم میں ہیں.لیکن اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور انسان کے جسم کی ضروریات کو تھوڑے میں پورا کر دے تو وہ اس پر قادر ہے.اور اپنے بندوں سے وہ بھی اس طرح بھی پیار کرتا ہے کہ تھوڑے میں اتنی برکت ڈالتا ہے کہ انسان کے جسم کی ضرورتیں، اس کے پیارے بندوں کے جسم کی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں.اس زمانہ میں زندگی کے وقف کے لئے اعلان ہوتا ہے، اپنے اموال کے خرچ کرنے کے لئے اعلان ہوتا ہے.اس طرح میدان جنگ کا اعلان نہیں ہوتا.کیونکہ اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے تو یہ زمانہ آیا ہے اور اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے تو مہدی معہود علیہ السلام مبعوث ہوئے ہیں اور اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے تو ہمیں مہدی معہود سے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی پیشگوئیاں نظر آتی ہیں.اس پیار سے اسلام کو پھیلانے کے لئے آج کی دنیا میں اموال کی ضرورت ہے.پہلے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نالی.کیونکہ اصل ندا تو آپ ہی کی ہے، باقی تو ساری ندائیں صیلی ہیں.اور اب میں نے مہدی کے زمانے کی ندا لے لی.بیچ کا سارا زمانہ ایسا ہے، جس میں خدا تعالیٰ کے پیارے اور محبوب اور برگزیدہ بندے خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے اپنے گرد جمع ہونے والے مخلصین سے مالی قربانیاں بھی لیتے رہے ہیں.پس ہر انسان کو یہ نہیں کہا کہ تو خود فیصلہ کر کہ تو نے خدا کو خوش کرنے کے لئے کہاں اور کس طرح دینا ہے؟ بعض حالات میں چھوٹی چھوٹی ایسی قربانیاں ہیں، جن کے متعلق اس کو کہا کہ تو آپ فیصلہ کر لیا کر مثلا زکوۃ پر اس کے بعض اخراجات وغیرہ ہیں.لیکن ان کی حد بندی بھی خود اسلام نے کر دی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی آواز، تلقین یا ندا ہے، جو براہ راست یا بالواسطہ اٹھتی اور بلند ہوتی ہے.یہ آواز بالواسطہ آپ کے مخلصین ، آپ کے اطاعت گزار، آپ 227
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم کے عشق اور محبت میں فنا ہونے والوں کے ذریعہ سے اٹھتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس وقت اسلام کو اس بات کی ضرورت ہے، اس کے لئے آگے آجاؤ.اس زمانہ میں جو ساری دنیا میں ایک جال پھیلنا تھا تبلیغ اسلام کا، اشاعت اسلام کا ، اس حسین تعلیم کو دنیا کے سامنے رکھنے کا، اس پیاری تعلیم سے پڑھے لکھوں کو متعارف کرانے کا ، اس کے لئے ایک وقت میں جماعت احمدیہ کی تاریخ میں وہ وقت آیا کہ خدا کی طرف سے ہمیں باہر نکلنے کا حکم ہوا اور اس کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کو قائم کیا.جیسا کہ ہر اچھے درخت کی ابتداء بھی ایک چھوٹے سے نحیف اور کمزور پودے سے ہوتی ہے.تحریک جدید کی ابتداء بھی اسی طرح ہوئی.لیکن آج وہ ایک بہت بڑا درخت بن گیا ہے اور سارا سال ہی پھلوں سے لدا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس درخت میں اتنی برکت ڈالی ہے کہ اس کی شاخیں ایک طرف افریقہ کے صحراؤں میں پھیلی ہوئی ہیں اور دوسری طرف شمالی امریکہ کی گنجان اور تہذیب نو کی آبادیوں کے اندر پھیلی ہوئی ہیں.اور وہاں چھوٹے چھوٹے جزیرے بن رہے ہیں، جو ان نو تہذیب یافتہ لوگوں کونئی تہذیب کے گند اور اس کی نحوست سے بچا کر اسلام کی حسین تعلیم کے اوپر قائم کر رہے ہیں.ان جزیروں میں جو ہمارے احمدی رہ رہے ہیں، ان کی زندگیاں بالکل مختلف ہیں.پھر ایک طرف اس کی شاخیں جاپان میں چلی گئیں اور آسٹریلیا میں چلی گئیں ، جنوبی امریکہ میں چلی گئیں، یورپ اور انگلستان میں اور اس مڈل ایسٹ میں چلی گئیں ، جس کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید وہاں بڑا تعصب پایا جاتا ہے اور ہمارے لئے اس کے دروازے کھلے نہیں.وہاں بھی اگر چہ کثرت سے نہیں لیکن دروازے کھلے ہیں ، وہ لوگ بھی احمدی ہوتے ہیں.قریباً ہر ملک ایسا ہے، جہاں کے مقامی باشندوں نے احمدیت کو قبول کیا ہے.اور احمدیت کو جب مسلمان قبول کرتا ہے تو بعض دفعہ کہتے ہیں کہ مسلمان احمدیت کو کیوں قبول کرے، اسے کیا فائدہ؟ وہ اس لئے قبول کرے کہ احمدیت قبول کر کے دنیا میں اسلام کی اشاعت کا جو انتظام ہوا ہے اور ایک مہم جو جاری ہوئی ہے اور دنیا میں اشاعت اسلام کا ایک جہاد جو شروع ہو چکا ہے، اس میں وہ شخص شامل ہو جاتا ہے.اور احمدیت سے باہر حقیقی معنوں میں ایسا کوئی سامان نہیں ہے.باقی دنیا دار پیسے بھی بڑے خرچ کرتے ہیں.اور ہم قدر کرتے ہیں بڑی بڑی مساجد کی ، جو بنائی جاتی ہیں.اور ہم قدر کرتے ہیں ان پیسوں کے مساجد پر خرچ ہونے کی.اور ہم دعائیں کرتے ہیں کہ خداوہ دن بھی لائے کہ جب یہ مساجد نمازیوں سے بھی بھر جائیں.لیکن یہ سعی اور کوشش اور یہ جہاد کہ اسلام کے حسن اور 228
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء احسان اور اس میں جو جذب پایا جاتا ہے، اس کے ذریعہ سے غیر مسلموں کو کھینچنا، یہ مہدی علیہ السلام کی مہم ہے اور یہ جہاد جو شروع ہو چکا ہے، اس سے باہر کوئی اور جہاد ہمیں نظر نہیں آتا.لیکن تاہم ہر کوشش جو اسلام کو پھیلانے کی ہے، خواہ وہ باہر ہی ہو، ہم اس کی قدر کریں گے، ہم اس سے پیار کریں گے، وہ ہماری طرف ہی لوگوں کو لانے والی ہے.ان کو خواہ نظر آئے یا نہ آئے.بہر حال تحریک جدید سے جو ایک چھوٹا سا کام شروع ہوا تھا، اب وہ بہت پھیل گیا ہے.اب اس کی شکل بدل گئی ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ 1944ء تک ہمارے رجسٹروں میں ایک پیسہ بھی بیرون ہندوستان کے چندوں کا نہیں تھا.اور اب سوائے ان بنیادی اخراجات کے، جو ان پر بہر حال مرکز میں ہوتے ہیں، مثلاً لٹریچر کی اشاعت پر خرچ اور جامعہ احمدیہ میں مبلغ بنانے پر خرچ ، باقی جو ان کے روز مرہ کے اخراجات ہیں، ان میں بیرون پاکستان کی ساری دنیامل کر اجتماعی زندگی میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہے.اور پاکستان کی ایک پیسے کی بھی محتاج نہیں رہی.اتناز بر دست انقلاب آچکا ہے دنیا میں.یہ معمولی بات نہیں ہے.تم سوچو 1944ء میں یہ بیرون ہندوستان کی دنیا ( اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا.) مرکز کی پیسے پیسے کی محتاج تھی.ایک پیسہ بھی ہماری لسٹ میں ان کی آمد کا نظر نہیں آتا.اور وہ جو اس وقت پیسے پیسے کی محتاج تھی ، آج ایک پیسے کی بھی محتاج نہیں ہے.اتنا انقلاب عظیم آ گیا ہے.وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ بعض جگہ نئی تحریکیں شروع ہوئی ہیں اور وہ ایریا، وہ ملک، وہ ریجن خود اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تو پاکستان سے باہر کے دوسرے ممالک کہتے ہیں کہ ہم تمہاری مدد کو آتے ہیں.اور اب تو میں نے پچھلے جمعہ میں بتایا تھا کہ ایک مسجد کی تعمیر کا قریباً سارا خرچ زیادہ تر انگلستان کی جماعتیں اٹھائیں گی.لیکن اس کا کوئی 1/5 امریکہ کی جماعتیں اور 5 فی صد کے قریب سکنڈے نیویا کی جماعتیں اس مسجد پر خرچ کریں گی.اس کے لئے ہمیں انہوں نے ثواب سے محروم کر دیا ہے.یا یوں کہیں کہ ہمارے حالات نے ہمیں محروم کر دیا ہے.دعا کریں کہ حالات بدل جائیں اور درست ہو جائیں.اور پھر جو گلا منصوبہ ذہن میں آیا ہے، یعنی اوسلو(ناروے) کی مسجد کا، اس کی تعمیر کی ساری کی ساری ذمہ داری جماعت احمدیہ انگلستان پر ہے.میں نے بتایا تھا کہ انگلستان کی جماعت کے وعدوں کے دو حصے ہیں.ان کا حساب الگ الگ ہے.جو دوسرا حصہ ہے، ان کی جو پہلی رقم ملتی ہے ، وہ ساری اوسلو کی مسجد پر خرچ کر رہے ہیں.کسی اور ملک کی بھی ضرورت نہیں رہے گی.کہتے ہیں، تمہارے پاس پیسہ کہاں سے آگیا ہے؟ ہماری دولت پٹرول کے چشمے نہیں ہیں.ہماری دولت بڑے بڑے کارخانے نہیں ہیں.جماعت احمدیہ کی دولت و مخلص دل ہیں، جو منور سینوں کے 229
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اندر دھڑک رہے ہیں، جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے والے ہیں.اس وقت بھی بیرونی ممالک میں وہ لوگ بھی ہیں، جو شاید سارا سال بمشکل دو روپے دیتے ہوں گے یا پانچ روپے دیتے ہوں گے.اتنے غریب لوگ بھی ہیں.لیکن پانچ روپے دے کر وہ اس سے زیادہ قربانی دے رہے ہیں ، جو ایک ملیٹر لاکھوں روپے دے کر کرے.کیونکہ پانچ روپے دینے سے ان کو خدا کی راہ میں بھوک کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے.ان کو کچھ ایسے کھانے کھانے پڑتے ہیں، جو ان کے روز مرہ سے کم ہوتے ہیں.اور اس اخلاص کے ساتھ جو قربانیاں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہیں، ہم دعا بھی کرتے ہیں ( میں بھی اور ساری جماعت بھی ) اور ہم اپنے رب کریم سے امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ قربانیاں قبول ہوں گی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نتیجہ نکلا کرتا ہے، خدا کی نگاہ دولت کے انبار دیکھ کر وہ نتائج نہیں نکالتی.اس لئے کہ وہ دولت کے انبار کا محتاج نہیں ہے.وہ تو غنی ہے، وہ تو صمد ہے، اس کو تو اموال کی ضرورت نہیں.وہ تو مالک کل ہے، ہر چیز اس نے پیدا کی اور وہ اس کا مالک ہے، وہ تو جب ثواب کے رنگ میں نتیجہ نکالتا ہے تو وہ يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ دلوں کے تقویٰ کو دیکھا کرتا ہے.وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ ایک غریب ، دنیا کا دھتکارا ہوا، پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس ، کھانا اسے ملتا نہیں اور اگر ملے بھی تو مالی قربانیاں پیش کرنے کی ندا جب اس کے کان میں پڑتی ہے تو باوجود اس غربت کے وہ ایک پیسہ، اٹھنی، روپیہ ( بہر حال تکلیف اٹھاتا ہے اور ) میرے حضور پیش کر دیتا ہے.یہ چیز جب اس کی نگاہ میں آتی ہے تو پھر وہ نتائج نکالتا ہے اور پھر وہ اتنے انقلابی نتائج ہوتے ہیں کہ ( انشاء اللہ) دنیا دیکھے گی کہ وہ چیز ، جو آج انہونی نظر آتی ہے کہ اسلام کیسے پھیلے گا؟ وہ پوری ہو کر رہے گی.ایک طرف بڑی زبردست Godless ( گاڈلیس ) سوسائٹی ہے.جو کہتی ہے کہ ہم خدا سے بیزار ہیں.تم بھی خدا سے بیزار اور خدا بھی تمہارے اعمال اور منصوبوں سے بیزار.لیکن خدا تم سے پیار کرنے والا ہے.تم اس کی مخلوق ہو.اس نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ تم چاہو، نہ چاہو، ایسے حالات پیدا ہوں گے کہ تم اس کی طرف آؤ گے، کھینچے چلے آؤ گے.اور تمہیں اس وقت تک چین نہیں آئے گا، جب تک کہ تمہاری گردنیں اس کے پاؤں کے اوپر جھک نہیں جائیں گی.پس ہم جو حقیقت سے آگاہ ہیں، ہم جو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو پہچاننے والے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ Godless society ( گاڑ لیس سوسائٹی) کے نعرے لگانے چند دنوں کی بات ہے، چند سالوں کی بات ہے.ہوگا وہی ، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.دنیا کی کوئی طاقت قرآن کریم کی پیشگوئیوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی.230
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء پھر دوسری طرف سرمایہ دار ممالک ہیں.جہاں عیسائیت بڑی طاقتور ہے لیکن اندر سے کھوکھلی ہے.تاہم ظاہر میں بڑی طاقت ہے.ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.بڑے پیسے ہیں.میں نے شمار تو نہیں کیا لیکن میرے خیال میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں پادری ہیں، جو دنیا میں کام کر رہے ہوں گے.بے تحاشا ان کا لٹریچر چھپ رہا ہے.مگر وہ مانتے ہیں کہ وہ ناکام ہو گئے ہیں.اسے تسلیم بھی کرتے ہیں اور اپنے رسالوں میں بھی شائع کرتے ہیں کہ جہاں جہاں افریقہ میں احمدی ہیں، وہاں عیسائیت پسپا ہو رہی ہے.ایک وقت میں انہوں نے کہا تھا کہ افریقہ خداوند یسوع مسیح کی جھولی میں ہے.وہ وقت بھی کہ جب وہ یہ نعرے لگاتے تھے اور آج وہ مجبور ہو گئے ہیں یہ تسلیم کرنے پر کہ ہم ایک عیسائی بناتے ہیں تو جماعت دس مسلمان بنالیتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.یہ ہماری کوششوں یا ہمارے اموال کا نتیجہ نہیں ہے.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ دولت کے انبار محض دولت کے انبار دیکھ کر تو خدا تعالیٰ نتائج نہیں نکالا کرتا.وہ تو دلوں کو شٹولتا ہے.( یہ محاورہ ہے ورنہ اس سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے.وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے.اگر ان میں تقویٰ ہو، اگر خدا تعالیٰ ان میں اپنا پیار پالے، اگر ان دلوں میں خدا تعالی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عشق پائے تو وہ ان کے دو پیسے میں وہ برکت ڈالے گا کہ ساری دنیا کے اموال وہ برکت نہیں پیدا کر سکتے.پس تحریک جدید کو خدا تعالیٰ نے اس کے لئے ایک وسیلہ بنایا ہے.جس کے نئے سال کا میں نومبر کے شروع میں اعلان کیا کرتا ہوں.یہ جو سال نو ہے.یہ دفتر اول کا بیالیسواں سال اور دفتر دوم کا بتیسواں سال اور دفتر سوم کا گیارھواں سال ہے.پچھلے سال یعنی دفتر اول کے اکتالیسویں سال اور دفتر سوم کے دسویں سال کے مجموعی وعدے نو لاکھ ، چوالیس ہزار تک پہنچ چکے ہیں.جبکہ میں نے جو تحریک کی تھی ، وہ سات لاکھ نوے ہزار کی تھی.غرض مخلصین جماعت نے اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے جتنی تحریک کی گئی تھی ، اس سے زیادہ کے وعدے کر دیئے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں ان وعدوں کے پورا کرنے کی توفیق عطا کرے.ہر سال ہمارے وعدے پہلے سے کچھ زائد ہوتے ہیں.کیونکہ ہم ایک جگہ ٹھہر نے والی جماعت نہیں.پس میں امید رکھتا ہوں اور میں دعا بھی کرتا ہوں اور کرتا بھی رہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا کرے کہ آئندہ سال ہمارے وعدے پچھلے سال سے یعنی جو سال گذر رہا ہے، اس کے وعدوں سے زائد کے ہو جائیں.اس وقت تک جو گذشتہ سال کی وصولی ہوئی ہے، وہ قریباً پچاس فیصد ہے.لیکن 231
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم تحریک جدید کا طریق یہ ہے کہ نئے سال کا اعلان تو نومبر کے شروع میں ہو جاتا ہے لیکن پچھلے سال کی ادائیگی 30 اپریل تک ہو سکتی ہے.اور بیچ میں overlapping (اوور لپنگ ہے.مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ 30 اپریل تک جماعت اپنے وعدوں کو پورا کر دے گی.باقی دفتر والوں نے مجھے ایک اور مشورہ دیا تھا، وہ میں قبول نہیں کرتا.اس سال کے جو وعدے ہیں، ان سے زائد وعدے اور جو اس سال کی وصولی ہوگی، اس سے زیادہ وصولی ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ جماعت کو تو فیق عطا کرے.خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کا شکر بجالانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم اگر اس سے بڑھ کر نہیں تو اسی اخلاص سے قربانی دیں.اول تو اس سے بڑھ کے اخلاص اور اس کی محبت زیادہ اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہوئے اور اس مہم اور اس جہاد کی اہمیت کا احساس رکھتے ہوئے مالی قربانی دیں.اور اس وقت مالی قربانی کے ساتھ ساتھ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اگلی نسل کو بھی سنبھا لیں.کیونکہ یہ کام نسلاً بعد نسل ہوتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اور میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہر قول قرآن کریم کی تفسیر ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں سے کسی ارشاد کی تشریح ہے.آپ نے استدلال کیا ہے کہ ابھی تین سو سال پورے نہیں ہوں گے کہ مہدی معہود کے ذمے جو فرض عائد کیا گیا ہے، نوع انسانی کو خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے جمع کر دینے کا اور ہر دل میں (الا ماشاء الله ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کر دینے کا، یہ فرض انشاء اللہ پورا ہو چکا ہوگا.آپ نے جس رنگ میں یہ باتیں بیان کی ہیں، اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے، جس کا میں کئی بار اعلان کر چکا ہوں کہ میرے نزدیک ہمارے اس جہاد کی پہلی صدی، تیاری کی صدی ہے.اور اگلی صدی انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس لیے ہمیں رحم آتا ہے ان لوگوں پر ، جو ہمارے احساسات کو نہیں سمجھتے.ہمیں اپنے لئے خدا کی قسم کچھ نہیں چاہیے.ہمیں جو کچھ چاہیے، وہ خدائے واحد و یگانہ اور اس کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چاہیے.اس کی تیاری کی صدی میں جو باقی پندرہ سال رہ گئے ہیں، میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور اب بھی بتا دیتا ہوں کہ یہ بڑے سخت سال ہیں.کیونکہ اگر جیسا کہ میں سمجھتا ہوں ، دوسری صدی غلبہ اسلام کی ہے تو اس صدی کے تیاری کے جو آخری پندرہ سال ہیں، ان میں وہ سب طاقتیں، جو اسلام کو غالب آتا دیکھنا نہیں چاہتیں، وہ انتہائی زور لگائیں گی کہ ہم تیاری نہ کر سکیں.اور غلبہ اسلام کی صدی، غلبہ اسلام کی صدی نہ بن سکے.ہوگا تو وہی، جوخدا چاہے گا.لیکن ہماری 232
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 07 نومبر 1975ء ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی کمریں کس لیں اور ہر قسم کے دکھ اور تکالیف برداشت کر کے یہ جو پندرہ سال ہیں، ان میں اس تیاری کو مکمل کر لیں، جس تیاری کا مطالبہ غلبہ اسلام کی صدی ہم سے کر رہی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہماری تیاریاں سر پھوڑنے کے لئے نہیں ہیں.ہماری تیاریاں نیم مردوں کو زندہ کرنے کے لئے ہیں.اخلاقی مردوں کو اخلاقی حیات دینے کے لئے ہیں.جو روحانی طور پر خشک ہیں، روحانی آب حیات ان تک پہنچانے کے لئے ہیں.یہ ہے ہماری تیاری.ہم تو یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ وہ جو اپنی طرف سے ہمارا مخالف ہے، ہم تو کسی کے دشمن نہیں ہیں لیکن وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمارا دشمن ہے ، ہم یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ اس کے پاؤں میں ایک کانٹا بھی چھے، سر پھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ہم نے تو پیار سے اپنوں کو بھی جیتنا ہے اور غیروں کو بھی جیتنا ہے.اور انشاء اللہ ہم سب کو امت واحدہ بناویں گے.اپنے زور سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے.خدا نے اپنی رحمتوں سے وہ کچھ ظاہر کیا، جس کا تصور بھی ہمارے دماغ نہیں کر سکتے تھے کہ عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ بیرونی ممالک کے سارے اخراجات بیرونی ممالک کی جماعتیں اٹھا لیں گی.جب کہ اس وقت وہ ایک دھیلہ بھی چندہ نہیں دے رہی تھیں.باہر کی جماعتوں کے اخلاص کو دیکھ کر مجھے تو خیال آیا کرتا ہے اور یہ جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم مرکزی جماعت ہیں.پاکستان ہمارا ملک ہے، پاکستان ہمارا مرکز ہے.پاکستان کی خوشحالی کے لئے ہم دعائیں کرتے ہیں.اس کی دنیوی خوشحالی کے لئے ہم دعائیں کرنے والے ہیں.دوسرے لوگ بعد میں آ کے کہیں ہم سے آگے نہ نکل جائیں.ایک پاکستانی احمدی کے دل میں یہ بھی ایک غیرت ہونی چاہیے کہ کسی اور کو ہم آگے نہیں نکلنے دیں گے.بلکہ قربانی اور ایثار اور اخلاص اور فدائیت کے جو نمونے خدا تعالی کی راہ میں ہم اپنی طرف سے دکھائیں گے، کوشش یہ کریں گے کہ خدا تعالیٰ کو وہ سب سے زیادہ پیارے اور مقبول ہو جا ئیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل 25 نومبر 1975ء) 233
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا منصوبہ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.دوستوں کو یاد ہوگا کہ 1973ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے صد سالہ احمد یہ جو بلی منصوبے کا اعلان کیا تھا.اصل منصوبہ تو بعض بنیادی کاموں کی تکمیل ہے.تا کہ جب ہم غلبہ اسلام کی صدی میں داخل ہوں تو ہماری راہ میں اپنی غفلتوں کی کوئی روک نہ ہو.لیکن ان بنیادی کاموں کی تکمیل کے لئے رقم کی بھی ضرورت ہے.اس رقم کی ضرورت صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی بستے ہیں، ان ممالک میں ان رقوم کی ضرورت ہے.کیونکہ اس منصوبہ کی تکمیل صرف ایک ملک سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ساری دنیا سے تعلق رکھتی ہے.اس لئے کہ یہ منصوبہ ہے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا.اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور اس کے فضل اور اس کی رحمت کے ساتھ اس منصوبہ کے اعلان اور اشاعت پر قریباً ایک سال گزر گیا.پہلے خیال تھا کہ اس منصوبہ سے تعلق رکھنے والا جو مالی مطالبہ ہے، اسے سولہ سال پر تقسیم کیا جائے.لیکن بعد میں جو حالات پیدا ہوئے ، اس کے نتیجہ میں ہمیں اسے پندرہ سال پر تقسیم کرنا پڑا.اس وقت میں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ ہونہار اور مخلص احمدی نوجوان ، جو اس وقت تو روزی نہیں کمار ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی عمروں میں برکت ڈالے اور جو ہنر وہ سیکھ رہے ہیں ، خدا کے فضل سے اس میں وہ ترقی کریں.) وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے آئندہ کی آمد کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی وعدے لکھوا سکتے ہیں.اور اس گروہ میں سے بہتوں نے اپنے وعدے لکھوا دیئے تھے.لندن میں انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارا جو ایک سال کا حصہ بنتا ہے، یعنی قریباً چالیس ہزار پاؤنڈ ، اس میں سے تین ہزار پاؤنڈ اس ننھے مخلص احمدی گروہ کا ہے، جنہوں نے ابھی کمانا شروع نہیں کیا.میں نے کہا ٹھیک ہے، اس رقم کو ابھی اس سال میں شامل نہ کرو.وہ تو اگر آپ جمع نہ کر سکیں تو آپ کے اوپر کوئی حرف نہیں آئے گا.میں قوی امید رکھتا ہوں اور ہر وقت دعائیں کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس نسل کی امیدوں سے زیادہ انہیں دنیا کے اموال بھی دے.تا کہ جس جذبہ کے ساتھ انہوں نے خدا کی راہ میں مالی قربانیاں پیش کی ہیں، (نہ) 235
خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم صرف اس منصوبہ کے سلسلہ میں بلکہ اور دوسرے منصوبوں میں بھی) اس کے مطابق اپنے وعدوں سے زیادہ وہ ادائیگی کرسکیں.لیکن بہر حال وہ ادائیگیاں تو اپنے وقت پر ہوں گی.پھر ایک دوسرا گروہ ہے، جنہوں نے آئندہ بڑھنے والی آمد کی توقع پر زیادہ وعدے کئے ہیں.وہ حصہ جو تو قع کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، اس کے لئے انہوں نے اللہ پر بھروسہ رکھا ہے.اور خدا تعالیٰ ان کے اس اعتماد کو ضائع نہیں کرے گا اور ان کی دولت اور ان کے اموال میں برکت ڈالے گا، انشاء اللہ.لیکن جو وہ اس وقت کما رہے ہیں، اس کے لحاظ سے وعدے کا پندرھواں حصہ پہلے سال میں اور پندرھواں حصہ دوسرے سال میں یعنی دو سالوں کا ملا کر 2/15 تو انہوں نے بہر حال پہلے دو سال میں ادا کرنا ہے.اس منصوبہ کی تیاری عملاً ساتھ ساتھ شروع ہوگئی ہے.جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ میں ایک مسجد کی بنیا درکھ کر آیا ہوں.جس کا صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ سے تعلق ہے.اللہ تعالیٰ نے بنیاد کے ساتھ ہی وہاں جماعت کی مضبوطی کے سامان بھی پیدا کر دیئے ہیں.ابھی کل ہی مجھے وہاں سے ایک اور خط ملا ہے کہ کچھ اور یوگوسلا واحمدی ہو گئے ہیں.ان کے اندر ایک رو پیدا ہوگئی ہے.اور مسجد میں اور مشن ہاؤسز یہ ہمارے مراکز ، ہمارے کیا، یہ خدا کے گھر ، خدا کے نام کو بلند کرنے کے مراکز بنتے ہیں.جس ملک میں اس قسم کا کوئی بھی مرکز نہ ہو، اس ملک میں خدا تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنے کی ہماری کوئی کوشش کامیاب ہو ہی نہیں سکتی.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کے لئے استثنائی حالات پیدا کرے.وہ تو اس کا فضل اور اس کی رحمت ہے اور اس کی عطا ہے.ہم عاجز بندے تو اپنی کوتاہ فراست اور عقل سے ہی اندازے لگاتے ہیں.لیکن وہ ، جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور جو سب اموال اور دولتوں کا مالک ہے، وہ دیتا بھی ہے اور وہ سامان بھی پیدا کرتا ہے.وہ تو اس کا حصہ ہے اور وہ دے گا.لیکن ہمیں اس نے کہا ہے کہ تم اپنی بساط کے مطابق تدبیر کرو.اور ہم اپنی بساط کے مطابق اور اپنی سمجھ کے مطابق تدبیر کرتے ہیں.ہماری ناقص عقل یہ کہتی ہے کہ مثلاً یورپ کے جن ممالک میں ہم نے اسلام کی تبلیغ کرنی ہے اور اسلام کی پیاری اور حسین اور احسان کرنے والی تعلیم ان تک پہنچانی ہے اور اس کے ذریعہ سے ان کے دلوں کو خدا اور اس کے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے جیتنا ہے، یہ کام تب ہو سکتا ہے، جب وہاں ہمارا کوئی مرکز بھی ہو، کوئی کام کرنے کی جگہ ہو.اور لوگوں کو پتہ ہو.اور اگر اور جب دلچسپی پیدا ہو تو وہ اس جگہ پر جا کر اپنی سیری کا انتظام کر سکتے ہوں.اور اپنی لگن کو دور کرنے کے لئے ان کو وہاں سے کوئی لٹریچر مل سکتا ہو.اس عرصے میں ہم نے بہت سائٹر پچر کتب اور رسائل مختلف زبانوں میں شائع کرنے ہیں.اب وہاں میں نے ایک مسجد کی بنیا درکھی ہے.اور کتب و رسائل کی بیبیوں ضروریات وہاں محسوس ہونے لگی 236
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء ہیں.اور یہ مطالبہ ہو گیا ہے کہ ہمیں اس قسم کا لٹریچر دیں.ٹھیک ہے صرف دلائل سمجھا کر اور خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے، جو وہ احمدیت پر ظاہر کرتا ہے ، وہ ان کے سامنے رکھ کر ان کو احمدی بنا لینا تو کافی نہیں ہے.بلکہ اسلام کی صحیح تعلیم اور قرآن عظیم کی صحیح تصویر ان کے سامنے رکھ کر کوشش کرنا کہ یہ ان کے دلوں میں رچ جائے ، یہ اصل چیز ہے.یہ اگر ہم ان کو نہ دے سکیں تو ایسا ہی ہے کہ ہم نے بڑا خوبصورت اور صحت مند درخت لگا دیا لیکن اس کو پانی دینے کا ہم نے کوئی انتظام نہیں کیا تو وہ کیسے زندہ رہے گا اور کیسے بڑھے گا ؟ کیسے نشو و نما حاصل کرے گا یا کم از کم کیسے اس قسم کی نشو و نما حاصل کرے گا، جیسی ایک صحت مند درخت جب ایک اچھی زمین میں لگایا جائے تو وہ حاصل کر سکتا ہے؟ اس کی تو ساری ضرورتیں پوری ہونی چاہئیں.تب جا کر وہ اپنی چھپی ہوئی استعدادوں کی نمائش کر سکتا ہے.اور تب وہ اپنی حسین شکل ظاہر کرتا ہے.اور تب وہ دنیا کے لئے بھلائی کے سامان پیدا کر سکتا ہے، اس کے بغیر تو نہیں کر سکتا.لٹر پچر کے لئے اب یہاں سے ہمیں کتب وغیرہ باہر بھیجنے میں کچھ دقت پیدا ہورہی ہے، جو بھی ذمہ دار ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھے اور مقتل عطا کرے.اور ہر پاکستانی کا جو حق ہے، اس کی ادائیگی کی انہیں توفیق عطا کرے.لیکن اگر یہاں کچھ عرصہ تک اس قسم کے حالات رہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ جائیں گے.اور وہ ذمہ داریاں جو خدا تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہیں، ان کو نظر انداز کر دیں گے اور اپنے کام چھوڑ دیں گے.بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جب ہم پر ایک دروازہ بند کیا جائے گا تو ہم انتہائی عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اور انتہائی عاقلانہ تدبیر کے ساتھ دنیا میں جہاں بھی اس کام کا کوئی دوسرا دروازہ کھل سکتا ہو ، وہ کھولیں گے.اور خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی کی راہ میں کوئی روک قائم نہیں رہنے دیں گے.ہماری یہ کوششیں اگر ہماری دعائیں اپنی شرائط کے ساتھ ہوں تو بار آور ہوں گی، انشاء اللہ.اسی لئے میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں کیوں کہا گیا کہ ہمیں بیرون پاکستان دو جگہ، دو ممالک میں پریس کھولنے پڑیں گے.اس وقت تو میرے ذہن میں یہ چیز نہیں تھی.لیکن حالات نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ ، جو ہادی ہے، جو معلم حقیقی ہے، جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، اس کے علم میں تو تھا.پس جب تک ہم باہر اپنے پریس نہ کھولیں، ہم اسلام کی حقانیت میں اور توحید کے ثبوت میں لٹریچر اس تعداد میں شائع نہیں کر سکتے ، جتنا کہ ہم اپنے مطبع خانے اور اپنے پریس کے ذریعے کر سکتے ہیں.کیونکہ دوسرے بہت مہنگا شائع کرتے ہیں.انہوں نے اپنے نفع رکھتے ہیں، ان کے اپنے معیار ہیں، ان کی اپنی قیمتیں ہیں ، ان کا اپنا طریق کار ہے.مثلاً ہمیں ایک امریکن فرم نے کہا کہ ہم آپ سے قرآن کریم کے 237
خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ایک لاکھ انگریزی کے تراجم خریدنے کے لئے تیار ہیں لیکن قیمت کا 60 فیصد ہمارے لئے کمیشن دو.یعنی اگر قرآن کریم کی دس جلدوں کی قیمت سوروپے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ساٹھ روپے نہیں دیں.ان سے پوچھا کہ اتنا کمیشن ! انہوں نے کہا نہیں، سارا ہمارا نہیں ہے.وہ تھوک میں بیچنے والے کتب فروش تھے.کہنے لگے کہ بیس فی صد ہمارا کمیشن ہے اور چالیس فیصد جو آگے اپنی دکانوں پر رکھیں گے ، ان کا کمیشن ہے.وہ کہتے تھے کہ بے شک اس کی قیمتیں بڑھا دو.لیکن قیمتیں بڑھا کر تو ہم اس تعداد میں دنیا میں قرآن کریم کے تراجم نہیں پھیلا سکتے، جس تعداد میں ہم پھیلانا چاہتے ہیں.اس مثال میں اگر ہمارا اپنا پر لیس ہو تو ہم قرآن کریم کی دس کا پیاں سوروپے کی بجائے چالیس روپے خرچ کر کے دنیا کے ہاتھ میں دے سکتے ہیں.بڑا فرق ہے.اس واسطے باہر ہمارے اپنے پریس ہونے چاہئیں.امریکہ میں اس وقت سب سے زیادہ آزادی ہے.آگے تو خدا بہتر جانتا ہے.اس واسطے دعائیں کرو کہ ہم جو منصوبہ بنائیں، وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی آئندہ برکتوں والا ہو.اس وقت سب سے زیادہ آزادی امریکہ میں ہے.وہاں شائع کرنے کی بھی کوئی پابندیاں نہیں ہیں اور وہاں سے لٹریچر ساری دنیا میں بھیجا بھی جاسکتا ہے.تاہم اور بھی بہت سے ملک ہیں، جن میں آزادی ہے.صرف امریکہ نہیں ہے.مثلاً موجودہ حالات میں افریقہ کے ممالک ہیں اور ان کے اوپر جماعت کا بڑا اثر ہے.اس منصوبہ سے معا پہلے جو نصرت جہاں آگے بڑھو“ کا منصوبہ تھا، وہ صرف مغربی افریقہ کے لئے تھا.ایک محدود اور چھوٹا سا منصوبہ تھا، اس نے مغربی افریقہ میں اتنا اثر پیدا کیا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.اور اس اثر کو دیکھ کر ہماری گردن خدا تعالیٰ کے حضور اور بھی جھک جاتی ہے.کتنی حقیری پیشکش تھی، جو ہم نے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کی.اور اتنے عظیم اس کے نتائج نکل رہے ہیں.اب ایک ملک میں تو یہ حال ہے کہ ہمارے وہاں کے مبلغ جب دورہ کرتے ہیں تو قریباً ہر علاقے میں اس جگہ کے لوگ پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ آپ ہمارے ہاں سکول کھولیں اور ہمارے بچوں کو عیسائیت سے بچائیں.ہمارے ہاں ہسپتال کھولیں اور ہمارے بڑوں کو عیسائیت سے بچائیں.گوخدا کے فضل سے ہم آہستہ آہستہ پھیل رہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ جتنی توفیق دیتا ہے، وہ کام ہو رہا ہے.لیکن یہ کام تو پانچ سال کا تھا.نصرت جہاں کی سکیم 1970ء میں، میں نے جاری کی تھی.اور جلسہ سالانہ پر اس کا اعلان کیا تھا.اس وقت اپنے حالات کو دیکھ کر ، جماعت کے حالات کو دیکھ کر یہ خیال تھا کہ سات سال میں یا بہت ہی جلدی کر سکے تو پانچ سال میں، میں اپنا وعدہ پورا کر سکوں گا.میں نے دعائیں کیں، جماعت نے 238
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے.وہ منصوبہ ، جس کے متعلق ہمارے اندازے تھے کہ وہ سات سال میں مکمل ہوگا ، خدا تعالیٰ کے فضل سے ڈیڑھ دو سال میں وہ کمل ہو گیا اور اس کا بڑا اثر ہوا.ایک امریکن مجھے نانا میں ملے ، وہ وہاں کے قبائلی کسٹمز (Customs) ، ان کی روایات اور رہن سہن کے طریقوں پر پی ایچ ڈی (P.HD) کے لئے اپنا مقالہ لکھ رہے تھے.وہ ڈیڑھ سال کے بعد یہاں آئے.سیر کرتے ہوئے پھر رہے تھے ، یہاں بھی آگئے.وہ کہنے لگے کہ میں صرف یہ دیکھنے کے لئے آیا ہوں کہ یہ جماعت کس چیز سے بنی ہوئی ہے؟ مجھ سے تو بات نہیں کی لیکن بعض دوستوں سے انہوں نے یہ کہا کہ اگر امریکہ یہ وعدہ کرتا تو ڈیڑھ، دوسال میں وہ اپنا یہ وعدہ پورا نہ کرسکتا.لیکن جماعت احمدیہ نے اسے پورا کر دیا.بات یہ ہے کہ ہم اس مٹی سے بنے ہوئے ہیں، جو دنیا کی نگاہ میں حقیر ہے لیکن خدا کے ہاتھ میں اس کا آلہ کار بن چکی ہے.خدا فضل کرتا ہے اور کامیابیاں عطا کرتا ہے.ورنہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا اور ہمارے مال کیا اور ہماری عقلیں اور فراست کیا.نتیجے اور تدبیر اور کوشش کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے.بڑا عظیم نتیجہ نکل رہا ہے.جماعت کے منتظمین چونکہ موقع کے اوپر ہیں، وہ پیچھے پڑ جاتے ہیں تو مبلغ ہاں کر جاتے ہیں، نیم رضامند ہو جاتے ہیں کہ ہاں ہم کھول دیں گے.بعد میں مجھ سے منظوری لیتے ہیں، پھر مجھے منظوری دینی پڑتی ہے.ایک سکول کا تو یہ ہوا کہ ایک مسلمان نے اپنے علاقے میں ایک سکول کھولا ، جس کو وہ چلا نہیں سکا.وہ مسلمانوں کا علاقہ ہے، وہاں احمدی بھی ہیں لیکن اکثریت ان مسلمانوں کی ہے، جو احمدی مسلمان نہیں.تو وہ حکومت اس کے پیچھے پڑ گئی کہ تم سکول نہیں چلا سکتے تو ہم تم سے واپس لے لیں گے.اس نے کہا کہ میری تو عزت خاک میں مل جائے گی.وہ بہت بڑا آدمی تھا.انہوں نے اسے کہا کہ پھر تم یہ کرو کہ سکول کسی مشن کو دے دو کہ وہ سنبھال لے.عیسائی اس کے پاس گئے کہ یہ سکول ہمیں دے دو.خدا نے ان کو بڑی دولت دی ہے.لیکن ایسی مثالوں سے دنیا کی دولت اور خدا تعالیٰ کی تدبیر اور منشاء کا مقابلہ نمایاں ہوکر، کھلے طور پر سامنے آ رہا ہے.انہوں نے کہا کہ ہم تمہیں تو نہیں دیتے.وہ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ اگر عیسائیوں کو دے دیا تو پہلے ہی ان کے بہت سکول ہیں ہمارے علاقے میں، وہ ہمارے بچوں کو خراب کر رہے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ اسے جماعت احمدیہ لے لے.اور اس سکول کی یہ حالت تھی کہ لڑ کے داخل ہونے کے لئے نہیں آتے تھے.چند میل پر ایک کیتھولک سکول تھا ، انہوں نے سکول کی بہت بڑی اور شاندار عمارت بنائی ہوئی تھی اور غیر ملکی سٹاف رکھا ہوا ہے، وہاں کثرت سے بیچے جاتے تھے اور اس کے 239
خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم بیچارے کے سکول میں کوئی آتا نہیں تھا.چنانچہ اس حالت میں کہ علاقے کو اس کی طرف کوئی توجہ نہیں تھی.وہ صرف اس جذبے کے ماتحت، جو بڑا پیارا جذبہ ہے کہ اسے کوئی مسلمان لے لے، جماعت احمدیہ کے پاس آئے کہ جماعت احمد یہ اس ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ ہے، یہ لے لے.ورنہ عیسائیوں کواور تقویت پہنچے گی.انہوں نے یہاں حالات لکھے، میں نے کہا، اچھالے لو، اللہ فضل کرے.چنانچہ وہ لے لیا.یہ اسی سال کا واقعہ ہے.صرف چند مہینے ہوئے ہیں.جس سکول میں پچاس سے زیادہ بھی بچے داخل نہیں ہوئے تھے، دو ہفتے ہوئے ہیں، مجھے رپورٹ آئی ہے کہ جماعت کے پاس آنے کے بعد اس سکول میں 150 بچے پہلی کلاس میں داخل ہو چکے ہیں.اور انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ ماں باپ نے اپنے بچوں کو اس بہت بڑے کیتھولک سکول سے ہٹا کر ، ان کے نام وہاں سے کٹوا کر اس سکول میں انہیں داخل کیا ہے.تو وہاں اس قسم کے حالات پیدا ہورہے ہیں.میں بتا یہ رہا ہوں کہ ان واقعات کو دیکھ کر موجودہ حالات میں وہاں بھی کسی ملک میں ایک پریس لگایا جا سکتا ہے.کل کا تو مجھے پتہ نہیں، میرا رب جانتا ہے.اسی واسطے میں بار بار کہتا ہوں کہ دعاؤں کے بغیر ہمارا کام نہیں چل سکتا.وہ ہستی، جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، نہ ماضی کی ، نہ حال کی ، نہ مستقبل کی.جب تک اس کی راہنمائی نہ ہو، کیسے ہم ترقی کر سکتے ہیں؟ کیسے ہم اس کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں؟ کیسے ہماری کوشش اور کام اور تدبیر میں برکت پڑسکتی ہے؟ پس وہ بڑی اچھی جگہ ہے.ممکن ہے کہ ایک پر لیس وہاں کھولیں.یہاں کا پر لیس بھی بعض روکوں کی وجہ سے دو سال لیٹ ہو گیا ہے.اب کچھ آثار ہیں کہ شاید پانچ ، چھ مہینے میں تھوڑا بہت کام کرنا شروع کر دے.جس وقت میں نے اعلان کیا تھا کہ دو پریس باہر بنیں گے، اس وقت مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ یہاں کے حالات کیا ہو جائیں گے؟ اور ہمارے راستے میں کیا روکیں پیدا ہوں گی؟ لیکن میرے اور تمہارے رب کو پتہ تھا اور اس نے میری زبان سے ایسی بات نکلوادی کہ خود میں نے بعد میں سوچا تو میں نے کہا کہ اس کی ضرورت تو بظا ہر نہیں تھی.ٹھیک ہے، زبان سے بات نکال دی گئی ہے، اس میں خدا تعالیٰ کی کوئی حکمت ہوگی.تو پریس کے اوپر خرچ آئے گا.پاکستانی روپیہ کے لحاظ سے تو پریس کے اوپر کافی خرچ ہو جاتا ہے.اگر ایک درمیانے درجے کا پریس انگلستان میں لگے تو اس کے اوپر وہاں کا لاکھ، سوالاکھ روپیہ، جس کو وہ پاؤنڈ کہتے ہیں، وہ خرچ ہو جاتا ہے.( میں جب دورے پر وہاں جاتا ہوں تو پاؤنڈ کو میں روپیہ ہی کہا کرتا ہوں.) بڑا مہنگاملک ہے.اس کی قوت خرید بھی بہت کم ہے.یعنی آپ یوں سمجھ لیں کہ وہاں پر بعض جگہ ایک عام 240
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء ریسٹورنٹ میں چائے کی ایک پیالی چھ روپے کی ملتی ہے.بڑا ہی مہنگا ملک ہے.پس اگر وہاں پر ایک لاکھ یا سوا لاکھ وہاں کے روپے کا پر لیس لگ جائے تو ان کے لحاظ سے یہ زیادہ مہنگا نہیں.لیکن جو ہمارا پاکستانی روپے کا تصور ہے، اس کے لحاظ سے یہ بائیں ، تئیس لاکھ سے تمہیں لاکھ روپے تک بن جاتا ہے.انگلستان کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی بڑھ بھی گئی ہے.(میرے ان دوروں کے درمیان بھی بہت بڑھی ہے.) اور فعال اور مخلص بھی بڑی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول کرے اور انہیں احسن جزا دے.ابھی تو دو مساجد کی ذمہ داری میں ان کے اوپر ڈال آیا ہوں.یعنی پہلی مسجد کا 70 75 فیصد اور دوسری اوسلو کی مسجد کا قریباً سارا خرچ.یہ انشاء اللہ ہو جائے گا.اس کے بعد پھر وہ پریس کے لئے بھی تیار ہیں.ان کی کچھ اپنے مشن کی ضرورتیں تھیں، ان کے لئے کچھ مزید تعمیر کرنے کے لئے میں نے ان کو 12,14 ہزار پاؤنڈ کی اجازت دی تھی.کیونکہ جس مشن ہاؤس کا ہال بنتے وقت بہت بڑا سمجھا گیا تھا اور یہ بحث ہوگئی تھی کہ اتنا بڑا ہال کیوں بنایا جائے ، اس سے چھوٹا ہونا چاہیے؟ اب اس میں گنجائش ہی نہیں رہی ، جماعت اس میں ساتی بھی نہیں.اسی طرح جو دفتر ہیں، ان میں بھی کام نہیں سما تا تو بارہ ہزار پاؤنڈ کا مطلب ہے، پچیس روپے فی پاؤنڈ کے حساب سے تین لاکھ روپیہ.چنانچہ کچھ چھوٹی چھوٹی اینکسیز (Annexies) یعنی چھوٹے چھوٹے کمرے مزید بن جائیں گے اور ان کی ضرورت پوری ہو جائے گی.پھر اس میں بھی انشاء اللہ وسعت ہوگی.وہاں ہمارے پاس زمین بڑی ہے.اصل منصوبہ پیسے اکٹھے کرنے کا تو نہیں ہے نا.اصل منصوبہ تو یہ کہنا چاہیے کہ پیسے خرچ کرنے کا ہے.اور جتنے پیسے میں نے سوچا تھا کہ ہمیں خرچ کرنے چاہئیں، اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا کہ جماعت اس سے زیادہ خرچ کرے.جتنے میں نے کہا تھا کہ وعدے کرو، اس سے چار گنے زیادہ جماعت نے وعدے کر دیئے ہیں.میں نے کہا تھا، اڑھائی کروڑ.جماعت نے کہا، دس کروڑ.میں نے کہا، یہی ٹھیک ہے.میں سمجھ گیا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ دس کروڑ خرچ کرو، دس کروڑ کی ضرورت پڑے گی.آپ نے وعدے کر دیئے ہیں.میں نے بتایا ہے کہ بعض وعدے ایسے ہیں کہ اگر وہ ادا نہ ہوں تو کسی پر کوئی الزام نہیں آتا.بلکہ وہ ہماری اور دعاؤں کے مستحق ہو جاتے ہیں.مثلاً میں ایک مثال دے دیتا ہوں ، جس سے بات واضح ہو جائے گی.ایک طالب علم، جو میڈیکل میں تھر ڈائیر میں پڑھ رہا تھا، اس کی کوئی آمد نہیں تھی، وہ تو اپنے ماں باپ کا خرچ کر وار ہا تھا.اس نے کہا کہ میں ڈاکٹر بنوں گا.یہاں پاکستان میں ڈاکٹر بہت کماتے ہیں.اس نے کہا کہ میں احمدی ڈاکٹر بنوں گا، میں غریبوں کا مفت علاج کروں گا.میں اتنا نہیں کماؤں گا لیکن پھر 241
خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ان سے آدھا کمالوں گا.اور جتنا کماؤں گا، اس کے مطابق اس نے اپنے دماغ میں اندازہ کیا کہ علاوہ اور چندوں کے، جو اس نے دینے تھے اور وہ اس کے دماغ میں حاضر تھے، اس نے کہا کہ میں اتنی رقم اس منصوبے میں دوں گا.یعنی پانچ، چھ سال بعد اس کی جو کمائی شروع ہونی ہے، جبکہ وہ پاس ہونے کے بعد ڈاکٹر بن جائے گا، اس کے مطابق اس نے وعدہ لکھوا دیا.اور میں نے کہا تھا کہ وعدے لکھوا دو.اب اگر اس وقت وہ سیکنڈ ائیر میں تھا تو اب فورتھ ائیر میں ہے.وہ ابھی چندہ نہیں دے سکتا.ابھی تو وہ طالب علم ہے.اگر آج وہ نہیں دیتا تو اس کے اوپر کیا الزام ہے؟ پس جو ایسے افراد یا ایسے گروہ ہیں، ان کے اوپر کوئی الزام نہیں.ان کے لئے تو ہم اور بھی دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کی خواہشات اور ان کی تو قعات سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کی توفیق عطا کرے.لیکن اس وقت میں بڑی عمر کے ان لوگوں سے مخاطب ہوں، جنہوں نے اپنی آمد کے مطابق وعدے لکھوائے تھے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں.غالبا اگلے مارچ میں دوسرا سال ختم ہورہا ہے.وہ اپنے وعدے کے مطابق دو سال کا حصہ ادا کریں.پاکستان میں بھی اور باہر کے ممالک میں بھی.انگلستان کو میں اس وقت دوسری یاد دہانی کرارہا ہوں.ایک میں وہاں کروا آیا تھا.ان کے دو سال کے وعدے ( جو استثنی ہیں، وہ نکال کر ) کم و بیش ستر ہزار پاؤنڈ بنتے ہیں.یعنی قریباً 17,18 لاکھ روپیہ.لیکن وہاں بعض چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں، وہ اپنے چندے وہاں بھیج دیتے ہیں.وہ بھی کئی ہزار بن جاتے ہیں.میرا اندازہ ہے کہ پچھتر ہزار پاؤنڈ سے اسی ہزار پاؤنڈ تک ان کا ان دو سالوں کا چندہ بن جائے گا.یہ جو میں نے کہا تھا کہ وہاں ایک دوسرا گروہ ہے ، بات دراصل یہ ہے کہ وہ گروہ چوہدری ظفر اللہ صاحب اور ان کے چند ساتھیوں کا ہے.ان کا چندہ دس لاکھ پاؤنڈ میں سے ( جو انگلستان کا ٹوٹل چندہ ہے) ساڑھے چار، پونے پانچ لاکھ پاؤنڈ ہے.لیکن انہوں نے اپنی سکیم کے مطابق جس کی مجھ سے اجازت لی ہے، یہ وعدے کئے ہیں.چونکہ وہاں ان کی واقفیت بہت سارے دوستوں سے ہے اور وہ دنیا میں چوٹی کے آدمی ہیں.ان کی سکیم یہ ہے کہ اگر اس وقت ہم رقم انوسٹ (Invest) کردیں، تجارت پر لگا دیں تو ہمیں امید ہے کہ یہ رقمیں دگنی ہو جائیں گی.بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ ہو جائیں.میں نے کہا ٹھیک ہے، آپ وہاں لگا دیں.چنانچہ انگلستان کا نصف حصہ تو ہر سال پیسے دے کر اور اپنے وعدوں کا حصہ دے کر ہر سال کی ضرورت میں اس طریق سے حصہ لے رہا ہے.لیکن انہوں نے اپنا تاجرانہ حساب کر کے جو نفع وغیرہ آنا ہے، اس کے حساب سے پہلی رقم 77ء کے آخر میں دینی ہے، انشاء اللہ.اور یہ ہے اکٹھی 242
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء بڑی رقم.کوئی ایک لاکھ ہمیں ہزار پاؤ نٹ بنتی ہے.یہ بہر حال انگلستان کی جماعت کی رقم ہے اور میں نے ان کو کہا ہے کہ اس رقم سے تم اوسلو کی مسجد بناؤ.اور اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرنے والا ہے کہ ہمارا آرکیٹیکٹ (Architect) اور کنٹریکٹر (Contractar) ، جنہوں نے گوٹن برگ کی مسجد بنانی ہے اور وہ نقشے بنارہے ہیں، وہ اپنے کام کے سلسلہ میں اوسلو جارہے تھے تو ہمارے مبلغ سے کہنے لگے کہ ہم بھی وہاں جا کر آپ کے لئے ، آپ کی مسجد کے واسطے کوئی زمین تلاش کریں گے.ابھی وہاں زمین تلاش کرنے کا مرحلہ ہے.چنانچہ ان کو بھی ایک دلچپسی پیدا ہوگئی ہے.اصل منصوبہ یہ ہے کہ پریس ہوں.اصل منصوبہ یہ ہے کہ مساجد اور مشن ہاؤس نہیں.پریس کے ساتھ، مجھے کہنا چاہیے کہ پریس ہوں اور ہم دنیا کی ضرورت کے مطابق سستا اور اچھالٹر پچر شائع کر سکیں.اور دوسرے یہ کہ یورپ کے ان ممالک میں بھی جہاں ابھی تک ہماری مساجد اور ہمارے مشن ہاؤس نہیں ہیں، وہاں ہماری مساجد اور مشن ہاؤسز بن جائیں.ان دو ممالک کے علاوہ ہم اٹلی ، فرانس اور سپین میں مراکز چاہتے ہیں.اور حالات نے اجازت دی تو بنیں گے.ہم اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ہماری دعائیں ہیں کہ ہمارے حق میں حالات پیدا ہو جا ئیں.اب ایک چھٹا ملک سامنے آ گیا ہے، یعنی فن لینڈ فن لینڈ کی اہمیت اصل میں یہ ہے کہ ایک وہاں ہزار خاندان، جس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ ، دس ہزار مسلمان وہاں ایسے ہیں، جو اشتراکیت کے خوف سے بھاگے اور وہاں جا کر آباد ہو گئے.اور انہوں نے اس ملک میں پناہ لے لی.ان کے دل میں یہ جذبہ ہے کہ ہمارے بچے قرآنی تعلیم سے محروم نہ رہیں اور دہریہ نہ بن جائیں.یعنی جس چیز سے بھاگے تھے، وہی نہ سامنے آ جائے.اور ان کو سوائے جماعت احمدیہ کے اور کوئی قرآن کریم پڑھانے والا نہیں ملے گا.انشاء اللہ ، جب ہماری مسجد بن جائے گی اور اس کا اثر ہونا شروع ہو جائے گا اور جب یہ ضرورت پوری ہو جائے گی تو پھر شاید کسی اور کو بھی خیال آئے کہ وہاں کوئی مسجد بنادی جائے یا کوئی سکول بنا دیا جائے.لیکن اس وقت خیال نہیں آئے گا.نہ ہے اور نہ آئے گا.پہل ہم نے ہی کرنی ہے اور اگر کوئی ہمارے پیچھے آتا ہے تو ہمیں غصہ نہیں ہے.ہمیں خوشی ہے کہ وہ بھی ہمارے نقش قدم پر آگے چل رہا ہے.اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے ثواب کے طور پر مزید نیکیوں کی توفیق عطا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو مزید نیکیوں کی توفیق عطا کرے.اور پھر ہم اور وہ، سارے مل کر اسلام کو پھیلانے کے لئے اکٹھے کوشش کرنے لگیں.وہ ہمارے ساتھ آ ملیں گے.بہر حال یہ چھٹا ملک بیچ میں آ گیا ہے.243
خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ایک براڈ کاسٹنگ سٹیشن ، جس کا میں نے اعلان کیا تھا، کی اجازت ملی تھی لیکن اس اجازت میں بعض ٹیکنیکل نقائص تھے.اس لئے اس سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکے.اب ویسے وہاں کی حکومت بدل گئی ہے.لیکن دنیا کے تغیرات ہمارے لئے ہیں، ہمارے خلاف نہیں.انشاء اللہ ، اس لئے آج نہیں تو کل اجازت ملے گی.اس کے اوپر بھی لاکھ، دولاکھ پاؤنڈ ابتداء میں خرچ ہوگا.تا کہ ہم ایک خاص علاقے کو اپنی آواز سے معمور کر دیں اور مہدی معہود کی آواز ان کو پکارے کہ جَاءَ الْمَسِيحَ جَاءَ الْمَسِيحِ.صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے لئے پہلے سال سے ہی ہمیں رقم کی ضرورت پڑ گئی تھی.اور پھر اب دوسرے سال میں یہاں پر پریس شروع ہو گیا ہے.انشاء اللہ کتابیں شائع ہوں گی.پھر وہ باہر بھی جائیں گی اور یہاں کے لئے بھی کتابوں کی ضرورت ہے.اپنی آنے والی نسلوں کو تو ہم پیاسا نہیں رکھنا تو چاہتے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ پانچ ہزار میل پر جا کر تو ہم پیاسے کی پیاس کو بجھانے کی کوشش کریں اور جو پہلو میں بیٹھا ہے، وہ پانی کے لئے ، روحانی پانی کے لئے ، آب حیات کے لئے ترستا ر ہے، ہم اس کی طرف توجہ نہ کریں.یہ تو نہیں ہو گا.ہم نے یہاں بھی خدمت کرنی ہے.پیار کی خدمت، بے لوث خدمت، اپنی طرف کھینچ لینے والی خدمت.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے نہایت ہی عاجزانہ دعاؤں کی بنیادوں کے او پر اس خدمت کے مکان تعمیر کرنے ہیں.اور یہ جونو جوان نسلیں ہیں، اللہ فضل کرے تو ان کو تو خدا تعالیٰ کی محرومی نہیں رہے گی.اللہ فضل کرے اس کے فضل سے سب کچھ ہو سکتا ہے.پس آپ کی جور قوم کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے، اس کی طرف توجہ کریں.کراچی پیچھے رہ گیا تھا، ان کے امیر صاحب آئے ہوئے تھے، میں نے ان سے بات کی.میں نے کہا کہ اگر آپ نے غلطی سے زیادہ وعدے لکھوا دیئے تھے تو کوئی بات نہیں، مجھے کہیں میں جلسہ سالانہ پر یہ اعلان کر دوں گا کہ کراچی نے غلطی سے زیادہ لکھوا دیا تھا، اب وہ کم کر کے اتنا کر رہے ہیں.ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں کہیں اور سے دے دے گا.تو وہ گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ نہیں نہیں جلسے پر اعلان نہ کریں.بس ہمیں تین سال کی مہلت دے دیں.تین سال کی رقم تین سال کے اندر ضرور ادا ہو جائے گی.میں نے کہا کہ سوچیں گے اور آپ بھی جا کر سوچ لیں.اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں یا شاید اس سے پچھلے خطبہ میں کہا تھا کہ ہماری دولت یہ سونا، چاندی کے سکے اور ہیرے جواہرات کے انبار نہیں ہیں.ہماری دولت تو وہ مخلص دل ہے، جو ایک منورسینہ کے اندر دھڑک رہا ہے.جب تک یہ دل ہمارے ہیں اور جب تک ان سینوں کی 244
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1975ء تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے، پیسے کی کسے پرواہ ہے؟ وہ تو اگر ضرورت پڑی تو اللہ تعالی ہمارے لئے آسمان سے پھینکے گا اور زمین ہمارے لئے دولت اگلے گی.اگر ہمیں کسی جگہ بے تدبیر اور پانچ کرنے کی کوشش کی گئی تو ہماری کوشش کے بغیر یہ ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوکسی نے کہا کہ یہ تو کوئی استعارہ ہوگا اور تمثیلی زبان ہوگی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا اور وہ بچ گئے.آپ نے فرمایا کہ تم خدا کی قدرتوں پر ایمان نہیں رکھتے.آپ نے فرمایا کہ مسیح اور مہدی کا کام مداریوں کی طرح تما شاد کھانا تو نہیں لیکن میں یعنی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تمہیں کہتا ہوں کہ اگر دنیا مجھے بھی شعلہ اٹھتے ہوئے تنور کے اندر پھینک دے تو وہ آگ، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی ہوگئی تھی ، وہ میرے لئے بھی ٹھنڈی کر دی جائے گی.پس اصل چیز جس کی ہمیں فکر کرنی چاہیے ، وہ ہماری اپنی ہی کمزوریاں ہیں، اپنی ہی تحفہ غفلتیں ہیں.اپنی ہی بے پرواہیاں ہیں.باقی اللہ تعالیٰ تو دے رہا ہے، دینے کے لئے تیار ہے اور دیتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالی (مطبوعه روز نامہ الفضل 13 دسمبر 1975 ء ) 245
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبہ نکاح فرمودہ 06 دسمبر 1975ء اس وقت ضرورت ہے کہ بہت کچھ لکھا جائے اور نئی تحقیق کی جائے وو خطبہ نکاح فرمودہ 06 دسمبر 1975ء...اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ بہت کچھ لکھا جائے اور اس وقت اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ نئی تحقیق کی جائے.کیونکہ دنیا علم کے میدان میں آگے نکل رہی ہے اور جو مسیح علم کی تحقیق ہورہی ہے، وہ اسلام کی صداقت کے سامان پیدا کر رہی ہے.اکثر باتیں ہماری نظر سے اس لئے اوجھل رہتی ہیں کہ وہ لوگ جنہیں ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے، وہ توجہ نہیں کرتے.اور اس طرح جن دوستوں کو ان کی توجہ کے نتیجہ میں ان علوم کا علم ہونا چاہئے ، ان کے علم میں یہ باتیں نہیں آتی.اور اسلام سے باہر جو لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ یہ باتیں خدائے واحد دیگا نہ کو ثابت کرتیں ہیں، ان کو اسلام کی دشمنی کی وجہ سے یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ باتیں جتنے عرصہ تک چھپی رہیں، اتنا ہی اچھا ہے.اس وقت صرف اس قسم کے لٹریچر اور کتب کی ضرورت نہیں بلکہ مختلف زبانیں جاننے والے گروہ اور جماعتیں اور ملک ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ احمدیت یعنی صحیح بچے اور حقیقی اسلام کی جو تعلیم ہے، اس کے متعلق بھی ہمیں ہماری زبان میں لٹریچر مہیا کیا جائے.آپ کو یہ علم ہے کہ جب میں گوٹن برگ کی مسجد کی بنیادرکھنے کے لئے گیا تو گوشن برگ میں 14 یوگوسلاوی احمدی ہوئے.اور اس کے بعد ایک اور مقام پر پہلے سات اور پھر دو اور پھر چار احمدی ہوئے.یعنی وہاں تیرہ مزید احمدی ہو چکے ہیں اور ایک رو جاری ہے.وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے احمدیت کی صداقت کے چند ایسے وزنی دلائل کو سمجھنے کے بعد احمدیت کو قبول کر لیا ہے کہ جن کے سمجھنے کے بعد احمدیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تھا.یعنی اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ آج مہدی علیہ السلام کے ذریعے اسلام کی صحیح شکل دنیا کے سامنے رکھی جارہی ہے.لیکن اسلام کی صحیح شکل کیا ہے؟ وہ کون سی تعلیم ہے، جس سے بدعات نکال کر باہر پھینکی جاچکی ہیں؟ اسلام کی اور قرآن عظیم کی وہ کون سی حسین تعلیم ہے، جو آج کے انسان کے مسائل کو حل کرنے والی ہے؟ اس کے متعلق ہمیں لٹریچر دو.اس کے متعلق ہمیں قرآن عظیم کی نئی تفسیر ، نئے معانی پر مشتمل تفسیر دو.چنانچہ جب بیعتیں ہوئیں تو آپ لوگ خوش ہوئے اور خوش ہونا چاہیے تھا.لیکن جس وقت یہ مطالبہ ہوا تو وہ لوگ جو اس طرف توجہ کر سکتے ہیں، وہ جب توجہ نہیں کرتے تو مجھے ذہنی طور پر ا 247
اقتباس از خطبہ نکاح فرموده 06 دسمبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم بہت کوفت اٹھانی پڑتی ہے.غرض اب اس علاقے سے یہ مطالبہ ہو گیا ہے کہ ہمیں یوگوسلاوین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ تفسیری نوٹوں کے ساتھ دو.ہمیں اسلام کی حسین تعلیم کے متعلق کتب اور رسائل دو."" ہمیں یہ دو ہمیں وہ دو.ان کا مطالبہ درست ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو یہ چیزیں دیں...اگر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنا ہے تو اس وقت ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مختلف زبانیں سیکھیں اور مختلف زبانوں میں اتنی مہارت حاصل کریں کہ ان میں کتابیں لکھ سکیں اور گفتگو کرسکیں.اور پھر ہم خدا تعالیٰ سے یہ توفیق چاہیں اور اس رنگ میں دعا کریں کہ ہماری دعائیں قبول ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رنگ میں کتابیں لکھنے کی توفیق عطا کرے کہ جس سے ان زبانوں کے بولنے والی اقوام کو سیری حاصل ہو اور ان کے سر فخر سے بلند ہوں کہ ہم ایک ایسے مذہب کی طرف منسوب ہونے والے ہیں کہ جو اپنی علمیت کے لحاظ سے اور اپنی صداقت کے لحاظ سے دنیا کے ہر علم اور ہر اس چیز پر جس کو دنیا صداقت سمجھتی ہے، بھاری اور وزنی ہے.248 ( مطبوعه روزنامه الفضل 18 فروری 1976ء)
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ عید الاضحیہ فرمود 14 دسمبر 1975ء زندگیوں کو وقف کر دینے کا جو سبق دیا گیا ہے، اسے ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ 14 دسمبر 1975ء حضور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رؤیا اور اس کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے لئے دونوں باپ بیٹوں کی آمادگی کا ذکر کرنے کے بعد بتایا کہ ”خدا تعالیٰ نے اس امتحان میں کامیاب قرار دیتے ہوئے ، جان کی قربانی کی بجائے زندگی کا ہر لمحہ خدا کی خاطر وقف کر دینے کا انہیں ارشاد فرمایا.جس کے مطابق مکہ معظمہ کی وادی بے آب و گیاہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی والدہ کے ہمراہ چھوڑا گیا.اور اللہ تعالیٰ نے وہاں پر اپنی قدرت کا غیر معمولی نظارہ دکھایا.اور اس طرح دنیا میں زندگی کی قربانی کا ایک اعلیٰ درجہ کا اسوہ قائم کیا گیا.اور یہ سب کچھ سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی عظمت کے پیش نظر بطور تیاری کے کیا گیا.جبکہ حقیقی معنوں میں توحید الہی کے قیام کی خاطر زندگی کی قربانی کی بنیاد رکھی گئی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے انتہائی انعامات نازل ہوئے“.حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے ذریعہ جو سبق دیا تھا، اسے آہستہ آہستہ بھلا دیا گیا.حتی کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو انہی لوگوں نے جنہیں اللهم لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے خدائی آواز کو قبول کرنے کا سبق دیا گیا تھا، اسلام کی مخالفت شروع کر دی.اور وہ مسلمانوں کو صابی قرار دینے لگے.اور اس امر پر فخر کرنے لگے کہ حاجیوں کو پانی پلانے اور خانہ کعبہ کو آباد رکھنے کا کام تو ہم کرتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں بتایا کہ یہ کام ہرگز ان مسلمانوں کے برابر نہیں ہے، جو اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کر رہے ہیں.کیونکہ اس جہاد کے نتیجہ میں بہت بڑے درجات اور اجر مقدر ہیں.آخر میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ذریعہ سے نسلاً بعد نسل قربانی کرنے اور اپنی پوری زندگیوں کو دین کے لئے وقف کر دینے کا جو سبق دیا گیا ہے، ہماری جماعت کو اسے ہمیشہ پیش نظر رکھنا 249
خلاصہ خطبہ عید الاضحیہ فرمود 140 دسمبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم چاہئے.ہمارا فرض ہے کہ اس تڑپ اور جذبہ کو اپنی اولادوں میں ہمیشہ قائم رکھیں.یہ ایک بہت بھاری ذمہ داری ہے.ہمیں ہر وقت چوکس اور بیدار رہ کر اس ذمہ داری کو ادا کرنا چاہئے.تاکہ ہماری ہر نسل کو خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہو اور وہ اپنی دینی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے، غلبہ اسلام کی جدو جہد میں بھر پور حصہ لے سکے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کی مستحق قرار پائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق بخشے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 16 دسمبر 1975 ء ) 250
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم وو اقتباس از خطاب فرموده 26 دسمبر 1975ء اپنے پیارے رب سے بے وفائی کبھی نہ کرنا خطاب فرمودہ 26 دسمبر 1975ء بر موقع جلسہ سالانہ...اس وقت جماعت سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں آدمی دنیا میں خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے ہر قسم کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہمیشہ ان کے سروں پر رہے اور ہماری دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ ہوں اور خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمانوں سے اتریں اور ان کی رہنمائی فرمائیں اور ان کی کوششوں میں برکت اور تاثیر پیدا کریں.یہاں پر ہمارے شاہد مربی بھی ہیں اور تبلیغ میں ہر وقت مگن رہنے والے ہمارے مخلص رضا کار بھی ہیں.اور بعض دفعہ انسان یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہے کہ ایک شخص جو بظاہر جامعہ میں نہیں پڑھا ہوا لیکن جس کا دل اخلاص سے بھرا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ اس احمدی کی کوششوں میں اس مربی کی کوششوں سے زیادہ برکت ڈال دیتا ہے، جس نے سال ہا سال تک مرکز میں رہ کر تربیت حاصل کی ہوتی ہے.انسان اپنی کوششوں سے نیکی کے نتائج اور روحانی نتائج نہیں نکال سکتا.یہ یادر کھو، اچھی طرح یا درکھو کہ جب تک آسمانوں سے خدا کا فضل نازل نہ ہو، یہ چیز نہیں ملا کرتی.اسی واسطے جب مجھ سے ہمارے شاہد مربی ملتے ہیں تو اگر میرے پاس وقت ہو تو میں ان کو لمبی نصیحتیں کرتا ہوں.لیکن جب میرے پاس صرف اتناوقت ہو کہ میں انہیں نصیحت کا صرف ایک فقرہ کہہ سکوں تو میں انہیں کہا کرتا ہوں کہ اپنے پیارے رب سے بے وفائی کبھی نہ کرنا.اور میری یہی نصیحت آپ سب کو ہے.باقی خدا تعالیٰ نے قرآن عظیم میں اپنی رحمتوں کے حصول کے لئے بے شمار دروازے کھولے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کے دینے میں بخیل نہیں ہے.یہ ہم ہیں، جو اپنی جھولیوں کو سمیٹ لیتے ہیں اور اپنی مٹھیوں کو بند کر لیتے ہیں اور اس کے سامنے اپنے ہاتھوں کو نہیں پھیلاتے.اس کا تو اس میں کوئی قصور نہیں.پس اس کے اوپر توکل رکھو.دنیا جو چاہے کرے، ہو گا وہی، جو خدا چاہے گا.میں یہ نہیں کہتا کہ ہوگا وہ ، جو جماعت چاہے گی.کیونکہ جماعت تو کوئی چیز نہیں ہے.تم اس کی حیثیت ایک مردہ کیڑے کی سمجھ لو.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہو گا وہی ، جو خدا چاہے گا.اور خدا نے جو چاہا، اس کی اطلاع اس نے محمد 251
اقتباس از خطاب فرموده 26 دسمبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آج سے چودہ سو سال پہلے دی.خدا نے یہ چاہا کہ دنیا مہدی علیہ السلام کے مقام، عزت واحترام کو پہچانے.اور اس نے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہاکہ دنیا کو ہو کہ مہدی کی عزت اور احترام کرے.چنانچہ آپ نے ساری امت میں سے ایک کو یعنی مہدی کو منتخب کر کے اسے اپنا سلام پہنچایا.ہمیں سینکڑوں ایسی احادیث ملتی ہیں، جن سے پتہ لگتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ میں اپنے اس روحانی فرزند سے، جو آپ سے تیرہ سو سال کے بعد پیدا ہونے والا تھا، اس قدر محبت موجزن تھی کہ یہ محمد ہی کا کام تھا کہ اس محبت کو الفاظ میں بیان کر سکیں.میں اور آپ اس کو بیان نہیں کر سکتے.ہر فرقے کی کتب میں ایسی روایات موجود ہیں، جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں مہدی کی محبت کا ذکر کیا گیا ہے.پھر یہ خدا تعالیٰ کی شان اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے نظارے ہیں کہ وہ جسے گھر والے روٹی دینا بھول جاتے تھے (حالانکہ وہ ان کی دولت میں ان کا برابر کا شریک تھا) اور اسے اپنے ہی عزیزوں اور رشتہ داروں کی غفلت کے نتیجہ میں فاقہ کشی کرنی پڑتی تھی ، اس کے لئے خدا نے کہا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ اور وہ اکیلا اور غیر معروف شخص اٹھا اور اس کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی.اس موقع پر حضور رحمہ اللہ نے ان تمام غیر ملکی احباب کو جو وفود کی صورت میں جلسہ میں شامل ہوئے تھے، کھڑے ہونے کا ارشاد فرمایا.حضور کے ارشاد کے مطابق تمام غیر ملکی احباب کھڑے ہو گئے.اس دوران جلسہ گاہ نعرہ ہائے تکبیر اور اسلامی عظمت کے دوسرے نعروں سے گونج اٹھی.) یہ لوگ امریکہ سے آنے والے ہیں، جو مغرب کی طرف غالباً نو، دس ہزار میل کے فاصلے پر ہے.اور یہ مشرق کی طرف سے انڈونیشیا سے آنے والے ہیں.آسٹریلیا میں بھی آواز پہنچی اور وہاں احمدی ہوئے.اور افریقہ کا براعظم ، جس کو دنیا نے اندھیرا اور ظلماتی براعظم کہا تھا ، اس افریقہ کے براعظم کے دل میں خدا تعالیٰ نے نور پیدا کر دیا.اور یورپ، جو بے راہ روی کا مرکز بن چکا تھا، اس میں سے یہ پیارے وجود پیدا ہورہے ہیں.کتابوں میں سے یہ الہام مٹایا جا سکتا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ کیونکہ وہ سیاہی سے لکھا ہوا ہے.اور دیواروں پر سے بھی مٹایا جا سکتا ہے.لیکن اس کرہ ارض کے چہرہ سے یہ نہیں مٹایا جاسکتا.کیونکہ اس کے اوپر ان انسانوں نے یہ تحریر کیا ہے.لیکن میں پھر اپنی حقیقت کی طرف آتا ہوں.ایک سیکنڈ کے لئے بھی تمہارے اندر کبر اور غرور پیدا نہ ہو، تمہارے سر عاجزی سے ہمیشہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکے رہیں.تمہارے سر اس سے زیادہ جھکنے چاہئیں، جتنا کہ اس جذبہ کے 252
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 26 دسمبر 1975ء وقت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا سر جھک جایا کرتا تھا.مگر اس سے زیادہ ممکن نہیں ہے.کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ دیکھنے والوں نے دیکھا اور بیان کرنے والوں نے بیان کیا کہ ایک موقع پر جب آپ سوار تھے، خدا تعالیٰ کی نعمتوں اور رحمتوں کی یاد میں اور اس کے حمد کے گیت گاتے ہوئے آپ کا سر جھکنا شروع ہوا اور جھکتا چلا گیا.یہاں تک کے آپ کی پیشانی کاٹھی کے اوپر لگ گئی.اب اس سے زیادہ آپ کیسے جھک سکتے ہیں؟ لیکن خدا کے پیار میں اور خدا کی حمد میں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے جہاں تک وہ سر جھک گیا تھا، اگر اس سے زیادہ نیچے جھکنا تمہارے لئے ممکن نہیں تو اس حد تک جھکنا تو تمہارے لئے ممکن ہے.اور بڑی ہی بے غیرت ہوگی وہ پیشانی، جو اس کے بعد اپنا سر اٹھائے.پس جو عاجزی کا مقام تمہیں عطا ہوا ہے، اور یہ بڑاز بر دست مقام ہے ) اسے مت بھولو.( مطبوعه روزنامه الفضل 21 فروری 1976ء) 253
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء تحریک جدید میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے بے انداز برکت ڈالی ہے خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء بر موقع جلسہ سالانہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سلسلہ کے اخبارات اور جرائد، نیز نئی کتب سے استفادہ کی تحریک کرنے سے قبل ایک اہم اور اصولی بات کی طرف توجہ دلائی.اس ضمن میں حضور نے ایک تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.گذشتہ صدی کے دوران مغرب میں مادی علوم اور ان میں سے بھی بالخصوص فلسفہ اور سائنس نے بہت ترقی کی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی طاقتوں نے علمی تفرق کی بناء پر افریقہ اور ایشیا کے وسیع علاقوں کو اپنے زیرنگیں لاکر ان پر قبضہ جمالیا.ادھر استعماری طاقتوں کی آڑ میں پادریوں نے بھی افریقہ اور ایشیا کے مختلف علاقوں میں پہنچ کر اور وہاں وسیع پیمانہ پر سکول وغیرہ کھول کر مسلمانوں کو عیسائی بنانا شروع کر دیا.مسلمانوں میں سے بعض میں اسلام کا درد تو تھا لیکن اسلام پر فلسفہ اور سائنس کے حملہ کا مقابلہ کرنے کی ان میں تاب نہ تھی.ان دونوں علوم کی طرف سے اسلام پر جو حملے ہورہے تھے، ان کا جواب دینے کی اہلیت سے وہ کورے تھے.اس لئے انہوں نے مسلمانوں سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ سرے سے یہ علوم ہی نہ پڑھو.حالانکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے یہ فرمایا تھا کہ کائنات اور اس کی ہر شئے کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا خادم بنایا ہے.اور انہیں پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ انہیں مسخر کر کے تم ان سے فائدہ اٹھاؤ.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں نے علوم جدیدہ سیکھنے اور انہیں اسلام کا خادم بنانے کی بجائے ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی.حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ایک بشارت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ہی فرمایا کہ یہ پیشگوئی یا درکھو کہ عنقریب اس لڑائی ( علوم جدیدہ اور اسلام کے مابین لڑائی ) میں بھی دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا.حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں، کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کار ان کے لئے ہزیمت ہے.میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ وو 255
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے.جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہانتیں ثابت کر دے گا.اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے، جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہے ہیں.اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں.یہ اقبال روحانی ہے اور فتح بھی روحانی.تا باطل علم کی مخالفانہ طاقتوں کو اس کی الہی طاقت ایسا ضعیف کر دیوے کہ کالعدم کر دیوے“.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 254,255 بقیہ حاشیہ ) اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا:.وو...خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام دنیا میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.(تجلیات البیہ صفحہ 17 ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ان بشارتوں کا ذکر کرنے کے بعد حضور نے فرمایا:.ہم احمدیوں کے ذمہ یہ کام لگایا گیا ہے کہ اسلام کے خلاف علوم جدیدہ کی طرف سے جو حملے ہورہے ہیں، ہم ان کا منہ توڑ جواب دیں.یعنی ایسے نوجوان تیار کریں، جو خدائی بشارت کے مطابق سب کا منہ بند کرنے والے اور اسلام کی صداقت کو ثابت کرنے والے ہوں“.حضور نے فرمایا کہ ” اس طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس ضمن میں ایک تجویز یہ ہے کہ جو علوم پاکستان یا انڈونیشیا سے باہر سیکھے جاسکتے ہیں، نوجوان ان میں عبور حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں.جماعت انہیں وظیفہ دے اور وہ اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ علوم جدیدہ میں عبور حاصل کر کے اور مغربی ممالک میں جا کر وہاں کے لوگوں سے کہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسا نور فراست اور علوم عطا کئے ہیں، جن کا تم مقابلہ 256
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء نہیں کر سکتے.ہمارے جو ہو نہار بچے ہیں، (اور شکر ہے خدا کا کہ احمدیت میں ذہین بچے پیدا ہور ہے ہیں.) ان کو سنبھالنا ہمارا کام ہے.اور ان سے فائدہ اٹھانا پوری قوم کا کام ہے.اگر کسی قوم میں اعلیٰ ذہن رکھنے والے بچے ہیں اور وہ انہیں نہیں سنبھالتی اور ان سے فائدہ اٹھانے کی فکر نہیں رکھتی تو وہ ناشکری قوم ہے“.بعض لوگوں کی طرف سے احمدی بچوں کی تعلیمی ترقی میں روک ڈالنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ایک سکالرشپ جو جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے امام مسجد لندن (بشیر احمد خان رفیق) نے پیش کیا ہے، اس کے بارہ میں، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے کسی احمدی ہونہار کے لئے استعمال نہ کروں.بلکہ اسے open merit scholarship بنادوں.یہ 1976ء کا اسکالرشپ ہے.یعنی جو طلباء 1976ء میں ایم.اے یا ایم ایس سی پاس کرنے والے ہیں، ان میں سے جو طالب علم سب سے زیادہ قابل ہوگا، اسے یہ وظیفہ دے دیا جائے گا.یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ اس کا تعلق کس فرقہ یا جماعت سے ہے.ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے طلباء اس کے مقابلہ میں شریک ہو سکیں گے.اور بلا امتیاز عقیده مسلک و فرقہ ، جو طالب علم بھی سب سے زیادہ قابل اور اہل ثابت ہوگا ، اسے یہ وظیفہ مل جائے گا.میں امید رکھتا ہوں کہ ایسے سکالرشپ بڑھتے رہیں گے.ہمارے opcn merit scholarship میں یہ نہیں ہوگا کہ یہ وظیفہ فلاں کے لئے ہے، فلاں کے لئے نہیں.اس ضمن میں حضور نے مزید فرمایا کہ اس کے علاوہ ہمارے اپنے بچوں کا بھی حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو دینی صلاحیتیں اور استعداد میں عطا کی ہیں، ان کی کامل نشو ونما کا انتظام کیا جائے.ایسے بچوں کو سنبھالنا ساری دنیا کی جماعت ہائے احمدیہ کا فرض ہے.اگر انہیں اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے فارن ایکسچینج نہیں ملتا یا نہیں مل سکتا تو اس کی فکر نہیں.ایک سکالرشپ برطانیہ کی جماعت نے دیا ہے.ایک سکالرشپ امریکہ کی جماعت دے دی گی.ایک سکالرشپ افریقہ کی کوئی جماعت دے دے گی.اس طرح تعلیمی وظائف کی تعداد بڑھتی جائے گی اور قابل اور ذہین بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور ان کی ذہنی استعدادوں اور صلاحیتوں کی نشو ونما کا انتظام ہوتا چلا جائے گا“.حضور نے بچوں کی ذہنی نشو ونما اور تحصیل علوم کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا:.ہمیں اس وقت عالموں اور ماہرین علوم کی اس قدر ضرورت ہے کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے.ہمیں ضرورت ہے فلسفہ دانوں کی ، سائنسدانوں کی اور زبان دانوں کی.ایک دفعہ یوگوسلاویہ کے بعض لوگ مجھے ملے اور کہا، اگر ہماری زبان جاننے والے مبلغ دو تو چھ لاکھ یوگوسلاوین باشندے جو یورپ میں مزدوری کرتے پھرتے ہیں ، سارے ہی مسلمان ہو جائیں گے.جرمن زبان جاننے والے ہمارے پاس 257
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم اتنے تھوڑے ہیں کہ ایک مبلغ کو، جسے ہم ایسے علاقے میں بھیجتے ہیں، جہاں جرمن بولی جاتی ہے، اسے لمبے عرصہ تک ہم اس لئے واپس نہیں بلا سکتے کہ جرمن زبان جانے والا ہمارے پاس کوئی اور نہیں ہوتا.دوست قدر نہیں کرتے مبلغین کی.انہیں مختلف زبانیں جاننے والوں کی کمی کی وجہ سے جلد جلد واپس نہیں بلایا جا سکتا اور انہیں طویل عرصہ تک وطن اور گھر سے دور رہ کر کام کرنا پڑتا ہے.دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان کی قربانیوں کی قدر کریں اور ان کے لئے دعائیں کیا کریں.الغرض ہمیں ایسے دماغ چاہئیں، جو اعلیٰ درجہ کے عالم ہوں.اس وقت حالت یہ ہے کہ قرآن مجید کا روسی زبان میں ترجمہ مکمل ہو جانے کے باوجود ہم اسے محض اس لئے نہیں چھاپ سکتے کہ روسی زبان جاننے والا کوئی احمدی ہمارے پاس نہیں ہے، جو اس پر نظر ثانی کر کے یہ تسلی کر سکے کہ ترجمہ درست اور متن کے عین مطابق ہے.ترجمہ بامر مجبوری ایک غیر مسلم سے کرایا گیا ہے.جب تک یہ تسلی نہ ہو کہ اس نے صحیح ترجمہ کیا ہے، وہ چھپ نہیں سکتا.اور یہ تسلی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ کوئی احمدی روسی زبان میں دسترس حاصل کر کے اسے چیک کرے.زبانیں سیکھنے کی اہمیت کے پیش نظر ایک لڑکے کو یوگوسلاویہ بھیجا ہے.وہ مشکلات سے دو چار ہونے کے باوجود بہت محنت سے زبان سیکھ رہا ہے.ابھی حال ہی میں اس کا ایک امتحان ہوا ہے.اس نے یہ امتحان بہت اچھے نمبر حاصل کر کے پاس کیا ہے.لیکن یہ تو ایک زبان ہے، جو وہ سیکھ رہا ہے.دنیا میں سو سے زیادہ زبانیں بولی جاتیں ہیں.ہر زبان، زبان حال سے جماعت احمدیہ کو کہہ رہی ہے، ہمیں اس زبان کا جانے والا مبلغ دو.یہ جبھی ممکن ہوسکتا ہے کہ ہمارے نوجوان علوم اور زبانیں سیکھنے کی طرف متوجہ ہوں اور ان میں کمال حاصل کریں.ہر میدان میں جو آگے بڑھے ہوئے ہوں ، وہ احمدی ہونے چاہئیں.وہ اپنے اپنے شعبہ میں اپنا کام بھی کریں اور جب اسلام پر حملہ ہو تو اس کا جواب بھی دیں“.حضور نے فرمایا:.ہم میں علوم اور زبانوں کے سینکڑوں اور ہزاروں ماہر ہونے چاہئیں.تاہم سردست اگر ایک عالم بھی ملتا ہو تو اسے لے لینا چاہئے.اور اس سے جس حد تک ممکن ہو فائدہ اٹھانا چاہئے.اس ضمن میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کا تذکرہ فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور الہام ہے، جو اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ وو مستقبل میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہی مدینۃ العلم ہوگا.وہ الہام یہ ہے کہ:.انت مدينة العلم" (اربعین نمبر 3 صفحہ 81 ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 423) 258
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء آج ساری دنیا میں تم ہی اس مدينة العلم کے مکین ہو.تم میں سے ہر ایک کو اور بحیثیت مجموعی پوری جماعت کو اس رنگ میں علوم حاصل کرنے اور معرفت میں اس حد تک ترقی کرنی چاہیے کہ تم فلسفہ اور سائنس کی رو سے اسلام پر اعتراض کرنے والوں کا منہ بند کر سکو.حضور نے فرمایا:.وو میں نے اخباروں اور کتابوں کے متعلق تحریک کرنا تھی، اس لئے میں نے اس ضمن میں اصولی بات بیان کردی ہے.جہاں تک اخبارات ورسائل کا تعلق ہے، ان میں سب سے پہلے الفضل ہے.پھر الفرقان، مصباح، خالد، تشحید الاذہان ، انصار اللہ تحریک جدید، ریویو آف ریجنز ہیں.اور ہفتہ وار لا ہور ہے.احباب کو ان سب اخبار در سائل کے خریدنے اور ان کا مطالعہ کر کے ان سے استفادہ کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے.امسال جو نئی کتابیں شائع ہوئی ہیں، ان میں 1- تاریخ احمدیت جلد 15 2.اسلام عصر حاضر میں مرتبہ صوفی محمد اسحاق صاحب 3- (Ahmadi Muslims (Historical Outlines مرتبه نورالدین منیر صاحب منجانب لجنہ اماءاللہ مرکزیہ شامل ہیں.اسی طرح فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضرت مصلح موعود کی سوانح کے نام سے پہلی جلد شائع کی ہے.مزید بر آن تفسیر القرآن انگریزی مکمل سیٹ پانچ جلدوں میں طبع شدہ موجود ہے.احباب جماعت کو ان سب کتب کی خرید اوران سے خاطر خواہ استفادہ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.تا وہ علم اور معرفت میں ترقی کر سکیں.احباب جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.و ہمیں علوم جدیدہ سے کوئی خطرہ نہیں.خدا تعالیٰ نے ہمیں ان علوم کو پسپا کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.اور انہیں پسپا کرنے اور اسلام کو غالب کرنے کی صلاحیت ہم میں ودیعت کی ہے.اگر مہدی علیہ السلام نہ آئے ہوتے اور ذہنوں کو مد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ سکسی کامل اتباع کی برکت کے نتیجہ میں نئی جلا نہ ملی ہوتی تو اور بات تھی.جماعت احمدیہ کا ذہن اور نور فراست میدان میں کھڑا ہے اور اسلام کو پسپا نہیں ہونے دے گا.علوم جدیدہ ہی پسپا ہوں گے اور ان کے مقابلہ میں اسلام فتح پائے گا“.مطبوعه روزنامه الفضل یکم جنوری 1976ء) 259
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم مرکزی کارکنان کی اضافی امداد کے انتظامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.آپ جانتے ہیں فی زمانہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے.ایک تو ساری دنیا میں افراط زرکی وجہ سے مہنگائی ہے، دوسرے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اخلاقی ابتری اور بدنظمی کی کیفیت بھی ایک حد تک مہنگائی کی ذمہ دار ہے.مرکزی ادارہ جات میں ہمارے جو کارکن خدمات بجالا رہے ہیں، وہ بڑی قربانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں.ان کی ساری ضرورتیں پوری کرنے کے ہم قابل نہیں.ہم جس حد تک ان کی ضرورتیں پوری کر سکتے ہیں، کرتے ہیں.اور ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس حد تک انہیں سہولت پہنچانا اور ان کے لئے آسانی پیدا کر ناممکن ہو، اس سے دریغ نہ کیا جائے.چنانچہ اس دفعہ کارکنان کو ان کی گندم کی ضرورت کا ایک حصہ مفت پورا کرنے کا انتظام کیا گیا.اسی طرح تحریک جدید نے اپنے کارکنان پر امداد گندم، امداد سرما اور علاج معالجہ کے اخراجات پر ایک لاکھ اسی ہزار روپے کی رقم خرچ کی مرکزی ادارہ جات میں جو کار کن خدمات بجالا رہے ہیں، وہ بہت قربانی کرنے والے کارکن ہیں اور احباب جماعت کی دعاؤں کے مستحق ہیں.احباب انہیں اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یادرکھا کریں اور ان کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضلوں سے نوازے اور ان کے لئے برکت کے سامان کرے“.فرمایا کہ ” ایک تحریک وقف بعد از ریٹائر منٹ بھی جاری کی گئی تھی.اس کے تحت 146 احباب نے اپنے نام پیش کئے.اور ان میں سے جن احباب نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ، ان کی تعداد 42 ہے“.تحریک جدید کے تحت ہونے والے عظیم الشان کام اور اس کے خوشکن نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.تحریک جدید کا نظام حضرت مصلح موعودؓ نے 1934ء میں قائم کیا تھا.الہی سلسلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس کے افراد سے دین کی راہ میں جتنی قربانی مانگی جاتی ہے، وہ انہیں اس سے بڑھ کر قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے.چنانچہ تحریک جدید میں بھی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے بے انداز برکت ڈالی.ابتد ا صرف 27 ہزار، پانچ سوروپے کی تحریک کی گئی تھی.جماعت نے اس پر لبیک کہتے ہوئے ایک لاکھ روپیہ پیش کرنے کی توفیق پائی.اس کے بعد اس میں بفضل اللہ تعالی سال به سال اضافہ ہی ہوتا چلا گیا.تحریک جدید نے اس تمام عرصہ میں ساری دنیا میں اسلام کی 260
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء بنیادیں مضبوط کرنے اور اس پر خوبصورت اور عالیشان عمارت تعمیر کرنے کے سلسلہ میں جو کام کیا ہے، وہ اپنی ذات میں بہت ہی مہتم بالشان اور حسین کام ہے.یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے تحریک جدید کے کام کی عظمت آشکار ہوتی ہے کہ سیرالیون (مغربی افریقہ ) کے ایک سابق نائب وزیر اعظم نے جو احمدی نہیں ہیں ، جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، احمدیوں کے آنے سے قبل اسلام سیرالیون میں اس قدر کسمپرسی میں تھا کہ ہم اسلام کا نام لیتے ہوئے ڈرتے تھے.لیکن جب سے احمدی مبلغین یہاں آئے ہیں اور انہوں نے عیسائیوں کے بالمقابل اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی تبلیغی جد و جہد کا آغاز کیا ہے، اسلام کا نام آنے پر ہماری گردنیں تن جاتی ہیں اور ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ بعد اللہ ہم مسلمان ہیں.اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ تحریک جدید کے تحت دس سال بعد پہلا غیر ملکی چندہ جمع ہوا.دس سال تک وہاں برصغیر کے احمدیوں کے چندوں سے ہی اسلام کی تبلیغ واشاعت کا کام ہوتارہا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے بیرونی ملکوں میں قائم شدہ مشن اور وہاں کی جماعت ہائے احمد یہ اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ انہوں نے اپنے اپنے ملک میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے نظام کو خود سنبھالا ہوا ہے.اور اس نظام میں دن بدن وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کام میں اتنی برکت ڈالی ہے کہ دل حمد اور شکر کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی تائید و نصرت کے نشان آپ نے بھی دیکھے ہیں، میں نے بھی دیکھتے ہیں اور ان افریقیوں نے بھی دیکھتے ہیں، جنہیں اس نظام کی بدولت اسلام کی دولت لازوال میسر آئی ہے.اس وقت مشرق و مغرب کے ممالک میں 71 مرکزی مبلغین کام کر رہے ہیں.ان ممالک میں قائم شدہ جماعت ہائے احمدیہ کی تعداد 917 ہے.امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی، سپین، سیرالیون ، گھانا، نائیجیریا، گیمبیا، کینیا، ماریشس، انڈونیشیا اور برما میں 29 نئی جماعتیں قائم ہوئیں ہیں.بیرونی ممالک میں بحمد للہ تعالٰی پانچ سو کے قریب مساجد تعمیر ہو چکی ہیں.دوران سال تعمیر ہونے والی مساجد کی تعداد 12 ہے.سویڈن میں وہاں کی سب سے پہلی مسجد کا حال ہی میں سنگ بنیا درکھ کر میں آیا ہوں.اللہ تعالیٰ نے وہاں کے شہر گوشن برگ میں اپنے فضل سے ہمیں شہر کے سرے پر ایک پہاڑی کے اوپر ڈیڑھ ایکڑ کے قریب زمین دلوادی.انشاء اللہ تعالیٰ ٹھیکیدار اگلے سال جولائی تک مسجد کی تعمیر مکمل کر دے گا.یہ مسجد ایسی بلند جگہ پر بن رہی ہے، جہاں سے سارا شہر نظر آتا ہے.اور سارے شہر کو مسجد نظر آئے گی.یہ خدا تعالی کا فضل ہے کہ وہ یورپ اور دوسرے براعظموں میں اپنا نام بلند کرنے کے مراکز قائم کر رہا ہے.261
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم میں نے ناروے میں بھی جماعت کو مسجد تعمیر کرنے کی تحریک کی اور ان سے کہا کہ میری خواہش ہے،1977ء میں ناروے میں مسجد تعمیر ہو جائے.سو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے میں امید کرتا ہوں کہ 1977ء میں وہاں بھی مسجد تعمیر ہو جائے گی.ڈنمارک میں پہلے ہی ہم مسجد تعمیر کرا چکے ہیں.سویڈن میں آجکل مسجد تعمیر ہورہی ہے.ناروے میں بھی خدا تعالیٰ نے چاہا تو 1977ء میں مسجد بن جائے گی.اس طرح سکینڈے نیویا کے تینوں ممالک میں سے ہر ملک میں ایک مسجد ہو جائے گی.اور سکینڈے نیویا کی حد تک تعمیر مساجد کا ابتدائی مرحلہ مکمل ہو جائے گا“.دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سات زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں.یعنی انگریزی، جرمن، ڈچ، سواحیلی ، ڈینش، سپرانٹو اور لوگنڈا میں، انڈو نیشین زبان میں دس پارے چھپ چکے ہیں، فرانسیسی ترجمہ اس وقت لندن میں چھپ رہا ہے.اس کے پروف پڑھنے کے لئے ایک احمدی دوست ماریشس سے وہاں پہنچ چکے ہیں.اور انہوں نے کہا ہے کہ جب تک قرآن مجید کی طباعت مکمل نہیں ہوگی، وہ لندن میں ہی رہیں گے.اور اس کے مکمل ہونے کے بعد ماریشس واپس جائیں گے.اسی طرح روسی زبان میں جلد ترجمہ شائع ہونا چاہیے.دعا کریں کہ ہمیں اچھے زبان دان ملیں تا کہ یہ کام تسلی بخش طریق پر پایہ تکمیل کو پہنچ سکے.تحریک جدید کے تحت ہونے والے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ تحریک جدید اس وقت افریقہ کے مختلف ممالک میں 13 سیکنڈری سکول ، دس مڈل سکول اور 51 پرائمری سکول چلا رہی ہے.اس کے علاوہ ایک عربی کی تعلیم کا مدرسہ اور ایک مشنری ٹریننگ کالج بھی اس کے زیر انتظام کامیابی سے چل رہا ہے.مزید برآں تین میڈیکل سنٹر ز بھی تحریک جدید کے تحت کام کر رہے ہیں.ان میں سے دو میڈیکل سنٹر ز نائیجیریا میں ہیں تو ایک گیمبیا میں“.مطبوع روزنامه الفضل 02 جنوری 1976ء) نصرت جہاں ریزروفنڈ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی افضال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.نصرت جہاں ریز وفنڈ کی تحریک میں نے 1970ء میں مغربی افریقہ کے دورہ سے واپسی پر کی تھی.شروع میں تو میں نے کم رقم کی تحریک کی لیکن بعد میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت مصلح موعود کی خلافت کے جتنے سال بنتے ہیں، اتنے لاکھ روپے چندہ احباب اس فنڈ میں ادا کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پنے فضل سے جماعت کو توفیق عطا کی اور اس نے 52 سالہ دور خلافت کے مقابلہ میں 53 لاکھ 53 ہزار 262
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء روپے تین سال کے اندر اندر اس فنڈ میں ادا کر دکھائے.اس طرح نصرت جہاں ریز روفنڈ کا کل سرمایہ 53 لاکھ 53 ہزار بنا.مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ جس طرح فضل عمر فاؤنڈیشن والے کمپنیوں کے حصص خرید کر حاصل ہونے والے منافع سے کام کر رہے ہیں، اسی طرح میں بھی نصرت جہاں ریز روفنڈ کارو پی نفع مند کاموں میں لگا کر اس کے منافع سے افریقہ میں سکول اور ہسپتال کھولوں اور اس کام کو کمپنیوں میں لگائے ہوئے سرمایہ کے منافع کی حد تک محدود رکھوں.میں نے مشورہ دینے والوں کو کہا، کمپنیاں تو ایک حد تک ہی منافع دے سکتی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چند سال بعد وہ منافع دینا بند کر دیں اور کہیں کمپنیاں نقصان میں جا رہی ہیں.میں تو جس سے تجارت کرتا ہوں، وہ دو، چار یا آٹھ ، دس گنا ہی نفع نہیں دیتا، وہ تو بغیر حساب دیتا ہے.میں تو اس سے تجارت کروں گا، جو بڑا دیا لو ہے.اور جب دینے پر آتا ہے تو دیتا ہی چلا جاتا ہے.میں نے دفتر والوں سے کہا، افریقہ میں سکولز اور ہیلتھ سنٹر کھولنے پر براہ راست سرمایہ میں سے روپیہ لگاتے چلے جاؤ.چنانچہ روپیہ خرچ ہوتا رہا.وہی لوگ ، جنہوں نے مجھے نفع مند کاموں پر روپیہ لگانے کا مشورہ دیا تھا ، بہت گھبرائے.اور انہوں نے کہا کہ اگر کل سرمایہ خرچ ہو گیا تو پھر کیا بنے گا؟ میں نے کہا، گھبرانے کی ضرورت نہیں.میں نے اپنے خدا پر بھروسہ کر کے اس سے تجارت کی ہے.وہ نہ صرف نقصان سے ہمیں بچائے گا بلکہ بے انداز منافع سے بھی ہمیں نوازے گا.اللہ اکبر، جس سے میں نے تجارت کی تھی ، اس نے ہمارے اعتماد کو ایسے رنگ میں پورا کیا کہ دل اس کی حمد اور شکر کے جذبات سے لبریز ہو گیا.نصرت جہاں ریز روفنڈ میں کل وصولی ہسپتالوں کی خالص بچت کو شامل کر کے اتنی زیادہ ہوئی کہ دنیا کی کوئی تجارت بھی اتنا نفع نہیں دے سکتی تھی.ہم نے مغربی افریقہ کے ملکوں میں جو ہسپتال کھولے، انہوں نے وہاں کئی لاکھ مریضوں کا مفت علاج کیا تشخیص بھی مفت کی اور دوائیں بھی انہیں مفت مہیا کیں.ادھر بعض بڑے بڑے ذی ثروت اور مالدار لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے یہ اثر ڈالا کہ اللہ تعالیٰ نے احمدی ڈاکٹروں کے علاج میں شفار کھی ہے، وہاں جاؤ اور ان سے علاج کراؤ.وہ لوگ پہلے یورپ جا کر علاج کراتے تھے.انہوں نے ہمارے ہسپتالوں میں علاج کرایا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شفا عطا کی.انہوں نے مفت علاج نہیں کرایا بلکہ علاج کے جملہ اخراجات اور فیسیں وغیرہ ادا کیں اور دل کھول کر ادا کیں.اس طرح فضل عمر ریز روفنڈ میں چندوں کی رقوم اور ہسپتالوں کی خالص بچت ملا کر کل وصولی ایک کروڑ 87 لاکھ روپے ہوئی.اس میں سے ہسپتالوں اور سکولوں کی عمارتوں، فرنیچر اور اپریٹس، جراحی کے آلات اور آپریشن تھیٹر وغیرہ اور عملہ کی 263
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم تنخواہوں پر ایک کروڑ 60لاکھ روپے خرچ ہوئے.اس طرح ہسپتالوں اور سکولوں کے قیام کے باوجود نصرت جہاں ریزروفنڈ میں 27 لاکھ 21 ہزار روپے نقد موجود ہیں.ہم نے وہاں ہسپتالوں سے جو کمایا، اسے ہسپتالوں کی عمارتیں تعمیر کرنے ، نئے سکول اور ہسپتال کھولنے پر وہیں خرچ کر دیا.جب عیسائی تو میں وہاں گئیں تو وہاں سے سب کچھ سمیٹ کر اپنے ملکوں میں لے گئیں.لیکن جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنی غلام وہاں گئے تو انہوں نے جو لے کر گئے تھے، وہ بھی وہاں خرچ کر دیا اور جو وہاں کمایا، وہ بھی وہیں کے لوگوں پر خرچ کر دیا.ایک دھیلا بھی باہر نہیں گیا.یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ادنی غلاموں کی بے لوث خدمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.یہ اللہ کا فضل ہے، میری اور آپ کی خوبی نہیں ہے.نصرت جہاں آگے بڑھو پروگرام کے تحت اس فنڈ سے مغربی افریقہ کے ملکوں میں 16 ہیلتھ سنٹرز اور ہسپتال کھولے گئے.مجموعی طور پر وہاں 32 ڈاکٹر ز بھیجے گئے.ان میں سے 16 واپس آچکے ہیں اور 16 ڈاکٹر اس وقت وہاں طبی خدمات بجالا رہے ہیں.اسی طرح وہاں 17 سیکنڈری سکول کھولے گئے.ان میں 35 اسا تذہ کام کر رہے ہیں.طبی اور تعلیمی میدانوں میں جماعت کی اس خدمت کو سراہا جارہا ہے حتی کہ وہاں کے عمائدین بھی اس خدمت کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں.چنانچہ جمہوریہ سیرالیون کے صدر ڈاکٹر سٹیون سن نے احمد یہ سیکنڈری سکول بو کے معائنہ کے بعد اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:.میں سب سے پہلے جماعت احمد یہ کا، جو یہ کام تعلیم کے میدان میں کر رہی ہے، شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.اب اس جماعت نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طبی میدان میں بھی ہماری مدد کرنا شروع کی ہے.میں ان تمام گرانقدر خدمات کے لئے جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں“.اسی طرح گھانا میں سنٹرل ریجن کے کمشنر نے 104 اپریل 1974ء کو احمد یہ ہسپتال اگونہ سویڈ روکی نئی عمارت کا افتتاح کرنے سے قبل اس تقریب کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا:.میں گورنمنٹ کی طرف سے جماعت احمد یہ گھانا کی دوراندیشی ، عزم و ہمت اور کامیابی پر، جو اس ہسپتال کی تعمیر سے ظاہر ہے، شکریہ ادا کرتا ہوں.حکومت گھانا جماعت احمدیہ کے اس کردار پر نہایت خوش ہے، جو یہ ملک میں تعلیمی اور طبی 264
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ادا کر رہی ہے.جماعت احمدیہ کی گھانا میں سرگرمیاں دہرانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ ملک بھر میں جابجا پھیلے ہوئے احمد یہ سکول اور ہسپتال اس پر شاہد ناطق ہیں کہ یہ جماعت ہمارے اس ملک کی تعمیر نو میں کس قدر حصہ لے رہی ہے.( دی گائنڈنس جون 1974 ء ) کمشنر برائے وزارت تعلیم گھانا نے جماعت احمد یہ گھانا کی 47 ویں سالانہ کا نفرنس منعقدہ سالٹ پانڈ میں صدر مملکت کرنل آئی کے اچمپا نگ کے خاص نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی اور مؤرخہ 5 جنوری 1973ء کو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:.گھانا کی قومی کونسل ( صدر اور وزراء کی کونسل ) بہت ہی شکر گزار ہے کہ جماعت احمد یہ ایک لمبے عرصہ سے ملک کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی کے لئے مفید کام کر رہی ہے.جماعت احمد یہ ملک کے عوام کی طبیتی، تعلیمی اور روحانی میدان میں جو شاندار خدمات بجالا رہی ہے، ان سے لوگ متعارف ہیں.اور اس بناء پر وہ ( یعنی جماعت احمدیہ شکریہ کے لائق ہے“.دی گائیڈنس فروری 1973 ء ) اور کمشنر برائے تعلیم شمال مغربی سٹیٹ نائیجیر یا الحاج ابراہیم گوساؤ نے فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول گوساؤ کے افتتاح کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا:.وو پہلا موقع ہے کہ ایک مسلم تنظیم اس امر کے لئے آگے بڑھی ہے کہ وہ ملک کی تعلیمی ترقی کے پروگرام میں حصہ لے“.عمائدین کی ان آراء کو پڑھ کر سنانے کے بعد حضور نے فرمایا:.(نیونائیجیرین 26 جون 1971 ء ) و بعض اور سر بر آوردہ افریقی لیڈروں کی آراء بھی ہیں، جن میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی تعلیمی اور طبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسے خراج تحسین پیش کیا ہے.لیکن میں انہیں چھوڑتا ہوں“.صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ کے منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.وو یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے.اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت برکت ڈالی ہے اور شروع ہی میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے ایسے آثار ظاہر ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی قربانی کو 265
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم شرف قبولیت عطا فرمایا ہے.اور فرشتے تاریں ہلا کر ہماری ضرورتیں پوری کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ قبولیت کے ثبوت کے طور پر اپنی تائید و نصرت کے نشان ظاہر فرمارہا ہے“.میں فرمایا:.حضور نے گوٹن برگ میں صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کے تحت تعمیر کی جانے والی مسجد کے ضمن یہ تو ابتداء ہے.اس کے بعد ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مسجد بنے گی اور اس کی تعمیر بھی صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ سے ہی عمل میں آئے گی.اس منصوبہ کے اعلان کے بعد دو سال کے اندراندراللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے ہمیں پہلی مسجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرما دی.اس منصوبہ کے اعلان کے معا بعد کا سال یعنی 1974ء کا سال، ابتلاء کا سال تھا.اس کے باوجود دو سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اتنی رقم جمع ہوگئی، جتنی نصرت جہاں ریزروفنڈ میں تین سال میں جمع ہوئی تھی.اور وہ زمانہ ہمارے لئے امن کا زمانہ تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کے ایک نشان کے طور پر دکھوں اور مشکلات کے باوجود ا حباب کو دوسال کے اندراندرصد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں 53 لاکھ روپیہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی.یہ اس کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے اس امر کے باوجود کہ 1974ء دوسروں کی طرف سے ہمارے لئے دکھ کا سال تھا، تعصب کا سال، نفرت کا سال تھا، حقارت کا سال تھا لیکن چونکہ یہ ہماری طرف سے دعاؤں کا سال تھا، اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑانے کا سال تھا، اس کے حضور یہ التجا ئیں پیش کرنے کا سال تھا کہ اللہ تعالیٰ دیکھ کے سامان کرنے والوں کو سمجھ عطا کرے اور انہیں اپنے غضب سے محفوظ رکھے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہماری نیک نیتوں اور مخلصانہ دعاؤں کا یہ نتیجہ نکالا کہ اس نے ہمیں ان دو سالوں میں اتنی قربانی اس کے حضور پیش کرنے کی توفیق عطا کر دی، جتنی اس نے نصرت جہاں ریز روفنڈ میں تین سال میں پیش کرنے کی توفیق دی تھی.خطاب کے آخر پر حضور نے فرمایا:.جلسہ شروع ہونے سے قبل مجھے اطلاع ملی کہ سفر کی خاطر خواہ سہولتیں فراہم نہ کی جانے کی وجہ سے ہزار ہا احمدی مرد، عورتیں اور بچے مختلف سٹیشنوں پر رکے پڑے ہیں اور سردی کی وجہ سے تکلیف اٹھا رہے ہیں.اس ضمن میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر نا اہلی کا مقابلہ احمدیت کے عزم کے ساتھ ہوگا تو آپ انشاء اللہ ثابت کر دکھا ئیں گے کہ احمدیت کا عزم ہی بالا رہے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.پیچھے رہا تو کوئی نہیں سب ہی پہنچ گئے.جنہوں نے شام کو پہنچنا تھا، وہ تکلیف اٹھا کر شام کو نہیں تو صبح پہنچ گئے.جو صبح پہنچنے 266
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1975ء والے تھے، وہ اگر صبح کونہیں تو اگلی شام کو گرتے پڑتے آپہنچے.جس قوم کے افراد نے اللہ کی رضا کے حصول کے لئے ، نوع انسانی کی خدمت کے لئے اللہ اور رسول کی باتیں سننے کے لئے ، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کو مشاہدہ کرنے کے لئے سفر کر کے جلسہ میں آنا ہے، وہ تو آئیں گے.اور ہر حالت میں آئیں گے.شام کو نہیں تو اگلی صبح کو اور اگر صبح کو نہیں تو اگلی شام کو وہ آجائیں گے.اگر بندروں یا ریچھوں کے تماشے ہوتے یا کتوں کی لڑائی ہو رہی ہوتی یا میلوں پر لگائے جانے والے جھولنے والے بڑے بڑے چکر ہوتے تو لوگ کہتے کہ یہ تو ہم جہاں چاہیں دیکھ سکتے ہیں، ہمیں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن جنہوں نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بشارتوں کے پورا ہونے اور خدائی رحمتوں کے نزول کی باتیں سننے آنا ہو، وہ تو خدا کے لئے ، اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے اس کی رضا کی خوشبو میں مست ہو کر اڑتے ہوئے بھی یہاں آپہنچیں گے.ان کی راہ میں کوئی روک، روک نہیں بن سکتی“.مطبوعه روزنامه الفضل 03 جنوری 1976ء ) 267
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 28 مارچ 1975ء خود کو دنیا کے لئے ایک ایسا نمونہ بنا ئیں ، جس نمونے کی دنیا کو پیاس ہے وو خطاب فرمود : 8 2 مارچ 1975ء بر موقع مجلس شوری پچھلے سال میں نے سوچا اور بہت سوچا کہ جماعت احمد یہ میں اس قسم کی کوئی کمزوری تو نہیں، جو حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی امت نے دکھائی تھی.کہ ہمیں جو بشارتیں دی گئی ہیں ، ہماری غفلتوں کے نتیجہ میں ان کے پورا ہونے کا وقت پیچھے پڑ جائے.چنانچہ بڑی سوچ و بچار کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ نہیں.جماعت نے بحیثیت مجموعی ایسے عظیم کردار کا مظاہرہ کیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی حیران ہوں گئے.انہوں نے تو آدم کی کمزوری پر نگاہ کی تھی اور یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیوں نے ہر قسم کی قربانی دی.لیکن جو ان کا مشن تھا اور مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی جو غرض تھی اور قیام جماعت احمدیہ کا جو مقصد ہے، اس کے اندر اپنے کسی فعل کے لحاظ سے بحیثیت جماعت ایک ذرہ بھی فرق نہیں آنے دیا.(افراد ہوتے ہیں، وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی منافق پائے جاتے تھے.میں ان کی بات نہیں کر رہا.میں جماعت کی بات کر رہا ہوں.اسی طرح ہنستے کھیلتے مسکراتے چہروں کے ساتھ اور نہایت بشاشت کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے.اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو انہوں نے اس طرح دیکھا، جس طرح کے صحابہ نبی اکرم نے اس زمانہ میں دیکھا تھا.بشارتیں ہوئیں ، رویا دیکھے، خواب دیکھے اور عملاً کامیابی کے نمونے دیکھے.آج کے خطبہ جمعہ میں بھی میں نے بتایا تھا.میں نے دفتر سے کہا تھا کہ بیرونی جماعتوں کی رپورٹیں الفضل میں دیا کرو تا کہ جماعت کے اندر شکر کے جذبات پیدا ہوں.جو غیر ملکی خطوط آتے ہیں، ان میں ایک دن کی رپورٹ یہ تھی کہ فلاں جگہ 40 بیعتیں ہوئیں، فلان جگہ اتنی بیعتیں ہوئیں.ایک جگہ 350 بیعتیں ہوئیں.فلاں جگہ فلاں شخص نے جماعت کے متعلق میں یہ کہا.ہسپتالوں اور سکولوں کے لئے نئے wings بن رہے ہیں، نئے سامان خریدے جارہے ہیں، زیادہ سے زیادہ مریضوں کا علاج ہورہا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاء کا جو معجزہ اسلام کو غالب کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کو عطا ہوا ہے، اس کا اظہار ہورہا ہے.ڈاکٹر بحیثیت انسان ایک حد تک تشخیص اور ایک حد تک نسخہ لکھ سکتا ہے اور دوائی دے سکتا ہے.لیکن دنیا کا کوئی عقل مند اور ذی ہوش ڈاکٹر ایسا نہیں، جو یہ کہے کہ ضرور شفاء ہو 269
اقتباس از خطاب فرموده 28 مارچ 1975ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم جائے گی.ایسے محاورے بولے جاتے ہیں لیکن ان سے کرید کرید کے پوچھیں تو کہیں گے نہیں.میں نے بڑے بڑے ڈاکٹروں سے پوچھا ہے کہ مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تمہارے پاس ایسے مریض آتے ہیں، جن کے متعلق تمہیں یقین ہو کہ وہ اچھے ہو جائیں گے لیکن وہ مر جاتے ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں ، آتے ہیں.پھر میں نے پوچھا کہ کیا ایسے بھی مریض آتے ہیں کہ تمہیں یقین ہو کہ یہ کبھی نہیں بچ سکتے اور پھر وہ بچ جاتے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہاں، ایسے بھی آتے ہیں.پس زندگی اور موت ، اسی طرح بیماری سے شفا دینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.ہسپتالوں کی بڑی بڑی عمارتیں اور دنیا جہاں کے سرجری کے جو اپریٹس ہیں، ان کے نتیجہ میں شفا حاصل نہیں ہوتی.ہمارے ایک ڈاکٹر کے پاس ایک مریض آیا، جس کے متعلق اس ملک کے سارے غیر ملکی ڈاکٹروں نے یہ کہا تھا کہ یہ ایک ایسے مرض میں مبتلا ہے کہ اس ملک میں اس کا آپریشن ہوہی نہیں سکتا.اور اتنا شور مچایا کہ وہاں کی حکومت نے ہمارے ڈاکٹر سے کہہ دیا کہ تم اس کا آپریشن نہیں کرو گے.جب یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے ماہر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کا آپریشن یہاں ہوہی نہیں سکتا تو تم کیسے اس کا آپریشن کرو گے؟ انہوں کہا کہ ٹھیک ہے، نہیں کریں گے.اس پر اس مریض کے رشتے داروں نے شور مچا دیا.اور حکومت سے کہا کہ تم کہتے ہو کہ یہاں اس کا علاج نہیں ہوسکتا اور اس کو باہر بھیجنے کے لئے تم تیار نہیں ہو.پیسے خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اور اب ایک شخص کہتا ہے کہ میں آپریشن کر دیتا ہوں.زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ مریض مر جائے گا، وہ اس طرح بغیر آپریشن کے بھی تو مر جائے گا.ہم اس کے رشتہ دار ہیں، ہماری ذمہ داری پر ڈاکٹر کو آپریشن کرنے کی اجازت دی جائے.چنانچہ ان کے زور دینے پر حکومت نے اجازت دے دی.ہمارے ڈاکٹر نے اس کا علاج کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شفا دے دی." یہ تو مختصر اس وقت تک کے حالات ہیں، جن کے متعلق بڑے اختصار کے ساتھ میں نے کچھ ذکر کیا ہے.آئندہ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر احمدی یہ عہد کرے کہ دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی اگر خدائی منصوبہ کو نا کام کرنے کی کوشش کریں گی (جو نہیں ہو سکتا ) تو ہمیں خدا تعالیٰ نے جو اپنی رحمت سے نوازنے کے لئے قربانیوں کی طرف بلایا ہے، ہم اس میں ایک ذرہ بھی کمی نہیں آنے دیں گے.اور خدا تعالیٰ کے فضلوں سے اپنی جھولیوں کو بھر لیں گے.اور خود کو دنیا کے لئے ایک ایسا نمونہ بنائیں گے کہ جس نمونے کی آج کی دنیا کو پیاس ہے.اور اس کے بغیر ہم اپنے اس مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتے کہ ساری دنیا کو توحید پر قائم کر کے اسلام کے دروازے سے اندر لے آئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق اللهم آمين.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 28 تا30 مارچ 1975ء ) | 270
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 29 مارچ 1975ء اب وقت آگیا ہے کہ ساری دنیا میں اسلامی مساوات کا نمونہ قائم کیا جائے ارشادات فرموده 29 مارچ 1975ء بر موقع مجلس شوری جماعتوں میں پروجیکٹر کے ذریعہ تحریک جدید کے تحت ہونی والی جماعتی ترقیات کی فلم دکھانے کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمه الله نے فرمایا:.ساری جماعتوں میں دکھانے کا اہتمام کیا جانا چاہیے.سب کمیٹی شوری کی رپورٹ میں بھی محض فلسفیانہ انداز میں سفارشات پیش کر دی گئیں ہیں.مثلاً یہ کہ دیا گیا کہ تحریک جدید والوں کو جماعت میں جانا چاہیے اور سلائیڈ ز دکھانی چاہیں.آپ کہتے ہیں کہ دو دفعہ دکھائی جائیں.دودفعہ دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ 365 دنوں میں دو ہزار جگہوں پر دکھائی جائیں.یہ آپ کا کام نہیں.آپ کا جو کام تھا، وہ تو ٹھیک ہے.مگر فنانس کمیٹی کا یہ کام تھا کہ جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہر جماعت میں جائیں تو ساتھ یہ بھی کہتے کہ ہر جماعت میں دکھانے کے لئے اتنے نئے پروجیکٹر لینے پڑیں گے، اتنا شاف درکار ہوگا اور اس کے اخراجات کی بھی ساتھ سفارش کی جاتی ہے.مگر عملاً کمیٹی نے ایسا نہیں کیا.جو دوست اپنی رائے پیش کرتے ہیں، ان کا یہ کام نہیں کہ وہ خرچ وغیرہ کے متعلق بتائیں.اس غرض کے لئے شوری کی ایک فنانس کمیٹی بنی ہوئی ہے.لیکن شوری کی سب کمیٹی نے جو سفارشات کیں ہیں، وہ سب کی سب فلسفیانہ ہیں.جہاں کام کرنے کے لئے خرچ کا مطالبہ ہے، اس کو نظر انداز کر دیا گیا ہے.ایک آدمی 365 دنوں میں بھی سلائیڈ نہیں دکھا سکتا.کیونکہ اس کی ذمہ یہاں اور کام بھی ہیں.اس لیے میرا خیال ہے کہ کم از کم 20 پروجیکٹر مزید درکار ہوں گے.20 پروجیکٹر کے لئے اتنی ٹیم چاہیے.20 پروجیکٹر کے لئے سلائیڈ کے 20 سیٹ درکار ہیں.اس دفعہ دورے پر میں نے ایک دوست کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا.ان کے پاس کیمرہ تھا.میں نے انہیں کہا کہ تم سلائیڈ لینے کا کام کرو.ان کے کیمرہ میں کوئی نقص واقع ہو گیا، جس کی وجہ سے 80 فیصد سلائیڈ ز خراب ہو گئیں.باقی 20 فیصد میں سے منتخب کر کے کچھ تحریک جدید والوں کو دیں.کچھ وہ خود بڑی محنت سے مہیا کرتے ہیں.پس اگر شورٹی میں یہ بات پیش ہو کہ سال میں دو ہزار جگہوں میں سلائیڈ دکھائی جائیں تو اس کے لئے جتنے پروجیکٹرز کی ضرورت ہے اور جتنی ضرورت سلائیڈ ز دکھانے والی ٹیموں کی ہے، وہ سب مہیا ہوں.271
ارشادات فرمودہ 29 مارچ 1975ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم سلائیڈ ز دکھانے والوں کو پہلے ایک کلاس Attend کرنی پڑے گی.مگر شبیر صاحب سے مطالبہ ہوتا ہے، یہ دفتر تحریک جدید کے وکیل المال بھی ہیں.ان کو تفصیل کا علم ہے.مثلاً یہ کہ سیرالیون میں اس وقت کیا ہورہا ہے؟ وہ جانتے ہیں کہ وہاں اتنی مساجد پہلے سے تعمیر ہیں اور یہ دیکھوئی مسجد تعمیر ہورہی ہے.على هذا القياس.مسجد کے بعد مسجد بننے کی سلائیڈ ز دیکھ کر لوگوں پر اثر ہوتا ہے.مگر یہ کام کلرک تو نہیں کر سکتا.اس کو تو کوئی ذمہ دار اور واقف کار آدمی ہی کر سکتا ہے.لیکن سب کمیٹی شوری نے اس کے متعلق کوئی عملی تدبیر نہیں سوچی.پس یہ تو ایک حقیقت ہے کہ سلائیڈ ز کا بڑا فائدہ ہے.تصویری زبان کے ساتھ ساتھ تصویریں دکھانے والا جذبات کا اظہار کرتا ہے.اور میں بڑا خوش ہوتا ہوں.کیونکہ اس طرح واقعات سمودئیے جاتے ہیں.لوگ سوچتے ہیں اور یہ اس کا بڑا فائدہ ہے.آپ یہ کام کریں.بیرونی ممالک کے مبلغین کو پاکستان میں مربی لگانے کا ذکر ہونے پر حضور نے فرمایا:.اب تو حديقة المبشرین کے تحت مبشرین کا انتظام اکٹھا کر دیا گیا ہے.جب تک مبلغین یہاں رہتے ہیں، وہ حديقة المبشرین کے ماتحت ہوتے ہیں.( جو صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کا مشترکہ ادارہ ہے.اور جب ان میں سے کوئی باہر جاتا ہے تو پھر وہ تحریک جدید کی نگرانی میں آجاتا ہے.یعنی وہ ان کی گائیڈنس اور راہنمائی اور نگرانی میں ہوتے ہیں.لیکن جو شخص باہر سے یہاں آئے گا ، وہ صدر انجمن احمدیہ کا مبلغ سمجھا جائے گا اور یہ بھی آپ کا اچھا خیال ہے.اس وقت ہم زندگی کے ایک اہم موڑ سے Turnلے چکے ہیں.تا کہ وحدت اقوامی کی عملاً ابتداء کر سکیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ جب میں 1970ء میں مغربی افریقہ کے دورے پر گیا تو غانا میں مجھے علم ہوا کہ غانا کے دو، چار دوست سادہ اور مخلص مگر غیر تربیت یافتہ ایسے بھی ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ.Ghanian For Ghana غانا کا مبلغ انچارچ غانا کا رہنے والا ہونا چاہئے.میں نے ان کو کہا کہ تم عجیب نعرہ لگا رہے ہو.میں یہ کہہ رہا ہوں کہ A Ghanian for Great Britain.A Ghanian for.Europe.A Ghanian for America مگر تم کہتے ہو کہ.A Ghanian For Ghana اگر تم نے یہ نعرہ لگایا تو انگلستان یہ کہے گا کہ ہمیں اس ملک کے آدمی کی ضرورت نہیں، جو اپنے ملک میں یہ نعرہ لگا رہا ہے.وہ چونکہ مخلص تھے ، اس لئے میری بات سمجھ گئے.اب غانا میں خود وہاں کے عبدالوہاب بن آدم کو بلا کر انچارچ مشنری بنا دیا ہے.وہ بڑا مخلص ہے.یہاں سے جو ہمارے مبلغ گئے ہیں، ان کے اندر تھوڑا سا غیر اسلامی جذبہ پیدا ہوا.ویسے ان میں بھی اخلاص ہے.لیکن ان کو یہ گھبراہٹ ہے کہ میں ایک خانین کے ماتحت کیسے کام کروں؟ ابھی 272
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 29 مارچ 1975ء مشاورت سے پہلے میرے پاس ان کا خط آیا ہے.ابھی اس کا جواب نہیں بھیجوایا.مشاورت سے فارغ ہو کر انشاء اللہ جواب دوں گا.ان کو میں نے یہی سمجھانا ہے کہ جس اخلاص اور جس جذ بہ اطاعت کے ماتحت عبد الوہاب بن آدم پاکستانیوں کے ماتحت کام کرتا رہا ہے، اسی جذبہ کے ماتحت تمہیں عبدالوہاب بن آدم کے ماتحت کام کرنا پڑے گا.ورنہ تو ہمارا یہ دعویٰ غلط بن جاتا ہے کہ ہم نے دنیا میں وحدت اسلامی قائم کرنی ہے اور نوع انسانی کو ایک خاندان بنا دینا ہے.یہ تو اسی طرح چلے گا.چنانچہ غیر ممالک سے بھی دوست یہاں آئیں گے.مدت سے میری یہ خواہش چلی آرہی ہے.اور شاید یہ اس شکل میں اب پوری ہو بھی نہ سکے.کیونکہ اس وقت تو ہمارے اپنے سکول تھے.غانا میں ہمارے ایک سکول میں ایک افریقن دوست ہیڈ ماسٹر تھے اور وہ بڑے مخلص نوجوان تھے.میں نے ان سے کہا کہ میرا تو دل کرتا ہے، کبھی تمہیں بلا کر ربوہ کے سکول کا ہیڈ ماسٹر بنادوں، پھر مزہ آئے گا.یعنی اسلام کی جو تعلیم احمدیت پھیلانا چاہتی ہے، اس کے مطابق تو قوم قوم اور رنگ ونسل میں کوئی فرق نہیں ہے.اب اگر اسے بلائیں گے تو شاید کچھ عرصہ کے لئے جامعہ احمدیہ کا پرنسپل لگانا پڑے گا.اسے پتہ لگنا چاہئے کہ ہم کوئی فرق نہیں کرتے.جلسہ سالانہ پر جو غیر ملکی وفد آنا شروع ہوئے ہیں، وہ اسی وجہ سے بڑا اچھا اثر قبول کرنے لگے ہیں اور بے حد جذباتی ہو جاتے ہیں.میرے خیال میں اتنے جذباتی تو شاید پاکستانی احمدی بھی نہیں ہوں گے، جتنے امریکہ کے احمدی ہو جاتے ہیں.جب وہ یہاں سے گئے تو ان کا یہ حال تھا کہ محمد ابراہیم صاحب جمونی ( سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ) نے مجھے لکھا کہ ان کے علاقے سے دو، تین امریکن جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے.جب وہ واپس گئے تو جمونی صاحب نے کہا کہ جماعت کو اپنے تاثرات بتائیں تا کہ ان کی تربیت ہو اور ان کے جذبات ابھریں.خیر انہوں نے اس غرض کے لئے ایک میٹنگ بلائی، جس میں پانچ، پانچ سو بلکہ ہزار، ہزار میل سے آکر احمدی جمع ہوئے.ان کے تاثرات سننے کے لئے کہ انہوں نے ربوہ میں کیا دیکھا اور کا محسوس کیا؟ انکی رپورٹ یہ تھی کہ ایک دوست تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو الفاظ کم تھے اور ہچکیاں زیادہ تھیں.بات بات پر روپڑتے تھے.منہ سے سارے الفاظ نہیں نکل سکتے تھے.اور مجھے بھی لکھا کہ انہیں تو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ اسلام اس قسم کی مساوات کا سبق دیتا ہے، جس کا نظارہ ربوہ میں دیکھا ہے.پس اب وقت آگیا ہے کہ اسلامی مساوات کا نمونہ قائم کیا جائے.میں نے کل بھی بتایا تھا کہ ہم پر کیا کل خداتعالی کا بہ افضل نازل ہورہا ہے.جو کچھ ہمیں بتایا گیا تھا، اس کے مطابق باتیں Unfold ہورہی ہیں.273
ارشادات فرمودہ 29 مارچ 1975ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم یعنی چھپی ہوئی باتیں ظاہر ہورہی ہیں.کسی جگہ جماعت کی کمزوری کی وجہ سے احمدیت کی ترقی میں روک پیدا نہیں ہوئی.آپ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اس توفیق کو آپ نے پایا.غرض اب وقت آگیا ہے کہ ساری دنیا میں اسلامی مساوات کا نمونہ قائم کیا جائے.بین الاقوامی مخالفت یہ ظاہر کر رہی ہے کہ بین الاقوامی فتوحات اسلام کو ملنے والی ہیں.کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی ، جماعت احمدیہ کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں.ایک زمانہ ایسا تھا کہ ایک کیتھولک بشپ یا کارڈینل کے متعلق لکھا ہے (میرے پاس ایک کتاب ہے، جس میں ایک سکالر نے اس قسم کی باتوں کو اکٹھا کیا ہوا ہے.) کہ اس نے دس لاکھ سے زیادہ پروٹسٹنٹ قتل کروائے.ان کی آپس میں اتنی دشمنی تھی.مگر اب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ اور دوسرے فرقے جماعت احمدیہ کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں.ان کا اکٹھا ہو جانا، یہ بتاتا ہے کہ غلبہ اسلام کا وقت آگیا ہے.اور ان بدلے ہوئے حالات میں پہلے سے بڑھ کر ذمہ داریاں جماعت احمدیہ پر عائد ہورہی ہیں.ان کو نبھانے کے لئے دہنی طور پر بھی تیار ہونا چاہیے اور عملا بھی تیار ہونا چاہیے.اور عملاً بھی کچھ کر کے دکھانا چاہیئے.اس ذکر پر کہ تحریک جدید جولٹریچر دیگر زبانوں میں شائع کرتی ہے، اس کی کاپیاں پاکستان کی احمد یہ لائبریریوں میں ضرور ہونی چاہئیں، حضور نے فرمایا:.ا بھی تو جو بڑا منصوبہ ہے، وہ صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ کے منصوبہ میں آیا ہے.یعنی ساری دنیا کی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کرواتے چلے جانا.جس وقت ہم احمدیت کی اگلی صدی میں داخل ہو رہے ہوں گے یا اس سے کچھ پہلے اس کی ابتداء ہو جائے گی.اسی واسطے میں نے کہا تھا، یہ خالی خوشی منانے کا دن نہیں ہے.بلکہ استقبال کا دن ہے.ہمیں عملاً اس سے پہلے کام شروع کرنا پڑے گا.تا کہ جب نئی صدی کا سورج اس دنیا پر طلوع کرے تو وہ اپنے آپ کو خالی ہاتھ نہ پائے.بلکہ اس وقت کی ضرورت کے مطابق ہر زبان میں قرآن کریم کے ترجمے اور دیگر اسلامی لٹریچر موجود ہوں.جن کے اوپر سورج کی شعاعیں بالواسطہ یا بلا واسطہ پڑ رہی ہوں.ساری روشنی شعاعوں کے نتیجہ میں ہے، چاہے کمروں کے اندر ہو.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 28 تا30 مارچ 1975ء) 274
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1975ء جماعت احمدیہ کی بین الاقوامی حیثیت نمایاں ہو کر دنیا میں نظر آرہی ہے >> ارشادات فرمود و 30 مارچ 1975ء بر موقع مجلس شوری دوسرے، جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے، جماعت احمدیہ کی بین الاقوامی حیثیت نمایاں ہو کر دنیا میں نظر آ رہی ہے.خصوصاً جو باہر کی جماعتیں ہیں، وہ بھی بڑی بڑی جماعتیں ہیں، مثلاً غانا کے متعلق میں بتا دیتا ہوں، جب میں 1970ء میں مغربی افریقہ کے دورے پر گیا تھا تو اس وقت وہاں کے احمدیوں کے اعداد و شمار کو سامنے رکھا گیا، جو کہ آٹھ سال پہلے 62 ء کی مردم شماری میں حکومت نے جاری کیسے تھے.اس وقت حکومت نے اعلان کیا تھا کہ غانا میں بالغ احمدیوں کی تعداد 1,75,000 ہے.اور اس وقت کل بالغ آبادی 21-22لاکھ تھی.میں نے ان سے کہا یہ تو اس وقت کی بات تھی ، اب کیا تبدیلی پیدا ہو چکی ہے؟ کچھ تو احمدی بچے بالغ ہو گئے اور بہت ساروں کو تبلیغ ہوئی اور وہ احمدیت کے طفیل اسلام میں داخل ہو گئے تو وہاں کے مقامی دوستوں کے مشورے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ غانا کے بالغ افراد کی آبادی 22-21 لاکھ سے 30لاکھ تک پہنچ گئی.اور احمدیوں کی کل بالغ آبادی 75,000, 1 سے 3لاکھ تک پہنچ گئی.اور میں نے اندازہ کیا کہ اس میں نابالغ بچوں کو شامل کیا جائے تو احمدی دس لاکھ بن جاتے ہیں.ان علاقوں میں خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ بچے بہت پیدا ہور ہے ہیں.گویا بچوں سمیت صرف غانا میں ہی احمدیوں کی تعداد دس لاکھ ہے.ابھی ایک ہفتہ ہوا ہے کہ مجھے ایک دوست کا خط آیا، بڑا پیارا خط ہے.انہوں نے دعا کے لئے لکھا ہے کہ میرے لیے بھی ، میرے بچوں کے لئے بھی دعا کریں.اور لکھا ہے کہ میرے بچوں کی تعداد 34 ہے.لیکن ہم نے اپنے اعداد و شمار میں بچوں کی تعداد کا اندازہ اس 34 کی تعداد پر نہیں لگایا.بلکہ اوسطاً 8-7 بچوں پر لگایا ہے.اسی طرح نائیجیریا ہے.حقیقت یہ ہے کہ نائیجیریا میں جماعت بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے.شمالی نائیجیریا، جو خالصتاً اسلامی علاقہ ہے.یعنی ہزار میں سے 999 مسلمان ہوں گے.ایک وقت میں وہاں کے لوگوں نے ہماری تبلیغ پر بڑی سختی سے دروازے بند کیے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیے کہ ایک صوبہ کے سب سے بڑے دینی رہنما ( جو دنیوی لحاظ سے بھی اثر ورسوخ کے مالک ہیں ) کا داماد ہمارے سکول کی ایک تقریب پر آیا.اس نے کچھ ایسی باتیں کی ، جن سے ہمارے دوستوں نے سمجھا کہ یہ تو اندر سے احمدی ہے.چنانچہ جب ان سے علیحدگی میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں تو بچپن 275
ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1975ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم سے احمدی ہوں.اور میرے جیسے چار، پانچ اور احمدی بھی ہیں، جو بڑے عہدوں پر فائز ہیں.لیکن ہم نے اپنی احمدیت کو چھپایا ہوا ہے.تو خسر ہماری مخالفت کر رہا تھا لیکن اس کا داماد اندر سے احمدی تھا اور احمد یوں کی مدد بھی کر رہا تھا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں مسجدیں بن گئی ہیں.جہاں احمدیوں کو گھنے نہیں دیتے تھے، وہاں نئی جماعتیں قائم ہورہی ہیں.پس ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہماری حیثیت بین الاقوامی ہے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غلبہ اسلام کے لئے خدا تعالیٰ نے مہدی معہود کو معبوث فرمایا ہے تو غلبہ اسلام سے ہماری مراد صرف پاکستان میں اسلامی شریعت کی حکمرانی نہیں.بلکہ اس سے مراد یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی، شمالی امریکہ میں بھی اور جنوبی امریکہ میں بھی، جزائر میں بھی، چین اور جاپان میں بھی اور روس میں بھی شریعت اسلامیہ کی حکمرانی مراد ہے.حضرت مہدی علیہ السلام کو یہ بشارتیں دی گئی ہیں.یہ خالی ہماری خوش فہمی نہیں ہے.جب ہم یہ کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو اپنا آلہ کار بنا کر، اس ذرہ نا چیز کو، جو جماعت احمدیہ کہلاتی ہے، روس جیسی عظیم دہر یہ حکومت میں، جوصرف اسلام کی ہی مخالف نہیں بلکہ مذہب کی بھی مخالف ہے، جس میں بہت بڑی آبادی اور وسیع ملک ہے، اس میں اسلام کو غالب کرے گا.تو یہ ہماری خوش فہمی نہیں.بلکہ جس پاک وجود یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کہ جس محبوب فرزند کو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں معبوث کیا، اس کو خدا تعالیٰ نے کشف کے رنگ میں دکھایا کہ روس میں ریت کے ذروں کی طرح احمد ی ہی احمدی ہو جائیں گے.اس وقت تو وہاں ریت کا ایک ذرہ بھی مسلمان نہیں.اور جو مسلمانوں کے علاقے تھے، وہاں مسلمانوں کی نسلوں کو بڑے آرام سے اور بڑی سہولت اور بڑی ہوشیاری سے دہر یہ بنا دیا گیا ہے.لیکن ہمارے خدا نے یہ فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے والے نے ہمیں یہ کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ان ممالک میں لہرائے گا.اور روس کی آبادیاں اس جھنڈے تلے آکر فخر محسوس کریں گی.اور اس سایہ میں فرحت اور ٹھنڈک محسوس کریں گی.پس اصل بات جو میں کہنا چاہتا ہوں، وہ ہمارے مبلغ کے لئے نصیحت ہے.جب ہماری جماعت کا یہ مقام ہے کہ گویا ساری دنیا سے ہمارا تعلق ہے تو جو مثلاً غانا کا مبلغ ہے، اگر غانا کا ایک شاہد (جامعہ کا پڑھا ہوا) انگلستان میں رہتے ہوئے یا اپنے ملک میں رہتے ہوئے، پاکستانی مبلغ انچارچ کی انتہائی اخلاص کے ساتھ اطاعت کرنے والا ہے تو اگر اس کو انچارج بنا دیا جائے تو ہمارے ہر مبلغ کو نہایت اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت کرنی پڑے گی.ورنہ تمہارا دعوئی کچھ اور ہوگا اور تمہارا عمل کچھ اور ہوگا.میں جب 70ء میں غانا گیا تو وہاں کے چند آدمیوں کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا کہ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی مبلغ ہمارے سروں پر سوار ہونے کے لئے آجاتے ہیں.A Ghanian for Ghana کے طور 276
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1975ء پر غانا کا باشندہ، غانا کا مبلغ انچارچ ہونا چاہیے.میں نے ان کو بلایا، میں نے کہا، تم یہ کیا بات کر رہے ہو ؟ جماعت احمدیہ جس مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہے، اس کے پیش نظر تو میں یہ سوچ رہا ہوں کہ A.A Ghanian for Americal Ghanian for The Great Britain یعنی برطانیہ اور امریکہ میں تمہیں مبلغ انچارچ لگا دوں.روس میں تمہارا آدمی جا کر اسلام کی تبلیغ کرے اور وہاں بنی نوع کی خدمت کرے.اس لئے جب ہمارا مقصد اتنا بلند ہے تو تم نے یہ کیا کہنا شروع کر دیا ہے.میں نے عبد الوہاب بن آدم کا نام لے کر کہا، میں اس کو غیر ممالک میں بھجوانا چاہتا ہوں.چنانچہ میں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اسے میں نے دو، تین سال تک انگلستان بھجوادیا.پھر نا نا میں ہمارے مبلغ انچارج عطاء اللہ کلیم صاحب بیمار ہو گئے.اور اب وہ مرکز میں تشریف لے آئے ہیں تو انگلستان سے عبدالوہاب بن آدم کو وہاں بھیجوا دیا اور انچارچ مبلغ بنا دیا.اب مجھے اپنے پاکستانی مبلغ کے خط آرہے ہیں اور یوں لگتا ہے ، وہ بہت گھبرا رہا ہے کہ غائیں کے ماتحت ہم ٹھیک طرح کیسے کام کریں گے ؟ تم کیسے کام نہیں کرو گے ! اگر جماعت احمدیہ کے ایک فرد ہو، اگر تم جماعت احمدیہ کے ایک عالم ہو ، اگر تم وہاں جماعت کے ایک نمائندہ ہو تو جس طرح تمہارا یہ حق تھا اور غانین شاہد کا یہ حق تھا کہ بطور امیر کے وہ تمہاری اطاعت کرے، اسی طرح تمہارا یہ حق ہے اور اس کا یہ حق ہے کہ تم اس کی اطاعت اسی بشاشت کے ساتھ اور اسی جذبہ اخلاص کے ساتھ کرو.ورنہ تو تمہارا یہ دعوئی ہی غلط ٹھہرتا ہے کہ ہم بین الاقوامی حیثیت کی ایک جماعت ہیں.اب یہاں سے اور مبلغین جارہے ہیں.میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے، ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ شیرنی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے.مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ وہ شیر کے بچے شیر نہیں ہیں.وہ اپنے مقام کے لحاظ سے حفاظت کرتی ہے.پس ایک وقت تھا کہ جب ہماری توجہ مرکز کی بنیاد مضبوط کرنے پر تھی.ہم نے غیر ممالک کی احمدی جماعتوں کی اس طرح حفاظت کی، جس طرح شیرنی اپنے بچوں کی کرتی ہے.تا کہ وہ غیر تربیت یافتہ نہ ہو جائیں اور بداثرات کی وجہ سے ان میں کوئی کمزوری پیدا نہ ہو جائے.لیکن جس طرح شیرنی کا بچہ جب جوان ہو جاتا ہے تو پھر اس کو اپنی ماں کی حفاظت کی ضرورت نہیں رہتی، اس طرح انسان آزاد نہیں ہوتا.کیونکہ انسان اور شیر میں یہ فرق ہے کہ شیر کا بچہ تو بالکل آزاد ہو جاتا ہے لیکن انسان اپنے خدا اور خدا کے قائم کردہ نظام سے آزاد نہیں ہوا کرتا.اب ہمارے مبلغین نظام خلافت کے نیچے آزادنہ طور پر اپنے ملک میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی جا کر بھی انچارچ مبلغ بنیں گے.خدمت دین کے کام کریں گے.اور خلافت کی برکات سے بھی 277
ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم - حصہ لیں گے.اور خلافت کی نگرانی کو بھی قبول کریں گے.اور خلافت کی دعائیں بھی لینے والے ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو جذب کرنے والے ہوں گے.ان کے دلوں میں بھی اسی طرح جذبہ پیدا ہوگا ، جس طرح ہمارے دلوں میں ہے.گویا اس زمانہ میں تمام بنی نوع انسان کو ایک امت واحدہ بنانا ہے، اس لئے ہمیں گھل مل کر رہنا چاہئے.اور ہر پہلے عالم ، قطب اور ولی نے یہی لکھا ہے.ابھی پچھلے دنوں میں ایران سے چار کتابیں آئی ہیں.میں نے ان پر سرسری نگال ڈالی تو ان میں مجھے ایک پرانا حوالہ نظر آ گیا.وہ یہ ہے کہ مہدی کے زمانہ میں تمام انسانوں کو ایک کر دیا جائے گا.گو ہمیں اس کا پہلے سے علم ہے.لیکن جب اس قسم کی چیزیں نظر آتی ہیں تو ہمارے علم میں اس لحاظ سے اضافہ ہو جاتا ہے کہ پہلے لوگوں نے بھی یہی لکھا ہے کہ مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں بنی نوع انسان کوملت واحدہ بنا دیا جائے گا، اسے ایک خاندان بنادیا جائے گا.اگر ایک خاندان بن جانا ہے تو پھر ہم ایک پاکستانی مبلغ اور ایک غانین مبلغ کے دوران فرق نہیں کر سکتے.سب ایک ہیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ سب پر ایک جیسا پڑ رہا ہے.یہ تو نصیحت ہے، اپنے شاہدین کو، وہ اپنی ذہنیتوں کو بدلیں“.اس وقت تک قریباً 86 سال گزر گئے ہیں.یعنی جماعت احمدیہ کو مہدی مہود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہنے کے بعد اسلام کی خدمت میں قربانیاں کرنے پر 86 سال گزر چکے ہیں.وہ لوگ ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں احمدی ہوئے اور آپ کی صحبت میں رہے اور جنہوں نے آپ کی تربیت حاصل کی ، ان میں سے اکثر تو فوت ہو چکے ہیں.انہوں نے ساری قربانیاں دیں لیکن ان کو اس دنیا میں پھل نہیں ملا.یہ کہنا غلط ہو گا کہ ان کو پھل نہیں ملا.ان کو اس کا پھل یہ ثمرہ یا نتیجہ یا ثواب تو ملا.اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی جنتیں تو ملیں لیکن اس دنیا میں انہوں نے اپنی قربانیوں کا نتیجہ نہیں دیکھا.پھر اور نسلیس پیدا ہوئیں.اس وقت سے اس وقت تک چار، پانچ نسلیں پیدا ہو چکی ہیں.اب ایک نوجوان نسل ہمارے سامنے ہے، یعنی اطفال کی.اور اس سے ذرہ بڑی خدام کے نچلے حصہ کی، جن کی تربیت کرنی بڑی ضروری ہے.میں نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ابھی تین صدیاں پوری نہیں ہوں گی کہ غلبہ اسلام کی جو بشارتیں میں دے رہا ہوں ، وہ معرض وجود میں آجائیں گی.تین صدیاں پوری نہیں ہوں گی، یہ نہیں کہا کہ تین صدیاں گزرنے کے بعد یہ ہوگا.اس کا مطلب ہے کہ دوسری صدی میں بھی غلبہ اسلام کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں.اور جو میں نے غور کیا ہے اور میں نے جو دعائیں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جس طرف میری توجہ پھری ہے، جس کا میں نے 73ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی صد سالہ جو بلی منصوبے کے طور پر اعلان کیا تھا، وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک پہلی صدی ، تیاری کی صدی ہے اور دوسری 278
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1975ء صدی، غلبہ اسلام کی صدی ہے.پس غلبہ اسلام کی صدی ہمارے سامنے ہے.ایسے وقت میں جب کہ آپ کے سامنے چودہ قدم آگے بڑھنا ہو اور ان پھلوں کو تم نے دنیا میں حاصل کر لینا ہو، جو تمہارے لیے اس دنیا میں مقدر ہے تو کیا اسے وقت میں جماعت احمد یہ کمزوری دکھا جائے گی ؟ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمد یہ کمزوری نہیں دکھائے گی.لیکن احباب جماعت اپنے ذہنوں میں اس بات کو یا درکھیں کہ وہ لوگ ، جن کے کان میں یہ آواز پڑتی تھی کہ تین صدیاں ابھی پوری نہیں ہوں گی کہ جماعت احمد یہ جس مقصد کے لئے قائم کی گئی ہے، وہ اسے مل جائے گا.ان میں سے کوئی تمیں سال کی عمر کا تھا اور کوئی چالیس سال کا تھا، ان کو تو یہ پتہ تھا کہ تین صدیاں ابھی پوری نہیں ہوں گی کہ غلبہ اسلام ہوگا.لیکن یہ احساس بھی تھا کہ ہمیں تو یہ زمانہ اس دنیا میں میسر نہیں آئے گا.لیکن اس احساس کے باوجود قربانیوں پر قربانیاں دیتے جا رہے تھے.اس احساس کے باوجود وہ اپنی قربانیوں کے معیار کو دن بدن بلند کر رہے تھے.میں نے پہلے مثال دی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چند روپوں کی کی ضرورت تھی، کنواں لگا نا تھا.ہمارے نانا جان ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بڑے پیسے کمانے والے تھے.ان کے متعلق آر نے خود لکھ دیا کہ آپ کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے ، میں نے خود دو آنے چندہ لکھ دیا ہے.یہ وہ لوگ تھے، جن کا اس زمانے میں دو آنے چندہ دینا، بڑا معرکہ تھا.لیکن جنہوں نے پھر اپنی ساری جائیداد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن اور بعثت کی غرض کے لئے قربان کر دی اور خدا تعالیٰ کے حضور اپنا سب مال پیش کر دیا، اپنی جائیدادیں بھی ، اپنی زندگیاں بھی ، اپنے اوقات بھی اور اپنے آرام بھی حتی کہ دنیا کی امیدیں بھی ، سب قربان کر دیں.ان کو پتہ تھا اوران کو یقین تھا کہ جوشخص ہمیں یہ کہہ رہا ہے کہ ابھی تین صدیاں پوری نہیں ہوں گی ، اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ شاید ہماری زندگیوں میں یہ کام نہیں ہو گا.لیکن خدا کا وعدہ ہے، وہ تو ضرور پورا ہوگا.جو چیز اس دنیا میں ہم حاصل نہیں کر سکتے ، اس چیز سے ہم اپنی نسلوں کو کیوں محروم کریں؟ قربانی کرنے والا تو اپنے ثمرہ کو پالیتا ہے.لیکن اس دنیا میں اس کا جو مرہ ملنا ہے، وہ یہ خوشی کا دن ہے کہ ساری دنیا اسلام قبول کر چکی اور توحید باری کا جھنڈا ہر دل میں گڑ چکا اور ہر گھر سے لا اله الا الله محمد رسول الله کی آواز آرہی ہے.کتنا خوش کن تصور ہے.اس غلبہ کی ابتداء اب چودہ سو سال نہیں بلکہ صرف چودہ سال کے بعد شروع ہورہی ہے.کسی شاعر نے تو کہا تھا.279
ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند گئے دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ لیکن الہی سلسلوں کی کمند ٹوٹا نہیں کرتی.چونکہ ان کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہوا کرتا.ہماری سرشت میں ناکامی کا ضمیر نہیں ہے.اور جیسا کہ میں نے انہی دنوں میں بھی کہا تھا کہ پچھلے 86 سال کی زندگی میں کسی جماعت یا کسی نسل نے ایسی کمزوری نہیں دکھائی کہ چند نسلوں کے لئے واقعات پیچھے ہو گئے ہوں.جو واقعات رونما ہونے والے تھے اور جس طرح ہمیں تفصیل کے ساتھ بتایا تھا، یعنی بڑی عظیم خبریں دی گئی تھیں، بالکل ان خدائی بشارتوں کے مطابق، یعنی وہ خدائی بشارتیں، جو ایثار اور قربانی کے ساتھ مشروط ہیں ، 86 سال میں وہ واقعات unfold ہو رہے ہیں.جس طرح کہ گلاب کی پتیاں کھلتی ہیں اور شکل بدل جاتی ہے.انذار مشروط ہوتا ہے، تو بہ اور استغفار اور توبہ اور صدقہ کے ساتھ.اگر انسان خدا تعالیٰ کے حضور صدقہ دے اور خدا تعالیٰ اس صدقہ کو قبول کرے تو انذارٹل جاتا ہے.لیکن بشارت بھی مل جایا کرتی ہے، کمزوری دکھانے کے نتیجہ میں.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی امت کا واقعہ رونما ہوا.تو ہماری جماعت کی کسی نسل نے بھی اپنی ذمہ داریوں میں کوتا ہی نہیں کی.افراد کوتاہ تھے، غیر تربیت یافتہ اور مزید تربیت کے محتاج تھے.جیسا کہ الہی سلسلوں میں ہوتا ہے.کچھ منافق بھی تھے.لیکن دنیا کی تاریخ نے ( میں جماعت کی تاریخ کا نہیں کہہ رہا ) یہ مہر لگادی ہے کہ جماعت احمدیہ کی کسی نسل نے بھی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتا ہی نہیں کی.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جو وعدے تھے، وہ اپنے وقت پر پورے ہوتے چلے آرہے ہیں.بعض ایسی زبر دست صداقتیں ہیں، جن میں پھیلاؤ ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو الها ما بتایا گیا کہ د میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.میں سمجھتا ہوں کہ یہ الہام بہت پہلے کا ہے.شاید آپ نے ابھی بیعت نہیں لی تھی ، جب آپ پر یہ الہام نازل ہوا.آپ کے اپنے گھر میں کوئی آواز سننے والا نہیں تھا.لیکن خدا تعالیٰ آپ سے کہہ رہا ہے کہ میں تیری آواز کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اور اس نے پہنچایا.دنیا کے سعید دلوں نے اس کو قبول کیا اور غلبہ اسلام کی مہم میں مضبوطی پیدا کی.کل تحریک کا جو بجٹ مشاورت کے سامنے پیش ہوا، وہ ایک کروڑ ، انتالیس لاکھ کا ہے.جس میں 20لاکھ کے قریب پاکستان کا حصہ ہے اور ایک کروڑ ، انیس لاکھ روپے بیرون پاکستان کا چندہ ہے.یہ اس آدمی کی قبولیت کی بین دلیل ہے ، جس کو گھر والے بھی نہیں پہچان رہے تھے.280
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1975ء میں نے پہلے بھی کئی بار یہ واقعہ بتایا ہے کہ گو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اپنے اثرات کے لحاظ سے بہت اہم ہے.جب میں 67ء میں یورپ کے دورے پر گیا تو ایک دن گیارہ بجے صبح بغیر وقت مقرر کئے، BBC کا نمائندہ آگیا کہ انٹرویو لینا ہے.میں نے جماعت کے دوستوں کو وقت دیا ہوا تھا.ایک دوست مجھ سے ملاقات کر رہے تھے کہ امام رفیق آئے کہ BBC کا نمائندہ انٹرویو لینے کے لئے آیا ہے.میں نے کہا تم اس سے یہ تو پوچھو کہ تمہارے ملک کا یہ دستور ہے کہ انٹرویو لینے سے پہلے وقت مقرر کرواتے ہو، مگر تم ویسے ہی آگئے ہو.میں تو مصروف ہوں.اس لئے میں نے امام رفیق صاحب سے کہا، آپ چونکہ اسلامک ورلڈ مشن کے سیکرٹری بھی ہیں، آپ اس کو کسی دوسرے وقت میں آنے کا وقت دیں.وہ ابھی باہر ہی نکلے کہ مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسلام کی آواز کو دنیا میں پھیلانے کا موقع پیدا کیا ہے، میں اس کو ضائع کیوں کروں.جو دوست مجھ سے مل رہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ امام رفیق صاحب کو واپس بلا لو.ان سے میں نے کہا کہ وہ تھوڑا سا انتظار کریں، ان صاحب سے مل کر ان کو انٹرویو دیتا ہوں.خیر وہ آگئے اور کہنے لگے، آج شام کو ایک ہفتہ وار پروگرام میں آپ کا یہ انٹرویو آ جائے گا.چنانچہ اسلام کی آواز BBC کے ذریعے ساری دنیا میں نشر ہو گئی.ہمیں نہیں پتہ کہ کہیں سے کوئی مطالبہ ہوا اور اگلے ہفتہ کو یہ انٹرویو پھر نشر کیا گیا.اور پھر کسی کی طرف سے یہ مطالبہ ہوا اور تیسرے ہفتہ کو بھی یہ پروگرام نشر ہوا.گویا میرا انٹرویو تین ہفتہ تک BBC اپنے ہفتہ وار پروگرام میں نشر کرتا رہا.تیسرے ہفتہ کا ہمیں اس طرح پتہ لگا کہ ہمارے ایک احمدی ٹیچر نذیر احمد علی صاحب کے بیٹے جو سیرالیون کے علاقے جورو میں ایک احمدی سیکنڈری سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں، انہوں نے مجھے لکھا کہ مجھے اور میری بیوی کو BBC کا یہ ہفتہ وار پروگرام سننے کی عادت پڑی ہوئی تھی.اور ہم باتیں کر رہے تھے کہ خط آئے ہیں اور الفضل آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یورپ کا دورہ بڑا بابرکت کیا ہے.اور اس پر خدا کی حمد اور شکر ادا کر رہے تھے کہ وقت ہو گیا اور ہم نے عادتا ریڈیو کھولا.تو عین اس وقت یہ آواز آرہی تھی کہ ہیڈ آف دی احمد یہ کمیونٹی کا انٹرویو براڈ کاسٹ ہو رہا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے باتیں چھوڑ کر انٹرویوسنا.اور پھر انہوں نے لکھا کہ میں اور میری بیوی دونوں آبدیدہ ہو گئے.اور ہم نے کہا کہ جس شخص کو گھر والے تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے، اس کو خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.اور آج بی بی سی کی صوتی لہریں ساری دنیا کا چکر لگارہی ہیں اور مہدی کی آواز اور اس کا پیغام کہ اسلام کی طرف آؤ اور اپنے رب کی طرف لوٹو ور نہ ہلاک ہو جاؤ گے.یہ ساری دنیا میں نشر ہور ہا ہے.اگر 281
ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1975ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم بی بی یہ ہیں ہم بی بی سی والوں کو کہتے کہ جی میں منٹ دو، جیسا کہ کئی دفعہ جماعت نے کہا تو یہ جواب ملا کہ ہم تو مذہبی انٹر ویونشر نہیں کرتے.سیلون ( سری لنکا) Voiceof America کاریڈیو ٹیشن ہے.دو، چار سال ہوئے، مجھے خیال آیا کہ ان کو لکھا جائے کہ وقت دیں.ہم ان کو پیسے دیں گے.اور میرا خیال تھا کہ میں ایک پیغام ریکارڈ کر کے بھیج دوں گا، جو ساری دنیا میں نشر ہو جائے گا.میں اپنے پیغام میں ان کو سلام کہوں گا اور دعائیں دوں گا ، دنیا میں احمدی ہور ہے ہوں گے، میں ان کو وقت سے پہلے بتاؤں گا.مگر انہوں نے جواب دیا کہ یہ مذہبی نوعیت کا پیغام ہے، ہم تو اس کو نشر نہیں کر سکتے.اور وہ نشر بھی کرتے تو دس پندرہ منٹ کے غالبا دو، چار لاکھ مانگتے.اور وہ بھی ایک دفعہ براڈ کاسٹ کرنے کے.مگر بی بی سی کے ذریعے سے تین دفعہ آواز نشر ہوئی اور مفت ہوئی.اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جس سے ساری دنیا میں اسلام کی آواز پہنچ گئی.اب جو یہاں ہوا، یعنی پچھلے سال، جو ہم پر گزری، اس کے بڑے روشن پہلو بھی ہیں.ہم نے خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہنستے کھلتے اور ان لوگوں کے لئے دعائیں کرتے ، ایک وقت گزرا.اور اب بھی دعا ئیں کر رہیں ہیں اور پھر بھی کرتے رہیں گئے.ایک دوست پاکستان سے چاپان گئے اور دو، تین سال وہاں رہے.انہوں نے واپس آ کے مجھے خط میں لکھا کہ وہاں ہر نیوز بلیٹن میں، جو دن میں چار، پانچ دفعہ نکلتی ہے، احمدیت کا ذکر ہوتا تھا.ہر ٹی وی بلیٹن میں احمدیت کا ذکر ہوتا تھا.ہر اخبار میں احمدیت کا ذکر ہوتا تھا.انہیں قد آدم پوسٹر لگانے کی عادت ہے، جو یہاں نہیں ہے، چنانچہ ہر پوسٹر میں بھی جماعت کا ذکر ہوتا تھا.غرض آپ کو مجھ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کریم اور آپ کے محبوب مہدی نے بلایا ہے.یادرکھیں ، اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل ہوتے رہیں گے.اس وقت بھی دنیا میں ایک انقلاب بپا ہورہا ہے.یہ ہمارے لئے کوئی فخر کا مقام نہیں.لیکن خدا تعالیٰ کا ہاتھ کچھ ظاہر کر رہا ہے.اس کی انگلی انگلی صدی کی طرف اٹھتی ہوئی ہمیں نظر آ رہی ہے.اور پھل تیار ہے، پکا ہوا ہے.بے صبرے ہو کر، بے راہ ہو کر، عاجزانہ طریقوں کو چھوڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جس باغ کی ٹہنیاں اس پھل سے لدی ہوئی ہیں، اس سے خود کو محروم نہ کر لینا.بشاشت سے آگے بڑھتے ہوئے ، چودہ قدم تو ہیں.انسانی زندگی میں تو شاید ایک سال ایک قدم بھی شمار نہ ہو، لیکن ایک سال ایک قدم سمجھتے ہوئے، چودہ قدم کے فاصلے پر پھلوں سے لدی ہوئی ٹہنیاں آپ کا انتظار کر رہی ہیں.اس لئے احباب قربانیاں دیتے چلے جائیں اور جن کو اللہ تعالی زندگی دے اور ہم سب کو خدا تعالی اتنی زندگی دے کہ اس دنیا میں اس عظیم واقعہ کو ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکیں کہ دنیا کا رخ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور توحید کی طرف ہو چکا ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 28 تا 30 مارچ 1975ء) 282
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم وو اقتباس از خطبہ نکاح فرموده یکم اپریل 1976ء واقفین زندگی کی جو بیویاں ہیں ، وہ بھی واقفات ہی ہیں خطبہ نکاح فرمودہ یکم اپریل 1976ء میں بھی ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور جماعت کو بھی ایسے خاندانوں کے واقفین بچوں کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت ڈالے، ان کے اخلاص میں برکت ڈالے، ان کو ثبات قدم اور استقامت عطا کرے، ان کے وجود کو دنیا کے لئے بابرکت وجود بنائے اور ان کے کام اور ان کے اعمال کو ایسا مقبول بنائے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بھی جزا حاصل کرنے والے ہوں اور اسی کے نتیجہ میں وہ خدا کے بندوں کی دعائیں بھی لینے والے ہوں“.پس جیسا کہ میں نے بتایا کہ جو رشتے خصوصاً ان دنوں ہور ہے ہیں، (ویسے تو ہمیشہ ہی یہ حال ہے.ان کی اہمیت اس جہت سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جماعت ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے.اس لئے جو دلہا ہیں، ان پر بھی بڑی ذمہ داریاں ہیں اور جو بہنیں ہیں، ان پر بھی بڑی ذمہ داریاں ہیں.خصوصاً واقفین زندگی کی جو بیویاں ہیں، وہ بھی واقفات ہی ہیں، اگر وہ اپنے میاں کے ساتھ تعاون کرنے والی اور ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے والی ہوں.اگر ہماری یہ بچیاں اپنے گھروں کو جنت کا نمونہ بنانا چاہتی ہیں تو انہیں ایک ہی چیز کی ضرورت ہے.اور وہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کبھی بے وفائی نہ کریں.بلکہ ایک وفادار امۃ ( خدا کی بندی) کی شکل میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے نیکی کریں.نیکی کا ماحول پیدا کریں اور نیکیوں میں اپنے خاوندوں کے ساتھ تعاون کرنے والی ہوں.خدا کرے، ہمارے لئے ہمیشہ ہی ایسے سامان میسر آتے رہیں تا کہ ہم راہ راست صراط مستقیم پر چلنے والے ہوں، اس سے کبھی بھٹکنے والے نہ بنیں“.مطبوعه روزنامه الفضل 13 جولائی 1976 ء) 283
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اپریل 1976ء خدا کہتا ہے کہ جتنا تمہاری طاقت میں ہے، وہ دے دو اور باقی مجھ پر توکل رکھو خطبہ جمعہ فرمودہ 02 اپریل 1976ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ رعد کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ (الرعد: 23) سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ الشَّيْئَةَ أُولَبِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ اس کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے سورۃ رعد کی اس آیت میں بعض بنیادی تعلیمات کا ذکر فرمایا ہے.ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ مومن اپنے رب کی رضا کی طلب میں ثبات قدم دکھاتے ہیں اور ان میں استقامت پائی جاتی ہے.اور دوسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور الصلوۃ کو ادا کرتے ہیں اور اسے قائم رکھتے ہیں.اور تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ بھی عطا کیا ہے، اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں.سر او علانیہ یعنی اس رنگ میں بھی خرچ کرتے ہیں کہ ان میں ریاء کا کوئی شائبہ پیدا نہ ہو.اور اس طور پر بھی کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ اور اسوہ نہیں.اور جب بدی کے ساتھ ان کا مقابلہ ہو تو وہ بدی کے مقابلہ میں بدی نہیں کرتے بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں ، لهم عقبی الدار کہ جن کا انجام بہترین ہوتا ہے.اگلی آیات میں اس دار “ کا ذکر ہے اور ان جنات کو بیان کیا گیا ہے، جن کا کہ وعدہ دیا گیا ہے.انسان اللہ تعالیٰ سے جو کچھ حاصل کرتا ہے ، وہ جب اس کی راہ میں اسے خرچ کرتا ہے تو اس میں اس کے اوقات بھی آجاتے ہیں، اس میں اس کی ذہنی صلاحیتیں بھی آجاتی ہیں، اس میں اس کی جسمانی قوتیں بھی آجاتی ہیں ، اس میں اس کی اخلاقی طاقتیں بھی آجاتی ہیں اور اس میں اس کی روحانی استعدادیں بھی آجاتی ہیں.جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، اسے مومن اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.اور ثبات قدم دکھاتے ہیں اور آگے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.اور جب ان کے اعمال، جب ان کی کوششیں، جب ان کی جدوجہد مقبول ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو جاتا ہے تو انہیں زیادہ سے زیادہ انعام حاصل ہوتے ہیں.285
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اپریل 1976ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم جو کچھ مومن خرچ کرتے ہیں، اس میں ان کے اموال بھی شامل ہیں.خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال کا خرچ ایک تو یہ ہے کہ کسی ایسی راہ میں یا کسی ایسے طریق پر یا کسی ایسی جگہ مال کو خرچ نہ کیا جائے ، جو خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو.مثلاً اسراف نہ ہو.یا مثلاً ایسی بداخلاقیوں پر یا عیاشیوں پر یا دنیا کی معیوب مسرتوں پر جود نیا خرچ کرتی ہے، اس قسم کا خرچ نہ ہو.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں نہیں ہے.اور یہاں پر اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا کے حصول کے لئے ہی ساری باتوں کا ذکر ہے.اسی واسطے اس آیت کو شروع ہی خدا تعالیٰ کی رضا کی طلب میں ثبات قدم دکھانے کے مضمون سے کیا گیا ہے.پس ہر وہ جگہ جہاں خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کا عطا کردہ مال یا دولت خرچ کی جاتی ہے، اس سے ثواب حاصل ہوتا ہے.مثلاَولِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ پر عمل کرتے ہوئے اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے مناسب اور متوازن اور صحت مند غذا کھانا خدا تعالیٰ سے ثواب کو حاصل کرنا ہے.بشرطیکہ نسیت یہ ہو کہ ہم خدا کی خاطر اس کی رضا کی طلب میں اور اس کی اطاعت میں خرچ کر رہے ہیں.کیونکہ حکم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ اپنے نفس کے حقوق کو بھی اسی طرح ادا کرنا ہے، جس طرح کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ غیروں کے حقوق کو ادا کرنا ہے.اگر ایک شخص اسراف اور ریا کی نیت سے نہیں بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ اپنی طاقتوں کو ضائع اور کمزور نہ کرو کیونکہ یہ بھی خدا کی ناشکری ہے.پس اگر وہ اس نیست سے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو، موسم کے لحاظ سے اپنی ضرورت پوری کرتے ہوئے کپڑے پہنتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا ہے.اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے انہیں متوازن غذا کھلاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حکم کی پیروی اس کی نیت ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا کو حاصل کرتا ہے.اگر کوئی شخص خدا کے حکم کے مطابق اپنے ہمسائے کا خیال رکھتا ہے اور اس اطاعت حکم میں اسے اپنے مال کا کچھ حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے یا اپنی طاقت کا کچھ حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے، مثلاً ہمسائے کو ضرورت ہے، اس کے لئے دوالا نے والا کوئی نہیں، اگر وہ دوا کے لئے باہر جاتا ہے تو اس وقت اس نے اپنی طاقت کا ایک حصہ اپنے ہمسائے کے لئے خرچ کیا اور اس سے بھی ثواب حاصل ہوتا ہے.اگر کوئی ں زمیندار ہے تو وہ اپنے بیلوں کے لئے اپنا وقت خرچ کرتا ہے، وقت پر ان کے لئے چارہ کاٹ کر لاتا ہے اور ان کو دیتا ہے اور اس کی نیت یہ ہے کہ یہ خدا کی مخلوق ہے، یہ بھوکی نہیں رہنی چاہیے اور اس کی نیت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ ایک نعمت عطا کی ہے، اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے مجھے ان کی صحت کا اور ان کے طاقتور رکھنے کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے تو اللہ تعالیٰ اسے ثواب دیتا 286
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 02 اپریل 1976ء ہے.غرض مال اور دولت کے خرچ کی ہزار ہا ایسی راہیں ہیں.اپنے پہ خرچ کی ، اپنوں پہ خرچ کی اور اپنے ہمسائیوں پہ خرچ کرنے کی راہیں ہیں.اپنی قوم پر خرچ کرنے کی راہیں ہیں اور بنی نوع انسان پر خرچ کرنے کی راہیں ہیں کہ جو ثواب پر منتج ہوتی ہیں.خرچ کی کچھ راہیں متعین کر دی جاتی ہیں، کبھی عارضی طور پر اور کبھی ایک لمبے عرصہ کے لئے.مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت تھی کہ جب دشمن سے خطرہ پیدا ہوتا تو آپ اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لئے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرتے تو آپ اعلان کرتے کہ اپنی جانیں پیش کرو، اپنے وقت پیش کرو، اپنے مال پیش کرو.اس وقت جو شخص اپنے دائرہ استعداد روحانی میں جتنادے سکتا تھا، وہ آکر اتنا پیش کر دیتا تھا.یا اپنے دائرہ استطاعت مال میں جتنا دے سکتا تھا، اس دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ، وہ اتنا پیش کر دیتا تھا.اور خدا تعالی کی نگاہ یہ نہیں دیکھتی تھی کہ کسی نے ایک پیسہ دیا ہے اور کسی نے زیادہ دیا ہے.جس کے پاس زیادہ تھا، اس نے زیادہ دے دیا.جس کے پاس کم تھا، اس نے کم دے دیا.اموال کے خرچ کا ایک وقتی اعلان ہوتا تھا اور امت مسلمہ کے مخلصین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اس وقتی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر اپنے اموال پیش کر دیتے تھے.خدا تعالیٰ ایسے اوقات میں ان کی ان قربانیوں کا جو نتیجہ نکالتا تھا، اس سے ہم یہ استدلال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے خدا کے حضور اپنی طاقت کے مطابق پیش کیا.اور کہا کہ اے ہمارے رب ! جتنی طاقت تھی ، ہم نے دے دیا.لیکن دشمن کے مقابلہ کے لئے جتنے کی ضرورت تھی، اتنا ہم نہیں دے سکے.اس واسطے جتنی کمی رہ گئی ہے، وہ پوری کر دے.نہ اس قسم کی تلوار میں ان کے ہاتھوں میں تھیں، جس قسم کی تلواریں لے کر دشمن حملہ آور ہوتا تھا.نہ اس قسم کے سامان ان کے پاس تھے.لیکن جو نتیجہ نکلا، اس سے ہم یہ مجھتے ہیں کہ اپنی طاقت کے مطابق جو پیش کی گئی تھی، اللہ تعالی نے اس کو قبول کر کے اپنی طرف سے برکت اور رحمت اور فضل کی شکل میں اتنا بیچ میں ڈالا کہ کوئی خامی باقی نہیں رہی.ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ سلوک کیا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ، پھر خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی اور پھر بعد میں بھی جہاں اسلام کے احکام کی پابندی میں دشمنوں کی یلغار کا مقابلہ کیا گیا اور دشمن کے مقابلہ میں طاقت کم ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا کہ دشمن کا زور ٹوٹ گیا.لیکن جب تک زور نہیں ٹوٹا، اس وقت تک ان کی بڑی طاقت تھی.کسری ایک بہت بڑی طاقت تھی، ساری دنیا کے خزانے ان کے پاس تھے.پھر قیصر ایک بہت بڑی طاقت تھی، جس سے مقابلہ ہوا.پھر سپین کی طرف سے مسلمان داخل ہوئے اور انہوں نے اپنی حقیر قربانیاں پیش کر دیں.( میں اس وقت تاریخ کے اس حصہ کی طرف نہیں جارہا کہ چین پر 287
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اپریل 1976ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد پنجم حملہ کی کیا ضرورت تھی؟ اس کی ضرورت تھی اور تاریخ نے اسے ریکارڈ کیا ہے.وہ بھی دفاعی جنگیں ہی تھیں.اور دشمن کا زور ٹوٹ گیا.اور خدا تعالیٰ نے انہیں بہت کچھ دیا.انہوں نے خدا کے حضور ابتدا میں جو کچھ پیش کیا تھا، وہ تو بالکل حقیر تھا.لیکن اس کے مقابل میں ان کو اتنا ما تھا کہ وہ اس کو نہ سنبھال سکتے تھے، نہ خرچ کر سکتے تھے.خرچ اس لئے نہیں کر سکتے تھے کہ ان پر پابندیاں تھیں.مثلاً مردوں نے سونا نہیں پہنتا اور ہیرے جواہرات کا استعمال نہیں کرنا.مسلمانوں سے لوٹا ہوا مال اب تک چین میں ایک جگہ اکٹھا ہے.جب ہم قرطبہ کی مسجد دیکھنے گئے تو ان کا سالانہ میلہ تھا، انہوں نے مسلمانوں سے لوٹے ہوئے ہیرے، جواہرات وغیرہ ایک بہت بڑے تابوت میں رکھے ہوئے ہیں اور سال میں ایک دن وہ اسے باہر نکال کر سارے شہر میں پھراتے ہیں.چین کے رہنے والے ایک پروفیسر مجھے کہنے لگے کہ اس صندوق میں اڑ ہائی ٹن ہیرے، جواہرات ہیں.وہ تابوت کی طرز کا ایک بہت بڑا صندوق تھا اور پہیوں والی گاڑی کے اوپر رکھ کر اسے شہر میں پھر اتے تھے.غرض اس قدر ہیرے، جواہرات تھے.میں نے بھی وہ نظارہ دیکھا.قرطبہ دیکھا، پھر الحمرا اور غرناطہ کے محل دیکھے.اگر چہ سب جگہ تو ہم نہیں جا سکے تھے.وہاں جو نشان باقی ہیں، ان سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے مساجد کو بہت سجایا تھا.اور اس نیت سے سجایا تھا کہ ہم ان ہیرے اور جواہرات کو خدا کے گھر کی سجاوٹ کے علاوہ اور کہاں خرچ کریں؟ کس مصرف میں لائیں؟ ویسے تو مسجد بڑی سادہ ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ کی مسجد ہے اور اس میں ریا کی خاطر نقوش کرنے اور اس کے اندر ہیرے جواہرات لگانے کی تو اسلام اجازت نہیں دیتا.لیکن اگر کسی قوم کو خدا تعالیٰ اتنی کثرت سے ہیرے، جواہرات دے دے کہ وہ اپنے پر اور اپنی بیویوں پر بھی ان کو خرچ نہ کرنا چاہیں، یعنی ان کے استعمال میں نہ لانا چاہیں تو اگر وہ اس نیت سے کہ خدایا پھر ہم ان کو کہاں رکھیں ؟ تیرے گھر میں ہی دیواروں پر لگا دیتے ہیں.پس اگر اس نیت حسنہ کے ساتھ انہوں نے یہ لگائے تو انہوں نے اپنی نیتوں کے مطابق ثواب حاصل کر لیا.لیکن جس کوشش اور جس قربانی کے نتیجہ میں یہ دنیا کے اموال ملے تھے، میں اس وقت اس کی طرف آپ کو توجہ دلا رہا ہوں.وہ قربانی تو بہت ہی حقیر تھی.میرے خیال میں جب یہ دس ہزار سپاہی گئے ہیں، جس وقت مسلمانوں کی یہ پہلی فوج طارق کی قیادت میں وہاں اتری اور انہوں نے اپنی کشتیاں جلا دیں تو شاید ساری فوج کے پاس ایک ہیرا بھی نہیں ہوگا.اور پھر خدا تعالیٰ نے انہیں بے شمار ہیرے اور جواہرات دیئے.وہ دشمن کی لاکھوں کی فوج کے مقابلہ کے لئے گئے تھے.کیونکہ اس وقت وہاں ایسے متعصب عیسائی بادشاہ تھے، جو اسلام کے خلاف 288
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اپریل 1976ء اور اسلامی حکومتوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے.اس کا سد باب کرنا ضروری تھا.لیکن ان کے مقابلہ میں دس ہزار کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.اس قدر فرق ہے، دونوں فوجوں کا کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.لیکن جس چیز سے ان کے سینے اور ان کے ذہن اور ان کی روح بھری ہوئی تھی ، وہ اللہ تعالیٰ پر توکل تھا.اتنے تھوڑے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی کشتیاں جلا دیں کہ آگئے ہیں تو اب واپس تو نہیں جانا ہم نے.اور خدا تعالیٰ پر اتنا تو کل کہ وہ ہماری اس حقیر کوشش کو ضائع نہیں کرے گا.پس خدا تعالیٰ یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ اسلام کو جتنی ضرورت ہے، اتنادو.بلکہ مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ جتنی طاقت ہے، اتنا خدا کے حضور پیش کر دو.اور جتنی طاقت ہے، اتنا جب پیش کیا جاتا ہے تو وہ ضرورت کا شاید کروڑواں حصہ بھی نہیں ہوتا، شایدار بواں حصہ بھی نہیں ہوتا.لیکن خدا یہ کہتا ہے کہ جتنا تمہاری استعداد میں ہے، جتنا تمہاری طاقت میں ہے، وہ دے دو اور باقی مجھ پر توکل رکھواور مجھ پر بھروسہ رکھو.خدا کہتا ہے کہ اصل طاقت تو میری ہے اور اصل حکم تو ( خدا کہتا ہے کہ ) میرا چلتا ہے، جب تم اپنی طاقت کے مطابق سارا دے دو گے تو میں ضرورت کے مطابق مہیا کر دوں گا.اس وقت ہم اسی قسم کے زمانہ میں سے گزر رہے ہیں.غریب کسی جماعت ہے، دنیا اسے حقارت کی نظر سے دیکھ کر اور گالیاں دے کر خوش ہوتی ہے.اور ہر قسم کی غلط اور بے بنیاد باتیں منسوب کر دیتے ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ لیکن اصل چیز یہ نہیں ہے کہ ان میں اخلاقی کمزوریاں ہیں.ان کے لئے تو ہم دعائیں کرتے ہیں.اصل چیز یہ ہے کہ اس وقت یہ ہماری حالت ہے.ہمارا مقام دنیا کی نگاہ میں یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں، ایک ذرہ ناچیز ہیں.یہ جو اتنی جرات کے ساتھ اس قسم کی باتیں کر دی جاتی ہیں، یہ نہیں کہ اس سے ہمیں غصہ آتا ہے.ہمیں تو ان پر رحم آتا ہے.لیکن اس سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں اور ہر احمدی کو یہ نتیجہ نکالنا چاہیے کہ اس سے ہمیں اپنی حالت کا پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہمیں بتارہا ہے کہ ہو تو تم یہی نا کہ جو اٹھتا ہے تمہیں گالی دینے کو ثواب سمجھتا ہے.ہر قسم کے دکھ تمہیں پہنچاتا ہے اور ایذا دیتا ہے.یہ ہے، تمہاری حیثیت.اور خدا کہتا ہے کہ تمہاری یہ حیثیت دنیا کی نگاہ میں ہے لیکن میری نگاہ میں تمہاری یہ حیثیت نہیں ہے.اگر تم خلوص نیت کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور ثبات قدم کا مظاہرہ کرتے ہوئے جتنی طاقت ہے، اتنا میرے حضور پیش کر دو گے تو تمہارے سپر جو کام کیا گیا ہے، اس کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے، ان دونوں میں جو فرق ہے، وہ میں پورا کر دوں گا.اور وہ پہلے بھی کرتا رہا ہے.ہمارے سامنے کوئی نئی چیز تو نہیں.289
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اپریل 1976ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم دراصل جب سے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ شروع ہوا، اس وقت سے یہی ہورہا ہے.اور خدا تعالی کا یہ حسن سلوک اپنے پیارے بندوں کے ساتھ اس وقت اپنے کمال کو پہنچا، جب شمس الکمال دنیا پر ظاہر ہوا، یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم تھاوہ انسان کہ اس وقت سے اب تک چودہ سو سال ہو گئے ہیں کہ اس کی امت میں سے جس نے بھی اور جب بھی خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی طاقت کے مطابق اس کے حضور پیش کر دیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے فضلوں سے ان کے گھر کو بھر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت مہدی معہود علیہ السلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے مبعوث ہوئے کہ آخری زمانہ میں ساری دنیا میں اسلام غالب آجائے گا.اور آپ کے ذریعہ سے تربیت حاصل کرنے والوں کی ایک چھوٹی سی جماعت بنی.اب آہستہ آہستہ اس تربیت کا رنگ بدل گیا ہے.کجاوہ زمانہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے اگر کسی نے دین اسلام کی راہ میں چونی پیش کی تو آپ نے اپنی کتابوں میں ان کا نام اور چونی یا دونی کا ذکر کر کے قیامت تک کے لئے ان کے لئے دعائیں کرنے والے بنا دیئے.جب بھی دوست پڑھیں گے، ان کے لئے دعائیں کریں گے.آپ نے اس واسطے نام لکھے کہ یہ چیز اس زمانے کی حالت بتارہی تھی.ایسا زمانہ تھا کہ کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول اور اسلام کی راہ میں دونی دینا بھی دوبھر سمجھتا تھا.پھر تربیت ہوئی اور تربیت میں دو قسم کی وسعت پیدا ہوئی.ایک تو تربیت پانے والوں میں وسعت پیدا ہوئی اور دوسرے آہستہ آہستہ تربیت میں شدت پیدا ہوئی اور تربیت کا ہر قدم آگے بڑھنا شروع ہوا.چنانچہ ابھی مشاورت ختم ہوئی ہے، اس میں جماعت کے بجٹ پیش ہوئے.بیرونی ممالک کا ایک سال کا بجٹ قریب دو کروڑ روپے ہے اور اندرون پاکستان کا بجٹ اگر سارے چندے ملالئے جائیں تو ایک کروڑ سے اوپر ہے.لیکن صرف صدر انجمن احمدیہ کے چندے بھی 72 لاکھ کے قریب بنتے ہیں.پس کجا ہم (یعنی جماعت احمدیہ ) اپنے ابتدائی دور میں دونیوں کی بات کیا کرتے تھے اور کجا آج ہم کروڑوں کی بات کر رہے ہیں.لیکن جس طرح کام بڑھنا شروع ہوا ہے، اس کے لحاظ سے اس وقت کام کے مقابلے میں جو دونی کی حیثیت تھی ، آج کروڑوں کی حیثیت بھی کام کے مقابلہ میں وہی ہے.کیونکہ جماعت احمدیہ کے سپر د جو کام ہوا ہے، وہ کروڑوں سے تو پورا نہیں ہوتا.ساری دنیا کو اسلام کی صداقت کا قائل کرنا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ایک موقع پر مجھے شرمندہ ہونا پڑا.ایک صحافی نے مجھ سے یہ سوال کر دیا کہ اسلام کی ایسی حسین تعلیم کو ہمارے عوام تک پہنچانے کے لئے آپ نے کیا سامان کیا ہے؟ چنانچہ اس 290
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 02 اپریل 1976ء وقت میں نے اندازہ لگوایا اور یورپین ممالک کے سارے مبلغین سے میں نے کہا کہ جائزہ لیں تو سوئٹزر لینڈ ، جو کہ ایک چھوٹا سا ملک ہے، وہاں کے پوسٹ آفس نے کہا کہ اگر آپ ایک خط ہر گھر میں بھیجنا چاہیں تو اس پر پندرہ لاکھ روپیہ خرچ ہو جائے گا.پس یہ جو کروڑوں روپے کی ہماری ساری دنیا کی جماعت کی آمد ہے، اس سے تو شاید ہم ساری دنیا کے ہر گھر میں ایک خط بھی نہ پہنچ سکیں.میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج اسلام کو غالب کرنے اور نوع انسانی کے دلوں کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کی جو ضرورت ہے، اس ضرورت کے لئے کروڑوں روپے نہیں چاہئیں بلکہ کھربوں روپیہ سے بھی زیادہ رقم چاہئے.لیکن خدا تعالی ہمیں یہ کہتا ہے کہ تم سے جو بن آتی ہے، وہ کرو اور باقی مجھ پر چھوڑ دو.بہر حال جماعت خدا کے فضل سے اس میدان میں بھی جو کہ مالی جہاد کا میدان ہے، ہر سال ترقی کرتی ہے.مالی جہاد کا میدان تو بہت چھوٹا ہے.اور جو دوسرے بہت سے جہاد جماعت کر رہی ہے، ان کے لئے تو یہ ایک چھوٹی سی بنیاد بنتا ہے.اس سے بڑی بنیاد وہ اوقات ہیں، جو دوست دیتے ہیں.جماعت بہت وقت دے رہی ہے.دو شکلوں میں جماعت وقت دے رہی ہے.ایک اس شکل میں کہ ہم تحریک کرتے رہتے ہیں کہ اتنی دفعہ الحمد للہ کہو، اتنی دفعہ سبحان اللہ کہو، اتنی دفعہ درود بھیجو.اور اربوں دفعہ یہ تسبیح اور تحمید اور درود جماعت پڑھ رہی ہے اور دوسری دعائیں کر رہی ہے.جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ استغفار کرو، خدا سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافیاں مانگو.اس پر انسان وقت خرچ کرتا ہے.ساری جماعت اجتماعی رنگ میں یہ وقت خرچ کر رہی ہے.تسبیح اور تحمید اور درود کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات سے ہر نفس فائدہ اٹھا رہا ہے.ہر شخص کے اپنے نفس کے بھی حقوق ہیں، جو اس طرح پورے ہوتے ہیں.لیکن علاوہ نفس کی بہتری کے ہماری یہ دعائیں اجتماعی نتائج بھی نکال رہی ہیں.پس ایک تو یہ وقت ہے، جو جماعت دیتی ہے.اور بڑے پیار سے دیتی ہے، بڑے اخلاص سے دیتی ہے، بڑی عاجزی سے دیتی ہے اور دعاؤں میں لگی ہوئی ہے.دوسرا وقت جو جماعت دے رہی ہے، گو وہ بھی دعاؤں کا حصہ ہی ہے.لیکن پہلی دعاؤں کے علاوہ بہت ساری اور دعائیں ہیں، جو ہم کرتے ہیں اور اس پر وقت خرچ کر رہے ہیں.ہم جو کہتے ہیں ، نوافل پڑھو، اس پر بھی تو وقت خرچ ہوتا ہے.اس کے علاوہ ہم نیکی کے اور ہزار مطالبے کرتے ہیں.مثلاً یہ کہ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھو، اپنوں کا خیال رکھو، کوئی شخص بھوکا نہ رہے.اس کے لئے خیال رکھنا پڑتا ہے اور بہر حال وقت دینا پڑتا ہے.پھر وقف عارضی ہے، دورے ہیں.پھر مقامی کارکن وقت دیتے ہیں.میں 291
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اپریل 1976ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم نے کئی دفعہ بتایا ہے، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دوست اگر سات یا آٹھ گھنٹے مثلاً اپنی فرم میں دے رہے ہیں تو جماعت کے کام کے لئے اس کے علاوہ وقت دیتے ہیں.رات کے گیارہ بجے تک بیٹھے رہتے ہیں اور دن میں دس، دس گھنٹے وقت دے دیتے ہیں.اس قدر وقت بھی دوست خرچ کر رہے ہیں.ہم وقت کے لحاظ سے اعدادو شمار اکٹھے نہیں کر سکتے ، ورنہ دنیا ہماری مالی قربانی کے مقابلے میں ہماری وقت کی اس قربانی کو دیکھ کر بہت زیادہ حیران ہو جائے.عجیب قوم ہے اچھکتی ہی نہیں.خدا کی راہ میں دن رات لگے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ خوشخبری دی گئی تھی کہ أَنتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُه جب انسان اپنا وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ کام میں لگارہتا ہے، تب ہی یہ صورت بنتی ہے.اور اس انسان اپنا ضائع نہیں کرتا بنتی اور میں یہ بشارت دی گئی تھی کہ تجھے ایک ایسی جماعت ملے گی ، جو اپنے اوقات کو ضائع نہیں کرے گی اور معمور الاوقات ہوگی.وہ لوگ دعاؤں میں لگے رہیں گے، کبھی نفل پڑھ رہے ہیں، کبھی دین کی باتیں کر رہے ہیں، بچوں کو قرآن کریم پڑھا رہے ہیں ، وقف عارضی میں باہر نکل رہے ہیں.مطبوعه روزنامه الفضل 08 جنوری 1979ء) | 292
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم وو " اقتباس از خطبه نکاح فرمود : 15 جولائی 1976ء ہر احمدی کسی نہ کسی رنگ میں واقف زندگی ہے خطبہ نکاح فرمودہ 15 جولائی 1976ء جوکھ اور نالائق بچے ہیں، صرف ان کو تو ہم نے جامعہ میں نہیں لینا.جو چوٹی کے ہوشیار طالب علم ہیں، زیادہ وہ آنے چاہئیں.بعض دوسرے بھی آجاتے ہیں، ان کو ہم انکار نہیں کر سکتے.لیکن جو چوٹی کے دماغ خدا ہمیں دیتا ہے، ان کا ایک حصہ جامعہ میں بھی آنا چاہیے.اور دینی تعلیم حاصل کر کے خدا تعالیٰ کی توحید کے لئے جو ایک عظیم جہاد اور مجاہدہ اور جدوجہد شروع ہے، اس میں ان کو حصہ لینا چاہیے.ویسے تو ہر احمدی کسی نہ کسی رنگ میں واقف بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہر احمدی کو کہا ہے کہ وہ ایک واقف کی زندگی گزارے.اور آپ نے یہ بڑے زور سے کہا ہے اور بڑے پیار سے کہا ہے اور بڑے درد کے ساتھ کہا ہے.آپ نے کہا، جب میں نے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کی ہوئی ہے تو جو لوگ میرے ساتھ پیار رکھنے والے ہیں، ان کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کریں.لیکن اس وقف سے مراد جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے والا وقف نہیں.اس وقت تو جامعہ احمدیہ ہی نہیں تھا.پس ہر احمدی مرد اور عورت لڑکے اور لڑکی کا فرض ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کے دن خدا کی رضا کے حصول کی کوشش میں گزارے.لیکن ان واقفین کی جماعت میں ایک طبقہ ایسا ہے، جو علم سیکھنے کے لحاظ سے، پڑھائی کے لحاظ سے ایک اور رنگ میں زندگی وقف کرتا، جامعہ احمدیہ سے تعلیم حاصل کرتا، اپنے علم کو بڑھاتا اور پھر فارغ التحصیل ہونے کے بعد معمولی سے گزاروں پر ساری عمر خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت انسان کے دل میں پیدا کرنے کی کوشش میں گزار دیتا ہے.( مطبوعه روزنامه افضل 15 جنوری 1977ء) 293
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جولائی 1976ء اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو غیر معمولی قربانی کرنے والی جماعت عطا کی خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جولائی 1976ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.”ہمارا رب اللہ اس قدر عظمت، کبریائی اور جلال والا ہے کہ انسانی ذہن اس کی عظمت و کبریائی اور جلالت شان کا تصور نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ نے اپنی غیر محدود صفات اور قدرتوں میں سے بعض صفات کا ذکر فرمایا ہے.جن سے ہمیں اس کی عظمت ، اس کے جلال اور اس کی کبریائی کا کسی قدرا ندازہ ہوتا ہے.ان میں سے اس کی دوصفات ، اس کا الحی اور القیوم ہونا ہے.الحی کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی ذات میں ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا.پھر یہی نہیں کہ وہ خود زندہ ہے بلکہ ہر ذرہ کائنات اور ہر ذی روح میں جو زندگی نظر آتی ہے، وہ اسی کی عطا کردہ ہے.وہ خود ہی زندہ نہیں بلکہ ہر ذی روح کی زندگی کا موجب اور علت العلل بھی ہے.پھر وہ القیوم ہونے کی وجہ سے خود اپنی ذات میں ہی قائم نہیں ہے بلکہ ہر چیز ، جو اس کی اپنی پیدا کر دہ اور مخلوق ہے، اس کے قیام کا بھی وہی موجب ہے.اگر اس کائنات اور اس کے ہر ذرہ کا الحی اور القیوم کے ساتھ تعلق نہ رہے، یا حی وقیوم خدا ایک لحظہ کے لئے اپنا سہارا ہٹا لے تو پوری کائنات پر فوراً ہی فنا وارد ہو جائے.اور کوئی چیز بھی باقی نہ رہے.ایسے حسی و قیوم اور ہمہ قدرت، طاقت کے ساتھ زندہ تعلق کا ہونا ، از بس ضروری ہے.اس کے بغیر انسان روحانی طور پر زندہ رہ ہی نہیں سکتا.زندہ تعلق خدا کے ساتھ اس وقت قائم ہوتا ہے، جب انسان اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جائے.اور اس کی روح رضيت بالله ربًّا پکار اٹھے لیکن ایک خا کی انسان رضیت بالله ربا (یعنی میں اپنے رب کی رضا پر راضی ہوں.) اس وقت ہی کہہ سکتا ہے، جب خدا تعالیٰ اسے اپنی جناب سے ایسا کہنے کی اجازت عطا فرمائے“.295
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جولائی 1976ء یا تا ہوں کہ تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اس مرحلہ پر حضور نے خطبہ کے دوران جذبات تشکر سے لبریز ہو کر بڑے جذبہ سے فرمایا کہ " آج میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے خوشی کے ساتھ اپنے آپ کو یہ اعلان کرنے پر مجبور رضيت بالله ربا یعنی میں اپنے رب کی رضا پر راضی ہوں.آپ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ سال میں نے نامساعد حالات میں سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا.خدا نے اپنے فضل سے سب روئیں دور کر دیں اور اسی کے فضل سے اب وہ مسجد بن کر تیار ہوگئی ہے.اور اسی کی دی ہوئی توفیق سے عنقریب اس کا افتتاح عمل میں آنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے فضل سے بہت مخلص جماعت عطا کی ہے.اور انہیں خدا کی راہ میں قربانیاں کرنے کی غیر معمولی توفیق سے نوازا ہے.اس نئی مسجد کی تعمیر کے لئے پاکستان سے باہر کی بعض جماعتوں نے رقم فراہم کر دکھائی.بالخصوص اللہ تعالیٰ نے جماعت انگلستان کو مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اس پر دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی تقدیس سے بھر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اسی دنیا میں جزائے خیر عطا فرمائے.ہر ایک کا خاتمہ بالخیر ہواور اگلے جہان کی زندگی میں بھی جو دائمی ہے، ہر ایک کو اس کا پیار حاصل رہے.اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کے افضال وانعامات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے مزید فرمایا:.ابتدا میں مسجد کی تعمیر کا جو اندازہ لگایا گیا تھا، بعد ازاں اس میں کچھ فرق پڑ گیا.جس وقت اندازہ لگایا گیا تھا، اس وقت پاؤنڈ کی قیمت زیادہ تھی.لیکن بعد میں پاؤنڈ کی قیمت گر گئی.اور ہمیں اندازہ سے بڑھ کر Pounds ادا کرنا پڑے.کنٹریکٹر کو آخری قسط ادا کر ناتھی اور رقم کم ہو گئی تھی.میں نے مسجد کی تعمیر سے قبل کنٹریکٹر سے کہا تھا کہ تمہیں بنک کی ضمانت پر زیادہ اعتبار ہے یا میری زبان پر ؟ اس نے جواب دیا تھا کہ مجھے آپ کی زبان پر زیادہ اعتماد ہے، مجھے بنک کی ضمانت کی ضرورت نہیں.مجھے فکر تھا کہ کنٹریکٹر نے جب میری زبان پر اعتماد کیا ہے تو اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے.اللہ کے کام نیارے ہوتے ہیں.امریکہ کے احمد یہ مشن میں ایک پرانا فنڈ پڑا ہوا تھا.یہ رقم میری نگاہ میں نہیں آئی تھی اور اگر یہ رقم پہلے نگاہ میں آگئی ہوتی تو اسے وہاں تبلیغ اسلام کے کاموں پر خرچ کر دیا جاتا.لیکن خدا تعالیٰ نے اسے ایک اور ہی کام کے لئے محفوظ رکھا ہوا تھا.چنانچہ اس فنڈ میں سے آخری قسط کے طور پر کنٹریکٹر کو بر وقت ادائیگی کر دی گئی.جماعت احمد یہ ایک غریب جماعت ہے، دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ، دنیا کے غضبوں اور غیظ کا نشانہ بننے والی جماعت ہے، لیکن یہ خدا تعالیٰ کی اپنی قائم کردہ جماعت ہے.اس پر آسمان کے 296
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جولائی 1976ء فرشتوں کے ذریعہ اس کی رحمت نازل ہوتی ہے.مہدی علیہ السلام کا یہ قافلہ ( یعنی آپ کی جماعت ) اللہ تعالی کے فضل اور اس کی تائید و نصرت سے آگے ہی آگے قدم بڑھا رہا ہے اور انشاء اللہ آگے ہی آگے قدم بڑھاتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ سب کی اور بیرونی ملکوں کی ان جماعتوں کی قربانیوں کو ، جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے رقم مہیا کی ، قبول فرمائے.اور آپ کو اور انہیں اپنی رحمت سے نوازے.اس مسجد کی تعمیر میں پاکستان کی جماعتیں اپنی خواہش کے باوجود بعض حالات کی بنا پر حصہ نہیں لے سکیں.اگر ان کے لئے حصہ لینا ممکن ہوتا تو وہاں کی احمدی خواتین ہی اپنے چندوں سے یہ مسجد تعمیر کرا دیتیں.جیسا کہ وہ پہلے بھی یورپ میں کئی مسجد میں تعمیر کرا چکی ہیں.حضور نے قربانیوں کے مزید مواقع کا ذکر کرتے اور احباب جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ غلبہ اسلام کا کام کسی ایک وقت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے.اور نہ اس کا تعلق کسی ایک نسل کے ساتھ ہے.بلکہ یہ نسلاً بعد نسل چلتا چلا جائے گا اور قربانیوں کے مواقع پیدا ہوتے چلے جائیں گے.اگر کوئی جماعت کسی موقع پر قربانیوں میں حصہ نہ لے سکے تو اس کے لئے خدا تعالیٰ مزید مواقع مہیا کر دے گا.خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے والی کسی جماعت پر قربانیوں میں حصہ لینے کے دروازے ہمیشہ کے لئے کبھی بند نہیں کئے جاسکتے.خدائی جماعتوں کی راہ میں روکیں پیدا ہوتی ہیں، ابتلاء آتے ہیں، لیکن اس لئے نہیں آتے کہ انہیں خدائی افضال کے حصول سے محروم کر دیں.بلکہ وہ ان کے درجات بلند کرنے اور انہیں افضال و انعامات کا پہلے سے بڑھ کر مور د بنانے کے لئے آتے ہیں“.بعدۂ حضور نے سویڈن اور ناروے میں (جن میں سے اول الذکر میں حال ہی میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی ہے اور مؤخر الذکر میں مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ ہے.) تبلیغ اسلام کی مساعی اور ان کے نتائج کا رو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.سویڈن اور ناروے کی جماعتوں میں ایک بنیادی فرق ہے.سویڈن کی جماعت میں پاکستانی احمدیوں کی تعداد صرف دس فیصد ہے.باقی وہاں کے اصلی باشندے ہیں یا ان یورپین ملکوں کے باشندے ہیں، جو اپنے ملک میں کمیونسٹ انقلاب آنے کے بعد وہاں سے نقل مکانی کر کے سویڈن میں آکر آباد ہو گئے ہیں.اور ان میں سے بہت سوں نے یہاں آ کر جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے.برخلاف اس کے، ناروے کی جماعت زیادہ تر پاکستانی احمدیوں پر مشتمل ہے.ناروے میں اسلام قبول کرنے کی رو ابھی نہیں چلی.جبکہ یہ روسویڈن میں چل پڑی ہے.وہاں کے یورپین نژاد احمدی تو کہتے ہیں کہ اگر ضروری وسائل میسر آجائیں تو چند سال میں ہی لاکھوں گھر ا نے احمدیت میں آسکتے ہیں“.297
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جولائی 1976ء حضور نے فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم دو مستقبل کا علم تو خدا کو ہے، ہم آئندہ کے بارہ میں کچھ نہیں کہہ سکتے.لیکن خدا تعالیٰ چاہے تو چند سال میں ایسا انقلاب لا سکتا ہے.ابھی تو تبلیغ اسلام کا جو کام ہوا ہے اور اس کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں، وہ آنے والے انقلاب کی ابتدا ہے.ایک روشنی ضرور نمودار ہوئی ہے.لیکن یہ وہ روشنی نہیں ہے، جو سورج نکلنے کے بعد چاروں طرف پھیلتی چلی جاتی ہے.بلکہ یہ وہ روشنی ہے، جو سورج نکلنے سے پہلے نظر آتی ہے.یہ صحیح ہے کہ ابھی بہت سے یورپی ملکوں میں احمدیوں کی تعداد بہت کم ہے.اور بہت کم لوگوں نے وہاں اسلام قبول کیا ہے.لیکن ابتدا میں تعداد کو چنداں اہمیت حاصل نہیں ہوتی.اہمیت تو اس مخفی تبدیلی کو حاصل ہوتی ہے، جو رفتہ رفتہ فضا میں آرہی ہوتی ہے.کیونکہ یہ تبدیلی ہی آگے چل کر ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بنتی ہے.جب میں 1967ء میں یورپ کے دورہ پر آیا تھا تو ہالینڈ میں پریس کانفرنس میں وہاں کے ایک صحافی نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ آپ نے اس وقت تک ہالینڈ میں کتنے احمدی بنائے ہیں؟ اس سوال سے اس کا مقصد یہ تھا کہ جب میں کہوں گا کہ چند در جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے تو تمام صحافیوں پر یہ اثر پڑے گا کہ یہ کوئی قابل لحاظ تعداد نہیں ہے.اور یہ کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ نہیں بن سکتی.میں نے اسے جواب دیا کہ مسیح علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی میں جتنے لوگوں کو عیسائی بنایا تھا، اس سے زیادہ تعداد میں چند سال کے اندر اندر ہم یہاں لوگوں کو مسلمان بنا چکے ہیں.یہ غیر متوقع جواب سن کر وہ بالکل خاموش ہو گیا، جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو.دوسرے صحافی اس جواب سے بہت محظوظ ہوئے.سو حقیقت یہی ہے کہ اشاعت اسلام کے ضمن میں سوال اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد کا نہیں ہے.سوال یہ ہے کہ فضا میں بتدریج تبدیلی آرہی ہے یا نہیں؟ اور فضا میں تبدیلی مسجد کی وجہ سے آئی ہے.فضا کو بدلا ہے تو مسجد نے بدلا ہے.مشن ہاؤس تو مبلغ کی ضرورت کے لئے ہوتا ہے.لیکن مسجد اللہ کا گھر ہے.اس میں اللہ کی باتیں ہوتی ہیں.اور جب اللہ کی باتیں ہوتی ہیں تو وہ اندر ہی اندراثر کر کے بد خیالات کو، جو متعصب ذہنوں کی پیداوار ہوتے ہیں، زائل کر دیتی ہیں.جوں جوں بدخیالات زائل ہوتے ہیں، لوگوں کے نقطہ نظر میں تبدیلی آتی چلی جاتی ہے.اور اسلام کی اشاعت کے لئے فضا سازگار ہوتی چلی جاتی ہے.اس وقت یورپ میں صورت حال یہ ہے کہ لوگوں نے وہاں ساری عمر پادریوں سے اسلام کے خلاف باتیں سنی ہیں.اب انہوں نے عیسائیت اور پادریوں کو تو چھوڑ دیا ہے لیکن پادریوں نے اسلام کے خلاف جو اعتراض ان کے ذہن نشین کرائے تھے، انہیں انہوں نے ابھی تک ترک نہیں کیا.اسی لئے ابھی 298
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جولائی 1976ء وہاں اسلام کے خلاف تعصب دور نہیں ہوا.یہ رفتہ رفتہ دور ہوگا.اور مسجدوں کی تعمیر کے نتیجہ میں وہاں کی بتدریج فضا بد لے گی.اسی ضمن میں حضور نے ایک اور امر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یورپ میں پریس کانفرنس میں ایک سوال مجھ سے یہ پوچھا گیا تھا کہ آپ یورپ میں اسلام کو کس طرح پھیلائیں گے؟ سوال کرنے والے کا مقصد یہ تھا کہ (نعوذ باللہ ) اسلام تو تلوار سے پھیلا تھا اور تلوار ہم نے تم سے چھین لی ہے.اس لئے اب تم اسلام کو دنیا میں پھیلانے میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ ہم تمہارے دل جیت کر اسلام کو یورپ میں پھیلائیں گے.اسے اس جواب کی توقع بی تھی.اس لئے وہ مبہوت ہوئے بغیر نہ رہا.بہر حال دنیا خواہ کتنی ہی بے توجہی سے کام لے اور دور بھاگے، یہ نہیں ہوسکتا کہ اسلام غالب نہ آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر لوگ اسلام کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے تو فرشتے آسمان سے نازل ہو کر انہیں اسلام کی طرف راغب کریں گے.فی الوقت تو ذہنوں کی تختی صاف ہو رہی ہے تا کہ اسلام کا نقش اچھا جم سکئے“.اس ضمن میں حضور نے ایک نہایت ہی اہم ضرورت کی طرف توجہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ’اس وقت دنیا کو حض اسلامی تعلیم کی نہیں بلکہ اسلام کے عملی نمونہ کی ضرورت ہے.جبھی تو پریس کانفرنس میں ایک سوال یہ کیا گیا تھا کہ اسلام کی تعلیم تو اچھی ہے لیکن اس کا عملی نمونہ کہیں نظر نہیں آتا؟ یہ ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب محض زبان سے نہیں دیا جا سکتا.وہ تو جبھی مطمئن ہوں گے ، جب اسلام کا حقیقی عملی نمونہ ان کے سامنے آئے گا.اسی لئے محض عقیدہ کبھی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس پر عمل کی ضرورت ہوتی ہے.اور اصل اہمیت عمل ہی کو حاصل ہوتی ہے.احمدی ہونے کی حیثیت میں ہم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم اپنی ذاتی فلاح و نجاح کے لئے اسلام پر کما حقہ عمل کریں.دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم دوسروں کی رہنمائی اور فلاح و نجاح کے لئے اپنی زندگیوں میں اسلام کا حقیقی نمونہ پیش کریں.اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے اور احمدیت کے طفیل ہمیں یہ نعمت میسر ہے تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور ان کی غمخواری کا جذ بہ بھی بدرجہ اتم موجود ہو.اور ہمارے اندر دوسرں کی فلاح و نجاح کی تڑپ پائی جاتی ہو.اس تڑپ کا لازمی تقاضا ایک ہی ہے، اور وہ یہ کہ ہم دوسروں کے سامنے اسلام کی حسین و جمیل تعلیم کا عملی نمونہ پیش کریں.اور اس طرح انہیں راہ 299
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جولائی 1976ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم راست کی طرف لائیں.پس ہماری یہ ایک نہایت ہی اہم ذمہ داری ہے کہ ہمیں نہ صرف اپنی ذات کی خاطر بلکہ دنیا کے واسطے رحمت کے دروازے کھولنے کی خاطر اسلام کا دل موہ لینے والا عملی نمونہ اپنی زندگیوں میں پیش کرنا ہے.اس امر کو مزید واضح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اس میں شک نہیں، مالی قربانی بھی اہم ہے.لیکن مالی قربانی ہی تو کافی نہیں.اسی لئے خدا تعالی نے قرآن کریم میں مال یا جان کا اتنا مطالبہ نہیں کیا، جتنا کہ زندگی کا مطالبہ کیا ہے.اس نے کہا ہے کہ نہ مجھے تمہارے مال کی چنداں ضرورت ہے اور نہ تمہاری جان کی ہی ضرورت ہے.میں یہ چاہتا ہوں کہ تم پوری زندگی میری راہ میں وقف کر دو.حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام خواب کے ذریعہ ایک خدائی اشارہ پر جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے.خدا تعالیٰ نے کہا، میں تم سے جان نہیں مانگتا بلکہ اس سے بھی بڑا ایک فدیہ مانگتا ہوں.اور وہ ہے، اپنی پوری زندگی کو میری راہ میں وقف کرنا.چنانچہ نہ صرف انہوں نے بلکہ ان کی نسلوں نے اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کر دکھائیں.اور وہ زندگی بھر بڑی بڑی تکلیفیں اپنے پر وارد کر کے خدمت دین کا فریضہ ادا کرتے چلے گئے“.حضور نے فرمایا:.اس وقت ایک عظیم جدوجہد جاری ہے.ایک طرف خدا تعالیٰ ہم سے دین کی سربلندی کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرنے اور کرتے چلے جانے کا مطالبہ کر رہا ہے اور دوسری طرف دنیا انسان کو خدا تعالی سے دور لے جانے میں کوشاں ہے.اس عظیم جدو جہد کے وقت اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹی سی غریب جماعت کو توفیق دی ہے کہ وہ خدمت اسلام کے لئے قربانیاں پیش کرتی چلی آرہی ہے.اور اس نے خدمت اسلام کو اپنا مقصد عظیم قرار دے رکھا ہے.اس میں شک نہیں، قربانیاں بھی عظیم ہیں ، جن کا ہم سے مطالبہ کیا جارہا ہے.لیکن انعام بھی بہت عظیم ہے، جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے.پھر یہی نہیں بلکہ خدا تعالی ہمیں ساتھ کے ساتھ اپنے انعاموں سے نواز رہا ہے.مثال کے طور پر ستمبر 1974ء کے بعد بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسی رو چلائی ہے کہ وہاں اب تک ہزاروں گھرانے احمدی ہو چکے ہیں.اور جو احمد کی ہوئے ہیں ، وہ دن بدن ایمان اور اخلاص میں پختہ سے پختہ تر ہوتے چلے جارہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ انسان تھوڑی سی قربانی کرتا ہے، اس کے جواب میں خدا تعالیٰ اپنی پوری کائنات اور اپنی پوری صفات کے ساتھ اس کی طرف دوڑا چلا آتا ہے.پھر خدا اپنے بندے کو اس قدر نوازتا ہے کہ عام محاورہ کی رو سے حد کر دیتا ہے.یہ سب صلہ ہوتا ہے، معمولی سی 300
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جولائی 1976ء قربانی کا.سوگو یا انسان خدا کی خاطر تھوڑی سی تکلیف اٹھاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے لئے بے انداز راحت کے سامان کر دیتا ہے.اسی لئے 1974ء میں جب احباب جماعت نامساعد حالات میں سے گزر رہے تھے، میں ان سے کہتا تھا، تمہارے یہ دکھ عارضی ہیں، لیکن تمہاری خوشیاں دائی ہیں.ان دکھوں کے عوض خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی خوشیاں مقدر کر رکھی ہیں.دراصل دنیا یہ بھول جاتی ہے کہ اصل رزق تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے، وہ جب چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے، اپنے بندہ کو دیتا ہے.اور جس ذریعہ سے چاہتا ہے، دیتا ہے.کوئی اس کی عطا کے راستہ میں روک نہیں بن سکتا.اسی طرح خوشی و راحت اور سکون واطمینان اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ملتا ہے.اور کہیں سے نہیں مل سکتا.اس لئے سب کچھ ہر طرف سے منقطع ہو کر اسی سے مانگنا چاہئے.اور اسی کے در سے لینا چاہیے، نہ کہ کسی اور در سے.وہ الحی ہے.جب وہ اپنی اس صفت کا اظہار کرتا ہے تو مردہ قو میں زندہ ہو جاتی ہیں.اور جن کو وہ تباہ کرنا چاہتا ہے، وہ اپنی قیومیت کا سہاراذ راسی دیر کے لئے ہٹا لیتا ہے اور وہ فنا ہو جاتے ہیں.پس انسان کو اپنا مقام بھی پہچاننا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی عظمت و جلالت شان اور کبریائی کی بھی معرفت حاصل کرنی چاہیے.اس میں اس کی تمام تر فلاح کا راز مضمر ہے.آخر میں حضور نے سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں تعمیر کی جانے والی مسجد کا پھر ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.ہمیں یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہر مسجد اللہ کی مسجد نہیں ہوتی.مسجد کی حرمت اینٹ گارا اور لکڑی سے وابستہ نہیں ہے.ان چیزوں کو تو اللہ نے انسان کا خادم بنایا ہے.مسجد کی حرمت کا مدار اسے آباد کرنے والوں پر ہوتا ہے.اور ان لوگوں کے تقویٰ پر ہوتا ہے، جنہیں خدا تعالیٰ ان کا کسٹوڈین اور نگران بناتا ہے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر قائم ہوں اور قائم رہیں.تاکہ ہم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مساجد کی حرمت کو قائم کرنے والے قرار پاسکیں.66 حضور نے فرمایا:.سویڈن کے بعد اب ناروے میں مسجد تعمیر ہونی ہے، اس کے لئے بھی انشاء اللہ العزیز بیرونی جماعتیں رقم فراہم کر دیں گی.جماعت احمدیہ کے قیام کی پہلی صدی مکمل ہونے میں اب صرف تیرہ، چودہ سال کا زمانہ رہ گیا ہے.یہ زمانہ بہت ہی اہم ہے، ذمہ داریوں کے لحاظ سے بھی اور بہت ہی اہم ہے، ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے نتیجہ میں ملنے والے انعامات کے لحاظ سے بھی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اہم ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه روزنامه الفضل 19 اگست 1976 ء ) 301
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ امریکہ 1976ء ہم دنیا کو پھر خدا تعالیٰ کی طرف واپس لانا چاہتے ہیں ارشادات فرموده دوران دورہ امریکہ 1976ء 02 اگست ، ڈیٹن ڈیٹن ڈیلی نیوز کی نمائندہ نے ملاقات کے دوران حضور سے مندرجہ ذیل سوالات کئے اور حضور نے ان کے جواب دیئے.انہوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ آپ کے امریکہ تشریف لانے اور یہاں کے مختلف شہروں کا دورہ کرنے کا مقصد کیا ہے؟ حضور نے جواب میں فرمایا:.میں یہاں جماعت احمدیہ کے افراد اور دوسرے امریکی باشندوں سے ملنے آیا ہوں.اور بالخصوص امریکہ کے رہنے والوں کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ان کے مسائل کا حل اسلام کی نہایت ہی پیاری اور دل موہ لینے والی تعلیم پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے.انہوں نے دریافت کیا، کیا آپ کا مقصد اہل امریکہ کو مسلمان بنانا ہے؟ حضور نے فرمایا:.وو ہم اہل امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کو مسلمانوں بنانا چاہتے ہیں.لیکن ہماری جماعت ایک پر امن اور قانون کی سختی کے ساتھ پابندی کرنے والی جماعت ہے.ہم پر امن تبلیغ کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان کو اسلام کا حلقہ بگوش بنانا چاہتے ہیں“.حضور نے مزید فرمایا:.میں نفرت اور حقارت کا قائل نہیں ہوں.اور نہ میرے دل میں کسی کے خلاف دشمنی کا جذبہ ہے.نہ میں کسی کا دشمن ہوں اور نہ کسی کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں.میں باہمی محبت والفت پر یقین رکھتا ہوں اور محبت و پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان تک اسلام کا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں.اور انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی حقیقی فلاح صرف اور صرف اسلام کے ساتھ وابستہ ہے“.303
ارشادات فرموده دوران دورہ امریکہ 1976ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم مس کیتھلین نے دریافت کیا، آپ مختصر الفاظ میں کیا پیغام دینا پسند کریں گے؟ - حضور نے فرمایا:.تمام بنی نوع انسان کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنا سیکھیں.افسوس کی بات یہ ہے کہ انسان اس زمانہ میں ہم جنسوں سے محبت کرنا بھول گیا ہے.اس لئے نت نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور اسے انہیں حل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی.انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے؟ حضور نے فرمایا:.ہم محبت سے، پیار سے اور بے لوث خدمت کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے کر انہیں با ہم ایک دوسرے سے محبت کرنے کا درس دیتے چلے جائیں گے.ہم اس بات پر پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ ایک دن آئے گا ، جب دنیا کے تمام بنی نوع انسان ہماری آواز پر کان دھریں گے.اور اس پر لبیک کہتے ہوئے ، حق و صداقت کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے.بنی نوع انسان اس زمانہ میں اپنی پیدائش کے مقصد کو فراموش کر چکے ہیں.تہذیب کی گرم بازاری کے باوجودلوگوں نے خدا سے تعلق منقطع کر لیا ہے.اسی لئے وہ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں.ایک اندھیرے سے نکلتے ہیں تو دوسرے اندھیرے میں پھنس جاتے ہیں.احمدیت ، جو حقیقی اسلام کا دوسرا نام ہے، آئی ہی اس لئے ہے کہ وہ لوگوں کو خدا کی طرف بلائے اور انہیں اس قابل بنائے کہ خدا کے ساتھ ان کا زندہ تعلق قائم ہو جائے.ہماری جماعت میں ہزاروں ایسے لوگ موجود ہیں ، جن کا خدا کے ساتھ زندہ تعلق قائم ہے.وہ ان سے ہم کلام ہوتا ہے، انہیں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی قبل از وقت اطلاع دیتا ہے اور اس دنیا میں ان کی رہنمائی کرتا ہے.حضور نے اس امر کے ثبوت کے طور پر مس کیتھلین کو بتایا کہ ”خدا نے ہمیں بتایا ہے کہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا.یعنی تمام بنی نوع انسان یا ان کی غالب اکثریت اسلام قبول کرلے گی.حتی کہ کمیونسٹ بھی ، جو اپنے زعم میں آسمانوں سے خدا کے وجود کو اور زمین پر سے اس کے نام کو مٹانا چاہتے ہیں، اسلام کی آغوش میں آجائیں گے.اور خدا تعالیٰ کے حقیقی عبد بن کر دنیا میں زندگی گزاریں گئے.رپورٹر مذکورہ نے ایک سوال یہ دریافت کیا کہ اب تک آپ کی تحریک امریکہ میں زیادہ تر رنگدار امریکیوں میں مقبول ہوئی ہے، جبکہ سفید امریکیوں نے اس کی طرف بہت کم توجہ کی ہے.اس کی کیا وجہ ہے؟ 304
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ امریکہ 1976ء حضور نے فرمایا:.ہم کالوں اور گوروں میں قطعاً کوئی تفریق نہیں کرتے.ہمارے نزدیک سب انسان ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ ونسل سے ہو، برابر ہیں.اسلام انسان انسان کے درمیان کامل مساوات کی تعلیم دیتا ہے.اس لئے ہم اسلام کا پیغام پہنچانے میں کوئی تفریق روا نہیں رکھتے.سفید قوموں نے ابھی اس طرف کم توجہ کی ہے.لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سفید نسل کے کسی شخص نے اسلام قبول نہ کیا ہو.یورپ اور امریکہ میں کئی ایک سفید نسل کے لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں.گو ابھی ان کی تعداد تھوڑی ہے.تاہم ہمیں امید ہے کہ اگر ہمارے مبلغین صحیح رنگ میں کام کریں تو سفید نسل کے لوگ بھی بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہوں گئے.آخر میں کیتھلین کرم نے عرض کیا کہ اہل ڈیٹن کے لئے آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ حضور نے فرمایا:.میں چاہتا ہوں کہ آپ ڈیٹن کے شہریوں تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ میں ان کے لئے دعا گو ہوں کہ خدا تعالیٰ انہیں اپنے فضلوں سے نوازے.یہی وہ بہترین تحفہ ہے، جو میں ان کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں.اس کے بعد پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں نے حضور سے امریکہ اور یورپ کے دورے کے مقصد اور جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض وغایت کے متعلق متعد دسوالات دریافت کئے.حضور نے ان کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ان پر واضح فرمایا کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے اس آخری دور ( نشاۃ ثانیہ ) میں اپنے ایک مامور کے ذریعہ اس لئے قائم فرمایا ہے کہ یہ جماعت محبت اور پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ دنیا بھر کے لوگوں کے دل جیت کر انہیں اسلام کی آغوش میں لائے اور ان میں خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرنے کی اہلیت پیدا کرئے“.حضور نے ان کے سوالوں کے جو جواب دیئے ، ان کا خلاصہ ذیل میں ہدیہ قارئین ہے.حضور نے فرمایا:.جماعت احمدیہ، جس کا میں سربراہ ہوں، کی شاخیں دیگر ممالک کی طرح امریکہ میں بھی قائم ہیں.اگر چہ یہاں ابھی احمدیوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہے.تاہم امریکہ کی قریباً 26 ریاستوں میں احمدیوں کی جماعتیں موجود ہیں.جو کم و بیش امریکی باشندوں پر مشتمل ہیں.اس کے علاوہ بعض دیگر 305
ارشادات فرموده دوران دورہ امریکہ 1976ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے.مثال کے طور پر گھانا میں احمدیوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے.اسی طرح سیرالیون، نائیجیریا، گیمبیا، لائیبر یا اور انڈونیشیا وغیرہ میں بہت مضبوط جماعتیں قائم ہیں.اگر چہ کمیونسٹ خدا تعالی کی ہستی پر ایمان نہیں رکھتے ، پھر بھی بعض کمیونسٹ ملکوں میں بھی احمدی موجود ہیں.اور جس حد تک بھی ان کے لئے ممکن ہے، وہ لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے اور انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے میں مصروف ہیں“.حضور نے انہیں بتایا کہ " جماعت احمدیہ حقیقی اسلام کی علمبردار ہے.اور اسے خدا تعالیٰ نے اپنے ایک مامور کے ذریعہ اس لئے قائم کیا ہے کہ یہ محبت اور پیار سے اور بے لوث خدمت کے ذریعہ بنی نوع انسان کے دل جیت کر انہیں اسلام کی آغوش میں لائے.اور انہیں اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا کرا کے اس قابل بنائے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا زندہ تعلق قائم ہو جائے.اور وہ اپنے خود ساختہ اصولوں کو چھوڑ کر اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے لگیں.حضور نے فرمایا:.دنیا خدا تعالیٰ کو بھلا کر اس سے اپنا تعلق منقطع کر چکی ہے.ہم اسے پھر خدا تعالیٰ کی طرف واپس لانا چاہتے ہیں.اور لوگوں کو اس کا حقیقی عبد بنانا چاہتے ہیں.ہمیں امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ ہم ایک دن دنیا کے تمام دوسرے انسانوں کی طرح اسلام کے لئے امریکیوں کے دل بھی جیت لیں گے.رہا یہ سوال کہ ہم دل کس طرح جیتیں گے؟ سو ہم ان کے دلوں کو محبت سے، پیار سے اور بے لوث خدمت سے جیتیں گے.ہم تشد د یا طاقت کے استعمال میں یقین نہیں رکھتے.کیونکہ اسلام اپنی اشاعت کے لئے ہر گز طاقت کا محتاج نہیں ہے.مذہب کا تعلق دل سے ہے اور دلوں کو طاقت کے ذریعہ نہیں بدلا جاسکتا.ہاں محبت اور پیار سے انہیں بدلا جا سکتا.ہمیں کسی سے دشمنی نہیں ہے، ہمیں تمام بنی نوع انسان سے پیار ہے.ان کے لئے بحجر محبت اور پیار کے ہمارے دلوں میں اور کچھ نہیں ہے.تمام انسان ، خواہ وہ کسی بھی ملک یا قوم سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیں یکساں طور پر پیارے اور عزیز ہیں.انہیں فلاح کا راستہ دکھانے کے لئے ہمارے دلوں میں بے پناہ تڑپ ہے.ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ بالآخر ہم محبت اور پیار اور خدمت کے ذریعہ لوگوں کے دلوں پر فتح پا کر انہیں فلاح کے راستہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گئے“.306
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ امریکہ 1976ء حضور نے مزید فرمایا کہ ”جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ میں امریکہ کیوں آیا ہوں اور یہاں میرے آنے کا مقصد کیا ہے؟ میں اس کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں یہاں ان لوگوں سے ملنے آیا ہوں ، جن کے دل ہم نے اسلام کے جیت لئے ہیں.اور پھر میں ان لوگوں سے بھی ملنے اور انہیں دیکھنے یہاں آیا ہوں ، جن کے دل ابھی ہم نے جیتنے ہیں.“We want to win the hearts of the people of the world.This is our ideal.And we shall one day win their hearts for Islam Insha Allah.We don't believe in violence and this and that.We believe in love in affection and in selfless service to mankind.” (ترجمہ:.ہم دنیا کے لوگوں کے دل جیتنا چاہتے ہیں.یہ ہمارا مطمح نظر اور منتہائے مقصود ہے.اور انشاء اللہ تعالی ایک دن ہم اسلام کے لئے ان کے دلوں کو جیت لیں گے.ہم تشد دو غیرہ میں یقین نہیں رکھتے.ہم تو محبت اور پیار اور بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت کے قائل ہیں.) مطبوعه روزنامه الفضل 13 ستمبر 1976 ء ) 307
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرموده 07 اگست 1976ء اس زمانہ میں دنیا کو کمل تباہی سے بچانے کی ذمہ داری ہم پر ڈالی گئی ہے خطاب فرموده 07 اگست 1976 ء بر موقع سالانه کنونشن جماعت احمد یہ امریکہ ( حضور رحمہ اللہ کا یہ خطاب انگریزی زبان میں تھا.) حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن مجید کی حسب ذیل آیت تلاوت کی.مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَتَحْيِيَنَّهُ حَيوة طيبة وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمُ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل: 98) (ترجمہ : جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں نیک اور مناسب حال عمل کرے گا، مرد ہو کہ عورت، ہم اس کو یقینا ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے.اور ہم ان ( تمام لوگوں ) کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمال صالحہ کا ) بدلہ دیں گے.) اس کے بعد حضور نے فرمایا:.1973ء میں، میں نے جماعت کے سامنے صد سالہ احمد یہ جو بلی کا منصوبہ رکھا تھا.وہ عظیم منصو به رفته رفته معرض وجود میں آرہا ہے.اور اس کے مختلف عملی پہلوا جاگر ہو کر بتدریج جماعت کے سامنے آرہے ہیں.اس عظیم منصوبہ کے تحت آج میں اس کنونشن کے موقع پر جماعت احمدیہ امریکہ کی رہنمائی کے پیش نظر ایک چھوٹے سے منصوبہ کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.اس منصوبہ کا مقصد بیک وقت دو سمتوں میں آگے بڑھنا اور پیش قدمی کرتے چلے جانا ہے.ایک سمت کا تعلق نئی نسلوں کی تربیت سے ہے.اور دوسری سمت کا تعلق اہل امریکہ کو اس مکمل تباہی سے بچانا ہے، جو روئے زمین پر بسنے والے تمام بنی نوع انسان کے سروں پر منڈلا رہی ہے.33 منصوبے کے پہلے حصہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.جہاں تک چھوٹے بچوں اور آئندہ نسلوں کا تعلق ہے، ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم انہیں اسلام سکھائیں اور خالص اسلامی ماحول میں ان کی تربیت کریں.تا کہ وہ بڑے ہو کر نوع انسان کی قیادت کا 309
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرمودہ 107 اگست 1976ء فریضہ ادا کر سکیں.اور انہیں ہدایت کی راہوں پر چلانے والے ثابت ہو سکیں.یہ کام سکولوں میں اسلامی تعلیم دینے سے بھی ہو سکتا ہے.لیکن فی الوقت ہمارے لئے احمد یہ سکولز جاری کرنا ممکن نہیں ہے.کیونکہ سکول جاری کرنے کے لئے ایک ہی مقام پر بچوں کا ایک معقول تعداد میں ہونا ضروری ہے.پھر اساتذہ بھی ہونے چاہئیں اور یہاں کے معیار کے مطابق بلڈنگ اور دیگر سامان کی بھی ضرورت ہوگی.لیکن ابھی امریکہ میں ہماری جماعت نہ صرف یہ کہ مختصر ہے بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں بکھری ہوئی ہے.یوں تو امریکہ کی بہت سی اسٹیٹس میں احمدی موجود ہیں لیکن صحیح معنوں میں منظم جماعتیں، جن سٹیٹس میں قائم ہیں اور جو با قاعدہ نظام کے تحت کام کر رہی ہیں.ان کی تعداد پندرہ ہے.ان حالات میں ہم ابھی سکول نہیں کھول سکتے اور سکولوں کے قیام پر اخراجات نہیں کر سکتے.لیکن ہم اپنے بچوں کی اسلامی تعلیم اور اسلامی تربیت سے آنکھیں بند کر کے انہیں حالات زمانہ کے رحم و کرم پر چھوڑ بھی نہیں سکتے.اسے ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ بچے ہماری غفلت کی وجہ سے شیطان کے قبضہ میں چلے جائیں.ان حالات میں بہتر یہ ہوگا کہ ہم ہر ایسی ٹیسٹ میں، جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں اور احمدی خاصی تعداد میں موجود ہیں، کسی شہر سے باہر دیہی علاقہ میں چندایکڑ زمین خریدیں، وہاں ایک کمیونٹی سنٹر (Community Centre) تعمیر کریں اور ایک ایسی تربیت گاہ کا اجراء کریں، جس میں بچے تعطیلات کے زمانہ میں آکر رہیں.اس تربیت گاہ یا کمیونٹی سنٹر میں انہیں اسلام کی تعلیم دی جائے اور اسلامی آداب سکھا کر خالص اسلامی ماحول میں ان کی تربیت کا انتظام کیا جائے.بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں اور بظاہر چنداں اہم نظر نہیں آتیں لیکن اپنے نتائج کے اعتبار سے ان کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے.مثال کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمیشہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ.یا اس قسم کے بعض دوسرے چھوٹے چھوٹے احکام ہیں.بظاہر یہ معمولی احکام نظر آتے ہیں.لیکن معاشرہ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ایک معین اور مخصوص شکل اختیار کرتا ہے.اور انہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کردار کی خوبی انسان میں پیدا ہوتی ہے.اور یہ چھوٹی چیزیں ہی ایک بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں.انہیں چھوٹی چیزیں سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.بچوں کے اندر اسلامی روح پیدا کرنے میں ان باتوں کو بے انداز اہمیت حاصل ہے.انہیں بچوں کے اندر راسخ کرنا اور انہیں ان کا عادی بنانا ضروری ہے.ان کمیونٹی سنٹرز میں بچوں کو اسلام کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اسلامی آداب کا پابند بنایا جا سکتا ہے.جس منصوبہ کا اس وقت میں اعلان کر رہا ہوں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان پندرہ سٹیٹس میں، جن 310
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جد پنجم خلاصہ خطاب فرموده 07 اگست 1976ء میں ہماری باقاعدہ منتظم جماعتیں قائم ہیں اور احمدی وہاں ہیں بھی خاصی تعداد میں، کسی نہ کسی شہر کے باہر زمینیں خرید کر وہاں تربیت گاہیں قائم کی جائیں.اور ان کے گرد پھلدار پودے لگا کر باغ وغیرہ لگائے جا ئیں.تا کہ جب بچے تعلیم و تربیت کی غرض سے تعطیلات میں وہاں آکر ر ہیں تو انہیں وافر مقدار میں پھل بھی مل سکے.اور وہ وہاں ہنسی خوشی رہ سکیں.الغرض جتنی جلد ممکن ہو سکے ، سر دست پندرہ سٹیٹس میں تفریحی اور تعلیمی مراکز ( Recreational & Educational Centres) قائم ہو جانے چاہئیں.اور ان میں تربیتی کورسوں کا سلسلہ شروع کر دینا چاہئے.خواہ یہ کورس دو، دوماہ کے لئے ہی ہوں“.ان مراکز کی اصل بنیادی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے فرمایا:.ہر مخلص احمدی کا، بلکہ ہرمخلص احمدی بچے کا ، زندہ خدا کے ساتھ زندہ تعلق قائم ہو جاتا ہے.اور زندہ خدا کے ساتھ زندہ تعلق ہی اس کے لئے ایک مابہ الامتیاز کی حیثیت رکھتا ہے.تمام روئے زمین کے انسانوں کے لئے احمدیت کا پیغام ہی یہ ہے کہ ہر شخص کے لئے خواہ وہ جدید ہو یا قدیم یعنی خواہ اس نے متمدن ماحول میں پرورش پائی ہو یاوہ جنگلات میں رہنے والا ریڈ انڈین ہو، اس کے لئے موقع ہے کہ وہ اسلام کی بے مثال ولا زوال تعلیم پر عمل پیرا ہو کر زندہ خدا کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرے.ان مراکز کے قیام سے ہماری یہی غرض ہے کہ احمدی نو نہالوں میں بچپن کے زمانہ میں ہی زندہ خدا کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرنے کی لگن پیدا ہو جائے.اور پھر وہ اپنے خدا کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر کے یہ اہلیت اپنے اندر پیدا کریں کہ دوسروں کا بھی خدا کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر اسکیں“.حضور نے فرمایا:.اس پورے منصوبہ کا عرصہ پانچ سال ہوگا.ان پانچ سالوں میں ہم انشاء اللہ اپنے بچوں کو اندھیرے سے بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے.کیونکہ اس عرصہ میں انشاء اللہ العزیز ایسے ادارے معرض وجود میں آجائیں گے ، جہاں سے انہیں اللہ کا نوریل سکے گا.بچوں اور نئی نسلوں کی تربیت کے سلسلہ میں حضور نے تربیتی مراکز کے قیام کے علاوہ بعض اور ضروری اقدامات کا بھی ذکر کیا اور اس ضمن میں فرمایا کہ ہمیں اس غرض کے پیش نظر بزرگوں کے کارناموں پر مشتمل کثیر تعداد میں چھوٹی چھوٹی کتابیں بھی تیار کرنا ہوں گی.تاکہ بچے اپنے بزرگوں کے کارناموں سے آگاہ ہو کر اپنے آپ کو ایسے ہی بلکہ ان سے بڑھ کر کارنامے سرانجام دینے کے قابل بنائیں“.311
خلاصہ خطاب فرموده 07 اگست 1976ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم حضور نے فرمایا:.ہم ایک لحاظ سے ماضی سے علیحدہ بھی ہیں اور ایک لحاظ سے علیحدہ نہیں بھی ہیں.ماضی سے علیحدہ تو اس لئے ہیں کہ ہم ہرلمحہ زمانہ حال میں سے گزر کر مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں.لیکن ہمیں چونکہ ماضی کی روایات کو لے کر آگے بڑھنا ہوتا ہے، اس لئے ہم ماضی سے بے نیاز نہیں ہو سکتے.دراصل ماضی حال اور مستقبل Continuous Whole کی حیثیت رکھتے ہیں.یعنی باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں.بہر حال زمانہ حال میں آگے قدم بڑھانے اور مستقبل میں مزید کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کے لئے ماضی کے کارناموں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.اسی لئے ایسی چھوٹی چھوٹی کتابوں کا ہونا بھی ضروری ہے، جن میں بزرگوں کے کارناموں کو اجاگر کیا گیا ہو.پھر انیسی کتابیں اور دیگر اسلامی لٹریچر شائع کرنے کے لئے ہمارے پاس اپنا پر لیس ہونا چاہئے.اس کے بغیر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.چنانچہ ہم پریس قائم کرنے کے متعلق غور کر رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ جلد اس بارہ میں کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں گئے.حضور نے بچوں اور نئی نسلوں کی تربیت کے اس جامع منصوبے کا اعلان کرنے کے بعد جماعتی تربیت کے ایک نہایت اہم ذریعہ کا ذکر کیا.اور وہ ہے، ربوہ میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ میں شرکت کی سعادت اور اس کی انقلاب انگیز تاثیر سے بہرہ ور ہونا.حضور نے فرمایا:.آپ میں سے بعض احباب نے چند سال سے جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ جانا شروع کیا ہے.جلسہ سالانہ میں شمولیت اپنی ذات میں ایک بہت بڑی سعادت ہے.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں سے متمتع ہونے کی توفیق ملتی ہے.یہاں کے کچھ نہ کچھ احباب کے ہر سال جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا اثر ہوا ہے.میں نے یہاں آکر محسوس کیا ہے کہ اس کی وجہ سے یہاں کے احباب جماعت کو بہت فائدہ پہنچا ہے.میں نے ان کی زندگیوں میں ایک خوشکن انقلاب مشاہدہ کیا ہے.ابھی آپ لوگ (یعنی امریکہ کے احمدی احباب ) محدود تعداد میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ جاتے ہیں.جب وہ وقت آئے گا کہ آپ لوگ بھی کثرت سے وہاں جانے لگیں گے تو پھر آپ کو بھی جلسہ سالانہ کے با برکت ایام میں ہماری طرح زمین پر سونے میں ایک خاص لذت اور طمانیت محسوس ہوگی.یہ ایک بہت بابرکت خیال تھا کہ دوسرے ملکوں کے احمدیوں کو بھی تحریک کی جائے کہ وہ حسب استطاعت وطاقت جلسہ سالانہ میں شامل ہوا کریں.چنانچہ 1973ء سے دوسرے ملکوں کے احمدی احباب نے بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر آنا شروع کر دیا ہے.اس کا فائدہ خود جلسہ پر آنے والے احباب کو 312
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرموده 07 اگست 1976ء بھی پہنچا ہے اور ان کی وساطت سے ان کے ہموطن دیگر احمد یوں کو اور ان کے غیر احمدی دوستوں کو بھی پہنچا ہے.الغرض ان کا آنا کئی لحاظ سے موجب خیر و برکت ہوا ہے.جلسہ کے موقع پر بیرونی ملکوں سے احباب کی تشریف آوری کو زیادہ فائدہ مند بنانے کے لئے بعض اقدامات ضروری ہیں.اس سلسلہ میں ، میں ایک کمیٹی بنادوں گا تا کہ وہ Controlled Visits کا انتظام کرے.اس کے بعد حضور نے اعلان کردہ منصوبے کے مقصد پر روشنی ڈال کر اس خاص سمت کا ذکر کیا ، جس میں امریکہ کی جماعت کا مسلسل پیش قدمی کرتے چلے جانا ضروری ہے.اور وہ سمت یہ ہے کہ اہل امریکہ کو اس انتباہی سے بچایا جائے ، جو موجودہ وقت میں خدا تعالیٰ سے دوری اختیار کرنے اور اس کے ساتھ تعلق منقطع کر لینے کے نتیجہ میں روئے زمین کے بنی نوع انسان کے سروں پر منڈلا رہی ہے.حضور نے فرمایا:.” خدا تعالیٰ سے یکسر منہ موڑ لینے اور اسے فراموش کر دینے کے نتیجہ میں دنیا مکمل تباہی کے کنارے پر آکھڑی ہوئی ہے.پیشگوئیوں میں بھی آخری زمانہ میں رونما ہونے والی ایک ہولناک تباہی کا ذکر آتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کا مقصد دنیا کو تباہ کرنا نہیں ہے.بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان ہر طرف سے منقطع ہو کر اس کی طرف واپس لوٹ آئیں اور اس کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر کے اپنے آپ کو اس کی امان اور حفاظت کے نیچے لے آئیں.اس زمانہ میں انہیں مکمل تباہی سے بچانے کی ذمہ داری ہم پر ڈالی گئی ہے.یہ ذمہ داری بہت عظیم ہے اور اس کے بالمقابل ہم، جن کے کندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے، از حد کمزور ہیں.ہمیں کوئی خاطر میں نہیں لاتا.بایں ہمہ خدا تعالیٰ نے ہمیں مکلف کیا ہے کہ ہم دنیا کو اس کی طرف واپس لا کر اسے مکمل تباہی سے بچائیں.اسی لئے ہماری تمنا ہے کہ بنی نوع انسان خدا کی طرف واپس لوٹ آئیں.لیکن محض تمنا سے تو یہ عظیم کام سرانجام نہیں پاسکتا.اس کے لئے ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں سب کو اپنی استعداد کی آخری حد تک پوری پوری جد و جہد کرنا ہوگی“.حضور نے فرمایا:.میں نے تقریر کے آغاز میں جو آیت پڑھی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کر کے ایک بہت عظیم الشان حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے.اور وہ یہ ہے کہ مؤمن ہونے کی حالت میں جو بھی ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، موقع اور محل کے مطابق مناسب حال اعمال بجالائے گا، اللہ تعالیٰ اسے یقیناً ایک پاکیزہ زندگی عطا کرے گا.اور ایسے تمام مردوں اور عورتوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمال صالحہ کا بدلہ دے گا.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں چھ سو کے قریب احکام دیئے.313
خلاصہ خطاب فرمودہ 107 اگست 1976ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ہیں اور مومنوں کو مکلف کیا ہے کہ وہ ان سب احکام پر عمل پیرا ہوں.اور اس طرح اجر عظیم کے مستحق بنیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے ہیں، انہیں بجالانے کی اس نے استعداد اور طاقت بھی مومن مردوں اور مومن عورتوں کو عطا کی ہے.اس کا اپنے بندوں کو حکم دینا ہی اس امر کو مستلزم ہے کہ اس نے اس حکم کو بجالانے کی استعداد اور طاقت بھی اپنے بندوں کو ودیعت کی ہے.کیونکہ استعداد اور طاقت عطا کئے بغیر کوئی حکم دینا سراسر بے معنی ہے.خدا تعالیٰ ایسا بے معنی حکم بھی دے ہی نہیں سکتا.اس سے واضح ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے نوع انسان کو اس کی طرف واپس لانے کی ذمہ داری ہم پر ڈالی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے ہمارے اندر یہ استعداد اور طاقت بھی رکھی ہے کہ ہم یہ عظیم کام انجام دے سکیں.پس مایوس ہونے یا ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں.ہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ہمت اور توفیق مانگتے ہوئے اور اس کی تائید و نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت کو بروئے کارلائیں اور اپنی اس استعداد کو اجاگر کرنے اور اسے بڑھانے میں کوشاں رہیں.اگر ہم ایسا کریں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے سے باز رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی.ہماری ایک ہی تمنا اور کوشش ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم انسانیت کو مکمل تباہی سے بچانا چاہتے ہیں.ہم اپنے لئے ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بھکاری ہیں.ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں دونوں کو مخاطب کر کے صرف نیک اعمال ہی نہیں بلکہ اعمال صالحہ بجالانے کا حکم دیا ہے.اور اعمال صالحہ سے وہ نیک اعمال مراد ہیں، جو موقع اور محل کے مطابق اور مناسب حال ہوں.یعنی جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داری باحسن طریق پوری ہو سکتی ہو.اس لحاظ سے نوع انسان کو خدا کی طرف واپس لانے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا زندہ تعلق قائم کر کے انہیں مکمل تباہی سے بچانے کے کام میں ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں نے ایک ساتھ آگے بڑھنا ہے.اسلام کی روسے الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ کے فرق کے ساتھ مرد اور عورتیں آپس میں برابر ہیں.برابر ہیں، وہ اس لحاظ سے کہ دونوں کی صلاحیتوں کو پوری پوری نشو ونماملنی چاہئے.اور صلاحیتوں کی نشو ونما کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ انسان کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت جلاء، روشنی اور نوریل جائے.یہ جلاء، یہ روشنی اور یہ نور اسلام سے باہر رہ کرمل ہی نہیں سکتا.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مذہب کے بغیر ، اور مذہب سے مراد اسلام ہے، اس لئے اسلام پر عمل پیرا ہوئے بغیر اخلاق پیدا ہو ہی نہیں سکتے.314
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں فرمایا ہے:.خلاصہ خطاب فرموده 07 اگست 1976ء مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن مرد ہو یا مومن عورت، جو بھی خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں اور طاقتوں کو اس طرح ترقی دے گا اور اس طرح انہیں بروئے کارلائے گا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا میسر آسکے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ اسے پاکیزہ زندگی ہی عطا نہیں کرے گا بلکہ بدلہ دے گا.وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ تو اللہ اس مومن مرد اور مومن عورت کو اس کے بہترین عمل کے مطابق اس کے تمام اعمال صالحہ کا پس اگر ہم خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نوع انسان کو کمل تباہی سے بچانے میں کوشاں ہوں گے تو خدا تعالیٰ ہمارے دائرہ استعداد میں ہمارے اس بہترین عمل کو ہمارے جملہ اعمال صالحہ کے اجر کی بنیاد بنادے گا.پس ہمیں نہ دائیں دیکھنے کی ضرورت ہے ، نہ بائیں دیکھنے کی ضرورت ہے.ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم خدا کی طرف دیکھیں اور اس کی رضا کو مدنظر رکھ کر اس ذمہ داری کو ادا کرتے چلے جائیں، جو اس نے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے“.حضور نے احباب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ " آپ لوگ نہ دائیں طرف دیکھیں اور نہ بائیں طرف دیکھیں بلکہ اپنی نگاہ سیدھی خدا کی طرف اٹھا ئیں اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر اعمال صالحہ بجالائیں.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کسی لحاظ سے بھی خسارہ میں نہیں رہیں گے.بلکہ بے انداز نفع آپ کمائیں گے.پھر یہ بھی یادرکھیںکہ اللہ کا پیارا سب سے بڑھ کر ہے.اس کے پیار سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں.امریکہ کی مادی تہذیب اپنی جگہ عظیم ہوگی لیکن ہمارے لئے نہیں.جن کی نگاہ میں اللہ اور اس کے پیار سے بڑی کوئی چیز نہیں.اس لیے مختصر الفاظ میں میری نصیحت یہی ہے کہ مادی منافع اور مادی آسائشوں کے پیچھے بھاگنے والے نہ بنو.بلکہ روحانی اموال اور روحانی منافع کے خواہاں بنو.اور اپنی پوری ہمت اور پوری طاقت سے اس ذمہ داری کو ادا کرو، جو خدا نے تمہارے کندھوں پر ڈالی ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 108اکتوبر 1976ء) 315
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطبه عید الفطر فرمودہ 25 اگست 1976ء حضرت مسیح موعود کی بعثت کے ذریعہ عظیم الشان عید کی بنیاد رکھی جاچکی ہے وو خطبہ عیدالفطر فرمودہ 25 اگست 1976ء پھر اللہ تعالیٰ نے آخری زمانہ میں مسیح اور مہدی کے ظہور کی شکل میں ایک بہت ہی عظیم الشان عید کا سامان کیا.اور وہ ہے، مسیح و مہدی موعود کی بعثت کے ذریعہ اسلام کا ساری دنیا میں غالب آنا.امت کو اتنی بڑی اور اتنی عظیم خوشی پہلے کبھی نہیں ملی تھی.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے بموجب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے ایک فرزند جلیل کی حیثیت سے مبعوث ہو کر اعلان فرمایا کہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کیونکہ غلبہ اسلام کا دن قریب آ گیا ہے.اس سب سے بڑی اور سب سے عظیم الشان عید کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ذریعہ رکھی جا چکی ہے.چنانچہ اس وقت سے ہی اس عید کے آثار نمایاں سے نمایاں تر ہوتے چلے آرہے ہیں.وو...جس طرح رمضان کے روزوں کی مشقت برداشت کر کے اور دیگر عبادات بجالا کر عید کی تیاری کی جاتی ہے.اسی طرح اس عظیم ترین اجتماعی عید کی تیاری بھی ہوتی چلی آرہی ہے.اس تیاری کے پیش نظر ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ اجتماعی عید تین سو سال کے اندر اندر اپنے کمال کو پہنچے گی.آثار اور قرائن کو دیکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیام جماعت کی پہلی صدی مکمل ہونے بہ پر کے بعد دوسری صدی شروع ہونے کے ساتھ ہی عالمگیر غلبہ اسلام کی اصل اور حقیقی اجتماعی عید بھی منصہ شہود پر آنی شروع ہو جائے گی.جس طرح ہر عید کی تیاری کی جاتی ہے، اسی طرح آسمان میں اب عالمگیر غلبہ اسلام کی شکل میں ظاہر ہونے والی عظیم ترین عید کی تیاریاں ہو رہی ہیں.ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم زمین پر اپنی استعداد کے مطابق اس عید کی تیاریاں کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں.ہمیں اس تیاری کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان کے لئے خوشیوں کے سامان کرنے ہیں اور اپنی تیاریوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر اس عظیم ترین عید کا شایان شان استقبال کرنا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس عید کی تیاریوں کے ضمن میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے فضل سے ہم اس کی رضا کی راہوں پر چلتے ہوئے اپنے لئے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے عید کی خوشیوں کے سامان کرتے چلے جائیں“.مطبوعه روزنامه الفضل 106اکتوبر 1976ء) 317
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 29 اکتوبر 1976ء دنیا خدا تعالی کے اس منصوبہ کو نا کام نہیں کر سکتی خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اکتوبر 1976ء تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوا کہ گذشتہ جمعہ کے موقع پر دوستوں کو خطبہ کی آواز ٹھیک نہیں آتی رہی.آج میں نے کچھ دیر پہلے تحقیق کی تھی اور مجھے بتایا گیا ہے کہ لاؤڈ سپیکر ٹھیک کام کر رہے ہیں.کیا آپ سب کو آواز ٹھیک آرہی ہے ؟ ( دوستوں نے بتایا کہ آواز ٹھیک آرہی ہے.) اس کے بعد فرمایا:.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى (الرعد: 19) کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کا کہا مانتے ہیں، وہی کامیاب ہوتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بن کر دنیا کی طرف آئے.اور قرآن کریم کے مخاطب صرف وہی لوگ نہیں ہیں ، جو آپ پر ایمان لائے.بلکہ ہر انسان قرآن کریم کا مخاطب ہے.پس بنی نوع انسان کو بحیثیت مجموعی یہ کہا گیا ہے کہ خدا کا کہا مانو گے تو کامیاب ہو گے ، ورنہ نہیں ہوگے.گذشته قریباً چودہ سو سال سے ہی یہ نظر آتا ہے کہ کچھ لوگ خدا کا کہا مانتے اور شریعت اسلامیہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ لوگ کہا نہیں مانتے اور قرآن کریم پر عمل نہیں کرتے.ان میں سے کچھ تو اس لئے عمل نہیں کرتے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہیں لاتے.اور کچھ اس وجہ سے عمل نہیں کرتے کہ ایمان لانے کے بعد بھی وہ ان طاقتوں کے چنگل میں آجاتے ہیں، جو کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی پر ابھارتی ہیں.اور وہ قرآن کریم کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بچی اور حقیقی کامیابی اسے ہی نصیب ہوتی ہے، جو خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتا ہے.کچی اور حقیقی کامیابی کو پرکھنے کے لئے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ انسانی زندگی کی مدت کیا ہے؟ بعض لوگ، جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، وہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کے آرام اور عیش کے مل جانے کے نتیجہ میں 319
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اکتوبر 1976ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم حقیقی کامیابی حاصل ہوتی ہے.قطع نظر اس کے کہ ان کو اس دنیا کا عیش و آرام ملتا بھی ہے یا نہیں.لیکن چونکہ یہ مفروضہ کہ اس زندگی کے ساتھ انسانی حیات ختم ہو جاتی ، غلط ہے، اس لئے اگر ابدی زندگی میں، جو موت کے بعد انہیں حاصل ہوتی ہے، وہ ناکام رہیں تو اس دنیا کی ان کے نزدیک ان کی کامیابی ، کامیابی تو نہیں کہلا سکتی.لیکن سوچنے والی سمجھ اور فر است جانتی ہے کہ اس دنیا میں بھی حقیقی کامیابی ان کو نہیں ملتی ، جو خدا کی طرف پیٹھ پھیر کر اپنی زندگی گزارتے ہیں اور شیطانی اعمال کی طرف متوجہ رہتے اور ان پر کار بند ہوتے ہیں.مثلاً اس دنیا میں، جو ہماری آج کی دنیا ہے، اس میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ قومیں ، جو کہ دنیوی ترقیات کی چوٹی پر پہنچی ہوئی ہیں، امریکہ اور روس اور پھر چین اور یورپین ممالک ہیں.یعنی انگلستان اور جرمنی اور فرانس وغیرہ وغیرہ.لیکن بحیثیت قوم جب ان کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں ( اور جب ان سے بات کی جائے تو جس نتیجہ پر ہم پہنچتے ہیں، وہ بھی اس کا انکار نہیں کرتے.) کہ باوجود مادی ترقیات کے انہیں سکون قلب حاصل نہیں.اور باوجود دنیوی لحاظ سے اس قدر آگے بڑھ جانے کے وہ اندھیرے میں اس چیز کی تلاش میں پھرتے ہیں کہ جو ان کے دل کے اطمینان کا باعث بن سکے.اس دورہ میں بھی اس مضمون کے متعلق میں نے بیسیوں سے باتیں کیں.اور سب نے یہی کہا کہ یہ آپ درست کہتے ہیں، ہمیں اطمینان قلب حاصل نہیں ہے.جو لوگ صاحب اقتدار ہیں ، جن کے ہاتھوں میں ان قوموں کی لگام ہے، ان کی پریشانیاں تو خدا کی پناہ، اللہ محفوظ رکھے، اس قدر ہیں کہ آپ لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.آپس کی چپقلش، بے اعتباری، بدظنی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں نے ان کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں.پھر حوادثات بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے.ابھی پچھلے مہینوں میں جبکہ میں دورے پر رہا ہوں، پہلے وہاں پانی کی کمی ہوگئی.اور انگلستان جیسے ملک میں، جہاں یہ حال تھا کہ جب میں پڑھا کرتا تھا تو ان دنوں میں اگر کسی دن دو، تین گھنٹہ کے لئے سورج نظر آتا تھا تو لوگ بڑے خوش ہوتے تھے کہ سورج کی شعاعوں نے ہمیں گرمی اور لذت پہنچائی.وہاں اب یہ حال تھا کہ ہفتوں بلکہ مہینوں گذر گئے کہ بارش نہیں برسی.بلکہ بہت سے علاقوں میں بادل دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا.یہاں تک کہ انگلستان کے بعض حصوں میں پانی کا راشن کر دیا گیا.اور وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر مہینہ، دو مہینے یہی حالت اور رہی تو ہم ، جہازوں کے ذریعہ، ٹینکرز کے ذریعہ ناروے سے پینے والا پانی اپنے ملک کے لئے لے کر آئیں گے.درخت جل رہے تھے ، لوگوں نے گھروں میں، جو پودے لگائے ہوئے تھے ، وہ سوکھ رہے تھے.اور ہدایت ی تھی کہ ان پودوں کو پانی نہیں دینا.کیونکہ پانی کی کمی ہے.اور پھر جب میں واپس آیا ہوں تو بارش ہوئی اور 320
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 29 اکتوبر 1976ء بارش وہ ہوئی کہ یہ خبریں آنے لگیں، فلاں علاقے میں سیلاب آ گیا، ہزار ہا آدمی بے گھر ہو گئے ، مکان بہہ گئے، پانی کا جور یلا آیا، وہ پور امکان کا مکان ہی بہا کر لے گیا، کئی جانیں تلف ہوئیں اور نقصان ہو گیا.پس چونکہ وہ خدا تعالیٰ کا حکم ماننے کے لئے تیار نہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کی فلاح اور کامیابی اور خوشحال زندگی کے لئے جو تعلیم بھیجی ہے، اس کی طرف توجہ نہیں کرتے ، اس لئے اپنے ہاتھ سے بھی وہ اپنی ناکامیوں کے سامان پیدا کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ ان کو بیدار کرنے کے لئے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کے منہ اور توجہ کو پھیرنے کے لئے انہیں گاہے گاہے جھنجھوڑتا بھی رہتا ہے.جیسا کہ اس کی سنت ہے.یہ بات کرتے ہوئے ، مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک واقعہ یاد آ گیا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے پیاروں کے ذریعے سے اور اب اس زمانہ میں بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے نہایت ہی پیارے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنی رحمت کے سامان پیدا کرتا ہے.ایک دفعہ قحط پڑا، مدینہ میں بعض صحابہ نے جمعہ کے وقت کہا کہ یا رسول اللہ قحط پڑا ہے.چارے بھی خشک ہو گئے ہیں، جانور بھی تکلیف میں ہیں اور انسان بھی تکلیف میں ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لئے بھلائی کے سامان پیدا کرے اور اپنی رحمت کی بارش نازل کرے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور ابھی جمعہ ختم نہیں ہوا تھا کہ بارش شروع ہوگئی.بارش ہوتی رہی اور سات دن زمین خوب سیراب ہوئی.اگلے جمعہ میں پھر کھڑے ہو گئے کہ یارسول اللہ بارش تو زیادہ ہوگئی ہے، اب ہمیں بارش کی زیادتی نقصان پہنچا رہی ہے.یارسول اللہ ! دعا کریں کہ بارش تھم جائے.آپ نے دعا کی اور بارش تھم گئی.اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا سے اس علاقے میں آپ کی صداقت اور آپ سے اپنے پیار کا ایک نشان ظاہر کرنا تھا.چنانچہ اس طرح لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى کے مطابق ان کی کامیابی اور فلاح کے اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دئیے.اور اب مہینوں انگلستان پانی کے لئے تڑپتا رہا لیکن اسے پانی نہیں ملا.اور جب پانی ملا اور اس کی زیادتی ہو گئی تو اس پانی کو بند کرنے کے لئے اور اس میں مناسب تو ازن قائم کرنے کے لئے ان کو کوئی سہارا نہیں ملتا تھا.وہ لوگ اسی چکر میں رہتے ہیں.میں نے تو ایک چھوٹی سی مثال دی ہے، ورنہ ان کی ساری زندگیاں ہی اسی چکر میں ہیں.شراب کے نشے میں اپنے دکھوں کو بھولنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.وہ شراب، جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ 321
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اکتوبر 1976ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ (المائدہ: 91) کہ یہ شیطانی عمل کی گندگی ہے.اور وہ خدا کی طرف جھکنے کی بجائے ، ذکر اللہ کی بجائے ، شیطانی عمل کی طرف جھک کر اپنے لئے سکون قلب تلاش کرتے ہیں.لیکن دکھ کا بھول جانا تو اطمینان قلب نہیں کہلا سکتا کہ جی ہمیں یاد نہیں رہا.جیسے کہ اگر کوئی آدمی بیمار ہو اور درد میں تڑپ رہا ہو ، اسے ڈاکٹر افیم کا، مارفیا کا ٹیکہ لگا دیتے ہیں اور بے حس کر دیتے ہیں.لیکن بے حسی سکون قلب اور خوشحالی کی علامت نہیں.بے حسی خواہ کسی فعل کے نتیجہ میں پیدا ہو، ٹیکہ لگانے کے نتیجہ میں یا شراب پینے کے نتیجہ میں ، وہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان تکلیف میں ہے لیکن اس کو کوئی مداوا نظر نہیں آتا ، اس کو کوئی چارہ نظر نہیں آتا.وہ خود کو بے حس اور بے ہوش کر کے یا نیم بے ہوشی اپنے اوپر طاری کر کے تکلیف کا احساس دور کرنا چاہتا ہے.کیونکہ تکلیف کو دور کرنے کا کوئی سامان اس کے پاس نہیں ہے.وہ حسین تعلیم ، جو قرآن عظیم کی شکل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نوع انسانی کو دی گئی تھی.کچھ خوش بخت تھے، جن کے لئے اس کے ذریعہ حسنی اور کامیابی اور خوشحال زندگی کے سامان پیدا ہوئے اور کچھ کے لئے نہ ہوئے.انسان کو دکھوں سے نجات دلانے کے لئے ایک جدو جہد، ایک تگ و دو، ایک عظیم مجاہدہ چودہ سو سال سے شروع ہے.اسلام کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنا تا.اسلام در دکو دور کر کے، پریشانیوں کو مٹاکر ، جسمانی اور روحانی سرور پیدا کر کے لوگوں کے دل جیتا اور انہیں اپنی طرف لے کر آتا ہے.جیسا کہ بتایا گیا تھا کہ نوع انسانی چودہ سو سال تک بھٹکتے رہنے کے بعد اور سرگردان پھرنے کے بعد آخری زمانہ میں اسلامی تعلیم کی طرف آئے گی اور اس کے حسن کو پہچانے گی اور اس کے سرور سے سرور حاصل کرے گی اور اس کی لذتوں میں اپنی خوشیاں پائے گی.جیسا کہ یہ پیشگوئی کی گئی تھی ، اس کے مطابق اب نوع انسانی کو اسلامی تعلیم کی طرف لانے کا زمانہ آگیا ہے.اور یہ ذمہ داری کہ اسلام کے حسن کا تعارف نوع انسانی سے کروایا جائے ، جماعت احمدیہ پر ڈالی گئی ہے.جنہوں نے کہ مہدی علیہ السلام پر ایمان لانے کی توفیق پائی.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علمی لحاظ سے ہمارے خزانوں کو بھر دیا ہے.اور اعتقادی لحاظ سے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ مسئلہ تو ہے مگر اس کے سلجھانے کے لئے کوئی تعلیم ہمارے پاس نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی چھوٹی اور 322
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 29 اکتوبر 1976ء بڑی قریباً 82, 80 کتب میں قرآن کریم کی تفسیر اس رنگ میں کی ہے کہ یا تو بعض مسائل کو کھول کر حل کر دیا یا بعض مسائل کوحل کرنے کے سامان پیدا کر دیئے.اور ایک پیج آپ کی اس تفسیر قرآنی کے اندر پایا جاتا ہے، جس کو آنے والوں نے سمجھا اور بیان کیا.اور آنے والے قیامت تک سمجھتے رہیں گے اور بیان کرتے رہیں گے.لیکن اس تفسیر قرآنی کو، جس کی آج نوع انسان کو ضرورت ہے، نوع انسان تک پہنچانا ، ہمارا کام ہے.یہ ہمارا کام ہے اور ہمارا کام رہے گا.اس وقت کام کی ایک ابتداء ہے.پھر ہر کام اپنی جوانی میں آتا اور پھر اپنے عروج کو پہنچتا ہے.جہاں تک علم کا سوال تھا، جہاں تک ضرورت کے لحاظ سے تفسیر قرآنی کا سوال تھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے خزانوں کو بھر دیا.اس کے بعد ان کو پھیلانے کا کام شروع ہوا.ذکر کے ماتحت اپنوں میں بھی پھیلانا ہے، تا کہ احمدی بڑے اور چھوٹے ، مردوزن ، قرآن کریم کی تعلیم کو بھول نہ جائیں.چنانچہ ان میں درس کا سلسلہ شروع ہوا.نئے مسائل آئے اور خلفاء وقت اور علماء احمدیت کو اللہ تعالی نے یہ توفیق دی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بتائی ہوئی تفسیر اور شرح میں سے وہ علم حاصل کریں کہ جس کی ضرورت تھی.اور انہوں نے علمی لحاظ سے ان مسائل کو حل کیا.دنیا کا اسلام کی طرف آنا، اس معنی میں کہ اسلام کی تعلیم کے حسن اور اس کی خوبی کی معرفت حاصل کرنے کے بعد یہ یقین حاصل کر لینا کہ ہماری تمام برائیوں کو دور کرنے اور ہمارے تمام دکھوں کو دور کرنے کا علاج اور مداوا اسلامی تعلیم میں ہے.اور ہماری حقیقی فلاح اور کامیابی اسلامی تعلیم کے اندر ہے.یہ بھی ممکن ہے اور بھی دنیا کو پتہ لگے گا، جب ہم اسلامی تعلیم ان کے سامنے پیش کریں گے.اس کے بعد یعنی دنیا کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد پھر عمل کرنے کا سوال ہے.اس کے لئے جماعت کی ذمہ داری ہے، وہ عملی نمونہ پیش کرے.آپ سوچا کریں اور کوشش کریں کہ دنیا کے سامنے اسلامی تعلیم کا صحیح عملی نمونہ پیش کر سکیں.پس غیر کا دل جیت کر ( غیر سے مراد وہ ہے، جسے اسلام کے دائرے کے اندر آ جانا چاہیے تھا لیکن ابھی تک وہ دور ہے.) اسے اسلام میں داخل کرنا اور عمل کرنے کے لئے اسے تیار کرنا ، جماعت کی دوسری ذمہ داری ہے.ایک وقت آیا، ایک دور کے بعد دوسرا دور گزرا اس طرح کئی دور آتے رہتے ہیں.ایک دور کے بعد دوسرا دور آتا ہے.) اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے.آپ نے بیرون پاکستان (اس وقت ابھی پاکستان نہیں بنا تھا بلکہ ہندوستان تھا.دنیا کے مختلف ممالک میں اسلامی تعلیم کو پھیلانے کے لئے ایک الہی تحریک جاری کی ، ایک منصوبہ تیار کیا اور اس کا نام تحریک جدید رکھا.1934ء میں تحریک 323
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اکتوبر 1976ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم جدید کی ابتداء ہوئی.پھر اپنی ابتداء سے ترقی کرتے ہوئے اس نے بڑھنا شروع کیا اور پھیلنا شروع کیا.دنیا اس بات کو نہیں سمجھتی بلکہ اعتراض کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صرف اس منصوبہ کے نتیجہ میں ہی لاکھوں عیسائیوں اور مشرکین کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی توفیق دی.لاکھوں! ایک یا دو نہیں، سینکڑوں نہیں ، ہزاروں نہیں بلکہ صرف افریقہ میں ہی لاکھوں عیسائی اور مشرک مسلمان ہوئے اور اب بھی ڈاک میں خط آجاتے ہیں کہ میں عیسائی تھا اور چند مہینے ہوئے میں مسلمان ہوا ہوں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اسلام پر قائم رکھے اور اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.لیکن دنیا لاکھوں افراد پر تو مشتمل نہیں.وہ تو کروڑ ہا افراد پر ، کئی ارب افراد پر مشتمل ہے.اور ان سب کو اسلام کی طرف لانا اور پیشگوئیوں کے مطابق بڑے تھوڑے سے وقت میں لانا، بنی نوع انسان کو جن کی اتنی بڑی تعداد ہے اور ان کے پھیلاؤ میں اتنی وسعت ہے کہ وہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.لیکن یہ ہو گا ضرور اور ہو گا اس تھوڑے سے وقت میں.انسانی زندگی میں صدی، سواصدی کا زمانہ لمبا عرصہ نہیں ہے.جیسا کہ قرائن ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری زندگی کی پہلی صدی ، جس کے ختم ہونے میں قریباً چودہ سال رہ گئے ہیں.اس کے بعد وہ صدی ہمارے سامنے آئے گی، جس کے استقبال کی ہم تیاری کر رہے ہیں.اور میں اپنی سمجھ کے مطابق یقین رکھتا ہوں کہ وہ غلبہ اسلام کی صدی ہے.اور پھر ہماری زندگی کی تیسری صدی وہ ہوگی، جس میں ہمیں ان انسانوں کی طرف توجہ کرنی پڑے گی کہ جو بچے کچے کونوں کھدروں میں پڑے ہوں گے اور ابھی تک اسلام نہیں لائے ہوں گے.لیکن انسانوں کی اکثریت اسلام لے آئے گی، اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے اور اس کی بشارتوں کے مطابق لیکن اس سلسلہ میں ہم نے بھی کچھ کرنا ہے.کیونکہ یہ ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے.اور خدا کا فضل ہے کہ جماعت اپنی قربانیوں میں دن بدن ترقی کر رہی ہے.ہمارے پاس صرف وہ مبلغ اور مبشر نہیں ہیں، جو جامعہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں.ان میں سے کچھ ٹوٹ جاتے ہیں اور کچھ کو اللہ تعالیٰ استقامت کی توفیق عطا کرتا ہے اور وہ باہر نکل کر بڑی قربانی دے کر خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں.صرف و ہی نہیں بلکہ بہت سی جگہوں پر ہمارے بعض ادارے کھل گئے ہیں.مثلا مغربی افریقہ میں سالٹ پانڈ ایک جگہ ہے، وہاں پر ان ممالک کے رہنے والے بچوں کو لمبا عرصہ پڑھا کر بطور مبلغ اور مبشر کے تیار کیا جاتا 324
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 29 اکتوبر 1976ء ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یورپ میں ایک سامان کیا ہے.اس وقت میں صرف مثالیں ہی دے رہا ہوں، سارے واقعات اور تعداد نہیں بتارہا.یورپ میں ہمیں بڑی دقت تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ سامان کیا کہ جرمنی میں بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیے کہ سارے ملکوں میں ہی جہاں ہمارے مشن ہیں، ہالینڈ میں بھی ، سوئٹزرلینڈ میں بھی ، جرمنی میں بھی ، ڈنمارک میں بھی ،سویڈن میں بھی ، ناروے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے مخلص انسان اسلام کو دئیے کہ جو احمدیت کے ذریعے اسلام قبول کرنے کے بعد ہمارے آنریری مبلغ بن گئے ، رضا کار مبلغ ، وہ تنخواہ نہیں لیتے تھے لیکن مبلغوں کی طرح دن رات کام کرتے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں.وہ انتہائی مخلص ہیں.انسان حیران ہو جاتا ہے ان کو اور ان کے عمل کو دیکھ کر کہ اتنی دور رہنے والے ہیں، سوائے اس کے کہ فرشتوں نے ان کے اندر ایک انقلاب پیدا کیا ہو، یہ تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی.اس گند میں سے وہ نکلے اور اس گند سے متاثر ہوئے بغیر بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اس گند کو اپنے لئے کھا د بنا کر ایک نہایت حسین روحانی زندگی انہوں نے اپنے اندر پیدا کی اور بہت کام کیا.لیکن یہ تعداد بھی کم ہے.ہمارے پاس پیسہ بھی کم ہے اور آدمی بھی کم.لیکن جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بھی متعدد بار کہا ہے، ہماری ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ دنیا کی ساری غیر مسلم آبادیوں کو مسلمان بنانے کے لئے جتنی رقم کی ضرورت ہے، وہ ہم دیں.یا جتنے مبلغین کی ضرورت ہے، وہ ہم پیدا کریں.کیونکہ ہمارے پاس نہ اتنا مال ہے اور نہ اس تعداد میں ہم آدمی دے سکتے ہیں.لیکن ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ جتنی تمہاری استعداد ہے، اس کے مطابق تم زیادہ سے زیادہ پیش کرو.اور جو کمی رہ جائے گی ، ( اور کمی بہت بڑی ہے.) اس قربانی اور کامیابی کے درمیان جو گیپ (gap) ہے، وہ بہت وسیع ہے لیکن خدا کہتا ہے کہ وہ کمی میں پوری کر دوں گا.لیکن کروں گا اس وقت ، جب تم اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچادو گے.ا اس پس منظر میں آج میں تحریک جدید کے تینتالیسویں اور تینتیسویں اور بارھویں دفتر کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں.یکم نبوت یعنی نومبر سے یہ نیا سال شروع ہوگا.اللہ تعالی کا بڑا فضل ہے.میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا، کچھ سالوں کا گراف دفتر نے مجھے بھجوایا ہے، یہ 67 ء 68ء سے شروع ہوتا ہے.گویا پچھلے آٹھ سال کا ہے.اور یہ آٹھ سال کا گراف تیزی سے اوپر چڑھتا ہے.انہوں نے اس پر صیح لکھا ہوا ہے کہ ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف وہ بلاتے ہیں کہ ہو جائیں نہاں ہم زیر غار 50 ایک بلندی کی طرف اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے صرف اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے جماعت بڑھ رہی ہے.اور اپنی ہر قسم کی قربانیوں میں ترقی کر رہی ہے.ان میں سے ایک حصہ مالی قربانی کا بھی 325
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اکتوبر 1976ء ہے.تحریک جدید کے ماتحت ان قربانیوں کا جو منصوبہ بنایا گیا تھا، اس کے متعلق بھی میں سمجھتا ہوں کہ اب بہت کچھ کہنے کی ضرورت ہے.انشاء اللہ، اللہ نے توفیق دی تو میں کسی خطبے میں اس کے متعلق بیان کروں گا.اس وقت میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ چند سال پہلے جو ٹارگٹ میں نے جماعت کو دیا تھا، اس تک پہنچنے میں کافی دیر لگ گئی.وہ ٹارگٹ غالباً آٹھ لاکھ اور کچھ ہزار کا تھا.لیکن پھر جو barrier اور جو روک تھی، پتہ نہیں کیا تھی ؟ خدا ہی جانتا ہے، جماعت نے اس کو پھلانگا اور سال رواں کے ، یعنی جو سال گزر رہا ہے، اس کے وعدے بارہ لاکھ ستر ہزار کے ہو گئے.اور نئے سال کا ٹارگٹ اللہ پر توکل کرتے ہوئے اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہوئے میں پندرہ لاکھ کا مقرر کرتا ہوں.اور امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت اسے پورا کرے گی.ہمارے دل خدا کی حمد سے ہمیشہ ہی معمور رہتے ہیں.ہماری دعا ہے کہ ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ مزید حمد، بیشمار حمد کرنے کی وسعت پیدا کر دے.تا کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں.اس گراف میں ایک اور چیز نظر آتی ہے.وہ یہ کہ گزشتہ تین سال حوادثات کے سال تھے.73 ء میں بڑا سخت سیلاب آیا تھا، اس نے نقصان کیا.پھر 74ء میں حالات خراب ہوئے اور ابھی تک اس کی باز گشت کسی طرح ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی.اللہ تعالیٰ رحم کرے.لیکن ان سالوں میں تو مالی قربانیوں کا گراف بڑی تیزی کے ساتھ اوپر اٹھا ہے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالٰی نے قائم کیا ہے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی یقیناً مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام ہیں.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ مہدی کی بعثت اللہ تعالیٰ کے ایک خاص منصوبہ کے ماتحت ہوئی.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جیسا کہ پہلی بشارتوں میں یہ کھل کر آیا ہے اور ہمارے بزرگوں نے قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اسلام کا ساری دنیا پر غلبہ ، تمام ادیان باطلہ کے عقائد کامٹ جانا اور اسلامی تعلیم کا دنیا میں قائم ہو جانا، مہدی اور مسیح کے زمانہ میں ہوگا ، یہی وہ زمانہ ہے.یہ ہمارا یقین ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے، یہ ہمارا اعتقاد ہے، یہ وہ چیز ہے، جس کو ہم اسی طرح مانتے ہیں، جس طرح ہم یہ مانتے ہیں کہ اس وقت سورج نکلا ہوا ہے.آپ کی تو اس طرف پیٹھ ہے، میرے سامنے دھوپ ہے، جس طرح اس دھوپ پر ہمیں یقین ہے، اسی طرح اس بات پر ہمیں یقین ہے.اور ہمیں یہ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کے منصوبوں کو انسان نا کام نہیں بنایا کرتے.اور ہمیں یہ یقین ہے کہ ہماری کسی کوشش کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس وقت تک کہ ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے پیار سے معمور ہیں اور ہمارے سینے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے بھرے رہیں اور ہمارا احساس یہ رہے کہ ہم ادنی چاکر کی حیثیت میں اسلام کو ساری دنیا میں قائم کرنے کے لئے پیدا ہوئے اور قائم کئے گئے ہیں، اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہمارے شامل حال رہیں گی.اور ہمارا قدم شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا.326
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 29 اکتوبر 1976ء پس راستہ بڑا کھلا ہے.سختیاں بھی اٹھانی پڑیں گی، تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں گی.لیکن ہم کیا جانیں، ان تکلیفوں کو خدا کی راہ میں.دنیا اپنازورلگائے گی کہ ہمیں نا کام کیا جائے.جیسا کہ پہلے لگاتی رہی ہے.لیکن ہمیں نا کام نہیں کر سکتی.میں دنیا کے ہر مینار سے یہ آواز بلند کرنے کے لئے تیار ہوں کہ دنیا خدا تعالیٰ کے اس منصوبہ کو نا کام نہیں کر سکتی.دنیا کے سارے ایٹم بم اکٹھے ہو جائیں، پھر بھی جو طاقتیں اس وقت گھمنڈ سے اپنی گردنیں اٹھائے ہوئے ہیں، ہم ان کی خیر خواہی کے لئے ان کے دل جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈ.تلے ان کو جمع کر دیں گے.یہ ہے منصوبہ.مارنے کا نہیں، زندہ کرنا کا.قرآن کریم نے بڑا پیارا اعلان کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کی طرف آؤ.اس پر لبیک کہو کہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے، لِمَا يُحْيِيكُم کہ وہ تمہیں زندہ کرے.اس وقت مردوں جیسی حالت ہے.یہ کام تو ہو کر رہے گا.لیکن احمدیت کی ہر اس نسل کی زندگی میں کامیابی کا حصہ ہوگا، جو نسل اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے خدا کی راہ میں قربانی دیتی چلی جائے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.اور اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ اپنی رحمتوں سے ہمیں نوازے.اور ہمیں ان اعمال کی توفیق عطا کرے، جن سے ہم اس کی محبت کو ہمیشہ پہلے سے زیادہ پانے والے اور اس سے لذت اور سرور حاصل کرنے والے ہوں“.مطبوعه روزنامه الفضل 17 جون 1977ء) 327
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1976ء بنی نوع انسان کی نجات صرف اور صرف اسلام میں مضمر ہے ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء 27 جولائی، واشنگٹن صحافی کا ایک اور سوال یہ تھا کہ جماعت احمد یہ عرصہ سے امریکہ میں تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہے، اسی طرح بعض اور اسلامی تنظیمیں بھی یہاں موجود ہیں لیکن امریکیوں نے تا حال ان کا کوئی خاص اثر قبول نہیں کیا.آپ کے نزدیک اس کی کیا وجہ ہے؟ حضور نے فرمایا:.کسی صداقت کی اشاعت کے ابتدائی دور میں صداقت کو قبول کرنے والوں کی تعداد کو چنداں اہمیت حاصل نہیں ہوتی.اہمیت اس امر کو حاصل ہوتی ہے کہ فضا میں رفتہ رفتہ تبدیلی آرہی ہے یا نہیں.اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جب سے جماعت احمدیہ نے یہاں تبلیغ اسلام کا کام شروع کیا ہے ، فضا میں بتدریج تبدیلی رونما ہوتی چلی آرہی ہے.نداب عیسائیت کے ساتھ وہ پہلی سی وابستگی کہیں نظر آتی ہے اور نہ اب اسلام کے خلاف پہلا سا تعصب ہی باقی ہے.پھر یہ بھی نہیں ہے کہ یہاں کسی نے اسلام کو صداقت کے طور پر قبول ہی نہ کیا ہو.ایک اچھی خاصی معقول تعداد خود یہاں کے لوگوں کی اسلام قبول کر چکی ہے اور لوگ مسلسل اسلام میں داخل ہورہے ہیں.گوا بھی داخل ہونے والوں کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ نہیں ہے.ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ایک دن آنے والا ہے اور جلد آنے والا ہے کہ جب روئے زمین پر بسنے والے دیگر بنی نوع انسان کی طرح اہل امریکہ بھی جوق در جوق اسلام میں داخل ہوں گے اور یہاں بھی اسلام سر بلند ہوئے بغیر نہ رہے گا“.ایک خدائی بشارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اسلام کے غلبہ کے دن اب قریب ہیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ آئندہ پانچ سال کے دوران امریکہ میں اسلام کے حق میں بعض انقلابی تبدیلیوں کی ابتدا منصہ شہود پر آجائے گی.اس کے بعد روس میں بھی ایسی ہی انقلابی تبدیلیوں کا آغاز ہوگا.یہ سب کچھ کیسے ہوگا؟ یہ ہم نہیں بتا سکتے.صرف یہ کہہ سکتے ہیں 329
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم کہ خدا نے ہمیں یہ بتایا ہے اور وہ ایسا کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے.اہل امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری روسی قوم اسلام قبول کر کے خدا تعالیٰ کی طرف واپس لوٹ آئے گی.جس طرح ایک ننھے سے بیج میں سے درخت نکل آتا ہے، اسی طرح موجودہ خفیف آثار میں سے، جن کی حیثیت ایک بیج کی سی ہے، اسلام کے عالمگیر غلبہ کا درخت نمودار ہوگا اور نشوونما پا کر پورے کرہ ارض پر محیط ہو جائے گا.فی الوقت دنیا والوں کو ایسا انقلاب نا ممکن نظر آتا ہے.لیکن مستقبل کے لحاظ سے ایسے انقلاب کا بر پا ہونا عین ممکنات میں سے ہے.اور ہم اپنی روحانی آنکھوں سے اسے برپا ہوتے دیکھ رہے ہیں“.صحافی نے مزید دریافت کیا کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں جماعت احمدیہ کے افراد میں جو اضافہ ہو رہا ہے، اس میں زیادہ دخل بچوں کی بڑھتی ہوئی شرح پیدائش کا ہے یا نومسلموں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا ؟ حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہر طرح جماعت کے نفوس اور اموال میں برکت بخش رہا ہے.جہاں شرح پیدائش کی بناء پر افراد جماعت کی تعداد بڑھ رہی ہے، وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اسلام قبول کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہے ہیں.صرف گھانا میں ہی احمدیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے.وہاں ہم نے ہزاروں عیسائیوں کو مسلمان بنایا ہے.اور اسی طرح وہاں کے قدیمی بد مذہب اور لا مذہب بھی بڑی تعداد میں اپنے پرانے مسلک کو خیر باد کہہ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں.اسی طرح مغربی افریقہ کے دوسرے ممالک میں بھی جماعت احمدیہ نے ہزاروں لوگوں کو مسلمان بنایا ہے.مجموعی طور پر ہم اب تک لاکھوں افریقیوں کو مسلمان بنا چکے ہیں.اس کے بالمقابل دس احمدی بھی ایسے پیش نہیں کئے جاسکتے ، جنہیں عیسائی مشن عیسائی بنانے میں کامیاب ہوئے ہوں“.حضرت مصلح موعود " کا ایک خواب ہے.اس خواب میں آپ نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام تشریف لائیں ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال امریکہ میں رہ کر واپس آیا ہوں اور اب روس جا رہا ہوں.حضور علیہ السلام تو اپنی زندگی میں ملک سے باہر تشریف نہیں لے گئے.خلیفہ مامور من اللہ کا جانشین اور قائمقام ہوتا ہے.خلفائے سلسلہ احمدیہ میں سے اس نے سب سے پہلے مجھے امریکہ کا دورہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اس خواب کی بناء پر ہم امید رکھتے ہیں کہ آئندہ پانچ سال کے دوران امریکہ میں اسلام کے حق میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی.اور پھر اسی طرح بعد ازاں روس میں بھی اسلام کے حق میں انقلابی تبدیلیوں کا " آغاز ہوگا.اور انشاء اللہ تعالیٰ وہاں بھی اسلام کے غالب آنے کے سامان ہوں گئے.330
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء دوران گفتگو حضور رحمہ اللہ نے اس آخری زمانہ میں رونما ہونے والے انقلابی تبدیلیوں کے حامل مادی نظاموں اور ان کی ناکامی کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ وو چوتھا انقلاب خالص روحانی انقلاب ہوگا.اور ہر شعبہ زندگی پر اس کا گہرا اثر پڑے گا.جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس انقلاب کی ابتدا ہو چکی ہے اور یہ رفتہ رفتہ منصہ شہود پر آ رہا ہے.جب یہ انقلاب اپنے پورے کمال کو پہنچے گا تو اسلام کو ساری دنیا میں غالب کر دکھائے گا.مطبوعه روزنامه الفضل 27 اگست 1976 ء ) 03 اگست ، ڈیٹن اس زمانہ میں انسان اپنی پیدائش کے اصل مقصد کو بھول گیا ہے، اسی لئے وہ دن بدن اس مقصد سے دور سے دور تر ہوتا جا رہا ہے.انسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو ترقی دے کر خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرے.چونکہ انسان اس مقصد کو بھول چکا ہے، اس لئے وہ خدا تعالی سے اس حد تک دور ہٹ چکا ہے کہ گویا اس سے یکسر بیگانہ ہو گیا ہے.اسی لئے بے راہ روی بڑھ رہی ہے اور نت نئے مسائل پیدا ہور ہے ہیں.اس کا ایک ہی علاج ہے کہ انسان کو پھر خدا کی طرف واپس لایا جائے اور اس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کیا جائے“.حضور نے واضح فرمایا کہ جماعت احمدیہ کواللہ تعالیٰ نے اسی لئے قائم فرمایا ہے کہ یہ روئے زمین کے تمام انسانوں کو اسلام کی طرف دعوت دے کر اور انہیں اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا کر کے اس قابل بنائے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا زندہ تعلق قائم ہو جائے.پھر خدا تعالیٰ نے اس جماعت کے ساتھ یہ وعدہ کیا ہے اور اسے بشارت دی ہے کہ ایسا انقلاب رونما ہو کر رہے گا.یعنی یہ کہ روئے زمین کے تمام انسان اسلام میں داخل ہو کر خدا تعالیٰ کے حقیقی عبد بن جائیں گے.اور اس طرح زندگی گزاریں گے، جس طرح کہ خدائی منشاء کے مطابق انہیں زندگی گزارنی چاہیے.دنیا اس زمانہ میں خدا تعالیٰ سے دور ہٹ کر متعددانقلابات میں سے گزر چکی ہے.اور ایک انقلاب کے بعد دوسرے انقلاب میں سے گزرنے کے باوجود نا کامی کا منہ دیکھتی چلی آرہی ہے“.اس ضمن میں حضور نے صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں رونما ہونے والے سرمایہ دارانہ نظام، روس کے کمیونسٹ انقلاب اور چین کے سوشلسٹ انقلاب پر تفصیل سے روشنی ڈالی.اور ان میں سے ہر نظام کے اندر پائی جانے والی خامیوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ 331
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے، جو جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کی کامل نشو ونما کے ذریعہ انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر دکھاتا ہے.اسی لئے دنیا کی نجات اسلام کے ساتھ وابستہ ہے.اس کے بعد حضور نے متعد دسوالوں کے جواب دیئے.جو زیادہ تر اس امر سے تعلق رکھتے تھے کہ اسلامی انقلاب، جس کے ساتھ دنیا کی نجات وابستہ ہے، کس طرح رونما ہو گا ؟ حضور نے فرمایا:.اس انقلاب کے رونما ہونے میں طاقت کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.یہ سراسر پرامن ذرائع سے رونما ہو گا.پر امن ذرائع سے مراد محبت پیار اور بے لوث خدمت ہے.یہی وہ ذرائع ہیں، جن سے دلوں کو بدلنا ممکن ہے.دل طاقت سے نہیں بلکہ ان ذرائع سے ہی بدلے جاتے ہیں.اب بھی انہی ذرائع سے دل بدلے جائیں گے اور بنی نوع انسان اسلام کی آغوش میں آکر خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کریں گئے.اس سوال کے جواب میں کہ اگر پر امن اور آئینی ذرائع سے مطلوبہ تبدیلی رونمانہ ہو تو کیا پھر بھی طاقت اور تشدد کا استعمال ممنوع ہی رہے گا ؟ حضور نے فرمایا:.ہماری ذمہ داری صرف اتنی ہی ہے کہ ہم محبت، پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ لوگوں کے دل بدلنے کی کوشش کرتے چلے جائیں.خواہ دل بدلنے میں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے.دل ہمیشہ رفتہ رفتہ ہی اثر قبول کرتے ہیں.آخر ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ لوگ قبول حق پر آمادہ ہو جاتے ہیں.اس لئے طاقت استعمال کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پھر خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ یہ انقلاب خود بر پا کرے گا.وہ ہمہ قدرت اور ہمہ طاقت خدا ہے.وہ ایسے حالات پیدا کرے گا کہ دل اثر قبول کرنے لگیں گے اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوتے چلے جائیں گئے.05 اگست، نیویارک مطبوعه روزنامه الفضل 15 ستمبر 1976ء) ”مذہب کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم ہو جائے.جب کسی انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم ہو جاتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ ہر آڑے وقت میں اس کی رہنمائی فرماتا ہے اور اسے اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے.وہ پھر عقل کے رحم وکرم پر نہیں ہوتا بلکہ ہمہ قدرت وہمہ 332
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم - ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء طاقت خدا خود اس کی رہنمائی کرتا ہے.اور اس کی عقل ٹھوکر کھانے سے محفوظ ہو جاتی ہے.جملہ مذاہب میں سے صرف اسلام وہ زندہ مذہب ہے، جس پر عمل پیرا ہونے سے انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم ہو سکتا ہے.جولوگ صحیح معنوں میں اسلام کی تعلیم کو اپنا دستور العمل بناتے ہیں، خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا زندہ تعلق قائم ہو جاتا ہے.ہماری جماعت میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنہیں مشکلات کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے.آج دنیا اپنے مقصد کو بھول چکی ہے اور مجرد عقل کے پیدا کردہ اندھیروں میں بھٹک رہی ہے.پچھلے مسئلے حل نہیں ہوتے اور بنی نوع انسان ہیں کہ نت نئے مسائل سے دوچار ہوتے چلے جارہے ہیں.ان کی بقا اور فلاح کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر خدا تعالٰی کے ساتھ زندہ تعلق قائم کریں اور اس سے روشنی حاصل کر کے اپنے مسائل حل کریں.اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اسلام کے بغیر نوع انسان کی بقا اور فلاح کی کوئی امید نہیں ہے.ایک نامہ نگار نے سوال کیا کہ احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے اور ان کا مابہ الامتیاز کیا ہے؟ حضور نے اس کے جواب میں فرمایا :.” ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی علیہ السلام کی بعثت ظہور میں آگئی ہے.بائبل میں بھی اور بعض دوسری مذہبی کتابوں میں بھی یہ پیشگوئی موجود ہے کہ آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ کے ایک مقرب ظاہر ہوں گے اور دنیا کو جو جو مسائل درپیش ہوں گے، انہیں حل کریں گے.خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں اپنے ایک عظیم روحانی فرزند کے مبعوث ہونے کی بشارت دی تھی اور فرمایا تھا، آپ کا وہ عظیم روحانی فرزند مہدی ہوگا اور وہ اسلام کو دنیا میں غالب کرے گا.اور اس طرح دنیا کو عقل کے پیدا کردہ اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے گا.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام وہ موعود مہدی ہیں اور اب آپ کے ذریعہ ہی اسلام دنیا میں غالب آئے گا اور تمام بنی نوع انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم ہوگا.دوسرے مسلمانوں نے ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم روحانی فرزند یعنی مہدی موعود کو تسلیم نہیں کیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ مہدی نے ابھی مبعوث ہونا ہے“.حضور نے اس امر کا اعلان کرتے ہوئے کہ ایک دن اسلام دنیا میں غالب آکر رہے گا ، بتایا:.دنیا ایک انقلاب کے بعد دوسرے انقلاب میں سے گزرتی چلی آرہی ہے.اللہ تعالی نے انسان کو چار قسم کی صلاحیتیں عطا کی ہیں.ایک جسمانی ، دوسرے ذہنی ، تیسرے اخلاقی اور چوتھے روحانی.اسلام کہتا ہے کہ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اس کی ان چاروں قسم کی صلاحیتوں کی کامل نشو ونما ہو.ان میں.333
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کسی ایک قسم کی صلاحیتوں کی نشوونما سے اسے محروم کرنے کا نام Exploitation ہے.اس زمانہ میں اب تک جوانقلاب آئے ہیں، وہ اسی لئے ناکام ثابت ہوتے رہے ہیں کہ ان میں اول الذکر دو قسم کی صلاحیتوں کی نشو ونما پر زور دیا گیا لیکن باقی دو صلاحیتوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا.پہلا انقلاب، جس میں جسمانی صلاحیتوں کی نشو نما پرز در دیا گیا تھا، سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا.اس میں زیادہ سے زیادہ مادی فوائد کے حصول کو اہمیت دی گئی تھی.جب سرمایہ داروں نے عوام کو حاصل کردہ مادی فوائد میں شریک کرنے سے انکار کیا تو دوسرا انقلاب کمیونزم کی شکل میں رونما ہوا.اس میں جسمانی ہی نہیں، ذہنی صلاحیتوں کی نشو و نما کو بھی اہمیت دی گئی.لیکن اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کا انکار کر کے ان کے پینے کا راستہ یکسر مسدود کر دیا گیا.تیسرا انقلاب، چینی سوشلسٹ انقلاب کی شکل میں نمودار ہوا ہے.اس میں اخلاقی پہلو پر بھی زور دیا گیا ہے.لیکن یہ انقلاب ابھی ابتدائی حالت میں ہے.نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کہاں تک کامیاب ہوگا یا کامیاب ہوگا بھی یا نہیں؟ لیکن ایک چوتھا انقلاب بھی ہے، جس کی بنیاد حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بعثت کے ساتھ پڑچکی ہے.اور وہ ہے، حقیقی اسلامی انقلاب.اس کا مقصد بنی نوع انسان کی چاروں قسم کی صلاحیتوں کی کامل نشوونما کے ذریعہ ان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل تعلق پیدا کر دکھانا ہے.ابھی اس انقلاب کے ابتدائی آثار ہی نمودار ہوئے ہیں.اور بالعموم دنیا والے اس سے بے خبر ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ یہ انقلاب رونما ہوکر رہے گا.اور یہ اپنے کمال کو اس وقت پہنچے گا، جب تمام بنی نوع انسان اسلام کو زندہ مذہب کے طور پر اختیار کر لیں گے.ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ وقت آنے والا ہے کہ جب اہل امریکہ ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان اسلام کے حلقہ بگوش ہو کر نئے انسان بن جائیں گے.کیونکہ جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کی کامل نشو و نما کے نتیجہ میں انہیں ان کا اصل اور جائز حق پورا پورامل جائے گا.اور ہر قسم کی Capitalisation کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا“.اس سوال کے جواب میں کہ یہ انقلاب کب اپنے کمال کو پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا:.” ہم اپنی جماعتی زندگی کی پہلے صدی میں سے گزر رہے ہیں.جس کے پورا ہونے میں چودہ، پندرہ سال باقی ہیں.یعنی چودہ، پندرہ سال بعد دوسری صدی شروع ہو جائے گی.یہ دوسری صدی اسلام کی فتح کی صدی ہے.اس صدی میں اسلام دنیا میں آگے ہی آگے قدم بڑھاتا چلا جائے گا.یہاں تک کہ ساری دنیا پر چھا جائے گا.سو حقیقی اسلامی انقلاب اپنے کمال کو پہنچنے میں سو سال سے زیادہ عرصہ نہیں لے گا.اور سو 334
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء سال کا عرصہ قوموں کی تاریخ میں کوئی زیادہ لمبا عرصہ نہیں ہوتا.اسلام جو انقلاب لانا چاہتا ہے، وہ کوئی خارجی چیز نہیں ہے.بلکہ وہ انسانی فطرت میں پوشیدہ ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا اسلام میں کوئی تعلیم ایسی نہیں، جو انسانی فطرت کے خلاف ہو.اس لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو اسلام کا بہر حال غالب آنا یقینی ہے“.اس امر کو واضح کرتے ہوئے کہ ہم یہ انقلاب کس طرح لائیں گے؟ حضور نے فرمایا:.ہم تشدد سے نہیں بلکہ محبت سے، پیار سے اور بے لوث خدمت سے لوگوں کے دل جیتیں گے اور اس طرح ان کے دل اسلام کی طرف مائل کریں گے.محبت، پیار اور بے لوث خدمت میں خدا نے بڑی کشش رکھی ہے.مزید فرمایا:.”میرے دل میں کسی کے خلاف کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے خلاف حقارت کے جذبات ہیں.میں باطل نظریات اور باطل عقائد کا مخالف ضرور ہوں.لیکن نوع انسان کا ہمدرداور بہی خواہ ہوں.اور ہمدردی کے جذبہ کے تحت محبت و پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ ان کے دل اسلام کے لئے جیتنا چاہتا ہوں.یہی وجہ ہے کہ جب 1970ء میں، میں مغربی افریقہ کے بعض ممالک میں گیا اور میں نے وہاں محسوس کیا کہ یہاں کے لوگوں کو ہماری خدمت کی ضرورت ہے تو میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں ان کے ہاں سولہ ہسپتال اور اتنی ہی تعداد میں ہائر سیکنڈری سکول کھولنے کی کوشش کروں گا.خدا تعالیٰ نے مجھے دو سال کے اندر اندر یہ وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرما دی.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پانچ ہسپتال گیمبیا میں، چار سیرالیون میں، چار گھانا میں، ایک لائبیریا میں اور تین نائیجیریا میں کامیابی سے چل رہے ہیں اور دن بدن ان کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے.ایک نامہ نگار نے دریافت کیا کہ آپ کی جماعت گزشتہ پچاس سال سے تبلیغ کر رہی ہے، ان پچاس سال کے اندر کیا انقلاب آیا؟ حضور نے فرمایا:.مذہب کا تعلق دل سے ہے.دل کو جبر سے نہیں بدلا جاسکتا.جب میں کہتا ہوں کہ روئے زمین کے تمام انسان اسلام قبول کر لیں گے ، اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ سب کو بالجبر مسلمان بنا لیا جائے 335
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم گا.بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ ایک وقت آئے گا، جب ساری دنیا یہ تسلیم کرے گی کہ تمام انسانوں کی خداداد صلاحیتوں کی کامل نشو و نما کا انتظام ہونا چاہئے.اس وقت لوگ خود بخود اسلام کی طرف کھینچے چلے آئیں گے.ہم محبت سے، پیار سے اور بے لوث خدمت کے ذریعہ مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں اور یہ کوشش رائیگاں نہیں جارہی.دل رفتہ رفتہ اثر قبول کر رہے ہیں.ایک وقت آئے گا کہ وہ مکمل طور پر بدل جائیں گے.اس وقت ان کے لئے اسلام قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا.وہ خود بخو د اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے.جماعت احمدیہ نے اس عرصہ میں اس سے زیادہ ترقی حاصل کی ہے، جتنی مسیح علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں حاصل کی تھی.09 اگست ، ٹورنٹو ( مطبوعه روزنامه الفضل یکم اکتوبر 1976ء) ایک اور نامہ نگار نے پوچھا آپ کے کینیڈا تشریف لانے کا مقصد کیا ہے؟ حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں یہ امر یہاں کے لوگوں کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ انسانی مسائل کوحل کرنے کے << لئے محض عقل پر انحصار کرنا درست نہیں ہے.65 ہوا ہے.حضور نے متعدد مثالیں دے کر واضح فرمایا کہ دو عقل پر کلی انحصار کے نتیجہ میں انسانی مسائل حل نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہی فرمایا:.” ہم میں سے ہر شخص کا مشاہدہ ہے کہ عقل پر انحصار کی وجہ سے آئے دن نت نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں.جب عقل یکسر نا کافی ثابت ہو چکی ہے تو پھر مسائل کو حل کرنے کا کوئی اور ذریعہ بھی ہونا چاہیے.میں یہ بتانے یہاں آیا ہوں کہ وہ ذریعہ اس کا ئنات کو پیدا کرنے اور اسے ایک خاص نظام کے تحت چلانے والے خدا کی ہمہ قدرت و ہمہ طاقت ذات ہے.عقل کی نارسائی کا ایک ہی مداوا ہے.اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کر کے اس سے رہنمائی حاصل کی جائے.اسلام ہی وہ مذہب ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے.اور اس سے رہنمائی حاصل کر کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے.جماعت احمدیہ میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں، جن کا خدا تعالی کے ساتھ زندہ تعلق قائم ہے.انہیں خدا تعالیٰ کچی خوابیں دکھاتا ہے اور مشکلات میں ان کی رہنمائی کرتا ہے“.336
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1976ء نامہ نگار نے مزید سوال کیا کہ کیا آپ لوگوں کا خدا سے زندہ تعلق قائم کرانے کے لئے انہیں مسلمان بنانا چاہتے ہیں؟ حضور نے فرمایا کہ جماعت احمد یہ ساری دنیا میں پھیل چکی ہے اور ہم ساری دنیا کو مسلمان بنانا چاہتے ہیں.لیکن ہم تشدد پر یقین نہیں رکھتے.ہم محبت سے، پیار سے اور بے لوث خدمت سے لوگوں کے دل جیتنا چاہتے ہیں.اور ہم نے انہی ذرائع سے کام لے کر افریقہ میں لاکھوں انسانوں کے دل جیتے ہیں.چنانچہ گھانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا اور لائبیریا میں لاکھوں کی تعداد میں ہم لوگوں کو مسلمان بنا چکے ہیں.اسی طرح ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہم ایک دن اس ملک کے لوگوں کے دل بھی اسلام کے لئے جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے.گوا بھی دوسروں کو ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے لیکن ہماری نگاہ میں یہ ہرگز ناممکن نہیں ہے.ہمارے دل اس یقین سے لبریز ہیں کہ ایک دن ایسا ہو کر رہے گا.کیونکہ ہمارے خدا نے خود ہمیں اس کی خبر دی ہے.ہم لوگوں کے دل جیتیں گے اور ضرور جیتیں گے.اور جیتیں گے بھی محبت اور پیار کے شدید حملہ کے ذریعہ ہم محبت اور پیار سے مسلح ہو کر اقوام عالم کے دلوں پر حملہ آور ہوں گے اور انہیں بھی محبت و پیار سے بھر دیں گے.مشرق و مغرب کے تمام ممالک حتی کہ کمیونسٹ ممالک بھی اسلام کی آغوش میں آئے بغیر نہ رہیں گئے.نامہ نگارنے پوچھا کینیڈا میں آپ کی جماعت کے کتنے نمبر ہیں؟ اس سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا:.دنیا بھر میں احمدیوں کی تعداد ایک کروڑ کے قریب ہے.گو کینیڈا میں ان کی تعداد ہزار، ڈیڑھ ہزار سے زیادہ نہیں ہے.اور ان میں بھی غالب اکثریت IMMIGRANTS کی ہے.لیکن ابتداء میں تعداد کو زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی.خود سیح علیہ السلام اپنی پوری زندگی میں، جو عیسائی عقیدہ کی رو سے انہوں نے اس دنیا میں گزاری، درجن بھر لوگوں کو ہی راہ راست پر لا سکے تھے.لیکن بعد میں مسیحیت پوری مغربی دنیا میں پھیل گئی.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگلے سو سال کے اندر دنیا کی غالب اکثریت اسلام قبول کرلے گی“.مسجد کی تعمیر کے ضمن میں حضور نے فرمایا:.( مطبوعه روزنامه الفضل 12 اکتوبر 1976) مسجد کے متعلق دو تصور پائے جاتے ہیں.ایک تو UTILITY یعنی افادیت کے نقطہ نگاہ سے مساجد تعمیر کی جاتی ہیں.اور دوسری قسم کی مساجد میں افادیت سے زیادہ نمائش کا پہلو غالب ہوتا ہے.337
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم موجودہ مرحلہ میں ہم کومسجد کی تعمیر پر زیادہ رقم خرچ نہیں کرنی چاہیے.بلکہ افادیت کو مد نظر رکھ کر ایسی مسجد تعمیر کرنی چاہیے، جس سے ضرورت پوری ہو سکے.اس وقت زیادہ اہمیت اس امر کو حاصل ہے کہ ہم یہاں احمدیوں کو مغربی ماحول کے برے اثرات سے بچانے اور نئی پود کی خالص اسلامی ماحول میں تربیت کرنے پر زور دیں.اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ فوری طور پر آپ شہر سے تیں ، چالیس میل باہر ہیں ، ہمیں ایکٹر زمین حاصل کریں.شہر سے باہر آپ کو زمین ستی اور آسان قسطوں پر مل جائے گی اور وہاں آپ کیمونٹی سنٹر بنا ئیں.اس میں آپ تعطیلات کے دوران دینی تربیت کے کورس جاری کریں.ان میں بچے اور نو جوان شریک ہوں.اس طرح بچوں اور نو جوانوں کو دین سیکھنے اور انہیں اسلامی آداب کا پابند بنانے میں بہت مدد ملے گی.اس کے علاوہ شہر میں ایک کمرہ کرایہ پر حاصل کر کے اسے نمازوں کا مرکز بنا ئیں اور وہاں با جماعت نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں.ساتھ کے ساتھ شہر میں یا شہر کے قریب مسجد کے لئے زمین خریدنے کی کوشش بھی جاری رکھیں.جب زمین مل جائے تو اس پر افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حسب ضرورت مسجد تعمیر ہو سکتی ہے.جہاں تک اس کے لئے قربانی اور ایثار سے کام لینے کی ضرورت ہے، آپ لوگ انگلستان کی جماعت سے سبق حاصل کر سکتے ہیں.گوٹن برگ میں جو مسجد تعمیر ہوئی ہے اور جس کا انشاء اللہ تعالیٰ میں 20 اگست کو افتتاح کروں گا، اس کے اخراجات میں سے 75 ہزار پاؤنڈ انگلستان کی جماعت نے اپنے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں سے مہیا کئے ہیں.ایک سال کے اندر اندر یہ رقم ادا کرنے کے بعد انگلستان کی جماعت اب اوسلو میں بھی مسجد تعمیر کرنے کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوگئی ہے.اس مرحلہ پر ایک دوست نے عرض کیا کہ آج کل چرچ کی خالی عمارتیں فروخت ہورہی ہیں اور سستے داموں مل جاتی ہیں، اگر ہم بھی ایسی کوئی عمارت خرید لیں تو اسے با آسانی مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے.اس پر حضور نے فرمایا:.نہیں، ہرگز نہیں.ہم اپنی مسجدیں آپ بنا ئیں گے.ہم یہ الزام نہیں لینا چاہتے کہ ہم نے عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو مساجد میں تبدیل کر دیا ہے.چندوں کی با شرح اور با قاعدہ ادا ئیگی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:.اگر یہاں کے دوست پوری شرح کے مطابق با قاعدہ چندے ادا کرنا شروع کر دیں اور آپ لوگ ان سے وصولی کے نظام میں با قاعدگی پیدا کر لیں تو آپ ایک نہیں کئی مساجد تعمیر کر سکتے ہیں.ہر شخص کو شرح کے مطابق چندہ ادا کرنا چاہیے.یہ درست نہیں ہے کہ لوگ تھوڑی بہت رقم ادا کر کے یہ سمجھ لیں کے 338
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء چندوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے.فرض تو اسی صورت میں ادا ہو سکتا ہے کہ سب دوست شرح کے مطابق با قاعدگی سے چندہ ادا کریں.اگر کسی مجبوری کی بنا پر کوئی دوست شرح کے مطابق چندہ ادانہ کر سکتے ہوں تو شرح از خود کم کرنے کی انہیں اجازت نہیں ہے.ایسے دوستوں کو چاہئے کہ وہ انفرادی طور پر خلیفہ وقت سے درخواست کر کے شرح میں کمی کی اجازت لیں.جہاں تک شرح میں کمی کا سوال ہے، یہ امر یا درکھنا چاہیے، وصیت کے چندہ میں کمی کرنے یا اس کے بقائے معاف کرنے کا خلیفہ وقت کو بھی اختیار نہیں ہے.باقی چندوں کے بارے میں خلیفہ وقت کسی شخص کی درخواست پر اس کی مجبوریوں کے پیش نظر شرح میں کمی بھی کر سکتا ہے اور بقائے معاف بھی کر سکتا ہے.بہر حال کوشش کریں کہ تمام دوست با قاعدگی سے با شرح چندہ ادا کریں.اور اگر کوئی دوست با شرح ادانہ کر سکتے ہوں تو وہ از خود شرح میں کمی نہ کریں بلکہ اس کی خلیفہ وقت سے اجازت حاصل کریں.اگر آپ اس پر کما حقہ عمل کریں گے تو آپ کے لئے مشن ہاؤس اور مسجد تعمیر کرنا قطعا مشکل نہ ہوگا.اور آپ تربیتی اور تبلیغی سرگرمیوں میں بآسانی وسعت پیدا کر سکیں گے“.آخر میں حضور نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال امریکہ میں رہ کر آیا ہوں اور اب روس جاؤں گا.یہ خواب ایک رنگ میں میرے ذریعہ پوری ہوئی ہے.کیونکہ خلفاء سلسلہ احمدیہ میں سے میں ہی پہلا خلیفہ ہوں، جسے خدا تعالیٰ نے امریکہ اور کینیڈا کا دورہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.یہ خواب بتا رہی ہے کہ آئندہ پانچ سال شمالی امریکہ میں رہنے والے احمدیوں کے لئے خاص اہمیت کے حامل ہیں.اور ان پانچ سالوں میں ان پر بہت اہم ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں.آپ اسی طرح قربانیاں کرنے اور ذمہ داریاں نباہنے کے لئے تیار ہو جائیں ، جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ان کے معابعد آنے والوں نے اسلام کی سر بلندی کے لئے قربانیاں دی تھیں اور ذمہ داریاں نبھائی تھیں.انہیں تو جنگیں لڑنی اور اپنی جانیں نچھاور کرنی پڑی تھیں.لیکن ہمیں محبت اور پیار سے دوسروں کے دل جیتنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر قسم کی جانی اور مالی قربانیاں پیش کر کے اور ہر قسم کے دکھ اور تکالیف برداشت کر کے اپنی اس ذمہ داری کو کمال مستعدی سے نبھاتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه روز نامه الفضل 13 اکتوبر 1976ء) 339
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء 13 اگست، واشنگٹن تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم - اس سوال کے جواب میں کہ آپ یہاں کے لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ حضور نے فرمایا کہ ”میرا پیغام یہ ہے کہ انسان، انسان سے محبت کرنا سیکھے.حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے کی تمام خرابیوں اور مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان نے انسان سے محبت کرنا چھوڑ دیا ہے.میں یہ پیغام لے کر یہاں آیا ہوں کہ صرف اور صرف اسلام کی بے مثال ولا زوال تعلیم پر عمل پیرا ہو کر ہی انسان انسان سے محبت کرنا سیکھ سکتا ہے.اور یہ کرہ ارض امن اور سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے.میں جہاں بھی گیا ہوں، میں نے لوگوں تک یہ بات پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام آئندہ سو سال میں ساری دنیا میں پھیل جائے گا.اور اب آپ کو بھی بتا تا ہوں کہ ایک صدی کے اندر اندر امریکہ میں رہنے والوں کی غالب اکثریت بھی اسلام کی حسین تعلیم اور دل موہ لینے والی تعلیم کی گرویدہ ہو کر جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں حلقہ بگوش اسلام ہو جائے گی.میں یہ اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں خود اسلام کے غالب آنے کی بشارت دی ہے اور وہ یہ قدرت رکھتا ہے کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کر دکھائے“.حضور نے اس ضمن میں مزید فرمایا کہ دنیا کو بھی یہ بات نا ممکن نظر آتی ہے اور وہ اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.لیکن ہمیں یہ بات اس لئے ناممکن نظر نہیں آتی کہ خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں بہت سی ایسی باتیں ، جو پہلے ناممکن نظر آتی تھیں، ہماری آنکھوں کے سامنے ممکن کر دکھائی ہیں.اس موقع پر حضور نے انقلاب روس، کوریا کی نازک حالت اور مشرق میں ایک نئی طاقت کے ابھرنے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کا ذکر کر کے ان کے پورے ہونے پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ پیشگوئیاں پوری ہوئی اور ایک دنیا ان کے پورے ہونے پر گواہ ہے.اسی طرح ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ عالمگیر غلبہ اسلام کی پیشگوئی بھی ضرور پوری ہوگی اور یہ دنیا اسلام کی آغوش میں آکر رہے گی.اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ امریکہ میں اس وقت احمدیوں کی تعداد کتنی ہے؟ حضور نے فرمایا:.امریکہ میں احمدی ابھی چند ہزار سے زیادہ نہیں ہیں.لیکن شروع میں تعداد کو اہمیت حاصل نہیں ہوتی.اہمیت اس بات کو حاصل ہوتی ہے کہ آیا فضا میں بتدریج تبدیلی رونما ہورہی ہے یا نہیں ؟ سو یہ امر ظاہر و باہر ہے کہ اب فضا بدل رہی ہے، اسلام کے خلاف تعصب دن بدن کم ہو رہا ہے اور خود مغربی اقوام کی اسلام میں 340
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1976ء دلچسپی بڑھتی جارہی ہے.اس نقطہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں بنیادی تبدیلیاں ظہور میں آرہی ہے.اور رفتہ رفتہ رونما ہونے والی یہ تبدیلیاں بالآخر اسلام کے عالمگیر غلبہ پر منتج ہوکر رہیں گی.نامہ نگار نے سوال کیا کہ اسلام، جو آج سے چودہ سو سال پہلے دنیا میں آیا تھا، موجودہ زمانے یا اس کے بھی بعد میں آنے والے زمانہ کے مسائل کو کیسے حل کر سکتا ہے.جبکہ دنیا بدلتی جارہی ہے اور اسلام میں نہ کوئی تبدیلی رونما ہوئی اور نہ آپ کے عقیدہ کے مطابق آئندہ اس میں کوئی تبدیلی ہوگی؟ حضور نے اس سوال کے جواب میں فرمایا:.بنیادی صداقت کبھی نہیں بدلا کرتی.وہ اپنی اصل حالت میں قائم رہتی ہے.البتہ زمانہ کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق اس کی نئی تو جبیبہ وتوضیح ہوتی رہتی ہے اور نئے مسائل کا حل اسی بنیادی صداقت کی روشنی میں منظر عام پر آتا رہتا ہے.اسلام ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نئی تو جیہات کے مطابق نئے مسائل کو حل کرتا چلا آرہا ہے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے مسائل بھی اگر حل ہوں گے تو اسلام کی اس نئی تو جیہہ کے مطابق ہی ہوں گے، جسے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں پیش کرنے کا خودا انتظام کیا ہے.اس ضمن میں حضور انور نے مزید واضح فرمایا کہ 66 زمانہ جونئی کروٹ لیتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ درست ہی ہو.لیکن جو تبدیلیاں خدا تعالیٰ کی طرف سے لائی جاتی ہیں، وہ خیر و برکت کا موجب ہوتی ہیں.اور انہی کے ذریعے دنیا کی مشکلات دور ہوتی ہیں.اگر دنیا ان تبدیلیوں کا خیر مقدم کرتی ہے تو اسے فلاح کی راہ میسر آجاتی ہے اور اگر وہ ان کی مخالفت پر مصر رہتی ہے تو پھر اسے اس مخالفت کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے.میں دعا کرتا ہو کہ قبل اس کے کہ خدا اپنا قہر دکھائے، بنی نوع انسان اس سے زندہ تعلق قائم کر کے خود اس کا چہرہ دیکھ لیں.اگر دنیا میں تباہی آئی تو بنی نوع انسان کی اپنی غلطی کی وجہ سے آئے گئی.اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو غلطیوں سے بچائے اور صحیح راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا کرے.20 اگست ، گوشن برگ مطبوعه روزنامه الفضل 22 اکتوبر 1976 ء ) جماعت احمدیہ نے کچھ عرصہ سے سکنڈے نیوین ممالک میں تبلیغ اسلام کا کام شروع کیا ہے.اس جماعت کی بنیاد آج سے 86 سال پہلے رکھی گئی تھی.اور خدا کی طرف سے اسے یہ بشارت دی گئی تھی کہ اسلام کے دنیا میں غالب آنے سے اس کے تمام دکھ اور مصائب دور ہوں گے.یہ جماعت اس دن.341
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1976ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ہی جبکہ اس کی بنیاد رکھی گئی، اسلام کے دنیا میں غالب آنے کا انتظار کر رہی ہے.اور مصروف عمل رہتے ہوئے ، اس دن تک انتظار کرتی چلی جائے گی.جب تک کہ خدائی وعدوں کے بموجب غلبہ اسلام کا دن طلوع نہ ہو جائے.ہم مستقبل کے بارہ میں کچھ نہیں جانتے.لیکن خدا تعالی ، جو علام الغیوب ہے، جانتا ہے کہ وہ دن کب طلوع ہوگا.البتہ وہ اپنے بندوں کو بالکل اندھیرے میں نہیں رکھتا ہے.بلکہ انہیں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات سے ایک حد تک مطلع کرتا رہتا ہے.اس نے جن واقعات سے ہمیں اطلاع دی تھی ، وہ بتدریج منصہ شہود پر آتے چلے جارہے ہیں.مثال کے طور پر اس نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ روس میں انقلاب برپا ہونے کی اطلاع دی تھی، آپ سب جانتے ہیں، وہ انقلاب برپاہوکر رہا.اسی طرح خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق اسلام پورے کرہ ارض پر غالب آکر رہے گا.قوموں کی زندگی میں ایک صدی کا عرصہ، زیادہ لمبا عرصہ نہیں ہوتا.اسلام کا غالب آنا حتمی اور یقینی ہے.کیونکہ خدائے قادر وعزیز نے خود اس امر سے ہمیں آگاہ کیا ہے اور ایسا کانا کرنے پر وہ قادر ہے.ایک نامہ نگار نے دریافت کیا کہ آپ غلبہ اسلام کے ضمن میں تبلیغ واشاعت کے جس پروگرام پر عمل پیرا ہیں، اس کی علت غائی کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا:.ہمارا ایک ہی پروگرام ہے اور اس کی ایک ہی علت غائی ہے.اور وہ یہ کہ ہم محبت اور پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ اسلام کے لئے لوگوں کے دل جیتیں گے.آپ اندازہ نہیں لگا سکتے ، نوع انسانی کی محبت ہمارے دلوں سے ابل رہی ہے“.ایک اور نامہ نگار نے پوچھا کیا واقعی مغربی دنیا کے عیسائی ایک دن مسلمان بن جائیں گے؟ حضور نے فرمایا:.ہم انہیں یقین دلائیں گے کہ ان کی نجات صرف اور صرف اسلام میں مضمر ہے.اگر وہ مطمئن ہو گئے تو کوئی انہیں اسلام قبول کرنے سے روک نہیں سکے گا“.342 ( مطبوعه روزنامه الفضل 02 نومبر 1976ء)
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 11 دسمبر 1976ء سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی وو خطاب فرمود : 11 دسمبر 1976 ء بر موقع جلسہ سالانہ مستورات سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی.اور اس کی غرض یہ تھی کہ مہدی علیہ السلام کے ذریعہ مردوزن پر مشتمل ایک ایسی جماعت پیدا کی جائے ، جو دنیا میں اسلام کو غالب کرے، جو تو حید خالص کو انسان کے دل میں گاڑنے کی کامیاب کوشش کرے اور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے انسان کے دل میں ایک ایسا پیار پیدا کرے کہ اس پیار کی دھڑکنیں ان تمام دھڑکنوں سے بڑھ کر ہوں ، جوکسی پیار کے نتیجہ میں کسی انسان کے دل میں کبھی پیدا ہوئیں.یہ کام ، جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے سپرد کیا اور جس غرض کے لئے کہ اس نے مہدی علیہ السلام کے ذریعے جماعت کو قائم کیا، یہ کام گزشتہ چھیاسی سال سے ہو رہا ہے.پہلے ایک مضبوط بنیاد قائم کی گئی.پہلے چند انسان، جن کے اندر بڑی استعداد میں اور قابلیتیں تھیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے مہدی علیہ السلام کے گرد جمع کر دیا.پھر اس میں پھیلاؤ اور وسعت پیدا ہونی شروع ہوئی.آہستہ آہستہ قادیان سے یہ جماعت پنجاب میں نکلی، پھر ہندوستان میں پھیلی ، پھر ہندوستان سے باہر نکلی.بعد میں پاکستان بنا، یہاں کی کچھ جماعتیں تو پرانی ہیں اور کچھ نئی ہیں.سب جگہ یہی حال ہے.بہر حال جب ہندوستان تقسیم ہوا تو جماعت ہائے احمد یہ بھی تقسیم ہو گئیں.کچھ وہاں رہ گئیں، کچھ یہاں آگئیں اور کچھ یہاں پہلے سے قائم تھیں.تربیت و ہدایت کا یہ کام جاری رہا اور ایک ایسی مخلص جماعت اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے لئے پیدا کر دی، جنہوں نے اپنا آرام اور سکھ خدا اور رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، اسلام پر قربان کیا، جنہوں نے اپنے بچوں کو وقف کر کے دین اسلام کی اشاعت کے لئے پیش کیا، جنہوں نے اپنی دنیوی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر خدا کی راہ میں اپنے اموال پیش کئے ، جنہوں نے دن رات نوع انسانی کی بھلائی اور بہبود کے لئے خدا کے حضور عاجزانہ جھک کر دعائیں کیں.اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو قبول کیا اور الہی تدبیر کے مطابق الہی منصوبہ کے اجزاء کو اس طرح unfold کرنا شروع کیا ، جس طرح 343
اقتباس از خطاب فرموده 11 دسمبر 1976ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کہ گلاب کھلتا ہے.ایک کے بعد دوسرا واقعہ، ایک ملک کے بعد دوسرے ملک میں اسلام کی حقیقی روشنی احمدیت کے ذریعے پھیلنی شروع ہوئی.پھر ایک براعظم کے بعد دوسرے براعظم میں پھیلنی شروع ہوئی اور اب شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ایسا ہو، جہاں تک ابھی احمدیت نہ پہنچی ہو.جہاں احمدیت پہنچی ، وہاں بھی پہلے چند احمد کی ہوئے ، پھر چند سینکڑے، پھر چند ہزار اور بعض ملکوں میں پھر چند لاکھ تک ان کی نوبت پہنچ گئی.اور اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.خدا کی حمد سے اپنے اوقات کو معمور رکھیں ، میری بہنیں ! مثلاً خدا نے یہ فضل کیا کہ مغربی افریقہ میں کئی لاکھ عیسائی اور بد مذہب اور دہر یہ اپنے باطل خیالات کو چھوڑ کر اسلام کی صداقت کے قائل ہوئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار میں ان کے سینوں میں دل دھڑکنے لگے.اور وہ لوگ بڑے پیار کرنے والے اور قربانی کرنے والے ہیں.دو چار سو یا ہزار نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مغربی افریقہ میں عیسائیوں سے اور بد مذہبوں سے اور بد عقا ئد لوگوں سے احمدیت کی حقیر کوشش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ برکتوں کی وجہ سے یہ لوگ اسلام کی طرف آئے.اور یہ کام جاری ہے.اور اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک کہ ساری دنیا، دنیا کے ہر خطہ میں بسنے والا انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع نہیں ہو جاتا.لیکن یہ کام آسان نہیں.یہ بڑا مشکل کام ہے.جو باتیں اسلام کے خلاف پھیلائی گئیں یا پھیلائی جارہی ہیں، ان کو جاہل لوگوں کے دلوں سے مٹادینا اور صداقت کی روشنی ان تک پہنچا دینا اور وہ زندگی انہیں عطا کرنا، جس کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہو کیونکہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے کہ تم مردہ ہو اور وہ تمہیں زندہ کرے.لِما يُحْيِيكُم.یہ کام آسان نہیں تاہم یہ کام جاری ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 22 جنوری 1978ء) 344
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 11 دسمبر 1976ء ہمارے خدا کو عاجزانہ راہیں ہی پسند ہیں خطاب فرموده 11 دسمبر 1976 ء بر موقع جلسہ سالانہ حضور رحمہ اللہ نے تشہید و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ " آج سے 86 سال قبل قادیان کی گمنام بستی سے جوا کیلی آواز بلند ہوئی تھی ، آج وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے زمین کے کناروں تک پہنچ چکی ہے.یہ آواز حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز تھی.اور اس کے ذریعے غلبہ اسلام کا جو آسمانی منصوبہ شروع کیا گیا تھا، وہ نہایت کامیابی کے ساتھ اور تدریجی طور پر ترقی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری دنیا پر محیط ہو چکا ہے.حضور نے فرمایا:.میں علی وجہ البصیرت یہ کہ سکتا ہوں کہ اس آسمانی منصوبہ کے شروع ہونے کے بعد دنیا کے پردہ پر انسانی زندگی میں انقلاب بپا کرنے والا جو بھی واقعہ رونما ہوا ہے، اس کا کسی نہ کسی پہلو سے ضرور اس آسمانی تدبیر کے ساتھ تعلق موجود ہے، جو اللہ تعالیٰ کے اذن سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی بشارات کے ماتحت مبعوث ہونے والے مہدی موعود علیہ السلام کے ذریعے شروع کی گئی ہے.حضور نے تحریک جدید کی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.شده اس وقت دنیا کے 29 مختلف ممالک میں تحریک جدید کے 74 مرکزی مبلغین متعین ہیں.اور وہ دن رات تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کا بابرکت جہاد کرنے میں مصروف ہیں.ان ممالک میں قائم منظم مشنوں کی تعداد 935 ہے.جن میں سے 16 ایسے ہیں، جو اس سال قائم ہوئے ہیں.امسال 9 نتی مساجد تعمیر ہوئی ہیں.جن میں سے ایک امریکہ میں، ایک سویڈن میں، ایک سیلون میں اور باقی 6 گھانا میں تعمیر ہوئی ہیں“.حضور نے تراجم قرآن پاک کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مندرجہ ذیل 8 زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم ہماری طرف سے شائع ہوچکے ہیں.انگریزی، جرمنی، ڈچ، سواحیلی، ڈینش، اسپرانٹو، لوگنڈا، یوروبا.جو تراجم زیر طبع ہیں، وہ یہ ہیں.انڈو نیشین (۱۰ پارے شائع ہو چکے ہیں.) فرنچ“.345
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 11 دسمبر 1976ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم حضور نے بتایا کہ اس وقت افریقہ کے مختلف ممالک میں تحریک جدید کے تحت 76 اور نصرت جہاں سکیم کے ما تحت 29 مدارس اور کالج قائم ہیں.19 طبی مرکز کام کر رہے ہیں.وہاں پر ہمارے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی شفاء رکھی ہے کہ وہاں کی حکومتوں کے وزراء اور دیگر عمائدین بھی سرکاری ہسپتالوں اور ان میں مہیا کردہ تمام سہولتوں اور آسائشوں کو نظر انداز کر کے ہمارے ہسپتالوں میں علاج کے لئے آتے ہیں.اور بر ملا اس کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں غیر معمولی طور پر شفایابی کی تاثیر رکھی ہے“.نصرت جہاں سکیم میں مالی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.نصرت جہاں ریزروفنڈ میں 20 نومبر 76 ء تک ہم نے جو قربانی پیش کی، اس کی میزان 53,54,818 ہے.مگر اس کے مقابلے میں اس حقیر قربانی کے جو عظیم نتائج ظاہر ہوئے ، ان کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں طبی مراکز اور مدارس کے ذریعے 3 کروڑ 62 لاکھ 77 ہزار روپیہ عطا فر مایا.الحمد للہ.مرکزی ادارہ جات میں کام کرنے والے کارکنان کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ یدہ کارکنان مجموعی لحاظ سے بڑے مخلص اور فدائی احمدی ہیں.ہم انہیں گزارہ کے لئے جو رقم دیتے ہیں، بلاشبہ موجودہ حالات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے لحاظ سے وہ بہت کم ہوتی ہے.تاہم جتنا بھی ممکن ہو، ہم ان کی وقتا فوقتا مختلف رنگوں میں مدد کرتے رہتے ہیں.چنانچہ انہیں سال بھر میں جتنی گندم کی ضرورت ہوتی ہے، ہم اس کا نصف مفت مہیا کرتے ہیں.اسی طرح موسم سرما کے آغاز میں کارکنوں کے ہر خاندان کو.50 روپے فی کس کے حساب سے مدد دی گئی.مجموعی لحاظ سے صرف امداد گندم کی میزان 6,16,915 روپے بنتی ہے“.صدسالہ جوبلی منصوبہ کے تحت ہونے والے کاموں کے سلسلے میں سویڈن میں مسجد کی تعمیر ، یورپ میں اسلام کی ترقی اور سلسلہ کی غیر معمولی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ”بیرونی ممالک میں ہماری جماعت کے ذریعہ سرعت کے ساتھ لوگ ہزاروں ہی نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اسلام قبول کر رہے ہیں.ان لوگوں کی اور پھر ان کی آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے اسلامی لٹریچر کی اشاعت کی وسیع پیمانے پر ضرورت ہے.اس سلسلے میں قرآن پاک کی اشاعت کے علاوہ 346
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 11 دسمبر 1976ء احمدی بچوں کے لئے بھی موزوں دینی کتب جلد سے جلد شائع ہونی چاہئیں.تا کہ اندرون ملک بھی اور بیرونی ممالک میں بھی احمدی بچوں کو اپنے عقائد کا علم حاصل ہو“.حضور نے بتایا کہ دوران سال وکالت تبشیر (تحریک جدید) کے زیر اہتمام مندرجہ ذیل لٹریچر شائع ہوا.1.دعوۃ الامیر کا عربی ترجمہ 2.لائف آف محمد بزبان ڈینیش 3.سیرت حضرت مسیح موعود ( ترکی زبان میں) 4 - كتاب الحج بزبان جرمن 5 منن الرحمن (تصنیف حضرت مسیح موعود ) انگریزی 6.میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں؟ (سپینش ) 7.احمدیت کا پیغام (انگریزی) 8.دیباچہ تفسیر القرآن عربی ( زیر تیاری آخر میں حضور نے پھر فرمایا کہ " آج سے 86 سال قبل جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان سے غلبہ اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی بشا رات کے عین مطابق آواز بلند کی تو اس وقت آپ اکیلے تھے.دوسرا کوئی بھی شخص آپ کے ساتھ نہ تھا.لیکن آج اس آواز پر لبیک کہنے والوں کی تعداد کروڑ سے بھی اوپر جا پہنچی ہے.یورپ، امریکہ، افریقہ، مڈل ایسٹ اور ایشیا کے دیگر ممالک میں سے ہر ملک میں آج خدا کے فضل سے احمدی موجود ہیں.اور ان ممالک کے لوگ ان کے نمونہ کو دیکھ کر اور بنی نوع انسان سے ان کی بے لوث ہمدردی اور خدمت کو دیکھ کر ان کا احترام کرتے ہیں.آج اس جماعت کے ذریعے صرف مغربی افریقہ میں ہی لاکھوں کی تعداد میں لوگ دہریت، عیسائیت اور بد مذہب کو چھوڑ کر اسلام کے دامن میں جمع ہو چکے ہیں.اور اس طرح خدا کا وعدہ پورا ہو گیا کہ د میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا ( الهام حضرت مسیح موعود ) ( 347
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 11 دسمبر 1976ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم لیکن جو کچھ ہوا، محض خدا کے فضل سے ہوا.ہمارا فرض یہی ہے کہ قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں اور ہمیشہ انکساری، تواضع اور عاجزی کی راہ پر چلتے رہیں.کیونکہ ہمارے خدا کو عاجزانہ راہیں ہی پسند ہیں.جب تک ہم ان راہوں پر گامزن رہیں گے، اس کی برکتیں اور اس کے افضال ہمیں حاصل رہیں گے.جو کچھ ہوا محض خدا کے فضل سے ہوا اور ان بشارتوں کے نتیجہ میں ہوا، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیں.اور جن میں آپ نے یہ بتایا تھا کہ مہدی کے زمانہ میں اسلام دنیا میں غالب آئے گا.وہ پیارا اور محبت کے ساتھ دنیا کے قلوب کو فتح کرے گا تا کہ وہ روشن، خوشگوار، پرسکون اور اطمینان بخش ماحول میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں“.مطبوعه روزنامه الفضل 17 دسمبر 1976 ء ) 348
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 26 مارچ 1976ء ہونا وہ نہیں ، جو میں نے یا آپ نے چاہنا ہے بلکہ ہو گا وہ، جو خدا چاہے گا خطاب فرمودہ 26 مارچ 1976ء بر موقع مجلس شوری تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ނ یوں تو ہر مجلس مشاورت ہی بڑی اہم مشاورتی مجلس ہوتی ہے.لیکن جس سال میں نے صد سالہ جوبلی منصوبہ کا اعلان کیا، اس کے معابعد اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں انقلاب کے سامان پیدا کرنے شروع کر دیئے اور اس کے بعد ہر سال جو ہماری مجلس مشاورت ہوتی ہے، وہ عام مجالس مشاورت کے زیادہ اہمیت رکھنے والی مشاورت ہوتی ہے.ہم نے 73ء میں ایک منصو بہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق بنایا تھا.جس کا نام صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ رکھا گیا.جماعت نے انتہائی بشاشت اور اخلاص کے ساتھ امید سے یا ہماری تو قعات سے یا ہمارے اندازہ سے بڑھ کر مالی قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی.اگر چہ جو بلی کا سال، جس وقت کہ پہلی صدی ختم ہورہی ہوگی اور ہم نئی صدی میں داخل ہونے کی تیاری کر رہے ہوں گے، اس میں ابھی قریباً چودہ سال باقی ہیں.لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں، بعض کام ایسے ہیں ، جن کی ابتداء بلکہ جن کی انتہاء بھی اس چودہ سال کے عرصہ میں ہونی چاہیے اور انشاء اللہ ہو جائے گی.مثلاً یورپ کے متعدد ممالک میں مشن ہاؤسز قائم کرنے تھے.ان میں سے ایک کا سنگ بنیاد میں گذشتہ برس سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں رکھ کر آیا تھا.اور جیسا کہ رپورٹوں سے معلوم ہورہا ہے، انشاء اللہ وقت کے اندر کنٹریکٹر اس عمارت کو مکمل کر دیں گے.اور امید ہے کہ وہاں اللہ کے فضل سے جولائی میں مسجد اور مشن ہاؤس دونوں مکمل ہو جائیں.اس کے بعد یہ کوشش بھی ہو رہی ہے کہ دو سال بعد ناروے میں بھی مسجد اور مشن ہاؤس دونوں مکمل ہو جائیں گے.ایک نئی جگہ سامنے آئی ہے.اور وہ فن لینڈ ہے.جس کی حدو د روس کے ساتھ ملتی ہیں.اور بہت سے ایسے زاویے ہیں، جن کی وجہ سے یہ ہماری تبلیغ کے لحاظ سے بہت اہم علاقہ ہے.پھر اٹلی ، فرانس اور سپین رہ جاتے ہیں.اگر ہم نے عقل اور فراست اور دلائل اور اللہ دے تو انشاء اللہ آسمانی نشانوں کے ساتھ اپنی اجتماعی زندگی کی دوسری صدی میں غلبہ اسلام کی بھر پور کوشش کرنی ہے.تو اس کے لئے جو بنیادی چیزیں ہیں، وہ اس صدی کے گذرنے سے پہلے ہمیں ملنی چاہئیں.349
خطاب فرمودہ 26 مارچ 1976ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم جہاں تک ان دو مساجد کا سوال ہے، ان پر قریباً 40 اور 50 لاکھ کے درمیان خرچ کا اندازہ ہے.ممکن ہے کہ 50 لاکھ سے کچھ بڑھ جائے.کیونکہ یورپ میں بھی قیمتیں دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہیں.لیکن امید ہے، ان میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی.لیکن جہاں تک جماعت کا سوال ہے، ان کو اپنی ذمہ داریاں زیادہ چوکسی اور بیداری کے ساتھ نبھانے کی ضرورت ہے اور ضرورت پڑے گی.اور اس طرف انہیں توجہ دینی ہوگی.غالباً 73 ء ہی میں بلکہ شاید اس سے بھی پہلے نصرت جہاں کے منصوبے کے وقت سے ہی یہ خیال تھا کہ ایک سے زائد جگہ اچھے پر لیس ہونے چاہئیں.اس وقت یہاں اپنے ملک میں ہمیں (اور میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی بدقسمتی ہے.ایسے ذرائع سہولت سے میسر نہیں آرہے کہ ہم جس قدر کتب شائع کرنا چاہتے ہیں، وہ آسانی کے ساتھ شائع ہوسکیں.اور اگر شائع ہو جائیں تو پھر باہر بھجوانے میں ہماری راہ میں روکیں پیدا ہو جاتی ہیں.میں اس جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتا کہ چھوٹے اور نچلے درجہ کے افسر ایسا کرتے ہیں یا اوپر سے انہیں کوئی ہدایت ہوتی ہے.ہمیں اس سے کیا تعلق؟ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہماری راہ میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے.ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کو مجھ دے کہ وہ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایک ایسی مہم کے ساتھ الجھنے کی کوشش نہ کریں، جو آسمانوں پر غلبہ اسلام کے طور پر مقدر ہو چکی ہے.اس وقت کام کرنے والے بھی اتنے میسر نہیں آسکے، جتنے کی ضرورت ہے.جامعہ احمدیہ یا بی.اے، ایم.اے پاس، جو وقف کر دیتے ہیں، وہ جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے.پھر ان میں سے ایک حصہ ٹوٹ بھی جاتا ہے.خود انسان کے جسم کا ایک حصہ بھی مردہ ہو کر انسان کے جسم سے علیحدہ ہو جاتا ہے.مگر جسم پھر بھی زندہ رہتا ہے.قانون قدرت اسی طرح چل رہا ہے.یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ہی اسی طرح ہے کہ آگے آکر ٹوٹنے والے بھی ہمیں نظر آتے ہیں اور آگے بڑھتے ہوئے اپنی رفتار کو تیز کرتے چلے جانے والے بھی ہمیں نظر آتے ہیں.یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں.ساری مثالیں ہمارے سامنے ہیں.اور تاریخ جس بنیادی اصول کو ظاہر کرتی.اس کے اندر تو بہر حال فرق نہیں آتا.ہمارے ایک جرمنی کے مبلغ تھے.انہوں نے وہاں یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور تبلیغ کا کام چھوڑ کر اور عملاً جماعت سے قطع تعلق کر کے وہاں نوکری شروع کر دی.یہ استثناء ہمارے لئے دکھ کا باعث تو ہیں لیکن ہمارے لئے شرمندگی کا باعث نہیں.کیونکہ ایک زندہ وجود کی یہ علامت ہوا کرتی ہے کہ اس کے کچھ حصے مردہ ہو جاتے ہیں.ہے، 350
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 26 مارچ 1976ء دیر کی بات ہے.میں ان دنوں تعلیم الاسلام کالج میں پرنسپل تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بعض لوگوں کو ان کی ناقابل معافی حرکات کی وجہ سے جماعت سے نکالا تھا.کیٹری افغاناں قادیان کے قریب دریائے بیاس پر ایک گاؤں تھا.اس کے کئی خاندانوں سے میری ذاتی واقفیت تھی.وہ لوگ واقفیت اور تعلق رکھتے تھے.ان میں سے ایک شخص ملنے کے لئے آیا کرتا تھا.ان دنوں بھی ملنے آگیا.خیر میں نے اس کو مہمان رکھا.پہلے دن شام کے وقت تو اس نے کوئی بات نہیں کی.اگلے دن صبح ہم باہر ٹہلتے ہوئے کالج کے پرنسپل لاج کے لان میں باتیں کر رہے تھے تو وہ مجھے کہنے لگا کہ یہ کیا قصہ ہے، اتنی بڑی ہستیوں کی اولا د نے بھی غداری کی اور ان کو بھی نکالا گیا ہے؟ جب اس نے یہ بات کی تو میں وہیں کھڑا ہو گیا اور جو قریب ترین درخت تھا، میں اس کو اس کے پاس لے گیا.وہاں جا کر میں نے دیکھا کہ اس کی کچھ ٹہنیاں خشک تھیں.ہر درخت کی کچھ ٹہنیاں خشک ہوتی ہیں.میں نے اس کو کہا کہ اس درخت کی یہ ٹہنیاں، جو تمہیں خشک نظر آ رہی ہیں، کیا یہ خشک ٹہنیاں ہمیں یہ بتارہی ہیں کہ درخت مر چکا ہے یا یہ بتارہی ہیں کہ درخت زندہ ہے؟ وہ بڑا ہوشیار آدمی تھا.کہنے لگا کہ میرے سوال کا جواب آگیا ہے.میں سمجھ گیا ہوں کہ کیا مسئلہ ہے؟ پس یہ تو ہوتا رہتا ہے.لیکن جس بات کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے ، وہ یہ ہے کہ جتنے اور جس قسم کی اہلیت کے نوجوان اور تجربہ کار خدام اسلام کی ہمیں ضرورت ہے، وہ مل رہے ہیں یا نہیں مل رہے؟ اگر نہیں مل رہے تو وہ ہمیں ملنے چاہئیں.جب کام نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے یا کام کے کچھ حصے نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں تو پھر حسد بھی پیدا ہوتا ہے.سو وہ بھی پیدا ہوا.اب جن چھ ملکوں کا میں نے 70ء میں دورہ کیا تھا اور اس وقت وہاں کچھ وعدے کئے تھے.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا، وہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور سچی بات یہ ہے کہ میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ اتنی جلدی اللہ تعالی سامان پیدا کر دے گا.اور تھوڑے عرصہ میں 16 با قاعدہ کوالیفائڈ (Qualified) اور تربیت یافتہ ڈاکٹر ، فزیشن اور سرجن ہمیں مل جائیں گے.اور میں نے سات سال میں جو وعدہ پورا کرنا تھا، وہ ڈیڑھ سال کے اندر پورا ہو جائے گا.خدا نے بڑا فضل فرمایا.غانا میں ایک امریکن ، وہاں کے قبائل کی عادات وغیرہ پر ریسرچ کر رہا تھا اور ممکن ہے کہ ان کا C.T.D کا بھی کام کر رہاہو.واللہ اعلم.بہر حال وہ ایک موقع پر ہمارے جلسہ میں شامل تھا.وہاں میں نے یہ اعلان کیا کہ اس طرح ہم یہ غور کر رہے ہیں.پھر سیرالیون میں اس منصوبہ کی تفصیل آگئی اور اسی وقت غانا کے لوگوں کو بھی اطلاع ہوگئی.ڈیڑھ سال کے بعد وہ شخص چھٹی لے کر ادھر 351
خطاب فرمودہ 26 مارچ 1976ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم پھر رہا تھا ، ربوہ آیا اور مجھ سے بھی ملا اور ہم باتیں کرتے رہے.بعد میں وہ ایک دوست کو یہاں کہنے لگا کہ اصل وجہ جس کی خاطر میں ربوہ آیا ہوں ، یہ ہے کہ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آپ لوگ ہیں کیا ؟ وہ کہنے لگا کہ اگر امریکہ وعدہ کرتا تو وہ بھی ڈیڑھ سال میں وہاں سولہ ہسپتال جاری نہیں کر سکتا تھا.اور آپ کے امام نے وعدہ کیا اور ڈیڑھ سال کے اندر وہاں کام شروع ہو گیا.خدا کے فضل سے وہاں عمارتیں بن گئیں.ہمارے ہسپتالوں میں سرجن کے لئے بہترین قسم کے آپر یٹس میسر آگئے.اس سے دو قسم کے حسد پیدا ہوئے.ایک حسد تو وہاں یہ پیدا ہوا کہ بعض عیسائی یورپین افسر، جو وہاں گئے ہوئے ہیں، انہوں نے لوگوں کو بڑھکا کر روکیں ڈالنی شروع کر دیں.چنانچہ ہمارا ایک ہسپتال آٹھ مہینے تک بند رکھا گیا.پہلے یہ بہانہ کیا کہ مریض ہو یا نہ ہو، تمہارے ہسپتال میں جتنے بستر ہیں، اتنی نرسیں ہونی چاہئیں.یعنی اگر سولہ بستروں کاIndoor ہسپتال ہے تو وہاں سولہ نرسیں ہر وقت موجود رہنی چاہئیں.دنیا میں کسی جگہ بھی یہ نہیں ہوتا کہ ہر متوقع مریض کے لئے ایک نرس تیار رہے.اس قسم کی باتیں کہتے تھے.پھر کہنے لگے کہ آپ کیسے آپریشن کرتے ہیں، آپ کے پاس تو بڑے اعلی درجے کی Sophisticated پچاس پچاس ہزار روپے والی آپریشن تعمیل نہیں ہے ؟ او بندہ خدا! تمہارے غریب ملک میں تمہاری خدمت کے لئے آئے ہیں.اگر کوئی اپنیڈے سائٹس کا بیمار آ جائے تو اس کو یہ کہیں گے کہ ایک سال کے بعد آنا.اتنی دیر میں مرتے ہو تو مروہ ہمیں اس سے کیا؟ ہمارے ڈاکٹر تو دعا گو تھے.دعا کرتے تھے اور عام قسم کی میز پر مریض کو لٹا کر آپریشن کر دیتے تھے.اور اللہ تعالیٰ اتنا فضل کرتا رہا ہے کہ ان دنوں میں خصوصاً اور میرے خیال میں اب بھی یہی حال ہے کہ پہلے دو سال میں بلا استثناء ہر آپریشن کامیاب ہوا.یعنی ایک بھی ناکام نہیں ہوا.کئی ڈاکٹروں نے یہ بھی لکھا کہ ہم سے ذرا غلطی ہوگئی ہے.میں بھی دعا کر رہا ہوں، آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو صحت دے دے ورنہ بدنامی ہوگی.ہزارہا آپریشن کر دیئے اور ہزارہا کامیاب آپریشن ہو گئے.وہ عیسائی اس پر حسد کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہو گیا.بڑے بڑے وزراء نے اپنے ہسپتالوں میں جانا چھوڑ دیا اور وہ ہمارے پاس آ جاتے تھے.ایک دفعہ ایک ڈاکٹر نے رپورٹ کی کہ اسے ایک وزیر نے خود بتایا کہ اس کے کسی دوست نے اسے کہا کہ تم عجیب آدمی ہو، گورنمنٹ کا اتنا اچھا ہسپتال موجود ہے، غیر ملکی ڈاکٹر سفید فام یعنی امریکن اور یورپین آئے ہوئے ہیں اور اتنا اعلیٰ درجے کا سامان ہے، لیکن تم وہاں نہیں جاتے اور احمد یہ کلینک میں چلے 352
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 26 مارچ 1976ء جاتے ہو.اور کئی جگہ ابھی عمارتیں بھی نہیں بنی تھیں.بلکہ انہوں نے کرائے کے مکانوں میں کام شروع کیا تھا.تو اس نے کہا کہ ہمارے پاس ہر چیز موجود ہے، لیکن جب میں نے غور کیا تو دیکھا کہ شفا ان کے ہسپتالوں میں زیادہ ہے.اس واسطے میں یہاں آجاتا ہوں.غرض اللہ تعالیٰ فضل کر رہا تھا.اب یہ ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ڈاکٹروں کی کچھ ضرورت ہے.اس لئے ڈاکٹروں پر کچھ پابندیاں لگا دی گئی ہیں.ویسے تو ڈاکٹر ہر جگہ دوڑے پھرتے ہیں.لیکن ہم نے بہر حال قانون کے مطابق کام کرنے ہیں، اس لئے ہمارے لئے کچھ دقت ہوگی.اور اب پھر مجھے اپیل کرنی پڑے گی کہ ہندوستان کے احمدی ڈاکٹر یا امریکہ کے احمدی ڈاکٹریا یورپ کے احمدی ڈاکٹریا انگلستان کے احمدی ڈاکٹر وہاں جائیں.کیونکہ کسی کو وہاں پہنچے ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں اور کسی کو تین سال ہو گئے ہیں اور وہ واپس ہی نہیں آئے.ان کی اپنی ضرورتیں ہیں.ان میں سے بعض اپنے محکموں سے چھٹی لے کر گئے تھے، اس لئے اب ان کی جگہ دوسرے آدمی جانے چاہئیں.سیرالیون میں جماعت احمدیہ کے جلسہ میں سیرالیون کے سابق نائب وزیر اعظم نے کہا کہ سارے مسلمانوں کو چاہیے کہ غلبہ اسلام کے لئے جماعت احمدیہ سے پورا تعاون کریں.دنیا میں یہ آواز بھی اٹھ رہی ہے.اور یہ آواز بھی اٹھ رہی ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ سب مل کر جماعت احمدیہ کو ہلاک کرنے اور ختم کرنے کی کوشش کریں.کہیں سے ایسی آواز بھی آجاتی ہے.لیکن یہ دونوں آواز میں اب ایک جگہ محدود نہیں رہیں.بلکہ ساری دنیا کی آواز بن گئی ہیں.اس لئے اب ہماری ذمہ داری کسی محدود خطے کی نہیں رہی بلکہ ساری دنیا کی ذمہ داری بن گئی ہے.میں نے کئی دفعہ کہا اور میں اس بات کو دہراتا چلا جاؤں گا کہ ہونا وہ نہیں، جو میں نے یا آپ نے چاہتا ہے.بلکہ ہو گاوہ، جو خدا چاہے گا.اور خدا نے اس زمانہ کے متعلق یہ چاہا ہے کہ مہدی علیہ السلام کی پاک جماعت کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اسلام دنیا میں غالب کیا جائے.اور یہ ہمارے کسی ہنر کے نتیجہ میں نہیں ہوگا.بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے نتیجہ میں ہوگا.یہ تو انشاء اللہ ہو کر رہے گا.لیکن میں اس وقت ان وعدوں کی بات نہیں کر رہا.اس وقت تو میں اپنی اور آپ کی بات کر رہا ہوں کہ جو ہماری ذمہ داریاں ہیں، ہمیں ان کی طرف توجہ دینی چاہیے.اس واسطے مشاورت میں اس کے متعلق بہت سی باتیں زیر غور آئیں گی.اب تو ہر چیز کا تعلق خواہ چھوٹی ہو یا بڑی غلبہ اسلام کی بڑھتی ہوئی ، شدت اختیار کرتی ہوئی ، اس عالم گیر مہم کے ساتھ ہے.اور دنیا میں ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں.353
خطاب فرمودہ 26 مارچ 1976ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم گوٹن برگ (سویڈن ) میں جس مسجد کی میں نے بنیاد رکھی ہے، اس میں بھی روک ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی.ویسے تو وہاں کے لوگ اسلام کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے.ان کو اسلام کے دشمن ہی کہنا چاہیے.کیونکہ وہ خدا کو نہیں مانتے اور مذہب کے ساتھ ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے.لیکن ان میں سے جو لوگ صاحب اختیار تھے، انہوں نے روکیں ڈالنے والوں کی کوئی پرواہ نہیں کی.انہوں نے کہا، ہم تو ان کے ساتھ وعدہ کر چکے ہیں، ان کو زمین دیں گے.اور وہ زمین بڑی اچھی ہے.ڈیڑھ ایکٹر کے قریب پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے.میری یہ خواہش ہے اور ایک، دو دوستوں کو میں نے کہا ہے، اگر پانچ ، سات دوست اپنے طور پر بھی اس مسجد کے افتتاح پر جانا چاہیں تو برکتیں حاصل کر کے ہی وہاں سے آئیں گے.اور وہاں کے لوگوں کو بھی خیال پیدا ہو گا.سویڈن میں اب دو قسم کے باشندے ہو گئے ہیں.ایک تو سویڈن کے پرانے باشندے ہیں.اور ایک وہ لوگ ہیں کہ جو دوسری جنگ عظیم کے بعد اشتراکیت کی کھپ کی وجہ سے بعض مسلمان اور بعض دوسرے عیسائی وغیرہ بھی اپنے اپنے ملکوں سے بھاگ کر یورپ کے مختلف ممالک میں آباد ہو گئے تھے.اور ایسے سویڈن میں بھی آباد ہیں.اور ان میں سے اس وقت تک بچوں سمیت سینکڑوں افراد احمدی ہو چکے ہیں.اور بڑے جوشیلے ہیں.جلسہ سالانہ پر بھی آئے ہوئے تھے.اور انہوں نے بڑے درد کے ساتھ اور بڑے زور کے ساتھ مجھے یہ کہا کہ آپ ہمارے لئے بہت سا سفر خرچ مہیا کریں.تا کہ یورپ میں جہاں جہاں ہمارے ملک کے باشندے اس طرح آ کر ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں، ہم ان میں جا کر تبلیغ کریں.وہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے جس رنگ میں اسلام پیش کیا جاتا ہے اور اسلام کی صحیح تعلیم جس عظی رنگ میں پیش کی جاتی ہے، انسانی فطرت اور انسانی عقل اسے قبول کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے.چنانچہ ان میں سے بعض مسلمان ہورہے ہیں.تین گھنٹے کی ایک ملاقات میں دس، پندرہ خاندان احمدی ہو گئے.وہ ہماری باتیں سنتے ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا، پچھلے سال غالباً شوری کے موقع پر یا جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی بات ہوئی تھی کہ وہ لوگ ہم سے لٹریچر مانگ رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہمیں لٹریچر دو.ہم نے بنیادی مسائل سمجھے، ہمارے کانوں میں دلائل پڑے، ہم احمدی تو ہو گئے ہیں.لیکن صحیح اسلام کی تصویر اتنی مختصر تو نہیں.وہ تو ساری زندگی پر حاوی ہے.اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہماری اپنی زبان میں ہمیں لٹریچر دو.اور ان کا یہ مطالبہ درست ہے.ہم کوشش کر رہے ہیں.لیکن میری کوشش تب ہی کامیاب ہوسکتی ہے، صرف اس معنی میں میری کوشش کہ جیسا کہ میں نے کہا ہے، جماعت احمدیہ کا وجود اور میرا وجود، 354
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 26 مارچ 1976ء جو علیحدہ علیحدہ وجود نہیں ہے بلکہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.پس اگر یہ وجود، جوخلیفہ وقت اور جماعت مل کر بناتی ہے، اگر یہ اجتمائی وجود اپنی کوشش اور تدبیر کو انتہا تک پہنچا دے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے فرمان کے مطابق اپنی دعا کو بھی انتہا تک پہنچا دے، تب نتیجہ نکلے گا.توہمات کی دنیا، جس میں سینکڑوں سال تک مسلمان بھی رہے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوتہ والسلام نے اس میں سے نکال کر آپ کو باہر کھڑا کر دیا ہے.پس تدبیر کو انتہا تک پہنچانے اور دعا کوانتہا تک پہنچانے کے بغیر کامیابی ممکن نہیں.کامیابی کے لئے ان دونوں چیزوں کا ایک ہی وقت جمع ہونا ضروری ہے.پس اس وقت کو پوری توجہ سے گزاریں، پورے انہماک کے گزاریں، دعاؤں میں مصروف رہ کر گزاریں اور تڑپ کے ساتھ گزاریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم ایسے نتائج پر پہنچیں ، جو غلبہ اسلام کی اس مہم کو جلد سے جلد کامیاب کرنے والے ہوں“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقد ہ 26 تا 28 مارچ 1976ء ) 355
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1976ء اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا جانا ضروری ہے ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1976ء بر موقع مجلس شوری وو پس صحیح اسلام کو ہر دوطور پر پیش کیا جائے.ایک تو جو نئے اعتراض ہیں، ان کا جواب دیا جائے اور دوسرے جو پرانے اعتراضات کے بقایارہ گئے ہیں اور ان کی بازگشت ساری دنیا میں پھیل رہی ہے، ان کا بھی جواب دیا جائے.مثلاً میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے یہ اعتراض بڑی کثرت سے پھیلایا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا.اب وہ عیسائی، جو عیسائیت کو چھوڑ چکا ہے، اس کے دماغ نے بھی اس اعتراض کو نہیں چھوڑا.67ء میں جب میں پہلی دفعہ یورپ کے دورہ پر گیا تو دو موقعوں پر مجھ سے عجیب انداز میں یہ پوچھا گیا کہ آپ ہمارے علاقہ میں اسلام کیسے پھیلائیں گے؟ سوال تو ان الفاظ میں کیا گیا اور بڑے ادب سے کیا گیا.لیکن سوال پوچھنے کا جو طریق تھا اور چہرے پر جو آثار تھے، اس سے یہ واضح ہوتا تھا کہ اصل سوال یہ نہیں ہے.بلکہ اصل سوال ان کے ذہن میں یہ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلتا ہے اور تلوار آپ کے ہاتھ سے ہم نے چھین لی.اب آپ کے ہاتھ میں تلوار نہیں ہے.اب آپ یہ بتائیں کہ اسلام کو کیسے پھیلائیں گے؟ اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے.میں نے جب ان کو یہ کہا کہ تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام پھیلائیں گے تو ان کو اتنا Shock لگا کہ جس طرح جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہو.اور عملاً بھی انہوں نے جھر جھری لی کہ یہ کیا ہمیں جواب مل گیا ہے.سوئٹرز لینڈ کی ٹی وی میں کام کرنے والی ایک عورت میں شرافت تھی.انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سوال و جواب کا یہ حصہ ضرور ٹی وی پر آجائے.میں نے کہا، میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ یہ سوال و جواب ضرور آ جائے.وہ لوگ عیسائیت کو چھوڑ چکے ہیں.جب میں یہ کہتا ہوں کہ چھوڑ چکے ہیں تو یہ مبالغہ نہیں.وہ حقیقتا عیسائیت کو چھوڑ چکے ہیں.67ء میں گلاسگو میں پریس کانفرنس میں مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا.تعلیمی زمانے کے بعد میر اوہاں کا یہ پہلا دورہ تھا.تو ایک ادھیڑ عمر کے سمجھدار صحافی نے پوچھا کہ آپ نے بڑے 357
ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1976ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم لمبے عرصہ کے بعد ہمارے ملک کا Visit کیا ہے تو آپ نے کیا فرق دیکھا؟ میں تو مذہبی آدمی ہوں، میں نے مذہب کے متعلق بات کرنی تھی.میں نے کہا کہ فرق یہ دیکھا کہ تمہاری نوجوان نسل کو عیسائیت میں کوئی دلچپسی باقی نہیں رہی.اس نے پوچھا ( اور یہ اس کو پوچھنا چاہئے تھا.کہ کس چیز سے آپ نے یہ استدلال کیا ؟ جواب تو میں بہت سے دے سکتا تھا لیکن وہ ماحول کوئی کج بحثی کا نہیں تھا.میں نے کہا کہ میں نے اس بات سے استدلال کیا کہ وہ چند دن جو میں لندن میں گزارنے کے بعد گلاسگو پہنچا ہوں، ان چند دنوں میں، میں نے اپنی آنکھوں سے تمہارے Churches کے سامنے For Sale کا بورڈ لگا ہوا دیکھا ہے کہ یہ چرچ قابل فروخت ہے.میں نے کہا کہ اگر نوجوان نسل کو عیسائیت میں دلچپسی ہوتی تو نئے چرچز بننے چاہئیں تھے نہ یہ کہ پرانے بھی بک رہے ہیں.پس حقیقت وہ عیسائیت کو چھوڑ چکے ہیں.73ء میں جب میں اٹلی میں گیا، جو Catholicism کا گڑھ ہے تو وہاں وینس میں سینٹ مارکس کے چرچ کے سامنے ایک بہت بڑا Square ہے.اس کے چاروں طرف دکانیں اور دفتر وغیرہ ہیں یا کچھ رہائشی مکان ہوں گے.اس کے اندر ایک بڑا اچھا خو بصورت پختہ محن بنایا ہوا ہے اور وہ اتنا بڑا صحن ہے کہ اس میں کئی ہزار ٹورسٹ ایک وقت میں سما جاتے ہیں.ہم وہاں گئے تو بعض لوگوں نے خود ہی آ کر باتیں کرنی شروع کر دیں.ان میں ایک جرمن نو جوان بھی تھا.میں اس کو تبلیغ کرنے کے لئے آہستہ آہستہ اسلام کی طرف لا رہا تھا.تو ایک موقع پر میں نے اس کو کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہیں، پچیس سال کے اندراندر Established چرچ کے خلاف بڑی سخت بغاوت ہو جائے گی.تو وہ آرام سے مجھے جواب دینے لگا کہ آپ پچیس سال کی بات کر رہے ہیں، ایسا وقوعہ تو کل ہو سکتا ہے.لیکن عیسائیت کو چھوڑنے کے باوجود اسلام پر اعتراض قائم ہے“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 26 تا 28 مارچ 1976ء) 358
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ایک احمدی کی زندگی کا نمایاں امتیاز ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1976ء ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1976ء بر موقع مجلس شوری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام سننے کے لئے اور اسلام کی تعلیم سننے کے لئے ، نیکی کی باتیں سننے کے لئے اور اصلاح نفس کے سامان پیدا کرنے کے لئے جلسہ سالانہ پر جتنی تعداد میں بھی لوگ آئیں ، ان کا خیال رکھا جائے اور عزت اور احترام کے ساتھ ان کو کھانا دیا جائے.یہ ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، جس کو زندہ کیا ہے، محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے عظیم روحانی فرزند مہدی معہود علیہ السلام نے.تو اس وقت دنیا میں جماعت پھیل گئی، ساری دنیا میں قریباً میں پھیل گئی.کہیں ہمارے با قاعدہ مشن ہیں.ہماری جماعت عام طور پر غلط معنی میں مشن کا لفظ استعمال کرتی ہے.جماعت احمدیہ کے مشن کا یہ مطلب نہیں کہ جامعہ احمدیہ کا ایک طالب علم وہاں بطور مبلغ کے کام کر رہا ہے.جماعت احمدیہ کا ہر اس جگہ مشن ہے، جہاں کوئی احمدی پایا جاتا ہے.کیونکہ وہ خود مبلغ ہے.اور وہ نمونہ بنتا ہے، دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے کا.وہ کتابیں پڑھاتا ہے، وہ باتیں کرتا ہے.اس کی زندگی میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.کنی جگہ سے آجاتی ہے اطلاع کہ ہو تو تم بڑے اچھے، لیکن تم میں یہ نقص ہے کہ تم احمدی ہو.کئی لوگ کہہ دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر احمدی نہ ہوتا تو تمہیں یہ کہنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی کہ ہو تو تم اچھے.پھر تو اوروں کی طرح ، سب کی طرح ہوتا.نمایاں امتیاز ہے ایک احمدی میں اور غیر احمدی میں.اور وہ امتیاز یہی ہے کہ ایک احمدی اپنی زندگی کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے“.امریکہ بڑا تیز ہورہا ہے ، ماشاء اللہ.خدا کرے، ان کی تعداد بھی بڑھ جائے.پانچ سال میں پانچ لاکھ پیدا کرو، انشاء اللہ کوشش کرو.باقی تو اللہ دینے والا ہے.اب یہ نائیجیر یا والوں نے گنتی میں نے تو نہیں کی لیکن ان کے پچھلے جلسے میں، جس کا انہوں نے خود اعلان کیا، نائیجیریا کے سالانہ جلسے میں ایک ملین احمدی شامل تھا.اور یہ بڑی تھوڑی تعداد ہے، اس ملک کے لحاظ سے.لیکن بہر حال ایک ملین کافی تعداد ہے.دس لاکھ کی آواز میں اپنے ملک میں بھی بڑا وزن ہے.اور پھر علم کے لحاظ سے ان کی فیصد دوسروں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے.صرف دوسرے مسلمانوں کی نسبت سے نہیں بلکہ عیسائی، جو تعلیم 359
ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1976ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم میں آگے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ ایسا وقت آ گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ان سے بھی زیادہ ہو جائیں یا کم از کم ان کے برابر ہو جائیں.اب ہمارے مقابلے میں عیسائی اس واسطے بھی اسلام کے خلاف زیادہ متعصب ہوگئے ہیں کہ ان کو نظر آرہا ہے کہ یہ پتہ نہیں کہاں سے آگئے ہیں، جو ہمارے ملک میں انہوں نے مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنا دیا جائے؟ یہ ان کو غصہ ہے ہمارے خلاف.یا غصے کی ایک وجہ ہے.اور جن نوکریوں پر پہلے ہم بغیر کسی دوسرے کے مقابلہ کے یا بغیر Competition کے ہماری اجارہ داری تھی.کیونکہ ان میں پڑھا لکھا آدمی کوئی نہیں تھا.بہت کم ، شاذ.استثناء قاعدہ نہیں بنا کرتا.استثناء قاعدے کو ثابت کیا کرتا ہے.اب خدا کے فضل سے وہاں تعلیم عام ہوگئی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر چھوٹی اہلیت کے اہل علم لئے جائیں مثلاً میٹرک پاس یا جو ہائرسکینڈری سکول ہیں، وہاں زیادہ چلتے ہیں، مڈل پاس بھی وہاں آجاتے ہیں.مڈل کے بعد ہائر سیکنڈری سکول ہے.میرا خیال ہے کہ اب تک ہزاروں ہزار احمدی سکولوں سے بچے پاس ہو کر نکلے ہیں.مثلاً 70ء میں، میں دورے پر گیا اور اس کے بعد سے اب تک جور پورٹیں ہیں ، ان سے پتہ لگتا ہے کہ سارے کے سارے غیر مسلم، جنہوں نے ہائر سیکنڈری سکول کے امتحان دے کر پاس کیا تھا، انہوں نے جماعت احمدیہ کا فارم پر کیا، سندیں لیں.بلا استثناء، ایک بھی باقی نہیں رہا.وہ سارے احمدی مسلمان ہو گئے.اب ان کو تو ، میرا کام نہیں ، جس نے سمجھانا ہے، وہ ان کو سمجھائے کہ تم نے عیسائیت کو چھوڑا، سب کچھ چھوڑ کر اللہ اکبر کہا، خدا کو گالیاں دینے کی بجائے اس کی عبادت کرنے لگے.حالانکہ پہلے بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے اور بڑے مشرک تھے.میرے پاس تصویر میں آتی ہیں، اب وہ لوگ بتوں کو آگ میں جلا رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی حمد وثناء انہوں نے شروع کر دی ہے.وہ پہلے بڑے نالائق اور جاہل تھے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اور اب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ رہے ہیں.وہ کہتے ہیں، ہمیں یہ مجھ نہیں آرہی کہ جب ہم عیسائی تھے یابت پرست تھے، اس وقت تو ساری خیر تھی.اور اب جب ہم احمدی مسلمان ہو گئے ہیں تو دنیا میں ایک ایسی آواز بھی اٹھی ہے، جو کہتی ہے تم مسلمان نہیں اور ہمارے پیچھے پڑگئی ہے.رپورٹ مجلس شورئی منعقدہ 26 تا 28 مارچ 1976ء ) 360
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام فرمودہ 03 مئی 1977ء مومن اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تمام نعمتوں کو اسی کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں پیغام فرمودہ 03 مئی 1977ء الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادران کرام! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اشاعت اسلام کے کام کو تیز تر کرنے اور قرآن کریم کے انوار کو دنیا کے کناروں تک پھیلانے، مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر، عالمی جماعت ہائے احمدیہ کے افراد کی تربیت اور اس غرض سے کہ غلبہ اسلام کے دن قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں، ایک عالمگیر منصوبہ صد سالہ احمد یہ جو بلی سکیم کی بنیاد رکھی گئی تھی.اس منصوبے کا اعلان تمام دنیا کے احمدیوں کو مخاطب کر کے پیش کیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے مختلف ممالک کے مخلصین جماعت نے میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے، انتہائی جوش اور ولولہ کے ساتھ اپنے وعدے لکھوائے ، جن کی ادائیگی خدا کے فضل سے مرحلہ وار ہورہی ہے.مومن اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تمام نعمتوں اور قوتوں کو اسی کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں.اور ہر نیا سال جو آتا ہے، وہ خواہ اپنے ساتھ کتنی ہی آزمائشیں لائے ، مومن ہر حالت میں خدا تعالیٰ پر تو کل رکھتے ہوئے قربانیوں کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.جماعت احمدیہ کو یہ توفیق مل رہی ہے کہ ہر نیا سال ہم پر جو زیادہ ذمہ داریاں عائد کرتا ہے، احباب انہیں پورا کرتے چلے جائیں گے.ادائیگیوں کا تیسرا مرحلہ فروری 1977ء میں ختم ہو چکا ہے اور اب خدا کے فضل سے اس عالمگیر منصوبہ کا چوتھا مرحلہ شروع ہو چکا ہے.احباب نے نئے سال میں اپنے کل وعدہ کا 15\4 حصہ تک ادا ئیگی کرنی ہے.وبالله التوفيق.361
پیغام فرمود: 03 مئی 1977ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم میں ذکر کے خدائی حکم کے مطابق احباب کو ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور امید کوان رکھتا ہوں کہ احباب جماعت نہ صرف دعائیں کرتے ہوئے دیگر ہرقسم کی مالی قربانیوں سے عہدہ برآہوں گے بلکہ پہلے کی طرح امسال بھی ان کا قدم کہیں رکے گا نہیں.اس کے رحم وکرم سے آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاے گا.انشاء الله العزيز.اللہ تعالیٰ آپ کا مددگار ہو اور ہمیشہ حافظ و ناصر رہے.آمین والسلام مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث 3/5/77 ( مطبوعه روزنامه الفضل 06 مئی 1977ء) 362
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 اگست 1977ء اسلام کے غلبہ اور نوع انسانی کے امت واحدۃ بن جانے کی صدی آ رہی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 05 اگست 1977ء ه عظیم مجدد، جس کو ایک ہزار سال کے لئے امت محمدیہ کا مجدد بنایا گیا، كما استخلف الذین کے ماتحت آخری خلیفہ اور مسیح موعود بنایا گیا ، جس کے سپر دنوع انسانی کو امت واحدہ بنانا کیا گیا اور آپ نے بتایا ہے کہ امت واحدہ بنانے پر تین سو سال سے زیادہ زمانہ نہیں لگے گا.اور جیسا کہ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ میرے نزدیک تو ہماری کامیابی کا زمانہ، جسے قریباً آخری کامیابی کہنا چاہیے، وہ دوسری صدی ہے.جس کے لئے صد سالہ جو بلی فنڈ بھی قائم ہوا اور صد سالہ جو بلی کا منصوبہ بھی تیار ہورہا ہے.جس صدی کا ہم نے استقبال کرنا ہے، اسلام کے غلبہ کی صدی.پس اسلام کے غلبہ کی صدی نوع انسانی کے امت واحدۃ بن جانے کی صدی آ رہی ہے“.( مطبوعه روز نامه الفضل یکم جون ۱۹۷۸ء) 363
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد پنجم اقتباس از درس بیان فرموده 14 ستمبر 1977ء مبلغین کے لئے دعائیں کریں درس بیان فرموده 29 رمضان المبارک بمطابق 14 ستمبر 1977ء وو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو مبعوث کیا گیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو یہ عظیم فرزند روحانی دیا گیا ، یہ اس لئے دیا گیا کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: 10) وہ نوع انسانی کو امت واحدہ بنائے.نوع انسانی کو امت واحدہ بنانے کا کام مہدی کے سپرد کیا گیا ہے.پس اس کے لئے ہمارے دلوں میں ایک تڑپ ہونی چاہیے.حیرت یا تمسخر یا استہزاء یا غصہ نہیں ہونا چاہیے کہ مثلا امریکہ اتنی برائیوں اور بداخلاقیوں میں پڑا ہوا ہے.بلکہ ہمیں رحم آنا چاہیے، ہمارے دل میں ایک تڑپ ہونی چاہیے، ایک لگن پیدا ہونی چاہیے کہ اتنی عظیم نعمت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے نوع انسانی کی طرف مبعوث کی تھی اور یہ لوگ اس سے واقف نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے سامان پیدا کرے.دنیا میں خود انسان کے ہاتھ نے فتنہ اور فساد پیدا کر دیا ہے اور انسانوں کے لئے دیکھ کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ اس فتنہ اور فساد کو دور کرے اور دکھ کے سامان سکھ کے سامانوں میں بدل جائیں.اور جس غرض کے لئے جو چیز پیدا کی گئی ہے، وہ اس غرض کو پورا کرنے والی ہو.انسان کا ہاتھ خدا تعالیٰ کی مخلوق کے غلط استعمال کے نتیجہ میں اسے انسان کی تباہی اور انسان کو تکلیف دینے کا باعث نہ بنادے.پھر ہمارے مبلغ ہیں، ان کے لئے دعائیں کریں.مبلغ بھی اب دو قسم کے ہو گئے ہیں.افریقہ میں وہیں کے رہنے والے افریقن مبلغ ہیں.بڑا عجیب کام کرنے والے اور بڑی قربانیاں دینے والے ہیں.ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں، جو یہاں مرکز میں کبھی نہیں آئے.اور ایسے بھی ہیں، جو یہاں سے پڑھ کر گئے ہیں.اور ان پر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے، انہوں نے بڑی فراست کے ساتھ اپنی قوم کو سنبھالا ہوا ہے.مثلاً عبدالوہاب بن آدم ہے.اس کے لئے یہ دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ شیطان کے ہر وار سے اس کو محفوظ رکھے اور اس کے نفس میں کبھی کوئی خرابی نہ پیدا ہو.اور وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرتا رہے.بڑی محنت کے ساتھ اور لگن کے ساتھ اور قربانی کے ساتھ اور فراست کے ساتھ اس نے اپنی قوم کو 365
اقتباس از درس بیان فرموده 14 ستمبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم یعنی نانینز (ghanians) کو خواہ وہ احمدی ہیں یا نہیں ، سنبھالا ہوا ہے.وہاں جماعت بڑی ترقی کر رہی ہے.مساجد بن رہی ہیں.کچھ سکول نصرت جہاں کے تحت بنے تھے، اس کے علاوہ بھی مدر سے بنے ہیں.نیز اور بہت سے کام ہوئے ہیں.کتابیں شائع ہوئی ہیں، قرآن کریم کا ترجمہ انہوں نے خود چھپوایا ہے، غالباً تیار ہوگیا ہوگا یا عنقریب ہو جائے گا.افسروں کو بے دھڑک تبلیغ کرنے والا ہے.اور بھی مبلغ ہیں، یہ تو میں نے مثال دی ہے.پس یہ صرف آپ ہی نہیں ہیں کہ جو خدا تعالیٰ سے غیر ممالک میں جا کر تبلیغ کرنے کی توفیق پاتے ہیں.عبدالوہاب بن آدم کو انگلستان میں تبلیغ کرنے کی توفیق مل گئی.اور ہمارا تو کام یہ ہے کہ ہم نے نوع انسانی کو امت واحدہ بناتا ہے.خدا نے انسان انسان میں کوئی فرق نہیں کیا ، نہ ہم کرتے ہیں.دماغ کے کسی گوشے میں بھی کوئی فرق نہیں آیا.اور اسی چیز کی انسان کو ضرورت ہے.میری ذات سے تعلق رکھنے والی ایک بات ہے، لیکن میں کوئی ذاتی چیز تو نہیں بتا رہا تھا.امریکہ میں ایک جگہ ایک ریسپشن کے موقع پر میں اسلامی تعلیم بتا رہا تھا کہ اس طرح اسلام نے نوع انسانی سے یہ پیار کیا ہے کہ کوئی ہو، عیسائی ہو یاد ہر یہ ہو، اسلام نے ان سب کے حقوق قائم کئے ہیں اور ان کے حقوق کی حفاظت کی ہے.پندرہ ہیں منٹ تک میں اس گروپ کے ساتھ باتیں کرتا رہا.بعد میں باہر جا کر وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ اتنی حسین تعلیم ہے اور اتنا پیار ہے، اس شخص کے دل میں ( انسانیت کا پیار میرے دل میں خود ہی تو نہیں اگ آیا، وہ تو اسلام کی برکت ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت ہے، جس نے ہمارے دل میں انسان کا شرف اور اس کی عزت اور اس کا پیار پیدا کیا.لیکن وہ نے لوگ تو اپنی نگاہ سے دیکھتے ہیں.چنانچہ وہ اپنی نگاہ سے دیکھ کر میرے متعلق کہنے لگا ) کہ جو شخص اس سے دشمنی رکھے ، وہ تو لعنتی ہو گا.حالانکہ وہ باتیں کرنے والے خود عیسائی تھے.میں تو خدا تعالیٰ کے حضور اور جھک گیا.میں تو بڑا ہی عاجز بندہ ہوں.جو چیز اثر کرتی ہے، وہ تو خدا کا کلام ہے اور وہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت ہے.لیکن ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم یہ باتیں ان تک پہنچائیں.اس سے ظاہر ہے کہ ان کے دل اور ان کے دماغ اسلامی تعلیم کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں.شروع میں صرف theorotically تھیوریٹیکلی ) یعنی اعتقاداً وہ تیار ہو جائیں گے، عملاً چھوڑنا اور اپنے گند سے باہر نکلنا، بہادری کا کام ہے.بہت بہادر ہے وہ شخص جو گند کو چھوڑ کر دلیری کے ساتھ نیکی کی راہ پر آجاتا ہے اور دنیا کی بالکل پرواہ نہیں کرتا.وہ اس گند میں سے نکل رہے ہیں.اب ہزاروں کی تعداد میں امریکہ میں احمدی ہو چکے ہیں.ایک خط آیا تھا کہ اب وہاں یہ طریق بن گیا ہے کہ عورت کا احمدی مسلمان ہونا اور پاکستان والا برقع سلوانا، 366
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از درس بیان فرموده 14 ستمبر 1977ء یہ دونوں کام ایک ہی وقت میں شروع ہوتے ہیں.یعنی ادھر وہ بیعت کرتی ہے اور ادھر کپڑا خرید کر برقع سلانے کا آرڈر دے دیتی ہے.اس گندے ماحول میں وہ پردہ شروع کر دیتی ہے.اور یہ خدا کی شان ہے کہ امریکہ جیسے امیر ملک میں اور اپنی دنیا میں مست ملک میں اور اپنی بداعمالیوں میں کھوئے ہوئے ملک میں کہ جن کو اپنی کوئی ہوش ہی نہیں ہے، وہاں اس قسم کے دل اور اس قسم کے دماغ اور اس قسم کی عز عقلیں پیدا ہورہی ہیں اور اس قسم کی روحیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو رہی ہیں.پھر ہماری کتنی ذمہ داری ہے، جو کہ مرکز کے رہنے والے ہیں.مرکز بمعنی ربوہ کے رہنے والے اور مرکز بمعنی پاکستان کے رہنے والے.یہ ہمارا ملک ہے، جہاں ہماری جماعت کا مرکز ہے.پس ہماری بڑی ذمہ داریاں ہیں.خدا نے کہا ہے کہ میں تم میں ایک ایک وقت میں لاکھوں مسجد ڈ بنادوں گا.اب کیا تم ایک صدی کے بعد محض ایک مجدد کی تلاش کرو گے؟ اور اس کی ساری نعمتوں کو ٹھکرا دو گے؟ ہمارے بعض مبلغ بڑی تکلیف اٹھاتے ہیں.ہم ان کو بڑے تھوڑے گزارے دیتے ہیں.آپ حیران ہوں گے کہ ہمارا ایک مبلغ یورپ کے ایک ملک میں پڑھ رہا ہے، اس نے لکھا ہے کہ چھٹیوں میں میرا کالج کا ہوٹل بند تھا اور جتنا ہم اس کو گزارہ دیتے ہیں، اس نے لکھا ہے کہ اس کا قریباً ساٹھ ستر فیصد میں ایک کمرے کا کرایہ دے رہا ہوں، جس میں میں رہ رہا ہوں.مہینے کے کل گزارے کا 70-60 فیصد.تو وہ کھائے گا اور پیئے گا کہاں سے؟ غرض وہ بڑی تنگی ترشی میں گزارہ کرتے ہیں.بڑی قربانی دینے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول کرے اور ان کا بھی اور ہم سب کا بھی خاتمہ بالخیر کرے.فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ ) (البقرة : 133) پس ان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.پھر بہت سے مسلمان علاقے ہیں، جو بڑی سخت تنگی میں وقت گزار رہے ہیں، ( مجھے نام لے کر ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.ان کے لئے دعائیں کریں.اور یہ دعائیں کریں کہ اے خدا! تو نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منسوب ہونے والا ہے، تو اس کی مدد کو آئے گا.ایمان کے بہت بڑے بڑے وعدوں کے علاوہ ایک چھوٹا سا وعدہ یہ بھی ہے.ہمارے دل میں اس نے پیار ڈال دیا ہے.367
اقتباس از درس بیان فرموده 14 ستمبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ایک دفعہ ایک شخص نے کہا کہ کسی جگہ ایک غیر احمدی کا جنازہ تھا اور سوائے احمدیوں کے اور کوئی نماز پڑھنے والا نہیں تھا.کہنے لگا، اس کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ بعد میں وہ احمدی ہو گیا.میں نے اس کو یہ جواب دیا کہ ہمارے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قدر پیار پیدا کیا ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منسوب ہونے والا ہے، لا وارث نہیں دیکھ سکتے.اس واسطے ایسے وقت میں احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس کا جنازہ پڑھے.یہ نہیں ہے کہ لوگ ہنسی ٹھٹھا کریں کہ مسلمان کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں اور اس کا جنازہ اٹھانے والا کوئی نہیں.جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منسوب ہونے والا ہے، وہ بے کس اور بے سہارا نہیں ہے.غرض بہت سے علاقے ایسے ہیں کہ جہاں مسلمان موجود ہیں، لیکن وہ زبان سے اظہار بھی نہیں کر سکتے اور ان میں سے کچھ نئی نسلیں اسلام کو بھول بھی گئیں ہیں.اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے اور ان کو اپنی رحمتوں سے نوازے.پھر ہمارے بچے ہیں، آئندہ آنے والی نسلیں ہیں، ان کے لئے دعائیں کریں.کیونکہ کام صرف ہم تک ہی محدود نہیں.پتہ نہیں ہزار سال میں کتنی نسلیں آتی ہیں.ابھی تو 87-86 سال گزرے ہیں اور باقی 14-913 سال باقی ہیں، اس جدوجہد کے.اور نوع انسانی کو چوٹی تک لے کر جانا ہے.پھر وہاں قائم رکھنے کے لئے بھی جد و جہد کرنی پڑے گی.یہ نہیں کہ وہاں پہنچ گئے اور کام ختم ہو گیا.تنزل شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے، جب آدمی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں.جہاں تک میں نے پہنچنا تھا، پہنچ گیا.تب اس کا اگلا قدم تنزل کی طرف ہے.لیکن اگر انسان کا دماغ اس حقیقت کو پہچاننے والا ہو کہ چوٹی تک پہنچنے کے بعد چوٹی پر کھڑا رہنے کے لئے بھی ایک جہاد کی ضرورت ہے تو پھر منزل نہیں آیا کرتا.ہمیں جو وعدہ دیا گیا ہے، ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ نے جو منصوبہ رکھا ہے، وہ یہ ہے کہ نوع انسانی کو چوٹی تک پہنچا کر پھر ایک ہزار سال تک اسے اس مقام پر کھڑے رکھنا ہے، جو کہ ہمارے آدم کی باقی عمر رہ گئی ہے.اس لئے ان نسلوں کے لئے دعائیں کریں.( مطبوعه روزنامه الفضل یکم نومبر 1977 ء ) 368
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پچیم تحریک جدید ایک الہی تحریک ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 28اکتوبر 1977ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء اس کا ئنات میں اللہ تعالیٰ نے تدریج کا اصول جاری کر رکھا ہے.خدا تعالیٰ اپنی حکمت کا ملہ سے ایک چھوٹی سی چیز کو پیدا کرتا ہے اور پھر وہ اپنی صفات کے جلووں کے ذریعہ اس کو بتدریج بڑھاتا ہے.یعنی ہر چیز کو آہستہ آہستہ وہ شکل دی جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتی ہے.انسان کی پیدائش کے متعلق قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اسے نطفہ سے پیدا کیا گیا ہے.وہ رحم مادر میں مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے بچہ بنتا ہے.اور پیدائش کے وقت اس بچے کی جو کیفیت ہوتی ہے، وہ سب جانتے ہیں.پھر وہی بچہ بڑا ہو کر آسمان کے ستاروں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے.چاند کے او پر بھی اس کا پاؤں لگ جاتا ہے.لیکن پیدائش کے وقت اس کی جو حالت ہوتی ہے، اس میں بتدریج ترقی ہوتی ہے.اور اس کی قوتیں آہستہ آہستہ نشو و نما پاتی ہیں.اور ہر انسان اپنی استعداد کے مطابق اپنے کمال کی طرف حرکت کرتے ہوئے ترقی کر رہا ہوتا ہے.اگر وہ خوش قسمت ہو اور اس کی تدبیر مقبول ہو اور اللہ تعالیٰ اسے ہدایت پر قائم رکھے تو وہ اپنے دائرہ استعداد میں بالآ خر کمال کو پہنچ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ دھر میں فرمایا ہے کہ ایک چھوٹا سا قطرہ ہے، جس سے بچے کی پیدائش شروع ہوتی ہے.اس قطرہ میں بھی وہ سارے قولی موجود ہوتے ہیں، جن کی نشو ونما حاصل کرنے کے بعد انسانی وجود ایک مکمل شکل اختیار کرتا ہے اور ترقی کرنے لگتا ہے.یہاں تک کہ ایک چوٹی کے معروف و مشہور سائنسدان کی صورت میں دنیا کے سامنے ظاہر ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمْشَاجِ نَبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًان فرمایا:.(الدھر: 03) انسان کی پیدائش ایک ایسے نطفے سے ہوتی ہے، جس میں مختلف قوتیں ملی ہوئی ہوتی ہیں.پھر ب وہ نشو ونما کے مختلف مدارج سے گزر جاتا ہے تو اسے دو بنیادی طاقتیں دی جاتی ہیں.369
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء ایک مشاہدہ کی قوت یعنی بینائی.اور ایک دوسروں سے سیکھنے کی قوت.تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کو سمیع اور بصیر بنایا ہے.وہ ان خداداد قوتوں کے ذریعہ دوسروں کے تجربوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيْلَ (الدھر:04) ہم نے انسان کو ہدایت کا راستہ دکھا دیا ہے، یعنی اس کے مناسب حال جو راہ تھی ، وہ اس کو دکھا دی ہے.اور اس کے مقصد حیات کو پورا کرنے والی اور اس کو خدا کی طرف لے جانے والی اور خدا تک پہنچانے والی جو ہدایت ہے ، وہ اس کو دے دی ہے.اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے.چنانچہ جب ہم انسان کی طاقتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہدایت کی وہ راہ ، جو اس کی جسمانی قوتوں کی نشو و نما کے لئے ضروری تھی ، وہ اس کو مل گئی ہے.اور اگر انسان اس پر چلے تو وہ مضبوط سے مضبوط جسم والا انسان بن سکتا ہے.اور انسان کی جسمانی طاقتیں اپنے کمال کو پہنچ سکتی ہیں.غرض قرآن کریم نے انسان کی دوسری طاقتوں کے علاوہ اس کی جسمانی طاقتوں کی حفاظت کے لئے اور ان طاقتوں کی نشو ونما کے لئے بھی ہدایت دی ہے.پھر نواہی یعنی برے کاموں سے روکنے والے احکام ہیں، جو انسان کو تباہی اور ہلاکت سے بچاتے ہیں.مثلاً انسان کی جسمانی طاقتوں کے لئے کھانا ایک ضروری چیز ہے.لیکن بہت سی چیزیں کھانے سے منع کر دیا.اور جو حلال چیزیں تھیں اور جن کے استعمال کی اجازت دی تھی ، ان کے متعلق بھی یہ کہا کہ دیکھو، انسان انسان کی طبیعت میں فرق ہے، بعض حلال چیزیں بعض انسانوں کے موافق آئیں گی ، بعض کے موافق نہیں آئیں گی.اس لئے صرف حلال ہی نہیں، طبیب کھایا کرو.تم یہ دیکھا کرو کہ تمہیں کون سی چیز موافق ہے؟ وہ کون سا کھانا ہے، جو تمہاری طاقت کو قائم رکھنے والا ہے اور جس کے نتیجہ میں تم اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح نباہ سکتے ہو؟ آج کی دنیا بڑا فخر کرتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ غذا میں توازن (Balance) کا اصول انہوں نے معلوم کیا ہے.حالانکہ قرآن کریم نے یہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز میں توازن کا اصول قائم کیا ہے.اس لئے فرمایا:.أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ 370 (الرحمن: 09)
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم فرمایا:.خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء یہ خیال رکھنا کہ کسی شعبہ زندگی میں بھی اس توازن کے اصول کی خلاف ورزی سرزد نہ ہو.کیونکہ اس سے تمہیں تکلیف پہنچے گی.غرض انسان کی جسمانی طاقتوں کی حفاظت کے لئے اور ان کی صحیح اور کامل نشو و نما کے لئے جس ہدایت کی ضرورت تھی، وہ انسان کو دے دی گئی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو ذہنی قوتیں بھی عطا کی ہیں.خدا تعالیٰ نے انسان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ علم حاصل کرتا ہے اور علم کے میدانوں میں ترقیات کرتا ہے.وہ اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی انقلاب ہائے عظیم پیدا کرتا رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ انسان کو پہنی قوتیں دی گئی ہیں بلکہ اس کو بے راہ روی اور بھٹکنے سے بچانے کے لئے بھی اسے تعلیم دی گئی ہے.اور وہ راہیں بھی بتادی گئی ہیں، جن پر چل کر وہ حقائق اشیاء تک پہنچ سکتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں یہ دعا بھی سکھلائی گئی ہے.رب ارنى حقائق الاشياء کہ اے میرے رب! مجھے حقائق اشیاء معلوم کرنے کی توفیق عطا فرما.بعض دفعہ احمدی نوجوان طالب علم مجھ سے ملنے کے لئے آتے ہیں تو میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ دیکھو، قرآن کریم نے ہر علم کے متعلق بنیادی اصول بتا دیئے ہیں.اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ہر علم کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کریں.ایک دفعہ حساب کے ایم ایس سی کے احمدی طلباء کا ایک گروپ ملاقات کے لئے آیا.میں نے ان سے کہا، تم حساب کی اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہو، لیکن کیا تمہیں معلوم ہے، حساب کے ماہرین نے یہ کہا ہے کہ حساب کی بنیاد چند مفروضات پر ہے؟ یعنی انہوں نے بعض باتیں خود ہی فرض کر لی ہیں.اگروہ بنیاد بیچ میں سے نکال دی جائے تو علم حساب کی عمارت زمین پر گر پڑتی ہے.لیکن اسلام نے یہ نہیں کہا کہ حساب کی بنیاد مفروضات پر ہے.اسلام نے یہ کہا ہے کہ حساب کی بنیاد حقائق اشیاء پر ہے.ویسے یہ ایک لمبا مضمون ہے، ایک دو فقروں میں ہی اشارہ کر سکتا ہوں.قرآن کریم نے کہا ہے کہ مکان اور زمان کے لحاظ سے ایک نسبت قائم ہے.اور ان نسبتوں پر حساب کے علم کی بنیاد ہے.مثلاً ایک آدمی آج سے پندرہ سال پہلے پیدا ہوا اور ایک پچاس سال پہلے پیدا ہوا.یہ زمانہ کے لحاظ سے نسبتیں ہیں.اور ایک مکان کے لحاظ سے نسبت ہے.مثلاً یہ کہ زمین سورج سے اتنی دور ہے اور اس رفتار سے حرکت کر رہی ہے.پس قرآن کریم کا یہ کہنا کہ حساب کی بنیادز مانی اور مکانی نسبتوں پر رکھی گئی ہے، ایک عظیم حکمت پر مبنی ہے.371
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم پچھلے دنوں کچھ غیر احمدی طلباء ملنے کے لئے آئے.وہ سوشیالوجی کے طالب علم تھے.ان سے بھی میں نے سوال کیا کہ بتاؤ تمہارے علم کی بنیاد کس چیز پر ہے؟ ان میں سے ایک لڑکا گھبرا گیا.پھر میں نے بتایا کہ دیکھو، آج کی مہذب دنیا نے معاشرہ کے موضوع پر کتابیں لکھی ہیں.انہوں نے اس علم کو مدون کیا اور اسے ایک سائنس اور علم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.لیکن وہ بھی اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکتے.اس کا صحیح جواب اسلام نے دیا ہے.چنانچہ میں نے ان کو تفصیل سے سمجھایا اور بتایا کہ خواہ دنیا کا کوئی علم ہو، قرآن کریم نے ہر علم کے متعلق بنیادی ہدایت دی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.إِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيلَ ہم نے انسان کو اس کی ذہنی طاقتوں کے مناسب حال ہدایت دے دی ہے.اسی طرح اخلاقی طاقتیں ہیں.انسان کو اخلاقی صلاحیتیں دی گئی ہیں.ان کے متعلق قرآن کریم میں بڑی تفصیل سے ہدایت پائی جاتی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.قرآن کریم اخلاقیات سے بھرا پڑا ہے.اخلاق کی حفاظت کیسے کرنی ہے؟ اور ان کو ترقی کیسے دینی ہے؟ حسن معاملہ کیا ہے؟ غرض اخلاقیات کے جملہ پہلوؤں سے متعلق قرآن کریم میں تفصیل.ہدایت دی گئی ہے.یہ ایک کامل کتاب ہے، جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمارے ہاتھ میں دی گئی ہے.اس میں اخلاقیات یعنی حسن معاملہ کے متعلق ایک کامل ہدایت موجود ہے.اسی طرح روحانی استعداد میں ہیں.قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے انسان کی روحانی حالتوں کو بیان کیا ہے.اور روحانی ترقی کے حصول کے طریق بھی بتائے اور ان طریق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہلاکتوں کا بھی ذکر کیا.اور ان کی وجوہات کی طرف بھی اشارہ کیا.ایک جگہ فرمایا کہ بعض لوگوں کو ہم اونچا کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ - (الاعراف : 177) زمین کی طرف جھک جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے روحانی رفعتوں کے حصول کے جو سامان پیدا کئے ہیں، ان سے وہ خود اپنے آپ کو محروم کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ساری ہدایتیں تو دے دیں لیکن یہ ہدایتیں دینے کے بعد 372
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم إِمَّا شَاكِرًا و إِمَّا كَفُورًا خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء (الدھر: 04) انسان کو یہ اختیار ہے کہ خواہ وہ ہدایت کی راہ پر چل کر شکر گزار بندہ بنے یا گمراہی کی راہوں پر چلتے ہوئے ناشکری کرے.خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا.پھر اس کو مختلف قو تیں اور طاقتیں ، صلاحیتیں اور استعداد میں عطا کیں.اور ان قوتوں اور صلاحیتوں کونشو و نما دینے اور ان کو ہلاکت سے بچانے کی ہدایت دی.گویا ہدایت اور گمراہی کے دونوں راستوں کی نشاندہی کرنے کے بعد فرمایا:.إِمَّا شَاكِرَا وَ إِمَّا كَفُورًا اے انسان! ہم تجھے صاحب اختیار بناتے ہیں، اگر تو چاہے تو خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن اور جو تجھے کہا گیا ہے، اس کے مطابق عمل کر اور خدا تعالیٰ سے انعام پا.اور اگر چاہے تو ناشکری کر اور ان ہدایتوں کا نافرمان بن اور نافرمانی کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی گھاٹا تیرے نصیب میں ہوگا اور اخروی زندگی میں خدا تعالیٰ کے قہر کے عذاب میں مجھے جلنا پڑے گا.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے مختلف مدارج سے گزار کر ترقی دی.پس ہماری زندگی میں بھی اور ہر دوسری چیز کی زندگی میں بھی تدریجی اصول چل رہا ہے.یہاں تک کہ پتھروں میں بھی تدریج کا اصول کارفرما ہے.ہر چیز آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا، اس کو قو تیں اور صلاحیتیں دیں، ان کی حفاظت کے سامان پیدا کئے ، ان کی نشو و نما کے لئے ہدایت دی.مگر یہ سب کچھ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِمَّا شَاكِرًا و إِمَّا كَفُورًا اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ میری ہدایت کے مطابق عمل کرو اور انعام پاؤ.یا اطاعت نہ کرو، نافرمانی کرو اور ناشکرے بن جاؤ اور خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے نعماء کے حصول کے جو سامان پیدا کئے تھے، ان کی طرف تم توجہ نہ کرو اور اس کے نتیجہ میں محرومی ، مہجوری اور خدا سے دوری کی زندگی گزارو.البی جماعتیں شکر گزار بندوں پر مشتمل ہوتی ہیں.اور یہ جو تدریج کا اصول ہے، اس سے وہ اچھی طرح واقف ہوتی ہیں.چنانچہ دیکھ لیں، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آہستہ آہستہ ترقی ہوئی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ نے مسلمانوں کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی رفعتوں تک پہنچا دیا تھا.وعدہ تو ان کو یہ دیا گیا تھا کہ جب تم میں سے خدا کا کوئی بندہ تواضع اور انکساری کی 373
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم راہوں کو اختیار کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو ساتویں آسمان تک پہنچا دے گا.یعنی امت محمدیہ کو انتہائی بلندیوں تک پہنچنے کا وعدہ دیا گیا ہے.چنانچہ مسلمانوں نے انتہائی ترقی کی.لیکن اس میں تدریج کا اصول کارفرما رہا.تدریج کے اصول میں ہر دوسرا دور پہلے سے زیادہ بڑا بھی ہوتا ہے اور بڑا کٹھن اور مشکل بھی ہوتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دیکھ لیں.اپنی بعثت کے ابتدائی ایام میں آپ خود بھی اپنے صحابہ کے ساتھ چھپ چھپ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے.یہ کمزوری کا زمانہ تھا.پھر ترقی ہوئی اور مسلمانوں نے کھل کر نمازیں پڑھنی شروع کیں.گو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو نہایت بلند تھا لیکن آپ اپنے صحابہ کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا چاہتے تھے.حالانکہ آپ تو اس وقت بھی خانہ کعبہ میں جا کر نماز ادا کر لیتے تھے.لیکن جہاں تک باجماعت نماز کا تعلق ہے، صحابہ کی روحانی نشو و نما میں ابھی اتنی طاقت نہیں پیدا ہوئی تھی کہ وہ کھل کر نماز پڑھتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ وہ اپنے صحابہ کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں.اس لئے آپ بھی ان کے ساتھ نماز با جماعت چھپ کر پڑھتے تھے.پھر ایک زمانہ ایسا تھا، جس میں نماز فرض ہی نہیں تھی.پھر ایسا زمانہ تھا، جس میں روزے ابھی فرض ہی نہیں تھے.پھر ایک ایسا زمانہ تھا ، جس میں زکوۃ فرض ہی نہیں تھی.پھر ایک ایسا زمانہ تھا، جس میں شراب حرام ہی نہیں تھی.مگر جب آہستہ آہستہ مسلمان نماز پڑھنے، روزے رکھنے اور زکوۃ دینے کے قابل ہو گئے تو ان کی ادائیگی بطور فرض لازمی قرار دی گئی.چنانچہ وہ لوگ، جو زمین پر بھی زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ، وہ ترقی کرتے کرتے اخلاقی اور روحانی طور پر آسمانی وجود بن گئے.خدا تعالیٰ نے دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ میں دے دی.انہوں نے کسی قسم کا استحصال کئے بغیر بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت کا ایک ایسا عجیب نمونہ دکھایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ الہی سلسلے اپنی قربانیوں کو آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں.ان کی زندگی میں پہلو بہ پہلو ایک تدریجی عمل کار فرما ہوتا ہے.یعنی ان کی جتنی بڑی قربانی ہوگی، جتنا بڑا ایثار ہوگا، جتنی زیادہ فدائیت ہوگی اور خدا کی راہ میں انسان جتنی زیادہ فنائیت اپنے اوپر طاری کرے گا ، اسی کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے انعام مل رہے ہوں گے.اب اس زمانہ میں مہدی اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آگئے.اور ایک چھوٹی سی جماعت آپ کے گرد جمع ہوگئی.آپ ایسے زمانہ میں آئے ، جب خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے کسی کو ایک پیسہ دینے کی بھی عادت نہیں تھی.چنانچہ جولوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے 374
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء لئے اکٹھے ہوئے تھے، ان کی مالی قربانی دونی، چونی اور اٹھی تھی.لیکن یہ دونی ، چونی اور اٹھنی کی قربانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ نظر آ رہا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے پہلے مقام سے نکل کر ایک درجہ آگے بڑھ گئے ہیں.اور ان کے اندر ایک انقلابی حرکت پیدا ہوگئی ہے.چنانچہ اس بات کو دنیا پر واضح کرنے کے لئے کہ کس طرح انقلابی مدارج طے کرنے والی ایک جماعت پیدا ہوگئی ہے، آپ نے شروع میں دونی، چونی اور اٹھنی دینے والوں کے نام اپنی کتب میں لکھ دیئے کہ یہ وہ مخلصین ہیں، جنہوں نے دونی دی یا چونی دی یا اٹھنی دی.تا کہ ایک تو قیامت تک مخلصین احمدیت ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں.اس لئے کہ انہوں نے ابتدائی زمانہ میں خدا کی راہ میں قربانیوں کی بنیاد ڈالی اور قربانی کرنے والی جماعتوں کے لئے ایک نمونہ بنے کی توفیق پائی.اور دوسرے یہ کہ آنے والی نسلوں کو پتہ لگے کہ جماعت احمد یہ کس طرح ایک چھوٹی سی قربانی سے چلی تھی لیکن مختلف مدارج طے کرتی ہوئی اب وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے؟ پس جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے، انہی سلسلے کی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے.ویسے صرف مالی قربانی ہی نہیں.خدا تعالیٰ ہم سے ہر قسم کی قربانی مانگتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:04) کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے، وہ میری راہ میں تمہیں واپس کرنا پڑے گا.مثلاً ہمارا وقت ہے، ہماری دولت ہے، ہماری اولاد ہے اور ہمارے جذبات ہیں، یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں.اور ان کو خدا کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے.جماعت احمد یہ اس قسم کی قربانیوں کی مثال آپ ہے.مثلاً جذبات کی قربانی کو لے لیں.1974ء میں خدا تعالیٰ نے جماعت سے جذبات کی کتنی بڑی قربانی کی ؟ مگر اس نے اپنے فضل سے انعام بھی بہت بڑا دیا.ہم اس کے فضلوں کا شمار نہیں کر سکتے.بہر حال مالی قربانی چونکہ حساب کے اندر بندھ جاتی ہے، اس لئے اس کا بار بار ذکر ہوتا رہتا ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کے وہ لوگ جو دو آنے ، چار آنے چندہ دینے والے تھے، ان کی اس قربانی کے مقابلہ میں ان پر جوفضل نازل ہوئے ، اس کی کوئی نسبت ہی نہیں.میں ایک شخص کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں دونی، چونی دینے والوں میں سے تھے.خدا تعالیٰ نے ان کو اولاد دی.ان کے چار، پانچ لڑکے مشرقی افریقہ چلے گئے.ان کا باپ، جو خدا کی راہ میں چار آنے دینے والا تھا، خدا تعالیٰ اس قربانی کے نتیجہ میں ان کو چار چار، چھ چھ بلکہ آٹھ آٹھ ہزار 375
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم روپیہ ہر مہینہ واپس کر رہا تھا.خدا تعالیٰ ہر دو جہاں کا مالک ہے.وہ قرضے اپنے پاس نہیں رکھا کرتا.وہ اس دنیا میں بھی انعام دیتا ہے اور جو اخروی زندگی میں ملنے والے انعام ہیں، ان کا تو کوئی شمار ہی نہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ تھا کہ تیرے ماننے والوں کے اموال میں برکت دوں گا.اس قسم کی اور بہت کی بشارتیں ہیں لیکن میں اس وقت ان کا ذکر نہیں کر رہا.میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کی روح کس طرح پیدا کی گئی ؟ جب آہستہ آہستہ خدا کی راہ میں پیسہ خرچ کرنے کی عادت پڑ گئی تو پھر جماعت کے اندر لازمی چندے آ گئے.پھر وصیت آ گئی ، دسویں حصے کی اور اگر کوئی چاہے تو 113 تک وصیت کر سکتا ہے.چنانچہ اس میں بڑی بڑی قربانی دینے والے لوگ پیدا ہو گئے.پھر وصیت کا 10\1 دینے والوں سے کہا گیا کہ جو غیر لازمی چندے ہیں یا نیم لازمی چندے ہیں، وہ بھی دو.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کا آغاز کر دیا.اور اس کے لئے ، لازمی چندوں کے لئے مالی قربانی کی تحریک فرمائی، جو لازمی چندوں کے علاوہ تھی.یعنی جو لازمی چندہ جات تھے، مثلاً چندہ عام ہے، چندہ وصیت ہے، یہ اصل اور لازمی چندہ جات ہیں.لیکن بعض دوسرے چندے بھی ہیں، جن کے متعلق جماعت نے فیصلہ کیا ہوا ہے.اور وہ بھی گو یا لازمی چندے ہیں.ان کے علاوہ جماعت نے نہایت بشاشت سے تحریک جدید کے چندے دینے شروع کر دیئے.یہ 1934ء کی بات ہے.اس وقت بھی کئی ایک دوستوں نے کہا اور کئی اب بھی مجھے لکھ دیتے ہیں کہ سارے چندوں کو اکٹھا کر کے ایک مد کے اندر لے آئیں.ایسے لوگوں کے لئے میں دعا کرتا ہوں.وہ ان مختلف چندوں کی روح کو نہیں پہچانتے.ہمارا ہر قدم پہلے سے آگے بڑھنا چاہیے.ایک جگہ کھڑے ہوئے اور ہلاک ہوئے.یہ الہی سلسلوں کا اصول ہے، الہی سلسلوں پر جتنے بھی تنزل کے زمانے آتے ہیں، وہ کھڑے ہو کر ہی آئے ہیں.ایک جگہ کھڑے ہو جانا تو الہی سلسلہ کے لئے موت کے مترادف ہے.اسی لئے یہ البہی جماعت دعاؤں کے نتیجہ میں کوشش اور تدبیر کے ذریعہ ہر سال پہلے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے جب تبلیغ اسلام کا یہ بہت بڑا منصوبہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دماغ میں ڈالا تھا تو اس وقت حال یہ تھا کہ گو غیر ممالک میں پہلے بھی کچھ مبلغ گئے ہوئے تھے لیکن جتنے مبلغ تحریک جدید کے اس وسیع اور عظیم الشان منصوبہ کے ماتحت بھجوائے جاتے ہیں، اتنے مبلغ باہر جانے شروع نہیں ہوئے تھے.اس وقت بیرون ملک نئے نئے احمدیوں کا وہی حال تھا، جو شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے والوں کا تھا.بیرونی ممالک میں قبول اسلام کرنے والوں کی ابھی کما حقہ تربیت نہیں 376
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء ہو پائی تھی.صرف اتنا ہو سکا تھا کہ وہ پہلے بے نماز تھے ، اب انہوں نے نمازیں پڑھنی شروع کر دیں.یا وہ لوگ، جو پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتے تھے، اب انہوں نے آپ پر درود پڑھنا شروع کر دیا.بت پرستوں میں سے مسلمان ہوئے تو انہوں نے لا إله إلا الله کا نعرہ بلند کر دیا.لیکن مالی قربانیوں کی طرف نہ وہ آئے تھے اور نہ ان پر زور دیا جارہا تھا.چنانچہ میں نے ایک دفعہ تحریک جدید کے 1934ء سے 1944ء تک کے دس سالوں کے چندے کا ریکارڈ ا کٹھا کروایا تو مجھے پتہ لگا کہ اس عرصہ میں، جو دراصل غیر ملکیوں کے لئے تربیت کا زمانہ ہے، ہمارے رجسٹروں میں ان کا کوئی چندہ درج نہیں ہے.اور اب یہ حال ہے کہ ایک خط وہاں سے آ جاتا ہے، جس میں لکھا ہوتا ہے کہ فلاں جگہ یا فلاں علاقے میں ہمارا جلسہ تھا اور وہاں پانچ لاکھ روپے چندہ جمع ہو گیا.یہ ایک علاقے کا چندہ ہوتا ہے.میں ملک کی بات نہیں کر رہا.اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاکستان کے تحریک جدید کے چندے کے مقابلے میں غیر ممالک کا چندہ آٹھ دس گنا زیادہ ہو چکا ہے.کیونکہ بیرونی جماعتیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے اندر قربانی کی بڑی روح پائی جاتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے.جماعت احمد یہ تو ایک غریب جماعت ہے، دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت ہے.لوگ اس کو برا بھلا کہنے میں ثواب سمجھتے ہیں.کوئی سیاسی اقتدار نہیں.اور نہ اس کو سیاست سے کوئی دلچسپی ہے.دنیا کی نگاہ میں اس جماعت کی کوئی عزت نہیں.اس بات کا اعلان کرنے میں ہمیں کوئی شرم نہیں کہ دنیا کی نگاہ میں ہمارے لئے کوئی عزت نہیں.لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خدائے قادرو تو انا کی نگاہ میں ہمارے لئے عزت ہے.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جنوبی افریقہ میں خدا تعالیٰ نے اس غریب اور دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت کو اسلام کی تبلیغ کی بھر پور توفیق دی.میرا اندازہ ہے کہ پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائیت اور بت پرستی کو چھوڑ کر لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھتے ہوئے اسلام میں داخل ہو چکے ہیں.الحمد للہ علی ذالک.1971ء کی مردم شماری کی رو سے صرف ایک ملک میں پونے دولاکھ احمدی تھے.یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے.اللہ تعالیٰ نومسلموں کے ایمانوں کو بڑھانے کے لئے نشان دکھاتا ہے، ان کی دعاؤں کو سنتا ہے، ان کو وقت سے پہلے خوابوں کے ذریعہ اطلاع دیتا ہے.مرکز سے ان کا تعلق مضبوط کرنے کے لئے بالکل 377
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ان ہوئی چیزیں ان کے لئے ایک زندہ حقیقت بن کر سامنے آتی ہیں.وہ دعا کے لئے لکھتے ہیں.خدائے قادر وتوانا اپنی قدرت کا مجزانه نشان انکو دکھا کر مر کز سلسلہ کے ساتھ ان کے تعلق کو مضبوط کرتا ہے.ابھی چند ہفتے ہوئے ، مجھے ایک دوست کا خط آیا.مجھے تو یاد نہیں تھا کیونکہ اس قسم کے خط تو آتے ہی رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ بڑے نشان دکھانے والا ہے، وہ بغیر حساب کے دیتا ہے.اس کے فضلوں کا حساب کون کر سکتا ہے؟ غرض اس دوست نے لکھا کہ ایک سال ہوا، میں نے آپ کو یہ لکھا تھا کہ میرے ہاں اولاد نہیں.اور سب ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ تمہاری اس بیوی سے بچہ ہو ہی نہیں سکتا.بڑے علاج کروائے لیکن کوئی علاج کارگر نہیں ہوا.اب ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے کہ اس بیوی سے بچہ نہیں ہو سکتا.اور اب میں آپ کو یہ خوشخبری سنارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بچہ دے دیا ہے.پس یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا نشان ہے.اس میں نہ میری کوئی بزرگی ہے اور نہ جماعت کی.یہ تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ہمارے حق میں اپنی قدرت کا نشان دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کا جومنصوبہ بنایا ہے، یہ دراصل اسی منصوبے کی کڑیاں ہیں.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں بھی ایمان کو مضبوط کرتا ہے.اور ان کے اندر ایثار اور قربانی کے جذبات پیدا کرتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے نشان دیکھ کر اس کی وحدانیت کے قائل ہو جاتے ہیں، ان کے دل کی وحشت دور ہو جاتی ہے، اسلام کے حسن و احسان کے گرویدہ ہو کر حسن معاملہ میں بہت ترقی کر جاتے ہیں.پس تحریک جدید ایک الہی تحریک ہے.جس کے بڑے خوشکن نتائج سامنے آرہے ہیں.اس کے اجراء کے وقت شاید ایک لاکھ روپے کی مالی قربانی دینے کا اعلان کیا گیا تھا.اور یہ اس وقت کی بہت بڑی قربانی تھی.لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل دیکھو کہ نصرت جہاں کے ماتحت ہمارے جو ڈاکٹر مغربی افریقہ میں گئے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اتنی برکت ڈالی کہ اڑھائی کروڑ سے بھی زیادہ آمد ہوئی.جو انہی لوگوں پر خرچ ہوگئی.کیونکہ وہاں جو آمد پیدا ہوتی ہے، اس کا ایک دھیلا بھی باہر نہیں نکالا جاتا، نہ اور کوئی خرچ کرتا ہے.وہ ان عوام پر خرچ ہو جاتی ہے، جن کی خدمت کی غرض سے ہمارے ڈاکٹر گئے ہوئے ہیں.غرض یہی تحریک جدید، جس کا آغاز ایک لاکھ کی مالی قربانی سے ہوا تھا، اس کے ذریعہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ایسے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں، جو بڑی بڑی قربانیاں دے رہے ہیں.وہ مبلغین کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ انہیں کتابیں مہیا کریں.378
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 28اکتوبر 1977ء چنانچہ غانا نے لکھا کہ وہ باہر سے کتابیں منگو انہیں سکتے، کیونکہ وہاں فارن ایکسچینج کی کمی ہے، اس لئے انہیں اجازت دیں کہ وہ اپنے ملک میں دس ہزار کی تعداد میں قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ شائع کر دیں.میں نے ان کو اجازت دے دی ہے، اب وہ شائع کر رہے ہیں.امریکہ میں بھی جماعت بڑی ترقی کر رہی ہے.عیسائیت کے ساتھ جن لوگوں کو پیار تھا مگر ایک انسان کو خدا بنانے کی وجہ سے شرک کرتے تھے ، ان میں سے کئی لوگ جماعت احمدیہ کی حقیر کوششوں کے نتیجہ میں مسلمان ہو چکے ہیں.اور ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا بڑا پیار پیدا کر دیا ہے.چار جلدوں پر مشتمل انگریزی تفسیر قرآن کریم وہاں اکثر دوستوں کے پاس موجود ہے.پچھلے سال جب میں امریکہ گیا تو ایک دوست نے کہا کہ وہ تفسیر خریدنا چاہتے ہیں مگر ملتی نہیں.دراصل ان کو علم نہیں تھا.میں نے جب پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ 20 یا 24 سیٹ پڑے ہوئے تھے.میں نے ان سے کہا تمہارا تو کام بن گیا.لیکن میں نے متعلقہ دفتر سے کہا ہے کہ وہ انگریزی تفسیر دوبارہ شائع کرے.پھر جب پولینڈ میں احمدیت گئی تو ساتھ ہی مطالبہ بھی ہو گیا کہ انہیں اسلام کا لٹریچر دیا جائے.دو مہینے ہوئے ، ہمارے ایک مبلغ بعض اشترا کی ممالک میں گئے.جہاں مسلمان بھی بستے ہیں.مثلاً البانین بولنے والا علاقہ ، جس میں مسلمان بھی بستے ہیں اور وہ دو ملکوں میں بٹا ہوا ہے تو انہوں نے بھی مطالبہ کر دیا کہ ان کے پاس البانین زبان میں قرآن کریم کا کوئی ترجمہ نہیں ، ان کو تر جمہ کر کے دیا جائے.پس کام تو بہت ہیں، جو کرنے والے ہیں.اور ہماری ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں.اس لئے پیچھلے سال جب میں نے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا تھا تو میں نے یہ کہا تھا کہ اگر چہ بیرونی ملکوں کی اکثر جماعتیں مالی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی ہیں، لیکن تحریک جدید کی جو یہاں کی ضرورتیں ہیں، ان کو پورا کرنے کے لئے بجٹ میں اضافہ کی ضرورت ہے.چنانچہ تحریک جدید کے بیالیسویں سال میں بجٹ نو لاکھ، پندرہ ہزار روپے کا تھا.میں نے کہا تھا کہ یہ تو کافی نہیں ہے.اس لئے پچھلے سال میں نے ٹارگٹ دیا تھا، پندرہ لاکھ روپے کا اور کہا تھا کہ اگر جماعت پندرہ لاکھ روپے مجھے کر دے تو تحریک جدید کی ضروریات پوری ہو جائیں گی.تحریک جدید نے ساری جماعتوں کا حساب کر کے ہر ایک کو لکھا کہ وہ اپنے اپنے مجموعی بجٹ تحریک جدید میں 33 فیصد زائد کر دیں تو پندرہ لاکھ روپے کا یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے گا.چنانچہ خدا کی اس پیاری جماعت نے یہ ٹارگٹ قریباً پورا کر دیا ہے.تھوڑا سا فرق رہ گیا ہے.اور ہمیں پتہ ہے، کس جگہ تھوڑی سی کمزوری ہوئی ہے؟ 379
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم غرض پندرہ لاکھ کی بجائے چودہ لاکھ، چونتیس ہزار روپے کے وعدے دفتر کے پاس آچکے ہیں.جہاں تک شہروں کا تعلق ہے، دفتر کی رپورٹ کے مطابق قریباً سارے شہروں نے اپنا ٹارگٹ پورا کر دیا ہے.استثنائی طور پر شاید ہی کوئی شہر ہوگا، جو پیچھے رہ گیا ہوگا.ورنہ شہروں کی بہت بڑی اکثریت نے نہ صرف اپنا ٹارگٹ پورا کیا ہے بلکہ وہ اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں.لیکن دیہی علاقوں میں سے بعض علاقے ایسے ہیں، جنہوں نے اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کیا.اس کے نتیجہ میں متعلقہ ضلع کی ساری جماعتوں پر اثر پڑتا ہے.تاہم اتنے بڑے بجٹ میں 66 ہزار روپے کی کمی کوئی ایسی نہیں ہے، جو قابل فکر ہو یا ہمیں تنگ کرے.لیکن بہر حال شرم تو آتی ہے کہ ٹارگٹ پورا کرنے میں صرف 66 ہزار روپے کی کمی کی وجہ سے بعض دیہاتی جماعتیں پیچھے رہ گئیں.کیونکہ اپریل کے آخر تک ادا ئیگی ہوتی ہے، یعنی تحریک جدید کا اعلان ہم اس موسم میں کرتے ہیں.لیکن وصولی اپریل کے آخر تک ہوتی رہتی ہے.اس لئے وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے ہیں، اگر وہ ہمت کریں تو سال رواں میں 66 ہزار روپے کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں.اس طرح نہ صرف یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے گا بلکہ امید ہے کہ انشاء اللہ اگلے سال بجٹ تحریک جدید اس ٹارگٹ سے بھی آگے نکل جائے گا.اور جو یہاں کی ضرورتیں ہیں ، وہ پوری ہو جائیں گی.کچھ یہاں کی ضرورتیں ہیں، جو پوری نہیں ہو سکیں.دنیوی اقتدار رکھنے والے بعض لوگوں کی طرف سے بعض روکیں اشاعت کتب کے سلسلہ میں ہمارے راستے میں پیدا کر دی جاتی ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان روکوں کو دور کر دے.خدمت اسلام کا جو کام جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہو رہا ہے، اگر کوئی شخص اپنی ناسمجھی کی وجہ سے اس میں روک بنتا ہے تو ہماری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر گرفت نہ کرے بلکہ اس کی اصلاح کر دے.اور جس طرح ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کو بارش کے قطروں سے زیادہ آسمان سے نازل ہوتا دیکھتے ہیں، انفرادی و اجتماعی ہر دو لحاظ سے اسی طرح وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے وارث بنیں.ہماری تو ہمیشہ یہی دعا رہتی ہے.پس آج میں تحریک جدید کے (اس کے تین دفتر ہیں.) دفتر اول کے چوالیسویں سال، دفتر دوم کے چونتیسویں سال اور دفتر سوم کے تیرہویں سال کا اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے یقین ہے کہ 66 ہزار روپے کی جو کمی ہے، وہ اسی سال پوری ہو جائے گی.نہ صرف یہ کمی پوری ہوگی بلکہ اگلے سال انشاء اللہ اس سے بھی زیادہ وصولی ہوگی.380
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1977ء تحریک جدید کا بھی فرض ہے کہ وہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں ، اسلام کی تبلیغ سے متعلق نئے ذرائع سوچیں اور نئی تدابیر بروئے کارلائیں.تا کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: 10) کا خدائی وعدہ جلد جلد پورا ہو.حضرت مہدی علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے اور نوع انسانی کو امت واحدہ بنا دیا جائے.ٹھیک ہے، اس پر کچھ وقت تو لگے گا اور بتایا بھی یہی گیا ہے کہ وقت لگے گا.لیکن ہر دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر ہماری زندگیوں میں یہ سارا وعدہ پورا نہیں ہوتا تو اس کا بہت سا حصہ تو ہماری زندگیوں میں پورا ہو جائے.تا کہ ہم بھی ان وعدوں اور بشارتوں کے پورا ہونے سے روحانی فیض اٹھانے والوں میں شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اور اسلام کے غلبہ اور بنی نوع انسان کے امت واحدہ بنانے کے جلد تر سامان پیدا کر دئے.رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 381
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء نبی اکرم کے ذریعہ بپا ہونے والے عظیم انقلاب کا عروج مہدی کے زمانہ میں مقدر ہے خطاب فرموده 04 نومبر 1977 ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.خدام الاحمدیہ کے نمائندے ہر سال اپنے سالانہ اجتماع میں شمولیت اختیار کرتے تھے.اور یہاں ان کو ان کے کاموں اور ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی جاتی تھی.لیکن درمیان میں ایک لمبا وقفہ آ گیا.اور اس وقفے کے بعد اب چوتھے سال یہ اجتماع ہورہا ہے.اس دوران عمر کے لحاظ سے چار گروہ اطفال سے خدام میں شامل ہو چکے ہیں.اور چار گروہ خدام الاحمدیہ سے نکل کر انصار اللہ میں جاچکے ہیں.اور جود دوسرے خدام ہیں ، ان کو بھی اس اجتماع کے موقع پر مرکز میں آنے کے بعد نیکی کی با تیں اور اسلام کی باتیں سننے کے جو مواقع ملتے تھے، ان سے وہ حصہ نہیں لے سکے.اس لئے آج اس وقت میں مختصراً آپ کو آپ کا مقام یاد دلانے کی کوشش کروں گا.جب تک انسان کو یہ پتہ نہ ہو کہ اس کا مقام کیا ہے؟ اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور اس پر بوجھ کیا ڈالا گیا ہے؟ اور اس کے لئے انعام کیا مقرر کئے گئے ہیں؟ اس وقت تک اس کے دل میں کام کے لئے دلچسپی اور بشاشت پیدا نہیں ہوتی.اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جولوگ اسلام کی تعلیم کو مجھے لگ جائیں اور فرائض اسلام کو ، اسلامی ہدایت و شریعت نے ان پر جو فرائض ڈالے ہیں، ان کو پہچاننے لگیں اور جو انعام اس پر دیئے گئے ہیں، وہ ان کی نظر کے سامنے ہوں تو ان کے دل میں ایک بشاشت پیدا ہوتی ہے کہ کام تو ہم نے تھوڑ اسا کیا ہے لیکن اس کے بدلے میں غیر متناہی انعامات کا ہم سے وعدہ کیا ہے.اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس مسلمان کے دل میں اسلام کے لئے بشاشت پیدا ہو جائے تو اس کو کوئی خطرہ نہیں رہتا کہ کہیں وہ گمراہ نہ ہو جائے یا اسے ٹھوکر نہ لگ جائے اور شیطان کا حملہ اس پر کامیاب نہ ہو جائے.کیونکہ بشاشت ان ساری چیزوں کے بعد پیدا ہوتی ہے.یعنی ایک انسان اسلام کی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے، پھر ان کو تولتا ہے، پھر ان کا اندازہ لگاتا ہے، کس قسم کی ذمہ واریاں ہیں اور پھر وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہماری طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ہم پر نہیں ڈالا گیا.بلکہ خدا تعالیٰ نے جو قو تیں اور استعداد میں ہر میدان میں آگے بڑھنے کے لئے ہمیں عطا کی تھیں، ان کے عین مطابق ہم پر ذمہ داریاں 383
خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ڈالی گئی ہیں.پھر وہ یہ جانتا ہے کہ جو کچھ بھی ہم اس چھوٹی سی زندگی میں کریں، اس کے مقابلہ میں ابدی جنتوں کا وعدہ ہے، نہ ختم ہونے والے انعامات کا وعدہ، جن کی آپس میں نسبت ہی کوئی نہیں.به محض فضل الہی اور خدا تعالیٰ کی رحمت ہے، جو انسان کو اتنے بڑے انعامات کا وارث بنا دیتی ہے.ورنہ اردو میں ایک محاورہ مشہور ہے کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ.ہمارے اعمال کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ اگر انہی کے مطابق جزا دی جاتی تو اس عمر کے مطابق ہو جاتی.مثلاً اگر کسی نے ساٹھ سال نیکیاں کی ہیں تو اسے ساٹھ سال کے لئے جنت مل جاتی.اگر کسی نے 80 سال خدا تعالیٰ کی خاطر تقوی شعاری سے کام لیا ہے تو80 سال کے لئے خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتیں اس کے نصیب میں لکھ دی جاتیں.لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ انسان اس مختصر سی زندگی میں، جو کچھ تھوڑا بہت خدا کے حضور پیش کرتا ہے ، جب اللہ تعالیٰ اس کی کوشش کو قبول کر لے تو اسے وہ جنتیں ملتی ہیں اور وہ انعامات ملتے ہیں، جن کی کوئی انتہانہیں، جن کا کوئی خاتمہ نہیں.اور پھر مرنے کے بعد نہیں بلکہ اس زندگی میں اس کے لئے ایک جنت شروع ہو جاتی ہے.اور وہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے تلے ہنستا مسکراتا، مخالف قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.پس میرا مقصد اس وقت مختصر تقریر سے یہ ہے کہ میں کوشش کروں کہ آپ اپنے مقام کو پہچاننے لگیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ نوع انسانی، جس کا تعلق ہمارے آدم کے ساتھ ہے، کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب بپا ہو گیا اور ایک ایسی انقلابی حرکت پیدا ہو گئی کہ جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی اور نہ قیامت تک اس قسم کا عظیم انقلاب بپا ہو سکتا ہے.انقلابی حرکت یا انقلاب، ایک چیز جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے، وہ نہیں بلکہ زمین و آسمان تہ و بالا کر دیئے جائیں اور ایک نئی زمین ہو اور نیا آسمان پیدا ہو جائے.یہ ہے، انقلاب.تا ہم انسان اپنی کوشش میں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی ارتقائی مراحل میں سے گزرتا ہے، ترقی کرتا ہے، چھوٹے سے بڑا ہوتا ہے.جو کمزور قو میں ہیں، وہ طاقتور ہو جاتی ہیں.جو سائنس اور تحقیق اور علم میں پیچھے ہوتی ہیں، وہ آگے نکل جاتی ہیں.وہ زمین کو چھوڑ کر چاند پر پہنچ جاتی ہیں.اور دنیا کو اکٹھا کرنے کے خواب دیکھنے لگتی ہیں.اشتراکی انقلاب نے ساری دنیا کے انسان کے ایک حصہ کو، جس کو ہم ایک بڑا حصہ کہہ سکتے ہیں، اکٹھا کرنے کے خواب دیکھے تھے.جب انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ PROLETARIAT OF WORLD UNITE 384
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء کہ سارے غریب اور وہ لوگ، جن پر ظلم ہورہاہے، جن کا استحصال کیا جارہا ہے، اکٹھے ہو جاؤ.ہم تم سب کو ساتھ ملا کر تمہیں ظلم سے نجات دلائیں گے، استحصال سے تم چھٹکارا حاصل کرو گے.اور پھر ترقیات کی راہ پر اور آگے بڑھیں گے.لیکن ابھی کتنا وقت گزرا ، ساٹھ سال کے قریب سمجھ لیں ، آپ.اور ابھی سے ان کی حرکت آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف ہونی شروع ہوگئی ہے.اور وہ ، جنہوں نے ساری دنیا کے PROLETARIAT (پریولیٹریٹ) کو یہ کہا تھا کہ UNITE (یونائٹ) اکٹھے ہو جاؤ ، ہم تمہارے ساتھ مل کر تمہاری قیادت کر کے تمہیں ہدایت دے کر او پر ہی اوپر لے جاتے چلے جائیں گے.وہی لوگ، جو ساری دنیا کے PROLETARIAT کو ، غریب اور مظلوم کو اکٹھا کر رہے تھے، انہوں نے بعض دوسری قوموں کے ساتھ مل کر اپنے تاثرات کا دائرہ مقرر کر لیا کہ دنیا کے یہ حصے میرے INFLUENCE (انفلوئنس) اور یہ حصے تمہارے INFLUENCE میں ہوں گے.یعنی جن کے ساتھ لڑائی تھی ، جن کو وہ ظالم کہہ رہے تھے، دنیا کے PROLETARIAT کا ایک حصہ ان کے سپرد کر دیا.پس وہ جوساری دنیا کو اکٹھا کر کے ایک انقلاب برپا کرنے کا منصوبہ تھا، وہ تو زون کی اس تقسیم کے نتیجہ میں دھڑام سے زمین پر گر گیا اور کامیاب نہیں ہوا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ایک عظیم انقلاب دنیوی بھی اور روحانی بھی بپا ہوا.اور کہا گیا کہ یہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا چلا جائے گا.یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ ساری دنیا کے انسانوں کو صرف PROLETARIAT کو نہیں، بلکہ مظلوم کو بھی اور ظالم کو بھی ، اپنے احاطہ میں لے لے گا.مظلوم کو مظلومیت سے نجات دلائے گا اور ظالم کو اس کے اندر جو ظلم کرنے کی خرابی اور بدی پائی جاتی ہے، اس سے نجات دلائے گا.اور ہر دو خدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے تلے اکٹھے ہو جائیں گے.بتایا یہ گیا کہ یہ عظیم انقلاب، ومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ شروع ہوا ہے ، آخری زمانہ کے آنے تک (یعنی جس کو آخری زمانہ کہا گیا ہے، اس کی ابتداء تک ) تو اس کی شکل یہ بنے گی کہ مدوجزر ہوگا، کبھی دنیا کے ایک حصہ میں نیکی کا اور تقویٰ کا اور انصاف کا اور عدل کا اور پیار کا اور بھائی چارے کا اور خیر خواہی کا انقلاب بپا ہوگا.اور دوسری طرف ایک تنزل شروع ہو جائے گا.لیکن مجموعی طور پر آسمانوں کی طرف بلند ہوتا ہوا ایک گراف بنے گا.پھر خیر القرون کی تین صدیوں کے بعد، یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدی اور بعد کی دو صدیاں گزرنے کے بعد، پھر ایک تنزل کا زمانہ آئے گا.لیکن وہ نا کامی کا زمانہ نہیں ہو گا.یعنی وہ زمانہ ایسا نہیں ہوگا کہ ہم کہیں کہ انقلاب نا کام ہو گیا.بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ انقلاب کے اندر ایک ستی پیدا ہوگئی اور 385
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء جس تیزی کے ساتھ وہ آسمانی رفعتوں کی طرف بڑھ رہا تھا ، وہ تیزی باقی نہیں رہی.اور اس کے ایک حصہ میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئیں ، بہت سے بداثرات آگئے ، بہت سی بدعات آ گئیں ، بہت سے ظلم داخل ہو گئے.لیکن ایک حصہ ایسا بھی رہا ، جس کو محاورے میں Hard Core (ہارڈ کور ) کہا جاتا ہے، یعنی خدا تعالٰی کے ایسے فدائی اور جاں نثار کہ جن کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ پر قربان اور اس کی تعلیم اور ہدایت کی اشاعت کے لئے وقف تھا، ایسے لوگ بھی موجود تھے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ یہ جو تنزل کا زمانہ تھا، جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیج اعوج کا زمانہ قرار دیا ہے، جس میں ظلمات میں پھر ایک حرکت پیدا ہوئی اور انقلاب کی رفتار میں اس کی حرکت میں ایک کمی اور سستی پیدا ہوگئی، اس میں بھی خدا تعالیٰ کے مقربین دریائے عظیم کی طرح تھے.لیکن یہ نہیں ہے کہ اس کی خبر نہ دی گئی ہو.بلکہ پہلے سے خبر دی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ پہلی تین صدیوں میں یہ انقلاب عظیم ترقی کرے گا، پھر اس میں سنتی پیدا ہوگی.اور پھر ایک ہزار سال تک اس میں آہستہ آہستہ ستی بڑھتی چلی جائے گی.لیکن اس وقت بھی انقلابی گروہ اپنے مقام کو پہچانتا ہوگا اور پختگی کے ساتھ اپنے مقام پر کھڑا ہوگا.اور پھر ایک حرکت آسمانوں کی طرف شروع ہوگی.اور پھر آخری جنگ ہوگی، نیکی کی بدی کے ساتھ.اور صلاحیت کی شیطانی طاقتوں کے ساتھ.اور نور کی ظلمت کے ساتھ.اور پھر وہ بڑھتی چلی جائے گی.یہاں تک کہ آخری کامیابی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے انقلاب کو حاصل ہو جائے گی.اور دوسرے سارے انقلاب دب جائیں گے اور نا کام ہو جائیں گے.اور ختم ہو جائیں گے اور اپنی شکست کو تسلیم کر لیں گے.اور پھر وہ انقلابی بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ کی یہ عجیب شان ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں جو انقلاب پیدا کیا گیا، جو حرکت قائم کی گئی، اس کے اس دور میں جو آخری زمانے کے قرب کا زمانہ تھا اور آخری دور کی ابتدا کا زمانہ تھا، ( یعنی آخری زمانے کا ابتدائی حصہ اور اس سے کچھ پہلے کا زمانہ ) اس میں تین زبر دست غیر اسلامی انقلابی حرکتیں پیدا کی گئیں.یعنی وہ انقلابی حرکتیں تو تھیں لیکن اسلامی نہیں تھیں.ایک حرکت پیدا ہوئی ، سرمایہ داروں کی.سرمایہ دارانہ نظام، انقلابی نظام ہے اور بڑاز بر دست انقلابی نظام ہے.سرمایہ دارانہ انقلابی نظام کے اس دور میں صنعت نے انقلابی ترقی کی.زراعت نے انقلابی ترقی کی.علوم نے انقلابی ترقی کی.ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل نے انقلابی ترقی کی.یعنی انسان کو جلد تر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا انتظام ہوا.اس کی آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا 386
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء انتظام ہوا.( ٹیلی فون ) اس کے پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا انتظام ہوا.( ٹیلیگراف اور ٹیلیکس وغیرہ) انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لئے موٹر ، ہوائی جہاز اور دخانی کشتیاں بن گئیں.غرض سرمایہ دارانہ انقلاب، بڑا عظیم انقلاب تھا.اس میں چھاپے خانے بن گئے.کتابیں کثرت سے شائع ہونے کا امکان ہو گیا.اور نوع انسانی کو اس سرمایہ دارانہ انقلاب نے ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا.اور سرمایہ دارانہ انقلاب اگر چہ غیر اسلامی انقلاب ہے لیکن اس نے اسلامی انقلاب کے لئے راہ ہموار کر دی اور اس کے لئے سہولتیں بہم پہنچا دیں.عوظ اس کے بعد دوسرا انقلاب آیا.وہ Russian Revolution (رشین ریوولیوشن ) کی شکل میں آیا.روسی انقلاب ، سرمایہ دارانہ انقلاب کی بنیادوں پر علمی تحقیق میں زیادہ توجہ دے کر آگے بڑھا ہے.اور اس وقت وہ باہر کی دنیا میں غالباً سب سے زیادہ آگے نکل چکا ہے.اس کے بعد پھر اس کی نقل کرتے ہوئے ، سرمایہ دارانہ ممالک امریکہ اور دوسرے یورپین ممالک اس کے پیچھے چلے.تاہم روسی انقلاب نے سرمایہ دارانہ مادی انقلاب کے اوپر ایک ذہنی انقلاب کی عمارت بنائی.اور اگر چہ اس ذہنی انقلاب نے نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کی بجائے بہت حد تک نقصان پہنچایا.لیکن اس نے بھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ع انقلاب کو عروج پر پہنچانے کی جوتحریک شروع ہو چکی ہے، اس کے لئے بہت سی سہولتیں پیدا کر دیں.اور اسلام سے باہر تیسرا انقلاب اخلاقی آیا.یہ اخلاقی انقلاب پہلے دو انقلابوں کی عمارت پر تیسری منزل ہے.سرمایہ دارانہ انقلاب پہلی منزل، پھر علمی اور ذہنی انقلاب یعنی روسی انقلاب دوسری منزل اور اس پر تیسری منزل اخلاقی انقلاب.وہ ہے ،Chinese Socialism (چائنیز سوشلزم ہر انقلاب نے اپنے سے پہلی منزل کے اوپر عمارت بنائی.گویا پہلوں سے بھی فائدہ اٹھایا.ذہنی انقلاب Russian Intellectual Revolution (رتین اسکیچول ریوولیوشن ) نے سرمایہ دارانہ انقلاب کے اوپر اپنی عمارت کھڑی کی اور چین کے اخلاقی انقلاب نے ، جو ابھی اپنے بچپنے میں ہے ، سرمایہ دارانہ انقلاب اور ذہنی انقلاب، روی کمیونزم کے اوپر اخلاق کی ایک منزل کی بنیاد رکھی.روسی انقلاب نے اخلاق کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.اور ان کی کتب میں کبھی ایسے اقتباسات بھی ہمیں نظر آ جاتے ہیں کہ انہوں نے اخلاق کو حقارت سے دیکھا ہو کہ یہ کیا چیز ہے؟ حالانکہ خدا تعالیٰ نے جو ز بر دست صلاحیتیں اور قوتیں انسان کو دی ہیں، ان میں سے ایک حصہ اخلاقی طاقتوں کا بھی ہے.بہر حال ان تین انقلابوں نے جو کہ غیر اسلامی تھے، اسلامی انقلاب کے لئے ، جو اپنی ذات میں ایک زبر دست روحانی انقلاب ہے، راہ ہموار کر دی.وہ عظیم روحانی انقلاب، جس نے اخلاقی قدروں اور 387
خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم ذہنی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام میں خدا تعالیٰ کی نعمتوں، ان اسباب سے فائدہ اٹھا کر اپنا کام کرنا تھا.اور ہر ایک چیز کو انسان کی روح میں جلا پیدا کرنے کے لئے استعمال کرنا تھا.اور اس عظیم انقلاب نے اپنا کام شروع کر دیا ہے.میں نے بتایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے یہ انقلاب شروع ہوا.تین سو سال تک اس میں بڑی وسعت پیدا ہوئی.اس اسلامی انقلاب کی یہ جماعتیں اپنے اپنے قائدین کی قیادت میں دنیا کے مختلف حصوں میں انقلاب کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھ رہی تھیں.لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب عظیم کا نوع انسانی کو جو ایک خاندان بنا دینے کا منصوبہ تھا، اس مقصد کو پورا کرنے والی کوئی طاقت ہمیں ان کے اندر نظر نہیں آتی.بلکہ ان میں اختلاف کی بہت سی وجوہ پیدا ہوگئیں ، کہا گیا کہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ® (الصف: 10) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ، ایک کامل اور مکمل شریعت اور ہدایت انسان کے ہاتھ میں دے دی گئی اور ایک انقلاب عظیم برپا ہو گیا.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ اب اس انقلاب عظیم کے نتیجہ میں اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا.اور تمام از مز (isms) اور اصول اور فلسفے ، جو اخلاقیات پر بحث کر رہے ہیں اور ذہنی قوتوں پر بحث کر رہے ہیں، ان سب کی غلطیوں کو ظاہر کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میرے ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ اتنا علم دے گا کہ وہ آج کی علم میں بڑھی ہوئی دنیا کے نہ صرف غلط حملوں سے اسلام کو بچائیں گے.بلکہ ان کی تحقیق کی غلطیوں کو ثابت کریں گے.اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے.مثلاً میں باہر جاتا ہوں ( خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ ) اور ان کے بڑے بڑے سکالرز سے بات کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے ان کو یہ بتانے کی توفیق دیتا ہے کہ تم نے جوریسرچ کی ہے، اس کے اندر غلطیاں ہیں.اور اسلام نے جو اصول ہمارے سامنے رکھے ہیں، وہ ان چیزوں سے کہیں بالا ہیں ، جو تمہاری تحقیق نے علم کے میدان میں دریافت کی ہیں.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ یہ کام اس انقلاب عظیم کا عروج ہے کہ اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب آجائے اور نوع انسانی کو ست واحدہ بنا دے.اور یہ اس کی اصل غرض ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ، آپ کی بعثت کے 388
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء ساتھ، جو انقلاب عظیم بپا ہوا، اس کا اصل مقصد یہی تھا کہ سارے کے سارے انسان، کیا مغرب میں بسنے والے، کیا مشرق میں بسنے والے، کیا شمال میں، کیا جنوب میں، کیا براعظموں میں، کیا جزائر میں، سارے کہ سارے ایک خاندان کی طرح ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر یہ مقصد آپ کی زندگی میں ہی یا پہلی تین صدیوں میں پورا ہو جاتا تو لوگ سمجھتے کہ چونکہ آخری مقصد پورا ہو گیا ہے، اس لئے آپ کا زمانہ بھی ختم ہو گیا.یہ حمدصلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور روحانی افاضہ کے ذریعہ سے ہی اس نے پیدا ہونا ہے.لیکن اس کے آخری مقصد کے پورا ہونے کا تعلق آخری زمانہ سے ہے.اور وہ یہ زمانہ ہے، آپ (صلعم) کے ایک خادم مسیح موعود کا زمانہ! پس آپ وہ لوگ ہیں، جن کے کندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو جو بشارت دی گئی تھی کہ آپ " کو جو دین دیا گیا ہے، جو شریعت عطا کی گئی ہے، جو مذ ہب دیا گیا ہے، یعنی اسلام وہ تمام نوع انسانی کو امت واحدہ بنادے گا.اس کے لئے آپ جد و جہد کریں.اسلام ایک انقلاب عظیم ہے.اتنا زبر دست انقلاب کہ نہ پہلے کبھی آیا اور نہ آئندہ کبھی آئے گا.اس کے نتیجے میں سارے انسان، سینکڑوں قسم کی بولیاں بولنے والے، جن کی عادتیں مختلف ، جن کا رہن سہن مختلف، سارے کے سارے انسان اسلام کی روشنی حاصل کرنے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیئے جائیں گے.اور یہ کام مہدی کے زمانہ میں مقدر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اور صرف آپ نے ہی نہیں فرمایا بلکہ پہلوں نے بھی لکھا ہے.امت کے جو بڑے بڑے بزرگ علماء پہلے گزرے ہیں، انہوں نے بھی کہا ہے کہ آیت هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کے مطابق ساری دنیا میں اسلام کا کامل غلبہ آخری زمانہ میں مہدی کے ہاتھ سے ہوگا.جو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک روحانی فرزند ہے.جس کا پیارا اپنے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا عظیم ہے کہ جب آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی روح کی صرف یہی پکار ہے کہ میں تو کوئی چیز نہیں ہوں، سب کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور انہی کی خدمت پر میں مقرر کیا گیا ہوں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خادم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند نے ایک ایسی جماعت پیدا کرنی ہے اور خدا کے فضل سے پیدا کی ہے، جن کے ذریعہ سے، جن کی دعاؤں کے ذریعہ سے، جن کی مالی قربانیوں کے ذریعہ سے، جن کی وقت کی قربانیوں کے ذریعہ سے، جن کے ایثار کے نتیجہ میں، جن کے مجاہدہ کی وجہ سے دنیا میں یہ انقلاب عظیم اپنے عروج پر پہنچنے والا ہے.اور آپ میں سے ہر شخص اس جماعت کا ایک فرد ہے، جس 389
خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد پنجم کے ذریعہ سے یہ کام ہوگا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا اور پہلے بزرگوں نے بھی آپ کی احادیث اور اقوال کو سمجھ کر یہ فرمایا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہی سمجھایا.اور آپ کو یہ بشارتیں دیں کہ یہ وہ زمانہ ہے، جس میں بنی نوع انسان ایک خاندان بنا دیئے جائیں گے.اب آپ سوچیں کہ اس ذمہ داری کے نتیجہ میں آپ کو کیا کیا کچھ چھوڑنا پڑے گا اور کیا کیا کچھ لینا پڑے گا ؟ اصل بات یہ ہے کہ ہر احمدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا سب کچھا اپنے خدا کے حضور پیش کر دے.اور خدا تعالیٰ سے یہ مانگے کہ اے خدا! ہر وہ چیز ، جس کی اس انقلاب عظیم کو کامیاب کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہمیں عطا کر دے.بڑی ذمہ داری ہے، بڑی ذمہ داری ہے.آدمی سوچتا ہے تو بہت پریشان ہوتا ہے.اپنی کمزوریوں کو دیکھتا ہے تو ہمت ٹوٹنے لگتی ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے جو بشارتیں دی ہیں، خدا تعالیٰ نے جو وعدے کئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے جو اعلان کیا ہے کہ میں اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کیا کرتا، اپنے وعدے پورے کیا کرتا ہوں.اس پر ہمارا بھروسہ ہے.ایک طرف نیستی کا اقرار ہر احمدی کا اقرار ہے کہ ہم لاشئی محض ہیں اور ہم کوئی چیز نہیں.اور ایک طرف یہ اعلان ہے کہ جس عظیم ہستی کا ہم نے دامن پکڑا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ، وہ ساری قدرتوں کی مالک ہے اور اس سے آگے کوئی چیز انہونی نہیں.اور یہ اعلان کہ جس عظ انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کا عشق ہمارے دل میں پیدا ہوا ہے، اس کے افاضہ روحانی کی کوئی حد بست نہیں کی جاسکتی.بلکہ وہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے اور ہر ضرورت کو پورا کرنے والا ہے.اسی واسطے میں نے آج کہا تھا کہ ہمارا یہ اجتماع ، جو کئی سال کے وقفہ کے بعد ہوا ہے.اس کی خصوصیت میں دعا اور درود قرار دیتا ہوں کہ دعائیں کریں اور درود بھیجیں.دعا آپ تبھی عاجزی سے کر سکتے ہیں، جب آپ اپنے مقام کو پہچانتے ہوں، جب آپ اپنی ذمہ داریوں کو جانتے ہوں، جب آپ اس انقلاب عظیم کا احساس اپنے دل میں پیدا کریں.اور جب آپ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ اپنی کوشش سے ہم نوع انسان کا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہیں جیت سکتے.اور یہ بچی بات ہے کہ نہیں جیت سکتے.جب تک آسمان سے فرشتے نازل ہو کر ہماری مدد نہ کریں، اس وقت تک ہم نوع انسانی کا دل کیسے جیت سکتے ہیں، پیدا کرنے والے رب کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نوع انسانی ضرور جمع ہوگی.کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے اور یہ پورا ہوکر رہے گا.لیکن جس چیز کی ہمیں فکر کرنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی ہر نسل اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور اس کے مطابق قربانیاں دینے کے لئے تیار ہو.اسی لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا تھا.390
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِى خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء (البقرة: 151) دنیا کی کسی چیز کا ڈر تیرے دل میں پیدا نہ ہو.بلکہ میری خشیت پیدا ہو.اور ہر وقت تمہیں یہ خوف رہے کہ تمہاری کسی غلطی کے نتیجہ میں کہیں میں تم سے ناراض نہ ہو جاؤں.اگر یہ احساس دل میں پیدا ہو جائے.اگر اس احساس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ ہم سے جو تقاضا کرتا ہے، وہ ہم پورا کرنے لگ جائیں.اگر اس احساس کے نتیجہ میں ہم بنی نوع انسان کے خیر خواہ بن جائیں.اگر ہم راتوں کو اٹھ کر ان لوگوں کے لئے دعائیں کریں، جو ہمارا نام بھی حقارت سے لیتے ہیں تو ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے ہوں گے.روس میں بسنے والے یا امریکہ میں رہائش پذیر ہمیں حقارت سے دیکھتے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں.لیکن وہ نادان ہیں.ان کو پتہ نہیں کہ جو کچھ انہوں نے حاصل کیا ، وہ کچھ چیز نہیں.اور جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے، وہ اس کے مقابلہ میں ایک عظیم چیز ہے.لیکن ان کو بتانا، ان کو سمجھانا، حسن اور احسان کے ذریعہ سے ان کے دلوں کو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنا، یہ میرا اور آپ کا کام ہے.اور ہر آنے والی نسل کا کام ہے.ہم نے کچھ اندازے لگائے.میرا اندازہ ہے کہ آنے والی صدی، جس میں کہ اب گیارہ، بارہ سال رہ گئے ہیں، غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس انگلی صدی میں یعنی جماعت احمدیہ کے قیام کی دوسری صدی میں، دنیا میں ایسے انقلابی حالات پیدا ہو جائیں گے کہ اب جو دنیا کہتی ہے کہ یہ کیا پاگلوں والی باتیں کرتے ہیں؟ ایک اتنی سی جماعت ہے، غریب جماعت ، دھتکاری ہوئی جماعت، جو بر سر اقتدار نہیں ہے، ساری دنیا کی طاقتیں اس کے خلاف ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ساری دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول کے لیے جیت لینے ہیں، اس دنیا کا ایک حصہ سمجھنے لگے گا کہ جو کچھ کہا گیا، اس میں صداقت معلوم ہوتی ہے.اور ایک حصہ تو اسلام کی گود میں آجائے گا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گا.پس اگلی صدی ، غلبہ اسلام کی صدی ہے.اور اس سے پہلے پہلے تیاری کا زمانہ ہے.صدی کے آنے میں جو گیارہ، بارہ سال رہ گئے ہیں، ان میں ہمیں سب سے زیادہ تو دعاؤں کے ساتھ تیاری کرنی چاہیے.دعا اس انسان کے لئے بھی کہ جو آپ کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے.دعا اس انسان کے لئے بھی کہ جو آپ کی باتوں کو ، جو خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل آپ کو بتا ئیں سنتا ہے اور آپ کو پاگل سمجھتا ہے.اور دعا اس انسان کے لئے بھی کہ جو اپنی گندی زیست میں اس طرح پھنسا ہوا ہے کہ اس کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.391
خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اور یہ انقلاب اب آہستہ آہستہ نظر آنے لگ گیا ہے.جب ان لوگوں سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ تعلیم تو بڑی اچھی ہے، لیکن اور لیکن کے آگے ان کا مطلب ہوتا ہے کہ جس زندگی میں ہم پھنس گئے ہیں اور گندی عادتیں پڑگئی ہیں، عیش و عشرت میں ہم پڑے ہوئے ہیں، اس زندگی کو چھوڑنے کے لئے ہم تیار نہیں تعلیم کے حسن اور خوبی کا اقرار تو بہت سے کر لیتے ہیں، لیکن عملاً اس کو قبول کر کے، اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال کر، اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو صحیح طور پر نشو و نما دے کر اس انقلاب عظیم کو پیدا کرنے کی مہم کا ایک حصہ بن جانے کے لئے تیار نہیں ہوتے.جو ہر لحاظ سے ایک حقیقی انقلاب ہے.پس یہ ہے ایک احمدی کا مقام.اور اس کو سمجھنے کے لئے اور اس کو یا در کھنے کے لئے پہلی اور آخری ضروری چیز یہ ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو کثرت سے پڑھا کریں.کیونکہ انہوں نے ہی ہمیں یہ باتیں بتائی ہیں.ہمیں یہ بتانے والا کون ہے کہ یہ آخری زمانہ ہے اور وہ انقلاب عظیم، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے شروع ہوا تھا ، وہ اس زمانہ میں اپنے عروج کو پہنچنے والا ہے اور نوع انسان امت واحدہ اور ایک خاندان بننے والی ہے؟ ہمیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے.اور کسی نے نہیں بتایا.اور پھر اس مقصد کے حصول کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی علمی لحاظ سے یا اخلاقی لحاظ سے یا روحانی لحاظ سے یا مجاہدہ کے لحاظ سے یا ایثار کے لحاظ سے یا قربانی کے لحاظ سے، اس کا علم بھی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ بھی لکھایا کہا ہے، وہ قرآن عظیم کی تفسیر ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی شرح ہے.اس لئے کہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل ہدایت ہے.اور دنیا میں کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا اور نہ جن سکتی ہے کہ جو دنیا میں آکر یہ اعلان کرے کہ میں قرآن کریم سے یہ چیز زائد تمہیں بتارہا ہوں، جو قرآن کریم نے نہیں بتائی تھی اور تمہارے لئے ضروری ہے.یا یہ چیز اس میں سے نکال رہا ہوں، اس کی اب ضرورت نہیں رہی.قرآن کریم میں ہے اور پہلے وقتوں میں اس کی ضرورت ہوگی لیکن اب اس کی ضرورت نہیں.قرآن کریم میں کوئی ناسخ اور منسوخ نہیں.کوئی آیت قرآن کریم کی منسوخ نہیں.کوئی لفظ قرآن کریم کا منسوخ نہیں.کوئی حرف قرآن کریم کا منسوخ نہیں.کوئی زیر زبر اور پیش اور کوئی نقطہ قرآن کریم کا منسوخ نہیں.یہ تعلیم ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے.آج کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ، آج کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے اور یہ انقلاب عظیم جو اپنے عروج کی طرف حرکت میں آگیا ہے، اس حرکت کا ایک حصہ بنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا پڑھنا ضروری ہے.392
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء ایک بات میں بتادوں اور میں اپنے تجربے سے کہتا ہوں اور علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جو غیر قرآنی ہمارے ہاتھ میں دی ہے، وہ اتنی عظیم ہے کہ آپ کی کوئی کتاب لے لو، چھوٹی ہو یا بڑی، اور اس کو سو دفعہ پڑھو، سو دفعہ ہی آپ کو اس میں سے نئے معانی نظر آجائیں گے.یہ اس قسم کی تفسیر ہے.آپ کی کتب عام کتابوں کی طرح نہیں بلکہ خدا سے سیکھی ہیں.قرآن کریم کی یہ تفسیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ پر فدا ہو کر فنافی الرسول کی حالت میں حضرت مسیح موعود کو خدا نے سکھائی اور خدا خود آپ کا معلم بن گیا.اور عظیم ہے، آپ کا کلام.اور اس میں اتنا پیار ہے، ایک طرف اپنے رب کریم کے ساتھ اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.اور بات بھی درست ہے.کیونکہ اتنا عظیم انقلاب بپا کرنے والی ہستی یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کہ تیرہ سو سال سے بلکہ اب چودہ سو سال ہو گئے.ایک انقلابی حرکت شروع ہوئی لیکن اس پر بڑے حملے ہوئے اور اس تعلیم پر ہزار ہا اعتراضات ہوئے.حضرت مسیح موعود نے ایک جگہ عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ ہر سال تم کنی ہزار اعتراض اسلام پر کر دیتے ہو اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو قیامت تک پتہ نہیں لگ سکتا کہ عیسائیت کچی ہے یا اسلام؟ اس لئے آؤ فیصلہ کریں.میں تمہیں ایک گر بتا تا ہوں، ایک فیصلے کا طریق بتا تا ہوں.اور وہ بڑا عظیم ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم چیز آپ کو سکھائی.آپ نے فرمایا کہ ساری دنیا کے پادری سر جوڑ میں اور فیصلہ کریں کہ اسلام پر سب سے زیادہ وزنی اعتراض کون سا پڑتا ہے؟ وہ سوچ کر اس نتیجہ پر پہنچیں کہ اس اعتراض سے زیادہ وزنی اور کوئی اعتراض اسلام پر نہیں.اور جس کے متعلق تم نے فیصلہ کیا ہو کہ یہ اسلام پر سب سے وزنی اعتراض ہے، اس کو میرے سامنے پیش کرو.میں اس اعتراض کو رد کروں گا اور جس جگہ تم نے اعتراض کیا ہے، اس جگہ سے اسلام کا حسن نکال کر تمہارے سامنے پیش کروں گا.کہ یہ جائے اعتراض نہیں ہے بلکہ بہت عظیم تعلیم اس کے اندر پوشیدہ ہے، جس پر تم اعتراض کر رہے ہو.اور اگر میں ایسا کر دوں اور جس اعتراض کے متعلق تم سب سر جوڑ کر اس فیصلہ پر پہنچے ہو کہ اس سے زیادہ وزنی اور کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، اگر اس کو میں باطل قرار دے دوں تو جو اعتراضات خود تمہارے نزدیک اس سے کم وزن والے ہیں، وہ خود بخو درد ہو جائیں گے اور لمبی بحث کی ضرورت نہیں ہوگی.آج سے قریباً ستر سال پہلے عیسائیت کو یہ چیلنج دیا گیا تھا لیکن انہوں نے یہ چیلنج قبول نہیں کیا.67ء میں ڈنمارک میں مجھے عیسائی پادریوں کے دو گروہ ملے تھے.میں نے ان کو کہا کہ اتنا لمبا زمانہ گزرا تمہیں یہ پینج دیا گیا تھا تم نے اب بھی اعتراض کرنے نہیں چھوڑے اسلام پر.حالانکہ تمہیں یہ کہا 393
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء گیا تھا کہ ایک دفعہ فیصلہ کر لو کہ اسلام سچا ہے یا عیسائیت کچی ہے؟ اور میں نے انہیں کہا کہ تم یہ بہانہ نہیں کر سکتے کہ تم یہ کہہ دو کہ جس نے چیلنج دیا تھا، اس کا تو بڑ المبازمانہ گزرا 1908ء میں وصال ہو گیا تھا.اگر آج ہم چیلنج قبول کر لیں تو کس کو جا کر کہیں کہ ہم نے چیلنج قبول کر لیا ہے.ہم سے آکر مقابلہ کرو، اس لئے کہ میں نائب مہدی ومسیح کی حیثیت سے اور خلیفة المسیح کی حیثیت سے تمہیں کہتا ہوں کہ تم چیلنج قبول کرو، میں تمہارے اعتراض کا جواب دوں گا.یہ 67 ء کی بات ہے.اس کو بھی دس سال ہو گئے.لیکن انہوں نے چیلنج قبول نہیں کیا.اور اپنی خفت مٹانے کے لئے انہوں نے کہا یہ کہ (ڈنمارک کا ایک صحافی ہے، دو سال ہوئے یہاں بھی آیا تھا.اس نے مجھے بتایا کہ پادری وہاں کہتے ہیں کہ ) وہ تو ہمارے ساتھ بڑے تیز ہو گئے تھے.میں نے اس کو کہا کہ میں تیز نہیں ہوا تھا.بلکہ اصل بات یہ کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ لمبازمانہ ہوا، یہ چیلنج دیا گیا تھا تم اس کو قبول کرو.اور مقابلہ کرتے ہیں.وہ حیران ہو کر کہنے لگا، اچھا یہ بات ہے تو میں جا کر اپنے اخبار میں ان کی خبر لیتا ہوں.پتہ نہیں خبر لی یا نہیں لی؟ بہر حال اس کو یہ بات سمجھ آگئی تھی.حضرت مسیح موعود نے اللہ تعالیٰ سے قرآن کریم کا علم حاصل کر کے دنیا کے جس قدر اعتراض اسلام پر پڑ سکتے ہیں ، ان کو دور کرنے کے سامان پیدا کر دیتے ہیں.روس کے اور دہریوں کے اسلام پر بے شمار اعتراضات ہیں.لیکن وہ لوگ ہم سے بات نہیں کر سکتے.ہم عقلی دلائل دیں گے.وہ مذہب کو نہیں مانتے.لیکن ایک مذہبی دلائل ہوتے ہیں اور ایک عقلی دلائل ہوتے ہیں.ہم حضرت مسیح موعود کی تفسیر کی روشنی میں عقلی دلائل سے ثابت کریں گے کہ اسلام پر تمہارے جو اعتراضات ہیں، وہ باطل ہیں اور بودے ہیں.اور ان کے اندر ذرہ بھر بھی حقیقت نہیں.اور ساری دنیا کو یہ چیلنج ہے.لیکن اس لئے نہیں کہ اس سے میری کوئی بزرگی یا آپ کی کوئی بزرگی ثابت ہو.بلکہ اس لئے کہ تا خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت انسان پر ظاہر ہو.اسی لئے یہ سارا انتظام کیا گیا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب ہر دو جہاں ، یہ دنیا اور دوسری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.ساری کائنات ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.لولاک لما خلقت الافلاک لیکن بعثت نبوی کے ساتھ ایک عقلمند انسان پر علی وجہ البصیرت یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ کائنات واقعی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی میدان میں بھی کوئی شخص نہیں- ٹھہر سکتا.اس قدر عظمت ہے، آپ کی.394
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 04 نومبر 1977ء لیس اپنے مقام کو پہچانو اور دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں بھی اور مجھے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا خادم بنے کی توفیق عطا کرے.تا کہ مہدی کی بعثت کا جو مقصد ہے، وہ پورا ہو.اور نوع انسانی اسلام کے آخری غلبہ کے بعد محد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے اور ایک خاندان بن جائے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 26 دسمبر 1977ء ) 395
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 06 نومبر 1977ء آخری غلبہ کے لئے کامل اتحاد اور کامل یک جہتی ضروری ہے خطاب فرموده 06 نومبر 1977ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمد سید وو میں نے جمعہ کے روز اپنی افتتاحی تقریر میں آپ بھائیوں اور بچوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بپا کردہ انقلاب عظیم آخری زمانے میں عروج کی منزلیں طے کرنے کے لئے زمانہ کے لحاظ سے اپنے دوسرے دور میں داخل ہو چکا ہے.اور اس زمانہ کے متعلق قرآن کریم میں پیشگوئی کی گئی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ امت محمدیہ کو بشارتیں دی گئی ہیں کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کی بشارت کے مطابق دین اسلام تمام ادیان اور تمام از مز (ISMS) پر غلبہ حاصل کرے گا.میں علی الدین کلہ کے معنی محض مذاہب نہیں کرتا.بلکہ انسانی دماغ میں تمدن اور معاشرہ اور اقتصادیات کے جو اصول بنا لیے ہیں اور جولوگوں کے نزدیک مذہب کے قائمقام بن چکے ہیں، ان کو بھی میں اس میں شامل کرتا ہوں.یعنی میرے نزدیک لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین اسلام کی صداقت عیسائیوں پر تو واضح ہو جائے گی لیکن کمیونسٹ دہریوں پر واضح نہیں ہوگی.بلکہ جو اشترا کی نظام ہے، جسے انہوں نے مذہب کی بجائے اپنے ملک اور اپنے زیر اثر علاقوں میں قائم کر رکھا ہے، اس پر بھی اسلام اپنے روحانی اور اخلاقی اور علمی اصول کے ذریعہ غالب آئے گا.اور ان سے بھی اپنا سکہ منوائے گا.اور ان اقوام کو بھی، جو مذہب کے نام سے تو دور ہٹ چکی ہیں، لیکن جنہوں نے اپنی عملی زندگی کے لئے فلسفیانہ اصول بنا لئے ، ان کو ماننا پڑے گا کہ نہ کوئی پرانا دین اس زمانے میں کام آتا ہے اور نہ ان کی عقل ان کو نجات کی راہ دکھلا سکتی ہے.اور اس کے نتیجہ میں نوع انسانی امت واحدہ بن کر اور ایک خاندان کے طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.یہ انقلاب عظیم ، جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آج سے قریباً چودہ سو سال پہلے بپا کیا گیا تھا، وہ اب جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اپنے عروج کو یعنی جب اس نے اپنی انتہا کو پہنچنا ہے اور اس نے آخری غلبہ حاصل کرنا ہے، اس دور میں داخل ہو چکا ہے.397
اقتباس از خطاب فرمود 060 نومبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم اس انقلاب عظیم کی عظیم حرکت کا اپنے اس آخری دور میں داخل ہو جانا، ہم سے دو بنیادی مطالبے کر رہا ہے.اس وقت میں انہی دو مطالبوں کے متعلق آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.اول: نوع انسانی کو امت واحدہ بنا کر اور ایک خاندان کی حیثیت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کا کام ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہماری اپنی صفوں میں کامل اور پختہ اتحاد قائم ہو.پس چونکہ نوع انسانی کو امت واحدہ بنادینا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور ارشادات کے مطابق مسیح اور مہدی علیہ السلام اور آپ کی جماعت کا کام ہے، اس لئے آپ کی جماعت میں کسی قسم کا انتشار نہیں ہونا چاہیے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا کی رو سے اتحاد و اتفاق کا کامل نمونہ، جس میں کوئی رخنہ نہ ہو، وہ ہماری جماعت میں نظر آنا چاہیے.دوم : اس انقلاب عظیم کا اپنے دوسرے دور میں داخل ہو جانے کی وجہ سے دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ دین اسلام کے غلبہ کے لئے اور نوع انسانی کو امت واحدہ بنانے کے لئے جو منصوبے تیار کئے جائیں اور جو تدابیر اختیار کی جائیں، ان میں بجتی پائی جائے.اور اس کی ضرورت خصوصاً اس لئے بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جہاں انسان پر روحانی ترقیات کے بے انتہا دروازے کھولے ہیں، وہاں اس کو شیطانی وساوس اور شیطانی رخنوں سے حفاظت نہیں دی.انسان کو قرآن کریم کے ذریعہ کامل ہدایت دی لیکن ساتھ ہی اس کو آزادی دی اور فرمایا:.إمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا چا ہوتو خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اسلامی تعلیم پر عمل کرو.اور اگر چاہو تو اپنی مرضی سے کفران نعمت کرو اور غلط راہوں پر پڑ جاؤ.ایک دوسری جگہ فرمایا: حق آ گیا ہے، فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ دوسری طرف قرآن کریم نے شیطان کے متعلق تمثیلی زبان میں ذکر کیا ہے.میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ شیطان کیا ہے اور وہ کس طرح انسان پر حملے کرتا ہے؟ یہ بحث میرے مضمون سے تعلق نہیں رکھتی.میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کہتا ہے، شیطان کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے.لیکن ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ وہ جتنا مرضی زور لگالے، جو خدا کے بندے ہیں، وہ تو خدا کے بندے ہی رہیں گے.اب چونکہ ساری دنیا کو ساری نوع انسانی کو امت واحدہ بنانا ہے.اور امت واحدہ بنا کر 398
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 06 نومبر 1977ء خدا تعالیٰ کے قدموں میں جمع کرنا ہے.اس لئے عقلاً بھی اس وقت شیطان کا حملہ اتناز بردست ہونا چاہیے کہ اس سے پہلے اتناز بر دست حملہ کبھی نہ ہوا ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اسی قانون قدیم کے لحاظ سے خدا نے اپنے پاک نبیوں کی معرفت یہ خبر دی ہے کہ جب آدم کے وقت سے چھ ہزار برس قریب الاختتام ہو جائیں گے تو زمین پر بڑی تاریکی پھیل جائے گی اور گناہوں کا سیلاب بڑے زور سے بہنے لگے گا.اور خدا کی محبت دلوں میں بہت کم اور کالعدم ہو جائے گی.تب خدامحض آسمان سے بغیر زمینی اسباب کے آدم کی طرح اپنی طرف سے روحانی طور پر ایک شخص میں سچائی اور محبت اور معرفت کی روح پھونکے گا.اور وہ مسیح بھی کہلائے گا.کیونکہ خدا اپنے ہاتھ سے اس کی روح پر اپنی ذاتی محبت کا عطر ملے گا.اور وہ وعدہ کا مسیح ، جس کو دوسرے لفظوں میں خدا کی کتابوں میں مسیح موعود بھی کہا گیا ہے، شیطان کے مقابل پر کھڑا کیا جائے گا.اور شیطانی لشکر اور مسیح میں یہ آخری جنگ ہوگا.اور شیطان اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اور تمام ذریت کے ساتھ اور تمام تدبیروں کے ساتھ اس دن اس روحانی جنگ کے لئے تیار ہو کر آئے گا.اور دنیا میں شر اور خیر میں کبھی ایسی لڑائی نہیں ہوئی ہوگی، جیسے کہ اس دن ہوگی.کیونکہ اس دن شیطان کے مکائد اور شیطانی علوم انتہا ء تک پہنچ جائیں گے.اور جن تمام طریقوں سے شیطان گمراہ کر سکتا ہے، وہ تمام طریق اس دن مہیا ہو جائیں گے.تب سخت لڑائی کے بعد، جو ایک روحانی لڑائی ہے، خدا کے مسیح کو فتح ہوگی اور شیطانی قوتیں ہلاک ہو جائیں گی.اور ایک مدت تک خدا کا جلال اور عظمت اور پاکیزگی اور توحید زمین پر پھیلتی جائے گی.اور وہ مدت پورا ہزار برس ہے، جو سا تواں دن کہلاتا ہے.بعد اس کے دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا.سووہ مسیح میں ہوں.اگر کوئی چاہے تو قبول کرے.لیکچر لا ہور صفحہ 33-32 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 179-178) پس چونکہ یہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ ہے.اور چونکہ یہ شر اور خیر کے درمیان آخری معرکہ آرائی ہے.اور چونکہ شیطان کی ساری کی ساری تدبیریں اس میں استعمال کی جانے والی ہیں، اس لئے آپ نے فرمایا کہ دنیا میں ایسی جنگ، جو دین اور لادینیت، خیر اور شر کے درمیان لڑی جانی ہے ، وہ آدم کی 399
اقتباس از خطاب فرمود 060 نومبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم نسل میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی.اور یہ وہی زمانہ ہے، جس میں ہم داخل ہو چکے ہیں.اس جنگ میں شیطان کو مغلوب کرنے کے لئے اور اسے اس کی تدبیروں میں نا کام کرنے کے لئے اور اسلام کے حق میں آخری فتح حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جو منصوبے تیار کئے جائیں ، ان کے اندر یجتی ہو.یہ نہیں کہ افریقہ میں کوئی اور منصوبہ تیار کیا جارہا ہے.یورپ میں کوئی اور منصوبہ تیار کیا جارہا ہے.امریکہ میں کوئی اور منصوبہ تیار کیا جار ہا ہے.دوسرے ممالک اور جزائر وغیرہ میں کوئی اور منصوبہ تیار کیا جارہا ہے.لیکن پیجہتی اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہے کہ ایک وجود ہو، جومنصوبہ تیار کرنے والا ہو.اور وہ وجود جو ہے، وہ جماعت احمدیہ کی خلافت ہے.آپ میں سے بہت سے سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی خلافت کس چیز کا نام ہے؟ اور بہت سے نہیں سمجھتے.اس خلافت کی ایک صفت یہ ہے کہ اس خلافت کو اللہ تعالٰی نے قائم کیا ہے.اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ میں اس خلافت کے ذریعہ اپنی قدرتوں کا زبردست ہاتھ دکھاؤں گا.یہ خدا تعالیٰ کی تائید یافتہ خلافت ہے.اس خلافت کا ایک وجود ہے، خلافت تو روح ہے اور اس کا جسم بھی ہے.( یعنی جماعت احمدیہ جسم ہے.روح اور جسم مل کر ایک وجود بنتے ہیں.67ء میں ڈنمارک میں کوپن ہاگن کے مقام پر چند عیسائی پادری مجھ سے ملنے آئے.ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا کیا مقام ہے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ میرے نزدیک آپ کا سوال درست نہیں ہے.اس لئے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا امام اور جماعت احمد یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.یعنی خلیفہ وقت اور جماعت دونوں مل کر ایک وجود بنتے ہیں.اسی لئے خلافت کا یہ کام ہے کہ وہ جماعت کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرے.خلیفہ وقت آپ کے لئے دعا کریں.خلیفہ وقت پر بعض دفعہ ایسے حالات بھی آتے ہیں کہ وہ ہفتوں ساری ساری رات آپ کے لئے دعائیں کر رہا ہوتا ہے.جیسے 74 ء کے حالات میں دعائیں کرنی پڑیں.میرا خیال ہے کہ دو مہینے تک میں بالکل سو نہیں سکا تھا.کئی مہینے دعاؤں میں گزرے تھے.پس خلیفہ وقت وہ وجود ہے، جو آپ کے رنج میں شریک ہو، آپ کی خوشیوں میں شریک ہو.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے مطابق وہ آپ کی دنیوی بھلائی کے لئے دعائیں کرنے والا ہو.وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً 400
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 06 نومبر 1977ء کے مطابق آپ کی روحانی بھلائی کے لئے دعائیں کرنے والا ہو.اور یہ دعائیں کرنے والا ہو کہ شیطان کے حملے کبھی بھی کسی احمدی کے خلاف کامیاب نہ ہوں اور ہمیشہ شیطان ناکام رہے.اور خالی یہی نہیں، یعنی یہ یک طرفہ چیز نہیں بلکہ خلیفہ وقت مخلصین کی جماعت کے ساتھ مل کر وہ وجود بنتے ہیں، جنہوں نے شیطان کے خلاف یہ جنگ لڑنی ہے.میں تو ایک عاجز بندہ ہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ جماعت کس طرح میرے لئے دعائیں کرتی ہے.وہ میرے اور اپنے مقاصد کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتی ہے.وہ جماعت کی پریشانیوں میں جب خلیفہ وقت کو پریشان ہونا پڑتا ہے تو پھر جماعت ایک اور لحاظ سے پریشان ہو جاتی ہے کہ ان حالات میں امام وقت کو پریشانی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے.اللہ تعالیٰ حالات بدلے اور یہ پریشانی دور ہو.جس طرح انگلی کو تکلیف پہنچے تو انسان کی روح تڑپ اٹھتی ہے.اور اگر کسی کو ذہنی کوفت ہو تو سارا جسم کوفت محسوس کر رہا ہوتا ہے.یہی حال خلیفہ وقت اور جماعت احمدیہ کا ہے.پس یہ سمجھنا غلط ہے کہ خلیفہ وقت کوئی اور چیز ہے اور جماعت احمد یہ کوئی اور چیز.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر بڑا فضل کیا ہے.جماعت احمد یہ اور امام جماعت احمد یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.دونوں کے مجموعہ سے ایک چیز بنتی ہے، جو اپنے اندر یکجہتی کی علامت ہے.اور اس انقلاب عظیم کو اپنے انتہائی عروج تک پہنچانے کا جو منصوبہ ہے، اس میں کامیابی کے لئے یکجہتی ضروری ہے.ایک تو اندرونی طور پر جماعت میں کوئی تفرقہ نہ ہو.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا کا حکم ہمیشہ سامنے رہے.اور ہر پہلو سے تفرقہ سے بچا جائے.اور دوسرے یہ کہ جو غلبہ اسلام کے لئے کام کئے جاتے ہیں اور منصوبے بنائے جاتے ہیں، ان میں پجہتی ہو.چنانچہ ایک منصوبہ ہے، جس پر انشاء اللہ اگلے سال جون میں کام شروع ہوگا.اور جس کی رو سے عیسائیت کو اسلام کی طرف ایک خاص منصوبے کے ماتحت دعوت دینی ہے.یہ منصوبہ تیار ہو گیا ہے.اب ساری جماعت چونکہ ایک ہے، جماعت نے مشورہ کیا ، میں نے ان سے مشورہ کیا اور وہ منصوبہ تیار ہو گیا.اس پر کام شروع ہو گیا.ساری دنیا کے بعض پادری اور غیر پادری جو سکالرز اور متفق ہیں، ان کو اکٹھا کرنے کی سکیم ہے.اور وہاں دوست یہ مقالے پڑھیں گے کہ حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر ایک لمبازمانہ گزرا، دنیا میں یہ اعلان کیا تھا کہ یہ دعوئی غلط ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے تھے اور پھر دوبارہ اٹھائے گئے اور آسمانوں پر چلے گئے تھے.اور یہ کہ وہ زندہ ہیں اور 401
اقتباس از خطاب فرمود 060 نومبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم واپس آئیں گے.یہ ساری باتیں غلط ہیں.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام، جو حضرت موسی کی امت کے مسیح اور خدا تعالیٰ کے ایک پیارے بندے تھے، وہ خدا کے ایک رسول تھے.وہ ایک نہایت عاجز بندے تھے.اور انہوں نے اپنی زندگی میں عاجزانہ را ہیں اختیار کی ہوئی تھیں.ان کو خدا بنالین یا خدا کا بیٹا تصور کر لینا، بڑا ظلم ہے، انسان کا اپنے اوپر اور دوسرے انسانوں پر بھی.عیسائیوں نے بڑا شور مچایا اور بہت بڑے بڑے دعوے کئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے دعوے سے معا پہلے کے جو پندرہ میں سال ہیں ، وہ عیسائی پادریوں کے سال تھے.اس زمانے میں جانتے ہو ، انہوں نے کیا کیا دعوے کئے تھے؟ انہوں نے یہ دعوے کئے تھے کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے، ( نعوذ باللہ ) جب خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا مکہ اور مدینہ پر لہرائے گا.عنقریب وہ وقت آنے والا ہے، جب افریقہ کا براعظم خداوند یسوع مسیح کی جھولی میں ہوگا.انہوں نے یہ دعوئی بھی کیا کہ ہندوستان کے رہنے والوں میں سے ( اس وقت ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی.) اگر کسی کے دل میں کبھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی ایک مسلمان کا چہرہ دیکھ لے مرنے سے پہلے تو ایک مسلمان بھی نہیں ہوگا ہندوستان میں، جس کا چہرہ دیکھ کر وہ اپنی یہ خواہش پوری کر سکے.پس اس قسم کے دعوے تھے، جو عیسائی پادری کر رہے تھے.تب خدا تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا.اور فرمایا، میں تیرے ساتھ ہوں.تو اکیلا ہے تو کیا ہوا؟ میری مدد تیرے شامل حال رہے گی.اٹھ اور غلبہ اسلام کے لئے کام کر.تب آپ نے وہ گوشہ تنہائی چھوڑا ، جس میں دنیا سے چھپ کر اپنے رب کریم کی عبادت میں آپ مشغول رہا کرتے تھے.اور اسی میں خوش تھے اور وہاں سے نکلنا نہیں چاہتے تھے.لیکن خدا نے فرمایا، میں تجھے کہہ رہا ہوں، اٹھ اور دین اسلام کی خدمت کر.چنانچہ مخالفین اسلام خواہ وہ عیسائی ہوں یا دوسرے مذاہب یا از مز (ISMS) یا سکولز آف تھاٹ (Schools of Thought) کے ساتھ ان کا تعلق ہو، ان کے مقابلہ میں خدا نے آپ کو ایسے دلائل سکھائے کہ آپ نے مخالفین اسلام کا منہ بند کر دیا.اور اب یہ حال ہے کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے مقابلہ میں وہ کسی احمدی سے بات نہیں کرتے.بڑے بڑے پادریوں نے بہت سارے علاقوں میں عیسائیوں کو یہ ہدایتیں دی ہوئی ہیں کہ کسی احمدی بچے تک سے خواہ وہ ساتویں، آٹھویں کا طالب علم ہی کیوں نہ ہو، اس سے بھی بحث نہ کرو اور نہ کوئی کتاب لے کر پڑھو.402
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 06 نومبر 1977ء حضرت مسیح موعوعلیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے.آپ نے اپنی کتاب "مسیح ہندوستان میں اور اس کے علاوہ اور بھی کئی کتب میں لکھا کہ حضرت مسیح افغانستان کے راستے کشمیر گئے اور وہاں وہ فوت ہوئے.یوز آسف ،شہزادہ نبی نام سے وہاں وہ پکارے گئے اور وہاں وہ دفن ہیں.ان کی قبر اب تک موجود ہے.عیسائیوں نے اس پر ہنسی اڑائی ، تمسخر کیا.وہ سمجھتے تھے ، ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والا شخص ان کا کیا بگاڑ لے گا؟ مگر اس مدعی کے پیچھے خدا تعالی کی جو طاقت کام کر رہی تھی ، ان کی دنیوی نگاہیں اس طاقت کو نہیں دیکھ رہی تھیں.آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اپنے الہام سے جو باتیں بتائی ہیں، یہی لوگ ، جو ہنسی اور ٹھٹھا کر رہے ہیں اور اسلام کی دشمنی پر کمر بستہ ہیں، خود تحقیق کریں گے اور جو میں نے باتیں بتائی ہیں، ان کے دلائل اکٹھے کریں گے.چنانچہ اس زمانہ میں ان لوگوں نے بیسیوں سینکڑوں دلائل اکٹھے کر دیئے ، اس بیان کی صداقت پر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق دیا تھا کہ وہ صلیب پر نہیں مرے، صلیب پر سے زندہ اترے، زندہ رہے.بنی اسرائیل کی جو کھوئی ہوئی بھیٹر میں تھیں یعنی جو مختلف قبائل ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے، ان کو اکٹھا کرنے کے لئے وہ آئے تھے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اب حالت یہ ہے کہ اس مذاکرہ کے سلسلہ میں ، جو اگلے سال گرمیوں میں ہوگا، کئی ایک عیسائی پادریوں نے تحقیق کی ہے اور کتابیں لکھی ہیں.ایک پادری کو لکھا کہ شامل ہو تو اس نے کہا ، ہاں کوشش کروں گا کہ ضرور آؤں اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ جب سے میں نے اپنی تحقیق کی کتاب شائع کی ہے کہ واقعی حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے اور کشمیر گئے اور وہاں فوت ہوئے ہیں تو لوگوں نے مجھے احمدی کہنا شروع کر دیا ہے.وہ کوئی یورپین یا امریکن عیسائی ہے.غرض روحانی اور اخلاقی دنیا میں ایک زبر دست انقلاب آنا شروع ہو گیا ہے.میں بتایہ رہا ہوں کہ غلبہ اسلام کے لئے اور بنی نوع انسان کے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کی خاطر جو منصوبے ہیں، جب تک ان منصوبوں میں پجہتی نہ ہو، اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.پھر تو یہ ہوگا کہ کوئی منصوبہ دائیں طرف کھینچ رہا ہوگا اور کوئی بائیں طرف کھینچ رہا ہوگا.اور نوع انسانی کو وہ فائدہ نہیں ہوگا ، جو خدا تعالیٰ کی بشارتوں اور اس کے احکام کے مطابق ہمارے مد نظر ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے، شیطان خاموش تو نہیں بیٹھ سکتا، وہ تو وسوسہ ڈالتا ہے، اس کا تو کام ہی یہ ہے.خدا تعالیٰ نے اس کام کے لئے اسے اجازت دی ہے.جس طرح اسلام کے حق میں انقلاب عظیم شدت اختیار کر رہا ہے.اسی طرح شیطان کے حملے میں بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے، ایک شدت پیدا ہورہی ہے.403
اقتباس از خطاب فرمود 060 نومبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم اور شیطان کے حملے بنیادی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک جماعت مومنین میں اندرونی طور پر تفرقہ اور بداعتقادات پیدا کرنے کی کوشش.اور دوسرے مخالفین اسلام کو اکسانا کہ شاباش آگے بڑھو تم ہی جیتو گے.اور جب شیطان ہار جاتا ہے تو آرام سے کہہ دیتا ہے، میں تو تم سے دھوکا کر رہا تھا، جھوٹے وعدے دے رہا تھا.ہارنے کے بعد وہ یہ زبان استعمال کرتا ہے، لیکن شکست سے پہلے وہ یہ کہ رہا ہوتا ہے، شاباش تم نے ہی جیتنا ہے، تیز ہو جاؤ ، اسلام کے مٹانے کے دن آگئے ہیں وغیرہ وغیرہ.میں کہتا ہوں، اسلام کے مٹانے کے دن نہیں آئے ، اسلام کے غلبہ کے دن آگئے ہیں.انشاء اللہ.( مطبوعه روزنامه الفضل 21 مئی 1978ء) 404
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ ماریشس قوموں کی راہنمائی سے قبل ہمیں اپنی تعلیم وتربیت کرنی ہوگی پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ ماریشس منعقده 05 06 نومبر 1977ء (حضور کا یہ پیغام انگریزی زبان میں تھا، جس کا اردو تر جمہ درج ذیل ہے.) پیارے بھائیو! السلام علیکم! یہ امر میرے لئے موجب مسرت ہے کہ آپ لوگ نومبر کے پہلے ہفتہ میں اپنی سالانہ کنونشن کا انعقاد کر رہے ہیں.دعا ہے کہ مولا کریم اس جلسہ کو بابرکت بنائے اور وہ ہر لحاظ سے جماعت کے لئے مفید ثابت ہو.آپ سب کو علم ہے کہ چودھویں صدی ہجری جلد ہی ختم ہونے والی ہے اور پندرھویں صدی شروع ہونے والی ہے.انشاء اللہ.اگلی صدی اسلام کی زبردست ترقیات اور کامیابیوں کی صدی ہے.یہ صورت حال ہم سے پہلے سے زیادہ بڑی قربانیاں، جد و جہد اور باہمی اتحاد کا مطالبہ کرتی ہے.اسلام کی آخری فتح آسمان پر مقدر ہو چکی ہے.اس میں کوئی شک و شبہ نہیں.اگر چہ یہ خبر ہم سب کے لئے بہت ہی حوصلہ افزا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ عظیم الشان ذمہ داریاں ہم پر عائد کرتی ہے.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ موجودہ دنیا ایسے معاشرہ کا مطالبہ کرتی ہے، جہاں اچھی تعلیمات پر حقیقی طور پر عمل کیا جارہا ہو.جہاں محبت اور تو در پایا جاتا ہو.اور جہاں بغیر کسی نسل ، مذہب اور رنگ کے امتیاز کے انصاف کی حکومت ہو.ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اس مقام تک پہنچیں اور ساری دنیا کے لئے ایک نمونہ قائم کریں.اسلامی تعلیمات مکمل اور حسین طور پر ہمارے اعمال سے ظاہر ہونی چاہئیں.دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے انسان باوجود سائنس اور ٹیکنالوجی میں غیر معمولی ترقی کے سکون قلب سے محروم ہیں.اور بین الاقوامی برادری اور تحفظ کے احساس میں کمی پائی جاتی ہے.ان تمام مسائل کو حل کرنے میں جملہ مذاہب نا کام ہو چکے ہیں.اس خلا کو صرف اسلام ہی پر کرسکتا ہے.اس چیلنج کا دانشمندانہ جواب دینے کے لئے اور اسلامی تعلیمات کو ہمدردی اور محبت کے ساتھ پھیلانے کے لئے 405
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ ماریشس تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ضروری ہے کہ ہم خود اسلام سے مکمل آگاہ ہوں.تمام برائیوں اور مسائل کا حل بلاشبہ قرآن ہے.قرآن مجید کو سمجھنے اور اس پر عبور حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس مقدس کتاب کا مطالعہ کریں اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بہت غور اور تدبر کے ساتھ مطالعہ کریں.ہمیں قوموں کی رہنمائی کی ذمہ داری اٹھانے سے قبل اپنے آپ کی تعلیم اور تربیت کرنی ہوگی.اس لئے میں پورے زور کے ساتھ آپ لوگوں کو تاکید کرتا ہوں کہ آپ اس روحانی پروگرام پر التزام کے ساتھ عمل کریں، جو میں نے (صد سالہ منصوبہ کا روحانی پروگرام ) جماعت کے سامنے رکھا ہے.کوئی احمدی چھوٹا یا بڑا، عورت یا مرد ایسا نہیں ہونا چاہئے ، جو قرآن مجید پڑھ نہ سکتا ہو.اور پڑھ سکنے کے بعد دیانت داری کے ساتھ اپنی استطاعت کے مطابق اس کا لفظی ترجمہ جاننے کی کوشش نہ کرتا ہو.اس مقصد کے لئے ایک منظم، پر ہمت اور ٹھوس کوشش درکار ہے.حفظ قرآن کی طرف خاص توجہ دی جائے.اور کم از کم ہر تین ماہ پر یا ایک سال پر ایک پارہ حفظ کیا جائے.ہر احمدی کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بعد مجددین کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا ہے.اور خدا تعالیٰ نے محض اپنے کرم سے انبیاء کی طریق پر نظام خلافت کو قائم فرمایا ہے اور خلفاء بلاشبہ محد دین بھی ہیں.اس نظام کو غیر معمولی محبت ، فدائیت اور نا قابل شکست وفا داری کے ساتھ محفوظ رکھنا ہے.اسلام کی برتری کے لئے یہ بات صرف موجودہ نسل کو ہی ذہن میں نہیں رکھنی چاہئے بلکہ آئندہ نسلوں کے دلوں میں بھی اس بات کو راسخ کر دینا چاہئے.میری دعا ہے کہ رب کریم آپ کا رہنما ہو اور آپ کی تمام کارکردگیوں میں آپ کا حامی و ناصر ہو.آمین.406 آپ کا مخلص دستخط (مرزا ناصر احمد ) ( مطبوعه روز نامه افضل 04 مارچ 1978 ء )
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد پنجم پیامبر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد میسور - دنیا پر اثر پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر مکمل انقلاب پیدا ہو پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ سور بنام امریکہ منعقدہ 25 دسمبر 1977ء پیارے بھائیو! (حضور کے پیغام کا اردو تر جمعہ درج ذیل ہے.) السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ آپ عنقریب کیریبین (Caribbean) کے علاقہ کی احمد یہ جماعتوں کا سالانہ جلسہ منعقد کر رہے ہیں.امید ہے کہ یہ اجتماع آپ میں باہم تعارف محبت اور اخوت کے رشتے کو مضبوط کرنے کا باعث ہوگا.ایسے مواقع اپنے اندر بہت سے بیش بہا تعلیمی اور تمدنی فوائد رکھتے ہیں.اور اخلاق کی تربیت کا اعلیٰ ذریعہ ہوتے ہیں.اس نکتہ نظر سے نئی نسل کے بچوں اور جوانوں کی ان جلسوں میں شمولیت کی بہت حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے.اور کوشش کرنی چاہئے کہ ان کو مواقع سے با ہمی جذ بہ، تعاون، قربانی کی روح نظم وضبط اور اپنے فرائض کی بجا آوری کی طرف پوری توجہ دے کر پورا پورا فائدہ حاصل کیا جائے.اس موقع پر میں خاص طور پر دو باتوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ چودھویں صدی ہجری اب ختم ہونے کو آئی ہے.اگلی صدی سے جو عنقریب ہم پر طلوع ہونے والی ہے، انشاء اللہ اسلام کی عظیم الشان ترقیات کا دور شروع ہونے والا ہے.یہ امر نوشتہ تقدیر ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام تمام دوسرے ادیان پر غالب آجائے گا.یہ غلبہ محبت کے ذریعہ دلائل کے ساتھ اور لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے سے حاصل ہوگا.اس مقصد کے حصول کے لئے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو ہمیں بڑے جوش، محبت، ہمدردی اور شفقت کے جذبہ کے ساتھ دوسروں تک پہنچانا ہے.اس مشن میں کامیاب ہونے کے لئے آپ کو اپنے آپ کو ایسے رنگ میں ڈھالنا چاہئے کہ آپ کے اندر اسلامی تعلیم کی تمام خوبیاں عملی رنگ میں نظر آنے لگیں.بیرونی دنیا پراثر پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے آپ کے اندر مکمل انقلاب پیدا ہو.تا کہ ہر وہ شخص جس کو آپ سے واسطہ پڑے محسوس کرنے لگے کہ آپ عام لوگوں سے مختلف انسان ہیں.407
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یه سور بینام تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم دوسری بات یہ ہے کہ صنعتی اور سوشلسٹ نظریات پر بنی انقلابات دنیا کے مسائل اور مشکلات حل کرنے میں ناکام رہے ہیں.پہلی عالمی تنظیم لیگ آف نیشنز اور موجودہ اقوام متحدہ کی تنظیم دکھی انسانیت کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکیں.سائنس کی عظیم الشان ترقیات کے باوجودلوگوں کو دل کا سکون اور اطمینان حاصل نہیں.مختلف قسم کے نظریات معاشرے میں روز افزوں انتشار کی کیفیت پیدا کر رہے ہیں اور مستقبل خاصا دھندلا دکھائی دیتا ہے.قرآن کریم کی رو سے دنیا میں ایک نیا عالمی نظام قائم کرنے کی ذمہ داری اور تمام بنی نوع انسان کو ایک متحدہ معاشرے یعنی امت واحدہ میں منسلک کرنے کا فریضہ مسیح موعود علیہ السلام اور اس کی جماعت کے سپرد ہے.اور ساری انسانیت کو ایک امت بنانا ، یعنی امت مسلمہ میں داخل کرنا ، ایک مرکزی نقطہ یا ایک مرکزی صاحب اختیار ہستی کا متقاضی ہے.جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرت ثانیہ یا خلافت کے الفاظ سے ذکر کیا ہے.اور خدا تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ خلافت احمد یہ تا قیامت جاری رہے گی.تاہم آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اور تفرقہ کا شکار نہ ہوں.یادرکھیں کہ تیرہ سو سال کے بعد خلافت کا قیام اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت اور برکت ہے.پس ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور انتہائی کوشش کے ساتھ اس کے تقدس اور احترام کو قائم اور محفوظ رکھنا چاہئے.خلافت کی اہمیت ابتداء ہی سے ہر احمدی بچے کے دل میں راسخ ہونی چاہئے.بلاشبہ یہی وہ ذریعہ ہے کہ جس کی بنیاد پر ساری دنیا کے لوگ ایک رشتہ میں منسلک ہوں گے اور ایک برادری اور ایک خاندان کی طرح متحد ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو ہمیشہ یادرکھیں اور بنی نوع انسان کے دلوں کو دعاؤں کے ذریعے حسن سلوک کے ساتھ خدمت خلق کے بے لوث اور نہ ختم ہونے والے جذبہ کے ساتھ اور اسلام کی خاطر جہد مسلسل کرتے ہوئے ، جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا فضل نازل فرمائے اور ہر آن اور ہر ملک میں آپ کا ہادی اور مددگار ہو.آمین.دستخط (مرزا ناصر احمد ) خليفة المسيح الثالث ( مطبوعه روزنامه الفضل 06 مارچ 1978ء) 408
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 26 دسمبر 1977ء غلبہ اسلام کے لئے جن قربانیوں کی ضرورت ہے، ان کی ذمہ داری آپ پر ہے خطاب فرمودہ 26 دسمبر 1977ء بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کی بنیاد اس لئے رکھی گئی ہے اور یہ سلسلہ اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ دین حق کو مضبوط کیا جائے اور کلمہ اسلام کو دنیا میں پھلایا جائے.قرآن کریم میں لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کی جو پیشگوئی کی گئی تھی، اس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم بشارت دی گئی تھی کہ دین اسلام تمام دنیا پر غالب آئے گا.مگر یہ تلوار کے ساتھ نہیں ہوگا اور نہ ہی ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ.بلکہ یہ کام محبت اور پیار اور خدمت کے جذبہ کے ساتھ کیا جائے گا.اور خدا تعالیٰ کے حسن واحسان کو دنیا کے سامنے پیش کر کے بنی نوع انسان کے دل جیت کر یہ مشن پورا کیا جائے گا.پس یہ وہ پیشگوئی اور بشارت ہے، جس کے متعلق پہلے بزرگوں نے بھی کہا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے ماتحت کہا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس زمانہ میں جماعت احمد یہ اپنی کمزوریوں کے باوجود اور کم مایہ ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی مورد بنے گی.اور وہ قادر و توانا اسے اپنا ہتھیار بنائے گا تا دنیا میں اسلام کو غالب کرے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم منصوبہ ہے اور یہ ایک عظیم خدائی تدبیر ہے، جس کے پورا ہونے کا یہی اور وقت ہے.تاہم اس کے پورا ہونے کے لئے جن قربانیوں کی ضرورت ہے، ان کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.آپ اپنے نفس کے لئے یہ قربانیاں نہیں دیں گے اور نہ اپنے خاندانوں کے لئے.دنیا کی دولت کے لئے یاد نیا کے اقتدار کے لئے آپ یہ قربانیاں نہیں دیں گئے.بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے جماعت احمدیہ یہ قربانیاں دے گی.وبالله التوفيق.پس یہ اس سلسلہ عالیہ احمدیہ کا جلسہ ہے، جس کے ذمہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا کام ہے.یہ ایک بڑا اہم موقع ہے، جب کہ ہم ادھر ادھر سے اکٹھے ہو کر یہاں جمع ہو جاتے ہیں.حضرت سیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ سلسلہ جو قائم کیا گیا ہے، اس کے لئے خدا تعالیٰ نے قومیں تیار کی 409
اقتباس از خطاب فرموده 26 دسمبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم ہیں، جو اس کے ساتھ آملیں گی.اور یہ اس زمانہ کی بات ہے، جب قوموں کا تو کیا، افراد بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد کثرت کے ساتھ جمع نہیں ہوئے تھے.آپ کے گھر والوں نے بھی اور دنیا نے بھی آپ کو دھتکار دیا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے قو میں تیار کی ہیں، جو سلسلہ احمدیہ کی حقیر کوششوں کے ذریعہ اسلام میں شامل ہو جائیں گی.غرض ایک وقت آئے گا، جب انشاء اللہ ساری دنیا کی قومیں اسلام میں شامل ہو جائیں گی.یہ ایک حرکت ہے، جود نیا میں جاری ہو چکی ہے.اور وہ قومیں، جنہوں نے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو کر اسلام کو غالب کرنا ہے، ان کے ہراول دستے پیدا ہو چکے ہیں.اور ان ہر اول دستوں کے کچھ نمونے غیر ملکی وفود کی شکل میں آپ کے سامنے یہاں موجود ہیں.جس زمانہ میں یہ کہا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے قومیں تیار کی ہیں، جو جماعت احمدیہ میں داخل ہوں گی، اس وقت جولوگ سلسلہ احمدیہ کو نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں کیا منصوبہ تیار کیا اور کن لوگوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ یہ کام لینا چاہتا ہے، وہ تو یہی سمجھتے ہوں گے کہ ایک پاگل ہے، (نعوذ باللہ ) جو اس قسم کی باتیں کر رہا ہے.گھر والے تو اس کو پوچھتے نہیں اور کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قومیں تیار کی ہیں، جو غلبہ اسلام کی مہم میں جماعت احمدیہ کے ساتھ شامل ہو جائیں گی.لیکن خدا تعالیٰ تو اپنے وعدوں کا سچا ہے.وہ علام الغیوب بھی ہے اور قادر مطلق بھی ہے.اس نے دنیا میں ایک انقلاب عظیم کی بنیا درکھ کر اسلام کے حق میں اب ایک رو پیدا کر دی ہے.اور دنیا باطل عقائد سے برگشتہ ہورہی ہے.اور دین حق کی طرف ایک میلان ہے.گو یہ ٹھیک ہے کہ اس میلان میں شدت نہیں.لیکن یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ اسلام کے حق میں ایک رو پیدا ہوگئی ہے.مثلاً پچھلی صدی میں اسلام کے مقابلے میں سب سے زیادہ جوش عیسائیوں میں پایا جاتا تھا.انہوں نے اسلام کو مٹانے کے بڑے بڑے دعوے کئے تھے.لیکن اب ان کے متعلق ہم ہی نہیں، خود عیسائی کہنے لگ گئے ہیں کہ عیسائیت روبہ زوال ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ یورپ میں، میں نے ایک موقع پر ایک جرمن نو جوان سے یہ کہا کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے یعنی عیسائی نوجوانوں کے اندر چرچ کے خلاف ایک انقلابی رو پیدا ہوگی.اور میرا خیال ہے کہ یہ انقلاب 25-20 سال کے اندراندر بپا ہو جائے گا.تو وہ حیران ہو کر میر امنہ دیکھنے لگا اور کہنے لگا آپ 25-20 سال کی بات کر رہے ہیں، چرچ کے خلاف تو یہ انقلاب کل پیدا ہوسکتا ہے.اور وہ خود عیسائی نوجوان تھا.چنانچہ گرجوں کے سامنے بکاؤ : FOR SALE“ کا بورڈ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.کئی پادریوں اور عیسائی اسکالرز کی طرف 410
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 26 دسمبر 1977ء سے عیسائیت کے خلاف اس وقت تک بیسیوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں.یہ کتابیں عیسائیت کے بنیادی عقائد کے خلاف ہیں.یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کے خلاف ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنا لینے کے خلاف ہیں.بہت سے عیسائی سکالرز نے اپنی تحقیق کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام، جو خدا تعالیٰ کے ایک پیارے رسول تھے اور جن کی ہمارے دلوں میں اسی طرح عزت اور احترام ہے، جس طرح دوسرے رسولوں کی ہے، وہ خدا تعالیٰ کے ایک بندے تھے ، خدا نہیں تھے.اور یہ بھی کہ وہ صلیب پر سے زندہ اترے تھے.اور ان کا جو مشن تھا، جس کے پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ان کو معبوث کیا تھا ، یعنی یہ کہ وہ یہود کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کو اکٹھا کریں، اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی لمبی زندگی عطا کی.کیونکہ بنی اسرائیل (یہود ) کی جو کھوئی ہوئی بھیڑیں تھی ، وہ یروشلم سے لے کر افغانستان، ہندوستان اور کشمیر کی پہاڑیوں کے بہت وسیع علاقے میں پھلی ہوئی تھیں.ان تک پیغام حق پہنچانے کے لئے انہوں نے بڑے لمبے لمبے سفر کیسے ہیں.اور چونکہ خدا تعالیٰ کا رسول جس غرض کے لئے بھیجا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس وقت تک وفات نہیں دیتا، جب تک اس غرض کی بنیاد کو پختہ نہ کر دے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو صلیب سے بچا کر دنیا کو اپنی قدرت کا نشان دکھایا.اور ان کو موقع دیا کہ وہ اپنے مشن کی تکمیل کریں.یعنی یہود کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو اکٹھا کریں.اور یہ صرف ہمارا ہی عقیدہ نہیں بلکہ بڑے بڑے پادریوں نے بھی تحقیق کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر سے زندہ اترے اور وہ ہجرت کر کے کشمیر اور دوسری جگہوں میں بھی گئے ، جہاں وہ یوز آسف کے نام سے پکارے گئے.پس یہ ایک عظیم اور بڑا حیران کن انقلاب ہے، جو عیسائیت کے بنیادی خیالات میں پیدا ہو گیا ہے.اس میں میری یا آپ کی کوشش کا ہاتھ نہیں ہے.بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوفر مایا تھا کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے، جو تیری تائید میں ساری دنیا میں کام کر رہے ہوں گے، ویسا ہی ثابت کر دکھایا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.مطبوعه روزنامه الفضل مورخہ 18 جون 1978ء) 411
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977ء تحریک جدید کی مساعی اور اللہ تعالیٰ کے افضال کا ذکر خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977ء بر موقع جلسہ سالانہ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.تحریک جدید کی طرف سے دوران سال 25 نئی کتب اور متعدد تراجم شائع ہوئے ہیں.تحریک جدید کے زیر ہدایت مختلف ملکوں کی جماعت ہائے احمد یہ اور احمد یہ مشنوں کی طرف سے جو کتب اور تراجم شائع ہوئے ، وہ یہ ہیں:.انڈونیشیا:.1.اسلامی اصول کی فلاسفی 2.میرا مذہب 3.نبراس المومنین آئیوری کوسٹ :.-1 قرآن مجید کی آخری 28 سورتوں کا فرانسیسی ترجمہ 2.آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائبل کی بشارات 3-ادعية القرآن 4- ادعية الرسول 5.احادیث الرسول 6.اسلامی نماز 7- لائف آف محمد سیرالیون:- 1- لائف آف محمد 2.احمد یہ موومنٹ 413
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977ء نائیجیریا:.ماریش:.1 تعلیم الاسلام ( یورو با زبان میں) تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم 2- ادعية القرآن مع ترجمہ ( یورو با زبان میں) نماز مع ترجمہ ( ہو سا زبان میں) 1- فتح اسلام 414 تنزانیہ:.انگلستان: جرمنی:.2.اسلام میں نبوت 3 رڈ الزامات ( تینوں فرانسیسی زبان میں) ابراہیم علیہ السلام کا فرزند اعظم ( سواحیلی زبان میں) 1 - تذکرہ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور رویا و کشوف کا انگریزی ترجمہ) 2.ایک غلطی کا ازالہ انگریزی ترجمہ Islam and human rights-3 1.اسلام کا تعارف 2.مکالمہ مابین مسلمان اور عیسائی The Quran and space and Interplanety Flights-3 1- بركات الدعاء 2.ہماری تعلیم وکالت تبشیر : 3.اسلامی اصول کی فلاسفی ( ڈچ زبان میں) 1 من الرحمن ( دوسرا ایڈیشن ) 2.ہماری تعلیم ( عربی دوسرا ایڈیشن )
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977ء 3.پیغام احمدیت (فارسی دوسرا ایڈیشن) 4- المهدى الحقانی (عربی) 5 الكفرملة واحدة (عربی چوتھا ایڈیشن) What is Ahmadiyyat2-6 (آٹھواں ایڈیشن) 7-? How to get rid of the bandage of sin (تیسرا ایڈیشن) 8-Invitation to Ahmadiyyat ( طبع) تحریک جدید انجمن احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اب تو تحریک جدید کے مشن اور اس کے تحت قائم ہونے والی جماعت ہائے احمدیہ قریباً ساری دنیا میں پھیل چکی ہیں.ایک وقت تھا، یعنی جب قیام پاکستان سے بہت پہلے، جب تحریک جدید کا سارا بار ہندوستان کی جماعتوں پر تھا.لیکن آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی.جس کے نتیجہ میں بیرونی ملکوں میں مشنوں اور جماعتوں کا قیام عمل میں آیا؟ وہ مشن اور جماعتیں خود کفیل ہوتے چلے گئے.یہ انقلابی تبدیلی اس تحریک کی وجہ سے پیدا ہوئی، جسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کے نام سے جاری فرمایا.تحریک جدید کی مساعی کے نتیجہ میں مشرق و مغرب کے بیرونی ممالک میں ایسی مخلص اور فدائی روحیں پیدا ہو گئیں ہیں کہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اخلاص یہاں کے احمدیوں میں زیادہ ہے یا وہاں کے احمدیوں میں زیادہ ہے.اس کیفیت کا صحیح اندازہ وہاں جا کر انہیں دیکھنے سے ہی ہو سکتا ہے.میں ایک ہی دفعہ مغربی افریقہ گیا ہوں.میں نے وہاں ایسا اخلاص دیکھا، جو ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے.وہ پہاڑوں پر لاؤڈ سپیکر لگا کر درود شریف پڑھتے اور صل علی محمد کا ورد کرتے ہیں.اور دور دوران کی آواز سنائی دیتی ہے.میں نے ان لوگوں میں خلیفہ وقت کے لئے اور مرکز کے لئے اتنا پیار دیکھا ہے کہ میں حیرت میں پڑ گیا کہ ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود اتنے پیار کی وجہ کیا ہے؟ میں نے ان سے باتیں کیں اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ چونکہ احمدیت نے وہاں جا کر ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت بیان کی وہ احمدیت کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان سے آگاہ ہوئے اور انہیں آپ کے مقام کی معرفت حاصل ہوئی.چونکہ انہیں یہ معرفت احمدیت کے ذریعہ ملی ہے، اس لئے انہیں ہم سے بھی پیار ہے اور بے انداز پیار ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 14 جنوری 1978ء) 415
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم اسی ضمن میں مزید فرمایا کہ تحریک جدید کے ذریعہ بیرونی ملکوں میں انقلابی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور مسلسل ہورہی ہے.یہ تبدیلی تعداد کے لحاظ سے بھی رونما ہوئی ہے اور اخلاص کے لحاظ سے بھی.جہاں تک تعداد کے لحاظ سے تبدیلی کا تعلق ہے، غانا اور سیرالیون کے متعلق خود وہاں کے دوست دعوی کرتے ہیں کہ وہاں احمدیوں کی تعداد دس لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے.یورپ میں بھی ، امریکہ میں بھی ، جزائر میں بھی اور افریقہ میں بھی ہر جگہ غلبہ اسلام کے لئے زمین تیار ہو رہی ہے.بعض لوگ یورپ میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ابھی تک بہت تھوڑے لوگوں نے یہاں اسلام قبول کیا ہے.میں ان سے کہتا ہوں کہ یہ تو ابتداء ہے.ابھی سر گنے کا وقت نہیں آیا.ابھی تو یہ دیکھو کہ تم میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے، ان میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ وہ تبدیلی بذات خود ایک انقلاب سے کم نہیں ہے.خدا کی شان ظاہر ہوتی ہے، اس بات سے کہ گوا بھی ڈنمارک میں چند آدمی ہی احمدی ہوئے ہیں، لیکن ان میں سے ایک وہ بھی ہوا ، جس نے عربی میں اتنی دسترس حاصل کی کہ چند سال کے اندراندر اس نے قرآن مجید کا اپنی زبان میں ترجمہ کر ڈالا.اس ترجمہ کو وہیں کے ایک پبلیشر نے شائع کیا اور وہ ان بہت مقبول ہوا.کیا یہ معمولی انقلاب ہے کہ ایک شخص احمدی ہوتا ہے اور اخلاص و فدائیت میں اتنی ترقی کرتا ہے کہ اپنے ہم وطنوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی غرض سے ڈینیش زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کر ڈالتا ہے، اسے شائع کراتا ہے.اور پھر اس ترجمہ کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے.اسی طرح جرمنی میں ڈاکٹر عبدالہادی کیوسی صاحب نے اسلام قبول کیا.احمدی ہونے کے بعد ان کے دل میں ایسا تغیر ہوا کہ انہوں نے اسپرانٹو زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا.اسے بھی وہیں کے ایک پبلیشر نے شائع کیا اور یہ ترجمہ بھی بہت مقبول ہوا.اگر کوئی کہے کہ ڈنمارک میں تم نے صرف چند آدمی ہی احمدی بنائے ہیں تو میں کہوں گا کہ ان چند میں ایک ایسا بھی تو آ گیا کہ جس نے قرآن مجید کا ڈینش زبان میں ترجمہ کر دکھایا.اس ابتدائی حالت میں وہ اکیلا ہی احمدی ہوتا تو وہ اکیلا ہی کافی ہوتا.کیونکہ اس اکیلے شخص نے اپنے ہم وطنوں کے لئے قبول اسلام کی راہ ہموار کر کے دکھائی.الغرض وہاں جو انقلاب آیا ہے، وہ کوئی معمولی انقلاب نہیں.تعداد اور اخلاص ہر دو لحاظ سے بہت بڑا انقلاب ہے، جو وہاں آیا ہے.416
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977ء تیسری چیز یہ ہے کہ تحریک جدید کے اجراء بعد قریباً آٹھ سال تک بیرونی ملکوں کی جماعتوں کے اپنے چندے کچھ نہ تھے.لیکن اب وہاں کے احمدی احباب دل کھول کر چندے دیتے ہیں.مثال کے طور پر غانا ہے.وہاں لوگ باقاعدگی سے ماہوار چندے دینے کے زیادہ عادی نہیں ہیں.لیکن جب ان کا سالانہ جلسہ ہوتا ہے تو اس وقت وہ چندہ کے طور پر لاکھوں روپے دے دیتے ہیں.اور دیتے بھی ہیں، روح مسابقت کے تحت.ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر.ان میں باہم اس بات کا مقابلہ ہوتا ہے کہ کون زیادہ چندہ دیتا ہے؟ ان میں اس روح کا پیدا ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے.یہ خود ایک بہت بڑا انقلاب ہے کہ پہلے باہر سے روپیہ آکر ان کے ملک پر خرچ ہوتا تھا، اب ایک پیسہ بھی باہر کا ان پر خرچ نہیں ہوتا.دوران سال بیرون ممالک میں چار نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور متعد وزیر تعمیر ہیں.اور بعض ملکوں میں اس غرض کے لئے زمین خرید لی گئی ہے.اسی طرح امسال نے مشن بھی قائم ہوئے ہیں.ایک نیامشن کینیا میں اور ایک نیا مشن کینیڈا میں کھلا ہے اور وہاں مبلغ بھجوائے گئے ہیں.گزشتہ سال میں ٹورانٹو (کینیڈا) بھی گیا تھا.وہاں کی جماعت کو مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے زمین خریدنے کی طرف توجہ دلائی تھی.چنانچہ وہاں کی جماعت نے خدا تعالیٰ کے فضل سے شہر کے مضافاتی علاقہ میں ساڑھے چھ ایکڑ زمین خرید لی ہے.اس طرح سپین میں ہمیں امید ہے کہ مسجد اور مشن ہاؤس کے لیے جلد زمین خرید لی جائے گی.سپین کے بارے میں تو ہماری غیرت کا سوال بھی ہے.وہاں مسلمان سات، آٹھ سو برس حکمران رہے ہیں.پہلے وہ ایک مسلمان ملک تھا.ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا کومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دینا ہے.البتہ جو پہلے مسلمان علاقے تھے، ان میں اسلام کی ازسرنو اشاعت کے لئے ہمیں زیادہ کوشش کرنی ہے.ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہاں ہمیں مسجد اور مشن ہاؤس کے لیے زمین مل جائے.ایک مشکل وہاں یہ پیش آرہی ہے کہ حکومت زمین خریدنے کی اجازت تو دے دیتی ہے لیکن ایسی شرائط بھی لگادیتی ہے، جنہیں پورا کر ناممکن نہیں ہوتا.یہ روکیں انشاء اللہ دور ہوں گی.لیکن آپ کو قربانیاں دینی پڑیں گی.قربانیاں دینے سے راستہ میں حائل روکیں دور ہوتی چلی جائیں گی.کوئی روک ایسی واقع نہیں ہو سکتی ، جو آپ کو ایک ہی مقام پر کھڑا رہنے پر مجبور کر دے.بعض ملکوں میں ، جہاں ہمارے مشن پہلے سے قائم ہیں ، بعض نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا ہے.چنانچہ انگلستان میں دونئی جماعتیں بنی ہیں.اسی طرح جزائر فجی میں تین نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں.خاص 417
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم طور پر نجی میں تبلیغ کا ایک نیا میدان کھلا ہے.اب تک نجی میں باہر سے آکر آباد ہونے والوں میں احمدیت پھیل رہی تھی.لیکن اب وہاں کے اصل باشندوں یعنی مچین میں سے بھی متعد دلوگ احمدی ہو چکے ہیں.پہلے وہاں کے اصل باشندوں اور ہمارے درمیان ایک دیوار حائل تھی.وہ اب بفضل تعالیٰ گرنی شروع ہو گئی ہے.اللہ تعالی کا بڑا افضل اور احسان ہے، جماعت پر کہ بیرونی دنیا میں بھی ہر سال ہمارا تبلیغی اور اصلاحی کام آگے بڑھ رہا ہے اور اندرون ملک بھی اللہ تعالیٰ اس میدان میں ہمیں اپنی برکتوں سے نواز رہا ہے.اس جلسہ میں پاکستان کے ایک علاقہ کے دو سو ایک باشندے آپ کے درمیان ایسے بیٹھے ہیں، جو پہلے اچھوت کہلاتے تھے.لیکن ان میں سے اکثر اب مسلمان ہو چکے ہیں.کچھ ہیں، جو تحقیق کرنے کی غرض سے یہاں آئے ہیں.انگلستان میں بعض لحاظ سے بہت اچھا کام ہو رہا ہے اور بعض لحاظ سے کچھ ستی بھی ہے.وہاں کے جواصل باشندے احمدی ہوئے ہیں، وہ تعداد میں ابھی تھوڑے ہیں.لیکن جو احمدی ہوئے ہیں ، وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت مخلص ہیں.جیسے ہمارے بشیر احمد صاحب آرچرڈ ہیں.جو باقاعدہ مبلغ اسلام کی حیثیت سے وہاں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے ہیں.البتہ وہاں اشاعت کتب کا بہت اچھا کام ہورہا ہے.امریکہ اور انگلستان میں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہاں اپنے پریس لگ جائیں.تا کہ اشاعت کتب کے کام میں آسانی پیدا ہو سکے.پتہ لگا ہے کہ دنیا میں بعض مقامات ایسے ہیں، جہاں طباعت کا کام بہت ستا ہو جاتا ہے.انہیں مرکز بنا کر وہاں سے مختلف ممالک میں کتابیں بھجوانے کا پروگرام بھی زیر غور ہے.دراصل میرے دل میں بڑی تڑپ ہے کہ دس لاکھ قرآن کریم امریکہ میں پھیل جائیں.اگر آپ میں بھی یہ تڑپ پیدا ہو جائے اور آپ بھی اس کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں تو جلد یہ تڑپ پوری ہو سکتی ہے.مغربی افریقہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی روبڑی تیز ہوگئی ہے.لیکن وہاں کچھ اقتصادی مشکلات پیدا ہورہی ہیں ، جس سے اشاعت اسلام کے کام میں روک واقع ہو سکتی ہے.غانا کے الحسن عطا صاحب نے ، جو امسال بھی جلسہ میں شرکت کے لئے آئے ہوئے ہیں، مجھ سے ملاقات کے وقت رو کر کہا کہ ہمارے ملک کی اقتصادی حالت ٹھیک نہیں ہے، آپ اس کے لئے دعا کریں.ہم سب کے لئے دعا کرتے ہیں.ان کے لئے بھی ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ملک کی اقتصادی مشکلات دور فرمائے اور وہاں اسلام کی روز افزوں ترقی کے سامان فرمائے.418
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977ء الغرض دوران سال خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں ہی تبلیغ اسلام کے کام میں تیزی پیدا ہوئی ہے.لیکن خاص طور پر انگلستان، امریکہ، مغربی افریقہ بھی آئی لینڈز اور مشرقی افریقہ کے بعض ممالک میں نمایاں ترقی ہوئی ہے.فالحمد للہ.(مطبوعه روزنامه الفضل 16 جنوری 1978ء) ”اب میں مہنگائی کی طرف آتا ہوں.مہنگائی صرف غانا او نائیجیریا میں نہیں ہے بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی ہے.اور ہمارے اپنے ملک میں بھی ہے.ہمارے ملک میں مہنگائی کی ایک وجہ غیر اسلامی انداز کی غلط منصوبہ بندی بھی ہے.اس کا اثر ہمارے کارکنوں پر بھی پڑنا، ایک قدرتی امر ہے.صدر انجمن احمدیہ تحریک جدید اور وقف جدید نے اپنے اپنے کارکنوں کی اور خلافت نے غیر کارکنان افراد کی اقتصادی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش شروع کی ہوئی ہے.ایک تو گندم کی خریداری میں سہولت دی جاتی ہے.دوسرے موسم سرما میں گرم کپڑوں وغیرہ کے لئے امداد دی جاتی ہے.تیسرے علاج معالجہ کے سلسلہ میں طبی امداد کی سہولت بہم پہنچائی جاتی ہے.صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کم تنخواہ پانے والے کارکنان کو ان کے افراد کنبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ، ان کی گندم کی کل سالا نہ ضرورت کا 1/2 حصہ بطور امداد نہیں دیا جاتا ہے.تا کہ گندم کے حصول میں انہیں وقت نہ ہو.نیز ان کے افراد کنبہ کو ساٹھ روپے فی کس کے حساب سے موسم سرما میں امداد دی جاتی ہے.نیز غیر کارکنان مستحقین کو گندم، گزارہ الاؤنس اور وظائف کی شکل میں حتی المقدور امداد مہیا کی جاتی ہے.اس طرح صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید، وقف جدید نے اپنے کارکنان کو اور خلیفہ وقت کی زیر نگرانی غیر کارکنان مستحقین کو گندم ، امداد موسم سرما اور طبی امداد نیز گزارہ الاؤنس اور وظائف کی شکل میں دس لاکھ، چودہ ہزار روپے سے زائد کی امداد مہیا کی گئی.یہ سب امداد کارکنان کی ماہوار تنخواہوں کے علاوہ مہیا کی گئی.مطبوعه روزنامه الفضل 17 جنوری 1978ء) مغربی افریقہ کے بعض ملکوں میں ہسپتال اور ہائر سیکنڈری سکولز کھولنے کے لئے نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریک میں نے 1970ء میں شروع کی تھی.25 لاکھ روپے اس فنڈ میں جمع کرنے کی میں نے تحریک کی تھی.لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے تین سال کے اندر اندر 56 ملکوں سے احباب جماعت نے 53 لاکھ روپیدا کیا.میر تم بنر (Barmer) کے طور پر تھی.جس میں آغاز کار 53لاکھ روپے کا ایک چھوٹا سا شعلہ 419
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم نمودار ہوا، جو بعد میں بڑھا اور پھیلا اور مغربی افریقہ کے ایک بڑے علاقہ کو اپنی تمازت سے فیض پہنچانے کا موجب بنا.اس 53 لاکھ روپے نے بروئے کار آ کر چار کروڑ ، 46 لاکھ روپیہ پیدا کیا.اور اس نے وہاں کے سکولوں اور ہسپتالوں کی ضرورت پوری کر دی.ہم نے ابتداء میں وہاں چھوٹے چھوٹے کلینک کھولے تھے.اس آمد سے ہم نے ان چھوٹے چھوٹے کلینکوں کو ہسپتالوں میں بدل دیا.اور نئے سکول کھولے.اللہ تعالٰی نے وہاں اپنی رحمت کا عجب جلوہ ظاہر کیا.اس کا ایک درخشاں پہلو یہ ہے کہ ان ہسپتالوں میں گزشتہ سات سال کے دوران 17,52,356 مریضوں کا علاج کیا گیا.356 مریضوں کے کامیاب آپریشن کئے گئے.کم و بیش دولاکھ مریضوں کا کلی طور پر مفت علاج کیا گیا.یعنی امراض کی تشخیص بھی مفت کی گئی اور انہیں دوائیں بھی ہسپتالوں کی طرف سے مفت دی گئیں.باقی مریضوں نے ، جن میں سے اکثر کھاتے پیتے اور مالدار تھے، اپنے علاج کے اخراجات اپنی مرضی سے خود ادا کئے.اور اس طرح خدا تعالیٰ نئے ہسپتال اور نئے سکولز کھولنے کے لئے خود وہیں سے رقم مہیا کراتا رہا.خدا تعالیٰ نے اپنے تصرف خاص کے ماتحت امراء سے دولت لے کر غریبوں کے لئے رقم مہیا کر دی.جس کے نتیجہ میں وہاں سولہ ہسپتال اور سولہ ہائر سیکنڈری سکول کھل گئے.جو بڑی کامیابی سے وہاں عوام کی خدمت بجالا رہے ہیں.یہ ایک نعمت ہی ایسی ہے، خدا کی کہ اگر ہم ساری عمر شکر کرنے میں گزار دیں تو بھی اس ایک نعمت کا شکر ادا نہیں ہو سکتا.اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے وقت کہا کرتا ہوں، اے خدا! ہماری استعداد اور طاقت کے مطابق جتنا شکر کرنا ہمارے لئے ممکن ہے، اس کی تو ہمیں تو فیق عطا کر اور تیری نعمتوں کی قدر کے مطابق جتنا مزید شکر ہمیں کرنا چاہئے ،اسے معاف کر دے.نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت مغربی افریقہ کے ممالک میں قرآن مجید (عربی متن و انگریزی ترجمہ ) کے بیس ہزار نسخے ایک سکیم کے ماتحت پھیلائے جاچکے ہیں.وہاں کے تمام بڑے بڑے ہوٹلوں کے رہائشی کمروں میں، جن میں بکثرت سیاح اور بڑے لوگ قیام کرتے ہیں، قرآن مجید کے نسخے رکھوا دیئے گئے ہیں.تا کہ جو لوگ ان کمروں میں ٹھہریں، وہ فارغ وقت میں قرآن مجید کا مطالعہ کر سکیں اور اس طرح اسلام کا پیغام از خودان تک پہنچتار ہے.جلسہ سالانہ 1973ء کے موقع پر میں نے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کی تحریک کی تھی.اور جماعت اور جماعت کے مخلصین سے پندرہ سال میں اڑھائی کروڑ روپیہ اس فنڈ میں ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا.اس فنڈ میں 54 ممالک کے احباب نے وعدے لکھوائے.اور وہ قسط وار ادائیگیاں کر رہے ہیں.وعدے خدا کے فضل سے دس کروڑ روپے سے اوپر ہو گئے تھے.420
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1977ء صدسالہ احمد یہ جوبلی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر ہم نے غلبہ اسلام کی صدی کا استقبال کرنا ہے.نئے مشن قائم ہوتے ہیں، نئی مساجد تعمیر کی جاتی ہیں اور دنیا کی ایک سو زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کر کے انہیں شائع کرنا ہے.ان میں سے بعض کام ایسے ہیں، جنہیں ہم نے ابھی سے شروع کرنا ہے.تا کہ ہم غلبہ اسلام کی صدی کا شایان شان استقبال کرنے کے قابل ہو سکیں.وعدہ جات کی وصولی تسلی بخش ہے.میں 54 ممالک کی جماعتوں سے، جنہوں نے وعدے لکھوائے ہیں اور جو ادائیگیاں کر رہی ہیں، کہتا ہوں کہ تھوڑ اسا زور اور لگا دیں.تا کہ وعدے جلد از جلد پورے ہو سکیں.اور غلبہ اسلام کی مہم کو آگے بڑھانا ممکن ہو سکے.جماعتوں کا اخلاص قابل ستائش ہے اور وصولی کی رفتار تسلی بخش ہے.صرف تھوڑا سا زور لگانے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ احباب کو اپنی برکتوں سے نوازے گا.جیسا کہ وہ اپنے وعدوں کے بموجب انہیں اپنی برکتوں سے نوازتا چلا آ رہا ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 18 جنوری 1978ء) ،، 421
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 28 دسمبر 1977ء مبلغین اسلام ہماری دلی دعاؤں کے مستحق ہیں خطاب فرموده 28 دسمبر 1977ء بر موقع جلسہ سالانہ خطاب کے اختتام پر دعائیہ فقرات میں حضور نے فرمایا:.....اس زمانہ میں خدا نے جن عظیم بشارتوں کا غلبہ اسلام کے بارہ میں وعدہ کر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں یا کم از کم ان کے ایک حصہ کو ہماری زندگیوں میں پورا کرے.تا کہ ہماری روحیں بھی خوش اور مطمئن ہوں.اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں کو قبول کرے اور احسن جزا دے، اپنی محبت ذاتیہ ہم میں پیدا کرے اور پھر ہمیشہ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.جو مبلغین اسلام دنیا کے مختلف حصوں میں تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں، وہ بھی ہماری دلی دعاؤں کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی زبان اور ان کے قلم میں برکت ڈالے اور وہ اسلام کے نور کو پھیلانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور ہماری نسلوں کو بھی اپنے مقام کو سمجھنے کی توفیق دے اور اپنی اولادوں کی صحیح تربیت کرنے کی بھی توفیق بخشے.قرآن کریم کو پڑھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کا شوق ہم میں پیدا کر دے.اور ہماری ہر نسل پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتی چلی جائے.اللہ تعالیٰ ہمارے اموال میں بھی برکت دے.ہم اس کی رضا میں ہی زندہ رہیں اور اس کی رضا کی حالت میں ہی ہمارا دم نکلے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 29 دسمبر 1977ء) 423
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده یکم اپریل 1977ء ہم اس وقت جماعت احمدیہ کی زندگی کے ایک نہایت اہم موڑ پر ہیں خطاب فرمودہ یکم اپریل 1977ء بر موقع مجلس شوری " ہم اس وقت اپنی زندگی کے، جماعت احمدیہ کی زندگی کے ایک نہایت اہم موڑ پر ہیں.ایک چوراہے پر کھڑے ہیں.اس وقت جماعت احمدیہ کی یہ حیثیت کہ ساری دنیا کو مسلمان بنانے کا فریضہ جماعت کے سپرد کیا گیا ہے، یہ نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہے.اور اس وقت جماعت ہائے احمد یہ بیرون پاکستان میں اس قدر وسعت پیدا ہو چکی ہے کہ جیسا کہ آپ دیکھیں گے، باہر کا بجٹ، ہمارے اپنے بجٹ سے بہت زیادہ ہو گیا ہے.اس کا ہماری شوری کے ساتھ بالواسطہ تعلق ہے.اور اس کے متعلق شوری عام مشورے دے سکتی ہے.اگر خلیفہ وقت ان کو منظور کر لے تو اس کے مطابق باہر والوں کو ہدایت دی جاتی ہے.اور اگر رد ہو جائیں تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.پچھلے چند سالوں میں ہی، میرے خیال میں 70ء کے بعد، افریقہ کے بعض ممالک کا بجٹ آمد دگنے سے زیادہ ہو گیا ہے.اور اصل آمد بھی دگنے سے زیادہ ہوگئی ہے.ان کے بجٹ ہم سے کچھ مختلف بنتے ہیں.قریباً اس طرح بنتے ہیں.مثلاً ابھی پرسوں میں مغربی افریقہ سے آیا ہوا ایک خط پڑھ رہا تھا، جس میں لکھا تھا کہ ہماری ایک علاقائی میٹنگ ہوئی ، ایک جلسہ ہوا اور اس میں مالی تحریک کی گئی.وہاں ہر شخص کے نام کا بجٹ نہیں بنتا.بلکہ مختلف علاقے یا پھر قبائل آپس میں بیٹھ کر مقابلہ کرتے ہیں.چنانچہ ان کے سکے میں اس علاقے کے (ملک کے نہیں) وعدے ہو گئے.اکثر حصہ وہ وہیں ادا کر دیتے ہیں یا چند دنوں میں وصول ہو جاتا ہے.اس طرح ماہانہ وصولی کا حساب نہیں ہے.اور وہ گذشتہ سال کے مقابلے میں قریباً ایک لاکھ سے زیادہ تھا.وہ بڑی چھلانگیں مار کر آگے نکل رہے ہیں.کچھ مسائل بھی ان کے پیدا ہوتے ہیں.جب وہ اپنے اخلاص میں اور قربانی میں آگے نکل رہے ہیں تو اس عمر سے وہ آگے بڑھ گئے کہ جب بچے کو انگلی پکڑ کر چلایا جاتا ہے.اس لئے کچھ عرصے سے میں ان کو کافی آزادی دے رہاہوں کہ تمہارے انتظام ہیں، تم اب اپنے ملکوں کو سنبھالو.مگر چونکہ ان کو تجربہ نہیں ہے اور چونکہ ان کو غلط قسم کا تجربہ بھی ہے، یعنی دونوں باتیں ہیں کہ بعض چیزوں کا انہیں تجربہ نہیں اور بعض باتوں کا انہیں غلط تجربہ ہے، اس لئے وہ غلطیاں بھی کرتے ہیں.ہم انہیں برداشت بھی کرتے ہیں کبھی غصے بھی ہوتے ہیں، کبھی پیار کے ساتھ سمجھاتے ہیں.425
اقتباس از خطاب فرموده یکم اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم جہاں تک غلبہ اسلام کی مہم کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اس غرض سے قائم فرمایا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو پھیلائے.یہ عظیم مہم ایک زبردست انقلاب ہے.یا مجھے یوں کہنا چاہیے، آپ اچھی طرح غور سے سنیں اور اس کو سوچیں، جماعت احمد یہ محض انقلابی نہیں بلکہ میرا خیال ہے، انسانی زندگی میں پہلی بار تو نہیں کہنا چاہیے، لیکن میں یوں کہوں گا کہ اسلام میں پہلی بار Revolution اور Evolution یعنی انقلاب اور سہولت کے ساتھ مسلسل آگے بڑھنے کا عمل جو ہے، اس کا حسین امتزاج پیدا کیا گیا ہے.یہ جو Evolutionary Process (ارتقائی عمل ) ہے، اس سے انسان چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا.دنیا میں جو بہت بڑے بڑے Revolutions (انقلابات رونما ہوئے ہیں، مثلاً Russian Revolution ( روسی انقلاب) ہے، اس کی ابتداء انقلاب سے ہوئی.لیکن بعد میں اس کے عمل کا سہولت کے ساتھ آگے بڑھنے کے ساتھ تعلق ہے.اسی طرح مثلاً یوگوسلاویہ میں پہلا Constitution (دستور) بنا تو وہ Revolutionary (انقلابی ) تھا.لیکن اس Revolutionary Consititution یعنی انقلابی دستور کے بعد اس میں تین بنیادی تبدیلیاں ہو چکی ہیں.اور یہ تبدیلیاں Revolutionary (انقلابی طریق پر نہیں ہوئیں بلکہ عام طریق پر.جس طرح سہولت کے ساتھ انسان ترقی کرتا ہے، اس راستے پر گامزن ہو کر انہوں نے یہ تبدیلیاں کی ہیں.اسلام کا انقلاب مختلف ادوار میں آیا.دو بڑے دور ہیں.ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا انقلاب.اور ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند ، مہدی علیہ اسلام کے زمانے کا انقلاب.لیکن یہ دونوں انقلاب محض انقلاب نہیں محض Revolution نہیں.بلکہ Revolution اور Evolution کا ایک امتزاج ہے.اور وہ بڑا حسین امتزاج ہے.یعنی انقلاب اور ارتقاء دونوں ساتھ چل رہے ہیں.بہت انقلابی اثر پیدا ہور ہے ہیں.آپ پیچھے غور کریں، مثلاً میری خلافت کے دس، بارہ سال کا زمانہ جو ہے، اس کے اندر بعض بڑی زبر دست تبدیلیاں دنیا میں اسلام کی ترقی کی مہم میں پیدا ہو چکی ہیں.اور آپ نے ان کو محسوس بھی نہیں کیا.وہ انقلابی تبدیلیاں ہیں.اس کے لئے کوئی نام سوچنا پڑے گا.یا ممکن ہے کہ ہو.لیکن اس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہا.بہر حال نہ محض انقلاب ہے اور نہ محض Evolutionary Process ہے.بلکہ ان دونوں کا حسین امتزاج ہے.جس کے ساتھ یہ ترقی کر رہے ہیں.مثلاً امریکہ ہے.امریکہ میں بہت پرانی جماعت ہے.55 سال ہوئے ، جب پہلی دفعہ ہمارے مبلغ 426
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده یکم اپریل 1977ء وہاں پہنچے تھے.ان کی فضا کے اندر کوئی تبدیلی ہو رہی تھی.جس کا انسان کو علم نہیں تھا کہ کیا ہے؟ خاموشی کے ساتھ ہو رہی تھی.نہ ناک اسے سونگھ رہا تھا، نہ کان اسے سن رہے تھے، نہ آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں.اور پھر یک دم ہی پچھلے چند سالوں کے اندران میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہو کر سامنے آگئی.میں پچھلے سال وہاں گیا ہوں.میں نے انہیں کہا کہ اگر آپ نے اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرنی ہے تو کمیونٹی سنٹر بناؤ.جہاں علاقے کے احمدی گھرانوں کے بچے اپنی چھٹیوں میں اکٹھے ہوں.اور ماحول ایسا ہو، جو بچے کے ذہن کے مطابق ہو.مثلاً میں نے انہیں کہا کہ وہاں پھل دار درخت لگاؤ اور بچے کو اجازت ہو کہ جب مرضی درختوں سے پھل توڑے.کوئی اس کا نگران نہیں ہونا چاہئے.وہ بچوں کا باغ ہے.اور وہ کھائیں.صرف ان کو یہ سمجھانے والی بات ہے کہ کچے نہ کھانا، پیٹ میں درد ہو جائے گا یا بعض پھلوں میں شروع میں بہت کھٹاس ہوتی ہے، تمہارے گلے میں خراش پیدا ہو جائے گی.لیکن یہ انہیں سمجھانے والی بات ہے.البتہ یہ نہ کھاؤ، ہاتھ نہ لگاؤ ، تو رونہ، یہ نصیحت کسی اور غرض کے لئے ہے.اور بہت سی چیزیں ان کو بتا ئیں.یہ سات سال کا پروگرام تھا اور 15 جگہ دس سے تمھیں ایکڑ تک زمین لینے کا پروگرام تھا.اور ابھی ایک سال پورا نہیں ہوا کہ 4 جگہ جماعت کو زمین مل چکی ہے.اسی طرح سالہا سال سے کینیڈا کہہ رہا تھا کہ ٹورنٹو میں مسجد ہونی چاہیے، مسجد ہونی چاہئے.ٹورنٹو میں ہمارا مرکز ہے.سارے کینیڈا کے امیر ٹورنٹو میں ہیں.لیکن یہ اس ملک کا دارالخلافہ نہیں ہے.وہاں بڑی اچھی جماعت ہے.اور وہ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہے تھے.اب میں نے دورہ کیا تو چند مہینوں کے اندراندرانہوں نے شہر سے باہر، لیکن زیادہ دور نہیں، چند میل کے اندر اندر مسجد اور مشن ہاؤس اور کمیونٹی سنٹر کے لئے ساڑھے چھا یکٹر زمین لے لی.قریباً 50 یا 60 ہزار کینیڈین ڈالر میں.امریکہ اور کینیڈا میں یہ فرق ہے کہ کینیڈا میں ہمارے ان علاقوں کے لوگ یعنی ہندوستان کے اور عرب ممالک کے احمدی اور کچھ پاکستان کے وہاں جا کر آباد ہوئے ہیں اور اکثریت ان کی ہے.کینیڈ نیز احمدی بھی ہیں.لیکن اکثریت یہاں سے گئے ہوئے لوگوں کی ہے.لیکن امریکہ میں بہت بھاری اکثریت امریکنز کی ہے.بالکل اصلی شہری، جو خاندان کہ صدیوں سے وہاں رہتے ہیں.ویسے امریکہ اور کینیڈا میں باہر سے ہی سارے لوگ گئے ہوئے ہیں.ریڈ انڈینز کو تو انہوں نے چل کر رکھ دیا تھا.اب ان میں کچھ جان پڑی ہے.بہر حال بڑا فرق پڑ رہا ہے.جہاں تک افریقہ کا تعلق ہے، اس میں لوگ اب سکولوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ہمیں اور سکول بنا کر دو.ہم گورنمنٹ کی پالیسی کے ساتھ چلتے ہیں.گورنمنٹ کے افسر آتے ہیں اور بڑی تعریف 427
اقتباس از خطاب فرمودہ یکم اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد پنجم کرتے ہیں.اب ایک جگہ بالکل Bush میں سکول کھلا ہے.Bush افریقہ کا محاورہ ہے، یعنی ایسا جنگل جہاں مہذب آدمی کا پہنچنا مشکل ہے.چنانچہ وہاں نصرت جہاں سکیم کے ماتحت سکول کھلا ہے.اور وہاں کا علاقہ حیران بھی ہے اور خوش بھی ہے.اور اس کے افتتاح پر وہاں کے بڑے بڑے افسر ا کٹھے ہوئے تھے اور جماعت احمدیہ کی بڑی تعریف کر رہے تھے اور لوگ بڑے خوش تھے.ان کو علم سکھانا اور ان کو علاوہ دوسری تعلیم کے اسلام کی تعلیم دینا، ہمارا کام ہے.جب میں 70ء میں وہاں گیا تو ایک افریقن دوست مجھے کہنے لگے کہ اب عیسائی ہمارے مبلغوں اور ہماری کتابوں سے تنگ آکر Bush کی طرف بھاگ رہے ہیں.اس کے منہ سے یہ نکلا تو میں نے اسی وقت اس کو کہا کہ.Follow them to the bush تم ان کے پیچھے پیچھے بش کی طرف جاؤ.اب ہم نے ان کو چھوڑنا تو نہیں.اس لئے میں نے کہا کہ آپ شہروں سے بش کی طرف چلے جائیں.چنانچہ اب بش میں بھی کام شروع ہو گیا ہے.اور ان کو زیادہ ضرورت ہے.کیونکہ وہ ہر لحاظ سے بہت پیچھے ہیں.ابھی تک افریقہ میں ایسے علاقے ہیں، جہاں لوگ کپڑے بھی نہیں پہنتے ، پتے وغیرہ باندھ لیتے ہیں یا صرف دھوتیاں پہن لیتے ہیں، مرد بھی اور عورتیں بھی.اور تعلیم بالکل ہے ہی نہیں.ایک فیصد بھی نہیں.پس ہم نے ان کی خدمت بھی کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام وحشی کو انسان بناتا ہے، انسان کو با اخلاق انسان بناتا ہے، بااخلاق انسان کو باخدا انسان بناتا ہے.عرب میں یہی ہوا.اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نیچے بڑی شان سے ہوا.یہاں اتنی دور وہی روشنی نمودار ہوئی ہے، جو عرب سے نکلی تھی.یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا فیض ہے، جو لوگ بالکل وحشی جانوروں کی طرح ہیں ، اب ان کے اندر اسلام پھیل رہا ہے.اور عیسائی عملا وہاں سے مایوس ہو چکے ہیں.ایک وقت میں وہ کہتے تھے کہ افریقہ کے متعلق تو بحث کی ضرورت ہی نہیں.یہ تو ہماری جھولی میں پڑ چکا ہے.اور اب کہتے ہیں کہ اگر ہم ایک آدمی عیسائی کرتے ہیں تو احمدی دس مسلمان بنا لیتے ہیں.لیکن اب بھی وہ اپنے حق میں کچھ مبالغہ آمیزی سے بات کر رہے ہیں.شاید میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ مشرقی افریقہ کے ایک یورپین پادری پچاس سال سے زیادہ عرصہ وہاں تبلیغ کرنے کے بعد بوڑھے ہو کر واپس جارہے تھے.لوگ ان کی دعوتیں بھی کر رہے تھے اور ان کو الوداع 428
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده یکم اپریل 1977ء کہنے کے لئے ان کے گھر پہ جا کر ان سے ملاقات بھی کرتے تھے.ہمارے مبلغ ان سے ملنے گئے تو اتفاقا اس وقت ان کے پاس کوئی اور آدمی نہیں تھا.وہ دونوں تھے.یعنی ایک احمدی مبلغ اور ایک عیسائی مبلغ ، جو واپس جا رہا تھا.تو بے تکلف ماحول میں وہ کہنے لگا کہ کچی بات اگر مجھ سے پوچھتے ہو تو میں نے اپنی پچاس سالہ کوشش کے نتیجے میں صرف ایک عیسائی بنایا ہے.ویسے لیبل لگوالئے ہیں ہزاروں نے کسی نے ہم سے دودھ لینے کے لئے کسی نے آٹا لینے کے لئے کسی نے تعلیمی وظیفہ لینے کے لئے عیسائیت اختیار کی ہے.اور مجھے پتہ ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں.تو ہمارے مبلغ نے کہا کہ ہمارے پاس تو ہر سال ہزاروں بت پرست اور عیسائیوں میں سے جو آتے ہیں، وہ پکے مسلمان ہوتے ہیں.اور بڑی قربانی کرنے والے ہوتے ہیں.بعض دفعہ شرم آتی ہے کہ ہمارے ملک میں بھی لوگ ایسے نہیں ہیں، بعض پرانے خاندانوں میں سے بھی.مثلاً پیسے دینے ہیں، خدا کا مال ہے، اس میں سے خدا کے راہ میں دینا ہے.وہاں سے خبریں آتی رہتی ہیں.ابھی چند دن ہوئے کہ ایک خط میں تھا کہ اتنے احمدی ہوئے اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم چندہ دیں گے.انہوں نے کہا بھی کہ ذرا آرام سے سہولت سے پھر سوچ کر تم اپنے چندے لکھوانا.لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں، جب ہم نے اسلام کو قبول کر لیا ہے تو ہمارے چندے ابھی لکھو.ہم مالی قربانی میں کیوں پیچھے رہیں؟ یہ ایک رو بھی وہاں پیدا ہورہی ہے.اور وہ آگے بڑھ رہے ہیں.بہت سے ایسے علاقے ہیں، جہاں ہم ابھی تک مبلغ بھیج ہی نہیں سکے.پچھلے سال بھی میں نے توجہ دلائی تھی.ہر مشاورت پر میں کہتا ہوں، سب سے زیادہ تو ہمیں اشاعت کتب کی بڑی سخت ضرورت ہے.اور اس کے لئے پریس کی بڑی سخت ضرورت ہے.میں تو جو اپنی ضرورت ہو اور جو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اگر کوشش کرے تو پوری کر سکتی ہے، اس کے مطابق ہدایت دے دیتا ہوں.امریکہ کو میں نے کہا تھا کہ اگلے دس سال میں دس لاکھ قرآن کریم با ترجمہ پھیلاؤ.مفت تقسیم نہیں کرنا بلکہ پھیلانا ہے.کچھ مفت دینا پڑے گا، کچھ لائبریریوں کو پوری قیمت پر دینا پڑے گا.کسی کو نصف قیمت پر دینا پڑے گا.بہر حال A MILLION COPIES OF THE TRANSLATION OF THE HOLY QURAN کی اشاعت کا انتظام کیا جائے.( یہ میں نے اس واسطے کہا ہے کہ ہمارے امریکن نمائندے اس وقت یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.) چنانچہ ان کو میں نے کہا، یہ کام کرو.صرف یہ نہیں بلکہ قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیری نوٹ کے علاوہ اس وقت دنیا اسلام کی تعلیم مانگ رہی ہے.خصوصاً جو آج کی دنیا کا مسئلہ ہے، اس کے متعلق ، یعنی سود کے متعلق ، اقتصادیات کے 429
اقتباس از خطاب فرموده یکم اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم متعلق بڑے بڑے چوٹی کے دماغ لڑ پڑے ہیں.دماغ دماغ سے لڑ پڑا ہے.اشتراکیت نے اپنے اصول بنالئے ،سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے اصول بنالئے.لوگ کہتے ہیں، ہمیں تو کچھ مجھ نہیں آ رہا.کوئی صحیح بات اور ہمارے مسائل کو حل کرنے والی تعلیم ہمارے سامنے رکھو؟ ہمیں بتاؤ کہ اسلام کیا کہتا ہے؟ اور اس کے لئے کتابیں چاہیں.یہ ساری تمہید میں ابھی آپ کو بتاؤں گا کہ کیوں شروع کردی ہے؟ کتابوں کی بڑی سخت ضرورت ہے.کل پولینڈ سے خط آ گیا.پولینڈ ، جو کہ کمیونسٹ ملک ہے، وہاں بھی ہماری جماعت بن گئی ہے.وارسا کے نو جوان امام جلسہ سالانہ پر یہاں آئے ہوئے تھے.آپ میں سے بہت سے لوگوں نے ان سے ملاقات کی ہوگی.ان کا خط آیا ہے کہ وہاں حکومت قرآن کریم کاpolish (پویش) زبان میں ترجمہ کروانا چاہتی ہے.انہوں نے ایک کمیٹی بنادی ہے.اور اس کمیٹی نے ان کو کہا ہے کہ تم ہماری مدد کرو.چنانچہ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں فوراً Material دو.دیر ہو گئی تو پھر وہ مجھے نظر انداز کر جائیں گے.اور پوشش زبان بولنے والے عوام کے سامنے غلط باتیں آجائیں گی.پس یہ ضرورت ہے.یوگوسلاویز کہتے ہیں کہ ہمیں کتابیں دو.خالی یہ کہ دینا کہ ی فلاں اچھا مسلمان ہے یا فلاں برا مسلمان ہے، اس سے تو دنیا کو کوئی فائدہ نہیں.دنیا تو یہ چاہتی ہے کہ اسلام کی جو حسین اور اچھی تعلیم ہے، وہ ہمارے ہاتھ میں دو.دنیا اپنی بداخلاقی سے بہت تنگ آئی ہوئی ہے.انہوں نے خود ایسے حالات پیدا کئے ہیں.کئی ملین حرام کے بچے صرف امریکہ میں پیدا ہو جاتے ہیں.اور یہ کہتے ہیں کہ امریکہ جیسا مہذب بننا چاہیے.ایسے لوگ بھی ہیں، ہمارے ملک میں.پتہ ہی نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں؟ منہ سے کیا نکال رہے ہیں؟ یہ ساری چیزیں سوچنے کے لئے اب ایک چھوٹی سی بنیاد بن گئی ہے" حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خوش ہوا اور خوشی سے اچھلو کہ غلبہ اسلام کی بشارت مل گئی.تو اب ہم نے اچھل کر آگے جانا ہے.آستہ آہستہ قدم نہیں اٹھانا، رینگنا نہیں بلکہ اچھل کر تیزی سے آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے.اب ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ جماعت کے سامنے مختلف جگہوں کے حالات رکھے جائیں.میرے پچھلے دورے کی تھوڑی سی سلائیڈ ز تھیں، وہ پانچ ، سات جگہ ہی دکھائی ہیں.جہاں بھی دکھائی ہیں، وہاں دو، دوسو ایسے دوستوں نے دیکھی ہیں، جو احمدی نہیں تھے.اپنے احمدیوں نے تو بعض جگہ شور مچادیا وو 430
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده یکم اپریل 1977ء کہ اتنا کام ہورہا ہے اور ہمیں بھی نہیں پتہ کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے؟ پس جو بھی ابلاغ کے، باتوں کو پہنچانے کے ذرائع ہیں، وہ مہیا ہونے چاہئیں.ایک تو مثلاً الفضل ہے.یہ بھی اپنی رٹ میں پڑا ہوا ہے.کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے تو میں چھوٹا سا نوٹ تیار کے ان کے سپر د کر دیا کرتا ہوں ( کبھی افریقہ سے کوئی خط آ گیا، سےخط یہ میں شائع کبھی کوئی امریکہ سے خط آگیا، بڑی دلچسپ باتیں ہوتی ہیں.) کہ یہ نوٹ الفضل میں شائع کر دوں.کبھی کبھی چھپتے رہتے ہیں.آپ دیکھ لیتے ہوں گے.تحریک جدید کو کوئی ایسا انتظام کرنا چاہیے کہ باہر سے جتنی رپورٹیں آئیں ، ان کا خلاصہ ضرور الفضل میں چھپ جائے.لیکن اگر چھپ بھی جائے تو آپ سارے افضل خریدتے نہیں.جو خریدتے ہیں، وہ پڑھتے نہیں.کم از کم مساجد میں یہ چیزیں تو سنا دیا کریں.میرے خطبے ہیں، میں کوشش کرتا ہوں ( پتہ نہیں خدا کے نزدیک قبول ہوتی ہے یا نہیں.) کہ کوئی نہ کوئی کام کی بات آپ کو خطبے کے ذریعے پہنچا دوں.دیکھیں ، شاید آپ میں سے کسی کو فائدہ ہو جائے.خدا تعالیٰ کے جو فضل باہر ہورہے ہیں، بحیثیت جماعت وہ آپ کے سامنے آنے چاہئیں.آپ کو دوسروں کو بھی بتانا چاہئے.شور مچادیا کہ جی انہوں نے اپنا کلمہ اور بنا لیا.یہ جو سلائیڈ ز دکھائی گئیں، ان سے پھر اور آگے خیال آتا ہے.دس پندرہ مساجد تھیں.اب یہ کہ ان کا کلمہ اور ہے، نیو یارک کی مسجد، واشنگٹن کی مسجد، ڈیٹن کی مسجد، ہیمبرگ کی مسجد ، سلائیڈز میں ان کے اوپر لا الہ الا الله محمد رسول اللہ دیکھ کر غیر احمدیوں نے کہا، یہ کیا ؟ مولوی تو کہتے تھے کہ ان کا کلمہ اور ہے.دنیا میں ہر جگہ مسجدوں کے اوپر یہ کلمہ لکھا ہوا ہے.ویسے مسجد پر کلمہ لکھنا تو ضروری نہیں ہے.لیکن اگر لکھا ہوا ہو تو وہ ہماری تبلیغ کا ذریعہ بن جاتا ہے.قرآن کریم کا رسم الخط بھی اتنا مختلف ہے کہ ایک عربی بولنے والے ملک کے سفیر نے راولپنڈی میں ہمارے ایک احمدی کو کہا کہ یہ تحفہ میری طرف سے (میرے متعلق کہا کہ ) ان کو دے دینا.ایک نسخہ غالبا ان کو بھی دیا.کہنے لگا کہ اس کو پڑھ سکتے ہو؟ ہم لوگ تو چونکہ پڑھتے رہتے ہیں، جو احمدی حافظ نہیں ہیں، وہ بھی قرآن کریم کثرت سے پڑھتے ہیں، اس واسطے ان کے لئے مشکل نہیں ہوتا.لیکن وہ ایسے رسم الخط میں تھا، جو اس ملک کا قرآن کریم کا رسم الخط ہے.اور عام آدمی اس کو پڑھ ہی نہیں سکتا.اب کوئی بیٹھے ہوئے اعتراض کر دے کہ انہوں نے قرآن کریم اور بنالیا ہے، رسم الخط کے فرق کے ساتھ.تو یہ تو ض لاعلمی کی دلیل ہے.پس اگر صحیح چیزیں سامنے آجا ئیں تو یہ غلط فہمیاں بھی دور ہو جاتی ہیں.بہر حال دنیا میں اسلام کے حق میں ایک بڑی تبدیلی پیدا ہورہی ہے.اور وہ جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالنے والی ہے.ہمارے مسائل بدل رہے ہیں ، ہماری قربانیوں کی شکل بدلے گی.ورنہ کوئی 431
اقتباس از خطاب فرموده یکم اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اور قوم آگے نکل آئے گی اور پھر وہ آکر لیڈرشپ سنبھال لے گی.اگر خدا نے ان کی قربانیوں کو قبول فرمایا لیکن میر اول تو یہ کرتا ہے کہ وہ خطہ ارض ، جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا ہوئے اور جہاں مرکز بنا کسی وقت مرکز وہاں سے کسی اور جگہ نہ چلا جائے.پچاس سال بعد یاد و سو سال بعد بھی نہیں.دو ہزار سال بعد بھی نہیں.مرکز تو یہیں رہنا چاہیے.لیکن دکھاوے کا مرکز نہیں.بلکہ عمل کا مرکز، نمونے کا مرکز، اسوہ کا مرکز ، ساری دنیا کی خیر خواہی کا مرکز ، پیار کا مرکز ، ساری دنیا کی خدمت کا مرکز.یہ تو یہیں رہنا چاہیے.یہ تو ایسی ذمہ داری ہے، جس کے لئے زمین کے چپہ چپہ پر پیغام حق پہنچانا پڑے گا.22.ان حالات کے مطابق جماعت کو علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے مطابق سوچ کے طریق بدلنے چاہئیں.اور ایک انقلاب جو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اسلام کے حق میں ساری دنیا میں پیدا کر رہے ہیں، اس انقلاب میں اپنے ثواب کا حصہ لینا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے ہم پر جو احسان فرمایا ہے کہ ہمیں مفت کا ثواب مل جائے ، وہ ہم کیوں چھوڑیں؟ جو آسمانوں پر فیصلہ ہوا، وہ رونما ہونا تو ہے اور ہورہا ہے.ہم نے جو قربانیاں دیں، اس کے مقابلہ میں نتائج اتنے عظیم نکل رہے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے.اور اگلے پانچ ، سات سال میں دنیا بالکل بدل جائے گی.ایک بہت بڑے عربی بولنے والے مسلمان ملک کا ایک بہت بڑا افسر جب ایک احمدی کو ملا تو اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی میں ترجمہ اس کے پاس تھا.کہنے لگا کہ میرے پاس سب سے قیمتی متاع یہ کتاب ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اسلامی اصول کی فلاسفی اور کہنے لگا کہ اگر یہ کتاب جدہ سے چھپ جائے تو دنیا کے مسلمان اس کو آنکھوں سے لگا ئیں اور چو میں.لیکن یہ تعصب ہے کہ اگر ایسی عظیم کتاب مہدی کی طرف سے چھپے، جس کو تم نے پہچانا نہیں تو اس کی افادیت، اس کی عظمت، اس کی قدر و قیمت سے واقف ہونے کے بعد بھی اسے قبول نہ کیا جائے اور تعصب جاری رہے.لیکن یہ تعصب زیادہ عرصہ تک نہیں رہتا.اس واسط پتہ نہیں بکل اور کیا انقلاب رونما ہو جائے ؟ لیکن یہ اچھی طرح یاد رکھیں کہ ہمارا انقلاب سر پھوڑنے والا انقلاب نہیں بلکہ سر جوڑنے والا انقلاب ہے.اور سر جوڑنے کے لئے ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.اور یہ پیار سے رونما ہونے والا انقلاب ہے.ہمارا انقلاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب ہے.اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب کے متعلق قرآن کریم میں یہ کہا گیا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہو.کیونکہ وہ تمہیں اس لئے بلاتا ہے تا زندہ کرے.یہ نہیں فرمایا کہ بلاتا ہے تا تمہیں قتل کرے.کیونکہ اسلام قتل کرنے کے لئے نہیں بلکہ زندہ کرنے کے لئے ہے.یہ ایک ایسی وہ 432
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده یکم اپریل 1977ء زندگی ہے، جس سے حسین زندگی اس دنیا میں بھی سوچی نہیں جاسکتی.اور جس سے حسین زندگی کا اگلے جہاں میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.خدا کی رضا کی جنتوں سے بڑھ کر اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟ پس یہ انقلاب، جو پیار کا، جو محبت کا، جو خدمت کا، جو ہمدردی کا انقلاب ہے، جو اخوت کا انقلاب ہے، یہ انقلاب آہستہ آہستہ بپا ہو رہا ہے اور Momentum gain کر رہا ہے.یعنی اس کے اندر تیزی پیدا ہو رہی ہے.تو اس ماحول میں، آج کی دنیا کے ماحول میں، اب ہر سال ہی تبدیلی پیدا ہورہی ہے.مشاورت میں نئے حالات کے مطابق دوست اپنے ذہنوں کو تیار کر کے یہاں آیا کریں.اور اس کے لئے جماعت کے نظام کا یہ فرض ہے کہ آپ تک باتیں پہنچا ئیں کہ دنیا میں کیا ہو گیا؟ اور کیا ہورہا ہے؟ بعض دفعہ بڑا دکھ ہوتا ہے.مجبوری بھی ہے اور اپنی کمزوری اور غفلت بھی ہے.Italian (اٹالین ) میں قرآن کریم کا ترجمہ ہمارے پاس موجود ہے، روسی میں قرآن کریم کا ترجمہ موجود ہے.لیکن چونکہ ان زبانوں کے جاننے والے احمدی نہیں اور کسی غیر احمدی نے بلکہ غیر مسلم نے ترجمہ کیا ہوا ہے، اس لئے ہم ان کو شائع نہیں کر سکتے.کیونکہ اگر غلطیاں ہوئیں تو ان کی ذمہ داری ہم پر آجائے گی.پہلے جو بچے پیدا ہوئے، ہم نے ان کی طرف توجہ نہیں کی.ایک بچہ ہے، اللہ تعالیٰ اس کو ذہانت بھی دے اور اس کے جذبہ کو قائم بھی رکھے.وہ کئی زبانیں بڑی اچھی طرح سیکھ رہا ہے.اور ان میں روسی زبان بھی ہے.اور وہ گھر میں ہی سیکھ گیا ہے.اب انتظام کر رہے ہیں.لیکن اس کو پانچ ، چھ سال لگیں گے.اور ہمارا دل کرتا ہے کہ روی ترجمہ قرآن جلدی سے چھپ جائے.دعا کریں کہ کوئی اچھا مخلص روی احمدی مسلمان مل جائے اور Revise کرے.پہلے تو وہ ہماری کتابیں پڑھے، ہماری کتابوں کے تراجم پڑھے.بہر حال اس وقت اتنی ضرورت ہے کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے.میرے پاس مطالبے آتے ہیں، حالات سامنے آتے ہیں.آپ کے سامنے جو کچھ آسکتا ہے، وہ بھی نہیں آتا.میں شرمندہ ہوں.یہ تحریک جدیداور ہمارے دفتر کا کام ہے.باہر سے کوئی رپورٹ ایسی ہو، جو جماعت کے سامنے آنی چاہیے تو میرے دفتر کا کام ہے کہ دو صفحے کا ایک چھوٹا سا نوٹ لکھے، دوسطروں کا نوٹ لکھے، یہ بھی خبر ہو سکتی ہے.ایک یورپین ملک کے ایک یورپین احمدی نو مسلم کو وہاں کے ایک اخبار نے کہا کہ تم مکے اور مدینے جاؤ اور ہمارے لئے مضامین کا ایک سلسلہ لکھو.عمرہ تو ہر وقت ہو سکتا ہے اور حج سال میں ایک دفعہ ہوتا ہے.لیکن سارے حالات وہاں لکھو.اس نے جب ویزے کے لئے درخواست دی تو سعودی ایمبیسی نے کہا کہ تم تو اس ملک کے رہنے والے ہو، پتہ نہیں مسلمان ہو یا نہیں؟ ہمیں سرٹیفیکٹ چاہئے کہ واقعی تم مسلمان ہو تو اس 433
اقتباس از خطاب فرموده یکم اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم نے ہمارے مبلغ سے سرٹیفکیٹ لیا اور وہ انہوں نے تسلیم کر لیا.ہمیں یہاں ہمارے ملک سے حج پر جانے سے بعض لوگ روک دیتے ہیں.( میں جان کر بعض لوگ کہہ رہا ہوں.) اور وہاں سعودی ایمبیسی نے ہمارے مبلغ کے سرٹیفکیٹ کو تسلیم کر لیا کہ یہ مسلمان ہے اور اس کو ویزہ دے دیا.وہاں سے ایک دوست آئے ہوئے تھے.میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ طریق تو اب ختم ہو گیا.اب جو بھی ویز اما نگے ، خواہ ان کو پتہ ہی ہو کہ وہ احمدی ہے، اب وہ یورپ میں اسے نہیں روکتے.ایک یہ تبدیلی آگئی ہے.خدا تعالیٰ نے جو فیصلہ فرمایا ہے، اس کے حق میں تو خدا تعالیٰ نے تبدیلیاں کرنی ہیں.یہ تو گھبرانے والی بات ہی نہیں ہے.قرآن کریم نے بار بار اعلان کیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت میرے مقابلے میں آکر مجھے عاجز اور نا کام نہیں کر سکتی، معجز نہیں بن سکتی.بار بار فرمایا ہے.اس واسطے جو خدا کے کام ہیں، وہ تو بہر حال ہوں گے.لیکن جو ہمارا کام ہے کہ اپنے لئے نیکیاں سمیٹ لیں، وہ ہم نے کرنا ہے.وہ فرشتوں نے نہیں کرنا.فرشتوں نے آپ ثواب کما کر آپ کی جھولیاں نہیں بھرنی.اپنی جھولیاں بھرنے کے لئے خود آپ کو کام کرنا پڑے گا.باقی جو خدا کا کام ہے، وہ تو ہوگا.ایک نسل مرجاتی ہے تو دوسری کھڑی ہو جائے گی.جہاں سے ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا، وہاں سے ہماری ترقی کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.کئی سال کی بات ہے، نائیجیریا کے شمالی علاقوں میں، جہاں وہ بظاہر جماعت کو گھنے نہیں دیتے تھے، کیونکہ مسلم نارتھ میں بڑا سخت تعصب پایا جاتا تھا.جب نصرت جہاں سکیم کے ماتحت وہاں سکول کھولے گئے، بعد میں انہوں نے سکولوں کو نیشنلائز کیا تو وہاں جو وز یر صاحب آئے ، انہوں نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ تو جماعت سے بڑا تعلق رکھتا ہے، اس سے ایک آدمی ملنے چلا گیا.اس نے کہا، میں تو بچپن کے زمانے کا احمدی ہوں.اور ہنس کر کہنے لگا کہ میرے جیسے اور بھی 6-5 بڑے بڑے افسر یہاں احمدی ہیں.مگر یہاں کے حالات کے مطابق ہم نے اپنے آپ کو چھپایا ہوا ہے.اب یہ افریقن تھے.پس خدا تعالیٰ نے انتظام کیا ہوا ہے.احمدیت تو پھیل رہی ہے.کمیونسٹ ممالک میں چلی گئی ، ایسے ممالک میں چلی گئی، جو لاعلمی کی وجہ سے تعصب کرتے ہیں.ہمیں غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ، لا علمی کی وجہ سے یہ تعصب ہے.اگر علم ہو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس پیار کا اظہار کیا ہے، محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے.وہ چودہ سو سال میں کسی اور کے دل میں ہمیں نظر نہیں آتا.یہاں پاکستان کا ایک بہت بڑا مولوی ہے، وہ ایک دن اپنی مجلس میں بیٹھا ہوا کہنے لگا، لوگ پتہ نہیں کیا با تیں کرتے ہیں؟ اس کا یہ اعتراض تھا کہ میں تو سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ( اس نے کہا ہوگا کہ مرزا غلام احمد 434
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده یکم اپریل 1977ء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں غلو سے کام لیا ہے.اتنی زیادہ تعریف کی ہے، جتنے وہ مستحق نہیں تھے.نعوذ باللہ تو یہ دوسرا اعتراض ہے.بہر حال جو خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام دیا ہے، وہ توکسی اور کو نہیں دیا.ہم جانتے ہیں اور علی وجہ البصیرت جانتے ہیں.پس غلو تو ہو نہیں سکتا.باقی جیسا کہ میں نے کہا ہے، اپنی فکر کرنی چاہیے.ہم نے اپنی جھولیاں تو خود ہی بھرنی ہیں.میں نے افریقہ کو کہا تھا، تعلیمی میدان کے لئے.اور حالانکہ وہ بہت پیچھے ہیں، وہ سمجھ گئے تھے.آپ بھی سمجھ جائیں گے.میں نے کہا تھا کہ تمہارے لئے تقدیر کے درخت پر پھل تو بڑے لگے ہوئے ہیں پر تمہاری جھولیوں میں نہیں گریں گے.یہ پھل تو تمہیں خود توڑنے پڑیں گے.آپ کو بھی میں یہی کہتا ہوں کہ آپ کی جھولیوں میں تو اب نہیں گرے گا، آپ کو ثواب حاصل کرنے کے لئے خود کوشش کرنی پڑے گی.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ یکم تا 103 اپریل 1977ء) 435
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 2 0 اپریل 1977ء جو چندہ نہ دیتا ہو، اس کو چندے کی افادیت بتاؤ ، ضرورت بتاؤ سمجھاؤ ارشادات فرمود و 102اپریل 1977 ء بر موقع مجلس شوری....جب تک آپ کے اوپر دباؤ نہیں پڑے گا، اس وقت تک آپ ٹھیک کام ہی نہیں کر سکتے.دونوں طرف یعنی مرکز میں بھی اور مقامی جماعتوں میں بھی.اور یہ دباؤ طاقت کا دباؤ نہیں.اس واسطے جو گورنمنٹ کرتی ہے، اس کی تو مثال ہی نہیں دینی چاہئے.کیونکہ گورنمنٹ کا سارا دباؤ طاقت کا ہے.حکومت کہتے ہی طاقت کو ہیں.ملکی طاقت ساری ایڈ منسٹریشن کے ہاتھ میں ہے، وہ کام کرتے ہیں.لیکن یہاں رضا کارانہ دباؤ ہے.بڑا عجیب دباؤ ہے.مثلاً میں خطبہ دیتا ہوں، دس لاکھ کاArrear ہوتا ہے، وہ جماعت آرام سے پندرہ دن میں پورا کر دیتی ہے.جماعت کے عمل میں جو حسن ہے، اسے مٹانے کی کوشش نہ کریں.حسن یہ ہے کہ ہمارے مخالفوں نے 70ء میں الزام لگایا تھا کہ نصرت جہاں ریز روفنڈ نصرت بھٹو کی سیاسی مدد کے لئے کھولا گیا ہے.اور ایڈمنسٹریشن کے بعض حصے، اس وقت اس سے پہلی حکومت تھی ، پنجاب میں ہمارے گورنر ، جنرل (ریٹائرڈ) عتیق الرحمن صاحب تھے.ہمارے مخالفوں نے تقریر میں شور مچایا ہوا تھا.میں نے کہا کہ ان کو کچھ سمجھانا چاہیے کہ ہماری زندگی اور قسم کی ہے.میں ان کو ملنے گیا.میں نے کہا کہ آپ کے پاس اس قسم کی رپورٹیں پہنچی ہوں گی.میں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں پاگل سمجھتے ہیں؟ نصرت جہاں ریز روفنڈ میں چندہ دینے والوں میں سے ایک مثال میں دے دیتا ہوں.انگلستان کی جماعت کے احباب کو میں نے خط لکھا کہ جو تمہارا حصہ رسدی بنتا ہے، تمہیں ادا کرنا چاہئے.ایک غیر شادی شدہ نوجوان کا مجھے خط آیا کہ اس طرح آپ کی طرف سے تحریک ہوئی اور 200 پاؤنڈ ، اس زمانے کے لحاظ سے پانچ ہزار روپیہ، میں نے نصرت جہاں کا وعدہ کیا ہوا تھا، عام چندے تو وہ اپنی جگہ دیتا تھا.دوسو پاؤنڈ میں نے اپنی شادی کے لئے جمع کئے تھے ، چند مہینوں تک میں شادی کرنا چاہتا تھا.اور آپ نے تحریک کی ، میں نے اپنی شادی کے لئے جمع شدہ رقم نصرت جہاں کے لئے دے دی.اور میں نے کہا، شادی میں اگلے سال کرلوں گا.یہ جوحسن ہے، جماعت کے عمل میں یہ تو قائم رہے گا.میں نے ان کو کہا کہ آپ ہمیں پاگل سمجھتے ہیں کہ جو اس جذبہ کے ساتھ چندہ دے رہا ہے، وہ ہم سیاسی اغراض پر خرچ کر دیں گے؟ یہ تو اس کام کے لئے نہیں.437
ارشادات فرمودہ 02 اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم - پھر خدا تعالیٰ نے برکت ڈالی.ایک چھوٹی سی جماعت ، دنیا کی دھتکاری ہوئی ، وہ خدا کی راہ میں اس قسم کی قربانی پیش کر رہی ہے.میں نے جلسہ سالانہ پر بتایا تھا کہ وہاں ہمارے قریب سترہ ہسپتال کام کر رہے ہیں.اس وقت وہ کلینک تھے اور میں کلینک چلانے کے لئے ایک ڈاکٹر کو 500 پاؤنڈ دیتا تھا.اس ہدایت کے ساتھ کہ کوئی بالکل معمولی جھونپڑی لے لو، وہاں بیٹھ جاؤ.تم نے خدمت کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کی ہے.وہاں بیٹھ کر بیمار کی خدمت کرو.جو آدمی نہیں نہیں دے سکتا، اس کا مفت علاج کرو.اصل تو یہ غرض تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے امیر کو کہا کہ اس جھونپڑی میں ایک فقیر منش ڈاکٹر بیٹھا ہے، اس سے جا کر علاج کرواؤ، اس کے ہاتھ میں شفا ہے.اور وہ آکر بڑے پیسے دے دیتا تھا.آپریشن کرواتا تھا.اور بعض دفعہ ایک آدمی دس، دس ہزار فیس دے دیتا تھا.یہ نصرت جہاں ریز روفنڈ کا چندہ ہے، جس کی ادائیگی کے سلسلہ میں ، میں نے ایک نوجوان کی مثال بیان کی ہے کہ جس نے کہا، میں شادی اگلے سال کرلوں گا اور اس سال میں نصرت جہاں کے پیسے دے دیتا ہوں.اس اخلاص سے دیئے ہوئے چندے میں خدا تعالیٰ نے اتنی برکت ڈالی کہ جو خدا کے حضور جماعت نے مجموعی طور پر کم و بیش 53لاکھ پیش کیا، اس کے مقابلہ میں تین کروڑ سے زیادہ افریقہ میں Invest ہو چکا ہے، سرمایہ لگ چکا ہے، خرچ ہو چکا ہے.وہ کہاں سے آیا؟ وہ خدا تعالیٰ کی برکت سے آیا.پس یہ دباؤ تو ر ہے گا.یہ اندر کا دباؤ ہے.دباؤ یہ ہے کہ ہر نفس، ہر مخلص دل یہ سمجھتا ہے کہ میں خدا کی راہ میں قربانی کروں گا تو میں بھوکا نہیں مروں گا.70ء میں یہ نصرت جہاں کا منصوبہ تین سال کے لئے جاری ہوا تھا.اب تو اکا دکا آدمی خط لکھتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ مجھ سے پیسے لے لیں، ورنہ ہم حساب Close کر چکے ہیں.یہ سکیم خدا کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہے.اللہ نے بڑا رحم فرمایا.میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے.مگر خدا تعالیٰ تو ساری قدرتوں کا مالک ہے.اس نے کر کے دکھا دیا.میں نے انہیں کہا تھا ، سولہ سکول، سولہ ہسپتال بنانے ہیں، جو سولہ جھونپڑیاں ان کو شروع میں دی تھیں، ان میں سے میرے خیال میں بارہ یا شاید اس سے بھی زیادہ پورے ہسپتال کی عمارتیں بن چکی ہیں.اور ایک ایک عمارت کے اوپر بہت بڑا خرچ آیا ہے.میرے خیال میں عمارتوں پر جتنا چندہ دیا گیا ہے، اس سے دگنا خرچ ہو چکا ہے.اس کی Equipment بہترین سائنس کے جراحی کے آلات اس کے اندر لگا دیئے گئے ہیں.اتنی برکت ! یہ تو دنیا میں نظر آیا.دنیا میں خدا تعالیٰ برکت اس واسطے دیتا ہے کہ اب جس شخص نے ، مثلاً زید ہے، اس نے کہا، میں شادی اگلے سال کرلوں گا، وہ دوسو پاؤنڈ دے دیتا ہے، 438
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 02 اپریل 1977ء یہ جو برکت وہاں ظاہر ہوئی کہ 53 لاکھ کی بجائے خدا تعالیٰ نے کلینک کی آمد میں اتنی برکت ڈالی کہ کلینک بھی ہسپتال بن گئے اور سکولوں کی عمارتیں بھی بن گئیں.مجلس مشاورت سے دو دن پہلے صرف غانا سے عبدالوہاب بن آدم نے قریب تھیں، چالیس ہزار پاؤنڈ کی Demand کی تھی کہ فلاں ڈاکٹر کو یہ ضرورت ہے.ہسپتال کی عمارتیں بن گئی تھیں.ایک اور نیا Wing چاہئے.آپریشن تھیڑ کو بڑھایا جائے ، رہنے کی جگہ دی جائے ،سکول کا ایک نیا Wing بنایا جائے ، سکول کی نئی کلاسز بنائی جائیں.میرے خیال میں ایک ملک کا تھیں، چالیس ہزار پاؤنڈ کا مطالبہ تھا.اور یہ مطالبہ نہیں تھا کہ پیسے بھیجیں جائیں.یہ مطالبہ تھا کہ ہمیں خرچ کرنے کی اجازت دیں، پیسے.تو غانا کے پیسے غانا میں خرچ ہوتے ہیں.غانا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا ہے.وہ باہر سے نہیں مانگتا.اس واسطے و خلافت کی جو برکت ہے، وہ لیتے ہیں.ان کی چیز ہے، وہ کہتے ہیں کہ آپ ہمیں اجازت دیں، ہم اس میں سے خرچ کر دیں.میرا یہ کام ہے کہ میں یہ دیکھوں کہ غانا کے اندر کچھ ہسپتالوں کی ضرورتیں ہیں، کچھ سکولوں کی ضرورتیں ہیں، ان کو کس نسبت سے ترجیح دینی چاہئے؟ یہ میں Suggest کر دیتا ہوں کہ ہسپتال اس ضرورت کو چھ مہینے کے لئے ملتوی کر دے، سکول کی فلاں ضرورت میرے نزدیک زیادہ اہم ہے، وہ پہلے پوری کر لیں.ان کے پیسے ہیں ، وہاں خرچ ہو جاتے ہیں“.,, وہ یہ دوطرفہ کوشش ہونی چاہئے.جو توجہ دلانے والے ہیں اور جن کو توجہ دلائی جاتی ہے، ان میں بڑا فرق ہوتا ہے.دو چار دن ہوئے ، مجھے اسلام آباد سے یہ رپورٹ ملی کی صرف صد سالہ جو بلی کے ضمن میں اب تیسر اسال ختم ہورہا ہے.تین سالوں کا چندہ 1/5 ادا ہونا چاہئے ناں تو انہوں نے لکھا کہ اس سے پہلے دو سالوں میں بہت سستی تھی.بہر حال کوئی عہدیدار مقررتھا، اس کام کے لئے اور اس سال مجھے ( اس فقرے کو میرے دماغ نے نوٹ کیا اور یا در کھا) ایک بہت اچھاور کر مل گیا.اور اس نے سال رواں میں جو کہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا، ویسے ان کے لحاظ سے اب اس مہینے میں ختم ہو گیا ہے.پچھلے دو سال کے برابر صد سالہ جوبلی کے انہوں نے پیسے اکٹھے کر لئے.اور جو ایک سال میں 1/15 کے لحاظ سے بنتا ہے، قریب وہ رقم وصول کر لی.دو، تین آدمیوں نے ابھی نہیں دیا، وہ کوشش کر رہے ہیں.پس ان کی آمد قریباً ڈبل ہو گئی ، آدمی بدلنے کے ساتھ.کئی آدمی ہیں.ہماری اپیل ہے دماغ کو اور دل کو ، اس کا جذبہ تو ہے، اس کو جھنجھوڑنے کی ہمیں ضرورت ہے.کئی لوگ اپنے آپ کچھ سمجھتے ہیں.ایسے آدمی کو بھی خدا نے کہا ہے.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ (سورة مجم : 33) 439
ارشادات فرمودہ 02 اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اپنے آپ کو بڑا نہ سمجھا کرو سمجھتے ہیں، میں دیتا ہوں، تو کیوں نہیں دیتا؟ یہ کیا سوال ہے؟ اس کو چندے کی افادیت بتاؤ، ضرورت بتاؤ.ابھی خرچ کا زمانہ تو جب ریز رو بن کر شکل بنے گی ، پھر ہوگا.لیکن کچھ ایسی ضرورتیں ہیں ، میں نے تقریر میں اس کی تفصیل بتائی ہوئی ہے کہ دوران زمانہ یعنی جو پندرہ سال کا زمانہ ہے، اس کے دوران بھی ہمیں کچھ خرچ کرنا پڑے گا.++ چنانچہ گوٹن برگ کی مسجد بن گئی.پھر انگلستان میں ایک پریس کے لئے میں نے کہہ دیا تھا.ابھی اس میں کچھ قانونی وقتیں ہیں.کیونکہ ہمیں اس وقت پریس کی بڑی سخت ضرورت ہے.لیکن یہ ضرورتیں پوری ہوئی ہیں.ان کا اپنا بڑا فائدہ ہے.اور جب رقم جمع ہو جائے گی تو انشاء اللہ اس بہت بڑی رقم سے اگلی صدی کے شروع میں خاصی Boast ملے گی.لیکن یہ ساری چیزیں کام کرنے والوں کو مد نظر رکھنی پڑیں گی.جو آگے پیسے لینے کے لئے جانے والا ہے، اگر اس کو خود نہیں پتہ کہ یہ چندہ کیوں لیا جا رہا ہے (میں نے اس سلسلہ میں صد سالہ جو بلی فنڈ کی مثال دی ہے.باقی سارے چندوں کا بھی یہی حال ہے.تو وہ اگلے سے نہیں منوا سکے گا.حالانکہ اگر ان کو سمجھایا جائے تو وہ اپنے وعدے پورے کر دیتے ہیں.اب جرمنی میں مجھے دورے میں پتہ لگا.یورپ میں ہمارے کچھ لوگ چند سالوں سے گئے ہوئے ہیں تو ان میں سے بعض بڑے سست بھی تھے.میں نے انہیں کہا کہ مجھے ان کے پتے دے دو.تو سب نے تو مادیئے.اب ان کو کہا ہوا ہے، پتے آجائیں گے.لیکن بعض ملکوں نے دے دیئے.ان کو ہر فرد کے نام میرے دستخطوں سے خط لکھا گیا اور ان کے نام یکدم پوسٹ ہو کر آگے چلا گیا.ان کو میں نے یہی سمجھایا کہ صرف میری تو ذمہ داری نہیں ہے یا دوسروں کی ذمہ داری نہیں.جیسی میری ذمہ داری ہے کاموں کے کرنے کی ، ویسی تمہاری ذمہ داری ہے.تم کیوں نہیں حصہ دار بنتے؟ میں تو فوج میں نہیں رہا.لیکن میں نے سنا ہے کہ فوج میں ایک محاورہ ہے، He produce the result کہ فلاں افسر نتائج پیدا کرتا ہے.اور مجھے ان کا یہ محاورہ بڑا پیارا لگا ہے.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کی Effort کتنی ہے؟ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی Efront ، اس کی کوشش ، اس کی محنت، باشمر ہے یا نہیں ہے؟ تو اگر ایک شخص بظاہر بڑا محنت کرنے والا ہے لیکن نتیجہ نہیں نکالتا تو از ما اس کے اندر کوئی خامی ہے.اس کو آپ بدل دیں.اس کو کوئی احساس ہونا چاہئے کہ مجھے کیوں بدلا؟ کیونکہ ہماری اصل غرض تو اپنے کام سے ہے.وہ کام ہمارا ہونا چاہیئے.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ کی تا 03 اپریل 1977ء) 440
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء جامعہ احمدیہ کی غرض جامعہ کے ماحول کے بغیر نہیں پوری ہو سکتی ارشاد فرمودہ 103 اپریل 1977ء بر موقع مجلس شوری اس تجویز پر کہ جماعتی ضروریات کے پیش نظر جامعہ احمدیہ کا کورس اوپن یونیورسٹی کی طرز پر پڑھایا جائے اور کامیابی پر سندات دی جائیں ، بحث و تمحیص کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.ایک رضا کار معلمین کی سیکم جاری کی گئی تھی اور منصوبہ بنایا گیا تھا.اس میں مقصد یہ تھا کہ ایک گاؤں سے ایک وقت میں ایک سال میں مثلاً ایک آدمی یہاں آتا ہے، وہ بہت کچھ سیکھتا ہے.پھر وہ گاؤں میں جاتا ہے، ہر وقت اس کا علم گاؤں والوں کے لئے موجود ہے.وہ ان کی راہنمائی کر سکتا ہے، ان سے تبادلہ خیال کر سکتا ہے، انہیں سکھا سکتا ہے.اور اتنی بڑی جماعت ہے اور ایک کلاس میں پانچ ، سات آدمی آرہے ہیں.یہ جو کلاس آپ کہتے ہیں ، خط و کتابت کے ذریعے دینی علوم سکھانے والی، اگر ہم آج کھول دیں تو مجھے یقین ہے کہ دس پندرہ سے زیادہ آدمیوں کے خط ہی نہیں آئیں گے کہ ہم اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں.ایک خواہش ہے، ایک ضرورت ہے.اور ضرورت ہمیں نظر آتی ہے لیکن اس کو پورا کرنے کے لئے جو طریق اس تجویز میں پیش کیا گیا ہے، میں صرف اس کے متعلق کچھ کہوں گا ، وہ طریق تو ضرورت نہیں پوری کرتا.پھر جیسا کہ میں نے کہا، اس کو ٹالا بھی جاسکتا ہے، نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس میں جامعہ احمدیہ کا نام بلا وجہ لے لیا گیا ہے.جامعہ احمدیہ کا تو اپنا ایک کورس ہے اور وہ کورس ٹیکنیکل ٹائپ کا نہیں ہے کہ جیسے مثلا ریڈیو مکینک بنانے کے لئے ہو.اس میں ایک بہت بڑی چیز مد نظر ہے.اس میں ہم کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، یہ علیحدہ بات ہے.لیکن بہت بڑی چیز اس ماحول کے اندر بچے کے ذہن کی تربیت کرنا ہے.تا کہ وقف کی روح اس کے اندر پیدا ہو جائے.بعض بچوں کے حق میں ہم کامیاب ہوتے ہیں ، بعض کے حق میں کامیاب نہیں ہوتے.بعض بچے ہمارے باہر نکل کر اتنا عظیم کام دنیا میں کر رہے ہیں کہ آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اور بعض یہاں ایسے ہیں، انہیں میں سے ، جامعہ میں سے نکلے ہوئے، جو دین کا کام چھوڑ کر کہتے ہیں کہ ہم نے ڈبل روٹی تیار کرنی ہے.یہ واقعہ ہوا ہے کہ جی ہمیں چھٹی دی جائے، ہم لمبے عرصے کے لئے ڈبل روٹیاں بیچنا چاہتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو اس بچے کی 441
ارشاد فرموده 03 اپریل 1977ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد پنجم بیچارے کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی.اس کو جامعہ میں کسی ابتدائی مرحلے پر فارغ کر دینا چاہتے تھے.لیکن اس کی اپنی ذہنیت تو یہ تھی کہ اس نے سمجھا کہ ڈبل روٹی بنا کر بیچنا یا کلچے بنا کر بیچنا، یہ زیادہ اچھا کام ہے اور دنیا کی اتنی عظیم مہم ، جو اللہ تعالیٰ نے مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے قائم فرمائی ہے، اس کے اندر کام کرنے کی زیادہ اہمیت نہیں ہے.پس جامعہ احمدیہ کی غرض جامعہ کے ماحول کے بغیر نہیں پوری ہوسکتی.لیکن یہ سمجھنا کہ ہمیں جماعت کے علم میں زیادتی کے لئے اور وسعت پیدا کرنے کے لئے نہ کچھ سوچنے کی اور نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے، یہ اپنی جگہ غلط ہے.کچھ تو کرنا چاہئے.یہاں ایک نیوکلیس Nucleus تو ضرور ہونا چاہئے کہ باہر سے جو خط و کتابت ہوتی ہے، اس کو ہم جو ضرورت پیدا ہوئی ہے، وہ بتا سکیں.مثلاً میں نے انہی دنوں میں ذکر کیا تھا کہ ہمارے وارسا کے امام، جو پولینڈ میں احمدی ہوئے ہیں، ان کو قرآن کریم کا پولش زبان میں ترجمہ کرنے والی ایک کمیٹی حکومت نے بنائی، انہوں نے کہا کہ تم ہماری مدد کرو.اب ان کا خط آیا ہے، مجھے جلد سے جلد قرآن کریم کے تراجم کے سلسلے میں یہ یہ چیزیں چاہئیں.میں نے تحریک جدید کی طرف وہ خط بھجوایا تھا.خدا کرے کہ ہم اگر ساری نہیں تو ایک حد تک ان کی راہنمائی کر سکیں.اس قسم کی ضروریات دنیا میں پیدا ہو رہی ہیں.ان کا حل ہونا چاہئے.انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مجھے زیادہ انگریزی نہیں آتی ، اگر روسی زبان میں کوئی لٹریچل جائے تو میں روسی بڑی اچھی جانتا ہوں ، میں اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں.اب روسی زبان کا لٹریچر ہمارے پاس ہے ہی کوئی نہیں.اسی طرح اٹلی میں، اٹلی کی تھو سزم کا گڑھ ہے، عیسائیوں میں کیتھولک تحریک کا مرکز ہے، وہاں پر بہت سی اس قسم کی کانفرنسز وغیرہ ہوتی رہتی ہیں، ان کی کتابیں چھپتی ہیں.اٹالین زبان کے عالم ہمارے لئے بڑے ضروری ہیں.کیونکہ بعض ایسی تبدیلیاں آرام کے ساتھ عیسائیت اس وقت کر رہی ہے، جو ان کی شکست کا اعلان ہے.لیکن یہ سب کچھ ہمارے علم میں نہیں آرہا.خصوصاً کیتھولک عیسائی جو ہیں، ان کے عقیدہ کی بنیاد کفارہ پر ہے.کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کفارہ نہیں بنے تو اپنے متبعین کا گناہ اٹھا کر انہوں نے قربانی نہیں دی.اور اس طرح سارا ڈھانچہ ہی زمین پر گر جاتا ہے.اب پچھلے چند سال میں ایک نئی ریسرچ شراؤڈ ( Shroud) پر ہوئی.یعنی کپڑے کی اس چادر پر، جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کو جب زخمی حالت میں صلیب سے اتارا گیا اور وہ بیہوش تھے تو سارے جسم پر مرہم لگا کر اس چادر میں لپیٹا گیا.معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کافی چوٹیں آئی ہوئی تھیں.غرض اس وقت 442
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء ان کو ایک چادر میں لپیٹ کر ایک کھوہ میں، ایک غار میں رکھا گیا تھا.وہ چادر ابھی تک محفوظ ہے.یہ خدا کی شان ہے.اور اس میں ہمارے لئے دو چیز میں بڑی دلچسپ ہیں.ایک تو اس پر حضرت مسیح علیہ السلام کے چہرے کی تصویر کا نیگیٹو آ گیا.وہ جومر ہم عیسٹی لگائی گئی، اس نے ان کے چہرے کے فیچر دے دیئے.اب تک جتنی تصویر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی انہوں نے شائع کی تھیں ، وہ بالکل اور تھیں.وہ ان کے ذہنی تصور کی پیداوار تھیں.وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی اصل تصویر نہیں تھی.ویسے دو مختلف تصویریں ہیں.ایک تو یونانیوں کے چرچ کی تصویریں اور دوسرے جو عام انگلستان وغیرہ سے آتی ہیں.اور یہ تصویر بالکل الگ ہے.غرض وہ تصویر چھپ کر سامنے آگئی.انہوں نے اس کے نیگیٹو پرنٹ لئے اور ان کے پورے فیچرز ، خدو خال ابھر کر سامنے آگئے.دوسرے بہت سے سائنسدانوں نے ریسرچ کی اور انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم (اتنے آدمیوں ) نے ریسرچ کی ہے.تعداد مجھے صحیح یا نہیں، کافی تعداد میں تھے.کئی سوتو نہیں تھے، غالباً پچاس کے قریب تھے.اور وہ چوٹی کے سائنسدان ہیں.اور وہ اس تحقیق کی اتنی تفصیل میں گئے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانے میں اس علاقے میں جو نیزہ استعمال ہوتا تھا، وہ انہوں نے عجائب گھروں سے لیا اور پھر اس کے مطابق انہوں نے جو اس وقت سولی پر لٹکانے کا طریق تھا، اب تو گلے میں پھندا ڈالتے ہیں اور ایک ہی جھٹکے میں جان نکل جاتی ہے، لیکن اس وقت زندہ گاڑ دیتے تھے، سولی پر.اس وقت اس کیفیت میں دل اس جگہ نہیں ہوتا، جہاں لیٹنے کے وقت انسان کے جسم میں ہوتا ہے.اور انہوں نے ساری تحقیق کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ کفن پر جو پانی نکلا ہے، اس جگہ دل تھا ہی نہیں.یعنی نیزے نے اگر وہ دل کی جگہ کے اندر گھسا بھی ہے تو دل وہاں موجود نہیں تھا.اس واسطے نیزے کا زخم ان کو مار نہیں سکتا.اور ساری تحقیق سے، سائینٹفک تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے.وہ زندہ اتارے گئے اور قبر نما غار میں وہ زندہ رہے.یہ انہوں نے نتیجہ نکالا.اب وہ چھپ گیا.جرمن زبان میں تحقیق ہوئی ہے.پھر انگریزی میں ترجمہ ہو گیا.اور ایک اور زبان میں ہو گیا.وہ ہمارے پاس موجود ہے.اب ان کے عقیدہ کی جو بنی تھی، وہ تو ختم ہوگئی.ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی.اب یہ نیا علم نکلا ہے.آج سے جودو ہزار سال پرا ناروئی کا کپڑا ہے، ایسے ٹیسٹ بن گئے ہیں یقینی طور پر کہ وہ بتا دیتے ہیں کہ اس کی روٹی کب پیدا ہوئی تھی ، سو سال پہلے یا دس سو سال پہلے یا پندرہ سو سال پہلے یا دو ہزار سال پہلے؟ وہ ٹیسٹ بتا دیتا ہے.یہ چادر جس کو شراؤڈ کہتے ہیں یا کفن مسیح ، یہ ایک جگہ چرچ میں ہے.بعض سائنسدانوں نے پوپ کی خدمت میں گزارش کی کہ مہربانی کر کے ایک چھوٹی سی کترن ہمیں 443
ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اس کپڑے کی دے دیں.ہم سائینٹیفک طریقے سے تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کپڑا کس وقت بنا تھا؟ انہوں نے انکار کر دیا اور کترن نہیں دی.کیونکہ ان کو پتہ تھا، وہ کپڑا محفوظ رکھا ہوا ہے.اس کی تاریخ ہے کہ اس وقت سے یہ محفوظ چلا آرہا ہے.لیکن یہ ایک اور شہادت پیدا ہو جانی تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب سے زندہ اتارے گئے.اس لئے انہوں نے اجازت نہیں دی.یہ میں تمہید بتا رہا ہوں.جو اصل واقعہ ہے، وہ بڑا عجیب ہے.جس کے لئے ہمیں زبان دانی کی ضرورت ہے.ان کی جو آفیشل بلیٹر نکتی ہیں، خاص نام کے ساتھ ، پوپ کی ایک بلیٹن شائع ہو چکی ہے.لیکن دنیا کواس کا نہیں پتہ چلا.وہ ان کے اپنے ہاں چلی گئی کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر مرے یا نہیں مرے، عیسائیوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یعنی آئندہ کے لئے اپنی زمین ہموار کر لی ناں.لیکن اس وقت وہ پلیٹن شائع ہو کر اس کے ترجمے نہیں ہوئے، پھیلی بھی نہیں.عام طور پر نہیں پھیلی.لیکن چونکہ جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، وہ ہمیں مل جاتی ہے.لیکن پتہ نہیں اور کون سی باتیں ہیں، جو ہمارے نظر سے اوجھل ہیں؟ اگر اٹالین زبان جاننے والے احمدی ہوں، وہاں ہمارے مبلغ بیٹھے ہوئے ہوں تو روز مرہ کی یہ چیزیں سامنے آجا ئیں.بہت ساری اور چیزیں بھی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے مجھے صداقت بتائی ہے.دنیا اب اس کی شہادتیں دے گی کہ جو مجھے بتایا گیا ہے، وہ درست ہے.چنانچہ بیسیوں، سینکڑوں شہادتیں ملی ہیں.ان میں سے ایک latest یہ بھی ہے.وہ کتاب بڑی دلچسپ ہے.میں نے انگلش ترجمہ سارا پڑھا ہے.اتنی عجیب تحقیق کی ہے انہوں نے کہ کوئی شعبہ نہیں چھوڑا ، یہ گویا سائینٹیفک evidence یعنی سائنس کی شہادت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ جو بھی واقعہ ہوا ہے، اس کے نتیجے میں صلیب پر وہ مربی نہیں سکتے تھے.یعنی سائنس کے لحاظ سے اس صورت میں ان کی وفات ہو ہی نہیں سکتی.اور عملاً نہیں ہوئی.اور ان کو زخمی حالت میں صلیب پر سے اتار لیا گیا.وہ شراؤڈ بتاتی ہے کہ بعد میں ان کے جسم سے خون رستارہا اور جو چیز زخم سے رس کر آئی ہے، اس کی شہادت یہ ہے کہ وہ مردہ کے جسم سے نہیں رکھتا.اور اس پر اچھا خاصا بڑا داغ لگا ہوا ہے.اور یہ بہت بڑی شہادت ہے.کچھ تو میرے ذہن میں بھی نہیں اور اتنا بیان بھی نہیں کیا جاسکتا.پس یہ چیزیں بھی بڑی ضروری ہیں.ابھی پرسوں ہی جرمن زبان میں ایک کتاب میرے پاس براہ راست آگئی تھی.مجھے نہیں پتہ اس میں کیا ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس میں بڑی دلچسپ باتیں ہیں.جرمن زبان جاننے والے یہاں ہیں، ان کو اس کا پتہ لگ جائے گا.اصل تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی 444
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء تحقیق ہے.تحقیق کیا، اللہ تعالیٰ نے وحی اور الہام کے ذریعے آپ کو بعض باتیں بتا ئیں.پھر آپ نے اس کے مطابق دوسری علمی شہادتیں بھی اکٹھی کر کے دنیا کے سامنے رکھیں.اب پین میں، جو کی تھو سزم کا گڑھ ہے، وہاں ایک عیسائی رسالے نے یہ مضمون شائع کر دیا کہ مسیح علیہ السلام کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی.اور اس نے اپنے سارے مضمون کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر پر رکھی ہے.اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر بھی شائع کر دی ہے.وہاں ہمارے مبلغ ہیں تو ہمیں پتہ لگ گیا کہ یہ بات ریکارڈ میں آگئی.اور اگر سپین کے متعلق بھی ہم اتنے ہی اندھیرے میں ہوتے ، جتنے اٹلی کے متعلق ہیں تو ہمیں پتہ بھی نہ لگتا کہ یہ واقعہ بھی ہو چکا ہے.میں نے بتایا تھا کہ انقلاب اور ارتقاء کا بڑا حسین امتزاج ہے، اسلام کی انقلابی تبدیلیوں میں.یعنی وہ خالی انقلابی نہیں ہیں.بلکہ ہم مثال کی زبان میں کہ سکتے ہیں کہ اسلام کا انقلاب ارتقاء کے گھوڑے پر سوار ہو کر دنیا کو فتح کرتا ہے.پس یہ جو تبدیلی رونما ہوئی ہے، یہ بڑی زبردست انقلابی تبدیلی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ وحشی درندے جو عرب میں بسنے والے تھے، ان کے اندر بڑی عظیم تبدیلی پیدا ہوئی، انقلاب عظیم رونما ہوا.عظیم عربی زبان میں اس کو کہتے ہیں ، جس سے بڑھ کر اور کچھ نہ ہو.اسلام کا انقلاب، انقلاب عظیم ہے.دنیا کی تاریخ میں ایسا کوئی انقلاب نہیں، جیسا اسلام کا انقلاب ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ جو انقلاب عظیم شروع میں بپا ہوا کہ وحشی لوگ انسان بنے ، با اخلاق انسان بنے ، با خدا انسان بن گئے.یہ کیسے بن گئے ؟ سوچنے والی بات ہے ناں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ ایک عظیم ہستی ، جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر ان کے لئے دعائیں کرتی تھیں، ان دعاؤں کی تاثیر نے ان کے دلوں کی کیفیت بدل دی، ان کے اعمال کی کیفیت بدل دی، ان کے اخلاق کی کیفیت بدل دی.یہ انقلاب تو شروع سے جاری ہے.لیکن کہا یہ گیا تھا کہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: 10) پہلے مفسرین نے بھی لکھا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی بڑی وضاحت سے تفسیر فرمائی ہے کہ تمام ادیان پر غالب آنے کا زمانہ، اسلام کا آخری زمانہ، مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے.پس انقلاب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے.اور دنیا میں عملی صورت میں وہ انقلاب عظیم بپا ہوا.لیکن یہ نہیں کہ وہاں ٹھہر گیا ہو، بلکہ وہ چلتا آیا اور نیچے آیا.پھر او پراٹھا اور اب پھر جیسا اوپر 445
ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم کہ خدا تعالیٰ نے پیش گوئی فرمائی تھی اور جس کی تفسیر خودمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں فر ہے اور ہمارے مفسرین بھی بیان کرتے آئے ہیں کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه کا زمانہ مہدی علیہ اسلام کا زمانہ ہے.تو یہ انقلاب ہے اور انقلابی تبدیلیاں ہیں.یعنی ایسی تبدیلیاں کہ انسان کی عقل حیران ہو جاتی ہے.رشین انقلاب کی مثال لے لو، روسی انقلاب تھا تو انقلاب لیکن وہ عظمت جو محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے انقلاب میں ہے، وہ تو ہمیں کسی اور انقلاب میں نظر نہیں آتی.پتہ نہیں، روسی انقلاب میں کتنے ہزار شاید لاکھوں آدمی قتل کر دئیے گئے.جن کا اس انقلاب پر اثر ہی کوئی نہیں تھا.یا اگر اثر تھا تو وہ آپس میں گتھم گتھا ہو رہے تھے.چین کا انقلاب تازہ ہے، اس میں بھی یہی حال ہے.یعنی یہ کہ دل بدل دیئے جائیں اور زندگی میں انقلاب عظیم بپا ہو جائے اور وحشی کو باخدا انسان بنادیا جائے اور ایک ایسی امت تیار ہو جائے ، جس کے متعلق واقعہ میں اور حقیقتا کہا جا سکے کہ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ بنی نوع انسان کی بھلائی اور خیر خواہی اور خدمت کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے.اور وہ امت پیدا ہو گئی ہو.یہ انقلاب اپنی عظمت کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں بپا ہورہا ہے.اور اس کے لئے جہاں اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے، یعنی روحانی، اخلاقی اور علمی ہتھیاروں کی ضرورت ہے، وہاں علمی میدان میں جماعت کے معیار کو بلند کرنے کی بھی ضرورت ہے.پس جہاں تک جذبے کا تعلق ہے، ویسے تو یہ تجویز رد ہو گئی تھی.لیکن میں نے ہی بعد میں رکھوائی تھی.میں نے کہا تھا کہ پیش کر دیں کیونکہ ویسے الفاظ کے لحاظ سے تو شروع میں ہی رد کرنے کے قابل تھی.لیکن جو اس کے پیچھے جذبہ اور ضرورت ہے، اس کا تقاضا تھا کہ اسے مجلس مشاورت میں پیش کر دیا جائے.اس واسطے اس تجویز کو کلیہ اپنی ظاہری شکل اور اپنی روح کے ساتھ تو رد کیا ہی نہیں جاسکتا.ظاہری شکل میں رد کیا جاسکتا ہے.وہ میں رد کرتا ہوں.لیکن جو اس کی روح ہے ، وہ اس قابل ہے کہ جن کے ذہن میں پہلے یہ تجویز آئی اور جنہوں نے پیش کی ہے، ان کے ہم ممنون ہیں.اور اس طرف ہماری انتظامیہ صدر احمدیہ تعلیم القرآن اور اصلاح و ارشاد اور تعلیم اور چار آدمی ساتھ اور ملائیں، ان کی ایک مستقل کمیٹی میں بنادیتا ہوں، یہ اس تجویز پر غور کریں اور مجھ سے مشورہ کریں اور اس کی کوئی صورت نکالیں.446
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء اب تو یہ ہے کہ مثلاً پولینڈ کی Demand آئی تو مجھے پریشانی ہوئی کہ میں پولش زبان میں قرآن کریم کے ترجمے کا کام کس کو دے دوں؟ ابھی تک پریشانی ہے کہ اس کی جائز اور صحیح ضرورت ہے.بڑا اچھا خدا نے موقع دیا ہے.اشتراکی علاقوں کے اندر قرآن کریم کی ایسی تفسیر ، جو Rational یعنی عقل کے اصول پر ہے، جو انسانی عقل کو تسلی دینے والی اور انسانی فراست کی پیاس کو بجھانے والی ہے، اس سے متعارف کروا سکیں تو بڑا اچھا موقع خدا نے ہمارے لئے میسر فرمایا ہے.دعا کریں، اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق دے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھا سکیں“.22 تجویز نمبر ایک کی شق نمبر 2 یہ ہے کہ شاہدین کو فراغت سے قبل گریجوایٹ یا کم از کم ایف اے ضرور کروایا جائے.یہ به تجویز مہم ہے.فراغت سے قبل کا مطلب ہے کہ شاہد بنانے سے پہلے.یہ یا تو شروع میں ہو سکتا ہے کہ ہم کہیں کہ بی اے یا ایف اے پاس طالب علم داخل کئے جائیں.اور یا یہ ہے کہ تین سال ان کو جامعہ کی پڑھائی کروانے کے بعد ہم ان کو کہیں کہ چار سال تم جا کر بی اے کرو اور پچھلا بھی بھول جاؤ.تو وہ ٹھیک نہیں.اگر ہم پہلے کروا ئیں تو وہ ہم اب بھی لیتے ہیں.آپ بی اے والے بچے دیں.بعض بی اے پاس داخل ہوتے ہیں.لیکن جیسا کہ ابھی بتایا گیا ہے کہ 60 کی گنجائش تھی اور ہر سال ہوتی ہے اور 37 آئے.ان 37 کو بھی میں نے کم کر دیا.یہ اب آپ کی ہمت پر منحصر ہے کہ کم کروائیں یا نہ کروا ئیں.چار، پانچ تھرڈ ڈویژن کے لڑکے جامعہ میں آئے، میں نے ان کو کہا کہ یہ تم نے کیسے لے لئے ؟ جو تھرڈ ڈویژن کا لڑکا ہے، اسے آپ خدا تعالیٰ کی جھولی میں ڈالتے ہیں.میرے نزدیک تو فرسٹ ڈویژن سے نیچے لڑکے لینے ہی نہیں چاہیئں.لیکن چونکہ موجودہ حالات میں پھر ہماری ضرورت بہت کم پوری ہوتی ہے، اس لئے ہم بامر مجبوری سیکنڈ ڈویژن والے کو لے سکتے ہیں.لیکن تھرڈ ڈویژن والے کو نہیں لے سکتے.اس واسطے میں نے ہدایت دی ہے کہ تھرڈ ڈویژن کا لڑکا اصول نہیں لیا جائے گا.لیکن انسان کی بنائی ہوئی ہر چیز میں استثناء ہوتا ہے، اس واسطے تھرڈ ڈویژن کا اگر کوئی لڑکا لینا ہے تو وہ میری خاص اجازت سے لیا جائے گا.مثلاً میں نے بڑا لمبا عرصہ ٹی آئی کالج کا پرنسپل رہا ہوں.شاید یہاں بھی ایک طالب علم بیٹھا ہوا ہے.ایسے طالب علم بھی میرے پاس کالج آئے ہیں، جب میں پرنسپل تھا کہ جنہوں نے ایف ایس سی میں تھرڈ ڈویژن ، بی ایس سی میں سیکنڈ ڈویژن اور ایم ایس سی میں فرسٹ ڈویزن لی.تو کچھ ایسے دماغ بھی ہیں.لیکن انسان چونکہ خود 447
ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اندھا ہے، علام الغیوب تو نہیں ہے، اس واسطے وہ اپنا قانون بناتا ہے.تو یا استثناء کوئی نہیں رکھتا اور بیوقوفی کرتا ہے.یا استثناء رکھتا ہے اور اگر دیانتداری سے اس پر عمل کرے تو وہ بے وقوفی نہیں ہوتی.ایسا بچہ جس کے متعلق کہیں کہ بڑا سمجھدار، بڑا صاحب فراست، بڑا Intelligent ، بڑا مخلص، بڑا ذہین دماغ کا ہے اور اس کے ذہن میں جلا پیدا ہوتی ہے، کسی وجہ سے اس نے میٹرک میں اچھے نمبر نہیں لئے تو پھر میں دیکھوں گا کہ کون سے ٹیسٹ ہیں، جن سے پتہ لگے کہ واقعی اس کی تھرڈ ڈویژن کو ہم نظر انداز کر سکتے ہیں.لیکن اگر کوئی احمدی باپ آکر یہ کہے کہ میرا دل کرتا ہے کہ میرا بچہ مبلغ بنے نمبر اس نے اتنے ہی لئے ہیں کہ دو کم لیتا تو فیل ہو جاتا.لیکن آپ اسے جامعہ میں داخل کر لیں.تو ہم اسے کہیں گے کہ خدا تعالیٰ تمہاری نیت کا تمہیں ثواب پہنچائے ، لیکن جن کو اس نے جا کر پڑھانا ہے، ان کو تو ہم نقصان نہیں پہنچا سکتے.کہ یونہی ایک نبی نکل کر دنیا کا استاد اور معلم بن جائے.اور میں نے بتایا ہے کہ کئی ٹوٹتے ہیں.کوئی اخلاقی لحاظ سے ٹوٹ جاتا ہے، کوئی علمی لحاظ سے ٹوٹ جاتا ہے.وہ تو ہم اسی واسطے Risk لے رہے ہیں کہ ہمیں آدمی کم ملتے ہیں.پہلے رعائتیں دے دیتے تھے.ہمارے عہد یدار بڑے نرم دل ہیں، ایسی نرم دلی کہ ایک فرد واحد کے حق میں تو نرم دل ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ یہ بات نظام الہی کے خلاف جاتی ہے.تین تین سال لڑکا نخد بالکل پاس ہی نہیں ہورہا اور کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اس کو اور موقع دے دیں، وظیفہ دے دیں اس کو.یا بعض کو کہہ دیتے ہیں کہ باپ کہتا ہے کہ اب میں اپنے خرچ پر پڑھا دوں گا.تم اس کی بھی زندگی خراب کر رہے ہو.اس کو خدا نے شاہد بنے کا دماغ ہی نہیں دیا.اس کو کہیں کہ جو تمہارا دماغ ہے، اس کے مطابق جا کر کام کرو.یہ تو صحیح ہے کہ ہر شخص کو خدا تعالیٰ نے کوئی دماغ دیا ہے.لیکن یہ درست نہیں، ہر شخص کو خدا تعالیٰ نے جامعہ احمدیہ میں کامیاب مبلغ بننے کے لئے دماغ دیا ہے.اور جو منتظم ہے، اس کا کام ہے کہ دیکھے کہ اس کا دماغ اس قابل ہے بھی یا نہیں؟ ایک بیچارہ انگریز Second world war (دوسری جنگ عظیم میں لڑتا رہا.اس کے دماغ پر بڑا اثر تھا.وہ پھرتا پھراتا یہاں ربوہ آ گیا.میں کالج میں پرنسپل تھا، وہ میرے پاس آگیا کہ میں یہاں ٹھہر نا چاہتا ہوں.میں نے کہا، ٹھہر جاؤ.چھوٹا سا ایک کمرے کا گیسٹ ہاؤس وہاں بھی شروع میں بنا دیا تھا.میں نے کہا، ٹھہر جاؤ.کہنے لگا، کتنے پیسے لیں گے؟ میں نے کہا، پیسے! میں نے کہا کہ ہماری تو روایت ہے، مہمان نوازی کی.تم سے کوئی پیسہ نہیں لیتے.خیر ان کو تو Paying guest رہنے کی عادت ہے، ان کے ہاں تو بھائی بھی بغیر پیسے لئے بھائی کو مہمان نہیں رکھتا.اس کو سمجھ ہی نہ آئے.میں نے کہا، چلو باتیں نہ 448
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء کرو، تم نے جتنے دن ٹھہرنا ہے، ٹھہرو لیکن میں نے کہا کہ ہم بے تکلف لوگ ہیں، اگر کوئی چیز تمہیں ایسی ملے کھانے کو جو تمہیں پسند نہ ہو تو بے تکلفی سے کہہ دو کہ یہ چیز میں نے نہیں کھانی.دوسری تیار ہو جائے گی.ور نہ تم تکلیف اٹھاؤ گے.خیر وہ دس پندرہ دن رہا.پھر بھی اس نے اصرار کیا.میں نے اس سے کچھ تھوڑا سامذاق بھی کیا.مجھے کہنے لگا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے، میں پندرہ دن رہا ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ پیسہ ہی کوئی نہیں لینا ؟ میں نے کہا کہ پھر جو میں بل دوں گا تمہیں ادا کرنا پڑے گا.وہ سچ مچ گھبرا گیا کہ پتہ نہیں، کتنا بل اب مجھ سے لینے لگے ہیں؟ اس کا منہ زرد ہو گیا.آدھے منٹ کے بعد کہنے لگا ، اچھا مجبوری ہے، آپ مجھے بل دے دیں.میں نے کہا، میر اہل یہ ہے کہ جب تم خیریت سے لندن پہنچ جاؤ تو مجھے اطلاع دے دینا کہ تم پہنچ گئے ہو.پھر اس نے سمجھا کہ مذاق کر رہے تھے.اصل بات جو بتانا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ وہ مجھے کہنے لگا کہ میں سوچتا ہوں کہ میں خود کشی کرلوں.میرے لئے دنیا میں کوئی کام ہی نہیں.اس کے اعصاب پر جنگ کا بڑا سخت اثر تھا.میں ہنس پڑا، میں نے کہا کہ تمہارے لئے ایک Holc بالکل تمہارے سائز کی ہے.یہ انگریزی کا محاورہ ہے.لیکن ابھی تک تمہیں وہ Hole ملی نہیں.جس وقت تمہیں مل گئی ہم عین بالکل فٹ اس کے اندر ہو جاؤ گے.اور بڑے خوش ہو گے.اس واسطے میرا مشورہ یہ ہے کہ خود کشی کا خیال چھوڑو اور اپنے مطلب کے Hole کی تلاش کرو.جو تمہیں خدا نے طاقتیں اور قو تیں دی ہیں، ان کا کے مطابق تمہارے لئے کوئی کام تمہارا انتظار کر رہا ہے، اسے تلاش کرو.بڑی تسلی دے کر مسکراتے چہرے کے ساتھ اس کو میں نے بھیجا.پس جس شخص کے لئے خدا تعالیٰ نے انگریزی زبان کے محاورے کے مطابق جامعہ احمدیہ میں اس کے سائز کا Hole ہی نہیں رکھا ہوا، آپ کیسے زبردستی اندر کھسیڑ رہے ہیں؟ بیچارے کو توڑنے کے لئے ؟ اس کو کہیں کہ جا کر کوئی دوسرا کام کرے.ہمیں تو مخلص قربانی کرنے والے، اچھے ذہین بچے دیں.گو بیچ میں درمیانے درجے کے بھی اور دوسرے بھی آجاتے ہیں.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک چھوٹی سی کتاب ہے.میں نے ایک دفعہ جامعہ کی آخری کلاس تھی یا پاس کر چکے تھے، ان کو کہا کہ اس کو پڑھو اور نوٹ کرو کہ اس کے اندر کتنے دلائل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیت کی تردید میں دیئے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام بڑا عجیب ہے.ایک لڑکے نے کہا، ہیں دلائل دیئے ہیں.کاپی پر لکھے ہوئے تھے.دوسرے نے کہا، میں دلائل دیئے ہیں اور جو سب سے ذہین بچہ تھا، اس نے کہا 449
ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم 54 دلائل دیئے ہیں.اور دلائل اس سے بھی زیادہ تھے.لیکن بہر حال بہت ذہین بچہ تھا، اس نے دوسروں سے قریباً تین گنا زیادہ دلائل نکالے.ایک ایک فقرے میں بعض دفعہ دودو دلیلیں ہوتی ہیں ، اپنے مخالف کی دلیل کو توڑنے کے لئے اور اسلام کی حقانیت اور عظمت کو قائم کرنے کے لئے.پس یہ وہ علم ہے، جس کے متعلق کہتے ہیں، اس کو پھیلاؤ.میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ نہ پھیلاؤ.میری تو زندگی اور روح اس میں ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام روحانی خزائن دنیا کے لئے لے کر آئے ، وہ دنیا کے ہاتھ میں چلے جائیں.اور اس وقت دنیا اس سے محروم ہے.وہ اس سے محروم نہ رہے.بلکہ خد تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنے.لیکن جو طریقہ انہوں نے سوچا اور جو زبان انہوں نے استعمال کی ، وہ میرے خیال میں درست نہیں.پس اس تجویز کی جو روح ہے، اس کو ہم قبول کرتے ہیں.اور جو یہ تجویز ہے کہ ان کو بی اے اور ایف اے بنایا جائے ، یہ تو ماننے والی چیز نہیں.ہاں، یہ ہم پہلے ہی کر رہے ہیں کہ آپ اپنے فرسٹ کلاس بی اے لڑکے بھیجیں ، ان کو کوئی نہیں روکے گا ، جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے سے.ایک اور چیز ہے، ہر کلاس کی ایک عمر ہوتی ہے.مثلاً دسویں جماعت پاس کرنے والوں کی عمر کا جہاں تک تعلق ہے ، 95 فی صد طالب علم یا شاید 98 فیصد طالب علم پندرہ سے سترہ سال کی Age group کے اندر میٹرک پاس کرتے ہیں.کچھ ایسے ہیں، جو تیرہ سال میں بھی میٹرک پاس کر لیتے ہیں.لیکن وہ استثناء ہے.کچھ ایسے ہیں، جو چودہ سال میں پاس کر لیتے ہیں، وہ بھی استثناء ہے.لیکن بہت بھاری اکثریت 15,16,17 سال کی عمر کی میٹرک کرتی ہے.اور جامعہ احمدیہ کی Age group یعنی جس عمر کے لحاظ سے ہم نے ان کی تربیت کرنی ہے، ان کے ذہنوں کا خیال رکھنا ہے، ان کے اخلاقی ماحول کا خیال رکھنا ہے، وہ 17 سال سے شروع ہوتی ہے.7 سال کا جامعہ کا کورس ہوتا ہے.گو یا 24 سال تک کی عمر ہے.جو 24 سال کا لڑکا آکر کہتا ہے، مجھے داخل کرو.اسے بالکل داخل نہیں کرنا چاہئے.یہ داخل کر لیتے ہیں.وہ ہماری فضا کو خراب کرتا ہے.24 سال کا لڑکا15,16,17 سال کے طالب علم کے ساتھ پڑھ ہی نہیں سکتا.میں آپ کو علی وجہ البصیرت بتاتا ہوں کہ بالکل نہیں پڑھ سکتا.یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے.ایک دن کالج میں ایک لڑکا آگیا، کالج کا تو اور ماحول ہے.میں پرنسپل تھا انٹرویو میں آگیا.میں نے شکل دیکھی تو میں نے سوچا کہ اس کی عمر تو بہت بڑی ہے.اس کا فارم دیکھا تو اسکی عمرقریباً تیس سال تھی.خیر میں اس سے کوائف پوچھتا رہا.جو کہ میں ہر بچے سے پوچھا کرتا تھا.وہ باتیں کرتارہا اپنی کوالیفکیشن کی 450
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء کہ میں نے فلاں فلاں جگہ کام کیا، یہ کیا، وہ کیا، جس وقت وہ خاموش ہو تو میں نے آہستگی اور پورے تحمل اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اس کو کہا، مجھے بڑا افسوس ہے کہ ہمارے کالج میں تعلیم بالغاں کا انتظام نہیں.تو وہاں بھی ہم بوڑھوں کو داخل نہیں کرتے تھے.اس کے لئے یہ ٹھیک ہے، جو انہوں نے کارسپانڈنس کورس کی تجویز دی ہے.کیونکہ ان کے لئے بھی ترقی کی راہیں اگر کھل سکتی ہیں تو ہمیں بند نہیں کرنی چاہئیں.یہ بھی ایک حقیقت ہے.ہم تو ساری دنیا کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے پیدا ہوئے ہیں.بہر حال اب میں نے جامعہ احمدیہ کو یہ کہہ دیا ہے کہ جو 17 سال سے زیادہ عمر کا بچہ ہے، اسے تم نہیں داخل کرو گے.پہلی کلاس کو میں ملا کرتا ہوں، ہر سال کی پہلی اور آخری کلاس سے.آپ اسے انٹرویو کہہ لیں یا میری ملاقات، جو ہر سال ان سے ہوتی ہے.وہاں میں نے عمریں پوچھیں تو معلوم ہوا 23,24 سال کا لڑ کا جامعہ کی پہلی کلاس میں پڑھ رہا ہے.میں نے ان کو کہا کہ آئندہ یہ نہیں ہوگا.میرے خیال میں وہ بھی نکل جائیں گے.لیکن یہ بالکل نہیں ہونا چاہئے.ہمارا ماحول ٹھیک نہیں رہتا.جوتعلیمی میدان میں رہے ہیں ، وہ اس چیز کو جانتے ہیں.بہر حال اب یہ کمیٹی بن گئی ہے، یہ غور کر لیں گے.اور جو ذہین بچہ ہے، جس نے 14 سال کی عمر میں میٹرک کیا یا 18 سال میں اس نے بی اے کر لیا ہے، وہ آجائے.یا پندرہ سال میں میٹرک کیا اور 17 سال میں ایف اے کیا ، وہ آجائے.مولوی احمد خان نسیم مرحوم، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے، انہوں نے اپنے بیٹے کو وقف کیا ہوا تھا.بڑا پیارا بچہ ہے.وہ میرے بڑے بے تکلف دوست تھے.جب ان کے لڑکے نے امتحان پاس کیا تو اس نے بڑے اعلیٰ درجے کی فرسٹ ڈویژن لی.تو وہ میرے پاس آگئے اور بڑے آرام سے کہنے لگے کہ یہ اس نے نمبر لئے ہیں، کیا مشورہ ہے، آپ کا؟ یہ بی اے کرنے کے بعد جامعہ میں جائے یا ابھی چلا جائے.میں نے کہا، ابھی چلا جائے.میں نے کہا، میں اس کو بی اے بالکل نہیں کرنے دوں گا.جو نخد لڑکے ہیں، جامعہ صرف ان لوگوں کے لئے رہ گیا ہے؟ جامعہ میں تو دراصل جماعت احمدیہ کی ، جس کو انگریزی میں کریم (Cream) کہتے ہیں، جو سب سے لائق بچہ ہے ، وہ جامعہ میں آنا چاہئے.پھر اس کے بعد کسی اور طرف جانا چاہیے.اور اللہ تعالیٰ بڑا افضل کرنے والا ہے.جو بچے جامعہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں، ان کو کیا پرواہ ہے؟ ان کا تو صحیح معنی میں، پورے طور پر، بغیر کسی مادی تدبیر اور واسطہ کے خدا تعالی والی وارث ہے.وہ تو گھاٹے میں کوئی نہیں رہتے.اگر وہ خدا پر 451
ارشاد فرمودہ 03 اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم ایمان لاتے اور اس پر توکل رکھتے ہیں تو کسی کو کوئی گھانا نہیں.یہ آپ کے بی اے اور ایم اے فرسٹ آئے ہوئے، ان کی کیا حیثیت ہے؟ اگر افریقہ غانا چلے جائیں تو Head of the state کو نہیں مل سکتے.وہ ملنے کی اجازت نہیں دیں گے.لیکن جامعہ احمدیہ کا پڑھا ہوا طالب علم ، میں آج کی بات کر رہا ہوں، فلسفے کی بات نہیں کر رہا عمل کی بات کر رہا ہوں.یہ واقعہ ہوتا ہے کہ عبدالوہاب بن آدم شاہد جامعہ احمدیہ، وہ غانمین ہی ہے، آج کل وہ وہاں انچارج لگا ہوا ہے، اس کو Head of the state دعا کے لئے کہتا ہے کہ میرے لئے دعا کرو، اللہ تعالیٰ میری سیاسی اور ملکی مشکلات دور کرے.کون سا آپ کا ایم اے ہے، جس کو کوئی Head of the state صرف ایم اے ہونے کی وجہ سے یا وکیل ہونے کی وجہ سے یہ کہے گا کہ میرے لئے دعا کرو؟ وکیل کو بھی کہے گا ، ایم اے کو بھی کہہ سکتا ہے لیکن بشرطیکہ وہ روحانی میدان میں اپنا کوئی مقام پیدا کرے.یہ نہیں ہے کہ وہ روحانی طور پر ترقی نہیں کر سکتے.ان کے لئے بھی ترقی کے دروازے کھلے ہیں.خدا تعالیٰ تو بخیل نہیں.لیکن اگر کسی میں ہمت ہے اور وہ وکیل ہے تو روحانی میدان میں ایک مقام پیدا کرے.پھر وہ اس کو کہہ دے گا.لیکن ایک شاہد جو ہے، اس کا شاہد ہونا ہی ایک روحانی مقام ہے، جو اس نے پیدا کیا ہے.ظاہری حالات میں بھی لوگ ان کی بڑی عزت کرتے ہیں اور بے حد عزت کرتے ہیں“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ یکیم تا 03 اپریل 1977ء) 452
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 03 اپریل 1977ء دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے خطاب فرمودہ 103اپریل 1977 ء بر موقع مجلس شوری میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جماعت میں ایساNucleus ایسی ریڑھ کی ہڈی ہونی چاہیے.اس لئے کہ جماعت ریڑھ کی ہڈی ہے، دنیا کے لئے.اس لئے جماعت کا ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے، جس کے اندر اس قسم کے نقص پیدا ہوں، جو اس دنیا میں خدا تعالیٰ کے غصے اور اس کے غضب کو بھڑ کانے والے ہیں.اگر تم نے اس مہم میں کامیاب ہوتا ہے، جو بنی نوع انسان کو آخری ہلاکت سے بچانے کے لئے دنیا میں جاری کی گئی ہے تو اس سلسلہ میں ایک آدمی کو ، ایک مرد یا ایک عورت کو بھی ہمیں برداشت نہیں کرنا چاہیے، جو خدا تعالیٰ کے غصے اور غضب کو بھڑ کانے والے ہوں.ورنہ تو جیسا کہ بتایا گیا ہے، پہلی پیشگوئیاں بھی ہیں، قرآن کریم کی پیشگوئیاں بھی ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بڑی وضاحت سے کھول کر لکھا ہے.ان میں سے میں نے چند اقتباسات لے کر ایک حرف انتباہ کے نام سے میں نے انگریزی میں لندن میں پڑھا تھا ، ویسے اردو میں لکھا تھا.اس میں وہ حوالے آئے ہوئے ہیں.اتناز بر دست انتباہ ہے.درجنوں عیسائی پڑھے لکھے، کوئی انگلستان کے منتخب ممبر، کوئی بینکوں کے مینیجر ، ایک شخص نے مجھے کہا کہ جس بنک میں اس کا اکاؤنٹ تھا، وہ اس کے مینجر کو لے کر آیا ہوا تھا.کہنے لگا کہ پہلا فقرہ جب آپ نے بولا تو وہ حیران ہو گیا، اس کا منہ کھل گیا، کہنے لگا کہ پھر 35 منٹ کے قریب آپ کی تقریر میں اس کا منہ بند ہی نہیں ہوا.یعنی ہر فقرہ اس پر تازیانہ لگ رہا تھا.اور یہ ایک حقیقت آپ اس کو بھول جاتے ہیں.پس دنیا کو اس قسم کی ہلاکت سے بچانے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے.آج امن کا مقام صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کا سایہ ہے.اگر دنیا اس جھنڈے تلے جمع نہ ہوئی تو دنیا کے لئے بڑی خطرناک تباہی مقدر ہے.خدا محفوظ رکھے.ان کو عقل دے.اور یہ کام آپ کے سپرد کیا گیا ہے کہ آپ ان کو یہ بتائیں.پیار سے ان کے دل جیتیں.ان کو خدا نے ایک حد تک فراست اور عقل بھی دی ہے، ایک حد تک اس فراست اور عقل کی نشوونما کی ہمت بھی دی ہے.اور عملاً انہوں نے اس کی نشو ونما بھی 453
اقتباس از خطاب فرموده 03 اپریل 1977ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم کی ہے.ان کو بتائیں کہ یہ حالات ہیں.یا تم تباہ ہو جاؤ گے یا تمہیں اسلام لا نا پڑے گا.اگر تباہی سے بچنا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تم تباہ نہ ہو، میں تو ایک آدمی کو، یہ حقیقت ہے، جو جماعت احمدیہ کا نہایت معاند ہے، اس کے متعلق بھی جہاں تک میرے دل کے جذبات کا سوال ہے، میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کو کانٹا بھی چھے اور وہ تکلیف میں ہو.میں تو یہ چاہتا ہوں، اس لئے خدا نے مجھے اس مقام پر بٹھا دیا اور اس لئے آپ کو، جماعت احمدیہ کو پیدا کیا کہ آپ ایک کانٹے کی تکلیف سے بھی انسان کو بچائیں.اور وہ جو نہایت خطرناک ہلاکت ان کے لئے مقدر ہو چکی ہے،اس سے بچانے کے لئے بھی کچھ کریں.خالی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنایا جتنی طاقت خدا نے آپ کو دی ہے، اتنی طاقت کا استعمال نہ کرنا، یہ تو کافی نہیں.اس لئے میں کہتا ہوں کہ آپ القوی الامین بنیں لیکن القوی الامین بننے کے لئے موسیٰ علیہ السلام آپ کے لئے اسوہ نہیں اور نمونہ نہیں.بلکہ القوی الا مین بننے کے لئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں.اللہ تعالی ہمیں صحیح معنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور نمونہ کے مطابق زندگیاں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ یکم تا 103 اپریل 1977ء ) 454
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع سالانہ کانفرنس جماعت سیرالیون ہمارا فرض ہے کہ ہم انسان کو تباہ ہونے سے بچائیں پیغام بر موقع سالانہ کانفرنس جماعت سیرالیون منعقد و 10 تا 12 مارچ 1978ء ( حضور انور کا یہ پیغام انگریزی زبان میں تھا، جس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے.) پیارے بھائیو اور بہنو! بسم الله الرحمان الرحيم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے انتہائی مسرت ہوئی ہے کہ آپ مارچ کے دوسرے ہفتہ میں اپنا سالانہ جلسہ منعقد کر رہے ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے.اور آپ سب کے لئے اسے نزول برکات کا موجب بنائے.اس موقع پہ میں آپ کی توجہ ایک امر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی سے واضح ہے کہ دوسرے ادیان و ملل پر اسلام کے آخری اور دائگی غلبہ کا قرآنی وعده مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں پورا ہوگا.اس کے ظہور سے منتشر اور متفرق نوع انسانی محبت الہی اور بین الاقوامی اخوت کے رشتوں میں منسلک ہو کر محمدی پرچم کے زیر سایہ متحد و متفق ہو جائے گی.اس طرح یہ منتشر انسانیت ملت واحدہ میں ڈھل جائے گی.یہ صورت حال اس عظیم روحانی انقلاب کی انتہا ہوگی، جس کی ابتداء خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی.دنیاوی ذرائع کا تو ذکر ہی کیا، اتنا عظیم الشان انقلاب بر پا کرنا کسی معمولی مامور ومصلح کے بس کا روگ نہ تھا.اس کے لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کی ضرورت تھی.حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے یہ امر بھی واضح ہے کہ اس روحانی انقلاب کی تکمیل خلافت احمدیہ کے ذریعہ ہوگی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مہدی علیہ السلام کو یہ بشارت دے رکھی ہے کہ قدرت ثانیہ یعنی حضرت مہدی علیہ السلام کے خلفاء کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.یہ خلفاء اور ان کے متبعین حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے خدام ہوں گے اور اس روحانی انقلاب کا اتمام و استحکام ان کے ذریعہ ہوگا.455
پیغام بر موقع سالانہ کا نفرنس جماعت سیرالیون تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم مجھے امید ہے کہ آپ ہمیشہ خلافت احمدیہ سے مضبوطی سے وابستہ رہتے ہوئے اپنے مولیٰ کریم کے نیچے اور وفادار خدام بنے رہیں گے.آپ کو یہ امر ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ نئی نسلوں اور نئے احمدیوں پر نہ صرف خلافت احمدیہ کی اہمیت واضح ہوتی رہے بلکہ ان کے قلوب واذہان میں اس کی تقدیس کا حقیقی احساس بھی منتقل ہوتا رہے.آج کا انسان اپنی عظیم الشان سائنسی اور تکنیکی فتوحات کے باوجود سکون قلب کی دولت سے محروم ہے.حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے خالق سے منہ موڑ کر ظلمات میں بھٹک کر اپنی تباہی کے گڑھے کی طرف لڑھک رہا ہے.اسلام اس کی آخری امید ہے اور اس سے اس کی نجات وابستہ ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے انسان بھائیوں کو تباہ ہونے سے بچائیں اور انہیں راستہ دکھانا ہمارا فرض ہے.یہ بہت بھاری کام ہے، لیکن ہم اسے سرانجام دے سکتے ہیں.بشرطیکہ خدا پر ہمارا کامل ایمان ویقین ہو اور عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ اس کی مدد جذب کرتے رہیں.تا وہ ہمیں اس کام کے شایان شان ہمت، قربانی اور جہد مسلسل کی توفیق عطا فرمائے.لیکن ضروری ہے کہ ہم خود پہلے بچے مسلمان بنیں.میری دعا ہے کہ مولا کریم آپ کو سچا مسلمان بنائے اور آپ کو اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور آپ کی نصرت و حفاظت فرمائے.آمین.والسلام خليفة المسيح الثالث ( مطبوعه روزنامه الفضل 16 مئی 1978ء) 456
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم مبلغین کے لئے دعا کی تحریک خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1978ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1978ء گذشته شام سے مجھے بخار کی کیفیت ہے اور سر میں اور سارے جسم میں درد ہے.لیکن میں اپنے ان مبلغین کے لئے ، جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، دعا کی تحریک کرنا چاہتا تھا.اس لئے میں یہاں آ گیا ہوں.اور جس قدر خدا نے مجھے توفیق دی، میں آپ کو بتاؤں گا کہ کس طرح ہمارے مبلغین دنیا کے سب براعظموں میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو پھیلانے کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور بزرگی کو قائم کرنے کے لئے تکالیف برداشت کر کے کام کر رہے ہیں؟ مغربی افریقہ میں کام کر رہے ہیں اور مشرقی افریقہ میں بھی کام کر رہے ہیں، امریکہ میں بھی کام کر رہے ہیں، کینیڈا میں بھی کام کر رہے ہیں.جنوبی امریکہ میں مشن کھولا گیا تھا لیکن پھر وہ بند ہو گیا.اب میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ جلد دوبارہ کھل جائے گا.پھر وہ انگلستان اور یورپ کے ممالک میں کام کر رہے ہیں اور جزائر میں کام کر رہے ہیں.ہمارے مبلغین انتہائی کم گزارہ لے کر اور تنگی کی زندگی گزار کر اسلام کی روشنی کو دنیا میں پھیلانے کا کام کر رہے ہیں.وہ خود بھی خوش ہیں کہ ان کا رب کریم ان سے پیار کرتا اور اپنی معجزانہ طاقتوں کے جلوے انہیں دکھاتا ہے.اور ہم بھی خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جماعت کو ایسے نوجوان آدمی اور ایسے نوجوان دل دیئے ہیں کہ جو ان تکالیف کی پرواہ نہیں کرتے اور اشاعت اسلام کے لئے ہر دم اور ہر آن دنیا کے ہر علاقہ میں کوشاں ہیں.صداقت اصولی طور پر اور بنیادی لحاظ سے کسی جبر اور طاقت کی محتاج نہیں ہے.لیکن انسان پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس نے یہ سمجھا اور اب بھی دنیا کے بعض خطوں میں بعض انسان یہ سمجھتے ہیں کہ طاقت کے بل بوتے پر صداقت کو دبایا جاسکتا یا مغلوب کیا جاسکتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مادی طاقت نے اس نور کو بجھانے کی کوشش کی، جس نے کہ اپنے وقت پر ساری دنیا کو اپنی نورانی شعاعوں کی لپیٹ میں لے لینا تھا.وہ نور جو یورپ میں بھی پہنچا، افریقہ کے صحراؤں میں بھی پہنچا، جزائر میں بھی پہنچا اور ایران سے نکلتا ہوا، افغانستان کے اوپر کے حصوں سے ( جو کہ اب روس کے حصے بن گئے 457
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ہیں ) ہوتا ہوا اور بعض دوسرے راستوں سے گزر کر چین تک بھی پہنچا.اس وقت کی قریباً ساری معروف دنیا تک وہ پہنچا.اسلام کو جس وقت طاقت نہیں ملی تھی ، اس وقت اپنی کمزوری کی حالت میں بھی وہ اپنے نور کے ذریعہ سے دلوں کو جیتنے والا بنا.اور جب ایک وقت میں اس کو طاقت مل گئی ، تب بھی اس نے دین کے معاملہ میں جبر اور زور اور طاقت سے کام نہیں لیا.بلکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اسلامی تعلیم میں بتایا ہے، اس کے ماننے والوں نے محبت اور پیار کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ اور بج قاطعہ کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ اور بے لوث خدمت کے ساتھ اور غیر کی زندگی میں خدا تعالیٰ کی طاقتوں کے معجزے دکھا کر علاقوں کے علاقے اسلام کے لئے جیتے.یہ اس وقت کی بات ہے، جب دنیا اپنی جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے صداقت کے مقابلہ میں طاقت کا استعمال صحیح اور درست سمجھتی تھی.لیکن اب تو دنیا کو بھی یہ سمجھ آگئی ہے ( الا ما شاء اللہ بعض علاقوں کو چھوڑ کر ) کہ مذہب کے معاملے میں جبر کا تصور نا معقول ہے.کیونکہ مذہب کا تعلق دل سے ہے اور مادی طاقت دلوں پر حکومت نہیں کیا کرتی.مادی طاقتوں کے بھی فائدے ہیں، اسی لئے خدا تعالیٰ نے مادی طاقتوں کو بھی پیدا کیا ہے.لیکن وہ فائدہ مذہب کا پھیلا نا نہیں ہے.کوئی طاقتور ہو یا کمزور اور مسکین ہو، وہ دل جو اسلام سے نا آشنا ہیں، ان کو خدمت خلق کے ذریعے اور اسلام کے حسن کے جلوے دکھا کر اور اس کے احسان کی قوتوں کا مظاہرہ کر کے جیتا جاتا ہے.ہم تو ایک غریب جماعت ہیں اور ایک مسکین جماعت ہیں اور ایک عاجز جماعت ہیں اور ایک ایسی جماعت ہیں ، جس کو اقتدار حاصل نہیں اور ایک ایسی جماعت ہیں، جس کو اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں.ایک ایسی جماعت ہیں، جو مالی لحاظ سے غریب ہے اور ایک ایسی جماعت ہیں، جس کو اموال دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں.جہاں تک کہ مذہب کا سوال ہے، ایک ایسی جماعت ہیں، جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور فضل اور رحمت سے ایک آگ بھڑک رہی ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:04) جو ہمارے پیارے اور محبوب آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی کیفیت تھی، اسی کیفیت کے مطابق ہم نے خدا تعالی کا جو پیار اور اس کی جو نعمتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل کیں، وہ دنیا جو ان نعمتوں سے محروم ہے، وہ بھی ہماری طرح ان نعمتوں کو حاصل کرنے والی ہو.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار اور محبت کا تعلق رکھنے والی ہو.458
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1978ء اسی لئے ہمارے بہت سے نوجوان اور کچھ بڑی عمر کے دوست بھی باہر گئے ہیں اور باہر جاتے ہیں اور تبلیغ کے کاموں میں مشغول ہیں.اور یہی نہیں کہ پاکستان کے احمدی غیر ممالک میں تبلیغ کر رہے ہیں.بلکہ غیر ممالک میں بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگیاں وقف کرنے والے لوگ پیدا ہو چکے ہیں.ان میں سے بہت سے تو اس وقت اپنے اپنے ملکوں میں کام کر رہے ہیں.لیکن بعض ایسے بھی ہیں، جن کو خدا تعالیٰ دوسرے ممالک میں کام کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے.جیسا کہ عبدالوہاب بن آدم ہیں.وہ احمدی ہوئے ، پھر انہوں نے وقف کیا، پھر وہ یہاں آئے اور جامعہ احمدیہ میں شاہد کیا ، پھر وہ اپنے ملک غانا میں گئے اور پاکستانی امیر کے ماتحت انہوں نے وہاں تبلیغ کی.پھر وہ انگلستان میں بھیجے گئے اور انگلستان جا کر اس افریقن نے جس کا دل اور سینہ نور سے بھرا ہوا تھا، سفید فام باشندوں کو اسلام کی تبلیغ کی.اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو بڑا ہی پیارا بنایا ہے.وہ مسکراتے ہوئے اسلام کی خوبیاں دوسروں کے سامنے رکھتا تھا.اور اب وہ اپنے ہی ملک میں واپس جا کر کام کر رہے ہیں.اور ممکن ہے کہ ایک ، دو سال تک ان کو افریقہ کے کسی اور ملک میں یا امریکہ میں بھجوا دیا جائے اور وہ وہاں جا کر کام کریں گے.پس صرف ہمارا ہی ملک واقفین زندگی پیدا نہیں کر رہا بلکہ غیر ممالک بھی پیدا کر رہے ہیں.ہمارے انگلستان کے مبلغ آرچرڈ صاحب، انہوں نے تعلیم حاصل کی اور وہ با قاعدہ واقف زندگی مبلغ کے طور پر کام کر رہے ہیں.اس کے علاوہ رضا کارانہ طور پر کام کرنے والوں میں تو اس وقت میرے خیال میں درجنوں ممالک شامل ہو چکے ہیں.وہ لوگ عملاً واقفین زندگی ہیں لیکن جماعت سے گزارہ نہیں لیتے.وہ ساتھ اور بھی کام کرتے ہیں لیکن 5 گھنٹے 7 گھنٹے ، 8 گھنٹے روزانہ تبلیغ اسلام کا کام کر رہے ہیں.ہمارے ان بھائیوں کا کام ایک رنگ میں فرض کفایہ سمجھا جا سکتا ہے.لیکن اصل میں تو یہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی روشنی کو دنیا میں پھیلائے.لیکن چونکہ سب لوگ نہیں کر سکتے ، اس لئے قرآن کریم نے کہا ہے کہ کچھ لوگ مرکز میں آیا کرو اور دین سیکھا کرو اور پھر اپنے علاقوں میں جا کر دین کو پھیلاؤ.ہمارے یہ بھائی، جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دے کر خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف اور جو را ہیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے معین کی ہیں، جن پر آپ کے اسوہ کے نقش قدم ہمیں نظر آتے ہیں ، جو راہیں خدا تعالیٰ کی محبت اور رضا کی طرف لے جانے والی ہیں، ان راہوں کی طرف غیر مسلموں کو پیار اور محبت کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ اور دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ لانے والے ہیں، ان کا ہم پر یہ واجب حق ہے کہ ہم ان کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہیں.ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے.لیکن ان تھوڑوں اور 459
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1978ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کمزوروں اور غریبوں اور بے کسوں اور بے سہاروں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ حیرت انگیز طور پر ایک انقلاب عظیم بپا کر رہا ہے.لیکن وہ نہ میری کسی خوبی کا نتیجہ ہے، نہ آپ کی اور نہ ان مبلغین کی.وہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے.لیکن بہر حال یہ مبلغ نمایاں ہو کر اور ممتاز حیثیت میں ایک واقف زندگی کے طور پر غیر ممالک میں کام کرتے ہیں، پھر کچھ عرصہ کے لئے یہاں آجاتے ہیں، پھر دو، چار مہینے کی چھٹی گزار کر یہاں کام کرتے ہیں اور پھر وہ مختلف ممالک میں بھیج دیئے جاتے ہیں.اس کے علاوہ یہاں بھی واقفین زندگی ہیں، جو کہ اصلاح اور تربیت کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے اور روح القدس سے ان کی مدد کرتا رہے.اور وہ خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی حفاظت میں رہیں اور ہر شر سے خدا تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے اور ہر خیر کے دروازے ان پر کھولے.جماعت احمدیہ کے قیام کے بعد ساری دنیا میں جو اشاعت اسلام کے لئے ایک جہاد اور ایک مجاہدہ شروع ہے، اس میں بعض پروگرام بعض خصوصی اوصاف کے حامل بھی ہوتے ہیں.مثلاً غانا میں جو ان کے سارے ملک کے یا کسی ریجن کے سالانہ جلسے ہوتے ہیں، ان کی حیثیت روزانہ کی تبلیغ سے مختلف ہے.اسی طرح امام وقت باہر جا کر اپنے رنگ میں جو تبلیغ کرتے اور لوگوں سے ملتے اور ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتے اور اسلام کی پیاری تعلیم ان کے سامنے رکھتے ہیں ،اس کا اپنا ایک رنگ ہے.پھر بعض ایسے مواقع پیدا ہوتے ہیں کہ کوئی واقعہ ہوتا تو کسی ایک ملک میں ہے لیکن اپنے اثر کے لحاظ سے اور اپنے جذب کے لحاظ سے اس کا تعلق ساری دنیا سے ہوتا ہے.مثلاً 23 اور 4 جون کولندن میں ایک کانفرنس ہورہی ہے، جس میں قرآن عظیم کی تعلیم کی صداقت پر خود عیسائی مصنفین بھی مقالے پڑھیں گے.بڑے بڑے عیسائی مصنفین نے تحقیق کر کے کتابیں لکھی ہیں کہ قرآن کریم کا بیان سچا ہے.میں اس کی تفصیل میں تو نہیں جاؤں گا تاہم بڑی ریسرچ ہوئی ہے.قرآن کریم نے اعلان کیا تھا.وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ (النساء: 158) کہ حضرت مسیح کے مخالفین انہیں قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے.نہ انہیں صلیب پر مارنے میں کامیاب ہوئے.اب عیسائیوں کی طرف سے درجنوں ایسی کتاب میں لکھی جاچکی ہیں، جو کہ انہوں نے بڑی محنت اور کاوش کے بعد تحقیق کر کے شائع کی ہیں.اور ان میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح 460
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1978ء علیہ السلام کے مخالف ان کو قتل کرنے میں یا صلیب پر ان کی جان لینے میں کامیاب نہیں ہوئے.بلکہ وہ صلیب سے بچ گئے.قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق امت محمدیہ کو جوتعلیم دی تھی ، اس کی مخالفت اوروں نے بھی کی تھی.لیکن سب سے زیادہ مخالفت عیسائیوں نے کی تھی.ان کے اپنے کچھ عقائد تھے ، جن کی روشنی میں انہوں نے مخالفت کی.لیکن جیسا کہ ہمیں کہا گیا تھا کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: 10) میں جو بشارت دی گئی ہے، اس کا تعلق آخری زمانہ سے ہے.وہ آخری زمانہ، جو سیح اور مہدی کا زمانہ ہے.اور اس آخری زمانہ میں اسلام کا مذہب ساری دنیا میں پھیل جائے گا.چنانچہ اس زمانہ میں نئی سے نئی تحقیق ہو کر وہ حقائق، جو حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی سے تعلق رکھنے والے اور ان کی وفات سے تعلق رکھنے والے ہیں، ( ہر انسان آخر مرتا ہے.ان پر بھی ایک وقت میں موت آئی.وہ حقائق کھل کر سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں.تاہم اس کا یہ نتیجہ تو نکلنا چاہئے تھا اور نکلا کہ وہ منکرین، جنہوں نے ایسی کتابیں لکھیں اور جو ابھی تک عیسائی ہیں، ان کو بھی عیسائی دنیا نے پسند نہیں کیا.اور بعض کو تکالیف پہنچانے کی کوشش بھی کی.یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے، کوئی ایسی بات نہیں.لیکن یہ کانفرنس جو 2,3,4 جون کو ہورہی ہے، جب اس کا ذکر اخباروں میں آنا شروع ہوا تو اس کی اچھی خاصی مخالفت شروع ہو گئی ہے.اور یہ خوشی کی بات ہے.اگر مخالفت نہ ہوتی تو ہم پریشان ہوتے کہ کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کوشش کو قبول نہیں کیا ؟ غرض بعض طرف سے بڑے غصے کا اظہار ہورہا ہے.لیکن غصہ اپنی ذات میں بے جا ہے.میں نے بڑا سوچا، مجھے تو کبھی غصے کی کوئی معقول دلیل نظر نہیں آئی.جس چیز کو تمہیں عقلی دلائل کے ساتھ یا آسمانی نشانوں کے ساتھ یا مجزا نہ قبولیت دعا کے ذریعہ سے صحیح ثابت کرنا چاہئے ، اس کے مقابلہ میں محض غصہ دکھا دینا تو کسی چیز کو سچ ثابت نہیں کرتا.بہر حال ہمارا کام غصہ کرنا نہیں.جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دلائل کے ساتھ اور پیار کے ساتھ اور دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی متصرفانہ اور معجزانہ طاقتوں کا ثبوت دے کر خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت انسان کے دل میں بٹھانے کی کوشش کریں.اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اور متفرعانہ گریہ وزاری کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کے دامن کو پکڑ کر اس سے چمٹ کر اس سے یہ کہیں کہ اے خدا! تیری تو حید اور محد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے قیام کے لئے جو کچھ ہم کر رہے ہیں، ہماری ان حقیر کوششوں کو 461
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم میں برکت ڈال اور ہماری کوششوں کے مقابلہ میں اتنے عظیم نتائج نکال کر دیکھنے والے کو کوشش اور نتیجے کا آپس میں کوئی تعلق نظر نہ آئے.پس آپ دعائیں کریں، مبلغین کے لئے ، چاہے ان کا تعلق پاکستان سے ہے یا دوسرے ممالک سے ہے، جو ملک ملک اور علاقہ علاقہ اور ریجن ریجن میں دین اسلام کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دے رہے ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور اس کو قربانی کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.لیکن بہر حال وہ خدا تعالیٰ کے حضور کچھ پیش کر رہے ہیں، خدا تعالیٰ ان کی اس پیشکش کو خواہ وہ کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہو ، قبول کرے اور ان کو ثواب دے.اور جس غرض کے لئے وہ کوشش اور جہاد کر رہے ہیں، یعنی وحدانیت باری کے قیام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے اس کے ویسے نتائج نکالے، جیسا کہ وہ عاجز دل چاہتے ہیں کہ نکلیں.اور دعائیں کریں کہ یہ کانفرنس، جولندن میں 2,3,4 جون کو ہورہی ہے، خدا کرے کہ خیر کے ساتھ اور ہر قسم کی برکتوں کے ساتھ اور صلح کے ساتھ اور امن کے ساتھ اور پاکیزہ ماحول میں یہ کانفرنس ہو اور کامیاب ہو.اور اس کے نتیجہ میں اس صداقت کو ، جو صداقت ہے اور صداقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا، وہ انسان، جو اسے ابھی تک نہیں سمجھ رہے، وہ سمجھنے لگیں اور اسے نہ سمجھنے کی وجہ سے دنیا کے معاشرہ میں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں ، وہ خرابیاں دنیا کے معاشرہ سے دور ہو جائیں.اور تمام بنی نوع انسان ایک خاندان کی حیثیت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر ایک نہایت حسین معاشرہ میں خوشحال زندگی گزار نے لگ جائیں.اور ہر قسم کا دکھ اور تکلیف اور در ددنیا سے مٹ جائے.اور ہر قسم کی لعنت.انسان آزاد ہو جائے.اللهم امین.سے (رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 462
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پچیم خطبہ جمعہ فرمودہ 05 مئی 1978ء یہ زمانہ رسول کریم کے عالمگیر نبی ہونے کے وعدوں کے پورا ہونے کا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 05 مئی 1978ء تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.دوست جانتے ہیں، مجھے چونکہ ایک دو دفعہ بڑے زور اور شدت سے ہیٹ سٹروک (Heat stroke) یعنی گرمی لگنے کی تکلیف ہوگئی تھی.اس لئے اب گرمی مجھے بہت تکلیف دیتی ہے.کل بہت گرمی پڑ رہی تھی اور ملاقاتیں بھی تھیں اور اس گرمی میں مجھے کچھ وقت ملاقاتیں کرنی پڑیں.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے ساری رات دوران سر کی تکلیف رہی.اس بیماری میں ہر چیز گھومتی معلوم ہوتی ہے.اس وقت بھی اتنی شدت سے تو نہیں، تاہم ابھی کچھ تکلیف باقی ہے.لیکن اس جمعہ سے میں غیر حاضر نہیں رہنا چاہتا تھا ، اس لئے یہاں آ گیا ہوں.مختصراً میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑے عظیم الشان اعلان کئے ہیں.ایک تو یہ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود تمام عالمین کے لئے ، تمام کائنات کے لئے رحمت بنایا گیا ہے.اور دوسرے یہ کہا کہ آپ کی رسالت كافةً للناس کے لئے ہے.وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (29:-) ساری کی ساری نوع انسانی کے لئے آپ رسول، بشیر اور نذیر ہو کر مبعوث ہوئے ہیں.دو مختلف سورتوں میں یہ آیتیں ہیں.اور ہر دو جگہ اس اعلان کے بعد کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے لئے ، کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اور یہ کہ آپ کی رسالت کافةً للناس کے لئے ہے.یہودی اور عیسائی اور بدھ مذہب والے اور ہر قوم اور ہر علاقہ کے لوگ اور ہر زمانہ میں پیدا ہونے والے انسان، غرضیکہ آپ کی بعثت کے بعد سے قیامت تک کی ہر نسل آپ کی رسالت کے ماتحت ہے.دونوں جگہ اس اعلان کے بعد آگے ایک وعدے کا ذکر ہے.رحمة للعالمین کے بعد فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ جو وعدہ تم سے کیا گیا ہے ، وہ کب پورا ہوگا.463
خطبہ جمعہ فرمودہ 05 مئی 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم وَاِنْ اَدْرِى أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيْدُ مَّا تُوعَدُونَ (الانبیاء : 110) رسول بھی بشر ہوتا ہے اور رحمة للعالمین بھی بشر ہیں.وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے ، جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے علم نہ ہو کہ وہ وعدہ جس کا ذکر کیا گیا ہے، کب پورا ہوگا.اور جب کافة للناس کہا تو وہاں یہ بتایا کہ ترقیات کی پہلی تین صدیوں کے بعد جب ایک ہزار سال گذر جائے گا تو اس وعدہ کے پورا ہونے کا زمانہ آ جائے گا.یعنی چودھویں صدی سے اس وعدہ کے پورا ہونے کا زمانہ شروع ہو گا.پس رحمة للعالمین اور کافۃ للناس میں ایک وعدہ ہے.ویسے صرف نحو کے لحاظ سے وہاں وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ اور وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ ہے.یعنی منصوب ہے.لیکن جب ہم اس کو الگ بولیں تو کہیں گے کہ آپ رحمة للعالمین ہیں اور کافة للناس کی طرف آپ کی بعثت ہوئی.ان آیات میں یہ وعدہ نہیں کہ آپ مبعوث تو ہوئے ہیں ، نوع انسانی کی طرف لیکن نوع انسانی کبھی بھی آپ کو قبول نہیں کرے گی.یہ وعدہ نہیں ہے.بلکہ وعدہ یہ ہے کہ نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو قبول کرے گی اور سارے کے سارے انسان سوائے چند ایک استثناء کے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے.جب وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ بتایا گیا تو پہلی تین صدیوں کا ذکر چھوڑ دیا گیا.کیونکہ پہلی تین صدیاں ترقیات کی صدیاں تھیں، ان میں اسلام بڑھتا چلا جارہا تھا.اسلام عرب میں کامیاب ہوا، پھر عرب سے باہر نکلا.پھر افریقہ کے براعظم پر چھا گیا.صرف کامیاب ہی نہیں ہوا بلکہ چھا گیا.پھر وہاں سے نکلا اور ایک طرف سپین کے رستے سے یورپ میں داخل ہوا اور قریباً سارے پین کو اپنی رحمت کے احاطہ میں لے لیا.اور دوسری طرف ایک وقت میں ترکی کی طرف سے یورپ کے اندر گیا اور ان کے دل جیتتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا.یہاں تک کہ پولینڈ کے دل جیت کر پولینڈ سے پرے جو سمندر ہے، اس کے کناروں تک پہنچ گیا.اور پھر ماسکو، جو آجکل کمیونزم کا دارالخلافہ ہے، ابھی ماضی قریب میں ہی تیمور کے زمانے میں یہ اس کی سلطنت کے ایک صوبے کا دارالخلافہ تھا.تیمور کا اطلاعات دینے کا نظام بہت تیز رفتار تھا.بادشاہ کوگھوڑوں پر بڑی جلدی ان علاقوں کی خبریں آجاتی تھیں.پھر اسلام چین کی طرف بڑھا تو 464
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 05 مئی 1978ء اس کے اندر گھس گیا.غرض کہ وہ ترقی کرتا چلا جارہا تھا حتی کہ تین صدیوں کے بعد یہ ترقی رک گئی اور تنزل کا دور شروع ہو گیا.ترقی کے زمانہ میں نظر آرہا تھا کہ معروف دنیا میں ، معلوم خطہ ہائے ارض میں اسلام بڑھتا چلا جارہا ہے.اور رحمة للعالمین اور کافة للناس میں جو بشارت دی گئی تھی اور جو وعدہ دیا گیا تھا، وہ پورا ہوتا نظر آتا ہے.لیکن اس کے بعد تنزل آنا شروع ہو گیا.یہ تنزل بھی اس قسم کا نہیں ہے، جو دوسروں پر آتا ہے.اسلام پر کبھی ویسا تنزل نہیں آیا.لیکن بہر حال وہ ترقی رک گئی اور ایک تنزل آنا شروع ہوا.پین کی حکومت ختم ہو گئی اور وہ ملک مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا.اور مسلمان ، جو پولینڈ تک آگے گئے ہوئے تھے، وہ علاقے ان کے ہاتھ سے نکل گئے.اور اب ترکی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جو یورپ کے براعظم کے اندر ہے.باقی ملک ادھر ہے.اور تاشقند اور دوسرے بڑے بڑے علماء پیدا کرنے والے جو علاقے تھے، وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے.چین میں بھی حکومت نہیں رہی.پس ایک قسم کا تنزل ہے.گواللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ اس قسم کا زوال نہیں، جیسا کہ دوسری قوموں اور دوسری امتوں پر آیا.بلکہ اس زمانے میں بھی مسلمان میں روشنی اور جان نظر آتی ہے.لیکن حالات کے لحاظ سے ہم اس کو تنزل کا زمانہ کہنے پر مجبور ہیں.دوسری چیز جو ذہن میں آئی تھی، پھر رہ گئی، وہ یہ ہے کہ اس وقت اسلام ساری دنیا میں پھیل ہی نہیں سکتا تھا.کیونکہ ہمارے ان علاقوں کے انسان کو دنیا کے بہت سے حصے معلوم ہی نہیں تھے.مثلاً امریکہ ہے، نیوزی لینڈ ہے، آسٹریلیا ہے، یہ Unknown (غیر معلوم ) علاقے تھے اور انسان کو ان علاقوں کے جغرافیہ کا ہی پتا نہیں تھا.وہاں کی آبادیوں کا ہی پتا نہیں تھا.پس اگر اس وقت سارے کے سارے انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جاتے اور ہم سمجھتے کہ جمع ہو گئے ہیں، تب بھی ساری کی ساری نوع انسانی اسلام کے جھنڈے تلے جمع نہ ہوتی.کیونکہ ایسے علاقے تھے، انسان سے آباد علاقے ، جن کا ہمیں علم ہی نہیں تھا اور وہاں اسلام کی تعلیم پہنچ ہی نہیں سکتی تھی.کیونکہ ان علاقوں اور ان اقوام کو ہم جانتے ہی نہیں تھے.مثلاً نبی آئی لینڈ کی ، جو پرانی آبادیاں ہیں، انہوں نے اس زمانے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہی نہیں سنا تھا.اب ہمارا وہاں مشن ہے اور اللہ کے فضل سے اس پرانی قوم میں سے بھی (جو کہ قریباً چودھویں صدی میں ہی سامنے آئی ہے.) مسلمان ہونے شروع ہو گئے ہیں.غرض ہر دو جگہ پر یعنی جہاں رحمۃ للعالمین کہا وہاں بھی اور جہاں کافة للناس کہا وہاں بھی، ایک وعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایک جگہ کہا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کب پورا ہوگا ؟ یہاں قرآن 465
خطبہ جمعہ فرمودہ 05 مئی 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم کریم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فکر کی کیفیت بیان کی ہے اور پھر دوسری جگہ خدا تعالیٰ نے خود بتایا کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ چودھویں صدی سے اس وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ شروع ہو جائے گا.اب ہم اس زمانہ میں ہیں اور آج کے زمانہ کے مسلمان پر بہت بڑی ذمہ داری ہے.اس لئے کہ جتنی بڑی بشارتیں کسی امت کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے رسول کے ذریعہ سے ملتی ہیں اور ہمارے سول صلی الہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور فضل الرسل ہیں، اتنی ہی بڑی ذمہ داریاں بھی ان پر ڈالی جاتی ہیں.اور اتاہی یہ احساس بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے نفس میں اور اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اور اس کے اندر کوئی زور نہیں اور نہ کوئی طاقت ہے کہ وہ خدائی امداد اور نصرت کے بغیر اپنے زور سے قربانیاں کر کے ان وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائے.انسان کو تو یہ کہا گیا ہے کہ جتنی تجھ میں طاقت ہے، وہ کر دے.اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے، اس کی نصرت اور اس کی امداد سے ہوتا ہے.پس اس زمانہ میں یہ وعدہ ہے کہ نوع انسانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو کر عملاً انسان کے سامنے یہ تصویر پیش کرے گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمة للعالمین ہیں.اعتقاد ا نہیں بلکہ عملاً یہ تصویر پیش کرے گی.کیونکہ الا ماشاء اللہ چند ایک استثناؤں کے علاوہ ساری دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور آپ پر ایمان لا کر آپ کے روحانی فیوض سے حصہ لیا.یہ دعاؤں کے نتیجہ میں ہو گا اور اس دعا کے نتیجہ میں، جو اس دل سے نکلی تھی ، جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِيْنَ (الشعراء:04) اور دنیا کے سامنے عملا یہ نقشہ آ جائے گا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک قوم کسی ایک علاقے کسی ایک ملک یا کسی ایک نسل کے لئے رسول نہیں ہیں بلکہ کافة للناس کی طرف آپ کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے.اور یہ عملاً ثابت ہو جائے گا.کیونکہ انسانوں کی بھاری اکثریت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آئے گی اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو جائے گا.گو وہ اس شکل میں بیان نہیں ہوا.لیکن وہ اپنے معنی کے لحاظ سے اس میں بیان ہو چکا ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے، ان دونوں آیتوں کے بعد آگے ایک وعدے کا ذکر ہے اور پھر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ وہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ اور پھر ایک جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ چودھویں صدی میں اس وعدے کے پورا ہونے کا زمانہ آ جائے گا.پس اس زمانہ میں ہم پر بڑی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں.اس کے لئے ہم کوشش کرتے ہیں.لیکن ہماری کوششیں حقیر ہیں.اس کے لئے سب سے بڑی تدبیر یہ ہے کہ ہم اس سے زیادہ خدا تعالیٰ کے 466
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 05 مئی 1978ء آستانہ پر جھک کر، جتنا کہ انسان کبھی اس کے آستانہ پر جھکا ہو، عاجزانہ اور متفرعانہ دعاؤں کے ساتھ خدا تعالٰی کی مدد کے طالب ہوں اور اس کی مدد کو پائیں.اللہ تعالیٰ ہم پر فضل کرے.ہم اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں.اور ایک کوشش وہ کا نفرنس بھی ہے، جس کے متعلق میں نے پچھلے جمعہ میں بتایا تھا کہ وہ لندن میں ہو رہی ہے.اس کا بڑا چرچا ہے.اور عیسائیت کے بعض حصوں میں بڑا ہنگامہ ہے.سورۃ کہف کے شروع میں ہے کہ ان لوگوں نے بغیر دلیل کے اور بغیر معقولیت کے خدا تعالی کا بیٹا بنالیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس مذہب کو دلائل کے ساتھ تو ڑا جائے گا اور نا کام کیا جائے گا.لیکن وہ لمبا مضمون ہے اور بڑی پیشگوئیاں ہیں کہ کیا حالات پیدا ہوں گے؟ کس طرح یہ تو میں ترقی کریں گی ؟ اور کس طرح پکھلیں گی ؟ ( دعاؤں کے ساتھ ہی یہ پگھلیں گی.اور کس طرح یہ مجبور ہو کر اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف واپس لوٹیں گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور آپ کے احسان کی معرفت حاصل کریں گی؟ اور پھر ساری دنیا ایک خاندان بن جائے گی.بڑی پیشگوئیاں ہیں.اور آج جب کہ دنیا کی ساری طاقتیں اور دنیا کے سارے اموال اور دنیا کی ساری کوششیں اور تدابیر ہمیں اسلام کو مٹانے پر بروئے کار نظر آتی ہیں، وہاں ہمیں خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی نظر آتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا.اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ تم قربانیوں کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ میری مدد اور نصرت حاصل کرنے کے بعد ہی دنیا میں یہ انقلابی تغیر پیدا کر سکو گے.کہ وہ جن کی شکست ڈنڈے یا ایٹم بم کے ساتھ نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ آج ناممکنات میں سے نظر آتی ہے، چودھویں صدی سے وہ زمانہ شروع ہو گیا ہے کہ جب یہ ممکن بن جائے گی.اور وہ جو خواب میں بھی اپنی شکست کا تصور نہیں کر سکتے ، وہ دلائل کے ساتھ عملاً اپنی شکست تسلیم کر کے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف واپس لوٹیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے.لیکن دعاؤں کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ.پس آپ بہت دعائیں کریں.ہمارے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ سفر اور حضر میں میرا اور میرے رفقاء کا حافظ و ناصر ہو.اور اللہ تعالیٰ آپ کا بھی ہر آن اور ہر لحظہ حافظ و ناصر ہو.اور ہر شر سے آپ کو محفوظ رکھے اور ہر بیماری سے آپ کو بچائے اور ہر تکلیف اور دکھ آپ کا دور کرے اور آپ کو توفیق عطا کرے کہ آپ اپنے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی مقبول دعا ئیں کرنے والے ہوں“.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 467
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 04 جون 1978ء حضرت بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی ہی نجات کا واحد ذریعہ ہے خطاب فرمودہ 04 جون 1978ء بر موقع کسر صلیب کانفرنس حضور کی تقریر نقطۂ عروج پر اس وقت پہنچی، جب آپ نے فرمایا کہ میں اس موقع پر مسیحیوں کو بڑے اخلاص اور محبت کے ساتھ یہ پیغام دیتا ہوں کہ وہ خوش ہوں اور خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گائیں کہ وہ مسیح، جس کے آنے کی قدیم صحیفوں اور قرآن کریم میں خبر دی گئی تھی ، جس کی حضرت بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی ، وہ آگئے.اور میں ان کے نائب اور تیسرے خلیفہ کی حیثیت میں عیسائیوں سے مخاطب ہوں.میرے دل میں ان کی کچی اور گہری ہمدردی سمندر کی طرح موجزن ہے.میں ان کے مصائب دیکھ کر بے چین اور ان کی تکالیف پر مغموم ہوں.یہ مصائب اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ انہوں نے خدائے رحمان اور رحیم کوفراموش کر دیا ہے.میں انہیں اس خدا کے احسان یاد دلاتا ہوں اور اس کی طرف بلاتا ہوں، جس نے ہماری پیدائش سے بھی پہلے ہماری ضروریات مہیا کر دی تھیں اور ہماری خوشحالی کے سامان پیدا کر دیئے تھے.لیکن وہ چیز جو ہماری امن اور سلامتی کا ذریعہ بنی چاہئیں تھیں، انہیں دنیا نے فتنہ وفساد بر پا کرنے کے لئے استعمال کیا.خدا کی نعمتوں کی ناشکری کے نتیجہ میں وہ اپنے پیدا کرنے والے خدا سے منقطع ہو گئے“.وو سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آپ نے بڑی تحدی سے فرمایا کہ...اب بھی وقت ہے کہ مسیحی دنیا اپنے آپ کا جائزہ لے، اپنے خالق و مالک خدا کو پہچانے ، اپنے گناہوں کی معافی کے لئے خدا کے حضور سچے دل سے توبہ کرے.کیونکہ گناہوں کے احساس سے جب انسان کی آنکھوں سے اشک ندامت ٹپکنے لگتے ہیں اور دل میں خدا سے ملنے کی سچی تڑپ پیدا ہوتی ہے تو یہی تبدیلی انسان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے.نجات مسیح کی صلیبی موت پر ایمان لانے سے نہیں، راستبازی اختیار کرنے میں ہے.پس عیسائیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدائے واحد لا شریک پر ایمان لائیں اور اس کی اطاعت میں اپنی گردنیں جھکا دیں کہ اسی میں ان کی بہتری ہے“.469
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 04 جون 1978ء حضور نے فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اب نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ حضرت بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی ہے.اس لئے میں عیسائی دنیا کو ان راہوں کی طرف بلاتا ہوں، جن پر چل کر انسان خدا کو پالیتا ہے اور وہ دین و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز ہوتا ہے“.آپ نے فرمایا:.نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ آج بھی دعوت فکر اور عمل دیتا ہے.میں سچ کہتا ہوں، اگر تم حضرت بانی اسلام کی پیروی کرو گے تو خدا تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.اور تم اس کی یہ پیاری آواز سنو گے کہ ” جے تو میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو.آپ نے فرمایا:.خدا کی محبت کے مقابلہ میں دنیا کی خوشیاں اور لذتیں بیچ ہیں.میں عیسائی دنیا سے کہتا ہوں کہ اصل خوشی خدا کی محبت اور لقاء الہی میں ہے.محبت الہی پانے کا دروازہ اب بھی کھلا ہے.مگر یہ اسی کے لئے کھلتا ہے، جو اسے کھٹکھٹاتا ہے.تمہارے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ، تم آگے بڑھو اور مسیح محمدی کے اس نائب کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کر لو کہ اسی میں تمہاری بھلائی اور تمہاری آنے والی نسلوں کی خوشحالی کا راز مضمر ہے.اگر تم نے اس آواز پر کان نہ دھرے تو پھر یا درکھو، ایک خوفناک تباہی تمہاری منتظر ہے.جس کے متعلق میں گیارہ سال پہلے بھی متنبہ کر چکا ہوں“.مطبوعه روزنامه الفضل 19 جون 1978ء) 470
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اعلان فرمودہ 04 جون 1978 ء جواب دعوت تبادلہ خیال از برٹش کونسل آف چرچز اعلان فرمودہ 04 جون 1978ء برٹش کونسل آف چرچز نے جماعت احمدیہ کو تبادلہ خیال کی جو دعوت دی، اس کو قبول کرنے کا جو اعلان حضور نے فرمایا، اس کا ترجمہ درج ذیل ہے.) برٹش کونسل آف چرچز کی اس کمیٹی نے ، جو دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ تعلقات کے بارہ میں حال ہی میں بنی ہے، مسیح کی صلیبی موت سے نجات“ کے موضوع پر جماعت احمدیہ کی بین الاقوامی کانفرنس کے حوالہ سے ایک بیان جاری کیا ہے.جس میں اس نے دوسروں کے علاوہ جماعت احمدیہ کے نمائندوں کے ساتھ بھی کھلے اور تعمیری تبادلہ خیالات پر آمادگی ظاہر کی ہے.مذکورہ بیان میں اس خدشہ کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ کانفرنس کی جو تشہیر کی گئی ہے، وہ دلآزاری کا موجب ہوسکتی ہے.میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ کانفرنس کے انعقاد سے جماعت احمدیہ کا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری نہیں اور کسی کو بھی اسے دل آزاری پر محمول نہیں کرنا چاہئے.مسیح علیہ السلام کو ہم خدا تعالیٰ کا برگزید نبی اور سچا رسول مانتے ہیں.چنانچہ جیسا کہ سب نے دیکھا اور سنا، کا نفرنس میں شروع سے آخر تک مسیح علیہ السلام کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا رہا ہے.کمیٹی کے بیان میں جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمان فرقوں کے درمیان عقائد کے اختلافات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے.میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ تمام اسلامی فرقے اپنے اختلافات کے با وجود اللہ تعالیٰ کی توحید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کے خاتم النبین اور افضل الرسل ہونے پر پوری طرح متفق ہیں.بنابریں خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کے بالمقابل تثلیث کے عیسائی عقیدے سے متعلق موقف کے بارے میں ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے.پھر مذکورہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لندن کا نفرنس پر علی الاعلان تبصرے سے ہمارے گریز کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت بالعموم دوسرے مذاہب اور ان کے بنیادی عقائد کو جارحانہ اور منفی نوعیت کے حملوں کا نشانہ بناتی رہی ہے.گو یہ حملے اسی نوعیت کے ہوتے تھے، جس نوعیت کے حملے عیسائیت کے بنیادی عقائد پر احمدی اب کر رہے ہیں.471
اعلان فرمودہ 04 جون 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ہم اس امر سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ عیسائیت بالعموم دوسرے مذاہب کے عقائد پر جارحانہ اور منفی نوعیت کے حملے کرتی رہی ہے.اور زبان بھی ایسی استعمال کرتی رہی ہے، جو بہت قابل اعتراض ہوتی تھی.لیکن ہم اس بات سے اتفاق نہیں کر سکتے کہ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ یا اس عقیدہ کا اظہار یا اس اظہار کے لئے کسی کا نفرنس کا انعقاد کہ حضرت مسیح علیہ السلام خدا کے بزرگ رسول تھے.اور ایسی باتیں ان کی طرف منسوب نہیں ہونی چاہئیں، جو ان کی رسالت اور بزرگی کے خلاف ہوں، یہ بھی مسیحی حملوں کی طرح ایک جارحانہ اور منفی حملہ ہے.کمیٹی کا اس امر کو تسلیم کرنا کہ مسیح علیہ السلام کا صلیب پر مرنا، خدا تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف گیری اور اس کی ہتک کے مترادف نظر آسکتا ہے.اس کی طرف سے ایک خوش آئند اعلان کی حیثیت رکھتا ہے، ایک بہت امید افزاء اعلان ہے.اس سے یہ امید بندھتی ہے کہ اگر عیسائی بھائیوں کو پیار کے ساتھ اور احسن طریق سے ان مسائل کی اصل حقیقت سے آگاہ کیا جائے تو وہ اپنے غلط عقائد کوترک کر کے اس بات کو تسلیم کر لیں گے کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت مسیح صلیب پرلعنتی موت مرے اور اس معصوم اور بے گناہ کو دوسروں کے گناہوں کی سزاملی.(May Seem) کی رو سے محض نظر آنے یا محسوس ہونے کی حد تک نہیں بلکہ صریحاً ایک بہتان ہے.اور سچ سچ اور حقیقی طور پر خدا تعالیٰ کی صفت عدل کی ہتک کے مترادف ہے.ہم خوش ہیں کہ برٹش کونسل آف چرچز نے اب جماعت احمدیہ کو با ہمی بات چیت اور تبادلہ خیال کی دعوت دی ہے اور یہ دعوت دی ہے کہ یہ تبادلہ خیال لندن میں یا کسی اور جگہ ہو سکتا ہے.ہم اس دعوت کو قبول کرتے ہیں.اور اس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ تبادلہ خیال لندن میں اور لندن کے علاوہ دوسری جگہوں میں بھی ہو.بہتر یہ ہے کہ یہ لندن، روم، مغربی افریقہ کے کسی ملک کے دارالحکومت، کسی ایشیائی ملک کے دارالحکومت اور امریکہ میں باہمی رضامندی سے مقررہ تاریخوں میں اور ایسی شرائط کے ساتھ ہو، جن کی تفصیل باہمی بات چیت کے ساتھ طے کی جائے.ہم عقائد کے اختلاف پر رومن کیتھولک چرچ کے نمائندوں کے ساتھ بھی تبادلہ خیالات کے مواقع کا خیر مقدم کریں گے.یہ تبادلہ خیال ان کے ساتھ علیحدہ طور پر بھی ہو سکتا ہے یا بشمول برٹش کونسل آف چرچز بیک وقت مجموعی طور پر تمام چرچز کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے“.472 ( مطبوعه روزنامه افضل 24 جون 1978ء)
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جون 1978ء اپنے حسن و احسان کے ذریعہ دین اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر مقدر ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جون 1978ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے:.وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء: 108) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (التوبة: 33) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے لئے رحمت ہیں اور آپ کا دین باقی ادیان پر غالب آئے گا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کے پہلے دن ہی سے عالمین کے لئے بطور رحمت کے ہیں اور قیامت تک بطور رحمت کے ہیں.اور پہلے دن سے ہی یہ مقدر تھا کہ دینِ اسلام تمام ادیان باطلہ پر اپنے حسن واحسان کے ذریعہ سے غالب آئے گا.لیکن یہ ایک دن کا کام نہیں تھا، یہ صدیوں کا کام تھا.چنانچہ پہلے دن سے ہی ایک عظیم مجاہدہ کی ابتدا ہوئی.اور یہ مجاہدہ پھیلاؤ میں بڑھتا چلا گیا اور اس کی ترقی کی حرکت میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی اور پیار کے ساتھ اور دلائل قاطعہ کے ساتھ اور حج ساطعہ کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ اور قبولیت دعا کے نشانوں کے ساتھ دنیا کے دل میں آہستہ آہستہ ایک انقلاب پیدا کرتا رہا.ایک نسل کے بعد دوسری نسل یہ ذمہ داری اٹھاتی رہی اور اس مہم کو آگے بڑھاتی رہی.آخر تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد اس مہدی کا ظہور ہوا، جس کے متعلق تمام بزرگوں نے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کی رو سے کہا ہے کہ دین اسلام کے کامل غلبہ کا زمانہ مہدی کا زمانہ ہے.لیکن وہ جو ایک جد و جہد تھی اور غلبہ اسلام کے لئے قربانی اور ایثار پیش کرنے کی مہم تھی ، وہ تو پہلے دن سے جاری ہو چکی تھی اور آگے ہی آگے بڑھتی چلی جارہی تھی ، جس نے مہدی معہود کے ذریعہ اپنی انتہا کو پہنچنا تھا.473
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جون 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم اس لئے ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ مہدی علیہ السلام کے ذریعہ اس زمانہ میں تمام ادیان باطلہ کے خلاف علمی لحاظ سے ایسا مواد جمع کر دیا جائے گا کہ دوسرے مذاہب کے پیر و اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.ان میں عیسائیت بھی ہے، ان میں بدھ مت بھی ہے، پارسیوں کا زرتشتی مذہب بھی ہے اور ہندو مذہب بھی ہے.آریہ اس کا ایک فرقہ ہے، جو اسلام کی مخالفت میں بڑی تیزی سے ابھرا.علاوہ ازیں میری فکر کے مطابق لوگوں کے وہ نظریات بھی اس میں آجاتے ہیں، جو مذہب تو نہیں لیکن ازم کہلاتے ہیں.یعنی وہ خیالات ، جن کے ذریعہ کوئی فلسفہ یا انسانی معاشرہ یا کوئی تمدن قائم ہوتا ہے.مثلاً اشتراکیت ہے یا سوشلزم ہے.اور اسی طرح آئے دن دوسرے بہت سے ازم ہیں، جو ابھرتے اور مٹتے چلے آرہے ہیں.اب یہ کوئی نہیں کہ سکتا کہ اسلام اشتراکیت پر غالب نہیں آئے گا یا سوشلزم پر غالب نہیں آئے گایا دوسرے نظریات پر غالب نہیں آئے گا.بلکہ ہر وہ مذہب اور نظریہ یا د نیوی فلسفہ جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہے، اسلام اس پر بھی غالب آئے گا.جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور آپ کی تحریرات پڑھتے ہیں یا آپ کے ملفوظات ہمارے زیر مطالعہ آتے ہیں اور ان پر غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ پہلوں نے جو یہ کہا تھا کہ مہدی کے زمانہ میں اسلام ادیان باطلہ اور ہر قسم کے از مز پر غالب آئے گا، وہ درست کہا تھا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام تفسیر قرآن اور آسمانی نشانات اور دعاؤں کی قبولیت میں اتناز بر دست مواد ملتا ہے کہ عقل انسانی یہ بات سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ وعدہ کا دن یا مجھے یوں کہنا چاہئے کہ وعدہ کا زمانہ آچکا ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے، یہ ایک دن کا کام نہیں.اس کے لئے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے.جہاں تک عیسائیت کا سوال ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دنیائے عیسائیت نے بڑے زبر دست نشان دیکھے.امریکہ میں ڈاکٹر ڈوئی تھا، اس کے بڑے دعوے تھے، وہ بڑی شان کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مہدی کے خلاف اٹھا تھا اور بڑی ذلت کے ساتھ اس نے شکست کھائی تھی.اور اس وقت کے اخبارات اس عظیم نشان سے بھرے پڑے ہیں.پھر خود ہندوستان میں عیسائیوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مناظرہ ہوا.جس میں دلائل کے ساتھ اور بڑے عظیم علم کلام کے ذریعہ اسلامی تعلیم کی برتری ثابت ہوئی.یہ آتھم کے ساتھ مناظرہ ہوا تھا، جو جنگ مقدس کے نام سے چھپا 474
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جون 1978ء ہے.پھر نشانوں کی دنیا میں جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو ان کے دشمنوں نے صلیب پر لڑ کا کر ماردینا چاہا لیکن وہ ناکام ہوئے ، اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے اس مسیح کے خلاف بھی عیسائی دنیا نے سازشیں کیں کہ کسی طرح وہ پھانسی چڑھ جائیں.چنانچہ آپ کے خلاف مقدمے بنائے گئے ، ہر قسم کی جھوٹی گواہیاں پیش کی گئیں، حکومت عیسائیوں کی تھی ، گواہیاں عیسائیوں کی تھیں، ان گواہیوں کو مضبوط کرنے والی کچھ اور گواہیاں بھی تھیں، حالات سازگار نہیں تھے لیکن خدا اپنے وعدوں کا سچا ہے، جیسا کہ اس نے کہا تھا، ویساہی اس نے کر دکھایا کہ لوگ تیرے ساتھ نہیں ہوں گے لیکن میں تیرے ساتھ کھڑا ہوں گا اور تجھے دشمنوں کی ہر بد تد بیر سے بچاؤں گا.اب یہ جوڈوئی کا واقعہ ہے یا جو علمی لحاظ سے عیسائیوں کے ساتھ ہندوستان میں مناظرہ ہوا تھا اور اس سے اسلام کی برتری ثابت ہوئی، یہ تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے ہر صدی میں اسلام کے حق میں اسلام کے دشمنوں کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے وقت وقت کے اولیاء کو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہونے والے اور آپ کے جاں نثاروں کو روحانی علوم سکھائے اور انہوں نے مخالف اسلام طاقتوں کا علمی میدان میں مقابلہ کیا.انہوں نے مخالف اسلام طاقتوں کا مقابلہ کیا آسمانی نشانوں میں، دعاؤں کی قبولیت میں.انہوں نے بڑے نشان دکھائے.انسانی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے.کچھ نشان انسان نے یادر کھے اور کچھ کو انسان بھول گیا.یہ تو درست ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ انسانی تاریخ معمور ہے، اس قسم کے علمی نشانوں سے اور آسمانی نشانوں سے اور ان نشانوں سے بھی جن کو ہم قبولیت دعا کا نشان کہتے ہیں.پس ایک مسلسل حرکت ہے، جس میں ضعف تو آیا لیکن وہ حرکت بند نہیں ہوئی.جو اسلام کو غالب کرنے کے لئے پہلے دن سے شروع ہو چکی تھی اور یہ جاری رہی.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آ گیا.آپ کی زندگی ایک عظیم مجاہد اسلام کی زندگی ہے.آپ کا جو عمل تھا، وہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند اور آپ کے ایک عظیم محبوب کا عمل تھا.خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کو قائم کرنے کے لئے آپ کو جو نشانات دیئے ، وہ ہر میدان میں عظیم تھے لیکن وہ پہلی جو حرکت تھی اور تحریک جاری ہوئی تھی ، اسلام کے غلبہ کے لئے اور جس کے اثرات آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے تھے، ان سے وہ کئی ہوئی نہیں تھی.بلکہ اسی جدو جہد کے تسلسل میں تھی ، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے شروع ہوئی تھی.475
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جون 1978ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم شاید کسی نے یہ خیال کیا ہو کہ اتنا بڑا واقعہ ہو گیاڈ وئی کے ساتھ اور عیسائیت کو اس قدر عظیم شکست ہو گئی، اب شاید کوئی فوری انقلابی تبدیلی ظاہر میں نظر آنے والی پیدا ہو جائے عیسائی دنیا میں.لیکن ایسا نہیں ہوا.کیونکہ مقدر یہ ہے اور پہلے سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ یہ جہاد جاری رہے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ ابھی تین صدیاں نہیں گزریں گی یعنی تین صدیاں حتمی ہیں، ان کے اندر اندر ہو سکتا ہے، ڈیڑھ صدی میں، اور ہوسکتا ہے دو صدیاں لگ جائیں، اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کا یہ اعلان اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا کے سامنے عملاً ایک صداقت کی شکل اختیار کر جائے گا.اور واقع میں اسلام دنیا کے ہر خطہ میں اور دنیا کے ہر مذہب پر غالب آئے گا.اور دنیا میں اسلام ہی اسلام ہوگا اور ایک ہی خدا ہو گا، جس کی پرستش کی جائے گی.اور ایک ہی پیشوا ہوگا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جس کی عظمت اور جلال کے ترانے گائے جائیں گے.یہ جو ہماری کا نفرنس ہوئی ہے، یہ بھی اسی جہاد کا ایک حصہ ہے.یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ 2,3,4 جون کو ہماری کانفرنس ہوئی اور 05 جون کو ساری دنیائے عیسائیت نے اسلام کو قبول کر لینا ہے.یہ ایک اور قدم ہے، جو آگے بڑھا ہے.امت محمدیہ نے تبلیغی میدان میں خدائی وعدوں کے مطابق جتنے قدم آگے بڑھائے ہیں، ان میں سے ہر قدم پر مخالفین کی زندگی میں ایک موافق اسلام حرکت پیدا ہوتی رہی ہے.اور ان کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا جاتارہا ہے.شروع سے آخر تک ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آہستہ آہستہ عظیم تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں.یہ ایک بہت لمبا مضمون ہے، اس کے لئے ساری صدیوں پر غور کرنا پڑے گا.ہم جب اپنے زمانہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اسلام نے عیسائیوں کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب اور تبدیلی پیدا کر دی ہے.ایسے ہی جیسے کسی چیز کو جنجھوڑ کر رکھ دیا جائے.اسی طرح غیر مذاہب کی حالت ہو گئی ہے.لیکن ابھی یہ وقت نہیں آیا کہ ہم آرام کریں اور سمجھ لیں کہ جو کام ہم نے کرنا تھا، وہ کر لیا ہے.ابھی ہماری کئی نسلوں کو خدا اور خدا کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربانیاں دینی پڑیں گی.ابھی کئی میدانوں میں ہمیں ادیان باطلہ کا مقابلہ کرنا پڑے گا، دلائل کے ساتھ بھی اور آسمانی نشانوں کے ساتھ بھی اور قبولیت دعا کے ساتھ بھی.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض چیلنجز (Challenges) کو سیحی دنیا کے سامنے دہرایا تھا.یہ 1967ء کی بات ہے.ابھی تک انہوں نے چیلنج قبول نہیں کیا.تین سال ہوئے ، ڈنمارک کے ایک صحافی ربوہ آئے تو ان سے میری بات ہوئی تھی.کہنے لگے، پادری کہتے ہیں کہ حضرت صاحب 476
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جون 1978ء نے بڑی سختی کی تھی.میں نے کہا، میں نے سختی تو کوئی نہیں کی تھی.میں نے تو ان کو یہ کہا تھا کہ آؤ مقابلہ کر لو.خدا تعالیٰ آپ ہی فیصلہ کر دے گا کہ وہ کس کے ساتھ ہے اور کس کے ساتھ نہیں ہے.وہ کہنے لگا، اچھا یہ بات ہے، میں جا کر ان کی خبر لیتا ہوں.یہ تو مجھے علم نہیں کہ اس نے خبر لی یا نہیں لی.لیکن اس کے دماغ پر یہ اثر ضرور تھا کہ اس کو نفی نہیں کہا کرتے.پس ہم تو عیسائیوں سے کہتے ہیں، ہمارے ساتھ محبت کے ساتھ اور آشتی کے ساتھ اور صلح کی فضا میں تبادلہ خیال کرو.جہاں تک مذہب کا سوال ہے، اس کا تعلق انسان کے دل اور دماغ کے ساتھ ہے.جسے انگریزی میں Heart اور Mind کہتے ہیں، ان کے ساتھ مذہب کا تعلق ہے.انسان دوسرے کا دل جیتا ہے، پیار کے ساتھ اور Mind جیتتا ہے، دلائل اور نشانات کے ساتھ.پس اسلام میں حسن واحسان بھی بڑا ہے اور اس کی تعلیم میں صداقت اور شوکت بھی بڑی ہے.اور اس کی صداقت کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں کے جو نشان ظاہر کرتا ہے، اس کی عظمت کے سامنے تو کوئی دوسری چیز ٹھہر نہیں سکتی.غرض ایک قدم ہم نے اور اٹھایا.ہماری نسل، جو آج زندہ ہے اور جوان ہے اور ذمہ داریوں کو اٹھائے ہوئے ہے، ان کو پتا نہیں اس میدان میں کتنے اور قدم اٹھانے پڑیں گے.اس کے بعد پھر دوسری نسل آجائے گی اور پھر اگلی نسل آجائے گی.میں نے کئی دفعہ پہلے بھی کہا ہے کہ میرے اندازہ کے مطابق جماعت احمدیہ کی جو دوسری صدی ہے، وہ غلبہ اسلام کی صدی ہے.یعنی ہماری جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی میں وہ تمام وعدے، جو غلبہ اسلام کے لئے کئے گئے تھے، وہ انشاء اللہ پورے ہوں گے.اور وہ عظیم مجاہدہ، جو بعثت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شروع ہوا تھا، وہ اپنے انتہائی عروج کو پہنچ جائے گا اور اسلام ہر طرف پھیل جائے گا.لیکن یہ سمجھنا کہ جون کی پانچ تاریخ ہمارے لئے سو جانے کا دن تھا، صحیح نہیں.وہ ہمارے لئے سو جانے کا دن نہیں تھا.23 اور 4 جون کو ہماری کانفرنس تھی اور پانچ کو پھر ہمارے لئے مجاہدہ کا دن ہے، آرام کا دن نہیں تھا.سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے سکھ اور آرام اور چین کا وہ دن ہو گا.جب دنیا کی بڑی بھاری اکثریت کے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لئے جائیں گے اور دنیا کے ہر گھر پر توحید کا جھنڈا لہرا رہا ہوگا.پس تم دعائیں کرو اور اپنے مقام کو پہچانو.اور جو ذمہ داریاں ہیں، ان کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کے دن گزارو.اور عاجزی سے خدا سے یہ دعا کرو کہ وہ آپ کو بھی اور مجھے بھی اپنی رضا کی راہوں پر چلائے ، ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرمائے اور جتنی بھی قربانیاں ہیں، ان میں بے شمار گنا زیادہ برکت ڈال دے.تا کہ ہم کامیابی کا دن دیکھنے والے ہوں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.( مطبوعه روزنامه الفضل 06 جولائی 1978ء) 477
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جون 1978ء رسول اللہ کی پیروی میں دنیا کی اصلاح کے لئے مسیح موعود کو مامور کیا گیا خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جون 1978ء حضور انور نے خطبہ جمعہ کے آغاز میں اگلے ماہ افریقہ کے لہمی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے دوستوں کو دعا کی تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس دورہ کو ان ملکوں کے لئے ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے اور ہر قدم پر روح القدس سے تائید و نصرت فرمائے.(آمین ) آپ نے فرمایا:.امت محمدیہ میں اولیاء اور مجددین کا جو سلسلہ جاری رہا ہے، اس میں یہ قدر مشترک ہے کہ بے شک انہوں نے اپنے اپنے حلقہ میں زبردست جہاد کیا لیکن ان کی کوششوں کا دائرہ خاص شہر یا ملک تک محدود ہوتا رہا ہے.بنی نوع انسان کی ہمہ گیر اصلاح کا کام ان کے ذمہ نہیں تھا.وہ تو صرف نوع انسانی کے کسی نہ کسی ایک حصے کی اصلاح پر مامور ہوتے تھے.یہ شرف صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کو حاصل ہوا ہے کہ رحمة للعالمین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی میں آپ کا مشن عالمگیر اور آپ کی تبلیغی کوششوں کا دائرہ ساری دنیا پر پھیلا ہوا ہے.چنانچہ آپ نے بھی جب بھی انسان کو مخاطب کیا ہے، کسی خاص طبقہ کے لوگوں کی بجائے تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کیا ہے“.حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے چند اقتباسات پڑھ کر سنائے ، جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے تمام لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے خدا دانی اور خدا رسی پر زور دیا.ہے.اور دنیا پرستی کو چھوڑ کر نیکی اور تقویٰ اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی - ہے.آپ نے فرمایا:.انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور بشری کمزوریوں کے دور ہونے کے لئے ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ر ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو.کیونکہ خدا تعالیٰ چاہے تو انسان کے سارے گناہ بخش سکتا ہے.پس انسان کو چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرے دعا کے ذریعہ ہے.اور اس کو راضی رکھنے کی کوشش کرے اس کا ہوکر.اور اس میں 479
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جون 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم کھوئے جا کر.اور اپنی تمام طاقتوں اور قوتوں پر صفات الہیہ کا رنگ چڑھا کر.اگر انسان کو خدامل جائے تو ی پھر اسے دنیا کی کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی.پس اصل چیز خدا کا پیار ہے.اگر یہ انسان کو حاصل نہ ہو تو اس کے اعمال خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں، کسی کام کے نہیں.اس لئے میں جماعت کے ہر فرد سے یہ کہتا ہوں کہ تم خدا کے ہو جاؤ اور شرک کی ہر راہ سے مجتنب رہو.اپنے دل میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار پیدا کرو.کیونکہ آپ کا وجود حسن و احسان میں یکتا اور علم وعمل میں کامل ہے.جب تک آپ کا پیار دل میں پیدا نہ ہو اور آپ کی عظمت اور جلالت شان کا احساس نہ ہو، اس وقت تک ہم اسلامی احکام پر کما حقہ عمل نہیں کر سکتے“.حضور انور نے فرمایا:.اس وقت جماعت احمدیہ کے افراد پر بہت بڑی ذمہ داری ہے.انسان اور شیطان کے درمیان وہ آخری جنگ ، جس کے متعلق پہلے نوشتوں میں بھی خبر دی گئی ہے، وہ اس وقت لڑی جارہی ہے.اور یہ وہی جنگ ہے، جس میں فتح یاب ہو کر ہم نے دنیا میں توحید حقیقی کو قائم کرنا ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کو دنیا کے کونے کونے میں اجاگر کرنا ہے اور بنی نوع انسان کے لئے حقیقی امن اور خوشحالی کے سامان پیدا کرنے ہیں.لیکن یہ ایک دن کا کام نہیں ہے، اس کے لئے برسوں ہمیں نسلاً بعد نسل قربانیاں دے کر اور عادتوں کو بدل کر اور گند سے نکل کر اور گندی عادتوں کو چھوڑ کر اور نیکی کا لبادہ پہن کر اور خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اعمال پر چڑھا کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار میں فنا ہوکر یہ جنگ جیتنی ہے.اس لئے جماعت اپنے اندروہ فرقان پیدا کرے، جو الہی سلسلوں کا طرۂ امتیاز ہے.تاکہ دنیا خود بخود اسلام کی طرف کھینچی چلی آئے“.حضور نے آخر میں فرمایا:.جماعت احمدیہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس کا مقام کیا ہے اور وہ کون سی ذمہ داریاں ہیں، جو اس پر ڈالی گئی ہیں؟“ آپ نے فرمایا:.خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ اس نے جماعت احمدیہ کوغلبہ اسلام کی مہم کے لئے چن لیا ہے.اس انعام پر جماعت خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کرے، کم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اپنے درخت وجود کی شاخیں قرار دیا ہے.اور بشارتیں دی ہیں کہ جماعت کے لوگ، جو صدق و وفا کا نمونہ 480
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جون 1978ء بن جائیں گے، وہ جس چیز کو ہاتھ لگائیں گے، خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا.چنانچہ ہزاروں، لاکھوں احمدی اس بات کے گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان سے پیار کیا اور ان کے وجود کو اپنی برکتوں اور رحمتوں کا نشان بنا دیا.حضور نے فرمایا:.میں احباب جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خدا کے اس پیار کو اور اس کے احسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرنے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری کتابوں کو خود بھی پڑھیں اور اپنی اولادوں کو بھی پڑھائیں کیونکہ آپ کی کتابوں میں وہ سب علوم بیج کے طور پر باتفصیلی رنگ میں موجود ہیں، جو ہمارے ذہنوں میں نورفر است پیدا کرتے ہیں اور ہمیں اس لائق بنا دیتے ہیں کہ الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا دنیا کو قائل کر سکیں کہ تمہاری نجات اور بھلائی اور خوشحالی کے سامان صرف اور صرف اسلام میں ہیں اور کہیں نہیں“.( مطبوعه روز نامہ الفضل 06 جولائی 1978ء) 481
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمود : 14 جولائی 1978ء نصرت جہاں سکیم تمہید ہے،صد سالہ جوبلی منصوبہ کی خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جولائی 1978ء حضور نے نصرت جہاں ریزروفنڈ کی الہی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے جماعت کی قربانیوں کو نوازا اور بے حساب نفع عطا فر مایا.اللہ تعالیٰ نے احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں غیر معمولی شفا بخشی اور احمد یہ کلینکس اور ہسپتال آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گئے.لیکن نصرت جہاں سکیم تمہید ہے ، صد سالہ جوبلی منصوبہ کی ، جس کا 1973ء کے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا گیا تھا.اور جس کے ذریعے سوزبانوں میں قرآن کریم کی اشاعت اور اسلام کی عالمگیر دعوت و تبلیغ کا ایک جامع منصوبہ زیر تکمیل ہے.یہ وہ اہم منصوبہ ہے، جس کے ذریعہ ہم نے دنیا کو اس جہالت سے نکالنا ہے، جس میں وہ روحانی طور پر پھنسی ہوئی ہے.اور اس گند سے بچانا ہے، جس میں وہ اخلاقی طور پر گری ہوئی ہے.ہم نے اس ہمہ گیر منصوبہ کے ذریعہ دنیا کو خالق و مالک خدا کے قدموں میں لا جمع کرنے کا عزم کر رکھا ہے.ہم اس یقین کامل پر قائم ہیں کہ گو یہ باتیں اس وقت دنیا کو انہونی معلوم ہوتی ہیں لیکن چونکہ یہ خدائی وعدے ہیں، اس لئے اپنے اپنے وقت پر انشاء اللہ پورے ہو کر رہیں گے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایمان کے تقاضے پورے کریں اور اپنی سی کوشش کر دکھا ئیں.فتح کا دارو مدار اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر ہے.خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے ذریعہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا.لیکن غلبہ اسلام کی اس عظیم الشان کامیابی کے لئے ہمیں اپنے اندر وہی یقین اور قربانی کی روح پیدا کرنی چاہئے ، جو صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرہ امتیاز تھا.فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خوشخبری دی ہے کہ ابھی تین صدیاں پوری نہیں ہوں گی کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا.جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی، جو عنقریب شروع ہونے والی ہے، اس کے استقبال کے لئے صد سالہ جوبلی فنڈ کا اجرا کیا گیا ہے.یہ درحقیقت غلبہ اسلام کی صدی ہے.جس میں اسلام اپنے عروج کو پہنچ جائے گا.لیکن اس کے لئے ہمیں نسلاً بعد نسل 483
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جولائی 1978ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم قربانیاں دینی پڑیں گی.صد سالہ جو بلی فنڈ بھی انہی قربانیوں کا ایک اہم حصہ ہے.اس منصوبہ کے تحت قرآن کریم کی وسیع پیمانے پر دوسری زبانوں اور ملکوں میں اشاعت کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں تبلیغی مراکز اور مطبع خانے قائم کرنے ہیں.گو اسلام کے عالمگیر غلبہ کی ذمہ داری فی الحقیقت ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے.اس کا سارا بوجھ تو ہم نہیں اٹھا سکتے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں جتنی طاقت دی ہے، اتنی قربانی دینے سے تو دریغ نہیں کرنا چاہئے.حضرت صاحب نے انگلستان کے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.انگلستان کی جماعت نے صد سالہ جو بلی فنڈ میں بڑے اخلاص کے ساتھ ، بڑے پیار کے ساتھ اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اچھی خاصی رقم کے وعدے کئے تھے.لیکن حصہ رسدی ہر سال جو رقم آنی چاہئے، اتنی نہیں آرہی.دوستوں کو چاہئے کہ وہ میرے پاکستان جانے سے پہلے پہلے اپنے بقایا جات ادا کر کے کمی کو پورا کر دیں.اور اس بات کو ہمیشہ یادرکھیں کہ دین اسلام کی سربلندی کے لئے مال خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی غیر معمولی برکتوں سے نوازتا ہے.حضور نے 1974ء کے کئی ایمان افروز واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اللہ تعالٰی کے لئے قربانیاں دینے والے اور دین متین اسلام کے لئے غیرت دکھانے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عزت بھی بخشی اور دولت بھی عطا کی.آخر میں حضور نے فرمایا:.مجھے امید ہے کہ انگلستان کی جماعت اسی جذبہ اور اخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو ادا کرے گی، جس کے ساتھ اس نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا.وبالله التوفیق.( مطبوعه روزنامه الفضل کیر اگست 1978ء) 484
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1978ء اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا ملک ملک میں بیج پھینکا ہوا ہے ارشادات فرمودہ دوران دورہ یورپ 1978ء 10 مئی، فرینکفورٹ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ شروع ہو چکا ہے.اسلام کے عالمگیر غلبہ کے دن قریب ہیں.ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنا نمونہ ایسا عمدہ بنالیں کہ جس سے ایک تو ہماری عاقبت سنور جائے اور دوسرے یہ کہ اسلام سے دنیا متعارف ہو جائے.اس پر کچھ زیادہ خرچ بھی نہیں آتا.پس گندی عادتوں سے بچنے کی ضرورت ہے.فرمایا:.خدا تعالیٰ نے دنیا کی ہر چیز کو انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے.اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اپنی فطری استعدادوں کی صحیح نشو ونما کر کے نیکی کی راہ اختیار کرے یا اپنی فطرت کے خلاف کام کر کے گناہگار ٹھہرے.فرمایا:.” میں یہاں کے ہر احمدی کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلام کا ایک مثالی نمونہ بننے کی کوشش کرے.اسی میں اس کی اپنی بھلائی اور اسلام کی ترقی کا راز مضمر ہے“.14 مئی، فرینکفورٹ دو مطبوعه روزنامه الفضل 29 مئی 1978ء) تم نے یہاں بہت سے ایسے کام سیکھ لئے ہیں کہ اپنے ملک میں تم سوچ بھی نہیں سکتے تھے.اسی لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ وقار عمل کیا کرو.کسی کام میں عار نہیں محسوس کرنا چاہئے.ہر کام، عزت کا کام ہے.اس لیے ہوٹلوں کی میزیں سجانا ، آلو کا شنا، برتن دھونا، کھانا کھلانا وغیرہ برا کام نہیں.اس میں کوئی بے عزتی نہیں ہے.ہر کام عزت والا ہے.کسی کام میں بے عزتی تب ہوتی ہے، جب اس میں بد دیانتی آجائے.اس لئے ہر کام دیانت داری سے کرنا چاہیے.485
ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1978ء فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم ” ہمارے ملک میں سموسے بنانے یا پیسے بنانے کا رواج ہے.اگر دوست یہاں یہ کام شروع کریں تو ہوٹلوں میں کام کرنے کی نسبت ایک تو یہ کام زیادہ عزت والا ہے، دوسرے بہت زیادہ منفعت بخش بھی ہے.اس لئے کمائی کی اچھی سے اچھی ترکیبیں اور ہنر سیکھنے کی طرف زیادہ توجہ دیا کرو“.مجلس نصرت جہاں کے زیر انتظام کام کرنے والے ہسپتالوں اور سکولوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمارے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں ایسی شفا رکھ دی اور احمدی اساتذہ کی زبان میں تاثیر اور کام میں برکت ڈال دی کہ وہاں کے لوگ ہمارے ہسپتالوں اور سکولوں کی کارکردگی سے بہت متاثر ہیں.فرمایا:.یہ مقبولیت میرے اور آپ کے اختیار میں نہیں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.جس پر اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے ، کم ہے“.31 مئی، لندن ( مطبوعه روزنامه الفضل 05 جون 1978ء) حضرت خلیفة المسیح الثالث کے پریس انٹرویو کی رپورٹ لندن کے اخبار میں شائع ہوئی اس کا اردو تر جمہ درج ذیل ہے.خليفة المسيح نے مزید فرمایا کہ ہم روئے زمین کی تمام قوموں اور ان کے جملہ افراد تک اسلام کا نور پہنچا کر انہیں اس سے منور کرنا چاہتے ہیں.اسی لئے ہم نے ایک عظیم تبلیغی مہم کا آغاز کر رکھا ہے.یہ کانفرنس بھی اسی عظیم ہم اور منصوبہ کا ایک حصہ ہے.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آپ نے مزید فرمایا.ہم نے تمام مغربی یورپ، برطانیہ، فرانس، سپین، اٹلی ، ناروے، سویڈن اور ڈنمارک میں تبلیغی مراکز قائم کر رہے ہیں.اسی طرح شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ ہر دو میں بھی ہماری طرف سے تبلیغی مراکز کے قیام کا سلسلہ جاری ہے.چنانچہ اس عظیم منصوبے کے نتائج برآمد ہورہے ہیں.ہم یورپ میں کئی مسجد میں تعمیر کر چکے ہیں.پچھلے دنوں سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں، جس مسجد کا افتتاح عمل میں آیا تھا، اس کے اخراجات برطانیہ کے احمدیوں نے اپنے چندوں میں سے ادا کئے تھے.ہم نے دنیا کے وسیع علاقوں میں اخبارات اور رسائل جاری کرنے کے علاوہ طبی مراکز ، 486
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1978ء ہسپتال، سکولز اور کالج کھولے ہیں.اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لئے یہ خدمات بجالانا، ہمارا فرض اور خصوصی استحقاق ہے.اور ہم بڑی بشاشت کے ساتھ رفاہ عامہ کے یہ کام انجام دے رہے ہیں.آپ نے مزید فرمایا.دنیا میں احمدیوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے.ان میں سے بعض اہم عہدوں پر فائز ہیں اور گرانقدر خدمات بجالا رہے ہیں.اتنی سال پہلے ہماری تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی.آج یہ تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے.قریب مستقبل میں دنیا بھر کے ممالک میں احمدیوں کی تعداد کئی کروڑ تک پہنچ جائے گی.یہ ہماری امید اور خوش فہمی نہیں ہے.بلکہ یہ ایک خدائی تقدیر ہے.(جو بہر حال پوری ہوگی.“.( مطبوعه روزنامه افضل 14 جون 1978 ء ) (بحوالہ : Puincy and Rochampton Herald لنڈن کیم جون 1978ء) 10 جون، برمنگھم حضور نے ایران، تاشقند ، ترکی اور بعض عرب ممالک میں احمدیت کے پیغام کے پہنچے کا تفصیل سے ذکر کیا اور فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا ملک ملک میں بیج پھینکا ہوا ہے.آپ نے بتایا کہ ’ایک دفعہ ایک عرب ملک کا وفد نائیجیر یا گیا ، وہاں احمد یہ مسلم مشن کی طرف سے ہر بڑے ہوٹل کے ہر کمرے میں قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ کا ایک نسخہ رکھوایا گیا ہے.جب یہ قرآن وفد کے ایک معزز رکن کی نظروں سے گزرا تو اس نے حیران ہو کر مشن کو فون کیا کہ کیا احمدی یہاں بھی پہنچ گئے ہیں؟ خیر ہمارے مبلغ اور کچھ مقامی افریقن دوست ان سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ ان کے والد احمدی ہوئے تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا بڑا مطالعہ کیا.اور اپنے بچے اور بچیوں کے دلوں میں احمدیت کو اس قدر راسخ کر دیا کہ باوجود اس بات کے کہ ان کے والد کا 1942ء میں انتقال ہو گیا تھا.اور مرکز سے ملاپ نہ رہا.اس کے باوجود وہ احمدیت کو نہیں چھوڑ سکتے“.حضور نے فرمایا:.”یہ امر انگلستان کے احمدیوں کے لئے زبردست لمحہ فکریہ ہے.ان کو بھی چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا خود مطالعہ کریں اور بچوں کی تعلیم و تربیت اس رنگ میں کریں کہ ان کے دلوں میں احمدیت راسخ ہو جائے.اور پھر زمانہ کی کوئی تیرگی انہیں احمدیت سے محروم نہ کر سکے.487
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1978ء حضور نے فرمایا:.لندن کا نفرنس گو خدا تعالیٰ کے فضل سے بخیر وخوبی اختتام پذیر ہو چکی ہے.لیکن اس کے متعلق یہ یادرکھنا چاہیے کہ یہ آخری قدم نہیں ہے.بلکہ غلبہ اسلام کے لئے ہم نے جو سینکڑوں قدم اٹھانے ہیں، ان میں سے یہ ایک قدم ہے.اسلام کی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ اپنے فضل سے سامان پیدا کر رہا ہے.اور غلبہ اسلام کی حرکت میں دن بدن شدت پیدا ہو رہی ہے.اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم خدا کی راہ میں قربانیاں دیتے چلے جائیں.فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا جہاں یہ وعدہ ہے کہ وہ آخری زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم حسن و احسان کے نتیجہ میں دنیا کی خوشحالی کے سامان پیدا کرے گا، وہاں خدا کا یہ وعدہ بھی ہے کہ جو آدمی خدا کی راہ میں غلبہ اسلام کی مہم کو تیز سے تیز تر کرنے کے لئے بے لوث قربانیاں دے گا، اسے جزا بھی غیر معمولی طور پر زیادہ ملے گی.حضور نے فرمایا:.تاریخ احمدیت کے کئی باب اور سینکڑوں اوراق جماعت احمدیہ کی قربانیوں سے رنگین ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت پر جب بھی امتحان اور آزمائش کا وقت آیا، اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اس پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائی.اور پہلے سے بڑھ کر فضلوں سے نوازا.پس خدا تعالیٰ کی راہ میں بے لوث قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں اور نہ خدا کے خزانے کبھی خالی ہوتے ہیں.وہ دینے پر آتا ہے تو بے حساب دیتا ہے.ضمناً مغربی افریقہ کے ہسپتالوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ نصرت جہاں سکیم کے ماتحت فی ڈاکٹر پانچ سو پونڈ دے کر بھجوایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ تم نے خدمت کرنی ہے، اس لئے اگر مکان نہیں ملتا تو نہ سہی، تم گھاس پھوس کے چھپر ڈال کر کام شروع کر دو.اللہ تعالیٰ نے اس کام میں برکت ڈالی.ڈاکٹروں کے ہاتھ میں غیر معمولی شفا بخشی.یہاں تک کہ احمدی ڈاکٹروں کے ذریعے بعض لاعلاج مریضوں کو صحت ملی.جس سے ہمارے ہسپتال زبان زد عام و خاص اور آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گئے.انہی ہسپتالوں میں نیچی من غانا کا احمدیہ کلینک بھی ہے، جس کے 488
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورو یورپ 1978ء متعلق وہاں کی جماعت کا یہ خیال تھا کہ وہاں ہسپتال نہ کھولا جائے.کیونکہ ٹیچی من میں عیسائیوں کا ایک بہت پرانا ہسپتال ہے، جس میں یورپین کوالیفائڈ ڈاکٹر ہیں.ان کے مقابلہ میں ہمارے ہسپتال کی کامیابی مخدوش ہے.لیکن میں نے ان سے یہ کہا کہ احمدی کا قدم آگے بڑھا کرتا ہے، پیچھے نہیں ہوتا.اس لئے یہ ہسپتال تو یہاں ضرور بنے گا.چنانچہ وہ ہسپتال بنا، جسے شروع میں چلانے کے لئے بڑی تگ و دو کرنی پڑی.پھر خدا کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور ترقی کرتے کرتے اب اس کی یہ حالت ہے کہ ایک ماہ کی خالص آمد لاکھوں روپے تک جا پہنچی ہے.فالحمد للہ علی ذلک.23 جولائی، لندن مطبوعه روزنامه الفضل 05 جولائی 1978 ء ) احباب کو دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.در صبح یورپ کے بعض ملکوں کے دورہ پر روانگی ہے.اللہ تعالیٰ اس دورے کو خیر و برکت کا موجب بنائے.اس سفر میں ایک تو اپنے مشنوں کا دورہ کرنا ہے.اور جن ملکوں میں ابھی تک مشن قائم نہیں ہو سکے، وہاں تبلیغی مراکز کے قیام کا جائزہ لینا ہے اور مساجد کے واسطے زمین حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی ہے.صد سالہ جوبلی منصوبہ کے ماتحت یورپ کے باقی ملکوں میں بھی اسلام کی تبلیغ کی مہم کو تیز سے تیز تر کرنے کے لئے مراکز کا قیام ضروری ہے.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی تعداد میں اور کام میں پھیلاؤ پیدا کر رہا ہے.کسی زمانے میں ایک ہزار کی تعداد میں کتاب شائع کرنا مشکل تھا.اب خدا تعالیٰ کے فضل.لاکھوں کی تعداد میں کتابیں شائع ہو رہی ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت کے نفوس میں بھی برکت ڈالتا ہے اور اموال میں بھی برکت ڈالتا ہے.حضور نے فرمایا:.دوست دعا کریں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خیریت سے رکھے اور اس سفر کو ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے.یہاں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی احباب جماعت خدا تعالی کی پناہ میں رہیں اور الہی فضلوں اور برکتوں کے مور ٹھہریں.اللہ تعالیٰ یورپ کے باقی ملکوں میں بھی تبلیغ اسلام کی راہیں کھل دے اور اسلامی مراکز اور مساجد کے قیام میں روکیں دور کر دے.قرآن کریم کے تراجم کا کام خصوصاً فرانسیسی زبان میں ترجمہ قرآن کریم جلد شائع کرنے کے سامان پیدا ہوں.انگریزی کے بعد فرانسیسی ترجمہ کی ضرورت کو بعض اسلامی اور افریقی ملکوں میں بہت زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے.489
ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ضمناً حضور نے لندن مشن کے متعلق بھی فرمایا کہ آئندہ پانچ ، دس سال کے بعد موجودہ مشن ہاؤس جماعت کی ضرورتوں کو پورا نہ کر سکے گا، اللہ تعالٰی اس کی توسیع کے سامان پیدا کرے.( مطبوعه روزنامه الفضل 15 اگست 1978ء) 29 جولائی، سٹاک ہائم حضور انور نے چند احباب کو ملاقات کا شرف بخشا.جن میں سے ایک مسٹر سالین تھے.چونکہ ان کا تعلق ایک پبلشنگ فرم سے تھا، لہذا حضور نے ان سے سویڈش ترجمہ قرآن کریم کی طباعت کے بارہ میں دریافت فرمایا.وہ کہنے لگے.ایک سویڈش ترجمہ قرآن موجود ہے مگر لوگ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں.اس موقع پر مکرم امام کمال یوسف صاحب نے حضور کو بتایا کہ یہ ترجمہ کسی سویڈش عیسائی کا کیا ہوا ہے.جس کے متعلق لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ ترجمہ اور تفسیر کو آپس میں غلط ملط کر دیا گیا ہے.یہاں تک کہ اساتذہ کو بھی سمجھ نہیں آتی.مترجم نے ایک بات کو قرآن کریم کی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ وہ اس کی اپنی رائے ہوتی ہے.اور قرآن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.اس پر نمائندوں نے کہا کہ جماعت احمد یہ ایک نیا ترجمہ قرآن شائع کرے.جس کا ترجمہ اور تفسیر الگ الگ اور قابل فہم ہو.حضور نے فرمایا:.ہم انشاء اللہ بہت جلد ترجمہ شائع کر دیں گے.مسٹر برتت کہنے لگے.اگر آپ ترجمہ قرآن شائع کریں تو حکومت سویڈن آپ کی مدد کرے گی.حضور نے فرمایا:.ہم یہ ترجمہ شائع کرنے کا بوجھ سویڈن کی حکومت پر نہیں ڈالنا چاہتے.البتہ اس بات میں ہماری مدد کر سکتے ہیں کہ جب یہ ترجمہ شائع ہو جائے تو جہاں جہاں اس کی ضرورت ہو، وہاں پہنچانے یا رکھوانے میں آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں.حضرت صاحب نے فرمایا:.سویڈش ترجمہ قرآن کریم کا مسودہ تیار ہے.لیکن ہم اس کو پوری تسلی کے بعد پریس میں دینا چاہتے ہیں.ہماری یہ خواہش ہے کہ سویڈن زبان کے لحاظ سے یہ ترجمہ معیاری اور صحت کے اعتبار سے ہر شک وشبہ سے بالا اور بالکل صحیح ترجمہ ہو.ہمارے پاس ایک بہت اچھا انگریزی ترجمہ قرآن کریم اور مع تفسیر تو خدا تعالیٰ کے فضل سے موجود ہے.لیکن سویڈش ترجمہ کے متعلق ہمیں زبان کی مشکل در پیش ہے.490
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1978ء ہم اچھے علم دوست سویڈش مترجم کی خدمات حاصل کرنے کو تیار ہیں.لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا اور ہم اس کے متعلق کچھ نہیں جانتے کہ وہ کس انداز میں ترجمہ کر رہا ہے؟ آیا، وہ قرآن کریم کو پورے طور پر سمجھتا بھی ہے یا نہیں؟ ہم کسی کی نیت پر حملہ نہیں کرتے.بلکہ ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ غیر ارادی طور پر غلطی ہو جائے“.ضمنا سویڈن کے سکولوں میں اسلام کے متعلق کسی بھی کتاب کے نہ ہونے کا ذکر بھی ہوا تو حضور نے مکرم امام کمال یوسف صاحب کو ارشاد فرمایا کہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ تیار ہے، اسے فوری طور پر شائع کروایا جائے.یہ کتاب اس لحاظ سے بھی پسند کی جائے گی کہ اس میں اسلام کی تعلیم اور اس کے محاسن کو حکیمانہ رنگ میں بیان کیا گیا ہے.ایک نمائندہ کا یہ کہنا تھا کہ اگر شروع میں سکول کے بچوں کے لئے اسلامی تعلیم پر کوئی آسان رنگ میں کتاب شائع کی جائے تو اس کی ضرورت بھی ہے اور وہ نتیجہ خیز بھی ثابت ہوسکتی ہے.حضور نے ان کے اس مشورے کو پسند کرتے ہوئے فرمایا:.بچوں کے لئے مختلف سیریز میں اسلامی تعلیم پر مشتمل کتابیں لکھی جاچکی ہیں.ان کا سویڈش میں ترجمہ کروا کر جلد شائع کرنے کی کوشش کی جائے گی.یکم اگست ، گوٹن برگ مطبوع روزنامه الفضل 09 ستمبر 1978ء) پر یس کا نفرنس کے آغاز میں ایک نمائندہ نے حضور سے یہ پوچھا کہ سویڈن میں آپ کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:.میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے.جو ہر زمانے کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.موجودہ زمانے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے دنیا کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے.پھر انسان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ اس کا حق کیا ہے؟؟ نتیجہ یہ ہے کہ جب وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے جدو جہد کرتا ہے.مثلاً ہڑتالیں وغیرہ ہوتی ہیں تو مزید الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے.یہ صرف اسلام ہی ہے، جو انسان کو یہ بتا تا ہے کہ اس کے حقوق کیا ہیں؟ اسلام نہ صرف انسان کے حقوق اور اس کی ضرورتوں کی تعین کرتا ہے بلکہ حقوق کے حصول کے ذرائع بھی بیان کرتا ہے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ صرف اسلام ہی نوع انسان کی صحیح خدمت کر سکتا ہے اور ان کے مسائل کو پائیدار رنگ میں حل کر سکتا ہے“.491
ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اس پر ایک نمائندہ نے کہا تو کیا آپ اہل سویڈن کو اسلام میں convert کرنا چاہتے ہیں؟ فرمایا:.ہم آپ کو اسلام میں convert کرنا نہیں چاہتے.بلکہ ہم آپ کو اسلام کی خصوصیات بتا کر convince کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام میں آپ کی بہتری اور بھلائی ہے.یہ خیال غلط ہے کہ اسلام طاقت کے زور پر لوگوں کو عقیدہ بدلنے پر مجبور کرتا ہے.ایسا ہر گز نہیں ہے.مذہب تو انسان کے دل کا معاملہ ہے.طاقت خواہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو، انسان کا دل نہیں بدل سکتی.پس ہماری طرف سے یہ پوری کوشش ہے کہ آپ کے سامنے اسلامی تعلیم اور اس کے محاسن کو بیان کر کے آپ کو اس بات کا قائل کر دیں کہ آپ کی نجات اسلام سے وابستہ ہے.چنانچہ اسی غرض کے لئے ہم مغربی ممالک میں ایک ملک کے بعد دوسرے ملک میں اسلامی مشنز قائم کرنے میں کوشاں ہیں.تا کہ اشاعت کتب، تقاریر اور پر امن فضا میں تبادلہ خیالات کے ذریعہ اسلامی نقطہ نظر کو آپ پر واضح کر دیں.اس موقع پر ایک اخباری نمائندہ نے کہا، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم قرآن کریم پڑھنے لگ جائیں؟ تو حضور نے فرمایا:.”ہاں میں تو یہی پسند کرتا ہوں کہ آپ قرآن کریم کی مقدس اور حق و حکمت پر مشتمل تعلیم سے متعارف ہوں اور اس کے فیوض اور برکات سے مستفید ہوں.یہ بائبل کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی کتاب ہے.لیکن فی الحقیقت ایک عظیم کتاب اور روحانیت کا ایک بیش قیمت خزانہ ہے.دنیا میں ایسی کوئی الہامی کتاب نہیں ، جو اتنی چھوٹی ہو لیکن اس کے باوجود جامع و مانع بھی ہو.آپ نے فرمایا:.اس زمانہ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے اس کی معجزانہ رنگ میں تفسیر بیان فرمائی ہے.جس سے زمانہ حاضرہ کے مسائل کو حل کرنے میں مددملتی ہے.فرمایا:.چونکہ اسلام کی تعلیم ہر لحاظ سے کامل ہے، اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہمیں اہل مغرب کو اسلام میں convert کرنے کی ضرورت نہیں.بلکہ ہم اسلام کی پیاری تعلیم کے ذریعہ لوگوں کے دل جیتیں گے اور ان کو اس بات کا قائل کر کے دم لیں گے کہ دنیا کی حقیقی نجات اسلام میں ہے.جب یہ حقیقت کھل گئی اور صداقت ظاہر ہوگئی تو لوگوں کے خیالات اور رجحانات خود بدل کر اسلامی تعلیم کے سانچہ میں ڈھل جائیں گے.وبالله التوفيق.492
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1978ء اس سوال پر کہ قرآن کریم کی اشاعت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا پروگرام کیا ہے؟ حضور نے فرمایا:.جہاں تک قرآن کریم کی طباعت کا سوال ہے، جماعت احمدیہ نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ دنیا کے تمام لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم سے روشناس کرائے گی.اس کے معانی و مطالب کو دنیا پر واضح کرے گی.اور اس حقیقت کو ظاہر کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی کہ یہ صرف قرآن کریم ہی ہے جو دور حاضر کے مسائل کو حل کرتا ہے.چنانچہ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے جماعت احمدیہ نے قرآن کریم کی اشاعت کا ایک عالمگیر منصوبہ تیار کیا ہے.جس کے پہلے مرحلہ میں امریکہ میں دس لاکھ انگریزی ترجمہ قرآن کریم شائع کرنے کا پروگرام ہے.علاوہ ازیں دنیا کی ہر اس زبان میں، جو لکھی اور پڑھی جاتی ہے، قرآن کریم کا ترجمہ کر کے شائع کرنے کا مرحلہ وار پروگرام بھی زیر نظر ہے.یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے، جس کے لئے وقت درکار ہے.انشاء اللہ اگلی صدی کے اندر اندر یہ منصوبہ بھی مکمل ہو جائے گا“.حضرت صاحب نے فرمایا:.جماعت احمد یہ ایک تبلیغی جماعت ہے.اسلام کی تبلیغ کے لئے دنیا میں زبردست جدو جہد کر رہی ہے اور بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت میں کوشاں ہے.عیسائیت بھی افریقہ میں یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کر گئی تھی لیکن عیسائیوں نے یسوع کی محبت کے نام پر ان کو جس بری طرح سے لوٹا اور رنگ و نسل کا جو دل آزار امتیاز قائم کئے رکھا، اس کی صدائے بازگشت آزادی کی تحریکوں کے ذریعہ دنیاسنتی چلی آئی ہے.لیکن جماعت احمد یہ بھی گزشتہ پچاس سال سے افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے.ہم نے وہاں اسلام کے تبلیغی مراکز قائم کئے ، سکول کھولے، کلینکس اور ہسپتال بنائے اور اہل افریقہ کی بے لوث خدمت کرتے رہے.چنانچہ وہاں کی حکومتیں بھی اور عوام بھی جماعت احمدیہ کی خدمات کے دل سے معترف ہیں.اور پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں.پس ہمارے پاس ایک ہی ہتھیار ہے.اور وہ ہے، محبت کا ہتھیار، خدمت کا ہتھیار اور خوش خلقی کا ہتھیار ہم دنیا کی بے لوث خدمت اور محبت کے ذریعہ اگلے 115 سال میں انشاء اللہ دنیا کی بھاری اکثریت کے دل جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گئے.02 اگست، گوٹن برگ دنیا میں مختلف امن کی تحریکوں کا ذکر ہونے پر حضور نے فرمایا:.اسلام چونکہ امن اور سلامتی کا مذہب ہے، اس لئے اسلام اس قسم کی سب تحریکوں کو اچھی نگاہ سے دیکھتا ہے، جن کا مقصد امن اور صلح ہوتا ہے.یہ تحریکیں تھوڑی دور چل کرختم ہو جاتی ہیں.اس لئے کہ 493
ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ان کو چلانے والے اس حقیقی اور جامع تعلیم سے بے بہرہ ہوتے ہیں، جو اسلام پیش کرتا ہے.اسلام کو چھوڑ کر امن کی تحریکیں چلانا ایسے ہی ہے، جیسے سورج کو چراغ دکھانا.حضرت صاحب نے فرمایا:.عیسائیت نے ایمان کی ایک کسوٹی مقرر کی ہے.حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں سے کہا ہے کہ اگر تم میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اگر تم پہاڑ سے کہو گے تو وہ اپنی جگہ سے ٹل جائے گا.پس عیسائی حضرات کو اپنے ایمان کے امتحان کے لئے یہ معجزے دکھانے چاہیں.اگر نہیں دکھا سکتے تو انہیں ماننا پڑے گا کہ عیسائیت کا دور ختم ہو چکا ہے.اب اسلام کے غلبہ کا زمانہ ہے.جماعت احمدیہ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا زبردست جہاد شروع کر رکھا ہے.اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت جماعت احمد یہ اپنے قول اور فعل سے اور خدا تعالیٰ کے ان نشانوں کے ذریعہ فراہم کر رہی ہے، جو اللہ تعالی اسلام کی تائید میں ان پر ظاہر کرتا ہے“.مطبوعه روزنامه الفضل 10 ستمبر 1978ء) 09 اگست ، ہمبرگ حضور نے پریس کانفرنس کے دوران فرمایا:.مغربی اقوام کی زندگی میں تبدیلی رونما ہورہی ہے.دنیا میں رونما ہونے والی ہر تبدیلی اسلام کی ترقی کا پیش خیمہ ہے.مغربی اقوام کے پاس اس وقت جو کچھ ہے ، وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں.وہ حقیقی خوشی کی تلاش میں سرگرداں ہیں.یہ حقیقی خوشی انہیں اسلام کے بغیر کہیں نہیں مل سکتی.فرمایا:.” میں نے 1967ء میں یورپ کے دورے میں لوگوں کو یہ اختباہ کیا تھا کہ اگر تم نے اپنے خالق و مالک خدا کی طرف رجوع نہ کیا اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی تو 25-20 سال کے اندر اندر تم ایک ہولناک تباہی سے دو چار ہو جاؤ گے.اس اندار پر گیارہ سال گزر گئے.میرا یہ انذاران پیشگوئیوں پر مشتمل ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندے کو بہت پہلے بتائی تھیں.اور اب تو بعض بڑی طاقتیں بھی مستقبل قریب میں دنیا کی تباہی کی قیاس آرئیاں کرنے لگی ہیں.فرق یہ ہے کہ وہ دنیا کی تباہی کی باتیں تو کرتی ہیں لیکن ساتھ خوشخبری نہیں دیتیں.لیکن میں نے جن پیشگوئیوں پر انذار کی بنیاد رکھی تھی، ان میں یہ خوشخبری بھی ہے کہ اگر دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف جھکے اور گندی زیست کو چھوڑ کر نیک بن جائے تو یہ تباہی مل سکتی ہے.494
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم حضور نے تفصیل سے بتایا ہے کہ ارشادات فرموده دوران دور و یورپ 1978ء یہ اسلام ہی ہے، جس میں موجودہ زمانے میں پیش آمدہ مسائل کا حل موجود ہے.اور یہ صرف اسلام ہی ہے، جو بنی نوع انسان کی نجات کا واحد ذریعہ ہے.اسلام جبر واکراہ کا مذہب نہیں.مذہب انسان کے دل کا معاملہ ہے.بڑی سے بڑی طاقت حتی کہ ایٹم بم سے بھی کسی کا دل نہیں بدلا جا سکتا.اس لئے اسلام انسان کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے اور اپنے حسن واحسان سے اسے قائل کرتا ہے.یہ دلوں کی تبدیلی ہی ہے، جس سے انسان خدا کا پاک بندہ بن جاتا ہے.اس پر ایک نمائندہ نے کہا، یہ تو نظریہ ( آئیڈیا لوجی) ہے، اس پر کسی جگہ عمل بھی ہو رہا ہے؟ حضور نے فرمایا:.آئیڈیا لوجی اس لئے ضروری ہے کہ وہ پریکٹس ( عمل ) کی بنیاد یتی ہے.جب تک کسی مذہب کی بنیادی آئیڈیا لوجی نہ ہو، اس پر عمل کرنا مشکل ہے.اس وقت دنیا اسلام کو اس زاویہ سے دیکھتی ہے، جو آج مختلف ملکوں میں نظر آرہا ہے.اس لئے لوگ سمجھتے ہیں، اسلامی آئیڈیا لوجی تو ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہورہا.فرمایا:.اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں اسلامی تعلیم پر عمل ہوتا رہا ہے.پھر گوتبد یلیاں آئیں لیکن اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی بھی اسلام پر عمل نہیں کر رہا.اسلامی تعلیم پر کم و بیش اب بھی عمل ہورہا ہے.جماعت احمد یہ ہی کو لیں ، وہ اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہے.گو یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے، جس کو کوئی دنیوی اقتدار بھی حاصل نہیں اور نہ اس میں اسے کوئی دلچسپی ہے.یہ غریب اور بیکس جماعت اپنے قول و عمل سے اسلامی تعلیم پر عمل کر رہی ہے“.حضور نے فرمایا:.یہ نکتہ بھی یادر کھنے کے قابل ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یورپین ممالک اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں.ان کے مسائل کا حل اور ان کی نجات کا ذریعہ اسلام کے سوا اور کوئی نہیں.وہ اسے جتنی جلدی قبول کرلیں گے، اتنا ہی ان کے لئے بہتر ہے.اب اس صورت میں دنیا کو مسائل کا سامنا ہو اور وہ انہیں حل کرنے کے قابل بھی نہ ہو تو اس پر میں طبعاً فکرمند ہوں.میں انسانیت کی بھلائی چاہتا ہوں، انسانیت سے محبت اور پیار کرنا، میری طبیعت کا ایک حصہ ہے.جو خدا کا ایک بہت بڑا عطیہ ہے.مجھے امید ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ قبل اس کے کہ انسانیت عظیم تباہی سے دو چار ہو ، وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو پہچاننے لگے.495
ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1978ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم میرے اس دورے کا مقصد ہی یہ ہے کہ میں آپ کو بڑے پیار سے اسلامی تعلیمات روشناس کراؤں.ہمیں اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور تسلیم کر لینا چاہئے کہ دنیا اس وقت سنگین مسائل سے دوچار ہے.اور ان مسائل کے حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے.تاہم اگر ہم جد و جہد جاری رکھیں اور تبادلہ خیال کے ذریعہ ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں تو ایک نہ ایک دن ہم پیش آمدہ مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے کے قابل ہو جائیں گئے.فرمایا:.ہمیں یہ وعدہ دیا گیا ہے اور ہم اس پر بڑے پختہ یقین کے ساتھ قائم ہیں کہ اگلے 115 سال کے اندر اندر دنیا کی اکثریت مسلمان ہو جائے گی.اور قبل اس کے کہ دنیا خطرناک تباہی سے دوچار ہو، لوگ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف رجوع کریں گے.اور جب وہ اپنے خالق و مالک خدا میں دلچسپی لینے لگیں گے تو ان کا اگلا قدم قبولیت اسلام ہوگا.اور یہ حقیقت ان پر واضح ہو جائے گی کہ اس کائنات کی بنیاد توحید حقیقی پر قائم ہے“.14 اگست ،فرینکفورٹ مطبوعه روزنامه الفضل 126اکتوبر 1978 ء ) حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کی بناء پر یہ اعلان اس پر یس کا نفرنس میں بھی دہرایا کہ ”اگلے سوسال میں یورپین اقوام کی بڑی بھاری اکثریت مسلمان ہو جائے گی.اور سو سال بعد کے مؤرخین میری آج کی باتوں میں بہت دلچسپی لیں گے اور کتابوں اور اخباروں میں شائع ہونے والے بیانات اور پیشگوئیوں کی تلاش کریں گئے.اس پر ایک بڑے ثقہ صحافی نے حضور سے سوال کیا، جماعت احمدیہ کی تعداد کتنی ہے؟ حضور نے فرمایا:.ہماری جماعت کی تعداد ہے تو ایک کروڑ.مگر یہ ایک کروڑ اس طرح بنی کہ حضرت بانی جماعت نے جب مسیحیت اور مہدویت کا دعوی کیا تو آپ اکیلے تھے اور بے کسی کا یہ عالم تھا کہ اپنوں نے بھی آپ کو درخور اعتنا نہ سمجھا.گھر والے آپ کو کھانا دینا بھول جاتے تھے.ساری دنیا آپ کی مخالفت پر متحد ہوگئی.لیکن مخالفتوں کے ایک طوفان کے بعد دوسرے طوفان سے گزرتے ہوئے قریباً نوے سال میں وہ جو ایک 496
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دوره یورپ 1978ء تھا، وہ ایک کروڑ بن گیا.اگر اگلے سو سال میں ایک کروڑ میں سے ہر ایک آدمی ایک کروڑ بن جائے تو تم ضرب دے کر دیکھو، کیا تعداد بنتی ہے؟“ پہلے تو وہ صحافی سمجھے کہ حضور نے ویسے ہی بات کر دی ہے، اس لئے انہوں نے یہ بات سنی ان سنی کر دی.لیکن جب حضور نے فرمایا:.نہیں ، میری خاطر آپ کچھ تکلیف اٹھا ئیں اور دیکھیں تو سہی کیا شکل بنتی ہے؟“ چنانچہ انہوں نے جب ضرب دی، سر اٹھا کر کہنے لگے، اتنی تعداد تو دنیا کے سارے انسانوں کی بھی نہیں بنتی.حضور نے فرمایا:.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اتنی تعداد میں احمدی ہو جائیں گے.میں یہ کہ رہا ہوں کہ ہمارا یہ دعوی کہ اگلی صدی، اسلام کے غلبہ کی صدی ہے.جس میں لوگوں کی اکثریت مسلمان ہو جائے گی.یہ بات ناممکنات میں سے نہیں.پس جس طرح ایک سے ایک کروڑ بننے کے متعلق لوگ سمجھتے تھے کہ یہ بات نا ممکن ہے لیکن عملاً ناممکن ثابت نہیں ہوئی، اسی طرح یہ بات بھی ناممکن نہیں کہ اگلے سو سال میں ایک کروڑ میں سے ہر ایک کروڑ بن جائے“.مطبوعه روزنامه الفضل 02 نومبر 1978ء) 497
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء ساری دنیا کی ہدایت کی ذمہ داری جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 13اکتوبر 1978ء اپنی خلافت کے زمانہ میں سب سے لمبے عرصہ تک غیر حاضر رہنے کے بعد آج میں پھر آپ میں کھڑا ہوں اور خطبہ دے رہا ہوں اور بہت خوش ہوں.اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی فضل کیا اور اللہ تعالیٰ یہاں بھی بڑے فضل کرتا ہے." میرے اس دورے کے دو حصے ہیں.ایک کا تعلق تو اس کا نفرنس کے ساتھ ہے، جو وہاں ہوئی اور جس کا عنوان تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیبی موت سے بچائے گئے تھے.اور دوسرا حصہ وہ ہے، جو میں نے بعد میں یورپ کا دورہ کیا اور اسلام کی تعلیم ان لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی.یہ جو کا نفرنس ہوئی، اس میں یہ انتظام بھی کیا گیا تھا کہ بولنے والی 16mm Movie لی جائے.بعد میں اسے Super 8mm بنایا، جو یہاں بھی دکھائی جاسکتی ہے.وہ تیار ہوگئی ہے اور یہاں پہنچ جائے گی.وہاں تو میں نے دیکھی ہے، اچھی خاصی ہے.آپ بھی اسے دیکھ لیں گے.2,3,4 جون کو یہ کا نفرنس تھی اور اس سے پہلے انگلستان کے اخبارات نے بھی اور یورپ کے بعض اخبارات نے بھی بہت کچھ لکھا.پھر جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں جو صحافی آئے ہوئے تھے، انہوں نے ڈیلی ٹیلیگراف میں پانچ ، چھ صفحے کا ایک نوٹ دیا.اور یہ اخبار دس لاکھ سے بھی زیادہ تعداد میں چھپتا ہے.مجھے صحیح یاد نہیں ممکن ہے کہ پندرہ یا میں لاکھ چھپتا ہو.لیکن بہر حال دس لاکھ سے زیادہ چھپتا ہے.جیسا کہ ان کی عادت ہے، انہوں نے اس میں کچھ اپنی بھی چلائی لیکن ہماری بھی بہت سی باتیں وہ لکھ گئے ہیں.غرض اس رنگ کا پراپیگنڈا اور اشاعت وہاں ہوئی کہ انگلستان کے چرچ کو کچھ پریشانی سی لاحق ہوگئی.چنانچہ انہوں نے کانفرنس سے قریباً دس دن پہلے اپنی طرف سے ایک ریلیز (Release)، ایک خبر اخبارات کو بھجوائی اور اس کے نیچے یہ نوٹ دیا کہ اسے فلاں تاریخ سے پہلے شائع نہ کیا جائے.غالباً 30 499
خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم مئی یا یکم جون کی تاریخ تھی.اور وہ ریلیز ہمارے مشن کو بھی بھجوادی.میں نے اس کا جواب تیار کیا.کا نفرنس میں، میں نے بھی ایک چھوٹا سا مضمون پڑھا تھا.اپنے مضمون کے بعد میں نے ان کی ریلیز پڑھ کرسنوادی اور پھر اس کا جواب خود میں نے پڑھ کر سنایا.ایک تو ان کا خط تھا اور اس کے نیچے ان کی ریلیز تھی.وہ دو علیحدہ علیحدہ کاغذوں پر تھے.اور یہی دستور ہے.خط میں لکھا تھا کہ ہم Open Dialogue کرنا چاہتے ہیں.یعنی کھلی بات چیت ہو.ہر ایک کو پتا ہو کہ کیا تبادلہ خیال ہوا ہے؟ اور اسی خطہ کے اندر کے حصے میں تھا کہ Unpublicised Dialogue ہونی چاہیے.یعنی ایسا تبادلہ خیال ، جس کی اشاعت نہ ہو.Open اور Unpublicised تو ویسے ہی متضاد چیزیں ہو گئیں.میں نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ یہ تو ساری دنیا کے ساتھ تعلق رکھنے والا معاملہ ہے، اس کی اشاعت ہونی چاہیے.اور صرف انگلستان میں ہی کیوں؟ میں نے دنیا کے مختلف حصوں کے نام لے کر کہا کہ ہم ہر جگہ تبادلۂ خیالات کرنے کو تیار ہیں.اور صرف انگلستان کی کونسل آف چرچز سے ہی کیوں؟ ہم کیتھو کس سے بھی تبادلۂ خیال کرنے کو تیار ہیں.دنیا کو پتا لگنا چاہیے کہ وہ عقائد، جو غلط طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں، ان کی حقیقت کیا ہے؟ اور وہ واقعات، جو حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں، ان کی حقیقت کیا ہے؟ میں نے اس کا وہاں اعلان کیا اور یہ اخباروں میں بھی آ گیا.اور پھر انہی صاحب کو، جن کے دستخط سے کونسل آف چرچز کی طرف سے دعوت نامہ ملا تھا ، وہاں کے مشنری انچارج عزیز بشیر رفیق صاحب کی طرف سے خط گیا کہ ہمارے امام نے آپ کا دعوت نامہ قبول کر لیا ہے اور وہ اس قسم کی بحث یا تبادلہ خیال کا انتظام کریں گے.لیکن بڑ المبا عرصہ گزر گیا، اس کا کوئی جواب نہیں آیا.کانفرنس کے آخری دن 04 جون کو میں نے یہ اعلان کیا تھا.پھر ان کو ایک یاد دہانی کروائی گئی.اور اس یاد دہانی کا جواب دس پندرہ دن کے بعد ایک اور دستخط سے یہ آیا کہ ان صاحب نے ، جن کے دستخط سے دعوت نامہ آیا تھا ، مجھے یہ کہا ہے کہ میں ان کی طرف سے آپ کو یہ جواب لکھ دوں کہ چونکہ انہیں اسلام کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں، اس لئے آپ نے جو پوائنٹس، جو نکات اٹھائے ہیں، ان کے متعلق جب تک وہ ان پادریوں سے مشورہ نہ کر لیں، جو اسلام کے متعلق معلومات رکھتے ہیں، اس وقت تک وہ جواب نہیں ے سکتے.ان سے مشورہ کرنے کے بعد آپ کو جواب دیں گے.دے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں جماعت پھیلی ہوئی ہے.ساری دنیا میں ہمارے جو مبلغ ہیں، انہیں میں نے لکھا کہ چونکہ دعوت کے جواب میں، میں نے کیتھولکس کو بھی شامل کیا ہے، اس لئے 500
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء آپ بڑے پیار کے ساتھ انہیں تبادلہ خیال کے لئے بلائیں.اپنے جواب میں بھی میں نے لکھا تھا کہ پیار کے ساتھ اور امن قائم رکھتے ہوئے، اس قسم کے تبادلۂ خیالات ہونے چاہئیں.چنانچہ کیتھولک بشپس کو بھی دنیا کے مختلف حصوں میں لکھا گیا اور ان کا رد عمل یہ تھا کہ اکثر نے جواب ہی نہیں دیا.جنہوں نے جواب دیا، ان میں سے ایک جاپان کے کیتھولک بشپ ہیں، ایک برلن کے کیتھولک بشپ ہیں اور بعض اور ہیں، جن کے علاقوں کے نام مجھے یاد نہیں.انہوں نے صاف طور پر لکھ دیا کہ مسیح کی خدائی ہمارا پختہ عقیدہ ہے، اس لئے اس معاملہ پر ہم آپ سے کسی قسم کی بات کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں.عقل ہمیں یہ کہتی ہے کہ تبادلۂ خیال کرنے کی ضرورت اسی وقت پڑتی ہے، جب دوگروہوں کے پختہ عقائد میں تضاد پایا جائے یا اختلاف پایا جائے.اگر ساری دنیا ایک عقیدے پر متفق ہو جائے تو تبادلہ خیال کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اپنے جواب میں بھی میں نے یہی کہا تھا کہ تمہارا پختہ عقیدہ یہ ہے کہ تین خدا ہیں اور مسیح ان میں سے ایک ہے.اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدا کی وحدانیت اس عالمین کی بنیاد ہے.اب یہ دو متضاد عقائد ہیں.پس ہمارا مذ ہبی اختلاف ہو گیا.ہمیں پیار کے ساتھ بیٹھ کر ، ایک دوسرے کو دلائل دے کر سمجھانا چاہیے.لیکن اس کا جواب یہ دیا کہ چونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے، اس لئے ہم بحث نہیں کرتے.بہر حال انہوں نے اس طرح چھٹکارا حاصل کر لیا اور میرا یہ خیال نہیں کہ کونسل آف چرچز بھی اس بات پر آمادہ ہو.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ اس وقت کی دنیا میں تھوڑے بہت عقل کے تقاضے بھی مانے جانے لگ گئے ہیں.یعنی دنیا کہتی ہے کہ ہمیں عقل کے کچھ نہ کچھ تقاضے تو پورے کرنے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات کھول کر بیان کی ہے.وہ یہ کہ بعض باتیں بالائے عقل ہوتی ہیں اور ہم انہیں مانتے ہیں.مثلاً خدا تعالیٰ کی صفات کا اور ان صفات کے جلووں کا احاطہ کر لینا، عقل کی طاقت میں نہیں ہے.بلکہ یہ بات بالائے عقل ہے.اور بعض باتیں خلاف عقل ہوتی ہیں.عقل کہتی ہے کہ ایسا ہوہی نہیں سکتا.پس یہ دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں.مثلاً یہ کہنا کہ یہ تین انگلیاں تین بھی ہیں اور ایک بھی ہے، یہ خلاف عقل ہے، بالائے عقل نہیں ہے.میں یہ جب کہتا ہوں کہ وہ تبادلہ خیال نہیں کریں گے تو یہ اس لئے کہتا ہوں کہ آج کی دنیا میں عقل نے یہ منوالیا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو میری بھی مانو.اور اگر وہ عقل کی مانیں تو انہیں اپنے عقائد چھوڑنے پڑتے ہیں.اور ان لوگوں کو اپنی کمزوری کا بے حد احساس پیدا ہو چکا ہے.اب میں وقت اور مکان ہر دو کے لحاظ سے تھوڑی سی چھلانگ لگا کر آپ کو سٹاک ہالم ( جو سویڈن کا دارالحکومت ہے) لے جاؤں گا.04 جون کو تبادلۂ خیال والی بات شروع ہوئی تھی اور یہ جولائی کے آخر 501
خطبہ جمعہ فرموده 13 اکتوبر 1978ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم کی بات ہے کہ میں سٹاک ہالم میں تھا تو وہاں پریس کانفرنس میں ایک پادری صاحب بھی تشریف لے آئے.ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ کسی عیسائی اخبار سے ان کا تعلق تھا یا نہیں تھا ؟ وہ آئے تھے ، آئیں تشریف رکھیں ، باتیں ہوں گی.میری یہ عادت ہے کہ میں پریس کانفرنس میں سوائے اسلام کی باتوں کے اور کوئی بات نہیں کرتا.سیاست کی بات میں اس لئے نہیں کرتا کہ نہ میں سیاسی آدمی ہوں اور نہ جماعت احمدیہ کو سیاست سے کوئی غرض ہے.اور وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی سیاسی بات شروع ہو جائے.تا کہ اگر اخبار میں کچھ دینا چاہیں تو جو سیاسی باتیں ہوں، ان کا ذکر کر دیں اور اسلام کے متعلق کچھ بھی نہ لکھیں.اور میں نہیں چاہتا کہ ان کو ایسا کرنے دیا جائے.جب میں صرف اسلام کی بات کروں گا تو یا تو وہ کچھ بھی نہیں لکھیں گے.اور اگر لکھیں گے تو اسلام کے متعلق ہی لکھیں گے.میں نے باتیں شروع کر دیں.جس طرح دینی تعلیم دینے کے لئے ہمارا جامعہ احمدیہ ہے، اسی طرح ان کی اپنی یو نیورسٹیاں ہیں، جہاں وہ پادریوں کو مذہبی تعلیم دیتے ہیں.وہ پادری صاحب کہنے لگے کہ میں وہاں کا گریجوایٹ ہوں.یعنی بہت تعلیم یافتہ پادری تھے.مجھے خودہی پوچھنے لگے کہ آپ کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے ، صلیب سے زندہ اتارے گئے ، آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ میں نے بتایا ہے نا کہ میں سوائے اسلام کے اور کوئی بات ہی نہیں کرتا.انہوں نے خود ہی بات چھیڑ دی.میں نے انہیں کہا کہ مجھ سے دلائل مت پوچھو، حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری تمہیں پہلے ہی کافی دلائل دے چکے ہیں.میں نے کہا کہ حواریوں کا یہ بیان ہے کہ صلیب پر چڑھائے جانے کے کئی دن بعد حضرت مسیح پیدل ان کے ہم سفر ہوئے، کئی میل کا سفر کیا ، تھک گئے اور تھکاوٹ کے آثار دیکھ کر حواریوں نے کہا کہ آگے نہ جائیں بلکہ رات ہمارے ساتھ گزاریں اور آرام کریں.اس سفر میں وہ بھوک سے اتنے نڈھال ہو گئے کہ مانگ کر ان سے کھانا کھایا.اور انجیل کہتی ہے کہ حواریوں نے مچھلی اور شہد ان کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے وہ کھایا.غرض پیدل چلے ، تھک گئے ، بھوک لگی، کھانا کھایا، رات وہاں سوئے.کیا وہ خدا تھے؟ اور یہ صلیب پر چڑھائے جانے کے کئی روز بعد کا واقعہ ہے.اور یہ انجیل میں لکھا ہے اور حواریوں نے اسے بیان کیا ہے.تو اس کے جواب میں مجھے کہنے لگا کہ او ہو آپ تو بات ہی نہیں سمجھتے.بات یہ تھی کہ وہ اپنی مرضی سے کبھی روح بن جاتے تھے اور کبھی مادی جسم میں حلول کر جاتے تھے.میں نے کہا کہ یہ کوئی Theatrical Performance یعنی کوئی تماشا تو نہ تھا.میں نے کہا کہ اگر تما شاد کھانا تھا تو انہی کو کیوں دکھایا، تمہیں آکر کیوں نہیں دکھایا ؟ دو ہزار سال سے ایسا 502
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء کرتے آتے کہ اپنی مرضی سے کبھی روحانی جسم اختیار کرلیتے اور کبھی مادی جسم اختیار کر لیتے.خیر اس پر وہ چپ ہو گیا.پھر میں نے اس سے کہا کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ایک طرف تو تم انہیں خدا کہتے ہو اور دوسری طرف تمہارے بہت سے فرقے یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے خدائی کے باوجود تین دن اور تین راتیں جہنم میں گزاریں، Hell میں گزاریں.پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ Hell تھی کہاں؟ جہاں انہوں نے تین دن رات گزارے؟ اگر وہ کوئی اور جواب دیتے تو میں اس کے لئے تیار تھا اور میرے ذہن میں تھا کہ وہ کوئی اور جواب دیں گے.مگر میرے اس سوال پر کہ وہ Hcll کہاں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ.Hell is Down Down Down کہ Hell نیچے نیچے نیچے ہے.جب انہوں نے یہ جواب دیا تو میں نے اپنی مٹھی آگے کی اور کہا کہ فرض کرو یہ کرہ ارض ہے اور ہم یہاں ہیں.تم کہتے ہو کہ Hell is Down Down Down اور نیچے یہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ ہے.تو کیا حضرت مسیح علیہ السلام نے تین دن رات جہنم میں، امریکہ میں گزارے تھے ؟ تو جواب دیا کہ ممکن ہے، وہیں گزارے ہوں.ان کی یونیورسٹی کا گریجوایٹ اس قسم کے جواب دے رہا ہے.اس سے میں سمجھ گیا کہ اس وقت یہ لوگ بڑے پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ خود ہی دعوت دے دی.اور کیتھولکس کے متعلق تو مجھے پتا تھا، پندرہ ، ہمیں سال سے مجھے علم ہے کہ انہوں نے کیتھولکس کو یہ کہا ہوا ہے کہ نہ کسی احمدی سے بات کرو اور نہ کسی سے کوئی کتاب لے کر پڑھو.ان سے بات ہی نہیں کرنی.لندن کے اخبارات پر چرچ نے بہت دباؤ ڈالا.پریس ریلیز سے پہلے انہوں نے کافی لکھا تھا.ڈیلی ٹیلیگراف نے تو اپنے رنگین سنڈے ایڈیشن میں ایک لمبا چوڑا امضمون لکھ دیا اور اس میں ہمارے عقائد بھی پوری طرح بتا دیئے.کچھ عیسائیوں کے عقائد بھی بتا دیے.آگے سمجھنے والے خود ہی فیصلہ کریں گے.دیگر اخبارات نے بھی لکھا لیکن اس پریس ریلیز کے بعد لندن کے اخبارات نے کچھ نہیں لکھا.بعض لوگوں نے اسے محسوس بھی کیا.لیکن ہمیں اس سے کیا کہ کوئی لکھتا ہے یا نہیں؟ ہم نے تو اسلام کی صداقت کے اظہار کے لئے تدبیر کرنی ہے.اور اس کے نتائج نکالنا میرانہ تیرا کسی کا کام نہیں.خدا تعالی بغیر ہماری تدبیر کے بھی نتائج نکالتا ہے.خدا تعالیٰ کا اس زمانے میں یہ منصوبہ ہے کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے گا.ہم تو من ثواب حاصل کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی غریبانہ طاقت کے مطابق کوئی کام کر دیتے ہیں.اور وہ اپنے فضل سے اسے قبول بھی کرتا ہے اور نتائج بھی نکالتا ہے.لیکن لندن کے علاوہ انگلستان کے اخباروں نے چار، چار صفحے بھی لکھے، سپلیمنٹ نکالے، چھوٹے نوٹ بھی لکھے.نیز باہر والوں 503
خطبہ جمعہ فرموده 13 اکتوبر 1978ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم نے بھی نوٹ لکھے.وہاں انگریزوں کی ایک ایجنسی ہے، جس کا کام اخبارات وغیرہ میں خبریں شائع کرانا اور اعد ادا کٹھے کرنا ہے.ان کی رپورٹ یہ تھی کہ اس وقت تک ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے چودہ کروڑ انسانوں تک وہ آواز پہنچ چکی ہے، جو ہم پہنچانا چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے اور اس میں وہ اخبار شامل نہیں ہیں ، جو مثلا افریقہ میں چھپے اور جن کے تراشے ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں.نائیجیریا میں عیسائیوں کے ایک اخبار نے چار صفحے کا ضمیمہ دیا.اسی طرح ساؤتھ امریکہ کے ایک اخبار میں بھی نوٹ شائع ہوا ہے.جس کی خبر بھی صرف ایک شخص کو آئی ہے.ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس کا تراشہ بھی مل جائے.اسی طرح جاپان کے کئی اخباروں نے نوٹ دیئے اور ان میں خط و کتابت بھی شائع ہوئی.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے.چھوٹی سی جماعت ہے، ہماری تو کوئی طاقت ہی نہیں.لا فخر ہی ہے، اپنی طاقت پر گھمنڈ نہیں.جب لندن میں یہ بات ہوئی تو عطاء المجیب صاحب نے ، جو جاپان میں ہمارے مبلغ ہیں، اخبار میں یہ ساری تفصیل دے دی کہ انہوں نے دعوت دی اور یہ جواب ہے.اور ہمارے عقائد یہ ہیں کہ مسیح صلیب سے زندہ اتارے گئے تھے اور مرہم عیسی کا بھی ذکر کیا.یعنی اس پر اپنا ایک چھوٹا سا نوٹ دے دیا.بعد میں کسی نے اس کی تائید میں بھی لکھا.لیکن بہت سے لوگوں نے غصے میں لکھا کہ غلط عقائد ہیں اور تم شائع کر رہے ہو.اخبار کے اندر اچھی خاصی بحث شروع ہو گئی.پہلے ان کا خط شائع ہوا، پھر اس کا جواب دیا گیا.پھر اخبار نے ان کو کہا کہ جواب دینا ہے تو دے دو.چنانچہ انہوں نے جواب دیا.جب اسی طرح دو چار دفعہ ہو چکا تو اخبار نے یہ فیصلہ کیا کہ اب اس بحث کو بند کرنا چاہیے، کافی لمبی ہو گئی ہے.لیکن انہوں نے عطاء الحجیب و کہا کہ ہم اس بحث کو بند کر رہے ہیں، اب تم نے جو لکھنا ہے، وہ ہمیں بھیج دو.وہ ہم شائع کریں گے اور اس کے نیچے لکھ دیں گے کہ آئندہ اس بارہ میں ہم کچھ شائع نہیں کریں گے.یعنی اخبار نے پھر ہمیں موقع دے دیا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.ہمارا تو کوئی زور نہیں چلتا.اور ابھی نیا مشن ہے اور اس کی کوئی ایسی آواز بھی نہیں.مگر خدا تعالیٰ کو تو اس کی تدبیر میں کوئی انسان نا کام نہیں کر سکتا.اس کا نفرنس کا اثر باہر کی جماعتوں پر بڑا خوشکن ہوا ہے.میرے کہے بغیر سارے امریکہ کی مجلس عاملہ نے جو وہیں کے باشندوں پر مشتمل ہے، اپنے سر جوڑے اپنی میٹنگ کی اور یہ فیصلہ کیا کہ یہ جو بہت بڑا پراپیگنڈا ہو گیا ہے، دنیا گند کے اندر پھنسی ہوئی ہے، اس لئے اب یہ بار بار ہونا چاہیے اور دنیا کے کانوں تک یہ آواز بار بار جانی چاہیے.اس لئے دو سال کے بعد امریکہ کی جماعتیں اس قسم کی کانفرنس امریکہ میں کروائیں.اور اس سے پہلے انہوں نے اس سلسلے میں پراپیگنڈا کرنے کے لئے نمونے کے طور پر ایک اور چھوٹا سا منصوبہ بنایا ہے.تو انشاء اللہ دو سال کے بعد وہاں بھی کا نفرنس ہو جائے گی.504
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء امریکہ کا قومی مزاج بھی اور وہاں کے اخبارات اور ریڈیو اور ٹیلیویژن کا مزاج بھی انگلستان اور Continent کے مزاج سے مختلف ہے.وہ چرچ کا دباؤ جلدی قبول نہیں کرتے.اگر Lobbying زیادہ ہو جائے تو قبول کر لیتے ہیں.لیکن اتنی جلدی قبول نہیں کرتے ، جتنی جلدی مثلاً میرے خیال میں لندن کے اخباروں نے کیا.اگر چہ وہ اس سے انکار کرتے ہیں لیکن ان کے چپ رہنے کی کوئی اور وجہ نہیں تھی.میں جب 1976ء میں نیو یارک گیا تو وہاں پر یس کا نفرنس میں ایک T.V (ٹی وی والے بھی آئے ہوئے تھے.وہاں T.V(ٹی وی) پرائیویٹ ہے.وہ اپنے پیسے کماتے ہیں اور بڑے پیسے کماتے ہیں.ان کے نرخ بہت زیادہ ہیں.ایک منٹ کے دو ہزار ڈالر یعنی ہیں ہزار روپیہ لیتے ہیں.خیر وہ پریس کانفرنس میں آئے اور T.V (ٹی وی) کے لئے تصویریں بھی لیتے رہے اور ان کی ٹیم کا انچارج جو پڑھا لکھا آدمی تھا، گفتگو بھی کرتا رہا.اور اس رات کو یا شاید اگلی رات کو انہوں نے آدھے گھنٹے کی T.V(ٹی وی) دکھادی.گویا ساٹھ ہزار ڈالر یعنی چھ لاکھ روپیہ کی.اگر ہم ان کو کہتے کہ اتنی دیر دکھاؤ تو وہ کہتے کہ چھ لاکھ روپیہ نکالو، تب دکھائیں گے.پس خدا نے یہ تدبیر کر دی.اور وہاں کے اخباروں نے بڑے لمبے نوٹ دیئے.میں تو آرام آرام سے اور پیار کے ساتھ اسلامی تعلیم ان کو بتا تا ہوں.اور اسلامی تعلیم میں آپ یا درکھیں، بڑا ہی حسن ہے اور بڑی ہی قوت احسان ہے.ان کو سمجھانا چاہیے کہ دیکھو کس طرح قرآن کریم کی شریعت تم پر احسان کر رہی ہے؟ خدا تعالٰی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمہاری بھلائی اور تمہاری شرافت کا اور ساری دنیا کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک لے جانے کا جو منصوبہ بنایا ہے، اس کے اندر یہ باتیں پائی جاتی ہیں.اتنا اثر ہوتا ہے ان پر کہ آپ احمدی بھی یہاں گھر بیٹھے اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.ان سے جا کر باتیں کریں تو تب پتا لگتا ہے.ابھی میں مختصر کچھ باتیں بتاؤں گا، پھر اگلے خطبوں میں جتنا وقت ملے گا، بتا تا جاؤں گا.اس وقت میں ایک حصہ بتا رہا ہوں، جس کا تعلق کا نفرنس کے ساتھ ہے.اس کانفرنس میں سب سے آخر میں، میں نے بولنا تھا.اور میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ سوائے دعا کے اور میں کچھ نہیں کر سکتا تھا.کیونکہ اگر اس کو ایک کتاب کہیں تو کتاب کے بہت سے باب ہوتے ہیں.اور مجھ سے پہلے کسی نہ کسی مقرر نے ان ابواب کے عنوان کے ماتحت چھوٹے سے چھوٹے مضمون کو بھی تفصیل سے بیان کر دیا تھا.آخر میں میری باری تھی.میں نے بڑی دعا کی ، بڑی دعا کی، دعا کی توفیق بھی خدا تعالیٰ دیتا ہے.دعا یہاں سے شروع ہوئی کہ دماغ کھلتا ہی نہیں تھا.بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے.دماغ بند تھا.کئی 505
خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم کئی گھنٹے لگاؤں لیکن ایک لفظ بھی نہ لکھا جائے اور نہ لکھوایا جا سکے.کچھ سمجھ نہ آئے کہ کیا معاملہ ہے؟ خدا تعالیٰ نے دعائیں کروانی تھیں.آخر وہ وقت بھی آیا کہ خدا تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول کر لیا.چنانچہ ایک دن ایک منٹ میں خدا تعالیٰ نے دماغ کھول دیا.پہلے میں فرینکفرٹ میں قریب میں، بائیس دن رہا تھا.وہاں بھی دماغ نہیں کھل رہا تھا.میں نوٹ لکھتا تھا، لکھواتا تھا لیکن تسلی نہیں ہوتی تھی.آخر جب خدائے عزیز و کریم کا فضل نازل ہوا اور میں نے مضمون مسلسل لکھوانا شروع کر دیا اور خدا نے بڑا فضل کیا کہ وہ ایسا مضمون ہوگیا، جس قسم کا میں خدا کے فضل سے امید رکھتا تھا کہ مجھے عطا ہو جائے گا.اس سلسلہ میں ایک بات خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی کفن مسیح سے متعلق عیسائی دنیا میں بحث چل پڑی تھی.ویسے تو یہ دیر سے کفن دکھا رہے ہیں لیکن انیسویں صدی میں بھی انہوں نے دو، تین دفعہ اس کی زیارت کروائی.اور ستر ستر، اسی اسی لاکھ آدمی ہر زیارت پر وہاں گئے.اور انہوں نے زیارت کی.اور اخباروں میں اس کا چرچا ہوا.سب کچھ ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائی عقائد کے متعلق اتنا مواد اکٹھا کرنے کے باوجود کہ یہ عقائد مسیح کی شان کے خلاف ہیں، یہ عقائد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے خلاف ہیں، یہ انسانی عقل کے خلاف ہیں، یہ بنیادی حقائق عالمین کے خلاف ہیں، آپ نے کفن مسیح کا کہیں نام بھی نہیں لیا.میں فرینکفرٹ میں ہی تھا کہ خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ اس کو بالکل اہمیت نہیں دینی.آج کل اسے بہت اہمیت دی جارہی ہے.اور ہمارے بعض مضمون نگاروں نے بھی وہاں دی.لیکن میری آخر میں باری تھی.میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ جہاں تک Shroud of Turin یعنی اس کفن مسیح کا تعلق ہے، جو انہوں نے ٹیورن میں رکھا ہوا ہے، ہمارے نزدیک اسے کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے.اس لئے کہ اگر یہ محفوظ نہ رہتا اور مر در زمانہ اس کی یاد بھی انسان کے دماغ سے مٹادیتا ، تب بھی ان دلائل پر ، جو ہمارے پاس موجود ہیں، کوئی اثر نہ پڑتا.لیکن اصل میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو اہمیت نہیں دی اور آپ کے نائب یعنی خلیفہ وقت کو بھی نہیں دینی چاہیے.چنانچہ میں نے کہا کہ لوگ اسے بھول ہی جاتے اور چودہ فٹ لمبی یہ چادر جو ہے، اگر تباہ ہو جاتی تو کیا فرق پڑتا تھا؟ ہمارے پاس بڑے زبر دست دلائل موجود ہیں.یہ معاملہ تو چرچ کو طے کرنا چاہیے کہ اگر یہ بناوٹ تھی تو انہوں نے اس پر ماننے والوں کے اربوں روپے کیوں خرچ کروا دیئے کہ جو اس کو مقدس سمجھتے ہوئے دنیا کے کونے کونے سے اس کی زیارت کرنے کے لئے آئے؟ اور اگر یہ واقعی اصلی ہے تو ایک اور دلیل مل جائے گی.اور ہمارے پاس تو ہزاروں دلائل پہلے سے موجود ہیں، اس کی کوئی ایسی اہمیت نہیں.506
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء جب ہماری اس کا نفرنس کا چرچا ہوا، جو ہم 2,3,4 جون کو کر رہے تھے تو اس سے پہلے چرچ کا یہ اعلان شائع ہو چکا تھا کہ مئی کے شروع میں سائنسدان کفن مسیح کا سائنسی تجزیہ کریں گے اور معلومات حاصل کریں گے، تصویریں لیں گے، اس کی عمر معلوم کریں گے.ان کو خدا تعالیٰ کے ایک نئے قانون کا پتا لگا ہے، جس سے عمر معلوم ہو جاتی ہے.اور وہ تجربہ قریباً قریب بتادیتا کہ اس پر ساڑھے انیس سو اور ساڑھے ہیں سوسال کے درمیان زمانہ گزر چکا ہے.چرچ نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ یہ تحقیق ہوگی.لیکن جس وقت ہماری اس کا نفرنس کا چرچا ہوا تو اعلان ہو گیا کہ وہ غیر معین عرصہ کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے.اور تو کیا تیار تھے، سائنسدان تیار تھے.انہوں نے اس کے لئے انتظام کیا ہوا تھا اور پیسے خرچ کئے ہوئے تھے.امریکہ کی ائر فورس کے سائنسدان بھی آ رہے تھے.کیونکہ ائر فورس کے لئے بہت سی نئی ایجادات ہوئی ہیں، جن کو انہوں نے یہاں استعمال کرنا تھا.غرض چوٹی کے ماہرین سائنسی تحقیق کے لئے آ رہے تھے اور انہوں نے آرام سے کہہ دیا کہ وہ نہیں ہوگی.ہم نے کہا ایک تو اثر ہوا ان پر.میں نے یہ بھی سوچا کہ ممکن ہے کہ یہ بھی شرارت ہی کی ہو کہ ہم زور دیں کہ بس ہمارے دلائل کا سارا انحصار ہی کفن مسیح “ پر ہے.اور وہ تو ان کے ہاتھ میں ہے.وہ بعد میں کہہ دیں کہ وہ تو ہے ہی Fake اور مصنوعی اور بناوٹی چیز.کسی نے عیسائیت کے ساتھ دجل کیا ہے.یہ چادر تو اس وقت کی ہے ہی نہیں.اور پھر وہ سمجھیں گے کہ ہمارے سارے دلائل ختم ہو جائیں گے.ہم نے کہا کہ ہم یہ دلیل ہی نہیں لیتے اور تھوڑے دلائل ہیں ! اب میرے آنے سے چند دن پہلے مجھے امریکہ سے ایک اقتباس آیا ہے، جس میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اکتوبر میں (جبکہ کانفرنس کو کئی ماہ گزر چکے ہیں ) سائنسی تحقیق ہوگی.لیکن اس کی شکل یہ ہوگی کہ وہ تجربہ کار بن 14 کا ) جوعمر معلوم کرنے کے لئے کرنا تھا، وہ نہیں ہوگا.اور بہانہ یہ کیا ہے کہ اس کی ٹیکنیک ابھی زیادہ اعلیٰ درجے کی نہیں ہے.ہم انتظار کرتے ہیں، جب وہ پوری طرح Develop ہو جائے گی تو پھر یہ تجربہ کریں گے.اس کپڑے پر حضرت مسیح کی تصویر بھی آگئی ہے.حضرت مسیح کے چہرے پر بھی زخم تھے.آپ اپنے زمانہ کے بڑے مظلوم انسان تھے.آپ کے سارے جسم پر مرہم لگانی پڑی تھی اور اس کی وجہ سے اس کپڑے پر آپ کے نقوش نیگیٹیو کی شکل میں آگئے ہیں.چنانچہ اب لوگوں نے پہلی دفعہ حضرت مسیح کی اصل شکل دیکھی ہے.یونانی چرچ اور اٹالین چرچ نے دو مختلف شکلیں بنائی ہوئی تھیں.اور وہ دونوں غلط ثابت ہوئی ہیں.بہر حال انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ اکتوبر میں تحقیق ہو رہی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ کسی طرف سے ان پر دباؤ پڑا ہے کہ جماعت احمد یہ اتنا شور مچا رہی ہے اور تم نے ان کو ایک اور ہتھیار دے دیا ہے کہ تم 507
خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ڈر کے مارے کہتے ہو کہ ہم نے سائنسی تحقیق نہیں کروانی.یہ میرا خیال ہے، صحیح ہے یا غلط، اللہ بہتر جانتا ہے.اس دوسری سائنٹیفک تحقیق کے لئے کم و بیش پچاس سائنسدان آرہے ہیں.امریکن چوٹی کے ماہرین بھی آرہے ہیں.ساؤتھ امریکہ، جو کہ پکا کیتھولک ہے، وہاں کا ایک سائنسدان بھی انہوں نے شامل کر لیا ہے.ٹھیک ہے، شامل کر لو.لیکن اصل اعلان یہ ہے کہ ٹیورن میں وہ جو تحقیق کریں گے، تصویریں لیں گے اور تجربے کریں گے، اس کا نتیجہ میں سال کے بعد بتایا جائے گا.تحقیق آج کر رہے ہو اور نتیجہ میں سال کے بعد بتاؤ گے، اس میں کیا حکمت ہے؟ بہر حال ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ اس طرح انہوں نے اپنی کمزوری کا اعلان کر دیا ہے.اگر تمہیں دلیری ہوتی تو تم کہتے کہ یہ بھی کر کے دیکھ لو.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر یہ فرمایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر سرینگر محلہ خانیار میں ہے.ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ نہ نہ اسے کھودنا نہ کہ ہمیں یہ وہم ہو کہ اگر اسے کھودا گیا تو اندر سے کچھ اور نکل آئے گا.جیسے کہ لوگ اب یہاں تک پہنچے ہوئے ہیں کہ جب میں انگلستان میں تھا تو ہندوستان میں کسی نے یہ خبر چلا دی کہ وہ قبر کھودی گئی اور اندر سے گدھے کی قبر کھلی.یہ بات ہندوستان کے کسی اخبار میں چھپ گئی.حالانکہ قبر بالکل نہیں کھودی گئی.پر یس کا نفرنس میں مجھ سے پوچھتے بھی رہے اور میں کہتا رہا ہوں کہ ضرور کھودنی چاہیے.ہم نے وہاں ریزولیوشن بھی پاس کیا تھا.اس کی تحقیق ہونی چاہیے.کھودنے کا یہ مطلب نہیں ہے، وہ قبر کھودی جائے.بلکہ وہاں جو ہمیں قبر نظر آتی ہے، وہ مصنوعی حصہ ہے، اصل قبر نیچے ہے.یہ پرانا طریق ہے کہ اصل قبر سے آٹھ ، دس فٹ اوپر ایک کمرے میں اسی شکل کی ایک مصنوعی قبر بنادیتے تھے.یہ جو قبر ہے، اس کی دیواروں پر جہاں چراغ رکھنے کے لئے جگہ بنی ہے، وہ لکڑی کی صلیب ہے.کسی خانقاہ میں کسی مسلمان کی قبر پر صلیب بنا کر دیا نہیں رکھا جاتا.لیکن وہاں پرانی صلیب بنی ہوئی ہے اور اس پر دیے رکھے جاتے ہیں.یہ درست ہے کہ میں سو سال میں کئی دفعہ مرور زمانہ سے مقبرے کی عمارت مرمت طلب ہوئی ہوگی اور مرمتیں ہوئی ہوں گی ، اسلام سے پہلے بھی اور اسلام کے بعد بھی.لیکن وہ صلیب کا نشان بتا رہا ہے کہ یہ کسی مسلمان کی قبر نہیں ہے.غرض یہ کانفرنس خدا کے فضل سے بڑی کامیاب رہی.لیکن یہ نہیں کہ یہ کافی ہے.بلکہ یہ ہم نے ایک اور قدم آگے بڑھایا ہے.اور اس کے بعد بہت سے اور قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے.جب تک دنیا میں عیسائی موجود ہیں، ان کو اسلام کی طرف لانا، ان کی خیر خواہی کے لئے ، تاکہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کریں.ہماری یہ جدو جہد اور یہ جہاد تو جاری رہنا چاہیے اور جاری رہے گا.ابھی تو یورپ میں 508
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء چند ایک لوگ ہی اسلام میں داخل ہوئے ہیں.ہم نے Census تو نہیں کروایا لیکن مغربی افریقہ میں ہمارے جس قدر احمدی ہیں، ان کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے ، میرا یہ اندازہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی کوششوں میں خدا نے برکت ڈالی اور ان کوششوں کے نتیجہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں.یہ میں ان کے بچوں وغیرہ کو شامل کر کے کہہ رہا ہوں.پانچ لاکھ بالغ مرد مراد نہیں.اور یہ عیسائیت کو ہلا دینے والی بات ہے.اس وجہ سے بھی وہ بڑے گھبرائے ہوئے ہیں.بعض بہت پڑھے لکھے لوگوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے.یورپ کے ایک حصے کو یہ احساس پیدا چکا ہے کہ اسلام کی تعلیم بہت حسین ہے.میں جب بھی غیر ممالک کے دورہ پر جاتا ہوں، ان کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اسلام جو کچھ انہیں پیش کرتا ہے، وہ اس سے بہتر ہے، جو ان کے پاس موجود ہے.اور اس کے بغیر ہم ان کو اسلام کی طرف متوجہ ہی نہیں کر سکتے.پڑھے لکھے لوگ ہیں، دنیوی علوم میں سائنس میں ترقی یافتہ ہیں، چاند پر اتر گئے ہیں، آسمان کی خبریں لاتے ہیں، مادی عیش و عشرت کے بے تحاشا سامان پیدا کر لئے ہیں، اس لئے جب تک ہم ان کو اس بات کے سمجھانے میں کامیاب نہ ہو جائیں کہ اسلام جو چیز پیش کر رہا ہے، وہ اس سے بہتر ہے، جو ان کے پاس ہے، اس وقت تک وہ ہماری طرف توجہ ہی نہیں کریں گے.وہ پاگل تو نہیں ہیں.ہم یہ سمجھتے ہیں (ہمیں تو اپنے آپ سے ہی غرض ہے، اس لئے آپ اپنی باتیں کیا کریں اوروں کی باتیں کرنا چھوڑ دیں.) کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی جو تفسیر انسان کے ہاتھ میں دی ہے، اسے چھوڑ کر ترقی یافتہ یورپ کو یہ سمجھایا ہی نہیں جا سکتا کہ جو کچھ ان کے سامنے پیش کیا جارہا ہے ، وہ اس سے بہتر ہے، جو ان کے پاس موجود ہے.اس بات کے لئے ان پر تنقید بھی کرنی پڑتی ہے.مثلاً فرینکفرٹ میں بڑی دلچسپ اور بہت لمبی ڈھائی تین گھنٹے کی پریس کانفرنس ہوئی تھی.پہلے تو میں نے ان کو کہا کہ کوئی سوال کرو.لیکن وہ سب چپ ہو گئے.پھر میں نے کہا کہ اچھا پہلے میں باتیں کرتا ہوں اور بعد میں تم سوال کرنا.میں نے انہیں کہا کہ یہ Modern Civilization مدرن سولائیزیشن ) جس پر تمہیں فخر ہے اور دنیا کے دوسرے خطوں میں بسنے والے بہت سے لوگ، جو تمہارے ساتھ تعلق نہیں رکھتے ، تمہاری نقل کرنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں، This Great Modem Civilization میں مجھے بہت سی بنیادی کمزوریاں نظر آتی ہیں.ان میں سے تین، چار کمزوریاں میں نے ان کو بتا ئیں.509
خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ایک کمزوری میں نے یہ بتائی کہ یہ سولائیزیشن ، تمہاری یہ تہذیب حاضر معاف کرنا نہیں جانتی.میں جرمنی میں بول رہا تھا.انہوں نے دو جنگیں لڑی ہیں اور دونوں میں ہی ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے.میں نے کہا کہ تم نے دو جنگیں لڑی ہیں، پہلی کو تو میں چھوڑتا ہوں ، دوسری جنگ عظیم کو لے لیں ، اس جنگ کے بعد تم پر بہت سا تاوان ڈالا گیا، تمہارے ملک میں چھاؤنیاں بنائیں، تمہیں غلام بنا لیا، تمہیں حقارت سے دیکھا.اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ جنگ میں تم نے یعنی جرمنوں اور ان کے ساتھیوں نے ،Allies (ایلائز) سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو زیادہ تعداد میں قتل کیا یا انہوں نے تمہارے زیادہ آدمی مارے؟ جب جنگ ہورہی تھی تو کسی ایک نے جیتنا تھا، وہ جیت گئے اور تم ہار گئے.لیکن تمہیں معاف نہیں کیا گیا.اور یہ تمہاری تہذیب کی کمزوری ہے.اس کے برعکس دنیا میں یہ واقعہ بھی ہوا ہے کہ ایک شخص کو ر ڈ سائے مکہ نے تیرہ سال تک مکی زندگی میں اور پھر ہجرت کے بعد بھی ان کے پیچھے جا کر قریباً سات سال تک دکھ پہنچائے.متواتر ہیں سال تک انتہائی قسم کے مظالم ان کے خلاف کئے گئے.He had to face the worst type of persecution اور قریباً بیس سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا کہ آپ مکے کی فصیلوں پر کھڑے تھے.اور اہل مکہ جو ہمیں سال تک مظالم ڈھاتے رہے تھے، ان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ میان سے اپنی تلواریں باہر نکال سکتے.اور اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے اتنی طاقت دی ہوئی تھی کہ آپ جو چاہتے ، ان سے سلوک کر لیتے.لیکن آپ نے جو سلوک ان سے کیا ، وہ یہ تھا کہ جاؤ تم سب کو معاف کیا“.میں یہ بتا رہا ہوں کہ اس طرح ہم اسلام کی خوبیاں ان لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں.چنانچہ میں نے دو، چار اور باتیں ان کو بتا ئیں اور اس کے بعد پھر وہ سوال پوچھنے لگ گئے.سٹاک ہالم میں ایک صحافیہ پریس کانفرنس میں ذرا دیر سے آئی اور بیٹھتے ہی کہنے لگی کہ اسلام عورتوں کے متعلق کیا کہتا ہے؟ یورپ میں اسلام کے متعلق بڑا ز ہر پھیلایا ہوا ہے کہ اسلام عورت کو عزت اور احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، اس کے حقوق کو نہیں پہچانتا اور اس کے حقوق اسے نہیں دیتا وغیرہ.یہ تو اسلام کے دشمنوں کا کام ہے، وہ انہوں نے کیا.میں نے اسے کہا کہ چودہ سو سال پہلے قرآن کریم میں ان الفاظ میں اعلان کیا گیا ہے کہ عورت ہویا مرد، جو بھی اعمال صالحہ بجالائے گا، اس کو ایک جیسا ثواب ملے گا.کہنے لگی، مجھے تو قرآن کریم کی آیت دکھا ئیں.ہوٹل میں ہمارے کمرے کے پاس ہی پر یس کا نفرنس ہو رہی تھی.میں نے اپنے بیڈ روم سے - 510
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء قرآن کریم منگوایا اور اس کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور اس کا ترجمہ سنایا.کہنے لگی کہ مجھے اس کا ریفرنس نوٹ کروائیں کہ کس سورۃ کی کون سی آیت ہے ؟ چنانچہ وہ اس نے نوٹ کیا.پھر میں نے ایک اور آیت اس کو بتائی اسے بھی نوٹ کیا.پھر وہ سوال کرتی رہی اور میں بتا تا رہا کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے.وہ جذباتی ہو رہی تھی لیکن میرے سامنے زیادہ نہیں ہوئی.جب ہم وہاں سے اٹھے اور وہ کمرے سے باہر نکلی تو وہ آنسوؤں سے رور ہی تھی.اور ہمارے ایک ساتھی کو کہنے لگی کہ مجھے یہ بتاؤ کہ اتنی حسین تعلیم تمہارے پاس ہے اور تم اتنی دیر کے بعد ہمارے پاس کیوں پہنچے ہو؟ تمہیں پہلے آنا چاہیے تھا.ہزار میں سے شاید ایک آدمی ہو، جس کو یہ احساس پیدا ہوا ہے.لیکن اس کے ساتھ کام تو شروع ہو گیا.یہ خدا تعالیٰ نے ایک تدبیر کی ہے.اب وہ اس کی طرف متوجہ ہوں گے.وہ لوگ اپنے سے نالاں ہیں.ہر روز ایک حصہ اٹھتا ہے اور اپنی برائیاں بیان کر دیتا ہے.ایک دن ہمارے سامنے کھانے کے بارہ میں پروگرام آگیا کہ آدمی بیمار ہورہے ہیں اور مر رہے ہیں.اس نے بتایا کہ ہمیں غلط قسم کا کھانا دیا جارہا ہے، جوزہریلا ہے.اور اس کی وجہ سے اتنے عرصہ میں بارہ ہزار آدمی مر چکا ہے اور پتا نہیں کتنا بیمار ہوا ہے؟ ہمیں اس سلسلہ میں فکر کرنی چاہیے.میں ان کو بتا تا رہا ہوں اور یہ پوائنٹ بھی ان کے سامنے لایا ہوں کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ قرآن کریم نے کھانے کے متعلق جو تعلیم دی ہے، وہ اس پر عمل نہیں کر رہے.اگر وہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کریں تو کھانے کی وجہ سے اس قسم کی بیماریاں اور اموات نہ ہوں.باقی جو انسان اس دنیا میں آیا ہے، اس نے بہر حال اس دنیا سے جانا ہے.یہ تو نہیں ہے کہ قیامت تک سب نے زندہ رہنا ہے.لیکن تکلیفیں اٹھا کر اور بیماریوں سے اپنی زندگی کے دن گزار کر مرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان قرآن کریم کی تعلیم پر عمل نہیں کرتا.پھر ان قوموں میں دوسرے جھگڑے لڑائیاں اور سٹرائیکس (Strikes) وغیرہ بہت ہیں.میں ان کو کہتا رہا ہوں کہ عجیب بات ہے کہ مزدور اپنے حقوق کے حصول کے لئے سٹرائیک کرتا ہے.لیکن اس مزدور کو یہ پتا نہیں کہ اس کے حقوق ہیں کیا ؟ جن کو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے.یہ ہمیں اسلام بتاتا ہے.اس طرح بات چھڑتی ہے.پھر ان کو بتاتے ہیں، پھر وہ کہتے ہیں کہ اچھا! یہ حقوق ہیں.میں نے امریکہ میں ایک جگہ ان کو کہہ دیا کہ دیکھو تم میں سے کوئی شخص یہ جرات نہیں کرے گا کہ وہ یہ کہے کہ اسلام کی یہ تعلیم غلط ہے اور ہمارا دماغ اسے قبول نہیں کرتا.میں نے پہلے ان کو کہہ دیا اور پھر میں نے کہا کہ اب میں تعلیم بتا تا ہوں اور سب نے اسلامی تعلیم کی عظمت کو تسلیم کیا.511
خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم پس ان لوگوں کے دل میں ایک احساس پیدا ہوا ہے.اور میرے دل میں اس کے ردعمل کے طور پر یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ بڑی اہم ذمہ داری ہے، جو ہم پر ڈالی گئی ہے.بڑے کٹھن مراحل ہیں، جن میں سے ہمیں گزرنا ہے.پس تم آرام طلب زندگیاں نہ گزارو.ساری دنیا کی ہدایت کی ذمہ داری جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے، اس کے لئے جو کچھ کر سکتے ہو، وہ کرو.سارا کچھ نہیں کر سکتے.یہ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں.لیکن جو کچھ کر سکتے ہو، وہ تو کرو.خدا نے یہ کہا ہے کہ جو کچھ کر سکتے ہو، وہ کرو.اور اگر وہ اس چیز کا ایک کروڑواں حصہ ہوا، جو مطلوبہ نتائج پیدا کرنے کے لئے ہونا چاہیے تو باقی سارا کچھ میں کروں گا.اور اس سارے کا ثواب تمہیں دے دوں گا.خدا تعالیٰ نے اپنے لئے تو کوئی ثواب نہیں مقرر کیا ہوا.وہ تو قادر مطلق اور خالق کل ہے.ہر چیز اس کی ملکیت ہے.اس نے کسی سے کیا لینا ہے؟ وہ تو بڑی عظمت اور جلال والا ہے.کرے گا وہ اور ثواب آپ کو دے دے گا.اور یہ گھاٹے کا سودا تو نہیں ہے.غرض میرے دل میں یہ ردعمل پیدا ہوتا ہے اور اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دیکھ کر بڑی گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے.دعائیں کرو کہ اللہ تعالٰی ساری جماعت کو کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور پھر ساری دنیا کے لئے دعا ئیں کرو.یہ لمبا مضمون ہے.میں انشاء اللہ اگلے خطبہ میں یا اس سے اگلے کسی خطبہ میں جب موقع ملاء اسے بیان کروں گا.لیکن اس وقت مختصر یہ کہوں گا کہ ساری دنیا کے لئے دعائیں کرو، ہر ملک کے لئے دعا ئیں کرو اور اپنے ملک کے لئے خصوصیت سے دعا ئیں کرو کہ اللہ تعالی اس ملک کے استحکام کے سامان پیدا کرے.اور یہاں کے لوگ آپس میں اخوت اور بھائی چارے کے ماحول میں زندگی گزارنے والے ہوں.اور جو حسین معاشرہ اسلام دنیا میں پیدا کرنا چاہتا ہے، جہاں وہ یورپ میں دوسرے ممالک میں پیدا ہوگا ، وہاں ہمارے ملک میں بھی پیدا ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.( مطبوعه روزنامه الفضل 26 دسمبر 1978ء) 512
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 20اکتوبر 1978ء تحریک جدید کے اجراء کے بعد دنیا میں بڑی عظیم تبدیلیاں پیدا ہوئیں خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1978ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ہر سال یکم نومبر سے تحریک جدید کا نیا سال شروع ہوتا ہے ( وعدہ کے لحاظ سے ) اور 30 اپریل کو ختم ہوتا ہے ( ادائیگیوں کے لحاظ سے ).چونکہ یکم نومبر سے پہلے میں عام طور پر نئے سال کا اعلان کر دیا کرتا ہوں، اس لئے یہ جمعہ میں نے تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کے لئے منتخب کیا ہے، جو یکم نومبر سے شروع ہوگا.پس آج میں تحریک جدید کے صف اول کے 45 ویں، صف دوم کے 35 ویں اور صف سوم کے 14 ویں سال کا اعلان کرتا ہوں.تحریک جدید کی ابتداء 1934ء میں ہوئی تھی.اس پر 44 سال کا عرصہ گزر چکا ہے.یہ بات بڑی اہم ہے اور بڑی نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ اس سارے عرصہ میں جماعت ہائے احمد یہ مرکزیہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا کی کہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کی مہم کو چلانے کے لئے وہ مالی قربانی دیں.چنانچہ احباب نے اپنی ہر سال بڑھتی ہوئی طاقت کے مطابق خدا کے حضور عاجزانہ رنگ میں قربانی پیش کی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 23 نومبر 1934ء کو جمعہ کے روز تحریک جدید کا اجراء کیا تھا اور اس وقت 27 ہزار روپے کی ضرورت کا اعلان کیا تھا.آپ نے بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے کام کو وسیع کرنے کے لئے چندے کی تحریک کی اور اس کا نام تحریک جدید انجمن احمد یہ رکھا.چنانچہ بیرونی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کے کام میں وسعت پیدا کرنے کے لئے 1934ء کی ضرورت کے مطابق آپ نے رقم کا جواندازہ لگایا، وہ کم و بیش 27 ہزار روپے کا تھا.اور جماعت نے آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، اس غرض کے لیے جو چندہ اکٹھا کیا ، وہ کم و بیش ایک لاکھ روپے تھا.اس سے تحریک جدید کی ابتداء ہوئی.لیکن جیسا کہ میں نے ابھی اشارہ کیا ہے، ایک چیز بڑی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے.جب میرے ذہن میں یہ خیال آیا اور یہ حقیقت میری آنکھوں کے سامنے آئی تو میر ادول خدا کی حمد سے بھر گیا کہ اس سارے عرصہ میں جب تک بیرونی جماعتیں بحیثیت مجموعی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جانے کے قابل نہ ہوئیں.تحریک جدید کے منصوبہ کا بوجھ جماعت ہائے احمد یہ مرکزیہ نے اٹھایا.513
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم جب میں جماعت ہائے احمد یہ مرکز یہ کہتا ہوں تو اس سے میری مراد 1947ء میں تقسیم ملک سے پہلے کی ہندوستان کی جماعتیں اور پھر پاکستان کی جماعتیں ہیں.یعنی 1947 ء تک وہ جماعتیں مراد ہیں، جو ہندوستان میں بستی تھیں لیکن اس کے بعد ملک تقسیم ہوا اور پاکستان بن گیا تو جماعت احمدیہ کا مرکز پاکستان میں اس چھوٹے سے قصبہ میں قائم ہوا.اس کے بعد جماعت ہائے مرکز یہ سے تاریخی لحاظ سے اور زمانہ کے لحاظ سے وہ احمدی دوست مراد ہیں، جن کی رہائش پاکستان میں ہے.پس تقسیم ملک سے پہلے جو ہندوستانی جماعتیں تھیں اور اس کے بعد پاکستانی جماعتیں ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کی بڑھتی ہوئی تبلیغی ضروریات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا ئیں اور مالی اور جانی قربانی پیش کریں.اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس سارے عرصہ میں بیرونی ممالک میں جوں جوں ہمارا کام بڑھ گیا اور پیسوں کے لحاظ سے ضرورت پڑی، جو وہاں میسر نہیں آرہے تھے، مرکز سے بھجوائے گئے.اور اس 44 سال کے عرصہ میں ایک پیسہ بھی باہر سے مرکز کو وصول نہیں ہوا.اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مرکز سے تعلق رکھنے والے احمدیوں کے لئے دوسروں کے مقابلہ میں امتیاز پیدا کر دیا.مرکز نے بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے اخراجات کا بوجھ اٹھایا.صرف تحریک جدید ہی نہیں ، جماعت احمدیہ کی نوے سالہ زندگی میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ مرکز کو ضرورت پڑی ہو، باہر سے روپیہ لینے کی یا با ہر سے ہمارے پاس ایک دھیلہ ہی آیا ہو.1974ء کے حالات ایسے تھے کہ بیرونی ممالک کی بہت سی جماعتوں نے مجھے لکھا کہ ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں، آپ ہمیں اجازت دیں، ہم اپنے بھائیوں کی خبر گیری میں بھی شامل ہوں اور ان کے لئے پیسے اکٹھے کر کے مرکز کو بھجوائیں.میں نے کہا نہیں، جماعت ہائے احمد یہ مرکز یہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں گی ، ان کو تمہاری مالی امداد کی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے اور جماعت ہائے احمد یہ مرکزیہ کے لئے غیرت رکھتے ہوئے ، میں نے ان کو یہ جواب دیا تھا.خدا تعالیٰ نے فضل کیا.بہت سے لوگوں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ اس وقت جماعت نے کتنا خرچ کیا تھا.صرف ان لوگوں پر جوان دنوں پریشان حال ربوہ میں اکٹھے ہو گئے تھے یا ان کا کچھ حصہ اپنے رشتہ داروں کے پاس چلا گیا تھا، ان کے کھانے پینے کا انتظام مرکز کو کرنا پڑا.جس پر تیرہ، چودہ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے.لیکن ایسے احباب کو غذائی ضروریات بہم پہنچانے کے لئے آپ نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا اور نہ آپ کی خاطر میں نے کسی کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلایا اللہ تعالیٰ ، جو علام الغیوب ہے، اس نے ایسے سامان پیدا 514
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 20 اکتوبر 1978ء کر دیئے کہ یہاں بھی میں نے کوئی تحریک نہیں کی تھی کہ جماعت پر انتابار پڑ گیا ہے.جولوگ مالدار ہیں، جن کو نقصان نہیں پہنچا، وہ اس غرض کے لئے پیسے دیں.غرض کوئی تحریک نہیں کی اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگا اور خدا تعالیٰ کے فضلوں نے جماعت کو، جس کے متعلق لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ ختم ہو گئی ، خدا کے فرشتوں نے اسے اٹھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے، جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے.پس تحریک جدید پر غور کرتے ہوئے ، یہ چیز نمایاں طور پر میرے سامنے آئی اور اس کا میں اس وقت ذکر کر رہا ہوں.اور میں اس بات کا اظہار کرنا چاہتا تھا تا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں.تحریک جدید کے اجراء کے بعد دنیا میں بڑی عظیم تبدیلیاں پیدا ہوئیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت کی حقیر کوشش کو غیر معمولی طور پر نوازا.آخر ایک لاکھ کی حیثیت ہی کیا ہے؟ میرے خیال میں جرمنی کے تین مزدوروں کو ایک سال میں ایک لاکھ سے زیادہ اجرت ملتی ہے.غرض دنیا میں اتنی رقم کی کوئی حیثیت نہیں ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے اس میں برکت ڈالی اور باہر کی جماعتوں میں آہستہ آہستہ ایک تبدیلی رونما ہونے لگی.چنانچہ بیرونی ممالک کی جماعتیں مثلاً مغربی افریقہ کی جماعتیں ، جنہوں نے 1944ء تک ایک پیسہ بھی چندہ نہیں دیا تھا ، جو ہمارے رجسٹروں میں درج ہو.یعنی با قاعدہ چندہ دینے والے اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے.اور ان کی ضروریات دینیہ کا سارا بوجھ جماعت ہائے احمد یہ مرکز یہ اٹھا رہی تھیں.اس لئے بھی کہ بیرونی ملکوں کی جماعتوں کی اس وقت تک کما حقہ تربیت نہیں ہو پائی تھی.تبلیغی ضروریات کے لئے پیسہ باہر بھجوانے پر شروع میں کوئی پابندی نہیں تھی.چنانچہ جتنی ضرورت پڑتی تھی، اتنا پیسہ ہم باہر بھجوا دیتے تھے.لیکن پھر زر مبادلہ کے لحاظ سے ساری دنیا کے حالات بدلتے چلے گئے.صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں ، انگلستان، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں بھی حالات بدل گئے.لیکن ان ممالک میں بھی ایسی پابندیاں نہیں.شاید صرف یہ چند ممالک ہی اب ایسے رہ گئے ہیں، جنہوں نے اپنی کرنسی کو باہر لے جانے پر کوئی پابندی نہیں لگائی.لیکن اکثر ممالک ایسے ہیں، جنہوں نے پابندی لگادی ہے.اور وہ اپنے ملک کی اقتصادیات کی حفاظت کے لئے اگر پابندی لگا ئیں تو یہ ان کا حق بھی ہے اور ان کو ایسا کرنا بھی چاہیے.غرض 1934ء میں ہمیں تو اس بات کا علم نہیں تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ کو تو اس کا علم تھا.اس لئے وہ لوگ ، جو ابتداء میں ایک دھیلہ بھی خدا کی راہ میں دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے ، وہ چندے دینے لگ گئے.اور آج اکثر بیرونی ممالک تو ایسے بھی ہیں، جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں.ان ممالک کے چندے اتنے ہو گئے ہیں کہ اپنی ساری ضروریات پوری کر کے بھی ان کے پاس 515
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1978ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم دوسرے کاموں کے لئے مثلاً اشاعت کتب کے لئے ریزرو ہے، جو ان کا اپنا ہے.اس میں سے وہ خود خرچ کرتے ہیں.صدر انجمن احمد یہ پاکستان کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.نہ انتظامی لحاظ سے تحریک جدید انجمن احمدیہ کا تعلق ہے.وہ خود اپنے بجٹ بناتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں.ایک عام نگرانی تحریک جدید بھی کرتی ہے اور خلیفہ وقت بھی کرتا ہے.وہ دیکھتا ہے، وہ سمجھاتا ہے ، ضرورت بتاتا ہے، ان پر خرچ کرواتا ہے.پس جہاں تک پیسے کا سوال ہے، وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں.لیکن چونکہ دنیا کے ہر ملک میں جماعت اتنی مضبوط نہیں ہے، جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہو.یہ بھی ایک حقیقت ہے.اس لئے باوجود اس کے کہ پاکستان سے موجودہ حالات میں ان کی امداد کے لئے کوئی رقم باہر نہیں بھیجی جاسکتی اور نہ بھیجی جاتی ہے، دنیا میں ایسے ممالک پیدا ہو گئے ہیں کہ جو اپنی ضروریات سے زائد قربانی دے رہے ہیں اور پھر وہ ان ممالک کی بھی مدد کر رہے ہیں، جو اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں.یعنی جو کیفیت پہلے مرکز کی تھی ، وہ اب ان ممالک کی ہوگئی ہے اور اس طرح جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری ہو رہی ہیں اور شاہراہ غلبہ اسلام پر ہماری حرکت روز بروز تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے.بیرونی ممالک کی ایسی جماعتیں ، جن کے مطالبات ہم نہیں پورا کر سکتے ہلکی قانون کی وجہ سے ، وہاں ان ملکوں کی جماعتیں ، جہاں زرمبادلہ باہر بھجوانے کی ممانعت نہیں ، وہ ان کی ضرورت پورا کر رہی ہیں.میں اس وقت دو قسم کے اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھوں گا اور اس سے آپ کو اس کیفیت کا پتہ لگ جائے گا.میں نے بتایا ہے کہ 1944 ء تک ہندوستان سے باہر ساری دنیا میں کوئی چندہ جمع نہیں ہوا.بعض ایسے لوگ تو ہوں گے ، جو اپنے طور پر خرچ کرتے ہوں گے.لیکن جس طرح ہم با قاعدہ چندہ دیتے ہیں اور وہ رجسٹروں پر چڑھتا ہے اور اس کا بجٹ بنتا ہے، اس قسم کے چندے اکٹھے نہیں ہوئے.چنانچہ شروع میں بیرونی ممالک کی مجالس عاملہ کے پاس بھی کوئی پیسے اپنے نہیں ہوتے تھے.ان کو مرکز کی طرف سے بھجوائے جاتے تھے.کجا یہ حالت تھی اور کجا اب یہ حالت ہے کہ ان کی پچھلے سال کی آمد ایک کروڑ ، ساتھ لاکھ، چالیس ہزار ، نوسو، ستر روپے تک پہنچ گئی ہے.اور یہ ان کی اصل آمد ہے، جو بطور چندہ جمع ہوئی ہے.اور اس میں وہ رقم شامل نہیں ہے، جو سکولوں کی فیس کے طور پر آتی ہے.مثلاً صرف غانا میں ہمارے درجنوں سکول ہیں، ان سے فیسیں بھی وصول ہوتی ہیں.گو بہت سے سکولوں پر ہم خرچ بھی کرتے ہیں اور بعض کی فیسوں کی آمد بھی کم ہے.لیکن فیسوں کی مجموعی آمد بھی اگر ان کے چندے میں شامل کر لی جائے تو ان کے چندے کی رقم بہت بڑھ جاتی ہے.مگر اس وقت میرا یہ ضمون نہیں.میں اس وقت یہ بتارہا ہوں کہ 516
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 20اکتوبر 1978ء وہ ساری جماعت ہائے احمد یہ بیرون مرکز، یعنی جو ہمارا ملک ہے، جہاں ہمارا مرکز ہے، اس سے باہر کی ساری جماعتیں، جو 1944ء تک کوئی چندہ نہیں دیتی تھیں ، 1944ء کے بعد 34 سال کے عرصہ میں ان کی چندوں کی آمد ایک کروڑ ، ساٹھ لاکھ روپے سے تجاوز کرگئی ہے.یہ ان کی اپنی آمد ہے.وہی چندہ وصول کرتے ہیں اور رجسٹروں میں درج کرتے ہیں.ان کی اپنی مجالس عاملہ ہیں، جو آمد و خرچ پر غور کرتے ہیں.وہ مرکز سے مشورہ ضرور لیتے ہیں، مرکز ان کو مشور ضرور دیتا ہے، لیکن وہ صاحب اختیار ہیں، وہ جس طرح چاہتے ہیں، دین کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اکثر ایسے ممالک ہیں، جہاں سے روپیہ باہر لے جانے کی اجازت نہیں، اس لئے وہاں سے ایک دھیلہ باہر نہیں جاسکتا.مثلاً مغربی افریقہ کے ممالک ہیں، جن کی میں ابھی مثال دوں گا.وہ قانو نابا ہر پیسہ بھیج ہی نہیں سکتے.پس 1944ء میں بیرونی ممالک کی جماعتیں محتاج تھیں، مرکز کی امداد کی.لیکن آج نہ صرف وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہیں بلکہ اگر ملکی قانون ان کی اجازت دیتا ہو تو مثلاً غانا کی جماعت ہے، وہ شاید ایک اور مشن کو سنبھال لیتے.لیکن چونکہ قانون اجازت نہیں دیتا ، اس لئے وہ کتا بیں شائع کر رہے ہیں.انہوں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ شائع کرنے کا پروگرام بنایا ہے.پس غانا کی جماعت ایک مثالی ہے.اس کی پچھلے سال کی اصل آمد ستائیس لاکھ، نو ہزار، پانچ سو تمہیں روپے ہوئی.حالانکہ 1944 ء تک ایک دھیلہ بھی آمد نہ تھی.غانا کے مقابلہ میں تحریک جدید انجمن احمدیہ کی گزشتہ سال کی آمد 13لاکھ روپے تھی.جبکہ غانا ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کی آبادی بھی زیادہ نہیں لیکن وہاں جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ان کے چندے پاکستان کی نسبت دو گنا ہو گئے ہیں.وہ چونکہ پیسے باہر نہیں بھیج سکتے ، اس لئے اپنے ملک ہی میں خرچ کرتے ہیں.ان کو کوئی تنگی نہیں ہے.ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ باہر کی جماعتوں کی مدد کریں لیکن ان کا ملکی قانون ان کو اجازت نہیں دیتا، اس لئے وہ مدد نہیں کر سکتے.یہ تو میں نے نانا کی مثال دی ہے، پھر سیرالیون ہے، نائیجیریا ہے، گیمبیا ہے، آئیوری کوسٹ ہے، لائبیریا ہے.کہیں تھوڑی جماعت ہے، کہیں زیادہ جماعت ہے.کہیں ضرورت کم ہے اور کہیں زیادہ ہے.لیکن وہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں.جس طرح درخت کی جڑ جب مضبوط ہو جاتی ہے اور تنا بھی موٹا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اپنی جڑوں پر قائم ہو جاتا ہے.اور پھر اس کی زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں رہتی، اسی طرح ان ممالک کی جماعتوں کو مالی لحاظ سے بیرونی مدد کی ضرورت نہیں رہی.اسلام کے عالمگیر غلبہ کی ہم تو اللہ تعالی نے ایک منصوبہ بنایا ہے، جس میں ساری دنیا کو 517
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم باندھ دیا ہے.انگلستان کی جماعت ہے، یہ دوسرے ملکوں کی جماعتوں کو حسب ضرورت روپے بھیجتی ہے اور اس طرح تبلیغ اسلام کا سارا کام اپنی اپنی جگہ پر ہورہا ہے.پس اس عرصہ میں مرکز کے پاس بیرونی جماعتوں کی طرف سے کسی وقت بھی جماعت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک دھیلہ نہیں آیا.اس کے برعکس جماعت ہائے احمدیہ مرکز یہ کواللہ تعالی نے یہ توفیق دی کہ جب تک ملکی قانون نے باہر روپیہ بھجوانا ممنوع قرار نہیں دے دیا، اس وقت تک مرکز باہر کی جماعتوں کی مددکرتارہا.اور یہ بیرونی ملکوں کی جماعتوں پر بڑا احسان تھا.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی احسن جزا دے اور آپ کی نسلوں کو بھی.آپ کے عزم کو پختہ کرے، آپ کی ہمتوں کو بلند کرے اور تقویٰ کو مقبول بنائے اور اعمال کو صالح بنائے.آپ خود بھی اور آپ کی آنے والی نسلیں بھی اس تحریک کے مجاہد، مسکین اور خدا کے عاجز بندے بنیں، جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے انقلاب عظیم کی بشارت دی ہے اور جن کے ذریعہ سے گو چھوٹی سی جماعت ہے لیکن خدا تعالیٰ انقلاب عظیم بپا کر رہا ہے.جیسا کہ صرف ایک بات بتا رہی ہے کہ 1934 ء بلکہ 1944ء کے بعد کتنا عظیم انقلاب بپا ہو گیا کہ وہ لوگ ، جو اسلام کے نام پر ایک دھیلہ بھی دینے کے لئے تیار نہیں تھے، ان کی مجموعی آمد ایک کروڑ ، ساٹھ لاکھ سے تجاوز کر گئی.اور تحریک جدید کی پچھلے سال کی آمد تیرہ لاکھ ہے.صدرا انجمن احمد یہ اور تحر یک جدید کے مجموعی چندے بھی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ نہیں بنتے.لیکن اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے، وہ بیرونی ملکوں کی جماعتوں پر بھی بڑے فضل کرتا ہے.عشق الہی کا ایک ہی بندھن ہے اور وہ اس میں بندھے ہوئے ہیں.ایک مرکز ہے، ایک ان کا امام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک عاجز نائب ہوتا ہے.اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے برکتوں کا سامان اس کے ذریعہ سے بھی کرتا ہے.اگر چہ پاکستان سے بیرونی ممالک کو روپیہ نہیں جاسکتا.لیکن تحریک جدید کے بہت سے ایسے کام ہیں، جن کا تعلق باہر سے ہے.مثلاً باہر بھجوانے کے لئے مبلغ تیار کرنا.وہ یہاں تیار ہوتے ہیں.پیسہ یہاں خرچ ہوتا ہے لیکن جب مبلغ بن جاتا ہے تو پھر اسے باہر بھجوایا جاتا ہے.اس کے کرایہ پر خرچ کرنا پڑتا ہے.مبلغین کے بیوی بچوں کے قیام کے اخراجات تحریک جدید کو برداشت کرنے پڑتے ہیں.جامعہ احمدیہ پر خرچ کرنا پڑتا ہے.بہت سے شعبے ہیں، جن پر اخراجات کی تفصیل کھل کر مجلس شوری کے ذریعہ جماعت کے سامنے آجاتی ہے.جماعت احمدیہ میں کوئی راز نہیں ہے، یہ تو ایک کھلی کتاب کی طرح ہے.اسی طرح ہماری زندگیاں بھی کھلی ہیں اور کوئی چھپانے والی چیز نہیں.خدا کی راہ میں قربانی دے رہے ہیں، بشاشت - سے 518
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 20اکتوبر 1978ء دیتے ہیں، مسکراتے ہوئے دیتے ہیں اور جب ضرورت پڑے تو مسکراتے ہوئے جانیں بھی دے دیتے ہیں.لیکن اس وقت نہ کسی سے کوئی جان مانگ رہا ہے اور نہ جان دینے کا وقت ہے.خدا تعالیٰ سے پیار کرنے کا اور اس سے دعائیں کرنے کا وقت ہے.اس لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نوازے.اور جو یہاں کی ضرورتیں ہیں، جن کا تعلق باہر سے ہے اور جن کا اثر بیرونی ممالک کی فلاح و بہبود سے ہے، ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی جماعت ہائے احمد یہ مرکز یہ کو تو فیق عطا کرے.اور آپ جو وعدے کریں ، وہ اس ضرورت کے مطابق ہوں.اور اس کی ضرورت خلیفہ وقت بتاتا ہے.میں نے پچھلے سال تحریک جدید کا ٹارگٹ پندرہ لاکھ روپے دیا تھا.اس سال میں اسے بدلنا نہیں چاہتا، وہی رہے گا.میں دیکھوں گا، آپ خود رضا کارانہ طور پر اس سے کتنا آگے بڑھ جاتے ہیں.پھر اگلے سال انشاء اللہ سوچیں گے کہ اس میں کیا تبدیلی کرنی چاہیے؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے، ہم بنی نوع انسان کے خادم کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے ہوں.اور قرآن کریم نے یہ عظیم اعلان كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے الفاظ میں کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قوتوں کے طفیل ایک ایسی امت کو قائم کیا ہے، جو الناس یعنی بنی نوع انسان کے لئے بہترین امت ہے.لوگوں کی خیر خواہ اور ان کے لئے دعائیں کرنے والی ہے.وہ لوگوں کی خدمت کرنے والی اور ان کی جہالت کو علم میں اور ان کے اندھیروں کو نور میں تبدیل کرنے والی ہے.میری دعا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے خادم بنائے، ہمیں افسر بنے کی کوئی خواہش نہیں ، ہم خادم اچھے، ہم خادم رہنے میں خوش ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ کا پیار چاہیے.اللہ تعالیٰ کا پیار، اس سے پیار کرنے اور اس کے بندوں سے پیار کرنے کے نتیجہ میں ملتا ہے.پس خدا تعالٰی سے دعا کریں کہ وہ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ اور پورے دل کے ساتھ اور روح کی پوری طاقت کے ساتھ اس سے پیار کرنے لگیں.ہم اس کے بندوں سے بھی پیار کریں اور ان کی بے لوث خدمت کرنے والے ہوں اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 24 دسمبر 1978ء) 519
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء حالات کے ساتھ قربانیوں کی شکل بدلے گی، ان کی مقدار میں فرق نہیں آئے گا خطاب فرموده 21 اکتوبر 1978ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ اس کے بعد فرمایا:.وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ( سورۃ المومنون: 4-2) ہمارے اجتماعات اس لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ ہم کام کی باتیں سنیں.یعنی ایسی باتیں ، جن کا تعلق اعمال صالحہ سے ہو.اور جو ہمیں اپنی ذمہ داریاں یاد دلائیں.اور جن کے نتیجہ میں ہمارے عمل میں ایک جوش پیدا ہو.اور رب کریم کے لئے ہماری محبت میں ایک جلا اور ایک تیزی اور ایک تڑپ پیدا ہو.یہ ایسی کلاس نہیں، جہاں صرف تھیوری یعنی اصول پڑھائے جاتے اور سکھائے جاتے ہوں، جن کا فوری اور بلاواسط تعلق کسی لیبارٹری اور کسی تجربہ گاہ سے نہ ہو.آپ یہاں بہت سی باتیں سنیں گی لیکن اگر آپ سنیں اور عمل نہ کریں تو آپ کا یہاں آنا، بے فائدہ ہے.اور اگر آپ سنیں بھی نہ اور شور مچائیں تو پھر تو بالکل ہی بے فائدہ ہے.قرآن کریم کا تعلق قدافلح المؤمنون سے ہے.ایمان کی باتیں، وہ باتیں، جو ایمان میں تازگی پیدا کرتی ہیں اور جو دل کے عقیدہ کو مضبوط کرتی ہیں.اور جن کے نتیجہ میں انسان کی طاقتیں اور اس کے جوارح، اس کی ظاہری طاقتیں بھی اور باطنی طاقتیں بھی عمل پر آمادہ ہوتی ہیں، وہ سب باتیں ہمیں قرآن عظیم نے ہی سکھائی ہیں.قرآن سے باہر نور نہیں بلکہ اندھیرا ہی اندھیرا ہے.قرآن کریم میں مومنین کی کچھ علامتیں بتائی گئی ہیں، ان کی کچھ صفات بتائی گئی ہیں، جن ذمہ داریوں کو وہ نباہتے ہیں، ان کا کچھ ذکر کیا گیا ہے.ان میں سے دو کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.آج کی دنیا، جو اسلام کی تعلیم کی پیاسی ہے اور جس میں یہ احساس دن بدن شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ ان کے عقائد اور ان کے فلسفے ناکام ہو چکے ہیں اور ان کی زندگی خوشحال زندگی نہیں ہے.کوئی ایسی تعلیم انکو ملنی چاہئے ، کوئی ایسے اصول ان کو 521
خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اپنانے چاہئیں، جو ان کی ورلی زندگی کو بھی خوشحال بنائے.اور ( جسے آج وہ نہیں جانتے اور میں ان کی طرف سے کہتا ہوں ) ان کی اخروی زندگی میں بھی خوشحالی اور سکون اور اطمینان اور پیارا اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے بعد انسان کی جو کیفیت ہوتی ہے، اس کے سامان ان کے لئے پیدا کریں.وہ دو باتیں یہ ہیں.ایک تو یہ کہ خشوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کی جائیں.اور دوسرے یہ کہ غیر ضروری باتوں اور ایسی باتوں سے، جو بے فائدہ ہیں، پر ہیز کیا جائے.وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ خدا تعالیٰ کے حضور خشوع کے ساتھ جھکنا اور دعائیں کرنا ، اپنے نفس میں ایک بہت وسیع اور لمبا مضمون ہے.اس وقت میں اس کے بعض حصوں کی طرف آپ کو توجہ دلاؤں گا.اس وقت نوع انسانی کو دعاؤں کی ضرورت ہے.کیونکہ جہاں تک ان کی عقل اور ان کی تدبیر کا سوال تھا، وہ تو نا کام ہو چکی ہے.اور ان کی عقل اور ان کی تدبیر میں بڑی کثرت کے ساتھ وہ باتیں شامل ہو چکی ہیں، جو قرآن کریم کی اصطلاح میں لغو کہلاتی ہیں.جب ہم ان سے بات کرتے ہیں کہ تم اس لغو میں پھنسے ہوئے ہو، اس گند میں دھنسے ہوئے ہو، جس کا ان کو بھی احساس ہے اور بتاتے ہیں کہ اس سے نکلنے کی ایک ہی راہ ہے کہ تم اس راستہ کو اختیار کرو، جو اسلام تمہیں بتاتا ہے تو وہ ہم سے نمونہ کے طالب ہوتے ہیں.کہتے ہیں کہ ہمیں نمونہ بتاؤ.اور جہاں تک انسانی فطرت کا سوال ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ مطالبہ درست ہے.اس لئے کہ خود قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ انسان کو ایک نمونہ اور ایک اسوہ کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے.چنانچہ ایک ایسا آئیڈیل ، ایک ایسا عظیم نمونہ، ایک عظیم مثال اور ایک مثالی زندگی جیسی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی، اس کی زندگی کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسوہ حسنہ کہہ کر بیان کیا ہے.میں آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ تعلیم جو تم ہمیں بتا رہے ہو، وہ تو دل کو اطمینان بخشتی ہے مگر اس پر عمل کرنے والوں کا نمونہ ہمیں دکھاؤ.تو ان کا یہ مطالبہ درست ہے.ان کو یہی مطالبہ کرنا چاہئے.اور ہر وہ شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتا ہے، اس کا یہ فرض ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی ایک جھلک ان کے سامنے پیش کرے.لیکن میرا تعلق تو صرف جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں سے ہے، اس لئے میری مخاطب آج آپ ہیں.اور آپ کی وساطت سے جماعت احمدیہ کے مرد اور ان کے بچے ہیں، جن کو ہم اطفال کہتے ہیں.522
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم نمونہ، جو ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، اصولی طور پر اس کے دو حصے ہیں.ایک دعا کا حصہ ہے.اور دوسرے تدبیر کا حصہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ان دو بنیادی صفات کو ہمارے سامنے اس رنگ میں بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تدبیر کو اس کی انتہا تک پہنچاؤ اور دعا کو اس کی انتہا تک پہنچاؤ.تب خدا تعالیٰ بہتر نتائج پیدا کرے گا.یہ ہے اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم.بنی نوع انسان کو صراط مستقیم دکھانا ، ہمارا فرض ہے.جماعت احمدیہ کو قائم ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کے دل محبت اور پیار کے ساتھ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اسوہ کے ذریعے جیت کر انہیں صراط مستقیم کی طرف لایا جائے.اس عظیم اسوہ کے ذریعے ، جس کی جھلک اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ہر احمدی کی زندگی میں غیر کو نظر آنی چاہیے، دعا اور تدبیر کے مضمون کو میں آگے پیچھے کر کے آہستہ آہستہ آپ کو سمجھنے کی کوشش کروں گا ، آپ غور سے سنتی رہیں.جہاں تک تدبیر کا تعلق ہے، احمدی مستورات نے اس میدان میں ایک وقت میں بڑا اچھا نمونہ دکھایا.انگلستان کی مسجد ( یعنی خدا کا گھر کیونکہ ان المساجد اللہ فرمایا ہے.ہماری احمدی بہنوں کے چندہ سے بنی.اور چندہ دینے والیوں میں وہ بھی تھیں، جنہوں نے اپنا سارا از یور خدا کی اس مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کر دیا.اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس پیش کش کو قبول کیا.جیسا کہ ان با برکت نتائج سے ظاہر ہوتا ہے، جن کا تعلق لندن کی مسجد سے ہے.1924ء میں مسجد بنی اور میں اس کے قریباً دس سال کے بعد 34 ء میں وہاں پڑھنے کے لئے گیا.اس وقت تک آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے جماعت اس مقام پر پہنچی تھی کہ نماز میں بمشکل ایک صف ہوتی تھی.اور میرا نہیں خیال کہ میں نے جمعہ والے دن مسجد میں کبھی دو صفوں سے زیادہ آدمی دیکھے ہوں.بہت دفعہ میں جمعہ پڑھنے کے لئے آکسفورڈ سے وہاں آجا تا تھا.اور اب وہاں یہ حال ہے کہ مسجد بھر جاتی ہے، مسجد کے ساتھ ایک PREFABRICATED ہال یہ ایک اچھا خاصہ بڑا ہال بنایا گیا ہے، وہ بھی بھر جاتا ہے.اور وہ مردوں کے لئے بھی نا کافی ہو جاتا ہے.مستورات کو مشن ہاؤس کے اندر ایک بہت بڑا ہال ہے ، وہ دیا جاتا ہے.جو ان سے بھر جاتا ہے اور نا کافی ہو جاتا ہے.پھر عید کے موقع پر صحن میں ایک بہت بڑا شامیانہ لگایا گیا، اس میں بھی مرد سا نہ سکے اور باہر لان میں آگئے.523
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء پھر مشن ہاؤس کی سڑکوں پر آگئے.اتنی بڑی جماعت اس جگہ بن گئی کہ جہاں جب عورتوں نے دعا ئیں کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور اپنی حقیر قربانیاں پیش کی تھیں تو میرا اندازہ ہے کہ چند افراد سے زیادہ نہ تھے.اور 34 ء اور 38 ء کے درمیان تو میری دید ہے کہ میں نے کبھی مسجد کو بھرا ہوا نہیں دیکھا تھا.اور اب میں نے اس مسجد کو اس کے قریب ایک اور بال کو مشن ہاؤس کے ہال کو اور پھر ایک بہت بڑے شامیانہ کو بھرا ہوادیکھا.پھر اس سے باہر نکل کر لانز میں، پھر سڑکوں پر ہر طرف آدمی ہی آدمی تھے.غرض خدا تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے والی اتنی بڑی جماعت وہاں پیدا ہوگئی.اس لئے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربانیوں کو قبول کیا.جنہوں نے قربانیاں دی تھیں، اللہ تعالیٰ انہیں بہتر جزاء دے.اور جو وفات پاچکی ہیں، ان کو اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کرے.اور جنات میں ان کے درجات کو بلند کرے.اور ان کی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی نیکیوں کی توفیق دے.اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیار کے حصول کو آسان کر دے.پھر آپ نے ہالینڈ کی مسجد بنائی.وہ بھی مستورات کے چندوں سے بنی.پھر کوپن ہیگن کی مسجد بنی.لیکن اس کے بعد اب حالات بدل گئے ہیں.صرف ہمارے ملک کے نہیں بلکہ دنیا کے حالات.دنیا نے اقتصادی لحاظ سے جن راہوں پر ترقی کی، اس کے نتیجہ میں ان کی راہ میں بہت سی الجھنیں بھی پیدا ہو گئیں.میں کوشش کروں گا کہ اقتصادیات کا مضمون آپ سب کے ذہن نشین کر دوں تا کہ آپ اس مسئلہ کو سمجھ جائیں.ترقی کا ایک ذریعہ انہوں نے یہ اختیار کیا کہ مستقبل کی آمد آج خرچ کر دی.نوٹ بنا کر یا بنک سے قرض لے کر جو آمد دس سال کے بعد ہوئی تھی، اس کو آج خرچ کر دیا.مثلاً انگلستان میں ایک کمپنی بنی اور اس کو ایک ارب روپے کی ضرورت تھی.لیکن ایک ارب روپیہ اس کے پاس نہیں تھا.بلکہ اس میں سے صرف دو کروڑ روپیہ تھا.بقیہ 98 کروڑ روپیہ کے لئے انہوں نے بنک سے کہا کہ ہمیں قرض دے دو.یہ پیسہ جو انہوں نے لیا، اس سے انہوں نے ایک بہت بڑی فیکٹری بنائی.پہلے زمین خریدی، اس پر خرچ کیا، پھر عمارت بنائی، اس پر خرچ کیا.پھر جب تک آمد شروع نہ ہوئی، انہوں نے مزدوروں کو مزدوریاں دیں.بہت بڑی فیکٹریاں ہوتی ہیں، ایک فیکٹری میں دس پندرہ بیس ہزار مزدور کام کرتا ہے.ان کی مزدوریاں ابتدائی آمد میں سے نہیں نکل سکتی تھیں، اس لئے قرض میں سے نکالی گئیں.اور اس کا بار مستقبل پر پڑا.پھر افراط زر اور اس کے نتیجہ میں مہنگائی کا بار اس کے علاو دو سال کے بعد یا تین سال کے بعد وہ کمانے لگے.پھر انہوں نے آہستہ آہستہ بنک کا قرضہ واپس کرنا شروع کیا.لیکن اس عرصے میں 524
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرموده 21 اکتوبر 1978ء تین، چار اسی قسم کی اور فیکٹریوں کے منصوبے بن گئے اور انہوں نے اور قرض لیا.اس طرح قرض کا یہ گیند لڑھکتا ہوا مستقبل کی گہرائیوں کی طرف بڑھتا چلا گیا.اور زمانہ حال کی نسل آنے والی نسلوں کی مقروض ہو گئی.اب انہوں نے کام کر کے، کما کر یہ پیسے واپس کرنے تھے.اور چونکہ آنے والی نسلوں نے کما کر اپنے آباء واجداد کے تجارتی اور صنعتی قرضے واپس کرنے تھے ، اس لئے جب وہ نسلیں آئیں تو ان پر بڑا بوجھ پڑا گیا.اور یہ بوجھ پڑا ، اٹم ٹیکس کی شکل میں بھی اور یہ بوجھ پڑا، جتنا حصہ رسدی ان کو اجرت کا اور مزدوری کا مل سکتا تھا، اتنا نہ دینے کی شکل میں بھی، افراط زر اور مہنگائی کی شکل میں بھی.پھر انہوں نے دیکھا کہ ہماری ضرورتیں پوری نہیں ہور ہیں اور انہوں نے دیکھا کہ فیکٹری مثلا دس ارب روپیہ نفع کما رہی ہے اور ہمیں اس میں سے صرف دوارب مل رہا ہے.وہاں ایسی فیکٹریاں بھی ہیں تو انہوں نے کہا کہ باقی آٹھ ارب روپیہ کہاں جاتا ہے؟ مزدور کو تو نہیں پتہ کہ کہاں جاتا ہے؟ اس میں سے بہت سی رقم ماضی کی نسلوں نے انہی کے آباء واجداد نے جو قرض لئے تھے، ان قرضوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے خرچ کی جارہی ہے.غرض الجھنیں پیدا ہوتی چلی گئیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پابندیاں لگ گئیں کہ ملک کا روپیہ باہر نہیں جاسکتا.اپنے ملک میں مصیبت پڑی ہوئی ہوتو روپیہ باہر کیسے جا سکتا ہے؟ جب میں کالج میں پڑھا کرتا تھا تو اس وقت ایسی کوئی دقت نہیں تھی.اور جب 1924ء میں آپ نے لندن مسجد کے لئے عطا یا دیئے تھے تو اس وقت بھی یہ دقت نہیں تھی کہ ہندوستان سے روپیہ باہر نہیں جاسکتا.بلکہ جا سکتا تھا اور گیا اور وہاں خرچ ہوا.لیکن اب ہندوستان نے بھی اور پاکستان نے بھی اور صرف انہی دونوں نے نہیں بلکہ افریقہ کے قریباً سارے ممالک نے اور یورپ کے کچھ ممالک کو چھوڑ کر باقی اکثر ممالک نے پابندیاں لگادی ہیں.بڑے بڑے مہذب کہلانے والے ممالک، جو آج کے قرض مستقبل کی کمائی پر اس وقت بہت امیر اور دولتمند نظر آ رہے ہیں، وہ بھی پابندیاں لگانے پر مجبور ہو گئے.کیونکہ انہوں نے اپنے عجیب و غریب منصوبہ کے نتیجہ میں بڑی الجھنیں پیدا کر لیں تھیں.اور اب ہم مثلاً پاکستان سے نہ کوئی رقم قانو نابا ہ بھیج سکتے ہیں اور ( چونکہ ہم قانون کی پابند جماعت ہیں ) نہ کوئی رقم باہر بھیجتے ہیں.اور نہ ہم آپ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں جگہ مسجد بنی ہے، عورتیں اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے اب اس مسجد کے لئے پیسہ دیں.اب ایسی تحریک ہو ہی نہیں سکتی.کیونکہ رقم با ہر نہیں جاسکتی.جہاں تک جماعت احمدیہ کی ضروریات کا سوال ہے، جو کہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کیا کہ قبل اس کے کہ ایسے حالات پیدا ہوں کہ ملک ملک یہ قانون بنائے کہ پیسہ باہر 525
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم - خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء نہیں بھیجا جاسکتا، جس کو زرمبادلہ کہتے ہیں.اکثر ممالک میں جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئیں.اور ان کو باہر سے پیسہ منگوانے کی یا ہمیں پیسہ باہر بھجوانے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی.یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے.مجھے اور آپ کو تو نہیں پتہ تھا کہ یہ حالات پیدا ہوں گے.لیکن قبل اس کے کہ ایسے حالات پیدا ہوں، جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئیں اور انہیں ضرورت ہی نہ رہی.جماعتیں ترقی کر رہی ہیں، ان کی اجتماعی زندگی میں وسعت پیدا ہورہی ہے، تبلیغ میں وسعت ہورہی اور جماعت کے اندر بڑا پھیلاؤ آ رہا ہے.نئی نسل پیدا ہونے کے نتیجے میں اور ہزاروں کی تعداد میں عیسائیوں میں سے احمدی مسلمان ہونے کے نتیجے میں.چنانچہ ان کی ضروریات بڑھ گئیں اور ان کو زیادہ پیسے کی ضرورت پڑی تو وہ قومیں جو پہلے ایک پیسہ بھی نہیں دیتی تھیں، خود ہی قربانی دینے لگ گئیں.میں نے ایک خطبہ جمعہ میں بھی کہا تھا کہ 44ء تک مرکزی جماعتوں سے باہر کوئی معتد بہ چندہ نہیں تھا.یعنی ایسا نہیں تھا کہ ہمارے رجسٹروں میں ان کے نام اور چندہ و غیرہ درج ہو.گو وہ اپنے طور پر کچھ پیسے ضرور دیتے ہوں گے.کیونکہ کچھ نہ کچھ جذ بہ تو پیدا ہو چکا تھا.لیکن اب یہ حال ہے کہ جتنا صد را مجمن احمد یہ اور تحریک جدید دونوں کا سالانہ چندہ ہے، اس سے قریبا دگنا چندہ باہر کی جماعت ہائے احمد یہ اپنے اپنے ملک کی ضروریات کے لئے دے رہی ہیں.بعض ممالک ایسے ہیں، جہاں سے روپیہ باہر بھیجا جا سکتا ہے.چنانچہ وہ ممالک پاکستان سے باہر کے ایسے ملکوں کے لئے قربانی کر رہے ہیں، جو ابھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو پائے.یہاں سے تو ہم بھیج ہی نہیں سکتے ، قانون اس کی اجازت نہیں دیتا.لیکن انگلستان میں ایسا قانون نہیں ہے، امریکہ میں ایسا قانون نہیں ہے، جرمنی میں ایسا قانون نہیں ہے اور وہاں کی جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑی ہیں اور ایسے ممالک ، جہاں کی جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتیں، ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے وہ مدد دے رہی ہیں.اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکیں سے میری یہ مراد نہیں کہ وہ کچھ بھی مالی قربانی نہیں کر رہیں.بلکہ مطلب یہ ہے کہ اپنے وسائل کے لحاظ سے اور اپنی آمدنی کے لحاظ سے اور جماعت کی تعداد کے لحاظ سے وہ اتنی مالی قربانی نہیں کر سکتیں کہ وہ جماعت کے سارے اخراجات کا بوجھ اٹھا سکیں.کوئی جماعت مثلاً 50 فیصد بوجھ اٹھا رہی ہے تو باقی 50 فیصد کے لئے امریکہ کہتا ہے کہ ہم تمہاری مدد کرتے ہیں، انگلستان کہتا ہے کہ ہم تمہاری مدد کرتے ہیں اور ضرورت پڑی تو جرمنی بھی کرے گا.میرا خیال نہیں کہ ابھی ایسی ضرورت پڑی ہو.لیکن جرمنی سے بھی پیسہ باہر بھیجا جاسکتا ہے.اسی طرح سوئٹزر لینڈ سے بھی پیسہ باہر بھیجا جا سکتا ہے.لیکن سوئٹزر لینڈ کی جماعت ابھی چھوٹی ہے.جرمنی کی جماعت کافی بڑی ہے اور بڑا چندہ دیتی ہے.خدا تعالیٰ ان کو شرح کے مطابق اور بھی زیادہ دینے کی توفیق دے.526
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء میں نے ایک خطبہ میں بھی کہا تھا کہ مرکزی جماعتوں کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک امتیاز پیدا کیا ہے کہ جب تک قانون اجازت دیتا رہا، ہمیشہ مرکزی جماعتوں نے (یعنی بٹوارے سے پہلے ہندوستان کی جماعتوں نے اور بٹوارے کے بعد پاکستانی جماعتوں نے) غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے مالی قربانیاں دیں.اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں.اب آپ باہر کے لئے قربانیاں نہیں دے سکتے.لیکن باہر کی کسی جماعت سے ایک دھیلہ بھی جماعت احمدیہ نے قبول نہیں کیا اور نہ وصول کیا ہے.اپنی جماعت نے بعض دفعہ پیشکش بھی کی غیروں نے تو کیا کرنی تھی.ہمارے کام سے ہر ایک غصے ہو جاتا ہے.عیسائی اپنی جگہ غصے ہیں کہ تم مسیح کو لعنتی کیوں نہیں مانتے؟ اپنا اپنا خیال ہے.ہم کہتے ہیں کہ وہ خدا کے پیارے تھے، ملعون نہیں ہو سکتے.اور وہ کہتے ہیں کہ ہم انہیں ملعون مانتے ہیں، آپ ملعون نہیں مانتے ، اس لئے ہم آپ سے غصے.اسی طرح دوسرے مذاہب ہیں، ہم ان کی غلطیاں نکالتے ہیں.اسلام کو غالب کرنے کے لئے اور اسلام کی حسین تعلیم ان کے سامنے پیش کر کے ان کا دل جیتنے کے لئے ، جب ہم اسے پیش کرتے ہیں اور اسلام کی تعلیم ان کے سامنے آتی ہے تو اپنی تعلیم کے متعلق وہ دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر تو اب ہمیں کوئی حسن نظر نہیں آتا.چنانچہ ان کا پہلا رد عمل تو یہی ہوگا کہ وہ غصہ کریں گے.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ جماعت ہائے احمد یہ بیرون مرکز سے اور نہ کسی اور ایجنسی سے ایک دھیلہ بھی آپ نے قبول کیا اور نہ آپ کو ملا.اپنوں نے پیش بھی کیا لیکن میں نے انکار کر دیا.میں نے کہا کہ نہیں، میری غیرت اسے قبول نہیں کرتی کہ میں اپنے احمدیوں سے یہ کہوں کہ پاکستانی جماعتوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے تم پیسے بھیجو.پاکستان کی جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں گی.بہر حال اب آپ باہر مسجد نہیں بنا سکتیں.لیکن کیا آپ کے دلوں میں ایمانی جوش ٹھنڈا پڑ جانا چاہئے؟ اور آپ کو قربانی نہیں دینی چاہئے؟ اگر آپ کے اندر ایمان ہے تو صرف قربانیوں کی شکل بدلے گی.قربانیوں کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آئے گا.بلکہ وہ پہلے سے زیادہ ہوں گی اور ہونی چاہئیں.اس کے لئے میں نے ان آیتوں کے دو مضمون چنے ہیں.ان میں بتایا گیا ہے کہ مومنوں کی ایک علامت یہ ہے کہ مومن خدا تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے اور جھکتا ہی چلا جاتا ہے.یہاں تک اس کے اپنے وجود کا ایک ذرہ بھی باقی نہیں رہتا.اور سب کچھ وہ خدا کے سپر د کر دیتا ہے.یہ وہ بلند مقام ہے، جہاں تک آپ پہنچ سکتی ہیں.آپ بھی اور مرد بھی.روحانی ترقیات اور رفعتوں کا حصول صرف مردوں کی اجارہ داری نہیں ہے.جس طرح مرد خدا کے پیار کو حاصل کر سکتے ہیں، اسی طرح بغیر ایک ذرہ فرق کے آپ بھی حاصل کر سکتی ہیں.اگر آپ کوشش کریں.حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ یہ بتا د وسب کو کہ 527
خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ” جے توں میرا ہور ہیں ، سب جگ تیرا ہو“.اگر تم اس کے ہو جاؤ تو اس عالمین کا ، اس یونیورس کا ، اس زمین و آسمان کا خالق و مالک یہ کہتا ہے کہ پھر یہ سب کچھ تمہارا ہو جائے گا.جب اس ہر دو جہاں کے مالک نے تمہیں اپنا لیا، جب پیار سے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا تو پھر کون سی چیز ہے، جو تمہاری نہ رہی ؟ اس طرف بھی میں تمہیں بلاتا ہوں.تمہارے لئے گھاٹا نہیں ہے کہ تم یہ سمجھو کہ اگر ہم پاکستان کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے مال دیں گے تو ہم غریب ہو جائیں گے.پہلے تو درجنوں مثالیں تھیں، اب ہزاروں مثالیں میں آپ کو دے سکتا ہوں کہ جنہوں نے مالی قربانیاں دیں اور ان کے اموال میں اتنی برکت پیدا ہوئی کہ انسان کا تصور بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا.ان کا اپنا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا تھا.اور جنہوں نے اپنے اوقات کو اور اپنے نفوس کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کیا ، ان کے نفوس میں خدا تعالیٰ نے اتنی برکت دی کہ ہر سال یہاں جگہ کم ہو جاتی ہے.آپ ہر سال اپنی مثال دیکھتی ہیں اور ہر مجلس اور ہر اجتماع میں ہمیں یہ نشان نظر آرہا ہے.یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں؟ کل میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں گیا ، انہوں نے پچھلے سال کی نسبت بہت بڑا احاطہ بنایا ہوا تھا ، جس میں وہ ٹکٹ لے کر اندر جانے دیتے ہیں.ان کو دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ نوجوان آئے کہاں سے ! ایک سال کے اندر اتنے بڑھ گئے.خدا نے دیئے.خدا نے ان کی زندگیوں میں برکت ڈالی.جو پچھلے سال اطفال میں تھے، آج وہ خدام میں آگئے اور وہ بڑی کثرت سے یہاں آئے.پس یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے.اب میں ایک اور رنگ میں کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ ان دو مضمونوں کی طرف آجاتا ہوں.خشوع کے ساتھ دعائیں کرنا کوئی معمولی بات نہیں.بلکہ یہ بہت ہی اہم ذمہ داری ہے.آپ نے ساری دنیا کے انسان کے لئے دعائیں کرنی ہیں.میں کہتا ہوں کہ ان کے لئے بھی، جن کے ملکوں کے نام بھی تمہیں نہیں آتے ہم خدا سے دعا کرو اور کہو کہ اے خدا!! جن ملکوں کے ہمیں نام بھی نہیں آتے ، ان کے باشندوں پر بھی رحم کر اور ان کے لئے ہدایت کی راہیں کھول.تا کہ وہ تیری رضا کو اور تیرے فضل کو اور تیری برکات کو اور تیری رحمتوں کو حاصل کر سکیں.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ قرآن کریم کی پیشگوئیوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور خدا تعالیٰ نے جو نئے علوم اس زمانہ میں انسان کے ہاتھ میں دیئے ہیں، ان سے میں نے اپنی خلافت کے شروع میں اندازہ لگایا اور جب میں 67ء میں انگلستان گیا تو وہاں میں نے انتباہ اور بشارت پرمشتمل ایک چھوٹا سا مضمون پڑھا تھا اور اس میں، میں نے انہیں کہا تھا کہ سارے حالات کو دیکھتے ہوئے اور پیشگوئیوں پر غور کرتے ہوئے میرا اندازہ یہ ہے کہ ہیں ، پچیس سال کے اندر اندر ایک ایسی عظیم دونوں پر 528
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء تباہی تمہارے سامنے کھڑی ہوگی کہ جو پہلی دو World Wars سے یعنی جو بہت خطرناک مہلک قسم کی دوا بڑی جنگیں ہو چکی ہیں، ان سے بھی زیادہ خطر ناک ہوگی.اور بتایا یہ گیا ہے کہ اگر تم نے اصلاح نہ کی تو اس جنگ میں، اس تباہی میں علاقے کے علاقے ایسے ہوں گے کہ جہاں سے زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا.انسانی زندگی کا نہیں بلکہ مچھر اور لکھی کی زندگی کا بھی اور جراثیم، جو خوردبین سے نظر آتے ہیں، وہ بھی باقی نہیں چھوڑے جائیں گے بلکہ ہلاک کر دیئے جائیں گے.اور میں نے انہیں کہا تھا کہ اس کا علاج یہ ہے کہ تم اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف رجوع کرو.تا کہ اس ہلاکت سے محفوظ کئے جاؤ.یہ 67ء کی بات ہے، جس کو قریباً 11 سال گزر گئے ہیں.اور اب دنیا کو بعض اور طرف سے بھی یہ انتباہ ہوا ہے اور بالکل میرے اندازے کے مطابق انتباہ مل رہا ہے.مثلاً یو.این.اومیں چین کے نمائندے نے تقریر کی کہ انسان کے سامنے ایک تباہی کھڑی ہے اور وہ دس سال تک سامنے آسکتی ہے.میں نے جو وقت بتایا تھا، یہ اس کے مطابق ہے.اسی طرح بعض اور بڑے ملک جو اس وقت میرے ذہن سے نکل گئے ہیں، ان کی طرف سے بھی انسان کو یہ وارننگ ملی ہے.اس دفعہ جن سے میں ملتا تھا، ان کو میں کہتا تھا کہ میں نے علی وجہ البصیرت بات کی تھی اور ساتھ تمہیں علاج بھی بتایا تھا.اور جو میں نے کہا تھا، اس کے مطابق اب دوسرے بھی تمہیں انتباہ کر رہے ہیں.لیکن تمہیں علاج نہیں بتارہے.اس تباہی سے بچانے کے لئے پہلا کام اور ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم ان کے لئے دعا ئیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کی راہیں ان پر کھولے اور اس ہلاکت سے انہیں بچائے ، جو ان کے سامنے کھڑی ہے.اور جسے وہ آج نہیں دیکھ رہے.یا ان میں سے بعض اس طرح دیکھ رہے ہیں، جس طرح انسان دھند لکے میں دیکھتا ہے اور شکل کو پوری طرح پہچانتا نہیں.لیکن ہم علی وجہ البصیرت نمایاں طور پر اس کی شکل کو پہچان رہے ہیں اور اس ہلاکت کی وجوہات کو بھی پہچان رہے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے کلام کو بھی پہچان رہے ہیں.خدا تعالیٰ اس زمانے کی اکثریت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کرنا چاہتا ہے.یہ اکثریت کتنی ہوگی؟ یہ انسان پر موقوف ہے کہ کیا صرف انہوں نے جو مرنے سے بچ جائیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو پہچان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کا سہارا لینا ہے یا ان لوگوں نے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پہچان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کا سہارا لیتا ہے، جن کے سامنے آج ہلاکت کھڑی نظر آتی ہے؟ ہماری یہ خواہش ہے، ہماری یہ دلی تمنا ہے ، ہمارے دل میں یہ بے قراری اور اضطراب ہے کہ خدا کرے کہ کسی طرح ان کو ہدایت کی راہیں نظر آئیں اور وہ خدا تعالیٰ کے غضب سے محفوظ ہو 529
خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم جائیں.اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سائے تھے آجائیں.یہ ہے ایک احمدی کے لئے خشوع سے دعا ئیں کرنا.اور یہ دعائیں غلبہ اسلام کی ہی دعائیں ہوں گی کہ ساری دنیا اسلام کی عظمت کو پہچانے ، خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرنے کی راہوں کو پہچانے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کو پہچانے اور اسلام کو قبول کر لے.اس رنگ میں ہم نے غلبہ اسلام کی دعائیں کرنی ہیں.ہم ایک چھوٹی سی اور کم مایہ جماعت ہیں.پیسہ ہمارے پاس کوئی نہیں ، سیاسی اقتدار ہمارے پاس کوئی نہیں.سیاست، سیاستدانوں کو مبارک ہو، ہمیں اس کے ساتھ کوئی لگاؤ اور کوئی پیار نہیں.ہمارے دلوں میں تو ایک ہی تڑپ ہے اور وہ ہے، اس اسوہ کا اثر کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِيْنَ (الشعراء:04) خدا نے ہمارے ذمے بہت بڑا کام لگایا ہے.اگر خدا یہ کہتا کہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے جو کچھ بھی چاہیے، وہ تمہاری ذمہ داری ہے.لاؤ اور پورا کرو.تو اس اعلان سے ہی ہماری جانیں فنا ہو جاتیں.لیکن ہمارا خدا، بڑا پیار کرنے والا خدا ہے، بڑا احسان کرنے والا خدا ہے، اس نے کہا کہ جتنا تم کر سکتے ہو، اتنا تم کرو، اس میں کمی نہ کرو.لیکن اگر ضرورت ایک کروڑ کی ہے اور تم نے صرف ایک میرے سامنے پیش کیا اور نانوے لاکھ، نانوے ہزار نوسو، ننانوے تمہارے پاس نہیں ہے اور تم پیش نہیں کر سکے تو باقی سب کچھ میں کروں گا اور سارے کا ثواب تمہیں دے دوں گا.کتنا احسان کرنے والا ہے، ہمارا رب.پس دعا ئیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جو ہمیں یہ کہتا ہے کہ جتنا ہم کر سکتے ہیں، وہ اس کے حضور پیش کر دیں، اس کی وہ ہمیں توفیق عطا کرے.تا کہ اسلام کے حق میں وہ نتائج جلد نکلیں ، جو اس زمانہ میں اسلام کو غالب کرنے کے خدائی منصوبہ میں نکلتے ہیں.وہ تو نکلیں گے لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ تین نسلوں کے بعد نکلیں.ہمارے دل میں یہ خواہش ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اسلام کو چاروں طرف پھیلا ہوا دیکھیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.لیکن اس زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.اور اصل چیز یہ ہے کہ اسلام غالب آئے.اصل چیز یہ نہیں کہ آپ یا میں زندہ رہیں.پس اسلام کے غلبہ کے لئے جو ہماری ذمہ داری ہے، اس کے نبھانے کے لئے آپ دعا کریں.یہ لیے عرصہ کی ذمہ داری ہے.صرف آپ کی جو اس وقت یہاں بیٹھی ہیں یا جو آپ کی ہم عمر جماعت احمدیہ کی نسل ہے، اس کی ذمہ داری تو نہیں ہے.ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ اگلی صدی ، غلبہ اسلام کی 530
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء صدی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دس سال کی عمر کا ایک گروہ لیا جائے ، جو دس سال کے بعد بالغوں میں داخل ہوتا ہے تو اس لحاظ سے دس نسلیں آنے والی ہیں.ان دس نسلوں کو اس قابل بنانا کہ وہ اسلامی تعلیم سے پوری واقفیت رکھتی ہوں، اس پر پوری طرح عمل پیرا ہونے والی ہوں، ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا پیار ہو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق ہو، ایک عزم اور جذبہ ہو کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینی ہیں.اپنے کسی فائدہ کے لئے نہیں بلکہ اسلام کو غالب کرنے کے لئے.یہ تم ماؤں کا کام ہے، اس کی طرف توجہ دو.اور صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنی نسلوں کے لئے بھی دعا کرو کہ خدا تعالیٰ آپ کی نسلوں کو بھی مخلص، ایثار پیشہ اور حمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فدائی بنائے.تا کہ وہ فریضہ جونسلوں پر پھیلا ہوا ہے ، ہماری نسلیں کامیابی کے ساتھ اس فریضہ کو ادا کر سکیں.اور خدا تعالیٰ کے پیار کو صرف ہم نہیں بلکہ آنے والی نسلیں بھی قیامت تک اس کے پیار کو حاصل کرتی چلی جائیں.یہ دعائیں کرنا، آپ کے ذمہ ہے.دوسری بات ہے.هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ لغو کے معنی ہیں، بے فائدہ، فتیح اور برا قول بھی اور فعل بھی.دونوں پر عربی زبان لغو کا لفظ استعمال کرتی ہے.پس نہ قول میں لغو ہونا چاہئے اور نہ عمل میں.کہتے ہیں کہ عورتوں میں بہت باتیں کرنے کی عادت ہے.مجھے نہیں معلوم کہ آپ اپنی مجلسوں میں کتنا شور مچاتی ہیں یا با تیں زیادہ کرتی ہیں یا نہیں ؟ بہر حال آپ بد نام ضرور ہیں.اگر یہ عادت ہے تو اس کو چھوڑیں اور کہیں مارنے ، بدظنیاں کرنے ، افتراء باندھنے ، چغلیاں کھانے اور ادھر کی ادھر لگانے کی بجائے آپ نیکی کی باتیں کریں، لغو باتیں نہ کریں.اگر تو ہمارے پاس نیکی کی باتیں کہنے کے لئے نہ ہوتیں تو آپ کہہ سکتی تھیں کہ ہم کیا کریں؟ خدا نے ہمیں زبان دی ہے، وہ چلے گی تو سہی.آپ کو تو خدا تعالیٰ نے اسلامی تعلیم میں قرآن کریم میں اتنی باتیں کرنے کے لئے دے دی ہیں کہ آپ کیا، آپ کی نسلیں بھی وہ باتیں کرتی چلی جائیں تو وہ تعلیم ختم نہیں ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے اسرار روحانی نہ ختم ہونے والے ہیں.وہ قیامت تک ختم نہیں ہو سکتے.پس وہ نورانی باتیں کریں، بچوں کے سامنے اپنی تاریخ دہرائیں، اپنی ذمہ داریوں کو دہرائیں، دنیا کی حالت کا ذکر کریں، دنیا کے اندر جو تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں، ان سے ان کو آگاہ کریں.چھوٹے چھوٹے بچوں کو یہ باتیں بتائیں.مجھے خوشی ہے کہ اگلی نسل کے ایک حصے میں پھر بڑا جوش پیدا ہورہا ہے.531
خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ہماری ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں.اور جتنا جتنا لوگ اسلام کے قریب آتے جائیں گے، ہماری ذمہ داریاں بڑھتی جائیں گی.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ سٹاک ہالم میں ایک صحافیہ آپ کی عورت بہن اسلامی تعلیم سننے کے بعد جب کمرے سے باہر نکلی تو وہ آنسوؤں سے رورہی تھی.اور جو شکوہ اس نے ہمارے ایک ساتھی سے کیا، وہ یہ تھا کہ تم اتنی تاخیر سے ہمارے علاقوں میں کیوں آئے ہو؟ تمہیں پہلے آنا چاہئے تھا.اس کا مطلب یہ تھا کہ تم نے خیال تک نہیں کیا کہ کس گند میں ہم روز بروز دھنستے چلے جاتے ہیں؟ اور لغو باتیں کر کے آپ ان لوگوں کی تسلی نہیں کر سکتیں.اس وقت باوجود ہر قسم کے گند کے اور کمزوریوں کے اور گناہوں کے، ان کے بعض حصے بڑے ترقی یافتہ ہیں.انہوں نے علوم سیکھے اور گر مارنے کی بجائے وہ علم کی باتیں کرتے ہیں، ان کی اپنی دلچسپیاں ہیں اور آپ کی اپنی دلچسپیاں ہیں.یہ ٹھیک کہ آج کے زمانے میں وہ بائبل کی بات کم کرتی ہیں اور فلسفے کی بات زیادہ کرتی ہیں، اقتصادیات کی بات زیادہ کرتی ہیں، معاشرے کی بات زیادہ کرتی ہیں، سٹرائیک کی بات زیادہ کرتی ہیں اور اس میں حصہ بھی لیتی ہیں اور تقریریں بھی کرتی ہیں.لیکن آپ لوگ خدا تعالیٰ کی صفات کا ذکر کریں، آپ لوگ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حسین زندگی کے تذکرے کریں، آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ، جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند ہیں، انہوں نے اپنے محبوب اور پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور میں سے دنیا کے سامنے جو پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بنی نوع کے لئے جو تڑپ تھی، جو ہمیں آپ کی کتابوں میں نظر آتی ہے اور آپ نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو منصوبے پیش کئے ، ان کا ذکر کریں.ہزار ہا باتیں ہیں.آپ باتیں کریں، میں کب کہتا ہوں کہ باتیں نہ کریں، میں تو کہتا ہوں کہ جتنی چاہیں باتیں کریں، لیکن لغو باتیں نہ کریں.لغو کی دوسری قسم ہے، عمل کے لحاظ سے لغو اور بے فائدہ.یہ بڑا عجیب مضمون ہے اور بہت لمبا مضمون ہے، میں مختصر بیان کروں گا.قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی استعدادیں اور صلاحیتیں عطا کی ہیں.ان کے چار موٹے موٹے گروہ ہیں.لیکن وہ سب ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے والے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں.ہم صرف سمجھانے کے لئے چار مختلف چیزیں بیان کرتے ہیں کہ انسان کی پرسنٹی میں اس کے وجود میں چار بنیادی صلاحیتیں ہیں.ور نہ اصل میں تو وہ ایک ہی چیز کے مختلف پہلو ہیں.اور وہ ہیں، اس کی جسمانی صلاحیتیں ، اس کی پہنی صلاحیتیں، 532
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم اس کی اخلاقی صلاحیتیں، اور اس کی روحانی صلاحیتیں.خطاب فرمودہ 21اکتوبر 1978ء ہر وہ کام جو ان صلاحیتوں کی صحیح نشو و نما کرتا ہے، وہ لغو میں شامل نہیں.اور ہر وہ کام جو خداداد صلاحیتوں میں کمزوری پیدا کرنے والا ہے، وہ لغو ہے.اس معنی میں قبیح کا لفظ اور گناہ کا لفظ بھی لغو کے اندرآ جاتا ہے.محض بے مقصد اور بے معنی اور لایعنی اور غیر مفید کام بھی لغو کہلاتا ہے.لیکن صرف وہی لغو نہیں بلکہ لغت عربی نے لغو کے معنی فصیح کے بھی کئے ہیں.اور ظاہر ہے کہ اس میں گناہ بھی آگیا.پس ایسی تدبیر کریں، جو لغو نہ ہو.آپ نے اپنے گھر میں تدبیر کرنی ہے، کھانا پکاتے وقت تدبیر کرنی ہے اور یہ علم بھی آپ کو آنا چاہئے.آپ کو ایک لطیفہ سنادوں یہ ہم جہاز پر انگلستان سے اوسلو جارہے تھے.اور اسی جہاز میں چالیس امریکن استانیاں بھی سفر کر رہی تھیں.کہنے لگیں کہ جی ہم سیکنڈے نیوین ممالک یعنی ناروے، سویڈن وغیرہ کے معاشرے کا مطالعہ کرنے کے لئے جارہی ہیں.انہوں نے مجھے دیکھا تو ایک ساتھی سے پوچھا کہ کون ہیں؟ اور ملنے کی خواہش ظاہر کی.میرے ساتھیوں نے مجھے بتایا.میں نے ان کی درخواست منظور کر لی.جہاز کے بڑے کمرے میں ایک طرف انتظام کر دیا گیا.وہ لوگ تو سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے عالم فاضل دنیا کے حاکم ہیں اور ساری دنیا ہماری غلام ہے، اس لئے میں ان کو ان کی اصل سطح پر لے آیا کرتا ہوں.چنانچہ بجائے اس کے کہ وہ سوال کرتیں، میں نے سوال کیا کہ تمہارا کس شعبے سے تعلق ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہوم اکنامکس سے.یہاں بھی ہماری بہت سی بچیاں کالج آف ہوم اکنامکس میں پڑھنے والی ہوں گی.میں نے کہا، اچھا ہوم اکنامکس.مجھے یہ بتاؤ کہ بکری کے گوشت اور مرغی کے گوشت میں کیلوریز (CALORIES) کے لحاظ سے کیا فرق ہے؟ ان میں سے ایک کو بھی جواب نہیں آیا.اسی طرح میں نے ان سے سوال پوچھنے شروع کر دیئے.جب پانچ ، سات سوال پوچھے تو وہ کھسیانی سی ہو کر کہنے لگیں کہ ہم نے تو آپ سے سوال کرنے تھے، آپ نے الٹا ہم سے سوال کرنے شروع کر دیئے.میں نے کہا کہ اچھا ، اب تم سوال کر لو.اب تمہاری باری ہے.پھر میں نے ان کو اسلام کی باتیں سمجھانی شروع کیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بشارت دی ہے کہ میں تیرے ماننے والوں کے علم میں اتنی برکت دوں گا کہ یورپ کا فلسفہ، جو آج اپنے سے باہر کی دنیا کو اپنا غلام سمجھتا ہے، نہ صرف یہ کہ وہ اس سے متاثر نہیں ہوں گے بلکہ اس کی غلطیاں چن چن کر ان پر ظاہر کرنے والے ہوں 533
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 21اکتوبر 1978ء گے.اپنی زندگی میں تو ہم نے یہ دیکھ لیا.ہر جگہ ہر مضمون کے ماہر مجھے ملتے رہتے ہیں، فزکس کے، کیمسٹری کے حساب کے.میں ان سے بات کرتا ہوں اور ان علوم کی غلطیاں ان کو بتا تا ہوں.حساب کی غلطیاں اور اس کے نقص بھی بتا تا ہوں اور اس سے جو فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے، وہ بھی بتاتا ہوں.میری تو کوئی خوبی نہیں ہے.خدا نے ایک وعدہ کیا تھا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام سے، جس کو وہ پورا کر رہا ہے.آپ کی زندگیوں میں بھی پورا کرے گا.اگر آپ اس کی طرف جھکیں.یہ صرف میرے لئے تو وعدہ نہیں ہے، جماعت احمدیہ کے لئے وعدہ ہے.پس آپ کو اپنی زندگیوں میں علمی لحاظ سے بھی یہ رنگ پیدا کرنا چاہئے.آپس میں علمی باتیں کیا کریں اور اسلام کو غالب کرنے والی باتیں کیا کریں.میں تو جب کسی مسئلہ پر بات ہو، آخر میں نتیجہ اپنے مطلب کا لے آتا ہوں.یعنی اسلام کی خوبی ان کو بتا دیتا ہوں.کوئی بات کوئی شخص کرے، میں جواب دیتے دیتے بہت سی باتوں کا قائل کر کے ایک جگہ یہ کہتا ہوں کہ اسلام یہ کہتا ہے.پھر وہ نہ کر ہی نہیں سکتے کہ اسلام کی یہ تعلیم غلط ہے.آپ میں سے ہر ایک اس قابل ہو سکتی ہے.کوشش تو کر کے دیکھیں.دنیا عمل کا نمونہ مانگتی ہے.جب وہ کہتے ہیں کہ عملی نمونہ دکھاؤ تو ہم بڑی الجھن میں پڑ جاتے ہیں.میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.آپ سے میں یہ کہتا ہوں کہ احمدی عورت میں اور یورپ کی ہر عورت میں ایک مابہ الامتیاز اور فرقان ہونا چاہئے.جب وہ آپ سے ملے اور بات کرے تو وہ سمجھے کہ یہ تو ایک بالا ہستی ہے.ایک ایسا وجود ہے، جس کو کوئی ایسی جگہ ملی ہے، جس سے اس نے تعلق قائم کیا اور وہ کچھ حاصل کیا، جو ہم حاصل نہیں کر سکے.اخلاق کے لحاظ سے اچھے ہیں، کسی سے دشمنی نہیں کرتے.ہر ایک سے پیار کرتے ہیں، کسی کو طعنہ نہیں دیتے.ہر ایک کی خیر خواہی کرتے ہیں.باہر ہم سے سوال کرتے ہیں کہ فلاں کے متعلق کیا خیال ہے ؟70ء میں مجھ سے پہیوں کے متعلق پوچھنے لگے.یہ لوگ جن کو مار جیانا کھانے کی عادت پڑ جاتی ہے، ہر وقت بدمست ، داڑھیاں بھی چھوڑی ہوئی، ناف سے نیچی اور بال بھی کبھی صاف نہیں کئے.اگر جوئیں پڑ جائیں تو کوئی نکالنے والا نہیں.عجیب ہیبت کزائی بنائی ہوئی ہے.نہایت گندے کپڑے، بد بودار، ان کے قریب نہیں بیٹھا جا سکتا.ایک ایسی جماعت بھی یورپ میں پیدا ہوگئی تھی ، جن کو یہی کہا کرتے تھے.اب کچھ فرق پڑا ہے.مجھ سے ان کے متعلق پوچھنے لگے تو میں نے کہا کہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ انسانوں والی زندگی نہیں گزار رہے.بلکہ حیوانوں والی زندگی گزار رہے ہیں.پھر فوراً مجھے خیال آیا کہ میں نے پوری تعلیم بیان نہیں کی.چنانچہ میں 534
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء نے کہا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اس حالت میں بھی ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.میں کسی انسان کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا.مجھے ان پر رحم آتا ہے.میرے دل میں ان کے لئے نفرت پیدا نہیں ہوتی.بلکہ رحم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.اس رحم کا نتیجہ تھا کہ ہمیں ہیوبش (جرمن نو مسلم احمدی ) مل گیا.بہت اخلاص ہے اس میں.”مار جیانا جو ایک خطرناک قسم کی عادت ڈالنے والا نشہ ہے، اس کا وہ عادی تھا.اسی طرح منہ سے، ناک سے، آنکھوں سے، جسم سے، کپڑوں سے بدبو آتی تھی.اور ان کا وہ لیڈر تھا، بڑا چوٹی کا لیڈر.اب بھی وہ لوگ نشے میں بھی ہوں تو اس کی لیڈرشپ کے سامنے جھک جاتے ہیں.حالانکہ وہ ساری چیزیں چھوڑ چکا ہے.خدا تعالیٰ نے اس پر فضل کیا ، وہ مسلمان ہو گیا.اور اب وہ جماعت کے کام بھی کر رہا ہے.اور ہیوں کو پکڑ پکڑ کر لا رہا ہے، ان کو کہتا ہے کہ دیکھو، میں نے نشہ وغیرہ چھوڑ دیا ہے، تم کیوں نہیں چھوڑ سکتے ؟ اور اس کی زیادہ تر تبلیغ پہیوں میں ہی ہے.اتنے گند میں پھنسے ہوئے لوگ وہ تو اس معاشرے کا اخلاقی لحاظ سے سب سے نچلا طبقہ ہے.لیکن ان کو گھسیٹ کر لاتا ہے اور اسلام ان کے اندر ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے.آج کی دنیا کا فلاسفر اور ماہر اخلاق یہ کہتا ہے کہ بچپن اور جوانی میں پڑی ہوئی عادتیں چھوڑی نہیں جاسکتیں.لیکن ہم نے درجنوں ایسی مثالیں ان کے ملک میں قائم کر دیں کہ اس قسم کی گندی عادتیں اور اس قسم کا نشہ، جو تم ایک گھنٹے کے لئے بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے ، اس کو ساری عمر کے لئے چھوڑ کر صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس، خوشبو دار لباس پہنے ہوئے ، چہرے پر رونق ایمان کی بشاشت اور چمک کے ساتھ انہیں تمہارے سامنے پیش کر دیا.وہ جو ہیوں کا سردار تھا، وہ تمہارا خادم بن گیا.وہ مومنوں کا ایک فرد بن گیا.یہ امتیاز اس شخص میں پیدا ہوا، جوان میں پیدا ہوا، ان کے گندے اخلاق میں گندا بن گیا اور گندگی میں نیچے ہی نیچے چلتا چلا گیا.لیکن قبل اس کے کہ وہ ہلاک ہو، خدا تعالیٰ نے اس کو پکڑا اور اسلام کا نورا اسے دکھایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کا جلوہ اس پر ظاہر کیا.جب اس کو اسلامی تعلیم بتائی گئی تو وہ احمدی مسلمان ہوا اور اس کی کایا پلٹ گئی.ایک ہی کو وہ پچھلے جلسہ سالانہ پر لاہور میں ملا اور اس کو پکڑ کر یہاں لایا.اور اس کو ایک، دو دن کے اندر اس نے کہا کہ چھوڑ اس نشے کو، میری طرف دیکھ میں تو تمہارا لیڈر رہا ہوں.اور اس نے چھوڑ دیا.میں نے اسے مسجد میں دیکھا.یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ جب ایسا آدمی نشہ چھوڑتا ہے تو اس کے کچھ آثار چہرے پر بھی ظاہر ہوتے ہیں.چنانچہ اس کی آنکھوں سے پانی ٹپک رہا تھا.مسجد میں ہم نماز پڑھنے گئے تو وہ پہلی صف میں میرے پیچھے کھڑا تھا.میری نظر پڑی تو اس کے آنسو ٹپک رہے تھے.اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا، بعد میں، 535
خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم میں نے ہیوبش سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ جو مار جیانا چھوڑے گا ، کچھ عرصہ اس کی یہ حالت رہے گی.اور اب وہ مجھے ملا تو آنکھیں شفاف اور بڑا وجہیہ.ورنہ تو وہ جسم کے لحاظ سے بھی مر گیا تھا اور عقل کے لحاظ سے بھی مر گیا تھا.اس نے ہماری ایک پاکستانی بچی سے شادی کی ہے اور وہ دونوں بڑے خوش ہیں.میں آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ دنیا آپ سے نمونے کی طالب ہے اور آپ ان کے پیچھے دوڑتی ہیں.جس طرح کتا بعض دفعہ اپنی دم کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے.جب اس کو بجلی ہوتی تو اس کا منہ نہیں پہنچتا اور وہ چکر لگارہا ہوتا ہے.پس یہ حرکت تو نہ کریں، آپ.آپ کو خدا نے اشرف المخلوقات بنایا.آپ میں سے اکثر کو خدا نے مسلمان کے گھر میں پیدا کیا.ممکن ہے، بعض غیر مسلموں میں سے مسلمان ہونے والی بھی ہوں.اور آپ کو خدا نے حضرت مسیح موعود کی شناخت کی توفیق عطا کی.اور مجھے یقین ہے کہ آپ کا کوئی گھر ، بلا استثناء، ایسا نہیں ہے، جہاں خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے ظاہر نہیں ہوئے.آپ کی زندگیوں میں خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے ظاہر ہوئے.آپ نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو دیکھا.اور اس کے پیار کو آپ نے مشاہدہ کیا.اور آج آپ خدا تعالیٰ کی طرف پیٹھ پھیر کر یہ کہیں کہ اے خدا! ہم تیری خاطر دنیا کے لئے ایک اچھا نمونہ بننے کے لئے تیار نہیں ہیں تو آپ بڑی بد بخت ہوں گی.لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ بد بخت نہیں ہوں گی.بلکہ جو کمزوریاں ہیں، انہیں دور کریں گی.اور دنیا جو نمونہ آج مانگ رہی ہے، آپ اور آپ کی آئندہ آنے والی نسلیں ، لڑکے اور لڑکیاں، وہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گی.تا کہ جلد تر دنیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آواب دعا کر لیں.مطبوعه روزنامه الفضل 03 دسمبر 1978ء) 536
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء نور کی ظلمات سے آخری گھمسان کی جنگ کے وسط میں ہم کھڑے ہیں خطاب فرمودہ 29 اکتوبر 1978ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ دو 1973ء کے جلسہ میں، میں نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے ایک قدم ، جو جماعت کو اٹھانا چاہئے ، اس کا ذکر کرتے ہوئے ، جو صدی گزررہی ہے، اس کی جو بلی اور یہ کہتے ہوئے، مجھے زیادہ لذت آتی ہے کہ اپنی زندگی کی دوسری صدی کے استقبال کے لئے ایک منصوبہ پیش کیا تھا.استقبال کے لئے اس لئے کہ خد تعالیٰ نے جو لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: 10) میں اور قرآن کریم میں سینکڑوں دوسری جگہ بتایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور بزرگان امت کو جو وحی اور کشوف اور رویا میں بتایا گیا اور حضرت مسیح موعود نے خدا تعالی سے جو علم پایا، اس کو سامنے رکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہماری زندگی کی دوسری صدی ساری دنیا میں اسلام کے غالب آ جانے کی صدی ہے.اس واسطے جس صدی میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے غلبہ اسلام عملاً ہو جائے گا، اس عظیم صدی کا ہمیں استقبال کرنا چاہئے.یہ ایک منصوبہ ہے اور وقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور منصوبے بھی ذہن میں ڈالتا ہے، جو وقت وقت پر آپ کو بتا دیئے جاتے ہیں.اس منصوبے کی بہت سی شاخیں ہیں.مثلاً یورپ کے جن ممالک میں مساجد اور ہمارے مرکز یعنی مشن ہاؤسر نہیں بنے ، وہاں مساجد اور مشن ہاؤسز بنادیئے جائیں.تا کہ یورپ کے ہر ملک میں خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کا مرکز قائم ہو جائے اور ہمارا مبلغ وہاں بیٹھے اور لوگوں سے تبادلہ خیال کرے.اور ہر روز کے بدلے ہوئے حالات میں ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق ان سے اسلام کی باتیں کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر شخص سے اس کی سمجھ کے مطابق بات کیا کرو.ہر ملک کا اپنا مزاج ہے.اٹلی کا مزاج اور ہے اور سکینڈے نیوین کنٹریز کا مزاج اور ہے.ہر مبلغ اپنے اپنے ملک کے حالات کے مطابق ان سے بات کرے گا.اور اسلام کی بنیادی حقیقتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے ان 537
اقتباس از خطاب فرموده 29اکتوبر 1978ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم کے بیان میں فرق کر جائے گا.مثلاً اسلام نے کہا ہے کہ سچ بولو اور ہم نے ہمیشہ سچ بولنا ہے.لیکن سچ بولنے کے الفاظ اور طریقہ اور وقت کا انتخاب وغیرہ بہت سی چیزوں میں فرق آجاتا ہے.ایک قوم کے سامنے اگر اخبار میں سچ بولا جائے اور اس کی اشاعت کی جائے، انٹرویو دیئے جائیں، پریس کانفرنسز کی جائیں تو وہ اس کی طرف زیادہ توجہ دیتی ہے.اور ایک قوم ہے، اس سے اگر زبانی با تیں کی جائیں یا سارے ہی حربے استعمال کئے جائیں تو وہ توجہ کرتی ہے.بہر حال ایک منصوبہ یہ ہے کہ یورپ کے ہر ملک میں مشن قائم ہو جائیں.اس میں ابھی بہت سی چھوٹی چھوٹی ٹیکنیکل اور قانونی دشواریاں بھی ہیں.اوسلو میں ہم دو سال سے زمین لینے کی کوشش کر رہے ہیں.ان کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر میونسپلٹی کسی کو کوئی جگہ دے، صرف مسلمانوں کو یا ہمیں مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کے لئے نہیں یا کسی بھی مذہبی مقصد کے لئے ہی نہیں بلکہ کسی کا بھی کوئی پبلک جگہ بنانے کا پروگرام ہو اور وہ کہیں کہ ہمارے پاس یہ جگہ ہے، جو ہم دے سکتے ہیں تو پہلے وہ اس کا سروے کرتے ہیں.اور پھر اخبار میں اعلان کرتے ہیں اور اس جگہ کے ارد گرد بسنے والے لوگوں کو قانون نے یہ حق دیا ہے کہ اگر تم نے کوئی اعتراض کرنا ہے کہ اس جگہ کو فلاں وجہ سے پبلک جگہ نہ بنایا جائے تو اعتراض کر دو.اور پھر کوئی نہ کوئی اعتراض ہو جاتا ہے.لندن میں ہم نے خودسنا ہے کہ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی ہمارے ہمسائے کے پاس ایک کتا ہے، وہ بھونکتا ہے اور ہمیں (ڈسٹرب ) Disturb کرتا ہے.کوئی کہتا ہے کہ ہم میاں بیوی اکیلے خاموش زندگی گزارنے کے عادی ہیں اور ہمارے ہمسائے کے تین بچے ہیں، جو شور کرتے ہیں.(بچوں نے تو شور کرنا ہی ہے ) ان بچوں کے شور سے ہمیں نجات دلائی جائے.میرے نزدیک ان کے دماغ غلط طرف بھی چل پڑے ہیں.بہر حال ان کو قانون نے یہ اجازت دی ہے کہ اگر کسی نے کوئی Objection ( او جشن) کرنا ہے، کوئی اعتراض کرنا ہے تو وہ فیصلے سے پہلے بتا دے.پھر اگر وہ اس قسم کے اعتراض ہوں، جو قابل قبول نہیں ہیں تو وہ خود ہی فیصلہ کر دیتے ہیں.اور اگر کسی جگہ ان کو وزن نظر آئے یا یہ نظر آئے کہ اگر ہم نے یہ نا معقول بات نہ مانی تو احتجاج بھی ہوسکتا ہے تو پھر وہ ان کو بلا کر بات کرتے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارا خیال غلط ہے، تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی ، وغیرہ.اس قسم کی اور بہت سی روکیں ہوتی ہیں.اور اوسلو میں بھی اس قسم کی روکیں پیدا ہوئیں.ہم ایک دو جگہ اور کوشش کر رہے ہیں.اس سفر میں میری توجہ اس طرف بھی گئی کہ جن ممالک میں ابھی تک ہماری مساجد اور مشن ہاؤس نہیں ہیں، وہاں مسجد اپنے وقت پر بن جائے گی لیکن فی الحال کسی مناسب جگہ پر کوئی مکان خرید لیا جائے ، جو 538
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء اس ملک کی جماعت احمدیہ کی ملکیت ہو.ملک ملک جماعت احمدیہ آزاد ہے اور وہ خریدتے بھی ہیں.وہ اپنے چندے اکٹھے کرتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے وہ بہت کوششیں کرتے ہیں.میرا دل تو یہی کرتا تھا کہ میرے لندن چھوڑنے سے پہلے ان سارے ملکوں میں مکان خرید لئے جائیں.اور اس وقت تک یورپ کے مختلف ممالک کی جماعتوں کے پاس ان کے اپنے چندے اتنے ہیں کہ اس میں کوئی روک نہیں تھی.ہم نے یہاں سے تو پیسہ بھیجنا نہیں.انہوں نے ہی ایک دوسرے کی مدد کر کے خریدنا ہے.لیکن اس وقت تک ابھی مناسب جگہ پر مناسب قیمت پر کوئی مکان نہیں ملا تھا.ایک ملک، جس کو ہم نے بوجہ چھوٹا ہونے کے چھوڑا ہوا تھا بیلیم ہے.فرینکفرٹ میں بیلجیئم کی کونسلیٹ کے انچارج مجھے ایک موقع پر ملے اور کہنے لگے کہ آپ نے ہمارا ملک کیوں چھوڑا ہوا ہے؟ سارے یورپ میں صرف ایک ہمارا ملک ہے، جس نے یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی فیصلے اسلامی فقہ کے مطابق ہوں گے، ہلکی قانون کے مطابق نہیں ہوں گے.ہم نے آپ کا اتنا خیال رکھا ہے لیکن آپ نے ہمارے ملک کو چھوڑ ہی دیا ہے.اور سوچ ہی نہیں رہے کہ یہاں بھی مشن قائم ہو.چنانچہ میں نے وہاں آدمی بھیجا کہ پتہ کرو.اس کے بعض حصے فرانسیسی بولنے والے بھی ہیں.میرا خیال تھا کہ اس علاقہ میں، جو فرانسیسی بولنے والا ہے، اس وقت ہم کوئی مناسب مکان لے کر اپنا مبلغ بھیج دیں اور وہ وہاں جا کر کام کرے.دوسرے اس وقت یورپ اور امریکہ اور افریقہ بلکہ مجھے یوں کہنا چاہئے کہ ساری دنیا جماعت احمدیہ سے یہ مطالبہ کر رہی ہے اور اس مطالبے میں شدت پیدا ہورہی ہے کہ ہمیں قرآن کریم کے تراجم دو.اور ساری دنیا میں قرآن کریم کے تراجم پہنچانا، بڑا وقت چاہتا ہے اور بڑی محنت چاہتا ہے اور بڑی قربانی چاہتا ہے اور بڑا منصوبہ چاہتا ہے.ہر ملک کا اپنا مزاج ہے اور پڑھنے کے لحاظ سے اپنی عادتیں ہیں.میں مثال میں غیر مذہبی کتب لے لیتا ہوں.جس قسم کی چھپی ہوئی کتاب کے متعلق ہمارے ملک میں کہیں گے کہ بڑی اچھی چھپی ہوئی ہے اور پڑھنے والے بڑے شوق سے خریدیں گے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ پڑھنے والے ہمارے ملکوں میں کم ہی ہیں، بہر حال وہ کہیں گے کہ اس کی بہت اچھی اور معیاری کتابت اور طباعت ہوئی ہے.وہ کتاب جس وقت یورپ میں جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بہت ہی ردی چھپائی اور کتابت ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی قیمتی چیز نہیں ہے.ان کی اپنی عادتیں ہیں.مغربی افریقہ کے ایک ملک کی جماعت احمدیہ نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا اور میرے خیال میں انہوں نے بڑی غلطی کی.غالبا ان کے پاس پیسے نہیں ہوں گے.انہوں نے بہت کم تعداد میں چھپوایا.انہوں نے اپنے ملک میں نہیں بلکہ باہر کے ایک 539
اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ملک میں، جہاں ان ملکوں کے لئے بظاہر بہت اچھا چھپتا ہے، پانچ ہزار کی تعداد میں چھپوایا.اور اس قرآنی ترجمہ کی ایک کاپی بطور نمونہ میرے پاس لندن بھیجی اور ساتھ ہی یہ خط بھیجا کہ یہ تو ختم ہورہا ہے.ہمیں فوری طور پر دوسرے ایڈیشن کے لئے خط لکھنا پڑ رہا ہے.ہمارے تراجم بہت مقبول ہیں.دن کے وقت بھی مقبول ہیں اور رات کے وقت بھی مقبول ہیں.یعنی ایسے لوگ بھی ہیں، جو دن کی روشنی میں آکر قرآن کریم لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس ترجمہ سے، جو آپ نے کیا ہے، ہمیں تسلی ہوتی ہے.اور ایسے بھی ہیں، جو دن کے وقت آتے ہوئے شرماتے ہیں یا ڈرتے ہیں اور رات کو اندھیرے میں چپکے سے آتے ہیں، کہتے ہیں کسی کو نہ بتا نالیکن اس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں.ہمیں قرآن کریم کا ترجمہ دے دو.دونوں قسم کے لوگ ہیں.یورپ اور امریکہ میں رات کو آنے والے میرے خیال میں کم ہی ہوں گے یا نہ ہوں گے.لیکن افریقہ کے ممالک میں بہت سے ایسے بھی ہیں ، ہمارے پاس خبر میں آتی رہتی ہیں.بہر حال یہ ایک کام کرنا ہے.اگلی صدی کے آنے سے پہلے یہ کام شروع ہو جانا چاہیے تا کہ جس وقت وہ صدی آئے اور خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے اور کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگیں اور آر سے آکر کہیں کہ ہمیں اسلام کے متعلق کتابیں دو، قرآن کریم کے تراجم دو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات دو، اسلام نے بچوں کو جو تعلیم دی ہے اور اسلام نے جو اخلاق سکھائے ہیں، اس کے متعلق ہمیں لٹریچر دوتو ہم یہ کتا بیں انہیں مہیا کر سکیں.ہزاروں کتابوں کی ضرورت ہے.ایسا نہ ہو کہ ہمیں یہ جواب دینا پڑے کہ وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے کس کام کے لئے پیدا کیا ہے؟ ہم علی وجہ البصیرت اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے.اور اگر ہم نے اس کے مطابق کام نہ کئے تو ( اللہ محفوظ رکھے ) یہ خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آنے والی بات ہے.میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جتنا ہم کر سکتے ہیں، وہ ہمیں کر دینا چاہئے.ہمارا خدا بڑا پیار کرنے والا ہے.خدا یہ نہیں کہتا کہ جتنے کی ضرورت ہے، وہ کرو.بلکہ خدا یہ کہتا ہے کہ جتنے کی طاقت ہے، وہ کرو.اور ضرورت اور طاقت کے درمیان جو فرق ہے، وہ میں پورا کروں گا اور سارے کا ثواب تمہیں دے دوں گا.وہ مفت کا ثواب دیتا ہے.لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ جتنی طاقت ہے، وہ کر دو.امریکہ کی بڑی آبادی ہے.میں نے انہیں کہا کہ پہلا قدم یہ ہے کہ دس لاکھ قرآن کریم کا ترجمہ امریکہ میں تقسیم کیا جائے ، فروخت کیا جائے.اور ایسا انتظام کیا جائے کہ لائبریریاں خرید ہیں.بہت بڑا بہ ہے.کئی سال ہوئے میں نے اس کا اعلان کیا تھا.پھر میں نے سوچا کہ اس کے لئے پیسے کہاں سے 540
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء آئیں گے؟ چنانچہ جب میں نے جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خود امریکہ کی جماعت کے پاس اتنی رقم ہے کہ اگر وہ دس لاکھ کے میں حصے کر کے 50,50 ہزار کا پیاں منگواتی چلی جائے اور بیچتی چلی جائے (کچھ) مفت دے اور کچھ بیچے ) اور جب وہ رقم واپس آجائے تو پھر 50 ہزار اور لے لے تو اس طرح چار، پانچ سال کے اندروہ دس لاکھ قرآن کریم تقسیم کر سکتی ہے.اور یہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایک دفعہ دس لاکھ امریکنوں کے ہاتھ میں آپ قرآن کی دس لاکھ کا پیاں دے دیں تو اس کی مانگ بڑھ جائے گی.ایک شخص کا دوست دیکھے گا، وہ مانگے گا.اگر باپ کو دلچسپی ہوگی تو اس کے گھر تین ، چار بچے پڑھنے لگیں گے، وہ جوان ہو کر اپنے گھر آباد کر لیتے ہیں، وہ اپنے باپ کو کہیں گے کہ میں لے جا رہا ہوں، وہ کہے گا کہ نہیں ، میں تو اپنے گھر سے باہر نہیں دوں گا، لڑکا کہے گا کہ پھر مجھے اپنا خریدنا چاہئے.میں خدا تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ ان کے اسلام میں داخل ہونے سے بھی پہلے یہ حالات پیدا ہو جائیں گے.سب سے زیادہ دور ہم سے امریکہ کے علاقے ہی ہیں.یہاں ہم ہیں اور زمین کے دوسری طرف وہ ہیں.لیکن ان کے اخلاص کا یہ حال ہے کہ ہماری قرآن کریم کی ایک انگریزی تفسیر پانچ موٹی موٹی جلدوں میں ہے اور وہ قریباً ہر احمدی کے گھر موجود ہے.جو بالکل تھوڑا عرصہ پہلے مثلاً پچھلے سال احمدی ہوا ہے، میں اس کی بات نہیں کر رہا.لیکن جن کو احمدی ہوئے کچھ عرصہ گزر گیا ہے، ان میں سے کوئی ایک شخص بھی شاید ایسا نہیں ہے، جس کے گھر میں وہ پانچ جلدوں کی تفسیر نہ ہو اور جسے وہ پڑھتا نہ ہو.اور اس کے نتیجہ میں وہ بعض دفعہ فون اٹھا کر ہمارے مبلغ کو کہتا ہے کہ میں اس جگہ اٹک گیا ہوں، مجھے سمجھ نہیں آرہی، مجھے بتاؤ.مبلغ کو بھی تو سارے قرآن کریم کی تفسیر حفظ نہیں ہوتی.اس لئے اس کو بعض دفعہ کہنا پڑتا ہے کہ میں تمہیں Study ( سٹڈی ) کر کے بتاؤں گا، ابھی نہیں بتا سکتا.وہ قرآن کریم سے بڑا پیار کرتے ہیں.اور قرآن کریم ہے ہی ایسی چیز ، جس سے پیار کیا جائے.ضمنا میں بتادوں کہ ناظرہ پڑھنے والے بچوں کے لئے قرآن کریم کا متن موجود نہیں تھا.اب وہ چھپ چکا ہے.بہت خوبصورت ہے.قاعدہ میسرنا القرآن کی طرز پر اس کی کتابت ہے.اور بازاری قیمتوں کے لحاظ سے میرے خیال میں نصف سے بھی کم قیمت پر ملے گا.کیونکہ ہم قرآن کریم ہر گھر میں پہنچانا چاہتے ہیں اور ہر نسل کو پہنچانا چاہتے ہیں، اس سے نفع کمانے کا ہمارا پروگرام نہیں ہے.لیکن چونکہ بعض جگہ مفت دینا پڑتا ہے اور کچھ اور اخراجات ہیں، اس لئے بالکل معمولی سی رقم نفع کی ہوتی ہے، جو بمشکل اپنے اخراجات پورے کرتی ہے.بہر حال میں آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ قرآن کریم شائع ہو گیا ہے.541
اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اپنے لئے اب آپ اپنے بچوں کو ناظرہ قرآن کریم پڑھانے کے لئے اچھا ستھر اغلطیوں سے پاک اور سستا قرآن کریم ، قرآن پبلی کیشنز سے خرید سکتے ہیں.میرے پاس پہلی کا پی آ گئی ہے.ممکن ہے، اس کی جلد بندی وغیرہ میں دس ، پندرہ دن اور لگ جائیں.تاہم وہ جلد آنے شروع ہو جائیں گے.میں نے صرف امریکہ کے متعلق بتایا ہے.یورپ کے بعض ملک بھی ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم کا ترجمہ دو.ان میں سے دو ملک ایسے ہیں، جن میں زیادہ تر وہاں کے مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہے کہ ہمیں قرآن کریم کا ترجمہ دیں.کیونکہ وہاں دہریت کی فضا زیادہ ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی نسلوں کود ہر یہ نہیں بنانا چاہتے.سوئٹزر لینڈ میں مجھے میرے بعض دوستوں نے ، جو احمدی نہیں تھے، یہ کہا کہ آپ یہاں آئے ہوئے ہیں اور اسلام پھیلا رہے ہیں، یہاں پر لاکھوں کی تعداد میں مسلمان خاندان ہیں لیکن ان کے بچوں کے پاس اسلام کے متعلق کوئی کتاب نہیں ہے.آپ ہمیں ایسی کتابیں دیں.غرض دنیا میں یہ احساس بیدار ہو گیا ہے کہ ہمیں اسلامی اخلاق کے متعلق، اسلامی تربیت کے متعلق ، اسلامی تعلیم کے متعلق ، اسلامی روحانیت کے متعلق لٹریچر ملنا چاہئے.اور وہ ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں لٹریچر دیں.کوئی اور بھی اگر اپنا فرض سمجھتا ہے تو وہ بھی ادا کرے.ہمیں اس سے زیادہ خوشی کی اور کوئی بات نہیں ہوگی.لیکن میں تو اپنے متعلق ہی بات کروں گا کہ ہمارا یہ فرض ہے.غرض دنیا میں احساس پیدا ہو چکا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ سویڈن میں ایک صحافیہ نے کہا کہ آپ اتنی دیر کے بعد ہمارے علاقہ میں کیوں پہنچے ہیں؟ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم روز بروز گندی زیست میں دھنسے چلے جاتے ہیں اور آپ نے ہمارا خیال ہی نہیں کیا.اتنی حسین تعلیم ، جو گند سے پاک کرنے والی ہے، اسے اپنے پاس لے کر بیٹھے رہے اور ہماری آپ لوگوں نے پرواہ ہی کوئی نہیں کی.اس سے پہلے کیوں نہیں آئے ؟ پہلے جانے یا نہ جانے کے متعلق تو خدائی تقدیر ہی کام کر رہی تھی.ہمارے پاس تو نہ پیسہ، نہ اقتدار، نہ کوئی طاقت.صرف ایک چیز ہے اور وہ بہت بڑی ہے.اور وہ ہے، اللہ تعالیٰ کا فضل.لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل تو نہ میں ، نہ آپ آسمانوں سے چھین کر تو نہیں لا سکتے.وہ تو اپنے پیار سے جب چاہے گا ، جتنا چاہے گا ، نازل کرے گا.ہمارا کام ہے کہ ہم الحمد للہ کہیں اور اپنی سی طاقت اس کی راہ میں خرچ کر دیں.صد سالہ جوبلی کا اعلان 73ء میں ہوا.اس کے کچھ کام اگلی صدی کے آنے سے قبل ہونے والے تھے.مثلاً سب جگہ مشن بنانے وغیرہ.اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ میں بڑی برکت ڈالی.سب سے 542
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 29اکتوبر 1978ء پہلے برکت کا یہ موقع دیا کہ سویڈن میں اس منصوبہ کے تحت یورپ کی جماعتوں کے چندے اور قربانی سے مسجد تعمیر ہوئی.ہمارے ملک میں بسنے والوں کی ایک دھیلے کی بھی Contribution (کنٹری بیوشن ) اور قربانی اس میں شامل نہیں.ساری کی ساری بیرونی جماعتوں کی قربانی ہے.تھوڑی سی رقم انہوں نے امریکہ سے قرض لی تھی، جس کا ایک حصہ واپس کر دیا ہے.اور دوسرا حصہ بھی عنقریب واپس ہو جائے گا.چنانچہ ایک نہایت خوبصورت مسجد گوٹن برگ، سویڈن کی ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنی ہے.وہاں پتھر یلی زمین تھی ، جس میں اس سائبان کی اونچائی جتنے بڑے بڑے پتھر زمین میں دھنسے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ نے وہ ہمارے لئے ریز رور کھی ہوئی تھی.کسی اور کے دل میں خواہش ہی نہیں پیدا ہوئی کہ اس کو لے کر پتھروں کو صاف کر کے وہاں کوئی چیز بنالے.وہ ہمارے حصہ میں آگئی.خاصی بڑی جگہ ہے.غالباً دوا پیکر کے قریب ہے.غرض اس چوٹی پر مسجد بن گئی ہے اور سارے شہر کو، سوائے اس کے جو بعض پہاڑیوں کے سائے میں آیا ہوا ہے، مسجد نظر آتی ہے.اور مسجد سے سارا شہر نظر آتا ہے.نہایت شاندار اور خوبصورت مسجد ہے.اور وہاں سے خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو رہا ہے.اور یہ وہاں کا معمول ہے کہ روزانہ کوئی نہ کوئی وفد یا سکول کے ٹیچرز کے ساتھ کوئی پارٹی یا کچھ لوگ مسجد دیکھنے کے لئے آتے ہیں.عیسائیوں نے یہ مشہور کر دیا ہے کہ عورت مسجد میں داخل نہیں ہوسکتی.چنانچہ جب 76ء میں ، میں نے اس کا افتتاح کیا تو عورتوں میں یہ شوق پیدا ہوا کہ ہم جا کر دیکھیں تو سہی کہ وہ کون سی عمارت ہے، جس میں عورت نہیں داخل ہو سکتی ؟ جب وہ آتی تھی تو ہمارے مبلغ اور دوسرے احمدی جو وہاں موجود ہوتے تھے، ان کو کہتے تھے کہ تمہیں کسی نے غلط بتایا ہے، تم اندر جا سکتی ہو.وہ کہتیں کہ اچھا، ہم جاسکتیں ہیں.وہ کہتے کہ صرف یہ ہے کہ تم پتہ نہیں ، کہاں پھرتی رہی ہو؟ تمہارے جوتوں کو گند لگا ہوا ہوگا ، ان کو باہر اتار دو اور اندر چلی جاؤ.چنانچہ وہ بڑے شوق سے اور پیار کے ساتھ اندر جاتیں اور دیکھتیں.مسجد اپنے اندر ایک عجیب شان اور ایک رعب کی کیفیت پیدا کرنے والا خاصہ رکھتی ہے.اور جو بھی اندر جاتے ہیں ، خواہ غیر مسلم ہوں، بے ساختہ ان کی زبان سے نکلتا ہے کہ یہاں تو بڑی پرسکون فضا ہے، یہاں تو ہم پر عجیب اثر ہوتا ہے.وہاں نہ کوئی تصویر ہے ، نہ کوئی اور سجاوٹ کی چیز.ایک چیز ہے، جو اس کو سجارہی ہے.اور وہ ہے، خدا تعالیٰ کی بزرگی اور قدوسیت اور واحدنیت کی تعلیم کو عام کرنے کا عزم ، جو نمازی وہاں اپنے دل میں لے کر جاتے ہیں.اور جو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہیں، وہ مسجد کے اندر کوئی ایسی چیز پیدا کرتے ہیں کہ جب عیسائی اس ہوا میں سانس لیتا ہے تو اس سے اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ ہے 543
اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء انَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم (الجن : 19) کا مفہوم.جو مساجد خدا کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے بنائی جائیں، وہ اسی قسم کی مساجد ہوتی ہیں.اس کے علاوہ صد سالہ جوبلی منصوبہ نے اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ توفیق پائی کہ لندن میں Deliverance of Jesus from the cross کے موضوع پر کانفرنس ہوئی.ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس کے وہ نتائج نکلیں گے، جو نکلے.ایک بات جس کی کوئی اتنی اہمیت نہیں ہے، لیکن بہر حال اسے پڑھ کر لطف آیا یہ ہے کہ ایک عیسائی اخبار نے لکھا کہ کانفرنس ہوگئی اور انگلستان پر جو کہ عیسائی ملک تھا، اسلام کی زبر دست یلغار ہو گئی اور چرچ یعنی کلیسیا خاموش بیٹھا ہے.پتہ نہیں ، ان کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا سوچ رہے ہو تم؟ خاموش کیوں بیٹھے ہو؟ تمہارے اوپر تو زبردست حملہ ہو گیا ہے.یہ احساس اس کانفرنس نے پیدا کیا ہے.وہ لوگ خاموش بیٹھے تھے، جو کہ حضرت مسیح موعود کے دعوی سے پندرہ ہیں سال قبل یہ اعلان کر چکے تھے، (اور وہ اعلان ہماری لائبریری میں محفوظ ہیں) انہوں نے اعلان کیا کہ سارا ویسٹ افریقہ خداوند یسوع کی جھولی میں ہے.اور اب یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اور جماعت احمدیہ کی کوششوں میں خدا نے جو برکت ڈالی، اس کی وجہ سے مغربی افریقہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں.اور انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے، جب خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا مکہ اور مدینہ پر لہرائے گا.اور اب یہ حالت ہے، کیتھولک فرقہ ، جو کہ عیسائیت میں اپنی تعداد کے لحاظ سے اثر و رسوخ کے لحاظ سے، مال کے لحاظ سے، رعب کے لحاظ سے اور تنظیم کے لحاظ سے سب سے بڑا فرقہ ہے، اس نے اپنے پادریوں کو بھی یہ ہدایت کی ہے کہ کسی احمدی سے بات نہیں کرنی اور نہ ان سے کوئی کتاب لے کر پڑھنی ہے.وہ جھنڈا تو کبھی وہاں نہیں لہرائے گا.اور اس کے بعد جو بات میں کہنے والا ہوں، وہ صرف ایک خواہش کا اظہار ہے.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا کبھی نہیں ہونے دے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اگر اس کے لئے جان دینے کی ضرورت پڑی تو اس جھنڈے کے لہرانے سے پہلے آخری احمدی کا خون بہہ چکا ہوگا.( تمام حاضرین نے بیک آواز انشاء اللہ تعالیٰ کہا اور پھر نعرہ ہائے تکبیر اور اسلام زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی.) 544
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم چھین اقتباس از خطاب فرموده 29اکتوبر 1978ء لوگ مختلف باتیں کرتے رہتے ہیں.لیکن وہ باتیں ہمارے دل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار تو نہیں ن سکتیں.اور نہ مکہ کی عظمت کو ہمارے دل سے مٹاسکتی ہیں.پاکستان تو بعد میں بنا ہے، پہلے ہندوستان تھا.جس میں ہمارے یہ علاقے بھی شامل تھے.1860ء اور 1880ء کے درمیان انہوں نے اس قسم کے اعلان کئے کہ ہندوستان کے سارے مسلمان عیسائی ہو چکے ہوں گے.یہاں ایک علامہ تھے، جو بعد میں پادری بن گئے ، عمادالدین ان کا نام تھا.انہوں نے ایک مضمون لکھا، جو ایک عیسائی کا نفرنس میں پڑھا گیا.میرا خیال ہے کہ اس کی بھی ایک کاپی یہاں ہمارے پاس موجود ہے.اس میں انہوں نے کہا کہ وہ وقت آنے والا ہے کہ اس کے بعد اگر کسی ہندوستانی عیسائی کے دل میں کبھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ مرنے سے پہلے کسی مسلمان کامنہ تو دیکھ لے تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی.لیکن اب حالات بدل گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے طفیل خدا تعالیٰ سے جو دلائل عیسائیت کے خلاف اور حقانیت اسلام کے حق میں ملے ، اس کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم نے جو کانفرنس کی ، اس کا بہت اثر ہوا.ہم ایک چھوٹی سی جماعت ہیں، غریب کی جماعت کوئی اقتدار نہ رکھنے والی جماعت لیکن قربانیاں کرنے والی جماعت، جس کے دوسو کے قریب فدائی اپنے خرچ پر پاکستان سے اس کا نفرنس میں چلے گئے ، غریب غریب لوگ.میں شکلیں دیکھتا تھا تو حیران ہوتا تھا کہ انہوں نے پیسے کہاں سے اکٹھے کئے یہاں آنے کے لئے ؟ ان کو تو کسی نے ایک دھیلہ باہر سے مدد نہیں دی.اپنے خرچ پر گئے.ان کے دلوں میں جوش تھا کہ عیسائیت کے مرکز سے خدائے واحد و یگانہ کی بزرگی اور کبریائی کی آواز بلند ہوگی ، ہم بھی جا کر اس میں شامل ہوں.جس وقت اس کا نفرنس کا چرچا ہوا.دو نمایاں اثر ہوئے.ویسے تو بہت سے اثرات ہیں.لیکن یہ مضمون زیادہ لمبابیان نہیں کیا جاسکتا.ابھی اسے بیان کرتے ہوئے ، ہم انشاء اللہ آگے بھی چلیں گے.بہر حال دو باتیں بہت نمایاں ہیں.ایک یہ وہ کپڑا، جو غالباً چودہ فٹ، تین انچ لمبا اور چارفٹ ، سات انچ چوڑا ہے.جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب سے اترنے کے بعد مرہم لگا کر رکھا گیا تھا.اور اس پر مرہم کے نشان اور حضرت مسیح کی شبیہ بھی ہے.(لوگ کہتے ہیں بھیج یا غلط، یہ وہ جائیں.اس کو کفن مسیح بھی کہتے ہیں.اور شراؤٹ آف ٹیورن بھی کہتے ہیں.کیونکہ وہ ٹیورن کے گرجا گھر میں ہے.اس کے متعلق انہوں نے یہ اعلان کیا کہ مئی کے مہینے میں اس کا سائنسی طریقوں سے ٹیسٹ ہوگا.اب سائنس نے بڑی ترقی کر 545
اقتباس از خطاب فرموده 29اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم لی ہے.ایک کار بن 14 کا ٹیسٹ ہے، جو کپڑے کی عمر بتا سکتا ہے.اگر وہ ٹیسٹ لیں تو وہ بتادے گا کہ یہ دون ہزار سال پہلے کا ہے یا صرف 500 سال پہلے کا ہے.ویسے 500 کا نہیں ہے.اس سے زیادہ عرصہ سے تو ان کے پاس ہے.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ غالباً ایک ہزار یا بارہ صد سال سے ان کے پاس ہے.اور اس سے پہلے بھی یہ محفوظ چلا آیا ہے.انہوں نے کہا کہ مئی میں وہ ٹیسٹ بھی ہوگا اور دوسرے اور بہت سے ٹیسٹ ہوں گے.پھر جب ہماری طرف سے یہ اعلان ہوا کہ 2,3,4 جون کو جماعت احمدیہ کی طرف سے کانفرنس ہوگی تو چرچ نے اعلان کیا کہ ٹیورن شرائٹ کے متعلق کفن مسیح کے متعلق ، جو سائنسی تحقیق ہوئی تھی ، وہ غیر معین عرصہ کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے.اسی بات کو میں اختتام تک پہنچا دوں، اس کے بعد میں کانفرنس کے اثرات بھی بتاؤں گا.میرے واپس آنے سے چند دن پہلے ایک احمدی نے امریکہ کے کسی اخبار کا تراشہ مجھے بھیجا.اس میں یہ لکھا تھا کہ چرچ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اب اکتوبر میں کسی وقت وہ سائنسی تحقیق ہو گی.انہوں نے بہت ترقی یافتہ آلات بنائے ہیں، جو تصویریں لیں گے.امریکہ کا ہوائی جہازوں کا محکمہ وہ آلات استعمال کرتا ہے.اور وہ بڑے Sophisticated (سوفسٹی کیفڈ ) ہیں.اور بڑے عجیب اور ان کے خیال میں بڑے صحیح نتائج نکالتے ہیں.اور گھنٹوں میں نتائج نکل آتے ہیں.کیونکہ جو جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی بات ہے، اگر کوئی شخص کہے کہ میں جو چیز امریکہ کی فوج کے ہاتھ میں رکھ رہا ہوں، یہ میں سال کے بعد نتیجہ بتائے گی تو قوم اس کے منہ پر تھپڑ مارے گی کہ میں سال میں تو ہم پتہ نہیں دو جنگیں لڑ چکے ہوں گے.تمیں سال پہلے کا نتیجہ ہم کیا کریں گے؟ پس ایسے آلات ہیں، جو منٹوں میں نہیں تو گھنٹوں میں نتیجہ نکال دیتے ہیں.اور اس کا پتہ لگ جاتا ہے.انہوں نے بڑی Advanced (ترقی یافتہ ) لیبارٹریز بنالی ہیں.بہر حال انہوں نے اعلان کیا کہ یہ سائنسی تحقیق اکتوبر میں ہوگی.لیکن اس تحقیق میں کار بن 14 کا ٹیسٹ نہیں ہوگا.جس سے کہ عمر کا پتہ لگتا ہے.اور اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ ابھی تو یہ ٹیکنیک پوری طرح مکمل بھی نہیں ہوئی.جب مکمل ہو جائے گی تو پھر دیکھیں گے.اس کے علاوہ جو تصاویر لینی ہیں اور دوسرے ٹیسٹ ہیں ، وہ اکتوبر میں ہوں گے.لیکن ان کا نتیجہ آج سے تمیں سال کے بعد بتایا جائے گا.جو آلات تم استعمال کر رہے ہو، ان سے تو نتیجہ گھنٹوں میں پتہ لگ جاتا ہے.یہ میں سال تک اس کو راز میں رکھنے کا اعلان ہمیں بتاتا ہے کہ اس میں کیا ہے؟ جب وہاں پرو پیگنڈا ہوا تو یورپ کے عیسائیوں اور دنیا میں دوسرے عیسائیوں میں ایک بے چینی پیدا ہوئی کہ یہ کیا ہورہا ہے کہ یا تو ہم ان کے ملکوں پر یلغار کر کے ان کے ایمانوں پر بھی ڈاکہ مارا 546
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء کرتے تھے اور ان کی دنیوی دولتوں پر بھی ڈاکہ مارا کرتے تھے Colonial Age میں ، جس وقت یہ لوگ سارے افریقہ میں اور ہندوستان میں بھی حاکم بن گئے تھے تو یہ ساری دنیا کی دولت لوٹ کر اپنے اپنے ملکوں میں لے گئے تھے اور یا یہ حال ہے کہ ایک مسلمان جماعت لندن میں آکر ، ہمارے ایک عیسائی ملک میں آکر ہماری ایمپائر، جو دنیا میں سب سے بڑی تھی ، اس کے دل میں اپنی کا نفرنس منعقد کر رہی ہے.وہ ایمپائر، جس کے متعلق وہ یہ دعوی کرتے تھے کہ اس پر بھی سورج غروب نہیں ہوتا.اس کا سورج غروب ہو گیا.اور اس ایمپائر کے دل میں، اس کے مرکز میں کچھ نئی کرنیں ، اسلام کی روشنی کی کرنیں نظر آنے لگ گئیں.یہ کیا بات ہوگئی ؟ اس گھبراہٹ کو دیکھ کر عیسائیت کے مختلف فرقوں نے ، جو وہاں ایک کونسل آف برٹش چر چز بنائی ہوئی ہے، ان کی طرف سے 23 مئی کو ہماری کانفرنس سے قریباً دس دن پہلے ایک ریلز جاری ہوئی اور اس کے نیچے ایک نوٹ تھا کہ اخبارات اس خبر کو کا نفرنس کی ابتداء تک شائع نہ کریں.جب کا نفرنس شروع ہو تو اس وقت شائع کی جائے.مجھے صحیح تاریخ یاد نہیں کہ انہوں نے مئی کا آخری دن مقرر کیا ہوا تھایا جون کا پہلا دن تھا.کچھ اخباروں نے اسے شائع بھی کر دیا.اس کی ایک کاپی انہوں نے ہمارے لندن مشن کو بھی بھیجی.مجھے دکھائی گئی تو میں نے کہا کہ میں بڑا خوش ہوں کہ انہوں نے ہمیں دعوت دی ہے کہ اس مضمون پر ہمارے ساتھ Dialogue کرلو، مذاکرہ کر لو.اس دعوت نامہ کے اندر ہمیں یہ عجیب بات نظر آئی کہ پہلے ایک خط تھا اور اس کے بعد پریس ریلیز تھی.اور خط میں تھا کہ Open Dialogue یعنی کھلی بات چیت ہوگی، چھپی ہوئی نہیں ہوگی.اور نیچے جو پریس ریلیز تھی، اس میں لکھا ہوا تھا کہ Unpublicised ہوگی، یعنی اسے شائع نہیں کیا جائے گا بلکہ چھپا کر رکھا جائے گا.ایک ہی وقت میں وہ Open بھی ہوگی اور Unpublicised بھی ہوگی ، اس کا مطلب ہمیں سمجھ نہیں آیا.بہر حال میں نے کہا کہ ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.کانفرنس کے آخری دن 04 جون کو میں نے ایڈریس پڑھا.اس کے بعد مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کونسل آف چرچز کا دعوت نامہ پڑھ کر سنایا اور پھر اس کا جواب خود میں نے پڑھ کر سنایا.کچھ پوائنٹس تھے، ان کا جواب دیا.اور میں نے کہا کہ بڑی اچھی بات ہے، ہم تو ہر وقت تیار ہیں.اور صرف کونسل آف چرچز سے ہی نہیں بلکہ یہ مذاکرہ دنیا کے مختلف حصوں میں ہونا چاہیے.ایشیاء میں بھی ہونا چاہئے، انگلستان میں بھی ہونا چاہئے اور امریکہ اور دوسری جگہوں میں بھی ہونا چاہئے.اور صرف تمہارے مختلف چرچز کی تنظیم سے نہیں بلکہ کیتھولک ازم سے بھی ہونا چاہیے.جو کہ سب سے بڑی اور مضبوط جماعت ہے.جس کا Head روم میں پوپ ہے.چنانچہ ان کو بھی میں نے دعوت دی مانے 547
اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم کہ آپ بھی مذاکرے میں ، تبادلہ خیال میں شریک ہوں.خواہ ان کے ساتھ مل کر یا علیحدہ ، جیسے آپ چاہیں.ہمیں تو خدا نے پیدا ہی اس کام کے لئے کیا ہے.ہم کسی سے گھبراتے تو نہیں.غرض ایک تو اس دن اعلان ہو گیا.اور پھر ان صاحب کو لکھ کر بھیجا گیا، جو غالبا سیکرٹری یا صدر ہیں.جن کے دستخط سے وہ دعوت نامہ آیا تھا کہ امام جماعت احمدیہ نے اسے منظور کر لیا ہے، اب آپ شرائط طے کریں.لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا.غالباً 4, 3 ہفتے کے بعد میں نے کہا کہ تم خاموش کیوں بیٹھے ہو، ان کو یاد دہانی کراؤ ؟ پھر ان کو ایک Reminder بھیجا گیا، یاددہانی کرائی گئی.اور اس کا جواب ایک اور پادری کی طرف سے آیا.جو انہی کے ساتھی تھے.انہوں نے ان صاحب کا نام لیا، جن کے دستخط سے پہلا خط آیا تھا اور لکھا کہ انہوں نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ کو یہ خط لکھوں کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے تو اسلام کے متعلق کچھ پتہ ہی نہیں ہے، اس واسطے میں آپ کے قبول دعوت نامہ کا کیا جواب دوں؟ اس لئے وہ عیسائیت کے ماہروں سے مشورہ کر کے جواب دیں گے.یہ نہیں لکھا کہ اس مشورہ پر وہ ایک مہینہ لگائیں گے یا ایک صدی لگائیں گے، یہ وہ جانیں.واللہ اعلم.میں نے وہاں سے ساری دنیا میں احمدیوں کو یہ کہا کہ تم اپنے اپنے ملکوں میں ان کا دعوت نامہ اور میرا جواب وہاں کے بشپس کو لکھو.اور ان سے کہو کہ اگر تم تیار ہو تو ہم تمہارے ساتھ بھی تبادلہ خیال کرنے کے لئے تیار ہیں.اس وقت جس فرقے کی طاقت سب سے زیادہ ہے، وہ کیتھولک ازم ہے.اگر باقی سب فرقوں کو ملا کر ایک فرقہ سمجھا جائے.تب بھی سب سے زیادہ طاقت کیتھولک ازم کی ہے.چنانچہ میں نے کہا کہ کیتھولک بشپس کو ضرور لکھو.اور ساری دنیا میں کیتھولک بشپس کو لکھا گیا.لیکن اکثر نے جواب ہی نہیں دیا.صرف چند ایک نے جواب دیا.اور جنہوں نے جواب دیا، انہوں نے یہ جواب دیا کہ ہم جماعت احمدیہ سے کوئی گفتگو کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.اس کا نفرنس کے جو نتائج ابھی تک نکلے ہیں، وہ بڑے شاندار ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ صد سالہ منصوبہ کو خدا تعالیٰ نے یہ بڑی برکت عطا کی ہے کہ اس کے ذریعہ سے یہ کا نفرنس منعقد ہوئی اور غلبہ اسلام میں ہماری حرکت جو آگے ہی آگے بڑھ رہی ہے، اس میں اپنے اثرات کے لحاظ سے ایک نمایاں حصہ اس کا نفرنس کا ہے اور ہوگا.ایک اور بڑا اچھا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائی محققین نے بھی تحقیق شروع کی تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے بلکہ زندہ اترے اور جو دس گمشدہ قبائل تھے، Lost Tribes Of Isreal ان میں جا کر انہوں نے تبلیغ کی اور کشمیر گئے اور وہاں وفات پائی اور وہاں ان کی قبر ہے.چنانچہ اس کا نفرنس کے 548
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء نتیجہ میں معلوم ہوا کہ بہت سے لوگوں نے تحقیق کی تھی.لیکن ان کی تحقیق کا نتیجہ کتابی شکل میں شائع نہیں ہوا تحقیق کر تھا، مسودے پڑے ہوئے تھے.سویڈن کی ایک عورت نے لکھا کہ میرے باپ نے تو ساری عمر تحقی کے وہی نتیجہ نکالا تھا، جس پر آپ اس وقت کا نفرنس کر رہے ہیں.اس لئے مجھے بہت دلچسپی ہے.میرا باپ تو فوت ہو گیا ہے، مسودہ میرے پاس پڑا ہوا ہے.اس کی زندگی میں نہیں چھپ سکا اور نہ میں چھاپ سکی ہوں.آپ مجھے دعوت دیں کہ میں بھی آکر Attend کروں.چنانچہ وہ بھی آگئی.اور اسی طرح چھپے ہوئے اور بہت سے لوگوں کی طرف سے اطلاع آگئی کہ ہم نے بھی تحقیق کی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے بلکہ زندہ اترے اور بعد میں لمبا عرصہ زندہ رہے اور انہوں نے بنی اسرائیل کے گمشدہ دس قبائل میں تبلیغ کی.بارہ میں سے دس قبائل یعنی اسی فیصد لوگوں میں انہوں نے تبلیغ کی اور ان کو عیسائی بنایا اور ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اسلام کو قبول کرنے کے لیے تیار کیا اور انہوں نے اسلام کو قبول کر لیا اور جنہوں نے قبول نہیں کیا، ان کو میں نے دعوت دی ہے.میں چاہتا ہوں کہ چند منٹ کے لئے آپ اس انگریزی تقریر کا ایک حصہ سن لیں“.(چنانچہ حضور رحمہ اللہ نے لندن کا نفرنس میں اپنی تقریر کا ایک حصہ تقریباً 05 منٹ تک ٹیپ ریکارڈ کے ذریعہ سنایا.جس میں آپ نے احسن رنگ میں عیسائیوں کو خدائے واحد و یگانہ کی طرف اور اسلام کی طرف بلایا تھا.).پھر فرمایا:.بڑی وضاحت کے ساتھ اس کا نفرنس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم نے جو بیان کیا ہے اسے، اور انجیل میں اس وقت بھی اور ان حالات میں بھی جو حقیقتیں پائی جاتی ہیں انہیں ، تاریخ میں حضرت مسیح کے متعلق جو باتیں ہیں انہیں ، طب کی کتب میں حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے زندہ اترنے کے متعلق جو شہادتیں ہیں انہیں، اور اس قسم کے دیگر تمام مضامین کو بیان کیا گیا.مختلف مقررین اور محققین نے ، جن میں احمدی بھی تھے اور وہ بھی تھے، جو احمدی نہیں، اسلام کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور عیسائی بھی تھے اور واللہ اعلم شاید بعض ایسے بھی ہوں ، جو عیسائیت کو چھوڑ چکے ہوں ، ان سب نے مقالے پڑھے اور ہر چیز کھول کر بیان کر دی.بہت میں نے چونکہ آخر میں بولنا تھا، اس لئے میرے لئے وقت یہ تھی کہ مجھ سے پہلے ہر موضوع پر تفصیل کے ساتھ کوئی نہ کوئی بول چکا تھا، اس لئے.اور میں خوش ہوں کہ اس لئے مجھے بہت دعائیں 549
اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم کرنے کی توفیق ملی.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے مضمون میں شرمندہ نہ کیا.بلکہ ایک نہایت اچھا اور مؤثر مضمون تیار ہو گیا.اور جیسا کہ آپ نے سنا، جو چیز صرف میں ہی کر سکتا تھا، یعنی ان کو دعوت دینا ، اسلام کی طرف اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کی طرف اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کر لینے کی طرف، وہ دعوت میں نے بڑے پیار کے ساتھ مگر زور دار الفاظ میں ان تک پہنچادی.اور جن علاقوں کی خبریں اس انگریز ایجنسی کے پاس پہنچیں، جن کو ہم نے اطلاعات اکٹھی کرنے کے لئے مقرر کیا تھا، اس کے مطابق 14 کروڑ انسانوں تک یہ آواز پہنچ گئی.لیکن یہ تعداد کم ہے.کیونکہ ہماری اطلاع کے مطابق ان علاقوں کے علاوہ افریقہ کے عیسائی اخباروں نے اس کا نفرنس کے متعلق اور اس عقیدہ کے متعلق 4,4 صفحے کے ضمیمے لکھے.اور ایک شخص کہنے لگے کہ مجھے میرے کسی واقف نے اطلاع دی ہے کہ ساؤتھ امریکہ میں (جہاں ہمارا کوئی مشن بھی نہیں اور ہمیں براہ راست کوئی اطلاع بھی نہیں آئی ) ایک اخبار نے نصف صفحے سے زیادہ ان عقائد کے متعلق خبر دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر بھی شائع کی.اسی طرح ایران میں اور ایشیاء کے بہت سے ملکوں میں چھپا.جاپان میں ٹوکیو سے انگریزی کا ایک بہت بڑا اخبار نکلتا ہے، اس میں ایک لمبی خط و کتابت شائع ہوئی.وہاں ہمارے مبلغ نے اس میں مضمون لکھا.پھر کسی نے اس کے خلاف اور کسی نے اس کی تائید میں لکھا.لمبا چوڑ اقصہ چلا.اخبار کچھ عرصے کے بعد اسے بند کر دیتے ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خود اخبار پر اتنا اثر تھا کہ انہوں نے ہمارے مبلغ کو لکھا کہ اب ہم صرف ایک خط شائع کرنا چاہتے ہیں، اس کے بعد بند کر دیں گے.اور ہم چاہتے ہیں کہ آخری خط، جو شائع ہو، وہ تمہارا ہو.چنانچہ ہمارے مبلغ کو موقع مل گیا اور انہوں نے سارا مواد اکٹھا کر کے مجموعی طور پر جو کچھ ہو چکا تھا اور جو چرچ کا رد عمل تھا، اس کے بارہ میں خط لکھ دیا.دعوت تو خود چرچ نے دی تھی اور اب ان کا رد عمل بڑا عجیب ہے.اگر ہم نے دعوت دی ہوتی تو تم کہتے کہ نہیں مانتے.لیکن تم نے دعوت دی اور ہم نے مان لی اور خوشی سے مانی.اور ہم نے کہا کہ پیار اور محبت کی فضا میں تبادلہ خیال ہونا چاہیے.تا کہ دنیا پر حقیقت آشکار ہو اور جب ہم نے اسے مان لیا تو تم نے بہانے کرنے شروع کر دیئے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ چلے گا نہیں.کسی نہ کسی وقت عیسائی دنیا اپنے پادریوں کو مجبور کرے گی کہ وہ مذاکرہ کریں.انشاء اللہ ! غرض یہ ایک بہت بڑا کام ہے، جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی ہے.اور اگلی صدی کے استقبال کا جو منصوبہ ہے، اس کے لئے تیار کیا ہے اور عیسائی دنیا کو پکڑ کر جھنجھوڑا ہے.سویڈن میں سٹاک ہام میں ایک پریس کانفرنس میں مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا اس قبر کو کھود کر اس کی تحقیق ہونی چاہئیے ؟ میں نے کہا کہ ہونی چاہیئے.کہنے لگے کہ ہوئی یا نہیں ؟ میں نے کہا، نہیں ہوئی.550
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء کہنے لگے کہ ہم نے تو ایک مضمون شائع کر دیا ہے، جس میں کسی کے حوالے سے یہ لکھ دیا ہے کہ اس کی تحقیق ہوئی ہے.میں نے کہا، آپ نے غلط لکھ دیا ہے.سویڈن کے ایک اور شہر مالمو میں بھی ہماری جماعت ہے.میں سٹاک ہام سے گوٹن برگ آیا، جہاں ہماری مسجد ہے.وہاں سے ڈنمارک جاتے ہوئے رستہ میں مالمو آتا ہے.وہاں میں دو، تین گھنٹے کے لئے کھبر اتو اتفاقاً وہاں وہی شخص مل گئے ، جن کا مضمون چھپا تھا.وہ سویڈن کے مانے ہوئے محقق ہیں.میں نے ان کو کہا کہ یہ کیا آپ نے غلط بات لکھ دی ؟ انہوں نے کہا، میں اس کا ذمہ دار نہیں.مجھے ایک کشمیری نے بتایا تھا اور میں یونہی بے خیالی میں لکھ گیا کہ قبر کھودی گئی اور اس کی تحقیق ہوئی.پرانے زمانے میں دستور تھا اور مسلمانوں کی بعض قبریں بھی ایسی ہیں کہ اصل جگہ جہاں دفنایا جاتا تھا، اس کے اوپر ایک کمرہ سا بنا کر اس کمرے کی چھت پر بالکل اسی قبر کی نقل بنا دیتے تھے.تاکہ اصل قبر محفوظ رہے.مثلاً حضرت مسیح * فوت ہوئے تو سارے یہودیوں نے جو ان کی تبلیغ سے عیسائی ہوئے تھے، کثرت سے وہاں آنا تھا اور ہر قسم کے آدمی ہوتے ہیں، کوئی مٹی اٹھاتا ہے، کوئی کسی چیز کو چھیڑتا ہے، اس لئے اس کی حفاظت کے لئے اس کے اوپر بالکل اسی کی شکل کی قبر بنائی ہوئی ہے اور اس کے سرہانے دیار کھنے کی جگہ پر صلیب بنی ہوئی ہے.کسی مسلمان کے سرہانے تو کوئی صلیب نہیں بنا تا.یہ بھی ایک دلیل ہے.اور بہت سی باتیں ہیں.جو چیز میں آپ کو بتانے لگا ہوں ، وہ یہ ہے کہ اس قبر کی تحقیق نہیں ہوئی.لیکن ایک سیکنڈ کے لئے بھی ہمارے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہیں ہوئی.اس واسطے کہ یہ بتانے والا علام الغیوب خدا ہے کہ یہاں حضرت مسیح ودفن ہیں.دنیا جو چاہے کر لے لیکن ثابت یہی ہوگا کہ حضرت مسیح کا جسم عصری اس جگہ دفن ہے.اس کے علاوہ اور کچھ ثابت ہو ہی نہیں سکتا.لیکن ہمارے اختیار میں تو نہیں کہ ہم وہاں جا کر تحقیق کریں.اس واسطے جب مجھ سے پوچھا گیا کہ ہونی چاہئے؟ تو میں نے کہا کہ ہونی چاہئے.ہماری کا نفرنس میں اس سلسلہ میں ایک ریزولیوشن بھی پاس ہوا تھا.جو کام کرنے والے ہیں، وہ بڑے عظیم ہیں.اور وہ بڑی محنت چاہتے ہیں، بڑی قربانی چاہتے ہیں، آنے والی نسلوں کی بڑی تربیت چاہتے ہیں.میرے ذہن میں اور بھی باتیں تھیں ، وہ پھر کسی وقت بیان ہوجائیں گی.اب اس وقت میں دعا پر اس کو ختم کروں گا.جو چیز میں آپ کو بتانا چاہتا تھا، جس کے کچھ حصے میں نے بتائے ہیں، وہ یہ ہے کہ انگریزی کا محاورہ ہے "In the thick of it".پیشگوئیوں کے مطابق جو جنگ نور کی ظلمات سے آخری جنگ قرار دی گئی تھی ، وہ گھمسان کی شکل اختیار کر گئی ہے.اور اس کے وسط میں اس وقت ہم اپنے آپ کو کھڑا 551
اقتباس از خطاب فرموده 29اکتوبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پاتے ہیں.پس یہ بے فکری کا اور بے پرواہی کا زمانہ نہیں، نہ میرے لئے ، نہ آپ کے لئے ، نہ میرے بچوں کے لئے اور نہ آپ کے بچوں کے لئے.ہمیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے ، جب تک کہ ہم ظلمات کی یلغار کو، جیسا کہ پیشگوئی کی گئی ہے اور بشارت دی گئی ہے، اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے شکست نہ دے دیں.اور اللہ ، جو نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ہے، اس کا نور ساری دنیا میں پھیل جائے اور انسان کا دل اس سے منور ہو جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد پورا ہو جائے کہ نوع انسانی کو امت واحدہ بنا دیا جائے.اور جو امت واحدہ سے باہر رہنے والے ہوں، ان کی دنیا میں کوئی حیثیت باقی نہ رہے.اور دنیا کی بڑی بھاری اکثریت سارے انسانوں کا 95 فیصد یا 8 9 فیصد یا 99 فیصد یا ہزار میں سے 999 مسلمان ہو چکے ہوں.اس قسم کے حالات انشاء اللہ پیدا ہوں گے.لیکن یہ حالات جو ہمیں افق غلبہ اسلام پر روحانی آنکھ سے نظر آ رہے ہیں، اس کے لئے ہمارے جسموں اور ہماری روحوں نے قربانیاں دینی ہیں.لیکن یہ قربانیاں محض مادی قربانیاں نہیں ہیں.بلکہ ان میں بنیادی حیثیت رکھنے والی یہ قربانی ہے کہ ہم اپنے وقتوں کو خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں میں خرچ کریں کہ خدا تعالیٰ نوع انسانی پر رحم فرمائے اور انسانیت، جو آج گندی زیست کی دلدل میں نیچے ہی نیچے دھنستی چلی جارہی ہے، میں کہتا ہوں کہ گردن تک ڈوب گئی ہے ، خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کو منہ سے پکڑیں اور اوپر نکال لیں.اور خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر سے انسان کو محفوظ کر لیا جائے.اور وہ خدا تعالی کو پہچانے لگیں، اس کی Recognition معرفت اور عرفان انہیں حاصل ہو.اس قدر پیار کرنے والے رب سے وہ دور پڑے ہیں، اتنی محرومی! اور اس محرومی کا انہیں احساس نہیں.محسن اعظم " کو وہ پہچانتے نہیں اور اس کے احسان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.اتنا احسان ہے، اتنا احسان ہے کہ سمندروں کے پانی تو ایک قطرہ ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کے سمندر کے مقابلہ میں.لیکن ان لوگوں کو کوئی احساس ہی نہیں، کوئی علم ہی نہیں، کوئی توجہ ہی نہیں.ساری دنیا کو اس طرف لے کر آنا ، ہماری ذمہ داری ہے.لیکن تلوار کے زور سے یا سر پھوڑ کر یا ایٹم بم استعمال کر کے یا اس سے بھی زیادہ مہلک ہتھیار، جو آج انسان ایجاد کر رہا ہے، اس کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خدا تعالی، جو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے، اس سے دعائیں کر کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جنہوں نے ہمارے لئے 552
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1978ء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ (الشعراء: 04) کا اسوہ چھوڑا ہے، اس اسوہ پر عمل کرتے ہوئے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی ہیں ، قیامت تک کے لئے.آپ " کی قوت قدسیہ اور روحانی فیضان بنی نوع انسان کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ آپ کے قدموں پر جمع ہوں اور آپ کے فیوض سے حصہ لیں.پس آپ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر بھی فضل کرے اور رحم کرے اور اپنے پیار سے ہمیں نوازے اور ہماری غلطیوں کو معاف فرمائے اور ہمیں آئندہ کی غلطیوں سے بچائے.اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جو فریضہ ہم پر عائد کیا گیا ہے، ہمیں اسے مادی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی پوری طرح اور کامل طور پر نبھانے کی توفیق عطا کرے.اور ہمیں توفیق دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھاٹھیں مارنے والے پیار کے سمندر میں سے ہم اپنے برتن بھرمیں اور اس پیاسی دنیا کے منہ کے ساتھ جا کر لگا ئیں.اور اس پیار کے نتیجہ میں ان کے دلوں کو خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے میں کامیاب ہوں.اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.ب آپ جائیں گے، خدا تعالیٰ سفر و حضر میں آپ کا ناصر ہو اور محافظ ہو اور آپ اس کی پناہ میں رہیں.اور آپ کو وہ ہر شر سے محفوظ رکھے اور ہر خیر میں آپ کو حصہ دار بنائے.آپ کو دنیا پر احسان کرنے والا وجود بنائے، دنیا کا خادم بنائے، فسادات کو دور کرنے والا بنائے، فساد سے بچنے والا بنائے.اور آپ دنیا پر یہ ثابت کریں کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر جوذ مہ داری ڈالی تھی ، خدا نے پھر اپنے فضل سے یہ توفیق بھی دی کہ ہم نے اس کو نباہ لیا.اور جب ہم اپنے فرائض پورے کر کے مریں تو خدا تعالیٰ ہم سے غصے نہ ہو اور ناراض نہ ہو.بلکہ ہم سے پیار کرنے والا ہو اور ہم اس کی رضا کی جنتوں میں جانے والے ہوں.اللهم امین“.مطبوعه روز نامه افضل 28 جنوری 1979ء) ( روزنامه 553
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ ماریشس نئی نسل کی فعال شرکت کے بغیر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ ماریشس منعقد 30, 2 دسمبر 1978ء (حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمه الله تعالیٰ کے پیغام کا اردوترجمہ درج ذیل ہے.) بسم الله الرحمان الرحيم پیارے بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت مسرت ہوئی ہے کہ آپ دسمبر کے پہلے ہفتہ میں اپنی سالانہ کا نفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں.اس اہم موقع پر جماعت کو اس امر کا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کہاں تک کامیاب ہوئی ہے اور کس قدر کام ابھی باقی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ساری انسانیت کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے مبعوث کیا ہے.یہ ایک عظیم کام ہے.ظاہر ہے کہ اس قدر عظیم الشان عالمی انقلاب کو ایک دو دن میں بر پانہیں کیا جاسکتا.اس مہتم بالشان مقصد کے لئے ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کی سنجیدہ اور مسلسل قربانیاں درکار ہیں.اس بارہ میں دوامر نہایت اہم ہیں.پہلا امر یہ ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو ان ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا چاہیے، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے کندھوں پر عائد کی ہیں.نئی نسل کی فعال شرکت کے بغیر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.ہمیں قوم کے مستقبل کے معماروں کی بہترین رنگ میں عقلمندی کے ساتھ تربیت اور تعلیم کرنی ہوگی.موجودہ دنیا کے زہر آلو داثرات اور خطرات سے ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے.بعض لوگ اپنے بچوں کی دنیوی تعلیم کے لئے سخت کوشاں ہیں.لیکن ان کی اخلاقی اور روحانی تعلیم و تربیت کے لئے بہت تھوڑی توجہ دیتے ہیں.ایسا کرنا، خود کشی کے مترادف ہے.بچوں کی دینی ، اخلاقی اور روحانی تعلیم کا انتظام کرنا، والدین اور جماعت کا مشترکہ فرض ہے.ہر احمدی بچہ اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ قرآن کو پڑھ سکے اور سمجھ سکے.ہر احمدی مرد اور عورت کو اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے فائدہ حاصل کر سکتا ہو.اس کے 555
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ ماریشس تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نو جوانوں کے اندر روح بلال پیدا ہو تو ہمیں محبت ، اخلاص اور فدائیت کے ساتھ اپنے نو جوانوں کی تعلیم وتربیت کے لئے انتہائی کوشش کرنی ہوگی.دوسرا امر یہ ہے کہ ہمارا اپنا رویہ اور طریق زندگی مثالی اور قابل ستائش ہونی چاہئے.جب ہم باہر جا کر اسلام کی خوبیوں کی تبلیغ کرتے ہیں تو لوگ ہمیں تنقید نہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں.اگر ہمارا کردار ہمارے قول کی تصدیق نہیں کرتا تو ہم لوگوں کے سامنے صرف خراب تاثرات پیدا کرنے والے ہوں گے.آج دنیا ہم سے ایسے معاشرہ کا مطالبہ کر رہی ہے، جہاں فی الحقیقت اسلام کی تعلیم پر عمل ہو رہا ہو.ایسا معاشرہ پیدا کرنا، ہمارا فرض ہے.ہمارے روز مرہ کے افعال اور زندگی اس بات کا ثبوت ہونی چاہئے کہ ہم خدا سے ڈرتے ہیں.اور در حقیقت یہ دنیوی فوائد ہماری زندگی میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں.آپ اپنے ماحول پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ہر طرف بے انصافی نظر آئے گی.رنگ ونسل اور عقیدہ کے امتیاز نے ایک نہایت خطرناک صورت حال پیدا کر دی ہے.سائنس اور ٹیکنالوجی کی ظاہری ترقی کے باوجود انسان کا ذہن سکون کی دولت سے محروم ہے.ہم نے اس صورت حال کو درست کرنا ہے.اور یہ حض محبت، پیار، قربانی ، دعاؤں سے اسلام کی تبلیغ کے ذریعے ممکن ہے.دعا ہے کہ مولا کریم ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی طاقت اور عزم ہمیں عطا فرمائے اور ہم سب کو راہ مستقیم پر قائم رکھے اور ہمیں ان مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، جن کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث فرمائے گئے.آمین ( دستخط) مرزا ناصر احمد 556 خليفة المسيح الثالث ( مطبوعه روزنامه الفضل 28 فروری 1979ء)
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام فرمودہ 03 دسمبر 1978ء ہماری روحانی آنکھ حالات کے افق پر غلبہ اسلام کے آثار کو دیکھ رہی ہے پر پیغام فرمودہ 03 دسمبر 1978ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان برادران جماعت بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته قادیان کی مقدس بستی میں آپ پھر ایک مرتبہ جمع ہوئے ہیں تا کہ ایک دوسرے سے مل کر تعارف حاصل کر سکیں اور محبت اور اخوت کے بندھنوں کو اور زیادہ مضبوط کر سکیں.یہ جلسہ مسیح موعود علیہ السلام نے اذن الہی سے جاری فرمایا.اور اس میں شریک ہونے کی نہ صرف تاکید کی بلکہ یہ لکھی سفر اختیار کرنے والوں کے لیے بہت دعائیں فرمائیں.پس یہ ایام بڑے بابرکت ہیں، ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.جہاں تک ممکن ہو، اپنا وقت ذکر الہی میں گزار ہیں.اور دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالی کی توحید دنیا میں قائم ہو اور اس کے پاک کلام قرآن مجید اور مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عظمت دلوں میں قائم ہو.دکھی انسانیت اسلام کے پر امن حصار میں داخل ہو کر سکھ کا سانس لے اور سب بنی نوع انسان یک زبان ہو کر اپنے خالق و مالک کی حمد کے ترانے گانے لگیں.آج سے نوے برس قبل قادیان ایک کور یہ تھا اور دنیا کی نظروں سے مستور.پھر وہ زمانہ بھی کلجگ تھا، جس میں ہر طرف فسق و فجور اور معصیت کا زور تھا.ایسے وقت میں الہی بشارتوں کے مطابق اس گمنام بستی میں موعود کل ادیان کا ظہور ہوا.اس نے توحید کی صدا بلند کی اور اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ سب قوموں کوملت واحدہ بنا دے اور اسلام کی پر امن تعلیم کے ذریعہ سب تفرقوں کا خاتمہ کر دے.بظاہر وہ ایک کمزور انسان کی آواز تھی.لیکن آسمان پر یہ مقدر تھا کہ اس کی قبولیت دنیا میں پھیلائی جائے.557
پیغام فرمودہ 03 دسمبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم مستور دلوں پر فرشتوں کا نزول ہوا اور وہ آواز سمندروں اور پہاڑوں کو چیرتی ہوئی دنیا کے کناروں تک پھیل گئی.نوے برس قبل جو شخص یکا و تنہا اور بے یارو مددگار نظر آتا تھا، آج ایک کڑور انسانوں کے دلوں میں اس کی محبت رچی ہوئی ہے.اور وہ اس کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنی جان و مال کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.جب سے زمین و آسمان بنے ہیں، ایسی تائید و نصرت الہی ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حاصل ہوئی کسی جعل ساز اور فریبی کو نصیب نہیں ہوئی.اس میں ہر اس شخص کے لئے ، جو اپنے رب کا پیار حاصل کرنا چاہتا ہے، ہدایت کا بہت کچھ سامان موجود ہے.اس وقت میں آپ کی توجہ دو، تین امور کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں.قرآن کریم کی آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، بزرگان امت کے کشوف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر غور کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی ( جواب سے دس، گیارہ سال بعد شروع ہونے والی ہے.) انشاء اللہ تعالیٰ دنیا میں غلبہ اسلام کی صدی ہوگی.اس صدی کا استقبال کرنے کے لئے ہماری جماعت پر چند ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.جنہیں کسی حد تک پورا کرنے کے لئے میں نے صد سالہ جوبلی کے منصوبے کا اعلان کیا تھا.اور بتایا تھا کہ اس کے ذریعے ہم نے ہر ملک میں مساجد اور مشن ہاؤس قائم کرنے اور قرآن مجید کے تراجم کو دنیا بھر میں پھیلا نا ہے.ہر ملک کی سعید روحیں ہم سے مطالبہ کر رہیں ہیں کہ ہم ان کے سامنے اسلام کی حسین تعلیم کو پیش کریں اور تراجم قرآن کریم ان کے لیے مہیا کریں.جب ہم علی وجہ البصیرت اس ایمان پر قائم ہیں کہ ہمیں خدا نے غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے تو پھر ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی طاقت کے مطابق اس بارے میں ہر ممکن کوشش کریں.اور قربانی کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھیں.ضرورت کے لحاظ سے ہماری کوشش میں جو کمی رہ جائے گی ، وہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خود پوری کر دے گا.یہ بھی یادر ہے کہ غلبہ اسلام کی مہم کو چلاناکسی ایک نسل کا کام نہیں.اس کے لئے ہمیں نسلاً بعد نسل قربانی دینی ہوگی.اور یہ کام سرانجام نہیں دیا جا سکتا، جب تک کہ ہم اس امر کے لئے پوری توجہ سے اپنی اولادوں کی دینی تعلیم و تربیت کا انتظام نہ کریں.ہمیں خود بھی قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنا اور اس کے مطالب اور معارف سے آگاہی حاصل کرنی چاہئے اور اپنے اہل وعیال میں بھی اس کا ذوق پیدا کرنا چاہئے.558
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام فرمودہ 03 دسمبر 1978ء روزانہ تلاوت با ترجمہ کی جائے اور گھروں میں درس کا سلسلہ جاری کیا جائے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب، وہ روحانی خزائن ہیں، جن میں قیامت تک کی ضرورتوں کی تفصیلی یا اجمالی تفسیر موجود ہے، جن میں ہمیں نور فراست اور ہماری عقلوں کو جلا ملتی ہے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ احباب ان روحانی خزائن کو پڑھتے رہا کریں.اس طرف دوستوں کی اتنی توجہ نہیں، جتنی ہونی چاہیے.جس قدر ہم ان کتب کا مطالعہ کریں گے ، اسی قدر ہماری معرفت اور روحانیت ترقی کرے گی.یہ یادر ہے کہ جب ہم غلبہ اسلام کی بات کرتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اس کے لئے ہمیں کسی جنگ و جدل اور توپ و تفنگ کی ضرورت ہے.قرآن کریم مسلمانوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ تمہیں خدا نے اس لئے منتخب کیا ہے کہ تم ساری دنیا کی بھلائی اور فائدے کے لئے پیار و محبت سے کوشاں رہو.اور سب کے لئے اپنے دل میں خیر خواہی کے جذبات رکھو اور انہیں نیک باتوں کی تلقین کرو اور برائیوں سے روکو.پس جماعت احمدیہ کی جو اس زمانہ میں حقیقی اسلام کا عملی نمونہ پیش کر رہی ہے ، ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی سے دشمنی نہیں رکھتی بلکہ ہر ایک کی ہمدرداور خیر خواہ ہے.وہ اس یقین پر قائم ہے کہ محبت و پیار سے لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں اور جیتے جا رہے ہیں.پیار و محبت میں وہ طاقت ہے، جو توپ و تفنگ میں ہرگز نہیں.ہماری جماعت کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ہم امن پسند لوگ ہیں.کبھی قانون شکنی نہیں ہم پند کرتے کسی رنگ میں بھی فساد میں حصہ نہیں لیتے.اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ پر پوری طرح کار بند رہتے ہیں.یعنی جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھتے ہیں، وہاں حکومت وقت سے تعاون اور اس کے قوانین کی پابندی بھی ضروری سمجھتے ہیں.کیونکہ اس کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا.پس اے عزیزو! اس امر کو یا درکھو کہ ہمارے خدا کو عاجزانہ راہیں پسند ہیں.ہمارے دلوں میں کبھی تکبر اور فخر کے جذبات پیدا نہ ہوں.ہمیں اپنی عملی زندگی میں اسلام کی تعلیم کا نمونہ بنا اور فساد کی راہوں سے بچتے ہوئے، مخلوق خدا کی بھلائی اور بہبود میں دل وجان سے کوشاں رہنا چاہیے.ہماری 559
پیغام فرمودہ 03 دسمبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم روحانی آنکھ حالات کے افق پر غلبہ اسلام کے آثار کو دیکھ رہی ہے.لیکن اس کے لیے ہمیں بہر حال قربانیاں دینی ہوں گی.اپنے اموال اور اوقات کو قربان کرنا ہوگا اور عاجزانہ اور متضرعانہ دعائیں کرنا ہوں گی.صرف اسی طریق سے دنیا خدائے واحد کو اور اپنے محسن اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان کر اسلام کے جھنڈے تلے امت واحدہ بن سکتی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں کو سمجھنے ، یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.والسلام مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث 03/12/78 ( مطبوعه روزنامه الفضل مورخہ 25 جنوری 1979 ء ) 560
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1978ء ساری دنیا میں تو حید کے قیام تک ہم اپنی جد و جہد کو جاری رکھیں گے خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1978ء بر موقع جلسہ سالانہ حضور انور نے فرمایا:." قرآن کریم نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو استعداد میں انسان کو عطا کی ہیں، ان کی کامل نشو و نما کے لئے جن ذرائع کی ضرورت ہے، انہیں اختیار کیا جانا چاہئے.چنانچہ جہاں تک جسمانی ضرورت کا تعلق ہے، مرکز سلسلہ میں رہنے والے ان تمام کارکنوں کی ، جو مرکزی اداروں میں کام کرتے ہیں، ہم اپنی محدود طاقت کے مطابق مدد کرتے ہیں.چنانچہ سال بھر کی گندم کی ضرورت کا اندازہ لگا کر ہم اس ضرورت کا نصف حصہ مفت کارکنوں کو مہیا کرتے ہیں اور بقیہ ضرورت کے لئے انہیں قرض کی سہولت بہم پہنچاتے ہیں.علاوہ ازیں موسم سرما کی ضروریات کے لئے فی کس 75 روپے کی رقم یکمشت بھی دے دیتے ہیں.تاہم ہمیں یہ احساس ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اس دور میں یہ مدد بہت ہی ناکافی ہے.بہر حال ہم اپنی استطاعت کے مطابق نہ صرف سلسلہ کے کارکنوں کی بلکہ مستحقین کی بھی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مساجد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.”امسال غانا، انڈونیشیا، مشرقی افریقہ اور نجی میں جونئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں، ان کی تعداد 25 ہے.ان میں سے 15 مساجد صرف غانا میں نئی تعمیر ہوئی ہیں.چنانچہ اب صرف غانا میں احمد یہ مساجد کی تعداد دوصد تک پہنچ چکی ہے.سیرالیون اور سری لنکا میں بھی مساجد تعمیر ہوئی ہیں.کینیڈا میں ایک وسیع قطعه زمین مسجد کے لئے حاصل کر لیا گیا ہے.تراجم قرآن پاک کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.افریقہ میں سواحیلی اور یورو باز بانوں میں قرآن پاک کے تراجم شائع ہوئے اور بہت مقبول ہوئے.انڈونیشین زبان میں بھی قرآن کریم کے چند پاروں کا ترجمہ چھپ چکا ہے.نائیجیریا میں ہاؤس زبان میں ترجمہ کا کام شروع ہو چکا ہے.وہاں پر ہر سال قرآن مجید کی جو نمائش منعقد ہوتی ہے، وہ بھی خدا 561
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کے فضل سے بڑی کامیاب رہتی ہے.سال کے دوران مختلف ممالک کے متعد وسعید الفطرت روحوں کو اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی.الحمد للہ.حضور نے حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات کے موضوع پرلندن میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک بڑا اہم واقعہ ہے، جو سال کے دوران ہوا.عیسائی دنیا اپنے عقائد میں مگن سوئی پڑی تھی ، ہماری اس کا نفرنس نے اسے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے.چنانچہ عیسائی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی.انہوں نے ہماری تبادلۂ خیالات کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے.اس کانفرنس کے نتیجہ میں یورپ کی ایک فرم کے اندازہ کے مطابق دنیا کے چودہ کروڑ انسانوں تک ہماری آواز پہنچ گئی.جبکہ جنوبی امریکہ اور بعض دیگر ممالک اس اندازہ میں شامل نہیں.صرف جاپان میں ہی 64 خطوط یا مضامین اخبارات میں اس موضوع پر شائع ہو چکے ہیں.الغرض اس بارہ میں ہمارے موقف کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسیع اشاعت ہوئی ہے اور اس مسئلہ میں ایک نئی زندگی پیدا ہوگئی ہے.ہم اپنی جدو جہد کو جاری رکھیں گے اور چین نہ لیں گے، جب تک کہ ساری دنیا میں توحید قائم نہ ہو جائے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع نہ ہو جائیں.اگر ہم اپنی استطاعت کے مطابق کام کرتے چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ پھر اپنی شان کے مطابق اس میں برکت عطا فرمائے گا“.صد سالہ جوبلی کی مبارک تحریک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.اس تحریک کی یہ برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گوشن برگ ( سویڈن ) میں ہمیں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرنے کی توفیق دی.اس سال لندن میں جو بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی اور پھر حضرت مسیح کی صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں کانفرنس میں پڑھے جانے والے جو مقالہ جات کتابی صورت میں شائع ہوئے ، ان سب کے اخراجات اسی تحریک کے ذریعے پورے کئے گئے ہیں.مطبوعه روزنامه الفضل 28 دسمبر 1978ء) 562
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم پیغام بر موقع جلسه سالانہ جماعت احمد یه اند و نیشیا اسلام کا عالمگیر غلبہ کسی ایک نسل کی قربانی پر موقوف نہیں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا منعقدہ 29تا31 دسمبر 1978ء برادران جماعت ! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ کا جلسہ سالانہ 31, 30, 29 دسمبر کو منعقد ہورہا ہے.خدا کرے، یہ اجتماع ہر پہلو سے با برکت اور مفید ہو اور جماعت میں نیا ولولہ اور نئی روح پیدا کرنے کا موجب ہو.آمین جماعت ہائے احمد یہ انڈونیشیا کا یہ سالانہ اجتماع ، جو مرکز سلسلہ سے ہزار ہا میل دور ہو رہا ہے، اسلام کی حقانیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے.آج سے چودہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو یہ مژدہ سنایا تھا کہ آخری زمانہ میں جبکہ اسلام پر ایک ضعف کی سی کیفیت طاری ہوگی ، ایک فارسی الاصل شخص کے ذریعہ دین متین کے لئے پھر تر و تازگی کے دن آئیں گے اور روحانیت کا مشرق و مغرب میں انتشار ہوگا.اس پیشگوئی کے مطابق تیرہویں صدی ہجری کے اواخر میں قادیان کی گمنام بستی سے ایک خلوت پسند شخص کی آواز تائید حق میں بلند ہوئی اور کہنے والے نے دعوئی بھی یہ کیا کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دے گا.اس کی پہلی وحی میں ہی یہ خوشخبری دی گئی تھی کہ وقت آتا ہے کہ جب بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.بھلا ایک انسان خواہ وہ کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہو، ایسا دعویٰ کر سکتا ؟ اور اس کے مطابق دلائل کے میدان میں معجزہ نمائی کے میدان میں قبولیت دعا کے میدان میں ، اسلام کے غلبہ کو بغیر تائید ایزدی کے ثابت کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.انسانی عقل اس کو قبول ہی نہیں کرسکتی.اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ کی تائید کے لئے آسمان اور زمین میں نشانات ظاہر کئے اور اس کے فرشتوں نے دلوں میں داخل ہو کر آپ کو لبیک کہنے کی سعادت بخشی.یہ خدا کا بڑا فضل ہے کہ اتنے دور 563
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم بیٹھے ہوئے ، آپ کو امام الزماں کی شناخت کی توفیق ملی.اس فضل کے ساتھ آپ پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں ، جن کی طرف میں اس وقت آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی، جواب سے دس گیارہ سال بعد شروع ہونے والی ہے، انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کی صدی ہوگی.اس کے استقبال کے لئے میں نے جماعت احمدیہ کے سامنے صد سالہ جوبلی کا منصوبہ رکھا تھا.اس منصوبے کے تحت ہم نے ہر ملک میں مساجد اور مشن ہاؤس تعمیر کرنے ہیں اور قرآن کریم ک تراجم کو دنیا بھر میں پھیلانا ہے.سائنسی علوم کی ترقی کے باوجود دنیا سے امن وسکون کی فضا مفقود ہے.یہ سکون و راحت اسلام کی پر امن تعلیم ہی سے میسر آسکتا ہے.ہمارا فرض ہے کہ اس حسیں تعلیم کو محبت اور پیار مگر پوری توجہ اور دلسوزی سے دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچادیں.تاکہ سب کالے اور گورے اور مشرق اور مغرب میں بسنے والے امت واحدہ بن کر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو سکیں.اور توحید باری تعالیٰ کی شیریں آواز زمین کے چپہ چپہ سے بلند ہونے لگے.اس کے لئے ہمیں اپنا مال ، اپنا وقت، اپنے آرام کی قربانی دینی ہوگی.تاکہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کی پیش گوئی اپنی پوری شان سے پوری ہو سکے.دوسری بات اس ضمن میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ محض نعروں سے دنیا میں کوئی دیر پا انقلاب پیدا نہیں کیا جاسکتا.اسلامی نظام کا نعرہ تو ہر زبان پر ہے لیکن دنیا اس نظام کا عملی نمونہ دیکھنا چاہتی ہے.خدائے تعالیٰ نے اس کام کے لئے اس زمانہ میں آپ کو منتخب کیا ہے.اور یہ موقع عطا کیا ہے کہ آپ دنیا کے لئے عملی زندگی ، تقویٰ اور طہارت، صداقت و دیانت اور ہمدری اخلاق کا نمونہ بنیں.لہذا آپ کو ہر آن یہ غور کرنا ہو گا کہ آپ کا گھر، آپ کا ماحول، آپ کا دوسروں سے سلوک ، اسلامی تمدن اور اسلامی معاشرہ کا نمونہ پیش کرتا ہے.یہ کام کما حقہ سرانجام نہیں دیا جا سکتا ، جب تک کہ پوری توجہ کے ساتھ اپنے اہل خانہ اور اپنی اولادوں کی صحیح طریق پر تعلیم و تربیت کا معقول انتظام نہ کیا گیا ہو.ہمیں محض اس بات سے مطمئن نہیں ہونا چاہئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان لیا ہے.اسلام کا عالمگیر غلبہ کی ایک نسل کی قربانی پر موقوف نہیں.اس کے لئے نسلاً بعد نسلاً اور مسلسل اور پیہم جد و جہد کی ضرورت ہے.564
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا پس میں آپ سے کہتا ہوں کہ خود بھی قرآنی علوم سے آگاہ ہوں اور اپنی اولا دوں کو بھی اس نعمت سے بہرہ ور کرنے کی پوری کوشش کریں.کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام روحانی مائدہ سے لبریز ہیں، ان کے مطالعہ کو اپنے روزمرہ کے پروگرام کا ایک ضروری جزو بنا ئیں.اور اپنے گھروں میں درس و تدریس کا سلسلہ پوری توجہ اور التزام کے ساتھ جاری کریں.اسلام کا غلبہ تو آسمان پر مقدر ہو چکا ہے.وہ تو بہر حال ہوکر رہے گا.لیکن وہ لوگ ، جو خدمت دین کا سنہری موقع ملنے کے باوجود دنیا کے اشغال میں منہمک رہ کر اس نعمت سے محروم رہ جائیں، ان کی بد قسمتی سے کیا شبہ کیا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی محبت و پیار سے نوازے.اور اپنے فضل سے اس امر کی تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی زندگیاں اعلائے کلمہ اسلام اور رضائے الہی کے حصول میں گزارنے والے ہوں.اور ہماری اولادیں اور نسلیں اس رنگ میں رنگین ہوں، جس کو قرآن کریم صبغۃ اللہ قراردیتا ہے.(امین) والسلام ( دستخط ) مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث ( مطبوعه روز نامہ افضل 15 اپریل 1979ء) 565
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 02 اپریل 1978ء احمدیوں میں مخلص علم دین سے واقف ،سوز بانوں کے ماہر ہونے چاہئیں ارشاد فرمودہ 102 اپریل 1978ء برموقع مجلس شوریٰ دوسری تجویز ہے کہ جامعہ احمدیہ میں انگریزی اور عربی زبان میں گفتگو کرنے کا ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ فارغ التحصیل طلباء ان دونوں زبانوں میں اپنا مافی الضمیر کما حقہ ادا کرسکیں.ویسے انگریزی وہاں ڑھائی جاتی ہے اور عربی تو بہت پڑھائی جاتی ہے.اور عربی زبان میں میرا خیال ہے کہ سارے تو نہیں لیکن خاصی تعداد ہر سال ایسے طلباء کی نکلتی ہے، جو عربی زبان میں گفتگو کر سکتے ہیں.آگے مشق تو کرنی ضروری ہے.اگر ان کو مشق کا موقع ملے.کیوں میر محمود احمد صاحب ! آپ کتنی عربی پڑھالیتے ہیں، اچھے لڑکوں کو، جو عربی کا شوق رکھنے والے ہیں؟ ( اس پر مکرم میر محمود احمد صاحب نے عرض کیا کہ جامعہ پاس کرنے والے لڑکوں میں سے قریباً 33 فیصد لڑ کے بے تکلفی سے عربی میں بات کر سکتے ہیں.) ہاں یہی میں نے کہا ہے کہ ایک ایسا حصہ ہے، جو عربی زبان میں بات کر لیتے ہیں.یہ بڑا اچھا ہے، اگر 33 فیصد ہو جائے.اور جو انگریزی کی بات ہے، اس کے متعلق جو میر اعلم ہے، وہ یہ ہے کہ بعض طبیعتوں کا میلان ہوتا ہے، کسی ایک زبان کی طرف بعض کا نہیں ہوتا.یا شوق ہوتا ہے.میلان کے علاوہ ایک چیز شوق بھی ہے.انگریزی بولنے کا شوق ہو تو وہ انگریزی بھی بول لیتے ہیں.ویسے زبان سیکھنے کا ایک گر ہے.جب یہاں سے عطاء المجیب کولندن میں مبلغ بنا کے بھیجا گیا تو میں نے انہیں جاتے ہوئے ایک نصیحت کہ بلکہ ایک حکم دیا.میں نے انہیں کہا کہ میرا حکم یہ ہے کہ تم لندن جا کے غلط انگریزی بولو گے اور گھبراؤ گے نہیں.اور انہوں نے اس حکم پر عمل کیا.یعنی یہ خیال ہی نہیں کیا کہ میں صحیح بول رہا ہوں یا غلط.بولنی شروع کر دی اور آہستہ آہستہ انگریزی کے بڑے اچھے مقرر بن گئے.تو جو شخص گھبراتا ہے ،shy ہو جاتا ہے، وہ سیکھ نہیں سکتا.تو ہائیڈ پارک میں جا کر غلط سلط انگریزی میں اپنا مفہوم ادا کرنے کی مشق کرنی چاہیے.بات یہ ہے کہ جو اچھا انگریزی دان، مثلاً پاکستان سے انگریزی کا پاکستانی سکالر انگلستان جاتا ہے تو جب وہ انگریزی میں گفتگو کرتا ہے تو انگلستان کے نانوے فیصد انگریز ویسی اچھی انگریزی نہیں بول رہے 567
ارشاد فرمودہ 02 اپریل 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ہوتے.اور وہ جو یہاں آکے اردو سیکھتے ہیں، اس سے زیادہ ہم لوگ انگریزی سیکھ جاتے ہیں.وہاں یہ ہے کہ جو دس لفظ اردو کے بولے تو انگریز اگر آپس میں بیٹھے ہوئے ہوں تو وہ اس کو appreciate کر رہے ہوتے ہیں.لیکن یہاں یہ گندی عادت ہے کہ اگر سولفظ انگریزی کے ہمارے ملک میں اپنی مجلس میں بولے اور ایک سو، ایکویں تلفظ میں غلطی کر جائے تو اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں.اور ایسا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ بیچارہ پھر ایک سو دو میں لفظ پر آتا ہی نہیں.وہیں ختم ہو جاتا ہے.اس کا full stop لگ جاتا ہے.تو بنیادی طور پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر زبان غلط بولنے سے آتی ہے.اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ہر زبان کو سب سے پہلے اس ملک کا بچہ سیکھتا ہے.انگریز کا بچہ انگریزی سیکھ رہا ہے، جرمن میں رہنے والا بچہ جرمن سیکھ رہا ہے، ہمارا پاکستان میں رہنے والا اردو یا پنجابی یا پشتو یا سندھی یا بلو چی سیکھ رہا ہے.اور ہر بچہ شروع میں غلط زبان بولتا ہے، تب جا کے سیکھتا ہے.اگر بچے کے اوپر بھی آپ یہ قدغن لگا دیں کہ یہ صحیح فقرہ ہے، بولنا ہے تو بولو، ورنہ چپ رہو تو وہ بھی بھی زبان نہ سیکھے.اس واسطے زبان سیکھنے کا اصول ہی یہ ہے کہ وہ غلط بولی جائے.پھر وہ خود بخود بیج ہو جاتی ہے.لیکن ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے.پس اگر انگریزی اور عربی بولنے والے جامعہ کو دے دیئے جائیں یا ان کو میسر آجائیں ، یعنی اگر ہماری خواہش بھی ہو اور کوئی آدمی نہ ملے تو مشکل پڑ جائے گی کہ جو ان کے ساتھ انگریزی اور عربی بولیں.یعنی بولیس ہی انگریزی اور عربی.جو عربی بولنے والا ہے، وہ عربی بولے.جو انگریزی بولنے والا ہے، وہ انگریزی بولے تو وہ عام روز مرہ کی زبان بڑی جلدی سیکھ سکتے ہیں.زبانوں کے دو حصے ہیں.ایک روزمرہ کی زبان ہے، بول چال میں.اور اس کے لئے دنیا کے چوٹی کے ماہر دماغوں نے یہ تجربہ کیا ہے کہ تین کو رسزان کے لئے کافی ہیں.پہلا کورس دوسو الفاظ کا ہوتا ہے.دوسو لفظ بہت ساری ضرورتیں پوری کر جاتے ہیں، روزمرہ کی زندگی میں.اور دوسرا کورس پانچ سوالفاظ کا.اور تیرا کورس ایک ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے.اور اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اب عام بول چال کے لئے مزید زبان کی ضرورت ہی کوئی نہیں رہی.پھر وہ خود ہی فقرے بول بول کے سیکھتے چلے جاتے ہیں.یعنی وہ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں.میں نے ایک کورس اس قسم کا منگوایا تھا، وہ غالباً عربی کا تھا.میر محمود احمد پستہ کر لیں کہ وہ کہاں کیا ہے؟ یہ جو دنیا دار لوگ ہیں، ان کی دنیوی روز مرہ کی جو بول چال ہے، اس کے متعلق میں بات کر رہا ہوں.باقی تو جو علمی زبان ہے، یہ دوسری قسم کی زبان ہے ناں.جو بول چال کی زبان سے مختلف ہے.مثلاً ایک آپ کو زبان سیکھنے کا لطیفہ سنادوں.جرمن زبان ہمارے لئے بونی آسان ہے، اس کا تلفظ بڑا آسان ہے.جو حروف لکھتے ہیں، اس کے مقابلے میں آواز بھی ہے.فرانسیسی کی طرح نہیں ہے کہ 568
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 02 اپریل 1978ء ہے.لکھیں گے ، Paris ( پیرس ) اور بولیں گے، پاری.گو یا لکھنے اور بولنے کا بڑا فرق ہو گیا.لیکن جرمن زبان میں اس طرح نہیں ہوتا.دوسرے جرمن زبان میں a کا ایک pronunciation ( تلفظ ) ہے.انگریزی زبان میں غالباً تین، چار ہیں.ایک ہی آ بھی آتا ہے، at آے بھی آ گیا، able ابھی آ گیا.یعنی اس کی sound مختلف ہو جاتی ہے.جرمن زبان میں ہر vowel کی ایک sound ہوتی ہے.اس واسطے اس کی بول چال بڑی جلدی آجاتی ہے.ایک دفعہ چھٹیوں میں، میں جرمنی میں پھر رہا تھا.میں نے پندرہ دن میں اتنی زبان سیکھ لی کہ آسانی سے بات کر سکتا تھا.جرمن زبان کا تلفظ بھی مشکل نہیں ہے.اگر میں کسی سے کوئی فقرہ بول لیتا تھا تو وہ سمجھتا تھا، مجھے بڑی زبان آتی ہے.تو لگ پڑتا تھا اڑ اڑ کر کے بات کرنے اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی.لیکن جہاں تک زبان کے لحاظ سے اس کی علمی حیثیت کا تعلق ہے، جرمن زبان کا یہ اصول ہے کہ اس میں لفظ سے لفظ جوڑتے چلے جاتے ہیں.بیچ میں وقفہ نہیں ڈالتے.میں نے چند ہفتے میونخ یونیورسٹی میں غیر ملکیوں کا ایک کورس attend کیا تھا.مجھے وہاں ایک پروفیسر نے کہا یہ دیکھو، ہماری زبان کا قصہ.سوا صفحے کا ایک لفظ ہے، جسے جوڑ جوڑ کے بنایا گیا ہے.یعنی ایک لفظ کی صفح کے شروع سے ابتداء ہوئی اور وہ صفحہ ختم ہو گیا لیکن لفظ نہیں ختم ہوا.پس جہاں تک علمی زبان کا تعلق.اس میں آکر مشکل پیدا ہو جاتی ہے.پس ہمارے جامعہ احمدیہ میں کم از کم بول چال کی جو زبان ہے، وہ ان کو کھا دینی چاہیے.لیکن علمی زبان کے لئے تو پھر بہت محنت کرنی پڑتی ہے، بہت محنت کرنی پڑتی ہے.علمی زبان کی الجھن کا تو یہ حال ہے کہ ہم نے فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کروایا.وہ ایک جگہ سے کروایا.وہ چھپنے کے قریب تھا کہ دوسری جگہ سے اعتراض ہو گیا کہ ترجمہ ٹھیک نہیں.ہم نے پھر ان سے کروایا.پھر تیسری جگہ سے اعتراض ہو گیا کہ ترجمہ ٹھیک نہیں.اب میرے خیال میں پانچویں دفعہ کوشش ہورہی ہے کہ اس ترجمے کو درست کر دیا جائے.پس علمی زبان کا تو یہ حال ہے.کسی نے مشورہ دیا کہ نہیں یہ تو اس کا صحیح مفہوم نہیں ادا ہوتا.یہ idiomatic فریج نہیں ہے.پڑھنے والوں پر اثر یہ پڑے گا کہ ترجمہ اچھا نہیں کیا گیا وغیرہ وغیرہ اور بہت سارے اعتراضات آگئے.اس لئے میں خاص وجہ سے یہ بات کر رہا ہوں.ہمارے لئے ، جنہوں نے اگلے چالیس، پچاس سال میں قرآن کریم کے تراجم شائع کرنے ہیں، یہ مسئلہ خاصی اہمیت کا حامل ہے.کچھ حصے تو پہلے مکمل ہو جائیں گے.یعنی غلبہ اسلام کی صدی شروع ہونے سے قبل بھی ہم نے کچھ ترجمے شائع کروانے ہیں، کچھ بعد میں ہوں گے.سوزبانوں میں ترجمہ کروانا 569
ارشادفرمودہ 02اپریل1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم ہے.صد سالہ جو بلی کا منصوبہ جو ہے، اس میں سو زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت کا کام ہے.اور ہمارے لئے مشکل یہ ہے کہ ہم ذمہ داری نہیں لے سکتے کہ ایک عیسائی اور دہریے کے کئے ہوئے ترجمے کو قبول کر کے اسے شائع کر دیں.اور اگر وہ غلط ہو تو ذمہ داری تو ہمارے اوپر آگئی ناں.ہم نے اس کی اشاعت کی اجازت دے دی، اس پر پیسے خرچ کر کے اپنے نام پر دنیا میں اس کو پھیلا دیا.اس لئے ہمارے اندراحمد یوں میں ایسے مخلص، پڑھے لکھے علم دین سے واقف ، زبان دان ہونے چاہئیں.ایک سو زبانوں کے ماہر ہونے چاہئیں کہ جو خواہ ہم ترجمہ کہیں اور سے کروائیں، لیکن ان کے اندر کم از کم اتنی قابلیت ہو کہ وہ اس کی Revision کر سکیں کہ صحیح ترجمہ ہو چکا ہے اور اس کی صحت کی ذمہ داری لے لیں.اس کے بغیر تو یہ کام نہیں ہو سکتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم اوسطا یعنی پہلے شروع میں تو کچھ وقت لگے گا، ہر سال میں دوزبانوں کا ایک ماہر پیدا ہو جائے.اوسط سبھی بنتی ہے ناں.پچاس سال میں اگر سو زبانوں کے ماہر کرنے ہیں تو ہر سال میں دوزبانوں کے ماہر پیدا ہونے چاہئیں.بہر حال آپ انگریزی اور عربی کی طرف زیادہ توجہ دیں.ملک سیف الرحمن صاحب جامعہ احمدیہ کے پرنسپل ہیں، وہ اس کے متعلق منصوبہ بنائیں.ہمارے ایک نوجوان شاہد فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں.تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم آج کل کی جو فارسی ہے، اس کے مطابق تمہاری تعلیم چل رہی ہے؟ وہ بڑا اچھا ہوشیار مبلغ ہے، اللہ تعالیٰ اس کو برکت دے اور جلاء پیدا کرے، اس کے دماغ میں اور اس کے اخلاص کو مضبوط کرے، بڑا اچھا چل رہا ہے.وہ مجھے کہنے لگا کہ جس انسٹی ٹیوشن میں ، میں پڑھ رہا ہوں ، وہاں سوائے فارسی زبان کے اور کسی زبان میں بات ہی نہیں کی جاتی.ایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا.تو دو، تین سال میں اس نے زبان سیکھ لی ہے.لیکن ابھی اور آگے ترقی کی ضرورت ہے.اسی طرح بعض ملکوں میں ہمارے نو جوان زبانیں سیکھ رہے ہیں.بعض زبانیں یہاں سیکھ رہے ہیں.کچھ ہم نے کوشش شروع کی ہوئی ہے زبانیں سیکھنے کی.لیکن بہر حال ہر زبان میں مہارت حاصل ہونی چاہئے.ایک ہمارے ایسے نوجوان ہیں، جو کسی سکول میں نہیں گئے.اور ان کو خدا تعالیٰ نے زبان سیکھنے کا ایسا ملکہ عطا فر مایا ہے کہ انہوں نے گھر بیٹھ کے روسی زبان بھی پڑھ لی اور فرانسیسی بھی ایک حد تک پڑھ لی اور سپینش زبان بھی ایک حد تک پڑھ لی اور اپنے خرچ پر.وہ پیسے والے ہیں، میں نے ان کے رشتہ داروں کو ، عزیزوں کو کہا تھا کہ ان کو خدا نے بڑا اچھا دماغ دیا ہے، یورپ میں بھیج دیں، وہاں مختلف زبانوں میں مہارت پیدا کریں.لیکن وہاں ان کو مشکل یہ پیش آگئی کہ جس ادارے میں داخل ہونا تھا، انہوں نے کہا کہ 570
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 02 اپریل 1978ء زبا نہیں تو بڑی اچھی تم سیکھ گئے ہو، اس لحاظ سے کہ اپنے گھر میں تم نے تعلیم حاصل کی ہے.لیکن ہم انگریزی میں پڑھاتے ہیں اور انگریزی کا تمہارا معیار وہ نہیں ہے، جو ہمارے طالب علم کا ہونا چاہئے.اس واسطے پہلے جا کر انگریزی پڑھو، پھر آ کے ہمارے پاس روسی زبان اور سپینش زبان اور فرانسیسی زبان سیکھنا.وہ اپنی انگریزی ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.بہر حال جو رستے میں روکیں ہیں، وہ اس لئے نہیں کہ ہم کھڑے ہو جائیں.بلکہ اس لئے ہیں کہ ہم ان کو پھلانگیں اور آگے نکلیں.ہم کسی مقام پر کھڑے ہونے کے لئے نہیں پیدا ہوئے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوگا.پس اس کے لئے بھی رائے لینے کی ضرورت نہیں ، بڑی اچھی تجویز ہے“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 31 مارچ تا 02 اپریل 1978ء ) 571
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 02 اپریل 1978ء ہم نے خدا تعالی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہر انسان سے پیار کرنا ہے "" خطاب فرمودہ 02 اپریل 1978ء بر موقع مجلس شوری قرآن کریم کی وسیع پیمانے پر اشاعت کے حوالے سے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.پس اس میں اب جماعت نے آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھایا ہے.جوں جوں جماعت کو توفیق ملتی گئی، وہ آگے بڑھتے چلے گئے.یہ اعداد و شمار میرے ذہن میں تھے.میں نے اب یہ نکلوائے ہیں.ممکن ہے، جلدی میں نکلوانے میں کچھ تھوڑ اسا فرق ہو گیا ہو.لیکن بنیادی طور پر اس میں کوئی فرق نہیں ہے.میری خلافت تک انگریزی اور ڈچ اور جرمن اور سواحیلی تراجم قرآن کریم شائع ہو چکے تھے.علاوہ از میں بڑی Commnetary ہے اور تفسیر صغیر تحریک جدید نے شائع کی.تفسیر صغیر جو اس وقت چھپی ، ، صرف 53 ہزار نسخے چھپ کے شائع ہوئے ، میری خلافت تک.اور اس پر قریباً 12 سال کا عرصہ گزر چکا ہے.اس عرصہ میں ایک لاکھ نوے ہزار نسخے جو ہیں، وہ طبع ہو کے دنیا میں جن کا اکثر حصہ تقسیم ہو چکا ہے.اور کچھ ابھی ماضی قریب میں شائع ہوئے ہیں.ان کی اشاعت ہورہی ہے.اور دوسرے یہ کہ میں نے تحریک کی.دو تحریکیں اس کے لئے ضروری ہیں، اشاعت قرآن کے لئے.ایک تو یہ ہے کہ کسی ایک فرد کو دیا جائے.یہ تو عام طریق ہے.وہ کچھ پڑھے گا.کوئی زیادہ پڑھے گا، کوئی کم پڑھے گا.اس طرح اشاعت ہو جائے گی.دوسرا یہ ہے کہ جہاں لوگ مجبور ہو جاتے ہیں کچھ نہ کچھ پڑھنے کے لئے.یعنی ہوٹلوں کے کمرے اور لائبریریاں ہیں.یہ تحریک شروع کی تو میرے خیال میں ہزاروں ہوٹلوں کے ہزاروں کمروں میں قرآن کریم انگریزی تراجم جو ہیں، یہ افریقہ میں اور میرے خیال میں کچھ حد تک امریکہ میں بھی انہوں نے رکھوائے ہیں.وہ جو میں نے پہلے ایک دفعہ بتایا تھا، ہمیں پتہ ہی نہیں تھا، ایک وفد میں سوڈان کے بہت بڑے افسر ایک بہت بڑے مشن کے اوپر لیگوس گئے.یہاں نہیں بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ احمدی ہیں، نہ کسی اور کو پتہ.وہاں لیگوس میں ہوٹل کے جس کمرے میں وہ ٹھہرے، رات کو فارغ ہوئے ، انہوں نے دیکھا ہر جگہ 573
اقتباس از خطاب فرموده 02 اپریل 1978ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم وہاں بائیل رکھی ہوئی ہے، کوئی پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا.بہر حال بائبل پڑی ہوئی ہے.ان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کوئی اور چیز ملے پڑھنے کے لئے.تو انہوں نے دیکھا قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ ہے.وہ کھول کے پڑھا.اس کے شروع میں دیکھا تو جماعت احمدیہ کے مشن نے اپنی مہر لگائی ہوئی تھی اور پستہ دیا ہوا تھا اور ٹیلیفون نمبر بھی دیا ہوا تھا.انہوں نے فون کیا.انہوں نے کہا، میں احمدی ہوں اور یہاں آیا ہوا ہوں.میرے پاس اتنا بڑا مشن ہے اور میں اتنا مصروف ہوں کہ مشن ہاؤس نہیں آسکتا.لیکن میری خواہش ہے، میں چاہتا ہوں، آپ مجھے ملیں تو ہمارے مبلغ وہاں کے دو، چار مقامی نائیجیرین احمدیوں کا وفد بنا کر ان سے جا کر ملے.وہ بڑے پیار اور بشاشت سے ملے.انہوں نے کہا، میرا تو باپ بھی احمدی ہے.میرے تو سارے بھائی بہنیں احمدی ہیں.اور اصل والد ہمارے احمدی ہوئے تھے.کہتے تھے، ان کو احمدیت سے بڑا عشق تھا.قرآن کریم کی جو تفسیر احمدیت پیش کرتی ہے، اس کے ذریعہ سے وہ احمدی ہوئے تھے.اور ہمارے اندرانہوں نے احمدیت کو اس طرح مضبوطی سے گاڑ دیا ہے کہ اب نو جوانی سے اس عمر کو میں پہنچا ہوں اور کوئی ملاپ نہیں رہا جماعت کے ساتھ.لیکن احمدیت ہمارے دلوں سے نہیں نکل سکتی.اور پھر خواہش ظاہر کی کہ کبھی موقع ملا پاکستان جانے کا تو مرکز کو بھی دیکھوں گا.اور وہ بڑے حیران تھے، کہتے تھے، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نائیجیریا میں مشن قائم ہو سکتا ہے اور یہاں جماعت قائم ہے.پھر انہوں نے سارے وہاں کے حالات معلوم کئے.اور یہ قرآن کریم وہاں رکھے جانے کی برکت تھی.پس یہاں لائبریریاں جو نہیں ان میں بھی قرآن کریم کے تراجم رکھوائیں گے.بعض ممالک میں بہت زیادہ لائبریریوں کا رواج ہے اور استعمال کرنے کا بھی.ہمارے ہاں تو لائبریریوں سے کتاب لے کر واپس نہ کرنے کا رواج ہے.لیکن ان ممالک میں لائبریری سے کتاب لے کر پڑھنے کا رواج ہے.پھر کتابیں واپس کر دیتے ہیں.مثلاً امریکہ ہے، بڑے شہروں میں تو ہر سٹریٹ میں کوئی نہ کوئی چھوٹی سی لائبریری ضرور ہوگی.پس یہ 53 ہزار کے قریب چھپے پہلے سے اور پھر اس میں جمع ہو گئے ، ایک لاکھ نوے ہزار.یہ ترقی کی طرف قدم تو ہے.لیکن یہ دنیا کی ضرورت کے مطابق تو نہیں ناں.انسانوں سے بھری ہوئی اتنی بڑی دنیا میں ایک لاکھ نوے ہزار تو کوئی چیز نہیں ہے.صرف امریکہ کے لئے میں نے ان کو یہ منصوبہ دیا ہے کہ اگلے دس سال میں ایک ملین قرآن کریم کے تراجم جو ہیں، وہ تم زیادہ تر لائبریریوں میں اور تعلیمی اداروں میں اور کچھ افراد میں بھی تقسیم کرو.ایسا منصوبہ بناؤ.اور میں امید کرتا ہوں اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.اور آپ بھی دعا کریں.574
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 02 اپریل 1978ء لیکن ایک ملین بھی کم ہے.اسی واسطے ہمارے لئے جو اصل چیز ہے، وہ یہ ہے کہ شروع میں کم از کم تین پریس کی ہمیں ضرورت ہے.تو اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں.انشاء اللہ وہاں امریکہ میں ایک کام شروع ہو جائے گا، پھر بڑھتا رہے گا.انگلستان میں بھی امید ہے، انشاء اللہ کام شروع ہو جائے گا.دوسرے دنیا کے بعض حصے ایسے ہیں، جن میں کتابیں بہت سستی شائع ہو رہی ہیں.بعض یورپ میں حصے ہیں، بعض ایشیاء کے حصے ہیں.یعنی انہوں نے Specialise کیا ہے، کتابیں چھاپنے میں.اور اتنی کثرت سے چھاپتے ہیں کہ طباعت کا خرچ جو ہے، وہ نسبتاً کم ہو گیا ہے.وہ بہت سستے داموں میں چھاپ دیتے ہیں.غانا کو میں نے انگریزی ترجمہ قرآن کی اجازت دی تھی.انگریزی کا ترجمہ قرآن ہانگ کانگ سے چھپوانے کا آرڈر دیا ہوا ہے.وہاں ہمارے ایک آدمی گئے ہوئے ہیں.اسی طرح ایک ایسٹرن یورپ کے ایک ملک میں طباعت کا بہت ستا انتظام ہے.پتہ نہیں وہاں کاغذستا ہے یا کیا وجہ ہے؟ بڑا اچھا کاغذ بھی وہ خود بناتے ہیں.کاغذ بنانے کی انڈسٹری بھی وہاں موجود ہے اور کتابت بھی کرتے ہیں.یعنی جو انگلستان میں خرچ چار پونڈ کا ہے کسی کتاب پر تو اس جگہ وہ ایک پونڈ سے بھی کم ہے.یعنی پچیس فیصد میں ہو جاتا ہے.تو وہ تلاش کر رہے ہیں کہ جب تک ہمارے پر یس کام کرنا شروع کریں، اس وقت تک ہمیں ایسے ذرائع کا پتہ لگ جائے ، جہاں سے ہم سستے شائع کر سکیں.اس میں دو فائدے ہیں.ایک تو جو خریدے گا، وہ مارکیٹ بڑی ہو جائے گی.یعنی زیادہ لوگ کم قیمت پر خریدنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.اور ہم زیادہ نسخے مفت تقسیم کرنے کے قابل ہو جائیں گے، اسی رقم میں.یعنی چار ہزار میں ایک ہزار نسخے تقسیم کرنے کی بجائے چار ہزار میں چار ہزار نسخے تقسیم کرنے کے قابل ہو جائیں گئے“.غلبہ اسلام کی مہم اور اس کے عروج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.وو پس ہر انسان سے ہم نے پیار کرنا ہے.اور یہ ہم نے اپنی طرف سے نہیں کرنا.یہ ہم نے اس خدا تعالیٰ کی طرف سے کرنا ہے، جس نے یہ فرمایا ہے کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ (الاعراف: 157) اور اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کرنا ہے، جن کے متعلق خدا نے گواہی دی ہے کہ آپ رحمۃ اللعالمین ہیں.اور ان کی نمائندگی میں ہر انسان کو یہ پیار دے کر خدا اور رسول کے لئے انسان کے دلوں کو جیتنا ہے.اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اس زمانہ میں یہ بات مقدر ہے کہ اسلام کے لئے دل جیتے جائیں گے.یا اپنے عروج کو جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے اندر اندر کوئی تاریخ ایسی آجائے گی کہ یہ 575
اقتباس از خطاب فرموده 2 10 اپریل 1978ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم تحریک اپنے عروج کو پہنچ چکی ہوگی.اس کے بعد بھی کام ہوں گے.تیسری صدی میں بھی کام کئے جائیں گے.لیکن غلبہ اسلام کی مہم اپنے عروج کو پہنچ چکی ہوگی.پھر تھوڑے تھوڑے اور کام اور کوششیں کرنی ہوں گی ، وہ جماعت کرے گی.پھر اس معاشرہ کو قائم رکھنا ہے، جس میں ایک خاندان کی طرح پیار کے اصول پر قائم رہنے والا معاشرہ ہے.دنیا اکثر ایک دوسرے سے پیار نہ کر کے تکالیف برداشت کرتی ہے.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم بنی نوع انسان سے پیار کر کے ان کے دل جیتیں اور ساری دنیا کی تکالیف کو دور کرنے والے ہوں.اور جس غرض کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے ، وہ غرض اپنی آخری شکل میں پوری ہو اور نوع انسانی سوائے شاذ استثناء کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے اور ایک حسین معاشرہ قائم ہو جائے.اور محبت اور پیار کے ساتھ انسان انسان کے ساتھ مل کے اپنی دنیوی حسنات کے لئے بھی اور اخروی حسنات کے لئے بھی جد و جہد اور کوشش اور سعی میں مشغول رہے اور امن اور پیار کی زندگی میں خوشحالی کے ایام گزار رہا ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“." جو ذمہ داریوں خدا نے آپ پر ڈالنی چاہی ہیں اور آپ نے رضا کارانہ طور پر ان کو قبول کر لیا جماعت احمدیہ میں داخل ہو کر ، خدا تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ ان ذمہ داریوں کو آپ نبھانے والے ہوں.اور اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرمائے اور ہماری زندگی میں اپنی رحمتوں کے جلوے ظاہر کرے.اور معاشرہ کے اندر ایک ایسا حسن پیدا کرے کہ ہم دوسری دنیا کو بھی کھینچنے والے اور جذب کرنے والے بن جائیں.اور اسلام کا نام بلند ہو اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت دلوں میں قائم ہو جائے.اور اسلام شرق و غرب اور شمال جنوب میں پھیل جائے اور اس کرہ ارض کا اسی طرح احاطہ کر لے ، جس طرح اس کرہ ارض کو اس کے پانیوں اور زمین نے احاطہ کیا ہوا ہے.آمین.آئیں دعا کر لیں.“ رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 31 مارچ تا 2 10 اپریل 1978 ء ) 576
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام فرمودہ 22 جنوری 1979ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد عالمی اسلامی نظام قائم کرنا تھا پیغام فرمودہ 22 جنوری 1979ء بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ اللہ تعالٰی کے فضل اور رحم کے ساتھ پیارے بھائیو! اراکین خدام الاحمدیہ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ فروری کے دوسرے ہفتہ میں اپنا پہلا عام اجلاس منعقد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو با برکت اور کامیاب بنائے.اس موقع پر میں آپ کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے ممبر ہونے کی حیثیت سے آپ کے کندھوں پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آپ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا بنیادی مقصد ایک عالمی اسلامی نظام قائم کرنا تھا.اور یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا ، جب تک ہم اپنی سوچ اور اپنے کاموں میں ایک مکمل تبدیلی نہ پیدا کر لیں.لہذا ہمارے خدام کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سادہ زندگی، اچھے اخلاق و اطوار، اسلامی اصول و نظریات کو اپنا مطمع نظر بنانے کی کوشش کریں اور بلا امتیاز قوم ونسل انسان کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کی ایک مثال قائم کر دیں.لوگوں کے دلوں کو جیتنے کے لئے ہمیں گولیوں اور تلواروں کی ضرورت نہیں.ہمارا اسلحہ خانہ تو تقوی، دعاؤں نظم وضبط اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام، قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دوبارہ قائم کرے.یہ بہت بڑا کام ہے.اس کام کو کرنے کے لئے ہمیں ذاتی آرام کا خیال کئے بغیر دیوانہ واردن اور رات کام کرنا ہوگا.یہ بات واضح ہے کہ ہم احمدیت اور قرآن کریم کا پیغام اس وقت تک دوسروں تک نہیں پہنچا سکتے ، جب تک ہمیں خود ان کا پورا علم نہ ہو.اس لئے خدام الاحمدیہ کو اپنا فرض قرار دے لینا چاہیے کہ وہ قرآن کریم کو اتنا اچھے طور پر سیکھیں گے، جتنا اچھے طور پر وہ سیکھ سکتے ہیں.انہیں 577
پیغام فرمود 22 جنوری 1979ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب، جو اسلام کی صحیح تصویر پیش کرتی ہیں، کا مطالعہ بھی کرنا ہے.اور یہ بھی دیکھیں کہ کوئی احمدی ( مرد ہو یا عورت ) ان پڑھ نہ رہے.آپ کو اس امر کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا امتی نبی اور مہدی مبعوث کر کے اور خلافت کو دوبارہ قائم کر کے تمہارے دلوں کو متحد کر دیا ہے اور تم میں باہمی محبت پیدا کر دی ہے.تمہیں نظام خلافت کے تقدس کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے.تمہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہونی چاہئے کہ امام وقت سے جو ہر وقت تمہاری بھلائی کے لئے کوشاں رہتا اور متواتر تمہارے لئے دعا کرتا ہے، تمہارا ذاتی تعلق قائم ہو.اللہ تعالیٰ تمہیں عزم اور ہمت عطا کرے تائم ایک سچے مسلم کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکو.آمین خليفة المسيح الثالث 22.01.1979 ( مطبوعه روز نامہ الفضل 12 اپریل 1979ء) 578
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ انڈونیشیا اپنی زندگی کو آپ کے دین کی سر بلندی کے لئے وقف کر دو پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا منعقدہ 07705 جولائی 1979ء بسم الله الرحمان الرحيم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگ جلسہ سالانہ منعقد کر رہے ہیں.میں اس کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں.آپ لوگ بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت امام مہدی موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کی توفیق ملی.حضرت امام مہدی علیہ السلام کے تشریف لانے کا اہم مقصد قرآن کے نور کو تمام دنیا میں پھیلانا ہے اور قرآن شریف کے احکامات پر عمل کرانا ہے.اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری فرمانبرداری اور اطاعت کرو اور اپنی زندگی کو آپ کے دین کی سربلندی کے لئے وقف کر دو تا کہ خدا تعالیٰ بھی آپ لوگوں سے محبت کرے.اگر خدا تعالیٰ کی محبت آپ کے شامل حال ہوگی تو کوئی شر آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا.اور وہ تمام وعدے، جن کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے، وہ آپ کو مل جائیں گے.میں آپ لوگوں سے بہت محبت رکھتا ہوں اور آپ لوگوں کے لئے دعائیں کرتا رہتا ہوں.خدا تعالی آپ لوگوں کے ایمان کو بڑھائے اور برائیوں سے محفوظ رکھے.خدا تعالیٰ آپ کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے اور دائمی فضل سے نوازتا رہے.آمین.والسلام مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث مطبوعه روزنامه الفضل 26 اگست 1979ء) 579
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم پیغام فرمودہ 07 جولائی 1979ء وقت قریب ہے کہ لوگ اسلام کے پیغام پر متوجہ ہونے پر مجبور ہو جائیں گے پیغام فرموده 07 جولائی 1979 ء بر موقع جلسہ سالانہ جماعت ہائے احمد یہ سری لنکا مکرم محترم مولوی محمد عمر صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کا خط ملا، مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ جماعت ہائے احمد یہ سری لنکا مؤرخہ ۲۲ وفا ۱۳۵۸ھ کو اپنے دوسرے سالانہ جلسہ کا انعقاد کر رہی ہیں.خدا تعالیٰ اس سالانہ جلسہ کو ہر لحاظ سے کامیاب اور با برکت کرے اور اسے سری لنکا میں حق اور صداقت کے فروغ کا ذریعہ بنائے.آمین.اس موقع پر میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ تھی کہ شریعت قائم ہو اور دین دوبارہ تر و تازہ ہو.دوسرے الفاظ میں حضور علیہ السلام کی آمد کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی تعلیم کی خوبصورتی کو تمام دنیا پر واضح کر کے اسلام کو تمام ادیان پر غالب کیا جائے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قیام کو نوے سال گزر چکے ہیں، اس مختصر سے عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام زمین کے کناروں تک پہنچ چکا ہے.اب وہ وقت قریب ہے کہ آج اس پیغام پر کان نہ دھرنے والے بھی اس کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ اپنی زبر دست قدرت کے ساتھ اسلام کے حق میں قلوب میں ایک تبدیلی پیدا فرمائے گا اور دل اسلام کی طرف مائل ہوں گے اور دماغ حضرت خاتم الانبیاء حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی صداقت اور حقانیت کو قبول کر لیں گے.یہ سب کچھ انشاء اللہ آئندہ صدی میں ہونے والا ہے، جو غلبہ اسلام کی صدی ہے اور جس کی ابتدا میں صرف دس سال باقی ہیں.ایسے وقت میں ایسے استادوں کی ضرورت ہوگی ، جو يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان کے تحت افواج کی صورت میں نئے داخل ہونے والوں کو دین کی تعلیم دے سکیں اور ان کے دلوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی حقیقی روح پیدا کرسکیں.اور ایسے استاد اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتے ، جب تک ہم قرآنی علوم و معارف سے بہرہ ور نہ ہوں.اور اس زمانہ میں قرآنی علوم و 581
پیغام فرمودہ 07 جولائی 1979ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم معارف سیکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ہم امام آخر الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں کہ اس زمانہ کے تقاضوں کے مطابق تفسیر قرآن کریم صرف حضور علیہ السلام کی تصانیف میں ہی وو ملتی ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.قرآن شریف کے عجائبات اکثر بذریعہ الہام میرے پر کھلتے ہیں اور اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ تفسیروں میں ان کا نام ونشان بھی نہیں ہے“.پھر فرماتے ہیں:.میرے ہاتھ سے آسمانی نشانات ظاہر ہورہے ہیں اور میری قلم سے قرآنی حقائق اور معارف چمک رہے ہیں.اٹھو اور تمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یاکسی اور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اور حقائق کے بیان کرنے میں میر امقابلہ کر سکے؟“ ضمیمه تریاق القلوب صفحه 139 ، روحانی خزائن جلد 15) پس غلبہ اسلام کی صدی کے شایان شان استقبال کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان علوم اور معارف سے خود اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو آگاہ کریں، جو حضور علیہ السلام کی تصانیف میں بیان ہوئے ہیں.اسی غرض کے لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ اس جلسہ کے موقع پر اگلے سال کے لئے یہ پروگرام تیار کریں کہ آپ کی جماعت کے تمام افراد، خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان، عورتیں ہوں یا بچے، قرآن کریم کو پڑھنا سیکھیں اور اس کا ترجمہ دیکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو کتب آپ کو میسر ہوں، ان کا باقاعدگی سے مطالعہ کریں.خدا تعالیٰ ہمیں حضور علیہ السلام کے بیان فرمودہ حقائق و معارف اور علوم سیکھنے کی توفیق اور ہمت بخشے.خدا تعالیٰ ہمارے ذہنوں اور ہمارے دلوں کو ان معارف اور علوم کو جذب کرنے کی صلاحیت عطا فرمائے اور خدا تعالیٰ ہمیں یہ توفیق بخشے کہ ہم خود بھی ان حقائق و معارف سے فائدہ اٹھا ئیں.اور يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان کے تحت نئے داخل ہونے والوں کو بھی ان سے فیض یاب کریں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور ہر آن آپ کا نگہبان ہو.آمین.والسلام مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث ۷ جولائی ۱۹۷۹ء/ ۱۳۵۸ ہش ( مطبوعه روزنامه الفضل 19 اگست 1979ء) 582
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 24 جولائی 1979ء غلبہ اسلام کی مہم کو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم سے باندھا ہے خطاب فرمودہ 24 جولائی 1979ء بر موقع فضل عمر درس القرآن کلاس وو حضور رحمہ اللہ نے نوجوانوں پر مستقبل قریب میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے، انتہائی بصیرت افروز پیرائے میں قرآن حکیم کی تعلیم پھیلانے پر زور دیتے ہوئے فرمایا:.غلبہ اسلام کی مہم کو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم سے باندھا ہوا ہے.اس لئے دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم اور اس کے مطالب کو پھیلانا ضروری ہے.تا کہ جب ان علاقوں کے لوگ اسلام میں داخل ہوں تو ایسے احمدی معلم میسر ہوں ، جوان کی تربیت کر سکیں.آپ نے فرمایا کہ وو....یه لوگ تقاضا کریں گے کہ ان کو اسلام کی روح سے آشنا کیا جائے اور اس کی گہرائیوں کا علم دیا جائے“.فرمایا:."...ہمارا یہ دعوی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم دنیا بھر کی بیماریوں کا علاج اور دنیا بھر کے وسیع ترین مسائل کا حل ہے.اور ہمیں ساری دنیا کو یہ باور کراتا ہے کہ یہ تعلیم اتنی بلند اور مؤثر ہے کہ تمہارے تمام مسائل حل کر سکتی ہے.اور تمہارے پاس جو تعلیم ہے، وہ تمہارے مسائل کا حل نہیں ہے.جب ہم یہ بات دنیا کو بتادیں گے توہ خود بخود داسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے“.اس ضمن میں آپ نے احمدی نوجوانوں پر زور دیا کہ مختلف ملکوں کی زبا نہیں سیکھیں تا کہ اقوام عالم تک قرآن کا پیغام مؤثر طریق پر پہنچاسکیں“.( مطبوعه روز نامہ افضل 25 جولائی 1979 ء ) 583
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ امریکہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے، جبکہ قو میں اس چشمہ سے سیراب ہوں گی پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ امریکہ 1979ء (حضور کا یہ پیغام انگریزی زبان میں تھا، جس کا اردو تر جمہ درج ذیل ہے.) جماعت ہائے احمد یہ امریکہ کے سالانہ جلسہ کے موقع پر میں آپ سب کی توجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبہ کی طرف دلانا چاہتا ہوں، جو آپ نے حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا.اس وقت آپ ایک ناقہ پر سوار تھے.عرفات میں جمع تمام مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے آپ نے انہیں انسانیت کے احترام اور وقار کا منشور عطا فر مایا.آپ نے اعلان کیا:.وو اے لوگو! اس بات کو سنو اور یا درکھو، جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں.سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں.تم سب آپس میں برابر ہو.سب شعوب وقبائل کے " لوگ، خواہ وہ کسی بھی حیثیت کے ہوں، آپس میں برابر ہیں.پھر آنحضرت نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے کے ساتھ ملا کر فرمایا....جیسے ان دونوں ہاتھوں کہ انگلیاں آپس میں برابر ہیں، ویسے ہی تمام انسان بھی آپس میں برابر ہیں.ایک کو دوسرے پر کوئی تفوق نہیں.اور تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو.آپ سب جانتے ہیں کہ آج سے نوے برس قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جماعت کی بنیاد رکھی.اور میں آپ کو بار ہا یہ بتا چکا ہوں کہ آنے والی صدی فتح اسلام کی صدی ہے.اور وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے، جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگی کہ قو میں اس چشمہ سے سیراب ہوں گی“.اور تمام نسلوں اور قوموں اور ملکوں کے لوگ خدائے ذوالجلال کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھیں گے.اور خدا کا وہ پیغام، جو اس کے رسول مقبول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے، قبول کر لیں گے.اور یہ وہ وقت ہوگا کہ ساری دنیا کے احمدیوں سے امید کی جائے گی کہ وہ آنحضرت کے اس ارشاد پر عمل پیرا ہوں.585
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ امریکہ تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم میں نے بار بار آپ کو متوجہ کیا ہے کہ آپ فتح اسلام کی آنے والی صدی کی تیاری کریں.اور اس کے استقبال کے لئے ضروری ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس آخری پیغام پر عمل پیرا ہوں.اور یہ بات ہمیشہ یادرکھیں کہ جو بھی اس جماعت میں شامل ہے، وہ اپنے رنگ اور نسل کے باوصف ہمارا بھائی ہے، اس لئے آپ کھلے دل سے اپنی قدیم رقابتیں فراموش کر دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اخوت اور بھائی چارہ کی سکینت بخش مرہم سے پرانے زخموں کو مندمل ہونے دیں.ایک اور بات جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں ، وہ اشاعت قرآن کی مہم ہے.آپ کو اس امر کا بخوبی علم ہے کہ امریکہ کی جماعتوں نے قرآن کریم کو وسیع پیمانے پر شائع کرنے کی اہم ذمہ داری قبول کی ہے.آج میں آپ سب کی توجہ اس منصوبہ کی اہمیت کی جانب مبذول کرواتا ہوں اور آپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ پورے عزم کے ساتھ اس میں شامل ہوں اور اس مقدس کتاب کے مقدس پیغام کو امریکن قوم تک پہنچانے کی مقدور بھر کوشش کریں.خود بھی مطالعہ کریں، اس پر تدبر کریں اور اس کی تعلیمات پر عمل کر کے مثالی مسلمان بن کر دکھائیں.میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق بخشے اور سچا اور کھر مسلمان بننے کے جرات عطا فرمائے.(آمین) میں آپ سب امریکن بھائیوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھتا ہوں اور آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر رہے ہوں گے.اور آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ اس بات کو اپنی دعاؤں میں ہر گز نہ بھولیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خدمت اسلام کی توفیق بخشے اور اس کے مواقع بھی عطا فرمائے.اب آپ اس راہ میں قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار رہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو، آپ کا نگہبان ہو اور آپ پر اپنا رحم وکرم نازل فرمائے.مرزا ناصر احمد خليفة المسيح الثالث ( مطبوعه روزنامه الفضل 17 ستمبر 1979ء) 586
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 06 ستمبر 1979ء جب بھی احمدی دعائیں مانگے گا، رحمت کے سامان مہیا ہو جائیں گے حضور نے فرمایا:.وو ارشادات فرمودہ 06 ستمبر 1979ء اللہ تعالیٰ جماعت پر اتنا فضل کرتا ہے، ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرنی چاہیے.دو، چار خوشخبریاں ہیں، وہ میں جماعت کو سنا دیتا ہوں.ہماری صد سالہ احمد یہ جو بلی سیکم کے تحت بیرونی سکوں میں بعض نے مشن کھولنے کا پروگرام تھا.یورپ کے کئی ملکوں میں ہمارے مشن نہیں ہیں، نماز پڑھنے کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں، احمدی گھر میں ہی نماز پڑھتے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ ایک مکان یا ایک کمرہ ہی ایسا ہو، جہاں پر احباب جماعت اکٹھے ہو سکیں.یورپ میں تین ملک ہیں، جو کہ اکٹھے سیکنڈے نیوین ممالک کہلاتے ہیں.یہ ممالک ڈنمارک، سویڈن اور ناروے ہیں.ڈنمارک میں مشن قائم ہے.ایک بڑی خوبصورت مسجد بنی ہوئی ہے.وہاں بڑا کام ہورہا ہے.پڑھے لکھے بہت سارے لوگ عیسائیت کو چھوڑ کر مسلمان ہوئے ہیں.بڑے فعال لوگ ہیں.وہاں میٹنگیں ہوتی ہیں، ملاقاتیں وغیرہ ہو رہی ہیں.بڑا کام ہورہا ہے.ڈنمارک کی مسجد اتنی خوبصورت ہے کہ جو سیاح وہاں کوپن ہیگن کا شہر دیکھنے آتے ہیں، وہاں کا محکمہ سیاحت اس شہر کے خاص خاص دیکھنے والے مقامات کی جو فہرست سیاحوں کو مہیا کرتا ہے، اس میں ہماری مسجد بھی شامل ہے.اس کے ساتھ ہے، سویڈن.اس کے ساحل سمندر پر گوٹن برگ ایک شہر ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ 1975ء میں ڈیڑھ ، پونے دوا یکٹر زمین ایک پہاڑی کی چوٹی پر ہمیں مل گئی.پتہ نہیں یہ جگہ کیوں خالی پڑی تھی؟ اس میں میدان کو ئی نہیں تھا، بڑی بڑی چٹانیں تھیں.اللہ نے ہمارے لئے رکھی ہوئی تھی.وہاں بالکل چوٹی پر 1975ء میں، میں نے مسجد کی بنیاد رکھی.میں ان دنوں بڑا سخت بیمار پڑا تھا.مجھے گردے میں سخت تکلیف ہوگئی تھی، اس کے علاج کے لئے میں گیا تھا.1976ء میں، میں نے اس مسجد کا افتتاح کیا.اس مسجد سے سارا شہر نظر آتا ہے.بڑا خوبصورت شہر ہے، اس کا نظارہ ہو جاتا ہے.587
ارشادات فرموده 06 ستمبر 1979ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ناروے میں کافی جماعت بن چکی ہے.باہر سے کافی لوگ وہاں گئے ہیں.یہاں پر کافی عرصہ سے کوشش کر رہے تھے کہ اچھی جگہ مل جائے ، مگر زمین بڑی مہنگی مل رہی تھی.اس وقت اتنے پیسے بھی نہیں تھے.یہ یورپ کے چھوٹے چھوٹے ملک ہیں، مگر ان میں بھی جرمنی اور فرانس کی طرح مہنگائی بہت ہو گئی ہے.یہ ممالک آپس میں لڑتے بھی نہیں، مگر پھر بھی مہنگائی بہت ہے.اب وہاں سے خط آیا ہے کہ پندرہ لاکھ کرونا ہیں، میرے خیال میں دو روپے سے کچھ زائد کا ہے، ایک کرونا.یعنی قریباً تھیں، پنتیس لاکھ روپے میں ایک مکان مل رہا ہے.چار کنال زمین میں دو کنال جگہ خالی ہے، جس پر بعد میں مسجد بنائی جا سکتی ہے.دو کنال میں بڑے بڑے کمرے ہیں، جنہیں مسجد اور لائبریری کے طور پر استعمال کرنے کے بعد دو خاندان علیحدہ علیحدہ رہ سکتے ہیں.پہلے طبیعت اس کی خرید کی طرف مائل نہیں تھی.اب فیصلہ کیا ہے کہ اس جگہ کو خرید لیا جائے.مگر اس میں آپ لوگوں نے یعنی ہماری پاکستان کی جماعتوں نے ایک دھیلہ نہیں دینا.معاشی حالات کی وجہ سے ویسے ہی روکیں ہی روکیں ہیں اور پابندیاں لگارکھی ہیں ،حکومت نے کہ کوئی پیسہ باہر نہ جائے.جاہی نہیں سکتا.اس میں مالی لحاظ سے آپ کا کوئی حصہ نہیں گا.مگر آپ کی دعاؤں کا حصہ اسی نسبت سے زیادہ ہونا چاہئے.کل ایک گھنٹہ لگا کر میں نے یورپ اور دیگر جماعتوں کے صد سالہ جو بلی کے چندہ کا حساب لگایا تو مجھے پتہ چلا کہ ایک، ایک ملک میں اتنی رقم جمع ہو چکی ہے کہ وہ اکیلا بھی نہیں لاکھ روپیہ دے سکتا ہے.مگر اتنا بوجھ اس پر نہیں ڈالتا.اس لئے طے یہ کیا ہے کہ تین ممالک پر زیادہ بوجھ اور باقی تین ممالک پر نسبتا کم بوجھ ڈال کر اس جگہ کو خرید لیا جائے گا، انشاء اللہ.خدا کرے کہ اس وقت تک یہ بک نہ چکی ہو.کیونکہ کچھ عرصہ گزر گیا ہے، اطلاع ملنے پر.یہ اتنا بڑا فضل ہے، خدا تعالیٰ کا کہ جس نے اس طرح انتظام کیا ہے.ایک وقت میں جماعت کی یہ حالت تھی کہ ہالینڈ میں مسجد بنائی تھی ، جماعت غریب تھی ، اس کے باوجود اس کے مرد قربانیاں دے رہے تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی قربانیاں دیکھ کر سوچا کہ مردوں سے اپیل نہ کریں.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے عورتوں سے اپیل کی کہ ہالینڈ میں مسجد بنانی ہے، چندہ دو.تو ہماری نو بیاہتا نو جوان بچیوں نے اپنے زیور لا کر پیش کر دیئے اور برصغیر کی ساری احمدی عورتوں نے زیور بیچ کر ہالینڈ کی مسجد بنادی.بہت خوبصورت مسجد ہے.اس وقت سونے کی قیمت بھی کم تھی ، مگر مزدوری اور دیگر اخراجات بھی کم تھے.غالب کل چار، پانچ لاکھ روپیہ خرچ آیا ہو گا.مگر اب یورپ میں بھی مہنگائی بڑھ گئی ہے.لیکن جتنی مہنگائی دنیا میں بڑھی ہے، اس 588
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 06 ستمبر 1979ء سے زیادہ فضل خدا کا اس جماعت پر ہوا ہے.اس وقت جماعت کو چار لاکھ روپیہ دینا بھی مشکل تھا، اس لئے عورتوں سے اپیل کی گئی.مگر آج آپ کے پاس اتنی رقم جمع ہے کہ آپ کو ایک دھیلہ بھی نہیں دینا پڑے گا.اور ہم نے یورپ کو کہہ دیا ہے کہ اپنا بو جھ آپ اٹھاؤ.کیونکہ اس وقت نہ مرد اور نہ ہی عورت روپیہ بھیج سکتی ہے.قانون کی پابندی ہے.مگر قانون کی پابندی تو زمین پر ختم ہو جاتی ہے.آپ نے تو آسمان پر چھلانگ لگانی ہے.دعائیں کرنی ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے (ان المساجد اللہ ) اس گھر میں برکت ڈالے اور اس کا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پھیلانے میں یہ مساجد اور مشن ہاؤس حصہ لیں اور اسلام پھیلائیں.پس خوشخبری یہ ہے کہ ناروے میں خدا نے ہماری جماعت کو، جو کہ ایک غریب جماعت ہے، باوجود اقتصادی بحرانوں کے، جو کہ ساری دنیا میں ہیں، یہ جگہ خریدنے کی توفیق دے دی ہے.ہم کسی اور وجہ سے انکار کر دیں تو اور بات ہے، اس وجہ سے انکار نہیں کریں گے کہ پیسے نہیں ہیں.اللہ کا فضل ہے.باقی جو ملک رہ گئے ہیں، فرانس، بیلجیم ، سپین اور اٹلی ہیں.ہم سارے یورپ کے ممالک میں مساجد بنانا چاہتے ہیں.جو کام شروع کرو، حرکت میں برکت ہوتی ہے، خدا خود برکت دیتا ہے.فرانس اور بیجیم میں ایک سال میں مشن قائم ہو جائے گا، انشاء اللہ.سین ہے، وہاں کہتے تھے کہ مشن قائم ہو ہی نہیں سکتا.میں نے دو سال پہلے کہا کہ یہ یورپ کا بہت امیر علاقہ ہے، ایک جگہ کارخانے لگ گئے تو وہ جگہ مہنگی ہوگئی.مگر جس دوسری جگہ کی آبادی وہاں سے اٹھ کر کارخانوں والی جگہ پر آگئی ، وہاں قیمتیں کم ہو گئیں.مانگ کم ہوگئی تو قیمت کم ہوگئی.یہ اقتصادیات کا اصول ہے.میں نے کہا مبلغوں سے کہ تم میڈرڈ وغیرہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہو، وہاں سستی زمین ممکن نہیں.چنانچہ ہمارے ایک مبلغ نے ، جسے میڈرڈ سے اتنی محبت نہیں، قرطبہ کے قریب ایک قطعہ زمین ڈھونڈا ہے، سات ہزار پاؤنڈ میں.پہلے کہتے تھے کہ ستر ، اسی ہزار پاؤنڈ سے کم جگہ نہیں مل سکتی.یہ جگہ قرطبہ سے تمھیں، پینتیس میل دور ہے.فرانس سے کئی رپورٹیں آ رہی ہیں کہ کام شروع ہو گیا ہے.اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون سا علاقہ مناسب ہے کہ وہاں پر مشن قائم کیا جائے.وہاں بھی انشاء اللہ جلدی مشن بن جائے گا.فرانسیسی بولنے والے مبلغ تیار ہورہے ہیں.ہم مبلغین کو مختلف زبا نہیں سکھا رہے ہیں.ناروے، ڈنمارک اور سویڈن میں مبلغ وہاں کی زبان بولتے ہیں.یوگوسلاوین زبان سیکھنے کے لئے ہم نے ایک نو جوان مبلغ کو جامعہ کا امتحان پاس کرتے ہی یوگوسلاویہ بھیج دیا ، خدا کے فضل کا ہم شکر نہیں 589
ارشادات فرموده 06 ستمبر 1979ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد پنجم ادا کر سکتے کہ ہم نے ایک بچہ بھیجا، یوگوسلاویہ کمیونسٹ ملک ہے، بہت کی پابندیاں ہیں، اس نے البانوی زبان کا امتحان بی.اے کی سطح پر دیا ہے، اب ایم.اے کر رہا ہے.سوئٹزر لینڈ میں البانوی بولنے والے بہت سے لوگ بستے ہیں، جو کارخانوں میں اور دیگر جگہوں پر کام کرتے ہیں.ہمارے سوئٹزر لینڈ مشن نے ایک دعوت کا اہتمام کیا ، جس میں پندرہ ہیں البانوی زبان بولنے والے افراد کو بلا لیا.ہمارے اس مبلغ نے ، جو البانوی زبان میں ایم.اے کر رہا ہے، ان سے ان کی زبان میں گفتگو شروع کی.دو تین گھنٹے یہ گفتگو جاری رہی.اس کے بعد ان میں سے ایک شخص نے ، جو کہ البانوی زبان کا چوٹی کا ماہر تھا، ہمارے سوئٹزر لینڈ کے مبلغ کو بتایا کہ میں نے اپنی ساری عمر میں آج تک کسی غیر البانوی کو اتنی اچھی البانوی زبان بولتے نہیں دیکھا.یہ خدا کا فضل ہے.یوگوسلاویہ میں دوز بانیں بولی جاتی ہیں.مسلمانوں میں البانوی زبان بولی جاتی ہے اور دوسرے حصے میں ایک اور زبان ہے.کہا گیا ، اس مبلغ کو وہ زبان بھی سکھاؤ.میں نے کہا، نہیں ،اگلے سال ایک اور شخص کو بھیجیں گے.- بھیجیم میں فرنچ بولنے والے رہتے ہیں.جب وہاں مشن کھولیں گئے تو وہاں کی زبان بولنے والے وہاں ہوں گے.بیجیم میں ایک احمدی نے ایک کیتھولک لڑکی سے شادی کر لی ہے.جس لڑکی سے شادی کی ہے، وہ اپنے باپ کی اکیلی اولاد ہے.اس کا نہ کوئی اور لڑکا ہے، نہ لڑکی.باپ بہت بڑا زمیندار ہے.اس لڑکی کے ابھی تک اولاد نہیں ہوئی.پانچ سال ہو گئے ہیں ، شادی کو.لڑکی کا باپ بھی فکر میں ہے کہ اگر لڑکی کے اولاد نہ ہوئی تو ساری جائیداد اس خاندان کے ہاتھ سے نکل جائے گی.اس کی تھولک لڑکی نے اپنے خاوند کے خط کے ساتھ مجھے خط لکھا ہے، دعا کے لئے.میرے ذہن میں آیا ہے، ( کرنے والا تو خدا ہے.اس کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں.) اسے یہ کہوں کہ اگر تم ایک دو، چار کنال زمین اسلام کی اشاعت کے لئے دے دو تو خدا سے امید ہے کہ وہ میری دعاؤں کو قبول کرے گا.اگر ایسا ہوا تو وہاں مشن قائم کر دیا جائے گا، انشاء اللہ.اٹلی میں بھی میں نے کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ میں نے روم میں مسجد نہیں بنانی.روم میں وہ لوگ مسجد بنائیں گے، جن کے پاس پیسہ ہے.اور جو کہیں گے کہ ہم دس کروڑ روپے کی لاگت سے اتنی بڑی مسجد بنائیں گے، جس کے اتنے ستون اتنی محرا میں ہوں گی اور اتنی خوبصورت مسجد ہوگی.مجھے یہ نہیں چاہئے.جو اٹلی کا شمال مغربی حصہ ہے، اس میں فائدہ یہ ہے کہ وہ یوگوسلاویہ کے ساتھ ملتا ہے.اس کے ساتھ ہنگری اور آسٹریا ہیں.میں نے کہا کہ اس جگہ ایک گاؤں میں زمین لے لیں ، وہاں پر ہمارا ایک مرکز بن جائے گا.وہاں سے ایک مبلغ صبح کو یوگوسلاویہ جا کر شام کو واپس آسکے گا، اتنا قریب ہے.590
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 06 ستمبر 1979ء ہمارے سامنے تو مسجد نبوی کی مثال ہے کہ جس کی چھت کھجور کے تنوں اور پتوں سے ڈالی گئی تھی.اور صحابہ ” کا کہنا ہے کہ جب بارش ہوتی اور ہم سجدہ کرتے تو ناک اور ماتھے پر کیچڑ لگ جاتی تھی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت خدا پر توکل کرتے ہوئے ، مدینہ میں ایک مسجد بنا دی تھی.اور اس مسجد میں کئی مہینے تک دو صفیں بھی پوری نہیں ہوتی تھیں.اس وقت اس کا احاطہ بڑا تھا مگر وہ مسجد بھی چھوٹی ہوتی گئی.جب ہم نے مسجد اقصیٰ بنائی تھی تو لوگوں نے کہا کہ بہت بڑی بن گئی ہے.اب اس میں سے بھی نمازی باہر نکل جاتے ہیں.جب بھی احمدی خدا کے حضور عاجزانہ جھک کر دعائیں مانگے گا، اس کے لئے خدا کی رحمت کے سامان مہیا ہو جائیں گے، انشاء اللہ.جماعت کی مساعی سے یورپ میں بڑا انقلاب پیدا ہوا ہے.کسی وقت پادریوں نے سارے یورپ میں یہ کہا ہوا تھا کہ (نعوذ باللہ) اسلام تلوار کے زور سے پھیلا.اس کا مطلب یہ تھا کہ اسلام کے پاس دلائل نہیں ، اسلام احسان کی طاقت نہیں رکھتا، اس کی تعلیم میں حسن اور جذب نہیں، نور نہیں ، جو سینوں کو منور کر سکے، صرف تلوار ہے.ایک وقت میں تلوار تھی، جس سے اس کی اشاعت ہوئی، وغیرہ وغیرہ.اپنی خلافت کے زمانہ میں جب میں پہلی دفعہ یورپ کے دورے پر گیا تو مجھ سے دو دفعہ یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ ہمارے ملک میں کیسے اسلام پھیلائیں گے؟ اس صحافی کے پوچھنے کا مطلب یہ تھا کہ اسلام تو تلوار کے زور سے پھیلا ہے، تلوار ہم نے چھین لی، اب بتائیں کہ اسلام کس طرح پھیلائیں گے؟ میں نے کہا کہ ہم پیار سے آپ کا دل جیتیں گے.جس طرح بجلی کا کرنٹ لگتا ہے، اس طرح وہ صحافی چونکے یہ بات سن کر.اس پر میں نے بتایا کہ یہ ہے اسلام کی تعلیم.اسلام کو تو سمجھتے نہیں اور اعتراض کر دیتے ہو.ایک وہ زمانہ تھا، جبکہ 1924ء میں لندن میں مسجد بنی کہ پورے یورپ میں اسلام کے خلاف تعصب پھیلا ہوا تھا.اب آہستہ آہستہ یہ زمانہ آ گیا ہے کہ بڑے محقق جو ہیں، ان کی اکثریت عزت سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتی ہے.پہلے تو وہ اتنا گند بکتے تھے، جس کی کوئی حد نہیں.آکسفورڈ میں جب میں پڑھتا تھا تو میں نے ایک انگریز دوست سے اسلام پر بات شروع کی اور میرا خیال تھا کہ دو، چار دفعہ اس سے اور بات کی تو اس پر اچھا اثر ہو جائے گا.اس کے بعد اس کو کسی نے بتایا کہ پادری مارگولیٹھ کا لٹریچر پڑھو.یہ بڑا گندہ لٹریچر ہے اور اس میں بہت گالیاں بھری ہوئی ہیں.چنانچہ پانچ، چھ دن مجھے وہ لڑکا نہ ملا.پھر ایک دن نظر آیا تو میں اس کے پاس گیا مگر اس نے سیدھے منہ بات ہی نہ کی.میں نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ اس نے مارگولیٹھ کی کتاب پڑھی ہے، جو کہ سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ایسا ہے کہ عقلی اور منطقی طور پر اس مقام پر پہنچنے والے کسی شخص کو گالی 591
ارشادات فرموده 06 ستمبر 1979ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم دی ہی نہیں جا سکتی.دنیا سے اتنا پیار کرنے والا، دنیا کی ہر قسم کی خیر خواہی کا سامان قرآن کریم کی شکل میں لانے والا، دنیا کے ہر شخص کی فلاح و بہبود کے سامان کرنے والا.چاہے کوئی شخص اسلام لائے یا نہ لائے ، یہ الگ بات ہے، مگر ایسے آدمی کو گالیاں دی گئیں، اب وہ زمانہ نہیں.اب ان کو صحیح اسلام کا پتہ لگ گیا ہے.اب یہ پلٹا کھایا ہے، حالات نے.صحافی بڑے تیز ہوتے ہیں، مگر میں نے اپنی پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں کو آنسوؤں سے روتے دیکھا ہے.ایک صحافی عورت نے کہا کہ اسلام کی اتنی حسین تعلیم ہے، مگر آپ اتنی دیر کے بعد کیوں آئے ہیں؟ یہ تعلیم ہم کو پہلے کیوں نہیں بتائی؟ مطبوعه روزنامه الفضل 19 ستمبر 1979ء) 592
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسه سالانه تنزانیہ آئندہ صدی کے استقبال کے لئے خود کو تیار کریں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ تنزانیہ منعقدہ 28 تا30 ستمبر 1979ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر احباب جماعت ہائے احمد یہ تنزانیہ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ آپ مورخہ ۷، ۸، ۹ تبوک ۱۳۵۸ھ کو اپنے گیارھویں سیالانہ جلسہ کا انعقاد کر رہے ہیں.(جلسہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر ۲۸ ۲۹ ۳۰ تبوک ۱۳۵۸ھ کو ہوا.ناقل ) خدا تعالیٰ اس جلسہ کو بہت برکت دے اور ہر لحاظ سے کامیاب کرے.اور اس جلسہ کے نتیجہ میں تنزانیہ میں اسلام واحمد بیت کو فروغ نصیب ہو.آمین.سلسلہ عالیہ احمدیہ کو قائم ہوئے نوے سال گزر چکے ہیں.اس مختصر سے عرصے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام کے ہاتھوں اسلام کا پیغام دنیا کے تمام ممالک میں پہنچ چکا ہے.اور وہ وقت بہت قریب ہے، جب يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًان کے تحت لوگ گروہ در گروہ احمدیت میں داخل ہوں گے.اور تمام وہ لوگ، جو آج اسلام کی مخالفت میں کمر بستہ رہتے ہیں، اسلام کے حسن اور خوبصورتی کا شکار ہوں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے.یہ سب کچھ اگلی صدی میں انشاء اللہ ہوگا.اگلی صدی ، جس کے شروع ہونے میں صرف دس سال باقی ہیں اور جو غلبہ اسلام کی صدی ہے، اس صدی میں خدا تعالی کی نصرت آئے گی اور حضرت امام آخر الزمان علیہ السلام کے خدام کے ذریعے اسلام کا جھنڈا تمام ممالک میں بلند کیا جائے گا.اس وقت ایسے لوگوں کی ضرورت محسوس ہوگی ، جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو اچھی طرح سمجھ بوجھ کر قبول کیا ہو اور جو اسلام اور قرآن کریم کی حقیقی 593
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ تنزانیہ تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم روح سے واقفیت رکھتے ہوں.تاجوق در جوق نئے داخل ہونے والوں کے سامنے اسلام اس کی صحیح صورت میں پیش کیا جا سکے.اور وہ حقیقی اسلامی تعلیمات پر کار بند ہوسکیں.اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر احمدی قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا اور اس پر غور و فکر کرنے والا ہو.اسی غرض سے جماعت کی طرف سے مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے.تاہر ملک کے لوگ اپنی زبان میں خدا کے پیغام کو پڑھ سکیں اور اپنی زندگیوں میں جاری کر سکیں.آپ لوگ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ سواحیلی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بہت عرصہ ہوا شائع ہو چکا ہے.اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ حکمت اور معرفت کے اس خزینے سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں.خدا کرے کہ آپ خدا کی اس آخری کتاب کو پڑھنے والے، اس پر غور و تدبر کرنے والے اور اس کے احکامات کو اپنی زندگیوں میں جاری کرنے والے بنیں.قرآن کریم کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعاؤں اور نوافل کے ذریعہ امداد کے خواہاں ہوں.اور اسی لئے میں نے احباب جماعت کے سامنے جو بلی منصوبہ کے سلسلے میں عبادات کا ایک پروگرام تجویز کیا ہے.جس پر خلوص نیت اور صدق دل سے عمل کرنے کے نتیجے میں خدا تعالیٰ ہم پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دے گا اور ہمیں قرآن کریم کے علوم و معارف سمجھنے کی توفیق عطا فر مائے گا.اور احمدیت میں نئے داخل ہونے والوں کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق بخشے گا.پس اس وقت میں آپ کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ آئندہ صدی، جو غلبہ اسلام کی صدی ہے، کے استقبال کے لئے خود کو تیار کریں.اور اس غرض کے لئے پورے غور اور تدبر سے قرآن کریم کا مطالعہ کریں، پوری پابندی سے اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں اور قرآن کریم کو بجھنے کے لئے اور اپنے نفوس کے تزکیہ کے لئے دعاؤں، نوافل اور عبادات کے ساتھ خدا تعالی کی امداد کے طالب ہوں.خدا تعالی ہم پر اپنے فضل نازل فرما دے، ہمیں قرآن حکیم کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.اور ہمیں توفیق دے کہ ہم يَدْخُلُوْنَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًان کے تحت داخل ہونے والوں کے لئے نیک نمونہ بن سکیں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ کے مال میں اور جانوں میں برکت دے.آمین.والسلام ( دستخط) (مهر) خليفة المسيح الثالث 594 ( مطبوعہ روز نامہ الفضل 25 اکتوبر 1979ء)
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1979ء یہ جماعت مرنے کے لئے نہیں، زندہ کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے خطاب فرمودہ 21اکتوبر 1979ء بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.رضينا بالله رباً.ہمارا رب کریم بڑا ہی دیالو ہے.آسمانوں اور زمین کو ہمارے لئے اس نے اپنی نعماء سے بھر دیا ہے.ہر مادی چیز ، جس کی ہمیں ضرورت تھی ، ہماری فطرت کو ، ہمارے جسموں کو ، ہماری روح کو ، اس کے قرب میں آسمانوں تک پہنچنے کے لئے وہ سب کچھ اس نے ہمارے لئے آسمانوں اور زمین میں مہیا کر دیا.اور اس نے ہمیں وہ سب طاقتیں عطا کیں، جن کے حسن کا ہر پہلوا سے پیارا ہے.اور جن کے ہر پہلو کو حسین بنانا ہمارا کام ہے.ہماری ہدایت کے لئے اس نے اپنے فضل سے رحمة للعالمین کو ہمارا ہادی اور راہبر بنا کر بھیجا.جو ایک کامل اور مکمل تعلیم لے کر آئے.جس تعلیم نے ہمارے وجود کے درخت کی ہر شاخ کو بار آور کیا اور جس نے ہماری روح کو اللہ کے نور سے منور کیا.اس رہبر سے، اس بادی سے بھی ہم خوش ہیں.وبمحمدرسولًا ہم راضی ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے، جنہوں نے ہمارے سامنے ایک کامل اور حسین تر اسوہ پیش کیا.اور ہمارے لئے اس بات کو ممکن بنادیا کہ ہم میں سے ہر ایک شخص اپنی اپنی استعداد کے دائرہ میں انتہائی رفعتوں کو حاصل کر سکے.جس نے نوع انسان سے اس قدر پیار کیا کہ ان کے لئے دعا ئیں خدا کے حضور کچھ اس طرح مانگیں کہ وہ قبول ہوئیں.اور نوع انسانی کو یہ وعدہ دیا گیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں سب کے سب انسان خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور خدائے تعالیٰ کے پیار کو حاصل کریں گے، جن کے دل خدا تعالیٰ کی حمد سے ہمیشہ معمور رہیں گے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا پیار، جن کے سینوں میں موجزن رہے گا.595
خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1979ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم - یہ وعدہ جو دیا گیا تھا، اس وعدہ کے پورا ہونے کا زمانہ آ گیا.اور خدا تعالیٰ کی تدبیر اور تقدیر حرکت میں ہے.اور دنیا کے گوشے گوشے میں انقلابی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں.اس انقلاب عظیم نے جماعت احمدیہ کو جو ایک غریب جماعت تھی، جو ایک دھتکاری ہوئی جماعت، جو ایک بے کس جماعت اور یاست سے جو محروم جماعت ہے، اسے زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک پہنچا دیا.اور ہر آن خدا تعالیٰ کے فضل بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں.اس کی رحمت کے دو تازہ نمونے یہ ہیں کہ جماعت ہائے احمد یہ یورپ اور انگلستان کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ ایک بڑی جائیداد انہوں نے اشاعت اسلام کے لئے ناروے میں خرید لی ہے.الحمد للہ.اور یہ بھی توفیق انہیں دی کہ چین کے ملک میں، جو Catholicism کا گھر ہے، ایک زمین خریدی گئی ہے.اور اس زمین کے متعلق وہاں کی لوکل باڈی نے اور حکومت نے بھی لکھ کر یہ اجازت دی ہے کہ وہاں جماعت احمدیہ کا مشن ہاؤس اور خدا کا گھر مسجد بنائی جاسکتی ہے.الحمد للہ.اب سوائے دو، ایک جگہ کے جہاں کوشش ہو رہی ہے، یورپ کے ہر ملک میں خدا کے نام کو بلند کرنے کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے مشن ہاؤس اور مساجد بن چکی ہیں.( نعرہ ہائے تکبیر و اسلام زندہ باد ) ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں، جن سے ہم اپنے رب کریم کا شکر ادا کرسکیں.دنیا نے کہا تھا کہ ہم اس جماعت کو اپنے پاؤں تلے روند دیں گے.خدا کے فعل نے ثابت کیا کہ یہ جماعت مرنے کے لئے نہیں، زندہ کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے.( نعرہ ہائے تکبیر، وللہ الحمد ) قرآن کریم کے تراجم اور قرآن کریم کی تفسیر کے کثرت سے شائع کرنے کا انتظام ہو رہا ہے.اس منصوبہ کی ابتدا ہو چکی کہ امریکہ میں ایک ملین ( دس لاکھ ) قرآن کریم کے مترجم نسخے شائع کئے جائیں.تجربہ ایک بہت بڑے چھاپہ خانے نے ہمیں ہزار نسخے طبع کرنے شروع کئے ہیں اور امید ہے کہ نومبر کے مہینہ میں یہ نہیں ہزار نسخے وہ طبع کر کے ہمیں دے دیں گے.اس کے چند صفحات نمونہ کے طور پر ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں.طباعت کا معیار بہت اچھا ہے اور بڑے سستے داموں وہ اسے طبع کر رہے ہیں.یہ نہیں ہزار نسخے سارے امریکہ میں پھیلا کے مزید آرڈر لئے جائیں گے.وہاں تھوک فروش اسب ہیں ، جو کہتے ہیں، ہمیں کئی لاکھ نسخے دے دو.لیکن وہ نمونہ مانگتے تھے نمونہ تیار ہوگیا اور روک دور ہوگئی.راہ ہموار ہوگئی.اور خدا کے فضل پر ہم امید رکھتے ہیں کہ اگلے چند سالوں کے اندر لاکھوں کی تعداد میں قرآن کریم امریکہ کے ملک میں تقسیم ہو جائے گا.596
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 21اکتوبر 1979ء اسی طرح سوئٹزر لینڈ اور جرمنی میں دو جگہ تقاریر ( مذاکرہ) کا انتظام کیا گیا.جس میں ان ممالک کے حالات کے لحاظ سے کثرت سے لوگ شامل ہوئے.اور اسلام کی تعلیم سننے کی طرف عوام کو توجہ پیدا ہو رہی ہے.اور ان کے عوام کو اسلام کی تعلیم سنانے کے لئے ہمیں تیاری کرنی چاہیے.جس کے لئے ہمیں مذہبی تعلیم یافتہ نو جوانوں کی ضرورت ہے.اس کے لئے جامعہ احمدیہ میں پڑھنا ضروری نہیں.ہر احمدی جوان کو زیادہ سے زیادہ توجہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے.انگریزی دان طبقہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کا انگریزی ترجمہ نہایت اچھی شکل میں بلند پایہ طباعت اور عمدہ کاغذ پر کتابی شکل میں شائع ہونا شروع ہو گیا ہے.اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے پڑھ کر ہر پڑھنے والا اسلام کے حسن اور اسلام کے دلائل کی جو تاثیر ہے، اس کا قائل ہو جاتا ہے.پس ہمیں خود بھی پڑھنا چاہیے اور اپنے واقفوں کو بھی پڑھانا چاہیے.خصوصاً غیر مسلم واقفین کو ، واقف کار دوستوں کو.یہ جو بارش ہورہی ہے رحمت کی ، (اس وقت بارش برس رہی تھی.مرتب ) تم میں سے کوئی شخص یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس کے قطروں کو تم گن سکتے ہو.مگر خدا تعالیٰ کے فضلوں کی ہم پر جو بارش ہو رہی ہے، وہ اس سے بھی زیادہ ہے.( نعرہ ہائے تکبیر ، اسلام ، احمدیت، امیر المؤمنین زندہ باد کے نعرے) پس آج میرا یہ پیغام ہے جماعت کے بڑوں اور چھوٹوں کی طرف کہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے ، حمد وثنا کے ترانے گاتے ہوئے ، آگے سے آگے بڑھتے چلے جاؤ.خدا کے فرشتے تمہارے ساتھ ہوں گے.(نعرے) خدا کے فرشتے آسمانوں سے تمہاری مدد کو اتریں گے اور تم اپنی زندگی کا مقصد اپنی زندگیوں ہی میں پورا ہوتے دیکھ لو گے.انشاء اللہ.آؤ، اب دعا کریں“.( مطبوعه روزنامه افضل 30اکتوبر 1979ء) 597
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اکتوبر 1979ء دنیا جو دوری کی راہیں اختیار کئے ہوئے ہے ، خدا کرے وہ قرب میں بدل جائیں خطبہ جمعہ فرمودہ 26اکتوبر 1979ء انصار اللہ کے اجتماع کے جمعہ کے خطبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس دن میں تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کیا کرتا ہوں.تحریک جدید کو شروع ہوئے 45 سال ہوچکے ہیں اور دفتر دوم کو شروع ہوئے 35 سال ہو چکے ہیں اور دفتر سوم کو شروع ہوئے 14 سال ہو چکے ہیں.یہ چھیالیسویں سال کا اعلان ہے، جو میں اس وقت کر رہا ہوں اور دفتر دوم کے چھتیسویں اور دفتر سوم کے پندرھویں سال کا اعلان.45 سال پہلے تحریک جدید جب شروع ہوئی تو 35 سال پہلے یعنی اس کے دس سال کے بعد دفتر دوم کا اعلان ہو گیا.لیکن اس کے بعد پچیسویں سال، جب دس سال پھر گزر گئے تو دفتر سوم کا اعلان ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا.وقت گزر گیا.بہت ساری وجوہات تھیں، ان میں جانے کی ضرورت نہیں.بہر حال آج سے 14 سال پہلے میں نے اس کا اعلان کیا.اعلان اس لئے کیا کہ دفتر اول میں جو دوست شامل ہوئے ، ان کا اس لمبے عرصہ کے گزر جانے کی وجہ سے چندہ، ان کی مالی قربانی اتنی نہیں رہی تھی کہ تحریک کے بوجھ کو وہ اٹھا سکیں.اور ایک وقت ایسا آیا کہ جب تحریک جدید کا سارا چندہ قریباً ایک جگہ ٹھہر گیا.اور ضروریات تو ہر سال بڑھتی ہی ہیں.اور جماعت کا قدم تو ہر سال آگے ہی بڑھنا چاہیے.اس وقت یہ بات ذہن میں آئی کہ دفتر سوم کا اعلان ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا.وہ اعلان کیا گیا.66ء،67ء میں پہلی دفعہ دفتر سوم کا چندہ تحریک جدید کے چندہ میں شامل ہوا.66ء،67ء میں دفتر اول کا چندہ ایک لاکھ، تریسٹھ ہزار تھا اور دفتر سوم کا پہلے سال کا چندہ پانچ ہزار، دوسو، ستاون ہوا.کام شروع ہو گیا اور اس نے ترقی کرنی تھی.آہستہ آہستہ پہلے سال اس طرف توجہ نہیں دی گئی.دوستوں کو توجہ نہیں ہوئی.کچھ لوگ دفتر دوم میں شامل ہوتے رہے.جن کو توجہ ہوئی، اس طرف اور سال رواں یا پچھلے سال کہنا چاہیے ، یعنی 77ء،78ء میں دفتر اول کا چندہ ایک لاکھ، تریسٹھ ہزار دوسو، اٹھائیس سے گر کے ایک لاکھ ، اکیس ہزار تین سو اٹھتر رہ گیا.یعنی یہ نیچے جارہے تھے.دوست فوت ہو رہے تھے، دوست پنشن پر جا رہے تھے ، بڑی عمر کی وجہ سے آمدنی میں کمی ہورہی تھی ، وہ اس قدر مالی قربانی نہیں دے سکتے 599
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26اکتوبر 1979ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد پنجم.تھے، حصہ لینے پر بھی.جو پہلے دیا کرتے تھے یا فوت ہو گئے، اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی احسن جزاء دے.دفتر دوم 66ء،67ء کو پانچ ہزار دوسو، ستاون روپے سے شروع ہوا اور 76ء، 77ء میں ایک لاکھ ستر ہزار، ایک سو چورانوے تک پہنچ گیا.یعنی جس وقت یہ شروع ہوا، اس وقت دفتر اول کا جو چندہ تھا، ایک لاکھ، تریسٹھ ہزار اس سے دس ہزار سے بھی زیادہ رقم 77ء،78ء میں دفتر سوم سے آنی شروع ہو گئی.اس سال تو نہیں کیونکہ میں مشورہ نہیں کر سکا اور حالات کا جائزہ نہیں لے سکا ، سوچ اور غور اور فکر نہیں کر سکا اور دعائیں نہیں کر سکا، اس لئے دفتر چہارم کا اعلان نہیں کروں گا.لیکن یہ جو کھڑا ہو گیا تھا چندہ، اس کے نتیجہ میں تحریک جدید کو اپنے کام میں وقتیں پیدا ہونی شروع ہوگئیں.جس کو ایک حد تک دفتر سوم نے سنبھالا.لیکن بعض ایسے ذرائع آمد تھے، جو یکدم بند ہو گئے اور ان کی وجہ سے بہت دقت کا سامنا ہوا.پھر میں نے جماعت کو ایک ٹارگٹ دیا، پندرہ لاکھ روپے کا.آٹھ اور دس لاکھ کے درمیان کہیں کھڑی ہو گئی تھی تحریک، مالی قربانیوں کے میدان میں.اور ٹارگٹ کے لئے جماعت کوشش کرتی رہی لیکن ٹارگٹ تک پہنچی نہیں.یہ کئی سال کی بات ہے.اس واسطے میں نے ٹارگٹ بڑھایا نہیں.ہر سال میں کہتا رہا، میراپندرہ لاکھ کا ٹارگٹ ہے، یہاں تک پہنچو.پچھلے سال کی وصولی تیرہ لاکھ منا نوے ہزار ہے.سال رواں میں 22 اکتوبر تک آٹھ لاکھ کی وصولی ہو جانی چاہیے تھی.اس میں سے سات لاکھ اسی ہزار وصول ہو چکا ہے.اس لئے امید ہے کہ سال رواں میں کم و بیش پندرہ لاکھ کا ٹارگٹ پورا ہو جائے گا، انشاء اللہ تعالی.یہ پاکستان کی جماعتوں کی مالی قربانی ہے.تحریک جدید کو جہاں یہ دقت پیش آئی کہ ساری دنیا کے اقتصادی حالات کے نتیجہ میں پاکستان سے باہر دین اسلام کی خدمت کے لئے جماعت کوئی رقم قانونا بھجوا نہیں سکتی تھی اور نہیں بھجوائی گئی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں یہ سامان پیدا کر دیا کہ باہر اس قدر ترقی جماعت کو خدا کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوگئی کہ باہر کی جماعتوں نے، بیرون پاکستان کی جماعتوں نے ، بیرون پاکستان کے بہت بڑے بوجھ خود اٹھالئے اور خود کفیل ہو گئے.یہاں جو اخراجات ہیں، وہ اب کم ہو گئے ہیں.لیکن جو ہیں، وہ بہت ضروری ہیں.مثلاً مبلغین کا تیار کرنا ، جامعہ احمدیہ کا خرچ ہے.مبلغین کا تیار کرنا ، جماعت کی ذمہ داری اس معنی میں ہے کہ تیاری کا خرج جماعت مہیا کرے.اور جماعت کی ذمہ داری اس معنی میں بھی ہے کہ خرچ کروانے کے لئے اپنے بچے وقف کرے.اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق مخلص نو جوان آگے آئیں.600
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 26 اکتوبر 1979ء اس سلسلہ میں جو چیز نمایاں ہو کر میرے سامنے آئی ، وہ یہ ہے کہ جو ہماری نو جوان واقفین کی نسل ہے، ان میں بڑی بھاری اکثریت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت مخلص اور قربانی دینے والی اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو صحیح معنی میں وقف کرنے والی ہے.اور صرف نو جوان واقفین ہی نہیں ، جماعت احمدیہ کی نوجوان نسل احمدیوں کے گھروں میں پیدا ہوئی ہے یا احمدی ہوئی ہے اور اسی طرح وہ احمدی نوجوان نسل بن گئی ، خدام الاحمدیہ بن گئے ، ان کے اندر بڑا جذ بہ پایا جاتا ہے.اللہ تعالی سے بڑا پیار پایا جاتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بڑی محبت پائی جاتی ہے.یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنا اور مصلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو انسانی دل میں پیدا کرنا ہے تو انہیں بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی.جس کے لئے وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ تیار ہیں، پہنی طور پر بھی اور قلبی طور پر بھی.اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ علمی طور پر بھی اس کے لئے تیار ہوں.یہ بڑی خوشی کی بات ہے.لیکن دوسری طرف جو کمزور تھا، وہ زیادہ کمزور ہو گیا.مقابلے میں آگیا نا بہت زیادہ مخلصین کے تو ہزار میں سے ایک، شاید بیس ہزار میں سے ایک، شاید ایک لاکھ میں ایک ہو.لیکن ان کی جو شرارتیں اور ان کی نالائقیاں تھیں، اللہ تعالیٰ سے ان کی جو بے وفائیاں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی جو بے پرواہی تھی ، وہ نمایاں طور پر ہمارے سامنے آنے لگ گئی.اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے بھی سامان پیدا کرے اور مخلصین کی اس نسل کو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کی حفاظت میں رکھے اور شیطان کے ہر حملہ سے انہیں محفوظ رکھے.تو آج میں پندرہ لاکھ کے ٹارگٹ کے ساتھ ہی تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کرتا ہوں ، تین شکلوں میں.دفتر اول کے چھیالیسویں سال کا، دفتر دوم کے چھتیسویں سال کا اور دفتر سوم کے پندرھویں سال کا.جو نئے کمانے والے ہیں، جو نئے بلوغت کو پہنچنے والے ہیں، جو پہلی دفعہ اپنے دلوں میں یہ احساس محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، خواہ روپیہ دوروپے ہی کیوں نہ ہو، خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور مالی قربانیاں بھی پیش کرنی چاہئیں، وہ اس کو مضبوط کریں.مالی جو پہلو ہے، اس کو بھی اور جو اس سے اہم دوسرے پہلو ہیں، انہیں بھی مضبوط کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور اللہ پر توکل اور اس سے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گی اور ان کو ادا کرنے کی اپنے رب کریم سے توفیق پائیں گی.601
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 26اکتوبر 1979ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور ہم سب کو، جو انصار اللہ سے تعلق رکھنے والے ہیں، اپنی عمر کے لحاظ سے انصار کی تنظیم میں ہیں، ہم سب کو ان تین حقیقتوں پر قائم ہو کر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی توفیق عطا کرے.تا کہ ہم ان کے لئے ، جو عمر میں ہم سے چھوٹے یا علم میں اتنے پختہ نہیں یا جو تجربہ میں کم ہیں یا بعد میں آنے والی نسلیں ہیں، ان کے لئے نیک نمونہ بنیں، بدنمونہ نہ بنیں.تا کہ ہر نسل اپنے دور میں سے گزر کے جب انصار اللہ میں شامل ہو تو آنے والی نوجوان نسلوں کے لئے وہ نمونہ بنتی چلی جائے.تاکہ وہ کام جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مسلمان کے سپرد کیا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرے، وہ جلد پورا ہو.اور یہ مقصد ہمارا اس زندگی میں بھی ہمیں حاصل ہو اور دنیا جہان کی خوشیاں مل جاتی ہیں، اگر یہ مقصد حاصل ہو جائے کہ نوع انسانی ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کی توحید کے جھنڈے تلے جمع ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور محبت میں مست اور سر شار آگے ہی آگے خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر چلتی چلی جائے.یہ نظارہ ہم دیکھیں.جو دوری کی راہیں آج دنیا اختیار کئے ہوئے ہے، خدا کرے وہ دوری کی راہیں قرب کی راہوں میں بدل جائیں.اور اس میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہو.اس رنگ میں کہ خدا ہماری کوششوں کو قبول کرے اور ہمیں بھی اس کی محبت اور پیار حاصل ہو.آمین.( مطبوعه روز نامه الفضل 22 ستمبر 1980ء) 602
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم خلاصہ خطاب فرمودہ 28 اکتوبر 1979ء سورۃ انفال میں بیان فرمودہ مومنین کی نوصفات اور صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ خطاب فرمودہ 28 اکتوبر 1979ء بر موقع سالانہ اجتماع انصار الله حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطاب کا آغا ز سورۃ انفال کی پانچویں آیت کی پر حکمت تفسیر سے کیا اور اس سے استنباط کرتے ہوئے سچے مومنوں کی نوصفات بیان کیں اور فرمایا کہ جب ہم ان آیات پر غور کرتے ہیں اور یہ صفات اپنے سامنے رکھتے ہیں تو ہمارے سامنے جماعت احمدیہ کا اور اس کی ذیلی تنظیموں کا پروگرام آ جاتا ہے.جس کا نہیں ابھی اعلان کروں گا“.حضور نے فرمایا کہ اس اعلان سے قبل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعتی زندگی کے سوسال پورے ہونے میں قریباً دس سال باقی ہیں.اور میرے اس پروگرام کا تعلق انہی دس سالوں سے ہے.حضور نے اپنے تاریخی پروگرام کی شق وار وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس پروگرام کا پہلا حصہ علوم روحانی کا سیکھنا ہے.اس کے لئے ہر احمدی بچہ خواہ وہ شہر میں رہنے والا ہو یاد یہات میں ، خواہ وہ بڑی جماعتوں کا طفل ہو، خواہ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھنے والا ہو، جہاں پر ایک ہی خاندان احمدی ہو، اسے جتنی جلدی ممکن ہو سکے، قاعدہ یسر نا القرآن پڑھا دیا جائے“.حضور نے اس پروگرام کی دوسری شق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عمر کے لحاظ سے ہر طفل، ہر خادم، ہر نیا احمدی، ہر پر ان غافل احمدی قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی طرف متوجہ ہو.اور اس پروگرام کے اس حصے کی تیسری شق یہ بیان فرمائی کہ جو افراد قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں، وہ قرآن کریم کے معانی کی تفسیر پڑھنے کی طرف " متوجہ ہوں.حضور نے فرمایا کہ ”جب ہم نے یہ کہا ہے کہ ایک سچا مومن اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کرتا ہے تو جو شخص یہ جانتا ہی نہیں کہ اللہ تعالی کیا حکم دیتا ہے؟ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کیسے کر سکے گا ؟“ 603
خلاصه خطاب فرمودہ 28 اکتوبر 1979ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک.....جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ معلم حقیقی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتفسیر خود سکھائی ، ہمیں اس کا علم ہو.اس لئے جماعت احمدیہ میں کثرت سے ایسے لوگ ہونے چاہئیں، جو ان کتب حدیث کو پڑھنے اور جاننے والے ہوں ، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تفسیر پائی جاتی ہے.اور پھر وہ اس پیاری تفسیر کو ہر احمدی کے کان تک پہنچانے والے ہوں“.مزید فرمایا کہ تفسیریں دو قسم کی ہیں.ایک وہ، جو کہ خود خدا تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی ، دوسرے وہ ، جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور کے نتیجہ میں نبی کریم نے خود کی.پھر فرمایا:.یہ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر بگڑے ہوئے ماحول میں جب انسان اپنے مسائل حل کرنے میں نا کام ہو جائے تو انسان کی مدد کے لئے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن ہی آئے گا“.حضور نے اپنے اس عظیم پروگرام کے مادی علوم حاصل کرنے کے حصے کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش آیات باری سے بھری ہوئی ہے، اس میں یہ حکم چھپا ہوا ہے کہ جن علوم کو دنیوی علوم کہا جاتا ہے اور جن کا تعلق ستاروں، کیمیا، طبیعات، کھانے پینے کی اشیاء اور طب سے ہے، ان میں بھی خدا کی آیات نظر آتی ہیں.اور ان کوسیکھنا بھی ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے.حضور نے پر شوکت لہجے میں اعلان فرمایا کہ اس لئے آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت میری اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے، اپنی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے، دنیا پر احسان کرنے کی خاطر اور رسول کی اطاعت کرتے ہوئے ، دنیوی علوم بھی روحانی نور کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے سیکھنے کی کوشش کرے.اور اس دس سال میں یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا کوئی بچہ بھی میٹرک کی تعلیم سے کم کا نہ ہو.حضور نے ارشادفرمایا کہ اس کی ذمہ داری امرائے اضلاع تنظیم انصار اللہ تنظیم خدام الاحمدیہ اور جماعت پر عائد ہوتی ہے.604
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ خلاصہ خطاب فرمودہ 28اکتوبر 1979ء ”اس کے بعد جو بچے ذہین نکلیں، ان کو آگے پڑھانے کی ذمہ دار جماعت ہے.تا کہ ہم پر جو خدا نے اتنا بڑا احسان کیا ہے، ہم غریبوں کے گھروں میں ذہین بچے پیدا کر دیئے اور ذہانت سے ہماری جھولیاں بھر دی ہیں ، ہم ان سے بے اعتنائی کر کے ناشکرے نہ بنیں“.حضور رحمہ اللہ نے اپنے پروگرام کا تیسرا حصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ " تیسرا حصہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ بحیثیت جماعت اسلام کے حسین اخلاق پر قائم ہو اور اصلاح یافتہ معاشرہ اپنے ماحول میں پیدا کرنے کی کوشش کرئے“.فرمایا کہ معاشرہ کو برائیوں سے بچانا آپ کی ذمہ داری ہے.اور یہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے کہ جو کوئی بھی معاشرہ کو برائیوں سے بچانے کی کوشش کرے، اس کو آپ کا پورا تعاون حاصل ہو“.حضور نے اس ضمن میں چند موٹی باتیں بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کوئی احمدی جھوٹ نہیں بولتا، کسی احمدی کو گالی دینے کی عادت نہیں ہونی چاہئے ، ہر احمدی اپنی بات کا پکا ہو، عہد پورا کرے، جو کہے، اس پر عمل کرے.چھوٹی چھوٹی باتوں سے جماعت کے اندر یا باہر ر بخش نہ پیدا ہونے دے.کوئی احمدی اپنے احمدی بھائی سے اور نہ دوسرے بھائیوں سے لڑائی جھگڑا کرے.اور اگر کوئی اختلاف ہو تو جہاں تک ملکی قانون اس کی اجازت دے، اس اختلاف کو جماعت ثالثی کے ذریعہ دور کرے.حضور نے فرمایا کہ کوشش کرو کہ پیار کے ساتھ دنیا کے دل خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتو.اگر تم اب ایسا کرو گے تو خدا کے پیار کو حاصل کر لو گے.اور اگر تم خدا کے پیار کو حاصل کر لو گے تو ہر دو جہان کی نعمتیں تمہیں مل جائیں گی.پھر کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اس سے قبل حضور رحمہ اللہ نے سورۃ انفال کی پانچویں آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے سچے مومنوں کی نوصفات بیان فرمائیں.حضور نے پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ سچے مومن تقویٰ کے حصول یعنی ایسے اعمال بجالانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں دوہ الہ کی امان ، حفاظت اور پناہ میں آجائیں.دوسری صفت یہ ہے کہ سچے مومن معاشرے سے گندگی دور 605
خلاصه خطاب فرمودہ 28 اکتوبر 1979ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کر کے اصلاح یافتہ معاشرہ بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.تیسری صفت یہ ہے کہ ان کی اصلاح کی غرض اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا ہوتی ہے.اور چوتھی صفت یہ ہے کہ ان کی اصلاح کی غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا ہوتی ہے“.حضور نے فرمایا کہ نبی کریم کی اطاعت کے چار معنی ہیں.یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر قرآن کے مطابق اپنی زندگی گزاریں، اس تفسیر کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں ، اسوہ رسول کے حسن اور عظمت سے واقف ہوں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اجتہاد فرمایا ہے، اس کو ہر دوسرے اجتہاد پر فوقیت دیں.حضور نے سچے مومن کی پانچویں صفت یہ بتائی کہ ” جب اس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جائیں تو اس کا دل خشیت اللہ سے بھر جائے اور چھٹی صفت یہ ہے کہ اللہ کی آیات کا ذکر اس کے ایمان کو بڑھائے“.حضور نے فرمایا کہ آیات اللہ کا ایک مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہر خلیق اس کی آیت ہے اور دوسرا مطلب معجزات اور نشانات ہیں، جو انسان کو خدا تعالیٰ اپنی طرف راہبری کرنے کے لئے دکھاتا ہے.حضور نے مومن کی ساتویں صفت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سچا مؤمن صرف اللہ پرتوکل کرتا ہے اور باقی ہر ھنے کو لاھے محض سمجھتا ہے.مومن کی آٹھویں صفت یہ ہے کہ وہ حقوق اللہ کی ادائیگی اس طرح کرتا ہے کہ اس کے دل میں کوئی کھوٹ اور غیر اللہ کی طرف کوئی رغبت نہیں ہوتی.اور نویں صفت سچے مومن کی حضور نے یہ بیان فرمائی کہ وہ اللہ کی مخلوق کے سب حقوق ادا کرنے کے لئے تیار رہتا ہے.حضور نے فرمایا کہ ایسے مومنوں کو اللہ تعالی بڑے بڑے مدارج بخشتا ہے، ان کی بخشش کا سامان کرتا ہے اور ان کو معزز رزق عطا کرتا ہے.حضور نے بخشش کے حصول کے تین طریقوں کا بھی ذکر کیا.جن میں اول: دعا ہے.606
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرمودہ 28 اکتوبر 1979ء دوم: ہوائے نفس کی یلغار سے بچ کر اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کرنا ہے.اور سوم : وہ مجاہدہ ہے، جو کہ ہر ایسی قوت کے خلاف کیا جاتا ہے، جو انسان کو خدا سے دور لے جاتی ہے.حضور نے دعا فرمائی کہ ” خدا کرے کہ ہم سچے مومنوں کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خدائی انعامات کے وارث بنیں.آمین.(مطبوعہ روز نامه افضل 129اکتوبر 1979ء) 607
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسه سالانه نا بجیر یا ہمیں خود کو اور اپنی اولا دوں کو غلبہ اسلام کی صدی کے لئے تیار کرنا چاہیے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ نائیجیریا منعقدہ 23 تا25 دسمبر 1979ء ( حضور رحمہ اللہ کے پیغام کا ترجمہ درج ذیل ہے.) مجھے یہ جان کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ 23,24,25 دسمبر کو اپنی سالانہ کا نفرنس منعقد کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ اس کانفرنس اور اس میں حصہ لینے والوں کو اپنی برکات سے نوازے.اور اسے نائیجیریا اور اس کے ہمسایہ ممالک میں اسلام کے پھیلنے کا موجب بنائے.آمین اس موقع پر میں آپ کی توجہ اس روحانی انقلاب کی طرف دلانا چاہتا ہوں ، جوسید نا حضرت مسیح موعود اور مہدی علیہ السلام نے اس دنیا میں برپا کیا.آپ کی بعثت کے وقت اسلام اور مسلمان انتہائی کسمپرسی اور تنزل کی حالت میں سے گزر رہے تھے.مسلمان غریب اور جاہل تھے، ان کی سیاسی طاقت اور اثر ونفوذ ختم ہو چکا تھا.ان کا دیوالیہ نکل چکا تھا اور وہ انتہائی مایوسی کا شکار تھے.ان کے اندر یہ جذ بہ ختم ہو چکا تھا کہ وہ ترقی کریں اور دنیا میں زندہ اقوام کے ساتھ شامل ہوں.اسلام پر تمام اطراف سے حملے ہور ہے تھے اور اس کا دفاع کرنے والا کوئی نہ تھا.دشمنان اسلام میں سے عیسائیت بہت سخت اور تیر تھی.عیسائی مناد تمام ممالک میں جا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید طور پر حملہ آور تھے.عیسائیوں کی سیاسی طاقت اور دولت ان کی پشت پناہ تھی.عیسائیت اپنی فتح کے متعلق اس قدر پر امید تھی کہ ان کے منادوں نے یہ دعوی کر دیا کہ 1.براعظم افریقہ ان کی گود میں ہے.2.برصغیر ہند میں کوئی ایک بھی مسلمان باقی نہ رہے گا.3 وقت آچکا ہے کہ کعبہ پر عیسائیت کا جھنڈا بلند کر دیا جائے.ان تمام دعاوی کے خلاف صرف مسیح موعود اور ان کے چند غریب پیروکار تھے.ان کے پاس کوئی پیسہ، کوئی طاقت اور کوئی سیاسی نفوذ نہ تھا مگر خدا، جورب العالمین ہے، وہ اس کا مددگار تھا.اور اس خدا نے اس کو بتایا کہ اسلام کی فتح کے دن قریب ہیں اور خدا سے علم پا کر اس نے یہ دعوی کیا کہ:.609
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ نا یجیر یا تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا، نہ کند ہوگا، جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید ، جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.چونکہ یہ پیشگوئی تھی ، اس لئے مذہبی دنیا میں ایک مکمل تبدیلی پیدا ہوئی.جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ براعظم افریقہ بجائے عیسائیت کی گود میں جانے کے بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آرہا ہے، ہندو پاکستان میں عیسائی مناد ایک عام احمدی نوجوان سے بھی بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں.عیسائیت کا جھنڈا خانہ کعبہ پر لہرانے کا خواب نہ شرمندہ تعبیر ہوا اور نہ آئندہ ہوگا.ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے نشانات روز بروز واضح ہورہے ہیں.اسلام کے دیگر مذاہب پر غالب آنے کے دن پہلے سے بہت نزدیک ہیں.مگر اس کے نتیجہ میں آپ کے کندھوں پر بھی ایک عظیم ذمہ داری ہے.ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو غلبہ اسلام کی صدی کے لئے تیار کرنا چاہیے.ہمیں پوری عاجزی کے ساتھ اس کا استقبال کرنا ہوگا.اور خدائے قادر مطلق کے حضور شکر و سپاس کے جذبہ کے ساتھ سجدہ ریز ہونا چاہئے.ہمیں پہلے سے کہیں بڑھ کر اپنی زندگیاں اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارنی چاہیں.ہمیں اپنی اولادوں کی قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق تربیت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.تا کہ جب غلبہ اسلام کی صدی میں لوگ جوق در جوق شامل ہوں، ہم ان کے استاد اور صحیح راہنما بن کر خدمت بجالا سکیں.اس بناء پر میں تم سے یہ بار بار کہتا ہوں کہ آپ قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب، جو کہ قرآن کریم کی ہی تفسیر ہیں، کا مطالعہ کریں.تا کہ آپ صحیح اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہو سکیں اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق بسر کر سکیں.مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور روزانہ تمہارے لئے دعا کرتا ہوں.خدا تعالیٰ آپ کو اور آپ کے بچوں کو اپنی برکات سے نوازے اور آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور آپ کو اس دنیا اور اگلی دنیا کی بہترین نعماء سے نوازے.آمین.610 مطبوعه روزنامه الفضل 26 جنوری 1980ء)
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم وو ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1979ء بر موقع جلسہ سالانہ میں کوشش کر رہا ہوں، اللہ تعالیٰ توفیق دے، پوری دیانتداری کے ساتھ اور اس کی اہمیت کے مطابق اپنی ذمہ داری کو نباہوں.آپ دوست بھی دعا کریں، اللہ تعالیٰ مجھے پوری صحت دے اور اپنے فضل سے جو میرے دل میں یہ خواہش ہے کہ ایسی باتیں میرے منہ سے نکلیں، جو دنیائے اسلام کے لئے مفید ہوں اور آپ کے دلوں پر اثر کرنے والی ہوں اور آپ کو عمل پر ابھارنے والی ہوں، وہ خواہش خدا تعالیٰ پوری کرے.ستائیس تاریخ کی جو تقریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نائب خليفة ہے، اس کا عنوان ہمیشہ ہی یہ ہوتا ہے.ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی کرتا اللہ تعالی سال بھر جو جماعت احمدیہ پر بے شمار فضل اور رحمتیں کرتا ہے، اس کا ہم مختصر اذ کر کرتے ہیں.پورا تو نہیں کر سکتے.کیونکہ کوئی ساعت بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے خالی نہیں.اور خدا تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے پیار کے رنگ میں اور اسلام کو مضبوط کرنے کے رنگ میں اور دنیا میں ایک انقلاب عظیم اسلام کے حق میں پیدا کرنے کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں، وہ تو بے حد و شمار ہیں.ان کو تو تھوڑے سے وقت میں بند نہیں کیا جاسکتا.انسان اپنی سمجھ کے مطابق بعض فضلوں کا انتخاب کرتا اور انہی کا ذکر کرتا ہے.ہر سال رسائل اور کتب، جو شائع ہوتی ہیں، نئی یا پرانی اہم کتب، ان کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، جماعت کو.ایک کتاب جو ہے، وہ محض کاغذوں کا اور جو سیاہی سے کچھ لکیر میں گھسیٹی جاتی ہیں، اس کا نام تو نہیں.کتاب تو اس کا نام ہے کہ اس کے اندر بعض انسان، جو حقائق کا ئنات ہیں، ان میں سے بعض کو نے کے اس رنگ میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا انہیں سمجھ سکے، ان سے فائدہ اٹھا سکے.یہی حال اصولاً ہمارے روز نامچوں اور ہفتہ واروں اور جو ماہوار رسالے ہیں، کچھ ان کا ہونا چاہیے.اس کی طرف شاید پوری توجہ نہیں کی جارہی یا موجودہ حالات میں اتنے اور ایسے آدمی نہیں مل رہے، جو ہماری زندگی کے مطابق ہماری ذمہ داریوں کے مطابق مضامین لکھ سکیں.611
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم لیکن ایک بات میں آپ کو بتا دوں.میں کئی سال آکسفورڈ میں پڑھتا رہا ہوں.اور جو میں نے سمجھا تھا کہ میں کیوں وہاں بھیجا گیا ؟ مجھے اجازت دی گئی اور حضرت مصلح موعودؓ نے وہاں مجھے بھیجا اور خرچ ہوا، مجھ پر.یہ اس لئے نہیں تھا کہ میں ان سے کچھ سیکھوں.بلکہ اس لئے تھا کہ میں اس قابل ہو جاؤں کہ ان کو کچھ سکھا سکوں، اپنے وقت پر.اور ان کو غور سے زیر مطالعہ رکھو.میں نے ان کی زندگی، ان کی عادتوں کا بڑے غور سے مطالعہ کیا.علم کے میدان میں ایک چیز جو نمایاں طور پر، میرے دماغ پر اثر انداز ہوئی ، وہ یہ تھی کہ ان کا اگر کوئی ایک شخص صرف ایک چھپی ہوئی صداقت قوم کے سامنے پیش کرتا ہے.(اس وقت پیش کرتا تھا، میں کہنے لگا تھا، پھر میں نے بدل دیا کیونکہ وہی طریق جاری ہے.) تو وہ اس کو سر پر اٹھا لیتے ہیں.کیونکہ ساری قوم نے مل کے آگے بڑھنا ہے.اگر ہر سال کسی قوم کے دس ہزار آدمی ( دس کروڑ میں سے ) ایک نئی چیز اپنی قوم کو دیتے ہیں تو اس قوم کے پاس دس ہزار نئے علوم کا خزانہ جمع ہو گیا.وہ اس حقیقت کو سمجھتے تھے.ان کی آنکھ ان فقروں کی طرف، ان عبارتوں کی طرف نہیں جاتی تھی پڑھتے وقت ، جو وہ دوہرا ر ہے تھے، پہلوں سے حاصل کردہ علوم کے متعلق.صرف وہ ایک نئی بات، جو انہوں نے کہی ہوتی اور ان کی وضاحت کی ہوتی تھی، اس کو وہ لیتے تھے اور ان کو وہ سروں پر بٹھا لیتے تھے.کہتے تھے، بڑے خادم ہیں یہ.اگر آپ کوشش کریں تو ساری کمزوریوں کے باوجود ہمارے اخبار اور رسالے ایک بات تو آپ کو ضرور بتا دیں گے.ہر موضوع پر ، جو آپ سمجھتے ہوں گے کہ آپ کو اس سے پہلے معلوم نہیں تھی یا اگر کبھی معلوم تھی تو اسے آپ بھلا چکے تھے.یہ بھی بڑا فائدہ ہے.اگر آپ آٹھ ، دس رسالے، جو چھپتے ہیں، ان کو پڑھیں ، ماہانہ جو ہیں.تو ایک سو، ہمیں باتیں آپ کو مل گئیں.اور روزانہ جو الفضل چھپتا ہے، اس میں سے ایک بات اگر آپ کو ایسی ملے، جو آپ کی زندگی میں حسن پیدا کرنے والی ثابت ہو آئندہ تو سال میں شاید 360 یاوہ چھٹی کرتے ہیں اگر وہ تو اس سے کم اتنی باتیں مل گئیں.لوگ کہہ دیتے ہیں الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا ہونا چاہیے.میں بھی کہتا ہوں، الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا ہونا چاہیے.وہ کہتے ہیں ( بعض لوگ) کہ اگر الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا نہیں تو اس کو لے کے پڑھنے کی کیا ضرورت؟ میں کہتا ہوں کہ اگر الفضل کا ایک مضمون بھی اعلیٰ پایہ کا ہے تو اسے لے کے اسے پڑھنے کی ضرورت ہے.میں اس سے بھی آگے جاتا ہوں.میں کہتا ہوں اگر الفضل میں ایک ایسا مضمون ہے، جس میں ایک بات ایسی لکھی ہے، جو آپ کو فائدہ پہنچانے والی ہے تو اس فائدہ کو ضائع نہ کریں آپ، اگر آپ نے بحیثیت قوم ترقی کرنی ہے.کتا بیں بھی بہت سی چھپتی ہیں ہر سال.اب تو اتنی ہوگئی ہیں کہ اصولی طور پر ہی باتیں کی جاسکتی ہیں.سوائے ان اخباروں کے متعلق اور کتابوں کے 612
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی Out of print پہلے نایاب تھیں، اب وہ پھر طبع ہو گئیں اور آ گئیں آپ کے لئے دکانوں پر.یا کوئی بہت ہی اعلیٰ کتاب کسی نے بڑی تحقیق کے بعد لکھی.یا تر جے آگئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعض کتابوں کے یا بہت سے اقتباسات کے.باقی جو دوسرے درجے پہ یا شاید پھر تیسرے درجے پر کتابیں ہیں، جن کا ذکر ہم کرتے ہیں یہاں، وہ ہیں ایسی کتابیں، جن کے مصنفین نے نظام جماعت احمدیہ سے تعاون کیا اور جو یہ قاعدہ بنایا گیا ہے کہ جماعت میں کوئی شخص اپنے طور پر کوئی کتاب شائع نہ کرے، کیونکہ اس طرح پر بہت سے فتنوں کے دروازے کھلتے ہیں، بلکہ نظارت تصنیف سے وہ رابطہ قائم کرے اور ان کے مشورے کے ساتھ اور ان کو اپنا مسودہ دکھانے کے بعد اور ان سے منظوری لے کر وہ کتاب کو شائع کرے، ان کے تو اشتہار بھی آنے چاہئیں الفضل میں.ان کا ذکر بھی ہونا چاہیے ہماری تقریروں میں.اس کے علاوہ وہ شخص، جو نظام جماعت احمدیہ سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں اور کہتا ہے، مجھے کیا ضرورت ہے، ان سے ملاپ کرنے کی ان سے مشورہ لینے کی، ان سے اجازت لے کے شائع کرنے کی؟ اس کو جماعت احمدیہ میں پھر کتاب بیچنے کی بھی کیا ضرورت ہے؟ وہ آتا کیوں ہے، پھر جماعت اور احمدیوں کے پاس کہ تم کتاب خرید لو؟ یہ بہت ضروری ہے.عام لوگ شاید اس کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوں.یہ بہت اہم باتوں میں سے ہے کہ ہم اس قسم کی فتوں کے دروازے بند کر دیں.اور اگر کوئی شخص کہے کہ بعض کتا ہیں ایسی بھی چھپ سکتی ہیں، جن میں کوئی فتنے والی بات نہ ہو.میں بحث میں نہیں پڑوں گا.میں کہوں گا، ٹھیک ہے.کوئی کتاب ایسی بھی چھپ سکتی ہے، نظام جماعت سے باہر نکل کر ایک احمدی مصنف کی طرف سے، جس میں فتنے کی کوئی بات نہیں.لیکن اگر یہ دروازہ کھول دیا تو اگر پانچ کتابیں ایسی ہوں گی تو دس ایسی بھی ہوں گی، جن میں فتنے کی بات ہوگی.اس واسطے فتنے کا دروازہ ہم نے بہر حال بند کرنا ہے.اور ایسے مصنف کی انانیت کو بھی بہر حال ہم نے توڑنا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد امت مسلمہ کو واحد بنانے کا پروگرام بنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کو امت واحدہ بنا دے.اس کے لئے بڑا مضبوط اتحاد چاہیے.اس میں ہم سوئی کے ایک سکے کا رختہ بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں.اور نہ آپ کو تیار ہونا چاہیے.میرا دماغ تو بالکل نہیں تیار اس کو قبول کرنے کے لئے اور جو میرے پیارے بھائی اور بہنیں ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ بھی ہرگز تیار نہیں ہیں اس کے لئے.ٹھیک ہے، اگر تمہارے دماغ میں کوئی اچھی بات آئی ہے، لکھوضرور اور خدمت کر و جماعت کی بھی ، بنی نوع انسان کی بھی ، لیکن صحیح راستے پر چلو.دیواریں پھاند کے گھروں کے اندر داخل نہ ہو.دروازے ہیں، ان کے ذریعہ سے اندر داخل ہو.613
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم الفضل ہے ہمارا.لاہور ہے، وہ پرائیویٹ ہے.جماعت کے ساتھ اس کے نظام کا یا اس کے ادارہ کا کوئی تعلق نہیں.ایک احمدی ہے، وہ اپنی ذمہ داری سے لکھتا ہے.کسی اور پر اپنی تحریر کی ذمہ داری نہیں ڈالتا، ثاقب زیروی.لیکن بہت اچھا بھی لکھتا ہے.اور اگر اس میں ( لاہور میں ) نصف بھی اچھا ہو، چوتھا حصہ بھی اچھا ہو، دسواں حصہ بھی اچھا ہو تو جو میں نے اصول بتایا ہے، اس کے مطابق اسے لینا چاہیے.اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے.رسالوں میں تحریک جدید کا رسالہ تحریک جدید، انصار اللہ کا رسالہ انصار الله ، خدام الاحمدیہ کا رسالہ ” خالد ، انہوں نے ہی بچوں کے لئے ” تفخیذ الا ذہان“، لجنہ اماء اللہ کا ” مصباح “ اور بھی ہوں گے.جو بھی ہیں ، میں کہتا ہوں، ان کو خریدو.اور خدام الاحمدیہ نے اب ایک بڑا اچھا کام کرنا شروع کیا ہے.ضرورت کا ہزارواں حصہ پورا کر رہے ہیں.لیکن نہ ہونے سے بہر حال بہتر ہے.چھوٹے چھوٹے رسالے چھاپتے ہیں.یہ ہے، میرے ہاتھ میں.1.سوانح حضرت خلیفة المسيح الاقل یہ کسی ترتیب میں نہیں رکھی ہو ئیں.یہ ہے 2 ” پیارے اسلام کی پیاری باتیں“.یہ بچوں کے لئے ہیں.ایک بچہ ہے، جو اس کتاب کو پڑھ سکتا ہے، یہ اس کے لئے ہے.لیکن ہر بچہ اس کو سن سکتا ہے.اس کے کان تو نہیں بند ہو جاتے.اگر آپ یہ کتاب سنانا چاہیں، اس کو سنائیں.یہ باتیں بچپن سے سنائیں.آپ نے اذان سنادی اس کو پیدائش کے وقت ( تکبیر اقامت کی جو ہے، وہ سنادی.) اور اس کا اثر ہے.اور تحقیق کی ہے دنیا نے کہ اس وقت بھی اس کا اثر ہے.یہ نہ سمجھیں کہ کان نے سنا اور اس کا اثر ہی کوئی نہیں.اس کا دماغ اس کے اثر کو قبول کرتا اور محفوظ رکھتا ہے.یہ ایک کتاب ہے.3.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں.(انہوں نے تو بعض نہیں لکھا لیکن بعض لکھنا چاہیے.) یہ ہے.4.ہمارے مہدی کی پیاری باتیں.یہ ہے.5.سوانح مصلح موعودؓ یہ ہے.6.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی با تیں.یہ ہے.7.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.614
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1979ء یہ کتا میں اس وقت جو مجھے دی گئی ہیں ان کی طرف سے، یہ ایک، دو، تین، چار، پانچ ، چھ سات ہیں.مجھے سات نہیں چاہئیں، مجھے سات ہزار اس قسم کی کتاب چاہیے.اور صرف اردو میں نہیں چا.یعنی اس وقت جو کیفیت دنیا کے دماغ کی ہے نا اسلام کی با تیں سننے کے لئے تیار ہے، اثر قبول کرنے کے لئے تیار ہے.چاہیے.مجھے سوئٹزر لینڈ میں سوئس احمدیوں نے ، سوئٹزرلینڈ میں ان لوگوں نے ، جو احمدی نہیں، بعض دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے ہیں، انہوں نے الحاج کے ساتھ اور اصرار کے ساتھ مجھے کہا کہ ہمارے بچوں کے لئے کتابیں آپ شائع کریں.انہیں کچھ پتہ نہیں اسلامی تعلیم ، اسلامی تاریخ کا.اتنے واقعات، اتنے واقعات حسین، پیارے، سبق آموز ، محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کے نتیجہ میں چودہ سو سال میں رونما ہو چکے ہیں کہ لاکھوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں، لکھی جانی چاہئیں.جو ہم نہیں کرتے ، وہ دوسرے بھی بعض دفعہ کر دیتے ہیں.پچھلے سال میں لندن میں تھا تو ایک دوست کسی مطبع خانہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے.وہ میرے پاس آئے کچھ کہتا میں تحفہ لائے ، اس کمپنی کی طرف سے.ان میں سے ایک کتاب بلال پر تھی.”حضرت بلال“ وہ حبشی ، جس کی جلد کا ظاہر تو کالا تھا لیکن جس کے اندر سے اس قسم کا نور نکلتا تھا کہ آج شاید سارے امریکہ کے سفید فام کے نور کو اکٹھا کیا جائے تو تب بھی ایک ذرہ کے برابر نہ ہو، اس کے مقابلے میں.اور اتنی اچھی کتاب لکھی آپ بیتی کے رنگ میں.بلال کہتے ہیں.بلال کہتے ہیں بھی نہیں بلکہ میں.میں ، مجھ پر یہ واقعہ گذرا.مجھے میرے مالک نے (غلام تھے نا اسلام سے پہلے اور پھر حضرت ابو بکر نے خریدا اور آزاد کیا) ریت پر لٹا دیا مجھے، میرے سینہ پر پتھر رکھا ، مجھے کوڑے لگائے ، میں بے ہوش ہو گیا.اس وقت نیم بے ہوشی تھی.کبھی میں پورا بے ہوش ہو جاتا تھا، کبھی کچھ ہوش آ جاتی تھی.نیم ہوش.اس وقت کوئی شخص آیا.اس نے میرا سودا کیا اور مجھے لے گیا اپنے گھر.اور مجھے اپنے بچے کی طرح اس نے اپنے گھر میں رکھا.اور کہتے ہیں، اس وقت مجھے دھندلا سا یاد ہے کہ کوئی شخص میری چارپائی کے پاس مصلی بچھا کر نماز پڑھتا ہے.کہتے ہیں، اچھا ہو جانے پر مجھے پتہ لگا کہ مجھے چھڑانے والے حضرت ابو بکر تھے اور آزاد کرنے والے تھے.تو ان سے میں نے پوچھا میرا خیال ہے.نیم بے ہوشی کی حالت میں مجھے شبہ پڑا.مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے قریب مصلی بچھا ہوا ہے.اور کوئی شخص وہاں نفل پڑھ رہا ہے.اس نے کہا تم نہیں جانتے کون تھاوہ؟ میں نے کہا نہیں.انہوں نے کہاوہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم تھے.ان کی دعاؤں نے 615
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم تمہیں زندہ کیا.آسمانوں سے تمہارے لئے زندگی لے کے آئی ہیں، وہ دعا ئیں.ورنہ تمہاری حالت بیچنے والی نہیں تھی.کہنے کو چھوٹا واقعہ ہے.چھوٹا نہیں.اس قدر پیار ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں انسان کے لئے.خواہ وہ انسان زار روس ہے، خواہ وہ انسان حبشی غلام ، کوڑے کھانے والا ، تیپتی ریت پر لٹا کر اس کے اوپر پتھر رکھے جارہے ہیں، وہ ہے.کوئی فرق نہیں کیا انسان، انسان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے.یہ تو اس وقت باتیں کرتے ہوئے آپ سے میرے دماغ میں ایک مثال آگئی.ہزار ہا کتا بیں لکھی جاسکتی ہیں.چھوٹی چھوٹی لکھیں، بچوں کے لئے.ایک ایک واقعہ لکھیں.حضرت بلال کے متعلق ہی اردو میں درجنوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں.آئیں آگے لکھنے والے اور لکھیں.اور آپ آگے آئیں اور خریدیں ان کتابوں کو.تا کہ جو لکھنے والے اور طبع کروانے والے ہیں، ان کے پیسے ضائع نہ ہوں.جو شخص مثلاً حضرت بلال پر یہ کتاب لکھ گیا.مجھے یقین ہے کہ اس کے پیسے ضائع نہیں ہوں گے.تو یہ تو میں نے بتایا نا سات کتابیں ہیں.مجھے تو ایک، دو سال کے اندر اندرسات ہزار چاہئیں.پھر ان کے ترجمے چاہئیں.ان کا ترجمہ مجھے جرمن زبان میں چاہیے، انگریزی زبان میں چاہیے.ان کا ترجمہ مجھے فریج زبان میں چاہیے، سپینش زبان میں چاہیے.ان کا ترجمہ مجھے اٹالین زبان میں چاہیے.ان کا ترجمہ مجھے یوگوسلاوی زبان میں چاہیے، جہاں کے احمدی کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے لئے کتابیں دولا کے.ان کا ترجمہ مجھے پولش زبان میں چاہیے.ان کا ترجمہ ہنگری زبان میں چاہیے، جہاں ایک خاصی جماعت احمد یوں کی ہے.کمیونسٹ ملک ہے، زیادہ باہر نہیں آتے ، ملاپ نہیں ان کے ساتھ لیکن کبھی کسی کے نام، پرانے واقفوں کے نام ان کا ابھی تک خط آتارہتا ہے کہ ہم احمدیت پر قائم ہیں، ہمیں عربی زبان میں کتا ہیں چاہئیں.احیائے اسلام کے لئے ان باتوں کو مسلمانوں کے ذہنوں میں تازہ کرنے کے لئے.جتنے ہمارے جماعتی یا نیم جماعتی اخبار وغیرہ ہیں، ان کو خریدنا چاہیے، ان کو پڑھنا چاہیے.بہت کم توجہ ہے، اس طرف.آپ حیران ہوں گے، اگر آپ ( آج کا نہیں میں کہتا ، جس وقت آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا، اس وقت کی میں بات بتا رہا ہوں.تھرڈ کلاس میں سوار ہو جائیں.مزدوروں سے بھری ہوئی گاڑی ہر آدمی کے ہاتھ میں اخبار پکڑا ہوا ہے.وہ اخبار پڑھ رہا ہے.ساڑھے تین سالہ طالب علمی کا زمانہ، جو میں نے وہاں گزرا ہے، اس میں کسی ایک آدمی کو دوسرے سے اخبار مانگ کر پڑھتے نہیں دیکھا.مانگتا ہی کوئی نہیں.اپنا خریدتا ہے ہر شخص.پھر رڈی میں یوں پھینک دیتا ہے وہ.ان کے اخبار پھینکنے کے قابل ہیں لیکن پڑھنے کے قابل بھی ہیں.جو پڑھنا ہوتا ہے، اس نے وہ پڑھ لیتا ہے، پھر پھینک دیتا ہے.616
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1979ء یک شخص اخبار پڑھ کے اپنی سیٹ پر چھوڑ کے اسٹیشن پر اتر جاتا ہے.وہاں ایک اور آدمی آبیٹھتا ہے، جس کے پاس اخبار نہیں.جب گاڑی کھڑی ہوتی ہے، وہ پلیٹ فارم پر جا کے اپنے لئے وہی اخبار خرید کے لاتا ہے، وہ نہیں اٹھاتا، جو اس کی سیٹ کے اوپر پڑا ہوا ہے.یہ جذ بہ پیدا کریں ، عادت ڈالیں.خرید کے پڑھنے کی عادت ڈالیں.میں یہ نہیں کہہ رہا عادت ڈالیں پڑھنے کی.خرید کے پڑھنے کی عادت ڈالیں.ویسے لوگ لیموں نچوڑ تو ساری دنیا میں ہیں، امریکہ میں بھی ہیں ، انگلستان میں بھی ہیں، یورپ میں بھی ہیں، یہاں بھی ہیں.جو کسی کی کتاب پڑھنے کے لئے لیتے ہیں، پھر واپس ہی نہیں کرتے.وہ تو ہیں چند ایک.ساری قوم اگر تیار ہو جائے اور ہزار میں دو، ایک ایسے ہوں تو معاف کردوان کو.وہ اپنا شوق اس طرح پورا کر لیں.لیکن قوم کو عادت ہونی چاہیے کم از کم ہماری قوم کے اس حصے کو تو عادت ہونی چاہیے، جو میری بات سنتا اور غور سے سنتا اور دل میں اس کے جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ میں اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کروں.میں نے بتایا پڑھنے کی عادت، لکھنے کی عادت ہونی چاہیے.حضرت مسیح موعود کا جو کلام ہے، اس کے اندر اتنا اثر اور اتنا حسن ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اتنی کے قریب کتابیں لکھیں، عربی میں ہیں، فارسی میں بھی ہیں، اکثر اردو میں ہیں.سب کے تراجم شائع کرنا، پھر دنیا ان تراجم کو پڑھنے کے لئے تیار بھی ہو.ابھی تو نہیں تیار - 50, 30,40 سال 60 سال شاید لگیں ، ان کو تیار ہونے میں.لیکن اس وقت ضروری ہے کہ آپ کی کتب کے اقتباسات کو شائع کر دیا جائے.اس وقت ایک کتاب تو صد سالہ جوبلی کے انتظام میں شائع ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات.اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق ، اسلام کیا چیز ہے؟ اسے روشناس کرانے کے متعلق ، قرآن عظیم کے متعلق اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان اور آپ کے خاتم النبین ہونے کا جو مقام ہے، اس کے متعلق 328 صفحے میں ان حوالوں کے.کچھ صفحے اور بھی ہیں.یہ شائع ہوئی ہے.اور بڑی ستی اللہ کے فضل سے شائع ہوگئی.بہترین مطبع خانے نے شائع کی ہے.بہترین کاغذ ہے، بہترین Getup ہے اور صرف اڑھائی پونڈ قیمت ہے.جو کچھ بھی نہیں ان ملکوں کے لحاظ سے، اتنی ہی قریباً سائز کی ایک Invitation ہے کتاب، جو حضرت مصلح موعود کی لکھی ہوئی ہے.اور ایک فرم نے ہم سے اجازت لے کر دس ہزار شائع کی ہے، اپنے طور پر.اور اس میں بہت سارا تعارف ہو گیا ، اسلام کا اور احمدیت کا.پچھلے سال اس مطبع خانے نے ہمیں اطلاع دی تھی کہ چار ہزار انگلستان کی لائبریریوں نے 617
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم آرڈر بک کر دیئے ہیں، اس کتاب Invitaion کے.اور اس کی قیمت انہوں نے دس پونڈ رکھی ہے اور صفحے اس سے کم ہیں اور کا غذا اور طباعت ایک جیسی ہے.تو یہ ہمیں اللہ تعالیٰ توفیق دے رہا ہے.قرآن کریم کا ترجمہ بڑا ضروری ہے.غانا نے دس ہزار شائع کر دیا، انگریزی ترجمہ امریکہ میں بہت اچھے اچھے کاغذ پر، اچھی پرنٹنگ پر بیس ہزار انگریزی ترجمے کے نسخے ابھی پچھلے مہینے میں شائع ہوئے ہیں.یہ ابتداء ہوئی ہے ان کی.اسی طرح انڈونیشیا کوشش کر رہا ہے.سواحیلی زبان میں ترجمے ہوئے ہیں.یوگنڈا، یوگنڈن زبان میں ترجمہ ہوا ہے.اس کی تفصیل تو پھر بتاؤں گا.لیکن ہمیں ترجمہ کرنے والے بھی چاہئیں اور لکھنے والے بھی.رسالے لکھنے والے، کتابیں لکھنے والے چاہئیں.عام اب مثلاً یہ جو کتاب Essence of Islam Vol.Nal صد سالہ جوبلی کے نظام کے ماتحت شائع ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے Quotations ( کویشنز ) پر مشتمل 328 صفحے کی کتاب ہے.یہ ایک Material (میٹریل) ہے، اس میں سے چار ورقے شائع کئے جاسکتے ہیں.قسیم کرنے کے لئے بڑا اچھا مواد تیار موجود ہے.اس سے انشاء اللہ ہمارے دوست امریکہ اور انگلستان اور آسٹریلیا اور افریقہ کے ممالک میں جہاں انگریزی بولی جاتی ہے، وہ اس سے فائدہ اُٹھا ئیں گے.اور جرمنی اور سوئٹزر لینڈ اور فرانس اور سپین وغیرہ ملکوں کے لئے انگریزی سے ترجمہ کرنا آسان ہے، اردو کی نسبت.کیونکہ وہاں اس قسم کے اردو دان اٹالین جاننے والے اور انگریزی جاننے والے نہیں ملیں گے.لیکن انگریزی سے فریج میں ترجمہ کرنے والے عام مل جائیں گے، پیسے لیں گے.اجرت پر کام کر دیں.تو یہ ایک راستہ کھل گیا ہے“.مطبوعه روزنامه الفضل 24 فروری 1980ء) ”اصل چیز یہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے متعلق جو پیش خبریاں دیں، ان میں ایک یہ بھی ہے.آپ نے فرمایا :.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گئے.بڑا عظیم الہام ہے.بڑی عظیم پیش گوئی ہے کہ:." میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے“.618
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1979ء میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اگلے دس سال کے بعد آنے والے سو سال میں جس صدی کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں، ہمیں ایک ہزار سائنسدان اور محقق چاہئیں.اور یہ جو اس سے پہلے دس سال ہیں، اس میں ایک سوسائنسدان اور محقق چاہئیں.لیکن آج تک یہ ایک پیشگوئی تھی، جس کا ایک بھی مظہر ہمارے سامنے نہیں تھا.یعنی کچھ اس طرح وہ ابھرا ہو اور آسمانوں تک پہنچا ہو اپنی علمی تحقیق میں کہ واقع میں اس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ علم اور معرفت میں اس نے کمال حاصل کیا اور اپنے سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیا ( اپنے حلقہ تحقیق میں ).آئن سٹائن بہت بڑا سائنس دان گزرا ہے، انہوں نے بھی کام کیا اور نا کام ہوئے.اور ڈاکٹر سلام صاحب نے کام کیا، اس پر اور وہ کامیاب ہوئے اور ان کو نوبل پرائز ملا اور دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں میں پہنچ گئے“.اس سے بھی اہم دعا یہ کریں اپنے رب سے کہ اے خدا ! مرزا ناصر احمد کی یہ خواہش ہے کہ اگلے سوسال میں ایک ہزار انتہائی غیر معمولی ذہین سائنسدان جماعت احمدیہ کو ملے.تو اس خواہش کو پورا کر اور اس خواہش کے لئے جو وہ دعائیں کریں، ان کو بھی قبول کر اور جو ہم کریں ، انہیں بھی قبول کر.میری خواہش یہ ہے کہ اگلے دس سال میں ہم سوسائنسدان اچھے خدا سے مانگیں.یہ نہیں میں کہتا، ہم پیدا کر دیں.میں کہاں سے پیدا کر سکتا ہوں.آپ نے کہاں سے پیدا کر لینے ہیں.ساری دنیامل کے ایک اچھا سائنسدان پیدا نہیں کر سکتی.میں یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اگلے دس سال میں اللہ تعالیٰ ہمیں ایک سو چوٹی کا سائنسدان عطا کرے اور میری یہ خواہش ہے کہ ان دس سال کے بعد اگلے سو سال میں ، جس کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں، ایک ہزار سائنسدان ہر فیلڈ کا، ایک فیلڈ کا نہیں، سائنس کے ہر میدان میں بکھرا ہوا، پھیلا ہوا، آسمانوں کی سیر کرنے والا ، دماغ رکھنے والا، اللہ تعالیٰ ہمیں عطا کرے." بہر حال یہ کتابوں کے ذکر کے ساتھ علم کا ذکر آیا اور علم کے ذکر کے ساتھ اس وعدہ اور بشارت کا ذکر آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان پہنچانے والوں کے علوم تحقیق میں برکت ڈالی جائے گی اور وہ اپنے اپنے میدان میں اس جگہ پہنچیں گے کہ دوسروں کا منہ بند کرنے والے ہوں گے.اس کا ایک پہلو آ گیا سامنے کل کو ایک دوسرا آ جائے گا پھر تیسرا آ جائے گا.دروازہ کھل گیا، اب آگے ہی آگے چلیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.پھر میں نے اسی سلسلہ میں اپنی دو خواہشات کا ذکر کر دیا اور دعاؤں کا ذکر کر دیا، وہ آپ کریں.ہم آپ کو یاد دلاتے رہیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ“.مطبوع روزنامه الفضل 25 فروری 1980ء) 619
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء 74 وو تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد پنجم یہ آج کے لئے جو میں نے بتایا نا فضل تو بڑے ہیں.تھوڑے سے نوٹ کئے ہیں، وہ بھی 7 صفحوں پر تھے.تو دو، ایک میں سے گزروں گا میں، انشاء اللہ.اچھا اب ہم ماڈی ضرورتیں جو ہیں، ان کو لیتے ہیں.بات یہ ہے کہ مہنگائی بہت ہوگئی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے کارکن جو ہیں ، وہ بڑی قربانی دے رہے ہیں.بعض قربانی سمجھ کے دے رہے ہیں، بعض تکلیف محسوس کرتے ہوئے پھنسے ہوئے ہیں.بعض بشاشت رکھتے ہیں، کہتے ہیں، خدا تعالیٰ ہمیں جزا دے گا، بعض تنگ آئے ہوئے ہیں ہم سے.ان کو تو میں کہا کرتا ہوں.میرے سامنے ذرا سا بھی کوئی اشارہ کرے تو میں اس کو مشورہ دیتا ہوں تمہیں ہم یہاں جبر نہیں بٹھا رہے، جاؤ کہیں اور اپنی روزی تلاش کرو.یہ ہم مانتے ہیں کہ اس مہنگائی میں تم پہ بڑی سختی ہو رہی ہے.پھر بھی صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید اور وقف جدید چھوٹی چھوٹی رقمیں خدام الاحمدیہ انصار اللہ اور لبنہ کی طرف سے دی جاتی ہیں.گزشتہ سال امداد کے طور پر بڑی رقم اپنے کارکنوں میں تقسیم کی ہے.(لیکن باہر والے بھی ایسے ہیں، جو ستحق ہیں، ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، نہ کیا جاتا ہے.) پندرہ لاکھ ، اکاون ہزار روپیہ.ان کے جو گزارے ہیں، ان کے علاوہ پندرہ لاکھ ، اکاون ہزار روپیہ تقسیم ہوا ہے.اس کے باوجود میں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پھر بھی ان کی ساری ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں لیکن جو جماعت کے پاس نہیں، وہ دیا نہیں جاسکتا.اور ایک جگہ پر آ کے جو تر جیحات ہیں، ان کے مد نظر اگر یہ سوال ہو کہ آپ نے مبلغ غیر ممالک میں بھیجنے ہیں یا اپنے کارکنوں کے پیٹ بھرنے ہیں تو ہم کہیں گے، جو خوشی کے ساتھ بھوکے رہ کے مبلغوں کو باہر بھیجنے کے لئے تیار ہیں، وہ رہیں.لیکن مبلغوں کو بہر حال باہر جانا چاہیے.کیونکہ اصل مقصد جماعت احمدیہ کی زندگی کا یہی ہے کہ اسلام کو دنیا میں پھیلایا جائے.صد سالہ جوبلی منصوبہ.1973ء کے جلسے میں، میں نے اس کا اعلان کیا تھا.اور یہ جو ہے، اگلی صدی ہماری زندگی کی ، جماعتی زندگی کی ، جو 23 مارچ 1889ء سے شروع ہوتی ہے.لیکن 23 مارچ سے یہ پروگرام شروع ہونا ہے اور جلسہ سالانہ پہ آکے اپنے عروج کو پہنچنا ہے.شروع میں جو منصوبے بنائے گئے تھے، ان میں اب حالات کے بدلنے سے کچھ تبدیلیاں بھی کرنی پڑیں گی.وہ میں خطبے میں بیان کروں گا، اس وقت اس کا وقت نہیں ہے.یہ جو بتانے والی بات ہے، کچھ تو میں نے پہلے بتادی کہ کثرت سے انگریزی ترجمہ قرآن کی اشاعت کا سامان ہو گیا ہے.جو امریکہ میں ترجمہ چھپا ہے.(میری آواز پہنچ رہی ہے، آپ کو ) جو امریکہ میں ہیں ہزار میں نے بتایا، ابھی چھپا ہے.اس سے ہمیں ہزار تر جمہ ملنے سے ہمیں خوشی نہیں ہوئی، جتنی اس بات سے کہ ایک بہت بڑا مطبع خانہ ہے، جس کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہو گیا.اور 620
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1979ء وہ اس طرح کہ پہلے تو شروع میں انہوں نے تیاری شروع کی.پھر یہاں خط آتا تھا، کاغذ کون سا لگانا ہے؟ جلد کیسی ہوگی؟ آنے جانے میں بڑا وقت لگتا ہے.وہ سارا میں نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا تھا.آخر جب ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ اب شائع کر دو تو انہوں نے چوبیس گھنٹے کے اندراندر بیس ہزار نسخے شائع کر کے ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیئے.اور یہ خواہش تڑپ رہی ہے میرے دماغ میں کہ دس سال کے اندراندر امریکہ میں ایک ملین ، دس لاکھ تراجم قرآن کا پیاں انگلش قرآن کی یہ تقسیم کی جائیں.اس کا ایک دروازہ کھل گیا.دو سال ہوئے ، ایک تھوک فروش نے کہا، میں ایک لاکھ نسخہ قرآن کریم انگریزی ترجمہ کا لیتا ہوں، کتنی دیر میں دیں گے؟ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا، اس وقت تجربہ ہی کوئی نہیں تھا.میں نے کہا ، اس سے آگے بات نہ کرو.کیونکہ اس کو شاید چار سال لگ جائیں، پانچ سال لگ جائیں، مذاق بن جائے گا سودے کا.لیکن اگر آج کوئی تھوک فروش کہے کہ دس ملین لیتا ہوں تو دس ملین کا مطلب ہے کہ پچاس دنوں مضامین سیر کے اندر یہ مطبع جو ہے، یہ چھاپ کے دے دے گا یا اس سے بھی جلدی ، ایک رستہ کھل گیا نا.جب انسان کوشش کرتا ہے اور اپنی کوشش میں بالکل اندھیرے میں گھس جاتا ہے پھر خدا تعالیٰ وہاں کوئی روشنی پیدا کر دیتا ہے.وہ کام ہو جاتا ہے.عنقریب، انشاء اللہ تعالی فرانسیسی زبان میں یہ جو دیباچہ تفسیر القرآن ہے، حضرت مصلح موعودؓ کا کوئی ساڑھے تین سو صفحے کی کتاب ہے، بہت سارے پرمشتمل ہے.سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے.اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور پروف ریڈنگ اب ہو رہی ہے.میرا خیال ہے کہ اگلے تین مہینے کے اندراندر یہ ہو جائے گی.دنیا میں کئی کروڑ انسان مختلف دنیا کے علاقوں میں فرانسیسی پڑھنے والے ہیں.اور بڑی خواہش رکھتے تھے.میرے پیچھے پڑ گئے کئی فرانسیسی بولنے والے افریقن ، جب میں 70ء میں وہاں گیا تھا کہ ہمیں جلدی قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ دیں.کیونکہ ہمارے پاس کوئی اچھا ترجمہ نہیں.وہ انشاء اللہ ہو گیا تو جسے نصف دنیا کہتے ہیں، ویسے نصف نہیں لیکن مشہور ہے کہ نصف دنیا میں انگریزی بولی جاتی ہے اور نصف میں فرانسیسی تو اتنے حصے کے لئے بھی ترجمہ ہو جائے گا.پھر اگر چہ روسی زبان کا ترجمہ ہو چکا ہے لیکن Revision ہونے والا ہے (یعنی نظر ثانی ).وہ چھپ جائے اور چینی زبان میں چھپ جائے ( جہاں ہمارا نو جوان شاہد، جامعہ احمدیہ کا فارغ التحصیل مبلغ زبان سیکھ رہا ہے.اللہ نے یہ انتظام کر دیا.تو پھر دنیا کے کم از کم اسی فیصد آبادی کے ہاتھ میں ہم قرآن کریم کی برکتیں پہنچا سکتے ہیں.ان سے فائدہ اٹھانا، نہ اٹھانا پھر ان کا کام ہوگا.اور انشاء اللہ میں آپ کے پاس آؤں گا ، خطبوں کے ذریعہ اس کے سلسلہ میں بھی.621
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم میں نے صد سالہ جو بلی کا جب اعلان کیا، اس وقت جو میرے دماغ میں خیال تھا، اس کے مطابق اعلان کیا.جب خدا تعالیٰ میرے فیصلہ کو ٹھکرا کے ردی کاغذ کی طرح پھاڑ کے پرے پھینک دے نا.تو اتنی خوشی ہوتی ہے مجھے کہ کوئی حد نہیں.اور میں بتاتا ہوں، کیوں خوشی ہوتی ہے؟ میرا اندازہ تھا اور بڑے ڈر ڈر کے میں نے اعلان کیا کہ دو کروڑ ، پچاس لاکھ رو پیدا گلے پندرہ سال میں جمع کر دے جماعت.تا کہ ہم آنے والی غلبہ اسلام کی صدی کا شایان شان استقبال کر سکیں.مگر جو وعدے ہوئے ، وہ نو کروڑ ، بانوے لاکھ کے.یعنی قریبا دس کروڑ کے ہو گئے.میں نے کہا تھا، ابھی دس سال رہتے ہیں.اس زمانہ میں کہ پندرہ سال تک اڑھائی کروڑ جمع کر دو.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جو وصولی ہو چکی ہے، وہ قریباً دو کروڑ ، انیس لاکھ روپے کی.یعنی قریباً قریباً اتنی ، جو میں نے سارے زمانہ کے لئے اعلان کیا تھا.اس کا سارا کام جو ہے حساب وغیرہ رکھنا تحریکیں کرنا، بہت کم اس کے او پر خرچ کر رہے ہیں.کوئی سیکریٹریٹ نہیں بنایا.صد سالہ جو بلی نے جو تیاری کرنی تھی، استقبال کی اگلی صدی کی ، اس کے کئی کام میں نے اس وقت اعلان بھی کئے تھے.کئی نئے مشن وغیرہ.ایک تو جو ہمیں پھل ملا خدا کے فضل اور اس کی رحمت سے اس تحریک سے.پہلا پھل تو سویڈن میں گوٹن برگ میں ایک نہایت خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر اس فنڈ سے کی گئی.یہ ایک چوٹی پر ہے، گوٹن برگ کی.اور قریباً سوائے اس کے کہ بعض حصے پہاڑوں کی اوٹ میں آئے ہوئے ہیں، باقی سارے شہر سے مسجد نظر آتی ہے.رات کو دن کو بھی ) رات کی بجلیاں نظر آتی ہیں اور وہ سارا شہر اس مسجد سے نظر آتا ہے.پھر جب یہ ایک جگہ بن گئی، جہاں خطبہ ہوتا تھا، جہاں لوگ اکٹھے ہوتے تھے، جہاں لائبریری ہوتی تھی، جہاں لوگوں نے آنا شروع کر دیا تو ایک سلسلہ بیعتوں کا شروع ہو گیا.اور مختلف ممالک کے لوگوں نے گوٹن برگ کے مشن ہاؤس میں آکر جو صد سالہ جوبلی کے فنڈ سے اور اس منصوبہ کے ما تحت بنی تھی ، وہاں آ کے احمد بیت کو قبول کرنا شروع کیا اور قربانیاں دینی شروع کیں.اسی منصوبہ کے ماتحت گزشتہ برس عالمی کسر صلیب کا نفرنس لندن میں منعقد کی گئی.جس کے اوپر میرے لڑکے انس نے (اسی جلسہ سالانہ میں ) تقریر بھی کی ہے.جنہوں نے سنی ہوگی ، ان کو پتہ لگا ہوگا کہ کس قدر وسیع اثرات کی ، وہ حامل بنی.اور اسی طرح لندن مشن میں اس منصوبہ کے خرچ پر کتاب Truth about the cruxification صلیب مسیح کی حقیقت اور صداقت اس واقعہ میں کیا ہے؟ چھپی.کانفرنس میں جو پیپر پڑھے گئے تھے، وہ کتابی شکل میں شائع ہوئے اور ساری دنیا میں وہ پھیلے.اور دوسری کتاب Essence 622
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء of Islam حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے اقتباسات کا چار مضامین پر (جیسا کہ میں نے بتایا ہے ) ترجمہ اسی فنڈ سے شائع ہوا ہے اور بہت ساری رقم واپس بھی آگئی ہے.وہ جماعتوں نے خرید لی ہے، وہاں کی.اسی طرح اس فنڈ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی اس کا جو پہلے ترجمہ تھا، اس میں بعض نقائص تھے.پھر میں نے محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے کہا کہ آپ مہربانی فرما کے اس کا از سر نو ترجمہ کریں.پچھلے سال ان کو کہا تھا.وہ ترجمہ بھی ہو گیا اور پچاس ہزار نسخے چھپ کے اور قریباً ساری پہنچ گئی ہوگی.بہر حال چھپ چکی ہے.وہ پہلے خیال تھا کہ اس کی قیمت ہوگی قریباً آٹھ روپے، اسلامی اصول کی فلاسفی.پہلے یہ بھی ایک بات تھی کہ اس کا نام غلط لکھا گیا تھا.یعنی ” Teaching of Islam.اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اس کا نام رکھا ہے، "The philosphy of Teaching of Islam.اب اس کے نام کے ساتھ یہ ترجمہ آ گیا ہے، Revised Translation لیکن جب پچاس ہزار کا ہم نے آرڈر دیا تو جو قیمت انہوں نے بل بھیجا، اس کے لحاظ سے وہ 23 Penny (نئی اطلاع کے مطابق 21P خرچ آیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ قریباً پانچ روپے کی وہ کتاب پڑی.اور ان لوگوں کے لئے تو جہاں وہ زیادہ تر تقسیم ہونی ہے، بہت ہی سستی ہے.بلکہ بعض لوگ شاید کہیں کہ ضرورت سے زیادہ ستی ہے.پھر ایک اور خوشی کی بات ہے.ہمیں ایک نیا پھل بہت ہی میٹھا یہ ملا کہ تین ملک ہیں یورپ کے ڈنمارک، سویڈن اور ناروے، ڈنمارک میں مسجد پہلے بن گئی.67ء میں، میں نے اس کا افتتاح کیا.سویڈن میں گوٹن برگ میں مسجد مشن ہاؤس بنا.75ء میں ، میں نے سنگ بنیا درکھا اور 76ء میں، میں نے جاکے اس کا افتتاح کیا.اور اب پچھلے ہفتے ایک بہت بڑی عمارت چار کنال ناروے کے شہر اوسلو کے وسط میں بہت عمدہ علاقے میں تین منزلہ عمارت ہے.(اور انہوں نے لکھا ہے کہ ہماری جماعت کی ضرورتیں پوری کر کے دو خاندانوں کے رہنے کی گنجائش یعنی دو کوارٹر بھی نکل آئیں گے.وہ خریدی گئی.15 لاکھ کرونے (یہان کا سکہ ہے) میں.یہ بہت اچھی جگہ ہے.عین اس کے سامنے وہاں کے بادشاہ کا ایک پارک ہے.بادشاہ کے نام پر موسوم.اس کے دوسری طرف بادشاہ کا محل بھی ہے.لیکن بہر حال سامنے کھلا پارک ہے.اس کے سامنے سڑک ہے.سڑک کے اس طرف وہ بڑا اچھا بنا ہوا مکان بڑی موٹی موٹی پتھر کی دیواریں.سروے وغیرہ کروا کے انجینئر سے پھر وہ خریدا گیا.یہ ٹی جگہ مل گئی.سپین میں جہاں بڑی مشکل پیدا ہورہی تھی.میں 70ء سے کوشش کر رہا تھا اور بڑی دعائیں کر رہا تھا.آپ کو بھی شاید کئی دفعہ کہا.اب اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ قرطبہ 70ء کے میرے دورے پر، جس 623
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم نے مجھ پر یہ اثر چھوڑا تھا کہ اچھے لوگ ہیں ، ملنسار ہیں، مسلمان سے تعصب نہیں رکھتے ، ہمیں دیکھ کے آ جاتے تھے، بڑے پیار سے باتیں کرتے تھے، وہاں سے قریباً چوبیس میل پر ایک چھوٹے سے گاؤں میں سات، آٹھ ہزار پونڈ پر وہ زمین مل گئی ہے، اچھی خاصی بڑی.اس طرح ہے، تھوڑ اسا ایک شبہ سا بھی ہے، بڑی سڑک سے ایک چھوٹی سڑک نکلتی ہے، وہاں سے ایک فرلانگ کے اوپر سڑک تک یہ زمین ملتی ہے.پانی ساتھ ہے، بجلی کا کھمبا ساتھ جارہا ہے، بہت اچھی جگہ ہے.اور سب سے زیادہ اہم خوشخبری کی بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں نے ہمیں اجازت دے دی ہے کہ بڑی خوشی سے یہاں مشن ہاؤس اور مسجد کو تعمیر کریں.یہ بڑا متعصب کیتھولک ملک رہا ہے.اب تو اللہ تعالیٰ نے وہاں یہ تبدیلی پیدا کی عظیم انقلاب میں سمجھتا ہوں، خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اس ملک میں پیدا کیا ہے کہ وہ سہولت ہوگئی.باقی رہ گئی ، ہمارے پروگرام کے مطابق اور آپ کی اور میری خواہشوں کے مطابق ایک فرانس میں زمین ملنی چاہیے.ایک اٹلی میں.فرانس کی زمین کے لئے میں نے ایک شخص کو جو جنیوا میں رہتے ہیں، مقرر کیا تھا.انہوں نے تین، چار ٹکڑے دیکھ لئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اگلے تین، چار مہینوں کے اندر اسی طرح آٹھ ، دس ہزار میں جو بہت سستی قیمت ہے، آٹھ ، دس ہزار پونڈ کوئی قیمت نہیں ہے، صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے لئے زمین خریدی جائے گی.اٹلی میں بھی زمین خریدی جاسکتی ہے.ویسے تو اللہ تعالٰی دیتا ہے ہمیں کسی کے محتاج نہیں، اپنوں کے بھی محتاج نہیں، اپنی ذات کے بھی محتاج نہیں ہم.مولی بس.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ٹرا کسٹے میں رہتے ہیں.یہ علاقہ ہے، جس کے قریب آسٹریا کی سرحدیں بھی ہیں اور یوگوسلاویہ کی سرحدیں بھی ہیں.اور وہاں سے زیادہ دور ہنگری بھی نہیں.اور اس علاقہ میں اگر ہمارا مشن ہو تو کئی ملکوں میں جو پرانے احمدی ہیں، ان سے ملاپ کی تجدید ہو سکتی ہے.اور وہاں بھی اسی طرح ایک چھوٹے سے گاؤں میں کوئی چار کنال یا آٹھ کنال کا ٹکڑا آٹھ ، دس ہزار کا مجھے چاہیے محل نہیں بنانے ہم نے آج محل بنانے والے بناتے رہیں گے.آج تو ہم اس بات میں خوش ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے ایسی مسجد بنا لیں ، جس کی چھت کھجور کے پتوں اور ٹہنیوں کی ہواور الحمد للہ کہ ہم نماز پڑھیں اور بارش ہو جائے تو ہماری ناک کو مٹی لگے اور بڑی خوشی اور بشاشت کے ساتھ ہم اپنے ہاتھ اور کپڑوں سے اس مٹی کو پونچھیں اور کہیں کہ وہ نشان، جو اس وقت اسلام نے دیکھا تھا، آج اسی کے اسوہ کے مطابق ہم نے بھی دیکھا لیا.سپین میں بھی دیر اس واسطے ہوئی.کرم الہی صاحب ظفر یہاں آئے ہوئے ہیں.ان کو میں نے بڑا سمجھایا ، شروع خلافت سے ہی کہ میڈرڈنگی جگہ، بد اخلاق جگہ، وہاں لوگ آتے ہیں لاکھوں کی تعداد میں 624
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء غیر ملکی ایک وقت میں ہوتا ہے.عیش کرنے آتے ہیں وہاں، آپ کی بات سنے کا تو وقت ہی نہیں ان کے پاس، توجہ ہی نہیں کریں گے، چھوڑیں میڈرڈ کو.دارالخلافہ ہے ان کا، باہر نکلیں.جب سے یہ گئے ہیں، بڑی ہمت سے گئے ، اپنا کام کیا اور انہوں نے تبلیغ کی.اللہ تعالیٰ انہیں جزاء دے.بڑے پیارے ہیں لیکن کچھ میڈرڈ کا پیارا تناشدت اختیار کر گیا تھا کہ ہماری زمین خریدنے میں دس، بارہ سال کی تاخیر ہوگئی.اب وہ اور ایک اور مبلغ گئے تھے، قرطبہ کے قریب.انہوں نے وہاں بڑی اچھی جگہ تلاش کی ( کام انہوں نے ہی کیا.اصل انچارج ہیں یہ ) بہر حال وہاں زمین مل گئی.دعا کریں، دو جگہیں فرانس اور اٹلی میں مل جائیں تا یورپ کے مشنوں کے منصوبوں اور ان کے بنانے سے ہمارے ذہن فارغ ہو کے پھر اور آگے جائیں.ہمارے دماغ نے تو فارغ نہیں رہنا.اس وقت تک میرا اور آپ کا دماغ کام کرتا رہے گا، جب تک دنیا کا ایک آدمی ایسا ہے، جس نے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پہچانا نہیں.لیکن جب ایک کام سے فارغ ہوں گے تو اگلے کام کی طرف توجہ کریں گے نا.محدود دماغ ہیں ہمارے.اللہ تعالیٰ کی قدرتیں غیر محدود ہیں.اپنی قدرتوں سے جو وہ کر دے، کر دے.کرے گا بھی انشاء اللہ ہم یہ کیا اس نے بھروسہ کرنا ہے.آپ ہی کرنا ہے ، سب کچھ.ہاں.سری نگر جو ہے، وہ بڑی مشہور جگہ ہے، کشمیر میں ہے.آپ میں سے اکثر جانتے ہیں.اکثر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ سری نگر میں ایک محلہ ہے، اس کا نام ہے، خانیار.خانیار محلہ ہے وہاں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے دنیا میں یہ اعلان کیا کہ خانیار میں جو ایک قبر ہے، یوز آسف نبی کی ، وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر ہے.وہاں جماعت ہے پرانی لیکن ٹھیک ٹھکانہ نہیں تھا.اب جو یہ تحریک زوروں پر چلی نا کہ صحیح فوت ہو گئے خدا کے رسول تھے علیہ السلام - اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے.دوسرے انبیاء کے ساتھ ان کو ہر روز نئی سے نئی رفعتوں تک پہنچائے.ہماری دعائیں ہیں ان کے ساتھ.بڑا احترام اور پیار ہے ان کا.انہوں نے بڑی خدمت اسلام کی بھی کی ہے، اپنے وقت میں بنی اسرائیل کے اندر علیحدہ مضمون ہے وہ.لیکن بہر حال ایک انسان تھے اور وہ فوت ہو گئے اور وہ دفنائے گئے کسی جگہ ، جس طرح ہر انسان کو دفنا دیتا ہے ایک دوسرا انسان مسلمان تو اب جب یہ تحریک ہوئی ساری دنیا میں شور مچا تو غیر مسلم سیاح بھی وہاں جانے لگ گئے.اور ہمارے احمدی بھی بہت سارے جو آتے ہیں یہاں جلسہ پر ان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہاں جائیں دیکھیں.تو وہاں مشن 625
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ہاؤس بن گیا ہے.صد سالہ جو بلی کی کافی رقم لگ کے ایک اچھی بڑی تعمیر ہوگئی ہے.وہاں مسجد بھی بڑی ہو گئی ہمشن ہاؤس بھی بڑا ہو گیا.غا نا میں قرآن کریم انگریزی ترجمہ کی دس ہزار کا پیاں خود غانا کے ملک میں شائع ہو گئیں.اور وہ ملک بہت خوش ہے.وہاں ایک گرلز ٹریننگ سنٹر کا اجراء ہوا ہے.وہاں ایک اور خوشی کی بات ہوئی.میں نے کئی دفعہ اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ جہاں ممکن ہو وہاں ہم بڑی عید اس روز کریں، جس دن مکہ مکرمہ میں عید الاضحیہ کی جاتی ہے تو وہاں عبد الوہاب بن آدم آئے ہوئے ہیں جلسہ میں شریک ہونے کے لئے ، انہوں نے بھی میری بات سنی ہوئی تھی.اس دفعہ انہوں نے پوری تحقیق کر کے ایسا انتظام کر دیا کہ عید الاضحیہ غانا کے ملک میں جماعت احمدیہ نے اس روز کی ، جس دن خانہ کعبہ میں ، سعودی عرب میں عید ہو رہی تھی.اور اس کا بڑا چرچا ہوا اخباروں میں.کیونکہ ایک نئی چیز تھی نا.ایک نئی حرکت پرانی برکت کی طرف منہ کر کے شروع ہوگئی.خانہ کعبہ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ ہے.اس سے جماعت احمدیہ کا بھی ساتھ ہی چرچا ہوا اور بڑی خوشی کی اور برکت کی لہر وہاں دوڑی.سیرالیون.ایک نئی مسجد وہاں تعمیر ہوگئی.لوگ خدا تعالیٰ کی برکتوں کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں.صرف احمدی نہیں بلکہ دوسرے بھی.اس ملک والے ہی نہیں، باہر سے آنے والے بھی.کوریا کے سفیر فری ٹاؤن میں ہیں.وہ احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول کی ایک تقریب میں شامل ہوئے، انہیں قرآن کریم کا تحفہ دیا گیا، بہت خوش ہوئے.کہنے لگے ، کوریا میں تو ہمیں، ان کا یہ فقرہ بہت مزیدار ہے، وہ سفیر جو کوریا کے تھے ، ان کو قرآن کریم کا جب تحفہ دیا گیا تو ان کے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ کوریا میں تو صرف بائبل ہی ملتی ہے، مگراب قرآن کریم پا کر بہت خوش ہوئے.نائیجیریا مشن الارو کے مقام پر احمد یہ مشنری ٹریننگ کالج کا اجراء کیا گیا.اب وہاں ضرورت بہت بڑھ گئی ہے اور یہاں سے اتنے آدمی ہم جامعہ احمدیہ کے بھیجو انہیں سکتے.اس میں بہت ساری روکیں ہیں.کچھ ہماری ہیں.ہمارے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں ، جو خرچ کریں.اس واسطے ایک غانا میں ٹریننگ کالج ہے اور وہاں مختلف ملکوں کے احمدی آجاتے تھے.پھر اب ان کے آپس میں بھی فارن ایکھینچ کی مشکلیں ہیں.تو اب دوسراٹر مینگ کالج نائیجریا میں کھل گیا ہے.ایک نئے سیکنڈری سکول کا اجراء ہوا ہے.ایک نئے ہسپتال کھولنے کی اجازت مل گئی ہے.انشاء اللہ بن جائے گا.دونئی مساجد کا افتتاح ہوا ہے.دار 626
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1979ء الخلافہ لیگوس کا مشن ہاؤس کام کی وسعت کے نتیجہ میں تنگ ہو گیا تھا.وہ میں نے بھی دیکھا ہوا ہے.بڑا تنگ اس کے لئے شہر سے باہر زمین لے لی ہے اور وہاں نیا مشن ہاؤس تعمیر ہو رہا ہے.نائیجیریا کے ساتھ لگتا ہے، ایک اور ملک ، آزاد ملک ہین اس کا نام ہے.ری پبلک ہے.وہاں ہمارا کوئی مبلغ نہیں.وہی لوگ جب ادھر آتے ہیں نائیجیر یا تو ان کا ملاپ ہوتا ہے، ہمارے مشن سے.وہ ہماری باتیں سنتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں، لے جاتے ہیں.گھر جاتے ہیں، اپنے علماء سے باتیں کرتے ہیں.ان کو بتاتے ہیں مسئلے مسائل کہ یہ ایک جماعت ہے، جو یہ باتیں پیش کر رہی ہے.اس طرح ان کو تبلیغ ہوتی ہے.وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا ہے کہ بغیر کسی مبلغ اور مشن کے ایک مخلص اور فعال جماعت اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے دی.اس سال بینن کے جلسہ سالانہ پرسینکڑوں افراد جمع ہوئے.چھوٹی جماعت ہے، نئی نئی بنی ہے اور مشن ہاؤس کی تعمیر انہوں نے شروع کر دی ہے.جس کے اخراجات وہ خود ہی اکٹھا کر رہے ہیں.نائیجیریا کا ایک اہم اخبار ہے، اس میں ایک اہم Personality ایک معروف ہستی ہیں وہاں کی الحاج ابوبکر ، انہوں نے ایک مضمون شائع کیا ہے احمدیت پر اور اس میں لکھتے ہیں کہ If today I could stand before any christian and am able to discuss about religion with confidence, it was to the Ahmadiyya literature and books at my disposal.کہ اگر آج میں اس قابل ہوا ہوں کہ مجلسوں میں بیٹھتے ہوئے عیسائیوں کے ساتھ بات کر سکوں ، خود اعتمادی کے ساتھ مذہبی گفتگو کر سکوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے جماعت احمدیہ کا لٹریچر رکھا ہوا ہے.اور بہت سی کتابیں ہیں، میرے پاس جن کو میں نے پڑھا ہے.اور اس وجہ سے میں عیسائی پادریوں کے ساتھ بات کرنے کے قابل ہو گیا ہوں.گیمبیا ایک اور ویسٹ افریقن ملک وہاں کے وزیر برائے اکنامک اینڈ پلاننگ نے احمد یہ سکول کا معائنہ کیا اور انہوں نے فرمایا.ہمارے ملک میں احمد یہ سیکنڈری سکول، واحد سکول ہے، جو اکنا مک کا مضمون بھی پڑھاتا ہے.یعنی سارے ملک میں ہمارا سکول جو ہے، جماعت کا وہ اکیلا سکول ہے ، جس میں اقتصادیات کا مضمون پڑھایا جاتا ہے.اور ہمیں فخر ہے کہ ہم اس کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنے دفاتر میں بڑی خوشی سے جگہ پیش کرتے ہیں.اس واسطے کہ علمی لحاظ سے وہ اچھے ذہین طالب علم ہیں اور اعتماد کے لحاظ سے وہ دیانت دار ہیں.627
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم سکول کے پاکستانی پرنسپل کو ( یعنی جو ملک میں ہمارا پاکستانی پرنسپل ہے اور وہ مجھے بھی عجیب لگا کہ انہوں نے بجائے اس کے کہ کسی گیمبین کو اس کام کے لئے منتخب کیا ہوتا ، انہوں نے ہمارے پاکستانی پرنسپل کو ، ہمارے سکول کا پرنسپل جو پاکستانی ہے، اسے ) ویسٹ افریقن اگر امینیشن کونسل کی نیشنل کمیٹی کا رکن منتخب کر لیا.وہ دوسرے ملکوں میں دوروں پر بھی جاتے ہیں.سالانہ جلسہ کی صدرات ملک کے وائس پریذیڈنٹ صاحب نے کی.بعض جلسوں میں ان کے پریذیڈنٹ صاحب بھی آجاتے ہیں.گیمبیا میں امسال ” الاسلام کے نام سے رسالہ جاری کیا گیا ہے.یہی حال پوری طرح تندہی کے ساتھ ، پوری ہمت کے ساتھ ، پورے جذبے کے ساتھ ان ممالک میں جنہیں ایک وقت میں عیسائیت نے اسلام کی گود سے یا پیکترم سے، بد مذہبی سے جیتا ، اب ہم واپس ان کو اسلام کی طرف لا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے مبلغوں کو یہ توفیق دی ہے.ولا فخر ہمارے لئے فخر کی کوئی بات نہیں.خدا ہی ہے، جو منصوبے بناتا اور ہمیں کامیابیاں عطا کرتا ہے.مشرقی افریقہ میں کینیا میں سکول کے اجراء کے لئے کوشش کی جارہی ہے اور ایک زمین کا ٹکڑا خرید لیا ہے.کینیا کے پڑوسی ملک روانڈا ( نام ٹھیک نہیں پڑھا گیا) میں خدا کے فضل سے ایک جماعت قائم ہو چکی ہے.تنزانیہ میں ایک نے مشن کا قیام عمل میں آچکا ہے.ایک مقامی مبلغ عیسی احمدی وہاں متعین کئے گئے ہیں.اب وہاں تنزانیہ میں مشنوں کی تعداد دس ہو گئی ہے.تین نئی مساجد اس سال تعمیر ہوئی ہیں.اس ایک سال کے اندر تین نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور ایک مشن ہاؤس کی تعمیر ہورہی ہے.تنزانیہ کی جماعت کا جلسہ سالانہ کامیاب رہا.پانچ ہزار کی نفری اس میں شامل ہوئی.جولٹریچر شائع ہوا:.نماز سواحیلی زبان میں، پانچ ہزار اسلام کے اسباق سواحیلمی زبان میں، پانچ ہزار کشتی نوح سواحیلی ایڈیشن ، دوسرا ایڈیشن، دوہزار اور ایک اور کتاب تیار ہو رہی ہے.یہ سارے مشن غیر ممالک میں ، افریقہ میں، یورپ میں، امریکہ میں، جزائر میں ، انڈونیشیا میں، سب جگہ یہ مشن جو ہیں، وہ پوری تندہی سے یہ کام کر رہے ہیں.جامان میں بھی مشن بڑا activo ہو گیا ہے اور وہاں انہوں نے رسالے شائع کرنے شروع کر دیئے ہیں.جلسے کرتے ہیں، اخباروں میں خطوط لکھتے ہیں.اتنی ان کی عزت ہے کہ اخبار ان کے خطوط کو 628
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء شائع کرتے ہیں.اور جب عیسائی یا دوسرا کوئی مذہب والا ان سے تنگ آجاتا ہے تو پھر وہ اخبار کو کہتا ہے کہ اب یہ سلسلہ بند کر دو.امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ اس کا ترجمہ ہو چکا ہے جاپانی میں.یہ میرا ایک چھوٹا سا مضمون ہے.انگریزی میں بھی وہ شائع کر رہے ہیں.نجی میں جو آئی لینڈ ہیں، وہاں کی مقامی آبادی میں احمدیت اثر ورسوخ قائم کر رہی ہے اور بہت سے مقامی لوگ جو ہیں، وہ احمدی ہو چکے ہیں.کینیڈا میں دوجگہ ہمارے مبلغ والے مشن قائم ہو چکے ہیں، ویسے بہت سارے مشن ہیں.امریکہ کے مغربی ساحل سان فرانسسکو میں مشن کی ایک نئی برانچ کھول دی گئی ہے.اور ہمارے یہاں کے پڑھے ہوئے ایک مبلغ وہاں کام کر رہے ہیں.آسٹریلیا میں نئی جماعت قائم ہوئی ہے.مغربی جرمنی میں فرینکفرٹ کے مقام پر اسلامی موضوعات پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی ، اسی طرح سوئٹزر لینڈ میں ، جو بہت کامیاب ہوئی“......نصرت جہاں ریز روفنڈ.خدا کے فضل سے ہماری وہ قربانی اللہ کے حضور مقبول ہوگئی.اور اس کا ہمیں اس سے پتہ لگتا ہے کہ جو ریز ورفنڈ 1970ء میں اکاون لاکھ کی اپیل پر اور ترپن لاکھ، چھہتر ہزار کی عملاً وصولی پر قائم ہوا تھا، اس میں خدا تعالیٰ نے برکت ڈالی.دوست بڑی ہمت کرتے ہیں.جو اپیل ہے، اس سے زیادہ چندہ آجاتا ہے.یہ سرمایہ تھا.اس کے متعلق بہت سی باتیں میں پہلے بتا چکا ہوں، دہرانے کی ضرورت نہیں.ترین لاکھ کا سرمایہ تھا، جو وہاں لگایا گیا.اور ترپن لاکھ کا سرمایہ ، جو آپ نے دیا، قربانی دی خدا کے حضور، خدا نے اسے قبول کیا اور اس میں برکت ڈالی.اتنی برکت ڈالی کہ اس ترین لاکھ میں سے آپ کئی کروڑ روپے پہلے خرچ کر چکے ہیں.یہ آپ جمع تفریق کر کے نکالیں.ترپن لاکھ میں سے کئی کروڑ روپیہ ہم خرج کر چکے ہیں.اور اس سال گزشتہ میں اس ایک سال میں ترین لاکھ جو تھا، اس میں سے کئی کروڑ خرچ ہونے کے بعد ایک کروڑ ، انتالیس لاکھ ، چوالیس ہزار ہمارے پاس تھا.اور اس میں سے ایک کروڑ سات لاکھ چوبیس ہزار روپیہ خرچ ہو گیا اور باقی چھہتر لاکھ روپیہ بچ گیا.یہ ترین لاکھ میں سے سب کچھ ہوا.تو ترین لاکھ میں تو حساب کی رو سے ایسا نہیں بنتا.اگر ترپن لاکھ میں آپ خدا تعالی کی برکت اور رحمت شامل 629
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم کر دیں تو یہ بن جاتا ہے.ترپن لاکھ، جو آپ نے قربانی پیش کی خدا کے حضور، اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی برکت ڈالی.پھر جوتر پن لاکھ جمع برکت ، اس نے یہ شکل بنائی کہ کئی کروڑ روپیہ خرچ ہو گیا اور پھر بھی بچ رہا.اور سال رواں جواب ختم ہو رہا ہے، اس میں ایک کروڑ ، انتالیس لاکھ، چوالیس ہزار ( یہ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کتنا کمزور ہوں بیماری کی وجہ سے یہ رقم تھی پڑی ہوئی.اس سال خرچ ہوا، ایک کروڑ ،سات لاکھ چوبیس ہزار روپیہ.اور پھر ترپن لاکھ میں سے چھہتر لاکھ روپیہ بچی بھی گیا.اس کے علاوہ ایک کروڑ ، پنتیس لاکھ کی عمارت وغیرہ ہیں وہاں موجود.یعنی ترپن لاکھ میں سے سات کروڑ خرچ کرنے کے بعد دو کروڑ ، گیارہ لاکھ، پینتیس ہزار روپیہ سرمایہ کی صورت میں ، نقدی کی صورت میں یا سرمایہ عمارتوں وغیرہ کی صورت میں رہا.یہ ہے اللہ کی برکت.ایک بزرگ نے مجھے کہا تھا، آپ کے پاس ترین لاکھ روپیہ ہے، تجارت پر لگا دیں، جو آمد ہو، اس سے آپ اپنا منصو بہ چلائیں.میں نے ان سے پوچھا، آپ زیادہ سے زیادہ کیا امید رکھتے ہیں، کتنی آمد ہو سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر بہت ہی حد ہو جائے تو 14-12 فیصد نفع ہو جائے گا.میں نے انہیں کہا، جس سے میں تجارت کرنا چاہتا ہوں، وہ تو کہتا ہے، میں بغیر حساب کے دیتا ہوں.مجھے اس سے تجارت کرنے دیں.دیکھا آپ نے بغیر حساب کے کس طرح مل گیا.جو مجھے بھی حساب یاد نہیں رہ رہا.مجلس نصرت جہاں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے ان ممالک میں مغربی افریقہ کے جن کے لئے یہ منصوبہ تھا ، سترہ ہسپتال کھولے اور بہت سے سکول.نصرت جہاں کے ہسپتالوں میں اب تک اکیس لاکھ، دو ہزار ، سات سو سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا گیا.اللہ نے بڑی توفیق دی ان کی خدمت کرنے کی.جن میں سے ایک لاکھ، تہتر ہزار آٹھ سومریضوں کا علاج مفت کیا گیا.کوئی ان سے پیسہ نہیں لیا گیا.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے چند ایک کا منادی بن کے میں یہاں کھڑا ہوا اور میں نے بتایا اور آپ نے دیکھا دنیا کے کونے کونے میں جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش، موسلا دھار بارش سے بھی زیادہ ہو رہی ہے.ہمارے منہ میں وہ زبان نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر سکیں، جو اس کا حق ہے.اور ہمارے جو بولنے کے الفاظ ہیں، جس کو زبان کہتے ہیں، ہماری زبانیں مختلف، اردوزبان، انگریزی زبان، اس معنی میں زبان جو ہے ) اس میں وہ الفاظ نہیں، جو خدا تعالیٰ کی عظمت وجلال ووحدانیت، اس کی قدرت، اس کی محبت، اس کی رحمانیت، اس کی رحیمیت جو ہے، اس کے جلووں کو اپنے احاطہ میں لاسکیں.خدا کی باتیں خدا ہی سمجھ سکتا ہے.اور بد بخت ہے وہ انسان، جو خدا سے 630
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1979ء اس کے پیار کو پاتا اور خدا کے ساتھ بیوفائی کرتا ہے.اس واسطے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر میں ایک فقرہ میں نصیحت کرنا چاہوں اور ہمیشہ وہ کرتا چلا جاؤں تو وہ فقرہ یہ ہوگا.یا درکھو! اتنے پیار کرنے والے رب کریم سے کبھی بے وفائی نہ کرنا.کوئی ہمیں تکلیف نہیں پہنچائی ، اس نے کبھی.اگر کہیں اور سے تکلیف پہنچی تو جتنی تکلیف پہنچی، اس سے ہزار گنا، لاکھ گنا، کروڑ گنا بے شمار گنا زیادہ ہمارے سکون کے ، اطمینان کے، آرام کے سامان پیدا کر دیے.ایک شخص کو اس کی غلطی تھی یا نہیں، بہر حال وہ سمجھا مجھے بلا وجہ نکالا گیا نوکری سے.بڑا گھبرایا ہوا آیا.میں نے کہا، دیکھو! ہم تو ایک خدا پر ایمان لاتے ہیں.جتنے تمہیں اس وقت پیسے مل رہے ہیں ماہانہ اس سے سات گنا زیادہ خدا تمہیں دے گا.میرے منہ سے نکل گیا.میری عزت خدا نے رکھ لی.میں تو خدا کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا.اتنا پیار کرتا ہے.ابھی مہینہ، ڈیڑھ مہینہ ہوا، اس کا خط آیا.میں تو بھول گیا.مجھے سے تو ملتے ہیں ہزاروں آدمی.ان سے میں باتیں کرتا ہوں، پھر وہی مجھے یاد کراتے ہیں.اس نے خط میں لکھا کہ جب میں پریشانی کی حالت میں آپ سے ملا تو آپ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ دیکھو! رزاق خدا ہے، انسان نہیں.اور جس تنخواہ کو تم چھوڑ رہے ہو، اس سے سات گنا زیادہ خدا تمہیں تنخواہ دے سکتا ہے یا دے گا.کوئی اس قسم کا فقرہ بولا.اور آج میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ میں بالکل سات گنا زیادہ تنخواہ آج لے رہا ہوں.اور آپ کی بات خدا نے پوری کر دی.یہ خدا ہے، جس کے دامن کو ہم نے پکڑا، جس سے ہمارا واسطہ ہے.اسے چھوڑ کے تو ہم نے کہیں نہیں جانا.اور یہ درایسا ہے، یہاں دھونی رما کے بیٹھے رہو.کسی سے دشمنی نہ کرو، کسی کی بدخواہی نہ چاہوں، کسی کا غصہ تمہارے دلوں میں جگہ نہ پائے ، کسی کے خلاف ایک لفظ بھی تمہاری زبانوں سے نہ نکلے.دعا ئیں کرو.اپنے لئے ، ان لوگوں کے لئے بھی ، جو غلطی سے خود کو تمہارا دشمن سمجھتے ہیں.اور خدا تعالیٰ سے اس کی خیر چاہو.اس کی رحمتوں کی تجلیات اپنی زندگی میں اس سے مانگو.وہ تمہیں اتنادے گا، اتنا دے گا کہ تمہاری نسلوں سے بھی وہ چیزیں نہیں سنبھالی جائیں گی.اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ہمیں صحیح معنی میں اور حقیقی رنگ میں مسلم بنائے.خادم اسلام بنائے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام بنائے.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا نور ہمارے سینوں میں ہمیشہ چمکتا رہے.دنیا کی ظلمات کو دور کرنے کی ہمیں طاقت عطا کرے اور اس میں ہمیں کامیابی عطا کرے.آمین.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ( مطبوع روزنامه الفضل 26 فروری 1986ء) 631
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 31 مارچ 1979ء احمدیت اسلام کے ادنی خادم کی حیثیت سے اپنے مشن میں کامیاب ہوگی ارشاد فرموده 31 مارچ 1979 ء بر موقع مجلس شوری وو پھر یہ ہے کہ یہ اعلان خدا تعالیٰ کی طرف سے کہ ساری دنیا میں ایک انقلاب بپا ہونے والا ہے.میں آپ کو کچھ عرصے سے کہ رہا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی اگلی صدی ، جس کو دس سال کے قریب رہ گئے ہیں، وہ غلبہ اسلام کی صدی ہے.تو ساری دنیا میں اسلام پھیلے گا.اور احمدیت جو ہے، وہ اسلام کے ادنی خادم کی حیثیت سے اپنے مشن میں اور مقصد میں کامیاب ہوگی.تو خدا تعالیٰ نے اس چیز کا اعلان اس رنگ میں بھی کیا ہے کہ ساری دنیا ہماری مخالفت میں اکٹھی ہوگئی.وہ جو ایک دوسرے کو کافر کہنے والے تھے، وہ ہماری مخالفت میں اکٹھے ہو گئے ہیں.اور میں تو یورپ کے پچھلے دورے میں اپنی پریس کانفرنسز میں عیسائیوں کو کہتا رہا ہوں.میں نے کہاوہ اکیلی آواز تھی ، The whole world got united against him ساری دنیا اس کے خلاف اکٹھی ہوگئی.لیکن یہ کہ ساری دنیا اکٹھی ہوئی ، ہمیشہ ہی مخالفت کرتی ہے.لیکن بڑی ہی شدت اور زور پیدا ہوا ہے، اس مخالفت میں.جس سے ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نصرتوں کے جو سمندر ہیں، ان کے دروازے بھی ہمارے اوپر کھلنے والے ہیں.اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ مخالفتوں کا زور ہو اور خدا تعالی خاموشی کے ساتھ بیٹھا ر ہے اور اپنے وعدوں کو پورا نہ کرے.اور جس منصوبے کا اس نے اعلان کیا ہے کہ اس زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہی سب سے بلند ہو گا اور بنی نوع انسان آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے، اس منصوبے میں دنیا کی طاقتیں خدا کو نا کام کر دیں، یہ تو نہیں ہوسکتا.اس کے متعلق بعد میں بھی میں آپ سے اس مشاورت میں تفصیلی گفتگو کرنا چاہتا ہوں.بہر حال میں یہ بتارہا ہوں کہ ذمہ واریاں ہماری بڑی ہیں اور غفلتوں کے دن اور کوتاہیوں کے دن اور سستیوں کے دن اور بدمزگیوں کے دن اور آپس میں چپقلش کے دن اور پیار و محبت سے زندگی نہ گزارنے کے دن ختم ہو گئے ہیں.اب تو ہر ایک احمدی کو چاہئے کہ وہ ہر دوسرے احمدی سے پیار کرے.اور ساری جماعت جو ہے، وہ شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے سے آگے بڑھتی چلی جائے.اللہ تعالیٰ ہم کو اس کی توفیق عطا فرمائے“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 30 مارچ تا یکم اپریل 1979ء) 633
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1980ء سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد میں ایک انقلاب عظیم بپا ہو خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1980ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:.وَسِعُ مَكَانَكَ اور اس کے جلوے ہم ہر وقت ، ہر جگہ دیکھتے ہیں.آج یہ مکان، اللہ کا گھر اللہ کے بندوں کے لئے تنگ نظر آتا ہے، اس میں بھی وسعت پیدا ہونی چاہیے.اور جوں جوں اجتماع بڑا ہو جائے ، لاؤڈ سپیکر کی زیادہ ضرورت پڑ گئی.اور لاؤڈ سپیکر نے عادت ڈال دی، آہستہ بولنے کی.اور لاؤڈ سپیکر نے مطالبہ کیا منتظمین سے کہ وہ لاؤڈ سپیکر کا نظام بہتر بنا ئیں ، ورنہ لوگوں کو تکلیف ہوگی.اب مجھے کچھ پر یہ نہیں کہ میری آواز آپ تک پہنچ رہی ہے یا نہیں؟ ( سب جگہ آواز پہنچنے کی آواز دی گئی.فرمایا ) خدا کرے، پہنچتی رہے.رات کو نماز کے وقت لاؤڈ سپیکر خراب ہو گیا تھا.صدسالہ جوبلی کا منصوبہ جب بنا، میں اس وقت سے کہہ رہا ہوں جماعت کو کہ ہماری زندگی کی آئندہ صدی، دوسری صدی جو ہے، وہ غلبہ اسلام کی صدی ہے.اور اس کے لئے ہمیں تیاری کرنی چاہیے.چند سال پہلے کی بات ہے، اس وقت پندرہ سال کچھ مہینے رہتے تھے، اس صدی کے شروع ہونے میں، جس کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں.کئی سال گزر گئے ہیں اور اب قریباً نو سال باقی رہ گئے ہیں، اس صدی کے شروع ہونے میں، جو میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس کے لئے جماعت نے فراخ دلی سے مالی وعدے کئے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذہین نوجوان دینے شروع کئے.بچے دینے شروع کئے ، جو جامعہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں.بڑے ذہین ہیں، مخلص ہیں، بہت اچھی وہاں نئی پود نکل رہی ہے.ضرورت تھی ہمیں اس کے لئے.اللہ تعالیٰ نے اس استقبال کے لئے جو ابتدائی کام تھے، بہت سی سہولتیں مہیا کر دیں اور بہت سے کام شروع ہو گئے.سویڈن میں مسجد بنانے کا پروگرام اسی منصوبہ کے ماتحت تھا.گوٹن برگ میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر بڑی اچھی مسجد بن گئی اور اس کے نتیجہ میں وہاں اسلام میں، احمدیت میں لوگ پہلے کی نسبت بہت 635
خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1980ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم زیادہ داخل ہونے شروع ہو گئے.اس کے نتیجہ میں اس ملک میں اسلام کی نمائندگی کے بہتر سامان پیدا ہو گئے.اسلام کے خلاف جو بغض تھا، وہ بہت حد تک دور ہونا شروع ہو گیا.اب وہ اسلام کا نام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام غصہ کی بجائے احترام سے لینے لگ گئے ہیں.ابھی کچھ ہیں ایسے شقی القلب اور بے نصیب ، جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پہچانا نہیں.جنہوں نے پہچانا ہے، انہوں نے بھی ابھی پوری طرح نہیں پہچانا.اتنا پہچان گئے ہیں کہ ایک ایسی ہستی ہے، جس کے متعلق جب بات کریں تو عزت واحترام سے بات کرنی چاہیے.سکنڈے نیوین کنٹریز (Countries) میں سے ایک ملک رہ گیا تھا، ناروے.ناروے میں ڈنمارک اور سویڈن سے زیادہ جماعت ہے.لیکن وہاں نہ مشن ہاؤس تھا، نہ کوئی نماز پڑھنے کی جگہ تھی.یہ بہت مہنگے ملک ہیں.انگلستان سے بھی زیادہ یہ مہنگے ملک ہیں.نہ پیسہ تھا کہ اتنی مہنگی کوئی عمارت خرید لی جائے ، جو ہمارے کام آئے ، نہ زمین مل رہی تھی.بہر حال کوششیں جاری تھیں.پچھلے سال اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ایک بہت بڑی عمارت کافی بڑی رقم، جو خدا تعالیٰ نے خود اپنے فضل سے مہیا کردی تھی ، وہ خرچ کرنی پڑی اور وہاں وہ عمارت مل گئی.نماز کے لئے جگہ بن گئی، لائبریری کے لئے جگہ بن گئی.اور بڑی خوشی کے سامان وہاں کی مقامی جماعت کے لئے بھی اور آپ کے اور میرے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے مہیا کر دیئے.پین عیسائیت کا گڑھ ہے.کیتھولزم بڑا گہر اوہاں گڑھا ہوا ہے.اسلام سے نفرت، وہاں عام پائی جاتی ہے.اس وجہ سے کہ ایک وقت میں مسلمان وہاں کا حاکم تھا.پھر اپنی ہی غفلتوں کے نتیجہ میں اللہ تعالی کے پیار کو وقتی طور پر انہوں نے کھویا.اور سارا ملک بھی کھویا، اس کے نتیجہ میں.اور جہاں مشرق و مغرب، شمال و جنوب میں مسلمان ہی مسلمان اور اسلامی معاشرہ اور اسلام کی شان اور خدا تعالیٰ کی محبت کے جلوے ان کی زندگی میں نظر آ رہے تھے، وہاں بت پرستی شروع ہوگئی.اور ایک عاجز انسان کو خدا بنا کے انہوں نے وہاں زندگی گزارنی شروع کی.اور طبعاً ان حالات کے نتیجہ میں انہیں بڑی سخت نفرت اسلام اور مسلمان سے تھی.نام نہیں لیتے تھے.ہماری سب سے بڑی مسجد مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانہ میں جو بنائی ، وہ سپین میں ہے.مسقف چھت اس کی بہت وسیع ہے.ایک منزلہ چھت میں جان کے کہہ رہا ہوں.کیونکہ بعض مسجدیں بنی ہیں، چھ، چھ منزلہ ان کی بات نہیں میں کر رہا.ایک منزل ہے اور چالیس ہزار نمازی مسقف چھت کے نیچے نماز پڑھ سکتا ہے.اتنی بڑی مسجد ہے، جو ہاتھ سے نکل گئی.انہوں نے وہاں ایک گر جا بنایا.ساری مسجد کو گر جانہیں بنا سکتے تھے.کیونکہ ہر دن کا ہرلمحہ جو تھا، وہ ان کا مضحکہ اڑاتا.636
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1980ء اتنی بڑی مسجد کوگر جا بنایا اور چند آدمی وہاں آئے ، عیسائی طریقے پر عبادت کرنے کے لئے.میں جب 70ء میں اس مسجد کو دیکھنے گیا تو مجھے وہ گر جانظر ہی نہیں آیا.پرانی عظمتیں اور ان کی یاد میرے ذہن میں آئی.تو بڑی محبت کا اظہار کیا ہے اس زمانہ کے مسلمان نے خدا کے ساتھ اور خدا کے گھر کے ساتھ.ہیرے، جواہرات اور سونے سے وہاں نقش و نگار کر دیئے تھے، جڑاؤ کا کام کر دیا.اپنی جانوں پر، اپنی عورتوں پر ہیرے، جواہرات اور سونا خرچ نہیں کرتے تھے، خدا کے گھر پر خرچ کر دیا.یہ لوٹ کے لے گئے.ایک چھوٹا سا گر جا بنا دیا.نظر میری اٹھی ان ستونوں پر، اس کی وسعت پر اور کسی نے مجھے کہا، وہ وہ وو دیکھیں ، ( وہ لمبا کیا، دوری بتانے کے لئے ) ایک گر جا بھی بنا ہوا ہے، اس مسجد کے اندر.میں نے 70ء میں یہ تجویز کی کہ تم نے جو ہماری مسجدیں لی ہیں، ٹھیک ہے، حالات بدلے، لے لیں.طلیطلہ میں ایک جگہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے، جو اس مسجد سے قریباً نصف کے برابر ہے.میں نے کہا، یہ ہمیں استعمال کے لئے دے دو، ہمیں سال کے لئے.میں نے وہاں اپنے مبلغ کو کہا ، ہمیں سال میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام کے حق میں، جماعت احمدیہ کے حق میں اس قسم کا انقلاب یہاں بپا ہو گا کہ اس کے بعد پھر یہ شکل بدل جائے گی.اس واسطے ان کو کہو کہ بیس سال کے لئے نماز کے لئے استعمال کی ہمیں اجازت دے دیں.ساتھ ان کے مشن ہاؤس بھی بن سکتا تھا.حکومت کہے کہ ہم راضی ہیں اور ہمیں امید بندھ گئی.لیکن جو وہاں کے سب سے بڑے بشپ تھے، انہوں نے کہا، ہم نے تو کوئی نہیں دینی.ان کا وہاں بڑا اثر ہے، اس واسطے نہیں ملی.پچھلے سال خدا تعالیٰ نے ایسا سامان پیدا کیا کہ وہ شہر قرطبہ، جہاں سب سے بڑی مسجد ہے، اس سے قریباً میں، بائیس میل کے فاصلے پر ایک زمین مل گئی ( مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ) اور اجازت مل گئی ، مسجد بنانے کی.یہ سب سے بڑی چیز ہے.مقامی منتظمہ نے بھی اجازت دی اور مرکزی حکومت نے بھی اجازت دی کہ بے شک یہاں مسجد بنالو.اوسلو میں مل گئی، یہ زمین مل گئی.فرانس اور بیلجیم اور اٹلی رہ گئے ہیں.میرا خیال ہے اور ایک سال میں یہاں بھی مساجد کا انتظام ہو جائے گا.یہ میں بتارہا ہوں کہ یہ بھی ایک تیاری تھی ، استقبال کی کہ ہر جگہ ہمارے مشن ہوں.پھر قرآن کریم کی اشاعت کے بھی سامان پیدا ہو گئے.جلسے پر میں نے بتایا تھا کہ امریکہ میں ایک مطبع خانہ ایسا ملا میں، جس سے ہمارا تعلق قائم ہو گیا ہے.کوئی سات، آٹھ مہینے کی خط و کتابت کے بعد بہت سے جھگڑوں کے بعد وہ راضی ہوئے ، قرآن کریم ہمارے لئے چھاپنے کے لئے.یہ مراحل جب طے ہو گئے تو چند دن کے اندر میں ہزار نسخے انہوں نے شائع کر دیئے.اور اس طرح ہمیں امید بندھی کہ انشاء 637
خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فرورکی 1980ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اللہ تعالی کل کو اگر ہمیں ہمیں ہزار نہیں ہیں لاکھ کی بھی ضرورت پڑی تو سو، دوسودن کے اندر میں لاکھ شائع کر دیں گے.بہت بڑا مطبع خانہ ہے.وہ بھی میں نے بتایا تھا کہ جلسہ سالانہ پر فضلوں کا منادی خلیفہ وقت بن کر یہ تقریر دوسرے دن کی کیا کرتا ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہو گیا.اس چھوٹی سی تمہید کے بعد اس وقت میں جماعت کو مختلف پیرایہ میں ایک اور ضروری اور سب سے اہم بات کی طرف توجہ دلا رہا ہوں.اور وہ یہ کہ ہم سے یہ وعدہ کیا گیا کہ اسلام غالب آئے گا.اور غالب آئے گا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کی جماعت کے ذریعہ.اور اللہ تعالیٰ اس جماعت کو یہ توفیق عطا کرے گا کہ وہ ایک صحیح اور پاک تعلیم جو ہے اسلام کی ، اس کو ساری دنیا میں پھیلانے میں کامیاب ہو جائیں گے.خدا تعالٰی وعدہ خلافی نہیں کرتا.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار اس طرف انسان کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو، جو میں وعدہ کرتا ہوں، وہ پورا ہوتا ہے.اس واسطے جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا، اسلام غالب آئے گا تو اسلام غالب آئے گا، اس زمانہ میں.قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق اس زمانہ میں اسلام نے غالب آنا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے فرمان دیئے انسان کو اور ان میں یہ ذکر ہے کہ آخری زمانہ میں اسلام غالب آئے گا.اور آپ نے جو بھی فرمایا، وہ قرآن کریم کی ہدایت اور تعلیم اور آیات قرآنی کی روشنی میں فرمایا.جس شخص نے آنا تھا، ہمارا عقیدہ ہے اور اس صداقت پر ہم قائم ہیں، وہ آ گیا.صحیح اور مہدی آگئے.ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم کام لینا تھا.بتا میں یہ رہا ہوں کہ خدا نے کہا، اسلام غالب آئے گا.اسلام غالب آئے گا، ایک لحظہ کے لئے بھی تمام روکوں کے باوجود، جماعت کی مخالفت کے باوجود، جماعت کی غربت کے باوجود، جماعت کی کمزوریوں کے باوجود، میرے دماغ میں یہ شبہ پیدا نہیں ہوتا کہ یہ بات پوری نہیں ہوگی.خدا نے کہا ہے ہوگی ، سو ہوگی.یہ حقیقت ہے.دوسری حقیقت قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ اگر ماننے والی جماعت اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرے گی ، یاد دہانیوں کے باوجود، سمجھانے کے باوجود، پیار کے باوجود، نرمی کے باوجود بختی کے باوجود تو خدا تعالیٰ ایک اور قوم لے آئے گا، اس جھنڈے تلے اور ان کے ذریعہ سے غالب کرے گا.غالب تو ضرور کرنا ہے اور کرنا جماعت احمدیہ نے ہے، مگر افراد بدل جائیں گے، اس صورت میں.ہمارا دل یہ کرتا ہے کہ افراد نہ بدلیں.ہمارا دل یہ کرتا ہے کہ میرے اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالٰی اس عظیم انقلاب کو انسان کی زندگی میں بپا کرے.اس لئے بہت سے کام خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور اپنی رحمت سے کر دیئے، جن کی طرف میں نے کچھ اشارے کئے ہیں.جلسے پر بھی میں نے کہا تھا کہ نوٹ، جو میرے ہاتھ میں ہیں، وہ چوہتر صفحے کے ہیں اور جوتقریر میں کروں گا شاید دو، چار، پانچ صفحے سے آگے نہ بڑھ سکوں.638
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1980ء جو سب سے اہم چیز ہے، وہ یہ ہے کہ جو اس وقت موجود جماعت احمدیہ کے افراد ہیں ، ان کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم بپا ہو.اسلامی تعلیم کے مطابق، اسلامی ہدایت کے مطابق ہمارے مرد اور ہماری عورتیں، ہمارے بڑے اور ہمارے چھوٹے اور ہمارے جوان اور ہمارے بچے زندگی گزارنے والے ہوں.جب تک وہ انقلاب، جو دنیا میں خدا لا نا چاہتا ہے، وہ ہماری زندگی میں نہیں آتا ، ہم کس طرح اس انقلاب کو دنیا میں بپا کر سکتے ہیں؟ یہ کہنا کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آئے گا، یہ کہنا کہ نوع انسانی ، نوع انسانی کا مطلب یہ ہے کہ افریقہ کے رہنے والے قریب سارے انسان ، جنوبی امریکہ کے رہنے والے، برازیل وغیرہ ، وہاں بہت سارے ممالک ہیں، وہاں کے رہنے والے سارے باشندے، شمالی امریکہ، THE STATE جس کا بہت ذکر آج کل آ رہا ہے افغانستان کی گڑبڑ کی وجہ سے، وہاں کے سارے باشندے جو ہیں، کینیڈا ہے، یورپ ہے ، Near East ( مشرق قریب) اور Middle East ( مشرق وسطی اور Far East ( مشرق بعید کے ممالک جو ہیں، جزائر جو ہیں، چائنہ جو ہے اور یہ جو ا کمیونسٹ ایشیا ہے اور جاپان اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور نجی آئی لینڈ وغیرہ وغیرہ، جہاں جہاں انسانی آبادیاں بستی ہیں، وہ ساری کی ساری اسلام میں داخل ہو جائیں گی لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ مسلمان کہلانے لگیں گے.مسلمان کہلانا کسی خطے کا ہمیں یہ نہیں بتا تا کہ اسلام وہاں غالب ہے.یہ بتاتا ہے کہ وہاں مسلمان کہلانے والوں کی اکثریت ہے.غلبہ اسلام کے معنی یہ ہیں کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہوں گے.اگر غلبہ اسلام کے یہ معنی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے لگیں، بلکہ یہ معنی ہیں کہ وہ صیح شکل میں مسلمان ہو کے ان کی روح کے اندر اسلام داخل ہو چکا ہو.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ اسلام کے معنی ہیں، کامل اطاعت.اور مثال یہ دی ہے ہمیں سمجھانے کے لئے کہ جس طرح ایک بکر اجبراً ( وہ تو اس کے اوپر جبر ہو رہا ہے تب ) قصائی کی چھری کے نیچے اپنی گردن رکھ دیتا ہے، اس طرح انسان اپنی مرضی سے اور طوعا بغیر کسی قسم کے جبر کے خدا تعالی کی اطاعت کے نیچے اپنی گردن رکھ دے.یہ ہے اسلام، یہ ہے اسلام کا غلبہ.جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے گا تو ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ساری دنیا کے انسان، اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہونے لگیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر خدا تعالیٰ کے پیار اور محبت کو حاصل کرنے والے ہوں گے.روس آج یہ کہہ رہا ہے کہ میں زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو مٹانے کے لئے قائم ہوا ہوں.محمد کا خدا یہ کہ رہا ہے کہ نہیں ! تمہارے ملک میں ریت کے ذروں کی طرح مسلمان پایا 639
خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم جائے گا.یہ کشف میں نظارہ دکھایا گیا ہے، حضرت مسیح موعود کو.وہ لوگ ، جو موجودہ تہذیب کی آزادانہ گندگی میں ملوث ہیں، امریکہ کو لے لو، لاکھوں کنواری بچیاں ، بارہ اور اٹھارہ سال کے درمیان کی ، وہ شادی کے بغیر بچے جن دیتی ہیں، اتنا گند وہاں پھیلا ہوا ہے.ان میں سے ایک چیز ابھر رہی ہے، اس گند میں سے.جس طرح کھاد ڈالی جاتی ہے، گندی زمین میں اور وہاں سے گلاب کا پھول نکل آتا ہے.ایک وقت میں کثرت کھاد کی نظر آ رہی ہوتی ہے.ایک وقت میں کثرت اور توجہ کو جذب کرنے کی طاقت اس تختے کے گلاب میں ہوتی ہے، جو پھول بن کے سامنے آجاتا ہے.بہر حال اس وقت تو اکا دکا وہاں احمدی ہیں.مثلاً احمدی مستورات ہیں.بعض کہتی ہیں، ہم نقل کریں گی ، یورپ کی.اپنی بہنوں کو جو بے پردگی کی طرف مائل ہو رہی ہیں، میں کہتا ہوں امریکہ میں اس گند میں ہماری نو احمدی بہنیں کہتی ہیں، ہم نقل کریں گی ، صحابیات کی.اور وہ نقاب پہن کر بازاروں میں پھر رہی ہیں.یہ ہمیں ڈرانے کے لئے بھی نظارے خدا دکھا رہا ہے.میں نے بتایا کہ خدا کہے گا تم نہیں کرتے ، میں ایک اور قوم لے آؤں گا.خدا تعالیٰ کی کسی سے رشتہ داری نہیں، خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کی اجارہ داری نہیں کہ وہ کسی اور پر اپنا رحم ہی نہیں کرے گا.ہر دہ انسان، خواہ وہ افریقہ کا ہو، یورپ، امریکہ، چین یا روس کا ، جو بھی خدا سے پیار کرے گا اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے گا، وہ خدا کی محبت کو حاصل کرے گا.اور جو تو میں اس میں ترقی کریں گی ، ان میں سے جو سب سے زیادہ ترقی کرنے والی ہوگی ، وہ مرکز بن جائے گا اس تحریک کا.پاکستان کے ساتھ یا ہندوستان کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کو پیار نہیں.خدا تعالیٰ کو پیار ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کے ساتھ ، جس کی زندگی کا نقشہ اگر ایک فقرہ میں کھینچنا ہوتو ہم یہ کہتے ہیں کہ مہدی، محمد میں فانی ہو گئے.اپنا کچھ بھی نہیں رہا اور اس میں فخر محسوس کیا اور اعلان کر دیا.وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے اور ہمارے کانوں میں وہ میٹھی آواز پڑی، كل بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ - اگر خدا کی برکتیں حاصل کرنا چاہتے ہو تو محمد کے حلقہ شاگردی میں داخل ہو جاؤ.اگر پاکستان نے اس تحریک کا مرکز بنے رہنا ہے تو اپنے عمل سے انہوں نے آگے بڑھنا ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے، قرآن کریم میں تقریبا سات سو احکام ہیں اور ہر حکم قرآن کریم کا مرنے کے بعد قیامت کے دن تم سے سوال کرے گا اور جواب طلبی کرے گا کہ میرے مطابق تم نے زندگی گزاری یا نہیں ؟ چونکہ اس وقت مرکز اور بعض 640
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1980ء پہلوؤں کے لحاظ سے مرکزیت اور قیادت پاکستان کی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے، اس لئے میرا فرض ہے کہ میں اپنی سی کوشش کروں کہ آپ کے ہاتھ سے یہ قیادت نکل کے کسی اور کے پاس نہ چلی جائے.سوچو، غور کرو اور یہ عہد کرو، اپنے خدا سے کہ اے خدا! تو کہتا ہے پیار اور محبت سے رہو.ہم آئندہ کبھی آپس میں لڑیں گے نہیں، پیار اور محبت سے رہیں گے.تم یہ کہو اپنے خدا سے کہ اے خدا! تو کہتا ہے کہ لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ناجائز ، ناحق، جھوٹ اور فریب کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے مال نہ کھایا کرو اور ہم عہد کرتے ہیں کہ کسی کا مال ناجائز اور حرام نہیں کھایا کریں گے.احسان کریں گے، احسان لیں گے نہیں کسی کا.تیرے بندوں سے پیار کریں گے ، حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے.دکھ دور کرنے کی کوشش کریں گے، دکھ پہنچائیں گے نہیں.نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے ، خیالات میں بھی نہیں.74ء میں جو کچھ ہوا، اس وقت میں نے جماعت سے کہا تھا اور جماعت نے ، میں خوش ہوں ، بڑا اچھا نمونہ دکھایا.میں نے کہا تھا، جن لوگوں سے تمہیں دکھ پہنچ رہا ہے، جواب میں دکھ نہیں پہنچانا.میں نے نہیں کہا تھا ، یہاں نہیں میں ٹھہرتا.میں تمہیں یہ کہتا ہوں تمہارے دل میں بھی ان کے خلاف غصہ نہ ہو.میں یہاں بھی نہیں ٹھہرتا تمہاری زبانوں پر ان کے لئے دعا ہو.خدا کے حضور کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.بڑا ہم کام ہے، جو ہمارے سپرد ہوا.بڑی اہم ذمہ داری ہے، اس شخص کی ، جس نے خود کو حضرت مسیح موعود کے دامن کے ساتھ وابستہ کر لیا.جس نے یہ اعلان کیا کہ مہدی ، جس غرض کے لئے آیا ہے، اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہم ہر چیز کو قربان کر دیں گے.تم اعلان یہ کرو اور تمہارا عمل کچھ اور ہو.ہوتا ہے، اس طرح بھی.لیکن اس پر خدا خوش نہیں ہوا کرتا.اور اس کے نتیجہ میں وہ برکتیں اور رحمتیں حاصل نہیں ہوا کرتیں ، جن کا خدا تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے.اس کے نتیجہ میں وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا ، جس مقصد کے لئے ہر فرد انسانی پیدا ہوا ، جس مقصد کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.کئی جگہ سے اطلاعیں آ جاتی ہیں کہ آپس میں لڑ پڑے، ذرا ذراسی بات پر تم جب تک مٹی نہیں بن جاتے ، جب تک تمہارا نفس مر نہیں جاتا، جب تک تم ہر دوسرے کے لئے اکسیر نہیں بن جاتے ، جب تک تم احسان اور پیار کا ابلتا ہوا چشمہ نہیں بن جاتے ، اس وقت تک اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے.بہت سارے اور بھی خطبے دوں گا.آپ پڑھا بھی کریں اور سنایا بھی کریں سب کو ، توجہ بھی دلایا کریں.نو سال ہیں اس میں، یعنی اس صدی کے شروع ہونے میں جیسا کہ میں نے بتایا، میں نے سوچا، 641
خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو بات واضح کی ہے، وہ یہ ہے کہ احمدیت کی زندگی کی دوسری صدی ، غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس غلبہ اسلام کی صدی کے استقبال کے لئے وہ جماعت چاہیے، جس کے متعلق حضرت مسیح موعود نے فرمایا:.صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا جب ہماری وہ صدی ( یہ ہجری صدی کی نہیں میں بات کر رہا ) ہماری زندگی کی صدی، جونو سال کے بعد آنے والی ہے، جب وہ پچھلی صدی پر نظر ڈالے، جو موجود ہو جماعت اس کے اوپر ، اس صدی کی نگاہ پڑے، وہ کہیں صحابہ میں اور ان میں کوئی فرق نہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ سے عشق کرنے والے، اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے، اسی طرح نوع انسانی کے خادم، اسی طرح ظلمات کو دور کرنے والے، اسی طرح بھائی چارے اور اخوت کو قائم کرنے والے ہیں، یہ لوگ وغیرہ وغیرہ.میں نے کہا سات سواحکام ہیں، ہر ایک پر چلنے والے ہیں، یہ لوگ.تب وہ صدی غلبہ اسلام کی ہوگی مرکز احمدیت پاکستان میں رہتے ہوئے.ہوگی تو ضرور لیکن اسے باہر نہ جانے دو.پس دعا ئیں کرو اور بہت دعائیں کردو کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کا مقام پہچانے کی توفیق عطا کرے.بڑا بلند ہے مقام، جہاں تک اللہ تعالیٰ آپ کو لے جانا چاہتا ہے.قرآن کریم میں ایک جگہ آتا ہے ہے، کسی شخص کے متعلق وہاں مثال دی ہے کہ میں تو ا سے آسمانوں تک پہنچانا چاہتا تھا، خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے کہ میں تو اسے آسمانوں تک پہنچانا چاہتا تھا مگر یہ نالائق جھک گیا زمین کی طرف.خاک میں ملنے کی اس نے کوشش شروع کر دی.اس طرح نہیں بننا.بلکہ جب خدا تعالیٰ نے یہ چاہا کہ ہمیں آسمانوں کی بلندیاں اور رفعتیں عطا کرے تو خدا تعالیٰ ہمیں ہر اس ناپاکی اور پلیدگی اور گناہ اور غفلت سے محفوظ رکھے، جس کے نتیجہ میں ہم وہاں نہ پہنچ سکیں، جہاں وہ ہمیں پہنچانا چاہتا ہے.پس دعائیں کریں اور اپنی زندگیوں میں انقلاب عظیم بپا کرنے کی کوشش کریں.اور اپنے آپ کو اس وقت کے لئے تیار کریں، جب جماعت احمدیہ بحیثیت جماعت اپنی زندگی کی اگلی صدی میں داخل ہورہی ہوگی اور خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمانوں پر ان کے لئے دعا کر رہے ہوں گے اور خدا سے کہہ رہے ہوں گے کہ اے خدا! تیرے یہ بندے واقع میں اس قابل ہیں کہ اس صدی میں جو آ رہی ہے، آگے تیرے دین کو ساری دنیا میں اس معنی میں غالب کر دیں.میں مثال دے دیتا ہوں.ایک پریس کانفرنس میں جرمنی میں اسلامی تعلیم میں بتارہا تھا تو ایک صحافی مجھ سے پوچھنے لگا ( باتیں سن کے اس پر اثر ہوا) کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے سارے 642
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1980ء باشندوں کو آپ مسلمان بنالیں؟ میں نے کہا، نہیں.میں یہ چاہتا ہوں کہ اسلام کا حسن کچھ اس طرح تمہارے سامنے پیش کروں کہ تم مجبور ہو جاؤ ، اسے قبول کرنے کے لئے سختی سے تو نہیں کرنا ہم نے.خدا آپ کے اندر یہ اہلیت پیدا کر دے کہ اسلام کے حسن اور احسان کے جلوے دنیا آپ کی زندگیوں میں کچھ اس طرح دیکھے کہ وہ مجبور ہو جائے، اسلام کو قبول کرنے پر اور یہ گواہی دینے پر کہ اسلام اس قسم کا انسان، اس قسم کا مردہ، اس قسم کی عورت، اس قسم کا بڑا، اس قسم کا بچہ پیدا کرنا چاہتا ہے.اور اپنے ہی فائدہ کے لئے ، اپنے جسمانی فائدہ کے لئے بھی، اپنے ذہنی فائدہ کے لئے بھی، اپنے اخلاقی فائدہ کے لئے بھی اور خدا تعالٰی کی رحمتوں کو حاصل کرنے کے لئے روحانی فوائد کے لئے بھی وہ یہ سمجھیں کہ اسلام سے باہر وہ دولتیں اور رحمتیں ہمیں نہیں مل سکتیں ، وہ عزتیں اور رفعتیں ہم حاصل نہیں کر سکتے ، جو اسلام میں داخل ہو کے ہم کر سکتے ہیں.اس لئے ہمیں داخل ہو جانا چاہیے.آپ نے ایک نمونہ پیش کرنا ہے، دنیا کے سامنے.آپ نے دنیا کو بتانا ہے کہ وہ کونسی راہ تھی، جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم آج بھی ہمیں نظر آ رہے ہیں.وہ راہ جو سیدھی خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہے، اس کے لئے تیاری کریں.تیاری کرنا شروع کر دیں.ان نو سالوں میں یہ انقلاب عظیم جماعت احمدیہ کی زندگی میں بپا ہو جانا چاہیے.تا کہ وہ اس سے بہت بڑا انقلاب عظیم جو نوع انسانی کی زندگی میں بپا ہونا ہے، اس کے سامان ہو جا ئیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“.مطبوعه روزنامه الفضل 06 نومبر 1980ء) 643
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ سندھ دنیا میں انقلاب بپا کرنے کے لئے پہلے اپنی زندگیوں میں انقلاب لانا ضروری ہے ارشادات فرموده دوران دورہ سندھ فروری 1980ء حضور نے فرمایا:.صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کا اعلان کرتے وقت میں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی، غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس لئے جماعت کو اس کے استقبال کی شایان شان تیاری کرنی چاہیئے.مجھے خوشی ہے کہ پچھلے چند سالوں میں جماعت نے بڑی مالی قربانی دی.ذہین بچوں کو وقف کیا ، جو جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں.گوٹن برگ میں مسجد اور مشن ہاؤس بن گیا ، جہاں اسلام کی نمائندگی کے بہتر سامان پیدا ہو گئے.پچھلے سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اوسلو میں مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ایک بہت بڑی عمارت مل گئی.پین، جو عیسائیت کا گڑھ ہے، وہاں بھی پچھلے سال قرطبہ کے قریب باموقع جگہ پر زمین کا ٹکڑامل گیا ہے.اور اس سے بھی زیادہ خوشی کی یہ بات ہے کہ وہاں کی حکومت نے مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کی اجازت بھی دے دی ہے.امریکہ میں انگریزی ترجمہ قرآن کی وسیع اشاعت کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.اس مختصر سی تمہید کے بعد حضور نے فرمایا:.اصل اور ضروری اور سب سے اہم بات جس کی طرف میں جماعت کو مختلف پیرایہ میں توجہ دلانا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اسلام غالب آئے گا.اور غالب آئے گا، حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی جماعت کے ذریعہ.خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کو یہ توفیق دے گا کہ وہ اسلامی تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلانے میں کامیاب ہو جائیں.اور جیسا کہ قرآن کریم کی پیشگوئیاں ہیں اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے، اسلام نے آخری زمانے میں غالب آتا ہے.اور آپ کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ غالب آتا ہے.چنانچہ تمام رکاوٹوں اور جماعت کی مخالفتوں، اس کی غربت اور کمزوریوں کے باوجود ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ خدا اور خدا کے رسول کی یہ بات پوری ہو کر رہے گی.645
ارشادات فرموده دوران دورہ سندھ تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم آپ نے فرمایا:." قرآن کریم نے دوسری حقیقت یہ بیان کی ہے کہ اگر صداقت کو ماننے والی جماعت یاد دہانیوں اور سمجھانے کے باوجود، پیار اور نرمی اور سختی کرنے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرے گی تو خدا تعالیٰ اس جھنڈے تلے کوئی اور قوم لے آئے گا.یہ کام کرنا تو جماعت احمدیہ نے ہی کرنا ہے مگر افراد بدل جائیں گے.ہمارا دل کرتا ہے کہ افراد نہ بدلیں، میرے اور آپ کے ذریعہ یہ عظیم انقلاب انسان کی زندگی میں پیدا ہو.مگر اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے مرد اور ہماری عورتیں ، ہمارے بڑے اور ہمارے چھوٹے ، ہمارے جوان اور ہمارے بچے اسلامی تعلیم کا ایک عمدہ نمونہ بن جائیں.کیونکہ جب تک وہ انقلاب، جو دنیا میں ہم لانا چاہتے ہیں، وہ ہماری زندگیوں میں نہیں آجاتا، اس وقت تک ہم اس انقلاب کو دنیا میں بپا نہیں کر سکتے.اس لیے ہمارے لئے یہ از بس ضروری ہے کہ ہم خدا کے اطاعت گزار بندے بنیں اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی کامل پیروی کریں.حضور نے فرمایا:.بڑا اہم کام ہے، جو ہمارے سپرد ہوا.اور بڑی اہم ذمہ داری ہے، اس شخص کی ، جس نے خود کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن کے ساتھ وابستہ کیا.اگر تمہارا دعوئی تو یہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض کو پورا کرنے کے لئے اپنی ہر چیز قربان کر دیں گے اور عمل اس کے خلاف ہو تو خدا تم سے خوش نہیں ہوگا.اور وہ برکتیں اور رحمتیں حاصل نہیں ہوں گی ، جن کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے.اور نہ وہ مقصد حاصل ہوگا، جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور جس کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.اس لئے میں بار بار جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ جماعت احمد یہ وہ جماعت بن جائے ، جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:.صحابه سے ملا جب مجھ کو پایا صحابہ کی طرح اپنے اندر عشق و وفا اور قربانی اور ایثار کی روح پیدا کریں.اور آپس میں بھائی چارے اور اخوت کی فضا قائم کریں.خدا تعالیٰ تمہیں آسمانی رفعتیں عطا کرنا چاہتا ہے.مگر یہ تو بڑی نا لائفتی ہے کہ کوئی شخص پھر بھی زمین کی طرف جھک جائے اور گناہ گار بن جائے“.حضور نے فرمایا:.میں جماعت کو یہ کہتا ہوں کہ اپنی زندگیوں میں انقلاب عظیم بپا کرنے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو اس وقت کے لئے تیار کریں، جب جماعت احمد یہ بحثیت جماعت اپنی زندگی کی دوسری صدی میں داخل ہو 646
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ سندھ گی اور خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے لئے دعا کریں گے اور کہیں گے کہ اے خدا! تیرے یہ بندے واقع میں اس قابل ہیں کہ تیرے دین کو ساری دنیا میں غالب کر دیں.پس تمہاری زندگی میں اسلام کے حسن و احسان کے نظارے دنیا کچھ اس طرح دیکھے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور ہو جائے.اور دنیا میں ایک ہی خدا ہو اور ایک ہی رسول ہو، جس کے جھنڈے تلے جمع ہو کر دنیا امن اور سکون سے زندگی بسر کرنے لگیں.حضور نے فرمایا:.سپین میں الحمرا کا محل آج بھی مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی یاد تازہ کرتا ہے.یہ مسلمان انجینئروں کے فن تعمیر کا ایک ایسا حسین شاہ کار ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ زمانہ میں یورپین اس نو سو سالہ پرانی عمارت کے بعض حصوں کو اس خیال سے چھیڑ تے نہیں کہ کہیں خراب ہوگئی تو دوبارہ بنا نہیں سکیں گے“.آپ نے فرمایا:.پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے امریکہ میں ترقی شروع ہوئی.لوگوں کو مجبوراً دماغ لڑانے پڑے.لیکن جب ترقی کے راستے پر چل پڑے تو چھلانگیں مارتے ہوئے آگے نکل گئے.اس لئے جب ہم کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے تو یہ دنیوی نقطہ نگاہ سے بھی ممکن ہے.اگر امریکہ آگے نکل سکتا ہے تو ہم خدا کے دین کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے کیوں کامیاب نہیں ہو سکتے ؟“ ( مطبوعه روزنامه الفضل 04 مارچ 1980ء) 647
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسه یوم مسیح موعود جزائر نجی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیاں اسلام کی تعلیم کے مطابق گزاریں پیغام بر موقع جلسہ یوم مسیح موعود جزائر فجی منعقدہ 23 مارچ 1980ء ( حضور رحمہ اللہ کے انگریزی پیغام کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے.) اس مبارک دن پر میں تمام ممبران جماعت احمدیہ کو یہ بات یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اس دن کے بعد نو سال گزرنے پر ہم اپنی جماعتی زندگی کے لحاظ سے دوسری صدی میں داخل ہو جائیں گے.اور جیسا کہ میں نے اکثر آپ کو بتایا ہے کہ آپ کی زندگی کی دوسری صدی، اسلام کی فتح اور غلبہ کہ صدی ہے.ہمیں اس کے شایان شان طریق پر بہترین تیاری کرنی چاہیے.تا کہ تمام اقوام عالم اور تمام ممالک کے لوگ اسلام میں داخل ہوں تو ہم اس قابل ہوں کہ ان کے استاد اور راہنما بن سکیں.اس غرض کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیاں اسلام کی تعلیم کے مطابق گزاریں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس نیک کام کے لئے جرات اور طاقت عطا کرے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے افضال اور برکات سے نوازے.خليفة المسيح الثالث ( مطبوعہ روز الفضل 24 اپریل 1980 ء ) 649
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ گیمبیا خود کو اس طرح تیار کریں کہ آنے والی صدی کا شایان شان استقبال کر سکیں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ گیمبیا منعقدہ 04 تا 106اپریل 1980ء ( حضور رحمہ اللہ کے پیغام کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے.) " مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی کہ گیمبیا جماعت اپنا چھٹا جلسہ سالانہ 04 تا 06 اپریل 80ء منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ اور اس میں شریک ہونے والوں کو اپنی برکات سے نوازے.اس موقع پر میں آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف کرانا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعتی زندگی کی دوسری صدی شروع ہونے میں صرف نو سال باقی ہیں.جیسا کہ میں نے متعدد بار آپ کو بتایا ہے کہ ہماری زندگی کی دوسری صدی اسلام کے غلبہ کی صدی ہے.ان نو سالوں میں ہمیں اپنے آپ کو اس طور پر تیار کرنا ہے کہ ہم آنے والی صدی کا شایان شان استقبال کر سکیں.خدا تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنا سب کچھ اپنی راہ میں قربان کرنے کی جرات عطا فرمائے.مجھے آپ بہت محبوب ہیں اور میں آپ کے لئے مسلسل دعائیں کرتا ہوں.( خليفة المسيح الثالث ) ( مطبوعه روزنامه افضل کیم جولائی 1980ء) 651
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم خصوصی پیغام فرمودہ 03 مئی 1980ء غلبہ دین خاتم الانبیاء کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے ہر وقت مستعد رہیے خصوصی پیغام فرموده 03 مئی 1980ء بنام احباب جماعت بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود عزیز بھائیو اور بہنو! خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کو یاد ہوگا کہ 1973ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر انہی منشاء کو پورا کرنے اور غلبہ دین خاتم الانبیاء کی مہم کو تیز تر کرنے کی خاطر میں نے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ اور صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ کے قیام کی تحریک کی تھی.جس پر دنیا بھر کے احمدیوں نے اپنی شاندار روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ، محبت ، اخلاص اور پورے جوش و ولولہ کے ساتھ اس فنڈ میں وعدے لکھوائے اور مرحلہ وار ادائیگی شروع کر دی.الہی بشارتوں کے پیش نظر ہمارا ایمان ہے کہ جماعت احمدیہ کے قیام کی دوسری صدی ، غلبہ دین خاتم الانبیاء کی صدی ہوگی.اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ اس صدی کا شایان شان استقبال کیا جائے.میں نے گزشتہ جلسہ سالانہ پر خدا تعالیٰ کے ان افضال کا ذکر کیا تھا، جو صد سالہ جو بلی فنڈ کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ پر ہورہے ہیں.حق کا پہنچنا ملک سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں مسجد دمشن ہاؤس کی تعمیر لنڈن میں عالمی کسر صلیب کا نفرنس کا انعقاد اور اس کے نتیجہ میں کروڑوں انسانوں تک پیغام سرینگر میں (جہاں حضرت مسیح علیہ السلام مدفون ہیں ) مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر ناروے میں مشن ہاؤس کے لئے عمارت اور مسجد کے لئے جگہ کی خرید 653
خصوصی پیغام فرمودہ 03 مئی 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم د سپین میں مسجد کے لئے زمین کی خرید اور حکومت سے مسجد تعمیر کرنے کی اجازت قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کی وسیع پیمانہ پر اشاعت یہ ادا ئیگی حقوق طلباء کے نظام کا اجراء یہ وہ شیریں پھل ہیں، جو ہمیں صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے ذریعہ حاصل ہوئے ہیں.اور ان میں دن بدن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اضافہ ہورہا ہے.اس منصوبہ کا ساتواں مرحلہ شروع ہو چکا ہے.میں اپنے تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو ، چاہے وہ دنیا کے کسی حصہ میں رہتے ہوں، توجہ دلاتا ہوں کہ آپ پہلے سے بھی بڑھ کر اس فنڈ کو مضبوط بنانے کے لئے اپنی مساعی کو تیز تر کر دیجئے.اور غلبہ دین خاتم الانبیاء کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لئے ہر وقت مستعد ر ہے.اپنے وعدوں کو مرحلہ وار سو فیصد سے بھی زیادہ پورا کیجئے.اور جو اس وقت تک اس مبارک تحریک میں شامل نہیں ہو سکے یا جن کو اللہ تعالیٰ نے اب مالی فراخی دی ہے، وہ اب اس میں شامل ہو جائیں.اور وعدوں کو اپنی استطاعت کے مطابق کر دیجئے.اللہ تعالیٰ آپ کے اموال میں برکت دے اور آپ کی قربانیوں کو قبولیت کا شرف عطا فرمائے.امين.اللهم امين.654 والسلام خاکسار ( دستخط ) مرزا ناصر احمد خليفته المسيح الثالث مطبوعه روزنامه الفضل 05 مئی 1980ء)
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم " اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 جون 1980ء خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید سے اور آگے بڑھو خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جون 1980ء 1970ء میں مغربی افریقہ کے بعض ملکوں کا میں نے دورہ کیا.وہاں مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ایک نئے پروگرام کا.جماعت میں، میں نے اس کی تحریک کی.ساری جماعت نے اس وقت بڑے پیار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور 53 لاکھ روپیہ پیش کر دیا.اب ان ملکوں کی سکیم کہ اتنے کالجز کھولے جائیں گے اور اتنے ہسپتال کھولے جائیں گے ، اس لحاظ سے تو 3 5 لاکھ روپے کوئی چیز نہیں ہیں.وہاں کے جو مشنریز عیسائی ہسپتال ہیں، وہ دو، دو کروڑ روپیہ ایک، ایک ہسپتال پر خرچ کرنے والے ہیں.لیکن خدا تعالی کو آپ کے پیسے کی تو ضرورت نہیں.آپ کے دل میں جو اس کا پیار موجزن ہوتا ہے، اسے وہ پسند کرتا اور محبت کی نگاہ سے دیکھتا اور اسی کے مطابق وہ آپ سے سلوک کرتا ہے.اس سال ” نصرت جہاں آگے بڑھو، نصرت جہاں میرے لئے ایک پیارا وجود بھی ہے.کیونکہ میری دادی نصرت جہاں نے بچپن سے ہی مجھے پالا اور بڑی احسن رنگ میں تربیت کی.مجھے وہ کچھ سکھایا کہ دنیا کی کوئی ماں نہیں، جس نے اپنے بچے کو وہ سکھایا ہو.جس رنگ میں سکھایا، وہ بھی حسین تھا.اللہ تعالی آپ کے درجات کو بہت بلند کرے.لیکن معنوی لحاظ سے یہ بنتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید سے اور آگے بڑھو.53 لاکھ سے تو ہم جوں کی چال سے بھی آگے نہیں بڑھ سکتے.لیکن خدا تعالیٰ کی نصرت نے اپنا یہ کرشمہ دکھایا کہ سال رواں کا ان ملکوں کا نصرت جہاں کا بجٹ چار کروڑ روپے کا ہے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 18 اگست 1981ء) 655
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصہ خطبہ جمعہ 04 جولائی 1980ء اسلام کا موعودہ غلبہ ایٹم بم وغیرہ کے ذریعہ نہیں بلکہ علمی تفوق کی بناء پر ظاہر ہوگا خطبہ جمعہ فرمودہ 04 جولائی 1980ء.اس بیماری اور کمزوری کی حالت میں، میں نے اعلائے کلمہ اسلام کی غرض سے ایک طویل سفر اختیار کیا ہے.یورپ کے متعدد ممالک کے علاوہ افریقہ ، نیز امریکہ اور کینیڈا جانے کا ارادہ ہے.ایک تو یورپ کے مشنوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے اور ان میں دن بدن وسعت پیدا ہو رہی ہے.ان کی طرف زیادہ وقت اور توجہ دینے کی ضرورت ہے.دوسرے پاکستانی احمدی ان ممالک میں خاصی تعداد میں آچکے ہیں.ان کی تربیت اور غیر اسلامی ماحول سے ان کی حفاظت ضروری ہے.وقت کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ مغربیت اور لادینیت کے اثر سے انہیں بچایا جائے.اور انہیں غلبہ اسلام کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے قابل بنایا جائے.یہ سب امور ایسے ہیں، جو وقت اور توجہ چاہتے ہیں اور ان کے لئے سفر اختیار کرنا ضروری ہے“.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی ایک خاص تدبیر کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.".اس وقت میں بعض ضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں.جن کا تعلق غلبہ اسلام کی صدی سے ہے.جو چند سال کے بعد شروع ہونے والی ہے.اپنے شروع زمانہ خلافت سے مجھے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص تدبیر کارفرما نظر آ رہی ہے.اور وہ یہ ہے کہ جو تحریک یا منصوبہ بھی میری طرف سے جاری کیا جائے ، غلبہ اسلام کی آسمانی مہم سے اس کا تعلق ضرور ہوگا“.1970ء میں نصرت جہاں کا منصوبہ جاری ہوا.اس کا تعلق مغربی افریقہ کے ممالک میں سکول اور کلینک کھولنے سے تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کوشش میں اتنی برکت ڈالی کہ معقل دنگ رہ جاتی ہے.اس منصوبہ کے تحت آپ لوگوں نے جو مالی قربانی کی ، وہ 53لاکھ روپے تھی.اس رقم سے وہاں سکول اور کلینک کھولے گئے.اللہ تعالی نے اس میں اتنی برکت ڈالی ہے کہ اب ان ملکوں میں نصرت جہاں کا سال رواں کا بجٹ چار کروڑ روپے کا ہے.پھر اس سکیم کے تحت بہت سے احباب نے جانی قربانی کا جو نمونہ پیش کیا، وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے.بہت سے ڈاکٹروں نے مغربی افریقہ میں نئے کلینک کھولنے اور انہیں چلانے کے لئے تین، تین سال وقف کئے.میں نے ان سے کہا تم خدمت کے لئے جارہے ہو.جاؤ ، ایک جھونپڑا ڈال کر کام 657
اقتباس از خلاصہ خطبہ جمعہ 04 جولائی 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم شروع کردو اور مریضوں کی ہر ممکن خدمت بجالاؤ.میں ابتدائی سرمائے کے طور پر انہیں صرف پانچ سو پونڈ دیتا تھا.انہوں نے اخلاص سے کام شروع کیا.غریبوں سے ایک پیسہ لئے بغیر ان کی خدمت کی.امراء نے وہاں کے طریق کے مطابق اپنے علاج کے اخراجات خود ادا کئے.اب وہاں ہمارے ایسے ہسپتال بھی ہیں، جن کی بچت تمام اخراجات نکالنے کے بعد ایک، ایک لاکھ پاؤنڈ سالانہ ہے.دو سال کے اندر اندر سولہ ہسپتال کھولنے کی توفیق مل گئی.پھر ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور اب تو میڈیکل سنٹروں کی تعداد جو ہیں، پچیس ہوگئی ہوگی.وہاں لوگ ہمارے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ ہمارے علاقہ میں بھی ہسپتال قائم کرو.اسی طرح مغربی افریقہ کے ممالک میں پہلے یہ حالت تھی کہ مسلمانوں کا کوئی ایک پرائمری سکول بھی نہ تھا.سارے سکول عیسائی مشنوں کے ہوتے تھے.مسلمان بچے بھی انہی کے سکولوں میں پڑھنے پر مجبور تھے.وہ براہ راست بائبل کی تعلیم دیئے بغیر ان کا عیسائی نام رکھ کر انہیں چپکے سے عیسائی بنا لیتے تھے.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے وہاں پرائمری، مڈل اور ہائرسیکنڈری سکول کھولنے کی توفیق دی.اس طرح وہاں مسلمان بچوں کی تعلیم کا انتظام ہوا.نصرت جہاں منصوبہ کے تحت سولہ نئے ہائر سیکنڈری سکول کھولنے کا وعدہ کیا گیا تھا.خدا تعالیٰ نے وہاں اس سے زیادہ تعداد میں سکول کھولنے کی توفیق عطا کر دی.غلبہ اسلام کی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مضبوط بنیادوں کی ضرورت تھی.سو اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں منصوبہ کے تحت یہ بنیاد میں فراہم کر دیں.اب وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری اس خدمت کا اتنا اثر ہے کہ نائیجیریا میں ہماری جماعت کے جلسہ سالانہ میں ملک کے صدر نے ، جس کا تعلق مسلم نارتھ سے ہے، جو پیغام بھیجا، اس میں جماعت کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا کہ میں تمام مسلمان فرقوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انہیں بھی ملک و قوم کی اسی طرح خدمت کرنی چاہئے ، جس طرح جماعت احمدیہ نائیجیر یا کر رہی ہے“.اس کے بعد حضور رحمہ اللہ نے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ اور اس کی غرض و غایت اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:." تیسرا بڑا منصوبہ، جو جماعت میں پیش کیا گیا، وہ صد سالہ احمد یہ جو بلی کا منصوبہ ہے.اس کے تحت آپ نے دس کروڑ روپے بطور چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے.اس کا تعلق غلبہ اسلام کی صدی کے 56 شایان شان استقبال سے ہے.658
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خلاصہ خطبہ جمعہ 04 جولائی 1980ء اس ضمن میں حضور نے اشاعت قرآن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دن مجھے یہ بتایا گیا کہ تیری دور خلافت میں پچھلی دو خلافتوں سے زیادہ اشاعت قرآن کا کام ہو گا.چنانچہ اب تک میرے زمانہ میں پچھلی دوخلافتوں کے زمانوں سے قرآن مجید کی دو گنا زیادہ اشاعت ہو چکی ہے.دنیا کی مختلف زبانوں میں اب تک قرآن مجید کے کئی لاکھ نسخے طبع کرا کر تقسیم کئے جاچکے ہیں.اس تعلق میں حضور نے ان نئی سہولتوں کا ذکر کیا، جو اشاعت قرآن کے سلسلہ میں بفضل تعالیٰ میسر آئی ہیں اور بتایا کہ پہلے یورپ کا کوئی اشاعتی ادارہ قرآن مجید شائع کرنے اور اسے خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا.لیکن خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ ایک بہت بڑی اشاعتی فرم نے بہت بڑی تعداد میں قرآن مجید شائع کرنے اور اسے فروخت کرنے کا ذمہ اٹھایا ہے.چنانچہ دو ہفتہ کے اندر اندر اس نے قرآن مجید کے بیس ہزار نسخے طبع کر کے مجلد حالت میں ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیئے اور پھر ہم سے جماعت ہائے احمد یہ امریکہ نے ہمیں ہزار کے بیس ہزار نسخے خرید کر رقم ہمیں دے دی“.اس کے بعد حضور نے فرانسیسی ، اٹالین اور سپینش زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی اشاعت کے انتظامات کی تفاصیل بیان فرمائیں اور بتایا کہ خدا نے چاہا تو چند سال تک یہ تراجم بھی شائع ہو جائیں گے.مزید برآں دیباچہ تفسیر القرآن کا فرانسیسی ترجمہ طباعت کے لئے پریس میں جاچکا ہے اور اس کی پروف ریڈنگ ہورہی ہے.اور آخری کا پیاں بھی اس کی مل چکی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ عنقریب کتابی شکل میں شائع ہو جائے گا“.حضور نے فرمایا:.یہ خدا کا کام ہے اور وہی اس کی انجام دہی کے سامان کر رہا ہے.ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ خدا تعالٰی پر کامل تو کل رکھے اور اسے ہی اپنا کارساز سمجھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کامل تو کل کے معنی یہ بتائے ہیں کہ خدا کے سواہر کسی کو لاشی محض سمجھو.اور اس بات پر کامل یقین رکھو کہ جو کچھ کرے گا ، خداہی کرے گا.وہی تمہاری حقیر کوششوں میں برکت ڈالے گا اور ان کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کر دکھائے گا“.بعدہ حضور نے اسی تعلق میں تعلیمی ترقی کے عظیم منصوبہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ صد سالہ جوبلی کے منصوبہ نے سرمایہ مہیا کرنا تھا اور پھر اس مالی جہاد کے نتیجہ میں اشاعت اسلام کے عملی جہاد نے مختلف شکلیں اختیار کرنا تھیں.سواس عملی جہاد کی ایک شکل تعلیمی اور علمی ترقی کا وہ عظیم منصوبہ ہے، جو غلبہ اسلام کے مقصد میں کامیابی کی غرض سے جاری کیا گیا ہے“.659
اقتباس از خلاصہ خطبہ جمعہ 04 جولائی 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم حضور نے اس عظیم منصوبہ کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے بعد بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے جلووں کو ، جو کائنات ارضی و سماوی میں ہر آن ظاہر ہورہے ہیں، آیات قرار دے کر اور ان پر غور کرنے والوں کو اولوا الالباب قرار دے کر دنیوی علوم کو روحانی علوم کی طرح ہی اہم قرادیا ہے.اور ان دونوں علوم کو ایک دوسرے کا محمد و معاون ٹھہرایا ہے.اس منصوبہ کی اہمیت یہ ہے کہ افراد جماعت کو دنیوی علوم سے درجہ بدرجہ آراستہ کر کے ان میں قرآنی علوم و معارف سے بہرہ ور ہونے کی اہلیت پیدا کی جائے.کیونکہ یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ ایک ان پڑھ کے مقابلہ میں ایک میٹرک پاس نوجوان قرآن کو سمجھنے اور اس کے علوم و معارف سے استفادہ کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتا ہے.اسی طرح درجہ بدرجہ ایف اے، ایف ایس سی بی اے، بی ایس سی اور ایم اے، ایم ایس سی پاس میں قرآن کو سمجھنے اور اس کے انوار سے منور ہونے کی اہلیت بڑھتی چلی جاتی ہے.سو اس منصوبہ کا اصل اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر احمدی اپنی اپنی استعداد کے مطابق دنیوی علوم میں دسترس حاصل کرے.تاکہ وہ قرآنی علوم و معارف سے بہرہ ور ہو سکے.اور اس طرح وہ قرآن کے حسن سے حسن لے کر اور اس کے نور سے نور حاصل کر کے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی آسانی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے.اور اس بات کو سمجھ لے کہ اسلام کا موعودہ غلبہ ایٹم بم وغیرہ کے ذریعہ نہیں بلکہ علمی تفوق کی بناء پر ظاہر ہو گا.حضور نے آخر میں یہ واضح فرمایا کہ د د تعلیمی منصوبہ صد سالہ احمد یہ جوبلی کے منصوبہ کا ایک حصہ ہے.اور غلبہ اسلام کی آسمانی مہم سے اس کا گہرا تعلق ہے.ہر علم کی بنیاد قرآن میں موجود ہے.کوئی دنیوی علم ایسا نہیں ، جس کا اصولی اور بنیادی طور پر قرآن میں ذکر نہ ہو.اس لئے دنیوی علوم کی تحصیل قرآن کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے.بلکہ قرآن کو سمجھنے اور اس سے ہر شعبہ زندگی میں رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ان علوم کو حاصل کرنا بھی ضروری ہے.اور یہی اس منصوبہ کا اصل مقصد ہے.حضور نے اس امر کا اظہار فرمایا کہ ” پاکستان کی جماعتوں میں اس منصوبے کو پورے طور پر نافذ کرنے کے بعد دو، تین سال میں دنیا بھر کی احمد نی جماعتوں میں اسے نافذ کر دیں گے“.حضور نے فرمایا:.دعا کریں کہ علمی ترقی کا یہ عظیم منصوبہ، جو خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے اور قرآنی علوم کے اسرار کو سمجھنے کی اہلیت پیدا کرنے کی غرض سے جاری کیا گیا ہے، ہر پہلو سے کامیاب ہو.اور اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج ظاہر ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کام میں میرے ساتھ تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے“.مطبوعه روز نامہ افضل 15 جولائی 1980ء) 660
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرمودہ 24 جولائی 1980ء ہر احمدی کو ہمیشہ اپنا مقام اپنے پیش نظر رکھنا چاہیئے خطاب فرمودہ 24 جولائی 1980ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ نے احباب کو نصیحت فرمائی کہ ہر احمدی کو ہمیشہ اپنا مقام اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.یہ بات ہمیشہ اس کے ذہن میں مستحضر نی چاہئے کہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت میں ، میں کیا ہوں ؟ مجھ پر کیا ذمہ داریاں ہیں؟ جماعت احمدیہ کو کس غرض سے قائم کیا گیا ہے؟ وہ کون سے خدائی وعدے ہیں، جن کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے؟ وہ کون سی نئی بشارتیں ہیں، جو ہمیں دی گئی ہیں؟ اللہ تعالیٰ کس طرح ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے اور ہمیں اپنے فضلوں سے نوازتا ہے؟ حضور نے فرمایا:.ان سب باتوں کو پیش نظر رکھے اور ان پر غور کئے بغیر ایک احمدی کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق نہیں مل سکتی.بعد ازاں حضور نے احباب کو اس آخری زمانہ میں غلبہ اسلام کے آسمانی منصوبہ کی ابتداء یاد دلاتے ہوئے فرمایا:.90 سال پہلے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ایسا فرد تھا، جسے اس کا خاندان بھی نہیں پہچانتا تھا.اس کے اپنے قریبی رشتہ دار بھی بھول جاتے تھے کہ وہ بھی ان کے خاندان کا ایک فرد ہے.اس کی چیاں اور پھوپھیاں اسے کھانا دینا بھول جاتی تھیں.اور جب انہیں یاد آتا تو بچے ہوئے ٹکڑے اکٹھے کر کے اس کے لئے کھانے کا انتظام کر دیتیں.جب تلاوت قرآن میں اسے مستغرق رہتے ہوئے ایک زمانہ گذر گیا تو خدا تعالیٰ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹھ اور دین کی خدمت کر.میں نے تیرے ذریعہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے فیصلہ کیا ہے.حضور نے غلبہ اسلام کے آسمانی منصوبہ کی ابتدا کا ذکر کرنے کے بعد بتایا کہ قرآن کریم کی رو سے دوزمانے بہت ہی مبارک ہیں.ایک حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ.اس وقت کی معلوم دنیا میں اسلام پھیلا اور غالب آیا.تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اس محبت اور 661
خلاصہ خطاب فرمودہ 24 جولائی 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم پیار کے ساتھ ، اس حسن اور نور کے ساتھ جو قرآن کریم میں پایا جاتا ہے.دوسرے مہدی کا.جب آپ نے اسلام کو ساری دنیا میں پھیلانے اور غالب کرنے کے عزم کا اعلان کیا تو کیا ہندو اور کیا مسلمان، کیا عیسائی اور کیا آریہ مت والے، سب متحد ہو کر آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے.اور انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے.لیکن خدا نے کہا کہ میں تجھے کامیاب کروں گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دوں گا“.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اس وقت سے آج تک خدا تعالیٰ اپنی تائید و نصرت کے لاکھوں نشان دکھا چکا ہے.اسلام رفتہ رفتہ دنیا میں پھیل رہا ہے اور اس کے غلبہ کے آثار دن بدن نمایاں سے نمایاں تر ہوتے چلے آرہے ہیں.ہماری تعداد دنیا میں اب ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے.یہ صحیح ہے کہ دنیا کی آبادی میں ایک کروڑ کی کوئی اہمیت نہیں.لیکن 90 سال کے عرصہ میں اس ایک کے ایک کروڑ میں تبدیل ہونے کی اہمیت ہے.اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.اگر آئندہ 90 سال میں ہر ایک احمدی ایک کروڑ میں بدل جائے تو دنیا کی ساری آبادی کا اسلام قبول کر لینا ناممکن نہیں.خطاب جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا کہ وو ( مطبوعه روزنامه الفضل 18 دسمبر 1980ء) یہ ایک حقیقت ہے اور زمانہ خود اس کا شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں ہمارا قدم سرعت کے ساتھ ترقی کی طرف اٹھ رہا ہے.اور ہم درجہ بدرجہ ترقی کرتے چلے آرہے ہیں.مثال کے طور پر حضور نے اپنے عہد کی تحریکوں میں سے فضل عمر فاؤنڈیشن ، نصرت جہاں سکیم، اور صد سالہ احمد یہ جوبلی کے منصوبوں اور ان کے تحت انجام پانے والے کارناموں اور ان کے نتیجہ میں رونما ہونے والے انقلاب عظیم کا تفصیل سے ذکر کیا.اور تراجم قرآن مجید کی اشاعت اور دنیا کے مختلف حصوں میں بعض نئی مساجد کی تعمیر کے منصوبوں پر روشنی ڈالی.اور خدا تعالیٰ کے بارش کی طرح نازل ہونے والے فضلوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:.خدا تعالٰی کے ان فضلوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ سوچیں اور غور کریں کہ آپ کی ذمہ داریاں کس تیزی سے بڑھ رہی ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو اپنی توحید اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے زبردست دلائل دیئے ہیں.ان کے نتیجہ میں صلیب ٹوٹ چکی ہے.مسیح علیہ السلام کا طبعی موت سے وفات پانا، خود عیسائی تسلیم کر چکے ہیں.اب صرف ایک رسم رہ گئی 662
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرمودہ 24 جولائی 1980ء ہے، جس کی وہ پیروی کر رہے ہیں.عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں ہے، آپ کے پاس سب کچھ ہے.سب کچھ رکھنے کے باوجود آپ اسے دنیا کو دینے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟“ حضور نے احباب کو ایک اہم بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.آپ کو سوچنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی آگ کا ایک سیکنڈ انسان برداشت نہیں کر سکتا.یورپین قوموں کے افراد خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی آگ کی طرف بھاگے جارہے ہیں اور آپ ہیں کہ آرام سے بیٹھے ہیں اور انہیں بچانے کی فکر نہیں کرتے.یہاں آکر چند ہزار کرونے (ڈنمارک کا سکہ) کمانا تو کوئی کام نہیں.اصل کام تو ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی آگ سے بچانا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل تو بارش کی طرح برس رہے ہیں اور ہمیں بیدار کر رہے ہیں کہ ہم آگے بڑھیں اور ان لوگوں کو اس آگ سے بچائیں ، جو ان کے چاروں طرف بھڑک رہی ہے.لیکن آپ کے دلوں کی حالت اور عمل کی کیفیت ایسی نہیں ، جس سے آپ کے پوری طرح بیدار ہونے کا ثبوت مل سکے.ہمارے جو لوگ دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں، میرے نزدیک ان کی حالت کسی نہ کسی حد تک قابل اصلاح ہے.ان پر ماحول کا اثر ہورہا ہے، گو انہیں اس کا پتہ نہیں.حضور نے فرمایا:.اس وقت جماعت احمدیہ جس دور میں داخل ہو چکی ہے، وہ بہت اہم دور ہے.مجھے اور آپ کو قربانی دینی پڑے گی.اس کے بعد بہت جلد ایک انقلاب عظیم آنے والا ہے.سیکنڈے نیویا میں عیسائیت سب سے بعد میں پھیلی.گیارھویں صدی عیسوی میں اسے یہاں نفوذ حاصل ہوا.یہاں جب پادری پہنچے تو لوگوں نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا.ان کا قتل ہونا ہی یہاں عیسائیت کو پھیلانے کا موجب بن گیا.اتنا شدید رد عمل ہوا اس کا کہ لوگ عیسائیت کی طرف متوجہ ہونے لگے اور رفتہ رفتہ یہاں عیسائیت غالب آ گئی.پس تم لوگ جو روزی کمانے کی غرض سے یہاں آئے ہوئے ہو تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے اور اس پر توکل رکھتے ہوئے، محبت اور پیار کے ساتھ یہاں کے لوگوں کو سمجھاؤ کہ کیوں ہلاکت کی طرف جا رہے ہو؟ اصل الاصول یہ ہے کہ ہم نے اپنے پر بھروسہ نہیں کرنا ، بھروسہ صرف اور صرف خدا پر کرنا ہے.کوشش کریں کہ اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزاریں.اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت کریں.خدا تعالیٰ نے آپ کو ان لوگوں کا استاد بنایا ہے، ان کا لیڈر بنایا ہے.آپ ان کی نقل نہ کریں بلکہ اپنے عمل سے ان کی رہنمائی کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا کرے.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل 20 دسمبر 1980ء) 663
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطبه جمعه فرموده 08 اگست 1980ء اللہ تعالیٰ کے بعض نئے غیر معمولی نوعیت کے فضلوں اور منصوبوں کا ذکر خطبه جمعه فرموده 08 اگست 1980 حضور نے غیر معمولی نوعیت کے اللہ تعالیٰ کے بعض نے فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے نمایاں فضلوں میں سے ایک فضل آپ ( مراد جماعت احمدیہ انگلستان) سے تعلق رکھتا ہے.1978ء میں لنڈن کا نفرنس کے بعد مجھ سے کہا یہ گیا کہ صحافیوں کو یہ غلط بر یفنگ کر دی گئی ہے کہ امام جماعت احمدیہ کا ارادہ انگلستان میں تبلیغ اسلام کے پانچ نئے مراکز قائم کرنے کا ہے.مجھ سے درخواست یہ کی گئی کہ میں اس کی تائید کروں.میرے سامنے دو راستے تھے.ایک یہ کہ میں اس منصو بہ کو اپنانے سے انکار کر دوں.دوسرا یہ کہ میں اس منصو بہ کو اپنا کر اعلان کر دوں کہ ہم انگلستان میں پانچ نئے مراکز قائم کریں گے.میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اوراللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے منصوبہ کا اعلان کر دیا.دو سال نہیں گزرے کہ بریڈ فورڈ ، ہڈرزفیلڈ، مانچسٹر، برمنگھم اور ساؤتھ ہال میں پانچ مراکز قائم کرنے کے لئے مکان اور ہال وغیرہ خرید لئے گئے ہیں.جس کام کے کرنے کا سوچے سمجھے ارادہ اور پلان کے بغیر اعلان کیا گیا تھا، خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس میں اتنی برکت ڈالی کہ وہ کام ہو گیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا:.”خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت کا دوسرا بڑا نشان اوسلو میں دکھایا ہے.اوسلو میں ہماری کوئی مسجد اور مشن ہاؤس نہیں تھا.دو سال پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک علاقہ کے میئر نے ہمیں مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے زمین دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب وہ مکر گئے ہیں.میں نے کہا کہ جب میں اوسلو آؤں تو مجھے ان سے ملوانا.چنانچہ دو سال قبل جب میں وہاں گیا، میئر تو چھٹی پر تھے، البتہ پرانے شہر کے میئر سے ملاقات ہوئی.وہ زمین تو ہمیں نہ ملی لیکن دو سال بعد خدا تعالیٰ نے ہمیں شہر کے بہت اچھے علاقہ میں ایک بہت بڑی عمارت خریدنے کی توفیق عطا کر دی.صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کی کافی رقم پاکستان میں بھی جمع ہو چکی ہے.لیکن فارن ایکس چینج کی وقتوں کی وجہ سے وہاں سے رقم نہیں آسکتی.اس لئے اس عمارت کے خریدنے کا سارا بار بیرونی ملکوں کی 665
اقتباس از خلاصه خطبه جمعه فرمودہ 08 اگست 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم جماعتوں کو اٹھانا پڑا ہے.ڈیڑھ ملین کرونے میں عمارت خریدی گئی ہے.بہت بڑی اور بہت خوبصورت عمارت ہے.میں اب پھر اسی میئر سے ملا تھا.وہ کہنے لگے، دوسرے مسلمانوں کے مطالبہ پر ہم نے ان کے لئے زمین تو مختص کر دی ہے لیکن ان کے پاس رقم نہیں ہے.انہیں امید تھی کہ بعض مالدار ملک انہیں رقم دے دیں گے.اب وہ رقم جمع کر رہے ہیں.پھر کہنے لگے، آپ کو تو مسجد کے لئے بڑی اچھی جگہ شاندار عمارت مل گئی ہے.میں نے کہا، ہم تو غریب جماعت ہیں، ہمیں صرف ضرورت کے مطابق جگہ چاہیے تھی.واللہ تعالیٰ نے ہمیں دے دی.کہنے لگے، کتنے میں خریدی آپ نے یہ عمارت ؟ میں نے کہا، ڈیڑھ ملین ( پندرہ لاکھ ) کرونے میں.وہ فوراً بولے، یہ بھی تو کوئی چھوٹی رقم نہیں ، بہت بڑی رقم ہے.اللہ تعالیٰ کے ایک اور بہت بڑے فضل کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اس سے بھی بڑا نشان خدا تعالیٰ نے سپین میں دکھایا ہے.1970ء میں جب میں سپین گیا اور وہاں شاہی محل الحمراء اور دیگر اسلامی آثار دیکھے تو دل میں بہت درد پیدا ہوا کہ یہ سرزمین، جہاں اسلام سات، آٹھ سو سال غالب رہا اور جہاں سے علوم وفنون کے چشمے بہہ بہہ کر سارے یورپ کو سیراب کرتے رہے، صد ہا برس سے اللہ کے ذکر سے خالی چلی آرہی ہے.وہاں طلیطلہ کے قریب ایک چھوٹی سی ، ٹوٹی پھوٹی، غیر آباد مسجد تھی.اس کے بارہ میں کوشش کی گئی کہ نمازیں پڑھنے کے لئے وہ مسجد ہمیں مل جائے.خواہ عارضی طور پر ہی ملے.حکومت اس بات پر راضی بھی ہوگئی.لیکن وہاں کے لاٹ پادری نے شدید مخالفت کی اور مسجد نہ مل سکی.بہر حال سپین ایسے ملک کو جہاں صدیوں اسلام غالب رہا، خدائے واحد کے ذکر سے خالی دیکھ کر دل میں بہت درد پیدا ہوا اور میں وہاں اسلام کے دوبارہ غالب آنے کے لئے دعائیں کرتا رہا.ایک رات کو میں اس درجہ دردمند ہوا کہ ساری رات سو نہ سکا اور رات بھر دعا کرتا رہا کہ اے خدا تو رحم کر اور ایسے سامان کر کہ تیرا نور یہاں بھی چمکے.صبح کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے بتایا گیا کہ جو تو مانگتا ہے، وہ ملے گا تو ضرور لیکن ابھی وقت نہیں آیا.اس سے مجھے تسلی ہو گئی کہ خدا تعالیٰ ضرور فضل کرے گا.اور وہ وقت ضرور آئے گا کہ جب یہاں خدا تعالیٰ کا نور پھیلنے کے سامان ہوں گے.دس سال بعد ایسا انقلاب آیا وہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں کہ کہاں تعصب کا یہ حال تھا کہ وہ ہمیں مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہ تھے اور کہاں یہ حالت کہ انہوں نے قرطبہ کے قریب ہمیں مسجد کے لئے زمین خریدنے کی اجازت دے دی.چنانچہ وہاں تیرہ کنال سے زائد زمین خرید لی گئی ہے.اور حکومت نے وہاں مسجد بنانے کی تحریری اجازت دے دی ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 12 جنوری 1981ء) 666
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطبه جمعه فرموده 08 اگست 1980ء حضور نے اشاعت اسلام کی مہم میں مزید تیزی پیدا کرنے والے بعض نئے منصوبوں کا ذکر کر کے ان کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.انگلستان کی جماعت نے احمدیت کے تعارف پر مشتمل انگریزی میں ایک فولڈر بہت بڑی تعداد میں شائع کر کے اسے تقسیم کیا ہے.یہ ایک بہت مفید سلسلہ ہے.اسے زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ایک تجویز ڈالی ہے.انگلستان میں ہر سال کئی ملین ٹورسٹ آتا ہے.اسی طرح دوسرے ملکوں میں ملینز ٹورسٹ آتے ہیں.وہ مختلف ممالک سے آتے ہیں اور مختلف زبانیں بولنے والے ہوتے ہیں.تجویز یہ ہے کہ اس فولڈر کا ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں کیا جائے گا اور وکالت تبشیر کا دفتر مناسب تعداد میں ہر زبان کا فولڈر ہر مشن کو بھجوائے گا.اور ہر مشن اس ملک میں آنے والے سیاحوں کو خود اس کی زبان میں شائع شدہ فولڈر دے گا.اور اس طرح ہر ملک میں مختلف زبانیں بولنے والوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا راستہ کھل جائے گا.ابتدا ایک فولڈر شائع کیا جائے گا، جس کا عنوان ہوگا:.(I) THE PROMISED MAHDI AND MESSIAH HAS COME (II) WHAT IS AHMADIYYAT? اس تعلق میں حضور نے ایک اور منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اس وقت تک یورپ میں ہم اسلام کی جو تبلیغ کرتے رہے ہیں، اس میں ایک رکاوٹ ایسی ہے، جو ابھی تک دور نہیں ہو سکی ہے.وہ رکاوٹ یہ ہے کہ ہمارے اور یورپین قوموں کے درمیان ایک BARRIER ( دیوار ) حائل ہے.جو دونوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتی.اس بیرئیر کو ہم نے ابھی تک نہیں تو ڑا ہے.تبلیغ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمارے قریب آئیں.اور وہ قریب آ نہیں سکتے ، جب تک درمیان میں حائل BARRIER نہ ٹوٹے.اس سفر میں اللہ تعالی نے اس BARRIER کو توڑنے کا منصوبہ القاء کیا ہے.اس منصوبہ کا تعلق اس اسلامی ادارہ سے ہے، جسے عید گاہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے“.فرمایا:.اسلام میں عید گاہ ، جو شہر سے باہر کھلی جگہ بنائی جاتی ہے، اپنی ذات میں ایک بہت بڑا انسٹی ٹیوشن یا ادارہ ہے.جس سے تبلیغی اور تربیتی رنگ میں جماعتی طور پر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.دراصل مساجد کے مختلف دائرے ہیں.ایک محلہ کی مسجد ہوتی ہے، اس کا دائرہ محلہ تک محدود ہوتا ہے.ایک جامع مسجد 667
اقتباس از خلاصه خطبہ جمعہ فرمودہ 08 اگست 1980ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ہوتی ہے، جس میں جمعہ کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے، اس کا دائرہ شہر ہوتا ہے.اسی طرح ایک عید گاہ ہوتی ہے، اس کا دائرہ جمعہ کے دائرہ سے بھی بڑا ہوتا ہے اور اس میں شہر کے علاوہ اردگرد کے علاقے کے لوگ بھی جمع ہوتے اور نماز عید ادا کرتے ہیں.میں نے سوچا ہر ملک میں شہر سے باہر فاصلہ پر جہاں زمین کی قیمت زیادہ نہ ہو، ہیکٹر ، ڈیڑھ ہیکٹر زمین خرید لی جائے.مثال کے طور پر لندن سے تھیں میل باہر اتنی زمین خرید کر وہاں عید گاہ کی طرز پر ایک تو غیر مسقف کھلی مسجد بنائی جائے ، جہاں نماز پڑھی جا سکے.اس سے ہٹ کر ایک طرف ایک کمرہ ہو، جو سٹور کا کام دے.ایک حسب ضرورت بڑا شیڈ ہو ، جو دھوپ اور بارش میں پناہ (Shelter) کا کام دے.باقی زمین میں جنگل اگانے کے علاوہ بچوں کے لئے پھل دار درخت لگا دیئے جائیں.اس عید گاہ اور اس سے ملحقہ زمین میں بچوں کو لے جاکر ان کے تربیتی اجتماعات منعقد کئے جائیں.نیز تفریح کی غرض سے وہاں پکنک وغیرہ منائی جائے اور دوسروں کے بچوں کو بھی مدعو کیا جائے کہ وہ ہمارے بچوں کے ساتھ مل کر اس جگہ پکنک منائیں.اس طرح ہمارے بچوں اور دوسرے بچوں میں اور خود بڑوں میں میل ملاپ بڑھے گا اور دونوں کے درمیان جو BARRIER ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ہم سے دور دور رہتے ہیں اور ہمارے قریب نہیں آتے ، ٹوٹنا شروع ہو جائے گا.اس لئے ضروری ہے کہ ایسی جگہ تلاش کی جائے جو آبادیوں سے پرے ہٹ کر ہو اور سستی مل سکے.اور رفتہ رفتہ اسے دینی اور جماعتی اغراض کے علاوہ پکنک سپاٹ ( Pionic Spot) اور تبلیغی جگہ کے طور پر بھی ڈیویلپ (Develop) کیا جا سکے.سو یہ درمیان میں حائل رکاوٹ یا BARRIER کو توڑنے کا منصوبہ ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.( مطبوعه روز نامه الفضل 13 جنوری 1981ء) 668
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اگست 1980ء غلبہ اسلام کا جہاد متقاضی ہے کہ ہم زندگی کے ہر میدان میں سبقت لے جائیں خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اگست 1980ء حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.لَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَوْدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ) (البقرة: 256) ترجمہ:.وہ اس کی مرضی کے سوا اس کے علم کے کسی حصہ کو بھی پانہیں سکتے.اس کا علم آسمانوں پر بھی حاوی ہے اور زمین پر بھی حاوی ہے.اور ان کی حفاظت اسے تھر کاتی نہیں.اور وہ بلندشان والا اور عظمت والا ہے.اس کے بعد فرمایا:.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کا علم ہر چیز پر حاوی ہے.کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں.ہر چیز ہر وقت اس کی نگاہ میں ہے.پھر ہر چیز سے ہر آن اس کا ذاتی تعلق ہے.اس نے انسان کو علم کے حصول کی طاقتیں بخشی ہیں اور تسخیر عالم کی قوتیں اسے عطا کی ہیں.لیکن انسان اپنی حصول علم کی کاوش میں اتنا ہی بڑھ سکتا ہے، جتنا خدا چا ہے.اس سے آگے وہ جاہی نہیں سکتا.ایک طرف اللہ تعالیٰ کے علم کی غیر محدود وسعت اور اس کی غیر محدود قدرت اور دوسری طرف انسان کو حصول علم کی عطا ہونے والی محدود استعداد سے تین باتیں مستنبط ہوتی ہیں.اول یہ کہ ہمیں خداداد استعداد کو کام میں لا کر حصول علم کی کوشش کرنی چاہیے.دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ہم علم حاصل نہیں کر سکتے.اور اس کی مدد کے بغیر ہم پر تحقیق کی راہیں نہیں کھل سکتیں.اور تیسرے یہ کہ ہمیں حصول علم کی جدوجہد کے دوران دعا کے ذریعہ اس کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے.تاوہ رجوع برحمت ہو اور ہم پر حصول علم کی راہیں وا کرے.669
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اگست 1980ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم حصول علم کی یہ بنیاد حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی ہمارے ذہن نشین کرائی ہے.آپ فرماتے ہیں:.تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دیئے جاؤ گے اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہوگا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو.گالیاں سنو اور چپ رہو، ماریں کھاؤ اور صبر کرو اور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پر ہیز کرو تا آسمان پر تمہاری مقبولیت لکھی جاوے“.( تذكرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحه (68) صفحہ آپ کا یہ ارشاد کہ فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے ، حصول علم کے تعلق میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے.خدا تعالیٰ اس وقت ہی تعلیم دینے کے لیے فرشتوں کو مقرر کرے گا، جب ہم علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ علمی ترقی کے لیے اس کے حضور دعائیں کریں گے.خطبہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.یہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے.اور اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہتے ہوئے اسلام کو عملاً غالب کرنے کی ذمہ داری ہماری جماعت پر ڈالی گئی ہے.غلبہ اسلام کا یہ جہاد صرف دینی میدانوں تک ہی محدود نہیں ہے.نہ یہ دینی اور اخلاقی میدانوں میں آگے بڑھنے تک محدود ہے.بلکہ یہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ کر دوسروں سے سبقت لے جائیں.فی الوقت میں علمی ترقی کے میدان میں سبقت لے جانے کی اہمیت واضح کروں گا.حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں علمی ترقی بہت زیادہ ہونا تھی.انسان نے چاند پر قدم رکھنا تھا اور قریب ترین فاصلوں سے ستاروں اور سیاروں کی تصاویرا تار نا تھیں.انسان نے علمی ترقی کے میدان میں یہ کارنامے سر انجام دے کر یہ سمجھ لیا کہ اس نے سب کچھ معلوم کر لیا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے جو کارنامے بھی سرانجام دیئے ، ان کی حیثیت روٹی سے چھڑنے والے چند بھوروں سے زیادہ نہ تھی.ان لوگوں کے غرور کو توڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے احمدیوں کے واسطے علم کے میدانوں میں ترقی کرنا ضروری ہے.اسی لئے حضرت اقدس بانی سلسلہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک دعا سکھائی گئی.جو یہ ہے کہ 670
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم رب ارنى حقائق الاشياء خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اگست 1980ء یعنی اے میرے رب ! مجھے اشیاء کے حقائق دیکھا.اس میں دراصل یہ بتانا مقصود تھا کہ علمی ترقی کے لئے دعا کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی مدد کرنا ضروری ہے.مغربی اقوام نے دیگر علوم کی طرح نیو کلیئر فزکس میں ترقی تو کی لیکن عارفانہ دعا کے فیض سے انہوں نے اپنے آپ کو محروم کیا.اللہ تعالیٰ نے ان کی علمی ترقی کی لگن ، تڑپ اور جدوجہد کو ایک جاہل کی دعا کے طور پر ( جسے حضرت اقدس نے ایک مہجوبانہ دعا قرار دیا ہے.) قبول کر کے ان پر علمی ترقی کی راہیں کھول دیں.ترقی تو انہوں نے کر لی لیکن حقائق الاشیاء تک ان کی رسائی نہ ہوسکی.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ کی رو سے انہیں اپنی تحقیقات کو انسانوں کے فائدہ کے لئے استعمال کرنا چاہئے تھا.لیکن انہوں نے کیا یہ کہ جاپان کے دو شہروں کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا.ہمیں رب ارنى حقائق الاشياء کی دعا اسی لئے سکھائی گئی ہے کہ ہم پرعلمی میدان میں آگے بڑھنے کی راہ بھی کھلے اور ساتھ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کا نور بھی ملے.تاکہ ہم اپنی علمی ترقی سے بنی نوع انسان کو دکھ میں مبتلا نہ کریں بلکہ انہیں سکھ پہنچائیں.اور اسی طرح ان کے خادم ہیں، جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے.اسی لئے دنیوی علوم کے بارہ میں ہمارے نقطہ نظر اور مغربی قوموں کے نقطۂ نظر میں زمین و آسمان کا فرق ہے.جنہیں دنیا محض دنیوی علوم کہتی ہے، ہم انہیں معرفت الہی کے حصول کے ذریعہ سمجھتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر دینی صداقت کے لئے آیت کا لفظ استعمال کیا ہے، اسی طرح مظا ہر قدرت کو بھی، جن کا تعلق دنیوی علوم سے ہے، اس نے آیات قرار دیا ہے.اور بادلوں کو بھی، پھر بارش کے برسنے کو بھی آیت قرار دیا ہے اور نہ برسنے کو بھی.اس لئے کہ بادل و ہیں برستے ہیں، جہاں انہیں برسنے کا حکم ہو اور جہاں حکم نہ ہو، وہاں نہیں برستے.کبھی وہ بادلوں کو کم دیتا ہے کہ اس لئے برسو کہ بندوں کو اس کی ضرورت ہے اور کبھی حکم دیتا ہے کہ برسو تاز مین پر میرا قہر نازل ہو.برسنے کی ان دونوں حالتوں کو یا نہ برسنے کو اس نے اپنی اپنی جگہ آیت قرار دیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کا ہر جلوہ آیت ہے.اور اس لئے آیت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کا ذریعہ ہے.671
خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اگست 1980ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ دنیوی علوم کی تحصیل کفر ہے.تو اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں کے علم کی تحصیل کو کفر قرار دیتا ہے.سو یہ بالبداہت غلط ہے.جس قدر انسان اس کی صفات کے جلووں سے آگاہ ہوتا ہے، اسی قدر اس کی معرفت الہی بڑھتی چلی جاتی ہے.کیونکہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کو بھی جانتا ہے اور اس کے جمال اور اس کی رحمت کو بھی پہچانتا ہے.بہر حال جن علوم کو د نیاد نیوی علوم کہتی ہے، قرآن کریم نے انہیں بھی روحانی علوم قرار دیا ہے.اور اس لئے قرار دیا ہے کہ وہ بھی معرفت الہی کے حصول کا ذریعہ ہیں.ہم احمدیوں نے اللہ تعالیٰ کو بھی فراموش نہیں کرنا اور اس کی معرفت کے حصول سے کبھی غافل نہیں ہونا.اسی لئے میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے ایک تعلیمی منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا ہے.اگر جماعت اس بارہ میں تعاون کرے اور میرے کہنے پر چلے تو علمی ترقی کی راہیں کھلنے کے ساتھ ساتھ معرفت الہی میں ترقی کی بھی نئی راہیں کھل سکتی ہیں.اور قوم و ملک اور بنی نوع انسان کی خدمت بجالانے کی بعض نئی راہوں پر گامزن ہونے کی توفیق بھی مل سکتی ہے.میں نے کہا یہ ہے کہ ہمارا ہر بچہ میٹرک تک ضرور تعلیم حاصل کرے.جس ملک میں خواندگی کی شرح سترہ فی صد ہو، اگر اس میں جماعت کا ہر بچہ میٹرک پاس کرتا چلا جائے تو خواندگی کی شرح میں اضافہ کا موجب ہوگا اور یہ ملک کی کتنی بڑی خدمت ہوگی.پھر اس منصوبہ کی افادیت کا ایک پہلو اور بھی ہے.اور وہ یہ ہے کہ جو شخص ان پڑھ ہے، وہ قرآن کریم کو سمجھ ہی نہیں سکتا.برخلاف اس کے ایک میٹرک پاس میں قرآن کو سمجھنے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح جو ذہین ہیں اور بی اے، بی ایس سی تک تعلیم حاصل کریں گے، ان میں قرآن کو سمجھنے کی زیادہ صلاحیت پیدا ہو جائے گی.علی ہذا، جو ایم اے، ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کریں گے، ان میں قرآن کو سمجھنے کی اور بھی زیادہ اہلیت پیدا ہوگی.اس طرح ہمارے نوجوانوں میں قرآنی علوم و معارف سے فیضیاب ہونے کی راہیں بھی استوار ہوتی چلی جائیں گی.مزید برآں قرآنی علوم سے بہرہ ور ہونے کے نتیجہ میں ہمارے نوجوان دنیوی علوم میں ایسی دسترس حاصل کر سکیں گے، جو دوسروں کو حاصل نہیں ہوگی.کیونکہ قرآن کریم ہر علم کے بارہ میں راہنمائی کرتا ہے.کوئی شعبہ علم ایسا نہیں ، جس کے متعلق قرآن میں ہدایت موجود نہ ہو.قرآن نے شہد کے متعلق دو، تین آیات میں عظیم الشان ریسرچ کا منصوبہ پیش کیا ہے.اسے پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے.آپ لوگ جب تک قرآن کی ہدایت کی روشنی میں علمی تحقیق نہیں کریں گے، آپ دنیا کے راہنما نہیں بن سکتے.672
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اگست 1980ء ہر بچہ میٹرک ضرور پاس کرے.یہ تو اس منصوبہ کی صرف ایک شق ہے.بورڈز اور یو نیورسٹیوں کو کے امتحانات میں پوزیشنیں حاصل کرنے والوں کے لئے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے سکالرشپس کا اہتمام اور ذہین ترین یعنی جینیس قسم کے نوجوانوں کی استعدادوں اور صلاحیتوں کے نشو و ارتقاء کا انصرام اس منصوبے میں شامل ہے.ہم پر خدا تعالی کا بڑا فضل ہے کہ وہ جماعت کو ذہین بچے عطا کر رہا ہے.سب سے بڑی نعمت ، جس سے وہ اپنے کسی بندے کو نوازتا ہے، یہی ہوتی ہے کہ اس کے ہاں ذہین بچہ پیدا ہو جائے.ہم نے ہر بچہ کو شروع ہی سے سنبھالنا ہے اور درجہ بدرجہ اس کی تعلیمی ترقی کا ریکارڈ رکھنا ہے.تا کہ کوئی ایک اعلیٰ ذہن بھی ضائع نہ ہونے پائے.خاص طور پر جو غیر معمولی طور پر ذہین اور جینیئس ہوں، ان کی تعلیمی ترقی کی نگہداشت کرنا اور انہیں ضائع ہونے سے بچانا جماعت کی ذمہ داری ہے.اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ہی یہ تعلیمی منصوبہ جاری کیا گیا ہے.اور اس میں انعامی وظائف اور طلائی تمغے دیئے جانے کی گنجائش رکھی گئی.ابھی تو میں نے اس منصو بہ کو پاکستان میں ہی جاری کیا ہے.دو سال بعد میں اسے ساری دنیا میں جاری کرنے کا اعلان کر دوں گا.انشاء اللہ.الغرض تعلیمی ترقی کا ایک بڑا اچھا اور مفید منصوبہ شروع ہو گیا ہے.اور علمی میدان میں ایک ایسی بنیا درکھ دی گئی ہے، جس کے ذریعہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ علم کے میدان میں ترقی یافتہ قوموں سے سبقت لے جا کر اور اس طرح قرآنی علوم و معارف کی برتری ثابت کر کے اسلام کو دنیا میں غالب کرتا ہے.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.ایک اور بات جس کی طرف توجہ دینی ضروری ہے.یہ ہے کہ اگر ذہین بچوں میں غذائیت کی کمی ہو تو اسے پورا کرنے کی فکر کرنی چاہئے.تاکہ ان کی استعدادوں اور صلاحیتوں کی پورے طور پر نشو ونما ہو سکے.ایسے بچوں کو ایسی دوائیں دینی چاہئیں، جن سے غذائیت کی کمی پوی ہو سکے.ان میں سے ایک سویا لیسی تھین (Soya Lecithin 1200mg) بھی ہے.ہر بچہ کو اس کے کیپسول کھلانا شروع کر دیں اور دعا بھی کریں.پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ ان کے ذہنوں کو کس طرح تیز کرتا ہے اور حصول علم میں ان کے لئے کتنی آسانی اور سہولت پیدا ہوتی ہے.میں نے یہ علیمی منصوبہ ابھی یہاں ( مراد انگلستان.ناقل ) شروع نہیں کیا ہے.لیکن آپ کی ذمہ داریاں ابھی سے شروع ہو چکی ہیں.کیونکہ دو سال بعد اسے یہاں بھی جاری کرنا ہے.تم خدا سے مانگو.جو مانگو گے، وہ تمہیں دے گا.انسانی کوششیں کچھ چیز نہیں ہیں، جب تک وہ برکت نہ ڈالے.پس اس سے مانگو اور پاؤ.( مطبوعہ روزنامہ الفضل 22,24 جنوری 1981ء) 673
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 05 اکتوبر 1980ء آج اسلام کے لئے قربانی کی ضرورت ہے خطاب فرمودہ 05اکتوبر 1980ء بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انسان، جو اپنی غفلتوں اور گناہوں کے نتیجہ میں تباہی کے گڑھے پر آ کھڑا ہوا ہے، اسے ہلاکت سے بچا کر خدا کی رحمت کے سایہ میں لے آویں.یہ کام آسان بھی ہے اور مشکل بھی.اس کے لئے خدا کا پیار حاصل کرنا ضروری ہے.بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ...خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا تو کوئی مشکل نہیں.وہ جان مانگتا ہے، جان دے دو، پیار مل جائے گا.اسلام کی صحیح روح بھی یہی ہے.جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی اطاعت اور پیار میں اپنی زندگی گزاری ہے، کسی اور نے نہ پہلوں میں سے اور نہ پچھلوں میں سے گزاری ہے.اور آپ نے صحابہ کی ایسی تربیت کی کہ وہ بھی بکلی خدا کے ہو گئے.پھر اب آپ کا جانثار پیدا ہو گیا ہے.وہ ایسا مزیدار فقرہ کہہ گیا.خدا کا پیار حاصل کرنا تو کچھ مشکل نہیں ، جو کچھ وہ مانگتا ہے، دے دو.جان مانگتا ہے، جان دے دو.پیاریل جائے گا.آج وہ آپ سے کہہ رہا ہے.دو صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا اگر تم دنیا میں اسلام کو غالب کرنا چاہتے ہوتو تمہیں صحابہ کرام ” کانمونہ پیش کرنا پڑے گا.خالی زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ ہوگا.اور یہ بات مشکل بھی ہے.آج ساری دنیامل کے اس کے غلبہ میں روک بن رہی ہے.جھوٹے دلائل بیہودہ منطقی و فلسفی خیالات اور اپنی گندی عادتوں کے ساتھ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں.اسلام کے لئے آج قربانی کی ضرورت ہے.جبکہ آپ نے ہر چیز خدا سے لی ہے، پھر وہ جو کچھ وو مانگتا ہے، وہ اسے دے دو.وہ یہ نہیں کہتا کہ میں دگنا دوں گا.بلکہ وہ کہتا ہے کہ میں بے شمار دوں گا“......جماعت احمدیہ نے اسلام کو غالب کرنا ہے.اسلام ڈنڈے، تلوار، نیزے، ایٹم بم، ہائیڈ روجن بم اور دوسرے ہتھیار، جن کا ابھی لوگوں کو پتہ نہیں، ان کے ذریعہ غالب نہیں آسکے گا.دل 675
اقتباس از خطاب فرمودہ 05اکتوبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم صرف پیار سے جیت سکتے ہیں.دل صرف خدا کے فضل سے جیت سکتے ہیں.خدا سے ان کی اصلاح کی دعا مانگو، جو اس سے دوری اور ہلاکت کی راہ اختیار کر رہے ہیں کہ یہ تیرے بندے ہیں، ان کے لئے رحمت کے سامان پیدا کر.اس کے لئے آپ کو راتوں کو جاگنا پڑے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ عاجزانہ اور تڑپ والی دعا غیر مسلم کے لئے تھی.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ میں اس وقت آپ سب کو جھنجھوڑ نا چاہتا ہوں.بیدار ہو جا ئیں.بہت بڑی تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں“.حضور نے مولانا نذیر احمد صاحب مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.” جب وہ پہلے پہل گھانا میں تبلیغ کے لئے گئے تھے اور ان کو جس گاؤں میں وہ جاتے تھے، نکال دیا جاتا تھا.تو وہ اپنی کٹھڑی اٹھا کر اگلے گاؤں چل دیتے تھے.آخر خدا نے ان کے ذریعہ احمدیت کا قیام کیا.اور آج یہ حال ہے کہ گورنمنٹ گھانا نے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مذہب کے علاوہ احمدیت کو بھی ملک میں مذہبی طور پر اثر انداز ہونے والی تحریک کے طور پر تسلیم کر لیا ہے.اور جور پورٹیں آرہی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ وہاں عیسائیت سے بے زار ہورہے ہیں.حضور نے فرمایا کہ ہمیں مبلغوں کی ضرورت ہے.اور ان لوگوں کی خدمت کے لئے سامانوں کی ضرورت ہے.اور سب سے زیادہ خدا کے حضور جھک کر دعاؤں کی ضرورت ہے.اس لئے آپ بیدار ہو جائیں.اگر خدا کی مخلوق کی خاطر اس کے حضور جھکیں گے تو پھر وہ آپ کی دعاؤں کو سنے گا.اور ان لوگوں کی اصلاح کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ مہیا کر دے گا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اس سے زیادہ میرے لئے اور کیا خوشی کا باعث ہوگا.مطبوعه روزنامه الفضل 23 دسمبر 1980ء) 676
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1980ء نفرت ہمیشہ شکست کھاتی ہے اور فتح ہمیشہ محبت کو ہی حاصل ہوتی ہے ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء 28 جون، کراچی حضور نے جماعت کی بین الاقوامی حیثیت اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بعض مسائل اور اسلامی تعلیم کی رو سے مسئلہ کے حل پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ساری دنیا میں پھیل چکی ہے.جماعت کی اس ترقی پذیر بین الاقوامی حیثیت کی وجہ سے بعض نئے مسائل کا پیدا ہونا، ایک قدرتی عمل ہے.اس میں سے ایک مسئلہ بین الاقوامی شادیوں اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی بعض اشکال سے تعلق رکھتا ہے“.حضور نے فرمایا:.مثال کے طور پر جب افریقہ، امریکہ یا یورپ کے کسی ملک کی ایک لڑکی اسلام قبول کر کے احمدی ہو جاتی ہے تو طبعا وہ یہی چاہتی ہے کہ اس کی ایک مسلمان سے ہی شادی ہو.ادھر اس کے عیسائی والدین اس بات کو پسند نہیں کرتے.اور چاہتے ہیں کہ وہ کسی عیسائی سے شادی کرے.مسلمان کے ساتھ شادی کی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی فقہ کی رو سے لڑکی کا ولی ہونا ضروری ہے، سو اس کا ولی کون ہو؟ ایسی صورت میں اصول یہ ہے کہ اس کا ولی خلیفہ وقت کسی ایسے شخص کو مقرر کرے گا، جو ولایت کے فرائض ادا کرنے اور اس کے تعلق میں تمام ذمہ داریاں نبھانے کا اہل ہو.اس کی عملی صورت یہ ہوگی کہ نائیجیریا، غانایا دیگر ممالک میں، جسے خلیفہ وقت نے اپنا نائب مقرر کیا ہے، یعنی اس ملک کا مبلغ انچارج ، یہ اس کا فرض ہے کہ ایسی لڑکی کاوہ خود ولی بنے یا وہ کسی ایسے شخص کو ولی مقرر کرے، جو اسلامی قانون کی رو سے ولایت کے فرائض ادا کرنے اور اس تعلق میں جملہ ذمہ داریاں نبھانے کی اہلیت رکھتا ہو.اسلامی تعلیم بڑی حسین بھی ہے، واضح بھی ہے اور بڑی پختہ بھی ہے.چنانچہ میں نے اسلامی تعلیم کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کر دی ہے.حضور نے مزید فرمایا:.دو دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے تعلیمی ترقی کا ایک منصوبہ جاری کرایا ہے.یہ منصوبہ غلبہ اسلام کی آسمانی مہم کے لحاظ سے بہت اہم ہے.اس منصوبہ کو جاری کرنے سے میرا مقصد 677
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ہے اور میری تمام تر دلچسپی اس بات میں ہے کہ قرآن کریم کے علوم کی زیادہ سے زیادہ ترویج واشاعت ہو.اس تعلق میں ایک بات میں نے یہ کہی ہے کہ کوئی احمدی بچہ ایسانہ رہے، جو میٹرک پاس نہ ہو.اس سے غرض یہ ہے کہ ہر احمدی میں قرآن کا بغور مطالعہ کرنے ، اسے سمجھنے اور قرآنی علوم میں دسترس حاصل کرنے کی اہلیت پیدا ہو جائے.کیونکہ جب تک تعلیمی بنیاد مضبوط نہ ہو، کوئی شخص علوم قرآنی سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا.کسی شخص کی تعلیمی بنیاد جتنی زیادہ مضبوط ہوگی اور علمی استعداد جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی زیادہ وہ قرآنی علوم کو سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کے قابل ہوگا.تعلیم کا کم از کم معیار فی الحال میٹرک مقرر کیا گیا ہے، آگے چل کر معیار کم از کم بی اے مقرر کیا جائے گا.کیونکہ بچوں کو جتنی زیادہ تعلیم دی جائے گی، وہ اتنا ہی زیادہ قرآن کو سمجھیں گے.فی الاصل یہ ایک نہایت ہی اہم منصوبہ ہے اور اس میں درجہ بدرجہ ترقی کے کئی مرحلے آئیں گئے.حضور نے اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ وہ اپنے فضل ورحمت اور نشان کے طور پر جماعت کو بہت ہی ذہین بچے عطا کر رہا ہے.حضور نے بتایا کہ ابھی حال ہی میں سرگودھا بورڈ کا میٹرک کا نتیجہ نکلا ہے.لڑکیوں میں دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی دونوں بچیاں احمدی ہیں.بورڈ بھر میں دو احمدی بچیوں کا اتنی اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنا معمولی بات نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ فضل اس امر پر دال ہے کہ وہ جماعت کو اعلیٰ ذہنوں سے نواز رہا ہے.اس ضمن میں حضور نے دماغی قوت اور ذہنی استعداد بڑھانے والے ایک خاص کیمیکل کا ذکر فرمایا ہے، جو لیسی تھین (Lecithin) کہلاتا ہے.اور اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ بچوں کو مناسب مقدار میں سویا نین (جس میں لیسی تھین کی کافی مقدار ہوتی ہے ) ضرور استعمال کرانی چاہئے.حضور نے فرمایا:.ر تعلیمی منصوبہ کے تحت میں نے تمام احمدی بچوں اور بچیوں کے لئے لازمی قرار دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے امتحان کا نتیجہ نکلنے پر اپنے نتیجہ کی مجھے اطلاع دیں.ان کے خطوط کے میں خود جواب دوں گا.خطوط کے جواب ارسال کرنا اتنا آسان نہیں، جتنا کہ بعض بچے سمجھتے ہوں گے.اب تک پندرہ ہزار سے زیادہ خطوط موصول ہو چکے ہیں.ان خطوں کو پہلے شہر وار اور پھر ضلع وار ترتیب دینا تھا، پھر ان کا درجہ بندی کے بعد رجسٹروں میں اندراج ہونا تھا اور کارڈ سسٹم کے ذریعہ ان کا ریکارڈ تیار کرنا تھا.پھر جوابی خطوط تیار کر کے اور پتے وغیرہ درج کر کے انہیں پوسٹ کرانا تھا.اس کام کے لئے کافی وقت اور عملہ درکار تھا.بہر حال کافی تعداد میں مربیان کو اس کام پر لگا نا پڑا ، تب جا کر خطوں کے جواب ارسال کرنے کا مرحلہ آیا.678
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1980ء چونکہ بچوں کو اپنے خطوط کے جواب کا انتظار ہوگا، اس لئے میں نے یہ وضاحت کر دی ہے.بچے مطمئن رہیں ، انہیں عنقریب جوابی خطوط ملنے شروع ہو جائیں گے.میرے چلنے سے پہلے اکثر خطوط تیار ہو گئے تھے.اور انہیں پوسٹ کرنے کا کام بھی تقریباً مکمل ہو گیا تھا.چونکہ خطوط کی ترسیل میں دیر ہو گئی تھی ، اس لئے میں نے بچوں سے معذرت کرنا تھی.اور انہیں تسلی دلانا تھی کہ آگے پیچھے انہیں جواب ملنے شروع ہو جائیں گے.ہزار ہا کی تعداد میں خطوط یکدم تو ارسال نہیں کئے جاسکتے.بہر حال ان کی ترسیل کا کام شروع ہو چکا ہے.جواب سب بچوں کومل جائے گا، کسی کو پہلے اور کسی کو ذرا بعد میں“.حضور نے فرمایا:.تیسری بات میں اپنے حالیہ سفر اور غیر ممالک کے دورہ کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.یہ دورہ کئی وجوہات کی وجہ سے ضروری ہو گیا تھا.اللہ تعالیٰ نے حال ہی میں ایسے فضل فرمائے ہیں اور بیرونی ممالک میں ترقی کی ایسی نئی راہیں کھولی ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھانے اور غلبہ اسلام کے کام میں تیزی پیدا کرنے کے لئے ان ممالک میں جانا ضروری ہو گیا ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے بتایا کہ 1970ء میں جب میں سپین گیا تو میں نے کوشش کی کہ وہاں ایک چھوٹی سی ، خستہ حال اور غیر آباد مسجد نماز پڑھنے کے لئے ہمیں مل جائے.ہر چند کہ وہاں کی حکومت اس کے لئے تیار ہو گئی تھی.لیکن پادریوں کی طرف سے شدید مخالفت کے باعث وہ ایسانہ کر سکی.اس کے بعد دس سال کے اندر اندر ایسا انقلاب عظیم بر پا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں شہر قرطبہ کے قریب ایک قطعہ زمین عطا کر دیا ہے.جسے ہم نے قیمتا خریدا ہے اور حکومت نے اس پر مسجد تعمیر کرنے کی باقاعدہ طور پر اجازت بھی دے دی ہے.خدا کے فضل سے ہمیں وہاں اتنی زمین مل گئی ہے کہ ہم وہاں مسجد تعمیر کرنے کے علاوہ مسجد کو آباد رکھنے کی غرض سے اس کے قریب چھ فلیٹ بھی بنادیں گے.تاکہ وہاں کے احمدی خاندان ان میں رہائش اختیار کر کے مسجد کو خدائے واحد کے ذکر سے آباد رکھ سکیں.اور اس طرح وہ مسجد سپین میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کا ایک اہم مرکز بن سکتے.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے مزید بتایا کہ سیکنڈے نیوین ممالک میں سے سب سے بڑی جماعت ناروے میں ہے.لیکن ابھی تک وہاں نہ ہماری مسجد تھی اور نہ ہی کوئی مشن ہاؤس تھا.ڈنمارک میں ہماری مسجد اور مشن ہاؤس ہے.اور سویڈن میں بھی مسجد اور مشن ہاؤس کی عمارت تعمیر ہو چکی ہے.لیکن ناروے میں ہم ابھی تک زمین نہ ملنے کی وجہ سے مسجد اور مشن ہاؤس 679
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم - تعمیر نہیں کر سکے تھے.حال ہی میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اوسلو کے قریب ایک سہ منزلہ شاندار عمارت عطا کر دی ہے، جو مسجد اور مشن ہاؤس کے طور پر بخوبی استعمال ہوسکتی ہے.اور وہاں ترقی کی نئی راہیں کھل سکتیں ہیں“.حضور نے بتایا:.اسی طرح مغربی افریقہ کے ممالک میں، جہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہائر سیکنڈری سکولز اور متعدد ہسپتال کھولنے کی تو فیق عطا فرمائی ہے، ترقی کی نئی راہیں کھل رہی ہیں.اور وہاں کے لوگ اور حکومتیں ہمیں نئے سکول اور ہسپتال کھولنے کے لئے کہ رہی ہیں اور ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچانے کی پیشکش کر رہی ہیں.نائیجیریا سے حال ہی میں اطلاع آئی ہے کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مختلف علاقوں میں مزید تین بڑی بڑی مسجد میں تعمیر کرنے کی توفیق دی ہے.اور ان کی خواہش ہے کہ اس دورہ میں ، میں ان کا بھی افتتاح کروں.اللہ تعالیٰ کے نئے افضال کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں حضور نے فرمایا:.ہمیں بہت سارے کام کرنے ہیں.طاقت ہمارے پاس نہیں اور ہم بہت کمزور ہیں.لیکن جس اعلیٰ اور مقتدر ہستی کا ہم نے دامن پکڑا ہے، وہ کمزور نہیں ہے.دنیا اس وقت اسلامی تعلیم کی پیاسی بھی ہے اور اسے اس کی ضرورت بھی ہے.لیکن حالت یہ ہے کہ اگر اس کام کی انجام دہی کے لئے ایک ارب اکائی کوشش کی ضرورت ہے تو ہم میں اس کے بالمقابل ایک اکائی کوشش کی بھی طاقت نہیں ہے.لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ہمہ قدرت و ہمہ طاقت خدا سے اس کی نصرت طلب کرنے میں لگے رہیں اور ہمیشہ اس کی جناب میں جھکیں رہیں.میں نے ربوہ میں بھی یہ تحریک کی تھی اور اب آپ سے بھی کہتا ہوں کہ آپ سات دن تک خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالٰی اپنے فضل سے اس دورہ کو ہر لحاظ سے کامیاب کرے اور غلبہ اسلام کے حق میں یہ دورہ بہت مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہو“.( مطبوعه روزنامه الفضل 10 جولائی 1980ء) 04 جولائی ،فرینکفورٹ حضور نے فرمایا:.میں جب پہلے یہاں آیا تھا تو میں نے آپ کو وارننگ دی تھی کہ آپ اپنے پیسے کی حفاظت کریں.اسلام حلال ذرائع سے کمائے ہوئے مال کو خرچ کرنے سے منع نہیں کرتا، وہ نا واجب خرچ سے منع کرتا ہے.جن حالات میں سے آپ لوگ گزر رہے ہیں.ان کے پیش نظر آپ کے لئے اپنے کمائے ہوئے مال کی حفاظت بدرجہ اولی ضروری ہے.680
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم حضور نے توجہ دلائی کہ ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1980ء سرمایہ جمع کر کے دنیا کے بعض دوسرے ملکوں میں جا کر وہاں تجارتی کاروبار کر کے یا بہت سستے داموں ملنے والی زرعی زمینیں خرید کر اور زرعی فار میں قائم کر کے اپنا مستقبل بھی بنا سکتے ہیں.اور وہاں ساتھ کے ساتھ قرآن کی اشاعت کر کے وہاں کے لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب بھی بن سکتے ہیں.اس کے ثبوت میں حضور نے ان احمدی گھرانوں کی مثال دی جو کینیڈا کے شہر کیلگری میں جا کر آباد ہوئے ہیں اور وہاں تجارت اور زراعت کے ذریعہ اپنا ستقبل بھی بنارہے ہیں اور قرآن مجید کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے اور دور دور تک اس کی اشاعت کرنے میں بڑی سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں.حتی کہ قطب شمال کی قریب ترین آبادی میں بھی قرآن مجید کا پیغام پہنچانے اور وہاں اسے عام کرنے کی انہیں توفیق ملی ہے.انہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں سرگرمی دکھائی.خدا تعالیٰ ان کے لئے اشاعت قرآن کی نئی نئی راہیں کھولتا چلا جارہا ہے.آپ میں سے جو بھی اشاعت قرآن اور تبلیغ اسلام کی نیت سے خدا تعالیٰ کی راہ میں آگے قدم بڑھائے گا.خدا تعالیٰ اس کے لئے خدمت کی نئی راہیں کھولتا اور اپنی رحمت کے جلوے ظاہر کرتا چلا جائے گا.حضور نے فرمایا:.” جب تک مسلمانوں میں خدمت اسلام کی نیت سے باہر نکلنے اور ہمت سے کام لے کر مشکلات پر قابو پاتے ہوئے آگے بڑھنے کا جذبہ قائم رہا، وہ اس وقت کی معلومہ دنیا میں خود پھیلتے اور اسلام کو پھیلاتے چلے گئے اور اسلام دنیا میں غالب آئے بغیر نہ رہا.اس ضمن میں حضور نے شمالی افریقہ کے ایک بزرگ کا ذکر کیا، جو بر برقبیلہ سے تعلق رکھتے تھے.اور بتایا کہ وہ سینی گال چلے گئے اور وہاں اسلام کی تبلیغ شروع کی.کسی نے ان کی آواز پر کان نہ دھرا.لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے کام میں لگے رہے.آخر میں وہ دریا کے بیچ میں بننے والے ایک قدرتی جزیرے میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئے.اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا ان کی طرف کچھ ایسا رجوع کیا کہ وہی لوگ، جو پہلے ان کی بات نہ سنتے تھے، ایک ایک کر کے ان کے پاس آنے لگے.انہوں نے انہیں قرآن سکھانا شروع کیا.اور جنہیں انہوں نے قرآن سکھایا تھا، وہ اپنے اپنے قبائل میں واپس جا کر قرآن کریم کے نور کو پھیلانے لگے.اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ اسلام سینی گال اور اس کے آس پاس کے علاقوں پھیل گیا“.681
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم حضور نے احباب کو مخاطب کرتے ہوئے مزید فرمایا:.آپ لوگ یہاں روزی کمانے آئے ہیں.ایک تو آپ کو جرمن قوم کا شکر گذار ہونا چاہئے.دوسرے آپ کو انہیں بھی قرآن کی پناہ میں لانے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ ایک جرمن باشندے سے زیادہ ہمت کا مظاہرہ کریں.آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ہیں اور قرآن کی لا زوال و بے مثال تعلیم کے آپ حامل ہیں.اتنی عظیم تعلیم آپ کے پاس ہے.آپ کا فرض ہے کہ آپ یہاں کے باشندوں کو بتائیں کہ ان کی فلاح و نجاح اس تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ وابستہ ہے.لیکن آپ محض زبانی تبلیغ سے انہیں اسلام کے حسن کا گرویدہ نہیں بنا سکتے.آپ کو اسلام کے حسن سے حسن لے کر پہلے خود اپنی زندگیوں کو حسین بنانا ہو گا تب یہاں کے لوگ اسلام کے حسن سے متاثر ہوں گے.آپ اسلام کے اصولوں کو تو ڑ کر اور اس کی بتائی ہوئی راہ کو چھوڑ کر تو انہیں اسلام کا حسن نہیں دکھا سکتے.اسلام کے حسن کا مظاہرہ تو آپ کو خود اپنے وجودوں کے ذریعہ کرنا ہو گا.اس کے بغیر تو وہ اس کے گرویدہ نہیں ہوں گے.یہ امر یا درکھیں کہ قرآن ہی آپ کی پناہ ہے اور قرآن ہی آپ کا ہتھیار ہے.پہلے خود اس کی پناہ میں آئیں اور پھر دوسروں کو اس کی پناہ میں لانے کا وسیلہ بنیں.آپ ایسا کریں اور پھر خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے کرشمے دیکھیں تم خدا سے پیار کرو، خدا تم سے پیار کرے گا.خدا کہتا ہے کہ تم اپنی ہر چیز کو میری راہ میں قربان کر دو اور پھر مجھ سے سب کچھ پالو.اگر تم ایسا کر دکھاؤ گے تو یہ جہان اور اس کی ہر چیز تمہاری ہو جائے گی اور اگلا جہان بھی تمہارا ہی ہوگا.جماعت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے فضلوں اور رحمتوں کا ذکر کرتے ہوئے - حضور نے فرمایا:.جس طرح ہوائی جہاز زمین پر حرکت میں آنے کے بعد فضا میں بلند ہوتا ہے اور پھر بلند ہوتا چلا جاتا ہے، اسی طرح جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اوپر ہی اوپر اٹھ رہی ہے اور ترقی کرتی چلی جارہی ہے.اس امر کا ایک ثبوت دیتے ہوئے حضور نے فرمایا:.نصرت جہاں سکیم کے تحت 53 لاکھ روپے آپ نے قربانی کی.اس میں سے سارا ابھی خرچ نہیں ہوا.لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس سکیم میں ایسی برکت ڈالی ہے کہ اب اس کا بجٹ 04 کروڑ روپے سالانہ تک پہنچ چکا ہے.اور تمام اخراجات نکال کر ایک کروڑ روپے کے قریب ہر سال بچ جاتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ وہ ہمیں چھپر نہیں ، آسمان پھاڑ کر دیتا ہے.لیکن اس کے فضلوں کو دائمی 682
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1980ء طور پر جذب کرنے کے لئے آپ کو اس پر کامل تو کل کرنا پڑے گا.اسی توکل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، جس تو کل کا مظاہرہ طارق بن زیاد نے سپین کے ساحل پر کشتیاں جلاتے وقت کیا تھا.اور اس سے بھی بہت پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر اپنا سارا مال حتی کہ گھر کی ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کے راستہ میں پیش کر دی.اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ابوبکر ! گھر میں کیا چھوڑا؟ تو آپ نے جواب دیا، اللہ اور اس کے رسول کا نام“.حضور نے فرمایا:.اس زمانہ میں آپ سے آخری مطالبہ یہی ہے کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا عزم کریں اور اپنے اس عزم پر قائم رہیں.آپ عزم تو کریں مگر حسب ضرورت توفیق دینے اور پھر آپ کے عزم اور کوشش کو قبول کرنے والا خدا ہے.قربانی کے مواقع پیدا ہوتے رہیں گے.اور آپ کو ایسے ہر موقع پر لبیک کہنا ہوگا.جماعت کا زندہ رہنا، اس امر پر موقوف ہے کہ خلیفہ وقت اس پر بوجھ ڈالتا ر ہے.آپ ہر قسم کے بوجھ اٹھانے کے لئے ہمیشہ تیار ر ہیں اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے چلے جائیں.حضور نے اس ضمن میں ایک اور اہم امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ میں کوئی برا آدمی نہیں ہونا چاہئے ، ساروں کا ہی اچھا ہونا ضروری ہے.ہاں نسبتی لحاظ سے کوئی زیادہ اچھا ہوگا اور کوئی کم اچھا.مراد یہ ہے کہ امت مسلمہ میں کوئی منافق نہیں ہونا چاہئے.جب بھی اندر سے یا باہر سے جماعت میں کوئی فتنہ پیدا ہو تو حدود کے اندر رہتے ہوئے ، اس کا مقابلہ کرنا چاہئے.دین کے لئے غیرت کا ہونا ضروری ہے.حضور نے فرمایا:.25 بڑا دیا لو ہے، ہمارا خدا اور بہت پیار کرنے والا ہے وہ.اس کے پیار کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ وہ اپنے جن بندوں سے پیار کرتا ہے، انہیں خوابوں کے ذریعہ بشارتیں دیتا ہے.1970ء میں جب میں سپین گیا تو وہاں یہ دیکھ کر کہ یہ سرزمین جہاں اسلام آٹھ سو سال تک غالب رہا، اب اسلام سے خالی ہو چکی ہے، سخت کرب محسوس ہوا.میں قریباً ساری رات جاگتا رہا اور دعا کرتارہا.صبح کی اذان کے وقت مجھے بتایا گیا کہ خدا قادرتو ہے لیکن ہرکام کا ایک وقت مقرر ہے.اس سے مجھے بہت تسلی ہوئی کہ اس سرزمین میں اسلام کے دوبارہ غالب آنے کی راہیں ضرور ہموار ہوں گی.اس وقت ہم نے کوشش کی کہ سپین کی حکومت پرانے زمانہ کی ایک چھوٹی سی خستہ حال مسجد میں سال کے لئے ہمیں دے دے.تاکہ پین میں جن لوگوں 683
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم نے اسلام قبول کیا ہے، وہ اس میں نماز پڑھ سکیں.پادریوں کی مخالفت کی وجہ سے اس وقت ہماری یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی.لیکن اس کام کے لئے ایک وقت مقرر تھا.خدا تعالیٰ نے دس سال بعد ہمیں قرطبہ کے قریب ایک شاہراہ پر تیرہ کنال کا ایک قطعہ زمین عطا کر دیا.ہم نے حال ہی میں وہاں یہ زمین خریدی ہے اور حکومت نے ہمیں اس پر مسجد تعمیر کرنے کی تحریری اجازت دے دی ہے.دس سال پہلے خدا نے بتایا کہ ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہے.اور دس سال کے بعد جب وہ مقررہ وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے وہاں مسجد تعمیر کروانے کے سامان کر دیئے.حضور نے فرمایا:.ہمارا خدا بہت فضل کرنے والا ہے.اور وہ ہمیشہ سے ہمیں اپنے فضلوں سے نوازتا چلا آرہا ہے.اس لئے آپ دنیا اور اس کی زینتوں کی طرف نہ دیکھیں بلکہ ہمیشہ رو بخدار ہیں.اور اس پر کامل توکل رکھتے ہوئے اپنی زندگیوں کو قرآنی انوار اور اس کے لازوال اور بے مثال حسن کا آئینہ دار بنائیں.تا کہ لوگ آپ کے عملی نمونہ سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف کھینچے چلے آئیں.اور اسلام آپ کے ذریعہ دنیا میں غالب آتا چلا جائے.آپ سوچیں اور غور کریں کہ وہ جو پہلے ایک تھا، اسے خدا نے آج ایک کروڑ بنا دیا.کتنی عزت بخشی خدا نے اس کو اور اس کے ذریعہ سے آپ کو.پس آپ اپنے خدا کا دامن بھی نہ چھوڑیں اور اس سے کبھی بے وفائی نہ کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ عطا کرے.05 جولائی، فرینکفورٹ اس زمانہ کے لئے خدا تعالیٰ کا ایک زبردست منصوبہ ہے.اور وہ یہ ہے کہ مہدی علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتداء میں اکیلے تھے.دنیا غلبہ اسلام کے مقصد میں آپ کو نا کام نہیں کر سکی.آپ اکیلے نہیں رہے.خدا تعالی نے آپ کی جماعت کو ساری دنیا میں پھیلا دیا.وہ اپنی اس جماعت کو غلبہ اسلام کے مقصد میں کامیاب کرنے کے لئے اسے اپنے فضلوں اور اپنی رحمتوں سے نواز رہا ہے.آج جماعت پر جو رحمتیں اور فضل نازل ہو رہے ہیں، وہ ہماری وجہ سے نہیں نازل ہور ہے بلکہ خدا تعالیٰ انہیں اس لئے نازل کر رہا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے.جتنے زیادہ اس کے فضل اور رحمتیں نازل ہو رہی ہیں، اتنی ہی زیادہ آپ کی ذمہ داریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں.ان ذمہ داریوں کو آپ ہی نے ادا کرنا ہے اور آپ ہی نے آگے آکر کام کرنا ہے.میں آٹے کے آدمی بنا کر انہیں تو حکم نہیں دے سکتا کہ جاؤ اور دنیا میں اسلام کو پھیلا دیا اس سے تعلق رکھنے والے دوسرے کام کرؤ“.684
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1980ء حضور نے نصرت جہاں سکیم کے تحت نازل ہونے والے بعض فضلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے بے پایاں فضل اور بے پایاں رحمتیں نازل ہورہی ہیں اور بڑی عظیم ذمہ داریاں آپ پر پڑ رہی ہیں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے“.06 جولائی ، ہیمبرگ حضور نے قرآن مجید کی آیت وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ (آل عمران : 55) (ترجمہ:.اور انہوں نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی تقریریں کیں اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تد بیر کرنے والا ہے.) کی نہایت لطیف اور پر معارف تفسیر کرتے ہوئے مثالیں دے دے کر واضح فرمایا کہ مخالفین حق ، حق کو مٹانے کی تدبیریں کرتے ہیں اور اپنی تدبیروں کو انتہا تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے.اس کے بالمقابل للہ تعالیٰ بھی تدبیر کرتا ہے.وہ نہ صرف مخالفین کی تدابیر کو باطل کر کے رکھ دیتا ہے بلکہ اہل حق کو اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نواز کر انہیں ایک کامیابی کے بعد دوسری کامیابی ،، سے ہمکنار کرتا چلا جاتا ہے.اس تعلق میں حضور نے جماعت پر ہونے والے فضلوں اور رحمتوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا اور بالخصوص نصرت جہاں سکیم کے نتیجہ میں مغربی افریقہ میں رونما ہونے والے عظیم روحانی انقلاب کی طرف اشارہ کر کے واضح فرمایا کہ یہ انقلاب اسلامی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے شرف انسانی کے قیام اور محبت و پیار کے نتیجہ میں رونما ہوا ہے“.حضور نے فرمایا:.اصل چیز یہ ہے کہ آپ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے پیار کریں تا آپ کو اس کا پیار حاصل ہو.اور آپ کو اس کے نتیجہ میں اس کی مخلوق سے پیار کرنے کی توفیق ملتی چلی جائے.اور آپ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر نوع انسانی کے دل جیتتے چلے جائیں.685
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء حضور نے احباب کو اس طرف خاص طور پر توجہ دلائی کہ تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اللہ تعالیٰ کے فضل بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں.اور افضال خداوندی کے نزول کے ساتھ ساتھ ان کی ذمہ داریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے.انہیں چاہئے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کر کے اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ خدا تعالیٰ ان پر ہر آن پہلے سے بڑھ کر اپنے فضل نازل فرماتا چلا جائے“.( مطبوعه روز نامہ الفضل 28 جولائی 1980ء) 07 جولائی ، فرینکفورٹ ایک صحافی نے یہ سوال کیا کہ آپ کے حالیہ دورہ یورپ کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا:.” میرے یہاں آنے کا مقصد لوگوں سے ملنا اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے.فی الوقت آپ صاحبان سے ملنے کی بھی غرض یہی ہے کہ میں آپ سے باتیں کروں، اپنے جذبات واحساسات آپ تک پہنچاؤں اور خود آپ کے جذبات و احساسات سے آگاہ ہوں.اس طرح ہم باہم تبادلہ خیالات کر کے ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کو سمجھانے کی کوشش کریں.ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ اسلام کو ساری دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے کوشش بھی کر رہے ہیں، کیا آپ کے نزدیک طاقت استعمال کئے بغیر اسلام کو ساری دنیا میں پھیلا یا اور غالب کیا جا سکتا ہے؟ حضور نے فرمایا:.طاقت کے ذریعہ ملکوں کو تو فتح کیا جاسکتا ہے، دلوں کو نہیں.دل ہمیشہ محبت اور پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ فتح ہوتے ہیں.ہم محبت اور پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو فتح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.جہاں تک اسلام کو پھیلانے اور غالب کرنے کا تعلق ہے.سو اس ضمن میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب ہم کسی کو کوئی چیز دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اسے باور کرانا پڑتا ہے کہ جو چیز پہلے سے اس کے پاس ہے، اس سے یہ بہتر اور زیادہ کارآمد و مفید ہے.اس طرح ہم اقوام عالم کے سامنے محبت اور پیار سے اسلام پیش کر رہے ہیں.اگر ہم انہیں یہ باور کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے کہ اسلامی تعلیم اس تعلیم یا نظریہ حیات سے بہتر ہے، جس پر وہ عمل پیرا ہیں تو وہ اسلامی تعلیم کو قبول نہیں کریں گے.لیکن اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے.تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں اسلام قبول کرنے سے باز نہ رکھ سکے 686
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء گی.وہ اسلام کی آغوش میں آئے بغیر نہ رہیں گے.میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب ہم لوگوں کے دلوں کو اسلام کے لئے جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے.آئندہ ایک سو سال کے اندر 66 اندر یہ انقلاب رونما ہونے والا ہے.حضور نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ، جس نے حضور سے آپ کی زندگی کا مقصد اور مطمح نظر دریافت کیا تھا، فرمایا:.میں نے اپنی زندگی بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے وقف کر رکھی ہے.میرے دل میں نوع انسان کی محبت اور ہمدردی کا ایک سمندر موجزن ہے.اسی لئے میں انہیں راہ فلاح کی طرف ، جو بلاشبہ اسلام کی راہ ہے، بلا رہا ہوں.یہاں بھی میں محبت کا پیغام لے کر آیا ہوں.اور وہ یہی ہے کہ انسان انسان سے محبت کرے.محبت کے نتیجہ میں محبت پیدا ہوتی ہے.ہمیشہ محبت ہی غالب آتی اور تعصب کے لئے سدا سے شکست مقرر ہے.پس ہم کمال محبت کے زیر اثر اسلامی تعلیم کے محاسن اور ان کے مطابق اپنا عملی نمونہ پیش کر کے آپ لوگوں کے دل جیتیں گے اور ساتھ کے ساتھ آپ کے لئے دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ آ.کے دلوں کو ہدایت کے لئے کھولے.تا کہ آپ لوگوں کو اسلام کی آغوش میں آنے کی توفیق ملے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ آئندہ سو سال کے اندر اندر ہم تمام بنی نوع انسان کے دل جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے.ہم دلوں کو فتح کرنا چاہتے ہیں ، حکومت حاصل کرنا ہمارا مقصد نہیں“.اس سوال کے جواب میں کہ دنیا بھر میں تبلیغی نظام کو کامیابی سے چلانے کے لئے جماعت کے مالی وسائل کیا ہیں؟ حضور نے فرمایا:.ایک تو افراد جماعت طوعی چندے دیتے ہیں اور ہر رنگ میں بڑھ چڑھ کر مالی قربانیاں کرتے ہیں.دوسرے مالی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کی معجزانہ نصرت جماعت کے شامل حال ہے.وہ خود جماعت کی دستگیری فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ کی معجزانہ نصرت کی مثال دیتے ہوئے حضور نے فرمایا:.”ہم نے چالیس لاکھ روپے سے مغربی افریقہ کے بعض ممالک میں کلینک کھولے.یہ ایک چھوٹی سی کوشش تھی.لیکن خدا تعالیٰ نے اس میں غیر معمولی برکت ڈالی.اس نے ہمارے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفا رکھ دی.جس کی وجہ سے لوگوں کا رجوع ہمارے ہسپتالوں کی طرف بڑھتا چلا گیا.یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے اس سارے پراجیکٹ کا سالانہ بجٹ چار کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے.اس پراجیکٹ کو اللہ 687
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے خدمت کے ساتھ ساتھ آمد کا ذریعہ بنا دیا.اور وہ اس طرح کہ جب ہمارے ہسپتالوں میں علاج کروانے والوں کو بکثرت شفاء ہونی شروع ہوئی تو وہاں کے رو سانے بھی ہمارے ہسپتالوں میں آنا شروع کر دیا.اور انہوں نے اپنے طریق کے مطابق علاج کے اخراجات ادا کئے.وہ مفت علاج کرانے کے لئے تیار نہ تھے.اس طرح آمد کی صورت پیدا ہوگئی.جو آمد پیدا ہوتی ہے، اس سے ہم غرباء کا مفت علاج کرتے ہیں.حضور نے ہسپتالوں کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہسپتالوں کی نیک شہرت کی وجہ سے وہاں کے وزراء بھی ہمارے ہسپتالوں میں علاج کے لئے آنے لگے.جب لوگوں نے ان سے کہا کہ وہ سرکاری ہسپتالوں کو چھوڑ کر احمد یہ مشن ہسپتالوں میں کیوں جاتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ دوسرے ہسپتالوں کے پاس سب کچھ ہے لیکن شفاء نہیں ہے.چونکہ شفاء احمد یہ ہسپتالوں میں ملتی ہے، اس لئے ہم ان میں علاج کے لئے جاتے ہیں.غانا میں ایک کیس ایسا بھی تھا یورپی ڈاکٹروں نے علاج کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مریض کو یورپ لے جا کر وہاں کے کسی ہسپتال میں آپریشن کرواؤ.مریض کے ورثاء میں اسے آپریشن کے لئے یورپ لے جانے کی استطاعت نہ تھی.اس پر احمد یہ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے حکومت سے کہا کہ انہیں آپریشن کرنے کی اجازت دیں تا کہ مریض کی جان بچانے کی صورت پیدا ہو سکے.حکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا.آخر وہاں کے عوام نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ احمدی ڈاکٹروں کو آپریشن کرنے کی اجازت دے یا پھر حکومت کے خرچ پر مریض کو یورپ بھیجوا کر اس کا علاج کرائے.اس پر حکومت نے احمدی ڈاکٹروں کو آپریشن کی اجازت دے دی.انہوں نے آپریشن کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے شفاء عطا کر دی.معجزانہ شفایابی کے ایسے واقعات کی دور دور تک شہرت ہوئی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آس پاس کے دوسرے ممالک کے لوگ بھی ہمارے ہسپتالوں میں علاج کے لئے آتے ہیں.وہ علاج کے اخراجات ادا کرتے ہیں، انہیں ہم غریبوں کے مفت علاج میں خرچ کر دیتے ہیں.ایک اور سوال کے جواب میں حضور نے ان سینکڑوں پرائمری اور مڈل اور درجنوں ہائر سیکنڈری سکولوں کی تفصیل بیان فرمائی، جو جماعت نے نائیجیریا، غانا، ایوری کوسٹ، سیرالیون، لائبیریا اور افریقہ کے بعض دوسرے ممالک میں کھولے ہیں، جو بہت کامیابی سے چل رہے ہیں.اور وہاں تعلیم کے میدان میں اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں.حضور نے یہ بھی بتایا کہ 688
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1980ء وہاں کی حکومتیں اور عوام ہماری اس خدمت کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اور اس کے دل سے معترف ہیں.16 جولائی ، زیورک ( مطبوعه روزنامه الفضل کم اکتوبر 1980ء) اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے دورہ کا مقصد کیا ہے؟ اور اس میں کس حد تک آپ کو کامیابی حاصل ہوئی ہے؟ حضور نے فرمایا:.دنیا اس وقت بڑی اور چھوٹی قوموں میں تقسیم ہو چکی ہے.بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف کسی نہ کسی شکل میں محاذ آرائی میں مصروف ہیں.اور اپنے اپنے حلقہ اثر کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی دوڑ دھوپ میں لگی ہوئی ہیں.اس دوڑ دھوپ کے نتیجہ میں عالمی امن کو شدید خطرہ پیدا ہو چکا ہے.اور یہ خطرہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے.جہاں تک بڑی طاقتوں کا تعلق ہے، وہ امن کے نام پر انتہائی مہلک ہتھیار جمع کر رہی ہیں.اور بجھتی یہ ہیں کہ وہ جتنے زیادہ مہلک ہتھیار ذخیرہ کریں گی ، امن کا امکان اتنا ہی زیادہ روشن ہوگا.میرے نزدیک یہ امر کہ وہ اس میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں ، از حد مشکوک.حضور نے قیام امن کے صحیح طریق کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:.اس صورت حال میں امن کے قیام کا دوسرا بلکہ واحد ذریعہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کے دل محبت و پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعے جیتے جائیں.اور انہیں یہ باور کرایا جائے کہ امن مہلک ہتھیاروں کے ذریعہ نہیں بلکہ ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کی بے لوث خدمت کرنے کے ذریعہ قائم ہوگا.کیونکہ مہلک ہتھیار ہلاکت تو پھیلا سکتے ہیں، امن قائم نہیں کر سکتے.میں یورپی ممالک کا یہ دورہ بھی اسی لئے کر رہا ہوں کہ یہاں کے لوگوں کو اسلام کی طرف سے امن کا پیغام دوں.اور قیام امن کی حقیقی راہ انہیں بتاؤں.چنانچہ میں جس ملک میں بھی جاتا ہوں ، لوگوں کو یہی یقین دلانے کی کوشش کرتا ہوں کہ انسانیت کی بقا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنا سیکھو.اس لئے میں محبت کے ایک سفیر کی حیثیت سے یہ دورہ کر رہا ہوں.اپنے دورہ کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.یورپ میں یہ میرا ساتواں دورہ ہے.اور میرا احساس یہ ہے کہ رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ میں اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہو رہا ہوں.اور منزل مقصود قریب سے قریب تر آتی جارہی ہے.689
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء اس ضمن میں حضور نے واضح فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم میں انقلاب کے راستہ پر نہیں چل رہا.کیونکہ انقلاب خونریزی کے ذریعہ لایا جاتا ہے.جس کا میں شدید مخالف ہوں.میں جس راستہ پر گامزن ہوں ، وہ انقلاب (Revolution) کا نہیں بلکہ ارتقاء (Evolutoin) کا راستہ ہے.اور Evolution ہمیشہ آہستہ آہستہ رونما ہوتا ہے اور مختلف مراحل میں سے گزر کر اپنے کمال کو پہنچتا ہے.سو اس کی رفتار تو ست ہوتی ہے لیکن یہ اپنے کمال کو پہنچتا ضرور ہے.میں ہی نہیں بلکہ خود یورپ کا باشعور طبقہ اس ارتقائی عمل کی کارفرمائی کو محسوس کر رہا ہے.اور یہ ارتقائی عمل بدیہی طور پر اسلام کے حق میں ہے.اس سوال کے جواب میں کہ آپ کا فرقہ 90 سال پرانا اور اسلام کا 73 واں فرقہ ہے، کیا یہ 73 ویں فرقہ کی حیثیت سے ہی برقرار رہے گا؟ حضور نے فرمایا:.” جماعت احمد یہ ایک عالمی تحریک ہے، جو روز بروز ترقی کے منازل طے کر رہی ہے.ہر سورج جو طلوع ہوتا ہے، وہ ہمیں پہلے سے بہت زیادہ مستحکم اور ترقی یافتہ پاتا ہے.ہم ہر روز آگے ہی آگے بڑھ رہے ہیں اور بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں.جس شخص نے اس جماعت کی بنیاد رکھی تھی، وہ ابتداء میں اکیلا تھا.اس وقت جبکہ وہ اکیلا تھا اور کوئی اس کے ساتھ نہ تھا، اس نے دنیا میں یہ اعلان کیا کہ میرے خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری جماعت کو ساری دنیا میں پھیلا دے گا.اور اسے کل مذاہب پر غلبہ بخشے گا.گزشتہ 90 سال میں ایک شخص ایک کروڑ میں بدل چکا ہے.اگر اگلی صدی میں ان ایک کروڑ انسانوں میں سے ہر شخص ایک کروڑ ہو جائے تو یہ تعداد دنیا کی موجودہ آبادی سے بھی کہیں تجاوز کر جائے گی.بہر حال ترقی کی اس رفتار سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اگلی صدی میں یہ جماعت پورے کرہ ارض پر محیط ہو جائے گی.ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا موجودہ دورہ میں آپ مشرقی یورپ بھی جائیں گے؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا:.میں خود تو مشرقی یورپ نہیں گیا اور نہ وہاں جانا میرے موجودہ دورہ کے پروگرام میں شامل ہے.لیکن روحانی طور پر میں وہاں گیا ہوں اور ہر وقت موجود ہوں.اس لئے کہ پولینڈ، ہنگری، یوگوسلاویہ، رومانیہ میں احمد یہ جماعتیں قائم ہیں.اور کچھ احمدی ، خواہ وہ تھوڑے ہی ہیں، روس میں بھی ہیں“.( مطبوعه روز نامه الفضل 13 اکتوبر 1980ء) 690
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم 23 جولائی، کوپن ہیگن ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1980ء ایک دوست نے سوال کیا کہ اہل ڈنمارک تک اسلام کا پیغام زیادہ مؤثر طریق پر پہنچانے کے لئے مزید کیا کچھ کرنا ضروری ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا:.”جہاں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا تعلق ہے، مبلغ اسلام کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری اتنی ہی ہے کہ ہم اپنی سے مقدور بھر کوشش کریں.کسی کو مسلمان بنانا، ہمارے اختیار میں نہیں ہے.یورپ، امریکہ اور ان کے زیر اثر علاقوں میں ہمارے لئے مشکل یہ ہے کہ وہ محض زبانی تبلیغ سے اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.اگر وہ اسلامی تعلیم کے قائل ہو بھی جائیں اور اکثر قائل ہو بھی جاتے ہیں، وہ اسے قبول کرنے کے لئے ، اس وقت تک تیار نہیں ہوں گے، جب تک ان کے سامنے اسلام کے پیش کردہ نظام کا عملی نمونہ نہ آئے.جہاں تک ان اقوام کے قبول اسلام کا تعلق ہے، اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں.اول یہ کہ ہم انہیں یہ یقین دلانے کی کوشش کریں کہ ہم جو کچھ انہیں پیش کر رہے ہیں، وہ اس سے بہتر اور برتر ہے، جو پہلے سے ان کے پاس ہے.اس کے نتیجہ میں وہ اسلام کی فضیلت کے تو قائل ہو جائیں.اس امر کے لئے کہ وہ اسلام کو قبول بھی کر لیں ، اسلام کے عملی نمونہ کی ضرورت ہے.یہاں کے لوگ اس سے مطمئن نہیں ہیں ، جو ان کے پاس ہے.وہ اس سے بہتر اور برتر کی تلاش میں ہیں.لیکن وہ اسلام کو جو یقیناً سب سے بہتر اور افضل و اعلیٰ ہے، قبول اس وقت کریں گے، جب ہم ہر حرکت و سکون میں اسلام کا نہایت حسین عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کریں گے.بہترین طریق ان قوموں کو مکمل تباہی سے بچانے کا یہ ہے کہ ہم تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عمل میں اسلام کا حسن اجاگر کر کے اسلام کا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کریں.اور اپنے قول اور فعل سے انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں اور دیتے چلے جائیں.یہاں تک کہ وہ اسے قبول کرلیں.29 جولائی، گوشن برگ حضور نے فرمایا:.مطبوعه روزنامه الفضل 17 دسمبر 1980ء) کیپٹل ازم اور کمیونزم دونوں میں ہی خامیاں ہیں.اور ان خامیوں کی وجہ سے نظریہ حیات کے طور پر میں دونوں ہی کے حق میں نہیں ہوں.جہاں تک تبلیغ اسلام کا تعلق ہے، ان ممالک میں جو سپٹل ازم 691
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء کے زیر اثر ہیں، ہمیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا.وہاں تبلیغ کی سہولتیں مل جاتی ہیں.مثال کے طور پر یوالیس اے میں ہزاروں امریکن احمدی ہو چکے ہیں اور ان کی زندگیوں میں ایک انقلاب رونما ہو چکا ہے.1976ء میں جب میں امریکہ گیا تو ڈیٹن کے میئر نے مجھ سے کہا کہ امریکن احمدیوں کی زندگیوں میں ایسی تبدیلی آئی ہے کہ ان کے عمل و کردار کے متعلق آج تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی.کمیونسٹ ملکوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.یہ صحیح ہے کہ ان ملکوں میں تبلیغ کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں احمدی جماعتیں نہیں ہیں.پولینڈ، یوگوسلاویہ اور منگری میں ہماری جماعتیں موجود ہیں.اگر چہ ابھی وہاں احمدیوں کی تعداد تھوڑی ہے لیکن احمدی ہیں وہاں ضرور.افغانستان کے ذکر پر حضور نے بتایا:.”وہاں ابتداء میں بعض احمدیوں کو شہید کر دیا گیا تھا مگر اب وہاں ہزاروں کی تعداد میں احمدی موجود ہیں“.فرمایا:.کمیونزم میرے نزدیک سب سے کمزور نظریہ ہے وہی تو کہتا ہے کہ ہر انسان کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے گا.لیکن ضرورت سے کیا مراد ہے؟ اور ضرورت کی تعریف کیا ہے؟ اس کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا.اس کے بالمقابل اسلام نے ضرورت کی بجائے حق پر زور دیا ہے.یعنی یہ کہ ہر شخص کو اس کا حق ملنا چاہیے.اور حق کی تعریف یہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جو جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی استعدادیں عطا کی ہیں، یہ اس کا ایک بنیادی حق ہے کہ اس کی ان جملہ استعدادوں کی کامل نشو و نما کا پورا پورا انتظام کیا جائے.سو گویا اسلام کے نزدیک بلاتفریق و امتیاز ہر انسان کی جملہ فطری صلاحیتوں کی کامل نشو ونما کا انتظام کرنا، معاشرہ یا حکومت کی ذمہ داری ہے.یہی وہ حقیقی مساوات ہے، جس کے قیام کی اسلام ضمانت دیتا ہے.اور جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں سے ہر قسم کے جبر اور ظلم کی جڑ کٹ کر رہ جاتی ہے.یکم اگست،اوسلو مطبوعه روزنامه الفضل 15/16 نومبر 1980ء) اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے دورہ کا مقصد اور ناروے میں مسجد کے قیام کی غرض کیا ہے؟ حضور نے فرمایا:.میں یورپ، امریکہ، افریقہ کے ممالک میں اپنی جماعت کے مشنوں کا دورہ کر کے اپنے احباب سے ملاقاتیں کیا کرتا ہوں.ناروے میں پہلے بھی کئی بار آچکا ہوں.لیکن اس مرتبہ ایک نئی بات یہ ہوئی ہے 692
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1980ء کہ ہم نے یہاں مشن ہاؤس اور مسجد کے قیام کے لئے یہ عمارت خریدی ہے.میں یہاں آکر اس میں دعا کرنا چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش میں برکت ڈالے اور اس ملک میں اسلام کے پھیلنے اور غالب آنے کے سامان کرے.کیونکہ اسلام کی تعلیم پر عمل کئے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور اسے مکمل تباہی سے نہیں بچایا جاسکتا.ہم بہت خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ عمارت خریدنے کی ہمت عطا کی.یہ اس کے فضل کا نتیجہ ہے.میں یہاں آکر اور اس میں دعا کر کے اس کا شکر یہ ادا کرنا چاہتا تھا.حضور نے فرمایا:.وو مزید برآں میرا ایک مشن ہے، جسے پورا کرنے کے لئے میں مختلف ملکوں کا دورہ کر رہا ہوں.اور اسی سلسلہ میں یہاں بھی آیا ہوں.یہ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا و کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے.ایک طرف امریکہ، چائنا اور اس کے ساتھی ہیں.اور دوسری طرف روس اور اس کے ساتھی.ان دونوں بڑی طاقتوں نے سوچا تھا کہ اگر ہم انتہائی مہلک ہتھیاروں کے اپنے پاس انبار لگا لیں گے تو اس سے دنیا میں قیام امن میں بہت مدد ملے گی.قیام امن کی اس انوکھی کوشش میں وہ نا کام ہو چکے ہیں.میں کہتا ہوں کہ امن اسلام کے لازوال اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انسانوں کو باہم ایک دوسرے سے محبت کرنے کی تعلیم دینے سے قائم ہوگا.اسی لئے میں محبت کا سفیر بن کر آیا ہوں.اس وقت عالمی امن کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے، وہ یہی ہے کہ انسان نے انسان سے محبت کرنا چھوڑ دیا ہے.محبت کی جگہ نفرت نے لے لی ہے.یہ میرا ایمان ہے کہ انسان انسان سے محبت کرنا سیکھے گا.محبت بالآخر غالب آئے گی اور نفرت شکست کھائے گی“.ایک نمائندے نے پوچھا کہ ناروے میں ناروین احمدیوں کی کتنی تعداد ہے؟ حضور نے جواب دیا، ایک درجن.اس پر اس نے مزید دریافت کیا کہ کیا آپ ناروے میں اپنے مشن کی ترقی کی رفتار سے مطمئن ہیں؟ حضور نے فرمایا:.میں مطمئن ہوں، اس لئے کہ انجیل کی رو سے مسیح علیہ السلام نے اپنی زندگی میں جتنے عیسائی بنائے تھے، اس سے کہیں زیادہ ہم دنیا بھر میں عیسائیوں کو مسلمان بنا چکے ہیں.الہی سلسلوں کے ساتھ شروع میں ایسا ہی ہوتا ہے.بہت کم لوگ ان کی آواز پر کان دھرتے ہیں.وہاں مخالفت کرنے والوں کی کمی نہیں ہوتی.لیکن آہستہ آہستہ الہی سلسلے ترقی کرتے چلے جاتے ہیں.حتی کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لوگ دھڑا دھڑ اس میں شامل ہونے لگتے ہیں.ہم مجموعی طور پر ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں، کہیں کم کہیں 693
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم زیادہ.امریکہ اور مغربی افریقہ میں ہزاروں اور لاکھوں لوگ ہماری جماعت میں داخل ہو چکے ہیں اور برابر ہورہے ہیں.ہماری جماعت رفته رفته ، درجہ بدرجہ ترقی کرنے والی جماعت ہے.دنیا کے بعض حصوں میں ہماری رفتار بھی سست ہے.لیکن بعض حصوں میں ہم آگے ہی آگے بڑھ رہے ہیں.ابتدائی دور میں اہمیت تعداد کو نہیں بلکہ اس امر کو حاصل ہوتی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں تبدیلی آرہی ہے یا نہیں.سو اس لحاظ سے ہماری کوششوں کے نتیجہ میں فی الوقت زمین ہموار ہو رہی ہے.ایک وقت آئے گا کہ لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائیں گے.اس امر کی صداقت کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود ایک زمانہ میں بالکل اکیلے تھے، کوئی بھی آپ کے ساتھ نہ تھا.جب آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تو آپ کو اپنے مشن میں ناکام بنانے کے لئے سارے مذاہب آپ کے خلاف متحد ہو گئے.آج سے 92 سال قبل آپ نے اعلان فرمایا، میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ میری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائے گا.وہ اکیلا انسان، اکیلا نہیں رہا.آج دنیا میں اس کے پیروؤں کی تعداد ایک کروڑ ہو چکی ہے.وہ ایک، ایک کروڑ بن گیا ہے.اسی طرح اگر اگلے 90 سال میں ہر ایک احمدی ایک کروڑ بن جائے تو کیا اسلام ساری دنیا پر محیط نہیں ہو جائے گا؟ اس لئے میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام دنیا میں غالب آئے گا.اس کے معنی یہ ہیں کہ غلبہ بہر حال محبت کے پیغام کو حاصل ہوگا.نفرت ہمیشہ شکست کھاتی ہے اور فتح ہمیشہ محبت کو ہی حاصل ہوتی ہے.اس سوال کے جواب میں کہ ناروے میں ایک مشنری کا اہم فرض کیا ہونا چاہیئے ؟ حضور نے فرمایا:.و ہمیں یہاں کے لوگوں کے دل فتح کرنے چاہئیں.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے جولوگ یہاں آپ کے درمیان رہ رہے ہیں، وہ آپ کے دوست بنیں اور حسن سلوک سے آپ کو اپنا دوست بنا ئیں.اور پھر آپ کے سامنے قرآنی تعلیم پیش کریں.یہ ایسی قابل عمل اور دل موہ لینے والی تعلیم ہے کہ آپ اس کے قائل ہوئے بغیر نہ رہیں گے اور بالآخر اسے قبول کر لیں گئے“.04 اگست، بیگ ( مطبوعه روزنامه الفضل 03 نومبر 1980ء) حضور نے دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن مجید کی بہت وسیع پیمانہ پر طباعت اور احمدیت کے تعارف پر مشتمل چھوٹے چھوٹے ٹریکٹوں کی شکل میں فولڈرز کی مختلف زبانوں میں اشاعت اور ان کی تقسیم کے نئے منصوبہ کی تفصیلات بیان فرمائیں.حضور نے فرمایا:.694
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1980ء منصوبہ یہ ہے کہ ہر مشن احمدیت کے تعارف پر مشتمل وہاں کی زبان میں فولڈر شائع کرے.پھر دنیا کی مختلف زبانوں میں طبع شدہ ان فولڈرز کو ہر مشن میں پہنچانے کا انتظام کیا جائے گا.اور کوشش یہ کی جائے کہ ہر زبان کے فولڈر ز ہر وقت ہر مشن میں موجود ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ میں دنیا کے ہر حصہ کے سیاح بکثرت آتے ہیں.ہمارے دوستوں کا کام یہ ہوگا کہ وہ ہر ملک کے سیاح کو خود اس کی اپنی زبان میں احمدیت کے تعارف پر مشتمل فولڈر پیش کریں.ایک غیر ملک میں سیاحت کے دوران جب ایک سیاح کو خود اس کی زبان میں کوئی چیز پڑھنے کے لئے پیش کی جائے گی تو وہ اسے بہت شوق سے پڑھے گا.اس طرح ہر ملک میں دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگوں تک خودان کی زبانوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی سبیل نکل آئے گی.04 اگست، کوپن ہیگن مطبوعه روزنامه الفضل 26 نومبر 1980ء) ایک صحافی نے کہا کہ جہاں تک اسلامی تعلیم میں موجودہ مسائل کا حل موجود ہونے کا تعلق ہے، کیا ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ آپ کے حالیہ دورہ سے مغربی اقوام میں اسلامی تعلیم کی بہتر تفہیم کا شعور پیدا ہوگا؟ حضور نے فرمایا:.جہاں تک بہتر تفہیم کا تعلق ہے، میرے دورے سے اس میں ضرور مدد ملے گی.اور اس لئے بھی.گی کہ آپ لوگوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں لیکن آپ کے پاس ان کا کوئی حل نہیں ہے.جب آپ لوگوں کو اپنے مسائل کا کوئی حل نہیں ملے گا اور آپ حل کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگیں گے تو پھر آپ کو اس حل کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا، جو اسلام پیش کرتا ہے.اور اس حل میں ہی آپ کو اپنی نجات کا راستہ نظر آئے گا.تاہم آپ لوگوں کو ابھی اخلاقی اور روحانی ارتقاء کے بعض مراحل میں سے گزر کر اسلام کی طرف آنا ہوگا“.اس سوال کے جواب میں کہ ہالینڈ میں آپ کی جماعت کتنی مضبوط ہے؟ حضور نے فرمایا:.پورے ہالینڈ میں ڈیڑھ، دو سو احمدی ہوں گے.اور ان میں سے ڈچ احمدیوں کی تعداد چند درجن ہوگی.لیکن خدائی جماعتوں میں ابتدا افراد کی تعداد کو نہیں بلکہ دلوں میں رونما ہونے والی تبدیلی کو اہمیت حاصل ہوتی ہے.1967ء میں جب میں یورپ آیا تھا تو اس وقت بھی مجھ سے یہ سوال کیا گیا تھا.میں نے جواب دیا تھا کہ مسیح ناصری علیہ السلام نے جب فلسطین میں اپنے مشن کا آغاز کیا تھا، وہ بھی اس 695
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء وقت بہت تھوڑے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا سکے تھے.وہ ایسا مرحلہ تھا کہ جس میں تعداد کو چنداں اہمیت حاصل نہ تھی.اگر چہ یورپ میں ابھی ہماری تعداد زیادہ نہیں.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم برابر ترقی کر رہے ہیں اور ہماری کوششوں کے نتیجہ میں دلوں میں رفتہ رفتہ تبدیلی آرہی ہے.ایک رپورٹر نے کہا، انڈونیشیا میں عیسائی مشن کو مشنری سرگرمیاں جاری رکھنے کی ممانعت کر دی گئی ہے.آپ اس پر کیا تبصرہ کرنا پسند کریں گے؟ حضور نے فرمایا:.” میری معلومات یہ ہیں کہ عیسائی مشنری انڈونیشیا میں آج بھی کام کر رہے ہیں.جہاں تک کسی بھی ملک میں تبلیغ واشاعت کا تعلق ہے، میں اصولی اور بنیادی طور پر تبلیغی سرگرمیوں کی ممانعت کے خلاف ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ جبر سے دل نہیں بدلے جاسکتے.پر امن اور مہذب طریقے سے تبادلہ خیالات کی کھلی اجازت ہونی چاہئے اور اس پر قدغن نہیں لگانی چاہئے.ہم نے تو پوپ سے بھی کہا تھا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں تبادلہ خیالات کا انتظام ہونا چاہئے.14 اگست، لندن اس سوال کے جواب میں کہ یورپ کب اسلام قبول کرے گا ؟ حضور نے فرمایا:.مطبوعه روزنامه الفضل 30 نومبر 1980ء) تم لوگ مہلک ہتھیار ہی جمع نہیں کر رہے بلکہ مسائل کے انبار بھی لگا رہے ہو.تمہارے مسائل بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور تمہیں ان کا کوئی حل نظر نہیں آرہا.ایک وقت آئے گا کہ تم مسائل کے حل کی تلاش میں اندھیرے میں ٹکریں مار رہے ہو گے اور ہر طرف راستہ مسدود پاؤ گے.وہ وقت اسلام کا وقت ہوگا.اور میرے لئے موقع ہوگا کہ میں اسلام کی روشنی تمہارے سامنے پیش کروں.اس وقت تم خود بخود اسلام کی طرف کھنچے چلے آؤ گے.میں اس وقت کا منتظر ہوں.اور وہ وقت ضرور آئے گا“.اس پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کا فرقہ ، جس اسلام کی تبلیغ میں کوشاں ہے، کیا وہ ایک دن غالب آ جائے گا اور اس طرح آپ کی جماعت دنیا پر چھا جائے گی ؟ اس سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا:.آج سے 2 9 سال قبل جب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اسلام کے دنیا میں غالب آنے کی پیشگوئی فرمائی تھی، اس وقت آپ اکیلے تھے.اب وہ اکیلا آدمی ایک کروڑ بن چکا ہے.اگر اگلے نوے 696
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرموده دوران دوره (مغرب) * 1980.سال میں ہر احمدی ایک کروڑ بن جائے تو یہ تعداد دنیا کی آبادی سے بھی بڑھ جاتی ہے.میں اس تعداد کی بات نہیں کرتا ، جو دنیا کی آبادی سے بھی آگے نکل جاتی ہے.میں صرف دنیا کی آبادی کی بات کرتا ہوں.اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا کی آبادی کا مسلمان ہو جانا، ناممکن نہیں ہے.اسی لئے کہتا ہوں کہ احمدی ساری دنیا میں پھیل جائیں گئے.حضور نے جماعت کی تدریجی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا:.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ سب مذاہب کی اصلاح کرنا چاہتے تھے، اس لئے سب متحد ہو کر آپ کے مخالف ہو گئے.اس کے باوجود آپ کی قائم کردہ جماعت رفتہ رفتہ ترقی کرتی چلی گئی.ہر دن جو چڑھتا ہے، وہ جماعت کو زیادہ مضبوط اور طاقتور بنانے کا موجب بنتا ہے.گذشتہ پچاس سال کے دوران ہم افریقہ میں پانچ لاکھ عیسائیوں کو مسلمان بنا چکے ہیں.میں اسلام کے ساری دنیا میں غالب آنے کے بارہ میں پر امید ہی نہیں، پر یقین ہوں.اس لئے بھی کہ حالات اور زمانہ کی حرکت ہمارے حق میں ہے.عیسائیت کی ناکامی اس امر سے ہی ظاہر ہے کہ گر جاؤں پر برائے فروخت کے بورڈ لگے ہوئے ہیں.اگر عیسائیت نا کام نہ ہوئی ہوتی تو نئی نسلوں کے لئے مزید گرجے تعمیر کرنے کی ضرورت پڑتی اور پرانے گر جاؤں پر برائے فروخت کے بورڈ آویزاں کرنے کی نوبت نہ آتی.18 اگست، لیگوس (مطبوعه روزنامه الفضل 18 جنوری 1981ء) دوره نائیجیریا کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.نائیجیریا میں میرا یہ دوسرا دورہ ہے.میں اس سے قبل 1970ء میں پہلی بارنا کیجیر یا آیا تھا.میں احباب جماعت سے ملنے کے علاوہ بعض امور کا جائزہ لینے آیا ہوں.مثلاً یہی کہ گزشتہ دس سال میں جماعت نے کیا ترقی کی ہے؟ اور تبلیغ اسلام کے جو نئے منصوبے شروع کئے گئے تھے ، ان کو عملی جامہ پہنانے میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے؟ اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں؟ پھر میں اہل نائیجیریا کو یہ پیغام دینے یہاں آیا ہوں کہ کسی سے نفرت نہ کرو بلکہ سب سے یکساں طور پر محبت سے پیش آؤ.قرآن مجید نے مساوات انسانی پر بہت زور دیا ہے.اگر قرآنی تعلیم پر عمل کیا جائے تو دنیا سے ہر قسم کے جھگڑے مٹ سکتے ہیں اور یہ دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتی ہے.افریقہ کے ترقی پذیر ملکوں کی حالت بہتر بنانے کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا:.697
ارشادات فرموده دوران دورہ مغرب 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم ہم محبت، پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں.اور اس طرح باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے احترام کی فضا پیدا کرنے میں کوشاں ہیں.اور خدا کے فضل سے ہمیں اس میں نمایاں کامیابی حاصل ہوتی ہے.اس ضمن میں حضور نے احمد یہ ہسپتالوں اور سیکنڈری سکولوں کے ذریعہ انجام دی جانے والی خدمت اور اس کے شاندار نتائج کا تفصیل سے ذکر فر مایا.اس سوال کے جواب میں کہ آپ نے مغربی افریقہ کے ملکوں میں سیکنڈری سکولز تو بڑی تعداد میں کھولے ہیں.کیا آپ کا ارادہ نائیجیریا میں ایک علیحدہ یونیورسٹی قائم کرنے کا بھی ہے؟ فرمایا:.”ہمارا احمد یہ یونیورسٹی بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے.آپ لوگوں کی اپنی یو نیورسٹیاں بہت اچھی ہیں.ان کی موجودگی میں علیحدہ یونیورسٹی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں.ہم تو حسب استطاعت زیادہ سے زیادہ سکول کھول کر بالخصوص مسلمانوں میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا اور انہیں عیسائیت کے اثر سے بچانا چاہتے ہیں.کیونکہ وہ تعلیم میں بہت پیچھے ہیں.ویسے ہمارے سکولوں میں عیسائی بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ہم انہیں بھی زیور علم سے آراستہ کرنا ، اپنا فرض سمجھتے ہیں.24 اکتوبر، کراچی حضور نے فرمایا:.(مطبوعه روزنامه الفضل 29 جنوری 1981ء) | ” جب میں 1970 ء میں پین گیا تو حالات مختلف تھے.طلیطلہ میں پرانی چھوٹی سی مسجد تھی.اس وقت کی حکومت میں سال کے لئے یہ مسجد جماعت احمدیہ کی تولیت میں دینے کے لئے آمادہ ہو گئی.مگر عیسائی چرچ کے سربراہوں نے اس کی مخالفت کی اور ہمیں مسجد نہ دی گئی.مگر اب دس سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ وہاں جماعت احمدیہ کونئی مسجد کی تعمیر کے لئے نہ صرف جگہ خریدنے کی توفیق مل گئی بلکہ حکومت نے اس جگہ مسجد کی تعمیر کی اجازت اور نقشہ جات کی منظوری بھی دے دی.یہ جگہ قرطبہ سے قریب ہے.جب مسجد کا سنگ بنیادرکھنے کی تقریب ہوئی تو احمدی مسلمانوں کے علاوہ سینکڑوں عیسائی مرد وزن بھی وہاں موجود تھے.یہ مسجد اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ سپین میں مسلمانوں کے صد ہا سال دور حکومت کے اختتام کے بعد یہ پہلا خدائے واحد کے نام پر تعمیر کیا جانے والا گھر ہے، جس کی سعادت جماعت احمدیہ کے حصہ میں آئی.مسجد کے سنگ بنیادر کھے جانے کی تقریب میں مقامی لوگوں کی 698
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ دوران دورہ مغرب 1980ء غیر معمولی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ عیسائی لوگ بھی اسلام میں مساجد کی اہمیت اور افادیت جاننے اور اسلامی لٹریچر حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے دیکھے گئے.حضور نے فرمایا:.اسی دوران ایک شخص مجمع کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور میرے قریب آ گیا اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہنے لگا کہ میں یہاں سے قریب ہی ایک آبادی سے آیا ہوں اور وہاں کا میئر ہوں.میری درخواست ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایک مسجد تعمیر کی جائے.سپین میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے تابندہ نشان یعنی نئی مسجد کا سنگ بنیا در کھنے کے ساتھ اذان کی آواز بھی بلند ہوئی.اور وہاں کے درودیوار کو کئی سو سال کی محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسالت حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی گواہی کی روح پرورند اسننے کی سعادت حاصل ہوئی“.حضور نے مغربی افریقہ کے دورہ کے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نائیجریا کے لوگوں میں ذہنی انقلاب آچکا ہے.جس کے نتیجہ میں وہ اسلام کی طرف راغب ہیں.کئی جگہوں سے سکول اور ہسپتال کھولنے کے لئے مطالبات کئے گئے ہیں.اسی طرح غانا میں اسلام کے حق میں ایک عملی انقلاب آچکا ہے.اور وہ دن دور نہیں جبکہ غا نا پورے طور پر اسلام کی آغوش میں آ جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.غانا میں جہاں کہیں ہم دورہ پر گئے ، کثرت سے لوگوں نے استقبال کیا.ایک جگہ شدید بارش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لوگ استقبال کے لئے جمع تھے، حالانکہ غانا کے لوگ بارش میں بھیگنے سے بہت گھبراتے ہیں“.(مطبوعہ روزنامه الفضل یکم نومبر 1980ء) 699
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 31 اکتوبر 1980ء تحریک جدید کے کام کی شعاعیں ہمیں ساری دنیا میں نظر آنے لگی ہیں خطبہ جمعہ فرموده 31 اکتوبر 1980ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.قریباً گزشتہ چار ماہ میں آپ سے دور بھی تھا اور آپ کے قریب بھی تھا، اپنی دعاؤں کے ساتھ.آج میں یہاں لمبے عرصہ کے بعد خطبہ کے لئے کھڑا ہوں اور بہت خوش ہوں، آپ سے مل کر.اور میں بہت خوش رہا، ان سے بھی مل کر ، جنہیں بارہ ممالک میں تین براعظم میں، میں اس عرصہ میں ملتا رہا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، تمہارے شامل حال جو نعمت بھی ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے.تمہیں ورثہ میں نہیں ملتی، کوئی نعمت.اگر خدانہ چاہے، تمہاری کوششیں تمہارے لئے نعمتیں پیدا نہیں کرتیں.اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو.خدا تعالیٰ ابتلا اور امتحان میں بھی ڈالتا ہے تا بتائے کہ جو کچھ ملاء اسی سے ملا.جو ملتا ہے، اسی سے ملتا ہے.اور جو ملے گا ، اسی سے ملے گا.آج ایک خوشی یہ بھی ہے کہ اس جمعہ پر سال میں ایک بار جو میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں ، اس وقت میں کر رہا ہوں.تحریک جدید قریباً 46 سال قبل اللہ تعالیٰ کی عین منشا کے مطابق جاری کی گئی.اور جو کچھ میں نے اس ملک سے باہر دنیا میں دیکھا اور جن نعمتوں کو پایا اور جو خوشیاں مجھے پہنچیں، یہ سب نعمتیں اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے اپنے ایک بندہ کے ذریعہ سے آج سے قریباً 46 سال قبل ان نعمتوں کے قیام اور اجرا کے سامان پیدا کئے.اللہ تعالیٰ اس ہمارے محبوب کے درجات کو بہت بلند کرے.اور جو تحریکیں اس نے شروع کی تھیں، ان کے ذریعہ سے جماعت پر اپنی نعمتوں میں اور اضافہ کرے.اور ہمیں اپنے بزرگوں کے نقشے قدم پر چل کر اسی طرح جس طرح انہوں نے پایا، ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے سامان ملیں.46 سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قائم کردہ اس جماعت کی جو حالت تھی ، وہ آج سے مختلف تھی.آج تک جتنا زمانہ گزرا ہے، قریباً نصف زمانہ گزرا تھا، اس کے مقابل اس وقت جماعت کو قائم ہوئے.اور جیسا کہ بتایا گیا تھا اور تسلی دی گئی تھی ، آہستہ آہستہ جماعت ترقی کرتی چلی جارہی 701
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم تھی.یہ آہستہ آہستہ ترقی دو شکلوں میں ظاہر ہو رہی تھی.ایک آہستہ آہستہ دنیا میں پھیلتی چلی جارہی تھی.شروع میں تو قادیان یا چند اور شہر تھے، جو فیض پارہے تھے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپ کے ایک عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ.پھر پنجاب میں پھیلنی شروع ہوئی.پھر پنجاب سے نکل کے ہندوستان میں داخل ہوئی ، سارے ہندوستان میں.پھر ہندوستان سے نکلی اور باہر کے ملکوں میں پھیلنے لگی.اس طرح جس طرح کوئی اکا دکا بیچ ہوا میں اڑا کے کسی خطہ ارض میں لے جاتی ہیں اور وہاں ایک نئی قسم کی روئیدگی پیدا ہو جاتی ہے، اس طرح یہ خدا سے اور خدا کی مخلوق سے پیار کرنے والی جماعت قائم ہوئی.کہیں ایک خاندان احمدی ہو گیا، کہیں دو ہو گئے.مثلا افریقہ کے ایک ملک میں صرف ایک احمدی 1930 ء سے بھی پہلے کے تھے.نائیجیریا میں اس ملک کے سربراہ گئے تو اس احمدی خاندان کے ایک فرد ان کے اس ڈیلیکیشن (Delegation) میں شامل تھے.اور جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، وہاں نائیجیریا کی جماعت نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ ہر کمرے میں رکھا ہوا تھا.اور اس پر اپنے مشن کا پتہ اور ٹیلیفون نمبر بھی درج کیا ہوا تھا.انہوں نے دیکھا اور بڑے حیران ہوئے.فون کیا مشن کو اور کہا کہ مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ جماعت اتنی ترقی کر گئی.اور انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد احمد کی ہوئے تھے، ان کی وفات ہوگئی 1940ء میں اور اس کے بعد ہمارا ملاپ مرکز سے نہیں رہا.لیکن ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے دلوں میں انہوں نے جماعت کو اس مضبوطی سے قائم کیا تھا کہ اسے نہیں ہم چھوڑ سکتے تھے.اور اس پر قائم ہیں.اسی طرح اور بہت ساری جگہوں پر احمدی ہو گئے.جماعت پھر وہاں بڑھنی شروع ہوئی.شروع میں جو ہمارے مبلغ گئے ہیں، وہ گاؤں گاؤں پھرے.ایسا واقعہ بھی انہیں پیش آیا کہ شام کو ایک گاؤں نے انکار کیا، اپنے پاس رکھنے سے.دوسرے گاؤں نے انکار کیا، تیسرے گاؤں نے انکار کیا.کوئی احمدی نہیں تھا، اس علاقے میں.چوتھے گاؤں نے، پانچویں گاؤں نے.پھر کوئی شریف آدمی اگلے گاؤں میں ملا اور کہا، ٹھیک ہے، ہمارے پاس رہ جاؤ مہمان.کتابیں سر پر اٹھائی ہوئی تھیں ٹھہر گئے.وہاں ان سے تبادلہ خیال ہوا اور ان کو مسائل بتائے ، ان کو حوالے دکھائے ، قرآن کریم کی آیات ان کے سامنے پیش کیں، ان کو ضرورت زمانہ سے آگاہ کیا.اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو کھولا اور وہ احمدی ہو گئے.اور تحریک جدید کے اجرا سے بھی پہلے جو تھوڑی بہت کوشش ہوئی، اس کا نتیجہ یہی تھا کہ بعض ملکوں میں احمدیت چلی گئی.اور غانا میں، میں ایک ایسے بزرگ احمدی کی قبر پہ بھی دعا کے لئے گیا، جن کی وفات 1926ء میں ہوئی تھی.جنہوں نے احمدیت کی خاطر بڑے دکھ اٹھائے تھے، بڑی مصیبتیں سہی تھیں.اور ہمارے مبلغ کے ساتھ 702
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 31 اکتوبر 1980ء مل کر انہوں نے لوگوں کی خدمت کی، اخلاقی اور روحانی طور پر.چند آدمی تھے، اس وقت.اور آج اندازہ کے مطابق پانچ لاکھ سے دس لاکھ کے درمیان ( غانا جو چھوٹا سا ملک ہے ) وہاں احمدی پائے جاتے ہیں.قرآن کریم میں اعلان کیا گیا تھا، ایک اصول بتایا تھا، أفَلَا يَرَوْنَ اَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۖ أَفَهُمُ الْغُلِبُونَ (الانبياء: 45) کہ ( پنجابی کا محاورہ ہے، پھورنا ) اسے پھور دے چلے آرہے ہیں، چاروں اطراف توں ، زمین نوں.یعنی تدریجی اور مسلسل ترقی ہو رہی ہے، الہی سلسلے کی.اس تدریجی ترقی ، چاہے وہ دنیا کے مقابلے میں تھوڑی ہو، لیکن تدریجی ترقی کو دیکھ کر عقلمند یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ یہ جماعت مغلوب نہیں ہوسکتی.کسی زمانہ میں برٹش ایمپائر جوتھی، اس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ برٹش ایمپائر پر سورج غروب نہیں ہوتا.نہیں ہوتا تھا ، ساری دنیا میں ان کی ایمپائر قائم تھی.وہ زمانہ بدل گیا، اب برٹش ایمپائر بھی قریباً ختم ہوئی اور ان پر سورج غروب ہونے لگا.لیکن آج یہ حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا.اور اس سے بھی بڑھ کر یہ حقیقت ہے کہ ہر سورج، جو ہر صبح کو چڑھتا ہے، وہ جماعت کو تعداد میں زیادہ اور طاقت میں مضبوط تر پاتا ہے.یہ اللہ کی شان ہے.بڑی تبدیلی دنیا کے اندر پیدا ہورہی ہے.جہاں لوگ ابھی احمدی نہیں ہوئے ، ان پر بھی اتنا اثر ہے کہ مثلاً غا نا میں، میں گیا ہوں تو اگر کوئی انجان دیکھے تو وہ سمجھے گا کہ یہاں کوئی غیر احمدی ہے ہی نہیں.اس طرح عوام سارے کے سارے ہی پیار لینے اور برکت لینے کے لئے سڑکوں کے کناروں پر کھڑے ہو جاتے تھے، جہاں سے ہماری کارگزرتی تھی.اس کے کچھ نظارے شاید تصویروں میں آپ کو دکھائیں گے، آپ کے ضلعوں میں دکھائیں گے، آپ کی مختلف بستیوں میں دکھائیں گے، انشاء اللہ تعالی.پھر آپ کو پتا لگے گا.لیکن وہ جو نظارے ہیں، اگر وہ دیکھیں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ ہر قصبہ جو ہے، وہ سڑک کے کنارے آ جا تا تھا.لیکن میں نے بتایا کہ آبادی ان کی ہے، قریبا ستر لاکھ کم و بیش.اور اس میں سے پانچ لاکھ سے دس لاکھ احمدی ہو چکا ہے.تو بڑا اثر ہے.کسی نے مجھے بتایا ہے کہ جو وہاں کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ جماعت احمدیہ اس قدر اثر اور رسوخ حاصل کر چکی ہے، ہمارے ملک میں کہ ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے.نائیجیر یا بہت بڑا ملک ہے.وہ تو قریباً چھ ، سات کڑور شاید آٹھ کڑور کی آبادی ہے.صحیح مجھے نہیں علم لیکن بہت بڑا ملک ہے.اس کے حالات بدل گئے.یورپ جو اسلام کا نام گالی دیئے بغیر نہیں لیتا 703
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، ان لوگوں پر.اور اب وہ عزت اور احترام کے ساتھ اسلام اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے لگے ہیں.ابھی حال ہی میں تثلیث تین خداؤں کے ماننے والوں کی طرف سے یہ اعلان ہوا ہے کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کو مل جل کر کام کرنا چاہیے.کیونکہ ہر دو مذاہب خدائے واحد دیگانہ کی پرستش کرنے والے ہیں.تو دل اور دماغ تثلیث کو چھوڑ کے ایک خدا کی طرف حرکت کر رہے ہیں.پتا نہیں ان کے دماغ میں کچھ ریزرویشنز (Reservations) بھی ہوں گی.شاید ابھی کھل کے بات تو نہیں ہوئی.لیکن حرکت ایک خدا کی طرف ہے.تحریک جدید ، جو اللہ تعالیٰ نے جاری کروائی، آہستہ آہستہ سال بسال بڑھتی ہوئی ، بی شکل اختیار کر گئی.اب میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے ، بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں.پچھلے سال میں نے ٹارگٹ پندرہ لاکھ سے بڑھا کر اٹھارہ لاکھ کر دیا.اور اس مخلص احمدی جماعت نے اٹھارہ لاکھ سے زیادہ کے وعدے کر دئیے.لیکن اس وقت تک اس نسبت سے وصولی نہیں ہوئی.پچھلے سال سے زیادہ ہے وصولی لیکن اس نسبت سے وصولی نہیں ہوئی، اس لئے ایک تو میں اس طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اٹھارہ لاکھ بہر حال رقم جمع ہونی چاہیے.تحریک جدید کے کام میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت ڈالی کہ ساری دنیا میں اس کی شعاعیں ہمیں نظر آنے لگی ہیں.اس میں کوئی کمی اور خامی نہ رہ جائے اور یہ مقروض نہ ہو جائے.کمی تو انشاء اللہ جس طرح بھی ہوگا نہیں رہنے دیں گے لیکن پریشان نہ کریں تحریک جدید کے ادارہ کو.اٹھارہ لاکھ کی بجائے اٹھارہ لاکھ، پچاس ہزار کے وعدے ہو گئے.لیکن وصولی میں اس وقت تک پچھلے سال سے صرف تمیں پینتیس ہزار کی زیادتی ہے.حالانکہ ڈیڑھ لاکھ کی زیادتی ہونی چاہیے تھی.ایک چیز ، جو بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ کی اور اسی کی عطا ہے، وہ تدریجی ترقی جماعت ہائے احمدیہ پاکستان کی ہے.پہلے سال جب تحریک شروع ہوئی ، 36-1935ء میں تو کل وصولی ایک لاکھ بھی نہیں تھی.ستانوے ہزار ، آٹھ سو اٹھاسی کی وصولی تھی.پھر دس سال کے بعد 45-1944ء میں یہ آمد بڑھ کر تین لاکھ، پینتیس ہزار چھ سو، اڑتیں ہو گئی.پھر 45-1944 ء کا سال ہے، اس میں ایک اور خصوصیت بھی ہے.میں نے ایک دفعہ ان کے رجسٹر منگوائے اور ان کا مطالعہ کیا تو مجھ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ 45-1944ء سے قبل ہندوستان سے باہر تحریک جدید کا کوئی چندہ نہیں تھا ، رجسٹروں میں.دیتے ہوں گے، بعض لوگ احمدی تو ہو گئے تھے.قربانی بھی کرتے ہوں گے.لیکن منظم طور پر ان کی مالی قربانیاں رجسٹروں میں باندھی نہیں گئی ئیں.ایک پیسہ بھی نہیں تھا.اور پھر یہ حال ہے کہ کروڑوں روپے کی آمد تحریک جدید کی مد میں دنیا کے 704
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1980ء سارے ممالک کی آمد اگر اکٹھی کی جائے تو ہو جاتی ہے.اور پاکستان سے باہر جماعت احمد یہ مضبوطی کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی ہے.اور یہاں سے ایک پیسہ بھی باہر بھجوانے کی ضرورت نہیں پڑتی.اگر پڑتی اور قانون فارن ایکسچینج کی تنگی کی وجہ سے پیسہ باہر نہ جانے دیتا تو باہر کے کاموں میں روک پیدا ہو جاتی.مگر قبل اس کے کہ دنیا میں اس قسم کی تنگی ظاہر ہوتی، اللہ تعالی نے جماعت کو اس قسم کی تنگیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسا سامان پیدا کر دیا کہ پاکستان سے باہر کی جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئیں.اور جو ابھی ترقی پذیر ہیں، ان کے لئے بیرون پاکستان کی جماعتیں اپنی ضرورت سے زیادہ قربانی دے رہی ہیں اور اپنے بھائیوں کی امداد کر رہی ہیں جہاں ضرورت پڑے.پھر اس کے بعد آیا 66-1965ء کا سال.اب تحریک کو شروع ہوئے اکتیس سال ہو گئے.یہ اکتیسواں سال ہے.اور اکتیسویں سال میں تحریک جدید کی آمد تین لاکھ ، پچانوے ہزار، چھ سو، انہتر تھی.یعنی 45-1944ء کے تین لاکھ، پینتیس ہزار سے بڑھ کے تین لاکھ، پچانوے ہزار ہوئی.یہ زیادتی بہت کم ہوئی.اس میں ایک تو غالبا اثر ہے، حضرت خلیفة المسیح الثانی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیماری کا بھی شاید.واللہ اعلم.پھر اکتیسویں سال یعنی 1965ء، میری خلافت کے سال سے چودہ سال کے بعد اس کی آمد تین لاکھ، پچانوے سے بڑھ کر چودہ لاکھ، چوالیس ہزار ہوگئی.اللہ تعالیٰ بڑا افضل کرنے والا ہے.اور سال رواں میں جس کی آمد کا رجسٹر بند نہیں ہوا، اٹھارہ لاکھ آپ نے انشاء اللہ تعالی بہر حال ادا کرنے ہیں.یہ یاد رکھیں ، اچھی طرح.اور چونکہ ابھی آمد کا اکاؤنٹ بند نہیں ہوا، اس لئے آئندہ سال کا جو میں اعلان کر رہا ہوں، اس میں بھی ٹارگٹ اٹھارہ لاکھ کا ہی رکھ رہا ہوں.خدا آپ کو توفیق دے کہ آپ سال رواں سے بڑھ کر قربانی دیں، اس مد میں بھی.اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم صحیح طور پر ان اموال کو خرچ کر سکیں.اور بہتر سے بہتر نتیجہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول کر کے ان کا نکالے.باہر کی جماعتوں نے اس قدر ترقی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بعض جگہ اس طرح بارش کی طرح نازل ہورہی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.مثلاً غانا میں ، 1970ء میں، میں نے جو نصرت جہاں آگے بڑھو کی سکیم جاری کی مغربی افریقہ کے چھ ملکوں میں.غانا ، ان میں سے ایک ملک ہے.غانا میں جو تحریک کے چندے نیز دوسرے چندے ہیں، ان کی بات میں نہیں کر رہا.صرف نصرت جہاں کی آمد ، جو ہسپتالوں سے ہوئی ہے، میں اس کی بات کر رہا ہوں.ہسپتالوں کی آمد صرف اس وقت ہوسکتی ہے، جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفادے اور امیر لوگ بھی ہمارے کلینکس (Clinics) کی 705
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1980ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم طرف بھاگے چلے آئیں.ورنہ تو آمد ہوہی نہیں سکتی.یہ ہمارے ہسپتال، کلینکس (Clinics) سے ہاسپیٹل (Hospital) بن گئے.یعنی عمارتیں بنالیں، انہوں نے بڑی بڑی.اور ہمارے ہسپتالوں نے جتنی تعداد میں وہ تھے ، اتنی تعداد میں ہی سکولوں کے اخراجات برداشت کئے.شروع میں بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں.پھر حکومت کی امداد ملنی شروع ہو جاتی ہے.وہاں میں نے جو ڈاکٹر بھیجے ، ( چار ہسپتال ہیں، غانا میں ) چار کا مجموعی سرمایہ، جو میں نے منظور کیا ، بیرون پاکستان کی جماعتوں سے، وہ دو ہزار پونڈ تھا.دو ہزار کو یاد رکھیں، دو ہزار پونڈ.دو ہزار پونڈ ، آج کل ان کی کرنسی گری ہوئی ہے، اس کے لحاظ سے بھی قریباً زیادہ سے زیادہ دس ہزار سیڈیز بنیں گے.اس سے کام شروع کیا ، دعا کے ساتھ ، عاجزی کے ساتھ.جو ڈاکٹر جاتے تھے، ان کو کہتا تھا کہ خدا تعالیٰ سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرنا ور نہ نا کام ہو جاؤ گے.اور اب جب میں چلا ہوں تو میں نے عبدالوہاب بن آدم سے پوچھا کہ سارے اخراجات نکال کے تمہارے پاس ریزرو میں کتنی رقم ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ کام دس ہزار سیڈیز سے شروع ہوا تھا، اب پچیس لاکھ روپے بینک میں ریزور پڑا ہوا ہے.اس واسطے وہاں ہمیں کوئی دقت نہیں.وہ کہتے ہیں، حکومت مطالبہ کرتی ہے کہ مریضوں کے لئے اور وارڈ ز بنا ئیں.تو ہمارے پاس پیسہ ہے، ہم کہتے ہیں، تم ہمیں سیمنٹ دے دو، وہاں کنٹرول پر ہے، سیمنٹ تنگی ہے.میرے جانے کا ان کو یہ بھی فائدہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ برکت دی کہ سو بوری سیمنٹ کی مشکل سے ملتی تھی ، بعض ہماری عمارتیں ، سکولوں، ہسپتالوں کے بعض حصے سال، ڈیڑھ سال سے شروع ہوئے ہوئے ہیں اور وہ ختم ہی نہیں ہو سکے.کیونکہ سیمنٹ نہیں مل رہا.اب انہوں نے کہا ہے، شاید دو ہزار یا اڑھائی ہزار بوری ایک پرمٹ میں سینکشن (Sanction) کر دی ہے، انہوں نے.مجھے موقع ملا، میں نے ان کے وزرا کو سمجھایا.میں نے کہا، کام کر رہے ہیں، تمہاری خدمت کر رہے ہیں، دولت کمانے تو نہیں آئے.اس ملک میں خادم کی حیثیت سے آئے ہیں اور تم جانتے ہو.(وہ سب جانتے ہیں.) تو ہمیں یہ روکیں کیوں ستا رہی ہیں؟ تو اللہ نے فضل کیا ، انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دیں گے.اس وقت جو میرے دورے کا پس منظر ہے، وہ آپ کو بتا رہا ہوں.وہ ہے، تحریک جدید.یعنی جو کام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شروع کیا ، بڑی دعاؤں کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق اسی کو ہم نے پھر آگے چلایا نا.اور اللہ تعالیٰ ہر سال پہلے سے زیادہ برکتیں ڈالتا ہے اور اپنی نعمتوں سے ہمارے گھروں کو بھر دیا.اور بیوقوف ہے وہ احمدی ، جو ان نعمتوں کو دیکھ کے سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے زور 706
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1980ء بازو سے یا اپنی تدبیر سے یا اپنے مال و دولت سے یا اپنے اثر و رسوخ سے ان نعمتوں کو حاصل کیا.قرآن کریم یہ اعلان کر چکا ہے.اور خدا اور قرآن اس کا کلام جو ہے، وہ سچا ہے کہ تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے، وہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ہے، اپنے پاس سے تم کچھ نہیں لے کے آئے.اس واسطے جماعت احمدیہ پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ایک خدا تعالیٰ کی حمد کرنا ، جو میں نے آپ کو ماٹو دیا تھا جلسے پر ، دو، ایک سال ہوئے.جتنی حمد آپ خدا کی کر سکیں ، وہ تھوڑی ہے.خدا اتنا مہربان ہے.خدا تعالیٰ نے یہ منصوبہ بنایا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی کہ آخری زمانہ میں پھر اسلام ایک تنزل کے بعد ساری دنیا پر اپنے حسن اور نور کے ذریعہ غالب آئے گا.اور ایک جماعت پیدا کی جائے گی، اس کام کے لئے.مہدی آئیں گے.مہدی ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاجز عبد کیونکہ قُلْ يُعِبَادِيَ (الزمر: 54) بھی کہا گیا ہے نا.بعض لوگ اس فقرے پہ اعتراض کر سکتے ہیں، باہر والے.اس واسطے میں وضاحت کردوں.محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ایک عاجز عبد، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت کرنے والے.ایک ہے، فلسفہ.وہ تو علیحدہ رہا.میں نے دوسروں کو بھی پڑھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو بھی پڑھا.اور کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا کہ جس قدر پیار اور محبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی ، وہ کسی اور جگہ ہمیں نظر نہیں آتی.اور جو اعلان کیا گیا تھا.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران: 32) اس واسطے اس اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فانی ہونے کی وجہ سے اس قدر پایا کہ کسی اور نے نہیں پایا.اور پھر جو پایا، وہ مخلوق کے لئے وقف کر دیا.ایک جماعت پیدا کر دی، جو عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے مخلوق خدا کی خدمت میں لگی ہوئی ہے.خدا تعالیٰ کی حمد کریں، حمد کریں، اور حمد کرتے ہوئے آپ کی زبانیں نہ تھیں.اور دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ نے اس دنیا کے لئے یہ قانون بنایا ہے کہ تدبیر کو اپنی انتہا تک پہنچاؤ.تو حمد کریں اور دعا کو انتہا تک پہنچا ئیں.اور تدبیر کریں اور تدبیر کو انتہا تک پہنچائیں.تا زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں.707
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1980ء اور زیادہ سے زیادہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والے ہوں.تا زیادہ سے زیادہ ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے.اور زیادہ سے زیادہ اچھے بہتر بتائج ہمارے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے نکالے.یہ وقت آگیا ہے، توحید خالص کے قیام کا.اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے دوبار بڑے ہی پیار کا اظہار کیا.اور اس کی تعبیر میں نے یہ مجھی کہ توحید باری کا وقت آ گیا.اور توحید باری کے قیام کے لئے ہم نے انتہائی قربانیاں دینی ہیں.اور اس کے لئے جماعت کو تیار ہونا چاہیے.دو دفعہ ہوا، یہ واقعہ.میں رات کے وقت آنکھیں بند کر کے توحید کا ورد کر رہا تھا، لا اله الا الله، لا اله الا الله اس حالت میں، میں نے دیکھا کہ يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ( الجمعة: 02) آیا ہے نا.ساری کائنات توحید باری کا ورد کرتی ہے.تو میری آنکھیں بند تھیں اور میں نے دیکھا کہ ساری کائنات کا ورد میرے پاس سے 'Liquid پانی کی شکل میں بہتا ہوا چلا جارہا ہے.آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے.اور میرے کان آواز بھی اس کی سن رہے ہیں.یعنی لا اله الا الله آہستہ آہستہ اپنے دل میں میں کہ رہا تھا.اور یہی آواز کا ئنات کی میرے کان بھی سن رہے تھے اور میری روحانی آنکھیں دیکھ بھی رہی تھیں.اور وہ ایک نہ ختم ہونے والا جس طرح سمندر ہو، ہلکے انگوری رنگ کا.اور وہ صوتی لہریں تھیں، جو آگے بڑھ رہی تھیں.یعنی ایک اہر آتی تھی ، لا اله الا الله کی آگے بڑھ جاتی تھی.ایک دوسری پیچھے، پھر دوسری پیچھے.عجیب کیفیت تھی ، مزے کی.اور اس واسطے میں تو اپنے یقین پر قائم ہو گیا ہوں کہ دہریت، اشتراکیت آگئی نا، جو سب سے بڑی دہریت ہے.اور شرک، جو ہزاروں قسم کا ہے اور جس میں ایک تثلیث بھی ہے.اور خدا تعالیٰ سے دوری، یہ سب زمانے ختم ہو کے تو حید باری کا قیام نوع انسانی کی زندگی میں عنقریب اس صدی کے اندر جیسا کہ میں نے پہلے اعلان کیا ، قائم ہو جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اور اسی چیز کو بتانے کے لئے وہ پیار کا جلوہ، جو میں نے دیکھا.اس پیار کو تو میں بیان نہیں کر سکتا.اس احساس کو میں نے تھوڑا سا بیان کر دیا ہے.708
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 31 اکتوبر 1980ء تو دعائیں کریں اور تدبیر کو انتہا تک پہنچائیں.اور اس تدبیر کا ایک حصہ تحریک جدید ہے.جس کے نئے سال کا میں نے اعلان کیا ہے.اور وہ سارے منصوبے، جو جماعت احمدیہ کے نظام میں بنائے جاتے ہیں، ان کے لئے کام کرنا اور فتنہ اور فساد پیدا کئے بغیر انہیں کامیاب کرنے کی کوشش کرنا اور محبت اور پیار کے ساتھ اپنے دشمن کے دل کو بھی جیتا اور اس بات کا قائل کرنا کہ تم ہمارے دشمن ہو سکتے ہو، ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں.بڑا عظیم مذہب ہے.تفصیل میں کچھ شاید اللہ توفیق دے تو میں بتاؤں گا پھر.اسلام بڑا اثر رکھتا ہے، اگر صحیح طور پر پیش کیا جائے.اس بات کو منوانے میں تو میں کامیاب ہو گیا، پریس کو تو.ایک تصویر کے نیچے انہوں نے صرف تین لفظ لکھے، Hatred For None And Love For All تین لفظ نہیں بنتے ، زیادہ بنتے ہیں، چار، پانچ.کہ کسی سے نفرت نہیں پیدا کی ، اسلام نے ہمارے دلوں میں.اور ہر انسان کے لئے ، ہر شے کے لئے محبت پیدا کی.اور یہ چیز تو ان کے لئے انہونی ہے نا.کیونکہ دنیا میں ایسی قوم بھی ہے، جو کسی سے بھی نفرت نہیں کرتی.آپ تاریخ دیکھیں ، اخبار پڑھیں، آپ ہر شخص کو کسی نہ کسی سے نفرت کرتے پائیں گے.جماعت احمدیہ کا حقیقی فرد حقیقی میں کہہ رہا ہوں ، یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ حقیقی نہیں ، جماعت احمدیہ کا ہر حقیقی فردا یا ہے، جو کسی سے نفرت نہیں کرتا، ہر ایک سے پیار کرتا اور اس کا خیر خواہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.اور جو ہمارے بھائی ہیں، ان کو.اسلام کی اس حقیقت کے سمجھنے کی تو فیق عطا کرے.آمین.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 709
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 31اکتوبر 1980ء جو انقلاب بپا ہورہا ہے، وہ مطالبہ کرتا ہے کہ صحیح اسلام دنیا کے سامنے پیش کیا جائے خطاب فرمودہ 31 اکتوبر 1980 ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.26 جون کو میں ربوہ سے سفر پر روانہ ہوا تھا اور 126اکتوبرکو واپسی ہوئی.جہاں تک ربوہ سے جانے ، واپس آنے کا سوال ہے، پورے چار ماہ ہوئے.ان چار ماہ میں تین براعظموں میں زمانہ کی آنکھ نے جو دیکھا، وہ تو ایک لمبی داستان ہے، آہستہ آہستہ بیان کروں گا.یہاں آتے ہی ابھی کوفت دور نہیں ہوئی تھی کہ نئی ذمہ داریاں آگئیں.آج جمعہ، پھر انصار اللہ کا اجتماع، پھر چند دن کے بعد ایک جمعہ اور خدام الاحمدیہ کا اجتماع.یہ کام 31 اکتوبر سے 09 نومبر تک رہیں گے.پھر سلسلہ دوسری نوعیت کے کام کا شروع ہو جائے گا.اس کے بعد شاید کچھ آرام کا بھی موقع ملے.اگر نہ ملے تو بھی حرج نہیں.کیونکہ جب تک میں کام میں لگارہتا ہوں، مجھے کوفت کا احساس نہیں ہوتا.جب کام کم ہو جاتا ہے، اس وقت تکان اپنا سر اٹھاتی ہے.یہ جو کچھ ہو گیا، ان چار مہینوں میں، اس کا ایک پس منظر بھی ہے.پس منظر جمعہ کے خطبہ میں، میں نے بتایا تحریک جدید کا.کیونکہ اسی تسلسل میں اس زمانہ میں ہم داخل ہوئے اور اس میں سے گزرے.مختلف واقعات کا ایک اور سلسلہ ہے، اس وقت میں ان کے متعلق کچھ بتاؤں گا.اور پھر انصار اللہ کی جو ذمہ داریاں ہیں، چند ایک کا ان میں سے ذکر کروں گا.سپین میں 70ء میں بھی میں گیا.میڈرڈ گئے، وہاں سے قرطبہ گئے.میڈرڈ کے قریب ایک قصبہ ہے، طلیطلہ.کچھ عرصہ طلیطلہ مسلمان حکومت کا دارلخلافہ بھی رہا.یہ تقریباً 70 میل کے فاصلے پر ہے، میڈرڈ سے.( صحیح فاصلہ اس وقت ذہن میں نہیں کم و بیش اتنا فاصلہ ہے.) قرطبہ بہت بڑا شہر ہے.اس وقت بھی تھا.بہت بڑے شہروں میں سے تھا.آبادی اتنی نہیں تھی.دار الحکومت تھا، اسلامی حکومت کا.کہتے ہیں، چھ سو مساجد اس شہر میں تھیں.اور ایک وہ مسجد بھی، جو دنیا میں سب سے بڑی مسجد ہے.جس مسجد کے مسقف حصہ میں چالیس ہزار نمازی نماز پڑھ سکتا ہے.اتنی بڑی مسجد ہے اور یہ مسجد آباد تھی ، دن کے اوقات میں بھی اور رات کے اوقات میں بھی.اور ایک ایک رات میں کوئی تھیں، چالیس من تیل اس مسجد میں روشنی 711
خطاب فرمودہ 31 اکتوبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا.نیز اس شہر کے گردو نواح میں کئی ہزار مساجد تھیں.پھر غرناطہ گئے.وہاں عجائبات روحانی و مادی کا ایک شاندار مجموعہ ہے.ایک محل ہے وہاں، جو بہت سے معجزات اپنے اندر رکھتا ہے.عقل اور مہارت ، جو اللہ تعالیٰ سے اسی کے حضور جھک کے اور اس سے دعاؤں کے ذریعہ سے مسلمانوں نے حاصل کی ، اس کے نقوش ہی نہیں بلکہ حقیقتیں بھی ان جگہوں پر ، جو پانچ سو سال سے کھنڈر کی شکل میں پڑی ہوئی ہیں، آج بھی نظر آتی ہیں.جو گائیڈ (Guide) ہم نے لیا، وہ کہنے لگا، یہاں سب سے بڑا معجزہ پانی ہے.اس پہاڑی پر پانی نہیں تھا.جب مسلمان بادشاہ نے اپنے سب سے بڑے انجینئر سے یہ کہا کہ میں یہاں محل بنوانا چاہتا ہوں تو ساتھ یہ بھی کہا کہ یہاں پانی کی ضرورت ہے، اس کا بھی انتظام کرو.پانی کا کوئی چھوٹا سا چشمہ بھی نہیں تھا.اور پہاڑ کی چوٹی اتنی اونچی نہیں کہ جہاں ہر وقت برف رہے اور برف کا پانی چشموں کی صورت میں میسر ہو.اس پہاڑی کے ایک طرف وادی کے اس پار اور پہاڑیاں اٹھتی ہیں، جو بہت بلند ہیں.جو قریباً سارا سال برف سے ڈھکی رہتی ہیں.برف جب پہاڑیوں پر ہو تو پچھلتی بھی ہے اور پانی زمین جذب کرتی ہے اور پھر وہ زمین دوز نالیوں میں ہمیں میل دور، پچاس میل دور سینکڑوں میل دور چشمے کی شکل میں باہر نکل آتا ہے.کبھی میدانوں میں وہ چشمے بہہ نکلتے ہیں، پہاڑیوں پر نکلتے ہیں اور آبشار میں بن جاتی ہیں.مختلف نظارے پہاڑوں پر ہمیں نظر آتے ہیں.آپ میں سے بہتوں نے بھی دیکھے ہوں گے.میں نے بھی دیکھے ہیں.بڑی اونچائیوں سے آبشار میں گرتی ہیں.میدانوں میں بھی چشمے نکلتے ہیں.انجینئر ز نے ان برفانی پہاڑیوں کا پانی، جو زمین دوز اور بڑے راجباہ کی شکل میں تھا، اس کو تلاش کیا اور زمین کے اندر ہی اندر پانی اپنی سطح کو قائم رکھتا ہے.) پہاڑی کی چوٹی پہ جہاں محل بنانا تھا لے جا کے اس کو باہر نکال لیا اور وہاں ایک نہر جاری ہو گئی.خدا تعالیٰ کے قانون کے عین مطابق.اور خدا تعالیٰ نے جو انسان کو طاقت عطا کی ہے، اس کی عجیب شان نظر آئی.خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ظاہر ہوئے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کے متعلق جو یہ کہا گیا کہ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثیہ: 14) عین اس کے مطابق زمین کے اندر خدا تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لئے جو پانی کو پیدا کیا تھا، انسانی عقل خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا اور اپنی خدا داد قوت اور استعداد کے نتیجہ میں وہ زمین دوز پانی کو 712
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 31اکتوبر 1980ء پہاڑ کی چوٹی پر لے آئے.آج کی مہذب ترقی یافتہ چاند پر اترنے والی نسل انسانی ڈر کے مارے اس کو چھیڑتے نہیں، یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا اصول انہوں نے استعمال کیا.ڈراس بات کا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اسے کھول دیں اور پھر اس کو بنانہ سکیں.مسلمان کی یہ عظمت ،مسلمان کی عاجزی اور اس کی دعا اور اس کی تدبیر کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے قائم کی.اس محل کی تعریف یہ ہے کہ بادشاہ وقت نے بڑے شوق سے بڑی دولت خرچ کر کے اسے تیار کروایا.کہتے ہیں، تین ہزار سنگ تراش کئی سال کام کرتے رہے، اس کو بنانے پر.اور فصیل اس کی ایک وسیع خطہ ارض کو گھیرے ہوئے ہے.درودیوار اور گنبدوں، محرابوں کو بہت خوبصورت سجایا گیا.جب بادشاہ وقت اپنے درباریوں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ہو کر اس محل کی طرف روانہ ہوئے تو شیطان نے دل میں وسوسہ پیدا کیا اور انانیت نے جوش مارا، میں اتنا بڑا بادشاہ کئی ہزار دنیا سے آئے ہوئے ماہرین فن یہاں جمع ہوئے ، میری خاطر.میری خاطر انہوں نے اتنے سال کام کیا اور اتنی عظیم چیز تیار ہوگئی.ساتویں عجوبہ سے بھی بڑھ کر ایک جو بہ.ایک چشمہ اندر ہی اندر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا دیا.بغیر پھول اور پھل اور گھاس کے تو وہ لوگ رہ ہی نہیں سکتے تھے.ان کو قدرت کے مناظر بڑے پسندیدہ تھے."میں" میں نے جوش مارا تو خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اسے جھنجوڑا.یہ میں ، میں کیا لگائی ہے؟ جیسا کہ میں نے خطبہ جمعہ میں بتایا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بھی نعمت تمہارے پاس ہے، تمہارے شامل حال ہے، وہ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ہے.تمہارے زور بازو سے یا تدبیر سے یا دولت سے نہیں ملی تمہیں.اس کو بھی جھنجوڑا.وہ سخت پریشان ہوا اور ابھی جب وہ دروازے سے باہر ہی تھے، انہوں نے گھوڑے سے چھلانگ ماری اور زمین پر سجدہ کر دیا اور کہنے لگے، واپس چلو.میرے رہنے کے لئے نہیں، یہ حل.انجینئر ز سے کہا کہ سارے نقوش مٹاؤ اور ان در و دیوار اور چھتوں پر صفات باری لکھو.خوبصورتی کے لئے.اور لاغالب الا الله اس محل کے حسن کا مرکزی نقطہ بناؤ.چاروں طرف دیوار پر یوں چل رہی ہے، پٹی.لاغالب الا الله، لا غالب الا الله، لا غالب الا الله پھر اس میں بیضوی شکل میں اور گول شکلوں میں بھی اس کے علاوہ القدرة الله، الحكم لله، العزة لله یہ ساری خوبصورتی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے لئے تھی.دیوار میں بھی اپنی خاموشی سے خدا کی حمد کے ترانے گارہی ہیں.پھر کئی سال مزید لگے اور سنگ تراش نے سنگ میں سے یہ حروف 713
خطاب فرمودہ 31اکتوبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ابھارے ہیں.دو دو تین تین سوت تراشا ہے، سنگ کو.بعض حصوں پر تو زمانے نے اثر کیا ہے.لیکن بعض حصے ایسے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ کل لا غالب الا الله یہاں کندہ کیا گیا، اس پتھر پر.اس محل میں ایک گنبد ایسا ہے، جس میں غار ثور میں جو مکڑی نے جالا بنا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کے لئے.خدا تعالیٰ نے عظیم نشان دکھایا تھا کہ دشمن سر پر آ گیا ہے تو مکڑی کے ذریعے سے وہ جال بن دیا، کبوتر آیا، اس نے گھونسلا بنا دیا.اس حقیقت کو ایک گنبد میں ظاہر کیا ہے.نہایت ہی خوبصورت طریق پر.مکڑی کا جالا نہیں لیکن پتھر کو کچھ اس طرح تراشا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مکڑی نے جالا بن دیا اور اس کے ساتھ کبوتر کے گھونسلے بنادیے.یہ پیار اسلام کے ساتھ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور محمد کے رب کے ساتھ.یہ شان وہاں نظر آئی.دل بے چین ہو گیا.70ء کی بات میں کر رہا ہوں.خدا تعالی دعا کی تو فیق دیتا ہے.اتنی سخت بے چینی اور کرب پیدا ہوا کہ میں ساری رات خدا کے حضور دعا کرتا رہا کہ خدایا! یا وہ شان تھی اور یا اس ملک میں ایک مسلمان بھی باقی نہیں رہا.اپنی غفلتوں، کوتاہیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں.اور میں نے کہا ، اے خدا رحم کر اس قوم پر.اسلام کی روشنی اور اسلام کا حسن پھر انہیں دیکھا.اور اسلام کے جھنڈے تلے انہیں جمع کرنے کے سامان پیدا کر صبح کی اذان کے وقت مجھے خدا تعالیٰ نے بڑے پیار سے یہ کہا.ومن يتوكل على الله فهو حسبه جو لوگ خدا پر توکل کرتے ہیں، ان کے لئے اللہ کافی ہے.(نعرے) ومن يتوكل على الله فهو حسبه ان الله بالغ امره.خدا تعالیٰ بڑی طاقت والا ہے.اور جو چاہتا ہے، وہ کر دیتا ہے.کوئی اس کو روک تو نہیں سکتا نا.قدجعل الله لكل شئى قدرًا لیکن ہر چیز کے لئے اس نے ایک وقت مقرر کیا ہے.ہوگا تو سہی یہ، یعنی تیری دعا تو قبول کی جاتی ہے، لیکن ہو گا اپنے وقت پر.مجھے تسلی ہوگئی.1970ء میں تعصب کا یہ حال تھا کہ طلیطلہ، جس کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے، وہاں ایک چھوٹی سی مسجد، یہ جو ہمارا انصاراللہ کا ہال ہے، اس سے بھی چھوٹی ٹوٹی پھوٹی ، ایک مسجد گردو غبار سے اٹی ہوئی دروازے کھلے، کوئی دیکھ بھال بھی نہیں اس کی ہورہی تھی، اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا مکان.میں نے کرم الہی 714
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطاب فرموده 31اکتوبر 1980ء صاحب ظفر کو کہا کہ ایک درخواست دیتے ہیں حکومت کو کہ میں سال کے لیے ہمیں یہاں نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں.وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ مانگتے کیوں نہیں کہ ہمیں دے دیں یہ مسجد ؟ میں نے کہا نہیں.میں نے کہا، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے گا، اپنی مسجدیں بنانے کی.اس واسطے مانگنا نہیں.وہ کہنے لگے، پھر سو سال کے لئے نماز پڑھنے کی اجازت مانگیں.میں نے کہا، کیا با تیں کرتے ہو، سو سال؟ بیس سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ انقلاب بپا کرے گا.( نعرے) چنانچہ ہم نے جب درخواست دی، جنرل فرینکو اس وقت زنده تھے، بڑے اچھے انسان، انہوں نے کہا، ان کے وزراء نے کہا، پوری کیبنٹ (Cabinet) نے کہا کہ ہم اجازت دے دیں گے، نماز پڑھنے کی یہاں.لیکن دفتری کاروائی کرنی ہوتی ہے، چند ہفتوں تک آپ کو اجازت مل جائے گی.میں نے بات کو اور پکا کرنے کے لئے مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو سپین بھیجا اور کہا، آپ لاء منسٹر ( Law Minister ) سے ملیں اور ان سے بات کریں.اس نے کہا، آپ خواہ مخواہ گھبراتے ہیں، ہو جائے گا سارا کام، بالکل فکر نہ کریں.لیکن جب شروع میں مسلمانوں کو مغلوب کرنے کے بعد وہاں عیسائیوں کی حکومت بنی تو اس دستور میں یہ تھا کہ مسلمانوں کی جو جائیداد ہے، اس کے متعلق کوئی فیصلہ بھی لاٹ پادری ( کارڈ نیل Cardinal) کی منشاء کے بغیر نہیں کیا جاسکتا.ساری حکومت تیار دینے کو اور پادری صاحب نے کہا نہیں دینی.وقت نہیں آیا تھا، ابھی تو نہیں ملی ہمیں.خیر ہم نے کہا ٹھیک ہے.اور ، دس سال گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی قرب قرطبہ میں مسجد بنانے کی.ہاں ایک اور چیز بتا دوں.اس وقت میری نگاہ میں دو جگہ کا انتخاب کیا، جہاں ہماری مسجد بن سکتی ہے، عوام کی طبیعت کے لحاظ سے.ایک طلیطلہ، وہاں تھوڑی دیر کے لئے گئے اور طلیطلہ کے عوام نے ہم سے بڑے پیار کا اظہار کیا.اور ایک قرطبہ، جس کے مکین ہنس مکھ، کوئی غصہ نہیں، کوئی پرانی عداوت نہیں، کوئی تعصب نہیں، بڑے پیار سے ملتے تھے.ایسا پیار کہ قرطبہ کی مسجد دیکھ کر نکلے تو سڑک پار کتابوں کی دوکان تھی ، ہم وہاں چلے گئے.میرا خیال تھا کہ کوئی انگریزی کی کتاب ملے تو تازہ کریں، اپنا علم.کوئی ہیں، پچیس منٹ کے بعد جب باہر نکلے تو جس دروازے سے مسجد کے ہم نکلے تھے، وہاں دومیاں بیوی اور دو، اڑھائی سال کا بچہ ، جو انہوں نے اٹھایا ہوا تھا، کھڑے ہوئے تھے.بچے نے ہاتھ ہلانے شروع کر دیئے.مجھے بڑا پیار آیا.ہماری موٹر کا منہ دوسری طرف تھا.میں نے ڈرائیور کو کہا کہ یہ موڑ کے اس طرف لے آؤ، جہاں وہ بچہ کھڑا ہوا ہے.جب وہاں گئے تو اس کا باپ کہنے لگا، آپ اس دوکان کے اندر جب داخل ہوئے ہیں، اس وقت اس بچے نے ضد کی کہ جب تک یہ باہر نہیں نکلتے ، میں یہاں سے نہیں بلوں گا 715
خطاب فرمودہ 31 اکتوبر 1980ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اور ہیں، چھپیں منٹ اس نے ماں باپ کو ملنے نہیں دیا.صرف اس لیے کہ جب ہم با ہر نکلیں تو ہمیں دیکھ کر وہ ہاتھ ہلائے.دو، اڑھائی سال کا بچہ، کچھ اس کو پتہ نہیں لیکن اس کے خدا کو تو پتہ تھا.پیار کیا ، اس کو.بہت پیارا لگا.اور وہ بھی پیار کرتا تھا.شیشہ چڑھا ہوا تھا، منصورہ بیگم اس کو دیکھ رہی تھیں تو شیشے کو باہر سے اس بچہ نے پیار کیا.اور اس قسم کے تھے، وہ لوگ.سارا جائزہ لے کے میں نے کہا، مسجد یہاں بنے گی.انشاء اللہ.اور اب دس سال گذرے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی.قریب ڈیڑھ، دو گھماؤں زمین ہم نے وہاں خرید لی.اور خریدنے سے پہلے میں نے انہیں کہا کہ لوکل آبادی سے اور مرکز سے یہ تحریر لو کہ ہمیں مسجد بنانے کی اجازت دیں گے.تو مقامی انتظامیہ نے بھی اور مرکزی حکومت نے بھی تحریری اجازت دی کہ یہاں تم مسجد بنا سکتے ہو.پھر ہم نے وہ زمین خرید لی.یہ ہے، الله غالب على امره اور وقت مقدر تھا.وہ ہمارے مبلغ صاحب تو کہہ رہے تھے ، سو سال تک دوسروں کی مساجد میں نماز پڑھیں گے.میں نے کہا تھا نہیں، انقلاب عظیم بڑی جلدی بپا ہونے والے ہیں.دس سال کے بعد ہمیں اجازت مل گئی.اور مسجد کے متعلق باقی باتیں انصار اللہ کے یا خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں بتاؤں گا.یہ تو بیک گراؤنڈ (Back ground) آج میں بتا رہا ہوں نا.ایک اور واقعہ اس عرصہ میں ہوا.اللہ تعالیٰ اپنے جانثاروں کا امتحان بھی لیتا ہے.1974ء کا واقعہ، جو سب جانتے ہیں، حکومت وقت نے یہ سمجھا تھا کہ جماعت احمدیہ کوقتل کر کے سڑک کے پرے پھینک دیا اس کا لاشہ.مگر اس وقت بہت سی باتیں اللہ تعالیٰ نے بتائیں.ان میں سے ایک ہی تھی.وسع مکانک کہ مہمان تو پہلے سے بہت زیادہ آتے رہیں گے، ان کا انتظام کرو.انا کفیناک المستهزئين یہ تو استہزا کا منصوبہ بنارہے ہیں، اس کے لئے میں کافی ہوں، تمہارے لئے.( نعرے) جہاں تک استہزا کا منصوبہ تھا.وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ 716 (ال عمران: 55)
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطاب فرموده 31اکتوبر 1980ء کا نظارہ دنیا نے دیکھ لیا.اور جہاں تک آنے والوں کا نظارہ تھا، آج دیکھ لو.وسع مکانک چھ سال کے اندر جماعت تعداد کے لحاظ سے بھی ، پاکستان میں نیز بیرونی ممالک میں کہیں سے کہیں پہنچ گئی.(نعرے) یہ بھی ایک پس منظر ہے، واقعات بعد میں بتاؤں گا.ایک اور پس منظر یورپ میں فن لینڈ کے علاوہ سیکنڈے نیویا کے تین ملک ہیں.ڈنمارک، سویڈن اور ناروے.ناروے میں سب سے بڑی جماعت ہے.اور وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی ، جہاں نماز پڑھی جاسکے، بچوں کی تربیت و تعلیم کا انتظام ہو سکے.بڑی مشکل تھی.طبیعت میں پریشانی تھی.1978ء میں میرے وہاں جانے سے پہلے ناروے کے پرانے شہر کے ساتھ جو ایک سیٹلائٹ ٹاؤن بن رہا تھا، نئی میونسپلٹی وہاں بنا دیتے ہیں، زمین دینے کا میئر نے وعدہ بھی کیا اور مکر گیا.جب میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا ، ایک مکان مل رہا تھا، کوئی پندرہ یا میں لاکھ روپے کا.تو میں نے جماعت کو کہا ، سروے کروا کے لے لو.اور یہ خیال ہی نہیں کیا کہ پاکستان سے تو ہم پیسہ بھی نہیں بھیج سکتے.یورپ میں یا بیرون پاکستان کسی اور جگہ اتنا روپیہ بھی پڑا ہے یا نہیں؟ اس کے بعد لندن آئے.میں نے جائزہ لیا تو میں نے فون کیا ان کو کہ اس عمارت کی خرید کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں، اس واسطے چھوڑو، اس کو.یہ 1978ء کی بات ہے.اور اس سال جس مسجد اور مشن ہاؤس کا میں نے افتتاح کیا، ناروے میں، یہ پہلے مکان سے ڈیرھ گنا بڑا مکان ہے.نہایت اچھی لوکیلٹی (Locality) شرفاء کا محلہ، جہاں کوئی نعرہ بازی بھی نہیں ہوتی.دنیا کے ہر ملک میں نعرہ باز بھی ہیں، اچھے لوگ بھی ہیں، برے لوگ بھی ہیں.نہایت شریف لوگوں کا وہ علاقہ ہے.اور تین منزلہ وہ مکان ہے اور بڑا اچھا بنا ہوا.مرمت طلب تھا، پر انا مکان تھا.تقریباً تیں، پینتیس لاکھ کی اس کے لیے ضرورت پڑی تھی.پچھلے سال خریدا گیا تھا اور اس سال میں نے اس کا افتتاح کیا ہے.اور انگلستان، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ، ان ملکوں میں اتنا پیسہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہم اس کی قیمت ادا کر دیں گے.اور وہاں کے میئر مجھے کہنے لگے ، آپ نے بڑا خرچ کر دیا.میں نے کہا، خرچ تو بڑا نہیں.کیونکہ ہماری ضرورت کے مطابق ہے.کئی سواحمدی تھا، ان کے بچوں کی تربیت نہیں ہو رہی تھی ، نمازیں اکٹھے پڑھنے کا انتظام نہیں تھا.اللہ تعالیٰ کے انعامات، جو بارش کی طرح برستے ہیں، ان تک وہ پہنچتے نہیں تھے.ان باتوں سے تقویت ایمان ہوتی ہے.کوئی جگہ ہی نہیں تھی ، آپس میں مل بیٹھنے کی.یہاں بھی آپ مساجد بنایا کریں.کیونکہ جوگھروں میں پڑھتے ہیں نا نماز باجماعت، بعض جب چھوٹی سی رنجش ہو جائے آپس میں تو ایک دوسرے کے گھر نماز پڑھنے کے لئے بھی نہیں آتے.بڑی بری بات 717
خطاب فرمودہ 31 اکتوبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ہے.لیکن میں کہتا ہوں چھوٹی چھوٹی باتوں میں رنجش تو ہو ہی جاتی ہے انسان کی ، پھر بعد میں تو بہ کر لیتا ہے.کیوں نہیں، تم خدا کا گھر بناتے ؟ جس پر کسی انسان کا کوئی حق نہیں.اللہ کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ نے کہا ہے، ہر موحد ، جو خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے اس کے دروازے کھلے ہیں.چاہے وہ موحد، موحدین کے فرقے جو ہیں عیسائیت میں، اس سے تعلق رکھتا ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو.انسان کا حق ہی نہیں کہ وہ دروازے بند کرے، خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کے لئے کسی کے اوپر.مساجد بنا ئیں.مساجد میں ایک اور پس منظر تو وہ نہیں لیکن چھوٹا سا ٹکڑا ہے ایک واقعہ کا.نائیجیریا میں ایک جگہ ہے، الارو (ILARO).اور اس کا فاصلہ ہے، لیگوس دار الخلافہ سے تقریباً 80 میل.اور اس کی آبادی ہے، کم بیش تھیں، پینتیس ہزار.اور جماعت احمد یہ ہزاروں کی تعداد میں ہے، وہاں.بڑی فعال جماعت، نڈر جماعت اور انہوں نے اپنے خرچ سے ایک وین yan لی ہے.اس کے اوپر لکھا ہوا ہے، جماعت احمدیہ کی تبلیغی کار.اور چار، پانچ انہوں نے لیے ہوئے ہیں سکوٹر اور وہ تبلیغ کرتے رہتے ہیں.تفصیل میں بعد میں بتاؤں گا.انہوں نے چار مسجدیں پہلے بنائی ہوئی تھیں، مرکز سے ایک دھیلہ مانگے بغیر.اور اب ایک جامع مسجد بنائی، پانچویں.اور خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر.اور جماعت کو کہا کہ حضرت صاحب آ رہے ہیں.حضرت صاحب، ہم چاہتے ہیں، افتتاح کریں.میں نے کہا، ٹھیک ہے.ہم وہاں گئے تو کئی ہزار ہوں گے، احمدی مردوزن اور بچے اور بے شمار دوسرے لوگ آئے ہوئے.اور بڑا ان کا اثر و رسوخ ہے، جماعت کا بھی.یعنی اس الارو (ILARO) کے احمدیوں کا بھی.اور ویسے جماعت احمدیہ کا بڑا اثر بڑھ گیا ہے.اور وہاں ہم نے جمعہ پڑھا اور بڑی خوشی ہوئی ان سے مل کے.بات جو میں اس وقت مختصراً بتانا چاہتا ہوں کہ افریقہ میں سینکڑوں مساجد احمد یہ جماعت بنا چکی ہے.اور ایک دھیلہ بھی انہوں نے مرکز سے نہیں لیا، مسجد کے لئے.اور ان کے دماغ میں یہ بات ہے کہ خدا کے گھر کے لیے مانگنا نہیں، بناؤ.بعض دفعہ چھ، چھ مہینے بناتے رہتے ہیں.یعنی اگر زیادہ امیر نہیں اور مسجد بنانا چاہتے ہیں تو ہر مہینے پیسہ کچھ دے کہ بنیادیں بنادیں گے، پھر کھڑ کیوں تک وہ اٹھا دیں گے دیواریں، پھر اور لے جائیں گے، پھر چھ مہینے، آٹھ مہینے کے بعد وہ مسجد تیار ہو جائے گی.پھر اندر کا وہ کام کرتے رہیں گے، نہ ادھر دیکھیں گے، نہ ادھر دیکھیں گے.صرف آسمان کی طرف دیکھتے ہیں.ان کی نقل کریں.بنا ئیں، یہاں مسجدیں اور مرکز سے ایک دھیلہ نہ مانگیں.اس بات میں آپ کا ان کا مقابلہ کروا دیا، آج میں نے.وہ آیا کرتے ہیں جلسے پر.وہ آپ سے پوچھیں گے؟ ان کو میں کہہ دوں گا کہ پتہ کریں، آپ سے.میں جب کہ پ نے کتنی مسجد میں بنائیں ؟ وہ آپ کو بتائیں گے کہ انہوں نے کتنی مسجدیں بنائیں؟ 718
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرموده 31 اکتوبر 1980ء یہ جو حالات دیکھے اصولی طور پر اس سے ہمیں یہ تاثر ملا کہ جماعت کو ایثار پیشہ ذہین مبلغین کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ذہن دیا ہے اور ایثار بھی دیا ہے، اخلاص بھی دیا ہے، لیکن ایثار اور اخلاص کے بعض پہلو پوری طرح ابھی چھکے نہیں، پالش نہیں ہوئی انہیں.پالش کریں ان کو.بچے دیں جامعہ کے لئے لیکن ذہین بچے.ایک وقت میں جس شخص کا بچہ بالکل جاہل خرد ماغ ہوتا تھا اور میٹرک میں دو نمبر لے کے وہ پاس ہو جاتا تھا، وہ خدا تعالیٰ پر احسان جتانے کے لئے آ کے جامعہ میں داخل کر دیتا تھا.اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی چھوڑ کے چلے گئے.بڑی بدمزگیاں ہو گئی.اب میں نے یہ قانون بنایا ہے کہ اصل تو مجھے چاہیں، فسٹ ڈویژن کے بچے.لیکن سیکنڈ ڈویژن والوں کو ایک حد تک برداشت کر لیں گے.تھرڈ ڈویژن والوں کو نہیں لیں گے.اب اس سال بھی میں آیا ہوں تو میرے سامنے ایک فہرست میں بچے تھرڈ ڈویژن والے پیش کر دیئے گئے کہ بچے تھوڑے آئے ہیں، اس لیے تھرڈ ڈویژن کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.میں نے او پر تو نہیں لکھا اس کاغذ کے لیکن میرے ذہن میں یہ آیا کہ اگر ایک بھی نہ آتا اور یہ تین آتے تو میں کلاس نہ جاری کرتا.ان تین بچوں کو میں نے نہیں لینا.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے فائدے کے لئے یہ حکم دیا کہ جس رکابی میں بال آیا ہو، باریک تیر ، جو انگلی اگر پھر یں تو انگلی محسوس بھی نہیں کرے گی ، اس میں کھانا نہ کھاؤ.کیونکہ وہاں بکٹیریا پرورش پاتا ہے.تو انسان کو انفیکشن (Infection) بیماری ہو جائے گی.خدا کے جس رسول نے آپ کا اتنا خیال رکھا، آپ اپنا ٹوٹا ہوا بیٹا اس کے حضور پیش کرنے کی کس طرح جرات کرتے ہیں؟ تو اول تو مجھے فسٹ ڈویژن کے چاہیں.مولوی احمد خان صاحب مرحوم کا بڑا پیارا بچہ ہے، نسیم مہدی.اس نے فسٹ ڈویژن بھی بڑی اونچی پاس کر لی.اس نے کہیں اپنے باپ کو کہا کہ میں چلا جاتا ہوں کالج میں اور بی اے کرنے کے بعد آجاؤں.زندگی وقف کی ہوئی تھی اس نے دل سے.وہ اس کو لے کے میرے پاس آگئے.مجھے کہنے لگے کہ کیا خیال ہے آپ کا ، وہ بڑا سخت مخلص انسان تھا اور بڑی اطاعت کرنے والا ، کہ میں اس کو پہلے بی اے کروا کے نہ لے آؤں جامعہ کی طرف ؟ میں نے کہا، نہیں ابھی جاؤ اور جامعہ میں داخل کراؤ.انہوں نے جا کے جامعہ میں داخل کروا دیا.جامعہ میں پڑھ کے اب وہ زیورک میں ہیں ، خدا کے فضل سے.آپ دعا بھی کریں، اس نوجوان کے لئے.اتنا اچھا کام کر رہا ہے کہ بہتوں کے لئے قابل رشک.اور جذبہ ہے تبلیغ کا.ابھی ایک سکیم پر عمل کرنے کو کہا گیا تھا، کثرت سے Folders شائع کرنے کی سب سے آگے وہ نکل گیا.یعنی جو نیکی کی بات، جو مفید بات، جو تبلیغ کی بات میں بتا تا ہوں، کوئی آہستہ سے اس کو لیتے ہیں اور آگے چلتے ہیں، کوئی جلدی سے لیتا ہے.وہ تو چھلانگ مار کے لیتا اور کہیں کا کہیں نکل گیا.اس ٹائپ کا ہے، وہ.ویسے ہی چاہئیں.719
خطاب فرمودہ 31اکتوبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم دنیا میں ایک انقلاب بپا ہورہا ہے.یہ انقلاب دنیا میں جو بپا ہورہا ہے ، وہ اسلام کے حق میں ہو رہا ہے.یہ انقلاب آپ سے مطالبہ کرتا ہے کہ صحیح اسلام اس کے سامنے پیش کیا جائے.اسلام، جس کے معنی ہیں ، سلامتی کے.جس کے معنی ہیں، امن کے.جس کے معنی ہیں ، حقوق انسانی کی ادائیگی کے.خواہ وہ انسان دہریہ اور خدا کو گالیاں دینے والا ہی کیوں نہ ہو.قرآن کریم نے ہر چیز کو کھول کے بیان کر دیا.اسلامی تعلیم کا مطالبہ کرتا ہے، یہ انقلاب.میں جب پیش کرتا ہوں، بعض دفعہ کہہ دیتا ہوں، جو تعلیم پیش کر رہا ہوں تم میں جرات نہیں ہوگی کہ کہو کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں یا ہم یہ تسلیم نہیں کرتے.کسی کو آج تک جرات نہیں ہوئی کہنے کی کہ نہیں یہ خراب ہے ، ہم نہیں مانتے.اور قسم کے اعتراض کر جاتے ہیں، یہ کہ دیتے ہیں کہ کہاں، کون سے مسلمان ان پر عمل کر رہے ہیں؟ میں کہتا ہوں، میں تمہارے پاس قرآن پیش کر رہا ہوں.میں تمہارے سامنے نمونہ سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کو پیش نہیں کرتا.یہ قرآن ہے، اس کی تعلیم دیکھو.وہ نمونہ ہے، کامل نمونہ، اس کے نقوش پر چلو.جو اس کے نقش قدم پر ٹھیک طرح چلا ، وہ ایک حد تک تمہارے لیے اسوہ بن گیا.جو نہیں چلا ، وہ تمہارے لیے اسوہ نہیں ہے.اس کی طرف کیوں دیکھتے ہو؟ پس منظر کی ایک آدھ بات دوسری بھی میں نے تھوڑی سی بتادی ہے.لیکن میں نے بتایا ہے کہ یہ تو لمبا سلسلہ ہے.اور اس کا کافی حصہ میں انصار اللہ سے ایک اور گفتگو میں، ایک بار اور آپ سے باتیں کرنی ہیں میں نے ، اس موقع پر کچھ بتاؤں گا.پھر خدام الاحمدیہ میں دو یا تین تقاریر ہیں، یہ ابھی نہیں میں کہہ سکتا، اس میں، میں بتاؤں گا.انصار تو خدام الاحمدیہ میں نہیں آتے.لیکن ہر ضلع اپنے پانچ ، دس نمائندے جو ان کو جا کر بتائیں کہ خدام الاحمدیہ کہ اجتماع میں، میں نے کیا کہا، وہ ضرور یہاں رکھیں یا بھیجیں.بہر حال وہ موجود رہنے چاہیں.کیونکہ بہت سی اہم باتیں کرنے کا ارادہ ہے میرا.ور اللہ تو فیق دیتا ہے.دعا کریں آپ کہ اللہ مجھے توفیق دے اور آپ کو باتیں سنے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 13 جولا ئی 1981 ء) 720
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء اتنا آگے بڑھو کہ دنیا قائل ہو جائے کہ ہر میدان میں احمدی ہم سے آگے نکل گیا خطاب فرمود و 02 نومبر 1980ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.و بعض بہت ہی اہم باتیں میں خدام، انصار اور لجنہ یعنی جماعت سے کرنا چاہتا ہوں.اس لیے ایسی باتوں کا ذکر میں نے خدام الاحمدیہ کے اجتماع تک ملتوی کیا ہے.اور میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہر ضلع کے انصار کے نمائندے خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہونے چاہئیں.لیکن لجنہ میں، میں علیحدہ تقریر میں وہ باتیں مختصر بیان کر دوں گا.لجنہ کا اجتماع خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے ساتھ ہوتا ہے، ان سے علیحدہ باتیں ہو جائیں گی.بہت سی تو ایسی باتیں ہیں، جن کا میری ذات سے تعلق بظا ہر نظر آتا ہے.وہ تو مجھے حجاب ہوگا، شاید میں نہ بیان کروں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ میری ذات سے کسی چیز کا بھی تعلق نہیں.اس لیے کہ میں ایک نہایت ہی عاجز انسان ہوں.اور جو کچھ بھی اس وقت دنیا میں ہو رہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی سچی توحید کے قیام کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو دلوں میں گاڑنے کے لئے ہو رہا ہے.پہلے میں افریقہ کے ان دو ملکوں کو لیتا ہوں، جن میں ، میں گیا.اس سفر میں بہت پھرا، ہمیں تمہیں ہزار میل کا غالبا سفر کیا، میں نے ان دنوں میں.پھر بھی ہر جگہ نہیں جاسکا.مغربی افریقہ کے بہت سے ملکوں میں دل کرتا تھا کہ جاؤں.جہاں نصرت جہاں، جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری کی گئی تھی ، کام کر رہی ہے.صرف نائیجیریا اور غا نا میں جاسکا.نائیجیریا میں جو انقلاب عظیم ذہنی طور پر بپا ہو رہا ہے، اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے.ایک مثال میں لیتا ہوں، ظاہر کی.جس وقت ہم وہاں پہنچے، یعنی ہوائی جہاز سے اتر کے آئے تو اس قدر وہاں اللہ کے فضل سے اور اللہ ہی کے نام کو بلند کرنے کے لئے ہجوم جمع تھا کہ میرے اندازے سے بھی کہیں زیادہ تھا.کیونکہ دس سال پہلے میں اس ہوائی اڈے پر اترا تھا اور اس وقت وہاں چند سو سے زیادہ احمدی نہیں تھے.اور اس بار باوجو درات ہو جانے کے ہزار ہا احمدی نمائندے ( ہر جگہ کے نمائندے حاضر بھی نہیں تھے.کیونکہ بہت بڑا ملک ہے، وہ.وہاں پر موجود تھے.اور بڑا جوش اور جذبہ تھا، ان میں.اور 721
خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم دیکھنے والی آنکھ نے اور رپورٹ کرنے والی قسم نے یہ بیان کیا، یعنی وہ آنکھ اور وہ قلم ، جس کا احمدیت سے تعلق نہیں ، ادھر ادھر رپورٹیں جاتی رہتی ہیں نا کہ اس قدرز بر دست وہ استقبال ہوا کہ آج تک نائیجیریا میں کسی سربراہ مملکت کا بھی ویسا استقبال نہیں ہوا.( نعرے) یہ جو کچھ بھی ہوا، وہ مرزا ناصر احمد کے لئے نہیں ہوا.بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے ایک ادنیٰ خادم کے لئے ہوا.(نعرے) وہاں ایک اور واقعہ بھی ہوا.ہم ابادان گئے.ابادان مسلمانوں کا شہر ہے، بہت بڑا 20, 15 لاکھ کی آبادی ہے، غالباً.بہت پرانا مسلم آبادی کا شہر ہے.وہاں بڑی جماعت ہے.ایک نئی ، بہت بڑی مسجد انہوں نے بنائی ہے.وہاں ہم صبح گئے ، شام کو واپس آئے.بہت دوست وہاں جمع تھے اور ایسے بھی تھے، جو ابھی احمدیت میں داخل نہیں ہوئے.( کل کو ہو جائیں گے.انشاء اللہ ) راستے میں بارش ہوئی اور بارش میں، اندھیرے میں ہم سفر کرتے ہوئے ، جس وقت لیگوس، جو ان کا دارالخلافہ ہے، جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے، وہاں پہنچے تو شہر کی سرحدوں کے قریب ایک خطر ناک قسم کا حادثہ ہوا، ہماری کار کے ساتھ.کار تو بالکل ٹوٹ پھوٹ گئی اور ہمارا یہ حال تھا کہ کچھ دیر کے بعد جب دروازہ کھول کے مجھ سے کسی نے پوچھا کہ چوٹ تو نہیں آئی.تو میں نے کہا، پہلے کھڑ کی کھولو کہ میں باہر نکل کر یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ میری کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی.خیر اللہ نے بڑا فضل کیا.جب ہوٹل پہنچے تو ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کو میں نے کہا، باقی ہڈیاں تو ٹھیک ہیں، ریڑھ کی ہڈی کو پہلے بھی گھوڑے سے گر کے تکلیف ہوئی تھی اور لمبی چلی تھی ، اس کو دیکھیں.ریڑھ کی ہڈی میں تو نہیں تکلیف ؟ تو انہوں نے جائزہ لیا اور تسلی دلائی کہ وہ ٹھیک ہے.اس وقت میں نے اپنے رب سے یہ عہد کیا کہ اس نے اس خادم کی جان بچائی ہے، محض اپنے فضل اور رحم کے ساتھ.نہ کہ میری کسی خوبی کے نتیجہ میں.اس لئے میں اپنے پروگرام میں اس حادثہ کی وجہ سے ایک سیکنڈ کی بھی تبدیلی نہیں کروں گا.اگر چہ کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی تھی لیکن سر سے لے کر کمر کے نچلے حصے تک مسلز (Muscles) میں اتنی شدید درد کی تکلیف تھی کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.ڈاکٹروں نے جو دوائی بتائی ، اس نے درد کو کم کیا اور ہم نے اپنے پروگرام کو جاری رکھا.جن کو نہیں پتا تھا حادثہ کا، ان کو اندازہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ کس حادثے سے ہم گزر کے آئے ہیں.تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نائیجیر یاوہ ملک ہے، جہاں آج سے دس سال پہلے غلط فہمیوں اور عدم علم کے نتیجہ میں بہت کی بدظنیاں اور بدرندگیاں پیدا ہوگئی تھیں.جماعت احمدیہ کے خلاف مسلم نارتھ ، بہت بڑا علاقہ نایجیریا کے شمال میں ہے، جوقریب قریباً سو فیصد مسلمان آبادی پر مشتمل ہے.اس وقت تو غالباً 722
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء نو صوبے تھے، پھر بعد میں وہ بارہ بنے اور اب انہیں صوبے کر دیئے گئے ہیں ، سارے نائیجیریا کے.تو بہت سے صوبے ہیں اور بہت سا علاقہ ایسا ہے، جہاں عثمان فودی، جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے ایک صدی پہلے اس علاقہ کے مجدد ہو کر آئے.دنیوی سیاست میں تو نہیں لیکن ویسے دوحصوں میں ان کے دو بیٹوں کی اولا د کا اتنا اثر ہے کہ وہاں کے صوبہ کا گورنر بھی ان سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہیں کرتا.ان کے چھوٹے بیٹے کی جو اولاد ہے، اس میں تو تعصب نہیں.انہیں رائل بلڈ ( Royal Blood ( شاہی خون کے نام سے پکارا جاتا ہے، ان کی زبان میں.ان میں بعض احمدی بڑے دلیر قسم کے ہو چکے ہیں، عثمان فودی کی اولاد میں سے.اور دوسرے صوبے میں یہ لوگ پڑھے لکھے ہیں.اتفاق یہ ہے کہ عثمان خودی کے وہ صاحبزادے، جن کا نام عبد الرحمن تھا، وہ بڑے عالم اور تفقہ فی الدین رکھنے والے تھے.بہت سی عربی میں کتابیں لکھی ہیں.میں نے بھی ان میں سے بعض پڑھی ہیں.ان کی اولاد میں سے جو اس وقت ہیں وہاں ، وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں.لیکن متعصب بڑے ہیں.ان کے علاقے میں تو کوئی احمدی گھس ہی نہیں سکتا تھا.اتنی مخالفت تھی.لیکن اس زمانے میں بھی ان کا داما داحمدی تھا اور چھپا ہوا تھا.لیکن 1970ء میں جب یہ نصرت جہاں کا منصوبہ جاری ہوا اور وہاں سکول کھلا تو ہمارے قائم کردہ ایک سکول میں ایک وزیر آئے اور وہاں ان کے منہ سے کچھ باتیں احمدیت کی تعریف میں نکلیں کہ ہمارے احمدی حیران ہوئے کہ یہ اس خاندان سے تعلق رکھنے والا ان کا داماد ہے اور یہ ایسی باتیں کیسے کہہ گیا، احمدیت کے حق میں؟ کوئی دوست ان کو ملے تو وہ کہنے لگے، میں تو چھپا ہوا احمدی ہوں.میں تو سکول کے زمانے سے احمدی ہوں.اور میرے جیسے چار، پانچ اور بھی ہیں، یہاں احمدی چھپے ہوئے ، جو بڑے بڑے عہدوں پر ہیں، اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے.بہر حال یہ اس زمانے کی بات ہے.پھر خدا تعالیٰ نے توفیق دی اور وہاں دو سکول جماعت احمدیہ نے نصرت جہاں سکیم کے ماتحت کھولے اور ہمارے ٹیچر وہاں گئے اور اثر ہوا اور جو عدم علم اور جہالت کی وجہ سے خیالات تھے، ان میں ایک تبدیلی آنی شروع ہوئی.بہت سے ہونسا کے رہنے والے باہر ادھر ادھر گئے ہوئے تھے ، وہ بھی احمدی ہوئے.پھر واپس آئے.حالات بدلتے رہتے ہیں، ملکوں میں.ان کے حالات بھی بدلے اور اب یہ حال ہے.ایک میں مثال دوں گا، یوں تو بہت سی مثالیں ہیں.میں یہاں سے جب جانے لگا دورے پر تو نائیجریا سے ایک خط ملا، جس کا میں نے کہا، جواب دے دیں.پھر سفر میں مجھے خط ملا اور خط یہ تھا ، ( یہ تبدیلی، جس کو میں ذہنی انقلاب کہتا ہوں ، اس سے اس کا پتہ لگتا ہے.انہوں نے لکھا کہ فلاں صوبے میں آبادی کی نسبت 723
خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کچھ اس طرح ہے کہ ایک تہائی مسلمان ہیں، ایک تہائی عیسائی ہیں اور ایک تہائی بت پرست ہیں.عیسائی پادری بت پرست لوگوں میں مشنری کام کر رہے ہیں، انہیں عیسائی بنارہے ہیں اور مسلمانوں میں کوئی ایک بھی فرقہ نہیں ہے، جو ان کا مقابلہ کر سکے.اس واسطے اگر آپ اس صوبے کو عیسائی صوبہ بننے سے بچانا چاہتے ہیں تو فوری طور پر یہاں پانچ ہائر سیکنڈری سکول (انٹرمیڈیٹ کالج ) کھولیں.کیونکہ صرف جماعت احمد یہ ہے، جو عیسائی مشنری کا مقابلہ کر سکتی ہے.سواتنا عظیم انقلاب بر پا ہو گیا ہے وہاں.گھانا میں بڑے مسلمان ہیں، تعداد کے لحاظ سے.لیکن منتشر اور پراگندہ.جن کا کوئی وقار اور کوئی مقام نہیں.اور جماعت نے وہاں کام شروع کیا اور پیار کے ساتھ ان کے دل جیتنے شروع کیے.دو جگہوں کا مجھے علم ہے، جہاں شروع میں جب احمدی ہوئے تو ان کو اس قسم کے اسی طرح دکھ اٹھانے پڑے، جس طرح بعض مقامات پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں احمدیت کی ابتداء میں جو احمدی اکا دکا ہو جاتا تھا، گاؤں میں ان کا حقہ پانی بند کر کے ان کو دکھ پہنچائے جاتے تھے، ہمارے ملک میں.اور وہ ثابت قدم رہے.ایک ان میں سے دوا کا علاقہ ہے.گھانا کے شمال میں ابتداء میں وہاں چند آدمی ، چند خاندان احمدی ہوئے ، انہوں نے بڑی مصیبتیں جھلیں ، اسلام کی خاطر.جسے ہم احمدیت کہتے ہیں.اور اب وہاں پندرہ میں ہزار پر مشتمل احمدی جماعت قائم ہو چکی ہے.اور اخلاق کا رعب ہے، ہنستے ہوئے، مسکراتے ہوئے ، جب آپ ملاقات کرتے ہیں ، وہ اپنا اثر کرتی ہے.لوگوں کے کام آنا، لوگوں کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا، ان کی عزت کرنا، یہ اپنا اثر رکھتا ہے.اب حالت اتنی بدل گئی ہے کہ بارشوں کی وجہ سے رستے ٹوٹے ہوئے تھے، میں وہاں جا نہیں سکا.کئی سو میل کا فاصلہ ہے ”اکر ا دارالخلافہ سے.ان کا ایک چھوٹا سا وفد اڑھائی سو افراد پرمشتمل وہاں سے آیا، اکر امیں ملا.اور سالٹ پانڈا گلے روز میں گیا، جمعہ کے لئے تو وہاں وہ بھی شریک ہوئے.یہ بیچ میں ایک بات میں کر جاؤں، سالٹ پانڈ کی.مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک خراب سے ٹی وی کے اوپر آپ نے کچھ جھلکیاں فلم کی دیکھی ہیں، رات کو.ٹی وی سیٹ اگر اچھا ہو تو اس فلم کی آواز بھی بڑی صاف ہے.مجھے بتایا گیا ہے، صاف آواز نہیں تھی.آواز صاف ہے.ویسے یہ جو یہاں ٹی وی تھا، اس کی آواز صاف نہیں تھی.فلم کی آواز صاف ہے.وہاں ہم نے بہت محتاط اندازہ لگایا تھا، پچیس ہزار کے قریب احمدی جمعہ میں شامل تھے.مردوزن.(نعرے) افریقنز.(ہماری جو جماعت ہے وہاں ) ان کا اندازہ تھا، چالیس اور پچاس ہزار لیکن یہ جو جمعہ ہم نے پڑھا ہے، پرسوں، آپ نے دیکھا ہو گا مسجد کا صحن بھی بھرا 724
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء ہوا تھا، اندر کا حصہ بھی بھرا ہوا تھا.آپ نے جو بیٹھے ہوئے تھے، وہ نہیں دیکھا، جو میں نے دیکھا.میں صفیں درست کرواتا ہوں.یہ بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.آپ " صفیں درست کرواتے تھے ، ایسے مجمع میں.تو ہر جمعہ میں مجھے کچھ وقت انتظار کرنا پڑتا ہے.کیونکہ فاصلے فاصلے پر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں، دوست.درمیان میں خالی جگہ نہیں چھوڑی جاسکتی.پیچھے سے نمازی آگے آتا ہے، تب صف درست ہوتی ہے.پرسوں جب کھڑے ہوئے ہیں تو میرے خیال میں ایک جگہ بھی خالی نہیں تھی.یعنی بیٹھے ہوئے تھے، کندھے سے کندھا جوڑ کے.اور میرا اندازہ ہے کہ یہ بارہ، چودہ، پندرہ ہزار آدمی تو ہوگا، جمعہ میں.اگر یہ بارہ ہزار بھی تھا تو ان کی بات صحیح ہے، وہاں چالیس، پچاس ہزار تھا.(نعرے) 22 یہاں غانا میں بھی تعداد بڑی ہو گئی ہے.ان کا اندازہ اور میرا خیال درست ہے کہ پانچ لاکھ اور دس لاکھ کے درمیان احمدی غانا میں ہو گئے ہیں.جو چھوٹا سا ملک ہے، جس کی کل آبادی ستر ، اسی لاکھ ہے.وہاں ان کا بڑا اثر ہے.” وا (wa) سے جو دوست آئے ، جن کا میں ذکر کر رہا تھا ، وہ کہنے لگے کہ وہاں کے عیسائی عیسائیت سے مایوس ہو چکے ہیں.اور وہ سارے میرے وہاں پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے.اور اپنے طور پر استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے.تو ایک بڑی تبدیلی پیدا ہورہی ہے.اور وہ ملک اس نتیجہ پہ پہنچ چکا ہے، جس کا وہاں اظہار بھی کیا گیا کہ جماعت احمد یہ اس مضبوطی سے مستحکم ہو چکی ہے کہ اسے اب نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.چنانچہ مسلمانوں کو بوجہ اس کے کہ وہ منتشر تھے اور ان میں اتحاد نہیں تھا، کثرت کے باوجود ان کو وہاں کے لوگ نظر انداز کر رہے تھے.اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں تھا.لیکن اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ احمدی مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کریں گے.افریقہ اور یورپ کینیڈا اور امریکہ، جہاں میں گیا ہوں، ایک بنیادی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ یہ سارے ممالک اور ان کی آبادیاں، جو کچھ ان کے پاس ہے، (مذہب اور اصول تہذیب واخلاق) اس سے مایوس ہوتی چلی جارہی ہیں اور اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں.ان کی مشکل یہ ہے کہ صحیح اسلام ان کے سامنے پیش نہیں کیا جارہا.اسلام ایک عظیم مذہب ہے.اسلام نام ہے، سلامتی کا.اسلام نام ہے، امن کا.اسلام نام ہے، حقوق کو قائم کرنے اور ان کی حفاظت کا.اسلام نام ہے، نہ صرف حقوق انسانی کی حفاظت بلکہ حقوق اشیائے کائنات کی حفاظت کا.کیونکہ اعلان کیا گیا رحمة للعالمین ، اسلام نام ہے، مرد اور عورت کی مساوات اور برابری کا نبی کریم صلی اللہ علیہوسلم اپنی استعدادی طاقتوں کے لحاظ سے، اپنی اخلاقی رفعتوں 725
خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم کے لحاظ سے، اپنی روحانی عظمتوں کے لحاظ سے ایک فرد واحد ہیں کہ جس کے مقابلے میں کوئی اور انسان نہ اور نہ کسی نے پیش کیا ، نہ کوئی کر سکتا ہے، نہ کر سکے گا.یہ اپنی جگہ درست، لیکن آپ بشر بھی ہیں، انسان بھی ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کہا کہ دنیا میں یہ اعلان کر دو کہ بشر ہونے کے لحاظ سے میں ہر انسان کے برابر ہوں.کسی انسان، مرد ہو یا عورت، اس میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں:.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف: 111) اور یہ اتنا عظیم اعلان ہے کہ جس وقت میں نے 1970ء میں نا نا ہی میں نیچی مان کے مقام پر دس ہزار کے مجمع میں اور بہت سارے اس وقت آئے ہوئے تھے ، بت پرست وغیرہ بھی یہ اعلان کیا.ان کا لاٹ پادری بھی آیا ہوا تھا وہاں اور کہنے والوں نے بتایا کہ وہ اس طرح اچھلا ، جس طرح کسی نے اسے سوئی چھودی ہے.میں نے کہا، دیکھو، جو سب سے بڑا تھا، اس کے منہ سے خدا نے یہ اعلان کروایا انسان کو مخاطب کر کے کہ انہیں کہہ دو، بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.تو وہ جو بہر حال اس سے جو نئیر ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، وہ اور ان کے ماننے والے تم پر برتری کا دعویٰ نہیں کر سکتے.اس پر خوشی کی زبر دست لہر دوڑی افریقنز میں اور وہ پادری پریشان ہوئے کہ ہماری برتری کو خاک میں ملا دیا گیا ہے.حقیقت یہی ہے.اسلام نے اس اعلان کے ساتھ دنیا کا دل جیتا ہے، دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے.بلال، جو اپنے آقاؤں کا ، جو حاکم وقت تھے، مکہ میں غلام تھا.ان کے کوڑے کھایا کرتا تھا، اس بلال کو زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک پہنچا دیا کہ خلیفہ وقت بھی اسے مخاطب کر کے کہتے تھے، سیدنا بلال“ کہیں دنیا میں ایسی مثال نہیں ملتی.ہمارے ہاں بھی ہندؤوں کی روایتیں چلی آ رہی ہیں کہ یہ پٹھان ہے اور یہ وہ ہے اور یہ وہ ہے.احمدیت اور اسلام میں پٹھان اٹھان کوئی نہیں.سارے مسلمان ہیں.ہاں، إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ (الحجرات: 14) نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جو زیادہ عزت پائے گا، دنیا کی نگاہ میں وہی زیادہ معزز بن جائے گا.خدا تعالیٰ کی نگاہ سے گر کے نہ تمہارا امغل ہونا ، نہ تمہارا سید ہونا ، نہ تمہارا پٹھان ہونا ، نہ تمہارا چوہدری ہونا، نہ راجپوت ہونا قطعاً کوئی معنی نہیں رکھتا.اگر تم خدا کی بات نہیں مانتے ، اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار نہیں تو میں سچ کہتا ہوں کہ دنیا بھی تمہیں جو تیاں مارے گی اور تمہاری کوئی عزت نہیں کرے گی.726
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء آج وہی عزت پائے گا، جو قرآن کریم کی عزت کرنے والا ہو گا.آج وہی عزت پائے گا، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو اس مضبوطی سے پکڑے گا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس سے اس دامن کو چھڑوا نہیں سکی گی.آج وہی عزت پائے گا، جو خدائے واحد و یگانہ کی وحدانیت کے ترانے گا تا ہوا اپنی زندگی کے دن گزارے گا.خدا تعالیٰ خالق کل، مالک کل، ساری صفات حسنہ اس میں پائی جاتی ہیں.ایسی عظیم ہستی ہے کہ انسان اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا.وہ پیار کرنا چاہتا ہے، اپنے بندوں سے.اس نے پیدا کیا ہے، بندوں کو اس لیے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 57) کہ اس کی صفات کی جھلک اس کے بندوں میں ہو.وہ رنگ چڑھے، وہ حسن ان میں پیدا ہو، وہ نوران کی زندگیوں سے جھلکے، جس کی زندگی میں اللہ کا نور چمک رہا ہو، جس کی زندگی پرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کے نقوش پائے جاتے ہوں.کون ہے، دنیا میں جو اس کی عزت نہیں کرے گا؟ لیکن تم اپنے زور بازو سے کسی سے بھی عزت نہیں کروا سکتے.یہ دنیا کی عزتیں، سیاری جھوٹی عزتیں ہیں.یہ خوشامدوں میں لپٹی ہوئی دنیا کی عزتیں، یہ دروغ گوئی میں لپٹی ہوئی دنیا کی عزتیں، عارضی ہیں.آج جو شاہی تخت پر بیٹھا ہے، کل وہ آپ کو دار پر نظر آتا ہے.یہ تاریخ کے افسانے نہیں ہیں.یہ آج کے واقعات ہیں.اس زندگی کے.سب بڑھائیاں اسلام نے ختم کر دی.میں تو انگریزی میں کہا کرتا ہوں ، Islam is a great leveller سب اونچے سر جو تھے، ان کو ایک برابر کر کے کھڑا کر دیا.سب بھائی بھائی برابر.پریس والے علیحدہ بھی ملتے ہیں، بعض دفعہ.پھر وہ پڑ جاتے ہیں، تفصیل میں.اپنے متعلق بتلائیں کیا مقام ہے، آپ کا ؟ میں نے کہا، میرا امتقام ! ایک میرا مقام ہے، ہدایت دینے کا، ایک میرا مقام ہے، ہر احمدی میرا بھائی ہے.اور ہر احمدی ( یہ حقیقت ہے ) سمجھدار ہے.وہ آتا ہے، میرے ساتھ بیٹھتا ہے، بالکل بے تکلف باتیں کرتا ہے.عورتیں خط لکھ دیتی ہیں مجھ کو، اپنے باپ کو وہ خط نہیں لکھ سکتیں، جو مجھے لکھ دیتی ہیں.گجرات سے ایک دفعہ خط آگیا کہ میرا باپ زبردستی شادی کرنا چاہتا ہے، میں خلیفہ وقت کو اپیل کرتی ہوں.وہ خط میں نے بند بعد میں کیا، پہلے آدمی کو بلایا اور اس کو وہاں بھیج دیا کہ باپ کو سمجھاؤ کہ تمہیں جس چیز کی خدا تعالیٰ نے اجازت نہیں دی تم کیسے جرات کر سکتے ہو، وہ کرنے کی؟ بچی کی مرضی کے بغیر شادی نہیں ہوگی مخلص تھا مگر غلطی کر رہا تھا.کہا نہیں ہوگی.727
خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم اب امریکہ سے (ساری دنیا میں یہ حال ہے) جلسے پر ایک شادی شدہ بچی آئی.اس کے خاوند کا مسئلہ تھا، اس کا نہیں تھا.لیکن تھا بڑا بھیا تک سا.احمدیت سے پہلے کی زندگی سے متعلق.اس کی بھی نہیں، اس کے خاوند کی زندگی سے تعلق رکھتا تھا.اپنے ملک میں اپنے مزاج کے احمدیوں کے سامنے بات کرنے کی جرات نہیں کی، اس نے.مجھے کہنے لگی، علیحدہ وقت دیں.میں نے کہا، جلسہ ہے، مشغولیت بڑی ہے، اگر وقت ملا تو دے سکوں گا.(آکٹھی مل رہی تھیں، وہ ساری امریکن احمدی مستورات ) اگر نہ دے سکا وقت تو مجھے لکھ کے دے دینا اورتسلی رکھو کسی کو نہیں بتاؤں گا.وہ مجھے اس نے لکھ دیا اور کسی کو اس نے نہیں بتایا.بڑی اہم تھی بات.پھر میں نے اس کے امیر کے بلا کے یہ بتائے بغیر کہ ایک واقعہ ہوا ہے، کہا، تمہارے ملک کے حالات ایسے ہیں، اس قسم کے واقعات ہونے لگ جائیں گے، آئندہ.تو تمہیں میں مسئلہ بتا دیتا ہوں، اسلام کا.اگر تمہارے سامنے ایسی کوئی بات آئے تو اس کے مطابق حل کر لیا کرنا.اس طرح اس کو سمجھایا.تو کتنا احسان ہے، اللہ کا.آتے ہیں، بے تکلف بیٹھتے ہیں ، باتیں کرتے ہیں.آدھی تکلیف تو ویسے دور ہو جاتی ہے.اور ساری پھر اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے.مجھ میں تو یہ طاقت نہیں ہے کہ سب احمدی جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، میں ان کی تکالیف دور کر دوں.لیکن میرے خدا میں یہ طاقت ہے اور اس نے یہ اعلان کیا کہ خلافت کو قائم اس لیے کیا جاتا ہے تا کہ دکھوں کو دور کیا جائے.(نعرہ) اور عجیب عجیب معجزانہ واقعات ہو جاتے ہیں.ایک لنڈن کا واقعہ سن لیں.یعنی مجھ میں تو طاقت ہی نہیں، میں تو غریب مسکین انسان ہوں.ایک شخص کے دو، تین مہینے کے بعد بچہ ہونا تھا.مجھے کہنے لگا نام رکھ دیں، ایک لڑکے کا، ایک لڑکی کا.میں نے کہا، میں تو صرف لڑکے کا ہی نام رکھ دیتا ہوں.دو مہینے پہلے انگلستان کی ساری لیڈی ڈاکٹر ز نے کہا کہ تیری بیوی کے پیٹ میں لڑکی ہے.اس کے دوستوں نے کہا، جا کے حضرت صاحب سے کہو، نام بدلیں.اس نے کہا، میں نے کوئی نہیں کہنا.دو مہینے اصرار کرتی رہیں لیڈی ڈاکٹرز کہ پیٹ میں لڑکی ہے.بہت سارے ٹیسٹ نکلے ہیں، ان کا دعوی ہے کہ وہ صحیح معلوم کر لیتی ہیں.اور ہمارے وہاں ہوتے ہوئے بچہ پیدا ہوا اور وہ لڑکا تھا.ساری لیڈی ڈاکٹروں کی جو تشخیص تھی اور جو علم تھا ، وہ دھرے کا دھرا رہ گیا.ایک اور شخص نے مجھے کہا، اس نے نام پوچھا، میں نے ایک نام لڑکے کا لکھ کے لفافے میں بند کر کے اس کو دے دیا.اور میں نے کہا، جب بچہ ہو، اس لفافے کو کھولنا اور نام رکھ دینا.جب اس نے لفافہ کھولا تو اس میں ایک ہی نام تھا اور وہ لڑکے کا تھا.اور وہ لڑکا اس کے ہوا تھا.تو اب میں کیا چیز ہوں.یعنی اگر میں ان 728
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء چیزوں کو اپنی طرف منسوب کروں تو سب سے بڑا دنیا کا پاگل میں ہوں گا.مگر خدا کا فضل ہے، میں پاگل نہیں ہوں.میں اپنے مقام کو ابھی جانتا ہوں اور اپنے خدا کے مقام کو بھی پہچانتا ہوں.( نعرے) مجھ سے کینیڈا میں پوچھا ایک شخص نے کہ اسلام میں وحی اور الہام کا کیا تصور ہے؟ ان لوگوں کی عادت ہے کہ جو بھی بتاؤ کہتے ہیں کہ بائبل میں بھی یہی لکھا ہوا ہے.میرے ساتھ تو چالاکیاں کرنی مشکل ہیں.میں نے کہا، پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ بائبل میں وحی اور الہام کا کیا تصور ہے؟ اس نے بتایا، بائبل کیا کہتی ہے.پھر میں نے اس کو بتایا کہ اسلام میں وحی اور الہام کا یہ تصور ہے.اور میں تمہیں مثال دیتا ہوں، 1974ء کی.جب یہ کہا گیا کہ سوال و جواب ہوں گے اور اسی وقت آپ نے جواب دینا ہوگا تو صدرانجمن احمدیہ نے لکھا کہ نوے سال پرلٹر پچر پھیلا ہوا ہے.سینکڑوں کتابیں ہیں اور امام جماعت احمدیہ کا یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ ساری کتب ان کو زبانی یاد ہیں.اس واسطے ایک دن پہلے آپ سوال کریں اور اگلے دن جواب مل جائے گا.انہوں نے کہا، نہیں یہی ہوگا.طبعا بڑی اہم ذمہ داری تھی اور پریشانی.ساری رات میں نے خدا سے دعا کی ، ایک منٹ نہیں سویا ، دعا کرتارہا.صبح کی اذان کے وقت مجھے آواز آئی ، بڑی پیاری، "2 وسع مکانک، انا كفيناك المستهزئين ہمارے مہمانوں کی فکر کرو، وہ تو بڑھتے ہی رہیں گے ، تعداد میں.اب دیکھا نا ساری قناتیں اٹھانی پڑیں آج.وسع مکانک مہمان بڑھتے چلے جائیں گے، ان کی فکر کرو، اپنے مکانوں میں وسعت پیدا کرو، استہزاء کا منصوبہ ضرور بنایا ہے، انہوں نے.مگر اس کے لیے ہم کافی ہیں.کہتے ہیں ، 52 گھنٹے 10 منٹ میرے پر جرح کی اور (52) گھنٹے ، دس منٹ میں نے خدا کے فرشتوں کو اپنے پہلو پہ کھڑا پایا.( نعرے) بعض اور باتیں بتائیں، میں نے ان کو بعض لوگوں نے کہا، آپ ابھی لکھا دیں ہمیں.میں نے کہا لکھ لو.وہ کہتا کہ یہ کیسے پتہ لگے، یہ خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات ہے؟ میں نے کہا، مستقبل بتاتا ہے.جو بات کہی جائے ، اگر وہ پوری ہو جائے ، اس کا مطلب ہے ، خدا نے بتائی.خدا کے علاوہ تو آئندہ کی بات کوئی نہیں بتا سکتا.علام الغیوب صرف خدا تعالیٰ کی ہستی ہے.پھر میں نے مزید بتایا.میں نے کہا، میں بچوں سے پوچھتا ہوں بعض دفعہ کہ کوئی کچی خواب آئی.چھوٹے چھوٹے زمینداروں کے بچے دیہات میں رہنے والے، ماحول ان کا اسی قسم کا ہے، وہ کہتے 729
خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ہیں، جی ہمیں خواب آئی بچی.کیا خواب آئی چی؟ جی بھینس کے بچہ ہونے والا تھا اور خدا نے ہمیں خواب دکھائی کہ کٹی ہوئے گی.تے ویہہ (20) دن بعد کٹی ہوگئی.چھوٹی سی بات ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے اس بچے کے ساتھ بچے کی زبان میں بات کرنی ہے.اس بچے کے ساتھ ابن خلدون کے فلسفے میں گفتگو نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ.بچہ سمجھ ہی نہیں سکتا.تو خدا تعالیٰ نے پہلے دن بچپن میں یہ سبق دینا ہے کہ میں ہوں اور علام الغیوب ہوں اور طاقتوں والا ہوں اور وہ اس کو تربیت دیتا ہے.آپ لوگ تو تربیت میں سست ہو گئے.خدا تعالیٰ تو سست نہیں ہوا.وہ ہماری جماعت کی تربیت کرتا چلا جاتا ہے.بعض باتیں انصار اللہ کے متعلق ہیں.انصار اللہ کی ذمہ داریاں ہیں، زیادہ.یعنی خاندان ہے، شادی ہوئی ہوئی ہے، بیوی ہے، بچے ہیں، اکثر یہاں وہی بیٹھے ہوں گے، قرآن کریم نے کہا ہے:.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم 07) پہلی ذمہ داری انسان پر اس کے نفس کی ہے.اور دوسرے نمبر پر اس پر اس کے خاندان کی ہے.خدا کہتا ہے، خود اپنے نفسوں کو اور اپنے خاندانوں کو خدا تعالیٰ کے غضب سے بچانے کی کوشش کرو.اور قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنے اور بچانے کی تدابیر خود بیان کی ہیں.بڑی عظیم کتاب ہے، یہ.صراط مستقیم جو ہے، وہ خود بتایا ہمیں.ہر آدمی کے لئے بعض پہلو اسی کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں.دعائیں سکھائیں.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ارِنَا مَنَاسِكَنَا ہم سے تعلق رکھنے والے جو پہلو ہیں، وہ ہم پرا جا گر کر.تا کہ وہ رستہ، جو تیری رضا کی طرف لے جانے والا ہے، اس تک میں اور میرا خاندان پہنچے.اگر جماعت احمدیہ کے سارے خاندان خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں تو جماعت احمد یہ دنیا کے لئے ایک مثالی جماعت بن جاتی ہے.آج دنیا اسلام کی طرف متوجہ بھی ہے اور نمونہ مانگتی ہے.ہر سفر میں ہر موقع پر پریس کانفرنس میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ہمارے سامنے نمونہ پیش کیا جائے.اسلام کی تعلیم پر کون عمل کر رہا ہے اور ثمرات اسلام کیا ہیں؟ یعنی اسلام پر ایمان لا کر کیا حاصل ہوتا 730
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء ہے اور کیا حاصل ہو رہا ہے؟ دنیاوی لحاظ سے عقل مند لوگ ہیں.یہ ان کا حق ہے کہ یہ پوچھیں.میں کھل کے بات کرتا ہوں.میں تو خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں، کوئی چیز چھپا کر نہیں رکھتا.میرے لیے دنیاوی مصلحت کوئی نہیں.میرے لیے سچ بولنا ایک ہی مصلحت ہے.کھل کے کہتا ہوں کہ دیکھو، اگر ہم تمہارے سامنے کوئی ایسی چیز پیش کریں، جو اس سے اچھی ہو، جو تمہارے پاس موجود ہے، تم لے لو گے، اسے.عقل کا یہ تقاضا ہے.لیکن اگر ہم تمہیں کنونس (Convince) نہ کر سکیں ، اگر ہم تمہیں باور نہ کروا سکیں کہ جو ہم پیش کر رہے ہیں، وہ بہتر ہے، اس چیز سے، جو تمہارے پاس ہے.تو تم نہیں لو گے.لیکن اگر باور کروانے میں ہم کامیاب ہو جائیں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ تم نہ ہو تم چھوڑ دو گے، اس کو ، جو تمہارے پاس ہے.کیونکہ تم قائل ہو گئے ، اس بات کے کہ جو تمہارے پاس ہے، وہ اچھی نہیں.جو ہم دے رہے ہیں ، وہ اچھی ہے.اور میں نے اس دفعہ تحدی سے ان کو کہا کہ دیکھو تم نے سائنس میں بڑی ترقی کی.اور ایک پہلو یہ ہے کہ تم نے ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم اور دوسرے مہلک ہتھیاروں کے پہاڑ جمع کر لیے.صرف یہی نہیں.تم نے ایسے مسائل پیدا کر لئے اپنی زندگی میں اور وہ بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں، جن مسائل کاحل تمہارے پاس نہیں.THE PROBLEMS YOU HAVENT GOT THE SOLUTION OF وہ PILE UP کر لیے ہیں.اور پہاڑ بن رہے ہیں، ایسے مسائل کے.اور میں تمہیں بتا تا ہوں، ایک دن عنقریب آنے والا ہے، جب یہ مسائل اتنے بڑھ جائیں گے، جن کا حل تمہارے پاس نہیں ہو گا کہ تم مجبور ہو جاؤ گے ادھر ادھر دیکھنے کے لئے.وہ دن، اسلام کا دن ہے.اسلام آئے گا، تمہارے پاس اور کہے گا، تمہارے ہر مسئلے کو میں حل کرتا ہوں.تم مجبور ہو جاؤ گے، اسلام کو ماننے تمہیں آنا پڑے گا ، اسلام کی طرف.ایک شخص نے پوچھا ، آپ جو کہتے ہیں ساری دنیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی تو اگر جنگ ہو گئی ایک اور ، یعنی THIRD WORLD WAR تو جو مر جائیں گے، وہ تو جمع نہیں ہوں گے.میں نے کہا، میں نے یہ نہیں کہا کہ جو مردے ہیں ، وہ بھی جمع ہو جائیں گے.جن کو تم ماردو گے، وہ تو تم نے ماردیے.میں تو یہ کہ رہا ہوں کہ وہ وقت آنے والا ہے کہ زندوں کی ننانوے فیصد اکثریت جو ہے، وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.(نعرے) آج کے زمانے کی یہ ایک حقیقت ہے، جو میں نے ان کے سامنے رکھ دی.لیکن اس حقیقت کی تفاصیل بیان کرنا، یہ جماعت احمدیہ کا کام ہے.اس حقیقت کے مطابق اپنی زندگیوں کو بطور نمونہ ان کے 731
خطاب فرمودہ 02 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم سامنے پیش کرنا، یہ آپ میں سے ہر خاندان کا کام ہے.اس واسطے عہد کرو آج کہ ہم دنیا کی لالچ میں خدا کی طرف پیٹھ کر کے اپنی زندگیاں نہیں گزاریں گے.ہم دنیا کی خاطر کسی اور کا دامن نہیں پکڑیں گے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو چھوڑ کے.ہم خدا تعالیٰ کی رحمت کی بھیک مانگتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں گے.ہمارے ہاتھ میں ہمیشہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن مضبوطی سے پکڑا ر ہے گا.اور انشاء اللہ دنیا کی کوئی طاقت اس دامن کو ہم سے چھڑا نہیں سکے گی، جو مرضی کرلے دنیا.انشاء اللہ.اور آپ بھی عہد کریں اور اپنے بچوں کو دین سکھائیں.بہت سے منصوبے میں نے بنائے ہیں، ان پر عمل کریں.قرآن کریم کا منصوبہ ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے اس مادی دنیا میں ہیں، وہ بھی آیات اللہ ہیں، قرآن کریم کی اصطلاح میں علمی میدان میں آگے بڑھو، آگے بڑھو، آگے بڑھو.یہاں تک کہ دنیا اس بات کی بھی قائل ہو جائے (جس طرح سپین نے ان کو قائل کیا تھا ایک وقت میں ) کہ ہر میدان میں احمدی مسلمان ہم سے آگے نکل گیا اور ہم مجبور ہو گئے ہیں، اس سے سیکھنے ، اس سے بھیک مانگنے پر اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 24 دسمبر 1980 ء جلسہ سالانہ نمبر ) 732
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء چودہویں صدی میں چودہویں صدی نے کیا پایا اور اسلام کو کیا ملا ؟ خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ (روز نامہ الفضل 11 نومبر 1980ء میں اس خطاب کا خلاصہ شائع ہوا، اس کے بعد مکمل متن پہلی دفعہ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی 1983ء میں شائع ہوا.جس کو نظر ثانی کے بعد مشعل راہ جلد دوم میں شامل کیا گیا.لہذاز بر نظر خطاب کے لئے مندرجہ بالا تمام مصادر سے استفادہ کیا گیا ہے.) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ہم اللہ کے فضل سے چودہویں صدی کو الوداع کہہ رہے ہیں اور پندرہویں صدی کا استقبال کر رہے ہیں.کیوں؟ اس کا کوئی جواب ہونا چاہیے.کوئی غرض اور مقصد ہونا چاہیے کہ کیوں ہم چودہویں صدی کو الوداع کہنے کے لئے اس قدر تقریبات کر رہے ہیں، پروگرام بنارہے ہیں؟ اور اسی طرح پندرہویں صدی کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں.کس غرض سے کر رہے ہیں، ہم؟ جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ، ہم پر فرض تھا کہ ہم ایسا کرتے.اس وقت جو گفتگو میں آپ سے کروں گا، اگر اس کا کوئی عنوان رکھا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ چودہویں صدی میں چودہویں صدی نے کیا پایا اور چودہویں صدی میں اسلام کو کیا ملا؟ چودہویں صدی جو ہے، اس کے دورخ ہیں.ایک بڑا تکلیف دہ، بڑا بھیا نک اور دوسرا بڑا ہی تنظیم برکتوں والا.اس زمانے پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قصہ یوں ہے کہ چودہویں صدی شروع ہونے سے معا قبل عیسائیت بڑے زوروں پر تھی اور ان کے دماغ بہت اونچے ہو چکے تھے.ہندوستان میں ایک پادری عماد الدین تھے، وہ ایک بہت بڑے مسلمان عالم تھے.پھر عیسائی ہو گئے اور پادری بنے.اور انہوں نے ایک مضمون لکھا، جو ہندوستان سے باہر کسی جگہ کسی جلسے میں پڑھنا تھا انہوں نے.خود نہیں جا سکے لیکن وہاں وہ پڑھا گیا اور ہمارے پاس یہاں موجود ہے، لائبریری میں.یہ تیرھویں صدی کے آخر کی بات ہے.اس میں انہوں نے لکھا کہ ہندوستان میں اس تیزی کے ساتھ عیسائیت بڑھ رہی ہے کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ اگر ہندوستان کے رہنے والے کسی شخص کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مرنے سے پہلے کسی 733
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم مسلمان کا منہ تو دیکھ لے کہ وہ کیسا ہوتا ہے؟ تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی.یعنی سارے ہندوستان میں ایک بھی مسلمان نہیں رہے گا.یہ ان کے اندازے تھے.اندازے اس وجہ سے تھے کہ عیسائی حکومتیں بڑی طاقتور تھیں، بڑی مالدار تھیں اور ان کے ساتھ چمٹا ہوا چرچ جو تھا، وہ بھی مالدار تھا اور ایکٹیو (Active) تھا.اور ایک صاحب اقتدار حکومت کی زیر پرستی وہ کام کر رہا تھا.اور کپڑے دینے کے لئے ان کے پاس ذرائع موجود تھے، دودھ بانٹنے کے لئے ، گندم تقسیم کرنے کے لئے ، طالبعلموں کو وظائف دینے کے لئے سامان تھے.اور ہر طرف برٹش ایمپائر کا نام تھا.اور پادری کے ہاتھ میں خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا تھا اور وہ اسے بڑے جوش و خروش سے لہرا ر ہے تھے.اسی زمانہ میں اس حد تک پہنچے کہ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ زمانہ عنقریب آنے والا ہے، جب مکہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرائے گا.یا اس قسم کے کوئی الفاظ تھے.اور جھوٹی خوشیوں سے معمور، فخر سے گردنیں تانے ہوئے ، بڑے جوش کے ساتھ وہ بڑھتے ہوئے چودہویں صدی میں جب داخل ہوئے تو ان کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جو خدا تعالیٰ کے ایک زبر دست جلالی جرنیل تھے، ان کا ایک شاگر دروحانی فرزند کھڑا تھا.جس نے کہا، بس آگے نہیں بڑھنا.( نعرے) یہ دیکھا چودہویں صدی نے اپنی ابتدا میں.پھر چودہویں صدی نے جہاں ذلتیں دیکھیں اسلام کی ، جہاں تنزل دیکھا اسلام کا، ہماری اپنی غلطیاں تھیں، کوتا ہیاں تھیں، وہ بھی ہم نے دیکھنا تھا.وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ سو سالہ پہلے کی عظیم پیشگوئیاں پوری ہوتے دیکھیں.ایک نہیں، دو نہیں بلکہ یہ زمانہ ان عظمتوں سے بھر پور دیکھا.اس زمانہ میں ضعف بھی ہوا اور اس صدی نے اسلام کا ضعف بھی دیکھا.اس صدی نے اسلام کی عظمت اور جلال بھی دیکھا.اس صدی نے إِذَا الشَّمْسُ كُورَتْ (التكوين 02) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جو حقیقی سورج تھے اس عالمین کے، ( یہ ہمارا سورج تو اس کے مقابلے میں کچھ چیز نہیں ہے.) ان کے اوپر غفلتوں کا اور عدم شناخت کا پردہ بھی دیکھا.اور اسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کے نشان بھی دیکھے.(نعرے) وَإِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ 734 (التكوين 03)
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء اس صدی نے ان کو، جن کے ذمے یہ سمجھا جاتا تھا کہ دین کو زندہ رکھنا ہے اور سنت نبوی کو قائم رکھنا ہے، ان کو اس طرح آسمان رفعت اسلام سے گرتے دیکھا، جس طرح بعض راتوں میں آپ تارے ٹوٹتے دیکھتے ہیں.اور اسی زمانہ میں اسلام کے علم کلام میں وہ رفعت اور بلندی اور عظمت پیدا ہوئی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں کہ مثلاً کیتھولزم (Catholicism) کیتھولک جو فرقہ ہے، یہ عیسائیوں میں سب سے مضبوط، سب سے امیر ، سب سے پھیلا ہوا، سب سے منتظم، سب سے طاقتور ہے.اور سمجھتا ہے کہ ہم بڑے نہیم، بڑے زور آور ہیں، بڑے شاندار ہیں.انہیں اپنے ماننے والوں کو یہ ہدایت دینی پڑی کہ نہ کسی احمدی سے تم نے بات کرنی ہے، نہ ان سے کوئی رسالہ وغیرہ لے کے پڑھنا ہے.(نعرے) جہاں مغرور کو بلندی سے گرتے پایا، وہاں ایک طفل احمدیت کو رفعتیں حاصل کرتے ہوئے دیکھا.ہمارا ایک بچہ مشرقی افریقہ میں تھا.سات، آٹھ سال کی عمر میں.(اب تو اس کی عمر زیادہ ہے، اللہ تعالیٰ اس کی زندگی میں برکت ڈالے.) بچپن سے ہی اسے شوق تھا، تبلیغ کا.اور اتوار کو وہ چھوٹے چھوٹے رسالے لے کے سڑک کی پیومنٹ (Pavement) پر کھڑا ہو جاتا اور جس شخص کے متعلق اندازہ لگا تا کہ یہ پڑھنا لکھنا جانتا ہے، اس کے ہاتھ میں کوئی رسالہ دے دیتا.ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک بڑے اچھے امیرانہ لباس میں ایک افریقین پاس سے گزر رہا ہے.اس نے اس کے ہاتھ میں رسالہ دیا.اس نے بڑی خوشی سے اس کو لیا اور چلتے ہوئے اس کو کھول کے پڑھنا بھی شروع کیا.چند قدم آگے جانے کے بعد واپس آیا اور کہا، یہ لو پکڑو اپنا رسالہ.اس نے کہا، کیوں کیا ہو گیا ہے اسے ؟ ابھی تو آپ نے بڑے شوق سے لیا تھا.اس نے کہا تم احمدی ہو؟ اس نے کہا ، ہاں، میں احمدی ہوں.کہنے لگا، ہمارے پر لیسٹ (Priest) نے ہمیں کہا ہے کہ کسی احمدی سے کوئی کتاب لے کے نہیں پڑھنی.(نعرے) اسی زمانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التكوين (11) کے جلوے دیکھے.جو پہلی صدیاں تھیں، چودہویں صدی سے پہلے، وہ جہالت کی صدیاں تھیں.کچھ ابھر رہا تھا علم.لیکن اس طرح نہیں، جو چودہویں صدی میں ابھرا.حقیقت یہ ہے کہ پین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد یورپ کو علمی میدان میں بڑا دھکا لگا.کیونکہ سپین کے مسلمان علمی میدان میں ان کے قائد اور استاد تھے.اور اس کے نتیجہ میں ایک زمانہ آیا، جب ایک طرف مسلمان علم سے غافل ہو گیا 735
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اور دوسری طرف عیسائیوں کا وہ منع ، جہاں سے وہ علم سیکھتے تھے، خشک ہو گیا.یعنی انہوں نے اپنے استاد کو خود قتل کر دیا ، بھگا دیا، مار دیا، گھر سے بے گھر کر دیا.وہ درسگاہیں نہیں رہیں ، جہاں سے اپنی علمی پیاس بجھایا کرتے تھے.لیکن یہ پیش گوئی کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکوین 11) یہ پیشگوئی دو پہلو رکھتی ہے.عام طور پر ایک پہلو پر زور دیا جاتا ہے.وہ بڑا اہم ہے، ایک نقطہ نگاہ سے.لیکن دوسرا بھی کم اہم نہیں.ایک یہ ہے کہ اس زمانہ میں جو اسلام کی اصطلاح میں آخری زمانہ ہے، اس زمانہ میں کثرت سے طباعت کا، مطبع خانوں کا انتظام ہو جائے گا.اور جہاں پہلے خال خال کہیں کوئی کتاب ملتی تھی ، بڑی کثرت سے کتابیں لوگوں کو ملنے لگ جائیں گی.دوسرا پہلو یہ ہے کہ ( بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیے کہ اس کے تین پہلو ہیں.دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگ، جو علم کی طرف سے توجہ چھوڑ بیٹھیں گے، چودہویں صدی میں پھر علم کی طرف انسان توجہ کرنے لگے گا.اور یہ اس لئے پیش گوئی تھی کہ اصل علم تو وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والا ہے.تو یہ سارا انتظام اس لئے کیا جا رہا تھا کہ جب مہدی علیہ السلام خالص اسلام دنیا کے سامنے رکھیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں، تو ایسے سامان بھی موجود ہوں، جو دنیا کے ہر کونے میں آپ کے کلام کو پہنچا سکیں.اور تیسرا پہلو اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ تحقیق کے میدان میں انسان کی کاوش پھر شدت اختیار کرے گی.یعنی تحقیق شروع ہو جائے گی.اب دیکھ تحقیق کے میدانوں میں انسان کی سعی اور جد و جہد اپنے عروج کو پہنچی ہے، چودھویں صدی میں.اور مطبع خانہ بھی، چھاپنے کا جو علم ہے، وہ بھی اپنے عروج کو پہنچا، چودہویں صدی میں.مثلاً کمپیوٹر (Computer) کے ذریعہ کمپوز (Compose) کرنا.ہمارے نائیجیریا مشن نے قریباً پندرہ ہزار پونڈ کا ایک کمپیوٹر ایسا لیا ہے، جو کمپوز کرتا ہے، انگریزی کے حروف کو اور عربی اور اردو بھی اس پہ ہوسکتی ہے.اگر آپ وہ حصے بھی منگوائیں تو اتنا آسان ہے، اتنی خوبصورت وہ لکھائی ہے.تو کمپیوٹر تو ہے ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد کی ایجاد.جس کا مطلب ہے کہ چودہویں صدی جب قریباً تیسر کوارٹر میں داخل ہو چکی تھی.یعنی پچاس اور پچھتر سال کے اندر یہ ایجادیں ہوئیں.736
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء اسی طرح عظیم پیشگوئی ہے، بہت عظیم.یعنی چودہ سو سال پہلے یا چودہویں صدی کے شروع سے بات کریں تو تیرہ سو سال پہلے حال یہ تھا کہ مدینہ میں مسلمان قرآن کے عاشق ، ان کو چھپا ہوا قرآن کریم نہیں ملتا تھا.بڑی مشکل میں تھے.اس واسطے جب ایران نے چھیڑ چھاڑ کی اور غیر ملکوں کے ساتھ جنگ ہوئی تو بعض قیدیوں کو اس شرط پر جلد چھوڑنے کا وعدہ دے دیا گیا کہ وہ مسلمان بچوں کو لکھنا سکھا دیں گے.اتنی اہمیت دی گئی تحصیل علم کو.نَ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ (القلم: 02) پہلے تو صرف ہاتھ ہی سے لکھا جاتا تھا.مگر قرآن عظیم کا مسلمان کے دل میں اتنا پیار پیدا کر دیا گیا کہ ہندوستان کے بعض بادشاہ ایسے گزرے ہیں، جو بادشاہت کے ساتھ قرآن کریم کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے.بڑے خوبصورت خط کے ساتھ.اور پیسہ تھا ان کے پاس، سنہری روشنائی سے لکھتے تھے.بہر حال بڑا پیار تھا ان کو.ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے میرے پاس بھی پڑے ہیں کچھ.قرآن کریم ہاتھ سے لکھ رہے ہیں، کوئی نسخہ چار سال میں لکھا گیا، کسی پر کم وقت خرچ آیا.کجاوہ دن اور اب قرآن کریم کی اشاعت کا زمانہ آیا تو اب یہ حال ہے کہ امریکہ میں جب ہم نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ شائع کرنا چاہا تو جس فرم کے ساتھ بات ہو رہی تھی، اس سے سب باتیں طے ہو گئیں.تو میرا خیال ہے کہ انہوں نے دو ہفتے یا تین ہفتے میں ہیں ہزار قرآن کریم کے نسخے ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیے.یعنی اتنا تر قی کر گیا ہے زمانہ.اور جو خدا تعالیٰ نے میرے دماغ میں ڈالا تھا کہ ملنیز (Millions) کی تعداد میں (ملین کہتے ہیں ، دس لاکھ کو ) قرآن کریم کے تراجم دنیا میں پھیلائے جائیں.اس وقت سوچتے تھے کہ کس طرح چھپیں گے اتنے ؟ اور اب اس تجربے نے بتا دیا کہ انسان چودہویں صدی میں اس مقام تک وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التموين: 11) کی پیشگوئی کے مطابق پہنچ چکا ہے کہ وہ قرآن کریم کی اس قسم کی خدمت بجالائے ، بجالا سکے.بیسیوں پیش گوئیاں ہیں، بڑی عظمتوں والی.کہا گیا تھا، وَإِذَا الْوُحَوْشُ حُشِرَتْ (القومية 06) (06) 737
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم وحشی قوموں کو متمدن بنایا جائے گا، چودہویں صدی میں.وہ وحشی قومیں افریقہ کی ، جن پر اس کا سے قبل ظلم ہو رہا تھا.امریکن ان کو غلام بنا کے لے گیا.اور وہ غلام جو ہیں ، آج وہ متمدن ہو کے سب سے زیادہ عزت والے مقام پر نظر آتے ہیں.واشنگٹن کا میر ہے مثلاً اور وہ آج کل افریقہ سے جو آئے ہوئے تھے ، غلام ان کی نسل سے ہے.وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ (التلومينه 06) وحشیوں کو متمدن بنا دیا جائے گا.وحشی کو پڑھا لکھا کر مہذب بنادیا گیا.اگر وہ دوستی رہتے تو ان کو اسلام سکھانا زیادہ مشکل ہوتا.بجائے اس کے اب وہ متمدن ہیں اور سمجھدار ہیں اور پڑھے لکھے ہیں اور دل رکھتے اور ہمت والے ہیں اور ان کو اسلام سکھانا، اب مشکل نہیں رہا.اب یہ حال ہے، وہاں کئی ہزار احمدی ہو چکا ہے، چودہویں صدی میں.اور سینکڑوں عورتیں وہاں کی برقع پہن کے ، نقاب اوڑھ کے سارے کام کر رہی ہیں.اپنے کام میں حرج نہیں ہونے دیا.ن کو سمجھایا گیا تھا کہ اسلام تعلیم کام میں حارج نہیں.برقع نہیں، کام میں حارج.76ء میں گیا تو ایک بڑی سادہ سی احمدی بہن کہنے لگی کہ میں فلاں تاریخ کو پریذیڈنٹ سے مل کر اس کے ہاتھ میں قرآن کریم کا ترجمہ دے کے آئی ہوں.اتنا پیار ان کو ہو گیا ہے، قرآن کریم سے کہ جو ایک، دو، تین سال پرانے خاندان ہیں، احمدیت میں، جو پانچ جلدوں کی ہماری تفسیر ہے، انگریزی کی ، وہ ساری کی ساری انہوں نے پڑھی ہوئی ہے.بعض دفعہ رات کو کوئی آیت سمجھ نہ آئے تو مبلغ کو فون کر دیتے ہیں کہ اس آیت کی یہ تفسیر کی گئی ہے، مجھے سمجھ نہیں آرہی.سمجھاؤ مجھے.مبلغ کو بھی ہر چیز ہر وقت یاد تو نہیں رہتی.اس کو مشکل پڑ جاتی ہے، پھر وہ سمجھاتا ہے.بعض دفعہ دو، دو گھنٹے بات کرتے رہتے ہیں.وہاں ٹیلیفون کاسٹم یہ ہے کہ جتنی دیر چاہیں، آپ فون کرتے رہیں، آپ کو کوئی ٹوکنے والا نہیں.صرف بل وصول کر لیتے ہیں.وہ کوئی پروا نہیں کرتے ، دو گھنٹے کابل دے دیں گے، دین سیکھتے جائیں گے.تو وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التكوين 11) معمولی اعلان نہیں.بیسیوں زبر دست پیشگوئیاں ہیں، خدا کے کلام میں، جن کے متعلق مفسر کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں آخری زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں.آج کل کی متمدن دنیا نے جو عجیب و غریب 738
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء ایجادات کی ہیں، ان سب کا ذکر قرآن کریم نے یہ کہہ کے کیا کہ یہ اسلام کی خاطر ہوگا.آخری زمانہ میں برکات اسلام پھیلانے کے لئے یہ ساری چیزیں ہوں گی.ایسی ایسی سواریاں نکل آئیں گی.ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایسی سواری ہوگی، جس کے پیٹ میں روشنی ہوگی.کسی زمانہ میں پادری مذاق بھی اڑا تارہا اور آج اسلام ان کا مذاق اڑاتا ہے، خاموشی کے ساتھ.ہوائی جہاز، پیٹ میں روشنی.ریل، پیٹ میں روشنی.بعض نادان سمجھتے تھے کہ کوئی گدھا ایسا بن جائے گا، جس کے پیٹ میں روشنی ہوگی اور ان کو بیچ میں بٹھا دیا جائے گا، پیٹ کے.اب سمندری جہاز ، ہوائی جہاز ، ریل ، موٹر ، موٹر کے اندر بھی سوچ (Switch) لگا ہوا ہوتا ہے.ضرورت پڑے، آپ روشنی کر لیتے ہیں اندر.لیکن ہوائی جہاز کے اندر تو اتنی روشنی ہوتی ہے، جیسے دن چڑھا ہو.اسی طرح ریل کا حال ہے.ہمارے ملک کی نہیں.پتہ نہیں یہاں تو فیوز ہو جاتے ہوں گے وہاں بھی.لیکن امریکہ وغیرہ Conetinent ( کانٹینیٹ ) وغیرہ اتنی روشن ہوتی ہے، آپ آرام سے پڑھ سکتے ہیں.تو یہ پیشگوئی یہی تھیں ناں کہ میں کہتا ہوں، یہ بتارہی تھی کہ مہدی کے زمانہ میں اسلام کے متعلق جو شخص علم حاصل کرنا چاہتا ہے، جب وہ ریل میں سفر کر رہا ہو گا ، اس کا وقت ضائع نہیں ہوگا.وہاں بھی وہ اسلام کے متعلق ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح کے متعلق کتب آسانی سے پڑھ سکے گا.ورنہ تو مسافر کا وقت ضائع ہو جائے.دریاؤں کے پھاڑنے کی پیشگوئی ، نیز زمین و آسمان کے متعلق پیش گوئیاں ہیں.اس چودہویں صدی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو ہر آن محسوس کیا.( نعرے) پھر چودہویں صدی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو اس طرح ظاہر کیا کہ آپ کی پیشگوئی کے مطابق مقررہ دن اور رات میں چاند اور سورج کو گرہن لگا.نہ ایک دفعہ بلکہ دو دفعہ، یکے بعد دیگرے.پہلے ایک سال میں ایک خطہ ارض پر اور دوسرے سال میں دوسرے خطہ ارض پر.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اس پیشگوئی کے متعلق فرماتے ہیں:.صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں:.ان لمهدينا ايتين لم تكونا منذ خلق السماوات الارض ينكسف القمر لاول ليلة من رمضان و تنكسف الشمس في النصف منه 739
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ترجمہ:.یعنی ہمارے مہدی کے لئے (بڑا ہی پیارا یہ فقرہ ہے.ساڈا مہدی، ہمارے مہدی کے لئے ) دونشان ہیں.اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا، یہ دو نشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اس کی اول رات میں ہوگا، یعنی تیر ہوئیں تاریخ میں.اور سورج کا گرہن اس کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا ، یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھائیسویں 28 تاریخ کو.اور ایساواقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا.صرف مہدی معہود کے وقت اس کا ہونا مقدر ہے.اب تمام انگریزی اور اردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ سال کا گزر چکا ہے، اسی صفت کا چاند اور سورج کا گر من رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا“.(حقیقۃ الوحی ، روحانی جلد 22 صفحہ 202) اور اس کی تاریخیں یہ ہیں.پہلی بار چاند کا گرہن 21 مارچ 1894ء اور سورج کا گرہن 06 اپریل 1894ء، اسی رمضان میں.اور دوسری بار امریکہ میں دیکھا گیا.چاند کا گرہن 11 مارچ 1895ء اور سورج کا گرہن 26 مارچ 1895ء یعنی دونوں دفعہ رمضان کے مہینہ میں یکے بعد دیگرے دو سالوں میں انہیں تاریخوں میں یہ نشان ظاہر ہوا.اور ”ایتین“ دونشان کر کے جو بتایا گیا تھا، وہ ظاہر ہوا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ جو فقرہ ہے نا کہ لم تكونا منذ خلق السماوات والارض اس کے معنی ہیں کہ ہمیں انسانی تاریخ میں کوئی ایسا ما مور یا کوئی ایسا مدعی مہدویت نہیں ملتا کہ جس نے یہ کہا ہو کہ میری سچائی کے ثبوت پر یہ نشان ظاہر ہوا.اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ تاریخ میں یہ بھی کہیں نہیں ملتا کہ کسی نے یہ کہا ہو کہ میری سچائی کے لئے یہ نشان ظاہر ہوگا.ایک یونیک (Unique) ایک ایسالا ثانی نشان ہے اور ایساز بر دست کہ جس کی مثال نہ انسانی تاریخ میں ہے، نہ انسانی عقل ایسی تجویز کرسکتی ہے.نہ انسانی ہاتھ اور نہ انسان کی سائنس ایسا کر دکھا سکتی ہے.کس کی طاقت ہے کہ وہ چاند اور سورج پر حکومت کرے؟ 740
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے لئے آپ کے زمانہ میں یہ نشان ظاہر ہوئے.اور اس سے ثابت ہوا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم انسان تھے، ( نعرے ) جنہوں نے قریباً تیرہ سو سال پہلے ایسی پیشگوئی کی.اور عظیم تھاوہ انسان، محمد کا محبوب ، جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا.صرف اس ایک کو امت محمدیہ میں سے، جس کی خاطر خدا تعالیٰ نے چاند اور سورج کو گرہن لگا کے بہت سی باتیں انسان کو سکھائیں ، اگر وہ سمجھنا چا ہے.(نعرے) جہاں چودہویں صدی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کے ثبوت کے لئے چاند اور سورج کو گرہن ہوتے دیکھا ، وہاں چودہویں صدی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کو دلوں میں گاڑنے کے لئے مہدی کو اپنے اندر پایا.( نعرے) محمد کے محبوب مہدی آگئے.یہ چودہویں صدی نے نشان دیکھا.عظیم عظمتوں والی ہے، یہ صدی ) ایک دوست نے چودہویں صدی زندہ باد کا نعرہ لگایا تو اس پر حضور نے فرمایا ، ) چودہویں صدی واقعہ میں زندہ ہے.اس معنی میں کہ جس زندگی کی بنیاد اس صدی میں رکھی گئی ہے، وہ حیات ، وہ زندگی قیامت تک قائم رہے گی.(نعرے) ہمیں چودہویں صدی نے مہدی دیا.ہمیں چودہویں صدی نے مہدی کے ذریعےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں ایک زندہ خدا کے ساتھ ایک زندہ رشتہ عطا کیا.(نعرے) ہمیں چودہویں صدی میں محمد کے محبوب مہدی نے محمد کی محبت عطا کی.( نعرے) اور یہ محبت ہمارے دلوں میں کچھ اس طرح گاڑ دی گئی کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمارے دلوں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس محبت کو نکال کے باہر نہیں پھینک سکتی.(نعرے) ہمیں، ہمیں، ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی نے وہ قرآن پھر دوبارہ دیا، جو دوسروں نے کپڑوں میں لپیٹ کے طاق نسیاں پر رکھا ہوا تھا.( نعرے) اور ہمیں یہ علم عطا کیا کہ ہر آنے والی نسل نئے مسائل لے کر دنیا میں پیدا ہوتی ہے اور دنیا میں ایک ہی کتاب ہے، قرآن عظیم ، جو ہر آنے والی نسل کے سب تازہ مسائل کو حل کرنے کی طاقت رکھتی ہے.(نعرے) ہمیں مہدی علیہ السلام نے اسلام کے لئے ایک زندہ جوش عطا کیا کہ ہم اس کی خاطر اور خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے دنیا کے کونے کونے میں جائیں اور نوع انسانی کے دل محبت اور پیار کے ساتھ اور اللہ کے نور اور محمد کے حسن کے ساتھ جیتیں اور انہیں ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کی کوشش کریں.( نعرے) بڑا ہی ، بڑا ہی عظیم ہے، ہمارا اللہ، جو کائنات کی ہر شے کا نور اور ہر شے کی زندگی کا سر چشمہ ہے بڑا پیار کرنے والا، بڑا خیال رکھنے والا ، معاف کرنے والا، رفعتیں عطا کرنے والا ، تکالیف دور کرنے والا ، 741
خطاب فرمودہ 07 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم دعاؤں کو سننے والا، رحمت کے سامان پیدا کرنے والا، جو انہونی چیز ہے، اسے بنا دینے والا، جو وعدے ہیں، وہ ہماری زندگیوں میں پورے کرنے والا ہے.اور بڑا ہی عظیم ہے، اور بڑا ہی عظیم ہے انسانوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جس کے لئے ، جس کے طفیل اس کائنات کو پیدا کیا، جس کی روحانی قوت، جس کی قوت قدسیہ ہر جگہ پھیلی نظر آتی ہے ہمیں.جس کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ہمیں وہ ملا، جسے ہم نے محمد کے قدموں میں بیٹھے پایا ،مہدی علیہ السلام.(نعرے) چودہویں صدی نے ، چودہویں صدی نے ہمیں خد ا ملا دیا، چودہویں صدی نے ہم پر محمد کا حسن ظاہر کر دیا، چودہویں صدی نے قرآن کی عظمتیں واضح کر دیں، چودہویں صدی نے مہدی ہمیں دیا.وہ ساری کمزوریاں تیری اے چودہویں صدی! آج ہم نے معاف کیں اور تیری عظمتوں کو ہماری نسلیں بھی یادرکھیں گی.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.آمین.( مطبوع مشعل راه جلد دوم صفحہ 5397532 بحوالہ سید نا ناصر نمبر ماہنامہ خالد اپریل مئی 1983 ء ) 742
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرمودہ 08 نومبر 1980ء اسلام کا باغ ، باغ محمدی ہے اور اس کے ثمرات ہمیشہ باقی رہیں گے خطاب فرموده 08 نومبر 1980ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ سيدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسلام بے ثمر نہیں ہے.اسلام کا باغ ، باغ محمدی ہے اور اس کے ثمرات ہمیشہ باقی رہیں گے.ہم بحیثیت جماعت باغ محمدی کے پھل کھانے والے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم ہمیشہ اس سے حصہ پائیں گے.اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں یہ شیریں پھل کھانے سے محروم نہیں رکھ سکتی.یہ پھل خدا تعالیٰ کی عطا ہیں اور دنیا میں کون ایسا بندہ ہے، واللہ تعالیٰ کو یہ کہنے کی طاقت رکھتا ہے کہ احمدیوں کو ان ثمرات سے محروم کر دو؟“ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص خود کو باغ محمدی میں پاتا ہے اور اس کی جھولیاں ثمرات باغ محمدی سے بھری ہوئی ہیں اور کوئی شخص اسے یہ کہے کہ تو دھتکارا ہوا ہے تو اسے یہی کہنا پڑے گا کہ میری جھولیوں کی طرف دیکھ.یہ بھری ہوئی ہیں.یہ حقیقت ہے کہ باغ محمد اللہ نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے، اس کو خدا کے جاں نثاروں نے اپنے خون سے سینچا ہے، ہر صدی نے قربانیاں دے کر اسے تروتازہ رکھا ہے.اس باغ کے پھل اتنے میٹھے، شیریں اور خوشبودار ہیں کہ جس کو ایک دفعہ اس جنت کا پھل مل جائے تو وہ ساری عمر اس کی تلاش میں گزار دیتا ہے.حضور نے فرمایا کہ چودھویں صدی کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے اسلام کے حق میں ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا ہے.اس کی تفصیل بتاتے ہوئے حضور نے اپنے دورہ 1970ء کا ذکر فرمایا، جبکہ حضور رحمہ اللہ پہلی دفعہ سپین تشریف لے گئے تھے.حضور نے بتایا کہ اس دورے میں الحمر الحمل کے اندر واقعہ ایک ہوٹل میں ، جس کی دیواروں پر لا غالب الا اللہ کے الفاظ ابھی بھی موجود تھے، ایک رات اللہ تعالیٰ نے اپنے تصرف سے اس ملک میں مسلمانوں کے شاندار ماضی اور موجودہ بد حالی کے خیال سے مجھے اتنا بے چین کیا کہ میں ساری رات ایک لمحہ کے لئے نہ سو سکا.صبح کی نماز کے وقت اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہے.اور ابھی اس کا وقت نہیں آیا.لیکن یہ ہو گا ضرور.743
خلاصہ خطاب فرمودہ 08 نومبر 1980ء حضور نے فرمایا کہ تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد پنجم یہ 1970ء کی بات ہے کہ جب ہم نے یہ کوشش کی کہ ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد ہمیں ہیں سال کے لئے نماز پڑھنے کومل جائے.حکومت نے اجازت دے دی مگر چرچ نہ مانا.لیکن دس سال میں یہ انقلاب ہوا کہ حکومت نے تحریری طور پر مسجد بنانے کی اجازت دے دی.اور اللہ تعالیٰ نے وہ سارے وعدے پورے کر دیئے ، جو اس نے دس سال پہلے کئے تھے.حضور نے بتایا کہ ر جس قصبے میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے.اس کا نام پیڈ روآباد PEDROABAD ہے.یہ میڈرڈ سے قرطبہ جانے والی اس بڑی سڑک پر واقع ہے، جو کہ چین میں بڑی بڑی سڑکوں میں شمار ہوتی ہے.یہ زمین تین مالکوں سے خریدی گئی ہے.اس کا رقبہ قریباً 14 کنال ہے.اس کے دو اطراف میں ہائی وے (بڑی شاہراہ ) اس کے اطراف میں لگتی ہے.یہ اونچی نیچی زمین ہے.اس کے سب سے اونچے حصے پر مسجد بنائی جارہی ہے“.حضور نے فرمایا کہ پیڈ رو آباد کے باشندوں کی شکلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی اولاد ہیں.ان کے دلوں کو اللہ نے پکڑا.وہاں پر اللہ تعالیٰ نے اتنابڑا فضل کیا کہ اس جگہ کا سماں ہی کچھ اور تھا.پہلے بنیا د رکھی گئی.اس کے لئے آرکیٹیکٹ نے ، جو کہ قرطبہ کا رہنے والا ہے، آٹھ سیروزنی ایک پتھر تیار کیا تھا.میں نے امریکہ کے مبلغ میر محمود احمد ناصر کو کہا کہ تم اسے پکڑو.میں نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا.جس میں، میں نے حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی انگوٹھی پہنی ہوئی ہے.حضور نے فرمایا:.اليس الله بکاف عبده اس کے بعد میں نے نہایت سوز وگداز سے قرآنی دعائیں اور اپنی تیار کردہ عربی کی دعائیں کیں“.حضور نے فرمایا کہ ہم نے رقت کے ساتھ دعائیں کیں، خدا سے مانگا اور اس یقین کے ساتھ مانگا کہ ہم جو خدا سے مانگ رہے ہیں ، وہ ہماری اس التجا کو ضرور قبول کرے گا.( مطبوعه روزنامه الفضل 22 نومبر 1980ء) 744
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم حضور نے یہ دلچسپ بات بتائی کہ دو خلاصہ خطاب فرمودہ 08 نومبر 1980ء قریب کے سکول کے نصف بچے تو ہیڈ ماسٹر کے منع کرنے کے باوجود پین میں مسجد کا سنگ بنیا درکھنے کی تقریب میں شامل ہونے کے لئے آگئے.اس کے علاوہ عورتیں ، مرد، جوان، بوڑھے اور پھر اس سکول کے ہیڈ ماسٹر خود بھی آگئے.اس طرح ایک وقت میں سات، آٹھ سو یا ہزار افراد شامل تھے اور کسی وقت بھی تین سو سے کم افراد شامل نہیں تھے.حضور نے فرمایا کہ ان کی خوشی کا یہ حال تھا کہ ان کے جسم کے ہر پور سے خوشی چشمے کی طرح اہل رہی تھی.لوگوں نے ہر وقت مجھے گھیرے رکھا.بعض دفعہ میں رستہ بنا کر نکلا بھی مگر پھر بھی لوگ فورا ہی میرے گرد جمع ہو گئے.حضور نے فرمایا کہ اس صورت حال میں، میں نے ایک دفعہ مذاقاً کہا کہ مجھے تو کوئی پوچھ ہی نہیں رہا.اس پر کوئی صاحب ایک بوتل لائے ، جس میں سے میں نے چند گھونٹ پانی پیا.کیونکہ اس وقت میر احلق خشک ہو چکا ا تھا.پھر وہ لوگ مجھے اس میز پر لے گئے ، جس پر مہمانوں کے لئے مونگ پھلی، میوے، بوتلیں ، انگور اور دوسرے کھانے کی چیزیں پڑی تھیں.حضور نے بتایا کہ لوگوں کا جوش و خروش اتنا تھا کہ وہاں پر بھی میں انگور کے صرف تین دانے اور تین گھونٹ پانی پی سکا“.حضور نے فرمایا کہ میں بڑے بڑے گچھے انگوروں کے توڑتا تھا اور اگر کسی بڑے مرد یا عورت کو دیتا تھا تو وہ سارا خود نہیں کھاتے تھے بلکہ ایک ایک دانہ کر کے اور سب میں تقسیم کر کے اس طرح کھاتے ، جس طرح حضرت اقدس کے لنگر کا تبرک کھا رہے ہوں“.حضور نے فرمایا کہ ” جب وہاں پر موجود احمدی احباب نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے تھے تو وہاں کے بچے بھی اس کا جواب دینے میں شامل ہو جاتے تھے.ان کو اللہ اکبر پوری طرح کہنا تو نہیں آتا تھا.ان میں سے کوئی تو اللہ کہہ کر اور کوئی اللہ ہو کہہ کر رک جاتا تھا.745
خلاصہ خطاب فرمودہ 08 نومبر 1980ء حضور نے بتایا کہ وو تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم وہاں کے ٹی وی نے چار منٹ تک سنگ بنیادرکھنے کی کارروائی دکھائی.جس سے لوگ ہمیں بڑی اچھی طرح پہچاننے لگ گئے.اس کا اظہار اس طرح سے ہوا کہ اس تقریب سے اگلے دن ہم لوگ ایک باغ دیکھنے کے لئے گئے.حضور نے فرمایا:.وو یہ باغ ہمارا ہی تھا، مسلمانوں کا تھا.مگر وہاں پر داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا.ٹکٹ دینے والے نے جب ہمیں دیکھا تو کہنے لگا، ان کے لئے ٹکٹ چاہیں، ان کو ٹکٹ کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ دکانوں پر بھی لوگ پہچان جاتے تھے اور خاص توجہ دیتے تھے.حضور نے فرمایا کہ پیارکا اظہار ایسا تھا، جو تم ہی نہیں ہوتا تھا.وہ ہمارے ساتھ کے احمدیوں سے بار بار پوچھتے کہ حضرت صاحب دوبارہ کب آئیں گے؟ حضور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ایسی تبدیلی پیدا کی کہ اس وقت جب چودھویں صدی کا اختتام ہورہا تھا، اللہ نے پانچ سوسال کے طویل وقفہ کے بعد مسجد بنانے کی توفیق دے دی.اب وہاں جو مسجد ہے ، اس میں اور ہماری مسجد میں ایک صدی کا فاصلہ پڑ گیا.حضور نے اس تقریب کا ایک اور ایمان افروز واقعہ سناتے ہوئے فرمایا کہ ”میرے گرد بہت ہجوم تھا.میں نے دیکھا کہ ایک شخص ہجوم کے دھکے کھاتا میری طرف بڑھتا آرہا ہے.حضور نے فرمایا کہ و شخص جس پیار سے دھکے کھا رہا تھا، اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ضرور کوئی احمدی ہوگا، جو کہ تقریب میں شامل ہونے سے رہ گیا ہے اور اب آیا ہے.اور میرے پاس پہنچنا چاہتا ہے.آہستہ آہستہ وہ شخص میرے پاس آگیا.میں نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا.اس نے بھی آگے جھک کر میرا ہاتھ پکڑا اور زور لگا کر میرے قریب آگیا.اور قریب آکر میرے ہاتھ پر پیار کیا اور کہنے لگا، آپ ہمارے گاؤں میں بھی مسجد بنا ئیں.وہ شخص قریبی گاؤں کا مئیر تھا.اس پر میں نے کہا کہ تمہارے گاؤں میں بھی مسجد بنائیں گے.انشاء اللہ.746
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ خلاصہ خطاب فرمودہ 08 نومبر 1980ء ”جب ہم غرناطہ سے قرطبہ جارہے تھے تو ایک گاؤں کا نام ” القلعة “ لکھا نظر آیا.خیال آیا کہ یہ ضرور کوئی قلعہ ہوگا.وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ گاؤں کے پاس ایک اونچے سے ٹیلے پر مسلمانوں نے ایک قلعہ بنایا تھا، جو کہ اب ٹوٹ پھوٹ چکا ہے.حضور نے فرمایا کہ میں نے کرم الہی ظفر صاحب مبلغ انچارج پین کوکہا کہ وہ میر کو کہیں کہ یہ قلعہ میں دے دیں ، ہم اس کو ٹھیک ٹھاک کر دیں گے.حضور نے بتایا کہ ” جب میں لنڈن واپس آ گیا تو کرم الہی ظفر صاحب نے اطلاع دی کہ میر ایسا کرنے کو تیار ہے.حضور نے فرمایا کہ یا تو ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اور یا اب یہ انقلاب آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افضال بارش کی طرح نازل ہورہے ہیں“.حضور نے فرمایا کہ ” احادیث میں آیا ہے کہ اندلس کو دو دفعہ فتح کیا جائے گا.جس طرح قسطنطنیہ کے بارہ میں ہے کہ اسے دو دفعہ فتح کیا جائے گا.ایک دفعہ تلوار سے اور دوسری دفعہ جو براہین سے.اور اندلس میں بھی ایسا ہی ہوگا.حضور نے نہایت جلال سے فرمایا کہ اب ساری پیشگوئیاں پوری ہونے کا وقت آگیا ہے.اس سے پہلے حضور نے اپنے خطاب کے آغاز میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب شان ہے کہ 1882ء میں حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کو ایک ایسا الہام ہوا، جس کے پورا ہونے کے سامان نہیں تھے.اس وقت حضور نے اپنا کشف یاد دلایا، جس کے بارے میں حضور پہلے بھی بیان فرما چکے ہیں کہ آپ نے دیکھا کہ ساری کائنات لا الہ الا اللہ اور سیاری کا ئنات سمندر کی انگوری رنگ کی لہروں کی طرح پر لہر در لہر آگے بڑھتی اور لا الہ الا اللہ کا ورد کرتی جارہی ہے.اس انگوری رنگ کی لہروں کے اوپر سفید چمکدار حصے تھے، جو کہ لا الہ الا اللہ" کی صوتی لہریں تھیں.747
خلاصہ خطاب فرمودہ 08 نومبر 1980ء حضور نے فرمایا کہ تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم - اس کی تعبیر ی تھی کہ اب دنیا میں توحید الہی کے قائم ہونے کا وقت آ گیا ہے“.اس پس منظر میں حضور نے فرمایا کہ 98 سال قبل 1882 ء میں حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو الہامات ہوئے.ان الہامات میں ایک طویل الہام کا آخری حصہ لا الہ الا اللہ تھا.اس کے بعد الہام تھا کہ فاکتب اسے لکھ رکھو اور اسے طبع کرواؤ اور پھر ساری زمین میں شائع کردو.حضور نے فرمایا کہ اب زمانہ آ گیا ہے کہ اس الہام پر عمل کیا جائے.چنانچہ جماعت احمد یہ ساری دنیا میں نیز مرکز سلسلہ سے لا الہ الا اللہ طبع کروا کر ساری دنیا میں پھیلائے گی“.748 (مطبوعه روزنامه الفضل 23 نومبر 1980ء)
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرمودہ 09 نومبر 1980ء پندرھویں صدی میں انسانوں کو خدا بنانے کا زمانہ ختم ہو جائے گا خطاب فرمودہ 09 نومبر 1980 ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ” میری روحانی نگاہ دیکھ رہی ہے کہ اسلام کا دشمن بت پرست شرک چھوڑ دے گا، پجاری کے ہاتھ سے بتوں کو توڑ دیا جائے گا.اور وہ کروڑوں سینے، جن میں شرک کی ظلمت بھری ہوئی ہے، وہ شرک سے خالی ہو کر خدا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے بھر جائیں گئے.حضور نے فرمایا کہ ہتھیاروں کی نہ ہمیں ضرورت ہے اور نہ اسلام کو.اسلام اپنے نور حسن اور قوت احسان کے ساتھ ان کے دلوں کو خدا تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے گا.اور انسانوں میں مردوں کی پرستش، قبروں کی پرستش اور پیر پرستی اس صدی میں ختم ہو جائے گی“.حضور نے پر جلال الفاظ میں فرمایا کہ پندرھویں صدی میں انسانوں کو خدا بنانے کا زمانہ ختم ہو جائے گا.اور تثلیث نے جس شدت سے ہماری فضا کو تثلیث تثلیث کی صوتی لہروں سے معمور کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ احد احد کی صدائیں گونجنے لگیں گی.فرمایا:." تثلیث کی ان آوازوں کو خاموش کرنے کے لئے تو ایک بلال کافی ہے.اور خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کو لاکھوں ایسے سینے دے گا ، جن میں بلال کے دل دھڑک رہے ہوں گے.مزید فرمایا کہ پندرھویں صدی میں وہ قو میں، جو یہ کہتی ہیں کہ وہ نعوذ باللہ زمین سے خدا کا نام اور آسمانوں سے اس کا وجود مٹادیں گے، ان کی اس ذہنیت کو مٹادیا جائے گا.اور اگر وہ اپنے ہی ہاتھ سے پیدا کردہ موت کے سامانوں کے ذریعہ سے آگ سے نہ جل گئے تو انہیں اسلام کے خدا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معبود حقیقی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا“.749
خلاصہ خطاب فرمودہ 09 نومبر 1980ء حضور نے فرمایا:.تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم پندرھویں صدی میں دنیا سے بڑائی اور چھوٹے پن کا امتیاز ختم کر دیا جائے گا.نہ کوئی چھوٹا ہوگا اور نہ کوئی بڑا.سب ایک ہی سطح پر آ کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں سے چھٹے ہوں گے.پھر فرمایا کہ اس صدی میں تکبر کا سر توڑ دیا جائے گا اور اس کی جگہ عاجزی اور انکساری باہمی اخوت و پیار لے لے گی.لڑائیاں جھگڑے ختم کر کے مسلمان بنیان مرصوص بن جائیں گے.اور وہ ایسی مضبوط دیوار ہوں گے کہ شیطان کا ہر وار اس سے ٹکرا کر ختم ہو جائے گا“.حضور نے فرمایا:.پندرھویں صدی میں ساری دنیا امت واحدہ بن جائے گی.ایک خدا ہوگا، ایک رسول ہوں گے اور ایک شریعت ہوگی.ایک قرآن ہوگا.اور ہر نسل اپنے مسائل کا حل قرآن سے ڈھونڈے گی.فرمایا کہ قرآن کی عظمت کو پہچانو ، یہ خدا کا کلام ہے.یہ سب اسی نے کہا ہے کہ ایسا ہوگا اور ایسی باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند نے بتائی ہیں.خطاب جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا کہ یہ سب کچھ ہوگا مگر اس کے لئے ہم کو اور آپ کو قربانیاں دینی پڑیں گی.اس لئے آؤ، آج عہد کریں کہ پندرھویں صدی جو انقلاب لانا چاہتی ہے، اس کو بر پا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ جو بھی قربانی مانگے گا، وہ ہم اس کی راہ میں دیں گے.ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند ہیں.ہم موسیٰ کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جا تو اور تیرا خدا لڑے.حضور نے اپنے خطاب کے آغاز میں حضرت امام مہدی کے مقام اور چودھویں صدی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.اگر چہ اس صدی میں بہت سی تکلیف دہ باتیں بھی دیکھنی پڑیں.لیکن ان سب کے مقابل پر ہمیں موعود مہدی مل گئے.اور ان کی برکتیں اور رحمتیں امت محمدیہ میں اگلے ایک ہزار سال تک جاری رہیں گی.اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے لکھا ہے کہ دنیا کی عمر میں اب ایک ہزار سال باقی رہ گئے ہیں.750
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ خلاصہ خطاب فرمودہ 09 نومبر 1980ء اللہ تعالیٰ نے مہدی کو صرف چودھویں صدی کا امام وخلیفہ ہی نہیں بنایا بلکہ آخری ہزار سال کے لئے امام آخر الزمان بنا کر بھیجا ہے.حضور نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ایک دن آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تمہارے اور رتمہاری نسلوں کے دل مہدی کے لئے جیت لئے جائیں گے.اور اگر تم اس وقت نہ ہوئے تو تمہاری اولادیں ہوں گی ، جو مانیں گی.حضور رحمہ اللہ نے مہدی کے مقام کے بارے میں فرمایا:.” مہدی کا مقام ایک تو اس وجہ سے بہت عظمت رکھتا ہے کہ امت محمدیہ کے کروڑہا افراد میں سے صرف اور صرف مہدی کے لئے اللہ تعالیٰ نے وہ پیار ہے، جو کسی اور کو نہیں ملا.دوسرے مہدی کا یہ مقام ہے کہ وہ دین، جو تمام قوموں کی طرف بھیجا گیا تھا.اس کا کامل اور مکمل غلبہ قرآنی آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کے مطابق مہدی کے وقت میں ہونا ہے.اور امت محمدیہ کے تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ آیت قرآنی میں جس عالمگیر غلبہ اسلام کا ذکر ہے، وہ مہدی کے زمانہ میں ہونا مقدر ہے“.حضور نے بتایا کہ ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اندلس میں اسلام کا غلبہ آنے کے بعد ایک بار یہ علاقہ مفتوح ہو جائے گا اور بڑی تباہی آئے گی.پھر مغرب کی طرف سے مہدی وہاں پہنچے گا اور مہدی کا آنا، اس عالمگیر اسلامی انقلاب کی ابتدا ہوگی“.حضور نے فرمایا:.احادیث میں یہ بات بڑے تواتر سے اور بار بار آئی ہے کہ مسیح محمدی اور اس کے اصحاب کو آگ سے بچایا جائے گا.حضور رحمہ اللہ نے آئمہ اسلام کے متعدد حوالہ جات پڑھ کر سنائے ، جن میں مہدی کی آمد اور اس کے بلند مقام کا ذکر ہے.اور بتایا گیا ہے کہ مہدی کے وقت میں دنیا اسلام کے نور سے پوری طرح بھر جائے گی.اس کے ماننے والوں کی زبر دست کثرت ہوگی اور یہ غلبہ قیامت تک جاری رہے گا.حضور نے فرمایا کہ 751
خلاصہ خطاب فرمودہ 09 نومبر 1980ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ”میرے نزدیک دوسری صدی کے اختتام تک یہ تمام وعدے پورے ہو جائیں گے.دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.اور کوئی نہیں ، جو اس کو روک سکے.حضور رحمہ اللہ نے حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی وہ پیش گوئیاں پڑھ کر سنائیں، جن میں احمدیت کے غلبہ کا ذکر ہے.حضور نے فرمایا کہ اس طرح سے پندرھویں صدی اسلام کو غالب کرنے کی صدی ہے.اس لئے آپ لوگ ہنستے مسکراتے قربانیاں دیتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.( مطبوعه روزنامه افضل 24 نومبر 1980ء) 752
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرمودہ 09 نومبر 1980ء اللہ تعالیٰ خود سامان مہیا کرتا ہے، خود کام کرتا ہے اور خود ہی جزا بھی دے دیتا ہے خطاب فرمودہ 09نومبر 1980ء حضور انور کی دورہ سے کامیاب مراجعت پر مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے ، حضور نے فرمایا:.ہماری زندگی میں ہمیشہ ہی ایسے واقعات آتے رہتے ہیں کہ جن کے نتیجہ میں ہم اپنے رب کریم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے.اور خدا کی ذات پر بھروسہ اور تو کل میں اضافہ ہوتا ہے“.حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا کہ مجھ پر ہی تو کل کرو، میں کافی ہوں گا.اور کسی اور سے خوف کھانے کی 66 ضرورت نہیں.صرف اللہ تعالیٰ کی خشیت کی ضرورت ہے.حضور نے اللہ تعالیٰ پر توکل کے ایمان افروز نتائج کی مثال دیتے ہوئے پین کا ذکر فر مایا کہ اللہ تعالیٰ خود ہی سامان مہیا کرتا ہے اور خود ہی کام کرتا ہے اور خود ہی جزا بھی دے دیتا ہے“.حضور نے فرمایا کہ " سپین میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھنا ، اتنا اہم واقعہ ہے.اور انسانی زندگی میں یہ اتنا بڑا انقلاب ہے کہ صرف دس سال پہلے تک کوئی شخص ایسا انقلاب رونما ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا.دس سال قبل کی بات ہے کہ ہم نے چین میں ایک صدیوں پرانی ٹوٹی ہوئی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی ، حکومت بھی راضی ہوگئی مگر چرچ نہ مانا.ان کے ملک کا جو سب سے بڑا پادری تھا، اس نے اجازت نہ دی.حضور نے 1970ء کے دورہ سپین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت تو عام لوگوں کی بھی یہ حالت تھی کہ ہمیں دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا تھا.اس وقت اللہ تعالیٰ نے مستقبل کی باتیں بتا ئیں ، جس سے دل کو کچھ سکون ہوا“.753
خلاصہ خطاب فرمودہ 09 نومبر 1980ء حضور نے فرمایا کہ تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اس دس سال میں اتنا بڑا انقلاب رونما ہوا کہ جس جگہ پر مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا، وہاں کے عیسائی اتنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ جیسے ان کے اپنے گرجے کی بنیاد رکھی جا رہی ہو.حضور نے فرمایا کہ 22 وہ اپنی خوشی کو چھپا نہیں رہے تھے بلکہ نمایاں کر رہے تھے.اور کھانے پینے کی چیزیں، جو وہاں موجود تھیں، انہیں وہ کھانے کے لئے نہیں لے رہے تھے بلکہ برکت کے حصول کے لئے انہیں استعمال کر رہے تھے“.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس لمحے ہم نے عجیب خوشی محسوس کی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں ان عیسائیوں کا دل لے کر ان کا زاویہ بدل دیا.اور ان کے دلوں میں اسلام کی بنیادرکھنے کا راستہ ہموار کر دیا.اور ان کے دلوں سے سارے غصے نکال دیئے“.754 ( مطبوعه روزنامه الفضل 25 نومبر 1980ء)
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ انڈو نیشیا اسلام کی آخری فتح کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہو پیغام بر موقع جلسہ سالانہ انڈونیشیا منعقدہ 10تا12 نومبر 1980ء میں یہ جان کر بہت خوش ہوا ہوں کہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا اپنا اٹھائیسواں جلسہ سالانہ 09 تا 12 نومبر مانس اور میں منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ اور اس میں حصہ لینے والوں کو اپنی برکات سے نوازے.میرا اس موقع پر تمہارے لئے یہ پیغام ہے کہ یہ پہلا جلسہ ہے، جو پندرہویں صدی ہجری میں منعقد ہو رہا ہے.اپنے آپ کو اور اپنی نسل کو اسلام کی آخری فتح کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار کرو.خدا کرے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے اسلامی تعلیم کے مطابق محبت کرنے کی توفیق عطا ہو“.مرزا ناصر احمد ( مطبوعه روزنامه الفضل 15 جنوری 1981ء) | 755
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 14 نومبر 1980ء پندرھویں صدی اقوام کے ایک ہو جانے کی صدی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 14 نومبر 1980ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.پچھلے دنوں میں نے بتایا تھا کہ زمانہ آگیا ہے کہ نوع انسانی کے سب افراد ایک قوم کی طرح ہو جائیں اور سارے کے سارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.سعادت مند لوگ ایک ہی مذہب پر اکٹھے ہو جائیں گے اور تفرقہ دور ہو جائے گا اور مختلف قو میں دنیا کی ایک ہی قوم بن جائیں گی.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ 84) مختلف قوموں کے ایک قوم بن جانے کی تعلیم قرآن کریم نے دی ہے.یعنی ایسی تعلیم دی ہے کہ انسانی فطرت اسے قبول کرتی ہے اور سب انسان اگر وہ سمجھیں یا انہیں ہم سمجھا ئیں تو ہو نہیں سکتا کہ اس تعلیم کے نور اور اس کے حسن کے ماننے سے انکار کریں.قرآن کریم کی ساری ہی تعلیم ایسی ہے.لیکن دو، ایک موٹی موٹی باتیں اس وقت میں آپ کے سامنے رکھوں گا.بنیادی بات یہ رکھی گئی ، انسان کے سامنے تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ (ال عمران: 65) جو ہے، وہ نوع انسانی کو ایک کرنے کا حکم ہے کہ سارے کے سارے انسان ایک خدا کی پرستش کرنے لگیں.سارے کے سارے انسان ایک خدا کی اس وقت پرستش کرنے لگیں گے، جب ایک خدا کی معرفت انہیں حاصل ہو جائیں گی.سارے کے سارے انسان خدائے واحد و یگانہ کی اس وقت پرستش کریں گے، جس وقت خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی شناخت انہیں مل جائے گی.اور یہ شناخت انسان کو محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طفیل ملی.قرآن کریم نے کھول کر خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق اور اس کی صفات کے متعلق جہاں تک انسانی زندگی کا تعلق تھا، حقائق انسان کے سامنے رکھے.جن انسانوں 757
خطبہ جمعہ فرمودہ 14 نومبر 1980ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم نے اسلام کی نشاۃ اولی میں اس حقیقت کو سمجھا، ان کی زندگی اور ان کی روح اور جسم میں سے ایک ہی آواز نکلتی تھی ،احد اَحَدٌ اور مولا بس.خدا ہی خدا ہے، سب طاقتوں والا ،سب کچھ کرنے والا.جو ہوا، وہ بھی اسی نے کیا.جو ہوتا ہے ، وہ بھی وہی کرتا ہے.جو ہو سکتا ہے، وہ بھی اسی کے حکم سے ہو سکتا ہے.اس پر تو کل کرنے والوں نے ، سینہ ودل میں اللہ کے لئے حقیقی پیار رکھنے والوں نے دنیا کو یہ نظارہ بھی دکھایا کہ لاکھوں انسان ان پر قربان کر دیئے گئے.کیونکہ اس کا جب امر ہو تو قربان کر دی جاتی ہیں کا فرقو میں صداقت پر.یرموک کے میدان میں چار لاکھ سپاہی چالیس ہزار پر قربان ہو گئے.اس معنی میں، میں یہ قربانی کہ رہا ہوں.اس لیے کہ خدا تعالیٰ کا منشا یہی تھا کہ وہ ان لوگوں کی عزت کو قائم کرے اور ان لوگوں کے نصیب میں فتح ہو ، جو اس واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والے اور اسی کے لئے زندگی گزارنے والے ہیں.جس وقت انسان کے بڑے حصہ نے طاقت کے ساتھ خدائی طاقتوں کا مقابلہ کرنا چاہا، طاقت کے ساتھ ان کی طاقتوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا.لیکن وہ جو اصل مقصد تھا کہ انسان خدا کا بندہ ہوکر زندگی گزارے، وہ آہستہ آہستہ پورا ہوتا رہا.اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مسلسل ترقی کرتا چلا آرہا ہے.میں یہ فقرہ اس کے باوجود کہتا ہوں کہ چین میں ایک موقع پر شکست بھی ہوئی.لیکن میں سپین کی بات نہیں کر رہا.میں تو دنیا کی بات کر رہا ہوں.ساری دنیا میں ایک تسلسل کے ساتھ مجموعی حیثیت میں اسلام ترقی کرتا چلا گیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، جنہیں اور جن کے چند رفقاء کی جماعت کو رؤسائے مکہ، کسری اور قیصر کی طاقت مٹادینا چاہتی تھی ، مٹائی نہیں گئی.بلکہ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الانبیاء:45) آہستہ آہستہ نہیں ترقی ملتی چلی گئی اوراللہ تعالیٰ نے جو نتیجہ نکلا، اس کے بعد وہ انسان کے سامنے آگیا.آفَهُمُ الْغُلِبُونَ (الانبياء: 45) مسلسل ترقی دیکھنے کے باوجود تم سجھتے ہو کہ مسلسل ترقی کرنے والے ناکام ہو جائیں گے.اور مسلسل تنزل کی راہوں کو اختیار کرنے والے کامیاب ہو جائیں گے.عقل سلیم تو ایسا نتیجہ نہیں نکالتی.پھر جیسا کہ بتایا گیا تھا، آخری زمانہ میں جو سیح و مہدی علیہ السلام کا زمانہ ہے، وہ مسیح اور مہدی ، جس کی اپنی کوئی ذاتی حیثیت نہیں.بلکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا و غلام بھی ہے، کامل مطیع بھی ہے، آپ سے کامل طور 758
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 14 نومبر 1980ء پر پیار کرنے والا بھی ہے او محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی دعائیں لینے والا ہے کہ امت محمدیہ کے کسی اور فرد نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ دعائیں نہیں لیں.اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا جرنیل بھی ہے.جرنیل ہے، خود شہنشاہ نہیں.ایک جرنیل ہے، اپنے آقا کا اس زمانہ کے لئے اور یہ خبر دی گئی تھی کہ اس زمانہ میں ساری قو میں ایک ہو جائیں گی.اس واسطے میں نے اعلان کیا کہ میرے نزدیک ( جو میں دیکھ رہا ہوں ) پندرہویں صدی تمام اقوام کے ایک ہو جانے کی صدی ہے.اور تمام اقوام کے ایک ہو جانے کے یہ معنی ہیں کہ وہ تمام اقوام ، جو اسلام سے باہر ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی، جو مہدی کے ہاتھ میں ہے.اور تمام وہ قومیں، جو اسلام کے اندر ہیں، تمام تفرقے مٹاکر اور عداوتوں کو چھوڑ کر پیار اور عاجزی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے ، اس جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی.نوع انسانی ایک قوم بن جائے گی.یہ ہوگا ، یہ ہوکر رہے گا.بہت سے لوگ اسے آج ناممکن سمجھیں گے.مگر دیکھنے والے دیکھیں گے اور مشاہدہ کرنے والے مشاہدہ کریں گے کہ خدا نے جو بشارتیں دی ہیں، وہ اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی.اقوام عالم کو جو ایک قوم بننا ہے، اس کے لیے پہلا اصول یہ قائم کیا گیا کہ خدا ایک ہے.اس نے تمہیں پیدا کیا، تمہاری جو بھی قابلیتیں ، استعدادیں ہیں، اسی کی عطا ہیں.کس مقصد کے لیے پیدا کیا ؟ اور مقصد یہ ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) مقصد اس کے بندے بن جاؤ.اور خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں انسان اپنے مقصد حیات کو سمجھنے لگے گا.اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی زندگی کے دن گزارے گا.دوسرا اصول جو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا، وہ یہ تھا کہ کامل مساوات انسانوں کے درمیان قائم کی جائے.کوئی قوم سپر (Super) اعلیٰ نہیں ہے.ساری قو میں ایک جیسی حیثیت رکھتی ہیں.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایک کی عزت اور دین اسلام کی رو سے ایک ایسا احترام پانے والی ہیں.قوم ، قوم میں کوئی فرق نہیں ، سارے بشر برابر ہیں.(بشر کے معنی عربی میں مرد اور عورت کے ہیں.عظیم اعلان یہ کہ بشر، بشر میں فرق.لیکن ارشاد باری ہوا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جن کی عظمت خدا تعالیٰ نے یہ قائم کی کہ (الكهف : 111) 759
خطبہ جمعہ فرمودہ 14 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم لولاک لما خلقت الافلاك یہ کائنات تیری خاطر پیدا کی گئی ہے.محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، جس کو اللہ تعالیٰ نے.انسانوں سے بڑھ کر استعدادیں دیں.کامل استعدادیں، جو کسی اور کو نہیں دی گئیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، جن کے لیے خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ساری کی ساری استعدادیں آپ کی کامل نشو و نما پاگئیں.آپ کامل انسان بھی بنے ، آپ کامل بادشاہ بھی بنے ، آپ کامل آقا بھی بنے ، آپ کامل بادی بھی بنے ، آپ کامل شریعت لانے والے بھی بنے ، آپ کامل طور پر لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ بھی ٹھہرے.سب اپنی جگہ درست لیکن آپ کے منہ سے خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ( الكهف : 111) کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں اے مردو! اور اے عورتو! کوئی فرق نہیں.عظیم مساوات ہے.اور اس کا ایک پہلو یہ ہے، جو دوسری جگہ زیادہ واضح کیا گیا ہے.وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ (ال عمران : 65) یہ جو عدم مساوات انسانوں کے درمیان ہے، اس کی سب سے زیادہ بھیانک شکل انسانی تاریخ میں یہ ہے کہ مذہبی لحاظ سے بعض کو أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللَّهِ کا درجہ دے دیا گیا اور بعض کو انسان نے اپنے فیصلے کے مطابق کم درجہ دے دیا.یعنی خدا تعالیٰ کا فیصلہ نہیں، انسان کا اپنا ہی فیصلہ ہے.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنا خون خرابہ ہوا مذ ہب کے نام پر کہ الامان.حالانکہ اسلام نے کہا یہ تھا، وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ کوئی انسان کسی دوسرے کو ( خدا کے علاوہ ) رب نہیں بنائے گا.رب ایک ہی ہے.جس کے معنی یہ تھے کہ کسی چیز کے حصول کے لیے، اپنی کسی ربوبیت کے حصول کے لیے کسی انسان کے پاس نہیں جائے گا.نہ اس کے سامنے جھکے گا، نہ اپنی تکالیف دور کرنے کے لیے اس کے اوپر بھروسہ کرے گا، وغیرہ وغیرہ لیکن بنا لیے انسانوں نے ارباب.760
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 14 نومبر 1980ء لیکن اب زمانہ آ گیا کہ تمام وہ ارباب، جو اللہ کے علاوہ مذہبی دنیا میں بنائے جاتے تھے ، ان کا خاتمہ کر دیا جائے.اور اسی کو ہمارے دلوں میں گاڑنے کے لیے قرآن کریم نے اعلان کیا:.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ (النجم : 33) خود اپنے کو اور اپنوں میں سے کسی کو پاکباز نہ قرار دیا کرو.تا کہ وہ ارباب نہ بن جائیں.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : 33) اس بات کا فیصلہ کرنا کہ کون متقی ہے اور کون نہیں؟ خدا کا کام ہے.بندے کا کام ہی نہیں ہے.جب بندے کو یہ طاقت ہی نہیں دی گئی کہ کون پر ہیز گار ہے؟ کون خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق، اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہے اور کون نہیں؟ بندے کا کام نہیں کہ کہے فلاں متقی اور فلاں پر ہیز گار؟ بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں اور ہورہی ہیں، اس وجہ سے.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ یہ ایک ہی مضمون ہے، جسے مختلف طرفوں سے خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے پیش کر کے ہماری عقلوں میں جلا اور روشنی اور نور پیدا کیا ہے.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى قوموں کے باہمی تعلقات تھے.قرآن کریم کہتا ہے، کوئی قوم کسی قوم کو حقیر نہ سمجھے.یو این او کا ویٹو تو ختم کر دیا گیا.سپر پاورز (Super Powers) نہیں رہیں، اس آیت کے بعد.جب بنیں ، خرابی پیدا ہوئی.جو خرابیاں دور کرنا چاہتے تھے، جن خرابیوں سے بچنا چاہتے تھے، اس سے زیادہ خطرناک خرابیاں اس ویٹو پاور نے پیدا کر دیں اور اس تصور نے کہ بعض قو میں بعض دوسروں پر فوقیت رکھتی ہیں.اور تم میں سے کوئی دوسرے پر عیب لگا کر طعن نہ کیا کرے.وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمُ (الحجرات : 12) اپنے عیب ڈھونڈو اور خدا سے استغفار اور توبہ کرو.دوسروں میں تمہاری آنکھ عیب دیکھتی کیوں ہے؟ حضرت مصلح موعود نے اپنے بچوں کو آمین میں بہت سی دعائیں دی ہیں اور ان میں سب سے پیاری دعا یہ ہے.اور اس سے زیادہ پیاری ہمیں دعا نہیں دے سکتے تھے.761
خطبہ جمعہ فرمودہ 14 نومبر 1980ء الہی خیر تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم ہی دیکھیں نگاہیں دوسرے میں یہ نقص ہے، دوسرے میں یہ نقص ہے.اپنے نقائص دیکھو اور انہیں دور کرو.تاکہ خدا کے حضور سرخرو ہو سکو.لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمُ عیب تلاش کرنے ، عیب منسوب کر دینے ، آپ ہی بنا لینے کہ تم میں یہ عیب پایا جاتا ہے، تم میں یہ عیب پایا جاتا ہے، منع کیا.اور لَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات : 12) ہندو کے اثر کے نتیجہ میں یہ شروع ہو گیا تھا.یہ جولاہا ہے، یہ موچی ہے، یہ فلاں ہے، یہ فلاں ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عیب کو اس طرح بھی دور کیا.موچی ہونا، کوئی عیب نہیں.لیکن جو شخص خود موچی ہونے کو عیب سمجھتا ہے، وہ گنہ گار ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص اپنے آباء واجداد کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے، خدا کی لعنت ہے، اس پر.آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو موچی ہے، اس پر خدا کی لعنت.ہزاروں لاکھوں ہوں گے، جن پر خدا کی رحمتیں نازل ہوئیں.خدا تعالیٰ کا دروازہ جو بھی کھٹکھٹاتا ہے، کھولا جاتا ہے، اس کے لیے.لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کے اس حکم کو توڑتا ہے کہ قوم ، قوم میں فرق ہے اور معززقو میں اور بعض ذلیل قومیں ہیں.اور خود ہی اپنے آپ کو ذلت والی قوم کی طرف منسوب کرتا ہے، اپنے خیال میں.اور پھر چاہتا ہے کہ ان کی طرف منسوب نہ ہو اور ایک جھوٹ بولتا ہے.اور ایسے لوگوں کی طرف منسوب ہوتا ہے، جس قوم سے وہ نہیں.مغل بن جاتا ہے، کوئی پٹھان بن جاتا ہے، کوئی سید بن جاتا ہے، کوئی کچھ بن جاتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، خدا کی لعنت ہے، اس پر.آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو موچی ہے، اس پر لعنت ہے یا جو جو لاہا ہے، اس پر لعنت ہے.یہ تو پیشے ہیں.کئی سید ہیں، جن کو زمانے نے مجبور کیا کہ وہ کپڑے بننے لگ جائیں، وہ جوتوں کی دوکان کھول لیں ، ان کی ذات تو نہیں بدل گئی.اور سید ہونا تو کوئی خوبی نہیں ہے.جو پیدا کرے گا، وہ سید القوم بن جائے گا.جو نہیں پیدا کرے گا ، وہ معزز نہیں رہے گا.اس زمانے میں اس عظیم کام کے لیے کہ نوع انسانی کے دل خدا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جیتے جائیں ، پیار کے ساتھ ، محبت کے ساتھ اللہ اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نور اور حسن دنیا کے سامنے پیش کر 762
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 14 نومبر 1980ء کے، اس کے لیے عیسی اور مہدی نے آنا تھا.مسیح موعود مہدی معہود تشریف لے آئے اور ہم نے علی وجہ البصیرت ان نشانوں کو سچا پا کر، جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی علیہ السلام کے لیے مقرر کیے تھے، مہدی علیہ السلام پر ایمان لائے.ہم ایمان لائے ہیں مہدی پر، اس وجہ سے.اور ایمان لانے کے بعد، جن برکات کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بشارت دی تھی کہ مہدی سے وابستہ ہیں، ان کا نظارہ ہماری آنکھوں نے دیکھا، ہمارے دماغ نے سمجھا، ہمارے دل نے محسوس کیا، ہمارے سینوں میں ظلمات دور ہو کر نور بھر گیا.ہم نے کہا، یہی ہے، وہ شخص.آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مہدی اسلام سے سب بدعات نکال کے خالص اور کھرا اسلام دنیا کے سامنے پیش کرے گا.اور اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ بعض نادان کہیں گے کہ اس نے ایک نیامذہب بنالیا ہے.یہ وہ تو نہیں، جو میرے آباء واجداد بتاتے ہے ہیں.یہ بھی دیکھ لیا ، ہم نے.مہدی علیہ السلام پر ایمان لاکر میں نے اور آپ نے کیا پایا؟ حضرت مہدی علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملایا ، مہدی سے ہم نے محمد پایا.میں 70ء میں افریقہ گیا.مغربی افریقہ میں ایک ملک ہے، سیرالیون.وہاں کے ایک سیاسی لیڈر، جو ایک وقت میں نائب وزیر اعظم بھی رہے.اس وقت ان کی پارٹی برسراقتدار نہیں تھی.ایک ریسیپشن (Reception) میں انہوں نے تقریر کی.وہ سیرالیون میں سب سے بڑے مقرر سمجھے جاتے ہیں.اور اس تقریر میں انہوں نے یہ کہا، ہر تین فقرے کے بعد کہتے تھے کہ میں احمدی نہیں لیکن جو حقیقت ہے، اسے میں جھٹلا نہیں سکتا.انہوں نے کہا، احمدی مبلغین کے آنے سے قبل اگر کسی مجلس میں اسلام کے متعلق کوئی بات شروع ہوتی تو ہماری گردنیں شرم کے مارے جھک جاتی تھیں، ہمیں اسلام کا کچھ پتہ نہیں تھا.پھر یہ لوگ آئے ، ان سے ہم نے اسلام سیکھا، اسلام کے حسن سے ہم شناسا ہوئے ، ہم واقف ہوئے ، اسلام کا نور ہم نے مشاہدہ کیا، خدا تعالیٰ کے نشان ہم نے دیکھے، یہاں، ان کے ذریعے سے.اور اب یہ حال ہے کہ اگر کسی مجلس میں اسلام کا ذکر شروع ہو تو ہم فخر کے ساتھ گردن اونچی کرتے ہیں اور گفتگو شروع کرتے ہیں، اسلام کے متعلق.اور انہوں نے بہت سے نشانوں کا بھی ذکر کیا، اس تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں.یہ تو جو ہمارے ہمسایہ ہیں، انہوں نے بھی دیکھا.ہم علی وجہ البصیرت مہدی علیہ السلام کے احسانوں کو جانتے ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی معمولی وجود تو نہیں ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق رب دو جہان نے یہ اعلان کیا تھا، کہ دو، ان کو اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : 32) 763
خطبہ جمعہ فرمودہ 14 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم خدا سے پیار کرنا ہے، میری اتباع کرو.اس عظیم شخصیت ، اس عظیم رسول ، اس خاتم النبین سے ہمارا واسطہ قائم کر دیا، مہدی نے.اتنا بڑا احسان کیا، ہم پر.اور وہ، جو خدا کو بھول کر ادھر ادھر قبروں پر سجدہ کرنے والے، پیروں کی پرستش کرنے والے، دولت کے پیچھے دوڑنے والے، دولت کو خدا سمجھنے والے، سیاسی اقتدار کے سامنے گردن جھکانے والے تھے، ہمیں ساری ان چیزوں سے چھڑا کے خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال جو تھا اور اس کے جمال کے جلوے جو تھے، ہماری زندگیوں میں مہدی نے دکھا دئیے.ہمیں مہدی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ملائے.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے ہمیں خدا سے ملا دیا.ایک زندہ مذہب ہمیں ملا، اسلام.ایک زندہ شریعت ہمیں ملی ، قرآن.ایک زندہ نبی ہمیں ملا محمد صلی اللہ علیہ وسلم.ایک زندہ خدا ہمیں ملاء اللہ.جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.اور ہماری زندگیوں میں اس کے جلوے نظر آ رہے ہیں.دنیا کی کون سی طاقت ہے، جو ہمارا رشتہ اس مہدی سے قطع کر سکے؟ کئی ہیں، جو زور لگاتے ہیں، لگائیں گے.خدا آزماتا بھی ہے، امتحان بھی لیتا ہے.مگر آپ میں سے ہر شخص کو اپنے رب کریم سے عہد کرنا چاہیے کہ اے خدا ادھر کی ادھر ہو جائے، دنیا میں قیامت آ جائے، تیرا دامن ہم نہیں چھوڑیں گے.اور تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم کے علاوہ اور کوئی نقوش قدم ہمارے لئے نہیں ہیں، جن کے اوپر ہم چلیں.اگر یہ نہیں، اگر زندہ خدا کے زندہ جلوے نہیں ہماری زندگیوں میں، تو یہ زندگی رہنے کے قابل نہیں ہے.پھر زندہ رہ کر ہم نے دنیا میں کیا کرنا ہے؟ زندگی کا تو مزا ہی اب آیا ہمیں کہ مہدی علیہ السلام کے ذریعے ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے.جنہوں نے اپنی تعلیم کے ذریعے، اپنی دعاؤں کی وجہ سے، اپنے اسوہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے ملا دیا.وہ عظیم اللہ ہمارے بچوں سے ذاتی تعلق رکھتا ہے.چھوٹے چھوٹے بچے ، جن کو ابھی کچھ پتہ بھی نہیں، ان کو کچی خوا ہیں آنے لگ گئیں.عظیم باتیں وقت سے پہلے بتادیں اور وقت پر پوری ہو گئیں عظیم طاقتوں والا ہے.انہونی کو پورا کر دیتا ہے.انہونی باتوں میں سے چھوٹی سی بات ابھی میں بتا دوں.بالکل ایک چھوٹی سی ، ہزاروں میں سے.ابھی اس سفر میں ایک احمدی دوست تھے، نئی شادی ہوئی تھی ، بچہ ہونے والا تھا.انہوں نے مجھ سے پوچھا ، میں نے لڑکے کا نام رکھ دیا.(ویسے ہی رکھ دیا لڑکے کا نام) کہنے لگے، اگر لڑ کی ہوئی.میں نے کہا، میں ایک نام رکھ چکا ہوں، لڑکی ہوئی تو آپ رکھ لینا.پیدائش سے دوماہ پہلے لندن کی لیڈی ڈاکٹر ز نے اس کو کہا کہ تیری بیوی کے پیٹ میں لڑکی ہے.اب اس لئے انہوں نے ٹیسٹ ویسٹ نکالے ہیں.پتہ لگ جاتا ہے.وہ دعوی کرتے ہیں، پتہ لگ جاتا ہے، بچہ، بچی کا.اس کے دوستوں نے کہا کہ اب تو بڑی پکی 764
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبه جمعه فرموده 14 نومبر 1980ء بات ہوگئی، تم حضرت صاحب سے کہو کہ نام بدلیں، لڑکے کی بجائے لڑکی کا نام رکھ دیں.اس نے کہا، نہیں، میں نے تو نہیں کہنا، جو رکھ دیا بس رکھ دیا.اور دو مہینے لیڈی ڈاکٹر ز اپنے پیشے اور مہارت اور تجربے کے گھمنڈ پر اور نی تحقیق کی وجہ سے کہتی رہیں کہ اس کے پیٹ میں لڑکی ہے.اور میں ابھی وہیں تھا، اس کے بچہ پیدا ہوا اور وہ لڑکا تھا.خدا تعالیٰ تو پیدائش سے پانچ گھنٹے پہلے بھی لڑکی کولڑ کا بنا سکتا ہے.اور دلیل اس کی یہ ہے کہ پیدائش کے بعد بھی بہت سارے لڑکے لڑکیاں اور لڑکیاں لڑکے بن جاتے ہیں.یہ اسی واسطے اللہ عالی کرتا ہے کہ وہ انسان کو بتائے کہ جو میری مرضی ہو، وہ ہوتا ہے.اسی واسطے ہوتا ہے.سینکڑوں ہزاروں نشان اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی میں دے دیئے.میں تو بڑا عا جز انسان ہوں لیکن جس کی غلامی میں آ گیا اور جس کے دامن کو پکڑا ، مہدی کے ذریعے، یعنی مد صلی اللہ علیہ وسلم ، ان کا اللہ تو عاجز نہیں ہے.وہ تو بڑی طاقتوں والا، بڑے غلبہ والا ، اس نے تو ، ( تاریخ کو دیکھیں آپ ) ایک دنیا جہان کو تہ و بالا کر دیا اپنے نیک بندوں کے لئے ، چند ایک کے لئے بہتوں کے اوپر اپنے غصہ کا اظہار کر دیا.مگر ہم انسان تو کسی پر غصہ نہیں کرتے.ہم تو یہ دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا! اس زمانہ میں جیسا کہ تو نے کہا، تیرا قہر کسی پر نازل نہ ہو.سب کو تیرے جمال کے جلوے، تیری وحدانیت کی طرف اور تیرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے آئیں اور دنیا ایک قوم بن جائے.اے خدا! ہماری زندگیوں میں بھی ایسے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جا ئیں.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل 27 ستمبر 1982ء) 765
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خلاصہ خطاب فرمودہ 15 نومبر 1980ء جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے خطاب فرمودہ 15 نومبر 1980ء حضور رحمہ اللہ کی دورہ سے کامیاب مراجعت پر صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید انجمن احمد یہ کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں خطاب کرتے ہوئے، حضور نے فرمایا:.”جواللہ تعالیٰ چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے“.حضور نے فرمایا کہ میں نے اس دورے میں انڈو نیشیا بھی جانا تھا.مگر یہ پروگرام بدلنا پڑا.مگر جماعت انڈونیشیا کے ایک فرد کو اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ چودھویں صدی کے بعد دنیا میں ایک ایسا انقلاب بر پا ہوگا کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی شان اس طرح دنیا پر آشکار ہو گی کہ جو ساری دنیا کے دل جیت لے گی“.حضور رحمہ اللہ نے بتایا کہ اس بات کا اظہار ہمارے سفر کے دوران ہی شروع ہو گیا.اور اللہ تعالیٰ کے نشانوں کا قدم قدم پر نزول ہوتا رہا.حضور رحمہ اللہ نے سپین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سپین میں مسلمانوں نے ایک لمبا عرصہ حکومت کی.اور دعا اور خدا تعالیٰ کی عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے ، وہ ترقیات حاصل کیں کہ ساری دنیا کو حیرانی میں ڈال دیا.لیکن ان بادشاہوں کی اولا دوں نے خدا تعالیٰ کی راہیں چھوڑ کر بدی کی راہوں کو اختیار کر لیا.اور اس طرح حاکم کی بجائے محکوم بن گئے.اور لاکھوں افراد قتل و غارت گری کا شکار ہوئے.جورہ گئے ، وہ جب عیسائی بنالئے گئے“.حضور نے فرمایا:.پھر حالات بدلے، اس پر لمبا عرصہ گزرا.اور پانچ یا سات سو سال گزر گئے.اب سپین میں اسلام کی ترقی کاعمل شروع ہو گیا ہے.767
خلاصہ خطاب فرمودہ 15 نومبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ اس علاقے کے لوگوں کے جذبات 1970ء میں اتنے دوستانہ نہیں تھے.ہمیں دیکھ کر اس علاقے کے لوگوں کی آنکھوں میں خون اتر آتا تھا.مگر اس دفعہ غرناطہ بھی بدلا ہوا ملا ، طلیطلہ بھی پیار کرنے والا نظر آیا.اور اتنا پیار ان لوگوں نے دیا کہ اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر اس انقلاب پر کیا جائے کم ہے.حضور رحمہ اللہ نے اس انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے ، جس کے آثار اب دنیا میں ظاہر ہور ہے ہیں، انڈونیشیا کے ایک اخبار کے تراشہ کا ترجمہ پڑھ کے سنایا.اس اخبار نے سپین میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے واقعہ کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ” سارے عالم اسلام کے لئے یہ ایک خوشی کا موقع ہے کہ چودھویں صدی ہجری کے آخر میں 09 اکتوبر بروز بدھ شہر قرطبہ کے قریب پہلی مسجد کا سنگ بنیا درکھا گیا.اسی اخبار نے پھر لکھا کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے، جس سے پین میں اسلام کی ترقی کا راستہ کھل گیا ہے“.حضور رحمہ اللہ نے انڈونیشیا کے ایک اور اخبار کا حوالہ دیا، جس نے لکھا ہے کہ اس واقعہ پر) تمام دنیا کے مسلمانوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے.حضور نے سپین کے ایک اخبار کا تراشہ بھی پڑھ کر سنایا.اس میں اور باتوں کے علاوہ لکھا تھا کہ مسلمان قرطبہ کو دوبارہ روحانی طور پر فتح کرنا چاہتے ہیں.مسلمانوں کی نظریں ایک دفعہ پھر قرطبہ پر اٹھ رہی ہیں، جو اسلام کا موتی ہے.اس اخبار نے یہ بھی لکھا ہے، جماعت احمدیہ کے امام مرزا ناصر احمد نے 700 سال کے وقفہ کے بعد بڑی شان و شوکت سے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس تقریب میں قصبہ کے لوگ ذوق و شوق سے شامل ہوئے.حضور رحمہ اللہ نے ان تراشوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ و ہمیں تکبر نہیں کرنا چاہیے.ہم انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ خدا کے حضور اپنی قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں گے.دعاؤں کو اپنا شعار بنائیں گے اور خدا تعالیٰ پر کامل تو کل کریں گے.حضور نے احباب جماعت کو تلقین کی کہ دنیا کی خدمت کرتے رہو، اسلام کے حسن کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش کرتے رہو.اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کی برکتیں سب کے دلوں کو جیت لیں گی.اور نوع انسانی کا دل اللہ تعالٰی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتا جائے گا.768 ( مطبوعه روزنامه الفضل 04 06 دسمبر 1980ء)
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرموده 17 نومبر 1980ء دنیا بدل رہی ہے، انقلاب عظیم بپا ہورہا ہے خطاب فرمودہ 17 نومبر 1980ء حضور رحمہ اللہ کی دورہ سے کامیاب مراجعت پر لجنہ اماءاللہ کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں خطاب کرتے ہوئے ، حضور نے فرمایا:.افریقہ میں جو افریقن ہیں، وہ اتنے صاف ستھرے ہیں کہ میں نے کسی جگہ ایسا پانی نہیں دیکھا، جہاں افریقن عورتیں کپڑے نہ دھو رہی ہوں.وہ بڑی محنت سے صاف ستھرے رہتے ہیں.ان کی شکلیں گو کالی ہیں لیکن دل ایمان کے نور سے بھرے ہوئے ہیں.ان کے اندر احمدیت کا پیار ہے“.حضور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ نے پہلی دفعہ ان لوگوں کے دلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت گاڑی ہے 66 اور محد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار پیدا کیا ہے.حضور نے فرمایا کہ وہاں کے بڑے بڑے مقررین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ افریقہ میں خدا تعالیٰ کا جلال، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور پیار اور اسلام کی فضیلت کا پرچار سب سے پہلے احمدی مبلغین نے کیا“.حضور نے فرمایا کہ دنیا بدل رہی ہے، انقلاب عظیم بپا ہو رہا ہے“.مطبوعه روزنامه الفضل 16 دسمبر 1980ء) 769
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم پیغام فرمودہ 15 دسمبر 1980ء غلبہ اسلام کی خاطر انتہائی جد و جہد اور قربانیوں کے لئے تیار رہیں پیغام فرمودہ 15 دسمبر 1980 ء بر موقع جلسہ سالانہ غانا عزیز از جان بھائیو! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ورتصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته خدا تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہمیشہ آپ کے سر پر رہے اور اس کے بے شمار فضل آپ پر نازل ہوں.مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ غانا کی احمدی جماعتوں کا سالانہ جلسہ 08 تا 10 جنوری 1981ء کو منعقد ہو رہا ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر لحاظ سے کامیاب کرے اور اس میں شامل ہونے والے احمدی احباب کو اس جلسہ کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی توفیق دے.آمین.اس وقت ہماری جماعت اپنی زندگی کے ایک نہایت اہم اور نازک دور میں سے گزر رہی ہے.اسلام کے خلاف طاقتیں بظاہر زوروں پر ہیں اور ہم بے حد کمزور بلکہ لاشے محض ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے، اس کی بشارتیں اور پھر ان کے پورا ہونے کے جو آثار دنیا کے افق پر ہماری روحانی آنکھ دیکھ رہی ہے، وہ ہمیں اس یقین پر قائم کر دیتے ہیں کہ یہ وعدے اور بشارتیں بہر حال پوری ہوں گی.راستے میں بہت سی مشکلات اور روکیں حائل ہوں گی.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل بھی موسلا دھار بارش کے قطروں سے زیادہ نازل ہورہے ہیں.ان حالات میں آپ کے لئے میرا یہ پیغام ہے کہ شکر اور حمد کے جذبات کے ساتھ شب و روز دعاؤں میں لگے رہیں.اور غلبہ اسلام کی خاطر انتہائی جدو جہد اور قربانیوں کے لئے تیار رہیں.نہ صرف خود بلکہ اپنی اولا دوں کو بھی اس کے لئے تیار کریں.تا کہ اللہ تعالیٰ جلد وہ دن لائے، جبکہ نہ صرف پورا براعظم 771
پیغام فرمودہ 15 دسمبر 1980ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم افریقہ بلکہ ساری دنیا ہی امت واحد بن کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.اور اس طرح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی اس پیشگوئی کو ہم اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ لیں کہ اسلام فتح پائے گا.اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں وو کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں“." ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 255-254 حاشیہ ) خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا.اور میرے سلسلہ کو تمام دنیا میں پھیلائے گا.یہ سلسلہ زور سے بڑے گا اوپھولے گا، یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے.مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا“.تجلیات البیہ صفحہ 17 ، روحانی خزائن جلد (2) اے خدتو ایسا ہی کر.تاریکی کے بادل چھٹ جائیں، دنیا کے دل اسلام کے نور سے منور ہو جائیں اور دنیا کے دل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے مالا مال ہو کر خدائے واحد کے آگے جھک جائیں.آمین 772 ( دستخط ) مرزا ناصر احمد 15دسمبر 1980ء مطبوعه روزنامه الفضل 08 مارچ 1981 ء )
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع سالانہ تربیتی کلاس لندن اس دور میں اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے تئیں تیار کریں پیغام بر موقع سالانه تربیتی کلاس لندن منعقدہ 24 دسمبر 80ء تا 02 جنوری 81ء پیارے احمدی بچو ! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی کہ گزشتہ سال کی طرح اس دفعہ بھی آپ کی تربیتی کلاس ) منعقد ہو رہی ہے.مجھے امید ہے، آپ اس میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں گے.اور جو کچھ آپ کو پڑھایا، سکھایا جائے گا، آپ اسے توجہ اور غور سے سنیں گے.اور نہ صرف اسے یادرکھیں گے بلکہ اس پر غور و تدبر کر کے اپنے ذہنوں میں مزید جلا پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.جو کچھ آپ سیکھیں گے ، اس پر خود بھی عمل کریں گے اور اپنے حلقے میں دوسروں کو بھی عمل پیرا ہونے کی تلقین کریں گے.اللہ تعالٰی آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) ہمیں یہ امر مد نظر رکھنا چاہیے کہ اس وقت جماعت احمد یہ اپنی زندگی کے اہم اور نازک دور میں سے گزررہی ہے.اس دور میں اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے تیں تیار کریں.خدا کی باتیں پوری ہو کر رہیں گی.ساری دنیا کے دل اسلام کے نور سے منور ہوں گے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا ہوگی.مگر اس عظیم ہم میں ہمیں بے انتہا قربانیاں پیش کرنی ہوں گی.یہ قربانیاں پیش کرنے کے لئے ابھی سے اپنے تئیں تیار کریں.یہ کام خدا کے فضل سے ہوگا.ہم کیا اور ہماری حقیر قربانیاں کیا.اللہ تعالیٰ کے اور زیادہ فضلوں کو کھینچنے کے لئے ابھی سے دعاؤں کی عادت ڈالیں.773
پیغام بر موقع سالانہ تربیتی کلاس لندن تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ہمارا خدا ہر بات پر قادر ہے، اس کے لئے کوئی بات انہونی نہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ کے حضور عاجزانہ جھکیں اور اس سے مدد کے طلب گار ہوں.دستخط مرزا ناصر احمد 774 مطبوعه روزنامه الفضل 05 مارچ 1981ء)
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1980ء صرف خدا اور محمد کا نام رہ جائے گا باقی سب دنیوی چیز میں غائب ہو جائیں گی خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء بر موقع جلسہ سالانہ وو مستورات سے خطاب کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:....دین اسلام ایک بڑا ہی عظیم دین ہے.اور قرآنی شریعت اس قدر حسین ہے کہ اس کا اندازہ کرنا ، انسانی ذہن کے لئے ممکن نہیں.اس تعلیم نے انسانی فطرت کے ہر پہلو کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے.کوئی حکم تکلیف پہنچانے کے لئے نہیں بلکہ تکالیف دور کرنے کے لئے اور ان سرچشموں اور منبعوں کو بند کرنے کے لئے ہے، جہاں سے مصیبتیں اور تکالیف بہ نکلتی ہیں، اسان کی اپنی غلطی کے نتیجہ میں.لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے جھوٹے خوف ہیں، ہماری زندگی میں، جو ہمیں نیکی کی راہوں کو اختیار کرنے سے روکتے ہیں.مثلاً سادہ زندگی کا حکم ہے.ایک عورت کہتی ہے کہ اگر میں سادہ رہی تو میری ہمسائیاں جو ہیں، وہ کیا کہیں گی.ان ہمسایوں کی خاطر اور ان کے خوف سے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو وہ تو ڑ دیتی ہیں.جو احمدی خاندان پاکستان سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں غیر ممالک میں روزی کمانے کے لئے گئے ، ان کی عورتیں ان ملکوں میں، جو انتہائی گندی زیست گزار رہے ہیں اور نہایت بھیانک اخلاقی ماحول میں سانس لے رہے ہیں ، ان لوگوں کے خوف کی وجہ سے اپنی نقاب اتار دیتی ہیں کہ اگر ہم نے پردہ کیا تو یہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے.ہمیں شاید غیر مہذب سمجھیں، ذلیل جائیں.اسی قسم کے سینکڑوں خوف ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے سینکڑوں احکام کی راہ میں روک بن جاتے ہیں.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر یہ حکم دیا ہے، فَلَا تَخْشَوهُمْ دنیا کی کسی ایسی طاقت سے یا ایسے معاشرہ سے یا ایسے ماحول سے یا ایسی تنقید سے تم خوفزدہ نہ ہو، جس کے نتیجہ میں تمہیں مجھ سے دوری کی راہوں کو اختیار کرنا پڑے.فَلَا تَخْشَوْهُمْ ایسی چیزوں کی خشیت تمہارے دلوں میں پیدا نہ ہو.وَاخْشَوْنِي صرف میری صرف میری، صرف میری خشیت تمہارے دلوں میں پیدا ہو“.775
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1980ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم پس آج میں صرف ایک بات کہنے کے لئے یہاں آیا اور وہ یہ کہ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي ان بڑی بڑی طاقتوں کا خوف دل میں نہ رکھو.جو دولتیں ہیں، جو اقتدار ہیں، جو دنیوی عزتیں ہیں، جو دنیوی جتھے ہیں، میں اس صدی کے شروع سے یا شروع ہونے سے بھی کچھ عرصہ پہلے سے یہ اعلان کر رہا ہوں کہ اس صدی میں یہ سب غائب ہو جائیں گے اور صرف محمد اور اس کے خدا کا نام اس دنیا میں رہ جائے گا.اور بڑی بدقسمت ہوگی وہ عورت، اور بڑا بد قسمت ہوگا وہ خاندان، کہ جب اس عظیم انقلاب کی ابتدا ہو چکی ، اس وقت وہ اس کی طرف پیٹھ کرے اور مغرب اور اس کی تہذیب کی طرف منہ کرے.فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي آپ افتتاحی تقریر بھی میری سنتی ہیں اور دوسری دو تقریریں بھی سنتی ہیں.لیکن جس طرح بڑی دعوت جس میں بہت سے کھانے ہوتے ہیں، ساتھ چلٹنی بھی ہوتی ہے.تو بطور چٹنی کے میں آپ کے پاس اس وقت ایک عظیم بنیادی حقیقت لے کر آیا ہوں.یہ ایک بہت ضروری اور بہت بنیادی پوائنٹ (Point) ہے.میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یعنی یہ کہ سوائے خدا کے کسی کی خشیت تمہارے دل میں نہ ہو.اور خدا کی ہی خشیت ہو، تمہارے دل میں.بلینک (Blank) نہ ہوں تمہارے دل.یہ نہیں کہ کسی کی بھی خشیت نہ ہو.خشیت ہو.صرف ایک کی خشیت ہو اور وہ ہمارا رب ہے.وہ ساری عظمتوں والا ہمارا رب.وہ ساری قدرتوں والا ، ہمارا رب.وہ ہر قسم کے احسان کرنے والا ، ہمارا رب.وہ حسن کا سر چشمہ، ہمارا رب.وہ رب، جو اتنا پیار کرنے والا ہے، اتنا پیار کرنے والا ہے کہ جب ہم اس کی طرف جھکتے ہیں، ہماری خطاؤں کو معاف کر دیتا ہے.اور اپنے پیار سے ہمارے گھروں کو ، اپنے پیار سے ہمارے ذہنوں کو ، ہمارے دلوں کو ، ہمارے سینوں کو بھر دیتا ہے.اس واسطے میں نے یہ کہا کہ ورد کرو بار بار لا اله الا الله.لا إله إلا الله کا زمانہ ہے.لا الہ ہو جائے گا، غیر اللہ مٹا دیئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اللہ تعالیٰ سے پیار نوع انسانی کے دل میں قائم کر دیا جائے گا.خدا کرے کہ اس عظیم انقلابی جدوجہد میں، جس کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ڈالی گئی ہے آپ میں سے ہر ایک کا بھی حصہ ہو.آمین.776 ( مطبوعه روز نامه افضل 21 جولائی 1981ء)
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء دنیا میں تحریک جدید کے تحت سرانجام پانے والے مختلف کاموں کا ذکر خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء بر موقع جلسہ سالانہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب کا آغاز تعلیمی منصوبہ کے بارے میں تفاصیل بتاتے ہوئے کیا.حضور نے خطاب سے قبل تعلیمی میدان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والوں میں انعامی تمغہ جات تقسیم فرمائے.اس کے بعد فرمایا کہ اس وقت تعلیمی میدان میں آگے نکلنے والوں میں سے بعض کو تمغات بطور انعام دیئے گئے ہیں.یہ تمغات اس بڑے اور اہم تعلیمی منصوبے کی ایک ابتداء ہے، جو کہ اس سال میں نے شروع کیا ہے.کیا حضور نے بتایا کہ ور سال رواں میں تمغے حاصل کرنے والوں کی کل تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے 14 بنتی ہے.یعنی 14 احمدی طلباء وطالبات ایسے ہیں، جنہوں نے بورڈ یا یونیورٹی میں اول، دوم یا سوم پوزیشن حاصل کی ہے.اس کی تفصیل بتاتے ہوئے حضور نے بتایا کہ ان میں سے آٹھ وہ ہیں، جنہوں نے اول پوزیشن حاصل کی ہے.(الحمد للہ ) چاروہ ہیں، جنہوں نے دوم پوزیشن حاصل کی ہے.اور دو ایسے ہیں، جنہوں نے سوم پوزیشن حاصل کی ہے“.حضور نے فرمایا کہ یہ تمنے دینا اس بڑے تعلیمی منصوبے کا ایک چھوٹا سا مگر ایک ضروری حصہ ہے.منصوبے کا بڑا اور اہم حصہ وہ دعا ہے، جو میں نے کی ہے اور جو میں کرتا ہوں اور جس میں آپ کو بھی شریک ہونا چاہیئے" حضور نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ” جب میں نے اس منصوبے کا اعلان کیا تھا، اس وقت میں نے دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ آئندہ دس سال میں ہمیں سو جینیس ذہن عطا کرے“.حضور نے فرمایا کہ اس کے لیے میں بھی دعا کرتا ہوں اور میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ آپ بھی دعا کریں.777
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم حضور رحمہ اللہ نے جینئس ذہن کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ فسٹ آنا یا دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنا اچھی چیز ہے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر پوزیشن حاصل کرنے والا جنینیکس ذہن بھی ہو.ابھی میں نے بعض طلباء کو انعامی تمغار ان میں سے بعض جینئس ہوں گے بعض نہیں ہوں گے.حضور نے فرمایا کہ ” میں نے پہلے بھی بطور مثال بتایا تھا کہ قریباً چار سال قبل ایک احمدی لڑکے نے ایم ایس سی فزکس میں اتنے نمبر حاصل کر لیے کہ اس کا نتیجہ اس خیال سے کچھ عرصہ کے لئے روک لیا گیا کہ اگر اتنے زیادہ نمبر دے دیئے گئے تو آئندہ اس کا ریکارڈ کون تو ڑے گا ؟ اس لڑکے کے نمبر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے قائم کردہ ریکارڈ سے زیادہ تھے.حضور نے فرمایا کہ اس احمدی لڑکے نے جو نیا ریکارڈ قائم کیا تھا، گزشتہ سال ہماری ایک احمدی بچی نے پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس سی فزکس میں وہ ریکارڈ توڑ دیا.الحمد للہ ثم الحمد للہ.حضور نے ان ذہین ترین احمدی بچوں کے بارے میں بتایا کہ جو پہلا بچہ ہے، جس نے ریکارڈ توڑا تھا، اس نے پی ایچ ڈی کا کورس بھی ابھی ختم نہیں کیا کہ ایسے آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی مشہور ترین یونیورسٹیاں لیکچر دینے کے لئے بلا لیا کرتی ہیں.حضور نے فرمایا کہ ید اللہ کا کام ہے کہ وہ کسی کو اعلیٰ ذہن دے.اور اس کو اعلیٰ ذہن دینے سے کوئی نہیں روک سکتا“.حضور نے فرمایا کہ کرے گا“.اسی لئے میں یہ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ دس سال میں سو جینیس ذہن جماعت کو عطا حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس بات کے پیش نظر ایک تو بچوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اوقات اور صلاحیتیں ضائع نہ کریں.اور دوسرے ان کے والدین اور سر پرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ا کی صحیح تربیت کریں.کیونکہ دہنی آوارگی ، دینی صلاحیتوں کو مجروح کر دیتی ہے.اور دوسرے ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنی اولادوں کی صحت کا خیال رکھیں“.778
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم حضور نے ذہنی صلاحیت کے بارے میں فرمایا کہ اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء پچھلے زمانہ میں تو اس کام کے لئے اخروٹ اور بادام کافی سمجھے جاتے تھے.مگر نئے زمانہ میں سویا بین دریافت ہوئی ہے.جو کہ تمام دالوں میں اس مقصد کے لئے بہترین ہے.حضور نے سویا بین کے اجزا کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں لحمیات یعنی پروٹین بہت زیادہ ہوتی ہے.اس کے علاوہ یہ عام دالوں کی طرح ایسٹڈ نہیں بلکہ الکلائین ہوتی ہے.اس میں چکنائی بہت ہے اور اس چکنائی میں ایک جز دلیسی تھین ہے.جدید تحقیق کے مطابق لیسی تھین دماغی طاقت کے لئے بہت مؤثر اور مفید ہے.اور یہ سب سے زیادہ سویا بین میں ہوتا ہے.حال میں جو تجربات کئے گئے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ سویا لیسی تھین ذہن اور حافظہ کو بہت تیز کرتی ہے.حضور نے فرمایا کہ تجربہ کیا گیا ہے کہ جو چیز عام حالات میں سومنٹ میں یاد ہو جاتی ہے، سویا لیسی تھین کے استعال سے وہ ساٹھ منٹ میں یاد ہو جاتی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ چالیس فیصد ذہن کی بچت ہو جاتی ہے.دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چالیس فیصد زیادہ موادذہن میں محفوظ ہوسکتا ہے.کانا حضور نے فرمایا کہ دو میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اسے کامیاب پایا ہے.حضور نے ایک ذہین اور روشن دماغ احمدی سکالر کا ذکر کیا، جو پچھلے دنوں لنڈن میں دل کے امراض کی تحقیقات میں مشغول تھے.حضور نے فرمایا کہ ” جب میں نے جماعت کو سویا لیسی تھین استعمال کرنے کی تحریک شروع کی تو انہوں نے بھی اس کا استعمال شروع کیا.جس سے ان کو بہت فائدہ ہوا اور جب انہوں نے اپناریسرچ پیپر پڑھا تو ان کو بہترین ریسرچ سکالر کا اعزاز دیا گیا.حضور نے فرمایا کہ یہ بھی اللہ کی عطا ہے کہ ایک اور بچہ ہمارا ٹاپ پر آ گیا اور دنیا کی نگاہوں میں آگیا.حضور نے فرمایا کہ جو اچھے طالب علم ہیں، جینیکس ہیں، ان کو ہم نے ہر قیمت پر سنبھالنا ہے.اور ہر خرچ ، جو اس کی قابلیت مانگتی ہے، وہ اس کے لئے مہیا کرنا چاہئے.779
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم - اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء حضور نے فرمایا کہ یہ جماعت کی انتہائی ناشکری ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو سنتے ہوئے اسے انتہائی قابل بچے دے اور وہ اسے سنبھال نہ سکے.اس سے بڑی نالائقی ، گناہ اور ناشکری اور کوئی نہ ہوگی.حضور نے فرمایا کہ پھر اس کے بعد جو ذرا کم نمبر لینے والے ہیں، ان کو بھی پانچویں جماعتوں سے پکڑا جائے.حضور نے فرمایا کہ اس مقصد کے لئے جماعت میں ریکارڈ تیار کیا جا رہا ہے.مگر ابھی تک پورا ریکارڈ نہیں بنا.ابھی ایک حصہ طلباء کا ایسا ہے، جس کی صلاحیت اور تعلیم کی ہمیں اطلاع نہیں.ان کے نام رجسٹروں پر ابھی نہیں چڑھائے گئے“.حضور نے انکشاف فرمایا کہ وو 45/50 ہزار نام بچوں کے آگئے ہیں.لیکن میرا اندازہ ہے کہ ایک لاکھ نام ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے قریباً 50 فیصدی بچے ابھی رہتے ہیں، جن کے نام رجسٹروں پر نہیں چڑھے“.حضور نے ان کے والدین کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وو یران کے ماں باپ کا کام ہے کہ وہ ان کے ناموں کی اطلاع بھجوائیں“.حضور نے اس منصوبے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ رجسٹروں سے یہ نام کا ر ڈ سسٹم پر چڑھائے جائیں گے.اور وہاں سے پھر کمپیوٹر پرمنتقل کیے جائیں گے.کمپیوٹرکا یہ فائدہ ہے کہ وقت ضائع کئے بغیر مطلوبہ کوائف سامنے آجاتے ہیں“.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ” جب میں نے انعامی تمغے دینے کا اعلان کیا تو ہمارے ایک ناظر صاحب نے کہا کہ اگر سو بچے اول، دوم آجائیں تو اس طرح ہمیں 100 تمغے دینے پڑیں گے.اور اڑھائی لاکھ روپیہ اٹھ جائے گا“.حضور نے فرمایا کہ میں نے انہیں کہا کہ جو خدا ہمیں 100 ذہین بچے دے گا ، وہ اڑھائی لاکھ روپیہ بھی دے دے گا.اس لئے مجھے فکر نہیں ہے.780
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر غریب خاندان میں کوئی ذہین بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو اس پر ہمیں خرچ کرنا چاہئے.صرف اس وجہ سے کہ اس کے والدین غریب ہیں، اس کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا.لیکن ضروری بات یہ ہے کہ استحقاق ہونا چاہئے.بعض اوقات ساتویں، آٹھویں جماعت کے لڑکے کے والدین کی طرف سے خط آجاتا ہے کہ اس کا 400 روپیہ وظیفہ مقرر کیا جائے“.حضور نے فرمایا کہ اس پر شاید کسی کو غصہ آتا ہو، مجھے تو نہیں آتا.میں تو مسکرایا کرتا ہوں کہ والدین کو یہ تو فکر نہیں کہ سب سے آگے نکلنا ہے.فکر بچے کے لئے چار سو روپے وظیفہ مقرر کرانے کی ہے.بچے کو والدین کی زندگی کا معیار بلند کرنے کا ذریعہ بنانے کی اجازت تو نہیں دی جاسکتی“.حضور نے فرمایا کہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ سب کا میعار زندگی بلند ہو.میں تو یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچے چھوڑ ان لوگوں کے بچوں کو بھی پڑھا سکیں، جو ابھی احمدی نہیں ہوئے.لیکن والدین بلا استحقاق بڑے بڑے وظیفوں کا مطالبہ کر کے اپنے بچوں کو اپنا معیار زندگی اونچا کرنے کا ذریعہ نہ بنائیں“.( مطبوعه روزنامه افضل 05 جنوری 1981 ء ) حضور رحمہ اللہ نے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کا ذکر فرماتے ہوئے تعلیمی منصوبے کے اس پہلو کا بھی ذکر فرمایا.حضور نے احمدی بچوں اور بچیوں کی لازمی تعلیم کے اس منصوبے پر بہت زور دیا.اور اس بات کو دہرایا اور فرمایا کہ لڑکیوں کے لئے میں نے فی الحال مڈل تک تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سی ایسی جگہیں ہیں، جہاں لڑکیوں کے لئے ہائی سکول نہیں، وہ مڈل تک تعلیم حاصل کریں“.حضور نے فرمایا کہ میں ان کے اخلاق خراب کرنا نہیں چاہتا، اس لئے ان کو یہ نہیں کہوں گا کہ وہ کو ایجو کیشن ( مخلوط تعلیم ) کے اداروں میں داخلہ لیں.وہ صرف مڈل تک پڑھیں“.حضور نے فرمایا کہ ہم کوشش کریں گے کہ جہاں ہائی سکول نہیں، وہاں لڑکیوں کے لئے کو چنگ سنٹر بنا دیئے جائیں اور استانیاں رکھ کر انہیں پڑھایا جائے“.781
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ ” جہاں ضرورت ہو اور کافی بچیاں ہوں، وہاں یہ انتظام کر دیا جائے“.حضور نے احباب جماعت کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ”دوست چاہیں تو اس سلسلہ میں تجاویز لکھ کر مجھے بھجوا دیں.حضور رحمہ اللہ نے اس ضمن میں یہ بھی فرمایا:.بچوں میں تعلیم کا شوق پیدا کرنے کے لئے میں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ تمام طلباء وطالبات جو بورڈ اور یونیورسٹی میں پہلے دو یا تین سو میں آئیں گے، ان کو دعائیہ کلمات لکھ کر اپنے دستخطوں سے میں کوئی کتاب تحفہ کے طور پر بھیجواؤں گا“.حضور نے فرمایا کہ ان پوزیشنوں پر آنے والے بچے بھی ذہین ہوتے ہیں منتظمین کو چاہیے کہ اس کی طرف بھی توجہ دیں اور بار بار یاد دلائیں.حضور نے فرمایا کہ شاید اس بارے میں زیادہ اعلان نہیں ہوا.یہ اعلان بار بار ہوتے رہنا چاہیئے“.اس سے قبل حضور نے اپنے خطاب کے آغاز میں تعلیمی پالیسی کا ذکر فرماتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں دنیا میں رائج دو متضاد فلسفوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ایک فلسفہ تو یہ ہے کہ ہماری ساری ترقیات کا انحصار دنیاوی علوم پر ہے.اور ایک یہ کہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنا کا کفر ہے.حضور نے فرمایا کہ قرآن کہتا ہے کہ نہ دنیاوی علوم پر ساری ترقیات کا انحصار ہے اور نہ ان کا سیکھنا کفر ہے.قرآن کہتا ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے محکم و ابلغ نظام میں جتنے بھی اصول ہمیں کارفرما نظر آتے ہیں اور وہ اصول بھی جو آئندہ دس، بیس سال کے بعد دریافت ہو کر مروجہ علوم کی فہرست میں آجائیں گے.اور جن پر دنیوی علوم کی عمارت استوار ہے، وہ سب خدا تعالیٰ کے وضع کردہ قوانین ہیں.حضور نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ کائنات کے گوشے گوشے میں اور قرآن کی آیت آیت میں خدا کی صفات کے جلوے تلاش کرو.قرآن کہتا ہے کہ اس دنیا کے ذرے ذرے اور قرآن کریم کے لفظ لفظ میں خدا کی صفات کے جلوے تلاش کرو.اور خدا کی صفات کا جو جلوہ ہے، وہ کفر نہیں ہو سکتا.782
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء خدا کی صفات کا صرف ایک حصہ لے کر دوسرے کو چھوڑ دینا تقوی نہیں ہوسکتا.یہ ناشکری ہوگی“.حضور نے فرمایا کہ "جو شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ کی صفات کے جو جلوے مادی دنیا میں ظاہر ہوئے ، جن اصولوں پر مادی علوم کی عمارتیں استوار ہوئیں، ان سے تو مجھے دلچسپی ہے.اور خدا کی صفات کے جو جلوے ہماری زندگیوں میں خوشحالی پیدا کرنے کے لئے قرآن میں نظر آتے ہیں، ان سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے.میں ایسے شخص کو مفلوج سمجھوں گا کہ اس کے وجود کا آدھا دھڑ تو زندہ ہوگا اور باقی آدھا دھڑ مردہ ہوگا“.حضور نے اعلان فرمایا کہ میں جماعت کو یہ کہتا ہوں کہ دنیا کا ہرعلم سیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ ہر علم کی بنیاد خدا تعالی کی صفات کے جلووں پر ہے.اور قرآن کریم کے اسرار و رموز کی تلاش اس لئے ضروری ہے کہ قرآنی آیات میں بھی خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے مستور ہیں.حضور نے فرمایا کہ یہ کائنات ہے کیا ؟ یہ کا ئنات اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلووں کا مجموعہ ہے.بعض جلووں نے فزکس بنادی ، بعض نے کیمسٹری بنادی ، بعض نے انسان بنادیا، بعض نے انسان کی نفسیات بنادی ، بعض نے اخلاقی ہدایت کے سامان پیدا کر دیئے، بعض نے روحانی رفعت کے لئے واضح اور روشن راہیں متعین کر دیں.حضور نے فرمایا کہ ہم ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑ سکتے.اور یہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ ان جلووں کو چھوڑ کر ہم ایسی بھر پور زندگی گزار سکتے ہیں، جو خدا تعالیٰ کی جنتوں میں لے جانے والی ہو.حضور نے بآواز بلند فرمایا کہ اگر آپ نے ان جلووں کی ناشکری کی ، جن کے بارے میں قرآن نے اعلان کیا ہے کہ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ تو آپ جیسا ناشکرا اور کوئی نہیں ہوگا“.حضور نے خبر دار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ نے دنیا اور کائنات میں سخرنا کے صحیح استعمال کونظر انداز کر دیا تو آپ کے لئے ہلاکت ہوگی، مر جائیں گے آپ.کیونکہ جس نے یہ نیا پیدا کی ہے، وہی اس کا صحیح استعمال بھی سکھا سکتا ہے“.783
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم - حضور نے اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ " مثلا کھانا ہے.آپ کہیں گے، ہر شخص کھانا کھا سکتا ہے.مگر میں یہ کہ ہر شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ کھانا کیسے کھاتا ہے؟ کیونکہ قرآن نے کہا ہے کہ ہر شخص صحیح طریقے سے کھانا نہیں کھا سکتا.مثلا بنیئے ہیں، سارا دن بیٹھے کھاتے رہتے ہیں اور ان کی توند نکل آتی ہے.اور مٹھائی کی دکان پر بیٹھے مٹھائی کھاتے کھاتے مرجاتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ ”یہ کوئی زندگی ہے کہ انسان مٹھائی کھاتے کھاتے مر جائے.زندگی تو یہ ہے کہ مرتے مرتے خدا کی جنتوں میں پہنچ جائے“.حضور نے فرمایا کہ قرآن یہ نہیں کہتا کہ دنیوی علوم ، دنیا کی خاطر سیکھو.اور نہ قرآن یہ کہتا ہے کہ دینی علوم اس طرح سیکھو کہ نرے ملا بن جاؤ.بلکہ قرآن کے اسرار ورموز اس لئے سیکھو کہ خدا کی عظمت ، جلال، احسان ، قدرت، رحیمیت اور رحمانیت کے جلوے دیکھ سکو.جس طرح وہ غفور ہو کر معاف کرتا ہے، جس طرح وہ حفیظ ہو کر اشیاء کی حفاظت کرتا ہے.یہ سب دیکھو تو دنیا بھی اور آخرت بھی آپ کے لئے جنت بن جائے گی.حضور نے فرمایا کہ اس مقصد کے لئے میں نے یہ علیمی منصوبہ شروع کیا ہے“.حضور نے فرمایا کہ ”میں نے یہ کہا ہے کہ قرآن سیکھنا، اس لئے ضروری ہے تا کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں کا علم ہو سکے.اور ان جلووں کا علم ہو گا تو قرآن آئے گا، ورنہ تھوڑا آئے گا.اور جتنا جتنا علم صفات باری کے متعلق حاصل ہوگا، جتنی جتنی معرفت خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کی متعلق بڑھتی جائے گی.اور اس بارے میں انسان کا دنیاوی علم جتنا بڑھتا جائے گا، اتنا ہی وہ اس قابل ہو سکے گا کہ خدا تعالیٰ کی معرفت کی گہرائی میں جائے اور اس میں سے موتی نکال کے لائے اور اس سے دنیا کے فائدے کے سامان پیدا کرئے“.حضور نے فرمایا کہ علم سیکھا جاتا ہے تحقیق سے اور مشاہدہ سے کسی دوسرے کی تحقیق کے مشاہدے ومطالعہ سے اور نے پر تجربہ کر کے.مثلاً الرجی کا علم ہے، بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ ان کو کس چیز سے الرجی ہے؟ جب وہ دو کوئی ایسی چیز کھاتے ہیں، جس سے ان کو الرجی کی شکایت ہو تو پھر انہیں الرجی کی وجہ کا پتہ چلتا ہے.784
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء حضور نے فرمایا کہ اس مقصد کے لئے کتابیں پڑھنا ضروری ہے.کیونکہ انسان اکیلا اپنی اس مختصر سی زندگی میں ساری کائنات کی سیر تو نہیں کر سکتا.دوسروں نے جو علم حاصل کیے، وہ انہوں نے کتابوں میں محفوظ کر دیئے.ان کا علم حاصل کرنا بڑا ضروری ہے، بہت ضروری ہے.حضور نے فرمایا کہ وو یہ ساری باتیں جو میں کر رہا ہوں ، وہ خدا تعالیٰ نے چھوٹی سی آیت میں مجھے سکھائی ہیں.إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا اس آیت میں عالم اس شخص کو کہا گیا ہے، جو خدا کی صفات کی معرفت رکھنے کی وجہ سے خشیت اللہ اپنے اندر رکھتا ہو.اور اللہ کی صفات کا علم رکھتا ہے.یہ بات صحیح عالم کے لئے بہت ضروری ہے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 10 جنوری 1980ء) حضور نے فرمایا کہ امسال گیانا جنوبی امریکہ میں ایڈن برگ کے مقام پر ایک مسجد تعمیر ہوئی.اس کے علاوہ امریکہ میں ریاست ایریزونا میں ایک احمدی دوست مکرم قریشی محمد یوسف صاحب کے صاحبزادے نے فیوسان کے علاقے میں ایک مسجد کی زمین خریدی.حضور نے فرمایا کہ ،، اطلاع کے مطابق وہاں پر مسجد تعمیر ہو چکی ہے“.حضور نے ناروے کے شہر اوسلو میں مسجد کے افتتاح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یورپ کے انتہائی جنوب میں پین ہے اور انتہائی شمال میں ناروے ہے.اللہ نے اپنے فضل سے یہ انتظام کیا ہے کہ دونوں کونوں پر امسال مسجد کا افتتاح کیا گیا“.حضور نے بتایا کہ ” ناروے میں یکم اگست 1980ء کو اس مسجد کا افتتاح کیا گیا، اس کا نام مسجد نور ہے“.مشرقی و مغربی افریقہ میں تحریک جدید کے تحت مساجد کے قیام کے متعلق حضور نے بتایا کہ وہاں پر اتنی مساجد تعمیر ہورہی ہیں، اللہ کے فضل سے کہ ان کی ایک لمبی فہرست بن جاتی ہے.785
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء حضور نے فرمایا کہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم ہر مہینے مجھے خط ملتے ہیں کہ فلاں علاقے میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور فلاں علاقے میں مسجد کا افتتاح عمل میں آگیا.نے مشن ہاؤسز کی تعمیر کے متعلق حضور نے فرمایا کہ 'گیانا کے شہر جارج ٹاؤن میں نیا مشن ہاؤس تعمیر ہو گیا ہے.انگلستان میں پانچ مقامات پر جہاں احمدیوں کی کافی آبادی ہے، پانچ عمارتیں خرید کر پانچ نئے مراکز قائم کر دیئے گئے ہیں.حضور نے فرمایا کہ ” ان میں سے ایک برمنگھم کے سوا باقی تمام مراکز کا میں نے اپنے دورے کے دوران افتتاح کیا ہے.فجی آئی لینڈ میں ایک کمپلیکس تعمیر کیا گیا ہے، جس میں مسجد مشن ہاؤس اور دکانیں ہیں“.حضور نے نائیجیریا سے متعلق بتایا کہ شروع کر دیا.یہاں پر 2 نئے مشن ہاؤس زیر تعمیر ہیں.چار نئے سیکنڈری سکول اور ایک نئے ہسپتال نے کام حضور نے فرمایا کہ نائیجریا کے دارالحکومت لیگوس سے بارہ میل دور ایک بڑی شاہراہ پر احمد یہ سٹیلمنٹ کی تعمیر جاری ہے، جس میں مشن ہاؤس اور ہسپتال بنایا جارہا ہے.بعض احمد یوں نے وہاں پر اپنے مکانات بھی تعمیر کرنے شروع کر دیئے ہیں.غانا کے متعلق حضور نے فرمایا کہ تین مقامات پر زمینیں خرید لی گئی ہیں اور بڑی تیزی سے کام شروع ہو چکا ہے.یوگینڈا کے متعلق حضور نے فرمایا کہ وہاں پر سیاسی وجوہ سے تبلیغ رک گئی تھی، پھر پچھلے سال شروع ہو گئی ہے اور عوام کا جماعت کی 66 طرف بڑار جوع ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ بڑے ذہین ہیں، دور کی سوچتے ہیں.انہوں نے دور کی سوچی ہے.ہمیں تار دی کہ ہم چھ طالب علم تعلیم کے لئے بھجوار ہے ہیں.کیونکہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حالات کیا پلٹا کھا جائیں؟ یہاں پر ہمارا ایک سیکنڈری سکول بھی کام کر رہا ہے.786 مطبوعه روزنامه الفضل 12 جنوری 1981ء)
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء تحریک جدید کی دیگر متفرق کارگزاریوں کے ذکر میں حضور نے بیان فرمایا کہ جاپان سے ایک سہ ماہی رسالہ وائس آف اسلام نکلنا شروع ہوا ہے.یہ ابھی چھوٹا ہے.انشاء اللہ بڑھ جائے گا“.انڈونیشیا کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ وہاں پر مربی تیار کرنے کے لئے انتظام کر دیا گیا ہے.وقف بعد از ریٹائر منٹ کے متعلق حضور نے فرمایا:.115 احباب نے جو ریٹائر ہونے والے ہیں، اس سلسلہ میں اپنا نام پیش کیا حضور نے فرمایا کہ احباب وقف کر کے ثواب لیتے رہیں، پتہ نہیں اللہ ان سے کیا سلوک کرے گا“.مطبوعه روزنامه الفضل مورخہ 13 جنوری 1981ء) تحریک جدید کے تحت شائع ہونے والی کتب کا بھی حضور نے ذکر فر مایا کہ لنڈن مشن کے زیر اہتمام دیباچہ تفسیر القرآن، انگریزی اور فریج زبان میں چھپ گیا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ اس کی بڑی ضرورت تھی.اس کے علاوہ جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے مشنوں کے زیر اہتمام قرآن کریم کا جرمن ترجمہ دس ہزار کی تعداد میں شائع ہو گیا ہے.ڈنمارک نے ڈینشن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کیا ہے.اور امن کا پیغام ڈینش زبان میں طبع کیا ہے.انڈو نیشیا مشن نے قرآن کریم کا انڈو نیشین زبان میں ترجمہ مع مختصر نوٹ 11 تا 20 سپاروں کا شائع کیا ہے.نائیجیر یانے سورہ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کا ترجمہ مع نوش یورو با زبان میں شائع کیا ہے.فیجی مشن نے وہاں کی زبان میں ترجمہ شائع کرایا ہے.آئیوری کوسٹ مشن نے فریج زبان میں پمفلٹ شائع کئے ہیں“.بیرون پاکستان احمد یہ مشنوں کی دیگر مطبوعات کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس سفر کے دوران اللہ تعالیٰ نے بعض نئے خیالات اپنی رحمت سے عطا کئے.ان میں سے ایک فولڈر چھاپنے کا تصور تھا“.حضور انور نے فرمایا کہ گرمیوں کے موسم میں لکھوکھا بلکہ کروڑوں سے زیادہ ایک وقت میں یورپین ممالک، امریکہ، جنوبی امریکہ، جاپان، فرانس وغیرہ میں سیاح پھر رہا ہوتا ہے.اس وقت وہ فارغ بھی ہوتے ہیں اور گھر سے 787
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد پنجم دور بھی.اگر ہر سیاح کو ، جس ملک میں بھی وہ جائے ، ایک چھوٹا سا دو ورقہ اس کی اپنی زبان میں مل جائے تو اس کی طبیعت پر بڑا اثر پڑے گا کہ جماعت احمدیہ نے بڑے زور وشور سے تبلیغ شروع کر دی ہے“.حضور نے فرمایا کہ اس خیال کے آتے ہی میں نے فوری طور پر یورپ کے مشنوں کو کہا کہ تم مجوزہ فولڈر شائع کر دو.چنانچہ ٹرکش ، البانیین، فریج، جرمن، ڈینیش ،سویڈ یش، نارویجن، انگریزی اور ہسپانوی زبانوں میں وہاں کی جماعتوں نے فولڈر شائع کئے ہیں.اسی طرح گیانا، ماریشس اور نجی نے اپنی اپنی زبانوں میں اسے شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے.قریباً پندرہ زبانوں میں یہ فولڈر شائع ہو چکا ہے“.حضور انور نے فرمایا کہ ” اس سلسلے میں ماریشس سب سے آگے نکل گیا.انہوں نے ایک لاکھ، پانچ ہزار کی تعداد میں فولڈر چھاپا.اس کا نام تھا.احمدیت کیا ہے؟ پھر ایک دن ساری جماعت نے یوم تبلیغ منایا اور 75 ہزار فولڈر ایک دن میں تقسیم کر دیئے.اور ماریشس کے قریباً ہر گھر میں یہ فولڈر پہنچا دیا.حضور انور نے ماریشس مشن کی اس کار کردگی پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ ان کو جزا دے، انہوں نے دوسروں کے لئے نمونہ قائم کر دیا ہے.حضور نے فرمایا کہ - میں نے ہدایت دی ہے کہ اگلے سال کی سیاحت کے موسم سے پہلے پہلے ہر ملک کی زبان میں یہ فولڈر چھپ کر دوسرے ملکوں میں پہنچ جانا چاہیے.تا کہ جب ایک ملک کا سیاح دوسرے ملک پہنچے تو اس کو اس کی اپنی زبان میں وہاں پر یہ فولڈر مل جائے“.مطبوعه روزنامه افضل 14 جنوری 1981ء) رسالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کا بھی ذکر فرمایا.اس کے ذکر میں حضور نے سپین میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے واقعہ کا تفصیل سے ذکر فرمایا اور بتایا کہ وو یہ مسجد صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے چندہ سے تعمیر ہورہی ہے“.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ 09 اکتوبر 1980ء بروز جمعرات 744 برس کے بعد میں نے قرطبہ کے قریب پیڈ رو آباد میں سب سے پہلی مسجد کا سنگ بنیا درکھا.788
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء حضور نے فرمایا کہ ” جب سپین کے مسلمان آپس کی اخوت کے سبق کو بھول گئے اور انہوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا تو 744 برس قبل عیسائیوں نے قرطبہ کے نواحی علاقے پر حملہ کر دیا.اور بعض مسلمان نواب زادے جن کو اپنی فکر تھی اور اسلام کی فکر نہیں تھی، وہ عیسائیوں کے ساتھ مل کر اس حملہ میں شامل ہوئے کہ یہ علاقہ اس مسلمان حاکم کے ہاتھ سے نکل جائے اور اس طرح سے یہ علاقہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا“.حضور نے فرمایا کہ " سپین کے علاقے میں مسلمانوں کے خلاف آخری معرکہ 500 سال قبل لڑا گیا.اس لئے ہمارے رسالوں اور اخباروں میں کبھی یہ لکھا گیا کہ 500 سال بعد مسجد کا سنگ بنیادرکھا گیا اور کبھی یہ لکھا گیا کہ 700 سال بعد مسجد کا سنگ بنیا درکھا گیا.کیونکہ جب قرطبہ عیسائیوں کے ہاتھ چلا گیا تو پھر وہاں پر کوئی مسجد نہ بنی اور مسلمانوں کو اور اسلامی معاشرہ کو شکست کھانی پڑی.اس کے 744 سال بعد پہلی مسجد کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل کے ساتھ وہاں پر رکھی گئی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس مسجد کا سنگ بنیا در کھتے وقت وہاں پر جو فضا پیدا ہوئی اور جسے الفاظ بیان نہیں کر سکتے ، وہ خدا کے سوا اور کوئی پیدا نہیں کر سکتا.یعنی پہلے پیڈرو آباد میں زمین خریدی یہ پوچھ کر کہ یہاں مسجد بنانے دو گے یا نہیں؟ پھر نقشہ وغیرہ منظور ہو گیا اور ایک دن وہ گاؤں اس طرح ہماری خوشی میں شامل ہوا کہ جس طرح ان کی عبادت گاہ کی بنیاد رکھی جارہی ہو.وہ لوگ اتنے خوش تھے کہ ان کے چہروں پر خوشی و مسرت کے دھارے پھوٹتے دکھائی دے رہے تھے.دلوں کی یہ کیفیت نہ میں پیدا کر سکتا ہوں اور نہ آپ پیدا کر سکتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ اس کی تعمیر پر قریباً ہمیں لاکھ روپیہ خرچ آئے گا.یعنی 80 ہزار پاؤنڈ سٹرلنگ.اور یہ سارا خرچ انگلستان کی ساری جماعت صد سالہ جو بلی کی مدد سے خرچ کرے گی“.حضور نے فرمایا کہ ”ہمارے حالات ایسے ہیں کہ ہم مجبور ہیں کہ اس قسم کی نیکیوں سے محروم رہیں، جن کا تعلق بیرون پاکستان سے ہے.کیونکہ ہمارے ملک کو فارن ایکیھنچ کی بڑی تنگی رہتی ہے اور ہم روپیہ با ہرنہیں بھیج رہے.789
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء حضور نے فرمایا کہ اللہ جزادے ہمارے بھائیوں کو جو انگلستان میں رہ رہے ہیں کہ اس کام میں بڑا حصہ انہی کا ہے.حضور نے فرمایا کہ مسجد کی تعمیر کا جو معاہدہ لکھا گیا ہے، اس میں یہ لکھا گیا ہے کہ مسجد اور مشن ہاؤس دس، دس ماہ میں تیار ہو جائیں گے.اور اگر دیر ہوئی تو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی ہوگی.حضور نے فرمایا انشاء اللہ، انشاء اللہ، انشاء اللہ آئندہ جلسہ سے قبل یہ مسجد بالکل تیار ہو چکی ہوگی.اور اس قابل ہوگی کہ حضرت امام جماعت وہاں جا کر اس کا افتتاح کرے.حضور نے احباب کو تاکید کی کہ دعا کریں کہ اس میں بڑی برکت ہو اور یہ مسجد وہاں پر اسلام کو پھیلانے کا موجب ثابت ہو.آمین.حضور نے فرمایا کہ ” دنیا کے متعدد مسلم ممالک نے اس مسجد کا سنگ بنیادر کھے جانے کی جو خبر شائع کی ہے، اس میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ عالم اسلام کے لئے یہ بڑی خوشخبری ہے کہ قرطبہ کے قریب 09 اکتوبر 1980ء کو اس مسجد کی بنیا د مرزا ناصر احمد نے رکھی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ بھی دعا کریں کہ اللہ اس مسجد کو عالم اسلام کے لیے خوشیوں اور برکتوں کا موجب بنائے.امین.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے شیریں ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس فنڈ میں بھی بڑی برکت عطا فرمائی ہے.گوٹن برگ ( سویڈن ) میں جو مسجد بنائی گئی ہے، وہ بڑی خوشنما اور بڑی اچھی ہے.اور سارے شہر سے نظر آتی ہے.اور تبلیغ کا اہم مرکز بن گئی ہے.صد سالہ احمد یہ جو بلی کے تحت یورپ کے احباب نے جو چندہ اکٹھا کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کا ان کو یہ ثمرہ دے دیا ہے.اس کے علاوہ جو عالمی کسر صلیب کا نفرنس DELIVERENE OF CHRIST | FROM CROSS کے موضوع پر لنڈن میں منعقد کی گئی ، اس پر دس، بارہ لاکھ روپیہ خرچ آیا.یہ خرچہ بھی صد سالہ جو بلی نے کیا.اس کی بڑی افادیت تھی.790
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء حضور نے تعلیمی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا تعلق بھی صد سالہ جو بلی کے ساتھ ہے.اس کا بار عام چندوں پر تو نہیں پڑ سکتا، اس لئے اس کو صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے.جو بلی فنڈ انشاء اللہ تسلی بخش طریق پر اس ذمہ داری کو بھی نباہ دے گا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.مطبوعه روزنامه افضل 15 جنوری 1981ء) ’1970ء میں اللہ کے حکم سے مغربی افریقہ کے چھ ممالک میں ہائر سیکنڈری سکول اور کلینک کھولنے کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا.اس وقت میں نے جماعت سے ایک لاکھ پاؤنڈ کی اپیل کی.جماعت نے قریباً دولاکھ پونڈا کٹھا کر دیا.جو کہ پاکستانی کرنسی میں تقریباً 53لاکھ روپیہ بنتا ہے“.حضور نے فرمایا کہ ہم نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے کام شروع کیا.ڈاکٹروں نے تین، تین سال کے لئے اور بعض نے زیادہ عرصہ کے لئے وقف کیا.منصوبہ یہ تھا کہ ہر ملک میں چار، چار ہسپتال اور چار، چار سکول کھولے جائیں“.حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ میں اتنی برکت ڈالی کہ ساری دنیا کے دماغ مل کر بھی وہاں نہیں پہنچ سکتے.حضور نے اس کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وو جو منصوبہ چار ملکوں میں صرف 53 لاکھ روپے کے سرمایے سے شروع کیا گیا تھا، اس سے جو کام ہورہے ہیں ، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ اس دفعہ جب میں سفر پر گیا تو واپسی پر چلتے ہوئے غانا میں، میں نے وہاں کے امیر عبدالوہاب بن آدم سے پوچھا کہ نصرت جہاں کی مد میں ان کے پاس کتنار یز رو موجود ہے؟ انہوں نے بتایا کہ 25 لاکھ سیڈی (غانا کا سکہ ) موجود ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ قریباً اسی لاکھ روپیہ صرف ایک ملک میں ریزرو موجود ہے.جبکہ کام شروع ہوا تھا، 53 لاکھ روپیہ سے.اور اس سے چار ملکوں میں 16 ہسپتال اور 16 سکول کھولے گئے ہیں.حضور نے فرمایا کہ ”ہمارے ہسپتالوں کی اتنی شہرت ہے کہ ساتھ کے ملکوں سے وہاں کے لکھ پتی آپریشن کروانے آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دس ہزار فیس لو، ہیں ہزار لو، ہمارا علاج کر دو.791
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پورے علاقے کے ممالک میں ہمارے ہسپتالوں کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے اپنے بہت سے اچھے ہسپتال ہیں، بلڈنگوں کے لحاظ سے سازو سامان کے لحاظ سے اور ان میں یورپین ڈاکٹر کام کر رہے ہیں.سب کچھ ہے ہمارے پاس لیکن شفا نہیں ہے.شفا صرف جماعت احمدیہ کے ہسپتال سے ہی ملتی ہے.حالت یہ ہے کہ وہاں کے وزراء بعض اوقات اپنے ہسپتالوں کی بجائے ہمارے چھوٹے چھوٹے ہسپتالوں میں آجاتے ہیں.اور اللہ نے توفیق دی ہے کہ ہم ان کا علاج کرتے ہیں“.حضور نے فرمایا کہ ان کا مال انہی پر خرچ ہو رہا ہے.نہ ہم کو ان کی دولت سے غرض ہے اور نہ سیاست سے“.حضور نے فرمایا کہ دنیا اتنی اندھی ہے کہ بجھتی ہے کہ امریکہ کسی کو پیسہ دے سکتا ہے، اسرائیل کسی کو پیسہ دے سکتا ہے، فلاں ملک کسی کو پیسہ دے سکتا ہے اور یہ کہ کسی کو پیسہ نہیں دے سکتا تو خدا نہیں دے سکتا“.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ” ہر احمدی یہ سمجھتا ہے کہ اِنَّ اللهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ کہ اگر پیسہ دیتا ہے تو خدا ہی دیتا ہے.وہ پیسہ وہ ہے، جو برکتوں والا ہے، افادیت والا ہے، اسلام کے نور کو پھیلانے والا ہے.صرف خدا تعالیٰ کا عطا کردہ پیسہ ہی باقی رہنے والا ہے.اور تمام دولتیں عارضی اور ظلمتیں پھیلانے والی ہیں اور خدا کے نور سے دور لے جانے والی ہیں.حضور نے فرمایا کہ ( مطبوعه روزنامه الفضل 17 جنوری 1981 ء ) وہاں پر ہماری اتنی مقبولیت ہو چکی ہے کہ ایک امیر ملک کی ایک سٹیٹ کے ایک ذمہ دار نے مجھے لکھا کہ ہماری ریاست میں 1/3 مسلمان ہیں، 1/3 عیسائی ہیں اور 1/3 بد مذہب ہیں.اور عیسائی ان بت پرست بدمذہبوں میں تبلیغ کر کے ان کو عیسائی بنا رہے ہیں.انہوں نے لکھا کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسی جماعت نہیں ہے، جو عیسائیوں کا مقابلہ کر سکے.صرف آپ کی جماعت ان کا مقابلہ کرسکتی ہے.اگر 792
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1980ء آپ نہیں چاہتے کہ یہ سٹیٹ عیسائی بن جائے تو فوری طور پر پانچ نئے ہائر سیکنڈری سکول، جو یہاں پر انٹر میڈیٹ کالج کہلاتے ہیں، کھولیں“.حضور نے فرمایا کہ یہ خط مجھے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ملا تھا اور سفر میں ہی میں نے اس کی اجازت دے دی.اور ان میں سے دو شاید کھل بھی چکے ہوں.باقی بھی جلد کھل جائیں گے“.حضور نے فرمایا کہ یہ اس ملک کا حال ہے، جو احمدیت کی قدر کو پہچا نتا ہی نہیں تھا.اللہ نے اس نصرت جہاں سکیم کے تحت ایسا سامان کیا ہے کہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ آؤ ، سکول کھولو.حضور نے فرمایا کہ سفر میں ہی مہینے ڈیڑھ کے بعد مجھے ایک اور خط ملا.جس میں لکھا تھا کہ صرف سکول ہی نہیں، دو ہسپتال بھی بنا ئیں.تا کہ بدمذہبوں کو مسلمان بنایا جا سکے اور ان کو عیسائی بننے سے روکا جاسکے.حضور نے فرمایا کہ انسان تو عاجزانہ تدبیر ہی کر سکتا ہے.لیکن جو سب قدرتوں کا مالک ہے، اس کے حضور دعا کریں کہ یہ جو تڑپ پیدا ہوئی ہے کہ ان کو نظر آ رہا ہے کہ جماعت احمد یہ ان کی سٹیٹ کو عیسائی بنے نہیں دے گی، اللہ تعالیٰ ان کی خواہش اور اندازے کے مطابق جماعت کو یہ توفیق دے کہ وہ سارے 1/3 حصہ کو اسلام میں داخل کر دے اور اس کو ہمیشہ کے لئے ایک مسلم سٹیٹ بنا لیا جائے.آمین.مطبوعه روز نامه الفضل 18 جنوری 1981ء) 793
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 28 مارچ 1980ء جتنی غلبہ اسلام کی صدی قریب آرہی ہے، اتنی ہی ہماری ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں " خطاب فرمودہ 28 مارچ 1980ء برموقع مجلس شوری سے.اس وقت ( تفصیل میں، میں بعد میں جاؤں گا) جتنی وہ صدی، جسے میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں، ہمارے قریب آرہی ہے، اتنی ہی ہماری ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں.اور ہمارا کام زیادہ مشکل ہوتا چلا جارہا ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اتنے ہی اللہ تعالیٰ کے فضل ہم پر پہلے.زیادہ نازل ہونے شروع ہو گئے ہیں.لیکن ہر احمدی کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ اسلام کے غالب آنے کا وقت قریب ہے، ہماری کسی غفلت کے نتیجہ میں خدانخواستہ اس کام میں روک نہ پیدا ہو جائے.اور اس کے لئے وہ آخری اور انتہائی قربانی، جو پیش کی جاسکتی ہو ، جو ہمارے حد امکان میں ہو، وہ پیش کر دینی چاہئے.ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہونا چاہیے.اس وقت اس احساس کا فقدان ہے.بعض دفعہ احمدی آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ پڑتے ہیں.آخر اتنا بڑا ایک عظیم الشان انقلاب روحانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور پذیر ہونے والا ہے، اس دنیا میں اور ہم چند ٹکوں کی خاطر مالی لحاظ سے جو misunderstanding ہیں، جو الجھیں ہیں، ان کو دور نہ کر سکیں ، ان کو دور کرنے کے لئے تیار نہ ہوں.اور اس کے لئے کوئی قربانی نہ دے سکیں.تو پھر خدا تعالی کی نگاہ تو یہ نتیجہ نکالے گی ناں کہ ان کو اپنے پیسوں کی فکر پڑی ہے ، میرے دین کی طرف توجہ نہیں“.ر پورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 28 تا 30 مارچ 1980ء) 795
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم تحریک جدید کی مثال بڑ کے درخت کی ہے ارشاد فرمودہ 29 مارچ 1980ء ارشاد فرموده 29 مارچ 1980ء بر موقع مجلس شوری تحریک جدید کے دو کام ہیں.ایک تیاری کا.ایک تیاری کے بعد میدان عمل میں اس تیاری سے فائدہ اٹھانے کا.جو تیاری کی ذمہ داری ہے ان کی، اس کا تعلق ہے، مرکز سلسلہ کے ساتھ.اور جو تیاری کے بعد ان کا میدان عمل ہے ان کا ، وہ پاکستان سے باہر ہے.بنگلہ دیش اور بھارت بھی تحریک جدید کے ساتھ ان کے کام کے میدان میں شامل نہیں ہیں.یہ سارا جو کام ہے، وہ غیر ممالک سے تعلق رکھتا ہے.یعنی بیرون پاکستان.ہم تو یہ کہیں گے ، ویسے بیرون بھارت، بیرون بنگلہ دیش بھی.شکر گڑھ میں سکول بنانا یا ہاسپیٹل بنانا ، اس کا تحریک جدید سے دور کا واسطہ بھی نہیں تعلق ہی کوئی نہیں.یہاں ہمیں هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المومنون: 04) کی رو سے لغو باتیں نہیں کرنی چاہیں.اور ہر غیر متعلق بات لغو بات ہے.جو بے فائدہ، بے نتیجہ اور بے مقصد ہوتی ہے.اور یہ عمل صالح نہیں ہے.کیونکہ موقع اور محل کے مطابق وہ بات نہیں کہی گئی.تحریک جدید کا بجٹ جیسا کہ آپ نے ابھی سنا، تین کروڑ سے زیادہ کا ہو گیا.الحمد للہ.لیکن اس تین کروڑ کے بجٹ پر بعض نا سمجھ یہاں بھی اور قسم کی کمنٹری شروع کر دیتے ہیں.اس میں صرف چند لاکھ ہیں، جن کا تعلق پاکستان کے ساتھ ہے، آمد کے لحاظ سے.باقی وہ ملک ہیں ، وہ آزاد ملک ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے فعال جماتیں قائم ہو چکی ہیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا، یہ عجیب نظارہ ہے کہ 1944 ء تک ہمارے کسی رجسٹر میں بندھی ہوئی کوئی آمد بھی غیر ممالک سے نہیں تھی.وہ سارا بوجھ جو تھا، وہ تیاری ہورہی تھی ناں تحریک جدید کی ، وہ اس وقت مرکز کے اوپر تھا.اس کے بعد یہ آمد ہونی شروع ہوئی ، آہستہ آہستہ.اور اب یہ رقم تین کروڑ ، باسٹھ لاکھ کی رقم میں سے چھبیس لاکھ کے قریب یہاں کا ہے.اور جو باہر کا اس بجٹ میں ہے، وہ غیر ممالک 797
ارشاد فرمودہ 29 مارچ 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم کی جماعتوں کی قربانی اتنی نہیں ہے، اس سے زیادہ ہے.مثلاً ان کے جو مقامی اخراجات ہیں، لوکل فنڈ یہاں بھی ہے نا ، وہاں بھی ہے.وہ اس میں شامل نہیں.مثلا کئی کروڑ روپیہ نصرت جہاں لیپ فارورڈ ( آگے بڑھو) کا جو منصو بہ خدا تعالیٰ نے ہی 70ء کے دورے میں بتایا تھا، وہیں اس کے کئی کروڑ روپے خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے دیئے ہیں.وہ اس میں شامل نہیں.میں نے بتایا تھا چھلی مشاورت سے پہلے.صرف غانا کے عبدالوہاب بن آدم جو غا نین ہیں، لیکن پڑھے ہوئے جامعہ احمدیہ کے ہیں، وہ اردو بہت اچھی جانتے ہیں، اردو میں ہی رپورٹیں لکھتے ہیں.وہ مجھے ہر ہفتے خط لکھتے تھے.ان کا روپیہ ہے.یہ میں وضاحت کر دوں، آپ میں سے بھی بہت ساروں کو نہیں پتہ ہوگا ، ہر ملک کا روپیہ اس ملک پر خرچ ہوتا ہے.ایک پائی بھی اس ملک سے باہر نہیں نکالی جاتی.یہ جو نصرت جہاں ریز روفنڈ یا لیپ فنڈ یا لیپ فاور ڈ سکیم کے ماتحت ، ان ممالک کی میں بات کر رہا ہوں.آمد ہے ہسپتالوں سے اور خرچ ہیں ہسپتال اور سکول پر.کچھ اور چھوٹے موٹے دوسرے کام ہو جاتے ہیں.یہ تحریک 70ء میں شروع کی گئی.چندہ لینا بند کر دیا، 73ء میں.تین سال کے لئے تھا.73ء میں کسی وقت چندہ لینا بند ہو گیا.اکا دکا کسی شخص نے خاص اجازت لے کے بعد میں ادا کیا.ساری رقم جو جماعت ہائے احمد یہ پاکستان نے اور باہر والوں نے ملا کے دی، وہ 52 لاکھ روپیہ بنتی ہے.لیکن جو دنیا کی دولتیں ہیں، ان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے.انسان بھول جاتا ہے کہ میں مالک ہوں.اور جب خدا د ینے پر آتا ہے تو ہمار محاورہ ہے، چھت پھاڑ کے دیتا ہے.قرآن کریم کا محاورہ ہے.إِنَّ اللهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (آل عمران: 38 ) بغیر حساب کے دیتا ہے.اب 52 لاکھ کجا ، جس میں سے کئی لاکھ اب بھی بچے پڑے ہیں.اور ایک یہ میں پس منظر آپ کو بتارہا ہوں، ہر ہفتے پچاس ہزار کی Demand آجاتی ہے.میں نے بتایا ہے کہ وہیں آمد ہوئی ہے نانا میں، وہیں خرچ ہونا ہے.لیکن میں نے اس نیت کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان کے لئے دعائیں کرنے کا موقع دے گا، یہ قید لگائی ہوئی ہے کہ یہ رقم میری اجازت کے بغیر تم نے اپنے ملک میں نہیں خرچ کرنی.جو ضرورت ہے مجھے لکھو، چنانچہ عبد الوہاب بن آدم وہاں سے لکھتے تھے کہ پچاس ہزار کی اجازت دے دیں، لاکھ کی اجازت دے دیں، ڈیڑھ لاکھ کی اجازت دے دیں.ایک دن مجھے خیال آیا کہ یہ عبد الوہاب بن آدم ہمارے وہاں کے امیر ہیں، یہ مجھے یہ نہیں لکھتے کہ پیسے کتنے 798
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 29 مارچ 1980ء ان کے پاس پڑے ہیں، بنک میں؟ اور یہ اجازتیں مانگتے رہتے ہیں.یونہی میری سبکی نہ کر دیں کسی دن.میں نے کہا یہاں آجائیں ، مشاورت میں بھی شامل ہوں اور یہاں فیصلہ کریں گے.سارے اپنے سکولوں اور ہسپتالوں کا جو سالانہ بجٹ ہے، اس کے متعلق یہیں فیصلے کر لیں گے.خط و کتابت میں بعض دفعہ دیر بھی ہو جاتی ہے، اس کی وجہ سے ان کو تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے یا نقصان اٹھانا پڑتا ہے.جب یہاں آئے تو پتہ لگا کہ یہ صرف ایک ملک ہے، چھ میں سے، جو ڈیڑھ، دو کروڑ روپیہ خرچ کر چکا ہے اور پچھتر لاکھ روپیہ بنک میں پڑا ہوا ہے، ان کا، روپے کے لحاظ سے.ان کی تو سٹڈیز ہیں لیکن ان کو ہم نے روپے میں convert کیا تو پھر یہاں فیصلے کر لئے.اب اس سال وہاں نصرت جہاں کی تحریک میں احباب جماعت مال کی قربانی دے رہے ہیں.اور آپ کے لئے مالی قربانی دینا نسبتاً آسان ہے.یہ تو ساری دنیا کو Cover کر رہے ہیں، تحریک جدید والے.لیکن افریقن ممالک کے شہریوں کے لئے ، وہاں کے باشندوں کے لئے مالی قربانی دینا مشکل ہے، آپ کے مقابلے میں.اس لئے کہ دو سو سال تک ان کی ہر جیب میں کسی غیر ملکی کا ہاتھ تھا، جو ان کے پیسے نکال رہا تھا.ان کے پاس کچھ چھوڑتے ہی نہیں تھے.یہ جو علم ان کے اوپر ڈھائے گئے ہیں، ان کا اثر ہے ، ان کے دماغوں کے اوپر.اس کے باوجود یہ تبدیلی، یہ انقلاب عظیم بپا ہوا ہے.چار کروڑ، اکتیس لاکھ کی یہ مالی قربانی يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ والا معاملہ ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے مال میں برکت دی.وہاں نفوس میں برکت کے نتیجے میں وہ بجٹ بنا ہے.یہاں مال میں خدا تعالیٰ نے برکت رکھی ہے.مال میں برکت رکھنے کے لئے ہسپتال ہماری آمد کا منبع تھا.وہاں نصرت جہاں چندے تو نہیں لے رہی.جو لئے بھی ہیں تھوڑے سے، وہ تو نہ ہونے کے برابر ہیں.اول تو بہت ہی کم ، میرے خیال میں سارے دو، ایک لاکھ بھی نہیں ہوئے.تو یہ ایک سال کا ہے.خدا تعالی کا عجیب معاملہ ہے، احمدی کے ساتھ.آپ کی تو زبانیں خشک ہو جائیں، پھر بھی خدا کی حمد کماحقہ نہیں ادا کر سکتے.سارے ممالک کا نصرت جہاں کا جو چندہ ہے، میں بتایہ رہا ہوں کہ یہ بھی غیر ممالک میں خدا تعالیٰ اس قسم کی ترقی دے رہا ہے کہ اس کے علاوہ صرف نصرت جہاں کا بجٹ 14 کروڑ ، 31 لاکھ ہے.اور تحریک جدید کا یہ ہے.اس میں دونوں میں فرق ہے.تحریک جدید کا تو جو ہے بجٹ ، وہ ہمیں خدا تعالیٰ کا یہ فضل اور یہ رحمت بتاتی ہے کہ کس قد را خلاص پیدا ہو گیا ہے ان دلوں میں ، ان سینوں میں ، جو ان ملکوں میں لینے والے 799
ارشاد فرمودہ 29 مارچ 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم ہیں.تبھی اتنی قربانی دے رہے ہیں ناں.وقت کی قربانی دے رہے ہیں، بڑی دلیری کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں.جس ڈاکٹر کو ہم یہاں سے بھیجتے ہیں، وہ ایک معمولی سا ڈا کٹر ہوتا ہے.اس کو یہاں کوئی پوچھتا نہیں.جس طرح جس مبلغ کو ہم بھیجتے ہیں، وہ بھی یہاں ربوہ کی گلیوں میں پھر رہا ہوتا ہے اور کوئی سمجھتا نہیں کہ کیا چیز ہے.وہاں جاتا ہے تو Head of the State کے ساتھ گردن اونچی کر کے بات کر رہا ہوتا ہے اور عزت کرواتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے، جو اس مبلغ کی بھی عزت کرواتا ہے.اور یہاں یہ کہ خدا تعالیٰ نے وہ معمولی سا ڈاکٹر کوئی سرگودھے سے چلا گیا، کوئی ساہیوال سے چلا گیا ، کوئی ملتان سے چلا گیا ، کوئی کہیں سے چلا گیا، کوئی کہیں سے چلا گیا.کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، الا ماشاء اللہ.یہاں کچھ کماتے بھی تھے لیکن اتنے نہیں.ایک ڈاکٹر کا میرے ذہن میں آیا خیال، وہ یہاں بہت کماتا تھا.لیکن میرا خیال ہے کہ ایک مہینے میں وہاں وہ اتنا کما لیتا ہے اپنا حصہ کہ ایک سال میں یہاں نہیں کما سکتا تھا.اور یہاں حالانکہ بہت اچھی اس کی پریکٹس تھی.74ء میں سب کچھ جلا دیا گیا.خدا نے فرمایا، میں پیسے دینے والا ہوں ، وہاں چلے جاؤ، میں تمہیں پیسے دوں گا.تو رزق میں برکت ڈالی ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفار رکھ کے.اور بڑے بڑے امیر لوگ اپنے ملک کے وزراء صاحبان اپنے بڑے خوبصورت ، جو انہوں نے ہاسپٹل بنائے ہوئے تھے، غیر ملکی یورپین اور امریکن ڈاکٹر وہاں کام کر رہے تھے، ان کے سٹور جو تھے، وہ دوائیوں سے بھرے ہوئے تھے، ان کے جوسر جیکل وارڈ تھے، ان میں ہر قسم کے instruments پڑے ہوئے تھے اور وزیر چلا جاتا تھا ، جماعت احمدیہ کے ایک چھوٹے سے کلینک میں.ایک وزیر کو اس کے دوست نے کہا، ہمیں یہ مسئلہ نہیں سمجھ آرہا ، تم وزیر ہو، تم اپنے ہسپتال میں جاؤ، جہاں ہر قسم کی سہولت تمہیں حاصل ہے.اور وہاں ڈاکٹر اچھے، عمارت اچھی ، جس کمرے میں رہائش ہے، وہ کمرے اچھے ، اس کا فرنیچر اچھا، دوا ئیں اچھی ، knife اچھے سرجری کے اور دوسری چیزیں اور وہ چھوڑ کر یہاں آ جاتے ہو، یہ کیا بات ہے؟ خدا تعالیٰ نے اس کو جواب بھی بڑا عجیب سکھایا.کہنے لگا، ہمارے ہسپتال میں ہر چیز ہے، صرف ایک چیز نہیں.اور ان کے ہسپتال میں ان میں سے کوئی چیز نہیں مگر وہ ایک چیز ہے.اور وہ ہے شفا.ہم یہاں آتے ہیں، اس لئے کہ ہمیں یہاں شفا ملتی ہے.میں ابھی آپ کی باتیں سن رہا تھا، یہاں گیسٹ ہاؤس میں تو اس وقت میرے دماغ میں مثال آئی.تحریک جدید کی مثال بڑ کے درخت کی ہے.بڑ کے درخت کی ایک جڑ نہیں ہوتی بلکہ اس کی جڑیں 800
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 29 مارچ 1980ء اوپر سے ٹکتی ہیں.جس وقت درخت بنتا ہے تو جڑ لٹک کے پھر زمین میں وہ اپنی جڑ بنالیتی ہے.تو یہاں مرکز کا تنا بھی ہے اور اس سے پھر مرکز کے کام میں خدا تعالیٰ نے برکت ڈالی ہے، ملک ملک میں اسی درخت کی جڑیں نیچے اتریں اور وہاں جڑ پکڑ گئیں ہیں.درخت ایک بھی ہے اور جڑیں مختلف بھی ہیں.ایک ہی وقت میں مختلف نظارے نظر آتے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا بڑا افضل ہے.ہمیں حسد سے بچنے کی بھی دعا سکھائی گئی ہے.تو اللہ تعالی حاسدوں کے حسد سے ہمیں محفوظ رکھے.اور حاسدوں کے حسد میں شدت پیدا کرنے کے لئے رحمتیں پہلے سے بھی زیادہ ہم پر نازل کرنی شروع کر دے.بعض لوگ ایسے بھی ہیں، جن کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے.مُوْتُوْا بِغَيْظِكُم ( آل عمران: 120) دراصل فضل کے جو معنی میرے دماغ میں آتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ خدا کہتا ہے، اپنے فضلوں اور رحمتوں سے میں نوازتا ہوں اور غصہ تمہیں آتا ہے.مُوْتُوا بِغَيْظِكُمْ ایک دوست نے یہاں کہا تھا کہ ایک جگہ سو مبلغ بھیج دیں.میں کہتا ہوں، ایک جگہ ایک ہزار بھیج دیں.اپنے بچے آپ بھیجیں.ایک ہزار ایک ملک کو لیبل لگا کے ہم یہ ہزار بچہ دیتے ہیں.لیکن ڈیڑھ ہزار بھیجیں، وہ بیچ میں casualties بھی ہو جاتی ہیں.آپ کہیں ایکس (x) ملک کے لئے ہم اپنے بچے دیتے ہیں ، ان کو آپ تیار کر کے وہاں بھیجیں، ہم بھیج دیں گے.لیکن یہاں پر تحریک جدید آٹے کے بت بنا کے یا سیمنٹ کے بت بنا کے وہ مبلغ بنا کے وہاں نہیں بھیج سکتی.ایک اور اصولی بات میں اب کہنے لگا ہوں، ہم تو یہاں پلاؤ پکانے کے لئے بھی نہیں آتے.خیالی پلاؤ پکانے کے لئے تو بالکل نہیں آتے.بالکل جو قابل عمل چیز ہے، اس کی بات کریں.جو چیز قابل عمل بنائی جاسکتی ہے، یعنی آج نہیں ہے لیکن کل کے لئے ہم نے سوچنا ہے، اس کی بات کریں.لیکن جو مستقبل قریب میں قابل عمل ہو ہی نہیں سکتی، اس کے سر کی بات کریں اور دھڑ اور لائیں غائب ہی ہوں تو سر تو ہوا میں نہیں لٹکے گا.سارے جسم کی بات کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقد ہ 28 تا30 مارچ1980ء) 801
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1980ء غلبہ اسلام اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں ارشادات فرمودہ 30 مارچ1980ء برموقع مجلس شوریٰ بات یہ ہے، جو انہوں نے بات کی ہے اور بڑی کی بات کی ہے کہ وقف زندگی باپ کر ہی نہیں سکتا.وہ تو بچے نے خود کرنی ہے.اس واسطے جن ماں باپ کے دل میں یہ خواہش ہے کہ میرا بچہ وقف کرے، ان کا یہ فرض ہے کہ بچپن سے ہی اس کے دماغ میں یہ بات ڈالتے رہیں کہ تم واقف زندگی ہو، تمہارے اوپر ذمہ داریاں ہیں، دوسروں سے مختلف.اس واسطے اپنی عادات اپنے اخلاق کو نمایاں کرو اور ان کے اندر حسن پیدا کرنے کی کوشش کرو.تا کہ تم اچھے مبلغ بن جاؤ.دعاؤں کی عادت ڈالو.باقی یہ جو تجویز ہے، اس کے بارہ میں پتہ لیا ہے، وہ تو یہ ہے کہ ہر عہدیدار کے لئے ضروری ہو کہ اس کا ایک بچہ وقف ہو.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا آخری بچہ بی ایس سی میں چلا گیا، وہ تو عہد یدار بن ہی نہیں سکتا.کیونکہ وقف کرنے والا میٹرک کے بعد آتا ہے، بڑوں کو ہم لیتے ہی نہیں.جس شخص کے سب سے چھوٹے بچے کی عمر 20 سال ہوگئی.میں نے نیا قاعدہ بنایا ہے کہ بوڑھوں کے لئے انتظام کرو.جامعہ احمدیہ میں تو صرف نو جوانوں کو لیا جاتا ہے، جن کی 17 سال سے زیادہ عمر نہیں ہوتی.اب یہ دیکھیں ہمارے امراء میں سے بہت سارے بیٹھے ہوں گے، جن کا سب سے چھوٹا لڑکا 21-20 سال تک پہنچا ہوا ہے.اگر یہ ریزولیوشن پاس ہو جائے کہ وہ ایسا بن نہیں سکتا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی بڑی عمر کا عہد یدار بن نہیں سکتا.مرزا عبدالحق صاحب کو بھی آرام مل جائے گا.پس یہ وقف ایک تحریک ہے، جو کی جارہی ہے.ایک وقت ایسا بھی آیا ہے بدقسمتی سے کہ جب یہ شروع ہو گیا تھا کہ جو بچہ بالکل کسی کام کا نہیں ہے، اسے حافظ قرآن بنا دو.اس طرح تم کیا عزت کر رہے ہو، قرآن کریم کی؟ اسی طرح جو بچہ پڑھائی میں سب سے کمزور ہے، جس نے تھرڈ کلاس لے کر میٹرک پاس کیا ہے، کوئی کالج لینے کے لئے تیار نہیں، اسے وقف کر کے جامعہ میں لے آؤ.وہ زمانہ گزر گیا، الحمد اللہ.اب تو یہ جو کہتے ہیں ناں کہ تعداد بڑھ گئی.یہ اس ایک جب تعداد تھی اس وقت جب تھرڈ کلاس سے بھی نچلے حصے کے تھے، بچے میٹرک کے، وہ آکر داخل ہو جایا کرتے تھے.ان میں سے ایک نے پاس کیا.اب میں نے یہ حکم دیا ہے کہ کوئی بچہ ، جس نے 803
ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم تھر ڈ ڈویژن لی ہے، وہ جامعہ میں داخل نہیں ہوسکتا.اور اول تو کوشش کرو کہ اچھی سیکنڈ ڈویژن ہو ، فرسٹ ) ڈویژن ہو.بہت سارے لڑکے فرسٹ ڈویژن میں آگئے.مولوی احمد خان صاحب نسیم مرحوم جماعت کے بڑے فدائی تھے.انہوں نے اپنا ایک بچہ وقف کیا، نیم مہدی.جو آج کل سوئٹزر لینڈ میں بہت اچھا کام کر رہا ہے.اللہ تعالٰی اس کے کاموں میں اور بھی زیادہ برکت ڈالے اور جزا دے.اس نے چوٹی کے نمبرلے کے میٹرک پاس کر لیا.مولوی صاحب اس کو ساتھ لے کر میرے پاس آگئے.کہنے لگے کہ کیا کرنا ہے، اس کا ؟ میں اس کو پہلے بی اے، ایم اے کروا کے وقف کروں یا ابھی کر دوں؟ میں نے کہا، چپ کر کے جاکے اس کو جامعہ احمدیہ میں داخل کروادیں.وہ اتنا ذہین ہے کہ کوئی حد نہیں.اس قسم کے اب بچے آرہے ہیں کہ ایک کو ہم نے کسی اور ملک کی زبان سیکھنے سویڈن بھیجا تو سویڈن کے مبلغ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ یہ ہم سے بھی زیادہ تیزی سے زبان سیکھ رہا ہے.خود جو زبان سیکھنے کے لئے نہیں گیا.وہ ان کی شرط تھی کہ تھوڑی سی زبان ہماری آنی چاہئے تا کہ یہ استاد کی زبان سمجھ سکے.سیکھنی اس نے کوئی اور زبان ہے.تو ماشاء اللہ بڑے ذہین بچے جامعہ احمدیہ میں آرہے ہیں.کچھ تھوڑی سی تختی بھی کرنی پڑتی ہے.یہ جو نئے جامعہ سے نکل رہے ہیں، ان میں سے بہت بھاری اکثریت ایسی ہے، جو بڑے فدائی ، دعائیں کرنے والے، نتیجہ نکالنے والے نتیجہ تو اس وقت تک نہیں ملتا ، جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل پیچ میں شامل حال نہ ہو جائے.لیکن جیسا کہ نظر آ رہا ہے کہ یہ دنیا میں انقلاب عظیم، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب تھا، اس نے اپنی انتہائی شکل میں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب عظیم بپا ہوا اور آپ کا message ( پیغام ) ساری دنیا کے نوع انسانی کے لئے ہے، وہ اپنے عروج پر پہنچ رہا ہے.وہی چیز ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لیکن ہر نسل نے اپنی ذمہ داریوں کوادا کرنا تھا کرتے رہے.ہمیں اپنی فکر کر نی چاہئے.پس یہ بڑی جلدی تبدیلیاں آجائیں گی.یہ آپ یا درکھیں.یعنی یہ اس طرح ارتقائی تبدیلیاں نہیں ہوں گی.جس طرح آنا فانا انقلاب آ جاتا ہے.آم کا جو پودا آپ لگا دیتے ہیں، دسویں سال تخمی آم کو پھل لگتا ہے.قوموں کو ترقی کے لئے تو کئی صدیوں تک جدو جہد کرنی پڑتی ہے.مجھے کئی دفعہ بعض دوستوں نے پوچھا کہ یہ کس طرح ہو جائے گا کہ دنیا کے تو ایسے حالات ہیں؟ دنیا تو مانے گی نہیں.دنیا تو اس طرف آتی نہیں.دنیا تو عیش میں پڑی ہوئی ہے.یہ ہے اور وہ ہے.میں نے کہا، اسی طرح ہو جائے گا، جس طرح مکہ فتح ہو گیا تھا.دودن پہلے کوئی مسلمان نہیں سمجھ سکا تھا کہ مکہ فتح ہو جاتا ہے.دودن پہلے یہ حالت تھی اور دودن کے بعد 804
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1980ء ایک انقلاب آ گیا.آیا تو وہ ایک سیکنڈ میں.آیا تو صرف اس سیکنڈ میں، جس وقت اہل مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قدوسیوں کے ساتھ وہاں دیکھا.وہ اتنی جنگجو قوم تھی قتل و غارت کرنے والی اور اسلام کو مٹانے کی کوششیں کرنے والی قوم تھی.لیکن اس وقت فرشتوں نے ان کے دلوں پر تصرف کر کے ان کو کہا ، اب تم مسلمانوں سے نہیں لڑ سکتے.یہ وہ انقلاب عظیم ہے.چند منٹ پہلے نہیں پتا کیا ہو جانا ہے؟ اب بھی یہی ہونا ہے، انشاء اللہ ہونا ہے، غلبہ اسلام کی صدی، جس کو میں کہتا ہوں، اس کے اندر ہی ہو جاتا ہے.اس سلسلہ میں ہمیں دو دعائیں کرنی چاہئیں.ایک تو یہ کہ خدا ہماری زندگیوں میں اس کے آثار ہمیں دکھا دے.اور دوسرے یہ کہ ہر نبی بشیر بھی ہے اور نذیر بھی ہے اور سب سے بڑے بشیر اور نذیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.پہلوں نے تو کسی نے ایک گاؤں کے متعلق ڈرایا کہ اگر ایمان نہ لاؤ گے، اگر اپنی بدیاں نہ چھوڑو گے تو تباہ ہو جاؤ گے.اور مخاطب صرف ایک گاؤں تھا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نذیر کی حیثیت میں بات کی تو مخاطب نوع انسانی کو کیا.اس لئے ہمیں دعا یہ کرنی چاہئے کہ نوع انسانی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو انداز ہے، وہ اسے سمجھے اور تباہی کی آخری گھڑی سے قبل اسے تو بہ کرنے کی توفیق مل جائے اور نوع انسانی کا ایک بڑا حصہ، ایک بڑا ٹکڑا تباہ ہونے کے بعد اس کا ایک حصہ اسلام میں داخل نہ ہو بلکہ ساری کی ساری نوع انسانی اسلام میں داخل ہو جائے.اور لوگ خدا کی نگاہ میں اپنے لئے پیار پائیں اور اس سے دنیا بدل جائے گی.یہ کوئی محض خیالی پلاؤ والی بات نہیں ہے.ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ اسلام کے حق میں انقلاب رونما ہونے والا ہے.ہم ان کے ساتھ تعلیم کا مقابلہ کرتے ہیں.کیا انقلاب لائی ہے، اسلام سے باہر کی دنیا ؟ کوئی انقلاب نہیں لائی.ابھی ایک نسل ختم نہیں ہوتی تو تریریں پڑ جاتی ہیں، رخنے پڑ جاتے ہیں، اس انقلاب کے اندر.دوسرے یہ کہ ہر انسانی انقلاب بیشتر ارتقاء کے اوپر انحصار کر کے آگے بڑھا ہے.اور وہی اس کی کمزوری بن گیا ہے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالا یا ہوا انقلاب ، اپنی انقلابی شکلیں چودہ سوسال میں دکھاتا رہا ہے اور پھر ساتھ ارتقاء بھی.کیونکہ دونوں خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں.ایک انقلابی جلوہ، دوسرا ارتقائی جلوہ.ایک یہ کہ ماں کے پیٹ میں ایک وقت میں صرف مادی لوتھڑہ ہے، جس کے اندر روح نہیں.یورپ کے جو فلاسفر ہیں، انہوں نے بھی حیران ہو کے کہا ہے کہ یہ تو ماننا پڑے گا کہ یہاں یہ ارتقاء نہیں آیا بلکہ یکدم ایک بے جان میں جان پڑ گئی ، بے روح میں روح پڑ گئی.تو یہ انقلا- ہے.پھر انسان کی زندگی میں ہزار ہا انقلاب آتے ہیں.805
ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1980ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم جب محمد بن قاسم سندھ میں داخل ہوئے ، وہ انقلابی تبدیلی تھی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کے لئے وہ ایک انقلاب تھا.آندھی اور طوفان کی طرح آگئے ناں لوگوں کے نزدیک.ہمارے نزدیک تو صبح کی ٹھنڈی ہوالے کے وہ پہنچ گئے ، گرم ریگستان سے نکل کے سندھ کے اندر.جس وقت طارق نے اپنی کشتیاں جلائیں ، کیا اس کا وہ فعل انقلابی نہیں تھا؟ بالکل انقلابی تھا.مرورزمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب عظیم ہے.خدا تعالیٰ نے اس انقلاب کے اندر انقلابی جلوے بھی اپنی صفات کے دکھائے، جلال کے جلوے اور ارتقائی جلوے بھی اپنی صفات کے دکھائے اور جمال کے جلوے بھی دکھائے.تو یہ جس کو میں کہتا ہوں علی وجہ البصیرت غلبہ اسلام کی صدی، اس کے اندر ایک دن یہ انقلاب آ جانا ہے.ہر چھوٹا انقلاب، انسانی ہاتھ کا انقلاب.میں غور کرتارہتا ہوں، ہر انقلاب v arrow ہے،Pointer ہے، اسلام کے آخری غلبہ کی طرف وہ اشارہ کر رہا ہے.اور اس کے لئے ہمیں تیاری کرنی چاہئے.قرآن کریم نے کہا تھا:.وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّوا لَهُ عُدَّةً (توبه : 46) اس وقت دشمن حملہ آور تھا اور مسلمان کو اپنے دفاع کے لئے ، اپنے عقیدہ کے دفاع کے لئے، اپنے مذہب اور دین کے دفاع کے لئے جنگ کرنی پڑی تھی ، وہ مجبور ہو گئے تھے.اس وقت کی تیاری اور تھی.یہ تیچ ہے.لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ جس شخص نے خدا کی راہ میں جہاد کرنے کی نیت کی ہو، وہ اس کے لئے وقت سے پہلے تیاری کیا کرتا ہے.اس وقت جنگ تلوار کی نہیں ، بندوق کی نہیں.اس وقت تو جنگ ہے، دلائل کی اور آسمانی نشانوں کی.اگر جماعت احمدیہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ایک منتخب جماعت ہے، جو اسلام کو غالب کرنے کے لئے دنیا میں قائم کی گئی اور اس کے لئے وہ مصروف عمل ہے تو اگر لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ کے مطابق ان کی نیتیں یہ ہیں کہ ساری دنیا میں پھیلیں اور ظلمات کو دور کر کے وہاں اسلام کی روشنی پھیلا دیں تو لَاعَدُّوالَهُ عُدَّةً کی رو سے یہ ضروری ہے کہ دوست اپنی عقلوں میں جلا پیدا کریں، آسمانوں کے نور کو جذب کریں.تمہارے وجود میں سے نور نکلنا چاہئے.806
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1980ء پس جو ذمہ داری ہے، وہ چاہتی ہے اور بچے اپنی زندگی وقف کریں.وقف کے لئے میں نے پہلے بھی سمجھایا ہے کہ ضروری نہیں، جامعہ احمدیہ میں پڑھا جائے.یہ ضروری ہے کہ پڑھا جائے.جامعہ احمدیہ میں پڑھنا ضروری نہیں.البتہ پڑھنا ضروری ہے.جامعہ احمدیہ کا نصاب پڑھنا، ضروری نہیں.خدا تعالیٰ نے جو ایک ہی کتاب نصاب کی ہمارے ہاتھ میں دی ہے، وہ قرآن عظیم ہے.اس کا پڑھنا، اس کو سمجھنا اور اس کے اسرار روحانی کو سمجھنا ضروری ہے.اس لئے میں دوستوں سے بار بار کہتا ہوں کہ وہ اس طرف توجہ کریں ، اس طرف توجہ کریں ورنہ جماعت احمدیہ کے دوستو! تم خدا کی نگاہ میں جھوٹے ہو گے کہ کہتے تو یہ ہو کہ دوسروں کو بھی اسلام میں لانا ہے اور آپ خود بھی عملاً اسلام سے باہر نکلتے جارہے ہیں، دوڑتے ہوئے.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے“..اب ہم دعا پر اس شوری کا اختتام کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ وہ سارے وعدے پورے فرمائے ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیئے گئے.جو ہر قسم کی برکتوں کے متعلق ہیں.مال میں برکت، جانوں میں برکت، جس چیز کو ہاتھ لگا دیں، ان میں برکت.بڑے وعدے ہیں.تو دینے والا اللہ ہے اور وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ (الانعام:135) اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں.جس خدا کو ہم مانتے ہیں، اس کا تو کوئی ہاتھ نہیں پکڑ سکتا.کمزوری ہم میں پیدا ہو سکتی ہے، اس میں پیدا نہیں ہوسکتی.اس واسطے آپ اپنے اندر کمزوری نہ پیدا کریں.پہلے سے بڑھ کر وہ انعام دیتا چلا جائے گا.کیونکہ وہ آپ کو ایک جگہ ٹھہرا ہوادیکھنا پسند نہیں کرتا.خدا تعالیٰ نے انسانوں کے ان گروہوں سے، جن سے اس نے ہمیشہ پیار کیا، یہی سلوک روارکھا ہے.سب سے بڑی یہ مہربانی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے پیار سے بندوں کو ایک جگہ ٹھہرے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کرتا.ایسا سامان پیدا کرتا ہے کہ وہ آگے قدم بڑھائیں، وہ آگے قدم بڑھائیں، وہ آگے قدم بڑھائیں.ایک چھوٹا سا نظارہ تو یہ رونما ہوا، شروع خلافت میں کہ سب سے پہلے میں نے فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کی.بہتوں نے مشورہ دیا ، 20 لاکھ کی کردیں، 21 لاکھ کی کر دیں.مجھے تو نہ تجربہ تھا، نہ میں نے ساری جماعت کو اس طرح ابھی سنبھالنے کی خدا سے توفیق پائی تھی.جو بعد میں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی.تو دل میں ڈر پیدا ہوتا تھا کہ پتہ نہیں جماعت کے کندھوں پر زیادہ بوجھ نہ پڑ جائے.یہ 65 ء کی بات ہے.جب فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کی گئی.پانچ سال کے بعد 70ء میں جب افریقہ کے دورے 807
ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1980ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم پر گیا ہوں تو میں نے نصرت جہاں آگے بڑھو کی تحریک کی.اس میں بھی جماعت نے جتنا میں نے کہا تھا، اس سے کہیں زیادہ یعنی 53 لاکھ روپیہ جمع کر دیا.اور یہ 70ء کی بات ہے.اور پھر 73ء کے جلسہ سالانہ پر میں نے جو بلی فنڈ کی تحریک کی.جس میں نو ، دس کروڑ کے وعدے آگئے اور وصولی بھی کافی تسلی بخش ہے.جو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.اب صد سالہ جوبلی فنڈ سے گوٹن برگ میں مسجد بنائی.ناروے میں ، اوسلو میں ڈیڑھ ملین کرونے سے مسجد بنائی.یہ قریباً 32-30 لاکھ روپے بنتے ہیں.یہ مساجد غیر ملکوں میں بنائی ہیں.یہاں سے ایک دھیلہ نہیں باہر جا سکتا ، نہ ہم بھیجتے ہیں.یعنی باہر کی جماعتیں خدا نے اتنی مضبوط کر دیں.پھر خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا جلسہ سالانہ پر غالبا میں نے آپ کو بتا دیا تھا کہ سپین میں چار کنال کا ایک ٹکڑا خرید لیا گیا ہے.ہمارا ٹکڑا ایک بڑی سڑک سے چھوٹی سڑک نکلتی ہے، جو گاؤں کی طرف جارہی ہے، اس کے اوپر تھا.جو بڑی سڑک ہے، اس کے اور ہمارے درمیان صرف ایک شخص کی ملکیت تھی.کوئی ساڑھے چار، پانچ کنال کی.کرم الہی صاحب ظفر جلسہ پر یہاں آئے تو میں نے کہا کہ اس شخص سے کہیں یا تو یہ جگہ ہمارے پاس بیچ دے، ہمارے دوطرف ماتھے ہو جائیں گے، ایک چھوٹی سڑک پر ایک بڑی سڑک پر، یا اگر نہیں بیچنا چاہتا تو ہمیں صرف 20 فٹ کا ایک ٹکڑا ایک طرف سے یا دوسری طرف سے سڑک کے لئے دے دے.تا کہ ہم اس سڑک تک اپنے طور پر پہنچ جائیں ، چھوٹی سڑک پر چڑھے بغیر.انہوں نے جا کر اس سے بات کی ، اس نے کہا، سارا ہی لے لو.پوچھا کس قیمت پر ؟ حالانکہ وقت گزر چکا تھا، قیمتیں وہاں بڑھ جاتیں ہیں.اس نے کہا، جس قیمت پر آپ نے پہلے لیا تھا.چنانچہ کوئی مہینہ لگا اس پر مشورہ وغیرہ کرنے میں.چند دن ہوئے اطلاع آئی ہے کہ وہ ٹکڑا بھی خرید لیا گیا ہے.الحمد اللہ.تو یہ دس کروڑ کے قریب مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ جمع ہو جائے گا.اس میں زیادہ رقم غیر ممالک کی ہے.زیادہ ضرورت بھی وہیں ہے، یہاں کی ضرورتیں بھی خدا پوری فرما رہا ہے.میں بتایہ رہا ہوں کہ خدا کسی جگہ ہمیں کھڑا نہیں ہونے دیتا.اگر کوئی جماعت یہ سمجھے کہ ہم آگے نہیں بڑھے، کھڑے ہو گئے ہیں اس سال تو ان کو بڑی فکر کرنی چاہئے.ابتلاء کا دوران کے اوپر آ گیا.ابتلاء آجاتے ہیں، اس طرح کے.اللہ تعالیٰ اس طرح جھنجھوڑتا ہے اور جگاتا ہے.باقی جہاں تک مسئلے مسائل کا سوال ہے، دنیا کا کوئی عالم ایسا نہیں، کوئی مسلمان عالم ایسا نہیں، جس کے پاس دلیل ہو جماعت احمدیہ کے جھوٹے ہونے کی.جس کا جواب تسلی بخش طریقے پر ہم اس کو نہ دے سکیں.808
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم ارشادات فرمودہ 30 مارچ 1980ء خواہ وہ مانے یا نہ مانے لیکن اگر ہزار آدمیوں کے درمیان اس کو جواب دیا جائے گا تو 900 ضرور مان جائیں گے کہ ان کا جواب درست ہے.ہے ہی کوئی نہیں چیز ، جہاں تک اعتقاد کا سوال ہے یا دلائل کا سوال ہے.جہاں تک آسمانی نشانوں کا سوال ہے، ذہن رسا بھی اللہ دیتا ہے اور آسمانی نشان تو اس کی قدرتیں ہیں.دنیا کو عجیب نظارے دکھاتا ہے.وہ دکھاتا ہے اور دکھاتا چلا جائے گا ، چھوڑے گا نہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وعدہ ہے.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: 10) خدا چھوڑے گا نہیں، نوع انسانی کو جب تک نوع انسانی بحیثیت نوع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع نہیں ہو جاتی.یہ آپ کے کام ہیں، ان کو توجہ سے کریں.اور اب ہم دعا کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ جو ذمہ داریاں ان کمزور کندھوں پر اس کی مصلحت کا ملہ نے ڈالی ہیں، ان کو پورا کرنے میں ہم کامیاب ہوں.اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 28 تا 30 مارچ 1980ء) 809
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پچیم وو اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 02 جنوری 1981ء اشاعت لٹریچر کی سکیم کے متعلق بعض نہایت اہم ہدایات خطبہ جمعہ فرمودہ 02 جنوری 1981ء میں چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کا جہاں تک تعلق ہے، بہترین کتابت ہوان کی اور بہترین طباعت ہو ان کی اور بہترین کاغذ استعمال کیا جائے.ایک نہایت اچھی شکل میں دنیا کے ہاتھ میں یہ روحانی خزانہ دیا جائے.کیونکہ جوشان ہے اس کلام کی نظم ہو یا نثر ، اسی کے مطابق اس کو لباس پہنانا چاہیے.یہ نہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی کتاب لکھے تو وہ تو پسند کرے کہ جو اس نے لکھا ہے، وہ بہترین ہو.لیکن حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے.ایک وقت میں یہ بیماری لندن میں بھی پیدا ہوئی اور مجھے انہیں سمجھانا پڑا.میں نے کہا ، کوئی کتاب لندن مشن نہیں شائع کرے گا، حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کے علاوہ، جس کی طباعت اور جس کا Get Up حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سے اچھا ہو.بہترین شکل میں، بہترین کاغذ پر ، بہترین مطبع بہترین پبلشنگ ہاؤس سے ، حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب شائع ہونی چاہئیں.چنانچہ وہاں سے اس وقت تک صد سالہ جو بلی کے خرچ پر تین کتب شائع ہو چکی ہیں.ایک تو Essence of Islam کی سیریز میں پہلی کتاب حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے اقتباسات چار مضامین پر.اللہ جل شانہ اور اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن عظیم یہ کوئی تین سو، اٹھائیس صفحے کی کتاب بن گئی.Essence of Islam Vol: II اس کی دوسری جلد اس وقت پریس میں ہے.یہ بھی انگریزی ترجمہ ہے.دنیا میں بڑی کثرت سے انگریزی بولی جاتی ہے.اس میں بعض دوسرے مضامین ہیں اور اس کے بعد.Essence Of Islam Vol: III اور Volume IV ( جلد سوم و چہارم) کا مسودہ تیار ہے، انشاء اللہ آگے پیچھے وہ آجائیں گی.اس کے علاوہ فرانسیسی بولنے والوں کے لئے ہمارے پاس لٹریچر نہیں تھا.دنیا میں ایک وقت میں تو (چین اور روس کو چھوڑ کے) سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں دو تھیں.یا انگریز کی زبان انگریزی، کیونکہ انہوں نے بہت زیادہ کالونائزیشن (Colonisation) کی اور یا فرانسیسی ، جو اس کے بعد نمبر دو پر آئی.پھر سپینش اور پر چوگیز ، کیونکہ ساؤتھ امریکہ میں وہ آباد ہوئے.اور ہالینڈ کی زبان ، اس 811
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 جنوری 1981ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم لئے کہ یہ بھی ایک وقت میں کالونیل پاور (Colonial Power) بنے ، اپنی زبان دنیا کے بعض حصوں میں انہوں نے رائج کی.ہالینڈ کی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی ہے ، بعض دوسری کتب بھی ہیں.فرانسیسی میں ابھی تک نہ قرآن کریم کا ترجمہ تھا، نہ کوئی اور لٹریچر تھا.چھوٹے چھوٹے رسالے بہت سارے شائع ہوتے رہتے ہیں، ضرورت کے مطابق ، لیکن پہلی دفعہ Introduction To The Study of Holy Quran (دیباچہ تفسیر القرآن، جو حضرت مصلح موعود کا لکھا ہوا ہے.یہ بذات خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت بھی رکھتا ہے.کیونکہ اس میں دو مضمون لمبے اور تفصیلی ہیں.ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور دوسرے اسلام اور عیسائیت کا موازنہ.اس کے علاوہ اور مضامین بھی ہیں.یہ بھی کوئی تین سو ہمیں، چالیس صفحے کی ہے.یہ بھی چھپ چکی ،صد سالہ جو بلی کے انتظام کے ماتحت.ہمیں اس کی اس لئے خاص طور پر ضرورت پڑی کہ ایک تو ساری دنیا میں اسلامی تعلیم پھیلانے کے لئے فرانسیسی کو بھی بیچ میں لانا ضروری تھا کیونکہ بڑی کثرت سے بولی جانے والی، سمجھی جانے والی زبان ہے.دوسرے اس لئے ضرورت پڑ گئی کہ افریقہ کے بہت سے ممالک کی زبان فرانسیسی ہے.جہاں یہ حاکم رہے ہیں.مثلاً نا ئیگر (Niger) ہے، جس کو یہاں نائیجر کہتے ہیں.اس میں وفد ملنے آیا تھا.میں نے کہا، میں شاگر د بنتا ہوں تو بتاؤ کہ تمہارے ملک کا Pronunciation کیا ہے؟ کیونکہ کوئی اس کونا ئیجر کہتا ہے، کوئی ٹائیگر کہتا ہے.انہوں نے کہا، نہ نا ئیگر، نہ نائیجر.ہم اپنے ملک میں اپنے ملک کا نام جو بولتے ہیں، اس کی (Sound) آواز ہے، نیگیر.وہاں ہمارا مشن نہیں.لیکن نائیجیریا کی سرحدوں پر ہے.وہ لوگ نائیجیریا میں آتے ہیں، وہاں ان کو تبلیغ ہوئی اور وہاں جماعت قائم ہوگئی.اور ہمارا ایک نوجوان معلم وہاں کام کرتا رہا.کچھ عرصہ وہ مزید تعلیم کے لئے اسی جلسے پر یہاں آ گیا ہے.مخلص ہے، ذہین ہے بظاہر.اس کے لئے بھی دعا کریں.کچھ فرانسیسی تھوڑی سی جانتا ہے، زیادہ نہیں.میرا خیال تھا کہ اس کو پوری طرح فرانسیسی کا ماہر بنایا جائے.نیز علوم قرآنی کا بھی ایک حد تک اس کو علم سکھایا جائے یہاں.تاکہ وہ ان علاقوں میں کام کر سکے.کیونکہ وہاں جماعت قائم ہوگئی ہے یا شاید ایک سے زیادہ جماعتیں.ٹوگو لینڈ فرانسیسی بولتا ہے، وہاں جماعتیں قائم ہو گئیں.بین ایک ملک کا نام ہے، وہاں جماعتیں قائم ہوگئیں.سینیگال فرانسیسی بولتا ہے، بہت بڑا ملک ہے.بیچ میں گھسا ہوا ہے، اس میں ہمارا گیمبیا.جس کو بانجول کہتے ہیں.اب بانجول اندر گھسا ہوا ہے.اس کے بیچ میں سے رستہ نکلتا ہے، جو آر پار جاتا ہے.ملانے کے لئے ، ان کے دو علاقوں کو.اس حصہ میں بھی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.وہ فرانسیسی بولنے والے ہیں.اس لئے فرانسیسی لٹریچر کی بہت ضرورت تھی.812
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 02 جنوری 1981ء اس ضرورت کو ایک حد تک (Introduction To The Study of Holy Quran) دیباچه فرانسیسی انشاء اللہ پوری کرے گا.اس میں سے پمفلٹ بھی بہت سارے مضامین پہ نکالے جاسکتے ہیں، علیحدہ شائع کرنے کے لئے دو، دو صفحے کے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، اسلام کی خوبیاں ہیں، وغیرہ وغیرہ.میری یہ خواہش ہے اور آپ کی بھی ہونی چاہیے.کیونکہ خلیفہ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں کہ دس سال کے اندر اندر یعنی قبل اس کے کہ ہماری زندگی کی دوسری صدی شروع ہو ، ہم قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ شائع کر سکیں.ترجمہ ہو چکا ہے لیکن ( Revision) نظر ثانی کی ضرورت ہے، وہ ہورہی ہے.Italian زبان میں ترجمہ حضرت مصلح موعود نے کروا کے مسودہ رکھا ہوا تھا، لیکن ނ Revision نہیں ہوسکی، اس وقت.اور Revision دو وجہ سے ضروری ہے.ایک یہ کہ آج چالیس، پچاس سال پہلے کی زبان میں جو ترجمہ ہوا ہے، زبان بھی کچھ بدل گئی ہے، محاورات بھی بدل گئے.Revision ہونی چاہیے، زبان کے لحاظ سے.دوسرے یہ کہ جوتر جمہ کسی غیر مسلم، غیر احمدی نے کیا ہے، اس کو شائع کرنے کی ذمہ داری نہیں لی جا سکتی.جب تک ہمارا آدمی نہ دیکھے کہ مضمون کے لحاظ سے کوئی غلط بات تو نہیں آگئی.اس کے لئے بھی ہم کوشش کر رہے ہیں کہ زبانیں ہمارے شاہد دین سیکھیں.فرانسیسی جانے والے تو ہمارے شاہدین پیدا ہو گئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم اچھی زبان میں لکھ نہیں سکتے.لیکن یہ ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ جو ترجمہ ہوا ہے، اس میں مضمون کے لحاظ سے غلطی تو نہیں.میرا خیال ہے کہ فرانسیسی ترجمه ان تراجم میں سب سے پہلے آجائے گا.اٹالین زبان میں آجائے گا، پھر پور چوگیز زبان میں آ جائے گا، رشین زبان میں بھی Translation ہے، جس کی Revision ہونے والی ہے، اس کے لئے انتظام میں کر رہا ہوں.میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ شدید تڑپ پیدا کی ہے کہ دس سال کے اندر اندر ہم فرانسیسی اور اتالین اور سپینش زبان میں اور رشین زبان میں اور چائینیز زبان میں قرآن کریم کے ترجمے شائع کر دیں.اگر ہم ایسا کر سکیں تو دنیا کی آبادی کے قریباً اسی فیصد سے زیادہ لوگوں کو ہم قرآن کریم ان کی زبان میں دے سکتے ہیں.تو دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو خواہش پیدا کی ہے، اس کو پورا کرنے کے بھی سامان پیدا کرے.(مطبوعه روز نامه الفضل یکم فروری 1981ء) 813
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام برموقع جلسہ سالانہ جماعت ہائے احمد یہ جزائر بھی اس صدی کے آغاز میں اسلام کے لئے اپنی قربانیوں میں نمایاں اضافہ کریں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت ہائے احمد یہ جزائر نجفی برادران جماعت ہائے احمد یہ جزائر مینی السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنا سالانہ جلسہ منعقد کر رہے ہیں.اور یہ جلسہ آپ کی نئی تعمیر شدہ مسجد میں ہورہا ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے اس جلسہ کو اور نئی تعمیر شدہ مسجد کو ہر اعتبار سے آپ کے لئے اور اسلام کے لئے مبارک ثابت کرے.یہ نئی مسجد منی میں جماعت احمدیہ کی ترقی اور اسلام کی تبلیغ واشاعت کا ایک مرکز بنے.اور آپ کا یہ جلسہ سالانہ آپ کے ایمان و اخلاص میں اضافہ کا موجب بنے.اور آپ کی دینی تربیتی اور تبلیغی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو.آمین.ہمیں یہ امر ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اب ہم پندرھویں صدی ہجری میں قدم رکھ چکے ہیں.یہ صدی انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ حق کی صدی ہوگی.یہ صدی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی دی ہوئی اس بشارت کو پورا کرنے والی صدی ہوگی.یقیناً سمجھو کہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے...عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلت کے ساتھ پسا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا.میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں“.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 254,255 بقیہ حاشیہ ) لیکن ہر بشارت اپنے ساتھ نئی ذمہ داریاں بھی لاتی ہے اور نئی قربانیوں کا تقاضا بھی کرتی ہے.پس میرا پیغام آپ کے لئے یہ ہے کہ آپ لا اله الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے اور کثرت کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے ، نئے عزم کے ساتھ اس صدی کے آغاز میں اسلام کے لئے اپنی قربانیوں میں 815
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت ہائے احمد یہ جزائر قیمی تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم - نمایاں اضافہ کریں.اور اپنی اولادوں میں بھی یہی جذبہ پیدا کریں اور آپ سب اس یقین پر قائم رہیں کہ ہمارا قادر و توانا خدا، بڑی قدرتوں کا مالک ہے.وہ ہماری حقیر مساعی کو اپنی برکتوں سے نوازتے ہوئے ضرور اسلام کو غلبہ عطا فرمائے گا.816 والسلام مرزا ناصر احمد ( مطبوعه روزنامه الفضل 05 فروری 1981ء)
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسه سالانه سیرالیون آپ سب ہر وقت اسلام کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہیں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ سیرالیون منعقد و 105 تا 07 فروری 1981ء " مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ جماعت احمد یہ سیرالیون اپنا بتیسواں جلسہ سالانہ مؤرخہ 05 تا 07 فروری منعقد کر رہی ہے.خدا تعالیٰ اس جلسہ کو با برکت کرے اور اس میں شمولیت اختیار کرنے والوں کو اپنی خاص برکات سے نوازے.اس موقع پر میرا پیغام یہ ہے کہ آپ سب ہر وقت اسلام کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہیں.خدا تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی برکات اور رحمتوں سے نوازتا رہے.آمین.والسلام و ستخط مرزا ناصر احمد مطبوعه روز نامه افضل 24 اپریل 1982ء) 817
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پچیم پیغام بر موقع سالانہ کانفرنس سیرالیون انعامات کو حاصل کرنے کے لئے خود کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی تیار کریں پیغام بر موقع سالانہ کانفرنس احمدیہ مشن سیرالیون منعقده 06 تا 08 فروری 1981 ء بسم الله الرحمان الرحيم له نحمده ونصلى على رسوا و الكريم پیارے احمدی بھائیو! خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مولوی محمد صدیق صاحب مبلغ انچارج فری ٹاؤن ( سیرالیون) نے مجھے اطلاع دی ہے کہ 06,07 08 فروری 1981ء کو آپ کی سالانہ کانفرنس منعقد ہورہی ہے.خدا کرے، یہ کانفرنس ہر لحاظ سے کامیاب اور با برکت ثابت ہو.اور یہ سیرالیون میں جماعت کی ترقی کی رفتار کو تیز سے تیز کرنے کا موجب ہو.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمیں اسلام جیسا کامل اور زندہ مذہب عطا فر مایا.جس کے ثمرات ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ظاہر ہوتے رہے اور ہوتے رہیں گے.چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ) فرماتے ہیں:.زندہ مذہب وہ مذہب ہوتا ہے، جس کی زندگی کے آثار ہر وقت ثابت ہوتے رہتے ہیں...یہ صرف اسلام ہی ہے ، جو زندہ مذہب ہے.یہی ہے، جس کا ربیع ہمیشہ آتا ہے.جبکہ اس کے درخت سرسبز ہوتے ہیں اور شیریں اور لذیز پھل دیتے ہیں.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 118,123) آج صرف جماعت احمدیہ ہی ایک ایسی جماعت ہے، جو خدا کے فضل سے باغ محمدی کے ثمرات سے حصہ پارہی ہے.اور انشاء اللہ ہمیشہ حصہ پاتی رہے گی.انہی ثمرات میں سے ایک شمر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے چین کی سرزمین پر سات سو برس کے بعد ہماری جماعت کو پہلی مسجد کا سنگ بنیا درکھنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.الحمد للہ.819
پیغام برموقع سالانہ کانفرنس سیرالیون تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اب ہم جس پندرھویں صدی میں داخل ہوئے ہیں، اس میں خدائی بشارتوں کے مطابق باغ محمدی کے ثمرات اس کثرت کے ساتھ ظاہر ہونے والے ہیں کہ ان کے نتیجہ میں انشاء اللہ اسلام دنیا بھر میں غالب آ جائے گا.مگر ان ثمرات کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ قربانیاں پیش کریں.سومیرا پیغام آپ کے لئے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کو حاصل کرنے کے لئے ، جو اس صدی میں ہمارے لئے مقدر ہیں، اپنے آپ کو بھی تیار کریں اور اپنی اولاد کو بھی تیار کرنے کی کوشش کریں.اور یہ عہد کریں کہ اس راہ میں جس قربانی کی بھی ضرورت ہوگی ، وہ اللہ کے فضل سے بشاشت کے ساتھ پیش کریں گے.انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.( دستخط) مرزا ناصر احمد مطبوعه روزنامه الفضل 09 مارچ 1981ء) 820
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسه سالانه نائیجیریا غلبہ اسلام کا دن تو بہر حال آئے گا مگر اس کے لئے ہم کو قربانیاں دینی ہوں گی پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد ی نائیجیر یا منعقدہ 06 تا 08 فروری 1981ء پیارے احمدی بھائیو! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ کی اکتیسویں سالانہ کانفرنس منعقد ہورہی ہے.اور یہ کا نفرنس آپ کے نئے زیر تعمیر مشن ہاؤس کے میدان میں ہورہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کا نفرنس کو ہر لحاظ سے کامیاب کرے.اس کی برکات سے آپ کو مستفیض کرے.نیز نیا مشن ہاؤس جلد مکمل ہو کر آپ کے لئے مبارک اور نائیجیریا میں اسلام کی ترقی کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہو.( آمین ) آپ کی یہ کانفرنس بھی امسال جماعت احمدیہ کے مرکزی سالانہ جلسہ کی طرح پندرھویں صدی ہجری کی پہلی کا نفرنس ہے.میری روحانی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ یہ صدی انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کی صدی ہو گی.اس صدی میں اسلام اپنے نور حسن اور قوت و احسان کے ساتھ دنیا کے دلوں کو خدا اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خدا کے فضل سے جیت لے گا.اور اس طرح حضرت...بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی یہ پر شوکت پیشگوئی پوری ہو جائے گی کہ آخر تو حید کی فتح ہے اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہوگا.کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے، جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں.اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی 821
پیغام بر موقع جلسہ سالا نہ نائیجیر یا تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب مالتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا، نہ کند ہو گا.تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ 8-9 ایڈیشن اول ) غلبہ اسلام کا یہ دن تو بہر حال آکر رہے گا مگر اس کے لئے ہم سب کو قربانیاں دینی ہوں گی.اس لئے آؤ آج ہم یہ عہد کریں کہ پندرھویں صدی میں اسلام کے حق میں جو انقلاب بپا ہو رہا ہے، اس کے لئے خدا تعالیٰ ہم سے جو قربانی بھی مانگے گا ، وہ ہم اس کی راہ میں پوری بشاشت کے ساتھ پیش کریں گے.خدا تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ( دستخط) مرزا ناصر احمد 822 مطبوعه روزنامه المفضل 18 فروری 1981ء)
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 26 مارچ1981ء آج اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے خطاب فرمودہ 26 مارچ 1981ء حضور رحمہ اللہ کی دورہ سے کامیاب مراجعت پر امراء اضلاع پنجاب کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ میں جو سپاسنامہ پڑھا گیا، اس کے جواب میں حضور نے فرمایا :." یہ جو سپاسنامہ پڑھا گیا ہے، اس کا تعلق اس دورہ سے ہے، جو قریباً چار ماہ کے عرصہ میں، میں نے کیا.جیسا کہ بتایا گیا ہے، اس میں، میں نے ڈیڑھ درجن پریس کانفرنسوں سے خطاب کیا.یورپ کینیڈا اور امریکہ کے چوٹی کے بیسیوں دماغوں کے سامنے اسلام کو پیش کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل سے پائی“.حضور نے فرمایا کہ اس کی ساری تفاصیل تو بہت لمبی ہے.مختصر یہ ہے کہ اس سارے عرصہ میں، میں اپنی کم مائیگی کے متعلق سوچتا رہا.میں بڑا عا جز انسان ہوں لیکن یہ عاجز انسان اس یقین پر قائم ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے.حضور نے فرمایا کہ ” جب اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ کر لے تو اس کی تعمیل کے لئے اسے بادشاہوں کی ضرورت نہیں ہوتی.سارے بادشاہ تو اس کے قبضہ قدرت میں ہیں.وہ اپنے فیصلہ کو نافذ کرنے کے لئے اپنی قدرتوں کو ظاہر کرتا اور اپنی عظمت کے ثبوت کے لئے اپنے اقتدار کو نمایاں کرتا ہے.اور مجھ جیسے ذرہ ناچیز کو اپنی دونوں انگلیوں میں پکڑ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس کے ذریعہ سے یہ کروں گا اور کر گزرتا ہے“.مطبوعه روزنامه الفضل 104 اپریل 1981.حضور نے اسلامی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اس دورے کے دوران اہل امریکہ، کینیڈا، افریقہ اور یورپ کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کی ہے اور پریس کانفرنسوں اور خطابات کے ذریعہ ان کو صحیح اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا اور ان کو ان کی نام نہاد مہذب دنیا کی خرابیوں سے آگاہ کیا.823
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 26 مارچ 1981ء حضور نے فرمایا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم میں نے کہا کہ تمہاری نام نہاد مہذب دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ آج دو چیزیں نمایاں ہیں.ایک یہ کہ اس دنیا نے ہلاکت کے اتنے سامان بم وغیرہ اکٹھے کرلئے ہیں کہ ایک ایک ہم ہزاروں ہزار انسانوں کی ہلاکت کے لئے کافی ہے.دوسری طرف صورتحال اس سے بھی مہلک ہے کہ اس دنیا نے مسائل کے ایسے انبار لگا دیئے ہیں، جن کا حل انہیں نہیں مل رہا.حضور نے مزید فرمایا:.میں نے انہیں بتایا کہ میرے لئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کئے بغیر تم اپنے معاشرے میں امن اور اطمینان قائم نہیں کر سکتے.جوں جوں تم آگے بڑھتے جاؤ گے، مسائل بڑھتے جائیں گے.حتی کہ ایک وقت وہ آئے گا جبکہ مسائل اتنے بڑھ جائیں گے کہ تمہارا راستہ بند ہو جائے گا اور تمہیں کچھ نظر نہیں آئے گا.اس وقت اسلام آئے گا اور کہے گا کہ سیارے مسائل میں حل کرتا ہوں اور اس وقت اسلام ایٹم بم اور تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اپنے حسن اور اپنی تعلیم کی عظمت کے نتیجہ میں اپنے آپ کو منوائے گا اور دنیا یہ جان لے گی کہ اسلامی تعلیم پر عمل کئے بغیر چارہ نہیں“....اسلام میں بڑا حسن اور نور ہے اور قوت احسان ہے اور آج خدا نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ یہی مذہب اسلام غالب آکر رہے گا“.وو ( مطبوعه روزنامه الفضل 106 اپریل 1981 ء ) حضور رحمہ اللہ نے افریقہ میں جماعت احمدیہ کی کامیابیوں کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ افریقہ میں ہم ایسے وقت میں گئے جبکہ وہاں کے ملکوں مثلاً غانا میں، سیرالیون میں ، آئیوری کوسٹ میں ایک پرائمری سکول بھی مسلمانوں کا نہیں تھا.جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ مسلمانوں کے علماء نے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ دنیاوی علم کا حصول کفر ہے.اور اس طرح سے دو نسلوں کے بعد جب غیر ملکیوں نے افریقہ کے ممالک کا اقتدار چھوڑا تو اقتدار میں سارے کے سارے غیر مسلم تھے.مثلاً نائیجیریا میں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے، لیکن جب 1970ء میں، میں وہاں گیا تو وہاں پر ایک عیسائی اقتدار کی کرسی پر بیٹھا تھا.اگر چہ وہ آدمی بڑا اچھا تھا لیکن وہ تھا تو عیسائی“.حضور نے بتایا کہ سیرالیون کے ایک پبلک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے وہاں کے لوگوں نے کہا کہ اس ملک میں احمدیت کے آنے سے پہلے جب کسی محفل میں اسلام کا ذکر آتا تھا تو ہماری نظریں جھک جاتی تھیں.لیکن.824
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 26 مارچ 1981ء احمدیت آنے کے بعد اب ہم فخر سے ذکر کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں.احمدیت نے ہمیں بتایا کہ اسلام کی قوت احسان اور اسلام کی عظمتیں کیا ہیں؟ ساتھ ہی وہ شخص بار بار یہ کہتا تھا کہ میں احمدی نہیں ہوں لیکن یہ امر واقعہ ہے، جو میں بیان کرتا ہوں.حضور نے مغربی افریقہ کے ایک اور ملک غانا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ و اس ملک میں کئی جگہ سے یہ اطلاع آرہی ہے کہ عیسائی عیسائیت سے بیزار ہورہے ہیں.حضور نے جماعت احمدیہ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی حکومتوں کو پتہ ہے کہ ہم کبھی ایک دھیلہ بھی ان کے ملک سے باہر نہیں لے کر گئے.ہم نے خدمت کی ہے اور ہماری خدمات کا وہ اعتراف کرتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ عیسائی بھی اس ملک میں محبت کا نام لے کر گئے لیکن وہاں کی کانوں سے ہیرے، جواہرات اور سونا نکال کر لے گئے.یہ ما بہ الامتیاز ہے، عیسائیوں کی تعلیم اور مسلمانوں کی تعلیم کا.افریقہ میں پچھلے دس سالوں میں کئی ممالک میں انقلابات آئے ہیں.لیکن کسی نے جماعت کو کچھ نہیں کہا.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو سیاست سے کوئی غرض نہیں.ہم صرف خدمت کرنے اور پیار کرنے آئے ہیں.ہم تو ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہیں، جنہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ اور اس طرح سے مساوات کی ایک ٹھوس بنیاد قائم کر دی تھی.حضور نے فرمایا کہ ” میں نے اس پر بہت سوچا اور غور کیا ہے اور میں علی وجہ البصیرت اس پر پہنچا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کر کے خود کو گرا کر نچلے درجے پر نہیں لے گئے بلکہ انسانیت کو اٹھا کر اونچے مرتبے پر لے گئے ہیں.حضور نے فرمایا کہ ”میں نے1970ء میں جب پہلی مرتبہ ایک افریقی بچے کو پیار کیا تو وہ لوگ حیران رہ گئے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا انسان بھی ہے، جو ان سے اور ان کے بچوں سے پیار کرے؟“ حضور نے فرمایا کہ مجھے ان لوگوں پر سخت رحم آیا اوران پر ظلم کرنے والوں پر شدید غصہ آیا.825
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 26 مارچ 1981ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد پنجم حضور نے افریقہ کی ایک اور تقریب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک جلسہ میں ایک بڑا پادری بھی موجود تھا.میں نے وہاں اعلان کیا کہ نبیوں کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیا کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں.اور بشر ہونے کے لحاظ سے کوئی شخص چاہے، وہ موٹی کو ماننے والا ہو یا عیسی کو ماننے والا کسی دوسرے سے بڑا نہیں.یہ اتنا عظیم الشان اعلان تھا کہ میری بات سن کر وہ عیسائی پادری اپنی سیٹ سے یوں اچھلا، جیسے کسی نے اسے سوئی چبھودی ہو.کیونکہ میں نے اہل افریقہ کو بتادیا تھا کہ تمہارے لئے عظمتوں کا اعلان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے کر دیا تھا.حضور نے افریقہ کے سب سے بڑے ملک نائیجیریا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں بعض ایسی بھی جگہیں تھیں، جہاں احمدیوں کو برداشت بھی نہیں کرتے تھے.وہاں پر ایک بھی پرائمری سکول نہ تھا.ہم نے کئی سکوں کھولے.اس کے بعد حکومت نے ان سکولوں کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا اور کہا کہ قومی ملکیت میں لئے جانے والے سکولوں کے مالکان کو معاوضہ دیا جائے گا“.حضور نے فرمایا کہ ” میں نے اپنے آدمیوں کو کہا کہ حکومت کو کہہ دیں کہ ہم نیشنلائز یشن کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن ہم کوئی معاوضہ نہیں لیں گے.ہم نے یہ سکول آپ کی خدمت کے لئے کھولے تھے، اب یہ سکول آپ کے ہیں“.حضور نے فرمایا کہ ”یہ 1970ء کی بات ہے.اب جب پچھلے سال میں دورے پر گیا تو ایک ریاست کے گورنر کا خط مجھے سفر کے دوران ملا.اس نے لکھا کہ ہمارے ریاست میں 1/3 عیسائی ہیں، 1/3 بت پرست ہیں اور 1/3 مسلمان ہیں.عیسائی ان 1/3 بت پرستوں کو عیسائی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو یہ عیسائی اکثریت کا صوبہ بن جائے گا.اس گورنر نے لکھا کہ صرف ایک آپ کی جماعت ایسی ہے، جو اس صوبہ کو عیسائی صوبہ بننے سے روک سکتی ہے.اور صرف جماعت احمدیہ ہے، جو عیسائیوں کا مقابلہ کر سکتی ہے.اگر آپ نہیں چاہتے کہ یہ عیسائی صوبہ بن جائے تو فوری طور پر دو سکول یہاں کھول دیں“.حضور نے فرمایا:.میں نے فورا ہی اس کی اجازت دے دی اور اب تک شاید دو سکول وہاں جاری ہو چکے ہوں گے.اس کے بعد اسی صوبہ کے گورنر نے لکھا کہ صرف دو سکول کافی نہیں ہیں بلکہ یہاں پر دو ہسپتال بھی کھولے جائیں.826
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ انشاء اللہ ہسپتال بھی کھل جائیں گئے“.حضور نے مزید فرمایا کہ اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 26 مارچ 1981ء یہ تبدیلی کسی طاقت کے ذریعے ممکن نہیں ہے.یہ صرف پیار سے حاصل ہوتی ہے کہ جہاں کے لوگ ہمارا وجود برداشت نہیں کرتے تھے، وہ ہمیں خود دعوت دے رہے ہیں کہ آکر سکول اور ہسپتال کھولو.مطبوعه روزنامه الفضل 11 اپریل 1981ء) 827
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ گیمبیا وقت کا تقاضا ہے کہ غلبہ اسلام کے لئے اپنی کوششوں کو تیز تر کر دیں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ گیمبیا منعقدہ 17 تا 19 اپریل 1981ء حضور رحمہ اللہ نے اس موقع پر جو پیغام دیا، اس کا ترجمہ درج ذیل ہے.جماعت ہائے احمد یہ گیمبیا کے ساتویں جلسہ سالانہ کے انعقاد پر آپ سب کو دلی مبارک باد دیتا ہوں.وقت کا تقاضا ہے کہ آپ پندرھویں صدی ہجری میں غلبہ اسلام کے لئے اپنی کوششوں کو تیز تر کر دیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنا کر اسلام اور انسانیت کی خدمت کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں.خدا تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.آمین.مرزا ناصر احمد ( مطبوعه روزنامه الفضل یکم جون 1981ء) 829
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع تربیتی کلاس جماعت احمد یہ بھی جو کچھ سیکھیں، اس پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی عمل کی تلقین کریں پیغام بر موقع تربیتی کلاس جماعت احمدیہ نجی منعقدہ 26 اپریل تا یکم مئی 1981ء پیارے احمدی بچو ! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی کہ گزشتہ سال کی طرح اس دفعہ بھی آپ کی تربیتی کلاس منعقد ہورہی ہے.مجھے امید ہے، آپ اس میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں گے اور جو کچھ آپ کو پڑھایا، سکھایا جائے گا، آپ اسے توجہ اور غور سے سنیں گے.اور نہ صرف اسے یادرکھیں گے بلکہ اس پر غور و تدبر کر کے اپنے ذہنوں میں مزید جلا پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.جو کچھ آپ سیکھیں گے، اس پر خود بھی عمل کریں گے اور اپنے حلقے میں دوسروں کو بھی عمل پیرا ہونے کی تلقین کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.ہمیں یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس وقت جماعت احمد یہ اپنی زندگی کے اہم اور نازک دور میں سے گزررہی ہے.اس دور میں اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے تئیں تیار کریں.خدا کی باتیں پوری ہو کر رہیں گی.ساری دنیا کے دل اسلام کے نور سے منور ہوں گے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا ہوگی.مگر اس عظیم مہم میں ہمیں بے انتہا قربانیاں پیش کرنی ہوں گی.یہ قربانیاں پیش کرنے کے لئے ابھی سے اپنے تئیں تیار کریں.یہ کام خدا کے فضل سے ہوگا.ہم کیا اور ہماری حقیر قربانیاں کیا.اللہ تعالیٰ کے اور زیادہ فضلوں کو کھینچنے کے لئے بہت دعاؤں کی عادت ڈالیں.اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے اس کے سامنے کوئی بات انہونی نہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ کے حضور عاجزانہ جھکیں اور اس سے مدد کے طالب بنیں.( دستخط) مرزا ناصر احمد مطبوعه روز نامه افضل 16 جون 1981ء) 831
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے آٹھویں مرحلہ پر پیغام غلبہ اسلام کے عظیم منصوبہ کی کامیابی کے لئے دعاؤں کی بھی بہت ضرورت ہے صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے آٹھویں مرحلہ کے آغاز پر خصوصی پیغام بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر احباب کرام! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته جلسہ سالانہ 1973ء کے موقع پر میں نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ پندرہ سال کے بعد ہماری جماعتی زندگی پر ایک صدی پوری جائے گی.اور ان بشارتوں کے پیش نظر جو ہمیں ملی ہیں، انگلی صدی انشاء اللہ العزیز غلبہ اسلام کی صدی ہوگی.اس لئے اس صدی کے شایان شان استقبال کے لئے ہمیں ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہئے.اس سلسلہ میں، میں نے جماعت کے سامنے ایک عظیم منصوبہ رکھا تھا.جو صد سالہ احمد یہ جو بلی منصوبہ کے نام سے موسوم ہے.اور اس اہم منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے میں نے جس مالی قربانی کا قوم سے مطالبہ کیا تھا، اس کا نام ”صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ رکھا گیا.مخلصین جماعت احمدیہ نے اپنی درخشنده روایات، ایثار و قربانی کو برقرار رکھتے ہوئے والہانہ لبیک کہی اور اب اس مالی قربانی کا آٹھواں مرحلہ شروع ہو چکا ہے.آنے والی صدی کے استقبال کے لئے ہم نے جو کام کرتے ہیں، امسال کی مجلس شوری کے دوران ان کے متعلق ذرا تفصیل سے بیان کر چکا ہوں کہ یہ ایک بہت عظیم منصوبہ ہے، اس کے لئے بڑا وقت اور بڑی کوشش چاہئے.نیز اسی کے مطابق وسائل بھی.خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ کام کی رفتار تسلی بخش ہے.کام ہورہے ہیں.مثلاً ملک سویڈن میں مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر ، ملک ناروے میں مسجد اور مشن 833
صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے آٹھویں مرحلہ پر پیغام تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ہاؤس کا اجراء، لنڈن میں ایک عالمی کسر صلیب کا نفرنس کا کامیاب انعقاد، جس سے عیسائی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا اور ہمیں اسلام کا پیغام کروڑوں انسانوں تک پہنچانے کا موقع مل گیا.اور اب اگلے سال امریکہ میں اس سے بھی بڑے پیمانے پر دوسری کسر صلیب کا نفرنس ہوگی، انشاء اللہ تعالیٰ.گزشتہ سال قرطبہ ، ملک سپین میں 744 سال کے وقفہ کے بعد جماعت کو سب سے پہلی مسجد کے میرے ہاتھوں سنگ بنیا در کھے جانے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی.اسلامی لٹریچر بڑے وسیع پیمانہ پر شائع ہونا شروع ہو چکا ہے.مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم مع متن شائع کرنے کی تیاریاں پورے زور سے جاری ہیں.لاکھوں لاکھ سیاح ہر سال مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہیں، ان کو اسلام سے روشناس کرانے کے لئے ہر ملک کی اپنی زبان میں فولڈر شائع کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے.اسی طرح حقوق طلباء کی ادائیگی کے لئے ایک بہت بڑی تعلیمی سکیم پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے.غرض کچھ کام ہو چکے ہیں، کچھ زیر تکمیل ہیں اور کچھ آئندہ کرتے ہیں.یہ سب آپ سے مالی قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں.میں اپنے پیارے بھائیوں اور بہنوں سے اس پیغام کے ذریعہ یہ خواہش رکھتا ہوں کہ مالی قربانیوں کے آٹھویں مرحلہ میں وہ پچھلے تمام مراحل سے نمایاں طور پر زیادہ مالی قربانی پیش کر کے عند اللہ ماجور ہوں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.غلبہ اسلام کے اس عظیم منصوبہ کی کامیابی کے لئے جیسا کہ میں شروع سے ہی اس بات پر زور دیتا چلا آرہا ہوں، دعاؤں کی بھی بہت ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجو در ہئے اور دعائیں کرتے چلے جائیے.اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے.آمین.دستخط والسلام مرز انا صراحمد ( مطبوعه روزنامه الفضل 09 مئی 1981ء) 834
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1981ء جماعت کے ہر فرد کو عموماً اور ہر کارکن اور معلم اور مبلغ کو خصوصاً اپنا محاسبہ کرنا چاہیے خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1981ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.”میری بیماری کی شدت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہو چکی ہے.لیکن اس کے کچھ آثار بھی باقی ہیں.اور یہ گرمی بھی میری بیماری بن گئی.جب اوپر نیچے کام کی وجہ سے اور خدا کا قانون توڑنے کے نتیجے میں آگے پیچھے دو، تین لو لگنے کے مجھ پر حملے ہوئے ، اس کے بعد سے گرمی مجھے بے حد تکلیف دیتی ہے.اور میں اس موسم میں بڑی نقاہت محسوس کرتا ہوں.دعا کریں، اللہ تعالیٰ فضل کرے اور یہ تھوڑی بہت تکلیف جو باقی رہ گئی ہے، وہ بھی دور ہو جائے.آج میں اپنے مضمون سے ہٹ کے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا اور اس کی تدریجی ترقی کے وعدے دیئے، جو ہم نے گزشتہ بانوے سال میں پورے ہوتے دیکھے.جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے، میں نے جماعت کو ایک چھوٹی اور کمزورسی حالت میں بھی دیکھا.پھر بتدریج بڑھتے ہوئے ، آج اس مقام پر پہنچی ہوئی بھی دیکھ رہا ہوں کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو، جہاں مضبوط احمدی جماعتیں قائم نہ ہو چکی ہوں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اس نے ہماری حقیر قربانیوں کو قبول کیا اور اپنے وعدوں کو پورا کیا.یہ بھی سوچتا ہوں، شاید ہم نے وہ شرائط تو پوری نہیں کیں، جو وعدوں کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے بیان کی ہیں، قرآن کریم میں.مثلاً اسی ایک مثال کو لے لیں، جو یہ وعدہ تھا کہ تم زندگی کے ہر شعبہ میں بالا دستی حاصل کرو گے.خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بشرطیکہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے چلے جاؤ گے.ایمان کے تقاضوں کو پوری طرح ادا کرنے والی تو جماعت ابھی نہیں بنی.لیکن اللہ تعالیٰ نے مغفرت کی چادر کے نیچے ہماری کمزوریوں کو چھپالیا اور اپنے وعدوں کو ہمارے حق میں پورا کر دیا اور آنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۖ أَفَهُمُ الْغُلِبُونَ ایک ایسی حقیقت بنادی ، ہماری زندگی میں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.(الانبیاء:45) 835
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1981ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم میں کئی بار دوروں پر غیر ممالک میں گیا ہوں.غیر مسلموں، عیسائیوں، جو خدا کے بھی منکر ہیں اور مشرکوں کو میں نے یہ دلیل دی کہ دیکھو، خدا نے یہ وعدہ دیا تھا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر صبح کا سورج جب طلوع ہوتا ہے تو وہ جماعت احمدیہ کو پہلے دن سے زیادہ طاقتور اور زیادہ تعداد میں دیکھتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ مہربانیاں ہمیں غافل کرنے والی نہیں ہونی چاہئیں.بلکہ اور زیادہ ہوشیار کرنے والی ہونی چاہئیں.ہماری قربانیاں یا جو مطالبات اللہ تعالیٰ نے ہم سے کئے ہیں، اپنی راہ میں پیش کرنے کے لئے ، جو شرائط اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے لگائی ہیں، وہ قرآن عظیم کی عظیم تعلیم میں کھول کے بیان کر دی گئیں.وہ صرف مالی قربانی نہیں، وہ صرف اعمال صالحہ کی قربانی نہیں.( اعمال صالحہ بجالانے کے لئے بھی ایک قربانی دینی پڑتی ہے.وہ صرف خدا تعالیٰ کی راہ میں مختلف قسم کے مصائب برداشت کرنے کی قربانی نہیں.بہت سی قربانیاں ہیں، جو خدا سے پیار کرنے والی جماعت کو خدا کی رضا کے حصول کے لئے دینی پڑتی ہیں اور دینی چاہئیں.کیونکہ جو پیش کیا جاتا ہے، حقیر ہے.لیکن جو ملتا ہے، اس کی قیمت کا کوئی انداز نہیں.تبلیغ تعلیم اسلامی یعنی جو اسلام کا حسن اور نور ہے، جو اس کی بنیادی خوبیاں ہیں اور جو اس میں قوت احسان ہے اور اس قدر موہ لینے والی جو تعلیم ہے، اس کو دوسروں تک پہنچانا، یہ جماعت کا کام ہے.اور ایک وقت تھا کہ (مثلاً) افریقہ کے ممالک جو ہیں، مشرقی اور مغربی افریقہ کے ممالک، وہاں کوئی آدمی ایسا نہیں تھا، جو اسلام کے نور ، اس کے حسن ، اس کی قوت احسان اور دیگر خوبیوں کو پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہو اور پہنچانے کی لگن رکھتا ہو.اور اپنی زندگی کے ایک حصہ کو، بعض دفعہ بڑے حصہ کو، اس راہ میں خرچ کرنے والا ہو.اپنی زندگی کے نسبتا کم حصہ کو دنیا کمانے پر خرچ کرنے والا اور زیادہ حصہ کو خدا کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرنے والا ایک بھی نہیں تھا.باہر سے جاتے تھے، (یہاں سے ہمارے گئے ہیں) مبلغین ، بڑے فدائی، بڑے جاں نثار.وہ وہاں کچھ لینے کے لئے نہیں گئے ، تجارت کرنے کے لئے نہیں گئے.حالانکہ تجارت کی بڑی راہیں وہاں کھلی ہوئی تھیں.لیکن ان کی ساری توجہ اس بات کی طرف تھی کہ قرآن کریم کی تعلیم سے ان لوگوں کو روشناس کرایا جائے.پچھلے جلسہ سالانہ پر مصطفیٰ صاحب، جو تشریف لائے تھے سیرالیون سے اور بڑے سیاستدان اور وزراء میں سے تھے وہ، جب میں 1970ء میں گیا ہوں، ایک موقع پر تقریر کرتے ہوئے ، انہوں نے یہ کہا کہ جماعت احمدیہ سے پہلے ہم مسلمان اسلام کے متعلق اگر کسی مجلس میں بات ہو جاتی ، گردنیں جھکانے پر مجبور ہو جاتے تھے ، بات نہیں کر سکتے تھے.پھر احمدی آئے.پھر انہوں نے اسلام کی بنیادی طاقتیں جو 836
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1981ء ہیں، حسن بھی ایک طاقت ہے، نور بھی ایک طاقت ہے، قوت احسان تو ہے ہی طاقت ، اسلام کی جو طاقتیں تھیں، نور تھا اسلام کا حسن تھا، عظیم تعلیم، انسان سوچتا ہے، غور کرتا ہے عمل کرتا ہے، خوبی ہی خوبی ایک کے بعد دوسری ، دوسری کے بعد تیسری، بے شمار خوبیاں اسلامی تعلیم میں نکلتی چلی آرہی ہیں.پہلی بار ہماری زندگیوں میں احمدیوں نے اسلام کا حسن اور خوبی جو ہے، اس سے روشناس کرایا ہمیں.اور اب وہ زمانہ گزر گیا.اب کسی مجلس میں اگر اسلام کی بات ہو تو ہم گردنیں اونچی کر کے اسلام کے متعلق بات کرنے لگ گئے ہیں.ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کہ میں احمدی نہیں لیکن جو صداقت ہے، اسے چھپا بھی نہیں سکتا.یہ باہر سے جانے والے لوگ تھے.اور آج ان ملکوں میں مقامی باشندوں میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں، جن کے متعلق بعض دفعہ یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے وہ مبلغ، جو واقفین زندگی کہلاتے ہیں اور وہاں ان کو بھیجا جاتا ہے تبلیغ کے لئے اگر سارے نہیں تو بہت ساروں سے زیادہ جذبہ کے ساتھ مقامی آدمی وہاں تبلیغ اسلام کر رہا ہے.اور اکثر ان میں سے تنخواہ لئے بغیر.اب پچھلے سال میں گیا ہوں، نائیجیریا کے دارالخلافہ لیگوں.اس سے اسی نوے میل کے اوپر ایک جگہ ہے، الا رو (ILaro).وہاں جماعت ہے، چند ہزار احمدیوں کی (علاقہ ملا کے ).انہوں نے چار مسجد میں بنائیں.یہ ہیں، پچیس ہزار کی آبادی ہے، غالباً ( صحیح آبادی کا مجھے پتا نہیں.( شہر کے چاروں کونوں میں.اس لئے کہ احمدی بکھرے ہوئے تھے شہر میں.پھر انہوں نے ایک جامع مسجد بنائی.جس کا افتتاح ان کی خواہش پر میں نے کیا.جب میں وہاں گیا، وہاں میں نے یہ سماں دیکھا، ایک تو ان پانچ مساجد بنانے کے لئے انہوں نے مرکز سے ایک پیسہ نہیں مانگا.دوسرے انہوں نے اپنے خرچ پر ایک دین (Van) دس یا بارہ سیٹر (Seater) بالکل نئی خریدی اور اس کے اوپر لکھا ہوا احمد یہ مسلم مشن کچھ اس قسم کا فقرہ لکھا ہوا تھا.اس کے علاوہ انہوں نے اپنے خرچ پر (یہ اپنے خرچ پر سارا کام کر رہے ہیں.) پانچ ، سات آدمیوں نے موٹر سائیکل لئے ہوئے ہیں اور اتوار کو چھٹی ہوتی ہے.ہر اتوار کو ان کا ایک وفد علاقے میں جا کے تبلیغ کرتا ہے.وہاں کچھ عرصے سے ( پہلے تو وہاں نہیں تھا) ایک مبلغ بھی ہے لیکن ایک مبلغ ہے اور باقی سات، آٹھ تو پیڈ ( Paid) نہیں ہیں.جو گاڑی استعمال کرتے ہیں، وہ مبلغ کی نہیں ہے، وہ مرکز کی نہیں ہے.جو موٹر سائیکل ہیں، وہ بھی ذاتی ہیں ان کے.جو خرچ کرتے ہیں، پٹرول یا ڈیزل کے اوپر وہ اپنا خرچ کر رہے ہیں.اور ہر ہفتے الارو کے گرد وہ جاتے ہیں.کبھی مشرق کی طرف کبھی مغرب کو 837
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1981ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کی طرف کبھی شمال کی طرف کبھی جنوب کی طرف.اور مجھے انہوں نے بتایا کہ ( دو، تین سال سے انہوں نے یہ پروگرام بنا کے کام شروع کیا ہے.) چودہ آبادیوں میں نئی جماعتیں قائم کر چکے ہیں.یہاں ایسے مبلغ بھی ہیں پاکستان میں کہ اگر کسی ایک کو ہدایت دینے کا ذریعہ بن جائیں تو سمجھتے ہیں کہ طارق کی طرح ہم نے سپین کو فتح کر لیا.تو باہر کے جو ممالک ہیں، انہوں نے ایک عظیم مہم جاری کر رکھی ہے.اور اللہ تعالیٰ کا جو عظیم منصوبہ تھا، اس کا بڑا بوجھ اٹھا لیا.دنیا کے بہت سے حصوں میں، افریقہ میں گیا، وہاں بھی بعض کمزوریاں ہیں، وہ ہمارے لئے برکتیں بن جاتی ہیں.مثلاً فارن ایکسچینج وہاں سے بھی باہر نہیں جاسکتا.لیکن وہ جو پیسے اکٹھے کرتے ہیں، وہ اپنے ملک میں خرچ کرتے ہیں اور اس طرح بہت ترقی کر رہے ہیں.کہ ایسا احساس ہوتا تھا نا نا میں کہ شاید سارا ملک ہی احمدی ہے.اور وہ امید رکھتے ہیں کہ بڑی جلدی مستقبل قریب میں ملک کی اکثریت شاید احمدی ہو جائے.ایسے حالات پیدا اللہ تعالیٰ کر رہا ہے وہاں.کتابوں کی اشاعت ہے.ایک وقت تھا کہ ایک ورقہ بھی اگر چھپ کے دنیا میں تقسیم کرنا ہوتا تھا تو مرکز کے انتظام میں، مرکز کے خرچ پر ، مرکز کے ملک میں وہ چھپتا تھا اور پھر دنیا میں جاتا تھا.جو باہر جاتا تھا، وہ تو تقسیم ہو جاتا تھا.مگر ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں یہ واقعہ ہوا کہ خیبر لاج مری بوجہ حضور کی بیماری کے خالی پڑی رہتی تھی اور اس میں مربی صاحب رہتے تھے.ہم نے مختصر سا پروگرام بنایا، وہاں جانے کا اور جو مبلغ صاحب جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل ٹھہرے ہوئے تھے، ان کو کہا کہ پانچ ، سات بچے حضرت صاحب کے آ رہے ہیں، اسے خالی کر دو.تو انہوں نے یہ درخواست کی کہ میں بیوی بچوں کو لے کے تو چلا جاتا ہوں مگر ایک کمرے میں ضروری کا غذات ہیں، وہ مجھے اجازت دے دیں کہ اس کو میں تالا لگادوں ، وہ میں خالی نہیں کروں گا.میرا اس انتظام میں بھی بھی تعلق نہیں رہا.جو بھی منتظم تھے ، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، وہ کمرہ نہ خالی کرو.جب میں گیا تو مجھے شبہ پڑا.میں نے ان کو بلایا.میں اس وقت صدر، صدر انجمن احمد یہ تھا.میں نے کہا، میں اس کمرے میں دیکھنا چاہتا ہوں، تمہارے ضروری کا غذات کون سے ہیں؟ جب میں نے کمرہ کھلوایا تو اس مبلغ کے دو، تین سال کے سارے زمانہ میں اور اس سے پہلے مبلغ کے سارے زمانہ میں اور اس سے بھی شاید پہلے جتنا لٹر پچر ، رسالے اور کتابیں اصلاح وارشاد نے ان کو تقسیم کرنے کے لئے بھیجی تھیں ، وہ زمین کے فرش سے لے کے چھت تک بھری ہوئی تھیں.یعنی کوئی کام ہی نہیں کیا اور شاہد مبلغ ہیں.(ان کا خیال ہے کہ ) ہمارا احترام ہونا چاہیے.838
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1981ء ہماری عزت ہونی چاہیے.تمہیں انسان عزت نہیں دے سکتا، قرآن نہیں پڑھتے تم ؟ قرآن کریم میں اعلان کیا گیا.تم عزت چاہتے ہو، فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (النساء: 140) اور جمیع جو ہے لفظ ، اس پر غور کرو.ہر قسم کی ہر کوانٹیٹی ( Quantity) میں عزت جو ہے، وہ صرف خدا سے مل سکتی ہے.دنیوی عزتیں بھی خدا سے مل سکتی ہیں.دنیوی وہ عزتیں، جو خدا سے نہیں مانتیں ، وہ تو آنی جانی ہیں.جتنی انسان نے انسان کو عزت دی، اس سے زیادہ جوتیاں ماریں اور وہ عزت اس کی چھین لی.ساری اپنی تاریخ دیکھو، دنیا کی تاریخ دیکھو.قائم رہنے والی ، دائم رہنے والی وہ عزتیں نہیں ہیں.قائم اور دائم رہنے والی وہ عزت ہے، جو خدا سے ملتی ہے اور خاتمہ بالخیر ہوتا ہے ، اس عزت پر انسان کا.جتنے یہاں ہمارے پاس شاہدین ہیں، اس سے میرے خیال میں سو گنے سے بھی زیادہ ان سے زیادہ بہتر کام کرنے والے بغیر تنخواہ کے ساری دنیا میں احمدی احمدیت کے لئے قربانیاں دے کے کام کرنے والے ہیں.خدا تعالی کی نگاہ میں، خدا تعالیٰ کے عاجز بندوں کی نگاہ میں ان کی عزتیں تم سے زیادہ ہوں گی.اگر تم نے عزت حاصل کرنی ہے تو خدا سے حاصل کرو.پھر وہ اپنے بندوں کے دلوں میں بھی بیڈالے گا کہ وہ تمہاری عزت کریں، ورنہ نہیں.بتا میں یہ رہا ہوں کہ اس لحاظ سے بھی باہر کے ملکوں نے مثلاً کینیڈا ہے، اس میں ابھی ہمارا مبلغ نہیں گیا تھا تو ہزار، دو ہزار تین ہزار کی جماعت بن گئی تھی وہاں.جس طرح بھی بنائی ، خدا نے بنادی.پھر ان کے بچوں کی تربیت کے لئے کوئی آدمی پورے وقت کا چاہیے.اب چار سال پہلے، پہلی دفعہ وہاں مبلغ گیا اور ضرورت ان کی اس سے بھی زیادہ ہو گئی ہے، اس لحاظ سے.لیکن مثلا کینیڈا میں جو مبلغ گیا، اس نے اس قسم کی نالائقی کی دینی نقطہ نگاہ سے کہ مجھے 1978ء میں لندن اسے بلانا پڑا اور مجھے کہنا پڑا کہ تم یہاں ٹھہرو، کچھ عرصہ اور استغفار کرو.اور پھر مجھ سے وعدے کرو کہ اس قسم کی دینی معاملے میں نالائقیاں نہیں کروا گے، جو تم کر چکے ہو.ورنہ یہیں سے میں تمہیں بھیج دوں گا، پاکستان.خیر اس نے بہت وعدے کئے ، ایک سال اس کا وقت رہتا تھا، وہ اس کومل گیا.یہ کہنا کہ جی ہم شاہد ہیں، جامعہ میں پڑھے ہوئے ہیں، ہمیں شاہد کی جو سند ہے، وہ ہمیں معزز بنات دیتی ہے، بالکل نہیں بناتی.تمہارے اعمال تمہیں معزز بنا سکتے ہیں.شاہد کی ڈگری نہیں معزز بنائے گی.839
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1981ء خدا سے عزت حاصل کرو، اعمال صالحہ کے نتیجے میں، اپنی قربانیوں کے نتیجے میں.طارق، دنیوی جرنیل تھے، وہ جامعہ احمدیہ کے پڑھے ہوئے تو نہیں تھے.نہ جامعہ ازہر کے تھے اور نہ جامعہ ازہر اس وقت موجود تھا.طارق نے جو پیارا اپنے رب سے کیا، اس کا نمونہ یہ ہے، خدا نے کہا تھا، أنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ (آل عمران :140) اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں تم غالب رہو گے اور تمہیں بالا دستی حاصل ہوگی.ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے چلے جانا.سات ہزار کی فوج کے ساتھ وہ سپین ، غیر ملک میں اترے ہیں اور ان کے ملک اور اس ملک کے درمیان سمندر ہے اور کشتیوں میں بیٹھ کے آئے ہیں اور اترتے ہی حکم دیا، کشتیوں کو جلا دو.ان کے اس وقت جو جرنیل تھے، ان کے ساتھ وہ اس مقام پہ نہیں پہنچے ہوئے تھے ، جہاں طارق پہنچے ہوئے تھے.وہ آگئے گھبراتے ہوئے.انہوں نے کہا، ٹھیک ہے، مسلمان پیٹھ نہیں دکھاتا.لیکن مسلمان خبریں تو پیچھے بھیجتا ہے، اپنے بادشاہ کو تو کیوں جلا رہے ہیں، یہ کشتیاں ؟ انہوں نے عملاً ، جو ان کا عمل ہے، فقرے تو مجھے یاد نہیں میرے ذہن میں لیکن ان کا عمل مجھے یاد ہے، جو انہوں نے کیا اور عمل کی زبان میں ان کو کہا ، وہ یہ تھا کہ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق:04) جو خدا پر توکل کرتا ہے، اس کے لئے صرف خدا کافی ہے، اسے کشتیوں کی ضرورت نہیں، پڑا کرتی.اور خدا تعالیٰ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ یہ ایک حصہ ہے.یعنی جو جماعت قربانیاں دے رہی ہے ، کتابیں چھاپنے کا ہے.اب بہترین کتا ہیں اس وقت لندن میں چھپنی شروع ہو گئیں.یعنی دنیا کی جو بہترین شکل میں کتاب آتی ہے، اسی میں قرآن کریم چھپنا چاہیے ناں.سب سے پہلا حق کاغذ کی خوبصورتی اور حسن طباعت پر قرآن کریم کا ہے.جو ایک کامل ہدایت ہے، بنی نوع انسان کے لئے.اور یہ سب سے ردی کاغذ کے اوپر ہم نے چھاپنا شروع کر دیا تھا.جماعت بھی ملوث ایک وقت میں ہوئی.لیکن اس وقت ، جب جماعت کے پاس پیسے نہیں تھے، مجبوری تھی.اور بہر حال ترجیح اشاعت قرآن کریم کو دینی تھی.اس کے ظاہری جو اس کے مطالبات تھے ، وہ بعد میں پورے ہونے لگ گئے.قرآن پیپر پر قرآن کا انگریزی ترجمہ آ گیا.بہت سی زبانوں میں تراجم 840
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم ہوگئے، خطبہ جمعہ فرمود 220 مئی 1981ء ہورہے ہیں.بڑی جلدی میں کوشش کر رہا ہوں اور ہو جائیں.فرانسیسی زبان میں آگیا Introduction To The Study of Holy Quran ریاچه قرآن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو لکھا ہے، وہ دیباچہ قرآن کریم کے طور پر بھی ہم استعمال کرتے ہیں.یعنی بعض قرآن کریم کے تراجم کے ساتھ اس کو.مثلاً انگریزی کا ترجمہ ہے، وہ دیباچہ بھی لگا دیا.اور علیحدہ ایک کتاب ہے، قریباً تین سو، اٹھائیں صفحے کی.پوری ایک کتاب بن جاتی ہے ناں.اب اس کا فرانسیسی میں ترجمہ ہو گیا.اس ترجمے کو میں نے بعض احمدیوں کے ذریعے کہ اس کا رد عمل کیا ہوتا ہے؟ ایک فرنچ بولنے والے، فرانسیسی زبان بولنے والے ملک کے مسلمان ایمبیسیڈر ( Ambassador) سے واقفیت تھی ایک احمدی کی، میں نے کہا، تم ان کو دو، ان سے رائے لو اور کچھ نہ کہنا، فتنہ نہیں پیدا کرنا.صرف دیکھیں گے.انہوں نے کہا کہ اتنی عجیب ہے یہ کتاب کہ جب میں نے پڑھنی شروع کی تو جب تک ختم نہیں کی ، دوسری کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا.اور زبان بڑی اچھی ہے.ان کے خیال میں دو، ایک جگہ ذرازبان کی کمزوری ہے لیکن وہ تو ان کا خیال تھا.میں نے کہا تھا، پوچھ لیں اگر واقعہ میں کمزوری ہے تو دور کریں گے اس کو ، انشاء اللہ تعالی.ایک یہاں کلاسیں ہو رہی ہیں، مختلف جگہوں پہ مختلف زبانوں کی.لاہور میں ایک کلاس فرانسیسی کی ہے.اور اس میں پڑھانے والے غالبا فرنچ ایمبیسی کے ماتحت ہیں یہ سارے.ہر ایمبیسی اپنی اپنی زبانوں کے متعلق کرتی ہے کچھ.تو ایک بوڑھے پروفیسر پڑھا رہے تھے، جو کیتھولک تھے.بعض احمدی بھی وہاں پڑھ رہے ہیں.وہ کیتھولک کہتا تھا، مسلمان بچیوں سے بات کرتے ہوئے کہ تم مجھے نہیں مسلمان بنا سکتیں، میں بڑا پکا کیتھولک ہوں.تو ایک احمدی شاگرد نے اسے یہی دیباچہ قرآن فرانسیسی میں دے دیا.اور دو، تین مہینے کے بعد پوچھا تو کہنے لگا، یہ تو بڑی عجیب کتاب ہے.اور چونکہ وہ کیتھولک اور متعصب تھا، اس نے اس کو شروع کیا، اس حصے سے بیچ میں سے، جہاں اسلام کا عیسائیت سے موازنہ کیا ہے ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے.اور اس نے کہا، یہ پڑھ لوں گا تو پھر سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھوں گا.لیکن وہ بڑا Excited تھا.اس نے کہا، یہ تو عجیب کتاب ہے، جو تم نے مجھے دی ہے.لیکن آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ یہ آپ پاکستانیوں نے نہیں شائع کی، نہ آپ کے پیسے سے شائع کی گئی ہے.کیونکہ پیسہ تو ہم یہاں سے باہر بھیج ہی نہیں سکتے.خدا تعالیٰ نے باہر ایسے انتظام کر دئیے.لیکن جو کام پاکستان نے کرنے ہیں، وہ ضرورتیں تو بہر حال پاکستانیوں نے پوری کرنی ہیں.اور اس تمہید کے بعد اب میں اس مضمون کے اوپر آ رہا ہوں ، یہ سال جو ہمارا ہے، پندرہویں صدی کا پہلا سال، اس میں ایک عجیب خصوصیت اور پیدا ہوگئی کہ پہلا سال، جو آیا، بیچ میں، یعنی اس صدی میں 841
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1981ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم عیسوی پہلا سال مالی لحاظ سے وہ 81-1980ء کا، وہ چودہ مہینے کا بن گیا، بارہ مہینے کی بجائے.بعض قانونی ضرورتوں کی وجہ سے تاریخ بدلنی پڑی اور بارہ مہینے کی بجائے چودہ مہینے کا سال بن گیا.اور خالی چودہ مہینے کا سال نہیں بنا بلکہ اس سال کے اندر بعض ذمہ داریاں مالی لحاظ سے بہت رقم طلب کرنے والی دو دفعہ اس سال میں آ گئیں.مثلاً آپ جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے کارکنوں کو جوضرورت ہے، اس کا نصف مفت اور نصف کے قریب گندم کے لئے قرض رقم دی جاتی ہے.تو بڑی رقم ہے، دس، بارہ لاکھ (اس وقت میں زبانی ساری بات کر رہا ہوں ) لاکھ بلکہ سارے ہمارے (اس جلسے پر میں نے بتایا تھا) شاید تیرہ، چودہ لاکھ کے قریب یہ بنتی ہے.اور یہ دو دفعہ آگئی.کیونکہ مئی سے شروع ہوتا تھا سال.اس سے پہلا سال تو یکم مئی سے شروع ہوتا تھا.تو وہ مئی کا مہینہ ہے گندم خرید کا، تو سال کے شروع میں اس سال کے بجٹ سے پیسے دے دیئے جاتے تھے، خرچ کر دئیے جاتے تھے.دوسرے مستحقین پر بھی کئی لاکھ روپیہ خرچ ہوتا ہے، وہ خرچ کر دیا جا تا تھا.اس سال وہ بھی خرچ ہو گیا کیونکہ یکم مئی سے یکم جولائی تک چودہ مہینے کا سال بن گیا.اور اب دوسری دفعہ وہ رقم ہمیں خرچ کرنی پڑ رہی ہے.اس کو احسن طریق پر اور اس بوجھ کو لٹکانے کی بجائے میں کوشش کروں گا، انشاء اللہ تعالیٰ کہ اسی سال میں یہ دونوں، ایک ہی بوجھ ، جو دو دفعہ آیا ہے ، گندم کا ، وہ بوجھ اٹھا لے جماعت.میں یہ نہیں کہہ رہا، زیادہ پیسے دو، اس وقت میرا ادھر کوئی مطالبہ نہیں.میرا مطالبہ یہ ہے کہ جو قانون کے مطابق اور آپ کے وعدہ کے مطابق اور آپ کے عہد کے مطابق إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل :35) آپ کے ذمے جو تم آتی ہے، وہ یکم جولائی تک اس سے پہلے پہلے جو آتی ہے، وہ اپنے وقت پر پوری کر دیں.اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اتنی برکت ڈالے آپ کے اموال میں (جو نسبتی چندہ بنتا ہے نا پھر ) کہ اس کا چندہ اتنا بن جائے، اتنی برکت آپ کو خدادے، مال اور دولت کے لحاظ سے کہ آپ کی جو ذمہ داری ہو ، وہ اتنی ہو کہ آپ دونوں بوجھ ایک سال میں ، یعنی ایک ہی بوجھ جو دو دفعہ پڑ رہا ہے ایک سال میں، اسے ادا کر دیں.اور اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں میں اس عظیم غلبہ اسلام کے منصوبہ کا اس قدر پیار پیدا کرے کہ جو ذمہ داری آپ پر پڑ رہی ہو، خدا تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں اور فضلوں کی وجہ سے اور اسی رحمت کا ایک حصہ خود پھر واپس خدا کے حضور آپ نے پیش کرنا ہے، آپ بشاشت کے ساتھ اور مسکراتے چہروں کے ساتھ اپنی 842
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1981ء ذمہ داریاں، جو میرے ساتھ آپ کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، اپنے خدا سے آپ نے ایک معاہدہ کیا، اس معاہدہ کو آپ پورا کر سکیں اور پورا کریں.اور آئندہ پہلے سے زیادہ فضلوں اور رحمتوں کے آپ وارث بنیں.اور آسانی کے ساتھ اور سہولت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے اس منصوبہ کے، جماعت احمدیہ کے کام چلتے چلیں اور بڑھتے چلیں.اور وہ دن جلد آئیں، جب اسلام حقیقت نوع انسانی کے دل جیتنے میں کامیاب ہو جائے اور نوع انسانی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.جو کارکن ہیں، میں صدر انجمن احمدیہ کے کارکنوں کو بھی یہ تہیہ کردوں، جو مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ہے اور میں بڑا ہی ایک عاجز اور نالائق غلام ہوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں سوچ سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم ہو اور میں اسے نظر انداز کر دوں.آپ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں جس رکابی میں، پلیٹ میں بال آیا ہو، اس میں کھانا نہ کھاؤں.جس فرد میں نفاق کا یا فِي قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ کا یا سستی کا یا اپنے فرائض ادا کرنے میں غفلت کا بال آ گیا، میرے نزدیک تو وہ ایسی لکڑی ٹوٹی ہوئی بھی نہیں، جو جلانے کے قابل ہو سکے.اسے میں فارغ کر دوں گا اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے.اور میں آپ کو فارغ کرنے کے بعد اپنے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں گروں گا اور کہوں گا کہ میں نے تیرا حکم پورا کر دیا.اب جو تیرا منصوبہ ہے دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا، اس کے لئے اپنے رب سے کہو کہ وہ سامان پیدا کرے.اگر سارے مبلغین کو ایک دن مجھے فارغ کرنا پڑا، اس وجہ سے مجھے کوئی گھبراہٹ نہیں ہوگی.نہ میرا کام، نہ میری ذمہ داری.اس کا کام ہے، وہ آپے کرے گا.جس نے یہ کہا تھا کہ جس کے اونٹ ہیں، وہ اونٹ مانگ رہا ہے.جس کا خانہ کعبہ ہے، وہ آپ ہی اس کی حفاظت کا سامان کرے گا.میرے دل میں، میں سمجھتا ہوں، کہیں زیادہ ایمان ہے.میں تو بڑی بشاشت سے کہوں گا کہ جو خدا کا کام ہے، وہ ذمہ دار ہے، وہ آپے کرے گا.جو میری ذمہ داریاں ہیں، وہ میں پوری کردوں گا.اس واسطے محاسبہ کیا کرو، روز صبح اٹھ کے، شام کو سونے سے پہلے.جماعت کے ہر فرد کو عموماً اور جماعت کے ہر کارکن اور معلم اور مبلغ کو خصوصاً یہ محاسبہ کرنا چاہیے کہ جو دن گزرا، جو رات گزری، دن اور رات کی وہ ذمہ داریاں ہم نے پوری کی ہیں یا نہیں ؟ خدا کرے آپ پوری کرنے والے ہوں.اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کرنے والے ہوں لیکن اگر آپ ایسا نہ کریں تو آپ ہی ذمہ دار ہیں، کوئی اور ذمہ دار نہیں.843
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1981ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم جومیری ذمہ داریاں ہیں، میں آپ کی خاطر خدا تعالیٰ کی لعنت اپنے سر پر نہیں لینے کے لئے تیار.میں تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو لینے کے لئے یہاں بیٹھا ہوں، مسند خلافت پر.اور ہر قربانی بشاشت سے، میں تو قربانی سمجھتا ہی نہیں، میری تو خدا تعالیٰ نے طبیعت بچپن سے ایسی بنائی ہے کہ 1947ء میں جب مسجد مبارک کی چھت کے اوپر ہم ہوتے تھے، ہمارے سروں کے اوپر سکھوں وغیرہ کی گولیاں گزرا کرتیں، شوں کر کے، اس وقت بھی ہم ہنس رہے ہوتے تھے، ان گولیوں کی چھاؤں میں.کبھی پرواہ ہی نہیں کی ، ڈر ہی کوئی نہیں مجھے.مجھے یہ بھی نہیں پتا، ڈر کہتے کسے ہیں؟ لیکن مجھے یہ پتا ہے کہ خشیت کسے کہتے ہیں؟ خدا کی خشیت جو ہے، وہ کسے کہتے ہیں؟ اور مجھے یہ پتا ہے کہ جس کے دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت نہیں، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا.یہ ساری دنیا اور اس کی طاقتیں اور تم لوگ جو ہو، جہاں تک میرا تعلق ہے، ایک مرے ہوئے کیڑے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے.جہاں تک میری ذمہ داری ہے، میں تمہیں ساتویں آسمان پر دیکھنا چاہتا ہوں.یہ دو چیزوں کا فرق سمجھ لو اور اپنی ذمہ داریوں کو نبا ھو.اللہ تعالی آر سب کو اس کی توفیق عطا کرے.آمین.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 844
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 جون 1981ء "" جماعت احمدیہ کی زندگی کی ایک بنیادی حقیقت خطبہ جمعہ فرمودہ 12 جون 1981ء.....جہاں تک ہماری زندگیوں کا سوال ہے، احمدیوں کی ، جس مقصد کے لئے مہدی علیہ السلام آئے ، جس مقصد کے لئے یہ جماعت جو ہے ، وہ قائم کی گئی، جس مقصد کے لئے ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور رحم سے اپنی محبت پیدا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق پیدا کیا ، وہ مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کے نور اور اس کے حسن کو، اس کے پیار کو، اس کی خیر خواہی کو اور بنی نوع انسان کے لئے محبت کو اور ہمدردی کو اور اس کے مفہوم میں جو قوت احسان ہے، اس کے ذریعہ سے ساری دنیا کے دل خدا اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرنے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تم کمزور ہو، تم بے مایہ ہو، تم دھتکارے ہوئے ہو دنیا کے.ساری دنیا تمہارے خلاف اکٹھی ہوگئی ہے لیکن تم خدا تعالیٰ کی دوانگلیوں میں ایک ذرہ ناچیز ہو.اور خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ تمہارے ذریعہ سے میں ساری دنیا میں اسلام کو غالب کروں گا.تلوار کے ساتھ نہیں، پیار اور محبت کے ساتھ.اور ساری دنیا کے دل تمہارے ذریعہ سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے لئے کھینچے جائیں گے اور نوع انسانی امت واحدہ بن جائے گی.پورا یقین رکھو ، خدا تعالیٰ کے اعلان پر.خدا تعالیٰ صادق الوعد ہے.یہ نہیں کہ وہ وعدہ کرے اور جھٹلا دے.اور اب تقریبا نوے سال گزر چکے ہیں، ہماری زندگی کے، اتنی عمر نوے سال ہم زبان کی ایذاء وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ (البقرة: 156) جو ہے، وہ حالات دیکھتے چلے آرہے ہیں.وہ اکیلا تھا جس نے کہا، مجھے خدا نے کہا ہے، وہ اسلام کو ساری دنیا میں پھیلائے گا.وہ ایک سے ایک کروڑ سے بھی آگے نکل گیا.اس لئے کہ کامل بھروسہ اس نے کیا تھا.اس کو خدا نے کہا تھا:.وكفى بالله وكيلاً 845
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 12 جون 1981ء اس نے کہا تھا:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد پنجم اليس الله بکاف عبده ایک بندے کے لئے خدا کافی ہے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں.یہ ایک بنیادی حقیقت ہے، ہاں جماعت احمدیہ کی زندگی کی.اسے مت بھولیں.اپنے بچوں کو بھی یاد کراتے رہیں.جب تک یہ حقیقت جماعت احمدیہ کو یا درہے گی اور ان کے اعمال میں سے اور ان کے افعال میں سے اور ان کے اقوال میں سے اتنا باہر نکلے گی ، جتنا ایک بھاری چشمے میں سے چشمے کے منہ سے ٹھنڈا اور صحت مند اور سکون پہنچانے والا بڑا ہی لذیذ پانی نکل کے باہر آتا ہے.تو اللہ پر توکل کرو.جب تک تم خدا پر بھروسہ کرتے رہو گے، خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ کھڑا ہوا تمہاری مدد کرتا رہے گا.اور کسی سے دشمنی نہیں کرنی کسی کو دکھ نہیں پہنچانا کسی کو گالی نہیں دینی کسی کے لئے برا سوچنا بھی نہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.(غیر مطبوعہ، ٹرانسکر پشن از آڈیو کیسٹ) 846
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع تنصیب ٹیلیکس جرمنی مشن اگر سائنسی ترقی کا ساتھ نہ دیا تو ہم اپنے فرائض سے پہلو تہی کرنے کے مجرم ہوں گے " پیغام بر موقع تنصیب ٹیلیکس جرمنی مشن مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ آپ کے مشن میں ٹیلیکس نصب کی گئی ہے.خدا تعالیٰ اس کو مختلف ممالک کے احمدیوں کو آپس میں قریب تر کرنے کا موجب بنائے.آمین اسلام میں دیگر مذاہب کے مقابلے میں سائنس اور مذہب میں کوئی تضاد نہیں.اگر ایک خدا کے الفاظ ہیں تو دوسری چیز اس کے افعال ہیں.اور ان میں آپس میں کوئی تضاد نہیں.نئی نئی سائنسی اور تکنیکی ایجادات کے نتیجہ میں دنیا ایک ملت بنتی جارہی ہے.اس کا تقاضا ہے کہ اس کو ایک ہی مذہب کی برکات میں اور ساری انسانیت کے لئے ایک ہی طریق زندگی میسر آئے.اور ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ صرف اسلام ہی دے سکتا ہے.اگر ہم نے سائنسی ترقی کی رفتار کا ساتھ نہ دیا تو ہم اپنے فرائض سے پہلو تہی کرنے کے مجرم ہوں گے.ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی پوری توانائیاں خدا تعالیٰ کے ان مظاہر کو سمجھنے میں صرف کر دیں، جو کہ قدرت کی شکل میں ہر طرف بکھرے پڑے ہیں.ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی پوری کوششیں امن اور پیار کے پیغام یعنی اسلام کی دنیا بھر میں تبلیغ واشاعت میں صرف کر دیں.کیونکہ آج کی تھکی ماندی دنیا کے لئے بچاؤ کا صرف یہی ایک راستہ ہے.اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری کوششوں میں برکات ڈالے، ہمیں توفیق اور ہمت دے کہ ہم اس کے راستے پر چلنے کے لئے تمام قربانیاں دینے والے ہوں.آمین.مطبوعه روز نامہ الفضل 18 جولا ئی 1981 ء، بحوالہ احمد یہ بلیٹن لندن مئی، جون 1981 ء ) 847
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پچیم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کینیڈا ہر احمدی اپنے مقام کو پہچانے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کینیڈا منعقدہ 27، 28 جون 1981ء حضور رحمہ اللہ کا مندرجہ ذیل پیغام ڈاک کی خرابی کی وجہ سے بروقت نہ پہنچ سکا.چنانچہ عید الفطر کے موقع پر مورخہ یکم اگست 1981ء کو پڑھ کر سنایا گیا.عزیزان! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ جماعت ہائے کینیڈا 28, 27 جون کو ٹورنٹو میں اپنا سالانہ جلسہ منعقد کر رہی ہیں.میں اس جلسے کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں.خدا تعالیٰ اس جلسہ اور اس میں شامل ہونے احباب کو بہت برکات سے نوازے.آمین آپ نے اس موقع پر مجھ سے پیغام بھجوانے کی خواہش کی ہے.ہر احمدی کے لئے میرا پیغام یہی ہے کہ وہ اپنے مقام کو پہچانے اور جو ذمہ داریاں اس پر حضرت اقدس ) کا جاں شار غلام ہونے کی حیثیت میں عائد ہوتی ہیں، ان کو پورا کرنے کی مقدور بھر کوشش کرے.ان ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور (دین) کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس ) بیان فرماتے ہیں:.اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی گردن خدا کے آگے قربانی کے بکرے کی طرح رکھ دینا اور اپنے تمام ارادوں سے کھوئے جانا اور خدا کے ارادہ اور رضا میں محو ہو جانا اور خدا میں گم ہو کر ایک موت اپنے پر وارد کر لینا.اور اس کی محبت ذاتی سے پورا رنگ حاصل کر کے محض محبت کے جوش سے اس کی اطاعت کرنا، نہ کسی اور بناء پر اور ایسی 849
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کینیڈا تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم آنکھیں حاصل کرنا، جو محض خدا کے ساتھ دیکھتی ہوں اور ایسے کان حاصل کرنا، جو محض اس کے ساتھ سنتے ہوں اور ایسا دل پیدا کرنا، جو سراسر اس کی طرف جھکا ہوا ہو اور ایسی زبان حاصل کرنا ، جو اس کے بلائے بولتی ہو.پھر فرماتے ہیں:.لیکچر لا ہور صفحہ 14 ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 160) کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہل اسلام سے حقیقی طور پر ملقب نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدا نہ کر دیوے.اور اپنی انانیت سے معہ اس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اٹھا کر اسی کی راہ میں نہ لگ جاوے.پس حقیقی طور پر اسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا، جب اس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اس کے نفس امارہ کا نقش ہستی معہ اس کے تمام جذبات کے یک دفعہ مٹ جائے.اور پھر اس موت کے بعد محسن اللہ ہونے کے نئی زندگی اس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو، جو اس میں بجز طاعت خلق اور ہمدردی مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو.خالق کی طاعت اس طرح سے کہ اس کی عزت و جلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزتی اور ذلت قبول کرنے کے لئے مستعد ہو اور اس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور اس کی فرماں برداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشی خاطر کاٹ سکے اور اس کے احکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضا جوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلا دے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا بھسم کر دینے والی ایک بجلی ہے، جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہئے.غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کے لئے جان کا زخموں سے مجروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے سب نفسانی تعلقات توڑ دے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 61)....بیدارشادات ہمیں توجہ دلاتے ہیں کہ ہم ہر وقت اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے رہیں اور دیکھیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل کر رہے ہیں؟ 850
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کینیڈا کیا ہم خدا تعالیٰ کی عزت قائم کرنے کے لئے ذلت اور بے عزتی قبول کرنے کے لئے آمادہ ہیں؟ کیا ہم اس کی وحدانیت کے قیام کے لئے موت قبول کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم خدا کی مرضی کے سامنے اپنی مرضی سے دستبردار ہوتے ہیں؟ کیا ہم اس کی فرماں برداری کرنے کے لئے پوری طرح مستعد ہیں؟ کیا ہم ان تمام احکام پر عمل کرتے ہیں، جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے صادر فرمائے ہیں؟ یہ تمام امورا ایسے ہیں، جن کے بارے میں ہمیشہ ہمیں سوچتے رہنا چاہیے.ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اسلام کو عملی طور پر جاری کر رہے ہیں یا نہیں؟ اپنے ہر فعل اور ہر کام سے پہلے ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہمارا یہ اقدام اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے یا نہیں؟ اسلام کا ایک بنیادی محکم ، جس کی طرف سے آج کے مسلمان بہت لا پرواہی برت رہے ہیں، پردہ کا حکم ہے.ماحول کو بداثرات سے بچانے ، انسان کو فسق و فجور سے محفوظ رکھنے نسل انسانی کو پھسلنے اور ٹھو کر کھانے سے بچانے اور عورت کی عزت کو قائم رکھنے کے لئے اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ عورت اور مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زیتوں کے دکھانے سے روکا جائے.اسی لئے مرد اور عورت کے آزادانہ خلا ملا کو نا پسند کیا گیا ہے.کیونکہ اسی میں مرد اور عورت دونوں کی بھلائی ہے.اور ہر ایک پرہیز گار، جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ غض بصر کی عادت ڈالے اور حیوانوں کی طرح بے محابا نظر ڈالنے سے اپنے آپ کو بچائے.یہ وہ پردے کی تعلیم ہے، جس پر عمل کرنے کی اسلام ہر مسلمان مرد اور عورت سے توقع رکھتا ہے.اور یہی وہ تعلیم ہے، جس پر عمل کر کے ہم اپنی طبعی حالت کو ایک پاکیزہ خلق، جو اسلام کی اصطلاح میں احصان اور عفت کہلاتا ہے، سے تبدیل کر سکتے ہیں.خدا کرے کہ آپ جو اپنے تئیں (حضرت اقدس) کے جاں شاروں میں شمار کرتے ہیں اور دعوئی کرتے ہیں کہ آپ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے اور....کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے والے بنیں.اس پیغام پر حقیقی معنوں میں عمل کرنے والے بنیں.کیونکہ اسلام زبانی دعوؤں سے نہیں پھیل سکتا.دنیا کو مسلمان بنانے کے لئے اور غیر اقوام کو سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسلام کی حسین تعلیمات اور اس کے خوبصورت احکام پر خود عمل کریں اور 851
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کینیڈا تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اس طرح تمام دنیا پر یہ ظاہر کر دیں کہ اسلام کے احکام زبانی بحث و تمحیص کے لئے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لئے ہیں.اور اپنے نمونہ سے یہ بات تمام اقوام پر ثابت کر دیں.میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں اور ہمیشہ آپ کو اپنی دعاؤں میں یا درکھتا ہوں.خدا کرے کہ آپ میں سے ہر ایک مرد اور عورت، بوڑھا، جوان اور بچہ اپنے مقام کو سمجھنے والا ہو.خدا کرے کہ آپ کی زندگیاں اسلام کی حقانیت کی عملی شہادت دینے والی ہوں.خدا کرے کہ آپ خدا کے احکام پر عمل پیرا ہو کر اس دنیا میں اور اس دنیا میں بھی اس کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے.آمین والسلام مرزا ناصر احمد ( مطبوعه روزنامه الفضل 14 نومبر 1981ء بحوالہ ماہنامہ احمد یہ گزٹ جولائی تا ستمبر 1981 صفحہ 1,2) 852
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبه عید الفطر فرموده 02 اگست 1981ء وو ہماری عید اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار رحمتیں کیں خطبہ عیدالفطر فرمودہ 02 اگست 1981ء انفرادی خوشی اپنی جگہ درست لیکن حقیقی خوشی ہماری اس چیز میں ہے کہ ہمیں نظر آ رہا ہے کہ چھلی عید الفطر کے بعد اس عید الفطر تک اتنی ترقی کی ہے جماعت احمدیہ نے.دکھ پہنچانے والوں نے دیکھ پہنچایا.خدا تعالی نے کہا تھا کہ ان کی زبان سے، ان کے ہاتھ سے تمہیں ایذاء پہنچائی جائے گی.انہوں نے خدا کا وعدہ پورا کر دیا، ہمارے حق میں.خدا تعالیٰ نے کہا تھا، اس کے نتیجے میں تم نا کام نہیں ہو گے، بلکہ آگے بڑھو گے.دیکھو پچھلے سال میں، قرطبہ کی مسجد ( عید الفطر اور عید الفطر کے درمیان ) قریباً مکمل گئی.اتنا عظیم خدا تعالیٰ نے فضل کیا ہے.ہو دس سال پہلے دنیائے اسلام سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا واقعہ ہوسکتا ہے.جس چیز کو انسانی دماغ نے ناممکن قرار دیا، سال گزشتہ نے اسے ممکن بنا دیا.اسی طرح ایک بنیاد پڑ گئی، جاپان میں مشن ہاؤس کے خریدنے کی.ابھی سودا نہیں ہوا لیکن گفت وشنید ہو رہی ہے.بعض قانونی وقتیں ہیں، وہ دور ہو جائیں گی.اور ایک اچھا مشن ہاؤس بن جائے گا.اور ایک اڈا مضبوط قائم ہو جائے گا، وہاں تبلیغ کے لئے.(اب یہ گھر خریدا جا چکا ہے.) پہلے سے بڑھ کر زندگی پیدا ہوئی جماعت کے اندر.میں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ہم تو اس گیند کی طرح ہیں کہ جتنے زور سے تم زمین پر پیٹھو گے، اتنا ہی وہ آسمان کی طرف اٹھے گا.تو ہماری عید اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں ، ایک سال کے عرصہ میں جو عید الفطر اور عید الفطر کے درمیان گزرا، بیشمار رحمتیں کیں.تعداد لاکھوں میں بڑھ گئی اور مساجد جو ہیں، وہ درجنوں تعمیر ہو گئیں.ہر مہینے کوئی نہ کوئی نئی مسجد بن رہی ہے.ایک سے زیادہ بن رہی ہیں.اور اپنے خرچ پر بنا رہے ہیں.آپ کو غیرت دلانے کے لئے، پاکستانی احمدیوں کو میں نے بتایا تھا پہلے بھی کہ افریقہ بڑی بڑی مسجد میں بناتا ہے اور ایک دھیلہ نہیں مرکز سے مانگتا.پانچ سال لگ جائیں ، چھ سال لگ جائیں، سات سال لگ جائیں، وہ چھوٹی سی جماعت سوکی، ہزار کی ، دو ہزار کی اپنی ہمت کے مطابق مسجد بنارہی ہوتی : 853
اقتباس از خطبه عید الفطر فرموده 02 اگست 1981ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خود اور کہ ہے.پیسے خود جمع کرتی ہے اور کرتی چلی جاتی ہے.اور آہستہ آہستہ بناتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ اپنی محنت کی کمائی کو خدا کی عطا سمجھتے ہوئے اس کے حضور پیش کرتے اور خدا تعالیٰ کا گھر بنادیتے ہیں.انَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ تو ہم آج اس لئے خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا کہ خوش ہو.ہم اس لئے خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ جن سے پیار کرتا ہوں، اس کا اظہار بھی کرتا ہوں.اور پیار کا اظہار ایک نہیں، پیار کے ایک ہزار اظہار بھی نہیں.سال کے دوران میں سمجھتا ہوں لاکھوں پیار کے اظہار ہوئے.باہر کے مبلغ ، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے احمدیت سے باہر، دنیوی لحاظ سے.لیکن خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کواتنی عزت دی ہے، اپنی نگاہ میں اور اس کے نتیجہ میں نوع انسانی کے دل میں عزت قائم کی ہے کہ ہمارے مبلغ جو یہاں سڑکوں پر پھر رہے ہوں تو آپ پہچانتے نہیں کون پھر رہا ہے؟ جب افریقہ میں ہوں یا دوسرے ممالک میں ہوں تو سر براہ مملکت بھی کھڑا ہو جاتا ہے، جب وہ کمرے میں داخل ہوتے ہیں.ان مبلغین کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ان کی ذاتی عزت نہیں، یہ ان کی عزت طفیلی عزت ہے.اور انہیں ملی ہے، محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے طفیل.پس کثرت سے درود کیا کرو، کثرت سے خدا کی حمد کیا کرو.اور اس کی توحید کے نغمے، اس کی حمد کے ترانے گاؤ اور خوش رہو.اس لئے نہیں کہ ہماری طاقت یا کوشش یا عمل کا کوئی نتیجہ نکلا.بلکہ اس لئے کہ ہمارے حقیر اعمال کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور ہمارے لئے عید اور خوشی کا سامان پیدا کر دیا.خدا کرے کہ ہمیشہ ہی ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشی کے سامان پیدا ہوتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہماری حفاظت کرتے رہیں.اور ہمارے مخالف کا ہر منصوبہ، جو حقیقتاً غلبہ اسلام پر اس کا وار ہے، اس کو وہ نا کام کرے.اور اس کی منشاء اور اس کا ارادہ جلد ہماری زندگیوں میں پورا ہو.اور نوع انسانی کے دل سارے کے سارے خدائے واحد و یگانہ کے لئے جیت لئے جائیں.تا کہ ایک ایسی عید پھر ہم منائیں، جس میں ہر انسان شامل ہو.اس لئے کہ ہر انسان اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکا ہو، اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کا.خدا کرے وہ دن جلدی آئے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 24 اپریل 1982ء) 854
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم پیغام بجواب ریزولیوشن تجدید وفا اسلام کی فتح کے لئے بھر پور جد و جہد کرتے رہو پیغام بجواب ریزولیوشن تجدید وفا از جماعت ہائے احمد یا امریکہ جماعت ہائے احمد یہ امریکہ کے جلسہ سالانہ منعقدہ 04 تا 06 ستمبر 1981ء کے آخری روز احباب جماعت امریکہ کی طرف سے تجدید وفا پرمشتمل ایک ریزولیوشن پاس کیا گیا، جو بذریعہ تار حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں ارسال کیا گیا.اس کے جواب میں حضور نے درج ذیل پیغام ارشاد فرمایا:.دو نیشنل پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ واشنگٹن ڈی سی.یوایس اے آپ کی تارجس میں آپ نے خلافت سے فدائیت اور اخلاص کا اظہار کیا ہے اور جماعت کے نیک جذبات اور عزم بالجزم کی ترجمانی کی ہے، ملا اور آپ کو وہ یقین اور قوت بخشے کہ آپ اپنے عہد بیعت کو پورا کرنے اور خدمت کرنے میں اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کر ڈالیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے دیں.میں دعا کرتا ہوں کہ آپ خلافت کے جھنڈے تلے متحدر ہیں اور محبت اور اپنے عملی نمونہ سے انسانیت کے دل اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لیں.پس اپنے عہد بیعت کے ساتھ کامل وفاداری دکھلاؤ اور اسلام کی فتح کے لئے بھر پور جدو جہد کرتے رہو.اللہ آپ کے ساتھ ہو“.(آمین) مرزا ناصر احمد ( مطبوعه روز نامہ الفضل یکم دسمبر 1981ء ، بحوالہ احمدیہ گزٹ ، اکتوب1981ء، صفحہ 1,5) 855
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع سالانہ کانفرنس جماعت احمد یہ یوپی جب تک ہر فرد اسلامی تعلیم کا نمونہ نہیں بنتا، وہ دوسرے کومتاثر نہیں کر سکتا پیغام بر موقع سالانہ کانفرنس جماعت احمد یہ یوپی بھارت منعقدہ 18, 17 اکتوبر 1981ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر بھائیو! السلام عليكم اتر پردیش کی پندرھویں سالانہ کا نفرنس کے مبارک موقع پر آنے والے بھی احمدی بھائیوں کو دلی | مبارک باد دیتا ہوں.آج انسان میں اپنے معبود حقیقی سے دور چلے جانے کی وجہ سے سخت بے چینی پائی جاتی ہے.احمدی جماعت کے افراد کو قادر مطلق خدا سے قریبی تعلق کی وجہ سے ہی دماغی اور دلی سکون حاصل ہے.آپ لوگ خدا کے بتائے ہوئے راستہ پر مضبوطی سے قائم رہیں اور نوع انسان کو آخری تباہی سے بچانے کی پوری کوشش کریں.یادرکھیں کہ پہلے وقت میں اسلام مسلمان بادشاہوں، شہنشاہوں کے ذریعہ نہیں بلکہ مسلمان اولیاء اور صوفیاء کرام اور درویشوں کی انتھک کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں پھیلا ہے.جب تک آپ کا ہر ایک فرد اسلامی تعلیم کا نمونہ نہیں بنتا، وہ دوسرے کو متاثر نہیں کر سکتا.ہمارے سلف صالحین اور بزرگوں نے اللہ کے راستے میں اور اسلام کو پھیلانے کے لئے سخت تکالیف برداشت کی ہیں.آپ بھی ان کے نمونہ پر چلیں.اللہ آپ سب کی مدد فرمائے اور آپ کو دنیا کے لئے نمونہ بنائے.آمین.(دستخط) مرزا ناصر احمد ( مطبوعه روزنامه الفضل 19 نومبر 1981 ء، بحوال بیفت روزه بدر قادیان شماره 05 نومبر 1981 صفحہ 4) 857
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء غلبہ اسلام کے لئے ہر شعبہ زندگی میں اقوام عالم پر بالا دستی ضروری ہے خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، ہمارا یہ اجتماع پندرھویں صدی ہجری کا پہلا اجتماع ہے.اس لحاظ سے بہت سی اہمیتیں اور خصوصیات اس سے وابستہ ہیں.اس لئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ ہر جماعت کے نمائندے اس میں شامل ہوں.اور انصار اللہ کے اجتماع میں بھی پاکستان کی سب جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں.دوسری بات یہ کہ پندرھویں صدی ہجری کی ابتداء اور جماعت احمدیہ کے قیام کی دوسری صدی کی ابتداء میں قریبا نو سال کا فرق ہے.یہ ایک وقت میں نہیں آئیں.اور اس میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں نظر آتی ہیں.جیسا کہ ابھی میں بیان کروں گا.زمانے کا یہ فرق بڑا اہم ہے.یہ جونو سالہ زمانہ ہے، اس سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ کی تائید اور توفیق سے صد سالہ جوبلی منصو بہ کا اجراء کیا گیا تھا.اس غرض سے کہ ہم آنے والی صدی، جو جماعت احمدیہ کے قیام کی دوسری صدی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کی وجہ سے اور اس کے نتیجہ میں غلبہ اسلام کی صدی ہے، اس کے استقبال کے لئے تیاری کر لیں.یہ زمانے کا جو فرق ہے، نوسالہ، اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ ہمارے قیام کی دوسری صدی، جو غلبہ اسلام کی صدی ہے اور پندرھویں صدی ہجری اور ہمارے قیام کی صدی کے درمیان یہ نو سال آئے ہوئے ہیں.صد سالہ جوبلی منصوبہ" کے اعلان پر کئی سال گزر گئے اور ( نو سال پچھلے سال سے میں شمار کر رہا ہوں ، اب تو عملاً آٹھ سال رہ گئے ہیں.پندرھویں صدی ہجری 80ء میں شروع ہوئی تھی.اس صدی کا یہ پہلا اجتماع ہے.) جو کام شروع ہو گئے تھے، ان میں تیزی پیدا کرنے کا وقت آگیا.اور اس ایک سال کے اندر اللہ تعالیٰ کے اس قدر فضل ہم نے دیکھے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.اس ایک سال میں خدا تعالیٰ کی عظمتوں کے جو نشان اور اس کے پیار کے جو جلوے جماعت احمد یہ نے دیکھے، وہ دیکھ کر ہماری عقل دنگ رہ جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے کسی ایک فضل کے مقابلے میں بھی انسان کو 859
خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کی جو ایک ذرہ نا چیز ہے، کوئی حیثیت نہیں.وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھ میں کوئی خوبی یا بڑا ئی تھی ، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ احسان کیا.لیکن اتنے عظیم واقعات رونما ہونے لگے، ہمارے جیسے نا چیز انسانوں کے لئے.کس منہ سے، کن الفاظ میں حمد ادا ہو.مثلاً اس ایک سال میں ایک تو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو جاپان میں ایک نہایت موزوں مقام پر نوتعمیر مکان خریدنے کی توفیق عطا کی اور اس کے لئے خرچ کا انتظام خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے تین ملکوں میں پہلے سے کیا ہوا تھا.جب مجھ سے پوچھا گیا کہ یہاں مکان مل سکتا ہے تو میں نے تحریک جدید سے یہ سوال کیا کہ آپ اس کی ادائیگی کہاں سے کریں گے؟ میرے خیال میں دو لاکھ ستر یا اسی ہزار ڈالر کا وہ مکان ہے.جس کا مطلب ہے، قریب تھیں لاکھ روپے کا.تو انہوں نے مجھے کہا کہ پاکستان سے باہر مشرقی ممالک میں ہماری ایک جماعت ہے، اس جماعت نے کہا ہے کہ ہم ایک لاکھ ڈالر وہاں بھیجوا دیں گے اور میرے لئے حیرت کے بات یہ تھی کہ اول: ان کے پاس یہ ایک لاکھ ڈالر جمع کیسے رہا؟ دوسرے یہ کہ وہاں بھی اقتصادی حالات ایسے ہیں کہ بڑا مشکل تھا، ان کے لئے فارن ایچینچ کی اجازت لے کر ایک لاکھ ڈالر اپنے ملک سے باہر بھجوانا.انہوں نے کہا، ہمیں اجازت بھی مل جائے گی اور ہم بھجوا بھی دیں گے.اور باقی جو رہ جاتا ہے، ایک لاکھ ستر ، اسی ہزار ، وہ امریکہ اور مغربی جرمنی کے پاس پیسے پڑے تھے، انہوں نے کہا ، پیسوں کی کوئی فکر نہیں ہے.آپ اجازت دیں.میں نے سوچا، میں نے دعا کی.پھر جب میرا انشراح ہو گیا، پانچ ، دس دن کے بعد تو میں نے انہیں اجازت دے دی.اس وقت تک وہ مکان جو مرزا مبارک احمد صاحب نے پہلے دیکھا تھا، وہ بک چکا تھا.لیکن اس سے نسبتاً بہتر مکان چند ہزار ڈالر کی زیادتی کے ساتھ ہمیں اسی علاقے میں مل گیا.دوسری ہماری بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ قرطبہ ایک صوبہ ہے، پین کا.قریباً 745 سال قبل مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کو بھولنے کے نتیجہ میں عیسائیوں سے شکست کھائی اور یہ صوبہ عیسائیوں کے پاس چلا گیا.اور 745 سال تک وہاں کوئی مسجد نہیں بنائی گئی.پچھلے سال میں نے اس صوبہ میں مسجد کی بنیاد رکھی.اللہ تعالیٰ نے وہاں زمین خریدنے کا انتظام کر دیا.اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کر دیا کہ حکومت وقت نے ہمیں وہاں مسجد بنانے کی اجازت دے دی.اور اللہ تعالیٰ نے یہ اتفاق بھی پیدا کر دیا کہ وہاں ایک چھوٹے سے قصبہ کے میر 860
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء کہنے لگے کہ حکومت وقت نے جو مذہبی آزادی کا اعلان کیا، اس کے بعد آپ پہلی جماعت ہیں، جن کو تو فیق ملی ہے، اس ملک میں مسجد بنانے کی.یعنی اس آزادی کے اعلان کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے ہمیں توفیق عطا کر دی.اور اب اس مسجد کی تعمیر قریباً مکمل ہو چکی ہے.صرف میناروں کے اوپر کے حصے تیار ہونے والے رہتے ہیں، باقی بلڈنگ پوری تیار ہوگئی ہے.فرش ہو گئے بجلی لگ گئی، پلستر ہو گئے ہنسل خانوں اور باورچی خانے ہیں، وہاں دو، ان کے اندر فٹنگز (Fittings) ہو گئیں ،صرف مینار بنے رہ گئے ، اس میں.اس واسطے دیر ہوئی کہ انہوں نے پہلے جوڈیزائن بنایا تھا، اس کو بدلنا چاہتے تھے.میں نے انہیں کہا تھا، مجھ سے پوچھے بغیر نقشہ نہیں بدلنا.اس پر کچھ وقت لگا.اب مجھے اطلاع ملی ہے کہ پتھر کا جو مینار بنارہے ہیں، وہ قادیان کے مینارہ کا عکس ہے.میں نے انہیں ہدایت دی تھی ، اگر بیس فٹ اونچا مینار ہے تو ہیں فٹ میرے بھیجے ہوئے نقشہ کے مطابق بناؤ.اس کے مطابق وہ بن رہے ہیں مینار.اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا ، ( بہت سے آپ میں سے بھول گئے ہوں گے، دہرا دیتا ہوں ) اس زمین کے دو طرف ان کی بڑی سڑک گزر رہی ہے.جس میں چار Lanes ہیں.اور قرطبہ سے میڈرڈ جانے والی شاہراہ پر یہ زمین ہے.جس میں پہاڑی کا شبہ ہے، اس کے سب سے اوپر کے پوائنٹ (Point) پر مسجد بن رہی ہے.ہر آنے جانے والے کی نظر پڑتی رہے گی ، اس مسجد پر اور اس عبارت پر بھی کہ لا اله الا الله محمد رسول الله اور تیسرے یہ کہ پانچ ، سات سال ہوئے، کینیڈا میں کیلگری کے شہر میں ایک چھوٹی سی جماعت پیدا ہوگئی.یہاں سے گئے ، دوسرے ملکوں سے آئے.بہر حال وہاں ایک چھوٹی سی جماعت ہے.انہوں نے ایک گھر خریدنے کے لئے چندہ اکٹھا کیا تا کہ نماز وہاں اکٹھے پڑھ سکیں، بچوں کی تربیت ہو سکے، ان کو قرآن کریم ، قاعدہ میسر نا القرآن، دینی باتیں سکھائی جاسکیں.جب تک جماعت کا گھر نہ ہو، اس وقت تک صحیح تربیت نہیں ہوسکتی.انہوں نے لکھا کہ ایک چھوٹا سا مکان شہر کے اندر ہمیں مل رہا ہے، قریباً ستر ہزار ڈالر کا.آدھی رقم ہم نے آپس میں مل کے اکٹھی کرلی ہے.بقیہ کی رقم ہمیں قرض دے دی جائے.ہم سال بہ سال قسط وار رقم ادا کر دیں گے.ہر چیز ہر عمل کا بابرکت ہونے کے لئے دعا پر انحصار ہوتا ہے.دعائیں کیں، جب انشراح ہوا، میں نے کہا، لے لو.یہ نہیں پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر کیا مہربانی کرنا چاہتا ہے.یہ پانچ سات سال پہلے کی بات ہے.اب مجھے چند ہفتے ہوئے، یہ خط ملا ان کا کہ شہر سے سات میل کے فاصلے پر چالیس ایکٹر زمین اور جو موجودہ مشن ہاؤس ہے، اس سے کئی گنے بڑا اور اچھا بنا ہوا مکان ہے، مل رہا ہے.861
خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد پنجم ان کی خواہش تھی کہ اگر پھر میرا اتفاق ہو، وہاں جانے کا تو اتنی بڑی جگہ ہے کہ ہمارا قافلہ بھی وہاں ٹھہر سکتا ہے.اور تین لاکھ، پچاس ہزار ڈالرکو وہ جگہ مل رہی تھی.تو خط پڑھ کے یہ احساس ہوتا تھا کہ اب انہوں نے ستر ہزار سے چھلانگ ماری تین لاکھ، پچاس ہزار پر.لیکن آگے لکھا کہ رقم کی ہمیں اس لئے فکر نہیں کہ وہ جو ستر ہزار ڈالر کا مکان لیا تھا ، وہ چار لاکھ بیس ہزار ڈالر میں بک جائے گا.اور فرق قیمت خرید اور قیمت فروخت کا ٹھیک ستر ہزار ہے.میرے ذہن میں آیا کہ ہمارے خدا نے پیار سے کہا، یہ پکڑو، اپنی رقم ستر ہزار اور ساری کی ساری تین لاکھ، پچاس ہزار کا میں انتظام کر دوں گا.اور انتظام کر دیا.اس وقت گفت و شنید ہو رہی تھی ، اجازت لے رہے تھے وہ.اب ان کی تار مجھے مل گئی ہے کہ اس کا معاہدہ Sign ہو چکا ہے.دستخط ہو گئے ہیں.اور تین لاکھ تمہیں ہزار میں وہ چالیس ایکڑ زمین اور بہت بڑا مکان مل گیا.اب آپ یہ سوچیں، دنیا ہم پر اعتراض کرتی اور ہمیں طعنے دیتی ہے کہ یہ جو تم اپنے پیسے خرچ کر دیتے ہو، یہ ضرور کوئی دنیوی طاقت اور ایجنسی اور Source of سرمایہ ہے، جو تمہیں رقم دیتا ہے.اب یہاں تو یہ ہوا کہ جو پیسے ہم نے لگائے ہوئے تھے ، وہ بھی اللہ تعالیٰ نے واپس کر دئیے.اور کہا، ایک پیسہ جماعت کا نہیں لگنے دوں گا، سارے کے سارے کا میں نے انتظام کر دیا ہے.اب قیمت کا بڑھانا تو ہمارے اختیار میں نہیں تھا.میں ہنسا کرتا ہوں، ایسے لوگوں سے بات کرتے ہوئے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ اسرائیل ہمیں پیسے دے سکتا ہے (جو نہیں دیتا) یا امریکہ ہمیں پیسے دے سکتا ہے، جن سے ہم نہیں لیتے یا پچھلے سال یہ لطیفہ ہوا کہ ایک جوڑا یعنی میاں بیوی پھر رہے تھے ، قرطبہ کی مسجد میں.جب ان کو پتہ لگا کہ ہم نے سنگ بنیادرکھا، قرطبہ کے قریب تو بڑے آرام اور معصومیت سے میاں کہنے لگا کہ اچھا! پتہ لگ گیا تم نے سعودی عرب سے پیسے لئے ہوں گے.ان لوگوں کے خیال میں اگر کوئی ہستی پیسے نہیں دے سکتی تو وہ اللہ ہے، جو ساری دنیا کے خزانوں کا مالک ہے، ہمارا پیارا رب.الله اکبر اللہ اکبر (نعرے) اس ایک سال میں خدا تعالیٰ نے پیار کیا تو یہ جو نو سال کا وقفہ ہے، دوسری صدی شروع ہونے میں، اس کی تو برکتوں کے ساتھ ابتداء ہوگئی.پندرھویں صدی ہجری جو ہے، وہ بھی غلبہ اسلام کی صدی جو ہماری زندگی کی دوسری صدی، وہ بھی غلبہ اسلام کی صدی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی برکتیں لئے اصلی اور حقیقی پندرھویں صدی ہجری شروع ہوگئی.اس زندگی کے ساتھ ، جماعت کے قیام کے ساتھ تعلق رکھنے والی دوسری صدی آٹھ سال بعد شروع ہورہی ہے.بڑی اہمیت ہے، ان نو سالوں میں.862
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء ان نو سالوں میں ہم نے استقبال جو انگلی صدی کا کرنا ہے، اس میں اپنی قربانیاں دے کے اپنے نفس کی اصلاح کر کے ایک مضبوط ، ہر لحاظ سے پالنڈ (Polished) اور مہذب جماعت کا ایک حصہ قائم کرنا ہے.اس نوسال میں بنیاد رکھی جانے والی ہے.قربانیاں اپنی انتہاء کو پہنچ جائیں گی.اس کے لئے آپ کو تیار ہونا چاہیے.عشق کی مستی، اخلاص اور ایثار کی شعائیں ساتوں آسمانوں کی رفعتوں کو چھونے لگیں گی.جو یہ نو سال ہیں، وہ آنے والے حالات کی وسعتوں کے لئے بطور بنیاد کے ہوں گے.اور آنے والے حالات اپنی وسعتوں کے اعتبار سے ہم سے چار مطالبات کرتے ہیں.اور یہ چار مطالبات ہماری زندگیوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں.اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی توجہ ہر غیر سے ہٹا کر اللہ، جو ہمیں پیدا کرنے والا ہے، اس کی طرف مرکوز کریں.اور فنا کا چولہ پہن کر اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کا عہد کریں.چار مطالبات یہ زمانہ ہم سے کرتا ہے.یہ مطالبہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی طاقتیں ہمیں عطا کی ہیں، ان کی نشو و نما کو کمال تک پہنچانا.جسمانی طاقتوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچانابڑا ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر زور دیا، قرآن کریم نے ایک بڑے لطیف انداز میں اس کا ذکر کیا.ہر فطرتی طاقت (جسمانی طاقت بھی ہماری فطرت کا ہی ایک حصہ ہے.) مجاہدہ کے ذریعے درجہ بدرجہ بتدریج ترقی کرتی اور کمال کو پہنچتی ہے.یہ ایک دن کا کام نہیں کہ جادو پڑھا آپ نے اور پھونک ماری ، آپ کی جسمانی طاقتیں جو ہیں، وہ اپنے کمال نشو ونما تک پہنچ جائیں.نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے، جو اس کا ئنات میں ہمیں نظر آ رہا ہے.انسان میں بھی یہی جاری ہے.انسان کے متعلق جب بات کرتا ہوں تو کہتا ہوں کہ ہر فطرتی طاقت مجاہدہ کے ذریعے اور درجہ بدرجہ بتدریج کمال کو پہنچتی ہے.اس کے لئے مسلسل ایک مجاہدے کی ، ایک جدو جہد کی، ایک سعی کی ضرورت ہے.اور جو حالات ہیں، آنے والے زمانہ مستقبل کے، وہ ہم سے جو چار مطالبات کر رہے ہیں، ان میں سے (() یہ ہے کہ:.جماعت احمد یہ دنیا میں سب سے زیادہ صحت مند جماعت ہو.بڑا ضروری ہے یہ.پہلے زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو تربیت حاصل کرنے والے تھے، بڑا ہی کمال جسمانی صحت کے لحاظ سے ان میں پیدا ہوا تھا.ایک مثال دیتا ہوں.کسری کے مقابلے میں لڑنے والے مسلمان سارا دن تین ، چار بار تازہ دم سپاہیوں سے لڑائی لڑنے والے تھے.دو گھنٹے لڑ کے کسری کی سپاہ کی ایک صف پیچھے ہٹ جاتی تھی ، تازہ 863
خطاب فرمودہ 23اکتوبر 1981ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم دم آگے آجاتی تھی.مسلمان صبح سے شام تک لڑتے تھے اور راتوں کو اٹھ کے تہجد پڑھتے تھے.اگر جسمانی طاقت ان میں نہ ہوتی تو حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح ان کے منہ سے بھی یہ نکلتا کہ دل اور روح تو چاہتی ہے کہ ایسا کرو لیکن جسم روح اور دل کا ساتھ نہیں دیتا.مسلمانوں کی روح اور ان کے دل جو تھے ، جو وہ مطالبہ کر رہے تھے، ان کے جسم ان کا ساتھ دے رہے تھے.کافی لمبا عرصہ تک اس قسم کے جسم انہوں نے بنائے رکھے اپنے محنت کش، جفاکش، جھکتے ہی نہیں تھے.پتہ نہیں کس چیز کے بنے ہوئے تھے.ایک واقعہ میں نے پڑھا.جب نپولین ایک جگہ جنگ لڑ رہے تھے.ان کا کیمپ کوئی پچانوے میل محاذ جنگ سے پیچھے تھا.پہاڑی علاقہ تھا، بہت کٹھن راستے ، ان کو ایک دن بہت زبردست فتح حاصل ہوئی، محاذ پرلڑنے والے جرنیل نے تفصیلی رپورٹ لکھی اور صبحکو ایک جرنیل کو بلایا، اس کو کہا کہ پیر پورٹ فوری طور پر نپولین کے ہاتھ میں پہنچنی چاہیے، کیونکہ عظیم فتح ہمیں ہوئی ہے.اور یہ سامنے عرب گھوڑا ہے، اس پر سوار ہو جاؤ اور دوڑو.پہچانوے میل پہاڑی راستوں پر عرب گھوڑے کو دوڑا تا ہوا جب وہ نپولین کے کیمپ پہ پہنچا تو نیچے اترا اور جس افسر کی ذمہ داری تھی ، رپورٹ لینا، اس نے اس کے ہاتھ میں رپورٹ پکڑائی اور خود مر کے لر پڑا.اور عرب گھوڑا، جس کی نسل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی تربیت سے تربیت پائی تھی ، وہ اپنا پاؤں زمین پر مار رہا تھا کہ ابھی میں تھکا نہیں، مجھے اور چلاؤ.اتنا فرق.اسی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک عرب گھوڑی ایک سو ستر میل بغیر کھائے پیئے کے سرپٹ دوڑتی چلی گئی.اور یہ واقعہ ہے، کہانی نہیں.بھائی دس، بارہ سال کا اپنے بھائی کے سر پر سیب رکھ کے تیر سے اڑا دیتا تھا.اس وقت میں نشانے کی بات نہیں کر رہا.میں اس مہارت کے حصول کے لئے جو محنت اسے کرنی پڑی، اس کی بات کر رہا ہوں.سارا سارا دن وہ اس مہارت کو حاصل کرنے میں لگا تا تھا.اب آنے والے زمانہ میں اپنے بچوں کو سنبھالیں ، انصار اور خدام الاحمدیہ.اس کی عملاً کئی شکلیں ہوں گی.جتنی توفیق ملی، (ویسے تو مضمون لمبا ہے ) بتاؤں گا.دنیا میں سب سے زیادہ صحت مند جماعت احمدیہ کو ہونا چاہیے، اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں.جو موٹی موٹی باتیں ہیں صحت مند ہونے کے لئے وہ یہ ہیں کہ طیب غذا ہو.طیب غذا کا مطلب ہے کہ جو اچھی بھی ہو اور اس کے جسم سے مطابقت بھی کھاتی ہو.ہر غذا ہر آدمی کے لئے ٹھیک نہیں ، طیب نہیں.دوسرے یہ کہ متوازن غذا ہو.خالی آٹا کھانے سے صحت اچھی نہیں رہتی.خالی گوشت کھانے سے ت اچھی نہیں رہتی.خالی ترکاریاں کھانے سے صحت اچھی نہیں رہتی.خالی پھل کھانے سے صحت اچھی 864
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء نہیں رہتی.خالی دودھ پینے سے صحت اچھی نہیں رہتی.خالی اخروٹ اور بادام اور پستہ وغیرہ کھانے سے صحت اچھی نہیں رہتی.بلکہ اب تو بڑی تفصیل میں انسانی دماغ نے تحقیق کی اور بہت ساری شکلیں بنا کے صحیح توازن انسانی غذا میں قائم کر دیا.جس کے نتیجے میں انسان کی صحت بہت اچھی ہو جاتی ہے.اور تیسری چیز یہ کہ جو کھایا جائے ، اسے بچایا جائے.یعنی ورزشیں ایسی ہونی چاہئیں، جن سے غذا جزو بدن بن جائے.اور یہ ہا کی وغیرہ کی بات نہیں میں کہہ رہا بلکہ ہر احمدی، ہر عمر کا احمدی، ہر جنس کا مرد وزن احمدی جو ہے، وہ کھانا ہضم کرنے کے سامان پیدا کرے.جو مختلف ہیں.مثلاً میں نے (اب زیادہ باہر نہیں نکل سکتا تو گھر میں اپنے کمرے میں ہی ایسا سائیکل رکھا ہے، جو مجھے بتادیتا ہے کہ میں نے اتنے کلومیٹر سائیکل پر سفر کر لیا ہے.تو ورزش جنہوں نے کرنی ہو، انہوں نے اپنے لئے طریقے نکال لئے.صحت کے اچھے رکھنے کے لئے چوتھی چیز جو ہے، وہ اخلاقی بدیوں سے بچنا ہے.یہ نہایت ضروری ہے.جو شخص ذہنی آوارگی میں مبتلا ہو، اس کی صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی.جو شخص جسمانی بدیوں میں مبتلا ہو، اس کی صحت بھی اچھی نہیں رہتی.یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جو کسی سمجھدار آدمی سے چھپی ہوئی نہیں.پھر سب کچھ کرنے کے بعد ایک یہ چیز ہے، جو سب سے اہم ہے کہ دعا کے ذریعے اللہ جل جلالہ کی رحمت کو جذب کیا جائے.قرآن کریم نے بڑے حسین پیرایہ میں بتایا کہ صحتیں اچھی رکھو.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق، جن پر انہوں نے احسان کر کے ان کے ڈنگر کو پانی پلا دیا تھا اور لڑکی نے اپنے باپ کو کہا کہ جسے تو اجرت پہ رکھے ، سب سے اچھا وہ ہے، الْقَوِيُّ الْآمِينُ (القصص : 27) جوطاقتور ہو اور جسمانی طور پر بددیانتی نہ کرتا ہو.جس کی طاقت نہ ہوگی، وہ جسمانی بددیانتی کرے گا.مثلاً جانور چرانے کے لئے باہر گیا ہے، اتنی طاقت نہیں ہے کہ سارا دن جانوروں کے ساتھ پھرے.ایک درخت کے نیچے بیٹھ جائے گا، چاہے بھیڑ یا بھیڑوں کو کھا جائے.تو القوی ہو ، جو جسمانی کمزوری کے نتیجہ میں بددیانتی کا مرتکب نہیں ہوگا.اور الامین اخلاقی کمزوری کی وجہ سے وہ بد دیانتی کا مرتکب نہیں ہوگا.جو توی بھی ہوگا، دیانتدار ہوگا، اپنے جسم کی صحت کے لحاظ سے.اور امین بھی ہوگا ، اپنے اچھے اخلاق کے لحاظ سے، وہ دیانتدار ہو گا.جس میں دود یا نتداریاں پائی جائیں گی ، اس سے اچھا اور کون سا مز دور تمہیں مل سکتا ہے.865
خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ قیامت والے دن سب سے پہلا سوال خدا تعالیٰ بندے سے یہ کرے گا، میں نے تجھے بڑی اچھی صحت دی تو نے اس سے کیا کام لیا.دوسرا مطالبہ یہ ہے: ذہنی قوتوں کی نشو ونما کو کمال تک پہنچایا جائے.اب جو پڑھنے والے بچے ہیں، بڑا ز ہین بچہ ہو، جس بچے میں خواہ کتنا ہی ذہین ہو، ذہنی آوارگی پیدا ہو جائے ، وہ پڑھائی میں اچھا نہیں رہ سکتا.تو ذہنی قوتوں کی صحیح نشو ونما نہیں ہوگی.اس کے اندر کوئی بدی نہیں ہوگی.بہت سارے میں نے ایسے بچوں کو دیکھا ہے، کوئی بدی نہیں، کوئی بداخلاقی نہیں ہے، لیکن ذہنی آوارگی ہے.وقت ضائع کرنا، گپیں مارنا، دوست مل گئے ہیں، لطیفے سنائے جارہے ہیں اور پڑھائی کی طرف توجہ نہیں.یہ ذہنی آوارگی ہے.میں اس ذہنی آوارگی کی بات کر رہا ہوں، اس وقت.ذہنی قوتوں کی کامل نشو و نما کے لئے یہ ضروری ہے کہ ذہنی آوارگی سے بچا جائے.اور پڑھائی پر توجہ قائم رکھنے کی عادت ڈالی جائے.اور مجاہدہ کے ذریعے بتدریج ذہنی ورزشیں کرا کے زیادہ بوجھ ڈالا جائے ، ذہن کے اوپر.عمر کے لحاظ سے بھی جوں جوں عمر بڑھتی جائے اور جسم کی طاقت بڑھتی جائے زیادہ گھنٹے پڑھنے والا ہو.آکسفورڈ میں Balliol کالج کے طلبہ، جہاں میں پڑھ رہا تھا، جو اچھے ذہین لڑکے محنت کرنے والے تھے ، وہ کلاسز کے علاوہ اتوار سمیت ہفتے کے سات دن بارہ تیرہ گھنٹے روزانہ پڑھا کرتے تھے.اگر ہم نے اس نوجوان نسل کا مقابلہ کرنا ہے تو کم از کم اتنا پڑھیں.Plus ہماری دعا ئیں ، ان سے آگے نکل جائیں گے.لیکن اگر ہم ناشکری کرتے ہوئے خدا کی ، ان سے کم پڑھیں اور دعا بھی نہ کریں تو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن نہ کر سکنے کا زمانہ گذر چکا.اب میں بتارہا ہوں آپ کو ، اب ہمیں کرنا پڑے گا مجاہدہ، ذہنی ورزش زیادہ بوجھ ڈالتے چلے جانا.تیسرے یہ کہ چوکس اور بیدار رہنا.اس کی بھی عادت ہوتی ہے.دو آدمی گزرتے ہیں ایک راستے پر.ایک شخص جو چوکس اور بیدار ہے، سوچیزیں اس کی نظر پکڑتی ہے.اور ایک دوسرا شخص ہے، اس سے پوچھا جائے تو وہ ایک، دو سے زیادہ بتا ہی نہیں سکتا.مشاہدہ کی عادت نہیں.میں مثلاً یورپ میں پھرتا ہوں، میں آدھا تجربہ وہاں اپنی آنکھ سے حاصل کر لیتا ہوں.ان کے درخت ، درختوں کی عمر، ان کے فاصلے، مجھے کسی سے پوچھنے نہیں پڑتے.موٹر گزر رہی ہوتی ہے، میں اپنے اندازے لگاتا چلا جاتا ہوں.تو یہ صرف میرے لئے دروازہ نہیں کھلا.ہم میں سے ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے چوکس اور بیدار رہ کر زندگی گذارنے کا دروازہ کھلا رکھا ہے.866
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم چوتھے : تیز نظر خطاب فرمودہ 23اکتوبر 1981ء یعنی اتنی تیز کہ جو دوسری نظر دس سیکنڈ میں اس چیز کو Grasp کرتی ہے، پکڑتی ہے، جزو د ماغ بناتی ہے، اس کے بیسویں حصے میں آدھے سیکنڈ میں وہی چیز اس کے دماغ کا جزو بن جاتی ہے.جس کا مطلب ہے کہ مشاہدہ کی عادت ڈالنا اور اس عادت کی نشو و نما کو بھی کمال تک پہنچانا.پانچویں یہ دہنی قوتوں کی نشو و نما کے لئے جو چیزیں چاہئیں ، وہ میں گنا رہا ہوں.پانچویں چیز یہ کہ اس کا ئنات میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے غیر محدود تعداد میں بکھرے پڑے ہیں.اس لئے ہمیں اپنے اندر یہ عادت پیدا کرنی چاہیے کہ ہم صفات باری کے جلووں سے پیار کریں اور ان کے مطالعہ سے فطری اور ذہنی لذت محسوس کریں.بڑی عجیب ہے، یہ لذت.مثلاً بارش ہوئی ، موسم بدل رہا ہے.کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر صبح کا ناشتہ کرتا ہوں.سامنے دیکھتے ہیں میں بھی ، منصورہ بیگم بھی کہ درختوں کی شکل ہی بدلی ہوئی ہے.ان کے اوپر سبزہ، خوبصورتی ، جوانی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اپنی اس وقت کی زندگی سے لذت محسوس کر رہے ہیں.تو صفات باری سے پیار کرنا، ذہنی قوتوں کی نشو و نما کے لئے ضروری ہے.اور صفات باری کے جلووں کے مطالعہ سے فطری ذہنی (میں نے جان کے فطری ذہنی“ کہا ہے کہ فطرت میں تو ہے.ہمیں اس کو ذہنی بھی بنانا پڑے گا.( یعنی کا نشس مائنڈ Conscious Mind) میں اپنے لانا پڑے گا ) ذہنی لذت محسوس کرنا.یہ جو صفات باری کے جلوے ہیں، یہ بنیادی طور پر دو قسموں میں، دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں.وہ جلوے، جن کے نتیجے میں ساری دنیا کے علوم اور سائنسز (Sciences) نکلیں.اور وہ جلوے نمبر 2، جو سارے انسانوں کی ہدایت کا سر چشمہ ہیں.قرآن کریم کی آیات.ہماری زندگی کے ہر پہلو کے متعلق ہمیں ہدایات دے دی ہیں.اور ہم سے وعدہ ہے، ہمیں خدا نے طاقت دی ہمیں خدا نے سمجھ دی ہمیں خدا نے بشارتیں دیں اور ان بشارتوں میں سے ایک یہ ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے، جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا.اور حجت اور برہان کی روسے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا“.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66) 867
خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء پھر آپ فرماتے ہیں:.تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے“.تجلیات الہیہ صفحہ 17 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409) ہمیں یہ یادرکھنا چاہیے کہ جب تک ہم تمام مہذب قوموں کو ( یہ جو دنیا کی مہذب قو میں ہیں نا چاند تک پہنچ گئیں.دوسرے ستاروں کی تصویریں یہاں لا رہی ہیں اور بڑا کچھ انہوں نے صفات باری کے جلووں میں سے علم حاصل کیا ) جب تک ہم علم کے میدان میں ان کو شکست نہیں دیتے، ہم کو غالب نہیں کر سکتے.اس واسطے ضروری ہے کہ ہر احمدی کا ذہن کامل نشو و نما حاصل کرے.کیونکہ اتنی ذمہ داریاں ہیں، ہم پر.اب مثلاً ایک کروڑ ہے، احمدی.پتہ نہیں کتنی آبادی ہے؟ تو دس دس ہیں ہیں، سوسو مختلف دماغ تمارے سامنے رکھے گئے ، ان کو پڑھاؤ سبق اسلام کے تمہیں مشکل پڑ جائے گی ، اگر ابھی سے اس سامنے ان کو کے پڑ گی، اگر اچھی.کے لئے تیاری نہ کی.اور تیسر امطالبہ جو ہم سے یہ حالات کر رہے ہیں کہ اخلاقی استعدادوں کی نشو نما و کمال تک پہنچائیں.اخلاقی استعدادوں کی نشو ونما کا اور ان کے کمال تک پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے اخلاق ہیں.قرآن کریم میں اس کی صفات بیان ہوئی ہیں، وہ ہماری زندگی میں، ہمارے افعال اور اعمال میں پیدا ہو جائیں.مثلاً خدا تعالیٰ رحم کرنے والا ہے، عفو ہے اس کا.جس طرح وہ عفو کرتا ہے، ویسے بنو.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر میں ہر ایک کو اس کے گناہ کے نتیجے میں پکڑنا چاہوں تو دنیا کی آبادی ختم ہو جائے.بڑا معاف کرتا ہے، وہ.اور یہ جو اس نے کہا کہ (میرے خیال میں ایک ہزار میں سے نو سوننانوے ایسے گناہ ہوں گے ) میں اس دنیا میں تمہیں سزا نہیں دیتا.جب دوسری دنیا میں جاؤ گے تو میری رحمت کے دو جلوے ظاہر ہوں گے، انسانوں پر.ان کی روحوں پر نئے جسم جو ان کو ملیں گے، ان پر.ایک یہ کہ جو جنت کے مستحق ہوں گے میری نگاہ میں ، وہ جنت میں بھیجے جائیں گے.اور ہر شام ان کی اس دن کی صبح سے مختلف اور ہر صبح ان کی پہلی شام سے مختلف.(چوبیس گھنٹے کا اگر دن ہم سمجھیں.پتہ نہیں وہ کیا دن ہوگا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے.لیکن تمہیں سمجھانے کے لئے میں یہ اگر فرض کرلوں کہ وہ چوبیس گھنٹے کا دن ہے ) تو بارہ گھنٹے کے اندر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت ان کی زندگیوں میں ایک نہایت 868
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء حسین اور پرلذت انقلاب عظیم بپا کر دے گی اور جن کو وہ اپنی رحمت کے نتیجہ میں یہاں سزا نہیں دیتا اور دوزخ میں وہ چلے گئے ، وہ ان کی اصلاح کا سامان کرتا ہے، وہاں.اس بات کو قرآن کریم نے کھول کے بیان کیا ہے.مگر لوگ سمجھتے نہیں.اور انسان جلدی تیار ہو جاتا ہے، اس کو جہنم میں پہنچانے کے لئے.میرا اور تیرا کام ہی نہیں ہے، کسی کو جہنم میں پہنچانا.خدا نے کہا ہے کہ میں اس لئے سزا نہیں دیتا تا کہ ان کو مہلت ملے کہ وہ تو بہ اور استغفار کریں.اور میں ان کو معاف کروں.رحمت نہیں ہے یہ.کافر کے متعلق یہ الفاظ بولے، فاسق کے متعلق یہ الفاظ بولے، فاجر کے متعلق یہ الفاظ بولے، قرآن کریم میں منافق کے متعلق یہ الفاظ بولے اور مرتد کے متعلق یہ الفاظ بولے.اور مرتد کے جو قرآن کریم نے معنی کیے تھے، آج دنیا ان معنوں کو بھی بھول گئی.اس بحث میں ، میں اس وقت پڑنا نہیں چاہتا.تو یہاں سزا نہ دینا، اس لئے ہے کہ شاید توبہ کرلے.وہاں جہنم میں بھیجنا، اس لئے ہے کہ رحمت نازل ہو اور جتنی جتنی وہ اصلاح کرتا جائے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب ہوتا جائے.ایک دن مجھے خیال آیا کہ قرآن کریم نے فرمایا:.رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ (الاعراف :157) قرآن کریم نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں شرک کو معاف نہیں کروں گا یہ کیا؟ دونوں میں جوڑ کیسے ، میرا دماغ جوڑے؟ تو خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھایا کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ پوری سزا دوں گا ، مشرک کو.یہ کہا ہے، معاف نہیں کروں گا.یعنی سزا کچھ نہ کچھ ضرور دوں گا.غیر مشرک کو پوری کی پوری معافی بھی مل سکتی ہے.یعنی کسی ایک گناہ کی بھی سزا نہ ملے یا کسی ایک گناہ کے ایک ہزارویں حصے کی بھی سزا نہیں دوں گا.پوری معافی مل جائے گی.لیکن مشرک کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوگا.لیکن رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ ایک مشرک کو جو مستحق تھا کہ ایک کروڑ سال وہ جہنم میں گزارے، اسے ایک سال جہنم میں رکھ کر سزا دے دی اور پھر معاف کر دیا.اللہ بڑا رحم کرنے والا ہے.لیکن اس کی رحمتوں کو انسانی دماغ بعض دفعہ محدود کرنا شروع کر دیتا ہے.اس واسطے مجھ سے تو کوئی پوچھے کہ کافر جہنم میں جائے گا؟ میں کہوں گا، مجھے کیا پتہ جائے گا یا نہیں؟ میرا کام ہی نہیں یہ.میرا یہ کام ہے کہ اس کو سمجھاؤں.اگر وہ کفر پہ مرے تو پھر میرا تو اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا.میں اس دنیا میں ہوں، وہ چلا گیا یہاں سے.پھر 869
خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ (المائدة : 19) جس کو چاہے گا، معافی دے دے گا.خالق ہے، مالک ہے، کسی کی گرفت اس پر نہیں.جس کو چاہیے گا، معاف کر دے گا.جس کو چاہے گا، سزا دے دے گا.لیکن اس کے نتیجے میں ہمیں بے فکرے نہیں بن جانا چاہیے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک سیکنڈ کا جو قبر اور غضب ہے ، وہ بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا.ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے اپنی زندگی میں پیدا کرو.اپنے اعمال میں، اپنی صفات میں.اور دوسرے اس کے لئے یہ ضروری ہے، اخلاقی استعدادوں کی کامل نشو ونما کے لئے کہ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:.كان خلقه القرآن (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن کریم کی کامل اتباع تھی.آپ بھی قرآن کریم کی وحی کی کامل اتباع کر کے نبی کریم کے اس اسوہ پر عمل کرتے ہوئے کہ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (یونس: 16) جو مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے، میں اس کی اتباع کرتا ہوں.قرآن کریم نے جو اخلاق پیدا کئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں، ہم میں وہ نہیں پیدا ہو سکتے.کیونکہ ہماری استعداداتی نہیں ہے.لیکن ہماری استعداد اس اسوہ پر، ان کے نقش قدم پر چل کے اپنے کمال کو پہنچ سکتی ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی استعداد کے مطابق اپنے کمال کو پہنچے.ہم میں سے ہر ایک اپنی استعداد کے مطابق اپنے کمال کو پہنچ سکتا ہے.اس کے لئے مظہر بنے کی ضرورت ہے.کیونکہ فرمایا.لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعہ: 80) محض ظاہری اتباع وحی قرآنی کی کافی نہیں.پاکیزہ راہوں کو اختیار کرنا اور عاجزانہ بندھنوں میں خود کو باندھ کر فنا کا جبہ اوڑھ لینا، یہ ضروری ہے.قرآنی تعلیم کے متعلق آپ نے بہت کچھ سنا.یہ جو تخلقوا باخلاق الله 870
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء ہے، ( میں اخلاق کی اور پاکیزگی کی بات کر رہا ہوں.) اس کے متعلق میں آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں.قرآن ہماری جان ہے.قرآنی تعلیم کو ہماری روح میں اسی طرح گردش کرنا چاہیے، جس طرح ہمارے جسم میں ہمارا خون گردش کر رہا ہے.اس کے بغیر ہم اچھے اخلاق ،تخلقوا باخلاق اللہ اور خلقہ القرآن کے مطابق اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے.چوتھا مطالبہ ہم سے یہ کیا گیا کہ روحانی صلاحیتوں کی نشو ونما کو کمال تک پہنچانا.روحانی صلاحیتوں کی نشو ونما اپنے کمال کو تب پہنچتی ہے، جب بندہ کا اپنے رب سے زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے.بندہ ایک عاجز بندہ ہے اور ہمارا رب شہنشاہوں کا بھی شہنشاہ.اس رفعت ، اس بلندی تک کوئی انسان پہنچ نہیں سکتا.یہ اپنی جگہ درست لیکن اپنی مہربانی سے اس نے یہ انتظام کیا کہ اس کا یہ عاجز بندہ اس کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کر سکتا ہے.جس کے نتیجے میں وہ ہر آن اس کے فضلوں کو حاصل کر سکتا اور ہر لحظہ رحمتیں اس پر نازل ہو سکتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی.جب یہ زندہ تعلق پیدا ہو جائے تو ایک نئی زندگی ملتی ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں اعلان کیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہ محمد کی آواز پر لبیک کہو کہ وہ اس لئے تمہیں بلا رہا ہے کہ وہ تمہیں زندہ کرے.جو خدا میں فانی ہو جاتا ہے، وہ نئی زندگی پاتا ہے.اور اس نئی زندگی کی جو علامتیں قرآن کریم میں مذکور ہوئی ہیں، ان میں سے چند ایک میں بتا دیتا ہوں:.قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ہمحبت میں مست ہو کر فانی ہو جانے والے انسان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، فرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں.دوسرے یہ کہ فرشتے اس سے یا ان سے ہم کلام ہوتے ہیں.تیسرے یہ کہ فرشتے ان کو جنت کی بشارت دیتے ہیں.چوتھے یہ کہ فرشتوں کا ان کے پاس آنا بطور دوست کے ہوتا ہے.بڑی مہربانی.فرشتوں کو کہے کہ میں نے تمہیں ان کا دوست بنا دیا.جس طرح ہجرت کے بعد مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنا دیا تھا.خدا تعالیٰ کہتا ہے:.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ إِلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ( حم السجدة : 32-31) 871
خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اس دنیا میں ہم تمہارے دوست ہیں اور گونگے دوست نہیں ہیں، وہ.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ، وہ ہم کلام ہوتے ہیں.اور یہیں ہماری دوستی ختم نہیں ہوگی.بلکہ مرنے کے بعد بھی ہم تمہارے دوست ہیں.جو نئی زندگی پاتا ہے ، اس کے متعلق یہ اعلان ہوا جو بڑاز بر دست وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ ( آل عمران : 140) ہر شعبہ زندگی میں (اچھی طرح سنیں) ہر شعبہ زندگی میں بالا دستی تمہاری ہوگی ، اگر تمہار ا زندہ تعلق زندہ خدا سے ہوگا.ہر شعبہ زندگی میں بالا دستی تمہاری ہوگی.ایک شرط ہے، ان کنتم مـو مـنـيـن ایمان کے تقاضوں کو پورے کرتے چلے جاؤ اور ہر شعبہ زندگی میں بالا دستی کو حاصل کرتے چلے جاؤ.حضرت اقدس فرماتے ہیں:....خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے.سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہوگا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا“.(اشتہار 04 مارچ 1889ء) مغربی اقوام کو ہم شکست نہیں دے سکتے ، جب تک صحت کے میدان میں ہم انہیں شکست نہ دیں.یعنی صحت کے لحاظ سے، جسمانی صحت کے لحاظ سے ہم ان سے آگے نکلنے والے ہوں، زیادہ جانفشانی سے کام کرنے والے ہوں، زیادہ ہمت رکھنے والے ہوں، عزم پختہ رکھنے والے ہوں، تھکنے والے نہ ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا لڑائیوں میں صحابہ نے اور تابعین نے یہ ثابت کیا.مغربی اقوام و دیگر غیر مسلم اقوام کو جب تک ہم علم کے میدان میں شکست نہ دیں گے ، شکست نہیں دے سکتے.اتنا آگے نکل گئے ، ایک حصہ علم میں.جو روحانی اخلاقی علم ہے، ان میں نہیں.یہ درست ہے.لیکن جو دوسرے علوم ہیں ، ان میں تو وہ آگے نکل گئے.اور جیسا کہ میں نے بتایا، وہ بھی صفات باری تعالیٰ کے جلوے ہیں، جن کا علم انہوں نے حاصل کیا.تو جب تک علم کے میدان میں ان اقوام کو شکست نہیں دیں گے، اسلام غالب نہیں آئے گا.اور جب تک اخلاقی اعجاز دکھا کر اخلاق کے میدان میں انہیں شکست نہیں دیں گے، 872
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1981ء اسلام ان خطہ ہائے ارض میں غالب نہیں آئے گا.اور جب تک نشان اور معجزہ اور قبولیت دعا کے نتیجہ میں انہیں باور نہیں کرا دیتے کہ روحانیت ہے اور اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے، اسلام کو غالب نہیں کر سکتے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سوٹے نے فرعون کی فرعونیت کے اثر دہا کا سر کچلا.اس وقت جماعت احمدیہ کی عاجزی کی پہلی سی کمزور چھڑی کے ساتھ خدا تعالیٰ یہ معجزہ دکھانا چاہتا ہے کہ ان تمام طاقتور قوموں کا سر کچلا جائے اور ان کا غرور توڑ دیا جائے اور ان کا تکبر مٹی میں ملا دیا جائے..السلام عليكم ورحمة الله وبركاته “.( مطبوعه روزنامه الفضل 29 دسمبر 1981 ء جلسہ سالانہ نمبر ) 873
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم تعلیمی منصو بہ جاری کرنے کا مقصد خلاصہ خطاب فرمودہ 26اکتوبر 1981ء خطاب فرمودہ 26 اکتوبر 1981 ء بر موقع سالانہ کنونشن احمد یہ سٹو ڈنٹس ایسوسی ایشن حضور نے فرمایا:.پہلی بات اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا ہے.جب سے تعلیمی منصوبہ شروع کیا گیا ہے، یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ علم کے میدان میں اللہ تعالیٰ کی پہلے سے زیادہ برکتیں نازل ہورہی ہیں.27 طلباء وطالبات تمغوں کے مستحق قرار پاچکے ہیں.اور یہ صرف پاکستان کی تصویر ہے“.حضور نے فرمایا کہ اگر انسان اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنے تو اس کی برکتیں بڑھتی ہی جاتی ہیں.اور چاہے تو وہ ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی کردئے.حضور نے اس یقین کا اظہار فرمایا کہ انشاء اللہ اگلے دس سالوں میں اور کئی طالب علم ہوں گے، جو تمغوں کے مستحق قرار پائیں گے.اب تک جو تمنے دیئے جاچکے ہیں، ان میں اکثریت اول آنے والوں کی اور دوسرے نمبر پر آنے والوں کی ہے.اور چند ایک وہ ہیں ، جنہوں نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا ہے.حضور نے فرمایا کہ جب یہ منصوبہ جاری کیا گیا تھا تو ذہن میں صرف یہ نہیں تھا کہ احمدی نوجوان اچھے طالب علم بنیں.بلکہ یہ تھا کہ ایسے اچھے طالب علم بنیں، جو سلسلہ کی خدمت کرنے والے ہوں.ڈاکٹر ز ، فزیشن اور سرجن ایسے اچھے نکلیں کہ ہم جو مظلوم اور پسماندہ دنیا کہ خدمت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یعنی افریقی ممالک کی ، وہ وہاں جائیں اور جا کر ان کی خدمت کریں.حضور نے فرمایا کہ نصرت جہاں کا جو پروگرام تھا ، اس میں منصوبہ یہ تھا کہ 16 کلینک کھولے جائیں گے.اب عملاً اس کی شکل یوں ہے کہ اس سے زیادہ ہسپتال قائم ہوتے چلے جارہے ہیں.875
خلاصہ خطاب فرموده 26 اکتوبر 198ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ جیسا میں نے اعلان کیا تھا، یہ وقف تین سال کا یا چھ سال کا وقف ہوگا.ساری عمر کا نہیں ہوگا.لیکن یہ اپنے وعدے کے مطابق پورا ہونا چاہیے.یعنی اگر چھ سال کے وقف کا وعدہ کیا ہے تو اسے پانچ سال کے بعد ختم نہ کر دیں.876 (مطبوعه روزنامه افضل 09 نومبر 1981ء)
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرموده 30 اکتوبر 198ء جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بندوں پرمشتمل ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 30اکتوبر 1981ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اس میں شک نہیں کہ جماعت احمدیہ میں کچھ لوگ ناشکرے بھی ہوتے ہیں، تربیت کے محتاج ، جن کی تربیت کی طرف توجہ دی جاتی ہے، ہمیشہ.اور اپنی اصلاح کر کے وہ شکر گزار بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں.لیکن بحیثیت جماعت، یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندوں پرمشتمل ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم :08) اگر ان نعماء کا، جو میری طرف سے تم پر نازل ہوں، تم شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ نعمتوں کا تمہیں وارث بنائے گا.اور پہلے سے زیادہ جن نعمتوں کا وہ وارث بناتا ہے، ان میں سے ایک نعمت پہلے سے زیادہ اس کے حضور قربانی پیش کرنے کی توفیق ہے.اور پھر زیادہ قربانی کے نتیجہ میں، جو شکر کے جذبات کے ساتھ اس کے حضور پیش کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پہلے سے زیادہ برسنے لگ جاتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا:.وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرُّزِقِينَ (40:-) اور جو کچھ بھی تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو، وہ اس کا نتیجہ ضرور نکالے گا.اور دوسری جگہ فرمایا کہ یہ نتیجہ اس شکل میں بھی ظاہر ہوگا کہ دنیوی اموال میں تمہارے برکت ڈالی جائے گی اور تمہیں زیادہ توفیق دی جائے گی ، خرچ کرنے کی.وہ سب رزق دینے والوں میں سے اچھا اور کامل ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور شکر ادا کرتے ہوئے اپنے اموال کو خرچ کرنے کی ایک مثال آج میں یہاں بیان کروں گا.اور وہ تحریک جدید کی مد میں جو قربانی دینے والے ہیں، ان کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کا سلوک ہے، وہ ہمارے سامنے ایک عظیم حقیقت بیان کرتا ہے.877
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1981ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم آج میں تحریک جدید کے اڑتالیسویں ، اڑتیسویں اور ستر ہوئیں ، تین دفتر ہیں، ان کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.تحریک جدید نے جو قربانیاں یا تحریک جدید میں جماعت نے جو قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی ، اس کی شکل یہ بنتی ہے، میں نے اپنی خلافت کے سال سے یہ گراف ان سے بنوایا ہے.ان اٹھارہ سال میں چار لاکھ ، پینتیس ہزار روپیہ تحریک جدید کی مد میں وصول ہوا تھا ، 65-1964ء میں چندہ جات تحریک جدید اندرون پاکستان.اور 82-1981ء کا بجٹ اٹھارہ لاکھ ، چالیس ہزار ہے.جس کا مطلب ہے کہ ساڑھے چار سو فیصد یعنی اتنے گنا زیادہ یہ ہو گیا، اس عرصے میں.لیکن تحریک جدید کی جو آمد ہے، وہ اس ملک میں ہمارے پاکستان میں اتنی خرچ نہیں ہوتی ، جتنا اس کا تعلق باہر کی جماعتوں سے ہے.یہاں ہمارے خرچ جو ہیں، یہاں کی آمد اس کا جو خرچ ہے، وہ مبلغین کا تیار کرنا، ان کے الاؤنسز دینا، کتابیں شائع کرنا، دفتر چلانا وغیرہ وغیرہ.کسی وقت تحریک جدید کو جب سہولت تھی فارن ایکیچینچ کی اور حکومت کچھ رقم ( زیادہ نہیں لیکن باہر بھیجنے کی اجازت دیتی تھی ، اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں کچھ حصہ ہماری جدو جہد اور سعی اور کوشش کا بھی شامل ہو جاتا تھا لیکن اب نہیں ہوتا.اب سارے کا سارا جو تحریک جدید کی ذمہ داریاں پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں، ان پر خرچ ہوتا ہے.اور اس ضرورت کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ نے اس میں زیادتی کی ہے.جیسا کہ میں بتاؤں گا.اس زیادتی کے مقابلے میں بیرونی ممالک کی زیادتی بہت زیادہ ہوگئی ہے.بیرونی ممالک میں ساری دنیا میں جماعت جو پھیلی، 1964-65ء میں اکتیس لاکھ روپیہ آمد تھی.امریکہ، یورپ کی جماعتیں ، افریقہ کی جماعتیں، کچھ نئی پیدا ہوئیں تھیں ، کچھ پرانی تھیں.کچھ کم تربیت یافتہ تھیں، کچھ زیادہ تربیت یافتہ تھیں.بہر حال ساری دنیا کی احمدی جماعتیں تحریک جدید میں اکتیس لاکھ روپیہ دیتی تھیں.اکتیس لاکھ کا بجٹ تھا.کچھ چندوں کے علاوہ بھی مثلاً جو سکول ہیں، ان کی فیسوں کی آمد اس طرح شامل ہو جاتی ہے تھوڑی سی.اور اٹھارہ سال میں قربانی کی یہ رقم اکتیس لاکھ سے بڑھ کر چار کروڑ ، اٹھارہ لاکھ بن گئی.میرا خدام الاحمدیہ کے زمانہ میں بھی یہ تجربہ تھا کہ جتنی ضرورت ، جس مہینے میں ہمیں پڑی، اتنی ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں آمد دے دی، رقم کا انتظام کر دیا.یہ جو چار کروڑ ، اٹھارہ لاکھ، اکتیس لاکھ کا بن جانا ہمیں دو چیز میں بتاتا ہے.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرمایا اور وہ نتائج ، جو خدا تعالیٰ چاہتا تھا، ہماری کوششوں سے نکلیں ، وہ نکالے.میرا اور آپ کا یہ کام نہیں کہ لوگوں کے دل خدا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتیں.دلوں کے جیتنے کے سامان صرف اللہ تعالی پیدا کرتا ہے.کوئی اور ہستی یہ سامان 878
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1981ء پیدا نہیں کر سکتی.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمثیلی زبان میں ہمیں یہ سمجھایا کہ انسان کا دل خدا تعالیٰ کی انگلیوں میں سمجھو، اس طرح پکڑا ہوا ہے.وہ یوں کر دے تو اس کا زاویہ اور بن جائے گا اور یوں کر دے تو اس کا زاویہ اور بن جائے گا.اس کے لئے تو کوئی مشکل نہیں ہے.تو ایک تو جو یہاں کا چار، ساڑھے چار لاکھ روپیہ، باہر کی جماعتوں کا اکتیس لاکھ روپیہ تھا، اتنی برکت ڈالی، اس میں اللہ تعالیٰ نے اور اتنا اثر پیدا کیا، ان کی کوشش میں کہ ان کی تعداد کہیں سے کہیں پہنچ گئی.یہ جوگراف بنتا ہے، تعداد کے لحاظ سے، یہ خطے خطے میں مختلف ہے.مثلاً غانا کا اندازہ یہ ہے کہ کم و پیش پانچ لاکھ عیسائی اور بت پرست اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس حقیر اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار نے والی لیکن خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والی جماعت کے ذریعے کلمہ پڑھ کے مسلمان ہوئے اور دوسرے یہ بتاتی ہیں، یہ جور قوم ہیں، غیر ممالک کی چار کروڑ ، اٹھارہ لاکھ کہ وہ لوگ ، جو حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے مقام کو پہچانتے نہیں اور جس مقصد کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے، اس کا اندازہ نہیں کر پاتے.مقصد آپ کا یہ نہیں تھا کہ اپنی عزت دنیا میں قائم کریں.مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید ہر دل میں بٹھائی جائے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہر گھر پر گاڑا جائے.لیکن پوری طرح ان کو ابھی سمجھ نہیں آئی تھی.احمدی ہو گئے تھے لیکن پوری طرح سمجھ نہیں آتی تھی.لیکن اب آہستہ آہستہ تربیت کے نتیجہ میں وہ اس عظیم جدو جہد اور مجاہدہ کو سمجھنے لگے ہیں اور اس کے لئے قربانیاں دینی شروع کر دی ہیں.وقت کی بھی قربانی اور ہر قسم کی قربانی، جو انسان دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور مال کی بھی قربانی.یہ کیوں ہوا؟ خدا نے تو کہا تھا:.لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ اگر تم ناشکرے ہو گے تو میں زیادتی نہیں کروں گا.یہاں ہمیں زیادتی نظر آتی ہے.معلوم ہوا کہ جماعت احمدیہ ( یہ واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ جماعت احمدیہ ) اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندوں کی جماعت ہے.دوسرے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ چونکہ وہ نہایت عاجزی کے ساتھ خدا کے حضور پیش کرتے اور خدا تعالیٰ کی نعمتیں جتنی زیادہ ہوتی جاتی ہیں، ان پر اتنا ہی ان کا سر جو ہے، وہ زیادہ جھکتا جاتا ہے، زمین کی طرف.اس واسطے لا زید نکم کے مطابق ان کے اموال میں بھی برکت اور ان کے اخلاص میں بھی برکت ڈالی گئی.اور ان کی قربانی کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کوشش کے ثمرات جو پیدا ہونے چاہئیں تھے، وہ پیدا کرنے شروع کر دیئے.ایک انقلاب عظیم بپا ہونا شروع ہو گیا.879
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1981ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم صحیح ہے، بہت سی آنکھیں ابھی نہیں دیکھتیں اسے.لیکن یہ جو فرق ہیں، اس اٹھارہ سالہ دور میں.(اٹھارہ سالہ زمانہ کوئی بڑا زمانہ نہیں.اس میں دیکھو غیر ممالک کو اللہ تعالیٰ نے اکتیس لاکھ سے اٹھا کر چار کروڑ، اٹھارہ لاکھ پر پہنچا دیا.بڑا فضل ہے خدا کا.دنیا میں اربوں روپے کے مالک ہیں، جو پانچ روپے بھی خدا کے لئے دینے کے لئے تیار نہیں.اور اب ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے.اس کے اندروہ جو ابھی تحریک ہوئی تھی خدام الاحمدیہ کی طرف سے مساجد فنڈ کی ، وہ رقوم شامل نہیں ہیں، اس کے اندر صد سالہ کی رقوم شامل نہیں ہیں، اس کے اندر ( یہ جو نگر Figure ہے) چار کڑور ، اٹھارہ لاکھ کی.جو برکت اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں کی سکیم میں ڈالی تھی ، وہ شامل نہیں ہے.اس کے اندر وہ جو میں نے بتایا تھا، بڑا لطف آیاد ہراؤں گا پھر.بڑی مزے دار چیز ہے.پانچ سات سال ہوئے کیلگری، شمال مغربی کینیڈا میں ایک شہر ہے.وہاں ایک چھوٹی سی جماعت تھی.انہوں نے لکھا کہ ایک گھر ہمیں مل رہا ہے ،مشن ہاؤس کے لئے قریباً ستر ہزارڈالر کا.کچھ رقم ہم نے اپنے چندوں سے اکٹھی کی ہے، اس کے لئے ، کچھ مدد کرے، ہمارا مرکز.تو ہم وہ خرید لیں ، تربیت کے لئے مل بیٹھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کوئی جماعت کا مرکز ہو.ان کو اجازت دے دی.اور وہیں ان کے پاس جو ایسے چندوں کی رقوم تھیں، جو وہ خود خرچ نہیں کر سکتے تھے، ان میں سے خرچ کرنے کی اس مد میں اجازت دے دی گئی.یہ چند سال پہلے کی بات ہے.اب انہوں نے خط لکھا مجھے چند ہفتے ہوئے کہ کیلگری سے سات میل کے فاصلہ پر یہ جو عمارت خریدی گئی ، یہ بمشکل ایک کنال جگہ ہوگی.اور چھوٹے چھوٹے تین، چار کمرے.میں پچھلے سال گیا ہوں تو وہاں میں نے نماز بھی پڑھی.) چالیس ایکٹر زمین جس میں ایک مکان بنا ہوا ہے، جو اتنا بڑا ہے کہ آپ اور سارا قافلہ بھی وہاں ٹھہر جائے تو آسانی سے ٹھہر سکتا ہے.جو مشن ہاؤس پہلا ہے، اس سے کہیں بڑا.اور وہ ہمیں مل رہا ہے، تین لاکھ ، پچاس ہزار ڈالر کا.( کینیڈین ڈالر) اور رقم کی ہمیں فکر نہیں.کیونکہ جو ستر ہزار میں مشن ہاؤس خریدا تھا، وہ ہمیں امید ہے کہ چار لاکھ اور میں ہزار یا تمیں ہزار ڈالر (کینیڈین ڈالر) میں بک جائے گا.تو میں نے سوچا کہ خدا نے جو ہم پر احسان کیا اور پیار اس طرح کیا کہ جو تم لوگوں نے مشن ہاؤس خریدنے کے لئے ستر ہزار کی رقم خرچ کی تھی، یہ پکڑ اپنی رقم.اور وہ جو ساڑھے تین لاکھ ڈالر کا مکان مل رہا ہے، اس میں ایک دھیلہ بھی کسی جماعت کے فرد کا حصہ نہیں ہے.وہ سب خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت نے اس کا سامان پیدا کیا.وہ بھی اس میں شامل نہیں.880
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1981ء درخت جب لگایا جاتا ہے، کچھ عرصہ کے بعد اسے پھل لگتا ہے.جس درخت نے بہت لمبا عرصہ پھل دینا ہو، اس درخت کو پھل بھی کافی دیر بعد لگتا ہے.مثلا تخمی آم ہے، اس کی عمر بہت سے دوسرے درختوں سے زیادہ ہے.تو اس کو پھل بھی آٹھ ، دس سال کے بعد لگتا ہے.بعض ایسے درخت ہیں، جو کئی سو سال پھل دیتے رہتے ہیں.لیکن ان کو پھل آتا ہے، ہیں، پچیس سال کے بعد.تو جس جماعت نے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درخت وجود نے ساری دنیا کے لئے پھل کا انتظام کرنا تھا، قیامت تک کے لئے ، ایک وقت درکار تھا، اس کی پرورش کرنے کا اور اس کی تربیت کرنے کا ، اس کی Pruning کرنے کا، اس کی دیکھ بھال کرنے کا، وقت پر اس کو پانی دینے کا.اور اب اس کو پھل لگنا شروع ہو گیا.لیکن ایسے درخت شروع میں تھوڑا پھل دیتے ہیں، پھر زیادہ پھل دینے لگ جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی برکتوں سے نوازا ہے اور ہم چونکہ اس کے شکر گزار بندے ہیں ، شکرانہ کے طور پر میں جو ٹارگٹ ہے، وہ اٹھارہ لاکھ سے بیس لاکھ کر دیتا ہوں.اور مجھے یقین ہے کہ جماعت اسے پورا کر جائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.یہ پاکستان کی جماعت کا ٹارگٹ ہے.اور باہر کی جماعتوں کا تو ٹارگٹ ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ وہ چھلانگیں مارتے ہوئے خود ہی آگے بڑھ رہے ہیں.اور میر اخیال ہے کہ اگر بعض ایسی جگہیں ہیں ، علاقے کہ جن کے متعلق میرے علم میں ہے کہ اگر ان کی تربیت کر دی جائے تو یہ وہ علاقے جو ابھی ست ہیں، چار کروڑ سے زیادہ وہ تحریک کو دینا شروع کر دیں گے، انشاء اللہ.بہر حال ایک تو ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانہ کے طور پر اس سال کے بجٹ میں دولاکھ روپیہ زیادہ دینا ہے.دوسرے ہم نے (اور وہ بڑی اہم بات ہے ) نہایت عاجزی اور تضرع کے ساتھ اور حقیقی توحید پر قائم ہوتے ہوئے یہ دعائیں کرنی ہیں کہ اے خدا! ہم سے ہمیشہ ہی پیار کرتارہ اور ہمیں شکر گزار بندہ بنائے رکھ.ہمیں دعاؤں کی توفیق عطا کر اور ہماری دعاؤں کو قبولیت عطا کرتا کہ ہم تیرے عاجز بندے تیرے اس حکم کی تعمیل میں کامیاب ہو جائیں کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کیا جائے.آمین.پھر حضور انور نے فرمایا:.آج انصار اللہ کا اجتماع ہے.اس سال یہیں انہوں نے انتظام کیا ہے.ماشاء اللہ جور پورٹیں ابھی تک مشاہدے کے نتیجے میں مجھے ملی ہیں، وہ تو یہی ہیں کہ تعداد پچھلے سال سے زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ برکت ڈالے نفوس میں بھی اور اموال میں بھی آپ کے.اور غور سے سنیں ، بعض چیزوں کو ہرانا بھی پڑتا ہے.آج کی افتتاحی تقریر میں، میں 881
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1981ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد پنجم وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاريات: 56) کی ہدایت کے مطابق وہ باتیں، جو ہر احمدی کے ذہن میں ہر وقت حاضر رہنی چاہئیں تھیں لیکن بعض لوگ بھول جاتے ہیں ، وہ یاد دلاؤں گا، انشاء اللہ.خدا میری زبان میں تا شیر دے اور آپ کے دلوں میں تاثیر قبول کرنے کی طاقت بخشے.آمین نمازیں ہم جمع کریں گے اور پھر اپنے وقت کے اوپر انصار اللہ کا اجتماع انشاء اللہ شروع ہو جائے گا.بہت دعاؤں کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ یہ دن گزاریں اور ساری دنیا کے لئے دعائیں کریں.میں نے بار بار کہا اور کہار ہوں گا کہ ہمیں کسی سے عداوت نہیں ، مخالفت نہیں.جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن ہیں، ہم انہیں بھی یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں.ان کے لئے بھی دعائیں کریں اور ان کے لئے بھی دعائیں کریں، جود ہر یہ ہیں اور بت پرست ہیں.بڑے ظالم ہیں، وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے کہ خدا تعالیٰ، جس نے اعلان کیا تھا کہ میں نے اپنے قرب کی راہیں تمہارے لئے کھول دیں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ.بڑی چوڑی شاہراہیں ہیں یہ.لیکن وہ لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے.غیر مطمئن بھی ہیں اپنی زندگی سے ، اطمینان نہیں انہیں.اندھیرے میں بھٹک بھی رہے ہیں لیکن اسلام کی روشنی ابھی تک قبول کرنے کے لئے ان کے اندھیرے تیار نہیں.اللہ تعالیٰ ان کے اندھیروں کو بھی دور کرے.اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی جو روشنی ہے، اس کے اندروہ اپنی زندگی گزارنے لگیں.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 882
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ ماریشس ہماری ساری کوششیں ، سارے منصوبے قیام تو حید کے لئے وقف ہیں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ ماریشس منعقدہ 5,6 دسمبر 1981ء عزیز از جان بھائیو! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ود نصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی ہے کہ آپ ان دنوں جماعت ہائے احمد یہ ماریشس کا سالانہ جلسہ منعقد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ یہ اجتماع اپنے فضل سے ہر لحاظ سے بابرکت کرے.ذکر الہی ، دعاؤں اور نوافل میں یہ دن گزاریں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.(آمین) ہمیں یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ پندرھویں صدی اپنی عظیم ذمہ داریوں کے ساتھ شروع ہو چکی ہے.بلکہ اس میں سے ایک سال بھی گزر چکا ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے نہایت ہی عاجز بند ہے ہیں.بے بس و بے کس، کمزور اور نا تواں، عاجز ولا چار محض اس کے فضلوں پر زندہ ہیں.اس کے بے شمار فضل اور بے شمار رحمتیں موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح ہم پر نازل ہورہے ہیں.ہر صبح اپنے ساتھ نئی رحمتیں اور نئے فضل لے کر آتی ہے، ہر رات بے شمار برکات کی حامل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں اور رحمتوں کا ہم صحیح معنوں میں شکر ادا نہیں کر سکتے.ہر صبح خدا کے فضل سے ہمارا قدم پہلے سے کہیں آگے ہوتا ہے.دنیا ہمیں کچھ کہتی رہے، کچھ بجھتی رہے، ہمارے دلوں میں ایک ہی لگن اور ایک ہی تڑپ ہے کہ دنیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے لگے، آپ کی غلامی کا طوق اپنی گردنوں میں ڈال لے اور خدائے واحد و یگانہ کے آگے جھک جائے.ہماری ساری تو جہات ، ساری کوششیں ، سارے منصوبے اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے وقف ہیں.مگر ہم کیا! ہماری کوششیں کیا ! ہماری قربانیاں کیا ! جب تک اللہ تعالیٰ کی خاص مد داور نصرت اور تائید شامل حال نہ ہو، ہم اس عظیم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اس لئے اپنا سب کچھ 883
پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ ماریشس تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اس راہ میں قربان کرنے کے ساتھ ساتھ دعاؤں پر زور دیں.اس کے حضور روئیں کہ اے اللہ ! تو ہم ناچیز بندوں پر رحم فرمادے، اپنی حفاظت میں لے لے، ہر آن ہماری راہنمائی فرما، مدد فرما، نصرت فرما، ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرما، ہماری کوششوں میں برکت ڈال محض اپنے فضل سے دنیا میں ایک پاک تبدیلی، عظیم تغیر پیدا کر دے.اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کر دے اور دنیا کو اپنے حضور جھکا دے.اے اللہ ہم کیا، ہماری کوششیں کیا ، (حضرت اقدس.ناقل ) جن عظیم مقاصد کے لئے معبوث ہوئے ، زمین و آسمان کے مالک تو ان کا حصول آسان کر دے.ہم ناچیز بندوں کو صدق ووفاء ایثار و فدائیت اور عجز و انکساری کی ان راہوں پر چلا ، جو تیری پسندیدہ راہیں ہیں.اس راہ میں ہر قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرما اور اسے قبول فرما کے یہ بھی تیرا احسان ہوگا.پس دعاؤں پر زور دیں اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں سیدنا حضرت اقدس تناقل ) فرماتے ہیں:.وو ہماری جماعت کو چاہئے کہ راتوں کو روروکر دعائیں کریں.اس کا وعدہ ہے، ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: 61) عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دعا سے مراد دنیا کی دعا ہے.وہ دنیا کے کیڑے ہیں،اس لئے اس سے پرے نہیں جاسکتے.اصل دعا دین ہی کی دعا ہے“.ج ( ملفوظات جلد پنجم صفحه 132) يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.آپ کے لئے دن رات دعائیں کرنے والا آپ کا بہی خواہ، آپ کا ہمدرد، آپ کا محبت دستخط (مرزا ناصر احمد) ( المائدة ) 10.11.81 ( مطبوعه روزنامه الفضل مورمحه یکم فروری 1982ء) 884
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پچیم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائیں کہ وہ دنیا کو شیطان کے چنگل سے جلد نجات دے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا منعقدہ 10 تا 12 نومبر 1981ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر احباب کرام! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو آپ کے لئے ، جماعت احمدیہ کے لئے ، انڈونیشیا کے لئے اور ساری دنیا کے لئے با برکت ثابت کرے.یہ ایام ذکر الہی ، نوافل اور دعاؤں میں صرف کریں.راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور روئیں، گڑ گڑا ئیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو شیطان کے چنگل سے جلد نجات دے کر دلوں میں نیک تبدیلی اور پاک تغیر پیدا کر دے.انہیں اپنی طرف جھکا دے، دلوں میں اپنی محبت پیدا کر دے اور بنی نوع انسان کو اپنے مخلص بندے بنالے.اس زمانہ میں دنیا مایوسی کا شکار ہے، دلوں میں بے اطمینانی اور بے چینی پائی جاتی ہے.اس لئے کہ دنیا مذ ہب سے بیگانہ اور زندہ خدا سے لاتعلق ہے.اس کی وجہ سے روح کو تسکین میسر نہیں آتی.کیونکہ مادی خوشیوں کے سامان دل کی تسکین مہیا نہیں کر سکتے.دنیا بھر میں صرف ایک جماعت....جماعت احمدیہ ہے، جسے خدا کے فضل سے آسمانی سکینت میسر ہے.جس کے دلوں پر آسمانی فرشتے نازل ہوتے اور اطمینان اور سکون پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں.جماعت احمدیہ کو خدا کے فضل سے زندہ خدا اور اس کی قدرت نمائیوں پر زندہ اور کامل یقین حاصل ہے.وہ خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اطمینان ، سکون اور بشاشت قلب کے ساتھ قربانیاں دیتی ہے، سختیاں برداشت کرتی ہے، ابتلاؤں سے دو چار ہوتی ہے، مصیبتیں کہتی ہے، گالیاں سنتی ہے، ماریں کھاتی اور 885
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم - پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا اذیتیں برداشت کرتی ہے.اس کی پیشانی پر بل نہیں آتا.کیونکہ اسے یقین ہے کہ قدرتوں والا خدا آسمان اور زمین کا خدا اس کے ساتھ ہے، وہ اسے ہرگز ضائع نہیں کرے گا، انشاء اللہ.یہ مشکلات، آزمائشیں ، اذیتیں عارضی ہیں.ان سے غرض تزکیۂ نفس اور صدق وصفا کی پہچان ہے.ان آزمائشوں اور ابتلاؤں کے پیچھے خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کی جنتیں پنہاں ہیں.دعائیں کریں کہ اللہ تعالی محض اپنے فضل سے ابتلاؤں اور آزمائشوں کا یہ دور کامیابی اور کامرانی کے ساتھ جلد ختم کردے اور ہمیں اپنی رضا اور خوشنودی کی جنتوں میں پناہ دے دے.حضرت اقدس ناقل ) فرماتے ہیں:..اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے.اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دیئے جاؤ گے اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہوگا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو.گالیاں سنو اور چپ رہو.ماریں کھاؤ اور صبر کر داور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پر ہیز کرو تا آسمان پر تمہاری قبولیت لکھی جاوے.یقین آیا درکھو کہ جولوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور دل ان کے خدا کے خوف سے پگھل جاتے ہیں.انہی کے ساتھ خدا ہوتا ہے." اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.تذكرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد 20 صفحه 68) ( دستخط) مرزا ناصر احمد (میر) 886 (مطبوعه روزنامه افضل 28 اپریل 1982ء)
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم صد سالہ جو بلی فنڈ کی فہرست ملاحظہ کرنے پر پیغام صد سالہ جو بلی فنڈ کے اس مرحلہ میں پچھلے تمام مراحل سے زیادہ ادائیگی ہونی چاہئے صد سالہ جو بلی فنڈ کی نصف ادائیگی کرنے والوں کی فہرست ملاحظہ کرنے کے بعد پیغام عزیز بھائیو اور بہنو! بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے لئے میں نے جب 1973ء میں تحریک کی تو احباب جماعت نے پورے اخلاص اور بڑی فراخ دلی سے اس میں وعدے لکھوائے.میں نے یہ ہدایت کر دی تھی کہ احباب اپنے وعدوں کو پندرہ مراحل میں پورا کر دیں.اس وقت آٹھواں مرحلہ چل رہا ہے.گویا اس مرحلہ میں احباب کو عام حالات میں اپنے وعدہ کے نصف سے کچھ زیادہ تک کی ادائیگی کر دینی چاہئے.الحمد لله ثم الحمد للہ کی مخلصین جماعت کو اس طرف توجہ ہے.دفتر نے میرے سامنے ایسے احباب وخواتین کی پہلی فہرست تیار کر کے دعا کی غرض سے پیش کی ہے، جنہوں نے اپنے وعدوں کا نصف یا اس سے زیادہ حصہ ادا کر دیا ہے.جور پورٹیں ان کو ملی ہیں، وہ ابھی صرف 22 جماعتوں کے ایک ہزار دوسو سترہ افراد کی ہیں.ان جماعتوں کے نام یہ ہیں:.کراچی جہلم 359افراد سیالکوٹ 88افراد 34 افراد 23 افراد تھر پارکر 57 افراد گجرات 16 افراد نوشہرہ چھاؤنی 12 افراد اٹک 7 افراد فیصل آباد 78 افراد کمال ڈیرو نواب شاہ 1 فرد بھیرہ ا فرد ایبٹ آباد 7 افراد متفرق 239 افراد ریوه 295 افراد 887
صد سالہ جوبلی فنڈ کی فہرست ملاحظہ کرنے پر پیغام تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان تمام مخلصین کے اموال میں برکت دے اور اس کے دیئے ہوئے اموال میں سے زیادہ سے زیادہ پھر اسی کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.تا کہ وہ اس کے مزید فضلوں کے وارث بنیں.جزاهم الله احسن الجزاء میں نے دفتر کو ہدایت کر دی ہے کہ آئندہ بھی ان کو جو فہرستیں آتی جائیں، وہ میرے سامنے پیش کرتے رہیں.اس مرحلہ میں پچھلے تمام مراحل سے زیادہ ادا ئیگی ہونی چاہئے.والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا ناصر احمد مطبوعه روزنامه الفضل 11 نومبر 1981ء) 888
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود 130 نومبرا 198ء میری مانو اور خدا کے دامن سے چمٹ جاؤ اور اسے بالکل نہ چھوڑو وو خطبہ جمعہ فرمودہ 13 نومبر 1981ء میں دو، تین دفعہ بتا چکا ہوں، کیلگری میں چھوٹی سی جماعت پیدا ہوئی.چھ سات سال پہلے کی بات ہے.انہوں نے لکھا کہ ایک یہاں چھوٹا سا مکان، کوٹھی نما، فلیٹ نہیں ، ( میرا خیال ہے بمشکل ایک کنال رقبہ ہو گا، شاید ایک کنال زمین میں بھی نہ ہو.لیکن ہے کوٹھی نما) وہ ہل رہا ہے.کم و بیش ستر ہزار کینیڈین ڈالر کا.کچھ رقم ہمارے پاس ہے، کچھ جماعت دے دے تو ہم یہ خرید لیں.بچوں کی تربیت نہیں ہوتی، اگر مرکز نہ ہو.اور نمازیں اکٹھی نہیں ہوسکتیں.اور بہت سارے کام جو جماعت نے کرنے ہوتے ہیں، مشورے کرنے ہوتے ہیں، تربیتی لیکچر کرنے ہوتے ہیں، وہ نہیں ہو سکتے.اور ہماری ضرورت کے لیے پوری ہے، یہ جگہ.خیر دعاؤں کے ساتھ ان کو اجازت دے دی.اور کچھ پتا نہیں تھا، نہ مجھے، نہ کسی اور کو کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم انعام کرنے کی تدبیر اور منصوبہ بنایا ہے.انہوں نے خرید لیا.پچھلے سال جب میں گیا ہوں، کیلگری، پہلی دفعہ تو وہ مسجد بھی دیکھی ، مشن ہاؤس دیکھا.ظہر اور عصر کی نمازیں بھی وہاں پڑھیں.چھوٹی سی ایک جگہ تھی.مجھے کہنے لگے کہ یہ ہے ریزیڈنشل ایریا ( Residential Area ) ، آپ دعا کریں، اگر یہ کمرشل ایریا بن جائے تو اس کی ایک دن میں قیمت بڑھتی ہے.وہ بھی دعا کر رہے تھے، میں نے بھی دعا کی.اللہ تعالیٰ نے جماعت کی دعاؤں کو سنا اور کمرشل ایریا بن گیا.چند ہفتے ہوئے ، مجھے خط ملا، ان کا کہ کیلگری سے سات آٹھ کلو میٹر دور ایک جگہ مل رہی ہے.چالیس ایکٹر زمین ایک کنال کے مقابلے میں.یعنی چالیس کو آٹھ کے ساتھ ضرب دیں تو 320 ہو گئے ناں.اس نسبت سے اللہ تعالیٰ کا فضل.انہوں نے یہ بھی لکھا کہ وہاں جو مکان ہے، وہ اتنا بڑا ہے کہ آپ اگر آئیں پھر اور ضرور آئیں تو سارا قافلہ آپ کا اور ہم لوگ بھی وہاں سما سکتے ہیں.اور قیمت اس کی ہے، تین لاکھ اور پچاس ہزار ( ڈالر ).اور قیمت کی ہمیں اس وقت کوئی مشکل نہیں.کیونکہ جو مکان ہم نے کم و بیش ستر ہزار کینیڈین ڈالر کا خریدا تھا، اس کی آفر ( Offer) ہے، چار لاکھ، میں ہزار.یعنی پورے ستر ہزار کے فرق کے ساتھ.تو میں نے سوچا اور دل میں کہا، یہ تو خدا نے عجیب شان کا اظہار کیا.مجھے تو ایسے لگا کہ خدا نے کہا، یہ پکڑو، اپنے پیسے 889
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 نومبر 1981ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم ا را دارد و امکان ان کو ان کا ہو رہاہوں اس میں ایک دھیلا تبارا میں میرے نسلوں نے سب رقم ادا کی ہے.اس طرح فضل کرنے والا ہے، ہمارا خدا.” جب تک آپ انتہائی قربانی دے کر خدا تعالی کے انتہائی پیار کو حاصل نہیں کر لیتے ، اس وقت تک آپ اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ وہ قربانیاں اس کے حضور پیش کریں، جوکل، جو پرسوں، جو آنے والا سال، اس سے اگلا آنے والا سال آپ سے مطالبہ کرے گا.اس واسطے میری مانو، خدا کے لیے میری مانو اور اس کے دامن سے چمٹ جاؤ اور اسے بالکل نہ چھوڑو.اور کامل تو کل، اس پہ کرو.وہ کبھی ایسے آدمی سے بے وفائی نہیں کرے گا.بے وفا انسان ہی بن جاتا ہے، خدا بے وفائی نہیں کرتا.اس نے اعلان کیا ہے، قرآن کریم میں کہ جو میں عہد کرتا ہوں، اسے پورا کرتا ہوں.اور وہ طاقت رکھتا ہے، پورا کرنے کی.یہ نہیں کہ بوڑھا ہونے کا خطرہ، کمزور ہونے کا خطرہ، دشمن سے مغلوب ہو جانے کا خطرہ ہو.اس کی تمام طاقتیں اپنی پوری قوت کے ساتھ اور پورے نور کے ساتھ اور پورے حسن کے ساتھ ہمیشہ قائم رہیں اور قائم رہیں گی.( مطبوع روزنامه الفضل 11 اپریل 1982ء) 890
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کینیا جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے کندھوں پر عظیم ذمہ داری ہے پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کیفیا منعقدہ 18 تا 20 دسمبر 1981ء بر عزیز از جان بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ آپ 20, 18,19 دسمبر کو اس مقام (matawa ) پر جلسہ سالانہ منعقد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے ، آپ کے ملک کے لئے اور سارے مشرقی افریقہ کے لئے یہ جلسہ ہر لحاظ سے بابرکت کرے.اپنے اوقات دعاؤں، ذکر الہی اور نوافل میں صرف کریں.یہ امر ہمیشہ یادرکھیں کہ ( حضرت اقدس...ناقل ) کو پہچاننے کی اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو سعادت بخشی ہے، اس کی وجہ سے ہمارے کندھوں پر عظیم ذمہ داری ڈال دی گئی ہے.پس ان ذمہ داریوں کو باحسن طریق ادا کرنے کے لئے جہاں آپ اس راہ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں، وہاں اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیشہ جھکے رہیں.دعائیں کریں کہ اللہ ہرقسم کی روکیں دور فرمائے ، ہماری کمزوریاں ڈھانپ دے، ہماری خود ر ہنمائی فرمائے ، ناچیز کوششوں میں برکت ڈالے اور سب کام خود بنادے.ہمارا خدا، قدرتوں والا خدا ہے.ہم اس کے ناچیز بندے ہیں.عاجز اور لاچار، بے بس و بے کس.اسی پر ہمارا انحصار ہے، وہی ہمارا حافظ و ناصر اور مددگار ہے.کثرت کے ساتھ استغفار کریں.استغفر الله ربى من كل ذنب واتوب اليه پڑھتے رہیں.کہ استغفار سے کمزوریوں پر مغفرت کی چادر ڈالی جاتی ہے، بلائیں اور مصیبتیں دور ہو جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے بے شمار فضل نازل ہوتے ہیں.حضرت اقدس....ناقل ) فرماتے ہیں:.انسان اپنی اس مختصر زندگی میں بلاؤں سے محفوظ رہنے کا کس قدر محتاج ہے اور چاہتا ہے کہ ان بلاؤں اور وباؤں سے محفوظ رہے، جو شامت اعمال کی وجہ سے آتی ہیں.اور یہ ساری باتیں سچی توبہ سے حاصل ہوتی ہیں.پس تو بہ کے فوائد میں سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا حافظ اور نگران ہو جاتا ہے.اور ساری بلاؤں کو خدا 891
پیغام م موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کینیا تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد پنجم دور کر دیتا ہے.اور ان منصوبوں سے، جو دشمن اس کے لیے تیار کرتے ہیں، ان سے محفوظ رکھتا ہے.892 اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.( ملفوظات جلد چہارم، صفحہ 120) والسلام مرزا ناصر احمد مطبوعه روزنامه الفضل 10 فروری 1982ء)
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ نائیجیریا آپ اس آخری زمانہ میں اسلام کے محافظ اور اس کے نور کو پھیلانے والے ہیں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدی نائیجیریا منعقدہ 25 تا 27 دسمبر 1981 ء عزیز بھائیو، بہنو اور بچو ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته خدا تعالٰی اس کانفرنس اور نائیجیر یا جماعت کو اپنی برکات سے نوازے.آپ یہ امر یا درکھیں کہ آپ اس آخری زمانہ میں ( دین حق.ناقل ) کے محافظ اور اس کے نور کو پھیلانے والے ہیں.ہمیں اس امر کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم سید نا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اقدس.ناقل )..کے بچے روحانی فرزند نہیں.آپ اسلام اور قرآن کریم سیکھیں ، اس پر عمل پیرا ہوں اور پھر اسے دوسروں تک پہنچا ئیں.اور اس امر کی بھی کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ نے جو بہت بڑی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈالی ہے، آپ اس کو صحیح طور پر نبھانے کے اہل بنیں.ہمیشہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مرزا ناصر احمد مطبوعه روزنامه الفضل 04 فروری 1982ء) 893
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء ہر چیز کو بھول کر اپنے دین کو غالب کرنے کی مہم میں اپنی زندگیاں وقف کر دو خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء بر موقع جلسہ سالانہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ نے مستورات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کئی لحاظ سے یہ سال جو گزرا ، بڑا اہم سال تھا.اس لئے کہ ہم نے اس سال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے کئی جلوے دیکھے.جن میں سے تین نمایاں تھے.یعنی پین میں مسجد کی تکمیل ، جس کی بنیاد پچھلے سال رکھی گئی تھی.اس کے علاوہ اس سال جاپان میں ایک اچھے مقام پر ایک بڑا اچھا گھر مشن ہاؤس کے طور پر خریدا جا چکا ہے.اس سال امریکہ اور کینیڈا میں بھی بہت سی مستحکم بنیا دیں مادی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے ل سے قائم ہوئی ہیں.اور روحانی لحاظ سے بہت سے تراجم و تفاسیر قرآن کریم مختلف جگہوں پر شائع ہوئے ہیں.اور بہت اہم پروگرام، تین زبانوں میں ترجمہ قرآن بمعہ تفسیری نوٹس شائع کرنے کا کام قریباً مکمل ہو چکا ہے.اسی طرح بہت سے واقعات ہوئے“.حضور نے فرمایا:.میں آج کی اس تقریر کے بعد سے ہر عورت کو اس کی یہ ذمہ داری یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے سامنے اس وقت جو کام ہیں ، ان کے پیش نظر ان کو ہر چیز فراموش کر کے صرف اپنے دین کو غالب کرنے کی مہم میں لگ جانا چاہئے.حضور نے بآواز بلند فرمایا:.ہر چیز کو بھول جاؤ اور صرف اپنے دین کو غالب کرنے کی مہم میں اپنی زندگیاں وقف کر دو.حضور نے فرمایا کہ ” ہماری جماعتی زندگی کی دوسری صدی 9-8 سال کے بعد شروع ہونے والی ہے.اور اس عرصے کی بہت زیادہ اہمیت ہے.اس عرصہ میں عورتوں کو مردوں کے پہلو بہ پہلو اس عظیم مجاہدہ میں حصہ لینا ہے.تا کہ زندگی کے ہر پہلو میں کمال حاصل کریں.895
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم حضور نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ” ان کی مستورات کو ایسی تربیت دی گئی تھی کہ ایک جنگ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 40 ہزار تھی جبکہ مقابلہ میں تین لاکھ فوج تھی.مسلمانوں کے جرنیل نے مسلمان عورتوں سے کہا، اگر دشمن کا دباؤ زیادہ پڑے اور مسلمان اپنی کم تعداد کی وجہ سے پیچھے ہیں اور بٹتے ہٹتے تمہارے خیموں تک پہنچ جائیں تو تم اپنے خیموں کی جو ہمیں اکھاڑ کر اپنے خاوندوں ، بھائیوں اور باپوں اور بیٹوں کو مارنا کہ تم بے غیرت ہو گئے ہو، دشمن کے مقابلے سے بھاگ رہے ہو.چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا ہی ہوا.اور جب مسلمان عورتوں نے اپنے مردوں کو غیرت دلائی تو وہ جوش میں پلٹ کر اس زبر دست طریق پر حملہ آور ہوئے کہ چالیس ہزار کے لشکر نے تین لاکھ کی سپاہ کو شکست دے دی“.حضور نے ایک اور جنگ میں ایک تربیت یافتہ اور قوت ایمانی سے مالا مال عورت کا واقعہ بیان فرمایا کہ وہ جنگ سے آنے والی خبریں سن کر تڑپ کر اپنے گھر سے نکلی اور بتانے والے نے اسے بتایا کہ تمہارا فلاں رشتے دار مر گیا، فلاں مر گیا.مگر وہ سنی ان سنی کر کے یہی کہتی رہی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اور جب اسے بتایا گیا کہ آنحضور خیریت سے ہیں تو اس نے کہا کہ پھر کسی کے مرنے کی کوئی پرواہ نہیں“.حضور انور نے خواتین کو فرمایا:.وو یہ سستیاں ترک کرنے کا زمانہ ہے.آپ اپنے بچوں اور مردوں کے ساتھ اس مجاہدہ میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کی اتنی نعمتیں حاصل کریں گی کہ آپ کی اولادیں اور نسلیں تک خوش ہو جائیں گی اور آپ کے لئے دعائیں کریں گی.حضور نے فرمایا:.وو ہر چیز بھول جاؤ اور صرف ایک بات یاد رکھو کہ ہم نے اپنے دین کو غالب کرنا ہے.جو ذمہ داری ہم پر خدا تعالیٰ نے ڈالی ہے، اس کو پورا کرنے میں بھر پور مدد کرنی ہے.مرد کیلا یہ کام نہیں کر سکتا.اسے اپنی بیوی ، ماں، بہن اور بچوں کی مددضرورت ہے.اسے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور اللہ تعالیٰ کے دین سے بغاوت کرنے والوں کا مقابلہ کرنا ہے.896
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء تلوار کی دھار اتنی تیز نہیں ہوتی ، جتنی محبت کی دھار.اسلام لوگوں کو کاٹنے نہیں بلکہ مردوں کو زندہ کرنے آیا ہے.اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہو کہ وہ تم کو زندہ کرنے کے لئے آئیں ہیں.جس محبت اور پیار سے اسلام نے پہلے انسانوں کے دل جیتے تھے ، اسی محبت اور پیار سے وہ اب بھی جیتے گا.حضور نے فرمایا کہ "ہم نے علم کے میدان میں عقل کے میدان میں اور خدمت کے میدان میں ہر غیر کو پیچھے چھوڑنا ہے.بھوکے کو کھا نا دے کر اور اپنوں اور غیروں کوز یور علم سے آراستہ کر کے خیر امت بننا ہے“.حضور نے فرمایا کہ ان حقائق کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ عطا کرے، عقل دے.اور جو نعمتیں دینے کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا ہے، وہ نعمتیں حاصل کرنے کی آپ کو توفیق دے اور انسان خوشحالی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیار کی زندگی گزارنے لگیں“.حضور نے خواتین کو فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے عشق میں مست رہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جونور اور حسن ہے، اس سے نور اور حسن حاصل کرو.اور خدا کرے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر عاجزی سے چلنے والی ہوں اور ساری ہی دنیا آپ سے پیار کرنے والی ہو.آمین.مطبوع روزنامه الفضل مورخہ 30 دسمبر 1981 ء ) 897
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء احمدیت لوگوں کے ذہنوں میں بڑا خوشگوار انقلاب پیدا کرتی ہے خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء بر موقع جلسہ سالانہ حضور نے فرمایا:.اس صدی کا جو پہلا سال گزرا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بے انتہا نشانات دکھائے ہیں، جو بڑی عظمتوں اور برکتوں کے حامل ہیں.حضور نے سب سے پہلے پین میں بننے والی مسجد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سپین میں 745 سال کے بعد وہاں تعمیر کی جانے والی سب سے پہلی مسجد کی تعمیر مکمل ہوگئی.اس کے میناروں کی شکل بھی بہت خوبصورت ہے.حضور نے فرمایا کہ قادیان میں جو مینارہ ہے، اس کے بارے میں میرا یہ تاثر ہے کہ اس مینار کی خوبصورتی تمام دوسرے میناروں سے بڑھ کر ہے.مسجد پین میں جو مینار بنائے گئے ہیں، ان میں قادیان کے مینارہ کا تناسب قائم رکھا گیا ہے.اور مسجد کے آرکیٹیکٹ صاحب نے ، جو کیتھولک عیسائی ہیں، کوشش کر کے مینارہ قادیان کے اوپر کے حصے کی کامیاب نقل کی ہے.حضور نے جاپان میں اس سال قائم ہونے والے نے مشن ہاؤس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مشرق کی طرف جاپان میں اس سال نیا مشن ہاؤس خرید لیا گیا.جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود رقم اکٹھی کی ہوئی تھی.حضور نے فرمایا:.”جب مجھ سے پوچھا گیا کہ مکان مل رہا ہے، خریدنے کی اجازت دی جائے تو میں نے پوچھا کہ اس کے لئے رقم کہاں سے آئے گی؟ اس پر تحریک جدید نے کہا کہ پیسے تین بیرونی ملکوں کی جماعتوں کے پاس موجود ہیں.اس طرح سے وہ مکان خرید لیا گیا“.حضور نے اس سال نازل ہونے والے تیسرے اہم فضل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے علاوہ کینیڈا اور امریکہ میں بھی بہت وسعت حاصل ہوئی ہے.افریقہ کے بہت.حصوں میں بھی ترقی ہوئی ہے.899
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم افریقہ میں احمدیت کی ترقی کے ضمن میں حضور نے نانا کے ایک مخلص احمدی دوست کا ذکر فرمایا ، جو جرمنی میں غانا کے سفیر ہیں.جنہوں نے اس جلسہ سالانہ میں تقریر بھی کی ہے اور وہاں جماعتی ترقی کے حالات بتائے ہیں.افریقہ کے موضوع پر اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود کا یہ خیال تھایا یہ پیش گوئی تھی، جو مرضی سمجھ لیں کہ آنے والے زمانے میں دنیا کی لیڈرشپ ان افریقن اقوام کے ہاتھ میں ہوگی.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ 1970ء میں جب میں نے افریقہ کا دورہ کیا تو میں نے بھی یہی کہا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ آنے والی زندگی میں دنیا کی قیادت آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی.بشرطیکہ آپ کے ہاتھ میں احمدیت کا جھنڈا ہو.پھر ساری نوع انسانی آپ کے ماتحت آجائے گی“.حضور نے فرمایا کہ احمدیت لوگوں کے ذہنوں میں بڑا خوشگوار انقلاب پیدا کرتی ہے.اور سب سے پہلی جو خوشکن تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے، یہ ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور آپ پر بے شمار درود بھیجنے والے بن جاتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ میں نے اپنے دورے کے دوران یہ تاثر لیا ہے کہ اگر چہ ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑا درود بھیجنے والے ہیں.لیکن ان کو تو اس وقت تک چین ہی نہیں پڑتا، جب تک وہ آنحضور پر درود نہ بھیج لیں.وہ اپنی گاڑیوں میں لاؤڈ سپیکر لگا کر بے دھڑک اور بے فکر ہو کر صل على نبينا صل على محمد کا ورد کرتے پھرتے ہیں“.حضور نے فرمایا کہ اس بابرکت طرز عمل کی وجہ سے وہاں کی جماعت بڑی برکتیں پارہی ہے.اور جو بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا ہوگا ، وہ بڑی برکتیں پائے گا اور بڑی خیر حاصل کرے گا“.مطبوعہ روز نامہ الفضل 07 جنوری 1982ء) 900
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ 'ہماری جماعتی زندگی کی دوسری صدی شروع ہونے میں جو آٹھ نو سال کا عرصہ باقی ہے، یہ آنے والے سال ہماری زندگی کے بڑے اہم سال بھی ہیں اور بڑے مشکل سال بھی ہیں.لیکن یہ آنے والے برس اتنی رحمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں کہ ان کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا“.حضور نے فرمایا:.اس لئے میں نے عورتوں کے جلسہ سالانہ میں انہیں کہا کہ ہر بات کو بھول کر صرف اس ایک بات کو ذہن میں رکھو کہ اپنے دین کو غالب کرنے کی مہم میں بیوی خاوند کے ساتھ ، بیٹی باپ کے ساتھ ، بہن بھائی کے ساتھ اور ماں بیٹے کے ساتھ مل کر ایک زندگی گزارے.اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اخلاص اور فدائیت سے اگر تم کام کرو گے تو جتنا تم سے ہو سکے، وہ کر دینا ، باقی میں کردوں گا.اور سارے کے سارے کام کی جزاء تم کو دے دوں گا.ہم نے دیکھا ہے کہ کام فرشتے آکر کر جاتے ہیں اور ثواب ہمارے نام لکھا جاتا ہے.ہم ایک دھیلہ خرچ کرتے ہیں اور نتیجہ ایک کروڑ کا نکل آتا ہے.یہ باقی رقم کہاں سے آئی؟ یہ اللہ نے اس میں برکت رکھ دی تھی.حضور رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی مثالیں دیتے ہوئے نصرت جہاں ریز روفنڈ کا ذکر فرمایا.حضور نے بتایا کہ احباب جماعت نے 53 لاکھ روپے کی قربانی پیش کی تو دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اس رقم کور میز رو میں رکھیں اور اس سے جو منافع ملے ، اسے استعمال میں لائیں.حضور نے فرمایا:.میں نے پوچھا کہ کتنا منافع مل سکے گا ؟ بتانے والوں نے بتایا کہ 12 سے 14 فیصد تک منافع مل سکے گا“.حضور نے فرمایا کہ حساب دوں گا“.حضور نے فرمایا کہ اس پر میں نے کہا کہ میں جس سے تجارت کر رہا ہوں، اس نے مجھے کہا ہے کہ میں بے اس کا کل ابتدائی سرمایہ 3 5 لاکھ روپے تھا اور اس سال کا نصرت جہاں کا بجٹ تین کروڑ روپے سے زائد ہے.ہم نے کتنی قربانی دی اور اللہ تعالیٰ نے اسے بڑھا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا.اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں سیکم کے تحت قائم ہونے والے ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفار کچھ دی.901
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء حضور نے فرمایا کہ تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم کیا کوئی منڈی ایسی آپ کے علم میں ہے، جہاں شفا بکتی ہو؟ میرے علم میں ہے.وہ اللہ کی منڈی ہے، جہاں سے سب کچھ مل جاتا ہے.حضور نے اپنے موضوع کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ”ساری جماعت کو ایک خاندان کی طرح اور ہر خاندان کو ایک فرد کی طرح بس خدا تعالیٰ کے عشق اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں دیوانہ ہو کر صرف ایک مقصد سامنے رکھنا ہے کہ ہم نے ساری دنیا کو مد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.حضور نے فرمایا کہ ”میرے پاس بیکار باتوں کا وقت نہیں ہے.اگر ہمیں کوئی گالی دیتا ہے تو میں سچ کہتا ہوں کہ میرے پاس وقت نہیں ہے کہ اس کی طرف توجہ کروں.اور اگر کوئی خنجر گھونپتا ہے تو میرے پاس وقت نہیں ہے کہ اسے ہٹاؤں“.حضور نے فرمایا کہ ایسی باتوں کو نظر انداز کر دو اور کہو، b فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَمُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ & ہم خدا کی پناہ میں ہیں، جلد ہی انہیں پتہ لگ جائے گا“.حضور نے فرمایا:.(الزخرف : 90) ”ہماری دعا ہے کہ جلد انہیں اس رنگ میں پتہ لگے کہ جس صداقت کو ہم نے پایا اور جوانعام ہمیں ملا ہے اور جو انعام ہمیں مل رہے ہیں، انہیں بھی ملنے لگیں.آمین.حضور نے صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ کا ذکرتے ہوئے فرمایا کہ ( مطبوعه روزنامه الفضل 11 جنوری 1982ء) عمل کے لحاظ سے ہماری قربانیوں کا بڑا حصہ اب پاکستان کے باہر کے ممالک میں ہو رہا ہے.اور جو کام ساری دنیا میں ہمارے دین کو پھیلانے کے لئے ہو رہے ہیں، آپ لوگ اس میں حصہ نہیں لے سکتے.ملک اقتصادی بحران میں ہے، اس لیے فارن ایکسچینج کی بڑی دقتیں ہیں.902
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء حضور نے جو بلی فنڈ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں آپ لوگوں کے علاوہ بیرونی ممالک کے احمدیوں کے بھی وعدے بہت تھے.آمد بھی بہت ہو چکی ہے.اور اس سے جو نتیجہ نکلا ہے، وہ یہ ہے کہ سویڈن کے شہر گوشن برگ میں 12ایکڑ زمین کے ایک حصہ پر مسجد بن گئی ہے.باقی حصہ بھی انشاء اللہ کام آئے گا.ایک مرکز قائم ہو گیا ہے.جہاں پر خدا کے فضل سے کئی سو غیر پاکستانی بھی آتے رہتے ہیں.1978ء میں لندن میں کسر صلیب کا نفرنس منعقد ہوئی، جس کی آواز (اگر ان سب اخبارات کی اشاعت کا مجموعہ نکالا جائے ، جن میں اس کی خبریں شائع ہوئیں تو اس کے مطابق 14 کڑور سے زائد افراد تک پہنچی.اور یہ اخبارات ساری دنیا کے ممالک کے تھے.اس کے علاوہ سری نگر میں ایک وسیع اور خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس اس فنڈ سے بن گیا“.حضور نے فرمایا کہ سری نگر میں ضرورت تھی مگر قادیان میں پیسے نہ تھے.چنانچہ اس فنڈ کو استعمال کیا گیا“.حضور نے فرمایا:.” یہاں بہت سیاح آتے ہیں اور جماعت احمدیہ کی کوششوں کے نتیجہ میں ابھی یہ تو نہیں مانتے کہ یہاں پر مسیح کی قبر ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ بہت سے لوگ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ شاید یہ قبر مسیح ہو.حضور رحمہ اللہ نے صد سالہ جوبلی فنڈ کی مطبوعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا تک (حضرت اقدس.ناقل ) کی مطبوعات کا پہنچانا، بہت ضروری ہے.جتنے اعتراض آج کی مہذب دنیا کرتی ہے، ان سب کا جواب ( حضرت اقدس.ناقل ) کے لٹریچر میں موجود ہے.بعض باتیں واضح ہیں، بعض اشاروں میں ہیں.بعض عبارتیں دلوں کی دھڑکن تیز کر دیتی ہیں اور بعض کو پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں“.حضور نے فرمایا کہ جب یہ علم کلام مغربی ممالک کے لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے تو ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک گند میں پھنسے ہوئے ہیں، جس سے نکلنا انہیں مشکل ہے.حضور نے فرمایا:.میں نے اپنے دوروں کے دوران ان لوگوں کو یہ کہا ہے کہ اگر تم نہیں تو تمہاری نسلوں کو اسلام ضرور متاثر کرے گا.جب تم مسائل کے انبار میں پھنس جاؤ گے تو وہ وقت اسلام کا ہوگا“.903
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم حضور نے فرمایا کہ اس مقصد کے لئے انگریزی اور دوسری زبانوں میں لٹریچر کی اشاعت کا منصوبہ تیز کیا جارہا ہے.سید میر داؤ د احمد صاحب مرحوم کی کتاب ”مرزا غلام احمد قادیانی کا انگریزی ترجمہ ESSENCE OF ISLALM کے نام سے دوحصوں میں شائع ہو چکا ہے.اس کے علاوہ فلاسفی آف دی ٹیچنگ آف اسلام شائع ہوگئی ہے.حضور نے فرمایا کہ فرانسیسی بولنے والے علاقوں میں اب احمدیت کا نفوذ بڑھ رہا ہے.ان علاقوں میں فرانسیسی زبان میں جماعتی لٹریچر کی بڑی مانگ ہے.چنانچہ جوبلی منصوبہ کے تحت اس سلسلہ میں جو پہلی چیز شائع ہوئی ہے، وہ حضرت مصلح موعود کے دیباچہ تفسیر القرآن کا فرانسیسی ترجمہ ہے.اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا نہایت اعلیٰ بیان اور دوسرے مذاہب کا اسلام سے نہایت مدلل طور پر موازنہ کر کے اسلام کے لازوال فضائل کو اجاگر کیا گیا ہے.حضور نے فرمایا کہ فرانسیسی زبان بولنے والے افریقی ممالک میں ٹو گولینڈ، چڈ، نچر وغیرہ ممالک میں احمدیت کا والے میں تو ، چھر وغیرہ میں کا پیغام پہنچ گیا ہے.اور ایک ملک میں تو بغیر کوئی مبلغ بھیجے مشن بھی بن گیا ہے“.حضور نے جو بلی منصوبہ کے تحت شائع ہونے والی کتب میں سے ترجمہ قرآن کریم انگریزی کے تفسیری نوٹس کی اشاعت کا بھی ذکر فر مایا.حضور نے فرمایا:.اس کی سات ہزار کا پیاں لندن سے چھپ گئیں ہیں.اور انگلستان اور امریکہ میں بعض اچھے اشاعتی اداروں سے جماعت کا رابطہ اور تعارف بھی ہو گیا ہے.حضور نے فرمایا:.تاہم کمپیوٹرز سے کام کرنے والا ایک پریس نایجیریا میں ہماری جماعت کے پاس ہے.حضور نے فرمایا کہ ”میرے دل میں بڑی تڑپ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے زندگی اور صحت دے اور میں دنیا کی تین اہم زبانوں، فرانسیسی ، روسی اور چینی زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ کروا کے تفسیری نوٹس سمیت ان ممالک میں پہنچادوں.اس سے انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کی نوے فیصد آبادی ایسی ہوگی، جس کے ہاتھ میں اس کو سمجھ آنے والی زبان میں قرآن شریف پکڑا دیا جائے گا“.904
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم حضور نے فرمایا:.اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء اللہ تعالیٰ نے مجھے عزم بھی دیا ہے، ہمت بھی دی ہے.اور میرا عزم ہے کہ جلد سے جلد یہ کام ہو جائے“.حضور نے فرمایا:.قرآن کریم بڑی عظیم کتاب ہے.احباب جماعت کو چاہئے کہ اپنے قرآنی علم میں ہر آن اضافہ کرتے چلے جائیں.اور جتنا ممکن ہو سکے ،علوم قرآنی سے استفادہ کرتے رہیں“.حضور نے صد سالہ جوبلی منصوبے کے دیگر ثمرات طیبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.” ناروے میں مشن ہاؤس بن گیا ہے.بہت بڑی عمارت ہے، ہماری ضروریات کو پورا کرنے والی ہے.اس کے علاوہ انگلستان میں پانچ جگہ شاید اب تو چھ جگہ نئی عمارتیں دینی مقاصد پورے کرنے ، درس قرآن دینے ، قرآن سیکھنے کے لئے خرید لی گئیں ہیں.حضور نے فرمایا:.اس اللہ سے سب کچھ حاصل کرو، جس نے ہمیں اتنا کچھ دے دیا ہے.وہی تم سب کو دے گا اور بہت دے گا.حضور نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ (مطبوعہ روزنامہ الفضل 18 جنوری 1982ء) ہمار ا ملاپ باہمی زیادہ ہونا چاہئے.بیرون پاکستان سے جو وفود آتے ہیں، آپ ان سے ملتے ہیں.وہ بڑے اچھے، بڑے پیارے اور پنجابی محاورہ کی روح سے بڑے ”بی بے لوگ ہیں.وہ سوکھی ٹہنیاں نہیں ہیں ، وہ ہمارے دین کی ہری بھری پتیاں ہیں.حضور نے احباب جماعت سے اپنے ملاپ کی مثال بیان فرماتے ہوئے اپنے حالیہ دورہ افریقہ (1980ء) کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ ایک روز دن ڈھلے دو، تین سوا حباب ملنے آگئے.حضور نے فرمایا کہ ” جب میں ان سے ملا تو میں نے ان سے کہا کہ میں اتنا تھکا ہوا ہوں کہ تقریر نہیں کر سکتا.تم اپنی کچی خوا ہیں سناؤ.اس پر گھنٹہ، پون گھنٹہ تک افریقی احباب اپنی کچی خوا ہیں سناتے رہے.اس سے اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ بے شمار فضل اپنی اس جماعت پر کر رہا ہے.905
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء حضور نے فرمایا:.تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم اللہ تعالیٰ تمہیں سب کچھ دینے کو تیار ہے، تم لینے کے لئے کیوں تیار نہیں ہو؟“ حضور نے اہل افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ درجن قوموں کو یقین تھا کہ دنیا میں ان سے کوئی پیار کرنے والا نہیں، ان کو خدا نے یہ باور کرا دیا ، خدا تم سے پیار کرتا ہے.حضور نے فرمایا کہ ”میرے سامنے جو افریقی بچہ آجاتا تھا، میں اسے لپٹا لیتا تھا، صاف ستھرے بچے ہوتے ہیں یہ، کوئی گند نہیں ہوتا ان میں ، ان کا جسم دھلا ہوا سینہ دھلا ہوا“.حضور نے فرمایا کہ جسے پانچ سات سال ہوئے ہیں، احمدیت قبول کئے ہوئے ، اس نے تفسیر القرآن انگریزی کی کئی کئی جلد میں پڑھی ہوئی ہیں.اور وہ رات کے گیارہ گیارہ بجے فون کر کے مبلغ سے پوچھتے ہیں اور مبلغوں کو بجا طور پر تنگ کرتے ہیں کہ ہمیں قرآنی علوم سکھاؤ ؟ ان کے دل میں خدا تعالی کا پیار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دین اسلام کا لگاؤ ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ احمدیت قبول کر کے وہ اس دنیا میں ہی جنت میں آگئے ہیں.حضور نے فرمایا کہ آئندہ تاریخ دان ان لذتوں کو بیان کریں گے، جو احمد بیت کو قبول کر کے ان کو حاصل ہوئیں“.حضور رحمہ اللہ نے احباب جماعت کے درمیان ملاپ کے ذرائع بڑھنے کے ذکر میں فرمایا:.اس مقصد کے لئے میں نے کئی ذرائع بتائے تھے.ان میں قلمی دوستی اور ٹیلیکس کا ذریعہ ہے.جن ملکوں میں قانون اجازت دے، امیچور ریڈیو کا قیام ہے.حضور نے فرمایا:.66 ایسے ذرائع اختیار کرنا ضروری ہے، جن سے ہم جلد جواب response دینے کے قابل ہوسکیں تا کہ دنیا میں جو شخص ہم سے اپنی روحانی تشنگی دور کرنے کے لئے مددمانگے، ہم اسے فورآمد دے سکیں.حضور نے فرمایا:.یورپ میں جب میں نے ایک پریس کانفرنس میں قرآنی تعلیمات کا ذکر کیا تو اتنی پر اثر تعلیم کو سن کر ایک صحافی کی آنکھوں میں آنسو آگئے.اور اس نے کہا کہ اتنی اچھی اور اتنی حسین تعلیم لے کر آپ اتنی دیر بعد ہمارے پاس آئے ہیں.906
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد پنجم حضور نے یورپ کی تیز رفتاری کا ذکرتے ہوئے فرمایا کہ اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء ایک بڑی شاہراہ Highway پر ایک حادثہ ہو گیا اور حادثے کے پانچ منٹ بعد ایک امدادی ہیلی کاپٹر وہاں لینڈ کر رہا تھا“.حضور نے اسلامی تاریخ کا ایک واقعہ بھی اسی تسلسل میں بیان فرمایا کہ ایک عورت کی آواز پر اسلامی حکومت نے محمد بن قاسم کو سندھ بھیج دیا.حضور رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ ساری دنیا یہ پتہ لگنا چاہیے کہ ہم کن حالات سے گزر رہے ہیں.یہ ساری سکیمیں بار بار سامنے آنی چاہئیں.مختلف ممالک میں قانون کی وقتیں آج نہیں تو کل ختم ہو جائیں گی.اور قانون اپنے شہریوں کو اجازت دے دے گا، جس سے ہم فائدہ اٹھا سکیں گئے.حضور نے فرمایا:.”جب ہم کہتے ہیں کہ دنیا کو ایک خاندان بنانا ہے تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ سب سے رابطہ قائم کریں.اور اگر ہم دنیا سے کٹے رہے اور روابط ، دوستیاں اور تعلقات استوار نہ کئے تو یہ بات ہمارے لئے گناہ بن جائے گی.حضور نے فرمایا:.اس کام کے لئے ویڈیوفلم کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے.اگر چہ ابھی بالکل نا تجربہ کار ہاتھوں میں ہے مگر پھر بھی ان کا بڑا اثر ہے“.حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:.بڑی ضروری چیز فولڈر ہیں.پچھلے دورے کے دوران اللہ تعالیٰ نے جو دو، تین نئی باتیں سمجھائیں، ان میں ایک فولڈر چھاپنے کی سکیم ہے.اس کا مقصد یہ ہے کہ مختصر طور پر پہلا تعارف ہم نے اپنے دین کا کروانا ہے.صرف دو ورقہ ، بالکل سادہ الفاظ ہیں.اس میں مثلاً یہ بتانا ہے کہ ہمارا دین امن کا مذہب ہے، بے لوث خدمت کا مذہب ہے.یعنی بالکل ابتدائی تعارف کروانا ہے“.حضور نے فرمایا:.اس کا بڑا اثر ہوا ہے.پچھلے سال یہ سیکم دی تھی ، اس پر عمل کرتے ہوئے سوئٹزر لینڈ کے مشن نے رومانوش زبان میں جو سوئٹزر لینڈ کے پہاڑوں پر رہنے والے گوجروں کی زبان ہے، اس میں فولڈر 907
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد پنجم چھاپے گئے.اور یہ 28 ہزار کی تعداد میں نیم مہدی صاحب نے اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے، چھپوائے ، انہوں نے ڈاک خانہ والوں سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے ایک طریق بتایا، جس سے بہت ہی کم خرچے میں ہزاروں فولڈرز اس قوم کے گھروں میں پہنچ گئے.اور اس کا اتنا اثر ہوا کہ اس علاقے میں شور پڑ گیا.اخباروں نے پادریوں پر بڑی سخت تنقید کی اور لکھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرتے“.حضور نے فرمایا کہ ” اس سکیم کے تحت کئی لاکھ فولڈرز مختلف ممالک کی زبانوں میں چھپوائے گئے ہیں.اور تقسیم کر دیئے ہیں.اس کا ایک مقصد یہ ہے کہ یورپ کے ممالک میں گرمیوں میں لاکھوں سیاح دوسرے ملکوں سے آتے ہیں.اب مثلاً جاپان کا ایک سیاح سوئٹزر لینڈ میں آتا ہے تو اس کو اس ملک میں اس کی اپنی زبان یعنی جاپانی میں کوئی احمدی ایک فولڈر پکڑا دیتا ہے.پھر وہی سیاح جرمن جاتا ہے یا اور ملکوں میں جاتا ہے تو ہر ملک میں اس کی اپنی زبان میں اس کے ہاتھوں میں ایک فولڈر دیا جاتا ہے تو اس پر بڑا اثر ہوتا ہے کہ یہ کتنی منظم جماعت ہے.اور اس طرح جماعت احمدیہ کی طرف عالمی رجحان میں نمایاں اضافہ ہونے کی توقع ہے“.حضور نے فرمایا:.ہمارا تجربہ ہے کہ 200 لوگوں کو چھوڑ کر سب ان فولڈروں کو پڑھتے ہیں.اور دس سے پندرہ فیصد لوگ اسے محفوظ بھی رکھتے ہیں.اس طرح سے ہماری کوشش یہ ہے کہ مثلاً جو جاپانی جرمنوں کی بد عادات سیکھنے جرمنی آیا ہے، وہاں پر ہم اسے اسلام سکھا دیں.حضور نے فرمایا کہ عید گاہ ہماری ایک اہم انسٹی ٹیوشن ہے.اس کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ مختلف ممالک کے اہم شہروں میں عید گاہوں کے قیام سے بہت فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں.چنانچہ کینیڈا اور امریکہ کی جماعتوں نے اس طرف توجہ دینی شروع کی ہے.چنانچہ امریکہ میں سینٹ لوئیس (St Louis) شہر سے قریباً پچاس میل دور جنوب مغرب کی طرف جماعت احمدیہ نے 116 ایکٹر زمین بطور عید گاہ خرید لی ہے“.حضور نے فرمایا کہ ” میں نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ آج جو زمین ستی پانچ ہزار ڈالر میں مل رہی ہے، وہ کل پانچ لاکھ ڈالر میں بھی نہیں ملے گی.اس لئے جگہ تلاش کرو اور اس منصوبے پر توجہ دو.908
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء حضور نے فرمایا:.” مجھے پتہ چلا ہے کہ امریکہ میں بعض بعض جگہ زمین صرف دس روپے ایکٹر مل رہی ہے.اگر ایسی جگہوں کی طرف توجہ کی جائے تو بہت فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.ایسی جگہ پختہ سڑک سے تھیں، چالیس میل دور بھی ملے تو کوئی حرج نہیں.یہ عید گاہ کا منصوبہ بڑا کامیاب ہوگا.انشاء اللہ.حضور نے فرمایا کہ ( مطبوعه روزنامه الفضل 19 جنوری 1982ء) تحریک جدید نے امسال بہت سے ممالک میں نے مشن ہاؤسز کھولے ہیں.اس سال کے دوران 34 نئی مساجد ، چھ ممالک میں تحریک جدید کے ماتحت تعمیر ہوئی ہیں.اس کے علاوہ بڑی کثرت سے لٹریچر شائع ہوا ہے، جن میں فولڈرز بھی شامل ہیں.حضور نے فرمایا کہ دو بعض جگہ صد سالہ جوبلی منصو بہ اور تحریک جدید مل کر کام کرتے ہیں.حضور نے تحریک جدید کے ماتحت کام کرنے والے ہسپتالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ” بڑی تعداد میں ہسپتال افریقہ کے ممالک میں کھل گئے ہیں.ہر ہسپتال خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا زندہ نشان ہے.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور جماعت احمدیہ کی صداقت کی بین دلیل ہے“.حضور نے فرمایا کہ ”ہمارے ہسپتال اتنی شہرت کے حامل ہیں کہ دوسرے ممالک کے بڑے بڑے امیر لوگ ہمارے ہسپتال آئے اور صحت یاب ہو کر گئے.جن بیماروں کو یورپ کے ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دیا تھا، ان کو ہمارے ہسپتالوں کی وساطت سے شفا مل گئی.اس وقت مغربی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے ہیں ہسپتال قائم ہیں.اور ان ملکوں کے عوام اور حکومتوں پر اتنا اثر ہے ان کا کہ وہاں کی حکومتیں ہمارے پیچھے پڑا کر ہم سے نئے ہسپتال اور سکول بھی کھلوا رہی ہیں“.حضور نے فرمایا:.”ساری دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں جیتنے کے لئے ایک انقلاب عظیم دلوں میں بپا ہونا شروع ہو گیا.اس کے کچھ نتائج آج آگئے ہیں، کچھ کل آئیں گے، کچھ پرسوں“.909
اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1981ء حضور نے فرمایا:.تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم تم کچھ فکر نہ کرو.دنیا کی مخالفت بادلوں کی ٹکڑیوں کی شکل میں آتی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ اسلام کا نور اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن آسمان پر اس طرح چمکے گا کہ اندھیرے پیدا کرنے والی کالی بدلیوں کا نشان بھی کسی کو نظر نہیں آئے گا.انشاء اللہ.حضور رحمہ اللہ نے قدرت ثانیہ کے دور ثالثہ کے عظیم الہی منصوبے، نصرت جہاں سکیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اس سکیم کے تحت اب تک مغربی افریقہ کے ممالک میں 21 سکول کھولے جاچکے ہیں.جو اچھے طالب علم اور اچھے کھلاڑی اور اچھے انسان پیدا کر رہے ہیں.باپ کہتا ہے کہ بچوں کو احمدیہ میں داخل کروانا ہے اور بیٹا بھی کہتا ہے کہ میں نے احمدیہ میں داخل ہونا ہے.بڑے بڑے سیاسی لیڈر ، سوشل لیڈر اور بڑے بڑے ماہر اقتصادیات مانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے سکولوں نے علمی لحاظ سے باقی سکولوں میں مابہ الامتیاز پیدا کر دیا ہے.حضور نے فرمایا کہ بعض دوستوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ نصرت جہاں منصوبے کی رقم کو ریزرو میں رکھ دیا جائے اور اس سے نفع لے کر کام کیا جائے.لیکن میں نے خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس سے جو تجارت کی اس میں اس نے بے انداز برکت ڈالی.اس سکیم کے تحت ہمارا ابتدائی سرمایہ 3 5 لاکھ روپے تھا.صرف اس سال نصرت جہاں کا بجٹ 3 کروڑ روپے سے زائد ہے اور ریز رو پیسے بھی باقی پڑے ہوئے ہیں.حضور نے فرمایا کہ مجھے یہ سوچنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی کہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ میں تو حیران ہوں اور حیرت میں گم ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے ذرہ ناچیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اعلان کر دیا کہ اس کے ذریعے سے میں دنیا میں انقلاب لا کر دکھاؤں گا“.910 مطبوعه روزنامه الفضل 20 جنوری 1982ء)
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسہ سالا نہ قا قادیان اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین رکھیں اور قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں پیغام بر موقع جلسہ سالانہ قادیان منعقدہ دسمبر 1981ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر احباب کرام! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ آپ کو ایک بار پھر سالانہ جلسہ کے موقع پر احمدیت کے دائمی مرکز قادیان میں جمع ہونے کی توفیق مل رہی ہے.میری دعا ہے کہ آپ کا یہ سالانہ جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب اور بابرکت ثابت ہو اور اللہ تعالیٰ آپ سب دوستوں اور عزیزوں کو، جو اس جلسہ میں شامل ہور ہے ہیں، اپنے بے شمار فضلوں اور انعامات سے نوازے.آمین عزیز و! آج سے بانوے سال قبل قادیان کی مقدس سرزمین سے (حضرت اقدس.ناقل ) کے ذریعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے جو آواز بلند ہوئی تھی ، آج خدا کے فضل سے اس آسمانی آواز کی صدائے بازگشت دنیا کے ہر حصے اور ہر کونے سے سنی جاسکتی ہے.اور اس خدائی آواز پر لبیک کہنے والوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک کروڑ سے بھی زائد ہو چکی ہے.کیا یہ حضرت اقدس.ناقل ) کی صداقت کا ایک عظیم نشان نہیں ہے؟ یہ تو ایک ایسا نشان ہے، جو دوست، دشمن سب کو نظر آتا ہے.اس کے علاوہ ہر بچے اور مخلص احمدی نے اپنی زندگی میں اسلام اور احمدیت کی صداقت کے بے شمار نشانات کا بذات خود مشاہدہ کیا ہے.یہی وہ مشاہدہ ہے، جس کی بنیاد پر ہم ایک مضبوط چٹان کی طرح اس یقین پر قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (حضرت اقدس.ناقل ) کے ساتھ احمدیت کی ترقی اور شوکت کے جو وعدے کئے ہیں، وہ سب کے 911
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم - پیغام بر موقع جلسه سالانه قادیان سب انشاء اللہ تعالٰی ضرور پورے ہو کر رہیں گے.اور دنیا کی کوئی طاقت ان وعدوں کے پورا ہونے میں روک نہیں بن سکتی.اس میں شک نہیں کہ الہی سنت کے مطابق البہی جماعتوں کی مخالفتیں ہوتی ہیں اور آئندہ بھی ہوں گی.ابتلاؤں اور مصائب کا آنا بھی بہر حال مقدر ہے.لیکن دنیا خواہ کتنا زور لگا لے، وہ ہماری ترقی میں حائل نہیں ہو سکتی.احمدیت کے ذریعہ غلبہ اسلام کا الہی وعدہ انشاء اللہ تعالیٰ ضرور پورا ہو کر رہے گا.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم استقلال اور استقامت کے ساتھ ہر قسم کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے چلے جائیں.کیونکہ قربانیوں کے بعد ہی وقت موعود کا آنا مقدر ہے.جیسا کہ (حضرت) اقدس.ناقل ) فرماتے ہیں:....یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو، جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف اس کی شاخیں نکلیں گی اور یہ ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ، جو خدا کی بات پر ایمان رکھے.اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے.کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے.تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق....وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے.آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.( الوصیۃ صفحہ 11، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309) میرے عزیزو! اس وقت ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں، گو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم پر موسلا دھار بارش کی طرح نشانات نازل ہو رہے ہیں.مگر یہ دور بہر حال ابھی ابتلاؤں اور قربانیوں کا دور ہے.پس میری آپ میں سے ہر ایک کو یہ نصیحت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین رکھیں اور اس کی راہ میں قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں.دعاؤں پر خاص زور دیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرمائے ، ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمائے اور جلد ہمیں وہ دن دکھلائے ، جبکہ ہم (حضرت اقدس.ناقل ) کی اس پیشگوئی کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھ لیں کہ ”اے تمام لوگوسن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے، جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا ، 912
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم پیغام بر موقع جلسه سالانه قادیان جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور ہر ایک کو، جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے، نامرا در کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66) اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہمیشہ آپ کے سر پر رہے.آمین.( دستخط) مرزا ناصر احمد مطبوعه روزنامه الفضل 08 فروری 1982ء ، بشکریہ بدر قادیان 31 دسمبر 1981ء) 913
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 03 اپریل 1981ء خدا کے منصوبوں کو کسی کا تعصب یا کمزوری یا بے پرواہی نا کام نہیں کر سکتی ہے خطاب فرمودہ 03 اپریل 1981ء بر موقع مجلس شوری اجتماعی دعا، تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ہماری یہ مشاورت مختلف پہلوؤں سے بہت ہی اہمیت رکھتی ہے.ایک تو صدی ہجری کے لحاظ سے پندرہویں صدی کی یہ پہلی مجلس مشاورت ہے.دوسرے جوصد سالہ جو بلی کا منصوبہ بنایا گیا تھا ، جماعتی زندگی کی دوسری صدی کے استقبال کے لئے اس کے عین وسط میں یہ مشاورت آرہی ہے.دوسری صدی کے استقبال کے سلسلہ میں جو کام کرنے والے تھے، ان میں سے کچھ ہور ہے ہیں، کچھ کے لئے کوشش کی جارہی ہے.کیونکہ وہ منصوبہ بہت بڑا ہے اور وقت چاہتا ہے اور محنت چاہتا ہے اور کوشش چاہتا ہے اور ایسے وسائل چاہتا ہے کہ جس وقت منصوبہ بنا، وہ ہمارے پاس تھے ہی نہیں اور اب بھی جتنے ہونے چاہئیں، وہ نہیں ہیں.اس منصوبہ کی ایک شق یہ تھی کہ قرآن کریم کے تراجم شائع کئے جائیں.اب قرآن کریم کے تراجم کسی دہریہ سے کروا کے تو ہم نے نہیں چھپوانے یا کسی عیسائی متعصب سے ترجمہ کروا کر تو شائع نہیں کرنے.اس کے لئے ان زبانوں کے احمدی ماہرین چاہئیں، جن زبانوں میں ہم نے تراجم کروانے ہیں.یا اگر وہ میسر نہ ہوں تو ایسے سکالرز اور ماہرین السنہ، جو ہم سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم ان پر اعتماد کر سکتے ہیں، وہ میسر آنے چاہئیں.پس یہ کوشش، یہ سعی، یہ جدو جہد، یہ struggle پچھلے سات سال سے جاری ہے.مثلاً فرانسیسی ترجمہ قرآن عظیم کا جہاں تک تعلق ہے، ہمارے بعض دوست فرانسیسی جانتے ہیں.ماریشس میں فرانسیسی بولی جاتی ہے.وہاں سکول کے بہت سے احمدی ٹیچر ز ہیں، بعض شاید ہیڈ ماسٹر بھی ہیں.اچھی زبان ان کی سمجھی جاتی تھی لیکن جب ترجمہ قرآن کریم ان میں سے ایک حصے نے کیا تو احمدیوں میں سے ہی دوسرے حصے نے اس پر اعتراض کر دیا کہ یہ ترجمہ ٹھیک نہیں ہے.اور جب اس دوسرے حصے سے ترجمہ کروایا تو پہلے نے اعتراض کر دیا کہ یہ ترجمہ ٹھیک نہیں.پھر ماریشس کے ہی ایک اور دوست تھے، احمدی نہیں تھے، ان کے متعلق خیال تھا کہ وہ شاید زبان اچھی جانتے ہوں گے.انہوں نے اجرت پر اس ترجمہ کو 915
خطاب فرمودہ 03 اپریل 1981ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم reviso کیا.یعنی جو احمدیوں نے ترجمہ کیا ہوا تھا، اس کی نظر ثانی کی.پھر اس کے او پر اعتراض ہو گیا.اور جب ان تمام مراحل میں سے گزر کر انگلستان کی ایک طبع کرنے والی کمپنی ، (اس کو publishing house بھی کہتے ہیں.جس نے ہماری بعض بڑی اچھی اور معیاری کتابیں شائع کی ہیں، مثلاً Essence of Islam ہے.یہ نمبر ایک آگئی ہے، نمبر دو آنے والی ہے.اور ابھی تھوڑا عرصہ ہوا، انہوں نے دیباچہ قرآن عظیم، جس کا فرانسیسی میں اچھا ترجمہ ہو گیا تھا، وہ انہوں نے شائع کر دیا.لیکن قرآن کریم کے ترجمے کے متعلق انہوں نے کہا کہ جو معیار ہماری کمپنی کا ہے، اس معیار پر یہ پورا نہیں اترتا، ہم اسے شائع نہیں کریں گے.تو جو معیار اس کمپنی کا ہے، اس سے ہمارے قرآن کریم کا معیار اونچا ہے.تو ہم اسے وہاں شائع نہیں کروا سکتے تھے.پھر اب ایک اور بزرگ عمر کے لحاظ سے فرانسیسی زبان کے ماہر، جو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ساتھ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس میں بطور رجسٹرار کام کرتے رہے ہیں اور اب ریٹائر ڈ ہو گئے ہیں، پچھلے سال جب میں لندن تھا تو مجھے خیال آیا کہ چوہدری صاحب سے کہوں کہ وہ فارغ بیٹھے ہیں، وہ مفت کر دیں یا پیسے لے کے ترجمہ کر دیں.ان سے جب بات کی گئی تو انہوں نے بڑی خوشی سے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا.پیسوں کی تو ابھی تک بات نہیں کی.وہ اب ترجمہ کر رہے ہیں.ہمیں امید ہے کہ اس سال کے اندر انشاء اللہ وہ ترجمہ ہو جائے گا.ان کا رابطہ ٹیلیفون پر ایک ایسے فرانسیسی سے بھی ہوا، جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوا.لیکن اس فرانسیسی سکالر نے ایک کتاب لکھی ہے، بائبل ، قرآن عظیم اور سائنس آج کل سائنس کی جو تحقیقات ہورہی ہیں، ان پر بڑی اچھی کتاب لکھی ہے.اور بیبیوں مثالیں دے کر جو خلاصہ نکالا ہے، وہ یہ ہے کہ اس نے لکھا ہے کہ میں نے بائبل کا موازنہ جب سائنس سے کیا مراد آج کی سائنس ہے ) تو مجھے بائبل کا ایک حکم بھی ایسا نہیں نظر آیا، جو سائنس سے مطابقت کھاتا ہو.پھر جب میں نے قرآن کریم کا موازنہ کیا تو مجھے ایک حکم بھی ایسا نہیں ملا، جو سائنس سے مطابقت نہ کھاتا ہو.پس جو سائنس کی تحقیق آج ہوئی اور جو سمجھا گیا کہ اس زمانہ کی سائنس نے وہ دریافت کی ہے، اس کے متعلق قرآن کریم چودہ سو سال پہلے لکھ چکا تھا.اس لئے وہ لکھتے ہیں کہ مجھے یہ بات ماننے پر مجبور ہونا پڑا کہ قرآن کریم کو لکھنے والا کوئی انسان نہیں.یہ خدا کا کلام ہے، جس نے چودہ سو سال بعد میں آنے والے واقعات کو چودہ سو سال پہلے بتادیا.ان سے بھی ٹیلیفون پر بات ہوئی ہے، اس بزرگ فرانسیسی سے ( عمر کے لحاظ سے بزرگ ) جو ہمارا ترجمہ کر رہے ہیں.تو ان کو بھی بڑی دلچسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے بعض اچھے مشورے بھی دیئے.بہر حال اب یہ کام ایسی ڈگر پر چل پڑا ہے کہ امید رکھتا ہوں کہ اس سال کے آخر تک ختم ہو جائے گا.916
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 03 اپریل 1981ء پھر مجھے خیال آیا کہ ہمارے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اٹلی میں کام کرتے ہیں اور اٹالین ترجمہ بھی آج سے کوئی چالیس، پچاس سال پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کروا کے رکھا ہوا تھا.لیکن کسی عیسائی یاد ہر یہ یا غیر مسلم نے وہ ترجمہ کیا ہوا تھا، وہ ہم شائع نہیں کر سکتے تھے ، جب تک کہ ہم یہ جان نہ لیں کہ جو ترجمہ کیا گیا ہے، وہ درست بھی ہے.ان سے میں نے بات کی کہ آپ کے پاس کوئی اچھا، سمجھدار، قابل اعتماد، اتالین زبان کا ماہر ہو تو آپ ان سے بات کریں.ہم پیسے دیں گے، جو مناسب ہوں گے.تو ان کو بھی ایک دوست مل گئے اور انہوں نے بڑی دلچسپی لی.اور چند مہینوں میں سات سپاروں کا ترجمہ revise کر کے (ابھی میں لندن میں ہی تھا ) مجھے بھجوا دیا کہ اگر یہ آپ کے معیار کے مطابق ہو تو میں بقیہ ترجمہ مکمل کردوں.میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ وہ معیار والا ہی تو سارا جھگڑا ہے.ہمیں انا لین آتی نہیں.یہ کیسے پتہ لگے گا کہ یہ درست ہے کہ نہیں ؟ اس واسطے آپ ان سے کہیں یہ ختم کر دیں پھر ہم جائزہ لے لیں گے.تو یہ میں بتا رہا ہوں کہ یہ وقتیں ہیں.لیکن کوئی ایسا hurdle (روک) نہیں ہے، جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پھلانگ نہ سکے.اور جو کام کرنے ہیں، وہ تو انشاء اللہ کرنے ہیں.ممکن ہے، کوئی وقت آگے پیچھے ہو جائے لیکن یہ کام تو بہر حال ہوتا ہے.انشاء اللہ.اس وقت اگر ہم فرانسیسی اور اٹالین اور سپینش جو تر جمہ موجود ہے، اس کی rcvision ہونے والی ہے اور Portugese (پرتگیزی زبان) جس کا غالباً ترجمہ موجود ہے اور revision ہونے والی ہے اور Russian جس کا ترجمہ موجود ہے اور Revision ہونے والی ہے اور Chinese زبان میں جس کا ترجمہ اس وقت کوئی نہیں.تو یہ چھ زبانوں میں ہم قرآن کریم کا ترجمہ کر لیں تو انسانی آبادی کا میرا خیال ہے، اسی فیصد سے زیادہ کے ہاتھ میں ہم قرآن کریم کا ترجمہ ایسی زبان میں دے سکتے ہیں، جس کو وہ سمجھتا ہو.بہر حال یہ ہمارے منصوبے میں تھا کہ ہم نے اس طرح احمدیت کی نئی صدی کا استقبال کرنا ہے.پھر منصوبہ میں یہ بھی شامل تھا کہ بہت سارے رسالے چھوٹے چھوٹے شائع کرنے ہیں.قرآن کریم کے ترجمے کے بڑے کام ہو جائیں تو اسی میں سے ترجمہ کا یہ چھوٹا کام نکل آتا ہے.مثلاً دیباچہ تفسیر القرآن کا ترجمہ ہو گیا، فرانسیسی زبان میں چھپ گیا.یہاں ایک مسلمان فرانسیسی بولنے والے سفیر کو ان کے ایک دوست نے دے دیا تو اس نے مجھے بتایا کہ انہوں نے دیباچہ تفسیر القرآن کا فرانسیسی ترجمہ پڑھا ہے.اور کہا ہے کہ اس کی زبان بڑی اچھی ہے.سوائے ایک، دو مقامات کے، جہاں انہوں نے محسوس کیا کہ زبان 917
خطاب فرمودہ 03 اپریل 1981ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد پنجم improve کرنی چاہئے.اور اس میں اتنی دلچسپی ہے کہ انہوں نے بتایا کہ جب تک میں نے اس کا مطالعہ ختم نہ کیا، کسی اور کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا.واللہ تعالی فضل فرمائے ، اس دیباچہ میں جومختلف موضوعات ہیں، مثلا سیرت نبوی کا مضمون قریبا نصف حصہ پرمشتمل ہے.دیا چہ تفسر القرآن قریباً 340-330 صفحے کی پوری ایک کتاب ہے، اس کا نصف سے کچھ زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے.ایک سو صفحے کے قریب موازنہ ہے، عیسائیت یا مذاہب کا.جس میں زیادہ تر عیسائیت اور اسلام کا موازنہ پیش کیا گیا ہے.کچھ اور موضوعات بھی ہیں.ان میں سے آٹھ ، دس چھوٹے چھوٹے رسالے آسانی سے نکل سکتے ہیں.Essence of Islam کے نام سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے بعض اقتباسات کا ترجمہ انگریزی میں ہو گیا.انگریزی میں اگر ترجمہ ہو جائے تو آگے دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے میں آسانی رہتی ہے.Essence of Islam کی ابھی ایک جلد شائع ہوئی ہے، جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات، تحریرات، اقتباسات کا انگریزی ترجمہ پیش کیا گیا ہے.اس میں کسی اور کا کوئی لفظ نہیں.آپ کی اپنی قلم سے جو نکلا یا زبان سے جو نکلا، اس میں سے بعض اقتباسات لئے گئے ہیں اور ان کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے.اور شروع میں چار بنیادی عنوان لے کے پہلی جلد شائع کی گئی ہے.جو اللہ تعالیٰ اور اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم کے چار عنوانوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے.اس پہلی جلد کے غالباً 338 صفحے ہیں.اور Essence of Islam کی دوسری جلد اس وقت پریس میں ہے.میرا خیال ہے ایک مہینے یا دو مہینوں میں آجائے گی.اس کا عنوان اس وقت میرے ذہن میں نہیں.وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات پر مشتمل ہے.اس کے بعد غالباً دو جلدیں اور آئیں گی.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات پر مشتمل چار جلدیں ہوں گی ، جو انگریزی میں شائع ہوں گی.چھوٹے چھوٹے عنوانات پر رسالے شائع کرنے کا جو منصوبہ تھا، اس میں اگر یہ اقتباسات آجائیں تو ہر زبان میں وہ شائع کیا جا سکتا ہے.جس طرح پچھلے سال رسالہ تو نہیں فولڈ ریعنی وہ رسالے کی ابتداء ہے، خدا کے فضل سے فوری طور پر ہمارے ہمت والے مبلغین، جو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، وہ میرے خیال میں چودہ یا سولہ ممالک میں انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں فولڈر شائع کر چکے ہیں.انگلستان میں بھی اور امریکہ میں بھی، دو جگہ سے تو اطلاع آ گئی ہے.اس چھوٹے فولڈر کا عنوان یہ رکھا گیا، ”مہدی اور مسیح آ گئے اور احمدیت کیا ہے؟ بڑا اچھا چھوٹا سا مضمون ہے.اس کے علاوہ جرمنی میں یہ فولڈر جرمن زبان میں 918
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خطاب فرمودہ 03 اپریل 1981ء چھپا سپینش میں چھپا، فریج میں چھپا، سوئٹزر لینڈ میں نیم مہدی نے بڑی ہمت کی ، سوئٹر لینڈ میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں تو انہوں نے اتالین میں بھی وہاں سے شائع کیا.یہ ایک ہی فولڈر کا ترجمہ ہے، جومختلف زبانوں میں کیا گیا ہے.اور انہوں نے پھر وہاں ایک گوجروں کی زبان ہے.یعنی وہ سوئس ، جو پہاڑوں کی چوٹیوں کے اوپر رہتے ہیں اور گوجروں کے ساتھ ان کا معاشرہ ملتا جلتا ہے، ان کی رو مینش زبان میں وہ چھپا.پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں زکریا سے اس کا یوگوسلاوین زبان میں ترجمہ کروا کے شائع کروادوں.میں نے کہا، ضرور کروا دو.صرف نیم مہدی نے چھ زبانوں میں ترجمے کروا دیئے ہیں.تو وہاں سوئٹزر لینڈ میں چھپا.پھر انہوں نے کہا، میں ترکی کے مبلغ کو لکھتا ہوں.تو وہ بھی بڑا اچھا ترجمہ ہو گیا اور ٹرکش زبان میں چھپ گیا ، ادھر جاپانی زبان میں چھپ گیا.پھر یورپ میں ڈینش سویڈش اور نارو تحسین تینوں زبانوں میں چھپ گیا.اور فولڈر کا بڑا ہی فائدہ ہے.میرے ہوتے ہوئے کچھ چھپے تھے، وہ فائدہ ہم نے دیکھا.گرمیوں میں اب سیاحوں کا سیاحت کرنے کا موسم آ گیا ہے تو ایک ایک ملک میں کئی کئی لاکھ سیاح ہوتے ہیں اور ساری دنیا کے ملکوں سے آئے ہوئے ہوتے ہیں.اگر مثلاً ایک جاپانی یورپ کی سیاحت پر آتا ہے اور ہالینڈ کی ڈچ زبان میں چھپا ہوا فولڈر سے پیش کر دیا جاتا ہے.اسی طرح یہ فولڈر یورپ کی قریباً ساری | زبانوں میں آ گیا ہے.وہ K.LM سے اترتا ہے، ڈنمارک میں اور وہاں کی سیر کر رہا ہے، اسے ایک احمدی ملے گا، کہے گا، دیکھو، یہ پڑھو.پھر وہ سوئٹزر لینڈ جاتا ہے تو وہی فولڈر اس کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے.یورپ کے ہر ملک میں جب اس کے ہاتھ میں جماعت احمدیہ کا وہ ایک ہی فولڈر جائے گا، اس کے دماغ کو تو بڑا سخت جھٹکا لگے گا کہ یہ ایک بڑی منظم جماعت ہے، جو بڑی تنظیم کے ساتھ تبلیغ کر رہی ہے.جس ملک میں جاتا ہوں، یہ فولڈر لے کر میرے پاس پہنچ جاتے ہیں.اسی طرح پہلے چینی اپنے ملک سے باہر نہیں نکلتے تھے، اب وہ باہر نکلنے شروع ہو گئے ہیں.پچھلے سال میں نے محسوس کیا، مجھے بڑی کثرت سے چینی سیاح نظر آئے.تو اپنے ملک میں شاید ان کے ساتھ بے تکلف بات کرنا مناسب نہ ہو، دوسروں کے ملک میں تو بڑی بے تکلفی ہو جاتی ہے.اور سیاح کے ساتھ بات کرنے میں بڑی آسانی پیدا ہو جاتی ہے.فولڈر جو چار صفحے کی بجائے آٹھ صفحے کا بن جاتا ہے.اس میں خوبی یہ ہے کہ اس پر مشن کی تصویر دی گئی ہے.مثلاً جرمن زبان میں دو فولڈر چھپے ہیں.ایک ہیمبرگ کی مسجد کی تصویر کے ساتھ اور دوسرا فرینکفرٹ کی مسجد کی تصویر کے ساتھ چھپا ہے.پہلے صفحہ پر مسجد کی تصویر ہے اور درمیان میں ایک صفحہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود فرمایا 919
خطاب فرمودہ 03 اپریل 1981ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم کہ تصویر بھی ایک اثر ڈالتی ہے.ویسے جہاں میرے ذہن میں حوالہ ہے، اس میں تو آپ نے فرمایا ہے کہ خصوصاً یورپین ممالک کے لوگ بڑے قیافہ شناس ہوتے ہیں.وہ تصویر دیکھ کے اندازہ لگاتے ہیں کہ کس قسم کا آدمی ہے؟ اس قسم کے کئی واقعات رونما ہوتے ہیں.پچھلے دنوں ایک دوست نے بتایا کہ ایک سخت متعصب پاکستانی نے کسی جگہ اپنے دوست کے کمرے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھی تو دیکھ کے وہ گم ہو گئے اور تصویر دیکھتے دیکھتے ہی ان کا سارا تعصب ختم ہو گیا.صرف تصویر نے یہ اثر کیا.باقی ہم بت پرست نہیں.جماعت احمد یہ قیامت تک، جب تک خلافت قائم ہے، تصویر کو بہت پرستی کا ذریعہ نہیں بنائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.لیکن جو خدا تعالیٰ نے انسان کو طاقتیں دیں ہیں، یہ جو قیافہ شناسی ہے، تصویر کو دیکھ کے پتہ لینا کہ کس قسم کا آدمی ہے؟ یہ میں نے اور آپ نے تو انسان کو طاقت نہیں دی.اللہ تعالیٰ نے کسی مقصد کے لئے دی ہے.ہمیں اس سے بہر حال فائدہ اٹھانا چاہئے.یہ بات میں اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ بعض خشک ذہن لوگ بہت سی غلط چیزوں میں الجھ جاتے ہیں.تصویر کی پرستش منع ہے.تصویر کے ذریعہ سے اگر کسی روح کو خدا تعالیٰ کے آستانہ کی طرف لایا جا سکے تو اس کے اوپر تو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.نہ عقلاً ، نہ اخلاقا اور نہ مذ ہبہا.تو یہ ایک حصے کا میں نے بتایا ہے.یہ وہ کوشش ہے، جو اس وقت چل رہی ہے اور ہم اپنی اس کوشش اور سعی کے وسط میں ہیں، جس کا جماعت کو پتہ نہیں.اس لئے میں ذرا تفصیل میں گیا ہوں.اب جو لندن میں 78ء میں کا نفرنس ہوئی تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں فوت ہوئے، اسی سلسلہ میں آئندہ آنے والے سال 82ء میں یہ کانفرنس امریکہ میں ہورہی ہے.اور امریکہ چونکہ ایک بڑا ملک ہے، اس واسطے لندن کی کانفرنس سے زیادہ بڑے پیمانے پر وہ کا نفرنس ہورہی ہے.اس دنیا کا یہ حال ہے کہ جس ہال کو کرایہ پر لینا تھا، وہ پچھلے جلسے پر مجھے تاریں آنا شروع ہوئیں کہ اسے کرائے پر لینے کی اجازت دیں، ورنہ یہ ہال نہیں ملے گا.پونے دو سال بعد کے لئے بھی بک ہو جائے گا.اور ویسے اس ہال کا دو دن کا کرایہ چار لاکھ روپیہ یعنی 40 ہزار ڈالر ہے.لیکن اس ہال کے ساتھ کچھ associations (باتیں) ایسی لگی ہوئیں ہیں، جنہوں نے ہمیں کچھ غیرت دلائی.ایک یہ کہ وہی ہال ہے، جس میں ڈوئی نے تقریر کی اسلام کے خلاف اور جس کے نتیجہ میں ڈوئی پر عذاب الہی نازل ہوا تھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا معجزہ تھا.لیکن اس ہال سے آج تک اسلام کے حق میں کسی مسلمان کی آواز نہیں اٹھی.وہ - 920
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطاب فرمودہ 03 اپریل 1981ء مختلف کھیلوں کے بھی کام آتا ہے، پادری بھی وہاں بولے، بلی گراہم نے بھی غالبا وہاں تقریر کی ، ڈوئی نے بھی کی اور بھی مختلف کام لینے والے اس سے کام لیتے ہیں.چار ہزار آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے.انہوں نے سوچ کے اس کو بھی institution بنایا ہے.یہ جو کرایہ لیں گے، اسی میں اپنے خرچ پر اپنی لائبریری کے لئے (ہمارے لئے نہیں) وہ سارے پروگراموں کی video بنائیں گے یا دوسرے کیمرے بھی بولنے والے آگئے ہیں، وہ تصویر بھی بنائیں گے، سارے دودن کے procedure کی.اور وہ پھر اس کے جو cassettes ہیں یا فلمیں ہیں، وہ اپنی لائبریری میں رکھ دیں گے.اگر ہم نے لینی ہوئی ، جس حصے کی یا ساری کانفرنس کی جو بھی لینی ہوئی، جو ان کے ریٹ ہیں، اس کے مطابق بنا کر دے دیں گے.لیکن وہاں جو بھی فنکشن ہوتا ہے، اس کا سارے کا سارا ریکارڈ ان کی لائبریری میں Cabinct کے طریق پر موجود ہوتا ہے.تو میرے خیال میں وہ ڈوئی کے زمانہ کی تو نہیں ہوگی.کیونکہ اس وقت تو یہ چیز آئی نہیں تھی.نہ وڈیو کیمرہ تھا ، نہ video فلم.اگر آجاتی تو بڑا مزہ آتا.ہم بھی اس کو دیکھتے.لیکن بہرحال یہ تغیر پیدا ہورہا ہے.دنیا اسلام کی طرف کھینچی چلی آرہی ہے.دنیا جب میں کہتا ہوں تو اس سے میری مراد انسانی دماغ ہے.وہ چاہے چین کے رہنا والا ہے یا وہ کمیونسٹ رشیا کا رہنے والا ہے یا وہ گند میں پھنسے ہوئے امریکہ کا رہنے والا ہے یاوہ افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والا ہے.افریقی لوگ اب بھی جانگلی ہیں.ہمارے ہاں تو ویسے ہی بیچارے جانگلی کہلاتے ہیں، وہ بچ بچ جانگلی ہیں.ان کا کوئی معاشرہ نہیں، کوئی مذہب نہیں.اسلام کی طرف ان کا رجحان ہو رہا ہے.مگر اس اسلام کی طرف جو قرآن عظیم کی صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل ہوا.اس اسلام کی طرف نہیں، جو لوگ آپ ہی بنا لیتے ہیں.اسلام پر ایک یہ بھی ظلم ہے ناں کہ آپ ہی بنالیا.اور بعض دفعہ تو اتنا بڑا دکھ ہوتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی حصے نے بڑے کھل کے بغیر کسی شرم و حیا کے کچھ قوانین قرآن کریم کے توڑ دیئے.مجموعی طور پر ساری دنیا میں کوئی ایسا حکم نہیں چھوڑا، قرآن کریم کا، جس کو جرات کے ساتھ تو ڑا نہ گیا ہو.مثلاً ( میں ملکوں کے نام نہیں لینا چاہتا، میں فساد پیدا نہیں کرنا چاہتا.) ایک ملک کے مفتی اعظم نے یہ فتویٰ دیا کہ شراب تو عرب ملکوں کے لئے حرام کی گئی تھی کیونکہ وہ گرم ملک ہے.جو ٹھنڈے ملک ہیں، وہاں تو شراب حرامہ نہیں.جس طرح اس مفتی اعظم کو گویا پہلی دفعہ پتہ لگا کہ کوئی ٹھنڈے ملک بھی ہیں اور اس کی اطلاع انہوں نے اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کو نہیں دی تھی.ورنہ وہ اس کا کوئی انتظام کر دیتا.تو اس قسم کے فتوے بھی ہیں.پس اس صدی نے یہ بھی ایک کام کیا کہ بدعات کو دور کر دیا اور نوع انسانی کے سامنے خالص اسلام پیش کیا.اور یہ وہ خالص اسلام ہے، جس کا حسن اور نور قرآن کریم کے اندر موجیں مار رہا ہے.اور یہ وہ 921
خطاب فرمودہ 03 اپریل 1981ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم قوت احسان ہے، جس کے ذریعہ سے ہم جیسے کمزور اور غریب اور دنیا کے دھتکارے ہوؤں نے کوشش کرنی ہے اور لوگوں کے دل جیتنے ہیں.لیکن کوشش بہر حال ہم نے کرنی ہے.کیونکہ جماعت احمدیہ اسی غرض کے لئے پیدا کی گئی ہے.اگر آپ کوشش نہیں کریں گے تو خدا تعالیٰ ایک اور قوم لے آئے گا ، جو یہ کوشش کرے گی.لیکن خدا کے منصوبوں کو نہ کسی کا تعصب اور نہ کسی کی کمزوری اور indifference بے پرواہی) نا کام کر سکتی ہے.خدا کے منصوبوں نے تو بہر حال کامیاب ہونا ہے.اس لئے غلبہ اسلام کی مہم کے لئے تیار ہو جائیں.وہ صدی جس کے اندر ہم نے روحانی ہتھیاروں کے ساتھ سامنے سے بھی اور کونے کونے سے دھاوا بولنا ہے اور اسلام کے نور کا حسن کا ، قوت احسان کا ، خدمت کا اور پیار کا جلوہ ظاہر کرنا ہے، جس میں کوئی شر نہیں، کوئی دکھ نہیں، کوئی فتنہ نہیں، کوئی انسان انسان میں تفریق نہیں، کوئی حق تلفی نہیں ہوتی.میں بڑا سوچتا رہتا ہوں.قرآن کریم نے نوع انسانی کی زندگی میں جو معاشرہ پیدا کرنا چاہا ہے، وہ تو اتنا پیارا معاشرہ ہے کہ یہ کہنا مشکل ہو جائے گا، سوائے اس کے کہ ایک جنت ایک انسان کے لئے تھوڑے عرصہ کے لئے ہے اور دوسری ابدل آباد کے لئے ہے، خدا تعالیٰ اس دنیا میں جو جنت پیدا کرنا چاہتا ہے، اس سے یہ جنت کس طرح کم خدا تعالی دنیا جان پیدا کرنا سے کس طرح تم ہے، جو خدا تعالیٰ مرنے کے بعد اپنے پیارے بندوں کو عطا فرمائے گا.اس مختصر تمہید کے بعد اور مختصر سی تمہید اس لئے کہ جو میں نے بات شروع کی تھی ، وہ تو پھر بڑی لمبی چلتی ، اگر میں وہ منصوبے یا کام جو کرنے والے ہیں، ان کو بیان کرتا.میں نے ایک مثال دے دی ہے، آپ کو سمجھانے کے لئے کہ کیا کرنا ہے؟ ہم نے اس کے لئے بہر حال تیاری کرنی ہے.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 03 تا 05 اپریل 1981ء) 922
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اہل یورپ کو پیغام حق پہنچانے کا ایک طریق ارشاد فرمودہ 04 اپریل 1981ء ارشاد فرمودہ 104 اپریل 1981 ء بر موقع مجلس شوری ”ہمارے بہت سے شعبے ہیں.جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی کے بہت سے شعبے ہیں.اور سارے شعبے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ جس کو ہم صحیح اور سچا اور بدعات سے پاک اسلام سمجھتے ہیں، اسے دنیا میں پھیلائیں.وہ اسلام، جو اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں اتارا ہے.جو ہمارے رستے میں سب سے بڑی روک ہے.( یہاں بھی اور وجوہات کی بناپر اور دنیا کے ہر حصے میں.حصے، حصے کے لحاظ سے وجوہات مختلف ہو جاتی ہیں.لیکن بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ملاپ ان سے نہیں ہے.مثلاً یورپ میں ملاپ اس لئے نہیں کہ وہاں لوگ عیش و عشرت میں پڑے ہوئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ شام کو فارغ ہونے کے بعد جو تھوڑ اسا ہمیں وقت ملتا ہے، وہ شراب خانوں میں گزارنا چاہتے ہیں یا رقص گاہوں میں گزارنا چاہتے ہیں.اور کہتے ہیں، دین کی باتیں سننے کے لئے ہمارے پاس کوئی وقت نہیں.ان کے متعلق ہمیں سوچنا چاہئے اور عملاً سوچنا پڑا کہ ان کے کون کون سے وہ اوقات ہیں کہ ان کے اوپر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالے بغیر اور ان کی فطرت میں یا ان کی طبیعت میں ضد پیدا کئے بغیر ہم اپنی بات ان کے سامنے رکھ سکیں.تو ابھی پچھلے سال اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی.جو تھوڑ اسا تجربہ ہوا ، وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بڑا کامیاب رہا ہے کہ جس وقت وہ لوگ سیاحت کے لئے اپنے ملک سے باہر جاتے ہیں، اس وقت ان میں سے لاکھوں شاید ایک کروڑ سے بھی زیادہ سیاح یورپ میں پھر رہا ہوتا ہے.جس وقت یہ سیاح وہاں باغات دیکھنے جاتے ہیں، مثلا فرانس میں پیرس ہے، دوسرے ملکوں کے بڑے عجیب باغات ہیں، جولوگوں نے بنائے ہوئے ہیں.وہ وہاں جاتے ہیں، دیکھ رہے ہوتے ہیں یا سپین کے اندر غرناطہ ہے.اور غرناطہ اور الحمراء کے محل کے ساتھ ہمیں بڑا پیار تھا.کیونکہ وہ ہمارا ملک رہا ہے، ہم اسے دیکھنے کے لئے گئے ، ہماری یا دیں اس سے وابستہ تھیں.لیکن سیر و سیاحت کے لئے جانے والے لوگوں کا اور لحاظ سے تعلق ہے.یہاں کے باغات اور طرز تعمیر کے لحاظ سے ظاہری طور پر بڑی خوبصورتی پائی جاتی ہے.جس کو دیکھنے کے لئے سیاح پھر رہے ہوتے ہیں اور بڑے غور سے وہاں وہ بات سن لیتے ہیں.تو ملاپ ان کے ساتھ ہونا چاہئے.923
ارشاد فرمودہ 04 اپریل 1981ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم یا یہ خیال آیا کہ اگر عید گا ہیں ہمارے پاس ہوں، یورپ کے ہر شہر میں تو لوگ عید کی نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہیں.عید گاہ ایک ادارہ ہے، اسلام کے اندر یعنی عید کی نماز سنت نبوی کے مطابق جہاں تک ممکن ہو،شہر سے باہر جا کے پڑھنی چاہئے.تو اگر مثلاً فرینکفورٹ ہے، اس سے پندرہ بیس کلو میٹر باہر جوان لوگوں کے لئے کوئی فاصلہ نہیں) ہمارے پاس کوئی چھوٹا سا ٹکڑا ہو، پانچ ، دس ایکڑ کا اور وہاں جماعت جا کے عید کی نماز پڑھا کرے تو سارا سال وہاں لوگ اپنے بچوں کو لے کر چھٹی والے دن پنک کے لئے جاسکتے ہیں.وہاں جو عارضی طور پر تھوڑے وقت کے لئے ملاپ ٹوٹتا ہے، ایک اس شکل میں کہ سکولوں کے طلبہ اور طالبات آجاتے ہیں، ہمارے مشن ہاؤس میں اپنے اساتذہ کے ساتھ اور وہ کہتے ہیں، ہمیں اسلام کے متعلق بتاؤ ؟ پھر سوال وجواب ہوتا رہتا ہے.ایک گھنٹے ، ڈیڑھ گھنٹے کے لئے ملاپ ہوتا ہے.پھر وہ طالب علم کبھی بھی کسی مسلمان کے سامنے نہیں جاتا، جس سے وہ اسلام کی بات سن سکے.اگر یہ عید گاہ باہر ہو اور ان کے نام ہمارا مشن جو ہے، وہ نوٹ کرتا ہے، یا درکھتا ہے.ہمارے بچے جائیں تو انہی کو دعوت دی جاسکتی ہے کہ ہم فلاں تاریخ کو پکنک منارہے ہیں، آپ ہمارے ساتھ آ کے پکنک منا ئیں تو بہت سارے بچے تیار ہو جائیں گے.تو اسی طرح یہ چیزیں ہیں ، ملاپ کی.اور جس سے وہ پوری توجہ کے ساتھ ہماری باتیں سنیں.اسلام کے اندر بڑی کشش ہے کہ وہ خود اپنی طرف کھینچتا ہے“.(رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 03 تا 105 اپریل 1981ء) 924
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 05 اپریل 1981ء وو صد سالہ احمد یہ جو بلی تعلیمی منصوبہ اور اس کی افادیت خطاب فرمودہ 105 اپریل 1981ء برموقع مجلس شوریٰ یہ جو ہے تعلیمی منصو بہ صد سالہ جو بلی، اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی برکت ڈالی اور اس طرف توجہ پیدا ہوئی اور اس کی وجہ سے ہمارے بچوں میں جو سکول میں پڑھنے والے اور کالج میں پڑھنے والے ہیں، ان کے ذہنوں میں ایک بڑا انقلاب آیا ہے.ہر ایک میں نہیں لیکن بہتوں میں تبدیلی پیدا ہوئی.بہت سارے ایسے بچے، جو بڑے ذہین تھے اور پڑھائی کی طرف توجہ نہیں کر رہے تھے ، وہ توجہ کرنے لگ گئے.پہلی جماعت سے بچے بچیاں مجھے لکھتی ہیں، ہم اپنی کلاس میں فرسٹ آگئے اور بڑے جوش میں ہیں.اور دوسری، تیسری جماعت کا بچہ بعض دفعہ لکھتا ہے، ممکن ہے ، ماں باپ کے کہنے پر ہی یہ لکھتا ہو، لیکن بہر حال اس کا دماغ اس طرف چل پڑا ہے کہ ہم ڈاکٹر سلام سے بھی آگے نکلنے کی توفیق پائیں گے، دعا کریں، ہمارے لئے.آپ بھی دعا کریں.ڈاکٹر سلام جماعت احمدیہ میں حصول علم کی انتہا تو نہیں.خدا تعالیٰ کے علوم کے خزانے وہاں آکے ختم تو نہیں ہو گئے.خدا تعالیٰ تو بحر ذخار ہے.جو ہمارے تصور میں بھی نہیں آسکتا.اس کے بے انتہا جلوے ظاہر ہورہے ہیں.قرآن کریم نے یہ کہہ کے انسانوں کے ایک ایسے گروہ کی نشاندہی کی ہے کہ وَرَضُوا بِالْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَا نُوْا بِهَا وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنْ أَيْتِنَا غُفِلُونَ (یونس: 08) یعنی دنیا دار ہیں، حیات دنیا کو پسند کرتے ہیں اور مطمئن ہو گئے ہیں.یہ بڑا عجیب فقرہ ہے.یہ دو مختلف چیزیں ہیں.وَرَضُوا بِالْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَتُوا بِهَا میں دو بہت وسیع اور مختلف مضمون بیان ہوئے ہیں.ایک تو یہ کہ پسند کرتے ہیں.میں جب انگلستان میں پڑھا کرتا تھا، اس وقت بھی اور جب میں دورہ پر جاتا ہوں، اس وقت بھی کہتا رہتا ہوں کہ یورپ جو ہے، وَرَضُوا بِالْحَيَوةِ الدُّنْيَا کے ماتحت ہے لیکن وَاطْمَا نُوا بِهَا نہیں ہے.یعنی دنیا کی زندگی سے، جو ان کی ہے، اس سے مطمئن نہیں ہیں.وہ بڑے غیر مطمئن ہیں لیکن وہ پسند بھی کر رہے ہیں.وہ گھر 925
اقتباس از خطاب فرموده 05 اپریل 1981 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم میں سے نکل بھی نہیں رہے.یہ مصیبت ہے.اور جو راضی بھی ہو ، پسند بھی کرے اور مطمئن بھی ہو ، اس کے لئے نجات کا حاصل کرنا بڑا مشکل ہے.لیکن جو راضی ہو، پسند کرے لیکن غیر مطمئن ہو، اس کے لئے نجات حاصل کرنا نسبتاً بہت آسان ہے.جو حیاۃ الدنیا ہے، یعنی صرف دنیوی زندگی.جس کے ساتھ حیات آخرت کی نعماء اور حسنات شامل نہیں ، خالص اس دنیا کی جو زندگی ہے، جو شخص اس پر نہ راضی ہوتا ہے، نہ اطمینان حاصل کر سکتا ہے، وہ تو نجات یافتہ ہے.وہ نجات پاسکتا ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری آیات سے غفلت کرنے والے دراصل ان کی حقیقت نہیں جانتے.اس میں بڑا عجیب مضمون بیان ہوا ہے.اس میں یہ نہیں کہا کہ میری ہدایت ، جو میں نے بھیجی ہے، انسان کی طرف ، اس سے غافل ہیں.کہا یہ ہے کہ جو میری آیات ظاہر ہورہی ہیں، دنیا میں ، ان سے غافل ہیں.اور آیات میں یہ ساری مادی اشیاء اور ان کے اندر جو خوبی اور صفات اور جو قوت خدمت انسان خدا تعالیٰ نے ان کے اندر پیدا کی ہے، شامل ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان سب چیزوں کو آیات کہا ہے.تو یہ کہا کہ میری آیات کو پسند بھی کرتے ہیں، آیات کو زندگی بنالیا ناں تحقیق کی ، ایجادیں کیں ، آرام اور سہولت کی زندگی گھروں میں پیدا کر دی، اسے پسند بھی کرتے ہیں، میری آیات کو پسند بھی کرتے ہیں، جس طور پر پسند کرتے ہیں، بایں ہمہ اس سے مطمئن بھی نہیں.اس لئے کہ آیات کی حقیقت جو ہے، اس سے غافل ہیں.کیونکہ ساری چیزیں، جنہیں قرآن کریم نے آیات اللہ کہا ہے، خواہ وہ تعلیم کے لحاظ سے آیات ہوں، خواہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانات اور بشارتوں کے لحاظ سے آیات ہوں، خواہ وہ مادی دنیا میں اس کائنات میں خدا تعالیٰ کی صفات کے جو جلوے ظاہر ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں آیات کہا ہے، وہ ہوں.یہ سارے پوائنٹر (pointer ) ہیں، وہ لگا ہوا ہوتا ہے ناں، نشان کہ یہ فلاں جگہ رستہ جاتا ہے ) جو ہماری رہنمائی کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ذات قادر وتوانا ہے.اس کے نور اور حسن کے سرچشمہ کی طرف اور خدائے واحد و یگانہ کی طرف یہ سارے پوائنٹر ہیں.تو جو پوائنٹر ہیں، جن کو آیات دنیوی کہا گیا ہے، ان سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں.اس لئے کہ خدا نے کہا تھا کہ میں نے فائدہ کے لئے پیدا کئے ہیں.اور جس خدا نے یہ کہا تھا کہ تمہارے فائدہ کے لئے ہم نے اس کا ئنات کو پیدا کیا ، اس خدا سے غافل بھی ہیں.هُمْ عَنْ أَيْتِنَا غُفِلُونَ أُولَيْكَ مَأْوُونَهُمُ النَّارُ (یونس: 8,9) اللہ محفوظ رکھے.926
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 05 اپریل 1981ء پس خدا تعالیٰ نے جن باتوں کو ، جن صفات کے جلووں کو، جن بشارتوں کو ، جس تعلیم کے اجزاء کو اور حصوں کو آیات کہا ہے، اس کے ایک حصے سے اگر ہم غافل ہو جائیں، جس طرح دوسری دنیا اس کے دوسرے حصے سے غافل ہے تو ہم دونوں مفلوج ٹھہرتے ہیں.پھر جہاں تک خالی ہونے کا تعلق ہے، ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہتا.ہم مذہب کے نام سے خود کشی کرنے والے اور وہ دنیا کے نام سے خود کشی کرنے والے بن جاتے ہیں.دنیا کا حصہ انہوں نے لیا، یعنی آیات کا اور جو روحانی اور اخلاقی حصہ تھا، آیات قرآنی کا، ان کو چھوڑ دیا.اگر ہم اخلاقی اور روحانی حصہ قرآن کریم کا، جسے اللہ تعالی نے آیات کہا ہے، وہ تو لے لیں اور جو دوسرا حصہ ہے، آیات کا ، وہ چھوڑ دیں تو ہم بھی اتنے ہی مفلوج متصور ہوتے ہیں.صرف فالج کی شکل بدلی ہوئی ہے.کسی کے سر پر فالج ہوتا ہے، کسی کی لاتوں پر فالج ہوتا ہے.ان کے سر پر ہو گیا، ہماری لاتوں پر ہو گیا.اس لئے علم کا حاصل کرنا بڑا ضروری ہے.پس یہ جو دنیوی علوم کہلاتے ہیں، ان کو حاصل نہ کرنا ، خدا تعالیٰ کی ناشکری ہے.اور خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی ناشکری اس میدان میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کسی شخص کو علم کے میدان میں آسمانی رفعتوں تک پہنچنے کی قوت اور استعدادی ہو اور وہ ناشکری کرے اور اس چیز کو بھول جائے.اس واسطے یہ چیز میرے دماغ میں آئی ، جب میں نے تعلیم کا منصوبہ بنایا.اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ ہم قدر کریں گے، اگر تم خدا کے شکر گزار بندے بنو گے تو ہمارے دلوں میں تمہاری قدر پیدا ہوگی.یہ جو انعام میڈل کے طور پر مقرر ہوئے ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر تم دنیوی علوم کے میدانوں میں اللہ تعالیٰ کی آیات پر غور کر کے اس کی صفات کو سمجھو گے اور تم اپنے آپ کو اس قابل بناؤ گے کہ قرآن کریم کے سمجھنے کی زیادہ طاقت تمہارے اندر پیدا ہو جائے تو ہمارے دلوں میں تمہاری قدر پیدا ہوگی.دوسرا حصہ اس کا یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں قوت اور استعداد دی ہے، لیکن خدا تعالیٰ نے تمہیں اس قوت اور استعداد کے نشو و نما کے وسائل اس لئے نہیں دیئے کہ وہ ہمیں آزمانا چاہتا ہے تو ہم خدا تعالی کے شکر گزار بندے بنیں گے اور تمہارا جو حق ہے، وہ تمہیں دے دیا جائے گا.یعنی پہلی شکل یہ تھی کہ تم شکر گزار بندے بنو گے، ہمارے دل میں تمہاری قدر پیدا ہوگی.ایک دوسری شکل اس منصوبے کی یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں گے اور علم کے میدان میں جو تمہارا حق ہے، وہ تمہیں دے دیں گے اور دعائیں کریں گے اور وسائل پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.تا کہ تم علم کے میدان میں ترقیات کی رفعتوں کو حاصل کرتے چلے جاؤ.927
اقتباس از خطاب فرموده 05 اپریل 1981ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم پس یہ دو اصولی نکتے ہیں.ان کے لئے یہ منصوبہ چل رہا ہے.اللہ تعالیٰ توفیق دے رہا ہے اور جو ضرورت پڑتی ہے، وہ پیسے خدا تعالیٰ دے دیتا ہے.اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ فکر نہیں ہوتی کہ خدا ہمیں نہیں دے گا.ہم نے اپنے خدا سے جو عہد باندھا ہے کہ یہ ہم کریں گے تو اسی کی چیز ہے، اسی کے بندے ہیں، وہی ذہن ہیں، انہی کی نشو و نما ہم نے کرنی ہے.میرے دماغ میں تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ بات نہیں ہوتی.خدا تعالی ہمیں دیئے جاتا ہے، ہم خرچ کئے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:.سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے یہ بہ بڑا عظیم اعلان ہے.ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے کہ اس کی ساری دولت اس کے دالان بھی سونے سے بھرے ہوئے ہوں تو بھی اس کے دل میں یہی ہونا چاہئے کہ گھر سے تو کچھ نہ لائے ، سب کچھ خدا تعالیٰ کی عطا ہے.نپس دوست خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس کی عطا کو خرچ کریں.اپنے نفس پر بھی خرچ کریں.و لنفسک علیک حق اس لئے خرچ کریں کہ خدا کے رسول نے کہا ہے کہ تم اپنے نفس کو ایسی تکلیف میں نہ ڈالو کہ جو تمہاری ذمہ واریاں ہیں، وہ ٹھیک طرح ادانہ کی جاسکیں.میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، یہ بہت ضروری چیز ہے.اب اس کے اوپر دعا کے ساتھ ختم کروں گا.فرشتوں نے خدا کے حکم سے ایک عظیم رود نیا میں پیدا کی ہے کہ دنیا کی توجہ اسلام کی طرف ہو رہی ہے.مختلف حصوں سے یہ رپورٹیں آرہی ہیں.مثلاً افریقہ کے عیسائی ، بد مذہب، بت پرست کہتے ہیں، سواحیلی زبان میں ہمیں قرآن کا ترجمہ دو.تنزانیہ میں ہمارے مبلغ محمد منور صاحب ہیں، انہوں نے لکھا کہ اتنی توجہ ہے کہ خود عیسائی آتے ہیں اور کہتے ہیں، تمہارا ترجمہ کہاں ہے، ہم اسے پڑھنا چاہتے ہیں؟ اور دوسرے مسلمان بھی مطالبہ کرتے ہیں.انہوں نے اپنے جوش کے مطابق لکھا ہے کہ اگر آپ دس ہزار قرآن کریم لندن یا کسی اور جگہ سے چھپوا کے ہمیں بھجوا دیں تو ان کا خیال ہے کہ ایک سال کے اندر اندر وہ ختم ہو جائیں گے.اور خدام الاحمدیہ والے چھوٹی چھوٹی کتابیں شائع کرتے ہیں اور آگے ایک سال کے اندر ان کو ختم نہیں کرتے.یہ عجیب بات ہے کہ عیسائی دنیا میں سب سے زیادہ شوق قرآن کریم کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے.اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے چھوٹے چھوٹے رسالے شائع کئے گئے ہیں.ان کو پڑھنے کا آپ کے دل میں شوق پیدا ہونا چاہئے تھا، آپ کے بچوں کے دل میں شوق پیدا ہونا چاہیے تھا.عیسائی ممالک میں 928
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرموده 05 اپریل 1981ء عیسائی دنیا کے دل میں قرآن کریم پڑھنے کا شوق پیدا ہورہا ہے.وہاں کے جو بت پرست ہیں، ان کے دل میں قرآن کریم کا شوق پیدا ہورہا ہے.اور نہیں اگر پیدا ہورہا تو یہ ہماری کمزوری ہے.میں یہ نہیں کہہ رہا که ساری جماعت ایسی ہے.جماعت کو تو خدا تعالیٰ نے ایک ایسا ہیرا بنایا ہے، جس کی بحیثیت مجموعی کوئی قیمت نہیں.لیکن وہ جو کہیں کہیں مجھے دھبے نظر آتے ہیں، ان کا میں ذکر کر رہا ہوں.یا بری عادتیں پیدا ہو گئی ہیں.مثلاً یہی ، میں نے کہا، پڑھنے کی عادت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ایک چھوٹا سا رسالہ ہے ناں، الوصیت، یہ میں نے کوئی دسیوں دفعہ بلکہ بیسیوں دفعہ رات کو پڑھی ہوگی.ہر دفعہ ویسے ہی مزا آیا.یہاں چونکہ میں چاہتا تھا، جلدی سے ختم کرلوں.پھر میں اور بھی کچھ پڑھتا رہا.لیکن یہ تھا کہ یہ جلدی سے بیچ میں سے گزر جاؤں.لیکن کئی جگہ دل کرتا تھا کہ ٹھہر جاؤں، دس منٹ، پندرہ منٹ لگاؤں اور سوچوں ذہن میں مضمون آرہے تھے ، ہر ایک کے ذہن میں آسکتے ہیں.مجھے بھی خدا تعالیٰ نے بنایا ، آپ کو بھی خدا تعالیٰ نے بنایا.مجھ سے بھی وہ چاہتا ہے، پیار کرے.اگر میں اس کے حضور وہ عمل پیش کروں، جنہیں وہ قبول کرلے.اور آپ کے متعلق بھی وہ چاہتا ہے کہ اگر آپ اس کے حضور ایسے عمل پیش کریں، جو مقبول ہونے کے قابل ہوں تو وہ آپ سے بھی پیار کرنے لگ جائے گا.پس خدا تعالیٰ کے خزانوں میں تو کوئی کمی نہیں.اور نہ کمی آسکتی ہے.تبلیغ اسلام کی جدھر ضرورت حقہ پیدا ہوتی ہے، وہ محاورہ تو تھا کہ مال چھت پھاڑ کے بھی آتا ہے، اللہ تعالیٰ تو ہمیں ساتوں آسمان میں موریاں کر کے دے رہا ہے.سمجھ ہی نہیں آ رہی.مجھے نہیں سمجھ آ رہی ، جس کا ہر وقت تعلق ہے کہ وہ راہیں کون سی ہیں، جن میں ہماری ترقیات کے اللہ تعالی سامان پیدا کرتا چلا جا رہا ہے؟ اچانک ایک خبر آتی ہے کہ پچھلے چھ مہینے میں بعض ذہنوں کے اندر یہ تبدیلیاں پیدا ہو گئیں.بعض ملکوں سے بعض اور خبریں آگئیں.چند دن ہی ہوئے سپین سے عیسائیوں کے ایک حصے کے بڑے معتبر شخص کا اب یہ بیان آگیا کہ جماعت احمدیہ سے تو ہمارا گزارا ہوسکتا ہے کیونکہ یہ بڑی امن پسند جماعت ہے.وہ اس لئے کہ میں نے وہاں اس دن، جس دن افتتاح ہوا، اس کو میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے؟ قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے.میں نے کہا، یہ کہتا ہے، یہ کہتا ہے، کوئی پندرہ ہیں باتیں میں نے ان کو بتا ئیں.اور دو اخباروں نے لکھ دیا کہ اگر قرآن کریم کی یہی تعلیم ہے تو ہم اسے Welcome کرتے ہیں.ہم اس تعلیم کا استقبال کرتے ہیں.لیکن ان تک ہم نے قرآن کریم کا پیغام پہنچانا ہے.سپینش اور پر چگیز زبان میں قرآن کریم کے ترجمے ہم نے شائع کرنے ہیں.ترجمے شائع کر کر کے کتا میں لکھ لکھ کے غیر مسلم دنیا کو پڑھاتے چلے جانا 929
اقتباس از خطاب فرموده 05 اپریل 1981ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم ہے.اور اگر آپ نے خود پڑھنا ہی نہیں تو دنیا کے سامنے عجیب شکل بن جائے گی ناں کہ تم خود تو پڑھتے نہیں، ہمیں آکے کہتے ہو، پڑھو.پہلے ہم نے خود پڑھنا ہے، پھر ان کو پڑھانا ہے.اس واسطے آپ کے اندر جو کمزوریاں یا کمزور عادتیں پڑگئیں، خصوصا اس گروہ میں جو باہر سے آئے ہیں، انہیں دور کریں.اپنی آنے والی نسل کو تو بیدار رکھیں اور ہوشیار رکھیں.ان کو تو کتابیں پڑھاتے چلے جائیں.اب خدام الاحمدیہ نے میرے کہنے پر ہی بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ چھپوائی ہے.مجھے آئیڈیا آیا تھا.ایک انگریز نے کتاب لکھی ہے ، بلال اس کا نام ہے.78ء میں ، میں نے پڑھی.اور پچھلے سال جب میں گیا تو مجھے ڈنمارک کے ایک ڈین نے یہ کہا، وہاں میں نے کوئی بات کی.میں نے کہا، آپ لوگوں کو کتاب پڑھنی چاہئے.مجھے وہ ڈین کہنے لگے کہ میں نے پڑھی تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے.میں نے کہا، جب میں نے پڑھی میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے.ہیں ہی ایسی باتیں.اس میں پتہ لگتا ہے کہ اسلام اور اسلامی معاشرے کا مزاج کیسا ہے؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کیا ہے؟ ایک آدمی گواہی دے رہا ہے.پھر وہی بلال جو کوڑے کھانے والا غلام تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو سیدنا بلال کہہ کر پکارتے تھے.اسلام نے ان کو زمین سے اٹھا کر کہاں پہنچا دیا.تو یہ جو اسلام کا مزاج ہے، یہ اسلامی معاشرے میں ہمیں نظر آتا ہے.یہ ہمارے معاشرے میں نظر آنا چاہئے.یہ نظر آ ہی نہیں سکتا، جب تک آپ کے سامنے مثالیں نہ آتی چلی جائیں.ایک کے بعد دوسری ، دوسری کے بعد تیسری، ایک ہزار کے بعد دوسرا ہزار.اور ہیں یہ مثالیں.ان کو اکٹھا کریں.لیکن وہ پھر آپ کو خود بھی پڑھنی پڑیں گی.اس کے لئے تیار ہو جائیں“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 03 تا 05 اپریل 1981 ء ) 930
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1982ء اجتماعی زندگی کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ جانے والوں کی قائمقام نسل پیدا ہو خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1982ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیات تلاوت فرمائی:.تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة اور پھر فرمایا:.لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ( المملكة 2,3) انسانی زندگی میں، زندگی، موت اور ابدی زندگی کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے جاری کیا.اس کا ایک تعلق تو افراد سے ہے اور ایک بڑا ہی اہم تعلق جماعت سے ہے یا امت مسلمہ سے ہے.امت مسلمہ نے اپنی چودہ سو سالہ زندگی میں اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا تھا کہ اجتماعی زندگی ، امت مسلمہ کی زندگی اور بقاء کے لئے یہ ضروری ہے کہ جانے والوں کے بعد ان کی قائم مقام نسل پیدا ہوتی رہے.حضرت اقدس.ناقل) نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ زمانہ ، جسے فیج اعوج کا زمانہ کہا جاتا ہے، جس زمانہ میں بظاہر اسلام انتہائی کمزوری اور تنزل میں ہمیں نظر آتا ہے ، اس زمانہ میں بھی ٹھاٹھیں مارتے دریا کی طرح خدا تعالیٰ کے مقربین کا گروہ ہمیں نظر آتا ہے.امت مسلمہ نے بھی یہ نعرہ نہیں لگایا کہ خالد مر گئے اور ان کے بعد کوئی خالد پیدا نہیں ہو گا.محمد بن قاسم اس جہان کو چھوڑ کے چلے گئے اور اب امت مسلمہ محمد بن قاسم جیسے انسانوں سے محروم رہے گی.یا طارق آئے اور چھوٹی عمر میں اور تھوڑے سے زمانہ میں انہوں نے ایک عظیم کام کیا.ایک عظیم خدمت، دین اسلام کی کی.اس کے بعد اب کوئی طارق پیدا نہیں ہوگا.بلکہ انہوں نے اس حقیقت کو سمجھا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ رسول ہیں اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں قیامت تک خالد محمد بن قاسم اور طارق پیدا ہوتے رہیں گے.ایسے جاں نثار کہ اپنے جذبہ جان شاری کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی معجزانہ تائید ان کو حاصل ہوگی.اور اسلام کے انقلاب عظیم کے لئے وہ کار ہائے نمایاں کرتے چلے جائیں گے.جیسا کہ ایک عربی شاعر نے کہا ہے:.ان اسید منا خلا قام سيد 931
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1982ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم کہ جب ہمارا ایک سردار اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو ویسا ہی ایک اور سردار کھڑا ہو جاتا ہے، اس کی جگہ لینے کے لئے.تو جن جماعتوں میں (امت مسلمہ کی ) ہمیں تنزل یا کمزوری نظر آتی ہے تو ساتھ ہی یہ بھی نظر آتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو بھول گئے تھے.اور جانے والوں کے قائم مقام کم از کم اس قسم کے نہیں تھے ، جس قسم کے کہ جانے والے تھے.ویسے تو جب ضرورت بڑھی تو خدا تعالی کی تائید نے ہر کام کرنا تھا.ایسے لوگوں کے لئے تائیدات الہی بھی بڑھ گئیں.اور جہاں تلوار سے اسلام کو زک پہنچانے کی کوشش کی گئی ، وہاں خالد جیسے محمد بن قاسم جیسے اور طارق جیسے اسلام کو خدا نے دیئے.لیکن اسلام کی طاقت اور اسلام کی یہ خوبی کہ اس میں اثر پیدا کرنے کی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے، اس کا تعلق تلوار سے نہیں.اس کا تعلق ان اخلاق سے ہے کہ جو خلق عظیم کی پیروی کے نتیجہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں کی زندگی میں پیدا ہوتا ہے.اس کا تعلق اس نور اور حسن سے ہے، جو اسلام میں پایا جاتا.جس پر فدا ہونے والے ان پروانوں سے کہیں زیادہ ایثار اور قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں، جو شمع پر اپنی جان دیتے ہیں.اور نور خدا سے لے کر نور پھیلانے والے اور حسن سے خوبصورتی حاصل کر کے دنیا کی فضا کو خوبصورت بنانے والے اور معاشرہ میں حسن پیدا کرنے والے بن جاتے ہیں.جہاں، جس وقت ، جس گروہ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اس حقیقت کو وہ بھول گئے ، وہاں ہمیں کمزوری اور تنزل بھی نظر آنے لگتا ہے.اس اہم بات کی طرف اس وقت میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.جو انسان پیدا ہوتا ہے، وہ بوڑھا ہو جاتا ہے، کام کے لائق نہیں رہتا یا فوت ہو جاتا ہے اور اپنے رب سے اپنے اعمال کی جزا پاتا ہے.لیکن الہی سلسلہ کو، جس نے ساری دنیا میں دین الحق کو غالب کرنا ہے، ان کے قائم مقام ملتے رہنے سے چاہئیں.اگر پہلوں سے بڑھ کر نہیں تو کم از کم پہلوں جیسے میں نے محسوس کیا ہے کہ کچھ عرصہ - جماعت ( یہ جماعت کی اجتماعی زندگی کا تقاضا ہے.) جماعت اس طرف توجہ نہیں دے رہی.اور میں نے محسوس کیا ہے کہ اگر ہم نے فوری اس طرف توجہ نہ دی تو ایک بڑا خطرناک دھکا بھی لگ سکتا ہے.نقصان بھی پہنچ سکتا ہے، سلسلہ عالیہ احمدیہ کو.عارضی طور پر ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کا منصوبہ نا کام نہیں ہوا کرتا.کمزوری دکھانے والے ایک حصہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اپنے ماحول میں.جو بات دس سال میں ہونی ہے، وہ پندرہ سال میں ہو جائے گی، ہیں سال میں ہو جائے گی.لیکن کامیاب تو خدا تعالیٰ کا منصوبہ ہی ہو گا.اور آج منصوبہ یہ ہے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ، جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق نے قائم کیا، جس کی محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اس قدر تھی کہ قیامت تک کے علماء اور بڑے 932
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1982ء بڑے بزرگ اور آپ سے فیض حاصل کر کے روحانی رفعتوں کو حاصل کرنے والے وہ کروڑوں ، جو آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ، ان میں سے اس ایک کو چنا اور اسے سلام پہنچایا اپنا.یہ عظیم اور دین الحق کو اپنے انتہائی عروج تک پہنچانے والا سلسلہ قائم کیا گیا ہے.اس کے لئے واقفین زندگی چاہئیں اور جلد چاہئیں.جلد سے میری یہ مراد نہیں کہ آج شام سے قبل.چھ مہینے ، سال لگ جائے گا.جو پڑھ رہے ہیں نو جوان ، وہ غور کریں، وہ اپنی زندگیوں کی حقیقت کو سمجھیں ، وہ اپنے مقام کی عظمت کو پہچانیں.دنیا اگر ان کو دس لاکھ روپے، ایک ملین (Million) ماہانہ بھی دے تو ان کی وہ عزت قائم نہیں ہوتی ، جس قدروہ عزت، جو خدا کی راہ میں حقیقی وقف کی روح پیدا کر کے اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں پیار دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے.تو بی اے اور ایم اے یا بی ایس سی اور ایم ایس سی (میں سمجھتا ہوں کہ ) درجنوں ہمیں چاہئیں ، اس وقت.اس لئے کہ پہلے تھوڑے آدمی کام کر لیتے تھے.تھوڑا کام تھا.پہلے بوڑھے بھی کام کر لیتے تھے.کیونکہ بوجھ کم تھا، کام کرنے والے پر.لیکن خدا نے فضل کیا ، وہ ایک، جسے ساری دنیا نے دھتکار دیا تھا، ایک کروڑ سے زیادہ بن گیا.تو ایک کا کام جو تھا، وہ کروڑ گنے زیادہ بھی تو ہو گیا.تو اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لئے ہمیں واقفین چاہئیں، پڑھے لکھے.پہلی شرط : اخلاص رکھنے والے دوسری شرط : اخلاص کے نتیجہ میں حضرت اقدس.ناقل ) کی کتب کا کچھ مطالعہ کر چکے ہوں اور باقی ہم ٹریننگ دیں گے.تیسرے ان کو اپنی اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق تربیت دی جائے گی.مثلاً کسی کو ایک سال کی تربیت اگر ہم سمجھیں گے کہ یہ اب قابل ہو گیا ہے، بوجھ اٹھانے کے کسی کو دو سال کی تربیت.مگر چاہیے وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی ایک حد تک معرفت رکھنے والا ہو.اور جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے عشق کا جذبہ پایا جائے.جس کے سینے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت لہریں لے رہی ہو.جو ہر وقت، ہر آن، ہر گھڑی اپنی زندگی میں اپنے نفس کو بھول کر صرف خدا اور محمد کو یا درکھتا ہو.تو ایسے لوگ آگے آئیں، ایسے بچوں کو ماں باپ پیار اور محبت کے ساتھ اور اس حقیقت کو بتاتے ہوئے آگے لائیں.پھر بہت سی چیز ہیں اور بھی دیکھنی پڑیں گی.اور بعض کو جماعت قبول کرلے گی ، دعاؤں کے بعد اور بعض کو وقتی طور پر یا مستقل طور پر رد کر دے گی.مختلف حالات پیدا ہوتے ہیں.ایک سال، دو سال لگ جائیں زیادہ سے زیادہ لیکن آنے شروع ہو جانے چاہئیں بی اے، ایم اے نوجوان نوجوان سے میری 933
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم مراد ہے کہ ایسابی اے یا ایم اے، جس کو ایم اے اور بی اے کا امتحان پاس کئے ہوئے ، پانچ ، سات سال سے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو.میں نے وقف بعد ریٹائرمنٹ کی ایک سکیم چلائی تھی.لیکن حالات دیکھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر وہ سارے واقفین غالبا سو سے بھی زیادہ ہیں، جنہوں نے وقف کیا ہے، لے بھی لئے جائیں تو جماعت کا کام نہیں ہوتا.اس لئے کہ جس وقت وہ ریٹائر ہوتے ہیں تو اپنی طاقت اور استعداد اور زور اور ہمت کا بہت سارا حصہ کسی اور پر قربان کر چکے ہوتے ہیں، جہاں وہ نوکری کر رہے ہیں.طاقت اور ہمت کے لحاظ سے (صرف ایک لفظ لے کے مثال دے رہا ہوں تا کہ آپ سمجھ جائیں ) وہ اپنے وجود کے پچاس فیصد ہوتے ہیں اس وقت یا چالیس فیصد ہوتے ہیں یا تئیں فیصد ہوتے ہیں.وہ اپنی طاقت اور ہمت کے لحاظ سے اپنے وجود کے سوفیصد بہر حال نہیں ہوتے.بعض بیماریاں ہیں، جو اپنی ہی غلطیوں کے نتیجہ میں بڑی عمر میں ظاہر ہوتی ہیں، ان کے آثار ان کے اندر پیدا ہو چکے ہوتے ہیں.گھٹنے کی درد ہے، اعصاب کی کمزوری ہے اور اس قسم کی بہت سی بیماریاں ہیں، جن کا تعلق غلط کھانے ، غلط بوجھ برداشت کرنے ، غلط عادتیں پڑ جانے کے نتیجہ میں بڑی عمر میں ظاہر ہوتی ہیں.بہر حال اگر ان میں اخلاص ہو تو کچھ نہ کچھ کام لیا بھی جاسکتا ہے نہیں بھی لیا جا سکتا.لیکن میں ان کی بات اس وقت نہیں کر رہا.میں تو اس احمدی نوجوان کی بات کر رہا ہوں، جو خدا اور اس کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں، ان کے معیار کے مطابق بچے اور حقیقی احمدی ہیں.اور مؤمنون حقا کے گروہ میں یا شامل ہیں یا پورا جذ بہ رکھتے ہیں کہ اس میں شامل ہو جائیں.تو جماعت کوشش کرے اور اس ضرورت کو پورا کرے.ورنہ کوئی اور قوم کھڑی ہو جائے گی.خدا تعالیٰ کا منصوبہ ہے کامیاب ضرور ہو گا.اگر پاکستان نہیں دے گا، اگر ہندوستان نہیں دے گا ، اگر موجودہ جو جماعت ہے، وہ نہیں دے گی تو نئے آنے والے دیں گے، نئے آنے والے کئی بہت آگے نکل جاتے ہیں.بعد میں آتے ہیں مگر پہلے آنے والوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں.مگر ہر احمدی کے دل میں یہ خواہش ہونی چاہیے کہ بعد میں آنے والا اس سے آگے نہ نکلے.ورنہ تو زندگی کا مزہ ہی کوئی نہیں.اگر ہم نے اسی طرح بعد میں آنے والوں سے شکستیں کھا کھا کے خدا کے حضور پہنچنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ اور فراست عطا کرے.آپ کی نوجوان نسل کو ایمان، اخلاص اور ایثار عطا کرے.اور عزم اور ہمت دے.اور ان کو وہ نور عطا کرے، جس کے نتیجہ میں وہ اس حقیقت کو سمجھنے لگیں اور اپنی جانیں اس کے حضور پیش کر دیں، جس کے حضور سے (اللہ تعالیٰ ) انہوں نے ابدی زندگی ، اس کی رضا کی جنتوں میں حاصل کرنے کی خواہش رکھی ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.( مطبوعه روزنامه الفضل 27 فروری 1982 ء ) 934
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم احباب جماعت کے نام اہم پیغام غلبہ اسلام کی مہم کو کامیاب بنانے میں اپنی مساعی کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں عزیز بھائیو اور بہنو! احباب جماعت کے نام اہم پیغام بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں وعدوں کی ادائیگی کے لئے میں نے پندرہ مراحل تجویز کئے تھے.جن میں سے آٹھ مراحل انشاء اللہ 28 فروری 82ء کو پورے ہو جائیں گے.مجھے خوشی ہے کہ مخلصین جماعت مردوزن نے اس عظیم تحریک کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے اور وہ اپنے وعدوں کی ادائیگی کے لیے کوشاں ہیں.الحمد لله پچھلے دنوں دفتر نے میرے سامنے 22 جماعتوں کے 1217 افراد کی ایک فہرست پیش کی تھی، جنہوں نے اپنے وعدوں کا نصف یا اس سے زائد حصہ ادا کر دیا ہے.میں نے دفتر کو یہ بھی ہدایت کر دی تھی کہ جماعتوں کی طرف سے ایسی اور فہرستیں آئیں تو وہ بھی میرے سامنے پیش ہوتی رہیں.اب میرے سامنے 34 جماعتوں کے 1797 افراد کی دوسری فہرست پیش ہوئی ہے.گویا اب تک وصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق 3014 افراد نصف یاز الدادائیگی کر چکے ہیں.( مجھے علم ہے کہ ابھی بہت سی جماعتوں کی طرف سے فہرستیں نہیں آئیں.) وگر نہ اصل تعداد بہت زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ ان سب افراد کو بہتر اجر دے اور ان کے اموال میں برکت عطا فرمائے ، انہیں مالی قربانیوں کی توفیق دیتا چلا جائے.آمین ثم آمین.میں عالمی جماعت احمدیہ کے تمام امراء اور صدر صاحبان اور مخلصین جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اس عظیم تحریک کو جو دین حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کے 935
احباب جماعت کے نام اہم پیغام تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم لئے جاری کی گئی ہے اور اس کے طیب اور شیریں ثمرات آپ کے سامنے ہیں، کامیاب بنانے میں اپنی مساعی کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں.اللهم انصر من نصر دين محمد صلى الله عليه وسلم.والسلام (مرزا ناصر احمد ) امام جماعت احمدیہ ( مطبوعه روز نامه افضل مورخہ 24 جنوری 1982ء) 936
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پچیم پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ تنزانیہ اسلام کی ترقی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہنا چاہئے پیغام بر موقع جلسه سالانہ جماعت احمد یہ تنزانیہ منعقدہ 12 تا 14 فروری 1982ء بر به آپ کے خط سے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ مورد گورو اور ار نگار ریجنز کی جماعتیں 12 فروری سے لے کر 14 فروری تک اپنا جلسہ سالانہ منعقد کر رہی ہیں.خدا تعالیٰ اس سلسلہ اور اس میں شمولیت کرنے والوں کو بڑی برکتیں عطا فرمائے.خدا کرے کہ آپ کا یہ جلسہ نہایت کامیاب ثابت ہو.اس موقع پر میری یہ نصیحت ہے کہ آپ سب کو ہمیشہ اسلام کی ترقی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہنا چاہئے.خدا تعالیٰ آپ سب کو اپنی برکتوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین.( دستخط) مرزا ناصر احمد ( مطبوعه روز نامہ الفضل 27 اپریل 1982ء) 937
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پچیم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 فروری 1982ء جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ قرآن کریم کی صحیح تفسیر دنیا کے ہاتھ میں پہنچائے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 19 فروری 1982ء...نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت كافة للناس ہے.یعنی نوع انسانی کی طرف.دنیا کے کسی خطے میں انسان بستا ہو، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اس کی طرف بھی ہے.اس کی خوشحالی اور بہبود کے لئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسانی کے ہر فرد کے لئے بشیر بھی ہیں اور نذیر بھی ہیں.اور یہ جو بشیر ہونا ہے ، آپ گا، اس قدر بشارتیں ہیں، انسان کے لئے اس کلام الہی میں ، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.ان بشارتوں کا تعلق اس ورلی زندگی سے بھی ہے اور ان بشارتوں کا تعلق اس ابدی زندگی کے ساتھ بھی ہے، جو انسان کو اس دنیا سے کوچ کرنے کے بعد ملتی ہے.اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نذیر بھی ہیں.مومنوں کے لئے بھی نذیر ہیں اور نہ ماننے والوں کے لئے بھی نذیر ہیں.عام طور پر جہاں مضمون قرآن کریم کا اجازت نہ بھی دیتا ہو، بشیر و نذیراً کے معنی یہ کر دیئے جاتے ہیں کہ مومنوں کے لئے بشیر اور کافروں کے لئے نذیر لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت جب قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوئی:.وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (291) تو یہ بشیر ونذیر مومن و کافر کے لئے ہیں.اس کی وضاحت کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف میں فرمایا انسان کو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ (الاعراف: 189) میں نذیر بھی ہوں اور بشیر بھی ہوں ، مومنوں کے لئے.نذیر ہونا، ہوشیار کرنا، اختباہ کرنا ، مومن کو اور ہے، کا فر کو اور.یہ تو تسلیم لیکن یہ سمجھنا کہ آپ بشیر صرف مومن کے لئے ہیں اور نذیر صرف کافر کے لئے ہیں، یہ غلط ہے.قرآن کریم کی آیات اس کی توثیق نہیں کرتیں.939
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 فروری 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کافروں کو یہ بشارت دی کہ اگر اس زندگی میں بھی تم خوشحالی اور امن اور سکون کی زندگی چاہتے ہو تو تمہیں قرآن کریم پر ایمان لانا پڑے گا.اور ایمان لاؤ گے تو تمہیں سب کچھ مل جائے گا.قرآن کریم نے ان کو یہ بشارت بھی دی کہ اس زندگی کے بعض معاملات ایسے ہیں، جن کا تعلق روحانیت سے نہیں بلکہ محض ورلی زندگی کے ساتھ ہے.اور ان معاملات میں اگر تم خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرو گے، جو قرآن کریم نے بتایا تو تمہیں اس کا نتیجہ مل جائے گا.صرف اس وجہ سے کہ تم قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے ، اپنے اس عمل کے نتیجہ سے تم محروم نہیں کئے جاسکتے.مثلاً فرمایا:.لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى (النجم : 40,41) اب جس میدان میں غیر مسلم نے یعنی علمی میدان میں اور زندگی کے ان شعبوں میں جن کا براہ راست (ویسے تو ہر چیز کا تعلق روحانی زندگی سے ہے لیکن براہ راست ) روحانی زندگی سے تعلق نہیں تھا، جب کوشش کی تو انہیں نتجیل گیا.یہ سائنس کی ساری ترقیات خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کے نتیجہ میں ملیں، جو اللہ تعالیٰ نے دنیوی سعی کو مقبول کر کے اپنی رحمت ان پر نازل کی.حضرت اقدس...) فرماتے ہیں کہ سائنس دان ایک ایسا وقت دیکھتے ہیں، اپنی زندگی میں کہ جو کوشش کر رہے ہیں، علمی میدان میں اندھیرا آ جاتا ہے، سامنے اور ان کو کچھ پتا نہیں لگتا کہ ہم آگے کس طرح بڑھیں ؟ تو ان کی یہ تڑپ جو ہے کہ آگے بڑھیں.کیونکہ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجامية :14) میں کم سارے انسانوں کے لئے کہا گیا ہے.تو اندھیرے میں وہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ اس تڑپ کو دعا قرار دے کے اور ان کی اس تڑپ کے نتیجہ میں اس مجوب کی جو دعا ہے کہ خدا کو جانتا بھی نہیں لیکن دعا کی کیفیت اس کے اندر پیدا ہوتی ہے، اسے قبول کرتا اور اس کے لئے روشنی پیدا کر دیتا ہے.تو قرآن کریم کی تعلیم اور ہدایت اور وہ راہیں، جو ترقی کے لئے قرآن کریم نے بیان کیں، اس دنیا میں بھی مومن و کافر کے لئے بشارتیں بھی رکھتی ہیں اور انذار کا پہلو بھی رکھتی ہیں.یعنی اگر صحیح راہ کو اختیار کرو گے ، فلاح پاؤ گے.اگر صحیح راہ کو اختیار نہیں کروگے، ناکام ہو جاؤ گے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمتوں سے بھر پور احسان جو ہے ، وہ صرف نوع انسانی پر نہیں بلکہ عالمین پر ہے.940
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 19 فروری 1982ء وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء: 108) لیکن چونکہ انسانی زندگی سے باہر ہر شے انسان کی خدمت کے لئے مامور ہے، اس لئے زیادہ فائدہ اس رحمت سے نوع انسانی حاصل کرتی ہے.اور نبی کریم رحمة للعالمین اس لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا جو رنگ اپنے پر چڑھایا تو بہت ساری روشنیاں آپ کی ہستی اور وجود سے باہر نکلیں تو رحمة للعالمین اس لئے بنے کہ خدا تعالیٰ نے اعلان کیا تھا کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ (الاعراف: 157) میں رحیم ہوں ، رحمان ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے، اس واسطے وہ ایک، جو کامل طور پر میرا عکس بنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وه رحمة للعالمین بن گیا.اور اس رحمت کے جلوے انسانی زندگی پر جو ظاہر ہوتے ہیں، ان کا بیان قرآن کریم میں ہے.ان ساری باتوں پر غور کر کے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہر انسان کا یہ حق قائم کیا گیا ہے، اللہ تعالی کی طرف سے کہ اسے قرآن کریم کی تعلیم حاصل ہو.اور اس تک قرآن کریم کا حسن اور انوار پہنچائے جائیں.اس لئے قرآن کریم کی اشاعت ضروری ہوگئی.ہر صدی میں حتی المقدور اپنی طاقت کے مطابق امت مسلمہ کے اولیاء قرآن کریم کے نور اور حسن کو غیر مسلموں میں پھیلانے کی کوشش کرتے رہے.اور اسی کے نتیجہ میں اور اس پیار اور اس خدمت اور ان اخلاق کے نتیجہ میں لاکھوں کروڑوں کے دل خدا تعالیٰ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چودہ سو سال میں جیتے گئے.لیکن اسلام کی ترقی اپنے عروج کو ابھی نہیں پہنچی تھی ، ان تمام عظیم کوششوں کے باوجود.اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بشارتوں میں یہ اطلاع بھی دی تھی کہ اس زمانہ میں ، جس میں مہدی اور سیح " تیرے ایک روحانی فرزند ، تیرے ایک فدائی خادم کی حیثیت سے نازل ہوں گے اور اس زمانہ میں پھر ساری دنیا میں اسلام کامیابی کے ساتھ پھیلے گا.یہی وہ زمانہ ہے، اس لئے جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ قرآن کریم، صحیح تفسیر اور معنی اور مفہوم کے ساتھ ، ساری دنیا کے انسانوں کے ہاتھ میں پہنچائے.اور ساری دنیا کے ہاتھ میں قرآن کریم کی تعلیم پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں اس کا ترجمہ ہو.ایسا ترجمہ، جو خدا تعالیٰ کے نزدیک صحیح بھی ہو اور مقبول بھی ہو اور برکتوں والا بھی ہو اور تاثیر رکھنے والا بھی ہو.اس کے لئے جماعت نے شروع 941
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 19 فروری 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم سے ہی کوشش کی اور بہت سی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ جنہوں نے ان کو پڑھا، اثر قبول کیا اور قرآن کریم کی عظمت کو پہچانا.اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول میں یہ تراجم ممدد معاون ہوئے.لیکن ابھی کام ختم نہیں ہوا.کیونکہ بیسیوں زبانیں ایسی ہیں، جن میں ابھی تراجم جماعت احمدیہ کی طرف سے اور تفسیر قرآن کریم کی نہیں ہوئی.اور ان زبانوں کے بولنے والوں کے ہاتھ میں ابھی تک ہم نے قرآن کریم صحیح معنی اور صحیح تفسیر کے لحاظ سے نہیں دیئے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا میں جو کثرت سے بولی جانے والی زبانیں ہیں، پہلے انہی کو لینا چاہیے.تاکہ زیادہ ہاتھوں میں کم وقت میں قرآن کریم اپنی پوری عظمت اور شان کے ساتھ ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پہنچ جائے.میں نے جلسہ سالانہ پر بھی بتایا تھا کہ سپینش زبان میں، جو ساؤتھ امریکہ اور سپین کی زبان ہے، پر چوگیز زبان بھی اس سے ملتی جلتی ہے.مجھے بتایا گیا ہے کہ جو پرتگالی زبان بولنے والے ہیں، وہ سپینش زبان بھی سمجھ جاتے ہیں.پھر فرانسیسی ہے.ایک وقت میں ان کی بڑی کالونیز (Colonies) تھیں.کالونیز کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہوں گا.میرا یہ مضمون نہیں.لیکن اس کے نتیجہ میں انگریزی کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان، روس اور چین کو علیحدہ کر دیں اگر ، تو فرانسیسی تھی.تیسری اٹالین زبان کے بعد رشین Russion اور چائنیز Chinese زبان کے ترجمے انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ توفیق دے مجھے، جب تک میں زندہ ہوں اور جماعت کو جو قیامت تک زندہ رہنے کی بشارتیں اپنی جھولیوں میں رکھتی ہے کہ وہ ترجمے بھی جلد سے جلد شروع ہو جائیں.میں آج یہ بتانے لگا ہوں کہ ان تین زبانوں کے ترجموں پر کام شروع ہو چکا ہے.چند دن ہوئے، مجھے اطلاع ملی ، یورپ کے اس ملک سے جہاں یہ ترجمے کروائے جارہے ہیں.میں نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ کسی ایک سورۃ کا ترجمہ نمونہ ہمیں بھجوائیں.تا کہ ہم تسلی کر لیں کہ آپ اس قابل ہیں یا نہیں کہ ترجمہ صحیح کرسکیں؟ تو انہوں نے سورۃ الدھر کا نمونہ بھجوایا.ترجمہ کے لحاظ سے یہ سورۃ مشکل ہے.یورپ میں ہی ان کو دیکھا جا سکتا ہے اور پر کھا جا سکتا ہے اور ان پر تنقید کی جاسکتی ہے.انشاء اللہ چند دنوں تک یا چند ہفتوں تک ان سے معاہدہ ہو جائے گا.اور ان کا یہ وعدہ ہے کہ ہم پندرہ مہینے میں تینوں زبانوں کے تراجم اور تفسیر، کوئی چودہ، چودہ سو صفحے کی کتاب ہے، ہمیں دے دیں گے.اور دعویٰ ہے ان کا (ویسے انسان کمزور ہے، غلطی بھی کرتا ہے.آپ دعا کریں کہ قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے غلطی نہ کریں کوئی ) کہ اگر کوئی ایک لفظ ایسا آپ نکال سکیں ہمارے ترجمہ میں جو بھی نہ ہوتو ہم بارہ سفر یک (جس کا مطلب ہے کہ کئی ہزار روپیہ) اس ایک لفظ 942
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 19 فروری 1982ء پر حرجانہ دیں گے.تو بظاہر تو بڑی مشہور ہے، دنیا میں وہ فرم ترجمہ کرنے کے لحاظ سے.آج میں اس لئے پر بات کر رہا ہوں کہ آپ خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو وعدہ کے مطابق پندرہ مہینے کے اندر اندر یہ تراجم اور تفسیر ( بہت بڑی تفسیر ہے، چودہ سو صفحے میں آتی ہے.) کرنے کی توفیق بھی دے اور ایسا ترجمہ ہو، جو خدا تعالی کے نزدیک صحیح اور درست اور اثر رکھنے والا ہو.اور یہ حقیر جماعت دنیا کی نگاہ میں اور کمزور اور کم مایہ جماعت، خدا تعالیٰ کے حضور کچھ تھوڑا سا جو پیش کر رہی ہے، خدا تعالیٰ اسے قبول کرے.اور افراد جماعت کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے.اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو یہ مہم جاری ہے، اس میں برکت ڈالے.اور ہماری زندگی کی جو سب سے بڑی خوشی ہے کہ ہم اسلام کو غالب ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھیں، وہ خوشی ہماری پوری کرے.اور ہمیں توفیق دے کہ اسی کے مطابق ہم اور زیادہ اس کے سامنے عاجزانہ جھکنے والے اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والے بن جائیں.میں نے اشارہ کیا کہ ترجمہ صحیح اور غیر صحیح ہونی چاہیے.اس کا کوئی معیار ہونا چاہیے.اس سلسلہ میں بہت ساری باتیں ہیں، جو دیکھنی پڑتی ہیں.چند باتوں کا میں ذکر کروں گا.ایک تو یہ ہے کہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا، اس لیے کسی ایک لفظ کا بھی ایسا ترجمہ کرنا جائز نہیں ، جس کو عربی جائز نہ کہتی ہو.یعنی جو تر جمہ یا جو معنی لغت عربی نے کسی عربی لفظ کے بتائے ہیں، اس سے باہر نہ ہو.ویسے تو چونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کو نازل کرنے والا ہے، اس واسطے وہ اپنی حکمت کا ملہ اور قدرت کاملہ سے عربی الفاظ استعمال کرتا ہے.مثلاً زکوۃ کے بارہ، چودہ معنی ہیں.تو بہت سے معانی میں قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کی جاسکتی ہے، سیاق و سباق کے لحاظ سے سبھی یہ چھوٹی سی کتاب اتنے عظیم اور وسیع علوم پر حاوی ہوگئی.دوسرے یہ کہ کوئی ایسا ترجمہ یا تفسیر نہ کی جائے، جو قرآن عظیم کی کسی دوسری آیت یا آیات کے خلاف ہو.اور اس ترجمے اور تفسیر کی تائید دوسری کوئی آیت نہ کرتی ہو بلکہ اس کے خلاف بات کر رہی ہو“....اس واسطے محض قرآن کریم کا ترجمہ غیروں میں، غیر مسلموں میں پہنچانا کافی نہیں.جب تک یہ ساری احتیاطیں نہ برتی جائیں کہ کوئی ایسا ترجمہ یا تفسیر نہ ہو، دوسری آیات نہ کر رہی ہوں ، جس کی توثیق.بلکہ قرآن کریم خود اپنا مفسر ہے.قرآن کریم کو نازل کرنے والے اللہ نے یہ اعلان کیا کہ جتنا مرضی غور کر لو اس کائنات میں تمہیں میری صفات کے جلوؤں میں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا.اس لئے ہم علی الاعلان عیسائی دنیا، جو ا بھی قرآن کریم کو سمجھ نہیں سکی اور دوسرے غیر مسلموں کے سامنے یہ اعلان کیا کرتے ہیں کہ جس طرح قرآن کریم میں یہ اعلان ہوا کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں میں تمہیں کوئی تضاد نہیں نظر آئے گا، اس لئے "" 943
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 فروری 1982ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد پنجم اس بات پر بھی ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہ جو خدا کا کلام ہے، ( اور خدا کے جلوے کبھی کلام کی صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں، اس کی ایک صفت کلام کرنے والے کی بھی ہے.) اس کے کلام میں بھی کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا کہ کہیں کچھ لکھا ہو اور کہیں کچھ لکھا ہو.سارا قرآن کریم شروع سے آخر تک ایک منطقی مجموعہ ہے.ہر چیز اپنی جگہ پر ہے.کوئی چیز بے موقع نہیں ہے.کوئی چیز بے مقصد نہیں ہے.کوئی چیز بے فائدہ نہیں ہے.کوئی چیز بے غرض نہیں ہے.ہر چیز اپنی جگہ پر ہے.اور وہیں ہونی چاہیے.اور تضاد نہیں ہے.(Ideas) جو ہیں، وہ معانی ہیں، قرآن کریم کے.وہ ایک دوسرے سے دست بگریبان نہیں ہیں.لڑائی نہیں ان کی ہو رہی.بلکہ ایک دوسرے کی تائید کرتے ہوئے ہماری روح اور ہمارے سینے کے اندر وہ اپنی نورانی شعاعوں سے دھنستی چلی جاتی ہیں.اور گند ہمارا دور کرتی اور نور ہم میں پیدا کرتی اور حسن کے جلوے ہمیں دکھاتی اور ہمارے اخلاق میں حسن پیدا کرتی چلی جاتی ہیں.تا کہ ہم جب قرآن کریم کو ان لوگوں کے سامنے پیش کریں تو ہمارا عملی نمونہ بھی قرآن کریم کی تعلیم کی تائید کر رہا ہو.یہ بڑی زبر دست ذمہ داری ہے، جماعت احمدیہ اور اس کے افراد پر کہ ایسے افعال نہ کیا کرو، ایسی حرکتیں نہ کیا کرو، ایسی بداعمالیاں نہ کیا کرو کہ تمہاری وجہ سے ہمارا قرآن بدنام ہو، دنیا میں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.اور خدا ہمیں یہ توفیق دے کہ ہمارے دل میں جو یہ خواہش ہے کہ جلد سے جلد نوع انسانی کے ہاتھ میں ہم قرآن کریم مع اس کے معانی کے رکھ سکیں ، ہماری یہ خواہش جلد پوری ہو.درجہ بدرجہ کام ہو گا، اس میں شک نہیں.لیکن درجات کے فاصلے زمانی لحاظ سے بعد والے نہ ہوں.بلکہ جلد جلد یہ سارے کام ہوتے چلے جائیں.اور دنیا کی نسل قرآن کریم کے نور سے محرومی کی حالت میں اس دنیا کو چھوڑنے والی نہ ہو.ہمارے اوپر یہ ذمہ داری ہے.ورنہ خدا کہے گا کہ تمہیں ہم نے حکم دیا تھا کہ اگر دعوی ہے خدا تعالیٰ کے پیار اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تو جو چیز خدا نے بھیجی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ، کافة للناس اور رحمة للعالمین کی حیثیت سے ، کیوں نہیں تم نے وہ نوع انسانی کے ہاتھ میں وہ چیز پہنچائی ؟ پس دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں کسی اور چیز کی طاقت دے یا نہ دے، کسی اور کام کے لئے ہمیں دولت دے یا نہ دے لیکن قرآن کریم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے طاقت بھی دے اور دولت بھی دے اور ہمیں کامیاب بھی کرے اور ہماری کوشش کو قبول بھی کرے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں سے ہماری جھولیاں بھر دے، بڑوں کی بھی اور چھوٹوں کی بھی ، مردوں کی بھی اور عورتوں کی بھی.آمین.( مطبوعه روز نامہ الفضل 06 اپریل 1982 ء ) | 944
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم جماعت احمد یہ عالمگیر کے نام اہم پیغام غلبہ اسلام کی مہم آپ سے مالی جہاد کا بھی مطالبہ کرتی ہے صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ کے نویں مرحلے کے آغاز پر جماعت احمدیہ عالمگیر کے نام اہم پیغام الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ میرے عزیز بھائیو اور بہنو! هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ میں ادائیگیوں کا آٹھواں مرحلہ بخیر و خوبی ختم ہوا اور نواں مرحلہ شروع ہو رہا ہے.مجھے خوشی ہے کہ آٹھویں مرحلہ میں مخلصین جماعت نے پچھلے سالوں سے بڑھ کر اس مبارک تحریک میں قربانی دی ہے.الحمد للہ علی ذالک.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اموال میں بہت برکت دے اور آپ اپنی تابندہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرتے چلے جائیں.عالمگیر جماعت ہائے احمدیہ کے تمام امراء اور صدر صاحبان کے نام میرا یہ پیغام ہے کہ آپ نے اپنے اپنے ملک کے اندر نویں مرحلہ میں زیادہ سے زیادہ وصولی کرنی ہے.آپ کی طرف سے پوری کوشش ہوئی چاہئے کہ سال ختم ہونے سے پہلے آپ کی جماعت میں وعدہ کرنے والوں میں سے ایک بھی فرد ایسا نہ رہ جائے ، جس نے اپنے کل وعدہ کا 9/15 تک نہ ادا کر دیا ہو.اس کے لئے آپ کو ابھی سے اپنی مساعی کا آغاز کر دینا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے.یادرکھئے کہ غلبہ اسلام کی مہم آپ سے مالی جہاد کا بھی مطالبہ کرتی ہے.وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ انہیں سات سو گنا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اجر مل سکتا ہے.ہمت کریں اور اپنے قدم تیزی سے آگے بڑھاتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ہماری حقیر خدمت کو شرف قبولیت بخشے.آمين اللهم آمين والسلام ( دستخط) مرزا ناصر احمد مطبوعه روز نامہ الفضل 18 مارچ 1982ء) 945
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اپریل 1982ء وو اقوام عالم کو تنبیہ اور جماعت کو دعا کی ہدایت خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اپریل 1982ء آج میں جہاں ایک طرف جماعت احمدیہ سے یہ کہوں گا کہ وہ نوع انسانی کی خاطر خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ خدایا! تو نے ہمیں عقل تو دی ہے، فراست تو عطا کی ہے لیکن سامان اور مادی اسباب نہیں دیئے کہ ہم فساد کو دور کر سکیں.ہم تیرے حضور جھکتے اور عاجزانہ تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو ہماری دعاؤں کو سن اور انسان کو عقل اور فر است عطا کر کہ وہ اپنے بھلے برے کی تمیز کر سکے.اور دوسرے میں تمام اقوام عالم کو پھر سے تنبیہ کرنا چاہتا ہوں، جیسے آج سے قبل 1967ء میں انگلستان میں ایک موقع پر بڑی وضاحت سے میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر تم ساری اقوام ، جو بعض لحاظ سے مہذب اور ترقی یافتہ ہو، اپنے رب کریم کو پہچان کر اس کی طرف واپس نہیں لوٹو گے تو ایک ایسی ہلاکت تمہارے سامنے کھڑی دیکھتا ہوں میں، پیش گوئیوں کے مطابق ، جو قرآن کریم نے کیں، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بیان کیں، جو امت کے بزرگ کرتے چلے آئیں ہیں، ایک ایسی ہلاکت ہوگی کہ زمین کے علاقوں کے علاقے ایسے ہوں گے، جن میں زندگی ختم ہو جائے گی.یہ انتباہ کیا گیا ہے.یعنی صرف انسان نہیں مارے جائیں گے بلکہ کوئی جانور نہیں رہے گا، کوئی چرندہ نہیں رہے گا، کوئی درندہ نہیں رہے گا، کوئی بیکٹریا نہیں رہے گا، کوئی وائرس (virus) کا کیٹر انہیں رہے گا.زندگی جس کو کہتے ہیں، درختوں کی زندگی، دوسری زندگی، زندگی ختم ہو جائے گی.اور وہ خطے زندگی سے عاری ہو جائیں گے.اس قسم کی ہلاکت سے ڈرایا، مہدی اور مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دنیا کو.اور استدلال کیا، پہلی زبردست پیشگوئیوں سے بھی اور انہی کی تفصیل اور تفسیر میں جو باتیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بتائیں، ان کی روشنی میں پہلی تفسیر کو اس دنیا کے سامنے رکھا.اندر سے جانتے ہیں کہ ہم خطرے میں ہیں.جب لنڈن میں، میں نے یہ انتباہ کیا تو ایک دوست اپنے بنک کے مینجر کو، جو انگریز تھا، (عیسائی یاد ہر یہ جو بھی تھاوہ، بہر حال مسلمان نہیں تھا) ساتھ لے کر آئے.رات کے کھانے کے بعد میں نے یہ پیپر پڑھنا تھا وہاں.وہ مجھے کہنے لگے کہ پہلا فقرہ جب 947
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اپریل1982ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم آپ کے منہ سے نکلا تو حیرانگی اور پریشانی میں اس کا منہ یوں کھلا.( کھل جاتا ہے لوگوں کو ) اور پھر سارا وقت کھلا ہی رہا.کیونکہ فقرے کے بعد فقرہ جو تھا ، وہ ان کو جھنجھوڑنے والا تھا.1967ء کے بعد اب قریباً پندرہ سال ہو گئے.اب پیچھے جیسے وہاں کے حالات خراب ہوئے تو جن دکانوں میں یہ چھپ کے مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کے یہ پیپر چھپا تھا ، ان دکانداروں نے مانگنے شروع کئے کہ اس کی مانگ بڑھ گئی ہے، یہ ہمیں دوبارہ چھاپ کے دیں.تو وہ دوبارہ چھاپ کے بھی دے رہے ہیں.اور دوبارہ میں تنبیہ ان کو بھی کر رہا ہوں.جماعت ان کے لئے دعائیں کرے.وہ لوگ اپنی فکر کریں.اندھیرے میں ہی کسی کو تلاش کریں.اس کو جس نے ان کو پیدا کیا اور جو بڑا رحم کرنے والا ہے.اور جذبہ پیدا کریں اپنے دل میں کہ ان کا رب، جس نے انہیں اپنا بندہ بنانے کے لئے پیدا کیا تھا اور جس سے دوری کی راہوں پر اپنی بدقسمتی کے نتیجہ میں انہوں نے غلط قدم اٹھائے ، وہ مہربان خدا ان پر مہربانی کرے اور جوصراط مستقیم اسلام نے نوع انسانی کے سامنے پیش کیا، جو شاہراہ غلبہ حسن انسانیت بھی ہے، ( بہت سارے نام اس کو دیئے جاسکتے ہیں ) اس شاہراہ پر ان کو چلنے کی توفیق عطا کرے.اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے اس بھیانک نتیجہ سے بچالیے جائیں.اللہ تعالیٰ فضل کرے.ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا کرے اور ان غیر مسلم اقوام کو اپنی بھلائی کی فکر کے سامان پیدا کرنے کی عقل عطا کرے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 27 اکتوبر 1982ء) 948
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 26 مارچ 1982ء حال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے "" خطاب فرمودہ 26 مارچ 1982ء بر موقع مجلس شوری کیلگری (کینیڈا) میں ایک چھوٹی سی جماعت ہے اور وہ اپنی ضروریات کے لئے ایک مکان خریدنا چاہتے تھے.تاکہ بچوں کی تربیت کے لئے اور ان کو قرآن کریم پڑھوانے کے لئے اور وہاں جلسے کرنے کے لئے کوئی مرکزی جگہ میسر آجائے.علاوہ ازیں جو دوست وہاں پہنچ سکیں ، وہ اکٹھے نمازیں پڑھ لیں.یعنی اس طرح بہت سارے مقصد پورے ہو جاتے ہیں.اس لئے وہ چاہتے تھے کہ کوئی مرکزی جگہ ہونی چاہئے.لیکن ان کا آپس میں اختلاف بھی تھا اور میرے پاس وہ اختلاف بھی آتا تھا.پھر میں نے ان کو اپنا فیصلہ سنایا کہ یہ جو مجوزہ مکان ہے، تم اسے خرید لو.کچھ ان کو جماعت نے پیسے قرض دیئے، کچھ ان کے پاس تھے.انہوں نے وہ مکان خرید لیا.دعاؤں کے ساتھ میں نے ایک عزم کیا اور ان کو حکم دیا کہ خرید لو.پانچ ، چھ سال کے بعد وہ جگہ، جو residential یعنی جہاں صرف رہائشی مکان بن سکتے تھے، دکانیں د کا نہیں قانو نا نہیں بن سکتی تھیں، اس کو وہاں کی حکومت نے commercial area ڈیکلیر کر دیا.اور وہ مکان، جو کوئی ستر ، اسی ہزار کینیڈین ڈالر کا لیا گیا تھا، اس کی بیچنے کے لئے Offor آگئی کہ چار لاکھ ، پچاس ہزار کینیڈین ڈالر پر بیچ دیں.اور سات، آٹھ میل پر 140 ایکڑ پرمشتمل ایک اور جگہ مل رہی تھی، جو پہلے مکان سے چار، پانچ گنا بڑی تھی.اور صرف تین لاکھ ، چوبیس ہزار ڈالر میں مل رہی تھی.اس میں وہاں بڑا سخت اختلاف پیدا ہو گیا.مجھے یہ مشورہ بھی ملا کہ بالکل نہیں لینا چاہئے ، آٹھ میل دور کون جائے گا ؟ حالانکہ ان ملکوں میں تو پچاس میل کی دوری بھی کوئی دوری نہیں ہے.اچھی سڑکیں ہیں، دوڑنے والی سڑکیں ہیں.موٹرمیں عام لوگوں کے پاس بھی ہیں اور پبلک کی بسیں بھی بڑی چلتی ہیں، یہ کوئی ایسا فاصلہ ہی نہیں.شہر سے دس، بارہ منٹ کے فاصلہ پر واقع ہے.بہر حال اس پر اختلاف تھا اور مختلف ذہن مختلف دلائل دے کر اپنی اپنی رائے منوانا چاہتے تھے.میرے پاس آراء آ رہی تھیں.ایک یہ تجویز آ گئی کہ سات، آٹھ میل کی بجائے تین میل کے اوپر جگہ مل رہی ہے، جس کا رقبہ سولہ ایکٹر ہے اور قیمت بھی اس سے کچھ کم ہے.خیر و ساری چیزیں میرے پاس پہنچیں، میں نے غور کیا، میں نے ان دلائل کا وزن کیا، میں نے اپنی فراست 09 949
اقتباس از خطاب فرمود 26 مارچ 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم مومنانہ سے جماعت کے مستقبل کو سامنے رکھا.بہت ساری چیزیں میرے دماغ میں آئیں اور میرے دماغ نے یہی فیصلہ کیا کہ مستقبل کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سولہ ایکٹر کی بجائے چالیس ایکٹر کی جگہ لینا، بہت بہتر ہے.بعض لوگ خدا تعالیٰ پر توکل نہیں رکھتے اور خدا تعالیٰ کے جو وعدے ہیں، ان کے پورا ہونے پر تو کل نہیں رکھتے.اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ان کے فیصلوں میں کمزوری رہ جاتی ہے.مثلاً جرمنی میں ایک چھوٹی سی جگہ خرید لی گئی.ہمارے اپنے مبلغ نے روڑے اٹکائے کہ اس کے ساتھ زمین خالی پڑی ہے.اس وقت وہ علاقہ چونکہ جنگل تھا، اس لئے کہا گیا کہ نہیں لینی چاہئے.حالانکہ اس وقت بڑی سستی مل رہی تھی.اور اس طرح اس میں روک پیدا ہوگئی.اور اس وقت وہاں کی جماعت کو مصیبت پڑی ہوئی ہے.کیونکہ اردگرد مکان بن گئے ہیں.اب ایک تو یہ مشکل پیدا ہوگئی کہ زمین قابل فروخت کوئی نہیں ، دوسرے یہ کہ مکین جو ہیں، وہ شور مچارہے ہیں کہ تم لوگ اکٹھے ہو جاتے ہو اور ہمیں disturb کرتے ہو.جاؤ، کسی اور جگہ مرکز بناؤ.تو بہت ساری قباحتیں پیدا ہو گئیں.حالانکہ شروع میں وہاں آسانی کے ساتھ دو، تین ایکڑ زمین لی جاسکتی تھی.پس بعض تو ایسی چیزیں ہیں، جو اکثر لوگ عدم علم کی وجہ سے ان باتوں کا سوچ بھی نہیں سکتے.میں 80ء میں کیلگری گیا تو وہاں چھوٹی سی جماعت تھی 75ء میں غالباً وہ پرانا مکان خریدا گیا تھا.اس میں دوستوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں.بالکل چھوٹی سی جگہ تھی لیکن اس وقت ضرورتیں پوری کر رہی تھی.پچھلی دفعہ 80ء میں، میں جب وہاں گیا تو اس میں نماز بھی پڑھی.لیکن اس وقت تک جماعت اتنی بڑھ گئی تھی کہ وہ جگہ کافی نہیں تھی.اور دس سال بعد اللہ تعالیٰ فضل کرے تو ممکن ہے چالیس ایکڑ بھی کم ہو جائے.کیونکہ جس تیزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتیں نازل ہورہی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ آئندہ نوجوان نسلیں، جو آج کے بعد پیدا ہوں گی ، ان کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے ہلاکت سے بچانے کے سامان کرنا چاہتا ہے.یعنی اسلام کی طرف ان کی توجہ ہوگی اور اسلام میں وہ داخل ہوں گے.اس وقت ایک بڑی رو پیدا ہوئی ہوئی ہے.تو اگر کیلگری میں دو سال میں پانچ ہزار احمدی وہاں ہو جائے تو کیلگری کی یہ چالیس ایکڑ زمین بھی کم ہو جائے گی.لیکن پھر اللہ تعالیٰ اور زمین کا انتظام کر دے گا.یہاں سے 20 میل اور پرے زمین مل جائے گی.تو خدا تعالی سامان پیدا کرتا رہتا ہے.لیکن ہم سے جہاں تک ہو سکتا ہے، صرف حال میں زندگی گزارنے کی عادت نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ مستقبل کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے.مثلاً ہماری جو مساجد ہیں، ہماری جو زمین ہے مساجد کے لئے، اس کی خرید میں بھی اور جو 950
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 26 مارچ 1982ء بچے آپ کے گھروں میں پیدا ہورہے ہیں، ان کی تربیت میں بھی تساہل نہیں کرنا چاہیے.آخر اگر پانچ ہزار نیا احمدی ہو جائے کیلگری میں یا کینیڈا کے کسی اور حصہ میں یا امریکہ کے کسی حصہ میں یا بڑی تیزی سے ہو رہے ہیں احمدی افریقہ میں.تو ان کی تربیت کون کرے گا؟ اگر آپ کی اپنی نسلوں میں وہ بچے پیدا نہیں ہوں گے، جو دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے اور تکلیفیں اٹھا کر دنیا کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرنے والے ہوں گے تو بڑی مشکل پڑ جائے گی.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا، اب بھی کہتا ہوں کہ بوجھ تو پڑنے ہیں یا آپ اٹھائیں گے یا خدا کوئی اور قوم پیدا کر دے گا.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا منصوبہ ہے، یہ میرا منصوبہ نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مہدی اور مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام کو تمام بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے دنیا میں غالب کیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور اس کا وقت مقرر کیا ہے کہ تین صدیاں ابھی نہیں گزاریں گی کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا.اور ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ احمدیت کی دوسری صدی میں ایسا ہوگا.اس واسطے میں نے اعلان کیا تھا کہ جس صدی میں ہم داخل ہورہے ہیں، ایک نقطہ نگاہ سے یا اپنی زندگی کے لحاظ سے اور سات، آٹھ سال کے بعد داخل ہو جائیں گے، وہ انشاء اللہ بہت تیزی کے ساتھ غلبہ اسلام کے آثار ظاہر کرنے والی صدی ہے، جس کے افق پر یہ آثار ظاہر ہوں گے.وہ باتیں ظاہر ہوں گی ، جو آج آپ سوچ بھی نہیں سکتے.کون سنبھالے گا، نئے آنے والوں کو؟ ان کے لئے مساجد کی ضرورت ہے، ان کے لئے مبلغین کی ضرورت ہے.لیکن چونکہ ہم نے آہستہ آہستہ بڑھنا ہے اور مسجد بنانے کے لئے بھی کچھ وقت لگتا ہے، اس واسطے اب میرے زمانہ میں جو بھی زمین خریدی گئی ہے ، وہ میں تھوڑی نہیں خرید واتا.سپین میں ڈیڑھ کنال مستقف ایریا ہو گا لیکن چودہ کنال زمین لے لی.باقی پڑی ہے اگر ضرورت پڑی تو اس پر ایک بہت بڑا کمپلیکس بن سکتا ہے.اٹلی میں زمین لے رہے ہیں، آج کل میں انشاء اللہ امید ہے ہل جائے گی.دوا یکڑ کا ایک ٹکڑا ہے، جسے فوری خریدنے کا خیال ہے.اور اس کے علاوہ قریب ہی تین ایکڑ اور ہیں.جولوگ اس میں دلچسپی لے رہے ہیں، ان کو میں نے کہا ہے کہ اس ٹکڑے کو بھی نہیں چھوڑنا.اس میں کوئی تھوڑی سی دقت ہے.انہوں نے کہا تھا کہ یہ اتنی جلدی بہکے گی نہیں.اس واسطے جب آپ بنیادرکھنے آئیں تو خود دیکھ کے پسند کر لیں تو پھر وہ بھی خرید لیں گے.951
اقتباس از خطاب فرموده 26 مارچ 1982ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم پس دویا تین ایکڑ کا سوال نہیں، ذہنیت کا سوال ہے کہ خدا کے وعدے پورے ہوں گے.جب خدا کے وعدے پورے ہوں گے تو آنے والوں کی ضروریات بڑھ جائیں گی.جب ان کی ضروریات بڑھ جائیں گی تو جو پرانے احمدی ہیں، ان کی ذمہ داریاں اپنی اور اپنی نسل کی تربیت کے لحاظ سے بڑھ جائیں گی.اور آنے والوں کے لئے اب دار الضیافت یعنی ہمارا جو نیا نگر خانہ ہے، اس کو کافی زمین ملی ہوئی تھی.وہاں پکا لنگر خانہ بن گیا.پھر ایک حویلی سی اور بن گئی.خیال تھا کچھ عرصہ وہ کافی ہو جائے گا.اب وہ کہتے ہیں، ہمارے لئے کافی نہیں.دو، تین سال کے اندر اندر ویسے تو کافی نہیں.لیکن خدا، جو علام الغیوب ہے، اس نے فرمایا تھا:.وسع مکانک اس میں جو تصور ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، وہ خداتعالی کی وحی اور الہام کے ذریعہ میں دیا گیا ہے“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 26 تا 28 مارچ 1982ء ) 952
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1982ء جومخلص واقف زندگی ہے، اس کو دنیا کی کوئی پرواہ نہیں ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1982ء برموقع مجلس شوریٰ.پس یہ غلط خیال ہے کہ واقف زندگی دنیا کی محبت اپنے دماغ میں رکھتا ہے.یہ آپ سب اپنے دماغ سے نکال دیں.جو مخلص واقف زندگی ہے، اس کو دنیا کی کوئی پرواہ نہیں.آخر یہ جو کہا جاتا ہے کہ تحریک جدید نے یوں کیا، تحریک جدید نے یوں کیا.یہ صرف اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے، جو انسان کو اچھے کام کرنے ، نیکیاں کرنے ، احسان کرنے اور فساد سے بچنے کی توفیق عطا فرماتا ہے.ہمارے مبلغ نذیر علی احمد صاحب جب پہلی دفعہ افریقہ گئے تو شروع میں وہاں بالکل احمدی تھے ہی نہیں.دو، چار کتابیں اپنے سر پر رکھ کر بش میں چلے گئے.یعنی جنگل میں چلے گئے.جہاں آدمی کو بھی ذبح کر کے کھانے والا علاقہ ہے اور گاؤں میں جا کر وعظ کرتے تھے.تو لوگ کہتے تھے کہ ہم تمہاری بات سننے کے لئے تیار نہیں.کہتے تھے، میں یہاں تمارے ساتھ لڑنے کے لئے نہیں آیا.میری بات سننے کے لئے تیار نہیں تو میں چلا جاتا ہوں.اگلے گاؤں میں گئے ، پھر اگلے گاؤں میں گئے.کوئی آدمی ان کی باتیں سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا.پھر جب سورج غروب ہورہا ہوتا اور ایسے گاؤں میں پہنچتے ، جہاں کے چیف (پرانا چیف سسٹم بھی ابھی تک وہاں ساتھ ساتھ چلا آ رہا ہے ) نے سوچا کہ اب آگے کہاں جائیں گے.اس نے کہا، اچھا تم میرے پاس رات گزارلو.اور اس رات میں پیار سے ان سے باتیں کیں.اور وہاں ایک، دو احمدی ہوگئے یا قریب آ گئے.وہاں ایک خاندان کی جماعت بن گئی.جہاں یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر دسواں آدمی احمدی ہے، اس کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ سات گاؤں سے دھتکارے گئے ، نکالے گئے.مگر چہرہ پر کوئی غصہ، ناراضگی ، بدمزگی کے آثار نہیں پیدا کئے.جس طرح ہنستے ہوئے داخل ہوئے تھے ، اسی طرح جب نکالے گئے ، تب بھی ہنستے ہوئے ، دوسرے گاؤں میں چلے گئے ، تیسرے گاؤں میں چلے گئے.آخر خدا تعالیٰ نے کامیابی کا سامان پیدا کر دیا.اور اب خدا کے فضل سے بڑا رعب ان علاقوں میں پیدا ہو گیا ہے.خلافت کے ساتھ بڑی برکات وابستہ ہیں.70ء میں، میں پہلی دفعہ گیا.اس وقت کے بعد اب میں 80ء میں گیا.زمین آسمان کا فرق دیکھا.اس وقت نائیجریا میں گنتی کے 200 احمدی تھے، جو میر.953
ارشاد فرمودہ 27 مارچ1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد پنجم استقبال کے لئے ائیر پورٹ پر موجود تھے.اور اب 80ء میں ائیر پورٹ بھرا ہوا تھا.اور تین میل لمبی احمد یوں کی قطار لگی ہوئی تھی.دس سال کے اندر خدا نے یہ کامیابی عطا فرمائی.ان دس سالوں میں بعض چیزیں نہیں ہو رہی تھیں.مثلاً ابھی تک جو مسلم نارتھ کہلاتا ہے یا دوسرے صوبوں کے مسلمان تھے ، ان میں بڑا تعصب تھا.اب 80ء میں جب میں وہاں گیا ہوں، میں نے ان سے پیار سے باتیں کیں.چنانچہ اب وہ پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ہمارے ہاں سکول کھولیں، ہسپتال بنا ئیں.علاوہ ان چار ہسپتالوں کے جو حکومت نے درخواست کی کہ اگر تم یہ نہیں چاہتے کہ یہ ٹیسٹ عیسائی بن جائے ، وہ (pagans ) پیکنز کو عیسائی بنارہے ہیں، اس کے مداب تک.ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ انتظام کرتا ہے.بیچ میں کچھ ڈاکٹروں کی کمی تھی ، اب میرے پاس ریز رو میں ہیں.اب میں نے ان کو کہا ہے، یہ جہاں بھی کہتے ہیں، ان کے لئے ہسپتال بنوا دیں.اور خدا تعالیٰ نے نفرت کو فرشتوں کے ذریعہ پیار میں بدلنا شروع کر دیا ہے.پہلے تو نفرت تھی.وہ لوگ نام سننے کے لئے تیار نہیں تھے.پھر وہ شروع میں جو گئے، مثلاً سکوٹو میں صرف چار، پانچ احمدی اور وہ بھی چھپے ہوئے تھے.حکیم فضل الرحمان صاحب کے شاگرد تھے اور احمدیت کی وجہ سے بڑے پڑھ گئے تھے.اب کوئی وزیر بنا ہوا تھا اور کوئی کچھ، اور کوئی کچھ.اور اب وہ علاقے خود ما نگ کر سکول کھلوار ہے ہیں.پس زندگی میں کوئی تکلف نہیں پیدا کرنا چاہیے.ہر انسان دوسرے انسان کا بھائی ہے.اور ہر ایک کی عزت اور شرف اور احترام قائم ہے.سوائے اس احمق کے جو یہ کہے کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کے اعلان کے بعد بھی ، میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچا ہوں، اس لئے میں برابری نہیں کر سکتا.تو وہ جانے اور اس کا خدا جانے.اگر جہنم اس کے لئے مقدر ہے تو وہ جانے.ہم جو خدا کی معرفت رکھنے والے اور خدا کی مخلوق سے پیار کرنے والے لوگ ہیں ، ہمیں ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سبق دیا ہے.ہمارے پاس پیسہ نہیں لیکن جذبہ ہے، جس کی قدر کی جاتی ہے.فدائیت ہے، جس کا احترام کیا جاتا ہے.انسانیت ہے، ابھی میں نے انسانیت کا لفظ اس لیے کہہ دیا کہ بعض غیر مسلم ہیں، ظاہری لحاظ سے ان میں بڑی انسانیت ہے، کسی کو دکھ نہیں دیتے، کسی کو ایذا نہیں پہنچاتے کسی کے خلاف سخت بات منہ سے نہیں نکالتے ، گالی نہیں دیتے.خدا کو نہیں مانتے لیکن یہ ایک ظاہری چیز ہے.خدا تعالیٰ نے جو اچھے اخلاق کی استعداد دی ہے، اس میں ایک جگہ سے انہوں نے کچھ اٹھالیا، باقی جگہ سے محروم ہیں.میں انہیں مفلوج کہا کرتا ہوں.لیکن ان میں کچھ جان تو ہے.ہم تو ہر ایک کو برابر سمجھتے ہیں.اور میں 954
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1982ء ان کو کہا کرتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہ he was a great leveller آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر اونچے نیچے کو برابر کرنے والے تھے.ہر نیچے کو اٹھا کر اونچے کو ذرا سبق کے ساتھ ایک level ( سطح) کے اوپر کھڑا کر دیا.عجیب عظمت ہے.اپنے گھر کی بیٹی ، اس گھر کی تمام عزتوں والی، اپنے آزاد غلام کے ساتھ بیاہ دی.اگر یہیں معاملہ ختم ہو جاتا تو عیسائیوں نے کہنا تھا تھی گھر کی لیکن گھر میں ایسی لڑکیاں بھی تو ہوتی ہیں، نہ عقل، نہ شکل، نیم پاگل سی کوئی ایسی ہی ہوگی ، جس کی شادی کر دی.یہی اعتراض کرتے رہتے.پھر اس کی وہاں نہیں نبھ سکی.طلاق ہوئی تو اپنے ساتھ شادی کر لی، دنیا کو بتانے کے لئے کہ اس میں ساری وہ خوبیاں تھیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بن سکے.ان ساری خوبیوں کے ساتھ اسے اپنے غلام کے ساتھ بیاہ دیا تھا.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 26 تا 28 مارچ 1982ء) 955
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 28 مارچ 1982ء انسان کو ہلاکت کے گڑھے سے بچانے والا باز و جماعت احمد یہ ہے خطاب فرمودہ 28 مارچ1982ء بر موقع مجلس شوری اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا ہے اور جماعت، جو ایک سے شروع ہوئی تھی ، کروڑ سے بھی آگے نکل گئی.اور دن بدن Momentum gain کر رہی ہے.یعنی ترقی کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہو رہی ہے.اور ایک لمبازمانہ گزرنے کے باوجود (قریباً ترانوے سال ہو گئے ) جماعت زندہ اور بیدار ہے.جماعت بڑھاپے میں نہیں ، جوانی میں ترقی کر رہی ہے.جماعت کے جو مسائل ہیں، ان کا تعلق ایک طرف ساری دنیا سے نوع انسانی سے ہے اور دوسری طرف اندرونی مسائل سے ہے.دنیا سے ہمارا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خدا تعالیٰ نے كافة للناس اور رحمت بنا کر بھیجا، اس وجہ سے ہے.ہم چاہتے ہیں کہ وہ قوم، جونوع انسانی کی شکل تھی، یعنی خطوں میں بٹی ہوئی قوم، جن کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ، اس نوع انسانی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اور رحمتوں سے حصہ ملے.اور وہ بدقسمتی کی حالت میں اس دنیا سے معدوم نہ ہوں.لیکن جو طاغوتی طاقتیں ہیں، وہ نوع انسانی کو انتہائی خطرناک ہلاکت کی طرف لے جارہی ہیں.جود ہر یہ ہے، اسے بھی یہ احساس ہے کہ ہلاکت ہمارے سامنے ہے.لیکن اسے یہ علم نہیں کہ اس ہلاکت سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟ پچھلے دورے پر یورپ میں جب میں نے یہ کہا کہ ہم سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جماعت کی جو دوسری صدی ہے، وہ اسلام کے غلبہ کی صدی ہوگی اور دنیا کی اتنی اکثریت اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی کہ باہر رہنے والے چوہڑے چماروں کی طرح ہوں گے، جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی.اس لئے اگر تم نہیں تو تمہاری نسلیں جو ہیں، انہیں اسلام کے جھنڈے تلے آنا پڑے گا.تو ایک صحافی مجھے پوچھنے لگے کہ ایک طرف آپ یہ کہتے ہیں کہ دنیا اپنے سامنے مکمل تباہی دیکھ رہی ہے، دوسری طرف آپ یہ کہ رہے ہیں کہ دنیا کی اکثریت اسلام میں داخل ہو جائے گی.میں نے انہیں کہا کہ ہم تمہیں اس ہلاکت سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں.اگر تم نے خود اپنے ہاتھ سے اپنی ہلاکت کے 957
اقتباس از خطاب فرموده 28 مارچ 1982ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم سامان پیدا کر دئیے تو پھر جو بچیں گے، وہی اس دنیا میں ہوں گے.اور وہ اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے.اعتراض کی اس میں کوئی بات نہیں.یہ درست ہے کہ ایک بہت زبر دست تباہی سے ڈرایا گیا ہے.قرآن کریم کی پیش گوئیوں میں بھی اور انہی کی یاد دہانی کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ ان قوموں کو انتباہ فرمایا کہ تمہاری دنیوی طاقت تمہاری روحانی اور اخلاقی کمزوریوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تباہی سے تمہیں نہیں بچا سکے گی.اور یہ کوشش کرنا کہ زیادہ سے زیادہ انسان اس عالمگیر تباہی سے محفوظ کرلئے جائیں، یہ جماعت احمدیہ کی ذمہ داری بنادی گئی.بہت اہم ذمہ داری ہے.نوع انسانی کے نقطہ نگاہ سے جو ذمہ واری جماعت احمدیہ پر ہے، اس سے زیادہ ذمہ داری کسی جماعت پر نہیں.اس وقت دو بڑی طاقتیں ہیں، جو بجھتی ہیں کہ نوع انسانی کے مسائل کو حل کرنے کی اجارہ داری ان کے ہاتھ میں ہے.لیکن ان ہر دو میں سے کوئی ایک بھی انسان کو انسان کی حیثیت سے نہیں دیکھتی.نہ ان کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کی کوشش بھی انسان کی بھلائی اور بہبود کے لئے ہے.ہر دو اپنے اپنے دائرہ میں اپنے مفاد کے لئے کام کر رہی ہیں.اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کے اپنے دائرے میں کوئی خوشحالی اور بہبودی کے سامان پیدا ہوں، ہر دو آپس میں متصادم ہیں.اور یہ تصادم بڑے خطرناک نتائج پیدا کر رہا ہے.لیکن جماعت احمدیہ کا کسی کے ساتھ کوئی تصادم نہیں.ہمیں یہ کہا گیا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو گے تو اپنے مقصود کو پالو گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم نے یہ سمجھا اور دنیا کو یہ سبق دیا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف: 111) کہ بشر بشر میں، انسان انسان میں، مرد عورت میں کوئی فرق نہیں.تمام کے حقوق برابر ہیں.اپنے اپنے دائرہ استعداد کے اندر ان کا حق قائم ہوتا ہے.لیکن تمام کے حقوق برابر ہیں.کسی ایک انسان کا حق بھی غصب نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ اس ایک انسان کے حق کے غصب کرنے میں نوع انسانی کی ہلاکت ہے.قرآن کریم نے اعلان کیا تھا:.مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائدة: 33) 958
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 28 مارچ 1982ء یعنی بغیر حق کے ایک جان کا لیا جانا نوع انسانی کے قتل کے مترادف ہے.کیونکہ جو زندہ رہنے کا حق تھا، اسے بغیر حق کے چھینے کا اعلان کر دیا.بغیر کسی حق کے یہ اعلان کیا کہ ہمیں زندگی چھینے کا حق ہے.تو اصولاً سارے انسانوں کو ماراناں عملاً ایک کو مارا، اصولاً سب کو قتل کر دیا.تو اس مساوات کا سبق لے کے ہم دنیا کے سامنے جاتے ہیں.اور اسی میں جو شرف انسانی ہے، اس کا اعلان ہے.میں نے کئی بار کہا اور پھر دہراؤں گا کیونکہ بڑا عظیم اعلان ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کے مقام پر کھڑے ہو کے نہیں فرمایا، قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف: 111) بلکہ نوع انسانی کے حقوق کو ثابت کر کے ، ان کی زندگی میں رفعت پیدا کر کے ، ان کو اٹھا کے اور اپنے برابر کھڑا کر کے فرمایا، قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ روس بھی (میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے ) اپنے دائرہ کے اندر انسان انسان میں فرق کر رہا ہے.لیکن نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان انسان میں فرق کیا، نہ ہم احمدی انسان انسان میں فرق کرتے ہیں.نہ کریں گے، انشاء اللہ ، قیامت تک.یہ ہمارے پروگرام کا ایک زبر دست حصہ ہے.ย پھر عزت نفس ہے.اسلام نے ہر ایک کی عزت قائم کی.اتنا حسین مذہب ہے.ایسے سبق سکھائے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے آتی تھیں تو آپ انہیں ملنے کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے.جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہونے کا سوال ہے ، ان کی بڑی عزت ہے.لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں تو فاطمہ کی کوئی عزت نہیں.لیکن کھڑے ہو جاتے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم، فاطمہ کی عزت کے اظہار کے لئے.اس لئے کہ حضرت فاطمہ " کہیں اس غرور میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ دنیا کی کوئی ایسی لڑکی بھی ہے، جس سے زیادہ ان کی عزت ہے.اس لئے کہ ہمیں یہ سبق سکھایا جائے کہ اسلام نے سب کو برابر عزت عطا کی.پس کسی سے حقارت نہیں کرنی ، کسی کو چھوٹا نہیں سمجھنا.بلکہ سب سے زیادہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے ، اپنا محاسبہ کرتے ہوئے ، اپنی فکر کرتے ہوئے ، اپنے آپ کو چھوٹا سمجھو.تم جتنا جھکو گے، اتنا خداتعالی تمہیں اٹھالے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے جو شخص انتہائی 959
اقتباس از خطاب فرموده 28 مارچ 1982ء تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد پنجم عاجزی اور انکساری سے کام لیتا ہے، اسے اللہ تعالی ساتویں آسمان تک پہنچا دیتا ہے.ایک خدا کا یہ فعل ہے، جس نے اسے آسمان تک پہنچایا.ایک اس بندے کا فعل ہے کہ اس نے اپنے متعلق فرمایا :- کرم خاکی ہوں تو کرم خا کی ہونے کا اعلان کر دیا.کئی ایک نے اعتراض کر دیا کہ اپنے آپ کو انسان ہی نہیں سمجھتے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ ساتویں آسمان تک وہی پہنچے گا ، جو کرم خاکی ہونے کا اعلان کرے گا.یعنی اپنی عاجزی کو انتہاء تک پہنچا دے گا.تو ہم نے ان کو بچانے کی جو کوشش شروع کی ہے، وہ اسلام کی اس تعلیم کے مطابق ہے.اور وہ (غیر مسلم ) اسلامی تعلیم کی برتری کو تسلیم کرتے ہیں.پھر حقوق کا قیام ہے.نہ روس کو پتہ ، نہ سرمایہ دارانہ نظام کو پتہ کہ حق کیا ہے؟ مزدور اپنے حق کے حصول کے لئے Strike کرتا ہے.بدقسمتی سے وہی مزدور یہ نہیں جانتا کہ میرا حق کیا ہے؟ میں کس کی تلاش میں ہوں؟ یہ میں نے ان کو بتایا.میں ان کو بتا تا تھا اور وہ تسلیم کرتے تھے کہ جو تعلیم آپ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں، وہ ہمارے اپنے ازم سے اور فلاسفی سے اور خیالات سے بہت زیادہ اچھی ہے.لیکن وہ لوگ گند میں دھنسے ہوئے ہیں، جس چیز کو اچھا سمجھتے ہیں، اس چیز کو لینے میں ان کی گندی عادتیں روک بنی ہوئی ہیں.یہ تبدیلی جو ہے، یہ سوائے دعا کے نہیں ہو سکتی ہے.اس واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے بڑی تاکید فرمائی ہے.خصوصاً اسلام کی تبلیغ کے متعلق کہ مناظرے وغیرہ ہو چکے، جو ہونے تھے.دوست دعاؤں کے ذریعہ سے اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کریں.اس لئے آپ نے یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کا دل خدا تعالیٰ کی دو انگلیوں میں پکڑا ہوا ہے.اگر انگلیوں کو حرکت دے دے، اس کا زاویہ بدل جائے گا.اس کے ذہن کے جو گندے خیالات ہیں، وہ خدا تعالیٰ کی ہلکی سی جنبش سے دور ہو جائیں گے.لیکن ہمیں اس کے لئے بڑا مجاہدہ کرنا ہے.ایک عظیم جہاد ہے.تلوار کا نہیں بلکہ عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ جہاد کرنا ہے.پس یہ وہ جہاد ہے، جو ہم نے کرنا ہے، نوع انسانی کی حفاظت کے لئے.تاکہ نوع انسانی بھی اسلام کے وہ ثمرات حاصل کر سکے اور وہ لذت پاسکے، جس کو وہی جانتا ہے، جو اسے چکھتا ہے.مثلاً جماعت احمدیہ بحیثیت جماعت (کمزور بھی ہیں، اس میں شک نہیں ) زندہ خدا سے زندہ تعلق رکھنے والی 960
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اقتباس از خطاب فرمودہ 28 مارچ 1982ء ہے.ساری دنیا کے دہریہ، جماعت احمدیہ کو آکر یہ کہیں کہ خدا نہیں تو جماعت کا یہ جواب ہوگا، تم بدقسمت ہو تمہیں پتہ نہیں.تمہارا مشاہدہ نہیں کہ خدا کسے کہتے ہیں؟ اس لئے تم خدا کا انکار کر رہے ہو لیکن ہمارا تو دن رات کا مشاہدہ ہے.تکلیف کے وقت خدا ہماری مددکو آتا ہے.مسائل حل کرنے ہوں تو فرشتوں کا نزول ہو جاتا ہے.دکھ ہو تو اس کی پیاری آواز ہماری روح کی گہرائیوں تک لذت اور سرور پیدا کر جاتی ہے.جب افکار اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، ایک کلمہ ساری فکروں کو دور کر کے ہمیں میٹھی اور امن کی نیند سلا دیتا ہے.جب چاروں طرف دنیا ہمارے لئے اندھیرے کے سامان پیدا کر دیتی ہے، اس وقت خدا تعالیٰ کی روشنی ہمارے گوشے گوشے میں نور پیدا کر کے اسے منور کر دیتی ہے.ہماری زندگی کا وہ کون سا حصہ ، وہ کون سا شعبہ ہے، جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے نور کے جلوے نظر نہیں آرہے.لیکن اللہ تعالیٰ صرف ہمارا رب تو نہیں.اللہ تو رب العالمین ہے.اللہ نے تو كافة للناس یعنی تمام لوگوں کے لئے یہ تمام منصوبہ بنایا تھا.اور کافة للناس لا پرواہی سے کام لے رہے ہیں.ایسی خطرناک ہلاکت کی طرف جا رہے ہیں کہ جس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ایسی خطرناک ہلاکت کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا ہے.اور یہ اس وقت کی بات ہے، جس وقت ابھی یہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم اور Other Sophisticated Weapons بنے بھی نہیں تھے.انسان کے دماغ میں بھی ان مہلک ہتھیاروں کا تصور نہیں آیا تھا.اس وقت آپ نے لکھا ہے کہ ایسی ہلاکت ہوگی کہ وہ خطہ ہائے ارض سے زندگی ختم کر دے گی.انسان ہی نہیں، جانور کی زندگی ہی نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے بھی ختم ہو جائیں گے.نباتات میں بھی ایک زندگی ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گی.ہر نقطہ نگاہ سے ایک مردہ خطہ بن جائے گا.اس قسم کی ہلاکت ہو گی.اس طرف قدم بڑھا رہے ہیں.شراب کی مستی اور دنیوی لذات کی مستیوں میں بے فکر ہلاکت کی طرف قدم بھی اٹھائے جارہے ہیں.پس کوئی ہاتھ تو ہونا چاہئے ، جو ان کے سامنے اس طرح آکے کھڑے ہو جائے اور کہے تم نے آگے نہیں جانا، آگے ہلاکت کا گڑھا ہے.وہ باز و جوان کو بچانے کے لئے ان کے سامنے آسکتا ہے، وہ ،، صرف جماعت احمدیہ کا بازو ہے.یہ ہماری ذمہ داری ہے، جہاں تک دنیا اور نوع انسانی کا تعلق ہے.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 26 تا 28 مارچ 1982ء) 961
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم اشاریہ -1- آیات قرآنیہ 2.احادیث مبارکہ 3.کلید مضامین -4 اسماء 5 مقامات 6.کتابیات اشاریہ 963
تحریک جدید- ایک الہی تحریک.....جلد پنجم آیات قرآنیہ اشاریہ، آیات قرآنیہ الفاتحة ان الله يرزق من....( 38 ) 798 ان الله يرزق من يشاء....( 39 ) 792,799 1,13,19,21,25,39,45,47,75,91, 103,113,119,127,133,184,191,201,207, 209,213,217,223,235,285,319,345,349, 369,383,513,521,595,635,661,669,701, 711,721,757,835,859,877,895,915,931 الهدنا الصراط....( 06 ) 730 ومكر و او مكر الله....( 55 ) 685,716 ولا يتخذ بعضنا بعضا اربابا....( 65 ) 760 تعالو الى كلمة....( 65 ) 757 اول بيت وضع.626 ( 97 )....واعتصموا بحبل الله...( 104 ) 398,401 البقرة ومما رزقهم ينفقون...( 4 ) 375,223 843 (11)...في قلوبهم مرض..ارنا منها سكنا....( 129 ) 730 فلا تموت الا وانتم مسلمون...( 133 ) 367 فلا تخشوهم وافسوني...( 151 ) 180,391,775,776 فاستبقو الخيرات....( 179 ) 122 ربنا اتنافي الدنيا حسنة...( 202 ) 155,400 لا يحيطون بشي من....256 ) 669 ومثل الذين ينفقون...(262) 119 ولا تحمل علينا اصراً...( 287 ) 96 آل عمران قل ان كنتم تحبون....( 32 )707 اخرجت للناس...(111) 97,446,519,559 موتوا بغيظكم.801 (120).....840,872 (140)..انتم الاعلون....النساء 641 (30)....لا تأكلوا أموالكم..اطیعو الله و اطيعوا....( 60 ) 559 فان العزة لله....( 140 ) 839 المائدة انا انزلنا الثورة....( 45 ) 209 يايها الذين امنوا عليكم....( 106 ) 884 الانعام انا اول المسلمين...(164) 807 (135)....وما انتم...965
اشار سیه، آیات قرآنید الاعراف رحمتی وسعت کل....( 157 ) 575,869,941 372(177)...939 (189)....¸ اخلد الى الأرض..ان انا الله ندير.التوبة تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم الكريف فمن شاء فليو من...( 29 ) 398 قل انما انا بشر مثلكم..(111)...148,726,759,760,825,954,959 هو الذي ارسل رسوله...( 33 )389,473,476 ولو ارادوا الخروج....( 46 ) 806 یونس ورضوا بالحيوة....( 08 )925 هم عن ايتنا....( 89 ) 926 الانبياء افلا يرون انا نانی.703,758(45)...., افهم الفلبون....( 45 ) 758 انا ناتي الارض....( 45 ) 835 وما ارسلناك الا رحمة....( 108 )464,473,941 الحج 966 ان اتبع الاصا....( 16 ) 870 هود ويقوم استغفروا ربكم...( 53 )19 واربكم...الرعد 319 (19)...للذين استجابو الرسهم..والذين صبروا ابتغاء...( 23 ) 285 ابر القيم 230(38)...يناله تقوى منكم...المومنون قد افلح المومنون....( 24 ) 521 والذين هم عن اللفو....( 104 ) 522,531,797 النور نور السموت والارض....( 36 ) 552 الشعراء لملك باخع نفسك....(04)) لئن شكرتم..877.879(08)...., النحل 458,466,530,553,676 يفعلون مايو مرون...( 51 )12 بنی اسرائیل ان العهد كان....( 35 ) 842 الشمل هذا من فضل ربي....( 41 )57 القصص القوى الامين....( 27 ) 865
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم الروم فطرت الله التي.90,335(31)....لا يستخفنك الذين...( 61 )76 فاصبران وعد الله...(61) 76 ان وعد الله هو...( 61 )78,162 سبا وما ارسلنك الا كافةً....( 29 ) 463,464,939 877(40)....وما انفقتم من شيء..فاطر انما يخشى الله من....( 29 ) 785 النمر قل يعبادي....( 54 )707 المؤمن من عمل صالحا من ذكر...( 41 )315 ادعوني استجب....( 61 ) 884 حم السجدة ان الذين قالوا ربنا....( 32-31) 871 الشورى فمن عفا و اصلح.125 (41)....الزخرف فاصفح عنهم و قل.902 (90)....الجانية اشاریہ، آیات قرآنیہ وسخر لكم مافي السماوات....(14) 671,712,783 انتم الاعلون...( 36 ) 110,111 والله معكم...( 36 ) 109 ولن يتركم اعمالكم.111 (36)...الحجرات ولا تليز وا....( 12 ) 761,762 لا تنابزوا....( 12 ) 762 ان اكرمكم عند....( 14 ) 726 الذاريات وذكر فان الذكرى....( 56 )882 ما خلقت الجن....( 57 ) 727,759 النجم فلا تزكوا انفسكم....( 33 ) 761 القمر 162 (46)....سيهزم الجمع.الرحمن الاتطفوا في الميزان...( 9 ) 370 الواقعة لا يمسه الا المطهرون...( 80 ) 144,870 967
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم الصف ليظهره على الدين كله...( 10 ) 365,381,388,397, 409,445,446,461,537,558,564,751,809 يايها الذين امنو الكل ادلكم...(12-22311 مسبح الجمعة لله مافي....( 02 (708 الطلاق ومن يتوكل على الله....(04)714,840 قد جعل الله لكل شئى....(71404 التحريم قوا انفسكم والعليكم...(178,73007 الملك تبرك الذي بيده....(3-2) 931 القلم ق والقلم و....( 02 (737 لعلى خلق عظيم.الجن 760(04)....ان المساجد لله....(54419 الدهر ان خلقنا الانسان من : نطفة...(3)369 ان مدينه السبيل...(4) 370,372,373 اماشا كر أواما كفوراً...(04)398 التكوير اشاریہ، آیات قرآنیہ انا الشمس كورت....(02)734 ذا النجوم....( 03 )734 وانا واذا الوحوش....( 06 737,738 واذا الصحف....( 11 )738-735 النصر يدخلون في دين الله....(03)593,594 968
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم احادیث مبارکہ اللهم صل على محمد وال محمد 46,47 شعب ابی طالب کا واقعہ 211 اللهم انا نجعلك في نحورهم 46,47 اشارید، احادیث مبارکہ حضرت بلال کی تکلیف کا واقعہ 211 سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم فتح مکہ کے موقع پر نعمتوں اور رحمتوں کو یاد کر کے آنحضور کا 46,47 انما الاعمال بالنيات 62 عاجزی سے سر کو انتہائی جھکا لینا 253 ہمیشہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ 310 رضينا بالله ربا.....64,295,296,595 صحابہ کا بارش ہونے اور رکوانے کے لئے حضور سے دعا لا تشريب عليكم اليوم 124,510 کی درخواست کرنا 321 علماء امتى كانبیاء بنی اسرائیل 210 اسلامی تعلیم کومکمل سمجھنے کے نتیجہ میں بشاشت قلبی پیدا ہوتی ولنفسك عليك حق 286,928, ہے 383 لولاك لما خلقت الافلاك 394,760 ہر شخص سے اس کی سمجھ کے مطابق بات کیا کرو 537 اون المهدينا ايتين......739,740 خطبہ حجۃ الوداع 585,586 كان خلقه القرآن 870 تخلقوا باخلاق الله 870 صفیں درست کروانا 725 آخری زمانہ میں نئی سواری کی ایجاد 739 اللهم انصر من نصر دين محمد...936 اندلس کو دو دفعہ فتح کیا جائے گا 747,751 احادیث بالمعنى مسیح محمدی اور اس کے اصحاب کو آگ سے بچایا جائے گا 751 بارش وغیرہ میں گھر نماز پڑھنے کی اجازت 57 جس برتن میں بال آگیا ہو اس میں کھانے پینے کی ممانعت 843 جب کوئی مخلص بندہ عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن صحت کے متعلق سوال 866 ساتویں آسمان تک اس کو رفعت بخشا ہے 79 انسان کے دل کا خدا تعالیٰ کی دوانگلیوں میں ہونا بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا 104 کسری اور قیصر کی سلطنتوں پر غلبہ کی بشارت 104 امام مہدی کو سلام 210,252 879,960 969
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم کلید مضامین آداب اسلامی آداب 310 آریہ 662 آزادی 149 آزمائش ( نیز دیکھئے ابتلا ) 57,488,886 آسٹرانومی 604 آوارگی 778 آئمہ اسلام 751 اشاریہ، کلید مضامین 479,480,486,488,499,500,503,504,512- 514,528,542,552,587,597,613-617,621- 631,636,638,653-655,657,659,662,665, 666,672,676,678-680,682-686,688,693, 698,701,705,706,716-718,721-724,727- 729,747,771,777,785,786,795,801,820, 836,859-861,879-881,883,889,890,899, 901,902,905,911,912,929,949,954,957 احکام الہی آیات اللہ 606,660,671,732,926,927 احکام الہی پر عمل سے ہی حقیقی اور کچی کامیابی نصیب ہوتی ہے الله على اخد اتعالیٰ 20,21,78, 119,295,301,540,575,595,639,669,684, 727-730,741,742,753,759,761,776,784, 792,823,863,878,891,906,926,941,961 319 الحی کے معنی 295 القیوم کے معنی 295 اطاعت الہی 606,639 برکات الهیه 21 آیات اللہ 606,660,671,732,926,927 اللہ تعالیٰ کے افضال احسانات انعامات 28,55 تائید الهی 2,3,20,96,116,297,687,728,729,883,901 تعلق باللہ 109,304,306 57,97,116,117,201,202,215,219,238- 240,251,262-266,270,281,282,287-290, 296,297,300,301,325,326,330,351,374, 376,380,383,384,419-421,438,460,466, 311,313,314,333,334,336,337,341,530, 741,764,857,871-873,885,890,960,961 توکل علی الله 15,134,315,451,452,606,659 663,683,684,753,791,840,846,890,910 971
اشاریہ، کلید مضامین حفاظت البي 77 حقوق اللہ 606 خدا تعالیٰ کو پانے کا طریق 129 خشیت الہی ,71,180,391,606 753,775,776,785,844,886 ذکر الہی 45,47,48,179,322,557,885,891 رب العالمين 961 رجوع الی الله عشق الہی 518 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم غضب الہبی 529,730 فنا فی اللہ 480,849,850,870,871 لقاء الہی 470 محبت الهی 35,79,112,470,480,675 685,707,755,763,764,872,897 معرفت الہی 552,671,672,757,784,933 ہجرت الی اللہ 607 313,330,469,494,496,749,947,948 ہستی باری تعالی 961 رحمت الہی 841,869 رضا الہی ,21,79,119,121,285 286,315,479,565,836,849 شکر الہی 57,73,84 100,134,253,269,373,398,408,420,480, ابتلا / مصائب / تکالیف ,113,116,211,266 301,327,457,702,857,885,886,912 ابتال/ تضرع 117,461,881 ابدی زندگی 931 اتحاد 119,120,121,151,181,398 515,630,678,771,875,877,879,881,927 401,405,406,408,613,683,855 اپنی اپنی استعداد کے مطابق حمد اور شکر کو انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض اجتماع ہے 100 سنت الله 107 صبغۃ اللہ 565 صفات السير 369,370,480 اجتماعات کا مقصد 521 احتیاط 72 احسان اسلامی تعلیم میں بڑا ہی حسن اور احسان ہے 505 501,532,630,672,712-714,741,742,757, 764,776,782-785,805,868,869,870,926 صفات الہیہ کا مطالعہ 867 اسلام میں بڑا حسن نور اور قوت احسان ہے 824 احصان 851 احکام صفات الہیہ کے دو بنیادی گروہ 867 اسلامی احکام 120,640,852 972
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد پنجم احکام الہی پر عمل سے ہی حقیقی اور سچی کامیابی نصیب ہوتی ہے مسلمان احمدیت کو کیوں قبول کرے؟ 228 اشاریہ، کلید مضامین 319 احمدیت - مدينة العلم 258 احمدیت / جماعت احمد یہ سلسلہ احمدیہ احمدیت کا پیغام 311 دنیا میں احمدیت کی مقبولیت 346,359,360,366,367,379,415,418,419, 434,539-541,591,596,597,721-725,745, 746,792,793,824,826,904,906,928,929 ساری دنیا پر جماعت احمدیہ کی پہلی روحانی یلغار تحریک جدید کے ذریعہ ہوئی 4 جماعت احمدیہ کا نصب العین 14 جماعت احمدیہ کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں 70 جماعت احمدیہ کا قیام بتاتا ہے کہ بہار آ گئی ہے 88 جماعت احمدیہ کی تدریجی ترقی 185,199,343-345,375,376,496,497,662, 682,690,694,696,697,702,703,835,957 اس وقت جماعت احمد یہ ایک نہایت ہی اہم اور نازک تربیتی دور میں داخل ہو چکی ہے 191 جماعت احمدیہ کا کام 192,215,731,732 اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک خاندان بنادیا ہے 207 جماعت احمدیہ کی پیدائش کی غرض 226 جماعت احمدیہ کی دولت 229,230,244 جماعت احمدیہ کی تیاری 233 973 1,20,25,36,40,52-55,57, 58,60,69,72, 77,78,82,85,86,93,95,97,99,105,107, 113,116,121,127,129,133,152,167,175, 210,264-267,269,270,274,276,277,280, 282,289,290,296-298,300,304,306,326, 327,329,330,336,337,340-344,349,350, 353,359-361,366,374-376,380,389,391, 398,400,402,409,410,415,417,425,426, 428,431,432,434,437,442,446,458,471, 472,477,480,483,487-489,493,495,500, 509,516,522,523,525,526,530,534,539, 540,545,546,548,555,558,559,564,575- 577,581,585,593,596,603,604,609,611, 620,626,627,633,635,638,639,641,642, 645-647,649,653,663,670,673,675-677, 683,684,692,697,701,707,709,716,723, 725,730,743,749,763,767,769,776,793, 800,806,819,824-826,836,837,839,843, 845,857,859,860,863,867,873,877,879, 885,886,900,912,913,929,944,960,961 جامعہ احمدیہ احمدیت کا جامعہ ہے 127 بحیثیت مجموعی جماعت احمدیہ کی کارکردگی قابل رشک ہے 269,280
اشاریہ، کلید مضامین جماعت احمد یہ.دنیا کے لئے نمونہ 270 جماعت احمدیہ کی تعداد 275 تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم جماعت احمدیہ کو سیاست سے کوئی غرض نہیں 825 جماعت احمدیہ کی زندگی ایک بنیادی حقیقت 846 جماعت احمدیہ کی بین الاقوامی حیثیت نمایاں ہو کر دنیا میں نظر آرہی جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی کا تقاضا 932 ہے 275 جماعت احمدیہ کے پیغام کی اشاعت 281,282 جماعت احمدیہ حقیقی اسلام کی علمبردار ہے 306 جماعت احمدیہ کا صح نظر 307 جماعت احمدیہ کے تبلیغی پروگرام کی علت غائی 342 جماعت احمدیہ کی علمی برتری 388 جماعت احمدیہ کے ابتدائی حالات 410 جماعت احمدیہ کی حیثیت 425 جماعت احمدیہ کا فرض 941 جماعت احمدیہ کی زندگی 958 جماعت احمدیہ اسلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض 172,183,184,185,306,331,343,409,922 سلسلہ عالیہ احمد یہ خدا کا اپنے ہاتھ سے لگایا ہوا پودا ہے 199 سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی 343 جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام 60,355,400,401 جماعت احمد یہ انقلاب اور ارتقاء کا حسین امتزاج ہے 426 خلیفہ وقت اور جماعت 813 جماعت احمدیہ کے کسی فرداندر ایسا نقص نہیں ہونا چاہئے جو خدا جماعتی زندگی 211 تعالی کے غضب کو موجب ہو 453 دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے 453 جماعتی پرنیس کی ضرورت و اہمیت وفوائد 148,218,219,237,238,240,312,429 جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے درمیان اختلافی عقائد 471 جماعتی ترقیات جماعت احمد یہ ایک تبلیغی جماعت ہے 493 جماعت احمدیہ.اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت ہے 494 جماعت احمدیہ میں کوئی راز نہیں 518 جماعت احمدیہ کے مالی وسائل 687 جماعتی ترقیات کی فلم دکھانی چاہئیں 271 جماعتی کتب، اخبارات در سائل کی خریداری کی تحریک 259 جماعت کی زندگی کا ثبوت 683 نظام جماعت جماعت احمدیہ احمدیوں کی ذمہ داریاں جماعت احمد یہ ایک عالمی تحریک ہے 690 جماعت احمدیہ پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا 703 9,12,201,202,256,257, 300,313,314,315,323,512 جماعت احمدیہ کا حقیقی فرد 709 جماعت احمد یہ احمدیوں کا کام 256,290 جماعت احمد یہ زندگی کے اہم اور نازک موڑ سے گذررہی ہے ایک احمدی کی زندگی کی بنیادی حقیقت 91 771,773,831 974
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم ایک احمدی کا مقام 110,111,392 احمدی طلباء وطالبات کی ذمہ داری 203-201 ہر احمدی کسی نہ کسی رنگ میں واقف زندگی ہے 293 احمد یوں اور دوسرے مسلمانوں میں فرق 333 ہر احمدی مبلغ ہے 359 ایک احمدی کی زندگی کا نمایاں امتیاز 359 استعداد اشاریہ، کلید مضامین اپنی اپنی استعداد کے مطابق حمد اور شکر کو انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض ہے 100 اخلاقی استعدادوں کی کامل نشو ونما 871-868 استقامت 285,912 استقلال 77,912 ہر احمدی کو ہمیشہ اپنا مقام اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے 661 اسلام, 2,14,19,20,23 احیائے دین 581 اختلاف اختلافات 795 اختلافات کا خاتمہ 158 اخروی زندگی 187 اخلاص 55,63,77,416,719,815,863,933,934 اخلاق / اخلاقیات 372 مذہب کے بغیر اخلاق پیدا نہیں ہو سکتے 314 اخلاقی بدیوں سے اجتناب 865 اخلاقی استعدادوں کی کامل نشو ونما 871-868 اخوت 433,557,586,646,750,789 ارتقاء 426,445,690,805 35,36,55,67,104,121,127,169,213,214, 247,255,256,259,298,309,330,334,336, 337,340,343,354,357,360,377,394,410, 430,457,458,474,475,477,485,491,494, 502,503,508,510,518,535,549,557,563, 577,590-592,611,635,636,675,680,691, 692,695,708,709,725,729-731,733-736, 738,749,754,755,757-759,763,769,771, 789,795,819,823-825,836,837,843,851, 882,897,903,920,922,924,930,932,937 نشأة اولى ونشأة ثانيه 33,34,70,475,485,758,911 جماعت احمد یہ انقلاب اور ارتقاء کا حسین امتزاج ہے 426 اہل یورپ کا سنجیدہ طبقہ اسلام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے 67 اسلام کا انقلاب ارتقاء کے گھوڑے پر سوار ہو کر دنیا کو فتح کرتا ہے اسلام کا عروج و زوال 193,386,464,465,636,637,647, 683,711-714,743,767,789,860,931,932 445 استاد / اساتذه اساتذہ کی ضرورت 581,593 اسلام پر اعتراض کہ تلوار کے زور پر پھیلا 225,226,357 975
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنچم اشاریہ، کلید مضامین جماعت احمد یہ حقیقی اسلام کی علمبردار ہے 306 آئمہ اسلام 751 نئے مسائل کا حل صرف اسلام میں ہے 341 اسلامی آداب 310 انسان کی نجات صرف اسلام میں مضمر ہے 342,456 اسلامی احکام 120,640,852 اسلام کے ابتدائی حالات 374 اسلامی انقلاب,332,334,335 اسلام کے دو بڑے انقلابی دور 426 اسلام کی خصوصیت 428 اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے 491 ہر زمانے کے مسائل کا حل اسلام میں ہے 491,495 دنیا کی حقیقی نجات اسلام میں ہے 492 اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے 493 جماعت احمدیہ.اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت ہے 494 اسلام جبر و اکراہ کا مذہب نہیں 495 اسلام بنی نوع انسان کی نجات کا واحد ذریعہ ہے 495 اسلام کی حالت 609 385-388,397,398,432,433,446 اسلام ایک انقلاب عظیم ہے 389 اسلام کا انقلاب ارتقاء کے گھوڑے پر سوار ہو کر دنیا کو فتح کرتا ہے 445 اسلامی انقلاب کے آخری دور میں داخل ہو جانے کے دو بنیادی مطالبے 398 اسلامی تعلیمات 115,148,310 323,366,392,393,405,407,429,430,458, 461,491,492,495,496,509-511,521,531, 532,534,542,564,590,592,594,610,639, 642,643,646,649,663,680,685-687,691, اسلام کے معنی 639,720 اعلائے کلمہ اسلام 657 695,720,755,812,823,824,851,857,960 اسلام بے ثمر نہیں 743 اسلام کا باغ باغ محمدی ہے اور اس کے ثمرات ہمیشہ باقی رہیں گے 743 دین اسلام ایک بڑا ہی عظیم دین ہے 775 زندہ مذہب.اسلام 819 اسلام میں بڑا حسن، نور اور قوت احسان ہے 824 اسلام.سائنس اور مذہب 847 اسلام کی حقیقت 849 اسلامی تعلیمات کی اشاعت 145,148,247 دنیا کے تمام دکھوں کا مداوا اسلامی تعلیم میں ہے 323 اسلامی تعلیم میں بڑا ہی حسن اور احسان ہے 505 اسلام اور خواتین 510,511 اسلامی تمدن 564 اسلامی عقائد 186,187 اسلامی لٹریچر 699 سوزبانوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت 976 87,134,146,175,346,379,542
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اسلامی علوم 256 اسلامی مساوات 273,274 اسلامی معاشرہ 121,309,512,922,930 حقیقی اسلامی معاشرہ کا قیام 176,177,180,405,556,564,576,605,606 اسلامی نظام تبلیغ اسلام اشماریہ، کلید مضامین 345,376,378,483,489,493,494,513, 514,518,550,665,681,691,695,697,929 تبلیغ تعلیم اسلامی 836 خدمت اسلام 300,380,681,817,829 دفاع اسلام 544 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا بنیادی مقصد.عالمی اسلامی نظام کا شریعت اسلامی 81 غلبہ اسلام 1,2 5,15,17,25,32-35,40,42,48,49,53-55, قیام 577 اشاعت اسلام 69,72,73,76,78,81-83,87,90,91,93,95, 15,28, 31,37,52,65,70,135,183, 101,106,107,111,113,117,120,134,138, 184,226,227,243,261,290,291,298,299, 172,176,184-186,192,205,210-212,214, 304,306,307,324,343,361,390,407-409, 215,219,232,233,235,256,278,279,290, 418,423,426,457,460-462,464,465,486, 291,297,299,304,317,324,326,329-331, 499,503-505,550,558,562,589,590,593, 333-335,340-343,345,348,349,353,355, 596,597,609,620,637,638,645,659,661, 361,363,378,381,391,395,397,398,400, 662,667,679,684,686,689,693,741,790, 402-405,407,409,410,423,426,430,445, 806,815,834,845,847,883,893,902,923 455,461,462,466,467,475-477,480,483- 485,488,494,496,497,503,516,517,530- اشاعت اسلام کا منصوبہ 25 ہم اشاعت اسلام کے عالمگیر منصوبہ کے لئے خدا کی نصرت کے 560,562-532,534,537,540,548,552,558 طالب ہیں 184 اشاعت اسلام کا طریق 225 اشاعت اسلام کی ضروریات 226 اشاعت برکات اسلام 739 564,565,569,575,576,581-586,593,594, 602,609,610,618,619,622,633,635,638, 639,643,645,647,649,651,653,654,657, 659-662,670,673,675,677,679-681,684, 977
اشاریہ، کلید مضامین 687,693,707,751,752,767,772,773,795, 806,809,815,816,820-824,829,831,833, 842,843,854,859,862,872,873,895-897, 901,912,922,935,943,945,951,957,960 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد پنجم اشاعت اسلام کا منصوبہ 25 ہم اشاعت اسلام کے عالمگیر منصوبہ کے لئے خدا کی نصرت کے طالب ہیں 184 اشاعت اسلام کا طریق 225 ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی غلبہ اسلام کے خدائی منصوبہ کو نا کام اشاعت اسلام کی ضروریات 226 نہیں بناسکتیں 109 غلبہ اسلام کا زمانہ 213 غلبہ اسلام سے مراد 276,639 اسلام کا کامل غلبہ آخری زمانہ میں مقدر ہے 389 غلبہ اسلام کا جہاد متقاضی ہے کہ ہم زندگی کے ہر میدان میں اشاعت برکات اسلام 739 اشاعت تراجم قرآن 262 274,345,539,540,542,558,561,564,569, 570,573-575,594,596,618,659,662,737, 787,834,895,904,915-917,928,941-943 سبقت لے جائیں 670 اسوہ حسنہ 470,522,532,553 اشاعت تراجم کتب حضرت اقدس مسیح موعود 597 643,685,720,764,829,870 اسوہ حسنہ کے دو اصولی حصے 523 اشاعت اشاعت تصاویر 919,920 اسلامی تعلیمات کی اشاعت 145,148,247 اشاعت علوم قرآن 174,678 اشاعت قرآن اشاعت اسلام 15,28, 31,37,52,65,70,135,183, 184,226,227,243,261,290,291,298,299, 304,306,307,324,343,361,390,407-409, 418,423,426,457,460-462,464,465,486, 499,503-505,550,558,562,589,590,593, 596,597,609,620,637,638,645,659,661, 662,667,679,684,686,689,693,741,790, 806,815,834,845,847,883,893,902,923 978 30,33,87,143-145,149,150,183, 248,345,346,361,366,379,416,418,420, 421,429,430,442,447,483,484,489,490, 491,493,517,541,542,573,579,583,586, 621,626,638,645,654,659,681,694,737, 738,787,812,813,840,895,929,941,944 اشاعت کتب 387,418,492,540,838 اشاعت کتب حضرت اقدس 613,617
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم اشاعت لٹریچر 9,12,28,134,149,187,188,194, 195,218,219,229,236-238,243,244,247, 248,274,311,312,347,379,413-415,429, 430,442,489,491,517,597,611-619,621- 623,628,629,654,659,667,694,695,735, 736,738,787,788,811-813,834,840,841, 878,903,904,907,908,917-919,928,930 اشاریہ ، کلید مضامین اصلاح 494 اصلاح نفس ,406 407,456,577,594,610,639,640,641,646, 647,649,651,663,682,684,691,732,863 اصلاح وارشاد 120 اطاعت 109,276,278,373,559 579,603,646,675,763,764,849,850 اطاعت الہی 606,639 سوزبانوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت 87,134,146,175,346,379,542 مختلف زبانوں میں اشاعت لٹریچر 189,248 کلمہ طیبہ کی اشاعت 748 اشتراکیت 19,20,55,149,163 اطاعت رسول 606 اطاعت رسول کے چار معنی 606 اطفال الاحمدیہ 45,522,528 اعتراض / اعتراضات 169,243,384,385,397,430,474,708 اشعار و مصرع اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا 117 255,259,298,358,393,394,431,434, 435,545,591,707,862,903,957,958,960 اعتراضات کا جواب دیا جانا ضروری ہے 357 صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا 215,642,646,675 اسلام پر اعتراض کہ تلوار کے زور سے پھیلا 225,226,357 244 ا جاء المسيح جماء المسيح.قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند 280 انگریز کا لگایا ہوا پودا 161 اعمال ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف 325 اعمال صالحہ ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی 611 وہ ہے میں چیز کیا ہوں 640 الہی خیر ہی دیکھیں نگاہیں 762 سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے 928 از اسید مناضلا ر قام سيد 931 82,83,313-315,518,605,836,839 اقتصادیات 397,429,524,525,532 اقوام متحدہ 408 اکو پنکچر 128 979
اشاریہ، کلید مضامین الہام الہامات / وحی 81,729 انت مدينة العلم 258 سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد پنجم علو اور غلبہ امت محمدیہ کے ہی مقدر میں ہے 109 امت مسلمہ 287 امت واحده 104 اللهم صلى على محمد وال محمد 39 105,152,273,278,363,365,390,392,395, آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے 17 397,398,408,455,462,467,552,560,564 است زار بھی ہوگا تو ہو گا اس گھڑمی با حال زار 212 وسع مكان انا كفيناك المستهزئين 220,635,716,717,729,952 576,613,750,757,759,772,845,847,907 سلسله خلافت دنیا کو امت واحدہ بنانے کے لئے قائم ہوا ہے 60 امت واحدہ کا قیام 147,148 میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا امت واحدہ کا مطلب 759 252,280,347 ت الشيخ المسيح الذي لا يضاع وقته 292 امتحان ( نیز دیکھئے ابتلا ) 57,488,716,764,845 جے تو میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو 470,528 امن 340,462,480,492,493,494 سب انتى حقائق الاشياء 371,671 صلى الله كل بركة من محمد عليه وسلم ) 640 501,559,564,697,720,725,824,872 اليس الله بكاف عبده 744,846 لا اله الا الله 748 وكفى بالله وكيلا 845 الوہیت مسیح 501 امام مهدی ظہور امام مہدی 557,558,563,564,661,741,749-751,763 امام مہدی کا مقام 751 امت امن کا مقام 453 اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے 493 امن عالم 689,693 قیام امن 693 قیام امن کا ذریعہ 689 انبیاء ورسل 209,290 تمام انبیاء کی مخالفت ہوئی 209 امت محمدیہ ,70,103,104,109,191 انبیاء کی دو اقسام 209 انتباه 843,947,948,958 انتقام حسین ، شیریں انتقام 124,125 210,374,397,475,479,741,931 980
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد پنجم انٹر نیشنلزم 151,152 انذار 494,939,940 انذار تو بہ اور استغفار اور صدقہ کے ساتھ مشروط ہوتا ہے 280 انشراح صدر 32 انصار الله اشاریہ، کلید مضامین اسلام کے دو بڑے انقلابی دور 426 اسلام کا انقلاب ارتقاء کے گھوڑے پر سوار ہو کر دنیا کو فتح کرتا ہے 445 جماعت احمد یہ انقلاب اور ارتقاء کا حسین امتزاج ہے 426 انقلابی تبدیلی 331-329 193,194,599,602,604,614,620, 711,716,720,721,730,859,864,881,882 انصار اللہ کی ذمہ داری 196,197 انفاق فی سبیل الله 227-71,120,223 285-292,361,375,877,888,945 انفاق فی سبیل اللہ کی برکات 223 تحریک جدید کی مساعی کے نتیجہ میں انقلابی تبدیلی 415 روسی انقلاب 212 انگریزی دان 22 اہل الحاد 165 اہل حدیث 146,161,165 اہل کتاب 165 انفاق فی سبیل اللہ کے دو مقاصد 119,121,125 اہل یورپ کو پیغام حق پہنچانے کا ایک طریق 923,924 انقلاب ایثار,29,32,34,37,82,83 298,329-335,345,384-386,392, 403,408,410,416,417,426,445,455,460, 473,475,476,518,555,564,591,609,633, 639,643,646,663,666,679,685,687,690, 692,699,720-722,743,750,753,754,767, 769,795,804,805,806,822,900,909,925 215,473,719,833,863,934 ایمان 606,630,835 ایمان کے معنی 127 باغ محمدی 743,819,820 اسلام کا باغ باغ محمد کی ہے اور اس کے ثمرات ہمیشہ باقی رہیں گے 743 بت پرست است پرستی اسلامی انقلاب,332,334,335 385-388,397,398,432,433,446 اسلام ایک انقلاب عظیم ہے 389 125,749,792,879,882,920,928,929 اسلامی انقلاب کے آخری دور میں داخل ہو جانے کے دو بنیادی بخشش 606 مطالبے 398 بخشش کے حصول کے تین طریق 606 981
اشاریہ، کلید مضامین بد عقا نکہ 146 بدعت / بدعات 113,114,146,921,923 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم - جس قدر عظیم ذمہ داریاں ہوتی ہیں اسی کے مطابق بشارتیں ملتی بدھ مت 474 بدی اخلاقی بدیوں سے اجتناب 865 براڈ کاسٹنگ اسٹیشن 244 ہیں 103 بصیرت 86 بعثت حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض 157,158 171,172,185,402,469,555,579,581,609 جماعتی براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کی ضرورت و اہمیت و فوائد 155 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا بنیادی مقصد.عالمی اسلامی نظام کا برٹش ایمپائر 703 قیام 577 برٹش کونسل آف چرچز 471,472,500,501 برکت ابرکات دنیا کی بقا اور فلاح کا واحد ذریعہ 333 انسانیت کی بقا 689 29,330,438,439,462,481,486,489,509, 515,528,542,543,654,704,706,754,763, 799,801,807,875,879,881,888,900,945 اجتماعی زندگی کی بقا 931 بند ( نیز دیکھئے ڈیم) بركات الهيه 21 انفاق فی سبیل اللہ کی برکات 223 خلافت کی برکت 439 اشاعت برکات اسلام 739 خلافت کے ساتھ بڑی برکات وابستہ ہیں 953 بریلوی 146 بشاشت 383,820,822 بشاشت قلبی 32,82,83,97 بشارت ,105,106,113,212 روحانی بند 85,89,90,176,177 تحریک جدید ایک بہت بڑا روحانی بند ہے 85 بند اور دریا کا تعلق اور ضرورت 87,88 بنی نوع انسان / انسان / انسانیت 13,14,39,313,314,333, 340-342,363,365,366,384,397,463-465, 479,495,523,553,639,687,741,757,759, 783,804,805,809,843,845,857,939,957 بشری صلاحیتیں 20 انسان اور دیگر مخلوقات میں فرق 35,36 230,255,256,269,280,347,348,409,466, 518,528,533,534,763,805,815,939,940 982 حقوق انسانی/ حقوق العباد 70,117,120,511,606,692,720
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم انسان اور حیوان میں فرق 131 انسانی فطرت 185,335,757,775 انسانی ذہن خدا تعالٰی کی سب سے بڑی عطا 201 انسانی زندگی 319,320,345,373,757,931 انسان کی صلاحیتوں کی چار اقسام 333 انسانی مسائل کا حل محض عقل سے ممکن نہیں 336 انسان کی نجات صرف اسلام میں مضمر ہے 342,456 انسانی پیدائش 369,370 انسان کی دو بنیادی طاقتیں 370 انسانی طاقتوں کی نشو و نما اور حفاظت 372-370 اشاریہ، کلید مضامین پروجیکٹر 271,272 پریس / پریس کانفرنس (الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ) 149,150,243,298,303-307, 329,331-343,345,347-350,357,358,418, 440,484,486,492-494,496,497,502,503, 505,509-511,550,575,591,592,633,642, 686-698,730,731,736,904,906,957,958 جماعتی پریس کی ضرورت واہمیت و فوائد 148,218,219,237,238,240,312,429 پریسٹ ہڈ (Priest Hood) 127,128 اسلام بنی نوع انسان کی نجات کا واحد ذریعہ ہے 495 پریسٹ کرافٹ (Priest Craft) 127-129 انسان کی چار بنیادی صلاحیتیں 532,533 پندرھویں صدی 749,750 شرف انسانی کا قیام 685 پیار ( دیکھئے محبت ) انسانیت کی بقا 689 خدمت انسانیت 829 قیام حقوق انسانی 960 تخلیق انسان کا مقصد 727.759 قتل انسانیت 958,959 بیعت 855 149 پیپلز پارٹی 49 پیدائش جماعت احمدیہ کی پیدائش کی غرض 226 انسانی پیدائش 369,370 آسمانوں وزمین کی پیدائش 604 پیر پرستی 749,764 پیشگوئی پیشگوئیاں 81,82,114 پارسی 474 پرده 131,851 پردہ پوشی 875,912 پروٹسٹنٹ 274 115,169,199,200,212,278,313,317,340, 342,397,399,409,410,445,446,453,494, 528,551,552,564,618,619,638,645,734- 741,747,757,772,815,821,912,947,958 983
اشاریہ، کلید مضامین تاریخ 549 تاریخ اسلام 907 تائید الہی ,2,3,20,96,116 297,687,728,729,883,901 تباہی ( دیکھئے ہلاکت ) تبدیلی,340,341,377,392 416,427,431,445,476,494,511,512,535, 581,636,676,703,704,723,746,753,754, 789,799,804,827,884,885,921,928,929 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم جماعت احمد یہ ایک تبلیغی جماعت ہے 493 تبلیغ تعلیم اسلامی 836 تثلیث 2,471,501,708,749 تحریک جدید 1-3,9,85,119,121-123,125,173, 228,229,231,232,260-262,271,274,280, 324-326,345,346,376,377,413,415-417, 431,433,442,513-526,573,599-601,614, 620,701,702,704-706,709,711,785,787, 797,799,801,877,878,881,899,909,953 انقلابی تبدیلی 331-329 ساری دنیا پر جماعت احمدیہ کی پہلی روحانی یلغار تحریک جدید کے تحریک جدید کی مساعی کے نتیجہ میں انقلابی تبدیلی 415 ذریعہ ہوئی 4 تحریک جدید کے اجراء کے بعد دنیا میں بڑی عظیم تبدیلیاں تحریک جدید کی اہمیت اور برکات 5,6 ہوئیں 515 تبلیغ 3 4,11,23, 33,142,169,183,221,228,229,236,261, 298,324,329,335,341,342,350,354,358, 366,377,381,418,419,423,457,459,460, 476,479,486,492,505,515,526,535,556, 667,676,679,687,691,692,694,696,718, 786,790,792,800,815,837,838,847,904 تبلیغ اسلام,345,376,378,483 489,493,494,513,514,518,692 جماعت احمدیہ کے تبلیغی پروگرام کی علت غائی 342 984 تحریک جدید ایک بہت بڑا روحانی بند ہے 85 تحریک جدید کی ابتدا اور ثمرات 228,701 تحریک جدید کا مہتم بالشان کام 260,261 تحریک جدید کے کام کی عظمت 261 تحریک جدید.ایک الہی تحریک 380-323,378 تحریک جدید کا فرض 381 تحریک جدید کی مساعی کے نتیجہ میں انقلابی تبدیلی 415 تحریک جدید کا اجراء 513 تحریک جدید کے اجراء کے بعد دنیا میں بڑی عظیم تبدیلیاں ہوئیں 515 تحریک جدید کی ضرورت اخراجات 518
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم تحریک جدید کے کام کی شعاعیں ہمیں ساری دنیا میں نظر آنے لگی ترقی /ترقیات اشاریہ، کلید مضامین جماعتی ترقیات کی فلم دکھانی چاہئیں 271 ہیں 704 علمی ترقی 670,671 تحریک جدید کے دو کام 797 تحریک جدید کی مثال ایک بڑ کے درخت کی ہے 800 تزکیہ نفس 886 تصویر دفاتر تحریک جدید 601,878-599 تحفظ عدم تحفظ 405 تحقیق 736,784 تخلیق تخلیق انسان کا مقصد 727,759 تدبیر 523,685,707,709,793 حالات کے مطابق تدبیر 163 تربیت,194-13,87,120,191 اشاعت تصاویر 919,920 تضرع ( دیکھئے ابتہال ) 406,578,604,605,757,764 اسلامی تعلیمات, 115,148,310 323,366,392,393,405,407,429,430,458, 461,491,492,495,496,509-511,521,531, 532,534,542,564,590,592,594,610,639, 642,643,646,649,663,680,685-687,691, 695,720,755,812,823,824,851,857,960 196,197,232,290,309-312,338,346,361, 376,406,407,423,427,460,487,515,551, 555,556,558,564,583,594,610,668,675, 717,730,861,877-881,889,933,949,951 اسلامی تعلیمات کی اشاعت 145,148,247 دنیا کے تمام دکھوں کا مداوا اسلامی تعلیم میں ہے 323 اسلامی تعلیم میں بڑا ہی حسن اور احسان ہے 505 قرآنی تعلیم ( تعلیم القرآن ) ترجمه اشاعت تراجم قرآن 262 274,345,539,540,542,558,561,564,569, 570,573-575,594,596,618,659,662,737, 787,834,895,904,915-917,928,941-943 اشاعت تراجم کتب حضرت اقدس مسیح موعود 597 511,581,583,682,694,697,871,906 659,660,672,673,677-679,732, 777-781,783-785,791,834,875,927,928 تعلیمی منه منصوج تعلیمی منصوبہ جاری کرنا کا مقصد 875 محملوا تعليم 781 تبلیغ تعلیم اسلامی 836 985
اشاریہ، کلید مضامین تفریحی اور تعلیمی مراکز کا قیام 311 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم 663,683,684,753,791,840,846,890,910 توکل کے معنی 659 89,142,329,360,432,434, 591,624,666,714,723,724,922,954 تفرقہ 404 ٹیلی فون 387 ٹیلیکس کا نظام 152,153,154,219,387,847,906 تفسیر 393,474,604 تقوی ٹیلی گراف 387 230,231,301,518,564,577,605,725,761 ٹیلی گرام 153 برا متكبر 79,559,750,873 تکلیف / تکالیف (دیکھئے ابتلا ) ثبات قدم 285 ج تمدن 397,474 جامعہ احمدیہ اسلامی تمدن 564 تنظیمیں جماعتی رذیلی تنظیمیں 603 21-23,104,129,130,229,293,324,350, 447-451,518,567-570,589,597,600,626, توازن 370,371 توبہ استغفار 21,23,46,179,469,761,805,891 اندار تو بہ اور استغفار اور صدقہ کے ساتھ مشروط ہوتا ہے 280 تو بہ کے فوائد 891 توحید / قیام توحید 635,645,719,798,803,804,807,838,839 جامعہ احمدیہ احمدیت کا جامعہ ہے 127 جامعہ احمدیہ کی غرض جامعہ کے ماحول کے بغیر نہیں پوری ہو سکتی 442 جو جامعہ میں داخل ہوتے ہیں ان کا صحیح معنی میں پورے طور پر بغیر کسی مادی تدبیر اور واسطہ کے خدا تعالیٰ والی وارث ہے, 451 احمد یہ مشنری ٹریننگ کالج 626 79,95,121,125,126,146,148,172,176, 249,270,343,461,462,471,480,496,557, 562,601,708,721,748,749,757-759,883 توحید حقیقی 881 جاں نثاری 128 چہر مذہب کے معاملے میں جبر کا تصور نا معقول ہے 458 تو کل علی الله : 15,134,315,451,452,606,659 اسلام جبر و اکراہ کا مذہب نہیں 495 986
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم جلسه سالانه 12,266,267,312,313,359,409,410,557 جلسه سالانہ پر بیرونی ممالک کے وفود کی آمد 137,139,156,273 جلسہ سالانہ پر غیر ملکی وفود آئیں 312,313,410 جلسہ گاہ کی تعمیر 141 140 جوبلی کا جلسہ 168 اشاریہ، کلید مضامین چائنیز سوشلزم ( نیز دیکھئے سوشلزم) 387,446 چرچ چرچ کی مسجد میں تبدیلی 338 رومن کیتھولک چرچ 472 چنده ( وعده ، ادائیگی ، وصولی) جماعت احمدیہ (دیکھئے احمدیت ) جنازه غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا 368 جنت جنت دوزخ کے متعلق اسلامی تصور 187 جنگ لڑائی آخری جنگ -39,40,43,91,93 95,171-173,176,480,551,552 اخلاقی جنگ 20 تیسری عالمی جنگ 150 جنگ احزاب 104,161,172 6,7,85,88,121-123,162,164,178,180, 211,212,231,232,261,280,290,297,325, 326,338,339,361,375-380,390,417,425, 429,439,440,477,513-519,523,525,526, 534,539,543,595,596,599-601,645,687, 704,705,797-799,807,842,878,879,881 چودھویں صدی 733,734,738,741,742 چودھویں صدی میں چودہویں صدی نے کیا پایا اور اسلام کو کیا ملا؟ 733 393,394,476,477,582 روحانی جنگ 20 مذہبی جنگ 20 عظیم جہاد 224 حج 433 حدیث ( دیکھئے احادیث مبارکہ) حديقة المبشرين 272 جہاد 54,229,249,291,293,460,476,960 مطالعہ حدیث 604 غلبہ اسلام کا جہاد متقاضی ہے کہ ہم زندگی کے ہر میدان میں حساب 371,534 سبقت لے جائیں 670 76,351,352,801 → 987
اشاریہ، کلید مضامین حسن اسلامی تعلیم میں بڑا ہی حسن اور احسان ہے 505 اسلام میں بڑاحسن ، نور اور قوت احسان ہے 824 حفاظت حفاظت الہی 77 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم خدام الاحمدیہ 45,96,103 104,383,528,577,601,604,614,620,711, 716,720,722,753,864,878,880,928,930 خدام الاحمدیہ کا مقام 383,384 خدمت 374 انسانی طاقتوں کی نشو ونما اور حفاظت 372-370 حقوق کا قیام اور حفاظت 725 حق / حقوق خدمت اسلام 300,380,681,817,829 خدمت انسانیت 829 خدمت خلق حقوق اللہ 606 حقوق العباد حقوق انسانی 70,117,120,511,606,692,720 قیام حقوق انسانی 960 حقوق کا قیام اور حفاظت, 725 25,73,79,84,97,99,100,135,179,253, 344,513,587,597,707,771,854,860,875 حمد اور عزم اگلے سولہ سال کے بنیادی ماٹو 17 حمد اور عزم ان دوستونوں پر ہم نے زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے 84 111,112,179,244,332,408,409,433, 446,493,519,553,559,577,707,708,825 خشیت الہی ,71,180,391,606 753,775,776,785,844,886 خشوع و خضوع 522,528,530 خطبہ حجۃ الوداع 585 خلافت خلافت احمد یہ خلیفہ وقت 58-60,152,278,400,406,408,415, 455,456,516,518,519,727,728,855,920 اپنی اپنی استعداد کے مطابق حم اور شکر کوانتہا تک پہنچانا ہمارا فرض خلیفہ وقت کا کام رذمہ داریاں 60 100 حیوان انسان اور حیوان میں فرق 131 ختم نبوت 93,94 دنیا کی سیاست میں خلیفہ وقت نہیں آئے گا 60 سلسلہ خلافت دنیا کو امت واحدہ بنانے کے لئے قائم ہوا ہے 60 جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دونام 60,355,400,401 نظام خلافت 277,578,844 خلافت کی ایک صفت 400 988
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم خلفاء بلا شبہ مجددین بھی ہیں 406 خلافت کی برکت 439 خلیفہ وقت اور جماعت 813 خلافت کے ساتھ بڑی برکات وابستہ ہیں 953 خلفائے راشدین 287 خواب ( دیکھئے رؤیا ) خوشحال زندگی 321,322,521,522 خوشی 214,854 حقیقی خوشی 214,470,494 خیالات 471 اشاریہ، کلید مضامین 479,489,505,512,519,522,523,528-531, 549,553,557,577,594,606,642,663,669- 671,676,680,707,709,744,764,771,773, 774,777,793,803,805,815,831,834,861, 881,882,884,885,891,912,947,948,960 مبلغین کے لئے دعائیں کریں 365,367,457,459,460,462 قبولیت دعا 377,378,474476,873 مبلغین اسلام ہماری دلی دعاؤں کے مستحق ہیں 423 مبلغین کے لئے دعا کی تحریک 462 اصل دعا دین ہی کی دعا ہے 884 تبادلہ خیالات 492,496,500,501,547,562,696 مہجوبانہ دعا 671,940 63,399,553 خیرامت 446,519 مسابقت الى الخير 122 خیر خواہی 111,112,446,559,592,845 دخانی کشتیاں 387 , درود شریف 46,84,390,854,900 وريا 87,88 دشمنی 21 23,37,41,43,49,55,72,73,75,77,9 97,99,106,107,110-114,117, 131,150, 179,180,188,291,305,355,362,367,368, 390,391,400,401,445,456,461,467,477, دفاع اسلام 544 دکھ دنیا کے تمام دکھوں کا مداوا اسلامی تعلیم میں ہے 323 دلآزاری 471 521,680,684,769,823,824,847,921 ⇓, دنیا کی سیاست میں خلیفہ وقت نہیں آئے گا 60 سلسلہ خلافت دنیا کو امت واحدہ بنانے کے لئے قائم ہوا ہے 60 دنیا میں لوگوں کی دو اقسام 218 جماعت احمدیہ.دنیا کے لئے نمونہ 270 دنیا کے تمام دکھوں کا مداوا اسلامی تعلیم میں ہے 323 دنیا کی بقا اور فلاح کا واحد ذریعہ 333 دنیا میں احمدیت کی مقبولیت 989
اشاریہ، کلید مضامین 346,359,360,366,367,379,415,418,419, 434,539-541,591,596,597,721-725,745, 746,792,793,824,826,904,906,928,929 دنیا کے مسائل کا حل 405 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم دین اسلام ایک بڑا ہی عظیم دین ہے 775 اصل دعا دین ہی کی دعا ہے 884 دیوبندی 165 اسلام کا انقلاب ارتقاء کے گھوڑے پر سوار ہو کر دنیا و فتح کرتا ہے ڈیم ( نیز دیکھئے بند ) 85 445 دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا کام جماعت احمدیہ کے سپر د ہے 453 ذرائع دنیا کی حقیقی نجات اسلام میں ہے 492 دنیاوی علوم کے متعلق دو متضاد فلسفے 782 دنیا کا ہر علم سیکھنا ضروری ہے 783 دنیاوی علوم 784,824,927 دنیاوی زندگی 925 دوزخ 187 دوستی قلم دوستی 157-154 دولت } ز حصول علم کے ذرائع 195,196,670 ذرائع آمد ورفت 386 ذرائع نقل و حمل 386 ذکر الہی 45,47,48,179,322,557,885,891 ذمہ داریاں, 23,32,96,100,113,135,179 250,301,350,353,390,391,405,431,466, 480,530,532,536,555,556,564,576,577, 583,601,602,610,633,638,641,646,662, 670,673,675,685,686,691,707,730,773, 778,795,803,804,809,815,831,842-844, جماعت احمدیہ کی دولت 229,230,244 دہریہ ادہریت,19,20,35,55,67,347 394,397,542,708,749,836,882,961 دھوکہ 76,404 دیانتداری 485,564 دین احیائے دین 581 دین کے لئے غیرت کا ہونا ضروری ہے 683 849,883,891,893,895-897,901,935,944 خلیفہ وقت کا کام ذمہ داریاں 60 نئی ذمہ داریوں سے نئی طاقتیں عطا ہوتی ہیں 99 جس قدر عظیم ذمہ داریاں ہوتی ہیں اسی کے مطابق بشارتیں ملتی ہیں 103 انظام جماعت کی ذمہ داری 201 احمدی طلباء وطالبات کی ذمہ داری 203-201 990
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم ذهن انسانی ذہن خدا تعالی کی سب سے بڑی عطا 201 پہنی آوارگی 866 دینی ورزش 866 ذہنی قوتوں کی کامل نشو و نما 868-866 رحمت رحمت الہی 841,869 رحمة للعالمين ,466,473,575-463 595,725,940,941,944,957 رسالت 463,464,465 رشین ریوولیوشن 387,426,446 رضا الہی ,21,79,119,121,285 286,315,479,565,836,849 رفاہ عامہ 487 اشاریہ، کلید مضامین روحانی خزائن ( نیز دیکھئے کتب حضرت اقدس مسیح موعود ) 392,394,450,509,532,555,811 روحانی صلاحیتوں کی کامل نشو و نما 871,872 روحانی علوم 603 روحانی مقام شاہد ہونا ہی ایک روحانی مقام ہے 452 روحانی بلغار ساری دنیا پر جماعت احمدیہ کی پہلی روحانی یلغار تحریک جدید کے ذریعہ ہوئی 4 رومن کیتھولک چرچ 472 رؤیا کشوف/ خواب 105,330,339,729,730,764,905 ریڈیو بلال ورلڈ ریڈیوا میچور کلب 154 جماعت احمدیہ کا اپنا ریڈیو اسٹیشن 156 رمضان المبارک روز صیام 42,317,374 امیچورریڈیو کلبز 219 نفلی روزے 43,47,179 روح بعد مرگ روح کی کیفیت 187 روحانیت 119 امیچورریڈیو کا قیام 906 ریل 739 ز زبان قرآن کریم.ایک عظیم کتاب اور روحانیت کا بیش قیمت زبان سیکھنا, 10,167,168,248,433,442 خزانه 492 567,568,570,583,590,812,841 مختلف زبانوں کے ماہرین کی ضرورت 3 رورت 111,143,257,258 روحانی بند 85,89,90,176,177 تحریک جدید ایک بہت بڑا روحانی بند ہے 85 انگریزی دان 22 991
اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم سوز بانوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت 87,134,146,175,346,379,542 علمی زبان 168 اسلامی احمدی زبان 168 مختلف زبانوں میں اشاعت لٹریچر 189,248 زبان دانی 444,568,569,571,589 زبان دان 570,915,916,917 زراعت 386 زرتشت ازم 474 227.374 زمانہ 390,670,711,859 غلبہ اسلام کا زمانہ 213 آخری زمانه ,389,392,397 399,400,445,446,461,466,473-475,483, 575,638,645,707,736,739,758,893,951 اسلام کا کامل غلبہ آخری زمانہ میں مقدر ہے 389 اخروی زندگی 187 جماعتی زندگی 211 اصل زندگی 221,226 انسانی زندگی 319,320,345,373,757,931 خوشحال زندگی 321,322,521,522 زندگی کی علامت 350,351 ایک احمدی کی زندگی کا نمایاں امتیاز 359 زندگی کا خاتمہ 529,947,961 عملی زندگی 564 سادہ زندگی 577,775,954 غلبہ اسلام کا جہاد متقاضی ہے کہ ہم زندگی کے ہر میدان میں سبقت لے جائیں 670 جماعت کی زندگی کا ثبوت 683 جماعت احمد یہ زندگی کے اہم اور نازک موڑ سے گزر رہی ہے 771,773,831 جماعت احمدیہ کی زندگی ایک بنیادی حقیقت 846 ہر زمانے کے مسائل کا حل اسلام میں ہے 491,495 ہر شعبہ زندگی میں بالا دستی 872,873,897 یہ بے فکری اور بے پرواہی کا زمانہ نہیں 552 دو مبارک زمانے 661,662 آنے والے زمانہ اور حالات کے چار مطالبے 863-865,867-872 فیج اعوج کا زمانہ 931 زندگی 764,931 ایک احمدی کی زندگی کی بنیادی حقیقت 91 دنیاوی زندگی 925 ابدی زندگی 931 اجتماعی زندگی کی بقا 931 جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی کا تقاضا 932 جماعت احمدیہ کی زندگی 958 زنده زندہ مذہب اسلام 819 992
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم زوال اسلام کا عروج و زوال 193,386,464,465,636,637,647, سوسائٹی گاڈلیس سوسائٹی 230 سوشلزم 121,163,474 683,711-714,743,767,789,860,931,932 چائنیز سوشلزم 387,446 سوشلسٹ 20,164,334,408 سادہ زندگی 577,775,954 سائنس سوشیالوجی 372 سویلائزیشن اشاریہ، کلید مضامین 255,259,408,509,556,564,731,867,940 سائنس دانوں کی ضرورت 257 سائنس دان 619,940 اسلام.سائنس اور مذہب 847 چ 731 سرمایہ دارانہ نظام 388,430-20,334,386 سکون ,321,322,348,405 ماڈرن سویلائز یشن کی کمزوریاں 509,510 سیاست دنیا کی سیاست میں خلیفہ وقت نہیں آئے گا 60 جماعت احمدیہ کو سیاست سے کوئی غرض نہیں 825 سیرت النبی 841,904,918 شادی 677 ش 456,522,556,564,857,882,885 سکھ 582 سلامتی 340 اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے 493 سلائیڈز 271,272,430,431 سلسلہ سلسلے الہی سلسلے 376,693-191,192,280,373 الہی سلسفوں کا طرہ امتیاز 480 سلسلہ عالیہ احمد یہ (دیکھئے احمدیت ) سنت اللہ 107 شاہدین 447 شاہد ہونا ہی ایک روحانی مقام ہے 452 39,553 شراب 321,322,374,921 شراؤڈ 444,506-442 شرک ا مشرک | مشرکین 749,760,761,764,836,869 شریعت 13,81 شریعت اسلامی 81 قرآنی شریعت 775 993
اشاریہ، کلید مضامین قیام شریعت 581 269,270,346,352,353,483,486,6* 488,687,705,792,800,901,902,909 شکرالہی 57,73,84 100,134,253,269,373,398,408,420,480, 515,630,678,771,875,877,879,881,927 تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم 618,620,622,624,635,645,653,659,660, 662,791,812,833,859,904,905,915,925 صد سالہ احمد یہ جو بلی کا مقصد 174,175,361 صد سالہ احمد یہ جو بلی کا دیگر جماعتی ادارہ جات تنظیموں اور تحریکات سے تعلق 175,176 صد ساله احمد یه جوبلی منصو به مشیت ایزدی سے جاری کیا گیا ہے 178 اپنی اپنی استعداد کے مطابق حمد اور شکر کو انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض جوبلی کا جلسہ 178 ہے 100 شہادت 224 صد سالہ احمد یہ جو ملی فنڈ شہد 672 شہید 692 شيطان 398,399,400,403 شیطان کے حملوں کی دو بنیادی اقسام 404 ص مبر 77,110,111,112,670,886,912 صحابہ کرام 483,642,646,675 صداقت حضرت مسیح موعود 741,911 صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ - 25,26,31 33,35,41-47,51-55,65,72,73,82,86,87, 26-28,51,57,59,60,64,65,71,75,78,79, 82-84,86,92,99,101,133,134,158,159, 178,186,188,201,203,204,216-220,235, 236,241,242,266,274,338,363,420,421, 439,440,483,484,562,622-624,626,635, 653,654,659,665,666,781,789-791,808, 811,833,880,887,888,902,903,935,945 صد سالہ جشن فنڈ 15,52 صد سالہ جو بلی فنڈ میں ادائیگیوں کا طریق 30-28 صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ کے حساب رکھنے کا طریق 32 صد سالہ جو بلی فنڈ کے متعلق چند وضاحتیں 63-61 صدقہ وخیرات 90,92,95,99,101,133,135,136,138,168, 173,174,176,177,179,183,186,188,203, 235,236,244,265,266,278,309,346,349, 363,406,421,483,489,537,542,544,547, 550,558,562,564,570,587,588,594,617, 994 اندار تو بہ اور استغفار اور صدقہ کے ساتھ مشروط ہوتا ہے 280 صراط مستقیم 730 صفت اصفات صفات الہیہ, 369,370,480
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اشاریہ، کلید مضامین 501,532,630,672,712-714,741,742,757, 764,776,782-785,805,868,869,870,926 صفات الہیہ کا مطالعہ 867 صفات الہیہ کے دو بنیادی گروہ 867 خلافت کی ایک صفت 400 صلاحیت / صلاحیتیں بشری صلاحیتیں 20 انسان کی صلاحیتوں کی چار اقسام 333 روحانی صلاحیتوں کی کامل نشو و نما 871,872 صلح 462,493 نعت 386 b عاجزی ,70,71,73 76,79,117,348,366,373,461,477,597, 610,707,750,759,870,879,881,897,960 عاجزانہ راہیں خدا کو عاجزانہ راہیں پسند آئیں 348,559 عاقبت 485 عالم برزخ 187 عبادت / عبادات نفلی عبادات 48,291,406,594-37,41,42,44 عید 304,306 عداوت 882 طب 604 طبیعات 604 طاقت 21,35 نئی ذمہ داریوں سے نئی طاقتیں عطا ہوتی ہیں 99 انسان کی دو بنیادی طاقتیں 370 انسانی طاقتوں کی نشو و نما اور حفاظت 372-370 جسمانی طاقتوں کی کامل نشو و نما 865-863 طعن 761,762 طلباء طالبات احمدی طلباء وطالبات کی ذمہ داری 203-201 ظ ظہور امام مهدی 557,558,563,564,661,741,749-751,763 عروج اسلام کا عروج وزوال 193,386,464,465,636,637,647, 683,711-714,743,767,789,860,931,932 عزت 727,839,840,854 عزم و ہمت,25,76,77,84,99,135 266,267,518,531,556,815,905,934 حمد اور عزم اگلے سولہ سال کے بنیادی ماٹو 17 حمد اور عزم ان دوستونوں پر ہم نے زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے 84 عشق الہی 518 عشق رسول 111,112,707 عطا انسانی ذہن خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی عطا 201 995
اشاریہ ، کلید مضامین عفو 868 عقاد اسلامی عقائد 186,187 بدعتا کد 146 عیسائی عقائد عقائد 2,411 عقائد سے واقفیت 194-189,192-187 علمی غلبه 474 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم علم کلام 474,735,903 قرآنی علوم و معارف 581,582,594,660,672,678,812,905,906 علوم روحانی 603 علمی ترقی 670,671 جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے درمیان اختلافی عقائد 471 | دنیاوی علوم کے متعلق دو متضاد فلسفے 782 عقل انسانی مسائل کا حل محض عقل سے ممکن نہیں 336 علوم / علماء,371,386,388 442,446,475,509,528,532-534,555,564, دنیا کا ہر علم سیکھنا ضروری ہے 783 ہر علم کی بنیا د صفات الہیہ پر ہے 783 دنیاوی علوم 784,824,927 عمل 831 604,618,619,660,669,671-673,735,736, 739,784,785,808,809,872,875,927,940 عہد 205,855,890 عیسائی رعیسائیت 2,67 علمی زبان 168 اشاعت علوم قرآن 174,678 حصول علم کے ذرائع 195,196,670 مادی علوم 255 علوم جدیده 255,256,259 اسلامی علوم 256 علماء اور ماہرین علوم کی ضرورت 257,258 احمدیت - مدينة العلم 258 115,125,231,298,329,344,347,357,358, 360,393,394,397,401-403,410,411,428, 429,442,444,460,461,463,467,469,470- 472,474-477,493,499,500,504,508,543- 545,547-549,562,582,609,627,662,663, 676,697,698,715,733-736,744,753,754, 789,825,826,834,836,841,860,879,928 عیسائی پادری 298 قرآن کریم نے ہر علم کے متعلق بنیادی اصول بتا دیتے ہیں عیسائی عقائد 2,411 371,660 جماعت احمدیہ کی علمی برتری 388 996 14,213,214,216,626,762,854 عظیم الشان عید 317
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم قدم قدم آگے بڑھنا بھی ایک عید ہے 214 اشاریہ، کلید مضامین 485,488,494,496,497,503,516,517,530- عید گاہ.ایک اسلامی ادارہ 667,668,908,909,924 | 560,562-532,534,537,540,548,552,558 564,565,569,575,576,581-586,593,594, 602,609,610,618,619,622,633,635,638, 639,643,645,647,649,651,653,654,657, 659-662,670,673,675,677,679-681,684, 687,693,707,751,752,767,772,773,795, 806,809,815,816,820-824,829,831,833, 842,843,854,859,862,872,873,895-897, 901,912,922,935,943,945,951,957,960 227,673,678,778,779,784,864,865 غرور ( دیکھئے تکبر ) غضب جماعت احمدیہ کے کسی فرداند ر ایسا نقص نہیں ہونا چاہئے جو خدا تعالی کے غضب کو موجب ہو 453 غضب الهی 529,730 غض بصر 851 غلبه 110 ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی غلبہ اسلام کے خدائی منصوبہ کو نا کام علو اور غلبہ امت محمدیہ کے ہی مقدر میں ہے 109 نہیں بنا سکتیں 109 علمی غلبه 474 غلبہ اسلام 1,2 غلبہ اسلام کا زمانہ 213 غلبہ اسلام سے مراد 276,639 اسلام کا کامل غلبہ آخری زمانہ میں مقدر ہے 389 غلبہ اسلام کا جہاد متقاضی ہے کہ ہم زندگی کے ہر میدان میں سبقت لے جائیں 670 غیرت 233 دین کے لئے غیرت کا ہونا ضروری ہے 683 فتح بین الاقوامی مخالفت ظاہر کر رہی ہے کہ بین الاقوامی فتوحات ملنے والی ہیں 274 اسلام کا انقلاب ارتقاء کے گھوڑے پر سوار ہو کر دنیا کو فتح کرتا ہے 445 997 5,15,17,25,32-35,40,42,48,49,53-55, 69,72,73,76,78,81-83,87,90,91,93,95, 101,106,107,111,113,117,120,134,138, 172,176,184-186,192,205,210-212,214, 215,219,232,233,235,256,278,279,290, 291,297,299,304,317,324,326,329-331, 333-335,340-343,345,348,349,353,355, 361,363,378,381,391,395,397,398,400, 402-405,407,409,410,423,426,430,445, 455,461,462,466,467,475-477,480,483-
اشاریہ، کلید مضامین فرض فرائض 100 فیج اعوج تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم اپنی اپنی استعداد کے مطابق حمد اور شکر کو انتہا تک پہنچانا ہمارا فرض فیج اعوج کا زمانہ 931 ہے 100 ق تحریک جدید کا فرض 381 قبر پرستی 749,764 مبلغین کا اہم فرض 694 تبریح 508,550,551,624,903 جماعت احمدیہ کا فرض 941 قتل انسانیت 958,959 فرکس 534,783 قرآن کریم 49,109 نیوکلیئر فزکس 671 فضل ( نیز دیکھئے اللہ تعالٰی کے افضال ) 344,346,348,352,353 فطرت انسانی فطرت 185,335,757,775 فق 539,677 372,392,393,577,406,531,549,555,557, 592-594,682,720,727,732,741,742,750, 757,784,803,867,870,905,921,941,944 تلاوت قرآن کریم 43,48 اشاعت قرآن 30,33,87,143-145,149,150,183, فکر اصل فکر 178,179,245,434,435 فلاح دنیا کی بقا اور فلاح کا واحد ذریعہ 333 فلسفہ 255,256,259,397,474,532,533 فلسفہ دانوں کی ضرورت 257 فلسفیانہ باتیں نہ کیا کریں 271 دنیاوی علوم کے متعلق دو متضاد فلسفے 782 فنا فنافی اللہ 480,849,850,870,871 فتافى الرسول 480 248,345,346,361,366,379,416,418,420, 421,429,430,442,447,483,484,489,490, 491,493,517,541,542,573,579,583,586, 621,626,638,645,654,659,681,694,737, 738,787,812,813,840,895,929,941,944 اشاعت علوم قرآن 174,678 اشاعت تراجم قرآن 262 274,345,539,540,542,558,561,564,569, 570,573-575,594,596,618,659,662,737, 787,834,895,904,915-917,928,941-943 قرآن کریم نے ہر علم کے متعلق بنیادی اصول بتا دیتے ہیں 998 371,660
اشاریہ، کلید مضامین 687,704,705,708,743,750,752,755,758, 771,773,795,798-800,815,820,822,831, 833,834-836,839,840,844,847,863,877- 879,883-885,890,902,912,932,937,945 قلب سليم 128 اطمینان قلب 321,322,348,405,456 494,522,556,882,885,925,926 قلم دوستی 157-154 قضاء وقدر قضاء وقدر کا مسئلہ 187 ذہنی قوتوں کی کامل نشو و نما 868-866 قوم اقوام اقوام عالم 759,947 القوى الامين 454,865 قیافہ شناس 920 کارکنان 260,346,419,561,620,842,843 کافر 939,940 كافة الناس 463,465,466,939,944,957,961 کائنات کیا ہے؟ 783 کالونیلزم 151 کالونائزیشن 811 999 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم مطالعه قرآن کریم 406,423,558,559,565 807,577,582,586,594,603,604,610,678 قرآن کریم.ایک عظیم کتاب اور روحانیت کا بیش قیمت خزانه 492 قرآنی تعلیم ( تعلیم القرآن) 511,581,583,682,694,697,871,906 قرآنی علوم و معارف 581,582,594,660,672,678,812,905,906 قرآنی انوار 684 قرآنی شریعت 775 قرآن کریم کے اسرار ورموز 783 قربانیاں (روحانی، جانی، مالی، دینی ، اولا د اور وقت کی ) 4,6,7-9,16,26,29,31, 32,34,36,37,40-42,53,55,60,76,82-86, 91,93,96,97,99,105,111,113,122,126, 135,136,162,177,179,186,200,205,215, 227,230,233,235,249,260,265,266,270, 278,279,287-292,296,297,300,301,324- 327,339,343,346,348,349,361,362,365, 374-378,405,407,409,431,432,438,456, 473,476,477,480,483,484,513,514,516, 519,523,524,528,530,531,539,543-545, 551,552,558,560,564,577,588,601,620, 641,645,646,651,653,663,675,682,683,
اشاریہ، کلید مضامین کامیابی حقیقی کامیابی 323,327-319 کمپیوٹر 736 تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم کمیونٹی سنٹرز 338,427,668 احکام الہی پر عمل سے ہی حقیقی اور کچی اور کامیابی نصیب ہوتی ہے 319 کمیونٹی سنٹرز کا قیام 310 کتاب / کتب کمیونٹی سنٹرز کی غرض 311 جماعتی کتب، اخبارات ورسائل کی خریداری کی تحریک 259 کمیونزم 121,334,387,691,692 کتب حضرت حضرت مسیح موعود ( نیز دیکھئے روحانی خزائن ) 492 کمیونسٹ 81,114,149,164,169,304,397,692 اشاعت تراجم کتب حضرت اقدس مسیح موعود 597 کیپٹل ازم 691 جماعتی کتب، رسائل اور اخبارات کو لکھنا، خریدنا، پڑھنا کیتھولک 274,500,501,503,547,548 259,612,616,617 کیتھولک ازم 442 اشاعت کتب 387,418,492,540,838 اشاعت کتب حضرت اقدس 613,617 مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود 392,393,406,449,450,474, 481,487,559,565,578,582,597,610,933 کسر صلیب کانفرنس 467,469,476,477 کیمیا/ کیمسٹری 534,604,783 گ گیسٹ ہاؤسز کی تعمیر 139,140 لٹریچر اشاعت لٹریچر,9,12,28,134,149,187,188,194 486,488,500,501,504-508,544-549,551, 562,622,653,665,790,834,903,920,921 کسوف و خسوف 739,740 کشتی کشتیاں دخانی کشتیاں 387 کشف ( نیز دیکھئے رڈیا) 163,708,747 کفاره 2,442 کفن مسیح 508,545,546-506 کلمہ طیبہ کی اشاعت 748 195,218,219,229,236-238,243,244,247, 248,274,311,312,347,379,413-415,429, 430,442,489,491,517,597,611-619,621- 623,628,629,654,659,667,694,695,735, 736,738,787,788,811-813,834,840,841, 878,903,904,907,908,917-919,928,930 سو زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت 87,134,146,175,346,379,542 مختلف زبانوں میں اشاعت لٹریچر 189,248 1000
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم لٹریچر کی ضرورت 354 اسلامی لٹریچر 699 لجنہ اماءاللہ / عورت 521-525,531-534,536,588, 589,614,620,721,775,776,895-897,901 اشاریہ، کلید مضامین 589,590,600,620,621,637,676,677,702, 738,763,769,787,800,801,803,804,836- 839,843,878,904,906,918,928,951,953 مبلغین اور مبشرین کی ضرورت 21,22,130,143,719 بیرونی ممالک کے مبلغین کا پاکستان میں تقرر 272 اسلام اور خواتین 510,511 مبلغین کو نصائح 278-276 احمدی عورت اور یورپ کی ہر عورت میں ایک ما بہ الامتیاز ہوتا آنریری مبلغین 324,325 چاہئے 534 الغو/ الغويات 533 لغو کے معنی 531 ہر احمدی مبلغ ہے 359 مبلغین کے لئے دعائیں کریں 365,367,457,459,460,462 لغویات سے پر ہیز 522,531,532,797,902 مبلغین اسلام ہماری دلی دعاؤں کے مستحق ہیں 423 لقاء الہی 470 لوگ مبلغین کے لئے دعا کی تحریک 462 مبلغین اور مترجمین کی ضرورت 618 مبلغین کا اہم فرض 694 دنیا میں لوگوں کی دو اقسام 218 مادی علوم 255 مادی وسائل 20,21 مالی وسائل جماعت احمدیہ کے مالی وسائل 687 مبلغین امر بیان رمبشرین,4,5,9.23,116 مجاہدہ 607,863 مجدد 479 خلفاء بلاشبہ مسجد دین بھی ہیں 406 محاسبه نفس ، 843,850,851 محاوره / محاورے 129,141,142,229,258,261,272,291,305, 324,345,350,359,365,367,376,378,417, 418,423,428,429,434,444,448,457,459, 518,537,539,541,543,550,570,574,575, Moppling up Operation 34 Flight of Imagination 187 1 am out of touch 187 کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ 384 He produces the result 440 1001
اشاریہ، کلید مضامین In the thik of it 551 پھورنا 703 چھت پھاڑ کے دیتا ہے 798,929 محبت ( پیار ) ,210,304,306,332,335 337,340,342,348,366,405,407,409,433, 461,493,495,552,559,591,663,685-687, 689,693,698,709,741,825,827,845,906 محبت البي 35,79,112,470,480,675 685,707,755,763,764,872,897 محنت 551,851 مخالف/ مخالفین / مخالفت مذہبی خلا 67 تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد پنجم مذہب کے بغیر اخلاق پیدا نہیں ہو سکتے 314 مذہب کا مقصد 332 مذہب کا تعلق دل اور دماغ سے ہے 335,458,477 بد مذہب 344,347,463,792,793 مذہب کے معاملے میں جبر کا تصور نا معقول ہے 458 اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے 491 مذہب دل کا معاملہ ہے 492,495 اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے 493 جماعت احمدیہ.اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت ہے 494 اسلام جبر و اکراہ کا مذہب نہیں 495 زندہ مذہب اسلام 819 اسلام.سائنس اور مذہب 847 موازنہ مذہب 841,904,918 مردم شماری 275,377 مرکز مرکزیت,152,367,377,378,383 52,54,55,76,77,82, 97,110-112,115,121,123,124,165,179, 180,191,199,209-211,257,353,354,433, 434,461,496,545,633,662,679,684,685, 693,697,698,715,753,826,882,910,912 تمام انبیاء کی مخالفت ہوئی 209 بین الاقوامی مخالفت 161,183,274-159 415,513-518,640-642,797,801,838 مرکز اور بیرونی جماعتوں کا تعلق 277 بین الاقوامی مخالفت ظاہر کر رہی ہے کہ بین الاقوامی فتوحات ملنے مختلف علاقوں میں چھوٹے مراکز کا قیام 141 والی ہیں 274 مخلوق / مخلوقات انسان اور دیگر مخلوقات میں فرق 35,36 مذہب / مذاہب 20,152,162 حقیقی مذہب 19 مساوات 305,556,585,586,692,697,725-727, 750,759-762,825,826,954,955,958,959 اسلامی مساوات 274 273 مستقبل کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے 952 1002
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم مسجد / مساجد - 141,142,203,207,208,216 دنیا کے مسائل کاحل 405 اشاریہ، کلید مضامین مسائل کاحل 405,695,696,731,824,903 ہر زمانے کے مسائل کا حل اسلام میں ہے 491,495 مشن ہاؤسز 220,228,229,236,241,243,261,262,266, 296-299,301,338,345,346,349,354,361, 366,417,421,427,431,486,489,537-539, 141-143,150,203,204,218,220,236,241, 543,544,558,561,562,564,587-591,596, 243,261,345,349,359,361,415,417,421, 622-626,628,635-637,645,653,654,662, 427,484,486,489,492,537-539,542,558, 665-668,679,680,683,684,692,693,698, 564,587,590,596,622,623-625,627-629, 699,711,714-716,722,744-747,753,754, 636,637,645,653,657,665,679,680,693, 785,786,789,790,808,815,819,833,834, 717,786,790,821,833,860-862,889,890, 837,854,860-862,895,899,903,909,951 895,899,903-,904,905,909,924,950,951 مساجد فتنه 880 مسجد کی خصوصیات 543 چرچ کی مسجد میں تبدیلی 338 مسجد کی تعمیر کے متعلق دو تصور 337 مسلمان 360,466,604,662,793,851 مسلمان احمدیت کو کیوں قبول کرے؟ 228 احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں فرق 333 مشاہرہ 784 مشاہدہ 866 مصیبت / مصائب ( دیکھئے ابتلا) مضامین مضامین لکھنا 611,612 مطالعہ جماعت احمد یہ اور دیگر مسلمانوں کے درمیان اختلافی عقائد 471 22,195,259,406,617,784,785,929,930 حقیقی مسلمان 850 مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود مسئله / مسائل مسئلہ کفر و اسلام 146 قضاء وقدر کا مسئلہ 187 انسانی مسائل کا حل محض عقل سے ممکن نہیں 336 نئے مسائل کا حل صرف اسلام میں ہے 341 392,393,406,449,450,474, 481,487,559,565,578,582,597,610,933 مطالعہ حدیث 604 مطالعه قرآن کریم 406,423,558,559,565 807,577,582,586,594,603,604,610,678 1003
اشاریہ ، کلید مضامین صفات الہیہ کا مطالعہ 867 مطمح نظر جماعت احمدیہ کا طمح نظر 307 معاشرہ 397,474,532 اسلامی معاشرہ 121,309,512,922,930 تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد پنجم باہمی میل ملاپ 904 ناسخ منسوخ 392 نبی ررسول ( دیکھئے انبیا ء) نجات 469 حضرت مسیح ناصری کی صلیبی موت سے نجات ,401 حقیقی اسلامی معاشرہ کا قیام 176,177,180,405,556,564,576,605,606 معاہدہ 843 معجزات 403,443-445,460-462,467,469-472,474, 475,477,502,503,548,549,551,792,793 حضرت بانی اسلام کی بچی پیروی ہی نجات کا واحد ذریعہ ہے 470 269,270,378,606,687,688,728,873,920 معرفت الہی 552,671,672,757,784,933 مقام امام مہدی کا مقام 751 ملائکه 12 انسان کی نجات صرف اسلام میں مضمر ہے 342,456 دنیا کی حقیقی نجات اسلام میں ہے 492 اسلام بنی نوع انسان کی نجات کا واحد ذریعہ ہے 495 نسل قائمقام نسل 931,932 نشان / نشانات ,476,494,563,582,606-474 ملان 127 موت حضرت مسیح ناصری کی صلیبی موت سے نجات 401 739-741,763-765,809,873,899,909,911 نشو ونما روحانی صلاحیتوں کی کامل نشو و نما 871,872 403,443-445,460-462,467,469-472,474, 475,477,502,503,548,549,551,792,793 موٹر 387,739 مومن مومنین 361,607,939,940 مومنین کی صفات 521,605 مہنگائی 260,346,620 میل ملاپ جسمانی طاقتوں کی کامل نشو ونما 865-863 انسانی طاقتوں کی نشوونما اور حفاظت 372-370 اخلاقی استعدادوں کی کامل نشو و نما 871-868 پہنی قوتوں کی کامل نشو و نما 868-866 نصائح,129,130,250,251,253,259 270,315,480,481,485,661,663,755,847 1004
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم مبلغین کو نصائح 278-276 نصرت جہاں سکیم 5,40,92,238-240,346,350-353,366,378, 428,434,438,486,488,489,630,655,657, 662,682,685,687,688,698,705,706,721, 723,724,791-793,875,876,880,901,910 نصرت جہاں آگے بڑھو سیکیم 8,238,264,420,655,798,808 نفس اصلاح نفس, 192,193, اشماریہ ، کلید مضامین 406,407,456,577,594,610,639-641,646, 647,649,651,663,682,684,691,732,863 عزت نفس 959 نفسیات 783 نقل/ نوافل 44,45,47,179,594 نقل وحمل نصرت جہاں سکیم تمہید ہے احمد یہ صد سالہ جو بلی کی 483 ذرائع نقل و حمل 386 نصرت جہاں ریزروفنڈ 27,28,65,85,137 نماز صلوة 285,374 168,262-264,266,346,419,420,437-439, 483,629,630,657,682,706,791,798,901 اقامت الصلوة 285 نور / انوار اسلام میں بڑا حسن، نور اور قوت احسان ہے 824 نظام 20 سرمایہ دارانہ نظام 388,430-20,334,386 قرآنی انوار 684 نظام جماعت کی ذمہ داری 201 نظام جماعت ( نیز دیکھئے احمدیت) 433 اسلامی نظام نیشنلزم 152 نیشنلائزیشن 826 لیگ آف نیشنز 408 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا بنیادی مقصد.عالمی اسلامی نظام کا نیوٹریشن 604 قیام نظر 577 تیز نظر 867 نظریہ حیات 691 نفاق 179 نفرت 335 واقفین زندگی,283,350,351 459,460,601,837,933,934,953 واقفین زندگی کو جو بیویاں ہیں وہ بھی واقفات ہی ہیں 283 حقیقی واقف زندگی 130 ہراحمدی کسی نہ کسی رنگ میں واقف زندگی ہے 293 1005
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد پنجم وحدت اسلامی 273 ورزش 865 دینی ورزش 866 ورلڈ بینک 62 وسائل مادی وسائل 20,21 وعده ہلاکت اشاریہ، کلید مضامین 39,49,150,313,314,341, → 453,454,456,470,494-496,529,663,675, 676,689,783,805,824,857,947,958,961 انسان کو ہلاکت کے گڑھے سے بچانے والا باز و جماعت احمد یہ ہے 961 دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے 453 ہمت 25,76,77 210,433,559,564,687,845,872 488,575,579,771,807,835,842,911,912 ہندومت 474,662 ہنر سیکھنا 486 ہوائی جہاز 387,739 ہیں 536-534 وقار عمل 485 وقت وقت کی ضرورت 247 وقف / وقف زندگی جائیداد / آمد / اولاد 23,129,139, یاد دہانی 187,362,882 167,224,227,249,256,293,300,343,350, 162,165,211,212,251,326,386,459,577,579,600,601,645,687,707, 771,816,845,855,885,886,911,912 398,400,401 یواین او 62,529,761 یہودی یہودیت 357,411,463,582 787,803,807,876,883,895,933,934,951 وقف بعد از ریٹائر منٹ 22,23,186,260,787,934 وقف عارضی 186 ولایت 677 ولی اولیاء 479 ہجرت ہجرت الی اللہ 607 ہدایت 370,372,373,398,730 1006
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم اسماء T آنتم ، پادری عبداللہ 474 آدم، حضرت علیہ السلام 8,93,107,162,176,269,399 آئن سٹائن 619 آئی کے اچمپانگ، کرنل 265 اشاریہ، اسماء بشیر الدین محمود احمد ، مرزا، حضرت خليفة المسيح الثاني، المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ 1,51,85,86,91,228, 259,260,262,323,324,330,339,351,376, 415,485,513,583,588,612,617,621,705, 706,761,812,813,838,841,900,904,917 ابراہیم ، حضرت علیہ السلام 13,179,245,249,300 بشیر احمد ، آرچرڈ 418,459 ابراہیم گوساؤ،الحاج 265 ابن خلدون 730 ابو الاعلیٰ مودودی 161 ابوالحسن علی ندوی 160,161 ابوبكر، الحاج 627 بشیر احمد رفیق، امام 59,281,500 بشیر احمد شیخ 146 بشیر احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 178 بشیراں 138 برنت ،مسٹر 490 ابوبکر صدیق ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 615,683 بلال ، حضرت ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابوحنیفہ، امام 210 احمد بن حنبل، مائم 210 احمد خان نسیم، مولوی 451,719,804 اسماعیل ، حضرت علیہ السلام 249,300 اسماعیل منیر، مولوی 152 الحسن عطا 418 لمۃ العلیم ، صاحبزادی ( بنت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد ) 7 انس احمد ، صاحبزادہ مرزا 622 556,616,726,749,930 بلی گراہم 921 تیمور، امیر 464 چرچل 161 خ خالد بن ولید ، حضرت، رضی اللہ تعالی عنہ 931,932 1007
اشاریہ، اسماء داؤ داحمد ، سید میر 904 و ڈوئی، ڈاکٹر جان الیگزینڈر 476,920,921-474 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم عبدالوہاب بن آدم 1,124,151,272,273,277 365,366,439,452,459,626,706,791,798 عبدالہادی کیوسی، ڈاکٹر 416 عتیق الرحمان گورنر جنرل پنجاب 437 عثمان بن فودیو، حضرت 210,723 عطاء اللہ کلیم، مولوی 277 رشیدالدین، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رضی اللہ تعالی عنہ 27 عزت اولی و چ 221 سالین ،مسٹر 490 سراج الدین، عیسائی 449 سیف الرحمان، ملک 570 سٹیون سن ،ڈاکٹر 264 شافعی، امام 210 عطاء المجیب راشد، امام 504,567 عمادالدین، مولوی (پادری) 545,733 عمر فاروق ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 930 عیسی احمدی 628 عیسی ، حضرت مسیح علیہ السلام 3,179,209,231,298,336,337, 401-403,442-445,460,461,469,471,472, شبیر احمد، چوہدری 272 شعیب موسیٰ 221 ضیاءالدین، ڈاکٹر 722 b 474,475,493,494,499,500,502,503,506- 508,527,544-546,548,549,551,562,625, 653,662,693,695,726,734,763,826,920 غلام احمد قادیانی، مرزا، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ طارق بن زیاد 288,683,806,838,840,931,932 الصلوة والسلام 2,17,14,22,25,33,34,40 ظ ظفر اللہ خاں، حضرت سر چوہدری ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 26,59,220,242,623,715,916 ع عبدالحق ، مرزا 803 عبد الرحمان بن فودیو) 723 عبد السلام،ڈاکٹر 619,624,778,917,925 44,52-54,58,59,69,70,76,81,82,94,95, 105-107,109,113,116,122,124,129,138, 144-147,152,157,158,160,163,165,171- 173,176,177,179,180,185,187-189,191, 193,196,199,205,210,211,212,213,215, 220,227,229,232,244,245,247,252,255, 256,258,259,276,278,279,281,282,290, 1008
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم اشاریہ، اسماء کرم الہی ظفر، مولوی 624,714,747,808 کسری ( شاه ایران) 104,105,287,758,863 292,293,295,297,299,300,314,317,322, 323,326,330,333,334,339,340,342,343, 345,347,348,353,355,359,363,365,368, 371,372,374-376,378,381,384,386,388- 390,392-395,399,401-403,406-411,426, 428,430,432,434,442,445,446,449,450, 453,455,469,470,474-476,479-481,483, 485,487,492,496,501,506,508,509,518, 523,527,531-533,536,537,544,545,550, 555-559,563-565,577-579,581,582,585, 593,597,609,610,613,617-619,623,625, 638-642,645,646,649,659,662,670,671, 675,684,694,697,701,707,723,736,739- 742,745,747,748,750-752,757-759,763- 765,772,807,811,815,819,821,845,849, 851,864,867,868,872,879,881,884,886, 891,893,903,904,911,912,918-920,928, 929,933,940,941,947,951,958,960,961 کمال یوسف، امام 220,221,490,491 کیتھلین ہمس 304,305 گ گو مانگا، چیف 89 ل لینن 164,211,212 مار گولیٹتھ ، پادری 591 مالک، امام 210 مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا 860 محمد ابراہیم جمونی، ماسٹر 130,273 محمد الخضر حسین، مصری، شیخ 160,161 محمد باقر ، امام 739 محمد بن قاسم 907,931,932 محمد حسین بٹالوی ، مولوی 165 محمد صدیق ، مولوی 819 ف فاطمتہ الزہرہ ، حضرت ، رضی اللہ عنہا 959 فرعون 873 فرینکو، جنرل 715 فضل الرحمان، حکیم 954 ق قیصر (عیسائی بادشاہ، شاہ روم ) 104,105,287,758 کارل مارکس.163,164 ک محمد عمر ، مولوی 581 محمد مصطفیٰ ، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 5,13,14,22,25,28,32- 34, 36,39,40,46,47,49,60,72,73,77,81,82, 84,89,90,93-95,99,103-105,111-113, 115,116,120,122,124,127,144,145,147, 148,155,157,158,171,173,175-177,179, 180,184,185,187,188,191,194,195,197, 205,209-211,215,223-227,230-232,236, 1009
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم اشاریہ، اسماء موسیٰ، حضرت علیہ السلام 209 مریم صدیقہ ، سیده (ام متعین ) 7 منصورہ بیگم سیده (حرم اول حضرت خلیفة المسیح الثالث) 249,252,253,259,264,269,276,282,287.269,280,454,506,726,750,826,865,873 290,291,293,310,317,319,321-324,326, 327,333,339,343-345,347,348,350,353, 359,360,365-367,372,373,377,383,384- 716,867 386,388-390,392-395,397,403,409,415, ن ناصر احمد، مرزا، حضرت خلیفة المسیح الثالت 417,426,428,432,434,435,445,446,453- 455,457-459,461-467,469,470,473,475- 3,7,8,11,13,15-17,21,22, 477,479,480,483,488,505,510,519,522, 23,25,26,29,31,33,35-37,39,40,42,46- 523,528-532,534-537,540,545,549,550, 49,51-55,57-65,69,70,72,73,75,78,82- 552,553,557-560,562,563,575-577,579, 84,88,92,94,96,97,99,101,103,104,113, 581,585,586,589,591,593,595,596,601, 115-117,120-126,130,131,134-139,141, 602,604-606,610,611,615-617,619,621, 142,145,146,148,149,153,155,156,158, 624,625,631,633,639,640,642,643,645- 159,161,163,164,168,169,174,175,177, 647,653-655,661,662,675,676,682-685, 186,192,194,200,201,205,207,208,212, 702,704,707,714,719-721,725-727,731, 214,216,218-221,223,225,227,229,232, 732,734-736,739,741-743,749,750,757- 233,235-242,244,251,255-259,262-264, 759,762-765,768,769,772,773,776,795, 266,269-273,275,278-281,283,290-292, 804-807,809,811-813,821,825,826,829, 296,298-301,303-307,311-313,315,319, 831,841,843,845,851,854,855,862-864, 320,324-326,329-337,340-343,345,347, 871,878,879,882-884,893,896,897,900, 349,351,353,357,358,360,362,368,369, 902,904,906,909,910,918,921,930,932- 372,376,377,379,380,383,388,366,393, 935,939-941,944,947,954,955,957-960 394,397,400,401,403,405-408,411,415- محمد منور ، مولوی 928 418,423,425-428,430,431,434,435,437- 441,444,445,447-458,463,469-471,473, 476,477,479-481,483,485-489,491–497, 499-503,505-517,519,522-525,527,528, محمد یوسف ، قریشی 785 محمود احمد ناصر، سید میر 567,568,744 مصطفیٰ 836 منیر الدین احمد 221 1010
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم 531,533-538,540,541,546,548,549,551, اشماریہ، اسماء ی ,552,555,556,560-565,567-570,573,575 | یوز آسف ، شہزادہ 403,411,625 577-579,581-583,585-591,593,594,597, 600,601,603-606,609-612,615,617-624, 627,630,631,633,637-639,641-643,645- 647,649,651,653-655,657,659-663,665, 668,669,672,673,678-680,682,683,686, 687,690,692,693,695-699,701,704,706- 709,711-723,725,727-732,735-737,739, 741,743-755,757,763-767,768,771-793, 795,797-801,803,806-808,811-813,815- 817,819-827,829,831,833-845,847,849, 852-855.859-862,865-869,871,872,875, 877,878,880-884,886-893,895-897,899- 913,915-922,925,927-931,933-937,942, 943,945,947-951,953,954,957,959,960 نپولین 864 نذیر احمد علی 281,953 نیم سیفی 153 نیم مہدی 719,908,919 نصرت جہاں بیگم سیدہ ، حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا 655 نصرت بھٹو ( اہلیہ ذوالفقار علی بھٹو ) 437 نور احمد ، بولستاد 208 ہدایت اللہ ہیویش 535,536 1011
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد پنجم مقامات اشاریہ، مقامات 457,459,464,479,488,504,539,540,550, آسٹریا 27,590,624 آسٹریلیا 27,228,252,465,618,629,639 آکسفورڈ 10,523,591,612,616,778,866 آئرلینڈ 27 آئی لینڈ 419 573,609,628,639,640,657,677,688,692, 697,702,718,721,725,738,769,799,807, 812,823,824,826,836,838,853,854,878, 899,900,905,906,909,921,928,951,953 اقصیٰ مسجد (ربوہ) 591 آئیوری کوسٹ 24 27,153,413,517,688,787 | اکرا (اکمرہ) 724 اگونه سویڈ رو 264 ا ابادان 722 ابوظہبی 27 اٹلی 11,141,150,203,219,243,349,442, 445, 486,537,589,590,624,625,637,917,951 الارو 626,718,837 الجزائر 168 الحمراء 288,647,666,743,923 القلعة 747 امریکہ 23,27 104,115,131,136,137,139,142,147,149, 150,154,159,168,169,208,216,217,228, 238,239,257,270,273,276,296,303,305, 309,310,312,313,315,320,330,334,339, 340,345,347,352,359,365,379,387,391, 400,407,416,418,419,426,427,429-431, 457,459,465,472,474,486,503-505,507, اٹک 887 ارجنٹائن 143 ارنگار 937 رائیل اسرای 792,862 اسلام آباد 439 افغانستان 27,411,457,692 افریقہ,11,28,53,58,85,89 511,515,526,539-543,546,573-575,585, 121,125,143,150,151,155,159,228,231, 586,596,615,617,618,620,621,628,637, 238,252,255,257,262,263,324,346,347, 640,645,647,657,659,677,692-694,725, 365,402,416,425,427,431,435,438,452, 1013
اشاریہ، مقامات 728,787,792,823,834,855,860,862,878, 895,899,904,908,918,920,921,928,951 اندلس 747,751 انڈونیشیا 27,136,153,252,256,261,306,413, 561,563,579,628,696,755,767,768,885 انگلستان / انگلینڈ 2,23,26,27 58,59,124,130,134,136,141,142,148, 149,151-154,159,168,201,203,208,213, 216-219,228,229,240-243,257,272,276, 277,296,320,321,329,338,353,414,417- 419,437,440,453,457,459,486,487,499, 500,503,505,508,515,518,523,524,526, 528,533,544,567,575,596,617,618,636, 665,667,673,675,717,728,737,739,740, 786,789,790,834,904,905,916,918,947 اوسلو تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم برازیل 143,639 برصغیر، پاک ہند 121,609 برلن 501 پر 27,261 487,665,786 بریڈ فورڈ 665 89,539,589,590,637 بہتی 11 بنگال 27,89 بنگلہ دیش 797 یو 264 بھارت 27,797 بھیرہ 887 بیاس، دریا 351 بینن 627,812 پاکستان 207,208,229,241,243,266,338,533,538, 623,637,645,665,680,692,785,787,808 ایبٹ آباد 887 ایڈن برگ 785 ایران 27,160,278,487,737 ایری زونا 785 ایشیا 255,347,550,575,639 بانجول 812 بحرین 27 8,11,26,28,52,58,93,94,117,122- 125,133,154,156,168,185,229,233,235, 237,242,256,274,276,277,282,323,343, 366,367,377,415,418,425,427,434,459, 462,514,516-518,525-528,545,567,568, 574,588,600,640,641,660,665,673,704, 705,717,775,787,789,797,798,838,839, 841,859,860,875,878,881,902,905,934 پنجاب 52,185,343,702,823 پولینڈ 379,430,442,447,464,465,690,692 1014
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم پیڈ روآباد 744,788,789 پیرس 569,923 جنوبی افریقہ 377 جنوبی امریکہ 143,168,228 276,457,486,562,639,785,787 اشاریہ، مقامات تاشقند 465,487 ترکی 27,161,464.465,487,919 تزانیہ 27,153,593,628,937 تھر پارکر 887 ٹرینی ڈارڈ 27,143 ٹریسٹے 624 ٹورنٹو 336,417,427,849 ٹوکیو 550 ٹو گولینڈ 812,904 ٹیچی مان 488,489,726 ثور، غار 714 ج جاپان,27,276,282,501,504,561 628,639,787,853,860,895,899,908 جلسوا 624 چہلم 7 887 904 128,163,164,276,320,387,446, 458,464,465,529,639,640,693,811,942 حجاز 164 حیدرآباد 11 خ خانہ کعبہ ( بیت اللہ شریف ) 178,626,843 خانیار 508,625 خیبر لاج، مری 838 دار الضيافت 952 ومئی 27 و جارج ٹاؤن 786 جرمنی,10,11 58,141,168,261,320,325,350,410,414, 416,440,510,515,526,568,569,588,597, 618,642,717,787,847,900,908,918,950 جزائر 85,115,159,168,276,400,457,628,639 ڈنمارک 11,27 58,141,165,325,393,400,416,476,551, 587,589,623,636,663,717,787,919,930 ڈیٹن 303,305,331,431,692 راولپنڈی 91,431 1015
اشاریہ، مقامات 12,131,139,151,153,273,0% 312,352,476,514,711,800,887 روانڈا 628 روس ( رشیا) ,10,81,104 105,163,164,212,276,320,330,339,340, 342,391,457,639,640,811,921,942,960 روم 472,590 ز زیورک زیورچ 11,225,689,719 زيمبيا 27,153 س سالٹ پانڈ 265,324,724 تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد پنجم سندھ 11,645 سوڈان 27,95,573 سور بینام 407 سوئٹزر لینڈ 111,27,58,139 141,154,155,291,325,357,526,542,590, 597,615,618,629,717,787,907,908,919 سویڈن 9,27,139,141,203 207,208,214,221,261,262,296,297,301, 325,345,346,349,354,486,490-492,501, 533,542,543,549-551,562,587,589,622, 623,635,653,679,717,790,804,833,903 سان فرانسسکو 629 ساؤتھ ہال 665 ساؤتھ امریکہ 504,508,550,811 سباء 27 11,27,151,203,243,261,287,288, 349,417,445,464,486,589,596,618,623, 624,636,645,647,654,666,679,683,698, سیالکوٹ 887 سیٹلائٹ ٹاؤن 717 سیرالیون, 1,4,27,58,152,153 261,264,272,306,335,351,413,416,455, 517,561,626,688,763,817,819,824,836 سیکنڈے نیویا 207,208,217,229,262 341,533,537,587,636,663,679,717 سیلون سری لنکا 27,282,345,353,561,581 سینٹ لوئیس 908 711,715,732,735,743,744,745,747,753, 759,767,768,785,788,789,808,819,834, 838,840,860,895,899,923,929,942,951 سینیگال 27,812 سٹاک ہالم 490,501,502,510,532,550,551 شام 27,159,160 سرگودها 26,156,678,800 شعب ابی طالب 211 سری نگر 508,625,653,903 شکر گڑھ 797 سعودی عرب 27,86,159,626 سکوتو 954 شمالی امریکہ 228,276,339,486,639 شیخو پوره 26 1016
اشاریہ، مقامات ق تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم b طلیطلہ 768,637,666,698,711,714,715 عدن 27 قادیان,103,343,347,351 557,563,702,861,899,903,911 قرطبہ ,288 589,623,637,645,679,684,698,699,711, 715,744,768,788-790,834,853,860-862 747 13,161,169,172,427,428,464,487,921 قسطنطنیه عرفات 585 غ قطر 27 کراچی 11,32,157,244,677,698,887 کشمیر 411,548,625 کمال ڈیرو، نواب شاہ 887 کوپن ہیگن 400,524,587,691,695 1,27,58,124,143,148,152-154, 239,272,273,275-277,351,379,416-419, 439,452,459,460,488,516,517,561,575, 618,626,677,688,699,702,703,705,721, 726,771,786,791,798,824,825,879,900 غرناطہ 288,712,768,923 ف 27,136,153,417,418,465,561, 629,639,649,786,787,788,815,831 فرانس,11,27,141,150,203,243,320,349 486,588,589,618,624,625,637,787,923 فرینکفورٹ,11,485,496,506 کوریا 340,626 کوئٹہ 887 کویت يت 27,159 كيريبين 407 کیٹری افغاناں 351 کیلگری 951-861,880,889,949 کینیا 27,153,261,417,628,891 کینیڈا,27,142,168,221,336,337,339,417 427,457,561,629,639,657,725,729,823, 839,849,861,880,895,899,908,949,951 1017 گجرات 727,887 گلاسگو 357,358 509,629,680,684,686,919,924 فضل مسجد ،لندن 153 فلسطين 695 فن لینڈ 9,11,243,349,717 فیصل آباد 887 فیوسان 785
اشاریہ، مقامات گوٹن برگ 203,207,208,214,216,217,219,220, 243,247,261,266,296,301,338,341,349, 354,440,486,491,493,543,551,562,587, 622,623,635,645,653,691,790,808,903 گوساؤ 265 مانچسٹر 665 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم مانس اور 755 مبارک، مسجد ( قادیان) 844 مبارک مسجد (ربوہ) 114 مٹاوا ( کینیا ) 891 مدینه منوره ,54,82,105,161,171 172,321,402,433,591,737,871 مڈل ایسٹ 228,347 گھانا 261,264,306,330,335,337,676,724 گی آنا 27.785,786,788 گیمبیا, 27,58,149,153,261,262,306 335,337,517,627,628,651,812,829 ل 78,153,156,178,535,841 لائبیریا 27,153,306,335,337,517,688 لائل پور لندن 152,153,156 مرا کو 168 مسقط 27 مشرق بعید 639 مشرق وسطی 168,639 مشرقی افریقہ,1,11,136,141,143,375 415,419,428,457,561,628,735,785,836 مشرقی یورپ 690 59,235,262,358,449,453,460,462,467, 471,472,486,488-490,503-505,523,525, 539,549,562,567,591,615,622,653,665, 668,696,728,747,764,779,790,811,834, 839,840,903,904,916,917,920,928,947 ليبيا 27,160 مصر 27,151,159 مغربی افریقہ - 60,95,124,136,141,238,261 264,272,275,324,330,335,344,378,418- 420,425,457,472,488,509,515,517,539, 544,630,655,657,658,680,685,687,694, 698,699,721,763,785,791,825,836,910 لیگوس 573,627,697,718,722,786,837 مغربی جرمنی 27,629,860 مغربی یورپ 486 مکه مکرمه ,54,82,105 ماریشس 27,153,160,261,262 405,414,555,788,883,915 اسکو 464 مالمو 551 1018 124,144,147,160,161,169,172,178,211, 249,402,433,510,626,726,758,804,805 ملائیشیا 27,160
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم موروگورو 937 میڈرڈ 589,624,711,744,861 میونخ 569 ہالینڈ ,27,58,165,298,325,414 524,588,695,811,812,919 ہانگ کانگ 575 ناروے 9,11,27,203,207,216,262,297,306,320, 325,349,350,486,533,587-589,596,623, 636,653,679,693,717,785,808,833,905 نائیجیر 812 نائیجیریا, 1,27,58,85,143 ہائیڈ پارک 567 ہڈرزفیلڈ 665 ہمبرگ 431,494,685,919 ہندا ہندوستان 1,52,122,136,142,159,185,229, اشاریہ، مقامات 323,343,353,402,411,427,508,516,525, 527,545,609,640,702,704,733,734,737, 148,152-155,160,199,210,261,262,275, 335,337,359,414,419,434,487,504,517, 561,574,609,626,627,658,677,680,688, 697-699,702,703,718,721-723,736,786, 787,812,821,824,826,837,893,904,953 ہنگری 590,624,690 ہونا 723 بیگ 694 ی نبوی، مسجد 591 یرموک 758 نور، مسجد، (ناروے) 785 یرو فلم 411 نوشہرہ 887 904 نیوزی لینڈ 465,639 نیویارک 332,431,505 وال(غانا) 143,724,725 وارسا 442 و واشنگٹن 329,340,431,738,855 ولایت 103 ویسٹ افریقہ 544 و نفیس 358 یورپ,1,2,10,23,58,67 85,115,121,124,136,141,148,150,153, 155,159,164,168,204,214,216,219,228, 236,243,252,257,261,263,270,272,276, 291,297-299,305,320,325,346,347,349, 350,353,354,357,387,410,416,433,434, 440,457,464,485,486,489,494,495,499, 508-510,512,514,525,533,534,537-540, 542,543,546,570,575,587-589,591,596, 617,623,625,628,657,659,666,667,677, 1019
اشاریہ، مقامات تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم 686,688,689,692,695,696,703,717,725, 735,785,787,789,805,821,823,866,878, 906,907,909,919,920,923,924,942,957 یوگنڈا 27,618,786 یوگوسلاویہ : 11,27,139,214,219,257 258,426,589,590,624,690,692 1020
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد پنجم بائل 333,492 بائیل ، قرآن عظیم اور سائنس 916 دارقطنی 739 مسند احمد بن حنبل 870 کتب سلسلہ عالیہ احمدیہ کتابیات الكفر ملة واحدة 415 الوصيت 912 اشاریہ، کتابیات امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ 453,629,787 المهدى الحقانی 415 ایک غلطی کا ازالہ 414 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائبل کی بشارات برکات الدعاء 414 413 بلال 930 آئینہ کمالات اسلام 256,772,815,850 پیارے اسلام کی پیاری باتیں 614 ابراہیم علیہ السلام کا فرزند اعظم 414 احاديث الرسول 413 احمدیت کا پیغام (انگریزی) 347 احمدیت کیا ہے؟ 788,918 احمد یہ موومنٹ 413 ادعية الرسول 413 ادعیۃ القرآن 413,414 اربعین 258 اسلام عصر حاضر میں 259 اسلام کا تعارف 414 پیغام احمدیت 415 تاریخ احمدیت (جلد 15) 259 تبلیغ رسالت 822 تجلیات الہیہ 200,256,772,868 تذکرہ 414 تذكرة الشہادتین 670,867,886,913 تریاق القلوب 582 تعلیم الاسلام 414 تفسير القرآن 259 تفسیر صغیر 573 چشمه معرفت 757 اسلام کے اسباق 628 اسلام میں نبوت 414 اسلامی اصول کی فلاسفی 372,413,414,432,491,623 اسلامی نماز 413 الاسلام 628 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیاں 614 حقیقۃ الوحی 740 در مشین 54 دعوۃ الامیر ( عربی ترجمہ ) 347 1021
اشاریہ، کتابیات تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد پنجم دیباچہ تفسیر القرآن (عربی، زیر تیاری) 347,787,812,904,917,918 رپورٹ مجلس شوری 165,169,181,270,274,282,355,358, 360,435,440,452,454,571,576,633,795, 801,809,922,924,930,934,952,955,961 رجسٹر خطبات ناصر ( غیر مطبوعہ ) 12,49,84 100,117,189,381,462,467,709,844,882 رد التزامات 414 روحانی خزائن 450,559 سوانح حضرت خلیفة المسیح الاول 614 سوان مصلح موعودؓ 614 سیرت حضرت مسیح موعود ( ترکی زبان میں ) 347,614 سیرت نبوی 841 فتح اسلام 414 كتاب الحج ( بزبان جرمن ) 347 کشتی نوح 628 لائف آف محمد 413 لیکچر لاہور 399,850 مسیح ہندوستان میں 403 مشعل راه 733,742 لمفوظات 819,892 من الرحمن 347,414 مکالمہ مابین مسلمان اور عیسائی 414 مہدی اور مسیح آگئے ہیں 918 میرا مذہب 413 میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں؟ ( سپینش ) 347 نبراس المومنين 413 نبی اکرم کی باتیں 614 نماز 628 نماز مع ترجمہ 414 ہماری تعلیم 414 ہمارے مہدی کی پیاری باتیں 614 Ahmadi Muslims (Historical Outlines) 259 Essence of Islam 622,811,904,916,918 How to get rid of the bandage of sin? 415 Introduction To The Study of Holy Quran 812,813,841 Invitation to Ahmadiyyat 415,617,618 Islam and human rights 414 The Philosphy of Teaching of Islam 623,904 The Promised Messiah and Messiah has Come 667 The Quran and space and Inter planety Flights 414 Truth about the cruxification 622 What is Ahmadiyyat? 415,667 اشتہار 872/ الفضل 14 اخبارات و رسائل واشتہارات 16,17,23,37,55,64,65,67,73,79,90,92, 97,101,106,107,112,126,131,184,197, 1022
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد پنجم ,200,204,205,208,212,216,221,233,245 | نیو نائیجیرین 265 اشاریہ، کتابیات 248,250,253,259,267,283,292,293,301, ملٹی میڈیا ریڈیو، ٹی وی چینلز و پروگرامز ) ,307,315,317,327,331,332,336,337,339 آڈیو کیسٹ 846 ,341,342,344,348,362,363,368,395,404 | بی بی سی 281 ,406,411,415,419,421,423,425,431,456 | وائس آف اسلام 787 ,470,472,477,481,485-487,489,490,494 | وائس آف امریکہ 282 496,497,512,519,536,553,556,560,562, 565,578,579,582,583,586,592,594,597, 602,607,610,612-614,618,619,631,643, 647,649,651,654,655,660,662,663,666, 668,673,676,680,686,689,690-692,694- 697,699,720,732,733,744,748,752,754, 755,765,768,769,772,774,776,781,785- 788,791-793,813,816,817,820,822,824, 827,829,831,834,847,852,854,855,873, 884,886,888,890,892,893,897,900,902, 905,909,910,913,936,937,944,945,948 انصار اللہ، ماہنامہ 259,614 تحریک جدید، ماہنامہ 259,614 تشحید الاذہان، ماہنامہ 259,614 خالد، ماہنامہ 259,614,733 دی گائیڈنس 265 ڈیٹن ڈیلی نیوز 303 ڈیلی ٹیلی گراف 499,503 ریویو آف ریجنز 259 لاہور، ہفتہ وار 614 مصباح ، ماہنامہ 259,614 1023