TJ Vol4

TJ Vol4

تحریک جدید ۔ ایک الٰہی تحریک (جلد چہارم ۔ 1965ء تا 1973ء)

Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت حافظ مرزاناصر احمد صاحب، خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے تحریک جدید کے قیام، اغراض و مقاصد اور عالمگیر ترقیات متعلق خطبات، خطابات اور ارشادات پر مشتمل یہ کتاب وکالت الدیوان تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ کی مرتب کردہ ہے۔ جلد چہارم میں 1965 سے 1973 تک اور جلد پنجم میں 1974 سے 1982 تک کا مواد جمع کیا گیا ہے۔ قریبا دو ہزار صفحات مشتمل ان دونوں جلدوں کے آخر پر تفصیلی انڈیکس موجود ہے۔


Book Content

Page 1

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چهارم ارشادات حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی بابت تحریک جدید ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۳ء

Page 2

تحریک جدید - ایک الہی تحریک Tahrik-e-Jadid - A Divine Institution Volume IV (Urdu) Speeches, Sermons & Sayings of Hadhrat Mirza Nasir Ahmad, 1965-1973 rb Khalifatul Masih III Islam International Publications Ltd.Published by: Nazarat Nashro Ishaat Sadr Anjuman Ahmadiyya Qadian - 143516, Distt.Gurdaspur (Pb.) INDIA Printed at: Fazle Umar Printing Press, Qadian.Copies: 2000 Present Edition Published in India in 2011 ISBN: 978-81-7912-325-3

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم پبلشر نوٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ وہ دور ہے جس میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ مقدر ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے ساتھ اس دور سعید کا آغاز ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپکو ایک فرزند جلیل کی پیدائش کی خبر دی.جسے تاریخ احمدیت مصلح موعودؓ کے نام سے یاد کرتی ہے.خلافت حقہ اسلامیہ کے قیام کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ایک کو نیل نما جماعت کے تناور درخت بننے کے سامان پیدا کر دے.خلافت احمد یہ اولی کے بعد قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر جب خلافت پر متمکن ہوئے تو چوطرفہ مخالفت نے دم تو ڑنا شروع کر دیا.جماعت احمدیہ کی آواز کو قادیان سے باہر نہ نکلنے دینے کا دعویٰ کرنے والے اس وقت بالکل پسپا ہو گئے.جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کا اعلان فرمایا تو مخالفین احمدیت کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی.صداقت کی آواز کو دبانے والوں نے دیکھا کہ یہ آواز دیکھتے ہی دیکھتے اکناف عالم میں پھیل گئی.آج دنیا کی کوئی تحریک اس تحریک کا مقابلہ نہیں کر سکتی.کسی بھی دیکھنے والے کو ایک رتی بھر بھی اس میں شک نہیں ہوسکتا کہ واقعی یہ ایک الہی تحریک تھی اور ہے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تحریک جدید ایک الہی تحریک کے عنوان سے مرتب شدہ کتاب کو قادیان سے شائع کرنے کاارشادفرمایا ہے.پیارے آقا کے ارشاد پر اس کتاب کی چوتھی جلد افادہ عام کے لئے شائع کی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ اسکی اشاعت کو ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین والسلام خاکسار ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 4

Page 5

بسم الله الرحمان الرحيم پیش لفظ 1965ء میں خلافت ثالثہ کے آغاز کے ساتھ ہی تحریک جدید بھی ایک نئے دور میں داخل ہوئی.اس دور میں خلافت ثانیہ میں پوری دنیا میں لگائے جانے والے پودوں کو پھل لگنے لگے تھے.چنانچہ ان پھلوں کو سمیٹنے کے لئے حضرت خلیفة المسیح الثالث نے بیرونی ممالک کے کئی دورہ جات کئے.جو جماعتی ترقیات میں نہایت اہمیت کے حامل ثابت ہوئے.انہی دورہ جات کے دوران آپ نے تحریک جدید کے ماتحت نصرت جہاں سکیم کا آغاز فرمایا جو جماعتی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی اور اس کے ذریعہ براعظم افریقہ میں تبلیغ کا ایک نیا باب کھلا.اسی طرح اپنے دور خلافت میں حضور نے اپنے خطبات و خطابات کے ذریعہ تحریک جدید کی اہمیت ، ضرورت اور برکات سے احباب جماعت کو روشناس کروایا.نیز اس میں شمولیت کی بھی تلقین فرمائی.مثلاً تحریک جدید کے قیام کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا:." صدرانجمن کے علاوہ ہمارا دوسرا بڑا انظیمی ادارہ تحریک جدید ہے.حضرت خلیفة المسیح الثانی نے اسے 1934ء میں شروع کیا تھا.اس سے بڑی غرض یہ تھی کہ دنیا کے دور و در از ممالک میں اشاعت اسلام کا بندوبست کیا جائے.چنانچہ اس تحریک کے ذریعہ ایک بڑی حد تک یہ غرض پوری ہوئی.آج خدا کے فضل سے بعض ایسے ملک بھی ہیں، جن کے چندہ دہندگان کی تعداد پاکستان کے چندہ دہندگان کے قریب قریب پہنچ رہی ہے.افریقہ میں خاص طور پر بڑی ترقی ہوئی ہے.بڑاہی اخلاص رکھنے والے، دعائیں کرنے والے اور قربانیاں کرنے والے لوگ ہیں، جو وہاں جماعت میں داخل ہیں اور داخل ہورہے ہیں.یہ روحانی انقلاب ہے، جو تحریک جدید کے ذریعہ رونما ہوا ہے.دلوں کو فتح کرنے کے لئے تحریک جدید کو قائم کیا گیا تھا.یہ غرض ابھی ایک حد تک ہی پوری ہوئی ہے.دنیا صداقت کی پیاسی ہے.ان کی پیاس بجھانے کا ابھی پورا پورا انتظام نہیں ہوا.تحریک جدید کے سلسلہ میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے.ہمیں مبلغ بھی چاہئیں اور روپیہ بھی چاہیے.الغرض ایک ضرورت ہمارے سامنے ہے اور وہ ضرورت ہمیں پکار رہی ہے.جماعت کے قیام کی اصل غرض کو نہیں تحریک جدید کے ذریعہ پورا کرنا ہے.خطاب فرمودہ 20 دسمبر 1965 ء )

Page 6

وو مزید فرمایا:.پھر تحر یک جدید ہے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دنیا بھر میں اشاعت اسلام کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اور جماعت کی جدو جہد کو تیز اور اس کے جہاد بالقرآن میں ایک شدت پیدا کرنے کے لئے تحریک جدید کو قائم کیا.“.خطاب فرموده 29 اکتوبر 1969 ء ) حضرت اقدس مسیح موعود کی بعثت کے ذریعہ عیسائیت کے مقابلہ اور اشاعت وغلبہ اسلام کی جو مہم شروع ہوئی ، اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اس روحانی مہم کو تمام اکناف عالم میں چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے القاء سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نومبر 1934ء سے تحریک جدید کا اجرا کیا تھا.دوست جانتے ہیں کہ اس تحریک کے ذریعہ دنیا کے بہت سے ممالک میں عیسائیت کا زبر دست خوش کن اور کامیاب مقابلہ کیا جارہا ہے....غلبہ اسلام کی جو مہم تحریک جدید کے ذریعہ جاری کی گئی ہے، وہ وقتی نہیں بلکہ قیامت تک جاری رہنے والی ہے.چندہ تحریک جدید کے متعلق فرمایا :.(خطبہ جمعہ فرمود 22 اپریل 1966 ء )....چونکہ اسلام کا یہ بنیادی حکم ہے کہ فرائض سے کچھ زیادہ خرچ کرو تاتم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکو، اس لئے ہماری جماعت میں حضرت مصلح موعودؓ نے علاوہ فرض چندوں کے بہت سے نفلی چندوں کی بھی تحریک کی ہوئی ہے.ان میں سے ایک چندہ یعنی چندہ تحریک جدید گونفلی ہے لیکن ضرورت کے مطابق شاید وہ فرض کے قریب قریب پہنچا ہوا ہے.اس کی مثال سنتوں کی سی ہے.جو ہیں تو نوافل لیکن وہ نفل کی نسبت فرض کے زیادہ قریب ہمیں نظر آتی ہیں.کیونکہ انہیں ادا کرنے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید فرمائی ہوئی ہے.مطالبات تحریک جدید کے متعلق فرماتے ہیں:." (خطاب فرمود 22 اکتوبر 1966 ء ) تحریک جدید کے بہت سے مطالبات ہیں، جن کے متعلق حضرت مصلح موعود

Page 7

رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1934ء میں پانچ ، چھ خطبات دیئے.اگر آپ ان خطبات کا مطالعہ کریں تو آپ جان لیں گے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں ایک نہایت ہی اہم اور دور رس سکیم تھی.جس کی اہمیت بتاتے ہوئے بھی حضور نے غالباً دو یا اس سے زائد خطبات دیئے تھے.میں نے گزشتہ دنوں ان خطبات کو دوبارہ پڑھا اور ان پر غور کیا تو میری توجہ اس طرف گئی کہ تمام مطالبات، جو تحریک جدید کے ضمن میں، اس سکیم کے ماتحت آپ نے جماعت احمدیہ سے کئے ہیں، وہ سارے کے سارے قرآن مجید کے پیش کردہ مطالبہ جہاد کی مختلف شقیں ہیں.خطبه جمعه فرمود و 28 اکتوبر 1966ء) وو تحریک جدید - خلافت کی ایک برکت ، اس کے متعلق فرمایا :.اللہ تعالی نے خلافت کی برکت کے نتیجہ ہی میں تو آپ کے لئے ایسے سامان پیدا کئے کہ آپ میں سے کسی نے چند روپے کسی نے چند سو روپے ہی دیے تھے مگر حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کو تحریک جدید کی جو سکیم خدا نے سمجھائی.اس کے ذریعہ سے اور اس کے نتیجہ میں آج ساری دنیا میں احمدیت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوگئی ہے.(خطبہ جمعہ فرمود : 28 اکتوبر 1966 ء ) تحریک جدید کی نمایاں خصوصیات اور ضروریات کے متعلق فرماتے ہیں:.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کی شکل میں اپنی ایک عظیم یادگار چھوڑی ہے.اور اس کے جو نمایاں پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں، ان میں سے ایک نمایاں پہلو تو تربیت جماعت کا ہے.آپ ایک لمبا عرصہ اسلام کی ضروریات جماعت کے سامنے رکھ کر جماعت کو آہستہ آہستہ تربیت اور قربانی اور ایثار کے میدانوں میں آگے سے آگے لے جاتے چلے گئے.دوسرا نمایاں پہلو پاک و ہند سے باہر جماعتوں کا قیام ہے.1934ء میں جب تحریک شروع ہوئی تھی، بیرون پاک وہند بہت کم جماعتیں تھیں.ایک آدھ ملک میں کچھ لوگ احمدیت سے متعارف اور اس کی حقانیت کے قائل تھے.لیکن تحریک جدید کے اجرا کے ساتھ (جو یقیناً الہی تحریک ہے.) بڑی کثرت سے مختلف ممالک میں جماعت ہائے احمد یہ قائم ہوئیں.پھر ان کی تربیت

Page 8

ہوئی تیسری نمایاں چیز ، جو ہمیں تحریک جدید کے کام میں نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ غیر مذاہب کو اس کی وجہ سے اور اس کے کاموں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے.اور وہ ، جو اپنی جہالت اور عدم علم کی وجہ سے اسلام کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، آج وہ اسلام کے عقلی دلائل اور اسلام کی تاثیرات روحانیہ اور تائیدات سماویہ سے مرعوب ہو رہے ہیں.ایک انقلاب عظیم بپا ہو گیا ہے...انقلاب مختلف مدارج میں سے گزرتا ہے.ایک دور اس کا یہ ہے اور وہ بھی عقل کو حیرانی میں ڈالنے والا ہے کہ آج سے چند سال پہلے اسلام کے خلاف اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف منکرین اسلام کس طرح متکبرانہ غراتے تھے.اور آج وہی لوگ ہیں، جو احمدی مربیوں اور مبلغوں سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں اور بات کرنے سے کتراتے ہیں.اور تحریک جدید کے کام کا یہ حصہ، جو ایک نمایاں خصوصیت کے رنگ میں ہمیں نظر آتا ہے، اس کے ساتھ یہ کام بھی ہوا ہے کہ ان ممالک میں قرآن کریم اور اس کی تفسیر کی بڑی کثرت سے اشاعت کی گئی ہے لیکن ابھی بہت روپے کی ضرورت ہے، ابھی بڑے فدائی مبلغوں کی ضرورت ہے، ابھی بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے، ابھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے بڑے مجاہدہ کی ضرورت ہے.تاکہ ہم انتہائی اور آخری کامیابی دیکھ سکیں.لیکن جو کام ہوا ہے، وہ بھی معمولی نہیں.بہر حال ہمیں ترقی کے میدان آگے نظر آرہے ہیں.اللہ کی رحمت سے) اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نہ مٹنے والے نشان ہمیں پیچھے نظر آرہے ہیں.تحریک جدید کی یہ ایک نمایاں خصوصیت ہمیں نظر آتی ہے.اور بھی بہت سی خصوصیات ہیں.جماعت کو میں اس وقت اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بہت بڑی نشانی تحریک جدید کی شکل میں اپنے پیچھے چھوڑی ہے.(خطبہ جمعہ فرموده 23 مئی 1969ء) تحریک جدید کے کام کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے ذمہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق جو کام لگایا ہے، وہ بڑا ہی اہم اور بڑا ہی مشکل ہے.تحریک جدید کے ذمہ یہ کام ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے جو یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ پھر سے اسلام کو ساری دنیا میں

Page 9

غالب کرے گا، یہ مجلس اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے جدو جہد کرے.اور ساری جماعت ان کے ساتھ شامل رہے.کیونکہ سارے ایک جان ہی ہیں.یہ کام بڑا ہی مشکل ہے.اس میں اندرونی رکاوٹیں بھی ہیں اور بیرونی رکاوٹیں بھی.(خطبہ جمعہ فرمود 240 اکتوبر 1969 ء ) پھر مزید فرماتے ہیں:.تحریک جدید کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے.اور ہماری ضرورتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں.ان بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا اور کرتے رہنا، یہ جماعت کا فرض ہے.اور جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے.اور اللہ تعالیٰ جس حد تک توفیق دے، اپنے مالوں کو (جو دراصل اپنے نہیں ) اس کے حضور پیش کر دینا چاہیے.“ خطبه جمعه فرموده 29 اکتوبر 1971ء) تحریک جدید کے کام کے خوشکن نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.تحریک جدید کے کام اور ذرائع ہر دو میں 1944ء کے بعد ایک انقلاب عظیم جو بپا ہونا شروع ہوا تھا.اس نے اب پوری وسعتوں کے ساتھ صحیح شکل اختیار کر لی ہے.1944ء تک تحریک جدید کے سارے کاموں کا بوجھ جماعت ہائے احمد یہ ہندوستان پر تھا.بیرون ہندوستان آمد کا کوئی ذریعہ نہیں تھا.نہ چندے کی شکل میں اور نہ کسی اور شکل میں...1944 ء کے بعد آہستہ آہستہ بیرون پاکستان کی جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑی ہونی شروع ہوئیں.اور وہ غرض جس کے لیے تحریک جدید کو قائم کیا گیا تھا، گو وہ اپنے کمال کو تو ابھی نہیں پہنچ سکی.شائد ایک صدی اور لگ جائے.لیکن ایک انقلاب کی نمایاں شکل ہمیں نظر آنے لگ گئی.ارشاد فرمودہ 31 مارچ 1973 ء ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت اور جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض کو پورا کرنے کے لئے ہی تحریک جدید کا اجرا کیا گیا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس تحریک کے تمام مطالبات پر عمل کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں، جس غرض کے لئے ہم احمدی ہوئے ہیں.آمین

Page 10

محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ الله تعالى بنصرہ العزیز کی دعاؤں اور منظوری سے وکالت دیوان تحریک جدید صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر ، تحریک جدید سے متعلقہ خلفاء کرام کے خطبات، خطابات اور ارشادات کو تحریک جدید.ایک الہی تحریک“ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کرنے کی توفیق پارہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.اس سلسلہ میں اس کتاب کی پہلی تین جلدیں، جو بالترتیب 1934ء ت1939ء 1940ء ت1947ء اور 1948ء ت1964ء حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات ، خطابات اور ارشادات پر مشتمل تھیں، شائع ہو چکی ہیں.یہ اس سلسلہ میں اس کتاب کی چوتھی جلد ہے.جو حضرت خلیفة المسیح الثالث کے 1965ء تا1973ء کے خطبات، خطابات اور ارشادات پر مشتمل ہے.اسی طرح مجالس شورای کی رپورٹس سے بھی متعلقہ مواد شامل کیا گیا ہے.مجالس شورای کے علاوہ باقی مواد کو تاریخ وار رکھا گیا ہے.جبکہ مجالس شورای کی رپورٹس سے متعلقہ مواد ہر سال کے آخر پر درج کیا گیا ہے.پر ,

Page 11

عناوین فہرست $1965 آپ کے پیچھے خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا ہاتھ ہے دنیا میں ایک روحانی انقلاب عظیم پیدا ہونے والا ہے جماعت کے قیام کی اصل غرض کو ہمیں تحریک جدید کے ذریعہ پورا کرنا ہے اسلام احمدیت کے ذریعے سے ساری دنیا پر غالب آئے گا تاریخ فرموده صفحه نمبر 01 06.12.1965 05 10.12.1965 07 20.12.1965 09 21.12.1965 i $1966 جماعت کے تمام اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی جدو جہد کو منظم کریں خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا 13 07.01.1966 21 18.02.1966 33 37 روحانی ترقیات کے لئے خدا تعالی کی راہ میں ہر قسم کی قربانی پیش کرنا ضروری ہے 25.02.1966 ہم نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ اسلام کے غلبہ کی ہر ممکن کوشش کریں گے ایک واقف زندگی سے زیادہ مجھے کون عزیز ہو سکتا ہے ہر احمدی کو وقف کا وہی نمونہ دکھانا چاہیے، جو صحابہ کرام نے دکھایا تھا 45 25.03.1966 53 09.03.1966 55 02.04.1966 59 63 25.04.1966 65 08.05.1966 69 19.08.1966 75 12.10.1966 غلبہ اسلام کی جو ہم تحریک جدید کے ذریعہ جاری ہوئی ، وہ قیامت تک کے لئے ہے 22.04.1966 دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو تمام دنیا میں ترقی عطا فرمائے نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کی ضرورت کی طرف متوجہ ہوں جماعت کو چاہیے کہ مطالبات تحریک جدید کو دہراتی رہے اور ان پر عمل کرے مشرقی افریقہ میں سکول قائم کرنے ناممکن نہیں نمبر شمار 01 02 03 04 05 85 06 07 08 09 10 11 12 13 14 15

Page 12

16 17 18 19 20 21 چندہ تحریک جدید کی مثال سنتوں کی سی ہے مطالبات تحریک جدید قرآن مجید کے پیش کردہ مطالبہ جہاد کی ہی مختلف شقیں ہیں 28.10.1966 زنده خدا، زندہ رسول اور زندہ کتاب وہ دن جلد تر آجائے ، جس کے لئے صدیاں انتظار کرتی رہیں ہماری اصل غرض یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کی تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلائیں بنی نوع انسان سے ہمدردی کا یہ تقاضا ہے کہ ہم ان پر اتمام حجت کر دیں * 1967 موجودہ ایام میں ضروری ہے کہ ہم کھانے میں کمی اور سادگی اختیار کریں خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے وہ قربانی پیش کریں ، جس کی طرف وہ بلا رہا ہے حقیقی واقف زندگی وہ ہے، جو ہر حالت میں اپنے رب پر تو کل کرے اسلام اور مذاہب عالم کے درمیان جو فیصلہ ہونا مقدر ہے، وہ جلد ہو جائے بچوں کے دل میں سلسلہ کے لئے قربانیوں کا شوق پیدا کرو اسلام کا غلبہ ہم سے ایک موت نہیں ہزاروں موتوں کا مطالبہ کر رہا ہے مسجد نصرت جہاں کی تعمیر ڈنمارک میں اسلام کے غلبہ کے لئے سنگ میل ہے اتمام حجت ہو گیا ہے 79 22.10.1966 87 101 11.11.1966 107 25.03.1966 111 27.03.1966 115 27.03.1966 119 13.01.1967 125 22.03.1967 131 13.04.1967 135 23.06.1967 139 30.06.1967 141 04.07.1967 143 21.07.1967 145 147 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم نہ کریں گے تو تباہ ہو جائیں گے احمدیت کا احسان ہے کہ اس نے ہمارے اندر میں ایک جذبہ اخوت پیدا کر دیا ہے 29.07.1967 149 ہمارا ہتھیار دعا ہی ہے، جس سے کامیابی ہوگی صرف اسلام ہی تباہی سے بچنے کا ایک راستہ ہے 153 04.08.1967 155 11.08.1967 157 12.08.1967 167 25.08.1967 193 01.09.1967 209 05.09.1967 229 08.09.1967 اب کہ جب اسلام فاتح ہوگا اور دنیا پر چھا جائے گا تو کبھی مغلوب نہیں ہوگا صرف اسلام ہی دنیا کو ہولناک تباہی سے بچا سکتا ہے اگلے ہیں ہمیں سال دنیا پر، انسانیت پر اور جماعت پر بڑے نازک ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا سب بتوں کو تو ڑ کر دل سے باہر پھینک دیں ظلمت کے ساتھ نور کی یہ آخری جنگ ہے ===

Page 13

39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 خدام الاحمدیہ کے لئے چار بنیادی اسباق مسجد نصرت جہاں کو اللہ تعالیٰ نے بڑی برکتوں کا موجب بنایا ہے اللہ تعالیٰ کے احسانات اور ہماری ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے جو ہتھیار ہمیں دیا ہے، وہ دعا ہے احمدیت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے قیام تو حید اور غلبہ اسلام کی عظیم مہم جاری کی ہے 29.09.1967 اسلام کو بہت سے فدائی اور جاں نثار خادموں کی ضرورت پڑنے والی ہے مسجد نصرت جہاں کی مقبولیت خواتین کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتی ہے 12.10.1967 امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ اللہ تعالیٰ جب قربانی کو قبول کرتا ہے تو ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کرتا ہے اللہ غلبہ اسلام کی نئی راہیں کھول رہا ہے ، اس سے فائدہ اٹھانا ہمارا کام ہے وقت آگیا ہے کہ ہم یورپ میں تبلیغ اسلام کی خاص جد و جہد شروع کریں 235 08.09.1967 241 10.09.1967 253 15.09.1967 279 22.09.1967 281 285 09.10.1967 287 291 20.10.1967 305 21.10.1967 311 27.10.1967 319 30.10.1967 323 329 24.11.1967 331 29.12.1967 335 07.04.1967 337 341 09.04.1967 اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ میں اس جماعت کے نفوس اور اموال میں برکت ڈالوں گا 03.11.1967 زندگیاں وقف کرنا اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر دل میں گاڑ دی جائے گی 49 50 51 52 53 54 55 اللہ ہم سے وہ کام کروائے، جس کے لئے حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرمایا ہر جماعت 250 چندہ دہندگان پر ایک میٹرک پاس طالب علم جامعہ احمدیہ کو دے 09.04.1967 ہم نے دنیا میں ایک مثالی معاشرہ کو قائم کرنا ہے $1968 شمار فضل اور رحمت نہیں ہے، تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے تم کو ہر وقت تین محاذوں پر شیطان کے حملوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا اللہ کی محبت کے جلوے دیکھنے ہیں تو انفاق فی سبیل اللہ میں ترقی کریں ہر چیز اللہ کی ہی ہے، اس لئے اس کی راہ میں خرچ کرنا برکت کا موجب ہے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی بڑی غرض ہر وہ قربانی پیش کرنی چاہیے، جس کی اس وقت ضرورت تقاضا کرتی ہے 343 26.01.1968 347 02.02.1968 353 16.02.1968 357 18.10.1968 367 18.10.1968 371 25.10.1968 == 56 56 57 58 59 60 61

Page 14

دوران سال جہاں ہمیں ایذاء پنچی، وہاں رب کے بہت ہی پیارے الفاظ بھی سنے 05.04.1968 وقف بعد از فراغت، دفتر سوم اور Transparencies تحریک جدید کے ذریعہ ساری دنیا میں احمدیت مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گئی ہے 383 385 07.04.1968 391 07.04.1968 $ 1969 مربیان قرآن کریم کی روشنی میں اپنی عقلوں کو تیز کریں تحریک جدید حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک عظیم یادگار ہے بعض مربیوں کے متعلق میرا یہ تاثر ہے کہ ان خوش بختوں نے اپنے مقام کو پہچانا نہیں 15.08.1969 ہمارے مبلغ بھی تو آخر تجدید دین ہی کا کام کرتے ہیں اپنی ہر طاقت، ہر قوت ، ہر استعداد اور ہر قابلیت کو خدا کی راہ میں وقف کر دو تحریک جدید کے ذمہ جو کام ہے، وہ بڑا ہی اہم اور بڑا ہی مشکل ہے 405 10.01.1969 415 23.05.1969 419 421 07.10.1969 425 17.10.1969 431 24.10.1969 دنیا بھر میں اشاعت اسلام اور جہاد بالقرآن کے لئے تحریک جدید کو قائم کیا گیا 29.10.1969 441 چندہ تحریک جدید کی بنیاد طوعی ہے، اسے لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا ہر احمدی کی دوستی اللہ تعالیٰ سے قائم کرو، پھر کسی تحریک کی ضرورت نہیں ہوگی * 1970 جماعت احمدیہ کا اپنا جدید پر لیس اور طاقت ور ٹرانسمیٹنگ اسٹیشن ہو جماعت احمدیہ کی تعلیمی خدمات غلبہ اسلام کے لئے کوشش اور دعا کرنا ساری جماعت کا کام ہے اللہ نے مجھے بتایا ہے کہ اسلام کے غلبے کا دن طلوع ہو چکا ہے 445 29.03.1969 449 30.03.1969 455 09.01.1970 461 06.03.1970 463 03.04.1970 467 469 487 09.06.1970 495 12.06.1970 527 547 26.06.1970 557 نصرت جہاں ریز روفنڈ کے منصوبہ کے اعلان کی وجوہات ، دلائل اور ضرورتیں 07.06.1970 نصرت جہاں ریزروفنڈ ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی جامعہ احمدیہ میں کتابی تدریس کے علاوہ محبت الہی کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے 19.06.1970 اپنی غفلتوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی عظیم بشارت کے وارث بنے کی سعی کریں دنیا میں جماعت احمدیہ کی مقبولیت اور اس کا اثر و نفوذ 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 iv

Page 15

565 03.07.1970 577 10.07.1970 601 17.07.1970 609 31.07.1970 اسلام کی جنگ سوائے احمدیت کے کسی اور نے نہیں لڑنی غلبہ اسلام کے دن مجھے افق پر نظر آرہے ہیں آگے بڑھو اور قربانیاں دو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنو اقوام عالم کو وحدت انسانی میں منسلک کرنے کے ذرائع اور طریق ابتلاء آئیں گے، جب تک کہ وہ آخری وعدہ پورا نہ ہو، جو ہمیں افق پر نظر آرہا ہے 21.08.1970 623 احمدیت کو غالب کرنے کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا ہے مخلص، پیار کرنے والے، دعا گو، صاحب علم و تجر بہ ڈاکٹر ز کی ضرورت ہے جتنی عظیم بشارت ہو، اتنی ہی عظیم ذمہ داری اور انتہائی قربانی دینی پڑتی ہے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے نصرت جہاں ریز روفنڈ کا منصوبہ تو بنیاد ہے، اس کے اوپر عمارت بنی ہے حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ اسلام کی حجت تمام دنیا پر پوری ہو دعا اور مجاہدہ کریں کہ اللہ تعالیٰ علیہ اسلام کا سہرا ہمارے ہی سروں پر باندھے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے، اس پر کبھی خزاں نہیں آسکتی واقفین زندگی سے بیاہ پاکستان کی احمدی خواتین اپنے معیار قربانی کو بلند سے بلند کریں ملائکہ کے نزول کے وقت الہی جماعتوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے تحریک جدید کی رپورٹ پر بعض اہم ہدایات * 1971 اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے ذریعہ اسلام کی بعثت اولی کا نظارہ پھر ہمیں دکھایا ہے احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر سورج غروب نہیں ہوتا لیپ فارورڈ پروگرام کے ذریعہ عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئی ہیں ہمارے کام بڑے اہم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سہارے کے بغیر یہ ہو ہی نہیں سکتے نصرت جہاں ریز روفنڈ ایک اور سنگ میل ہے ہمارا فرض ہے کہ اسلام اور قرآن کی اشاعت کے لئے انتہائی کوشش کریں 627 28.08.1970 639 30.08.1970 669 04.09.1970 683 11.09.1970 689 02.10.1970 695 09.10.1970 701 23.10.1970 713 29.10.1970 717 04.12.1970 719 12.12.1970 723 27.03.1970 739 28.03.1970 747 751 757 759 09.10.1971 763 15.10.1971 775 17.10.1971 V 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106

Page 16

تحریک جدید کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے اپنی دعاؤں میں تحریک جدید کے مخلصین کو یا درکھو اسلام کا عالمگیر غلبہ اللہ تعالی کی ایک تقدیر ہے، جو کبھی ٹلا نہیں کرتی دنیا بھر کے مشہور ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھوانے کا بندو بست کیا جائے جماعت بڑے پیار اور محبت سے قربانی دیتی ہے 777 29.10.1971 783 19.11.1971 785 24.12.1971 787 30.12.1971 789 27.03.1971 795 جس جماعت کا دائرہ عمل ساری دنیا پر محیط ہو، اس کی سوچ محدود نہیں ہونی چاہیے 28.03.1971 807 809 02.01.1972 811 07.01.1972 813 815 24.03.1972 819 16.07.1972 821 18.08.1972 825 08.09.1972 827 22.09.1972 829 03.11.1972 837 839 01.12.1972 843 27.12.1972 847 31.03.1972 855 01.04.1972 863 02.04.1972 865 02.04.1972 $1972 نظام جماعت کی پابندی اپنا شعار بناؤ اب اسلام کی ترقی کا سورج طلوع ہو چکا ہے تحریک جدید کے کام کا تقاضا یہ ہے کہ بہت بڑے عالم ہوں سادگی میں بڑی برکت ہے ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو اللہ تعالیٰ نے ہم پر اسلام کی عالمگیر تبلیغ کی عظیم الشان ذمہ داری ڈالی ہے ہمارا فکر، تدبر، پڑھنا سننا ہوتا اور جاگنا اسلام کی ترقی کے لئے وقف ہے ہم ہر اس قربانی کے لئے تیار ہیں جو ہماری روحانی جنگ کے لئے ضروری ہے جب تک ہر احمدی نسل قربانی نہ دے، ہماری ذمہ داری پوری نہیں ہو سکتی ایک چیلنج جو مجھے اور آپ کو رمضان اور رمضان کا یہ آخری جمعہ دیتا ہے مرکز سے دوری اخلاص کی کمی اور ایثار وقربانی سے بے پرواہی پر منتج نہیں ہوتی ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا، کوئی کھیل تو نہیں دوران سال تحریک جدید کی کارگزاری کا جائزہ ہمارے سپر د اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کو امت واحدہ بنانے کا کام کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصل مشن امت واحدہ کا قیام ہے جو اپنے آپ کو وقف کا اہل ثابت کرے گا، وہی وقف میں رہے گا نصرت جہاں آگے بڑھو 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 vi

Page 17

130 131 132 133 134 135 136 137 138 139 140 141 142 143 144 145 146 147 148 149 $1973 اسلام کا عالمگیر غلبہ ایک حقیقت اور بنیادی صداقت ہے احمدی ڈاکٹر زا اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے پیش کریں دوست دعا ئیں کریں اور بہت دعائیں کریں ہر انسان کے ہاتھ میں قرآن کریم مترجم پہنچانا، جماعت احمدیہ کا کام ہے قربانیاں دیتے چلے جاؤ اور خدا کا پیار حاصل کرتے جاؤ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اسلام کا پیغام ساری دنیا کے ہر فرد تک پہنچ جائے یورپ میں تبلیغ اسلام کا ایک بہت بڑا منصو بہ اللہ تعالیٰ نے ذہن میں ڈالا ہے چوتھا انقلاب جو دنیا میں بپا ہو چکا ہے، سو سال کے اندر اپنے عروج کو پہنچ جائے گا حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانا ہے نوع انسانی کی اصل عید آسمانوں پر جو فیصلہ ہو چکا ہے، زمین کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی ہمارا عزم یہ ہے کہ دنیا کے ہر ہوٹل کے ہر کمرے میں قرآن مجید رکھوا دیں ہمارا تو کل اور ہمارا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے 875 16.01.1973 879 23.03.1973 891 06.07.1973 903 13.07.1973 917 27.07.1973 923 925 28.09.1973 927 05.10.1973 933 19.10.1973 953 28.10.1973 959 26.12.1973 963 27.12.1973 965 31.03.1973 فتح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو ہوگی البتہ ہاتھ آپ کے ہوں گے 01.04.1973 975 اشاریہ آیات قرآنیہ احادیث مبارکہ کلید مضامین اسماء مقامات کتابیات 989 993 995 1011 1019 1027 vii

Page 18

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 06 دسمبر 1965ء آپ کے پیچھے خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا ہاتھ ہے خطاب فرمودہ 06 دسمبر 1965ء وکالت تبشیر کی طرف سے بیرون پاکستان سے واپس آنے والے مبلغین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے غیر ممالک کو روانہ ہونے والے مبلغین کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا.حضرت خلیفة المسیح الثالث نے از راہ شفقت اس تقریب میں شمولیت فرما کر اپنے ایمان افروز خطاب اور زریں ہدایات سے مبلغین اسلام کو نوازا.آپ نے فرمایا:."....حضرت خلیفة المسیح الثانی کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ ہر احمدی کا دل پہلے کی نسبت زیادہ ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے، اپنے رب سے یہ عہد باندھ چکا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے اس کام کو پہلے سے بھی عظیم تر جد و جہد اور دعاؤں کے ساتھ جاری رکھیں گے اور آگے بڑھائیں گے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارتیں دی ہیں، یہ سلسلہ اور اسلام کی اشاعت کا غلبہ روز بروز انشاء اللہ بڑھتا چلا جائے گا.اور جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا، اسلام اور احمد بیت دنیا پر غالب آجائے گی.یہ تو البی نوشتہ ہے.آسمان پر فیصلہ ہو چکا ہے اور زمین منتظر ہے کہ وہ فیصلہ، جو آسمان پر ہوا ہے، اپنی پوری شان کے ساتھ زمین پر مسلط ہو جائے.اور دنیا دیکھے گی کہ ایک غیر معروف انسان کو خدا نے جب کھڑا کر کے یہ کہا تھا کہ اٹھ اور اسلام کو دنیا پر غالب کر تو جو آواز اس بندے کے کان میں پڑی تھی، وہ شیطان کی آواز نہیں تھی بلکہ وہ خدائے واحد و یگانہ اور خدائے قادر و قدیر کی آواز تھی.اور دنیا کی تمام مخالفتوں کے باوجود وہ آواز آہستہ آہستہ پھیلنی شروع ہوئی اور پھیلتی چلی گئی.یہاں تک کہ دنیا کی تمام آوازوں پر غالب آگئی اور غالب آتی جارہی ہے اور انشاء اللہ ایک دن کلی طور پر دوسری آواز کو دبا کر رکھ دے گی.ور آپ یہ سمجھیں کہ یہ زمانہ ریفریشر کورس کرنے کا زمانہ ہے.اور وہ کورس ، حضرت مسیح موعود کی کتب، تفسیر کبیر اور خلفاء احمدیت کی دوسری کتب ہیں.آپ اس عرصہ میں ان کتب یا ان کے ایک بڑے حصے میں سے گزرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں.اور یہ بڑا ضروری ہے.آج ہم ان دلائل ، آج ہم 1

Page 19

اقتباس از خطاب فرموده 06 دسمبر 1965ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ان صداقتوں کے بغیر، آج ہم قرآن کریم کی اس تفسیر کے بغیر ، جو خدا کے مسیح نے ہمارے ہاتھ میں دی ہے، دنیا میں اسلام کو غالب نہیں کر سکتے.پس جو ہتھیار اور تلوار خدا تعالیٰ نے ادیان باطلہ کو ختم کرنے کے لئے ہمارے ہاتھ میں دی ہے، انہیں اس عرصہ قیام مرکز میں صیقل کرنے کی کوشش کریں.آنے والے مبلغین پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کے مکینوں پر یہ بات واضح کریں کہ بیرون ممالک میں بسنے والی حق کی متلاشی روحیں کس طرح تڑپ رہی ہیں؟ جہاں تک مجھے یاد ہے، شروع سے ہی مختلف ممالک سے یہ مطالبات آتے رہے ہیں کہ ہمارے پاس مبلغ بھجواؤ.ابھی مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نجی اور بعض دوسرے ممالک سے ہو کر آئے ہیں.انہوں نے مجھ پر زور دیا ہے کہ نبی میں کم از کم چار مبلغ اور جانے چاہئیں.کیونکہ وہ ملک احمدیت کو قبول کرنے کے لئے تیار نظر آرہا ہے اور عوام کی اس طرف توجہ ہے.اسی طرح پر اور بھی کئی ممالک ہیں، جہاں پر دودو، چار چار اور دس دس مبلغین کی ضرورت ہے.پس ضرورت ہے، دردمند اور مخلص دل رکھنے والے احمدی نوجوانوں کی ، جن کے دلوں میں اسلام کو پھیلانے کی تڑپ ہو.جو میرے بھائی باہر جارہے ہیں، ان کو میں یہ نصیحت کروں گا کہ آپ ایک اسلام کی فوج کے مجاہد ہیں.آپ اس پاک ہستی کی نمائندگی کرتے ہوئے باہر جارہے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے ”امن کا شہزادہ لقب عطا فرمایا ہے.پس آپ کا بڑا فرض یہ ہے کہ آپ اپنے دل میں اخوت اور ہمدردی کے جذبہ لک پہنچا ئیں کہ جس سے بھی آپ کا تعلق ہو یا جس سے بھی آپ ملیں یا با تیں کریں، اسے یہ یقین ہو جائے کہ یہ شخص خواہ غلطی پر ہے یا حق پر لیکن اس میں شک نہیں کہ ہے میرا ہمدرد اور خیر خواہ.اگر آپ اپنے ماحول میں یہ فضا پیدا کر لیں تو پھر دنیا آپ کی بات سننے کے لئے تیار ہو گی.لیکن اگر وہ یہ سمجھیں کہ آپ اپنا کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں.یا وہ یہ سمجھیں کہ آپ اپنے آپ کو حاکم یا ڈانڈا بردار سمجھتے ہیں.یا وہ یہ سمجھیں کہ آپ محبت کی بجائے ان سے نفرت کرتے ہیں.یا وہ یہ سمجھیں کہ آپ خیر خواہی کی بجائے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں تو وہ کیوں آپ کے قریب آئیں گے؟ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالی آپ کو زندہ جذبہ عطا فرمائے.یہ بڑی چیز ہے.اور خدا تعالیٰ سب سے زیادہ یہ قوت اپنے ماموروں کو، اپنے صالح بندوں کو عطا کرتا ہے.اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر جو جذب کی قوت اللہ تعالیٰ نے رکھی تھی ، وہ اس وقت ہی نہیں کھینچی تھی ، اس زمانہ میں بھی ہمیں کھینچ لیتی ہے.قرآن کریم پڑھتے ہوئے اور احادیث کا مطالعہ کرتے 2

Page 20

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 06 دسمبر 1965ء ئے بعض دفعہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑی زبر دست قوت ہے، جس نے ہمارے دل پر قبضہ کیا ہے، ہمیں کھینچ کھینچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے جارہی ہے.ہر مبلغ ، جو تبلیغ کے لئے باہر جاتا ہے، اسے ہر وقت یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے خدا! مجھے ایسی راہوں پر چلا، میرے دماغ میں ایسے خیالات بیدار کر، میرے جسم سے ایسی شعاعیں نکال کہ جولوگوں پر اس رنگ میں بھی اثر پیدا کرنے والی ہوں کہ وہ میری طرف کھنچے چلے آئیں.اور میرے ساتھ ان کا ایک دلی تعلق پیدا ہو جائے.تا کہ وہ میری باتوں کو محبت اور غور سے سنیں“.وو.آپ کے پیچھے خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا ہاتھ ہے.پس کتنا شکر اور کتنی حمد آپ کے دل میں پیدا ہونی چاہیے اور کتنی خود اعتمادی آپ کے دل میں پیدا ہونی چاہیے.اگر واقع میں آپ یہ مقام تو کل پیدا کرلیں تو دنیا آپ کے وجود سے کتنے اچھے نتائج دیکھ سکتی ہے.آپ انہیں اس سے نکال کر خدا تعالیٰ کی تو خوشنودی، اس کی رضا اور اس کے قرب کی جنات کی طرف لے جانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اسلام کی خدمت کی ہمیشہ تو فیق عطا کرتار ہے.آمین.مطبوعه روز نامه افضل 11 دسمبر 1965ء) 3

Page 21

Page 22

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 10 دسمبر 1965ء دنیا میں ایک روحانی انقلاب عظیم پیدا ہونے والا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 دسمبر 1965ء میں جماعت کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ آئندہ چھپیں، تمہیں سال جماعت احمدیہ کے لئے نہایت ہی اہم ہیں.کیونکہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب عظیم پیدا ہونے والا ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کون سی خوش بخت قو میں ہوں گی، جو ساری کی ساری یا ان کی اکثریت احمدیت میں داخل ہوں گی.وہ افریقہ میں ہوں گی یا جزائر میں یا دوسرے علاقوں میں.لیکن میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں، جب دنیا میں ایسے ممالک اور علاقے پائے جائیں گے، جہاں کی اکثریت احمدیت کو قبول کرلے گی اور وہاں کی حکومت احمدیت کے ہاتھ میں ہوگی.وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرُ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں تمہیں ان نعمتوں سے نوازوں تو تمہارا فرض ہوگا کہ تم بنی نوع ) انسان سے نرمی اور محبت کا سلوک کرو اور ان کی ایذاء دہی کو خدا کی خاطر سہہ لو.اگر ان کے منہ سے سخت کلمات نکلیں، اگر وہ بے ہودہ حرکتیں کریں، اگر وہ تمہیں چڑا ئیں تو باوجود اس کے کہ تم انہیں اپنی طاقت سے خاموش کراسکتے ہو اور انہیں بے ہودہ حرکتوں سے باز رکھ سکتے ہو، ہم تمہیں یہی کہتے ہیں کہ ہماری رضا کی خاطر صبر سے کام لینا اور ان پر سختی نہ کرنا.پس اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے ، اس کی برکات کے حصول کے لئے ، اس کی رحمتوں کو جذب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم صبر سے کام لو ٹھٹھے کے مقابلہ میں ٹھٹھہ اور ہنسی کے مقابلہ میں ہنسی اور ظلم کے مقابلہ میں ظلم نہ کرو.وہ زمانہ چونکہ قریب ہے، اس لئے میں آپ کو پھر تا کید سے کہتا ہوں کہ جب کسی قوم پر اس قسم کی عظیم نعمتیں نازل ہو رہی ہوں تو اس قوم کو بھی ایک عظیم قربانی دینی پڑتی ہے.پس اپنے نفسوں کو اس قربانی کے لئے تیار کرو.اپنی طبیعتوں کو اس طرف مائل کرو کہ ہم احمدیت کے لئے ، اسلام کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں گاڑنے کے لئے ، خدائے قادر و توانا کے جلال اور عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے.ہماری جانیں، 5

Page 23

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 دسمبر 1965ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہمارے مال اور ہماری عزتیں سب خدا کے لئے ہیں اور خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہیں.اگر ہماری جماعت ایثار اور فدائیت کا یہ نمونہ دکھائے تو اللہ تعالیٰ اس جماعت کو دین و دنیا کی حسنات سے کچھ اس طرح نوازے گا کہ دنیا کے لئے قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو جائے گی.ابھی ابھی مجھے مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا وہ کشف یاد آ گیا ، جس میں ان کو دو، تین سو سال بعد کا نظارہ دکھایا گیا.کشف میں انہوں نے دیکھا کہ بعد میں آنے والے لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کس قدر احمق تھے ، وہ لوگ ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے آپ کو قبول نہ کیا.اتنی بڑی صداقت، اتنے روشن اور واضح دلائل ، خدا کی نصرت کے اتنے نمایاں نمونے دیکھنے کے بعد کیا وجہ ہوسکتی تھی کہ انہوں نے مسیح محمد مٹی کے قبول کرنے سے انکار کر دیا؟ مطلب یہ کہ آنے والی نسلیں نہ ماننے والوں کو بڑی تعجب کی نگاہ سے دیکھ رہی تھیں.ایسا ہی ہوگا یہ ایک حقیقت ہے، جس کو رد نہیں کیا جا سکتا.اور وہ وقت قریب آ رہا ہے، جب دنیا انکارمہدی معہود کو حیرت و استعجاب سے دیکھے گی.اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی فتح و نصرت اور کامیابی کا انتہائی زمانہ تین سو سال تک بتایا ہے.لیکن حضور کے بعض کشوف اور الہامات یہ بتاتے ہیں کہ وہ آخری فتح، جس میں اسلام دنیا پر غالب آ جائے گا، شاید کچھ دیر چاہتی ہولیکن ان آنے والے چھپیں، تمہیں سالوں میں بعض ممالک اور علاقوں میں احمدیت کو کثرت حاصل ہو جائے گی.(انشاء اللہ ).اور وہاں کے رہنے والے اپنی زندگیاں تعلیم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے مطابق گزارنے والے ہوں گے.مگر اس انقلاب عظیم کے لئے ، جو دروازہ پر کھڑا ہے کتنی ہی قربانیاں ہیں، جو آپ کو دینی ہوں گی.پس آپ کو وہ قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے.خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کی بارش آپ پر کرنا تو چاہتا ہے لیکن پہلے وہ یہ دیکھے گا کہ آپ ان فضلوں کے مستحق بھی ہیں یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھ کو بھی ایسا بنا دے کہ ہم اس کی نظر میں ہر قسم کے انعاموں اور فضلوں کے مستحق ٹھہریں.اور خدا تعالی کے وعدے جلد ہی ہماری زندگیوں میں پورے ہوں اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہ، جو دنیا کی نگاہ میں دھت کارا گیا تھا، وہی دنیا میں مقبول ٹھہرا.اللهم آمین“.مطبوعه روزنامه الفضل 09 جنوری 1966ء) 6

Page 24

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 20 دسمبر 55 جماعت کے قیام کی اصل غرض کو ہمیں تحریک جدید کے ذریعہ پورا کرنا ہے "" خطاب فرمودہ 20 دسمبر 1965ء برموقع جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ غلبہ اسلام کی جو تحریک جاری فرمائی، وہ جماعت احمد یہ ہی کے نام سے موسوم ہے.اس جماعت کے نظام کی بنیاد الوصیت پر ہے.جس میں حضور نے واضح فرمایا ہے کہ یہ نظام کن اصولوں اور کن بنیادوں پر قائم ہے.میں جماعتی نظام اور اس کے مختلف شعبوں کے متعلق مختصراً کچھ کہنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک وہ نظام، جو الوصیت کی بنیادوں پر قائم ہوا، اس کی تشکیل درجہ بدرجہ اس طرح پر ہے.خلیفہ وقت بحیثیت مجموعی ساری جماعت ، وہ تنظیمیں اور ان کے شعبے، جنہیں خلیفہ وقت قائم کرتا ہے.یہ ہمارا نظام ہے.خلیفہ کا کام مامور من اللہ کی نیابت ہے.اس نیابت کی رو سے ایک جماعتی نظام قائم ہوتا ہے.اس نظام کو قائم رکھنے اور چلانے کی پوری پوری ذمہ داری خلیفہ وقت پر ہے.اسے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.ایک مخلصانہ مشوروں کی اور دوسرے مخلصانہ دعاؤں کی.میں بھی احباب جماعت سے ان دو باتوں کی توقع رکھتا ہوں.مجھے مخلصانہ مشوروں اور دعاؤں کی ضرورت ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ دونوں چیزیں مجھے ملتی رہیں گی.سو ہمارا نظام مندرجہ ذیل باتوں پر مشتمل ہے._1 -2 -3 خلیفہ وقت جماعت انتظامی ادارے اور شعبہ جات حضور علیہ السلام نے اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے جماعت کے ہر حصہ کو اقتصادی طور پر اور روحانی طور پر قائم رکھا.پھر حضور نے جماعتی کاموں کو چلانے کے لئے ” الوصیت میں ایک مالی نظام بھی قائم کیا ہے.اس کی رو سے وصیت کرنے والے احباب اپنی آمدن اور جائیداد کا1/10 حصہ جماعتی خزانہ میں جمع کراتے ہیں.انتظامی ادارے کے طور پر حضور نے صدر انجمن احمدیہ کا نظام قائم فرمایا تھا.لیکن جماعت کے ایک حصہ نے اس نظام کی حیثیت کو غلط سمجھا.ایک گروہ وہ تھا، جوا کا بر پرمشتمل تھا اور ہر 7

Page 25

اقتباس از خطاب فرموده 20 دسمبر 1965ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم معاملہ میں صدر انجمن ہی کوکار مختارسمجھتا تھا.اور دوسرا گروہ ، وہ جو کہتا تھا کہ خدا کا خلیفہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم اس کے ساتھ ہیں.مؤخر الذکر گروہ کامیاب ہو گیا.ریشم...صدر انجمن کے علاوہ ہمارا دوسرا بڑا تنظیمی ادارہ تحریک جدید ہے.حضرت خلیفة المسیح الثانی نے اسے 1934ء میں شروع کیا تھا.اس سے بڑی غرض یہ تھی کہ دنیا کے دور و دراز ممالک میں اشاعت اسلام کا بندوبست کیا جائے.چنانچہ اس تحریک کے ذریعہ ایک بڑی حد تک یہ غرض پوری ہوئی.آج خدا کے فضل سے بعض ایسے ملک بھی ہیں، جن کے چندہ دہندگان کی تعداد پاکستان کے چندہ دہندگان کے قریب قریب پہنچ رہی ہے.افریقہ میں خاص طور پر بڑی ترقی ہوئی ہے.بڑا ہی اخلاص رکھنے والے، دعائیں کرنے والے اور قربانیاں کرنے والے لوگ ہیں، جو وہاں جماعت میں داخل ہیں اور داخل ہورہے ہیں.یہ روحانی انقلاب ہے، جوتحریک جدید کے ذریعہ رونما ہوا ہے.دلوں کو فتح کرنے کے لئے تحریک جدید کو قائم کیا گیا تھا.یہ غرض ابھی ایک حد تک ہی پوری ہوئی ہے.دنیا صداقت کی پیاسی ہے.ان کی پیاس بجھانے کا ابھی پورا پورا انتظام نہیں ہوا.تحریک جدید کے سلسلہ میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے.ہمیں مبلغ بھی چاہئیں اور روپیہ بھی چاہیے.الغرض ایک ضرورت ہمارے سامنے ہے اور وہ ضرورت ہمیں پکار رہی ہے.جماعت کے قیام کی اصل غرض کو ہمیں تحریک جدید کے ذریعہ پورا کرنا ہے“.( مطبوعه روزنامه افضل 16 جنوری 1966ء) 8

Page 26

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 21 دسمبر 65 اسلام احمدیت کے ذریعے سے ساری دنیا پر غالب آئے گا خطاب فرمودہ 21 دسمبر 1965ء بر موقع جلسہ سالانہ وو دوستو، پیارو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته قبل اس کے کہ میں وہ مضمون شروع کروں، جو آج بیان کرنا چاہتا ہوں، میں دوستوں کو دو ضروری کتابیں خریدنے کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.ان میں سے ایک انگریزی ترجمۃ القرآن معہ تفسیر ہے، جوتحریک جدید کی طرف سے شائع ہو رہی ہے.انگریزی دان احباب کو چاہیے کہ وہ اپنے لئے اور تبلیغ کی خاطر ضرور اس کی تقسیم اور اشاعت کی کوشش کریں.دوسری کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی تحریروں کے اقتباسات پر مشتمل ہے، جسے محترم سید داؤ د احمد صاحب نے مرتب کر کے شائع کیا ہے.اس کا نام ہے، حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ و السلام اپنی تحریروں کی رو سے یہ بڑا مفید مجموعہ ہے.اگر چہ لمبا ہے لیکن اسے مختصر کیا ہی نہیں جاسکتا تھا.یہ بھی ایک ایسی کتاب ہے، جس سے پڑھے لکھے دوستوں کو ضرور فائدہ اُٹھانا چاہیے.احباب خود بھی اسے خریدیں اور پڑھیں اور اپنے بھائیوں کو بھی سنانے کی کوشش کریں.میرے نزدیک ہر جماعت میں اس کا کم وو از کم ایک نسخہ تو ضرور ہونا چاہیے اور بڑی جماعتوں کو یقینا زیادہ تعداد میں اسے خریدنا چاہیے.افریقہ کے ملک گیمبیا میں ایک نہایت مخلص افریقن احمدی کو ، جو وہاں کی جماعت احمدیہ کے پریزیڈنٹ بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملک کا قائم مقام گورنر جنرل بنایا گیا ہے.(الحمد للہ ).ان کا نام الحاج ایف ایم.سنگھائے ہے.ان کی عمر 56 سال کے قریب ہے.1962ء میں وہ احمدی ہوئے تھے.1964ء میں انہیں اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ شریف کی سعادت عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ ان کا یہ تقرر ان کے لئے ، ان کے ملک کے لئے اور اسلام اور احمدیت کے لئے مبارک کرے.آمین....اس کے علاوہ احباب یہ سن کر بھی خوش ہوں گے کہ گزشتہ مہینے میں بیرونی ممالک میں اللہ " تعالیٰ کے فضل سے 50 اشخاص احمدی ہوئے ہیں.(الحمد للہ).9

Page 27

اقتباس از خطاب فرموده 21 دسمبر 1965ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اسلام احمدیت کے ذریعے سے ساری دنیا پر غالب آئے گا اور ہر وہ طاقت ، جو اس کی راہ میں حائل ہو گی ، ذلیل و نا کام کر دی جائے گی.دنیا کے تمام اموال بھی اگر ادیان باطلہ کی پشت پر ہوں اور وہ اسلام کی مخالفت پر آمادہ ہوں تو اس کا نتیجہ انشاء اللہ مٹی کی اس چنگی سے بھی زیادہ حقیر ہو گا، جو آپ کے پاؤں کے نیچے ہے.بے شک ہم کمزور ہیں.مگر جس خدا کی طرف ہم منسوب ہیں، وہ کمزور نہیں.بے شک ہم گنہگار ہیں، ہم سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں لیکن ہم اپنے رب سے ہرگز مایوس نہیں ہیں.ہمارے کانوں میں ہمیشہ اس کی یہ میٹھی آواز آتی رہتی ہے کہ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ * یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی نا امید نہ ہو.اس لئے ہمیں یقین ہے کہ ہماری ہر حرکت ، جس جہت کی طرف بھی ہوگی، وہاں پر اسلام کا جھنڈا گاڑا جائے گا.اور وہ ہماری حقیر کوششوں میں غیر معمولی برکت پیدا کرے گا.میں تمام جماعت کو جو کہ یہاں موجود ہے اور پوری دنیا کو کامل یقین کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ آئندہ پچپیں، تمیں سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہونے والا ہے.وہ دن قریب ہیں، جب دنیا کے بہت سے ممالک کی اکثریت اسلام کو قبول کر چکی ہوگی.اور دنیا کی سب طاقتیں اور ملک بھی اس آنے والے روحانی انقلاب کو روک نہیں سکتے.جب کہ وہی زبانیں، جواب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو گالیاں دے رہی ہیں، آپ پر درود وسلام بھیج رہی ہوں گی.یہ دن یقینا آنے والے ہیں.لیکن یہ پیش خبریاں ہم پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد کرتی ہیں، جنہیں بہر حال ہمیں نے پورا کرنا ہے.ہمیں عظیم قربانیاں دینی ہوں گی.جب ہم اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیں گے تب خدا کہے گا کہ میں اپنا کچھ کیوں بچا کر رکھوں؟ میں بھی اپنی سب برکتیں تمہیں دیتا ہوں.اور جب ایسی حالت ہو جائے تو پھر خود سوچ لو کہ ہمارے لئے کیا کمی رہ جائے گی ؟ حضرت فضل عمر نے دنیا کے مختلف ممالک میں تبلیغ اسلام کے جو مرا کز قائم کئے تھے، ان میں سے نو مرکز مختلف وجوہ کی بناء پر بند ہو گئے تھے.پہلا کام، جو میں نے اور آپ نے کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ ان مراکز کو جتنی جلد اور جب بھی ممکن ہو ، پھر جاری کیا جائے.اس کے علاوہ بعض نئی جگہوں پر بھی فوری طور پرمیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے.بعض ممالک میں مساجد تعمیر کرانے کی ضرورت ہے.لیکن اس کے لئے سب سے پہلی ضرورت مبلغین اور مبشرین کی ہے.احمدی بچوں اور نوجوانوں کو اس کے لئے آگے آنا ہوگا اور والدین کو اپنے بچوں کو وقف کرنا ہو گا.جو بچے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کریں طورة وو 10

Page 28

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 21 دسمبر 1965ء گے، انہیں تیار کرنے پر تو کافی وقت صرف ہوگا.اس لئے فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایسے دوستوں کو آگے آنا چاہیے، جو اپنے دنیوی کاموں سے ریٹائر ہو چکے ہوں یا ہونے والے ہوں یا ہو سکتے ہوں.ایسے دوستوں کو مختصر عرصہ کے لئے تعلیمی نصاب کے بعد تبلیغ کے لئے باہر بھیجا جا سکتا ہے.لیکن ہمارے کاموں کی اصل بنیاد دعاؤں اور تو کل پر ہے.اس لئے دوستوں کو خصوصیت سے دعاؤں کی عادت ڈالنی چاہیے.پھر مالی قربانیوں کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے.پاکستانی احمدیوں کے لئے بھی اور بیرونی ممالک کے احمدیوں کے لئے بھی.جو مالی وعدے آپ کر چکے ہیں، انہیں بھی آپ پورا کریں اور کوشش کریں کہ کوئی بقایا آپ کے ذمہ نہ رہے.اگر آپ اس میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری کوششوں میں بہت اضافہ ہو جائے گا اور ہم پر اللہ تعالیٰ کے مزید افضال نازل ہوں گے.بہر حال جو کام ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شروع کئے تھے ، انہیں کامیابی کے ساتھ اختتام تک پہنچانا، میرا فرض ہے.اور میں آپ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ اس بارہ میں آپ میرے ساتھ تعاون کریں گئے.( مطبوعہ روز نامہ الفضل 24 فروری 1966ء)

Page 29

Page 30

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 07 جنوری 1966ء جماعت کے تمام اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی جد و جہد کو منظم کریں 22 خطبہ جمعہ فرمودہ 07 جنوری 1966ء عزیز وا یہ سال نو کا پہلا جمعہ ہے، جس میں، میں آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں.میری طرف سے سال نو کی مبارک باد قبول کریں.آپ بھی جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں اور وہ تمام احمدی احباب بھی جو ا کناف عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اور قریہ قریہ میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں.میری یہ مبارک با درسمی طور پر نہیں.یہ تکلیف دہ خیال میرے دل کی گہرائیوں میں یکم جنوری سے ہی موجزن ہورہا ہے کہ گذشتہ سال جو گذرا ہے، وہ ہم پر بڑا ہی سخت سال تھا.اس نے ہمارے دلوں کو بری طرح زخمی کیا تھا.لیکن اللہ تعالٰی نے محض اپنے فضل سے ہمارے زخمی دلوں پر تسکین کا پھا یا رکھا اور اس نے ہمیں محض اپنے فضل سے اس صبر کی توفیق عطا فرمائی، جس سے وہ راضی اور خوش ہو جایا کرتا ہے.اس لئے میری مبارک با درسمی طور پر نہیں بلکہ میں یہ مبارک بادا اپنے دل کی گہرائیوں سے پیش کرتا ہوں اور پھر برکت کے ہر معنی کے لحاظ سے پیش کرتا ہوں.جب ہم کسی دن کسی زمانہ یا کسی سال کو مبارک کہتے ہیں تو اس سے ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ان تمام معانی میں ، جن میں یہ لفظ اچھے طور پر بولا اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے ، وہ دن اور وہ زمانہ اور وہ سال ہم سب کے لیے برکتوں والا ہو.برکت کے ایک معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی کے، جو سامان اس کے بندوں کے لئے پیدا ہوئے ہیں، ان کو دوام اور قیام حاصل ہو جائے.پس میری مبارک ہو“ کی دعائوں ہوئی کہ خدا تعالیٰ کرے کہ وہ تمام برکتیں (خیر اور بھلائی کی چیزیں) نعمتیں اور رحمتیں، جو اس نے جماعت احمدیہ کے لئے مقدر کر رکھی ہیں.اس سال نو میں ہم ان کے نظارے ہر آن دیکھتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ایک مصلح موعود کی بشارت عطا فرمائی تھی تو اس نے اس پیشگوئی کے اندر جماعت احمدیہ کو بھی بہت سی بشارتیں دی تھیں.سو اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں جماعت احمدیہ سے جو وعدے کئے تھے، ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ، یہ دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سال کو ان معنوں میں بھی بابرکت کرے کہ وہ آپ کے نفوس اور اموال میں برکت ڈالے اور 13

Page 31

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 جنوری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم آپ سے ہر آن خوش رہے.وہ آپ کو بھولے نہیں، وہ آپ کو فراموش نہ کرے.بلکہ اس کی یاد میں آپ ہمیشہ حاضر ر ہیں اور جس طرح ایک دوست دوسرے دوست کو محبت کے ساتھ یاد کرتا ہے.اسی طرح ہمارا آقا اور ہمارا مالک محض اپنے فضل سے ہمارے ساتھ دوستانہ معاملات کرتا چلا جائے.برکت کے دوسرے معنوں کی رو سے ہم اس دعا میں یہ زیادتی بھی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ان عنایات میں زیادتی کرتا چلا جائے.کیونکہ برکت کے ایک معنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غیر محسوس طور پر زیادتی کے بھی ہیں.برکت کے تیسرے معنوں کے رو سے یہ دعا یوں بھی ہوگی کہ خدا کرے کہ آپ اور میں ان نیکیوں پر ثابت قدم رہیں، جو خدا تعالیٰ کو محبوب اور پیاری ہیں.اور روحانی جہاد کے اس میدان میں ، جس کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے آج ہمارے لئے کھولا ہے اور جس میدان میں اس نے ہمیں لاکھڑا کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بیعت کرنے اور آپ کی اطاعت کا دعویٰ کرنے کے بعد ہم پیٹھ نہ دکھا ئیں اور ہمیشہ ثابت قدمی کے ساتھ شیطان کا مقابلہ کرتے چلے جائیں.پس یہ سال نو مبارک ہو، آپ کے لئے بھی اور میرے لئے بھی.ان معنوں میں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعمال صالحہ کے بجالانے کی توفیق دیتا چلا جائے کہ جن کے نتیجہ میں ( اگر اور جب وہ انہیں قبول کر لیتا ہے تو اس کی نعمتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں.یہ اعمال صالحہ ( یا خدا تعالیٰ کو محبوب اور مرغوب اعمال ) دو قسم کے ہیں.ایک اعمال صالحہ تو وہ ہیں، جو ہم انفرادی طور پر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بجالاتے ہیں.ہم نمازوں کو ادا کرتے ہیں، ہم رات کی تنہائی اور خاموشی میں اپنے رب کے حضور عجز اور انکسار کے ساتھ جھکتے ہیں اور اس سے اپنے مطالب کے حصول کے لئے دعائیں مانگتے ہیں.اسی طرح سینکڑوں اور اعمال ہیں، جن کا ہماری ذات کے ساتھ تعلق ہے.ہم تقویٰ کی باریک راہوں کی تلاش میں بعض کام کرتے ہیں یا بعض کو چھوڑ دیتے ہیں.ایسے اعمال صالحہ ایک فرد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.لیکن کچھ اعمال صالحہ اجتماعی حیثیت کے ہوتے ہیں.یعنی تمام جماعت کو کچھ کوششیں ایسی کرنی پڑتی ہیں کہ جن کے بغیر انہی جماعتیں اور الہی سلسلے اپنے مطالب اور مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتے.یہ ساری جد و جہد بنیادی طور پر شیطان، اس کے وسوسوں اور اس کے پھیلائے ہوئے باطل عقائد کے خلاف ہوتی ہے.لیکن اس دنیا میں وہ مختلف شکلیں اختیار کرتی اور مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتی ہے.اس وقت شیطان دجل کی شکل میں حق کے خلاف نبرد آزما ہے.اور جماعت احمد یہ جو روحانی جنگ لڑ رہی ہے ، وہ شیطان کے 14

Page 32

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 جنوری 1966 ء مقابلہ میں ہی لڑی جارہی ہے.اس جنگ کو الہی نوشتوں میں حق و باطل کی آخری جنگ قرار دیا گیا ہے اور اس میں فتح حاصل کر لینے کے بعد اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا.اور اللہ تعالیٰ کی توحید تمام بنی نوع انسان میں پھیل جائے گی.اور دنیا کے تمام ملک اور اقوام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہو جائیں گی.غرض یہ میدان ہے، جس میں ہماری جدو جہد جاری ہے.لیکن ہمارے وسائل اور اسباب بہت محدود ہیں.اور ہمارے مقابلہ میں دنیا کے اسباب اور طاغوتی طاقتیں بہت زیادہ اور دنیوی نقطہ نگاہ سے بہت بھاری ہیں.ہاں اللہ تعالیٰ نے ہماری حقیر کوششوں میں جہاں اپنے فضل سے پہلے ہی برکت رکھ دی ہے، وہاں اس نے ہمیں یہ گر بھی سکھایا ہے کہ اگر کسی طاقت کو جو کمزور ہے، صحیح طور پر کام میں لایا جائے ، پھر کوشش میں ایک تنظیم ہو اور جدوجہد منظم رنگ رکھتی ہے اور کسی منصوبہ بندی اور پلین (Plan) کے مطابق ہو رہی ہو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتائج ان اعمال کے مقابلہ میں بہت اچھے نکلتے ہیں، جو غیر منظم طور پر اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے کئے جاتے ہیں.میرے ایک پیارے عزیز نے میری توجہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے 1952ء کے پہلے خطبہ جمعہ کی طرف مبذول کرائی ہے.جس میں حضور نے جماعت اور جماعتی اداروں کو ایک منظم جد و جہد اور منصوبہ بندی کی طرف متوجہ فرمایا ہے.حقیقت یہی ہے کہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر اور اپنی کوششوں کو منظم کرنے کے بغیر ہم اپنی کامیابیوں کی رفتار کو تیز سے تیز تر نہیں کر سکتے.اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے کاموں کو اس طرح منظم کرنے کی کوشش کریں کہ جماعت کی طاقت کا ایک ذرہ بھی ضائع نہ ہو.بلکہ ہمارے سامنے ایک وقتی مقصد اور او بجیکٹ (object) ہو، جسے ہم معین وقت میں حاصل کرنے کی کوشش کریں.لمبے وقت کے لئے تو یہ صحیح ہے کہ ہمارا مقصد حیات اور سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض ہی یہ ہے کہ طاغوتی اور شیطانی طاقتوں پر غلبہ حاصل کیا جائے.اس غرض کے لئے ایک لمبے عرصہ تک جدوجہد کی ضرورت ہے.ہو سکتا ہے کہ اس میں 80 سال لگ جائیں 100 سال لگ جائیں ، 150 سال لگ جائیں، دو سو سال لگ جائیں یا خدا جانے کتنا عرصہ لگ جائے؟ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی عقل و دماغ اور تصور اس لمبے زمانہ کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے بعض چھوٹے چھوٹے منصوبے بنا لیتے ہیں.یعنی وہ تجویز کر لیتے ہیں کہ مثلاً اس سال میں ہم اپنے مقصد کا اتنا حصہ ضرور حاصل کر لیں گے.اور پھر اس کے حصول کے لئے وہ اپنی پوری کوشش صرف کر دیتے ہیں.اور پھر اس سال جس حد تک وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی حاصل کر لیں، اگلے سال وہ زیادہ تیزی کے ساتھ آگے قدم 15

Page 33

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 جنوری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بڑھانے کے قابل ہو جاتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے، حضرت مصلح موعودؓ نے 1952ء میں بھی اور اس کے علاوہ اور مواقع پر بھی جماعت کو بار بار نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اپنے کاموں میں تنظیم پیدا کرے، انہیں منظم شکل دے اور انہیں کسی منصوبہ بندی اور پلینگ (planning) کے مطابق کرے.ورنہ ہماری رفتار ترقی کبھی تیز نہیں ہو سکتی.سوحضور کی اس تاکیدی نصیحت کے ساتھ آج میں اپنے بھائیوں کو سال نو کی مبارک باد دیتا ہوں.اور ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ برکت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل ہم پر پہلے سے زیادہ نازل ہوں اور اس میدان مجاہدہ میں اور میدان جہاد میں جس میں ہم قدم رکھ چکے ہیں، ہمارے قدم آگے ہی بڑھتے چلے جائیں، وہ پیچھے کی طرف کبھی نہ اٹھیں.اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری کوششوں میں تنظیم پائی جائے اور ہم ایک منصوبہ بندی اور پلین (plan) کے ماتحت اپنی جد و جہد کو جاری رکھنے والے ہوں.اس اصول کے مطابق میں جماعت کے تمام اداروں سے یہ کہتا ہوں کہ آئندہ چند ہفتوں کے اندر اندر وہ سال نو میں کام کرنے کا ایک منصوبہ تیار کریں اور اسے میرے سامنے رکھیں.جسے میں سال کے دوران حسب ضرورت جماعت کے دوستوں کے سامنے پیش کرتا رہوں گا اور اسے پورا کرنے کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتا رہوں گا.لیکن چونکہ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور حضور کے وصال سے پہلے ایک لمبا عرصہ جماعت پر ایسا بھی گزرا ہے، جس میں حضور اپنی بیماری کی وجہ سے ان تفاصیل میں جماعت کی پوری نگرانی نہیں کر سکے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ میں مختلف اداروں کو ان کے بعض کاموں کی طرف مختصراً توجہ دلا دوں.تفاصیل وہ اپنے طور پر طے کر لیں.تحریک جدید کو میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دس پندرہ روز سے یا یوں سمجھ لو کہ جلسہ سالانہ کے آخری دن سے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے اور میں نے اس پر کافی غور کیا ہے اور معلومات بھی حاصل کی ہیں اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس وقت افریقہ میں دو ملک ایسے پائے جاتے ہیں کہ جن کے رہنے والے لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اسلام اور احمدیت کی قبولیت کے لئے ایک جذبہ اور تڑپ پیدا کر دی ہے.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی روحانی پیاس کو بجھانے کے لئے ان میں زیادہ سے زیادہ مبلغ، ڈاکٹر اور استاد بھجوائیں اور اپنی کتب اور رسالے ان تک پہنچا ئیں.مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی جلدی ان ملکوں میں اسلام اور احمدیت مضبوطی سے قائم ہو جائیں 16

Page 34

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 07 جنوری 1966 ء گے.انشاء اللہ.میں نے ایک دوست کو بلا کر تحریک جدید کو پہلے بھی پیغام بھجوایا ہے اور اب جماعت کے احباب کو آگاہ کرنے کے لئے خطبہ میں بھی بتا رہا ہوں کہ افریقہ میں علاوہ اور سکیموں اور منصوبوں کے کہ جو وہاں اس وقت نافذ کئے جانے ضروری ہیں، ہمیں ان دونوں ملکوں کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے.اور خدا تعالیٰ نے چاہا تو ہم بہت جلدی وہاں اچھے نتائج نکلنے کی امید کرتے ہیں.پس جہاں تحریک جدید سال نو کے لئے ایک منصوبہ تیار کرے گی ، وہاں میں جماعت کو بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ کاغذی منصوبہ بندی کوئی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کیا کرتی.اگر ہم نے غور کرنے کے بعد یہ سمجھا کہ ان دو ملکوں میں ہیں یا تمیں مبلغ ، ڈاکٹر اور استاد بھجوانے ضروری ہیں تو آپ کا فرض ہوگا کہ ہمیں اتنی تعداد میں مناسب آدمی مہیا کریں.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر وقف کی ایک عام تحریک کی تھی اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ دوست مختلف رنگوں میں بڑی کثرت سے زندگیاں وقف کر رہے ہیں اور بعض دوستوں نے مجھے اس سلسلہ میں بڑے ضروری اور مفید مشورے بھی دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے.بہر حال ہمیں عنقریب کام کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد کی ضرورت پڑنے والی ہے.اور جماعت کے مستعد، مخلص اور خوش قسمت نو جوانوں کو اپنی اپنی جگہ اس پیش کش کے لئے تیار رہنا چاہیے.تاجب ہم ضرورت پڑنے پر آواز دیں تو یہ نہ ہو کہ دنیا کی نگاہ میں بھی اور اپنے دلوں میں بھی ہم ایک مضحکہ خیز حرکت کرنے والے ثابت ہوں.اور دنیا یہ خیال کر کے کہ ہم کاغذی منصوبے بنارہے ہیں اور قوم وہ قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں ، جو ان منصوبہ بندیوں کے نتیجہ میں اسے دینی ضروری ہیں.غرض اس وقت بہت جلد افریقہ میں اسلام کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ آئندہ زمانہ میں اس نے بین الاقوامی سیاست میں بھی ایک اہم کردار ادا کرنا ہے.اس وقت مسلم ممالک میں یا اسلام کی طرف منسوب ہونے والی مختلف حکومتوں میں بسنے والے لوگوں پر اکثر جگہ جو مظالم ہور ہے ہیں، ان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں اسلام کی آواز میں اتنی طاقت نہیں رہی ، جو مسلمانوں کو ان مظالم سے بچانے اور انصاف کے حصول کے لئے ضروری ہے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم کرے، ان کی آنکھیں کھولے اور ان کی ان راستوں کی طرف رہنمائی کرے، جن پر چلے بغیر وہ اپنے مستقبل کو روشن نہیں کر سکتے.کیونکہ محض اسلام کا لیبل لگا لینا ہی کافی نہیں.بلکہ ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس آواز پر ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام مسلمانوں کو بالخصوص اور تمام بنی نوع انسان کو بالعموم مخاطب کر کے بلند کی تھی، لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ میں داخل ہو جائیں.اور وہ قربانیاں پیش کریں جو خدا تعالیٰ ان سے اس وقت لینا چاہتا ہے“.66 17

Page 35

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 جنوری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم : اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے احمدی بچوں کے دماغوں میں جلاء پیدا کی ہے اور جب مختلف تعلیمی یونیورسٹیوں کے نتائج نکلتے ہیں تو احمدی نوجوان اپنی نسبت کے مقابل بہت زیادہ تعداد میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے ہمیں نظر آتے ہیں.یہ محض اللہ تعالی کا فضل اور اس کی دین ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، جس میں ہماری کوششوں کا کوئی دخل نہیں.اگر ہم اپنی غفلت کے نتیجہ میں اچھے دماغوں کو ضائع کر دیں تو اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہوگا.پس جو طلباء ہونہار اور ذہین ہیں، ان کو بچپن سے ہی اپنی نگرانی میں لے لینا اور انہیں کا میاب انجام تک پہنچانا ، جماعت کا فرض ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض نہایت ذہین بچے تربیت کے نقص کی وجہ سے سکول کے پرائمری اور مڈل کے حصوں میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں.ان میں آوارگی اور بعض دیگر بری عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں.جن کی وجہ سے نہ صرف وہ خود بلکہ جماعت بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ کے فضلوں اور نعمتوں کا وہ پھل نہیں کھا سکتی، جو اچھے دماغ پیدا کر کے خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کیا ہے.کیونکہ ہم ان دماغوں کو بوجہ عدم توجہ سنبھالتے نہیں بلکہ ضائع کر دیتے ہیں اور اس طرح بعد میں نقصان اٹھاتے ہیں.اسی طرح بعض اچھے دماغ محض اس وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں کہ وہ غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں ہوتی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں.اور جماعت بھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتی.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ناشکری کرتے ہوئے ان قابل ذہنوں کو ضائع کر دیتے ہیں.پس ہر اچھا دماغ رکھنے والے طالب علم کو جو جائزہ لینے کے بعد اس قابل معلوم ہو کہ اگر اسے اعلی تعلیم دلائی جائے تو اسلام اور احمدیت کا نام روشن کرنے والا ثابت ہو سکتا ہے، سنبھالنا جماعت کا فرض ہے.جماعت کو اس پر نہ صرف روپیہ خرچ کرنا چاہیے بلکہ اس کے لئے دعائیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے راہ راست پر قائم رکھے اور اس کے دماغ میں پہلے سے بھی زیادہ جلاء پیدا کرتا چلا جائے.اور اسے الہام کے ذریعہ نئے نئے مسائل کے حل کرنے کی توفیق عطا فرما تا چلا جائے.پھر بعض اچھے دماغ اس وجہ سے بھی ضائع ہو جاتے ہیں کہ جب وہ اپنی تعلیم ختم کر لیتے ہیں تو انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اپنی آئندہ زندگی میں کس راستہ کو اختیار کریں؟ اس لئے جماعت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے نو جوانوں کی ان کی آئندہ زندگی کے پروگرام بنانے میں مدد کرے.بہت اچھے دماغ ، اچھے دماغ ، درمیانے دماغ اور نسبتا کمزور دماغ سارے ہی اس بات کے حق دار ہیں کہ جماعت ان کی راہنمائی کرے.اور جہاں جہاں وہ زندگی کے کاموں میں لگ سکتے ہیں، وہاں انہیں لگوانے میں مدد کرے.کیونکہ ہر وہ نوجوان جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ کوئی کام کرے، اگر وہ بر وقت کام پر نہیں لگتا اور جماعت بھی اسے کسی کام پر 18

Page 36

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 07 جنوری 1966ء لگوانے میں مدد نہیں دیتی تو گویا ہم اسے خود پکڑ کر شیطان کی گود میں لا بٹھاتے ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ بریکاررہنے والے لوگوں پر شیطان حملہ کرتا ہے اور انہیں اپنا آلہ کار بنالیتا ہے.پھر ایسا نوجوان جو تعلیم حاصل کر لینے کے بعد کام پر نہیں لگتا اور بیکار رہتا ہے.نہ صرف اپنے خاندان کے لئے ایک مصیبت بن جاتا ہے بلکہ اس کی بیکاری سے جماعت بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکتی.کیونکہ جونو جوان تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جلد ہی کام پر لگ جاتا ہے، وہ کمائی کرنا شروع کر دیتا ہے.اور اپنی اس کمائی میں سے غلبہ اسلام کی جدوجہد میں کنٹری بیوٹ (contribute) کر رہا ہوتا ہے.پھر جب وہ کام پر لگتا ہے تو اس کا ایک ماحول بنتا ہے.اس کے اس ماحول میں اس کا کردار اور اس کے اخلاق اثر انداز ہور ہے ہوتے ہیں.اور اس طرح وہ خاموشی کے ساتھ اپنا نمونہ دکھا کر یا گفتگو کے ذریعہ احمدیت کا اثر اور نفوذ بڑھانے والا ہوتا ہے.غرض وہ بچے، جو تعلیم سے فارغ ہو کر کام پر نہیں لگتے اور بریکار پھرتے رہتے ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ جماعتی کاموں میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتے بلکہ یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ ان کے دماغ میں آوارگی آ جائے اور وہ شیطان کا آلہ کار بن جائیں“.آخر میں ، میں پھر آپ سب دوستوں کو جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتے ہیں، انہیں بھی جو یہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں اور انہیں بھی جو دنیا کے مختلف ممالک میں رہتے ہیں، اپنے دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں.اس معنی میں بھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ پر اپنا فضل نازل کرتار ہے اور اس سال، جواب شروع ہوا ہے، خدا تعالیٰ کے فضل، اس کی رحمتیں اور برکتیں پچھلے سالوں سے زیادہ آپ پر نازل ہوں.اور اس معنی میں بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو روحانی میدان جنگ میں ثبات قدم عطا فرمائے اور آپ طاغوتی طاقتوں کو دنیا کے کناروں تک دھکیلتے ہوئے، جہنم میں جلد تر پھینکنے والے بن جائیں.اور پھر میں آپ کو اس معنی میں بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکتیں زیادہ سے زیادہ نازل کرے اور آپ کو اور مجھے اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ جو وسائل اور اسباب اس نے ہمیں دیئے ہیں، ہم ان کا استعمال بہترین طور پر اور کسی منصوبہ بندی کے ماتحت اور منظم طریقہ سے کریں.آمین.وما توفيقنا الا بالله مطبوعه روزنامه افضل 15 جنوری 1966ء) 19

Page 37

Page 38

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء خدا خود میشود ناصر اگر ہمت شود پیدا خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.وکالت مال تحریک جدید نے مجھے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سال رواں کے وعدوں کی رفتار تسلی بخش نہیں.اور ان کا تاثر یہ ہے کہ پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سال کے شروع ہی میں اپنے دو، ایک خطبوں میں جماعت کے افراد کو اس طرف توجہ دلا دیتے تھے.آپ تحریک جدید کی اہمیت اور اس کی برکات کی وضاحت فرما دیتے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی وجہ سے انسان کو جو دینی اور دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں، وہ دوستوں کے سامنے رکھ دیتے.اس طرح جماعت کے دوست بڑی جلدی اپنے وعدے لکھوا دیتے اور دفاتر کی پریشانی دور ہو جاتی تھی.لیکن اپنی بیماری کے آخری سالوں میں چونکہ حضور اس طرف اپنے خطبات میں جماعت کو توجہ نہیں دلا سکے، اس لئے جماعت میں آہستہ آہستہ یہ ستی پیدا ہوگئی ہے کہ اگر چہ احباب اب بھی پہلے کی نسبت اضافے کے ساتھ وعدے لکھواتے ہیں اور رقوم، جو وصول ہوتی ہیں ، وہ بھی زیادہ ہوتی ہیں لیکن وہ اس طرف فوری طور پر توجہ نہیں کرتے.اس لئے مرکز کو کئی ماہ تک پریشانی میں رہنا پڑتا ہے.انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ گزشتہ سال گو پہلے کی نسبت وعدوں میں زیادتی ہوئی ہے لیکن جون کے آخر تک وعدے آتے رہے.حالانکہ وعدوں کی آخری تاریخ اس سے کہیں پہلے ختم ہو چکی تھی.اس سال بھی وعدوں کی وصولی کی تاریخ 28 فروری ہے.لیکن بہت سے افراد اور بہت سی جماعتیں ایسی ہیں ، جن کی طرف سے ابھی وعدے وصول نہیں ہوئے.موٹی موٹی جماعتیں، جن کی طرف سے وعدے وصول ہونے میں اس سال تاخیر ہوئی ہے اور غالبا یہ نام بطور مثال کے ہیں.یہ ہیں، ان میں پہلی جماعت ربوہ ہے.گزشتہ سال یعنی تحریک جدید دفتر اول کے اکتیسویں اور دفتر دوم کے اکیسویں سال میں جماعت ربوہ کے وعدے اکسٹھ ہزار روپے کے تھے اور سال رواں میں یعنی تحریک جدید دفتر اول کے بتیسویں سال اور دفتر اول کے بائیسویں سال کے وعدے صرف 40 ہزار کے وصول ہوئے ہیں.گویا ان میں ابھی اکیس ہزار کی کمی ہے.اسی طرح سیالکوٹ ضلع کی 21

Page 39

خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم جماعتوں کے وعدوں میں دس ہزار کی کمی ہے.سرگودھا کی جماعتوں کے وعدوں میں پانچ ہزار کی کمی ہے.لائل پور ضلع کی جماعتوں کے وعدوں میں چھ ہزار کی کمی ہے.گجرات ضلع کی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک چھ ہزار کے وعدے کم وصول ہوئے ہیں.ملتان ضلع کی جماعتوں کے وعدوں میں ابھی پانچ ہزار کی کمی ہے اور حیدر آباد ڈویژن کی جماعتوں کے وعدے بھی ابھی ساڑھے پانچ ہزار کم وصول ہوئے ہیں.اس میں شک نہیں کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت وعدے بھی زیادہ ہوں گے اور وصولی بھی زیادہ ہوگی.لیکن جو دوست وعدے لکھوانے میں ستی سے کام لیتے ہیں، وہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں.اور وہ اس طرح کہ اسلام نے ہمیں بتایا ہے، اللہ تعالٰی مومن کی نیت پر بھی ثواب دیتا ہے لیکن اس نے ہمیں کہیں نہیں بتایا کہ انسان کی خالی خواہشات پر ثواب ملتا ہے.اور جہاں تک تحریک جدید کے وعدوں اور ان کی وصولی کا سوال ہے، نیت اس وقت سے شروع ہوتی ہے، جب کوئی شخص اپنا وعدہ لکھوا دیتا ہے اور پھر دل میں پختہ عہد کر لیتا ہے کہ وہ موعودہ رقم تحریک جدید میں دے گا.لیکن جو دوست وعدہ لکھوانے میں پندرہ دن ، ایک ماہ یا دو ماہ ستی سے کام لیتے ہیں، وہ اس عرصہ میں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضل کے ایک حصہ سے محروم کر رہے ہوتے ہیں.خدا تعالی کا جو فضل وہ پندرہ دن، ایک ماہ یا دو ماہ بعد میں لینا شروع کرتے ہیں، اس فضل کے وارث وہ پندرہ دن، ایک ماہ یا دو پہلے کیوں نہیں بنتے.پس اگر وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے تو وہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں.پھر اپنا دوسرا نقصان وہ یہ کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.اسے کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ اس نے کب اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے؟ زندگی اور موت کا مسئلہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.بعض اوقات ایک انسان چنگا بھلا ہوتا ہے، وہ ہنستا کھیلتا ہوتا ہے لیکن ایک سیکنڈ کے بعد وفات پا جاتا ہے.اگر آپ تحریک جدید کے وعدے لکھوانے میں بستی سے کام لیتے ہیں تو کتنا خطرہ مول لے رہے ہیں.آپ کو کیا معلوم کہ اس عرصہ میں آپ نے زندہ رہنا ہے یا وفات پا جاتا ہے؟ اگر آپ اس عرصہ میں وفات پا گئے تو اخروی زندگی میں جو تو اب اس چندہ کے دینے کی نیت سے حاصل ہو سکتا ہے، اس سے محروم ہو گئے.تیسرا نقصان جو وعدے جلد نہ لکھوانے کی وجہ سے آپ کو پہنچتا ہے.یہ ہے کہ اگر اس سال مثلاً وعدے لکھوانے کی تاریخ 28 فروری ہو اور اس تاریخ تک جیسا کے دفتر کا معمول ہے، دفتر والے خطوط کے ذریعہ پھر رسالوں یا اخباروں میں مضامین لکھ کر یا گشتی چھٹیوں کے ذریعہ آپ کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں.لیکن اس کے باوجود جو دوست اس تاریخ تک اپنے وعدے نہیں لکھواتے.انھیں یاد دہانی کرانے پر 22

Page 40

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء دفتر جوز ائد اخراجات برداشت کرے گا، وہ بہر حال ناواجب ہوں گے.اور ایسے اخراجات کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوگی، جنہوں نے مقررہ تاریخ تک اپنے وعدے نہیں لکھوائے.فرض کرو یہ زائد خرچ کل وعدوں کا دو فیصدی ہے تو اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ سوروپے کے ثواب کی بجائے وعدہ دیر سے لکھوانے والے کو دو کم سو کا ثواب نہ دے.کیونکہ دو روپے کا زائد خرچ محض اس کی ستی کی وجہ سے مرکز نے برداشت کیا ہے.شاید اللہ تعالیٰ یہ کہے کہ تمہاری وجہ سے سلسلہ کو دوروپے کا نقصان ہوا ہے، اس لیے ہم تمہارے ثواب سے اسی قدر کم کر دیتے ہیں.غرض دفتر کو جوز ا ئد اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں، وہ محض آپ کی سستی کی وجہ سے برداشت کرنے پڑتے ہیں.اگر آپ وقت مقررہ پر وعدے لکھواد میں اور پھر جلد رقم ادا کر دیں تو دفتران زائد اخراجات سے بچ جاتا ہے.- چوتھا نقصان آپ کو اور سلسلہ کو یہ اٹھانا پڑتا ہے کہ اگر آپ وعدہ لکھوانے میں سست ہیں تو چاہیے بعد میں آپ اپنا وعدہ لکھوا بھی دیں اور اس میں زیادتی بھی کر دیں ، تب بھی ان مزید اخراجات کی وجہ سے جو دفتر برداشت کرے گا، بہت سے ضروری کاموں میں زائد اور نا واجب اخراجات کسی حد تک ہوں، کمی کرنی پڑتی ہے.کیونکہ آپ نے کل رقم میں سے، جس سے یہ کام کیے جانے تھے، کچھ روپیہ زبردستی نکال لیا اور ڈاک اور یاد دہانی کے دوسرے ذرائع پر ضائع کر دیا.اس نقصان کے آپ ذمہ دار ہیں.اور آپ سے مراد میری ان لوگوں سے ہے، جو وعدہ بھی لکھواتے ہیں اور رقوم بھی ادا کرتے ہیں اور بڑی بشاشت کے ساتھ ادا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں اس کا ثواب عطا فرمائے.) لیکن اپنی سستی کی وجہ سے وہ نقصان اٹھا لیتے ہیں.اور میرا فرض ہے کہ میں اس قسم کے لوگوں کو ان کی سستیوں کی طرف توجہ دلاؤں تا ثواب کے سلسلہ میں انہیں ایک دھیلے کا گھانا بھی نہ اٹھانا پڑے.پانچواں نقصان جو جماعت اور سلسلہ کو محض آپ کی سنتی کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے، وہ یہ ہے کہ وکالت مال کو مثلاً 28 فروری تک وعدے لکھوانے کے لیے کوشش اور جدو جہد کرنی پڑے گی اور جماعتوں کو اس طرف توجہ دلانی پڑے گی.اب اگر 28 فروری تک اس کی تگ و دو اور کوشش کے نتیجہ میں سارے دوست اپنے اپنے وعدے لکھوا دیں تو اس تاریخ کے بعد وکالت مال دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہو سکے گی اور اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی.لیکن اگر آپ مقررہ میعاد کے اندر اپنے وعدے نہیں لکھوائیں گے تو آپ کی سستی کے نتیجہ میں کام کرنے والوں کو پریشانی ہوگی.اور آپ میں سے کوئی بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کی وجہ سے ان واقفین زندگی کو جو مرکز میں بیٹھ کر خدمت دین بجا لا رہے ہیں، کسی 23

Page 41

خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم قسم کی پریشانی اٹھانا پڑے.اور میں نے آپ کو بتایا ہے کہ آپ لوگوں کی سستی کی وجہ سے مرکز میں کام کرنے والوں کو بہر حال پریشانی اٹھانا پڑتی ہے.آپ انہیں اس پریشانی سے بچالیں اور اپنے وعدے مقررہ تاریخ کے اندر لکھوا دیں.پھر جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ان وعدوں سے دفتر کو جلد اطلاع دیں.میرے خیال میں وعدوں کے لکھوانے میں کچھ ستی تو افراد کرتے ہیں لیکن کسی حد تک اس کی ذمہ داری جماعتوں پر بھی ہے.ممکن ہے بعض ایسی جماعتیں ہوں، جہاں افراد نے وعدے تو لکھوا دیئے ہوں لیکن جماعت کے عہد یداروں نے وہ وعدے دفتر کو نہ بھجوائے ہوں.اگر کوئی ایسی جماعت ہے، جس کے افراد نے وعدے لکھوادیئے ہوں لیکن وہ وعدے دفتر کو نہیں بھجوائے گئے تو ایسی جماعت کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے دفتر کو بھجوا دے.مجھے دفتر وکالت مال کی طرف سے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ میں وعدوں کی وصولی کی تاریخ 28 فروری کی بجائے 25 مارچ کر دوں.لیکن میں اپنے بھائیوں پر بدظنی نہیں کرنا چاہتا، اس لئے میں وعدوں کی وصولی کی تاریخ ایک ہفتہ سے زیادہ نہیں بڑھانا چاہتا.جہاں تک ربوہ کا سوال ہے.دوست اگر اس طرف توجہ کریں تو وہ مقررہ میعاد کے اندراندر اپنے وعدے لکھوا سکتے ہیں.اس لئے جہاں تک ربوہ کا سوال ہے، میں وعدوں کی وصولی کی تاریخ 28 فروری سے ایک دن بھی نہیں بڑھاتا.وہ بہر حال اپنے وعدے 28 فروری سے پہلے پہلے لکھوا دیں.لیکن جہاں تک باہر کی جماعتوں کا سوال ہے، ان تک میری آواز پہنچنے میں دیر لگے گی ، اس لئے میں انہیں ایک ہفتہ اور دیتا ہوں.اس عرصہ میں تمام جماعتیں اپنے وعدے مرکز میں ضرور پہنچادیں.ورنہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ثواب کے ایک حصہ سے وہ محروم نہ ہو جائیں.دوسری بات جس کی طرف میں اس خطبہ میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں ، یہ ہے کہ ایک موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے خدام کو تحریک جدید کے سلسلہ میں ایک نصیحت فرمائی تھی.اور ارشاد فرمایا تھا کہ میں نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا بار اس لئے اٹھایا ہے، ایک زمانہ میں حضور صدر مجلس خدام الاحمدیہ کے فرائض خود انجام دیتے رہے ہیں.) تا جماعت کے نوجوانوں کو دین کی طرف توجہ دلاؤں.سو میں سب سے پہلے ان کے سپرد یہ کام کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کا ثبوت دیں گے اور آگے سے بڑھ چڑھ کر ی.24

Page 42

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء حصہ لیں گے اور کوئی نوجوان ایسا نہیں رہے گا، جو دفتر دوم میں شامل نہ ہو.اور کوشش کریں کہ ساری کی ساری رقم وصول ہو جائے“.اسی طرح فرمایا:.امید کرتا ہوں کہ دوست اپنے بقائے بھی ادا کریں گے اور پہلے سے زیادہ وعدے بھی لکھوائیں گے.اور خدام الاحمدیہ کوشش کریں کہ کوئی نوجوان ایسا نہ رہے، جس نے تحریک جدید دفتر دوم میں حصہ نہ لیا ہو اور پھر کوئی رقم ایسی نہ رہے، جو وصول نہ ہو“.(روزنامه الفضل 02 دسمبر 1949ء) میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان، جو اپنے آپ کو خدام الاحمدیہ کہتے ہیں، حضرت مصلح موعودؓ کے اس ارشاد پر کان دھریں گے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں گے کہ حضور نے جو ا میدان سے وابستہ کی تھی ، وہ اسے پورا کرنے والے ہیں.اس سلسلہ میں مجھے دو ہفتہ کے بعد ر پورٹ آجانی چاہیے.میں انہیں رپورٹ تیار کرنے کے لئے ایک ہفتہ کی مہلت مزید دیتا ہوں لیکن کام کے لئے زیادہ وقت نہیں دے سکتا.تیسری بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو اموال خرچ کئے جاتے ہیں، ان پر خرچ کا لفظ بولنا حقیقت درست اور صحیح نہیں.خرج وہ رقم ہوتی ہے، جو آپ کے ہاتھ سے نکل جائے اور ختم ہو جائے.لیکن جو اموال اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیئے جاتے ہیں، وہ نہ تو کسی کے ہاتھ سے نکلتے ہیں اور نہ ختم ہوتے ہیں.بلکہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ بڑھتے چلے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک فارسی شعر میں اس مسئلہ کی طرف نہایت لطیف پیرایہ میں متوجہ کیا ہے.آپ فرماتے ہیں.ز بذل مال در راہش کے مفلس نے گردو خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا یعنی اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو مفلس نہیں رہنے دیتا ، وہ اسے بھوکا نہیں مارتا.اگر وہ اپنے مال کا ایک بڑا حصہ بھی اس کی راہ میں دے دیتا ہے بلکہ اگر وہ سارے کا سارا مال بھی اس کی راہ میں دے دیتا ہے، تب بھی وہ اسے بھوکا نہیں رہنے دیتا.کئی مواقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کھانے پینے کے تمام سامان لے لئے.جنگوں کے سلسلہ میں بعض دفعہ آپ ہر شخص سے جو کچھ کھانے پینے کے لئے اس کے پاس ہو تا لے لیتے.ان مواقع میں سے کسی موقع پر بھی ہمارے کسی 25

Page 43

خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم مسلمان بھائی نے ایسا کرنے میں ایک لحظہ بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی.بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، اس نے اپنا سارا راشن قومی خزانہ میں جمع کرا دیا.اور اس کے بعد اسے ذاتی استعمال کے لیے اس میں سے جو کچھ واپس ملا، اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اور اس کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے لے لیا.اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اسے بھوکا نہیں مارا.سیری صرف پیٹ میں کھانے کی ایک مقدار چلے جانے کا نام نہیں.بلکہ سیری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جسم کی ضرورت پوری ہو جائے.اور ہماری (احمدی) تاریخ کا ایک واقعہ ہے کہ ہمارے ایک بزرگ کو ، جب وہ حضرت خلیفة المسیح الاول کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ، شدید بھوک لگی.اور اس کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف ہو رہی تھی.لیکن وہ حضور کی مجلس سے اٹھنا بھی نہیں چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں کشف میں ہی کھانا کھلا دیا.بھوک کی وجہ سے ان کے جسم میں جو کمزوری اور ضعف محسوس ہو رہا تھا، وہ دور ہو گیا اور پیٹ بھی بھر گیا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی قدرت کے یہ جلوے اس لئے دکھائے ہیں کہ تاہم یقین کریں کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا سارا مال بھی دے دیتا ہے تو وہ اسے بھوکا نہیں مرنے دیتا.وہ اس کی سیری کے غیب سے سامان پیدا کر دیتا ہے.اب اگر کسی کی جسمانی کمزوری، جو کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ہوتی ہے، دور ہو جائے.اس کے جسم کو طاقت اور توانائی حاصل ہو جائے ، اسے بھوک کا احساس نہ رہے اور وہ راحت اور سکون محسوس کرنے لگے تو کھانے کا مقصد حاصل ہو گیا.اب اگر وہ مادی کھانا نہ بھی کھائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.زبذل مال در راہش کسے مفلس نے گردو یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال دینے والا کبھی مفلس نہیں ہوتا.اور آگے جا کر آپ اس کی بڑی عجیب دلیل دیتے ہیں.فرماتے ہیں.خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا ہمت کا لفظ فارسی زبان میں کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے.ان میں سے تین معانی (1) بلند ارادہ (۲) جرأت اور (۳) دعا کے ہیں.پس اس مصرعہ کے یہ معنی ہوئے کہ اگر تم نیک نیتی کے ساتھ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ارادہ کرو گے اور جرات اور بہادری کے ساتھ اپنی اس پاک نیت کو عملی جامہ پہناؤ گے اور ساتھ ہی عاجزی اور تذلیل کے ساتھ دعا کرتے رہو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس ہدیہ کو قبول کرے تو خدا تمہاری مدد کو آئے گا اور 26

Page 44

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء ج اِنْ يَّنْصُرُكُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ( آل عمران ع 17) جب خدا تعالیٰ تمہاری مدد کو آ جائے گا اور تمہارا ناصر بن جائے گا تو افلاس یا کوئی اور شیطانی حربہ تم پر غالب نہیں آسکے گا اور تمہیں مغلوب نہیں کر سکے گا.کیونکہ تم نیک ارادہ نیک عمل اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرتے ہو اور اس سے یہ امید رکھتے ہو کہ وہ اسے قبول کرے گا.اس لیے وہ اسے رد نہیں کرے گا.اور جس مال کو خدا تعالیٰ قبولیت کا شرف بخش دیتا ہے، وہ مال ضائع نہیں ہوتا ، اس میں ہمیشہ بڑھوتی ہی ہوتی رہتی ہے.دراصل یہ شعر قرآن کریم کی ایک آیت کے مفہوم کو بیان کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةٌ وَاللهُ يَقْبِضُ وَيَنْقُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ط (بقرة: ع 32) کیا کوئی ہے، جو اللہ تعالیٰ کو اپنے مال کا ایک اچھا ٹکڑا کاٹ کر بطور قرض دے.تا کہ وہ اس مال کو اس کے لیے بہت بڑھائے.اور اللہ ہی ہے ، جو بندہ کے مال میں تنگی یا فراخی پیدا کرتا ہے اور آخر تمہیں اس کی طرف لوٹایا جائے.اللہ تعالیٰ کے حضور تم جو مال بھی پیش کرتے ہو ، وہ اسی کا ہے.اسی سے تم نے لیا اور اسی کو پیش کر دیا.اپنے پاس سے تو تم نے کچھ نہیں دیا.نہ تمہارا مال اپنا، نہ تمہاری جان اپنی ، نہ عزت اپنی ، نہ وقت اپنا اور نہ عمر اپنی.غرض تمہارا اپنا کچھ بھی نہیں محض خدا تعالیٰ کی دین تھی.اللہ تعالیٰ نے ہی یہ سب کچھ تمہیں دیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ فضل کیا، جیسا کہ وہ اس آیت میں فرماتا ہے کہ اگر تم میری دین اور میری عطا میں سے کچھ مجھے دو گے تو میں تمہیں اس کا ثواب دوں گا.دراصل غور کے ساتھ دیکھا جائے تو ہماری سب عبادتیں اللہ تعالیٰ کی سابقہ عطاؤں پر بطور شکر کے ہوتی ہیں.یہ محض اس کا فضل ہے کہ وہ ادائے شکر پر مزید احسان کرتا ہے.اس طرح شکر اور عطائے الہی کا ایک دور اور تسلسل قائم ہو جاتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ دیتے ہو تو وہ اسے بطور قرض کے لیتا ہے.اور قرض دی ہوئی رقم خرچ نہیں سمجھی جاتی.دیکھو، اس دنیا میں بھی ایک بھائی دوسرے بھائی کو قرض دیتا ہے.مثلاً ایک شخص کے پاس دس ہزار روپیہ ہے.اس کا بھائی اسے کہتا ہے، بھائی مجھے اس میں سے تین ہزار روپیہ بطور قرض حسنہ دے دو.میں چند ماہ کے بعد اسے واپس کر دوں گا.تو اب یہ تین ہزار روپے خرچ تو نہیں ہوئے.اس کے پاس دس کا دس ہزار ہی رہا.کیونکہ یہ تین ہزار 27

Page 45

خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم بھی کچھ عرصہ بعد اسے واپس مل جائیں گے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کچھ تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہو، وہ خرچ نہیں ہوتا، نہ وہ ضائع ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ نے قرض کے طور پر لیا ہے، وہ اسے واپس کرے گا.اور پھر اس شان سے واپس کرے گا ، جو ایک قادر اور رزاق خدا کے شایان شان ہے.وَاللهُ يَقْبِضُ وَيَنْقُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ میں اللہ تعالیٰ نے تین بڑے لطیف مضامین بیان کیے ہیں.یقبض و یبصط کے ایک معنی ہیں، يسلب قوماً و يعطى قوما یعنی جسے چاہے غریب کر دیتا ہے اور اس کا مال لے کر دوسرے کو دیتا اور اسے امیر کر دیتا ہے.دوسرے معنی یہ ہیں، یسلب تارةً ويعطى تارةً یعنی جب چاہے ایک شخص کا مال چھین لیتا ہے اور جب چاہے پھر اسے اموال عطا کر دیتا ہے.تیسرے معنی قبض کے یہ ہیں، تناول الشيئي بجميع الكف.گویا اس آیت میں یقبض ويبصط اللہ تعالیٰ کی ایک صفت بیان کی گئی ہے.اور پہلے معنی کی رو سے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا اظہار ایک بنیادی اقتصادی مسئلہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، جسے اقتصادیات میں تقسیم پیداوار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.یعنی ملک کی پیداوار آگے مختلف افراد کے ہاتھوں میں کس طرح پہنچے گی؟ اور ملکی پیداوار کی تقسیم کے متعلق آزاد اقتصادیات میں بھی اور ایک ح تک بندھی ہوئی اور مقید اقتصادیات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک وقوعہ تک ایک شخص جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتا ہے، سونا بن جاتی ہے.لیکن پھر بغیر کسی ظاہری سبب اور وجہ کے اس شخص پر فراخی کی بجائے تنگی آجاتی ہے.وہی شخص ہوتا ہے ، وہی سرمایہ ہوتا ہے ، وہی حالات ہوتے ہیں، وہی کاروبار ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس سے برکت چھین لیتا ہے.وہ جہاں بھی ہاتھ ڈالتا ہے، اسے نقصان ہی نقصان ہوتا ہے.اس کی مالی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور وہ مفلس و قلاش ہو جاتا ہے.حد ابھی چند دن ہوئے، ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آئے ، وہ تاجر ہیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک وقت تھا، اللہ تعالیٰ نے میرے اموال اور میرے کاروبار میں برکت ڈال دی تھی.اس نے مجھے وافر رزق دیا تھا اور اس قسم کے حالات پیدا کر دیے تھے کہ میں جو بھی کام کرتا رہا، اس کے نتیجہ میں مجھے مال میں فراخی نصیب ہوئی.لیکن اب اس قسم کے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ گو کام میں اب بھی وہی کرتا ہوں، جو پہلے کرتا تھا.لیکن اب مجھے وہ نفع نہیں ہوتا ، جو پہلے ہوتا تھا.غرض اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اصل قادر ذات جو اپنے ارادہ کے ساتھ اس دنیا میں تصرف کر رہی ہے، وہ میری ہی ذات ہے اور کوئی نہیں.میں ہی ہوں، جو تقسیم پیداوار کے سلسلہ میں ایسی 28

Page 46

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء تاریں ہلا دیتا ہوں کہ ایک شخص کے پاس وہی کاروبار ہوتا ہے ، وہی سرمایہ ہوتا ہے لیکن اس قسم کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ پہلے وہ بہت کما رہا ہوتا ہے اور اب وہ کم کمانے لگ جاتا ہے.اس کی برکت اللہ تعالیٰ کسی دوسرے کو دے دیتا ہے اور اس کو حاصل ہونے والانفع اب دوسرے کو ملنا شروع ہو جاتا ہے.لاہور میں ہم کچھ عرصہ رہے ہیں.وہاں ہم نے دیکھا کہ کبھی کوئی ریسٹورنٹ مقبول ہو جاتا تھا اور کبھی کوئی.ایک ریسٹورنٹ کی مینجمنٹ (Management) اور انتظام بھی وہی ہوتا تھا ، عمارت بھی وہی ہوتی تھی، فرنیچر بھی وہی ہوتا تھا، باقی سہولتیں بھی وہی ہوتی تھیں، اس کے کھانا پکانے والے بھی وہی ہوتے تھے اور ایک عرصہ تک وہ ہوٹل اپنے مالکوں کے لئے بہت زیادہ آمد کا موجب بنا ہوا تھا.لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکدم کوئی ایسی تبدیلی پیدا ہو جاتی ، جو انسان کے اختیار اور سمجھ سے باہر ہے اور ہم دیکھتے کہ اس کی مقبولیت جاتی رہی.لوگوں نے وہاں جانا چھوڑ دیا اورنتیجہ یہ ہوا کہ مالک کو وہ ہوٹل بند کرنا پڑا.اگر انسان اپنے ماحول پر گہری نظر ڈالے اور فکر و تدبر سے کام لے تو اسے اس قسم کی سینکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں.کوئی ظاہری سبب نظر نہیں آتا لیکن یکدم برکت چھن جاتی ہے.اسی طرح بعض اوقات اموال میں اور کاروبار میں برکت دے دی جاتی ہے اور اس کا کوئی ظاہری سبب نہیں ہوتا.ایک انسان عرصہ تک ابتلاءاور مصائب میں مارا مارا پھرتا ہے اور بڑی تکلیف میں زندگی گزارتا ہے.ایک دن اللہ تعالیٰ اس پر رحم کر دیتا ہے اور اس کے اموال اور کاروبار میں برکت ڈال دیتا ہے.اس کے نتیجہ میں اس پر فراخی اور کشائش کا دور آجاتا ہے.ابھی چند دن ہوئے، مجھے اس قسم کی بھی ایک مثال ملی ہے.ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آئے.انہوں نے مجھے بتایا کہ میں ایک غریب گھرانے کا فرد ہوں، میری آمد بہت کم تھی اور گزارا مشکل سے ہوتا تھا.لیکن ایک دن اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کی تبدیلی پیدا کر دی کہ اب میرے کاروبار میں برکت ہی برکت ہے اور خدا تعالیٰ بہت کچھ دے رہا ہے.میری غربت اور افلاس کی حالت دور ہوگئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے رزق میں فراخی پیدا ہو گئی ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مال کو روک رکھنا کہ وہ کسی خاص فرد کو نہ ملے یا مالکو حکم دینا کہ فلاں کے پاس چلے جاؤ، یہ صرف میرا کام ہے اور کسی کا نہیں.اور اگر یہ میرا کام ہے تو جب بھی کوئی شخص میری راہ میں خرچ کرے گا تو اسے امید رکھنی چاہیے کہ میں جس نے اپنی قدرت کی تاریں ساری دنیا میں پھیلا رکھی ہیں، اسے مایوس نہیں کروں گا بلکہ اس کے مالوں میں اور اس کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ برکت ڈالتا چلا جاؤں گا.29

Page 47

خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دوسرے معنی یقبض ویبصط کے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی ملک یا کسی خاندان یا کسی فرد کے سرمایہ یا جائیداد کی پیداوار میں اضافہ کر دیتا ہے یا کمی کر دیتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ مال یہاں سے لیا اور وہاں رکھ دیا.اس سے لیا اور اسے دے دیا.پہلے معنی کی رو سے تو یہ تھا کہ مال کسی سے لیا اور دوسرے کو دے دیا.ایک کے کاروبار میں بے برکتی ڈالی اور دوسرے میں برکت ڈال دی.لیکن ان معنوں کی رو سے یہ شکل ہوگی کہ اللہ تعالی بغیر اس کے کہ کس کے کاروبار اور اموال میں بے برکتی ڈالے.وہ دوسرے کے کاروبار اور اموال میں زیادتی اور افزائش پیدا کر دیتا ہے یا دوسرے کے کاروبار اور اموال میں زیادتی کئے بغیر اس کے اموال اور کاروبارکو کم کر دیتا ہے.مثلاً ایک زمیندار ہے، اس کی زمین بنجر تھی ، اس میں کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی.یا اگر ہوتی تھی تو بہت کم.اللہ تعالیٰ نے سمندروں سے پانی کو بادلوں کے ذریعے اٹھایا.پھر وہ بادل ایسی جگہ بر سے کہ بعض دریاؤں میں طغیانی آگئی.اللہ تعالیٰ نے اس طغیانی کے پانی کو اس شخص کی بنجر زمین میں پھیل جانے کا حکم دیا.یہ پانی اپنے ساتھ پہاڑوں سے پیداوار بڑھانے والی مٹی کے اجزاء لے آیا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان ذرات ارضی کو حکم دیا کہ اس شخص کی زمین میں ٹھہر جاؤ تمہارا سفر ختم ہو چکا.چنانچہ وہ ذرات ارضی اس کی بنجر زمین میں ٹھہر گئے اور اس طرح جس ایکڑ سے وہ شخص بمشکل دو، تین من گندم سالانہ پیدا کرتا تھا اور ابھی پچدھی کھا کر گزارہ کرتا تھا، اسی زمین میں اتنی طاقت اور زندگی پیدا ہوگئی کہ اب اس میں پندرہ ، پندرہ من گندم سالانہ پیدا ہونے لگی.اسی طرح ایک اور زمیندار ہے، اس کی زمین بڑی اچھی ہے.اس میں بہت زیادہ پیداوار ہوتی ہے اور اس کی زرخیزی مالک کی آمد میں بہت اضافہ کرتی ہے.اللہ تعالی ، جو آسمان سے حکم بھیج کر غریب اور مفلس لوگوں کو مالدار بنا دیتا ہے اور مالداروں کو مفلس اور قلاش بنا دیتا ہے.اس زرخیز زمین میں تھور اور سیم پیدا کر کے اسے بنجر بنادیتا ہے اور اس طرح اس کی آمد کم ہو جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ کسی مالدار کو مفلس اور قلاش بناد بینا یاکسی غریب اور مفلس کو مالدار اور غنی بنادینا، میرے اختیار میں ہے.اس لئے اگر تم مجھ سے کوئی سودا کرو گے تو اس میں تمہیں کوئی گھاتا نہیں ہوگا.کیونکہ میں قادر مطلق اور رزاق ہوں.پھر قبض کے معنی مضبوطی سے پکڑ لینے کے بھی ہوتے ہیں.اور مضبوطی سے اس شئی کو پکڑا جاتا ہے، جس کے متعلق فیصلہ ہو کہ اسے چھوڑنا نہیں کیونکہ اگر اسے چھوڑا تو نقصان ہوگا.ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ بیان فرماتا ہے کہ جو مال تم میرے سامنے بطور ہدیہ پیش کرو گے، میں اسے مضبوطی سے پکڑلوں گا یعنی اسے ضائع نہیں ہونے دوں گا.یہ میرا تمہارے ساتھ وعدہ ہے، جسے میں 30

Page 48

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1966ء بہر حال پورا کروں گا.ان معنوں کی رو سے اللہ تعالٰی اپنے مومن بندے کو بڑی امید دلاتا ہے.اس میں شک نہیں کہ وہ غنی ہے اور اسے تمہارے اموال کی حاجت نہیں.لیکن تمہاری پاک نیتوں اور محبت اور فنافی اللهی کو دیکھتے ہوئے ، وہ اپنی رحمت سے تمہیں نوازتا ہے اور شکر اور پیار کے ساتھ تمہاری مالی قربانیوں کو قبول کرتا ہے.اور مضبوطی کے ساتھ انہیں پکڑ لیتا ہے اور انہیں ضائع نہیں ہونے دیتا.بلکہ ویبصط، اپنی بے پایاں عطا بھی اس میں شامل کرتا ہے اور انہیں بڑھا کر اور وسعت دے کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے.اور وہ تمہیں اس دنیا میں بھی اپنی عطائے کثیر کا حقدار بنادیتا ہے.اور جب تم لوٹ کر اس کی طرف جاؤ گے تو وہ بڑے پیار سے تمہیں کہے گا، یہ لو اپنے مال ، جو تم نے میری راہ میں خرچ کیے تھے.دیکھو، میں نے تمہارے لیے انہیں کس قدر بڑھایا اور ان میں کس قدر کثرت اور وسعت بخشی.پس خوش ہو کر اپنے رب کے ساتھ کبھی کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا.غرض دوستوں کو یہ نکتہ سمجھنا چاہیے اور اسے ہر دم اپنے مدنظر رکھنا چاہیے کہ دین اور سلسلہ کے لیے جب بھی ان کے مالوں کی ضرورت پیش آئے.انہیں وہ اموال بغیر کسی خوف اور بغیر کسی خطرہ کے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دینے چاہئیں.کیونکہ وہ جو خدا تعالیٰ سے سودا کرتا ہے، ہمیشہ نفع میں ہی رہتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ نفع مند سودوں کی توفیق عطا فرمائے.مطبوعه روزنامه الفضل 27 فروری 1966 ء ) | 31

Page 49

Page 50

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966ء روحانی ترقیات کے لئے خداتعالی کی اہمیں ہرقسم کی قربانی پیش کرناضروری ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.وَاخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطَوْا عَمَلًا صَالِحًا وَ أَخَرَسَيْئًا عَسَى اللهُ أنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُظهِرُهُمْ وَ تُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمُ اِنَّ صَلوتَكَ سَكَنُ لَهُمْ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (توبه ع : ۱۳) یعنی کچھ اور لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا.انہوں نے نیک عملوں کو کچھ اور عملوں سے، جو برے تھے ملا دیا.انہوں نے اپنے رب سے یہ امید رکھی کہ وہ ان کی توبہ قبول کرے گا.اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اے رسول اور وہ، جو اس دنیا میں بطور اس کے اظلال کے پیدا ہوتے رہیں گے، ان کے مالوں میں سے صدقہ لے.تا کہ تو انہیں پاک کرے اور ان کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور ان کے لئے دعائیں بھی کرتارہ.کیونکہ تیری دعا ان کی تسکین کا موجب ہے اور اللہ تیری دعاؤں کو بہت سننے والا اور حالات کو جاننے والا ہے.ان آیات سے پہلے منافقوں کا ذکر ہے، جن سے بظاہر کچھ نیک کام بھی سرزد ہوتے ہیں اور بہت سی منافقانہ حرکتیں بھی ان سے ہوتی رہتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ وہ بدیاں کرنے اور منافقانہ چالیں چلنے کے بعد اپنے دل میں ندامت کا احساس پیدا نہیں کرتے بلکہ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ وہ اصرار کے ساتھ اپنے نفاق پر قائم رہتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ کا معاملہ ان سے جدا گانہ ہوگا.اور ان کے وہ اعمال، جو دنیا کی نگاہ میں بظاہر نیک ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکیں گے.ان سے ملتے جلتے کچھ اور لوگ بھی ہیں، جو حقیقی مومن ہیں.وہ بہت سے اچھے نیک اور پاکیزہ اعمال بجالاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ہی ان سے بعض خطائیں بھی سرزد ہوتی ہیں، غفلتیں بھی 33

Page 51

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہوتی ہیں، ان سے بھول چوک بھی ہو جاتی ہے.اور ان کے اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال بھی شامل رہتے ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے و اخر سیا کے الفاظ سے یاد کیا ہے.لیکن چونکہ ان کے دل میں نفاق نہیں ہوتا بلکہ ان کے دلوں میں حقیقی ایمان پایا جاتا ہے، اس لئے بدی کے ارتکاب کے بعد ان کے دلوں میں احساس ندامت پیدا ہوتا ہے.اور وہ امید رکھتے ہیں کہ اگر وہ توبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی تو بہ قبول کرلے گا.اور اسی امید توقع اور یقین کی بناء پر جب بھی ان سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے اور جب بھی وہ کسی گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں، وہ اپنے رب کی طرف لوٹتے ہیں، اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور تو بہ کے ذریعہ اس رب غفور کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ ان کی تو بہ کو قبول کرتا اور ان کے گناہوں کو معاف کر دیتا اور ان کی خطاؤں کو مغفرت کی چادر کے نیچے چھپالیتا ہے.یہاں یہ یادرکھنا چاہیے کہ تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں، جنہیں کامل اور نام تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے.اور یہ بڑے پایا کے اولیاء، قطب اور غوث کہلاتے ہیں.لیکن نیکوں کی اکثریت ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے، جو بشری کمزوری کے سبب اپنے اندر کچھ نہ کچھ خرابی رکھتے ہیں اور ان کے دین میں دنیا کی ملونی بھی ہوتی ہے.اس اکثریت کے متعلق ہی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ بے شک بندہ کمزور ہے.بے شک یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بندوں کے ساتھ شیطان بھی لگایا ہوا ہے، جو انہیں ہر وقت ورغلاتا رہتا ہے.اور باوجود ایمان کے وہ بعض دفعہ اس کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور اس کی بات کو مان لیتے ہیں.لیکن جونہی انہیں ہوش آتا ہے، ان کے دل میں ندامت کا شدید احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی غلطی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں.وہ اپنے رب کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں، اے ہمارے رب! ہم تیرے بندے ہیں لیکن شیطان کے بہکانے میں آگئے تھے اور ہم سے کچھ گناہ سرزد ہو گئے ہیں.ہم تجھے سے امید رکھتے ہیں کہ تو ہمارے ان گناہوں کو معاف کر دے گا اور پھر نئے سرے سے ہمیں عبودیت کے اس مقام پر کھڑا کر دے گا ، جس مقام کے لئے تو نے ہمیں پیدا کیا ہے.گناہ سے متعلق یہ یادرکھنا چاہیے کہ یہ پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے، جب دل کے اندر شیطان کے وسوسہ ڈالنے کی وجہ سے غیر اللہ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے.اور غیر اللہ کی محبت دنیا میں ہزاروں شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے.کبھی بچوں کی محبت غلو اختیار کر جاتی ہے، کبھی اموال کی محبت اپنی حدود کے اندر نہیں رہتی کبھی رشتہ داری کی نیچ ہے، کبھی قومی فخر نیکیوں کے رستہ میں حائل ہو جاتا ہے اور کبھی انسان اپنی بری عادتوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.یہ سب چیزیں ایک ایسی محبت سے تعلق رکھتی ہیں، جو خدا تعالیٰ کی محبت نہیں کہلاتی 34

Page 52

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966ء بلکہ غیر اللہ کی محبت کے نام سے اسے یاد کیا جا سکتا ہے.اور یہ غیر اللہ کی محبت آہستہ آہستہ دلوں پر قبضہ کر لیتی ہے.پہلے ایک غلطی ہوتی ہے، پھر دوسری، پھر تیسری.اسی طرح ایک کے بعد دوسری غلطی ان سے ہوتی ہے.اور وہ دل، جو خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے بنایا گیا تھا اور وہ دماغ ، جس میں خدا تعالیٰ کی محبت کے سوا کسی اور کی محبت کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے تھی ، وہ غیر اللہ کی محبت میں بری طرح پھنس جاتا ہے.اس طرح ان لوگوں کے دل، دماغ اور فطرت صحیحہ استقامت کے مقام سے ہٹ جاتی ہے اور دور ہو جاتی ہے.لیکن استقامت اور ثبات قدم ایمان اور روحانی مدارج کے حصول کے لئے نہایت ضروری ہے.استقامت کے معنی ہیں، کسی چیز کو اس کے عین محل اور مقام پر رکھنا.گویا وضع الشئ فــي محلہ کا نام ہی استقامت ہے.یا یوں کہا جا سکتا ہے، ہیئت طبعی کا نام استقامت ہے.یعنی جس شکل اور جس رنگ میں اور پھر جس طور پر اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو پیدا کیا ہے، اگر وہ طبعی حالت پر قائم رہے تو کہا جائے گا، یہ استقامت رکھتی ہے یا یہ چیز مستقیم ہے.لیکن جب وہ چیز اپنی طبیعت اور فطرت کے تقاضوں سے دور چلی جائے یا انہیں وہ پورا نہ کر رہی ہو تو وہ چیز استقامت سے ہٹ جاتی ہے اور اسے مستقسیم نہیں کہا جا سکتا.اور جب تک وہ چیز اپنی فطرت پر قائم نہ رہے یاوہ اپنی بناوٹ اور طبعی حالت کو قائم نہ رکھے، وہ اپنے اندر کمالات پیدا نہیں کر سکتی.اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک حد تک درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.وہ جب پیدا ہوتی ہے تو کمال کے حصول کی قوتیں اس کے اندر موجود ہوتی ہیں.لیکن اس میں کمال پایا نہیں جاتا.دنیا کی کسی چیز کو لے لو، وہ ایک خاص زمانہ گزرنے کے بعد ایک خاص ماحول میں سے گزرنے کے بعد اور پھر ایک خاص تربیت کے بعد اپنے کمال کو پہنچتی ہے.درختوں کو ہی لے لو، ایک درخت لگایا جاتا ہے تو اسے لگانے سے پہلے اس کے لئے زمین تیار کی جاتی ہے.اس درخت کے اندر اللہ تعالیٰ نے نشو ونما کی قوتیں تو رکھ دی ہیں مگر جب تک ان قوتوں کو بروئے کار نہ لایا جائے ، وہ اپنے کمال تک نہیں پہنچ سکتا.اور ان قوتوں کو بروئے کارلانے کے لئے ہمیں اس کے لئے زمین کو تیار کرنا پڑتا ہے.پھر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کوئی غیر زمین کی اس قوت کو کھینچ کر نہ لے جائے ، جسے اس درخت نے حاصل کرنا ہے.یہی وجہ ہے کہ ایک اچھا باغبان درخت کی جڑوں کے پاس سے ہمیشہ جڑی بوٹیاں اور گھاس نکالتا رہتا ہے اور غلائی کرتا ہے.پھر اس درخت کے لئے ضرروی ہے کہ اسے وقت کے اندر پانی دیا جائے اور اگر کوئی درخت زمین سے نشو و نما حاصل کر چکا ہوتا ہے اور اب اس میں مزید طاقت باقی نہیں رہتی ، جو وہ اس درخت کو پہنچائے تو باہر سے 35

Page 53

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کھاد ڈالی جاتی ہے تا وہ درخت اپنے کمال کو پہنچ جائے.اسی طرح انسانی فطرت اسی وقت کمالات حاصل کرتی اور کر سکتی ہے، جب اس کا ماحول اور فطرت رکھنے والا اپنی توجہ کو اس طرف رکھے کہ جس رنگ میں میرے رب نے میری فطرت صحیحہ کو پیدا کیا ہے، اسی رنگ میں ، میں اسے رکھوں.اور جو چیزیں اور جو باتیں اللہ تعالیٰ نے فطرت صحیحہ کی نشو و نما کے لئے ضروری قرار دی ہیں ، ان کا خیال رکھوں اور استقامت کے مقام سے پرے نہ ہوں.بلکہ جو چیز ہے، وہ اسی طرح رہے، جس طرح وہ بنائی گئی ہے.یعنی خدا تعالی کی آواز پر لبیک کہنے والی فطرت شیطانی وسوسوں کی طرف متوجہ نہ ہو اور وہ خدا تعالیٰ کی ہر آواز پر لبیک کہتی رہے اور اس کے حضور ہمیشہ جھکی رہے.تب وہ فطرت، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر بنانے اور اسے عبودیت کا بلند مقام عطا کرنے کے لئے پیدا کیا ہے، اپنے کمالات کو پہنچ سکتی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ اکثر لوگ بعض اوقات نیکی کے رستہ سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ نیک اعمال کے ساتھ ساتھ کچھ بدیوں کے بھی مرتکب ہو جاتے ہیں.پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے مومن کے لئے نجات کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جاتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہر گز نہیں.ایسے مومن کے لئے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور رحمانیت سے یہ دروازہ کھولا ہے کہ جب بھی اس سے کوئی غلطی ہو ، وہ اس کا اقرار کرے اور پھر پختہ نیت کے ساتھ یہ عہد کرے کہ آئندہ وہ اس غلطی کا مرتکب نہیں ہو گا.اور پھر پوری کوشش کرے کہ وہ مستقبل میں بھی ایسی غلطیوں سے بچتار ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر اس خلوص نیت کے ساتھ تم تو بہ کر کے میرے سامنے آؤ گے تو چونکہ میں غفور ہوں، اس لئے تمہارے تمام گناہ معاف کر دوں گا.اور جتنا اور جس قدر تم استقامت کے مقام سے ہٹ گئے تھے ، میں تمہیں پھر اسی مقام کی طرف لوٹا کر لے آؤں گا.کیونکہ جب گناہ معاف ہو گئے تو گناہ گار پوری طرح نیک بن گیا.گناہ نے اسے استقامت کے مقام سے پرے ہٹایا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اسے اٹھا کر پھر صحیح مقام پر کھڑا کر دیا.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات غفور اور تو اب کی وجہ سے اور پھر انسان پر رحم کرتے ہوئے ، اس کے لئے تو بہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے.اور وہ اپنے بندہ سے کہتا ہے، اے میرے بندے! تم سے جب بھی کوئی غلطی ہو.تم اس کا اعتراف کرتے ہوئے، تو بہ کرو.پھر ندامت کا احساس دل میں پیدا کرو.میرے حضور تضرع اور تذلل سے جھکو.اور مجھ سے یہ امید رکھو عَسَى اللهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ کہ میں تمہاری توبہ قبول کروں گا.36

Page 54

تحر یک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966 ء جب خدا تعالیٰ کے لئے عسی کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں تم یہ امید رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تو بہ کو قبول کرے گا.یعنی یہ لفظ انسان کی امید پر دلالت کرتا ہے.پس عَسَى اللهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ خدا تعالیٰ کہتا ہے، اگر تم اس ذہنیت اور اس نیت کے ساتھ میرے سامنے آؤ گے تو میں تمہاری تو بہ کو قبول کرلوں گا اور تمہیں صراط مستقیم پر لا کھڑا کروں گا.تمہاری جو فطری اور طبعی حالت ہے، وہ تمہیں حاصل ہو جائے گی.اور اس طرح تم ان بلندیوں اور کمالات کو حاصل کر سکو گے، جن کے حصول کے لئے میں نے تمہیں پیدا کیا ہے.لیکن بلندیوں کا حصول محض ترک گناہ یا گناہوں کے معاف کر دئیے جانے کی وجہ سے نہیں ہو سکتا.ترک معاصی اور چیز ہے اور اعمال صالحہ بجالا نا بالکل اور چیز ہے.پس ترک معاصی یا گناہوں کے معاف کر دئیے جانے کی وجہ سے انسان ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا وہ گنہ گار نہ رہا، عاصی نہ رہا.اور یہ پہلا زینہ ہے، روحانی ترقیات کا.لیکن روحانی ترقیات کے حصول کے لئے عملاً نیک کاموں کا بجالانا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنا ضروری ہے.اسی طرح جہاں اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں اپنی صفات غفور، تو اب اور رحیم کو پیش کر کے انسان کو گناہوں کے بخش دینے کا یقین دلایا.وہاں اس کے ساتھ ہی فرمایا :.خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تو ان کے اموال میں سے صدقہ لے.ان دونوں آیات کو آگے پیچھے لانے سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ روحانی ترقیات کے لئے ترک معاصی کافی نہیں.اس لئے کہ مثلاً دنیا میں ہزاروں قسم کے جانور ایسے ہیں، جن میں سے کسی کے متعلق بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ گنہگار ہے.زمیندار اپنے گھروں میں بھیڑ ، بکریاں بھی رکھتے ہیں ، گائے اور بیل بھی رکھتے ہیں، بھینس اور بھینسے بھی رکھتے ہیں، اونٹ بھی رکھتے ہیں، غرض مختلف قسم کے جانور ان کے پاس ہوتے ہیں.مگر کبھی کسی زمیندار نے باوجود اس کے کہ جانور گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ، یہ نہیں کہا کہ میر افلاں جانور ( ان معنوں میں جن میں انسان گنہ گار کہا جاتا ہے) گنہ گار ہے یا فلاں جانور گنہ گار نہیں.اللہ تعالیٰ نے جانوروں کے لئے قانون ہی ایسا بنایا ہے کہ انہیں گناہ کرنے کی آزادی دی ہی نہیں.وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے، کرتے ہیں.گناہ نہیں کرتے.پس جہاں تک ترک معاصی کا سوال ہے، یہ کمال ہر جانور کے اندر پایا جاتا ہے.لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہتے اور نہ کہہ سکتے ہیں کہ بہت بڑا اور بلند روحانی کمال رکھنے والے ہیں.کسی گائے یا بھینس کو یا کسی 37

Page 55

خطبہ جمعہ فرمود و 25 فروری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بکری اور بھیڑ کے لئے یہ نہیں کہا جاتا کہ اس میں بڑی روحانیت ہے.کیونکہ اس سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا.پس اگر انسان صرف اسی مقام پر ٹھہر جائے کہ میں نے ساری عمر کوئی گناہ نہیں کیا تو وہ یہ دعویٰ تو کر سکتا ہے کہ میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں، جہاں تک دنیا کے لاکھوں اور کروڑوں اونٹ ، گدھے، بیل، گھوڑے، بھیڑ اور بکریاں اور دوسرے جانور پہنچے ہوئے ہیں.اس سے زیادہ دعوی کا وہ سزاوار نہیں.غرض روحانی مدارج کے حصول کے لئے گناہوں کو ترک کرنے کے علاوہ انسان کو بہت سے نیک کام بھی کرنے پڑتے ہیں اور ان نیک اعمال کو بجالانے کے بعد ہی انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کی بخشش کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ اے رسول ! تو ان مومنوں کے اموال میں سے صدقہ لے.اموال، مال کی جمع ہے.عام طور پر اس کے معنی روپیہ اور پیسہ کے کئے جاتے ہیں.لیکن عربی زبان میں اس کے معنی ملکیت یعنی ہر اس چیز کے ہوتے ہیں، جو کسی کے ملک میں ہو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسلام کو دنیا میں اس لئے قائم کیا ہے کہ انسان اپنے مقصود کو حاصل کر لے اور اپنے محبوب اور مطلوب کے ساتھ اس کا رشتہ پختگی کے ساتھ قائم ہو جائے اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا اور حاصل کرنے والا ہو.اور اس کے لئے اے رسول ! ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم مومنوں کے لئے ہمیشہ قربانی کے منصوبے بناتے رہا کرو.خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً صدقہ اس مال کو کہتے ہیں، جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اس نیت اور اس امید کے ساتھ خرچ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا اور اس کی وجہ سے قرب کی راہیں اس پر کھول دے گا.پس فرمایا، اے رسول ! تم ان مومنوں کے اموال میں سے صدقہ لو.یعنی ان کی روحانی اور دنیوی ترقیات کے لئے ہمیشہ قربانی کے منصوبے بناتے رہا کرو.تزکیھم تا کہ یہ بڑھیں اور ان کے اندر طاقت ، قوت اور کثرت پیدا ہو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت حسب ضرورت اور ان حالات میں، جو اللہ تعالیٰ انسان اور اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کرتا تھا، مسلمانوں کے لئے قربانی کی ایک سکیم اور منصوبہ تیار کرتے تھے.اور انہیں بتایا کرتے تھے کہ اگر ہم اس کام کوئل کر کریں گے تو اسلام کو قوت اور طاقت حاصل ہوگی اور ہمیں اس کے نتیجہ میں روحانی مدارج ملیں گے.پس جنگوں کے حالات جو پیدا ہوئے یا اس کے علاوہ جو دوسرے حالات خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کئے ، ہر بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کا ایک منصوبہ بنایا.اور مسلمانوں کو کہا، اس وقت اللہ تعالیٰ کو تمہارے اموال کی ضرورت ہے.یا اس وقت اللہ تعالیٰ 38

Page 56

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966ء کو تمہارے اوقات کی ضرورت ہے.یا اس وقت اللہ تعالیٰ کو تمہاری جانوں کی ضرورت ہے.آؤ، آگے بڑھو اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال، اپنے اوقات اپنی جانیں پیش کر دو تا تم اس مقصد کو حاصل کر سکو، جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور جس کے حصول میں مدد دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام جیسے خوبصورت، حسین، کامل اور مکمل مذہب کو دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بھیجا ہے.خذمن اموالهم صدقة میں خذا مر کا صیغہ ہے اور اس کے پہلے مخاطب خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ قیامت تک کے لئے ایک زندہ وجود ہیں.اور وہ اس طرح کہ خدا تعالیٰ قیامت تک اپنی حکمت بالغہ سے آپ کے ایسے اظلال پیدا کرتا رہے گا ، ( جیسا کہ وہ آج تک پیدا کرتا چلا آیا ہے.) جو آپ کی کامل اطاعت، کامل محبت اور آپ میں کامل فنا ہونے کی وجہ سے گویا ایک طرح آپ کا ہی وجود بن جاتے ہیں.پس اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اظلال کو بھی ، جو آئندہ پیدا ہونے والے تھے، (اور ان میں مجددین، اولیاء امت اور خلفائے راشدین بھی شامل ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ امت مسلمہ میں ہر وقت ایسے لوگ موجود رہتے ہیں، جو آپ کی کامل متابعت اور فنافی الرسول ہونے کی وجہ سے آپ کا کل ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی وہ آپ کے ظل ہیں.) مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ خذمن اموالهم صدقة تم امت مسلمہ کی ترقی کے لئے اور مومنوں کو روحانی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے قربانیوں اور ایثار کے منصوبے تیار کرتے رہو.اور ان کی ملکیتیوں میں سے ایک حصہ لے کر خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ہمیشہ انتظام کرتے رہو.تاوہ ان روحانی مدارج تک پہنچتے رہیں ، جن تک وہ اسلام کی اتباع اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے نتیجہ میں پہنچ سکتے ہیں.پھر خذ من اموالهم صدقۃ میں ایک بشارت بھی ہے.اور وہ یہ کہ اسلام نے آزادی ضمیر پر بڑا زور دیا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے اور بار بار ہمیں فرمایا ہے کہ جبر سے حاصل کردہ اموال یا مجبور ہو کر دی جانے والی قربانیاں خدا تعالیٰ کی نظر میں کوئی قدر نہیں رکھتیں.نہ وہ انہیں قبول کرتا ہے اور نہ ان کے نتیجہ میں روحانی فیوض حاصل ہوتے ہیں.پس اس آیت میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ اللہ تعالی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور پھر ایک حد تک آپ کے اخلال کو بھی ایسی جماعتیں عطا کرتارہے گا ، جو بشاشت اور خوشی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گی.اور اس بشارت کو ہم ہر صدی اور ہر زمانہ میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.ہماری جماعت کو ہی دیکھ لو، اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم کیا تھا.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ظل ) 39

Page 57

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تھے.اس لئے آپ نے فرمایا ہے، جو شخص مجھ میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق کرتا ہے، اس نے دراصل مجھے پہنچانا ہی نہیں.کیونکہ جس طرح ایک شخص کی تصویر لی جاتی ہے یا کسی تصویر کا چربہ اتارا جاتا ہے، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام صفات کو اپنے اندر سمیٹ لیا، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں.اور اپنا سارا وجو درسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں کلیہ فنا کر دیا تھا.اور کوئی بینا آنکھ ان دو وجودوں میں فرق نہیں کر سکتی.بالکل اسی طرح جس طرح وہ آگ اور اس لو ہے میں فرق نہیں کر سکتی ، جو آگ میں پڑ کر خود آگ بن جاتا ہے.حالانکہ وہ آگ نہیں ہوتا ، لوہاہی ہوتا ہے لیکن اس میں آگ کی تمام خوبیاں اور صفات پیدا ہو جاتے ہیں.اور دیکھنے والی آنکھ اسے آگ کا شعلہ ہی خیال کرتی ہے.لیکن حقیقت اس کے سوا ہوتی ہے.وہ آگ کا شعلہ نہیں ، لوہے کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے.بالکل اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے نفس پر کامل اور مکمل فنا طاری کی اور اپنے وجود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں مدغم کر دیا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل ظل ہونے کی وجہ سے خذمن اموالهم صدقة کے ماتحت آپ نے بھی جماعت کے لئے مالی قربانیوں کے منصوبے تیار کئے.آپ نے بھی جماعت سے قربانیاں لیں اور اس کی ایسے رنگ میں تربیت کی کہ وہ ہر موقع پر بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتی چلی آئی.پھر آپ کے وصال کے بعد جو لوگ مقام خلافت پر فائز ہوئے.ان کے زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس بشارت کو نمایاں طور پر پورا کیا.حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ کو دیکھ لو.آپ نے مختلف اوقات میں باوجود اس کے کہ جماعت پہلے مالی قربانیاں پیش کر رہی تھی، اس کے سامنے کئی نئی سکیمیں رکھیں اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں پورا کرے.اور ہم نے دیکھا کہ جماعت بشاشت اور خوشی کے ساتھ چھلانگیں لگاتی ہوئی ، آپ کی طرف دوڑی اور ہنستے ہوئے ، اس نے اپنے مزید اموال خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کر دیئے.وصیت کا چندہ دینے والوں نے تحریک جدید کے چندہ میں بھی بشاشت اور خوشی کے ساتھ حصہ لیا.تحریک جدید کا چندہ دینے والوں نے وقف جدید کے چندوں میں بھی خوشی اور بشاشت کے ساتھ حصہ لیا.پھر تحریک جدید اور وقف جدید کے سوا دوسرے لازمی چندے دینے والوں نے ان چندوں میں بھی بڑی بشاشت سے حصہ لیا، جو محض وقتی نوعیت کے تھے.مثلاً باہر کے ملکوں میں مساجد کی تعمیر ہے.مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں ہماری بہنوں نے ہی دنیا کو بڑا اچھا نمونہ دکھایا ہے اور رہتی دنیا تک ایک مومن کے دل میں ان کا نام بڑے فخر ساتھ یادر ہے گا اور مومنوں کی دعائیں انہیں ہمیشہ حاصل ہوتی رہیں گی.40

Page 58

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966ء ابھی پچھلے جمعہ میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ اگر چہ جماعت قربانیوں میں ہر سال پہلے کی نسبت ترقی کرتی ہے لیکن وعدے لکھوانے میں بعض دفعہ سستی کرتی ہے اور اس طرح نہ صرف خود نقصان اٹھاتی ہے بلکہ مرکز کو بھی پریشان کرتی ہے.چنانچہ اس سال بھی اس نے تحریک جدید کے وعدے لکھوانے میں سستی کی ہے، جس سے مرکز پریشانی کا شکار ہو رہا ہے.میں نے جماعت سے کہا تھا کہ وہ اس طرف فوری توجہ دے.وعدوں کی آخری میعاد جلد ختم ہو رہی تھی لیکن میں نے کہا تھا کہ میں اہل ربوہ کو وعدے لکھوانے کے لئے مہلت نہیں دوں گا.باہر چونکہ میری آواز دیر میں پہنچے گی، اس لئے میں باہر کی جماعتوں کو ایک ہفتہ کی مہلت دوں گا.اور جب یہ رپورٹ ملی کہ اہل ربوہ نے چند دنوں میں اپنے تحریک جدید کے وعدے پچھلے سال سے کچھ اوپر کر دیئے ہیں اور ابھی وعدے لکھوائے جارہے ہیں تو میرے دل میں خدا تعالیٰ کی بڑی حمد پیدا ہوئی.انشاء اللہ امید ہے کہ اہل ربوہ ابھی وعدوں کے سلسلہ میں اور آگے بڑھ جائیں گے.اسی طرح راولپنڈی سے بھی آج صبح رپورٹ ملی ہے کہ وہاں کی جماعت نے پچھلے سال سے زائد رقم کے وعدے بھجوا دیئے ہیں اور ابھی وعدے لئے جارہے ہیں.تا پچھلے سال کی نسبت ان کی قربانیاں زیادہ ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے کی نسبت زیادہ حاصل کر سکیں.اس چیز کو دیکھ کر دل میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہم پر یہ فضل کیا ہے کہ ہم پہلے کی نسبت اس کی راہ میں زیادہ اموال خرچ کرنے کی توفیق پارہے ہیں بلکہ وہ ان بشارتوں کو جو اس نے چودہ سوسال قبل سے دے رکھی تھیں، انہیں ہماری زندگی میں ہی پورا کر رہا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی حمد کی جائے ، وہ کم ہے.پھر اس آیت میں اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( اور ان کے ان اظلال کو بھی جو آپ کے بعد ہونے والے تھے.) مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ قربانی کرنے والوں کے لئے دعا بھی کر.کیونکہ تیری دعا ان کے لئے تسکین کا موجب ہوگی.میں سمجھتا ہوں کہ مومنوں کے لئے اس میں بہت بڑی بشارت ہے.اور وہ بشارت یہ ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دو گے، اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی وہ چیزیں پیش کرو گے، جن کے تم حقیقی مالک ہو اور خدا تعالیٰ کی عطا میں سے وہ تمہارے لئے ہی مخصوص کی گئی ہیں اور پھر تم انہیں بڑی خوشی اور بشاشت سے پیش کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری ان قربانیوں کو قبول کرے گا.اور نہ صرف وہ تمہاری قربانیاں قبول کرے گا بلکہ اس نے تمہارے لئے دعاؤں کا ہمیشہ بہنے والا اور کبھی بھی نہ خشک ہونے والا دریا جاری کر دیا ہے.کیونکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ تم مومنوں کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کا صرف بدلہ ہی نہ دے بلکہ اپنی رحمانیت کی صفت کے ماتحت ان کے ثواب میں ہر آن اور ہر لحظہ زیادتی کرتا چلا جائے.اور اپنے قرب کی راہیں ان پر ہر وقت کھولتا ر ہے اور ان دعاؤں کے نتیجہ میں وہ انہیں بلند سے بلند تر مقام کی طرف لے جاتا جائے.41

Page 59

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پس یہ کتنی بڑی بشارت ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے.اس نے خود فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں پیش کرو گے تو وہ نہ صرف انہیں قبول کرے گا بلکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کریں.اللہ آپ کی دعاؤں کو قبول کر کے اپنی رحمانیت کے تحت ہر وقت ان کے ثواب میں بڑھوتی کرتا چلا جائے گا.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ قیامت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اظلال نے بھی ہمیشہ اور ہر وقت موجود رہنا ہے.اس لئے ان کو بھی یہ حکم ہے کہ تم جس جماعت پر مقرر کئے گئے ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل ہونے کی وجہ سے ان کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو.چنانچہ اس حکم کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین، مجددین اور اولیاء امت اپنے لئے اتنی دعا ئیں نہ کرتے تھے، جتنی دعائیں انہوں نے امت مسلمہ کے لئے کیں.اور اب جماعت احمدیہ کے خلفاء بھی اپنے لئے اتنی دعائیں نہیں کرتے ، (یا نہیں کرتے رہے، جتنی دعائیں وہ احمدی بھائیوں کے لئے کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں.اور اس امید اور یقین سے دعا کرتے اور کرتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ان دعاؤں کے نتیجہ میں مومنوں کے دلوں میں تسکین پیدا کرے گا.پھر ہمارا دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری حقیر دعاؤں کے نتیجہ میں واقع میں مومنوں کے دلوں میں تسکین پیدا ہو جاتی ہے اور جماعت کے افراد کے سینکڑوں خطوط اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ اِنَّ صَلوتَكَ سَكَنُ لَهُمْ کو ہر آن پورا کر رہا ہے.کبھی وہ ہماری دعائیں قبول کر کے مومنوں کے دلوں میں تسکین کے سامان پیدا کرتا ہے اور کبھی وہ مومنوں کو قوت برداشت عطا کر کے ان کے لئے تسکین کے سامان مہیا کرتا ہے.بہر حال وہ ان کے دلوں میں تسکین کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا افضل ہے.پس ان آیات میں جن باتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے، وہ باتیں ہمیں ہر وقت یادرکھنی چاہئیں.پہلی بات جو خدا تعالیٰ نے ہمیں ان آیات میں بتائی ہے، یہ ہے کہ مومن اور منافق میں یہ فرق ہے کہ منافق بھی غلطی کرتا ہے اور مومن بھی غلطی کرتا ہے.لیکن منافق غلطی کرتا ہے تو اس پر اصرار کرتا ہے.جیسا کہ فرمایا مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ وہ نفاق چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اس کے لئے ان کے دل میں ندامت کا احساس پیدا نہیں ہوتا.لیکن اس کے مقابلہ میں جب مومن کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں ندامت پیدا ہوتی ہے اور وہ 42

Page 60

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1966ء تو بہ کے ذریعے اپنی غلطی معاف کروانے کی کوشش کرتا ہے.تب اللہ تعالیٰ اس کو اس معصوم بچے کی طرح بنا دیتا ہے، جو ابھی ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تو بہ کرنے والا تو بہ کرنے کے بعد ( اگر اس کی توبہ قبول ہو جائے ) ایسا ہی ہے، جیسے اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہیں، اس سے کوئی غلطی سرزد ہی نہیں ہوئی.پس وہ شخص جو تو بہ کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے، وہ ویسا ہی معصوم بن جاتا ہے، جیسا کہ ایک نوزائیدہ بچہ.غرض مومن کو تو بہ کا دروازہ ہمیشہ کھٹکھٹاتے رہنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مومن کے دل میں رجا ہوتی ہے.وہ یہ امید اور توقع رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بہ کو قبول کرے گا.دوسرے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ محض ترک معاصی کافی نہیں.اگر تم میری رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہو یا تمہیں میرے قرب کی تلاش ہے تو تمہیں نیکی کی راہیں اختیار کرنا پڑیں گی اور خلوص نیت کے ساتھ اعمال صالحہ بجالانے پڑیں گے.اور یہی ایک طریق ہے، جس کے ذریعے تم میری بلندیوں کی طرف پرواز کرنے کے قابل ہو سکتے ہو.پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت بھی دی ہے کہ اگر تم نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ ( نفاق کے ساتھ نہیں ) میرے قائم کردہ سلسلہ اور جماعت میں رہتے ہوئے ، ان تحریکوں میں جو میں جاری کروں شامل ہو گے تو نہ صرف میری طرف سے تمہارے دلوں میں بشاشت پیدا کی جائے گی اور تمہارے لئے یہ قربانیاں دو بھر محسوس نہیں ہوں گی بلکہ تم بڑی بشاشت کے ساتھ اور جنسی خوشی ان قربانیوں کو کرو گے.اور اس کے بدلہ میں تمہیں دو چیزیں ملیں گی.ایک تو میں تمہاری قربانیوں کو قبول کر کے اپنی رضا تمہیں دوں گا، دوسرے میں نے اپنے بعض بندوں کو تمہارے لئے دعا کرنے کے لئے مقرر کر چھوڑا ہے.میں ان کی دعا کو قبول کر کے اپنی رضا کو تمہارے لئے ہر دم اور ہر لحظہ بڑھاتا چلا جاؤں گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس تعلیم پر عمل کرنے اور اسے یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، جو ان آیات قرآنیہ میں بیان کی گئی ہے.اور پھر سارے قرآن کریم پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.اگر وہ لوگ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں، جو کلی طور پر تزکیہ نفس حاصل کرتے ہیں اور کلی طور پر اپنے وجود کو فنا کر دیتے ہیں لیکن ہمیں دعا کرتے رہنا چاہیے اور پھر یہ کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان بندوں میں ہمیں بھی شامل کرلے.وبالله التوفيق“.مطبوعه روزنامه الفضل 30 مارچ 1966ء) 43

Page 61

Page 62

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 مارچ 1966ء ہم نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ اسلام کے غلبہ کی ہر ممکن کوشش کریں گے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 مارچ 1966ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس غرض کے لئے مبعوث فرمایا تھا، وہ یہ تھی کہ تمام دنیا میں اسلام کو غالب کیا جائے اور تمام اقوام عالم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے.سو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مامور کر کے دنیا کی طرف مبعوث فرمایا تو آپ نے اعلان فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لئے بھیجا ہے.کون ہے، جس کے دل میں اسلام کا درد ہے؟ جس کے دل میں اسلام کا درد ہے، وہ میری طرف آئے اور اس کام میں میر احمد و معاون ہو.تب ہم نے "نحن انصار الله" کا نعرہ لگاتے ہوئے ، آپ کی طرف دوڑنا شروع کیا اور آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے.اور ہم نے عہد کیا کہ جس غرض اور مقصد کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے ہیں، اس غرض اور مقصد کے حصول کے لئے آپ کے ساتھ مل کر ہم کوشش کرتے رہیں گے.غلیہ اسلام کے لئے کوشش کرنے کا دعوی کرنایا ایسا عہد کرنا بڑا آسان ہے اور اس سے بھی زیادہ آسانی یہ ہے کہ اس کے بعد انسان غفلت کی نیند سو جائے.لیکن اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا ہے کہ ہم غفلت کی نیند سوجائیں.شیطان ہم پر اس طرح اثر انداز ہو کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھلادیں اور جو عہد ہم نے اپنے رب سے باندھا ہے، اسے چھوڑ دیں.ہم میں سے تھوڑے ہیں، جو اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم نے در حقیقت خدا تعالیٰ سے کیا عہد باندھا ہے؟ اگر ہم اس عہد کا تجزیہ کریں اور اس پر غور کریں تو ہمارے سامنے یہ نظارہ آتا ہے کہ ایک طرف روس ہے، چین ہے اور دوسرے کمیونسٹ ممالک ہیں.دوسری طرف مادہ پرست اقوام ہیں، جو دعویٰ تو کرتی ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کو مانتی ہیں لیکن حقیقتا خدا تعالیٰ پر ان کا کوئی ایمان نہیں ہے.مثلاً امریکہ ہے، انگلستان ہے، فرانس ہے اور دیگر بہت سے ممالک ہیں.اب ان میں سے اگر ہم ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ لیں تو مثلاً روس ہے.اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو دنیوی عقل عطا کی اور اس کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کر کے دنیوی ترقیات کے میدان میں 45

Page 63

خطبه جمعه فرمودہ 25 مارچ 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بہت بلند مقام حاصل کر لے، جو اس نے حاصل کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بڑی کثرت کے ساتھ مادی اسباب دیئے.اور اس وقت دنیا کی دیگر بڑی اقوام میں سے چوٹی کی ایک قوم سمجھی جاتی ہے.بلکہ وہ اتنی زبر دست ہے کہ جب وہ غرائے تو تمام بنی نوع انسان کے دل دہل جاتے ہیں.اس شخص کے دل سے بھی زیادہ جو جنگل میں جا رہا ہو اور اچانک اسے شیر کے غرانے کی آواز آئے.لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اسے دین کی آنکھ عطا نہیں کی.وہ (نعوذ باللہ ) خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کے نام کا مذاق اڑاتی ہے.بلکہ وہ یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ تمام دنیا سے خدا تعالیٰ کے نام کو ایک دن مٹادیں گے.پھر اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی شخص اس کے ملک میں جائے اور خدائے واحد سے انہیں متعارف کرائے.حقیقتاً یہ اجازت نہ دینا بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کا ایک ثبوت ہے.اگر واقعی خدا نہ ہوتا تو انہیں کس بات کا ڈر تھا ؟ وہ ہر ایک کو کہتے یہاں آؤ اور جو دلیلیں تمہارے پاس ہیں، وہ ہمیں سناؤ.ہمیں ان دلیلوں کے سننے میں کوئی عذر نہیں ہوگا.کیونکہ ان کے زعم میں خدا تعالیٰ کے نہ ہونے کے جو دلائل ان کے پاس ہیں، وہ ان دلائل سے کہیں زیادہ وزن رکھتے ہیں، جو ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے دیئے جاسکتے ہیں.بہر حال وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی شخص وہاں جا کر خدائے واحد و یگانہ کی تبلیغ کرے.اسلام کی اشاعت کے لئے کوشش کرے.خدا تعالیٰ کی عظمت ، اس کے جلال اور اس کی کبریائی کو اس ملک کے باشندوں کے دلوں میں بٹھانے کے لئے سعی کرے.اور ہمارا یہ دعوی ہے کہ ہم نے اس ملک کو بھی حلقہ بگوش اسلام کرانا ہے.پھر چین کولو.چین کتنا بڑا ملک ہے، زمین کے پھیلاؤ کے لحاظ سے بھی اور آبادی کے لحاظ سے بھی.اس کی آبادی قریباً 80, 70 کروڑ کی ہے.اس کے رہنے والے بھی کمیونسٹ ہو گئے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کو بھول گئے ہیں، اپنے پیدا کرنے والے کے خلاف ہو گئے ہیں.ابلیس نے تو اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار نہیں کیا تھا.اس نے صرف اباء اور استکبار سے کام لیا تھا.اس نے خدا تعالیٰ کے وجود کو مانتے ہوئے ، اسے یہ درخواست کی تھی کہ مجھے اس بات کی اجازت دی جائے کہ میں تیرے بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہوں.مجھے اس بات سے زبردستی نہ روکا جائے.اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا نظام انسان کے لئے قائم کرنا تھا، اس لئے اس نے اسے اجازت دے دی اور کہا ٹھیک ہے.ہم چاہتے ہیں کہ انسان آزادانہ طور پر ہمارا عرفان حاصل کرے، ہم سے تعلق پیدا کرے.اس لئے تم سے جو ہو سکتا ہے، کرو.لیکن جو میرے مخلص بندے ہوں گے، ان پر تمہارا کوئی اثر نہیں ہوگا.غرض 46

Page 64

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 مارچ 1966 ء شیطان نے خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار نہیں کیا تھا لیکن یہ تو میں خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی انکار کر رہی ہیں.پھر مادی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ ترقی کرتے چلے جائیں اور مادی سامان اس قدر اکٹھے کرلیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہ کر سکے.انہوں نے ان مادی سامانوں کے مہیا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق کوششیں کیں.اور اس قانون کے مطابق ان کی یہ کوششیں بار آور ہوئیں.گواس کا جو نتیجہ انہوں نے نکالا ، وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں.کیونکہ بجائے اس کے کہ وہ شکر اور حمد کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکتے ، انہوں نے اس کے وجود سے بھی انکار کر دیا.پس یہ ملک (یعنی چین ) بھی بڑ اوسیع ہے، بڑا طاقت ور ہے.اور پھر خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہے.تو ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس کے رہنے والوں کو مسلمان بنائیں گے تاوہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہنچانے لگیں.پھر انگلستان ہے، امریکہ ہے، ان کے رہنے والوں کی بڑی اکثریت اگر چہ زبان سے خدا تعالیٰ کے وجود کا اقرار کرتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ ایک اور لعنت میں گرفتار ہے.اس نے انسان کے ایک بچے کو خدا تسلیم کر لیا ہے.اور وہ نہیں سمجھتی کہ وہ ہستی، جو ایک عورت کے پیٹ میں 9 ماہ کے قریب نہایت گندے ماحول میں پرورش پاتی رہی ہو ، اس کو انسانی عقل خدا کیسے تسلیم کر سکتی ہے؟ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دینی لحاظ سے بالکل اندھے ہیں.کوئی معقول دلیل ان کے دماغ میں نہیں.بہر حال انہوں نے ایک انسان کی ، جس کو وہ خدائے یسوع مسیح کہتے ہیں، پرستش شروع کی.اور اس سے اتنی محبت اور پیار کیا کہ اپنی تمام دنیوی طاقتیں اس گمراہ عقیدہ کے پھیلانے میں خرچ کر دیں.اور وہ، جو ان کا حقیقی رب تھا اور وہ ، جو ان کا سچا نجات دہندہ تھا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ان کی طرف وہ متوجہ نہ ہوئے.انہوں نے اپنی تمام طاقت، اپنا سارا زور ، اپنے تمام حیلے اور ہر قسم کا دجل خدا تعالیٰ کی اس سچی تعلیم اور صداقت کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا، جو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے بھیجی گئی تھی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے قبل بہت حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی فرمایا اور اللہ تعالی نے آپ کو دلائل حقہ دیئے ہمنجزات اور روشن نشانات بھی عطا فرمائے تو اس وقت ان کی ترقی دجل کے میدان میں کافی حد تک رک گئی.لیکن ابھی بہت سا کام کرنے والا باقی ہے.غرض ہمارا دعوی ہے اور اپنے رب سے ہمارا عہد ہے کہ ہم ایک دن ان تمام اقوام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار کر کے چھوڑیں گے.پھر افریقہ کے ممالک ہیں اور دوسری کئی اور آبادیاں ہیں، جو بد مذہب" کہلانے کی زیادہ مستحق ہیں.کیونکہ ان کے ہاتھ میں کوئی محرف الہی کتاب بھی نہیں.ہاں ان کے پاس کچھ روایات ہیں، جو بڑی 47

Page 65

خطبه جمعه فرمودہ 25 مارچ 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پرانی ہیں.کچھ تو ہمات ہیں، کچھ ڈھکوسلے ہیں، جن کو انہوں نے مذہب کا نام دے رکھا ہے.بہر حال وہ ایک قسم کا مذہب رکھتے ہیں، اس لئے ہم انہیں لامذہب نہیں کہہ سکتے اور نہ صیح طور پر ان کے مذہب کو ”مذہب“ کہہ سکتے ہیں.ان کے مذہب کو بگڑے ہوئے مذہب کا نام بھی نہیں دیا جا سکتا.اور بہترین لفظ ، جوان کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، وہ بد مذہب ہے.یہ لوگ اپنی رسومات میں اور اپنے تو ہمات میں اس قدر مست ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا نام سننے کے لئے بھی تیار نہیں.ان کی ان عادات کو چھڑانا اور بد رسومات سے انہیں بچانا، آسان کام نہیں.ہم اپنی جماعت میں بھی دیکھتے ہیں کہ بعض خاندان، جو احمدیت میں داخل ہوتے ہیں ، وہ کچھ بد رسوم بھی اپنے ساتھ لے آتے ہیں اور ہمارے لئے ایک مسئلہ بن جاتے ہیں.ہمیں انہیں ان بدرسوم سے ہٹانے کے لئے بڑا زور لگانا پڑتا ہے.لیکن ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم ان اقوام میں بھی اسلام کی تبلیغ کر کے اور کامیاب تبلیغ کر کے انہیں اس نور سے متعارف کرائیں گے، جو خدا تعالیٰ کا حقیقی نور ہے.جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آئینہ میں عکسی رنگ میں چکا ہے.غرض کتنا بڑا دعویٰ ہے، جو ہم کرتے ہیں.اور کتنا مشکل کام ہے، جو ہم نے اپنے ذمہ لیا ہے.اور جب ہم اپنے اس دعویٰ اور کام پر اس تفصیل کے ساتھ غور کرتے ہیں، جس کی طرف میں نے مختصرا اشارہ کیا ہے تو دل بیٹھنے لگتا ہے.اور عقل حیران ہو جاتی ہے کہ یہ کام ہوگا تو کس طرح ہوگا؟ اس کے لئے ہمیں پھر اپنے رب کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے.ہمیں اس کے کلام کو ہی دیکھنا پڑتا ہے.چنانچہ اس معاملہ میں جب میں نے غور کیا تو اس مشکل کا حل مجھے سورۃ بقرہ کی اس آیت میں نظر آیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ (بقره ع ۱۹ ) یعنی اے میرے مومن بندو! جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ میں خدائے قادر و توانا ہوں.اور اپنی تمام صفات حسنہ کے ساتھ اپنی تمام قدرتوں کے ساتھ اور اپنے جلال کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور زندہ رکھنے والا حیسی و قیوم خدا ہوں.جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی تمام اقوام کے لئے اور قیامت تک ہر زمانہ کے لئے نجات دہندہ کی شکل میں بھیجے گئے ہیں.جو اس بات پر ایمان رکھتے ہو کہ قرآن کریم انسان کے تمام دینی اور دنیوی مسائل کو حل کرتا ہے.جو اس بات پر ایمان لاتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ہی مبعوث فرمایا ہے.جو ایمان لاتے ہو کہ جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث کئے گئے ہیں، اس مقصد میں آپ اور آپ کی جماعت 48

Page 66

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 25 مارچ 1966 ء ضرور کامیاب ہوگی.تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.بے شک مشکل بڑی ہے اور کام اس نوعیت کا ہے کہ عقل انسانی بظاہر یہ فیصلہ نہیں دے سکتی کہ اس میں ضرور کامیابی حاصل ہوگی.لیکن خدا تعالیٰ کا جو وعدہ ہے، وہ پورا ہوگا.اس لئے ہم تمہیں ہدایت دیتے ہیں کہ جس وقت یہ دیوار تمہارے سامنے آجائے اور تم کومحسوس ہونے لگے کہ آگے بڑھنے کا راستہ مسدود ہو گیا ہے اور ان اقوام کے دلوں کو فتح کرنا بظاہر ناممکن ہے.یادر کھو کہ اس وقت صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ میری مدد اور نصرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا.صبر کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ انسان استقلال کے ساتھ برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہے.یعنی اسے اپنے نفس پر اتنا قابو ہو کہ وہ کبھی بے قابو ہو کر گناہ کی طرف مائل نہ ہو.دوسرے معنی یہ ہیں کہ انسان نیکی پر ثابت قدم رہے اور دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کا کوئی وسوسہ اور دنیا کا کوئی دجل صدق کے مقام سے مومن کا قدم پرے نہ ہٹا سکے.اور صبر کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی نازک وقت اور مشکل پیش آئے اور دل میں شکوہ پیدا ہو تو وہ اسے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرے.اِنَّمَا أَشْكُوابَتِي وَحُزْنِ إِلَى اللَّهِ یوسف ع ۱۰) یعنی اگر تم ایسا کروگے تو وہ تمہاری امداد اور نصرت کے سامان پیدا کرے گا.پس اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ ہم نے تمہیں مادی سامان بہت کم دیئے ہیں.لیکن جتنا بھی تمہیں ملا ہے، مال کے لحاظ سے، طاقت کے لحاظ سے، وقت کے لحاظ سے عزت کے لحاظ سے کروڑوں نعمتیں ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں.) جو کچھ بھی ہماری نعماء سے تمہیں ملا ہے، اگر تم اس کا صحیح استعمال کرو اور قربانی کے ان تقاضوں کو پورا کرو، جو تم پر عائد ہوتے ہیں اور کبھی اپنی نگاہ میری ذات سے ہٹا کر کسی اور کی طرف نہ لے جاؤ بلکہ اپنی کمزوری، ناتوانی، بے بضاعتی اور بے بسی کا رونا صرف میرے سامنے ہی ردو اور خوشی کے ساتھ نیکیوں پر قائم ہو جاؤ اور جو تدابیر بھی تم کر سکتے ہو، ان تدابیر کو اپنے کمال تک پہنچاؤ تو میں تمہاری مدد اور نصرت کے سامان کر دوں گا.پھر صلوۃ ہے.اس کے ایک معنی تو اس نماز کے ہیں، جو ہم پنجوقتہ ادا کرتے ہیں.پھر کچھ سنتیں ہیں، کچھ نوافل ہیں.( جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے، وہ نوافل بھی ادا کرتے ہیں.یہ سارے معنی صلوٰۃ کے لفظ میں آ جاتے ہیں.پس صلوٰۃ کے ایک معنی اس خاص عبادت کے ہیں، جو اسلام میں ایک مسلمان کے لیے لازم کی گئی ہے.پھر صلوۃ کے ایک معنی رحمت کے ہیں اور ان معنوں میں یہ لفظ خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے.صلی اللہ “ کے معنی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازے، ہمارے کاموں 49

Page 67

خطبه جمعه فرمودہ 25 مارچ 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم میں برکت ڈالے، ہم پر احسان کرے اور ہمارے گناہوں کو معاف کر دے.(استغفار کے معنی بھی صلوۃ کے اندر آجاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تم ایک طرف اپنی تدبیر کو اپنے کمال تک پہنچا دو اور جو کچھ تم کر سکتے ہو، وہ کر گزرو.اور پھر ہمارے پاس آجاؤ اور کہو، اے خدا! جو کچھ تو نے ہمیں دیا تھا، وہ ہم نے تیری راہ میں قربان کر دیا ہے.مگر وہ اتنا کم ہے کہ دنیا کی طاقتوں کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں.ہم اگر اپنا سارا مال بھی تیری راہ میں قربان کر دیں تو بھی ہم امریکہ کی دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اگر ہم میں سے ہر ایک احمدی فر لنگوٹا کس لے اور بھوکا رہنے کے لیے تیار ہو جائے اور اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے، تب بھی ہم روس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.پس خدا تعالیٰ نصیحت فرماتا ہے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ جتنی دولت روس کے پاس ہے، اتنی دولت تم میری راہ میں خرچ کرو.اور نہ میرا تم سے یہ مطالبہ ہے کہ جتنی دولت امریکہ اور انگلستان کے پاس ہے یا جتنی دولت دوسرے ممالک کے پاس ہے، اتنی ہی تم میری راہ میں خرچ کرو.میں تم سے صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ جتنا کچھ میں نے تمہیں دیا ہے، اسے میری راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہو.جب امام وقت کی آواز آئے تو تم اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہو.اور جب تم یہ سب کچھ کر گز رو تو میرے پاس آؤ اور کہو، ہم نے تیرے ارشاد کے ماتحت جو کچھ بھی ہمارے پاس تھا ، تیری راہ میں قربان کر دیا ہے یا قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.لیکن ہماری یہ قربانیاں ان طاقتوں کے ساتھ تو تکر نہیں لے سکتیں، جن کو تو نے دنیا میں قائم رہنے کی اجازت دی ہے.تو اے ہمارے رب! ہم جو کچھ کر سکتے تھے، وہ کر دیا ہے.ہم انسان ہیں، ہم میں کمزوریاں بھی ہیں، ہم سے خطائیں بھی سرزد ہوتی ہیں.اس لئے ہم تیرے پاس آئے ہیں، ہم تیری مغفرت کی چادر کے متلاشی ہیں.تو ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے.پھر ہم چاہتے ہیں کہ تو ہم پر احسان کرتے ہوئے ، ہمیں اپنی رحمت سے نوازے، ہمارے کاموں میں برکت دے.اور ہمیں محض اپنے فضل سے اس مقصد میں کامیابی عطا کرے، جس کے لئے تو نے جماعت کو قائم کیا ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم یہ دو باتیں کر لو گے.یعنی ایک طرف صبر اور تدبیر کو انتہاء تک پہنچادو گے اور پھر صرف مجھ پر بھروسہ کرو گے اور اپنے نفس کو کلیہ میری راہ میں فنا کر کے کامل توحید پر قائم ہو جاؤ گے تو یہ یا درکھو کہ 50 إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ

Page 68

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 مارچ 1966ء میں تمہاری مدد کے لئے آسمان سے اتروں گا.اور جب میں آسمان سے اپنی تمام صفات حسنہ کے ساتھ ، اپنی عظمت اور کبریائی کے ساتھ اور اپنے حسن اور جلال کے تمام جلووں کے ساتھ تمہاری مدد کے لئے نازل ہوں گا تو اس وقت نہ روس کی طاقت تمہارا مقابلہ کر سکے گی اور نہ ہی تمہارے سامنے چین کی کوئی حیثیت رہے گی.امریکہ اور انگلستان کا غرور بھی توڑ دیا جائے گا اور یہ وعدہ پورا ہوگا کہ اسلام دنیا میں غالب آئے گا اور تمام اقوام عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی.لیکن ہمیں بہر حال یہی ارادہ اور نیت رکھنی چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صبر اور صلوٰۃ کی جو تعلیم دیتا ہے ، ہمیں اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.آج جمعہ ہے اور شوری بھی شروع ہو رہی ہے، اس لئے میں دوستوں سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالی نمائندگان مجلس مشاورت کو صحیح فکر اور تدبر کی تو فیق عطا فرمائے.تا وہ صحیح نتائج پر پہنچیں اور شوری میں ایسی تجاویز اور ایسے مسئلے پاس ہوں، جن سے اسلام کو قوت ملے اور جن کے نتیجہ میں لوگوں میں اللہ تعالیٰ کا عرفان بڑھنے لگے اور ہمارا قدم کامیابی کی راہ پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے.اور ہر قسم کی توفیق دینا اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 15 جون 1966ء) 51

Page 69

Page 70

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم وو اقتباس از خطبه نکاح فرمود و 09 مارچ 1966ء ایک واقف زندگی سے زیادہ مجھے کون عزیز ہوسکتا ہے خطبہ نکاح فرمودہ 09 مارچ 1966ء....علاوہ اس مضبوط اور قومی رشتہ کے، جو ایک احمدی کو دوسرے احمدی کے ساتھ ہے، میرے ان خاندانوں سے ذاتی تعلقات بھی ہیں، جن کے بچوں اور بچیوں کے نکاح ہورہے ہیں.ان میں سے ایک نکاح تو ایک واقف زندگی کا ہو رہا ہے.اور ایک واقف زندگی سے زیادہ مجھے کون عزیز ہو سکتا ہے؟“...چند دن ہوئے ، مجھے خیال آیا کہ واقفین زندگی کی جن لڑکیوں سے شادیاں ہوتی ہیں، اگر انہیں بھی اس طرف متوجہ کیا جائے کہ تم اپنی زندگیاں وقف کرو تو اس کے نتیجہ میں اچھی ذہنیت پیدا ہو جائے گی.( مطبوعه روزنامه الفضل 109 اپریل 1966ء) 53

Page 71

Page 72

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 102 اپریل 1966 ء ہر احمدی کو وقف کا وہی نمونہ دکھانا چاہیے، جو صحابہ کرام نے دکھایا تھا خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 02 اپریل 1966ء خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا: وو یہ عید جو آج ہم منارہے ہیں، عید الاضحیہ کہلاتی ہے.صرف اس لئے نہیں کہ آج کے روز بکروں، بھیڑوں، دنبوں، گائے اور اونٹ کی قربانی کی جاتی ہے بلکہ زیادہ تر اس لئے کہ یہ عید ایک اسوہ حسنہ کو دوام بخشنے کے لئے قائم کی گئی ہے.اور وہ اسوہ حسنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے خاندان کا ہے.جو انہوں نے کئی ہزار سال پہلے دنیا کے سامنے رکھا اور اسے دنیا میں قائم کیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک مشرک قوم میں پیدا ہوئے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت آپ کے دل میں پیدا کر دی، اس لئے آپ شرک سے کلیہ بیزار ہو کر تو حید پر قائم ہو گئے تھے.اپنی قوم کو بھی تو حید کی طرف بلاتے تھے.گو قوم آپ کی باتوں کی طرف دھیان نہیں دیتی تھی.آپ کے دل میں بڑی شدید خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک اور صالح اولا د عطا کرے تا اس کے ذریعہ توحید پر قائم رہنے والی ایک جماعت قائم ہو جائے.آپ نے اس کے لئے بہت دعا کی.مگر ایک لمبے عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دعا کو قبول نہیں کیا.بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ پچاس سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ تک آپ عاجزی اور انکساری کے ساتھ خدا کے حضور جھکتے رہے اور نیک اور صالح اور تو حید پر قائم رہنے والی نسل کے لئے دعا کرتے رہے لیکن اتنے لمبے عرصہ تک ان دعاؤں کا بظاہر کوئی نتیجہ نہ نکلا.آخر آپ کی عمر 6 8 برس کی ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دعا کو قبول کیا.اور آپ کے ہاں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے.آپ کی دعا یہی تھی کہ آپ کو ایسے بچے عطا ہوں ، جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے سامنے اسی طرح اپنی گرد نہیں رکھ دیں، جس طرح باقی جانوروں کی گردنیں چھری کے نیچے رکھی جاتی ہیں.اور چونکہ آپ اپنے عہد میں پختہ اور اپنی نیت میں مخلص تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ ایک نمونہ قائم کرنا چاہا.بڑھاپے کی عمر (86 سال کی عمر ) میں آپ کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا.جس غرض کے لئے اس بچہ کی خواہش کی گئی تھی، اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام بھولے نہیں تھے.بلکہ پہلے دن 55

Page 73

خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 02 اپریل 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم سے ہی آپ نے اپنے اس بچے کی تربیت ایسے رنگ میں شروع کی کہ اس نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف سمجھی.اور جب ذبح عظیم کا وقت آیا یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک انتہائی قربانی آپ سے لینی چاہی تا دنیا کے لئے اور خصوصاً آپ کی نسل کے لئے ایک بے مثال نمونہ قائم ہو جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس بچے ( یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام) نے ، جس کی عمر کم و بیش 14-13 سال کی تھی، ایک سیکنڈ ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا.غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے یہ قربانی کی کہ آپ اپنے اس بچہ کو ایک وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آئیں.اور بتایا کہ اس کی تربیت ہم خود کریں گے.تاکئی ہزار سال بعد جب دنیا میں ایک امی اور معصوم نبی پیدا ہو تو دنیا یہ اعتراض نہ کر سکے کہ ایک امی خدا تعالیٰ کی تربیت کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس پر کامل تو کل کرتے ہوئے، اپنے اکلوتے بچے کو ایک ایسے مقام پر چھوڑ دیا، جو اس وقت کلیۂ غیر آباد تھا.بلکہ اس وقت آبادی کے قابل بھی نہیں تھا.کیونکہ وہاں پانی نہیں تھا.اور بظاہر حالات اس جگہ دونوں ماں بیٹے ( یعنی حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیہما السلام ) کا زندہ رہنا ناممکن تھا.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں ذرا بھر بھی خیال نہیں تھا کہ اس ماحول میں میرا بچہ بھوک اور پیا سامر جائے گا.تب اللہ تعالیٰ نے یہ بتانے کے لئے کہ میں اس نسل میں روحانیت کا ایک چشمہ جاری کر رہا ہوں، ایک ظاہری چشمہ بھی وہاں جاری کر دیا.جس کو اب ہم زمزم کے نام سے یاد کرتے ہیں.اور اس طرح ان دونوں کی زندگی کے سامان پیدا کر دیئے.کیونکہ گوصرف پانی سے ہی انسان زندہ نہیں رہ سکتا.مگران علاقوں میں جہاں پانی نکل آئے، آبادیاں ہو جاتی ہیں اور اس طرح کھانے کا بھی انتظام ہو جاتا ہے.پس آپ کی جسمانی تربیت کی کلیہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لے لی.اور اس طرح یہ ثابت کر دیا کہ وہ باتیں جو انسان کے اختیار میں نہیں ، خدائے بزرگ و برتران پر بھی قادر ہوتا ہے.غرض اس خاندان نے وقف اور وفاداری (اسلمت لرب العالمین کی ایک زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والی مثال اس دنیا میں قائم کر دی.اور آپ کے اسوہ کو یا درکھنے ، زندہ رکھنے اور قائم و دائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ میں اس عید الاضحیہ کو جاری کر دیا.اور اس طرح امت مسلمہ کو ایک سبق دیا کہ دیکھو تمہارے آباء میں، پھر ان کی نسل میں ایک بیج بویا گیا تھا.ایسا وقت آگیا ہے کہ یہ بیج ایک درخت کی شکل میں دنیا پر ظاہر ہو اور ساری دنیا اس کے سایہ تلے آرام حاصل کرے.چنانچہ وہی نمونہ جو اس وادی غیر ذی ذرع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان نے دنیا کو دکھایا تھا.آنحضرت صلی اللہ 56

Page 74

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ 102 اپریل 1966 ء علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام نے دنیا کو دکھایا.مگر زیادہ شان کے ساتھ.انہوں نے اپنی گردنیں اسی طرح مخالفین کی چھری کے نیچے رکھ دیں، جس طرح بھیڑ ، بکری، گائے اور اونٹ کو ذبح کے وقت اپنی گردنیں چھری کے نیچے رکھنی پڑتی ہیں.پھر دیکھو جانور مجبور ہو کر اپنی گردن چھری کے نیچے رکھتا ہے لیکن صحابہ کرام نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی گردنیں خدا تعالیٰ کی راہ میں کٹوائیں.اور اس طرح انہوں نے اس سبق کو یا درکھا اور اپنے عمل سے دہرا دیا، جو کئی ہزار سال پہلے سکھایا گیا تھا.اس طرح جب انہوں نے اپنے آپ کو کلیۂ خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا تو خدا تعالیٰ نے بھی اپنی وہ نعمتیں ان پر نازل کیں، جن کی مثال اس دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی.خدا تعالیٰ نے انہیں ساری دنیا کا رہبر بنا دیا ، خدا تعالیٰ نے انہیں ساری دنیا کا معلم بنا دیا، خدا تعالیٰ نے انہیں ساری دنیا کا پیار کرنے والا باپ بنادیا.خدا تعالیٰ نے انہیں ساری دنیا سے خیر خواہی کرنے والے دل عطا کئے، ساری دنیا کے لئے تکلیفیں برداشت کرنے کی ہمت اور طاقت انہیں بخشی.کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ اپنے پیارے رب کے حضور پیش کر دیا تھا.ان کے اس وقف حقیقی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو وہ شوکت بخشی، اسے وہ مرتبہ اور منزلت عطا کی کہ جس کی مثال، جیسا کہ میں نے بتایا ہے، دنیا میں ہمیں اور کہیں نظر نہیں آتی.لیکن جب مسلمان عید الاضحیہ کے اس سبق کو بھول گئے اور وقف کی روح ان میں قائم نہ رہی ، تب ایک ہزار سال کا عرصہ اسلام پر ایسا آیا کہ جس میں وہ ترقی کرنے ، بلندیوں کی طرف پرواز کرنے اور رفعتوں کو حاصل کرنے کی بجائے تنزل کے گڑھوں میں گرتے چلے گئے.اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی رفعت، اسلام کی ترقی اور غلبہ کا پھر دوبارہ سامان پیدا کیا ہے.یعنی جماعت احمدیہ کے قیام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ذریعہ اسلام کے لئے ترقی کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.اس لئے ہر احمدی کو وقف کا وہی نمونہ دکھانا چاہیے، جو آج سے چودہ سو سال سے صحابہ کرام نے دکھایا تھا.اس وقت بھی اسلام کے مخالفوں اور دشمنوں کی چھری ہماری گردنوں کی تلاش میں ہے.اس لئے میں پوچھتا ہوں کہ کہاں ہیں، وہ واقف گردنیں، جو برضا و رغبت اپنے آپ کو اس چھری کے نیچے رکھ دیں اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کریں؟ آج وقف کی روح پھر پوری شدت کے ساتھ ہماری جماعت کے اندر زندہ ہونی چاہیے.کیونکہ دنیا پیاسی ہے اور اس کی پیاس سوائے احمدیت کے اور کوئی نہیں بجھا سکتا.جب تک ہمارے پاس کافی تعداد میں واقفین موجود نہ ہوں، اس وقت تک ہم یہ کام نہیں کر سکتے.اس لئے میں پھر پوچھتا ہوں کہ کہاں ہے، حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی بہنیں ، جو اپنے بچوں کو خدا 57

Page 75

خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ 102 اپریل 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تعالیٰ کی راہ میں وقف کریں؟ اور کہاں ہیں ، حضرت اسماعیل کے وہ بھائی، جو دنیا کو چھوڑ کر اور دنیا کی لذت، آرام اور عیش سے منہ موڑ کر خدا تعالیٰ کی طرف آئیں اور اس کی خاطر بیابانوں میں اپنی زندگیاں گزارنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں؟ حضرت اسماعیل کی قربانی کا نمونہ تو قائم ہی اس لئے کیا گیا تھا تا امت مسلمہ اس سے سبق حاصل کرے اور سبق حاصل کرنے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے اس منشاء، ارادہ اور فیصلہ کو پورا کرنے والی ہو، جس منشاء، ارادہ اور فیصلہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے دین اور اپنی تو حید کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.اور یہ کام ہو نہیں سکتا ، جب تک کہ وہ وقف کی روح ہمارے اندر زندہ ندر ہے.پس میں اپنے بھائیوں کو اس طرح متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عید بے شک ہمارے لئے خوشی کی عید ہے.لیکن ہمیں حقیقی عید صرف اس وقت حاصل ہو سکتی ہے، جب ہم اس عید کا عرفان حاصل کر لیں.جب ہم اس عید کی حقیقت کو پالیں.اور پھر اس کے مطابق اپنی عملی زندگیوں کو ڈھالیں.ہم میں سے بزرگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نمونہ کو پکڑیں.ہماری مستورات حضرت ہاجرہ کا نمونہ اپنے سامنے رکھیں اور ہمارے بچے اور نوجوان خدا تعالیٰ کے برگزیدہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف نظر رکھیں.جس نے چودہ سال کی عمر میں بشاشت کے ساتھ خدا تعالی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور اس کی رضا کی خاطر ایسے بیابان میں زندگی گزارنے کو قبول کر لیا تھا، جہاں بظاہر حالات زندہ رہنا ممکن نہیں تھا.جب تک یہ روح ہمارے بڑوں میں، ہماری عورتوں میں اور ہمارے نوجوانوں میں پیدا نہیں ہوتی ، اس وقت تک غلبہ اسلام کے دن نزدیک تر نہیں آسکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں وقف کی اس روح کو سمجھنے اور بشاشت کے ساتھ اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے کہ سب طاقت اور توفیق اسی سے حاصل کی جاسکتی ہے.مطبوعه روزنامه الفضل 04 مئی 1966 ء ) 58

Page 76

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 اپریل 1966ء غلبہ اسلام کی جو مہم تحریک جدید کے ذریعہ جاری ہوئی ، وہ قیامت تک کے لئے ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اپریل 1966ء پہلی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ سو ڈیڑھ سو سال سے عیسائیت اپنے سارے دجل ، سارے فریب، اپنے سب اموال اور اپنی ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ اسلام پر حملہ آور رہی ہے اور اب بھی ہر قسم کے حملے کر رہی ہے.اگر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرزند جلیل اور اسلام کے ایک طاقتور پہلوان کی شکل میں مبعوث نہ فرماتا تو عیسائیت اسلام کے خلاف شاید میدان مار چکی ہوتی.اور شاید ان بدقسمت مسلمانوں کی خواہش پوری ہو جاتی ، جنہوں نے قرآن کریم کی تعلیم سے منہ موڑ کر عیسائیت کی آغوش میں دنیا کی آسائشیں اور دنیا کے آرام ڈھونڈے تھے.جیسے کے مولوی عمادالدین، جو مسجد (آگرہ) کے امام اور خطیب تھے، مسلمانوں سے نکل کر عیسائیوں میں شامل ہو گئے تھے.اور ان کا یہ خیال تھا کہ عنقریب ہی وہ وقت آنے والا ہے کہ اگر ہندوستان میں کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگی کہ وہ کسی مسلمان کو دیکھے تو اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکے گی.اور ہندوستان میں اسے کوئی بھی مسلمان نظر نہیں آئے گا.سب مسلمان عیسائی ہو جائیں گے.اس زبر دست حملہ اور ان کی خواہشات کو دیکھ کر ، جو عیسائی مناد کے دل میں گدگدی لے رہی تھیں، اپنے دین کی حفاظت کے لئے اور اپنی توحید کی خاطر غیرت دکھاتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا.اور عیسائیت کے خلاف آپ کو اس قدر زبردست دلائل، براہین اور نشانات اور معجزات عطا کئے کہ ان کے ذریعہ عیسائیت کا حملہ ہر میدان میں آہستہ آہستہ رکنا شروع ہوا.اور جہاں جہاں بھی احمدی پہنچے ، وہاں نہ صرف یہ کہ عیسائیت کا حملہ رک گیا بلکہ عیسائیت کے خلاف جوابی روحانی حملے شروع ہو گئے.حتی کہ عیسائیوں کو مجبوراً آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا پڑا اور اب تک پیچھے ہٹتے جارہے ہیں.اس روحانی مہم کو تمام اکناف عالم میں چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے القاء سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نومبر 1934 ء سے تحریک جدید کا اجرا کیا تھا.دوست جانتے ہیں کہ اس تحریک کے ذریعہ دنیا کے بہت سے ممالک میں عیسائیت کا زبردست خوش کن اور کامیاب مقابلہ کیا جارہا ہے.59

Page 77

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 اپریل 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پس حضور نے نومبر 1934ء میں یہ تحریک جاری فرما کر مالی قربانیوں کا جماعت سے مطالبہ فرمایا.پہلا مطالبہ 27 ہزار روپے کا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی اس جماعت نے وقت کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے قریباً 98 ہزار روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.اس کے بعد حضور نے دفتر دوم کا اجرا فر مایا.اس سے پہلے جن لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا، ان کو دفتر اول قرار دیا.جواب تک جاری ہے.دفتر اول میں حصہ لینے والوں کی تعداد قریباً پانچ ہزار تھی.جواب کم ہوتے ہوتے 24 سو تک رہ گئی ہے.کیونکہ جو پچاس، ساٹھ اور ستر سالہ احمدی اس وقت دفتر اول میں شامل ہوئے تھے.ان میں سے بہت سے اپنے موٹی کو پیارے ہو گئے.اس طرح ان کی تعداد گھٹتی رہی.یہ ایک ایسی بات ہے، جو واضح تھی.اور یہ بھی واضح تھا کہ غلبہ اسلام کی جو ہم تحریک کے ذریعہ جاری کی گئی ہے، وہ وقتی نہیں بلکہ قیامت تک جاری رہنے والی ہے.اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دفتر دوم کی بنیاد رکھی.جب 1944ء میں دفتر دوم جاری کیا گیا تو پہلے سال اس کی آمد صرف 52,724 روپے تھی اور ہیں سال بعد یعنی 1963ء میں اس کی آمد 2,90,000 ( دولاکھ نوے ہزار روپے) تک پہنچ گئی.کیونکہ شروع میں بہت سے ایسے نو جوان اس میں شامل ہوئے، جنہیں صرف جیب خرچ مل رہا تھا اور معمولی چندہ ادا کر کے ثواب حاصل کرنے کی خاطر وہ اس میں شامل ہوئے تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل فرمایا ، وہ تعلیم سے فارغ ہو کر کام پر لگ گئے.اپنی دنیوی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک احمدی کی ذمہ داریوں کو بھی نبھانا شروع کیا.اس طرح ترقی کرتے کرتے 63 ء میں ان کا چندہ باون ہزار سے دولاکھ نوے ہزار تک پہنچ گیا.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں دفتر اول میں شریک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزارتھی اور دفتر دوم میں شامل ہو نیوالوں کی تعداد قریباً بیس ہزار تک پہنچ چکی ہے.بہر حال دفتر اول کے مقابلہ میں یہ بہت بڑی تعداد ہے.اگر دس سال کے بعد ایک اور دفتر کھولا جاتا تو 54 ء میں دفتر سوم کا اجراء ہونا چاہیے تھا.لیکن اللہ تعالی کی کسی خاص مشیت یا ارادہ کی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1954ء میں دفتر سوم کا اجرا نہیں فرمایا.1964ء میں دفتر دوم کے 20 سال پورے ہو جاتے ہیں، اس وقت حضرت مصلح موعود بیمار تھے اور غالباً بیماری کی وجہ سے ہی حضور کو اس طرف توجہ نہیں ہوئی.کیونکہ امام کی بیماری کے ساتھ ایک حد تک نظام بھی بیمار ہو جاتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ تحریک جدید کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں اس کے 60

Page 78

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 122 اپریل 1966 ء متعلق لکھا نہیں گیا.میں چاہتا ہوں کہ اب دفتر سوم کا اجرا کر دیا جائے لیکن اس کا اجراء یکم نومبر 65ء سے شمار کیا جائے گا.کیونکہ تحریک جدید کا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے.اس طرح یکم نومبر 65ء سے 31 اکتوبر 66 ء تک ایک سال بنے گا.میں اس لئے ایسا کر رہا ہوں تا کہ دفتر سوم بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف منسوب ہو.اور چونکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے اعلان کی توفیق دے رہا ہے، اس لئے میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اپنے فضل سے ثواب عطا کرے گا اور اپنی رضا کی راہیں مجھ پر کھولے گا.پس میں چاہتا ہوں کہ دفتر سوم کا اجراء یکم نومبر 1965ء سے ہو.دوران سال نومبر کے بعد جو نئے لوگ تحریک جدید کے دفتر دوم میں شامل ہوئے ہیں، ان سب کو دفتر سوم میں منتقل کر دینا چاہیے.اور تمام جماعتوں کو ایک باقاعدہ مہم کے ذریعہ نو جوانوں، نئے احمدیوں اور نئے کمانے والوں کو دفتر سوم میں شمولیت کے لئے تیار کرنا چاہیے.دوست جانتے ہیں کہ جہاں ہر سال خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھتی ہے اور نئے احمدی ہوتے ہیں، وہاں ہزاروں احمدی بھی ایسے ہوتے ہیں، جو نئے نئے کمانا شروع کرتے ہیں.یہ ہماری نئی پود ہے اور ان کی تعداد کافی ہے.کیونکہ بچے جوان ہوتے ہیں تعلیم پاتے ہیں اور پھر کما نا شروع کرتے ہیں اور باہر سے بھی ہزاروں کمانے والے احمدیت میں شامل ہورہے ہیں.اس طرح ہمیں کافی تعداد میں ایسے احمدی مل سکتے ہیں، جو دفتر سوم میں شامل ہوں.ہمارا یہ کام ہے کہ ہم ان کو اس طرف متوجہ کریں تا کہ وہ عملاً دفتر سوم میں شامل ہو جائیں.سو یکم نومبر 1965ء سے دفتر سوم کا اجراء کیا جاتا ہے.تحریک جدید کو چاہیے کہ وہ فوراً اس طرف توجہ دے اور اس کو منظم کرنے کی کوشش کرے.( مطبوعه روزنامه المفضل 27 اپریل 1966ء) 61

Page 79

Page 80

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطاب فرمودہ 25 اپریل 1966 ء دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی احمدیت کو تمام دنیا میں ترقی عطا فرمائے خطاب فرمودہ 25 اپریل 1966ء محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ کی ڈنمارک کی پہلی مسجد کی بنیا در رکھنے کے لئے روانگی کے موقع پر حضور نے مندرجہ ذیل مختصر خطاب فرمایا :- وو...آج مرزا مبارک احمد صاحب کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں مسجد کی بنیا در رکھنے اور بعض دیگر ضروری کاموں کے لئے روانہ ہورہے ہیں.مسجد بنانے میں بہت سی روکیں تھیں، جن میں سے بہت سی دور ہو چکی ہیں.امید ہے کہ دوسری بھی دور ہو چکی ہوں گی.لیکن ابھی تک ان تمام روکوں کے دور ہونے کی اطلاع مجھے نہیں ملی.پھر یہ بھی یقینی نہیں کہ مسجد پہلی جگہ پر تعمیر ہو یا کسی دوسری جگہ پر.پس ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسجد کا تعمیر ہونا بہتر ہو، وہیں تعمیر ہو.خوشی کی بات یہ ہے کہ اب وہاں کے پادریوں نے خفیہ طور پر سجد کی تعمیر کی مخالفت شروع کر دی ہے.اور سنت اللہ یہ ہے کہ جہاں مخالفت ہو ، وہاں ترقی بھی ہوتی ہے.اس لئے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالٰی وہاں اسلام اور احمدیت کو ترقی بخشے.پھر بیرونی ممالک میں بھی اور پاکستان میں بھی احمدیت کی تعلیم سنے کا رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے.ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو غیر ممالک میں بھی ترقی او نمایاں کامیابی عطافرمائے اور پاکستان میں بھی.اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ی تعلیم انہیں سنا سکیں.اور ان لوگوں کو توفیق دے کہ وہ اسے سن سکیں.“ ( مطبوعه روزنامه الفضل 06 مئی 1966ء) 63

Page 81

Page 82

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم تقریر فرموده 08 مئی 1966 ء نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کی ضرورت کی طرف متوجہ ہوں تقریر فرمودہ 08 مئی 1966ء مکرم ڈاکٹر لال دین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ کمپالہ ( یوگنڈا ) نے ، جور بوہ تشریف لائے تھے، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ارشاد پر مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے حالات سنائے.مکرم ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے بعد حضور نے درج ذیل بصیرت افروز خطاب فرمایا :." آپ دوستوں نے محترم ڈاکٹر صاحب سے یوگنڈا اور مشرقی افریقہ کے بعض دوسرے علاقوں ( جواب علیحدہ اور آزاد ممالک بن گئے ہیں.کے حالات سنے ہیں.محترم ڈاکٹر صاحب نے نہایت اختصار کے ساتھ اور ایک لمبے عرصہ سے متعلق، جو باتیں بیان فرمائی ہیں، ان میں سے سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ جو مبلغ بھی افریقہ جائیں ، وہ علاقہ کی مقامی زبان سیکھنے کی طرف فوری توجہ دیں اور جلد سے جلد اس میں ملکہ اور کمال حاصل کرنے کی کوشش کریں.دوسری بات محترم ڈاکٹر صاحب نے یہ بیان فرمائی ہے اور انہوں نے مجھ سے جو بانی باتیں کی ہیں، ان سے بھی میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمارے مبلغین زیادہ تر شہروں میں قیام کرتے ہیں، انہیں شہروں میں قیام کرنے کی بجائے افریقہ کے قبائل میں زندگی بسر کرنی چاہیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دنی فتدلی میں ایک گر سکھایا ہے.جو تعلیم اور تبلیغ دونوں میں مفید ثابت ہوتا ہے.اور وہ گر یہ ہے کہ جو شخص علم سے کورا اور روحانی باتوں سے بے بہرہ ہے، جب تک آپ اس کے لئے اپنے مقام سے نیچے نہیں اتریں گے، آپ اس پر پوری طرح اثر انداز نہیں ہو سکیں گے.پس جو مبلغ بھی یہاں سے افریقہ جاتے ہیں، انہیں بڑی سادگی کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر تکلیف برداشت کرتے ہوئے بھی شہروں کی بجائے دیہات میں رہنا چاہیے.انہیں مقامی باشندوں سے تعلق پیدا کر کے تدبیر اور دعا سے کوشش کرنی چاہیے کہ انہیں پستی سے اٹھا کر ان رفعتوں کی طرف لے جائیں ، جن رفعتوں کی طرف اسلام انہیں لے جانا چاہتا ہے.65

Page 83

تقریر فرموده 08 مئی 1966 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس وقت مشرقی افریقہ، مغربی افریقہ کے مقابلہ میں اس لحاظ سے بہت پیچھے ہے کہ وہاں کے مقامی لوگ مغربی افریقہ کے مقابلہ میں بہت کم تعداد میں احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.لیکن جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے، مشرقی افریقہ کے بعض علاقوں میں صحیح معنوں میں کام کیا جائے تو ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ مقامی لوگ بڑی تعداد میں احمدیت کو قبول کرلیں گے.بشرطیکہ پوری کوشش کی جائے اور پھر صحیح رنگ میں کی جائے.بعض علاقوں میں حکومتوں کی طرف سے مبلغوں کی تعداد پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ جن علاقوں میں اس وقت تک کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ، وہاں ہم زیادہ تعداد میں مبلغ بھیجیں.تا تبلیغ کے کام میں رکاوٹ نہ ہو.اس وقت جو نو جوان جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا وہ جواں دل دوست، جو بڑی عمر میں بھی اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیتے ہیں، انہیں ابھی سے ارادہ کر لینا چاہیے کہ وہ جہاں اور جس علاقہ میں بھی تبلیغ اور اعلائے کلمہ اسلام کے لئے بھیجے جائیں گے، وہاں بڑی سادہ زندگی گزارتے ہوئے ، مقامی لوگوں سے میل جول بڑھائیں گے اور ان کو تحت الثریٰ سے ) کہ جہاں وہ روحانی لحاظ سے اب ہیں.) اٹھا کر بلند سے بلند تر مقام پر لانے کی کوشش کرتے رہیں گے.ضمناً یہ بات بھی آجاتی ہے کہ صرف مشرقی افریقہ ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے حالات کا یہی تقاضا ہے کہ ہمارے احمدی نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں.اور یہاں مرکز میں رہ کر تربیت حاصل کریں اور اس کے بعد بیرون پاکستان تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کریں.اس وقت ایک تو ہمارا طریق جامعہ احمدیہ میں داخل کر کے باقاعدہ مربی بنانے کا ہے.لیکن جس تعداد میں نوجوان جامعہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک تعلیم ختم کر کے وہ با قاعدہ مربی بنتے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہماری ضرورت کے ہزارویں حصہ کو بھی پورا نہیں کرتے.اس لئے غالباً میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اس طرف اشارہ بھی کیا تھا کہ ہمیں مبلغ تیار کرنے کے سلسلہ میں تعلیم دینے کے لئے کسی شارٹ کورس (short course) کا انتظام کرنا پڑے گا.تا ہماری ضرورت پوری ہو سکے.دنیا کے مادی ہتھیاروں سے لڑنے والی قومیں جنگ کے دوران یا جب ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا جاتا ہے، حالات سے مجبور ہو کر تربیت کا زمانہ کم کر دیتی ہیں.تا انہیں ضرورت کے مطابق اور مناسب تعداد میں کام کرنے والے فوری طور پر مل سکیں.مثلاً گزشتہ ستمبر میں ہمارے ملک اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی تو ہماری حکومت نے شارٹ ٹرم کورس جاری کر دیئے.جتنی ایمر جنسی گزشتہ ستمبر میں 66

Page 84

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم تقریر فرموده 08 مئی 1966ء ہمارے ملک کو پیش آئی یا جتنے ہنگامی حالات ہمارے ملک میں پیدا ہوئے ، اس سے کہیں زیادہ ہنگامی حالات احمدیت اور اسلام کو آج دنیا میں پیش آرہے ہیں.ان حالات کے پیش نظر جہاں ہمیں لمبی تربیت کے بعد با قاعدہ مربی تیار کرتے رہنا چاہیے، وہاں ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ شارٹ کورس کی بنیاد کو چھ ماہ سال یا ڈیڑھ سال تک پڑھے لکھے آدمی کو ایسے رنگ میں تربیت دیں کہ وہ ایک حد تک تبلیغی کام کو حیح طور پر انجام دے سکے.مثلاً مشرقی افریقہ کے ممالک تنزانیہ، یوگنڈا اور کینیا میں اگر تین با قاعدہ مربی ہوں اور ان کے ساتھ 300 ایسے مربی ہوں، جو شارٹ کورس کی بنیاد پر تربیت یافتہ ہوں تو تبلیغ کے کام کو ترقی دی جاسکتی ہے.اس صورت میں جہاں پڑھے لکھے اور عام لوگوں سے بات کرنے کا موقع ہو، وہاں با قاعدہ تربیت یافته مربی چلا جائے.لیکن جو عوام ہیں اور جو پڑھے لکھے آدمیوں کے برابر علم نہیں رکھتے ، ان کی نسبت ہمارے ان کم تربیت یافتہ لوگوں کے پاس علم زیادہ ہوگا اور پھر اگر ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جائے ، انہیں دعا کرنے کی عادت ہو، دعا میں انہیں شغف حاصل ہو اور ساتھ ہی وہ اخلاص اور جذبہ سے کام کریں تو پھر انہیں یہ کام کرنا اور بھی آسان ہوگا.اس وقت اسلام خطرہ میں ہے اور ہمیں ہر مصیبت اور تکلیف برداشت کر کے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں بلند کرنا ہے.تو حید باری تعالٰی کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور اس کام کے لئے علم سے زیادہ خلوص اور تعلق باللہ کی ضرورت ہے.ہمارا علم تو محدود ہے لیکن جب کسی کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جائے اور وہ اسے سکھانے پر آجائے تو وہ ایک سیکنڈ میں اتنا علم سکھا دیتا ہے، جو ایک استاد کئی سال میں بھی نہیں سکھا سکتا.ہمارا نو جوان اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والا ہو، اس کا دل اخلاص اور محبت باری تعالیٰ سے پر ہو، وہ دعا میں شغف رکھتا ہوتو وہ کسی محاذ پر بھی دشمن اسلام سے شکست نہیں کھا سکتا.پس ہمارے نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کی ضرورت کی طرف متوجہ ہوں.اور اپنی اخروی زندگی کی خاطر اور اس دنیا میں اپنی اور اپنی نسلوں کی بھلائی کی خاطر اپنی زندگی دکھ اور تکلیف میں گزارنے کے لئے تیار ہوں.تا ساری دنیا حلقہ بگوش اسلام ہو جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض پوری ہو کہ ساری دنیا خدائے واحد کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ نکتہ سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی خاطر خدمت دین کے لئے پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:.وو یہ بات نوٹ کر لینی چاہیے کہ ہمارے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں ہونا چاہیے.چاہے وہ کتنا ہی خفیف کیوں نہ ہو.عام طور پر دنیا داروں میں جو اختلاف ہوتے ہیں، ان سے تو احمدی محفوظ ہیں.67

Page 85

تقریر فرموده 08 مئی 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم لیکن چونکہ انسانوں کی فطرتیں مختلف ہوتی ہیں، ان کی عادات مختلف ہوتی ہیں، اس لئے دو احمد یوں میں بعض اوقات اختلاف رائے ہو جاتا ہے، اس اختلاف کو قتل سے برداشت کرنا چاہیے.یہ اختلاف اگر ذرہ بھر بھی بڑھ جائے تو اسلام کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے.اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے.ان کی کوششوں میں برکت ڈالے اور وہاں کی جماعت کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اسلام کو پھیلانے میں کامیاب سے کامیاب تر کام کر سکے.اور پھر ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم افریقہ میں اور دوسرے ممالک میں بھی زیادہ سے زیادہ نو جوان بھجوا سکیں.تاان کے رہنے والوں کو جلد اسلام کی طرف لایا جا سکے.مکرم ڈاکٹر صاحب کل واپس جارہے ہیں، دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو، وہ خیریت سے اپنے گھر پہنچیں اور خیریت سے وہاں رہیں“.( مطبوعه روز نامہ الفضل 08 جون 1966ء) 68

Page 86

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1966ء جماعت کو چاہیے کہ مطالبات تحریک جدید کود ہراتی رہے اور ان پر عمل کرے چاہتا ہوں.22 خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اگست 1966ء میں اختصار کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق دوستوں کے سامنے بعض باتیں رکھنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.وو...اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لئے سب سے اول تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ.اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ.اس پہلو میں مالی ضرورتوں اور امداد کی حاجت ہے.اور یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسی ضرورتیں پیش آئی تھیں.اور صحابہ کی یہ حالت تھی کہ ایسے وقتوں پر بعض ان میں سے اپنا سا راہی مال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتے اور بعض نے آدھا دے دیا.اور اس طرح جہاں تک کسی سے ہوسکتا، فرق نہ کرتا.مجھے افسوس سے ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ ، جو اپنے ہاتھ میں بجز خشک باتوں کے اور کچھ بھی نہیں رکھتے اور جنہیں نفسانیت اور خود غرضی سے کوئی نجات نہیں ملی اور حقیقی خدا کا چہرہ ان پر ظاہر نہیں ہوا، وہ اپنے مذاہب کی اشاعت کی خاطر ہزاروں لاکھوں روپے دے دیتے ہیں اور بعض اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں.عیسائیوں میں دیکھا ہے کہ بعض عورتوں نے دس، دس لاکھ کی وصیت کر دی ہے.پھر مسلمانوں کے لئے کس قدر شرم کی بات ہے کہ وہ اسلام کے لئے کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے یا نہیں کرتے.مگر خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے روشن چہرہ پر سے وہ حجاب، جو پڑا ہوا ہے، دور کر دے.اور اسی غرض کے لئے اس نے مجھے بھیجا ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 616615) 69

Page 87

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دوست جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس چھوٹی سی اور غریب جماعت کو ساری دنیا کے مقابلہ پر لا کھڑا کیا ہے.اور فرمایا کہ تمام ادیان باطلہ کا مقابلہ کرو اور انہیں شکست دو اور اسلام کی خوبیوں کو ظاہر کر کے اسے ان پر غالب کرو.اس جماعت کے مقابلہ میں ایک طرف ان طاغوتی طاقتوں کو بڑی قوت اور وجاہت اور اقتدار اور مال دیا کہ اربوں، ارب روپیہ وہ اسلام کے خلاف خرچ کر رہے ہیں.اور دوسری طرف اپنی اس جماعت کو بڑے ہی وعدے دیئے اور فرمایا کہ تم ان اقوام اور ان مذاہب کی طاقت کو دیکھ کر گھبرانا نہیں اور ان کے اموال پر نظر کر کے تمہیں پریشانی لاحق نہ ہو.کیونکہ میرا تم سے یہ وعدہ ہے کہ اگر تم میری بھیجی ہوئی تعلیم پر عمل کرو گے اور میرے بتائے ہوئے طریق پر چلو گے تو تھوڑے ہونے کے باوجود اور کمزور ہونے کے باوجود اور غریب ہونے کے باوجود آخری فتح اور کامیابی تمہارے ہی نصیب ہوگی.اس چیز کو دیکھتے ہوئے اور اس چیز کو سمجھتے ہوئے ، ہم پر بڑی ہی قربانیوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.جن میں سے ایک مالی قربانی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ مطالبہ تو نہیں کیا کہ ہم اپنی طاقت اور استعداد سے بڑھ کر اس کی راہ میں قربانی دیں.کیونکہ ایسا مطالبہ غیر معقول ہوتا.اور اللہ تعالیٰ تو عقل اور حکمت اور علم اور نور کا سر چشمہ ہے.وہ تو نور ہی نور ہے.اس کی طرف سے اس قسم کا کوئی مطالبہ ہو ہی نہیں سکتا.لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں یہ ضرور بتاتا ہے کہ میں نے قوت استعداد اور اموال کے بڑھانے کے کچھ طریق بھی رکھے ہیں.تم اپنی طاقت سے بڑھ کر قربانی نہیں دے سکتے لیکن تم قربانی دینے کی طاقت کو ہر وقت بڑھا سکتے ہو.پس قربانی دینے کی طاقتوں کو تم بڑھاؤ.تین موٹی باتیں میں اس وقت دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اول :.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَانْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى ایک تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مالی اور اقتصادی لحاظ سے تم جس مقام پر بھی ہو، وہ تمہارا آخری مقام ہیں.مزید ترقیات کے دروازے تمہارے سامنے ہیں، جنہیں تم اپنی سعی سے، اپنی کوشش سے، اپنی جدو جہد سے اپنی محنت سے کھول سکتے ہو.یعنی اگر تم اپنے پیشہ میں مزید مہارت حاصل کر لو، جتنی محنت اور توجہ سے تم اس وقت کام کر رہے ہو ، اس سے زیادہ محنت اور توجہ سے کام کرو.اور جو ذ رائع تمہیں میسر آئے ہوئے ہیں، ان کو تم پہلے سے زیادہ بہتر طریق پر استعمال کرو.یعنی تدبیر کو اپنے کمال تک پہنچاؤ.اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں بھی کرتے رہو کہ وہ تمہارے اموال میں برکت ڈالے اور تمہاری کوششوں کو 70

Page 88

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1966 ء کو بار آور کرے.تو اس کے نتیجہ میں تمہارے اموال بڑھ جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی مالی قربانی کی استعداد بھی.مثلاً اگر ہم میں سے ہر ایک کی آمد بڑھ جائے لیکن جذبہ ایثار استاہی رہے، جتنا پہلے تھا.تب بھی کمیت کے لحاظ سے ہماری مالی قربانی میں بڑا نمایاں فرق آ جاتا ہے.مثلاً ایک شخص کی آمد ایک سور و پیہ ماہوار ہے اور وہ اپنے جذبہ ایثار سے مجبور ہو کر اور اپنی استعداد کے مطابق اس میں سے ہیں فیصد روپیہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے.اگر وہ محنت کرے، اگر وہ اپنے علم میں زیادتی کرے، اگر وہ اپنے ذرائع کو بہتر طریق پر استعمال کرے اور اگر وہ اپنی دعاؤں کے نتیجہ میں اپنی آمد کو سو سے دوسو ماہانہ کر دے اور اس کی قربانی میں فیصد ہی رہے تو پہلے وہ ہیں روپے ماہوار دیتا تھا ، اب وہ چالیس روپے ماہوار دے گا.تو کمیت کے لحاظ سے مالی قربانی میں دگنا اضافہ ہو جائے گا.کیونکہ اس کی آمد پہلے کی نسبت دگنی ہو گئی.2:.ایک اور طریق اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ تم اپنے خرچ کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ضبط میں لاؤ.سادہ زندگی گزارو.رسم ورواج ، جو بیاہ شادیوں کے موقع پر یا موت فوت کے موقع پر لوگوں میں رائج ہیں، ان کے نتیجہ میں اسراف کی راہوں کو اختیار کیا جاتا ہے، تم ان راہوں کو اختیار نہ کرو.اور سادہ زندگی اختیار کر کے اپنے خرچوں کو کم کر دو.اس کے نتیجہ میں بھی تمہاری قربانی اور انفاق فی سبیل اللہ کی طاقت اسی نسبت سے بڑھ جائے گی.مثلاً ایک شخص کی سوروپیہ ماہوار آمد ہے اور اس کو اپنی ذات اور اپنے خاندان پر اس روپیہ ماہوار خرچ کرنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اور بعض باتوں میں وہ اسراف کرتا ہے اور سادگی کی تعلیم پر عمل پیرا نہیں ہوتا.اگر وہ سادہ زندگی کو اختیار کرے اور اس کا خرچ اسی روپیہ سے گر کرستر روپیہ ماہوار پر آجائے تو اس کو سادگی کے اختیار کرنے کے نتیجہ میں دس روپیہ ماہوار زیادہ قربانی کرنے کی طاقت حاصل ہو گئی.اگر وہ چاہے تو خدا کی راہ میں اسے دے سکتا ہے.اس لئے میں تفصیل میں جائے بغیر احباب جماعت کو اور جماعتی نظام کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے مطالبات میں سادہ زندگی کے جو مطالبات رکھے ہیں، ان کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیے.بہت سی جماعتیں اور بہت سے افراد اس چیز کو بھولتے جا رہے ہیں.اگر ہم مثلاً بد قسمتی سے سینما دیکھنے کے عادی ہوں اور اب سینماد یکھنا چھوڑ دیں تو وہ دیں ، پندرہ روپے جو ہم سینما دیکھنے پر خرچ کرتے تھے، وہ ہمارے پاس بیچ رہیں گے.اور اگر ہم چاہیں تو یہ رقم خدا کی راہ میں دے سکتے ہیں.پس میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے وہ مطالبات، جو سادہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو جماعت میں دہرایا جائے اور افراد جماعت کو پابند کیا جائے کہ وہ ان مطالبات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں.71

Page 89

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اسی طرح بہت جگہ سے یہ شکایت آتی رہتی ہے کہ بعض خاندانوں میں رسوم اور بد عادات عود کر رہی ہیں.مثلاً شادی کے موقع پر اسراف کی راہوں کو اختیار کیا جاتا ہے اور بلاضرورت محض نمائش کے طور پر بہت سا خرچ کر دیا جاتا ہے.بعض لوگ تو اس کے نتیجہ میں مقروض ہو جاتے ہیں اور پھر ساری عمر ایک مصیبت میں گزارتے ہیں.یہ تو وہ سزا ہے، جو اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا میں دے دیتا ہے.لیکن ایک اور سزا ہے، جو بظاہر ان کو نظر نہیں آتی کہ اس کے نتیجہ میں وہ بہت سی ایسی نیکیوں سے محروم ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ سادگی کو اختیار کرتے ، اگر وہ رسوم کی پابندی چھوڑ دیتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ان نیکیوں کی توفیق عطا کرتا اور ان کو اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی ایسی نعمتیں حاصل ہوتیں کہ دنیا کی لذتیں اور دنیا کے عیش اور ان کی نمائش ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہ رکھتیں.پس جماعت کو چاہیے کہ تحریک جدید کے ان مطالبات کو دہراتی رہے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے.تا کہ اس طرح وہ اپنے پیسوں کو بچا سکے اور اس کی قربانی کی قوت اور استعداد پہلے کی نسبت بڑھ جائے.اور وہ اپنی اس بڑھی ہوئی حیثیت اور طاقت کے مطابق قربانی کرنے والی ہو.اس طرح دوست پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہوں گے.3:.تیسری بات جس کی طرف قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے، وہ جذبہ ایثار ہے اور شُح نفس سے بچنا ہے.جب یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو انسان بہت سی جائز ضرورتوں کو بھی کم کر سکتا ہے.صحت کو نقصان پہنچائے بغیر اور، اور کسی قسم کا حقیقی نقصان اٹھائے بغیر.تو جب جذبۂ ایثار بڑھ جائے تو قربانی کرنے کی قوت اور استعداد بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کا ذریعہ دعا ہے.ہمیں ہر وقت یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا! تو نے ایک نور قرآن کریم کی شکل میں نازل کیا.اس میں جہاں تو نے ہمیں اور بہت سی حسین ہدایتیں اور احکام دیئے ہیں، وہاں انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق بھی بڑی ہی حسین اور وسیع تعلیم تو نے ہمارے سامنے پیش کی ہے.اور ہمیں بتایا ہے کہ اگر ہم تیری راہ میں ان طریقوں پر جو تو نے بتائے ہیں، اپنے اموال کو خرچ کرنے والے ہوں گے تو تو بہت سے انعامات اور فضل ہم پر نازل کرے گا.تو اے خدا! تو ہمیں اپنے فضل سے اس بات کی توفیق عطا کر کہ ہم اس ہدایت پر عمل پیرا ہونے والے ہوں تا کہ ہم تیری نعمتوں اور فضلوں کو حاصل کر سکیں.پس ہم ان تین طریق سے اپنی قوت اور استعداد کو بڑھا سکتے ہیں.تو جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ ہم اپنی طاقت سے بڑھ کر اس کی راہ میں قربانی دیں.72

Page 90

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 اگست 1966 ء لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ ضرور کرتا ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر طرح یہ کوشش کرتے رہیں کہ اس کی راہ میں ہماری قربانی دینے کی طاقت اور استعداد ہمیشہ بڑھتی چلی جائے تا کہ ہم ہمیشہ پہلے کی نسبت زیادہ سے زیادہ اس کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں.( مطبوعه روزنامه الفضل 08 ستمبر 1966ء) 73

Page 91

Page 92

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطاب فرمودہ 12 اکتوبر 1966ء مشرقی افریقہ میں سکول قائم کرنے ناممکن نہیں خطاب فرمودہ 12 اکتوبر 1966ء حضرت خلیفة المسیح الثالث نے مکرم مولوی عبد الکریم صاحب شر ما مبلغ مشرقی افریقہ کو مخاطب کر کے فرمایا:.ناممکن دو قسم کا ہوتا ہے.ایک ناممکن وہ ہے، جو ممکن نہیں بن سکتا.اور ایک وہ ناممکن ، جو ممکن بن سکتا ہے.ایسی ناممکن بات جو خدا تعالیٰ کی صفات اور اس کے وعدوں کے خلاف ہو ممکن نہیں بن سکتی.لیکن اس کے علاوہ ہر ناممکن نسبتی امر ہے.یعنی کسی کے لئے وہ ناممکن ہوتا ہے اور کسی کے لئے ممکن.مثلاً اس زمانہ میں اسلام کا غلبہ بڑے بڑے مسلمان علماء کے نزدیک بھی ناممکن امر تھا.اس لئے ان میں سے ایک طبقہ، جن میں جامعہ مسجد آگرہ کا امام مولوی عمادالدین بھی شامل تھا، اسلام سے ارتداد اختیار کر کے عیسائی ہو گیا.دینی لحاظ سے وہ لوگ اتنے بڑے عالم تھے کہ انسان حیران ہوتا ہے کہ وہ کس طرح عیسائی ہو گئے.لیکن ایک بات واضح ہے کہ ان میں سے ہر فرد یہ سمجھتا تھا کہ اب اسلام عیسائیت پر غالب نہیں آسکتا.اس وقت عیسائیت دنیا میں غالب آچکی ہے اور اسلام بظاہر حالات اس سے شکست کھا چکا ہے.اس لئے انہوں نے خیال کیا کہ کیوں نہ اس مذہب کو اختیار کر لیا جائے ، جس کو دنیا میں عزت حاصل ہے.چنانچہ وہ عیسائی ہو گئے.اب دیکھو وہ چیز ، جو باقی مسلمانوں کے نزدیک غیر ممکن تھی ، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک ممکن ہی نہیں، یقینی تھی.ظاہراً اسلام غلبہ نہیں پارہا تھا.دولت کے لحاظ سے مسلمانوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی تھی.ان کی حکومتیں ختم ہو چکی تھیں.علم کے لحاظ سے انہیں دوسری قوموں کے پیچھے جانا پڑتا تھا.دنیوی سامان انہیں میسر نہیں تھے.اخلاقی لحاظ سے ان کی حالت گر چکی تھی اور عیسائی ہر لحاظ سے ان پر غالب آچکے تھے.غرض ہر لحاظ سے اسلام کے غلبہ کی کوئی صورت باقی نہیں رہی تھی.ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو دنیا میں کھڑا کیا اور اسے کہا کہ میں تمہارے ذریعہ اسلام کو غلبہ عطا کروں گا.عیسائی کیا ، باقی تمام مذاہب کے پیرو بھی تمہارے مقابلہ میں شکست کھا جائیں گے.اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ پر اتنا 75

Page 93

خطاب فرمودہ 12 اکتوبر 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم یقین تھا کہ وہ سمجھتا تھا، دنیا جو مجھے سمجھے.عقل جو فیصلہ کرے، کرے.بات وہی صحیح ہے، جو خدا تعالیٰ کہہ رہا ہے.یعنی اسلام دوسرے تمام ادیان پر غالب آکر رہے گا.اور ہوا بھی وہی، جو خدا تعالیٰ نے کہا تھا.غیب سے اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا ہونے شروع ہو گئے.اور وہ بات جو دوسروں کو کچھ عرصہ پر نا ممکن نظر آ رہی تھی ممکن ہو گئی.اور دنیا بھی اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی.، پھر دنیا نے یہ نظارہ دیکھا کہ خدا تعالیٰ کا وہ مامور ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) اکیلا نہیں رہا بلکہ لاکھوں آدمی اس کے ساتھ ہو گئے.اور اس وقت اس کے ماننے والے نہ صرف ایشیا میں پائے جاتے ہیں بلکہ دوسرے براعظموں میں بھی پائے جاتے ہیں.چنانچہ افریقہ کو ہی لے لو.افریقہ کے کئی ممالک میں اس کی جماعت قائم ہوگئی.اور سینکڑوں نہیں ہزاروں آدمی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت کی وجہ سے اور خدا تعالیٰ کے ان کے وعدوں کے مطابق، جو اس نے آپ سے یا آپ سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے تھے کہ جب اسلام تنزل میں پڑے گا تو اس کی ترقی کے سامان بھی ہو جائیں گے، بت پرستی ، عیسائیت اور بدمذہبیت کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو گئے.اب دیکھو، ایک بات جو بظاہر ناممکن نظر آتی تھی کس طرح ممکن بن گئی؟ اسی طرح مشرقی افریقہ میں سکول قائم کرنے بھی ناممکن نہیں.جب تک ہم اسے ناممکن خیال کرتے رہیں گے، ہمیں کامیابی نصیب نہیں ہوگی.جہاں تک اسلام کی ترقی کا سوال ہے، ہمارے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں.ہمیں خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنا ہے.اور اس مقصد کے حصول کے لئے جوتد بیر بھی ہمارے ذہنوں میں آسکتی ہے اور دعاؤں کے نتیجہ میں اس کے متعلق ہمارے دلوں میں انشراح پایا جاتا ہے، ہمیں وہ تدبیر اختیار کرنا ہوگی.اگر خدا تعالی کا ارادہ اور منشاء اسی میں ہو کہ غلبہ اسلام کے لئے ظاہری سامانوں سے بھی کام لیا جائے تو ظاہری سامانوں کا حصول بھی ہمارے لئے ممکن ہوگا.پس جب تک خدا تعالیٰ کسی امر کو غیر ممکن قرار نہیں دیتا ہمیں اسے نا ممکن نہیں سمجھنا چاہئے.ورنہ آدمی خود اپنے رستہ میں روک بن کر کھڑا ہو جاتا ہے.ہمارے پاس د نیوی سامان کبھی موجود نہیں تھے.ہمارے پاس آدمی کم ہیں، پیسے کم ہیں ، ظاہری علم کی بھی کمی ہے.غرض ہم ہر لحاظ سے غریب ہیں.لیکن پھر بھی دیکھو اللہ تعالیٰ ہمارے کام خود بخو دکر رہا ہے.میں تو جب مرکز کی گلیوں میں آپ ( مکرم مولوی عبد الکریم صاحب شرما) کو دیکھتا ہوں تو مجھے خدا تعالی کی شان نظر آتی ہے.میں جب آپ کو دیکھتا ہوں یا حکیم محمد ابراہیم صاحب کو دیکھتا ہوں تو خیال کرتا 76

Page 94

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطاب فرمودہ 12 اکتوبر 1966ء ہوں کہ یہ شخص ، جس رنگ اور جس شکل میں یہاں پھر رہا ہے، اس کی حیثیت اور ہے.لیکن جب یہ تبلیغ کے لئے مرکز سے باہر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے اٹھا کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے.چوہدری کرم الہی صاحب ظفر ا سپین میں مبلغ ہیں.وہاں دنیوی لحاظ سے ان کی کوئی حیثیت نہیں.وہ شہر کے ایک چورا ہے میں چھا بڑی لگا کر عطر بیچ رہے ہوتے ہیں.لیکن ایک حیثیت ان کی یہ ہے ، وہ جنرل فرینکو کو بھی بے دھڑک مل لیتے ہیں.اب دیکھو، یہ قوت ان کے دل میں کس چیز نے پیدا کی؟ یہ قوت ان کے اندر اسی احساس نے پیدا کی ، خدائے قادر و توانا کے غلام در ، شاہان وقت کے بھی معلم و استاد ہوتے ہیں.سپین ایک کیتھولک ملک ہے.اس کے رہنے والے نہایت متعصب عیسائی ہیں.اسلام کی تبلیغ بھی وہ کھل کر نہیں کرنے دیتے.لیکن وہاں ایک چھابڑی والے کو اللہ تعالیٰ یہ طاقت عطا کر دیتا ہے کہ وہ وہاں اسلام کی تبلیغ کرتا ہے.چوہدری صاحب کے جو خطوط آتے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پرواز بہت اونچی ہے.وہ ا بڑے اونچے طبقہ میں جاتے ہیں اور تبلیغ اسلام کرتے ہیں.یہاں کے چھابڑی فروشوں کو بھی اپنی اس حیثیت کا احساس کرنا چاہیے.وہ گور بوہ میں چھابڑی فروش ہیں لیکن جب وہ باہر تبلیغ کے لئے جاتے ہیں تو ان کی حیثیت اور ہو جاتی ہے.چوہدری کرم الہی صاحب ظفر کی حیثیت بھی پین میں آپ کی طرح ایک چھا بڑی فروش کی ہے.لیکن وہ بڑی حیثیت کے لوگوں کے پاس چلے جاتے ہیں اور انہیں تبلیغ کرتے ہیں.انہوں نے سابق بادشاہ کو، جنہیں وہاں سے نکال دیا گیا ہے، لٹریچر بھیجا.جوابا بادشاہ نے انہیں شکریہ کا خط لکھا اور وعدہ کیا کہ وہ ضرور اس لٹریچر کا مطالعہ کرے گا.اسلامی اصول کی فلاسفی اور بعض دوسری کتابیں، جو سپینش اور فرانسیسی زبانوں میں شائع کی گئی ہیں، انہوں نے بعض پروفیسروں کو بھیجی ہیں، جو انہیں پڑھتے ہیں.اور ان پر ان کتابوں کا اثر ہے.ان میں سے کئی پروفیسروں نے انہیں لکھا ہے کہ ہم نے ابھی تک ایسی عمدہ کتابیں نہیں پڑھی تھیں.اب دیکھو، ایک چھابڑی فروش ، جس کی بظاہر وہاں کوئی حیثیت نہیں، ملک کے سربراہ کو بھی ملتا ہے اور اسے تبلیغ کرتا ہے.تو یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.مولوی عبد الکریم صاحب شرما، جو اس وقت یہاں بیٹھے ہیں، جب تبلیغ کے میدان میں جائیں گے تو ان کی حیثیت اور ہو جائے گی.وہ وہاں خدا تعالیٰ کے نمائندے ہوں گے، اسلام کے نمائندے ہوں گے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے ہوں گے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نمائندے ہوں گے.پس میں ان سے کہوں گا کہ آپ سے خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں، جو ضرور پورے ہو کر رہیں گے.آپ کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے.خدا جانتا ہے کہ مشرقی افریقہ میں اسلام کے غلبہ کے 77

Page 95

خطاب فرمود : 12 اکتوبر 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کون سے ذرائع پیدا ہوں گے؟ لیکن بظاہر جو ذرائع نظر آتے ہیں ، ان میں سے ایک سکول ہیں تبلیغ کے سلسلہ میں سکول بہت مفید ہو سکتے ہیں.اس لئے آپ کو اس کے لئے کوشش کرنی چاہیے اور دعا بھی کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ آپ کی اس کوشش میں برکت ڈالے.اور پھر یقین رکھنا چاہئے کہ آپ اس میں ضرور کامیاب ہوں گے.کیونکہ اگر آپ کی نیت نیک ہے تو آپ کو ضرور کامیابی حاصل ہوگی.انشاء اللہ.( مطبوعه روزنامه الفضل 23 اکتوبر 1966ء) 78

Page 96

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1966 چند و تحریک جدید کی مثال سنتوں کی سی ہے خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1966ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورت اگر چاہے تو اس طرح بھی اپنی زندگی کے دن گزار سکتی ہے کہ اس کے قدم ہر لحظہ اور ہر گھڑی جنت کی زمین پر رہیں.اور اگر وہ یہ نہ چاہے تو ایسی بد قسمت عورت اپنی زندگی کے دن اس طرح بھی گزار سکتی ہے کہ اس کے قدم جہنم کی زمین کے اوپر ساری عمرر ہیں.یہ بھی ایک معنی ہیں، اس حدیث کے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ماؤں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.اسی سے یہ استدلال بھی ہوتا ہے کہ ماؤں کے پاؤں کے نیچے جہنم بھی ہے.اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ایک طرف تربیت اولاد کی طرف بڑے حسین پیرایہ میں ہمیں متوجہ کیا ہے، وہاں دوسری طرف ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ اگر تم امن اور سکون کی زندگی حاصل کرنا چاہتی ہو، اگر تمہاری یہ خواہش ہے کہ تمہاری اولاد تمہارے لئے خوشی کا موجب بنے ، وہ تمہاری آنکھ کی ٹھنڈک ہو، وہ تمہارے دل کی راحت اور سکون ہو.اور دوسری طرف وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ذریت طیبہ بھی ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تم ان احکام کی روشنی میں جو اسلام نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں ہمارے سامنے پیش کئے ہیں، عمل کرو.لجنہ اماءاللہ کا قیام اس غرض سے ہے کہ تا احمدی مستورات اور احمدی بہنیں اپنی زندگی منظم ہوکر اس طرح گزاریں کہ ان کے قدم ہمیشہ جنت کی زمین کو چھونے والے ہوں اور جہنم کی زمین اور جہنم کی آگ اور اس کی تپش اور اس کی تکالیف کا جھونکا تک بھی ان تک نہ پہنچنے پائے.جہاں تک مالی قربانیوں کا تعلق ہے، احمدی بہنیں اس میں بہت تربیت یافتہ ہیں.اور اس میدان میں اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت بلند اور ارفع مقام عطا کیا ہے.خدا کرے کہ وہ نہ صرف ہمیشہ اس بلند مقام پر قائم رہیں بلکہ اس مقام کی رفعتوں میں ہمیشہ اضافہ ہوتا چلا جائے.کیونکہ مالی قربانیوں کے لحاظ سے ایک ذمہ داری ہم پر یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم اسلام کی ضرورتوں کی خاطر اور خدا کے نام کو بلند کرنے کے لئے مالی جہاد میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں.اور اس سلسلہ میں مستورات کا ایک بڑا نمایاں 79

Page 97

اقتباس از خطاب فرموده 22اکتوبر 1966ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم حصہ مساجد کے لئے چندہ ہے.اور مساجد وہ جگہ ہیں، جہاں اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کیا جاتا ہے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی صدا بلند ہوتی ہے.لیکن اس کے علاوہ جو تر بیتی ذمہ واری احمدی بہنوں پر عائد ہوتی ہے ، اس کی طرف ابھی تک پوری توجہ نہیں دی گئی.شاید اس کا موقع ہی ان کو بہم نہ پہنچایا گیا ہو یا شاید انہوں نے اس طرف توجہ دینا ضروری خیال نہ کیا ہو.لیکن ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ بچے پر دس سال کی عمر میں نماز فرض ہو جاتی ہے.لیکن اس فرض نماز کی عادت ڈالنے کے لئے اگر اس سے بھی پہلے نہیں تو کم از کم سات سال کی عمر کو جب وہ پہنچے تو اس کو نماز کی طرف متوجہ کرتے رہنا چاہیے.تاجب نماز فرض ہو تو وہ نماز کا عادی ہو چکا ہو اور نماز سے پیار کرنے لگ چکا ہو اور نماز کی محبت اس کے دل میں گڑ چکی ہو اور وہ ذہنی طور پر اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہو کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتے اور اس سے دعا ئیں نہیں مانگتے ہمیں اس دنیا میں بھی فلاح حاصل نہیں ہو سکتی اور اخروی زندگی میں بھی ہم اس کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے.اسلام میں صرف نماز کو ہی مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض نہیں کیا گیا بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فرائض ہیں، جن میں سے ایک حصہ مالی قربانیوں اور مالی جہاد کا ہے.اس لئے جس طرح نماز فرض ہونے سے پہلے، بچے کو وہ نماز پڑھائی جاتی ہے کہ جو بھی اس پر فرض نہیں ہوتی.سات سال کے بچے پر ظہر کی نماز عصر کی نماز مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں فرض نہیں.جب ہم ان کو یہ نمازیں پڑھاتے ہیں تو وہ فرض تو نہیں پڑھ رہے ہوتے.اللہ تعالیٰ نے ان پر ان نمازوں کو ابھی فرض ہی نہیں کیا.اسی طرح مالی میدان میں بھی بچوں کو اس کی عادت ڈالنی چاہیے تاوہ ان قربانیوں میں، جو خدا کی توحید کے قیام اور اشاعت اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں ڈالنے کے لئے دی جارہی ہیں، ان میں بچپن ہی میں طوعی اور نفلی طور پر حصہ لینے لگ جائیں.ہماری جماعت میں جماعتی نظام کے لحاظ سے مالی قربانی بطور فرض اس وقت عائد ہوتی ہے، جب کوئی شخص کمانے لگ جاتا ہے یا بلوغت کے بعد جیب خرچ کی شکل میں اس کے پاس کوئی رقم ہوتی ہے.بعض خاندانوں میں یہ رواج ہے کہ وہ پڑھنے والے بچوں کو جیب خرچ کے طور پر کچھ رقم دیتے ہیں.اگر وہ بچے ہوش سنبھال چکے ہوتے ہیں یا پہنی بلوغت کو پہنچ چکے ہوتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مالی قربانی ایک فرض ہے اور اس فرض میں ہمیں بھی حصہ لینا چاہیے.ہمارے ملک میں اور اسلامی معاشرہ میں عورت زیادہ تر کمانے والے میدان میں داخل نہیں ہوتی.الا ماشاء اللہ اب بعض ضرورتوں کے مطابق اور 80

Page 98

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1966 ء بعض غلط قسم کی نقلوں کی وجہ سے ہماری عورتیں بھی نوکری کی طرف ضرورت سے زیادہ متوجہ اور مائل ہورہی ہیں.میں اس بات کے متعلق اس وقت کچھ نہیں کہنا چاہتا.میں اس وقت صرف یہ بتارہا ہوں کہ مرد یا عورت جب کمانے لگ جاتی ہے تو اس پر اپنی آمد کا سولہواں حصہ (اگر اس نے وصیت نہیں کی ) یا کم از کم دسواں حصہ (اگر اس نے وصیت کی ہے ) بطور چندہ دینا لازمی ہے.جس طرح نماز اور دوسرے فرائض ہیں، اسی طرح ایک احمدی پر مالی قربانی بھی بطور فرض کے عائد ہے.اس پر فرض ہے کہ وہ اگر موصی یا موصیہ نہیں تو اپنی آمد کا سولہواں حصہ اور اگر موصی یا موصیہ ہے تو اپنی آمد کا کم از کم دسواں اور زیادہ سے زیادہ تیسرا حصہ اشاعت اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جماعت کے بیت المال میں جمع کرائے.پھر نظام کے مطابق ایک مجلس شوری کے موقع پر جماعت کے نمائندے خرچ کرنے کے متعلق کچھ سفارشات کرتے ہیں اور ان نمائندوں کے فیصلوں کے مطابق وہ رقم خرچ کی جاتی ہے.چونکہ اسلام کا یہ بنیادی حکم ہے کہ فرائض سے کچھ زیادہ خرچ کرو تاتم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکو، اس لئے ہماری جماعت میں حضرت مصلح موعودؓ نے علاوہ فرض چندوں کے بہت سے نفلی چندوں کی بھی تحریک کی ہوئی ہے.ان میں سے ایک چندہ یعنی چندہ تحریک جدید گو نفلی ہے لیکن ضرورت کے مطابق شاید وہ فرض کے قریب قریب پہنچا ہوا ہے.اس کی مثال سنتوں کی سی ہے.جو ہیں تو نوافل لیکن وہ فضل کی نسبت فرض کے زیادہ قریب ہمیں نظر آتی ہیں.کیونکہ انہیں ادا کرنے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید فرمائی ہوئی ہے.پھر چندہ تحریک جدید کے علاوہ چندہ وقف جدید ہے.ان کے علاوہ آپ بہنوں کو ان چندوں میں بھی حصہ لینا پڑتا ہے، جو خاص طور پر لجنہ اماء اللہ کی تحریک پر جمع کئے جاتے ہیں.جیسا کہ مختلف مساجد کے بنانے میں آپ بہنوں نے قابل رشک حصہ لیا ہے.قابل رشک اس معنی میں کہ ہم جو مرد ہیں، ہمارے دلوں میں بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس ثواب سے کیوں محروم رہے کہ فلاں جگہ پر ایک مسجد بن رہی تھی ، جس کے میناروں سے خدائے واحد و یگانہ کا نام بلند ہونا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضل ترین اور ارفع نبوت کا اعلان ہونا تھا.ہم نے اس کے بنانے میں حصہ نہ لیا.ہم ثواب سے محروم رہے اور سارا ثواب آپ نے اپنی جھولیوں میں سمیٹ لیا.بہر حال اس قسم کے قابل رشک چندے بھی آپ بہنیں ادا کرتی ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک جہت ایسی ہے، جس کی طرف آپ نے ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی.اور وہ یہ ہے کہ جس طرح سات سال کی عمر میں بچوں کو (جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ) نفلی نماز اس لئے پڑھائی جاتی ہے یا پڑھائی جانی 81

Page 99

اقتباس از خطاب فرموده 22اکتوبر 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم چاہیے تا کہ جب نماز بطور فرض ان پر عائد ہو تو وہ بشاشت کے ساتھ اور دلجمعی کے ساتھ اور دلی لگاؤ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اس نماز کو ادا کریں.اسی طرح بچوں کو مالی تحریکوں کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہیے.اس میں شک نہیں کہ بعض خاندان اپنے بچوں کی طرف سے بھی چندہ وقف جدید یا چندہ تحریک جدید لکھواتے ہیں اور بعض خاندان ایسے بھی ہیں کہ جو اپنے بچوں کو تحریک کرتے رہتے ہیں اور ہماری طرف سے جو جیب خرچ تمہیں ملتا ہے، اس میں سے تم خدا تعالیٰ کی راہ میں بھی کچھ دیا کرو.لیکن عام طور پر اس طرف ابھی توجہ نہیں کی جاتی “.وو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی بیماری سے کچھ ہی عرصہ قبل وقف جدید کی تحریک کو شروع کیا تھا.اور پھر بوجہ بیماری حضور اپنی زندگی میں اس طرف زیادہ ذاتی توجہ نہیں دے سکے.جیسے حضور نے تحریک جدید کی طرف توجہ فرمائی.تحریک جدید کو حضور نے بڑی توجہ اور محنت اور وقت دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا.تو پھر اسے نظام کے سپرد کیا اور نظام کو کہا کہ اسے سنبھالو اور اس کام کو چلاؤ.اور چونکہ یہ بنی بنائی چیز تھی اور انتظامی لحاظ سے اپنی بلوغت کو پہنچ چکی تھی اور اپنی مضبوطی کو حاصل کر چکی تھی ، اس لئے اس کے چلانے میں نظام کو کوئی وقت پیش نہیں آئی.پھر آپ نے وقف جدید کے کام کو شروع کیا اور اس کی تحریک جماعت میں کی.جماعت سے آپ نے واقفین بھی مانگے اور پھر واقفین اور دیگر اخراجات کے لئے روپیہ بھی مانگا.اور آپ کا خیال تھا کہ آپ اس سکیم اور اس منصوبہ میں آہستہ آہستہ وسعت دیتے چلے جائیں گے.اور اس طرح اس کام کو پورا کر دیں گے، جو اس وقت حضور کو نظر آرہا تھا.اور حضور چاہتے تھے کہ اسے پورا کر دیں.بہر حال آپ نے شروع میں دس ہزار روپیہ کی جماعت سے اپیل کی.لیکن بعد میں جلد ہی حضور بیمار ہو گئے اور اس وجہ سے حضور اس سکیم کی ذاتی طور سے نگرانی نہ فرما سکے.لیکن یہ کام خود بخود جاری رہا اور اب اس کا سال رواں کا بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ کے قریب ہے.اگر حضور بیمار نہ ہوتے اور اس سکیم کی طرف حضور ذاتی توجہ دیتے رہتے تو مجھے یقین ہے کہ سات آٹھ سال کے اندر ہی یہ تحریک اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی.اور جس طرح حضور نے تحریک جدید کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بعد اسے تحریک جدید انجمن احمدیہ کے سپرد کیا، اسی طرح اس تحریک کو بھی حضور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بعد وقف جدید انجمن احمدیہ کے سپرد کرتے.اور جیسا کہ تحریک جدید کے سلسلہ میں ہوا ، آپ بطور خلیفہ عام نگرانی اس کی کرتے رہتے.(عام نگرانی خلیفہ کے فرائض میں سے ہے اور حضور تفاصیل میں گئے بغیر اس کی نگرانی فرماتے رہے.لیکن جیسا کہ تحریک جدید کے شروع میں یہ دستور تھا کہ حضور اس کے متعلق چھوٹے چھوٹے 82

Page 100

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1966 فیصلے بھی خود ہی فرمایا کرتے تھے، وقف جدید کے سلسلہ میں اپنی بیماری کی وجہ سے حضور ایسا نہ کر سکے.لیکن چونکہ وقف جدید شروع میں ہی حضور کی ذاتی نگرانی اور توجہ سے محروم ہوگئی ، اس لئے اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ جو عظیم کام اس تحریک نے کرنا تھا، وہ پورا نہیں ہو سکا“.وو...دوسری ضرورت پیسہ کی ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ میری دلی خواہش یہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے دل میں بھی یہ تڑپ پیدا ہوگی کہ دنیا کس شان سے یہ نظارہ دیکھے گی اور کس رشک کے ساتھ یہ نظارہ دیکھے گی کہ احمدی مستورات نے عیسائیت کے گڑھ میں، وہاں جہاں تو حید کے خلاف اس قسم کے نظریے پائے جاتے ہیں کہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ اس کے نتیجہ میں آسمان اپنی جگہ کو چھوڑ دے اور زمین پر آپڑے اور اس طرح زمین و آسمان تباہ ہو جائیں.کیونکہ ان قوموں کے نظریات اس غرض کے بالکل مخالف اور اس کی ضد ہیں ، جو ان کی پیدائش کی تھی.ان کا ایک حصہ تو خدا تعالیٰ کا منکر ہو چکا ہے اور دہریت ان کا مذہب ہے.اور ایک حصہ وہ ہے، جو ابھی دہر یہ تو نہیں ہوالیکن انہوں نے ایک ماں جائے کو اپنا خدا بنالیا ہے اور وہ اس کے آگے اپنی ناک رگڑتے اور دعائیں کرتے اور حاجت برداری کی اس سے امید رکھتے ہیں.ان جگہوں پر آپ نے قربانی دے کر جو مساجد بنائی ہیں، ان مساجد کو آباد کرنے کے لئے ہمیں تحریک جدید کے واقف چاہئیں.پھر یہاں ملک میں کام کرنے کے لئے وقف جدید کے واقف چاہئیں.پس آپ کوشش کریں کہ آپ کی گود میں پلنے والے اسلام کے ہر میدان میں مجاہد بنیں.اگر میں جہاد کہوں تو کئی بے وقوف اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں کہ پتہ نہیں جہاد سے ان کا کیا مطلب ہے؟ ایک طرف وہ ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تلوار کے جہاد کے منکر ہیں اور کافر ہیں.اور دوسری طرف جب ہم قرآن کریم کے جہاد کا نام لیتے ہیں تو اعتراض کرتے ہیں، دیکھو! یہ کوئی سیاسی جماعت ہے، جو سازش کر رہی ہے.پتہ نہیں کہ یہ حکومت کا تختہ کب الٹ دے.ہمیں دنیوی حکومتوں سے کیا غرض اور واسطہ؟ ہمیں تو خدا تعالیٰ کی حکومت کا قیام مد نظر ہے.تازمین کے چپہ چپہ پر زمین کے بسنے والوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت قائم ہو جائے.دنیا، دنیا والوں اور دنیا داروں کو مبارک ہو.ہمارے دل میں تو اللہ تعالی نے دنیا کی محبت ٹھنڈی کر دی ہے.ہمیں دنیا سے کوئی غرض نہیں.ہمیں دنیا کا کوئی لالچ نہیں.ہمیں دنیا کی وجاہتوں، اس کے اقتدار اور عزتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.ہمیں تو اللہ تعالیٰ کی محبت کے قیام میں دلچسپی ہے.ہمیں تو قرآن کریم کی 83

Page 101

اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اشاعت میں دلچسپی ہے.ہمیں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو ، اس پیارے وجود کی محبت کو دنیا کے دلوں میں قائم کرنے سے محبت ہے.دنیا کے ساتھ ہماری کوئی دلچسپی نہیں.تو میں ” ہر میدان میں مجاہد بنیں“ کے الفاظ بول رہا ہوں.جہاد کا لفظ نہیں بول رہا تا کوئی بیوقوف یا کوئی شرارتی اس فقرہ پر اعتراض نہ کرے.جیسا کہ مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ لجنہ اماءاللہ کے جلسہ میں صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے جو تقریر کی تھی، اس میں انہوں نے اس قسم کے مضمون کو بیان کر کے جہاد کا لفظ استعمال کیا تو اب بعض لوگ یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ لجنہ اماءاللہ کی تحریک کا وہ کون سا حصہ ہے، جو اس وقت ایٹم بم بنا رہا ہے، لجنہ اماءاللہ اس دنیا کو تباہ کر رہی ہے.حالانکہ ہم اس دنیا کو تباہ کرنے کے لئے پیدا ہی نہیں ہوئے.ہم تو دنیا کو زندہ کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.ہم تو مردہ روحوں کو جلا دینے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.ہم تو ان لوگوں کو ، جنہوں نے ابھی اپنی زندگی کا مقصد نہیں پایا، ان راستوں کی نشان دہی کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں کہ جو راستے ، انہیں خدا تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والے ہیں.بہر حال جماعت احمدیہ کے لئے اشاعت اسلام کے لئے مجاہدہ اور قرآن کریم کی اشاعت کے مجاہدہ کے بہت سے میدان ہیں.اور ہر میدان کے لئے ہم ہر احمدی مرد اور عورت سے وقف کی قربانی مانگتے ہیں.اور چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں ہر میدان مجاہدہ میں کچھ ایسے فدائی اور جاں نثار مہیا کریں، جن کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے.اور جو خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والے ہوں.یہ وقف کرنے والے آپ کی گودوں کے پالے ہیں.آپ ان کو ایسے رنگ میں پالیں اور تربیت دیں کہ وہ میدان مجاہدہ میں بشاشت کے ساتھ ، میدان مجاہدہ میں بے نفسی کے ساتھ ، میدان مجاہدہ میں فدائیت اور ایثار کے ساتھ ، خدا تعالیٰ کی محبت کے جنون کے ساتھ کو دیں.اور اسلام کے نام کو ا کناف عالم تک پہنچانے کی جو ہم اللہ تعالیٰ نے شروع کی ہے، اس کی کامیابی اور فتح کے دن اپنی کوششوں اور دعاؤں کے نتیجہ میں قریب سے قریب تر لاتے چلے جائیں.دنیا کو بتائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چھوٹے مسلمان بچوں نے باوجود چھوٹی عمر ہونے کے میدان جہاد میں حصہ لیا.جب کافروں نے تلوار سے مسلمانوں کو اور اسلام کو مٹانا چاہا تو وہ بچے تلوار لے کر میدان میں کو دے اور انہوں نے اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیں.تو اب جبکہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں بلکہ قلم اور تقریر کے جہاد کا زمانہ ہے اور مخالف اپنے وعظوں میں اور اپنی تقاریر میں اور اپنی تحریروں میں اسلام پر ہرنا جائز اور ہر کمبینہ حملہ کر رہا ہے، ہم (احمدی بچے ) بھی پیچھے نہیں رہے بلکہ اس 84

Page 102

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 22 اکتوبر 1966ء جہاد میں اپنے بڑوں کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں.اس وقت ہم ہی وہ لوگ ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ.کھڑا کیا ہے.اور کہا ہے کہ تم اٹھو اور دنیا کا مقابلہ کرو اور اسلام کو دنیا میں دوبارہ غالب کرو.غرض ہمارے بچوں کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ جس طرح ہمارے پہلوں نے اپنا سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے قدموں میں نچھاور کر دیا، اسی طرح ہم بچے بھی اپنا سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے قدموں میں نچھاور کرنے کے لئے تیار ہیں.ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بچوں سے پیچھے نہیں رہے.ہم اپنا سب کچھ ( جب بھی مطالبہ کیا جائے ) خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر آپ اپنے بچوں کو اس قسم کی تربیت دے دیں گی تو ایک طرف جماعت کی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی مزید رحمتوں اور فضلوں اور برکتوں کی آپ وارث ہوں گی.پھر ان بچوں کی دینی لحاظ سے بھی اچھی تربیت ہو جائے گی.یہ بچے اس دنیا میں آپ کے لئے ایک ایسی زمین اور ایسا آسمان پیدا کریں گے کہ جن میں جب آپ زندگی گزاریں گی تو آپ کہ کہیں گی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا ہے کہ اگر تم چاہوتو ایسی زندگی گزار سکتی ہو کہ تمہارے قدم ہمیشہ جنت میں رہیں.وہ جہنم کی طرف بڑھنے والے نہ ہوں“.( مطبوعه روز نامه الفضل 11 فروری 1968ء) | 85

Page 103

Page 104

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966ء مطالبات تحریک جدید قرآن مجید کے پیش کردہ مطالبہ جہاد کی ہی مختلف شقیں ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966ء تشہد ، تعوذ اور فاتحہ شریف کی تلاوت کے بعد حضور پر نور نے یہ دو آیہ کریمہ پڑھیں :.يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَ رَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اور پھر فرمایا:.آج میں تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.مالی قربانیوں کے لحاظ سے تحریک جدید کے اس وقت تین حصے ہیں اور وہ تین دفتر کہلاتے ہیں.دفتر اول دفتر دوم اور دفتر سوم.دفتر اول کا بتیسواں سال جارہا ہے، دفتر دوم کا بائیسواں سال جارہا ہے اور دفتر سوم کا پہلا سال جارہا ہے.تحریک جدید کے بہت سے مطالبات ہیں، جن کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1934 ء میں پانچ ، چھ خطبات دیئے.اگر آپ ان خطبات کا مطالعہ کریں تو آپ جان لیں گے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں ایک نہایت ہی اہم اور دور رس سکیم تھی.جس کی اہمیت بتاتے ہوئے بھی حضور نے غالباً دو یا اس سے زائد خطبات دیئے تھے.میں نے گزشتہ دنوں ان خطبات کو دوبارہ پڑھا اور ان پر غور کیا تو میری توجہ اس طرف گئی کہ تمام مطالبات جو تحریک جدید کے ضمن میں، اس سکیم کے ماتحت آپ نے جماعت احمدیہ سے کئے ہیں، وہ سارے کے سارے قرآن مجید کے پیش کردہ مطالبہ جہاد کی مختلف شقیں ہیں.اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے، اے وہ لوگو! جود عولی کرتے ہو کہ ہم خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، اس تعلیم پر، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف لائے ہیں ، ایمان لاتے ہیں.آؤ میں ایسی تجارت کی نشان دہی کروں کہ اگر تم یہ سودا اپنے رب سے کر لو تو تم اس عذاب الیم سے بچ جاؤ گے، جو ان لوگوں کے لئے مقدر ہے، جو اس قسم کا سودا اور اس قسم کی تجارت اپنے پیدا کرنے والے سے نہیں کرتے.فرمایا، تؤمنون بالله.ایک تو یہ کہ تم اپنے دل اور زبان اور اپنی کوششوں سے یہ ثابت کرو کہ تم 87

Page 105

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم واقع میں ایمان لائے ہو.یہ تمہارا محض ایک کھوکھلا اور زبانی دعوئی ہی نہیں ہے.اور اس کے ساتھ یہ کہ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللہ تم اللہ کے راستہ میں جہاد کرو.اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جہاد اور مجاہدہ کرو.سبیل اس راہ کو کہتے ہیں، جو کسی خاص جگہ پر پہنچانے والی ہو.تو سبیل اللہ وہ راستہ ہے، جو خدا تعالیٰ تک پہنچادیتا ہے.وہ راہ، جو خدا تعالیٰ کا مقرب بنا دیتی ہے.وہ راہ ، جو خدا کی رضا کے حصول میں محمد ومعاون ہے.وہ راہ ، جس کے آخر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت انسان کو مل جاتی ہے اور پھر انسان بھی اپنے تمام دل، اپنی تمام روح اور اپنے تمام حواس کے ساتھ اپنے مولیٰ سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.بلکہ اس کے روئیں روئیں سے اپنے رب کی محبت پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہوتی ہے.تو اس آیت میں یہ فرمایا کہ جس تجارت کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں اور جس کی طرف تمہاری راہ نمائی کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے اپنی جانوں کو مجاہدہ میں ڈالو.اور تمہارا یہ مجاہدہ اور تمہارا یہ جہاد اموال کے ذریعہ سے بھی ہوا اور تمہارے نفوس کے ذریعہ سے بھی ہو.ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُون.اور اگر تمہیں حقیقت کا علم ہو جائے تو تم سمجھ جاؤ کہ دراصل اسی چیز میں تمہاری بھلائی ہے.اس خَيْرٌ لَكُم کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ کی آیت 219 میں یوں فرمائی ہے.اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوْا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أوليك يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے مجاہدہ کیا ، اس رنگ میں کہ انہوں نے خواہشات نفسانی کو خدا تعالیٰ کی خاطر چھوڑا، اس رنگ میں کہ انہوں نے اپنے پیدا کرنے والے کی خوشنودی کے حصول کے لئے گناہوں سے اجتناب کیا.(هَاجَرُوا ) اور انہوں نے اپنے ماحول، اپنے املاک، (اپنی جائیدادوں ) اپنے کنبہ اور اپنے شہر اور اپنے علاقہ کو خدا تعالیٰ کی خاطر ترک کیا اور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے گئے.وَجَاهَدُوا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے نیکی کے راستوں پر شوق اور بشاشت کے ساتھ قدم مارا.اُولئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَةَ اللَّهِ یہی وہ لوگ ہیں ، جو امید رکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت انہیں حاصل ہو جائے گی.اُولئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَةَ اللَّهِ.یہ وہ لوگ ہیں، جواللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھ سکتے ہیں.یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالی کی رحمت انہیں ضرور مل جائے گی.پھر اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ جو شخص بدیوں کو ترک نہیں کرتا اور نیکیوں کو اختیار نہیں کرتا ، وہ یہ امید نہیں رکھ سکتا 88

Page 106

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966ء کہ اللہ تعالیٰ اس سے رحمت کے ساتھ سلوک کرے گا.یہ امید کہ اب میرا رب میرے ساتھ رحمت کا سلوک کرے گا، وہی رکھ سکتا ہے، جو بدیوں کو ترک کرتا اور نیکی کی راہوں کو اختیار کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا کہ جب تم بدیوں کو ترک کر کے اور نیکیوں کو اختیار کر کے میری رحمت کے امیدوار بن جاؤ گے تو پھر میں اپنے فضل کے ساتھ حقیقت اور واقعتا تمہیں اپنی رحمت عطا کر دوں گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ مائدہ میں فرماتا ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُم وَيُحِبُّونَ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَا بِمِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (آیت 55) فرمایا کہ بعض انسان تو ایمان لانے کے بعد ارتداد اختیار کر جاتے ہیں اور بعض ایمان لاتے اور پھر پختگی اور استقلال اور فدائیت کے ساتھ اس پر قائم ہو جاتے ہیں.وہ لوگ، جو استقلال کے ساتھ نیکیوں پر مداومت اختیار کرتے ہیں ، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، يحبهم ويحبونه کہ وہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے اور اس کی رضا پر راضی رہتے ہیں.پھر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو مومنوں پر شفقت کرنے والے ہیں.( ہر مومن تمام دوسرے مومنوں کے آگے بچھتا چلا جاتا ہے.یہ وہ لوگ ہیں ، اعزة على الكفرین جو کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں.جب کا فرا چھے لوہے کی تلواریں لے کر ان کے مقابلے پر آتے ہیں تو ان کی ٹوٹی ہوئی ، خراب اور نا قابل اعتبار لو ہے کی بنی ہوئی تلواریں بھی ان کا فروں کی تلواروں کے مقابلہ میں محض خدا تعالیٰ کے فضل سے عملا سخت نظر آتی ہیں.کیونکہ ان کی کاٹ زیادہ نظر آتی ہے.اسی طرح جب یہ لوگ دلائل حقہ کے ساتھ کافروں کے باطل عقائد اور ان باطل عقائد کے حق میں باطل دلائل کا مقابلہ کرتے ہیں تو ان کے منہ بند کر دیتے ہیں.اور جب کا فرلوگ مختلف قسم کی رسوم اور بدعات کے ذریعہ اور مختلف قسم کی لالچ دے کر ان کو راہ صداقت سے ہٹانا چاہتے ہیں تو یہ لوگ ان کا اثر قبول نہیں کرتے (اعزة على الكفرين).فرمایا کہ ہم جو ایسے گروہ سے محبت کا سلوک کرتے ہیں تو اسی لئے کہ یـجـاهــدون فی سبیل الله.یہی وہ لوگ ہیں ، جو اپنی پوری طاقت اور پوری قوت اور اپنے پورے وسائل اور تمام تدابیر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں ، اس کے راستہ میں مجاہدہ کرنے والے ہوتے ہیں.ولا يخافون 89

Page 107

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم لومة لائم اور کسی موقع پر بھی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف ان کے دل میں پیدا نہیں ہوتا.وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ ہماری برادری کیا کہے گی ؟ وہ صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا رب کیا کہے گا ؟ ان کے دلوں میں یہ خوف پیدا نہیں ہوتا کہ جس ماحول میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں ہم نے خدا کے بتائے ہوئے طریق کے خلاف رسوم کو ادا نہ کیا تو ہمارا ناک کٹ جائے گا.کیونکہ وہ اس یقین پر قائم ہوتے ہیں کہ ناک کا کٹنا یا ناک کا رکھنا، محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور ساری عزتیں اسی کی طرف منسوب ہوتی ہیں ، وہی تمام عزتوں کا سر چشمہ ہے.تو فرمایا.ولا يخافون لومة لائم ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء پہلے فرمایا تھا کہ تم امید رکھ سکتے ہو کہ پھر تمہارا خدا تم سے محبت کرنے لگے گا.اب یہاں یہ وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ جو ان سے عملاً محبت کرنے لگ جاتا ہے تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے بظاہر بدیوں کو چھوڑا اور بظاہر نیکیوں کو اختیار کیا.بلکہ چونکہ ہر انسان کے اعمال اور خیالات میں کچھ چھپی ہوئی برائیاں اور کمزوریاں رہ جاتی ہیں، اس لئے کوئی شخص یہ امید نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی اسلامی تعلیم کے مطابق اسے ایسی امید رکھنی چاہیے کہ وہ محض اپنے اعمال یا اچھے خیالات یا اچھی زبان کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو ضرور حاصل کرے گا.یہ تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.یؤتیہ من یشاء اور وہ اپنی محبت کی خلعت سے صرف اسے ہی نوازتا ہے، جو اس کی نگاہ میں پسندیدہ ہوتا ہے.(من يشاء ) اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک اور بات بھی بتائی والله واسع علیم چونکہ اللہ تعالیٰ علم غیب رکھتا ہے، اس لئے جب وہ چاہتا ہے، اپنی صفت واسع کا اظہار کرتا ہے.پس یہاں یہ امید دلائی کہ یہ مقام قرب و رضا، جس کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے، اس کی کوئی انتہاء نہیں.ہر مقام قرب کے بعد قرب کا ایک اور مقام بھی ہے.کیونکہ انسان کسی شکل میں ہی کیوں نہ ہو، اس مادی دنیا میں مادی جسم کے ساتھ یا اس اخروی زندگی میں ایک روحانی جسم کے ساتھ اس کے اور اس کے رب کے درمیان غیر محدود فاصلے ہیں.یعنی قرب ایک نسبتی چیز ہے.اور اگر انسان قرب کی راہیں ابدی طور پر ہر آن طے کرتا چلا جائے ، تب بھی وہ خدا کے قرب کا آخری مقام حاصل نہیں کر سکتا ، جس کے اوپر کوئی اور مقام قرب نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی ذات تو بڑی ہی ارفع ہے.بلندی کے بعد بلندی انسان کو حاصل ہوتی رہتی ہے اور خوش قسمت انسانوں کو حاصل ہوتی رہے گی.لیکن یہ فاصلے غیر محدود ہیں اور قرب کی غیر محدود راہیں کھولتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، والله واسع کہ جس پر وہ نگاہ رضا ڈالتا ہے، اس کو اس کی محبت حاصل ہو جاتی ہے.یہ مقام رضا ایسا ہے، جس کی کوئی انتہاء نہیں.پھر عاجزانہ دعا ئیں اس کی محبت میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہیں اور مزید فضل اور 90

Page 108

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966ء بخشش کا اسے وارث قرار دیتی ہیں.پھر جب وہ مزید فضل اور بخشش کا وارث بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا پہلے سے بھی زیادہ شکر گزار بندہ بن جاتا ہے.اور جب وہ پہلے سے بھی زیادہ شکر گزار بندہ بنتا ہےتو اللہ تعالیٰ پہلے سے بھی زیادہ اس سے محبت کا سلوک کرنے لگ جاتا ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ خدا مجھ سے پہلے سے بھی زیادہ محبت کا سلوک کر رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اور بھی زیادہ جھک جاتا ہے اور اس طرح ایک تسلسل قائم ہو جاتا ہے اور ہر آن بندہ خدائے واسع کی صفت واسع کا مشاہدہ کرتا چلا جاتا ہے.پس فرمایا کہ مجاہدہ کرو.پھر فرمایا کہ تم مجاہدہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اس صورت میں صرف امیدوار ہو سکتے ہو.ہاں اگر تم بدیوں کو چھوڑو نہیں اور نیکیوں کو اختیار نہ کرو تو پھر تم کس طرح امید رکھ سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے رحمت کا سلوک کرے گا؟ لیکن اگر تم ایسا کر لوتو ابھی صرف یہ ایک امید ہے، ابھی واقع نہیں.جب تک اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو اور جب اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو جائے تو یہ امید حقیقت بن جاتی ہے.مجاہدہ کے معنی کو جب ہم قرآن کریم کی دوسری آیات کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل باتوں کو جہاد یا مجاہدہ میں شامل کیا ہے.اور یہاں میری مراد مجاہدہ سے نیکیوں کا اختیار کرنا ہے، جو مجاہدہ کا ایک پہلو ہے.بدیوں کو چھوڑ نا دوسرا پہلو ہے.مگر میں اس وقت پہلے حصہ کے متعلق ہی بیان کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ انفال میں فرماتا ہے:.وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَالَّذِينَ اوَوُا وَ نَصَرُوا أوليك هُمُ الْمُؤْمِنُونَ ، (آیت : 75) اس آیتہ میں مجاہدہ کی مندرجہ ذیل قسمیں بیان کی گئی ہیں:.1- ایک مجاہدہ ہے، جو ہجرت کے ذریعہ کیا جاتا ہے.ایک تو وہ بڑی ہجرت ہے، جو نبی کریم صلی اللہ لیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے کی.اور ایک وقت آنے پر آپ نے فرمایا کہ اب اس قسم کی ہجرت نہیں رہی.پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے کوشش کرتے تھے اور خدائے واحد کی صفات کو بلند آواز سے لوگوں تک پہنچاتے تھے.پھر کچھ لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوئے.اور اہل مکہ نے اور ان لوگوں نے ، جو مکہ کے گردر بہنے والے تھے ، اتنے دکھ اور 91

Page 109

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ایڈا ئیں اس چھوٹے سے گروہ کو دیں کہ دنیا کے تختہ پر دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا اور گروہ نہیں ہے کہ جس کو اتنا لمبا عرصہ اس قسم کی شدید تکالیف اور ایذاؤں میں سے گزرنا پڑا ہو.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان ایک اور طرح سے لینا چاہا.وہ یوں کہ حکم دیا، ہمیشہ کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ دو اور اپنے رشتہ داروں کو، جو مسلمان نہیں ہیں، ہمیشہ کے لئے چھوڑ دو.اور اس ماحول کو بھی، جس میں تم رہتے ہو، ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر دوسری جگہ (مدینہ ) چلے جاؤ.چونکہ کچھ عرصہ بعد تک بھی حالات ویسے ہی رہے، اس لئے یہ ہجرت قائم رہی.لیکن اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ اس قسم کی ہجرت کا ماحول اب نہیں رہا، اس لئے اب اس قسم کی ہجرت بھی نہیں رہی.مگر وہ ہجرت کا اطلاق تھا ، ایک خاص واقعہ ہجرت پر.ورنہ ہجرت اپنے عام معنی کے لحاظ سے قیامت تک کے لئے قائم ہے.اس لئے قرآن کریم میں آتا ہے ، هَاجَرُوا.اور قرآن کریم کا کوئی لفظ بھی منسوخ نہیں ہوسکتا.تو فرماتا ہے کہ جو لوگ خدا کی خاطر اپنوں کو اور اپنی املاک کو چھوڑتے ہیں ، ( مثلاً آج کل کے زمانہ میں واقفین زندگی اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیر ممالک میں چلے جاتے ہیں، جہاں کے رواج بھی مختلف ، جہاں کے حالات بھی مختلف، جہاں کے کھانے بھی مختلف ، پھر بڑی تنگی اور بڑی سختی کے دن وہاں گزارتے ہیں.( یہ بھی مهاجر فی سبیل اللہ یامجاھد فی سبیل اللہ ہیں.2.دوسرے یہاں یہ فرمایا کہ وہ لوگ بھی مجاہد ہیں ، الذین آوو او نصروا، جوان بھائیوں کو ، جو مظلومیت کی حالت میں ان کے پاس جاتے ہیں، اپنے گھروں میں جگہ دیتے ہیں اور ان کی امداد کرتے ہیں.کیونکہ یہ بھی مجاہدہ میں شامل ہے.پس فرمایا کہ یہ دو قسمیں جو ہیں، ایک ہجرت کرنے والوں کی اور دوسرے مہاجروں کو پناہ دینے والوں کی.اولئک هم المؤمنون حقا، یہ وہ مجاہد ہیں، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ اعلان کرتا ہے کہ یہ حقیقی مومن ہیں.اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے مغفرت اور رزق کریم مہیا کرے گا.واقفین زندگی بھی تحریک جدید کے ایک مطالبہ کے ماتحت مانگے گئے تھے.اور یہ مطالبہ بھی ایک شکل ہے، مجاہدہ کی.کیونکہ ہر وہ کام، (جیسا کہ پہلی آیات سے واضح ہوتا ہے.) جو خدا کی رضا کی خاطر اور اس کے قرب کے حصول کے لئے کیا جائے اور جس کے کرنے میں انسان اپنی پوری توجہ اور پوری طاقت اور پوری قوت صرف کر رہا ہے اور اس سے جو کچھ بن آئے کر گزرے، اسے خدا تعالیٰ مجاھدہ کے نام سے پکارتا ہے.تو قرآن کریم کی ایک آیت بڑی وضاحت سے بتا رہی ہے کہ وقف زندگی بھی مجاہدہ کی ایک قسم ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ کی آیت 173 میں فرمایا کہ ہمارے احکام کے مطابق عمل کر کے 92

Page 110

93 93 تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 28اکتوبر 1966ء امت محمدیہ میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے، جنہیں دین کی خدمت میں لگایا گیا ہوگا اور مشاغل دنیا سے انہیں روک دیا گیا ہوگا.(احصر وافی سبیل الله ) تو بتایا کہ ان کو تمام ان مشاغل سے روک دیا جائے گا کہ جو سبیل اللہ کے مشاغل نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کے علاوہ دنیا کمانے اور دنیا کی عزت حاصل کرنے کے تمام راستے ان پر بند کر دیئے جائیں گے.تو جن لوگوں پر احصروا فی سبیل اللہ کا اطلاق ہوتا ہے، وہ بھی مجاہدین ہیں.ایک قسم کا مجاہدہ اور جہاد کرنے والے ہیں.اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگ جن پر دشمن، مخالف ہمنکر دنیا کی راہیں بند کر دیتا ہے.آئے دن ہمارے سامنے ایسی مثالیں آتی رہتی ہیں کہ بعض لوگ بعض احمد یوں کو صرف احمد بیت کی وجہ سے نوکری نہیں دیتے یا امتحانوں میں اچھے نمبر نہیں دیتے کہ وہ ترقی نہ کر جائیں یا اگر تاجر ہیں تو ان کی تجارت میں روک ڈالتے ہیں، اگر زمیندار ہیں تو طرح طرح سے ان کو تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.خصوصاً جہاں نئے احمدی ہوں اور تعداد میں بھی تھوڑے ہوں.وہاں اس قسم کا سلوک اکثر کیا جاتا ہے.ایسے لوگوں پر خدا کے لئے دنیا کی تمام راہیں اگر بند ہو جائیں تو قرآنی محاورہ کے مطابق وہ احصر وافی سبیل اللہ کے گروہ میں شامل ہوتے ہیں.دوسری قسم مجاہدہ کی انفاق فی سبیل اللہ ہے.جو آیات میں نے پڑھی ہیں، ان میں اللہ تعالی کا حکم ہے کہ دنیا میں نے تمہیں دی ہے، چاہو تو دنیا کا ایک حصہ خرچ کر کے مجھے حاصل کر لو، میری محبت کو پالو اور اگر چاہو تو دنیا کے کیڑے بن کر میری لعنت ، میرے غضب اور میرے قہر کے مورد بن جاؤ.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انفاق پر بڑا زور دیا ہے.انفاق فی سبیل اللہ کی کوئی حد بندی نہیں.البتہ انفاق کی بعض قسموں کی حد بندیاں ہیں.مثلاً زکوۃ ایک خاص شرح کے مطابق دی جاتی ہے.لیکن تمام صدقات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کوئی شرح مقرر نہیں فرمائی.اسی طرح اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کے دین کی تقویت کے لئے حسب ضرورت جو اموال مانگے جائیں، ان کے لئے کوئی شرح مقرر نہیں.ہر آدمی پر فرض ہے کہ وہ اپنی ہمت کے مطابق اور حالات کی نزاکت کے مطابق خدا کی راہ میں اپنے مال کا جتنا حصہ وہ مناسب سمجھتا ہے، خرچ کرے.جیسا کہ ایک وقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے دین کو تمہارے مالوں کی ضرورت ہے تو حضرت ابو بکر نے اندازہ لگایا کہ یہ موقع اتنا نازک ہے کہ میرا فرض ہے کہ میں اپنا سارا مال لا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈال دوں.مگر حضرت عمر نے یہ

Page 111

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اندازہ لگایا کہ اتنا نازک وقت تو نہیں لیکن بہر حال اتنا نازک ضرور ہے کہ مجھے نصف مال خدا کی راہ میں دے دینا چاہیے.تو ہر شخص اپنی اپنی استطاعت اور قوت اور استعداد کے مطابق اور اپنے اپنے مقام ایمان کے مطابق اندازہ لگا کر ایسے موقعوں پر خدا کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے.لیکن کوئی خاص حد بندی مقرر نہیں.جیسا کہ تحریک جدید کے چندوں کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے کوئی حد بندی مقرر نہیں کی.لیکن اس خواہش کا ضرور اظہار کیا ہے کہ ایک مہینہ کی آمد کا 1/5 سالا نہ تم دیا کرو تا کہ سلسلہ کی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں.بعض لوگ اب بھی اس سے زیادہ دیتے ہیں اور بعض ایسے ہیں، جو 1/5 بھی نہیں دیتے 1/10 دیتے ہیں ،1/15 دیتے ہیں یا 1/20 دیتے ہیں.مجاہدہ کی ایک شکل، جو قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتی ہے، وہ قتال فی سبیل اللہ ہے.یعنی جب دشمن زور بازو سے اسلام کو مٹانا چاہے اور مادی ہتھیار لے کر اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو باوجود اس کے کہ وہ اپنے دشمن کے مقابلہ میں بہت کمزور ہوتے ہیں، دفاع کی اجازت دیتا ہے.اور پھر حکم دیتا ہے کہ ضرور دفاع کرو.اور حکم اس لئے دیتا ہے تا کہ کمزوروں کی کمزوری ظاہر ہو جائے.اگر صرف اجازت ہو تو بعض کہیں گے کہ سب کو لڑائی میں جانا تو ضروری نہیں ہے.اور پھر اس وقت اپنی زندہ طاقتوں اور زندہ قدرتوں کا ایک نمونہ دنیا کو دکھاتا ہے کہ دیکھو مومن تھوڑے بھی تھے ، کمزور بھی تھے، غریب بھی تھے.پھر ان کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے.باوجود اس کے جب وہ ہمارے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ، ہمارے اور اپنے دشمن کے مقابلہ پر آگئے تو انہیں فتح نصیب ہوئی.اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں کا معجزانہ رنگ میں اظہار فرماتا ہے.اس کے علاوہ مجاہدہ کی ایک شکل ہمیں قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے، وَلَبِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ اَوْ هُتُمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ یہاں صرف قتل کئے جانے کا ذکر ہے.ضروری نہیں کہ جنگ میں قتل ہو.اگر آپ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مسلمان صرف میدان جنگ میں ہی شہید نہیں کئے گئے.بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر ہزاروں، لاکھوں مسلمان ایسا ہے، جسے میدان جنگ میں نہیں بلکہ امن کی حالت میں کافروں نے بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا.جیسا کہ ہماری تاریخ میں صاحبزادہ صاحب عبداللطیف شہید کو کابل میں پکڑا گیا.وہ بے گناہ، بے بس اور کمزور تھے.حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.حکومت نے خدا تعالیٰ کے فرمان کے خلاف ، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیتے ہوئے ان کو پکڑا اورقتل کر دیا اور بڑی بیدردی سے قتل کیا.94

Page 112

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966ء تو ایک شکل مجاہدہ یا جہاد فی سبیل اللہ کی یہ ہے کہ انسان ایسے وقت میں اپنی جان قربان کر دیتا ہے اور کمزوری نہیں دکھاتا ،صداقت سے منہ نہیں موڑتا.دشمن کہتے ہیں کہ تم تو بہ کرلو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے.وہ کہتا ہے کہ کس چیز سے تو بہ؟ تو بہ کر کے حق کو چھوڑ دوں؟؟ صداقت سے منہ پھیروں اور باطل کی طرف آ جاؤں؟؟؟ ایسا مجھ سے نہیں ہو سکتا.مرنا آج بھی ہے اور کل بھی.تمہارا جی چاہتا ہے تو مار دو لیکن میں صداقت کو نہیں چھوڑ سکتا.پانچویں شکل مجاہدہ کی ، جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے، وہ ہجرت فی سبیل اللہ ہے.اس کی تفصیل کو میں اس وقت چھوڑتا ہو.چھٹی شکل اللہ تعالیٰ نے ، جو مجاہدہ فی سبیل کی بتائی ہے، وہ ہے، خدا کے دین کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسان سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرے.سفر میں بہر حال ویسا آرام نہیں مل سکتا، جیسا کہ اپنے گھر میں ملتا ہے.بعض لوگ سفر سے گھبراتے ہیں.بعض لوگ بار بار سفر کرنے سے گھبراتے ہیں.تو ہمارے مربی، معلم اور انسپکٹر صاحبان کو ، جو سال کے چھ، سات ماہ سفر میں رہتے ہیں، خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی اپنی راہ میں مجاہدہ قرار دیا ہے.اور اس کی جو برکات ایک مجاہد پر نازل ہوتی ہیں، یہ لوگ بھی اس کے وارث ہیں.جیسا کہ فرمایا:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اگر چہ اس آیت میں اپنی context کے لحاظ سے یعنی اس مضمون کے لحاظ سے جو اس آیتہ میں بیان ہوا ہے، یہ سفر جنگ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.لیکن جنگ کرنے کا ثواب علیحدہ ہے اور اذا ضربتم فی سبیل اللہ کا ثواب علیحدہ یہاں بتایا گیا ہے.اسی طرح انْفِرُوا فِي سَبِيْلِ اللهِ ہے.تو بہت دفعہ خدا کی راہ میں سفر کرنا پڑتا ہے.مثلاً وقف عارضی میں وقف کرنے والوں کو میں نے یہی کہا تھا کہ تم بتاؤ کہ تم کتنا سفر کر سکتے ہو؟ اس کے جواب میں بعض دوستوں نے لکھا کہ ہم اپنے خرچ پر پندرہ ، میں میل سفر کر سکتے ہیں.بعض نے لکھا کہ ہم پچاس، ساٹھ میں سفر کر سکتے ہیں.بعض نے لکھا کہ ہم سو، ڈیڑھ سو میل سفر کر سکتے ہیں.بعض نے لکھا کہ سارے پاکستان میں جہاں آپ کی مرضی ہو ، بھجوادیں، ہم سفر کرنے کے لئے تیار ہیں.تو ایسے مومن بھی مجاہدین میں شامل ہیں.پس خدا تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے کو بھی اللہ تعالی نے مجاہدہ کی ایک قسم قرار دیا ہے.95

Page 113

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ساتویں اور مجاہدہ کی سب سے اہم مستم وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا میں بیان کی گئی ہے.یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے دین کی راہوں میں جہاد کرنا اور اصولی طور پر یہ جہاد دو شکلوں میں کیا جاتا ہے.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اتنے زبر دست اور اتنی کثرت سے دلائل جمع کر دیئے ہیں کہ دنیا کا کوئی باطل عقیدہ خواہ کسی مذہب سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو، ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.تو عقائد باطلہ کا (خواہ وہ عقائد باطلہ عیسائیوں کے ہوں یا آریوں کے یا سکھوں کے یاد ہریوں کے یا دوسرے بد مذاہب کے ہوں.) دلائل حقہ کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی ایک زبر دست جہاد ہے.جس کے نتیجہ میں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو انسان اس کی رحمتوں کا وارث بنتا ہے.اور دوسرے جاهدهم به جهادًا كبير العلیم قرآن کو عام کرنے سے یہ جہاد کیا جاتا ہے.کیونکہ مومنوں کی جماعت میں علوم قرآنیہ کو ترویج دینا، ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت پیدا کرنا اور ان کو اس حق الیقین پر قائم کرنا کہ قرآن کریم بڑی برکتوں والی عظیم کتاب ہے، اس سے جتنا پیار ہو سکتا ہے، کرو.اس سے جتنی محبت تم کر سکتے ہو، کرو.تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنو.تو یہ بھی ایک مجاہدہ ہے اور اسی مجاہدہ اور جہاد کی طرف اس وقت میں بار بار جماعت کے دوستوں کو متوجہ کر رہا ہوں.غرض مختلف اقسام جہاد یا مجاہدہ ، جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے، اگر آپ ان کو سامنے رکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تحریک جدید کے تمام مطالبات کا ان میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ ضرور تعلق ہے.یہ بڑا گہرا اور وسیع مضمون ہے.اگر ضرورت ہوئی اور خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو شاید میں کسی وقت اس پر بھی روشنی ڈالوں گا.اس وقت میں صرف ایک چیز کو لینا چاہتا ہوں.اور وہ ہے، انفاق فی سبیل اللہ.یعنی مالی قربانی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش اور اس کی رحمت کے حصول کی امید.اس دعا کے ساتھ کہ وہ اپنا فضل ہمارے شامل حال کرے اور حقیقتا اور واقعہ میں ہم اس کی رحمتوں کے وارث بنیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یہ خواہش تھی اور آپ نے اپنے خطبہ میں اس کا اظہار بھی کیا ہے کہ دفتر دوم کی وصولی پانچ لاکھ تک پہنچ جانی چاہئیں.لیکن اس وقت تک کہ دفتر دوم پر بائیس سال گذر چکے ہیں، سال رواں میں اس کے وعدے صرف دو لاکھ نوے ہزار تک پہنچے ہیں.یعنی اگر دو لاکھ ، دس ہزار مزید وعدے ہوں ، تب ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خواہش کو پورا کرنے والے ہوں گے.سو 96

Page 114

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966ء اس وقت بڑا بوجھ دفتر دوم پر ہے.کیونکہ اس میں جب لینے والے لوگ ابھی اتنے بوڑھے نہیں ہوئے ، جتنے بوڑھے دفتر اول کے مجاہد ہو چکے ہیں.دفتر اول کے مجاہدین میں سے بہت سے تو اپنے رب کو پیارے ہو گئے.عمر کے ساتھ موت وفوت بھی لگی ہوئی ہے.کسی نے ابدی طور پر اس دنیا میں نہیں رہنا ہے.پس کچھ دوست تو ان میں سے فوت ہو گئے، کچھ ریٹائر ہو گئے.کچھ دوسرے پیشہ وروں کی آمدنی میں معمر ہونے کی وجہ سے کمی ہو گئی.مثلاً ڈاکٹر ہیں، وکیل ہیں، ان کی عمر جب ایک حد سے گزر جائے تو وہ پورا کام نہیں کر سکتے ، ان کا جسم اور دماغ آرام چاہتا ہے، اس سے ان کی آمد میں فرق پڑ جاتا ہے.اور کچھ اس لئے بھی کہ اس عمر میں ان کے بچے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی امداد کے قابل ہو جاتے ہیں.ان کو خیال ہوتا ہے کہ ہماری ضرورتیں تو پوری ہو رہی ہیں، ہم زیادہ کیوں کمائیں ؟ اور کمائی کے مطابق ہی انہوں نے چندے ادا کرنے ہیں.دفتر اول وہ ہے، جو آہستہ آہستہ ہماری نظروں کے سامنے دھندلا ہوتا چلا جارہا ہے اور ایک وقت میں ہمارے سامنے سے یہ غائب ہو جائے گا.دفتر دوم وہ ہے کہ جو اس وقت مالی بوجھ کا بڑا حصہ اور دوسرے بوجھوں کا بڑا حصہ بھی اٹھارہا ہے.پس دفتر دوم کے مجاہدین کو بہت چست ہونے کی ضرورت ہے.اور اگر ہمارے یہ بھائی اور دوست تھوڑی سی ہمت کریں، تھوڑی سی کوشش کریں، ذراسی مزید توجہ دیں تو یہ بعید نہیں کہ وہ اس رقم کو پورا کر سکیں ، جس کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے.ہم نے غور کیا ہے اور سوچا ہے کہ تھوڑی سی مزید ہمت اور توجہ سے اس دفتر کے مجاہدین اپنے چندوں کو پانچ لاکھ تک پہنچا سکتے ہیں.مثلاً حضور ( رضی اللہ عنہ) کی خواہش تھی کہ تحریک جدید میں ماہوار آمد کا1/5 دیا جائے.اگر دفتر دوم کے مجاہد حضور کی اس خواہش کو پورا کر دیں تو ہمارا اندازہ ہے کہ رقم پانچ لاکھ تک پہنچ جائے گی.سال رواں میں دفتر سوم کا بھی اجراء ہوا ہے.یہ کچھ لیٹ ہو گیا ہے.کیونکہ ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ہر دس سال کے بعد ایک دفتر کھلتا ہے.تا کہ آنے والے، جانے والوں کی جگہ کو پر کرتے رہیں.پس دفتر سوم کے اجراء میں تاخیر ہوگئی ہے اور دس سال کی بجائے اکیس سال بعد دفتر سوم کا اجراء ہوا ہے.وہ بھی اس وقت جبکہ سال کا نصف حصہ غالبا گذر چکا تھا.سو اس وقت تک دفتر سوم کے سال اول کے وعدے 18 ہزار روپے کے آئے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں جبکہ اعلان بھی دیر کے بعد ہوا اور اس دفتر کے بہت سے لوگ پہلے ہی دفتر دوم میں شامل ہو چکے تھے.18 ہزار دفتر سوم کی پوری رقم نہیں ہے.لیکن اگر وہ احمدی دوست ، جن کا تعلق دفتر سوم کے ساتھ ہے، اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دیں تو آئندہ سال یعنی اپنی عمر کے 97

Page 115

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دوسرے سال دفتر سوم کے وعدے کم از کم ایک لاکھ تک ہونے چاہئیں اور یہ کوئی مشکل امر نہیں.کیونکہ اس کے لئے بھی ہم نے اندازاہ لگایا ہے کہ اگر ایسے دوست اس طرف متوجہ ہوں ، جو دفتر سوم میں آتے ہیں.ان کے وعدے آسانی سے ایک لاکھ تک پہنچ سکتے ہیں.ویسے تو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو قربانی کی بڑی توفیق عطا کی ہے اور اس کو وہ قبول بھی فرماتا ہے.اور جب وہ قبول فرماتا ہے تو ھدی للمتقین کی روشنی میں مزید ہدایت اور ہدایت کے ارفع تر مقام کی طرف انہیں لے جاتا ہے اور مزید قربانیاں دینے کا جذبہ اور شوق ان میں پیدا ہوتا ہے.تحریک جدید کے پہلے سال جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی سکیم مختلف خطبات میں دوستوں کے سامنے رکھی تو آپ نے اس کے لئے چندہ کا اندازہ ساڑھے 27 ہزار روپیہ جماعت کو بتایا.لیکن اس کے مقابلہ میں اس سکیم کو چلانے کے لئے جماعت نے 98 ہزار روپیہ ( دو ہزار یم ایک لاکھ ) حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.پچھلے سال ہماری مستورات نے تحریک جدید کا چندہ نہیں بلکہ تحریک جدید کی ایک شق کا چندہ (یعنی مسجد ڈنمارک کا چندہ) تین لاکھ، چھ ہزار روپیہ نقد جمع کر دیا.اس طرح یہ چندہ تحریک جدید کے پہلے سال کے چندہ سے تین گنا زیادہ جمع ہوا.حالانکہ یہ چندہ صرف ہماری بہنوں نے جمع کیا.فالحمد لله علی ذالک.گویا تحریک جدید کے پہلے سال میں ساری جماعت مردوں، عورتوں اور بچوں نے مل کر بھی ایک لاکھ کی رقم پوری نہ کی تھی.( دو ہزار کم تھے ) اور گذشتہ سال ڈنمارک کی مسجد کے لئے صرف ہماری بہنوں نے تین لاکھ ، چھ ہزار کی رقم جمع کر دی.تو جب انسان خدا کی راہ میں قربانی دیتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے قبول کر لیتا ہے تو اسے مزید قربانی کی توفیق بخشتا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ اپنے ایک بندہ کو دس روپیہ انعام دیتا ہے اور وہ اس دس روپیہ میں سے کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کو مزید توفیق بخشتا ہے تا وہ ہدایت کے راستوں پر اور آگے بڑھے.پھر وہ اور آگے بڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دس روپے کی بجائے ایک ہزار روپے انعام دیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا بندہ ایک ہزار روپیہ لینے کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا، یہ تو ایسے انعام کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ دنیا کی عقل اس کا اندازہ نہیں کر سکتی.کسی آنکھ نے نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا کسی زبان نے نہیں چکھا، کسی کے خیال میں بھی یہ انعامی چیزیں نہیں گزرتیں.اس لئے میں اسے اور آگے بڑھنے کی توفیق دیتا ہوں.پھر وہ بڑی بشاشت سے اور زیادہ قربانی خدا کی راہ میں پیش کرتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک ہزار کی بجائے ایک لاکھ روپیہ اسے انعام دیتا ہے.پھر ایک کروڑ ، پھر ارب.یہ گنتی ختم ہونے والی نہیں.کیونکہ خدا 98

Page 116

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1966ء تعالی کے انعام ختم ہونے والے نہیں.اس طرح وہ بندہ انعام پر انعام حاصل کئے جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے توفیق پر توفیق پاتا چلا جاتا ہے، مزید مجاہدہ اور مزید قربانی کرنے کی.تب اسے سمجھ آتی ہے کہ دنیا کیا اور دنیا کی لذتیں اور آرام کیا؟ اگر ایسے انعام، جو مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہے ہیں، ملتے چلے جائیں تو میں اپنی ہر چیز اپنے گھر بار، اولاد اور رشتے دار قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں.تاکہ مجھے وہ کچھ ملے، جو ان تمام چیزوں اور تعلقات سے کہیں زیادہ احسن اور لذت والا ہے.یہی لذت، جو مجھے مل چکی ہے، میرے تخیل سے باہر ہے.جو اور مزید ملے گا، پھر وہ کتنا شاندار ہوگا.تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ہر سال جماعت کو پہلے سے زیادہ قربانیوں کی توفیق دیتا چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس فضل کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو بلکہ خدا تعالیٰ کے شاکر بندے بنے کی کوشش کرو.تا اس شکر کے نتیجہ میں مزید قربانیوں کی توفیق پا کر مزید فضلوں کے وارث بنتے چلے جاؤ.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.دوسرے خطبہ میں فرمایا:.گو مجھے سخت کمزوری ہے لیکن کام نہ کرنا ، میرے جیسے آدمی کے لئے عذاب ہے کہ آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.چنانچہ بیماری کے دنوں میں بھی (جب مجھے سخت گھبراہٹ ہوتی تھی ، اس خیال سے کہ میں کام نہیں کر رہا.) مجھے سات آٹھ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا.کیونکہ سات، آٹھ گھنٹے کام کرنے سے طبیعت سیر نہیں ہوتی.اگر آدمی خدا تعالیٰ کے لئے چودہ پندرہ گھنٹے کام کرے تو پھر کچھ طبیعت میں سیری محسوس ہوتی ہے.لیکن بیماری کی وجہ سے آدمی اتنا کام نہیں کر سکتا.تو یہ بھی میرے لئے ایک قسم کا ابتلاء ہے.اس لئے میں یہ امید کرتا ہوں کہ آپ دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت سے کام کرنے کی توفیق عطا کرے تا کہ اپنی طبیعت بھی سیر ہو جائے اور خدا تعالیٰ بھی خوش ہو جائے.کیونکہ خالی اپنی طبیعت کا سیر ہو جانا بے معنی ہے.اگر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی وہ رضا حاصل نہ ہو، جس کے حصول کی انسان خواہش رکھتا اور کوشش کرتا ہے.ایک جنازہ ہے، وہ میں مغرب کے بعد پڑھاؤں گا.میں اس بھائی سے، جو جناز ہ لایا ہے،معذرت چاہتا ہوں.کیونکہ اگر اب جنازہ پڑھا گیا تو ہماری بہنوں کا راستہ رک جائے گا اور پھر اجتماع میں بھی دیر ہو جائے گی تو اس جنازے کو کسی ٹھنڈی جگہ محفوظ کریں.انشاء اللہ مغرب کی نماز کے بعد جنازہ پڑھا دوں گا“.مطبوعه روز نامہ الفضل 01 دسمبر 1966 ء) 99

Page 117

Page 118

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1966ء وو زندہ خدا، زندہ رسول اور زندہ کتاب خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1966ء " ہم نے جس ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی اور سلسلہ احمدیہ کو قبول کیا ، وہ کوئی معمولی ہستی نہیں تھی.بلکہ اس کا مقام وہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے روحانی فرزندوں میں سے صرف اس کو اپنا سلام بھیجا.اور اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ یہ بات تمام دنیا پر ظاہر کی کہ جو شخص ہمارے اس مرسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق کرے گا، اس شخص نے اس مقام کو نہیں پہچانا ، جس مقام پر کہ اللہ تعالیٰ نے فنافی الرسول ہو جانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گم ہو جانے کی وجہ سے اس پاک وجود کو کھڑا کیا ہے.پھر یہ صرف اعزازی مقام نہ تھا بلکہ حقیقتا یہ مقام آپ کو اس وجہ سے ملا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے تو فیق عطا فرمائی کہ آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق میں فنا ہو کر اپنے وجود کو کلیۂ غائب کر دیں.) کہ اللہ تعالیٰ آپ سے وہ کام لینا چاہتا تھا، جو اسلام کی نشاۃ اولی میں اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا تھا.قرآن کریم سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور پیشگوئیوں سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو دو ترقیاں حاصل ہوئی تھیں.جس کا مطلب یہ تھا کہ اسلام کو تنزل کے ایک دور میں سے بھی گزرنا تھا.کیونکہ اگر تنزل کا دور مقدر نہ ہوتا تو دو ترقیوں کا کوئی سوال ہی نہیں تھا.پھر ایک ہی ترقی اسلام کو حاصل ہوتی.ہم اس حقیقت کو اپنے عام محاورہ میں اسلام کی نشاۃ اولی اور نشاۃ ثانیہ کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں.پہلی ترقی اس زمانہ کے لحاظ سے اس طرح ظہور پذیر ہوئی کہ دشمن نے ، جو اس زمانہ میں علم میں اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا بلکہ عام طور پر جہالت کا ہی دور دورہ تھا، خواہ اس زمانہ کے لوگ اہل کتاب ہوں، مشرکین ہوں، خواہ بد مذہب ہوں ، انہیں مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے یا دنیوی لحاظ سے ، عمو م وہ علم سے محروم تھے، اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور قرآن کریم جیسی عظیم کتاب آپ پر نازل کی تو ان اقوام نے ، جو دنیا کے مختلف مذہبی فرقوں میں بٹی ہوئی تھیں، جہاں جہاں اسلام پہنچا یہ سمجھا کہ ہم اپنی طاقت کے بل پر اسلام کو مٹا کر رکھ دیں گئے“.101

Page 119

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1966ء " تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم...اسلام کے ابتدائی زمانہ کی تاریخ کی مختصر سی تصویر ہے، جو ہمیں بتاتی ہے کہ جب اسلام دنیا میں آیا تو بجائے اس کے کہ دنیا قرآنی علوم سے فائدہ اٹھاتی ، دنیوی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی ترقی کرتی، اس نے طاقت کے زور سے اسلام کے نور اور قرآن کریم کی چمک کو مٹانا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے یہ ثابت کر دیا کہ قرآن کریم ایک نور ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نور ہے.اور کسی الہی نور کو دنیا کی کوئی تلوار، دنیا کی کوئی بندوق، دنیا کا کوئی بم اور دنیا کا کوئی ایٹمی ہتھیا رتباہ نہیں کر سکتا.اس کے بعد مسلمانوں نے بدقسمتی سے اسلام کو بھلا دیا اور قرآن کریم کے نور کو اپنے گھروں اور اپنے سینوں سے نکال باہر پھینکا.اور ان کی بجائے اپنے سینوں اور گھروں کو بد خیالات ، بد رسوم اور شرک کے مختلف اندھیروں سے بھر لیا.تب خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ان دلوں میں میرے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہی اور ان مکانوں میں میرے ذکر کو بلند کرنے کا کوئی سامان نہیں.اب یہ مکان وہ بیوت نہیں رہے، جن کے متعلق وعدہ کیا گیا تھا اور بشارت دی گئی فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ کہ ایسے گھر ہوں گے، جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے گا اور آسمان سے ان کی بلندی کے سامان پیدا کئے جائیں گے.تو پھر مسلمان تنزل کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے شروع ہوئے اور بعض دفعہ تو ایک انسان کی نیند حرام ہو جاتی ہے، جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ تمام دنیا کے حاکم بھی یہی تھے، تمام دنیا کے استاد بھی یہی تھے ، تمام دنیا کو تہذیب سکھانے والے بھی یہی تھے اور تمام دنیا کو دنیوی علوم سکھانے والے بھی یہی تھے اور تمام دنیا کو روحانی علوم سکھانے والے بھی یہی تھے اور اب یہ حال ہے کہ اپنے گھروں سے، اپنے مدرسوں سے، اپنے کالجوں سے اور دوسری درسگاہوں سے روحانی علوم کو انہوں نے نکال کے باہر پھینک دیا اور دنیوی علوم کے لئے دوسری قوموں سے بھیک مانگنی شروع کر دی.اندھیرے کا یہ زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق دنیا پر آیا.اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق وہ وقت بھی آیا، جب اس اندھیرے کے زمانہ کونور کے زمانہ سے بدلنا مقدر تھا.اور اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو الہام بتایا کہ چونکہ آپ نے اپنا وجود کلیه محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں گم کر دیا ہے اور آپ کے سینہ میں اسلام کا درد اور تو حید کو قائم کرنے کی تڑپ ایسی پائی جاتی ہے اور آپ کے یہ جذبات اتنی شدت اختیار کر گئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 102

Page 120

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 1 1 نومبر 1966 ء سے آپ کی محبت اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ جس مقام تک امت محمدیہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے روحانی فرزندوں میں سے کسی ایک کی بھی محبت نہیں پہنچی تھی ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو ہی میرا وہ عبد محبوب ہے، جس کو میں نے پھر اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرنے اور ادیان باطلہ پر فتح پانے کے لئے کھڑا کیا ہے.پس اٹھ اور اپنے گوشئہ تنہائی کو چھوڑ اور اس حجرہ سے باہر نکل ، جس میں چھپ کر تو میری عبادت کرتا ہے.اور میدان مجاہدہ میں اتر اور دنیا کو پکار کر کہہ کہ اسلام کے غلبہ کے دن آگئے ہیں.اٹھو! اور میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، علوم قرآنی کو از سر نو سیکھو.اور پھر دنیا کے استاد بن کر دنیا میں پھیلو اور دنیا کو انوار قرآنی سے متعارف کراؤ.پھر خدا نے کہا کہ جب تم دنیا کو میرا یہ پیغام پہنچاؤ گے تو دنیا تمہاری مخالفت کرے گی.تم اکیلے ہو گے مگر دنیا کی مخالفت کی پرواہ نہ کرنا اور میری طاقت اور قدرت پر کامل بھروسہ رکھنا.میں چاروں طرف ایسے آدمی پیدا کرتا چلا جاؤں گا، جو تمہاری آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، تمہارے گرد جمع ہو جائیں گے.یہ دیکھ کر دنیا انتہائی مخالفت کے لئے کھڑی ہو جائے گی اور تم سب کے کچلنے اور مٹانے کے درپے ہو جائے گی.مگر وہ تمہیں ہلاک اور مغلوب نہ کر سکے گی.پھر ہم اس قدر دلائل اور براہین تمہیں عطا کریں گے کہ یہ زمانہ ، جو علوم کا زمانہ ہے اور جس میں انسان ستاروں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے، اس زمانہ کے بڑے بڑے عقل مند اور عالم اور سائنسدان ان دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.پس اٹھو! اور مجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے ، قرآن کریم کی تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلاؤ.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے رب کی نظر میں یہ مقام ہے اور یہ کام ہے، جس کی خاطر آپ کے رب نے آپ کو دنیا میں مبعوث فرمایا.جو دلائل دیئے ، وہ تو ایک سمندر ہے.اس کا چند منٹوں میں، چند دنوں یا چند مہینوں میں یا چند سالوں میں یا چند صدیوں میں بھی بیان کرنا ممکن نہیں.کیونکہ سمندر کے قطروں کو گنا آسان ہے لیکن ان دلائل کو اعداد وشمار میں باندھ دینا، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سکھائے ، مشکل ہے.لیکن تین بنیادی چیزمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو سکھائی ہیں.اور دراصل وہی تین بنیادی چیزیں ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری طاقت کا انحصار ہے اور جن کے نتیجہ میں ہم دنیا میں کامیاب ہو رہے ہیں.103

Page 121

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1966ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تو یہ تین چیزیں، یہ تین زندگیاں، یہ تین طاقتیں ہیں، جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السا نے ہمیں متعارف کیا اور جن کے متعلق ہمارے دل میں پختہ یقین پیدا کیا.وہ یہ کہ قرآن کریم زندہ کتاب ہے.وہ یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ رسول ہیں.وہ یہ کہ ہمارا خدا، جس نے قرآن کریم نازل کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ، وہ زندہ خدا، زندہ طاقتوں والا اور زندہ قدرتوں والا خدا ہے.ان تین زندگیوں سے وابستہ ہو جانے کے بعد کسی احمدی میں کسی قسم کی مردنی نظر نہیں آنی چاہئے.زندہ خدا پر ایمان لانے والے، زندہ کتاب کو پڑھنے والے، زندہ رسول سے پیار کرنے والے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آنے والے کسی فرد میں پژمردگی نہیں پائی جانی چاہئے.نہ دینی لحاظ سے نہ دنیوی لحاظ سے“.تو ایک طرف ہم نے اسلام کو ساری دنیا میں پھیلانا ہے اور قرآن کریم کی اشاعت کے لئے بڑے بڑے مجاہدات کرنے ہیں.مالی قربانیاں دینی ہیں، وقت کی قربانیاں دینی ہیں اور زندگی بھی وقف کرنی ہے.دوسری طرف جماعت کو اس وقت جتنے واقفین کی ضرورت ہے، اتنے نہیں آرہے.باہر کاہر ملک لکھ رہا ہے کہ یہاں لوگ ہماری طرف متوجہ ہورہے ہیں، مبلغ کم ہیں، ہماری طرف مبلغ بھجوائیں.خود یہاں پاکستان کی ہر جماعت لکھ رہی ہے کہ ہمارے پاس واقف عارضی بھیجیں.میں نے مٹی یا آٹے کے بت بنا کر تو نہیں بھیجنے.جب تک جماعت اپنے بچے وقف نہ کرے گی، جب تک وقف عارضی کے لئے لوگ اپنے نام پیش نہ کریں گے، اس وقت تک دنیا کی اور جماعت کی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی.اس سلسلہ میں ہمیں کسی قسم کی ستی یا غفلت یا مردنی کا ثبوت نہیں دینا چاہئے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل تین زندگیوں کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہوا ہے.ایک تو حقیقی اور ازلی ابدی زندگی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی زندہ طاقتیں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی.لیکن اس ازلی ابدی زندگی اور حیات سے دو اور زندگیاں نکلیں.ایک قرآنی شریعت کی اور دوسری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں ان دو قائم رہنے والی زندگیوں کے ساتھ باندھ دیا ہے.تو بنیاد تو خالص اور ہمیشہ ہمیش رہنے والی زندگی ہے.اور 104

Page 122

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 1 1 نومبر 1966 ء دوسری دوزندگیاں ، اس سے جو پھوٹیں تو وہ بھی رہتی دنیا تک قائم ہیں.قرآنی تعلیم اور نبی کریم صلی ! علیہ وسلم کے فیوض.ان کے ساتھ بندھ جانے کے بعد مردہ ہونے کا کیا سوال؟“ " میں نے بتایا ہے کہ اس وقت دنیا میں ہزاروں، لاکھوں انسان ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ احمدیت کے طفیل اور اسلام کے صدقے اللہ تعالیٰ اپنے پیار کا اظہار کر رہا ہے.مجھے بہت سی احمدی بہنوں کا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ کچی خوا ہیں، رویا اور کشوف دکھا رہا ہے.جیسے کہ امت کے پہلے بزرگوں کو دکھاتا رہا ہے.اور ہزاروں مرد بھی ایسے ہیں.تو ہمیں اس مقام قرب کی قدر کرنی چاہئے.اور ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ دنیا میں بھی ہمیں دعا کے نتیجہ میں نیک نیتی اور خلوص کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل اور رحم سے (نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے ) ہمیں اتنا دے کہ دنیا اس کی وجہ سے بھی ہم پر رشک کرنے لگ جائے.اور تبلیغ کی بھی ہمیں اتنی توفیق دے کہ وہ دن جلد آئیں کہ جب اسلام تمام دنیا پر غالب آ جائے اور اللہ تعالیٰ کی خالص تو حید دنیا میں قائم ہو جائے اور بنی نوع انسان خالص توحید پر قائم ہو کر خالص توحید کی برکات سے پوری طرح حصہ لینا شروع کر دیں.مطبوعه روزنامه افضل 15 دسمبر 1966ء) 105

Page 123

Page 124

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 25 مارچ 1966ء وہ دن جلد تر آجائے ، جس کے لئے صدیاں انتظار کرتی رہیں تقریر فرمودہ 25 مارچ 1966ء برموقع مجلس شوریٰ تلاوت قرآن مجید کے بعد حضور نے فرمایا:.برادران! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ لوگ اس لئے یہاں جمع ہوئے ہیں کہ خلیفہ وقت جن اہم معاملات کے متعلق آپ دوستوں سے مشورہ کرنا چاہتا ہے، ان کے متعلق آپ اپنا مشورہ دیں.چونکہ ہمارا یہ اجتماع محض رضائے الہی کی خاطر ہے، اس لئے آؤ ہم پہلے اس کے حضور جھکیں اور عاجزی اور انکسار کے ساتھ دعا کریں کہ وہ ہمارا پیارا رب اور پیار کرنے والا رب ہمارے فکر و تدبر اور ہماری اظہار رائے کو ہر قسم کے غصہ، حسد، کینہ انانیت، خود نمائی اور خود رائی سے محفوظ رکھے.اور ہمیں ایسے نتائج تک پہنچنے کی توفیق عطا کرے، جن سے اسلام کی مضبوطی اور استحکام ہو.اور وہ دن جلد تر آجائے ، جس کے لئے صدیاں انتظار کرتی رہیں.اور اسلام پھر تمام اقوام عالم پر غالب آجائے.ہم بھی حقیر اور لاشی محض ہیں اور ہماری کوششیں بھی حقیر ہیں.وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.لیکن ہمارا رب بہت طاقتوں والا رب ہے ، وہ اگر چاہے تو ان کوششوں میں بھی برکت ڈال سکتا ہے.اور ہم اس سے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں، وہ ان میں ایسی برکت ڈالے گا کہ ہمیں جس غرض کے لئے اس نے پیدا کیا ہے اور سلسلہ احمدیہ کو جس مقصد کے لئے قائم کیا ہے، وہ غرض اور مقصد پورا ہو.آؤ اب سب مل کر دعا کر لیں.دعا کے بعد حضور نے فرمایا:.ایک اور چیز جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ منصوبہ بندی ہے.میں نے اس دفعہ صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید، وقف جدید اور ذیلی تنظیموں ( ان کا اس وقت یہاں تعلق نہیں ہے.کو بھی کہا ہے کہ اپنے اپنے کام کے منصوبے تیار کرو.چونکہ یہ بات نئی تھی ، اس لئے بعض محکموں نے اپنے منصوبے تیار کئے کہ مجھے یہ نوٹ دینا پڑا کہ اس میں کوئی منصوبہ بندی نہیں.مثلاً ایک ناظر قواعد کی 107

Page 125

اقتباس از تقریر فرموده 25 مارچ 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کتاب اٹھا کر کہہ دے کہ میں یہ کام کروں گا یا قواعد نقل کر دے تو یہ کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے.منصوبہ بندی تو یہ ہے کہ قواعد کی روح سے جو ذمہ داریاں آپ پر عائد ہوتیں ہیں، انہیں آپ آئندہ سال میں، جس کے متعلق اب ہم سوچ رہے ہیں، کس طرح ادا کریں گے ؟ اور کس شکل میں ادا کریں گے؟ تا زیادہ سے زیادہ وہ ادا ہو جائیں.لیکن بعض بڑے اچھے منصوبے بھی ہیں.اس سلسلہ میں رپورٹ مجلس شوری 1927ء میں جو نظارتوں کی رپورٹس چھپی ہے، وہ بڑی دلچسپ ہے اور بڑی محنت سے تیار کی گئی ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس وقت اس کی بڑی تعریف کی ہے ، سوائے ایک آدھ نظارت کی رپورٹ کے.اس میں بعض نقائص کی طرف حضور نے اسے متوجہ کیا.لیکن عام طور پر وہ رپورٹیں بڑی تفصیلی ہیں اور بڑے غور اور سوچ بچار کے بعد تیار کی گئیں ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اصلاح وارشاد کے میدان میں بعض ایسے کام ہورہے تھے ، جن کی طرف اب ہمیں توجہ نہیں.اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت جو اچھا پھل ان کوششوں کے نتیجہ میں جماعت کو حاصل ہونا تھا، وہ اب ہمیں حاصل نہیں ہو رہا.اس وقت ہم اس سے محروم ہیں.میں چاہتا ہوں کہ آج جس وقت مجلس شوری کی مختلف سب کمیٹیاں بنائی جائیں ، اس وقت منصوبہ بندی کی ایک کمیٹی بھی بنادی جائے.محکموں نے جو منصوبے پیش کئے تھے، وہ اس شکل میں تھے کہ ہم انہیں طبع کرا کے مجلس شوریٰ میں پیش نہیں کر سکتے تھے.اور وہ پیش نہیں کئے گئے.اس لئے نہ ہم ان پر غور کر سکتے ہیں اور نہ ان کے متعلق کوئی مشورہ دے سکتے ہیں.اور بھی بہت سی باتیں ہیں، جن کی وجہ سے میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اس سال اس شکل میں کام نہ کیا جائے بلکہ مجلس شوری کی ایک کمیٹی بن جائے ، جو اس منصوبہ بندی پر غور کرے اور بعد میں اپنی سفارشات میرے پاس بھیج دے.چونکہ اس میں کچھ وقت لگے گا، اس لئے ان میں سے جو حصے دوستوں کے سامنے لائے جانے ضروری ہوں گے، وہ انشا اللہ اخبار کے ذریعہ ان تک پہنچا دیئے جائیں گے.فنانس سٹینڈنگ کمیٹی ،مجلس شوری کی ایک کمیٹی ہے.جو سارا سال کام کرتی ہے.مجھ پر یہ تاثر ہے کہ اس کے ممبران اپنا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا نہیں کر رہے ہیں.یہ تاثر اس وجہ سے ہے کہ اپنی گزشتہ میٹنگ میں انہوں نے ایک ایسے معاملہ کے متعلق رائے دی ، جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا.اور اس رنگ میں رائے دی کہ جن سے اس معاملہ کا تعلق تھا، ان سے انہوں نے مشورہ بھی نہیں کیا.سٹینڈنگ کمیٹی کا بحث کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.اس کا فرض یہ نہیں ہوتا کہ فیصلہ کرے یا سفارش کرے کہ تحریک جدید 108

Page 126

اقتباس از تقریر فرموده 25 مارچ 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم - کے مبلغ ، جو بیرونی ممالک سے تبلیغ کا معین عرصہ پورا کرنے کے بعد آتے ہیں، وہ سارے کے سارے صدرانجمن کو دے دیئے جائیں.پھر اگر ضرورت پیش آئے اور جب ضرورت پیش آئے تو تحریک جدیدان میں سے جس کو چاہے، واپس بلا لے.اب بھلا فنانس سٹینڈنگ کمیٹی کا اس معاملہ کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ پھر اس نے نہ تو وکالت تبشیر سے اس کے متعلق مشورہ کیا اور نہ ہی ناظر صاحب اصلاح وارشاد سے مشورہ لیا.بلکہ خود ہی یہ سفارش صدر انجمن احمدیہ کو بھجوا دی.پھر انہوں نے یہ معلوم کرنے کی بھی ضرورت نہیں کبھی کہ کیا خلیفہ وقت کے ذہن میں تو کوئی سکیم نہیں ہے؟ اس وقت حالات یہ ہیں کہ بیرونی ممالک میں ہمیں مبلغوں کی ضرورت ہے.اور ہمارے پاس مبلغ کافی نہیں.اس لئے ہمارا پرانا طریق کہ مبلغ تین سال باہر کام کریں اور تین سال یہاں مرکز میں ر ہیں، چل نہیں سکتا.کیونکہ ہمارے پاس اور مربی ہوں تو انہیں ان کی جگہ بھجوایا جائے.اور ہمارے پاس اور مربی نہیں.اب میں آہستہ آہستہ ایک، ایک مربی کو بلا کر یہ کہہ رہا ہوں کہ اس وقت خدا تعالیٰ کو تمہاری ضرورت ہے، اس لئے تم تین سال تک یہاں رہنے کی بجائے چھ ، سات ماہ کے بعد واپس چلے جاؤ.اور ہر ایک مربی نے ، جس سے میں نے بات کی ہے، بڑی بشاشت کے ساتھ کہا کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں، اس لئے اگر آپ آج کہیں تو ہم آج واپس چلے جائیں گے.غرض اب سلسلہ کو، جماعت کو اور اسلام کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ تعداد میں مربی باہر بھیجیں.تا اسلام کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو سکے اور غلبہ اسلام کے دن جلدی آسکیں.فنانس سٹینڈ ینگ کمیٹی کے ممبران نے ان میں سے کسی بات کو نہیں سوچا اور یہ تجویز پیش کر دی کہ تحریک جدید کے باہر سے آئے ہوئے، تمام مبلغ صدرانجمن احمدیہ کو دے دیئے جائیں اور جب ان میں سے کسی کو باہر بھیجنے کی ضرورت ہوتو تحریک جدید اسے واپس بلا لے.اس بات کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا.اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کمیٹی کے ممبران میں سنتی آگئی ہے.اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ میں سے ہر ایک اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ انہیں اپنے کام کی طرف توجہ نہیں.جو چیز سامنے آئی یا کسی نے کوئی بات کہہ دی، اس پر بغیر سوچے سمجھے رائے دے دی“.یا رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 25 تا 27 مارچ 1966ء) 109

Page 127

Page 128

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 27 مارچ 1966ء ہماری اصل غرض یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کی تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلائیں ارشادات فرمودہ 27 مارچ 1966ء بر موقع مجلس شوری یہ درست ہے، آپ کی اطلاع کے لئے میں یہ کہوں گا کہ یہ بات شوری سے تعلق نہیں رکھتی.ڈیڑھ، دو مہینے ہوئے ، میں نے قرآن کریم کے متعلق تجاویز پر غور کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی بنادی تھی.اور باہر کے بعض دوستوں نے بھی مجھے لکھا تھا کہ قرآن کریم کا پڑھانا ایک مسئلہ ہے، اس کو تقسیم نہیں کرنا چاہیے.اندون ملک میں بھی اور بیرون ملک میں بھی.ہماری اصل غرض یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کی تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلائیں.اور اس ساری دنیا میں ہمارا ملک بھی شامل ہے.اور ہمارے مختلف صیغے ، جو اس سلسلہ میں کام کر رہے ہیں، ان کی کوششوں کے نتیجہ میں ہمیں وہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے ، جو ہونے چاہیں.اس کے متعلق مجموعی طور پر غور ہو اور ساری دنیا کے لئے ایک مجموعی منصوبہ بنا کر اس پر عمل کیا جائے.چنانچہ میں نے ایک کمیٹی بنادی تھی.جس میں، میں نے ادارۃ المصنفین کو بھی شامل کیا تھا، نظارت اصلاح وارشاد کو بھی شامل کیا تھا، خلافت لائبریری کو بھی شامل کیا تھا، کیونکہ ان کے سپر د بھی حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی زندگی میں کچھ کام کئے تھے.پھر میں نے اس میں تحریک جدید کو بھی شامل کیا تھا.اور اس کمیٹی نے غور کر کے ایک سکیم بنائی ہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ کوشش کی جائے گی کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس کام کی طرف توجہ کریں اور اپنی طرف سے بہتر سے بہتر نتائج پیدا کرنے کی کوشش کریں.ہم دعا بھی کرتے ہیں اور آپ احباب بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کے بہترین نتائج پیدا کرے.یہ صحیح ہے کہ اس وقت دنیا میں ہماری کتب کی اس قدر مانگ ہے کہ ہم اس کا دو سواں حصہ بھی پورا نہیں کر رہے.اگر ہم اس کا دسواں حصہ بھی پورا کریں تو موجودہ نتائج سے سو گنا زیادہ نتائج نکلیں.مثلاً مشرقی افریقہ کے کئی ممالک میں سواحیلی زبان بولی جاتی ہے.اور مجھے مشرقی افریقہ کے ایک مبلغ نے لکھا ہے کہ ہمارے پاس سواحیلی زبان میں کئی کتب کے تراجم موجود ہیں.یعنی کتب کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور اس پر نظر ثانی بھی ہو چکی ہے.لیکن ہمارے پاس ان کی اشاعت کے سامان نہیں.ان کتب میں ” اسلامی اصول کی فلاسفی بھی شامل ہے.میں نے انہیں فوری جواب دیا کہ آپ سارے مسودے میرے پاس 111

Page 129

ارشادات فرمودہ 27 مارچ 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پارسل کر کے بھجوا دیں، میں انہیں یہاں طبع کروا کے آپ کو بھجوادوں گا.چنانچہ ہوائی ڈاک کے ذریعہ ان مسودوں کا پارسل پہنچ گیا ہے.اور اب ہم ان کے متعلق سیکم بنارہے ہیں.سواحیلی زبان کے حروف بھی چونکہ انگریزی زبان کے ہی حروف تہجی ہیں، اس لئے یہاں ان کی اشاعت میں کوئی دقت نہیں ہوگی.یہاں ربوہ میں پہلے بھی سواحیلمی زبان میں ایک کتاب چھپ چکی ہے.اب ہم مشورہ کریں گے کہ آیا انہیں ان کے بلاک بنوا کر بھجوا دئیے جائیں کہ وہ خود حسب ضرورت اور حسب منشاء وہاں طبع کروالیں یا ہم خودان کتب کو چھپوا لیں اور افریقن ممالک میں انہیں بھجوا دیں.اب یہ صرف ایک زبان کے متعلق بیان کیا گیا ہے.اس کے علاوہ اور زبانیں بھی ہیں.تو ہمیں، جو مرکز میں بیٹھے ہیں، اس طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دینا چاہیے اور جماعت کو بھی توجہ دینی چاہیے.اور ہر قسم کی تجاویز سوچتے رہنا چاہئے.پھر جو اچھی تجاویز ذہن میں آئیں ، وہ مجھے بھیجیں.بلکہ پچھلے چند مہینوں سے میرا یہ تاثر ہے کہ بعض احباب جو تجاویز ہمارے پاس بھیجتے ہیں، وہ ان تجویزوں سے کہیں زیادہ اچھی ہوتی ہیں، جو مجلس مشاورت میں پیش ہونے کے لئے آتی ہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنی ذمہ داری کو سجھتا ہے، بات کے ہر پہلو کو دیکھتا ہے اور اس پر غور کرتا ہے اور پھر جو تجویز اس کے ذہن میں پک جاتی ہے اور پوری نشو و نما حاصل کر لیتی ہے، اسے وہ ہمارے پاس بھیجتا ہے.بدقسمتی سے شوریٰ میں تجاویز پیش کرنے کے لئے بالعموم دوست یہ کرتے ہیں کہ جب وقت آیا ، میٹنگ کی اور کوئی نہ کوئی تجویز بھیج دی.اب اس تجویز پر کوئی غور وفکر نہیں ہوتا اور وہ ہمارے پاس بھیج دی جاتی ہے.بعض دوست تو پورا علم بھی حاصل نہیں کرتے اور تجویز بھیج دیتے ہیں.انہیں موجودہ حالات اور موجودہ قواعد کاعلم بھی نہیں ہوتا اور بغیر سوچے سمجھے، وہ ایک تجویز بھیج دیتے ہیں.اس طرح وہ تجویز محض وقت ضائع کرنے والی ہوتی ہے.میں سوچ رہا ہوں کہ شوریٰ کی تجاویز کے متعلق بھی کوئی ایسی صورت اختیار کی جائے کہ جماعتوں کو ان پر لمباغور کرنے کا موقع ملے اور پھر جو تجویز پوری طرح پختہ ہو جائے ، وہ شوریٰ میں آئے.اور جو تجویز نیم پختہ یا بالکل ابتدائی شکل میں ہو ، وہ یہاں نہ آئے.قرآن کریم کے متعلق میں خود بھی سوچ رہا تھا اور بعض دوستوں نے بھی خطوط بھجوائے کہ اس اس طرح کام کرنا چاہیے.یہ تجویز ، جو آپ بحث میں لا رہے ہیں، یہ شوری کے ایجنڈا میں نہیں آئی.کیونکہ شوری کا ایجنڈا ایک اور طریق پر مرتب کیا جاتا ہے اور اس میں پختگی نہیں ہوتی.حالانکہ بعض دوست خوب محنت ، سوچ بچار اور غور وفکر کے بعد بڑی اچھی تجاویز بھیجتے ہیں.دوست وہ بھی کریں اور شوریٰ کی تجاویز 112

Page 130

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم ارشادات فرمودہ 27 مارچ 1966ء میں پختگی پیدا کرنے کی کوئی تجویز کسی کے ذہن میں ہو تو وہ بھی مجھے بھجوائیں.میں بھی سوچ رہا ہوں سارے دماغ اکٹھے ہو جائیں تو بہتر نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں." میں نے تحریک جدید کو ہدایت دے دی ہے کہ وہ تمام بیرونی مشنریوں کو اس بات کا پابند کریں کہ وہاں جو بڑی بڑی تقریبات ہوتی ہیں.مثلاً اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے سوئزرلینڈ میں، ہالینڈ میں بھی ، جرمن میں بھی ، عید کے موقع پر اتنے زبر دست اجتماع ہوئے ہیں کہ سونے والے کمروں میں بھی لوگ بیٹھے تھے ، باہر بھی لوگ بیٹھے تھے اور پھر بھی جگہ تنگ تھی.ان کی ٹرانسپیرنسی (TRANSPARENCY) جو پروجیکٹر میں دکھائی جاتی ہے، وہ ضرور لیا کریں اور مرکز بھجوا دیا کریں.میرا اندازہ ہے کہ اگر تحریک جدید اپنے مبلغوں کو اس بات کا پابند کر دے تو اس سال کئی سو اس قسم کی چیزیں آجائیں گی، جو پروجیکٹر کے ذریعہ دکھائی جاسکیں گی.پھر ان تصاویر میں سے یورپ کی تصاویر افریقہ میں بھیج دی جائیں.افریقہ کی تصاویر یورپ میں بھیج دی جائیں.اور اس طرح وہ تصویر میں ساری دنیا میں چکر کھائیں اور ایک سیٹ ان تصاویر کا پاکستان میں چکر کھائے.اس وقت وہ جو کام کر رہے ہیں، اس میں بنیادی نقص یہ ہے کہ وہ پرانی تصاویر دکھاتے رہتے ہیں.اگر ہر سال ایسا ہو کہ تصاویر کی زبان میں دنیا کو بتایا جائے کہ سال رواں میں غلبہ اسلام کے لئے دنیا میں اس قدر واقعات ہوئے ہیں تو وہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا.چنانچہ میں نے تحریک جدید کو ہدایت دے دی ہے.اور اس دفعہ عیدالاضحیہ کے موقع پر ٹرانسپیرنسی (TRANSPARENCY) سب مشنوں کی طرف سے ضرور آنی چاہیے.تحریک جدید اپنے مبلغوں کو دوبارہ یاد دہانی کرائے“.ر پورت مجلس مشاورت منعقدہ 25 تا 27 مارچ 1966ء) 113

Page 131

Page 132

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - اقتباس از تقریر فرموده 27 مارچ 1966ء بنی نوع انسان سے ہمدردی کا یہ تقاضا ہے کہ ہم ان پر اتمام حجت کر دیں تقریر فرمودہ 27 مارچ 1966ء بر موقع مجلس شوری حضور نے فرمایا:.چونکہ وقت بہت زیادہ ہو چکا ہے، اس لئے بعض باتیں جو میں کہنا چاہتا ہوں، بڑے ہی اختصار کے ساتھ کہوں گا.پہلی بات یہ ہے کہ مجھے تحریک جدید کی طرف سے بتایا گیاہے کہ اللہتعالی کے فضل سے تفسیر القرآن (انگریزی) پانچ جلدوں میں چھپ گئی ہے.اور ان پانچ جلدوں کی مجموعی قیمت 102 روپے ہے.یہ تفسیر مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے نے نہایت محنت ،محبت اور شوق سے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تفسیر اور حضرت مصلح موعودؓ کے فرمودہ درس کے نوٹوں سے، تیار کی ہے.اس تفسیر کی پانچ جلدیں (یعنی ایک سیٹ ) دوستوں کے دیکھنے کے لئے یہاں رکھ دیا گیا ہے.انگریزی دان دوستوں کو خود بھی یہ تفسیر اپنے پاس رکھنی چاہیے.اس کا بڑا فائدہ ہے.اور اس کو ان دوستوں کے ہاتھ میں بھی پہنچا ئیں ، جن ساعت سے تعلق نہیں اور جن کا قرآن کریم کی نسبت انگریزی سے زیادہ لگاؤ ہے.یہ لوگ عام طور پر قرآن کریم کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.اگر دوست ان کے ہاتھ میں یہ تفسیر پہنچادیں اور اس کے ساتھ دعا بھی کریں تو شاید اللہ تعالیٰ انہیں قرآن کریم پڑھنے کی توفیق عطا کر دے.اور خدا کرے کہ وہ اسے سمجھنے کی توفیق حاصل کریں.اور ہدایت اور صداقت ان پر روز روشن کی طرح کھل جائے.دوسرے ماہنامہ تحریک جدید کچھ عرصہ سے جاری ہوا ہے.اور جیسا کہ محترم شیخ بشیر احمد صاحب نے فرمایا تھا، اس میں ایسی معلومات بھی ہوتی ہیں کہ غیر از جماعت دوست ان میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں.چنانچہ بعض جگہ اسے بڑی تعداد میں منگوایا جارہا ہے.ایک شہر، جس کا نام لینا مناسب نہیں ، اس کے ایک چھوٹے سے حلقہ میں یہ رسالہ چالیس کی تعداد میں منگوایا جارہا ہے.اس کی قیمت بھی کچھ نہیں ، صرف ڈیڑھ روپیہ سالانہ ہے.اس کو اگر کثرت سے پھیلایا جائے تو اس سے بڑے مفید نتائج حاصل ہو سکتے ہیں“.چوتھی بات، جو میں دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے باہر کے ملکوں میں بھی اور خود پاکستان میں بھی آسمان سے فرشتے نازل ہو کر یہ تحریک کر رہے ہیں کہ لوگ " 115

Page 133

اقتباس از تقریر فرموده 27 مارچ 1966 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہماری باتوں کو سنیں اور ان کی طرف توجہ کریں.لیکن ہم اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھا نہیں رہے.مجھے شبہ ہے کہ شاید خود پاکستان میں 70 فیصدی آبادی ایسی ہے، جس نے اگر احمدیت کا نام سنا ہے تو متعصب زبان سے سنا ہے.ہم نے ان کے سامنے احمدیت کی حقیقت بیان نہیں کی.اور یہ بڑی افسوسناک بات ہے.اس لئے میرا ارادہ ہے کہ سال رواں میں انشاء اللہ اللہ تعالٰی توفیق دے تو ایسا انتظام کروں کہ کم از کم ایک کروڑ دو ورقے یا چار ورقے لوگوں کے ہاتھ میں پہنچ جائیں.اس طرح بچوں کو نکال کر ہمارے ملک کی باقی آبادی کے چوتھے یا پانچویں حصہ کے ہاتھ میں ہمارا یہ لٹر پچر پہنچ جائے گا.میری نیت یہ ہے ( دوست دعا کریں، اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا کرے) کہ پہلا دو ورقہ میں اپنے خرچ پر طبع کراؤں اور تقسیم کروں.پھر اس سلسلہ میں دوسرے دو ورقے یا چار ورقے شائع کئے جائیں گے.میرا خیال ہے کہ ان کے مضامین لمبے نہیں ہونے چاہیں.لیکن بعض مضامین اپنی وسعت اور اہمیت کے لحاظ سے ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ دو ورقہ ان کے لئے کافی نہ ہو.بہر حال یہ دو ورقہ یا چار ورقہ موٹا اور خوش خط ہو کہ ہر آدمی اسے پڑھ سکے.اور ایسا خوبصورت ہو کہ متعصب سے متعصب انسان بھی یہ جرات نہ کرے کہ اسے پھینک دے.جب ہم کالج میں پڑھا کرتے تھے ، اس وقت میں نے دوستوں میں تحریک کر کے عشرہ کاملہ بنائی تھی.ہم ایک روپیہ ماہورار چندہ دیتے تھے.(اس وقت بڑا ستا زمانہ تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے اقتباسات آرٹ پیپر کے ایک ورق پر چھپواتے اور کالج کے طلباء میں تقسیم کرتے تھے.مجھے ابھی تک وہ نظارے یاد ہیں کہ جب وہ کسی متعصب انسان کے ہاتھ میں دیا جا تا تھا تو اس کا پہلا رد عمل یہ ہوتا تھا کہ اسے پھینک دے یا پھاڑ دے.لیکن جب اس کی نظر اس پر پڑتی اور وہ دیکھتا کہ کتنا خوبصورت چھپا ہوا ہے تو وہ مجبور ہو جاتا کہ اس وقت اسے اپنی جیب میں ڈال لے.(چاہے اس نے اسے بعد میں پڑھا، یا نہیں پڑھا.غرض ہم اس طرح خوبصورت دو ورقہ یا چار ورقہ لٹریچر پیش کر سکتے ہیں کہ ایک متعصب آدمی بھی ایک حد تک اس کی طرف متوجہ ہو جائے.غرض ایک کروڑ اس قسم کے دو ورقے یا چار ورقے انشاء اللہ سلسلہ کی طرف سے شائع کئے جائیں گے.اور اس کے لئے میرے ذہن میں تجویز ہے کہ پہلا دو ورقہ میں اپنے خرچ پر طبع کراؤں اور اس کا ایک حصہ یعنی پچاس ہزار اپنے خرچ پر بذریعہ ڈاک بھجواؤں.اور ایک حصہ ان جماعتوں کو پہنچاؤں ، جو اس بات کا وعدہ کریں کہ وہ اسے اپنے شہر میں ایسے آدمیوں تک جنہیں وہ مناسب سمجھیں ، بذریعہ ڈاک پہنچائیں گے.مثلاً کراچی والے پانچ ہزار، دو ہزار یا ایک ہزار پتے تیار کر لیں اور جب یہ دو ورقہ ان کے پاس پہنچے تو انہیں بذریعہ ڈاک پہنچا دیں.ایک دو ورقہ پر سات نئے پیسے بطور موصول ڈاک خرچ آتے 116

Page 134

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم - اقتباس از تقریر فرموده 27 مارچ 1966ء ہیں.لیکن اگر ملک کی پچیس فیصدی آبادی تک بھی ہم یہ دوور تے پہنچا دیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کا فرض پورا ادا نہیں ہوتا.لیکن پچپیس یا تمیں فیصدی تو ادا ہو جائے گا.بہر حال ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہر سال ہر پاکستانی کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی دو ورقہ یا چار ورقہ ضرور ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب یہ اعتراض ہوا کہ آپ مسلمان نہیں تو آپ نے اپنی بعض کتب میں لکھا کہ ہمارے یہ عقیدے ہیں.اب وہ دو صفحے کا مضمون شائع کر دیا جائے.اس میں اپنی طرف سے کوئی حصہ زائد کرنے کی بھی ضرورت نہیں.اس میں بڑی برکت ہے، بڑا اثر ہے، بڑا زور ہے.اگر وہ باتیں شائع ہو کر غیر احمدی دوستوں کے ہاتھ میں پہنچ جائیں تو وہ اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے.پھر غیر احمدیوں میں سے ایک بڑا طبقہ ایسا ہے کہ جو عقید تا احمدی ہو چکا ہے یا قریبا احمدی ہو چکا ہے لیکن وہ دنیا میں اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کی ہمت اور جرات نہیں پاتا.اگر ان کے علم میں مثلاً یہ لایا جائے کہ جماعت احمدیہ غیر ممالک میں اسلام کی کیا خدمت کر رہی ہے اور غیر ممالک میں اسلام کی جو حالت ہے، اس کے کیا تقاضے ہیں؟ تو ممکن ہے، ان میں سے بعض کے دلوں میں جوش پیدا ہو کہ ہم خواب غفلت میں سورہے ہیں، ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے.اور اس وقت ایک ہی جماعت ہے، جو اس طرف توجہ دے رہی ہے.اور عقید تاہم ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہوئے ہیں، عملاً اس سے اس لئے گریز کرتے ہیں کہ ہم میں یہ جرات نہیں کہ علی الاعلان احمدیت میں داخل ہوں.میں ذاتی علم کی بناء پر کہ سکتا ہوں کہ ایسے لاکھوں پاکستانی اس ملک میں موجود ہیں.ہمیں ان کو کسی نہ کسی رنگ میں جھنجھوڑ نا چاہیے.غیر ممالک کے متعلق میری یہ سکیم ہے اور اس کو بھی میں انشاء اللہ اپنے نفس سے ہی شروع کرنا چاہتا ہوں کہ وہاں بھی ڈاک کے ذریعہ لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں اس قسم کا لٹریچر، جو مختصر ہو، پہنچایا جائے.مثلاً جو عربی بولنے والے ممالک ہیں، ان میں کچھ اس قسم کا تعصب ہے کہ وہ عام طور پر ہمارے مبلغوں کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں دیتے اور نہ ہمارے لٹریچر کو وہاں جانے دیتے ہیں.اگر ہم اس طرح ڈاک میں لڑر پچر بھیجیں تو لازمی طور پر اس کا ایک حصہ تو سنسر میں رک جائے گا.لیکن ایک حصہ نکل جائے گا.میرا ارادہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم يا عين فيض الله و العرفان اليك الخلو کاظمان کو نہایت خوبصورت اور بلاک پر چھپوایا جائے.اور دس ہیں یا چالیس ہزار کی تعداد، جو بھی ممکن ہو، چھپوایا جائے.اور اس کو عرب ممالک مثلاً سعودی عرب، شام، فلسطین، مصر اور مغربی اور مشرقی افریقہ 117

Page 135

اقتباس از تقریر فرموده 27 مارچ 1966ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کے ان ممالک میں ، جہاں عرب اور شامی آباد ہیں، پہنچایا جائے.اور اس کے اوپر یہ لکھا جائے کہ یہ قصیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں ہے.اور اس میں وہ تمام صفات لکھ دی جائیں ، جن کا ذکر حضور نے اس نظم میں کیا ہے.اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ نہ کیا جائے.اور اس کے نیچے حضور کا نام ہو.اس کے بعد ان لوگوں کے کان میں اگر کوئی غلط بات پڑے گی تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ اس شخص کے متعلق بدظنی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی شدید محبت پائی جاتی ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ وہ آپ سے محبت کا اتنے شاندار الفاظ میں اظہار کرے.بہر حال ہم نے اپنا زور لگانا ہے اور ہمیں اپناز در صحیح طور پر لگا دینا چاہیے.پس غیر ممالک میں بھی ڈاک کے ذریعہ ہمیں تبلیغ کی مہم کو بڑے وسیع پیمانہ پر اس وقت جاری کر دینا چاہیے.اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا ہے کہ میں دنیا کو اس وقت تک چھوڑوں گا نہیں ، جب تک کہ وہ اس صداقت کو قبول نہ کرے، جس پر میں نے تمہیں قائم کیا ہے.پس اگر ہمارے دل میں بنی نوع انسان کی ہمدردی ہے اور ہم ان کو خدا تعالیٰ کی قہری تجلی سے بچانا چاہتے ہیں اور اس کی بجائے یہ چاہتے ہیں کہ ان پر خدا تعالیٰ کی محبت کی تجلی ہو.اور دنیا اس تباہی سے بچ جاوے، جس کی طرف وہ اس وقت بڑی تیزی سے جارہی ہے.تو یہ ضروری ہے کہ ہم ان پر اتمام حجت کر دیں.ان چیزوں کا بجٹ میں رکھنا، میں نے اس لئے مناسب نہیں سمجھا کہ میں کوشش کروں گا کہ جس طرح میں چاہتا ہوں، اپنی طرف سے بھی یہ کام کروں، دوسرے دوستوں میں بھی اس کی تحریک کروں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ بہت سے دوست اس کام کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ وہ پچاس ہزار یا ایک لاکھ اس قسم کے دو ورقے یا چار ورقے شائع کریں.میں نے خرچ کا اندازہ بھی لگایا ہے کوئی زیادہ خرچ نہیں.اس طرح ہم بجٹ پر بوجھ ڈالے بغیر اس مہم کو بڑے وسیع پیمانہ پر جاری کر سکیں گے.انشاء اللہ تعالی.رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 25 تا 27 مارچ 1966ء) 118

Page 136

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ عید الفطر فرمودہ 13 جنوری 1967ء موجودہ ایام میں ضروری ہے کہ ہم کھانے میں کمی اور سادگی اختیار کریں خطبہ عید الفطر فرمودہ 13 جنوری 1967ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی:.فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَمَا أَدْريكَ مَا الْعَقَبَةُ فَتْ رَقَبَةٍ ل أو إطعم فِي يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ يَّتِيْمًا ذَا مَقْرَبَةٍ أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةِ (البلد) پھر فرمایا.آج عید ہے، آپ سب کو اللہ تعالی عید کی حقیقی خوشی نصیب کرے.عید، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، اسے کہتے ہیں، جو بار بار آئے اور جسے بار بار لانے کی دل میں خواہش پیدا ہو.اور یہ عید اس لئے منائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہم اس بات پر شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ماہ رمضان کی خصوصی عبادات بجالانے کی توفیق عطا کی.قیام لیل کی بھی اور دن کے روزوں کی بھی اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی بھی کہ یہ بھی رمضان کی عبادت کا ایک بڑا ضروری حصہ ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر رمضان کو رحمت کا مہینہ ، مغفرت کا مہینہ اور عنق مِنَ النَّارِ کا مہینہ قرار دیا ہے.یعنی یہ وہ مہینہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ اگر اس کا بندہ ان سامانوں سے فائدہ اٹھائے اور ذرائع اور وسیلوں کو استعمال کرے، جو اس کے رب نے اس کے لئے مہیا کئے ہیں تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو وہ کچھ اس طرح جذب کرتا ہے کہ اس کی رحمت کا وارث بن جاتا ہے.اس کے حصہ میں اپنے رب کی مغفرت آتی ہے اور اس کی گردن شیطان کی غلامی سے آزاد کر دی جاتی ہے اور اسے نار جہنم سے بچا لیا جاتا ہے.آخری سپارے کی جو آیات میں نے اس وقت پڑھی ہیں، ان میں بھی یہی مضمون ہے کہ ہم نے انسان کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ اگر وہ ان کو پہچانتا اور ہمارے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرتا تو اس کے لئے ممکن تھا کہ وہ روحانی بلندیوں کو حاصل کرتا چلا جاتا.لیکن ان تمام سامانوں کے باوجود اور اس ہدایت کے باوجود، جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ بنی نوع انسان پر نازل کی، اس نے اس طرف توجہ نہیں کی.فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ اور ان روحانی بلندیوں تک اس نے پہنچنے کی کوشش نہیں کی.جن روحانی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے، اس کے لئے سامان مہیا کئے گئے تھے.119

Page 137

خطبہ عید الفطر فرمودہ 13 جنوری 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے یہ کہا کہ اس نے روحانی بلندیوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی.تو اس سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ نہ اس نے اپنی گردن شیطانی غلامی سے آزاد کی اور نہ اس نے یہ کوشش کی کہ اس کے بھائیوں کی گردنیں بھوک کی غلامی اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتیں.اس کے ایک معنی یہ بھی کئے جاتے ہیں کہ غلاموں کو آزاد کرنا.اپنی جگہ پر یہ معنی درست ہیں.لیکن فَكُ رَقَبَةٍ اور عِشق مِنَ النَّارِ کے الفاظ وضاحت کے ساتھ ایک ہی مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں.تو اگر چہ اس میں بھی بڑا ثواب ہے کہ ان لوگوں کو انسان آزادی کی فضا مہیا کرے یا آزادی کی فضا مہیا ہونے میں ان کی امداد کرے، جو انسان ظلم اور اپنی غفلت کے نتیجہ میں غلام بن چکے ہیں.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک اس سے بھی زیادہ مظلوم اور قابل رحم غلام ہے.جس کو آزاد کرانا اور کروانا ہمارے لئے زیادہ ثواب کا موجب ہے اور زیادہ رحمت کا موجب ہے اور زیادہ مغفرت کا موجب ہے.اور وہ اپنا نفس ہے.جب وہ شیطان کا غلام بن جاتا ہے اور خدا کی دی ہوئی آزادی سے محروم کر دیا جاتا ہے، یعنی وہ آزادی ، جو خدا کے قرب میں حاصل کی جاتی ہے.وہ آزادی، جو خدا کی رحمت کے سایہ میں حاصل کی جاتی ہے.وہ آزادی، جو خدا کی مغفرت کے احاطہ کے اندر حاصل کی جاتی ہے.تو یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فک رَقَبَة کے سامان تو تھے مگر انسان نے اس طرف توجہ نہیں دی.اور وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا.اور اس نے ان سامانوں سے فائدہ نہیں اٹھایا اور غلام کا غلام ہی رہا.حالانکہ ہم نے ماہ رمضان کی عبادتوں کو خاص طور پر اس کے لئے اس لئے مقرر کیا تھا کہ اگر وہ کوشش کرے اور سعی کرے اور مجاہدہ کرے اور ہماری راہ میں قربانیاں دے، اس طرح پر کہ ہمارے لئے بھوکا رہے، ہماری خاطر ہمارے بھوکے بندوں کو کھانا کھلائے تو وہ اپنی گردن کو شیطان کی غلامی سے آزاد کروا سکتا تھا.وہ ان زنجیروں سے آزاد ہوسکتا تھا، جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے.ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا کہ بڑی لمبی زنجیریں جہنم کے قید خانہ میں ڈالی جائیں گی.لیکن اس نے ان سامانوں کے ہوتے ہوئے بھی، ان کی موجودگی میں بھی اپنی گردن کو شیطان کی غلامی سے آزاد نہیں کیا.اسی طرح ایک اور ذمہ داری اس کے اوپر تھی.اور وہ یہ تھی کہ اپنے بھائیوں کو بھوک کی اور شیطان کی غلامی سے آزاد کرے.قرآن کریم نے یہاں الفاظ بھوک کے رکھے ہیں.لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت سے بتایا ہے، كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا“ کہ بھوک جو ہے، وہ کبھی کفر اور ضلالت پر 120

Page 138

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم خطبہ عید الفطر فرموده 13 جنوری 1967ء منتج ہوتی ہے.بھوک کے نتیجہ میں انسان بسا اوقات شیطان کے دام فریب میں آجاتا ہے اور اپنے رب کو چھوڑ دیتا اور بھول جاتا ہے.اور خدا تعالیٰ کو رزاق سمجھنے کی بجائے وہ شیطان کے پاس اس شرط پر اپنی روح کو بیچ دیتا ہے ( جیسا کہ ہماری بعض کہانیوں میں شیطان کے پاس روح کو بیچنے کا ذکر بھی ہے کہ وہ شیطان کے پاس اپنی روح کو اس شرط پر بیچتا ہے.) کہ وہ اس کو دنیوی اموال اور اسباب اور متاع مہیا کرے گا.اور اس کی روح شیطان اس لئے خرید لیتا ہے کہ خدا کو یہ کہہ سکے کہ میں نے کہا تھا، اے رب! کہ میں تیرے بندوں کو بہکاؤں گا.دیکھ ! یہ تیرا بندہ تھا مگر تیرا بندہ نہیں بنا.اور دیکھ ! میں اس کی روح کو جہنم میں پھینک رہا ہوں.اس کو میں نے اس قدر گمراہ ، طافی اور منکر اور سرکش بنا دیا ہے کہ تیرے غضب کا مورد ہو گیا ہے.تیرے قہر کی تجلی نے جلا کر اسے کوئلہ کر دیا ہے.تو بھوک بسا اوقات کمزور دل میں کفر پیدا کرتی ہے.اس لئے اگر چہ اللہ تعالٰی نے یہاں بھوک کا ذکر کیا ہے لیکن چونکہ وہ بھی ایک بڑی وجہ تھی کفر کی ، اس لئے اس کو یہاں بیان کر دیا.اور اصل مقصد فک رَقَبَة کا ہی ہے.پہلے فقرہ میں اپنی گردن کو شیطان کی غلامی سے آزاد کرانا اور دوسرے فقرہ میں اپنے بھائیوں کی گردنوں کو شیطان کی غلامی سے آزاد کرانا مطلوب ہے.وہ غلامی، جو بسا اوقات بھوک کے نتیجہ میں اور فقر اور محتاجی سے مجبور ہو کر انسان کو اختیار کرنی پڑتی ہے.اسی لئے احادیث میں کثرت سے یہ روایت آتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر بڑے ہی تھی تھے.اتنے بھی کہ اگر آپ کی سخاوت کے واقعات ، جوظاہر میں وقوع پذیر ہوئے ، اللہ تعالیٰ کا ہر بزرگ بندہ ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کون زیادہ بزرگ ہوگا، بعض نیکیاں ظاہر میں کرتا ہے اور بعض اس رنگ میں کرتا ہے کہ کسی کو ان کا علم تک نہیں ہوتا.تو جن کا ہمیں علم ہے، اگر ان کو بھی اکٹھا کیا جائے تو تاریخ ایسے تھی کی مثال دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکتی.اس کے باوجود احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں آپ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی.اور اس کی مثال ایسی ہی بن جاتی تھی ، جیسے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کی ٹھنڈی ہوا بڑی تیز چل رہی ہو.تو تیز ہوا کی طرح آپ کی سخاوت ان دنوں میں جوش میں آکر دنیا کے سامنے ظاہر ہو رہی ہوتی تھی.پس رمضان کا تعلق کھانا کھلانے سے بڑا گہرا ہے.چنانچہ بعض بزرگوں کا قول بھی ہمارے لٹریچر میں پایا جاتا ہے کہ جب رمضان آیا تو انہوں نے کہا کہ قرآن کریم کے پڑھنے اور مستحقین کو کھانا کھلانے کا زمانہ آ گیا.بس اب قرآن پڑھا کریں گے اور بھوکوں کی بھوک دور کرنے کی کوشش کیا کریں گے.تو خصوصی تعلق ہے، رمضان کا بھوک دور کرنے کے ساتھ.پس رمضان کو رحمت اور مغفرت اور غلامی سے 121

Page 139

خطبہ عید الفطر فرمودہ 13 جنوری 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم نجات حاصل کرنے کا مہینہ قرار دیا گیا ہے.غلامی سے نجات، سب سے پہلے اپنے نفس کی نجات اور ان آزادی ہے.اور اس کے بعد اپنے بھائیوں کی آزادی ہے.شیطان کی غلامی سے اور شیطان کا غلام ہمارا بھائی اس طرح بھی بن جاتا ہے کہ اس کا پیٹ نہیں بھر رہا ہوتا.اور بھوکا رہنے کی وجہ سے اور اپنے بچوں کو بھوکا دیکھتے ہوئے، بہک جاتا ہے اور اپنے خدا کو بھول جاتا ہے.اور یہ نہیں سوچتا کہ ایسے ابتلاء تو بطور امتحان کے ہوتے ہیں.ان میں کامیاب ہونے کی اور پاس ہونے کی کوشش کرنی چاہیے.نہ یہ کہ آدمی فیل ہو اور نا کام ہو اور خدا کے غضب اور غصہ کو سہیڑ لے.یہ وقت اور سال کا یہ حصہ ، جس میں اب ہم داخل ہوئے ہیں، اس میں غذا کی بڑی قلت پائی ہے.یہ سال جو گزررہا ہے، اس کی غذا جہاں تک پیداوار کا تعلق ہے، پیدا ہو چکی ہے.یعنی ربیع کی فصل بھی انسان نے کاٹ لی اور خریف کی فصل بھی کاٹ لی ہے.ملک نے سال رواں میں جو غلہ پیدا کرنا تھا، وہ کر دیا.اس کے باوجود کچھ قلت ہے، غذا کی.آئندہ سال کی پہلی فصل ربیع اس وقت ہوئی جا چکی ہے.لیکن خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ابھی تک بادلوں نے مینہ نہیں برسایا.انہیں اس کا اذن نہیں ہوا کہ میرے بندوں کی زمینوں کو جا کر سیراب کرو.مغربی پاکستان کا بڑا حصہ باران رحمت کا ابھی منتظر ہے.اس سے یہ ڈر پیدا ہوتا ہے کہ کہیں آئندہ فصل خراب نہ ہو.اگر خدانخواستہ آئندہ فصل خراب ہو گئی تو ہماری غذائی قلت بہت زیادہ ہو جائے گی.اور بڑی تکلیف میں ہم اپنے آپ کو پائیں گے.بھوک ایک تو كَادَ الْفَقْرُ اَنْ يَكُونَ كُفْرًا ایک غلامی بنتی ہے نا ؟ بھوک کے نتیجہ میں ہمیں ایک اور قسم کی غلامی بھی نظر آرہی ہے.اور اس حدیث کے یہ بھی ایک معنی ہیں کہ جب کوئی قوم بھوک سے مرنے لگتی ہے تو وہ غیر قوموں کی غلامی اختیار کرتی ہے.چنانچہ وہ اقوام جو ، ان قوموں کو ، غلہ مہیا کرتی ہیں اور غذا مہیا کرتی ہیں، جہاں کمی ہو.وہ اپنے مالکانہ اثر و رسوخ اور سیاسی دباؤ کو استعمال بھی کرتی ہیں اور غلہ لینے والی قو میں اپنے آپ کو پوری آزاد محسوس نہیں کرتیں.اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو اس سے محفوظ رکھے.پس ایک تو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ رحمت کی بارش برسائے اور ہمارے ملک میں غذا کی قلت نہ ہو.دوسرے ہمیں اللہ تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں یہ تعلیم دی ہے کہ یتیم اور مسکین کو کھانا کھلاؤ ، اس کو نہیں بھولنا چاہیے.مِسْكِينَا ذَا مَتْرَبَةٍ کے ایک معنی یہ ہیں کہ جس نے اپنی طرف سے مال کمانے کی پوری کوشش کی ہے.اگر اس کو اور کچھ نہیں ملا تو اس نے مزدوری کی ہے اور وہ گرد آلود ہے اور ذامتربة ہے.پس ذا متربة کے ایک معنی یہ ہیں کہ ایسا مسکین، جس کو مانگنے کی عادت نہیں.بہت سارے لوگ 122

Page 140

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ عید الفطر فرموده 13 جنوری 1967ء آپ کو خوش پوش نظر آئیں گے اور اندر سے وہ بہت غریب ہوں گے، مانگ مانگ کے گزارہ کر لیتے ہیں.مانگ کے کپڑے پہن لئے.مانگ کے کھالیا اور کام کوئی نہ کیا.تو یہ ذہنیت بڑی گندی ہے، اس سے بچنا چاہیے.اللہ تعالیٰ جماعت کے افراد کو اس سے محفوظ رکھے.تو جس کو ضرورت ہے ، وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرے.اگر اور کوئی کام نہیں ملتا تو مزدوری کرے.آخر بڑے بڑے کبار صحابہ جب ہجرت کر کے مدینہ میں آئے تو بعض انصار نے کہا کہ ہمارے پاس مال ہے، آؤ مل کر بانٹ لیں.انہوں نے کہا، ہمیں تمہارا مال نہیں چاہیے.درانتی ہے، کلہاڑی ہے اور رسہ ہے.جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاؤں گا اور انہیں بیچ کر گزارہ کروں گا.تو ایسا بزرگ صحابی مدینہ میں آکر ذا متربہ ہوگا.کیونکہ اس کے کپڑے گرد آلود ہوں گے.تو مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ مانگنے سے، دوسرے کا سہارا لینے سے بچنے کی انتہائی کوشش کرو.ذامربہ بن جاؤ.اور کچھ نہ ملے تو مزدوری کر لو.لیکن دوسری طرف دوسروں کو کہا کہ تمہارا یہ بھائی اتنا با غیرت ہے کہ اس کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ پسند نہیں کہ تمہارے آگے ہاتھ پھیلائے.اس نے جب اور کچھ نہیں ہوا تو مزدوری کرنی شروع کر دی.دیکھ لو، اس کے کپڑوں کو ! دیکھ لو، اس کے چہرے کو! یہ ذامتر بہ ہے یا نہیں ؟ تو اس کا ذا متربہ ہوتا ، اس کی غیرت کی دلیل ہے.اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص مانگنے کو عار سمجھتا ہے.لیکن اس کے باوجود ملک کے حالات کے لحاظ سے، اس کے اپنے خاندان کے حالات کے لحاظ سے کہ بچے زیادہ ہیں اور یہ اتنا کما نہیں سکا.اس کے گھر میں پھر بھی بھوک نظر آتی ہے، اب تمہارا فرض ہے کہ اپنے اس بھائی کی مدد کرو.لیکن آپ اپنے ان بھائیوں کی مدد نہیں کر سکتے ، جب تک آپ اپنی زندگی کو سادہ نہ بنائیں.خصوصاً کھانے کے معاملہ میں.تو اب وقت ہے کہ ہم ایک تو تحریک جدید کے اس مطالبہ پر نئے سرے سے عمل پیرا ہو جائیں، جس کو ہم ایک حد تک بھول چکے ہوئے ہیں کہ اپنے کھانے میں سادگی کو اختیار کریں.اور نہ صرف اپنے لئے روپیہ بلکہ اپنے بھائی کے لئے کھانا بھی بچائیں.جب آپ کھانا ضائع کرتے ہیں تو دو چیزوں کا ضیاع ہوتا ہے.آپ کے روپے کا اور آپ کے بھائی کی غذا کا.اگر آپ مثلاً آدھ سیر آٹے کی بجائے چھ چھٹانک کھا ئیں تو آپ کے دو چھٹانک کے پیسے بچ گئے.آپ کے بھائی کے لئے دو چھٹا تک گندم بچ گئی.تو کھانا کم کھائیں، کھانا سادہ کھائیں.تا کہ وہ لوگ، جن کو آپ سے زیادہ ضرورت ہے، ان کے پیٹ بھر جائیں.123

Page 141

خطبہ عید الفطر فرمودہ 13 جنوری 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اور یہ عید جو ہے، اس کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ رمضان میں تو اطعام مسکین کی بجائے بعض دوسری عبادتوں کی طرف ہمیں زیادہ متوجہ کیا گیا تھا.یعنی قیام لیل کی طرف اور خدا کے لئے کھانے کو چھوڑ دینے کی طرف.وہ جو کھلانے والا حصہ تھا، وہ اتنا نمایاں نہیں تھا.اگر چہ پہلے روزے سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے صحابہ اور امت کے بزرگوں کا یہ طریق رہتا تھا کہ وہ بڑی کثرت کے ساتھ اس بات کا اہتمام کیا کرتے تھے کہ جو مستحق ہیں، انہیں کھانا کھلائیں.لیکن جو چیزیں نمایاں ہوتی ہیں رمضان کے مہینے میں ، وہ قیام لیل اور خدا کے لئے کھانا چھوڑنا ہے.اور جو چیزیں نمایاں ہوتی ہیں عید کے دن ، وہ کھانا کھانا اور کھلانا ہے.تو یہ بھی دراصل رمضان کی عبادت کا ہی حصہ ہے اور اسی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے.آج عید ہے، میں نے اپنے خطبہ کے شروع میں یہ دعا کی تھی کہ اللہ تعالی آپ سب کو بشمولیت خاکسار عید کی حقیقی خوشی نصیب کرے.اور اب جو میں نے مضمون بیان کیا ہے، اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس بات کی توفیق دے کہ اس کی رحمتوں کے دروازے جو ہم پر بار بار کھولے جاتے ہیں، ہم بار باران سے فائدہ اٹھا ئیں.اور ہر روز ہمارے لئے روز عید ہو جائے.اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ وہ جو یہ چاہتا ہے کہ اس کے قرب کے حصول کے لئے بھائیوں کی بھوک کا خیال رکھا جائے اور انہیں شیطان کی غلامی سے بچانے کی کوشش کی جائے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمہ داری کی ادائیگی کی بھی توفیق عطا کرے.اور اس طرح پر ہمارے لئے ہر دو معنی سے حقیقی خوشی اور حقیقی عید کے سامان پیدا ہو جا ئیں.اللهم آمین“.(مطبوعه روزنامه الفضل 18 جنوری 1967ء) 124

Page 142

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ عید الاضحیہ فرمود 22 مارچ 1967ء خدا تعالی کی رضا کے لئے وہ قربانی پیش کریں ، جس کی طرف وہ بلا رہا ہے خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ 22 مارچ 1967ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جمعہ کے دو خطبوں میں (مطبوعہ الفضل 31 مارچ والفضل 9 اپریل 1967 ء ) میں، میں نے بطور تمہید کے اپنی بہنوں کو مخاطب کیا تھا.آج میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.آج کا دن، جو قربانیوں کی عید کا دن ہے، اسے میں نے اس مضمون کے شروع کرنے کے لئے اس لئے منتخب کیا ہے کہ میرے مضمون کی ابتداء وقف ابراہیمی سے ہی ہوتی ہے.ایک تو مضمون کافی لمبا ہے اور کئی خطبوں میں غالبا ختم ہو گا.دوسرے آج کے موسم کا یہ تقاضا ہے کہ اس مضمون کا بالکل ابتدائی حصہ اختصار کے ساتھ آج یہاں بیان کیا جائے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کی بنیاد کم وبیش اٹھارہ ، ہیں مقاصد اور اغراض کے پیش نظر رکھی گئی تھی.اور قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان مقاصد کا حصول حقیقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تعلق رکھتا تھا.لیکن بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریباً اڑھائی ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی تیاری کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وقف کا مطالبہ کیا تھا.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذمہ جو کام کیا گیا تھا، وہ یہ تھا کہ اس لمبے عرصہ میں ایک تو بیت اللہ کی آبادی کا انتظام کریں ، اس کی صفائی کا خیال رکھیں، خانہ کعبہ کے طواف کے لئے جو لوگ آئیں ، ان کی خدمت کریں.اور جیسا کہ طهرا الخ کے حکم سے ظاہر ہے ، سب سے اہم فریضہ اس خاندانی وقف کا یہ تھا کہ وہ یہ ساری تیاری کریں، اس نبی اور اس نبی کی امت کے لئے ، جو نماز کو اس شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرے گی کہ اس میں قیام بھی ہوگا ، اس میں رکوع بھی ہوگا اور اس میں سجدہ بھی ہوگا.تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ تمہارے ذریعہ سے خانہ کعبہ کی بنیادیں، جو اٹھوائی جا رہی ہیں اور بنوائی جا رہی ہیں، ان کا مقصد یہ نہیں کہ وہ تمام اغراض تمہارے اور تمہارے خاندان کے ذریعہ سے حاصل کئے جائیں گے، جن اغراض کے لئے خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم کر رہا ہے.بلکہ تمہارے ذمہ یہ بات 125

Page 143

خطبہ عیدالاضحیہ فرمود و 22 مارچ 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہے کہ تم اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے ابھی تیاری کرو.اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوں تو تمہاری کوششوں کے ذریعہ تمہارے نمونہ کی وجہ سے تمہارے خاندان میں وقف کا جو سلسلہ جاری ہو، اس کے نتیجہ میں قوم کے اندروہ تمام استعدادیں پیدا ہو جائیں ، جن کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کی کامیابی کے لئے ضرورت ہے.تو اڑھائی ہزار سال تک اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو اس لئے تیار کیا تھا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروں کے نیچے آکر آپ کی تربیت میں، آپ کی قوت قدسیہ سے فیض حاصل کرنے کے بعد وہ قوم بنے ، جو اللہ تعالیٰ انہیں بنانا چاہتا تھا.لیکن ان میں قبول تربیت کی قوت اور استعداد پیدا کرنے کے لیے اس قوم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان کو وقف کرایا.یہ بھی یادرکھیں کہ کامل اور حقیقی نشوونما کے بغیر خالی استعداد کوئی کام نہیں کرتی.بہت سے بڑے اچھے سائنسدان ہوتے ہیں اپنی استعداد کے لحاظ سے لیکن اپنے ماحول کے نتیجہ میں وہ بالکل ان پڑھ اور جاہل رہ جاتے ہیں.تربیت ان کی نہیں ہوسکتی، تعلیم کا انتظام نہیں ہو سکتا.تو کسی مقصد کے حصول کے لئے اگر ایک آدمی یا ایک قوم کی ضرورت ہو تو دو چیزوں کا اس فرد واحد یا اس قوم میں پایا جانا ضروری ہے.ایک استعداد کا اور ایک اس استعداد کی صحیح تربیت اور اس سے کام لینے کا.پس استعداد پیدا کرنے کا کام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سپرد کیا گیا تھا.اور اس کے لئے قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے کہ ان کو کہا گیا تھا کہ اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کرو.ایک عظیم قربانی اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل سے لی.لیکن اس قربانی کی غرض یہ تھی کہ جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل، جس نے بعد میں عرب میں آباد ہونا تھا ، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو.اور ان قربانیوں کے دینے کے لئے تیار ہو، جن کا اسلام نے ان سے مطالبہ کرنا تھا.اڑھائی ہزار سالہ تربیت کے نتیجہ میں عرب کے اندر یہ استعداد پیدا ہو گئی تھی.جس طرح لکڑی کے اندر آگ چھپی ہوئی ہوتی ہے اور جب دیا سلائی دکھائی جائے تو وہ آگ بھڑک اٹھتی ہے، اسی طرح یا جس طرح ایٹم کے اندر بہت بڑی طاقت موجود ہوتی ہے لیکن ایک خاص میکانزم کے ذریعہ سے اس طاقت کو، جو چھپی ہوئی ہوتی ہے، ظاہر کر دیا جاتا ہے، اسی طرح عرب کی قوم اڑھائی ہزار سالہ تربیت کے نتیجہ میں ان ذمہ داریوں کے نبھانے کے لئے تیار ہو چکی تھی ، جو ذمہ داریاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے سب سے پہلے اس قوم پر ڈالنی تھیں.126

Page 144

خطبہ عید الاضحیہ فرمود 22 مارچ 1967ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد چہارم اسلام تمام عالمین کے لئے بطور ہدایت کے دنیا کی طرف بھیجا گیا.(اس میں کوئی شک نہیں.) لیکن اسلام اور قرآن کریم کے پہلے مخاطب عرب تھے اور اگر عرب اس وقت مستعد نہ ہوتے ، ان کے اندر یہ استعداداور طاقت پیدا نہ ہو چکی ہوتی تو پھر اسلام کا غلبہ ممکن نہ ہوتا.کیونکہ پہلے مخاطب ( یعنی قوم عرب) ناکام ہو جاتے اور بڑا انتشار دنیا میں پیدا ہو جاتا.تو ضروری تھا کہ ایک قوم کی قوم کو ان ذمہ داریوں کے نباہنے کے لئے تیار کیا جائے.اور اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وقف کے لئے کہا گیا.اور آپ نے وقف کیا خود کو بھی ، اپنے بیٹے اور نسل کو بھی.اور ان کے سپر د جو کام کیا گیا، وہ تھا کہ هْرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ میرے اس گھر کو ظاہری اور باطنی پاکیزگی سے بھر دو.دوسرے یہ کہ دعائیں کرو کہ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنا اے خدا! ہم خوشی کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ تیری رضا کے حصول کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں لیکن جب تک تیر افضل شامل حال نہ ہو، ہماری یہ قربانی قبول نہیں ہوسکتی.اس لئے اب فضل فرما.تقبل منا ہماری اس قربانی کو تو قبول کرلے.پھر اپنی نسل کے لئے دعا کرتے رہو، وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَكَ کہ جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں تو میری یہ ذریت اور نسل آپ کو مان لے اور قبول کرلے اور ان ذمہ داریوں کو نباہنے کے لئے تیار ہو جائے ، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کندھوں پر ڈالیں.ان کو امت مسلمہ بنائیو.اس وقت ان سے کوئی غفلت کوئی غلطی یا کوتا ہی سرزد نہ ہو.پھر اس خاندان نے انتقاشان دارنمونہ دکھایا ہے کہ اگر اس اڑھائی ہزار سالہ تاریخ پر آپ نگاہ ڈالیں تو ان میں سے کم ہی خاندان ایسے ہوں گے، جو عرب سے باہر نکلے ہوں.حالانکہ ان کی ہمسائیگی میں بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہو چکی تھیں اور وہ بڑے ذہین لوگ تھے اور بڑی فراست اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی تھی.اور قربانی کرنے والے فطر تألیڈر ہوتے ہیں اور قیادت کی استعداد ان کے اندر ہوتی ہے.اگر وہ ان بادشاہوں کے دربار میں جاتے تو بڑے ہی دنیوی فوائد اٹھا لیتے لیکن صرف انکاؤ کا عرب باہر نکلے اور انہوں نے بھی اپنا تعلق مکہ سے قائم رکھا ہے.تو لگا تار اڑھائی ہزار سال تک قربانی دیتے چلے جانا، نسلاً بعد نسل کوئی معمولی چیز نہیں ہے.اس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اور حضرت اسماعیل کو بڑی ہی قربانیاں دینی پڑیں، اپنے ماحول کو مطہر، پاک اور مصفا بنانے کے لئے.اور بڑی ہی دعائیں کرنی پڑیں ، اپنے رب کے حضور.اگر وہ دعائیں نہ ہو تیں تو یہ قوم اس قسم کی تربیت حاصل نہ کر سکتی.127

Page 145

خطبہ عید الاضحیہ فرمود و 22 مارچ 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان سے قربانی کی.ایک بے آب و گیاہ مقام کے او پر آباد ہو جانے کی، دنیا سے تمام علائق کو توڑ دینے کی.اور ان کے ذمہ یہ لگایا گیا تھا کہ بیت اللہ کی صفائی ، پاکیزگی اور طہارت کا ابھی سے انتظام کرو.کیونکہ میں رب العالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی طرف مبعوث کرنے والا ہوں.اور اپنے خاندان میں یہ وصیت کرتے چلے جاؤ کہ وہ بھی وقف کے اس سبق کو بھولیں نہ.اور ساری قوم کوشش میں لگی رہے، اس بات کے لئے کہ آئندہ نسلیں بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.اور ذمہ داری صرف یہ تھی ، خانہ کعبہ کی حفاظت ، اس کی پاکیزگی کا انتظام کرنا.جولوگ خانہ کعبہ میں آئیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ، خدائے واحد کی عبادت کے لئے ، ان کی خدمت میں لگے رہنا اور اس میں اپنا فخر سمجھنا.اور اس طرح ایک روحانی خاندان اور پھر قوم کو تیار کر دینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے.اور دعائیں کرتے رہنا.چونکہ استعداد کے باوجود بھی ناکامی ہو جاتی ہے، اس لئے اڑھائی ہزار سال تک اللہ تعالیٰ نے یہ دعا کروائی ، اس خاندان اور اس قوم سے کہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں تو وہ خاندان ( جو ایک قوم بن گیا تھا، اس لمبے زمانہ میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو سن کر اس پر لبیک کہیں.چنانچہ جس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے تو اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے ایک ایسا دور بھی آپ کی زندگی میں پیدا کیا، جو خالصہ قربانی کا دور تھا.مکی زندگی ، جس کا ایک، ایک سانس ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان سانسوں کے مقابلہ میں تھا بلکہ ان سے بھی بڑھ کر تھا، جب آپ کے جلانے کے لئے آگ کو تیار کیا گیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس زمانہ سے زیادہ شاندار تھا، جب وہ اس وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ دیئے گئے تھے.وہ ایک طرح کی موت تھی، جو ان کے سامنے تھی.گو انہیں اس وقت اس کا احساس نہ تھا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو احساس بھی تھا اور دوہرا احساس تھا.ایک تو اپنی قوم کی ایذا ئیں تھیں.مصیبت تو خدا کے لئے ، خدا کے بندے برداشت کرتے ہی ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ قربانی اتنی نہیں تھی ، جتنی یہ قربانی تھی کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ جس قوم کی ہدایت اور جس دنیا کی راہ نمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے، وہ مجھے ٹھکرارہی ہے.کیا بنے گا اس قوم کا اور کیا بنے گا دنیا کا، اگر یہ باز نہ آئے اپنی حرکات سے؟ یہ سوچ کر آپ کے دل اور آپ کی روح نے جو قربانی دی ہے، اس کا مقابلہ کوئی اور قربانی نہیں کرسکتی.لیکن اس کے بعد یکدم حالات نے پلٹا کھایا اور وہی 128

Page 146

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - خطبہ عید الاضحیہ فرمود 22 مارچ 1967ء جو آپ کے دشمن تھے، آپ کے دوست بنے ، آپ کے فدائی بنے ، آپ کے ذراذرا سے دکھ پر اپنی جانوں کو قربان کرنے والے بنے ، اسلام کی خاطر اپنوں کو اور اپنے علاقہ کو چھوڑ کر ساری دنیا میں پھیل کر خدائے واحد کا نام دنیا میں پھیلانے والے بنے، دنیا میں ایسی قربانی دینے والے بنے کہ جن قربانیوں کی مثال پہلے کسی نبی کی امت میں نہیں ملتی.یہ استعداد، جو اس قوم میں پیدا ہوئی کہ جب تک سوئی رہی ، فتنہ عظیمہ کا باعث اور جب بیدار ہوئی تو اتنی شاندار قربانیاں دینے والی کہ جو بے مثل ہیں، یہ انہیں ابراہیمی دعاؤں کا نتیجہ تھا.اور ابراہیم علیہ السلام کو اور ان کے خاندان کو جب وقف میں لیا گیا تو ان کے ذمہ ڈیوٹی یہی تھی، کام یہی تھا کہ تم نسلاً بعد نسل قریباً اڑھائی ہزار سال تک اس دعا میں لگے رہو کہ تمہاری قوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو.اور اسلام کی ذمہ داریوں کو نباہنے والی ہو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، خانہ کعبہ کی بنیاد کے جو مقاصد تھے، وہ کم و بیش اٹھارہ ، ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائے.اور ان مقاصد کو پورا کرنے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.اگلے خطبوں میں، میں انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تفصیل سے یہ مضمون بیان کروں گا.اور پھر اس مقام.تک پہنچوں گا، جس کی طرف میں پہلے اشارۃ ذکر کر آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑے اہم معاملہ کی طرف میری توجہ کو پھرا ہے.اور میرا فرض ہے کہ میں آپ دوستوں کے سامنے اس کو بیان کروں اور آپ کا پھر فرض ہو گا کہ آپ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے وہ عظیم جد و جہد اور قربانی خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں، جس کی طرف اللہ تعالیٰ آپ کو بلا رہا ہے اور جس کے نمونے آپ کے سامنے ہیں.جن میں سے ایک نمونہ کی طرف آج میں نے اشارہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه روز نامہ انفضل 18 اپریل 1967ء) 129

Page 147

Page 148

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطاب فرمودہ 13 اپریل 1967 ء حقیقی واقف زندگی وہ ہے، جو ہر حالت میں اپنے رب پر تو کل کرے خطاب فرمودہ 13 اپریل 1967 ء تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس لئے اس وقت میں مختصراً اپنے عزیز بچوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ، وہ نوجوان یا بڑی عمر کے مرد یا عورتیں، جو خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں، وہ اس معنی میں اپنی زندگیاں وقف کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں.اِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ط دنیا میں اگر کوئی شخص حقیقی عزت پاسکتا ہے تو محض اپنے رب سے ہی پاسکتا ہے.اس لئے اگر ساری دنیا ان کی بے عزتی کے لئے کھڑی ہو جائے اور انہیں برا بھلا کہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اور وہ عزت کی جگہوں کو خود تلاش نہیں کرتے.نہ عزت واحترام کے فقروں کو سننے کی خواہش ان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.بلکہ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے رب کی نگاہ میں عزت حاصل کرلیں.اگر ان کا دل اللہ تعالیٰ کے بتانے پر یا اس کے سلوک کی وجہ سے یہ سمجھ لے کہ ہم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہر دلعزیز ہیں تو وہ ان ساری عزتوں کو ، جود نیوی ہیں، ٹھکرا دیتے ہیں اور ان سے خوشی محسوس نہیں کرتے.کیونکہ حقیقی خوشی انہیں حاصل ہو جاتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ حقیقی رزاق اللہ تعالی ہی کی ذات ہے.اس لئے دنیا کے اموال کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی.نہ وہ اس بات کے پیچھے پڑتے ہیں کہ انہیں دنیا کے رزق دیئے جائیں.نہ وہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے گزاروں میں ایزدی کی جائے.کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حقیقی رزاق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.اور وہ اب بھی اپنے بندوں کے لئے اسی طرح معجزے دکھاتا رہتا ہے، جیسا کہ اس نے اپنے اور ہمارے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائے کہ پانی کو ہوا میں پیدا کر دیا اور لوگوں نے یہ نظارہ دیکھا کہ آپ کی انگلیوں میں سے پانی بہہ رہا ہے.انگلی تو ایک پردہ تھی، قدرت خداوندی کے نظارہ کو دیکھنے کے لئے.131

Page 149

خطاب فرمودہ 13 اپریل 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم یا آٹے کی اس بوری کی طرح، جس میں اس وقت تک برکت رہی ، جب تک بدظنی کے نتیجہ میں گھر والوں نے اسے تول نہ لیا.اور برکت جاتی رہی.یا تھوڑا سا کھانا تھا لیکن کھانے والے بہت زیادہ تھے، اللہ تعالیٰ نے اس کھانا میں برکت ڈال دی، سب نے کھانا کھا لیا لیکن وہ پھر بھی بچ گیا.یا اس دودھ کے پیالے کی طرح، جو خدا تعالی کی طرف سے آپ کو سیر کرنے کے لئے دیا تھا.( گواس پیالہ کا بھیجنے والا تو ایک انسان ہی تھا لیکن وہ اللہ کے منشاء کے تحت آیا تھا.) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلس کے ہر ایک آدمی کو کہا ، پہلے تم اس سے سیر ہو کر پی لو، پھر میں اس سے پیوں گا.کیونکہ آپ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میں سیر ہو جاؤں.چاہے سارے لوگ سیر ہو کر اس سے دودھ پی لیں ، دودھ ختم نہیں ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.وہ خدا جس کے قبضہ قدرت میں یہ ساری باتیں ہیں.وہ ویسا ہی آج بھی قدرت والا خدا ہے.اور ہر واقف زندگی اس بات کو سمجھتا ہے.ہماری جماعت میں بہت سے ایسے ہیں، جو خدا تعالیٰ کی برکتوں کو اپنی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں.اور جن کا رب رزاق سے تعلق ہے.پھر ایک واقف زندگی یہ یقین رکھتا ہے کہ حقیقی شافی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.جس وقت وہ یا اس کا کوئی ایسا عزیز ، جس کے اخراجات کا بار اس پر ہے، بیمار ہو جاتا ہے تو اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ نظام سلسلہ یا اس کے اپنے وسائل مہنگی دوا کے متحمل نہیں ہو سکتے.بلکہ وہ جانتا ہے کہ شفاد بینا خدا تعالیٰ کا کام ہے.جب وہ شفا دینے پر آئے تو وہ مٹی کی ایک چٹکی میں شفا رکھ دیتا ہے.اور جب تک شفا کا حکم آسمان سے نازل نہ ہو تو ماہر ڈاکٹر اور بہترین ادویہ بھی کسی کو شفا نہیں دے سکتیں.ایسے نظارے جیسے پہلوں نے دیکھے ہیں ، ہماری جماعت نے بھی دیکھے ہیں.غرض ایک واقف زندگی خدا تعالیٰ کی صفات پر یقین رکھتے ہوئے، حقیقی تو کل اپنے رب پر کرنے والا ہوتا ہے.اور خدا تعالی کے سوا کسی حالت میں اور کسی ضرورت کے وقت وہ کسی اور کی طرف نہیں جھکتا.اگر جامعہ احمدیہ میں پڑھنے والے اور اس سے فارغ ہونے والے اس قسم کے واقف نکلیں تو ہم امید کر سکتے ہیں کہ بہت جلد خدا تعالیٰ وہ عظیم انقلاب پیدا کر دے گا، جس عظیم انقلاب کے پیدا کرنے کے لئے اس نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے.جیسا کہ میں نے شروع ہی میں بتایا تھا کہ اس وقت میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے.میں مختصر الفاظ میں اس ذمہ داری کی طرف اپنے عزیز بچوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا تھا.سو میں نے کوشش کی ہے کہ ایسا کروں.لیکن زبان میں اثر ڈالنا بھی خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے.132

Page 150

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطاب فرمودہ 13 اپریل 1967ء میں دعا کرتا ہوں کہ آپ بحیثیت واقف اپنے مقام کو سمجھتے رہیں.اگر آپ نے ایسا کیا تو دنیا کی ساری عزتیں آپ کی ہیں.دنیا کے سارے اموال آپ کے ہیں.شفا بھی آپ کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کے جلوے آپ کو اس زندگی میں نظر آئیں گے.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک ایسا ہو جائے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 25 اپریل 1967 ء ) 133

Page 151

Page 152

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 23 جون1967ء اسلام اور مذاہب عالم کے درمیان جو فیصلہ ہونا مقدر ہے، وہ جلد ہو جائے ,, خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جون 1967ء قبل اس کے کہ میں اپنے اصل مضمون کی طرف آؤں، میں احباب سے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں.دوست جانتے ہیں کہ یورپ میں انگلستان کے علاوہ ہماری پانچویں مسجد پا یہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے اور 22 جولائی کا دن اس کے افتتاح کے لئے مقرر ہوا ہے.وہاں کے دوستوں کی یہ خواہش تھی کہ میں خود اس مسجد کا افتتاح کروں.اور جب ہم اس تجویز پر غور کر رہے تھے.تو دوسرے ممالک، جو یورپ میں ہیں، جہاں ہمارے مبلغ ہیں اور مساجد ہیں، انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر افتتاح کے لئے آپ نے آنا ہے تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، تمام مشنز کا دورہ بھی کریں، حالات کو دیکھیں، ضرورتوں کا پتہ لیں اور اس کے مطابق سکیم اور منصوبہ تیار کریں.پھر انگلستان والوں کا یہ مطالبہ ہوا کہ اگر یورپ میں آنا ہے تو انگلستان کو بھی ، جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بڑی جماعت پیدا ہو گئی ہے، اپنے دورہ میں شامل کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف لندن میں قریباً پانچ سواحدی موجود ہیں.بڑی جماعت تو لنڈن میں پائی جاتی ہے لیکن بعض دوسرے مقامات پر خاصی بڑی جماعتیں پائی جاتی ہیں.اس سلسلہ میں بعض دوستوں کو دعا کے لئے اور استخارہ کے لئے میں نے لکھا تھا.بہت سی خوا ہیں تو بڑی مبشر آئی ہیں.بعض خوا ہیں ایسی بھی (جن میں سے بعض تو میں نے دیکھی ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ واپسی پر راستہ میں شاید کچھ تکلیف بھی ہو.لیکن وہ قادر توانا، جو وقت سے پہلے اس تکلیف کے متعلق اطلاع دے سکتا ہے، وہ اگر چاہے تو ان تکالیف کو دور بھی کر سکتا ہے.اور اسی سے نصرت اور امداد کے ہم طالب ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ تمام دوست اس سفر کے متعلق دعائیں کریں اور خدا تعالیٰ سے خیر کے طالب ہوں.اگر یہ سفر مقدر ہو تو اسلام کی اشاعت اور غلبہ کے لئے خیر و برکت کے سامان پیدا ہوں.خدا جانتا ہے کہ سیر و سیاحت کی کوئی خواہش دل میں نہیں، نہ کوئی اور ذاتی غرض اس سے متعلق ہے.دل میں صرف ایک ہی تڑپ ہے اور وہ یہ کہ میرے رب کی عظمت اور جلال کو یہ تو میں بھی پہنچانے لگیں، جو سینکڑ 135

Page 153

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 جون 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سال سے کفر اور شرک کے اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہیں.اور انسانیت کے محسن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں قائم ہو جائے.تاکہ وہ ابدی زندگی اور ابدی حیات کے وارث ہونے والے گروہ میں شامل ہو جائیں، تا ان کی بدبختی دور ہو جائے، تا شیطان کی لعنت سے وہ چھٹکارا پا لیں ، تا شرک کی نحوست سے وہ آزاد ہو جائیں ، تابد رسوم کی قیود سے وہ باہر نکالے جائیں اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی محبت اور اس کے حسن اور اس کے احسان اور اس کے نور کے جلوے وہ دیکھنے لگیں، تا وہ وعدہ پورا ہو، جو حمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے دیا تھا کہ میں تیرے فرزند جلیل کے ذریعہ سے تمام قوموں کو تیرے پاؤں کے پاس لا جمع کروں گا، تاوہ دل، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے نا آشنا ہیں اور وہ زبانیں، جو آج آپ پر طعن کر رہی ہیں، وہ دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے بھر جائیں اور ان زبانوں پر درود جاری ہو جائے.اور تمام ملکوں کی فضا نعرہ ہائے تکبیر اور درود سے گونجنے لگے اور وہ فیصلے جو آسمان پر ہو چکے ہیں، زمین پر جاری ہو جائیں.پس میری درخواست ہے، تمام احباب جماعت سے، اپنے بھائیوں سے بھی اور بہنوں سے بھی، بڑوں سے بھی اور چھوٹے بچوں سے بھی کہ وہ ان دنوں خاص طور پر دعا کریں کہ اگر یہ سفر مقدر ہو تو اللہ تعالیٰ پوری طرح اسے بابرکت کر دے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اسلام کو اس سفر کے ذریعہ سے ہو.اور اس عاجز اور کم مایہ انسان کی زبان میں ایسی برکت اور تاثیر رکھے کہ خدا کی توحید کے جو بول میں وہاں بولوں ، وہ لوگوں کے دلوں پر اثر کرنے والے ہوں.اور میری ہر حرکت اور سکون کا اثر ان کے اوپر ہو.اور ان کے دل اپنے رب کی طرف اور قرآن کریم کی طرف اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور اسلام کی طرف متوجہ ہونے لگیں.اور غفلت کے جو پردے ان کی آنکھوں اور ان کے دلوں اور ان کی عقلوں پر پڑے ہوئے ہیں ، خدا ان پردوں کو اٹھا دے.اور خدا کا حسن اور اس کا جلال نمایاں ہو کر ان کی آنکھوں کے سامنے ، بصارت اور بصیرت کے سامنے چمکنے لگے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسین چہرہ ان کے سامنے کچھ اس شان کے ساتھ ظاہر ہو جائے کہ وہ تمام دوسرے حسنوں کو بھول جائیں اور اسی کے ہوکر رہ جائیں.پس بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالی اس سفر کو مبارک کرے."...بہر حال میں درخواست کرتا ہوں آپ سب سے بھائیوں سے بھی، بہنوں سے بھی، بڑوں سے بھی اور چھوٹوں سے بھی کہ ان ایام میں خاص طور پر بہت دعائیں کریں.ایک یہ کہ اگر یہ سفر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے اظہار کا موجب بنتا ہو اور اسلام کی شوکت اس سے ظاہر ہونی ہو تبھی مجھے اس 136

Page 154

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جون 1967ء سفر پر جانے کی توفیق ملے.اور جب میں جاؤں تو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ وہ پیغام، جو حقیقتاً خدا کا پیغام ہے، جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف لے کے آئے ، جسے دنیا بھول چکی تھی اور اب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل کی حیثیت سے دنیا پر ظاہر ہوئے ، وہ پیغام دنیا کو پہنچایا.اسی غرض سے آپ کی بعثت ہوئی.تو یہ پیغام صحیح طور پر اور ایسے رنگ میں کہ وہ قومیں پیغام کو سمجھے لگیں ، ان تک پہنچانا ، اس سفر کی غرض ہے.اور یہی ایک مقصد ہے.تو اللہ تعالیٰ اگر توفیق دے تو ایسے رنگ میں ان کو پیغام پہنچا دیا جائے کہ ان پر اتمام حجت ہو جائے.کیونکہ جب تک کسی قوم پر اتمام حجت نہ ہو، وہ انذاری پیشگوئیاں پوری نہیں ہوا کرتیں ، جوان کے انکار کی وجہ سے ان کے حق میں خدا تعالیٰ نے قبل از وقت اپنے رسول کو دی ہوں.تو خدا کرے کہ وہ انذار، وہ تنبیہ، وہ جھنجھوڑ نا میرے لئے ممکن ہو جائے.یعن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کا پہنچا نا صحیح رنگ میں اور موثر طریق پر ممکن ہو جائے.تا کہ یا تو وہ اسلام کی طرف مائل ہوں، ایک خدا کو مانے لگیں ، تو حید کو پہنچانے لگیں، اللہ تعالیٰ کو ایک اپنی ذات میں اور ایک اپنی صفات میں سمجھنے لگیں، جس رنگ میں کہ اسلام نے اللہ تعالیٰ کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور یا پھر ایسے رنگ میں ان پر اتمام حجت ہو جائے کہ وہ انذاری پیشگوئیاں ، جن کو پڑھ کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور جن کا تعلق تمام منکرین اسلام سے ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی ہیں، وہ اتمام حجت کے بعد ان کے حق میں پوری ہوں.تا اسلام اور مذاہب عالم کے درمیان جو فیصلہ ہونا مقدر ہے، وہ جلد ہو جائے.اور دنیا یا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت کے سائے میں آ کر بچ جائے یا خدائی قہر کی تپش میں جا کر ہلاک ہو جائے اور اس قضیہ کا فیصلہ ہماری زندگی میں ہی ہو جائے کہ اسلام ہی سچا مذ ہب ہے.پھر میں تاکیدا کہتا ہوں کہ ان دنوں میں دوست دعائیں کریں، اس سفر کے بابرکت ہونے کے لئے اور اسلام کے غلبہ کے لئے اور توحید باری کے قیام کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے ان قوموں پر ظاہر ہونے کے لئے اور اس بات کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اصلاح کا موقع دے اور ان پر فضل کرتے ہوئے ، انہیں اس بات کی توفیق دے کہ وہ اسے اور اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے لگیں.( مطبوعه بروز نامہ الفضل 02 جولائی 1967ء) 137

Page 155

Page 156

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 جون 1967ء "" بچوں کے دل میں سلسلہ کے لئے قربانیوں کا شوق پیدا کرو خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 1967ء...دوسری اور تیسری چیز ، جس کی طرف آج میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں ، وہ تحریک جدید کا دفتر سوم اور وقف جدید میں جو بچوں میں تحریک کی گئی تھی ، یہ دو باتیں ہیں.دفتر سوم کی طرف بھی جماعت نے ابھی پوری توجہ نہیں دی.ہزاروں احمدی ایسے ہیں، جو تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہے.اور ان میں سے بڑی بھاری اکثریت ہماری احمدی مستورات کی ہے.جیسا کہ دفتر کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ جماعت میں ہزاروں احمدی بہنیں ایسی ہیں اور ہزاروں احمدی بیچے اور نوجوان ایسے ہیں اور ہزاروں احمدی بالغ مرد ایسے ہیں، جنہوں نے ابھی سیک تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں.اور اس کی برکات سے وہ واقف ہی نہیں.اسلام کی ضرورتوں سے وو وہ آگاہ ہی نہیں.ان ضرورتوں کے پیش نظر ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ اس سے غافل ہیں.پس تحریک جدید کے دفتر سوم کی طرف خصوصاً احمدی مستورات اور عموماً وہ تمام احمدی مرد اور بچے اور نوجوان ، جنہوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی، وہ اس طرف متوجہ ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں.اپس اپنی نسلوں پر رحم کرو.اور اپنے بچوں سے اس محبت کا اظہار کرو، جو ایک مسلمان ماں اپنے بچے سے کرتی ہے.اور اس پیار کا اس سے سلوک کرو، جو ایک مسلمان باپ اپنے بچے سے کرتا ہے.اور بچوں کے دل میں سلسلہ کے لئے قربانیوں کا شوق پیدا کرو.اور ان کے دل میں یہ احساس پیدا کرو کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسان کو بہر حال جد و جہد اور کوشش کرنی پڑتی ہے.اس کے بغیر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی.اگر انسان خدا کی راہ میں قربانیاں نہ دے تو اس کے نتیجہ میں شیطان تو خوش ہو سکتا ہے مگر خدا خوش نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ان کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے“.( مطبوعہ روزنامہ الفضل 09 جولائی 1967ء) | 139

Page 157

Page 158

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم خلاصہ خطاب فرمودہ 04 جولائی 1967ء اسلام کا غلبہ ہم سے ایک موت نہیں ہزاروں موتوں کا مطالبہ کر رہا ہے خطاب فرمودہ 04 جولائی 1967ء کلمہ شہادت اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آپ جانتی ہیں کہ پرسوں جمعرات کی صبح میں انشاء اللہ یورپ کے سفر پر روانہ ہورہا ہوں.اس سفر کا اصل مقصد یہ ہے کہ کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں جو مسجد ، ہماری بہنوں نے ان اندھیروں میں روشنی کرنے کے لیے تعمیر کی ہے ، اس کا افتتاح کروں.مسجد سے یہ آواز بلند کی جاتی ہے کہ اس زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا ایک رب ہے، جس کی صفات کے جلوے انسان کی ربوبیت کرتے ہیں.آپ نے بڑی قربانی دے کر اللہ تعالیٰ کے اس گھر کو تعمیر کروایا ہے.آپ کا حق ہے کہ میں یہ دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر دے.آپ ہر دم یہ دعا کرتی رہیں کہ اس سفر کو اللہ تعالی با برکت فرمائے.اور ایسے مواقع بہم پہنچائے کہ اسلام کی حسین تعلیم اس رنگ میں پیش کر سکوں کہ اہل یورپ اسلام کی صداقت کے قائل ہوں.اور جو شخص بھی غیر متعصب ذہن سے ان صداقتوں پر غور کرے، اس کو صحیح سمجھے بغیر نہ رہ سکے.ہم مسجد میں اس لیے نہیں بنا رہے کہ ہمارا نام بلند ہو.بلکہ اس لیے بنارہے ہیں کہ خدا کا نام بلند ہو.میں یورپ جا کر اس عظیم تباہی کی خبر اہل یورپ کو دینا چاہتا ہوں، جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ علاقوں کے علاقے زندگی سے خالی ہو جائیں گے.نہ صرف یہ کہ کوئی انسان زندہ نہ رہے گا بلکہ چرند پرند اور کوئی جاندار چیز بھی زندہ نہیں رہے گی.ان قوموں کے لئے اب دوہی راہیں کھلی ہیں.یا وہ ہلاکت کا راستہ اختیار کر لیں اور اپنے ملکوں کے لیے ہلاکت کا سامان کر لیں یا خدا کی آواز کو سنیں اور اللہ تعالیٰ کی برکات کی وارث ہوں.میرا یہ حق ہے کہ آپ میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے دعا کریں اور ان قوموں کا بھی حق ہے کہ ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صداقت قبول کرنے کی توفیق دے اور وہ اپنے رب کو پہچانے لگیں.اور آپ کا یہ بھی فرض ہے کہ آپ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ 141

Page 159

خلاصہ خطاب فرمودہ 04 جولائی 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کو اس قدر بشارتیں عطا کی ہیں کہ جب ہم ان کو پڑھتے ہیں اور پھر اپنی کوشش اور جدو جہد کو دیکھتے ہیں تو ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ہم جیسے بے مایہ انسانوں کو اتنی بشارتیں کیسے مل گئیں ؟ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے قربانی لینا چاہتا ہے.اسلام کا غلبہ ہم سے ایک موت نہیں ہزاروں موتوں کا مطالبہ کر رہا ہے.ہمیں چاہیے کہ اپنی جان، وقت، اولاد، جذبات اور دنیوی تعلقات کو اس کے حضور پیش کریں اور کوئی کام ایسانہ کریں، جو اس کی نارضامندی کا موجب ہو.اللہ کی ناراضگی سے ہم زبانی دعوے سے نہیں بچ سکتے.اگر ان پیاری بشارتوں کا مستحق بنتا ہے تو جس طرح ہماری زبان دعوے کرتی ہے ، ہمارے عمل بھی اس کی محبت سے معمور ہونے چاہیں.اگر دنیا کی ساری عزتیں ، اموال اور رشتہ داریاں ہم قربان کرنے کے لیے تیار ہوں تو یقینا اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوں گے.ނ بعض بہنوں نے بڑی قربانی کی ہے.اور بعضوں نے بڑا نیک نمونہ پیش کیا ہے.ہم میں ہر ایک کو اعلیٰ قربانی کے مقام کو حاصل کرنا چاہیے.خدا کو پیار کرنے والے دل اور عمل کرنے والے ہاتھ خوش کرتے ہیں.قربانیاں دیں اور قربانیوں میں ترقی کرتی چلی جائیں.اور دعا کرتی ر ہیں کہ اے خدا! ہم نے اپنی بساط کے مطابق یہ حقیر نذرانے پیش کیے ہیں تو ان کو قبول فرما اور ہمیں وہ نعماء حاصل ہو جائیں ، جن کا تو نے وعدہ فرمایا ہے.پس میرا یہ حق ہے آپ پر کہ آپ میرے لیے دعائیں کریں، جس طرح آپ کا حق ہے کہ میں آپ کے لیے دعا کروں.تفصیل میں، میں اس لیے گیا ہوں تا کہ آپ کو احساس ہو کہ میرا یہ سفر بڑا ہی اہم ہے.میں اہل یورپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے لیے اب تباہی سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے، وہ یہ کہ وہ اپنے خدا کو پہچانیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹھنڈی چھاؤں تلے جمع ہو جائیں.آپ یہ بھی دعا کریں کہ ان باتوں کو میں احسن طور پر وہاں پیش کرسکوں.تا بیچنے والے بچ جائیں اور جو تباہ ہونے والے ہوں ، وہ دوسروں کے لیے عبرت بنیں.اور دنیا کو پتہ لگ جائے کہ ایک زندہ اور قادر مطلق خدا موجود ہے.ہر چیز اس کے علم میں ہے.دنیا اور انسان کی ہمدردی کی خاطر وہ وقوع سے قبل یہ باتیں بتا دیتا ہے.تالوگ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے غضب سے بچ جائیں.آپ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری زبان میں اثر پیدا کرے.تا ان کے دل صداقت کو قبول کریں اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کی بجائے رحمت کو پانے والے ہوں.اسلام کے غلبہ کا دن نزدیک تر ہو.اور ہم اپنی زندگیوں میں ان بشارتوں کو پالیں ، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی تھیں.( مطبوعه روزنامه الفضل 11 جولائی 1967ء) 142

Page 160

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم پیغام فرمودہ 21 جولائی 1967ء مسجد نصرت جہاں کی تعمیر ڈنمارک میں اسلام کے غلبہ کے لئے سنگ میل ہے پیغام فرمودہ 21 جولائی 1967ء ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ڈنمارک کی پہلی مسجد نصرت جہاں“ کا افتتاح فرمانے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنی اور سیکنڈے نیویا کے احمدیوں کی طرف سے لجنہ اماء اللہ کو مبارک باد کو درج ذیل پیغام بتوسط حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ بھجوایا.کو پن بیگن، 21 جولائی الحمد لله، مسجد نصرت جہاں کا افتتاح آج سوا بجے بعد دو پہر عمل میں آیا.اس مسجد کی تعمیر یورپ میں بالعموم اور ڈنمارک میں بالخصوص اسلام کی ترقی اور غلبہ کے حق میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے.میری طرف سے اور سیکینڈے نیویا کے احمدیوں کی طرف سے لجنہ اماء اللہ کو مبارک پہنچا دیں.مسجد کی عمارت خوبصورت اور دیدہ زیب ہے.افتتاح کی تقریب میں یورپ کے مبلغین اسلام، احمدی احباب، غیر ملکی سفراء، ڈنمارک کی سر بر آوردہ ہستیوں اور شہریوں نے شرکت کی.بعد ازاں پریس کا نفرنس میں عالمی اخبارات کے نمائندے بہت کثیر تعداد میں شریک ہوئے.ریڈیو ٹیلی وژن نے انٹرویوریکارڈ کیا.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کی تعمیر کو ہر لحاظ سے با برکت کرے.اسے مثمر ثمرات حسنہ بنائے اور ہماری حقیر کوششوں کو اپنے فضل سے قبول فرمائے“.خليفة المسيح (مطبوعہ روزنامہ الفضل 24 جولائی 1967ء) 143

Page 161

Page 162

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد چہارم اقتباس از مکتوب موصولہ 24 جولائی 1967ء اتمام حجت ہو گیا ہے مکتوب موصولہ 24 جولائی 1967ء بنام قائمقام وکیل اعلی تحریک جدید انجمن احمدیہ صرف ہمبرگ کے علاقہ میں تقریباً ساٹھ ، ستر لاکھ آدمی نے ٹیلی ویژن پر احمدیت سے - تعارف حاصل کیا.بڑی برکت ہے.الحمد لله.صرف چارا اخبار اس چھوٹے سے صوبے میں شائع ہوتے ہیں، (T.V کا حلقہ کئی صوبوں پر مشتمل ہے.جن میں سے ایک Dewel ساری مغربی جرمنی کے چوٹی کے اخباروں میں سے ایک ہے.سب نے نمایاں تصویر کے ساتھ نوٹ دیئے ہیں.نتیجہ "بچہ بچہ پہنچاننے لگا ہے.باہر نکلیں تو سب آنکھیں ہم پر ، سب کام بھول جاتے ہیں.دکاندار اخبار نکال کر سامنے رکھ دیتے ہیں یا زبانی اظہار کرتے ہیں کہ ہم آپ کو جانتے ہیں.اور یہ سب کچھ بڑی بشاشت اور شرافت کے ساتھ.کہیں بھی بدتمیزی کا مظاہرہ نہیں دیکھا.ہر پریس کانفرنس میں نمائندگان پر فرشتوں کا رعب مشاہدہ کیا.فالحمد لله الذى له ملك السموات والارض.warning دے دی گئی اور چھپ بھی گئی.اتمام حجت ہو گیا ہے.مگر مغرب کی تاریکی میں ان باتوں کا سمجھنا ان اقوام کے لئے آسان نہیں اللہ تعالیٰ رحم کرے.بے حد مصروفیت میں جسمانی اور دماغی کوفت کا بھی احساس نہیں.دل خدا کی حمد سے لبریز اور احباب جماعت کی دعاؤں کی ضرورت کا احساس بيدار وعليه التوكل وله الحمد.سب کو سلام.تمام احباب جماعت کو دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا سلام پہنچا دیں.دعا کی درخواست کے ساتھ.( مطبوعه روزنامه الفضل 27 جولائی 1967 ء ) 145

Page 163

Page 164

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از مکتوب موصولہ 24 جولائی 1967ء اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم نہ کریں گے تو تباہ ہو جائیں گے " مکتوب موصولہ 24 جولائی 1967ء بنام صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ یہاں بے حد مصروفیت رہتی ہے.الحمد لله الحمد لله ثم الحمد لله کہ اس نے اپنی بے پایاں رحمت اور محبت سے بڑی کامیابی کے سامان پیدا کر دیے.صرف ہمبرگ کے علاقہ میں ٹیلی ویژن پر انداز اًساٹھ ، ستر لاکھ دیکھنے والے احمدیت سے متعارف ہوئے.اس کے علاوہ سوئٹزر لینڈ میں وہاں کے ٹیلی ویژن پر لاکھوں آدمی احمدیت سے متعارف ہوئے.ہمبرگ کے صوبہ میں صرف چار روزانہ اخبار ہیں.تین صبح شائع ہوتے ہیں، ایک شام.ہر چہار اخباروں نے توجہ کھنچنے والی بڑی تصاویر شائع کر کے خبریں شائع کیں.جن میں یہ خبر بھی تھی کہ اگر وہ اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم نہ کریں گے کے یمن میں یہ بھی تھی کہ اگروہ اپنے زندہ اسے زند تو تباہ ہو جائیں گے.نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے روز بازار میں جاتے تو سارا بازار کام چھوڑ چھاڑ ، ہماری طرف متوجہ ہو جاتا....پر یس کا نفرنس ہر مقام پر کامیاب رہی.ہالینڈ والے ڈرتے تھے کہ کہیں اسرائیل کے متعلق سوال ایسے رنگ میں نہ کئے جائیں، جن سے نقصان ہو.کیونکہ اسلام دشمنی زوروں پر ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا رعب ڈالا کہ وہ اس قسم کے سوال کی جرات ہی نہ کر سکے.ہمبرگ میں پریس کانفرنس تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ تھی.ہر قسم کے دلچسپ سوالات کئے گئے اور تسلی بخش جواب اللہ تعالیٰ نے دلوائے.پیشگوئیوں کا سمجھنا ان کے لئے مشکل ہے، آسان نہیں.ایک اخبار نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے.اس قدر دلچسپی لی کہ دیکھنے والے حیران تھے اور خدا کا ایک بندہ اپنے رب کی حمد سے معمور فالحمد لله.( مطبوعه روز نامہ الفضل 27 جولائی 1967 ء ) 147

Page 165

Page 166

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم - خلاصہ خطاب فرمودہ 29 جولائی 1967ء احمدیت کا احسان ہے کہ اس نے ہمارے اندر میں ایک جذبہ اخوت پیدا کر دیا ہے خطاب فرمودہ 29 جولائی 1967ء حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے سفر یورپ کے موقع پر جماعت احمد یہ ساؤتھ ہال نے ایک جلسہ اور دعوتی تقریب کا انعقاد کیا.اس موقع پر حضور نے جو خطاب فرمایا، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے.تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ مجھے اس جگہ اپنے بھائیوں سے مل کر اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا.خدا تعالیٰ نے احمدیت کے رشتہ سے ہمارے اندر ایک جذبہ اخوت پیدا کر دیا ہے.جسے میں نے یہاں ”بھائی" کے لفظ سے پکارا ہے.مگر اپنے مقام کے لحاظ سے مجھے آپ سب اپنے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں.کوپن ہیگن میں ایک پاکستانی، جو ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے، مجھے علیحدگی میں کہنے لگے کہ احمدیوں سے اور سلوک ہوتا ہے اور ہم سے اور.میں نے ان سے کہا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں احمدیت کے ذریعہ بھائی بھائی کی طرح کر دیا ہے.جس طرح پاکستان سے آنے والا ایک شخص اگر بیس سال کے بعد اپنے بھائی سے ملے تو وہ چند گھنٹوں کے بعد اس سے بے تکلف ہو جاتا ہے.اسی طرح ڈنمارک ، سویڈن کے احمدی، ناروے کے احمدی، ہمارے بھائی ہیں، چند گھنٹوں کے اندر ہمارے اندر بے تکلفی پیدا ہو جاتی ہے.یہ اسی اخوت کا نتیجہ ہے کہ ہم احمدیت کے ذریعہ ایک خاندان کی حیثیت رکھتے ہیں.اس لئے تم احمدی ہو جاؤ اور اس خاندان سے تعلق قائم کر لو.اس نے کہا، پھر آپ میرے لیے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ میرا سینہ کھول دے.میں نے دعا کی اور اس شخص نے احمدیت قبول کر لی.آج صبح کی ڈاک میں اس دوست کا مجھے خط ملا.اس نے اس میں لکھا کہ مجھے احمدیت مل گئی ، دونوں جہان مل گئے اور میں بہت خوش ہوں.ڈنمارک، جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین، نائیجیریا، غانا، لیبیا، لائبیریا، آئیوری کوسٹ ، گیمبیا سیرالیون، تنزانیہ، الجزائر ، یوگنڈا میں رہنے والے احمدی خواہ ایک دوسرے کی شکلوں سے واقف ہوں یا نہ ہوں، ان کے دلوں میں بھائیوں جیسی محبت ہے.شاید اس سے بھی زیادہ.ایسی جو دو سگے بھائیوں میں بھی نہ ہو.یہ احمدیت کا احسان ہے.اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے.آپ کو بھی مجھ سے مل کر ایسی ہی خوشی ہوئی ہوگی.اس بات کو سمجھنا دوسروں کے لیے مشکل.149

Page 167

خلاصہ خطاب فرمودہ 29 جولائی 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کوپن ہیگن میں احمدی عورتوں نے کہا کہ جماعت کا خرچ بچانا چاہیے، ہم خود کام کریں گی.چنانچہ وہ صبح ناشتہ کے وقت سے رات کے بارہ بجے تک کام کرتیں 125,30 افراد کا کھانا تیار کرتیں.یہ ایک بڑی تعداد ہے، ان ممالک کے لحاظ سے.یہاں ہمارے لحاظ سے شاید نہ ہو.وہ ہر وقت مسکراتے ہوئے خوشی خوشی یہ کام سرانجام دیتیں.اس وجہ سے کہ وہ احمدیت کی بدولت ایک رشتہ اخوت میں منسلک تھیں.پھر ایک وہ برادری ہے، جو اسلام نے تمام بنی نوع کے درمیان پیدا کی ہے.اسلام وہ پہلا مذہب ہے، جس نے تمام انسانوں کو ایک عظیم بشارت دی ہے.اور یہ بشارت پہلی بار دی گئی ہے کہ اے بنی نوع انسان! تم اب انسان کی حیثیت سے اپنی بلوغ کی عمر کو پہنچ گئے ہوں تم درجہ بدرجہ ترقی کر کے اس مقام تک پہنچ گئے ہو کہ تمہیں کامل شریعت دی جائے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ میں ایک واقعہ کا ذکر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم بشارت ہے.اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل انسان ان ترقیات تک نہیں پہنچا تھا کہ اسے کامل شریعت دی جاتی.پھر أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي میں فرمایا کہ تمہارے لیے کامل نعمتوں کے دروازے کھول دیے گئے ہیں.پھر وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا میں فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی کامل رضوان کے دروازے کھول دیے گئے ہیں.اس مذکورہ بالا آیت کے مخاطب صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسان ہیں.کیونکہ یہ شریعت تمام دنیا کے لیے نازل ہوئی ہے.یہ شریعت امن و سلامتی کی شریعت ہے اور فساد کو دنیا سے مٹانے والی ہے.یہ صرف دعوئی ہی نہیں بلکہ ہم قرآن مجید کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ہر غیر متعصب انسان کو اس کا قائل بھی کر سکتے ہیں کہ واقع میں قرآنی تعلیم دنیا میں امن وسلامتی کا معاشرہ پیدا کرسکتی ہے.دنیا میں لوگوں کے دلوں میں مذہبی مقامات کی محبت ہوتی ہے، اسلام تمام مذہبی مقامات کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے.قرآن مجید نے دنیا سے فساد کو دور کرنے اور امن کے قیام سے متعلق اعلان کیا کہ ہم ہر مذہب سے تعاون کر کے اس کی عبادت گاہ کی حفاظت کرنے کو تیار ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ مذہبی گفتگو ایسا رنگ نہ اختیار کرے، جس سے دوسرے مذہب کے پیروکار کو تکلیف ہو.اس بارے میں خدا تعالیٰ نے ہمیں تعلیم دی کہ جو لوگ تمہارے نزدیک غلطی خوردہ ہیں اور خدا 150

Page 168

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - خلاصہ خطاب فرمودہ 29 جولائی 1967ء تعالی کی بجائے دوسرے وجودوں کی عبادت کرتے ہیں، ان وجودوں کے خلاف تمہارے منہ پر کوئی بات نہ آئے تا اس طرح ان کو تکلیف نہ پہنچے.یہ عظیم الشان تعلیم اس سے قبل کسی مذہب میں نہ پائی جاتی تھی.پھر ہم معاشرہ سے متعلق اسلامی تعلیم کو لیتے ہیں.اسلام نے انسان کی جان، مال اور عزت کی ضمانت دی ہے اور فرمایا کہ جو شخص کسی کو قتل کرتا ہے گویا اس نے ساری دنیا کو قتل کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت میں بھی یہی تعلیم ملتی ہے.آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس مبارک مہینہ میں اس مبارک مقام پر اس مبارک دن میں، میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ غیروں کی ملکیت کی حفاظت کرنا.اسلام غاصب کا ساتھ نہیں دیتا، مظلوم انسان کا ساتھ دیتا ہے.انسان کو اپنی عزت کے معاملہ میں بڑی غیرت ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ہر ایک کی عزت کی حفاظت کرو.تم ہر ایک کی عزت کے پاسبان ہو.عزت کی حفاظت سے متعلق اسلام نے تفصیلی احکام بیان کیسے ہیں.مثلاً 1 - اسلام اس سے منع کرتا ہے کہ کسی شخص کو برا بھلا کہا جائے.صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کو.اسلام تعلیم دیتا ہے کہ کسی کی غیبت نہ کرو.اگر کسی کی معیوب بات سامنے آئے تو بھی مجلس میں بیان نہ کرو.تا اس کے دل میں نفرت پیدا نہ ہو اور امن کے خلاف فضا پیدا نہ ہو جائے.2 اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ کسی کی طرف ایسی بات منسوب نہ کرو کہ جو اس نے کہی نہ ہو.اکثر لوگ اس سے پر ہیز نہیں کرتے.اسلام نے یہ کہا ہے کہ کسی پر الزام نہ لگاؤ.غلط باتیں دوسروں کے متعلق کہہ دی جاتی ہیں.توں اے کیتا سی“ اور ” توں اوکیا سی“ سے جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور آخر کئی انسان قتل ہو جاتے ہیں.3.اسلام یہ کہتا ہے کہ کسی کے خلاف بطنی نہ کرو.مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.میرا ایک چھوٹا بچہ ہے، جس کا نام لقمان احمد ہے.ہمارے کالج میں ایک طالب علم تھا، جس کا نام لقمان شاہ تھا.میرے بچے لقمان کا بڑا بھائی ، چھوٹے بھائی کو چھیڑتے ہوئے لقمان شاہ کہہ دیا کرتا تھا، جس پر لقمان بہت غصہ میں آ جاتا.ایک دفعہ میرا بڑا لڑ کا قرآن مجید پڑھ رہا تھا.جب وہ اس آیت پر پہنچا وَإِذْ قَالَ نُقْمَنُ لِابْنِهِ تو فورا چھوٹا لڑکا لقمان اس کے پاس آیا اور اس سے ناراضگی کا اظہار کرنے لگا.وہ استاد، جو میرے بڑے لڑکے کو پڑھا رہا تھا، اس نے کہا کہ یہ تو قرآن ہے اور قرآن مجید میں اس کا ذکر ہے.151

Page 169

خلاصہ خطاب فرمودہ 29 جولائی 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تمہارے بھائی نے تمہیں نہیں چھیڑا.تو جھٹ میرے چھوٹے بچے لقمان نے کہا کہ جب قرآن مجید نازل ہوا ، میں تو اس وقت تھا بھی نہیں، پھر قرآن مجید میں میرا نام کیسے آگیا؟ یہ تو ایک بچے کا لطیفہ ہے، بڑے بھی اکثر ایسے لطیفے کرتے رہتے ہیں.اسی ضمن میں یہ بات بھی کہہ دوں کہ اپنے کو اتنا بڑا نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہراچھی بات اپنی طرف ہی منسوب کریں.کسی نے سلام کیا تو یہی سمجھے کہ مجھے ہی سلام کیا ہوگا.پھر اسلامی تعلیم یہ ہے کہ انسان کسی کو حقیر نہ سمجھے.بلکہ سب سے کمتر اور حقیر اپنے آپ کو ہی سمجھے.تکبر کے خلاف اسلام نے علم بلند کیا ہے.اگر ہر شخص اپنے آپ کو دوسروں سے حقیر سمجھے تو جوڑ ائیاں ہوتی ہیں ختم ہو جائیں.میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ جو اس علاقہ میں رہتے ہیں، جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں دوست رہتے ہیں، آپ کو ایسا نمونہ دکھانا چاہیے کہ جس سے ثابت ہو جائے کہ اسلام دوسروں سے نفرت و حقارت کو نا پسند کرتا ہے.دنیا نمونہ کی محتاج ہے.اسی صورت میں آپ اسلام کے سب سے بڑے مبلغ ٹھہریں گے.اگر آپ اس تعلیم کے مطابق عمل کریں گے تو پھر ہی حقیقی احمدی کہلائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی حقیقی احمدی بنے کی توفیق عطا فرمادے.آمین مطبوعه روزنامه الفضل 108 اگست 1967 ء ) 152

Page 170

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 104 اگست 1967ء ہمارا ہتھیار دعا ہی ہے، جس سے کامیابی ہوگی خطبہ جمعہ فرمودہ 04 اگست 1967ء تعوذ وتشہد و سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میری ایک روباہ کاتعلق اسلام کی ترقی سے ہے.میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھڑے ہیں.ایک شخص، جس کا نام خالد ہے، کہتا ہے کہ آپ نام رکھ دیں.لیکن یہ یاد نہیں رہا کہ وہ کسی بچے کا نام رکھوانا چاہتا ہے یاکسی بڑے کا یا اپنا نام بدلوانا چاہتا ہے.میں نے کہا کہ میں ” طارق نام رکھتا ہوں.پھر میں نے کہا کہ طارق نام ہی نہیں ، دعا بھی ہے اور یہ دعا بہت کرنی چاہئے.اس خواب کی مجھے یہ تفہیم ہوئی ہے کہ طارق رات کے وقت آنے والے کو کہتے ہیں.رات کے وقت ملائکہ کا نزول بھی ہوتا.تا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو صبح صادق کے ظہور سے تعبیر کیا ہے.اور طارق کے معنی روشن اور صبح کے وقت طلوع ہونے والے ستارے کے بھی ہیں.اور یہ ستارہ اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ رات گزرگئی ہے اور دن چڑھنے والا ہے.پس اس خواب کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی اقوام جو بظاہر مہذب کہلاتی ہیں لیکن در حقیقت انتہائی غیر مہذب اور گندی زندگی بسر کر رہی ہیں اور بظاہر اسلام کی طرف ان کی توجہ ممکن نظر نہیں آرہی ، دعا کے ذریعہ ممکن ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو جائیں.عقلی دلائل یہ سننے کو تیار نہیں.ان کو تو دعا ہی خدا تعالیٰ کی طرف لاسکتی ہے.دلائل کے علاوہ دو صورتیں رہ جاتی ہیں.ایک یہ کہ اگر یہ اپنے خالق حقیقی کی طرف متوجہ نہ ہوں تو عذاب الہی ان پر نازل ہو جائے گا، جس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی.دوسرے ملائکہ کا نزول ہو ، جو ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیریں.لیکن اس کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے.خصوصا رات کے وقت کی دعاؤں کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے فرشتوں کے نزول کے ذریعہ انقلاب عظیم پیدا فرمائے گا.اور خود میرا ذکر کہیں پہنچے یا نہ پہنچے، خدا تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ لوگوں کے دلوں میں تغیر پیدا کریں گے اور ان کو حق کے قبول کرنے اور اسلام پر عمل کرنے کی طرف لائیں گے.153

Page 171

خطبہ جمعہ فرمود 04 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یسوع مسیح کی محبت یورپ میں بسنے والوں کے دلوں میں بہت زیادہ رچی ہوئی تھی اور یہ لوگ عیسائیت پر ایمان لائے بغیر نجات کو ناممکن سمجھتے تھے.لیکن آج خدا تعالیٰ نے ملائکہ کے نزول کے ذریعہ سے ان کے دلوں سے عیسائیت کے بہت سے نفرت پیدا کردی ہے.یہاں تک کہ خود عیسائی پادری بھی یسوع مسیح پر الزام لگانے میں پیش پیش ہیں.نیز ایک عظیم بنیادی گناہ شرک دنیا سے مٹ رہا ہے اور اس سے کمتر گناہ یعنی دہریت نے اس کی جگہ لے لی ہے.اس میں شک نہیں کہ شرک اور دہریت، ہر دو ہی بڑے گناہ ہیں.لیکن دہریت شرک سے کم ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو نہ ماننا، اتنا بڑا گناہ نہیں ، جتنا شرک کرنا.کیونکہ دہریہ تو روحانیت سے بالکل بے بہرہ ہے.لیکن مشرک خدا تعالیٰ کو پہچان کر اس کے ساتھ شریک یدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.اور یہ گناہ یقین دہریت سے زیادہ ہے.اسی لئے قرآن کریم نے بار بار یہ فرمایا ہے کہ شرک کا گناہ معاف نہیں ہوسکتا.غرض ایک بڑے گناہ سے ہٹ کر یہ اقوام ایک نسبتاً چھوٹے گناہ کی طرف آرہی ہیں.اور ایک بڑی روک، جو جذباتی تھی، یعنی مسیح سے پیار، اس کو فرشتوں نے مٹادیا ہے.اب ایک خلاء پیدا ہوتا جارہا ہے.اس خلاء کو اللہ تعالیٰ احمدیت اور اسلام کے ذریعہ ہی پر کرے گا.انشاء اللہ.لیکن اس خلاء کو پر کرنے کے لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے.اور جو خواب میں نے شروع میں بیان کی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میرے ذریعہ جماعت کو یہ توجہ دلائی ہے کہ اگر چہ کام بہت بڑا ہے اور ہم کمزور ہیں لیکن اگر ہم اپنے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائیں تو خدا تعالیٰ معجزے دکھا کر اور ملائکہ کو نازل کر کے اور انذاری نشانات دکھا کر اسلام کی طرف ان اقوام کو متوجہ کر دے گا.اور جو ہمارے دل کی خواہش ہے کہ یہ لوگ اسلام میں داخل ہوں پوری ہو جائے گی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ دیا تھا کہ اسلام کے غلبہ کے ایسے سامان پیدا کر دیئے جائیں گے کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہ کر سکے گا، وہ سامان پیدا ہو جائیں گے.یہی ہم پر پہلی اور آخری ذمہ داری دعا کی ہے.ہمارا ہتھیار دعا ہی ہے، جس سے کامیابی ہو گی.ہماری تمام تدبیریں تبھی کامیابی کا منہ دیکھ سکیں گی، اگر ہم اس کے ساتھ دعاؤں کو شامل کر لیں.دعا ہی ہمیں دنیا میں فتح دے سکتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.( مطبوعه روز نامه الفضل 16 اگست 1967 ء )) 154

Page 172

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم وو اقتباس از خطبه جمعه 11 اگست 1967ء صرف اسلام ہی تباہی سے بچنے کا ایک راستہ ہے خطبہ جمعہ فرموده 11 اگست 1967ء حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اسلام کی صداقت کے ثبوت کے طور پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں نشانات دنیا کے سامنے پیش کئے.جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر پانچ عظیم تباہیوں کے بارے میں پیش گوئی فرمائی.دو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی صورت میں عظیم الشان طور سے پوری ہوئیں، تیسری ہولناک تباہی کے مہیب آثار آسمان پر ہویدا ہیں.جس کے اثرات نہایت ہی خوفناک اور تباہ کن ہوں گے.اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر بھی دی کہ اس تیسری تباہی کے ساتھ غلبہ اسلام کا زمانہ بھی وابستہ ہے.اس تباہی سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کچے راستے کو اختیار کرے.اور وہ راستہ اسلام ہے.اللہ تعالیٰ کا قہر عنقریب اس دنیا پر نازل ہونے والا ہے.تباہی کی آگ بھڑک اٹھی ہے.آؤ اور استغفار کے آنسوؤں سے اس آگ کے لپکتے ہوئے شعلوں کو سر دکر و.آؤ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم و کرم کے ٹھنڈے سائے تلے پناہ حاصل کر لو.اٹھو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کرو.آؤ، اگر تم اس بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس سے محفوظ رکھے.آمین." میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے مستقبل قریب سے بھی بڑی قربانیوں کا مطالبہ کرنا چاہتا ہے.اس وقت جماعت ایک نازک دور میں داخل ہے.اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ بشارتیں، جن کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا تھا، ہماری زندگی میں ہی پوری ہوں تو عظیم الشان قربانیاں دینی ہوں گی.اتنا اشارہ ہی کافی ہے.خدا تعالیٰ سب کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی توفیق دے.آمین.( مطبوعه روزنامه الفضل 22 اگست 1967 ء ) 155

Page 173

Page 174

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 12 اگست 1967ء اب کہ جب اسلام فاتح ہوگا اور دنیا پر چھا جائے گا تو کبھی مغلوب نہیں ہوگا خطاب فرمودہ 12 اگست 1967ء جس زمانہ میں اس وقت آپ زندگی گزار رہی ہیں اور خصوصاً وہ زمانہ ، جس میں آپ کی موجودہ نسلیں داخل ہونے والی ہیں، دنیا کی تاریخ میں انسانیت کے لئے اور احمدیت کے لئے ایک نہایت ہی نازک زمانہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے بڑی بشارتیں عطا کی ہیں مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق قرآن کریم میں عظیم بشارتیں پائی جاتی ہیں اور اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس زمانہ کو بڑا با برکت زمانہ قرار دیا ہے.اس لحاظ سے یہ وہ زمانہ ہے، جس کے متعلق یہ مقدر ہے کہ اسلام دنیا میں اس رنگ میں غالب آئے گا کہ پھر دنیا کی کوئی مادی طاقت یا کوئی دنیا کا جھوٹا فلسفہ یا دنیا کا کوئی پرانامذہب اس کے مقابلہ پر ٹھہر نہیں سکے گا.ان بشارتوں کے علاوہ آپ میں سے ہر ایک کے متعلق اگر وہ سچی مومنہ بن جائے ، اگر وہ سچی مسلمہ خدا کی نگاہ میں ٹھہرے، اگر وہ حقیقی احمدی عورت ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس قدر عظیم اور اس قدر پیاری بشارتیں دی ہیں کہ جب انسان ان پر غور کرتا ہے تو ایک طرف اپنی کم مائیگی کو دیکھتے ہوئے حیران رہ جاتا ہے اور دوسری طرف ان بشارتوں پر غور کر کے اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل اور اس کی برکت اور اس کی مغفرت کی وجہ سے اس کا سر اپنے رب کے حضور جھک جاتا ہے.اس وقت جس زمانہ میں ہماری جماعت داخل ہو رہی ہے، اس کے آئندہ میں اور تمہیں سال جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے، ہمارے لئے بڑے ہی نازک ہیں.آپ نے دو فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کرنا ہے.دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو نوازا ہے.عزت دی ہے، مال دیا ہے، آرام دیا ہے.آپ اگر چاہیں تو دنیوی عزتوں کو اور دنیوی اموال کو اور دنیوی وجاہتوں کو اور دنیوی آراموں کو اپنے لئے پسند کر لیں اور اس کے نتیجہ میں، جو دین کا انعام ہے یا قربانیوں کے بعد، جو د نیوی آرام کا وعدہ کیا گیا ہے اور جن نعمتوں کا اگلے جہان میں ہم سے وعدہ کیا گیا ہے، اس سے خود کو اور اپنی نسلوں کومحروم کر لیں.اور اگر آپ 157

Page 175

اقتباس از خطاب فرموده 12 اگست 1967 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم چاہیں تو اس مختصری زندگی اور اس کے آرام اور اس کی عزت اور اس کے عیش کو خدا کی راہ میں قربان کر دیں اور اپنے رب سے یہ امید رکھیں کہ وہ اس دنیا میں بھی آپ کو اور آپ کی نسلوں کو اور اس دنیا میں بھی آپ کو اور آپ کی نسلوں کو اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرے گا اور ان وعدوں کو آپ کے لئے اور آپ کی نسل کے لئے پورا کرے گا، جو وعدے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے ہیں.میں نے آج بچیوں اور بچوں سے بات کرتے ہوئے انہیں اس طرف متوجہ کیا تھا کہ تم اپنے ماں، باپ سے جا کر یہ کہو کہ تم نے ایک حد تک اپنی زندگی آرام میں گزار لی ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ ایثار اور قربانی کی طرف ہمیں بلا رہا ہے، اگر تم نے ، جو ہمارے ماں، باپ ہو، ہماری خاطر ( اگر اپنی خاطر نہیں) وہ قربانیاں نہ دیں، جن کا اللہ ہم سے مطالبہ کر رہا ہے تو ہماری زندگی تباہ کر دو گے ہم لوگ.پس آپ کو اگر اپنے لئے نہیں تو کم از کم اپنی نسلوں کو اللہ تعالیٰ کے قہر اور غضب سے بچانے کے لئے وہ قربانی دینی پڑے گی، جس کی توقع اللہ ہم سے آج کر رہا ہے اور جس قربانی کے بعد ہم سے وہ وعدے کئے گئے ہیں کہ جو "" وعدے پہلی قوموں سے نہیں کئے گئے.ہمیں وہ عظیم بشارتیں ملی ہیں، جو پہلوں کو نہیں ملیں“.جوانعام آپ لوگوں کے لئے اس دنیا میں خدا نے مقدر کیا ہے، وہ ان لوگوں کے لئے مقدر نہیں تھا، جو بعثت نبوی سے 300 سال بعد پیدا ہوئے.دیکھو، اسلام فاتح ہوا اور پھر تنزل میں چلا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ اب کہ جب اسلام فاتح ہوگا اور دنیا پر چھا جائے گا تو کبھی مغلوب نہیں ہوگا.پھر قیامت تک غیر مسلم چوہڑے اور چماروں کی طرح دنیا میں رہ جائیں گے.یہ الفاظ ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعمال کئے ہیں، چوہڑے چماروں کی طرح وہ دنیا میں رہیں گے.آپ یہ پسند کرتی ہیں کہ آپ کی نسلیں اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کی برکتوں اور اس کے فضلوں کی وارث بنیں یا آپ یہ پسند کرتی ہیں کہ آپ کی نسلیں چوہڑوں اور چماروں میں شامل ہونے والی ہوں ؟ اگر آپ چاہتی ہیں اور یقیناً آپ میں سے ہر ایک عورت یہ چاہتی ہے کہ آپ کی نسل اور اولا داور پھر ان کی اولاد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہو تو اس وقت بہت سی قربانیاں دینی پڑیں گی ، ان کے لئے.پھر دنیا بدل جائے گی ، اسلام کا غلبہ ہوگا ، پھر اس رنگ کی قربانی کا سوال ہی نہیں ہوگا.آج تو ہم کہتے ہیں، جو قرآن نے پردہ کہا ہے، وہ کرو.کوئی ہمارے پاس دنیا کی طاقت نہیں ہے.اگر آپ ہماری یہ بات مانتی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرتی ہیں.یہ ثواب ان عورتوں کو نہیں ملے گا، جو آپ کی قربانیوں کے نتیجہ میں خدا کا فضل حاصل کرنے والی ہوں گی.کیونکہ اس وقت حکومت کہے 158

Page 176

اقتباس از خطاب فرموده 12 اگست 1967 ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم گی کہ جو ننگے منہ سے باہر نکلے گی، اس کو سزادی جائے گی.پھر دیکھیں، کون نکلتی ہے باہر؟ آج تو آپ آزاد ہیں.دور استے ہیں، آپ کے سامنے.جس کو چاہیں اختیار کر لیں.اس وقت صرف ایک راستہ ہو گا.دوسرا راستہ ہی کوئی نہیں ہوگا اور ثواب بھی کوئی نہیں ہوگا.اس وقت صحیح راستہ اختیار کرنایا نہ کرنا، آپ کی مرضی پر منحصر ہے.اور صحیح راستہ اختیار کرنے کے نتیجہ میں اس وقت آپ کو بڑے انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے.وعدے تو پورے ہونے ہیں.مجھے تو یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح اگلی نسل میں پورے نہ ہوں.میرے دل میں یہ شدید خواہش ہے.میں سمجھتا ہوں ، آپ میں سے بھی ہر ایک کے دل میں شدید خواہش ہوگی کہ یہ وعدے جلدی پورے ہوں.ہم بھی دیکھیں اور ہماری نسلیں بھی دیکھیں.چالیس سال ان کو خدا نے جنگلوں میں ڈالا تھا.پھر ایک نئی نسل پیدا ہوئی ہے، ان کی.پھر ایک نئے رنگ میں تربیت اللہ تعالیٰ نے کی، تب وہ وعدہ جا کر پورا کیا.بشارت تو بہر حال پوری ہوتی ہے.لیکن بشارت کے متعلق یہ وعدہ نہیں کہ اس نسل کے حق میں بھی پوری ہوگی ، جو خدا تعالیٰ کا کہنا ہی نہ مانے.پس بہت ہی بڑی ذمہ داری ہے اس وقت ، جو احمدی ہیں ، سمجھ دار، بڑی عمر کی عورتیں بھی اور مرد بھی ، ان کے اوپر.اس ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کرنے کے نتیجے میں ہم ان عظیم بشارتوں کو قریب تر لا سکتے ہیں، جو ہمیں دی گئی ہیں.اگر ہم سنتی کریں، اگر ہم غفلت سے کام کریں ، خدا کا وعدہ تو پورا ہوگا لیکن اس کے فضل آپ پر نہیں نازل ہوں گے، نہ آپ کی نسلوں پر.پھر اس کے فضل ان نسلوں پر نازل ہوں گے، جو خدا کی راہ میں انتہائی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں گی.اور دیں گی بھی بشاشت سے وہ قربانیاں.اسی لئے خدا تعالیٰ کی رضا کے ٹھنڈے سائے میں وہ رہنے والی ہوں گی.میرا دل یہی کرتا ہے ، آپ کا دل بھی یہی کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے سائے وہاں سے شروع ہو کر قیامت تک نہ چلیں.بلکہ ہم سے شروع ہو کر قیامت تک چلیں.تو اس چیز کو سامنے رکھیں ، آپ.جماعت کے لئے ، اسلام کے غلبہ کے لئے یہ زمانہ بڑا نازک ہے.اس بڑے نازک دور میں ہماری جماعت داخل ہو چکی ہے اور انتہائی قربانیوں کا اس وقت حالات مطالبہ کر رہے ہیں.اور شاید اور بھی مطالبہ کریں.ان مطالبات کے مطابق آپ کو اپنی زندگیاں گزارنی ہوں گی.اور مطالبات کے مطابق آپ کو جان کی بال کی ، وقت کی خواہشات کی ، اور عادات کی قربانی دینی پڑے گی.کیونکہ اس کے بغیر ہم اسلام کی آخری فتح کو قریب تر نہیں لا سکتے.اور اس کے بغیر موجودہ نسل جو ہے، وہ ان انعاموں کی وارث نہیں بن سکتی ، جن انعاموں کا ان کو وعدہ دیا گیا ہے“.፡፡ مطبوعہ روز نامہ الفضل 07 جون 1972 ء ) 159

Page 177

اقتباس از خطاب فرمود 12 اگست 1967ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد چہارم مالی قربانی میں بھی ہماری عورتیں ہزاروں کی تعداد میں ایسی ہیں، جو مردوں سے پیچھے نہیں.اب دو مسجد میں تو آپ نے خالص اپنے چندوں سے بنادیں.ایک تو حال ہی میں مسجد ہے، کو پن ہیگن کی ، جس کا ہم ابھی افتتاح کر کے آئے ہیں.بڑی ہی خوب صورت مسجد ہے.میں زیورک میں تھا تو صبح تین بجے کے قریب میں اٹھا.میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے.مبارك ومبارك وكل امر مبارك یہ مسجد مبارک قادیان کے متعلق ہے اور وہاں لکھا بھی ہوا ہے دیوار پر تعبیر میرے ذہن میں یہ آئی کہ یہ دورہ اور وہ تمام مساجد، جو اس دورہ میں، میں visit کروں گا، جہاں میں جاؤں گا، اللہ تعالیٰ ان مقامات کو پہلے سے بھی زیادہ برکت دے گا.کوپن ہیگن کی اس خوبصورت مسجد کی محبت وہاں لوگوں کے دلوں میں اتنی زیادہ پیدا ہوئی کہ ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ میں یا پچاس عیسائی بچے مختلف وقتوں میں ایک وقت میں تو اتنی تعداد نہیں ہوتی تھی.ایسے تھے ، جو وہاں آکر نماز میں شامل ہو جاتے تھے.اور صرف فرض نماز میں نہیں بلکہ سنتوں اور وتروں میں بھی.منصورہ بیگم نے بتایا کے دولڑ کیاں بارہ، تیرہ سال کی سہیلیاں تھیں.غالباً وہ وہاں آتی تھیں اور عشاء کے بعد وتروں میں بھی شامل ہوتی تھیں.انہیں دیکھ دیکھ کے یعنی ان احمدی بہنوں کو دیکھ دیکھ کے، جو وہاں کی ہیں.الغرض صبح سے لے کر شام تک تانتابندھارہتا تھا، لوگوں کا.وہ سب مسجد کو دیکھنے کے لیے آتے تھے.ایک دن میرے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کہتے ہیں کہ میں رات کو ڈیڑھ بجے اٹھا، میں نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد کی تصویریں لے رہا ہے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ صبح سے لے کر رات کے ڈیڑھ بجے تک وہاں لوگ آتے رہے.اخباروں نے نچی باتیں بھی لکھیں، بعض جھوٹی باتیں بھی لکھیں.پھر ان کی تردید بھی کرنی پڑی.اتنے جاہل ہیں یہ لوگ اسلام کے متعلق کہ ایک اخبار نے تصویر دے کر نیچے یہ فقرہ لکھ دیا کہ یہ لوگ محمد کی پرستش کر رہے ہیں.مجھے جب پادری ملنے آئے تو میں نے وہ اخبار، ان کا جو لیڈ رتھا، اس کے ہاتھ میں دیا اور کہا، اس کا ترجمہ کر کے بتاؤ.(وہ فقرہ ڈینش زبان میں لکھا ہوا تھا.) مجھے تو پتہ تھا کہ کیا اس کے معنی ہیں؟ لیکن میں ان کے منہ سے کہلوانا چاہتا تھا.اس کا منہ سرخ ہو گیا شرمندگی سے.کہنے لگا میں نے یہ اخبار دیکھا ہے.ہمیں بڑا افسوس ہے اس پر، جس نے یہ لکھ دیا ہے.میں نے کہا، اب دو صورتیں ہیں.یا تو 160

Page 178

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 12 اگست 1967 ء تم اس کی تردید کر دیا میں اس کی تردید کروں.میں تردید کروں گا تو بد مزگی پیدا ہوگی.بہتر یہ ہے کہ تم کرو.اس نے کہا، نہیں ہم کریں گے.چنانچہ انہوں نے بڑی لمبی تردید اس کی اسی اخبار میں شائع کی کہ ہم سے غلطی ہو گئی ، جو ہم سے یہ فقرے لکھے گئے.بہر حال اس سے ان کی جہالت کا پتہ لگتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.وہ اسلام قبول کیسے کریں، جو اسلام کو پہچانتے نہیں، اس کی تعلیم سے واقف نہیں؟ ہمارا کام ہے، ان تک اس تعلیم کو پہنچانا اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنا.کئی مجھ سے پوچھتے تھے کہ یہ کام تم کسے کرو گے؟ میں نے جواب دیا کہ misunderstanding( غلط نہی) کو دور کر کے.کیونکہ misunderstandings ( غلط فہمیوں) کو دور کرنے کا جو راستہ ہے، وہ صداقت کے قبول کرنے تک پہنچا دیتا ہے.ساری غلط فہمیاں آپ کسی کی دور کر دیں اسلام کے متعلق ، وہ خود بخو د اسلام لے آئے گا.کوئی غلط نہی اس کے دل میں نہیں رہے گی.اور پھر ہمیں نمونہ بن کے ان کے دل موہ لینے کی کوشش کرنی چاہئے.اس وقت جو آپ کے واقف ہیں تھوڑے بہت ، وہ تو آپ کو پہچانتے ہوں گے.لیکن دنیا بجھتی ہے کہ یہ عجیب و غریب خلقت ہے.اپنی ان کی دنیا ہے اور اپنے خیالات.اور یہ ہم سے کئے ہوئے ہیں.یہ خیال غلط ہے.زیورک میں ایک دوکاندار سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا اچھا! تو کیا میں مسجد میں جاسکتا ہوں؟ میرا تو خیال تھا کے مسلمانوں کی مسجد میں کوئی عیسائی داخل ہی نہیں ہوسکتا.میں نے اس کو بتایا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسجد میں عیسائی وفد کو اپنی عبادت کرنے کی اجازت دے دی تھی اور تمہیں ابھی تک یہ شبہ ہے کہ تم مسجد میں داخل بھی ہو سکتے ہو یا نہیں ؟ کوپن ہیگن والوں کو تو اب پتہ لگ گیا ہے.پہلے تو وہاں بھی اکثریت ایسی ہی ہوتی تھی، جو کار سے اترتا.میاں، بیوی بچوں کو ساتھ لے کر وہ باہر ہی کھڑا ہو کر دیکھنے لگ جاتا.اندر آتے ہوئے ، وہ ڈرتے تھے.چونکہ ہمارے وہاں بہت سے احمد کی جمع تھے ، وہ ان کو اندر لے آتے تھے اور ان کو بتا دیتے تھے کہ ایک ہماری condition (شرط) ہے کہ اپنی جوتیاں اتار دو.کیونکہ جوتیوں کے ساتھ گند ہوتا ہے.تو وہ بے چارے باہر جوتیاں اتارتے ، اپنی طرف سے تو بڑی قربانی دیتے ہوں گے، بوٹ اتار کے اندر جاتے تھے.وہ مسجد بڑی خوبصورت ہے اور بڑی اس کے اندرشان بھی پائی جاتی ہے اور اللہ یاد آجاتا ہے.میں جب بھی اندر گیا ہوں، میرا دل چاہتا تھا کہ میں سب باتیں چھوڑ کر دو نفل پڑھ لوں ، اس وقت.بعد میں خدا نے توفیق دی اور پڑھے علیحدگی میں.اور پڑھے بھی افتتاح سے پہلے، جبکہ وہ ابھی بن رہی تھی.161

Page 179

اقتباس از خطاب فرموده 12 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کو بتائیں کے اسلام کی کیسی حسین اور خوبصورت تعلیم ہے.اور پھر ہے بھی مفید.پھر اس کے نتیجہ میں ہمارا تعلق اپنے رب سے ہو جاتا ہے.پھر وہ، جو اپنی زندگی میں اپنے رب کے فضلوں کا مشاہدہ کرتے ہیں ، وہ اپنی جگہ ایک بہت بڑی نعمت ہے.خدا کی ہستی کا اس سے بڑا ثبوت کوئی نہیں مل سکتا.اب وہاں سے جب میں چلا ہوں، دس دن پہلے تک قریباً انشراح بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ سفر کروں یا نہ کروں.دعا کر رہا تھا تو ایک دن میں نے خواب دیکھی، جس کے نتیجہ میں میرا انشراح صدر ہو گیا اور میں نے یہ کہہ دیا ( بڑا تنگ وقت تھا ویسے ) کہ ہاں تیاری کر لو.خواب میں، میں نے دیکھا کے قلعے کی دیوار ہے کئی سوفٹ.اور جہاں جا کے ہمیں بٹھایا گیا ہے، وہ ایک اونچی سی جگہ ہے.اس کے اوپر ایک کوچ بچھا ہوا ہے.کئی آدمی وہاں جمع ہیں.اور وہاں مجھے اور منصورہ بیگم کو جا کر بٹھانے والوں نے بٹھایا ہے.اس وقت تک ہماری پیٹھ تھی ، اس دیوار کی طرف.لیکن جب ہم بیٹھے ہیں تو دیکھا کہ سامنے دیوار اس قدر خوبصورتی سے سجائی گئی ہے کہ کوئی انسانی ہاتھ اتنی خوبصورتی سے کہیں بھی سجاوٹ نہیں کر سکتا.اور وہاں کچھ پھول سے بنے ہوئے ہیں، جو بعد میں مجھے غور کرنے سے پتہ چلا کہ پھول نہیں ، کچھ اشعار ہیں.اور اس دیوار کے ذرے ذرے سے مختلف رنگوں کی روشنیاں پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہی ہیں.کوئی ٹیوب نہیں ہے، کوئی بلب نہیں ہے.لیکن محسوس یوں ہوتا ہے، جیسے دیوار میں سے روشنی نکل رہی ہے.اتنا خوبصورت تھا وہ منظر کہ لمبا عرصہ خواب میں، میں اس خوبصورتی میں کھویا رہا.اور اس کے بعد پھر میں نے جب غور کرنا شروع کیا تو دیکھا کہ اس کے وسط میں گیٹ پر جیسے اونچا سا کوئی مینارہ ہے.پچاس، ساٹھ فٹ اونچا مینارہ اور کوئی پچاس فٹ چوڑی دیوار.اس کے وسط میں موٹے حروف میں اس روشنی کے ساتھ ہی لکھا ہوا ہے.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ خواب کی اور بہت لمبی تفصیل ہے جس میں، میں اس وقت نہیں جاؤں گا.مجھے دراصل یہ سبق دیا، اللہ تعالیٰ نے کہ اصل منبع ساری طاقتوں کا، ساری عزتوں کا ، ساری حفاظتوں کا، ساری کامیابیوں کا تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.اور اللہ تعالیٰ کا جب وعدہ ہو کہ میں تمہارے لیے کافی ہوں تو پھر اپنی کم مائیگی یا اپنی کمزوریوں کو نہیں دیکھنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے ، اس سے دعائیں کرتے ہوئے ، سفر کو اختیار کرو.اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا.لوگوں نے غیر معمولی طور پر ہم سے تعاون کیا.زیورک میں ایک اخبار نکلتا ہے ، وہ ہمیشہ اسلام کے خلاف لکھتا تھا اور کبھی بھی اس کی تردید شائع نہیں کرتا تھا.ہمارے مشتاق احمد صاحب باجوہ کہتے تھے.162

Page 180

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 12 اگست 1967ء ہم تردید لکھتے ہیں لیکن یہ شائع نہیں کرتا.جب وہاں گئے تو پریس کانفرنس میں اس اخبار کا نمائندہ بھی آیا ہوا تھا.جو ایک نوجوان تھا.باتیں ہوتی رہیں، مختلف سوال ان لوگوں نے کیسے.ہم نے جواب دیئے.بعد میں بھی وہ مجھ سے باتیں کرتا رہا.آخر میں کہنے لگا کہ مجھے یہ بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے، خودی جواب سکھاتا ہے.اس وقت فورا ہی میرے دماغ الصلوة و میں یہ جواب آیا.میں نے کہا، میں اپنے الفاظ میں تمہیں کیا بتاؤں، میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں تمہیں بتاتا ہوں.آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ میں دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑنے آیا ہوں، جس صلیب نے مسیح کی ہڈیوں کو توڑا اور جسم کو زخمی کیا.اچھل پڑا وہ اور کہنے لگا، مجھے حوالہ چاہیے.یہ لوگ تو حوالہ مانگتے ہیں.فوراً خدا کا کرنا کیا ہوا کہ میرے نوٹوں میں یہ حوالہ بھی تھا.میں نے چوہدری محمد علی صاحب ( جو پرائیویٹ سیکرٹری ہیں آج کل ) سے کہا کہ وہ میرے نوٹ لیے آئیں.میں نے مختلف حوالے ویسے ہی جمع کیے تھے اور ساتھ لے آیا تھا کہ شاید کام آجائیں.اس کا ترجمہ اس کو دکھایا.اس نے ان کو نوٹ کیا.پھر اسلام کے متعلق ، جماعت کے متعلق مسجد کے متعلق ، میرے متعلق اس نے اپنے اخبار میں لکھا.اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بعثت کی جو غرض بیان کی ہے ، وہ بھی لکھ دی.انہی الفاظ میں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے تھے کہ میں اس صلیب کو دلائل کے ساتھ توڑنے آیا ہوں، جس نے مسیح کی ہڈیوں کو تو ڑا اور جسم کو زخمی کیا.اسی طرح ہیمبرگ میں چار اخبار چھپتے ہیں، جن میں سے ایک اخبار سارے جرمنی میں چوٹی کے دو اخباروں میں سے ایک ہے.بڑی بڑی تصویر میں دے کر انہوں نے خبر میں شائع کیں.اس پر سب یہ پوچھتے تھے اور بڑی حیرانی سے پوچھتے تھے کہ اچھا تو آپ یورپ کو مسلمان بنانے کی امید رکھتے ہیں؟ کیسے بنا ئیں گے آپ ؟ میں نے جواب دیا کے ہم تمہارے دلوں کو فتح کرلیں گے اور اس طرح تمہیں مسلمان بنا لیں گے کیونکہ اسلام امن کا مذہب ہے.جنگ سے نہیں تمہیں ہم مسلمان بنا ئیں گے.ہم تو آپ کے دلوں کو فتح کریں گے، یہ مقدر ہے اور تباہی بھی مقدر ہے.یا تو تم پہلے مسلمان ہو جاؤ ، اگر تباہی سے بچنا چاہتے ہو.اور اگر نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے قہر کا ایسا کوڑا تم پر نازل ہوگا، جو تمہیں ملیا میٹ کر دے گا.اکثریت تمہاری آبادی کی ماری جائے گی تمہارا زور ٹوٹ جائے گا، تمہاری انڈسٹری تباہ ہو جائے گی ، فوجی طاقت جو ہے تمہاری ، وہ تباہ ہو جائے گی.اور جو بچ جائیں گے تم میں سے، وہ اسلام لیے آئیں گے.اللہ تعالیٰ کے یہ وعدہ ہے، جو پورا ہوگا.انہوں نے یہ ساری خبریں دیں.ٹیلیویژن کے اوپر ساٹھ ، ستر لاکھ آدمیوں نے میرا انٹرویود دیکھا.بعد میں ہیمبرگ میں ہمارے لیے باہر جانا مشکل ہو گیا.دکانوں پر کوئی 163

Page 181

اقتباس از خطاب فرموده 12 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دکاندار اخبار میں چھپی ہوئی تصویر لا کر منہ کے سامنے رکھ دیتا اور اس طرح یہ بتا تا کہ ہم پہچانتے ہیں آپ کو.جہاں تک نظر جاتی سڑک کے اوپر ہزاروں آدمی کھڑے ہو جاتے تھے، ہمیں دیکھنے کے لیے.سینکڑوں کیمرے نکل آتے تھے.پتہ نہیں کتنی تصویریں کھنچی گئی.اسلام کا یہ بڑا تعارف ہے، مگر ہے ابتدائی.اس کو آخری فتح نہیں کہہ سکتے.نہ یہ سوچنا چاہیے.لیکن اس وقت تک ان لوگوں کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ کوئی وارنگ آسمان سے نازل ہو چکی ہے.تو اتمام حجت ہو گیا ، ان کو پتہ لگ گیا ، اخباروں نے شائع کر دیا ہے کہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ یا تو تم اپنے creator کی طرف ، اپنے پیدا کرنے والے کی طرف واپس آؤ اور اس کی اطاعت کر دیا تم تباہ ہو جاؤ گے.تو یہ اتمام حجت ہو گیا نہ.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان قوموں کو تو فیق عطا کرے کہ وہ تباہی سے پہلے ہی اسلام قبول کر لیں اور تباہی سے بچ جائیں.یہ یقین ہے ہمیں ، اسی طرح یقین ہے جس طرح ہمیں یہ یقین ہے، اس وقت سورج چڑھا ہوا ہے.جس طرح ہمیں یہ یقین ہے، اس وقت لجنہ کا ایک اجلاس ہو رہا ہے.جس طرح ہمیں یہ یقین ہے کہ اس اجلاس میں ، میں آپ سے باتیں کر رہا ہوں.اسی طرح ہمیں یہ یقین ہے کہ یہ وعدے اپنے وقت پر پورے ہوں گے.شبہ کی کوئی گنجائش نہیں.ہمیں فکر یہ ہے بلکہ مجھے یہ کہنا چاہئے کہ مجھے دو فکریں ہیں.ایک یہ کہ اگر یہ قومیں جلد ایمان نہ لائیں تو تباہ ہو جائیں گی.اور انسانی ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کے قہر سے یہ محفوظ رہیں.دوسرے مجھے بڑی شدید فکر ہے، اپنے بھائیوں اور بہنوں کے متعلق کہ وقت آگیا ہے، انتہائی قربانیاں دے کر انتہائی فضلوں کو حاصل کرنے کا.اگر ہم نے سستی کی تو پھر ہم ان فضلوں اور انعاموں سے محروم ہو جائیں گے.میرے پاس تو کوئی طاقت نہیں ہے.میں ہر نماز میں آپ لوگوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور اسلام کے غلبہ، اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے قیام کا سامان پیدا کرے.جو میری طاقت میں ہے وہ یعنی اپنی دعائیں اکثر میں دیتارہتا ہوں.آپ بھی دعا ئیں کریں.اپنے لئے بھی اور یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول کرے.اور آپ کے دلوں میں یہ احساس پیدا کرے کہ یہ وقت آرام کا نہیں ، آرام کھونے کا وقت ہے.اگر ہمیں آرام حاصل کرنا ہے تو ہمیں اپنے آراموں کو اس وقت قربان کرنا پڑے گا.پھر اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی دی تو وہ ہمیں اس دنیا میں جائز آرام بھی دے گا اور ہماری نسلوں کو بھی اس دنیا کی جائز نعمتیں عطا کرے گا.اور وہ دے گا، جو پہلوں کو نہیں ملا.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اور جو دوسری دنیا کے انعام ہیں، ان کے متعلق ہم سوچ ہی 164

Page 182

تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد چہارم - اقتباس از خطاب فرموده 12 اگست 1967ء نہیں سکتے.یہ یقین رکھیں اور اگر یقین کمزور ہے تو اس کو پختہ کریں کہ اس دنیا کے بعد میں ایک اور زندگی ضرور ملتی ہے، جو ابدی زندگی ہے، جس نے بھی ختم نہیں ہونا“.وو آپ لوگوں کو بشارتیں ملی ہیں تو خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے اپنی جانوں ہر رحم کرتے ہوئے اور اپنی نسلوں کی خاطر ان انتہائی قربانیوں کو دینے کے لئے تیار ہو جاؤ ، جن کا اس وقت اسلام اور احمدیت آپ سے مطالبہ کر رہی ہے.اور قرآن کریم کی تعلیم اور ہدایت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرو کہ تمام خیر قرآن میں ہے.جو شخص قرآن کریم سے محبت رکھتا ہے، جو شخص قرآن کریم کی اس تفسیر کوسمجھنے کی کوشش کرتا ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانے کی الجھنوں کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے سیکھ کر ہمیں بتائی ہے، اسے تو سب خیر مل جائے گی.اگر ہم سوچیں تو ہماری قربانیاں، دراصل کوئی قربانیاں نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ایک چیز ، وہ ہم سے تھوڑی سی واپس مانگتا ہے.اور پھر ہمیں وہ اور دے دیتا ہے.بڑے ہی فضلوں کے وعدے ہیں، بڑے انعامات کے وعدے ہیں.اب انتہائی وعدوں کے پورا ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی انتہائی رحمتیں برسانے کے لئے تیار ہے.کیا آپ اس رحمت کے مینہ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ اگر تیار ہیں تو بڑی خوش قسمت ہیں.اور خدا کرے کہ آپ تیار ہوں.اور خدا کرے میری یہ کھیراہٹ جو ہے، وہ دور ہو جائے اور ہم سب اور آپ بھی ، ہمارے سب بھائی ، بہنیں، اللہ تعالیٰ کی آواز پر قربانیاں دینے کے لئے تیار ہو جائیں.تاکہ ہم اپنی زندگیوں میں اپنے پر اور اپنی نسلوں پر بھی ان انعامات کو اور رحمتوں کو نازل ہوتے دیکھ لیں، جو آسمان پر ہمارے لئے مقدر ہو چکی ہیں.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل مورخہ 18 جون 1972ء) 165

Page 183

Page 184

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 125 اگست 1967ء صرف اسلام ہی دنیا کو ہولناک تباہی سے بچا سکتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.احباب جماعت اور اس عاجز بندے پر اللہ تعالیٰ کے فضل کی بارش اور اس کی رحمت کے نشانات اتر تے دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے سارے سمندر محبت اور حم اور تعریف کا پیراہن پہن کر اس چھوٹے سے دل میں سما گئے ہیں.اور خدا کی حمد چاروں طرف بڑی موجوں کی شکل میں ابھر رہی اور موجزن ہے.اللہ تعالیٰ نے (جیسا کہ اس نے اس سفر سے قبل خود بتایا تھا ) اس سفر کو محض اپنے فضل سے اسلام کے لئے بہت ہی بابرکت ثابت کیا ہے.قبل اس کے کہ میں اپنی وہ روکیا بیان کروں ، جو میں نے جانے سے قبل دیکھی تھی.میں ایک اور دوست کی رؤیا بیان کرنا چاہتا ہوں.ایک دوست نے مجھے لکھا ( مجھے یاد نہیں رہا کہ روانگی سے چند روز قبل یا روانہ ہونے کے بعد چند روز کے اندر مجھے یہ خط ملا تھا.) کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ کچھ مخالفت ہو رہی ہے، بیرونی بھی اور اندرونی بھی.اور بعض معترض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ رویا اور خواب بہت سنانے لگ گیا ہے.اس خواب کی دو تعبیریں میرے ذہن میں آئیں، جن میں سے ایک کا ذکر میں اپنی کراچی والی تقریر میں کر چکا ہوں اور ہر دو کا ذکر اس وقت یہاں کرنا چاہتا ہوں.جب میں نے اپنے اس دوست کی خواب پڑھی تو میری توجہ اللہ تعالیٰ نے اس طرف پھیری کہ اس سفر کے دوران بہت سی بشارتیں ملیں گی.اور دوسرے یہ کہ مجھے ان بشارتوں کا ذکر جماعت کے سامنے کر دینا چاہئے.کیونکہ جب تک بشارتیں نہ ملیں اور ان کا ذکر بھی جماعت کے سامنے نہ کیا جائے، معترض اعتراض نہیں کر سکتا.یعنی اگر بشارت ہی کوئی نہ ملے تو اس قسم کا اعتراض کرنے والا ذہن سوچ ہی نہیں سکتا.اگر بشارتیں ملیں اور ان کا ذکر نہ کیا جائے ،تب بھی یہی حال ہے.پس اس دوست کی اس خواب سے میں ایک طرف بہت خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ بہت سی بشارتوں کے سامان پیدا کرے گا اور حاسد کے لئے حسد کے سامان بھی بہت سے پیدا کرے گا.اور دوسری طرف میں نے خیال کیا کہ مجھے خاموش نہیں رہنا چاہئے بلکہ جماعت کے سامنے ان باتوں کا ذکر کر دینا چاہیئے.167

Page 185

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد چہارم اس رؤیا کے بتانے کے بعد اب میں اپنی وہ رو یا بتا تا ہوں ، جور وانگی سے چند روز قبل میں نے دیکھا.جس وقت تحریک جدید کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ کو پن بیگن کی مسجد کا افتتاح میں خود وہاں جا کر کروں اور دراصل یہ وہاں کی جماعت کی خواہش تھی ، جو انہوں نے مجھ تک پہنچائی تھی.اور جب یورپ کے دوسرے مشنوں کو معلوم ہوا کہ میں مسجد کے افتتاح کے لئے کوپن ہیگن آرہا ہوں تو وہاں سے مطالبے آنے شروع ہوئے کہ اگر آپ ڈنمارک آئیں تو ہمارے مشن میں بھی آئیں.چنانچہ یہ پروگرام بنا کہ اگر جائیں تو یورپ کے سارے مشنوں کا دورہ بھی کریں.لیکن میرے دل میں پورا انشراح پیدا نہیں ہوا تھا.اور تحریک مطالبہ کر رہی تھی کہ کافی وقت پہلے ان کو اطلاع دینی چاہئے تا وہاں انتظامات ہو سکیں.اس پر میں نے انہیں کہا کہ ان سے یہ کہہ دیا جائے کہ وہ اپنی طرف سے پوری تیاری کر لیں تا کہ اگر جانے کا پروگرام بنے تو ان کو کوئی وقت پیش نہ آئے.لیکن اپنے ذہن میں یہ بھی رکھیں کہ ضروری نہیں کہ میں اس سفر کو اختیار کروں.تاکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مایوس نہ ہوں.غرض یہ مشروط پروگرام ان کو دیا گیا اور یہاں میں نے جماعت میں دعا کے لئے تحریک کی.بعض دوستوں کو خاص طور پر خطوط لکھوائے اور بعض کو کہلوا کے بھیجا.دوستوں نے بھی بڑی دعائیں کیں اور میں بھی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق دعائیں کرتارہا.اللہ تعالیٰ نے بہت دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائی لیکن پورا انشراح نہیں ہو رہا تھا.بہت سے دوستوں نے مبشر خواہیں بھی دیکھیں.بعض نے بشارتوں کے ساتھ بعض منذر حصے بھی دیکھے.خود میں نے دو، تین خواہیں ایسی دیکھیں، جن میں مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ واپسی پر کچھ بدمزگی وغیرہ پیدا ہوگی یا کوئی خطرہ پیش آئے گا.لیکن وہ سارے نظارے واپسی کے تھے.جس میں یہ اشارہ پایا جاتا تھا کہ سفر کے لئے روانگی ہوگی.کیونکہ روانگی کے بغیر واپسی نہیں ہوا کرتی.لیکن پھر بھی طبیعت میں پورا انشراح نہیں تھا.تب قریباً آٹھ ، دس روز پہلے میں نے اپنے رب کے عظیم نور کا ایک حسین نظارہ دیکھا.میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ہم قادیان میں ہیں اور عرفانی صاحب کے مکان میں کوئی تقریب ہے.جس میں مجھے اور منصورہ بیگم کو بھی بلایا گیا ہے.اور وہ تقریب عصر کے بعد ہے.چنانچہ اس کے لئے ہم روانہ ہوئے.ہم حضرت مرز اسلطان احمد صاحب کے مکانوں میں سے گزر کر اس گلی میں سے گزرے، جو اس چوک میں داخل ہوتی ہے، جہاں ڈاکٹر احسان علی صاحب کی دکان تھی.اور وہیں سے بائیں طرف الحکم سٹریٹ میں داخل ہو جاتی ہے.ہم بھی اس چوک سے ہو کر الحکم سٹریٹ میں داخل ہوئے.ہمارے ساتھ کچھ اور آدمی بھی ہیں.(وہی قادیان کا نظارہ ہے، جس کی اینٹ اینٹ ہمیں یاد ہے اور ہم اسے کبھی نہیں بھول سکتے.) 168

Page 186

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 25 اگست 1967ء بہر حال ہم عرفانی صاحب کے مکان پر آئے.اس مکان کا فرنٹ بالکل وہی تھا، جو پہلے تھا.وہی چھوٹا سا دروازہ، جو اس کا ہوا کرتا تھا.ہم اس دروازہ میں داخل ہوتے ہیں.لیکن جب میں اس گھر میں داخل ہوتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرفانی صاحب کا مکان نہیں بلکہ وہ ایک بہت بڑے قلعے کا دروازہ ہے، جس میں سے ایک وقت میں پانچ ، سات کارمیں گزرسکتی ہیں.غرض وہ اتنا بڑا دروازہ ہے.اس دروازہ میں سے گزر کر ہم صحن میں آئے.پرانے قلعوں کے دروازے خالی دروازے نہیں ہوتے تھے بلکہ قلعہ کا دروازہ ایک کمرہ کے اندر کھلتا تھا اور پھر اس کمرہ کا دروازہ آگے صحن میں کھلتا تھا.بہر حال اس قلعہ کا بہت بڑا انٹرنس ہال ہے، جس میں ہم داخل ہوئے ہیں.اور جو محن ہے، وہ اس طرح کا ہے، جیسے کوئی ٹیلہ ہو.اور نہایت خوبصورت سبزہ اس پر اگا ہوا ہے اور پھول بھی ہیں.پھر خوب سجایا گیا ہے.اور وہ قلعہ کا باغیچہ ، جو ایک ٹیلہ پر ہے، اس طرح ہے کہ سامنے کی طرف اور ہر دو پہلوؤں کی طرف کچھ سلوپ (Slope) اور ڈھلوان ہے.مجھے یاد نہیں اور نہ ہی خواب میں مجھے پتہ لگا کہ کون ہمیں اس طرف لے جارہا ہے؟ بہر حال کوئی ہمیں اس طرف لے جانے والا تھا.اور وہ ہمیں اس ٹیلہ کے اوپر لے گیا، جہاں ایک کا وچ بچھا ہوا ہے.اور اس نے مجھے اور منصورہ بیگم کو کہا کہ آپ یہاں بیٹھیں.وہاں کئی سو آدمی موجود ہیں، جوان کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، جو گھاس کے تختوں پر بچھی ہوئی ہیں.اس وقت تک کہ ہم اس کا وچ یعنی صوفہ سیٹ کے اوپر بیٹھیں، ہمیں پیچھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا، سامنے ہی نظر آرہا تھا.لیکن جب ہم وہاں بیٹھے (بائیں طرف منصورہ بیگم ہیں اور دائیں طرف میں ہوں.) اور منہ اوپر کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس قلعے کی دیوار کے اندر کا حصہ، جو ہمارے سامنے تھا، ایسی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا کہ کوئی انسانی ہاتھ ایسی خوبصورتی پیدا نہیں کر سکتا.اور نہ ہی کسی انسان کے تصور میں وہ چیز آسکتی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ اپنی کسی خاص مشیت کے ماتحت اسے وہ خوبصورتی نہ دکھائے.اور جتنا بڑا دروازہ اور ڈیوڑھی اس قلعہ کی تھی ، اسی نسبت سے وہ دیوار تھی یعنی کئی سو گز.نصف اس کے دائیں طرف اور نصف بائیں طرف.ہمارے آگے اور جہاں وہ دیوار ختم ہوتی ہے، اس کے ساتھ ہی ( قلعے مستطیل ہوتے ہیں.) ایک ایک کمرہ دونوں طرف کا مجھے نظر آیا تھا.اس کے علاوہ میں نے اس کا کچھ نہیں دیکھا.اور ان کمروں کی دیواریں بھی اسی خوبصورتی سے سجائی گئی ہیں.اور یہ قلعہ دو منزلہ تھا.جس ڈیوڑھی میں سے ہم گزر کر آئے ہیں، وہ دو منزلہ عمارت سے اوپر نکل جاتی تھی.اور جیسا کہ قلعوں کے اندر عام طور پر گنبد ہوتے ہیں، اس کے دونوں کناروں پر گنبد تھے.اور وہ سارا حصہ، جس پر ہماری نظر پڑتی تھی ، نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا.کوئی بلب یا ٹیوب ہمیں نظر نہیں آتی تھی اور 169

Page 187

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قلعے کی دیوار کے ہر ذرہ سے روشنی چھن کے باہر آ رہی ہے.اور وہ روشنی مختلف رنگوں کی تھی یعنی سرخ، زرد، سبز اور گلابی وغیرہ.میں ان رنگوں کو گن نہیں سکا.بہر حال وہ مختلف رنگ تھے اور ان کے ملنے سے نہایت ہی خوبصورت منظر بنتا تھا.اتنا خوبصورت کہ میں اپنی پوری توجہ کے ساتھ اس حسن میں کھویا گیا اور ایک لمبا عرصہ میں خود فراموشی کے عالم میں الہی حسن کے اس حسین منظر میں گم رہا.پھر کچھ عرصہ بعد میں نے اس حسن کی تفصیل پر غور کرنا شروع کیا.جس جگہ یہ کا وچ تھا ، وہ دوسری منزل کے چھت کے عین سامنے، اس سے ذرا نیچے تھا.یعنی ہمارے سامنے دوسری منزل کی چھت کے نیچے وہ جگہ آتی تھی.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ڈیوڑھی کی چھت دو منزلوں سے بھی اوپر تیسری منزل تک چلی گئی تھی.جب میں نے تفصیلی غور کرنا شروع کیا تو میری پہلی تفصیلی توجہ ڈیوڑھی کے اس حصہ پر پڑی، جو دوسری منزل کی چھت کے اوپر نکلا ہوا تھا.اور کافی غور کرنے کے بعد میں نے یہ دیکھا کہ قریب 55-60 فٹ چوڑی ڈیوڑھی کے اوپر نہایت خوبصورت رنگوں سے لکھا ہوا، یہ الہام حضرت مسیح موعود دو علیہ الصلوة والسلام کا میرے سامنے نمودار ہوا.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ اسے دیکھ کر میرے اندر ایک عجیب روحانی کیفیت پیدا ہوئی.پھر میں نے اس حسین اور منور دیوار پر اور زیادہ تفصیلی غور کرنا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ جو سبز رنگ کے قطعے دیوار کے اوپر مجھے چار لائنوں میں نظر آتے ہیں اور نظر کو وہ ایک چوکھٹا سا معلوم ہوتا ہے، وہ محض خوبصورتی کے لئے ہی نہیں بلکہ وہ اشعار ہیں.اور ساری دیوار کے اوپر سبز رنگ میں لکھے ہوئے ہیں.کہیں وہ شعر ( پورا قطعہ ) مربع بناتے ہیں اور کہیں ایک شعر ( دو مصرعے) ایک مستطیل بنارہے ہیں.اور ان کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ ساری دیوار کے اوپر سجایا گیا ہے.اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ میرا اسہرا ہے.اور مجھے خیال آتا ہے کہ مجھے ان لوگوں نے بتایا ہی نہیں تھا اور میری شادی کا انتظام کر دیا ہے اور میر اسہرا یہاں اس خوبصورتی کے ساتھ لکھ دیا ہے.پھر میں نے اس سجاوٹ پر اور غور کیا تو میں نے یہ دیکھا کہ ساری دیوار کے اوپر وہ سارے پھول اور اشعار اور أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ جو نظر آتے تھے ، وہ خشک میووں بادام اور پستہ وغیرہ سے بنائے گئے ہیں اور ان کو اس طرح سجایا گیا ہے کہ شکلیں الفاظ کی نظر آرہی ہیں اور ان کے نیچے سے روشنی چھن کے آرہی ہے.سوائے ہر دو برج 170

Page 188

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 25 اگست 1967ء کی دیواروں کے، جن کی سجاوٹ کیلوں (پھل) سے کی گئی تھی.پھر میں نے ان اشعار میں سے ایک شعر پڑھا لیکن بیدار ہونے کے بعد وہ مجھے یاد نہیں رہا.پھر میں نے دائیں طرف دیکھا، وہ دو منزلہ کمرہ، جو ایک ہی کمرہ دائیں بازو کا مجھے نظر آرہا تھا اور سجا ہوا تھا.اس کی دوسری منزل اتنی بڑی تھی، جتنی یہ ہماری چھت ہے.اس کی پوری دیوار پر ایک کم عمر لڑکی کی تصویر ہے اور جب میں نے اس کو غور سے دیکھنا شروع کیا تو وہ مجھے ایک شبیہ نظر آئی، جس کے سر پر دوپٹہ تھا اور سر آگے جھکا ہوا تھا.جیسا کہ وہ کوئی مسلمان لڑکی ہو.پھر میں نے دیکھا کہ وہ نماز کی (قیام کی ) حالت میں ہے.یعنی اس نے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں.پھر جب میں نے غور کیا تو میں نے اس کے ہونٹوں کو ہلتے پایا اور میری طبیعت پر یہ اثر ہوا کہ یہ سورۃ حمد پڑھ رہی ہے.اور ہونٹ اس کے ہل رہے تھے.اس کے بعد وہ شخص، جو ہمیں وہاں لے گیا تھا، اس وقت ذہن میں نہیں تھا کہ وہ کون ہے؟ اور نہ بعد میں ہی ذہن میں آیا، اس نے کہا آئیں، آپ کو عجائب گھر اس قلعہ کا دکھا ئیں.چنانچہ میں اور منصورہ بیگم اٹھے اور اس کے ساتھ گئے.وہ ہمیں بائیں طرف لے گیا.اس کمرے کی طرف جو سامنے کی دیوار کے پہلو میں ( دوسرے بازو کا ایک ہی کمرہ ) نظر آتا تھا.جب ہم اس کے اندر داخل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ داہنی طرف نوجوانوں کی پانچ تصویریں ہیں، جو گتہ کو کاٹ کر بنائی گئیں ہیں اور ان کے قد ساڑھے پانچ فٹ یا چھ فٹ نہیں بلکہ وہ تصویر میں بڑے سائنہ میں بنائی گئیں ہیں اور قریبا دس فٹ قد ہیں ان کے.یہ مجھے یاد نہیں رہا، ان میں سے تین نوجوان مرد اور دو نو جوان لڑکیاں تھیں یا دومرد اور تین نوجوان لڑکیاں تھیں.لیکن وہ شکلیں کارڈ بورڈ کاٹ کر بنائی گئیں ہیں اور وہ پہلو بہ پہلو کھڑی کی ہوئی ہیں.جس وقت میں نے اس طرف منہ کیا تو ان کے ہونٹ ہلنے شروع ہوئے ، جس طرح وہ اپنا تعارف کروانا چاہتی ہیں.اور اس شخص نے ، جو ہمیں لے جار ہا تھا، کہا کہ یہ ہم میں سے وہ لوگ ہیں، جو مر چکے ہیں.اس پر میں نے اس کو جواب دیا کہ تم میں سے جو مرچکے ہیں، ان میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے.اور یہ کہ کر میں بائیں طرف گھوما اور اس عجائب گھر کی طرف چلا گیا، جو وہ مجھے دکھانا چاہتا تھا.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس رؤیا کے بعد میری طبیعت میں بڑی بشاشت پیدا ہوئی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اس سفر پر مجھے ضرور جانا چاہئے، اللہ تعالٰی برکت کے سامان پیدا کرے گا.یہ رویا اس قسم کی ہے کہ الفاظ اس کو بیان نہیں کر سکتے.اس وقت تک بھی میری روح اور میرا دماغ اور میرا دل اور میرا جسم اس کا سرور محسوس کر رہے ہیں.چونکہ یہ بڑی اہم رہی تھی اور انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ، اس لئے میں نے اپنے گھر میں محترمہ 171

Page 189

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ام متین صاحبہ کو، بڑی پھوپھی جان تو اب مبار کہ بیگم صاحبہ کو اور کراچی میں چھوٹی پھوپھی جان نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو اور بعض دوسرے عزیزوں کو یہ رویا سنادی.خیر ہم یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے.وہاں جس رنگ میں برکتوں کا نزول ہوا ہے، اس کے بیان سے قلم قاصر ہے.لنڈن میں ہی مجھے ایک احمدی بہن کی رؤیا کا علم ہوا، جو ان کے ایک عزیز نے مجھے لکھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا تعلق دراصل اس رویا سے ہے، جس کو میں نے ابھی آپ کے سامنے بیان کیا ہے.وہ دوست لکھتے ہیں ( خواب دیکھنے والی ان کی ایک عزیزہ ہے.) کہ پندرہ اور سولہ جولائی کی درمیانی شب بوقت چار بجے صبح خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا وسیع میدان ہے، جو ایک بڑے شہر جتنی جگہ میں سمایا ہوا ہے اور سبزہ زار ہے.اس میدان کے درمیان ایک گلدستہ پڑا ہوا ہے، جس میں نہایت ہی خوبصورت پھول لگے ہوئے ہیں، جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں.دیکھتے ہی دیکھتے وہ گلدستہ ایک درخت کی شکل میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر ایک تناور درخت بن کر اس تمام میدان میں سایہ میگن ہو جاتا ہے.اتنے میں ایک بزرگ رونما ہوتے ہیں، جو سفید لباس میں ملبوس ہیں.اور ان کا حلیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملتا ہے.وہ بزرگ فرمارہے ہیں کہ جو شخص اس تناور درخت کے نیچے پناہ نہیں لے گا، وہ تباہ ہو جائے گا.اس پر حمیدہ بیگم ( خواب دیکھنے والی) نے پوچھا کہ یا حضرت! کون سے درخت کے نیچے؟ جس پر اس بزرگ نے فرمایا، حضرت ناصر کے درخت کے نیچے.گویا وہ گلدستہ، جس نے ایک تناور درخت کی صورت اختیار کی ، وہ جس شخص کا ہے، اس سے مراد اس خاکسار کا وجود ہی ہے.پھر اس کے بعد دیکھا کہ اس میدان کے کونہ میں ایک بہت بڑی دعوت کا انتظام ہو رہا ہے، جس میں بہت عمدہ عمدہ کھانے بہت بڑی تعداد میں لگے ہوئے ہیں اور جس میں شمولیت کے لئے جماعت کے دوست جمع ہورہے ہیں.اس میں دہی کے کونڈے بھی ہیں اور دو سیاہی مائل کتے ان دہی کے کونڈوں کی طرف لپکتے ہیں.جس پر حمیدہ بیگم نے شی شی کر کے ان کتوں کو ڈرانے کی کوشش کی تو ان بزرگ صاحب نے فرمایا ، نہ آپ ان کو رہنے دیں، یہ خود بخود ہٹ جائیں گے.اس پر آنکھ کھل گئی.تو گویا یہ خواب بھی میری رویا سے ملتی جلتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ مومن کو و یا دکھائی بھی جاتی ہے اور اس کے لئے دوسروں کو بھی رؤیا دکھائی جاتی ہے.ویسے تو سینکڑوں کی تعداد میں دوستوں نے مبشر خواہیں دیکھیں.لیکن میں نے ان میں سے آج کے خطبہ میں سنانے کے لئے صرف دو کا انتخاب کیا ہے.اب ایک دوسری خواب ہے، جو ان واقعات کی طرف اشارہ کر رہی ہے، جو وہاں ہونے تھے.یعنی اس سفر کے نتیجہ کے متعلق ہے.جو کسی کے خیال میں بھی نہیں آسکتا.172

Page 190

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 25 اگست 1967ء اور وہ یہ ہے کہ ایک دوست لکھتے ہیں کہ خاکسار نے 06/08/67 کو خواب میں دیکھا کہ حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں اسلام کی فتح کا جھنڈا ہے.اس کے نچلے حصہ میں ( جو پکڑنے کی جگہ ہے) انگریزی ہندسوں میں 1412 لکھا ہے.اور آپ کو ( یعنی مجھے ) فرماتی ہیں کہ ان دوستوں کے نام شکریہ کی چھٹیاں لکھ دیں، جنہوں نے فتح کے نزدیک لانے میں مدد دی ہے.غرض ہمارے سارے سفر کا جو انجام ہے، وہ اس رویا میں دکھایا گیا ہے.اور وقت کی تعیین 25 سال کی گئی ہے.اور میں نے بھی یورپین اقوام کو یہی کہا تھا کہ تمہیں سال کے اندراندر ایک عظیم روحانی انقلاب رونما ہونے والا ہے.گو یہ بات الفضل میں بھی غلط چھپ گئی ہے.اور وہاں کے بعض اخباروں نے بھی میری اس بات کو غلط طور پر شائع کر دیا تھا.میں نے جو انہیں تنبیہ کی تھی ، اس میں جس زمانہ کی تعیین کی تھی ، وہ 30 سال نہیں تھا.یعنی میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ جس عظیم تباہی کے متعلق میں کہہ رہا ہوں ، وہ تمہیں سال کے بعد آئے گی.بلکہ میں نے یہ کہا تھا، ہیں، ہمیں سال کے اندر اندر تم لوگ مجبور ہو جاؤ گے کہ اسلام کی طرف جھکو اور اسے قبول کرو یا پھر تباہ کر دئیے جاؤ.تمہارے لئے اب ان دور استوں کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے.یا تو تمہارے لئے تباہی کا راستہ ہے یا پھر اسلام کا صراط مستقیم ہے.ان کے سوا اور کوئی تیسرا راستہ تمہارے لئے ممکن ہی نہیں ہے.اور آگے اپنے وقت پر جا کر میں آپ کو بتاؤں گا کہ میں نے کس رنگ میں، کس تمہید کے بعد کس وضاحت کے ساتھ اور کس زور کے ساتھ یہ باتیں ان کے ذہن نشین کروائیں.اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اخباروں نے ان باتوں کو لیا اور سارے ملک میں پھیلا دیا.براڈ کاسٹ ٹیلی ویژن پر بھی آگیا اور یہ اپنی جگہ ایک علیحدہ مضمون ہے، جب میں اس حصہ میں داخل ہوں گا تو اس کے متعلق بتاؤں گا.بہر حال دوستوں نے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں کی تعداد میں (یقینا سو سے اوپر ہی ہیں.مبشر خواہیں دیکھیں.جن میں سے بعض میں کچھ منذر حصے بھی ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے، میری اپنی خوابوں میں بھی بعض منذ رحصے تھے.لیکن بہر حال تمام خواب انجام بخیر بھی بتارہے تھے.ہاں، ان سے یہ ضرور ظاہر ہوتا تھا کہ واپسی پر کچھ تکالیف اور پریشانیاں بھی ہوں گی.چنانچہ کراچی میں میری ایک بچی رہتی ہے.بعض کاموں کی وجہ سے وہ اپروڈ رام پر ہیں آسکتی تھی.جس دن ہم نے کراچی میں لینڈ کرنا تھا، اس دن اس کی طبیعت بہت گھبرائی ہوئی تھی.وہ بے چین تھی کہ جلدی آئیں اور ملیں.امیروڈ رام والوں نے انہیں کہا کہ آج اتنی بارش ہو رہی ہے کہ اگر یہی حالت رہی تو ہم ہوائی جہاز کو یہاں اترنے کی اجازت نہیں 173

Page 191

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دیں گے بلکہ وہ سیدھا لا ہور چلا جائے گا.وہاں جن لوگوں کو اس بات کا پتہ لگا ، ان کو بھی پریشانی ہوئی.عملاً جہاز والوں نے ہمیں یہ اطلاع دی کہ بیلٹ کس لیں ، دو، ایک منٹ میں جہاز اتر نے والا ہے.اس کے بعد میں منٹ تک وہ جہاز او پر اڑتارہا اور کراچی شہر بھی پیچھے رہ گیا.میرے اندازہ کے مطابق ہم تھیں، چالیس میل کے قریب کراچی سے آگے نکل گئے.پھر اس نے چکر لگایا اور واپس کراچی آکر وہ اترا.یہ بھی ایک قسم کی پریشانی ہی تھی.پھر سامان وغیرہ کی وجہ سے کچھ پریشانی ہوئی.بہر حال انجام بخیر ہوا اور ہم خوش تھے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر یہ پریشانیاں مل گئیں.اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے.دعا ئیں بھی جماعت نے بہت کیں اور ہم کو بھی اللہ تعالیٰ نے بہت دعائیں کرنے کی توفیق دی.اور وہ بڑی قدرتوں والی ہستی ہے، جب وہ اس قسم کی چیز انسان کے علم میں لاتا ہے تو اس کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ دعائیں کروں، میری قدرت کو اپیل کرو اور عرش تک اپنے نالوں کو پہنچاؤ.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.جس وقت ہم یورپ گئے ، اس وقت ہمارا یہ راستہ تھا.پہلے فرینکفورٹ ، پھر زیورک، پھر ہیگ، پھر ہیمبرگ، پھر کوپن ہیگن اور پھر لنڈن اور گلاسگو.زیورک میں ایک دن صبح میری آنکھ کھلی تو میری زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام تھا.مُبَارِک وَّ مُبَارَكٌ وَكُلُّ امْرِ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيهِ یہ الہام اخبار الفضل میں بھی چھپ چکا ہے.اس سے دوسرے دن تین بجے کے قریب میری آنکھ کھلی اور میری زبان پر قرآن کریم کی ایک آیت تھی اور ساتھ ہی مجھے اس کی ایک ایسی تعبیر بھی بتائی گئی، جو بظاہر انسان ان الفاظ سے نہیں نکال سکتا.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تعبیر مجھے اللہ تعالیٰ نے ہی سکھلائی تھی.میں خوش بھی ہوا لیکن مجھے حیرت بھی ہوئی کہ بعض دفعہ کیا کیا تعبیریں نکل آتیں ہیں.اگر میرے ذہن پر چھوڑا جاتا یا آپ میں سے کوئی ماہر تعبیر بتانے والا بھی ہوتا تو اس کی وہ تعبیر نہ کرتا، جو اس وقت میرے ذہن میں آئی.اور ابھی اس خواب کو دیکھیے چار، پانچ گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ وہ پوری ہو گئی.چونکہ طبیعت پر اثر تھا کہ یہ خواب جلد پوری ہونے والی ہے، اس لئے جس وقت منصورہ بیگم کی آنکھ کھلی، میں نے انہیں بتادیا کہ میری زبان پر یہ آیت جاری ہوئی ہے اور مجھے اس کی یہ تعبیر بتائی گئی ہے، اس کو یادر کھل.پھر چار، پانچ گھنٹوں کے بعد ہمیں پتہ لگ گیا کہ اس تعبیر کے لحاظ سے وہ خواب پوری ہوگئی.جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مجھے دلی اطمینان کے لئے اس کی ضرورت ہے، باقی ایمان تو مجھے ہے.اسی طرح ہمیں ایمان تو تھا لیکن دلی اطمینان کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوسرے ہی روز ایک ایسی بات بتادی کہ جو چند گھنٹوں میں پوری 174

Page 192

خطبہ جمعہ فرموده 125 اگست 1967ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم ہونے والی تھی.اور شاید اس وقت دنیا کے اس حصہ میں پوری ہورہی تھی ، جس کے متعلق وہ خبر دی گئی تھی.اسی طرح وہ میرے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی تقویت ایمان اور تسکین قلب کا موجب ہوئی.وہ خواب کیا تھی اور وہ تعبیر کیا تھی ، جو مجھے بتائی گئی؟ وہ ایک خاص مصلحت کے ماتحت میں اس وقت نہیں بتا رہا.ویسے وہاں بھی اور یہاں بھی میں نے بعض دوستوں کو وہ خواب اور تعبیر بتادی ہے.وه اسی طرح کوپن ہیگن میں صبح نماز سے پہلے جاگتے ہوئے ( گو آنکھیں میری بند تھیں) میں نے ایک نظارہ دیکھا.وہ نظارہ اپنی ذات میں غیر معمولی نہیں.لیکن اس کا جواثر تھا، وہ بڑا عجیب اور غیر معمولی تھا کہ دل و دماغ اور جسم کے روئیں روئیں سے سرور اور حمد کے چشمے پھوٹنے لگ گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ کر جو کیفیت ایک مومن کی ہوتی ہے، ( وہ عجیب رنگ میں کچھ جذباتی بھی ہوتی ہے اور کچھ مجذوبانہ بھی.وہاں عقل کو کوئی دخل نہیں ہوتا محبت اور پیار کو دخل ہوتا ہے.) پیدا ہوگئی.نظارہ تو میں نے صرف یہ دیکھا کہ میں ایک مسجد میں ہوں اور محراب سے تین صفیں پیچھے کھڑا ہوں یعنی تیسری صف میں.اور گویا میں انتظار کر رہا ہوں کہ نمازی آئیں تو میں نماز پڑھاؤں.میں نے دیکھا کہ دائیں طرف سے دیوار کے ساتھ ساتھ ایک دوست جن کا نام عبدالرحمن ہے، مسجد میں داخل ہوئے ہیں.چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرتے ہی سیدھے چلے آرہے ہیں اور دیوار کے ساتھ ساتھ پہلی صف کی طرف خراماں خراماں چل رہے ہیں.(پہلی صف میں اس وقت صرف دو، تین آدمی ہیں.) میرے سامنے ان کے چہرہ کا بایاں حصہ آیا ہے اور عجیب بشاشت اور مسکراہٹ ان کے چہرہ پر پھیل رہی ہے.اور اس کو دیکھ کر میرے دل میں بھی عجیب سرور پیدا ہوا.میرے پیچھے ایک شخص کھڑا ہے، جس کا نام بشیر ہے.لیکن میں نے اسے نہیں دیکھا.میں نے یہ خواب اس وقت کسی کو بتائی نہیں تھی.لیکن اس روز مبلغین کی کا نفرنس تھی.شام کو چار بجے کے قریب تبادلہ خیالات اور رپورٹوں کے بعد بعض تجاویز زیر غور آئیں.آخر میں، میں نے کچھ نصائح کرنی تھیں، اس وقت میں نے انہیں بتایا کہ آج صبح میرے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پیار کا یہ سلوک کیا ہے اور سرور کی یہ روحانی کیفیت میرے اندر اب بھی موجود ہے.اس پر چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کہنے لگے کہ میں نے اور بشیر احمد صاحب آرچرڈ نے گیارہ بجے یہ باتیں کی تھیں کہ کوئی بات ضرور ہے.حضور دہ نہیں، جو روز ہوا کرتے تھے.تو گویا اس وقت وہ بھی ایک روحانی کیفیت محسوس کر رہے تھے اور میں اس وقت بھی سرور محسوس کر رہا تھا.گیارہ بجے کے قریب پندرہ منٹ کے لئے ہم نے کانفرنس کو بند کر دیا تھا کہ مبلغین ایک ایک پیالی چائے پی لیں کیونکہ وہاں لوگوں کو اس وقت ایک پیالی چائے پینے کی عادت ہے.اور بشیر احمد آرچرڈ انگریز ہیں اور سکاٹ لینڈ میں ہمارے مبلغ ہیں.175

Page 193

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پس رحمن کی رحمانیت نے ایک بشارت دی اور کوپن ہیگن میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے پیارے نظارے دیکھے.اور لوگوں میں اس قدر رجوع تھا کہ وہاں بڑی تعداد میں آرہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان لوگوں کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور فرشتے ان کو دھکے دے کر لا رہے ہیں.مثلاً عیسائی بچے ، جو دس سال اور پندرہ سولہ سال کے درمیان عمر کے تھے، مسجد میں آجاتے تھے اور ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوتے تھے.ان کی تعداد کوئی چالیس، پچاس ہوگی، جو مختلف وقتوں میں آئے.پھر وہ بچے صرف فرائض میں ہی شامل نہیں ہوتے تھے کہ ہم سمجھیں کہ وہ عجوبہ سمجھ کر ایسا کرتے تھے.بلکہ مغرب و عشاء کی نمازیں جمع ہوتیں تھیں اور بعد میں ہم وتر ادا کرتے تھے تو دس دس، بارہ بارہ سال کی بعض لڑکیاں ہماری احمدی مستورات کے ساتھ وتر بھی پڑھ کے جایا کرتی تھیں.ایک دن ہم میں سے کسی نے انہیں کہا کہ تمہارے ماں باپ کو پتہ لگ گیا تو وہ تمہیں ماریں گے.تو وہ کہنے لگیں نہیں، ان کو پتہ ہے کہ ہم یہاں آتی ہیں.غرض صبح سے لے کر شام تک ایک تانتا سا بندھا رہتا تھا.لوگ آرہے ہیں، مسجد دیکھنے کے لئے اور واپس جارہے ہیں.ایک دن چوہدری محمد علی صاحب کی آنکھ رات کے ڈیڑھ بجے کھلی اور وہ اپنے کمرہ سے باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد کی تصویر لے رہا ہے.رات کے ڈیڑھ بجے وہ مسجد کی تصویر لے رہا تھا.پھر آج کل ڈنمارک میں باہر کے سیاح بہت بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے.یہی موسم ہے سیر کا.وہاں سال میں صرف ایک دو ماہ ایسے ہوتے ہیں، جن میں لوگ سیاحت کے لئے نکلتے ہیں.پھر موسم خراب ہو جاتا ہے، جھکڑ اور سرد ہوائیں چلتی ہیں.سیروسیاحت کے ان مہینوں میں وہاں بعض کارخانے بند ہو جاتے ہیں.یہ نہیں ہوتا کہ بعض کو چھٹی دے دی اور بعض کو نہ دی.بلکہ کچھ عرصہ کے لئے کارخانہ ہی بند کر دیا جاتا ہے اور ملازموں سے کہا جاتا ہے کہ جاؤ، سیر کرو.ہماری طرف سے تمہیں چھٹی ہے.اور چونکہ ان ملکوں میں سیر وسیاحت کا زمانہ زیادہ لمبا نہیں ہوتا، اس لئے لوگ ان دنوں میں بڑی کثرت سے سیر و سیاحت کے لئے باہر نکلتے ہیں.غرض جو لوگ سیاحت کی غرض سے وہاں آئے ہوئے تھے، وہ بھی بڑی کثرت سے مسجد دیکھنے آئے.ہمارا جو مشن ہاؤس ہے یعنی مبلغ کے رہنے کا جو گھر ہے، اس کے دروازے اور مسجد کے دروازے میں تمھیں، چالیس فٹ کا فاصلہ ہے.وہاں دراصل ایک میٹنگ روم بنانے کے لئے نقشہ دیا گیا ہے لیکن ابھی اس پر چھت ڈالنے کے لئے کارپوریشن کی طرف سے اجازت نہیں ملی.اس وقت وہ جگہ ایک صحن کی شکل میں ہے.جمعہ کے روز افتتاح کے وقت لوگ اتنی کثرت سے آئے کہ جب میں گھر سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ لوگ کثرت سے آئے ہوئے ہیں اور کندھا سے 176

Page 194

خطبه جمعه فرموده 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کندھا ملا ہوا ہے اور مسجد کے دروازہ تک نہیں پہنچ سکتا.بعد میں تین چار رضا کار آئے اور انہوں نے بڑی خص مشکل سے رستہ بنایا ، تب میں مسجد میں پہنچا.آنے والوں میں بڑے بڑے لوگ بھی تھے، جن کی طرف اس وقت ہماری توجہ بھی نہ ہوئی.خود ہی وہ افتتاح کی تقریب میں شامل ہوئے اور پھر واپس چلے گئے.ان لوگوں میں ہمارے علاقہ کا لارڈ میئر بھی تھا، جو بڑا شریف انسان ہے اور جماعت کے دوستوں کے ساتھ تعلق بھی رکھتا ہے.ہمارے ملک میں تو رواج نہیں ، وہاں یہ رواج ہے کہ اگر کوئی آدمی، جس کو وہ بڑا سمجھیں، ان کے ملک میں آجائے تو وہ اسے ریسیو کرتے ہیں.Reception دیتے ہیں.اور یہ ایک ناریل سی چیز ہے.پندرہ منٹ کے قریب عرصہ کے لئے یہ تقریب منائی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ہم اس شخص کو اپنے میں شامل کر رہے ہیں اور یہ اس کے لئے احترام اور عزت کا ایک مظاہرہ ہوتا ہے.چنانچہ افتتاح سے دوسرے روز انہوں نے میرے اعزاز میں ریسپشن (Reception) دی تو وہاں انہوں نے مجھے بتایا کہ میں بھی افتتاح کے موقع پر موجود تھا.حالانکہ ہم میں سے کسی نے بھی انہیں نہیں دیکھا.چنانچہ معذرت کی گئی کہ لوگ چونکہ بڑی تعداد میں جمع تھے، اس لئے ہم نے آپ کو دیکھا نہیں.افتتاح کے روز قریباً سوا سو آدمی کے لئے کھانا کا انتظام بھی کیا گیا تھا.چائے اور پیسٹری کا انتظام تھا.لیکن یہ کھانا ان لوگوں کو بھی کھلایا گیا ، جو اس موقع پر بلائے نہیں گئے تھے.ہمارے آدمی باہر جاتے اور بعض لوگوں کو پکڑ کر اندر لے آتے اور انہیں کھانا کھلاتے.کھانا میں خدا تعالیٰ نے ایسی برکت دی کہ وہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا.کوئی تین سو کے قریب آدمیوں نے کھانا کھایا.ہمارے مقامی احمدی دوست بڑے حیران تھے کہ چھوٹے پیمانہ پر انتظام تھا، جو ختم ہونے میں نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کے کھانے کو بھلا کون ختم کر سکتا ہے.وہاں کے پریس نے پہلے اسلام کے خلاف بعض غلط باتیں شائع کر دیں.لیکن بعد میں خود ہی ان باتوں کی تردید بھی کر دی.السٹریٹڈ ویکلی اور دوسرے کئی اخباروں نے ایک ایک صفحہ مسجد کے افتتاح کے لئے دیا، جو ان ملکوں کے لئے تو کیا ، دوسرے ملکوں کے لئے بھی ممکن نہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے ہر رنگ میں اس سرور کے سامان کر دیئے، جو مجھے رویا میں دکھایا گیا تھا.اور ابھی اس کے بہت سارے حصے باقی ہیں.جب میں ان تک پہنچوں گا تو ان کے متعلق کسی قدر تفصیل سے بیان کروں گا.میں آج خطبہ لمبا کرنا چاہتا ہوں.نمازیں (جمعہ و عصر ) جمع کراؤں گا.آج شام تک اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو دوستوں کے لئے پروگرام بنایا ہوا ہے.سوائے اس کے کہ آپ تھک جائیں.اگر آپ تھک جائیں تو مجھے بتا دیں.177

Page 195

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پھر ڈاک میں روزانہ کوئی نہ کوئی خط ایسا ہوتا ، جس میں کوئی مبشر خواب ہوتی اور میں اسے پڑھ کر بڑا خوش ہوتا.کیونکہ اعتراض والی خواب سے جو دو نتیجے میں نے نکالے تھے، انہیں پورا ہوتے دیکھتا.بشارتیں مل رہی تھیں اور ان کا اعلان ہو رہا تھا.اور ہم اس بات سے خوش ہورہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے سرور کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.اگر کوئی دماغ اعتراض کرتا ہے تو ہمیں اس سے کیا ؟ ہمیں ایسے دماغ پر رحم آتا ہے، غصہ نہیں آتا کیونکہ وہ قابل رحم ہوتا ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ اپنی بشارتوں کی بارش برسا رہا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے، جس کے دماغ کو اعتراض سوجھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ وساوس سے ہر ایک کو ہی محفوظ رکھے.غرض ہر بات میں ہمیں سرور مل رہا تھا اور ہم خوش ہو رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے سرور کے سامان کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے یہ فرمایا ہے کہ سچی اور جھوٹی خواب میں ایک فرق ہے.جھوٹا خواب جو انسان کا نفس بنائے یا وہ شیطان کا القا ہو، اس کے پیچھے طاقت نہیں ہوتی.ایسا خواب پورا نہیں ہوتا.لیکن خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا انسان احاطہ نہیں کر سکتا.خدا تعالٰی جو بشارتیں دیتا ہے، ان کو پورا کرنے کے بھی وہ سامان پیدا کرتا ہے.ان کو پورا کرنے کی ذمہ داری خدا تعالی پر ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس ذمہ داری کو اٹھا رہا ہوتا ہے.وہ کہتا ہے کہ میں تمہیں یہ بتارہا ہوں اور میں اس کو پورا بھی کروں گا.انسانی غفلت کے نتیجہ میں کوئی نسل ان بشارتوں سے محروم رہ جائے تو یہ ان کی بدبختی ہے، ور نہ خدا تعالی کی کوئی بشارت ایسی نہیں ہوتی، جو پوری نہ ہو.غرض خدا تعالیٰ اپنی بشارتوں کو بہر حال پورا کرتا ہے.اگر کوئی ابتلا آ جائے اور کوئی حصہ قوم کا ان سے محروم رہ جائے تو یہ اور بات ہے.میں نے بتایا ہے کہ بشارتیں مل رہی تھیں اور ہمارے لئے خوشی کے سامان ہو رہے تھے.اب میں ان سامانوں کو لیتا ہوں ، جو اس سفر کے دوران اللہ تعالیٰ نے مختلف رنگوں میں کئے.میرے دورے کی دواغراض تھیں.ایک اپنے بھائیوں، بہنوں اور بچوں بچیوں کو ملنا، ان سے واقفیت حاصل کرنا اور معلوم کرنا کہ کس قوم میں کسی قسم کی کمزوری ہے؟ تاہم کسی نہ کسی رنگ میں تربیت کر کے ان کمزوریوں کو دور کر دیں.ان کے لئے خاص طور دعا ئیں کرنے کا بھی موقع ملتا تھا اور باہمی مشورہ اور تبادلہ خیالات کے بعد زیادہ اچھا پروگرام بھی بنایا جا سکتا تھا.اور دوسری غرض میرے اس سفر کی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بڑے زور کے ساتھ یہ ڈالا تھا کہ ان قوموں کی تباہی کا وقت قریب آ گیا ہے، اس لئے ان پر اتمام حجت ہونی چاہئے.چنانچہ ہر پریس کانفرنس میں، میں ان کو یہی کہتا تھا کہ جو بات میں آپ کو آج بتانے 178

Page 196

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 25 اگست 1967ء والا ہوں، اس وقت آپ اس کو انہونی خیال کریں گے اور تم مجھے پاگل سمجھو گے.لیکن اگر تم نے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع نہ کیا تو یہ تباہی تم پر ضرور آئے گی.پھر جو آپ میں سے بچیں گے، وہ میرے گواہ ہوں گے.وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ آج میں تمہارے ساتھ کچی باتیں کر رہا ہوں.پس یہ دو اغراض تھیں، جن کے لئے یہ سفر کیا گیا تھا.اب میں پہلے پریس کو لیتا ہوں، جیسے اخباروں کے ایڈیٹر آزاد ہوتے ہیں کہ جو مرضی ہو، لکھ دیں اور غلط بات کی تردید بھی شائع نہ کریں، اسی طرح پر لیس بھی آزاد ہوتا ہے.وہ بھی انہی کا ایک حصہ ہوتا ہے.جو بیان وہ چاہیں، لکھ دیں.ایک بات میں نہ کہوں اور وہ میری طرف منسوب کر دیں تو انہیں کون پوچھ سکتا ہے؟ یا میں ایک بات کہوں تو وہ آدھی شائع کریں اور آدھی شائع نہ کریں.وہ اس بات کا وہ حصہ دیں کہ اگر اس کا دوسرا حصہ لوگوں کے سامنے نہ آئے تو بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جائیں تو انہیں کون روک سکتا ہے؟ اس لئے ہمارے مبلغ پر یس کا نفرنسز سے خائف تھے.خصوصاً اس لئے بھی کہ آج کل یورپ میں اسلام کے خلاف تعصب اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے.آپ اس تعصب کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.مجھے ذاتی مشاہدہ سے یہ علم حاصل ہوا ہے کہ وہ قومیں جواب تک یہ ظاہر کرتیں رہی ہیں کہ ہم میں بڑی رواداری پائی جاتی ہے، ہم میں بڑی Tolerance ہے، دراصل ان کے اندر اسلام کے خلاف بڑا تعصب پایا جاتا ہے.اور کبھی اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ وہ تعصب نگا ہوکر نمایاں ہو جاتا ہے اور وہ اسے چھپا نہیں سکتے.آج کل سارا یورپ (انگلستان سمیت) اس قسم کے تعصب کی مرض میں مبتلا ہے.یہاں تک کہ پچھلے دو، چار مہینوں میں بعض عرب باشندوں پر چاقو اور چھری سے حملے بھی کئے گئے ہیں، جو ان ملکوں کے لئے بالکل نئی بات ہے.غرض ان کے اندر اسلام کے تعصب کو بھڑکا یا گیا ہے.ہمارے اپنے مبلغ پریس کانفرنس سے اتنے خائف تھے کہ آپ ان کے خوف کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.اور مجھے کہنا پڑا تم کیوں ڈرتے ہو؟ تم تسلی رکھو سوال مجھ سے ہوتا ہے اور جواب بھی میں نے دینا ہے.میں انہیں خود ہی سنبھال لوں گا.اور میں نے انہیں کیا سنبھالنا تھا ، میں اللہ تعالیٰ سے صرف دعا ہی کر سکتا تھا اور میں دعائیں کرتا تھا.چنانچہ کسی جگہ بھی پریس کے کسی نمائندہ نے ادب اور احترام کو نہیں چھوڑا.میرا ان پر کیا حق تھا؟ مجھے وہ کیا جانتے تھے ؟ میری عاجزی اور تواضع کے مقام کو تو میرا رب ہی جانتا تھا.غرض میرے رب نے ایسا انتظام کر دیا تھا کہ اس عاجز اور لاشئی محض سے سب ادب و احترام کے ساتھ پیش آئے.میرے سامنے کسی نے شوخی نہیں دکھائی، کسی نے میری طرف غلط بات منسوب نہیں کی ، کسی نے میری آدھی بات 179

Page 197

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم رپورٹ نہیں کی.جب میری بات رپورٹ کی ہے تو پوری کی ہے.اور یہ عام نقشہ ہے ساری پریس رپورٹ.اور نقشہ یہ اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل کا آئینہ دار ہے.سب سے پہلے ہم فرینکفورٹ پہنچے تھے.وہاں ہمارا سب سے کم قیام تھا یعنی صرف ایک دن.گو ہم وہاں دورا تیں سوئے لیکن دن ایک ہی ٹھہرے.ہفتہ کی شام کو مغرب کے قریب وہاں پہنچے اور پیر کی صبح کو ہم زیورک کے لئے روانہ ہو گئے.ہمیں کچھ پروگرام بدلنا پڑا.پہلے زیورک کا پروگرام تھا.پھر بعض حالات کی وجہ سے ہم نے وہ جہاز لیا، جو ماسکو کے راستہ جانا تھا.جہاز تو وہ بھی پی.آئی.اے کا تھا لیکن اس کے ذریعہ جانے میں پہلے فرینکفورٹ آتا تھا.پہلا جہاز بھی پی آئی اے کا تھا لیکن اس پر جانے میں پہلے زیورک آتا تھا.پہلے انہوں نے ہفتہ کی شام کو ری سپشن (Reception ) رکھ دی تھی.دعوت نامے بھجوائے جاچکے تھے.ان ملکوں میں یہ بڑی مشکل ہے کہ ایک آدمی کو مثلاً ہفتہ کے لیے دعوت نامے ملے اور عین وقت پر اسے یہ کہا جائے کہ تم ہفتہ کی بجائے اتوار کو آؤ.اس طرح ان کا کسی دعوت میں آنا بہت مشکل ہے.لیکن بعض حالات ہی ایسے پیش آگئے تھے کہ ہمیں وہ پروگرام بدلنا پڑا اور ری سپیشن (Reception) ہفتہ کی بجائے اتوار کو رکھی گئی.اور میرا خیال تھا کہ یہاں اخبار والوں نے ہمارا کوئی نوٹس نہیں لینا.اخباروں میں ہمارے متعلق کوئی خبر نہیں آئے گی اور پریس کا نفرنس بھی کوئی نہیں تھی.صرف ایک ری سپیشن تھا ، جس میں پریس کے نمائندے بھی مدعو تھے اور ان کے علاوہ کوئی پادری تھا، کوئی سکالر تھا؟ کوئی وزیر تھا، کوئی ہائی کورٹ کا جج تھا.غرض اس قسم کے تیں، چالیس آدمی تھے، جو مدعو تھے.مختصری پارٹی تھی.اس موقع پر کچھ باتیں ہوئیں، مختصری تقریر ہوئی ، جس کا جرمن میں ترجمہ ہوا.یہاں الفضل میں وہ تقریر چھپی ہے.بڑی مختصر وہ تقریر تھی.لیکن اس قسم کی تقریر کو بھی وہاں اڑھائی گئے وقت لگ جاتا ہے.(میں نے وہاں انگریزی اور ار دو دونوں زبانیں استعمال کی ہیں.پہلے میں ایک فقرہ کہتا پھر ترجمہ کرنے والا اس کا جرمن میں ترجمہ کرتا پھر میں اگلا فقرہ کہتا.اگر تقریرلکھی ہوئی نہ ہو تو بڑی مشکل پیش آتی ہے.میرا وہ مضمون لکھا ہوا تھا.لیکن بعض جگہ میں نے بغیر لکھے بھی تقریر کی ہے.بہر حال اگر تقریرلکھی ہوئی نہ ہو تو بڑی مشکل پیش آتی ہے.یعنی ایک فقرہ کے بعد انتظار کرنا اور پھر اس کا اگلے فقرے کے ساتھ جوڑ لگانا اور یہ بھی دیکھنا کہ ترجمہ صحیح ہوا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ مجھے سمجھ دے دیتا تھا.گو میں جرمن نہیں جانتا تھا لیکن مجھے اس بات کا پتہ لگ جاتا تھا کہ ترجمہ کرنے والے نے فلاں حصے کا ترجمہ نہیں کیا.اور میں کہہ دیتا تھا کہ تم فلاں حصہ کا ترجمہ چھوڑ گئے ہو، تم اس کا ترجمہ کرو.اس سے وہ لوگ سمجھتے تھے کہ میں بڑی اچھی زبان جانتا 180

Page 198

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 25 اگست 1967ء مضمون ہوں.لیکن یہ بات نہیں تھی، اللہ تعالیٰ ہی مدد کر دیتا تھا.ویسے میں تھوڑی سی جرمن زبان جانتا بھی ہوں.بہر حال وہاں تقریر میں بہت دیر لگتی ہے.وہاں ہمارے ایک بڑے ہی مخلص نوجوان محمود اسماعیل زولش ہیں، وہ میری تقریر کا جرمن میں ترجمہ کرتے تھے.جب میں وہاں کے احمدیوں کے حالات بتاؤں گا تو میں بتاؤں گا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کس قسم کی جماعت تیار کر رہا ہے؟ اور اس جماعت سے مل کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نہایت خوشی کے سامان پیدا کئے.اور آپ کے لئے بھی یہ بات غور طلب ہے کہ وہ اب آپ کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہو گئے ہیں.اب یا تو آپ آگے نکلیں گے اور یا پھر وہ آگے نکل جائیں گے.اور خدا تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں.اگر وہ آگے نکل گئے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں انتظام دے دے گا.کیونکہ وہ جس کو اہل دیکھتا ہے، اس کو خدمت کا موقع دے دیتا ہے.خیر وہاں ایک مختصر سی ری سپشن (Reception) ہوئی اور اگلے دن ہم نے دیکھا کہ وہاں کے ہر اخبار نے رپورٹ شائع کی ہوئی ہے.بڑے اچھے نوٹ دیئے تھے اور تصویریں بھی دی تھیں.مجھے قطعاً امید نہیں تھی کہ کوئی ایک اخبار بھی تصویر کے ساتھ خبر شائع کرے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ وہاں بھی ہمارے متعلق خبریں شائع ہو گئیں اور اسلام کا پیغام قریباً ہر شخص کے کان تک پہنچ گیا.یہاں میں ایک اور واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں.وہاں سے یہ مطالبہ آرہا تھا کہ آپ پہلے مضا لکھیں اور ہمیں بھیج دیں.ہم اس کا ترجمہ کر دیں گے.میں بڑا مصروف آدمی ہوں، میرے لئے مضمون لکھنا بھی بڑا مشکل تھا اور پھر وقت پر مضمون لکھنا تو اور بھی مشکل تھا.لیکن جب مجھ پر زیادہ دباؤ پڑا تو میں نے لکھنا شروع کر دیا.پہلا مضمون میں نے فرینکفورٹ کے لئے لکھا.لیکن مجھے اپنا لکھا ہوا مضمون بھی پسند نہ آیا.میں نے اسے ایک طرف رکھ دیا.پھر میں نے ایک دوست کو کہا کہ میں ڈکٹیٹ کراتا ہوں ، تم لکھتے جاؤ.چنانچہ میں نے ایک مضمون ڈکٹیٹ کرایا لیکن مجھے وہ بھی پسند نہ آیا.میں نے اسے بھی چھوڑ دیا.یہ مضامین تو میں نے کوشش کر کے لکھے تھے لیکن دوسری صبح کو میں بیٹھا تو آمد شروع ہو گئی.فقرہ فقرہ آتا چلا گیا.لیکن بجائے اس کے وہ پندرہ منٹ کا مضمون بنتا، و 450 منٹ کا مضمون بن گیا.اس میں بڑا زور تھا، دلائل تھے اور وہ بڑا اثر رکھنے والا تھا.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اچھی تقریر تیار ہوگئی.یہاں میں نے اس کا ترجمہ کروایا.جب چیک کیا تو بعض نے کہا، یہ مضمون لمبا ہے.میں نے کہا ، اس کو چھوٹا کر دو.لیکن مجھے کہا گیا، یہ چھوٹا نہیں ہوسکتا.اگر اسے چھوٹا کیا گیا تو اس کا زور ختم ہو جائے گا.میں نے کہا اچھا رہنے دو، وہاں جا کے دیکھیں گے ، کیا ہوتا ہے؟ وہاں جا کے وہ مضمون جب مبلغین کو دکھایا تو وہ کہنے لگے 181

Page 199

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کہ ان ملکوں کے حالات ایسے ہیں کہ ان میں یہ مضمون نہیں پڑھا جانا چاہئے کیونکہ یہ بڑا تیز ہے.میں نے کہا، ٹھیک ہے.چنانچہ میں نے اسے رکھ لیا اور کہا، اللہ تعالیٰ جو سمجھائے گا، وہ کہتے چلے جائیں گے.زیورک پہنچے تو وہاں پہلی پر یس کا نفرس ہوئی.وہاں ایک اخبار بہت پائے کا ہے.اس کے متعلق ہمارے مبلغ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی رپورٹ ہے کہ یہ ہمیشہ اسلام کے خلاف لکھتا ہے.لیکن جب میں اس کی تردید کرتا ہوں تو یہ اسے شائع نہیں کرتا.ہمارے خلاف لکھتا چلا جاتا ہے لیکن تردید میں ایک لفظ بھی شائع نہیں کرتا.اور پتہ نہیں کہ اس کا نمائندہ پر یس کا نفرنس میں آتا ہے یا نہیں؟ پہلی کا نفرنس تھی اور وہ بڑے ڈرے ہوئے تھے کہ پتہ نہیں پریس والے کیا کرتے ہیں؟ وہ میری وجہ سے بھی زیادہ ڈرے ہوئے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ اگر انہوں نے کوئی نا مناسب بات کہہ دی تو ہمیں غصہ آئے گا اور ہمیں تکلیف ہوگی.غرض میری محبت اور پیار کی وجہ سے بھی انہیں خوف تھا.اور یہ بھی ڈر تھا کہ ہمارے مشن کو کامیابی ہوتی ہے یا نہیں؟ لیکن ہوا یہ کہ سب اخباروں کے نمائندے آئے اور نہایت آرام کے ساتھ سوا گھنٹہ کے قریب پریس کانفرنس جاری رہی.اور وہ لوگ سوال کرتے رہے اور میں ان کو جواب دیتا رہا.بعض دفعہ وہ سیاسی سوال بھی کر دیتے تھے اور میں انہیں کہہ دیتا تھا کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں ، آپ مجھے سے مذہب کی باتیں کریں.اس اخبار کا نمائندہ ، جو اسلام کے خلاف لکھتارہتا تھا اور اس کے حق میں اس نے کبھی کوئی لفظ نہیں لکھا تھا، ایک نو جوان تھا.اس کو مجھ سے دلچسپی پیدا ہوئی ، اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے اس کے دل کی تاروں کو ہلایا.پریس کانفرنس ختم ہو گئی لیکن وہ نوجوان اس کے بعد بھی پندرہ منٹ کے قریب مجھ سے باتیں کرتا رہا.آخر میں اس نے کہا، میں آپ سے ایک آخری سوال پوچھنا چاہتا ہوں.آپ مجھے بتائیں کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بانی کی بعثت کا مقصد کیا ہے؟ (اب دیکھو، اللہ تعالیٰ ہی ہمارے لئے خوشی کے سامان پیدا کرتا ہے.اس کی بشارتیں اور رحمتیں ہم نے دیکھیں چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کی رحمت کا ہاتھ نظر آتا تھا.) جب اس نوجوان نے سوال کیا تو اسی وقت اس کا جواب بھی میرے ذہن میں آگیا.میں نے اس سے کہا، میں آپ کی بعثت کا مقصد تمہیں اپنے الفاظ میں کیوں بتاؤں، میں بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ کے الفاظ میں ہی تمہیں بتاتا ہوں کہ ان کی بعثت کا مقصد کیا تھا ؟ آپ نے لکھا ہے کہ میں دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑنے کے لئے آیا ہوں ، جس نے مسیح کی ہڈیوں کو توڑا اور اس کے جسم کو زخمی کیا.وہ نوجوان اچھل پڑا اور کہنے لگا، مجھے حوالہ چاہئے.اب وہ شخص تو احمدی نہیں تھا، اسے کیا غرض تھی کہ وہ اس حوالہ کو شائع کرتا ؟ لیکن اس نے کہا، مجھے اصل حوالہ چاہئے.اب دیکھو، خدائے علام الغیوب کو تو پتہ تھا کہ اس 182

Page 200

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 125 اگست 1967ء حوالہ کا مطالبہ ہونا ہے.میں نے یہاں مضمون لکھنے شروع کئے تو میں نے بعض حوالے نکلوائے تھے.بعد میں ، میں نے مضمون تو تیار نہ کئے اور نہ میں کر سکا.کیونکہ میری طبیعت میں انقباض پیدا ہو گیا تھا.لیکن میں نے چوہدری محمد علی صاحب سے کہا، یہ حوالے ساتھ رکھ لیں ، شاید وہاں کام آئیں.ان حوالوں میں وہ حوالہ بھی تھا.اور پھر وہ اردو میں بھی نہیں تھا بلکہ اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہوا تھا.میں نے وہ حوالہ منگوایا اور اس نوجوان کے ہاتھ میں دے دیا.اور کہا، یہ ہے حوالہ.اس نے اسے پڑھا تو کہا، میں نے اسے نقل کرتا ہے.میں نے کہا، بڑی خوشی سے نقل کرو.اور اگلے دن اس اخبار میں ، جس میں اسلام کے حق میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں چھپا تھا، ایک لمبا نوٹ چھپا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی یہ ساری عبارت بھی نقل کر دی گئی.اس نے لکھا کہ آپ کا دعوی تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ میں اس غرض کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں کہ اس صلیب کو دلائل کے ساتھ تو ڑ دوں ، جس نے مسیح کی ہڈیوں کو توڑا تھا اور آپ کے جسم کو زخمی کیا تھا.میں نے جب اسے وہ حوالہ دیا تھا تو اسے یہ بھی کہا تھا کہ دیکھنا یہ غلطی نہ کرنا کہ کہیں دلائل سے“ کے الفاظ چھوڑ دو.اس سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے.چنانچہ اس نے پورا حوالہ شائع کیا.سارے حیران تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں تو کوئی توقع نہیں تھی کہ اس قسم کی پریس کانفرنس ہو سکتی ہے.سارے اخباروں میں خبریں شائع ہوئیں.ان میں سے کسی نے مسجد کی فوٹو دی اور کسی نے نہ دی.لیکن ہمارے فوٹو کے ساتھ نوٹ شائع کئے.غالباً مسجد کی فوٹو اس لئے شائع نہ کی گئی کہ اس کے فوٹو اخبارات میں آچکے ہیں اور وہ پرانی مسجد ہے.اس کے بعد ہم ہیگ پہنچے.( میں اس وقت صرف پریس کانفرنسوں کو لے رہا ہوں.وہاں حافظ قدرت اللہ صاحب مجھے کہنے لگے کہ یورپ کے دوسروں ملکوں کی نسبت یہاں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تعصب بہت زیادہ ہے اور میں ڈر رہا ہوں، پتہ نہیں، پریس کانفرنس میں کیا ہوگا ؟ اور غالباً میں نے ان سے ہی کہا تھا کہ آپ فکر نہ کریں ، سوال مجھ سے ہوتے ہیں اور میں نے ہی ان کے جواب دینے ہیں.وہاں بھی پر لیس والوں نے بڑے ادب اور احترام کے ساتھ مجھ سے باتیں کیں.ایک نوجوان، جو بڑ المبا اور صحت والا تھا اور غالباً کسی کیتھولک اخبار کے ساتھ تعلق رکھتا تھا، اس نے ایک سوال کیا.سوال تو اس نے بڑے ادب سے کیا لیکن اس کی آنکھوں میں شوخی تھی.وہ نوجوان کہنے لگا، آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے ہمارے ملک میں کتنے مسلمان کئے ہیں؟ غالباً اسے علم تھا کہ یہاں احمدی تھوڑی تعداد میں ہیں.میں نے اس کو کہا کہ تمہارے نزدیک مسیح علیہ السلام کی جتنی زندگی تھی ، گو اس مسئلے میں ہمارا اور تمہارا 183

Page 201

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اختلاف ہے لیکن میں اس وقت اس اختلاف کو چھوڑتا ہوں ، تمہارے خیال میں جتنے سال مسیح علیہ السلام اس دنیا میں زندہ رہے، اس ساری عمر میں انہوں نے جتنے عیسائی بنائے تھے ، ان سے زیادہ اس ملک میں ہم نے مسلمان بنائے ہیں.اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ دوسرے نمائندے تو سوال کرتے رہے لیکن وہ خاموش رہا.تمہیں، چالیس منٹ کے بعد میں نے اس کی طرف توجہ کی اور کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم نے مجھ میں دلچسپی لینی چھوڑ دی ہے لیکن میری تم میں دلچسپی ابھی تک قائم ہے.تم سوال کرو، میں اس کا جواب دوں گا.خیر اس کے بعد اس نے بعض سوال کئے اور میں نے ان کا جواب دیا.زیورک میں تو میں پریس کانفرنس کے بعد وہیں ٹھہرا رہا لیکن ہیگ میں ، میں پریس کانفرنس کے معاً بعد اس جگہ کو چھوڑ کر اپنے کمرہ میں چلا گیا تھا.اور وہ نوجوان قریباً ایک گھنٹہ تک دوستوں سے گفتگو کرتا رہا.اس نے قیمتاً ہمارا لٹریچر بھی خریدا اور کہنے لگا، میں اسے ضرور پڑھوں گا.غرض اس پر اتنا اثر تھا.وہاں کے سارے اخباروں نے صرف یہ خبر ہی شائع نہیں کی تھی کہ ہم اس ملک میں آئے ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ وہ کہتے ہیں، اسلام لاؤ، ورنہ تباہ ہو جاؤ گے.اور دراصل یہی بات ان دو غرضوں میں سے ایک تھی، جن کے لئے میں وہاں گیا تھا.مجھے سے وہ جو باتیں کرتے ، ان کو بھی شائع کرتے.اور ساتھ ہی ہماری تصویریں بھی شائع کرتے.لیکن اگر وہ صرف میری تصویر شائع کرتے تو اس میں میری کوئی عزت افزائی نہیں تھی.جس کو خدا تعالیٰ نے عزت دی ہو ، وہ دنیا کی عزتوں کی کیا پرواہ کرتا ہے؟ میرے وہاں جانے کی جو اصل غرض تھی ، وہ پوری ہونی چاہئے تھی.میں نے ان کو جو انتباہ دینا تھا، وہ ہر ایک کے پاس پہنچنا چاہئے تھا.اور مجھے خوشی اس بات سے ہوئی تھی کہ انہوں نے صاف طور پر لکھ دیا تھا کہ میرا پیغام یہ ہے کہ دور استے تمہارے لئے کھلے ہیں.یا تو تم اسلام لا و یا تباہ ہونے کے لئے تیار ہو جاؤ.میں ویسے وہاں یہ فقرہ بولتا تھا کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرو.Come back to your creator اور اس کا مفہوم وہ سارے سمجھتے تھے.چنانچہ ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا مطلب تو اسلام سے ہے نا؟ میں نے کہا، ہاں، اللہ وہی تو ہے، جو اسلام نے پیش کیا ہے.وہ لوگ ذات باری اور صفات باری کے متعلق تو کچھ جانتے نہیں تھے.لیکن وہ مفہوم کے لحاظ میرے فقرہ کا ترجمہ کر لیتے تھے.اور انہوں نے یہ شائع کیا کہ یہ کہتے ہیں کہ تم اسلام کو قبول کرو، ورنہ تباہ ہو جاؤ گے.اس کے بعد ہم ہیمبرگ پہنچے.ہیمبرگ میں چار روزانہ اخبار ہیں.جرمنی میں صرف دو اخبار ایسے ہیں، جو سارے جرمنی میں پڑھے جاتے ہیں بلکہ ساری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں.اور لندن ٹائمنر کے ہم 184

Page 202

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 25 اگست 1967ء پلہ ہیں.باقی سارے اخبار مقامی ہیں.بہر حال ہیمبرگ میں چار روزانہ اخبار ہیں، جن میں سے تین صبح کو چھپتے ہیں اور ایک شام کو چھپتا ہے.جو اخبار صبح کو چھپتے ہیں، ان میں سے ایک ان دو اخبارات میں سے ہے، جو صرف جرمنی میں ہی نہیں پڑھے جاتے بلکہ ساری دنیا میں ، جہاں جرمن زبان بولی جاتی ہے، پڑھے جاتے ہیں.اور یہ اطلاع مجھے کراچی میں پریس میں کام کرنے والے ایک غیر احمدی دوست نے دی.جب میں نے اخبار کا نام لیا ڈی ویلٹ تو اس نے کہا، اچھا یہ اخبار ہے، یہ تو ساری دنیا میں جاتا ہے.اور جرمنی کے دو بڑے اخباروں میں سے ایک ہے.اس کے علاوہ تین اور اخبار ہیں اور وہ اپنے علاقہ میں پڑھے جاتے ہیں.گویا صرف چار اخبار ہیں.باقی نیوز ایجنسیز جیسے ہمارے ہاں اے پی پی وغیرہ ہے.پھر ریڈیو ہے وغیرہ وغیرہ.ہمارے مبلغوں کا اثر ورسوخ ہے، حکومت سے بھی ان کے تعلقات ہیں.محکمہ اطلاعات و انفارمیشن کو جب پریس کانفرنس کے متعلق علم ہوا تو انہیں خیال آیا کہ کہیں یہ مایوس نہ ہو جائیں.چنانچہ انہوں نے فون کر کے بتایا کہ حکومت کی طرف سے ہم پر یس کا نفرنس بلاتے ہیں، بڑا زور لگاتے ہیں، روپیہ خرچ کرتے ہیں ، تب جا کر کہیں سات آٹھ یا نو نمائندے آتے ہیں.اگر آپ کی پریس کانفرنس میں تھوڑے نمائندے ہوں تو آپ مایوس نہ ہوں.ہمارے ملک کا یہی طریق ہے.خیر انہوں نے وارننگ دی اور وارنگ بھی اپنی محبت اور تعلق کی وجہ سے دی.تا کہ ہم مایوس نہ ہو جائیں.وہاں ایک اٹلانٹک ہوٹل ہے، جس میں یہ پریس کا نفرنس ہوئی.میں جب وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں 35 نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں.ان چاروں اخباروں کے نمائندے تھے، ہفتہ وار اخباروں کے نمائندے تھے، دونما ئندے ریڈیو کے تھے.(وہاں دو مختلف ریڈیو پروگرام ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے علیحدہ علیحدہ اپنی انڈی پینڈنٹ ٹیم بھیجی ہوئی تھی.) نیوز ایجنسیز کے نمائندے تھے ، پھر وہاں رواج ہے کہ فوٹو گراف مہیا کرنے والی بھی انڈی پینڈنٹ ایجنسیاں ہیں.وہ فوٹو لے لیتی ہیں اور ہر اخبار کو بھیج دیتی ہیں اور کہلا بھیجتی ہیں، اگر تم نے اس واقعہ کے متعلق کوئی نوٹ دینا ہوتو یہ تصویریں ہیں تم ان میں سے کوئی ایک یا دو منتخب کر لو اور اس کے وہ پیسے لے لیتی ہیں.یہ ان کے کمانے کا ایک ذریعہ ہے.اخبار کو اپنے علیحدہ فوٹوگرافر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی.بہر حال وہاں یہ سٹم ہے.اور ان فوٹو لینے والی ایجنسیوں کے نمائندے بھی وہاں موجود ہوتے تھے.کل نمائندے 35 تھے اور ایک گھنٹہ، پچیس منٹ تک ہم باتیں کرتے رہے.وہ اٹھنے کا نام ہی نہ لیتے تھے.میں خود کھڑا ہو گیا اور کہا ، اب ہم اس پر یس کا نفرنس کو ختم کرتے ہیں.185

Page 203

خطبہ جمعہ فرمود 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس پریس کانفرنس میں دوعورتیں بھی تھیں.میں نے ان سے ہاتھ نہیں ملایا تھا اور اس پر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا، آپ نے ہم سے ہینڈ ھیک یعنی مصافحہ کر کے ہماری عزت افزائی تو کی ہے لیکن ان عورتوں کی عزت افزائی نہیں کی ، یہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا کہ میں تمہارا بڑا ممنون ہوں کہ تم نے یہ سوال کر کے بات کی وضاحت کر والی ہے، اور نہ تم یہاں سے اٹھ جاتے تو غلط نہی قائم رہتی.اسلام کا یہ مسئلہ ہے اور یہ ایک عورت کی بے عزتی کے خیال سے نہیں بلکہ اس کی عزت اور احترام کو قائم کرنے کے لئے ہے.تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ ہمارا نظریہ درست نہیں، مگر ہم پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ ہم عورت کی عزت اور احترام نہیں کرتے.خیر بات ان کی سمجھ میں آگئی اور ان کی تسلی ہوگئی.بڑی لمبی چوڑی گفتگو ہوئی ، ان سے، اس موقع پر.ایک بڑی اچھی تصویر بھی لی گئی، جو مجھے بہت پسند آئی.میں نے ایک وارنگ دیتے ہوئے، جوش میں اپنی انگلی (ایک خاص انداز سے ہلائی، جونہی میں نے انگلی ہلائی ، ایک فوٹو گرافر نے چھلانگ لگائی، میرا خیال تھا کہ وہ تصویر نہیں لے سکے گا لیکن وہ اپنے فن میں بڑے ماہر ہوتے ہیں، پتہ نہیں ، کس طرح اس نے تصویر لے لی.دوسرے دن وہ تصویر اخبار میں آگئی.ہیمبرگ کے ٹیلی ویژن کو ایک کروڑ سے زیادہ آدمی دیکھتے ہیں.جرمن کے چھوٹے چھوٹے کئی صوبے ہیں اور ہیمبرگ کا ٹیلی ویژن تین چار صوبوں میں دیکھا جاتا ہے.ہیمبرگ کا ٹیلی ویژن ، جس علاقہ میں دیکھا جا سکتا ہے، اس کے متعلق اندازہ ہے کہ اس میں اسے ایک کروڑ سے زیادہ آدمی دیکھتے ہیں.ہم نے اس میں چالیس فیصدی کاٹ دیا کہ بہت سے لوگ باہر گئے ہوئے ہوتے ہیں، بعض لوگ سیر و سیاحت کے لئے گھروں سے نکلے ہوئے ہوتے ہیں.پھر بھی 60,70 لاکھ کے درمیان لوگوں نے ہمیں ٹیلی ویژن پر دیکھ لیا.اور جو باتیں وہاں ہوئیں ، وہ یہی تھیں کہ اسلام لاؤ اور اپنے اللہ کی معرفت حاصل کرو.یہ پیغام براڈ کاسٹ بھی ہو گیا اور پھر سارے اخباروں میں بھی آ گیا.اخباروں کی وجہ سے شہر میں ہمارا اس طرح چرچہ ہوا کہ ہمارے لئے باہر نکلنا مشکل ہو گیا.دو، ایک بار ہم بازار میں گئے تو جہاں تک نظر جاتی تھی ، مرد، عورتیں اور بچے اپنا کام کاج چھوڑ کر ہماری طرف دیکھنے لگ جاتے تھے اور سینکڑوں کیمرے نکل آتے تھے.جس دکان میں بھی جاؤ ، سودے کے متعلق بات بعد میں ہوتی ، پہلے اخبار ہمارے سامنے کر دیا جاتا تھا.اور اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ ہمیں جانتے ہیں اور اس بات کا اظہار وہ بڑی خوشی اور بشاشت سے کرتے تھے.میرا بتانے کا یہ مطلب ہے کہ ہر گھر میں ہمارا یہ پیغام پہنچ گیا کہ اسلام لا دیا تباہ ہو جاؤ.کیونکہ میری باتوں کا خلاصہ یہی تھا کہ اپنے رب سے تعلق پیدا کر دور نہ تباہی تمہارے سامنے ہے.186

Page 204

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 25 اگست 1967ء اس کے بعد ہم کوپن ہیگن گئے.پہلے اس کے کہ میں کچھ کوپن ہیگن کے متعلق بتاؤں ، میں ایک واقعہ بتانا چاہتا ہوں.زیورک میں جو ٹیم ٹیلی ویژن کے لئے انٹرویو لینے آئی تھی ، وہ تین اشخاص پر مشتمل تھی.ان میں سے دومرد اور ایک عورت تھی.جو عورت تھی، اس نے کہا، میں ریکارڈ کرنے سے پہلے آپ سے بعض سوال کر کے جواب لینا چاہتی ہوں.کیونکہ پروگرام چھوٹا ہے اور سوال زیادہ ہیں، میں جو جواب اچھے سمجھوں گی، انہیں ٹیلی ویژن کے لئے ریکارڈ کرلوں گی.میں نے کہا، ٹھیک ہے.اس نے ایک سوال یہ کیا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کس طرح پھیلائیں گے؟ میں نے اسے فوری طور پر یہ جواب دیا کہ دلوں کو فتح کر کے.اس کو یہ جواب اتنا اچھا لگا کہ وہ کہنے لگی، میں یہ فقرہ ضرور ٹیلی ویژن پر لانا چاہتی ہوں.میں نے کہا ، ٹھیک ہے.اس کے بعد انہوں نے ٹیلی ویژن کے لئے ریل (فلم) تیار کی.منظر یہ تھا کہ پیچھے مسجد تھی اور سامنے میں تھا.میں جو کچھ بول رہا تھا ، وہ اس فلم پر آ گیا اورنشر ہوا.کوپن ہیگن کی پریس کانفرنس میں بھی ایک نمائندہ نے یہ سوال کر دیا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کیسے پھیلائیں گے؟ میں نے اسے کہا کہ بالکل یہی سوال زیورک میں ایک عورت نے کیا تھا اور میں نے اسے یہ جواب دیا تھا کہ دلوں کو فتح کر کے.اس جواب پر ایک عورت نمائندہ بڑے وقار سے کہنے لگی کہ ان دلوں کو لے کر آپ کریں گے کیا؟ میں نے اسے جواب دیا کہ پیدا کرنے والے رب کے قدموں میں جارکھیں گے.اس جواب کا اس پر اس قدراثر ہوا کہ وہ پر یس کا نفرنس کے بعد بھی کافی دیر وہاں ٹھہری رہی.اس نے ہمیں نماز پڑھتے دیکھا.اس نے کہا، میں واپس جا کر ایک مضمون لکھوں گی.خیر وہاں بھی پریس انٹرویو ہوا اور بڑا اچھا ہوا اور تمام اخبارات میں وہ چھپا.پریس کانفرنس سے پہلے مسجد کے افتتاح کی جو تصویریں چھپیں، ان میں ایک اخبار نے یہ کیا کہ نماز کی تصویر دے کر اس کے نیچے یہ نوٹ دے دیا کہ یہ لوگ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عبادت کر رہے ہیں.اگلے دن پادریوں کے ایک گروپ نے مجھ سے انٹرویو کا وقت لیا ہوا تھا.اس دن صبح ہی وہ اخبار آ گیا.میں نے دوستوں کو یہ ہدایت دی کہ جب پادری آئیں تو یہ اخبار میرے ہاتھ میں دے دیں.چنانچہ میٹنگ سے پہلے وہ اخبار میرے ہاتھ میں دے دیا گیا.اس گروپ کا جو لیڈر تھا، میں نے اس سے کہا کہ اس فقرہ کا ترجمہ کر کے مجھے بتاؤ.مجھے اس کے مفہوم کا علم تو تھا لیکن میں اس کے منہ سے کہلوانا چاہتا تھا.شرمندگی سے اس کا منہ سرخ ہو گیا اور اس نے کہا، ہم یہ نوٹ پہلے دیکھ چکے ہیں اور بڑے شرمندہ ہیں.میں نے کہا، اب دو صورتیں ہیں.یا تو میں اس کی تردید کروں اور یا تم اس کی تردید کرو.اگر میں اس کی تردید کروں گا تو اس.سے 187

Page 205

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بدمزگی پیدا ہوگی کیونکہ میں تو اپنے رنگ میں اس کی تردید کروں گا.چنانچہ اس پادری نے اس کی تردید شائع کرائی.ایک لمبا نوٹ لکھا گیا، جو اس اخبار میں شائع ہو گیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع ہمارے ریہ کو پھیلانے اور اسلام سے تعارف کرانے کا پیدا کر دیا.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے، وہاں کی ہر اخبار نے ہمارے متعلق لکھا اور بعض اخبارات نے ایک ایک صفحہ اس کے لئے دیا.پھر جیسا کہ میں نے اشارہ بتایا ہے کہ ہمارے ملکوں میں تو رواج نہیں لیکن اس ملک میں یہ رواج ہے کہ باہر سے آنے والے ایسے آدمیوں کو، جن کو وہ بڑا سمجھتے ہیں، لارڈ میئر ریسپشن دیتا ہے.اور اس کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنے شہر میں خوش آمدید کہہ رہے ہوتے ہیں.کوپن ہیگن میں دوسرے ملکوں کے رواج کی طرح صرف ایک کارپوریشن نہیں ، جس کے آگے مختلف یونٹ ہوں ، وہاں مختلف کارپوریشنز ہیں، جن میں سے ہر ایک انڈی پینڈنٹ ہے، آپس میں ان کا کوئی تعلق نہیں.ان میں سے اس کارپوریشن کا، جس کے علاقہ میں ہماری مسجد ہے، الگ لارڈ میئر ہے.اس کے علاوہ ایک اور کار پوریشن ہے، جس میں کوپن ہیگن کا پرانا شہر واقع ہے، اس کی میئرس ایک عورت ہے.ان دونوں کارپوریشنوں نے ہمیں ری سپشن دی ہوئی تھی.ہمارے علاقہ کی کارپوریشن کا لارڈ میئر مشن سے اتنا تعلق رکھتا ہے کہ وہ چھٹیوں پر گیا ہوا تھا اور وہاں سے وہ صرف مسجد کے افتتاح میں شامل ہونے اور مجھے ری سپشن دینے کے لئے واپس آیا.اور بڑے پیار سے اس نے مجھ سے گفتگو کی.میں نے اسے بتلایا کہ ہمارے احمدی مسلمان تمہاری کارپوریشن کے بہترین شہریوں میں سے ہوں گے کیونکہ ہمارا یہ مذہبی عقیدہ ہے کہ ہم ملکی قانون کی پابندی کریں.اسلام نے ہمیں یہی سکھایا ہے.لارڈ میئر نے ہمیں اپنی کارپوریشن کا جھنڈا دیا اور ہم نے اسے قرآن کریم دیا.پھر ہم دوسری کارپوریشن کی طرف سے دی ہوئی ری سپشن میں شریک ہوئے.اس میں لارڈ میئرس نے ہمیں اپنی کارپوریشن سے متعلق ایک معلوماتی کتاب دی اور ہم نے اس کو قرآن کریم پیش کیا.باتیں بھی ہوتی رہیں.اس موقع پر پریس کے نمائندے بھی موجود تھے.اگلے دن اس ری سپشن کی تصویر بھی اخباروں میں آگئی، جس میں لارڈ میئرس کو قرآن کریم وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا.ایک اخبار نویس نے شرارتا اسے کہا کہ انہوں نے تم کو اپنا ہاتھ نہیں دیا یعنی مصافحہ نہیں کیا.وہ عورت پڑھی لکھی تھی اور بڑی ہوشیار تھی.اس نے فوراً یہ جواب دیا کہ انہوں نے مجھے اپنا ہاتھ تو نہیں دیا لیکن مجھے قرآن کریم دیا ہے.اور اگلے دن اس کا یہ فقرہ بھی اخباروں میں چھپ گیا.اس کے بعد ہم یورپ کو چھوڑ کر لنڈن پہنچے.لنڈن کے پریس نے ہمارے ساتھ پہلے تو کوئی تعاون نہیں کیا یعنی انہوں نے ہمارے متعلق کوئی خبر نہیں دی.صرف ایک اخبار نے خبر دی، جس کا نمائندہ 188

Page 206

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 25 اگست 1967ء ائیر پورٹ پر آیا ہوا تھا اور اس سے گفتگو بھی ہوئی تھی.لیکن عام طور پر پریس نے ہمیں نظر انداز کیا.تین دن ہم وہاں رہے، پھر ہم سکاٹ لینڈ چلے گئے.وہاں بھی پریس کانفرنس ہوئی اور وہاں کی اخباروں نے خبریں بھی دیں.اس کے بعد ہم چند روز ، ونڈر مئیر ٹھہرے.اس دوران ایک مقامی اخبار نے امام رفیق (مسجد لنڈن کے امام ) کو فون کیا اور کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں، جو ہمارے علاقہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ یہاں تو ایک ہنگامہ بپا ہے کہ مقامی اخبار نے کچھ لکھا نہیں.اور لوگ حیران ہیں.آخر انہیں پتہ لگنا چاہئے کہ یہ کون ہیں؟ چنانچہ امام رفیق نے اسے بتایا اور اس نے اگلے روز ایک خبر شائع کر دی.ابھی ہم ونڈر مئیر میں ہی تھے کہ ہمیں وہاں ایک پیغام ملا کہ ٹائمنرلنڈن سپیشل انٹرویو لینا چاہتا ہے.میں نے کہا، ٹھیک ہے لیکن وقت ہم وہاں مقرر کریں گے.ٹائمنر لنڈن چوٹی کے اخباروں میں سے ہے.دوست یہ نہ سمجھیں کہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر کر رہا ہوں.میرے نزدیک یہ باتیں بڑی اہم ہیں.کیونکہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ نظر آتا ہے.ٹائمنر لنڈن کا جو نو جوان نمائندہ انٹرویو لینے آیا، اس نے مجھے بتایا کہ وہ آسٹریلیا کا رہنے والا ہے، لنڈن کا رہنے والا نہیں اور وہ صرف چھ ماہ سے یہاں کام کر رہا ہے.میں جب آکسفورڈ میں پڑھا کرتا تھا ، اس وقت میرے بعض گہرے دوست آسٹریلیا کے طالب علم تھے.میں نے کہا، مجھے تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے.ویسے تو مجھے ہر ایک سے مل کر خوشی ہوتی ہے لیکن تمہارے ساتھ مل کر اس لئے بھی خوشی ہوئی کہ آسٹریلیا کے بعض طالب علموں سے میری بڑی گہری دوستی تھی اور بڑے لمبے زمانہ کے بعد آج میں ایک آسٹریلین سے مل رہا ہوں.بہر حال ایک بے تکلفی کا ماحول پیدا ہو گیا.وہ نوجوان بڑا اعقلمند تھا اور زیرک تھا.وہ مجھ سے مختلف باتیں کرتا رہا.وہاں پریس کے نمائندے مجھے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے تھے.لیکن یورپ کا پریس بڑا سمجھ دار ہے، جب میں نے ان سے کہہ دیا کہ مجھ سے صرف مذہبی باتیں کرو تو وہ اس پر زور نہیں دیتے تھے.میں نے اس سے بھی کہا کہ مجھ سے سیاست کی بات نہ کرو تو وہ رک گیا.میں نے اس کو یہ بھی بتایا کہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے.نیز مذہب کا تعلق دل سے ہے اور دل کو طاقت کے ذریعہ بدلا نہیں جاسکتا.مذہب کے نام پر خواہ مخواہ جھگڑنا ہی غیر معقول ہے.اب ہم دونوں یہاں بیٹھے ہیں، میں ایک مسلمان ہوں اور ایک مذہبی فرقہ کا سر براہ ہوں اور تم ایک عیسائی نوجوان ہو، میرے دل میں تمہارے متعلق دشمنی، نفرت کا یا حقارت کا کوئی جذ بہ نہیں اور مجھے یقین ہے کہ تمہارے دل میں میرے خلاف دشمنی ، نفرت یا حقارت کا کوئی جذبہ نہیں.اور اگر ہم یہاں اس کمرہ میں اس قسم کی فضا پیدا کر سکتے ہیں تو ساری دنیا میں بھی پیدا کر سکتے ہیں.دوسرے دن اس نے اخبار میں بڑا اچھا نوٹ | 189

Page 207

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دے دیا.ہمیں یہ خیال بھی نہیں تھا کہ اس قسم کا نوٹ اخبار میں آجائے گا.ٹائمز کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ اگر اس میں کوئی چیز چھپ جائے تو اس کے متعلق یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ انگلستان کے سارے پریس میں وہ چیز آگئی.بہر حال وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اعلائے کلمتہ اللہ کے سامان پیدا کر دیئے.پھر کراچی میں انٹرویو ہوا.یہ لوگ اپنے رنگ کے ہیں.یہ لوگ بار بار مجھ سے سیاسی سوال کر دیتے تھے اور بار بار مجھے یہ کہنا پڑتا تھا کہ میں کسی سیاسی سوال کا جواب نہیں دوں گا.ویسے سب ہی اچھے تھے.انہیں یہی اچھا معلوم ہوتا تھا کہ میں ان سے سیاسی گفتگو کروں.ہر ایک کا اپنا اپنا خیال ہوتا ہے لیکن یہاں بھی اخبارات میں اچھے نوٹ آگئے تھے.ان پر یس کا نفرنسز سے میری کوئی ذاتی غرض وابستہ نہ تھی.میں نے صرف یہی مقصد اپنے سامنے رکھا تھا کہ ان لوگوں کو جنجھوڑا جائے اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کا آسمانوں پر جو فیصلہ ہو چکا ہے، اس حقیقت کی طرف انہیں متوجہ کیا جائے.اور یہ غرض اخباروں کے تعاون سے پوری ہوگئی اور یہ مقصد ہمیں حاصل ہو گیا.ساری قوم کو انتباہ کر دیا گیا.اس لحاظ سے کہ اکثریت کے کانوں میں یہ آواز پہنچ گئی اور یہ بات ان کے ذہن نشین کر دی گئی کہ ہمیں ایک انتباہ دیا گیا ہے اور ایک وارننگ دینے والے نے ہمیں وارنگ دے دی ہے.جس تیز مضمون کے متعلق میں نے پہلے بیان کیا ہے، اس کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم لندن گئے تو ہمیں ایک ری سپیشن دی گئی، جس میں تین سو آدمیوں نے شامل ہونا تھا.گو یہ ری سپشن جماعت کی طرف سے تھی لیکن اس میں اس علاقہ کے میر بھی مدعو تھے، جس میں ہماری مسجد ہے.ایک ایم پی تھے ، پاکستان ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ تھے اور بعض دوسرے انگریز بھی تھے اور یہ سب کوئی تھیں، چالیس آدمی تھے.میں نے سوچا کہ میں نے اپنی محنت سے یہ مضمون تیار نہیں کیا بلکہ یہ آمد تھی اور میرے رب کی عطا، اس لیے اس کا جو مقصد تھا، وہ پورا ہونا چاہئے.اور یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں یہ مقصد پورا ہوسکتا ہے.اس کے بعد مجھے کوئی اور موقع نہیں ملے گا.چنانچہ میں نے محترمی مخدومی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے کہا کہ آپ اسے پڑھیں اور مجھے مشورہ دیں کہ آیاری سپشن کے بعد میں یہ تقریر کروں یا نہ کروں؟ میں نے انہیں اس کا پس منظر بھی بتایا.اگلے دن صبح ان کا پیغام مجھے آیا ، آپ یہ تقریر ضرور کریں.تقریر کے انگریزی ترجمہ کے فقرات میں بعض جگہ انہوں نے لفظی اصلاح بھی کی.انگریزوں کا طریق تھا کہ وہ ڈنر کے بعد ہلکی پھلکی تقریریں کرتے ہیں اور وہ تین تین، چار چار منٹ کی ہوتی ہیں.یہی کہ ایک دو لطیفے سنا دیے اور بیچ میں کوئی کام کی بات کہہ دی.میں اس بات کی وجہ سے بڑا پریشان تھا کیونکہ مجھ سے 190

Page 208

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 125 اگست 1967ء پہلے چار تقریریں تھیں، سب سے پہلے میر کھڑا ہوا اور اس نے پاکستان کی بھی اور جماعت کی بھی بڑی تعریف کی اور تین، چار منٹ کے بعد وہ بیٹھ گیا.اس کے بعد ایم پی کھڑا ہوا ، ان کی طبیعت میں مزاح تھا، انہوں نے ایک دو لطیفے سنائے اور خوب ہنسایا.پھر پاکستان ایسوسی ایشن کا پریذیڈنٹ کھڑا ہوا اور اس نے اپنے لحاظ سے کچھ سنجیدہ اور کچھ ہلکی پھلکی تقریر کی.آخر میں (مجھ سے پہلے ) چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تھے، وہ کھڑے ہوئے ، انہوں نے ایک دو فقروں کے بعد میرے متعلق کہا کہ انہوں نے اس وقت بعض بڑی اہم باتیں کرنی ہیں ، اس لئے میں زیادہ وقت نہیں لیتا.گویا انہوں نے میرے پیغام کا تعارف بھی کرا دیا اور وہ سارے اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ کوئی اہم پیغام آنے والا ہے.میرے ذہن سے بوجھ اتر گیا اور میں نے مضمون پڑھنا شروع کیا.45 منٹ میں وہ مضمون ختم ہوا.اس سارے عرصہ میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سامعین مسحور ہیں.کوئی آواز وہاں پیدا نہ ہوئی.بعد میں احمدیوں نے مجھے بتایا کہ ہمیں پسینے آ رہے تھے.اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑا تیز مضمون تھا.لیکن وہ مضمون میرا نہیں تھا.یہ نہیں تھا کہ میں نے سوچ کر اور عقل پر زور دے کر اسے بنایا ہو.بلکہ جب میں لکھنے لگا تو مضمون ذہن میں آتا گیا اور میں لکھتا گیا.ایک احمدی کہنے لگا کہ میرے ساتھ ایک انگریز بیٹھا ہوا تھا، جب آپ نے مضمون پڑھنا شروع کیا تو اس نے حیرانی سے منہ کھولا اور پھر 45 منٹ تک اس کا منہ کھلا ہی رہا.جس وقت میں نے مضمون ختم کیا اور سلام کیا ، اس وقت شاید کوئی چیونٹی بھی چلتی تو مجھے آواز آجاتی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سارے سٹنڈ (Stunned) ہو گئے ہیں، اپنے بھی اور پرائے بھی.اس خاموشی کی حالت میں، میں نے سلام کیا اور باہر نکل گیا.جب تک میں ہال سے باہر نہیں نکلا، میرے کان میں کوئی آواز نہیں پڑی.علاقہ کے میئر میرے ساتھ تھے ، وہ بڑے عقل مند آدمی تھے.ہمارے احمدیوں کو یہ خیال نہ آیا کہ میں اکیلا با ہر نکل گیا ہوں ، وہ سارے وہیں بیٹھے رہے تھے.انہیں یہ بھی خیال نہ آیا کہ یہا کیلئے موٹر میں کیسے چلے جائیں گے؟ وہاں موٹر ڈرائیور بھی نہیں تھا.میئر مجھے کہنے لگا، آپ تھکے ہوئے ہوں گے ، ادھر آئیں ، ہم ذرا یہاں بیٹھتے ہیں.میں نے کہا ٹھیک ہے.ہال او پر تھا، ہم سیڑھیوں سے نیچے اتر کے نیچے کے کمرے میں چلے گئے اور وہاں کھڑے کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے.وہاں وہ ایم پی بھی آگئے.وہ کہنے لگے، مجھے امید ہے کہ جس تباہی کا آپ نے ذکر کیا ہے، اس کی پیشگوئی ہمارے حق میں پوری نہیں ہوگی.قبل اس کے کہ میں اس کا کوئی جواب دیتا، میئر نے کہا کہ ان کی تقریر کا خلاصہ تو یہ ہے کہ ایک تو دنیا میں امن ہونا چاہئے اور دوسرے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنا چاہئے.جب اس نے اس رنگ میں جواب دیا تو وہ خاموش اور سنجیدہ ہو 191

Page 209

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اگست 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ئے.ویسے تو وہ بڑا اچھا آدمی تھا لیکن بعض آدمیوں کی طبیعت ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہنسی مذاق کرتے رہتے ہیں.اور جس وقت مئیر نے دیکھا کہ لوگ نیچے اتر آئے ہیں (سامنے کا دروازہ کھلا ہوا تھا.تو کہنے لگے، اچھا اب چلئے.تب مجھے پتہ لگا کہ اس کے دماغ میں یہ نہیں تھا کہ میں تھکا ہوا ہوں اور آرام کروں بلکہ یہ تھا کہ میں اکیلا ہوں، سارے ساتھی وہاں بیٹھے ہیں اور موٹر چلانے والا بھی وہاں بیٹھا ہے.کیونکہ وہاں ڈرائیور استعمال نہیں ہوتا ، سارے لوگ کاریں آپ ہی چلاتے ہیں.پھر میں نے جماعت کو ہدایت دی کہ میرا یہ مضمون بہت تھوڑے آدمیوں نے سنا ہے، اب اسے گھر گھر پہنچاؤ اور خرچ کا اندازہ لگاؤ.انہوں نے کہا، پچاس ہزار کا پہیوں پر کوئی ڈیڑھ سو پونڈ خرچ آئے گا.یعنی پچاس ہزار کا پیوں پر دو ہزار روپے.میں نے کہا، ٹھیک ہے، اگر پیسے نہیں ہیں تو میں انتظام کر دیتا ہوں.وہ کہنے لگے ، رقم کا انتظام ہم کر چکے ہیں.اللہ تعالیٰ نے وہاں رہنے والے احمدیوں کو قربانی کی بڑی توفیق دی ہے.چنانچہ چند دوستوں نے باہم مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہم اسے شائع کریں گے.چنانچہ پچاس ہزار کا پیاں اس مضمون کی وہاں چھپ چکی ہیں.اب میں نے ہدایت دی ہے کہ اس کا جرمن، ڈینش اور ڈچ زبانوں میں ترجمہ ہو جائے اور پھر اگر موقع ملا تو سپینش اور اٹالین میں بھی اس ترجمہ کو کروایا جائے گا اور سارے یورپ میں اسے پہنچا دیا جائے گا.میں نے انہیں کہا کہ وقف عارضی کو جاری کرو اور واقفین سے یہ کام لو.اسے ہر گھر میں پہنچاؤ.اس کی تعداد کم ہے اور گھر زیادہ ہیں ، اس لئے پڑھے لکھے اور صاحب رسوخ لوگوں کی فہرست بناؤ اور ان تک اسے پہنچاؤ.شہروں اور دیہات دونوں میں اسے تقسیم کرو.یہ نہیں کہ شہروں میں اسے تقسیم کرو اور دیہات میں نہ کرو.دیہات میں ابھی تک عیسائیت سے کچھ نہ کچھ پیار ضرور پایا جاتا ہے ،شہروں میں نہیں پایا جاتا.اگر خدا تعالیٰ نے چاہا اور اس نے توفیق دی تو دو، ایک خطبات میں وہاں کے واقعات اپنے رنگ میں بیان کر دوں گا.اس نیت کے ساتھ کہ ان چیزوں کا جو نتیجہ میرے دماغ نے نکالا ہے، جب اس نتیجہ تک پہنچوں تو آپ میرے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے.( مطبوعه روزنامه الفضل 27 ستمبر 1967ء) 192

Page 210

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء اگلے ہیں، ہمیں سال دنیا یر، انسانیت پیر اور جماعت پر بڑے نازک ہیں خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گذشته خطبہ جمعہ میں، میں نے بتایا تھا کہ ایک خواب کی بناء پر میں چندر و یا احباب کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہوں.آج بھی میں اپنے اس خطبہ کو چند خوابوں اور رویا سے شروع کرنا چاہتا ہوں.ویسے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیسیوں مبشر خواہیں، میرے سفر یورپ کے دوران اور واپسی کے بعد بھی، دوستوں نے مجھے لکھی ہیں.مردوں نے بھی خواہیں دیکھی ہیں اور ہماری احمدی بہنوں نے بھی خواہیں دیکھی ہیں.بڑوں نے بھی دیکھی ہیں اور بچوں نے بھی دیکھی ہیں.کہا گیا تھا کہ اس زمانہ میں بچے بھی نبوت کریں گے.یعنی خبریں اللہ تعالیٰ سے حاصل کریں گے، جو سچی ہوں گی اور جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اور طاقت کا اظہار ہوگا.آج کے لئے میں نے تین خوابوں کا انتخاب کیا ہے.اور یہ تینوں خوا ہیں عورتوں کی ہیں.ایک خواب میری بزرگ کی ہے، ایک میری بیوی کی ، ایک میری بچی کی ہے.اصل غرض اس سفر کی کوپن ہیگن کی مسجد کا افتتاح تھا.اور اس افتتاح سے میں یہ فائدہ اٹھانا چاہتا تھا کہ ان اقوام کے سامنے اللہ تعالیٰ کی اس مشیت کو کھول کر اور وضاحت سے رکھ دیا جائے کہ اسلام کے غلبہ کے سامان آسمانوں پر مقدر ہو چکے ہیں اور زمین پر ظاہر ہونے والے ہیں.اور اگر ان اقوام نے اللہ تعالیٰ کے اس منشاء کو نہ سمجھا تو پھر ایک ایسی ہلاکت ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے کہ جو انسانی تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی.لیکن چونکہ وجہ اس سفر کی کوپن ہیگن کی مسجد کا افتتاح بن گیا تھا اور اس مسجد کو احمدی مستورات کی مالی قربانیوں نے بنایا تھا، اس لئے آج کے لئے میں نے مستورات کی خوابوں میں سے تین کا انتخاب کیا ہے.مجھے افسوس ہے کہ مکرمہ مخدومہ محترمہ آپا مریم صدیقہ صاحبہ آج کل یہاں نہیں ہیں، انہوں نے ایک بڑی مبشر خواب دیکھی تھی لیکن زبانی مجھے سنائی تھی.ہو سکتا ہے کہ بعض حصے چھوڑ جاؤں، اس لئے میں نے ان کی اس خواب کا آج کے خطبہ کے لئے انتخاب نہیں کیا.لیکن قبل اس کے کہ میں یہ تین رویا آ.193

Page 211

خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دوستوں کو سناؤں، میں یہ بھی آج بیان کرنا چاہتا ہوں کہ سفر پر روانگی سے چند روز قبل ایک دن صبح کے وقت جب میں اٹھا تو میری زبان پر یہ مصرعہ جاری ہوا.تشنہ روحوں کو پلا دو شربت وصل و بقا یہ مصرعہ بطور طرح مصرعہ کے میں نے محترمہ مخدومہ پھوپھی جان صاحبہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو دیا تھا اور انہوں نے ایک آدھ شعر بھی کہا ہے.نظم تو مکمل نہیں کر سکیں (یہ نظم اب الفضل کے ایک شمارہ میں شائع ہو چکی ہے.لیکن بعض اور احمدی شاعروں نے اس مصرعہ کو سامنے رکھ کر بعض نظمیں بھی لکھی ہیں.بعض چھپ گئی ہیں، بعض شاید آئندہ الفضل میں چھپ جائیں.اس میں بھی در اصل اجازت دی گئی تھی ، اس سفر پر روانہ ہونے کی.اور اس ضرورت کا احساس پیدا کیا گیا تھا کہ اقوام یورپ روحانی طور پر پیاسی ہیں اور انہیں قرآن کریم کے چشمہ سے سیراب ہونے کی ضرورت ہے.اس وقت اس کے بغیر نہ وہ اقوام اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کر سکتی ہیں اور نہ اس دنیا میں باقی رہ سکتی ہیں.اور جو غرض اس سفر سے تھی ، اس کی تفصیل کی طرف اشارہ اس چھوٹے سے مصرع میں کیا گیا تھا.سفر پر روانہ ہونے سے قبل ہماری بڑی پھوپھی جان نے لاہور میں یہ خواب دیکھی، جو انہی دنوں انہوں نے اپنے خط میں لکھ کر بھجوائی تھی.میں وہ آج سنانا چاہتا ہوں.حضرت پھوپھی جان صاحبہ نے عزیز مکرم مرزا مظفر احمد صاحب کے متعلق بھی ایک مندرسی خواب دیکھی تھی.اور ان کے لئے مجھے بھی لکھا تھا دعا کے لئے اور خود بہت دعا کر رہی تھیں.آپ لکھتی ہیں کہ " آج صبح نماز کے بعد (جس میں خصوصی دعاز یادہ تر ہمیشہ کی طرح آپ کے لئے اور سفر کے لئے تھی.اور مظفر احمد یا جو بلا ہو کسی کی بھی ہو، اس کے رفع ہونے کے لئے ہی زیادہ تر کی.) سوگئی تو آنکھ کھلنے کے قریب عربی میں آواز کسی کی آ رہی ہے.جیسے کوئی خوش الحان قرآن شریف پڑھتا ہے.مگر اثر یہ ہے کہ جیسے کسی کو مخاطب کر کے کوئی بات کرتا ہے.بہت صاف آواز ہے.صرف زبان عربی میں کلمات ادا ہورہے ہیں.یعنی کسی سورۃ قرآن مجید کا خیال نہیں تھا.مجھے وہ الفاظ ، جو یا درہ گئے تھے، وہ یہ تھے، الَّذِيْنَ يَدْعُونَ إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ الَّذِینَ سے پہلے کیا تھا؟ یہ مجھے کچھ یاد نہیں.اس کے بعد کے الفاظ کا بھی بہت مبارک اور مبشر ہونے کا اثر تھا.مگر یاد نہیں رہا.صرف وہی جو میں اپنی زبان سے ساتھ ساتھ کہہ رہی تھی ، یاد ہے.بس یہی الفاظ زبان پر 194

Page 212

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده نیم ستمبر 1967ء جاری تھے کہ آنکھ کھل گئی.مگر ساتھ ساتھ اور کلمات بھی گویا کہے جا رہے تھے.جاگتے جاگتے ان کا پختہ احساس تھا.مگر یا د صرف مجھے اتنارہ گیا.دل پر اچھا خوشکن اثر تھا.توَالَّذِينَ يَدْعُونَ إِلى رَحْمَةِ اللهِ، الہی سلسلہ جنہیں بھی مخاطب کرتا ہے، اور اسلام نے ساری دنیا کو اور تمام اقوام کو مخاطب کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف ہی بلا رہا ہوتا ہے.سب انذاری پیشگوئیاں انسانوں کو جھنجھوڑتی ہیں تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم نہ ہو جائیں.یہ بھی بڑی مبشر خواب ہے.سفر کے دوران انگلستان میں منصورہ بیگم نے دودفعہ خواب میں الفاظ سنے، جو انہوں نے لکھ کر دیئے، میں پڑھ دیتا ہوں.ولکھتی ہیں کہ گلاسکو جاتے ہوئے ، راستہ میں سکاچ کارنر ہوٹل میں ٹھہرے ہیں کہ جیسے کسی بات کا کوئی جواب دے رہا ہو.جواب جو دے رہا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں.اسلام کا ہی جھنڈا بلند رہے گا.خواب پوری یاد نہیں، صرف ذہن میں یہ ہے کہ روس اور انگلستان کی کسی مخالفانہ کوشش یا بات کا جواب ہے.اور یہ الفاظ تمام رات سوتے جاگتے کیفیت میں زبان دہراتی رہی.کوپن ہیگن میں سوتے میں ایک آواز سنائی دی.اللہ تعالیٰ کی رحمت کے فرشتے اترنے لگے ہیں.آنکھ کھلی تو یہی الفاظ زبان پر جاری تھے.رات کے بقایا حصہ میں صبح تک یہی الفاظ بار بار سنائی دیتے رہے اور ساتھ آنکھ کھلتی رہی.اور اسی طرح زبان تکرار کے ساتھ یہی الفاظ دہراتی رہی ، بغیر ارادہ کئے“.تیسری رویا میں اپنی بچی امتہ الشکور کی سنانا چاہتا ہوں.یہ بڑی دعا گو بچی ہے اور بڑی صابرہ.وہی بچی ہے، جس کا پہلا بچہ ولادت کے وقت فوت ہوا اور اسی وقت آدھے گھنٹے کے بعد جب ڈاکٹر نے فارغ کیا، میں اسے ملنے گیا تو مسکراتے ہوئے چہرہ کے ساتھ وہ مجھے ملی.بچی نے نو مہینے کی تکلیف اٹھائی ہو لیکن پیدائش کے وقت بچہ فوت ہو جائے، کچھ تو گھبراہٹ ہونی چاہئے تھی چہرہ پر.لیکن اس قدرخوش میں نے اس کا چہرہ دیکھا کہ میں خود حیران ہو گیا.اور میرے دل نے اس وقت کہا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد ہی اس کا اجر بھی دے گا.اتنا صبر کا اس نے مظاہرہ کیا ہے.چنانچہ اپنے وقت پر جب دوسرا بچہ پیدا ہوا تو وہ بھی لڑکا تھا.( اور پہلے جو بچہ پیدا ہوا، وہ بھی لڑکا تھا.اور اللہ تعالٰی کے فضل سے صحت مند ہے وہ.تو اس کے 195

Page 213

خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم صابرہ ذہنیت کی بچی ہے یہ اجب میں ابھی سفر پر روانہ نہیں ہوا تھا تو اس نے ایک خواب دیکھی.جو بظاہر بڑی منذ رتھی اور اس کا دل دہلا دینے والی تھی.اس نے مجھے کہا کہ میں نے یہ خواب دیکھی ہے.اس کے چار پانچ اجزاء تھے.جن میں ہر جزو کی تعبیر نہایت ہی مبشر تھی.میں نے اس کو تسلی کا خط لکھا کہ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں، بڑی مبشر خواب ہے یہ تو.دوسری خواب اس نے ہمارے یہاں سے روانہ ہونے کے بعد دیکھی.ولکھتی ہے:." آپ کے یورپ تشریف لے جانے کے چند دن بعد خواب میں آپ کی یورپ کو روانگی کا نظارہ دیکھا کہ ایک بہت بڑا گھر ہے اور وہاں پر سب خاندان اور دوسرے احباب بھی آئے ہوئے ہیں.میں دوسری منزل کی کھڑکی سے کھڑی نیچے جھانک رہی ہوں، جہاں کاریں تیار کھڑی ہیں اور ابا حضور ( یعنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) آپ کو رخصت کرنے کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں.آپ لوگ سب سے چھلی کار کے پاس کھڑے ہیں.آپ نے اور ابا حضور نے تیز نیلے رنگ کی اچکنیں اور سفید پگڑیاں پہنی ہوئی ہیں.(ہمارے بچے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ابا حضور کہتے ہیں.ابا حضور کا جسم دبلا پتلا اور چہرہ بھی ویسا ہے، جیسا کہ جوانی کی تصاویر میں دکھائی دیتا ہے.اور آپ کا قدا با حضور سے کافی لمبا ہے.اتنا کہ ابا حضور آپ کے شانوں تک آ رہے ہیں.اور میں سوچ رہی ہوں کہ آپ تو ابا حضور کے برابر ہوا کرتے تھے، اب اتنے لمبے کس طرح ہو گئے ؟ ابا حضور آپ کو کچھ ہدایات دے رہے ہیں اور آپ کے پاس کھڑے لوگوں سے آپ کی تعریف کرتے جار ہے ہیں.اور وہ جملے جو آنکھ کھلنے تک یاد تھے، اب یاد نہیں رہے.پھر دور سے کوئی آواز دیتا ہے ( شاید کوئی ڈرائیور ہے ) کہ گاڑی کا وقت ہو گیا ہے.میں سوچتی ہوں کہ آپ نے تو گاڑی پر جانا ہی نہ تھا، کاروں سے کراچی جانا تھا.وہ آواز سن کر آپ چلنے کی تیاری کرتے ہیں تو ابا حضور آپ کا ہاتھ پکڑ کر بڑی تیزی اور بیتابی کے ساتھ جھٹکے سے آپ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” گلے تو مل لو اور آپ فوراً اس طرح ابا حضور کے سینے کے ساتھ لگ جاتے ہیں، جیسے کہ وہ مقناطیس ہوں.اور ابا حضور بڑی بے تابی اور پیار کے ساتھ آپ کا چہرہ، پیشانی اور گردن چوم رہے ہیں.آنکھوں میں 196

Page 214

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء آنسو ہیں، شاید بہہ بھی رہے ہیں، یہ اچھی طرح یاد نہیں.آپ کے ایک طرف ہو کر امی کالا برقعہ پہن کر کھڑی ہیں.میں انہیں آواز دے کر کہتی ہوں.امی ! مجھے مل لیں.امی اس کھڑکی کے نیچے آتی ہیں، جہاں میں کھڑی ہوں.اور امی کا قد بھی اتنا لمبا ہے کہ دوسری منزل کی کھڑکی تک پہنچ رہا ہے.وہیں سے وہ مجھے گلے لگ کر پیار کرتی ہیں.پھر سب کا روں میں بیٹھ کر چل پڑتے ہیں.اس وقت میری آنکھ کھل گئی.یہ تینوں خوا ہیں (ایک تو قریباً کشفی نظارہ ہے.) بہت ہی مبارک ہیں.اور ان کے مطابق ہی ہم نے اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک کو پایا.اس دورہ میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہمارے تینوں جرمن مشنز کے پاکستانی احمدی اور جرمن احمدی، مرد اور عورتیں، مجھ سے ملے.پھر سوئٹزر لینڈ میں ہمارا تبلیغی مرکز ہے.وہاں بھی خاصی جماعت ہے مقامیوں کی.ہمبرگ کا بھی یہی حال ہے.پھر کوپن ہیگن میں سویڈن، ناروے اور ڈنمارک کے لوگ جمع ہوئے ہوئے تھے.اور ہمارے مبلغ بھی تھے.تمیں اور چالیس کے درمیان تو کھانے پر ہی ہوتے.پھر انگلستان میں دوستوں سے ملنے کا موقع ملا.جہاں اردو بولنے والی ہندوستان اور پاکستان کے بعد سب سے بڑی جماعت ہے.کئی ہزار احمدی اس وقت انگلستان میں موجود ہیں.وہاں کے مقامی احمدی مسلمان اقلیت میں ہیں.ہمارے زیادہ احمدی پاکستانی ہی ہیں.اور میں نے ان کو توجہ بھی دلائی کہ آپ کوشش کریں کہ درجنوں کی بجائے ہزاروں، لاکھوں مقامی باشندے مسلمان ہو جائیں.وہاں کی قلبی حالت جماعت کی ، بہت کچھ یہاں کی جماعتوں کی قلبی حالت سے ملتی جلتی ہے.وہاں بھی بعض انگریز نواحمدی ایثار اور اخلاص کا ایک عجیب نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں.جیسا کہ یورپ میں بسنے والے نو احمدی مسلمان پیش کر رہے ہیں.جب میں انگلستان میں پڑھا کرتا تھا، اس وقت انگلستان میں چند ایک احمدی پائے جاتے تھے.ان میں سے بعض فوت ہو چکے ہیں.ان میں سے اکثر ایسے تھے ، جن کی عقل کو اسلام نے اپیل کی.یعنی اسلام کے دلائل اور براہین کے وہ قائل ہوئے اور اپنے مذہب یا لاند بیت کو انہوں نے چھوڑا اور اسلام کو انہوں نے قبول کیا.لیکن اس عقلی ایمان کے علاوہ ان کے دلوں میں اسلام کی محبت ( بشاشت ایمانی جسے کہا جاتا ہے.وہ نہیں پائی جاتی تھی.عقلاً وہ تسلیم کرتے تھے کہ اسلام ایک سچا مذ ہب ہے کیونکہ اس کے دلائل اس قدر مضبوط ہیں کہ اس کے دلائل کا مقابلہ کوئی دوسرامذہب نہیں کر سکتا.لیکن حسن اور احسان کے 197

Page 215

خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم جلوے، جو ایک سچے مسلمان کو اسلام میں نظر آتے ہیں، وہ ان پر ابھی جلوہ گر نہیں ہوئے تھے.اس دفعہ جو میں وہاں گیا ہوں تو میں نے وہاں کی جماعتوں میں یہ حالت نہیں پائی.ہر جگہ میں نے یہ محسوس کیا کہ اسلام کے دلائل نے ان کی عقلوں کو گھائل کیا ، اسلام کے حسن نے ان کی بصیرت اور بصارت کو خیرہ کیا اور ان کے دلوں میں اس قدر محبت اپنی پیدا کر دی ہے کہ اس سے زیادہ محبت تصور میں بھی نہیں آ سکتی.اور یہ احساس ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات دنیا کے لئے ایک محسن اعظم کی حیثیت رکھتی ہے.اسلام کے حسن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کے وہ شکار ہیں.اور اس کے نتیجہ میں آج وہ اتنی قربانی دینے والے ہیں کہ ( میں بعض مثالیں بیان کروں گا ) اس کی وجہ سے تم میں سے بعض کو شرم آجائے.اتنی دور بیٹھے ہوئے کہ مرکز میں آنا جانا ، ان کے لئے قریباً ناممکن ہے.کبھی ساری عمر میں ایک دفعہ آ جائیں مرکز میں تو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے فرشتوں کو نازل کر کے ان کے دلوں میں اس قدر اور کچھ اس قسم کی تبدیلی پیدا کر دی ہے کہ یہ لوگ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے نقش قدم پر چلنے والے ہمیں نظر آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ان کے دلوں میں محبت کا بڑا مقام ہے اور ہونا بھی چاہئے.کیونکہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل کی حیثیت میں مبعوث ہوئے.اس لئے ان کے دل میں محبت کا شدید جذبہ پایا جاتا ہے.رو، میں ایک رات کھانے اور نمازوں سے فارغ ہونے کے بعد ہمبرگ کی مسجد میں بیٹھ گیا.چار وہاں ہمارے پاکستانی احمدی تھے.اور میرا خیال ہے کہ سات، آٹھ وہاں کے جر من احمدی مرد بیٹھے ہوئے تھے.(جرمن احمدی بہنیں بھی تھیں لیکن وہ ہماری مستورات کے پاس بیٹھی تھیں.گویا مسجد میں قریباً دس، بارہ کچھ پاکستانی اور زیادہ تر جرمن احمدی بیٹھے ہوئے تھے.مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ایک آیت 1868ء میں الہام کی.یعنی آلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ اور اسی وقت آپ نے ایک انگوٹھی بنائی تھی ، جس میں پتھر کا نگینہ ہے اور جس پر یہی الہام کندہ ہے.( اپنا ہاتھ اونچا کر کے حضور نے فرمایا کہ یہ وہ انگوٹھی ہے.) یہ بڑی برکت والی چیز ہے.الہام بھی بڑا برکت والا ہے.ہمارے پاکستانی احمدی تو أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھیاں کثرت سے پہنتے ہیں.مجھے خیال آیا کہ اس کی برکتوں کا میں ان کے سامنے بھی ذکر کروں.تاکہ ان کے ایمانوں میں تازگی پیدا ہو.اس انگوٹھی کا نگینہ کچھ ہلتا ہے، اس لئے میں اس کے 198

Page 216

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء او پر کپڑا لپیٹے رکھتا ہوں تا کہ اس کی حفاظت رہے.میں نے قینچی منگوائی ، اس کپڑے کو اتارا اور میں نے ان کو بتایا کہ اس پتھر پر یہ الہام کندہ ہے.پھر تذکرہ منگوایا اور اس میں سے وہ الہام ان کو دکھایا کہ اس سن میں یہ الہام ہوا تھا.اس سال یہ انگوٹھی بنائی گئی تھی، جو بڑی برکت والی ہے.ہم اس سے برکتیں حاصل کرتے ہیں، تم بھی اس سے برکت حاصل کرو.اور میں نے وہ انگوٹھی اتاری ، ان کو کہا کہ ہر ایک اس کو بوسہ دے.خیر انہوں نے جو پیار کیا، وہ تو میرے کہنے سے کیا.جو کپڑا کئی ماہ اس انگوٹھی یہ رہا تھا اور جو اس کی برکت سے بابرکت بن چکا تھا، کپڑے کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا میں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا.میرے سامنے پاکستانی احمدی بھی بیٹھے ہوئے تھے اور جرمن احمدی بھی بیٹھے ہوئے تھے، میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوا کہ کوئی جرمن اس کپڑے کو بطور تبرک مجھ سے مانگے.مجھے خطرہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی پاکستانی پہل کر جائے اور یہ لوگ اس سے محروم رہ جائیں.میرے دل میں یہ خواہش تو تھی لیکن میں اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھا.کیونکہ میں چاہتا تھا کہ کسی جرمن احمدی کے دل میں خود یہ جذبہ ، شوق اور محبت پیدا ہوا اور وہ اسے حاصل کرے.پہلا ہاتھ جو آگے بڑھا کہ میں لینا چاہتا ہوں، وہ ایک جرمن احمدی کا تھا.میرا دل خوشی سے بھر گیا، یہ دیکھ کر کہ محبت کامل دل میں موجزن ہے، جس نے فوراً اس کے ہاتھ کو کہا ہے کہ آگے بڑھو.پھر ایک پاکستانی نے اسے کہا کہ اس کا آدھا مجھے دے دو.اس نے کہا، میں نے بالکل نہیں دینا.اگر تم نے لینا ہی ہے تو ایک دھاگا نکلا ہوا تھا ، وہ اس نے نکالا اور کہا کہ یہ لے لو.کھانے پر باتوں باتوں میں، میں نے دوستوں کو بتایا کہ میری تاریخ پیدائش 16 نومبر 1909 ء ہے.اس پر ایک بوڑھا جرمن جو کھانے میں شریک تھا اور میرا خیال تھا، وہ احمدی ہے.(لیکن ابھی احمدی نہیں ہوا ، صرف تعلق رکھتا ہے.وہ اپنی کرسی سے کھڑا ہوا اور جیب میں سے اپنا آئیڈینٹیٹی کارڈ نکال کے اس نے میرے سامنے رکھ دیا.اس کی تاریخ پیدائش بھی 16 نومبر (1886ء ) تھی.سن مختلف تھا لیکن 16 نومبر کی تاریخ پیدائش ہماری دونوں کی ایک ہی تھی.کھانے کے بعد جب ہم بیٹھے، مجھے خیال آیا کہ تاریخ پیدائش سے انسان کا ایک لگاؤ ہوتا ہے.ان ملکوں میں تو خاص طور پر زیادہ لگاؤ ہے.ہمارے ہاں تو یہ رسمیں نہیں ہیں لیکن ان ملکوں میں برتھ ڈے پارٹیز کی جاتی ہیں.برتھ ڈے کو وہ لوگ یا در کھتے ہیں اور انہیں ایک گونہ تعلق اس خاص دن سے ہوتا ہے.اگر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان تاریخوں کے الہام ان کو نکال کے دوں تو ان کی برتھ ڈے اور وہ الہام بریکٹ ہو جائیں گے.اس طرح کم از کم ایک الہام یہ یادرکھیں گے کہ اس تاریخ کو یہ الہام ہوا.میں نے تذکرہ منگوا کر (16 نومبر 1886ء کا، جہاں تک مجھے یاد ہے، کوئی الہام نہیں ملا.) اس میں سے نومبر 1886ء کا ایک 199

Page 217

خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم الہام نکال کر لکھا.اور اس کا جرمن ترجمہ کروایا اور اس بوڑھے کو دے دیا.بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ احمدی نہیں ہے.لیکن اس نے بڑی محبت اور پیار سے وہ مجھ سے لیا اور نہ کر کے اپنے بٹوے میں رکھا.اس کے بعد تو پھر سارے میرے پیچھے پڑ گئے.اور جتنے وہاں کے جرمن احمدی تھے ، کہنے لگے کہ ہمیں بھی الہام نکال کے دیں.میں بھی یہی چاہتا تھا.ہر ایک کے لئے اس کی تاریخ اور سنہ کا الہام تو نہ مل سکا.(سوائے ایک کے جس کی تاریخ کا الہام غالباً مل گیا تھا.کیونکہ ان میں سے اکثر وہ تھے، جن کی پیدائش 1908ء کے بعد ہوئی.سال تو بہر حال نہیں مل سکتا تھا لیکن مہینے اور تاریخیں مل جاتی تھیں.وہ الہام میں نے ان کو نکال کے اور ترجمہ کروا کے دیئے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا ایک ایک الہام ان کو یادر ہے اور اس سے ان کا تعلق قائم ہو جائے.ہر ایک نے پیچھے پڑ کے وہ الہامات مجھے سے نکلوائے اور کافی دیر تک وہاں بیٹھے رہے.کیونکہ ترجمہ بھی کروانا تھا اور پھر ٹائپ بھی کرنا تھا.ہر ایک نے بڑی محبت سے ان الہامات کو لیا اور سنبھال کے رکھا.ایک کی والدہ بھی آئی تھیں، اس نے کہا، مجھے الہام نکال کے دیا ہے تو میری والدہ کے لئے بھی نکال دیں ، وہ بڑی خوش ہو گی.وہ بڑا ہی مخلص جرمن نو جوان ہے.چنانچہ اس کی والدہ کے لئے بھی میں نے الہام نکال کے دیا.اور اتفاق کی بات ہے کہ وہ بیوہ ہے بیچاری ، جو شگی کی حالت میں دن گزار رہی تھی.اس کے لئے الہام یہ نکلا ( اس وقت مجھے الفاظ یاد نہیں ) کہ بعد کے جو دن ہیں، وہ پہلے دنوں کی نسبت زیادہ خوشحالی کے ہیں، کچھ اس قسم کا ذکر ہے الہام میں.ویسے بھی مطلب کے لحاظ سے یہ الہام اس کو خوش کرنے والا تھا.برکت کے لحاظ سے تو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں برکت ہے.یہ ان لوگوں کے جذبات ہیں، جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے ظاہر ہورہے تھے.اصل میں یہ باتیں چھوٹی نہیں ہیں.محبت کا اظہار جس رنگ میں بھی ہو، اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.نہ چھوٹا کہا جا سکتا ہے.دنیا دار کی نگاہ میں وہ چھوٹی باتیں ہیں.مگر پھوٹ پھوٹ کر ان کے دلوں سے محبت بہتی ، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی.یہ نومسلم قربانی کرنے والے ہیں.مالی لحاظ سے بھی اور وقت کے لحاظ سے بھی.اس وقت زیادہ تر دو ہی قربانیاں ہیں نا؟ جن کا جماعت یا ہمارا اللہ مطالبہ کرتا ہے.ایک مال کی قربانی ، ایک وقت کی قربانی.وقت کی قربانی میں ہی آرام کی قربانی بھی آجاتی ہے.اور ہمارے یہ بھائی دونوں قسم کی قربانی دینے والے ہیں.وہاں موصی پائے جاتے ہیں اور بشاشت کے ساتھ خود وصیت کا چندہ ادا کرتے ہیں، علاوہ دوسرے چندوں کے.اس کے علاوہ اپنے طور پر خرچ کرتے ہیں، اسلام کی اشاعت پر.ان میں 200

Page 218

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء بڑی عمر کے بھی ہیں اور نو جوان بھی ہیں.اخلاص اور محبت ان میں کوٹ کوٹ کے بھری ہے.ان سے مل کے طبیعت میں خوشی پیدا ہوتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس کے دل میں ایمان کی بشاشت ایک دفعہ پیدا ہو جائے ، شیطانی حملوں کا خطرہ اس کے لئے باقی نہیں رہتا.یہ بشاشت ایمانی اس گروہ کے دلوں میں اس نے پیدا کر دی ہے، اپنے فضل ڈنمارک میں ایک شخص ہے، عبد السلام میڈسن.وہ احمدی ہوا، اس نے اسلام کو سیکھا، قرآن کریم کے ترجمے ، جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شائع کروائے ، ان میں سے ہر ایک کو لے کر اس نے بڑے غور سے پڑھا.پھر ڈیمینش زبان میں اس نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا ، ان تراجم کی روشنی میں اور وہ بڑا مقبول ہوا.ایک کمپنی نے اس سے معاہدہ کیا اور دس ہزار شائع کیا ، جس میں سے غالباً تین، چار ہزار چند مہینوں کے اندرفروخت بھی ہو چکا ہے.کچھ رقم بطور معاوضہ کے (اس کو رائلٹی کہتے ہیں.) اس کمپنی نے اس کو دی.وہ ساری کی ساری رقم اشاعت اسلام کے لئے اس نے وقف کر دی.ایک پیسہ نہیں لیا.وہ دونوں میاں بیوی سکول میں کام کرتے ہیں.ہر ایک کی قریباً ہزار، ہزار روپیہ تنخواہ ہے.اور ٹیکس لگ جاتا ہے ان پر، قریباً ایک ہزار.تو ایک ہزار بچتا ہے، ہر دو کی تنخواہ سے.اب جس شخص کی ایک ہزار روپیہ ماہوار آمد ہے اور اسے ٹیلی فون کا دو ہزار کا بل آجائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس قدر اسلام کا در درکھتا ہے، وہ شخص اگر کوئی شخص اس کو خط لکھے، اسلام پر اعتراض کرے یا اسلام کے متعلق کوئی بات پوچھے اور اس کے خط میں ٹیلی فون نمبر ہے تو وہ ٹیلی فون اٹھا کے اس کو ٹیلی فون کرتا ہے.وہاں ٹیلی فون کا انتظام کچھ مختلف ہے.جتنی دیر مرضی ہو، کوئی بات کرتا ہے.یہ نہیں کہ تین منٹ کے بعد کہیں کہ تمہارا وقت ختم ہو گیا.صرف بل آ جائے گا.ایک گھنٹہ بھی کوئی بات کرے، ایک گھنٹہ کا بل دے دیں گے.وہ ویسے سستا بھی ہے.کافی ستا ہے.ہم ہمبرگ سے لندن فون کرتے تھے تو پتہ چلا کہ اس کے اوپر پانچ ، چھ روپے خرچ ہوتے ہیں.تو کوئی اعتراض کر دے تو یہ شخص ٹیلی فون کے او پر تبلیغ شروع کر دیتا ہے، اعتراض دور کرتا ہے، مسئلے اس کو بتانے لگتا ہے.ایک مہینہ میں دو ہزار روپے کا بل اس شخص کے نام آ گیا، جس کی ایک ہزار روپیہ آمد تھی.تو بے دریغ اور بے دھڑک اسلام کی اشاعت پر اپنے اموال خرچ کرنے والے ہیں، یہ دوست.جب امام کمال یوسف صاحب کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ یہ تمہارا ذاتی خرچ تو ہے نہیں، انہوں نے سوچا کہ ایک مہینہ میں دو مہینے کی آمد کے برابر بل وہ کیسے ادا کرے گا ؟ ) تم کو اشاعت قرآن سے جو آمد آ رہی ہے، وہ ہمارے پاس جمع ہو رہی ہے، میں اس میں سے یہ بل ادا کر دوں گا.سو، دوسو کابل 201

Page 219

خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہوتو وہ خود ہی ادا کر دیتا ہے.ایک ماہ میں دو ہزار روپے کے بل کا مطلب یہ ہے کہ دو ہزار روپیہ کا ہل جتنا وقت خرچ کرنے پر آتا ہے، اتنا وقت بھی تو اس نے خرچ کیا ہے نا؟ میرا اندازہ ہے کہ کئی گھنٹے روزانہ اوسط بنے گی.پس بڑی ہی قربانی ہے، اس شخص کی جو پورے چندے بھی دیتا ہے اور دین کے کاموں پر بہت سا وقت بھی خرچ کرتا ہے.اور اس کے علاوہ گھنٹوں ٹیلیفون پر تبلیغ اسلام کرتا ہے اور ٹیلی فون کا بل بھی اپنی گرہ سے دیتا ہے.یہ دوست بڑی غیرت رکھنے والے ہیں، اسلام کے لئے.بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں، اسلام کے لئے.بڑی محبت رکھنے والے ہیں، اللہ سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور آپ کے غلاموں سے.اور اللہ تعالیٰ کی محبت پانے والے بھی ہیں.کیونکہ جو خدا کی راہ میں دیتا ہے ، وہ خدا سے اس سے زیادہ حاصل بھی کرتا ہے.ورنہ بشاشت قائم نہیں رہ سکتی.جب تک اللہ تعالیٰ کے پیار کا سلوک اس کا ایک بندہ اس دنیا میں نہیں دیکھتا، بشاشت ایمانی نہ پیدا ہوتی ہے، نہ قائم رہتی ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا.وہ ان سے اس دنیا میں ہی اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے.ادھار رکھنا نہیں چاہتا.وہ غیر محدود جلووں کا مالک ہے، بے شمار رنگ ہیں.ہمارے تصور میں بھی وہ رنگ نہیں آتے.جس رنگ میں اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے، یہ لوگ اپنے رب سے اس محبت کو پاتے ہیں.اور جو ایثار اور قربانی اور فدائیت کے نمونے یہ دکھاتے ہیں، اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر ان پر انعام کرتا ہے اور رحمتیں نازل کرتا ہے.سو اس طرح یہ ایک چکر ہے، جو چلا ہوا ہے.یہ چکر جیسے یہاں چلا ہوا ہے، وہاں بھی چل پڑا ہے.اور درجنوں ایسے آدمی ہیں، مرد بھی اور عورتیں بھی، جنہوں نے خدا کی راہ میں فدائیت اور ایثار کا نمونہ دکھایا.اور اللہ تعالیٰ نے انتہائی محبت اور پیار کا سلوک ان سے کیا.اور ان کے سینوں کو اپنے نور سے اور اپنی محبت سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے فرزند جلیل کی محبت سے بھر دیا.اور یہ ایک نمونہ بن گئے ہیں، اس دنیا کے لئے.میں تو ان سے کہتا تھا کہ تمہیں دیکھ کے کچھ امید بندھتی ہے.ورنہ جن قوموں سے تم نکلے ہو، اگر ان کے کردار اور گزری زیست پر نگاہ کریں تو وہ اس قابل ہیں کہ بلاک کر دیئے جائیں.لیکن جس قوم سے تمہارے جیسے خدا کے پیارے پیدا ہو سکتے ہیں، اس قوم میں سے جہاں بارہ نکلیں، بارہ لاکھ بھی نکل سکتے ہیں.اس لئے ہمیں امید بندھتی ہے کہ شاید تمہاری قومیں بچ جائیں اللہ تعالیٰ کے قہر سے.اور قہر کی بجائے رحمت اور پیار کے جلوے جو ہیں ، وہ ان کو ملاحظہ کریں.دیکھو، میں ہوں ایک ذرہ ناچیز.مجھ سے اگر کوئی احمدی پیار کرتا ہے تو صرف اس لئے کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا پیار ہے، اس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ہے، اس کے دل میں 202

Page 220

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده نیم ستمبر 1967ء مسیح موعود کا پیار ہے.وہ یہ دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس شخص کو ایک مقام پر فائز کیا ہے اور اس کے وعدے ہیں کہ وہ اس کے ساتھ ہے، اس لئے اور صرف اس لئے وہ مجھ سے پیار کرتا ہے.ورنہ مجھ میں ذاتی کوئی خوبی نہیں.اور اس قسم کا پیار میں نے وہاں دیکھا کہ دل چاہتا تھا کہ جسم کا ذرہ ذرہ اپنے رب پر قربان ہو جائے.اور ان بھائیوں پر بھی جن کے دل کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح سرا پا محبت بنا دیا.کوپن ہیگن کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر ہمارا یہ غیور اور محبت کرنے والا بھائی ، میڈسن ، میری حفاظت اور پہرے کا بھی خیال رکھتا رہا.پھر افتتاح کے موقع پر کم و بیش تین منٹ اس نے بولنا تھا.ایک ایک لفظ اس کے گلے میں انکتا، اس قسم کا جذباتی وہ ہو گیا تھا.حالانکہ سکنڈے نیویا کے لوگ اپنے جذبات کا لوگوں کے سامنے اظہار اتنا برا سمجھتے ہیں کہ آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے.ایک دفعہ ہمارا ایک آنریری مبلغ وہاں آیا ہوا تھا، اس کو اطلاع ملی کہ اس کا باپ فوت ہو گیا ہے.لیکن امام کمال کو پتہ بھی نہیں لگا.نہ اس کی زبان نے ظاہر کیا ، نہ اس کے چہرے نے ظاہر کیا ، نہ اس کی طرف سے یہ ظاہر ہوا کہ اس کو کوئی تکلیف پہنچی ہے.اس قد ر ضبط ہے ان کو اپنے نفسوں پر.اس کے باوجود پانچ ، چھ دن جو ہم ٹھہرے، معلوم نہیں کتنی دفعہ آبدیدہ ہوئے ، جذباتی ہو گئے، وہ دوست.ایک ہمارے بہت ہی مخلص آنریری مبلغ ناروے کے ہیں.ان کا نام ہے، نور احمد.اس نے اپنی بیوی کو تبلیغ کر کے احمدی کیا.وہ اس کا نام رکھوانا چاہتے تھے کیونکہ اسے احمدیت قبول کئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا.انہوں نے کہا کہ ہم اکیلا ملنا چاہتے ہیں.ان کی بیوی اور ایک چھوٹی بچی ہے، دو اڑھائی سال کی بڑی پیاری.سب ملنا چاہتے ہیں.میں نے ان کو وقت دے دیا.اتفاقاً ان کی بیوی تو بیمار ہوگئی تو وہ خودا کیلے آئے ، میرے سامنے.جب آکر بیٹھے تو میں نے دیکھا کہ وہ کانپ رہے ہیں اور خاموش ہیں، بات کرتے ہیں تو ایک فقرہ بھی ان کے منہ سے پورا نہیں نکل سکتا، اس قدر جذباتی ہو گئے تھے.میں نے ان سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں.پانچ ، سات منٹ تک میں باتیں کرتارہا، ان کے حالات وغیرہ کے متعلق جب باتوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ اب یہ شخص اپنے نفس پر قابو پا چکا ہے اور جذبات بے قابو نہیں ہیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کام ہے؟ تو کہنے لگے کہ میں نے اپنی بیوی کا نام رکھوانا ہے اور بچی کا.بیوی کا نام میں نے محمودہ رکھا اور بچی کا نام رکھا، نصرت جہاں“.کیونکہ نصرت جہاں ہمیں مسجد بھی ملی اور ایک بچی بھی اللہ تعالیٰ نے دی.بچی کا نام نصرت جہاں سن کر تو اس کی باچھیں کھل گئی.میرا خیال ہے کہ اس کی اپنی خواہش یہ تھی کہ یہی نام رکھا جائے.لیکن اس نے اپنی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا.203

Page 221

خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خیر نام رکھا گیا.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کا جسم پھر کانپنا شروع ہو گیا اور اس کے ہونٹ پھڑ پھڑانے لگے اور بڑی مشکل سے اس نے یہ فقرہ ادا کیا کہ دل میں جو جذبات ہیں، وہ زبان پر نہیں آسکتے.یہ کہہ کر وہ کھڑا ہو گیا.میں نے اسے گلے سے لگا لیا.اس نے السلام علیکم کہا اور چلا گیا.آنکھیں اس کی آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں.بات ہی نہیں کر سکتا تھا، اس قسم کا جذباتی ہو رہا تھا وہ.اور تھا وہ اس قوم میں سے کہ اگر اس کا باپ بھی مرجاتا تو وہ نہ بتاتا کہ اس کا باپ مر گیا ہے.اور نہ چہرے پر غم کے آثار ظاہر ہوتے لیکن اب ان کے دل اللہ تعالیٰ نے بدل دیتے ہیں.اب وہ ایسی قوم بن گئے ہیں کہ اپنے اخلاص اور تقویٰ اور اس فضل کی وجہ سے اور اس رحمت کی وجہ سے، جو اللہ تعالیٰ ان پر نازل کر رہا ہے، اس پیار کی وجہ سے، جس کے وہ نمونے دیکھتے ہیں، یہاں کے مخلص بزرگوں کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں.اب ان کی حیثیت ایک شاگردہ کی نہیں رہی.وہ شاگرد کی حیثیت سے آگے بڑھ گئے ہیں.اور جس طرح یہاں کے مخلصین دنیا کے استاد ہیں اور استاد ثابت ہو رہے ہیں، اسی طرح وہ بھی دنیا کے استاد ثابت ہورہے ہیں.اور اگر ہم نے سینتی سے کام لیا اور وہ قربانیاں نہ دیں، جو ہمیں دینی چاہئیں، ایسے احمدی کی حیثیت سے، جس کا مرکز کے ساتھ تعلق ہے، اور جو پاکستان میں رہنے والے ہیں، نیز اگر ہم نے اپنی نسلوں کی اعلیٰ تربیت نہ کی تو پھر اللہ تعالی تحریک غلبہ اسلام کا مرکز ایسی قوم میں منتقل کر دے گا، جو اس کی راہ میں سب سے زیادہ قربانی دینے والی ہوگی.بے شک ہمیں ایک عظیم بشارت دی گئی ہے.مگر یہ بشارت ہم پر ایک عظیم ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے.جس کی طرف ہر وقت متوجہ رہنا، از بس ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کی تو کسی سے رشتہ داری نہیں ہے.اس لئے اس عظیم ذمہ داری کے پیش نظر ہمیں ہر وقت ڈرتے ڈرتے زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.کہ ہماری غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں کہیں اللہ تعالیٰ سلسلہ کے مرکز کو ہم سے چھین کر یا ہماری نسلوں سے چھین کر کسی اور کے سپرد نہ کر دے.بوجہ اس کے کہ وہ ہماری یا ہماری نسلوں کی نسبت زیادہ قربانیاں دینے والے اور اللہ سے زیادہ محبت کرنے والے، اللہ کی راہ میں فدائیت اور ایثار کے بہتر نمونہ دکھانے والے بن جائیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی توفیق دے، بہتر سے بہتر خدمت دین اسلام کی.لیکن اللہ تعالی ہم میں کوئی خامی اور نقص اور کمزوری پیدا نہ ہونے دے.ہمیں دعا ئیں بھی کرنی چاہئیں اور کوشش بھی کرنی چاہئے کہ اس کی توفیق سے ہم ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طور پر نبھاتے رہیں.اس وقت انسانیت جس دور میں سے گذر رہی ہے ، وہ انسانیت کے لئے بڑا ہی نازک دور ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ جب میں موجودہ انسان کے حالات پر غور کرتا ہوں تو میرا چین چھن جاتا 204

Page 222

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم - خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء ہے اور مجھے بڑی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے.کیونکہ اس دور میں اگر کسی انسان پر باقی سب انسانوں کو ہلاکت اور تباہی سے بچانے کی ذمہ داری پڑتی ہے تو وہ ہم ہیں.اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا نہ کریں تو ایک طرف اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہوں گے اور دوسری طرف ہم ذمہ دار بن جائیں گے ، ان قوموں کی ہلاکت کے.کیونکہ جوان سے تعلق رکھنے والی ہماری ذمہ داریاں تھیں، وہ ہم نے پوری نہیں کیں.حقیقت یہ ہے (اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو میں اس حقیقت کو دہرا تا چلا جاؤں گا.جب تک کہ میں اپنے مقصد کو حاصل نہ کرلوں یا اس دنیا سے گذرنہ جاؤں ) کہ ہر احمدی کو دنیا کا رہبر اور قائد اور استاد بننے کی اپنے اندر اہلیت پیدا کرنی پڑے گی.اور پیدا کرنی چاہئے.کیونکہ آج بھی دنیا کو ان سے کہیں زیادہ تعداد میں استادوں اور مبلغین کی ضرورت ہے، جو آج ہمارے پاس ہیں.لیکن وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جب اس ضرورت کی ہماری موجودہ اہمیت کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہ ہوگی.بلکہ دنیا لاکھوں آدمی مانگے گی.دنیا جماعت احمدیہ سے یہ کہے گی کہ ہم سیکھنے کے لئے تیار ہیں، تم ہمیں آ کر سکھاتے کیوں نہیں؟ کیا جواب ہوگا ، آپ کے پاس اگر آپ ان کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے؟ پس میں نے غور بھی کیا ، میں نے دعا ئیں بھی کیں اس کے متعلق اور اللہ تعالیٰ نے بڑے زور سے میرے دل میں ڈالا ہے کہ اگلے ہیں، تمیں سال دنیا پر ، انسانیت پر اور جماعت پر بڑے نازک ہیں.ایک نہایت ہی خطرناک عالمگیر تباہی کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاتا دی ہے.جس کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ اگر وہ تباہی دنیا پر آ گئی تو دنیا میں علاقے کے بعد علاقہ ایسا ہوگا کہ جہاں سے زندگی ختم ہو جائے گی.پہلی دو عالمگیر جنگوں میں ، نہ ایسا ہوا، نہ ایسا ہو ناممکن تھا.کچھ آدمی مارے گئے ، کچھ پرندے بھی مارے گئے ہوں گے ، کچھ چرندے بھی مارے گئے ہوں گے، کچھ کیڑے مکوڑے بھی مارے گئے ہوں گے.لیکن کوئی ایک علاقہ ایسا نہیں ہو سکتا تھا، جہاں سے زندگی ختم ہوگئی ہو.(سوائے دو استثناء کے ، جو جاپان پر دو ایٹم بم گرانے کے ہیں.لیکن تیسری عالمگیر تباہی کے متعلق یہ پیشگوئی واضح الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں موجود ہے کہ ایسے علاقے ہوں گے کہ جن میں زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا.پھر یہ بھی پیشگوئی ہے کہ اس عظیم ہلاکت کے بعد (اگر اس ہلاکت سے قبل یہ اقوام اسلام کی طرف اور اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی طرف نہ آ گئیں ) اسلام بڑی کثرت سے دنیا میں پھیل جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ نظارہ دکھایا گیا.آپ نے دیکھا کہ روس میں اس قدر احمدی ہیں، جس قدر کہ ریت کے ذرے ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ریت کے ذروں کی طرح میں نے وہاں 205

Page 223

خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم احمدیوں کو دیکھا ہے.میں نے اپنے سفر میں یورپ والوں کو کہا کہ جہاں تک روس کا تعلق ہے، پیشگوئی بڑی واضح ہے.لیکن یورپ کی طاقت کے تباہ ہونے اور ان اقوام کے کثرت سے بیچ جانے کے متعلق کوئی واضح الہام میرے علم میں نہیں ہے.اور اس لئے مجھے تمہارے متعلق زیادہ فکر ہے.اس لئے ہوشیار ہو جاؤ اور اپنے بچاؤ کی فکر کرو تمہیں سوائے اللہ کے آج اور کوئی بچا نہیں سکتا.اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو تا کہ تمہیں بچایا جائے.اگر آج وہ میری نصیحت کو مانیں اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کریں تو کل وہ ہم سے مطالبہ کریں گے کہ ہمیں دس ہزار (یا شاید اس سے بھی زیادہ) مبلغ اور استاد چاہئیں، جو ہمیں دین اسلام سکھائیں تو میں انہیں کیا جواب دوں گا؟ کیا میں یہ کہوں گا کہ میں نے تمہیں اس ابدی صداقت کی طرف بلایا تو تھا لیکن تمہارے دلوں میں صداقت کو قائم کرنے کے لئے میرے پاس کوئی انسان نہیں ہے؟ اسی لئے میں پریشان رہتا ہوں اور اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ ہر احمدی مرد اور احمدی عورت دنیا کا رہبر بننے کی اہلیت پیدا کر لے.تا کہ جب انسان ہمیں یہ کہہ کر پکارے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی طرف بلایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو پکار کے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے.ہم اس جھنڈے تلے جمع تو ہورہے ہیں لیکن اس جھنڈے کا سایہ، جو اسلام سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہی ہمیں حاصل ہوسکتا تھا، ٹھنڈا رحمت کا سایہ ) وہ ہم پر نہیں پڑا.معلم اور استاد بھیجوت وہ ہمیں دین اسلام سکھائیں اور تاوہ ان باتوں کو واضح کریں.وہ تعلیم ، وہ ہدائیتیں ہمیں دیں، جو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں.اور اس کے جواب میں، میں یا کوئی اور، جو میرے بعد آنے والا ہے، وہ یہ کہے کہ میرے پاس تو آدمی نہیں ، میں تمہاری مدد کیسے کروں؟ کیا خلیفہ وقت کا یہ جواب، جو آپ کی طرف سے دیا جائے ، ہمارے خدا کو پیارا ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں.اپنے بچوں کے ذہنوں میں، ان کے دلوں میں یہ چیز گاڑ دو کہ ہر چیز کو قربان کر کے بھی دین اسلام سیکھنے ، انوار قرآن حاصل کرنے کی طرف توجہ دو.نہ پہلوں نے دنیا کمانے سے آپ کو روکا، نہ میں روکتا ہوں.دنیا کمائیں دین کی مضبوطی کے لئے ، دنیا سے عیش کے لئے نہیں.اور دنیا کماتے ہوئے بھی اتنا دین سیکھ لیں کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کی آواز آپ کے کان میں پہنچے کہ اعلائے کلمہ اسلام کے لئے اور دین اسلام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اور ان اقوام کو، جو اسلام کی طرف جھک رہی ہیں اور رجوع کر رہی ہیں، ان کو اسلام کی تعلیم سکھانے کے لئے آدمی چاہئیں تو آپ میں سے ہر ایک اس قابل ہو کہ انہیں اسلام سکھا سکے.اور اس بات کا عزم اپنے دل میں 206

Page 224

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبه جمعه فرموده یکم ستمبر 1967ء رکھتا ہو کہ وہ دنیا کے ہر کام کو چھوڑ دے گا.اور اسلام کے سکھانے کے لئے جہاں ضرورت ہوگی، چلا جائے گا.تو یہ تڑپ ہے، جو میرے دل میں ہے.یہ پریشانی ہے، جو لاحق ہے.جو بعض دفعہ میری نیند کو بھی حرام کر دیتی ہے.میں ہمیشہ دعائیں کرتا رہتا ہوں آپ کے لئے بھی اور اپنے لئے بھی اور ساری دنیا کے لئے بھی.اور میں اپنے رب سے کہتا ہوں کہ اے میرے پیارے رب ! تو نے آج تک ہمیشہ پیار کی نگاہ مجھ پر رکھی ہے.آئندہ بھی ہمیشہ پیار ہی کی نگاہ رکھنا.اور مجھے یہ توفیق دینا کہ جماعت کی رہبری اور قیادت کے لئے جو ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے، وہ میں اچھی طرح نبھا سکوں.تا کہ یہ تیری پیاری جماعت اور میری پیاری جماعت تیرے سامنے شرمندہ نہ ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“.( مطبوعه روزنامه افضل 104اکتوبر 1967ء) 207

Page 225

Page 226

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء اللہ تعالیٰ کے سوا سب بتوں کو توڑ کر دل سے باہر پھینک دیں تقریر فرمودہ 05 ستمبر 1967ء حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی سفر یورپ سے کامیاب مراجعت پر لوکل انجمن احمد بی ربوہ کی طرف سے حضور کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی.اس موقع پر حضور نے درج ذیل اہم تقریر فرمائی.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس وقت جو ایڈریس پڑھا گیا ہے، اس میں ایک تو اس تعلق واخوت وعقیدت کا اظہار ہے، جو خدائی جماعتیں اپنے امام سے رکھتی ہیں.اور دوسری طرف اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ خداوہ دن جلد تر لائے ، جب ساری دنیا میں اسلام غالب آ جائے.اور ہر دل خدائے واحد پر ایمان لانے والا اور اس کی حمد کرنے والا بن جائے اور ہر دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جاگزیں ہو جائے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو امام مقرر کیا جاتا ہے، اس کے دل میں جماعت کی اور سلسلہ کی محبت پیدا کی جاتی ہے.ایسے رنگ میں کہ دنیا کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے.اور جماعت کے دلوں میں اس کے لئے محبت پیدا کر دی جاتی ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا نظارہ میں نے ربوہ سے لنڈن تک اور لنڈن سے واپس ربوہ تک اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا.میر اسفرر بوہ سے شروع ہوا.مختلف اسٹیشنوں پر جماعت کے احباب (مردوزن) مجھے ملے.کراچی سے ہم روانہ ہوئے.پہلے جہاز طہران (ایران) کے ہوائی اڈہ پر اترا.وہاں بھی کچھ احمدی دوست موجود تھے، جن سے مل کر انتہائی خوشی ہوئی.پھر ہم ماسکو کے ہوائی اڈے پر اترے، جہاں ابھی تک کوئی احمدی ایسا نہیں تھا، جو وہاں ملنے کے لئے آیا ہوتا.اس کے بعد فرینکفورٹ (جرمنی) کے ہوائی اڈہ پر جہاز اترا.وہاں اپنی مسجد بھی ہے ، مشن ہاؤس بھی ہے، مبلغ بھی ہے.چنانچہ ہوائی اڈہ پر پاکستانی احمدی بھی موجود تھے اور جرمن احمد کی بھی موجود تھے.ان کے چہروں پر جب میری نظر پڑی تو ( بلا امتیاز پاکستانی بھی اور وہاں کے رہنے والے بھی) ان کی آنکھوں سے محبت کے دریا چھلکتے مجھے نظر آئے.اور ان کے لئے میرے دل کی جو کیفیت تھی، اس کا بیان کرنا، میرے لئے ناممکن ہے.پھر ہم 209

Page 227

تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم زیورگ گئے ، ہیگ گئے، ہیمبرگ گئے ، پھر وہاں سے کوپن ہیگن گئے ، پھر لنڈن گئے ، پھر گلاسگو گئے.گلاسگو سے واپسی پر تھوڑی دیر کے لئے بریڈ فورڈ ٹھہرے اور ہڈرزفیلڈ کی مخلص جماعت میں ایک گھنٹہ قیام کیا.بریڈ فورڈ کے گرد نواحمدی جماعتیں پائی جاتی ہیں، ان جماعتوں کے دوستوں سے ملنے کا اتفاق ہوا.لنڈن یں سارے انگلستان کے احمدی وقتاً فوقتاً جمع ہوتے تھے، ان سے ملے.الوداع کے دن جو نظارہ لنڈن میں، میں نے دیکھا، ساری عمر اسے فراموش نہیں کر سکتا.اس نظارہ کے بعد اپنے دل کی جو کیفیت پائی ، وہ نا قابل بیان ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی ہے.اس نظارہ کا ایک حصہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں.ایک بارہ، تیرہ سال کا احمدی بچہ مسجد میں کام کیا کرتا تھا، وہ نیچے سے پیغام میرے پاس لاتا تھا اور میرا پیغام نیچے لے جاتا تھا ، جس وقت دعا ہوئی ، ساری جماعت پر رقت طاری تھی، مجھ پر بھی رقت طاری تھی.ہم نے جہاں اپنے لئے دعا کی ، وہاں یہ دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ ان قوموں کو ہدایت دے اور وہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہنچانے لگیں.دعاختم کرنے کے بعد میں آنکھیں نیچے کئے ، چند منٹ کھڑا رہا.پھر میں نے اپنے دوستوں کو دیکھا، ان کو سلام کیا.اسی وقت ہمیں ہوائی اڈہ پر جانا تھا.اچانک دائیں طرف جو میری نظر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ وہ پیارا بچہ ، جس کی عمر بمشکل بارہ تیرہ سال کی تھی ، اس وقت بھی اس کی آنکھوں سے پانی کا دریا بہہ رہا تھا.واپسی پر ہم پیرس ٹھہرے.وہاں ہماری ایسی جماعت نہیں ہے کہ وہ اڈہ پر آ کر ہم سے ملتی.پھر استنبول ٹھہرے، پھر عراق ٹھہرے، پھر کراچی آگئے.کراچی میں اور پھر راستہ بھر پاکستانی جماعتوں کے وست ملے.ان کے چہروں کو میں نے دیکھا، مجھے انہوں نے دیکھا.ایک ایسا جذبہ اخوت و محبت ان کے چہروں پر کھیلتا نظر آیا، جو اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا تھا، جب تک اللہ تعالیٰ اسے پیدا نہ کرے.مجھے جھنگ کے ایک دوست نے خط لکھا کہ ایک غیر احمدی عورت آپ کے ساتھ اسی گاڑی میں سفر کر رہی تھی.شورکوٹ میں ہماری جھنگ کی جماعت بھی پہنچی ہوئی تھی.شور کوٹ کے ریلوے سٹیشن پر اس عورت کے منہ سے جو فقرے نکلے اور کسی احمدی نے وہ سنے، وہ یہ تھے کہ مرید تو بہت دیکھے ہیں پر اس قسم کے عقیدت مند مرید ہم نے کبھی نہیں دیکھے.اور پیر بھی بڑے دیکھے ہیں مگر ایسا پیر بھی ہم نے کبھی نہیں دیکھا.غرض یہ اثر غیر از جماعت افراد بھی لے رہے تھے.ملتان میں جماعت بڑی تعداد میں جمع تھی.(شہر کی بھی اور ارد گرد کی جماعتیں بھی ) پلیٹ فارم جو بہت بڑا ہے اور وہ سب بھرا ہوا تھا.میرا اندازہ تھا کہ پانچ ، سات سو یا ہزار احمدی افراد وہاں ضرور ہوں 210

Page 228

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد چہارم تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء گے.ان کی یہ کیفیت تھی کہ جدھر میری نظر اٹھتی تھی، وہ خوشی سے اچھلنے لگتے اور سلام کرتے.اور ان کے سینوں سے محبت اس طرح نکل رہی تھی اور وہ اس طرح میرے سینے میں جذب ہورہی تھی کہ ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کا فضل نظر آرہا تھا اور اس کے حضور سر جھکتا چلا جاتا تھا.جو جماعتیں اس وقت یورپ میں ہیں، ان کے دل میں بھی اس قسم کے جذبات ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے لگائے ہوئے یہ درخت اور ان کے یہ شیریں، پھل اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہترین جزا دے.کبھی یہ سوچ کر انتہائی تکلیف ہوتی ہے کہ جو درخت آپ نے لگائے تھے، ان کے یہ شریں پھل آپ نہ دیکھ سکے.بہر حال خدا تعالیٰ کی مرضی ہی پوری ہوتی ہے اور ہم اس کی رضا پر راضی ہیں.اسلام کے اللہ کے لئے، جو ان کا اللہ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ، جو دنیا کے محسن اعظم ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ، جن کے ذریعہ سے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پہنچانا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شناخت کیا اور پھر آپ کے خلفاء کے لئے جو محبت ان کے اندر پائی جاتی ہے، اس کا آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے.یہ جنونی احمدی ہیں، جو وہاں پیدا ہو چکے ہیں، جو اپنا مال، اپنی جان، اپنا وقت، اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے اور اسلام کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.انہیں یکھ کر بیعت میں بڑی خوشی اور بشاشت پیدا ہوتی ہے اور اپنے رب کی بڑی ہی حمد کرنے کی طرف انسان متوجہ ہوتا ہے.وہ بہترین مخلصین کی جماعت ہے.اللہ تعالیٰ انہیں استقامت بخشے ، ان کو اپنے حفظ وامان میں رکھے کیونکہ دنیا کے حالات اس وقت بہت نازک ہیں.ایک موقع پر ایک اخباری نمائندہ نے مجھ سے پوچھا کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ یورپ میں اسلام پھیل جائے گا؟ میں نے اسے کہا، خیال کیسا؟ میں تو اس یقین پر قائم ہوں کہ یورپ میں اسلام ضرور پھیلے گا.تم لوگ تباہی کے بعد اسلام لاتے ہو یا اسلام لا کر اس تباہی سے بچ جاتے ہو، یہ تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے.میری یہ خواہش ہے اور میری یہ تمنا ہے، میری یہ دعا ہے کہ تم اس تباہی سے بچ جاؤ.اور میں اس غرض سے یہاں آیا ہوں کہ تمہیں یہ بتاؤں کہ اگر تم اپنے اللہ کی طرف، اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع نہ کرو گے تو تباہی تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے.اور یہ ان پیشگوئیوں کے مطابق ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 60 سال سے زیادہ عرصہ ہوا، اپنے رب سے خبریں پا کر دنیا کے سامنے رکھی تھیں.جب میں یہاں سے گیا ہوں، اس سے پہلے میرے دل میں بڑے زور سے یہ تحریک ہوئی تھی کہ پیشگوئیاں (انداری) موجود ہیں لیکن وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں ہیں.ان کو دنیا کے 211

Page 229

تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سامنے اس طرح رکھا نہیں جاتا، جس طرح انہیں رکھا جانا چاہیے.اور اب وقت ہے کہ میں وہاں جا کر ان قوموں پر اتمام حجت کر دوں.اپنے دورہ کے دوران فرینکفرٹ میں بھی ، زیورک میں بھی ، ہیگ میں بھی ، ہمبرگ میں بھی ، کوپن ہیگن میں بھی، لنڈن میں بھی ، گلاسگو میں بھی، جہاں بھی میں گیا، میں نے بڑی وضاحت سے ان کو یہ بتایا کہ اس قسم کی پیشگوئیاں ہیں.اور پھر میں نے ان پیشگوئیوں کی تفصیل کو ان کے سامنے رکھا اور ان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اب تمہارے لئے کوئی اور راہ کھلی نہیں.اگر تم تباہی سے بچانا چاہتے ہو تم اسلام میں آؤ.اور اللہ تعلی کا یہ بیڑ ہی فضل ہے کہ اس نے ہرگھر میں پیغام پہنچا دیا.نہ مجھ میں یہ طاقت تھی ، نہ وہاں کی جماعت میں یہ طاقت تھی اور نہ آپ میں یہ طاقت ہے.ساری جماعت مل کے بھی اپنے اندر یہ طاقت نہیں رکھتی کہ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو کہ اللہ تعالیٰ کو پہچانو اور اسلام لاؤ، ہر گھر میں ہم پہنچا سکتے.مگر خدا تعالیٰ نے ایسا معجزہ دکھایا کہ آج میں وثوق اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اکثریت کے کانوں تک یہ آواز پہنچ چکی.ہے.فرینکفرٹ میں جتنے اخبار تھے، انہوں نے ہمارے متعلق خبریں شائع کیں.انہوں نے لکھا کہ میں یہاں مذکورہ بالا پیغام لے کر آیا ہوں.اسی طرح زیورک کے اخبار تھے.زیورک میں ایک اخبار ہے، جو نہایت ہی متعصب ہے اور اسلام کے خلاف ہمیشہ لکھتا ہے.ہمارے مبلغ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اس کی تردید میں لکھتے ہیں تو اسے شائع نہیں کرتا.چوہدری صاحب پر یس کا نفرنس سے پہلے مجھ سے کہنے لگے کہ پتہ نہیں، اس اخبار کا نمائندہ آتا ہے یا نہیں؟ اس اخبار کی اہمیت یہ ہے کہ سارے پڑھے لکھے لوگ اس اخبار کو پڑھتے ہیں.اشاعت کے لحاظ سے غالباً یہ دوسرے نمبر پر ہے.لیکن یہ عوام کا اخبار نہیں بلکہ پڑھے لکھوں کا اخبار ہے اور بڑا سخت متعصب ہے.بہر حال پریس کانفرنس ہوئی تو ایک نوجوان اس اخبار کی نمائندگی کرتے ہوئے وہاں موجود تھا.اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر یہ ایسا تصرف کیا کہ وہ اس کانفرنس میں بھی بیٹھا رہا اور جہاں دوسروں نے بعض سوالات کئے ، اس نے بھی بعض سوالات کئے اور میں نے ان کے جواب دیئے.اور کانفرنس کے بعد بھی اس نے مجھ سے باتیں کیں اور پندرہ ، بیس منٹ تک مجھ سے باتین کرتا رہا.اور آخر میں اس نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ مجھے بتائیں کہ بانی سلسلہ احمدیت کی بعثت کا مقصد کیا تھا ؟ اس کے جواب میں، میں نے کہا کہ میں اپنے الفاظ میں تمہیں کیا بتاؤں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہی تمہیں آپ کی بعثت کا مقصد بتا تا ہوں.آپ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے مبعوث کیا ہے کہ میں دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑ دوں، جس صلیب 212

Page 230

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی ہڈیوں کو توڑا اور آپ کے جسم کو زخمی کیا تھا.اس کے دل پر اس کا بہت اثر ہوا اور کہنے لگا ، مجھے حوالہ دکھائیں؟ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے تھے کہ وہ حوالہ میرے پاس موجود تھا.میں نے چوہدری محمد علی صاحب سے کہہ کر وہ حوالہ منگوایا اور اسے دکھایا.وہ کہنے لگا، میں نے اس کو نقل کرنا ہے؟ میں نے کہا تم اسے بڑی خوشی سے نقل کرو.چنانچہ اس نے وہ حوالہ اپنے اخبار میں نقل کیا اور اگلے روز وہ اخبار، جو اسلام کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں لکھتا تھا، اس نے ایک پورا کالم اس کا نفرنس کی روئیداد سے متعلق لکھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ اقتباس وہ اس میں لے آیا کہ آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں اس صلیب کو توڑنے کے لئے آیا ہوں، جس صلیب نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ہڈیوں کو تو ڑا اور ان کے جسم کو زخمی کیا.سارے احمدی حیران تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسا تصرف اس پر کیا ہے اور اس نے ہمیں ایک معجزہ دکھایا ہے.حالانکہ یہ اخبار اسلام کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا کرتا تھا.پھر جب میں ہالینڈ میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے مبلغ بہت گھبرائے ہوئے تھے کیونکہ آج کل ان لوگوں میں اسلام کے خلاف بڑا تعصب ہے.اور بعض مبلغین کا یہ مشورہ تھا کہ پریس کا نفرنس نہ بلائی جائے کیونکہ پتہ نہیں کہ وہ کیا سوال کریں گے؟ اور پھر کس قسم کے مضامین وہ اپنے اخباروں میں لکھیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ مضامین ہمیں نقصان پہنچانے والے ہوں.کیونکہ ان کا کوئی اعتبار نہیں.بعض مبلغین کو مجھے سمجھانا پڑا کہ تم فکر نہ کرو.وہ مجھ سے سوال کریں گے اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے ان سوالات کے ایسے جوابات دینے کی توفیق عطا کرے گا کہ جو خطرات اس وقت تمہارے ذہن میں ہیں، وہ باقی نہیں رہیں گے.جیسا کہ شاید میں نے ایک خطبہ میں بھی بتایا ہے، وہاں ایک نوجوان نے، جو غالباً کسی کیتھولک اخبار کا نمائندہ تھا، مجھ سے یہ سوال کیا کہ ہمارے ملک میں آپ نے کتنے مسلمان کئے ہیں؟ (سوال تو اس نے بڑے ادب اور احترام سے کیا مگر اس کی آنکھ میں شوخی تھی.اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں جو جواب ڈالا ، وہ یہ تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس دنیا میں جتنی زندگی گزاری ہے، گو ہمارا اور تمہارا اس بات میں بھی اختلاف ہے لیکن تمہارے نزدیک جتنی زندگی انہوں نے اس دنیا میں گزاری ہے، اپنی ساری زندگی میں انہوں نے جتنے اپنے ساتھی بنائے اور عیسائی کئے ، اس سے زیادہ ہماری جماعت تمہارے ملک میں ہے.اس پر حافظ قدرت اللہ صاحب ( مبلغ انچارج) جو پہلے ڈرے ہوئے تھے کہ پتہ نہیں، یہ لوگ کیا سوال کریں گے اور ان کے کیا جواب ہوں ؟ انہوں نے اسی مجلس میں ہی جزاک الله جزاک الله، اونچی آواز سے کہنا ، 213

Page 231

تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم شروع کیا.اور میں شرمندگی محسوس کر رہا تھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں.لیکن وہ ان کی پریشانی کا رد عمل تھا.کیونکہ وہ بہت ڈرے ہوئے تھے اور جب انہوں نے اس سوال کا یہ جواب سنا تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس خوشی میں ان لوگوں کے سامنے ہی اونچی آواز سے جزاک اللہ، جزاک اللہ کہنا شروع کر دیا.ایک جگہ مجھ پر یہ سوال کیا گیا کہ آپ اسلام یہاں کیسے پھیلائیں گے؟ میں نے کہا، دلوں کو فتح کر کے.پریس کانفرنس میں دو عورتیں بھی تھیں، ایک عورت بڑی باوقار تھی، وہ بڑے آرام سے مجھے کہنے لگی کہ آپ ان دلوں کو کریں گے کیا؟ میں ایک سیکنڈ کے لئے تو پریشان ہوا کہ ایک عورت کے منہ سے یہ سوال نکلا ہے، اللہ تعالیٰ مجھے اس کا صحیح جواب سمجھا دے.چنانچہ ایک سیکنڈ یا ایک سیکنڈ کے کچھ حصہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جواب سکھایا، جو میں نے اسے دیا.اور وہ یہ تھا کہ ان دلوں کو پیدا کرنے والے کے قدموں میں جارکھیں گے.میں نے دیکھا کہ میرے اس جواب سے سب نمائندوں پر جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے، ایک خاص قسم کا اثر ہوا.اور خود وہ عورت پر یس کا نفرنس کے بعد بھی قریباً دو گھنٹے وہاں ٹھہری اور اس نے ہمیں مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھتے ہوئے دیکھا.ہمارے مبلغین سے وہ باتیں کرتی رہی.وہ چالیس، پچاس میل دور سے آئی ہوئی تھی.اس نے بتایا کہ وہ اپنے اخبار میں ضرور ایک نوٹ لکھے گی.وہاں سے جو رپورٹیں آ رہی ہیں، ان میں یہ بتایا گیا ہے کہ نہ صرف ڈنمارک میں بلکہ سویڈن اور ناروے میں بھی وہاں کے اخباروں نے تقریب افتتاح مسجد اور پریس کانفرنس وغیرہ کی رپورٹیں شائع کیں.اور میرا خیال ہے کہ وہاں سے پندرہ ہمیں تراشے تو یہاں پہنچ چکے ہیں.غرض قریبا ہر جگہ ہر اخبار نے ہمارے متعلق نوٹ شائع کئے.اور کسی نے ایسی بات شائع نہیں کی ، جو ہم نے نہ کہی ہو.حالانکہ میں ان کے خلاف بول رہا تھا.اور اسلام کی طرف انہیں دعوت دے رہا تھا اور اس رنگ میں دعوت دے رہا تھا کہ اسلام لاؤ، اگر تم تباہی سے بچنا چاہتے ہو.اور پھر بڑا کھل کر بغیر کسی مداہنت کے میں انہیں یہ بات کہ دیا تھا.ایک جگہ اس قسم کی باتیں ہورہی تھیں تو میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو روس کے متعلق جہاں بعض انداری باتیں بتائی ہیں، وہاں بعض اچھی باتیں بھی تفصیلی رنگ میں آپ کو اس کے متعلق بتائی گئی ہیں.چنانچہ آپ کو کشف میں دکھایا گیا کہ ریت کے ذروں کی طرح احمدی مسلمان وہاں پھیلے ہوئے ہیں.اور میں نے انہیں بتایا کہ اتنے کھلے اور واضح الفاظ میں مجھے یورپ کے متعلق کوئی پیشگوئی نظر نہیں آتی.آپ کو یہ تو دکھایا گیا تھا کہ آپ نے چند پرندے پکڑے ہیں مگر یہ کہ ریت کے ذروں کی طرح وہاں احمدی پھیلے ہوئے ہیں، اس قسم کی پیشگوئی یورپ کے متعلق نہیں.اور میں اس 214

Page 232

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء سے یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ جو تباہی اس وقت دنیا کے سامنے کھڑی ہے، اگر روس والوں نے اپنے رب کی طرف رجوع نہ کیا تو روس کی طاقت تو تو ڑ دی جائے گی لیکن روسی قوم کی اکثریت اس سے بچالی جائے گی.تبھی تو ان میں اسلام اس کثرت سے پھیلے گا.میں نے کہا، مجھے تمہاری فکر ہے.پتہ نہیں کہ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتا ہے؟ اس لئے تم اپنی فکر کرو.مجھے بھی تمہاری فکر ہے.پھر صرف وہاں نہیں بلکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے میری آواز کو ( جو دراصل اس عاجز بندے کی آواز نہیں تھی.کیونکہ میں تو اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے وہاں گیا تھا اور ایک نہایت ہی ادنی خادم کی حیثیت سے گیا تھا.ساری دنیا میں پہنچادیا.ایڈریس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یورپ میں لاکھوں افراد تک میری آواز پہنچی.لیکن آج میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کروڑ باشندوں تک میری یہ آواز پہنچی.ہمبرگ (جرمنی) میں ہمارا اندازہ تھا کہ ساٹھ ، ستر لاکھ لوگوں نے مجھے ٹیلی ویژن پر دیکھا اور انہوں نے میرے پیغام کو نا.اب خبر آئی ہے کہ ڈنمارک کی مسجد کے افتتاح کی ٹیلی ویژن ریل جرمنی کے ٹیلی ویژن کے سارے اسٹیشنوں پر دکھائی گئی ہے.اس کے علاوہ انٹرنیشنل بک اپ کے ذریعہ یہ تصویر بعض دوسرے ملکوں کے میں بھی دکھائی گئی ہے.افتتاح کے چھٹے، ساتویں روز مجھے نائیجریا (مغربی افریقہ) سے وہاں کے مبلغ انچارج کا خط آیا کہ ہم نے آپ کو افتتاح کے موقع پر ٹیلی ویژن پر دیکھا ہے.اور ساری جماعت اس بات پر بڑی خوش ہے کہ افتتاح کا نظارہ یہاں مغربی افریقہ میں بھی پہنچ گیا.اور ایک خبر یہ ہے کہ اس ٹیلی ویژن کمپنی نے ، جس نے افتتاح کے موقع پر تصاویر لی تھیں، بتایا ہے کہ مشرقی وسطی کے عرب ممالک میں بھی افتتاح کی ٹیلی ویژن ریل دکھائی جارہی ہے.ایک ملک میں وہ دودفعہ دکھائی جاچکی ہے.پھر ایک براڈ کاسٹنگ کی ریل تیار کی گئی تھی، جو دنیا کے مختلف ملکوں میں نشر ہوئی.میرے علاوہ اس میں تین اور دوست بھی تھے، جو تین تین، چار چار منٹ تک تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے.ان دوستوں میں سے عرب تھے، جو احمدی نہیں.اور انہوں نے عربی زبان میں نہایت اچھے الفاظ میں جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا اور دنیا کے مسلمانوں سے یہ اپیل کی کہ دنیا میں صرف یہی ایک جماعت ہے، جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے.سارے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان کے ساتھ تعاون کریں.انہوں نے اپنی مختصر تقریر کو قرآن کریم کی اس آیت پر ختم کیا کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا تقریر سے قبل انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ میری آواز سارے عرب ممالک میں پہنچ جائے گی.کیونکہ اس قسم کا انتظام کر دیا گیا ہے.چنانچہ پرسوں ہی مجھے ڈنمارک سے امام کمال یوسف نے اطلاع دی کہ 215

Page 233

تقریر فرمودہ 05 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم مرا کو میں تین دفعہ مسجد کے افتتاح کی خبر براڈ کاسٹ ہوئی ہے اور ابھی وہ انتظار کر رہے ہیں، جوں جوں تصاویر ٹیلی ویژن پر دکھائی جائیں گی ، وہ کمپنی ان کو اطلاع دے گی کہ فلاں فلاں جگہ ریل دکھائی گئی ہے.ایک دن بی بی سی کا نمائندہ آ گیا اور کہنے لگا، میں نے آپ کا انٹرویو لینا ہے.میں نے کہا تم جو سوال کرنا چاہتے ہو، وہ مجھے بتا دو.لیکن وہ کہنے لگا، بتانے کی ضرورت نہیں.میں سوال کرتا جاؤں گا اور آپ جواب دیتے چلے جائیں.میں نے کہا ٹھیک ہے.چنانچہ اس نے وہ انٹرو یولیا اور اس نے بتایا تھا کہ یہ انٹرویو بی بی سی سے دو دفعہ نشر ہوگا.یہاں بھی ہم نے اطلاع کر دی تھی لیکن غالباً وقت کی غلطی کی وجہ سے ابھی تک مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی کہ یہاں کسی نے یہ انٹرویو سنا ہو.لیکن ہندوستان سے خطوط آ رہے ہیں کہ ہم نے وہ انٹرویوسنا ہے.اور آج سیرالیون سے بھی خط آیا ہے کہ وہاں بھی دوستوں نے بی بی سی پر وہ انٹرویوسنا.غرض اس طرح ساری دنیا میں اسلام کی آواز پہنچی اور اس پیغام کولوگوں نے سنا، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کی طرف لے کر آئے تھے.یعنی اب اسلام کے غلبہ کا وقت آ گیا ہے اور دنیا کی بھلائی اسی میں ہے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اسلام پر ایمان لائے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالے.اللہ تعالیٰ نے اس آواز کو دنیا میں پھیلا دیا اور کروڑوں آدمیوں کے کانوں تک یہ آواز پہنچ گئی.ہم شاید کروڑوں روپیہ بھی خرچ کرتے تو اپنے طور پر اس قسم کی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے ، جس کے سامان اللہ تعالیٰ نے خود بخود اپنی طرف سے پیدا کر دئیے.وہاں اس قسم کا تصرف نظر آتا تھا کہ نہ جان ، نہ پہچان لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ لوگ ہمارے خادم ہیں.ذراذراسی بات میں وہ ہمارا خیال رکھتے.جب ان کی ہم پر نظر پڑتی تھی تو ان کے چہروں پر بشاشت پیدا ہو جاتی تھی اور ہر ایک آدمی اپنے کام کو چھوڑ کر ہماری طرف متوجہ ہو جاتا تھا.دکان دار بھی ہماری طرف متوجہ ہو جاتے تھے اور سڑکوں پر چلنے والے بھی.میں تو باہر کم ہی لکھتا تھا لیکن جب بھی میں باہر گیا ہوں ، میں نے یہ دیکھا کہ ہر شخص مجھے پہچانتا ہے.ڈنمارک میں ایک دن ہم کو پن بیگن سے چالیس میل دور ایک مقام پر گئے.وہاں میں نے وہاں کی جماعت کے افراد کو مدعو کیا تھا، وہ تعداد میں 35 افراد تھے.میں نے اس دعوت کا انتظام باہر ہی کیا تھا.اور نیت یہ تھی کہ ان دوستوں نے بڑے پیار اور محبت سے دن اور رات کام کیا ہے اور وہ کام میں اس قدر مصروف رہے ہیں کہ انہیں مجھ سے زیادہ دیر تک گفتگو کرنے کا موقع نہیں ملا، اس طرح ملاقات بھی ہو جائے گی اور ان کی دلجوئی ہوگی.ہم سارا دن باہر رہیں گے، باہم ملاقات میں علاوہ اور باتوں کے کوئی نہ کوئی 216

Page 234

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء نصیحت بھی ہوگی، ان کو تسلی بھی ہو جائے گی اور میری طبیعت بھی ایک حد تک سیر ہو جائے گی.کچھ سیر کا پروگرام بھی بنالیا گیا تھا.وہاں ایک مشہور قلعہ ہے، جسے دیکھنے کے لئے ہم گئے.ہم رستہ میں گزرنے والے لوگوں کے پاس سے گزر کر کچھ دور جاتے تھے تو وہ ہمارے متعلق باتیں کرتے.ہمارے ساتھ جیسا کہ میں نے بتایا ہے، مردوزن ملا کر وہاں کے 35 افراد تھے.وہ جب گزرنے والوں کی باتیں سنتے تو بتاتے کہ ان لوگوں نے آپ کو پہچان لیا ہے اور اب آپ کے متعلق ہی وہ باتیں کر رہے ہیں.ڈنمارک کی زبان میں خلیفہ کو خلیفن“ کہتے ہیں.میرے بھائی عزیزم میاں حنیف احمد صاحب میرے ساتھ تھے.وہ بتانے لگے کہ ہمارے پاس سے جو آدمی بھی گزرتا ہے، وہ جب چند قدم آگے جاتا ہے تو جو گفتگو وہ کرتا ہے، اس کا ایک لفظ مجھے سمجھ آتا ہے اور وہ خلیف“ ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ آپ کے متعلق ہی بات کر رہا ہے.ایک چھوٹا سا بچہ تھا، اس نے ہماری تصویریں لینی شروع کیں.وہ ہمارے ساتھ ہو لیا اور جب ہم موٹروں سے اترے تو اس نے ہماری تصویریں لیں.سیر کے بعد میں اس کی طرف چلا گیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے ہماری کتنی تصویریں لی ہیں ؟ تو کہنے لگا، بارہ.اب دیکھو، ایک بچہ کے دل میں کسی ہستی نے یہ چیز پیدا کر دی تھی کہ وہ ہم سے تعلق رکھے اور ہم سے محبت کا اظہار کرے؟ سینکڑوں نہیں ہزاروں کیمرے تھے ، جنہوں نے ہماری تصویریں لیں.میرا خیال ہے کہ شاید سارے سفر کے دوران پچاس ہزار سے زیادہ کیمروں نے ہماری تصاویر لی ہوں گی.لوگ اپنے کام بھول کر، اپنی سیر بھول کر ہماری طرف متوجہ ہو جاتے تھے.ان سب لوگوں کے کان میں جو آواز میں نے ڈالی ، وہ یہ تھی کہ Come back to your creator) یعنی اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو تم اپنے خدا کو بھول گئے ہو اور اپنی تباہی کے سامان کر رہے ہو.اگر تم خدا تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو ہلاکت تمہارے سامنے ہے.میں نے ایک نوٹ یہاں تیار کیا تھا.حقیقت یہ ہے کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ نوٹ میں نے تیار کیا تھا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ خدا تعالیٰ نے وہ نوٹ تیار کروایا تھا.کیونکہ اس کا اکثر حصہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی لکھا جار ہا تھا.بعض فقروں کے متعلق تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ مضمون میرے ذہن میں نہیں تھا، جو لکھا گیا.میں ایک فقرہ لکھتا تو اگلا فقرہ خود قلم لکھے جاتی تھی.اس مضمون میں بڑا زور ہے.چونکہ میں اپنے رب کے سوا اور کسی سے نہیں ڈرتا، اس لئے ان لوگوں کا کوئی خوف میرے دل میں نہیں تھا.میں سچی بات کہنا چاہتا تھا اور کھل کر کہنا چاہتا تھا.یورپ کے مبلغین سے میں نے اس نوٹ کا ذکر کیا تو ان سب نے کہا کہ آپ یورپ میں یہ مضمون نہ پڑھیں.ممکن ہے بعض لوگ اس کو برا منائیں اور 217

Page 235

تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس کے نتیجہ میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو.انگلستان میں جا کر ایک موقع ملا تو میں نے وہ مضمون پڑھ کر سنایا.اور یہ موقع ایک ڈنر کا تھا، جس میں کوئی 300 سے زیادہ افراد مدعو تھے.ایک بڑا ہال تھا، ( وانڈ زورتھ ہال ) جس میں یہ دعوت تھی.اس میں اکثریت تو احمدیوں کی تھی لیکن اندازہ ہے کہ 40 اور 50 کے درمیان دوسرے لوگ بھی تھے، جن میں سے پانچ ، سات کے علاوہ باقی سب انگریز تھے.ان سب پر اللہ تعالیٰ نے اس کا اتنا اثر پیدا کیا کہ جب میں نے مضمون ختم کیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارے لوگ مسحور ہو گئے ہیں.اس دوران ان میں سے کیسی نے نہ تو حرکت کی اور نہ ان کی زبان سے کوئی لفظ نکلا.انتہائی خاموشی ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر طاری تھی.اسی خاموشی میں، میں نے ہال کو چھوڑا.کسی شخص نے اس کے دوران اپنی کرسی بھی نہیں ہلائی بلکہ میرے باہر نکل جانے تک بھی کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی.یہاں تک کہ جس شخص نے مجھے کار میں واپس لے جانا تھا، اس نے بھی اپنی کرسی نہ چھوڑی اور مجھے چند منٹ تک اس کا انتظار کرنا پڑا.تب کہیں جا کر اس کو ہوش آیا اور اس نے اپنی کرسی کو چھوڑا.ایک احمدی دوست مجھے کہنے لگے کہ آپ تقریر کر رہے تھے اور ہمیں پسینے آرہے تھے.میرے پاس ایک انگریز تھا، جس نے یہ دیکھ کر کہ یہ کس زبان میں ہم سے کلام کر رہے ہیں، حیرت سے اپنا منہ کھولا اور پھر 45 منٹ تک جب تک کہ تقریر جاری رہی، اس کا منہ کھلا ہی رہا.گویا اس کے دماغ پر اتنا اثر تھا کہ وہ عرصہ حیرت میں منہ کھولے بیٹھا رہا.غرض یہ مضمون اللہ تعالیٰ کی عطا تھا.اس میں سے بہت سا حصہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے لکھا گیا ہے.اس مضمون کے شروع میں، میں نے سورج اور چاند کے گرہن والی پیشگوئی کے متعلق بتایا کہ یہ پیشگوئی اتنی زبردست ہے کہ کوئی عقل مندا سے سن کر اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا.میں نے انہیں کہا کہ آپ لوگ پڑھے لکھے ہیں، آپ دیکھیں ، 1300 سال قبل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:.ان لمهدينا آيتين یعنی جو میرا مہدی ہوگا ، اس کے دونشان ہوں گے.اور وہ یہ کہ چاند اور سورج کو گرہن ہوگا.اس میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ بہت سے ایسے دعویدار بھی ہوں گے، جو میرے مہدی نہیں ہوں گے.وہ مهدینا نہیں ہوں گے.اور وہ لوگ وہ ہوں گے ، جن کے لئے سورج اور چاند کو گرہن نہیں ہو گا.اور جس شخص کے لئے سورج اور چاند کو گرہن ہوا، اس کا پیغام لے کر میں تمہارے پاس آیا ہوں.تم سمجھدار ہو، عالم ہو، بہت سے علوم کے ماہر ہو، تم بتاؤ کہ کیا تمہیں اس کی کوئی مثال دنیا میں نظر آتی ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی کو یہ مضمون پڑھنا چاہیے.اس کا جواب کسی کے پاس نہیں.دنیا کا کوئی مذہب ہو، تم اس کے 218

Page 236

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اعتراض تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء علماء کے پاس جاؤ.بلکہ جولا مذہب اور دہر یہ ہیں، ان کے پاس جاؤ.سائنس دانوں کے پاس جاؤ اور کہو کہ یہ واقعہ ہوا ہے، ایک خبر 1300 سال پہلے دی گئی اور وہ 1300 سال کے بعد ایک ایسے شخص کے حق میں پوری ہوئی ، جس نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا.لوگ کہتے تھے کہ ہم تجھے کیسے مہدی تسلیم کریں؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو ہمارا مہدی ہوگا، اس کے لئے چاند اور سورج کو گرہن ہوگا.اور چونکہ تمہارے لئے چاند اور سورج گرہن نہیں ہوئے ، اس لئے ہم تجھ پر ایمان نہیں لاتے.لوگ راض کرتے رہے اور وہ اپنے خدا تعالیٰ کے حضور جھکتا رہا.پھر چار سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاند اور سورج کو کہا، تم میرے اس پہلوان کے لئے بطور گواہ کے دنیا کے سامنے حاضر ہو جاؤ اور کہو کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سچا مہدی ہے اور ہم بطور گواہ کے کھڑے ہیں.میں نے انہیں کہا کہ بڑا ہی عظیم تھا وہ شخص ، جس کے منہ سے یہ پیشگوئی نکلی تھی اور بڑا ہی عظیم ہے اس کا وہ روحانی فرزند، جس کے حق میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی.دراصل وہ موضوع ایسا تھا، جواللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا تھا اور میں اسے مختلف جگہوں پر مختلف رنگوں میں اور مختلف الفاظ میں بیان کرتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ہزاروں پیشگوئیاں کی ہیں، ان میں پیشگوئیوں کا ایک خاص سلسلہ بھی ہے، جو یکے بعد دیگرے پوری ہوئیں.وہ ایک زنجیر کی طرح ہیں.ان میں سے ہر پیشگوئی (جب وہ کی گئی ) ان ہوئی سمجھی جاتی تھی اور جو پیش گوئیاں ابھی پوری نہیں ہو ئیں ، وہ بھی آج آن ہوئی سمجھی جاتی ہیں.میں نے کہا کہ اگر میں تمہارے سامنے ان پیشگوئیوں کا ذکر کروں ، جو پوری ہو چکی ہیں تو تم کہو گے کہ جب یہ واقعات ہو چکے تو تم ہمیں بتانے آئے ہو کہ یہ واقعات پیشگوئیوں کے مطابق ہوئے ہیں اور اگر میں تمہیں وہ پیشگوئیاں بتاؤں کہ جو ابھی پوری ہونے والی ہیں اور ان ہونی سمجھی جاتی ہیں.بظاہر ان کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں تو تم سمجھو گے کہ ایک پاگل شخص ہمارے سامنے بیٹھا ہے اور ہم سے گفتگو کر رہا ہے.اس صورت میں بھی تم پر کوئی اثرنہیں ہوگا.لیکن میں تمہیں اچھی طرح بتادینا چاہتا ہوں کہ جس طرح پہلی ان ہونی باتیں پوری ہو گئیں، اسی طرح باقی باتیں بھی ، جنہیں تم اس وقت ان ہونی سمجھتے ہو، پوری ہو جائیں گی.مثال کے طور پر تین پیشگوئیاں براہ راست روس کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.اول.زار کی تباہی.دوسرے.کمیونزم کا وجود اور عروج.اور پھر روس میں اسلام کا غلبہ.219

Page 237

تقریر فرمودہ 05 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ان تین پیشگوئیوں میں سے پہلی دو پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اور تیسری ابھی پوری ہوتی ہے.میں نے ان کو بتایا کہ جس وقت یہ پیشگوئیاں کی گئی تھیں، اس وقت زار روس کا سیاسی دنیا میں وہی مقام تھا، جو آج امریکہ کا ہے.یعنی دنیا میں قریبا سب سے بڑی طاقت تھا.اگر چہ انگریز اپنے آپ کو اس کا رقیب سمجھتے تھے.لیکن حقیقت یہی ہے کہ یورپ میں انگریزوں کی نسبت روس کا اثر زیادہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے وقت میں بتایا کہ زار روس ، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا اقتدار دیا ہے، اس پر ایسی تا ہی آئے گی کہ اس کا نام ونشان مٹ جائے گا.بعد میں دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے زار روس کی حکومت بالکل مٹا کر رکھ دیا.اور کمیونزم کے متعلق تو قرآن مجید ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متعدد پیشگوئیاں ہیں.کمیونزم کے متعلق جب 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی تو کسی کے وہمہ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ کوئی ایسی سکیم دنیا میں کامیاب ہو جائے گی، جو بعد میں اشتراکیت کے نام سے دنیا میں ظاہر ہوگی.اور بعد میں اس نے پیشگوئیوں کے مطابق تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.اس وقت یہ بات اسی طرح ان ہوئی تھی ، جیسے اس وقت یہ بات ان ہونی ہے کہ روس میں اسلام پھیل جائے گا.لیکن تین باتیں اکٹھی بتائی گئی تھیں، جن میں سے دو باتیں یکے بعد دیگرے پوری ہو چکی ہیں.اب تیسری پیشگوئی پوری ہونے والی ہے.اس لئے تمہیں یقین رکھنا چاہئے کہ یہ ان ہونی بات بھی پوری ہو جائے گی.میرا مقصد وہی تھا، جو ایک خادم کا مقصد ہوتا ہے.جب آقا اپنے کسی خادم کو کسی کام پر لگاتا ہے تو وہ جس کی طرف بھیجا جاتا ہے، وہ اس سے ڈرتا نہیں.کیونکہ ذمہ داروہ ہوتا ہے، جس نے اسے بھیجا ہوتا ہے.تو بغیر کسی خوف کے، بغیر کسی مداہنت کے، مجھے ان کو اچھی طرح جھنجوڑنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی.اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بھی یہ توفیق دی ہے کہ وہ میری باتوں کو اپنے اخبارات میں شائع کر دیں.اور اس طرح ان لوگوں تک پہنچائیں.اگر چہ وہ جو کچھ لکھتے تھے، وہ ساری بات نہیں ہوتی تھی، جو چھ ہو جو کچھ تھے، وہ میں کہتا تھا.مثلاً ایک کانفرنس ڈیڑھ گھنٹہ کی ہوتی تھی اور وہ اسے مختصر سے الفاظ میں شائع کر دیتے تھے.کوئی اخبار کوئی بات لکھ دیتا تھا اور کوئی اخبار کوئی بات لکھ دیتا تھا.ان ساری باتوں کا جو نتیجہ نکلتا تھا، وہ یہ تھا کہ اسلام کی طرف آؤ، ورنہ تباہ ہو جاؤ گے.یہ نتیجہ اور خلاصہ اخبار شائع کر دیتے تھے.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کروڑوں آدمیوں تک اس احقر کی آواز کو بھی اور اس احقر کی تصویر کو بھی پہنچا دیا.انہوں نے دیکھا بھی اور انہوں نے سنا بھی.اور وہ کچھ سنا، جو اللہ تعالیٰ آج انہیں سنانا چاہتا تھا.220

Page 238

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء یہ تو اللہ تعالیٰ کا پہلے دن سے فیصلہ ہے کہ اسلام نشاۃ ثانیہ میں ساری دنیا پر غالب آئے گا.وہ دلائل کے زور سے غالب آئے گا، وہ دلوں کو فتح کر کے غالب آئے گا، وہ قوموں کو اس قابل بنا کر غالب آئے گا کہ وہ اپنے اللہ کو پہنچانے لگیں.لیکن اگر دنیا نے اسلام کی طرف توجہ نہ کی (جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفصیل سے بیان کیا ہے ) تو ایک ایسی ہلاکت سامنے کھڑی ہے، جو انسان نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی.وہ ایسی ہلاکت ہے، جو قیامت کا ایک نمونہ ہوگی.اور جب وہ واقع ہو جائے گا تو دنیا کے علاقوں کے علاقے ایسے ہوں گے، جہاں سے زندگی ختم ہو جائے گی.انسان بھی ختم ہو جائیں گے ، درندے بھی ختم ہو جائیں گے، پرندے بھی ختم ہو جائیں گے، ان کے علاوہ دوسرے جانور بھی ختم ہو جائیں گے.ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا ان علاقوں سے.میں نے ان کو بار بار سمجھایا اور مختلف جگہوں پر مختلف رنگوں میں بتایا کہ دیکھو، حضرت مسیح موعود یہ السلام کی وفات 1908ء میں ہوئی.اور 1908ء سے پہلے کی یہ پیشگوئیاں ہیں.1908ء میں دنیا کا کوئی سائنس دان ( خواہ اس کا تعلق جرمنی سے تھا، انگلستان سے تھا، روس سے تھا، امریکہ سے تھایا کسی اور قوم سے تھا.یہ نہیں کہہ سکتا تھا اور اس کے وہم میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ ایٹم کے اندر کوئی ایسی طاقت ہے، جس کا غلط استعمال دنیا کو تباہ کر سکتا ہے.اور پھر اس ایٹم کی طاقت کے نتیجہ میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ دنیا کے علاقوں کے علاقوں میں زندگی ختم ہو جاتی ہے.یہ سوال نہیں ہوتا کہ انسان کتنی تعداد میں مرے؟ یا پرندے کتنے مرے؟ یا چرندے کتنے مرے؟ یا کیٹرے مکوڑے کتنے مرے؟ بلکہ اس علاقہ سے زندگی ختم ہو جاتی ہے.نہ وہاں انسان باقی رہتا ہے، نہ جانور باقی رہتا ہے اور نہ کوئی کیڑا مکوڑا باقی رہتا ہے.جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی، اس وقت یہ بات ناممکن تھی.اس پر سائنسدان بنتے ہوں گے اور مذاق کرتے ہوں گے.اور اپنی جہالت کے نتیجہ میں یہ کہتے ہوں گے کہ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے علاقوں سے زندگی ختم ہو جائے؟ لیکن خود انہوں نے بعد میں ایسی چیز ایجاد کر لی کہ اگر اس کا غلط استعمال ہو جائے تو وہ بات واقع ہو جاتی ہے، جس کی خبر پیشگوئی میں دی گئی ہے.اور اس تباہی سے بچانے والا سوائے اسلام کے اللہ کے اور کوئی نہیں.بار بار جھنجھوڑ کر میں نے ان کے کانوں میں یہ بات ڈالی.اور میں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے پیار کے ایسے نشانات دیکھے ہیں کہ نہ تو ان کا بیان کرنا، میرے لئے مناسب ہے اور نہ ان کا بیان کرنا، میرے لئے ممکن ہے.اور میرے اندر خدا تعالیٰ کا خوف اس قدر شدت اختیار کر گیا ہے کہ میں ہر روز ایک لمبا عرصہ دعا کرتارہتا ہوں کہ اے میرے پیار کرنے والے! تو 221

Page 239

تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم میرے ساتھ ہمیشہ ہی پیار کا تعلق رکھ.کیونکہ میں تیری ناراضگی مول لینے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوں.اور اللہ تعالی کے اس پیار کے نمونوں میں سے ایک نمونہ وہ محبت ہے، جس کا اظہار بغیر کسی تکلف کے جماعت نے یہاں کیا.اور بغیر کسی تکلف کے وہ محبت میرے دل میں زیادہ شدت اختیار کرتی جاتی ہے.انگلستان میں احمدی دوست بڑے پیار سے میرے پاس آ جاتے تھے.مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع ہوتی تھیں.کبھی میں دونوں نمازیں سوا نو بجے پڑھا دیتا تھا اور بھی ساڑھے نو یا پونے دس پڑھا دیتا تھا.پہلے دن تو میں نے خیال نہ کیا ، پھر میں نے سوچا کہ ان دوستوں میں سے کوئی تو پچاس میل سے آیا ہے، کوئی ساٹھ میل سے آیا ہے، کوئی اس سے زیادہ یا کم فاصلہ سے آیا ہے.اور صرف اس لئے آیا ہے کہ وہ نماز پڑھے اور نماز پڑھنے کے بعد اسے پچاس، ساٹھ میل کی مسافت طے کر کے اپنے گھر پہنچنا ہے، اس لئے ان کا حق ہے کہ میں اپنے آرام کو بلکہ ایک حد تک اپنے دوسرے کام کو پیچھے ڈال دوں اور ان کو سیر کرنے کی کوشش کروں.چنانچہ مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد قریب ہر روز میں نیچے بیٹھ جاتا تھا.وہاں ایک بڑا ہال سا ہے.اس میں 70,80,100, 60 دوست اکٹھے ہو جاتے تھے.اور ہماری احمدی بہنیں، منصورہ بیگم اور بیگم مرزا مبارک احمد کے پاس بیٹھتیں اور ان کے ساتھ باتیں کرتیں.ایک، ایک بجے راستہ تک وہ لوگ وہاں بیٹھتے.ایک دن مجھے خیال آیا اور میں نے ایک عام بات کی کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ منافقوں کے علاوہ ہماری جماعت کی مثال سونے کی ڈلی ایسی ہے.اگر کوئی گھر کا چھوٹا بچہ سونے کی ڈلی پر پاخانہ کر دے تو کوئی احمق شخص ہی ہو گا، جو اسے گندگی سمجھ کر باہر پھینک دے.ہر شخص اسے صاف کرتا ہے، اسے چمکاتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کو سنبھال کر رکھتا ہے.پس جہاں کہیں کسی احمدی میں کمزوری نظر آئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خراب ہے.بلکہ اندر سے وہ سونا ہے.اگر اس کے باہر کوئی گند نظر آرہا ہو تو اسے صاف کرو.حقیقت یہ ہے کہ وہ سونا بھی نہیں، ایک انمول ہیرا ہے.اور دنیا میں اس کے مقابلہ میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے، جس کی قیمت اس ہیرے جتنی ہو.وہ کمزوری دکھاتا ہے، بعض دفعہ وہ اپنے نفس پر قابو نہیں رکھتا، بعض دفعہ اسے غصہ بھی آجاتا ہے.ہمارا فرض ہے، میرا بھی اور میرے دوسرے بھائیوں کا بھی کہ اپنی محبت کے تقاضہ کے ماتحت ہم اس شخص سے پہلے سے زیادہ شفقت اور پیار کریں.کیونکہ وہ ہمارے پیار کا مستحق ہے.اور یہ کوشش کریں کہ وہ ظاہر میں بھی دنیا کو ایک چمکتا اور دمکتا ہوا ہیر نظر آنے لگے.پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک منافقوں کا ایک گروہ 222

Page 240

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء ہمیشہ اسلام کے ساتھ لگا رہا ہے.اور قرآن کریم نے ہمیں ان کے متعلق یہی ہدایت کی ہے کہ ہم ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ دلوں کو بدلنے والا ہے، دعا کے نتیجہ میں ان میں سے بہتوں کے دل بدل جائیں گے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو شخص پہلے منافق ہوتا ہے، وہ بعد میں ایسا مومن بن جاتا ہے کہ اسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس کے اندر یہ تبدیلی کیسے پیدا ہو گئی ؟ سوائے اس کے کہ کسی وجود کی وجہ سے جماعت میں فتنہ پیدا ہوتا ہو اور جماعت کے مفاد میں ہو کہ اس عضو کو کاٹ دیا جائے.اور یہ آخری حربہ ہوتا ہے.اس سے ورے اگر کسی شخص میں کمزوری ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ منافق ہے اور ہمیں اس سے پیار نہیں کرنا چاہیے.ہمیں اس کی اصلاح کی ہر وقت کوشش کرنی چاہیے.1947ء سے پہلے ہم بعض نوجوانوں کو کمزور سمجھا کرتے تھے اور ہر وقت ان کی اصلاح کی کوشش میں لگے رہتے تھے.پیار سے بھی اور بعض دفعہ سختی سے بھی.لیکن جب 1947ء میں جان دینے کا وقت آیا تو وہی ہمارے پیارے نوجوان تھے، جنہوں نے ہتھیلیوں پر اپنی جانوں کو رکھا اور ایسی شاندار قربانیاں دیں کہ ان کی مثال نہیں ملتی.میں بطور مثال یہ بتا رہا ہوں کہ دیکھو، یہ لوگ، جن کے متعلق ہم ہر وقت یہ سمجھتے تھے کہ یہ منافق ہیں اور ہمیں ہر وقت یہ فکر رہتی تھی کہ ہم ان کی کمزوریوں کو دور کریں لیکن ان کے اندر ایمان موجود تھا.اس لئے جب جان دینے کا وقت آیا تو انہوں نے اپنی جان کی کوئی پرواہ نہ کی.منافق ایسا نہیں ہوتا.منافق کی علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وہ ایسے وقت میں پیچھے ہٹ جاتا ہے.لیکن جو بظاہر کمزور ایمان والا ہے، وہ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے توفیق پاتا ہے کہ اپنے چھپے ہوئے ایمان کو ظاہر کرے اور دنیا کو یہ بتائے کہ الہی سلسلہ کا کمزور ایمان والا ، دوسروں کے اچھے اچھوں سے بھی کہیں اوپر اور بلند ہے.وہ رفعت کا مقام رکھنے والا ہے.غرض اس دوڑ میں تربیتی امور کی طرف بھی میں نے پوری توجہ دی.رات کے ساڑھے بارہ ایک اور بعض دفعہ دو بج جاتے تھے اور میں اپنے بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتا رہتا تھا.میں تو اس کے بعد او پر چلا جاتا تھا اور آرام کر لیتا تھا لیکن ان میں سے بہت سے ایسے تھے، جنہوں نے ایک گھنٹہ یا اس سے زائد سفر کر کے اپنے گھروں میں پہنچنا ہوتا تھا.ایک دن مجھے خیال آیا کہ بعض دوست ایسے بھی ہیں، جو اپنے بچوں کو گھروں میں نہیں چھوڑ سکتے.پانچ پانچ ، سات سات یا نونو سال کے بچے ان کے ساتھ آتے تھے.میں نے کہا، میں بھی خوش ہوں اور تم بھی خوش ہو اور ان بچوں کی مائیں بھی بڑی خوش ہیں لیکن ان 223

Page 241

تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بے چارے بچوں نے کیا قصور کیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھ نہیں سکتے اور تکلیف اٹھا ر رہے ہیں؟ لیکن وہ دوست اپنے بچوں کا بھی خیال نہیں رکھتے تھے.کیونکہ محبت کی وجہ سے وہ سمجھتے تھے کہ بچے اگر تکلیف اٹھا لیں تو کوئی حرج نہیں لیکن ہم بہر حال آپ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں.اور جس محبت کو میں نے ان کے سینوں میں محسوس کیا اور اپنے سینہ میں پایا، وہ تو الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی.اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قدر فدائیت اور ایثار کی روح عطا کی ہے اور قربانی کا جذبہ ان کے دلوں میں اس قدر ہے کہ جس وقت میں نے اپنا مضمون پڑھا (جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ) تو میں نے کہا کہ اندازہ لگائیں کہ اس پر کیا لا گت آئے گی تا اسے شائع کیا جائے؟ اگلے دن امام رفیق نے مجھے بتایا کہ ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر اسے پچاس ہزار کی تعداد میں شائع کیا جائے تو اس پر ڈیڑھ سو پونڈ یعنی قریباً 3000 روپیہ خرچ آئے گا.میں نے کہا، اگر آپ کے پاس رقم نہیں تو میں اس کا انتظام کر دیتا ہوں، آپ اس مضمون کو شائع کر دیں.تو وہ مسکرا کے کہنے لگے کہ اس قدر تم تو جمع ہو گئی ہے.چنانچہ وہ مضمون وہاں شائع ہو چکا ہے اور انگلستان کے ہر بشپ اور بڑے پادری کو بھیج دیا گیا ہے.انگلستان کے سارے ہیڈ ماسٹروں کے پاس بھیج دیا کیا ہے.پارلیمنٹ کے سارے ممبروں کے پاس اسے بھیج دیا گیا.شاہی خاندان کے تمام افراد کے پاس وہ بھیج دیا گیا ہے.اسی طرح لارڈز کے پاس بھی وہ بھیج دیا گیا ہے.غرض وہاں کے دوست یہ مضمون چھ سات ہزار پتوں پر روانہ کر چکے ہیں.میں نے انہیں ہدایت دی ہے کہ ایک تعداد اس کی دوسرے مشعوں کو بھجوائی جائے.اس ہدایت پر عمل کرنے کے بعد جو قریباً پندرہ ہزار کا پیاں ان کے پاس بچ جائیں گی ، ان کے متعلق ان کی رپورٹ ہے کہ ہم ایک منصوبہ بنا کر یہ تعداد ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچائیں گے، جن کے متعلق ہم سمجھیں گے، انہیں اس سے فائدہ ہوگا.اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے ہاتھوں میں یہ مضمون پہنچانا بھی بڑی قربانی مانگتا ہے.اور جماعت کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ انہوں نے یہ قربانی دی.لندن میں جلسہ سالانہ کے موقع پر اردو میں تقریر کرتے ہوئے میں نے ایک فقرہ کہا تھا، جو غالباً واضح نہیں تھا.مجھ سے غلطی ہو گئی کہ میں نے اس کی وضاحت نہیں کی.میں نے وہاں کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے بعد انگلستان کی جماعت، سب سے بڑی جماعت ہے.دراصل میرا اس فقرہ سے یہ مطلب تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے بعد انگلستان کی جماعت اردو بولنے والی سب سے بڑی جماعت ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ممالک بھی ہیں، جہاں چندہ دہندگان کی تعداد قریب قریباً پاکستان کے چندہ دہندگان کے برابر پہنچی ہوئی ہے.224

Page 242

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت اسلام اور احمد بیت کو بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں.میں ایک چھوٹی سی نصیحت کرنا چاہتا ہوں اور وہ نصیحت یہ ہے کہ میرا مشاہدہ ہے کہ جو شخص عاجزی اور تضرع اور نیستی کے مقام کو اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بڑا ہی پیار کرتا ہے.اس لئے آپ اللہ تعالیٰ کے سوا سب معبودوں کو اور سب بتوں کو ، جو ہو سکتا ہے کسی کے دل میں ہوں، تو ڑ کر باہر پھینک دیں.اور عبودیت کے پیرہن کو پہنیں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کتنی قدرتوں والی اور پیار کرنے والی ہستی ہے.اللہ تعالیٰ ایسا کرنے کی ہم میں سے ہر ایک کو توفیق عطا کرے.سفر سے واپس آکر یہاں کام اس قدر زیادہ تھا کہ میں سوائے ایک رات کے ہر روز دو، تین بجے رات کے درمیان سوتا رہا ہوں.پچھلے دنوں مجھے سردرد کی شکایت بھی ہو گئی تھی.ملاقات بھی کرنی ہوتی ہے، خطوط بھی بہت آرہے ہیں، پھر پچھلی ڈاک بھی بہت جمع ہو چکی تھی.آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلی تمام ڈاک دیکھ چکا ہوں، اب اس کا کوئی حصہ باقی نہیں.سوائے کل کی ڈاک کے، جو انشاء اللہ آج ختم کرلوں گا.آج کی تقریب کے متعلق میں نے پتہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ مغرب اور عشاء کے درمیان سب کام ختم ہو جائے گا.لیکن آپ دوستوں کے چہروں پر جذبات محبت کے جو آثار مجھے نظر آئے ، انہوں نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں آپ سے لمبی گفتگو کروں.اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اپنے دل کا ایک کو نہ کھول کر آپ کے سامنے رکھ دوں.باقی جو کچھ دل میں ہے، وہ سب ظاہر والا نہیں.اور نہ ہی مجھے ایسا کرنے کی خدا تعالیٰ نے اجازت دی ہے.ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا تھا تمثیلی زبان میں کہ میرے سارے پیار کو دنیا کے سامنے ظاہر نہیں کرنا.ہاں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں، جو جماعت کے مفاد میں بتانی پڑتی ہیں.اور بعض ایسی ہوتی ہیں، جو ذاتی قسم کی ہوتی ہیں ( کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک سے پیار کرتا ہے ) اور وہ بتائی نہیں جاسکتیں اور نہ وہ بتانی چاہیں.کیونکہ بعض اوقات ان کے بتانے سے نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے کہ ہم میں لاکھوں ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے.سفر کے دوران جب ایک عیسائی عورت نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ ایک سچے مسلمان اور ایک بچے عیسائی میں کیا فرق ہے؟ تو میں نے اسے بتایا کہ ایک بچے مسلمان کا زندہ تعلق خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اور تم اسے سمجھ نہیں سکتیں.جب تک میں اس کی کوئی مثال نہ دوں.اور میں نے بڑی تحدی سے کہا کہ اسلام کے سوا باقی ساری دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں پائی جاسکتی.میں نے اس عورت سے کہا کہ میں ایک سچی مسلمہ کی 225

Page 243

تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم مثال تمہارے سامنے رکھتا ہوں.ویسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں مرد اور عورتیں اور بچے جماعت میں ایسے ہیں، جن کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں.اور پچھلی پیشگوئیوں میں بھی یہ بیان کیا گیا تھا کہ اس زمانہ میں بچے نبوت کریں گے.اور ہم نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بچوں کو بھی ایسی خوش خبریاں دیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.بعض اوقات بعض احمدی بھائی مجھے ملتے ہیں اور وہ اپنا کوئی رویا بھی مجھے سنا دیتے ہیں.وہ اس رؤیا کو خود تو نہیں سمجھ سکتے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے مجھے بشارت دی ہے یا ہدایت دی ہے.میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں.مغربی افریقہ کے ایک دوست نے ایک خواب دیکھی، جس کا تعلق مشرقی افریقہ سے تھا.یعنی اس خواب کا تعلق ایک ایسے ملک سے تھا، جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ بہت پریشان تھے.جب وہ خواب مجھے پہنچی تو مجھے اس خواب کی تعبیر کا علم تھا.ایک شخص کے متعلق میں سوچ رہا تھا کہ اسے مشرقی افریقہ بھجوا دیا جائے.اور اس خواب میں یہ بتایا گیا تھا کہ اسے وہاں نہ بھجواؤ.حالانکہ میرے اس ارادہ کا علم میرے سوا اور بعض دوسرے متعلق افراد کے سوا کسی کو نہیں تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق مغربی افریقہ کے ایک دوست کو اطلاع دی اور اس نے پھر مجھے لکھ دیا.پس بعض دفعہ ایسی خواہیں بھی آجاتی ہیں اور دوست وہ خواہیں مجھے لکھ دیتے ہیں.میری اپنی ایک بچی نے ایسا خواب دیکھا، جو وہ خود نہیں سمجھ سکتی تھی.اس خواب کے پانچ جزو تھے اور ان میں سے ہر جز و مبشر تھا.اس نے گھبرا کر مجھے لکھا کہ میں تو اس خواب کی وجہ سے رات کو سوتی بھی نہیں، مجھے نیند نہیں آتی.میں نے اس کو لکھا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، یہ تو بڑی اچھی خواب ہے.اور اس کے ہر جزو کی تعبیر بڑی مبشر ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے جماعت پر اس قدر فضل کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمت کو دیکھ کر ہر احمدی کا سر اپنے رب کے حضور ہر وقت جھکا رہنا چاہیے.اور اسے یقین ہونا چاہیے کہ وہ خود اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں، اس میں کوئی خوبی نہیں، کوئی مہارت نہیں.اس نے ہر چیز اپنے رب سے لینی ہے.اور ایسا شخص دنیا کی کسی طاقت سے نہیں ڈرتا، دنیا کی کسی دولت سے وہ مرعوب نہیں ہوتا.دنیا کا کوئی علم اسے اپنی نظروں میں ذلیل اور حقیر نہیں کر سکتا.کیونکہ اس کے مقابلہ میں اسے جو کچھ ملنا ہے، وہ اسی ہستی سے ملتا ہے، جس کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کا کوئی علم اور دنیا کی کوئی دولت، کوئی حیثیت نہیں رکھتی.غرض بڑے فضلوں کے وارث ہیں آپ لوگ.ہمیں اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ہر وقت بجا 226

Page 244

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم تقریر فرموده 05 ستمبر 1967ء لاتے رہنا چاہیے.تا کہ وہ اپنے فضلوں کو پہلے سے بھی زیادہ بارش کے قطروں کی طرح ہم پر نازل کرے.اور ہمیں وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بنائے ، ہماری تمام کمزوریوں کو دور کرے اور ہمیں ہماری غفلتوں سے بچائے.ہم خود بھی اپنی غفلتوں سے بچ نہیں سکتے ، جب تک وہ فضل نہ کرے.اور جب بھی دنیا کے ساتھ علم کے میدان میں یا کسی اور میدان میں مقابلہ ہو تو وہ ہمارے پیچھے کھڑا ہو.اور جس طرح اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نصرت کا اعلان کرتے ہوئے مخالف دشمنوں کو کہا تھا.مجھ سے لڑو، اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے.ہمارے کان بھی اس کی یہ میٹھی آواز سنتے رہیں.کیونکہ جو خدا کا بندہ ہو جاتا ہے، اس کے لئے خدا تعالیٰ اپنی قدرتوں کے نشان دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا حقیقی بندہ بنائے“.مطبوعه روزنامه الفضل 06اکتوبر 1967ء) 227

Page 245

Page 246

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ظلمت کے ساتھ نور کی یہ آخری جنگ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 08 ستمبر 1967ء خطبہ جمعہ فرموده 08 ستمبر 1967ء تشہد ، تعوذ ،سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا:.” میں نے دوستوں کو بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یورپ کے مختلف ممالک میں نہایت ہی اخلاص رکھنے والی ، خدا اور اس کے رسول سے محبت رکھنے والی، دین اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دینے والی جماعتیں پیدا ہو چکی ہیں.یورپ میں بسنے والے ان دوستوں سے ملاقات کے علاوہ، باہر کے بعض ملکوں سے بھی احمدی وہاں آئے ہوئے تھے اور ان سے ملنے اور ان سے باتیں کرنے اور ان کو سمجھنے کا بھی موقع ملا.امریکہ سے قریباً نو احمدی مرد اور عورتیں کوپن ہیگن بالنڈن آئے.اسی طرح ماریشس سے بعض احمدی لنڈن پہنچے ہوئے تھے.محض ملنے کی خاطر اور وہاں کی تقریبات میں شمولیت کے لئے اسی طرح نائیجیریا سے بھی مقامی دوست وہاں پہنچے ہوئے تھے.ان اور بعض دوسرے ملکوں کے احمدی بھی وہاں آئے ہوئے تھے.ان کومل کے بھی طبیعت نے بڑی خوشی محسوس کی اور اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ادا کیا کہ ان ملکوں کے رہنے والوں کے دلوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے اور اپنے دین کے لئے اور اپنے رسول کے لئے بڑی ہی محبت پیدا کر دی ہے.امریکہ سے جو دوست کو پن ہاگن پہنچے تھے، ان میں سے ایک کے تاثرات تو وہاں کے بلیٹن میں شائع ہو گئے ہیں.اس نے بہت کچھ وہاں کے حالات سے متاثر ہوکر لکھا ہے.تحریک جدید میں بھی وہ بلیٹن پہنچ گئی ہے.ان کو چاہیے کہ وہ الفضل“ کے ذریعہ بھی اس قسم کے تاثرات کو جماعت کے دوستوں کے سامنے رکھیں.ہیں.وہاں کی لجنہ کی پریذیڈنٹ بھی آئی ہوئی تھیں.وہ لنڈن پہنچی تھیں.بعد میں کو پن پاگن جا کر انہوں نے مسجد دیکھی.مجھے ان کا خط ملا ہے کہ مسجد دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نہایت ہی خوبصورت گھر اللہ تعالیٰ کا ڈنمارک میں بن گیا ہے.چونکہ لنڈن یا انگلستان کی جماعتیں زیادہ تر پاکستانیوں یا اردو بولنے والوں پر مشتمل ہیں، اس لئے میں ان سے زیادہ تر اردو میں مخاطب ہوتا رہا.جو تقریر رات کے کھانے کے موقع پر انگریزی میں، میں نے کی، اس میں صرف مرد شامل تھے، وو 229

Page 247

خطبہ جمعہ فرموده 08 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم مستورات مدعو نہ تھیں، اس لئے صدر لجنہ اماءاللہ امریکہ س میں شامل نہ ہوسکتی تھیں.ایک دن جمعرات کو مجھے کہنے لگیں کہ کئی دن سے ہم آئے ہوئے ہیں، تقاریر میں شامل ہوتے ہیں لیکن ہم نے انگریزی زبان میں کوئی چیز نہیں سنی کہ ہم کچھ تو اپنے ملک میں لے کر جائیں.کل کے خطبہ میں آپ کچھ انگریزی میں بھی کہیں.چنانچہ ان کی اس خواہش اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے اور یہ سوچ کر کہ بہت سے اور دوست بھی ہوں گے یہاں، جو باہر سے آئے ہیں اور بڑی محبت اور پیار سے آئے ہیں.ایسی زبان میں بھی بات کرنی چاہیے کہ وہ سمجھ سکیں اور ان کے دلوں کو تسلی ہو سکے.میں نے وہ خطبہ سارا انگریزی میں دیا تھا.اور بتانے والوں نے مجھے بتایا کہ سارے خطبہ کے دوران اس بہن کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے.اس کے بعد وہ مجھے ملیں ، گھنٹہ ، سوا گھنٹہ میں نے ان دو بہنوں کو وقت دیا ، جو امریکہ سے آئی ہوئی تھی.مختلف مسائل ان کو سمجھائے.بعض انتظامی معاملات کے متعلق انہوں نے بعض باتیں مجھے بتا ئیں اور ان کا حل میں نے انہیں بتایا.اس وقت بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے جسم کا ذرہ ذرہ اپنے اللہ پر فدا ہونے کے لئے تیار ہے.اس قسم کا اخلاص ان لوگوں میں پیدا ہو چکا ہے.اس طرح جو ماریشس سے آئے ہوئے تھے، ان کی بھی یہی حالت تھی.نائیجیریا کے مقامی دوست ، جو وہاں پہنچے تھے ، ان میں سے ایک وہ ہیں، جو طلباء کی فیڈ ریشن کے وائس پریذیڈنٹ یعنی نائب صدر ہیں.ان کے صدر بھی احمدی ہیں.لیکن ایک چھوٹا سا حصہ کسی وقت آج سے کافی عرصہ ( حضرت مصلح موعودؓ کے عہد خلافت کی بات ہے ) علیحدہ ہو گیا تھا.لیکن علیحدہ ہونے کے باوجود اپنے عقائد میں وہ پختہ ہیں.انتظام میں وہ علیحدہ ہو گیا.ان کے ساتھ یہ نوجوان جا شامل ہوا.میں نے اس کو کہا (نائب صدر کو ) کہ تم اپنے صدر کو اپنی طرف کھینچو، اس کو سمجھاؤ مسائل.کہنے لگا، میں نے ان سے بہت باتیں کی ہیں.وہ یہ کہتے ہیں کہ بس مجھے پتہ نہیں کیا ہوا، عدم علم کی بنا پر میں ان کے ساتھ شامل ہو گیا ہوں.اب حقیقت مجھ پر ظاہر ہوگئی ہے، اب آہستہ آہستہ انہیں چھوڑ کے جو چیز حقیقی احمدیت اور اسلام ہے، اس کی طرف واپس لوٹ آؤں گا.تو ان نوجوانوں کے دل میں بھی محبت ہے، اسلام اور احمدیت کی.اور ان کے ذہنوں میں نور ہے.اسلام کے دلائل اور براہین عقل میں جونور پیدا کرتے ہیں، وہ نور ان کی عقلوں میں ہے.اور خدا اور رسول کے لئے محبت کے، جو جذبات ایک مسلمان کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں، وہ جذبات ان لوگوں کے ولوں میں ہیں.بڑی ہی مخلص جماعتیں وہاں پیدا ہو چکی ہیں.230

Page 248

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 08 ستمبر 1967ء اللہ تعالیٰ نے اس وقت آسمان سے کچھ ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ جن ملکوں کو میں نے دیکھا ہے اور امریکہ وغیرہ ، جن کے متعلق میں نے باتیں سنیں، اس سے میں اس یقین پر قائم ہو گیا ہوں کہ ان ملکوں میں عیسائیت ختم ہو چکی ہے.وہ چیزیں، جو میں نے دیکھی یا وہ باتیں، جو آج خود پادری کہتے ہیں اور اخباروں میں شائع کرتے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیت یقینی طور پر مٹ چکی ہے.ان کا ذکر تفصیل کے ساتھ تو انشاء اللہ کسی اور موقع پر بیان کروں گا.یا رسالے یا دو ورقوں کی شکل میں احمدیوں کے سامنے بھی اور دیگر مسلمان بھائیوں کے سامنے بھی آجائیں گی اور عیسائیوں کے سامنے بھی آجائیں گی.ان کے اپنے مونہوں سے نکلی ہوئی باتیں، جو ثابت کرتی ہیں کہ عیسائیت ختم ہو چکی ہے، اس دنیا کے سامنے تو آچکی ہیں اور اس دنیا کے سامنے یعنی ہمارے ملکوں میں اپنے وقت پر پیش کر دی جائیں گی.اس وقت میں یہ حقیقت بیان کرنا چاہتا ہوں کہ عیسائیت ان ملکوں میں مرچکی ہے اور ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے.اس خلا کو پر کرنا، اسلام کے غلبہ کے لئے وہاں کوشش کرنا ، یہ ہمارا کام ہے.کیونکہ اس خلا کو سوائے اسلام کے اور کوئی مذہب پر نہیں کر سکتا.اور اگر ایک ظلمت دور ہو اور اس کی جگہ ایک دوسری ظلمت لے لے تو اس سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ اگر انسان نے ابدی صداقتوں سے استفادہ کرنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ جھوٹ کی جگہ سیچ لے.یہ ضروری ہے کہ اندھیرے کی جگہ روشنی ہے.یہ ضروری ہے کہ ظلمت کی جگہ نور لے.یہ ضروری ہے کہ بتوں کی محبت کی جگہ خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو.اور یہ سوائے اسلام کے نہیں ہو سکتا.اور یہ جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جماعت کے قیام کی غرض ہی یہ ہے کہ گمشدہ معرفت کو دنیا میں پھر سے قائم کیا جائے.تو ہم پر بڑی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان ممالک میں جو خلا پیدا ہو رہا ہے، اس خلا کو اسلام کے نور سے، اس خلا کو قرآن کریم کے دلائل و براہین سے، اس خلا کو اللہ تعالیٰ کی محبت سے پر کر دیں.تا شیطان پھر کبھی ان فضاؤں میں داخل ہونے کی جرات نہ کر سکے.اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم خود تو حید کے ایک اعلیٰ اور ارفع مقام پر قائم ہوں.ضروری ہے کہ ہم خود معرفت اور عرفان کے یقینی مقام پر قائم ہوں.یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے نفسوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والے ہوں.یہ ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کے علوم سے اچھی طرح واقف ہوں کہ اس کے بغیر ہم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نباہ نہیں سکتے.ان ذمہ داریوں کو نباہنے کے قابل بننا ہمارے لئے ضروری ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ محض زبان کے دعوؤں کو پسند نہیں کرتا.231

Page 249

خطبہ جمعہ فرمود : 08 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم قرآن کریم نے منافقوں کے متعلق یہ بیان کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں ، جو صرف زبان سے دعوی کرتے ہیں.اور اس دعوی کے بعد جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں، ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی مخلص مومنوں کے ساتھ جہاد پر جانے کے لئے ہر وقت تیار ہیں.اگر وہ اپنے دعوے میں بچے ہوتے تو ایک اخلاص رکھنے والے، ایک ایثار رکھنے والے مسلمان نے جو جہاد کی تیاری کی تھی ، یہ لوگ بھی اسی طرح اس کے لئے تیاری کرتے.مگر یہاں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ دعویٰ تو ہے لیکن اس کے لئے تیاری نہیں.جب تلوار سے دشمن اسلام، اسلام پر حملہ آور ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مومن سے کہا کہ جتنی طاقت ہے، جتنے مادی سامان تم اکٹھے کر سکتے ہو، کرو.اور میرے اس دشمن کا مقابلہ کرو.میں تمہیں کامیابی عطا کروں گا.اور خدا نے جو کہا ، وہ پورا کیا.آج اسلام کے مقابلہ میں جھوٹے دلائل، غلط باتیں ، ہر قسم کا افتراء، پورے اعتراضات ، نفرت کے جذبات کو ابھارنا ، دجل کے تمام طریقوں کو استعمال کرنا، یہ وہ ہتھیار ہیں، جو اسلام کے خلاف استعمال کئے جارہے ہیں.ان کا آج ہم نے مقابلہ کرنا ہے.ان کا مقابلہ تلوار سے یا مادی سامانوں سے نہیں ہو سکتا.غلط دلائل کا مقابلہ سچے دلائل سے کیا جا سکتا ہے.دجل کے اندھیروں کا مقابلہ اللہ کی رضا کے نتیجہ میں جو نور حاصل ہوتا ہے، اس نور سے کیا جا سکتا ہے.وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّوا لَهُ عُدَّةً تو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے ایثار اور فدائیت کا دعویٰ کرنا یا عزم کا اظہار زبان سے کرنا، یہ کافی نہیں ہے.اس کے ساتھ ہی (باستثناء منافقین کہ جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے کہ دعویٰ ہے مگر تیاری نہیں ہے.ان منافقین کے گروہ کے علاوہ ) ساری جماعت کو تیار ہونا پڑے گا، ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے.اور ہم جو ذمہ دار ہیں، ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم جماعت کو تیار کریں.یہ ایک عظیم موقع اشاعت اسلام اور دین حق کے غلبہ کا اللہ تعالیٰ نے آسمانی فیصلوں کے ذریعہ اور فرشتوں کے نزول کے ساتھ پیدا کر دیا ہے.ہمارے سامنے میدان خالی پڑا ہے.ہم نے آگے بڑھنا ہے، دلائل کے ہتھیار لے کر.ہم نے آگے بڑھنا ہے، نور کی شمعیں ہاتھ میں لئے ہوئے.ہم نے آگے بڑھنا ہے، تو حید خالص کی، جو کرنیں جسموں سے پھوٹتی ہیں، جب تو حید خالص ایک دل میں قائم ہو جاتی ہے، ان کرنوں کے سہارے.اور اس کے لئے ہمیں خود کو اور جماعت کو تیار کرنا ہے.232

Page 250

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرموده 08 ستمبر 1967ء اس کی تیاری کے لیے تفصیلی منصوبہ تو انشاء اللہ تعالیٰ اور اس کی توفیق سے میں اپنے وقت پر بیان کروں گا ( ممکن ہے، کئی خطبات دینے پڑیں.لیکن اصولاً میں اس وقت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو اپنی عادتیں بدلنی پڑیں گی.آپ کو بہت سی بدعات، جو آہستہ آہستہ ہم میں نفوذ کر گئی ہیں، ان کو چھوڑنا پڑے گا.آپ کو ذہنی طور پر اس بات کے لئے تیار ہونا پڑے گا کہ اگر اسلام کی ضرورت ہمیں پکارے کہ اپنا سب کچھ چھوڑ دو، ادھر آؤ اور اس ضرورت کو پورا کرو تو جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اسلام کی آواز سن کر سب کچھ چھوڑ کر میدان جہاد کی راہ لی تھی ، اسی طرح ہم بھی اس آواز پر اپنا سب کچھ چھوڑ کر اسلام کی خاطر اور اسلام کی اشاعت کے لئے اور توحید کے قیام کے لئے وہاں پہنچ جائیں ، جہاں ہماری ضرورت محسوس کی جائے.یہ ذہنیت ہمیں پیدا کرنی پڑے گی.اور ہمیں اس وقت بڑا چوکس بھی رہنا پڑے گا.کیونکہ جیسا کہ کہا گیا ہے ، ظلمت کے ساتھ نور کی یہ آخری جنگ ہے.اور ظلمت خاموش نہیں رہے گی.وہ ہم پر باہر سے بھی حملہ آور ہوگی اور اندر سے بھی ہم پر حملہ آور ہوگی.وہ (منافقوں کے ذریعہ ) جماعت کے اتحاد کو پاش پاش کرنے کی کوشش کرے گی.جور پورٹیں میرے تک پہنچ رہی ہیں، ان میں سے بعض اس طرف بھی اشارہ کر رہی ہیں کہ بعض لوگ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ اب تو کوئی چارہ نہیں رہا.یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ ان کا اتحاد قائم نہ رہے.بلکہ جس طرح دوسرے لوگ منتشر ہیں اور پراگندہ ہیں، اسی طرح یہ جماعت بھی منتشر اور پراگندہ ہو جائے.اسلام دوستی تو اس سے ظاہر ہوتی ہے، ان کی لیکن انہوں نے اپنی نہج پر سوچنا ہے اور ہم نے ان طریقوں پر کام کرنا ہے، جو اللہ تعالیٰ ہمیں بتائے.اس وقت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جماعت نے اتحاد کا اتنا حسین مظاہرہ کیا ہے کہ بہر حال مخالف اس کو پسند نہیں کرتا ، نہ کر سکتا ہے.وہ رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا،اندرونی فتنوں کے ذریعہ سے.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے ، ظلمت جو ہے، وہ بیرونی حملوں کو بھی تیز کرے گی.لیکن آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو چکا ہے اور عیسائیت دنیا سے ختم ہو چکی ہے.عیسائیت اب اس بات کے ماننے پر مجبور ہوگئی ہے کہ اگر ایک شخص کا عقیدہ یہ ہوکہ مسیح خدا نہیں تھا، تب بھی وہ عیسائی ہی رہتا ہے.اگر اس کا عقیدہ یہ ہے کہ بائبل الہامی کتاب نہیں ، تب بھی وہ عیسائی ہی رہتا ہے.اگر اس کا عقیدہ یہ ہو کہ حضرت مریم کنواری نہیں تھیں اور مسیح بن باپ نہیں تھے، تب بھی وہ عیسائی ہی رہتا ہے.اگر جتنے عقائد ہیں، عیسائیت کے، کوئی شخص ایک ایک کر کے چھوڑتا چلا جائے ، تب بھی وہ عیسائی رہتا ہے.اگر مسیح کو کوئی عیسائی ( نعوذ باللہ ) با خلاق انسان نہ سمجھے، تب بھی وہ عیسائی ہی رہتا ہے.233

Page 251

خطبہ جمعہ فرموده 08 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم لیکن صرف یہ فقرہ ابھی منہ سے نہیں نکالتے کہ عیسائیت دنیا میں باقی نہیں رہی.اس دنیا میں، جس کا میں ذکر کر رہا ہوں یعنی یورپ اور امریکہ میں.پس آسمان سے فرشتے نازل ہو چکے اور انہوں نے عیسائیت کو ان ملکوں سے مٹا دیا.اب ہمارا کام ہے کہ ہم اپنی انتہائی کوشش کر کے خدائے واحد کے جھنڈے ان ملکوں میں گاڑ دیں.یہ ہے، ہماری ذمہ داری ! اور اس ذمہ داری کے نباہنے کے لئے جس حد تک ہمیں استطاعت ہو، اس حد تک تیاری کرنا ہمارا فرض ہے.اور ان فرائض کی طرف مختصر میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں.اور خصوصاً دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کوئی طاقت اور کوئی استطاعت اور کوئی اثر ورسوخ نہیں رکھتے اور نہ ہمارے پاس وسائل، ذرائع اور تدبیر کے مادی سامان اتنے ہیں، جتنے وسائل کی آج ہمیں اپنی عقل کے مطابق ضرورت محسوس ہو رہی ہے.لیکن ہمارا رب تمام طاقتوں کا منبع اور سر چشمہ ہے.تمام علوم کے خزانے اس کے پاس ہیں.کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے، کوئی طاقت اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی.اگر ہم دعا کے ذریعہ اس کے فضل کو جذب کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو صرف اسی صورت میں ہم کامیاب ہو سکتے ہیں، ورنہ نہیں.پس بہت دعا ئیں کرو، بہت دعائیں کریں، دعائیں کرتے ہوئے تھکیں نہ ماندہ نہ ہوں کہ صرف دعا کے ذریعہ سے ہمیں وہ چیز مل سکتی ہے، جو آج ہمیں اپنے فرائض پورا کرنے کی توفیق دے سکتی ہے اور اپنے مقصد کے حصول کی توفیق دے سکتی ہے اور ہمیں کامیاب کر سکتی ہے.اور اس کے بغیر ہمارا کوئی چارہ ہی نہیں.پس دعائیں کریں، دعائیں کریں، دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ آخری فیصلہ جو مقدر ہو چکا ہے، آسمانوں پر ظلمت اور نور کے درمیان ، وہ فیصلہ ہماری زندگیوں میں ، ہماری آنکھوں کے سامنے نافذ ہو جائے.اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خدمت کی کچھ تو فیق عطا کرے.اور اپنی رضا کے عطر سے ہمارے اندر اس قدر خوشبو پیدا کر دے کہ یہ زمین اور وہ آسمان اس خوشبو سے بھر جائیں اور فرشتے ہم پر درود بھیجے لگیں.وبالله التوفيق.234 ( مطبوعه روزنامه افضل 11 اکتوبر 1967ء)

Page 252

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطاب فرمودہ 08 ستمبر 1967ء خدام الاحمدیہ کے لئے چار بنیادی اسباق خطاب فرمودہ 08 ستمبر 1967ء حضرت خلیفة المسیح الثالث کی سفر یورپ سے کامیاب مراجعت پر مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ نے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی.اس موقع پر آپ نے مندرجہ ذیل اہم خطاب فرمایا:.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اے میرے نہایت ہی عزیز بچو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته جس وقت میری نظر آپ عزیزوں پر پڑتی ہے تو دل خوشی سے لبریز ہو جاتا ہے.اور ذہن اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے کہ احمدیت کے یہ وہ نو نہال ہیں، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے اپنے وقت پر ان ذمہ داریوں کو اٹھانا ہے، جو ایک احمدی کے کندھوں پر اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جماعت نے ایک حد تک ان کی تربیت کی ہے.اور جہاں تک ممکن ہو سکے، زیادہ سے زیادہ ان کی تربیت ہونی چاہیے.جو نظارے اور واقعات میں نے یورپ کے ان ملکوں میں دیکھے ہیں، جن کے دورہ سے ابھی میں واپس آیا ہوں، اس کے نتیجہ میں، میں اس یقین سے پر ہوں کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں ، جب ہمارے نو جوانوں کو بھی اور بڑوں کو بھی ، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی اسلام کے استحکام اور اسلام کی اشاعت کے لئے اور توحید کے قیام کے لئے انتہائی قربانیاں دینی پڑیں گی.اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں اور میں بہت کثرت سے یہ دعائیں کرتا ہوں کہ جب بھی وقت آئے ، ہم میں سے کوئی بھی اپنے رب کے حضور شرمندہ نہ ہو.بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ، انہیں کما حقہ ادا کرنے والا ہو.235

Page 253

خطاب فرمودہ 08 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس تربیت کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو بہت سے اسباق دیئے ہیں.جن میں سے چند ایک کا، جو بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، میں اس وقت یہاں ذکر کرنا چاہتا ہوں.پہلا سبق خلافت سے وابستگی کا تھا.دوسرا سبق محنت کی انتہائی محنت کی عادت ڈالنے کا تھا.تیسر اسبق دیانتداری کو قائم کرنے کا تھا.چوتھا سبق، جو تنظیم کے لئے دھینا بنیادی سبق ہے، وہ یہ تھا کہ ہم میں سے ہر ایک نوجوان کو یہ سمجھے لینا چاہیے کہ اس نے اپنی زندگی میں عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا اور خدا اور اس کے رسول کا ایک طرف اور بنی نوع انسان کا دوسری طرف ایک خادم بن کر اپنی زندگی کو گزارنا ہے.پہلے سبق کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی منشاء اپنے سلسلہ میں خلافت راشدہ کو قائم رکھنے کی رہے، اس وقت تک تمام برکتیں خلافت سے وابستہ ہوتی ہیں.اور ہر وہ شخص جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتا ، وہ ان برکتوں سے محروم رہ جاتا ہے.میرا یہ تجربہ ہے ذاتی کہ بعض لوگ ، جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتے ، ان کے حق میں میری دعائیں قبول نہیں بلکہ رد کر دی جاتی ہیں.حالانکہ میں نے اپنے لئے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ اگر کسی شخص کے متعلق مجھے یقین بھی ہو جائے کہ وہ خلافت کی اہمیت کو نہیں سمجھتا اور اس کے دل میں خلافت کے نظام سے وہ محبت اور پیار نہیں، جو ایک احمدی کے دل میں ہونی چاہیے، تب بھی میں اس کے لئے دعا کرتارہتا ہوں.اور دعا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا.اب دعا کرنا میرا کام ہے، میں اپنا کام کر دیتا ہوں.دعا قبول کرنا، میرے رب کا کام ہے.اور میں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ ایسے لوگوں کے حق میں میری دعا قبول نہیں ہوتی.حالانکہ اس سے برعکس بہت سے ایسے احمدی بھی ہیں، جو اگر چہ اعتقاداً پختہ ہوتے ہیں اور نظام جماعت سے ان کا بڑا گہرا اور سچا تعلق ہوتا ہے اور خلافت سے وہ حقیقی تعلق رکھتے ہیں لیکن عملاً بہت سی ذاتی کمزوریاں ان میں پائی جاتی ہیں لیکن جب اس گروہ کے متعلق یا ان میں سے کسی فرد کے متعلق دعا کی جائے، اللہ تعالیٰ بسا اوقات محض اپنے فضل سے اس دعا کو بڑی جلدی قبول کر لیتا ہے.یہ ایک ذاتی مشاہدہ ہے، اس مختصر سے وقت میں یعنی جب سے میں مسند خلافت پر بیٹھایا گیا، جو میں نے ذاتی مشاہدے کئے اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو نازل ہوتے دیکھا اور بعض دعاؤں کو رد ہوتے پایا.یہ میرا امشاہدہ ہے، جو میں نے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے.236

Page 254

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطاب فرمودہ 08 ستمبر 1967ء جب تک خلافت راشدہ قائم ہے، یہ برکات خلافت جماعت کے اندر قائم رہیں گی.اگر اور جب خدا نہ کرے، حالات بدل جائیں اور جماعت بحیثیت جماعت اس پختہ ایمان اور پختہ عمل پر قائم نہ رہے، جس کے نتیجہ میں خلافت کا انعام ملتا ہے تو کیا ہوگا ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانے.لیکن ہمیں آج ایسے کمزور احمدی کی ضرور فکر ہے، جو احمدی کہلاتا ہے لیکن نظام احمدیت کے مرکزی نقطہ سے غافل ہے.اور اس کو پہنچانتا نہیں.اسی لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم خدام کو عہد میں اس لئے شامل کیا تھا کہ جماعت کے نوجوان خلافت سے وابستہ رہیں.اس حد تک کہ ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ر ہیں.اور اسی میں ہر خیر و برکت ہے.اس تنظیم کے لئے ، جو خدام الاحمدیہ کہلاتی ہے، دوسر اسبق ہمیں دیا گیا تھا محنت کا.اگر ہم اس سبق پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہماری ذمہ داریاں دوسری کے مقابلہ میں دوہری ہیں.جو انسان اپنے رب کو نہیں پہنچانتا، اس کی جتنی بھی ذمہ داری ہے، دنیوی ہے.اپنے بھائیوں سے تعلق رکھتی ہے.لیکن وہ جماعت اور اس جماعت کے نوجوان، جو اپنے رب کو پہنچانتے ہیں اور اس کا عرفان رکھتے ہیں، ان کے اوپر ایک طرف حقوق اللہ کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے تو دوسری طرف حقوق العباد کی ادائیگی کی ذمہ داری.لیکن ہر دو گروہوں کی زندگی کے اوقات ایک ہی ہیں.وہی چوبیس گھنٹے ایک کو ملتے ہیں ، وہی دوسرے کو ملتے ہیں.اگر ایک شخص نے ان چوبیس گھنٹوں میں ان دوہری ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہو تو عقل کہتی ہے کہ اپنی رفتار کو ڈبل کر دو.دگنی رفتار سے چلو، تب تم اپنے مقصد کو پاسکو گے.تو ہمارے اوپر ذمہ داری چونکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر دو کی ادائیگی کی تھی، اس لئے ہمیں ہمارے پیارے امام مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ محنت کی عادت ڈالو.اتنی محنت کرو کہ کوئی دوسرا انسان (احمدیت سے باہر ) اتنی محنت نہ کرتا ہو.حقوق اللہ کی ادائیگی میں ہم نے تسبیح اور تحمید کرنی ہے، حقوق اللہ میں ہم نے نماز باجماعت ادا کرنی ہے، راتوں کو اٹھنا ہے اور رات کو اتنی نیند نہیں لینی جتنی کہ عام طور پر دوسرے لوگ لیتے ہیں.بہت سے حقوق ہیں ہمارے اللہ کے، جو ہم نے ادا کرنے ہیں.اور پھر دن کی دوڑ میں ، جس میں ہم اور وہ برابر ہیں، حقوق العباد کی ادائیگی میں، ان کے ساتھ ہم نے دوڑنا ہے.اور اس میں بھی ہماری ذمہ داری زیادہ ہے.کیونکہ دوسرے تو حقوق العباد کو اچھی طرح سمجھتے نہیں.کوئی اپنے ہمسایہ کا حق ادا نہیں کر رہا، کوئی اپنے شریک کا حق ادا نہیں کر رہا، کوئی اپنی بیوی کا حق ادا نہیں کر رہا، کوئی بیوی اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کر رہی کوئی ، اپنے ملک کا حق ادا نہیں کر رہا، کوئی اپنے ہم پیشہ لوگوں کا حق ادا نہیں کر رہا.کتنے حقوق ہیں، جن کو یا تو وہ سمجھتے نہیں یا انہیں ادا نہیں کر رہے.لیکن ہم ایسا کر نہیں سکتے.کوئی حق 237

Page 255

خطاب فرمودہ 08 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ایسا نہیں ، جس کو ہم نے ادا نہیں کرنا.اس لئے کہ ہم اپنے رب سے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے اس کے کہنے کے مطابق اس کے بندوں کے حقوق ادا نہ کئے تو وہ ہم سے ناراض ہو جائے گا.اور اس کے غضب کی ہمیں برداشت نہیں.تو جو دور دن کی ہے، جس میں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی ہمیں بہت توجہ دینی پڑتی ہے.اس میں بھی ہماری ذمہ داریاں زیادہ ہیں، دوسرں کی نسبت تو ہماری رفتار دگنی نہیں بلکہ تگنی ، چار گنی ہو، تب کہیں جا کے ہم اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک طرح نبھا سکتے ہیں.میں اپنے اس دورہ میں یورپ میں بسنے والوں کو بھی کہتا رہا ہوں اور یہاں بھی میں نے یہ بیان کیا ہے کہ اگلے پچھیں، تمیں سال انسانیت کے لئے بڑے ہی نازک ہیں.ہمارے ایک مبلغ نے وہاں ایک خواب دیکھی کہ چونسٹھ سال کے بعد وہ واقعات ہوں گے.انہوں نے مجھے خواب لکھی فوری طور پر میرے ذہن میں یہ تعبیر آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بتایا ہے کہ جس رفتار سے تم چل رہے ہو، اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونسٹھ سال کے بعد موجودہ واقعات رونما ہونے والے ہیں.حالانکہ ہونے ہیں، جلدی.اس واسطے اپنی رفتار کو تیز کرو.تو ہمیں آہستہ نہیں چلتا.ہم نے دوسروں کی تیزی جتنی تیزی بھی نہیں دکھانی.بلکہ ان سے زیادہ تیز چلنا ہے.حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف دوسروں کا کوئی خیال ہی نہیں.حقوق العباد کچھ ادا کئے جاتے ہیں، باقی جو ہیں، ان سے غفلت برتی جاتی ہے.لیکن ہماری زندگی غفلت کو برداشت نہیں کرسکتی.ہم نے تو ہر وقت چوکس اور بیدار رہ کر اپنی زندگی کے دن گزارنے ہیں.ہماری رفتار بہت تیز ہونی چاہیے.اور اس کے نتیجہ میں ہمیں ہلکا پھلکا بھی رہنا چاہیے.زندگی کے ہر شعبہ میں ، ہر لحاظ سے (اس وقت وہ میرے زیر بحث نہیں.بہر حال ہمیں محنت کی عادت ڈالنی چاہیے.کیونکہ جو بوجھ ہمارے کندھوں پر رکھا گیا ہے، وہ ہم اٹھا نہیں سکتے ، جب تک ہمیں محنت کی عادت نہ ہو.اور اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو.انگلستان میں ( میں اللہ تعالیٰ کا ایک نہایت عاجز بندہ ہوں، بہت کمزور ہوں.سر درد کے بھی دورے ہو جاتے ہیں لیکن وہاں ) چونکہ اندر ایک آگ لگی ہوئی تھی، تربیتی امور میں یا تبلیغی کاموں میں مصروف رہ کے میں قریباً سارا عرصہ ایک اور دو کے درمیان یا اکثر دو کے بعد سویا ہوں.ایک دن ایک بزرگ مجھے کہنے لگے ، تھک گئے ہیں، آپ ذرا خیال رکھیں ، آرام کریں.تو میں نے ان کو جواب دیا کہ آرام کی عادت ہی نہیں رہی.یہاں گذشتہ رات میں نے ڈیڑھ بجے کام چھوڑ دیا تھا اور میرا خیال تھا کہ نسبتاً زیادہ آرام کرلوں گا لیکن جب میں لیٹا تو مجھے نیند نہ آئی.خیر اس طرح مجھے اللہ تعالیٰ نے دعا کا موقع دیا.میں دعا کرتا رہا، سو یا اپنے وقت پر ہی اڑھائی اور تین بجے کے درمیان تو بوڑھا تو نہ میں اپنے آپ کو کہتا ہوں ، نہ سمجھتا ہوں.لیکن کافی بڑی عمر کا انسان آپ کے مقابلہ میں اتنا کام کر سکتا ہے تو آپ، جو بچے 238

Page 256

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطاب فرمودہ 08 ستمبر 1967ء ہیں اور جوان ہیں، آپ کو مجھ سے زیادہ کام کرنے کا شوق اور ہمت ہونی چاہیے.یہ حقیقت ہے، جس کے بغیر ہم اپنے فرائض کو کما حقہ ادا نہیں کر سکتے.پھر دیانت کا ہمیں سبق دیا گیا تھا.دیانت، بندوں کے ساتھ جو تعلقات ہیں، ان کے لئے بھی ضروری ہے.بد دیانتی کے نتیجہ میں جھوٹ آدمی بولنے لگ جاتا ہے.جب وہ دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا نہ کر رہا ہو اور ظاہر یہ کرنا چاہے کہ میں دیانتداری کے ساتھ اپنے فراض ادا کر رہا ہوں ،اسے جھوٹ بولنا پڑتا ہے.پس جب تک دیانتدارانہ تعلقات آپس کے نہ ہوں، اپنے رب سے نہ ہوں، اس وقت تک ہم اپنے رب کی رضا کو حاصل کیسے کر سکتے ہیں.پھر تمہیں سبق دیا گیا تھا، خادم نام میں کہ کسی وقت کبر اور غرور تم میں پیدا نہ ہو.بلکہ خادمانہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرو محض خدمت کرنا، کوئی چیز نہیں.انسان کو ایسا ہونا چاہئے کہ ہر وقت وہ اپنے آپ کو خادم سمجھتار ہے.اس کی باتوں میں، اس کی طرز میں، جب وہ کسی کو مخاطب ہو اس میں کسی قسم کی بڑائی نظر نہ آئے.ہر وقت عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے والا ہو.اور اس عاجزی میں بڑی شان اور بڑی طاقت.زیورک میں ایک بہت بڑے غیر احمدی بھی آئے ہوئے تھے.ریسپشن میں ہر ایک اپنی نظر سے دیکھتا ہے، دوسرے کو.وہ چوہدری مشتاق احمد صاحب کو کہنے لگے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ایک مقام عطا کیا ہے اور ہم جانتے ہیں، وہ بڑا ارفع مقام ہے لیکن جس وقت ہم آپس میں بیٹھے اور باتیں کیں تو بالکل یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کوئی بزرگ یا کوئی بلند مقام والا آدمی ہم سے باتیں کر رہا ہے.اس طرح ہے تکلفی کے ساتھ اخوت اور برادرانہ رنگ میں ہم سے باتیں ہورہی تھیں اور اس چیز نے مجھ پر بڑا اثر کیا.ان کو کیا معلوم کہ جو شخص اپنے رب کی معرفت حاصل کر لیتا ہے، اس کے لئے سوائے نیستی کے مقام کے اور کوئی مقام باقی نہیں رہتا.خود بینی تو بت پرستی ہے.مشرک ہے ایسا شخص، جو اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے.جو شخص تو حید پر قائم ہے، وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا.وہ اپنی حقیقت کو جانتا ہے اور اپنے رب کی طاقت کو بھی پہنچانتا ہے.اس کے دل اور دماغ میں تکبر اور غرور اور اپنی بڑائی اور اپنے علم کا زعم کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں.تو ہمیں بنیادی سبق یہ دیا گیا تھا کہ خادم کی حیثیت کو بھولنا مت.کیونکہ اس میں تمہارے لئے ساری عزتیں اور اس میں تمہارے لئے ساری کامیابیاں ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو سب عزتیں اور ساری ہی کامیابیاں عطا فرمائے.آئیں اب دعا کر لیں.( مطبوعه روزنامه افضل 23 دسمبر 1967ء) 239

Page 257

Page 258

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطاب فرموده 10 ستمبر 1967ء مسجد نصرت جہاں کو اللہ تعالیٰ نے بڑی برکتوں کا موجب بنایا ہے خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1967ء حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی سفر یورپ سے کامیاب مراجعت پر آپ کی خدمت میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ، لجنہ اماءاللہ ربوہ اور ناصرات الاحمدیہ کی طرف سے سپاسنامہ پیش کرنے کی تقریب کے موقع پر حضور انور نے درج ذیل خطاب فرمایا:.تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.سب سے پہلے تو میں تینوں ایڈریسوں پر ، جو یہاں دیئے گئے، لجنہ اماءاللہ مرکزیہ، لجنہ اماء اللہ ربوہ اور ناصرات الاحمدیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.شکریہ سے تو میرادل لبریز ہے.مگر جس شکریہ سے میرا دل لبریز ہے ، وہ اپنے رب کے لئے ہے.جس کی حمد میرے روئیں روئیں سے پھوٹ کر باہر نکل رہی ہے.نصرت جہاں مسجد کے افتتاح کے ساتھ کہ جس کے لئے میں کوپن ہیگن گیا، یہ مقصد بھی میرے پیش نظر تھا کہ جس غرض کے لئے مساجد تعمیر کی جاتی ہیں، اس غرض سے بھی ان ممالک کے بسنے والوں کو روشناس کرایا جائے.یہ مسجد بہت سے پہلوؤں سے بڑی اہمیت رکھتی ہے.زمانہ کے لحاظ سے اس کو دو خلافتوں نے گھیرا ہوا ہے.دعاؤں کے لحاظ سے ابتدا میں، جب اس کی بنیاد رکھی گئی یعنی جب اس کے لئے چندہ جمع ہونا شروع ہوا، اس نے ہمارے محبوب امام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دعائیں لی تھیں اور جب یہ کمل ہوئی یا جب یہ تکمیل کے دور میں سے گزر رہی تھی ، اس وقت خلافت ثالثہ کی دعا ئیں اس کے ساتھ تھیں.پھر جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کو قبولیت عطا کی ہے، اس کی مثال بھی دنیا میں بہت کم ملتی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے رب نے آسمان کے فرشتوں سے کہا، زمین پر اتر و اور اس مسجد کی مقبولیت دلوں میں بٹھاؤ.پہلے دن سے ہی ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلم اسے دیکھنے کے لئے آتے رہے اور پھر ہفتوں یہ سلسلہ جاری رہا.صرف یہی نہیں بلکہ اس کثرت سے عیسائی لوگ اس مسجد کو دیکھنے کے لئے آتے تھے کہ جن دوستوں کے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ آنے والوں کا استقبال کریں ، انہیں مسجد 241

Page 259

خطاب فرموده 10 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم دکھائیں ، ان کا شکریہ ادا کریں اور جاتے وقت ان کے ہاتھ میں وہ دو ورقہ دے دیں، جو اس غرض کے لئے پہلے سے ڈینش زبان میں شائع کرا لیا گیا تھا ، وہ نا کافی ہو جاتے.تو عیسائی بچے ہمارے مہمانوں کا استقبال کرتے ، انہیں مسجد میں لاتے ، انہیں مسجد دکھاتے اور جب وہ واپس جاتے تو وہ عیسائی بچے عیسائیوں کے ہاتھ میں اسلام کا پیغام یعنی وہ دو ورقہ پہنچا دیتے.پھر قریباً سب اخبارات نے، جو ڈنمارک سے چھپتے ہیں اور بعد کی رپورٹ کے مطابق جو سویڈن اور ناروے میں بھی چھپتے ہیں، انہوں نے اس مسجد کا تذکرہ اپنے اخبارات میں کیا اور اس پر مضامین لکھے.بعض رسالوں نے پورا ایک صفحہ مسجد کی تصاویر اور اس مضمون پر صرف کیا، جو انہوں نے اس کے بارہ میں لکھا.پھر ریڈیو کے ذریعہ اس مسجد کا ذکر دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچ گیا.اس کے علاوہ ٹیلی ویژن پر مسجد کا افتتاح کروڑوں باشندوں نے دیکھا.اور نہ صرف یورپ کے کروڑوں باشندوں نے دیکھا بلکہ جس بات سے مجھے بہت خوشی ہوئی ، وہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں بھی افتتاح کی ٹیلی ویژن دودفعہ دکھائی گئی.( بعد کی اطلاع کے مطابق مصر میں بھی دکھائی گئی.) لوگوں کے دلوں میں اس مسجد کی محبت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس قدر پیدا کی کہ وہاں کے لارڈ میئر نے کہا کہ ہم آپ کے ممنون ہیں کہ آپ نے ہمارے علاقہ میں ایک مسجد تعمیر کی ہے.اور ہمیں یہ یقین ہے کہ باہر سے آنے والے لوگ، جو سیاحت کرتے ہوئے ہمارے علاقہ میں پہنچیں گے، وہ اس مسجد کو دیکھ کر بہت محظوظ ہوں گے.تصاویر اس مسجد کی اتنی لی گئیں کہ ان کا اندازہ کرنا مشکل ہے.ہزاروں کیمروں کی آنکھیں اس مسجد پر پڑی اور ہزاروں کیمروں کے سپنوں نے اس مسجد کا حسین عکس اپنے اندر ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا.اور ہزاروں گھروں میں وہ تصاویر ایک لمبے عرصہ تک محفوظ رہیں گی.اور وہ لوگ اور ان کے بچے انہیں دیکھا کریں گے.اتنی مقبولیت اس مسجد کو حاصل ہوئی کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اس کا انداہ کرنا مشکل ہے.اور مسجد کی مقبولیت ایک بے معنی چیز ہے، اگر صرف یہی ہو کہ اینٹیں دیکھیں یا سیمنٹ کی تعمیر دیکھی اور اس سے محظوظ ہوئے.اصل چیز تو مسجد کی روح ہے.اور مسجد کی روح نے بھی لوگوں میں ایک انقلاب عظیم پیدا کیا.میں نے افتتاح کے موقع پر یہ اعلان کیا کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ مساجد اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم عاجز بند کے بطور نگران کے ان کی دیکھ بال کرتے ہیں.اسلام نے مسجد کا دروازہ ہر اس شخص کے لئے کھلا رکھا ہے، جو خدائے واحد کی پرستش کرنا چاہے اور نیک نیتی کے ساتھ 242

Page 260

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1967ء اور ہر قسم کے شر سے پاک ہو کر اس مسجد میں داخل ہونا چاہے.اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیسیوں بچوں نے (گو یہ عمرنا جبھی کی ہے.ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو کر نماز ادا کی.اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ سینکڑوں عیسائی مردوں اور عورتوں نے ہماری دعا اور نماز کے وقت اس عبادت میں اس طرح شرکت کی کہ وہ بھی سر جھکا کر اس نماز کے وقت دعا کرتے رہے.اور ایک شخص نے اخبار میں لکھا کہ اس روز ہمیں عبادت کا جو مزہ آیا ، وہ ہمیں کسی اور جگہ نہیں ملا.غرض مسجد کی روح بھی ان لوگوں پر روشن ہوئی اور ان کے دلوں کو جذب کیا.اور انہیں خدائے واحد کی طرف متوجہ کیا، اسلام کا پیغام سننے کے لئے انہیں تیار کیا اور لاکھوں آدمیوں کے دلوں میں، جو ڈنمارک میں رہتے ہیں، یہ جستجو پیدا کی کہ ہمیں اسلام کے متعلق مزید واقفیت حاصل کرنی چاہیے.ہمارے دورہ کے بعد اس وقت تک وہاں پانچ بیعتیں ہو چکی ہیں.(اب یہ تعداد 8 تک پہنچ چکی ہے.ان بیعت کرنے والوں میں ایک کیتھولک نو جوان بھی شامل ہیں اور وہ سکنڈے نیویا میں پہلے کیتھولک نوجوان ہیں، جس نے اسلام اور احمد بیت کو قبول کیا ہے.اور ہمارے امام کمال یوسف بہت خوش ہیں کہ کیتھولک عیسائیوں کے لئے بھی ، جو اپنے مذہب میں بڑے کٹر ہوا کرتے ہیں، اسلام کا دروازہ کھل گیا ہے.مسجد نصرت جہاں یورپ کے تمام ملکوں کی مدد کے لئے قائم ہوئی ہے.اور اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ میں یہاں لوگوں کی روحانی مدد کے لئے موجود ہوں اور قیامت تک قائم رہوں گی ، انشاء اللہ.اس مسجد نے ان لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا، ان کے دلوں میں اپنی محبت قائم کی اور ان کے دلوں کو اپنے رب کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کیا اور ان کی روحوں میں ایک ہلکی سی روشنی کی چمک پیدا کی ، جس کے نتیجہ میں ہم امید رکھتے ہیں کہ ایک دن اسلام کی پوری روشنی بھی ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے گی اور وہ اپنے رب کو پہنچانے لگیں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ( جو تمام دنیا کے حسن اعظم ہیں.) کے ٹھنڈے سایہ تلے جمع ہو کر اس آتشیں تباہی سے محفوظ ہو جا ئیں گے کہ جس سے انہیں ڈرایا گیا ہے.وہاں میں نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں جو درخت یورپ میں لگائے تھے ، ان کے شیریں پھل پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.میں یہ دیکھ کر بڑا ہی خوش ہوا اور میں نے اپنے رب کی بڑی ہی حمد کی کہ وہاں کی احمدی مستورات میں اس قسم کا اخلاص اور ایثار اور فدائیت اور جاں نثاری کا جذبہ پایا جاتا ہے کہ جس قسم کی فدائیت اور جاں ماری کا جذبہ ہمارے ملک کی اکثر احمدی مستورات میں پایا جاتا ہے.کوپن ہیگن میں ہماری پانچ سات احمدی بہنیں ہیں، وہ صبح آٹھ بجے سے لے کر رات کے گیارہ بارہ بجے تک جماعت کے کاموں میں مشغول رہتی تھیں اور بڑے شوق سے کام کرتی تھیں.اسی طرح زیورک میں ہماری ایک احمدی بہن ہے ، وہ ایک بڑے مشہور 243

Page 261

خطاب فرموده 10 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم نواب کی بیٹی ہیں.وہ احمدی ہو چکی ہیں.وہ وہاں صبح سے لے کر شام تک نوکروں کی طرح کام کیا کرتی تھیں.وہ برتن صاف کرتی تھیں اور کھانے پکانے میں مدد کرتی تھیں.وہ اتنی با حیا تھیں کہ نقاب نہ ہونے کے باوجود برقع میں ہوتی تھیں ، نظر ہر وقت نیچے کئے ہوئے اور سرڈھانکے ہوئے.ان کے چہرہ پر جسم دیا کی روشنی چمکتی تھی.اور جب وہ بے وقت کام سے فارغ ہو کر گھر واپس جاتی تھیں تو یہ احساس ہوتا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ اگر کوئی اور کام ہوتا تو وہ بھی میں کرتی ، چاہے ساری رات ہی یہاں کیوں نہ گزر جاتی.غرض بڑی فدائی احمدی بہنیں وہاں پیدا ہو چکی ہیں..T.V سے تعلق رکھنے والی ایک عیسائی عورت نے مجھ سے زیورک میں سوال کیا کہ ہمارے ملک میں آپ اسلام کو کیسے پھیلائیں گے؟ میں نے اسے کہا کہ دلوں کو فتح کر کے.اس جواب سے وہ بہت متاثر ہوئی اور اس نے کہا کہ میں یہ فقرہ ٹیلی ویژن پر ضرورلانا چاہتی ہوں.جب میں ٹیلی ویژن پر آپ کا انٹرویولوں تو آپ یہ فقرہ ضرور دہرائیں.میں نے کہا کہ بہت اچھا، آپ یہ سوال کر دیں، اور میں جواب میں اپنا یہی جواب دہرا دوں گا.کوپن ہیگن میں جب مجھ سے یہی سوال کیا گیا کہ آپ ہمارے ملک میں کس طرح اسلام پھیلائیں گے؟ تو میں نے کہا کہ یہ سوال مجھ سے زیورک میں بھی کیا گیا تھا اور میں نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ دلوں کو فتح کر کے.اس مجلس میں ایک بڑی باوقار صحافی عورت بھی بیٹھی ہوئی تھی.اس نے یہ جواب سن کر بڑے وقار سے پوچھا کہ آپ ان دلوں کو کریں گے کیا ؟ میں نے اسے جواب دیا کہ ہم انہیں پیدا کرنے والے رب کے قدموں پر جارھیں گے.اس جواب کا اس پر اتنا اثر ہوا کہ پریس کانفرنس کے بعد بھی وہ کئی گھنٹے وہاں ٹھہری رہی.اس نے ہمیں نماز پڑھتے دیکھا، کئی گھنٹے وہ ہمارے دوستوں سے باتیں کرتی رہی اور اس نے کہا، میں واپس جا کر اس ملاقات ، مسجد اور پریس کانفرنس کے متعلق اپنے اخبار میں ضرور ایک مضمون لکھوں گی.غرض وہاں کی احمدی مستورات انمول ہیں.ان میں اتنی روحانیت پیدا ہو چکی ہے، اتنا اخلاص ان میں پیدا ہو چکا ہے کہ وہ آپ میں سے بہتوں کے لئے بھی قابل رشک ہیں.جو غیر تھے ، ان پر بھی مسجد کا اثر تھا.ان کے اندر اس مسجد کی وجہ سے اور پھر اس کے افتتاح کی وجہ سے اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ ایک ایسا مذہب ہے، جس کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.میں جب ان تمام واقعات پر غور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں تو میں اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ مسجد نصرت جہاں کی تعمیر اور اس کے افتتاح کوو 244

Page 262

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1967ء بڑی اہمیت حاصل ہے.اور میں اپنے رب سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ آپ کی اس کوشش کو قبول کرتے ہوئے ، اس میں اتنی برکت ڈالے گا کہ اس کے نتیجہ میں ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی اسلام کی طرف مائل ہوں گے اور اسلام کو قبول کریں گے.یہ مسجد دوراہے کی حیثیت رکھتی ہے.یا دور ہے کا جو چوک ہوتا ہے، اس کی حیثیت رکھتی ہے.ابتداء اس کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے ہوئی اور تعمیر کی تکمیل خلافت ثالثہ کے دور میں ہوئی.ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اس سفر کے دوران بارش کے قطروں سے بھی زیادہ کثرت کے ساتھ نازل ہوتے دیکھا.اور ہمارے دل اپنے محبوب اور اپنے مقصو د رب کی حمد سے اس قد ر لبریز ہیں کہ دنیا کی کوئی زبان ان کا اظہار نہیں کر سکتی.ویسے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات اپنے بندوں پر ہمیشہ ہی اتنے ہوتے ہیں کہ ان کا شمار ہی نہیں کیا جاسکتا لیکن بعض وقتوں میں یہ انعامات اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ جس طرح موسلا دھار بارش ہوتے وقت آسمان سے قطرے برستے ہیں، اس سے بھی کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہورہے ہوتے ہیں.جب ہم مسجد میں افتتاح کے لئے داخل ہوئے تو وہاں سینکڑوں مسلمان موجود تھے.اور مسجد میں اگلے احاطہ میں کثرت سے وہ لوگ تھے ، جو ا بھی اسلام نہیں لائے.اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے متاثر ہورہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے یہ انعامات ہم پر بہت سی باتیں واجب کرتے ہیں.جیسے حمد اور شکر ہیں.ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے.اس کی حمد کے ترانے گاتے رہنا چاہیے کہ اس نے محض اپنے فضل سے اپنے ناچیز بندے کی حقیر پیش کش کو قبول کر لیا.اور میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ یہ فقرہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس پیش کش کو قبول فرما لیا ہے.اس لئے میں سلسلہ کا امام ہونے کی حیثیت میں آج آپ کو مبارک باد دیتا ہوں.اس دعا کے ساتھ کہ جس نے اپنے فضل سے آپ کو ان قربانیوں کی آج سے پہلے تو فیق عطا کی ہے، وہ آئندہ بھی آپ کو اپنی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا کرتا چلا جائے.تا قیامت کے دن جب خدا کے پیارے بندے خدا کے حضور جمع ہوں تو آپ بھی ان صحابیات میں شامل ہوں ، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں دنیا میں بے شمار قربانیاں اور فدائیت اور ایثار کے نمونے پیش کئے ، جن کی وجہ سے ان سے ان کا رب راضی ہوا اور وہ اپنے رب کی رضا پر راضی اور خوش.آج ہمیں ان ذمہ داریوں کو نباہنے کے لئے، جو ہم پر عائد ہوتی ہیں، عہد کرنا چاہیے اور یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم بھی ست اور ماندہ نہیں ہوں گے.بلکہ جب بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے 245

Page 263

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطاب فرموده 10 ستمبر 1967ء لئے قربانیوں کی ضرورت ہوگی تو نہ صرف مال کی قربانی، نہ صرف جان کی قربانی ، نہ صرف وقت کی قربانی ، نہ صرف جذبات کی قربانی بلکہ جتنی قربانیاں بھی آپ سوچ سکتی ہیں ، سب قربانیاں اس راہ میں پیش کر دیں گی.اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد یہ سمجھیں گی کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا.عاجزی اور تواضع اور نیستی کے اس مقام کو نہ چھوڑیں گی، جس عاجزی، تواضع اور نیستی کے مقام پر ہمیں ہمارا رب دیکھنا چاہتا ہے.ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم محض اللہ کے بندے اور بندیاں ہیں.اپنی ذات میں ہم کچھ بھی نہیں.ہم لاشی محض ہیں.نہ ہم میں کوئی طاقت ہے، نہ ہم میں کوئی خوبی ہے.نہ ہم میں کوئی مہارت ہے، نہ ہمارے پاس اثر ورسوخ اور اقتدار ہے.نہ ہم میں استطاعت ہے، نہ ہم میں مقبولیت ہے.ہمارے پاس کچھ بھی نہیں.لیکن اس کم مائیگی اور نا اہلیت کے باوجود اللہ تعالیٰ ، جو ہر چیز کا مالک ہے، اپنے بندوں کو اپنے فضل سے نوازتا ہے.وہ انہیں اپنی نگاہ میں ایک بلند مقام عطا کرتا ہے.وہ ان سے پیار اور محبت کا سلوک کرتا ہے.اور جسے اللہ تعالیٰ کا پیار اور محبت اور عزت مل جائے ، اس کو اگر اس جہاں کی ساری چیزیں بھی دے دی جائیں تو وہ ان کو پرے پھینک دے گا.اور کہے گا کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں، میں نے جو پانا تھا، وہ پالیا ہے.جب سفر کا پروگرام بنا تو میرے دل میں بڑی گھبراہٹ تھی ایک طرف میں اس سفر کی ضرورت کو یکھتا تھا اور میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ میں مستورات کی طرف سے دی گئی قربانی کے نتیجہ میں جو مسجد تعمیر ہوئی ہے، اس کا افتتاح خود کرو.اور یورپین اقوام کو جھنجھوڑوں اور اپنے رب کی طرف ان کو بلاؤں.اور دوسری طرف یہ خیال کرتا تھا کہ میں ایک نہایت ہی ناچیز اور کم پایا انسان ہوں ، پتہ نہیں ، میں اس کام کو پوری طرح ادا بھی کر سکوں گا یا نہیں.پس میں نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا اور اس کے حضور بے حد دعائیں کیں.اور اپنے بھائیوں اور بہنوں سے بھی کہا کہ وہ دعائیں کریں تا اگر اللہ تعالی اس سفر کو مبارک سمجھتا ہو اور اگر اس کے نتیجہ میں اس کی برکتوں کا نزول ہونا ہو تو وہ اس سفر کی مجھے توفیق دے اور اس کی اجازت بھی عطا کرے.تب میں نے اس کی محبت کا جلوہ دیکھا، جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ میں اپنے ایک خطبہ میں کر چکا ہوں اور جس کا سرور آج بھی میرا دل اور میری جان اور میراجسم محسوس کر رہا ہے.وہ ایک ایسا سرور ہے، جو مجھے میری ساری زندگی حاصل ہوتا رہے گا.اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے جدا نہیں ہوگا.اور اس میں جو نمایاں چیز تھی ، وہ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ تھا.جونورانی الفاظ میں مجھے لکھا ہوا نظر آیا.اور جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں نے اس جلوہ سے یہ سمجھا کہ اگر چہ میں ایک حقیر بندہ ہوں لیکن جس رب سے میرا تعلق ہے، وہ تمام طاقتوں والا ، وہ 246

Page 264

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطاب فرموده 10 ستمبر 1967ء تمام رفعتوں والا اور تمام برکتوں والا رب ہے.اور اللہ نے مجھے یہ وعدہ دیا ہے کہ اگر میں اس سفر کو اختیار کروں تو وہ میرے لئے کافی ہوگا.اور جس کے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہو اس کو کسی کی ضرورت باقی نہیں رہتی.اس کی تائید میں حافظ مبارک احمد صاحب نے ایک کشف دیکھا تھا.انہوں نے مجھے لکھا کہ میں نے بیداری کے عالم میں یہ دیکھا کہ ایک بزرگ سفید کپڑوں میں ملبوس میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے سے عربی زبان میں باتیں شروع کیں.اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ تمہیں پتہ ہے کہ خلیفہ وقت یورپ کے سفر پر جارہے ہیں؟ میں نے کہا ، ہاں، مجھے اس کا علم ہے.تب اس بزرگ نے پوچھا، کیا انہوں نے اپنے رب سے اجازت لے لی ہے؟ حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ جب اس بزرگ نے مجھ سے یہ بات کہی تو میرے سامنے یہ نظارہ آیا کہ آپ (یعنی یہ خاکسار ) مسجد مبارک میں آئے ہیں اور محراب کے پاس کھڑے ہو گئے ہیں.میں آپ کے پاس آیا اور آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے رب سے اپنے اس سفر پر جانے کی اجازت لے لی ہے؟ اس پر آپ نے جواب دیا کہ ہاں، میں نے اپنے رب سے اجازت لے لی ہے اور اس نے مجھے اجازت دے دی ہے.اور اس بشارت کے ساتھ اجازت دی ہے کہ وہ بہت بڑی کامیابیاں عطا کرے گا.حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ میں اس برزگ کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ آپ نے اپنے رب سے اس سفر پر جانے کی اجازت لے لی ہے.بعد میں وہ بزرگ مجھ سے عربی زبان میں گفتگو کرتے رہے.غرض اس وثوق کے ساتھ کہ میری کوئی نفسانی غرض اس سفر سے تعلق نہیں رکھتی ، میں نے اس سفر کو اختیار کیا.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدہ دیا کہ وہ سفر کے دوران اور بعد میں بھی اپنی برکتیں نازل کرتا رہے گا.اور جس کثرت کے ساتھ وہ برکتیں نازل ہوئیں، اس سے میرا دل اس کی حمد سے بھر گیا.اور ان برکتوں کے نزول نے دنیا پر ایک دفعہ پھر یہ ثابت کیا کہ ہمارا رب کتنا پیار کرنے والا ہے اور وہ اپنے وعدہ کا کتنا پاس کرنے والا ہے.یہ ایک حقیقت ہے، اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ سارے سفر کے دوران میں انگلینڈ میں بھی ، سویڈن میں بھی، ہالینڈ میں بھی، کوپن ہیگن میں بھی، جرمنی میں بھی ، غرض جہاں بھی ہم گئے اور جس سے بھی ہمیں واسطہ پڑا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارا خادم ہے.ذراذراسی بات کا خیال رکھنے والا ہے اور ہر قسم کی خدمت کے لئے تیار ہے.اور یہ الہی تصرف تھا.اور پھر یہ بھی الہی تصرف تھا کہ اس زمانہ میں جب اسلام کے خلاف وہاں بغض اور تعصب انتہا کو پہنچا ہوا تھا، انہوں نے میری باتوں کو غور سے سنا اور شرافت اور صداقت کے ساتھ انہیں اپنے اخباروں میں شائع کیا.کسی ایک شخص نے بھی میری طرف کوئی ایسی بات منسوب نہیں کی ، جو میں نے نہ کہی ہو.حالانکہ جو بات میں انہیں کہہ رہا تھا، وہ ان کے اعتقاد اور مذہب کے خلاف جاتی تھی.وہ ان کے 247

Page 265

خطاب فرموده 10 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اعتقادات اور رحجانات پر حملہ تھا.گو انہوں نے میری ساری باتوں کو اپنے اخباروں میں شائع نہیں کیا.بلکہ کسی اخبار نے کوئی بات شائع کر دی اور کسی نے کوئی.لیکن میری ساری گفتگو کا جو خلاصہ تھا، وہ انہوں نے شائع کر دیا.اور وہ خلاصہ یہ تھا کہ اپنے رب کی طرف واپس آؤ، اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اسلام کی روشنی سے اپنے آپ کو منور کرو اور ہی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، جو دنیا کے حسن اعظم ہیں، ان کے ٹھنڈے سایہ تلے آجاؤ تا تم ہلاک نہ ہو.تو یہ میری وارنگ تھی، یہ میرا انداز تھا اور وہ لوگ الہی تصرف کے ماتحت مجبور ہو گئے تھے کہ میری اس وارننگ کو، میرے اس انداز کو اپنے اخبارات میں شائع کریں.ہمارا اندازہ اس وقت تو لاکھوں کا تھا لیکن بعد میں جو خبریں ملی ہیں، ان سے پتہ لگتا ہے کہ کروڑوں آدمیوں تک میری آواز پہنچی اور کروڑوں آدمیوں نے میری شکل کو دیکھا اور میری زبان سے وہ سنا، جو میں انہیں سنانا چا ہتا تھا.اور اگر ہم ایک کروڑ روپیہ بھی خرچ کرتے تو شاید یہ نتائج نہیں نکل سکتے تھے.خدا تعالیٰ نے ایک دھیلہ خرچ کیے بغیر یہ نتائج پیدا کر دئیے.اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا اور مجھ کو بھی اور آپ کو بھی اتنے نشانات دکھائے ( کیونکہ میں اکیلا ان نشانات کا حصہ دار نہیں بلکہ میرے ساتھ ساری جماعت ان نشانات میں حصہ دار ہے.کہ اگر ہم اپنی بقیہ زندگیوں کا ہر لحہ، اگر ہم اپنے ملکیت کا ہر پیسہ، اگر ہم اپنی عزتوں اور جذبات کا ہر پہلو اس کی راہ میں خرچ کر دیں ، تب بھی حقیقت یہ ہے کہ اس کا شکر ادا نہیں ہوسکتا.ہمیں ان ذمہ داریوں کو جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں ہم پر عائد ہوتی ہیں، سمجھنا چاہیے.اور ہمیں اپنی نسل کے دلوں میں اپنے پیارے رب کی محبت کو پیدا کرنا اور اس کو بڑھانا چاہئے.اور انہیں اس وثوق اور یقین پر قائم کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر فیصلہ کر دیا ہے کہ ساری دنیا پر اسلام غالب آئے گا.اس غلبہ کے لئے ہمیں ہر قسم کی قربانی دینی چاہیے اور اس انعام کے مقابلہ میں ہماری ساری قربانیاں بیچ ہیں.اس لئے ہمیں وہ قربانیاں دے دینی چائیں تاہم اپنے رب کے پیار کو حاصل کر سکیں.کوپن ہیگن میں، میں نے پادریوں سے گفتگو کی.انہوں نے ایک منصوبہ تیار کر کے اور بڑے غور کے بعد بعض سوالات تیار کئے تھے، جو وہ مجھ سے پوچھنا چاہتے تھے.ان سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا مقام کیا ہے؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ تمہارا سوال میرے نزدیک درست نہیں.کیونکہ میرے نزدیک جماعت احمدیہ اور میں دونوں ایک ہی وجود ہیں.یہ دو نام ہیں، ایک وجود کے.اور جب میں اور جماعت دونوں ایک ہی وجود ہیں تو ” جماعت میں میرا مقام کیا ہے؟“ کا سوال درست نہیں.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خلافت راشدہ کی نعمت جب تک کسی قوم میں قائم رکھی جاتی 248

Page 266

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1967ء ہے، اس وقت تک یہ دونوں وجود علیحدہ نہیں ہوتے.گوجسم دو مختلف ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر دل ایک ہی دھڑک رہا ہوتا ہے.ان میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا.سوائے منافق کے دل کے اور منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی موجود تھے اور اب بھی ہیں.اور وہ الہی سلسلوں کے ساتھ ہمیشہ رہتے ہیں.ان منافقوں کو اگر ہم چھوڑ دیں تو ساری جماعت اور خلیفہ وقت دونوں ایک ہی وجود ہیں.جب میں اپنے رب کے فضلوں، اس کی رحمتوں ، اس کی نعمتوں کو بارش کے قطروں کی طرح نازل ہوتے دیکھتا تھا تو میں یہ نہیں کہتا تھا کہ اے میرے رب تو نے مجھ پر بڑا افضل کیا.میں یہ کہتا تھا کہ اے میرے رب تو نے جماعت پر بڑا فضل کیا ہے.تو نے ہم پر بڑا افضل کیا ہے.تو اپنی رحمتوں سے ہمیں نواز رہا ہے.تو یہ یک جہتی ہے اور ایک ہی وقت میں خلیفہ وقت بھی یہ سوچ رہا ہے کہ اسلام کو کس طرح غالب کیا جائے ؟ اور ساری جماعت بھی یہ سوچ رہی ہے کہ اسلام کو کس طرح غالب کیا جائے ؟ خلیفہ وقت بھی یہ سوچ رہا ہے کہ اسلام کے غلبہ کے لئے کن قربانیوں کی ضرورت ہوگی ؟ اور ساری جماعت بھی یہ سوچ رہی ہے کہ اسلام کے غلبہ کے لئے کن قربانیوں کی ضرورت ہوگی؟ خلیفہ وقت بھی یہ سوچ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ سے فضل سے جو کچھ ملا ہے، وہ میری اپنی کوشش کا نتیجہ نہیں اور جماعت بھی یہ سوچ رہی ہے کہ جو کچھ ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ملا، وہ ہماری ذاتی کوشش کا نتیجہ نہیں.غرض جس جہت سے بھی دیکھیں، دونوں ایک ہی وجود نظر آتے ہیں.جب تک یہ دونوں وجود ایک رہیں گے اور یک جہتی اور اتحاد اپنے کمال کو پہنچتا ہے، اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی رحمت بارش کے قطروں سے بھی زیادہ نازل ہوتی رہتی ہے.لیکن جب وہ قوم جس پر اللہ تعالٰی اپنی نصرت اور رحمت بارش کے قطروں سے بھی زیادہ برسا رہا ہوتا ہے، اگر کسی وقت بدقسمتی سے اس میں نفاق کا مرض شدت اختیار کر جائے اور کثرت سے پھیل جائے تو خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے دروازے آہستہ آہستہ بند ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اور جب وہ اور بگڑنے لگ جاتے ہیں تو وہ دروازے بالکل بند ہو جاتے ہیں.تب وہ قوم خدا کے فضل سے محروم ہو جاتی ہے اور ایک اور قوم کھڑی ہو جاتی ہے، جو یک جہتی اور اتحاد کا نمونہ اور یک جان ہو کر اس کی راہ میں قربانی دینے کی مثال پیش کرتے ہیں.اور پھر اللہ تعالیٰ ان کے لئے ان دروازوں کو کھول دیتا ہے.وہ ان میں داخل ہوتے ہیں، اپنے رب سے خوش ہوتے ہیں اور ان کا رب ان سے راضی ہو جاتا ہے.اور یہ ایک ایسی چیز ہے، جس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اس دنیا میں جنت مل گئی ہے.اور یہ وہ جنت ہے، جس میں داخل ہو کر ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو جنت ہمیں مرنے کے بعد ملے گی 249

Page 267

خطاب فرموده 10 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم وہ کتنی حسین اور پیاری ہوگی.کیونکہ ہمارے رب نے ہم سے کہا کہ اس جنت کے سرور کے مقابلہ میں اس دنیوی جنت کا سرور بیچ نظر آئے گا.اس اتحاد اور یک جہتی کو دعاؤں کے ذریعہ اور تدبیر کے ذریعہ سے قائم رکھنا، ہمارا فرض ہے.اور منافق کے حملوں سے خود کو محفوظ رکھنا محض اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے محفوظ رکھنا، ہمارا کام ہے.کیونکہ جس وقت شیطان اندرونی حملوں میں کامیاب ہو جاتا ہے اور جماعت کے شیرازہ کو بکھیر دیتا ہے، اس وقت آسمانوں کا رب اس سلسلہ کو کہتا ہے کہ ایک ایسے وجود پر میں نے رحمتیں نازل کرنی تھیں، جو وجود امام وقت اور جماعت یک جان ہو کر بناتی ہے.اب چونکہ تم اور امام وقت ایک نہیں رہے، اس لئے تمہارے لئے آسمان سے میری رحمتیں بھی نازل نہیں ہوں گی.ہم امید رکھتے ہیں کہ ان بشارتوں کی روشنی میں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے دیں، یہ رحمتیں ہم پر آئندہ بھی نازل ہوتی رہیں گی.اور ہم یہ دعا کرتے ہیں اور دعا کرتے رہیں گے کہ اے ہمارے خدا! ہمیں نفاق اور افتراق سے بچائے رکھ اور اے ہمارے رب ! اب کبھی ایسا نہ ہو کہ تیرے پیار کی نگاہ بدل جائے اور غضب کی نگاہ ہم پر پڑنی شروع ہو جائے.اور یہ سوچ کر کہ کہیں ہماری کسی غلطی کی وجہ سے ایسا ہو نہ جائے، راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے.اور یہ وہ خوف ہے، جو ایک مومن کے دل میں ہمیشہ رہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک رجا اور امید ہے کہ اللہ تعالی بڑا رحم اور فضل کرنے والا ہے.ہم اس کے فضلوں کو آسمان سے نازل ہوتا دیکھتے ہیں اور اس سے ہمارے دل اس یقین سے بھر گئے ہیں کہ وہ ہم پر اپنا فضل کرتا رہے گا، وہ ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے گا.یہ بھی ایک ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تربیت اس رنگ میں کی جائے کہ منافق شیطان کا کوئی حملہ بھی ہمارے خلاف کامیاب نہ ہو.تدبیر کے ذریعہ اور دعاؤں کے ذریعہ اپنے رب سے نصرت اور مدد حاصل کی جائے.اور اپنے رب کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کیا جائے ، جس کے بغیر زندگی میں کوئی مزہ نہیں.یورپ کے سفر میں اس کے متعلق ایک سوال کے جواب میں ، میں نے ایک عورت کی مثال دی تھی.ایک سوال مجھ پہ ہوا کہ ایک بچے عیسائی اور ایک سچے مسلمان میں کیا فرق ہے؟ تو میں نے جواب میں کہا کہ ایک سچا مسلمان اپنے رب سے ایک زندہ تعلق رکھتا ہے.اور اس فقرہ کو سمجھانے کے لئے میں تمہیں ایک مثال دیتا ہوں.چنانچہ میں نے ایک احمدی بہن کی مثال دی، جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین بشارتیں ملیں.اور میں نے کہا کہ اس قسم کی ایک مثال بھی عیسائی دنیا میں نہیں مل سکتی.اس پر سوال کرنے والی خاموش ہو گئی.250

Page 268

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم خطاب فرمودہ 10 ستمبر 1967ء غرض کوپن ہیگن کی مسجد کو، جسے الہی منشاء کے مطابق مسجد نصرت جہاں کا نام دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے بڑی برکتوں کا موجب بنایا ہے.اور اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربانیوں کو قبول کیا ہے.اور میں دعا کرتا ہوں کہ ان فضلوں اور رحمتوں کے دیکھنے کے بعد جو ذمہ داریاں آپ پر اور مجھ پر عائد ہوتی ہیں، ان سب کو نبھانے کی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرئے“.( مطبوعه روزنامه المفضل 08اکتوبر 1967ء) 251

Page 269

Page 270

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء اللہ تعالیٰ کے احسانات اور ہماری ذمہ داریاں خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اپنی اس جماعت کو دنیا میں اسلام کی اشاعت اور دوسرے ادیان پر اسلام کے غلبہ کے لئے پیدا کیا ہے.اور بے شمار، ان گنت اس کے احسان ہمیشہ اس جماعت پر رہے ہیں.اور ہم امید رکھتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں کہ جب تک یہ مقصد ہمیں حاصل نہ ہو جائے کہ تمام دنیا اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلے اور اپنے محسن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے لگے، اس کی رحمت اور اس کا فضل اور اس کی برکت ہمیشہ ہی ہمارے شامل حال رہے.بعض موقعوں پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے زیادہ سامان پیدا کر دیتا ہے اور اپنے احسان معمول سے زیادہ ہم پہ کر رہا ہوتا ہے.میرا یورپ کا سفر کچھ اس قسم کا تھا.ایک چھوٹے سے عرصہ میں (چھ ہفتہ میں) اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس قد رفضلوں اور رحمتوں سے نوازا ہے اور جس قدر احسان اس نے ہم پر کئے ہیں، ان کا شمار نہیں ہو سکتا.اور دل اس کی حمد سے معمور اور جسم اور روح اس کے حضور شکر کے سجدوں میں لگے ہوئے ہیں.آج میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے دل میں بھی اس احساس میں شدت پیدا کروں اور ان کو ابھاروں کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے عظیم احسان ہم پہ کئے ہیں اور جب اللہ تعالی عظیم احسان اپنے بندوں پر کرتا ہے تو بہت سی ذمہ داریاں بھی ان پر عائد کرتا ہے.پس اس عظیم احسان کو بھی پہچانو اور ان عظیم ذمہ داریوں کو بھی نبھانے کی کوشش کرو.احسان جیسا کہ میں نے بتایا ہے، گنے نہیں جاسکتے.لیکن بعض مثالیں اس کے احسانوں کی میں اس وقت دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں.جب یہ انتظام ہو رہا تھا کہ میں سفر پہ جاؤں، مختلف یورپین ممالک کی جماعتوں کی یہ خواہش تھی کہ میں اس سفر کو اختیار کروں.تحریک جدید والے کہتے تھے کہ کوپن ہیگن کی مسجد کا خود جا کے افتتاح کریں.لیکن دل میں ابھی پورا انشراح پیدا نہیں ہوا تھا.کیونکہ خدا کا ایک بندہ 253

Page 271

خطبہ جمعہ فرمود و 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خدا کی منشاء کے بغیر اور اس کے اذن کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا.تب میں نے خود بھی دعائیں کیں اور جماعت کے دوستوں کو بھی اس طرف متوجہ کیا کہ وہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر یہ اہم سفر بابرکت ہو، تبھی یہ سفر اختیار کیا جائے.اگر یہ مقدر نہ ہو تو روک پیدا ہو جائے.ان دعاؤں کے بعد اور ان دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم نشان میں نے دیکھا.اس کے نور کا حسین ترین جلوہ مجھے دکھایا گیا، جس کی تفصیل میں ربوہ والے خطبہ میں بیان کر چکا ہوں اور کسی وقت الفضل کے ذریعہ آپ تک پہنچ جائے گی.اس لئے اس کی تفصیل میں، میں اس وقت جانا نہیں چاہتا.اور مجھے یہ سلی دی گئی تھی کہ بے شک تم ایک عاجز انسان ہو، ایک کم مایہ وجود ہولیکن خدا تمہارے ساتھ ہے اور رہے گا اور جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ ہو جائے تو کسی اور چیز کی کسی اور وجود کی کسی اور منبع اور سر چشمہ کی اسے ضرورت نہیں رہتی.اسی حسین نظارہ میں، جس کی تفصیل انشاء اللہ آپ پڑھ لیں گے، میں نے ایک یہ نظارہ بھی دیکھا تھا کہ ایک عجیب نور، جو مختلف رنگوں سے بنا ہوا ہے، وہ ایک دیوار سے پھوٹ پھوٹ کے باہر نکل رہا ہے.اور بہت موٹے حروف میں، جوقریباً کم و بیش ( پہلے خطبہ میں جو اندازہ کیا تھا وہ میں غلط کر گیا تھا.) نظر کا اندازہ یہ ہے کہ اتنا پھیلاؤ تھا، جتنار بوہ میں قصر خلافت کا ہے.وہاں أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کے حروف ابھرے ہیں.اور اس کے پیچھے سے نور چھن چھن کے باہر آ رہا ہے.اس دن جب میں نے نظارہ دیکھا تو میری طبیعت میں بشاشت پیدا ہوئی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اس سفر پہ میں ضرور جاؤں گا.اس زمانہ میں سندھ کے ایک احمدی دوست کو یہ کشف ہوا ، لکھتے ہیں کہ میں نے بیداری کی حالت میں دیکھا کہ ایک بزرگ سفید کپڑوں میں ملبوس آئے ہیں اور عربی زبان میں مجھ سے گفتگو شروع کر دی ہے.اور پوچھتے ہیں کہ تمہیں علم ہے کہ خلیفة المسیح یورپ کے سفر پر جارہے ہیں؟ میں نے انہیں کہا کہ ہاں، مجھے علم ہے.اس پر وہ بزرگ کہنے لگے کہ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے لی ہے، اس سفر پر جانے کی ؟ تب وہ کہتے ہیں کہ میرے سامنے یہ نظارہ آیا کہ مسجد مبارک میں (غالباً انہوں نے لکھا ہے کہ قادیان کی مسجد مبارک میں) آپ آئے ہیں اور محراب کے قریب آپ کھڑے ہو گئے ہیں.میں آپ کے پاس پہنچا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ سے اس سفر پر جانے کی اجازت لے لی ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں، میں نے اپنے اللہ سے اجازت لی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت دی ہے اور بڑی بشارت اور نہایت اعلی کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ پھر میں واپس گیا اور اس بزرگ سے، جو عربی میں باتیں کر رہے تھے، مزید باتیں کرتا رہا.اور یہ سارا نظارہ بیداری کے عالم میں، میں نے دیکھا.254

Page 272

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور اللہ تعالٰی کے اس وعدہ پر کہ وہ خود مدد کرے گا اور اس رنگ میں مدد کرے گا کہ کسی اور کی حاجت محسوس نہ ہوگی.میں نے اس سفر کو اختیار کیا تھا.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سفر کے دوران بڑے بڑے عظیم احسان مجھ پر اور آپ پر کئے ہیں.پہلا سلسلہ احسانوں کا تو وہ بشارتیں ہیں، جو بیسیوں کی تعداد میں جماعت کو ملیں.بڑوں نے بھی، چھوٹوں نے بھی ، مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی اللہ تعالیٰ سے بشارتیں پائیں.ان بشارتوں کا تعلق صرف میری ذات سے نہیں، ان بشارتوں کا تعلق صرف آپ میں سے بعض کی ذات سے نہیں بلکہ ان بشارتوں کا تعلق ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ہے، جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.تو یہ بشارتیں اللہ تعالیٰ کے احسان ہیں، جو جماعت پر بڑی کثرت سے ان دنوں میں ہوئے.وہاں بھی ہوئے ، یہاں بھی ہوئے.افریقہ اور دوسرے ملکوں کے رہنے والوں نے بھی مجھے اپنے رویا اور کشوف لکھے.شروع میں ہی ایک دوست نے لکھا کہ میں نے یہ خواب دیکھی ہے کہ ایک فتنہ سا ہے، بیرونی بھی اور اندرونی بھی.اور اندرونی فتنہ جو ان کو خواب میں دکھایا گیا تھا، یہ تھا کہ بعض لوگ آپ پر یعنی مجھے خاکسار پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ رویا اور کشوف بہت سنانے لگ گیا ہے.جب انہوں نے اپنی یہ خواب لکھی تو میں نے اس سے دو نتیجے اخذ کئے اور میرے ذہن میں اس کی دو تعبیریں آئیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ بہت بشارتیں دے گا اور دوسرا یہ کہ مجھے اس کا اظہار کر دینا چاہئے.کیونکہ جب تک یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں، معترض اعتراض نہیں کر سکتا.اگر بشارتیں ہی نہ ہو تیں تو ان کو بتائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اعتراض کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا.اگر بشارتیں ہوں اور خاموشی اختیار کی جائے تو کوئی شخص اعتراض نہیں کر سکتا، نہ کسی کے علم میں بات آئے گی اور نہ وہ اعتراض کرے گا.تو یہ دو باتیں میری سمجھ میں آئیں اور اسی وجہ سے میں نے اپنی عام عادت کے خلاف واپسی پر بہت سے کشوف اور رویا، اپنے بھی اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کے بھی مختلف خطبوں اور تقاریر میں بیان کر دیئے.اور یہ کہہ کر بیان کئے کہ ان کو ہم تحدیث نعمت کے طور پر بیان کرتے ہیں.اور ان حاسد معترضین کو بھی موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی معترض طبیعت کو بہلا لیں، اس میں ہمارا تو کوئی حرج نہیں.تو ایک عظیم سلسلہ بشارتوں کا اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کو ملا اور خدا جو اپنے وعدہ کا سچا ہے، جیسا کہ اس نے کہا تھا.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ 255

Page 273

خطبہ جمعہ فرمود 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس نے اپنے وعدہ کو پورا کیا اور اس قسم کے سامان پیدا کر دیئے کہ کسی اور کی مدد اور نصرت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی.اور آسمان سے (ایسا معلوم ہوتا تھا ) فرشتوں کا نزول ہو رہا ہے اور اس علاقہ اور فضا کو اپنے تصرف میں لے لیتا ہے، جہاں ہم سفر کر رہے ہوتے ہیں.ایک موقع پر ( ہے تو یہ چھوٹی سی بات لیکن لطف بڑا دیتی ہے.) ہمیں سفر کے انتظامات کے سلسلہ میں کچھ فکر تھی.اس کے لئے ہم انتظام کر رہے تھے اور نا کام ہورہے تھے.یہاں تک کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جیسے مشہور انسان ، جن کی لوگ بات سنتے ہیں، انہوں نے کوشش کی اور ان سے انکار کر دیا گیا کہ ہم یہ انتظام نہیں کریں گے.تب اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ تمہارے تو سارے انتظام ناکام ہو جائیں گے لیکن میں انتظام کر دوں گا.چنانچہ جن باتوں سے ہمیں ڈرایا گیا تھا، ان سے الٹ ہم نے وہاں دیکھا.پتہ نہیں کیا ہوا؟ ہمیں اسباب کا علم نہیں ہوا؟ لیکن ہر وہ چیز جو ہم چاہتے تھے کہ ہو جائے ، اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے انتظام کر دیا تھا اس کے بعد.حالانکہ (جیسا کہ میں نے بتایا ہے ) چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے انکار کر دیا گیا ، کہہ دیا گیا تھا کہ ہم انتظام نہیں کر سکتے.یہ تو ایک چھوٹی سی ظاہری مثال ہے، جس سے ظاہر بین آنکھ بھی اندازہ لگا سکتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہمیں دراصل اپنے احسانوں کے نیچے دبا دینا چاہتا تھا؟ وہ ہمیں ایک نئی قوم بنانا چاہتا تھا.تا کہ ہم اپنی نئی ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل ہو سکیں.تو پہلا سلسلہ احسانوں کا، بشارتوں کا سلسلہ ہے، جو بڑی کثرت سے جماعت پر کئے گئے اور ہم الفاظ میں اس کا شکر بجا نہیں لا سکتے.( جو شکر کرنے کے طریق ہیں، میں ان کے متعلق بعد میں کچھ کہوں گا.) دوسر ا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا یوں شروع ہوا کہ آج کل بعض وجوہات کی بناء پر تمام یورپ کے ممالک میں اسلام کے خلاف تعصب اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا.وہ مسلمان کی شکل تک دیکھنا برداشت نہیں کرتے.اور کئی بیچارے مسلمانوں پر ان ملکوں میں جہاں یہ بات بظاہر ناممکن نظر آتی ہے، چھرے سے حملے بھی ہوئے.تعصب اس حد تک پہنچا ہوا ہے کہ ہمارے بہت سے مبلغین نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ بہتر یہ ہے کہ پریس کانفرنس نہ بلائی جائے.کیونکہ پتہ نہیں ، کس قسم کے تمسخر اور استہزا کے ساتھ وہ سوال کریں گے؟ اور کیا اپنے اخباروں میں لکھ دیں گے ؟ کیونکہ اس وقت اس قسم کا تعصب ہے کہ وہ ہر قسم کا جھوٹ اسلام کے خلاف بولنے کے لئے تیار ہیں.ان میں سے ہمارے ایک مبلغ بہت ہی زیادہ گھبرائے ہوئے تھے.مجھے انہیں کہنا پڑا کہ تم فکر نہ کرو.مجھ سے سوال ہوں گے، میں نے جواب دینے ہیں تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہو.انتظار کرو.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا ان لوگوں کے دماغوں پر کہ جولوگ 256

Page 274

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء کانفرنس میں آتے تھے، انہوں نے اس قسم کا کوئی سوال ہی نہیں کیا، جن سے یہ لوگ ڈرتے تھے.پھر طریق اتنا ادب اور احترام کا کہ جیسے کوئی احمدی مجھ سے بات کر رہا ہو.میں نے صرف ایک شخص کی آنکھوں پر شوخی دیکھی.ساری کانفرنسز میں جوان ملکوں میں بلائی گئیں، اگر ان کے وقت کو جمع کیا جائے تو مجوعہ قریبا آٹھ گھنٹے بنتا ہے.آٹھ گھنٹے کے قریب مختلف ملکوں میں پریس کانفرنسز ہوئیں اور صرف ایک مقام پر ایک شخص کی آنکھوں میں شوخی تھی، زبان ادب اور احترام لئے ہوئے تھی.بڑے پیار سے اس نے وہ فقرہ کہا.مگر اس کی آنکھوں سے مجھے نظر آرہا تھا کہ شرارت اور شوخی ہے.اس نے مجھے پوچھا کہ ہمارے ملک میں آپ نے اب تک کتنے مسلمان بنائے ہیں؟ اور چونکہ تعداد ہماری وہاں اس وقت تک کم ہے، اس کی آنکھوں میں یہ شوخی تھی کہ بڑے سال سے تم کام کر رہے ہو اور بڑے تھوڑے احمدی ہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے اسی وقت جواب سمجھایا، میں نے اسے کہا کہ تمہارے نزدیک مسیح علیہ السلام نے اس دنیا میں جتنی زندگی گزاری، اور اس مسئلہ میں ہمارا تمہارا اختلاف ہے لیکن میں اس اختلاف میں پڑنا نہیں چاہتا.بہر حال جتناتم سمجھتے ہو کہ اتنے برس وہ یہاں رہے، اپنی ساری زندگی میں انہوں نے جتنے عیسائی بنائے تھے تمہارے ملک میں اس سے زیادہ احمدی ہیں.میں نے تو اس وقت دراصل اس کی آنکھ کی شوخی کا جواب دیا تھا.ہے تو یہ حقیقت مگر ایسے رنگ میں دیا تھا کہ اس کو سمجھ آگئی کہ یہاں شوخی چلے گی نہیں.اور وہ خاموش ہو گیا.پھر اس نے سوال کرنے چھوڑ دیئے.چالیس، پینتالیس منٹ کے بعد میں نے اسے کہا، تم مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے.تمہارا جہاں تک تعلق ہے، میں تم میں دلچسپی رکھتا ہوں.اور سوال کرو.میرے کہنے پر اس نے ایک، دو اور سوال کئے.پھر بعد میں ایک گھنٹہ ہمارے دوستوں سے گفتگو کی.کتابیں خرید کے لے گیا اور کہا کہ مجھے بڑی دلچسپی پیدا ہوئی ہے، میں ان کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں.تو اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا ان لوگوں پر، جو نمائندہ بن کے آئے تھے کہ وہ سارے خطرات، جو ہمارے مبلغوں کے دلوں میں تھے، ہوا میں اڑ گئے.اور ہر شخص نے نہایت ادب اور احترام کے ساتھ اور دوستانہ رنگ میں وہ سوال کئے اور میں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایسے جواب ان کو دیئے کہ ان کی تسلی ہوگئی.یہاں تک تصرف الہی تھا کہ مثلاً ٹیلیویژن میں چھوٹا سا پروگرام ہوتا ہے.ہمارے اس پروگرام میں بھی وہ خود جو چیز سمجھتے تھے کہ اثر انداز ہونے والی ہے، اس کا وہ انتخاب کرتے تھے.( باتیں کرنے کے بعد ) حالانکہ چاہئے تو ان کو یہ تھا کہ وہ ایسی باتوں کا انتخاب کرتے ، جوان کے نزدیک T.V دیکھنے والوں پر اثر انداز نہ ہو سکتیں.اس کی تفصیل میں T.V کے ذکر میں بیان کروں گا.انشاء اللہ 257

Page 275

خطبہ جمعہ فرموده 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پریس: وہاں بڑا آزاد پریس ہے.وہ بادشاہوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا.لکھ دیتے ہیں، جو دل میں آئے.تعصب کا یہ عالم کہ ہمارے مبلغ ڈر رہے ہیں کہ پتہ نہیں کیا ہوگا ؟ پریس کانفرنس ہی نہ بلائی جائے.وہ آتے ہیں، سوال کرتے ہیں، ایک آدھ دفعہ تقریبا ہر جگہ سیاست کے متعلق وہ ضرور سوال کرتے.میں ان کو آرام سے کہہ دیتا تھا کہ میں تو سیاسی آدمی نہیں ہوں، میں مذہبی آدمی ہوں، مجھ سے مذہب کے متعلق جو چاہو ، سوال کرو.پھر ہماری مذہبی گفتگو ہوتی رہتی تھی.جو باتیں میں کہہ رہا تھا، وہ ان کے عقیدہ کے خلاف اور جو ان کی کمزور اور ظلمت کی زندگی گزارنے والی عقلیں ہیں، وہ ان عقلوں کے خلاف.اور جو بات میں کہتا تھا با وجود اس کے کہ ان کے عقائد یا ان کی سمجھ کے خلاف ہوتی تھی ، وہ اخبار میں شائع کر دیتے ایسا تصرف الہی تھا.سوئٹزرلینڈ میں ہمارے باجوہ صاحب (مشتاق احمد ) نے بتایا کہ ایک اخبار ہے، وہ تعلیم یافتہ لوگوں کا اخبار سمجھا جاتا ہے، اشاعت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے.لیکن تمام تعلیم یافتہ لوگ اس کو لیتے ہیں، مزدور اس کو نہیں پڑھتے.بڑے پایہ کا اخبار ہے اور بڑا متعصب.ہمیشہ اسلام کے خلاف لکھتا ہے.جب میں تردیدی خط لکھوں تو انکار کر دیتا ہے ، ایک لفظ نہیں لکھتا.نہ تردید میں اور نہ اسلام کے حق میں.تو پتہ نہیں، اس کا نمائندہ آئے یا نہ آئے؟ اگر آئے تو پتہ نہیں، وہ کچھ لکھتا بھی ہے یا نہیں ؟ پھر اس کا جو نمائندہ آیا ، اللہ تعالی نے اس کے دل پر تصرف کیا اور اس نے خاص دلچسپی لی.پہلے سے ہی اس کے دل میں ڈالا گیا تھا کہ تم نے اس میں دلچسپی لینی ہے.چنانچہ وہ اکیلا نہیں آیا بلکہ اپنی سٹینو کو ساتھ لے کے آیا.یوں تو مجھے پتہ نہیں چلا لیکن بعد میں جو تصویر میں آئی ہیں، ان سے پتہ چلا کہ وہ سٹینو، جو تصویر میں آگئی ہے، وہ ساتھ ساتھ شارٹ ہینڈ میں بڑی تیزی سے لکھتی رہی ہے.گفتگو کے وقت وہ نمائندہ ہی میرے سامنے تھا اور میری ساری توجہ اس کی طرف تھی اور اس کے سوالوں کی طرف تھی ، جو وہ پہلے تیار کر کے لایا تھا.چنانچہ جب کا نفرنس ختم ہو گئی تو بعد میں وہ میرے پاس آ گیا اور باتیں کرتا رہا.اس وقت بھی وہ سٹینو اس کے ساتھ تھی اور نوٹ نے رہی تھی.آخر میں اس نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا؟ میں نے کہا، میں اپنے الفاظ میں تمہیں نہیں بتلاتا.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کے الفاظ میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ آپ نے کیا دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیوں مبعوث کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ اس لئے اس نے اپنے اس مسیح کو بھیجا تا وہ دلائل کے حربہ سے اس صلیب کو توڑے، جس نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بدن کو تو ڑا تھا اور زخمی کیا تھا“.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۴۳ ۱۴۴۰) 258

Page 276

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء وہ یہ جواب سن کر کھڑے کھڑے گویا اچھلنے لگ گیا.معلوم ہوا کہ اس پر اس جواب کا اتنا اثر ہوا ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکا اور کہنے لگا، مجھے حوالہ دکھا ئیں.یہ ان لوگوں کی عادت ہے کہ اگر کسی اور کی طرف کوئی بات منسوب کی جائے تو اس کا حوالہ دکھانے کے لئے تیار رہنا چاہئے.مجھے قطعا علم نہ تھا کہ اس قسم کا کوئی سوال ہوگا اور میرے منہ سے یہ جواب دلوا دیا جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ پتہ تھا.میں یہاں سے چند ایک حوالے، جو میرے یہاں کام نہیں آئے تھے ، اپنے ساتھ لے گیا تھا.میں نے کہا تھا ، رکھ لو، کبھی کام آجاتے ہیں.ان میں یہ حوالہ اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی تھا.یوں ہو گیا تھا، جانے سے پہلے.لیکن میرے ذہن میں پختہ نہیں تھا کہ وہ ہے بھی یا نہیں ؟ میں نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو کہا، مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان حوالوں میں یہ حوالہ بھی ہے.جا کے سارے حوالے لے آئیں.جب وہ لائے تو ان میں یہ حوالہ بھی موجود تھا.میں نے اسے دکھایا.اس نے کہا کہ میں اسے نقل کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا، ضرور نقل کرو.اس نے وہ نقل کیا اور اگلے دن اس اخبار میں جو ایک لفظ نہیں لکھا کرتا تھا، پورا ایک کالم بلکہ اس سے بھی کچھ سطریں زیادہ اس کا مضمون شائع ہوا.جس میں ہماری باتیں ، جو اس سے ہوئیں ، وہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حوالہ درج تھا.دوسرے جو نوٹ شائع ہوئے ، وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.لیکن جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی نوٹ وہ شائع کر دیں تو میری طبیعت میں اس سے بہت بڑی خوشی اور بشاشت پیدا ہوتی تھی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک مرسل کو دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے، جو اثر آپ کے الفاظ میں ہے ، وہ کسی اور کے الفاظ میں نہیں ہوسکتا.تو جب اس نے وہ حوالہ نقل کر دیا، میں بہت خوش ہوا.اور یہاں بھی ہمارے بعض واقف اور دوسرے لوگ بھی ملے ہیں، جب ان کو پتہ چلتا ہے کہ اس اخبار نے اتنا بڑا نوٹ دیا ہے تو وہ بڑے حیران ہوتے ہیں.زیورچ میں سارے اخباروں نے ہمارے متعلق نوٹ دیئے.کوئی ایک اخبار نہیں تھا ، جو پیچھے رہ گیا ہو.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دوڑ لگی ہوئی ہے.ہر ایک چاہتا تھا کہ میں دوسروں سے آگے نکلوں اور باتیں وہ بیان کروں، جو وہاں کے مذہب کے، وہاں کے معاشرے کے اور وہاں کے اخلاق کے خلاف ہوں.ہر وہ آدمی ، جس کے ہاتھ میں کوئی اخبار جاتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچ گیا کہ میری طرف رجوع کرو اور میرے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آؤ ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے.میں نے زیورچ سے شروع کیا اور کوئی گھر ایسا نہیں، جس میں کوئی اخبار پہنچتا ہو اور پھر اسے یہ پیغام نہ پہنچا ہو.کیونکہ زیورچ کا کوئی اخبار ایسا نہیں، جس نے ہمارا یہ پیغام شائع نہ کیا ہو.259

Page 277

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اسی طرح ہم ہمبرگ پہنچے، وہاں اخبار چھپتے ہیں.ایک ساری دنیا میں جاتا ہے.تین وہاں کے مقامی ہیں، جو اخبار ساری دنیا میں جاتا ہے، وہ ٹائم لنڈن کے پایہ کا اخبار ہے.اور ہمیں تو اس کی اتنی اہمیت کا پتہ نہیں تھا کراچی میں ہمارے ایک غیر احمدی عزیز ہیں ، وہ مجھے ملے ، وہاں کسی نے کہا تو ضرور ہو گا، لیکن حافظہ نے ایسے یاد نہیں رکھا اور کچھ ہیں بھی وہ متعصب، تو میں نے جب ان کے سامنے Del Welt کا نام لیا اور کہا کہ یہ سارے جرمنی میں پڑھا جاتا ہے تو کہنے لگے ، سارے جرمنی میں نہیں، ساری دنیا میں پڑھا جاتا ہے.اور بہت بڑا فوٹو اور نیچے اچھا لمبا نوٹ اس میں ہمارے متعلق شائع ہوا اور جو دوسرے اخبار تھے ، انہوں نے بھی نوٹ دیئے.پھر کوپن ہیگن میں گئے.کوپن ہیگن میں (جو ہمارے بعد کی اطلاع ہے ) تھیں ، پینتیس اخبار اور بھی لکھ چکے ہیں.افتتاح کے متعلق بھی اور اس پیغام کے متعلق بھی ، جو ان کے نام میں نے دیا تھا.اور اس کے متعلق نوٹ بھی.سویڈن کے ایمبیسڈر" (Embassador) یہاں ہیں، ان کو شوق پیدا ہوا کہ وہ مجھے ملیں، کہنے لگے کہ میں ان دنوں چھٹی پر تھا.(وہاں سویڈن میں ) افتتاح ہمارا ہوا تھا، ڈنمارک میں.کہنے لگے کہ میں نے وہاں تین آرٹیکل اخباروں میں پڑھے.پھر مجھے دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے پاکستان کے ایمبیسڈر سے فون کر کے کچھ اور معلومات حاصل کیں اور اب مجھ کو ملنے کا شوق تھا، میں نے جب ان کو ڈنمارک کے اخباروں کے کٹنگز (Cuttings) دکھائے تو بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا کہ بڑی پلٹی ہوئی ہے.اور ایک ویکلی ہے اور با تصویر ہے.ہمیں علم تھا کہ ڈنمارک میں کوئی ایسا گھر نہیں ، جہاں وہ اخبار نہ پہنچتا ہو.اس نے پورا ایک صفحہ ہماری تصاویر اور نوٹوں کے لئے دیا.انگلستان پہنچے.پہلے لنڈن کے اخبارات نے خاموشی اختیار کی.ہم گلاسگو چلے گئے.دو، تین دن بڑی مصروفیت کے تھے.گلاسکو کے اخباروں نے انٹرویو لئے ، پر یس کا نفرنس ہوئی تو اخباروں نے لکھ دیا.پھر راستے کے جو اخبار تھے ، انہوں نے لکھا.پھر ان کو خیال آیا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے، ہمیں صبر کرنا چاہئے تھا.ٹائم لنڈن ، جس پر یہاں بھی بعض لوگوں کے دل میں حسد پیدا ہوا ہے.م ش نے بھی ایک لا یعنی نوٹ ” نوائے وقت میں شائع کروا دیا ہے اور وضاحت کو سننے کے لئے اب تیار نہیں.خیر بہر حال یہ تو ضمنی بات ہوئی.دنیا کے دو، چار اخبار ہوں گے، جنہیں ساری دنیا تو قیر کی نظر سے دیکھتی ہے، ان کی عزت اور احترام کرتی ہے، ان کو وقعت دیتی ہے، ان میں سے ایک اخبار ہے، ٹائم لنڈن.ہم ابھی واپس لنڈن نہیں پہنچے تھے کہ ہمارے پاس ان کا فون آیا کہ ہم آپ سے ایک خصوصی انٹرویو لینا چاہتے 260

Page 278

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء ہیں.میں نے کہا، بڑی اچھی بات ہے.میں لنڈن آکے بتاؤں گا کہ کس دن اور کس وقت ؟ چنانچہ ان کا نمائندہ آیا.اس کو میں نے خود ہی کہہ دیا کہ آج شام کو چائے ہمارے ساتھ پینا.گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹے تک باتیں کرتا رہا اور پھر اس نے ”ٹائم لنڈن میں بڑا اچھا نوٹ دیا.اور بجائے اس کے کہ ساری اسلامی دنیا خوش ہوتی ، ساری دنیا ویسے بڑی خوش ہوئی کہ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اسلامی دنیا خوش نہیں ہوئی.لیکن اسلامی دنیا میں م، ش جیسے دو، چار آدمی ایسے بھی ہیں، جو خوش نہیں ہوتے.اس سے اسلامی دنیا پر کوئی فرق نہیں پڑتا.میں اتنی وضاحت کردوں کہ بعض دفعہ ہمارے احمدی بھی کہہ دیتے ہیں، اسراف کے رنگ میں کہ خوش نہیں ہوئے ، یہ غلط بات ہے.میں آگے بتاؤں گا.خوش ہوئے اور ہوتے ہیں.لیکن اس قسم کے آدمی ہمیشہ رہے اور ہمیشہ رہیں گے.ان کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اخباروں کے ذریعہ نازل ہوتا ہوا، ہمیں نظر آیا.ہمارا اندازہ تھا.کہ اگر لاکھوں روپیہ بھی ہم خرچ کرتے تو اس قسم کی تبلیغ اور اشاعت اسلام ہمارے لئے ممکن نہ ہوتی، جتنی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مفت میں ہو گئی.تیسر افضل یا تیسر اسلسلہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا یہ ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کریں.آپ کے لئے ہے تو مشکل اس کا سمجھنا.کیونکہ یہ واردات مجھ پر گزری ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی ، وہی مجھے وہ سمجھا دیتا تھا.اللہ تعالیٰ کی ایسی عجیب شان میں نے دیکھی ہے کہ میں اندھیرے میں ہوتا تھا اور سوال کرنے والا روشنی میں ہوتا تھا.اس نے اپنی ایک سکیم بنائی ہوئی ہوتی تھی کہ یہ یہ سوال کرنے ہیں اور میں اندھیرے میں ہوتے ہوئے بھی اس کو ایسا جواب دیتا تھا کہ وہ حیران رہ جاتا تھا.اور جو اس کا مقصد ہوتا ، وہ ظاہر ہی نہ ہوتا تھا.اس کا قصہ یوں ہے، ہے لمبا اگر آپ اکتائیں نہ میں بولتا جاتا ہوں، ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں ہوا.وہاں سے مطالبہ آیا کہ آپ لکھی ہوئی تقریریں کریں.عام طور پر مجھے لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کی عادت نہیں.اور اس وجہ سے کچھ گھبراہٹ بھی ہوتی ہے لکھ کر پڑھنے سے.زبانی بولنے سے اتنی گھبراہٹ نہیں ہوتی.اور دعا کے بغیر تو نہ میں کبھی بولتا ہوں اور نہ اس پر یقین رکھتا ہوں کہ بغیر دعا کے بولا جائے.لیکن بہر حال عادت ہوتی ہے.وہ زور دے رہے تھے کہ لکھی ہوئی تقریر پڑھیں.جب بہت زور دیا تو میں نے کہا، اچھا لکھنا شروع کرتے ہیں.پہلے میں نے فرینکفرٹ میں تقریر کرنے کی نیت سے نوٹ لکھنا شروع کیا.جب لکھ چکا اور اسے پڑھا تو مجھے پسند نہ آیا.اسے ایک طرف رکھ دیا.پھر میں نے ایک ست کو کہا کہ میں ڈکٹیٹ کراتا ہوں، تم لکھتے جاؤ.جب میں ڈکٹیٹ کروا چکا اور انہوں نے پڑھا تو وہ 261

Page 279

خطبہ جمعہ فرمود و 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم بھی مجھے پسند نہ آیا.اسے بھی میں نے ایک طرف رکھ دیا.اگلے دن صبح جب پھر میں لکھنے بیٹھا تو وہ میں نہیں تھا، جو لکھ رہا تھا.پیچھے سے مضمون آرہے تھے اور میری قلم ان کو لکھتی جارہی تھی.عملاً یہ ہوا کہ جب ایک فقرہ ختم ہوا تو اگلا جملہ خود قلم لکھ گئی.تو ایک محبت اور علم کا چشمہ تھا.جبکہ اللہ تعالی نے ایک نمونہ اس طرح ظاہر کیا.وہ پینتالیس منٹ کا مضمون بن گیا.بڑا زور والا، بڑے مضبوط دلائل پر مشتمل اور بڑی وضاحت سے، جھنجھوڑ کے، انتباہ کرنے والا اور وارننگ دینے والا.میں نے جب اندازہ لگوایا تو انہوں نے منتظمین نے ) کہا کہ یہ پندرہ بیس منٹ میں تو ختم نہیں ہوگا.جو مطالبہ تھا ان ملکوں کا کہ آپ کا کوئی مضمون پندرہ ، بیس منٹ سے زیادہ کا نہ ہو.انہوں نے کہا کہ یہ تو پینتالیس منٹ کا ہے.تو میں نے اپنی طبیعت کے مطابق کہا کہ جو مرضی ہے، کاٹ دو، کوئی فرق نہیں پڑتا.اس کو پندرہ ، نہیں منٹ کے اندر لے آؤ.ہمارے دوست جو کام کر رہے تھے ، انہوں نے کہا کہ ایک فقرہ بھی نہیں کئے گا.کیونکہ کوئی فقرہ ہمیں نظر نہیں آیا ، جو کٹنے کے قابل ہو.تو میں نے کہا کہ پھر رہنے دو، دیکھیں گے، وہاں کیا ہوتا ہے؟ جب ہم فرینکفرٹ پہنچے تو تین ہمارے مبلغ تھے.ان کو میں نے ایک کمرے میں بٹھا لیا اور کہا کہ یہ مضمون پڑھو اور مجھے رائے دو کہ آیا، تمہارے ملک کے حالات ایسے ہیں کہ میں یہ پڑھ دوں ؟ یہ سارا انہوں نے پڑھا، مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ بالکل نہیں پڑھنا چاہئے.ہمارے ملک کے حالات ایسے ہیں کہ یہ یہاں نہ پڑھا جائے.میں نے وہ بند کر دیا.اور اپنی عادت کے مطابق پھر اکثر سوائے ایک آدھ جگہ کے، جہاں نوٹ لئے ، زبان پہ جو آتا تھا، وہ میں کہ دیتا تھا.آدھ گھنٹہ کی پریس کانفرنس، ہر قسم کے انہوں نے سوال پیش کئے.پریس کانفرنس کے علاوہ ڈیڑھ گھنٹہ کا عیسائی سوسائٹیز کے نمائندوں کے ساتھ ایک انٹرویو تھا.( کوپن ہیگن میں ) وہ تین سوسائٹیوں کے نمائندے تھے اور بارہ افراد پر مشتمل تھے.جن میں سے اکثر پادری اور جو باقی تھے وہ سکالر تھے.اور انہوں نے اس انٹرویوکو اتنی اہمیت دی کہ انہوں نے مجھ سے اس وقت ، وقت لیا، جب میں کو پر بیگن آنے پہلے جرمنی میں پھر رہا تھا.پھر انہوں نے (جیسا کہ ان کے لیڈر نے مجھے بتایا کہ ہم نے کئی دن میٹنگیں کی تھیں اور اب آپ کے پاس آنے سے پہلے تین گھنٹے سر جوڑا اور مشورہ کیا ہے اور ایک سوال نامہ تیار کیا ہے.کاپی کھول کر کہنے لگا کہ یہ ہم نے سوال لکھے ہیں.اس سے آپ سمجھ لیں کہ کتنی اہمیت انہوں دی.کئی گھنٹے وہ یہ غور کرتے رہے تھے کہ ہم کیا سوال کریں، کیا نہ کریں؟ کس مقصد کے پیش نظر ہم سوال کریں؟ مجھے تو کچھ پتہ نہیں تھا کہ انہوں نے کیا مشورے کئے اور وہ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟ 262

Page 280

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء لیکن ان کے ایک سوال سے پتہ لگا کہ ان کے سوالوں کا ، جو ایک سلسلہ تھا، اس کا مقصد یہ تھا کہ میرے منہ سے یہ کہلوائیں کہ جماعت کا امام ہونے کی حیثیت سے میرا اور پوپ کا مقام ایک جیسا ہی ہے یا ملتا جلتا ہے.کیونکہ ڈنمارک کے شہری ڈین جو ہیں، وہ مذہب میں بھی ایک انسان کی قیادت کو پسند نہیں کرتے بلکہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.وہاں لوتھرن چرچ ہے، جو سٹیٹ چرچ ہے.سٹیسٹ چرچ کا مطلب ہے کہ ہر آدمی جو پیدا ہوتا ہے تو وہ اس چرچ کا ممبر سمجھا جاتا ہے.گو بعد میں وہ دہر یہ ہو، جو مرضی ہو.وہ کہتے ہیں ، تم ہمارے ملک میں پیدا ہو گئے تو لو تھرن چرچ کے ممبر ہو گئے.اس چرچ کو گورن (Govern) ایک آدمی نہیں کرتا بلکہ مجلس کرتی ہے.اور مجلس منتظمہ کا نام انہوں نے رکھا ہوا ہے.کمیٹی آف ایکوال، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک انسان کی قیادت کے خلاف ان کے دلوں میں کس قدر زہر بھرا ہوا ہے.اور انہوں نے بڑی ہشیاری سے سوالوں کا یہ سلسلہ بنایا کہ یہ جواب دیوے.اس کو تو کچھ پتہ نہیں کہ ہمارے دماغ میں کیا بات ہے؟ اگر کہیں یہ پکڑ ا جائے تو ہم کہیں گے کہ ان کے نزدیک ان کا مقام پوپ جیسا ہی ہے اور پوپ سے قوم نفرت کرتی ہے.اس لئے قوم احمدیت کی طرف متوجہ نہیں ہوگی بلکہ احمدیت سے نفرت کرنے لگ جائے گی.اسی طرح جس طرح وہ پوپ سے اور ایک فرد سے نفرت کرتی ہے.ان کو سب کچھ پتا تھا.مجھے تو کچھ پتہ نہیں تھا.پہلا سوال انہوں نے اسی سلسلہ سے شروع کیا اور کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا مقام کیا ہے؟ ” میں نے انہیں کہا کہ تمہارا سوال میرے نزدیک غلط ہے.کیونکہ میرے نزدیک جماعت احمدیہ اور میں ایک ہی وجود ہیں.اس واسطے یہ پوچھنا کہ جماعت میں آپ کا کیا مقام ہے؟ یہ سوال درست نہیں.وہ بڑے گھبرائے کہ ہمیں یہ کیا جواب مل گیا ہے؟ اور یہ جواب اسی وقت اللہ تعالیٰ نے سکھایا تھا.جیسا کہ اس کی بڑی واضح ایک مثال ہے (اسی انٹرویو میں ایک واقعہ ہوا.) آپ کو بتاؤں گا ، اللہ تعالیٰ کے احسان جتانے کے لئے.دوسراسوال اس نے یہ کیا.پھر کیا یہ درست نہیں ہے کہ جماعت پر فرض ہے کہ آپ کے سب احکام کی تعمیل کرے؟ میں نے کہا، ہرگز درست نہیں.صرف ان احکام کی تعمیل ضروری ہے، جو معروف ہیں.یہ ہم عہد لیتے ہیں، جو معروف حکم آپ دیں گے، اس کی ہم اطاعت کریں گے.تو ہر حکم کی اطاعت ضروری نہیں.معروف حکم کی اطاعت ضروری ہے.وہ پھرسٹ پٹایا کہ یہ کیا ہو گیا؟ اور پھر بے جوڑ سوال کر دیا اگلا، جس نے ایکسپوز کیا ان کو یعنی ظاہر کر دیا کہ ان کے دل میں کیا تھا؟ کہنے لگا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا مقام اور پوپ کا مقام ایک جیسا ہے.حالانکہ پہلے دو جوابوں 263

Page 281

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کے نتیجہ میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا تھا.میں نے کہا، ہر گز نہیں.میں قرآن کریم کے احکام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ کا پابند ہوں.پوپ کے اوپر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں ہوتی.اس لئے بنیادی طور پر ہم دونوں کا مقام مختلف ہے.پھر وہ مجھے کہ یہ چال کامیاب نہیں ہوئی نہیں چلی.پھر اور سوال تھے ، جو بڑے سوچے سمجھے اور فتنہ پیدا کرنے والے تھے.لیکن وہاں اللہ تعالیٰ جواب ایسا سکھا دیتا تھا کہ بعد میں پھر وہ دفاع پر آگئے تھے بجائے اس کے کہ وہ حملہ آور ہوں.جیسا کہ انہوں نے سوچا تھا.تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت سمجھایا کہ ان سے ایک بات کرو.وہ بات میں اس خطبہ میں بیان نہیں کرتا.میں نے ان کو کہا کہ تمہاری عیسائیت کی حالت قابل رحم ہو چکی ہے، ہمیں تم پر رحم آتا ہے.تو حیران ہو کہ اس نے میری طرف دیکھا.جب میں نے اس کو بتایا کہ کیوں قابل رحم ہے تو ان لوگوں کا جو لیڈر تھا، (ویسے وہ بڑا شریف آدمی تھا اور بڑی سبھی ہوئی طبیعت کا.اس کا منہ سرخ ہو گیا اور ہونٹ پھڑ پھڑانے لگے ، بات نہیں کر سکتا تھا.حتی کہ ایک لفظ اس کے منہ سے نہیں نکل رہا تھا.میں نے کہا، اس وجہ سے تمہاری حالت قابل رحم ہے.تو یہ سلسلہ ہے، اللہ تعالیٰ کے احسان کا.میں وہاں مرزا ناصر احمد کی حیثیت سے تو نہیں گیا تھا.نہ کوئی میری ذاتی غرض تھی، اس سفر کے اختیار کرنے کی.میں تو خدا تعالیٰ کے ایک ادنی بندہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عاجز اور کم مایہ خادم کی حیثیت سے وہاں گیا تھا.میں ان کی نمائندگی کر رہا تھا.اور جب اللہ تعالٰی مجھ پر احسان کر رہا تھا تو وہ میرزا نا صراحہ یہ نہیں تھا، میر زانا صراحد پر بھی اس کے بڑے احسان ہیں، وہ جماعت کے اوپر احسان تھے.اور اللہ تعالیٰ آپ بتارہا تھا کہ تم میدان عمل میں نکلو، میں تمہارے ساتھ ہوں.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ تمہیں خوف کس چیز کا ہے؟ آگے بڑھو اور کام کرو.اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے شامل حال ہے.تو شروع سے لے کر آخر تک سوال کا مجھے پتہ نہیں ہوتا تھا، ادھر فوری جواب !!! یہاں تک کہ بی بی سی کا نمائندہ آیا اور انہوں نے تین ہفتے آؤٹ لک (OutLook) میں میرے انٹرویو کو نشر کیا.وہ ویکلی (Weekly) پروگرام ہے.ہفتہ میں ایک دفعہ آتا ہے.تو تین دفعہ تین ہفتوں میں اسے نشر کیا.اس طرح انہوں نے اسے بڑی اہمیت دی.جب وہ آیا ، ( اور بغیر وقت مقرر کرنے کے آیا کہ آدمی ویسے ہی سوچ لیتا ہے کہ جو اس قسم کے سوال کرے گا تو میں ذہنی طور پر تیار ہو جاؤں.) میں نے اس کو بلالیا.میں نے کہا کہ پہلے بات کر لو کہ کون سے سوال کرنے ہیں؟ براڈ کاسٹنگ کی ریل پر کون سے آئیں ، کون سے نہ 264

Page 282

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء آئیں؟ کہنے لگا، نہیں جی، اسی طرح ٹھیک ہے.میں سوال کرتا جاتا ہوں ، آپ جواب دیتے جائیں.ایک سیکنڈ کے لئے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوئی.پھر میرے دل نے کہا کہ پہلے تم نے کون سا جواب دیا تھا کہ اب تم گھبرا رہے ہو.جو پہلے جواب سکھاتا تھا، اب بھی وہی سکھائے گا.کوئی گھبرانے کی بات نہیں.وہ سوال کرتا تھا اور میں اس کو جواب دیتا تھا.مجھے اب یاد نہیں کہ میں نے اس کو کیا جواب دیئے تھے؟ بہر حال وہ ایسا اچھا پروگرام یقیناً بن گیا، جو ایک ہفتہ نہیں، دو ہفتے نہیں بلکہ تین ہفتے اس میں آیا.کیونکہ آخری دفعہ جو آیا ہے، وہ 23 تاریخ کو آیا ہے.پہلی دفعہ دس کو ہوا تھا.اور سیرالیون میں ہمارے ایک احمدی ٹیچر ، جو یہاں سے گئے ہوئے ہیں، لکھتے ہیں کہ اچانک میں نے (ریڈیو ) لگایا تو اعلان ہو رہا تھا کہ آپ کا انٹرویو آ رہا ہے.ہم نے سنا اور بڑے خوش ہوئے اور ہماری آنکھوں کے سامنے یہ الہام آگیا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.تو میں یہ بات کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ سلسلہ تھا احسانوں کا، فضل کا اور رحمت کا کہ جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی ، وہ خود مہیا کر دیتا تھا.ورنہ جیسا کہ میں نے کہا ہے، میں نے بڑی دعائیں کیں.مجھے بڑی گھبراہٹ تھی.جب میں اپنے نفس کو دیکھتا تھا تو پریشان ہو جا تا تھا کہ میں کیسے اپنی ذمہ داری کو نبھا سکوں گا؟ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر دیا تو نفس بیچ میں سے غائب ہو گیا.صرف خدا اور اس کا وعدہ سامنے تھا.تو دلیری کے ساتھ ہم گئے اور اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر ہر جگہ اپنے وعدہ کو پورا کیا.چوتھا سلسلہ اس کے فضل کا ، یہ ریڈیو ہے.اور ریڈیو والے بھی بڑے متکبر ہوتے ہیں.وہاں وہ آزاد ہیں.یہ نہیں کہ حکومت کی پالیسی کے ساتھ چلیں.پالیسی ان کی اپنی ہوتی ہے.مجھے ایک دفعہ خیال آیا کہ میں ساری دنیا کے احمدی بھائیوں اور بہنوں کے کان تک اپنی آواز پہنچا دوں.کیونکہ محبت کا یہ تقاضا ہے.وہ چاہتے ہیں کہ میری آواز بھی سنیں.تو میں نے سیلون کے وائس آف امریکہ کو لکھوایا، جو ویز بیلین (Vaseline) کے اشتہار بھی ریڈیو پر براڈ کاسٹ کرتا ہے بلکہ دودو، چار چار آنے کی چیزیں براڈ کاسٹ کرتا ہے، میں نے ان کو تحریک جدید کے ذریعہ لکھوایا کہ ہم اتناوقت لینا چاہتے ہیں اور جو تمہارے ریٹ ہیں، ان کے مطابق تمہیں پیسے دیں گے.تو انہوں نے انکار کر دیا.کہا کہ ہم مذہبی پروگرام شائع نہیں کرتے.اور مجھے بڑا صدمہ پہنچا کہ اس وقت میری یہ خواہش پوری نہیں ہوئی.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں ایسا انتظام کیا کہ ”بی بی سی کے ذریعہ ساری دنیا میں اور بی بی سی کے علاوہ بھی.(کیونکہ کوپن ہیگن میں جو افتتاح کی ریل تیار کی گئی تھی ، وہاں ریڈیو والوں کے مدنظر یہ بھی تھا کہ وہ دنیا کے مختلف ریڈیو اسٹیشنوں 265

Page 283

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سے سنائی جائے گی.) چنانچہ آج انہوں نے اطلاع دی ہے کہ مرا کو میں تین دفعہ وہ ریل براڈ کاسٹ ہوئی ہے.اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ دوسرے ملکوں میں بھی سنائی جائے گی.ادھر ہم پیسے خرچ کرنے کے لئے تیار تھے اور وہ ہمارے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں تھے.اور جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہارا انتظام کروں گا، تم اپنا کام کرو.تو پھر ہر ملک میں مثلاً فرینکفرٹ میں گئے ، وہاں ریڈیو پر آ گیا ، زیورچ میں ریڈیو پر آ گیا، جرمنی میں آیا، ہالینڈ میں آیا، کوپن ہیگن میں آ گیا ، انگلستان میں آیا.تو جہاں جہاں یہ آواز پہنچ سکتی تھی ، ریڈیو والوں نے ان کے کانوں تک پہنچادی.پھر ٹیلی ویژن نئی نئی چیز نکلی ہے، نسبتا ریڈیو سے کم ہے.صرف ٹیلیویژن پر اندازہ ہے کہ ایک کروڑ اور دو کروڑ کے درمیان لوگوں نے وہ پروگرام دیکھا ہے.ویسے ٹیلیویژن کے پروگرام مختلف جگہ تھے.شام کو زیورچ میں تھا، وہ تو ہم نے بھی دیکھا.پھر ہمبرگ میں بھی تھا، اس کے متعلق اخبار میں آچکا ہے کہ 60,70 لا کھ آدمیوں نے وہ ٹیلیویژن دیکھی.پھر کوپن ہیگن میں تھا.پھر کوپن ہیگن کی پہلی ٹیلیویژن کی ریل تمام جرمن ٹیلیویژن اسٹیشنوں نے براڈ کاسٹ کی اور دکھائی.پھر جس سے مجھے بے انتہا خوشی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں ، وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے کہ کوپن ہیگن میں افتتاح کی ٹیلیویژن کی تصویر سعودی عرب میں دو دفعہ دکھائی جا چکی ہے.اس اعلان کے ساتھ کہ سکنڈے نیویا میں مسلمانوں کی یہ پہلی مسجد ہے.اور وہ اچھی خاصی تین، چار منٹ کی ٹیلیویژن ہے.اس کو دو دفعہ دکھانے سے نتیجہ ہم یہ نکالتے ہیں کہ ان کو دلچسپی تھی تبھی تو دوسری دفعہ دکھائی گئی.ورنہ بھی ایسا پروگرام دوبارہ نہ دکھاتے ، جس پر کچھ اعتراض ہو.اور ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اور بہت سے ملکوں میں بھی ٹیلیویژن کی یہ ریل دکھائی جائے گی.تو اللہ کا کتنابڑا افضل اور احسان ہے کہ اخبار کے ذریعہ اور براڈ کاسٹنگ کے ذریعہ ٹیلیویژن کے ذریعہ کروڑوں آدمیوں کے کان تک یہ آواز پہنچ گئی کہ خدائے واحد پر ایمان لاؤ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سایہ تلے آ کر جمع ہو جاؤ ورنہ ہلاکت تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے.اور اس عاجز بندہ کی شکل انہوں نے دیکھی اور اس کی زبان سے نکلتے ہوئے الفاظ انہوں نے سن لئے.خدا تعالیٰ کے ایک نمائندہ کی حیثیت سے.تو کروڑوں آدمیوں تک چند ہفتوں کے اندر یہ پیغام پہنچا دینا، یہ آسان کام نہیں ہے.الہی تصرف کے بغیر یہ ممکن ہی نہ تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے تصرف کیا ان کے دلوں پر بھی ، ان کی قلموں پر بھی اور ان کی فضا پر بھی اور وہ مجبور ہو جاتے تھے.وہ دشمن ہیں اور ان کی دشمنی بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے.ٹیلیویژن کے لئے ان کو سوال تو ایسا منتخب کرنا چاہئے تھا کہ جو طبیعت پر اثر نہ کرے.لیکن ہوتا، اس سے الٹ ہے.266

Page 284

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء پہلاٹیلیویژن آیاز یورچ میں، یہ پہلا موقع تھا.تین آدمیوں کے سامنے، جن میں سے دو مرد تھے، ایک عورت تھی.وہ عورت مجھے کہنے لگی کہ میں پہلے سوال و جواب کر لیتی ہوں تا کہ ہم انتخاب کر لیں کہ کون سے سوال جواب ہم ٹیلیویژن پر لائیں گے؟ پروگرام چھوٹا ہے، میں سوال زیادہ لکھ کے لائی ہوں.تین منٹ کا پروگرام تھا.میں نے کہا، ٹھیک ہے.اس نے جہاں اور سوال کئے ، ایک سوال یہ بھی کیا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کو پھیلائیں گے کیسے؟ فور میں نے جواب دیا دلوں کو فتح کر کئے.اتنی خوش ہوئی وہ کہ کہنے لگی، میں یہ فقرہ ضرور ٹیلیویژن پر لانا چاہتی ہوں.میں یہ سوال کروں؟ میں نے کہا، ٹھیک ہے.تم سوال کرنا ، میں جواب دوں گا.آگے لطیفہ یہ ہوا کہ کوپن ہیگن کی پریس کا نفرنس میں کسی نے پھر یہی سوال کیا.میں نے کہا، زیورچ میں بھی یہ سوال کیا گیا تھا، جو جواب میں نے وہاں دیا، وہی جواب میں یہاں دیتا ہوں کہ دلوں کو فتح کر کے.اس کا نفرنس میں ایک، دو عورتیں بھی تھیں نمائندہ.اور ایک بڑی باوقار عورت.وقار سے بیٹھی ہوئی ، جب میں نے کہا ” دلوں کو فتح کر کئے تو اسی طرح وقار سے بیٹھے بیٹھے آرام سے کہنے لگی، آپ ان دلوں کو کریں گے کیا ؟ ایک عورت کے منہ سے جب یہ فقرہ نکلا تو ایک سیکنڈ کے لئے میں بڑا پریشان ہوا.لیکن اللہ تعالٰی ، حسب وعدہ کہ میں تیری مدد کروں گا، میری مدد کو آیا.میں نے اسے کہا، "پیدا کرنے والے کے قدموں پہ جار کھیں گے“.اس جواب سے تو سارے ہی صحافی جو تھے، ان پر خاموشی طاری ہوگئی.ایک آدھا منٹ کے بعد ان کو ہوش آئی.پھر انہوں نے آگے سوال کئے.ہر ایک پر اس کا اثر تھا.مگر اس عورت پر تو اتنا اثر تھا کہ وہ پچاس میل دور سے آئی ہوئی تھی، وہ وہاں ٹھہری رہی.مغرب اور عشاء کی نمازیں ہمیں پڑھتے دیکھا.پھر دوستوں سے گفتگو کرتی رہی اور وعدہ کر کے گئی تھی کہ لکھوں گی اور اس نے اس کے متعلق لکھا بھی.وہ کسی ویکلی (ہفتہ وار) کی نمائندہ تھی.تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جو چیز ہمارے حق میں تھی اور ان کے خلاف ، ان کے نزدیک طبائع پر اثر کرنے والی، اس کو وہ انتخاب کرتے تھے، اخبار میں شائع کرنے کے لئے ، ٹیلی ویژن میں دکھانے کے لئے اور ریڈیو پر بولنے کے لئے.تو یہ عظیم احسان اللہ تعالیٰ نے وہاں کئے ، جن کے کئی سلسلے میں گنا چکا ہوں.شاید پانچواں آئے گا.ہاں ابھی ایک قصہ رہ گیا ہے کہ وہ مضمون، جواللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق اور اس کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت میں نے یہاں تیار کیا تھا اور یورپ میں کہا گیا تھا کہ نہ سنایا جائے ، میں نے ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے وہاں نہیں سنایا تھا، لنڈن میں مجھے وہ مضمون سنانے کا موقع ملا.پینتالیس منٹ After dinner Speech ( رات کے کھانے کے بعد ) جو انگریز کی عادت کے مطابق نہایت ہی ملکی 267

Page 285

خطبہ جمعہ فرمود : 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پھلکی تقریر ہونی چاہئے، کوئی لطیفے یا اور لطائف کے اندر کوئی کام کی بات کر دی اور مختصر.لیکن چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے میں نے مشورہ کیا، میں نے کہا کہ یہ ایک موقع ہے، جو پھر ہاتھ نہیں آئے گا اور اس مضمون کو میں پڑھنا ضرور چاہتا ہوں.یہ میری اپنی کوشش کا نتیجہ نہیں ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیار ہوا ہے.ان کو یہ مضمون میں نے رات کو دے دیا.اگلے دن انہوں نے کہا، میں نے پڑھا ہے، آپ اسے ضرور پڑھیں.خیر وہ مضمون جب میں نے پڑھا ہے تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ سنے والوں پر وہ مضمون کیا اثر کر رہا تھا.ہمارے ایک احمدی ہیں.ان کی ساری عمرولایت میں ہی گزری ہے.پارک کارنر میں، جہاں بہت ملف آدمی تقریر کر سکتا ہے، لفنگے آدمی بھی وہاں جمع ہوتے ہیں اور تمسخر اور استہزاء اور اعتراض عجیب عجیب وہاں ہوتے رہتے ہیں، وہاں کھڑے ہو کے دلیری کے ساتھ تقریر کرنے والے ہیں.کہنے لگے کہ آپ تقریر کر رہے تھے اور مجھے پسینہ آ رہا تھا.اور کہنے لگے کہ ایک انگریز میرے پاس بیٹھا تھا، شروع میں حیرت سے اس کا منہ کھلا اور پھر پینتالیس منٹ تک کھلا ہی رہا.ایک فقرہ کے بعد دوسرا فقرہ اسی قسم کا آجاتا تھا.اب وہ یہاں چھپ گیا ہے.وہاں انگلستان والوں نے ایک دن میں رقم اکٹھی کر کے پچاس ہزار کا انتظام کر لیا تھا، اس کی اشاعت کا.اور وہ پچاس ہزار وہاں شائع ہو چکا ہے.میں نے انہیں کہا تھا کہ کچھ باہر کے لئے بھیج دیں.سارے ہیڈ ماسٹر ز کو، سارے M.P.S کو، بڑے بڑے بشیر کو اور بڑے بڑے کلارجی (Clergy) کو ، سارے لارڈ زکو اور اس طرح انہوں نے ساڑھے سات ہزار پتے منتخب کر کے ان پتوں پر وہ بھجوا دیئے ہیں.اور باقی وہ انتظام کر رہے ہیں.پھر اس کا جرمن میں ترجمہ ہو چکا ہے.پہلے تو وہ راضی نہیں تھے.اور پہلے اس وقت سارا تو اخباروں نے شائع نہیں کرنا تھا، اب پورا مکمل شائع ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ کی شاید یہی حکمت ہو.جرمنی کے گھر گھر میں پہنچانے کا میں نے ان کو پروگرام بتایا ہے.اسی طرح سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ ، سارے ملکوں میں، ساری زبانوں میں ترجمہ ہو کے وہ وہاں تقسیم کیا جائے گا.اور ایک دفعہ پوری طرح اتمام حجت کرنے والا، بات یہ ہے کہ جس وقت میں یہاں سے گیا تو سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے جب دنیا کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تو ان کے دو کام ہوتے ہیں.ایک بشیر کی حیثیت سے، ایک نذیر کی حیثیت سے.بہت سی انذاری پیشگوئیاں دی جاتی ہیں اور جماعت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ علی الاعلان اور بغیر ڈرے دنیا میں وہ پھیلائیں اور تمام دنیا پر اتمام حجت کریں کہ اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو اللہ تعالیٰ کے یہ انذاری وعید ہیں تمہارے متعلق تم تباہ ہو جاؤ گے.اور اگر تم ان سے بچنا چاہتے ہو تو تو بہ کرو.فقرہ تو میں یہی بولتا تھا.268

Page 286

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم Come back to your creator.خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، اس کی طرف تم رجوع کرو.اسلام ایک حسین ترین تعلیم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے ایک محسن عظیم ہیں، ان کو پہچانو اور اس تعلیم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرو.تو یہ سب کچھ تقریر میں ساری تفصیل سے تو آنا نہ تھا، اگر میں وہاں تقریر کر دیتا.انہوں نے اسے ترجمہ کرنا تھا کیونکہ وہ انگریزی زبان بولنے والے نہیں تھے.(انگلستان کے اخباروں میں ابھی نہیں آیا ) تو اب ساری زبانوں میں انشاء اللہ ترجمہ ہو کے اللہ کا یہ پیغام گھر گھر پہنچ جائے گا.اسی کی توفیق سے اللہ تعالیٰ نے بڑا احسان کیا ہے، سارے دلوں کو اس طرف پھیر دیا.پانچواں سلسلہ احسانوں کا ، جماعت کی تربیت ہے.میرے جانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا.وہاں دو قسم کے احمدی ہیں.ایک مقامی اور ایک اردو بولنے والے، یہاں سے گئے ہوئے اور بعض ہندوستان سے آئے ہوئے ہیں لیکن اکثریت پاکستانیوں کی ہے.ان میں سے ننانوے فی صدی وہ ہیں، جن کو کچھ علم نہیں تھا، اس قیامت کا، جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت جماعت پر گزری.کیونکہ وہ یہاں نہیں تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے جماعت کو سنبھالا اور ایک ہاتھ پر متحد کر دیا.وہ ہاتھ بے زور اور کم طاقت کا تھا.لیکن خدا نے کہا کہ جتنا بوجھ مرضی ہے پڑے، گھبرانا نہیں.کیونکہ اس ہاتھ کے نیچے میرا ہاتھ ہے.اور جو کہا، اس وقت وہ کر دکھایا.میں چاہتا تھا کہ یہ لوگ مجھ سے ملیں ، باتیں سنیں اور بہت سی غلط فہمیاں یا غلط خیال، جو عدم علم کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں، وہ دور ہو جائیں.اگر خدا چاہیے تو پھر یہ کہ میں ان کو جانوں کہ وہ کس قسم کے احمدی ہیں، خصوصاً جوان ملکوں کے باشندے ہیں؟ تو جہاں تک ان لوگوں کو دیکھنے کا مجھے موقع ملا، میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا اتنا عظیم احسان ہے کہ صرف ایک احسان کا بھی ہم شکر ادا نہیں کر سکتے.حالانکہ وہ بے شمار احسانوں میں سے ایک احسان ہے.وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی مخلص جماعتیں پیدا ہو چکی ہیں، جن کے ذہن ہی مسلمان اور احمدی نہیں بلکہ ان کے دل اور ان کی روح اور ان کے جسم کا ذرہ ذرہ احمدیت میں یوں رچ گیا ہے، انگریزی میں کہتے ہیں، سیچوریشن پوائنٹ (Saturation Point) اس پوائنٹ تک احمدیت ان کے اندر پہنچ چکی ہے.گوروحانی دنیا میں سیچوریشن پوائنٹ (Saturation Point) کبھی نہیں آتا.مطلب یہ ہے کہ اس وقت وہ اعلیٰ اور ارفع مقام پر ہیں.جیسے اعلیٰ ترقیات کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہیں ، اس کے لئے کوئی انتہا نہیں.اتنی عظیم محبت کرنے والے اپنے اللہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے، 269

Page 287

خطبہ جمعہ فرمود و 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سلسلہ سے، خلیفہ وقت سے کہ آدمی دیکھ کے حیران ہو جاتا ہے.اتنی دور بیٹھے ہوئے ، یہ لوگ ذاتی طور پر کوئی واقفیت نہیں رکھتے اور ان کے دل ہیں کہ ایک محبت کا سمندر ہے، جوان میں موجیں مار رہا ہے.کیا یہ الہی تصرف کے بغیر ممکن ہے؟ ہر گز نہیں.ایک آدمی کے دل میں آپ اپنا پیار اور محبت پیدا نہیں کر سکتے.بعض دفعہ ایک شخص ایک آدمی کے دل میں بھی محبت اور پیار پیدا نہیں کر سکتا.کتنے خاندان ہیں کہ جو خاوند ہیں، اپنی بیوی کے دل میں اپنا پیار پیدا نہیں کر سکتے اور اس طرح اپنی زندگی کو بگاڑ لیتے ہیں.لیکن یہاں یہ نظارہ ہے کہ لاکھوں آدمی ہیں کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت کے ساتھ ، امام وقت کی محبت بھی پیدا ہوگئی.اور وہ ایک دل ہے، جس میں پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پیار اور محبت کے کتنے سمند رسما دیئے ہیں.ہر ایک کے لئے ویسا ہی پیار وہاں پیدا کر دیا.یہ ایک عظیم معجزہ ہے اور ایسا عظیم احسان ہے کہ اس احسان کو دوسروں کے لئے پہچانا بھی ممکن نہیں ہے.آج ہمیں یہ سمجھ آتی ہے کہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دلوں میں وہ محبت کیسے پیدا ہوئی ؟ اللہ تعالیٰ نے خود پیدا کر دی تھی.(اور دوسرے اس کو سمجھ نہیں سکتے.ان کی فدائیت اور ایثار کے کارنامے جب ہم پڑھتے ہیں تو عقل کے نزدیک ان کی کوئی ایکسپلینیشن (Explanation) نہیں.عقل نہیں بتا سکتی کہ ایسا کیوں ہوا؟ جب کئی لاکھ کی فوج کے مقابلہ پر گنتی کے چند درجن ، وہ جو آخری فتح ہوئی ہے، قیصر کے خلاف.خالد بن ولید کی فوج کسی نے پچیس ہزار کسی نے تھیں ہزار، کسی نے چالیس ہزار، کسی نے بیس ہزار لکھی ہے.تاریخ دانوں میں اختلاف ہے.میں اس اختلاف میں نہیں جاتا.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ فوج سے حملہ کروانے سے پہلے انہوں نے کچھ نو جوانوں کو اکٹھا کیا تھا.جن میں عکرمہ بھی شامل تھے اور ان کو کہا تھا کہ ساری عمر تم اسلام کی مخالفت کرتے رہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچاتے رہے، آج موقع ہے، اپنے سارے دھبے جو ہیں، وہ دھولو.اور ان گنتی کے چند آدمیوں نے لاکھوں کی فوج پر حملہ کیا تھا.اور دراصل ان لوگوں کے حملہ کی وجہ سے ہی ان لوگوں کے دلوں پر یہ رعب پیدا ہوا تھا.جس کی وجہ سے انہوں نے شکست کھائی اور جتنی مسلمان فوج تھی ، اس سے کہیں زیادہ مقتول اور لاشیں میدان میں چھوڑ کر وہاں سے بھاگے.تو محبت کے یہ عظیم کارنامے صفحہ تاریخ پر کیسے ابھرے؟ عقل اس کا جواب نہ دے سکتی تھی.آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہم اپنے دلوں میں جو محبت محسوس کرتے ہیں ، اس نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ معجزانہ مل جو ہیں، وہ کس طرح اور کیوں ظہور پذیر ہوتے ہیں؟ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا 270

Page 288

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء احسان ہے.خداوند کریم نے واضح الفاظ میں یہی کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں ، جو اس طرح کی محبت دلوں میں پیدا کر سکتی ہو.میں ان کو انتباہ تو بڑا سخت کرتا تھا.ان کو یہی کہتا تھا کہ دیکھو، انسان نے ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم بنالئے ، ساری دنیا میں جتنے بھی ایٹم اور ہائیڈروجن بم ہیں، وہ سارے مل کر بھی ایک دل کو بدل نہیں سکتے.لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مذہب دنیا میں بھیجا جاتا ہے، وہ لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو بدلتا چلا جاتا ہے.اس واسطے مذہب کے میدان میں لڑائی جھگڑے کا نہ کوئی فائدہ ہے، نہ کوئی معقولیت ہے.امن اور صلح کی فضا میں ہم سے یہ فیصلہ کرو کہ عیسائیت کچی ہے یا اسلام سچا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو مختلف دعوت ہائے فیصلہ دنیا کو دیئے ، ان میں سے تین میں نے اس سفر میں ان کے سامنے رکھے.دوان پادریوں کو دیئے اور ان کو کہا کہ جہاں تم نے مجھے ملنے سے قبل دنوں مشورہ کیا، اب تم دن اور ہفتے لگاؤ اور سوچو اور کمیٹی آف ایکوال کو اس بات پر راضی کرو کہ ہمارے ساتھ ان طریقوں پر فیصلہ کرے کہ اسلام سچا ہے یا عیسائیت کچی ہے؟ مجھے امید نہیں کہ وہ اس بات کو مانیں گے.کیونکہ وہ اپنی کمزوریوں کو سمجھتے ہیں، زبان سے تسلیم کریں یا نہ کریں.تو یہ ایک عظیم احسان مجھے نظر آیا کہ وہ چھپی ہوئی محبت یعنی جس کا بہت سا حصہ چھپا ہوا تھا، وہ میرے جانے سے ظاہر ہوا.اور عجیب رنگ میں ظاہر ہوا.گو پہلے بھی میں نے ایک دو جگہ بتایا ہے کہ سکنڈے نیویا کے باشندے جو ہیں، وہ پبلک میں لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کے اظہار کو اتنا معیوب سمجھتے ہیں کہ موت کو اس سے بہتر سمجھتے ہیں.ہمارے ایک آنریری مبلغ ہیں.ہمارے امام صاحب کہتے ہیں کہ وہ ہمارے پاس تھے کہ ان کے والد کی وفات کی خبر آئی.تو انہوں نے امام صاحب کو بھی نہیں بتایا.چہرہ پر بھی کوئی آثار ظاہر نہیں ہوئے تھے کہ والد فوت ہو گیا ہے.لیکن اب ان کا یہ حال تھا کہ دن میں دو، تین مرتبہ ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں.ہمارے ناروے کے ایک مبلغ ہیں، وہ مجھے ملنے آئے ، ان سے بات نہ کی جائے.ان کے جسم پر رعشہ طاری تھا اور وہ کانپ رہے تھے ، زبان ان کی چل نہ رہی تھی.میں نے انہیں ادھر ادھر کی باتوں میں لگا کے یہ کوشش کی کہ وہ اپنے نفس پر قابو پالیں.وہ اپنی بیوی اور بچی کا نام رکھوانا چاہتے تھے.بیوی کا نام میں نے محمودہ رکھا اور بچی کا نام میں نے نصرت جہاں رکھا ، جس سے وہ بہت خوش ہوئے.اور میں نے سمجھا کہ اب یہ اپنے قابو میں آگئے ہیں.لیکن اس کے بعد پھر ہونٹ ہلنا شروع ہوئے اور صرف اتنا کہا کہ جو دل 271

Page 289

خطبہ جمعہ فرمود 150 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم میں ہے، وہ زبان پر نہیں آسکتا اور بڑی مشکل سے اپنا رونا روکا.پھر وہ کھڑے ہوئے ، میں نے انہیں گلے لگالیا.اس کے بعد وہ چلے گئے.یہ ان کی حالت تھی.تو ان کے بعض ایسے روحانی اور اخلاقی اور قوت کے ساتھ تعلق رکھنے والے حسن تھے، جو دنیا کو نظر نہیں آئے تھے.میرے اس سفر سے ان کی وہ چیزیں ابھر آئیں.عجیب قوم پیدا ہوگئی ہے.آپ کے لئے قابل رشک ہے.یہاں بھی جو قابل رشک ہیں ہمارے لئے ، ہمارے بزرگ، ان کے پہلو بہ پہلووہ کھڑے ہوئے ہیں.ہر قسم کی قربانی کرتے ہیں، ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں.پھر انگلستان میں کئی ہزار ہمارا احمدی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے، جواردو بولنے والی ہے.میرا یہ مضمون تو انگریزی میں تھا ریسپشن ( Reception) پر.لیکن جلسہ سالانہ میں، میں ان سے اردو میں بات کرنا چاہتا تھا کیونکہ ان میں سے عام طبقہ مزدور پیشہ ہے.تو علمی زبان میں ان کے لئے سمجھنا مشکل ہے.ان میں عورتیں بھی تھیں.بہر حال میرا یہ فیصلہ تھا، میں اردو میں بات کروں گا.اور 08 نومبر 65ء کے واقعات سے شروع کروں گا.چنانچہ میں بھی جذباتی ہوا ہوا تھا ، وہ بھی جذباتی ہوئے ہوئے تھے.ان کو سارے حالات بتائے گئے.ایک نوجوان ایسا تھا، جس نے ابھی تک بیعت نہ کی تھی.اور پتہ نہیں کیوں ؟ واللہ اعلم.جب جلسے کے اوپر وہاں اجتماعی بیعت ہوئی تو اس نے بیعت کر لی.اگلے دن وہ مجھے ملنے آیا کسی نے کہہ دیا کہ اس نے کل پہلی دفعہ بیعت کی ہے.اس نے رونا شروع کر دیا.اس کا رونا بند ہی نہ ہوا.میں نے اسے گلے سے لگایا، کئی منٹ تک اس کو تھپکی دیتا رہا.تب اس نے تھوڑ اسا اپنے نفس پر قابو پایا تو اندر کوئی چیز چھپی ہوئی تھی ، جس کو کسی شیطانی و ہم نے دبایا ہوا تھا.میرے جانے سے وہ شیطان بھاگ گیا اور اندرونی حسن جو تھا، وہ ظاہر ہو گیا.اتنا پیارا نہوں نے مجھے دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھ سے بھی لیا ہے، میں تو سمجھتا ہوں کہ میری یہ ڈیوٹی ہے.اور آپ لوگوں کا احسان ہے.میں اپنے فرض کو پورا کرتا ہوں.ایک مجھ پر احسان کرتے چلے جاتے ہیں.پہلے بھی میں نے کئی دفعہ بتایا ہے، وہ تصویر میں مرتے دم تک نہیں بھول سکتا.ایک چھوٹا بچہ تھا، جو میرے پہلو میں کھڑا تھا.جب ہم آ رہے تھے تو دعا ہوئی ، بہت عاجزی اور تضرع سے ہوئی.اس کے بعد میں چند منٹ تک سر نیچا کر کے کھڑا رہا.اپنی طبیعت پر قابو پانا چاہتا تھا.اس کے بعد سر اٹھایا ، سلام کیا.بعض جو لوگ قریب تھے ، وہ مجھ سے تحفہ چاہتے تھے، انہیں تھے بھی دیئے.جو میری جیب میں تھا، نکال کے دیتا چلا گیا.کئی منٹ کے بعد اچانک میری نظر پڑی تو ایک بچہ معصوم بارہ، تیرہ سال کار رورہا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے.272

Page 290

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء تو یہ محبت میں نہیں پیدا کر سکتا تھا، نہ آپ پیدا کر سکتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے تصرف سے پیدا ہوتی ہے، یہ اس کا بڑا عظیم احسان ہے.اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اپنے فضلوں سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفة المسیح الاول (جن کو معترضین نے بڑے دکھ پہنچائے تھے.) اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں اتحاد کا ایک ایسا مظاہرہ کرنے کی توفیق دی ہے، جو دشمن کو حیرت میں ڈالنے والا اور اس کے حسد کو اور شدید کرنے والا ہے.وہ پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ہو گیا ؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ کچھ نہ کچھ فتنہ ضرور پیدا ہو گا.لیکن صفر.سوائے نفاق کے فتنہ کے جو ہمارے ساتھ ہمیشہ لگار ہے گا.جس چیز نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اسلام کو نہیں چھوڑا، وہ آج ہمیں کیسے چھوڑ دے گی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کے تو کوئی شخص قوت قدسی کا مالک اور حامل نہیں ہو سکتا.آپ کے ساتھ بھی منافق لگے ہوئے تھے.ہمارے ساتھ بھی لگے ہوئے ہیں.لیکن اس استثناء کے علاوہ ساری جماعت متحد ہو گئی ہے.ایک معجزہ ہے، جو ہماری تاریخ میں لکھا جائے گا.اور دنیا قیامت تک اس پر رشک کرے گی.یہی میں نے بتایا تھا.ان دنوں ہزار ہا کی تعداد میں خطوط آتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ خطوط گویا ایک کلاس میں ڈیکٹیٹ (Dictate) کرائے گئے ہیں.تین جذبات ہر خط میں پائے جاتے تھے.انتہائی صدمہ نمبر ایک.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات پر گویا ایک قیامت آگئی.انتہائی فکر نمبر دو کہ معلوم نہیں ، جماعت کیا کرے گی، کوئی غلطی نہ کر بیٹھے.انتہائی شکر کے جذ بات اللہ تعالیٰ کے لئے نمبر تین کہ جماعت ایک ہاتھ پر پھر متحد ہو گئی.یہ تین جذبات ہر ایک خط میں پائے جاتے تھے.خواہ وہ نجی سے لکھا ہوا ہو ، جنوبی امریکہ سے آنے والا ہو.کسی کی زبان انگریزی، کسی کی انڈو نیشین، کسی کی جرمن اور کسی کی سوئیس (Swiss) اور کسی کی سواحیلی.بیسیوں زبانوں میں وہ خط تھے اور تین باتیں ہر خط میں پائی جاتی تھیں.جس سے یہ نتیجہ نکلا کہ وہ جو ساری دنیا کا استاد ہے، اس نے سب کو ڈیکٹیٹ (Dictate) کرایا تھا.اللہ! تو یہ مزہ بھی ہم نے دیکھا.اور وہاں بھی نئے سرے سے ان نئے نئے لوگوں میں گئے.اور ان جماعتوں سے میرے پاس خط آتے ہیں، پیار کے شکریہ کے، کہ آپ نے بڑا احسان کیا کہ یہاں آگئے ہیں.جماعت کے اندر ایک بیداری اور ایک روح پیدا ہوگئی ہے.جو ذاتی رنجشوں کی بناء پر پیچھے ہٹے ہوئے تھے یعنی یوں مخلص تھے، سارا سب کچھ تھا، پیچھے ہٹے ہوئے تھے.بعض کے دلوں میں یہ تھا ( اور ایک، دو آدمی ہی ایسے تھے، جو سمجھتے 273

Page 291

خطبہ جمعہ فرمود 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تھے.) کہ میں ان سے ناراض ہوں.اور ان کو یہ پتہ نہیں تھا، یہ علم نہیں تھا کہ میرے دل کی سختی تو 08 نومبر کو اللہ تعالیٰ نے صاف کر دی تھی.اب ان کو پتہ چلا تو وہ ان کے لئے حیرت کا باعث بھی تھا اور خوشی کا باعث بھی.جو کبھی مسجد میں نہیں آتے تھے، امام رفیق سے لڑے ہوئے تھے، میرے ساتھ گلہ وشکوہ ، رات کے دو، دو بجے تک مسجد میں بیٹھے رہتے تھے.ایک شخص نے خوب لکھا ہے، اپنے متعلق ( میں اس کا نام بیان کرنا نہیں چاہتا.) کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں بھی ایک انقلاب عظیم پیدا ہو گیا ہے.وہ چھ مہینہ سے خود گیا نہیں تھا، ان کے ساتھ بھی تھا، ان کو پتہ بھی تھا، رات کو ان کے ساتھ بیٹھتا بھی تھا، بچوں کو ساتھ لے کے آتا تھا.تو تربیت کے میدان میں بھی اللہ تعالیٰ نے انتہائی احسان کیا ہے.اب اس احسان عظیم (اگر مفرد کا لفظ ہی بولا جائے ) یا کئی ایک جن میں سے بعض سلسلوں کا نام میں نے لیا ہے اور چند مثالیں دی ہیں.بے شمار قسم کے بے شمار گنتی میں احسان اللہ تعالیٰ نے ہم پر کئے ہیں اور کیا کرتا ہے.ان دنوں میں تو بہت زیادہ کئے ہیں.ہم پر اس کے نتیجہ میں بہت سے فرائض عائد ہوتے ہیں.پہلا فرض تو یہ ہے کہ ہم اپنے اللہ کے حقیقی معنی میں شکر گزار بندے بنیں.دوسرا فرض یہ ہے کہ ہم اپنے اللہ پر سچے دل سے تو کل رکھنے والے ہوں اور سوائے خدا کے کسی اور کی طرف ہماری نگاہ نہ اٹھے.چند مثالیں میں نے دی ہیں.سوائے اللہ کے وہاں کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا.اور اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی.تو جس نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ میں بھی تمہارے لئے کافی ہوں ، کسی اور طرف جانے کی ضرورت نہیں، اب سارا کچھ دیکھنے کے بعد ہم کس طرف جائیں گے.ہماری بڑی بدقسمتی ہوگی ، اگر ہم اللہ کو چھوڑ کے یا اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کر کے اس پر یا ان پر تو کل شروع کر دیں.تو سوائے خدا کے کسی اور کے لئے حمد کے جذبات ہمارے دلوں میں نہیں ہیں اور نہ ہونے چاہئیں.اور سوائے خدا کے کسی ہستی پر کسی وجود پر تو کل نہیں کر سکتے.نہ کسی شے پر ہم تو کل کرتے ہیں.دنیا جانتی ہے ( اور ہم سے بھی یہ حقیقت چھپی ہوئی نہیں.کہ ہم ایک کمزور جماعت ہیں، ہم ایک غریب جماعت ہیں، ہم ایک کم علم جماعت ہیں.ہم ایک ایسی جماعت ہیں، جس کے پاس کوئی سیاسی اقتدار نہیں، نہ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں.ہم وہ جماعت ہیں، جس کے پاس بادشاہتیں نہیں اور نہ یہ جماعت بادشاہتوں کو حاصل کر کے کوئی خوشی حاصل کر سکتی ہے.کیونکہ وہ ہمیں مل گیا ہے، اسی کے فضل سے.اور جب وہ (اللہ ) مل جائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فارسی کے شعر میں فرمایا 274

Page 292

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء ہے کہ جو تجھ سے پیار کرے اور جسے تو پیار کرے، اسے تو دو جہاں دے دیتا ہے.لیکن جو تیرا ہو جائے ، وہ ان دونوں جہانوں کو کیا کرے؟ اس کے نزدیک یہ بے معنی چیز ہیں.تو اصل چیز یہ ہے کہ رضاء الہی فضل الہی کے نتیجہ میں ہمیں حاصل ہوئی ہے.ہمیں ہر چیز قربان کر کے اس رضاء الہی کو ہاتھ سے کھو نہ دینا چاہئے.اس لئے جو قربانی بھی ہم سے مانگی جائے ، بشاشت سے ہمیں دینی چاہئے.کیونکہ جو ہمیں ملا ہے، یہ دنیا اس کی قیمت لگاہی نہیں سکتی ، اندازہ بھی نہیں کرسکتی.اور جو ہم سے مانگا جارہا ہے، وہ چند نکے ہیں.پھر ہم پر تیسرا یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اس اتحاد کو جماعت کے اندر قائم رکھیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک معجزہ سے یہ اتحاد ہم میں پیدا کیا ہے اور قائم رکھا ہے.وہ ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم منافق کے نفاق کو کامیاب نہ ہونے دیں.منافق جو ہے، وہ ادھر کی ادھر بات نکالتا ہے، وہ جھوٹی باتیں کرتا ہے.اور منافق کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے.اور جس راہ سے بھی فتنہ پیدا کر سکے، وہ کرتا ہے.ایک ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو جمع کیا ہے.جہاں تک اس دل کا تعلق ہے، جس کے ساتھ اس ہاتھ کا تعلق ہے ، دل سمجھتا ہے کہ مجھ میں کوئی طاقت کوئی علم، کوئی بزرگی ، کوئی خوبی ، کوئی حسن نہیں.لیکن اس کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ جس چیز کی بھی تمہیں ضرورت ہوگی ، وہ میں مہیا کروں گا.کسی کے لینے دینے کی ضرورت نہیں، خواہ وہ بادشاہ وقت ہی کیوں نہ ہو.اور کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ، خواہ وہ ساری دنیا کے انسان ہی کیوں نہ ہوں.اور کسی ہستی کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں، خواہ وہ عظیم ترین رفعتوں کی مالک ہی کیوں نہ ہو.جب تم میرے ہو گئے تو پھر تمہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.لیکن منافق آتا ہے اور اس اتحاد (مرکزی نقطہ) پر ضرب لگا کے اسے کمزور کرنا چاہتا ہے.وہ ہمیشہ ناکام ہوتا ہے.پھر بھی ہمیں ہمیشہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے.یہ ہماری ذمہ داری ہے.ہم نے اس اتحاد کو جماعت میں قائم رکھنا ہے، ہر قربانی دے کر.اور منافق تو اللہ تعالیٰ نے بڑی حکمتوں کے ساتھ ہمارے ساتھ لگایا ہوا ہے.اس کو ہم نے کامیاب نہیں ہونے دینا.منافق کی مثال وہ پن ہے، جس کی ایک نوک ہے.اس کی ایک نوک آپ کو چھ سکتی ہے، وہ پن آپ کے اندر داخل نہیں ہو سکتی.اگر کوئی شخص اپنے اس بچے کے بستر پر جس نے رات کو امتحان کی تیاری کے لئے پڑھنا ہو، ایک پن اس طرح لگا دے کہ چھن ہو مگر زخم بھی نہ پڑے کہ اگر یہ کرسی چھوڑ کے لیے تو پن اس کو چبھ جائے، سونے نہ دے تو اس باپ کو ظالم نہیں کہیں گے، بڑا پیار کرنے والا کہیں گے.کیونکہ اس نے ہلکی سی تکلیف سے جاگتے رہنے کے سامان بھی پیدا کر دیئے.اور جو تکلیف واقع میں پہنچ سکتی تھی ، اس سے محفوظ بھی کر لیا.کیونکہ پن پرک سے زیادہ اور کوئی سامان نہیں کیا گیا.یہ پن 275

Page 293

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم کی وہ نوک ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے پہلو میں رکھی ہوئی ہے.چھتی تو ہے لیکن ہمارے جسم پر زخم نہیں پیدا کرتی.نہ کرسکتی ہے، جب تک ہم زندہ ہیں.جب مر جائیں اور ساری ٹہنیاں خشک ہو جائیں تو ایک خشک، دوسرے خشک میں فرق نہیں رہتا.نہ اس درخت کو کوئی پرواہ ہوتی ہے، سارے جو مر گئے.ابھی تو ہم نے بڑا عرصہ زندہ رہنا ہے اور ہم نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے.اور ساری دنیا کو محد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فتح کرنا ہے.اور ہر دل میں تو حید خالص کو قائم کرنا ہے.ابھی ہم نے بڑے کام کرنے ہیں، بڑی ذمہ داریاں ہیں، بڑی قربانیاں اللہ تعالیٰ ہم سے لے گا.تو اس وقت تک کہ ہم خدا کی نگاہ میں زندہ رہیں، یہ پن کی نوک جو ہے، ہمارے جسموں کے ساتھ لگی رہے گی.اگر کوئی فرد جماعت کو نقصان تو نہیں پہنچا سکتا.) بے وقوفی سے پن کا زائد حصہ بھی باہر نکال لے اور پھر اپنے جسم کے اندر خود ہی چھولے تو یہ اس کی بڑی حماقت ہوگی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس قسم کی حماقت سے محفوظ رکھے.تو ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم چوکس اور بیدار ر ہیں اور اس اتحاد کو کمزور نہ ہونے دیں، جو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے ہم میں پیدا کیا ہے.یہ اتحاد اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے.ایک چھوٹی سی جماعت کس شمار میں ہیں آپ اس دنیا میں ! اندازہ کر لیں !! میرا یہی اندازہ ہے،Just Three Million.بس تمیں لاکھ سے کچھ زائد ساری دنیا میں.اور دنیا کی آبادی کے لحاظ سے تمہیں لاکھ حقیقت ہی کیا رکھتے ہیں؟ دنیا آپ کی کیا پرواہ کرسکتی ہے؟ ایک، ایک ملک تمیں لاکھ سے زیادہ آدمی اپنی مصلحتوں کی بناء پر اور بعض دنیوی مقاصد کے حصول کے لئے قربان کر دیتے ہیں.اگر دنیامل کے آپ کو قربان کر دینا چاہے تو آپ کے وجود کی قربانی کا احساس بھی ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہو سکتا.اسی طرح ہی انسان دنیا میں چلتے پھرتے نظر آئیں گے.لیکن خدا نے کہا کہ میں تمہارا خیال رکھتا ہوں اور میں نے تمہیں اپنے لئے چنا ہے.تم میرے بنے رہو، پھر دیکھو کہ دنیا کس طرح میری قدرتوں کے نظارے کس رنگ میں اور کس طور پر اور کس طریق سے دیکھتی ہے !! اتنا بڑا فضل اس جماعت پر ہواور پھر وہ ستیاں دکھائے !!! میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ سستیاں دکھاتے ہیں.لیکن میں یہ ضرور کہوں گا اور اصل میرے مخاطب وہی ہیں کہ جو نسبتاً کمزور ہیں.اب نسبتا کمزور کا برداشت کرنا بھی کم از کم میرے لئے مشکل ہے.جو کچھ مجھے نظر آ رہا ہے، دنیا جس جہت کی طرف حرکت کر رہی ہے، جن مصیبتوں میں انسان گرفتار ہونے والا ہے، جس دوا کی اسے ضرورت پڑنے والی ہے، اس دوا کو مہیا کرنے والے سوائے آپ کے اور کوئی نہیں.ساری دنیا کا آپ کو خدا تعالیٰ نے استاد اور امیر بنایا ہے.جو فیصلہ ہو چکا ہے.اور آپ استاد اور 276

Page 294

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد چہارم امیر بننے کے لئے تیاری نہ کریں، اس بات سے تکلیف ہوتی ہے.ہمارا تو ہر بچہ ، ہماری تو ہر عورت ، ہماری ہر لڑکی ، ہمارا ہر مرد ، ہمارا ہر نوجوان، ہمارا ہر بوڑھا تیار رہنا چاہئے.پتہ نہیں کون زندہ ہوگا، جب آواز آئے گی کہ ہر شخص جماعت احمدیہ کا میدان میں آئے؟ اور دنیا کو استادوں کی ضرورت ہے.وہ دنیا کے استاد بنیں.اس کے لئے آپ کو تیاری کرنی پڑے گی.ورنہ قرآن کریم کی زبان میں آپ منافق کہلائیں گے.قرآن کریم کہتا ہے.وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّوا لَهُ عُدَّةً کہ اگر انہوں نے میدان عمل میں عملی طور پر جہاد کرنا ہوتا تو وہ اس کے لئے ضرور تیاری کرتے.آپ نے جہاد کرنا ہے، علمی میدان میں ! آپ نے جہاد کرنا ہے، مذہب کے میدان میں ! آپ نے جہاد کرنا ہے، آسمانی تائیدات کے میدان میں ! آپ کو علم سیکھنا پڑے گا، آپ کو دعاؤں کی مضبوط بنیاد پر اپنی زندگیوں کو کھڑا کر نا پڑے گا.تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی نیستی کو دیکھ کر ، آپ کے دلوں میں اپنی محبت کو دیکھ کر ، آپ کے لئے اپنی معجزانہ قدرت کو ظاہر کرے.کہ اس کے بغیر نہ آپ دنیا کے رہبر بن سکتے ہیں، نہ اس کے معلم بن سکتے ہیں.تو اور بھی ذمہ واریاں ہیں، لیکن دیر کافی ہو گئی ہے، میں بس کرتا ہوں.اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالٰی ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ ان ذمہ واریوں کو سمجھ لے، جو اس پر پڑنے والی ہیں.خواہ وہ براہ راست اپنے رب سے علم حاصل کریں اور میرے معاون بنیں یا جب میں ان کو کسی منصوبہ کی طرف کسی امر کی طرف دعوت دوں، خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق تو وہ سوفی صدی میرے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں.تا کہ ہماراوہ مقصد ہماری زندگیوں میں حاصل ہو جائے کہ ہم اپنی ان آنکھوں سے اسلام کو تمام عالم میں غالب دیکھ لیں.ہمارے دل یہ محسوس کرلیں کہ جس طرح ہمارے دل کی دھڑکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے، اسی طرح ہر دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرمائے اور اللہ تعالیٰ جب تک مجھے زندگی دے تو تو فیق بھی عطا کرے کہ جس قسم کی رہبری کی اور قیادت کی آپ کو ضرورت ہے، میں آپ کے لئے اس کے فضل سے، اس کے سکھانے پر ، اس کی منشاء کے مطابق وہ قیادت میں آپ کو دیتا چلا جاؤں.(آمین ) (رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 277

Page 295

Page 296

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک....جلد چہارم - اقتباس از خطبه جمعه فرمود 22 ستمبر 1967ء اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے جو ہتھیار ہمیں دیا ہے، وہ دعا ہے " خطبہ جمعہ فرمودہ 22 ستمبر 1967ء سفر یورپ میں اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھ کر ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اور یہ دیکھتے ہوئے کہ وہاں غلبہ اسلام کے لئے امکانات واضح ہیں، ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کا یہ اہم کام ہمارے سپرد کیا ہے.لیکن ہم ہر لحاظ سے کمزور ہیں.جہاں تک مادی طاقت کا سوال ہے، ہمیں مادی طاقت نہیں دی گئی.سیاسی اقتدار بھی ہمارے پاس نہیں.نہ ہمیں ضروری سامانوں کی فراوانی حاصل ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس اہم مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک ہتھیار ہمارے ہاتھ میں دیا ہے اور وہ ہتھیار دعا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو، جن سے وہ پیار کرتا ہے اور جنہیں وہ اپنا قرب بخشتا ہے اور ان کمزوروں کو بھی ، جن پر اللہ تعالیٰ محبت کی نگاہ رکھے قبولیت دعا کا نشان دیتا ہے“.ہراحمدی کو اس بات پر یقین کامل رکھنا چاہئے کہ ہم بڑے کمزور ہیں، ہم بڑے غریب ہیں، ہمیں کوئی اثر و رسوخ اور سیاسی اقتدار حاصل نہیں.اور دنیا میں غلبہ اسلام کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے باوجود کہ وو لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وہ کون سی وسعت ہے، جو اس نے ہمیں دی ہے؟ وہ دعا کی وسعت ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو روک لیا، کہا کہ ہم تمہیں نہیں دیں گے.اور کہا کہ یہ کام تمہارے سپر د کرتے ہیں، نکودنیامیں اور یہ کام پورا کرو.دنیا اس کام کو ان ہونا مجھتی ہے اور ان ہونا یقین کرتی ہے.(اپنی حماقت کے نتیجہ میں ) لیکن اللہ تعالیٰ نے ، جس کا یہ وعدہ ہے کہ میں تمہارے ذمہ کوئی چیز نہیں لگاؤں گا، جو تمہاری طاقت میں نہ ہو، یہ کام ہمارے ذمہ لگا دیا.تو ہمیں سوچنا چاہئے کیونکہ اس نے ہمیں عقل دی ہے کہ اس نے ہمیں کیا چیز دی ہے؟ کون سا ہتھیار ہے، جس کے ذریعہ ہم غالب آ سکتے ہیں؟ وہ ہتھیار دعا کا ہے.اس نے مادی طاقتیں ہم سے لے لیں اور اپنا پیار اور دعا ہمارے ہاتھ میں پکڑا دی.اور کہا کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں، تمہاری دعاؤں کو سنوں گا، کسی اور چیز کی تمہیں ضرورت نہیں ہے.جاؤ اور دنیا پر اسلام کو غالب کرو.میں تمہارے ساتھ ہوں، گھبراؤ نہیں“.(رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 279

Page 297

Page 298

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 ستمبر 1967ء احمدیت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے قیام توحید اور غلبہ اسلام کی عظیم مہم جاری کی ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 29 ستمبر 1967ء جماعت میں یہ احساس زندہ اور بیدار رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرما کے اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قیام سے توحید خالص کے قیام اور غلبہ ء اسلام کی ایک عظیم مہم جاری کی ہے.اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اس زمانہ میں اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے گا.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوئے تلے دنیا کی ہر قوم کی گردن کو لے آئے گا.اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہے کہ مخالف کی تدبیریں، اگر اس حد تک بھی پہنچ جائیں کہ ان کے نتیجہ میں پہاڑ اپنی جگہوں سے ہلا دیئے جائیں ، تب بھی وہ کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ نا کام ہی رہیں گے.کامیابی اللہ تعالیٰ کی اس خادم اسلام جماعت کو ہی نصیب ہوگی.اس مہم کے اجراء سے جماعت پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اور اس احساس کو زندہ اور بیدار رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی اور ایثار کا نمونہ ہمیں دکھانا پڑتا ہے.اور آئندہ نسلوں میں بھی اس احساس کو بیدار رکھنا ضروری ہے.کیونکہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے ، وہ ایک نسل کا کام نہیں.اس وقت بھی ہماری اکثریت تابعین کی ہے.یعنی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو دیکھا نہیں.دیکھنے والے تو بہت تھوڑے رہ گئے ہیں.لیکن صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنے والے کثرت کے ساتھ اس وقت جماعت احمدیہ میں ہیں.تو احمدیت کے لحاظ سے آئندہ نسل، احمدیت کی تیسری نسل ہے.اور ابھی ہم کامیابی کی راہوں پر چل رہے ہیں، اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچے.اور نہیں کہا جاسکتا کہ کب ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچیں گے؟ میں نے بڑا غور کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہم پر ، جو دوسری نسل احمدیت کی اس وقت ہے اور ہماری اگلی نسل پر ، جو اس وقت بچے ہیں، ان دو نسلوں پر قربانیاں دینے کی انتہائی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.کیونکہ ہم ایک ایسے زمانہ میں داخل ہو چکے ہیں، جس میں ترقی اسلام کے لئے جو مہم جاری کی گئی ہے، وہ اپنے انتہائی نازک دور میں داخل ہو چکی ہے.ہمیں اور آنے والی نسل کو انتہائی قربانیاں دینی پڑیں ما.تب ہمیں اللہ تعالیٰ وہ عظیم فتوحات عطا کرے گا، جس کا اس نے ہم سے وعدہ کیا ہے.281

Page 299

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 ستمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پس ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے دلوں میں بھی اس احساس کو زندہ کریں اور زندہ رکھیں کہ عظیم فتوحات کے دروازے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے کھول رکھے ہیں.اور ان دروازوں میں داخل ہونے کے لئے عظیم قربانیاں انہیں دینی پڑیں گی.اور ان سے ایسے کام کرواتے رہیں کہ ان کو ہر آن اور ہر وقت یہ احساس رہے کہ غلبہ اسلام کی جو مہم اللہ تعالیٰ نے جاری کی ہے، اس میں ہمارا بھی حصہ ہے.ہم نے بھی کچھ کنٹری بیوٹ کیا ہے.ہم نے بھی اس کے لئے کچھ قربانیاں دی ہیں.ہم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ویسے ہی امیدوار ہیں ، جیسا کہ ہمارے بڑے ہیں.وو اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت کے سارے بچے اور وہ ماں باپ، جن کا ان بچوں سے تعلق ہے، اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس بات کو اچھی طرح جانے لگیں کہ جب تک بچے کو عملی تربیت نہیں دی جائے گی، اللہ تعالیٰ کی فوج کا وہ سپاہی نہیں بن سکے گا.اگر وہ دین کے لئے ابھی سے ان سے قربانیاں لیں تو یہ نسل اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری طرح تربیت یافتہ ہوگی.اور جب ان کے کندھوں پر جماعت کے کاموں کا بوجھ پڑے گا تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور ان کو نباہنے کے لئے کوشاں رہیں گے.میرے دل میں یہ احساس ہے کہ جماعت نے بحیثیت مجموعی اس کی طرف وہ توجہ نہیں دی، جو اس کو دینی چاہئے.بڑے نیک نمونے بھی ہیں.ہماری جماعت میں ایسے بچے ہیں ، جن کو تحریک نہیں کی گئی اور پھر بھی ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہمارے بڑوں پر ہی نہیں ، ہم پر بھی قربانیوں کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ قربانیاں دیتے ہیں.بچے کا ذہین اس قسم کے خیالات کا اظہار صرف اس وقت کر سکتا ہے، جب وہ یہ دیکھے کہ اس کے ماحول میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں.اگر اس کے ماں باپ کو اسلام کی ضرورت کا خیال ہی نہ ہو، اگر اس کے ماں باپ اسلام کی ضرورتوں کے متعلق اپنے گھر میں باتیں ہی نہ کرتے ہوں، اگر اس کے ماں باپ اس کا تذکرہ گھر میں نہ کرتے ہوں کہ ہمیں اپنی ضرورتیں چھوڑ دینی چاہئیں اور آج اسلام کی ضرورت وو " کو مقدم رکھنا چاہیے.اگر یہ نہ ہو گھر کا ماحول تو گھر کے بچوں کی تربیت ایسی ہو ہی نہیں سکتی.بی احساس کہ میری ضرورتیں اسلام کی ضرورتوں پر قربان ہو جانی چاہئیں ، اگر ہر بچے کے دل میں پیدا ہو جائے تو ہمیں کل کی فکر نہ رہے.ہم اس یقین سے پر ہو جائیں کہ جب آئندہ کسی وقت ہمارے بچوں کے کندھوں پر جماعت احمدیہ کا بوجھ پڑے گا، وہ اسے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اور اس بوجھ کا حق ادا کرتے ہوئے ، اس کو ادا کریں گے.282

Page 300

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 29 ستمبر 1967ء اس خطبہ کے ذریعہ میں اپنے تمام بچوں کو ، جو احمدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں.اور ان کے والدین اور گارڈین (سر پرستوں) کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ یہ پسند کرتے ہوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آپ پر نازل ہو رہی ہیں، اسی طرح آپ کی اولا د اور نسل پر بھی نازل ہوں تو آپ اپنے بچوں کی تربیت کچھ اس رنگ میں کریں کہ ہر ایک کے دل میں یہ احساس زندہ ہو جائے اور ہمیشہ بیدارر ہے کہ ایک عظیم مہم اللہ تعالیٰ نے توحید کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جاری کی ہے، احمدیت کی شکل میں.اور اب ہمیں اپنا سب کچھ قربان کر کے اس مہم میں حصہ لینا اور اسے کامیاب کرنا ہے.اور اللہ تعالٰی کے ان انتہائی فضلوں اور رحمتوں کا وارث بنتا ہے، جن کا وعدہ اس نے ہم سے کیا ہے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 17 نومبر 1967ء) 283

Page 301

Page 302

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه نکاح فرمودہ 109 اکتوبر 1967ء اسلام کو بہت سے فدائی اور جاں نثار خادموں کی ضرورت پڑنے والی ہے وو خطبہ نکاح فرمودہ 09اکتوبر 1967ء مستقبل قریب میں اسلام کو بڑی کثرت کے ساتھ فدائی اور جاں نثار خادموں کی ضرورت پڑنے والی ہے.اگر ہمارے عزیز بچے اور عزیز بچیاں اس نیت اور دعا کے ساتھ اپنے ازدواجی رشتوں کو قائم کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ ایسی نسل پیدا کرے، جو وقت کے تقاضا اور اسلام کی ضرورت کو پورا کرنے والی ہوتو اللہ تعالیٰ ایسے رشتوں میں بڑی برکت ڈالے گا.اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه روزنامه الفضل 20 اکتوبر 1967ء) 285

Page 303

Page 304

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خلاصہ تقریر فرموده 12 اکتوبر 1967ء مسجد نصرت جہاں کی مقبولیت خواتین کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتی ہے تقریر فرموده 12 اکتوبر 1967ء حضرت خلیفة المسیح الثالث کی خدمت میں جامعہ نصرت ربوہ کی طرف سے ایک استقبالیہ دیا گیا.اس موقع پر سپاسناموں کے جواب میں حضور نے ایک اہم تقریرفرمائی ، جس کا مخص درج ذیل ہے.سب سے قبل میں پیش کردہ سپاسناموں کا شکریہ ادا کرتا ہوں.اس کے بعد میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کوپن ہیگن کی مسجد نصرت جہاں کو جو عظیم الشان مقبولیت حاصل ہوئی ہے، وہ احمدی مستورات اور بچیوں پر ایک عظیم ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے.آج تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق مسجد نصرت جہاں کے افتتاح کا نظارہ مختلف ممالک میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ کروڑوں لوگوں نے دیکھا ہے.مملکت سعودی عرب میں بھی ، جہاں ہمارا قبلہ کعبہ ہے اور جس میں ہمارے آقا سید نا رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ اطہر ہے، یہ تصویریں دو مرتبہ ٹیلی ویژن پر دکھانے کا اہتمام کیا گیا.مسجد نصرت جہاں کی افتتاحی تقریب کے یہ مناظر ڈنمارک، سکنڈے نیویا، جرمنی ، سعودی عرب، مصر، نائیجیریا، گھانا اور سیرالیون میں دکھائے جاچکے ہیں.ہوسکتا ہے، اس وقت تک امریکہ میں بھی یہ مناظر دکھائے جاچکے ہوں.کیونکہ انہوں نے بھی اس کا مطالبہ کیا ہے.جہاں تک کو پن میگن کی مسجد اور اس کے افتتاح کی شہرت اور تصاویر دکھائے جانے کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے محض اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں اس کی شہرت پہنچ چکی ہے.اس میں میرا یا آپ کا کوئی دخل نہیں.یہ چھ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے.لیکن اس کے مقابل جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں، وہ بہت اہم ہیں.کوپن ہیگن کی ایک صحافی خاتون کو جب میں نے یہ بتایا کہ ہم دلوں کو فتح کر کے اسلام کو غالب کریں گئے تو اس نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ ”ہمارے دل لے کر آپ کیا کریں گے؟ تو میں نے جواب دیا کہ ہم لوگوں کے دل جیت کر اپنے پیدا کرنے والے کے قدموں میں جارکھیں گے.میرے اس فقرہ نے اسے بے حد متاثر کیا.میرا یہ جواب آپ کی اور میری ایک اہم ذمہ داری کا اعلان بھی ہے.ہمیں یہ 287

Page 305

خلاصہ تقریر فرموده 12 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہمارے دل ہمارے محبوب مولا کے قدموں میں پڑے ہیں یا دنیا کی لذت کے لئے بے چین ہیں ؟ اگر ہم دنیا کو دین پر مقدم کرنے والے ہوں گے.تو وہ لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ آپ ہمارے دلوں کو کیسے خدا تعالیٰ کے قدموں میں رکھیں گے جبکہ اپنے دلوں پر آپ کو قدرت حاصل نہیں ہے اور وہ آپ کے قابو میں نہیں ہیں ؟؟؟ اگر ہم نے اپنی عظیم ذمہ داری کو سمجھ لیا تو انشاء اللہ ان فضلوں کے وارث ہوں گے، جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے مسیح پاک علیہ السلام سے کر رکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کے مردوں اور عورتوں کو بڑی بشارتیں دی ہیں.علاوہ ازیں ہمارا یہ ایمان بھی ہے کہ موت کے ساتھ ہماری زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ موت سے ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوتی ہے.اگر کوئی اخروی زندگی میں نعمتوں کا خواہش مند ہے تو اسے اس دنیا میں بھی خدا کی رضا کی جنت حاصل کرنے کی سعی کرنی ہوگی.اور یہ ہم سب کا ذاتی فرض ہے.کیونکہ کوئی دوسرا ہمیں پکڑ کر اس جنت میں داخل کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے بھی تمثیلی رنگ میں فرمایا تھا.اگر میرے ساتھ چلنا ہے تو اپنی صلیب خود اٹھاؤ“.دنیائے عیسائیت نے اس تمثیل کو سمجھا نہیں اور غلط عقیدہ پر قائم ہو گئے.لیکن ہمارا عقیدہ تو یہ ہے، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ” میرے بعثت کی غرض یہ ہے کہ دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑ دوں ، جس نے حضرت مسیح ناصری کی ہڈیوں کو توڑا اور جسم کو زخمی کیا تھا.سو واضح ہو کہ اگر ہم نے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنی ہے اور شیطانی ظلمتوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو ہمیں ایسا مجاہدہ کرنا ہے، جو ہمیں نور کی فضا میں لے جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت میں پہنچا دے.اگر آپ اپنے دلوں کو اپنے محبوب حقیقی کے قدموں میں رکھ دیں تو ان دلوں کو وہیں سکون وقرار ملے گا.جب ایک دل کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے تو اسے کہیں بھی قرار نہیں ملتا.مسلمان کی تمام زندگی ہی ایک مجاہدہ ہے.کبھی تو کان سے مجاہدہ کرتا ہے اور کبھی آنکھ سے اور کبھی دوسرے اعضاء و جوارح سے مجاہدہ کرتا ہے.بچے کی پیدائش پر ان کے کان میں اذان دینے میں ایک حکمت یہ ہے کہ اسے یہ سبق دیا جائے کہ مجاہدہ کی زندگی شروع ہو چکی ہے.چند لمحوں کا وہ بچہ اذان کی آواز کو محفوظ کر لیتا ہے.اور ایک مسلمان، جس کی زندگی کی ابتداء مجاہدہ کے پیغام سے شروع ہوتی ہے، تمام زندگی جد و جہد کرتا رہتا ہے.حتی کہ جس روز وہ اس دنیا کو چھوڑتا ہے تو فرشتے اسے کامیابی کی بشارت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آؤ اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت میں داخل ہو جاؤ، جس کے دروازے تمہاری مساعی جمیلہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے کھولے ہیں.288

Page 306

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خلاصہ تقریر فرموده 12 اکتوبر 1967ء احمدی مستورات نے کوپن ہیگن کی مسجد کے علاوہ بھی اپنے چندوں سے یورپ میں دیگر مساجد بنوائی ہیں.لیکن جو نظارہ مسجد نصرت جہاں کے افتتاح کے وقت دیکھنے میں آیا، اس کا الفاظ میں بیان کرنا محال ہے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہاں سبھی لوگ مسحور ہو گئے ہیں.چنانچہ ڈنمارک کے چرچ بلیٹن نے ایک نوٹ لکھا کہ ” ڈنمارک کے لوگوں کے عقائد اسلام سے اس طرح ملتے ہیں ، جس طرح پانی کے دو قطرے“.اس بلیٹن کے اس نوٹ کے انداز تحریر سے عیاں ہوتا ہے کہ عیسائی دنیا میں اس بات سے بہت گھبراہٹ پیدا ہو گئی ہے کہ ایسے لوگ ، جو بظاہر تو عیسائی ہیں مگر عقیدہ مسلمان ہیں، اب عملاً اسلام میں داخل نہ ہو جائیں اور عیسائیت کو شکست نہ ہو.جو کچھ میں نے وہاں محسوس کیا، اسی کی بناء پر میں نے آپ لوگوں کو مبارک باد دی تھی کہ احمدی مستورات کی کوشش نے مقبولیت کا شرف حاصل کر لیا ہے.اس کے بعد آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.یادر ہے کہ محض کوشش بھی بریکار ہے، جب تک دل کے تقویٰ کی حالت قابل قبول نہ ہو.اگر دل کے کسی گوشہ میں اپنی ذہانت، خوبصورتی ، خاندانی وجاہت یا دولت و ثروت کے غرور کا شائبہ ہو تو خدا تعالیٰ اس دل کو چھوڑ دیتا ہے.لیکن اپنے دل کو خدا تعالیٰ کے لئے مخصوص کر دینے والے کے دل میں جلوہ گر ہوتا ہے.کو پین بیگن کی مقبولیت جوا ہم ذمہ داریاں آپ پر ڈالتی ہے، میں اس کی طرف خاص طور پر آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اگر آپ اپنی ذمہ داری کو اس لئے اہم نہ سمجھیں کہ ابھی آپ تعلیمی دور میں سے گزر رہی ہیں تو یہ محض غلط فہمی ہے.کیونکہ اسلام تو ایک دن کے بچے کو مجاہدہ کا درس دیتا ہے.سویڈن کی ایک طالبہ کی مثال آپ کے لئے قابل رشک ہوگی.میرے ڈنمارک کے قیام کے دوران ایک خاتون طالب علم سویڈن سے ڈنمارک اسلام کے متعلق گفتگو کرنے آئی.اس نے ہمارے مبلغ سے تبادلۂ خیالات کیا اور مجھ سے بھی ملنے کی اجازت طلب کی.میں نے اسے گفتگو کا موقع دیا تو اس لڑکی نے سوال کیا کہ اسلام اور احمدیت ایک ہی ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ”میرے نزدیک تو یہ دونوں ایک ہی ہیں.یہ سن کر اس نے کہا کہ ”پھر میری بیعت اسی وقت لے لیں.ایک طالبہ کا دین کے معاملہ میں یہ ذوق و شوق خدائی تصرف تھا.اور فرشتے نے اسے کہا کہ اٹھ اور ڈنمارک میں جا کر اسلام قبول کر.اس واقعہ میں آپ طالبات کے لئے بھی ایک سبق ہے.لہذا آپ سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.مسلمان بچیاں خواہ وہ کالج میں ہوں یا اسکول میں، ایک چیز مشترکہ طور پر ان کے مد نظر رہنی چاہئے کہ ہم نے ایک مسلمان خاتون کی زندگی گزارنی ہے.اگر دنیا دھتکار بھی دے تو 289

Page 307

خلاصہ تقریر فرموده 12 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم آپ کو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ خدا نے آپ کو قبول کر لیا ہے.لہذا آپ ایک احمدی بچی کی زندگی گزاریں.اس کے بغیر ہم ان عظیم الشان بشارتوں کے وارث نہیں ہو سکتے ، جو ہمارے تصور سے بھی بالا ہیں.اور جن کا وعدہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ذریعہ سے کیا گیا.اساتذہ جامعہ نصرت کو بھی میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسی مقصد کو اپنے سامنے رکھیں کہ وہ بچیوں کی صحیح رنگ میں تربیت کریں گی اور دین کی کچی روح ان میں پھونک دیں گی تا وہ اسلام اور احمدیت کی فدائی بن سکیں.اللهم امین“.مطبوعه روزنامه الفضل 07 نومبر 1967ء) 290

Page 308

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1967ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.خطبہ جمعہ فرمودہ 20اکتوبر 1967ء دوست جانتے ہیں کہ سفر یورپ پر جب میں گیا تھا تو لنڈن میں وانڈ زورتھ ہال میں، میں نے ایک انگریزی میں ایک مضمون پڑھا تھا، جس میں انگلستان اور یورپ کے رہنے والوں بلکہ ساری دنیا کی اقوام کو مخاطب کر کے انہیں اس طرف دعوت دی تھی کہ اگر وہ اپنے رب، اپنے خالق کی طرف رجوع نہیں کریں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سایہ تلے جمع نہ ہوں گے تو ایک نہایت ہی عظیم تباہی ان کے لئے مقدر ہو چکی ہے، جو قیامت کا نمونہ ہوگی.میرا یہ مضمون تبلیغ کے لحاظ سے بڑا ہی مفید ثابت ہورہا ہے، جو حض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے.جب ہمارے گورنر جنرل گیمبیا نے یہ مضمون ریویو آف ریجنز میں پڑھا تو انہوں نے مزید کا پیوں کی خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنے دوستوں کو بھی یہ مضمون پڑھانا چاہتے ہیں.کل ہی امام کمال یوسف کا ڈنمارک سے خط آیا ہے.افسوس ہے کہ ابھی تک اس مضمون کا ترجمہ ڈینش زبان میں نہیں ہو سکا.لیکن ہر اس شخص نے ، جس کو ہم نے یہ مضمون پڑھایا ہے، احمدی تھے یا غیر احمدی یاز مرتبلیغ عیسائی، ہر ایک نے یہ مضمون پڑھنے کے بعد اس بات پر زور دیا ہے کہ اس مضمون کا جلد ترجمہ ہونا چاہئے ڈینش زبان میں اور وسیع اشاعت ہونی چاہیے.میرے اس پیغام کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ پر بھی ، جس کو اللہ تعالیٰ نے تو فیق دی ہے ، اسلام کے خدا کی حقیقی شناخت کی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانوں کی معرفت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو پہچانے کی ، اس پر بھی اس دعوت کے نتیجہ میں ذمہ داریاں پہلے سے بڑھ گئی ہیں.کیونکہ جب ہم ان اقوام کو ، جو دنیوی علوم میں بہت بلندیاں حاصل کر چکی ہیں، اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں اور انہیں جھنجوڑتے ہیں اور انہیں یہ بتاتے ہیں کہ اسلام لے آؤ، اسلام کے اللہ کی شناخت کرو، اس کی طرف رجوع کرو، اس کی محبت اپنے دل میں پیدا کرو تو اگر وہ ہماری بات مان لیں اور کہیں کہ اچھا ہم 291

Page 309

خطبہ جمعہ فرموده 200 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اسلام کو سمجھنے کے لئے تیار ہیں ، آؤ اور ہمیں اسلام سمجھاؤ تو اس وقت ہمارے پاس اتنے آدمی ، مرد و عورت ، جوان، بوڑھے ہونے چاہیں کہ اس مطالبہ کو پورا کر سکیں.اب جب ہم نے جھنجھوڑ کے ان اقوام کو اسلام کی طرف بلایا ہے، یہ ذمہ داری ہم پر اور بھی بڑھ گئی ہے.تو ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لئے آج میں وہی مضمون اردو میں اپنے دوستوں کو یہاں سنانا چاہتا ہوں.کیونکہ مجھ پر اثر یہ ہے کہ اب بہت سے پڑھے لکھے احمدی بھی باقاعدگی کے ساتھ ہماری جماعت کے رسالوں اور اخبارات کو نہیں پڑھتے.جب تک جماعت کے ہر فرد کو یہ علم نہ ہو کہ للہ تعالیٰ کے کس قدر احسان اور کس رنگ میں جماعت پر ہورہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کا شکر دل میں پیدا نہیں ہو سکتا.اور جب تک جماعت کے ہر فرد کو یہ پتہ نہ ہو کہ جماعت کو اللہ تعالیٰ کس طرف لے جارہا ہے اور جماعت سے کیا کام لینا چاہتا ہے؟ اس وقت تک اس کام کی ادائیگی کی ذمہ داری کا احساس ان کے دل میں پیدا نہیں ہوسکتا.اس لئے یہ احساس پیدا کرنے کے لئے ، یہ بتانے کے لئے کہ میں نے کس رنگ میں اور کن الفاظ میں ان اقوام کو مخاطب کیا ہے؟ اس مضمون کو آپ کے سامنے پڑھنا چاہتا ہوں.اس کے مخاطب جیسا کہ میں نے کہا ہے، وہ اقوام ہیں، جود ہر یہ ہیں یا عیسائی ہیں یالا مذہب ہیں.میں نے ان اقوام کو مندرجہ ذیل الفاظ میں مخاطب کیا تھا.امن کا پیغام اور ايك صرف انتباه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.احمد یہ جماعت کے امام کی حیثیت میں مجھے ایک روحانی مقام پر فائز ہونے کی عزت حاصل ہے.اس حیثیت میں مجھ پر بعض ایسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، جن کو میں آخری سانس تک نظر انداز نہیں کر سکتا.میری ان ذمہ داریوں کا دائرہ تمام بنی نوع انسان تک وسیع ہے اور اس عقد اخوت کے اعتبار سے مجھے ہر انسان سے پیار ہے.احباب کرام! انسانیت اس وقت ایک خطر ناک تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے.اس سلسلہ میں، میں آپ کے لئے اور اپنے تمام بھائیوں کے لئے ایک اہم پیغام لایا ہوں.موقع کی مناسبت کے پیش نظر میں اسے مختصر بیان کرنے کی کوشش کروں گا.میرا یہ پیغام امن و صلح اور انسانیت کے لئے امید کا پیغام ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ پورے غور کے ساتھ میری ان مختصر باتوں کو سنیں گے اور پھر ایک غیر متعصب دل اور روشن دماغ کے ساتھ ان پر غور کریں گے.292

Page 310

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 20 اکتوبر 1967ء میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ 1835 ء انسانی تاریخ میں ایک نہایت ہی اہم سال تھا.کیونکہ اس سال شمال ہند کے ایک غیر معروف اور گمنام گاؤں قادیان کے ایک ایسے گھرانہ میں ، جو ایک وقت تک اس علاقہ کا شاہی گھرانہ رہنے کے باوجود شہزادگی کی سب شان و شوکت کھو بیٹھا تھا، ایک ایسے بچے کی پیدائش ہوئی ، جس کے لئے مقدر تھا کہ وہ نہ صرف روحانی دنیا میں بلکہ مادی دنیا میں بھی ایک انقلاب عظیم پیدا کرے.اس بچے کا نام والدین نے مرزا غلام احمد رکھا.اور بعد میں وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے اور مسیح اور مہدی کے خدائی القاب سے مشہور ہوا ، علیہ السلام.مگر قبل اس کے کہ میں اس روحانی اور مادی انقلاب عظیم پر روشنی ڈالوں ، میں آپ کی سوانح نہایت مختصر الفاظ میں پیش کرنا چاہتا ہوں.تاریخی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی پیدائش 13 فروری 1835ء میں ہوئی.اور جس زمانہ میں آپ پیدا ہوئے ، وہ زمانہ نہایت جہالت کا زمانہ تھا اور لوگوں کی تعلیم کی طرف بہت کم توجہ تھی.یہاں تک کہ اگر کسی کے نام کوئی خط آتا تو اسے پڑھوانے کے لئے اسے بہت محنت اور مشقت برداشت کرنی پڑتی.اور بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا کہ ایک لمبا عرصہ خط پڑھنے والا کوئی نہ ملتا.جہالت کے اس زمانہ میں آپ کے والد نے بعض معمولی پڑھے لکھے اساتذہ آپ کی تعلیم پر مقرر کئے.جنہوں نے آپ کو قرآن کریم پڑھنا سکھایا.مگر وہ اس قابل نہ تھے کہ معارف قرآنی اور اسرار روحانی کی ابتدائی تعلیم بھی آپ کو دے سکتے.اس کے علاوہ ان اساتذہ نے عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم آپ کو دی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو عربی اور فارسی پڑھنی آگئی.اس سے زیادہ آپ نے اساتذہ سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی.سوائے طب کی بعض کتب کے، جو آپ نے اپنے والد سے پڑھیں.جو اس زمانہ میں ایک مشہور طبیب تھے.یہ تھی وہ کل تعلیم ، جو آپ نے درسی طور پر حاصل کی.اس میں شک نہیں کہ آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اور آپ اپنے والد صاحب کے کتب خانہ کے مطالعہ میں بہت مشغول رہتے تھے.لیکن چونکہ اس زمانہ میں علم کی خاص قدر نہ تھی اور آپ کے والد کی خواہش تھی کہ وہ دنیوی کاموں میں اپنے والد کا ہاتھ بٹائیں اور دنیا کمانے اور دنیا میں عزت کے ساتھ رہنے کا ڈھنگ سیکھیں، اس لئے آپ کے والد آپ کو کتب کے مطالعہ سے ہمیشہ روکتے رہتے تھے اور فرماتے تھے کہ زیادہ پڑھنے سے تمہاری صحت پر برا اثر پڑے گا.ظاہر ہے کہ اس قدر معمولی تعلیم کا مالک وہ عظیم کام ہرگز نہیں کر سکتا تھا، جو اللہ تعالیٰ آپ سے لینا چاہتا تھا.اس لئے خدا خود آپ کا معلم اور استاد بنا اور خود اس نے آپ کو معارف قرآنی اور اسرار روحانی اور 293

Page 311

خطبہ جمعہ فرمودہ 20اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دنیوی علوم کے بنیادی اصول سکھائے.اور اس کے ذہن کو اپنے نور سے منور کیا اور اسے قلم کی بادشاہت اور بیان کا حسن اور شیرینی عطا کی.اور اس کے ہاتھ سے بیسیوں بے مثل کتب لکھوائیں اور بیسیوں شیریں تقاریر کروائیں ، جو علم اور معرفت کے خزانوں سے بھری ہوئی ہیں.1835ء کا سال اس قدر اہم اور اس سال پیدا ہونے والا بچہ اس قدر عظیم تھا کہ پہلے نوشتوں میں اس کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی.اس ضمن میں ، میں صرف ایک پیشگوئی بتانا چاہتا ہوں اور وہ پیشگوئی حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، جو آپ نے اس مولود کے متعلق قریباً تیرہ صد سال قبل دی تھی.اور وہ یہ ہے، آپ نے فرمایا:.ان لمهدينا ايتين لم تكونا منذ خلق السموات والارض ينكسف القمر لاول ليلة من رمضان وتنكسف الشمس فى النصف منه ولم تكونا منذ خلق السموات والأرض.دار قطنی جلد اول صفحہ 188 مؤلفہ حضرت علی بن عمر بن احمد الدار قطنی مطبوعہ مطبع انصاری) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ امت مسلمہ میں بہت سے جھوٹے دعویدار کھڑے ہوں گے، جو یہ دعوی کریں گے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مہدی ہیں.حالانکہ وہ مہدی نہ ہوں گے.مہدویت کا سچا دعویداروہ ہوگا، جس کی صداقت کے ثبوت کے لئے آسمان دونشان ظاہر کرے گا.یعنی چاند اور سورج اس کی سچائی پر گواہ ٹھہریں گے.اس طرح کہ رمضان کے مہینے میں چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات یعنی 13 ماہ رمضان کو چاند گرہن ہو گا اور اسی رمضان میں سورج گرہن ہونے کے درمیانے دین یعنی 28 رمضان کو سورج گرہن ہوگا.مہینوں میں سے یاہ رمضان کی تعیین اور چاند کے لئے پہلی رات کی تعیین اور سورج کے لئے درمیانے دن کی تعیین غیر معمولی تعیین ہے، جو انسانی طاقت اور علم اور فہم سے بالا ہے.چنانچہ جب وقت آیا تو ایک مدعی نے واقعی ظہور کیا اور دعویٰ کیا کہ میں مہدی ہوں اور اس کے دعوے کے ثبوت کے طور پر دونوں نشان یعنی چاند اور سورج گرہن، جس طرح کہ پیش گوئی میں بتائے گئے تھے، ظہور میں آئے.پس یہ ایک غیر معمولی اور معجزانہ پیشگوئی تھی، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مہدی کے لئے کی تھی اور جیسا کہ واقعات نے ثابت کیا، یہ پیشگوئی اپنے وقوعہ سے قریباً تیرہ صد سال قبل کی گئی تھی.یہ پیشگوئی انسانی عقل اور قیافہ اور علم سے بالا ہے.پھر یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ وہ عظیم بچہ ، جو 1835ء میں پیدا ہوا تھا، اس نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر 1891ء میں دنیا میں یہ اعلان کیا کہ وہی موعود مہدی ہے.اور اپنے دعوی کی صداقت کے 294

Page 312

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 20 اکتوبر 1967ء ثبوت کے لئے ہزاروں عقلی اور نقلی دلائل اور آسمانی تائیدات اور اپنی پیشگوئیاں ، جن میں سے بہت سی اس کے زمانہ میں پوری ہو چکی تھیں اور بہت تھیں، جن کے پورا ہونے کا وقت ابھی بعد میں آنے والا تھا، دنیا کے سامنے پیش کیں.مگر وقت کے علماء نے اس کے دعوئی کو جھٹلایا اور انکار کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ مہدی کے لئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی معینہ تاریخوں میں چاند اور سورج کا گرہن بطور علامت کے بیان کیا تھا.چونکہ اس پیشگوئی کے مطابق چاند اور سورج کو گرہن نہیں لگا ، اس سے ثابت ہوا کہ آپ اپنے دعوے میں سچے نہیں.لیکن وہ قادر وتوانا خدا، جو اپنے وعدہ کا سچا اور اپنے مخلص عباد کے ساتھ وفا اور پیار کا سلوک کرنے والا ہے، اس نے عین اپنے وعدہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق 1894ء کے ماہ رمضان میں معینہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن کی حالت میں کر دیا اور دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا اور ہر دو جہاں کا رب، بڑی عظمت اور جلال اور قدرت کا مالک ہے.نہ صرف ایک دفعہ بلکہ یہی نشان رمضان ہی کے مہینہ میں اور عین معینہ تاریخوں پر 1895ء میں دوسری دنیا کو دکھایا.تا مشرق اور مغرب اور پرانی اور نئی دنیا کے بسنے والے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے روحانی فرزند حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی صداقت کے گواہ ٹھہر ہیں.پس عظیم ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جس نے اپنے خدا سے علم پا کر یہ معجزانہ پیشگوئی فرمائی اور عظیم ہے آپ کا وہ روحانی فرزند، جس کے حق میں وہ پوری ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے زمانہ تک اگر چہ کئی پیدا ہوئے ، جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر ان میں سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے علاوہ کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جس کی مہدویت کی صداقت پر چاند اور سورج گواہ بنے ہوں.یہ ایک بات ہی اس امر کے لئے کافی ہے کہ آپ ٹھنڈے دل اور گہرے فکر سے اس مدعی کے دعوئی پر غور کریں ، جس کا پیغام میں آج آپ تک پہنچارہا ہوں اور جس کی عظمت اور صداقت پر چاند اور سورج بطور گواہ کھڑے ہیں.سورج اور چاند کی شہادت تو میں بیان کر چکا، اب آئیے ، زمین کی آواز سنیں ، وہ کیا کہتی ہے؟ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کی وجہ سے اور آپ کی صداقت کے ثبوت میں زمین پر ایک حیرت انگیز اور محیر العقول مادی اور روحانی انقلاب ہونا مقدر تھا.درحقیقت تمام انقلابات اور تمام تاریخی تغیرات اسی ایک انقلاب کے سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں، جو آپ کے دنیا میں مبعوث ہونے کے ساتھ شروع ہوا تھا.اور جو آپ کی صداقت کے ثبوت کے طور پر بطور گواہ کے ہے.مزید برآں یہ سب انقلابات اور انسانی تاریخ کے سب اہم موڑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق ہیں.چند مثالیں میں پیش کرتا ہوں:.295

Page 313

خطبہ جمعہ فرمودہ 20اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم آپ کے دعوئی کے وقت مہذب اور فاتح مغربی طاقتوں کے مقابلہ میں کسی مشرقی طاقت کا کوئی وجود نہ تھا لیکن 1904 ء میں آپ نے دنیا کو یہ بتایا کہ عنقریب مہذب اور فاتح مغربی طاقتوں کے رقیب کی حیثیت میں دنیا کے افق پر ایسی مشرقی طاقتیں ابھرنے والی ہیں، جن کی طاقت کا لوہا مغربی طاقتوں کو بھی ماننا پڑے گا.چنانچہ جلد ہی اس کے بعد جنگ روس و جاپان میں جاپان نے فتح پائی.اور وہ ایک مشرقی طاقت کے طور پر افق دنیا پر نمودار ہوا.پھر دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو چین ایک مشرقی طاقت کی حیثیت میں افق دنیا پر اپنی پوری مشرقیت اور طاقت کے ساتھ نمودار ہوا اور انسانی تاریخ میں ان ہر دو طاقتوں کے عروج کے ساتھ ایک نیا موڑ آیا، جن کے اثرات انسانی تاریخ میں اتنے وسیع اور اہم ہیں کہ کوئی شخص ان سے انکار نہیں کر سکتا.اور یہ جو کچھ ہوا، الہی منشاء اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہوا.ہمارے زمانے کا دوسرا اہم واقعہ، جس سے قریباً ساری دنیا کسی نہ کسی رنگ میں متاثر ہوئی ہے، زار روس اور شاہی نظام کی کامل تباہی اور بربادی اور کمیونزم کا بر سراقتدار آنا ہے.روسی انقلاب کا عظیم سانحہ، جس نے دنیا کی تاریخ کا رخ ایک خاص سمت موڑ دیا ہے، بھی آپ کی پیشگوئی کے عین مطابق منصہ ظہور میں آیا.آپ نے 1905ء میں زار روس اور شاہی خاندان اور شہنشاہیت کی کامل تباہی اور زبوں حالی کی خبر دی - تھی.اور یہ حیرت انگیز اتفاق ہے کہ اسی سال اس پیشگوئی کے چند ماہ بعد ہی وہ سیاسی پارٹی معرض وجود میں آئی، جوقریباً بارہ، تیرہ سال بعد شاہی خاندان اور شاہی نظام حکومت کی تباہی کا باعث بنی.اور اس کے بعد کمیونزم پہلے روس میں اور پھر دنیا کے دیگر مقامات میں برسراقتدار آیا.یہ ایک ایسی کھلی ہوئی بات ہے، جس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.زار روس کی تباہی اور کمیونزم کا غلبہ اور اقتدار تاریخ انسانیت کا نہایت دکھ دہ المیہ اور اہم ترین واقعہ ہے.جس کے پڑھنے سے گودل میں دردتو پیدا ہوتا ہے لیکن اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں.دنیا کا کوئی ملک بھی بشمول آپ کے ملک کے اس کے اثر سے بچ نہیں سکا.لیکن ہمارے لئے ان تبدیلیوں پر حیران ہونے یا تشویش کرنے کی کوئی وجہ نہیں.کیونکہ ان تغیرات کی سمت، رفتار اور شدت کے بارے میں ہمیں مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے ہی خبریں دے دی تھیں.اور آئندہ اپنے وقت پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کس طرح یہ تغیرات خدائی ارادے کی تکمیل میں مد ہوئے.ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ میں دو طاقتیں ایسی ابھریں گی کہ دنیا ان میں بٹ جائے گی اور کوئی اور طاقت ان کا مقابلہ نہ کر سکے گی.پھر وہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ کر کے 296

Page 314

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 20 اکتوبر 1967ء اپنی تباہی کا سامان پیدا کریں گی.لیکن صرف اس ایک جنگ کے بارے میں ہی پیشگوئی نہیں تھی بلکہ بانی سلسلہ احمدیہ نے پانچ عالمگیر تباہیوں کی خبر دی ہے.پہلی جنگ عظیم کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ دنیا سخت گھبرا جائے گی ، مسافروں کے لئے وہ وقت سخت تکلیف کا ہوگا، ندیاں خون سے سرخ ہو جائیں گی، یہ آفت یک دم اور اچانک آئے گی.اس صدمہ سے جوان بوڑھے ہو جائیں گے، پہاڑ اپنی جگہوں سے اڑا دیئے جائیں گے، بہت سے لوگ اس تباہی کی ہولناکیوں سے دیوانے ہو جائیں گے.یہی زمانہ زار روس کی تباہی کا ہوگا.اس زمانے میں کمیونزم کا بیج دنیا میں بویا جائے گا، جنگی بیڑے تیار رکھے جائیں گے اور خطر ناک سمندری لڑائیاں لڑی جائیں گی.حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے گا،شہر قبرستان بن جائیں گے.اس تباہی کے بعد ایک اور عالمگیر تباہی آئے گی، جو اس سے وسیع پیمانے پر ہوگی اور زیادہ خوفناک نتائج کی حامل ہوگی.وہ دنیا کا نقشہ ایک دفعہ پھر بدل دے گی اور قوموں کے مقدر کونئی شکل دے دی گی.کمیونزم بہت زیادہ قوت حاصل کرلے گی اور اپنی مرضی منوانے کی طاقت اس میں پیدا ہو جائے گی اور وہ وسیع و عریض رقبہ پر چھا جائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا، مشرقی یورپ کے بہت سے حصے کمیونسٹ ہو گئے اور چین کے ستر کروڑ باشندے بھی اسی راستے پر چل پڑے.اور ایشیا اور افریقہ کی ابھرتی ہوئی قوموں میں کمیونزم کا اثر ونفوذ بہت بڑھ گیا.ہے، دنیا دو متحارب گروہوں میں منقسم ہو گئی ہے، جن میں سے ہر ایک جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس اور اس بات کے لئے تیار ہے کہ انسانیت کو موت وتباہی کی بھڑکتی ہوئی جہنم میں دھکیل دے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے، جو پہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کن ہوگی.دونوں مخالف گروہ ایسے اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخودرہ جائے گا، آسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہوگی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے.نئی تہذیت کا قصر عظیم زمین پر آ رہے گا، دونوں متحارب گروہ یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست ہر دوتاہ ہو جائیں گے، ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی ، ان کی تہذیب وثقافت بر باداوران کا نظام درہم برہم ہو جائے گا.بیچ رہنے والے حیرت اور استعجاب سے دم بخود اور ششدر رہ جائیں گے.روس کے باشندے نسبتا جلد اس تباہی سے نجات پائیں گے اور بڑی وضاحت سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس ملک کی آبادی پھر جلد ہی بڑھ جائے گی اور وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں گے.اور ان میں کثرت سے اسلام پھیلے گا اور وہ قوم ، جوز مین سے خدا کا نام اور آسمان سے اس کا وجود مٹانے کی شیخیاں بھگار رہی ہے، وہی قوم اپنی گمراہی کو جان لے گی اور حلقہ بگوش اسلام ہوکر اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختگی سے قائم ہو جائے گی.297

Page 315

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم شاید آپ اسے ایک افسانہ سمجھیں.مگر وہ، جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے، وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں.اور اس قادر و توانا کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں.کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی.پس تیسری عالمگیر تباہی کی انتہا اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتدا ہو گی.اور اس کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہوگا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیں گے.اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی ایک سچا مذ ہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف محمد رسول اللہ کے پیغام کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے.اب ظاہر ہے کہ پہلے جاپان اور چین کا پیشگوئی کے مطابق مشرقی طاقت کے رنگ میں افق پر ابھرنا، روس کے شاہی خاندان اور شاہی نظام کی تباہی، اس کی بجائے کمیونزم کا قیام اور سیاسی اقتدار اور پھر دنیا میں اس کا نفوذ بڑھنا، پہلی عالمگیر جنگ، جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور پھر دوسری عالمگیر جنگ، جس نے دوبارہ دنیا کا نقشہ بدل دیا، ایسے اہم واقعات ہیں، جو تاریخ انسانیت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں.یہ سب واقعات اسی طرح ظہور میں آئے ، جس طرح کہ ان کی پہلے سے خبر دی گئی تھی.یادرکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مقصد کو پورا کر کے 26 مئی 1908ء کو اپنے خدا کے حضور حاضر ہو گئے.ان تمام پیشگوئیوں کی اس سے قبل ہی وسیع پیمانے پر اشاعت ہو چکی تھی.اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے متعلق جو پیش خبریاں دی گئیں اور نبوت کی گئی ہے، وہ بھی ضرور اپنے وقت پر پوری ہوں گی کیونکہ یہ پیش خبریاں ایک ہی سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں.یہ بھی یادر ہے کہ اسلام کے غلبہ اور اسلامی صبح صادق کے طلوع کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.گو ابھی دھندلے ہیں لیکن اب بھی ان کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے.اسلام کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوگا اور دنیا کو منور کرے گا.لیکن پہلے اس سے کہ یہ واقع ہو، ضروری ہے کہ دنیا ایک اور عالمگیر تباہی میں سے گذرے.ایک ایسی خونی تباہی ، جو بنی نوع انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی.لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ایک انداری پیش گوئی ہے اور انداری پیشگوئیاں تو بہ اور استغفار سے التوا میں ڈالی جاسکتی ہیں بلکہ مل بھی سکتی ہیں.اگر انسان اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور تو بہ کرے اور اپنے اطوار درست کر لے، وہ اب بھی خدائی غضب سے بچ سکتا ہے.اگر وہ دولت اور طاقت اور عظمت کے جھوٹے خداؤں کی پرستش چھوڑ دے اور اپنے رب سے حقیقی تعلق قائم کرے، فسق و فجور سے باز آ جائے ، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے لگے اور بنی نوع انسان کی سچی خیر خواہی اختیار کرلے.مگر اس کا انحصار تو ان قوموں پر ہے، 298

Page 316

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 20اکتوبر 1967ء جو اس وقت طاقت اور دولت اور قومی عظمت کے نشہ میں مست ہیں کہ آیا ، وہ اس مستی کو چھوڑ کر روحانی لذت اور سرور کے خواہاں ہیں یا نہیں ؟ اگر دنیا نے دنیا کی مستیاں اور خرمستیاں نہ چھوڑیں تو پھر یہ انذاری پیشگوئیاں ضرور پوری ہوں گی.اور دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی مصنوعی خداد نیا کو موعودہ ہولناک تباہیوں سے بچا نہ سکے گا.پس اپنے پر اور اپنی نسلوں پر رحم کریں اور خدائے رحیم کریم کی آواز کو سنیں، اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور صداقت کو قبول کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے.اب میں مختصراً اس روحانی انقلاب کا ذکر کرتا ہوں ، جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ دنیا میں رونما ہونا تھا.مگر یہ نہ بھولنا چاہئے کہ آپ کی بعثت کے زمانہ میں اسلام انتہائی کسمپری اور تنزل کی حالت میں تھا.علم مسلمان کے پاس نہ تھا، دولت سے وہ محروم تھے، صنعت و حرفت میں ان کا کوئی مقام نہ تھا، تجارت ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی، سیاسی اقتدار وہ کھو چکے تھے اور حقیقی معنی میں تو دنیا کے کسی حصہ میں وہ صاحب اختیار حاکم نہ رہے تھے.اخلاقی حالت بھی ابتر تھی اور شکست خوردہ ذہنیت ان میں پیدا ہو چکی تھی اور پھر ابھرنے اور زندہ قوموں کی صف میں کھڑے ہونے کی کوئی امنگ باقی نہ رہی تھی.اسلام کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ دنیا کی سب طاقتیں اسلام پر حملہ آور ہورہی تھیں اور اسلام کوسر چھپانے کے لئے کہیں جگہ نہ مل رہی تھی.عیسائیت سب میں پیش پیش تھی.اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن عیسائی مناد کثرت سے دنیا میں پھیل گئے تھے.عیسائی دنیا کی دولت اور سیاسی اقتدار ان مناد کی مدد کو ہر وقت تیار تھا.اور ان کا پہلا اور بھر پور وار اسلام کے خلاف تھا.اسے اپنی فتح کا اتنا یقین تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دنیا میں اعلان کیا گیا کہ 1.براعظم افریقہ عیسائیت کی جیب میں ہے.2.ہندوستان میں دیکھنے کو بھی مسلمان نہ ملے گا اور 3.وقت آگیا ہے کہ مکہ معظمہ پر عیسائیت کا جھنڈا لہرائے گا.حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کی اپنی حالت یہ تھی کہ ابھی گنتی کے چند غریب مسلمان آپ کے گرد جمع ہوئے تھے.کوئی جتھہ، کوئی دولت، کوئی سیاسی اقتدار آپ کے پاس نہ تھا.مگر وہ ، جس کے قبضہ قدرت میں ہر شے ہے، آپ کے ساتھ تھا.اور اسی خدا نے آپ سے یہ کہا کہ دنیا میں یہ منادی کر دو کہ اسلام کی تازگی کے دن آگئے ہیں.اور وہ دن دور نہیں ، جب اسلام تمام ادیان عالم پر اپنے دلائل اور اپنی روحانی تا شیروں کی رو سے غالب آئے گا.299

Page 317

خطبہ جمعہ فرموده 20 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم آگے چلنے سے قبل ایک بات کی وضاحت کردوں کہ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے اور ہم تمام مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح ناصری علیہ السلام خدا کے ایک برگزیدہ نبی تھے اور ان کی والدہ بھی نیکی میں ایک پاک نمونہ تھیں.قرآن کریم نے ان دونوں کا ذکر عزت سے کیا ہے.مریم علیہا السلام کو تو قرآن کریم نے پاکیزگی کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے اور قرآن کریم میں آپ کا ذکر انجیل کی نسبت زیادہ عزت کے ساتھ کیا گیا ہے.لیکن قرآن کریم ان دونوں کو معبود ماننے کے کلسیائی عقیدے کی سختی سے تردید فرماتا ہے.یہ بات اور عیسائی کلسیا کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت سے انکار، دو ایسے امور ہیں، جو اسلام اور عیسائیت کے بنیادی اور اصولی اختلاف ہیں.وو حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاری کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے.اس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مشت خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہوجاتا، اگر میرا مولا اور میرا قادر و توانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا، اب ضرور مرے گا.خدا قادر فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سواب اس نے چاہا ہے کہ ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزا چکھا دے.سواب دونوں مریں گے، کوئی ان کو بچا نہیں سکتا.اور وہ تمام خراب استعداد میں بھی مریں گی ، جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو کچے خدا کا پتہ لگے گا.اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہو گا.کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے، جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب 300

Page 318

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 20اکتوبر 1967ء حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا، نہ کند ہو گا ، جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی کچی توحید ، جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں، ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا.لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے.تب یہ باتیں ، جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی.تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ 8-9ایڈیشن اول ) ان زبر دست پیشگوئیوں کے بعد تو دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا.افریقہ کا وسیع براعظم عیسائیت کے جھنڈے تلے جمع ہونے کی بجائے اسلام کے خنک اور سرور بخش سایہ تلے جمع ہو رہا ہے.ہندوستان میں یہ حالت ہے کہ احمدی نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے بھی بڑے بڑے پادری گھبراتے ہیں اور مکہ پر عیسائیت کا جھنڈا لہرانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا اور نہ کبھی ہوگا.انشاء اللہ غلبہ اسلام کے متعلق جو بشارتیں دی گئی تھیں، ان کے پورا ہونے کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.مگر جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، ایک تیسری عالمگیر تباہی کی بھی خبر دی گئی ہے، جس کے بعد اسلام پوری شان کے ساتھ دنیا پر غالب ہوگا.مگر یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ تو بہ اور اسلام کی بتائی ہوئی راہیں اختیار کرنے سے یہ تباہی ٹل بھی سکتی ہے.اب یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ اپنے خدا کی معرفت حاصل کر کے اور اس کے ساتھ سچا تعلق پیدا کر کے خود کو اور اپنی نسلوں کو اس تباہی سے بچائیں یا اس سے دوری کی راہیں اختیار کر کے خود کو اور اپنی نسلوں کو ہلاکت میں ڈالیں.ڈرانے والے عظیم انسان نے خدا اورمحمد کے نام پر مندرجہ ذیل الفاظ میں) آپ کو ڈرایا ہے اور اپنا فرض پورا کر دیا ہے.میری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آ اپنا فرض پورا کرنے کی توفیق دے.میں اپنی تقریر اس عظیم شخص کے اپنے الفاظ پر ختم کرتا ہوں :.....یادر ہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ، ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے.اور اس قدرموت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے پرند چرند بھی 301

Page 319

خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم باہر نہیں ہوں گے.اور زمین پر اس قدرسخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ، ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی.اور اکثر مقامات زیروز بر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی.اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی.یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں ان کا پتہ نہیں ملے گا.تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے؟ اور تھیرے نجات پائیں گے اور بتھیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی.اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی ، کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں.اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی.پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ خفی ارادے، جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے، ظاہر ہو گئے.جیسا کہ خدا نے فرمایا:.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا اور تو بہ کرنے والے امان پائیں گے.اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں، ان پر رحم کیا جائے گا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں.انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے.میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ ! تو بھی امن میں نہیں.اور اے ایشیا ! تو بھی محفوظ نہیں.اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کیے گئے اور وہ چپ رہا.مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں، سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا 302

Page 320

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 20 اکتوبر 1967ء کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں.پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آ جائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے.تو بہ کر دتا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے، وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی.اور جو اس سے نہیں ڈرتا ، وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.یہ پیغام ختم ہونے کے بعد حضور نے فرمایا:.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 268,269) پس ان الفاظ میں، میں نے دنیا کی اقوام کو مخاطب کیا.اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ ان الفاظ پر غور کریں اور پیشگوئیوں کو مد نظر رکھیں تو آپ کے دل میں احساس پیدا ہو گا کہ اب آپ کی ذمہ واریاں پہلے سے بہت بڑھ کر ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں انہیں سمجھنے اور نبھانے کی توفیق بخشے.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل 26 اکتوبر 1967 ء ) | 303

Page 321

Page 322

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 21اکتوبر 1967ء اللہ تعالیٰ جب قربانی کو قبول کرتا ہے تو ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کرتا ہے تقریر فرموده 21 اکتوبر 1967 ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ وو جیسا کہ ابھی میری مخدومہ اور محترمہ اور آپ کی صدر نے یہ بتایا ہے کہ امسال اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے وہ مسجد پا یہ تکمیل تک پہنچی ہے، جسے آپ نے اپنے رب کی توفیق سے اس کو بلند کرنے کے لئے کو پن ہاگن (ڈنمارک) میں تعمیر کروایا تھا.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ تو فیق عطا کی کہ میں اس مسجد کے افتتاح کے لئے کو پن ہاگن جاؤں.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بھی توفیق عطا کی کہ میں افتتاح مسجد کے علاوہ یورپین ملکوں کا دورہ کروں اور ان اقوام کے کانوں تک اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز کو پہنچاؤں کہ خدا غضب میں ہے کیونکہ تم نے اس سے منہ موڑ لیا اور شیطان کی طرف متوجہ ہو گئے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جو محسن اعظم کی حیثیت سے دنیا میں بھیجے گئے تھے ، ان کی قدر کو تم نہیں پہچانتے اور ان احسانوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے ان کو طعن کرتے ہو، استہزاء سے ان کا نام لیتے ہو اور اس حسین اور عظیم تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ، جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کے ذریعہ تمہارے لئے لے کر آئے تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو یہ توفیق بھی عطا کی کہ ان کے نظام اور محکمے اخبار کے ذریعہ یار یڈیو کے ذریعہ یاٹی وی کے ذریعہ میرے اس پیغام کو ملک کے بسنے والے باشندوں تک پہنچائیں.جوٹی وی کے ذریعہ میرے الفاظ خود بھی میرے منہ سے سن لیں اور مسجد کے افتتاح کی تصاویر بھی دیکھ لیں.ابھی پرسوں کو پن ہا گن سے مجھے یہ خط ملا ہے کہ انٹرنیشنل ٹی وی والوں کی رپورٹ ہے کہ انہوں نے ٹی وی پر دکھانے کے لئے جو تصاویر لی تھیں، وہ بائیس ملکوں کو بھیجی ہیں.اس کے علاوہ ڈنمارک کی ٹی وی نے بھی تصاویر لی تھیں.انہوں نے بھی وہ تصاویر بعض ملکوں کو بھجوائیں ہیں، جن کے متعلق ابھی کوئی رپورٹ ہمیں نہیں مل سکی.غرض اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ مسجد کے افتتاح کے علاوہ جو میری دوسری غرض تھی ، وہ بھی پوری ہوئی کہ میں ان قوموں کو وقت سے پہلے انذار کردوں اور ان پر اتمام حجت کر دوں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں اسلام کو تمام دنیا پر غالب 305

Page 323

اقتباس از تقریر فرموده 21 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کرے گا اور تمام ادیان باطلہ کے جھوٹ اور سحر کو تو ڑ کر رکھ دے گا.اور ہر انسانی دل محمد رسول اللہ کی محبت میں دھڑ کنے لگے گا اور اپنے پیدا کرنے والے کو پہچان لے گا.لیکن ان کی راہ میں ایک خطر ناک تباہی حائل ہے.جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے پیش گوئی فرمائی ہے.جس کا ذکر میں نے اپنے ایک مضمون میں بھی کیا تھا، جو کل میں نے خطبہ جمعہ میں بھی پڑھا تھا.اس مضمون میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس پیش گوئی کو بیان کیا گیا ہے.وہاں کے حالات نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوششوں کو قبول فرمالیا ہے.اس لئے میں، جو اس کا ایک عاجز بندہ ہوں ، خلیفہ وقت کی حیثیت سے آپ سب بہنوں کو مبارک باد دیتا ہوں.جب کسی شخص یا کسی جماعت کی قربانی قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس جماعت کو یا اس فرد کومزید قربانیوں کی توفیق بھی دیتا ہے.بس دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی ان تمام قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے ، جو آج وقت کا تقاضہ اور اسلام کی ضرورت ہے.اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ میری اس دعا کو قبول کرے گا اور آپ کو دنیا کے لئے ایک نمونہ بنادے گا“.کل جمعہ کے خطبہ میں جو مضمون میں نے پڑھا تھا، وہ آپ میں سے بہتوں نے سنا ہو گا.دنیا کے قریباً ہر ملک سے جہاں وہ پہنچا ہے، اس کا مطالبہ آرہا ہے.گیمبیا کے گورنر جنرل کو جب ریویو آف ریلیجینز ( جو وہاں مبلغ انچارج کو بھیجا گیا تھا.) کا پرچہ ہمارے مبلغ انچارچ نے اس نوٹ کے ساتھ بھیجا کہ یہ ایک ہی پرچہ میرے پاس ہے اور اس کی مجھے ضرورت ہے، اس لئے پڑھ کر اسے کل ہی واپس کر دیں.تو انہوں نے کہا کہ میں اسے کل واپس نہیں کر سکتا، مجھے آپ اجازت دیں کہ میں اسے ایک ہفتہ تک اپنے پاس رکھوں.کیونکہ میں اسے اپنے دوستوں کو پڑھانا چاہتا ہوں.اللہ تعالی نے انہیں بہت اخلاص دیا ہے، وہ جب مبلغ کو مخاطب کرتے ہیں تو بڑے ادب سے کرتے ہیں.اب ان کا خط آیا کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے اور رسالے منگوا کر دو یا یہ مضمون علیحدہ طور پر چھپا ہے تو وہ مجھے منگوا کر دو.میں اسے اپنے دوستوں کو پڑھانا چاہتا ہوں.مجھے بھی ان کا ایک خط آیا ہے.ان کا تاثر ہے کہ جس شخص کے دماغ میں ذرا بھی عقل ہوگی، یہ مضمون پڑھ کر اسلام کو قبول کرلے گا.اللہ تعالیٰ دنیا پر رحم کرے.بہر حال ان کا یہ تاثر تھا.اسی طرح پرسوں ہی امام کمال یوسف کا خط آیا ہے کہ احمدی، غیر احمدی اور عیسائی، جنہوں نے یہ مضمون پڑھا ہے.(لنڈن میں پچاس ہزار کی تعداد میں یہ مضمون چھپ گیا اور ڈنمارک میں بھی اس کی کچھ کا پیاں بھیجی گئی تھیں.) ان کا یہ مطالبہ ہے کہ ڈینیش زبان میں اس کا ترجمہ کریں.اور سارے ملک میں 306

Page 324

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 21 اکتوبر 1967ء اس کو پھیلائیں.میں نے ان اقوام کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ، تیسری عالمگیر تباہی سے ڈرایا تھا.عبد السلام میڈسن صاحب، جو ہمارے آنریری مبلغ ہیں اور ڈنمارک ہی کے باشندہ ہیں اور مخلص احمدی ہیں، انہوں نے ڈینیش زبان میں قرآن کریم کا بھی ترجمہ کیا ہے، ان کا خط مجھے آیا ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ آپ کے اندار کے نتیجہ میں ایک چین ری ایکشن (chain reaction) یعنی رد عمل کا ایک سلسلہ جاری ہو گیا ہے.چنانچہ انہوں نے پہلے بھی کچھ حوالے بھیجے تھے.اب پھر انہوں نے ایک اقتباس مجھے بھجوایا ہے.کسی پادری نے انگلستان میں یہ اعلان کیا ہے کہ اگر دنیا اس پادری کے گرد جمع نہ ہوئی اور اس کی باتوں کو اس نے تسلیم نہ کیا تو دنیا تین ماہ کے اندر اندر تھرمونیوکلیئر جنگ کے نتیجہ میں تباہ ہو جائے گی.میں نے انہیں لکھا ہے کہ ہر ممکن ذریعہ سے اپنے ملک میں یہ اعلان کرو ( انہوں نے یہ لکھا تھا کہ ہمارے ملک میں چالیس کے قریب آدمی اس کے ساتھ ہو گئے ہیں.اور وہاں بھی ایک شخص کھڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعہ بتایا ہے کہ ایسا ہو گا.انگلستان کے پادری نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ یہ خبر دی ہے.اور ڈنمارک میں ہر ممکن ذریعہ سے لوگوں کے کانوں تک یہ بات پہنچا دو کہ یہ شخص جھوٹا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے ہرگز یہ خبرنہیں دی اور یہ تین مہینے امن میں گزریں گے اور دنیا تباہ نہیں ہوگی.میں نے انہیں یہ بات اس لئے لکھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو یہ بتایا ہے کہ جس تباہی کی میں خبر دے رہا ہوں، وہ موسم بہار میں ہوگی، اگر ہوئی تو.اگر میں اس لئے کہتا ہوں کہ انذاری پیشگوئیاں ٹل بھی جاتی ہیں.اور اس پادری کی بتائی ہوئی مدت دسمبر میں ختم ہو جاتی ہے اور دسمبر میں موسم بہار شروع نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود نے وقت کے لحاظ سے موسم بہار کی تعین بھی کی ہے.فروری سے مئی تک کا زمانہ موسم بہار کا ہے.ہمارے لحاظ سے بھی اور یورپ وغیرہ کے لحاظ سے بھی.اور دوسرے آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص میرے مقابلے میں اس قسم کی پیشگوئیاں کرے گا، وہ ناکام ہوگا اور نامرادر ہے گا اور اسے شرمندہ ہونا پڑے گا.اس لئے میں نے مکرم عبد السلام میڈسن سے کہا کہ تم اب یہ تبلیغ کرو کہ یہ شخص جس نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ دنیا تین مہینہ کے اندر تھرمونیوکلیئر وار کے نتیجہ میں تباہ ہو جائے گی ،سوائے اس کے کہ وہ اس کی باتیں ماننا شروع کرے، یہ جھوٹا ہے اور غلط کہتا ہے.تین مہینے کوئی لمبازمانہ نہیں، تین مہینے بے شک انتظار کر لو.لیکن اس کے بعد اسلام کی طرف رجوع کرو.حقیقت وہی ہے، جو تمہیں بتائی گئی ہے.حقیت وہ ہی ہے، جو اسلام کے ایک عظیم جرنیل اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند نے دنیا کو بتائی.وہ خبر یں، جس طرح پہلے پوری ہوئیں ، اسی 307

Page 325

اقتباس از تقریر فرموده 21 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم طرح وہ آئندہ بھی پوری ہوتی رہیں گی.ایک سلسلہ ہے بڑی اہم خبروں کا ، جو مضمون کل آپ نے سنا، وہ اپنے رنگ کا تھا.میں نے ہر ملک میں پریس کا نفرنس میں بڑی وضاحت سے انہیں بتایا تھا کہ یہ ایک سلسلہ ہے پیش گوئیوں کا.اور ایک دوسرے کے ساتھ وہ اس طرح بندھا ہوا ہے، جیسے ایک زنجیر کی کڑیاں ہوتی ہیں.اور اس سلسلہ کی ہر خبر جب بتائی گئی تو دنیا نے اسے ناممکن الوقوع سمجھا اور کہا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا.یہ خص کہاں کی باتیں کر رہا ہے؟ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ جب یورپ کو کہا گیا کہ بعض مشرقی طاقتیں ابھرنے والی ہے، جن کو تمہیں ایک طاقت کی حیثیت سے تسلیم کرنا پڑے گا اور یورپ کے لوگ اپنی دولت ، طاقت اور سیاسی اقتدار کے گھمنڈ میں تھے.انہوں نے کہا کہ یہ کیا با تیں ہمیں بتا رہے ہو؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ بات پوری ہوگئی.میں ان لوگوں کو یہ کہتا تھا کہ اس سلسلہ کی بعض کڑیاں پوری ہو چکی ہیں اور بعض پوری ہونے والی ہیں.اگر میں وہ باتیں تمہارے سامنے بیان کروں، جو پوری ہو چکی ہیں تو تم کہو گے کہ آج تم آگئے ہو، ہمیں یہ بتانے کے لئے کہ جو اہم واقعات ہو چکے، وہ پیشگوئیوں کے عین مطابق ہوئے ہیں.اگر میں اس سلسلہ کی ان کڑیوں کا ذکر تمہارے سامنے کروں کہ جو بھی پوری ہونے والی ہیں تو چونکہ وہ بھی اسی طرح غیر ممکن ہیں، جیسے پہلی تھیں، اس لئے تم کہو گے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تم سمجھو گے کہ یہ ایک پاگل ہے، جو ہمارے سامنے بیٹھا باتیں کر رہا ہے.لیکن میں کس زبان میں تمہیں بتاؤں کہ ہلاکت کا تمہارے سروں پر کھڑی ہے.اگر تم بیچنا چاہتے ہو تو اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور دنیا کے محسن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانو اور قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالو ورنہ تباہ ہو جاؤ گے.غرض اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسلام کو غالب کرے گا اور آسمان سے فرشتوں کو نازل کر کے وہ اسے غالب کر رہا ہے.اس نے دلوں کے اندر ایک عجیب تحریک پیدا کر دی ہے.حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی بڑی حیران کن تھی اور وہ بڑے عجیب رنگ میں پوری ہوئی ہے.آپ نے فرمایا تھا کہ ان قوموں تک میرے دلائل پہنچیں یانہ پہنچیں، آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوگا اور الوہیت مسیح کے متعلق جو باتیں اور عقائد ان لوگوں کے دلوں میں ہیں، فرشتے انہیں نکال باہر پھینکے گے.ان لوگوں کے دلوں میں حضرت مسیح کی محبت، جو شرک کی حد تک پہنچی ہوئی ہے، باقی نہیں رہے گی اور تختی صاف ہو جائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.آپ کی کوشش کو جو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا تو اس کا اظہار اس طرح بھی ہوا کہ ڈنمارک میں سٹیٹ چرچ ہے.یعنی حکومت کا ہی مذہب ہے.حکومت ہی چرچ کا انتظام کرتی ہے.قانون ملکی یہ ہے کہ ہر بچہ جو وہاں پیدا ہوتا ہے، وہ اس چرچ کا نمبر ہوتا ہے.یعنی ابھی بچہ کو اس دنیا کی ہوا بھی نہیں لگتی لیکن اس کو و 308

Page 326

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 21 اکتوبر 1967ء چرچ کی ممبر شپ مل جاتی ہے.اس چرچ کی ایک بلیٹن شائع ہوئی ہے، جس میں مسجد کے افتتاح کا ذکر ہے.اور اس ذکر کو انہوں نے اس طرح شروع کیا ہے، کہ ایک عیسائی سے ایک پادری پوچھتا ہے.Are you a Muslim without knowing it? کیا تم ایک مسلمان ہو اور تمہیں پتا نہیں ہے کہ تم ایک مسلمان ہو؟ انہوں نے ایک نوٹ لکھا اور اس نوٹ میں یہ لکھا کہ ڈنمارک کے عوام بالکل وہی عقائد رکھتے ہیں، جو مسلمانوں کے ہیں.فرق صاف یہ ہے کہ یہ لارڈ کہتے ہیں اور مسلمان اللہ کہتے ہیں.مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول اور خاتم النبیین یقین کرتے ہیں اور یہ حضرت مسیح " کو پرافٹ کہتے ہیں.اس کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں.عقائد ان کے وہی ہیں ، جو مسلمانوں کے ہیں.اب دیکھو ان لوگوں کے دلوں میں اسلامی عقائد جیسے عقائد پیدا ہو جانا اور ان کے سٹیٹ چرچ کا اس بات کے اظہار پر مجبور ہو جانا کہ ان لوگوں کے دلوں میں یہ عقائد ہیں اور یہ مسلمانوں کے عقائد ہیں، یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی کوششوں کی قبولیت پر بھی ایک دلیل بنتی ہے.کیونکہ آج سے پہلے بھی وہ لکھ سکتے تھے.لیکن جہاں مسجد نصرت جہاں کا افتتاح ہوا، ایسے خیالات ابھر نے شروع ہو گئے اور سٹیٹ چرچ کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ڈنمارک کے عوام کے عقائد وہی ہیں، جو مسلمانوں کے ہیں.اس بلیٹن نے یہاں تک لکھا ہے کہ ڈنمارک عوام اور مسلمانوں کے عقائد آپس میں اس طرح ملتے ہیں ، جیسے پانی کے دو قطرے ملتے ہیں.like two drops of water.وہ اتنے Identecal ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس اظہار میں ایک گھبراہٹ بھی پائی جاتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اور اس میں شکست کا اعتراف بھی پایا جاتا ہے.انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب ہم اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتے.غرض اللہ تعالیٰ نے مسجد نصرت جہاں کو بڑی اہمیت دے دی ہے.اور بڑی اہم ذمہ داریوں کی طرف آپ کو متوجہ کر رہا ہے.اور اس کا ایک عاجز بندہ یعنی میں، آج آپ کو اس طرف توجہ دلا رہا ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.اور ان ذمہ داریوں میں سب سے پہلی ذمہ داری قرآن کریم کو سمجھنا اور قرآن کریم کو جاننا ، قرآن کریم پر فکر اور تدبر کرنا، قرآن کریم نے جو ہدایات دی ہیں، ان پر عمل کرنا ، قرآن کریم نے جو معاشرہ پیدا کرنا چاہا ہے، اس معاشرہ کو اپنے ماحول میں پیدا کرنا وغیرہ وغیرہ جتنی ذمہ داریاں قرآن کریم کے پڑھنے کے متعلق یا پڑھنے کے نتیجہ میں آپ پر عائد ہوتی ہیں ، ان سب کو ادا کرنا آپ کا فرض ہے.309

Page 327

اقتباس از تقریر فرموده 21 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم یه چند روزہ زندگی ہے.بچے بسا اوقات گود میں ہی مرجاتے ہیں.بعض اچھے مضبوط اور صحت والے جوان کسی حادثہ کے نتیجہ میں یا کسی بیماری کی وجہ سے اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں.ایک پل بھی بھروسہ نہیں ، جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال رہے.جب تک وہ حی و قیوم خدا ہماری زندگی کو بقاد دینا چاہے، اس وقت تک ہم زندہ رہ سکتے ہیں.اتنی بے اعتباری کی زندگی کی قربانی بھی کوئی قربانی ہے.اگر ہم اس زندگی کی ہر خوشی کو، اگر ہم اس زندگی کی ہر مسرت کو ، اگر ہم اس زندگی کے ہر آرام کو ، اگر ہم دل کے ہر جذبہ کو، اگر ہم اپنے وقت کے ہر سیکنڈ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں تو یہ بھی اتنی حقیر قربانی ہے کہ اس کی حقارت کا بھی اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا.اور اس کے مقابلے میں جو انعام اللہ تعالیٰ دینا چاہتا ہے ، وہ اتنا عظیم ہے، وہ اتنا شاندار ہے کہ اس کی عظمت اور شان کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا.تو کیا قربانی ہے، جو تم سے مانگی جارہی ہے اور کتنے بڑے فضل اور احسان ہیں، جن کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے؟ آج یہ عہد کرو کہ ہم نے اسلام کے غلبہ کے لئے ہر اس قربانی کو دے دینا ہے، خدا کی راہ میں، جس کا وقت اور اسلام ہم سے مطالبہ کرے.اگر ہم آج یہ عہد کریں اور پھر اپنے عہدوں کو نبھا ئیں تو میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ عظیم اسلامی فتوحات ، جن کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے، وہ عنقریب اللہ تعالیٰ عطا کرے گا.اور دنیا حیرت میں پڑ جائے گی کہ ایک غریب، ایک کمزور، ایک کم مایہ اور ایک چھوٹی سی جماعت ہے، کتنی حقیری قربانیاں اپنے رب کے حضور پیش کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں کس طرح اس دنیا میں بھی اس کو اپنے فضلوں اور انعاموں سے نوازا ہے.( جو اس دنیا کے انعامات ہیں، ان کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ، اس وقت میں اس دنیا کے انعاموں کی بات کر رہا ہوں.اگر آج بحیثیت جماعت ان قربانیوں کو دینے کے لئے تیار ہو جائیں، جن کا خدا آپ سے مطالبہ کر رہا ہے تو ہماری فتوحات کے دن یعنی اسلام کے غلبہ کے دن محمد رسول اللہ کی کامیابی کے دن اور ہمارے رب کی عظمت اور اس کی توحید اور اس کے جلال کے قیام کے دن بڑے ہی قریب آجائیں گے.ہماری اپنی غفلتیں ، ہماری اپنی کوتاہیاں اور کمزوریاں ہمارے اور ہماری فتوحات اور اسلام کے غلبہ کے درمیان حائل ہیں.غفلتوں کے ان پر دوں کو اب چیرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور گر جاؤ اور اپنی قربانی اس کے حضور پیش کر دو.اللہ تعالیٰ کی رحمتیں تم پر اور تمہاری نسلوں پر اس طرح نازل ہوں گی کہ تاریخ انسانی فخر کے ساتھ ان کو یا در کھے گی.اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا کرے.خدا تعالیٰ کی رحمت آپ کے ہمیشہ شامل حال رہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 27 جنوری 1968ء) 310

Page 328

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 27اکتوبر 1967ء اللہ غلبہ اسلام کی نئی راہیں کھول رہا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا ہمارا کام ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اکتوبر 1967ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.یہ آنے والا سال تحریک جدید کا 34 واں سال ہو گا دفتر اول کے لحاظ سے اور چوبیسواں سال ہو گا دفتر دوم کے لحاظ سے اور تیسر اسال ہوگا دفتر سوم کے لحاظ سے.میں نے اپنے سفر کے دوران جہاں یہ مشاہدہ کیا کہ یورپ میں بسنے والی اقوام عیسائیت سے، مذہب سے بے تعلق ہورہی ہیں، وہاں میں نے اس ضرورت کا بھی بڑی شدت کے ساتھ احساس کیا کہ یہ وقت انتہائی قربانیاں دے کر اپنے کام میں وسعت پیدا کرنے اور اپنی کوششوں میں تیزی پیدا کرنے کا ہے.عیسائیت سے ان کی بے تعلقی اس بات سے عیاں ہے کہ گلاسگو میں جب ایک صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے ہمارے ملک میں بسنے والوں کو مذہبی لحاظ سے کیسے پایا ؟ تو میں نے اسے جواب دیا کہ یہاں کے باشندے عیسائیت میں اب دلچسپی نہیں لے رہے.اس پر اس نے سوال کیا کہ آپ نے کس چیز سے یہ استدلال کیا ہے؟ میں اس کے بہت سے جواب دے سکتا تھا.لیکن میں وہاں مختصر جواب دینا چاہتا تھا.میں نے انہیں کہا کہ میں نے جس چیز سے استدلال کیا ہے، وہ یہ ہے کہ لندن میں بہت سے گر جاؤں کے سامنے ” برائے فروخت کے چوکھٹے لگے ہوئے ہیں.اور بہت سے گر جا وہاں بک چکے ہیں، جہاں شراب خانے بنا دیئے گئے ہیں.بہت سے گر جا وہاں بک چکے ہیں، جہاں چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں قائم ہو گئی ہیں یا کوئی اور کاروبار شروع ہو گیا ہے.گر جاؤں کی فروخت اور گر جاؤں کا قابل فروخت ہو نا بتا تا ہے کہ آپ کے ملک میں رہنے والے مذہب کی طرف پہلے کی نسبت بہت کم توجہ دے رہے ہیں.اس پر اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے، اگر گر جا کو مسجد بنالیا جائے تو اس میں کوئی حرج تو نہ ہوگا؟ میں نے اسے جواب دیا کہ جہاں تک مسئلے کا سوال ہے، میں اس میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا کہ کسی گر جا کو مسجد بنا لیا جائے.لیکن میں اپنی جماعت کے لئے اسے پسند نہیں کرتا.اس لئے کہ ایسا کرنے کے نتیجہ میں بہت سی 311

Page 329

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں پیسے دے گا اور ہم آپ کے ملک میں مساجد خود تعمیر کریں گے.ستے گرجے خرید کے انہیں مسجدوں میں تعمیر نہیں کریں گے.اور بھی بہت سے باتیں مشاہدہ میں آئیں، جن سے میں نے نتیجہ نکالا کہ یورپ کی عیسائی دنیا عیسائیت سے نہ صرف بے تعلق ہو چکی ہے.بلکہ متنفر بھی ہو چکی ہے.اور اس حد تک وہ گندگی میں مبتلا ہو چکی ہے کہ خود حضرت مسیح ناصری علیہ السلام پر بڑی جرات اور دلیری کے ساتھ اس قسم کے ظالمانہ الزام لگا رہی ہے کہ جن کا زبان پر لانا بھی ہمارے لئے مشکل ہے.کیونکہ ہم ان کو خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ نبی مانتے ہیں.لیکن اب وہ جس گندگی میں مبتلا ہیں، انہوں نے یہاں تک کہ ان کے پادریوں نے بھی علی الاعلان یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی (نعوذ باللہ ) اسی گندگی میں مبتلا تھے.اور گندے اخلاق ان میں پائے جاتے تھے.پس وہ تختی محبت کی ، جو ان کے دلوں میں صدیوں سے قائم کی گئی اور قائم رکھی گئی تھی اور اس محبت کو اس انتہا تک پہنچادیا گیا تھا کہ ان کے ماننے والے انہیں خدا، خدا کا بیٹا ماننے لگ گئے تھے، وہ تختی تو اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے صاف کر دی.اور یہ قو میں عیسائیت کو عملاً بھی اور عقیدہ بھی چھوڑ چکی ہیں.صرف ایک نام باقی رہ گیا ہے.اب تو شاید وہ نام سے بھی انکار کرنا شروع کر دیں.ان حالات میں، میں نے سوچا کہ جماعت احمدیہ پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تو میں، جنہیں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے شیطانی خیالات سے ہمارے لئے آزاد کیا ہے، کیا ہم ان تک پہنچ کر اسلام کی حسین تعلیم ان کے دلوں میں بٹھانے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں؟ اور اس کوشش اور جدو جہد کے لئے ان ذمہ داریوں کو ہم نبھاتے ہیں یا نہیں، جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہیں ؟ اور وہ قربانیاں ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کے لئے تیار ہیں یا نہیں ، جو آج کی اسلامی ضرورت کا تقاضہ ہے؟ تو جیسا کہ میں نے ان قوموں کو ان الفاظ میں انذار کیا تھا کہ پیشگوئیوں کے مطابق اگلے چھپیں، تمیں سال تمہارے لئے بہت نازک ہیں.اگر تم اپنے اللہ کی طرف، اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے، تمہاری قو میں تباہ ہو جائیں گی اور اس دنیا سے منادی جائیں گی.ویسا ہی ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم آج کی ضرورت کو سمجھنے لگیں.یہ پچھیں، تمہیں سال ہمارے لئے بھی بڑے اہم ہیں.کیونکہ ایک موقع اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے، ان ممالک میں اسلام کو پھیلانے اور اسلام کو غالب کرنے کا.اگر ہم اپنی بستیوں کے نتیجہ میں اس موقع کو گنوادیں گے تو ایک تو شاید ( خدا نہ کرے) غلبہ اسلام میں التواء ہو جائے.غالب تو ہو گا اسلام.کیونکہ خدا کا وعدہ ہے.یہ ضرور پورا ہوگا.لیکن ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں 312

Page 330

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اکتوبر 1967ء کے نتیجہ میں التوا کا خطرہ ضرور موجود ہے.تو ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے اور اپنے کاموں میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.اور ہمیں بین الاقوامی بلند سطح پر سوچنا چاہیے، اسلام کے لئے، شروع اپنے اللہ کے لئے کہ اس کی محبت اور توحید کو ہم کس طرح دنیا میں قائم کر سکتے ہیں؟ یہ کام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تحریک جدید کے ذریعہ لینا شروع کیا تھا.تحریک جدید جب شروع ہوئی تو اس کا ایک ہی دفتر تھا.جماعت کو اس وقت اللہ تعالیٰ نے بڑی توفیق دی.جتنی مالی قربانی کا مطالبہ تھا، اس سے قریباً چار گنا زیادہ مال پہلے سال خدا تعالیٰ کے ان بندوں نے اپنے امام کو پیش کر دیا تھا.دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے پھر ضرورتیں بڑھتی چلی گئیں.نئی نئی جگہوں پر مبلغ بھیجنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی، اس کے لئے آدمی تیار کرنے ہوتے تھے ، خرچ برداشت کرنا پڑتا تھا، تب وہاں جا کر تبلیغ کا کام شروع کر سکتے تھے.اور جماعت کے مخلصین نے ضرورت کے مطابق مالی قربانیاں دیں.اور بہت حد تک شروع میں تو شاید جتنی ضرورت تھی ، اس حد تک مالی قربانی دی.اور تحریک جدید کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے ملکوں میں تبلیغی مشن قائم کر دیئے.لیکن جوں جوں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہم پر نازل ہوتی رہی، ہماری ضرورتیں بڑھتی چلی گئیں.نئے سے نئے میدان کامیابیوں کے ہمارے سامنے کھلتے رہے.اور ان میدانوں کو فتح کرنا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا شکر ادا کرنا، جو ہمارا فرض تھا، وہ ہم نے اس زمانہ میں ادا کیا.اس وقت جماعت نے جو قربانیاں دیں، اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرے.بہت سے ہیں، جنہوں نے قربانیاں دی، وہ اس جہاں سے رخصت ہو چکے ہیں.جیسا کہ میں ابھی آگے بتاؤں گا.اللہ تعالیٰ مغفرت کی چادر میں لپیٹ کے رضا کی جنت میں انہیں ہر طرح خوش رکھے اور اپنی ان رحمتوں میں انہیں شریک کرے، جو بے شمار رنگ میں، ہر آن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر کر رہا ہے.کیونکہ یہ لوگ بھی آپ کے غلاموں میں سے ہیں.لیکن ہماری مالی قربانیوں کی رفتار اتنی نہیں رہی ، جتنی کہ ہماری ضرورتوں کے بڑھنے کی رفتار تھی.اس وقت، جو نقشہ میں آپ کے سامنے تحریک جدید کی مالی قربا نہیں کا رکھوں گا، اس سے آپ کو یہ بات عیاں ہو جائے گی.میں نے سات سات سال کے بعد کے اعداد وشمار دفتر سے حاصل کئے ہیں.یعنی جو سال رواں ہے، اس سے سات سال پہلے کیا حالات تھے؟ کیا نقشہ تھا چندوں کا ؟ کیا کیفیت تھی ؟ پھر اس سے سات سال پہلے کیا کیفیت تھی؟ یعنی اس نقشہ میں دفتر دوم کے چودہ سال ہیں.جو ان کی قربانیوں کے سالوں کا قریبا 2/3 ہے.اور دفتر اول کے چودہ سال ہیں.جو ان کے تینتیس سالوں میں سے چودہ سال 313

Page 331

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم یعنی 2/5 کے قریب ہے.بہر حال 54-1953ء،61-1960ء اور 68-1967ء کے اعداد و شمار سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کس جہت میں ہماری حرکت ہے؟ اور کیا اگر ہمارا قدم ترقی کی طرف ہے تو اس میں اتنی تیزی پائی جاتی ہے کہ ہماری ضرورتوں کو ہماری رفتار پورا کرنے والی ہو؟ 1953ء میں دفتر اول کا چندہ 2,46,000 تھا اور دفتر دوم کا میزان تھی 1,10,000 3,56,000 میں سینکٹروں کو چھوڑتا ہوں.1960ء میں دفتر اول کی آمد 53 ء سے گر گئی اور 2,46,000 سے گر کے1,83,000 پر پہنچ گئی.اور پہنچنی چاہیے تھی.کیونکہ اس عرصہ میں ہمارے بہت سے بھائی ہم سے جدا ہو گئے.دفتر دوم کی آمد 1960ء میں (1953ء کے مقابلہ میں ) بڑھی اور اسے بڑھنا چاہیے تھا.اور 10,000 ,1 سے بڑھ کے 1,72,000 تک پہنچ گئی.1967-68ء میں دفتر اول کی آمد (1953ء کی 2,46,000 کی آمد کے مقابلہ میں اور 1960ء کی 1,83,000 کی آمد کے مقابلہ میں ) صرف 20,000, 1 رہ گئی.اور دفتر دوم کی آمد 1967 ء | میں (1953ء کی آمد سے، جو 1,10,000 تھی، بڑھ کے 2,38,000 ہوگئی.اور 1960ء کی 1,72,000 کی آمد سے بڑھ کے 2,38,000 ہوگئی.1953-54ء میں دفتر اول کی آمد، دفتر دوم کے مقابلہ میں 1,36,000 روپیہ زیادہ تھی.1960-61ء میں دفتر اول کی آمد، دفتر دوم کی آمد سے صرف 11,000 روپیہ زائد تھی.اور 68-1967ء میں دفتر اول کی آمد، دفتر دوم کی آمد سے 18,000, 1 روپیہ کم تھی.جبکہ 1953ء کے بجٹ میں اصل آمد دفتر اول کی ، دفتر دوم کے مقابلہ میں 1,36,000 روپیہ زیادہ تھی.ان اعداد شمار سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ جوں جوں ہمارے دوست اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے اللہ کے حضور پہنچتے رہے، دوسری نسل اس خلاء کو پر کرتی رہی اور آمد میں انہوں نے کوئی کمی نہیں آنے دی.لیکن ایک اور چیز ، جو ہمیں نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ 1953ء اور 1960ء کی کل آمد کا جب ہم مقابلہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی ترقی نہیں ہوئی.کیونکہ 1953ء میں دفتر اول اور دفتر دوم کی کل آمد 3,56,000 تھی.اور 1960ء میں دفتر اول اور دفتر دوم کی کل آمد3,55,000 میں نے سینکڑے چھوڑ دیئے ہیں.یعنی 1960 ء میں ایک ہزار سات سو روپیہ کم آمد تھی.(1953ء کے مقابلہ میں) لیکن ایک ہزار کا کوئی ایسا فرق نہیں.ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا قدم نہ آگے بڑھا ان سالوں میں ، نہ پیچھے ہٹا.314

Page 332

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اکتوبر 1967ء 1967ء کے جو اعداد و شمار میں نے بتائے ہیں ، وہ وعدوں کے نہیں بلکہ اصل آمد کے ہیں.یعنی جو آمد اس وقت تک ہو چکی ہے.اور ابھی اس سال کی وصولی کا بہت سا حصہ باقی ہے.لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی ہے.جو اصل آمد اس وقت تک ہوچکی ہے، ( مارچ، اپریل تک آمد رہتی ہے.اس کے لحاظ سے بھی 1967ء میں ہماری آمد، ہر سہ دفاتر کی 3,56,000 کے مقابلہ پر 3,70,000 ہو چکی ہے.اور ابھی قریباً ایک لاکھ ، ساٹھ یا ستر ہزار کے وعدے ایسے ہیں، جو قابل وصول ہیں.اگر ان میں سے ایک بڑی رقم وصول ہو جائے ، ہوئی تو سو فیصدی چاہیے، لیکن بعض دفعہ کوئی صاحب فوت ہو جاتے ہیں یا نوکری ان کی چھوٹ جاتی ہے یا کوئی ایسی جائز روک پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چندہ ادا نہیں کر سکتے تو اگر اس کو مدنظر بھی رکھا جائے ، تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ رقم جو ہے، وہ اصل آمد 3,55,000 سے بڑھ کے، جو 1960ء کی آمد ہے، قریباً 5,00,00 روپے تک چلی جائے گی یا اس سے بھی بڑھ جائے گی.(5,35,000 روپے کے وعدے ہیں غالباً ) جس کا یہ مطلب ہوگا کہ ڈیڑھ لاکھ روپے زیادتی ہوئی.لیکن جو عملا ہمیں ضرورتیں پیش آئی ہیں، وہ ڈیڑھ لاکھ روپے سے زیادہ کی تھیں.اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا نہ کرتا کہ آپ کی غفلت اور ستی پر پردہ ڈال دے تو ہمارے سیارے کام رک جاتے.اس لئے کہ اس عرصہ میں بیرون پاکستان میں اتنی مضبوط جماعتیں پیدا ہو گئیں کہ ان میں بہت سی اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئیں.اور بہت سی ایسی تھیں، جنہوں نے بیرون پاکستان مشنز کو امداد دینی شروع کر دی.اور اس کے نتیجہ میں ہمارے کام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ترقی کی طرف ہمارا قدم بڑھتا چلا گیا.لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ خوش ہو جائیں کہ ہمیں اب زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت نہیں.اس کے معنی تو یہ ہیں کہ جیسے فکر پیدا ہوئی ہے کہ ہم نے غفلت اور ستی دکھائی اور وہ انعامات ، جو ہمیں ملنے چاہیے تھے، وہ ہمیں نہیں ملے اور دوسروں نے ہمارے ہاتھ سے چھین لیے.اگر ہمیں وہ ہل جاتے اور بیرون پاکستان کے بھائی بھی اللہ تعالیٰ کے ان انعامات میں شریک ہوتے تو ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات تھی.لیکن ہوا یہ کہ ان کوتو اللہ تعالیٰ نے بڑے انعامات سے نوازا لیکن اس کے مقابلہ میں جو انعامات ہمیں ملنے چاہیے تھے، ہمیں نہیں ملے.315

Page 333

خطبہ جمعہ فرمودہ 27اکتوبر1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بیرونی ممالک کے اعداد و شمار صحیح تصویر پیش نہیں کرتے.کیونکہ اس میں وہ امداد بھی شامل ہے، جوحکومتوں کی طرف سے ہمارے سکولوں کو ملتی ہے اور وہ کافی بڑی رقمیں ہیں.مغربی افریقہ میں ہمارے بہت سے سکول ہیں، جو امداد لے رہے ہیں.یہاں بھی ہمارے کالج اور سکول کو ایڈ ملتی ہے اور ہمارے بجٹ میں شامل ہوتی ہے.وہاں چونکہ کثرت سے سکول ہیں، حکومت کی طرف سے جو امدادملتی ہے، وہ ہمارے بجٹ میں شامل ہو جاتی ہے.کل چونکہ دفاتر میں چھٹی تھی تفصیل میں حاصل نہیں کر سکا.اس چیز کو بے شک مد نظر رکھیں.لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ بیرون پاکستان کی آمد ہمارے دلوں میں تشویش پیدا کرنے والی ہے.اس لئے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا قدم اس تیزی سے آگے نہیں بڑھا، جس تیزی سے ہمارا قدم آگے بڑھنا چاہیے تھا.اور اس کے نتیجہ میں ہم اللہ تعالیٰ کے بہت سے ان انعامات سے محروم ہو گئے ، جو اللہ تعالیٰ ہمیں دینا چاہتا تھا.بیرونی ممالک کا نقشہ یہ ہے، 1953ء میں تحریک جدید کی آمد 4,20,000 تھی.اس میں سکولوں کو جو امدادملی شامل ہے.1960ء میں بیرونی ممالک کی آمد 13,63,000 ہے.یعنی چار سال میں 4,20,000 سے بڑھ کر 13,63,000 روپیہ ہوگئی.اور 68-1967ء میں، جو سال رواں ہے، اس میں بیرونی ممالک کی اصل آمد دفتر بند ہونے کی وجہ سے نہیں مل سکی، لیکن جو بجٹ ہے، وہ تمہیں لاکھ، بہتر ہزار روپے کا، یعنی 13,63,000 ، 1960ء کے بجٹ اور آمد کے مقابلہ میں 1967ء میں بیرونی ممالک کا بجٹ 30,00,000 ہو گیا ہے.اور 1953ء میں جو بجٹ صرف 4,20,000 کا تھا ، 1967 ء میں وہ بجٹ 30 لاکھ روپیہ کا ہو گیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان چودہ سالوں میں قریبا ساڑھے سات گنا یعنی قریباً ساڑھے سات سو فیصد ترقی انہوں نے کی ہے.اس کے مقابلہ میں اگر سال رواں کا بجٹ ہم سامنے رکھیں تو ہماری ترقی صرف %40 ہے.ہماری یہ ترقی دگنی بھی نہیں ہے.اس کے مقابلہ میں بیرونی ممالک کے بجٹ سے جو اندازہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا فضل کیا ہے کہ ان قربانیوں کا مجموعی طور پر جو نقشہ ہمارے سامنے آتا ہے، وہ 1953ء اور 1967ء کے درمیانی چودہ سال میں ساڑھے سات گنا زیادہ ساڑھے سات سو فیصدی بڑھ گیا ہے.تو جس رفتار سے وہ آگے نکل رہے ہیں اور جس است رفتار سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، جب ان کا ہم مقابلہ کرتے ہیں تو میرے دل میں تشویش پیدا ہوتی ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر مخلص دل میں تشویش پیدا ہوگی.ہماری مالی قربانیاں اپنی جگہ پر کھڑی ہیں.جو قربانیاں ہم اس وقت تک دے چکے ہیں، اگر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک تغیر اور ایک تبدیلی پیدا کرے کہ وہ ہمیں کہنے لگیں کہ آؤ ہمیں اسلام سکھاؤ اور ہم کہیں کہ ہمارے پاس تو آدمی نہیں ، ہمارے 316

Page 334

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم - خطبہ جمود فر اکتوبر 1967ء پاس تو یہ نہیں، ہمارے پاس تو ذرائع نہیں کہ ہم تم تک پہنچیں اور تمہیں اسلام سکھائیں.اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ساری عمر کام کرتے رہے اور جب پھل لگنے کا وقت آیا تو تھک کے بیٹھ گئے کہ ہم میں اب سکت نہیں کہ اپنی محنت کا پھل، جو شخص اللہ کے فضل سے ہمیں ملنے والا ہے، ہم اسے توڑیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں.میں نے ابھی بتایا ہے کہ پچھپیں، تمہیں سال جہاں ان اقوام کے لئے بڑے نازک ہیں ، ہمارے لئے بھی یہ سال بڑے نازک ہیں.یہ زمانہ ہمارے لئے انتہائی نازک ہے.اس لئے کہ اس زمانہ میں ہماری ترقی کے بہت سے دروازے کھل رہے ہیں اور کھلیں گے، انشاء اللہ.اگر ہم اپنی غفلت اور ستی کے نتیجہ میں ان دروازوں میں داخل نہ ہوں تو بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو ہم حاصل کریں، اللہ تعالیٰ کے غضب کے مورد ہم بن سکتے ہیں.پس خوف کا مقام ہے.ہمیں سوچنا چاہیے.ہمیں ڈرنا چاہیے بدنتائج سے.اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے.ہمیں ان فضلوں کو دیکھنا چاہیے، جو اللہ تعالیٰ ہم پر کر رہا ہے.اور اس فضل کے نتیجہ میں ہماری ترقیات کے نئے سے نئے دروازے اور نئی سے نئی راہیں ہم پر کھول رہا ہے.اور اگر ہم یہ کہیں کہ اب ہم سے آگے نہیں بڑھا جا تا تو یا درکھو کہ اسلام کے فدائی آگے تو ضرور بڑھیں گے.مگر وہ کوئی اور قوم ہوگی، جسے اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا اور وہ ان راہوں پر ان کو چلائے گا.مگر میں پوچھتا ہوں، آپ کیوں نہیں؟ آپ نے جن میں سے بعض نے تینتیس سال تک ان میدانوں میں قربانیاں دیں.جن میں سے بعض نے تئیس سال تک ان میدانوں میں قربانیاں دی ہیں.اب جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کی قربانیوں کو قبول کر کے غیر ممالک میں غلبہ اسلام کے سامان پیدا کر دیئے ہیں اور اللہ اورمحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو یہ آواز دیتے ہیں کہ آؤ، آگے بڑھو، غلبہ اسلام کے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں.مزید قربانیاں دوتا کہ اسلام کی فتح تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو.اور آپ یہ کہیں کہ ہم تھک گئے ہیں، اب یہ فتوحات ہماری اگلی نسلیں دیکھ لیں.ہم نہیں دیکھنا چاہتے.کیا یہ جذبہ درست اور معقول ہوگا؟ کیا آپ اسے پسند کریں گے؟ میں نہیں سمجھتا کہ آپ کسی صورت میں بھی اس چیز کو پسند کریں.پس میں اپنے بھائیوں کی خدمت میں بڑے درد کے ساتھ اور بڑے زور کے ساتھ یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ، جو نعمتیں ہم پر اس رنگ میں نازل کیں کہ ہماری قربانیوں کو قبول کیا ، آسمان سے فرشتوں کو نازل کیا ، دلوں میں عیسائیت کو مٹادیا اور ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ اگر ہم اپنی کوششوں کو اور اپنے عملوں کو اور اپنی محنتوں کو اور اپنی تدابیر کو اور اپنی جدو جہد کو اور مجاہدہ کو تیز سے تیز تر کر دیں تو خدا ایسا کر 317

Page 335

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سکتا ہے اور ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہے کہ خدا ایسا کرے کہ ہم زندگیوں میں اسلام کو ساری دنیا میں غالب ہوتا دیکھ لیں.پس قبل اس کے کہ وہ دن آئے ، جس دن خرید و فروخت بھی فائدہ نہیں دیتی، کسی دوست کی دوستی فائدہ نہیں پہنچاتی ، کوئی شفاعت کرنے والا پاس نہیں آتا.ایسے آدمی کے پاس نہیں آتا ، جس نے اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس سے یہ وعدہ کیا ہو کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.لیکن جب دین کی آواز اٹھے تو وہ کہے کہ دنیا کے دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں، دین کی ضرورتوں کو کیسے پورا کریں؟ ایسے لوگوں کو اس دن نہ کوئی سودا نفع دے سکتا ہے، نہ کوئی دوستی نفع پہنچاسکتی ہے، نہ کوئی شفاعت کرنے والا انہیں میسر آ سکتا ہے.جیسا کہ بڑی وضاحت سے اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے.اس دن سے قبل اپنے رب کی رضا کو ڈھونڈتے ہوئے اور اس کو پانے کے لئے ان قربانیوں کو ، اس کے قدموں پہ جا کر لا کھو کہ جن کا وہ آج مطالبہ کر رہا ہے، جن کا مطالبہ آج وقت کی ضرورت کر رہی ہے، جن کا مطالبہ آج یورپین اور دوسری دنیا کی اقوام کے حالات کر رہے ہیں.اگلے پچھیں تمہیں سال کے اندر ہمیں انتہائی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ان دلوں کو ، جن میں مسیح علیہ السلام کی محبت ختم ہو چکی ہے، اپنے رب کے لئے جیت لیں اور پھر خدا کرے کہ ہمارے سکھانے سے اور بتانے سے انہیں اللہ تعالیٰ کا عرفان اور معرفت حاصل ہو.اور ان دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے.تب خدا ہمیں بڑے پیار سے یہ کہے کہ یہ میرے پیارے بندے ہیں.جنہوں نے دنیا کی ہر مصیبت اٹھا کر ہر قربانی دے کر ان اقوام کے دلوں میں میری محبت کو پیدا کیا تھا.میں سب سے زیادہ ان سے محبت کروں گا.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.( مطبوعہ روزنامه الفضل 03 نومبر 1967ء) 318

Page 336

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خلاصہ خطاب فرموده 30 اکتوبر 1967ء وقت آگیا ہے کہ ہم یورپ میں تبلیغ اسلام کی خاص جد و جہد شروع کریں خطاب فرمودہ 30 اکتوبر 1967ء حضرت خلیفة المسیح الثالث کی سفر یورپ سے کامیاب مراجعت پر جماعت احمدیہ کی مرکزی تنظیموں یعنی صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید انجمن احمدیہ، وقف جدید انجمن احمد یہ مجلس انصار اللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے مشترکہ طور پر ایک خاص استقبالیہ تقریب حضور کے اعزاز میں دفاتر صدرانجمن احمد یہ ربوہ کے میدان میں منعقد ہوئی.جس میں حضور نے سپاسناموں کے جواب میں ایک ایمان افروز تقریر فرمائی.جس کا خلاصہ درج ذیل ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اے میرے نہایت ہی پیارے بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے شکر سے لبریز ہے کہ اس نے ہمیں یہاں آج اکٹھا ہو کر بیٹھنے کا موقع عطا فر مایا اور مجھے توفیق بخشی کہ میں اپنے بھائیوں کے دلی جذبات سے آگاہ ہو سکوں.یہ تقریب اس رنگ میں ایک نرالی شان رکھتی ہے کہ میرے سامنے میرے ہزاروں پیارے بھائی میزبان کی حیثیت سے نہایت محبت و اخلاص کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں.آج میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ایک اور زاویہ نگاہ سے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ کہ دنیا اپنے رب کو بھول چکی ہے.دعاؤں پر اسے اعتقاد نہیں رہا.صرف اور صرف آپ ہی وہ خوش قسمت جماعت ہیں، جو دعاؤں پر زندہ یقین رکھتے ہیں.اور دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں یہ مشاہدہ بھی کرتے ہیں کہ کس طرح ہمارا رب ہمارے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک کرتا ہے؟ میرے اس سفر کے دوران ساری دنیا کے احمدیوں کو غیر معمولی طور پر میرے سفر کی کامیابی اور دنیا میں غلبہ اسلام کے لیے دعائیں کرنے کی توفیق ملی ہے.دنیا کے ہر حصے سے بکثرت احباب جماعت کے خطوط مجھے ملتے رہے.حتی کہ چھوٹے چھوٹے معصوم احمدی بچوں کے خط بھی مجھے ملے.جن میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہم خاص طور پر آپ کے 319

Page 337

خلاصہ خطاب فرمود 300اکتوبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چهارم لیے دعائیں کر رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ساری جماعت کا دعاؤں کی یہ توفیق پانا بھی اللہ تعالی کا ایک بہت بڑا فضل ہے، جو اس سفر کے نتیجہ میں حاصل ہوا.پھر دوسر افضل یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول بھی فرمایا.اور جس مقصد کی خاطر یہ سفر اختیار کیا گیا تھا، اس میں معجزانہ رنگ میں ہمیں کامیابی بخشی.جیسا کہ سب دوستوں کو علم ہے، اس سفر سے میرا بڑا مقصد اہل یورپ کو یہ انذار کرنا تھا کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اسلام کے سایہ تلے جمع ہو جاؤ، ورنہ تمہیں ہولناک تباہی کا سامنا کرنا ہوگا.سو یہ مقصد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں پورا ہوا، جس کا ہمیں وہم و گمان بھی نہ تھا.اللہ تعالیٰ کے خاص تصرف نے اس پیغام کو پہنچانے کے لیے ایسے سامان مہیا کر دیئے ، جو ہمارے اختیار اور ہماری استطاعت سے بھی باہر تھے.کس طرح غیر معمولی رنگ میں ریڈیو، ٹیلیویژن اور اخبارات کے ذریعے اس پیغام کی وسیع سے وسیع تر اشاعت ہوئی اور زیادہ سے زیادہ افراد تک یہ پیغام پہنچا.اگر یہ پیغام اخباروں میں شائع تو ہو جا تا مگر لوگ اس کی طرف توجہ نہ کرتے ، ظاہر ہے کہ کوئی فائدہ نہ ہوتا.مگر یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے نہ صرف غیر معمولی رنگ میں اس کی اشاعت کے سامان مہیا کیے بلکہ لوگوں کی توجہ کو بھی اس طرف پھر دیا.چنانچہ اب تک برابر یہ اطلاعیں وہاں سے آ رہی ہیں کہ لوگ اس پیغام میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے - ہیں.وہ اسے توجہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس سے گہرے طور پر متاثر ہورہے ہیں.الحمد لله.اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سفر کے دوران جماعت کو جن خاص دعاؤں کی توفیق بخشی ، انہیں اس نے قبول بھی فرمایا.چنانچہ جس غرض سے یہ سفر اختیار کیا گیا تھا، اس میں اس نے ہمیں خاص کامیابی عطا فرمائی.الحمد لله علی ذالک.پھر ایک اور فضل اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ تربیتی لحاظ سے بھی یہ سفر بہت کامیاب رہا.بیرونی ممالک کے جو احمدی بھی مجھے ملے، ان کے ایمان و اخلاص میں نمایاں اضافہ ہوا.اور ساری جماعت میں ہی باہمی محبت واخوت کی ایک خاص رو پیدا ہوگئی.عاجزانہ دعاؤں کے نتیجہ میں ساری جماعت پکھل کر گویا ایک وجود بن گئی اور محبت اور اخوت کی فضا قائم ہوگئی.اس سفر کے نتیجہ کے طور پر میں وثوق کے ساتھ یہ کہ سکتا ہوں کہ مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کا کام دراصل اب شروع ہوا ہے.کیونکہ اس سفر کے نتیجہ میں وہاں پر اللہ تعالیٰ نے جو تغیرات کیسے ہیں اور جس طرح وہ لوگ عیسائیت سے متنفر ہو گئے ہیں اور اب اسلام کے پیغام میں دلچسپی لینے لگے ہیں، ان کی جہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم یورپ میں تبلیغ اسلام کی خاص جد و جہد شروع کریں.320

Page 338

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خلاصہ خطاب فرموده 30 اکتوبر 1967ء ہم نے اب بہت کچھ کرنا ہے اور کرتے چلے جانا ہے.جب تک کہ غلبہ اسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے نہ ہو جائیں.اس سفر میں اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہم پر نازل ہوئے ، ان کی بناء پر ہماری ذمہ داریوں میں بھی بہت اضافہ ہو گیا ہے.ہمیں دعائیں کرنی چاہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور پھر انہیں کما حقہ ادا کرنے کی توفیق دے کہ اس کی توفیق کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں.( مطبوع روز نامہ الفضل 12 نومبر 1967ء ) 321

Page 339

Page 340

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 03 نومبر 1967ء اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ میں اس جماعت کے نفوس اور اموال میں برکت ڈالوں گا 33 خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1967ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت اسلام کس مپرسی کی حالت میں تھا.اور دنیائے اسلام، اسلام کی ضرورت، اسلام کے نام پر اور غلبہ اسلام کے لئے اپنے اموال قربان کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی تھی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نشاۃ ثانیہ کے سامان پیدا کئے اور آپ کو خلصین کی ایک جماعت دی گئی.جو اپنے نفوس اور اپنے مال کی قربانی خدا کی راہ میں دینے والی تھی.اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں سے قربانیاں لیتا ہے تو اس دنیا میں بھی اپنے فضلوں کا انہیں وارث بناتا ہے.چنانچہ جب اس زمانہ میں نشاۃ ثانیہ کی ابتداء میں مخلصین کی ایک جماعت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے وقتوں اور اپنی زندگیوں اور اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک وعدہ کیا.اور وہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ( جماعت کے متعلق ) کہ میں ان کے نفوس اور ان کے اموال میں برکت ڈالوں گا.آؤ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کس رنگ اور کس شان کے ساتھ پورا ہوا.میں اس وقت جماعت احمدیہ کی تاریخ کے پچھتر سالوں پر طائرانہ نگاہ ڈالوں گا.یہ 1967ء ہے.اس میں سے پچھتر ہم نکال دیں تو 1892ء کا سال بنتا ہے.اور جب ہم 1892ء اور 1967ء کے درمیانہ پچھتر سالہ عرصہ پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور مجموعی ترقی نفوس میں اور اموال میں مشاہدہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ اللہ تعالی ، جو قدرت کاملہ کا مالک ہے، اپنے بندوں پر کس طرح فضل کرتا ہے.1892ء میں نفوس کے لحاظ سے (1892ء کے صحیح اعداد وشمار تو غالباً ہمارے ریکارڈ میں نہیں.کیونکہ ہماری Census ( مردم شماری) کبھی نہیں ہوئی.لیکن ایک عام اندازہ کیا جا سکتا ہے.جلسہ سالانہ (1892ء میں حاضری جلسہ 327 تھی) کی حاضری دیکھ کر وغیرہ وغیرہ) کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھنگ یا اگر بہت ہی کھلا اندازہ کیا جائے تو ایک ہزار سے تین ہزار کے درمیان تھی.عام اندازے کے مطابق 1967ء کی یہ تعداد، اس چھوٹی سی تعداد سے بڑھ کے کم و بیش تمیں لاکھ کے قریب ہوگئی ہے.میرے اندازے کے مطابق تمہیں لاکھ سے کچھ اوپر 323

Page 341

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 نومبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم ہے.اس زیادتی میں دو چیزیں اثر انداز ہوئیں.ایک پیدائش ، دوسری تبلیغ.ہر دوراہوں سے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے نفوس میں برکت ڈالی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا تو یہ فرمائی تھی کہ اک سے ہزار ہو دیں لیکن جب اس تعداد کا، جو 1967ء کی ہے، 1892ء کی تعداد سے ہم مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے نتیجہ میں عملاً یہ کیا کہ تم اک سے ہزار مانگتے ہو، میں اک سے تین ہزار کرتا ہوں.چنانچہ جب ہم ان دو اعداد وشمار کا آپس میں مقابلہ کرتے ہیں.گو (اگر اس وقت ایک ہزار احمدی سمجھے جائیں.) ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو تین ہزار کر دیا ہے.اک کو ہزار نہیں ، اک کو تین ہزار بنادیا ہے.کیونکہ 3 ہزار کو ہزار کے ساتھ ضرب دیں، تب یہ موجودہ شکل ہمارے سامنے آتی ہے.اور اگر 1892ء میں جماعت کی تعداد تین ہزار سمجھی جائے ، جو میرے نزدیک بہت زیادہ اندازہ ہے تو پھر بھی اس سے اک سے ہزار ہو دیں “ والی دعا اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی.اور پچھتر سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کے نفوس کو ایک ہزار گنازیادہ کر دیا.یہ معمولی زیادتی نہیں، حیرت انگیز زیادتی ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرت کا جہاں اظہار ہوتا ہے، وہاں عقل کی رسائی نہیں.اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت اپنے بندوں پر جلوہ گر ہوتی ہے اور تمام اندازوں کو غلط کر کے رکھ دیتی ہے.اگر یہ امید رکھیں اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں بھی اس جماعت کو اسی رنگ میں اور اسی حد تک قربانیاں دینے کی توفیق دے گا، جس طرح گزشتہ پچھتر سال وہ دیتا رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی اسی رنگ میں ہوتے رہیں گے، یہ تعداد اگر اسی نسبت سے بڑھتی رہے تو آج سے پچھتر سال کے بعد تین ارب اور نو ارب کے درمیان ہو جائے گی.جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنی دعاؤں سے اور اپنی تدبیر سے اور اپنی قربانیوں سے اور اپنی فدائیت اور جان شاری سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کرتے رہیں، جس طرح گزشتہ پچھتر سال میں ہم نے جذب کیا تھا تو اگلے پچھتر سال میں اسلام دنیا پر غالب آجائے گا.اور نشاۃ ثانیہ کی جو ہم ہے، وہ پوری کامیابی کے ساتھ دنیا میں ظاہر ہو جائے گی.خدا کرے کہ جماعت کو اسی طرح قربانیاں دینے کی توفیق ملتی رہے.یہ بھی کہا گیا تھا کہ میں ان کے اموال میں برکت ڈالوں گا.اب اموال کو ہم دیکھتے ہیں.1892ء کے جلسہ سالانہ میں 1893 ء کے لئے چندوں کے وعدے دیئے گئے.(وہ انتظام اس وقت قائم نہیں تھا، جو آج قائم ہے.) اور وہ وعدے ساری جماعت کے سمجھے جانے چاہئیں.کیونکہ تمام مخلصین جلسہ سالانہ پر جمع ہو جاتے تھے.تو 1893ء کے لئے 1892ء کے جلسہ سالانہ پر جماعت نے ، جو وعدے 324

Page 342

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1967ء دیئے، ان کی رقم سات سو کچھ روپے تھی.اور آج پچھتر سال گزرنے کے بعد عملاً جماعت، جو مالی قربانیاں خدا کی راہ میں پیش کر رہی ہے، اس کی رقم ایک کروڑ سے اوپر نکل گئی ہے.ہم سات سو کی بجائے اگر ایک ہزار لے لیں ( کیونکہ ان وعدوں کے علاوہ وہ دوست، جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے رہ جاتے ہیں، انہوں نے بعد میں وعدے کئے ہوں گے اور رقمیں بھجوائی ہوں گی.تو اگر 1892 ء کی آمد ایک ہزار روپیہ سمجھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں 1967 ء کی آمد ایک کروڑ سے اوپر نکل گئی.تحریک جدید کے چندے، صدر انجمن کے چندے، وقف جدید کے چندے، وقف عارضی کا جو خرچ ہوتا ہے، (اگر چہ وہ ہمارے رجسٹروں میں درج نہیں ہوتا لیکن وہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہے، جو ایک احمدی کر رہا ہے.اپنے خرچ پر باہر جاتا ہے، کرایہ خرچ کرتا ہے، وہاں اپنے گھر سے زائد اسے خرچ کرنا پڑتا ہے.) ان سب کو اگر اکٹھا کیا جائے تو یہ رقم ایک کروڑ سے کہیں او پر نکل جاتی ہے.میں ایک کروڑ کی رقم اس وقت لے لیتا ہوں.تو ایک ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ تک ہماری مالی قربانیاں پہنچ گئیں.یہ بھی دس ہزار گنار قم بن جاتی ہے.گویا ایک روپے کے مقابلہ میں دس ہزار روپے کے چندے بنتے ہیں.یعنی 1892ء میں اگر جماعت نے ایک روپیہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق اپنے رب سے حاصل کی تو اسی برگزیدہ جماعت نے 1967ء میں دس ہزار روپیہ ( اس ایک روپیہ کے مقابلہ میں) خرچ کرنے کی اپنے رب سے توفیق پائی.یہ تو چندوں کی نسبت ہے.مگر وعدہ کیا گیا ہے کہ اموال میں برکت دی جائے گی.اب جس نسبت سے جماعت کے اموال بڑھے ہیں، وہ دس ہزار گنا سے زیادہ ہے.کیونکہ 1892ء میں قریباً سو فیصدی مخلص تھے اور پوری قربانی دے رہے تھے، خدا کی راہ میں لیکن 1967ء میں تعداد چونکہ بڑھ گئی ہے.بہت سے ہم میں سے ایسے ہیں، جو تربیت کے محتاج ہیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ آج سے ایک سال یا دوسال یا چار سال یا پانچ سال کے بعد اس ارفع مقام پر پہنچ جائیں گے، جس پر اللہ تعالیٰ انہیں دیکھنا چاہتا ہے.اور ان کے چندوں کی شرح، اس شرح کے مطابق ہو جائے گی ، جو 1892ء میں مخلصین دیا کرتے تھے.اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جو اموال منقولہ اور غیر منقولہ 1892ء کے احمدیوں کے پاس تھے، آج اس کے مقابلہ میں جماعت کے مجموعی اموال منقولہ یا غیر منقولہ کی قیمت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ دس ہزار گنا سے زیادہ برکت ڈال دی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل ہم پر نازل ہو رہے ہیں.جس نقطہ نگاہ سے بھی ہم دیکھتے ہیں، عقلیں حیران رہ جاتی ہیں.اب پچھتر سالہ عرصہ قوموں اور جماعتوں کی زندگی میں کوئی لمبا عرصہ نہیں 325

Page 343

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 نومبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ہے.اس چھوٹے سے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر اپنے ایسے فضل کئے کہ ان کی تعداد اک سے ہزار ہو دیں، والی دعا سے بھی بڑھ گئی.اور ان کے اموال میں جو برکت اللہ تعالیٰ نے ڈالی ، وہ اک سے دس ہزار کی نسبت سے بڑھ گئی.اس سے ہم اس صداقت تک پہنچتے ہیں کہ جماعت احمد یہ خدا کی راہ میں جو مالی قربانیاں دیتی ہے، وہ ضائع نہیں جاتیں.اس دنیا میں بھی خدا کی راہ میں دی گئی رقم تمہیں واپس مل جاتی ہے.اور صرف اتنی ہی نہیں ملتی ، دگنی ہی نہیں ملتی ، دس گنے یا سو گنے ہی زیادہ نہیں ملتی، جیسا کہ ابھی میں نے اعدادوشمار سے بتایا ہے بلکہ دس ہزار گنے زیادہ ملتی ہے.ایسے خاندان بھی ہیں جماعت کے کہ ان کے والد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جتنی قربانی دی، ان کے بچوں میں سے ایک، ایک کی ماہوار آمدنی ان کی ساری زندگی کی مالی قربانی سے زیادہ تھی.تو اللہ تعالیٰ بڑے فضلوں کا مالک ہے.اور بڑے فضل کر رہا ہے اور کرنا چاہتا ہے.اور اس لحاظ سے اگر ہم اندازہ لگائیں کہ اگلے پچھتر سال میں ہمارے مالوں میں کس قدر برکت پیدا ہو جائے گی ( مجموعی طور پر جماعت کے مالوں میں ) تو بے شمار رقم بن جاتی ہے.اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو دنیا میں ایک فوقیت عطا کرے گا.اور یہ ڈیڑھ سو سال کا عرصہ کوئی لمبا عرصہ نہیں ہے.ایک آواز، جوا کیلی اور تنہا آواز اور ایک غریب انسان کی آواز ، ایک ایسے انسان کی آواز تھی ، جو دنیوی لحاظ سے کوئی وجاہت یا اقتدار نہیں رکھتا تھا.لیکن اپنے رب سے انتہائی پیار کرنے والا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اس طرح وہ محو تھا کہ امت مسلمہ میں ویسی محبت اور عشق کسی امتی نے اپنے امام، اپنے محد صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نہیں کی.اس کو اللہ تعالیٰ نے کھڑا کیا اور کہا کہ میں دنیا میں تیرے ذریعہ سے اسلام کو پھر غالب کرنا چاہتا ہوں.اور ایک ایسی جماعت تمہیں دوں گا (يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّماءِ ) کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے اور انہیں وحی کریں گے کہ وہ اٹھیں اور تیری خدمت میں لگ جائیں.پھر یہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی ، 1892ء میں.مگر وہ بڑھتی چلی گئی، اپنی تعداد میں.جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے، ایک ہزار گنا زیادہ نہیں، تین ہزار گنا زیادہ وہ ہوگئی.اور کہا گیا تھا کہ ان کے اموال میں برکت دی جائے گی.چونکہ انہوں نے خدا کی راہ میں ایسے وقت میں قربانیاں دیں، جب مسلمان کہلانے والے اسلام کی خاطر مالی قربانیاں دینے میں بڑی ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے اور عملاً کوئی قربانی نہیں دے رہے تھے.اور اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ ان کی حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں، جو ایک روپیہ انہوں نے دیا، اس کے بدلہ میں ان کو اور ان کے خاندانوں کو دس ہزار روپیہ سے 326

Page 344

تحریک جدید- ایک البمی تحریک...جلد چہارم - اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1967ء بھی زائد خدا نے دیا.اللہ تعالیٰ نے دس ہزار گنا سے بھی زیادہ ان کے اموال کر دئیے.پس جو کچھ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں، یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اموال ضائع ہو گئے.ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اتنا ہی ہمیں مل جاتا ہے.پھر تمہیں ڈرکس بات کا ہے؟ جتنا تم نے دیا تھا، وہ تمہیں واپس مل گیا.بلکہ اللہ تعالٰی کا فعل بڑی وضاحت سے یہ شہادت دے رہا ہے کہ تم ایک روپیہ میری راہ میں خرچ کرو، میں دس ہزار روپیہ تمہیں لوٹا دوں گا.اس دنیا میں اور جو بدلہ اس کی محبت کا اور اس کی رضا کا اور اس کی جنت کا اخروی زندگی میں ملنا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے.پس بڑا سستا سودا ہے“.میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور اپنے وعدوں کی حدود کو پھلانگتے ہوئے ، اس مقام تک پہنچ جائیں ، جو جماعت کی ضرورت کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی اس کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه روزنامه الفضل 10 نومبر 1967ء) 327

Page 345

Page 346

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تقریر فرمود 240 نومبر 1967ء زندگیاں وقف کرنا اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے تقریر فرمودہ 24 نومبر 1967ء 24 نومبر کو بعد نماز عصر احاطہ خلافت لائبریری میں لوکل انجمن احمدیہ کی طرف سے مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی سابق مبلغ امریکہ، مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب اور مکرم سید ظہور احمد شاہ صاحب کے اعزاز میں عصرانہ دیا گیا.جس میں سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث نے بھی از راہ شفقت شمولیت فرمائی.اکل و شرب کے بعد مکرم غلام باری صاحب سیف نے تلاوت کی.اس کے بعد مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب ایم.اے صدر عمومی لوکل انجمن احمدیہ نے مبلغین کرام کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا، جس کے جواب میں تینوں مبلغین کرام نے باری باری تقاریر کیں.اس کے بعد حضور نے درج ذیل قیمتی ارشادات سے نوازا اور بعدہ اجتماعی دعا کروائی.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی احسان ہے کہ اس نے سلسلہ احمدیہ کی طرف منسوب ہونے والوں کو امر بالمعروف اور نبھی عن المنکر کی ایک حد تک توفیق عطا کی ہے.اور یہی جماعت ہے، جس میں ایک ایسا گروہ اس کے فضل سے پیدا ہوا ہے، جنہوں نے اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کیں.اور پھر اپنی ساری زندگیوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خدمت میں صرف کیا.اور وہ لوگ جنہیں اپنی زندگیوں کو اس مقصد کے لئے وقف کرنے کی توفیق ملتی ہے، اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں (جیسا کہ میں ابھی بتاؤں گا.بڑی ہی عزت اور محبت کا مقام پاتے ہیں.اس لئے ایک تو ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کی قدر کریں اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں.دوسرے خود ان لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان پر ہمیشہ شکر گزار بندے بنے رہیں.اور جو عزت اللہ تعالیٰ نے انہیں دی ہے، ( جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری عزتیں بیچ ہیں.) وہ اس کی قدر کریں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ تم خیر امت ہو.کیونکہ تمہارے اندر یہ وصف پایا جاتا ہے کہ تم امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرتے ہو.329

Page 347

تقریر فرمود 24 نومبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم یہ امت کا ایک فریضہ ہے، جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے.لیکن ساری امت ہر وقت پوری ذمہ داری کے ساتھ اس فریضہ کو ادا کرنے کے قابل نہیں تھی.ساری امت کے لئے اس طرح زندگی وقف کرنا ممکن نہیں تھا.اس لئے گناہ سے انہیں بچانے کے لئے ساتھ یہ بھی کہ دیا کہ جس حد تک تم سے ممکن ہو سکے ، اس فریضہ کی ادائیگی میں لگے رہو.لیکن ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہیے کہ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ جو اپنی زندگیوں کو خدا کی راہ میں وقف کریں اور اس فریضہ کو بجالانے والے ہوں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات اتنی پسندیدہ اور محبوب ہے کہ جب تک امت اس فریضہ کو ادا کرتی رہتی ہے اور امت میں ایسا گروہ قائم رہتا ہے، اس وقت تک وحی کی برکات سے اسے نوازا جاتا ہے.آپ نے فرمایا کہ جب میری امت اس فریضہ کو نظر انداز کر دے گی اور اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرے گی تو حُرِمَتْ بَرُكَةَ الْوَحی وحی کی برکتوں سے اسے محروم کر دیا جائے گا.پس یہ برکتیں ، جن کا تعلق وحی کے ساتھ ہے، امت کو ایسے لوگوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں ہی ملتی ہیں کہ جو اپنی ساری زندگیاں اس فریضہ کی ادائیگی میں خرچ کرتے ہیں.غرض اتنا بڑا انعام اللہ تعالیٰ نے وقف زندگی کے ساتھ باندھ دیا ہے.اس لئے دعا ہے کہ ہمارے مبلغ بھی اس احسان کو پہچانیں، جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کیا ہے اور جماعت بھی اس احسان کو کبھی فراموش نہ کرے، جو واقفین کے ذریعہ ان پر اللہ تعالیٰ کر رہا ہے.اور خدا کرے کہ ہمیشہ ہی جماعت علی العموم اور واقفین زندگی بالخصوص اس فریضہ کو خلوص نیت کے ساتھ اور پوری ذمہ داری کے ساتھ اس طرح ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ان کی یہ قربانی اور ایثار مقبول ہو جائے.اور جماعت وحی کی برکات سے ہمیشہ مستفیض ہوتی رہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 05 جنوری 1968ء) 330

Page 348

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 29 دسمبر 67 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر دل میں گاڑ دی جائے گی وو خطبہ جمعہ فرمودہ 29 دسمبر 1967ء...اجتماعی طور پر لیلة القدر وہ زمانہ بھی ہے، جو ایک نبی کا زمانہ ہوتا ہے، جو انتہائی فساد اور اندھیرے اور ظلمت کا زمانہ ہوتا ہے.لیکن ظلمت کے اس زمانے میں ، اندھیرے کی ان گھڑیوں میں اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں اپنے بندوں کے لیے نور کا سامان پیدا کروں گا.سب سے زیادہ ظلمت شیطان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پھیلائی.اس سے زیادہ اندھیرے دنیا کی تاریخ میں ہمیں کہیں نظر نہیں آئیں گے.اور سب سے زیادہ روشن نور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ان اندھیروں میں سے ہی طلوع ہوا.اور یہ رات (جس میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اندھیروں کو دور کردیا جائے گا.جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہے، بہت ہی اندھیری رات تھی.ایسی اندھیری رات کہ اس سے بڑھ کر اندھیرا تصور میں بھی نہیں آسکتا ہے.پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ روشنی کے سامان پیدا کیے گئے.اس قدر روشنی اور نور کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے.قیامت تک کے لیے وہ احکام دے دیئے گئے ، وہ صراط مستقیم بتا دیا گیا، جس پر چل کر انسان اپنے رب، جو نور السموات والارض ہے، کے نور سے نور حاصل کر کے اپنے ظاہر اور باطن کو منور کر سکتا ہے.تو یہ زمانہ بھی لیلة القدر کا زمانہ ہے.یعنی فساد کا، یعنی شیطانی حکومت کا، یعنی اللہ تعالیٰ کے بعد کے اندھیروں کا ، وہ زمانہ ، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ روشنی پیدا کی گئی اور ان اندھیروں کو دور کیا گیا.اندھیروں کا یہ زمانہ وہ تھا ، جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں نے انتہائی دکھ اٹھائے.ان لوگوں کے لئے دنیا اندھیر تھی.دنیوی لحاظ سے روشنی کی کون سی کرن تھی ، جو وہاں تک پہنچ سکتی تھی؟ ہر طرف سے کفر نے ان کوگھیرا ہوا تھا.ہر قسم کی قربانیاں تھی ، جو ان سے لی جا رہی تھی.مردوں سے بھی اور عورتوں سے بھی.وہ کون سی بے عزتی تھی ، جوان مسلمان عورتوں کو نہ دیکھنی پڑی ہو؟ ہر قسم کے اندھیروں کی دیوار میں شیطان ان کے گرد کھڑی کر رہا تھا.اور اللہ تعالیٰ ان 331

Page 349

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 29 دسمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سے انتہائی قربانیاں لے رہا تھا.اس وعدہ کے ساتھ کہ میں تمہارے لئے اپنی تقدیر کی تاریں ہلاوں گا اور و اتنے انعامات دوں گا ، اتنے فضل تم پر نازل کروں گا ، آسمان سے تم پر نور کی کچھ اس طرح بارش برسے گی کہ یہ سب اندھیرے کا فور ہو جائیں گے اور مٹ جائیں گے.اور شیطان اپنے تمام اندھیروں اور ظلمتوں کے ساتھ بھاگ جائے گا اور حق اپنے تمام نوروں کے ساتھ دنیا میں قائم ہو جائے گا.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ليلة القدر کا زمانہ تھا.اس معنی میں کہ اگر چہ شیطان انسانی روحوں پر پوری طرح غالب آگیا تھا اور مسلمانوں کو انتہائی قربانیاں اس وقت دینی پڑی تھیں.لیکن لیلة القدر کے اس زمانہ میں ہمارے رب نے یہ فیصلہ کیا کہ ان تمام اندھیروں کو دنیا سے مٹادیا جائے گا.اور وہ، جو اپنے فیصلوں پر قادر اور وہ، جو اپنے وعدوں کو وفا کرنے والا ہے، اس نے وہ تمام اندھیرے دنیا سے مٹادئیے.اور اس طرح اسلام کا نور تمام دنیا پر چھا گیا کہ معلوم دنیا میں سے کوئی علاقہ ایسانہ رہا، جو اسلام کے نور سے محروم ہو.اس کے بعد پھر تنزل کا ایک زمانہ آیا کیونکہ اسلام کی روح کو مسلمان بھول چکا تھا.لیکن اب پھر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ پیدا کیا.اور اس زمانہ میں ہمیں بھی پیدا کیا.حضرت مسیح موعود کا زمانہ بھی لیلۃ القدر ہی کا زمانہ ہے.جس زمانہ کے متعلق الہی تقدیر ہے کہ اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کیا جائے گا اور دنیا کی تمام اقوام محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کی جائیں گی.پس ہمارا یہ زمانہ بھی شیطانی ظلمتوں، اسلامی قربانیوں اور بہترین انعامات کے لحاظ سے لیلة القدر ہے.اور اس زمانہ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ انتہائی قربانیاں لی جائیں گی اور عظیم انعامات کا وارث کیا جائے گا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جب اللہ تعالیٰ کی وہ پیشگوئیاں اور وہ آیات بینات اور وہ نشانات ابھی ظاہر نہیں ہوئے تھے، جو بعد میں ہوئے.اس وقت بھی آپ پر کچھ لوگ ایمان لائے.ان لوگوں کی زندگیوں کو جب ہم دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے حالات پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان لوگوں نے انتہائی قربانیاں دیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ابھی پوری طرح واضح نہیں تھے.وہ غیب پر ایمان لائے.ان کے بعد میں آنے والوں نے تو ہزاروں نشان دیکھے.بعض نے ان سے فائدہ اٹھایا اور بعض نے فائدہ نہیں اٹھایا.لیکن نشان ہر ایک نے ہی دیکھے.بہر حال ان نشانوں کو دیکھنے کے بعد جولوگ ایمان لائے، وہ انتہائی اندھیروں کے اوقات میں ایمان لانے والوں میں شمار نہیں ہو سکتے.اور اس وجہ سے ان کی قربانیوں کی وہ شان نہیں ، جو سابقون کی قربانیوں کی ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام 332

Page 350

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 29 دسمبر 1967ء پر ابتدائی زمانہ میں ایمان لائے تھے.اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک نور دنیا کے لئے پیدا کیا.جماعت نے ترقی کی.اللہ تعالیٰ کے فضل اس طرح نازل ہوئے کہ وہ جس کی آواز اپنے گاؤں کی گلیوں میں بھی نہیں گونجی تھی ، آج اس کی آواز ساری دنیا کی فضا میں گونج رہی ہے.اور یہ تو ایک مثال ہے، جس زاویہ سے بھی آپ دیکھیں گے، آپ کو یہی نظر آئے گا.یہ نتیجہ ہے، ان قربانیوں کی قبولیت کا، جو ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والوں نے ان اندھیری راتوں میں دیں.اور انہیں اللہ تعالیٰ نے قبول کیا.لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت میں بڑی وسعت ہے، وہ زمانہ کے بدلے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ قربانیوں کو بھی بڑھاتا چلا جاتا ہے.اب اس زمانہ میں قربانیاں اور قسم کی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے آپ کے لئے کہ آپ کو قربانیوں کے اس مقام پر کھڑا نہیں رہنے دیا.بلکہ اپنے بندوں کو ، جنہیں اس نے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا، بہت سے منصوبے سکھائے.اور اس نے آپ کو قربانیوں کے میدان میں آگے سے آگے پہنچا دیا.حضرت خلیفہ اول کی زندگی کے حالات کو دیکھیں، کس طرح آپ نے جماعت کے استحکام اور ترقی کی تدابیر کیں اور جماعت سے قربانیاں لیں.پھر ایک لمبا زمانہ خلافت ثانیہ کا ہے ، حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کا.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ خلافت میں بھی آپ کو قربانی کے ایک مقام پر کھڑا نہیں رہنے دیا.بلکہ حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں نئے سے نئے منصوبے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اسی کے ارادے سے اور اسی کے سکھانے سے آئے.اور حضور نے جماعت کو قربانی کے میدان میں آگے سے آگے دھکیلا.تا کہ اس زمانہ کے احمدیوں کی قربانیوں کی مشابہت صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ حضرت مسیح موعود کی قربانیوں سے ایک حد تک ہو جائے.تا اس قسم کے انعامات کے یہ بھی وارث ہوں.اب یہ خلافت ثالثہ کا زمانہ ہے.اور یہ تو اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے کہ کتنا لمبا عرصہ یہ رہے گا.لیکن آج میں ایک بات آپ کو بتا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرنے کی جو آسمانی مہم شروع کی گئی تھی ، آج وہ ایک نہایت ہی اہم اور نازک دور میں داخل ہو چکی ہے.اور جماعت احمدیہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ آئندہ کم و بیش تمہیں سال تک اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچائے.نیز اپنی دعاؤں کو انتہا تک پہنچائے.تا اللہ تعالیٰ ان قربانیوں اور ان دعاؤں کو قبول کرے اور وہ مقاصد حاصل ہوں، جن مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو کھڑا کیا ہے.پس کم و بیش 30 سال کا عرصہ بڑا ہی اہم ہے.بڑا ہی اہم ہے اور ہم سے انتہائی قربانیوں کا 333

Page 351

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 29 دسمبر 1967ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد چہارم مطالبہ کر رہا ہے.اور اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہے کہ اگر تم میری راہ میں انتہائی قربانیاں دو گے اور اسلام کے ہر حکم کے سامنے اپنے سروں کو جھکا دو گے، خالص مسلمان ہو جاؤ گے، اپنے نفسوں پر ایک موت وارد کر لو گے تو میں تمہیں انتہائی اور عظیم انعام بھی دوں گا.پس ہم میں سے ہر ایک شخص کا (انفرادی حیثیت میں بھی اور جماعت کا بحیثیت جماعت ) فرض ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اس نازک اور اہم وقت میں انتہائی قربانیوں کو اپنے رب کے قدموں میں جا رکھے.تا کہ اپنے رب کی پیار بھری نگاہ کا وہ مستحق اور وارث قرار دیا جائے.اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہماری مدد کے لئے آسمانوں سے اتریں اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہماری زندگیوں میں پورا ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر دل میں گاڑ دی جائے گی“.مطبوعه روزنامه الفضل 09 جنوری 1968ء) 334

Page 352

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 107 اپریل 1967ء اللہ ہم سے وہ کام کروائے، جس کے لئے حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرمایا وو تقریر فرمودہ 07 اپریل 1967ء برموقع مجلس مشاورت میں یہاں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے مشوروں کو سننے کے بعد جب میں کسی نتیجہ پر پہنچوں اور کسی کام کے کرنے کا ارادہ اور عزم کروں تو محض اپنے رب پر توکل رکھتے ہوئے اور اس کی زندہ طاقتوں اور زندہ قدرتوں پر یہ امید رکھتے ہوئے کہ میری کوشش میں جو میں کروں یا کراؤں ، وہ برکت ڈالے گا.میں وہ عزم کروں اور دل میں دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ ان نیک کاموں میں ہماری راہبری بھی کرے.کیونکہ مشوروں میں جہاں اس کی ہدایت کی ضرورت ہے، وہاں عمل میں بھی اس کی ہدایت کی ضرورت ہے.اور وہ ہماری حقیر کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کے ایسے شاندار نتائج نکالے، جو اس کی نگاہ میں بھی شاندار ہوں.نہ دنیا کی ہمیں پرواہ ہے، نہ دنیا کی طرف ہم دیکھتے ہیں.ہماری نظریں اپنے رب کی طرف لگی ہوئی ہیں، ہمارے سر اس کے آستانہ پر جھکے ہوئے ہیں.ہم اس کی مدد اور نصرت کے طالب ہیں.اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ جب واقعہ میں ہم اس کی نظر میں فنا کا مقام حاصل کر لیں گے تو وہ پنے فضل سے ہم میں ایک نئی زندگی اور ایک نئی روح ڈالے گا اور فرشتوں کی افواج کو آسمان سے ہماری مدد کے لئے نازل کرے گا.اور ہم سے وہ کام کروائے گا، جس کام کے لئے اس نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے اور اسلام پھر تمام ادیان باطلہ پر غالب آجائے گا اور شیطان کو آخری شکست نصیب ہوگی اور صداقت کو آخری فتح ملے گی.پس آؤ ہم دعاؤں کے ساتھ اور اس دعا کے ساتھ مجلس مشاورت کے کام کو شروع کریں کہ جو چیز ہمارے ذہن میں نہیں آئی اور جو بات ہماری زبان پر نہیں آئی، اللہ تعالیٰ اسے بھی اپنے فضل سے قبول کرے کہ وہ علام الغیوب ہے اور ہمارے علم بھی ناقص ہیں اور عمل بھی ناقص ہیں.رپورٹ مجلس شورٹی منعقدہ 07 تا 109 اپریل 1967 ء ) 335

Page 353

Page 354

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم ارشاد فرمودہ 109 اپریل 1967ء ہر جماعت 250 چندہ دہندگان پر ایک میٹرک پاس طالب علم جامعہ احمدیہ کو دے ارشادات فرمودہ 109اپریل 1967ء برموقع مجلس مشاورت جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے متعلق ایک تجویز پر بحث کے دوران فرمایا:.....اگر موجودہ معیار کے جاری ہونے سے پہلے سال میں صرف ایک ایسا آدمی نکلا ہو، جس نے خدمت دین کی.تو یہ بات ظاہر کرے گی کہ وہ طریق درست نہیں تھا.کیا یہ بات آپ کی تائید میں ہے کہ آپ نے سو آدمیوں پر خرچ کیا اور ان میں سے صرف ایک شخص آپ کو خدمت دین کے لئے ملا ؟ مثلاً 1928ء میں صرف ایک لڑکے نے مولوی فاضل کیا تھا.خرچ اور پیداوار میں کوئی نسبت چاہیے.ہم جو بھی خرچ کرتے ہیں ، وہ صنعت پر ہو یاز راعت پر، ایسے اس آمد سے کوئی نسبت ہونی چاہیے، جس کا ہم نے اندازہ کیا ہے.اس تجویز سے تحریک جدید متفق نہیں تھی اور جب میں نے کہہ کے یہ تجویز ایجنڈا میں رکھوائی تو تحریک جدید والے بہت پریشان ہوئے.انہوں نے خیال کیا کہ شاید کوئی تبدیلی میرے ذہن میں ہے.اس لئے انہوں نے دریافت کیا کہ اگر کوئی خاص تبدیلی نظام میں کرنی ہو تو ہمیں بتا ئیں ، ہم اس کے مطابق انتظام کر دیں گے.میں نے کہا نہیں، میں صرف جماعت کو بعض چیزوں کی طرف متوجہ کرنے چاہتا ہوں ، اس لئے میں نے یہ تجویز ایجنڈا میں رکھوائی ہے.جماعت کو یہ سوچنا چاہئے کہ باوجود اس کے کہ ہم پہلے پرائمری پاس طالب علم کو مدرسہ احمدیہ کی پہلی کلاس میں لے لیتے تھے اور اب ہم میٹرک کے بعد طالب علم کو جامعہ احمدیہ میں داخل کرتے ہیں.جامعہ احمدیہ کے طلبہ کی تعداد ستر فیصد کے قریب بڑھ گئی ہے لیکن پھر بھی جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ ہماری ضروریات کو پورا نہیں کرتا.اس لئے میرا اندازہ ہے کہ ہمارے پاس جامعہ احمدیہ میں تین سو اور پانچ سو کے درمیان لڑ کے چاہئیں.شروع شروع میں یہ تعداد بڑھے گی لیکن جب یہ کلاس اپنے عروج کو پہنچے گی تو اس میں 25 یا 30 طالب علم ہوں گے اور یہ 25 یا 30 طالب علم ایسے نہیں ہوں گے، جنہیں مبلغ لگا لیا جائے.ان میں سے ایک حصہ کو بطور مربی پاکستان میں لگایا جاسکے گا اور ایک حصہ کو بیرون ملک بطور مبلغ مقرر کیا جا سکے گا.اور ایک حصہ ہمیں ایسے تربیت یافتہ نو جوانوں کا مل جائے گا، جن کو ہم میٹرک پاس نو جوانوں پر ترجیح دے کر کلریکل لائن میں لے آئیں گے اور اس سے ایفی شنسی (Efficiency) بہت بڑھ جائے گی.337

Page 355

ارشاد فرموده 109 اپریل 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم میرا اپنا دفتر ہے، میں اپنے کلرکوں سے بڑے پیار سے کام لیتا ہوں اور وہ بھی بڑے پیار سے کام کرتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں بعض دفعہ توجہ دلانی پڑتی ہے.کیونکہ کا مجمع ہو جاتا ہے اور اس سے مشکل پیش آتی ہے.ابھی سال ختم نہیں ہوا، مہینہ کے قریب عرصہ ابھی باقی ہے لیکن میرے دفتر میں اس عرصہ میں 55 ہزار سے زائد خطوط آئے ہیں، جو میں نے پڑھے ہیں.اور کسی نظارت میں آنے والے خطوط کی تعداد دو ہزار سے نہیں بڑھی.میں بعض دفعہ رات کو تین بجے تک جاگتا ہوں تا ان دوستوں کے خطوط کا جواب دیا جاسکے، جنہوں نے مجھے خطوط لکھے ہیں.لیکن ہوتا یہ کہ میں تو ان خطوط کا جواب دینے کے لئے راتوں کو تین، تین بجے تک جاگتا ہوں لیکن وہ خطوط چھ چھ ، سات سات دنوں تک دفتر میں ہی پڑے رہتے ہیں.میرا راتوں کو جا گنا بے فائدہ ہوتا ہے کیونکہ دفتر کے کارکن ڈاک نکال نہیں رہے ہوتے.ایک تو کام زیادہ ہے اور دوسرے ان میں اپنی فینسی کم ہے.اگر اچھے کام کرنے والوں کے اندر وقف کی روح بھی پیدا ہو جائے تو وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ دفتر بند ہونے کی گھنٹی بج گئی ، اس لئے اب وہ گھر چلے جائیں.جتنی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے کام کرنے کی دی ہے، اس سے 2/5 حصہ بھی کام کرنے والے کلرک ہوں تو کام رکتا نہیں.اس قسم کے آدمی ملنے چاہئیں جامعہ احمدیہ کو اور میٹرک پاس چاہئیں." اگر کوئی طالب علم ایسا ہو، جو بڑا ہوشیار ہو لیکن گھر کے حالات کی وجہ سے وہ میٹرک تک نہ پہنچ سکتا ہو اور اس کو ساتویں یا آٹھویں جماعت میں تعلیم چھوڑ دینی پڑی ہو، اگر وہ میرے علم میں آجائے تو میں اس کی تعلیم کا انتظام کر دوں گا.یہ نہیں کہ آپ کہیں غریب ہے اور آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکتا اور وہ پڑھائی میں کمزور ہو تو میں اس کا انتظام کر دوں.ایک فیصلہ پہلے ہو چکا ہے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شوری کے مشورہ سے فیصلہ فرمایا تھا کہ ہر وہ جماعت، جس کے چندہ دہندگان کی تعداد 250 ہو، وہ ایک میٹرک پاس طالب علم جامعہ احمدیہ کو دے.اس کا مطلب یہ تھا کہ افراد جماعت کی تربیت اس رنگ میں کی جائے کہ جس جماعت میں 250 چندہ دہندگان ہوں، وہاں بہر حال ان کی اولاد بھی ہوگی.وہاں سے ایک طالب علم جامعہ احمدیہ میں آئے.لیکن اب مشکل یہ ہے کہ ضلع گوجرانوالہ نے اس فیصلہ کے بعد 1966ء میں ایک طالب علم دیا ہے.حالانکہ ضلع گوجرانوالہ میں 1025 چندہ دہندگان ہیں اور وہاں سے کم سے کم چار ہوشیار بچے پڑھنے کے لئے جامعہ احمدیہ میں آنے چاہئیں تھے ضلع شیخوپورہ میں 1114 چندہ دہندگان ہیں، یہاں سے بھی چار طالب علم آنے چاہئیں تھے.ضلع سیالکوٹ سے صرف تین طالب علم آئے ہیں.حالانکہ اس میں 2500 چندہ دہندگان 338

Page 356

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - ارشاد فرمودہ 09 اپریل 1967ء ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں سے دس طالب علم آنے چاہیں.اگر جماعتیں اس نسبت سے طالب علم مہیا کریں تو جامعہ احمدیہ میں طلباء کی تعداد تین اور پانچ سو کے درمیان ہو جاتی ہے.جامعہ احمدیہ میں ایسے طالب علم نہ بھیجیں، جن کے متعلق آپ کا یہ خیال ہو کہ ان کے لئے اور کوئی جگہ نہیں، اس لئے انہیں جامعہ احمدیہ میں بھیج دیں.اگر اچھے طالب علم دیں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے سامان کرے گا کہ ان کی فراست صیقل ہوگی.اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور اخلاص میں برکت ڈالے گا.دنیا میں جہاں بھی وہ کھڑے ہوں گے، کوئی ان کے مقابلہ میں نہیں آئے گا.یہ بھی صحیح ہے کہ جامعہ احمدیہ میں جو طالب علم داخل ہوں گے، وہ سارے کے سارے کامیاب نہیں ہوں گے.بعض ان میں سے رہ جائیں گے.کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو درخت لگائے جاتے ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد مرجاتی ہے.اس الہی قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے ، جامعہ احمدیہ میں زیادہ طلباء کی ضرورت ہے.کیونکہ کچھ تو ان میں سے رہ جائیں گے اور کچھ معیار پر پورے نہیں اتریں گے اور انہیں ہم دفاتر میں لے آئیں گے.اور ایک آدھ ایسا بھی ہوگا، جسے ہم جماعت سے خارج کرنے پر مجبور ہوں گے.پس جتنے ہوشیار طالب علم آپ دیں گے، اتنا ہی اچھا نتیجہ نکلے گا.اس وقت حالت یہ ہے کہ بہت سے ممالک بڑی تعداد میں مبلغین مانگ رہے ہیں.عملاً جو مبلغ جا رہے ہیں ، وہ بہت کم ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ جو معیار ہم نے بڑی کوشش کے بعد قائم کیا تھا، وہ اب کم ہورہا ہے.پہلے قاعدہ تھا کہ جو بلغ باہر سے آتا تھا، وہ تین سال تک مرکز میں رہتا تھا.لیکن اب میں نے کہہ دیا ہے کہ میں نے کسی مبلغ کو مرکز میں تین سال تک نہیں رہنے دینا، جب تک کہ جماعت اور بچوں کی قربانی پیش نہ کرے.میں ان مبلغین کو صرف ایک سال تک مرکز میں رہنے دوں گا.ایک طرف آپ تقریریں کرتے ہیں کہ باہر کام کرنے والے مبلغین کو کچھ عرصہ کے بعد مرکز میں بلایا جائے یا ان کے بیوی بچے ان کے ساتھ بھیجے جائیں اور دوسری طرف آپ جامعہ احمدیہ میں پڑھانے کے لئے اپنے بچے یہاں نہیں بھیجتے.میں نے بہر حال قربانی کا مطالبہ کرنا ہے.اگر ضرورت حقہ ہو اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ جماعت کے افراد قربانی دینے والے ہوں.حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے بیوی اور بچے کو وادی غیر زرع میں چھوڑ گئے تھے تو وہ وہیں پڑے رہے تھے.آپ نے ساری عمر کے لئے ان سے قطع تعلق کر دیا تھا.اگر ہم نے جماعت میں ابراہیمی اسوہ کو قائم رکھنا ہے تو ہمیں ان جیسی قربانی بھی پیش کرنی پڑے گی.صحابہ کا نمونہ بعض پہلوؤں سے زیادہ شاندار ہے.اگر آپ واقعہ میں مبلغین.339

Page 357

ارشاد فرموده 09 اپریل 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم در در کھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں کچھ سہولتیں دی جائیں تو آپ اس کے لئے سامان بھی تو مہیا کریں.تقریر اور اپیل کی ضرورت نہیں.سہولت مہیا کرنے میں سب سے بڑی روک، تعداد کی کمی ہے.اگر میرے اندازہ کے مطابق چار سو یا اس زیادہ مربی مل جائیں تو ایک طرف ہمارے مربیوں کی تعداد دگنی ہو جائے گی اور ہماری ضرورت بھی ایک حد تک پوری ہو جائے گی اور دوسری طرف انہیں کچھ سہولتیں بھی مل جائیں گی.میں نے صرف ان باتوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے اس تجویز کو ایجنڈا میں رکھوایا تھا“.ر پورت مجلس شوری منعقدہ 09007 اپریل 1967ء) 340

Page 358

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم وو اقتباس از تقریر فرموده 09 اپریل 1967ء ہم نے دنیا میں ایک مثالی معاشرہ کو قائم کرنا ہے تقریر فرمودہ 109اپریل 1967ء برموقع مجلس مشاورت بات یہ ہے کہ یہ مجھ لینا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد جو کچھ ہونا تھا، ہو گیا.یہ غلط ہے.ہم نے دنیا میں ایک مثالی معاشرہ کو قائم کرنا ہے.دنیوی لحاظ سے بھی ، جسے دنیا دیکھتی ہے اورسمجھ سکتی ہے اور روحانی لحاظ سے بھی ، جسے نہ دنیا دیکھتی ہے اور نہ سمجھ سکتی ہے.ہم نے ان کو سمجھانا بھی ہے اور دکھانا بھی ہے.اس کے لئے جذبات کی قربانی بھی کرنی پڑے گی، اس کے لئے عادات کی قربانی بھی کرنی پڑی گی، اس کے لئے اموال کی قربانی بھی کرنی پڑے گی ، اس کے لئے غلط قسم کے رسم و رواج کو بھی، جو ہمارے اندر رواج پاگئے ہیں، چھوڑنا پڑے گا، اس کے لئے نیندوں کی قربانی بھی کرنی پڑے گی، اس کے لئے شاید ہمیں بھوکا رہ کر دوسروں کو کھانا کھلانا پڑے گا، اس کے لئے بیدار رہ کر راتوں کی نیند اپنے اوپر حرام کر کے دوسروں کے لئے میٹھی نیند کا سامان کرنا پڑے گا.بہر حال ہم نے بہت کچھ کرنا ہے.اب ہم اس دور اور اس زمانہ میں سے گزر رہے ہیں، جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمیں آخری شکل میں فتح نصیب ہو جائے گی اور پھر اسلام ساری دنیا میں حقیقی احمدیت کی شکل میں غالب آچکا ہوگا.اس کا قریباً 1/3 حصہ گزر چکا ہے اور آخری 1/3 حصہ عام طور پر اس قسم کا نہیں ہوتا ، اپنے کام کے لحاظ سے بھی اور اپنی قربانیوں کے لحاظ سے بھی.اصل ذمہ داری کے ساتھ انتہائی قربانیاں دینے کا زمانہ، یہ درمیان کا 1/3 ہی ہوا کرتا ہے.غرض ہم اس زمانہ میں داخل ہو رہے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ ہم سے انتہائی قربانی لینا چاہتا ہے اور اس زمانہ کے تقاضا کے مطابق ہمیں قربانیاں دینی پڑیں گی اور دینی چاہئیں.اگر ہم یہ قربانیاں نہیں دیں گے تو اللہ تعالیٰ ایک اور قوم لے آئے گا.کیونکہ خدا تعالی کا جو وعدہ ہے، وہ تو بہر حال پورا ہو کر رہنے والا ہے.سوال یہ ہے کہ اگر کوئی اور قوم ہماری جگہ آگئی تو جو بشارتیں بنعمتوں کے وعدے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کے وعدے، ہمیں ملے ہیں ، وہ ہمیں نہیں ملیں گے.ہم خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکیں گے، ہم خدا تعالیٰ کے قرب کو نہیں پاسکیں گے، خدا تعالی کی نعمتیں اور بشارتیں ہمیں نہیں ملیں گی بلکہ ایک اور قوم ان کی وارث بن جائے گی.341

Page 359

اقتباس از تقریر فرموده 09 اپریل 1967ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اور بڑی بد بخت ہوگی وہ قوم، جو کچھ قربانی دینے کے بعد اس کے نتائج سے کلی طور پر محروم کر دی گئی ہو.کچھ قربانی تو ہم بہر حال دے چکے ہیں اور اگر ہم پوری قربانی نہیں دیں گے تو جتنی قربانی ہم نے دی ہے ، ہماری بعد کی بداعمالیاں ، بستیاں اور غفلتیں اس کو بھی ملیا میٹ کر دیں گی.اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.پس ہمیں بہت چوکس رہ کر بڑی قربانی کے ساتھ اور انتہائی اخوت اور محبت کے ساتھ زندگی کے دن گزارتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو نباہنا چاہیے.وو غرض ہم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں اور کچھ اور ذمہ داریاں ہم پر پڑنے والی ہیں.اگر ہم بحیثیت جماعت بھاری اکثریت کو اس بات کے لئے تیار کر لیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو نہا ہیں گے تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں.مثلاً ایک نسل سنیما نہیں دیکھے گی تو دنیا میں کیا اندھیر آجائے گا؟ اگر یہ نسل دنیا کی لذتوں اور دنیوی شیخیوں سے اپنے آپ کو بچالے گی تو میرے خیال میں یہ کوئی بڑی قربانی نہیں اور اس نسل کو کوئی بڑا نقصان بھی نہیں.پھر اس کے بدلہ میں خود اس نسل کو جو روحانی لذت اور سرور ملے گا، اس کا دنیوی لذات اور سرور کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں.اور اس کے نتیجہ میں جو جائز آرام اور جو جائز لذتیں اور جو جائز سرور اس دنیا کے ہیں، وہ اس نسل کی نسلوں کو اس طریق پر ملیں گے کہ دنیا کی کسی اور و قوم کو وہ چیزیں ملی ہی نہیں ہوں گی.اب دیکھو یہ کتنا بڑا انعام ہے، جو ہمارے سامنے ہے.کیا چیز ہے، انسان کی یہ چالیس یا پچاس سالہ زندگی؟ جس کے آخر میں وہ تمام انعامات مجھے کھڑے نظر آ رہے ہیں، جن کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا ہے.اگر ہمارے قدم ست ہو جائیں، اگر ہم بشاشت کے ساتھ آگے نہ بڑھیں تو پھر اگر ہم اس طرح چل رہے ہیں تو ایک جگہ پر خدا تعالی کا غضب ہم پر نازل ہوگا اور ہم اپنی بستیوں کے نتیجہ میں وہیں رہ جائیں گے اور ایک اور قوم ادھر سے آئے گی، ادھر سے آئے گی اور وہ اس راستہ پر چل پڑے گی، جس پر ہمیں چلنا چاہئے تھا.اور اس جگہ پہنچ جائے گی ، جہاں انہیں انعام ملنے ہیں.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 0907 اپریل 1967ء) 342

Page 360

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 26 جنوری 1968ء شمار فضل اور رحمت نہیں ہے، تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جنوری 1968ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ شمار فضل اور رحمت نہیں ہے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے اس کا نظارہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.ویسے تو یہ دو مصرعے اوپر نیچے ہیں.لیکن ایک دن میری زبان پر اسی ترتیب سے یہ آئے تھے، اس لئے میں اسی ترتیب سے بولتا ہوں.شمار فضل اور رحمت نہیں ہے، تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے.تو ہر ساعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو ہم نے یہاں نازل ہوتے دیکھا.صرف ربوہ ہی میں نہیں ، ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے اسلام کے حق میں ایسے سامان پیدا کر رہے تھے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا انتشار صرف یہیں نہیں بلکہ ساری دنیا میں ہی نزول رحمت ہوتا، ہمیں نظر آتا ہے.میں ایک خط کے بعض اقتباسات آپ کو پڑھ کر سناؤں گا.جلسہ کے عین اختتام پر امام کمال یوسف کی تار آئی تھی کہ وہاں بعض پادری مخالفانہ مضمون بھی لکھ رہے ہیں.اب دوروز ہوئے ، مجھے ان کا خط ملا.اس کے اقتباسات میں اس لئے پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں کہ دوست اس بات کو پہچان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر کس قسم کے فضل نازل کر رہا ہے.اور یہ کہ ان فضلوں کا تعلق صرف ہمارے دلوں سے یا ہمارے خاندانوں یا ہمارے ماحول یا ہمارے شہروں سے نہیں بلکہ ساری دنیا سے ان کا تعلق ہے.اور اس رنگ میں وہ فضل نازل ہورہے ہیں کہ ہماری جبین نیاز اور بھی اس کے سامنے جھک جاتی ہے کہ جس چیز کی ہمیں ذرا بھی طاقت نہیں، جس کے متعلق ہم وہم بھی نہیں کر سکتے کہ ہم اپنی طاقت سے یہ چیز کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی سے وہ باتیں ظاہر کر رہا ہے.343

Page 361

اقتباس از خطبه جمعه فرمود 26 جنوری 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم یہ انیس جنوری کا لکھا ہوا خط ہے.امام کمال یوسف لکھتے ہیں کہ :.جس پادری نے ہمارے خلاف مضامین لکھے، اس اخبار میں ایک ایڈیٹوریل، سات مختلف مضامین پادری کے خلاف اور ہمارے حق میں چھپے ہیں.(اور بہت سے خطوط بھی.ایک خط سات دستخطوں سے چھپا ہے، جس میں لکھا ہے کہ اگر پادری کی رائے اسلام کے خلاف اس کی ذاتی نہیں بلکہ اس چرچ کی رائے ہے تو ہم سات آدمی چرچ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں.ایک نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے اخلاق ہم سے زیادہ بلند ہیں ، اس لئے پادری کا ایسا لکھنا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑی گری ہوئی بات ہے“.وو اور ایک خط کی سُرخی ہے ” تعصب“.ایک خط کی سرخی ہے کہ میں بحیثیت عیسائی ایسے پادری کی وجہ سے سخت نادم ہوں“.ایک نے لکھا ہے کہ پادری کا یہ کہنا کہ اسلام تلوار سے پھیلا، اس کی اپنی تاریخ سے ناواقفی کی علامت ہے.ایڈیٹوریل کی سرخی ہے.”دی ڈور ( وہ علاقہ جہاں ہماری مسجد ہے.) میں مذہبی جنگ“.آج کا اخبار بھرا ہوا ہے.اس علاقہ کے طلباء نے کثرت سے مسجد میں آنا شروع کر دیا ہے.آج بھی ایک کلاس جمعہ کے وقت آ رہی ہے.تقاریر کے لئے بھی کئی جگہ مدعو کیا گیا ہوں.خط ختم کرنے کے بعد انہوں نے نوٹ دیا ہے.ابھی ایک اور اخبار کا فون آیا ہے، بڑا مشہور اخبار ہے.وہ غالباً اس پادری کے خلاف مضمون لکھ رہا ہے.شاید رائے عامہ ہموار کر کے اس کو چرچ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کرے کہ تو نے کیوں اس قسم کا مضمون اسلام کے خلاف اور نبی اکرم کے خلاف لکھا؟ اب دیکھو، اس طرح ان عیسائیوں کے دلوں میں ان خیالات کا پیدا ہونا اور جرات کے ساتھ ان کا اظہار کرنا اور اسی اخبار کا ، جس میں اسلام کے خلاف اس پادری کا مضمون شائع ہوا تھا، ان خیالات کو شائع کر دینا اور خود ایڈیٹوریل اس کے خلاف لکھنا ، یہ ایسی باتیں نہیں ، جو میں اور آپ کر سکیں.اللہ تعالیٰ 344

Page 362

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 26 جنوری 1968ء نے آسمان سے فرشتوں کو نازل کیا اور ان دلوں میں ایک تبدیلی پیدا کی اور ایک جرات پیدا کی اور انہیں توفیق دی کہ جرات سے ان خیالات کا اظہار کریں اور جرات سے ان خیالات کو شائع کریں.اس سے پہلے (جلسہ سے چند دن پہلے ) ہمارے آنریری مبلغ میڈسن صاحب نے ایک خط کے ذریعہ یہ اطلاع دی تھی ایک خط تو میں نے جلسہ کے دنوں میں سنایا تھا، وہ تو اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ ہے.ایک اور خط میں انہوں نے لکھا ) کہ اب پیپلز چرچ آف ڈنمارک کے اراکین بھی مسجد میں آتے ہیں تو ہمارے ساتھ شریک ہو کر نماز پڑھتے ہیں.وہ ابھی مسلمان تو نہیں ہوئے مگر اتنے قریب آگئے ہیں.(اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق دے اور وہ اسلام کو شناخت کرلیں.اس وقت عیسائیت تعصب کے انتہائی مظاہرے کرے گی.کیونکہ وہ اسلام کے بڑھتے ہوئے غلبہ سے خائف ہو گئی ہے.لیکن تعصب کے ان مظاہروں میں فتح اسی کو ہوگی، جس کی فتح کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے دی.اسلام کا غلبہ مقدر ہو چکا ہے.اس غلبہ کے ظہور کے لئے ہم پر بھی اللہ تعالیٰ نے بہت سی ذمہ داریاں عائد کی ہیں.ان ذمہ داریوں کو نباہنا، ہمارا کام ہے.سب سے پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد سے ہر وقت اپنی زندگی کو معمور رکھیں اور اس کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کے لمحات کو گزار ہیں.اور دوسری بنیادی اور اصولی ذمہ داری یہ ہے کہ ہر وہ قربانی ، جس کا وقت اور زمانہ ہم سے مطالبہ کرے، ہم بشاشت کے ساتھ اپنے رب کے حضور پیش کر دیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی توفیق دے.(آمین).( مطبوعه روز نامه الفضل 04 فروری 1968ء) 345

Page 363

Page 364

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 فروری 1968ء تم کو ہر وقت تین محاذوں پر شیطان کے حملوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا خطبہ جمعہ فرمودہ 02 فروری 1968ء " اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں ایک نہایت ہی لطیف اور نہایت ہی شاندار دعا ہمیں سکھائی ہے، سورہ فاتحہ کی شکل میں.اور اس طرح ابتداء ہی میں ایک عظیم دعا سکھا کر ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ ایک مسلمان کی زندگی کا انحصار دعا اور صرف دعا پر ہی ہے.اس کے بعد سورہ بقرہ میں پہلے قرآن کریم کو ایک عظیم ، ایک کامل، ایک مکمل کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے رکھا اور یہ اعلان کیا کہ یہ عظیم کتاب ہر قسم کے شکوک و شبہات اور نقائص سے مبرا اور پاک ہے.اور اس کے بعد امت مسلمہ کو بیدار اور چوکس کیا ، یہ کہہ کر کہ تم کو ہر وقت تین محاذوں پر، تین فرنٹیرز پر ہوشیاری کے ساتھ شیطان کے حملوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا.اور اس کے لئے تمہیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے.ایک محاذ ، جس کی طرف ہمیں متوجہ کیا، وہ اندرونی محاذ ہے.تربیت کا محاذ.تربیت کے محاذ کے دو پہلو ہیں.ایک تربیت یافتہ کو تربیت کے اعلیٰ مقام پر قائم رکھنے کی کوشش کرنا.اور یہ کوشش کرنا کہ وہ مزید ترقیات روحانی راہوں پر کرتا چلا جائے.تربیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ جو امت مسلمہ میں نئے نئے شامل ہوں بیعت کر کے یا ولادت کے نتیجہ میں ، ان کو اسلام کے رنگ میں صحیح طور پر رنگنا اور سچا مسلمان بنانے کی کوشش کرنا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کتاب هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ہے.اس میں اس طرف اشارہ کیا کہ تقویٰ کے بلند مقام پر پہنچنے کے باوجود انسان کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی ضرورت رہتی ہے.اور اس ضرورت کو یہ قرآن پورا کر رہا ہے.متقیوں کے لئے ہدایت کا سامان اس کے اندر پایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو دعائیہ الفاظ میں دوسری جگہ اس طرح بیان کیا ہے کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا 347

Page 365

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 فروری 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کہ ہدایت تیرے فضل سے ہمیں حاصل ہو جائے.پھر بھی یہ خطرہ لاحق رہے گا کہ ہمارے دلوں میں کسی قسم کی کبھی نہ پیدا ہو جائے.پس ہم تیرے حضور عاجزانہ دعا کے ذریعہ جھکتے ہیں اور یہ التجا کرتے ہیں کہ جب ہمیں ہدایت حاصل ہو جائے ، صراط مستقیم ہمیں مل جائے ، ہمارے دل سیدھے ہو جائیں.تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کوئی کبھی نہ پیدا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی خطرہ کی طرف بار ہا متوجہ کیا ہے.میں ایک مختصر سا اقتباس اس وقت دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.بعض ایسے بھی ہیں کہ اول ان میں دل سوزی اور اخلاص بھی تھا مگر اب ان پر سخت قبض وارد ہے.اور اخلاص کی سرگرمی اور مریدانہ محبت کی نورانیت باقی نہیں رہی بلکہ صرف بلعم کی طرح مکاریاں باقی رہ گئی ہیں.اور بوسیدہ دانت کی طرح اب بجز اس کے کسی کام کے نہیں کہ منہ سے اکھاڑ کر پیروں کے نیچے ڈال دیئے جائیں.وہ تھک گئے اور راندہ ہو گئے اور نابکار دنیا نے اپنے دام تزویر کے نیچے انہیں دبا لیا.سو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عنقریب مجھ سے کاٹ دیئے جائیں گے.بجز اس شخص کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل نئے سرے اس کا ہاتھ پکڑ لیوے.ایسے بھی بہت ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے مجھے دیا ہے.اور وہ میرے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہیں.(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 40) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان الفاظ میں اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ ہدایت پا لینے کے بعد اس وہم میں مبتلا ہو جانا کہ اب ہمارے لئے ابتلاء آہی نہیں سکتا اور شیطان کا ہم پر کامیاب وار ممکن ہی نہیں.یہ غلط ہے.متقی بن جانے کے بعد بھی انسان کو ہدایت کی ضرورت رہتی ہے.اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا اس میں اس طرف بھی اشارہ کیا کہ کبھی سے بچنے اور ہدایت پر قائم رہنے کے لئے جن ہدایتوں کی ، جن تعلیمات کی ضرورت ہے، وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں.پس ایسے مواقع کے لئے جو دعائیں قرآن کریم نے سکھائی ہیں، جو طریق اس نے بتائے ہیں، جو تعلیمیں اس نے دی ہیں، ان سے فائدہ اٹھاؤ.اور دعاؤں کے ذریعہ اور تدبیر کے ذریعہ یہ کوشش کرو کہ ہدایت پانے کے بعد پھر پاؤں نہ پھیلے.اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت میں داخل ہونے کے بعد کہیں ایسا نہ ہو کہ رضا کی ان جنتوں سے نکال دیئے جاؤ.348

Page 366

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 02 فروری 1968ء پس تربیت کا ایک محاذ تو یہ ہے.ساری جماعت کو اس طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ ایک دوسرے کے مد اور معاون اور ناصر بن کر ایک دوسرے کولغزشوں سے بچائیں.اور اس طرف متوجہ کرتے رہیں کہ دیکھنا کسی موقع پر بھی کبر اور نخوت اور غرور اور ابا اور استکبار تمہارے اندر نہ پیدا ہو جائے.عاجزی کے ساتھ اور نیستی کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزارو.یہ ایک پہلو ہے تربیت کا.اور دوسرا پہلو جو ہے، وہ نئے داخل ہونے والوں یا نٹے پیدا ہونے والوں کا محاذ ہے.جب ایک کام ایک لمبے زمانہ پر ممتد ہو تو ضروری ہوتا ہے کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل کی صحیح تربیت کی جاتی رہے.تو دوسرا پہلو تر بیت کا اطفال کی تربیت، نئے داخل ہونے والوں کی تربیت ہے.(اس کی تفصیل میں ، میں اس وقت نہیں جاؤں گا.) بهر حال هُدًى لِلْمُتَّقِينَ میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ایک تو یہ فرمایا کہ ہدایت پا جانے کے بعد بھی تمہیں ہدایت پر قائم رہنے کے لئے ایک ہدایت کی ضرورت ہے اور وہ قرآن کریم میں پائی جاتی ہے.اور دوسرے اللہ تعالیٰ نے اشارہ یہ فرمایا کہ قرآن کریم ہدایت کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے.(دوسری جگہ بڑی وضاحت سے اسے بیان کیا ہے.) اور اشارہ بتایا گیا ہے کہ جو ہدایت یافتہ نہ ہوں، بڑے ہوں، شعور رکھنے والے ہوں لیکن ابھی ان پر اسلام کی حقیقت واضح نہ ہوئی ہو یا بچپن سے بڑے ہور ہے ہوں اور ابھی اس قسم کا شعوران میں پیدا نہ ہوا ہو، جو بھی صورت ہو، نئے سرے سے ہدایت دینے کے سامان قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں.اور قرآن کریم نے بڑا زور دیا ہے کہ تربیت کے اس پہلو کو بھی ہمیشہ مد نظر رکھو اور اس میں بھی غفلت سے کام نہ لو.دوسرا محاذ جہاں ہمیں چوکس رہنا چاہیے اور اس کی طرف سورۃ بقرۃ کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں متوجہ کیا ہے.وہ یہ ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِینَ کے مضمون کے متعلق آیات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) کہ ایک دوسری جماعت یا دوسرا گروہ وہ ہے (اس کامل کتاب کے نزول کے بعد ) کہ جن کے دل اور دماغ اور روح کی کیفیت یہ ہے کہ تم انہیں انداری پیشگوئیاں بتا کر انذار کردیا نہ کرو، ان کے لئے برابر ہوگا.وہ اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم نبی کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں دنیا کی طرف بھیج دیا ہے.اور قیامت تک دنیا کی قسمت کو آپ کے پاک وجود کے ساتھ 349

Page 367

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 02 فروری 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم وابستہ کر دیا ہے.اور جو شخص آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، وہ اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی گھاٹے میں رہتا اور خسران پانے والا ہے.تو جب تک ان کے ذہنوں کی یہ کیفیت رہے کہ تمہارا ڈرانا ،نہ ڈرانا ، ان کے لئے برابر ہی ہو تو اس وقت تک وہ ایمان کیسے لا سکتے ہیں؟ اس لئے تم پر یہ فرض عائد کیا جاتا ہے کہ تم ان کے ذہنوں کی اس کیفیت کو بدلنے کی کوشش کرو.اس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے بڑی تفصیل سے قرآن کریم میں ہدایتیں دی ہیں.ہمیں یہ کہا ہے کہ تمہارے دل میں ایسے لوگوں کے لئے رحم کا جذبہ اس شدت کا پیدا ہو جائے کہ تم ہر وقت ان کے لئے دعائیں کرتے رہو.وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں، اس کی آواز پر لبیک نہیں کہہ رہے، ایک جہنم اپنے لئے پیدا کر رہے ہیں.اے خدا! تو اپنے ان بندوں کو اس جہنم سے نجات دلا، ان کی آنکھیں کھول، ان کے دلوں کی اس کیفیت کو بدل دے.اس کے متعلق جیسا کہ میں نے بتایا ہے، بڑی تفصیل سے قرآن کریم نے ہدایتیں ہمیں دی ہیں.جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کہہ سے عملی نمونہ دکھاؤ وغیرہ وغیرہ سینکڑوں ہدایتیں ہمیں دی گئی ہیں.اس محاذ پر بھی ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا چاہیے.اس وقت اسلام پر سب سے زبر دست حملہ عیسائیت کر رہی ہے.اور دوسرے نمبر پر دہریت یعنی وہ جو خدا کے وجود سے ہی انکار کر رہے ہیں.عیسائیت کو یہ وہم ہو گیا تھا کہ وہ بیسویں صدی کے شروع میں ساری دنیا کو اس کے لئے ، جسے وہ خداوند یسوع مسیح کہتے ہیں، جیت لیں گے.لیکن عین وقت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور ان کے اس وہ ہم کو دور کر دیا.لیکن ابھی طاغوتی طاقتوں کا سر جو اس شکل میں اور اس رنگ میں ظاہر ہوا تھا، پوری طرح کچلا نہیں گیا.اور ڈیسپریٹ (desperate) ہو کر خائف ہو کر اسلام کے خلاف ہر جائز اور نا جائز طریق کو استعمال کرنے پر عیسائیت تل گئی ہے.ایک مثال میں دیتا ہوں.کچھ عرصہ ہوا ، مغربی افریقہ سے یہ اطلاع ملی تھی کہ عیسائیوں کے ایک رسالہ میں یہ مضمون شائع ہوا ہے.ایک بہت بڑے پادری کی طرف سے کہ جوطریق اس وقت تک ہم عیسائی بنانے کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں، وہ ناکام ہو گئے ہیں.ہمیں سوچنا پڑے گا کہ نئے طریق اختیار کئے جائیں.کیونکہ ایک لمبے عرصہ کے تجربہ نے ہم پر یہ ثابت کیا ہے کہ ان راہوں سے ہم کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے.اور اس نے یہ مشورہ دیا ہے کہ عیسائیت میں مغربی افریقہ کے رہنے والوں کی روایات اور عادات کے مطابق تبدیلیاں کر دی جائیں.یہ لوگ بت پرست ہیں، وہم پرست ہیں، جادو اور ٹونے کے قائل ہیں.کچھ اس قسم کے خیالات عیسائیت کے اندر لے آنے چاہئیں تا کہ یہ لوگ عیسائی ہو جائیں.350

Page 368

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 02 فروری 1968ء ابھی دو، ایک ہفتے ہوئے ، مشرقی افریقہ سے یہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں بھی پادریوں نے سر جوڑا ہے اور انہوں نے یہ بحث کی ہے کہ جن راہوں کو ہم کامیابی کی راہیں سمجھتے تھے، وہ تو ناکامی کی طرف نہیں لے گئی ہیں.اور یہ لوگ عیسائیت کی طرف متوجہ نہیں ہورہے.اس واسطے ان کے ذہن اور ان کی عادتوں اور ان کی روایتوں کے مطابق عیسائی اعتقادات میں تبدیلی کر دینی چاہیے.تا کہ ان لوگوں کو ہم عیسائی بنا سکیں.یعنی عیسائیت کا ان پر لیبل لگ جائے ، چاہے وہ پھر کی پرستش کرنے والے ہوں، چاہے وہ درخت کی پرستش کرنے والے ہوں، چاہے وہ جادو اور ٹونے کی پرستش کرنے والے ہوں.لیکن عیسائیت کے اندر یہ چیزیں لے آؤ لیبل تو لگ جائے گا کہ عیسائی ہو گئے.تو جو مذہب اس قسم کے ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی طرف آجائے ، اس کی حالت کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں.بہر حال اس وقت وہ اپنا پور از ور لگانے پر تلے ہوئے ہیں کہ ہر جائز اور ناجائز طریق سے اسلام کے خلاف عیسائیت کو کامیاب کریں.دراصل ہماری زندگی کا جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کیا جائے.اور سب سے بڑا حملہ عیسائیت کے محاذ سے ہو رہا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے باوجود انتہائی کمزور ہونے کے باوجود انتہائی غریب ہونے کے باوجود انتہائی بے کس ہونے کے، باوجود انتہائی طور پر سیاسی اقتدار سے محروم ہونے کے یہ تو فیق عطا کی، اپنے فضل سے کہ ہم نے ایک بہت بڑا ریلا عیسائیت کا بیسویں صدی کے شروع میں روک دیا.لیکن ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا.اور نہ وہ وقت آیا ہے کہ ہم سمجھیں کے ہمیں اپنی قربانیوں کی رفتار کو اب تیز کرنے کی ضرورت نہیں رہی ، ہم کامیاب ہو گئے ہیں یا یہ کہ کامیابی ہمارے سامنے کھڑی ہے، عنقریب ہم کامیاب ہو جائیں گے.ابھی وہ وقت نہیں آیا.اس کے لئے بہت زیادہ اور انتہائی قربانیاں ہمیں دینی پڑیں گی ،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ، اسلام کے لئے اللہ کے لئے.جب دلوں کے جیتنے کا سوال ہو تو نصف یا چوتھائی دل جیتنے کا سوال نہیں ہوتا کہ دل آدھے تو شیطان کے رہیں اور نصف خدا کے لئے ہو جائیں.سارا ہی دل جیتنا ہے.اور سارے ہی دل کو اللہ تعالیٰ کے قدموں میں لا ڈالنا ہے.عیسائیت کی طرح ہم یہ تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ اسلام کے اندر مداہنہ کرتے ہوئے کچھ نرمی کر دیں.پورے کا پورا اسلام انہیں قبول کرنا ہوگا.انشاء اللہ.اور پورے کے پورے دل اور روح کے ساتھ اور پورے ذہن کے ساتھ ان کو اپنے اللہ کے حضور جھکنا پڑے گا.یہ ہماری زندگی، ہمارے قیام کا مقصد ہے، جس کے لئے انتہائی قربانیاں نہیں کرنی پڑیں گی.اللہ اس کی توفیق عطا کرے.مطبوع روزنامه افضل 14 مارچ (1968ء 351

Page 369

Page 370

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 فروری 1968ء اللہ کی محبت کے جلوے دیکھنے ہیں تو انفاق فی سبیل اللہ میں ترقی کریں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 16 فروری 1968ء اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو بار بار اور مختلف پیرایہ میں انفاق پر ابھارا ہے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.أَنْفِقُوا مَّا رَزَقْنَكُمْ یہاں انسان کو اس طرف متوجہ کیا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.اور یہ اس کی مہربانی ہے کہ وہ اپنی عطا میں سے ایک حصہ واپس مانگتا ہے.اس وعدہ پر کہ وہ اس انفاق پر اور اس خرج پر اپنی طرف سے ثواب دے گا.چیز اس کی ہے لیکن جہاں بے شمار فضل اور رحمتیں اس نے اپنے بندے پر نی نہیں، وہاں اس نے یہ بھی فضل کیا کہ جو دیا، اس میں سے کچھ واپس مانگا.اور جن لوگوں نے اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، اس کے حضور اس کے دیے ہوئے ، میں سے کچھ پیش کر دیا تو اس کے بدلہ میں اس نے ثواب بھی دیا.اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَالْكَفِرُونَ هُمُ الظَّلِمُونَ ) کہ اس حقیقت کے باوجود وہ لوگ جو ہماری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے اور ناشکرے بن جاتے ہیں اور ہماری آواز پر لبیک نہیں کہتے اور ہمارے کہنے کے مطابق خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، حقیقتا وہ اپنے نفسوں پر ہی ظلم کرنے والے ہیں.پس اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ جو کچھ تم سے مانگا جارہا ہے، وہ بھی تمہارا نہیں.گھر سے تو کچھ نہ لائے اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.اور اللہ تعالیٰ اپنی عطا میں سے کچھ مانگ کے تمہارے لئے مزید نعمتوں کے دروازے کھولنا چاہتا ہے.اگر پھر بھی تم ناشکر گزار بندے بنے رہو تو بڑے ہی ظالم ہو.اپنے نفسوں پر بڑا ہی ظلم کرنے والے ہو.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ 353

Page 371

اقتباس از خطبه جمعه فرمود 16 فروری 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم کہ جس خرچ کا ہم مطالبہ کرتے ہیں، جان، مال، دوسری سب وہ چیزیں، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں اور وہ کہتا ہے کہ اس میں سے کچھ مجھے واپس لوٹا ؤ تا کہ میرے ثواب کو حاصل کرو.اور یہ خرچ فی سبیل اللہ ہونا چاہیے.یعنی ان راہوں پر ہونا چاہیے، جو راہیں اللہ تعالیٰ نے خود بتائی ہیں.بعض دفعہ خرچ کی بعض راہیں انسان کی اپنے نفس سے محبت بتاتی ہے.محبت نفس اسے کہتی ہے کہ یہاں خرچ کرو، وہاں خرچ کرو اور آرام حاصل کرو.دنیوی لذتوں میں سے کچھ حصہ پاؤ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کہتے ہیں که خرچ کرو تو یہ مراد نہیں ہوتی کہ نفس کی بتائی ہوئی راہ پر خرچ کرو.اور اسی طرح بعض دفعہ خاندان خرچ کرواتا ہے.بعض جاہل اور ناسمجھ لوگ خاندان کی جھوٹی عزت کی خاطر نا قابل برداشت قرض اٹھا لیتے ہیں اور برادری کو خوش کرنے کے لئے افراط کر رہے ہوتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خرچ کرو.مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ، اس چیز سے، جو ہم نے تمہیں دی ہے.تو ہمارا یہ مطلب نہیں کہ اس راہ میں خرچ کرو، جو تمہاری برادری تمہیں بتائے.اسی طرح خودی، تکبر ، نمائش کا احساس خرچ کی بعض راہیں بتا تا ہے.تو ان کے اوپر خرچ کرنا، اللہ تعالیٰ کا مطالبہ نہیں.اس آیت میں یہ فرمایا کہ جس خرچ کرو.تو اس سے ہماری مراد ہے کہ فی سبیل الله خرچ کرو.ان راہوں پر خرچ کرو، جو ہم نے متعین کی ہیں اور جن کی نشاندہی ہم نے کی ہے.جو آیت شروع میں ، میں نے پڑھی تھی کہ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ اس میں ایک تیسر امضمون بیان ہوا ہے.اور اس میں ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ جب قرآن کریم کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ تعلیم ایسی ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ہے.اس کے کیا معنی ہیں؟ مِمَّا تُحِبُّون میں تدریجی ترقیات کی طرف اشارہ ہے.اور اس کی وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ اگر تم اپنی قربانیوں میں بتدریج اضافہ کرتے چلے جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی کامل نیکی کو حاصل کر سکو گے.اگر ایسا نہیں کرو گے تو نیکی کو تو حاصل کر لو گے، اللہ تعالیٰ ثواب تو تمہیں دے گا مگر یہ ثواب نچلے درجہ کا ہوگا.کامل نیکی نہیں کہلائے گا.پس یہاں یہ فرمایا ہے کہ جس چیز سے تم محبت کرتے ہو اور جس کے چھوڑنے اور قربان کرنے پر تم تکلیف محسوس کرتے ہو، اس کو خرچ کرنے کا ہم مطالبہ کر رہے ہیں.ایک شخص جو سالہا سال سے اپنی آمدنی کا سولہواں حصہ جماعت کے کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا چلا آرہا ہے، یہ خرچ اس کے بجٹ کا ایک حصہ بن گیا ہے.اور یہ ایسی رقم نہیں رہی کہ 354

Page 372

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 فروری 1968ء جس کے خرچ پر اس کو یہ احساس ہوا کہ اگر میں یہ رقم خرچ نہ کرتا تو فلاں فلاں چیز خرید سکتا.دنیوی فائدہ حاصل کرتا تو مِمَّا تُحِبُّونُ میں یہ اشارہ کیا کہ اس انفاق میں ترقی کرتے چلے جاؤ.جب سولہویں حصہ کی عادت پڑ جائے تو پھر اللہ تعالیٰ خود امام وقت کو سکھاتا ہے.تحریک جدید کا مطالبہ ہو جائے گا.تاکہ تمہیں وہ مال، جو تم خرچ کرو محبوب مال معلوم ہو.اس کی عادت نہ پڑ چکی ہو.بلکہ خرچ کرتے ہوئے تمہیں دکھ کا احساس ہو.تم کہو کہ یہ مال میں خرچ کر رہا ہوں لیکن اس کے نتیجہ میں میری فلاں ضرورت پوری نہیں ہو گی.اور یہ سوچو کہ فلاں ضرورت کیا ؟ اگر کوئی بھی ضرورت پوری نہ ہو اور میرا رب مجھ سے راضی ہو جائے تو میں خرچ کرتا چلا جاؤں گا.اس وقت تمہارا خرچ مِمَّا تُحِبُّون میں سے ہوگا.پھر جب اس کی بھی عادت پڑ جائے گی، وقف جدید کی تحریک شروع کر دی جائے گی.جب اس کی عادت پڑ جائے گی ، فضل عمر فاؤنڈیشن سامنے آجائے گی.اور اگر یہ بھی نہ ہو تو وصیت کی طرف انسان کی توجہ جائے گی کہ سولہواں حصہ تو میں دیتا چلا آیا ہوں اور سولہواں حصہ دینے سے مجھے یہ احساس نہیں باقی رہا کہ میں نے اپنے محبوب مال میں سے کچھ دیا ہے.کیونکہ اس انفاق کی تو مجھے عادت پڑ گئی ہے، اس واسطے آؤ، اب وصیت کریں.اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو، اس کی خوشنودی کو ، اس کے فضل کی جنتوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کریں.پھر وصیت میں تو سات درجے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھے ہیں.جب دسویں حصے کی عادت پڑ جائے تو نواں حصہ دینا شروع کر دو.جب نواں حصہ دینے کی عادت پڑ جائے تو آٹھواں حصہ دینا شروع کر دو.جب آٹھواں حصہ دینے کی عادت پڑ جائے تو ساتواں حصہ دینا شروع کر دو.تیسرے حصہ تک اسی طرح کرتے جاؤ.(اگر کسی وقت تمہیں یہ احساس ہو کہ جو تمہاری پہلی قربانیاں ہیں ، وہ طبیعت اور عادت کا ایک جزو بن گئی ہیں اور مِمَّا تُحِبُّون والی بات نہیں رہی.تو ہدایت کی راہوں پر آگے سے آگے لے جانے کا راستہ اس آیت میں دکھایا گیا ہے.لَن تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ اور اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ جب قرآن کریم کے شروع میں ہمیں بتایا گیا تھا ــدى لِلْمُتَّقِينَ ہے ، یہ کتاب.اس کے کیا معنی ہیں؟ یہ تو ایک مثال ہے.بیسیوں مثالیں ایسی ہیں کہ تقویٰ کے کسی ایک مقام پر اللہ تعالیٰ حقیقی مومن اور متقی کو کھڑا نہیں رہنے دیتا.بلکہ اس کے دل میں ایک جوش اور ایک جذبہ پیدا کرتا ہے کہ جب اس سے مزید ترقی کی راہیں کھلی ہیں، جب اللہ تعالیٰ کی محبت کے مزید جلوے میں دیکھ سکتا ہوں تو کیوں میں یہاں کھڑار ہوں، مجھے آگے بڑھنا چاہیے؟ 355

Page 373

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 16 فروری 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم مِمَّا تُحِبُّونَ میں ہر دو قسم کے مومن شامل ہیں.ایک وہ، جو اپنی فطرتی استعداد کے مطابق ایک جگہ ٹھہر نا پسند نہیں کرتے اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرتا ہے اور نبی سے نئی راہیں ان پر کھولتا چلا جاتا ہے.اور ایک وہ لوگ ہیں، جن کی اقتصادی حالت یا جن کی ایمانی حالت اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ فرائض کو ادا کرتے ہوئے بھی کوفت محسوس کرتے ہیں.فرائض کی ادائیگی بھی ان کی عادت کا، ان کی فطرت کا، ان کی طبیعت کا ایک جزو نہیں بنتی.تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی فضل کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں بھی ہم مِمَّا تُحِبُّونَ سے خرچ کرنے والوں میں شمار کر لیں گے.یعنی ان لوگوں میں ، جو قربانی اور ایثار کے جذبے کو رکھتے ہوئے ، اپنے مال کو یا دوسری اللہ تعالیٰ کی عطایا کو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، کیونکہ تم اقتصادی حالات کی وجہ سے یا اپنی ایمانی کمزوری کی وجہ سے ابھی تک سولہواں حصہ دینے میں بھی تکلیف محسوس کرتے ہو، اور جو مال دیتے ہو، اس کو چھوڑنے کے لئے تمہارا نفس بشاشت سے تیار نہیں ہوتا.اس حصہ مال کے ساتھ بھی تمہاری محبت بڑی شدید ہوتی ہے.اس طرح تم بچی قربانی دے رہے ہو میری راہ میں ، اس لئے میں تمہیں تو اب دوں گا“.مطبوعه روزنامه الفضل 08 مارچ 1968ء) | 356

Page 374

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 اکتوبر 1968ء ہر چیز اللہ کی ہی ہے، اس لئے اس کی راہ میں خرچ کرنا برکت کا موجب ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 18اکتوبر 1968ء وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا أَتَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيْطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ وَ لِلَّهِ مِيَرَاتُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيْرٌ لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ (آل عمران 182 - 181 ) ج يَايُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءِ إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ إِنْ يَشَايُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدِ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزِ (فاطر 18-16) اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں سب کچھ دیتا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی اس دین میں سے مالی قربانیاں پیش نہیں کرتے.بلکہ بجل سے کام لیتے ہیں اور یہ مجھتے ہیں کہ ان کا اپنے اموال کو خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنا، دنیوی فوائد پر منتج ہوگا.اور اسی میں ان کی بھلائی ہے.اگر وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کریں گے تو انہیں نقصان ہو گا.ان کا خدا کی راہ میں اموال خرچ کرنا، ان کے لئے خیر کا موجب نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ (شَر لَهُم) ایسا کرنا ، ان کے لئے بہتر نہیں بلکہ ان کے لئے ہلاکت اور برائی کا باعث بنے گا.اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو وہ مول لینے والے ہوں گے.اس بخل کے دو قسم کے نتائج نکلیں گے.ایک اس دنیا میں اور ایک اس دنیا میں.جو شخص بخل سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، اس کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ نہیں کرتا ، وہ اس دنیا میں جہنم میں پھینکا جائے گا.اور وہاں اسے ایک نشان دیا جائے گا.جس سے سارے جہنمی سمجھ لیں گے کہ وہ اس لئے اس جہنم میں آیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ نہیں کیا کرتا تھا.357

Page 375

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اکتوبر 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سَيْطَوَّقُون ان کے گلے میں ایک طوق ڈالا جائے گا.اور وہ طوق تمثیلی زبان میں ان اموال کا ہوگا، جو اس دنیا میں خدا کی راہ میں خرچ نہ کر کے وہ بچایا کرتے تھے.اور اس طوق کی وجہ سے ہر وہ شخص جو جہنم میں پھینکا جائے گا، جان لے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں کہا گیا تھا کہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے اور خدا کو راضی کرنے کے لئے اپنے اموال اس کے سامنے پیش کرو.مگر انہوں نے اس کی آواز نہ سنی اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک نہ کہا اور دنیا کے اموال کو اخروی بھلائی پر ترجیح دی.اور نتیجہ اس کا یہ ہے کہ آج یہ جہنم میں ہیں اور ذلت کا عذاب انہیں دیا جارہا ہے.جہنم کے عذاب میں تو سارے شریک ہیں لیکن یہ طوق بتا رہا ہوگا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے اموال کی تو حفاظت کیا کرتے تھے لیکن اپنی جانوں کی حفاظت نہیں کیا کرتے تھے، اپنی ارواح کی حفاظت نہیں کیا کرتے تھے.ایک نتیجہ اس بخل کا اس دنیا میں نکلے گا.اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَ لِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ آسمانوں اور زمین کی ہرشی اللہ کی میراث ہے.اور میراث کے ایک معنی لغت نے یہ بھی کئے ہیں کہ ایسی چیز ، جو بغیر کسی تکلیف کے حاصل ہو جائے.پس اللہ جو خالق ہے، رب ہے اور جس کی قدرت میں اور طاقت میں ہر چیز ہے، جس کے کن کہنے سے ساری خلق معرض وجود میں آئی ہے، کسی چیز کے پیدا کرنے یا اس کے حاصل کرنے میں اسے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی اور جب ہر چیز اللہ ہی کی میراث اور ملکیت ہے تو جو شخص بھی اللہ کو ناراض کرے گا، وہ اس دنیا میں اموال کی برکت سے محروم ہو جائے گا یا کوئی اور دکھ اس کو پہنچایا جائے گا.پھر اللہ تعالیٰ نے ایک مثال دی.اور وہ یہود کی مثال ہے کہ جب مسلمانوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرو تو یہود میں سے بعض کہتے ہیں کہ اچھا، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ ہوا فقیر اور ہم ہوئے بڑے امیر.ہمارے اموال کی خدا کوضرورت پڑ گئی ہے، اس لئے وہ ہم سے مانگ رہا ہے.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا.چونکہ بل کے ساتھ ذات باری کا استہزاء بھی شامل ہو گیا ہے، اس لئے انہیں عذاب حریق یعنی ایک جلن والا عذاب دیا جائے گا.اور ان لوگوں کو، جنہوں نے اس قسم کے فقرے مسلمانوں کو ورغلانے اور بہکانے کے لئے کہے تھے ، اسی دنیا سے جلن کا عذاب شروع ہو گیا تھا.اسلام ترقی کرتا چلا گیا اور وہ لوگ جو غریب تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے ، ساری دنیا کے اموال ان کے قدموں پر لا ر کھے.اور جو مخالف بھی خدا تعالیٰ کے ان فضلوں اور انعاموں کو دیکھا تھا، وہ اس بات کا مشاہدہ کرتا تھا کہ سچا ہے، وہ جس نے یہ کہا تھا کہ 358

Page 376

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 اکتوبر 1968ء وَ لِلَّهِ مِيْرَاتُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ اور جو شخص مخالفت کو چھوڑنے کے لئے بھی تیار نہیں تھا، اس کے دل میں ایک جلن پیدا ہوتی تھی ، یہ دیکھ کر کہ یہ لوگ غریب تھے ، ہمارے محتاج تھے، ہم ہی ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے اور ہمارے بغیر ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتی تھیں.(ان دنوں جو یہود عرب میں آباد تھے، وہ عربوں کو قرض دیا کرتے تھے.غرض ان کے دلوں میں یہ دیکھ کر جلن پیدا ہوتی تھی کہ یہ بہت تھوڑے عرصہ میں یعنی چند سال کے اندر اندر اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو قبول کر کے اس قسم کے نتائج نکالے ہیں کہ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں پر لا ڈالی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو مضامین بیان کئے ہیں، وہ ایک دوسرے کی تائید کرتے اور دوسرے مضامین کے لئے دلائل مہیا کرتے چلے جاتے ہیں.چنانچہ سورہ فاطر میں اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے خیالات کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ بیچ تو یہ ہے.أَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ إِلَى اللهِ ج تم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے حاجت مند ہو، تم اس احتیاج کا احساس پیدا کرلو تم یہ مجھ لو کہ دنیا کی کوئی نعمت اور کوئی اخروی نعمت ہمیں اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی ، جب تک اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ نہ کرے.کیونکہ اس دنیا کی ملکیت بھی اس کے قبضہ میں ہے اور اس دنیا کی نعمتیں بھی اس کے ارادہ اور منشاء کے بغیر کسی کو مل نہیں سکتیں.تمہیں (جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.جوتی کا ایک تسمہ بھی اس وقت تک نہیں مل سکتا، جب تک خدا تعالیٰ کا منشاء نہ ہو.ہر چیز میں ہر وقت اور ہر آن تم محتاج ہو.تمہارے اندر اپنے رب کی احتیاج ہے.خدا تمہار احتاج نہیں، خدا تعالیٰ تو غنی ہے.وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ حقیقی غنا اسی کی ذات میں ہے.کوئی اور ہستی ایسی نہیں ، جس کی طرف ہم حقیقی غنا کو منسوب کر سکیں.اور کہ سکیں کہ اس کے اندر غنا پائی جاتی ہے اور وہ غنی ہے.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نیک بندہ صفات باری کا مظہر بنتے ہوئے غنا کی صفت بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق اپنے رب سے پائے.پھر وہ ایک معنی میں غنی بھی بن جاتا ہے.ایک معنی میں وہ ربوبیت بھی کرتا ہے اور رحمانیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے.رحیمیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے.وہ معاف بھی کرتا ہے اور مالک یوم الدین کے جلوے بھی دکھاتا ہے.لیکن یہ سب نسبتی اور طفیلی چیزیں ہیں.انسان اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اس 359

Page 377

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 18 اکتوبر 1968ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم کی دی ہوئی توفیق سے صفات باری کا مظہر بنتا ہے.اگر خدا کا سہارا نہ ہوتو پھر خدا تعالیٰ کی صفات کا کون مظہر بن سکے؟ ہاں، جب اللہ تعالیٰ خود اپنا سہارا دیتا ہے اور اپنے فضل سے نوازتا ہے تو انسان اس کی صفات کاملہ کا محدود دائرہ میں اور طفیلی طور پر مظہر بھی بنتا ہے اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق بنتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، الغنی یعنی کامل عناوالی ذات تو اللہ کی ہے.اور وہ غنی ہونے کے لحاظ سے تمہار احتاج نہیں.اور الغنٹی کے اندر یہ مفہوم بھی آگیا (جس کو پہلے فقرہ میں کھول کر بیان کیا گیا تھا) کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی احتیاج ہے.تم زندہ نہیں رہ سکتے ، جب تک حی خدا تمہاری زندگی کی ضرورت کو پورا کرنے والا نہ ہو اور اپنی حیات کا ملہ سے تمہیں ایک عارضی زندگی نہ عطا کرے.تمہاری استعداد میں اور قو تیں قائم نہیں رہ سکتیں، جب تک کہ خدائے قیوم کا تمہیں سہارا نہ ملے.سب تعریفوں کی مالک اس کی ذات ہے، اس لئے وہ تمہاری احتیا جوں کو پورا کرتا ہے اور تمہارے دل سے یہ آواز نکلتی ہے کہ الحمد لله تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے چونکہ تم اس کے محتاج ہو اور وہ تمہار احتاج نہیں ، اس لئے تم اپنی فکر کرو.اِنْ يَّشَأْ يُذْهِبْكُمْ اگر وہ چاہے تو روحانی حیات سے تمہیں محروم کر دے.وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ اور ایک اور ایسی قوم پیدا کر دے، جو اپنے کو اس کے لئے فنا کر دے اور اس میں ہو کر ایک نئی زندگی پائے.خلق جدید کا ایک نظارہ دنیا دیکھے گی.پھر وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے فنافی الرسول او فنافی اللہ کے نتیجہ میں ایک نئی زندگی پائی اور ان کی خلق جدید ہوئی.یہودیوں کے برعکس ان کا یہ حال تھا کہ ایک موقع پر ایک جنگ کی تیاری کے لئے بہت سے اموال کی ضرورت تھی اور ان دنوں کچھ ملی تنگی بھی تھی.اور دنیا ایسی ہی ہے، کبھی فراخی کے دن ہوتے ہیں اور کبھی تنگی کے دن ہوتے ہیں.اس موقع پر بھی تنگی کے ایام تھے اور جنگی ضرورت تھی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے ضرورت حقہ کو رکھا اور مالی قربانیاں پیش کرنے کی انہیں تلقین کی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تو اپنا سارا مال لے کر آگئے ، حضرت عمرؓ اپنا نصف مال لے کر آ گئے، حضرت عثمان نے عرض کیا کہ میری یہ پیشکش قبول کرلی جائے کہ میں دس ہزار صحابہ کا پورا خرچ برداشت کروں گا اور اس کے 360

Page 378

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اکتوبر 1968ء علاوہ آپ نے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے دیئے.اسی طرح تمام مخلص صحابہ نے اپنی اپنی توفیق اور استعداد کے مطابق مالی قربانیاں پیش کیں.اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بہترین نتائج نکالے.ایک موقع پر ایک نومسلم قبیلہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گیا.اور ان کو آباد کرنے کا سوال تھا.وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے ہوں گے.کیونکہ ان دنوں وہاں بھی مخالفت بہت زیادہ تھی.جیسا کہ کبھی کبھی ہر زمانہ میں اسلام کے خلاف ہر ملک میں مخالفت پیدا ہوتی رہتی ہے.اور مومن ان مخالفتوں کی پرواہ نہیں کیا کرتے.کیونکہ ان کا بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے، دنیوی سامانیوں پر نہیں ہوتا.بہر حال ایک قبیلہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آیا تو ان کے آباد کرنے کے لئے مال کی ضرورت تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مالی قربانیاں پیش کرنے کی تلقین کی.آپ کی اس اپیل کے نتیجہ میں ہر شخص نے یہ سوچا کہ میرے پاس جو چیز زائد اور فاضل ہے، وہ میں لاکر پیش کر دوں.لیکن فاضل“ کے معنی انہوں نے وہی کئے تھے، جو ایک مومن کیا کرتا ہے.انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ہمارے پاس دو در جن کوٹ ہونے چاہئیں اور پچاس قمیصیں ہونی چاہئیں اور ایک، دو پھٹی پرانی قمیصیں جو بیکار پڑی ہیں اور استعمال میں نہیں آتیں ، وہ لا کر دے دی جائیں.بلکہ ان میں سے اگر کسی کے پاس کپڑوں کے دو جوڑے تھے تو اس نے کہا، میں ایک جوڑے میں گزارہ کر سکتا ہوں، دوسرا جوڑ از ائند ہے.چنانچہ اس نے وہ جوڑا پیش کر دیا.ایک صحابی کے پاس کچھ سونا تھا، انہوں نے یہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا یہ عمدہ موقع ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت ہمارے سامنے رکھی ہے اور ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کریں.چنانچہ وہ اشرفیوں کا ایک تو ڑا ( جو وہ اچھی طرح اٹھا بھی نہیں سکتے تھے.) لے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا.اور اس طرح غلہ، کپڑوں اور روپے کے ڈھیر لگ گئے.اور خدا تعالیٰ نے مومنوں کے اس ایثار کے نتیجہ میں ایک پورے قبیلہ کی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے سامان کر دیئے.ان دو واقعات کے بیان کرنے سے اس وقت میری یہ غرض نہیں کہ میں یہ بتاؤں کہ صحابہ کرام کس قسم کی قربانیاں کیا کرتے تھے؟ بلکہ میری غرض یہ بتانا ہے کہ ان قربانیوں کے پیچھے جس روح کا صحابہ کرام نے مظاہرہ کیا تھا، وہ کیا تھی؟ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور ان مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ ان قربانیوں کے پیچھے جو روح تھی ، وہ یقیتی کہ نَحْنُ الْفُقَرَآءُ إِلَى اللَّهِ ہم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اور 361

Page 379

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 18 اکتوبر 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ اللہ کوکسی کی احتیاج نہیں.تمام تعریفوں کا وہ مالک ہے.ہمیں اپنی دنیوی اور اخروی ضرورتوں کے لئے یہ قربانیاں دینی چاہئیں.اور دنیوی اور اخروی انعاموں کے حصول کے لئے ان قربانیوں کا پیش کرنا، ہمارے لئے ضروری ہے.ان مثالوں سے روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کے اندر جو روح تھی ، وہ یہ تھی کہ وہ الْفُقَرَاءِ إِلَى اللهِ ہیں.منافق ہر جگہ ہوتے ہیں، اس وقت میں ان کی بات نہیں کر رہا.ان میں سے جومخلص اور ایثار پیشہ تھے اور بھاری اکثریت انہی لوگوں کی تھی.ان کی زبان پر یہودیوں کی طرح یہ نہیں آتا تھا کہ إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ بلکہ ان کی زبان پر یہ تھا، ان کے دل میں یہ احساس تھا اور ان کی روح میں یہ تڑپ تھی کہ وہ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللهِ ہیں.نہ ان کی کوئی مادی ضرورت پوری ہو سکتی ہے اور نہ روحانی، جب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کی ضرورت کو پورا نہ کرے.غرض جس سے ہم نے ہرشی کو حاصل کرنا ہے، اس کی رضا کے حصول کے لئے پانچ روپیہ یا پانچ لاکھ روپیہ قربان نہیں کیا جاسکتا؟ میں نے صحابہ کرام کی ایک مثال دی ہے کہ جس کے پاس دو جوڑے کپڑے تھے، اس نے ایک جوڑا کپڑے پیش کر دیئے.تفصیل تو نہیں ملتی لیکن یہ امکان ہے کہ ان میں سے کسی کو اس قربانی کی توفیق ملی ہو اور اس کے بعد وہ مثلا فوت ہو گیا ہو اور مزید قربانی کا اسے موقع نہ ملا ہو.اسے تو اس قربانی کے نتیجہ میں اخروی انعامات مل گئے لیکن اس کی اولاد کو اس ایک جوڑے کپڑوں کے نتیجہ میں اتنے اموال دیئے گئے کہ اگر وہ چاہتے تو اس قسم کے ایک ہزار جوڑے بنا لیتے.پس ہم خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں ، ہم فقیر ہیں.خدا تعالیٰ ہمارا محتاج نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بڑی پیاری بات کہی ہے.جو قرآن کریم نے بھی نقل کی ہے.اور وہ یہ ہے.رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرُ کہ ہر چیز کی مجھے احتیاج ہے.جو بھلائی بھی تیری طرف سے آئے ، میں اس کا محتاج ہوں.میں اسے اپنے زور سے حاصل نہیں کر سکتا.جب تک تو مجھے نہ دے، وہ مجھے نہیں مل سکتی.362

Page 380

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اکتوبر 1968ء غرض حقیقی خیر چاہے دنیوی ہو یا اخروی، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ملا کرتی.ویسے اللہ تعالیٰ کتوں کو بھی بھوکا نہیں مار رہا.سو ر بھی اس کی بعض صفات کے جلوے دیکھتے ہیں.ان کو بھی خوراک مل رہی ہے اور ان کی ( مثلاً بیماریوں سے ) حفاظت بھی ہو رہی ہے.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی زمانہ میں وباء کے طور پر اس قسم کے جانوروں کو ہلاک کر دے.جس طرح وہ بعض دفعہ انسان کی بعض گنہ گار نسلوں کو فنا کر دیتا ہے.لیکن جو سلوک ان جانوروں سے ہو رہا ہے، وہ اس سلوک سے بڑا مختلف ہے، جو انسان سے ہو رہا ہے.اور جو سلوک ایک کتے سے ہورہا ہے، جو سلوک ایک سو ر سے ہو رہا ہے، جو سلوک ایک گھوڑے یا بیل یا پرندوں سے ہورہا ہے، اس کے مقابلہ میں جو سلوک ایک انسان سے ہورہا ہے ، اس کو ہم خیر کہہ سکتے ہیں.باقی عام سلوک ہے.گو ایک لحاظ سے وہ بھی خیر ہے.لیکن صحیح اور حقیقی معنی میں وہ خیر نہیں.اور انسان خیر کا محتاج ہے.اگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر نہ ملے بلکہ اس سے عام سلوک ہو تو اس دنیا میں تو اس کا پیٹ بھر جائے گا مگر اس دنیا میں بھوک کیسے دور ہوگی؟ یا مثلاً اس دنیا میں سورج کی تپش ہے.اگر اسے ایک چھوٹا یا بڑا امکان مل گیا تو وہ اس تپش سے محفوظ ہو جائے گا لیکن اس دنیا میں جہنم کی آگ سے اسے کون بچائے گا؟ اس دنیا میں اسے کوئی بیماری ہوئی تو کسی حکیم نے اسے روپیہ کی دوائی دے دی یا کسی ڈاکٹر نے دو ہزار روپیہ کی دوائی دے دی اور اسے آرام آ گیا.یہ درست ہے.لیکن اس دنیا میں جہنم میں جو بیماری ظاہر ہوگی ، جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہوگی کسی کو کوڑھ ہوا ہو گا، کسی کو فالج ہوگا اور کسی کو پتہ نہیں کون سی بیماری ہو، روحانی طور پر جو اس کی یہاں حالت تھی ، وہ وہاں ظاہر ہورہی ہوگی.وہاں کون ڈاکٹر اس کے علاج کے لئے آئے گا ؟ پس انسان کو ہر کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی احتیاج ہے.اور ہمیں ہر قسم کی قربانیاں اس کی راہ میں دینی چاہئیں.اس وقت اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر ( مجھ پر بھی اور آپ پر بھی ) بڑا افضل کیا ہے.اور ہمیں تو فیق عطا کی ہے کہ ہم اس کے مسیح موعود پر ایمان لائیں اور اس کی راہ میں اس نیت سے قربانیاں دیں کہ اس کی رضا ہمیں حاصل ہو اور دنیا میں اسلام غالب آجائے.اس وقت غلبہ اسلام کے راستہ میں جتنی ضرورتیں بھی پیش آتی ہیں، وہ آپ لوگوں نے ہی پوری کرنی ہیں.اگر آپ ان ضرورتوں کو پورا نہیں کریں گے تو کھڑے ہو کر یہ تقریریں کرنا کہ اسلام کا غلبہ مقدر ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے گا کہ ہمارے ذریعہ سے اسلام غالب آئے ، بے معنی چیز ہے.اللہ تعالیٰ دنیا میں اسلام کو غالب تو کرے گا.لیکن اگر ہم بحیثیت جماعت ، خلق جدید کے مستحق نہیں ٹھہریں گے تو دنیا میں کسی اور قوم میں خلق جدید کا نظارہ نظر 363

Page 381

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اکتوبر 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم آئے گا.اسلام تو بہر حال غالب آئے گا.لیکن کیوں نہ وہ ہمارے ہاتھ سے غالب آئے؟ کیوں غیر اللہ کے فضلوں کے وارث بنیں اور ہم محروم رہ جائیں؟ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم بھی اور ہماری بعد میں آنے والی نسلیں بھی اور وہ لوگ بھی جو ہمارے ساتھ بعد میں آکر شامل ہوں گے، سارے ہی خدا کے فضلوں کے وارث بنیں اور اس کے انعامات کے مستحق ٹھہریں.پس بخل کو دل سے نکال دینا چاہیے اور اس یقین کامل کے ساتھ نکال دینا چاہیے کہ خدا کی راہ میں بخل دکھانا، جہنم کو مول لیتا ہے.اور اس سے زیادہ شر اور کوئی ہے نہیں.غرض اگر ہم خیر چاہتے ہیں تو ہمیں دل سے بخل نکالنا پڑے گا اور خدا تعالیٰ کے در پر کھڑے ہو کر یہ کہنا پڑے گا کہ اے خدا ! سب کچھ تو نے ہی ہمیں دیا ہے، ہم سے جتنا تو چاہتا ہے، لے لے.ہم جانتے ہیں ، زمین و آسمان کی میراث تیری ہی ہے، سب کچھ تیرا ہے، تو ہمارا امتحان لیتا ہے، آزماتا ہے اور تو ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم ان چیزوں کو ، جو تیرے فضل نے ہمیں دی تھیں، تیرے حضور ساری (اگر ساری کی ساری دینے کا حکم ہو ) یا کچھ (اگر کچھ دینے کا حکم ہو ) پیش کر دیں.سو ہم یہ چیزیں اس یقین پر اور اس دعا کے ساتھ پیش کر رہے ہیں کہ تو ہم پر رحم کرے اور اپنی دینی اور دنیوی نعمتوں سے ہمیں نوازے.اور اس دنیا میں بھی تیری رضا کی نظر ہم پر رہے اور اس دنیا میں بھی ہم تیری رضا حاصل کرنے والے ہوں.اس وقت میں احباب جماعت کو دو چندوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ایک تو چندہ تحریک جدید ہے اور دوسرا چندہ وقف جدید.تحریک جدید کی آمد اب تک جو ہوئی ہے، وہ تسلی بخش نہیں.گو وہ ہے کافی (جماعت بڑی قربانی کرنے والی ہے) لیکن بعض دفعہ احباب جماعت تو چست ہوتے ہیں مگر مقامی طور پر نظام جماعت ست ہوتا ہے اور اس طرح کاغذوں میں کمی نظر آ جاتی ہے.ہماری دو جماعتیں ہیں، جن کا چندہ زیادہ ہوتا ہے اور ان کے تحریک جدید کے وعدے بھی زیادہ ہیں.وہ دو جماعتیں ربوہ اور کراچی ہیں.ربوہ ابھی تک اس وعدہ سے بھی پیچھے ہے، جو اس نے پچھلے سال انصار اللہ کے اجتماع کے موقع پر کیا تھا.اسی طرح کراچی کی جماعت بھی ابھی اس وعدہ سے پیچھے ہے، ( وعدوں کے لحاظ سے، ادائیگی کے لحاظ سے نہیں.) جو مجموعی طور پر کراچی کی طرف سے پچھلے سال انصار اللہ کے اجتماع کے موقع پر ہوا تھا.کراچی کی جماعت نے یہ مجموعی وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم احباب جماعت میں تحریک کر کے ایک لاکھ، ایک ہزار روپیہ تحریک جدید کی مد میں ادا کریں گے.اس وعدہ میں ابھی سات، آٹھ ہزار روپیہ کی کمی ہے.ربوہ کا وعدہ ستر ہزار روپیہ کا تھا.اس وعدہ کے لحاظ سے ربوہ بھی سات ہزار پیچھے ہے.یعنی ابھی تک 63 ہزار روپیہ کے وعدے ہوئے ہیں.364

Page 382

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اکتوبر 1968ء غرض وعدے بھی بڑھانے ہیں اور ادائیگیاں بھی تیز کرنی ہیں.تا کہ جو کام خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیابی کے ساتھ تحریک جدید کی قربانیوں کے نتیجہ میں ساری دنیا میں ہو رہا ہے، وہ جاری رہ سکے اور ترقی کر سکے.تحریک جدید کے کام نے آہستہ آہستہ ترقی کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری ضرورتیں بھی بڑھ رہی ہیں.جب یہ کام شروع ہوا تھا تو سارا مالی بوجھ ہندوستان (اس وقت تقسیم ملک نہیں ہوئی تھی) کی جماعتوں پر تھا.پھر بیرونی جماعتیں بڑھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں بھی اخلاص اور ایثار کا جذبہ پیدا کیا اور اس وقت وہ (غیر ممالک کے احمدی) پاکستان کے کل چندہ تحریک جدید سے آٹھ گنا زیادہ چندہ ادا کر رہے ہیں.گویا پاکستان کی جماعتیں اخراجات ( جو بیرونی ملک میں ہورہے ہیں ) کا آٹھواں حصہ بلکہ اس سے بھی کم ( شاید نواں حصہ) ادا کر رہی ہیں.پھر اس رقم میں سے بھی کچھ رقم با ہر نہیں جاسکتی.کیونکہ اس وقت فارن ایکس چینج پر پابندی لگی ہوئی ہے.پھر یہاں کے اخراجات بھی ہیں.مثلاً مبلغوں کی تربیت ہے، مبلغ پیدا کرنے ، یہاں کے کارکنوں کی تنخواہوں وغیرہ اور خط و کتابت پر بہت سے اخراجات یہاں کرنے پڑتے ہیں.غرض ہمارا چندہ تحریک جدید کے کل چندہ کا کوئی آٹھواں یا نواں حصہ بنتا ہے.اگر ہم اس کی ادائیگی میں بھی ستی کریں تو ہم سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو کیسے پورا کریں گے؟ حالات بدل رہے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ ہماری ضرورتیں بھی بڑھ رہی ہیں.مثلاً آپ دیکھیں ، ایک ملک میں آپ نے کام کیا ، وہاں عیسائیت بڑے زوروں پر تھی اور وہ امید رکھتی تھی کہ عنقریب وہ سارا ملک عیسائی ہو جائے گا.پھر ہمارے مبلغ خدا کی توفیق سے وہاں پہنچے اور خدا کی تو فیق ہی سے ان کاموں میں برکت پیدا ہوئی.اور آج وہاں کے حالات بدلے ہوئے ہیں.اور اس قدر بدلے ہوئے ہیں کہ ایک ملک سے (بہت سے خطوط آتے رہتے ہیں.میں ایک مثال دے رہا ہوں.) مجھے مطالبہ آیا کہ یہاں کے حالات کے لحاظ سے آپ فورا نو اور مبلغ ہمارے ہاں بھجوا دیں.یہ افریقہ کا ایک ملک ہے اور لکھنے والے بھی افریقن احمدی ہیں.غرض دنیا کے حالات بالکل بدل رہے ہیں.اور جب حالات بدلے ہیں تو ہماری ضرورتیں بھی بدلیں گی.مثلاً ایک ملک میں ہمارا ایک مبلغ گیا، اس نے کام کی ابتدا کی اور اس وقت وہ کام تھوڑا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت ڈالی اور وہ پھیلا اور اب ہم الحمد للہ کہتے کہتے تھکتے ہیں اور اس کا وہ سزاوار ہے.اور جب ہمارا کام پھیلا اور بڑھا تو ہمیں اور زیادہ روپیہ کی ضرورت ہوئی.لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ ہم تو یہ ذمہ داریاں نبھانے کے لئے تیار نہیں تو یہ کئے کرائے پر پانی پھیر نے والی بات ہے.اسی لئے خدائے قادر و توانا نے کہا ہے کہ کام تو نہیں رکے گا لیکن پھر مجھے خلق جدید کرنی پڑے گی.365

Page 383

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اکتوبر 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی ہمارے اندر ہی زندگی قائم رکھے اور ہماری حیات روحانی ہم سے نہ چھینے.اور ہمیں تحریک جدید کے چندوں کو بڑھانے کے لئے کوشش کرنی چاہیے.کیونکہ میں نے بتایا ہے کہ بہت سی جماعتوں نے ابھی وہ وعدے بھی پورے نہیں کئے، جو انہوں نے مجموعی لحاظ سے پچھلے سال انصار اللہ کے اجتماع پر کئے تھے.اور پھر ادائیگیاں بھی جلد تر پوری کرنی چاہئیں.دفتر کا اندازہ ہے کہ اگر سال رواں کی آمد پچھلے سال کی آمد سے دس فیصدی نہ بڑھی تو ہماری بڑھتی ہوئی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکیں گی.اللہ تعالی آپ کو بھی توفیق دے اور مجھے بھی توفیق دے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اسے اس رنگ میں نبھائیں کہ وہ ہم سے خوش ہو جائے اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو جائے“.مطبوعه روزنامه الفضل 26 اکتوبر 1968ء) 366

Page 384

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 18 اکتوبر 1968ء انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی بڑی غرض خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1968ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ وو انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی ایک بڑی غرض یہ ہوتی رہی ہے کہ ایک ایسی قوم پیدا ہو، جو ایک طرف حقوق اللہ کو ادا کرنے والی ہو تو دوسری طرف حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی ہر طرح کوشاں رہے.اس آیت کریمہ میں، جو ان آیات میں سے میں نے پہلے پڑھی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلی امتیں بھی لوگوں کی بھلائی کے لئے ہی پیدا کی گئی تھیں.لیکن امت مسلمہ، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیدا کی جارہی ہے، وہ ان تمام امتوں سے بہتر اور بزرگ تر ہے.اس لئے کہ پہلے انبیاء کو کامل معروف عطا نہیں ہوا تھا.اور پہلے انبیاء کو منکر کی وہ باریک باتیں نہیں بتا ئیں گئیں تھیں، جن کو چھوڑنے کے بغیر اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا نہیں ہو سکتا.لیکن چونکہ تم اے امت مسلمہ کے افراد، اس امت کی طرف منسوب ہورہے ہو، جسے المعروف اور المنکر کا علم دیا گیا ہے.اور تم سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ تم المعروف کے مطابق عمل کرو گے اور کرواؤ گے.اور تم سے یہ امید رکھی جاتی ہے کہ تم المنکر کے مطابق بدیوں اور کوتاہیوں سے بچو گے اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کرتے رہو گے.اس لئے تم ہی وہ امت ہو، جو تمام پہلے انبیاء کی امتوں سے بہتر اور بزرگ تر ہے.اور آپ ، جو امت مسلمہ کے نوجوان ہیں، آپ کو میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے مقام کو پہچانیں.کیونکہ آپ کی عمر کے نوجوان تو پہلی امتوں میں بھی گزرے، ان قوموں میں بھی گزرے، جو اپنے انبیاء کی تعلیم کو بھول چکی تھیں اور خدا سے دور جا پڑی تھیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا کوئی زندہ تعلق نہ رہا تھا.پس عمر کی جوانی تو کوئی شے نہیں.لیکن اس عمر میں بھی اس امت مسلمہ کی طرف منسوب ہونا ، جسے اللہ تعالیٰ نے خیر الامم قرار دیا ہے، کوئی معمولی مقام نہیں ہے، جس پر آپ کو کھڑا کیا گیا ہے.اس لئے جو ذمہ داریاں آپ پر عائد ہوتی ہیں، انہیں سمجھنے اور ان ذمہ داریوں کو پوری کوشش اور پوری جد و جہد سے نباہنے کی طرف آپ کو متوجہ ہونے چاہئے.تو ہم دیکھتے ہیں کہ ساری دنیا نے ہر قسم کا زور لگایا.مادی طاقت یا مادی زور صرف تلوار بندوق یا ایٹم بم کا ہی نہیں بلکہ دجل کا بھی ہے.اسلام کے خلاف جو کثرت اشاعت دجل کی گئی ہے، کسی 367

Page 385

اقتباس از خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اور مذہب کے خلاف نہیں کی گئی.لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کتابیں اسلام کے خلاف شائع کی گئی ہیں.یہ کتابیں محض جھوٹ کے پلندے تھے ، جو دشمنوں نے شائع کئے اور ساری دنیا میں، دنیا کے کونہ کونہ میں ہر شہر اور ہر قریہ میں ان کو پھیلایا.اور انہوں نے اپنا سارا زور لگایا.لیکن وہ لوگ، جن کے دلوں میں حقیقی تقویٰ تھا، وہ گھبرائے نہیں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے مبعوث فرمایا ہے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی فرزند جلیل کی شکل میں مبعوث فرمایا ہے.کچھ لوگ آپ کے گرد جمع ہو گئے.ہم میں سے بعض تو وہ ہیں، جو نئے نئے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور بعض وہ ہیں، جو احمدیوں کے بچے ہیں.دیکھو! اس زمانہ میں بھی، جہاں تک مادی ذرائع کا تعلق ہے یا تعداد کا تعلق ہے، ہماری کوئی حیثیت نہیں.ساری دنیا اسلام پر حملہ آور ہے اور اس کے مقابل مٹھی بھر چند دل ہیں، جو اسلام کی حقیقی ہمدردی اور خیر خواہی رکھنے والے ہیں.لیکن اس یقین پر قائم ہیں کہ اللہ ہماری ڈھال اور ہمارا مددگار اور حمد و معاون ہے، اس لئے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.ان کے دل میں کوئی خوف نہیں پیدا ہوتا.ہمارے کم عمر، کم علم ، غریب، بے کس، بیچارے نوجوان جاتے ہیں اور دھڑلے کے ساتھ ان پادریوں سے بھی ٹکر لیتے ہیں، جن کو پوپ بھی ملاقات کا وقت دینے پر مجبور ہوتا ہے.جن سے امریکہ کا پریذیڈنٹ بھی گھنٹہ گھنٹہ بات کرتا ہے.جس سے ملنا بڑا مشکل ہے.اتنا رعب ہوتا ہے ان کا.لیکن ہمارے اس نو عمر مبلغ کے دل پر ان کا رعب طاری نہیں ہوتا.اس لئے کہ وہ نوجوان اسلام کا خادم ہونے کی وجہ سے القوی ہے، دل کا مضبوط ہے.وہ اس معنی میں مضبوط ہے کہ وہ جانتا ہے، اللہ میری ڈھال ہے.اور جس کی ڈھال اللہ ہو ، اس کو کون نقصان پہنچا سکتا ہے؟ دل کی مضبوطی کے لیے تو کل بھی چاہئے.یعنی انسان تدبیر اور کوشش کو انتہا تک پہنچائے اور نتیجہ کو خدائے قادر وتوانا کی ذات پر چھوڑ دے.تو کل کے یہ معنی ہیں کہ جس وقت انسان اپنی پوری کوشش کر لیتا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ یہ کوشش اتنی حقیر سی ہے، تعداد میں ہم کم ہیں ، اموال کم ہیں ، ذرائع کم ہیں، وسائل کم ہیں لیکن انسان کی اس کوشش کا نتیجہ اور اس کی تدبیر کا نتیجہ، اس کی تدبیر کی وجہ سے نہیں نکلتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نکلتا ہے.کامل تو کل دل کو مضبوط کرتا ہے.اور اصولاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایمان کا کمال انسان کے دل کو مضبوط کرتا ہے.اور ایمان کو صحیح طور پر تربیت دینے کے لئے قرآن کریم کے علوم کا سیکھنا ضروری ہے.اس لئے ہم خدام 368

Page 386

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 18 اکتوبر 1968ء الاحمدیہ کو ہر وقت یہ کہتے بھی رہتے ہیں اور انتظام بھی کرتے ہیں کہ قرآن کریم پڑھو، قرآن کریم پڑھو، قرآن کریم پڑھو.اس پر غور کرو اور اس کے سمجھنے کی کوشش کرو.اور جنہوں نے اس پر پہلے غور کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے جن کو فراست عطا کی ہے اور اپنی طرف سے انہیں بہت سا علم عطا کیا ہے، ان کی تفاسیر کو پڑھو، ان پر تدبر کرو، ان تفاسیر کا مطالعہ دل کو مضبوط کرتا ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں انسان تو کل اور تقوی کے مقامات حاصل کر سکتا ہے.مطبوعه روزنامه الفضل 15 اکتوبر 1969ء) 369

Page 387

Page 388

تحریک جدید- ایک الی تحریک...جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء ہر وہ قربانی پیش کرنی چاہیے، جس کی اس وقت ضرورت تقاضا کرتی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.هَانْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَمِنْكُمْ مَّنْ يَبْخَلُ وَمَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ وَاللهُ الْغَنِى وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاءِ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ (39:) اللہ کے نام کے ساتھ جو قادر و توانا اور ربوبیت تامہ کا مالک ہے اور جس کے قبضہ میں تمام دل ہیں، جب وہ چاہتا ہے اور ارادہ کرتا ہے تو اپنے فضل سے دلوں میں نیک تبدیلیاں پیدا کر دیتا ہے.میں تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کرتا ہوں.تحریک جدید کو شروع ہوئے ایک لمبا عرصہ ہو چکا ہے.اور اس وقت اس کے مجاہدین کے تین گروہ ہیں.جن کو تحریک جدید کی اصطلاح میں دفاتر کہا جاتا ہے.یعنی دفتر اول، دفتر دوم اور دفتر سوم.سال رواں کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ دفتر اول (جس کی ابتدا پر 34 سال گزر چکے ہیں.) کا وعدہ سال رواں کا ایک لاکھ پچپن ہزار روپیہ ہے.اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کے وعدے تین لاکھ، چون ہزار ہیں.اور دفتر سوم میں شامل ہونے والوں کے وعدے اکتالیس ہزار ہیں.اگر مختلف دفاتر میں شامل ہونے والوں کی اوسط فی کس آمد نکالی جائے تو دفتر اول کے مجاہدین کی اوسط 64 روپے بنتی ہے.بہت سے احباب اس سے بہت زیادہ دیتے ہوں گے.اور جو غریب ہیں، وہ اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق ہی تحریک جدید میں حصہ لیتے ہوں گے.لیکن اوسط ان کی 64 روپے فی کس بنتی ہے.اس کے مقابلہ میں دفتر دوم کے مجاہدین کے تحریک جدید کے چندہ کی اوسط انیس روپے بنتی ہے.اور 64 روپے اوسط کے مقابلہ میں یہ بہت کم ہے.دونوں دفاتر کی اوسط میں بڑا فرق ہے.دفتر سوم کے مجاہدین مال کی اوسط چودہ روپے فی کس بنتی ہے.اس میں اور دفتر دوم کی اوسط میں فرق تو ہے لیکن زیادہ فرق نہیں.خصوصاً جب یہ بات ہمارے مد نظر رہے کہ اس میں شامل ہونے والے بہت 371

Page 389

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سے بچے بھی ہیں، جنہوں نے ابھی کمانا شروع نہیں کیا.ان کے والدین ان کی طرف سے کچھ چندہ تحریک جدید میں ادا کر دیتے ہیں.اور جو کمانے والے ہیں، وہ اپنی کمائی کی عمر کے ابتدائی دور میں سے گزر رہے ہیں.کیونکہ دنیا کا یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی انسان ملازمت کرتا ہے تو اسے عام طور پر گریڈ ڈ (Graded) تنخواہ ملتی ہے.جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی تنخواہ کا ابتدائی حصہ اسے ملتا ہے.اور پھر ہر سال ترقی ہوتی رہتی ہے.اس طرح اس کی آمد اس کی تعلیم ، قابلیت اور استعداد کے لحاظ سے کم ہوتی ہے.پھر جوں جوں اس کا تجربہ اور عمر بڑھتی جاتی ہے، اس کی آمد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.اور اگر ساتھ ہی اخلاص بھی اپنی جگہ قائم رہے تو اس کے چندہ میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے.لیکن بسا اوقات اللہ تعالیٰ تھوڑی نیکی کرنے والوں کو نیکیوں کی مزید توفیق عطا کرتا ہے.اخلاص کی نسبت بھی بڑھ جاتی ہے اور ان کے چندے بھی بڑھ جاتے ہیں.اس لحاظ سے جب میں نے غور کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہم آج دفتر دوم میں شامل ہونے والوں سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ ان کی اوسط بھی 64 روپے فی کس تک پہنچ جائے.کیونکہ ان میں کم عمر اور ادھیڑ عمر کے بھی ہیں، کم تربیت یافتہ بھی ہیں اور بعد میں داخل ہونے والے بھی ہیں.لیکن میں نے سوچا اور غور کیا اور مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ انہیں روپے اوسط بہت کم ہے.اور آئندہ سال جو یکم نومبر سے شروع ہو رہا ہے، جماعت کے انصار کو ( دفتر دوم کی ذمہ داری آج میں انصار پر ڈالتا ہوں.) جماعتی نظام کی مدد کرتے ہوئے ( آزادانہ طور پر نہیں ) یہ کوشش | کرنی چاہیے کہ دفتر دوم کے معیار کو بلند کریں.اور اس کی اوسط انہیں روپے سے بڑھا کر تمیں روپے فی کس پر لے آئیں.میں سمجھتا ہوں کہ چونسٹھ روپے فی کس اوسط پر لانا ابھی مشکل ہوگا.اور یہ ایس بار ہوگا ، جسے شاید ہم نبھا نہ سکیں.لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہم کوشش کریں تو اس معیار کو دفتر اول کے چونسٹھ روپے فی کس کے مقابلہ میں انہیں روپے سے بڑھا کرتیں روپیہ تک پہنچا سکتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ ہمت اور توفیق اور مالوں میں برکت دے، اخلاص میں برکت دے تو یہی لوگ تمہیں سے چالیس اوسط نکالیں گے.پھر پچاس اوسط نکالیں گے.پھر ساٹھ اوسط نکالیں گے اور پھر ستر اوسط نکالیں گے.اور دفتر اول سے بڑھ جائیں گے.لیکن آئندہ سال کے لئے میں یہ امید رکھتا ہوں کہ جماعتیں اس طرف متوجہ ہوں گی اور میں حکم دیتا ہوں کہ انصار اپنی تنظیم کے لحاظ سے جماعتوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں.اور کوشش کریں کہ آئندہ سال دفتر دوم کے وعدوں اور ادائیگیوں کا معیارانہیں روپیہ فی کس اوسط سے بڑھ کر تمیں روپیہ فی کس اوسط تک پہنچ جائے.اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سال رواں کے جو تین لاکھ، چون ہزار روپے کے وعدے ہیں ، وہ پانچ لاکھ ، چالیس ہزار روپیہ تک پہنچ جائیں گے.372

Page 390

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء دفتر سوم کے متعلق میرا تاثر یہ ہے کہ اگر چہ ان کے حالات کے لحاظ سے چودہ اور انیس کا زیادہ فرق نہیں.لیکن اس دفتر میں شامل ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے.یہ ابھی تک تین ہزار تک پہنچے ہیں.لیکن ہم باور نہیں کر سکتے کہ ہماری آئندہ نسل زیادہ ہونے کی بجائے تعداد میں پہلوں سے کم ہو گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو وعدہ دیا تھا کہ میں ان کے نفوس میں برکت ڈالوں گا، اس وعدہ کو وہ سچے وعدوں والا پورا کر رہا ہے اور ہماری آئندہ نسل میں غیر معمولی برکت ڈال رہا ہے.دفتر سوم والوں کا عمر کے لحاظ سے جو گروپ بنتا ہے یعنی اس عمر کے احمدی بچے اور اس زمانہ میں نئے احمدی ہونے والے ان میں سے جس نسبت سے افراد کو تحریک جدید میں شامل ہونا چاہیے، اس نسبت سے یہ تعداد تین ہزار سے بڑھنی چاہیے.اگلے سال کے لئے میں یہ امید کرتا ہوں کہ جماعت کوشش کر کے اس تعداد کو تین ہزار سے پانچ ہزار تک لئے جائے گی.اور ان کی اوسط چودہ سے اونچی کر کے بیس تک لے جائے گی.اور اس طرح ان کا چندہ ایک لاکھ روپیہ بن جائے گا.اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو اس کے نتیجہ میں یعنی ہم اپنی کوششوں میں دعاؤں اور تدبیر اور اللہ کے فضل کو جذب کرنے کے نتیجہ میں کامیاب ہو جائیں گے.اور ہمارے وعدے ( خدا کرے کہ وصولی بھی اس کے مطابق ہو.) پانچ لاکھ ، پچاس ہزار سے بڑھ کر سات لاکھ نوے ہزار بن جاتے ہیں.اور اس کے لئے جو تدبیر میں بتارہا ہوں ، وہ علاوہ دعا کے یہ ہے کہ ہم دفتر دوم کے اخلاص کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کریں اور ان کی اوسط کو انیس سے بڑھا کر تھیں تک لے جائیں.اور آئندہ نسل کے دل میں خدمت اسلام اور انفاق فی سبیل اللہ کا جذ بہ تیز کریں.اور اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو کامیاب کرے تو ان کی تعداد تین ہزار سے بڑھ کر پانچ ہزار تک پہنچ جائے گی.میرے اندازہ کے مطابق تو یہ تعداد بہت بڑھ سکتی ہے لیکن اس زاویہ نگاہ سے کہ ہماری یہ پہلی کوشش ہوگی ، میں نے صرف پانچ ہزار تک کہا ہے.ویسے میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعتیں کوشش کریں تو اسے آسانی سے دس ہزار تک لے جاسکتی ہیں.لیکن اس تعداد کو پانچ ہزار تک تو انہیں ضرور لے جانا چاہیے.اور ان کے معیار کی اوسط کو بھی چودہ سے ہیں تک کر دینا چاہیے.تاہمارے چندے ساڑھے پانچ لاکھ سے بڑھ کر قریباً آٹھ لاکھ تک چلے جائیں.جب ضرورت پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو وہ اس سے زیادہ ہے.میں نے غالباً پچھلے خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ جب کام شروع کیا گیا تھا تو بعض ممالک میں ہمارا ایک، ایک مبلغ گیا تھا.انہوں نے وہاں جا کر کام کی ابتدا کی.انہوں نے خدا کی راہ میں قربانیاں دیں اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور احسان سے ان 373

Page 391

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم قربانیوں کو قبول کیا اور جماعت کی دعائیں رنگ لائیں، ان کے اچھے نتائج نکلے.اب وہاں جماعت کی تعداد بڑھ گئی ہے.احمدیت اور اسلام کی طرف رغبت بڑھ رہی ہے.اور جس ملک میں ہمارا ایک مبلغ گیا تھا اور اس کو بھی ہم ٹھیک طرح سے نہ کھلا سکتے تھے، نہ پہنا سکتے تھے، نہ اس کا علاج کر سکتے تھے، غربت میں قربانی اور اخلاص اور ایثار کی چھت کے نیچے رہ کر اس نے کام کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے کام میں برکت ڈالی اور اب انہی ممالک میں سے بعض ایسے ہیں، جہاں ہمارے چالیس، چالیس سکول بن گئے ہیں.بڑی کثرت سے وہاں احمدیت اور اسلام پھیل گیا ہے.اور ان لوگوں کو یہ احساس ہے کہ احمدیت کے طفیل جو صحیح اسلام انہیں ملا ہے، وہ نعمت عظمی ہے.قرآن کریم کی برکتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض سے جب وہ حصہ پاتے ہیں تو ان کے دل خدا کی حمد سے معمور ہو جاتے ہیں.اور وہ اپنے ان بھائیوں کے بھی شکر گزار ہوتے ہیں، جو دور دراز ملک سے آئے اور انہیں حقیقی اسلام سے متعارف اور روشناس کرایا.اور چونکہ اب ان کے دل میں احساس پیدا ہو چکا ہے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام انسان پر اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے، اس لئے ان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم ہی نہیں ، ہمارے قبیلہ کا ہرفردا سلام کی برکتوں سے حصہ لینے والا ہو.پھر وہ ہمیں تنگ کرتے ہیں کہ آپ نے جو چار، پانچ مبلغ ہمارے ملک میں بھیجے ہیں ، یہ کافی نہیں.اور میں نے بتایا تھا کہ ایک، ایک ملک نو ، نو مبلغوں کا مطالبہ کر دیتا ہے.اس مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے نئے مبلغ تیار ہونے چاہئیں.اور نئے مبلغ تیار کرنے میں خرچ بھی زیادہ ہوگا اور ان مبلغوں کو دوسرے ممالک میں بھیجنے کے لئے زیادہ روپیہ کی ضرورت ہوگی.خصوصاً موجودہ حالات میں کہ ہمیں فارن ایکس چینج بہت تھوڑ املتا ہے، اس لئے بونس واؤ چر خرید کر کرنا پڑے گا.جو بہت زیادہ مہنگا پڑتا ہے.غرض بڑی مشکل ہے اور روپیہ کی بڑی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے کاموں میں برکت ڈالی ہے، ہمارا فلاں ملک میں صرف ایک آدمی گیا تھا، اب اس ملک میں جماعت اس طرح پھیل گئی ہے کہ وہاں ہمارے اتنے سکول ہیں اور اتنی مساجد ہیں.لیکن جب ہم اپنی کوششوں کے نتائج کو بیان کرتے ہیں تو اصل ضرورتیں بھی ہمارے سامنے آ جاتی ہیں.اگر کسی ملک میں پچاس یا سو مساجد بن گئی ہیں تو ان مساجد کو آباد کرنے کے لئے مستحکم تربیتی نظام کی ضرورت پڑ گئی.پھر اگر ایک قبیلہ میں سے دسر پندرہ یا میں صدا افراد احمدی مسلمان ہو گئے ہیں، بد مذہب کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے، دہریت کو انہوں نے الوداع کہی ہے، عیسائیت سے وہ بیزار ہوئے ہیں تو باقیوں کو اسلام سکھانے کی ضرورت ہے.پھر جو مسلمان 374

Page 392

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء ہو گئے ہیں، انہوں نے اسلام کے نور کو دیکھا ہے اور اللہ اور اس کی صفات کو پہچانا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی بد قسمت ہیں، انہیں خوش قسمت بنانے کے لئے اور کوشش کرو.غرض ہر چیز جو ہمارے لئے فخر کا باعث بنتی ہے، وہ ایک دوسرے زاویہ نگاہ سے ہماری ضرورت کا اظہار کر دیتی ہے.اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں مزید قربانیاں دینی پڑیں گی.ورنہ ہمارا انجام بخیر نہیں ہوگا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بار بار یہ کہا ہے کہ انجام بخیر ہونے کی دعا مانگو.کیونکہ وہ کام جوستر فیصدی ہو جاتا ہے اور 100 فیصدی ہونے سے رہ جاتا ہے، وہ ایک فیصدی بھی نہیں ہوتا.ایک شخص دس چے دیتا ہے.ان دس پر چوں میں سے وہ نو میں کامیاب ہو جاتا ہے ( اور یہ نوے فیصدی کامیابی ہو گئی ) لیکن دسویں پرچہ میں فیل ہو جاتا ہے تو جن نو پرچوں میں کامیاب ہوا تھا، عملا ان میں بھی فیل ہو گیا.اسے اگلی کلاس میں نہیں چڑھایا جائے گا.پس انجام بخیر ہونا چاہیے.یعنی ہر کوشش ، ہر جد و جہد اور ہر struggle اپنے کامیاب انجام تک پہنچنی چاہیے.اگر وہ کامیاب انجام سے ایک قدم پہلے رک جاتی ہے تو ہماری ساری کوشش ضائع ہو جاتی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ ہماری پہلی کوشش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جو فضل کیا ہے اور اسلام کو غالب کرنے کے جو سامان پیدا کئے ہیں، ان ضرورتوں کو ہم پورا کریں.اور وقت کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے ، ہم ہر اس قربانی کو خدا کے حضور پیش کر دیں، جس کا آج ضرورت تقاضا کرتی ہے.اگر ہم آج کی ضرورت کا تقاضا پورا نہیں کرتے تو پہلے جو تقاضے ہم نے پورے کئے ، وہ بھی رائیگاں جائیں گے.کیونکہ ان کا آخری اور حقیقی نتیجہ نہیں نکلے گا.لیکن اگر ہم اپنی پہلی کوششوں کے نتیجہ میں اپنی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، آج کی ضرورتوں کو پورا کر دیں تو پھر ہمارا ایک قدم آگے بڑھ گیا.اور پھر اگلے سال ہمارا ایک اور قدم آگے بڑھ جائے گا.یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آ جائے گا.اور ساری دنیا کے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا ہو جائے گی.ادیان باطلہ کبھی اپنے علمی گھمنڈ میں کبھی سائنسی تکبر کے نتیجہ میں اور کبھی سیاسی اقتدار پر ناز کی وجہ سے اسلام کو مٹانا چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ ان سارے منصوبوں کو نا کام کر دے گا اور اسلام کو غالب کر دے گا.اور اسی طرف آپ کو بلایا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.هَانْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ م 375

Page 393

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سنو! تم وہ لوگ ہو، جن کو اس لئے بلایا جاتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کرو.یعنی اس لئے خرچ کرو کہ ان راہوں کو کشادہ ، فراخ اور کھلا رکھو، جو اللہ کی طرف لے جانے والی ہیں.ادیان باطلہ نے ، اندرونی کمزوریوں نے ، نفاق نے اور عملی مستیوں نے ان شاہراہوں کو تنگ کر دیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہیں.بعض جگہ تو رستے ہی غائب ہو گئے ہیں.جیسا کہ دیہات میں ہم جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جہاں پٹواری کے نقشہ میں میں فٹ سڑک ہوتی ہے، وہاں لوگوں کے آہستہ آہستہ سڑک کو کاٹ کر اپنے کھیتوں میں ملانے کے نتیجہ میں چارفٹ یا پانچ فٹ سڑک رہ گئی ہے.اسی طرح جو راستے اللہ تعالیٰ نے قائم کئے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہیں، انسان اپنی سستی اور غفلت کے نتیجہ میں، انسان اپنی جہالت کے نتیجہ میں، انسان اپنی نفس پرستی کے نتیجہ میں، انسان شیطانی آواز کی طرف متوجہ ہونے کے نتیجہ میں ان راہوں کو تگ کر دیتا ہے.پھر وہ تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے، میں یہ گی کیسے برداشت کروں ؟ تنگی تو اس نے خود پیدا کی ہوتی ہے.ان رستوں کو اس نے خود تنگ کیا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں خرچ کے لئے اس لئے بلایا جاتا ہے کہ تم ان رستوں کو فراخ اور کشادہ رکھو تا تم بھی بشاشت سے ان کے اوپر چلتے چلے جاؤ اور جو باہر سے آکر اسلام میں داخل ہونے والے ہیں، ان کے دلوں میں بھی کوئی تنگی پیدا نہ ہو.ان کی تربیت کر دی جائے اور بتا دیا جائے کہ یہ وہ راستہ ہے، جو خدا تک لے جاتا ہے.یہ وہ راستہ ہے، جس پر چل کر انسان خدا کی محبت کو حاصل کر لیتا ہے.یہ وہ راستہ ہے، جس پر چل کر خدا پانے کے بعد وہ چیز مل جاتی ہے، جو انسان کی ترقی کا موجب اور اس کی لذت اور سرور کا باعث بنتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سنو ! تمہیں اس خرچ کے لئے اس لئے بلایا جارہا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو دنیا میں قائم کرو اور انفاق فی سبیل اللہ کرو.تمہیں صرف انفاق کے لئے نہیں بلایا جاتا تم سے یہ بھی نہیں کہا جا رہا کہ اپنے اموال لاؤ اور جماعت کے سامنے پیش کرو بلکہ تمہیں کہا جا رہا ہے کہ اپنے اموال اس لئے لاؤ اور پیش کرو تا انسان اللہ تعالیٰ کے راستہ پر کامیابی کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ اور فراخی کے ساتھ چلانا شروع کر دے.اور یہ راہیں اسے اس کے محبوب رب تک پہنچا دیں.فَمِنْكُمْ مَّنْ يَبْخَلُ لیکن ہوتا یہ ہے کہ تم میں سے بعض بخل کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جو شخص بخل کرتا ہے، خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتا ، اس کے بخل کے بدنتائج اس کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کے مال سے بعض دفعہ برکت چھین لیتا ہے.مثلاً ایک شخص خدا کی راہ میں دینے سے گریز کرتا 376

Page 394

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء ہے اور بشاشت سے وہ قربانی نہیں دیتا.تو مال تو اس کے پاس اس وقت تک ہی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ اس کے پاس اس مال کو رہنے دے.بعض دفعہ اس کے گھر کو آگ لگ جاتی ہے.اس کا دس پندرہ ہزار یا ہیں، تمہیں ہزار روپیہ کا کپڑا آ رہا ہوتا ہے، وہ کپڑا ٹرک سے چوری ہو جاتا ہے.وہ مال خرید نے جاتا ہے تو کوئی جیب کترا اس کی جیب سے رقم نکال کر لے جاتا ہے.پھر وہ سوچتا ہو گا کہ کاش میں یہ مال خدا کی راہ میں پیش کر دیتا.اور اگر انسان بخل سے کام نہ لے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت دیتا اور اسے بتاتا ہے کہ میں تمہارے مال کی حفاظت کر رہا ہوں.ابھی پچھلی گرمیوں کی بات ہے، ایک دوست مری کے قریب ، جہاں میں چند دن کے لئے گیا ہوا تھا، ملنے کے لئے آئے.وہ زمیندار ہیں.ان سے باتیں ہوئیں، انہوں نے دعا کے لئے کہا.میں نے کہا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولت دی ہے، ہم قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت کے لئے کوئی غیر معمولی رقم دوتا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں اور بھی برکت دے.تو وہ کہنے لگے کتنی ؟ میں نے کہا، یہ میں نے نہیں بتانا.میں سمجھتا ہوں کہ اس سے تمہارے ثواب میں کمی آجائے گی.تم اپنی بشاشت اور خوشی کے ساتھ جتنادینا چاہو، دے دو.چنانچہ انہوں نے اپنے ایک عزیز کو بہت سی رقم دی.زیادہ تر رقم پانچ ، پانچ سو کے نوٹوں پر مشتمل تھی.تھوڑی سی رقم رو پید رو پید، پانچ پانچ روپے یا دس دس روپے کے نوٹوں کی شکل میں تھی.اور اسے کہا کہ ربوہ جا کر پانچ سورو پید اشاعت تراجم قرآن کریم کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں.انہوں نے شاید کوئی زمین خریدی تھی اور وہاں ادائیگی کرنی تھی.انہوں نے اپنے اس عزیز کو کہا کہ باقی رقم وہاں ادا کر دیں.ان کا وہ عزیز جب میرے پاس آیا تو اس نے بتایا کی دیکھیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے برکت کیسے حاصل ہوتی ہے.میرے جیب میں یہ رقم تھی، مجھے یاد نہیں، اس نے جیب کترا کہا یا چور کا نام لیا.بہر حال اس نے بتایا کہ جس جگہ پانچ، پانچ سو نوٹوں پر مشتمل رقم پڑی تھی، وہیں وہ رقم بھی تھی، جو رو پید رو پید، پانچ پانچ یادوس دس روپیہ کے نوٹوں پر مشتمل تھی.چور نے یہ تھوڑی رقم تو چوری کر لی اور بڑی رقم چھوڑ کر چلا گیا.وہ کہنے لگا، ہم نے اللہ تعالیٰ کے رستہ میں دی ہوئی رقم کی برکت دیکھ لی.گوا بھی انہوں نے وہ رقم خدا کی راہ میں دینے کی نیت ہی کی تھی ، ابھی وہ رقم خدا تعالیٰ کے خزانہ میں نہیں پہنچی تھی.غرض اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ میں ہی تمہارے اموال کی حفاظت کر رہا ہوں.اگر میں حفاظت نہ کروں تو انہیں آگ لگ جائے، وہ چوری ہو جائیں یا گھر میں کسی کو بیماری آجائے اور اس پر اموال کا ایک حصہ خرچ ہو جائے.مثلاً بڑا پیارا بچہ بیمار ہو جائے.باپ امیر آدمی ہے، اس کو ہم نے کہا کہ تحریک جدید 377

Page 395

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم میں تمہیں اپنی حیثیت کے مطابق چار یا پانچ سو روپیہ دینا چاہیے.اس نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی.اب بچہ بیمار ہو گیا اور وہ اسے راولپنڈی، لاہور اور کراچی کے بہترین ڈاکٹروں کو دکھا رہا ہے اور ہزار، دو ہزار روپیہ اس کا خرچ ہو جاتا ہے.اب بچہ کو صحت مند رکھنے کا اس نے ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا، اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے، وہ اسے صحت مند رکھے یا نہ رکھے.لیکن جو لوگ بشاشت سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں برکت ڈالتا ہے.اور اگر کبھی انہیں آزمانا ہو تو ان کو ثبات قدم عطا کرتا ہے.اور وہ اپنے رب پر اعتراض نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو بھی آزماتا ہے، وہ ان کا بھی امتحان لیتا ہے.لیکن وہ بشاشت کے ساتھ یہی کہتے ہیں کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کہ اللہ ہی مالک ہے اور اسی سے ہم نے خیر و برکت لینی ہے.اگر اس نے ایک چیز لے لی تو اس سے ہمارا خزانہ تو خالی ہو گیا مگر اس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے.وہ پانچ سولے گا تو پانچ لاکھ دے گا بھی.چنانچہ ہماری جماعت میں بھی اس نے بہتوں کو ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں بہت زیادہ دیا ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم بخل کرو گے تو اس کا نتیجہ بھی تمہیں خود ہی بھگتنا پڑے گا.کیونکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں.تم سے اگر قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ مطالبہ اس لئے نہیں کیا جاتا کہ نعوذ باللہ کہ خدا غریب اور فقیر تا اور تم اس کو مالی امداد دے کر اسے تھوڑا امیر بنانا چاہتے ہو اور اس کی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہو.أَنتُمُ الْفُقَرَاء سچی بات یہی ہے کہ تمہیں ہر آن، ہرلمحہ اور ہر چیز کے لئے اللہ تعالیٰ کی احتیاج ہے.اگر تم اس نکتہ کو سمجھو گے نہیں تو اللہ تعالیٰ تم سے برکتیں چھین لے گا.لیکن اس کا یہ وعدہ ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ایسی جماعت عطا کرے گا کہ جن کے اموال میں بھی وہ برکت ڈالے گا، جن کے نفوس میں بھی وہ برکت ڈالے گا اور جن کے وجود میں بھی وہ برکت ڈالے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ جن گھروں میں وہ رہ رہے ہوں گے، ان کو بھی بابرکت کیا جائے گا.جس چیز کو وہ ہاتھ لگائیں گے، وہ بھی بابرکت ہو جائے گی.جو کپڑے پہنیں گے، وہ بھی بابرکت ہو جائیں گے.یہ وعدے تو پورے ہو رہے ہیں لیکن اگر انتہائی قربانیوں کے نتیجہ میں تم ان وعدوں اور ان بشارتوں کے حقدار نہیں بنو گے تو وہ 378

Page 396

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء وہ کچھ اور لوگ لے آئے گا، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائیں گے اور لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ وہ قربانیاں دینے میں تمہاری طرح سست اور نکھے اور بخیل نہیں ہوں گے.بلکہ وہ حقائق کو سمجھیں گے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے.پس آج تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے میں یہ اعلان بھی کرتا ہوں کہ دفتر دوم کے اخلاص کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کی جائے اور اوسط 19 سے بڑھا کر 30 تک لے جائی جائے.اور دفتر سوم کی تعداد بڑھانے کی بھی کوشش کی جائے اور ان کے اخلاص کے معیار کو بھی تھوڑا سا بڑھانے کی کوشش کی جائے.تا آئندہ سال کے ہمارے وعدے اور وصولیاں ساڑھے پانچ لاکھ کی بجائے سات لاکھ نوے ہزار ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں خیر و برکت ہے اور اس کی دو انگلیوں میں انسان کا دل ہے.خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ کی انگلیاں ایسے زاویہ پر ہلیں کہ آپ کے دل خدا کی برکتوں اور اس کے نور سے بھر جائیں اور آپ کا سینہ احساس ذمہ داری سے معمور ہو جائے کہ خدا کی راہ میں آج مالی قربانی دینے کی ضرورت ہے.تاہم بنی نوع انسان کو اس ہلاکت سے بچا سکیں ، جس سے انہیں ڈرایا گیا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے.جماعت کراچی اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے دوسری جماعتوں سے آگے نکل گئی ہے.ابھی ان کی تار مجھے ملی ہے کہ سال رواں میں ان کا وعدہ ایک لاکھ، ایک ہزار روپیہ کا تھا.اس میں سے وہ اب تک پچانوے ہزار روپیہ جمع کر چکے ہیں اور باقی چھ ہزا روپیہ (وہ امید رکھتے ہیں کہ ) اس مہینہ کے آخر تک جمع کرلیں گے.اگر چہ ہمارا وعدوں کا سال یکم نومبر سے شروع ہو جاتا ہے لیکن ہماری ادائیگیاں کچھ عرصہ چلتی کراچی اندود بھی اور کمی بعد تک چلتی رہتی ہیں.لیکن جماعت احمدیہ کراچی اپنا وعدہ بھی اور ادائیگی بھی یکم نومبر سے پہلے پہلے کر دے گی.انشاء اللہ.اور آئندہ سال کے لئے انہوں نے ایک لاکھ، ایک ہزارو پسیہ کی بجائے ایک لاکھ، پانچ ہزار روپیہ کا وعدہ کیا ہے.میں نے سوچا تھا کہ کراچی کی جماعت چونکہ پہلے ہی اپنے اخلاص اور قربانی میں بلند مقام پر ہے اور ان کا وعدہ ایک لاکھ ، ایک ہزاروپیہ قریباً ان کی استعداد کی انتہا تک پہنچا ہوا ہے.میرا خیال تھا کہ اجتماع انصار اللہ میں جب میں تحریک جدید کے چندہ کے متعلق مختلف جماعتوں کے نمائندوں سے سوال کروں گا تو میں ان سے یہ نہیں کہوں گا کہ ایک لاکھ، ایک ہزار سے کچھ آگے بڑھیں؟ چند روپے تو 379

Page 397

خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بہر حال بڑھنے چاہیں لیکن زیادہ بڑھانے کے لئے نہیں کہوں گا.لیکن وہ خود ہی ایک لاکھ، ایک ہزار روپیہ سے بڑھ کر ایک لاکھ، پانچ ہزار روپیہ تک پہنچ گئے ہیں.اس کے مقابلہ میں بہت سی جماعتیں ہیں، جو اپنی قوت اور استعداد اور اگر میں یہ کہوں کہ اپنے اخلاص کے مطابق تو یہ غلط نہیں ہوگا) کے مطابق وہ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر تحریک جدید کی اہمیت واضح نہیں ہوئی.اگر ان مخلصین جماعت پر ان کاموں کی اہمیت کو واضح کیا جائے اور بنی نوع انسان کی ضرورت کا احساس انہیں دلایا جائے اور جو تھوڑی بہت قربانیاں انہوں نے دی ہیں یا وہ آئندہ دیں گے، ان سے جو شاندار نتیجے نکلے ہیں یا ہم اپنے رب سے توقع رکھتے ہیں کہ آئندہ نکلیں گے، وہ ان کے سامنے رکھے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں سے اس مالی قربانی میں پیچھے رہ جائیں.دفتر تحریک جدید کو بھی اور جماعت کے دوسرے عہدیداروں کو بھی زمینداروں کے سامنے یہ با تیں رکھنی چاہیں.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمینداروں کی آمد بہت بڑھ گئی ہے.گو بعض جگہ بعض وقتیں بھی ہیں.لیکن اچھے پیج مل گئے ہیں، پانی کی بہتات ہے اور کھا د بھی نسبتا سہولت سے مل جاتی ہے.اس طرح زمینداروں کی آمدنیاں دو گنا ، تین گنا، چار گنا ہوگئی ہیں.میرے علم میں ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے زمینداروں کی بھی آمد پانچ پانچ گنا ہو گئی ہے.مثلا گذشتہ سے پیوستہ سال جس کی ساری کاشت میں گندم کی ستر پچھتر من پیداوار ہوئی تھی، پچھلے سال ان کی پیداوار ساڑھے تین سو اور چار سومن کے درمیان چلی گئی.بہر حال میرے ذاتی علم میں بعض ایسے زمیندار ہیں، جن کی آمدنیاں دو گنا، تین گنا ، چار گنا یا پانچ گنا ہوگئی ہیں.اگر کسی زمیندار کو اب دگنی آمد ہو رہی ہے اور اس زائد آمد سے اس نے اگر پہلے تحریک جدید میں کچھ نہیں دیا تھا تو وہ اب اس چندہ میں کچھ دے.اور اگر اس نے پہلے کم دیا تھا تو اب کچھ زیادہ دے دے.اللہ تعالیٰ فضل کرے تو ان کی فصلیں بہت زیادہ اچھی ہوسکتی ہیں.اور اس طرح ان کی آمد اور بڑھ سکتی ہے.اور پھر ساتھ ساتھ دعا بھی کرے.زمینداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے کھیتوں میں جا کر ضرور دعا کیا کریں.اور خصوصاً وہ دعا کریں، جو قرآن کریم نے سکھائی کہ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ یہ دعا جو قرآن کریم میں آتی ہے، یہ زمینداروں اور باغوں کے مالکوں کی دعا ہے.اگر آپ یہ دعا کریں تو اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ آپ کے مال میں برکت دے، آپ کی قربانیوں میں بھی برکت دے، اور 380

Page 398

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 اکتوبر 1968ء آپ کی اولاد میں بھی برکت دے.ساری برکتوں سے آپ مالا مال ہو جائیں.پھر دل میں یہ سوچیں کہ حقیری قربانیاں پیش کی تھیں اور ہمار ارب کتنا ہی فضل کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے کہ اس نے کتنے ہی اچھے اور اعلیٰ نتائج ان کے نکالے ہیں.دل میں تکبر اور ریانہ پیدا ہو.مطبوعه روز نامہ الفضل 02 نومبر 1968ء) 381

Page 399

Page 400

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تقریر فرمودہ 105 اپریل 1968ء دوران سال جہاں ہمیں ایذاء پہنچی ، وہاں رب کے بہت ہی پیارے الفاظ بھی سنے تقریر فرمودہ 05 اپریل 1968ء برموقع مجلس مشاورت تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ غلبہ اسلام کی جو عظیم مہم جاری کی ہے، اس پر ایک اور سال بیت گیا ہے.اس سال میں ہم نے اپنوں اور غیروں سے بہت کچھ ایذاء پہنچانے والی باتیں بھی سنیں اور اپنے رب کریم کے بہت ہی پیارے الفاظ بھی ہمارے کان میں پڑے.اللہ تعالیٰ نے جہاں ہمیں یہ دکھایا کہ دہر بیت اور عیسائیت پہلے سے زیادہ زور سے اسلام پر حملہ آور ہیں، وہاں ہم نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی موسلا دھار بارش کو بھی نازل ہوتے دیکھا.جہاں طاغوتی طاقتوں کو انتہائی زور صداقت کے خلاف لگاتے ہوئے، ہم نے پایا، وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو رہا ہے.اور وہ انسانوں کے دلوں کو بدلتے جارہے ہیں اور اسلام کی طرف مائل کر رہے ہیں.یورپ کے گزشتہ سفر میں ہم نے یہ دیکھا کہ جہاں پادری غلط قسم کی باتیں اخباروں میں شائع کر رہے ہیں، وہاں خود پادریوں میں سے بھی اور دوسرے عیسائیوں میں سے بھی ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں، جو خودان بیہودہ باتوں کو شائع کرنے والوں کے خلاف مضمون اور خطوط کے ذریعہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں.ابھی چند ہفتوں کی بات ہے، ڈنمارک میں ایک پادری نے ایک سخت مضمون احمدیت اور اسلام کے خلاف لکھا تو ایک پادری کی بیٹی نے اسی اخبار میں ایک خط شائع کروایا کہ اس مضمون کے پڑھنے کے بعد میں عیسائیت سے باہر نکل رہی ہوں.جب وحشت کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا تو خودان عیسائیوں میں سے بعض نے خطوط لکھے کہ مسلمان ہم سے زیادہ با اخلاق ہیں.غرض وہ عظیم جنگ، جو اسلام اور طاغوتی طاقتوں کے درمیان آج جاری ہے، اس جنگ میں جہاں اسلام کے خلاف جو طاقتیں ہیں، وہ پہلے سے زیادہ زور لگا رہی ہیں، وہاں اللہ تعالیٰ کے فرشتے بھی پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ اسلام کے حق میں کام کرتے نظر آتے ہیں.یہ تو اپنی جگہ درست ہے.لیکن جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس ایک سال کے اندر ہمیں جتنا آگے بڑھنا چاہیے تھا، اتنا ہم آگے نہیں بڑھ سکے تو انتہائی افسوس اور اضطراب دل میں پیدا ہوتا ہے.اور انسان 383

Page 401

تقریر فرمودہ 105 اپریل 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کی روح یہ سوچ کر کانپ اٹھتی ہے کہ ہم اپنے مولی کو کیا جواب دیں گے کہ تو نے ہماری کس قدر عزت افزائی کی تھی، جب تو نے یہ کہا کہ میں نے تمہیں اپنے لئے چنا اور تمہارے ذریعہ میں دنیا میں اسلام کو غالب کروں گا ؟ مگر ہم نے اس عزت افزائی کی وہ قدر نہیں کی ، جو ہمیں کرنی چاہئے تھی.آج ہم آئندہ سال کے لئے ایک پروگرام بنانے اور کچھ فیصلے کرنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.اس لئے چاہئے کہ ہم ان دنوں کو دعاؤں میں گزار ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری سابقہ غفلتوں اور کوتاہیوں اور گناہوں اور سستیوں کو مغفرت کی چادر کے نیچے ڈھانپ لے اور اللہ تعالیٰ ہمیں آئندہ سال اپنے فرائض کی کما حقہ ادائیگی کی تو فیق عطا کرے.اللهم آمین.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 07705 اپریل 1968ء ) 384

Page 402

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - " ارشادات فرمودہ 107 اپریل 1968ء وقف بعد از فراغت ، دفتر سوم اور Transparencies ارشادات فرمودہ 107اپریل 1968ء برموقع مجلس مشاورت....وقف بعد از فراغت کے سلسلہ میں دوستوں کو دوباتوں کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.ایک بات کی طرف ہمارے دفتر کو توجہ کرنی چاہئے اور دوسری کی طرف جماعت کے دوستوں کو.جیسا کہ ابھی بتایا گیا ہے، صرف اخبار کا اعلان ہی کافی نہیں بلکہ ان دوستوں کے ساتھ بذریعہ خط و کتابت نصاب پر گفتگو ہونی چاہئے ، ان کو اسباق دینے چاہئیں، سر کر لیڑ بھی لکھے جائیں.مہینہ میں کم از کم دو دفعہ ان کے پاس ایسے خطوط جانے چاہئیں.نصاب کے جو مشکل پہلو اور مقامات ہیں، ان کے متعلق ان کو خطوط لکھنے چاہئیں اور ان کے متعلق ہدایات انہیں یہیں سے جانی چاہئیں.چونکہ یہ واقفین اچھے خاصے لکھے پڑھے ہیں، اس لئے عام باتیں اگر وہ غور کریں اور وقت دیں تو انہیں سمجھنا آسان ہوتا ہے.لیکن مثلاً اگر اس نصاب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کی کوئی کتاب ہو تو بڑے اچھے پڑھے لکھے بھی بعض مقامات پر رکیں گے اور ان کو مسئلہ صحیح طور پر سمجھ نہیں آئے گا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بعض اوقات ایک نکتہ کو ایک جگہ مجمل تحریر فرماتے ہیں اور کسی دوسری جگہ آپ نے اسے وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہوتا ہے.ممکن ہے، جس کتاب کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے، اس میں کوئی مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس خیال سے کہ میں نے اسے دوسری جگہ وضاحت سے بیان کر دیا ہے مختصر بیان کیا ہو.اس لئے اس کو سمجھانے کے لئے انہیں بتانا چاہئے کہ اس مسئلہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوسری کتاب میں یوں وضاحت سے بیان فرمایا.اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں.اور وہ یہ کہ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ وہ آکسفورڈ میں گیا اور وہاں ان کی اجازت سے اس نے ایک ایسی کلاس میں داخلہ لے لیا، جو پرانی انگریزی زبان کی کلاس تھی.اور نصاب میں ایک بڑی مشکل کتاب تھی، جو پروفیسر پڑھا رہا تھا.اس شخص نے دیکھا اور اس کے لئے یہ ایک امجو یہ تھا کہ پروفیسر کہتا ہے ، کتاب کے صفحہ 25 پر فلاں سطر جو ہے، اس کے متعلق یہ بات یادرکھیں.پھر کہتا، صفحہ 34 کی فلاں سطر کے متعلق یہ بات یا درکھو.اور پھر کہتا ہے، صفحہ 50 کی فلاں فلاں سطر جو ہے، 385

Page 403

ارشادات فرمودہ 107 اپریل 1968 ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ان کے متعلق یہ باتیں یا درکھو.جب کلاس ختم ہوئی تو میں نے لڑکوں سے کہا، اس پروفیسر نے بڑی عجیب طرح پڑھایا ہے، تمہیں کچھ سمجھ آیا ہے؟ میرے تو کچھ پلے نہیں پڑا.انہوں نے بتایا، ہمیں سب کچھ سمجھ آ گیا ہے.کیونکہ پروفیسر یہ سمجھتا ہے کہ کتاب کی اکثر باتیں اگر ہم اپنے کمرہ میں مطالعہ کریں تو ہم سمجھ لیتے ہیں.لیکن بعض مقامات ایسے ہیں، جو ہماری سمجھ میں نہیں آسکتے.اور یہ باتیں، جو اس نے ہمیں اس وقت بتائی ہیں ، ساری کی ساری ایسی ہیں، جو ہم اپنے کمرہ میں نہیں سمجھ سکتے تھے.اسی طرح یہاں جو انچارج ہیں، انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتاب میں ایک ایسے مسئلہ کا بیان ہے، جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کسی دوسری کتاب میں بیان کیا ہے.اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ مسئلہ عام طور پر سمجھا نہیں جائے گا، اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے، اس کی روشنی میں انہیں سمجھا دیں.اور انہیں کہیں کہ فلاں فلاں بات کے متعلق یہ باتیں یا درکھو.فلاں مسئلہ کی یہ وضاحت ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی دوسری کتاب میں بیان فرمائی ہے.اس قسم کے اسباق مہینہ میں کم سے کم دو دفعہ ضروران واقفین کو جانے چاہئیں.دوسرے اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ بکھری ہوئی بھیڑیں ہیں.سال میں کم از کم ایک دفعہ انہیں اکٹھا ہونا چاہئے.یعنی ایک دن واقفین بعد از فراغت کا دن ہو.بالکل اسی طرح جس طرح سال میں ایک دن کالج کے لڑکوں کا ہوتا ہے یعنی کو نو وکیشن ڈے.میں نے اس مضمون کے لحاظ سے جامعہ نصرت کی بچیوں کو براہ راست اور ساری جماعت کو بالواسطہ اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ایک یوم موعود ہر مسلمان احمدی کا ہے.اور پھر میں نے بتایا تھا کہ اس کا نووکیشن اور اس کا نووکیشن میں کیا فرق ہے؟ اور پھر اس کا نووکیشن میں کس نصاب میں پاس ہونے پر سند دی جاتی ہے؟ اور میں نے قرآن کریم کے دس پرچے بیان کئے تھے، جن میں پاس ہونا ضروری ہے.دونوں کانووکیشنز میں فرق بیان کرتے ہوئے ، میں نے بیان کیا تھا کہ یہاں سند دے دی جاتی ہے، چاہے کسی کو نوکری ملے یا نہ ملے.اگر کوئی پانچ یا دس سال جوتیاں چٹی تا پھرے تو یو نیورسٹی کو اس سے کیا؟ لیکن جب اللہ تعالیٰ سند دیتا ہے تو اسی وقت اس کو جزا دینی شروع کر دیتا ہے.(انشاء اللہ وہ مضمون چھپے گا ) اللہ تعالیٰ نے ایک ہی فلیش (Flash) میں مجھے یہ مضمون سمجھا دیا تھا.ہماری بچیاں بڑی خوش ہوئی تھیں.وہ مضمون ہے، بڑا ضروری.غرض میں نے اس کونو وکیشن کے مقابلہ میں قرآن کریم کے کونو وکیشن کو کچھ تفصیل سے بیان کیا تھا.386

Page 404

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 107 اپریل 1968ء بہر حال ایک دن واقفین بعد از فراغت کا بھی منانا چاہئے.اور اس میں دوسرے دوستوں کو بھی شامل کیا جائے.مثلاً امراء کو اور ایسے دوستوں کو جو وقف کا لیبل لگائے بغیر وقف کی روح کے ساتھ کام کر رہے ہیں.اور ایسے آدمی جماعت میں سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں.امراء بھی سارے بڑی خدمت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.ان کو بھی بلایا جائے.جس طرح یوم والدین منایا جاتا ہے، اسی طرح باقاعدہ یہ دن بھی منایا جائے.سارے واقف بھی آئیں اور دوسرے دوست بھی آئیں.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جس قدر فرصت ملی، میں بھی انشاء اللہ دن کا زیادہ حصہ ان میں گزاروں گا.بے تکلفی کے ماحول میں باتیں کریں گے.کچھ سمجھیں گے، کچھ سمجھائیں گے.یہ دن ضرور منانا چاہئے.موسم نہ زیادہ گرم ہو اور نہ زیادہ سرد.اس کے متعلق مشورہ بھی کیا جا سکتا ہے.اگر کسی دوست کے ذہن میں کوئی مفید مشورہ ہوتو وہ دفتر کو بھیج دیں.22 دفتر سوم میں تین گروہ شامل ہونے چاہئیں.اول ، وہ جو پرانے احمدی ہیں اور جنہوں نے ابھی تک اس چندہ میں حصہ نہیں لیا.دوسرے، وہ جو اس عرصہ میں احمد ہی ہوئے ہیں، انہیں بھی اس طرف توجہ دلائی جائے تا وہ دوڑ میں ہمارے ساتھ ہی رہیں، پیچھے نہ رہ جائیں.تیسرے، وہ جو بچے تھے اور اس عرصہ میں جوان ہو کر انہوں نے کمانا شروع کر دیا ہے.یہ تین مختلف گروہ ہیں ، جن کو تحریک جدید میں شامل کرنا ضروری ہے.ایک وہ، جو پہلے ہی جوان تھے اور کہا بھی رہے تھے لیکن وہ ست تھے.ایک وہ، جنہوں نے اب کمانا شروع کیا ہے.ان کو بھی توجہ دلانی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں رزق دینا شروع کیا ہے تم اس کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ایک حصہ اس میں سے نکالو.اور پھر نئے احمدیوں کو بھی خاص طور پر اس طرف متوجہ کرنا چاہئے.گوان کو ہر چیز میں آہستہ آہستہ شامل کرنے پر وقت لگے گا لیکن ان سے غافل نہیں رہنا چاہیے.کوئی گروہ جماعت کا ایسا نہیں ہونا چاہئے ، جو جماعت کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے.اکثریت تو کہیں کی کہیں پہنچی ہو اور وہ کہیں آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر جارہے ہوں“.یہاں کی تصاویر بھی باہر دکھائی جانی چاہئیں.اس دفعہ میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے ایک عزیز کو اپنا کیمرہ اور فلم دی تھی تاوہ جلسہ کی تصاویر لے.جلسہ سالانہ جس طرح یہاں تبلیغ کا ایک وو 387

Page 405

ارشادات فرمودہ 107 اپریل 1968 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ذریعہ ہے، اگر اس قسم کی ٹرانس پیرنسیز (Transparencies) باہر کے ملکوں میں بھی دکھائی جائیں تو و وہاں بھی اس کا بڑا اثر پڑے گا، انشاء اللہ.میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ افریقہ سے ایک دوست یہاں آئے تھے.یہ کوئی سات، آٹھ سال کی بات ہے.ابھی تحریک جدید کا گیسٹ ہاؤس نہیں بنا تھا، اس لئے وہ کالج کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے تھے.ایک شام کو وہ باہر پھر رہے تھے ، مکرم چوہدری محمد علی صاحب ان کے ساتھ تھے.یہ غالباً 25 دسمبر کی بات ہے.جس دن پیشل ٹرینیں آتی ہیں.انہوں نے ایک ٹرین آتی دیکھی ، جس میں اندر بھی لوگ بھرے ہوئے تھے اور باہر پائیدانوں پر بھی لوگ کھڑے تھے اور وہ نعرے لگا رہے تھے.آدھا گھنٹہ کے بعد ایک اور ٹرین آئی، اس میں بھی لوگ بھرے ہوئے تھے اور وہ نعرے لگا رہے تھے.ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ پوچھنے لگے کہ کیا یہ سب احمدی ہیں ، جو آ رہے ہیں؟ غرض اگر یہ تصویریں باہر دکھائی جائیں تو ان کا تبلیغی لحاظ سے بڑا اثر پڑے گا.دراصل یہ سب چیزیں ہمارے ہی لئے ہیں.ہمیں اس نقطہ نگاہ سے ہر چیز کو دیکھنا چاہئے.کیمرہ اور پروجیکٹر بھی اسلام کی تبلیغ کے لئے ہی بنائے گئے ہیں.غیر مسلم یا نا واقف مسلمان اس کا صحیح استعمال نہیں کرتے اور اسلام کو پھیلانے کی بجائے بعض دفعہ گند کو پھیلاتے ہیں.ان چیزوں سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے.وو.اس ٹیلی ویژن کی فلم کو غالبا دو دفعہ سعودی عرب میں دکھایا گیا.اور پاکستان کی بھی انہوں نے بہت تعریف کی ہے کہ پاکستانی یورپ میں مساجد بنا رہے ہیں.اور یہ بھی اس سلسلہ کی ایک مسجد ہے.یہ بھی ٹھیک ہے، پاکستان کو بھی اس شہرت سے حصہ مل گیا اور دنیا کو یہ پتہ ہی ہے کہ پاکستانیوں کا کون سا حصہ مساجد بنا رہا ہے؟ وہ فلم اور بھی بہت سے ممالک میں دکھائی گئی ہے.غالباً عراق میں بھی دکھائی گئی ہے اور مصر میں تو یقینا دکھائی گئی ہے.مسقط یا کویت سے بھی خط آیا تھا، وہاں بھی یہ فلم دکھائی گئی ہے.یہ ٹیلی ویژن فلم بائیں ملکوں میں گئی تھی.مغربی افریقہ کے کئی ممالک میں بھی یہ دکھائی گئی ہے.مشرقی افریقہ کا تو مجھے علم نہیں ، یورپ کے بہت سارے ملکوں میں یہ دکھائی گئی تھی.جرمنی کے سارے براڈ کاسٹنگ یونٹوں نے یہ فلم دکھائی ہے.اور اسی لئے میں نے اپنی بہنوں کو مبارکباد دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پیش کش اور قربانی کو قبول کر لیا ہے.تبھی تو اس کے اتنے بابرکت نتیجے نکل رہے ہیں.کوئٹہ اور خصوصاً جو دور کی جماعتیں ہیں، وہاں یہ ٹرانس پیرنسیز (Transparencis) ضرور دکھائی جائیں.لیکن مہربانی کر کے بلب ایک سے زائد رکھا کریں.رات بلب فیوز ہو گیا تھا اور بہت کم لوگ دیکھ سکے ہیں، اس کی وجہ سے دوستوں کو بہت تکلیف ہوئی اور مجھے بھی بڑا دکھ ہوا.388

Page 406

تحریک جدید- ایک اپنی تحریک...جلد چہارم - " ارشادات فرموده 07 اپریل 1968ء.اس سال دو کام ہو جانے چاہئیں، جو بہت پیچھے پڑے ہوئے ہیں.ایک تو فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت ہو جانی چاہئے.فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہو چکا ہے اور اب تفسیری نوٹوں کا ترجمہ کرایا جارہا ہے.لیکن اس سال یہ ترجمہ شائع ہو جانا چاہئے.مارکیٹ میں ایک اور فرانسیسی ترجمہ آ گیا ہے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں.دوسرے جاپان میں دسمبر سے پہلے مشن ضرور کھل جانا چاہئے.تحریک جدید ان دونوں باتوں کو نوٹ کرئے.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 5 0 107 اپریل 1968ء) 389

Page 407

Page 408

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 107 اپریل 1968ء تحریک جدید کے ذریعہ ساری دنیا میں احمدیت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوگئی ہے تقریر فرمودہ 107 اپریل 1968ء بر موقع مجلس مشاورت اللہ تعالیٰ نے خلافت کی برکت کے نتیجہ ہی میں تو آپ کے لئے ایسے سامان پیدا کئے کہ آپ میں سے کسی نے چند روپے، کسی نے چند سور پے ہی دیئے تھے.مگر حضرت المصلح الموعود رضی الله عنه کو تحریک جدید کی جو سکیم خدا نے سمجھائی، اس کے ذریعہ سے اور اس کے نتیجہ میں آج ساری دنیا میں احمدیت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوگئی ہے.جب میں کہتا ہوں کہ دنیا کے ملک ملک میں جماعت مضبوطی سے قائم ہوگئی ہے.تو اس سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہاں جماعت کی تعداد کثرت سے ہے.بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں، جن کے دل نور ایمان سے منور اور خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہیں.وہ خدا اور اس کے ہر حکم اور ہر اشارہ پر اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر آج ان ممالک میں سے کسی ملک میں ایسے حالات پیدا ہوں کہ احمدیوں کو جان کی قربانی دینی پڑے تو سوائے چند ایک منافقوں کے سارے کے سارے اپنی جانیں احمدیت اور اسلام کے لئے قربان کر دیں گے.اس قسم کا پختہ ایمان ان کو عطا کیا گیا ہے.چونکہ اس وقت ہم ساری دنیا میں پھیل چکے ہیں، ہمیں اپنے فکر کے انداز کو بدلنا چاہیے اور بین الاقوامی نقطہ نگاہ سے ہی ساری تدابیر کو سوچنا چاہیے.یعنی اگر ہم پاکستان کے بچوں کی تربیت کا منصوبہ بنا رہے ہوں تو اس وقت بھی ہمارے ذہن میں یہ ہو کہ یہ منصوبہ ایسا تیار ہورہا ہو کہ جس کا اثر ساری دنیا پر پڑے گا.اور یہ ایک حقیقت ہے، مبالغہ نہیں ہے.اگر ہم مستورات میں قرآن کریم کی تعلیم پھیلانے کی سکیم بنا ئیں یابد رسوم کو مثانے کی مہم جاری کریں تو اس کا تعلق صرف پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ اس کا اثر دنیا کے ہر ملک میں پڑتا ہے.اس لئے ہمیں ہر کام کے سوچنے کے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہم نے جو کام کرنا ہے، جس نتیجہ پر پہنچنا اور پھر اس کی تکمیل کرنی ہے، وہ صرف اس چھوٹی دنیا سے تعلق نہیں رکھتی.بلکہ تمام بنی نوع انسان سے اس کا تعلق ہے.کیونکہ متقیوں کا یہ طائفہ کل دنیا میں پھیل چکا ہے.اس وقت احمدیت مشرقی افریقہ کے ممالک میں پھیل چکی ہے اور مغربی افریقہ کے ممالک میں بھی موجود ہے.شمالی افریقہ میں احمدی جماعتیں موجود ہیں اور جنوبی افریقہ میں بھی.اٹلی میں بھی احمدی 391

Page 409

اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہیں، سوئٹزرلینڈ میں بھی احمدی ہیں، آسٹریا میں بھی احمدی ہیں، ہالینڈ میں بھی احمدی ہیں، جرمنی میں بھی احمدی ہیں، ڈنمارک میں بھی احمدی ہیں، سویڈن میں بھی احمدی ہیں اور ناروے میں احمدی ہیں.اور اب اس سال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کمیونسٹ ممالک میں احمدیت کی اشاعت کا سامان پیدا کر دیا ہے.اور وہاں بعض لوگ احمدی ہو چکے ہیں اور بعض احمدیت کے قریب ہیں.ابھی ان لوگوں کو یہ وہم ہے کہ شاید حکومت عقیدہ کی تبدیلی پر ناراضگی کا اظہار نہ کرے.لیکن جہاں تک میں نے حالات کا جائزہ لیا ہے، یہ واقعہ نہیں.اور ہوسکتا ہے کہ کسی وقت حکومت کی طرف سے جب یہ اعلان ہو جائے کہ مسلمانوں کے اندر اور (وہاں مسلمان کافی ہیں) یا دوسروں میں سے اگر کوئی مسلمان ہونا چاہے، مذہبی عقیدہ بدلے تو حکومت کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ ہر شخص کے دل، اس کی روح، اس کے دماغ ، اس کی فراست کا سوال ہے.اگر کسی چیز کو وہ سچا سمجھتا ہے تو سمجھے.خصوصاً اگر وہ احمدی ہوں تو ایسی حکومتوں کو دوسروں کی نسبت ہم پر زیادہ اعتماد کرنا چاہئے.کیونکہ ان کے شہری حکومت اور قانون وقت کے وفادار اس لئے ہیں کہ یہ ان پر قانونی پابندی ہے.لیکن ایک احمدی اپنی حکومت اور حکومت کے قوانین کا دوہرا پابند ہے.اس لئے بھی کہ قانون اس پر یہ بابندی عائد کرتا ہے اور اس لئے بھی کہ اسلام اس پر یہ پابندی عائد کرتا ہے.ہمارا تو آرٹیکل آف فیتھ (Article of Faith) ہمارے اعتقادات میں سے یہ ایک اعتقاد ہے کہ ہم نے حکومت وقت اور قانون ملک کی پابندی کرنی ہے اور وفادار شہری بن کر زندگی گزارنی ہے.یہ علم اگر اور جب ان حکومتوں کو ہو جائے تو یقینا وہ کسی کے احمدی ہونے پر اعتراض نہیں کریں گے.خواہ وہ وہاں کے عیسائیوں میں سے احمدی ہوں یاد ہر یوں میں سے ہوں یا مسلمانوں میں سے کوئی شخص اپنے ایک فرقہ کو تبدیل کر کے دوسری جماعت میں داخل ہونے والا ہو.غرض یہ ردوہاں بھی پہنچ گئی ہے.پھر انگلستان میں احمدی ہیں ، امریکہ میں احمدی ہیں، کینیڈا میں احمدی ہیں ، جنوبی امریکہ کے بہت سے ملکوں میں احمدی ہیں، افریقہ کے بہت سے ممالک میں احمدی ہیں اور اکا دکا تو غالباً ہر ملک میں ہوگا.مشرقی افریقہ کے قریباً ہر ملک میں احمدی ہیں، ساؤتھ افریقہ میں احمدی ہیں، ماریشس کے جزیرہ میں احمدی ہیں، نجی کے جزائر میں احمدی ہیں، انڈونیشیا کے جزائر میں بہت بڑی جماعتیں ہیں اور بڑی مخلص جماعتیں ہیں.بڑی قربانی دینے والی جماعتیں ہیں، بڑی فدائی جماعتیں ہیں.پھر سیلون میں احمدی ہیں، بھارت تو ہمارا مرکز ہی ہے.برما میں احمدی ہیں، چین میں احمدی ہیں.ہر دو حصوں میں.( جہاں تک مجھے علم ہے ) کون سا علاقہ ہے، جہاں احمدی نہیں؟ 392

Page 410

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968ء تو اس وقت میرے مخاطب صرف آپ نہیں ، جو اس وقت سامنے بیٹھے ہیں بلکہ ساری دنیا کے احمدی اور ساری دنیا کی حکومتیں میری مخاطب ہیں.اکثر جگہ اس وقت تعصب سے کام نہیں لیا جاتا.لیکن بعض ملکوں میں تعصب سے کام لیا جاتا ہے.بعض ملکوں میں زیادہ تعصب ہے اور بعض میں کم.بعض ملکوں میں تبلیغ پر پابندی لگائی ہوئی ہے.یعنی اجتماعی تبلیغ پر پابندی لگائی ہوئی ہے.انفرادی کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی.لیکن اس سے بھی بڑا یہ کہ تبلیغ کے جو دروازے آسمان سے کھولے جاتے ہیں، ان کو ساری دنیا کی حکومتیں بھی مل جائیں تو روک نہیں سکتیں.اب ایک عرب ملک میں ایک احمدی ہوئے ہیں.انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ 1948ء میں میرے والد فوت ہوئے.فوت ہوتے وقت انہوں نے مجھے یہ وصیت کی تھی کہ مجھے تو امام مہدی کے متعلق کچھ علم نہیں ہوا.لیکن تمہیں علم ہوگا اور جب تمہیں علم ہو، تم ان کی جماعت میں شامل ہو جانا اور میرا سلام کہنا.ایک احمدی دوست سے اتفاقاً ان کی ملاقات ہوئی اور گفتگو ہوئی.اس پر وہ احمدی ہو گئے.ان کے ساتھ ایک اور دوست تھے، وہ بھی احمدی ہو گئے.اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے والد کو اللہ تعالیٰ نے کوئی اطلاع دی تھی.آپ ہی اپنی عقل کے ڈھکوسلے سے تو آدمی یہ بات نہیں نکال سکتا کہ میں امام مہدی سے نہیں ملا ہتم ملو گے اور تم اسے قبول کر لینا.پس جو آسمان سے ہدایت کا انفرادی دروازہ کھولا جائے، کون سی حکومت اسے بند کر سکتی ہے؟ جس کو اللہ تعالیٰ اپنے قہر یا اپنی رحمت کے جلوہ سے گھائل کر دے، دنیا کی کون سی طاقت ہے، جو اس کے دل کی حالت کو بدل دے؟ زبان پر پابندی لگائی جاسکتی ہے، انگلیوں پر پابندی لگائی جاسکتی ہے قلم کو بند کیا جا سکتا ہے.دل کی کھڑکیوں کو کون بند کر سکتا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے یہ معجزات دکھانے شروع کئے ہیں.آسمان سے فرشتوں کے نزول کے ساتھ یہ روجاری کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا ، وہ دلوں میں داخل ہوتے اور ان کی کیفیت کو بدل دیتے ہیں.میں نے کئی بار بتایا ہے کہ اس دورہ کے بعد ڈنمارک میں درجنوں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ اگر کسی عیسائی پادری نے ہمارے خلاف، اسلام کے خلاف اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا باتیں لکھیں تو خود پادریوں میں سے بڑے عالم، بڑے مشہور مصنف اور پادریوں کے خاندان کے افراد کھڑے ہوئے اور انہوں نے اخباروں میں لکھا کہ اگر عیسائیت اس قسم کی بداخلاقی پر آرہی ہے، جس کا وہ مظاہرہ کر رہی ہے تو ہم عیسائیت کو چھوڑتے ہیں.یہ دل کی تبدیلی میرے یا آپ کے کسی فعل کا نتیجہ تو نہیں.یہ تو فرشتوں کے 393

Page 411

اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کام ہیں، جو وہ کر رہے ہیں.اور بڑی رو وہاں پیدا ہورہی ہے.اور ان ملکوں میں پادریوں کے دلوں میں بڑی فکر پیدا ہورہی ہے.اس وقت تک پادری تعصب سے کام اس لئے نہیں لیتے تھے کہ ان کو اس کی ضرورت پیش وو نہیں آئی تھی.لیکن جہاں ان کو ضرورت پیش آتی ہے، عیسائیت قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی.غرض یہ نہیں کہ عیسائیت سے تعصب نکل چکا ہے.بلکہ عیسائیت کو تعصب کے استعال کی ضرورت ہی نہیں تھی.مفت کا وہ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم بڑے بردبار ہیں، ہم میں کوئی تعصب نہیں.لیکن جس وقت ان پر کاری حملہ ہوتا ہے تو سارا تعصب جوش میں آنے لگ جاتا ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یورپ کے عیسائی ممالک نے جب یہ دیکھا کہ احمدیت جو دلائل اسلام کی صداقت کے لئے ان ملکوں میں پیش کر رہی ہے، ان کا جواب ان کے پاس نہیں اور آسمان سے فرشتوں کے نزول کے بعد دلوں میں جوتبدیلی پیدا ہورہی ہے، اس کو روکنے کا ان کے پاس کوئی سامان نہیں تو وہ قتل و غارت پر ضرور اتر آئیں گے اور اس وقت ہمارے احمدیوں کو وہاں غالبا اپنی جانی قربانیاں دینی پڑیں گی.اور جو میں نے اپنے بھائیوں اور اپنی بہنوں کو دیکھا، دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں (رویا کے ذریعہ نہیں ) سکون اور بشاشت پیدا کی ہے کہ یہ لوگ وقت آنے پر قربانیاں دیں گے اور بزدلی نہیں دکھائیں گے.تعصب بہت جگہ ظاہر ہو گا.کئی جگہ ایسا تعصب بعض علاقوں میں ہوتا ہے کہ حکومت تو متعصب نہیں ہوتی لیکن ہر فرد تو حکومت کی پالیسی کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا ہوتا.بعض متعصب لوگ، غیر متعصب حکومت میں تعصب کا بڑا گندا مظاہرہ کرتے ہیں.مثلاً آپ لٹریچر ڈاک میں بھیجیں گے تو وہ عام طور پر چلا جائے گا.لیکن محکمہ جات میں بعض ایسے متعصب ہوں گے کہ جب ان میں کسی کو اس کا پتہ لگے گا تو وہ پڑھ کر پھینک دیں گے.یا بعض بددیانت ہوں گے، جیسا کہ غالباً میں نے کل بھی ذکر کیا تھا.لیکن مجھے ایسا بھی علم ہے کہ بعض متعصب لٹریچر پھاڑ کر پھینک دیتے ہیں.جہاں یہ حالات ہوں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں فراست دی ہے، وہاں ہمیں ڈاک کو استعمال نہیں کرنا چاہیے.بلکہ دوسرے ذرائع کو استعمال کرنا چاہیے.کیونکہ پیغام تو ہم نے بہر حال پہنچانا ہے، اس سے دنیا ہمیں روک نہیں سکتی.سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں تو بعض واقف کار آدمی ملتے ہیں تو وہ زبانی بات سنتے ہیں، ان پر اثر ہو جاتا ہے.کوئی خواب دیکھتا ہے تو اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے.انہیں دنوں (اسی سال ) بہت سارے لوگ احمدی ہوئے ہیں، کچی خوا ہیں دیکھ کر.اور ان خوابوں کا دل پر اثر ہونے کے نتیجہ میں.سچی خواب کی یہ علامت بھی ہوتی ہے کہ خواب دیکھ کے انسان سمجھتا ہے کہ یہ واقعی خدا کی طرف سے ہے اور مجھے اس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے.394

Page 412

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968ء میں نے پہلے تمہید میں بتایا ہے کہ میرے مخاطب صرف آپ نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں بسنے والے احمدی میرے مخاطب ہیں.اور ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں جہاں اور جس رنگ میں بھی آپ کے خلاف تعصب ظاہر ہو، اس کے ضرر سے بچنے کی، جو تدبیر خدا تعالی دعاؤں کے بعد آپ کو سمجھائے ، اس تدبیر کو اختیار کریں اور گھبرائیں نہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے ہمیں پہلے سے یہ اختباہ کیا تھا کہ تمہیں گالیاں سننی پڑیں گی، اہل کتاب بھی اور مشرک بھی بڑی ایزاد ہی کریں گے، بدزبانی اور گالیوں کے ساتھ ، اس وقت تم صبر سے کام لینا.تب تمہیں بشارتیں ملیں گی ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے.غرض گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا، تمسخر کے مقابلہ میں تمسخر نہیں کرنا.کوئی سختی کرے تو اس پر ختی نہیں کرنی.یہ وقت آپ کے لئے اصولی طور پر مظلوم رہنے کا وقت ہے.اور اللہ تعالیٰ کی تمام نفرتیں اور رحمتیں آپ کے ساتھ رہیں گی ، جب تک آپ مظلوم بنے رہیں گے.ظالم نہیں بنیں گے.اگر آپ میں سے کوئی شخص ظالم بن جائے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت سے محروم ہو جائے گا.گالی کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص بڑا سخت بد زبان مخالف قادیان میں آئے اور ایک سال ہمارے پاس رہے اور جو بھی منہ میں اس کے آتا ہے، ہمارے خلاف کہے تو تب بھی ہم اس کی گالیوں کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے.گالی دینے والا انسان گالیوں سے اپنی بداخلاقی اور گندی ذہنیت کا اظہار کر رہا ہوتا ہے.آپ کے دل میں اس کے لئے رحم پیدا ہونا چاہیے.آپ کی زبان پر اس کے لیے دعائیں جاری ہونی چاہئیں.آپ کا سر اس کی خاطر اپنے رب کے حضور جھکنا چاہئے کہ اے خدا! تیرا یہ بندہ تیری بندگی سے چلا گیا اور تیرے آستانہ کو چھوڑ گیا.تو اس پر رحم کر اور اپنا چہرہ اسے دکھا اور پھر دین اسلام کی طرف اسے واپس لے کے آ، یا دین اسلام کی طرف اسے واپس لا.غرض بغیر زیادتی کے امن کے ساتھ صلح کے ساتھ ، فساد کی سے دور ہر راہ سے بچتے ہوئے ، ہر احمدی دنیا کے جس ملک میں رہتا ہو، اپنی زندگی کے دن گزارے.دنیا کا تعصب ہماری کامیابی کو آج نہیں روک سکتا.جیسا کہ پچھلے 75 سال دنیا کے تعصب نے احمدیت کی کامیابی کو نہیں روکا.یہ چیزیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کہنے کے مطابق ہمارے لئے کھا د کا کام دیتی ہیں.جب اللہ تعالیٰ مخالفت کو زیادہ کرتا، تعصب کو زیادہ بڑھا تا ظلم اور بھی تیز ہونے دیتا ہے تو وہ وقت ہوتا ہے، جب آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ خاص تائیدات اس گروہ یا اس جماعت کے ایک حصہ کے متعلق آسمان سے نازل ہوں.اگر ہم آج مظلومیت کو چھوڑ کر ظالم بن جائیں تو مشرک ٹھہریں گے.ہم نے یہ سوچا کہ ہم اپنی تدبیر اور اپنے زور اور اپنے پیسہ سے اپنے مخالف کا مقابلہ کر 395

Page 413

اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سکتے ہیں.ساری دنیا کے اموال بھی اگر ہمیں دے دیئے جائیں تو ہم دنیا کا مقابلہ اپنے اموال سے نہیں کر سکتے.کیونکہ یہ دنیا کا مقابلہ نہیں ہے.ساری دنیا کے اقتدار اور ساری دنیا کی قوتیں ہمیں عطا کر دی جائیں تب بھی ہم اپنے مخالف کا ان تدبیروں سے مقابلہ نہیں کر سکتے کہ ہمارا مقابلہ تو دنیوی ہے ہی نہیں.ہمارا مقابلہ تو روحانی ہے.ہمارے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے مظلومیت کا ایک ہتھیار دیا ہے.دنیا ہنستی ہے کہ ہم نے اس احمدی کو نیچے گرا لیا.خدا مسکراتا ہے کہ میں نے اپنے اس بندہ کو اپنی گود میں اٹھالیا.دنیا جو آج تعصب کا اظہار کر رہی ہے، اس کے خلاف ہتھیار ہمارے پاس مظلومیت کا ہے.مظلوم رہو اور خدا کی بشارتیں ، اس کی تائید میں اور اس کی نصرتیں اور اس کی رحمتیں حاصل کرو.ظالم کبھی نہ بنو.دوسرا ہتھیار ہمیں اللہ تعالیٰ نے اخلاق کا دیا ہے.یعنی جہاں ظلم نہ بھی ہورہا ہو، وہاں عام معاملات میں نہایت اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کرو.زبان بڑی ہی اہم اور کبھی بڑی خطرناک اور کبھی مفید ثابت ہوتی ہے.زبان کی مٹھاس اور شیرینی دشمن کو جیت لیتی ہے.زبان کی تیزی پیدا کرنے والے رب کو ناراض کر دیتی ہے.اس دورہ کے دوران اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جہاں کچھ کسی رنگ میں بھی شوخی کا اظہار ہوا، میں نے ایسے رنگ میں اس کو جواب دیا کہ اسے شرمندہ ہونا پڑا.اور بعض نے یہاں تک کہا کہ ان کی صحبت میں پورا سکون اور اطمینان ہمیں نظر آتا تھا.کوئی جوش نہیں.جوش کس چیز پر آتا؟ میرے اندر خوبی کیا تھی؟ طاقت کیا تھی؟ کس برتے پر میں اپنا ذاتی جوش دکھاتا؟ ہر احمدی کو یہی سمجھنا چاہیے.خدا نے ہم سے وعدے کئے ہیں اور ہم اپنی زندگی میں انہیں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.جس وقت ہم اپنے مخالف سے بات کرتے ہیں تو ہمیں کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی.ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ اگر اس نے کوئی ایسا سوال کیا (مثلاً) جس کا ہمیں جواب نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ اسی وقت سکھا دے گا.اور وہ اسی طرح کرتا رہا ہے اور وہ ہمیشہ کرتا ہے، آئندہ بھی کرے گا.میرے ساتھ بھی اس کا یہی سلوک ہے، آپ میں سے وہ ، جو خدا پر توکل رکھتے اور اخلاق کا اچھا نمونہ باتوں میں ظاہر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مدد کے لئے آتا ہے.ہماری تبلیغ میں بہت مفید اور محمد ہتھیار، یہ اخلاق کا ہتھیار ہے.بنی نوع کی ہمدردی کا ہتھیار ہے.ساری دنیا مل کر اگر احمدیوں کا گلا کاٹنے کے لئے تیار ہو جائے اور دنیا میں جہاں بھی غیر احمدی کو نظر آ رہا ہے کہ اس کو دکھ پہنچ رہا ہے، وہاں احمدی اس دکھ کو دور کرنے کے لئے پہنچ جائے تو ساری دنیا کا ظلم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا.ان ہی میں سے ایسے لوگ کھڑے ہو جائیں گے، جو کہیں گے، کیا کر رہے ہو؟ 396

Page 414

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968ء ابھی چند دن ہوئے، مجھے ایک دوست نے خط لکھا ( میں بین الاقوامی سطح پر چونکہ بات کر رہا.ہوں، اس لئے کسی ملک یا جگہ کا نام نہیں لے رہا.ساری دنیا میں یہ باتیں پھیلی ہوئی ہیں، جو میں کر رہا ہوں ) کہ ایک مجمع اکٹھا ہوا ( احمدیوں کا وہاں ایک ہی مکان تھا) اور کہا مار دیں گے قتل کر دیں گے لوٹ کر لے جائیں گے.اور وہاں جو حکومت کا انتظام تھا، وہ بھی رعب کے نیچے آ گیا.معلوم ہوتا ہے کہ مختصر ساوہ انتظام ہوگا.وہ سمجھتے ہوں گے کہ ہم انتظام نہیں کر سکتے.وہ لکھتے ہیں کہ مجمع مکان کی دیواروں کے پاس پہنچ گیا اور اس کی حفاظت کا کوئی ظاہری سامان نہیں تھا.مگر خدا کا وعدہ تھا کہ میں تمہاری حفاظت کے لئے آؤں گا ، اگر تم سے جان کی قربانی نہ لینی ہوئی.بعض دفعہ وہ جان کی قربانی بھی لیتا ہے.لیکن اکثر دفعہ وہ اپنی قدرت نمائی کا اظہار کرتا ہے.چنانچہ اس مجمع میں سے ایک شخص بندوق لے کر کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ یہ ایک آدمی ہے اور تم اسے مارنے اور لوٹنے کے لئے سارے اکٹھے ہو گئے ہو.اگر کوئی شخص ایک قدم بھی آگے بڑھا تو میں اسے گولی ماردوں گا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے اس کے لئے حفاظت کا سامان کر دیا.غرض جب تک ہم بشاشت کے ساتھ اپنے رب کی رضا کے لئے مظلوم بنے رہنے کے لئے تیار رہیں گے، اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی فوجیں ہماری مدد کے لئے آسمان سے اتریں گی.لیکن جب اور اگر ہم اپنی غفلت اور حماقت کے نتیجہ میں یہ سمجھنے لگے کہ ہم خود اپنی حفاظت کر سکتے ہیں اور ہمیں اللہ کی حفاظت اور مدد کی ضرورت نہیں تو خدا کہے گا، جاؤ، پھر تم اپنی حفاظت کرتے پھرو.ہم میں کوئی طاقت نہیں.اور حماقت ہے، اگر ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم اپنی حفاظت کر سکتے ہیں.دنیا کے ملک ملک میں اللہ تعالیٰ اپنی اس قسم کی رحمتوں کے نشان ظاہر کر رہا ہے.اور مجھے تو اس قسم کی چیزیں پڑھنے میں اس قسم کی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے کہ گو میں روز کی ڈاک دیکھتا ہوں اور مجھے اس کے لئے کئی گھنٹے خرچ کرنے پڑتے ہیں.لیکن روزانہ جب ڈاک آتی ہے تو سب سے پہلے میں غیر ملکی ڈاک دیکھتا ہوں اور مختلف ملکوں سے ہمیں ہر دوسرے یا تیسرے روز اس قسم کی کوئی نہ کوئی خبرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں دعاؤں کو قبول کیا، معجزانہ رنگ میں حفاظت کا سامان کیا، معجزانہ رنگ میں بیماریوں سے شفادی، معجزانہ رنگ میں امتحان میں کامیاب کیا، معجر انہ رنگ میں مالی تکلیفوں کو دور کیا، معجزانہ رنگ میں سفر کی صعوبتوں سے بچالیا، وغیرہ وغیرہ.بہت ساری آفات ہیں اور اللہ تعالیٰ امتحان لیتا ہے اور کہتا ہے، صبر کرو اور میری بشاریں لے لو.وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ 397

Page 415

اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم آسمانی بشارت اس دنیا میں سب سے بڑا انعام ہے.اس سے زیادہ اور انعام انسان کو کیا مل سکتا ہے کہ خدا عاجز بندوں کے پاس خود آئے اور کہے، میں تمہاری مدد کے لئے تمہارے پاس موجود ہوں، پھر تمہیں دنیا سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پس جہاں جہاں احمدی ہیں، انہیں چاہیے کہ ایک تو وہ حکومت وقت اور قانون ملک کی پابندی کریں اور وفاداری کی ذہنیت اپنے اندر پیدا کریں.ابھی ماریشس کو 12 مارچ کو آزادی ملی.یہ چھوٹا سا ملک ہے.غالباً تین لاکھ کی آبادی ہے اور مسلمان 21-20 یا 22 فیصد ہیں، 52 فیصد ہندو ہیں اور باقی جو لوگ ہیں ، وہ کر یول فرانسیسی بولنے والے عیسائی ہیں.کچھ چینی اور کچھ دوسرے لوگ ہیں.یعنی بد مذہب وغیرہ.اس موقع پر مسلمان بھی آپس میں پھٹ گئے تھے اور غالبا عیسائی بھی.کچھ ہندو اکثریت کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے تھے اور کچھ نہیں کرنا چاہتے تھے.جب تک میری ہدایت نہیں گئی تھی ، اپنے احمدیوں کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی اور ان میں بھی اختلاف رائے تھا.میں نے اپنے مربی کولکھا کہ حکومت سے پورا تعاون ریں کیونکہ ہمارا تو آرٹیکل آف فیتھ اور اعتقادہی یہ ہے.اور ملک کو غیر حکومت سے آزادی مل رہی ہے، اس خوشی میں ضرور شامل ہونا چاہیے.جشن مناؤ.کل ہی مجھے خط ملا ہے، جو کچھ دیر سے ملا ہے.(اس کے بعد والے خط مجھے پہلے مل گئے تھے.) میں وہ ساتھ نہیں لایا.( یہ ایک پرانا خط ہے، جو رپورٹ کی شکل میں ہے.اس خط میں مکرم محمد اسماعیل منیر صاحب نے لکھا ہے کہ آپ نے کہا تھا، جشن مناؤ.اور ہم نے جب اس قسم کا انتظام کرنا شروع کیا تو بعض احمد یوں نے بھی ہمیں طعنے دیئے.وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے حالات پیدا کر دیئے کہ وہاں لڑائی ہوگئی.آزادی سے پہلے وہاں کے رہنے والوں میں اختلاف پیدا ہو گیا.بہت سارے مسلمان مارے گئے.کریول عیسائیوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں تھا، سوائے خدا کے.اور خدا کسی کے پاس نہیں تھا، سوائے احمدیوں کے.چنانچہ وہی ، جو ہمارے خلاف شور مچارہے تھے اور جماعت خطرہ محسوس کر رہی تھی کہ شاید بعض ناسمجھ لوگ ہم پر حملہ کر دیں اور قتل وغارت کی راہ اختیار کریں ، وہ احمدیوں کے پاس پناہ لینے کے لئے مجبور ہوئے.جہاں ہمارا بڑا مرکز تھا، وہاں پانچ سو کے قریب ہمارے مسلمان اور عیسائی جمع ہو گئے.جماعت کو ان کی خدمت کی توفیق ملی.پھر جس دن سیلی بریٹ (Celebrate) کیا گیا، یعنی دس تاریخ کو ( دودن پہلے سیلی بریٹ کیا گیا تھا ) تو اس تقریب میں دو وزیر بھی شامل ہوئے.اور جتنے ملکوں کے نمائندے اس تقریب پر وہاں آئے ہوئے تھے، ان سے ملنے کا اتفاق بھی ہو گیا.کیونکہ جماعت حکومت سے تعاون کر 398

Page 416

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968ء رہی تھی اور حکومت ہر دعوت میں اور ہر فنکشن میں ہمارے احمدیوں کو کثرت سے بلاتی تھی.ہمارے مبلغ کو بھی بلاتی تھی اور جتنے ڈیلی گیٹ اور نمائندے باہر سے آئے ہوئے تھے اور جن میں بعض کمیونسٹ ممالک کے نمائندے بھی تھے ، قریباً سب کو اپنی کتابیں دینے کا انہیں موقع ملا.اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک رنگ میں ایک نشان اس لئے بھی دکھایا کہ اس وقت وہ بہت پریشان تھے اور اسماعیل منیر صاحب مجھے لکھ رہے تھے، دعا کے لئے اور دوسرے دوست بھی مجھے دعا کے لئے لکھ رہے تھے کہ کوئی پتہ نہیں کہ کیا حالات پیدا ہوں، فتنہ پھیل رہا ہے اورقتل و غارت ہو رہی ہے؟ چنانچہ 25-20 آدمی تو وہاں مارے گئے تھے اور کئی سو زخمی ہوئے تھے.سینکڑوں مکان اور دکانیں لوٹی گئیں، بہت خراب حالت ہو رہی تھی.اور یہ حالت کوئی ایک مہینہ آزادی سے پہلے تھی.دوست خود بھی دعا ئیں کر رہے تھے.بڑی دعا کرنے والی یہ قوم ہے.مجھے بھی دعا کے لئے لکھ رہے تھے.چنانچہ میں نے بھی ان کے لئے دعا کی.لیکن میری دعا کسی علاقے کے لئے محدود تو نہیں ہوتی.ساری جماعت کے لئے.اس رات بڑی کثرت سے دعا کرنے کی خدا نے مجھے توفیق دی اور صبح میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے.نشان فتح نمایاں صبح سحری کے وقت جب میں بیدار ہوا ہوں تو نیم بیداری میں یا بیدار ہونے کے بعد مجھے غنودگی کا ایک جھونکا آیا اور یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے.بیدار ہونے کے بعد میں نے مصرع کو مکمل کیا.نشان فتح نمایاں برائے ما باشد یہ مصرع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فارسی منظوم کلام کا تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مصرع یہ ہے.ندائے فتح نمایاں بنام ما باشد لیکن اس وقت میری زبان پر غنودگی میں آدھا مصرع ”نشان فتح نمایاں تھا.جس وقت میں بیدار ہوا تو زبان خود آگے چلتی گئی اور برائے ماباشد کے ساتھ وہ مصرع مکمل ہو گیا.چونکہ ان دنوں ان ما کے خطوط بھی آرہے تھے، اس لئے میں نے مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر کو لکھا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے رحمت کا اظہار کیا ہے.میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تمہارے لئے یا صرف تمہارے لئے ہے.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ فتح کے نشان کہیں نہ کہیں تو ظاہر کرے گا ہی.اور کل ہی جو ان کا خط آیا، اس میں انہوں نے ساری تفصیل لکھ کر لکھا ہے کہ ہمارے لئے تو ”نشان فتح نمایاں ظاہر ہو گیا ہے.399

Page 417

اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم غرض اس قسم کے نشان دور دراز ممالک کے متعلق ظاہر ہوتے رہتے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے اور چونکہ ہر چیز اس کے تصرف میں ہے.جیسا وہ کہتا ہے، وہ ہو جاتا ہے.اس کو دنیا کی کون سی طاقت روک سکتی ہے؟ مثلاً اللہ تعالیٰ نے روس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا.آپ کو یہ نظارہ دکھایا کہ وہاں ریت کے ذروں کی طرح احمدی ہو جائیں گے، ان کی بھاری اکثریت ہو جائے گی.اب روسیوں سے بات کی جائے تو کچھ تو بات سنجیدگی سے سنتے ہیں لیکن ہندوستان میں ایک سٹال احمد یوں نے لگایا تو وہاں کوئی روی آیا اور وہ ہنسی مذاق اور تمسخر میں باتیں کرتارہا.اور اس نے کہا، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم خدا کے قائل ہو جائیں؟ ٹھیک ہے، بظاہر تم بڑیں مارتے ہو، تم جاہل مطلق ہو.روسیوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ تمہارے متعلق صرف ایک بات ہوتی ، جو ابھی پوری نہیں ہوئی تو شاید ہم سمجھتے کہ تم ان حالات ہوتی، کہ تم میں حقائق کو سمجھنے کے اہل ہی نہیں ہو.لیکن تمہارے متعلق خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ انہونی باتوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا.ان میں سے تین یا چار انہونی باتیں پوری ہوگئی ہیں.اگر ذرا بھی عقل ہو تو تم اس نتیجہ پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاؤ کہ چوتھی یا پانچویں بات بھی گو بظاہر انہونی ہے لیکن وہ پوری ہو جائے گی.جیسے پہلی باتیں پوری ہوگئی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق بہت سے سلسلہ ہائے پیشگوئیاں دی ہیں.اس رنگ میں کہ یہ سلسلہ کی کڑیاں کس طرح ہیں؟ اور وہ کس طرح پوری ہوئیں ؟ ابھی کم تحقیق کی گئی ہے.لیکن ہمارے مجلس ارشاد کے جو جلسے ہورہے ہیں، ان میں دو پیش گوئیوں کے متعلق اس قسم کے مضمون بڑی محنت سے تیار کر کے پڑھے گئے ہیں.اس سے مجھے توجہ پیدا ہوئی کہ یہ تو ایک خانہ غفلت کا شکار ہورہا تھا، یہ سارا لینا چاہیے.یہ سلسلہ جو ہے، یہ کس طرح پورا ہوا ؟ تا کہ ہم ان قوموں پر اتمام حجت کر سکیں.ان دو پیشگوئیوں میں ایک یہ تھی:.کور یا خطر ناک حالت میں ہے.مشرقی طاقت ( تذکرہ صفحہ 512) بظاہر یہ چھوٹا سا فقرہ ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس فقرہ کو ثابت کرنے کے لئے اس وقت تک قریباً 45-40 سال کے لمبے زمانہ میں ایسے واقعات پیدا کئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علام الغیوب ہونے کا ہمیں پتہ دیتے ہیں.دوسری پیشگوئی ہے.تزلزل در ایوان کسری فتاد 400 ( تذکره صفحه 591)

Page 418

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968ء یہ بھی ایک چھوٹا سا فقرہ ہے اور بہت کم لوگوں نے اس کی اہمیت، اس کی وسعت اور اس کی شان کا احساس کیا ہو گا.جب مضمون پڑھا گیا اور اس میں مضمون پڑھنے والے نے وہ سارے واقعات سامنے رکھے تو میں دیکھ رہا تھا کہ سنے والوں کی آنکھیں بیٹھی ہوئی تھیں.بظاہر یہ چھوٹی سی خبر تھی لیکن اللہ تعالیٰ اسے کس طرح مختلف رنگوں میں پورا کرتا چلا گیا اور جو موجودہ شاہی خاندان ہے، اس سے پہلے شاہی خاندان نے کئی جلوے اس الہام کے دیکھے.یہاں تک کہ ان کا خاندان بادشاہ ہونے کے لحاظ سے تباہ ہو گیا اور اس کی جگہ دوسرا خاندان آیا.تو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر فیصلہ کیا کہ اپنے ایک اس بندہ کو کہ جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اس قد رفتا ہوا کہ امت محمدیہ کے کسی فرد کے سینہ میں اس شدت کے ساتھ اس محبت کی آگ کبھی نہیں سلگی، اس زمانہ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے چنا.اور اسے وعدہ دیا کہ میں تیرے ذریعہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکتوں کے طفیل ایک جماعت تجھے دوں گا اور اس جماعت کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کروں گا.اور یہ غلبہ میری نصرت اور تائید کے نتیجہ میں ہوگا.تمہاری اپنی طاقت اور ز دور اقتدار کے نتیجہ میں نہیں ہوگا.اور ایک وقت تک میں تمہیں مظلوم رکھنا چاہوں گا.تم مظلوم رہنا اور سوائے میرے کسی اور کی طرف نگاہ نہ کرنا.اور میں تم سے بے وفائی نہیں کروں گا اور ضرورت کے وقت تمہارے پاس پہنچوں گا اور اپنی محبت اور اپنی رضا اور اپنی رحمت اور اپنے فضل کے جلوے تم پر کروں گا اور دنیا کے لئے تمہیں ایک نمونہ بناؤں گا.ہماری جماعت کو جہاں بھی وہ ہو، دنیا میں اس وقت مظلوم رہ کر اپنے رب کے جلووں کو جذب کرنا چاہئے.اور خدا نے کہا کہ میں دلائل قطعیہ کا ایک عظیم الشان خزانہ تجھے اور تیری وساطت سے تیری جماعت کو دوں گا اور دنیا کا کوئی عالم اور دنیا کا کوئی فلسفی تمہارے بچوں کے سامنے بھی ٹھہر نہیں سکے گا.ابھی میں نے چند دوستوں کے سامنے ایک بات بیان کی تھی.گو بیسیوں نہیں سینکڑوں ایسے واقعات ہیں.لیکن یہ ایک تازہ نمونہ ہے کہ ایک دس، بارہ سال کا بچہ مشرقی افریقہ میں تبلیغ کر رہا تھا.وہ چھوٹا سا بچہ ہے اور بڑا تخلص ہے.ایک اچھا پڑھا لکھا اور سمجھدار آدمی اس کو نظر آیا، وہ اس کے پاس گیا اور نائیجیریا سے ہمارا ایک انگریزی اخبار چھپتا ہے، اس اخبار کا ایک پر چہ اس کے ہاتھ میں دیا.اس شخص نے اخبار کا وہ پر چہ دیکھا اور پھر واپس کر دیا.اور پھر اس بارہ سال کے بچہ کو کہنے لگا کہ تم کون ہو ، احمدی ہو؟ اس بچے نے کہا، ہاں، میں احمدی ہوں.اس شخص نے کہا، پھر سنو، تم احمدی ہو اور میں کیتھولک ہوں اور ہمیں 401

Page 419

اقتباس از تقریر فرموده 07 اپریل 1968ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہمارے چرچ نے یہ ہدایت دی ہے کہ احمدیت کا کوئی لٹریچر نہیں پڑھنا اور کسی احمدی سے گفتگو نہیں کرنی ، اس لئے میں تمہارے ( دس، بارہ سالہ بچہ کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.غرض جو عظیم بشارت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس جماعت کے لئے دی تھی ، وہ ہر روز پوری ہورہی ہے.بڑے بڑے پادری بچوں کے سامنے بھی بات کرنے سے گھبراتے ہیں.ہم نو جوان تھے.نو جوانوں کی ایک پارٹی جس میں، میں بھی تھا.بشپ آف لا ہور کو ایک اتوار کو ملنے گئے.کچھ دیر تو ہم وہاں کھڑے رہے.اس کے بعد ایک شخص آیا اور اس نے ہم سے دریافت کیا کہ (بشپ صاحب پوچھتے ہیں) آپ کون ہیں اور کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ ہم نے ایک کاغذ پر لکھ دیا کہ ہم احمدی ہیں اور آپ کے ساتھ تبادلہ خیالات کرنا چاہتے ہیں.اس پر انہوں نے جواب دیا کہ بڑا افسوس ہے کہ میں آپ کے ساتھ بات نہیں کر سکتا.ہم اس وقت ایف اے کے طالب علم تھے.اب دیکھو کہ بشپ آف لاہور بھی ایف اے کے طلباء سے بات کرتے ہوئے گھبراتا ہے.سکنڈے نیویا میں ہمارے ایک آنریری مبلغ ہیں، ان کی تعلیم و تربیت صرف تین سال کی ہے.اس سے بات کرتے ہوئے بھی بڑے بڑے پادری گھبراتے ہیں.پھر جرمنی میں ہمارے ایک نو جوان یو نیورسٹی کے طالب علم ہیں ، ان سے بات کرتے ہوئے بھی پادری گھبراتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے مخالف اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں اور جان چکے ہیں کہ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے اتنے زبر دست دلائل دیئے ہیں کہ وہ ان کا جواب نہیں دے سکتے.خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ تمہارے اخلاق کی برکت سے میں اسلام کا نور دنیا میں پھیلاؤں گا.جماعت میں سے بہت ہیں، جو اخلاق کے نمونے دکھاتے ہیں.مگر وہ بھی ہیں، جو اس طرف متوجہ نہیں.اس لئے خدا کے لئے اور اپنی اخروی زندگی کو درست کرنے کے لئے تمام اخلاقی کمزوریوں کو دور کر دو.بھائی بھائی سے ناراض نہ ہو.جہاں آپ معافی دے سکتے ہیں، وہاں آپ بشاشت سے معافی دیں کہ آپس میں کوئی بگاڑ نہ رہے.دن رات خدا تعالیٰ کی حمد میں لگے رہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلعہ میں پناہ گزیں ہو جائیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا تھا کہ قلعہ ہند میں پناہ گزین ہوئے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمائندہ ہیں ، آپ اصل ڈھال ہیں، اسلام کی.تمام بچے مسلمان آپ کے وجود ہی میں مدغم ، غائب اور گم ہیں.اور اس الہام میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایسا انتظام کیا جا رہا ہے کہ ہندوستان میں رہنے والوں میں ایک ایسا سلسلہ جاری کیا جائے گا کہ و سلسلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ میں پناہ گزین ہونے والا ہوگا.402

Page 420

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامِ آمِيْنِ جو متقی ہیں ، وہی مقام امین میں رہتے ہیں.اقتباس از تقریر فرموده 107اپریل 1968ء پس سب بداخلاقیوں سے تو بہ کرو.بد اخلاقی چھوٹی ہو یا بڑی یا بالکل معمولی سمجھی جانے والی بات بھی ہو، تب بھی اس کو چھوڑ دو کہ ان باتوں سے کہ جو تمہاری نظر میں چھوٹی ہیں، تمہارا رب خوش نہیں.اور جس چیز سے تمہارا رب خوش نہیں، اسے تم چھوٹی کیسے کہہ سکتے ہو؟ پس ہر بداخلاقی کو ترک کرو اور بھائی بھائی بن کر احساس فروتنی اپنے دلوں میں پیدا کر کے اور اس یقین پر قائم ہو کر کہ ہم کچھ نہیں لیکن ہمارا رب سب طاقتوں والا ہے.اور اس نے یہ فیصلہ کیا ہے اور بشارت دی ہے کہ وہ ہمیں آخری اور انتہائی کامیابی عطا کرے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کامیابی کی راہ میں روک نہیں بن سکے گی.لوگ دیکھ دیں گے قتل کریں گے، مال لوٹ لیں گے.یہ سب کچھ ہو گا لیکن آج احمدیت کی جو تیز قدمی کے ساتھ ترقی ہور رہی ہے ، اس کو وہ روک دیں، یہ نہیں ہوسکتا.دنیا کے سارے ملک مل کر بھی اسے روک نہیں سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے دھڑلے کے ساتھ یہ کہا تھا کہ تم سارے مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو، پھر بھی تم ناکام رہو گے.یہ وعدہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تو نہیں.بلکہ یہ وعدہ آپ کے طفیل اور آپ کے ذریعہ سے اور آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں ہمارے ساتھ بھی ہے.اگر ہم وہ انتہائی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں ، جو خداوند کریم ہم سے لینا چاہتا ہو، اگر ہم فدائیت کا وہ حسین مظاہرہ کرنے کے لئے تیار ہوں، جس حسن کو خدا ہم میں دیکھنا چاہتا ہے تو ہمارے لئے کامیابی ہی کامیابی مقدر ہے.اللہ تعالیٰ امتحان لیتا ہے اور لیتا رہے گا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے.وہ اموال کے تعلق میں بھی امتحان لے گا اور جانی لحاظ سے بھی.اور جذبات کے لحاظ سے بھی وہ امتحان لے گا.یہ ساری باتیں ایسی نہیں ، جن کے متعلق قرآن کریم نے ہمیں پہلے نہ بتادیا ہو.یہ تو بہر حال ہوں گی.مگر ان کے ساتھ یہ بشارت بھی ہے کہ جب تم انفرادی امتحانوں میں کامیاب ہو جاؤ گے تو ایک جماعتی فتح اور جماعتی کامیابی اور جماعتی فلاح کا میں تمہیں وعدہ دیتا ہوں.اور اس کی راہ میں دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں بن سکتی.پس اپنی کمزوریوں کو دور کر کے خدا تعالی کی انتہائی بشارتوں کے اپنی زندگیوں میں وارث بنے کی کوشش کرو اور تدابیر کرو.اللہ تعالیٰ آپ کے بھی اور میرے بھی ساتھ ہو“.رپورٹ مجلس شوری منعقد ہ 5 0 تا 7 10 اپریل 1968ء ) 403

Page 421

Page 422

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم جدا ہو گئے.خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جنوری 1969ء مربیان قرآن کریم کی روشنی میں اپنی عقلوں کو تیز کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جنوری 1969ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.”ہماری جماعت کے ایک اور سردار (حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری) کل ہم سے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ آپ ایک بے نفس خدمت کرنے والے بزرگ تھے.جنہوں نے بیماری کی حالت میں بھی بظاہر ایک مختصر سی دنیا میں، جو ان کے ایک کمرے پر مشتمل تھی، تبلیغ اور تربیت کا ایک وسیع میدان پیدا کر دیا تھا.آخر وقت تک آپ کا ذہن بالکل صاف اور حافظہ پوری طرح کام کرنے والا رہا.اور آپ اس قدر تبلیغ کرنے والے اور اس رنگ میں تربیت کرنے والے بزرگ تھے کہ ہماری جماعت میں کم ہی اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ یعنی ہم نے اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیا ہے.ہم سارے کے سارے اسی کے لئے ہیں.ہماری زندگی کے لمحات ، ہمارے اموال، ہماری خواہشات ، ہمارے جذبات، ہمارے آرام ، سب کچھ اسی کے حضور پیش ہیں.اور ہم جانتے ہیں کہ ایک دن ہم اس کے حضور پیش ہوں گے تو وہ ہماری ان حقیر کوششوں کی بہترین جزا دے گا.اللہ کرے کہ ہمارے اس بزرگ بھائی کو، جو اپنے آقا کے پاس پہنچ گیا ہے، احسن جزا ملے.اور خدا کرے کہ ہم بھی اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی ) اس کے فضلوں کے وارث بنیں.حضرت حافظ مختار احمد صاحب کی وفات پر میں نے بہت دعا کی کہ اے میرے رب ! غلبہ اسلام کی جو ہم تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جاری کی ہے، اس کی سرحدوں میں وسعت پیدا ہو رہی ہے، ہمارے کام بڑھ رہے ہیں اور ہماری ضرورتیں زیادہ ہو رہی ہیں، ہمیں حضرت حافظ صاحب جیسے ایک نہیں سینکڑوں نہیں ، ہزاروں فدائی اور اسلام کے جانثار چاہئیں.تو اپنے فضل سے ایسے 405

Page 423

خطبه جمعه فرموده 10 جنوری 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سامان پیدا کر دے کہ جہاں جہاں اور جس قدر اسلام کی ضرورت تقاضا کرے، تیرے فضل سے اسلام کو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی ملتے رہیں.تا تکمیل اشاعت ہدایت یعنی اسلامی شریعت کی اشاعت کی تکمیل کا جو زمانہ آج پیدا ہوا ہے، اس زمانہ کے تقاضوں کو جماعت پوری کرتی رہے.اور اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے.اور تمام قومیں اور تمام ملک اور ہر دل خدائے واحد و یگانہ رب رؤوف و رحیم کو پہچاننے لگے اور اس کی محبت ان کے دل میں پیدا ہو جائے.اور وہ جو اس محبت کو قائم کرنے کے لئے سب سے اچھے سامان لے کر آیا اور دنیا کا محسن اعظم ٹھہرا، اس کی محبت اور اس کے لئے شکر کے جذبات بھی انسانیت کے دل میں پیدا ہوں.تا کہ وہ اس طرح اپنے رب کے فضلوں کو زیادہ سے زیادہ پاسکے.اس موقع پر میں نے ایک ضرورت کا بھی اظہار کیا ہے.یعنی غلبہ اسلام کی مہم کی سرحدوں پر ایسے فدائیوں کی ضرورت ہے، جو اپنا سب کچھ قربان کر کے اور مثالی زندگی گزارتے ہوئے ، اسلام کی خدمت میں مشغول رہیں.میں اپنے مربی بھائیوں کو آج اسی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کی نگاہ میں صحیح مربی بننے کے لئے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے.ایک نور فراست، دوسرے گداز دل.قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ میں عقل کے نقص کو دور کرنے والا اور اس کو کمال تک پہنچانے والا ہوں.اور اس کی جو خامیاں ہیں، وہ میرے ذریعہ دور ہونے والی ہیں اور اس کے اندھیرے، میرے ذریعہ روشن ہونے والے ہیں.نیز قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ میرے نزول کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ گداز دل پیدا کئے جائیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ یوسف میں فرماتا ہے:.إِنَّا أَنْزَلْنَهُ قُرْإِنَّا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ) (آیت:3) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم کو نازل کرنے اور ایک ایسی کتاب بنانے میں جو اپنے مضامین کو کھول کر بیان کرتی ہے، ایک حکمت یہ ہے کہ انسان اپنی عقل سے صحیح کام لے سکے.یعنی عقل میں جو فی نفسہ ایک بنیادی خامی ہے کہ آسمانی نور کے بغیر اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہے، اس خامی کو قرآن کریم دور کرے.جس طرح ہماری آنکھ، با وجود تمام صلاحیتوں کے اور دیکھنے کی سب قو تیں رکھنے کے، اپنے اندر یہ نقص بھی رکھتی ہے کہ وہ خورد یکھنے کے قابل ہے ہی نہیں ، جب تک بیرونی روشنی اسے میسر نہ ہو.406

Page 424

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جنوری 1969ء ہ شخص جانتا ہے کہ ہماری آنکھ دیکھتی ہے لیکن وہ اندھیروں میں نہیں دیکھتی.ایسے وقت میں جب رات ہو اور بادل چھائے ہوئے ہوں تو ہاتھ کو ہاتھ سوجھائی نہیں دیتا.آنکھ کے قریب ترین ناک ہے، اندھیرے میں وہ اسے بھی نہیں دیکھ سکتی.انگلی اس کے قریب لے آؤ تو اس اندھیرے میں وہ اسے بھی نہیں دیکھ سکتی.غرض باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے دیکھنے کی سب صلاحیتیں اس میں رکھی ہیں، اسے ایک قید میں بھی جکڑا ہے.اور فرمایا ہے کہ سورج کی روشنی کے بغیر یا بیرونی روشنی کے بغیر تمہاری قو تیں ظاہر نہیں ہوں گی.اس قید میں مقید کر کے اللہ تعالیٰ نے ساری قوتیں اسے عطا کر دیں.اسی طرح عقل صحیح کام نہیں دے سکتی.وہ اس وقت تک اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہے، جب تک کہ آسمانی نور اور روشنی اسے عطا نہ ہو.سورہ یوسف کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعوی کیا ہے کہ عقل کے استعمال کے سب سے روشن سامان قرآن کریم کے ذریعہ نازل کر دیئے گئے ہیں.اگر بنی نوع انسان نے اپنی عقلوں سے صحیح فائدہ اٹھانا ہو، بہترین فائدہ اٹھانا ہو تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عقل کے لئے قرآن کریم کے انوار مہیا کریں، تب ان کی عقلیں منور ہو کر صحیح طور پر کام کرسکیں گی.یہ صحیح ہے کہ دنیا میں دنیوی طور پر ایک حد تک عقل کام کر رہی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعویٰ قرآن کریم میں کیا ہے، اس پر اس وجہ سے کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا.اس لئے کہ قرآن کریم ہی کے کچھ حصے پہلے انبیاء کو دیئے گئے تھے.ان حصوں نے انسانی عقل میں ایک جلا پیدا کی.یہ جلاد نیوی طور پر انسان کے ساتھ رہی، گوروحانی طور پر یہ جلا اور روشنی انسان سے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم پر عمل نہ کرے، چھین لی جاتی ہے.بہر حال عقل نے ترقی کی، اس نے ارتقاء کی ایک منزل طے کر لی اور دنیوی لحاظ سے وہ پہلے کی نسبت بہتر ہو گئی.( دینی لحاظ سے اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہدایت پر وہ چلتی رہے.پھر ایک کے بعد دوسرا نبی آیا اور دنیوی عقل نے اور ترقی کی، پھر اور ترقی کی ، پھر اور ترقی کی.یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آ گیا اور قرآن کریم کا نزول ہوا.جو اس عالمین کے لئے اور انسانی عقل کے لئے تمام اندھیروں کو دور کرنے والا نور ہے.قرآن کریم کے نزول کے وقت دنیوی عقل پہلے انبیاء کی ہدایتوں کے نتیجہ میں ایک حد تک مدارج ارتقاء طے کر چکی تھی.لیکن وہ پھر بھی اس کا کمال نہیں تھا.دنیوی لحاظ سے بھی قرآن کریم کی لائی ہوئی روشنی میں انسانی عقل نے ترقی کی ہے.جیسا کہ پچھلے چودہ سو سال میں انسانی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آج کل یورپ میں جو دنیوی علوم ترقی یافتہ شکل میں ہمیں نظر آتے ہیں، ان تمام علوم کی بنیاد، ان بنیادی مسائل اور پیچیدگیوں کے حل ہونے پر ہے کہ جو بنیادی مسائل مسلمانوں نے معلوم 407

Page 425

خطبه جمعه فرموده 10 جنوری 1969ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم کئے.اور جن پیچیدگیوں کو مسلمانوں نے دور کیا.اسی بنیاد پر یورپ کے فلسفہ اور سائنس کی عمارت کھڑی ہوئی ہے.غرض دنیوی لحاظ سے وہ عقل چھینی نہیں جاتی بلکہ انسان ترقی کرتا رہتا ہے.اور اس نے ترقی کی ہے.لیکن بہر حال ایک جگہ آ کر اس نے رک جانا تھا.کیونکہ پھر اور مضبوط بنیادوں کی ضرورت ہوگی.جن پر زیادہ بلند ہونے والی دنیوی عمارتیں کھڑی کی جاسکیں.یہ مضبوط ترین بنیا د قرآن کریم نے کھڑی کی.اور یہ اکمل اور اعلیٰ نور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی عقل کو عطا کیا.یہ وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا کہ قرآن کریم کے کچھ نئے علوم سکھائے جائیں گے اور دنیوی عقلوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل تیز کیا جائے گا.اور پھر انسان دنیوی لحاظ سے اور بھی ترقی کرے گا.لیکن اس وقت میں دنیوی عقل کے متعلق بات نہیں کر رہا، یہ بات ضمناً آ گئی ہے.میں اپنے مربیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسانی عقل کو تیز کیا جائے.اور ایک مربی کی ذمہ داری دو طرح سے عقل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.ایک اس طرح کہ اس کی اپنی عقل اندھیروں میں بھٹکتی نہ پھرے بلکہ روشنی میں چلنے والی ہو.اور دوسرے اس طرح کہ اس نے خود اپنی ذات ہی کو منور نہیں کرنا بلکہ اسلام کے نور کو غیر تک بھی پہنچانا ہے.اس کے لئے بھی قرآن کریم نے بہت سے انوار ہماری عقل کو عطا کئے ہیں.مثلاً قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ہم نے اس کتاب میں آیات کو مختلف طریقوں سے اور پھیر پھیر کر بیان کیا ہے.(صرَّفْنَا) تالوگ ہماری آیات کو سمجھیں.اس میں ہمیں اور خصوصاً ایک مربی کو یہ بتایا گیا ہے کہ ہر انسان ہر دلیل کو سمجھنے کا اہل نہیں ہوتا.اس کی اپنی انفرادیت ہے، اپنی ایک دنیا ہے، اس کے جذبات ہیں، اس کی عقل ہے، اس عقل کی تربیت ہے، اس کا علم ہے، اس کا ماحول ہے، اس کی عادتیں ہیں، اس کا ورثہ ہے اور اس قسم کی بے شمار ایسی چیزیں ہیں، جو اس پر اثر انداز ہورہی ہیں.بعض دلائل کو اس کی طبیعت قبول نہیں کرتی لیکن بعض دوسری دلیلوں کو اس کی طبیعت مان لیتی ہے اور ان سے متاثر ہوتی ہے.غرض قرآن کریم نے جو دلائل کو پھیر پھیر کے بیان کیا ہے، وہ اس لئے ہے کہ مربی کو ہر طبیعت کے مطابق دلیل مل جائے اور وہ اس سے فائدہ اٹھائے.گویا ایک مربی کا یہ فرض ہوا کہ اول وہ ہر طبیعت کے مطابق بات کر رہا ہو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کی طبیعت دیکھ کر اس سے بات کرنی چاہئے.دوسرے یہ کہ وہ قرآن کریم کے اوپر عبور رکھتا ہو.قرآن کریم نے مختلف طبائع کے لحاظ 408

Page 426

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جنوری 1969ء سے جو دلائل ایک مربی کے ہاتھ میں دیئے ہیں، ان کو وہ جانتا ہو.اور یہ سمجھتا ہو کہ فلاں شخص کی طبیعت ایسی ہے اور اس طبیعت کے لئے فلاں دلیل زیادہ موثر اور زیادہ کارگر ہو سکتی ہے.پس اگر کسی شخص نے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حقیقی مربی بنا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی روشنی سے اپنے لئے نور فراست اور عقل کی روشنی حاصل کرے.اور قرآن کریم سے انتہائی محبت کرے.وہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا ہو، قرآن کریم کو غور اور تدبر سے پڑھنے والا ہو، قرآن کریم سیکھنے کے لئے دعائیں کرنے والا ہو اور قرآن کریم کو سکھانے کے لئے بھی دعائیں کرنے والا ہو.تا کہ دنیا اپنی کم عقلی کی وجہ سے اور اپنی اس عقل کے نتیجہ میں، جس میں اندھیروں کی آمیزش ہوتی ہے، خدا تعالیٰ کے غضب کو مول لینے والی نہ ہو.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ یونس میں فرمایا :.وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (آیت:101) یعنی جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور اپنی عقل کو اس نور کی روشنی کی تاثیر سے متاثر نہیں کرتے ، جو قرآن کریم کے ذریعہ نازل کی گئی ہے، ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو جاتا ہے.غرض ایک مربی نے اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانا ہے اور دنیا کو بھی.بنی نوع انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچانا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ وہ اس نور سے وافر حصہ لینے کی کوشش کرے، جو قرآن کریم عقل کو دیتا ہے.اور دعاؤں میں مشغول رہے.وہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا مانگتار ہے کہ اسے بھی اور دنیا کو بھی اپنی کم عقلی اور اندھیروں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا غضب نہ ملے.بلکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی عقل دے اور قرآنی انوار عطا کرے اور دنیا کو بھی سمجھ دے اور اسے قرآنی انوار دیکھنے کی توفیق عطا کرے.تاکہ وہ اس کے غضب کی بجائے اس کی محبت حاصل کرنے والے ہوں.مربی کا ایک بڑا کام جماعتی اتحاد اور جماعتی بشاشت کو قائم رکھنا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جونور میں عقل میں پیدا کرتا ہوں، اس کے نتیجہ میں قومی پجہتی قائم رکھی جاسکتی ہے.جیسا کہ سورۃ حشر میں فرمایا:.تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَقُلُوْبُهُمْ شَتَّى ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمُ لَا يَعْقِلُونَ (آیت:15) یہاں ویسے تو مضمون اور ہے.لیکن ایک بنیادی حقیقت بھی بیان کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم انہیں ایک قوم خیال کرتے ہو، حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں.اور یہ اس لئے ہے کہ قومی اتحاد اور قوم میں ایک مقصد کے حصول کے لئے بشاشت کا پیدا ہونا، اس عقل کے ذریعہ سے ممکن ہے، جسے 409

Page 427

خطبه جمعه فرمود و 10 جنوری 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خدا تعالیٰ کے قرآن اور اس احسن الحدیث کی روشنی عطا ہو، جو اس نے ہمارے لئے نازل کی ہے.اگر عقل کو انوار قرآنی حاصل نہیں تو پھر عقل اس بنیادی مسئلہ کو بھی سمجھنے سے قاصر رہ جاتی ہے کہ یکجہتی اور اخوت اور اتحاد کے بغیر قومی ترقی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل نہیں کیا جاسکتا.پس ایک مربی کا یہ کام ہے کہ وہ کوشش کر کے قرآنی نور سے اپنی عقل کو منور کرے.اور قرآن کریم نے جو اصول اور جو ہدایتیں اور جو تعلیم قوم میں بشاشت پیدا کرنے ، محبت پیدا کرنے اور اخوت پیدا کرنے کے لئے دی ہیں، انہیں سیکھے اور پھر ان کا استعمال کرے.کیونکہ اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ جماعت میں بشاشت پیدا کرے.ہر احمدی کے دل میں یہ یقین ہو کہ میں خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، جماعت احمدیہ میں داخل ہوا ہوں.اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار ایسے فضل مجھ پر ہیں، جو ان لوگوں پر نہیں، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہا.اور اس وجہ سے اسے خدا تعالیٰ کا ایک شکر گزار بندہ، اپنی عقل سے کام لینے والا بندہ اور قرآنی انوار سے نور لینے والا بندہ بن کر زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میرا نزول اس لئے بھی ہے کہ میں گداز دل پیدا کروں.جیسا کہ سورۃ الزمر کی چوبیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَبًا مُتَشَابِهَا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللهِ ذَلِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ یعنی ہم نے اس احسن الحدیث کو ، اس بہترین ہدایت کو ، یعنی اس قرآن کریم کو ، اس کتاب کو ، جو متشابہ بھی ہے اور مثانی بھی ہے، یعنی تمام صداقتوں کو اپنے اندر جمع بھی رکھتی ہے اور جس جس پہلی کتاب کی صداقت اس نے لی ہے، اس سے وہ مشابہت رکھتی ہے اور اس کے علاوہ دیگر نہایت اعلیٰ مضامین اس کے اندر پائے جاتے ہیں، جو پہلی کتب سماوی میں نہیں پائے جاتے تھے اور اس کامل اور مکمل کتاب کے نزول کی ایک غرض یہ ہے کہ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمُ الخ وہ لوگ جو اپنی فطری خشیت اللہ سے کام لیتے ہیں، وہ حقیقی معنی میں قرآن کریم کے فیوض اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے گداز دل بن جائیں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے اور بنی نوع کی ہمدردی سے گداز ہو جائیں.فرمایا ، ذلِكَ هُدَى اللهِ یہ قرآن کریم کی ہدایت ہے.لیکن کوئی شخص اپنے زور سے اسے حاصل نہیں کر سکتا.يَهْدِى بِهِ مَنْ يَّشَاءُ.دعا کرو کہ اس حسین ہدایت کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حاصل کرنے والے بن جاؤ.اور اس کی برکتوں سے حصہ لینے والے بن جاؤ.قرآن کریم کی ہر آیت اپنے اندر بڑے 410

Page 428

خطبہ جمعہ فرموده 10 جنوری 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم وسیع معانی رکھتی ہے.لیکن اس وقت میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس لئے بھی ہے کہ دلوں کو گداز کیا جائے اور فطرت انسانی کے اندر جو خشیت اللہ کا جذبہ رکھا گیا ہے، اس کی ترقی اور ارتقاء کے سامان پیدا کئے جائیں.جس طرح آنکھ بغیر بیرونی روشنی کے دیکھ نہیں سکتی ، جس طرح عقل بغیر انوار آسمانی کے ناقص رہ جاتی ہے اور وہ اپنے کمال کو حاصل نہیں کر سکتی، اسی طرح دل بھی وہی دل ( قلب سلیم) ہے کہ جو قر آنی برکات سے اللہ تعالیٰ کی خشیت اس رنگ میں اپنے اندر رکھتا ہو، جس رنگ میں کہ خدا چاہتا ہے کہ وہ خشیت اللہ سے کام لے.سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَإِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ فَلَةَ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ ) الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ (آیات: 35,36) یعنی تمہارا خدا اور معبود خدائے واحد و یگانہ ہے.اس لئے (أَسْلِمُوا) اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دو.اور اس کے حضور اس طرح اپنی گردن کو جھکا دو، جس طرح ایک بکر اقصاب کی چھری کے سامنے مجبور ہو کر اپنی گردن جھکا دیتا ہے.تم طوعاً اور بشاشت کے ساتھ اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے والے بن جاؤ.وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ اور ہم اس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان لوگوں کو اپنے انعامات کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں، جو خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی کرنے والے ہیں.اور اللہ تعالٰی کے سامنے عاجزی وہ کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے تو اس کا دل کانپ اٹھتا ہے، اس کا دل گداز ہو جاتا ہے.جس کا دل صحیح معنی میں اور حقیقی طور پر گداز نہیں، وہ محبت اور عاجزی کرنے والا نہیں بن سکتا.اور جو عاجز نہیں، جو محبت نہیں ، وہ اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا.اور جو مسلمان نہیں ، وہ خدائے واحد و یگانہ کی پرستش نہیں کرتا.پس ایک مربی کو دوسروں کی نسبت زیادہ گداز دل ہونا چاہئے.اسی لئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دعوی کرتے ہو کہ ہماری اس شریعت کی حفاظت کا کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے، اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے تو اس دعوی کا جو تقاضا ہے، اسے پورا کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.هُذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٌ مَن خَيْقَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ منيبة (ق:33,34) 411

Page 429

خطبه جمعه فرمود و 10 جنوری 1969ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم یعنی میرا یہ وعدہ ہے کہ اس دنیا میں بھی جنت بعض لوگوں کے اس قدر قریب کر دی جائے گی کہ وہ اس دنیا کی حسوں کے ساتھ اسے محسوس کرنے لگیں گے.اور میرا یہ وعدہ ان لوگوں کے لئے ہے، جو میرے حضور جھکتے ہیں ، اواب ہیں.اور (حفیظ) وہ صرف منہ کے دعویٰ سے شریعت کی حفاظت کرنے والے نہیں بلکہ وہ صحیح طور پر اور حقیقی معنی میں شریعت کی حفاظت کرتے ہیں.جہاں تک ان کی زندگی کا تعلق ہے، وہ شریعت پر عمل کر کے اس کی حفاظت کرتے ہیں.اور جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے، وہ معروف کا حکم دے کر اور منکر سے روکنے کے ساتھ شریعت کی حفاظت کرتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شریعت کی حفاظت وہی شخص کر سکتا ہے، (مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ) جسے رحمان خدا اس کی کسی خوبی یا عمل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض بخشش اور عطا کے طور پر ایک گداز اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس کی عظمت کو پہچانے والا دل عطا کرتا ہے.اور خشیت کا یہ دعویٰ محض ایسا دعویٰ نہیں، جو صرف لوگوں کے سامنے کیا جائے.بلکہ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ اس کی تنہائی کی گھڑیاں اور اس کا باطن ، اس کے ظاہر کو اور اس کے ان لمحات کو ، جو وہ اجتماعی طور پر گزارتا ہے، جھٹلاتا نہیں.مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ جس طرح اجتماع میں ، لوگوں سے میل ملاقات اور معاشرہ کی ضروریات پورا کرتے وقت وہ اپنے دل کی خشیت کو اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ تنہائی کی گھڑیوں میں اپنے رب کے حضور اس کی عظمت کا اقبال کرتے ہوئے اور اس کے جلال کا احساس رکھتے ہوئے ، وہ اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا اور اس کے مطابق اپنے رب کے حضور اواب بنتا ہے.یہ وہ قلب ہے، جسے قلب منیب کہا جا سکتا ہے.اور یہ وہ قلب سلیم اور قلب منیب ہے، جو ایک مربی کے دل میں دھڑکنا چاہئے.اگر ایک مربی کے دل میں ایک قلب منیب نہیں دھڑکتا، اگر اس کا دل تنہائی کے لمحات میں بھی خشیت اللہ سے بھرا ہوا اور لبریز نہیں، اگر اس کا دل تنہائی کی گھڑیوں میں بھی اور میل ملاپ کے اوقات میں بھی اللہ تعالیٰ کی خشیت کے نتیجہ میں بنی نوع کی ہمدردی میں گداز نہیں تو پھر ایسا شخص، جو اس قسم کا دل رکھتا ہو، حفیظ نہیں.یعنی شریعت کی حفاظت کرنے والا نہیں.حالانکہ ہر مربی کا یہ دعویٰ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے (نہ اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں ) حفیظ ہوں، میرے سپر د شریعت کی حفاظت ہے اور میں نے اپنی زندگی اس کام کے لئے وقف کر دی ہے.لیکن اگر اس کا عمل ایسا نہیں ، اگر اس کے اندر ریا پائی جاتی ہے، اگر اس کے اندر کبر پایا جاتا ہے، اگر اس کے اندر خدا تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی نہیں، ان کے ساتھ پیار نہیں، تعلق نہیں، اگر ان کی جسمانی اور روحانی تکلیف دیکھ کر اس کا دل تڑپ نہیں اٹھتا، اگر ایسے 412

Page 430

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جنوری 1969ء وقتوں میں اس کا دل گداز ہو کر اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اپنے لئے اور ان کے لئے عاجزانہ طور پر بخشش اور بھلائی اور خیر کا طالب نہیں تو کیا ایسا دل حفیظ ہو سکتا ہے؟ نہیں، ایسا دل تو حفیظ نہیں.پس اے میرے مربی بھائیو! دل کو گداز رکھو.اس معنی میں جس معنی میں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں (جن میں سے بعض کو میں نے اس وقت پڑھا ہے.) حکم دیا گیا ہے.جس دل میں رحمان خدا کی خشیت نہیں اور جس دل میں یہ خشیت ظاہر اور باطن میں نہیں ، وہ دل منیب نہیں ، وہ قلب سلیم نہیں.اور جو دل منیب وسیم نہیں تو جس سینہ میں وہ دھڑکتا ہے، جن رگوں میں وہ خون کا دوران کر رہا ہے، وہ سینہ اور وہ دل اور وہ شخص اور اس کی قوت عمل محافظ شریعت نہیں ، وہ مربی نہیں ، وہ خادم نہیں ، وہ اپنے رب کا غلام نہیں ، عبد نہیں، وہ اس کی صفات کا مظہر نہیں.وہ تو خا کی جسم کا ایک لوتھڑا ہے، جیسا کہ سور کے جسم کا ایک لوتھڑا یا کتے کے جسم کا ایک لوتھڑا، ان کا دل ہوتا ہے.پس اپنے سینہ میں انسان کا منیب دل پیدا کرنے کی کوشش کرو اور حفیظ بننے کی کوشش کرو.اپنا دل خدا کے حضور ہر وقت گداز رکھو.تمہاری روح اس کے خوف سے، اس کی عظمت اور جلال کی خشیت سے پانی ہو کر اور پکھل کر اس کے حضور جھک جائے.اور اپنی تمام عاجزی کے ساتھ ، انتہائی انکساری کے ساتھ تم اپنے بھائیوں کے سامنے ان کی ہمدردی اور غمخواری میں جھکے رہو.تمہارا نفس بیچ میں سے غائب ہو جائے.یا تم ہمیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے خادم نظر آؤ یا تم اسے اپنے خادم نظر آؤ.اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے بندے اس کی صفات کا اظہار کرنے والے ہو جاؤ.اس کی صفات کا مظہر بن جاؤ.جب دل گداز ہو جائے ، جب عقلوں میں جلا پیدا ہو جائے تبھی تم اپنی ذمہ داریوں کو نبھا سکتے ہو، تبھی تمہاری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے کہ جو تو فیق ، دین کی خدمت کی اور عبادت کی ، اللہ تعالیٰ نے ، جو رحمن ہے، حافظ مختار احمد صاحب کو دی، وہی توفیق تمہیں بھی عطا کرے.دین کو سینکڑوں نہیں، ہزاروں ایسے حفیظ بننے والوں کی ضرورت ہے.پس جنہوں نے ابھی تک خود کو پیش نہیں کیا ، وہ آگے بڑھیں اور جو اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں، وہ اپنے عمل سے آگے بڑھیں اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حفیظ بننے کی کوشش کریں.تب رحمن خدا انہیں ان کے اعمال کا بہترین ثواب دے گا.اور ان کی پاک اور گداز نیتوں کا اجر بھی انہیں ملے گا ، خدائے رحمن کی طرف سے.خدا کرے کہ ہم پر ایسے ہی فضل نازل ہوں.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر شخص ہی مربی بن جائے.اور ہر مربی نور فراست اور ایک گداز دل رکھنے والا بن جائے.خدا کرے کہ یہ جنت ، جس کا وعدہ دیا گیا ہے، ہمارے اتنی قریب ہو جائے کہ اس دنیا میں بھی ہم اس کی خوشبو اور اس کی مٹھاس اور اس کی 413

Page 431

خطبہ جمعہ فرمود و 10 جنوری 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - ٹھنڈک کو محسوس کرنے لگیں.اور ایک اطمینان کے ساتھ ہم اس دنیا سے گزریں، جس طرح اللہ تعالیٰ کے ان گنت اور بے شمار فضل ہم پر اس دنیا میں ہوتے رہے ہیں، اس زندگی میں بھی اس کے فضل بے شمار اور ان گنت ہی ہوتے رہیں.اور اس کے غضب کی جہنم میں ہمیں نہ دھکیلا جائے“.( مطبوعه روز نامه الفضل 25 فروری 1969ء) 414

Page 432

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مئی 1969ء تحریک جدید حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک عظیم یادگار ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مئی 1969ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.* چند دن سے مجھے سردرد کی تکلیف تھی.لیکن کل یہ تکلیف بہت شدت اختیار کر گئی.اس وقت کچھ افاقہ ہے.میں اس وقت مختصراً جماعت کو ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اور وہ تحریک جدید کے چندوں کے وعدے اور ان کی ادائیگی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کی شکل میں اپنی ایک عظیم یادگار چھوڑی ہے.اور اس کے جو نمایاں پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں، ان میں سے ایک نمایاں پہلو تو تربیت جماعت کا ہے.آپ ایک لمبا عرصہ اسلام کی ضروریات جماعت کے سامنے رکھ کر جماعت کو آہستہ آہستہ تربیت اور قربانی اور ایثار کے میدانوں میں آگے سے آگے لے جاتے چلے گئے.دوسرا نمایاں پہلو (جس وقت تحریک شروع ہوئی تھی ، اس وقت تو پاکستان نہیں تھا.پاک و ہندا اگر کہہ دیا جائے تو دونوں زمانوں کی طرف اشارہ ہو جائے گا.) پاک و ہند سے باہر جماعتوں کا قیام ہے.1934ء میں جب تحریک شروع ہوئی تھی، بیرون پاک و ہند بہت کم جماعتیں تھیں.ایک آدھ ملک میں کچھ لوگ احمدیت سے متعارف اور اس کی حقانیت کے قائل تھے.لیکن تحریک جدید کے اجرا کے ساتھ (جو یقیناً الہبی تحریک ہے.) بڑی کثرت سے مختلف ممالک میں جماعت ہائے احمد یہ قائم ہوئیں.پھر ان کی تربیت ہوئی.اور اب آپ سے ( جو مرکز میں رہنے والے ہیں یا مرکز جس ملک میں ہے، وہاں کے باشندے ہیں) وہ کسی صورت میں بھی پیچھے نہیں ہیں.یہاں بھی کمزور احمدی پائے جاتے ہیں، غیر ممالک میں بھی کمزور احمدی پائے جاتے ہیں.لیکن جس رنگ کا اخلاص ، فدائیت اور بے نفسی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق ہمیں جماعت احمدیہ کی بھاری اکثریت میں یہاں نظر آتا ہے، اسی طرح بیرون ملک کی جماعتوں میں بھی ہمیں نظر آتا ہے.پھر جس طرح ہماری حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ہم سے پیار کرتا اور اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے، اسی طرح ان لوگوں سے بھی وہ اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرتا ہے.ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہا.آج تو یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے، جو ہمیں نظر آ رہی ہے.لیکن 415

Page 433

خطبہ جمعہ فرموده 23 مئی 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم 1934ء میں ایک ایسا تخیل تھا کہ اگر آج کی تصویر لوگوں کے سامنے رکھ دی جاتی تو ان کی اکثریت اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہوتی.مگر اس مرد اولو العزم نے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے ، یہ کام شروع کیا اور خدا تعالیٰ نے اس میں بڑی برکت ڈالی.تیسری نمایاں چیز ، جو ہمیں تحریک جدید کے کام میں نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ غیر مذاہب کو اس کی وجہ سے اور اس کے کاموں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے.اور وہ ، جو اپنی جہالت اور عدم علم کی وجہ سے اسلام کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ، آج وہ اسلام کے عقلی دلائل اور اسلام کی تاثیرات روحانیہ اور تائیدات سماویہ سے مرعوب ہورہے ہیں.ایک انقلاب عظیم بپا ہو گیا ہے.اس میں شک نہیں کہ ابھی بہت سا کام کرنا ہے.لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس عظیم انقلاب کی ابتدائی شکل ظاہر ہوگئی ہے.اس کی تکمیل میں کچھ وقت لگے گا.یعنی جب ہم ان اقوام کے دل اپنے اور ان کے رب کے لئے جیت لیں گے اور ساری دنیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جانے لگے گا اور اسلام مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائے گا.بہر حال اس انقلاب عظیم کے آثار ہمیں نظر آ رہے ہیں اور یہ بھی حیران کن ہیں.انقلاب مختلف مدارج میں سے گزرتا ہے.ایک دور اس کا یہ ہے اور وہ بھی عقل کو حیرانی میں ڈالنے والا ہے کہ آج سے چند سال پہلے اسلام کے خلاف اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف منکرین اسلام کس طرح متکبرانہ غراتے تھے.اور آج وہی لوگ ہیں، جو احمدی مربیوں اور مبلغوں سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں اور بات کرنے سے کتراتے ہیں.اور تحریک جدید کے کام کا یہ حصہ ، جو ایک نمایاں خصوصیت کے رنگ میں ہمیں نظر آتا ہے، اس کے ساتھ یہ کام بھی ہوا ہے کہ ان ممالک میں قرآن کریم اور اس کی تفسیر کی بڑی کثرت سے اشاعت کی گئی ہے.لیکن ابھی بہت روپے کی ضرورت ہے، ابھی بڑے فدائی مبلغوں کی ضرورت ہے، ابھی بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے، ابھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے بڑے مجاہدہ کی ضرورت ہے.تا کہ ہم انتہائی اور آخری کامیابی دیکھ سکیں.لیکن جو کام ہوا ہے، وہ بھی معمولی نہیں.تراجم ہو گئے ، اسلامی تعلیم سے واقفیت ہوگئی ، تفسیر پڑھنے لگے.اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ کے ملکوں میں رہنے والے ہمارے احمدی بھائیوں سے اگر آپ کسی مسئلہ پر بات کریں تو وہ شاگرد کی طرح سامنے نہیں بیٹھے ہوتے.بلکہ اگر آپ سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ قرآن کریم کی کوئی آیت یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پیش کر کے آپ کی بات کو رد کرتے ہیں.غرض انہوں نے اسلام اور احمدیت کو علی وجہ البصیرت قبول کیا ہے.اور اس سے ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت پیدا ہوئی.بڑے شوق 416

Page 434

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مئی 1969ء سے علم قرآن کو سیکھا اور اب وہ بڑے دھڑلے کے ساتھ ہر جگہ اسلام کی تعلیم اور قرآن کریم کے علوم کو پیش کرتے ہیں اور خدا کے فضل سے غالب آتے ہیں.پس قرآن کریم کے تراجم اور تفسیر کی اشاعت، یہ بھی ایک نمایاں کام ہے، جو تحریک جدید کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مخلصین جماعت سے لیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہم ہمیشہ ہی بھوکے ہیں اور کسی مقام پر دل تسلی نہیں پکڑتا.کیونکہ غیر متناہی ترقیات کے دروازے ہم پر کھولے گئے ہیں.ہر نئے دروازے میں داخل ہونے کے بعد اس سے گلے دروازے میں داخل ہونے کو ضرور دل چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کو ہی (اگر وہ مسخ نہ ہو چکی ہو ) ایسا بنایا ہے.بہر حال ہمیں ترقی کے میدان آگے نظر آرہے ہیں.(اللہ کی رحمت سے ) اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نہ مٹنے والے نشان ہمیں پیچھے نظر آرہے ہیں.تحریک جدید کی یہ ایک نمایاں خصوصیت ہمیں نظر آتی ہے.اور بھی بہت سے خصوصیات ہیں.جیسا کہ میں نے کہا ہے سردرد کی وجہ سے میں اس وقت زیادہ تفصیل میں نہیں جاسکتا.جماعت کو میں اس وقت اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بہت بڑی نشانی تحریک جدید کی شکل میں اپنے پیچھے چھوڑی ہے.آپ کے وصال کے بعد جماعت کے مشورہ سے ہم نے فضل عمر فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور اس کے لئے جماعت نے مالی قربانیاں دیں اور اس کے سپرد بعض کام بھی کئے گئے ہیں.لیکن تحریک جدید کے مقابلہ میں یہ مالی قربانیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.جتنی اس وقت تک تمام دنیا کے احمدیوں نے تحریک جدید کے لئے مالی قربانی دی ہے، شاید اس کا بارہواں یا پندرھواں یا بیسواں حصہ بھی فضل عمر فاؤنڈیشن کی مالی قربانی نہ ہو.کام بھی اس (فضل عمر فاؤنڈیشن) کے محدود ہیں.اور اس کے وعدوں کی وصولی کا زمانہ بھی 30 جون کو ختم ہو رہا ہے، اس لئے آپ اس کی طرف زیادہ توجہ دیں.( میں یہ نہیں کہتا کہ تحریک جدید کی طرف توجہ نہ دیں.ہماری بھاری اکثریت ایسی ہے کہ جو دونوں تحریکوں کے وعدے پورے کر سکتی ہے.لیکن ) بہر حال 30 جون کو فضل عمر فاؤنڈیشن کا کھاتہ تو بند ہو جائے گا لیکن تحریک جدید کا کھاتہ تو نہ اس سال بند ہوگا اور نہ اگلے سال.اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور بھی بہت ساری تحریکیں خلفائے جماعت احمدیہ کے ذریعے جاری کرے گا.اس میں دوست کبھی کسی شکل میں اور کبھی کسی شکل میں مالی قربانی بھی دیں گے.اب میں نے وقف عارضی کی جو تحریک کی ہے، اگر ایک ہزار آدمی پندرہ دن کے لئے باہر جائے تو ان کے کرایہ کا خرچ ، ان کے زائد کھانے کا خرچ وغیرہ ملا کر لاکھوں کی رقم بن جاتی ہے.لیکن اس کی شکل ایسی ہے کہ جو کسی حساب یا چندے میں نہیں آتی.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ظاہر اور باطن خرچ کی 417

Page 435

خطبہ جمعہ فرموده 23 مئی 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم ہدایت دی گئی ہے.خدا تعالیٰ نے اس کے لئے یہ ایک راستہ کھول دیا ہے کہ تحریک جدید میں تم ظاہری طور پر چندے دیتے ہو.یہ اعلانیہ چندے ہیں، ریکارڈ ہوتے ہیں، چھپتے ہیں، رپورٹیں پڑھی جاتی ہیں.لیکن کچھ ایسے خرچ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں کئے جاتے ہیں، جو اعلانیہ نہیں ہوتے بلکہ سرا ہوتے ہیں.وقف عارضی کی مالی قربانی کی طرح تحریکیں تو ہوتی رہیں گی.لیکن بہت سی تحریکیں ایک خاص وقت پر شروع ہوتی ہیں لیکن وہ چلتی چلی جاتی ہیں.جب تک کہ قوم زندہ رہے اور وہ اپنی آخری انتہائی فلاح کو حاصل نہ کر لے.تحریک جدید بھی اسی قسم کی تحریکوں میں سے ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ وقف عارضی کو بھی اس طرح ا چاہیے.اور تحریکیں بھی اپنے وقت پر ہوتی رہیں گی.اللہ تعالٰی نے جماعت کو اس مقام سے گرنے سے بچانے کے لئے ، جہاں وہ آج پہنچ چکے ہیں، ان کے اوپر اٹھانے کا سامان کر دیا ہے.دماغ میں ایک بات آتی ہے، پیش کر دی جاتی ہے.بشاشت سے قبول کی جاتی ہے اور کام شروع ہو جاتا ہے.اس سال ممکن ہے، فضل عمر فاؤنڈیشن کا سال ختم ہونے کی وجہ سے تحریک جدید کے وعدوں میں کمی ہو.تحریک جدید کے وعدے پچھلے سال کے وعدوں تک بھی نہیں پہنچے.قریبا ہیں ہزار روپے کا فرق ہے.گزشتہ سال پانچ لاکھ نوے ہزار کے وعدے تھے.اس سال اس وقت تک پانچ لاکھ ستر ہزار کے وعدے ہوئے ہیں.یہ صحیح ہے کہ یہ پانچ لاکھ نوے ہزار کے وعدے مارچ، اپریل تک ہوئے اور ابھی وعدے لکھوانے میں اور ادائیگیوں میں بھی بڑا وقت ہے.لیکن ہم نے اپنے سامنے جو ایک Target رکھا ہے.یعنی ہم نے جو فیصلہ کیا ہے کہ تحریک جدید میں اتنی رقم جمع ہو، پاکستان کی جماعت کو وہ جمع کرنی چاہیے.اور یہ طے شدہ منصوبہ سات لاکھ نوے ہزار کے بجٹ پر مشتمل ہے.اس کے مقابلہ میں یہ وعدے بہت کم ہیں.جیسا کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں بتایا تھا کہ جماعت میں استعداد ہے کہ وہ تحریک کا سات لاکھ نوے ہزار کا بجٹ پورا کر سکے.اگر وہ تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھیں ، اگر وہ ان انہی برکتوں کا احساس رکھیں ، جو تحریک جدید میں معمولی اور حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے ہم نے حاصل کی ہیں، اگر وہ اسلام کی ضرورت کو پہچانیں اور یہ یقین رکھیں کہ ضرورت وقت سے شاید ہزارواں حصہ بھی نہیں، جو ہم دے رہے ہیں.لیکن جتنا ہم دے سکتے ہیں، وہ ہمیں دینا چاہیے.تا کہ جو ہم نہیں دے سکتے اور جس کی ضرورت ہے، اس کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور اپنی برکت سے پورا کر دے.پس وعدوں کے لکھوانے کی طرف فوری توجہ دیں.اور پھر 30 جون کے بعد وصولیوں میں زیادہ تیزی پیدا ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو، مجھے بھی اور آپ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور ان کے ادا کرنے کی توفیق عطا کرے“.مطبوعه روزنامه الفضل یکم جون 1969ء) 418

Page 436

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اگست 1969ء بعض مربیوں کے متعلق میرا ایتاثر ہے کہ ان خوش بختوں نے اپنے مقام کو پہچانا نہیں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اگست 1969ء.اس وقت میں دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید اور وقف جدید کے چندے اس وقت تک پچھلے سال سے بھی کم وصول ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے سورۃ انبیاء کی ایک آیت میں فرمایا ہے کہ جولوگ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اعمال صالحہ بجالائیں گے، یعنی ایک تو جن کے اعمال میں کوئی فساد نہیں ہوگا اور دوسرے حالات کے تقاضوں کو وہ پورا کرنے والے ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی اس کوشش کور د نہیں کرے گا.فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِه اس میں ہمیں ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اعمال صالحہ بجالانے سے اللہ تعالیٰ کے پچھلے انعامات کا بھی پوری طرح شکر ادا نہیں ہو سکتا، اس پر اجر کا حق نہیں بنتا.دوسرے فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِه で ہمیں بتاتا ہے کہ گوحق تو انسان کا نہیں بنتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو گے اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرو گے اور فساد سے بچو گے اور ہر جہت سے تمہارے اعمال، اعمال صالحہ ہوں گے تو پھر تمہاری یہ کوشش اور تمہاری یہ جد و جہد رد نہیں کی جائے گی.بلکہ اس پر تمہیں مزید انعامات ملیں گے.مومن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے، اس کے نتیجہ میں اس کا ہر قدم پہلے سے آگے پڑتا ہے.وہ ترقی کی راہ اور رفعتوں کے حصول میں ہر دم آگے سے آگے اور بلند سے بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قربانیاں ہر آن پہلی قربانیوں سے آگے بڑھ رہی ہوتی ہیں.اس کی فدائیت اور اس کا ایثار اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جستجو میں اس کی کوشش اور مجاہدہ پہلے سے بڑا ہوتا ہے.مومن ایک جگہ ٹکتا نہیں.اس سے اس کے دل، اس کے دماغ، اس کے سینہ اور اس کی روح کو تسلی نہیں ہوتی.419

Page 437

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اگست 1969ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم لیکن میں سمجھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ یہ جماعت مخلصین کی جماعت ہے (الا ماشاء اللہ، ہر الہی جماعت میں منافق بھی ہوتے ہیں) اور ایک ایسی فدائی اور ایثار پیشہ جماعت ہے کہ جس کا قدم ہر وقت ترقی کی طرف ہی ہے، پھر یہ غفلت کیوں؟ اس سستی کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ جماعت نے رضا کارانہ طور پر ایک مزید بوجھ قربانی کا اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا.اور وہ بوجھ فضل عمر فاونڈیشن کے چندوں کا تھا.اور پچھلے چند مہینے ان وعدوں کو پورا کرنے کی طرف جماعت کے بہت سے احباب کی توجہ تھی.اس لئے شاید کچھ کمی واقع ہو گئی ہو.اب اس کا زمانہ تو گزر گیا، استثنائی طور پر بعض احباب کو اجازت دی جارہی ہے، اس لئے جماعت کو چاہیے کہ عارضی طور پر جو داغ ان کے کردار پر لگ گیا ہے، یعنی وہ پچھلے سال سے بھی ان چندوں کی ادائیگی میں کچھ پیچھے رہ گئے ہیں، اس کو جلد سے جلد دھوڈالیں.اور دو مہینوں کے اندراندر ان کی قربانیاں پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ نظر آنی شروع ہو جائیں.امید ہے ( اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ) کہ جماعت اس بات کی توفیق پائے گی“.میں جب مربیوں کی رپورٹیں دیکھتا ہوں ، ان کے کام کا جائزہ لیتا ہوں، وہ مجھے ملتے ہیں یا ان کے حق میں بعض تعریفی کلمات آتے ہیں یا ان کے خلاف شکایات مجھے پہنچتی ہیں تو میرے ذہن میں ایک مجموعی تاثر قائم ہوتا ہے.اور بہت سے مربیوں کے متعلق میرے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان خوش بختوں نے اپنے مقام کو پہچانا نہیں.اور جو خوش بختی ان کے مقدر میں لکھی جاسکتی تھی ، اس پر وہ اپنے ہاتھ سے چرخیاں ڈال رہے ہیں.مربی کو ایک نمونہ بن کر دنیا کے سامنے آنا چاہیے.اور وہ نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہے.مگر وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گوحقیقتا جتنے مربی ہمارے پاس ہیں، وہ تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں.لیکن ان کی تعداد کے لحاظ سے بھی ایک چوتھائی کام ہورہا ہے اور تین چوتھائی کام ان کی غفلتوں کے نتیجہ میں نہیں ہوتا.وہ گھر بیٹھے رہتے ہیں اور اپنے کام کی طرف توجہ نہیں کرتے.ان کے اندر قربانی کی روح، جوش اور جنوں کی کیفیت نہیں.مجھے یہ دیکھ کر بڑا رنج ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اپنی رحمتوں کے اس قدر وسیع دروازے کھولے تھے مگر وہ ان کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو گئے ہیں اور اس طرف قدم بڑھانے کا نام نہیں لیتے.ان کو دعا کرنی چاہیے اور میں تو دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں کو دور کرے اور ان کی بصیرت اور بصارت کو تیز کرے.اور ان کے دل میں اس محبت کے شعلہ میں اور بھی شدت پیدا کرے، جو ایک مربی کے دل میں اپنے رب کریم و رحیم کے لئے ہونی چاہیئے.420 ( مطبوعه روزنامه الفضل 27 اگست 1969ء)

Page 438

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم "" اقتباس از مجلس عرفان فرموده 107اکتوبر 1969ء ہمارے مبلغ بھی تو آخر تجدید دین ہی کا کام کرتے ہیں مجلس عرفان فرمودہ 107اکتوبر 1969ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اور امتوں کو تو چھوڑو، بنی اسرائیل میں ایک وقت میں سینکڑوں، ہزاروں مجدد ہوا کرتے تھے.پھر آپ نے فرمایا ہے کہ مجد داعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور روحانی سلسلہ جہاں سے بھی شروع ہوا ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے.اور مثیل موسیٰ ہونے کی حیثیت سے آیت استخلاف کے ماتحت آپ کے سلسلہ میں بھی ہزاروں، لاکھوں مجددین کا آنا ضروری تھا.چنانچہ یہ تجدید دین کروانے والے ہر علاقہ اور ہر ملک میں آئے اور انہوں نے تجدید دین کا کام باحسن طریق ادا کیا.نائیجیریا کے عثمان فود یو بھی مجدد تھے.انہوں نے اپنے زمانہ میں بڑی نے نفسی سے اسلام کی اشاعت کے لئے کوشش کی ہے.آپ صاحب کشوف ورؤیا اور صاحب الہام تھے.اس زمانہ میں مثلاً ہمارے مبلغ ہیں، جو دنیا کے مختلف علاقوں میں کام کر رہے ہیں.ہمارے کئی مبلغین ساری عمر افریقہ میں رہے ہیں.اور بعض نے تو وہیں اپنی جان بھی دے دی ہے.یہ مبلغ بھی تو آخر تجدید دین ہی کا کام کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں سینکڑوں، ہزاروں مجدد ہر وقت موجود رہتے ہیں.بہر حال یہ بڑا غلط تخیل ہے، جو اس وقت بعض لوگوں کے دل میں پیدا ہو گیا ہے کہ اس وقت کوئی مجدد نہیں.اور اس شیطانی خیال کو بڑی کوشش سے پھیلایا جارہا ہے.حالانکہ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ خلافت راشدہ تو موجود ہے، جو مجددوں کی سردار ہے، مگر مجدد کوئی نہیں.اس کا مطلب یہ ہوا کہ سپہ سالار موجود ہے، لیکن فوج موجود نہیں.صحابہ جنہوں نے اسلام کی اشاعت کی وہ بھی مجدد تھے.دراصل بات یہ ہے کہ کوئی صدی بھی مجددین سے خالی نہیں رہی.ہر صدی کے شروع میں بھی مجد در ہے ہیں، وسط میں بھی مسجد در ہے ہیں اور آخر میں بھی مجد در ہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام پر انتہائی تنزل کا زمانہ تھا، اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے مقربین اسلام میں بحر ذخار کی طرح موجود رہے ہیں.گویا وہ تنزل کا زمانہ بھی نسبتی تنزل کا زمانہ تھا.یہ مقر مین اپنی اپنی جگہ چھوٹی چھوٹی شمعیں جلائے 421

Page 439

اقتباس از مجلس عرفان فرموده 07 اکتوبر 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بیٹھے تھے.دیکھو، خلافت راشدہ کے سلسلہ کے خلفاء امام اور مجددین بھی تھے.صدی کے سر پر جو مجدد دین آئے ، ان میں اور خلفائے راشدین میں نمایاں فرق ہے.اور وہ فرق یہ ہے کہ مثلاً حضرت ابو بکر کا حکم ساری امت پر چلتا تھا.لیکن صدی کے سر پر آنے والے مجددین میں سے کسی ایک کا حکم بھی ساری امت پر نہیں چلا.بلکہ ان کا حکم اپنے اپنے زمانہ اور اپنے اپنے علاقہ کے لوگوں پر چلا.وہ انبیائے بنی اسرائیل کی طرح محدود علاقہ کے لیے تھے اور پھر وہ محدود زمانہ کے لئے تھے.لیکن حضرت ابو بکر کا حکم ساری دنیا پر چلتا تھا.حضرت عمر کے زمانہ میں کئی نئے ممالک فتح ہو چکے تھے.اور حضرت عمر کا حکم ان سب ممالک پر چلتا تھا.روحانی اور دینی لحاظ سے بھی ، ان سب ممالک کے رہنے والوں کو آپ کا فتویٰ ، آپ کا حکم اور آپ کا فیصلہ مانا پڑتا تھا اور اس کے لئے وہ کوشش بھی کرتے تھے.جو آپ کا حکم، فتویٰ یا فیصلہ ماننے سے انکار کرتا، وہ باغی سمجھا جاتا تھا.لیکن ان کے مقابلہ میں حضرت سید احمد صاحب شہید کولو، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے مجدد تھے، انہوں نے کیا کوشش کی کہ نائیجیریا کے لوگ ان کی بات مانیں؟ انہوں نے اس کے لیے کوئی کوشش نہیں کی.اس لئے کہ صدی کے سر پر آنے والا مجد دساری دنیا کے لئے نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقہ اور زمانہ کے لئے ہوتا ہے.پھر عثمان فود یوکو لے لو، وہ نائیجیریا کے مجدد تھے.ان کے پیدا ہونے سے پہلے ملک کے اخیار کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ عنقریب مجدد پیدا ہو گا.آپ ان بشارتوں کے مطابق پیدا ہوئے.لیکن اس کے باوجود انہوں نے کوئی کوشش نہیں کی کہ شامیوں یا چینی مسلمانوں سے اپنی بات منوائیں.اگر وہ شامیوں کی طرف سے بھی مجدد تھے تو انہوں نے ان سے اپنی بات نہ منوا کر خود خدا تعالیٰ کی بات کو نہ مانا ، جو درست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صرف مجدد ہی نہ تھے بلکہ آپ مامور من اللہ تھے ، آپ ظلمی نبی تھے اور کمال ظلیت اور فنافی الرسول میں آپ اول نمبر پر تھے.آپ کے نبوت کے دعوی کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت آپ کے پاس ہی رہی.اور کمال ظلیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا مشن بھی ساری دنیا کے لیے ہے، جیسا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ساری دنیا کے لئے تھا.اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حالات بھی ایسے پیدا کر دیئے ہیں کہ ساری دنیا میں تبلیغ ہورہی ہے.مسلمانوں کو قرآن کریم کے صحیح معنی سے متعارف کرایا جارہا ہے.اور غیر مسلموں کو اسلام کے حسن اور احسان کے ذریعہ اسلام کی طرف لایا جارہا ہے.اور اللہ ہی فضل کر رہا ہے.اور جو کچھ ہورہا ہے، وہ کسی انسان کا کام نہیں.یہ کام انسانی طاقت سے باہر ہے.اس لئے ایک احمدی کو تو ہر وقت الحمد للہ رب العالمین کہتے رہنا چاہیئے.422

Page 440

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از مجلس عرفان فرموده 07 اکتوبر 1969ء لائبیریا (مغربی افریقہ ) میں ایسے حالات تھے کہ وہاں ابھی احمدیت کا زیادہ اثر و رسوخ نہیں ہے.گولائبیریا کے صدر عیسائی ہیں لیکن امام احمد بشیر جب وہاں گئے تو ان کی طرف سے امام رفیق کا بڑا احترام و اکرام کیا گیا.مخالفت تو ہر جگہ ہوتی ہے، وہاں بھی ہماری مخالفت تھی.لیکن وہ ہوشیار آدمی تھا، اس نے مسلمان اکابر کو بلایا اور ان کو کہا کہ امام مسجد لنڈن آرہے ہیں، تم سب مل کر انہیں ریسپشن (RECEPTION) دو.اب اگر وہ ریسپشن (RECEPTION) نہ دیتے تو کیا کرتے.اسی طرح امری عبیدی، جو فوت ہو گئے ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ نے مبشرات کے ذریعہ احمدیت کی ترقی سے متعلق خبر دی تھی.جب تنزانیہ میں پہلا انتخاب ہوا تو وہ بھی ممبر منتخب ہوئے.ان کی پارٹی نے اپنا لیڈر منتخب کرنا تھا.زیادہ تر خیال تھا کہ ان کی جماعت کا ہیڈ ، جواب ملک کے صدر ہیں، پارلیمینٹری گروپ کے لیڈر منتخب ہو جائیں گے.لیکن جب وہ پارٹی کے اجلاس میں آئے تو انہوں نے امری عبیدی مرحوم کو اٹھا کر کرسی پر بٹھا دیا اور کہا، آپ یہاں بیٹھیں.امری عبیدی مرحوم صرف احمدی ہی نہ تھے بلکہ ایک بزرگ اور ولی اللہ تھے.ان کی کابینہ کے وزراء کہا کرتے تھے کہ تم وزیر کم ہو، مبلغ زیادہ ہو.اب یہ کسی انسان کا کام نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اسی طرح ہمارے حبشی بھائی ہم سے کتنے دور ہیں لیکن جب اس سال کے شروع میں میرا دورہ مغربی افریقہ ملتوی ہوا اور میں وہاں نہ جا سکا اور یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی، تو انہیں بڑا صدمہ ہوا.وہاں ہمارے ایک بہت پرانے اور بڑی عمر کے احمدی دوست ہیں.انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ساری عمر اس بات کی حسرت رہی کہ میں حضرت مصلح موعودؓ کی زیارت کروں.مگر آپ فوت ہو گئے اور میں آپ کی زیارت نہ کر سکا.اب یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی تھی کہ خلیفة المسیح الثالث ہمارے علاقے میں تشریف لا رہے ہیں اور آپ کی زیارت ہوگی.مگر آپ کا دورہ ملتوی ہو گیا.میں بوڑھا ہو چکا ہوں، پتہ نہیں کہ اگر اگلے سال آپ کا دورہ ہو تو اس وقت میں زندہ بھی رہوں گا یا نہیں.اب یہ محبت کا جذبہ کوئی انسان پیدا نہیں کر سکتا.یہ لوگ ہم سے اتنے دور بیٹھے ہیں اور ان میں محبت کا یہ جذبہ موجود ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جتنا اپنے نفس کو فنا کرو گے، اتنا ہی تم میرے قریب آؤ گے اور میری نگاہ میں عزت پاؤ گے.بڑا احمق وہ شخص ہے، جو یہ سجھتا ہے کہ میں اپنے زور سے یہ کام کر سکتا ہوں.پس ہماری حقیر کوششوں کے جو عظیم بنتائج نکل رہے ہیں ، ایسا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہا ہے.فلا فخر.اس پر ہر آن حمد باری میں مشغول رہنا چاہئے.423

Page 441

اقتباس از مجلس عرفان فرموده 07 اکتوبر 1969ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ہندوں کو اسلام کی طرف لانے کے لئے ہمیں انہیں جھنجھوڑ نا پڑے گا.اللہ تعالی اسلام کی اشاعت کے کئی سامان کر رہا ہے.کہیں زلزلے آرہے ہیں، کہیں طوفان آرہے ہیں.اب ایسی جگہوں پر سیلاب آرہے ہیں، یہاں سیلاب کے متعلق انسان سوچ ہی نہیں سکتا تھا.مثلاً اب الجزائر میں سیلاب آیا ہے.کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ الجزائر میں سیلاب آئے گا.مغربی افریقہ اور میڈی ٹیرین ممالک کے درمیان کا صحرا چار ہزار سال قبل مسیح باغ بن گیا تھا.دو ہزار سال تک وہاں بہت بارش ہوتی رہی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بارشوں کو حکم دیا کہ اب تم نے یہاں نہیں برسنا.اور وہ علاقہ صحرا بن گیا.پس جہاں پانی بہت ہے، وہاں کے لوگوں کو بھی مغرور نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو حکم ہی دینا ہے.اس کی رحمت اور رضا کے لئے مجاہدہ کرتے رہنا چاہئے.(روز نامه الفضل مورخہ 26 نومبر 1969ء) 424

Page 442

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 17 اکتوبر 1969ء اپنی ہر طاقت، ہر قوت ، ہر استعداد اور ہر قابلیت کو خدا کی راہ میں وقف کر دو خطبہ جمعہ فرمودہ 17 اکتوبر 1969ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:.مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِنْ رَّبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَابِرَ عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السَّوْءِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمُهُ اللهُ وَمَا تُقَدِّمُوا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللهِ وَاِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ اس کے بعد فرمایا:.(بقرة : 106) (983) (بقرة: 198) (بقرة: 111) ط (یونس :108) و ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے، وہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں.بڑا ہی اہم اور بڑا ہی مشکل کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں ہم اسلام کو غالب کریں.اسی جدو جہد اور اس کوشش میں ہم نے اپنی خداداد طاقتوں اور قوتوں ، اپنی تد بیر اور اپنی ان مخلصانہ دعاؤں سے ، جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہیں، کام لینا ہے.کسی غیر نے ہماری مدد نہیں کرنی.کسی غیر نے ہم سے تعاون نہیں کرنا اور ہمارے کام کو کامیاب کرنے کے لئے کسی نے ہمارا ساتھ نہیں دینا.425

Page 443

خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسی لئے فرمایا کہ وہ لوگ ، جو اسلام کے منکر ہیں، مشرکین میں سے ہوں یا اہل کتاب میں سے ، وہ ہر گز اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بشارتیں امت مسلمہ کو دی ہیں، ان بشارتوں کی امت مسلمہ وارث ہو.یہاں محض خیر " کا لفظ نہیں کہا گیا.بلکہ اس خیر کا ذکر کیا گیا ہے، جو آسمان سے نازل ہوتی ہے.ویسے تو ہر خیر ہی آسمان سے نازل ہوتی ہے.لیکن بعض بھلائیاں ، بعض بہتریاں اور بعض کا میابیاں آسمان سے نازل بھی ہوتی ہیں اور ان کے نزول کی بشارت بھی دی جاتی ہے.اور اسی طرف اس آیت میں اشارہ ہے، جو میں نے تلاوت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کے غلبہ کے متعلق بڑی عظیم بشارتیں دی ہیں.ان بشارتوں کا تعلق آپ کی نشاۃ اولی سے بھی ہے اور ان کا تعلق آپ کی نشاۃ ثانیہ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے بھی ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ آسمان سے فیصلہ ہوا کہ اس طرح ہم اپنے دین کو دنیا پر غالب کریں گے.آسمان سے بشارت ملی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے کامل اور بچے متبعین دنیا میں غالب آئیں گے اور اسلام کی حکومت ساری دنیا پر ہوگی.یہ لوگ جن کا تعلق مشرکین اور اہل کتاب سے ہے، جو اسلام کا انکار کر کے اس کی حقانیت اور صداقت کو تسلیم نہیں کرتے ، یہ صرف یہ نہیں چاہتے کہ اسلام غالب نہ ہو بلکہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ جو باتیں انہیں اللہ کی طرف منسوب کر کے سنائی جاتی ہیں، وہ بھی مسلمانوں کے حق میں پوری نہ ہوں.اور ان کو یہ پسند نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کا فضل اور اللہ تعالیٰ کی رحمت نے اسلام کو جو بشارتیں دی ہیں، ( وہ آسمان سے نازل ہوئیں اور آسمان سے ان کے نتیجہ میں دنیا میں ایک عظیم انقلاب بپا ہونے کا وعدہ ہے ) وہ بشارتیں امت مسلمہ کے حق میں ، وہ بشارتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں، وہ بشارتیں آپ کے کامل اور بچے متبعین کے حق میں پوری ہوں.پس یہ امید نہیں رکھی جاسکتی کہ جو مشرک یا اہل کتب میں سے منکر ہیں، ان کی مدد سے مسلمان اس مقصود کو حاصل کر سکیں، جو مقصودان کے سامنے رکھا گیا ہے.یہی نہیں کہ یہ لوگ کوئی مدد نہیں کریں گے بلکہ مخالفت کریں گے.اور اس حد تک ضد سے کام لیں گے کہ نہ صرف انسان کے اپنے منصوبے، جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق وہ بناتا ہے، ان کے راستہ میں روڑے اٹکائیں گے بلکہ ان بشارتوں کے راستہ میں بھی روڑے اٹکا ئیں گے، جن کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ آسمان سے آئی ہیں.یا جن کے متعلق ان کے دلوں میں یہ شبہ ہے کہ شاید یہ آسمان سے آئی ہوں.لیکن اس یقین کے باوجود کہ ان بشارتوں کا انکار نہیں کیا جا سکتا، شبہ میں پڑے ہوئے ہیں اور پھر بھی یہ کوشش کرتے ہیں کہ یہ بشارتیں امت مسلمہ کے حق میں پوری نہ ہوں.426

Page 444

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 17 اکتوبر 1969ء دوسری طرف ایک اور گروہ ہے اور وہ منافقوں اور ست اعتقادوں کا گروہ ہے.ان کی کیفیت یہ ہے کہ خود قربانیاں دینے سے گھبراتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ قربانیاں نہیں دیتے بلکہ مخلصین کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں.اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کا میاب نہ ہو.اور اس کوشش کے بعد پھر يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَابِرَ وہ اسی انتظار میں ہوتے ہیں کہ ان کی کوششیں کامیاب ہو جائیں گی.اور تم گردش زمانہ میں پھنس جاؤ گے اور تم پر ایسی مصیبت نازل ہوگی، جو چاروں طرف سے گھیر لے گی.اور جس سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہو گا.اور پھر اس کے معنی خالی انتظار ہی کے نہیں بلکہ اپنی کوشش کے بعد اپنی اس بد کوشش کے نتیجہ کا انتظار کرتے ہیں.اور کوشش ان کی یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح تم گردش زمانہ میں پھنس جاؤ.کسی طرح تم مصیبتوں میں گر جاؤ.اس طرح جکڑے جاؤ اور ان دکھوں میں اور ان ناکامیوں میں کہ کامیابی کی کوئی راہ تمہیں نظر نہ آئے ، باہر نکلنے کا کئی راستہ تمہارے لئے نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السَّوْءِ کہ تمہارے خلاف جن دکھوں یا جن مصیبتوں یا جن ناکامیوں یا جن بدبختیوں کے لئے وہ کوشش کرتے ہیں اور پھر اس انتظار میں رہتے ہیں کہ ان کی کوششیں بار آور ہوں گی ، ان کی یہ کوششیں بار آور نہ ہوں گی.بلکہ ان کے گردان کی بدبختی کچھ اس طرح سے گھیر اڈالے گی کہ وہ اس سے باہر نہیں نکل سکیں گے.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے.انہیں تو دعاؤں کی طرف کچھ خیال ہی نہیں.بے شک اللہ تعالیٰ دعاؤں کو اگر ان میں اخلاص ہو ، سنتا ہے.لیکن یہ دعائیں نہیں کرتے.ان کا سارا بھروسہ ان کی اپنی کوششوں پر ہوتا ہے.اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں متکبرانہ کھڑا ہوتا ہے اور غرور سے کام لیتا ہے، اس کی کوشش کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟ اور اللہ تعالیٰ علیم ہے، وہ مومن کے دل کو بھی جانتا ہے اور اس کے اخلاص سے بھی واقف ہے.اور وہ منافق کے دل کو بھی جانتا اور اس کے بد خیالات سے بھی واقف ہے.اس لئے يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ b اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کو ہی مخصوص کرتا ہے اور اسے ہی نوازتا ہے، جسے وہ پسند کرتا.اور جس کی کوشش اس کے حکم اور اس کی رضا کے مطابق ہوتی ہے اور جس کا دل کلیۂ غیر سے خالی 427

Page 445

خطبہ جمعہ فرموده 17 اکتوبر 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہوتا اور جس کا سینہ صرف اور صرف اپنے رب کی محبت سے معمور ہوتا ہے.اور چونکہ اللہ تعالیٰ سمیع اور علیم ہے، اس لئے کوئی مشرک ہو یا اہل کتاب، منکر ہو یا منافق اور ست عقیدہ ، اس کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں، اس کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں.بلکہ ان لوگوں کے اعمال ثمر آور ہوتے ہیں، جو اپنی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کوئی غیر تمہاری مدد کو نہیں آئے گا.کیونکہ تم نے ہر غیر کو انذار اور انتباہ کر دیا ہے کہ ان کے اعمال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتے ، ان کا اعتقاد اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ نہیں ہے.تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں نذیر بھی ہو.تمہارا یہ کام ہے کہ تم منکرین کو اور منافقوں اورست اعتقاد والوں کو جھنجھوڑتے رہو.تم انہیں تنبیہ کرتے رہو، تم انہیں بتلاتے رہو کہ جن راہوں پر تم چل رہے ہو، وہ اللہ سے دوری کی راہیں ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں نہیں ہیں.تم ان بتوں کے خلاف جہاد کرتے ہو، جنہیں وہ خدا کا شریک بناتے ہیں.تم ان کے ان موٹے نفسوں کے خلاف جہاد کرتے ہو، جن کو انہوں نے خدا کا شریک بنالیا ہے.تم دلیل کے ساتھ تم عاجزانہ راہوں کے اختیار کرنے کے ، خوش شمر حاصل کرنے کے بعد انہیں بتاتے ہو کہ تمہارا تکبر کسی کام نہیں آئے گا.تم ان کے غرور کا سر توڑتے ہو، تاکہ ان کی روح اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہے.وہ تم سے محبت کیسے کر سکتے ہیں؟ وہ تمہاری مدد اور نصرت کے لئے کیسے آسکتے ہیں؟ پس تم نے ہی وہ سب کچھ کرنا ہے، جو کرنا ہے.تم نے ہی وہ تمام ذمہ داریاں اپنی کوششوں اور اپنی دعاؤں اور اپنی قربانیوں اور اپنی تدبیروں کے ساتھ نبھانی ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے تم پر ڈالی ہیں.اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں.وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمُهُ اللهُ یہ یا درکھو کہ ہر وہ کام، جس کے نتیجہ میں آسمان سے خیر نازل ہوتی ہے، وہ خدا سے پوشیدہ نہیں رہے گا.اس لئے یہ خوف نہیں کہ کوئی حقیقی نیکی یا کوئی مخلصانہ قربانی ضائع ہو جائے گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے.مگر تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو قابلیتیں اور قوتیں عطا کی ہیں تم ان کا صحیح استعمال کرو.(وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْر ) تبھی تمہارے افعال ثمر آور ہوں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں گے.اور جو مخلصانہ کوششیں تم کرو گے، (تَجِدُوهُ عِندَ اللهِ ) اللہ تعالیٰ ان کی جزا دے گا.ایک تو یہ کہ اس کے علم میں ہوگا اور دوسرے یہ کہ اس کا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے.اس 428

Page 446

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 17 اکتوبر 1969ء لئے تمہاری ہر کوشش بار آور ہوگی.اس کا نتیجہ نکلے اور اس کے نتیجہ میں تمہارا مقصود تمہیں حاصل ہوگا.اور اس کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کی راہیں کھولی جائیں گی.اور ایک تو کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں اور چونکہ ہر چیز اس کے علم میں ہے، تجدُوهُ عِندَ الله تمہاری ہر کوشش کا ایک نیک نتیجہ نکلے گا.گو یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ دنیا کے ارادے، تمہارے ارادے اور اللہ کے ارادے کے موافق نہیں ہیں.تمہارا ارادہ یہ ہے کہ تم اپنا سب کچھ قربان کر کے اللہ کے اسلام کو دنیا میں قائم کرو.نہ مشرک کا یہ ارادہ ہے اور نہ اہل کتاب میں سے جو منکر ہیں، ان کا یہ ارادہ ہے اور خواہش ہے.اور نہ منافق ست اعتقاد والے کا یہ ارادہ اور خواہش ہے.پس تمہارے اور تمہارے رب کے ارادے ایک شاہراہ پر گامزن ہیں اور منکر اور منافق کے ارادے اور خواہشات اس کے الٹ طرف جارہی ہیں.یہ یادرکھو کہ اللہ تعالی ، جو تمام قدرتوں کا مالک ہے اور ہر چیز اس کے قادرانہ تصرف میں ہے، نتیجہ وہی نکلا کرتا ہے، جو وہ چاہتا ہے.دنیا جو چاہے، سوچے.دنیا جو چاہے، خواہش رکھے.دنیا جس طرح چاہے، اسلام کے خلاف کوششیں کرے اور کرتی رہے.دنیا ہر تد بیر اسلام کے مقابلہ پر کرے.دنیا بعض دفعہ اپنی جہالت کے نتیجہ میں اپنے بد ارادوں کے حصول کے لئے دعا بھی کرتی ہے.سو وہ دعا بھی کرے کہ جو اللہ کا منشاء ہے، وہ پورا نہ ہو اور جوان کا منشاء ہے، وہ پورا ہو جائے.اس قسم کی دعائیں کرتے ہوئے ، چاہے ان کے ناک گھس جائیں، نہ ان کی تدبیر کامیاب ہوگی، نہ ان کی دعائیں ثمر آور ہوں گی اور نہ ان کا کوئی نتیجہ نکلے گا.کیونکہ ہر دعا اور ہر سوال اللہ سے، جو اس کے ارادہ اور منشاء اور رضا کے خلاف ہوتا ہے، وہ دعا کرنے والے کے منہ پر مار دیا جاتا ہے، قبول نہیں ہوتا.غرض محض دعا کافی نہیں.اس دعا کی ضرورت ہے، جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہو.پھر محض تدبیر کافی نہیں.ان اعمال کی ضرورت ہے، جو مشکور ہوں.جن کا اللہ تعالی کوئی نتیجہ نکالے اور وہ ضائع نہ ہوں.تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا ہے کہ ایک بڑی ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے.پھر فرماتا ہے کہ تمہاری راہ میں ہر منکر اور منافق اور ست اعتقا دروکیں ڈالے گا.پھر کام مشکل بھی ہے.اگر یہ لوگ رو کیں نہ بھی ڈالتے ، تب بھی یہ آسان نہ ہوتا.ساری دنیا کے دلوں کو خدا اور اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنا آسان کام نہیں.اگر شیطان روکیں نہ بھی ڈالے، تب بھی بڑا مشکل کام ہے.لیکن یہاں تو یہ صورت ہے کہ کام مشکل بھی ہے اور ساری دنیا اس کام کی مخالف بھی ہے.اور چاہتی یہ ہے کہ ہماری کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلے.اسلام کو کامیابی اور کامرانی حاصل نہ ہو.اور اپنی اس خواہش کو پورا 429

Page 447

خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کرنے کے لئے وہ ہر قسم کی تدبیریں کرتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں، وہ اپنے مالوں کو پیش کرتے ہیں.مثلاً اسلام کے مقابلہ میں اس وقت صرف عیسائیت ہی جتنی رقم جتنی دولت اور جتنا مال خرچ کر رہی ہے، اس کا شاید ہزارواں حصہ بھی جماعت احمدیہ کے پاس نہیں کہ وہ خدا کی راہ میں خرچ کرے.غرض مخالفین، اسلام کو نا کام کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دیتے ہیں.لاکھوں کی تعداد میں زندگیاں وقف کرتے ہیں.اربوں کی مقدار میں اموال دیتے ہیں.اور صاحب اقتدارلوگوں کی پشت پنا ہی میں منصوبے باندھتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.اگر تمہارے دل میں وہ اخلاص ہو، جس سے میں پیار کرتا ہوں.اگر تمہارے اعمال مخلصانہ بنیادوں پر ہوں، جو مجھے پسند ہیں اور جن کو میں قبول کرتا ہوں تو نتیجہ تمہارے حق میں نکلے گا.خواہ دنیا جتنا چاہے، زور لگا لے.خواہ منافق اندرونی فتنوں سے ہر قسم کا فساد پیدا کرنے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ منکر کو بھی نا کام کرے گا.اللہ تعالی مفسد اور منافق کو بھی کامیابی کی راہ نہیں دکھائے گا.لیکن یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مختلف قسم کی قوتیں اور قابلیتیں عطا کی ہیں تم وہ ساری کی ساری خدا کی راہ میں وقف کردو.اور پھر تم کہو کہ اے خدا! ہم نے اپنی طرف سے جو بھی ہمارا تھا، وہ خلوص نیت سے تیرے حضور پیش کر دیا.ہمیں معلوم ہے کہ ہم غریب ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہم بے مایہ ہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ ہم کمزور ہیں، مگر اے خدا! ہم نے تیرے دامن کو پکڑا اور ہم اس یقین پر بھی قائم ہیں کہ تو سب قدرتوں والا ہے.تو ایسا کر کہ ہماری کوششیں تیری نظر میں مقبول ہوں اور تیرے وعدے ہماری زندگیوں میں پورے ہوں.تا کہ اس دنیا میں ہشاش بشاش تیری جنتوں میں داخل ہو کر تیری دوسری جنتوں میں داخل ہونے کے لئے یہاں سے کوچ کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور توفیق دے کہ ہم اس مرکزی نقطہ کو سمجھیں کہ یہ ذمہ داری، جو ہم پر ڈالی گئی ہے، یہ ہم نے ہی نبھانی ہے.کسی اور نے آکے نہیں نبھانی.اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی استعدادوں کی نشو ونما اس رنگ میں کریں کہ جس رنگ میں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم کریں.اور اپنی طاقت، اپنی ہر قوت اپنی ہر استعداد اور قابلیت پر اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ چڑھانے کی کوشش کریں.بے نفس ہوں اور فنا کی چادر میں خود کو لپیٹ لیں اور اللہ تعالیٰ میں گم ہو جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“.مطبوعه روزنامه الفضل 10 دسمبر 1969ء) 430

Page 448

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 24 اکتوبر 1969ء تحریک جدید کے ذمہ جو کام ہے، وہ بڑا ہی اہم اور بڑا ہی مشکل ہے خطبه جمعه فرمودہ 24 اکتوبر 1969ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.یکم نبوت ھش ۱۳۴۸ یعنی یکم نومبر 1969ء سے تحریک جدید کا نیا سال شروع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اور اسی پر توکل اور بھروسہ رکھتے ہوئے، جوق در توانا ہے، جو حسن و احسان کا منبع و سر چشمہ ہے، جس کی توفیق کے بغیر انسان کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا، جو اس کے فضل کو جذب کرے، ہم اپنے اس نئے سال کو شروع کریں گے.انشاء اللہ تعالی.تحریک جدید کا یہ سال، دفتر اول کا چھتیسواں، دفتر دوم کا چھبیسواں اور دفتر سوم کا پانچواں سال ہوگا.گزشتہ سال میں نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہم پر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے اور ان وعدوں کے مطابق ، جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہم سے کئے تھے، ہمارے مالوں میں بڑی برکت ڈالی ہے.اگر ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے ، اس کی راہ میں اپنے اموال کو اور بھی زیادہ خرچ کریں تو اس کے فضلوں کے اور بھی زیادہ وارث بنیں گے.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم سال رواں میں سات لاکھ نوے ہزار روپے تحریک جدید کے لئے جمع نہ کر سکیں.یہ target جو میں نے جماعت کے سامنے رکھا تھا، وہاں تک ہم نہیں پہنچ سکے.گوگزشتہ سال کے مقابلہ میں قریباً اسی ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے.اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں.لیکن ابھی دولاکھ سے اوپر کا فرق ہے.سات لاکھ نوے ہزار روپے کے مقابلہ میں جو وعدے ہوئے ہیں ، وہ چھ لاکھ بیس ہزار روپے کے ہیں.لیکن میری طبیعت میں گھبراہٹ نہیں پیدا ہوئی.کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کی غفلت کے نتیجہ میں ایسا نہیں ہوا.بلکہ ایک اور وعدہ جماعت نے کیا ہوا تھا، جس کی ادائیگی کا زمانہ ختم ہورہا تھا اور جس کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت بھی تھی اور جس کی طرف میں نے بھی جماعت کو بار بار متوجہ کیا اوروہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدوں کو پورا کرنا تھا.چونکہ جماعت اس طرف متوجہ رہی اور جماعت نے اس میں بھی کافی مالی قربانی دی ہے، اس لئے ہمارے سامنے جو مقصود تھا کہ ہم تحریک جدید کے لئے سات لاکھ نوے ہزار 431

Page 449

خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اکتوبر 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم روپے جمع کر لیں گے، اس میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے.کیونکہ اس عرصہ میں (صحیح اعداد وشمار تو اس وقت ہمارے ذہن میں نہیں) میرا اندازہ ہے کہ پانچ، سات لاکھ روپے پاکستانی جماعتوں نے فضل عمر فاؤنڈیشن میں ادا کئے ہیں.اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان پانچ ، سات لاکھ روپے کی ادائیگی کے ساتھ ہی انہوں نے تحریک جدید کے لئے اسی ہزار روپے کی زائد رقم کا وعدہ کیا ہے تو باوجود اس کے کہ جو target مقرر کیا گیا تھا، اس تک ہم نہیں پہنچنے پائے.لیکن پھر بھی جماعت نے بڑی ہمت سے کام لیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص اور قربانیوں میں اور بھی زیادہ برکت ڈالے اور ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.یہ بھی بڑی خوشکن بات ہے کہ مالی جہاد میں حصہ لینے والوں کی تعداد میں قریباً اڑھائی ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہے.الحمد للہ.ایک اور چیز ہمارے سامنے آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے تحریک جدید کے ہر دفتر ( یعنی اول ، دوم، سوم ) کے عطیہ کی جو فی کس اوسط بنتی ہے، وہ جماعت کے سامنے پیش کی تھی.اور میں نے بتایا تھا کہ دفتر اول میں حصہ لینے والوں کے چندوں کی اوسط فی کس 64 روپے بنتی ہے.لیکن دفتر دوم میں حصہ لینے والوں کی اوسط فی کس صرف 19 روپے بنتی ہے.دفتر دوم کو اس طرف توجہ دینی چاہیے.کیونکہ ترقی کا بڑا وسیع میدان ان کے سامنے ہے.دفتر دوم کو اس طرف بھی کچھ توجہ ہوئی ہے.چنانچہ سال رواں میں 19 روپے کے مقابلہ میں جو اوسط بنی ہے، وہ 24 روپے فی کس ہے.یعنی 5 روپے فی کس کا اضافہ ہوا ہے.یہ بھی خوش کن ہے.لیکن اس اضافہ پر شہر نانہیں چاہیے بلکہ آئندہ سال اس سے بھی زیادہ اچھی اور خوشکن اوسط فی کس ہونی چاہیے.ایک اور بات جس کی طرف میں اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ تحریک جدید کے وعدے، جیسا کہ میں نے بتایا ہے، پچھلے سال کے مقابلہ میں اس سال 80 ہزار روپے زائد کے ہیں.اور یہ وعدے چھ لاکھ، تمیں ہزار روپے کے ہیں.لیکن اس وقت تک وصولی صرف تین لاکھ، اسی ہزار روپے ہوئی ہے.یعنی یکم اپریل تک دولاکھ، پچاس ہزار روپیہ اور وصول ہونا چاہیے.میں سمجھتا ہوں کہ دفتر کو گھبرانے کی ضرورت نہیں.انشاء اللہ تعالیٰ یہ رقم پوری ہو جائے گی.کیونکہ گزشتہ چھ ماہ میں بڑا حصہ وہ تھا، جس میں جماعت کو فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدے پورا کرنے کی طرف توجہ تھی.یہ وعدے خدا تعالی کے حضور پیش ہو چکے، (سوائے چند استثنائی حالات کے اللہ تعالی انہیں قبول فرمائے.ہم اس کے فضل اور رحم پر بھروسہ رکھتے ہیں.جو ہم نے کیا یا جو کر سکے ہیں، اس کے اوپر ہمارا بھروسہ نہیں.کیونکہ انسان محض اپنی قوت یا طاقت یا مال کی قربانی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل کی 432

Page 450

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 24 اکتوبر 1969ء ضرورت ہے.خدا کرے کہ ہم اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود جو حقیر رقم بھی اس کے حضور پیش کر چکے ہیں، وہ اسے اپنے فضل سے قبول فرمائے اور ہم سب کو اپنی رحمت سے نوازے.میں امید کرتا ہوں کہ یہ بقیہ دولاکھ، پچاس ہزار روپے کے وعدے بھی انشاء اللہ تعالیٰ چند ماہ کے اس بقیہ عرصہ میں، یعنی یکم اپریل تک ، وصول ہو جائیں گے.بعض بڑی جماعتیں مالی قربانی کے لحاظ سے بڑی ہی ست واقع ہوئی ہیں.جن میں سے ایک راولپنڈی کی جماعت ہے.دوست ان کے لئے دعا بھی کریں.کیونکہ میرا تاثر یہ ہے کہ جہاں تک کوشش کا تعلق ہے، اس میں وہ کمی نہیں کرتے.لیکن جہاں تک انسانی کوشش میں برکت کا سوال ہے، ان کی کوششوں میں برکت نظر نہیں آتی.اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.جس خرابی کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوگئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی برکت سے محروم ہو گئے ہیں، یہ خرابی یا یہ بیماری دور ہو جائے.بعض دفعہ تکبر جماعتی بھی ہوتا ہے.یعنی بعض جماعتوں میں تکبر پیدا ہو جاتا ہے، ایسے ہی جس طرح بعض افراد میں تکبر پیدا ہو نا ہے.یہ بھی شاید کسی تکبر یا نخوت یا خود پسندی یا اپنے مقام کو نہ پہنچاننے یا دوسرے کے مقام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے برکت سے محروم ہو گئے ہیں.بہر حال خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی کس قسم کی بیماری ہے، جس نے ان کے کام سے برکت کو چھین لیا ہے.خدا کرے کہ ان کے کام بابرکت ہوں.وہ شانی مطلق ، جس کی تشخیص بھی صحیح ترین اور سب سے اچھی اور جس کا علاج بھی بہترین علاج ہے، وہ ان کا طبیب بنے اور وہ ان کی بیماری کو دور کرے.تا ان کی کوششوں کے بھی بہترین نتائج نکلنے شروع ہو جائیں.کچھ اور مقامات بھی ایسے ہوں گے، اللہ تعالیٰ سب پر ہی فضل کرے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے ذمہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق جو کام لگایا ہے، وہ بڑا ہی اہم اور بڑا ہی مشکل ہے.تحریک جدید کے ذمہ یہ کام ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے جو یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ پھر سے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے گا، یہ مجلس اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے جدو جہد کرے.اور ساری جماعت ان کے ساتھ شامل رہے.کیونکہ سارے ایک جان ہی ہیں.یہ کام بڑا ہی مشکل ہے.اس میں اندرونی رکاوٹیں بھی ہیں اور بیرونی رکاوٹیں بھی.ایک طرف روس ہے، جو بالکل دہریہ ہے، اللہ تعالیٰ کو ہی نہیں مانتا.اس کے قائدین نے ایک وقت میں تو ساری دنیا میں یہ اعلان کیا تھا کہ (نعوذ باللہ ) ہم زمین سے اللہ تعالیٰ کے نام کو اور آسمانوں سے اللہ تعالیٰ کے وجود کو مٹادیں گے.یہ لوگ روحانیت میں اس قسم کے ہیں.لیکن آخر ہیں تو اللہ تعالیٰ کے بندے.اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ پھر 433

Page 451

خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اکتوبر 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم سے وہ اپنے پیدا کرنے والے رحیم و کریم کو پہچانے لگ جائیں اور اس کے فضلوں کے وارث بن جائیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ یا تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کریں گے یا وہ اس دنیا سے اس طرح مٹادیے جائیں گے، جس طرح آج سے پہلے اللہ تعالیٰ کے سامنے باغیانہ اور مفسدانہ طور پر کھڑی ہونے والی قوموں کے نام و نشان مٹادیئے گئے.انسانی تاریخ نے ان میں سے بعض کی ہلاکت کے حادثہ کو محفوظ رکھا اور ان کے کچھ واقعات ہمیں معلوم ہوتے رہتے ہیں.لیکن وہ ہزاروں ہزار بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ ایک لاکھ اور چند ہزار تو میں ، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی طرف اللہ تعالیٰ کے نبی مبعوث ہوئے ، ان میں سے اکثر ایسی ہی ہوں گی، جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور وہ دنیا سے مٹادی گئیں.لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ ان سے دوسروں کو عبرت کا سبق نہیں دینا چاہتا تھا، اس لئے تاریخ انسانی نے ان قوموں کے نام اور ان کی تاریخ اور ان کے واقعات ، جس رنگ میں اور جس طور پر اللہ تعالیٰ کا غضب ان پر بھڑ کا ، اس کو یاداور محفوظ نہیں رکھا.اس قوم یعنی Russia ( روس) کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ یہی انذار کیا ہے کہ اگر تم اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو ہلاک ہو جاؤ گے.اس قوم کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ بشارتیں بھی ملی ہیں.پھر یورپ ہے، امریکہ ہے.اگر چہ یہ اقوام بحیثیت قوم اس رنگ میں اس طور پر دہر یہ اور اللہ تعالیٰ کی دشمن تو نہیں، جس طرح روس ہے.لیکن ان کی عملی حالت اور ان کے ایک حصہ کی ظاہری حالت بھی ایسی ہی ہے، جیسے روس میں بسنے والوں کی.پھر جزائر کے رہنے والے ہیں، ان کی حالت بھی نیک اور پاک نہیں.یہ سب اقوام اللہ سے دور اور اس کے پیار سے محروم ہیں.اسی لئے یہ سب اقوام خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والوں اور اس پر ایمان لانے والوں کی دوست اور ہمدرد نہیں ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت مثلاً مشرق وسطی کے عرب ممالک، جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ان کے اوپر ہر قسم کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور ان کو ہر طرح سے ذلیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اور ان سے بے انصافی برتی جارہی ہے.لیکن ہمارے پیارے خداعزاسمہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں خوشخبری دی ہے اور آپ کو الہام بتایا گیا ہے کہ عرب ممالک کی پریشانیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے دور کی جائیں گی.( تذکرہ صفحہ 558) اور اصلاح احوال کے سامان پیدا ہوں گے.اسی طرح اہل مکہ کے متعلق خدائے ذوالجلال نے یہ پیش خبری دی کہ اہل مکہ خدائے قادر کے گروہ میں داخل ہو جائیں گے.(نور الحق 434

Page 452

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 24اکتوبر 1969ء حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 197) اب مسلم ممالک سے جو بے انصافی ہورہی ہے، اس بے انصافی کو دور کرنے کے لئے ہمارے کندھوں پر دو قسم کے بوجھ ڈالے گئے ہیں، ہم پر دو قسم کی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں.ایک تو یہ کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کی صحیح تربیت اور حقیقی اصلاح کریں.تاکہ ان کے دلوں میں حقیقی نیکی اور تقویٰ پیدا ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس طرح محبوب بن جائیں، جس طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اللہ تعالی کی ہر قسم کی رحمتوں سے حصہ پانے والے تھے.ہم پر دوسری ذمہ واری یہ عائد کی گئی ہے کہ وہ قومیں ، جو خدا تعالیٰ سے دوری اور بعد کے نتیجہ میں خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے والوں پر ظلم ڈھا رہی ہیں، ان کو اسلام کی طرف لانے کی کوشش کریں.کیونکہ اسلام ہی ایک زندہ مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ، جو ایک زندہ رسول ہیں، جن کے روحانی فیوض و برکات قیامت تک جاری ہیں اور خدائے قادر وتوانا کی طرف، جو زندہ خدا اور عظیم قدرتوں والا خدا ہے اور ہر قسم کی صفات حسنہ سے متصف ہے اور جس کے سامنے کوئی چیز انہونی نہیں ہے اور جس کا قہر ایک لحظہ میں ہر چیز کو ہلاک اور ملیا میٹ اور نابود کر سکتا ہے، اس زندہ خدا اور اس زندہ رسول کی طرف ان کو لانے کی کوشش کریں.اور تبشیر کے ساتھ انذار کے پہلو کو مدنظر رکھیں.ہم ان کے پاس جائیں اور ان کو جھنجھوڑیں، ان کو جگانے اور بیدار کرنے کی کوشش کریں.مگر وہ اس طرح خواب میں بد مست پڑے ہیں کہ ہماری آواز سننے کے وہ اہل ہی نہیں اور جو نیند سے بیدار ہیں ، وہ ہماری آواز کو سننے کے لئے تیار نہیں.لیکن اگر چہ وہ ہماری آواز کو سننے کے لئے تیار نہیں.اگر چہ ان میں سے بہت سے روحانی لحاظ سے اتنی گہری نیند میں مدہوش ہیں کہ ہماری آواز ان کے کانوں تک نہیں پہنچ سکتی لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ذمہ واری ڈالی گئی ہے کہ تم جاؤ اور ان کو جگاؤ اور بیدار کرو اور ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی طرف لے کر آؤ.اور اسلام نے جس ہستی کو اللہ کے طور پر پیش کیا ہے، اس سے ان کو متعارف کراؤ.اور ان کے دلوں کے سارے اندھیروں کو اسلام کے نور سے منور کرنے کی کوشش کرو.اور ان کے اندر نیکی اور تقویٰ کا بیج بود و.اس غرض کے لئے پہلے زمین صاف کرنی پڑتی ہے اور اسے کاشت کے قابل بنانے کے لئے بڑی جد و جہد کرنی پڑتی ہے.پھر اس قسم کا بیج بویا جاتا ہے.ہم کمزور اور بے بس اور بے مایہ ہیں.مگر کام بڑا ہی اہم ہے، جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے.ذمہ واری بڑی ہی بھاری ہے، جو ہمارے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے مگر ساتھ ہی ہمیں بڑی بشارتیں بھی دی گئی ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا 435

Page 453

خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اکتوبر 1969ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ہے کہ میں اپنی جماعت کو روس میں ریت کے ذروں کی مانند دیکھتا ہوں.(تذکرہ صفحہ 114,810) جس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح ریت کا ذرہ مٹی میں مل تو جاتا ہے لیکن اس پر مٹی کا اثر نہیں ہوتا ، اسی طرح روس میں اسلام قبول کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا تقومی عطا ہوگا کہ وہ اس گندے ماحول میں بھی اپنی سعادت مندی اور نیک فطرتی کا اظہار کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی آواز کو سن کر اس پر لبیک کہنے والے اور اسی پر جان دینے والے ہوں گے.اور وہ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ بے شمار ہوں گے.اکثریت انہی لوگوں کی ہو جائے گی.پھر آپ نے فرمایا کہ ہندو مذہب کا ایک دفعہ پھر زور کے ساتھ اسلام کی طرف رجوع ہوگا.( تذکرہ صفحہ 302 ہندو قو میں، جو نہ صرف اس وقت بھارت میں بلکہ بڑی minorties (اقلیت) کی حیثیت میں بعض دوسرے ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں، ان کے متعلق ہمیں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ وہ اسلام قبول کریں گی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو اپنا کر اللہ تعالی کے فضلوں کی وارث ہوں گی.اسی طرح آپ نے فرمایا ہے:.اسے یورپ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا ! تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائرا کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا“.(حقیقۃ الوحی صفحہ 257) ان بدبختوں اور بدقسمتوں کا دلی تعلق زندہ اور قادر خدا سے قائم کرنا اور اس کے لئے انتہائی قربانیاں دینا اور ایثار دکھانا ور تضرع اور خشوع سے دعاؤں میں لگے رہنا، یہ ہے وہ ذمہ داری، جو ہم پر عائد کی گئی ہے.پھر انگلستان کے متعلق بشارت دی گئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام وہاں پر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سفید پرندے پکڑ رہے ہیں.( تذکرہ صفحہ 189) پس ساری دنیا ہی انتہائی گند کے اندر مبتلا ہے.مثلاً روس ہے، وہاں کے لیڈروں نے اپنی بد بختی کی وجہ سے یہ دعوی کر دیا کہ ہم دنیا سے اللہ تعالیٰ کے نام کو اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹا دیں گے.(نعوذ باللہ ) پھر یورپ کے بسنے والے بد اخلاقیوں کے گند اور کیچڑ میں لت پت ہو رہے ہیں.آپ لوگ یہاں رہتے ہوئے ، اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.انگلستان کے یہ سفید پرندے الہی نور کے سامانوں سے بے حد غافل ہیں.ان کی ظاہری سفیدی پر اتنے بدنما دھبے پڑے ہوئے ہیں کہ انسانی عقل دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ انسانی دل اور روح کو اللہ تعالیٰ نے کس قدر منور بنایا تھا لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ سے ان 436

Page 454

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اکتوبر 1969ء ظلمتوں کو پیدا کر لیا.جنہوں نے ان کے نور کو ان کے ماحول سے باہر نکال دیا اور وہ روحانی لحاظ اندھیروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں.پس روس میں ریت کے ذروں کی طرح احمدی مسلمانوں کو پیدا کرنے کی کوشش کرنا، آپ کی ذمہ داری ہے.یورپ و امریکہ اور ایشیا اور جزائر کے رہنے والوں کو انتباہ کرنا اور کوشش کرنا کہ وہ ان اعمال کو چھوڑ دیں، جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے اور وہ اعمال صالحہ بجالائیں، جو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا اور اس کے فضل کو جذب کرنے والے ہوں، یہ بھی آپ کا کام ہے.عرب ممالک میں اصلاح احوال کے سامان پیدا کرنا، یہ بھی آپ کا کام ہے.مکہ کے مکینوں کو قادر و توانا کی فوج میں فوج در فوج داخل کرنا، یہ بھی آپ کا کام ہے.یہ بڑے ہی اہم کام ہیں اور بڑے ہی مشکل کام ہیں، جو ہمارے سپرد کئے گئے ہیں.اگر وہ زندہ خدا ہمارے ساتھ نہ ہوتا اور آج بھی ہمیں اس کی بشارتیں نہ مل رہی ہوتیں تو ہم تو زندہ ہی مرجاتے.ان بشارتوں اور اس اندار اور ان ذمہ داریوں سے جماعت کا ایک طبقہ غفلت برت رہا ہے.ان کو بھی ہم نے ہوشیار اور بیدار کرنا ہے.اس وقت جو کام بھی ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے کرنا ہے، وہ جماعت احمدیہ نے کرنا ہے.جب اللہ تعالیٰ کسی قوم یا کسی جماعت کو بشارتیں دیتا ہے تو یہ تو نہیں کرتا کہ آسمان سے فرشتے بھیج دے اور وہ اس اسباب کی دنیا میں کامیابی کے سامان پیدا کر دیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ساری دنیا کو اپنا پیغام پہنچانے کے لئے اپنی آواز کو بلند کیا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسلام دنیا پر غالب آئے گا تو اس کے مقابلے میں جب شیطان نے اپنی میان سے تلوار کو نکالا تا کہ مسلمانوں کو ہلاک اور اسلام کو مٹادے تو اس تلوار کا مقابلہ کرنے کے لئے فرشتے نہیں آئے تھے.بلکہ وہی لوگ تھے، جنہوں نے اپنے رب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانا تھا.انہوں نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی گردنیں اس طرح آگے رکھ دیں، جس طرح ایک بھیٹر مجبوری کی حالت میں قصائی کی چھری کے سامنے اپنی گردن رکھ دیتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو دیکھ کر اور اس اخلاص پر نگاہ کر کے ان کی گردنوں کی حفاظت کے بھی سامان پیدا کر دیئے اور اسلام کے غلبہ کے بھی سامان پیدا کر دیئے.لیکن آج تلوار کا زمانہ نہیں ہے.آج زمانہ ، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، اسلام کی روحانی تلوار کا ہے.آپ فرماتے ہیں:.وو یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا.آئینہ کمالات اسلام صفحہ 254 حاشیہ ) 437

Page 455

خطبہ جمعہ فرمود و 24 اکتوبر 1969ء پھر آپ فرماتے ہیں:.وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم قریب ہے کہ سب مالتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا، نہ کند ہو گا.جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دئے“.اسی طرح ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں:."3 تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه 8)...دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا ( یعنی اسلام ہی ساری دنیا کا مذہب اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ساری دنیا کے پیشوا ہوں گے.) میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں ، سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں ، جو اس کو روک سکے.( تذکرۃ الشہادتین صفحه 65) لیکن اس درخت کی آبپاشی کے لئے اور اس کی حفاظت کے لئے اور اس میں تلائی کرنے کے لئے قربانی آپ نے دینی ہے.آسمان سے فرشتوں نے آکر یہ کام نہیں کرنا.اسلام کے غلبہ اور اسلام کی فتح کا بیج تو بو دیا گیا.لیکن اگر وہ بیج اپنی نشو و نما کے لئے ہماری جانیں مانگے تو ہمیں جانیں قربان کر دینی چاہئیں.اگر وہ درخت یہ کہے کہ اے احمد یو! میں نے تمہارے خون سے سیراب ہونے کے بعد بڑھنا اور پھولنا ہے اور پھل دینے ہیں تو احمد یوں کو اپنے خون پیش کر دینے چاہئیں.اگر ہم سے یہ مطالبہ ہو کہ تمہارے روپے کی ضرورت ہے تو ہمیں اپنے اموال پیش کر دینے چاہئیں.تاکہ ساری دنیا میں اسلام کے مبلغ پہنچیں اور وہاں اللہ تعالیٰ کا نام بلند کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کی صداقت میں جوز بر دست دلائل دیتے ہیں، وہ دنیا کے سامنے پیش کریں.اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے (جیسا کہ اب بھی بعض سے یہی سلوک ہوتا ہے ) ان کے ذریعہ سے غافل اور اندھیرے میں بسنے والے بندوں کو آسمانی نشان بھی دکھائے.جہاں بھی اس نیت کے ساتھ ایک احمدی مبلغ پہنچا ہے، اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے اس نے حیران کن نظارے دیکھے ہیں.اور جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کے دلوں میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق پیدا کرتا ہے.پس تخم تو بویا گیا، یہ بڑھے گا اور پھولے گا اور ثمر آور ہوگا.لیکن اس تخم کی نشو و نما کے لئے ، جس چیز کی بھی ضرورت ہے، اس کو ہم نے پیش کرنا اور مہیا کرنا ہے.غرض یہ عظیم بشارتیں ہیں، جو ہمیں دی گئی ہیں.اور عظیم قربانیاں ہیں، جن کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے.438

Page 456

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اکتوبر 1969ء پس آؤ، ہم آج یہ عہد کریں کہ ہم سے جس قسم کی عظیم قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے، ہم اپنے رب کے حضور وہ قربانیاں پیش کریں گے.تا کہ ہماری یہ عظیم خواہش کہ ہم اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے ساری دنیا کے انسانوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کو پیدا ہوتے دیکھیں ، یہ خواہش پوری ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور وہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور وہ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، انتہائی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہو جا ئیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان قربانیوں کو قبول فرمائے اور اپنے پیار کی اور اپنی رضا کی چادر میں ہمیں لپیٹ لے.ایک پیار کرنے والی ماں کی طرح ہمیں اپنی گود میں بٹھا لے.اللهم آمین مطبوعه روز نامه الفضل 04 دسمبر 1969ء) 439

Page 457

Page 458

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1969ء دنیا بھر میں اشاعت اسلام اور جہاد بالقرآن کے لئے تحریک جدید کو قائم کیا گیا وو خطاب فرمودہ 29 اکتوبر 1969ء مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے ایوان محمود میں محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، جو تین سال تک صدر مجلس کی حیثیت میں گراں قدر خدمات انجام دینے کے بعد انصار اللہ میں شامل ہو گئے ، کے اعزاز میں 29 اکتوبر 1969ء کو الوداعی دعوت دی گئی.جس میں سیدنا حضرت خليفة المسيح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے جو تقریر فرمائی، اس سے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک عظیم وعدہ یہ بھی دیا ہے کہ حضور علیہ السلام کے وصال کے بعد جماعت احمد یہ اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی قیامت تک اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتی رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسالہ الوصیت میں اسے قدرت ثانیہ یعنی خلافت حقہ قرار دیا ہے.چونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی ایک مجسم قدرت ہوں.اس پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آپ بہر حال انسان ہیں، ایک وقت میں آپ نے اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے، کیا آپ کی وفات کے بعد جماعت اس مجسم قدرت سے محروم ہو جائے گی ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نہیں ، جماعت اس سے محروم نہیں ہوگی.آپ نے اس خوف کو دور کرنے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت سنائی کہ میرے بعد بھی جماعت میں اللہ تعالی کی قدرتیں اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی رہیں گی.اور یہ سلسلہ جب تک کہ جماعت احمد یہ پر قیامت نہیں آجاتی اور روحانی طور پر یہ جماعت مردہ نہیں بن جاتی ، (والعیاذ باللہ ) اس وقت تک یہ جماعت خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتی رہے گی.قرآن کریم میں خلافت کے دو کام بتائے گئے ہیں.ایک ہے تمکین دین اور دوسرا ہے، خوف سے حفاظت.اور قرآن کریم کی رو سے یہ دونوں کام جب تک خلافت ہے، کسی اور کے ذریعہ سے سرانجام نہیں پاسکتے.اس لئے (جس طرح پہلے الہی سلسلوں میں ہمیشہ یہ ہوتا رہا ہے ) جماعت احمدیہ میں بھی 441

Page 459

اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم مختلف تنظیمیں تمکین دین اور خوف کو امن سے بدلنے کے سامان پیدا کرنے کے لئے بطور ہتھیار کے ہوتی ہیں اور یہ ہتھیار خلیفہ وقت کے ہاتھ میں ہوتا ہے.ہماری جماعت میں اس وقت مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں.مثلاً صدرانجمن احمد یہ ہے، یہ سب یا امر یہ ہے سب سے پرانی تنظیم ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی موجود تھی.پھر تحریک جدید ہے، حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے دنیا بھر میں اشاعت اسلام کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اور جماعت کی جدوجہد کو تیز اور اس کے جہاد بالقرآن میں ایک شدت پیدا کرنے کے لئے تحریک جدید کو قائم کیا.پھر وقف جدید ہے.اسی طرح وقف عارضی کا نظام ہے.پھر موصیوں کی انجمن ہے ، گو اس کے کام کی بھی ابتدا ہے اور جو اس کی ذمہ داریاں ہیں، ان کو نباہنے کے لئے یہ تنظیم بھی انشاء اللہ اپنے وقت پر نمایاں شکل میں سامنے آجائے گی.خدام الاحمدیہ کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ ہے، اس واسطے میں نے اس کا ذکر نہیں کیا.پھر لجنہ اماءاللہ کی تنظیم ہے.یہ تنظیمیں خلیفہ وقت کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی حیثیت میں وو بڑے ہی مفید کام کرتی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی کرتی رہیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی واسطے بار بار فرمایا ہے کہ جس طرح صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اندر ایک عظیم انقلابی تبدیلی پیدا ہوگئی تھی، میری جماعت کو بھی چاہیے کہ اسی قسم کی روحانی تبدیلی اپنے اندر پیدا کریں.تاکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو وہ بھی اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے دیکھ لیں.اللہ تعالیٰ کے وعدے تو ضرور پورے ہو کر رہتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے کسی فرد یا کسی قوم یا کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے.چنانچہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھاؤ گے تو ہم ایک اور قوم لے آئیں گے، جو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے والی ہوگی.خدا تعالیٰ کے وعدے تو پورے ہو کر رہیں گے.لیکن وہ قوم جس نے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھایا، (اور اللہ تعالیٰ کو اس کی جگہ ایک اور قوم کو لا نا پڑا.وہ تو بڑی ہی بد بخت ثابت ہوئی.اللہ تعالی نے اس قوم کے لوگوں کو اپنی انتہائی محبت سے نوازنا چاہا مگر انہوں نے اپنے نفس کے موٹاپے کی وجہ سے اس محبت کو ٹھکرادیا اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کا مورد بنالیا.پس احمدی مسلمان تو ایسی قوم ہے، جو اللہ تعالیٰ کے ایک قادرانہ فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.جو کام اس کے ذمہ لگایا گیا ہے، ( بظاہر کام تو سارے اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے ) وہ تو انشاء اللہ پورا ہوگا.اسلام کوضر در غلبہ حاصل ہوگا.دنیا کی کوئی طاقت اس کے راستے میں روک نہیں بن سکتی.لیکن وہ لوگ بڑے ہی مبارک ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی جنتوں میں لانے کے لئے دنیا میں ظاہر یہ کرتا ہے کہ ان کی 442

Page 460

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 29 اکتوبر 1969ء کوششیں کامیاب ہوئیں.مگر کیا انسان اور کیا اس کی کوشش؟ وہ دنیا جو اس وقت اسلام کی مخالف ہے، اس کے مقابلہ میں ہماری یہ طاقت یا ہماری یہ دولت یا ہمارے افراد کی یہ تعداد کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتی.لیکن بہت سے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تھوڑوں کو یہ توفیق دے دی.اگر چہ وہ اس کو اللہ تعالی ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے.حقیقت یہ ہے کہ تھوڑوں کو تو فیق تو دے ہی دیتا ہے.مگر اس کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں گنا اپنی قدرت بیچ میں نہ ملاتا تو وہ نتیجہ نہ نکلتا، جو آج ہمیں نظر آ رہا ہے.ساری دنیا ہماری مخالف ہے اور ساری دنیا میں ہم خدا کے نام کی آواز کو بلند کرنے کے لئے اور ساری دنیا کے دلوں میں ہم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت گاڑنے کے لئے پھر رہے ہیں.ربوہ کی گلیوں میں بعض نو جوان پھرتے ہیں ، آپ ان کے پاس سے گزر جاتے ہیں مگر آپ کے دل میں ان کی کوئی قدر پیدا نہیں ہوتی.لیکن جب جماعت ان کو باہر بھیج دیتی ہے.مثلاً افریقہ کے کسی ملک میں اور جب وہ وہاں پہنچ کر اسلام کی تبلیغ کا کام شروع کرتے ہیں اور وہاں سے رپورٹیں آتی ہیں کہ یوں وہاں کے پریذیڈنٹ نے محبت اور عزت کا سلوک کیا تو پھر دیکھنے والی آنکھ اندازہ کر سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قدر محبت اور پیار کرنے والا ہے.اور کس طرح ذرہ نا چیز کو جب اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اس کے ذریعہ سے اپنی قدرت کو ظاہر کرتا ہے.پس دنیا کی نظر سے وہ ذرہ پوشیدہ ہو جاتا ہے.دنیا کو تو اللہ تعالی کی وہ انگلیاں نظر آ رہی ہوتی ہیں، جن سے اس نُوْرُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کا نور پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہوتا ہے اور دنیا کی آنکھیں چندھیا ر ہی ہوتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر تو کوئی بات ہو نہیں سکتی.اور اللہ تعالیٰ کا اب تک یہ فضل رہا ہے، امید ہے کہ انشاء اللہ ایک لمبے عرصے تک یہ فضل رہے گا“.اللہ تعالیٰ پر ہمیں یہی بھروسہ ہے کہ وہ اپنے فضل سے ایسا ہی کرے گا اور ہم جو اس کے نہایت وو ہی عاجز بندے ہیں، ہماری کوششوں میں وہ برکت ڈالے گا اور ہماری دعاؤں کو وہ قبول فرمائے گا.اور اس کے نتیجہ میں ہمارے کاموں میں وہ عظمت اور وہ شان پیدا ہوگی اور ہماری کوششوں کے وہ بہترین نتائج نکلیں گے، جو دنیا کے لئے معجزات بن کر ظاہر ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے ہمیشہ نواز تار ہے.آمین.مطبوعه روزنامه الفضل 14 جنوری 1970 ء ) 443

Page 461

Page 462

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ارشاد فرمودہ 29 مارچ 1969ء چندہ تحریک جدید کی بنیا د طوعی ہے، اسے لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا وو ارشاد فرموده 29 مارچ 1969ء برموقع مجلس مشاورت ٹھیک ہے، تحریک جدید کے چندہ کی یہی بنیاد ہے کہ اس میں حصہ لینے والا کم سے کم پانچ روپیہ دے.اور بعد میں حضور نے اس میں ترمیم کر دی تھی اور فرمایا تھا کہ ابتداء میں حصہ لینے والا کم سے کم دس روپیہ، اس چندہ میں دے.اور اس سے زیادہ جتنا کوئی دینا چاہے، دے.یہ بڑی ضروری شرط ہے اور اس پر عمل ہونا چاہئے.لیکن بعض چھوٹی عمر کے بچے تھے یا ایسے نوجوان تھے، جنہوں نے ابھی کمانا شروع نہیں کیا ، ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ہم بھی ثواب میں شامل ہوں.لیکن اس کم سے کم کی شرط کو وہ پورا نہیں کر سکتے تھے.اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ اجازت دی تھی کہ ایسے نہ کمانے والے رشتہ دارمل کر کم سے کم دس روپیہ میں شامل ہو جائیں.یہ ایک استثناء ہے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور نو جوانوں میں قربانی کی روح پیدا کرنے کے لئے یہ رعایت رکھی گئی ہے.یہ بنیاد ہے، تحریک جدید کی.اور گذشتہ پینتیس سال کے عرصہ میں کسی وقت بھی اس کم سے کم شرح میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی.البتہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں ساری دنیا کی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ رقم زیادہ ہو، تاکہ ہم غلبہ اسلام کی مہم میں زیادہ تیزی پیدا کرسکیں.آپ مختلف اوقات میں مختلف خواہشات کا اظہار فرماتے تھے اور مخلصین جماعت کا رد عمل ایثار اور قربانی کی بنیاد پر بڑا اچھا ہوتا تھا.میرے نزدیک (اس کا یہ مطلب ہے کہ فیصلہ میں نے ہی کرنا اور اسے فیصلہ ہی سمجھیں.) اسے لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا.کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ 36 منزلہ عمارت کی بنیادوں کو آپ نیچے سے کس طرح بدل سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ جماعت کے اموال میں برکت دے رہا ہے، اس کی تعداد میں برکت دے رہا ہے، اس کے اخلاص میں برکت دے رہا ہے اور ہمیں چندے زیادہ مقدار میں مل رہے ہیں.لیکن میرے نزدیک جماعت کے ایک حصہ کے سامنے اسلام کی ضرورت کو ٹھیک طرح نہیں رکھا جارہا، اس وجہ سے چندہ میں کمی ہے.یا پھر وقت کے اوپر یہ ضرورت جماعت کے سامنے نہیں رکھی جارہی، جیسے ہمارے ایک 445

Page 463

ارشاد فرموده 29 مارچ 1969ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم زمیندار دوست نے بڑی اچھی بات کہی ہے، ممکن ہے، وہ بات شہر والوں کو سمجھ نہ آئی ہو اور یہ خالی تحریک جدید کے چندہ کے متعلق ہی نہیں بلکہ عام زمیندار ( میں ایسے زمینداروں کی بات نہیں کر رہا، جو سیٹھ بھی ہیں اور آڑھت کی دکانیں بھی کر رہے ہیں.جن کے پاس چھ چھ، سات سات ایکڑ زمین یا دس دس، بارہ بارہ ایکڑ زمین ہے، ان کے پاس اپنی کم سے کم ضروریات زندگی پر خرچ کرنے کے بعد بہت تھوڑی رقم بچتی ہے، ان کے دل اخلاص سے خالی نہیں.لیکن اپنے ماحول کے لحاظ سے اگر وقت کے اوپر ان کے پاس آدمی نہ پہنچے تو چندہ دینے میں ان سے سستی ہو جاتی ہے اور اس سے انہیں بڑا دکھ ہوتا ہے.پچھلے سال مجھے پتہ لگا کہ صدر انجمن احمدیہ کے لازمی چندوں میں ایک علاقہ نے کچھ ستی دکھائی ہے.میں نے جماعت کے دوستوں کو کہا کہ اپنے چندے فورا ادا کر دو.میں نے ایک آدمی کو زبانی پیغام دیا تھا.چنانچہ ایک دوست ایسے بھی تھے، جنہوں نے اپن بھینس بیچ کر اپنا چندہ ادا کیا.اب دیکھو، اخلاص میں تو کوئی کی نہیں.اگر اس دوست کے پاس محصل گندم اور دوسری فصلوں کی برداشت کے وقت جاتا اور ان سے چندہ مانگتا تو وہ ادا کر دیتے.اب دیکھو، اس دوست نے اپنی بھینس بیچی ، وہ انہوں نے فرض کرو پانچ سوروپیہ میں فروخت کی ہوگی.اور چندہ انہوں نے شاید سوروپیہ دینا ہوگا.لیکن چونکہ ان میں اخلاص تھا، اس لئے انہوں نے کہا، بھینس فروخت کر کے سور و پید ادا کر دینا چاہئے.خواہ گھر میں بچوں کو کچھ عرصہ کے لئے دودھ نہ ملے.اس کے بعد شاید نئی فصل پر انہوں نے ایک اور بھینس خریدی ہوگی.میں نے جماعت کے سامنے حساب لگا کر یہ بات رکھی تھی کہ دفتر اول کی اوسط یہ ہے، دفتر دوم کی اوسط یہ ہے، دفتر سوم کی اوسط یہ ہے.مجھے دفتر دوم کی زیادہ فکر ہے.کیونکہ دفتر سوم تو ابھی جاری ہوا ہے اور نوجوانوں کا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو تربیت دینے کی توفیق دی اور انہوں نے تربیت حاصل کرنے کی توفیق پائی تو جب وہ بڑے ہوں گے اور کمانے لگیں گے تو ممکن ہے کہ وہ چھلانگیں مارتے ہوئے ، دفتر اول سے بھی آگے نکل جائیں.دفتر دوم والے کمانے والے ہیں اور خاص عرصہ سے وہ اس میں شامل ہیں.دفتر دوم کو جاری ہوئے، پچیس سال ہو چکے ہیں اور دفتر اول کو جاری ہوئے چھتیس سال ہو چکے ہیں.گو ہر عمر میں لوگ فوت ہو جاتے ہیں، زندگی اور موت اس دنیا کے ساتھ لگی ہوئی ہے لیکن یہ نظر آ رہا ہے کہ دفتر دوم دفتر اول سے پیچھے رہ گیا ہے.اس میں شک نہیں کہ دفتر اول میں ایسے لوگ بھی شامل ہوئے کہ اگر دس سال کے اندر دفتر دوم کا اجرا ہو جاتا تو وہ لوگ دفتر دوم میں شامل ہوتے.غرض زیادہ تعداد دفتر اول میں چلی گئی.لیکن دفتر دوم میں شامل ہونے والوں نے بہر حال اول کی جگہ لینی ہے.اور دفتر اول کے پچھلے دو، تین سال کے 446

Page 464

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ارشاد فرمودہ 29 مارچ 1969ء چندوں کا آپ جائزہ لیں تو آپ کو یہ نظر آئے گا کہ ہر سال چندہ کم ہو رہا ہے.چندہ دینے والے لوگ یا تو فوت ہو جاتے ہیں اور یا پھر ملازمت سے ریٹائر ہو جاتے ہیں.اور وہ چندہ میں زیادہ رقم نہیں دے سکتے.دفتر دوم نے اس خالی جگہ کو پر کرنا ہے.اور دفتر سوم نے دفتر دوم کی خالی جگہ کو پر کرنا ہے.دفتر سوم کے متعلق گو پوری کوشش کرنی چاہئے.لیکن فکر کی کوئی بات نہیں.دفتر دوم کے متعلق فکر کی بات ہے.ان کا معیارا تن بلند ہو جائے کہ ان کا چندہ دفتر اول کے چندہ کی اوسط پر آجائے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ اگر دفتر دوم کا چندہ آٹھ نو لاکھ روپیہ ہو جائے تو ہماری ضرورت پوری ہو جاتی ہے اور فکر کی کوئی بات نہیں رہتی.اس معیار پر پہنچانے کے لئے جماعت کے دوستوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے، چندہ کے لازمی کرنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ جب ہم ایسی جگہ پر چندہ کو لازمی کرتے ہیں، جہاں نہیں ہونا چاہئے تو دو میں ایک نتیجہ ضرور نکلے گا.یا تو آپ گنہ گار ہوں گے، اس لئے کہ کیوں نہ آپ نے مخلصین کا خیال رکھا اور ان کو گنہ گار بنانے کی کوشش کی؟ اور یا پھر وہ گنہ گار ہوں گے کہ جو فرض ان پر جماعتی نظام نے عائد کیا تھا، وہ انہوں نے کیوں پورا نہ کیا ؟ طوع تحریک سے ہم کمی کو پورا کر سکتے ہیں.اور طوعی تحریک سے ہی کمی پوری ہونی چاہئے.تجویز میں تنفیذ کی جائے یالا زمی قرار دیا جائے ، کے جو الفاظ ہیں، وہ نہیں آنے چاہئیں.اب تنفیذ کا لفظ انہوں نے بول دیا ہے.اگر میں ان سے پوچھتا تو انہوں نے کہنا تھا، ہم نے لازمی قرار نہیں دیا.لیکن تنفیذ کرنے کا مطلب لازمی ہے.کیونکہ جو قانون نہیں ، اس کی تنفیذ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.حکم کی تعمیل کا نام تنفیذ ہے.پس تجاویز کی ان شقوں کو آپ پاس کریں یا نہ کریں، مجھے اس سے کوئی تعلق نہیں.اگر آپ پاس کر دیں گے تو میں رد کر دوں گا.لیکن طوعی کوشش سے ہمیں اتنا چندہ ملنا چاہئے کہ تحریک جدید کے چندہ کا بجٹ آٹھ ، نولاکھ روپیہ ہو جائے.اگر ہم تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ طوعی کوشش کے نتیجہ میں بعض جماعتیں اور افراد پہلے ہی قریباً اس معیار کے مطابق چندہ دے رہے ہیں، جس معیار پر لانے کے لئے سب کمیٹی نے بعض تجاویز پیش کی ہیں.مثلاً یہ بات ہمارے سامنے آگئی ہے کہ جس چیز کو آپ لازمی بنانا چاہتے ہیں یا لازمی بنانے کے متعلق سوچ رہے ہیں، کراچی کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے ہی اس کے لگ بھگ ہے.لیکن اگر اس چندہ کو لازمی قرار دے دیا جائے اور معیار وہ مقرر کر دیا جائے ، جو سب کمیٹی نے تجویز کیا ہے تو ایک زلزلہ آ جائے گا.کیونکہ بہت سارے دوست ایسے ہوں گے، جن کے دماغ میں اخلاص کے باوجود یہ بہانہ آجائے گا کہ فلاں ضرورت پڑگئی ہے، جماعت نے چندہ تحریک جدید مثلاً پچاس تک لازمی رکھا ہے اور ہم پہلے سوروپیہ دے 447

Page 465

ارشاد فرموده 29 مارچ 1969ء تحریک جدید - ایک انہی تحریک....جلد چہارم رہے ہیں ، ضرورت کی وجہ سے اس سال میں کم کر دیتے ہیں اور اسی روپے دے دیتے ہیں.جماعت کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ہمارا چندہ پھر بھی تمہیں روپے زیادہ ہے.اور جہاں ایک شخص اپنی ماہوار آمد کے 1/5 حصہ کی بجائے مثلاً صرف ایک روپیہ دے رہا ہے، اس کے لئے 1/5 تک پہنچنے کے لئے اتنا اونچا جمپ ( چھلانگ لگانا پڑتا ہے کہ وہ لگا ہی نہیں سکتا.کیونکہ اونچان بہت زیادہ ہے.آپ کو اسے اس معیار تک آہستہ آہستہ لے جانا پڑے گا.اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اسے گنہگار ہونے سے بچائیں.رپورٹ مجلس شوری منعقد ہ 28 تا 30 مارچ 1969ء) 448

Page 466

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ارشاد فرمودہ 30 مارچ 1969ء ہر احمدی کی دوستی اللہ تعالی سے قائم کرو، پھر کسی تحریک کی ضرورت نہیں ہوگی وو ارشاد فرموده 30 مارچ 1969ء برموقع مجلس مشاورت صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید ہر دو کے بجٹوں کے سلسلہ میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ حقیقت ہے کہ اگر تمام احمدی، جن کے رزق میں اللہ تعالیٰ نے برکت دی ہے اور ان کو یہ توفیق عطا کی ہے کہ وہ اپنی کوشش سے کچھ کمالیں، اگر وہ سارے شرح کے مطابق اپنی ذمہ داری کو نبھا ئیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عملاً آئندہ سال ہمارا بجٹ پچاس لاکھ تک نہ پہنچ جائے.اس کے لئے زیادہ وعظ ونصیحت کی ضرورت ہے.مثلاً ایک دیہاتی جماعت میں اگر ہمارے مبلغ جائیں تو وہ براہ راست یہ نہ کہیں یا اتنے زور سے نہ کہیں کہ تم اپنے چندوں کو شرح کے مطابق ادا کرو.بلکہ یہ کہیں اور یہ ان کے ذہن نشین کروائیں کہ تم کتنے خوش قسمت ہو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شمولیت کا فخر یا اس گھر میں پیدا ہونے کا فخر عطا کیا ، جس گھر کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شمولیت کا فخر عطا کیا.دو قسم کے احمدی ہیں.یا وہ خود احمدی ہوئے ہیں یا احمدی گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں.اور یہ ذہن نشین کرائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض کوئی دنیوی مجلس یا دنیوی جتھہ نہیں تھا کہ بعض دنیوی مقاصد کے لئے کھڑا کیا گیا ہو.بلکہ مقصد یہ ہے کہ تمام دنیا میں اسلام کی تعلیم کو پھیلایا جائے اور ہر انسان کو قرآن کے نور سے روشن کیا جائے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا جو مقصد تھا اور آپ جس رنگ میں بنی نوع انسان کے محسن اعظم بنے ، اس رنگ میں دنیا آپ کے حسن اعظم ہونے کی حیثیت اور ارفع مقام کو پہچانے لگے.اور ان احسانوں سے فائدہ اٹھائے اور اس طرح آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.یہ بہت عظیم کام ہے.اتنا عظیم کہ اگر ہم آج سارے کے سارے کھدر کے کپڑے پہن لیں اور اپنی تمام جائیدادیں اس غرض کے لئے خدا کے حضور پیش کر دیں ، تب بھی جہاں تک اموال کی کثرت کا سوال ہوگا، وہ ضرورت کے مقابلہ میں کثیر نہیں ہوں گے بلکہ پھر بھی قلیل ہی رہیں گے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اپنے تمام اموال اور تمام اوقات کو میری راہ میں وقف کر دو، سارے کے سارے بلکہ یہ مطالبہ کیا ہے کہ اپنے اموال کا ایک حصہ اگر تم میری راہ میں پیش 449

Page 467

ارشاد فرمودہ 30 مارچ 1969ء تحریک جدید - ایک انہی تحریک....جلد چہارم کر دو گے اور اپنی جانوں کا ایک حصہ ( ہماری زندگی اوقات کے مجموعہ ہی کا نام ہے ) میرے حضور پیش کر دو گے اور اپنے خاندانوں کا ایک حصہ بطور واقف کے میرے حضور پیش کر دو گے تو میں تمہاری ان حقیر کوششوں میں بھی اتنی ہی برکت ڈالوں جتنی کہ ساری دنیا کے اموال اگر میرے سامنے پیش کر دیئے جاتے تو ان میں، میں برکت ڈالتا.جماعت پر کتنا بڑا انعام اور احسان ہے.سو یہ چیزیں ہر احمدی کو ذہن نشین کرائی جائیں.جب وہ احمدیت کے قیام کی غرض سمجھنے لگے گا، جب وہ اسلام کی ضرورت پہنچاننے لگے گا، جب اس کے دل میں خود ہی خدا کی محبت کی چنگاری شعلہ زن ہو جائے گی، اس وقت وہ ان چیزوں کو حقیر سمجھے گا اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگی اور خواہش رہے گی کہ آج ہم سے سولہویں حصہ یا دسویں حصہ کا مطالبہ کیا جارہا ہے یا بعض طوعی چندوں کے لحاظ سے اور مطالبے کئے جارہے ہیں.بہر حال یہ ہماری ساری آمد یا ساری جائیداد نہیں.یہ ہم بشاشت سے دیں گے اور اس نیت کے ساتھ دیں گے کہ اگر اور جب ہماری ساری آمدنیوں اور جائیدادوں کی خدا اور اس کے رسول کو ضرورت پیش آئے گی اور محد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی آواز ہمارے کانوں میں یہ پہنچی کہ میری بعثت کی غرض کو پورا کرنے کے لئے اپنی ساری جانوں اور اموال کو قربان کر دو، ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، سب کچھ قربان کر دیں گے.پیداہمیت، یہ ضرورت ، غلبہ اسلام کے سلسلے میں جو جدوجہد ہے، اس کی ضرورت ہے.وہ جماعت کے سامنے رکھنی چاہئے.اگر دیہاتی جماعتوں میں مثلاً اس ضرورت کو واضح طور پر اور نمایاں طور پر پیش کر دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ بشاشت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نہ نبھائیں.اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی اپنی ایک ماہ کی آمد کا کم از کم چوتھا حصہ یا پانچواں حصہ تحریک جدید کو نہ دے.وہ لوگ جن کے سامنے جب یہ ضرور تیں رکھی گئیں اور جنہوں نے ان ضرورتوں کی اہمیت کو پہچان لیا، وہ اس وقت چوتھے حصے سے بھی کہیں زیادہ تحریک جدید کو دے رہے ہیں.لیکن یہ خیال کرنا کہ یہ جو دے رہے ہیں، یہ زیادہ مخلص ہیں اور جو خاموش ہیں، وہ زیادہ مخلص نہیں، یہ بات میرے دماغ میں نہیں آتی.جو میرا تجربہ ہے، مختلف حیثیتوں میں، میں نے جماعت میں کام کیا ہے.جماعت کے بچوں سے میرا بڑا لمباواسطہ رہا ہے، بطور پرنسپل کے.جماعت کے نوجوانوں سے بڑا لمبا واسطہ رہا ہے ، خدام الاحمدیہ میں.جماعت کے بزرگوں سے خاصا لمبا میر اواسطہ رہا ہے، انصار اللہ میں.دیہاتی جماعتوں سے بھی واسطہ رہا ہے.میں زمیندار ہوں ، صرف خاندانی لحاظ سے نہیں بلکہ فطرتا بھی یعنی 450

Page 468

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم ارشاد فرمودہ 30 مارچ 1969ء میری طبیعت میں زمیندارہ کی سادگی اور زمیندارہ طرز رہائش کی محبت اور پیار ویسے ہی پایا جاتا ہے.میرے خیال میں شاید سارے ہی خاندان میں ہو.میں سمجھتا ہوں کہ مجھے بڑا لطف آتا ہے، میں کسی گاؤں میں جاؤں یا مثلاً بعض دفعہ اپنی زمینوں پر ہی جاتا ہوں تو بغیر چادر کے چار پائی پر بیٹھوں.میں یہ تکلف پسند نہیں کرتا کہ کوئی آکر چادر بچھا دے.اور مجھے بڑا لطف آتا ہے، اگر کوئی مجھے گاؤں میں مٹھی روٹی یا مکئی کی روٹی اور ساگ دے.بجائے اس کے کہ وہ میرے لئے مرغا ذبح کرنے کی کوشش کرے.اور مجھے بڑا لطف آتا ہے، اگر میں لسی پیوں ، خواہ وہ بغیر نمک کے ہو، جیسا کہ ہمارے علاقہ میں رواج ہے.یہاں یہ رواج ہے کہ کسی میں نمک بالکل نہیں ڈالتے.شاید پانی کھارا ہے، اس وجہ سے یا کوئی اور وجہ ہے.اس علاقے میں یہی عادت ہے.کئی دفعہ باہر گئے ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ زمیندار کا آ گیا کھانا تو صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ کسی کس قسم کی پیتے ہیں؟ گاڑھی پیتے ہیں، پتلی پیتے ہیں؟ نمک ڈالتے ہیں نہیں ڈالتے ؟ میں ان کو کہہ دیا کرتا ہوں کہ ذرا مجھے بھی پلاؤ.دیکھوں، کیا تم پی رہے ہو؟ اس طرح مجھے پتہ لگا کہ کسی میں نمک بالکل نہیں ڈالتے.لیکن اس میں بھی اپنا ایک مزہ ہے.جو زمیندارہ سادگی ہے، اس میں بڑا لطف ہے.زمینداروں کو میں یہ نصیحت کروں گا، ٹرانسسٹر کے نتیجہ میں آپ کی سادہ زندگی پر برے اثر نہیں پڑنے چاہئیں.اپنی اس زندگی کو قائم رکھیں.پس یہ نہیں کہ اس سادہ مخلص احمدی زمیندار کے اخلاص میں کمی ہے.یہ بڑی خطرناک بدظنی ہے.اور ایک لحظہ کے لئے میں اسے برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں.سچی بات یہ ہے کہ اس کو یہ احساس ہی نہیں دلایا گیا کہ کتنا اہم کام ہے؟ کتنا اہم فریضہ ہے، جو انہوں نے ادا کرنا ہے؟ اور اس کام کی ذمہ داری انہوں نے اٹھانی ہے.اگر یہ باتیں ان کے ذہن نشین کی جائیں تو ہمیں چندہ کی تحریک کی ضرورت نہیں.بعض دفعہ طبیعت پر یہ بار ہوتا ہے کہ انسانی فطرت ہے کہ بار بار آدمی یہاں سے جائے اور کہے، جی پیسے دو، پیسے دو.وہ کہتے ہیں کہ ان کو صرف پیسوں سے ہی غرض ہے اور ہماری روحانی ترقی سے ان کو سروکار ہی نہیں.اور وہ رد عمل ایک لحاظ سے تو نا مناسب ہے لیکن ایک دوسرے لحاظ سے بالکل فطری تقاضا ہے اور بڑا پیارا رد عمل ہے.اگر اس روشنی میں ہم دیکھیں کہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ہماری روحانی ترقی کی تمہیں فکر ہونی چاہیے، پیسے تو ہم آپ ہی دے دیں گے.ہمارے اخلاص کا، ہمارے تقویٰ کا ، ہماری روحانیت کا معیار بلند کرو گے تو پیسے ہماری جیبوں میں رہ جائیں گے؟ یہ تو ہمارا ہاتھ کبھی جیب میں نہیں جائے گا تو اچھل کر باہر آ جائے گا.تو تم جو صحیح چیز ہے، اس کی طرف توجہ دلاؤ.یہ بار بار ہمارے سامنے کیوں لاتے ہو؟ اس نقطہ نگاہ سے ان کا رد عمل بالکل درست ہے.تو اگر ہم بالواسطہ اس نقطہ نگاہ سے در نہ تو بلا واسطہ اصل غرض ہی یہی ہے کہ ہر ایک احمدی تقویٰ کے اور ایثار کے معیار کو 451

Page 469

ارشاد فرمودہ 30 مارچ 1969ء تحریک جدید - ایک انہی تحریک....جلد چہارم وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى کی ہدایت کے مطابق بلند سے بلند کرتا چلا جائے.پھر کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں.اس کو یہ کہنے کی ضرورت ہوگی کہ آج دنیائے اسلام کو پاکستان سے باہر پچاس لاکھ کی ضرورت ہے؟ جائیں ،ٹھیک ہے، لے لو.اب ایک دوست نے اپنے دوست کے پاس جانا ہے تو وہ اپنے حقیقی دوست کو ضرورت نہیں بتایا کرتا.عرب کا ایک مشہور واقعہ ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ بار ہاسنا یا ہے.ایک باپ نے دیکھا کہ میرے بچے کی صحبت صحیح نہیں رہی تو اس نے پیار سے اور بڑی ہوشیاری سے آہستہ آہستہ اسے سمجھا نا شروع کیا.اور یہ کہ دوست بھی ایسے ہونے چاہئیں، ان میں یہ یہ خوبیاں پائی جانی چاہئیں.جن کے اندر یہ باتیں نہ ہوں ، ان کے ساتھ دوستی نہیں رکھنی چاہئے ، نقصان ہوتا ہے، فائدہ نہیں ہوتا.باپ بیٹا بے تکلف تھے.بے تکلفی میں باپ سمجھایا کرتا تھا، بڑے اچھے طریق پر.ایک دن بیٹے نے باپ سے پوچھا تو پھر دوست ہوتا کس قسم کا ہے؟ عملاً مجھے بتائیں نصیحت تو آپ نے بہت کی ہے.اس نے کہا، اچھا میں بتا تا ہوں.رات کے بارہ بجے بے وقت باپ نے بیٹے کو ساتھ لیا اور اپنے دوست کے گھر پہنچا، دستک دی.اس نے اندر سے آواز دی کون ہے؟ اس نے اپنا نام بتایا کہ میں ہوں.کھڑا ہو گیا.اب انتظار کرنے لگے ، دروازہ ہی نہیں کھل رہا تھا.تو کافی انتظار کے بعد بیٹے نے کہا، اچھا اس قسم کے دوست ہوتے ہیں؟ دیکھ لیا، آپ کا دوست بھی.اس نے کہا، ٹھہر وہ دیکھو کیا ہوتا ہے؟ کچھ اور انتظار کے بعد دوست نے دروازہ کھولا اور وہ پوری طرح ہتھیار بند تھا، زرہ اور خود اس نے پہنی ہوئی ، تلوار لٹکائی ہوئی ، نیزہ پکڑا ہوا، تیر کمان لیا ہو اور اشرفیوں کی تھیلیاں اس کے ہاتھ میں تھیں.اس نے باہر نکل کے کہا کہ اگر دشمن سے کوئی جھگڑا ہو اور میری جان تمہیں چاہئے تو تیار ہو کر آیا ہوں ، آؤ چلیں، اس سے لڑتے ہیں.اور اگر تمہیں روپے کی ضرورت ہے تو یہ سونے کی اشرفیوں کی تھیلیاں میں لایا ہوں، لے لو جتنی تمہیں چاہئیں.پس تم بھی ہر احمدی کی دوستی اللہ تعالیٰ سے پوری طرح قائم کرو.پھر خدا کی راہ میں کسی تحریک کی ضرورت نہیں ہوگی ، صرف ایک آواز دینے کی ضرورت ہوگی.اسی طرح اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر اپنے اموال کی تھیلیاں لے کر ہر احمدی باہر نکل آئے گا اور کہے گا کہ جتنی ضرورت ہے، اتنی پوری کر لو.پس دیہاتی جماعتوں کو ان کا مقام، ان کی ذمہ داری، اسلام کی ضرورت ، ساری دنیا میں اسلام کے خلاف جو اس وقت سازشیں اور منصوبے باندھے جارہے ہیں اور جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، وہ جس طرح دکھ دے کر اور لالچ دے کر دنیا کو خدا سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ چیزیں ان کے 452

Page 470

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ارشاد فرمودہ 30 مارچ 1969ء سامنے رکھو.پھر دیکھو، وہ کس طرح تڑپتے ہیں.پھر دیکھو کہ ان کے سامنے کسی اپیل کے رکھنے کی ضرورت نہیں رہتی.تو صحیح ، اگر ہم اس قسم کی تربیت کر دیں ، ان کے سامنے یہ چیزیں رکھ دیں اور وہ شرح کے مطابق انجمن کے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور موجودہ خلیفہ وقت کی خواہشات کے مطابق ان ضرورتوں کو پورا کریں تو کہیں سے کہیں ہم آگے نکل جاتے ہیں.ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے ایثار اور قربانی میں بڑی برکت رکھی ہے، جس کا ذکر میں کسی اور وقت کروں گا.انشاء اللہ تعالیٰ“.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 28 تا 30 مارچ 1969 ء ) 453

Page 471

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 30 مارچ 1969ء دعا کے ذریعہ سے اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو دو تقریر فرمود و 30 مارچ 1969ء بر موقع مجلس مشاورت پیس دعا کو اپنی عادت بنا ؤ، دعا کو اپنی غذا بناؤ، دعا کو اپنا لباس بناؤ، دعا کو اپنی ہوا بناؤ ، دعا ہی کو اپنی نیند بناؤ.ہر چیز دعا کو بناؤ.اور دعا کے ذریعہ سے اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو.پھر جتنی دنیا آج اسلام کی مخالفت کر رہی ہے.ہر قسم کے دجل جو ہیں، وہ کئے جارہے ہیں.افریقہ میں بھی ، امریکہ میں بھی، یورپ میں بھی، جزائر میں بھی.بڑی مالی طاقت ان دجالی منصوبوں کے پیچھے ہے.اور سلطنتیں ان کا ساتھ دے رہی ہیں.وہ سلطنتیں، جن کا مقابلہ دوسری سلطنتیں آج نہیں کر سکتیں.کوئی خدا سے دور لے جارہا ہے، کوئی شرک میں مبتلا کرنا چاہتا ہے.انسان کو خدائے واحد ویگانہ سے دور لے جانے کی دائیں طرف سے بھی کوشش ہو رہی ہے اور بائیں طرف سے بھی کوشش ہورہی ہے.ان تمام کوششوں کے باوجود، ان تمام اندھیروں کے باوجود، ان تمام ظلمتوں کے باوجود، ان تمام دنیوی مادی سامانوں کے باوجود اور طاقتوں کے باوجود ہمارے دل میں جو یہ یقین پیدا کیا گیا ہے کہ اسلام آخر کار غالب ہوگا اور فتح پائے گا، وہ اسی بناء پر کیا گیا ہے کہ خدا نے کہا، میری اطاعت میں گم اور فنا ہو جاؤ.میں تمہارے گرد اپنے نور کا، میں تمہارے گردا اپنی قدرت کا، میں تمہارے گرد اپنی حیات کا ، میں تمہارے گرد اپنی قیومیت کا، میں تمہارے گرد اپنے احسان کا ایک ایسا حلقہ بناؤں گا کہ یہ تمام مادی طاقتیں تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی.اور آخر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں فتح ہوگی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہوں.خدا کرے کہ ہم اپنی ناطاقتی اور عاجزی کو پہچاننے والے ہوں.خدا کرے کہ شرک کا کوئی اثر بھی ہمارے دلوں اور ہمارے دماغوں اور ہماری روح میں باقی نہ رہے.خدا کرے کہ ہمارے ذرہ ذرہ میں اور ہماری روح میں اور ہمارے اخلاق کے ہر پہلو میں خدا کی توحید ہی جلوہ گر ہو اور موجزن رہے.خدا کرے کہ دعا کے اس مقام سے ہم کبھی نہ ہٹیں.تاکہ شیطان کا کوئی وار کبھی ہم پر کامیاب نہ ہو سکے.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 28 تا 30 مارچ 1969ء) 454

Page 472

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 09 جنوری 1970ء جماعت احمدیہ کا اپنا جدید پریس اور طاقتور ٹرانسمٹنگ اسٹیشن ہو "" خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1970ء دو باتیں اور ہیں، جن کے متعلق میں دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں.جلسہ سالانہ سے کچھ روز پہلے کوئی القاء اور خواب کی صورت نہیں، ویسے ) بڑے زور سے میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا گیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دو چیزیں ہمارے پاس اپنی ہوں.ایک تو ہمارے پاس ایک بہت اچھا پر لیس ہو.اور اللہ تعالیٰ جب کوئی خیال پیدا کرتا ہے تو اس کی ساری چیز روشن ہو کر سامنے آجاتی ہے.اس لئے جب میرے دل میں خیال آیا تو اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں آیا کہ اس اچھے پریس کے لئے ہمیں پانچ دس لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی.ساتھ ہی میری طبیعت مطمئن ہو گئی کہ ٹھیک ہے.گو پانچ یا دس لاکھ روپیہ ایک غریب جماعت کے لئے بڑا خرچ ہے لیکن اس طریق پر اس کا انتظام ہو جائے گا.اس وقت پر لیس نہ ہونے کی وجہ سے ہماری توجہ ہی بہت سے کاموں کی طرف نہیں جاتی.کیونکہ روکیس سامنے ہوتی ہیں.اور جن کے سپر دیہ کام ہیں، وہ ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو سکتے.دوسرے جن کاموں کی طرف توجہ ہوتی ہے، ان میں سے بھی بہت سے کام چھوڑنے پڑتے ہیں یا ان میں تاخیر کرنی پڑتی ہے.مثلاً اس وقت قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ تیار ہے.ہمارا قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ تفصیلی نوٹوں کے ساتھ ایک نئی جلد میں ، جیسا کہ جلسہ سالانہ پر اعلان ہوا تھا، تیار ہو گیا ہے.اور دوستوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے.اس وقت فرانسیسی ترجمہ بھی تیار ہے.لیکن دفتر سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھے رپورٹ دی کہ بات یہ ہے کہ ہمارا خیال تھا، ہم نے لاہور کے جس پر لیس سے انگریزی ترجمہ قرآن کریم کا طبع کروایا ہے، اس پریس سے یا کسی اور اچھے پریس سے فرانسیسی ترجمہ بھی طبع کروالیں گے.چنانچہ ان سے خط و کتابت یا گفت شنید ہو رہی تھی.لیکن اب انہوں نے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم یہ ترجمہ طبع نہیں کر سکتے.مجھے خیال پیدا ہوا کہ ممکن ہے، کسی متعصب گروہ کا ان پر دباؤ ہو.اور اس سے مجھے بڑا دکھ ہوا کہ قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت میں بھی تعصب آ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے 455

Page 473

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 جنوری 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم لوگوں پر رحم کرے.لیکن بعد میں، میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ بات نہیں تھی.بلکہ بات یہ تھی کہ انہوں نے کہا کہ فرانسیسی زبان کے بہت سے حروف کی شکل انگریزی حروف کی شکل سے مختلف ہے اور یہ حروف تیار کر کے نہیں دے سکتے ، اس لئے انہوں نے انکار کر دیا.پھر ہمارے پاس بعض اوقات مثلاً افریقہ کے کسی ملک سے مانگ آجاتی ہے کہ ہمیں سادہ قرآن کریم ( بغیر ترجمہ کے) کے بیس ہزار نسخے اگلے تین ماہ کے اندر دے دو.اور کچھ عرصہ پہلے ہمیں ایک ملک سے بارہ یا پندرہ ہزار سادہ قرآن کریم کے نسخوں کا آرڈر ملا.اور تحریک جدید کو انکار کرنا پڑا کہ ہمارے پاس موجود نہیں.اگر ہمارا اپنا پر لیس ہو تو اگر اور جب کوئی آرڈر آئے ، وہ آرڈر تو شاید پندرہ یا ہمیں یا پچیس ہزار کا ہو گا مگر ایک لاکھ نسخے ہمارے پاس تیار موجود ہوں گے.یا ہم اس قابل ہوں گے کہ چند دنوں کے اندر اتنے نسخے شائع کر دیں.غرض ہم بہت سارے کام کر سکتے ہیں.اور پریس نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس طرف خیال نہیں کرتے.ہمارے نزدیک ترجیح مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کو ہے.کیونکہ صحیح ترجمہ اور صحیح تفسیری نوٹ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر مسلم دنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علوم سے باہر نہیں مل سکتے.اس لئے ہم ان کو ترجیح دیتے ہیں.پس اگر اپنا پر لیس ہوگا تو قرآن کریم سادہ یعنی قرآن کریم کا متن بھی ہم شائع کر لیا کریں گے.اس کی اشاعت کا بھی تو ہمیں بڑا شوق اور جنون ہے.یہ بات کرتے ہوئے بھی میں اپنے آپ کو جذباتی محسوس کر رہا ہوں.ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے ہر گھر میں قرآن کریم کا متن پہنچا دیں.اللہ تعالیٰ آپ ہی اس میں برکت ڈالے گا تو پھر بہتوں کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہم یہ زبان سیکھیں یا اس کا ترجمہ سیکھیں.پھر اور بھی بہت سارے کام ہیں، جو ہم صرف اس وجہ سے نہیں کر سکتے کہ ہمارے پاس پریس نہیں.لیکن میرے دل میں جو شوق پیدا کیا گیا ہے اور جو خواہش پیدا کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ سارے پاکستان میں اس جیسا اچھا پر یس کوئی نہ ہو.اور پھر اس پریس کو اپنی عمارت کے لحاظ سے اور دوسری چیزوں کا خیال رکھ کر اچھار کھا جائے.عمارت کو ڈسٹ پروف (DUST PROOF) بنایا جائے.تاہم ایک دفعہ دنیا میں اپنی کتب کی اشاعت کر جائیں.دوسرے پریس نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کتابیں مہنگی پڑتی ہیں.اگر اپنا پریس ہوگا اور اس کو بہر حال نفع کے اصول پر نہیں چلایا جائے گا بلکہ اسے ضرورت پورا کرنے کے اصول پر چلایا جائے گا.تو جو 456

Page 474

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 جنوری 1970ء کتاب مثلاً قرآن کریم کی ایک جلد اس وقت ہمیں اگر تمیں رو پے میں پڑتی ہے تو ممکن ہے کہ پھر وہ ہمیں روپے میں یا پچیس روپے میں پڑ جائے.اور جتنی اس کی قیمت کم ہوگی ، اتنی اس کی اشاعت زیادہ ہوگی.یہ اقتصادیات کا ایک اصول ہے.بس دعا کریں کہ جس رب نے ، جو علام الغیوب ہے، دنیا کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کو پورا کرنے کے لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا کی ہے، وہی اپنے فضل سے اس خواہش کو پورا کرنے کے سامان بھی پیدا کرے.دوسری خواہش، جو بڑے زور سے میرے دل میں پیدا کی گئی ہے.وہ یہ ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک طاقتور ٹرانسمٹنگ اسٹیشن (TRANSMITTING STATION) دنیا کے کسی ملک میں جماعت احمدیہ کا اپنا ہو.اس ٹرانسمٹنگ اسٹیشن کو بہر حال مختلف مدارج میں سے گزرنا پڑے گا.لیکن جب وہ اپنے انتہاء کو پہنچے تو اس وقت جتنا طا قتو ر روس کا شارٹ ویواسٹیشن SHORT WAVE STATION) ہے، جو ساری دنیا میں اشتراکیت اور کمیونزم کا پرچار کر رہا ہے، اس سے زیادہ طاقتور اسٹیشن وہ ہو، جو خدا کے نام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دنیا میں پھیلانے والا ہو.اور چوبیس گھنٹے اپنا یہ کام کر رہا ہو.اس کے متعلق میں نے سوچا کہ امریکہ میں تو ہم آج بھی ایک ایسا اسٹیشن قائم کر سکتے ہیں.وہاں کوئی پابندی نہیں ہے.جس طرح آپ ریڈیوریسیونگ سیٹ ( RADIO RECEIVING SET) کا لائسنس لیتے ہیں، اسی طرح آپ براڈ کاسٹ ( BROAD CAST) کرنے کا لائسنس لے لیں.وہ آپ کو ایک فری کوئنسی (FREQUENCY) دے دیں گے اور آپ وہاں سے براڈ کاسٹ کر سکتے ہیں.لیکن امریکہ اتنا مہنگا ہے کہ ابتدائی سرمایہ بھی اس کے لئے زیادہ چاہیئے.اور اس پر روز مرہ کا خرچ بھی بہت زیادہ ہوگا.اور اس وقت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اس روحانی جماعت کی مالی حالت ایسی اچھی نہیں کہ ہم ایسا کر سکیں.یعنی میدان تو کھلا ہے لیکن ہم وہاں نہیں پہنچ سکتے.دوسرے نمبر پر افریقہ کے ممالک ہیں.نائیجیریا، غانا اور لائبیریا سے بعض دوست یہاں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے.غانا والوں سے تو میں نے اس کے متعلق بات نہیں کی لیکن باقی دونوں بھائیوں سے میں نے بات کی تو انہوں نے آپس میں یہ بات شروع کر دی کہ ہمارے ملک میں یہ لگنا چاہئے اور وہاں اجازت مل جائے گی.جس کا مطلب یہ ہے کہ گو پتہ تو کوشش کرنے کے بعد ہی لگے گا کہ کہاں اس کی اجازت ملتی ہے؟ لیکن ان ممالک میں سے کسی نہ کسی ملک میں اس کی اجازت مل جائے گی.اور چونکہ میںسے نہ کی گی.اور ہماری طرح یہ ملک بھی غریب ہیں ، اس لئے زیادہ خرچ کی ضرورت نہیں ہوگی.457

Page 475

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 جنوری 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم شروع میں میرا خیال تھا کہ صرف پروگرام بنا کر انا ونس کرنے والے ہی ہمیں دس پندرہ چاہئیں.پہلے مرحلے میں چاہئے کہ یورپ اور مشرق وسطی کی زبانوں میں پروگرام نشر کیا جاسکے.اسی طرح عرب ممالک اور پھرٹر کی ، ایران، پاکستان اور ہندوستان سب اس کے احاطہ میں آجائیں گے، انشاء اللہ.جہاں تک پیسے کا سوال ہے، میرے دماغ نے اس کے متعلق اس لئے نہیں سوچا کہ مجھے پتہ ہی نہیں کہ اس کے لئے کتنے پیسے چاہئیں؟ لیکن جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ کتنے پیسے چاہئیں؟“ کے متعلق دریافت کیا جائے تو اس کے متعلق میں نے انتظام کر دیا ہے.جلسہ پر بعض دوست بیرونی ممالک سے آئے ہوئے تھے.ان میں سے ایک دوست کینیڈا سے آئے ہوئے تھے.وہ وہاں ٹیلی ویژن میں کام کرتے ہیں.میں نے ان کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہاں جا کر فوری طور پر اس کے متعلق ضروری معلومات حاصل کریں.پاکستان میں اس اسٹیشن کی اجازت نہیں مل سکتی.کیونکہ ہمارا قانون ایسا ہے کہ یہاں کسی پرائیویٹ ادارہ کوریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت نہیں.لیکن بعض ممالک ایسے ہیں، جن میں اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں.جیسے امریکہ اور بعض ایسے ممالک ہیں، جن میں گو قانونی پابندی تو ہے لیکن اس کی اجازت آسانی اور سہولت کے ساتھ مل جاتی ہے.جیسے مغربی افریقہ کے ممالک میں سے نائیجیریا، گیمبیا، غانا یا سیرالیون ہیں.امید ہے کہ ان ممالک میں سے کسی ایک ملک میں ریڈیو سٹیشن قائم کرنے کی اجازت مل جائے گی.اس وقت دنیا کے دلوں کا کیا حال ہے؟ اس کا علم نہ تو صحیح طور پر مجھے ہے اور نہ آپ کو ہے.لیکن میرے دل میں جو خواہش اور تڑپ پیدا کی گئی ہے، اس سے میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ اللہ کے علم غیب میں دنیا کے دل کی یہ کیفیت ہے کہ اگر اللہ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ان کے کانوں تک پہنچایا جائے تو وہ سنیں گے اور غور کریں گے.ورنہ یہ خواہش میرے دل میں پیدا ہی نہ کی جاتی.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان جلدی پیدا کر دے.دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسی سال کے اندراندر یہ کام ہو جائے.لیکن ہر چیز ایک وقت چاہتی ہے.بہر حال جب بھی خدا چاہے، یہ کام جلد سے جلد ہو جائے.اور ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھیں کہ یہ کام ہو گیا ہے.اور ہمارے کان چوبیس گھنٹے عربی میں اور انگریزی میں اور جرمن میں اور فرانسیسی میں اور اردو، وغیرہ وغیرہ ، میں اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے والے ہوں.گانا وغیرہ بدمزگی پیدا نہ کر رہا ہو.اور 458

Page 476

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 09 جنوری 1970ء اسی طرح کی اور فضولیات بھی بیچ میں نہ ہوں.علم اسلام کا ورثہ ہے، کسی اور کا نہیں.اس لئے علمی با تیں تو وہاں ہوں گی ، مثلاً (ایگری کلچر AGRICULTURE زراعت کے متعلق ہم بولیں گے.اسی طرح دوسرے علوم ہیں، ان کے متعلق بھی ہم بولیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے لکھا ہے کہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ وہ تمام علوم سے خادمانہ کام لے سکے.سارے علوم ہی ہمارے خادم ہیں.آج کا فلسفہ بھی ہمارا خادم ہے، آج کی سائنس بھی ہماری خادم ہے، آج کی تاریخ کے اصول بھی ہمارے خادم ہیں.جب یہ غلطی کریں گے تو ہم ان کا ہاتھ پکڑ لیں گے.اور خادم سے یہی سلوک کیا جاتا ہے.اور اس وقت وہ غلطی کر رہے ہیں اور ہمارا ہاتھ ان کی طرف نہیں بڑھ رہا.حالانکہ ہمارا فرض تھا اور ہمارا حق بھی ہے کہ ہم ان کا ہاتھ پکڑ لیں اور کہیں کہ اے ہمارے خادم ! یہ تو کیا کر رہا ہے؟ (یعنی اس کی تصحیح کریں.بہر حال سب علوم ہمارے خادم ہیں اور ہم ان خادموں سے بھی خدمت لیں گے.اور اس طرح سب علوم کی باتیں آجائیں گی.فلسفہ کی غلطیاں بھی ہم نکالیں گے، ( ایگریکلچر AGRICULTURE) زراعت کے متعلق بھی ہم لوگوں کو کہیں گے کہ یہ یہ کام کرو تا دنیا میں بھی خوشحالی تمہیں نصیب ہو.انشاء اللہ یہ کام تو ہم کریں گے، لیکن گانے اور ڈرامے اور اس قسم کی دوسری جھوٹی باتیں وہاں نہیں ہوں گی.اور اس طرح ایک ریڈیو دنیا میں ایسا ہوگا، جہاں اس قسم کی کوئی لغو بات نہیں ہوگی.اور شاید بعض لوگ اس ریڈیو اسیشن کو وهُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ کہنا شروع کردیں.غرض میرے دل میں یہ دو خواہشیں پیدا ہوئی ہیں.ان کے لئے آپ بھی دعا کریں اور میں بھی دعا کر رہا ہوں.انسان بڑا ہی عاجز اور کمزور ہے.اور ہرنئی بات جو دل میں ڈالی جاتی ہے، وہ ہمارے ضعف اور عاجزی کو اور بھی نمایاں کر کے ہمارے سامنے لے آتی ہے اور پہلے سے بھی زیادہ انسان اپنے رب کے حضور جھک جاتا ہے اور اپنی کم مائیگی کا اقرار کرتا ہے.اور ہر قسم کی طاقتوں کا اسے سرچشمہ اور منبع قرار دے کر اور اس کی حمد وثنا کرتے ہوئے ، اس سے یہ بھیک مانگتا ہے کہ اے میرے رب! تو نے جو کام میرے سپرد کیا ہے، اس کے کرنے کی تو مجھے توفیق دے اور اس کے لئے اسباب مہیا کر دے.آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ دونوں چیزیں ہمیں عطا کر دے.اور ان دونوں میں ساری دنیا کے لئے بہت سی برکتوں کا سامان پیدا کر دے.(آمین) ( مطبوعه روز نامہ الفضل 11 ستمبر 1970ء ) 459

Page 477

Page 478

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم 22 اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 06 مارچ 1970ء جماعت احمدیہ کی تعلیمی خدمات خطبہ جمعہ فرمودہ 06 مارچ 1970 ء اللہ تعالی نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ سے بنی نوع انسان کی خدمت کے جو مختلف کام لئے ہیں، ان میں تعلیمی خدمت بھی شامل ہے.ہماری جماعت کے تعلیمی ادارے تین قسموں میں منقسم ہوتے ہیں.ایک تو وہ تعلیمی ادارے ہیں، جو پاکستان سے باہر کام کر رہے ہیں.دوسرے وہ تعلیمی ادارے ہیں، جور بوہ سے باہر پاکستان میں کام کر رہے ہیں.اور تیسرے وہ تعلیمی ادارے ہیں ، جور بوہ میں کام کر رہے ہیں.بیرون پاکستان تعلیمی ادارے، جو باقاعدہ ادارے کی شکل میں کام کر رہے ہیں، وہ زیادہ تر افریقہ کے ممالک میں ہیں.یہ ممالک کئی صدیوں سے سیاسی حالات اور بعض دیگر وجوہ کی بناء پر تعلیم میں بڑے پیچھے تھے.خصوصاً ان ممالک کی مسلمان آبادیاں تو تعلیم میں بہت ہی پیچھے تھیں.اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن کو اللہ تعالیٰ نے اس طرف متوجہ کیا کہ ان ممالک کی تعلیمی خدمت بھی کرنی چاہیے.چنانچہ مختلف ممالک میں مختلف معیار کے تعلیمی ادارے قائم کئے گئے.چھوٹے سکول بھی ہیں، بڑے بھی ہیں، کئی سیکنڈری سکول بھی ہیں.ایک، ایک ملک میں ہمارے بیسیوں سکول بھی کام کر رہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے ہر لحاظ سے اس خدمت کو قبول کر کے اس کے بڑے اچھے نتائج پیدا کئے ہیں.در بعض جگہ اگر چہ حکومت تو عیسائیوں کی ہے لیکن وہ عیسائی حکومتیں بھی جماعت احمدیہ کی تعلیمی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور بڑی ممنون ہیں.وہاں کے مسلمانوں کو تو اس سے بہت ہی فائدہ پہنچا ہے.وہاں جو اساتذہ کام کر رہے ہیں، ان میں پاکستانی بھی ہیں اور مقامی بھی ہیں.پاکستان سے جو اساتذہ کام کے لئے وہاں گئے ہیں، (الا ماشاء الله ) بڑے اخلاص سے کام کرنے والے، بڑی محبت سے کام کرنے والے اور اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنے والے ہیں کہ ہم استاد ہیں.اور اسلام نے استاد کا ایک مقام قائم کیا ہے، اسے ایک عزت عطا کی ہے اور اس پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کی ہیں.یہ سب ان اور 461

Page 479

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 06 مارچ 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم کے سامنے ہے.اور وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو نباہتے اور اپنے رب اور اس کی مخلوق کی نگاہ میں عزت کو حاصل کرتے ہیں.بعض استثناء ہیں لیکن استثناء پر حکم نہیں لگایا جاتا.بڑی بھاری اکثریت اپنی ذمہ داریوں کو جھتی اور ان کو ادا کر رہی ہے.وہاں جو مقامی اساتذہ ہیں ، وہ بھی اچھا کام کرنے والے ہیں.ان کے دل میں بھی یہ احساس بیدار ہے کہ ہماری قو میں دنیا کے تعلیمی میدان میں بہت پیچھے چھوڑ دی گئی ہیں.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو تعلیم کے میدان میں تو دوسروں کے پہلو بہ پہلو لے جا کر کھڑا کر دیں.کچھ ہمارے تعلیمی ادارے پاکستان میں ہیں اور ربوہ سے باہر ہیں.ان کے متعلق مختلف اوقات میں مختلف رپورٹیں آتی رہتی ہیں.بعض اچھا کام کر رہے ہیں، بعض ایک وقت تک اچھا کام کرتے رہتے ہیں، پر کوئی خرابی پیدا ہوجاتی ہے.بعض ایسے بھی ہیں، جومستقل طور پر بڑا اچھا کام کر رہے ہیں.ان تعلیمی اداروں کو صحیح طور پر چلانے کی آخری ذمہ داری تو مرکز پر ہے.باہر کے جو تعلیمی ادارے ہیں، ان کی ذمہ داری بھی مرکز پر ہے.تحریک جدید سے ان کا تعلق ہے.تحریک جدید کا نظام بھی غلطی بھی کر جاتا ہے.لیکن عام طور پر وہ محنت اور توجہ اور ہوش کے ساتھ اور بیداری کے ساتھ اس عام نگرانی اور اساتذہ کے انتخاب وغیرہ کے متعلق جو ذمہ داری ہے، اس کو نباہتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا کرئے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 19 مارچ 1970ء ) 462

Page 480

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اپریل1970ء غلبہ اسلام کے لئے کوشش اور دعا کرنا ساری جماعت کا کام ہے 35 خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اپریل 1970ء اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے ، میں انشاء اللہ تعالیٰ کل صبح مغربی افریقہ کے دورہ پر روانہ ہوں گا.ربوہ اور آپ دوستوں کی اس عارضی جدائی سے طبیعت میں اداسی بھی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر خوشی بھی ہے کہ وہ محض اپنی رحمت سے یہ توفیق عطا کر رہا ہے کہ ان اقوام کے پاس جا کر جو صدیوں سے مظلوم رہی ہیں اور صدیوں سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند مهدی معہود کی انتظار میں رہی ہیں اور جن میں سے استثنائی افراد کے علاوہ کسی کو بھی حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی زیارت نصیب نہیں ہوئی ، پھر ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ آپ کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ان تک پہنچے اور اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ان کو ہدایت کی طرف اور ان کو رشد کی طرف اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف بلائے.اور وہ خلیفة من خلفائه کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں اور ان کی طبیعتیں ایک حد تک سیری محسوس کریں.چنانچہ صدیوں کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں یہ موقع نصیب ہوگا.دعا ہے کہ یہاں میری موجودگی میں بھی آپ ہمیشہ ثبات قدم پر مضبوطی سے قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں.اور میری غیر حاضری میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کے لئے صدق و ثبات اور وفا کے سامان اور صدق وثبات اور وفا اور محبت کی فضا پیدا کرتا رہے.اور ہمارا ان ممالک کی طرف جانا ، ان کے ثبات قدم کا موجب بنے اور جذبہ وفا میں شدت کا موجب ثابت ہو.اور وہ قومیں محبت الہی میں اور بھی آگے بڑھیں.اور وہ، جو ابھی تک اندھیروں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں، انہیں بھی روشنی کی وہ کرن نظر آ جائے، جو اسلام کی شاہراہ کو منور کر رہی ہے اور بنی نوع انسان کو اس طرف بلا رہی ہے.ظلم کے پھندوں سے وہ آزاد ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں وہ گرفتار ہو جائیں.اللہ تعالیٰ شیطانی ظلمات سے انہیں نجات دے اور وہ ، جو نور السموات والارض ہے، اس کے نور سے ان کے دل وسینہ منور ہو جائیں.اور خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ ہمارا جو قدم ہر روز اپنی فتح اور اپنے مقصود کے حصول میں ہماری جو جدوجہد ہے، اس کے کامیاب 463

Page 481

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 103 اپریل 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اختتام اور غلبہ اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے، وہ قدم اور بھی تیزی کے ساتھ اپنے مقصود اور مطلوب کی طرف اللہ تعالیٰ کے سہارے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل بڑھنے لگے.اور ان ممالک میں بھی (ساری) دنیا میں ہی ) آخری فتح اور غلبہ کے دن جلد آ جائیں تاکہ بنی نوع انسان اس بھیا نک عذاب سے محفوظ ہو جائیں، جس کی طرف وہ خود اپنی جہالت کے نتیجہ میں بڑھ رہے ہیں“.وو....پس محبت اور پیار سے اپنے دن گزاریں اور صدقہ اور دعاؤں کے ساتھ میری مدد کریں.جو کام میرے سپرد ہے اور جس کی آخری ذمہ داری ان کمز ور کندھوں پر رکھی گئی ہے ، وہ صرف میرا کام نہیں بلکہ ساری جماعت کا کام ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ صدقہ اور دعا سے میری مدد کریں.اللہ تعالیٰ جس غرض کے لئے اس سفر کے سامان پیدا کر رہا ہے، وہ غرض پوری ہو.میں نے شاید پہلے بھی بتایا تھا، میرا پچھلے سال جانے کا پروگرام تھا، پھر بعض وجوہات کی بناء پر چھوڑنا پڑا.چنانچہ مغربی افریقہ سے ایک پرانے بوڑھے احمدی کا مجھے خط آیا کہ ساری عمر یہ حسرت رہی کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زیارت ہو جائے.غالباً انہوں نے اس غرض کے لئے رقم بھی جمع کی لیکن ان کو اس کی توفیق نہ ملی.پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.اور انہوں نے لکھا کہ میں آپ کی شکل نہیں دیکھ سکا.آپ سے مل کر برکت نہیں حاصل کر سکا.میں زندہ ہوں، آپ کا وصال ہو چکا ہے.اب آپ کی خلافت ثالثہ کے وجود میں امید بندھی تھی کہ یہ موقع مل جائے گا، آپ سے ملاقات ہو جائے گی.لیکن میں اتنا بوڑھا ہوں کہ اب میرے دل میں یہ وسوسہ رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو، جو ایک سال کا التوا ہے، اس میں، میں اس دنیا سے چلا جاؤں.اور یہ حسرت میرے دل ہی میں رہے کہ جماعت احمدیہ کے امام کی زیارت کر سکوں.پس اس قسم کی تڑپ ان بھائیوں کے دل میں ہے.اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ محبت سے اور فراست اور پیار سے اور ان کی ضرورتوں کے سمجھنے اور ان کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کرنے سے ان کی پیاس کو بجھا سکوں.اور خدا تعالیٰ ان کے لئے سیری کے سامان پیدا کر دے.تا کہ وہ بشاشت کے ساتھ ہمارے کندھے سے کندھا ملائے ، اسلام کی فتح کے دن کی طرف ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے بڑھتے چلے جائیں.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا.ہم اسی کے در کے بھکاری ہیں اور ہم اسی کے حضور جھکتے ہیں، اسی پر ہمارا تو کل ہے.دنیا کا کوئی سہارا نہ ہمارے پاس ہے، نہ دنیا کے کسی سہارے کی ہمیں خواہش ہے.اگر وہی ایک ہمارا پیارا اسہارا بن جائے تو ہمیں سب کچھیل گیا.سارے سہارے ہم نے پالئے.464

Page 482

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 103 اپریل 1970ء پس اسی کے سہارے اور اسی پر توکل کرتے ہوئے ، اس یقین کے ساتھ میں اس سفر پر جارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ اسلام کے غلبہ کے دن جلد سے جلد آ جائیں.اور عاجزانہ طور پر جن صحیح اور کچی اور سیدھی راہوں کا میں متلاشی ہوں، اللہ تعالیٰ ان راہوں کو میرے لئے بھی اور خدا کرے، آپ کے لئے بھی منور کر دے.اور کامیابی عطا کرے.اور خیریت کے ساتھ آپ یہاں رہیں اور خیریت کے ساتھ ہم وہاں سے واپس آئیں.اور ان لوگوں کے پیار اور ان کے اخلاص سے اپنے خزانے بھر کر واپس لوٹیں.اور وہ واقعات آپ کے ایمان میں زیادتی کا باعث بنیں، جس طرح کہ یہاں کی قربانیاں ان کے از دیا دایمان کا باعث بنتی ہے.تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة:03) کا ایک مفہوم، ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اپنی زندگی اس طرح بناؤ کہ دوسرا اس سے سہارا لینے لگے.اگر عملی زندگی میں اس قسم کا تعاون ہو اور ہر ایک دوسرے بھائی کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ نظر آئے تو اس سے بشاشت بھی پیدا ہوتی ہے اور اس سے قربانی اور ایثار کی امنگ اور خواہش بھی پیدا ہوتی ہے.اور انسان دنیوی تکالیف کو اوران دنیوی مخالفتوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتا.ایک موج ہوتی ہے، جو ٹھاٹھیں مارتی ہوئی آگے ہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کے سایہ میں رکھتا اور آخری غلبہ کے دن تک اس نسل کو، جس کے لئے وہ مقدر ہو، پہنچا دیتا ہے.ہر نسل کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے، وہ نسل وہی ہو.ہمارے دل میں بھی یہ خواہش ہے اور ہم بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اگلی نسل کیوں؟ یا اس کے بعد کی نسل کیوں؟ تو اپنے فضل سے ہماری زندگیوں میں اسی نسل کو وہ دن دکھا دے، جو اسلام کے لئے عید کا دن ہوگا.اور جس کا تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا ہے.امین.( مطبوعہ روزنامہ افضل 09 اپریل 1970 ء ) 465

Page 483

Page 484

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم ارشادات فرموده دوران دورہ مغربی افریقہ 1970ء اللہ نے مجھے بتایا ہے کہ اسلام کے غلبے کا دن طلوع ہو چکا ہے 08 مئی ارشادات فرموده دوران دورہ مغربی افریقہ 1970ء حضور نے بڑے جلال سے فرمایا:.میں آپ سب کو پوری قوت سے یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اسلام کے غلبہ کا عظیم من طلوع ہو چکا ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس حقیقت کو ٹال نہیں سکتی.احمدیت فتح مند ہوکر رہے گی.انشاء اللہ آئندہ پچیس سال کے اندر اندر اسلام کا غلبہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے.میں بوڑھوں اور جوانوں، مردوں اور عورتوں سے پکار کر کہتا ہوں کہ اللہ کے دین کی خاطر قربانی کے لئے آگے آؤ.اسلام کی فتح کا دن اٹل ہے.اگر چہ بادی النظر میں یہ چیز ناممکن نظر آتی ہے لیکن اللہ نے مجھے بتایا ہے کہ اسلام کے غلبے کا دن طلوع ہو چکا ہے.اس کا فضل شامل حال رہا تو یہ بظاہر ناممکن ممکن ہوکر رہے گا.میں نے 1967ء کے دورے کے وقت یورپ کو خبر دار کیا تھا کہ اپنے خالق کی طرف لوٹ کر آؤ ور نہ مٹ جانے کے لئے تیار ہو جاؤ.میری تقریر کی یورپ میں پبلسٹی بھی بہت ہوئی.صرف ڈنمارک سے مختلف اخباروں کے 184 تراشے موصول ہوئے“.فرمایا:.و فتح مکہ سے ایک سال پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ مسلمان ملکہ کو فتح کرلیں گے؟ لیکن یہ بظاہر انہونی ہو کر رہی.اسی طرح ہمیں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اسلام کی آخری فتح کے دن بہت قریب ہیں.لیکن ساتھ ہی ایک شرط بھی ہے.وہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا کی شرط ہے.اس مقصد کی خاطر مسلمانوں کو اتحاد عمل سے کام لینا ہو گا.اب صرف دو ہی راستے ہیں.یا تو باقی دنیا کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ جائیں یا اپنے آپ کو تباہی اور بربادی سے بچالیں.467

Page 485

ارشادات فرموده دوران دوره مغربی افریقہ 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم فرمایا:.میں آپ لوگوں سے یہ نہیں کہتا کہ بلا سوچے سمجھے احمد بیت میں داخل ہو جائیں.مذہب دل کا معاملہ ہے.اور دل کو طاقت کے بل پر جیتا نہیں جاسکتا.خدا کا شکر ہے کہ دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی ایک دل کو نہیں بدل سکتیں.لیکن اسلامی تعلیم کی خوبصورتی اور حسن اور اس کی روحانی تاثیر سے بے شمار دل بدلے اور بدلتے رہیں گے.ہم مسلمان باوجود اختلافات کے ایک ہو سکتے ہیں.کیونکہ ہمارا نقطہ مرکزی ایک ہے.ہم ایک خدا پر ایمان لاتے ہیں، ہمارا قرآن ایک ہے ، ہماری مکمل ترین شریعت ایک ہے، ہمارے آقا وسردار، حضرت خاتم الانبیاء، خاتم المرسلین، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہیں.اگر چہ معنوں (Interpretation) میں اختلاف ہے.لیکن آپ کو مانتے سب خاتم النبین ہیں.اگر ہم اپنے فروعی اختلافات کو بھول سکیں اور خدائے واحد اور محمد رسول اللہ کے دین کی خاطر متحد ہو جائیں تو اسلام کی فتح کا دن بہت قریب آجائے گا.مطبوعه روز نامه الفضل 2 0 جون 1970 ء ) 468

Page 486

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطاب فرموده 07 جون 1970ء نصرت جہاں ریزروفنڈ کے منصوبہ کے اعلان کی وجوہات ، دلائل اور ضرورتیں خطاب 07 جون 1970ء حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے مغربی افریقہ سے کامیاب واپسی پر جماعت احمدیہ کراچی سے درج ذیل بصیرت افروز خطاب فرمایا:.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:." آج میں اپنے رب کے فضلوں کا منادی بن کر آپ کے سامنے کھڑا ہوں.اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور جلال اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے جو جلوے مجھے اور میرے ساتھیوں کو مغربی افریقہ میں دکھائے ، ان کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں.جب ہم وہاں پہنچے تو تصور میں بھی نہیں تھا کہ کس قسم کے وہ پیارے انسان ہیں.اور اللہ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عظیم روحانی فرزند کی محبت کس رنگ میں ان لوگوں کے دلوں اور سینوں میں موجزن ہے.وہاں جا کر پہلا تاثر اور مشاہدہ یہ تھا کہ ان کی محبت جنون کا رنگ لئے ہے.وہ مجھے دیکھتے تھے اور دیکھتے ہی رہ جاتے تھے.زبان پر الفاظ نہیں آتے تھے.ساری محبت سمٹ کر ان کی آنکھوں میں سما جاتی تھی.تب میں نے سوچا کہ میرے جیسے ایک عاجز انسان کے ساتھ ان کا یہ سلوک کیوں ہے؟ اور ان کی اس کیفیت کا سبب کیا ہے؟ اور اس کا انہیں کیا حق پہنچتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے پھر میں نے بھرے مجمعوں میں یہ کہا کہ اگر تمہارے دل اور تمہاری روح خوشی سے لبریز ہیں، تمہاری آنکھوں سے محبت کے چشمے چھلک رہے ہیں اور تمہیں خوش ہونا ہی چاہئے کیونکہ آج احمدیت کی تاریخ میں پہلی بار اور اسی طرح تمہاری زندگیوں میں پہلی مرتبہ یہ واقعہ ہوا کہ وہ جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ساری امت میں سب سے پیارا تھا، حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام، اس محبوب محمد کا ایک نائب اور خلیفہ تم میں پہلی بار کھڑا ہے.اور تمہیں یہ موقع ملا کہ تم اسے دیکھو اور تم اس سے بات کرو، اس کی باتیں سنو.اور تم اس کی برکات سے حصہ لو.تمہارے لئے یہ خوشی کا دن ہے، جس قدر چاہو ، خوشی مناؤ.جب میں نے انہیں بتایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوثر وعدہ دیا گیا تھا اور اس باوفا رب العالمین نے اپنے وعدہ پورا کیا.اور امت محمدیہ میں کروڑوں انسانوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا 469

Page 487

خطاب فرمودہ 07 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم فدائی بنا دیا.اور ہر صدی ہمیں اس موجزن سمندر سے بھری نظر آتی ہے اور قیامت تک یہی ہوتا چلا جائے گا.لیکن ان اربوں فدائیوں میں سے ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کو منتخب کیا اور اپنی امت کو یہ کہا کہ اگر تمہاری زندگیوں میں وہ مبعوث ہو جائے تو تمہارا فرض ہے کہ میر اسلام اس تک پہنچاؤ.ساری امت میں سے اپنے زمانہ سے لے کر قیامت تک کسی اور کو اس سلام کا نہ حق دار ٹھہرایا اور نہ سلام پہنچانے کا انتظام کیا.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم روحانی فرزند کا چونکہ نائب آج تمہارے درمیان ہے، اس لئے تمہاری خوشی جائز اور تم حق دار ہو ، اس بات کے کہ تم جس قدر چاہو ، آج خوش ہو.اور میں بھی خوش ہوں.میں اس لئے خوش ہوں کہ آج سے قریباً اسی سال قبل ایک گمنام گاؤں میں اللہ کے حکم اور اس کے جلال اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے قیام کے لئے ایک آواز بلند کی گئی تھی.وہ آواز اپنے ابتدائی دور میں یک دتنہا آواز تھی اور جب اس ایک آواز کو دنیا نے سنا تو دنیا کی ساری طاقتیں اس کو خاموش کرنے کے لئے جمع ہو گئیں.مگر دنیا کی ساری طاقت اس اکیلی آواز کو خاموش نہیں کر سکی.چونکہ فنا کے مقام پر وہ شخص کھڑا تھا.اور اس کی آواز اللہ کی آواز اور اس کی آواز محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی آواز تھی.اور دنیا کی سب طاقتیں جمع ہو کر بھی اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو خاموش کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں.آج تمہارے مونہوں سے جب میں اللہ کی حمد کے ترانے اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے عظیم فرزند پر درود کے الفاظ سنتا ہوں تو میں خوش ہوں.اور بہت ہی خوش ہوں کہ اسی سال قبل جوا کیلی آواز تھی ، اس کی صداقت پر آج تم میں سے ہر شخص گواہی دے رہا ہے.اب سات ہزار میل دور نہ کبھی اس منادی کی آواز کوسنا نہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم روحانی فرزند کے حسن اور نور کو بھی دیکھا.نہ کبھی اس سے قبل اس کے نائبین اور خلفاء سے ملاقات کا موقع ملا.اس کے باوجود تمہارے دل اس کی عظمت کو پہچانتے ، اس کی محبت میں لبریز اور اس کے نور سے منور ہیں.وہی نور جو حمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے حاصل کیا اور آگے دنیا تک پہنچایا.اس لئے میں آج خوش ہوں اور بے حد خوش ہوں.بعض دفعہ بارہ، بارہ ہزار کا مجمع میرے سامنے ہوتا تھا.ایک ایک جلسے میں اور سات ہزار میل دور مرکز سے اور مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ انسانوں کا اکٹھ اور اجتماع نہیں بلکہ محبت کا ایک سمندر ہے، جو میرے سامنے ہے.میں نے انہیں کہا کہ تمہارے لئے بھی اللہ نے خوشی کے سامان پیدا کر دیئے اور میرے لئے بھی خوشی کے سامان پیدا کر دیئے.اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی ایک زبردست دلیل ہے.وہ اکیلی آواز ، جس کو دنیا خاموش کرنے کے لئے پیچھے پڑگئی اور اپنی ساری 470

Page 488

تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد چہارم خطاب فرموده 07 جون 1970ء طاقت خرچ کردی، خدا تعالیٰ کے عمل نے ثابت کر دیا کہ اس کو خدا کی حفاظت حاصل ہے، اس کا پیار حاصل ہے.اس کا وجود فنافی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی وجہ سے اس بچے کا وجود ہے، جو پیار کرنے والی ماں کی گود میں ہوتا ہے.اور اپنی طاقت کے مطابق ماں اس کی حفاظت کرتی ہے اور جان بھی دے دیتی ہے.لیکن ہمارے پیدا کرنے والے رب کی طاقتوں کا نہ کوئی شمار اور نہ کوئی حد و حساب ہے.جس کو خدا اپنی گود میں بٹھالے، اس کو کون فنا کر سکتا یا ہلاک کر سکتا ہے؟ لیکن منہ کے دعوے اور ہیں، اللہ کا عمل اور ہے.بہتوں نے دعوے کئے مگر خدا کے عمل ان کے دعووں کو جھٹلا دیا.مگر یہاں ایک عاجز بندہ اپنے رب کے فرمان پر دعویٰ کرتا ہے اور دنیا میں یہ اعلان بھی کر دیتا ہے کہ میں بڑا عاجز ہوں.کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں اس قسم کے بیسیوں فقرے وہ کہتا ہے.اللہ دنیا کو کہتا ہے کہ مجھے عاجزانہ راہیں ہی پسند ہیں.اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کر کے عجز کے انتہائی مقام کو اس نے حاصل کیا.اور اس کے نتیجہ میں میری انتہائی محبت بھی اس کو مل گئی.اور یہ میری پناہ میں ہے ، حفاظت میں ہے.اور یہ میری گود میں ہے اور میں اس کا محافظ ہوں.اس کو دنیا کیسے مٹاسکتی ہے؟ یہاں بیٹھے آپ ان لوگوں کا ، ان کی ذہنی کیفیت کا اور ان کے قلبی جذبات کا اندازہ نہیں کر سکتے.آنکھ نے دیکھا، زبان بیان نہیں کر سکتی.دل نے محسوس کیا، الفاظ اس کا اظہار نہیں کر سکتے.عجیب قوم ہے، جو وہاں پیدا ہو رہی ہے.اللہ کی عظمت کے وہ نشان ہیں.میں بھی خوش رہا، وہ بھی خوش رہے.اور بے حد خوش.اور ان قوموں کی خاموش آواز جو میرے کانوں نے سنی ، وہ یہ تھی کی صرف ان چند لاکھ کا ہی حق نہیں کہ وہ صداقت کو پائیں اور نور سے منور ہوں اور اللہ کی محبت سے ان کے دل بھر جائیں.ہمارا بھی حق ہے.ہمیں کیوں بھول رہے ہیں؟ ہماری طرف کیوں نہیں آتے؟ یہ آواز جب میرے کان میں پڑی تو میں نے بہت دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ نے بڑے فضل کئے.ہر لمحہ ہی ہم اللہ کے فضلوں کا مشاہدہ کرتے تھے.گیمبیا میں اللہ تعالی کی طرف سے یہ اشارہ ہوا کہ اب وقت ہے کہ علاوہ ایک دوسری سکیم کے جو مغربی افریقہ میں براڈ کاسٹنگ سٹیشن لگانے کی ہے، جو کم از کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں پر خرچ کر دینا چاہئے.تا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو یہ ہی موجودہ نسل پالے.جب میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ اشارہ پایا تو مجھے کوئی فکر نہیں ہوئی کہ میں ایک لاکھ پونڈ کہاں سے لاؤں گا؟ میں غریب انسان تو ایک دھیلا بھی نہیں لا سکتا ، جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو لیکن میرے دل نے اس یقین کو پایا کہ جب اللہ تعالی یہ کہتا ہے کہ کم از کم ایک لاکھ پونڈ یہاں خرچ کرو 471

Page 489

خطاب فرمودہ 07 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم تو کم سے کم ایک لاکھ پونڈ مل جائے گا، فکر کرنے کی ضرورت نہیں.اور جس رنگ میں وہ خرچ کرنا ہے، اس کے لئے جس قسم کے آدمی چاہئیں ، وہ آدمی بھی میسر آجائیں گے.لیکن اس کے باوجود بھی دل میں ایک فکر پیدا ہوئی ہے، جس کا میں بعد میں ذکر کروں گا.جب ہم واپس لندن آئے، چند دن لندن ٹھہرے، پھر میں سپین گیا.سپین سے پھر واپس لندن آیا اور لندن میں چند دن ٹھہرا.پہلے میں نے خطبہ میں اپنے پیارے بھائیوں کو یہ بتایا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ منشا ظاہر کیا ہے کہ جماعت احمدیہ مغربی افریقہ میں مالی قربانیوں کے میدان میں کم سے کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کرنے کا انتظام کرے.اور میں اپنے بھائیوں سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ انگلستان کے احمدیوں میں سے دو سو احمدی ایسے آگے بڑھیں، جو فی کس دو سو پونڈ اس مد میں دیں، جس کا نام میں نے نصرت جہاں ریز روفنڈ رکھا ہے.اور اس کی امانت وہاں کھول دی گئی.اور دوسو آدمی ایسے ہونے چاہئیں، جو ایک سو پونڈ فی کس دیں.اور باقی جو دے سکیں ، وہ دیں.اور میں نے انہیں کہا کہ میری یہ خواہش ہے اور میں اطمینان قلب کے ساتھ یہاں سے جانا چاہتا ہوں.اس لئے میری یہ خواہش ہے کی انگلستان چھوڑنے سے قبل جو پندرہ دن کا وقفہ ہے، دس ہزار پونڈ اس امانت میں کیش جمع ہو جائے.آپ جانتے ہیں کہ ماضی قریب میں آپ میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی، انہوں نے فضل عمر فاؤنڈیشن میں بہت مال دیا اور قربانی دی.بہر حال ہر ایک کے حدود ہوتے ہیں، اس سے آگے نہیں جاسکتا.انہوں نے بھی اکیس ہزار پونڈ فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے جمع کئے تھے.چند ہزار کی وہ جماعت ہے.بہر حال جمعہ کے بعد پھر ایک گھنٹہ اتوار کو میں نے ان کود یا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فضل میں نے دیکھا، جس کے وہ احمدی وارث ہیں.ان پندرہ دن میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے چندہ سے دگنے وعدے یعنی چالیس ہزار سے اوپر کے وعدے ہو چکے تھے.اور میرا خیال ہے، پچاس ہزار تک وہ پہنچ جائیں گے.اور دس ہزار کی بجائے ساڑھے دس ہزار پونڈ نقد اس مد میں بنک میں جمع ہو گئے.پس فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے تین سال میں اکیس ہزار کی رقم جمع ہوئی اور اس اپیل میں پندرہ دن کے اندر اندر ساڑھے دس ہزار نقد ( جو بڑی جلدی پندرہ ہزار تک پہنچ جائے گا.) اور فضل عمر فاؤنڈیشن سے ڈیل ان کے وعدے ہو گئے.میں نے ان کو کہا کہ دیکھو کہ اللہ تعالی کا کتنا فضل ہے کہ تم نے قربانی دی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کم سے کم اس سے دگنی قربانی کی تم کو تو فیق عطا کر دی.لنڈن میں ، میں نے اپنے خطبہ میں کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ یہ روپیہ کیسے آئے گا ؟ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ یہ آئے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ خرچ ہو.اور خرچ تو تب ہی ہوگا ، جب خدا تعالیٰ 472

Page 490

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم روپے کا انتظام کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسی کی عطا ہے، گھر سے تو کچھ نہ لائے خطاب فرموده 07 جون 1970ء جو میرے اور آپ کے پاس ہے، وہ ہمارا اپنا کب ہے؟ وہ اس نے دیا ہے.اس لئے ہمارے پاس ہے.افریقہ میں بچوں نے عربی میں نظم پڑھی تھی.بڑی پیاری تھی.اس کا ایک شعر مجھے یاد ہے.یہ نظم ایک موقع پر سب بچوں نے مل کر گائی تھی.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.یا ابن ادم اے آدم کے بچو! المال، مالی جو تمہارے پاس مادی سامان اور مال ہیں، وہ میرا مال ہے، تمہارا نہیں ہے.والجنة، جنتی اور جس جنت کا میں وعدہ دے رہا ہوں، وہ بھی میری جنت ہے.وانتم عبادی اور تم میرے بندے ہو.میں تم سے یہ چاہتا ہوں اور یہ خواہش رکھتا ہوں کہ میری جنت کو میرے دیئے ہوئے مال سے تم خرید و.یہ بڑا احسان الہی ہے کہ آپ ہی ایک چیز ایک ہاتھ میں پکڑائی اور آپ ہی پھر اس کے ساتھ سودا کر لیا کہ یہاں آؤ، جنت خرید لو.مجھے یہ نظم بہت پیاری لگی.حقیقت یہی ہے کہ وہ انسان احمق ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ میرے پاس مال ہے، وہ تو میرا ہے.اور جو میں نے جنت خریدنی ہے، وہ اللہ کی ہے.مال بھی اللہ کا ہے، جنت بھی اللہ کی ہے اور بندہ بھی اللہ کا.اس کا فضل ہے کہ وہ بندے سے یہ کہتا ہے کہ یہ لو پیسے، یہ ہے سامان اور ان پیسوں سے جو میں تم کو دے رہا ہوں ، تم میری جنت کو خرید لو.میں نے انہیں کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ نہ مجھے یہ فکر ہے کہ جن تھیں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، وہ مجھے کہاں سے ملیں گے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بھیجو، وہاں اتنے ڈاکٹر، تو وہ جائیں گے.وہاں جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی فکر ہونی چاہئے ، وہ یہ ہے کہ محض قربانی خدا کے حضور پیش کر دینا ثمر آور نہیں ہوا کرتا.جب تک وہ قربانی اللہ کے حضور قبول نہ ہو جائے.اور بہت سی قربانیاں کسی اندرونی خبائث کی وجہ سے رد کر دی جاتی ہیں.پس دعا کرو اور میں بھی یہ دعا کرتا ہوں کہ اے ہمارے رب ! تیرا مال تیرے حضور ہم نے پیش کیا.تجھ پر ہمارا کوئی احسان نہیں.تیرا ہم پر احسان ہے کہ تو ایک عظیم بدلے کا ہم سے وعدہ کرتا ہے.ایسا نہ ہو کہ ہماری کسی اندرونی بیماری یا کمزوری یا غفلت یا تکبر وغیرہ جو ہیں ، ان کی وجہ سے ہماری یہ پیشکش قبول نہ ہو اور رد کر دی جائے.اے ہمارے رب ! ہماری اس حقیر پیشکش کو قبول کر اور اپنے وعدوں کے مطابق اپنے فضلوں اور اپنی رضا کا اور اپنے پیار کا ہم کو وارث بنا.میں نے دوستوں سے کہا کہ یہ دعا کرو.کیونکہ مجھے کوئی غم اور فکر نہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ آدمی کہاں سے آئیں گے؟ وہ تو ہو جائے گا.خدا کہتا ہے کہ ایسا کرو.وہ انتظام کرے گا.جو اس کا کام ہے، وہ کرے گا.لیکن اپنی خیر مناؤ.اور مجھے اپنی خیر منانے کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا! یہ حقیر کوششیں قبول فرما.473

Page 491

خطاب فرمودہ 07 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بڑا ہی پیارا نمونہ انگلستان کی جماعت نے دکھایا ہے.چند دنوں کے اندراندر اتنی بڑی رقم کیش جمع ہوگئی کہ ایک شخص مجھ سے پوچھنے لگا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں، میں بنک سے over drow لے کر دوسو پونڈ ادا کر دوں.کیونکہ اس نے دوسو پونڈ کا وعدہ کیا تھا.میں نے کہا کہ نہیں قرض تم لو گے تو ایک بوجھ تمہاری طبیعت پر ہو گا.شیطان وسوسہ بھی ڈالتا ہے اور میں اس چیز کو پسند نہیں کرتا.میں نے اسے سمجھایا اور وہ چلا گیا.دو دن کے بعد میرے پاس آیا اور کہنے لگا، میں نے سوچا کہ میں اپنی دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بنک سے ایڈوانس لے لیتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے میں کیوں ایڈوانس نہ لوں؟ اس لئے میں نے بنگ سے ایڈوانس لے کر وعدہ ادا کر دیا ہے.پس اس قسم کے فدائی ہماری جماعت میں ہیں.یہاں بھی ہیں اور وہاں بھی.یہاں پر بھی میں نے یہ تحریک کرنی ہے.پہلے میرا خیال تھا کہ ربوہ میں یہ تحریک کروں گا.لیکن پھر مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ یہاں بہت سے باہر کے دوست بھی جمع ہیں.امراء صاحبان بھی اور دوسرے نمائندے بھی ، اگر وہاں تحریک ہوئی تو ممکن ہے کہ الفضل دیر بعد پہنچے.پاکستان کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو سکیم میرے ذہن میں مخلصين ڈالی ہے، وہ یہ ہے کہ میں پاکستان کے احمدیوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ ان میں سے دوسو ایسے مخل نکلیں گے، جو کم از کم پانچ ہزار روپیہ فی کس نصرت جہاں ریزروفنڈ کے لئے پیش کریں گے.اور اس میں سے دو ہزار کی رقم ایک، دوماہ کے اندر اندر وہ داخل کرا دیں گے، خزانہ کی مد میں.اور باقی تین ہزار روپیہ اگر چاہیں تو تین قسطوں میں اور اگر چاہیں تو دوسرے اور تیسرے سال یعنی تین سال کے اندر اندر وہ جمع کر دیں گے.اس کے علاوہ دو سوایسے مخلصین چاہئیں (پہلا وعدہ میاں عباس احمد خان نے لندن میں ہی کر دیا تھا.میں اس وقت وعدے نوٹ نہیں کروں گا، لکھ کر بھجوا دیں.) جو دو ہزار روپیہ دیں.جس میں سے وہ ایک ہزار روپیہ دو ماہ کے اندر اندر ادا کر دیں.اور بقیہ ایک ہزار تین سال کے اندر مناسب مقسطوں میں ادا کر دیں.یہ چودہ لاکھ رپے کی رقم بن جاتی ہے.یعنی گیارہ روپے کے حساب سے جو ہمارا ریٹ ہے، سوا لاکھ پونڈ کے قریب.اگر کوئی چاہے تو پانچ ہزار کی بجائے تمیں ہزار بھی دے سکتا ہے.پھر ایک ہزار آدمی احمدیوں میں سے مخلصین میں سے ایسا چاہئے ، جو کم سے کم پانچ صد روپیہ فی کس دیں.( یعنی پانچ سو سے دو ہزار تک.دو ہزار سے اوپر والے وہ دوسری فہرست میں آجائیں گے.) جس میں سے دوسور پیہ نقد ادا کریں.جس کا مطلب یہ ہے کہ دوماہ کے اندر.کیونکہ میری آواز پہنچنے میں وقت لگے گا.جواب آنے میں وقت لگے گا.اس لئے میں دوماہ رکھ رہا ہوں.(جس وقت میں فوری کہوں، میرا مطلب ہے، دوماہ کے 474

Page 492

تحریک جدید - ایک الی تحریک...جلد چہارم - خطاب فرموده 07 جون 1970ء اندراندر ) پانچ سو میں سے کم از کم دو سوفوری ادا کر دیں اور بقیہ اسی طرح تین سال کے اندر.اس طرح میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریباً دولاکھ پونڈ کی رقم پاکستان سے جمع ہو جائے گی.امریکہ کے لئے میں نے تیس ہزار ڈالر مقرر کر کے وہاں ان کو اطلاع بھی دے دی ہے.continent ( کانٹیٹ) سے بڑی اچھی response ( ریسپانس) آئی ہے.ہماری چھوٹی سے جماعت ہے، ڈنمارک کی.انیس سو پونڈ کے وعدے اس چھوٹی سی جماعت کی طرف سے مجھے مل چکے ہیں.اس طرح دوسری جماعتیں رشک بھی کر رہی ہیں، انگلستان پر اور فکر بھی کر رہی ہیں، اپنی جانوں کا.یہ رقمیں وہاں بھی جمع ہوں گی.اس وقت ہمارے لئے پاکستان سے روپیہ باہر بھیجنا تو ممکن نہیں.لیکن حکومت کی اجازت سے ہم کتب باہر بھجوا سکتے ہیں ، اس مد میں سے.میں نے مغربی افریقہ جانے سے پہلے غالبا ذ کر کیا تھا، پریس کی تحریک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی ، بہت بڑے پریس کی.وہ خط و کتابت ہماری جاری ہے.ایک بہت بڑی فرم انگلستان میں بہت اچھے پریس یا پریس کے بعض حصے بنا رہی ہے.میرا خیال ہوا کہ میں خود سے دیکھوں.ان سے وقت مقرر کیا، وہاں چلے گئے.تو ان کا مینجنگ ڈائریکٹر اور ایکسپورٹ کے محکمے کا انچارچ دونوں آ گئے اور ان سے گفتگو ہوئی.وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ اتنا بڑا اپر یس تم نے کیا کرنا ہے؟ میں نے کہا کہ ہماری خواہش یہ ہے کہ ساری دنیا میں قرآن کریم کی کاپیاں flood (فلڈ ) کر دیں، ہر جگہ ہم پہنچا دیں.یہ ہمارا مقصد ہے.وہ چونکہ عیسائی تھا، اس کا منہ سرخ ہو گیا.لیکن وہ بات تو ادب سے کر رہا تھا.ہمیں کسی سے ڈرنے کی ضرروت نہیں، نہ چھپانے کی ضرورت ہے.ہمارا مقصد ساری دنیا کو فتح کرنا ہے.اور فتح ہم کر نہیں سکتے ، جب تک ہم اس قرآن کریم کی عظمت اور اس کے نور کو ان کے سامنے پیش نہ کر دیں.ہماری طرف سے غفلت ہو رہی ہے.غرض کتب یہاں شائع ہوں گی ، پھر یہ بھی ہے کہ فارن ایکھینچ کی ایک جیسی حالت نہیں رہتی ، کسی وقت اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد کے لئے اس حکومت کے فارن ایکسچینج کی پوزیشن اتنی اچھی کر دے گا کہ حکومت کہے گی کہ قرآن کریم کی اشاعت کے لئے جتنا چاہو باہر روپیہ لے جاؤ اور وہاں بناؤ ، ہسپتال اور سکول.میں افریقہ کے ان ممالک سے جو فوری وعدہ کر کے آیا ہوں ، وہ قریباً 30.25 ہسپتال کھولنے کا ہے.جس کو ہم میڈیکل سنٹر یا ہیلتھ سنٹر کہتے ہیں.اور قریباً ستر ، اسی ہائی اسکول ان ممالک میں بنانے ہیں.پس مجھے رضا کاروں کی فکر نہیں ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اخلاص دیا ہے اور اخلاص کے ساتھ خلافت کی نعمت بھی دی ہے.لندن کے احمدی ڈاکٹروں کو جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، میں نے کہا 475

Page 493

خطاب فرمودہ 07 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دیکھو! خدمت اسلام کے لئے یا تو رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرو، ورنہ میں تمہیں حکم دوں گا.اور وہ تم کو ماننا پڑے گا.اس لئے اپنے ثواب کو کیوں کم کرتے ہو؟ چنانچہ انہوں نے نام پیش کرنے شروع کر دیئے.اور وہ FRCP ایف آرسی پی یعنی وہ نوجوان ڈاکٹر ، جو اپنے ملک میں واپس آکر اپنی قوم کی خدمت کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں.لیکن میں اس کو اچھا نہیں سمجھتا.ان کو بہر حال یہاں آ کر خدمت کرنی چاہئے.اگر اس سے زیادہ اچھا موقع نہ ہو تو میرے نزدیک اور آپ کے نزدیک بھی اشاعت اسلام کے لئے جہاں بھی خدمت کا موقع ملے ، وہ نمبر ایک ہے اور قوم کی خدمت نمبر دوم ہے.کیونکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو دنیا میں پھیلانا اور آپ کے نور سے دنیا کے سینوں کو منور کرنا، یہ بہر حال اہم ہے، ایک عام خدمت سے، جو ایک انسان اپنے ملک کی کر رہا ہوتا ہے.ان کے کئی نام رضا کارانہ طور پر خدمات بجالانے کے لئے مجھے وہاں مل گئے تھے.ان میں سے کئی تو 500 سے ہزار پونڈ ماہانہ کمارہے ہیں.میں نے ان سے کہا تھا کہ مجھے ضرورت پڑی تو تمہیں یہ کام چھوڑنا پڑے گا اور خدمت کے لئے آنا پڑے گا.افریقہ کا یہ حال ہے، سارے گیمبیا میں ایک بھی Eye Specialist (آئی اسپیشلسٹ) نہیں ہے.اگر کسی نے آنکھ ٹیسٹ کروانی ہو تو اسے سینیگال جانا پڑتا ہے.پھر عینک بنوانی ہو تو لندن خط لکھنا پڑتا ہے.یہاں جو عینک دس، بارہ روپے میں مل جاتی ہے، وہاں بیچارے غریب آدمی کو پانچ پونڈ خرچ کرنے پڑتے ہیں.اور اسے کئی مہینے انتظار بھی کرنا پڑتا ہے.غرض سارے ملک میں ایک بھی آئی اسپیشلسٹ نہیں ہے.میں نے ان کی حکومت کو کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہمارے بڑے اچھے ڈاکٹرز ہیں، میں ان میں سے کسی کو کہوں گا کہ وہ تمہارے ملک میں آجائے.تو وہ بڑے خوش ہوئے.اسی طرح سارے ملک میں کوئی ڈینٹسٹ نہیں ہے.جس بیچارے کا دانت ٹوٹ جائے ، مرتے دم تک ٹوٹا ہی رہتا ہے، عارضی انتظام نہیں ہو سکتا.ٹی بی کی مرض عام ہے اور صرف باتھرسٹ کے ہسپتال میں ایک ڈاکٹر اور ایک ٹی بی یونٹ ہے.اور وہ غیر ملکی ہے اور بارہ مہینے میں سے چھ مہینے ملک سے باہر رہتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ چھ مہینے ٹی بی کا علاج کرنے والا وہاں کوئی نہیں ہوتا.میں نے ان کو کہا کہ تم ہمارے ساتھ دو باتوں میں تعاون کرو.ایک ہمیں زمین دو، کیونکہ زمین ہم باہر سے نہیں لا سکتے.یہ تمہیں دینی پڑے گی اور دوسرے آدمیوں کی پرمٹ دو.کیونکہ اس کے بغیر وہ نہیں آسکتے.چنانچہ وہ بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ زمین دیں گے.لائبیریا میں پریذیڈنٹ ٹب میں نے سوایکٹر زمین دینے کا وعدہ کیا ہے.وہاں دو دفعہ وہ اپنے محکموں کو میری اطلاع کے مطابق کہہ چکے ہیں کہ جلدی ان کے لئے انتظام کیا جائے.وہاں تو سوا سیکٹر میں 476

Page 494

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطاب فرموده 07 جون 1970ء اسکول اور میڈیکل سنٹر وغیرہ بن جائیں گے.گیمبیا والوں کو میں نے کہا تھا سپیشلسٹس سنٹر باتھرسٹ کے علاوہ چار نئے طبی مراکز بھی انشاء اللہ کھول دوں گا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی توفیق دے.اور یہ کہ آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں.انشاء اللہ وہ تعاون کریں گے.پس ساٹھ ، ستر سکول اور میں میڈیکل سنٹر، یہ دراصل ایک، دو سال کے اندر کھل جانے چاہئیں.بعض اس کے ایسے خوشکن پہلو ہیں، جن کو میں اس وقت بیان نہیں کرنا چاہتا ، دیر ہو جائے گی.پھر وہ کسی وقت جماعت کے سامنے آجائیں گے.اس کے لئے ابتدا بہر حال روپیہ چاہئے.جب ہم میڈیکل سنٹر کھولیں گے، یہاں سے ڈاکٹر بھیجیں گے تو کرایہ دیں گے، جس پر کافی رقم خرچ ہوگی.ان سے میرا یہی وعدہ نہیں کہ آئی اسپیشلسٹ آئے گا.بلکہ وعدہ یہ ہے کہ آئی اسپیشلسٹ ان تمام اوزاروں کے ساتھ آئے گا، جن کی ایک آئی اسپیشلسٹ کو ضرورت ہوتی ہے.میرا ان سے یہ وعدہ نہیں کہ ایک اچھاڈینٹسٹ آئے گا.بلکہ ایک ایسا اچھاڈینٹسٹ آئے گا، جس کے پاس ہر وہ سامان ہو گا، جو ایک ڈینٹسٹ کے لئے ضروری ہوتا ہے.وہ ڈینجر بھی بنائے گا اور ہر قسم کی خدمت کرے گا.جو آئی اسپیشلسٹ ہے، اس کا ایک محکمہ دکانداری کا ہوگا، جس میں وہ عینکیں بنائے گا.کیونکہ خالی نسخہ لکھ دینا کافی نہیں.اس سے تو صرف دس فیصد ان کو سہولت ملتی ہے، اس سے زیادہ نہیں ملتی.جو ٹی بی کا ماہر معالج آئے گا.میں نے کہا ہے کہ بہترین up to date ڈیٹ) ایکسرے پلانٹ بھیجیں گے.لیبارٹری کو Equipment (اکویپمنٹ ) کریں گے.سارا بوجھ ہم برداشت کریں گے اور عمارت بنائیں گے.پس ہمیں زمین دو اور انٹری پرمٹ دو.ممکن ہے، مخالفت کی وجہ سے شروع میں روکیں بھی پیدا ہوں.کیونکہ میرے آنے کے بعد جیسا کہ ہونا ضروری تھا ، بعض طبقوں نے بڑی شدت سے مخالفت شروع کر دی ہے.اور میں بہت خوش ہی ہوں.جتنا انہیں غصہ آ رہا ہے، اتنا ہی میں خوش ہوں.ایک تو اللہ تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے، ایک حقیقی مسلمان کے لئے کہ جو اس کا مخالف ہوتا ہے، اس کو خدا کہتا ہے.مُوْتُوْا بِغَيْظِكُم کہ جلومرو.پس معاندان اسلام جتنا جلیں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ ہماری مددکرے گا.اس.زیادہ جلیں گے اور اپنے لئے ایک نہایت ہی گندا چکر قائم کرلیں گے.سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں صرف یہ وعدہ نہیں دیا کہ آگ کے متعلق دنیا یہ نظارہ دیکھے گی کہ وہ جماعت احمدیہ کی غلام ہے.صرف یہی وعدہ نہیں.بلکہ یہ وعدہ دیا ہے کہ آگ ہمارے 477

Page 495

خطاب فرمودہ 07 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم لئے جلائی جائے گی تاکہ ہمیں ہلاک کر دیا جائے.ایک تو ہم سے کہا گیا ہے کہ تمہارا مخالف تمہیں ہلاک کرنے کے لئے آگ جلائے گا.اور دوسرا وعدہ یہ ہے کہ یہ آگ تمہیں ہلاک نہیں کرے گی.بلکہ اس میں سے نہایت خوشبو دار اور نہایت حسین پھول نکلیں گے، جو تمہاری فتح اور کامرانی پر نچھاور ہوں گے.اور اس الہام میں یہ دو وعدے ہیں ، ایک وعدہ نہیں ہے.پس جب آگ ہی نہیں ہوگی تو اس آگ کے پھول ہمیں کیسے ملیں گے؟ وہ آگ، جو ہمارے لئے پھول بنادی جائے گی اور برداً اور سلاماً بنادی جائے گی ، وہ ٹھنڈک ہم کہاں سے حاصل کریں گے؟ ہم خد تعالی کے فضل اور سلامتی کے نظارے کہاں سے دیکھیں گے؟ اگر وہ آگ نہ جلائی گئی.غرض کامیابی اور فتح اور نصرت کے نظاروں کا انحصار اس وعدے کے پہلے حصہ پر ہے کہ مخالفت ہوگی اور وہ آگ کی شکل اختیار کرلے گی.دنیا یہ سمجھے گی کہ احمدیوں کو جلا کر خاک کر دیا گیا ہے.اور فرشتے ان کے اس خیال میں نہیں گے اور درود بھیجیں گے، ان احمدیوں پر ، جو خدا تعالیٰ کی محبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی بلندی اور عظمت کے لئے دیوانہ وار اس آگ میں کو دجائیں گے.اور پھر دنیا یہ نظارہ دیکھے گی، آگ ان کو نہیں جلا سکتی.آگ تو ان کی غلام اور ان کے غلاموں کی بھی غلام ہے.یہ وعدہ تو پورا ہونا ہے.ہمارے آنے کے بعد لندن میں خطوط آئے کہ وہاں مخالفت بڑے زوروں پر ہے.اور ان خطوط کو پڑھ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ آئی ، گھبراہٹ نہیں پیدا ہوئی.میں بھی خوش ہوں اور آپ بھی خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے وعدے کا پہلا حصہ پورا کر دیا تو جو اس کا دوسرا حصہ ہے، وہ بھی ضرور پورا کرے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ایسے عمل کر سکیں ، جس سے وہ راضی ہو.وہاں ایک طبقہ کی مخالفت کے باوجود میں نے بے حد پیار دیکھا.میں نے ایک دن میں پچاس ہزار سے زیادہ مسکراہٹیں ، غیروں سے، عیسائیوں اور بدمذہبوں سے حاصل کیں تھیں.پچاس ہزار سے زیادہ مسکراہٹیں.شام کو میرے اپنے جبڑے دکھنے لگ گئے تھے، مسکرا مسکرا کر.اور اگلے دن ( ہیڈ آف دی سٹیٹ ) گون سے، جو بڑا اچھا آدمی ہے، کہا تمہاری قوم مجھے بڑی پسند آئی ہے.کل میں نے پچاس ہزار سے زیادہ مسکراہٹیں تمہاری قوم سے لیں ہیں.وہ بھی بڑا خوش ہوا.ایسے پیارے وہ لوگ ہیں.عیسائی اپنے طریق کے مطابق ہمیں دیکھ کرنا چنا شروع کر دیتے اور ان کے ناچنے سے پتہ چلتا تھا کہ یہ مسلمان نہیں، عیسائی ہیں.ایک تو پہلے چیخ مارتے تھے، پھر اس کے بعد ناچتے تھے.لیکن ان کے دل میں خوشی کا احساس کیوں پیدا ہوا اور کس نے پیدا کیا؟ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے آئے.478

Page 496

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطاب فرموده 07 جون 1970ء میرے ساتھ نہ جان پہچان ، میرا امذہب مختلف، میرا دعویٰ یہ کہ تمہارے مذہب پر ہم نے غالب آنا ہے، اپنے سچائی کے نور سے اور محبت اور برہان کی پختگی کے ساتھ اور وہی لوگ ہیں، جن کو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تم پر غالب آتا ہے، ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں خوش ہونا چاہئے.سوائے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کے کس نے یہ احساس پیدا کیا کہ ان کو خوش ہونا چاہئے ؟ پس اللہ تعالیٰ کے فرشتے تو اپنا کام کر رہے ہیں.ہمیں اپنا کام کرنا چاہئے.حالت ان کی یہ ہے کہ قریبا بارہ سال کا ایک بچہ لائبیریا میں، امین اللہ سالک صاحب، جو ہمارے مشنری ہیں، ان کے ہاں کام کرتا ہے.ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ کہنے لگا ، جان یا جانسن.کچھ اس قسم کا نام تھا.میں نے کہا کہ تمہارا یہ نام نہیں ہے، آج سے تمہارا نام جمیل ناصر ہے.اور تم مسلمان ہو.میں نے اسے اتنا کہا اور وہ گھر چلا گیا.چنانچہ امین اللہ سالک نے بتایا کہ وہاں جا کر ہمارے گھر اس نے خوشی سے کہا کہ آج سے میرا نام جمیل ناصر ہے اور میں مسلمان ہوں.پس ان کی یہ حالت ہے.عیسائیت کا لیبل لگا ہوا ہے، ان کے اوپر.عیسائیت کا کوئی اثر نہیں اور اسلام کو قبول کرنے کے لئے وہ تیار ہیں.کئی ایک کو میں نے کہا کہ مسلمان ہو جاؤ ، احمدی ہو جاؤ تو جواب دیا کہ ٹھیک ہے.ہم احمدی ہو جاتے ہیں.صرف ایک فقرہ کہنے سے بعض لوگ پڑھے لکھے تھے، انہوں نے پہلے سٹڈی کی ہوئی تھی.مگر جماعت میں داخل ہونے سے ڈرتے تھے.گیمبیا میں جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے.دوسرے دن ہی وہ نوجوان، جو ہمارے کمروں میں کام کرتا تھا، اس نے ہمارے ساتھیوں سے کہنا شروع کیا کہ میرے لئے دعا کے لئے کہیں.ایک دن میں نے ان سے باتیں کیں کہ تم سارے پندرہ سولہ ہو ، سر جوڑ ومشورہ کرو اور سارے اکٹھے فیصلہ کر کے احمدیت میں داخل ہو جاؤ.کہنے لگے Yes sir (ٹھیک ہے، جناب) پس وہ اس قسم کے لوگ ہیں.اگر آج ہم جائیں ،صداقت ان کے سامنے رکھیں، وہ صداقت قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.لیکن صداقت ان کے سامنے رکھنا اور یہ کوشش کرنا کہ وہ اس نور سے منور ہوں، یہ کام ان کا نہیں اور نہ وہ کر سکتے ہیں.یہ ہمارا کام ہے، ہمیں کرنا چاہئے.اس کے لئے جتنا پیسہ خرچ ہو، وہ ہمیں مہیا کرنا چاہئے.جتنے آدمیوں کی ضرورت ہے، وہ ہمیں مہیا کرنے چاہئیں.ایک اور بات میں بیچ میں لا رہا ہوں.محبت کے اس قدر پیاسے ہیں کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے.اور اتنا اثر کرتی ہے، محبت ان کے اوپر کہ دنیا کی کوئی اور چیز ان پر اتنا اثر نہیں پیدا کرسکتی.میرے دل 479

Page 497

خطاب فرمودہ 07 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم کو تو ویسے ہی اللہ تعالیٰ نے محبت کرنے والا بنایا ہے.اور پانچ پانچ ، سات سات سال کی عمر کے چھوٹے چھوٹے بچوں سے مجھے بڑا انس ہے.چنانچہ میں تو اپنی اس دلی کیفیت کے مطابق ان بچوں کو بھی پیار کرتا رہا ہوں.لیکن جب میں نے پہلی مرتبہ ایک افریقن بچے کو اپنی گود میں اٹھایا اور میں نے اس کو پیار کیا تو مجھے اس عمل پر ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑا.لیکن میں نے دیکھا کہ سارے مجمع پر اتنا اچھا اثر ہوا کہ خوشی سے وہ اچھل پڑے اور وہ حیران تھے کہ کیا ہمارے بچے بھی اس قابل ہیں کہ ان سے پیار کیا جائے؟ کئی سو سال ان پر ظلم ہوا ہے اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے.اور یہ ان کے جذبات ہیں.پس وہ پیار کے بھوکے ہیں.پیار کے بھوکے بھی ہیں اور پیار کے حق دار بھی ہیں.ان کا حق ان کو دو.تاکہ ان کی پیاس مجھے سینکڑوں (اگر ہزاروں نہیں ) بچوں کو اٹھایا، ان سے پیار کیا.اس کا بے حد اثر ہوا.کل زمبیا کے ایک وزیر اور زمبیا کے ہائی کمشنر اس کمرے میں تھے، جہاں ہم جہاز کا انتظار کر رہے تھے.وہ کامن ویلتھ کی ایک کانفرنس کو attend (اٹینڈ ) کرنے کے لئے آئے تھے.ان کے ساتھ دس سال کی عمر کا ایک بچہ تھا.وہاں ایک احمدی کو خیال آیا، اس نے پونڈ کا ایک نوٹ نکالا اور میرے پاس آیا کہ اس پر دستخط کر دیں، میں اپنے پاس نشانی رکھوں گا.اس کے بعد دوسرا آیا، پندرہ، ہیں احمدی تھے، بہتوں نے دستخط کروائے.وہ بشی بچہ ایک طرف بیٹھا ہوا تھا.اس کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوئی (یا) اس کے بڑوں کے دل میں خواہش پیدا ہوئی) اچانک میں نے نظر اٹھا کر دیکھا کہ ایک نوٹ میرے سامنے آیا اور وہ حبشی بچے کا تھا.نہ ہمیں جانے ، نہ پہچانے ، وہ گیا کہ دستخط کر دیں.وہ نوٹ تو میں نے اس کو واپس کر دیا اور اپنی جیب سے پانچ پونڈ کا ایک نوٹ نکالا اور اس پر میں نے دستخط کئے اور اس کو دے دیا.یہ تو معمولی چیز ہے.لیکن میں کھڑا ہوا، میں نے بڑی شفقت کے ساتھ اسے پیار کیا.اچانک میری نظر پڑی تو اس کا باپ، ہائی کمشنر اور وزیر میرے کھڑے ہونے کے ساتھ ہی کھڑے ہوئے.اور اتنے ممنون اس پیار کے کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے.اپنے ملک کا وہ وزیر اپنی طاقت اور وجاہت کے باوجود، جو اس کو اپنے ملک میں اللہ تعالیٰ نے دی ہوئی ہے، لیکن میں نے محسوس کیا کہ اس کو کہیں سے پیار نہیں ملا.وزارت مل گئی اور دنیوی عزتیں مل گئیں لیکن پیار نہیں ملا.چنانچہ وہ ایک بچے کو پیار کرنے سے اتنے متاثر ہوئے کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے.ان کا تو حال دیکھنے والا ہوتا تھا، جب میں ان کو گلے لگا لیتا تھا.( بعض اچھا کام کرنے والے ہوتے تھے، ان سے میں پیار کرتا تھا.) یہاں بڑا غلط خیال ہے کہ حبشی کے جسم سے بو آتی ہے.میرا خیال ہے کہ میں نے وہاں کئی ہزار معاقے کئے ہیں اور سوائے ایک یا دو آدمیوں کے قطعاً کوئی بو نہیں آئی.وہ بڑے صاف لوگ ہیں.صاف 480

Page 498

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطاب فرموده 07 جون 1970ء ستھرے کپڑے پہنتے ہیں اور پاکستانیوں کے لئے ایک نمونہ ہے.میں نے کسی جگہ پانی نہیں دیکھا، جہاں کپڑے دھونے والے افریقن نہ ہوں.وہ ہر وقت کپڑے دھوتے ہوئے نظر آئے ہیں.میں نے پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ لوگ دن میں تین دفعہ نہاتے ہیں.اور دن میں دو، چار دفعہ جسے بدلتے ہوئے ، میں نے خود دیکھا ہے.جب وہ جبہ بدلتے تھے تو ساتھ ہی ان کی شکلیں بدل جاتی تھیں.پتہ نہیں لگتا تھا کہ یہ وہی ہے کہ جس نے پہلے ایک اور رنگ کا جبہ پہنا ہوتا تھا.پس بہت صاف ستھرے لوگ ہیں.لیکن وہ پیاس جو ہے، ان کے دل میں وہ سوائے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی اور بجھا نہیں سکتا.اور ہم آپ کے غلام بلکہ غلاموں کے بھی غلام ہیں.یہ فرض خدا تعالیٰ نے ہمیں سونپا ہے کہ ہم ان کو پیار کریں اور ان کی پیاس کو بجھائیں.عیسائی اور بد مذہب اس بات کا اظہار کرتے تھے.وہاں میرے پاس سینکڑوں میلوں سے بڑے بڑے وجاہت والے اور پیسے والے افریقن بھی آئے ہیں کہ دعا کریں.دعا ان کو کہیں نہیں ملتی.دعا بھی پیاس کا نتیجہ ہے.ان کو یہ احساس ہے کہ یہاں سے ہمیں پیار بھی ملے گا اور دعا بھی اور پھر یہ کہ یہ ہمدرد ہیں.میں سوچتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے یہ باغ لگایا، آپ کو اپنی زندگی میں یہ خواہش تھی کہ آپ وہاں جائیں اور دیکھیں کہ کیسے پھل لگ رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق دیتا لیکن حکمت الہی نے ایسا مقدر نہیں کیا.اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر شروع میں ہم چلے جاتے تو ہماری بات پر اعتبار نہ کرتے.اب پچاس سالہ خدمت کے بعد میں دھڑلے سے انہیں کہتا تھا اور وہ مانتے تھے اور پہلے ہی وہ سمجھتے تھے.اور اس بات کا وہاں بڑا اثر ہے.ایک عیسائی کو میں نے مثلاً یہ کہا وہی بات میں اوروں کو بھی کہتا تھا.میں نے کہا کہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جب عیسائیت یہاں پر آئی تو پیغام یہی لے کر آئی تھی کہ ہمارا message ( مسیج ) message of love ( میسج آف لو) ہے.لیکن پادریوں کے پیچھے یورپی اقوام کی فوجیں تھیں.اور تم نے جو اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کیا ، وہ یہ تھا کہ اس message of love نے سوائے اس جسے کے کچھ نہیں دیا، جس نے اپنے اندر توار کو چھپایا ہوا ہے.اور تمہیں حقارت سے دیکھا تمہارے اموال لوٹ کر لے گئے.میں نے گوون کو بھی کہا کہ میں نے تمہاری تاریخ اور تمہارے حالات سے متاثر ہو کر ایک دوست سے یہ کہا ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیا تھا مگر سب کچھ تم سے چھین لیا گیا.تمہارے لئے ان لوگوں نے کچھ نہیں چھوڑا.لیکن ان کو میں نے کہا، پچاس سال سے ہم تمہارے ملک میں ہیں اور تم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ تمہارے ملک سے ایک دھیلہ بھی ہم باہر لے کر نہیں گئے.تمہاری دولت کی ہمیں حرص نہیں ہے، تمہاری محبت سے مجبور ہو کر ہم یہاں آئے ہیں.اور تمہاری سیاست میں ہم حصہ نہیں لیتے.ہم ان ملکوں میں سیاسی اقتدار نہیں چاہتے ، ہم تمہاری خدمت کرنا 481

Page 499

خطاب فرمودہ 07 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم چاہتے ہیں.ہم تو تمہارے دلوں کو جیتنا چاہتے ہیں اور دل پیار سے ہی جیتے جاسکتے ہیں، طاقت سے نہیں جیتے جاسکتے.طاقت دل میں نہ تبدیلی پیدا کرسکتی ہے، نہ دل کو جیت سکتی ہے.زبان سے کہلوا سکتی ہے لاکھوں آدمیوں کو تباہ کرسکتی ہے.مجھے دو امریکن ملے.میں نے ان سے کہا کہ انسانیت سے تمہیں کوئی پیار نہیں.کہنے لگے کیسے؟ میں نے کہا کہ تم نے بلین در بلین ڈالر خرچ کر کے جو چیز تیار کی ہے، وہ انسان کو ہلاک کرنے کے لئے کی ہے.اے بم سے اب ایچ بم ہو گئے ہیں.عجیب بات ہے کہ انسان انسان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتارہا ہے، قوم قوم کی تحقیر کر رہی ہے.وہ پڑھے لکھے تو ہیں، میں نے نہ روس کا نام لیا، نہ امریکہ کا.ویسے ہی عام بات کی تھی کہ دنیا کی اقوام یہ کر رہی ہیں.چنانچہ انہوں نے آگے سے مجھے جواب یہ دیا کہ اب ہماری روس کے ساتھ Under standing (انڈرسٹینڈنگ ) ہو رہی ہے یا ہوگئی ہے.تو میں نے کہا but out of fearnox out of love تم نے مجبور ہو کر خوف کی وجہ سے یہ انڈرسٹینڈنگ کی ہے، محبت کے نتیجہ میں تو یہ بات نہیں ہوئی.ان میں سے ایک کھسیانا ہو کر کہنے لگا، بہر حال ایک قدم صحیح راستے کی طرف اٹھا ہے.میں نے کہا کہ یہ مان لیتا ہوں مگر انسانیت سے محبت نہیں.اسلام نے ہمیں انسان سے محبت کرنا سکھایا ہے.محبت کا لفظ عربی معنی میں، میں استعمال نہیں کر رہا.وہاں وہ لفظ ہم استعمال نہیں کرتے.کیونکہ عربی میں جب محبت کا لفظ بولا جائے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ محبوب کی نقل کرنی ہے.پس جو بد اخلاقیوں میں گرے ہوئے، انسان ہیں، ان کی ہم نے نقل تو نہیں کرنی.لیکن اردو میں اس معنی میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا اور میں اردو میں ہی استعمال کر رہا ہوں.پس انسان سے محبت کرنا سکھائی، مساوات سکھائی ، کتنا عظیم سبق دیا ہے.میں نے جب اکثر بڑے مجمع میں جس میں بہت سارے دوسرے لوگ بھی شامل ہوتے تھے ، ان کو میں نے کہا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مساوات کی تعلیم نہیں دی.بلکہ ایک حسین رنگ میں اس پر عمل بھی کیا اور افریقہ میں ایک افریقن کی مثال دیتا ہوں کہ آپ کی زندگی میں ایک افریقن تھا.مکہ میں رہا کرتا تھا، مکہ کے جو چیفس تھے، ان کا وہ غلام تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے اسے نور ہدایت دکھا دیا، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا.وہ پہلے اسے صرف حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اس کے اسلام لانے کے بعد ان حقارت اور نفرت اور بڑھ گئی.جو ظلم انہوں نے اس پر ڈھائے ، اس کے تصور سے آج بھی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.پھر ایک مسلمان نے اس کو خرید کر آزاد کرایا.اور اس طرح وہ انسان کی برادری میں آکر شامل ہو گیا.سرداران 482

Page 500

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطاب فرموده 07 جون 1970ء یکہ میں سے جو مسلمان ہوئے تھے، (بڑے بڑے سردار بھی مسلمان ہوئے ہیں، اگر چہ ان کی تعداد کم تھی.وہ ان کے برا بر بن گیا.پھر فتح مکہ کے روز حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جھنڈا تیار کیا.اور اس جھنڈے کا نام آپ نے بلال کا جھنڈا رکھا.پھر ایک جگہ اسے نصب کرایا.پھر سرداران مکہ کو یہ کہا کہ یہ اس غلام کا جھنڈا ہے، جس کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور جس پر تم ظلم ڈھایا کرتے تھے.آج اگر پناہ چاہتے ہو تو اس جھنڈے کے نیچے آجاؤ.چنانچہ یہ چیز ایسی نہیں کہ جو صرف مسلمان پر اثر کرنے والی ہو.ہر افریقین پر اس نے اثر کیا اور کرنا چاہئے تھا.میں تو ایک عاجز انسان ہوں، یہ تو درست ہے، ان کی نگاہ تو مجھے دیکھ رہی تھی، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم تر روحانی فرزند کے نائب اور خلیفہ کو، میری بڑی قدر کرتے تھے ، ان کی نگاہ میں میری بڑی عزت تھی.ویسے جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ( خدا تعالیٰ کبر غرور سے محفوظ رکھے.) میں تو بڑا ہی عاجز انسان ہوں.بہر حال جس نگاہ سے وہ دیکھ رہے تھے، ان کی طبیعت پر یہ اثر ہوتا تھا کہ جس شخص کی عزت اتنی ہماری نگاہ میں قائم کی ہے، وہ اپنے میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں کرتا.کہیں معاشقے ہورہے ہیں کہیں پیار ہورہے ہیں، کہیں کسی اور رنگ میں محبت کا اظہار ہو رہا ہے.نہایت ہی حسین معاشرہ اس چھوٹے سے ماحول میں پیدا ہورہا ہے.اور یہ چیز سوائے احمدیت کے کہیں اور پیدا نہیں ہو سکتی.اور اگر یہ سوائے احمدیت کے کسی جگہ نہیں مل سکتی تو کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے کہ جن سے ان کو یہ چیز مل سکتی ہے اور ان کی ضرورت پوری ہوتی ہے اور پیاس بجھتی ہے، آپ انہیں یہ چیز دے سکتے ہیں.اور آپ دیتے نہیں.تو اس کی وہی مثال ہو جائے گی ، گو تھوڑ اسا فرق ہے کہ ایک بزرگ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے سے پہلے خانہ کعبہ کے اندر ایک رویا دیکھی، جس کی تعبیر انہیں سمجھ میں نہ آئی.جب وہ حج سے واپس آئے تو انہوں نے اپنے پیر کو لکھا کہ اس طرح میں نے یہ رویا دیکھی ہے اور میں بہت گھبرارہا ہوں.رویا ہے تعبیر طلب اور بچی.سچی خواب کے متعلق یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اس کی تعبیر کی جاتی ہے.اس لئے آپ مجھے تعبیر بتائیں؟ میں بے چین ہوں.اس خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ایک چار پائی ہے، جس پر ایک بیمار لیٹا ہوا ہے اور پانچ ، دس اطباء اس چار پائی کے گرد کھڑے ہیں اور اس کا علاج کر رہے ہیں اور اسے کوئی افاقہ نہیں ہورہا.اس چار پائی سے آٹھ ، دس قدم کے فاصلے پر ایک طبیب بیٹھے ہیں اور خواب میں بتایا گیا کہ اگر یہ طبیب اس مریض کی طرف متوجہ ہوتو وہ صحت مند ہو جائے گا.لیکن وہ طبیب متوجہ نہیں ہورہا.483

Page 501

خطاب فرمودہ 07 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اس کی حالت ہم نے نہیں بنانی کہ جو چیز صرف ہم دے سکتے ہیں، وہ ہم نہ دیں.بہر حال ہمارا فرض ہے کہ وہ چیز ہم ان تک پہنچا ئیں.محبت اور پیار، ہمدردی اور غمگساری اور مساوات انسانی کو حقیقی طور پر ان کی زندگی میں پیدا کریں.محض منہ کی باتیں نہیں بلکہ اپنی زندگی میں یہ ثابت کریں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں.وہ خواب میں پوری سنا دیتا ہوں.خواب میں ان کو بڑی گھبراہٹ تھی کہ کیا بنے گا اس مریض کا کہ جس طبیب کے علاج سے یہ صحتمند ہو سکتا ہے، اس کی اس طرف کوئی توجہ نہیں اور جن کے علاج بالکل بے اثر ثابت ہورہے ہیں، وہ چار پائی کے گرد بیٹھے ہیں؟ جب انہوں نے اپنے پیر کو یہ خواب لکھی تو جواب میں انہوں نے لکھا کہ خواب کی تعبیر یہ ہے کہ جو مریض تم نے دیکھا ہے، وہ اسلام ہے.اور جو اطباء تم نے چار پائی کے گرد دیکھے ہیں، وہ میرے اور تیرے جیسے لوگ ہیں.اور جو آٹھ ، دس قدم کے فاصلے پر طبیب دیکھا ہے کہ جس کے متعلق بتایا گیا کہ اگر یہ مریض کی طرف متوجہ ہو تو وہ صحتمند ہو جائے گا، وہ مہدی موعود ہے.اور خواب میں زمانہ تمہیں مکان کی شکل میں دکھایا گیا ہے.جو عام قاعدہ ہے، خوابوں میں تعبیر کرنے کا.مہدی جو ہیں ، وہ آٹھ ، دس سال کے بعد مبعوث ہوں گے.اور پھر اسلام کی مرضوں کا علاج ہوگا.اور اس کے آٹھ، دس سال بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا.بالکل چند سال پہلے کی یہ خواب ہے.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک بڑا از بردست نشان ہے.لیکن میں آپ کو یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان مظلوم اقوام کے تمام مرضوں کا علاج صرف آپ کے پاس ہے.اور آپ کو ہر قسم کی قربانی دے کر ان کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.ورنہ وہ پیا سے ایڑیاں رگڑتے اس دنیا سے چلے جائیں گے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور آپ جواب وہ ہوں گے کہ کیوں اس دولت کو ان لوگوں تک نہیں پہنچایا کہ جس دولت کے نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ اس دنیا میں زندگی کے دن خستہ حال میں گزارتے رہے؟ آج میں پاکستان کے لئے اس تفصیل کے ساتھ باوجود اس کے کہ یہاں سے باہر روپیہ بھیجنا موجودہ حالات میں ممکن نہیں، لیکن کتابوں کی شکل میں حکومت کی اجازت سے جاسکتا ہے، پریس لگ رہا ہے.دراصل پریس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ وقت ہے کہ اسلام کی تعلیم کو جو روشن شکل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ظاہر ہوئی، اس کو کثرت سے دنیا میں پھیلایا جائے.کیونکہ دنیا آج اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہے.غرض اس کے لئے پر لیس چاہئے.اللہ تعالیٰ کی عظیم شان ہے.اس نے ایک سیکنڈ میں پریس، اس کی اہمیت، روپیہ کہاں سے آئے گا؟ کیسے آئے گا؟ اور کتنا آئے گا؟ یہ 484

Page 502

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطاب فرموده 07 جون 1970ء ساری باتیں میرے ذہن میں ڈال دیں.اور اس پریس کے لئے نہ میں نے اپیل کی ہے اور نہ میں کروں گا.بعض لوگوں نے روپیہ دے دیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے.یہ تھوڑی سی رقم ہے، پندرہ ، ہیں، تہیں ہزار کی.مگر پریس کے خرچ کا اندازہ دس، بارہ لاکھ روپیہ ہے.پس انشاء اللہ وہ لگ جائے گا.بڑے اچھے اچھے پر لیس بن گئے ہیں.دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کا جلدی انتظام کر دے.کیونکہ یہ جتنی جلدی لگے گا ، اتنا ہی اچھا ہے.دنیا کے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی.کیونکہ ہمیں ثواب ملے گا.پاکستان کے لئے میں آج یہ اعلان کرتا ہوں.جیسا کہ میں نے اس اعلان کی وجوہات ، دلائل، ضرورتیں مختصراً بیان کیں.پاکستان کے لئے میری طرف سے، نصرت جہاں ریز روفنڈ کا منصوبہ ہے کہ کم سے کم دو سو خلص احمدی ایسے ہوں، جو کم از کم پانچ ہزار روپے کا وعدہ کریں.جس میں سے 2/5 فوری طور پر یعنی ایک، دوماہ کے اندر اندر اور بقیہ تین سال میں پھیلا کر ادا کر دیں.اور دوسو خلصین ایسے ہوں، جو دو ہزار کا وعدہ کریں اور ایک ہزار فوری ادا کر دیں، باقی قسطوں میں تین سال کے عرصہ میں ادا کر دیں.اور ایک ہزار ایسے مخلصین ، جو پانچ سو سے دو ہزار کے درمیان جتنا جتنا اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے دے، وہ وعدہ کریں اور جتنا وعدہ کریں، اس میں سے 2/5 فوری ادا کر دیں، یعنی ایک، دوماہ کے اندر اندر اور بقیہ تین سال کے اندر اور باوجود اس کے کہ اس وقت ملک کے فارن ایکسچینج کی موجودہ صورت میں ہم یہ رقم روپے کی شکل میں باہر نہیں بھیج سکتے ، اس کے لئے اللہ تعالیٰ دوسرے ممالک میں انتظام کر رہا ہے.لیکن اور بہت ساری چیزیں ہیں، جن کے اوپر پاکستان میں خرچ کرنا پڑے گا.بعض ایسے کام ہیں، جن کا اثر براہ راست مغربی افریقہ کے ممالک پر پڑتا ہے.مثلاً کثرت سے کتب کا شائع ہونا، کثرت سے مبلغین کا ایک اور سیکم کے ماتحت ٹرینڈ کرنا وغیرہ وغیرہ.اور جو پانچ سو سے کم دینا چاہیں، میں انہیں ثواب سے محروم نہیں رکھنا چاہتا.مثلاً بعض دفعہ ایسی اسکیمیں آتیں ہیں، بچے آ جاتے ہیں کہ ہم طالب علم ہیں، ہمیں جیب خرچ ملتا ہے ، ہم پچاس یا سو نہیں دے سکتے ، آپ ہمیں کیوں محروم کرتے ہیں؟ ان کے لئے ہدایت ہے کہ یہ ایک دھیلے سے لے کر پانچ سو روپیہ تک جتنا چاہیں، دیں.لیکن نقد ، تا کہ حساب نہ رکھنا پڑے.تین سال کے اندر جب بھی اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق دے ، وہ اس مد میں اپنی طرف سے حسب توفیق جمع کروا دیں.لیکن ہم ان کا وعدہ نہیں لکھیں گے، نہ ان کی وصولی کا انتظام کریں گے، نہ ان کے رجسٹر بنائیں گے، پانچ سو سے کم جس نے رقم دینی ہے، وہ ایک دھیلہ، ایک روپیہ، سوروپیہ یا دوسور و پیه یا تین سور و پیه یا چار سور و پیه یا چار سو، نناوے روپے تک وہ نقد دے دے.اس پر بھی کوئی بار نہیں اور ہمیں بھی کوئی تر در نہیں.اور میرا اندازہ یہ ہے کہ یہ رقم انشاء اللہ 22 لاکھ سے اوپر نکل جائے گی.جس کا مطلب یہ ہے کہ دولاکھ پونڈ سے زیادہ.485

Page 503

خطاب فرمودہ 07 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد چہارم جتنا زیادہ ہم وہاں کام کریں، اتنی جلدی ہم ان کو خدا تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت سکتے ہیں.وہ تیار ہیں.لیکن جیسا کہ ایک موقع پر میں نے وہاں کے طالب علموں کو کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل اور فراست دی ہے، تم کسی قوم سے پیچھے نہیں ہو.کیونکہ ساتھ ہی میرا پیغام ، امید کا پیغام بھی ہے.Tree of destiny کا محاورہ میں نے بولا تھا.پتہ نہیں کہیں اور بولا گیا ہے یا نہیں.مجھے اب بھی یہ بڑا پسند ہے.میں نے ان کو کہا کہ تمہارے مقدر کے درخت پر تمہارے پھل تو تیار ہیں لیکن تمہاری گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح نہیں گریں گے.تمہیں اس درخت پر چڑھنا پڑے گا اور یہ پھل حاصل کرنا پڑے گا.اور یہی ایک حقیقت ہے.اس واسطے مایوس نہ ہو.کوشش کرو، کسی سے پیچھے نہ رہو گے.جن اقوام کا تم پر رعب ہے ، وہ رعب جاتا رہے گا.کیونکہ تم میں سے بہت سے ان سے آگے نکل جائیں گے، ہر میدان میں، سائنس اور ہر علم میں.آپ کو بھی اپنی قسمت کے پھل کے حصول کے لئے ایثار و قربانی اور دعا کے درختوں پر چڑھنا پڑے گا.تب آپ کو اپنے مقدر کا پھل ملے گا.جو اتنا شیر میں اور لذیذ اور خوشبودار ہو گا کہ آپ کے علاوہ آج کی دنیا میں ویسا پھل کسی اور انسان کے مقدر میں نہیں ہوگا.اللہ تعالی آپ کو بھی اور مجھے بھی توفیق عطا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور انہیں نبا ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے اور وہ سعی مشکور کی ہمیں توفیق عطا کرے.اب ارادہ تو میرا تھا، چند منٹ اور بولنے کا وقت آدھے گھنٹے سے اوپر ہو گیا ہے.اب مصافحے بھی ہونے ہیں.میرا دل کرتا ہے، آپ سے مصافحہ کروں.بیشک ساڑھے دس، گیارہ بج جائیں.وہاں تو ایک آدمی نے گنا تھا، پانچ منٹ میں ایک سو ساٹھ سے ایک سواسی مصافحے ہوئے.جہاں ترتیب ہو، وہاں وقت ضائع نہیں ہوتا.ترتیب سے ملیں.بہر حال جتنا بھی وقت لگے گا، انشاء اللہ میں ہر ایک دوست سے مصافحہ کروں گا.لیکن اس سے پہلے میں دعا کر ا دوں گا کہ ہماری زندگی کا حقیقی مقصد حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان اور جلال کا قیام ہے.خدا کرے کہ ہم اپنی آنکھوں سے اس ساری دنیا میں اس عظمت کو قائم شدہ دیکھیں اور خوشیوں کے دن پائیں“.( مطبوع روزنامه افضل 09 اکتوبر 1970ء) 486

Page 504

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم نصرت جہاں ریزروفنڈ تقریر فرمودہ 09 جون 1970ء تقریر فرموده 09 جون 1970ء میں اس وقت زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتا ، تا ہم اس وقت میں سب سے پہلے اس کمیٹی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، جو میں نے نائیجیریا میں بنائی تھی اور جس کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ سکیم تیار کرے، 16 نئے ہائی اسکول اور 4 طبی امداد کے مراکز کھولنے کے لئے.طبی امداد کے مراکز کو وہاں ہیلتھ کلینک یا ہیلتھ سنٹر کہتے ہیں.ان کو میں نے کہا کہ افریقہ چھوڑنے سے قبل اس کمیٹی کی پہلی رپورٹ مجھے ملنی چاہیے.یعنی افریقہ کے براعظم میں مجھے پہلی رپورٹ ملنی چاہیے.سر جوڑ وہ نقشہ دیکھو، جگہوں کا انتخاب کرو.کہاں کہاں یہ سکول اور طبی مزا کر کھولنے ہیں؟ اور آگے پھر تیاری؟ کتنے پیسے چاہئیں، وغیرہ؟ جس دن میں نے یہ کمیٹی بنائی، اس سے اگلے روز دوپہر کے وقت اتفاقاً ( میری عادت نہیں ) ٹرانسسٹر ( آن ) کیا.خبروں کا وقت تھا، میں نے سمجھا شاید کوئی خبر میری دلچسپی کا باعث ہو.نائیجیریا کی نئے دستور کے مطابق 12 سٹیٹس ہیں.ہرسٹیٹ کے گورنر ہیں.شمالی نائیجیر یا مسلمانوں کا علاقہ ہے، جہاں پچھلی صدی کے مجد دیعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے جو صدی کے سر پر بہت سے مجدد پیدا ہوئے ، ان میں سے ایک نائیجیریا کے شمال میں عثمان بن فودیو ( جن کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں) پیدا ہوئے تھے.کانو بھی ان کا علاقہ ہے.ان کو اپنے مخالفین سے جنگ لڑنی پڑی تھی.جب وہ فاتح ہوئے تو کا نو کا علاقہ ان کے ایک لڑکے سلمان کو ملا تھا.انہی کی نسل اب وہاں آباد ہے.اور سکو تو کا علاقہ یا سٹیٹ، جو نارتھ ویسٹ (شمال مغرب ) میں ہے، وہ ان کے اس بیٹے کو ملا تھا، جو بعد میں ان کے خلفیہ بنے اور جن کا نام محمد بن عثمان بن فود یو تھا.سکو تو میں ان کی نسل آباد ہے.وہ سلطان آف سکوتو کہلاتے ہیں اور یہ امیر آف کا نو کہلاتے ہیں.کیونکہ یہ سارا علاقہ مسلمانوں کا ہے، انہوں نے احمدیت کا کافی مقابلہ کیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، کونو میں خدا کے فضل سے اچھی خاصی جماعت قائم ہو گئی ہے.وہاں ہمارا ایک ہیلتھ سنٹر بھی ہے، جہاں ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کام کر رہے ہیں.اور یہ ہیلتھ سنٹر وہاں اتنا مقبول ہے کہ انہوں نے بتایا کہ وہاں کے وزیر کو اگر طبی امداد کی ضرورت ہو تو وہ گورنمنٹ کے ہسپتال 487

Page 505

تقریر فرموده 09 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم میں جانے کی بجائے ( جہاں اسے ہزار قسم کی سہولتیں مل سکتی ہیں کیونکہ وزیر ہے.) ہمارے کلینک میں آتا ہے.بعض لوگوں نے اسے کہا بھی کہ تم یہ کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ مجھے یہاں زیادہ سہولت ملتی ہے، یہاں زیادہ اچھی طرح سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے.غرض وہاں بڑا اثر ورسوخ پیدا ہو گیا ہے.لیکن سکو تو اسٹیٹ ابھی تک احمدیت کا مقابلہ کر رہی ہے.سکو تو کے گورنر کیبنٹ کی میٹنگ میں شمولیت کے لئے لیگوس آئے تھے.لیگوس سے سکو تو کی سٹیٹ قریباً آٹھ سو میل کے فاصلے پر واقع ہے.انہوں نے ائیر پورٹ پر صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے ، یہ کہا کہ میری سٹیٹ میں تعلیمی محاذ پر ایمر جنسی ہے.اور میں نے یہ ایمر جنسی Declare ( ڈیکلئیر ) کردی ہے اور اپنے تمام Resources ( ری سورسز ( اکٹھے کر رہا ہوں، مجھے امید ہے کہ عوام میرے ساتھ تعاون کریں گے.یہ خبر جب میں نے سنی ، اس سے ایک دن پہلے میں نے کمیٹی مقرر کی تھی.چنانچہ میں نے ایک نایجیرین احمدی کو، جن کے متعلق آپ پڑھ چکے ہیں، کہا کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر تم جماعت میں شامل ہو گے.اس نے چوبیس گھنٹے کا انتظار بھی نہیں کیا بلکہ اسی وقت فارم کی تلاش کی اور ایک، دو گھنٹے کے اندرہی بیعت فارم پر کیا.ان کا قصہ یہ ہے کہ وہ چار سال سے احمدیت کا مطالعہ کر رہے تھے لیکن بیعت فارم پر کرنے لئے تیار نہیں تھے.وہ اچھے عہدیدار ہیں.کیبنٹ سیکریٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری ہیں.قریباً دو ہزار روپے ماہوار تنخواہ لے رہے ہیں.غرض احمدیت کا مطالعہ بھی کیا اور جاتے ہی میرے ساتھ پیار کا بڑا اظہار کیا.ہر وقت اپنی کار لے کر آتے تھے.اور مجھے کچھ حجاب بھی محسوس ہوا کہ احمدی نہیں ہیں.احمدی ہوتے بھی نہیں اور کار لے کر آجاتے ہیں.اور کاروں کی ہمارے پاس کمی بھی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.مجھے حجاب تھا کہ ان کی کار میں کیوں بیٹھیں؟ لیکن وہ کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ دوسری کاریں ڈرائیور چلاتے ہیں اور مجھے ڈرائیوروں پر اعتبار نہیں.میں اس لئے آ جاتا ہوں کہ آپ کا قابل اعتبار ڈرائیور ہونا چاہیے.خیر وہ چونکہ کار چلاتے تھے.دو، تین دن تک میں اپنی عادت کے مطابق ادھر ادھر کی باتیں کرتا، پھر ایک بات احمدیت کے متعلق ان کے کان میں ڈال دیتا.کبھی کوئی نظارہ ایسا دیکھوں، جہاں اللہ تعالیٰ کی شان نظر آئے تو وہ ان کو کہوں.چنانچہ تین دن کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب یہ تیار ہیں.وزیری ان کا نام ہے.میں نے کہا، وزیری تم سورج غروب ہونے سے قبل احمدیت میں داخل ہو گے.چنانچہ وہ احمدی ہو گئے.دودن کے بعد ان کی بیوی ملیں تو میں نے ان سے کہا: سورج غروب سے قبل احمدیت میں داخل ہو جاؤ، میں تمہیں اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ سورج غروب ہونے میں نصف گھنٹہ باقی ہے اور نصف گھنٹے میں تمہیں بیعت فارم 488

Page 506

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم تقریر فرمودہ 09 جون 1970ء نہیں مل سکتا.اس لئے میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ before the sun sets یعنی سورج کر غروب ہونے سے پہلے تم احمدیت میں داخل ہو.بلکہ تمہیں میں یہ کہتا ہوں کہ چوبیس گھنٹے کے اندر داخل ہو.چنانچہ اگلے دن صبح اس نے بیعت کر لی اور اس طرح سارا خاندان احمدی ہو گیا.انہی وزیری صاحب کو میں نے بھیجا کہ جا کر گورنر سے ملو اور میری طرف سے اسے یہ پیش کش کرو کہ ہم فوری طور پر تمہاری سٹیٹ میں چار سکول کھولنے کے لئے تیار ہیں.دولڑکیوں کے اور دولڑکوں کے.لیکن تمہارے تعاون کے بغیر یہ ہو نہیں سکتا.اور تم سے ہم صرف دو چیزوں کا تعاون چاہتے ہیں.ایک ہمیں زمین دو.کیونکہ ہم باہر سے زمین نہیں لا سکتے.تم ہی زمین دو گے تو سکول قائم ہوگا.اور دوسرے تم ہمارے اساتذہ کو Entry Permit (انٹری پرمٹ ) دو.اس کے بغیر وہ تمہاری سٹیٹ میں آنہیں سکتے.چنانچہ اس پیشکش کو سن کر وہ بہت خوش ہوا.معلوم ہوتا ہے، اس کے دل میں اس بات کا بڑا احساس ہے کہ اس کے علاقے کے مسلمان تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ نارتھ ، جو احمد بیت کا مقابلہ کر رہا ہے، اس کے اندر عیسائی گھس گئے ہیں.گو ابھی ابتدا ہے.بہر حال وہ کہنے لگا کہ میں آپ سے ہر قسم کا تعاون کروں گا.اور میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے سکو تو کے لوگوں کا دل جیت لیا تو سارا مسلم نارتھ آپ کے ساتھ ہو جائے گا.کیونکہ یہ عثمان بن فودیو کے بچوں کا مرکز ہے.پھر اس نے کہا کہ بہر حال قانونی کاروائی ضروری ہے.اس لئے آپ لکھ کر مجھے بھجوا دیں.میں وہاں یہ کرتا رہا ہوں کہ کام ان پر نہیں چھوڑا بلکہ جو کرنا ہوتا تھا، اپنے سامنے کرواتا تھا.اسی رات کو میں نے خط ڈرافٹ کروایا، اپنی تسلی کر لی ، دیکھ لیا اور جو تبدیلیاں کرنی تھیں، وہ کروادیں اور پھر ان کو دے دیا کہ یہ خط بھیج دو.جب وہ خط گیا تو بڑا اچھا جواب آیا.اس کی نقل بھی مجھے وہیں پہنچ گئی تھی.دوسرے اس نے ان کو بعد میں یہ اطلاع دی کہ اس نے اپنے Land Departt (لینڈ ڈیپارٹمنٹ) کو، جس کا تعلق زمین کے دینے دلانے سے ہے، یہ حکم دیا ہے کہ ان کی جتنی ضرورت ہے، جہاں ان کو ضرورت ہے ، ان کے لئے زمین کا فوری انتظام کرو.اور تعلیمی محکمہ کو کہا کہ یہ انتظار نہ کرو کہ یہ خط لکھ کر فارم منگوا ئیں گے بلکہ جو فارم پر کرنے ضروری ہیں، وہ خود ہی ان کو بھیج دو.پس (انشاء اللہ ( جلد کام ہورہا ہے.نائیجیریا میں دورہ کی ابتدا تھی.اتنے ہی وسائل تھے ، جو دل میں خیال آیا ، وہ کر دیا.اسی طرح ہم دورہ کرتے چلے گئے.پانچواں ملک گیمبیا تھا.ہم لائبیریا سے سیرالیون، جو اس کے ساتھ ملتا ہے ، اس لئے نہیں ٹھہرے تھے کہ وہاں سے ہم نے ہوائی جہاز لینا تھا، واپس ہیگ آنے کے 489

Page 507

تقریر فرموده 09 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم لئے.پس اگر وہاں ظہر تے ، پھر گیمبیا جاتے ، پھر واپس یہاں آتے تو تکلیف ہوئی تھی، ہمیں بھی اور دوستوں کو بھی.اس لئے پروگرام یہ بنایا کہ لائبیریا سے ہم سیدھے گیمبیا چلے جائیں گے.جہاز ویسے وہاں ٹھہرتا ہے.کچھ دوست ائیر پورٹ پر آئے ہوئے تھے.چیف گومانگا صاحب ہمارے پریذیڈنٹ جماعت بھی آئے ہوئے تھے.40-30 منٹ ائیر وڈ رام پریل جاتے ہیں، ان سے ملاقات ہوئی.پھر ہم گیمبیا گئے.جب میں گیمبیا میں تھا تو اللہ کی طرف سے بڑے زور سے یہ تحریک ہوئی کہ یہ وقت ہے کہ کم سے کم ایک لاکھ پونڈ فوری طور پر یہاں invest کیا جائے.پھر سیرالیون میں اپنے کام کئے اور جب میں لندن واپس آیا، میں نے جمعہ میں (میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ فضل عمر فاؤنڈیشن میں انگلستان کی جماعتوں نے تین سال میں 21 ہزار پونڈ چندہ دیا تھا.یہ بڑی رقم ہے.چھوٹی سی جماعت ہے.اور اس کے لئے مکرم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی تحریک کرتے رہے اور امام رفیق صاحب نے بھی بڑا زور لگایا اور شیخ مبارک احمد صاحب بھی وہاں مہینہ، ڈیڑھ مہینہ رہ کر آئے اور پھر تین سال میں 21 ہزار پونڈ جمع ہوئے.) دوستوں کو بتایا کہ گیمبیا میں مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء معلوم ہوا ہے کہ کم سے کم ایک لاکھ پونڈ یہاں خرچ کروں.یہ وقت ہے، پس میں اپیل کرتا ہوں کہ دو سومخلصین مجھے ایسے چاہئیں، جو دو سو پونڈ فی کس دیں.اور دوسو خلصین مجھے ایسے چاہیں ، جو ایک سو پونڈ فی کس دیں.اور اس کے علاوہ میں نے بچوں کے لئے ایک مہینہ میں ایک پونڈ اور 3 سال میں 36 پونڈ مقرر کئے.لیکن پہلے بارہ پونڈ فوری طور پر ادا کرنے کو کہا.میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ انگلستان چھوڑنے سے قبل اس مد میں دس ہزار پونڈ کیش ہو ، تا کہ مجھے تسلی ہو جائے.میں نے انہیں یہ کہا کہ یہ تو اب نہیں ہو سکتا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کا بھی یہ منشا ہے.میں لوگوں سے وعدے بھی کر آیا ہوں ) دو ہفتے کے بعد اگر نائیجیر یا کہے کہ ہمیں دو ہزار پونڈ چاہئیں، کیونکہ کام شروع کرنا ہے اور میں یہ کہوں کہ انا الغنى و اموالى المواعيد کہ میں بڑا امیر ہوں اور وعدے جو ہیں، وہ میری امارات اور دولت ہیں.پس یہ تو نہیں ہو سکتا.اس لئے مجھے تسلی ہونی چاہیے کہ فوری طور پر کام شروع کرنے کے لئے دس ہزار پونڈ موجود ہے.اور ی رقم ان بارہ، تیرہ دنوں کے اندر جمع ہونی چاہئے.امام رفیق وغیرہ کا خیال تھا کہ یہ بالکل ناممکن بات میں نے کر دی ہے.میں نے ان کو ایک اور بات کہی اور وہ آپ کو بھی بڑے زور سے کہنا چاہتا ہوں.میں نے انہیں کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ خرچ کیا جائے تو 490

Page 508

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم تقریر فرموده 09 جون 1970ء اللہ تعالیٰ ضرور دے گا.یہ رقم بہر حال مجھے ملے گی، مجھے کوئی فکر نہیں.وہاں مجھے اب فوری طور پر تمیں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.اور اساتذہ اس کے علاوہ ہیں.میں نے کہا کہ یہ بھی مجھے فکر نہیں کہ یہ رضا کار واقف ملیں گے یا نہیں ملیں گے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا منشا ہے، یہاں کام کیا جائے.جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی ہونی چاہئے ، وہ یہ ہے کہ محض خدا کے حضور مال کی قربانی پیش کر دینا، کوئی چیز نہیں ، جب تک وہ مقبول نہ ہو.اس واسطے آپ بھی دعائیں کریں اور میں بھی دعا کروں گا کہ یہ سعی مشکور ہو.اللہ تعالٰی اس حقیر سی قربانی کو قبول فرمائے.اس سلسلہ میں ایک چھوٹی سی بات اور بتادیتاہوں.وہاں ایک عربی کی نظم سنائی گئی تھی.وہ شاید کسی رپورٹ میں بھی آئی ہے.انہوں نے خود بنائی ہے.بڑی پیاری نظم ہے.وہاں بچوں نے کورس کے طور پر عربی میں پڑی تھی.اس کا ایک شعر مجھے یاد آ گیا.بہت ہی پیاری نظم ہے.اللہ تعالیٰ مخاطب کرتا ہے، اپنائے آدم کو يا ابن آدم المال مالي والجنته جنتي وانتم عبادی ادی ! اشترواجـ بڑی پیاری نظم ہے اور اسے پڑھنے والے بچے تھے.بہت ہی لطف آیا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ مال بھی اس کا ، جنت بھی اس کی اور احسان اس کا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ جو میرا مال ہے، اسے خرچ کر کے میری جنت کو خرید لو.پس میں نے ان کو کہا کہ یہ دعائیں کرو، میں بھی دعائیں کروں گا، اللہ تعالیٰ ہماری اس قربانی کو قبول کرے.مال بھی آنا ہے اور آدمی بھی آنے ہیں، مجھے اس کی فکر نہیں.اس کے بعد میں بیٹھ گیا تو مسجد میں ہی سترہ ہزار پونڈ کے وعدے ہو گئے.پھر چوہدری صاحب نے مجھے کہا کہ بہت سے دوست جو باہر سے آنے والے ہیں، وہ جمعہ میں نہیں پہنچ سکے.کیونکہ کام کا دن ہے.اتوار کو ان میں سے بہت سے نئے آدمی ہوں گے، اس لئے آپ ان کو اتوار کے دن خطاب کریں.چنانچہ وہاں بھی میں نے آدھے گھنٹے کی مختصر تقریر کی اور دس ہزار پونڈ کے وعدے وہاں ہو گئے.اور جس وقت میں سپین گیا ہوں تو اڑھائی ہزار پونڈ ان کے پاس کیش جمع ہو گیا تھا.لیکن ابھی وہ امانت نہیں کھلی تھی.وہ مسجد کے فنڈ میں جمع ہورہا تھا.ان سے میں نے کہا کہ میں نے اس طرح نہیں جاتا.اس کا ” نصرت جہاں ریز روفنڈ“ نام رکھا ہے.ایک، ایک پیسہ اس فنڈ میں ہونا چاہئے.امانت کھولیں اور وہاں ساری رقم ٹرانسفر کروائیں.491

Page 509

تقریر فرمود : 04 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پھر ہم سپین چلے گئے.وہاں سے بھی پوچھتے رہے.جب واپس آئے تو چھ، ساڑھے چھ ہزار پونڈ کیش جمع ہو گیا تھا.کچھ اور وعدے ہو گئے تھے.شاید یہ رقم 32 ہزار پونڈ تک پہنچ گئی تھی.پھر میں نے انہیں کہا کہ فضل عمر فاؤنڈیشن سے کم سے کم ڈبل مجھے چاہئے.کیونکہ مسلمان احمدی کا قدم ایک جگہ کھڑا نہیں ہوسکتا، ترقی کرتا ہے.امام رفیق مجھے کہنے لگے کہ یہ دس ہزار پونڈ دو، چار دن میں کیسے جمع ہوں گے؟ آپ مجھے ایک مہینہ کی مہلت دیں، میں خود دورہ کروں گا اور اس طرح یہ دس ہزار پونڈ کی رقم جمع کروں گا.میں نے ان سے کہا کہ میں ایک دن کی مہلت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں.اور میں آپ کو بتا تا ہوں کہ جب میں یہاں سے جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ دس ہزار پونڈ کا بھی انتظام کر چھوڑے گا.شاید اس بھی زیادہ ہو جائے.جس دن میں چلا ہوں، (یہ وہ رقم ہے، جو ہمارے اکاؤنٹ میں جا چکی تھی.بعض رقموں کا ہمیں پتہ تھا.مثلا گلاسگو، ایڈنبر اوغیرہ میں جمع ہوگئیں.لیکن ابھی پہنچی نہیں تھیں.ان کو میں نے شامل نہیں کیا تھا.) چالیس ہزار کے وعدے ہو چکے تھے اور دس ہزار، پانچ سوپونڈ فقد اس امانت میں جمع ہو چکا تھا.گو یا فضل عمر فاؤنڈیشن سے ڈبل سے بھی زیادہ.انشاء اللہ پچاس ہزار کے اوپر وعدے ہو جائیں گے.پس انہوں نے بڑا اچھا نمونہ دکھایا ہے.الحمد لله رب العالمین.پہلے میرا خیال تھا کہ یہاں کی سکیم کے بارے میں خطبہ میں بیان کروں گا لیکن پھر مجھے خیال آیا، خطبہ ہوگا، پھر خطبہ کی میں نظر ثانی کرتا ہوں، دیر ہو جائے گی.پاکستان کے لئے جو سکیم ہے، اس کا کراچی میں اعلان کر دوں.یہ تو صحیح ہے کہ فارن اکھینچ کی وقت ہے.لیکن یہ بھی صبح ہے کہ فارن اکھینچ کی پوزیشن ہے، وہ بدلتی رہتی ہے.اگر آج کم ہے، ضرورت زیادہ ہے، رقم نہیں جاسکتی.ہوسکتا ہے، چھ ماہ کے بعداللہ تعالٰی ہمارے لئے ایسے سامان پیدا کر دے کہ فارن ایکسچینج بہت آجائے اور حکومت رقم باہر بھجوانے کی اجازت دے دے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اس وقت میں اپیل کروں.پھر یہ بھی کہ ہم نے جو کتابیں بھیجنی ہیں، وہ یہاں شائع ہوں گی.اس پر اس مد میں سے ہمارا خرچ ہوگا.پس یہاں بھی رقم کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ انشاء اللہ جب بھی ہمیں ضرورت پڑے گی تو حکومت ہمارے لئے آسانیاں پیدا کر دے گی، وہ اجازت دے دے گی.بہر حال ہم نے قانون کی پابندی تو کرنی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ قانون کی پابندی کے اندر ہی راہیں کھولتا ہے.پاکستان میں مجھے دوسو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے، جو پانچ ہزار روپے کا وعدہ کریں.جس میں سے دو ہزار روپیہ فوری طور پر ادا کر دیں.فوری سے میری مراد چند مہینوں کے اندر ادا کرنا ہے.کیونکہ یہ اعلان شائع ہونا، آواز پہنچنی اور پھر رقموں کا آنا، اس میں وقت لگے گا.اس لئے فوری سے میری مراد کل 492

Page 510

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم تقریر فرموده 09 جون 1970ء نہیں.سندھ سے کچھ دوستوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے علاقے کے زمینداروں کے حالات کے لحاظ سے نومبر کا مہینہ آسانی سے ادا کرنے کا ہے، اس لئے فوری کی حد نومبر تک بڑھا دیں تو اور دوست بھی شامل ہو جائیں گے.اور دوسو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے، جو دو ہزار کا وعدہ کریں اور ایک ہزار فوری ادا کر دیں.اور فوری اس معنی میں، جو میں نے ابھی بیان کیا ہے.اور باقی کی رقم تین سال پر پھیلا کر سہولت کے ساتھ ادا کریں.نیز ایک ہزارایسے مخلصین کی ضرورت ہے، جو پانچ صد روپیہ فی کس ادا کریں.یہ تینوں گروه صف اول صف دوم، صف سوم کے ہوں گے.(جب فضل عمر فاؤنڈیشن کا اعلان ہوا تو یہ شبہ پیدا کر دیا گیا تھا کہ غریب آدمی کو ثواب سے محروم کر دیا گیا ہے.میرے پاس سینکڑوں خطوط آگئے کہ ہم تھوڑی سی رقم دینا چاہتے ہیں، ہمیں کیسے محروم کیا جاتا ہے؟ چنانچہ میں نے انہیں کہا کہ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے.) اور جو دوست ایک دھیلے سے لے کر 500 روپے تک جور تم دینا چاہے، وہ وعدہ نہیں کرے گا، اسے نقد ادائیگی کرنی ہوگی.ہم نے ان کے حساب نہیں رکھتے.حساب صرف ایک ہزار، چار سو کارکھیں گے.پس ہوسکتا ہے کہ وہ مثلاً اپنے دل میں یہ نیت کرے کہ اب میں سو روپے نقد دے سکتا ہوں، یہ دے دیتا ہوں، چھ ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اور جتنی توفیق دی دے دوں گا.لیکن ہمارے رجسٹروں میں وہ نام وعدے والی فہرست میں نہیں ہوگا.وہ نقد ادائیگی کرنے والا ہوگا.غرض ایک دھیلے سے لے کر 500 تک اللہ تعالیٰ نے جتنی توفیق دی ہے، وہ دے.کیونکہ ثواب رقم پر نہیں ملا کرتا، وہ تو اخلاص پر ملا کرتا ہے.اور جماعت میں بڑے بڑے مخلص ہیں.مثلاً افضل عمر فاؤنڈیشن کا جب چندہ جمع ہورہا تھا تو ایک دن ملاقاتیں ہو رہی تھیں.مجھے دفتر نے اطلاع دی کہ ایک بہت معمر مخلص احمدی آئے ہیں، وہ سیڑھی نہیں چڑھ سکتے.اور حقیقت یہ تھی کہ یہاں آنا بھی ایک لحاظ سے انہوں نے اپنی جان پر ظلم ہی کیا تھا.چنانچہ وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، کھڑے بھی نہیں ہو سکتے تھے.میں نے کہا، میں نیچے ان کے پاس چلا جاتا ہوں.خیر جب میں گیا، پتہ نہیں تھا کہ وہ کیوں آئے ہیں؟ مجھے دیکھ کر انہوں نے بڑی مشکل سے کھڑے ہونے کے لئے زور لگایا تو میں نے کہا، نہیں، آپ بیٹھے رہیں.وہ بہت معمر تھے.انہوں نے بڑے پیار سے دھوتی کا ایک پلو کھولا اور اس میں سے دوسو اور کچھ رقم نکالی اور کہنے لگے ، یہ میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے لے کر آیا ہوں.پیار کا ایک مظاہرہ ہے.پس اس قسم کا اخلاص اور پیار اور اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کا یہ جذبہ ہے کہ جتنی بھی توفیق ہے پیش کر دیتے ہیں.اس سے ثواب ملتا ہے ، رقم سے تو نہیں ملتا.غرض یہ سکیم ہے، جس کے مطابق عمل کرنا 493

Page 511

تقریر فرموده 09 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ہے.( دوستوں نے عرض کیا، حضور ! یہ رقم کہاں جمع کروانی ہے؟ اس پر فرمایا) اس کے لئے میں ایک کمیٹی بناؤں گا، خزانہ میں ایک مد کھلے گی نصرت جہاں ریز روفنڈ کی.پھر حضور نے فرمایا:.لندن والوں سے مجھے امید ہے کہ وہ پچاس ہزار پونڈ تک پہنچ جائیں گے.اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی رقم کے روپے پاکستان دے دے گا.(اس اثناء میں وعدے اور نقد روپے آ رہے تھے.فرمایا.( اس وقت وعدے لکھوائیں.کیونکہ میں نے یہاں زیادہ دیر بیٹھنا نہیں.اور اگر میں نے یہ کام شروع کر دیا تو باقیوں کو شکوہ پیدا ہوگا کہ کیوں ہمارا وعدہ نہیں لیا ؟ ابھی دفتر بھی نہیں، کمیٹی بنانی ہے، مدرکھولنی ہے، پرسوں کی بجائے کل کھولنی پڑے گی ، انشاء اللہ.میں نے بتایا کہ وہاں جب ساڑھے چھ ہزار کے وعدے تھے.میں نے انہیں کہا کہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دس ہزار نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے نکلوایا ہے تو وہ دے گا.پھر میں نے ان سے کہا کہ میری غیر حاضری میں آپ کو بہت سارے لوگوں نے اس لئے نہیں پیسے دیئے ، وہ چاہتے تھے کہ میرے ہاتھ میں چیک دیں.کیونکہ اس طرح لوگ سمجھتے ہیں کہ دعا کی تحریک ہو جائے گی.مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے لئے بھی دوست دعا کریں، ایک نئے علم کا دروازہ ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل نے کھولا ہے.انہوں نے دو ہزار ڈالر دیئے ہیں بلندن کی مد میں.یہاں انشاء اللہ مجھے امید ہے کہ ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی رقم جمع ہو جائے گی.ابھی امریکہ ہے، بعض اور جگہیں ہیں.پس کم از کم ایک لاکھ پونڈ کا مجھے کہا گیا تھا.باقی جتنی ہے، وہ تو اللہ میاں کو پتہ ہے.ویسے سب سے پہلا وعدہ تو وہیں انگلستان میں ایک پاکستانی کا ہے.اس نے کہا تھا، سب سے پہلے مجھ سے پانچ ہزار روپے کا وعدہ لیں.بہر حال نمبر ایک وہی ہیں.وہ اگر چہ پاکستان سے باہر ہیں لیکن میں پاکستانی.(مطبوعه روزنامه الفضل 20 جون 1970 ء ) 494

Page 512

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی خطبہ جمعہ فرمودہ 12 جون 1970ء خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دو گزشتہ 104 اپریل کو میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسلام کا محبت اور پیار، اخوت اور مساوات کا پیغام لے کر مغربی افریقہ کے ممالک کے دورہ پر روانہ ہوا تھا.اور چند ہفتوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا منادی بن کر آپ میں پھر واپس آیا ہوں.میں نے وہاں جو کچھ دیکھا، محسوس کیا اور مشاہدہ کیا الفاظ میں اس کا بیان ممکن نہیں.کچھ جھلکیاں ہیں، جو دکھا دی گئیں، کچھ جھلکیاں ہیں، جو دکھاؤں گا.وہ حالات دیکھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتے تھے ، بیان کرنا قریب ناممکن ہے.میں نے ان سب اقوام کو جن میں، میں نے دورہ کیا ، نیز ان کے ذریعہ افریقہ کی دوسری اقوام کو اسلام نے پیار کا جو پیغام بنی نوع انسان کو دیا ہے، وہ سنایا.محبت واخوت، ہمدردی و غم خواری کی ان سے باتیں کیں.اور مساوات کی آواز کو ان کے درمیان بلند کیا.صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ لیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے.خود عمل سے انہیں بتایا کہ ہم میں اور آپ میں کسی انسان اور دوسرے انسان میں بحیثیت بشر کوئی فرق نہیں ہے.ہزاروں بچوں کو پیار کیا، ہزاروں بڑوں سے معانقہ کیا.اور پتہ نہیں کتنوں سے مصافحے کئے، وقت پر بھی کئے اور بے وقت بھی کئے.ایسے وقت میں بھی کئے، جب احساس یہ تھا کہ اس وقت یہاں گرمی میں زیادہ ٹھہرنا ٹھیک نہ ہے.اور میں بیہوش ہو جاؤں.لیکن جو میں انہیں بتانا چاہتا تھا قول اور فعل سے، وہ میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی کہ بتا دوں.اکرا ( گھانا) میں پہلی بار ہماری بڑی مسجد کی بنیاد رکھی جانی تھی.بنیاد کے رکھے جانے کے موقع پر ہزاروں آدمیوں کے سامنے میں نے اسلام کی یہ تعلیم پیش کی.ان میں اکثریت تو احمدیوں کی تھی لیکن میری آواز ریڈیو اور اخبار کے ذریعہ قریبا ہر فرد تک پہنچ جاتی تھی.کیونکہ اخباروں نے بہت تعاون کیا اور ریڈیو اور ٹیلیویژن نے بھی بہت تعاون کیا.مسجد کے متعلق میں نے انہیں بتایا کہ اسلامی تعلیم کے مطابق اللہ کی مسجد کے دروازے، جس کے ہم نگران ہیں، ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں ، جو خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنا چاہے.خواہ وہ 495

Page 513

خطبہ جمعہ فرمود و 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم مسلمان ہو یا نہ ہو.اور قرآن کریم نے ساری دنیا میں یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ مسجد علامت اور نشان ہے، اس بات کا کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی اور انہیں مسمار نہیں کیا جائے گا.مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اور دنیا میں ایک نہایت حسین مثال قائم کی.ضمناً میں یہ بتا دوں کہ سپین میں ہمارا ڈرائیور انگلستان کا رہنے والا تھا اور وہ کیتھولک نہیں تھا.چنانچہ ایک موقع پر اس نے یہ کہا کہ ان کیتھو کس نے بین کی سب مساجد مسمار کر دیں.جو دو، ایک نمونہ کے طور پر رکھیں ، وہ آثار قدیمہ کے طور پر ہیں، مسجد کے طور پر نہیں.اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا آپ کے ملک میں کیتھولک چرچ ہیں؟ جب اس کو بتایا گیا تو وہ کہنے لگا، کیا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے ان کیتھولکس کو اجازت دی ہو کہ وہ آپ کے ملک میں اور دوسرے اسلامی ممالک میں چرچ بنائیں اور وہاں وہ اپنی عبادت کریں؟ ہم نے اسے سمجھایا کہ اسلام مذہبی آزادی کی تعلیم دیتا ہے اور بنی نوع انسان کے درمیان ایک نہایت حسین معاشرہ قائم کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مسجد کی حفاظت کی جائے گی اور مسجد کے طفیل اور مسجد کو علامت اور نشان بنا کر دوسری تمام عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی.مسجدیں محض خود آباد ہی نہیں ہوں گی بلکہ غیروں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا موجب بھی ہوں گی.ان میں صرف اللہ کا ذکر ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ امید رکھی جائے گی کہ جو لوگ مسلمان نہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں، وہ بھی اپنی عبادت گاہوں کو آباد رکھیں.مساوات کا جو نمونہ ہمیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے، اس کی ایک ہی مثال میں وہاں مختلف موقعوں پر دیتا رہا ہوں.اور وہ فتح مکہ کے دن کا واقعہ تھا.میں نے انہیں بتایا کہ تمہارے میں سے ایک حبشی غلام، مکہ کے جو پیرا ماؤنٹ چیف تھے، ان کا غلام تھا.اور وہ اس کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم کیا اور اس کو اسلام کے نور کی شناخت میسر آئی اور وہ مسلمان ہو گیا.پہلے نفرت اور حقارت تھی ، اب نفرت اور حقارت کے ساتھ ظلم اور تشد بھی شروع ہو گیا.ان لوگوں نے اس پر انتہائی ظلم کیا کہ آج بھی اس کی یاد میں ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ایک مسلمان نے اسے خریدا اور آزاد کر دیا.پھر وہ مسلمان معاشرہ کا ایک محترم اور معزز فرد بن گیا.فتح مکہ کے روز حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جھنڈا تیار کیا اور آپ نے جھنڈے کا نام بلال کا جھنڈا رکھا.اور اس کو ایک مقام پر گاڑ دیا.اور سرداران مکہ سے کہا کہ اگر تم امان چاہتے ہو تو اس شخص کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ، جس کو تم نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے.اور جس پر تم بے انتہا ظلم کیا کرتے تھے.اس طرح پر اس مظلوم بلال کا انتقام لیا.ایک حسین انتقام، جسے میں انگریزی میں Sweet 496

Page 514

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء revenge ( سویٹ ریوینج) کہہ دیا کرتا تھا.یہ میری اپنی اصطلاح ہے لیکن مجھے پسند ہے.اب بھی میں دو ہرا دیتا ہوں.یہ حسین اور پیارا اور میٹھا انتقام کہ ہم تمہیں ہلاک نہیں کرنا چاہتے ، لیکن بدلہ ضرور لیں گے.بلال کے جھنڈے تلے آ جاؤ.تا کہ اس بلال کی وجہ سے جس پر ظلم کر کے تم انسان انسان میں فرق کرنا چاہتے تھے ، اس بلال کو ہم مثال بنا دیں، فرد اور فرد، انسان اور انسان کی تفریق کو دور کرنے کی.جس وقت میں نے یہ واقعہ پہلی دفعہ سنایا تو اتنی خوشی کی لہر اس مجمع میں پھیل گئی کہ میرے کانوں نے وہ بھنبھناہٹ سنی ، جو خوشی کی وجہ سے فضا میں پیدا ہوئی تھی.لوگوں نے بڑے جوش کے ساتھ والہانہ طریق پر اپنی خوشی کا اظہار کیا.ان میں غیر بھی تھے، پادری بھی تھے.ایک موقع پر علاقے کے کیتھولک مشن کے سب سے بڑے پادری بھی موجود تھے.(اللہ تعالیٰ نے وہاں جماعت احمدیہ کو اتنا رعب دیا ہے کہ پادریوں کو ہمارے جلسوں میں آنا پڑتا ہے، وہ پیچھے رہ ہی نہیں سکتے.) لیکن کوئی توجہ نہیں تھی ، وہ بے تعلقی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.میں نے اپنے افریقن بھائیوں سے کہا کہ وہ جو سب نبیوں کا سردار تھا اور تمام بنی نوع انسان کا فخر اور سب سے اعلیٰ اور ارفع تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.جب اس نے قرآن کریم میں یہ اعلان کیا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ( حم السجدة :07) کہ انسان ہونے کی حیثیت میں مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.میں تمہارے جیسا انسان اور تم میرے جیسے انسان.پس وہ جو اس کے ماتحت تھے اور اس سے کم درجہ رکھتے تھے ، Those who were junior to him like moses and christ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام ان کو اور ان کے پیرؤں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ تم پر برتری کا اعلان کریں.وہ پادری جو پہلے بے تعلقی سے بیٹھا ہوا تھا، اچھل کر بیٹھ گیا.اور اس نے کہا کہ ہمارے اوپر یہ کیا بم گرا دیا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ اور جب ہم اس میٹھی آواز کو خود اپنے کانوں سے سنتے ہیں تو فرشتے ہمیں آ کر کہتے ہیں، دیکھو، تمہارا محبوب اور پیارا بنی نوع انسان کا کس قدر خیر خواہ اور مساوات کو کس رنگ میں قائم کرنے والا تھا کہ اس نے فرمایا:.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ 497

Page 515

خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم پس اس کے بعد حضرت موسیٰ ہو یا حضرت عیسی علیہما السلام ، ان کو یا ان کے ماننے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان کے بعد بھی وہ یہ کہیں کہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیہما السلام دوسرے انسانوں سے بحیثیت انسان ارفع اور اعلیٰ تھے.میں انہیں ہمدردی و غم خواری اور پیار و محبت کی بہت سی مثالیں دیتا تھا.جماعت احمدیہ کا عمل ان کے سامنے پیش کرتا تھا.اپنی پچاس سالہ تاریخ ان کے رو برود ہرا تا تھا اور میں انہیں بتاتا تھا کہ یہ تو درست ہے کہ آج سے چند صدیاں قبل مسیحیت تمہارے ملک میں یہی نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئی تھی کہ ہم پیار کا Love (لو) کا پیغام لے کر آرہے ہیں.لیکن محبت کے اس پیغام کے جھنڈے ان تو پوں پر گاڑے گئے تھے، جو یورپ کی مختلف اقوام کی فوجوں کے پاس تھیں.اور ان تو پوں کے مونہوں سے گولے برسے، پھول نہیں برسے.اور وہ محبت کا پیغام کامیاب نہیں ہوا، نہ اسے ہونا چاہئے تھا، نہ وہ ہوسکتا تھا.کیونکہ اس سے بہتر ، اس سے زیادہ پیارا پیغام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کی طرف نازل ہو چکا تھا.اب ہم تمہارے پاس محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں اور قریباً پچاس سال سے مختلف ملکوں میں تمہاری خدمت کر رہے ہیں.اور تم میں سے ہر شخص بڑا بھی اور چھوٹا بھی ، حاکم بھی اورمحکوم بھی، رعایا بھی اور ان کے افسر بھی جانتے ہیں کہ اس پچاس سالہ تاریخ میں نہ ہم نے تمہاری سیاست میں کبھی دلچسپی لی اور ان نہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ، نہ تمہارے مالوں کی طرف ہم نے حرص کی نگاہ اٹھائی تم جانتے ہو، ہم نے جو کچھ کمایا ، وہ تمہارے ملکوں ہی میں لگا دیا.اور تم نے جو کچھ نہیں کمایا بلکہ کسی اور نے کسی اور ملک میں کمایا وہ بھی یہاں لائے اور اسے بھی تمہاری خدمت پر لگا دیا.اس کا اس قوم پر اثر ہوتا تھا.مثالیں تو بہت ہیں ، صرف ایک مثال میں دہراتا ہوں.کانو میں ہمارا میڈیکل سنٹر ہے، جو چند سال سے وہاں کام کر رہا ہے.وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام اخراجات نکالنے کے بعد 15 ہزار پاؤنڈ سے زیادہ یعنی 3 لاکھ سے زیادہ کی رقم بچی ہوئی تھی.چنانچہ گزشتہ دو، ایک سال میں یہ ساری کی ساری رقم اس ہسپتال ( یعنی جو پہلے کلینک تھا.) کی عمارت پر لگا دی گئی.بلکہ کچھ قرض لے کر لگا دیا گیا کہ جو اس سے آمد ہوگی ، اس میں سے ایک، دو سال کے اندر واپس کر دیا جائے گا.انشاء اللہ.شاید 20 یا 25 ہزار پاؤنڈ کی رقم لگا کر ایک خوبصورت ہسپتال بنا دیا گیا.غرض ان ممالک میں سے ایک دھیلا نہیں نکالا.لیکن وہ جو ہم سے پہلے محبت کا پیغام لے کر ان ممالک میں گئے تھے ، انہوں نے وہاں کچھ چھوڑا ہی نہیں.پہلا ملک نائیجیریا تھا، جہاں میں داخل ہوا.ایک روز میں سوچ میں تھا ، ان کے حالات پر غور کر رہا تھا.میں نے ایک افریقن دوست سے کہا کہ یہ دیکھ کر مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ تمہارے پاس سب کو 498

Page 516

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970 ء کچھ تھا لیکن تمہیں ہر چیز سے ہی محروم کر دیا گیا.چنانچہ اس سے اگلے روز جب میں ان کے ہیڈ آف دی سٹیٹ سے ملا تو ان سے میں نے کہا کہ کل میں نے ایک دوست سے کہا تھا کہ صدیوں کی حکومت کے بعد ایک فقیر اور دیوالیہ ملک چھوڑ کر یہ اقوام پیچھے ہٹ گئیں اور ان کا سب کچھ وہاں سے لے گئیں.لیکن جماعت احمد یہ اپنے پیسوں پر، اپنے پیسے لے کر وہاں پہنچی اور کام شروع کیا اور وہاں جو کمایا، وہیں ان کی بہبودی کے لئے لگا دیا.محبت کا یہ عملی پیغام دلوں پر اثر کئے بغیر نہیں رہا.ان کے دل احمدی مسلمان ہوں یا عیسائی یا بد مذہب ہوں، احمدیت کے روپ میں اسلام کے حسن کو دیکھ کر اس کے گرویدہ ہیں اور وہ احمد بیت سے پیار کرتے ہیں.بد مذہب والے بھی اور لامذہب دہریہ یا پرانے مذاہب کے نشانات و آثار رکھنے دورود والے بھی احمدیت سے پیار کرتے ہیں.اور اس چیز کا میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے.میں نے نائیجیریا میں ہی ایک روز دیکھا کہ پچاس ہزار سے زیادہ لوگ جن میں غیر مسلموں کی اکثریت تھی مجھے دیکھ کر خوشی سے ناچنے لگے.وہ مجھے دیکھتے اور خوشی سے ناچنے لگ جاتے تھے.کئی کئی میل تک ور دور سے آئے ہوئے دوست مرد و زن قطار اندر قطار کھڑے تھے.ایک، ایک احمدی قطار میں تھا اور اس کے پیچھے چھ چھ سات سات غیر مسلم ہوتے تھے.غیر احمدی بھی تھے، غیر مسلم بھی تھے.غیر مسلم تو میں صرف ان کے ناج کی وجہ سے پہچانتا ہوں.کیونکہ خوشی کے اظہار کے لئے ان کا یہ طریق ہے.وہ مردوزن ایک چیخ مارتے تھے اور پھر نا چنا شروع کر دیتے تھے.جس سے میں سمجھ لیتا تھا کہ یہ یا تو عیسائی ہیں یا بد مذہب ہیں.کس چیز نے انہیں اس بات پر مجبور کیا تھا کہ وہ ایک غیر معروف اور انجانے انسان کو دیکھیں اور خوشی سے ناچنا شروع کر دیں؟ ان کے دلوں میں جو احمدیت کے حسن سلوک اور احمدیت میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حسین چہرہ انہوں نے دیکھا، اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہو گا کہ احمدیت کے فریم میں انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس دیکھا اور اس پر فریفتہ تھے.اس لئے احمدیت کا جو نمائندہ تھا، اسے دیکھ کر وہ خوش ہو جاتے تھے.( یہ میں غیروں کی بات کر رہا ہوں ، ابھی اپنوں کی بات میں نہیں کر رہا.اور میں نے لاکھوں آدمی ایسے دیکھے.جب میں نے گوون کو کہا کہ میں بڑا خوش ہوں، تمہارے ملک میں ہر شخص ہنستا اور مطمئن نظر آتا ہے.میں نے خود پچاس ہزار سے لاکھ تک مسکراہٹیں ایک دن میں وصول کیں.جب بھی میں نے کسی کی طرف مسکرا کر دیکھا، اس نے بھی میری طرف مسکرا کر دیکھا اور خوش ہوا.ایک دن میں پچاس ہزار سے لاکھ تک مسکراہٹیں وصول کرنا معمولی بات نہیں ہے.مسکرا مسکرا کر میرے تو جبڑے بھی تھک جاتے تھے.لیکن یہ ان کا حق تھا اور میں ان کا یہ حق دیتا تھا.چنانچہ گوون بڑا خوش ہوا.وہ خود بڑا پکا عیسائی ہے.499

Page 517

خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اس خطبہ میں صرف اصولی باتیں بیان کر رہا ہوں تفصیل میں نہیں جارہا.سوائے اس کے کہ کسی تفصیل کو اصول کے بیان کرنے کے لئے بتاؤں ) بہر حال وہ عیسائی ہونے کے باوجود جماعت کا گرویدہ بھی ہے.یعنی مذہب کا نور تو اس پر نہیں چمکا لیکن پیار کا جو پیغام تھا، اس سے وہ متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.میں جب اس سے ملنے کے لئے گیا تو یہ 35 سالہ نوجوان اس عمر میں ویسے ہی انسان کا سر پر غرور ہوتا ہے.جس نے سول وار ( خانہ جنگی ) ابھی ابھی جیتی تھی اور اس ملاقات سے کچھ عرصہ پہلے بیا فرانے Surrender (سرنڈر) کیا تھا.وہ Civel War ( خانہ جنگی ) جیتی تھی، جس میں غیر ممالک اور غیر ملکی مشنریز نے اس کے خلاف کام کیا تھا.اور اس نے ان کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیئے تھے.اس حالت میں، میں اس سے ملا.وہاں کی کیفیت یہ تھی کہ میری ملاقات سے کم و بیش تین ہفتے پہلے سارے ویسٹ افریقہ کا آرچ بشپ اسے ملنے آیا.اس نے اسے ٹھیک طرح منہ نہیں لگایا اور اسے دعا تک کے لئے نہیں کہا.حالانکہ وہ بھی عیسائی اور ان کا سردار.بلکہ اس آرچ بشپ نے اپنی خفت مٹانے کے لئے خود ہی چلتے ہوئے کہا، اچھا اب میں آپ کے لئے دعا کر دیتا ہوں.لیکن جس وقت میں اس سے ملنے کے لئے گیا تو جماعت کی اتنی قدر Appreciation (اپری سی ایشن) اس کے دل میں تھی کہ بیٹھتے ہی اس نے کہا، ہمارے لئے دعا کریں.میں سمجھا نہیں بات، میں نے کہا، یہ عیسائی ہے، اس نے دیکھا کہ ایک مذہبی لیڈر آیا ہے، اس لئے اس نے رسماً کہہ دیا کہ ہمارے لئے دعا کریں.میں نے جوابا کہا میں تو دعا کرتا ہوں اور میں آپ کے لئے بھی دعا کروں گا.لیکن جب میں نے نظر اٹھا کر اس کے چہرے کے آثار دیکھے تو میں نے سمجھا کہ میں اس کی بات نہیں سمجھ سکا.میں نے پھر اس سے پوچھا کہ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں اسی وقت فارمل طریقے پر ہاتھ اٹھا کر دعا کروں؟ کہنے لگا، ہاں، میرا یہی مطلب ہے.چنانچہ میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور وہ بھی اپنے رنگ میں اس میں شامل ہوا.غالباً تصویر بھی چھپ گئی ہے.( دعا کریں کہ جو ہاتھ یوں بندھے ہوئے نظر آتے ہیں، کسی دن یوں کھل جائیں.یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے.وہ دل کا بڑا اچھا ہے.پھر اس نے مسلمان مذہبی امام سے کھل کر یہ بات بھی کی کہ ان غیر ممالک نے اور غیر ممالک کے مشنریز نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ ہمارے ملک کو تباہ کر دیں، اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں ان کے برے منصوبوں سے محفوظ رکھا اور ہمارے ملک میں وہ تباہی نہیں آئی، جو یہ چاہتے تھے کہ یہاں تباہی بر پا ہو.جماعت کی تعریف کے علاوہ اس نے مجھے یہ کہا کہ ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ تمام مذاہب کے لوگ یہاں بھائی بھائی کی طرح رہتے ہیں.میں نے دل میں سوچا کہ 500

Page 518

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء یہ ہمارے ممالک سے اچھے ہیں.انہیں یہ علم حاصل ہو چکا ہے اور یہ اس حقیقت کی شناخت حاصل کر چکے ہیں کہ مذہب کا تعلق دل سے ہے.طاقت کے زور سے زبان سے تو کچھ کہلوایا جاسکتا ہے لیکن دل نہیں بدلے جاسکتے.ساری دنیا کے ہائیڈ روجن بم مل کر بھی کسی ایک آدمی کے دل میں کوئی خوشگوار تبدیلی نہیں پیدا کر سکتے.یہ ناممکن بات ہے.البتہ یہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوہ ہے، جس نے اربوں ارب انسانوں کے دلوں میں تبدیلی پیدا کر دی.اللہ تعالیٰ نے کوثر کا جو وعدہ دیا تھا، وہ پورا کیا.اس وقت بھی اور پھر اس وقت سے لے کر اب تک اور پھر قیامت تک ایسے لاکھوں، کروڑوں اربوں انسان پیدا ہوتے رہیں گے، جو اس مذہبی حسن کے گرویدہ ہو کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے ہوں گے.پس ان قوموں کو زندگی کی یہ حقیقت معلوم ہو چکی ہے اور اس لحاظ سے وہ بڑے خوش قسمت ہیں.اور سچ کہا تھا گوون نے کہ ان کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ملک میں تمام مذاہب، تمام فرقے امن سے رہ رہے ہیں.کوئی کسی کے خلاف زبان درازی نہیں کرتا، الا ماشاء الله.شاید کوئی استثناء ہو، جسے وہ قوم بہر حال پسند نہیں کرتی.ایک اور مثال دے دیتا ہوں.گھانا میں اکرا کے مقام پر ہمارا ایک اسکول ہے اور پھر 170 میل کے فاصلے پر کماسی میں ہمارا ایک اسکول ہے.کماسی سے ستر میل پر ٹیچی مان ایک جگہ ہے، جہاں ہمارے افریقن بھائی عبد الوہاب بن آدم صاحب بطور مبلغ رہتے ہیں.وہ بڑا ہی اچھا کام کر رہے ہیں.وہ بھی اور ان کی بیوی بھی.بچوں میں قرآن کریم اور مذہبی تعلیم ، احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عشق پیدا کر دیا ہے.ان بچوں کو جب آپ دیکھیں تو آپ کے بچوں کو رشک آجائے اور آپ کو بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یاد میں وہ ایسے قصیدے پڑھتے ہیں کہ انسان کے لئے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے.اور نڈر ہو کر لاؤڈ سپیکر لگا کر لاکھوں کی آبادی کے شہروں میں گاتے پھرتے ہیں کہ جس مسیح کی انتظار تھی، وہ آ گیا.مثلاً ہم جب ابادان گئے ، یہ شہر قریبا لگوس کے برابر ہے.پہلے بڑا تھا، اب کم ہے.اس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے.انہوں نے سارے شہر میں یہ منادی کی کہ جس مہدی کی انتظار تھی، وہ آ گیا.اور اس کا نائب اور تیسرا خلیفہ تمہارے اندر موجود ہے.اس سے برکتیں حاصل کرو.انہوں نے نڈر ہو کر سارے شہر میں اونچی منادی کی.پھر بچے یہی گاتے ہیں کہ مہدی آ گیا.انسان اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتا.پس انہوں نے اس بنیادی حقیقت کو جان لیا ہے کہ مذہب کا معاملہ دل سے ہے.طاقت اور زور کے ساتھ دل نہیں بدلا جا سکتا.اور چونکہ وہ اس کو شناخت کر چکے ہیں، اس 501

Page 519

خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم لئے ہمیں بڑی امید ہے کیونکہ ہمارے پاس پیغام ہی پیار کا ہے، اخوت کا ہے اور ہمدردی کا ہے اور غم خواری کا ہے اور مساوات انسانی کا ہے.میں نے عیسائیوں میں سے کسی سے بات نہیں کی، جس نے آگے سے یہ نہ کہا ہو کہ جو آپ کہتے ہیں، وہ ٹھیک ہے.میں نے لائبیریا میں ایک بارہ تیرہ سال کے بچے سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے غالباً جانسن کہا.میں نے کہا، نہیں، اس وقت کے بعد تمہارا نام جمیل ناصر ہے اور تم مسلمان ہو.وہ کہنے لگا، Yes Sir.وہ بچہ ہمارے امین اللہ خاں سالک کے ہاں کام کرتا ہے.انہوں نے اگلے روز بتایا کہ اس نے گھر جا کر کہا کہ میرا نام اب جانسن نہیں، میرا نام اب جمیل ناصر ہے اور میں مسلمان ہوں.ان کے دل ہم نے جیت لئے ہیں.لیکن ان کے مونہوں سے کہلوانا، ہمارا کام ہے.ہم بہتوں تک پہنچے ہی نہیں.ایک جگہ ایروڈ روم پر ایک دکان دارلڑ کی سے ہمیں پتہ لگا کہ ہم بہت سی جگہ غفلت کر جاتے ہیں، تبلیغ نہیں کرتے یا اتنی قربانی نہیں دیتے ، جتنی ہمیں قربانی دینی چاہیے.اس لڑکی کو دلچسپی پیدا ہوئی، اس نے چوہدری محمد علی صاحب سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ اور میں ان سے ملنا چاہتی ہوں؟ ( بعد میں وہ منصورہ بیگم سے بڑے پیار سے ملیں بھی چوہدری صاحب نے کہا کہ امام مہدی آگئے ہیں اور یہ ان کے تیسرے خلیفہ ہیں.اس نے آگے سے جو جواب دیا، وہ دل میں بڑا درد اور دکھ پیدا کرنے والا ہے.وہ کہنے لگی کہ اگر امام مہدی آ گئے ہیں تو مجھے کیوں علم نہیں؟ بات اس کی ٹھیک ہے.ہماری غفلت ہے.انہوں نے اسے یہی جواب دیا کہ یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم نے تمہیں بتایا نہیں.اس کا یہی مطلب تھا کہ اگر امام مہدی آگئے ہیں تو مجھے اس کا کیوں علم نہیں ہوا؟ میرے پاس کوئی بتانے والا کیوں نہیں آیا کہ امام مہدی آگئے ہیں؟ پس دنیا یہ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اگر مہدی معہود مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آگئے ہیں تو ہمیں علم کیوں نہیں ہوا؟ دنیا کو بتانا ایک احمدی کا فرض ہے.آسمان سے فرشتوں نے آ کر نہیں بتانا.اور اسی کی طرف میں انشاء اللہ اس خطبہ میں آپ کو لے کر آؤں گا.یہ محبت کا پیغام روز روشن کی طرح ان ممالک میں بھی اور جہاں میں نہیں جاسکا، وہاں بھی ان پر عیاں ہو چکا ہے.وہ اب ماننے لگ گئے ہیں کہ احمدی محبت اور پیار اور ہمدردی اور غم خواری اور مساوات کا پیغام لے کر ہمارے ملکوں میں آئے ہیں.مجھے بہت سے دوسرے ممالک کے سفراء ملے اور مجھ سے یہ کہنے لگے کہ ہم نے کیا قصور کیا تھا کہ آپ نے اپنے دورہ میں ہمارے ملکوں کو شامل نہیں کیا ؟ میں ان کو کیا کہتا کہ تمہارا قصور ہے یا نہیں؟ بہر حال اس سے پتہ لگتا ہے کہ انہیں احمدیت کی طرف توجہ ہے.دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے بہت ساری تبدیلیاں کر رہے ہیں.ان تبدیلیوں کے آخری نتائج کو سنبھالنا، انسان کا کام ہوتا ہے.اور یہ جماعت احمدیہ کا کام ہے.502

Page 520

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970 ء ان لوگوں میں ایک اور خوبی مجھے یہ نظر آئی کہ وہ صفائی کا بڑا خیال رکھتے ہیں.یہاں تو یہ مشہور ہے کہ بڑی گندی اور بد بودار تو میں ہیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے صرف گھانا کے ملک میں منصورہ بیگم کے عورتوں کے مصافحے اور میرے مردوں کے جو مصافحے ہوئے ، ان کا 25 ہزار سے زائد کا اندازہ ہے.لیکن مختلف جلسوں میں شمولیت اگر 30-25 ہزار مردوزن کریں تو اس سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت وہاں کی ہماری بالغ آبادی دو اور تین لاکھ کے درمیان ہے.بچے اور بچیوں کو چھوڑ کر ، یقیناً اتنی آبادی ہوگی.خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی آبادی ہے.اور سارے ممالک میں تو ہم نے بہت زیادہ مصافحے کئے ہیں اور میں نے ہزاروں معانقے کئے ہیں اور میرے خیال میں ہزاروں ہی کی تعداد میں بچوں سے پیار کیا ہے.اور سارے دورے کے اندر سوائے ایک یادو کے کسی سے بدبو نہیں آئی.ہزاروں میں سے ایک، دو کا ہونا محض استثناء ہے.غرض ان میں بد بو نہیں ہے.وہ اتنے صاف لوگ ہیں اور صفائی کے اتنے شوقین ہیں کہ ان چھ ملکوں میں سے کسی جگہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے پانی نظر آیا ہواور وہاں افریقن کپڑے نہ دھور ہے ہوں.میں نے بڑا غور کیا، جہاں کہیں بھی مجھے پانی نظر آیا، میں نے اس پر افریقوں کو کپڑے دھوتے ہوئے پایا.وہ دن میں تین دفعہ نہاتے ہیں.یہاں بھی اگر میں پوچھوں (لیکن میں پوچھوں گا نہیں ) تو شاید صرف سینکڑوں ہی ایسے نکلیں، جو دن میں دو دفعہ نہاتے ہوں گے.مگر وہ دن میں تین دفعہ نہاتے ہیں.اور ان میں سے بعض ایسے ہیں، جو دن میں پانچ دفعہ کپڑے بدلتے ہیں.وہ جبوں کے بڑے شوقین ہیں.( مجھے بھی انہوں نے پیار سے ان جبوں کے تھنے دیئے ہیں.بس دن میں کئی بار جسے بدلتے رہتے ہیں.اور ان جبوں کے ساتھ ان کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں.پہچاننا بھی مشکل ہو جاتا ہے.پس بہت صاف ملک ہیں.لوگ بڑے صاف رہتے ہیں.دل سے دعا نکلتی تھی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کو ظاہری صفائی کی توفیق عطا کی ہے، اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے کہ ان کی باطنی صفائی کے بھی سامان ہو جائیں.یہ ہماری ذمہ داری ہے.ہم نے جاکر ان کی باطنی صفائی کے انتظام کرنے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کی باطنی صفائی کے جمعدار ہمیں بنایا ہے.ہمارے سوا دوسرا کوئی باطنی صفائی کر ہی نہیں سکتا.جب اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے آپ کو چنا ہے اور سوائے آپ کے کسی کو نہیں چنا، پھر یہ تو بڑی ناشکری ہوگی کہ ہم اپنے کام سے گھبرائیں.میں نے ان کو وہاں یہ بھی کہا کہ میں یہاں آیا ہوں اور تم خوش ہو.خوشی کی کوئی انتہا ہی نہیں تھی ، میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.میری نظریں شرم سے جھک جاتی تھیں.اور مجھ میں خدا تعالیٰ کی حمد کی طاقت 503

Page 521

خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم نہیں ہے.وہ مصافحہ کرتے تھے اور خاموشی سے چہرہ دیکھنے لگ جاتے تھے.پیچھے سے دوسرا آدمی ہو کا دیتا تھا کہ چل آگے.لیکن یہ نہیں کہ کوئی بات کرنی ہے، اس لئے ٹھہر گئے ہیں.بس چہرہ دیکھے جا رہے ہیں.کئی ایک سے میں نے پوچھا بھی کیا سیری نہیں ہوتی، دیکھتے ہی چلے جاتے ہو؟ اور اتنا پیار دیکھا کہ بیان نہیں ہوسکتا.وہ احمدیت سے پیار ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پیار ہے، وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے پیار ہے کہ ان کے ذریعہ سے (اصل تو توحید کا قیام ہے) خدا تعالیٰ کے پیار کو دنیا میں قائم کیا گیا ہے.وہی ایک واحد و یگانہ ہے.باقی تو سارا فسانہ ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات ہی حقیقت اور وہی باقی رہنے والی ہستی ہے.مثلاً ایک بڑھیا، جسے پوری طرح نظر بھی نہیں آتا تھا، سفر بھی نہیں کر سکتی تھی.اس نے دو مہینے خرچ کر کے ایک ٹوکرا بنایا اور اپنی بیٹی کو بھیجا اور تاکید کی کہ اپنے ہاتھ سے دینا اور دعا کے لئے کہنا.وہ بچی کہنے لگی کہ میری ماں سفر نہیں کر سکتی تھی، مجھے اس نے یہ ٹو کرا دے کر بھیجا ہے.اس کے بنانے پر اس نے دو ماہ خرچ کئے ہیں.ہمارے ساتھیوں سے غلطی ہوئی ، وہ سیرالیون میں رہ گیا.میں نے کہا یہ ٹو کر پیچھے نہیں رہے گا.چنانچہ وہاں تاردی اور اسے ہوائی جہاز کے ذریعہ لندن منگوایا اور اب اسے میں یہاں لے آیا ہوں.میں نے ان سے کہا کہ تم یہ دیکھتے ہو کہ بازار میں اس کی قیمت دس روپے ہے اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ جس پیار نے اس کو بنایا ہے، دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے، یہ تو میں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا.بعض نے کہا کہ یہ کپڑ چھ ماہ سے تیار کرنا شروع کیا تھا اور اب ہم تیار کر کے اس کو آپ کے لئے لائیں ہیں.دھاگہ بھی ہم نے بنایا، پھر کپڑا بھی ہم نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور پھر اسے آخری شکل جود دینی تھی ، وہ بھی اپنے ہاتھ سے دی.یہ کھدر کے بڑے موٹے وزنی کپڑے ہیں.آپ انہیں دیکھیں گے تو کہیں گے کہ بازار میں شاید سات، ساڑھے سات روپے میں مل جائیں.لیکن میں نے کہا، میں ان کو نہیں چھوڑوں گا.چاہیے ان کے کرایہ پر ہزاروں روپے ہی کیوں نہ خرچ کرنے پڑیں.کچھ ہمارے ساتھ آگئے ہیں، کچھ کے یہاں لانے کا ہم انتظام کر کے آئے ہیں.وہ سارے انشاء اللہ یہاں پہنچ جائیں گے.پس احمدیت کے ساتھ ان کا اس قسم کا پیار ہے اور وہ احمدیت کے فدائی ہیں.بالکل نڈر ہیں.لیگوس میں ہم پہنچے تو ہوٹل کے باہر سینکڑوں بچے تھے، جو احمدیت زندہ باد، اسلام زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے.” زندہ باد کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ اسے سارے سمجھتے ہیں.نیز اھلا و سھلا کہہ رہے تھے.پس وہ نعرے لگا رہے تھے جب میں آگے بڑھا تو ہمارے احمدی بھائی نعرے لگاتے ہوئے 504

Page 522

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970 ء اس کے ایک بہت بڑے ہال میں داخل ہو گئے.چوتھی منزل پر ہمارے کمرے تھے.جب ہم سیٹرھیاں چڑھنے لگے تو یہ بھی نعرے لگاتے ہوئے ، ساتھ جارہے تھے.یہاں تک کہ دروازہ آ گیا اور یہ بھی ساتھ تھے.صرف اس وقت ہی نہیں بلکہ اگر دن میں مجھے تین دفعہ نیچے اترنا ہوتا تو وہی نعرے لگتے.جب بھی میں کمرے سے باہر آتا، وہ نعرے لگاتے.غیر ملکی یہ دیکھ کر حیران ہوتے اور دلچسپی لیتے اور شاید دل میں غصہ بھی آتا ہو.مگر ان کو کسی سے کوئی غرض نہیں تھی.وہ تو دل میں ایک جوش تھا کہ احمدیت نے ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روشن اور حسین چہرہ دکھایا اور اللہ قادر وتوانا سے زندہ تعلق پیدا کیا.بو میں ہم گئے تو وہاں گورنمنٹ کی لاج میں اتنا چراغاں تھا کہ جس طرح ربوہ نے چراغاں کیا، وہاں بھی چراغاں تھا.ہمارے ایک دوست نے کہا کہ آپ نے تکلف کیا ہے.آپ نے یہاں اتنا خرچ کر دیا ہے.اس نے آگے سے جواب دیا کہ ہمارے دلوں میں چراغاں ہورہا ہے، ہم اپنے در و دیوار کو اس سے محروم کیسے رکھ سکتے ہیں؟ یہ ان کی قلبی کیفیت ہے.اور یہ وہ محبت کا پیغام ہے، جسے وہ آگے پہنچار ہے ہیں.پس یہ وہ چیز ہے، جو غیروں کے دل بھی جیت رہی ہے.کماسی میں Reception ( ریسپشن ) پر ایک بڑے اثر ورسوخ والا افریقن آیا.(وہاں کے جو پیرا ماؤنٹ چیف ہیں، وہ خود گفتگو نہیں کرتے.انہوں نے اپنی طرف سے بیچ میں واسطے رکھے ہوئے ہیں.اور یہ ان کے Spokesman (سپوکس مین کہلاتے ہیں.چنانچہ ایک پیراماؤنٹ چیف کا Spokesman (سپوکس مین ) آیا ، وہ مسلمان نہیں تھا.مجھ سے کہنے لگا کہ میں ڈیڑھ سو میل سے اس لئے آیا ہوں کہ میں بیمار ہوں اور آپ سے میں نے درخواست کرنی تھی کہ میرے لئے دعا کریں.ایک اور پیرا ماؤنٹ چیف آئے ہوئے تھے، وہ اپنے ساتھ ایک ممبر لیجسلیٹو اسمبلی بھی لائے ہوئے تھے.وہ مجھ سے کہنے لگے کہ میں اتنی دور سے آیا ہوں.ہمارے علاقہ میں ڈاکٹر کی ضرورت ہے، آپ وہاں میڈیکل سنٹر کھولیں.اور یہ ایم.پی ( ممبر پارلیمنٹ) جو ہیں ، یہ اس بات کا ذمہ لیتے ہیں کہ حکومت کے قواعد کے مطابق ( جسے Rcd tapism (ریڈ ٹیپ ازم) کہتے ہیں.مختلف دفاتر سے جو کام کروانا ہوگا ، وہ یہ کروا کر دیں گے.میں نے ان سے کہا، ٹھیک ہے، آپ یہ کام کروادیں ، ہم آدمی بھیج دیں گے.میں نے بتایا ہے کہ گوون نے میرے ساتھ اس طرح گفتگو کی، جس طرح کہ وہ بڑا پرانا واقف ہو.اس نے جماعت کی تعریف کی.جماعتی خدمات کا وہ بہت ہی ممنون تھا.اس کے دل میں بھی اور اسی طرح جو دیگر Heads Of State (ہیڈز آف سٹیٹ) ہیں، جن سے میں ملا ہوں ، ان کے دلوں میں بھی جماعت کی بڑی قدر اور وقعت ہے.جب تفصیل میں جاؤں گا تو بتاؤں گا کہ سب کی یہی حالت ہے.505

Page 523

خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پھر وہاں اللہ تعالیٰ کے جو فضل دیکھے تھوڑے سے ان کے نمونے بتادیتا ہوں.نائیجیریا سے میں نے کام شروع کیا.نائیجیریا کے ایک احمدی گروہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے بغاوت کر کے اور دنیا کی حرص میں وہاں کے سارے سکولوں پر جو آپ نے کھلوائے تھے، ناجائز طور پر قبضہ کر لیا.غالبا یہ کل گیارہ سکول تھے.اور چونکہ اس وقت جماعت کا کوئی دستور نہیں تھا ، Constitution نہیں تھی ، اس واسطے قانونی طور پر کوئی چارہ جوئی نہ ہوسکتی تھی.دین میں داخل ہوئے تھے اور دنیا کے چھلکے پر ان کے پاؤں پھسل گئے.اور سکولوں پر قبضہ کر لیا.جو ابھی تک جاری ہے.لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ خودان میں بداخلاقیاں پیدا ہو گئی ہیں.دین سے کوئی رغبت نہیں رہی.سکولوں کو انہوں نے آمدنی کا ذریعہ بنالیا ہے.اور کچھ سکول شاید عنقریب بند بھی ہو جائیں.ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی چکر دیتا ہے.میں وہاں یہی سوچ رہا تھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا، جو میری غیرت کا تقاضا تھا کہ ہم فوری طور پر 16 سکول کھولیں.چنانچہ میں نے سمجھدار احباب کی ایک کمیٹی بنائی اور ان سے میں نے کہا کہ اس ملک میں، میں نے 16 ہائی سکول کھولنے ہیں.اس لئے اس سلسلہ میں پانچ سالہ منصوبہ تیار کرو.مجھے یہ غیرت تھی کہ ان کے چھوٹے بڑے ملا کر گیارہ سکول ہیں.پس ہم یہاں انشاء اللہ سولہ ہائی سکول کھولیں گے.میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ میرے افریقہ چھوڑنے سے پہلے پہلے اس کمیٹی کی پہلی رپورٹ مجھے ملنی چاہئے.اور انہیں میں نے یہ ہدایت کی کہ نقشے سامنے رکھو، مشورے کرو اور دیکھو کہ کہاں کہاں سکول کھولنے چاہیں؟ بہر حال ان کی پہلی رپورٹ مجھے وہیں مل گئی تھی.لیکن جب میں نے یہ کمیٹی بنائی تو ہوا یہ کہ اگلے روز ویسے ہی بے خیالی میں ریڈیو کو میں نے چلایا خبروں کا وقت تھا، اس وقت شمال مغربی سٹیٹ کے گورنر کے انٹرویو کا خبروں میں اعلان ہو رہا تھا (یہ شمال مغربی سٹیٹ مسلمانوں کا علاقہ ہے.کہ میری سٹیٹ میں تعلیم بڑی کم ہے اور میں نے ایمر جنسی کا اعلان کر دیا ہے.میں اپنے ذرائع اکٹھے کر رہا ہوں اور مجھے امید ہے ،عوام میرے ساتھ تعاون کریں گے.میں نے ایک دن پہلے کمیٹی بنائی تھی، چنانچہ جب میں نے یہ خبرسنی تو میں نے اس نو احمدی دوست ، جس کے متعلق آپ نے اخبار میں پڑھا ہوگا کہ میں نے کہا تھا ، Before the sun sets یعنی سورج غروب ہونے سے قبل تم احمدیت میں داخل ہو گے.اور وہ ہو گیا تھا.یہ ڈپٹی سیکرٹری ہے اور کھاتا پیتا آدمی ہے.اس نے مرسیڈیز کار رکھی ہوئی ہے.میں نے اسے کہا کہ تم جاؤ اور اس گورنر سے کہو کہ ہم تمہاری سٹیسٹ میں فوری طور پر چار سکول کھولتے ہیں.دولڑکیوں کے اور دولڑکوں کے.ہمیں تمہارے تعاون کی ضرورت 506

Page 524

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء ہے.اور یہ صرف دو قسم کے تعاون ہیں.ایک یہ کہ سکول کھولنے کے لئے ہمیں زمین دو.کیونکہ یہ ہم باہر سے نہیں لا سکتے.اور دوسرے یہ کہ ٹیچرز کے لئے Entry permit (انٹری پرمٹ ) دو.کیونکہ اس کے بغیر وہ تمہاری سٹیٹ میں آ نہیں سکتے.چنانچہ وہ اس پیشکش کو سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے ہر قسم کا تعاون کروں گا.سکولوں کے اجراء میں آپ ہماری مدد کریں.ویسے اس نے یہ بھی کہا کہ ایک فارمل خط لکھ دیں کہ یہ ہم نے پیشکش کی ہے.چنانچہ اس پر اس نے اپنے Land department (لینڈ ڈیپارٹمنٹ) کو کہا کہ جہاں بھی یہ زمین پسند کریں، وہاں ان کو زمین دی جائے.اور محکمہ تعلیم کو کہا کہ ان کی طرف سے محکمہ میں مزید کسی درخواست کے آنے کا انتظار نہ کرو بلکہ جو فارمل کاروائی ہے، یعنی فارم وغیرہ بھرنے ہوتے ہیں، وہ فارم ان کو بھجوا دو.تا کہ یہ کاروائی جلدی ختم ہو جائے.سکول ٹیچر ز نے آنا ہے اور بہت ساری حکومت سے اجازتیں لینی پڑتی ہیں.وہ ہمارے وزیری سے کہنے لگا (حالانکہ وہ غیر احمدی ہے ) کہ میں بہت خوش ہوں، آپ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لینے کی پیشکش کی ہے.میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ اگر آپ لوگ نارتھ ویسٹرن سٹیٹ یعنی سکو تو ( جو دراصل عثمان بن فودی کا گھر ہے.یہ ایک مجدد تھے، جو اس علاقے میں پیدا ہوئے تھے.میں ان کا ذکر وہاں جانے سے پہلے بھی کر چکا ہوں.) کے علاقے کے لوگوں کے دل احمدیت کے لئے جیت لیں تو تمام شمالی مسلم علاقہ احمد ی ہو جائے گا.اس واسطے آپ کوشش کریں اور یہاں سکول کھولیں.پھر اس کے بعد ہم گھانا میں آئے ، وہاں غور کیا.پھر آئیوری کوسٹ میں مشورے کئے.پھر لائبیریا میں گئے ، وہاں غور کیا اور دوستوں سے مشورے کئے اور منصوبے بنائے.وہاں کے صدر مسٹر ٹب میں بڑے اچھے آدمی ہیں.انہوں نے سوایکڑ زمین کی منظوری دے دی ہے اور اپنے محکمے کو ہدایت کی ہے کہ یہ زمین جلد جماعت احمدیہ کو دی جائے.یہ سوا یکڑ کا اکٹھا قطعہ ہے، بڑی زمین ہے.انشاء اللہ بہت کچھ بن جائے گا.پھر سیرالیون کو ہم نے اپنے واپسی کے پروگرام کی وجہ سے چھوڑ ا تھا.کیونکہ ہیگ آنے کے لئے ہم نے یہیں سے جہاز لینا تھا.اگر پہلے سیرالیون جاتے، پھر گیمبیا جاتے اور پھر سیرالیون جاتے تو یہ امر جماعت کے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی کوفت کا باعث ہوتا.اس لئے پروگرام یہ بنایا تھا کہ پہلے Overfly (اوور فلائی) کر کے گیمبیا چلے جائیں.یعنی اس ملک (سیرالیون) کے اوپر سے اڑ کر گیمبیا جائیں اور پھر وہاں سے واپس سیرالیون آئیں.اور پھر یہاں سے یورپ کو آئیں.گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے (میرے اپنے پروگرام نہیں رہنے دیئے بلکہ ) بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ 507

Page 525

خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پاؤنڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتائج نکلیں گے.خیر میں بڑا خوش ہوا.پہلے اپنا پروگرام اور منصوبہ تھا، اب اللہ تعالیٰ نے منصوبہ بنا دیا.گیمبیا چھوٹا سا ملک ہے.میرے آنے کے بعد مولویوں نے بڑی مخالفت شروع کر دی ہے.اور میں بہت خوش ہوں.کیونکہ اس آگ میں سے تو ہم نے بہر حال گزرنا ہے.ہمارے لئے یہ پیشگوئی ہے کہ آگ تمہارے لئے ضرور جلائی جائے گی.جو الہام ہے نا کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ ، آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.اس میں دو پیشگوئیاں ہیں.ایک یہ کہ تمہیں راکھ کرنے کے لئے آگ جلائی جائے گی.اور دوسری یہ کہ وہ آگ تمہیں راکھ نہیں کر سکے گی بلکہ فائدہ پہنچانے والی ہوگی تمہاری خدمت کرنے والی ہوگی.پس جب اس پیشگوئی کا پہلا حصہ پورا ہوتا ہے یعنی آگ جلائی جاتی ہے، ہم اس سے ڈرتے نہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق پہلی بات پوری کر دی اور وہ قادر وتوانا اپنے دوسرے وعدہ کو بھی ضرور پورا کرے گا.اس لئے آگ ہمیں راکھ نہیں کرے گی بلکہ خدمت کرنے والی ہوگی.بہر حال وہاں ہماری مخالفت شروع ہے.اور میں خوش ہوں.اللہ تعالیٰ سے آپ بھی دعائیں کریں، میں بھی دعائیں کرتا رہتا ہوں.مخالفت کی یہ آگ ہمیں جلانے کی بجائے ہماری کامیابیوں پر فتح کے ہار گوند ھے.اور یہ آگ خوشیاں منانے والی ہو.اور اس آگ میں سے ہمارے اوپر آگ کے شعلوں کے بجائے پھولوں کی پتیاں برسیں.یہی ہم سے وعدہ ہے، اگر وہ پورا ہوا ہے تو یہ بھی پورا ہوتا چلا جائے گا.پھر جب ہم سیرالیون میں آئے تو اور زیادہ جرات تھی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا تھا کہ کرو خرچ ، میں اچھے نتائج نکالوں گا.چنانچہ وہاں پروگرام بنائے.پھر میں لندن آیا تو میں نے جماعت کے دوستوں سے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا معلوم ہوا ہے کہ ان چھ افریقی ممالک میں تم کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ کر دو.(ویسے یہ پوری سکیم میرے ذہن میں ہے کہ کس کس رنگ میں کام چلانا ہے ؟ ) پس یہ ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم کم سے کم ہے.اور اس سلسلہ میں انگلستان کی جماعتوں میں سے مجھے دوسوایسے مخلص آدمی چاہئیں، جو دو سو پاؤنڈ فی کس کے حساب سے دیں.اور دو سو ایسے مخلصین ، جو ایک سو پاؤنڈ فی کس کے حساب سے دیں.اور باقی جو ہیں، وہ6 3 پاؤنڈ دیں.ان میں سے بارہ پاؤنڈ (ایک پاؤنڈ ایک مہینے 508

Page 526

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء کے لحاظ سے فوری طور پر دے دیں.میں نے انہیں کہا کہ قبل اس کے کہ میں انگلستان چھوڑوں ، اس مد میں دس ہزار پاؤنڈ جمع ہونے چاہئیں.اور اس وقت انگلستان سے روانگی میں بارہ دن باقی تھے.چنانچہ دوستوں کے درمیان میں صرف دو گھنٹے بیٹھا.ایک جمعہ کے بعد اور دوسرے اتوار کے روز.جس میں اور نٹے آدمی بھی آئے ہوئے تھے.اور ان دو گھنٹوں میں 28 ہزار پاؤنڈ کے وعدے ہو گئے تھے.اور 3 اور 4 ہزار پاؤنڈ کے درمیان نقد جمع ہو گئے تھے.میں نے پھر اپنے سامنے نیا اکاؤنٹ کھلوایا اور اس کا نام نصرت جہاں ریز روفنڈ رکھا ہے.یہ اکاؤنٹ وہیں رہے گا، وہیں اس میں رقم جمع ہوگی.غرض نصرت جہاں ریزروفنڈ کے نام سے ایک علیحدہ اکاؤنٹ کھلوایا اور اس میں رقم جمع کروائی.کیونکہ اس سے پہلے جو رقمیں آ رہی تھیں ، وہ مسجد فنڈ کے اکاؤنٹ میں جا رہی تھیں.میں نے جمعہ کے خطبہ میں انہیں کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا منشا ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اور ہسپتالوں اور سکولوں کے لئے جتنے ڈاکٹر اور ٹیچر چاہئیں وہاں ، مہیا کریں.میں نے دوستوں سے کہا کہ مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ یہ رقم آئے گی یا نہیں؟ یا آئے گی تو کیسے آئے گی؟ یہ مجھے یقین ہے کہ ضرور آئے گی.اور نہ یہ خوف ہے کہ کام کرنے کے لئے آدمی ملیں گے یا نہیں ؟ ملیں گے، یہ ضرور ملیں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ کام کرو.خدا کہتا ہے تو یہ اس کا کام ہے.لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی فکر کرنی چاہئے ، وہ یہ ہے کہ محض خدا کے حضور قربانی دے دینا کسی کام نہیں آتا، جب تک اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول نہ کر لے.لاکھوں لاکھ قربانیاں حضرت آدم کے زمانے سے اس وقت تک روکی گئیں.جن کا ذکر مختلف احادیث میں موجود ہے.پس مجھے یہ فکر ہے اور آپ کو بھی یہ فکر کرنی چاہئے.اس لئے دعائیں کرو اور کرتے رہو کہ اے خدا! ہم تیرے عاجز بندے تیرے حضور یہ حقیر قربانیاں پیش کر رہے ہیں تو اپنے فضل اور رحم سے ان قربانیوں کو قبول فرما.اور تو ہمیں اپنی رضا کی جنت میں داخل فرما.سعی مشکور ہو ہماری ، وہ سعی نہ ہو، جو ہمارے منہ پر مار دی جائے.اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال ہم اسی کے حضور پیش کرتے ہیں.اس کا احسان ہے کہ وہ ہماری طرف سے قبول کر لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.اور آپ کا فرمودہ در مشین میں مندرجہ آمین میں یہ چھوٹا سا مصرعہ بڑا ہی پیارا ہے.دو گھر سے تو کچھ نہ لائے“ پس یہ ایک حقیقت ہے، کسی بات پر ناز کیا؟ اور قربانی کیا؟ اور ایثار کیسا؟ اور تم پیش کیا کر رہے ہو؟ یہ تو اس کا احسان ہے کہ وہ کہتا ہے، اے میرے بندے! میں نے جو تمہیں مال دیا تھا، وہ تو اب میرے 509

Page 527

خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سامنے اخلاص اور پیار سے اور میری محبت میں میرے حضور پیش کر رہا ہے، میں اس کو اس طرح قبول کر لیتا ہوں ، جس طرح واقعی تیرا ہے.یہ تو اس کا احسان ہے.وہاں افریقہ میں بچوں نے ایک نظم پڑھی تھی.پوری تو مجھے یاد نہیں.عربی میں ہے اور بہت ہی اچھی ہے.بچوں کے نرم نرم ہونٹوں سے بڑی پیاری لگتی تھی.يَا ابْنَ آدَمَ الْمَالُ مَالِى وَالْجَنَّةُ جَنَّتِي وَ أَنْتُمْ عِبَادِى اعِبَادِى اشْتَرُوا جَنَّتِي بِمَـ یعنی اے آدم کے بیٹو! مال بھی میرا ہے اور جنت بھی میری ہے اور تم بھی میرے بندے ہو.اے میرے بندو! میں تم پر یہ احسان کرتا ہوں کہ جو میری جنت ہے، وہ میرے اس مال سے خریدلو، جو میں نے تمہیں دیا ہے.بچوں کے نرم نرم ہونٹوں سے نکلی ہوئی، یہ نظم بہت ہی پیاری لگتی تھی.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے، جس سے کوئی ہوش مند انسان انکار نہیں کر سکتا کہ مال بھی اللہ کا اور جنت بھی اللہ کی اور بندہ بھی اللہ کا اور اللہ تعالیٰ بطور احسان یہ فرماتا ہے کہ میرے مال سے میری جنت خرید لو.پس میں نے اپنے بھائیوں سے یہ کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ مال کیسے آئے گا ؟ مال تو انشاء اللہ ضرور آئے گا.کیونکہ خدا کہتا ہے، خرچ کرو.اب ایک شخص کو خدا کہے کہ خرچ کرو اور جیبیں اس کی رکھے خالی.پھر تو وہ ہندوؤں کا خدا ہوگا یا عیسائیوں کا خدا ہو گا یا ان مسلمانوں کا خدا ہوگا ، جو یہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کو سچی خواب بھی نہیں آسکتی.ہمارا وہ خدا نہیں.ہمارا خدا تو قادر وتو انا خدا ہے.وہی اللہ جو ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی تمام طاقتوں اور صفات کے ساتھ جلوہ گر ہوا.وہ ہم سے بولتا بھی ہے.اور ہم دن رات اس کی قوت اور طاقت کے معجزانہ سلوک اپنے ساتھ دیکھتے بھی ہیں.فکر یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری سعی کو سعئی مشکور بنادے.یہ نہ ہو کہ خدانخواستہ کہیں ہماری کسی غلطی یا غفلت یا گناہ یا برائی یا کسی وقت کے تکبر کے نتیجہ میں وہ دھتکار دی جائے.امام رفیق صاحب نے مجھے کہا، وقت تھوڑا ہے اور آپ نے اتنی بڑی رقم جماعت کے ذمہ لگادی ہے، جو فضل عمر فاؤنڈیشن کی ٹوٹل رقم سے دگنی سے بھی زیادہ ہے.اور جسے انہوں نے تین سال کی کوششوں کے بعد ا کٹھا کیا ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے بڑے دورے کئے ، ہمارے شیخ مبارک احمد صاحب بھی مہینہ، ڈیڑھ مہینہ وہاں رہ کر آئے اور دورے کئے.تب جا کر تین سال میں 21 ہزار پاؤنڈ جمع ہوئے.اور میں نے دو گھنٹے میں جو خطاب کیا تھا، ان دو گھنٹوں کے اندر اسی وقت 28-27 ہزار پاؤنڈ کے وعدے اور نقد رقم جمع ہوگئی.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا، میری طرف سے نہیں تھا.لیکن اس 510

Page 528

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء کرسی اور مقام کی اللہ تعالیٰ غیرت رکھتا ہے، جس مقام پر اس نے مجھے بٹھا دیا ہے.امام صاحب مجھے کہتے تھے کہ یہ رقم جمع نہیں ہوئی، آپ مجھے مہلت دیں، میں دورے کروں گا اور یہ دس ہزار پاؤنڈ کی رقم جمع کروں گا.میں یہ سن کر ہنس پڑا.میں نے انہیں کہا کہ میں ایک دن کی بھی مہلت نہیں دوں گا اور رقم جمع ہو جائے گی.خدا تعالیٰ مجھے کہے اور میں وہ بات آپ تک پہنچاؤں اور وہ کام نہ ہو.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا.جس دن میں وہاں سے چلا ہوں، اس دن ان رقوم کو نکال کر جن کی اطلاع ہمیں مل چکی تھی کہ وہ مختلف شہروں سے چل پڑی ہیں، دس ہزار، چارسو، پچاس کے لگ بھگ نقد اس مد میں جمع ہو چکے تھے.اور اگر ان رقوم کو بھی ملایا جائے ، جن کی اطلاع ہمیں مل چکی تھی تو پھر گیارہ ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ کی رقم عملاً جمع ہو چکی تھی.اور میرا اندازہ ہے کہ ایک مہینے کے اندر وہ پندرہ ہزار سے اوپر نکل جائیں گے اور ادھر فضل عمر فاؤنڈیشن میں 21 ہزار ٹوٹل اور وہ بھی تین سال کی بڑی کوششوں کے بعد اور ادھر چالیس ہزار اس وقت تک ہو گیا تھا.میں نے کہا تھا کہ پچاس ہزار تک پہنچ جاؤ، میں بڑا خوش ہوں گا.ممکن ہے، پچاس ہزار سے بھی اوپر نکل جائیں.میں نے انہیں یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے، کام کرو اور میں اس کے مطابق کام کروں گا.اب جماعت کو میں نے یہ نہیں کرنے دینا کہ وہ (افریقہ والے تو ) کہیں کہ کام تیار ہے، پیسے بھیجو اور میں کہوں کہ ہوں تو میں بڑا امیر لیکن میری دولت کا انحصار صرف وعدوں پر ہے.میرے پاس گھڑ جمع ہیں.اور جب وہ پورے ہو جائیں گے تو میں تمہیں بھجوا دوں گا.یہ تو نہیں ہو سکتا.کام تو بہر حال ہونا ہے اور تم سے لینا ہے.مثلاً انگلستان میں ہمارے بعض ڈاکٹر ہیں، وہیں پریکٹس کر رہے ہیں.ان سے میں نے کہا، دیکھو، مجھے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.تم اخلاص سے اور محبت سے اور ہمدردی سے میری آواز پر لبیک کہو.ڈاکٹر تو ویسے انشاء اللہ مجھے ضرور ملتے ہیں.لیکن تم رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرو.اگر خود نہیں کرو گے تو میں تمہیں حکم دوں گا اور میر احکم تمہیں بہر حال ماننا پڑے گا.کیونکہ حکم عدولی تو وہی کرے گا، جو احمدیت کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو گا.اور جو احمدیت سے نکل جائے ، اس کی نہ مجھے ضرورت ہے، نہ میرے اللہ کو ضرورت ہے.چنانچہ انہیں بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں.امام رفیق کے پاس بنک کا مینجر آیا ہوا تھا، اسی اکاؤنٹ کے کھولنے کے سلسلہ میں بعض فارم پر کروانے ہوتے ہیں.وہ مجھ سے بھی ملنے آیا تو میں نے اسے یہ واقعہ سنایا تو وہ بڑا خوش ہوا اور خوب ہنسا.کہنے لگا، یہ خوب ہے.رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیا پھر میں تمہیں حکم دوں گا ، جو تمہیں بہر حال ماننا پڑے گا.پھر وہ کہنے لگا کہ کیا ان میں سے کسی نے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی ہیں؟ میں نے کہا، ہاں.جنہوں نے رضا کارانہ طور پر پیش کی ہیں، انہیں ثواب بہر حال زیادہ ملے گا.511

Page 529

خطبہ جمعہ فرمود و 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس وقت حالت یہ ہے کہ اگر ہم 30 میڈیکل سنٹر کھول دیں تو اس کا وہاں اچھا اثر پیدا ہوگا کہ ہم ایک، ایک ملک میں ہر سال ایک، ایک نیا ہائی سکول کھولتے چلے جائیں گے.اس دورہ سے جماعت کو اور جوسب سے بڑا فائدہ ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے وہاں کے سارے حالات دیکھے.اور اب میں علی وجہ البصیرت کوئی کام کر سکتا ہوں.پہلے تو میں رپورٹوں پر فیصلے کیا کرتا تھا ، اب میں ہر آدمی کو جانتا ہوں.ویسے اللہ تعالیٰ کے فضل کا یہ حال ہے کہ پچھلے جماعتی الیکشن پر ہمارے نانا کے پریذیڈنٹ صاحب کے دماغ میں یہ کیڑا پیدا ہوا اور انہوں نے یہ کہا کہ اگر مجھے دوبارہ منتخب نہ کیا گیا تو میں فساد پیدا کروں گا.مجھے یہ اطلاع ملی تو میں نے ان کو تار دی کہ تم انتخاب نہ کرواؤ ، میں خود انتظام کروں گا.یہ دو مہینے پہلے کی بات تھی.اب جب میں وہاں گیا تو ایک مجلس عاملہ اور دوسرے کرتا دھرتا افریقن بیٹھے ہوئے تھے.میں نے باتوں باتوں میں ان کی طرف دیکھ کر یہ فقرہ کہا کہ میں نے Ex-president (سابق پریذیڈنٹ) کے لئے ایک تحفہ رکھا ہوا ہے.میں چاہتا ہوں کہ ان کے کان میں یہ بات پڑ جائے اور وہ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں.سب نے یہ سنا اور سمجھ گئے.پھر میں نے ایک دن مجلس عاملہ کی میٹنگ بلا کر کہا کہ دیکھو، دنیا کی کوئی قوم اور کوئی جماعت ترقی نہیں کیا کرتی ، جب تک وہ اپنے سابق عہدیداروں کی عزت اور تعظیم نہ کرے.مثلاً اگر ایک ملک ایسا ہو کہ وہ سیاسی طور پر سابق پریذیڈنٹ کو کہتا کہنے لگ جائے تو جب چار، پانچ کتے بن جائیں یعنی جب بھی وہ پریذیڈنسی سے ہٹیں گے، وہ کتے کہلائیں گے.اور جب وہ ہٹ جائیں گے تو غیر ممالک والے یہی سمجھیں گے کہ کتوں کی قوم ہے، کتوں کو پریذیڈنٹ بناتی ہے.پس دنیا میں ترقی کرنے اور دنیا کے وقار اور عزت کو حاصل کرنے والی قوم کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو اہل ہو ، اس کو عہد یدار بنا ئیں.اور جب یہ عہد یدار بدلے تو اس کی اسی طرح عزت و تکریم کریں ، جس طرح اس کی عہدیدار ہونے کی حیثیت میں کرتے تھے.کسی عربی شاعر نے کہا کہ ہم سرداروں کی قوم ہیں اور میرے پیچھے سرداروں کا ایک Queue ( کیو ) لگا ہوا ہے.جب ہماری قوم کا ایک سردار اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو پچھلا ایک قدم آگے بڑھ کر اس کی جگہ لے لیتا ہے اور وہ سردار بن جاتا ہے.کیونکہ وہ سرداروں کی قوم ہے.جماعت احمد یہ بھی سرداروں کی قوم ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو سرداری کے لئے اور قیادت کے لئے دنیا میں پیدا کیا ہے.نظام احمدیت میں ہرایکس ( یعنی سابق ) اچھا ہے.اگر اچھا نہیں تو تم جنہیں خدا نے کہا تھا کہ امانتیں اہل لوگوں کو سپرد کیا کرو تم نے کیوں نہ ایسا کیا؟ اور اگر یہ امانت اہل کے سپرد کی تو پھر اس 512

Page 530

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء کی عزت اور تعظیم ضروری ہے.اس طرح جب میں ان کو سمجھ چکا تو پھر میں نے انہیں کہا کہ دوماہ پہلے تمہارا انتخاب ہونا تھا مگر نہیں ہوا.کیونکہ میں نے منع کر دیا تھا.قانونی طور پر اس وقت جو عہد یدار ہیں ، وہ میرے ہی مقرر کردہ ہیں.کیونکہ الیکشن تو نہیں ہوا.اور اب میں ان کو بدلنا چاہتا ہوں.اور میں مشورہ کے بعد سارے بدل دوں گا اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، میں نے کہا کہ یہ تمہارے سابق پریذیڈنٹ ہیں، ان کی عزت کرنی ہے.پھر جس طرح بچوں کو پیار کرتے ہیں، اسی طرح ان کو پیار دیا.ایک تحفہ بھی دیا اور اس طرح ان کو خوشی خوشی علیحدہ کر دیا.لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو، ان کے خلاف ایک مقدمہ چل رہا تھا.انہوں نے یہ نالائنتی کی کہ مجھ سے دعا بھی نہیں کروائی.شاید اللہ تعالیٰ انہیں کوئی دوسرا نشان دکھا دیتا.میں اس ملک سے دوسرے ملک چلا گیا اور ابھی پانچ دن نہیں گزرے تھے کہ مجھے اطلاع آئی کہ ان کو ایک سال کی قید ہوگئی ہے.اور وہ جیل میں چلے گئے ہیں.میں بہت خوش ہوا.میں نے کہا، اللہ تعالیٰ نے اس مقدمے کے فیصلے سے پانچ دن پہلے مجھ سے فیصلہ کروایا.اور اس فیصلے کو روکے رکھا کہ دنیا یہ نہ کہے کہ جماعت احمدیہ کا پریذیڈیٹ قید میں گیا ہے.اب وہ پریذیڈنٹ نہیں، پریذیڈنٹ کے عہدے سے ہٹ گیا ہوا ہے.اور وہاں کی جماعت نے اس کو محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ کی شان ظاہر ہوئی ہے.اور بڑے خوش ہوئے کہ دیکھو، حضرت صاحب نے فیصلہ کیا اور پانچ دن کے بعد وہ فیصلہ ہو گیا، جو جماعت کی بدنامی کا باعث بن سکتا تھا.پس یہ چھوٹی چیزیں اور بڑی چیزیں سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور میں نے وہاں اللہ تعالیٰ کے اپنے فضلوں کو دیکھا ہے کہ دو تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے“ اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شعر کے مطابق دو ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں کوئی گھڑی ایسی نہیں پائی ، جس میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل نہ ہوا ہو.اور کوئی گھڑی ایسی نہیں ، جس میں انسان پر یہ ذمہ داری نہ آتی ہو کہ وہ اس کے فضلوں کا منادی بنے.اتنے فضل ہیں ، اتنے فضل ہیں کہ شمار نہیں کئے جاسکتے.آپ یہ سوچیں کہ سات ہزار میل کے فاصلے پر مغربی افریقہ کے ممالک ہیں، جب انہوں نے محبت اور خوشی کے اظہار کئے تو میں نے بڑی استغفار کی ، بڑی دعا کی ان لوگوں کے لئے ، بڑا فکر اورغورکیا، پھر مجھے مسئلہ سمجھ میں آ گیا.513

Page 531

خطبہ جمعہ فرمود و 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم وہاں پہنچنے کے چند دن بعد ایک دن کھڑا ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ بے حد خوش نظر آتے ہیں اور آپ خوشی کے مستحق ہیں، اس لئے آپ کو خوش ہونا چاہئے.آپ اس لئے خوش ہیں کہ جماعت احمدیہ کی قریباً اسی سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے اور آپ لوگوں کی زندگیوں میں بھی یہ پہلا موقع ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاوہ محبوب مهدی، جوامت محمدیہ میں واحد و یکتا ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوثر عطا ہونے کا وعدہ دیا گیا تھا کہ بے شمار فدائی تجھے دیئے جائیں گے.اس وعدہ کے پورا ہونے پر اس امت مسلمہ میں سے جو اتنی بڑی ہے کہ اس کا شمار نہیں، صرف ایک کو چنا.اور اس کے متعلق فرمایا.إِنَّ لِمَهْدِينَا.اپنا مہدی کہا اور صرف اس ایک کے متعلق فرمایا کہ جب بھی وہ آئے تو جو بھی امت محمدیہ کے افراد اس زمانہ میں ہوں، ان کا یہ فرض ہے کہ وہ میری طرف سے اسے سلام پہنچائیں.بڑی قدردانی اور پیار کا اظہار ہے.یہ اتنی قدردانی ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں.وہ محبوب اور وہ وجود، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا تھا، آج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس محبوب کا ایک خلیفہ تمہارے درمیان موجود ہے.اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ تو فیق عطا کی ہے کہ تم اسے دیکھو تم اس سے باتیں کرو اور تم اس کی باتیں سنو.تم اس کے وجود اور اس کے کلمات سے برکت حاصل کرو.خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ آج کا دن تمہارے خوش ہونے کا دن ہے.میں نے انہیں کہا کہ تم بھی خوش اور میں بھی خوش.تم تو اس لئے خوش ہو کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب روحانی فرزند کا ایک خلیفہ تم میں موجود ہے.اور میں اس لئے خوش ہوں کہ آج سے اسی سال قبل ایک یکا و تنہا آواز ایک Unknown ( آن نون ) یعنی غیر معروف گاؤں سے اٹھی تھی ، جس کا مقصد اللہ کے حکم، اللہ کی توحید کو قائم کرنا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کو دنیا پر ظاہر کرنا تھا، لیکن تھی وہ اکیلی آواز.مگر دنیا نے اسے نہیں پہچانا اور ساری دنیا اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اس آواز کو خاموش کرنے کے لئے اکٹھی ہو گئی.مگر ساری دنیا کی ساری طاقتیں اس آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں.تمہارے منہ سے جو در و دنکل رہا ہے، تمہارے چہروں پر جو محبت کی بشاشت ہے، تم میں سے ہر ایک فرد دلیل ہے، اس بات کی کہ وہ اکیلی آواز ایک بچے اور صادق کی آواز تھی.جھوٹے کی آواز نہیں تھی.اور جب میں یہ دیکھتا ہوں تو میں بھی بڑا خوش ہوں.تم اپنی جگہ پر خوش ہو کہ تم نے مجھے دیکھا اور میں اپنی جگہ پر خوش کہ میں نے تمہیں دیکھا.سات ہزار میل دور، نہ بھی تم وہاں گئے ، نہ دیکھا.مگر اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے تمہارے دلوں کو بدل دیا.اور تمہارے دلوں میں اس محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو پیدا کر دیا.وہ آواز جس کو 514

Page 532

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء خاموش کرنے کے لئے ساری دنیا کی طاقتیں، مسلمان بھی ، عیسائی بھی ، ہندو بھی ، یہودی بھی اور بدھ بھی، غرض ساری طاقتیں اکٹھی ہوگئی تھیں اور یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اس آواز کو خاموش کر دیں گے.مگر خدا نے کہا کہ یہ دنیا تو کیا، اس قسم کی ہزاروں دنیا اور ہزاروں دنیا کی سب طاقتیں آجائیں، تب بھی یہ آواز خاموش نہیں کی جاسکے گی.کیونکہ یہ میری آواز ہے.یہ اس بندے کی آواز نہیں.اور تم دلیل ہو، اس بات کی کہ وہ سچا تھا.ورنہ یہاں نہ وہ جماعتیں پیدا ہوسکتیں ، جو ہو گئیں.نہ ہی ان دلوں میں وہ محبت پیدا ہو سکتی، جو پیدا ہوئی.نہ میں اس پیار کو دیکھ سکتا ، جو تمہارے چہروں پر مجھے نظر آ رہا ہے.پس وہ بھی خوش تھے اور میں بھی خوش تھا.آپ بھی خوش ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.میں نے شروع میں یہ فقرہ کہا تھا کہ میں ان کے لئے محبت اور پیار اور ہمدردی اور غمخواری اور اسلامی مساوات کا پیغام لے کر گیا تھا اور آپ کے پاس جب آیا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے منادی کی حیثیت سے واپس آیا ہوں.اتنے فضل ، اتنے فضل کہ آپ ان کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے.گرمی بھی بڑی ہے، مجھے بھی لگ رہی ہے، آپ کو بھی لگ رہی ہے.اور شاید آپ میں سے چند میرے ساتھی ہوں گے.جیسا کہ میری عادت ہے کہ میں جمعہ کی نماز سے پہلے کھانا نہیں کھایا کرتا ، اس لئے میں بغیر کھانا کھائے آیا ہوں.پس بھوکا بھی ہوں اور گرمی کا بیمار بھی ہوں.لیکن کہنے کو جتنا میرا دل کرتا ہے، کہوں گا.پانچ دس منٹ اور بولوں گا.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ کے فضل ہر رنگ میں ظاہر ہوئے.ایک مثال دیتا ہوں.ہم سیرالیون میں اترے تو اللہ تعالیٰ کے پیار کا یہ جلوہ نظر آیا کہ جماعت کے علم کے بغیر ریڈیو والوں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ لاج تک پہنچنے تک آنکھوں دیکھا حال براڈ کاسٹ کریں گے.( ہمیں لاج تک جہاں ہم نے رہائش رکھنی تھی ، پہنچے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگا.اس وقت ریڈیو پر رنگ کمینٹری، جسے آنکھوں دیکھا حال کہتے ہیں ، شروع ہوئی اور وہ لگا تار ڈیڑھ گھنٹے تک یہ آنکھوں دیکھا حال براڈ کاسٹ کرتا رہا.اب یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.ہر آدمی نے یہ پروگرام سنا.سارے لوگ پہچاننے لگ گئے تھے.مگر اب وہ عزت اور عظمت کے جلوے کے ساتھ پہچانتے تھے.فوجی افسر جب گزرتے تھے تو وہ با قاعدہ سلوٹ کرتے تھے.میں نے سوچا کہ اس میں میری ذاتی کیا عزت ہے؟ اور نہ مجھے اس کی خواہش اور نہ ضرورت.میجر جنرل یا کمانڈر انچیف مجھے سلام کرے تو اس میں میری ذاتی طور پر کیا عزت؟ یہ تو اس خدا کی عزت کا اظہار ہے، جس نے اس اکیلے (مہدی معہود علیہ السلام) کو کہا تھا، میں تیرے ساتھ ہوں تو دنیا کی پروانہ کر.اور پھر اپنے عمل سے ثابت 515

Page 533

خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کیا کہ وہ واقعی مسیح موعود اور مہدی معہود کے ساتھ تھا.دنیا کی قطعا پر واہ نہیں کی ، بے خوف ہوکر بولے بھی، تقریریں بھی کیں، باتیں بھی کیں اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ ان عزتوں کو قبول کیا.ورنہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزتیں چاہئیں، دنیا کی عزتیں ہیں کیا چیز ؟ ایک عارف انسان کی نظر میں دنیا کی عزتوں کی تو ایک ذرہ کے برابر بھی حیثیت نہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی شان کا مظاہرہ تھا، اس کی قدرت اور پیار کے جلوے نظر کے سامنے تھے.عیسائی ہمیں دیکھ کر ناچ رہے ہیں، مسلمان جو ہیں ( میں نام نہیں لوں گا ) ان کی اور ہی کیفیت تھی.وہ اپنی مشکلات بیان کر کے دعا کی درخواست کرتے وقت، اچھے خاصے پڑھے لکھے ہونے کے با وجود زار و قطار رو بھی رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی درخواست بھی پیش کر رہے ہیں.یہ بھی نظارے ہم نے دیکھے.بہتوں کے لئے دعائیں کیں اور بعض وہیں پوری بھی ہوگئیں.وہاں ایک بہن ملیں ، اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا، غالبا بو میں تھیں.منصورہ بیگم سے جب ملاقات کے لئے آتی تھی، چمٹی رہتی تھی.اس کا قصہ یہ تھا کہ پورے 39 سال ان کی شادی کو ہو گئے تھے اور کوئی بچہ نہیں تھا.(اس وقت صحیح یاد نہیں، منصورہ بیگم کہتی ہیں، کوئی بچہ نہیں تھا.میرا خیال ہے کہ کوئی لڑکا نہیں تھا.بہر حال جو بھی تھا، 39 سال ہو گئے تھے ، شادی ہوئے مگر لڑ کا کوئی نہ تھا یا اس کا بچہ ہی کوئی نہ تھا.اور پھر اس نے خلافت ثالثہ کے شروع زمانہ میں (پہلے وہ سستی کرتی تھی ، ورنہ یہ نعمت شاید اسے بہت پہلے مل جاتی ) لکھنا شروع کیا اور شادی کے 40 سال بعد اللہ تعالیٰ نے اسے لڑ کا عطا کیا.چنانچہ وہ کوئی 3 سال کے قریب کا بچہ تھا.وہ اسے لے کر آتی تھی اور مزید دعا کے لئے کہتی تھی.شادی کے چالیس سال کے بعد جبکہ اس کی عمر 60-50 سال کے قریب تھی ، بچہ پیدا ہوا.اگر پندرہ سال کی عمر میں بیاہی گئی ہو ، تب بھی اس کی عمر 55 سال کی ہوگی.اور اگر 12 سال میں بیاہی گئی تو 2 5 سال کی عمر ہوگی.پورے 40 سال کی محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے اولاد عطا فرمائی.اس قسم کے معجزے پہلوں نے بھی دیکھے اور اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اپنی بے حدشان دکھا رہا ہے.مسلمان ممالک میں بھی عیسائیت قابض ہے.کیونکہ مسلمان پڑھے لکھے نہیں.نوے فیصد عیسائی کام کرنے والے ہیں.اور عیسائیت کے خلاف ہماری مہم اور عیسائیت کے خلاف میرے نعرے.لیکن تعاون کا یہ حال کہ صبح سات بجے کی خبروں میں (یہاں بھی قریباً سات بجے صبح خبریں آتی ہیں.) اس میں ، رات دس بجے اور صبح سات بجے کی خبر کے درمیان جو میرا پروگرام تھا، اس سے متعلق خبر ، پھر سات کے بعد ایک بجے کے درمیان کے جو پروگرام تھے، ان کی خبر ، پھر ایک بجے اور پانچ بجے کے درمیان جو 516

Page 534

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء واقعات ہوئے، پانچ بجے کی خبروں میں ان کے متعلق خبر اور پھر پانچ اور رات کے نو بجے کے درمیان واقعات ہوئے ، رات کے نو بجے کی خبروں میں ان کے متعلق خبر نشر ہوتی تھی.یوں کہنا چاہئے کہ ایک نمائندہ قریباً 24 گھنٹے ساتھ لگا رہتا تھا.پھر آپس میں جو باتیں کر رہے ہیں، ان کے ریکارڈ کرنے کے لئے مائیک سامنے آجاتا تھا.بو میں جو فری ٹاؤن سے 170 میل ہے.ریڈیو کی ایک نمائندہ ہر وقت باہر بیٹھی رہتی تھی.جوں ہی میں باہر نکلا ، اس نے ٹیپ ریکارڈر آن کیا اور پاس آگئی.اور پھر وہ نیوز بلیٹن سے پہلے خبریں بھجواتی تھی.ایک، دو فقرے نہیں بلکہ بعض دفعہ پندرہ منٹ کی خبروں میں پانچ، پانچ منٹ تک ہمارے متعلق خبریں ہوتی تھیں کہ فلاں جگہ گئے ، یہ ہوا.فلاں سے باتیں کیں، مسجد کا بنیادی پتھر رکھایا.لڑکوں کو مخاطب کیا اور اس میں یہ یہ ان کو کہا.علاوہ اس امید کے پیغام کے جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، میں ان کو مایوسی کے دور کرنے والا پیغام بھی دیا کرتا تھا.کیونکہ بڑا ظلم ہوا ہے، ان پر.ایک طبقہ میں مایوسی بھی پائی جاتی تھی.پس اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی توفیق دی کہ میں ان کی مایوسیوں کو دور کروں اور امیدوں کو ابھاروں.تا کہ آئندہ نسلیں مسرت کی زندگی گزار سکیں.ہماری دعا ہے کہ وہ دینی اور دنیوی ہر لحاظ سے بہتر زندگی گزارسکیں.جس نمائندہ عورت کا میں ذکر کر رہا ہوں، اس نے دیکھا کہ میں نے سکول میں ایک لڑکے کو اپنی جیب سے دو پاؤنڈ نکال کر دیئے.علاوہ اس انعام کے جو اسے سکول کی طرف سے ملنے والا تھا.بعد میں وہ ہمارے پرنسپل سے کہنے لگی کہ یہ بچہ ہے، اس نے یہ پاؤنڈ خرچ کر دینے ہیں اور یہ بڑا ظلم ہوگا.اس لئے تم اسے کہو کہ ایک پاؤنڈ میرے پاس بیچ دے کیونکہ میں اسے خرید کر تبرک کے طور پر اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں.پرنسپل نے مجھے بتایا ، میں نے کہا، اس بچے کومحروم نہ کریں.میں اسے ایک پاؤنڈ دے دیتا ہوں.چنانچہ میں نے دستخط کر کے ایک پاؤنڈ سے دے دیا.پھر اس نے منصورہ بیگم سے کہا کہ ہمارا آدھا خاندان مسلمان ہے، آدھا عیسائی ہے.انہوں نے مجھ سے ذکر کیا.میں نے اسے تبلیغ کی اور اسے بتایا کہ عیسائیت یہاں یہ دعوئی لے کر آئی تھی کہ مسیحیت کے پاس محبت کا پیغام ہے.مگر وہ نا کام ہوئی اور عیسائی اقوام نے تم پر ظلم ڈھائے.اب ہم آئے ہیں، قریباً پچاس سال سے تمہارے ملک میں کام کر رہے ہیں اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو کہ سوائے ہمدردی اور مساوات اور اخوت کے اور کوئی جذبہ ہمارے دلوں میں نہیں ہے.یہ لو بیعت فارم تم اسے پڑھو اور اللہ کے حضور دعا کرو.میں نے اسے یہ نہیں کہا کہ ابھی احمدی ہو جاؤ.کیونکہ یہ دل کا معاملہ ہے.جب تک دل نہیں مانے گا تمہارے احدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور تم دعا 517

Page 535

خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم کرو.اگر احمدیت یعنی اسلام سچا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اگر تمہارے اوپر روشنی ظاہر ہو جائے تو میں یہ ضرور کہوں گا کہ پھر کسی سے نہ ڈرنا، اپنے باپ سے بھی نہ ڈرنا اور سچائی کو قبول کر لینا.اس کی طبیعت پر یہ اثر تھا کہ چلتے وقت اس نے منصورہ بیگم سے کم از کم آٹھ ، دس دفعہ کہا کہ حضرت صاحب سے میرے لئے دعا کی درخواست کرتی رہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صداقت کو قبول کرنے کی توفیق دے آپ بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل جس قوم پر نازل ہو رہے ہوں، اس پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد کرتے چلے جاتے ہیں.میری طبیعت پر اثر ہے اور میرے دل میں بڑی شدت سے یہ بات ڈالی گئی ہے کہ آئندہ 25-23 سال احمدیت کے لئے بڑے ہی اہم ہیں.کل کا اخبار آپ نے دیکھا ہوگا.حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے 1945ء میں کہا تھا کہ اگلے ہیں سال احمدیت کی پیدائش کے ہیں.اس واسطے چوکس اور بیدا ر ر ہو.بعض دفعہ غفلتوں کے نتیجہ میں پیدائش کے وقت بچہ وفات پا جاتا ہے.میں خوش ہوں اور آپ کو بھی یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ وہ بچہ 1965ء میں بخیر و عافیت زندہ پیدا ہو گیا.جیسا کہ آپ نے کہا تھا کہ میرے دل میں یہ ڈالا گیا ہے کہ وہ بچہ خیریت کے ساتھ ، پوری صحت کے ساتھ اور پوری توانائی کے ساتھ 1965ء میں پیدا ہو چکا ہے.اب 1965 ء سے ایک دوسرا دور شروع ہو گیا.اور یہ دور خوشیوں کے ساتھ بشاشت کے ساتھ قربانیاں دیتے ہوئے ، آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانے کا ہے.اگلے 23 سال کے اندر اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہونے والا ہے.یا د نیا ہلاک ہو جائے گی یا اپنے خدا کو پہچان لے گی.یہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے، میرا کام دنیا کو انذار کرنا ہے اور وہ میں کرتا چلا آ رہا ہوں.آپ کا کام انذار کرنا اور میرے ساتھ مل کر دعائیں کرنا ہے.تا یہ دنیا اپنے رب کو پہچان لے اور تباہی سے محفوظ ہو جائے.اب جیسا کہ میں نے انگلستان میں اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ مجھے یہ فکر نہیں ہے، پیسہ کہاں سے آئے گا؟ کیونکہ خدا تعالیٰ نے شروع خلافت میں مجھے یہ بتایا تھا.تینوں اتنا دیاں گا کہ تو رج جاویں گا چنانچہ آپ نے دیکھا کہ دو گھنٹے میں 28-27 ہزار پاؤنڈ کے وعدے ہو گئے اور یہ بغیر کوشش کے ہوئے.میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میرے جانے سے پہلے پہلے دس ہزار پاؤنڈ کی رقم اس مد میں ضرور ہونی چاہئے.عہد یدار مایوس تھے لیکن میں ایک سیکنڈ کے لئے مایوس نہیں ہوا.مجھے پتہ تھا کہ میرے خدا 518

Page 536

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء نے کہا ہے، کام کرو.اگر میرے پاس ایک لاکھ پاؤنڈ ہوتا اور میرا رب مجھ سے کہتا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ کر دو تو میں اپنا لاکھ پاؤنڈ خرچ کر کے آپ کے پاس آتا کہ میرے پاس جو تھا، وہ میں نے خرچ کر دیا.اور یہ کم سے کم ہے.لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں اس کا پہلا مخاطب ہوں، مجھے کام کر دینا چاہئے.اب جب مجھے اس نے کہا کہ کم سے کم اتنا خرچ کرو تو مجھے پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پیاری جماعت کی انگلی میرے ہاتھ میں دی ہے.میں اس سے یہ کہوں گا اور وہ یہ کام کریں گے.اللہ تعالیٰ جتنی مجھے توفیق دے گا ، میں بھی اس میں حصہ لوں گا.لیکن میں آپ کی بات کر رہا ہوں.پاکستان کے لئے میں نے اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق ایک سکیم بنائی ہے.لیکن اس سے پہلے میں اس کی تمہید بیان کرنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں فارن ایکسچینج کی تنگی رہتی ہے.اور ہمیں باہر بھیجنے کے لئے روپیہ نہیں ملتا.ہم قانون کی پابندی کرنے والے ہیں.کوپن ہیگن کی مسجد کے لئے ہماری بہنوں نے جو چندہ دیا تھا، وہ رقم ابھی تک یہاں پڑی ہے.اس کا فارن ایکس چینج نہیں ملا.پس باوجود اس کے کہ ہمیں اس وقت باہر روپیہ بھجوانے کی اجازت نہیں ملے گی.پھر بھی میں اپیل کروں گا اور آپ قربانی دیں گے.انشاء اللہ.اور یہ اس لئے کہ وہ خدا ، جو ہمیں قربانیاں پیش کرنے کے لئے کہتا ہے ، وہ ہمیں قربانیاں پیش کرنے کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے.جس خدا نے میرے دل میں بڑی شدت کے ساتھ یہ ڈالا ہے اور فرمایا ہے کہ تو میرے لئے، میری عظمت کے قیام کے لئے، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار دلوں میں قائم کرنے کے لئے ، اس جماعت سے قربانیاں مانگ، وہ دے گی.ہمیں یہاں قربانیاں دینی پڑیں گی.وہ خدا ایسے سامان پیدا کر دے گا، روپیہ باہر بھجوانے کے لئے انشاء اللہ سہولتیں پیدا ہو جائیں گی.یہی حکومت جو آج فارن ایکسچینج نہیں دے رہی ، کل کو دینے لگ جائے گی.حالات بدل جاتے ہیں.ایک رات میں بدل جاتے ہیں.لیکن جس صبح میں یہ دیکھوں کہ حالات بدل گئے اور آج میں رقم باہر بھیج سکتا ہوں ، وہ صبح ایسی نہیں ہونی چاہئے کہ میرے پاس رقم موجود نہ ہو.( یہ نہیں کہ میں اعلان کروں اور رقموں کی وصولی کا انتظار کروں.میرے پاس خزانے میں رقم موجود ہونی چاہئے.اور جس صبح کو میں یہ پاؤں کہ آج سورج ایسے حالات میں طلوع ہوا ہے کہ ہمارے لئے روپیہ باہر بھجوانے کی سہولت ہے تو قبیل اس کے دفاتر بند ہوں، روپیہ باہر چلا جائے.جیسا کہ میں نے وہاں انگلستان میں کیا.کیونکہ اس وقت چلنے کا نہیں دوڑنے کا وقت آ گیا ہے.پھر یہ کہ ہم نے بہت سے کام یہاں کرنے ہیں.مثلاً افریقہ کے لئے کتابیں شائع کرنا ہے.کتابوں کے سلسلہ میں تو بعض ایسی چیزیں ہیں کہ ان کا میں آپ کے سامنے ذکر نہیں 519

Page 537

خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کر سکتا.کیونکہ ممکن ہے کہ غیر مسلم ہوشیار ہو جائیں اور خرابی پیدا کرنے کی کوشش کریں.غیر مسلم کا فقرہ میں نے جان کر کہا ہے.میں غیر احمدی نہیں کہہ رہا، وہ ایسا نہیں کریں گے.لیکن وہ چیز جو غیر مسلم کے خلاف بہت سخت جاتی ہے، وہ کتابوں کے ذریعہ ہوسکتی ہے.اور کتابیں ہم نے یہاں شائع کرنی ہیں.اس پر خرچ ہوگا.اور دوسرے کام ہیں.جب اللہ تعالیٰ سامان پیدا کرے گا، ہم فور ارقم باہر بھجوادیں گے.پاکستان کے ( احباب جماعت کے) لئے میں نے یہاں مسجد میں مغرب کے بعد بات کی تھی.اس وقت مجھے ایک بات کے متعلق شبہ تھا.اب میں وہ پوری سیکیم بیان کر دیتا ہوں.الفضل والے ابھی نوٹ کریں اور دکھا کر کل صبح کے اخبار میں آجائے.مجھے پاکستان کے دوسو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے، جو پانچ ہزار روپیہ فی کس دیں.جس میں سے ہر وعدہ کنندہ دو ہزار روپے فوری طور پر (جس کے معنی ہیں اگلے نومبر تک ) ادا کر دے.اس کو میں فوری کہتا ہوں.کیونکہ میری آواز ہر ایک کے کانوں تک پہنچنے میں وقت لگے گا.پھر تیاری کرنا ہے.کسی کے پاس رقم نہیں ہوتی ، کسی نے روپے وصول کرنے ہوتے ہیں.بہر حال فوری سے میری مراد نومبر ہے.اور اس طرف بھی بعض دوستوں نے توجہ دلائی تھی کہ زمینداروں کو نومبر میں ادا کرنے کی سہولت ہوگی، اس لئے دو، ایک ماہ بڑھا کر فوری کی یہ مہلت نومبر تک بڑھا دی ہے.پس پانچ ہزار میں سے دو ہزار روپے نومبر تک مل جانے چاہئیں اور بقیہ تین ہزار اپنی سہولت کے ساتھ تین سال میں ادا کریں.لیکن یہ دو ہزار روپے نومبر سے پہلے ملنا چاہئے.ان دوسو مخلصین کے علاوہ مجھے دوسو ملنا دوستی ایسے مخلصین کی ضرورت ہے، جو دو ہزار فی کس وعدہ کریں.اس میں سے ایک ہزار فوری (اسی معنی میں) اور بقیہ ایک ہزار تین سال میں بسہولت ادا کریں.اس کے علاوہ مجھے کم از کم ایک ہزار ایسے مخلصین کی ضرورت ہے، ( خدا کرے کہ ان کی تعداد دو ہزار سے بھی بڑھ جائے ) جو 500 روپے اس مد میں دینے کا وعدہ کریں.جس میں سے 200 روپے فوری دیں اور بقیہ 300 روپے جب چاہیں، اپنی سہولت کے ساتھ اگلے تین سال کے اندر ادا کر دیں.اور ان چودہ سومخلصین کے علاوہ، جو دوست 500 سے کم رقم دینا چاہتے ہیں ، ہم نے ان کے وعدے نہیں لینے.بلکہ وہ اس مد میں ( جو کھل چکی ہے ) خزانہ میں جمع کروائیں اور رسید لے لیں اور مجھے اطلاع کر دیں.میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول فرمائے.لیکن اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں.مثلاً اگر وہ اپنی رقم غلط جگہ بھیج دیں گے تو اس دفتر کا وقت ضائع ہو گا.نصرت جہاں ریز روفنڈ کی مدر بوہ کے خزانہ میں قائم ہو چکی ہے، وہاں رقم جمع کروا ئیں اور ان سے رسید لے لیں اور مجھے اطلاع کر دیں.میں آپ سے وعدہ کرتا 520

Page 538

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء ہوں کہ آپ کے لئے خاص طور پر دعا کروں گا.لیکن 500 سے کم رقم دینے والوں سے وعدہ نہیں لیا جائے گا.دوست جتنا دینا چاہتے ہیں، وہ نقد خزانہ میں جمع کروادیں.پھر اللہ تعالیٰ اور توفیق دے تو اور رقم بھی جمع کروادیں.البتہ ہم وعدہ کے رجسٹر میں ان کا نام نہیں لکھیں گے.رجسٹر صرف ان کا بنے گا ، جو 500 یا اس سے زائد رقم کا وعدہ کریں گے.اب ایک صف تو نصرت جہاں ریز روفنڈ میں پانچ ہزار روپے یا اس سے زائد دینے والوں کی ہوگی.کیونکہ اس میں یہ شرط تو نہیں کہ پانچ ہزار سے زائد نہیں دینے.اگر کسی کو اللہ تعالیٰ پانچ لاکھ کی توفیق دیتا ہے تو اسے پانچ لاکھ کی رقم پیش کر دینی چاہئے.غرض پانچ ہزار یا اس سے زائد دینے والوں کی صف اول، دو ہزار یا دو ہزار سے زائد ، پانچ ہزار تک یا 4999 تک رقم دینے والوں کی صف نمبر 2 اور جو پانچ سوروپے سے زائد یعنی 1999 روپے تک دینا چاہتے ہیں، ان کی صف نمبر 3 ہوگی.جو زائد رقم ہوگی ، اس کا بھی 2/3 حصہ نقد دینا پڑے گا.” پنج دو نجی زمیندار دوست سمجھ جاتے ہیں کہ پنچ دونجی میں سے دو دونجی فوری طور پر اور تین بعد میں.لیکن صف چہارم وہ ہوگی، جو وعدہ کے کاغذوں میں Exist (اگرسٹ نہیں کرے گی.لیکن خزانہ کے اموال میں وہ موجود ہوگی.یعنی جس کو پانچ روپے کی یادس روپے کی یا چار سو روپے کی یا ساڑھے چار سوروپے کی توفیق ہے، وہ اسے خزانہ میں داخل کروائے.وہاں سے رسید لے اور دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.مجھے بھی ضرور اطلاع دے.میں ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں.بعض لوگوں کا یہ بڑا اچھا جذ بہ ہے کہ وہ قربانی دیتے ہیں مگر کسی کو خبر نہیں ہونے دیتے.خلیفہ وقت کسی نہیں ہوا کرتا.کیونکہ اس سے آپ نے دعائیں لینی ہیں، اس سے برکتیں حاصل کرنی ہیں.جن کی فطرتیں ایسی ہیں ، وہ بڑی پیاری فطرتیں ہیں.وہ کسی کو نہ بتائیں ، خزانہ میں جمع کروائیں.لیکن مجھے ضرور بتائیں.تا کہ میں ان کا نام لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ طور پر جھکوں اور ان کے لئے دعائیں کروں.میں تو کسی ہوں ہی نہیں.میں تو آپ کے وجود کا حصہ ہوں.پس مجھے ضرور اطلاع دیں.وہ دوست جو زیادہ رقم دینے والے ہیں، یعنی پانچ سو سے دو ہزار تک، دو ہزار سے پانچ ہزار تک اور پانچ ہزار سے اوپر جہاں تک مرضی ہو، ان کے نام ہمیں بہر حال لکھنے پڑیں گے.اور ان کو یاد دہانیاں بھی کروائی جائیں گی.انگلستان سے میں ان سب دوستوں کے نام اور پتے لے آیا ہوں ، جنہوں نے اس فنڈ کے لئے وعدے کئے ہیں.میرے ذہن میں یہ ہے کہ آج سے چھ ماہ کے بعد بطور reminder 521

Page 539

خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم ریمائنڈر ) ہر ایک کو ایک عام خط لکھوں گا.اور پھر چھ ماہ کے بعد دوسرا خط لکھوں گا کہ یا تو فوری ادا کر دیا اگلا سال آ رہا ہے، نصف دوسرے سال میں جو باقی رہ گیا ہے، وہ ادا کرو.پس انشاء اللہ وہ ضرور دیں گے.میں نے شروع میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ کہا ہے کہ میرے نام پر قربانیاں لیتا جا اور جماعت وہ قربانیاں دیتی چلی جائے گی.میرا کام ہے کہ میں سوچوں اور اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق اپنا ہر منصوبہ بناؤں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، پین کے متعلق میں نے ابھی کوئی منصو بہ نہیں بنایا.کیونکہ اگر میں صحیح سمجھا ہوں، اللہ تعالیٰ کا منشا بھی یہی ہے.میں بہت پریشان تھا ، سات سو سال تک وہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے، اس وقت کے بعض غلط کار علماء کی سازشوں کے نتیجہ میں وہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی، وہاں کوئی مسلمان نہیں رہا.ہم نے نئے سرے سے تبلیغ شروع کی.چنانچہ اس ملک کے چند باشندے احمدی مسلمان ہوئے.وہاں جا کر شدید ذہنی تکلیف ہوئی.غرناطہ جو بڑے لمبے عرصہ تک دار الخلافہ رہا، جہاں کئی لائبریریاں تھیں، یو نیورسٹی تھی، جس میں بڑے بڑے پادری اور بشپ مسلمان استادوں کی شاگردی اختیار کرتے تھے، مسلمان وہاں سے مٹادیئے گئے.غرض اسلام کی ساری شان و شوکت مادی بھی اور روحانی بھی اور اخلاقی بھی مٹادی گئی ہے.طبیعت میں اس قدر پریشانی تھی کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے.غرناطہ جاتے وقت میرے دل میں آیا کہ ایک وقت وہ تھا کہ یہاں کے درودیوار سے درود کی آوازیں اٹھتی تھیں.آج یہ لوگ گالیاں دے رہے ہیں.طبیعت میں بڑا تکدر پیدا ہوا.چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ جس حد تک کثرت سے درود پڑھ سکوں گا، پڑھوں گا.تا کہ کچھ تو کفارہ ہو جائے.لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت نے مجھے بتائے بغیر میری زبان کے الفاظ بدل دیئے.گھنٹے ، دو گھنٹے کے بعد اچانک جب میں نے اپنے الفاظ پر غور کیا تو میں اس وقت درود نہیں پڑھ رہا تھا.بلکہ اس کی جگہ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ اور لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ پڑھ رہا تھا.یعنی تو حید کے کلمات میری زبان سے نکل رہے تھے.تب میں نے سوچا کہ اصل تو تو حید ہی ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بھی قیام تو حید کے لئے تھی.میں نے فیصلہ تو درست کیا تھا.یعنی یہ کہ مجھے کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں.لیکن الفاظ خود منتخب کر لئے تھے.درود سے یہ کلمہ کہ اللہ ایک ہے، زیادہ مقدم ہے.چنانچہ میں بڑا خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی میری زبان کے رخ کو بدل دیا.ہم غرناطہ میں دورا تیں رہے.دوسری رات تو میری یہ حالت تھی کہ دس منٹ تک میری آنکھ لگ جاتی پھر کھل جاتی اور میں دعا میں مشغول ہو جاتا.ساری رات میں سو نہیں سکا.ساری رات اسی سوچ میں گزرگئی کہ ہمارے پاس مال نہیں.یہ بڑی طاقتور قومیں ہیں.مادی لحاظ سے بہت آگے نکل چکی ہیں.ہمارے پاس ذرائع نہیں ہیں، وسائل نہیں ہیں.ہم انہیں کس طرح مسلمان کریں گے ؟ حضرت مسیح موعود 522

Page 540

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء ليه الصلوۃ والسلام کا جو یہ مقصد ہے کہ تمام اقوام عالم حلقہ بگوش اسلام ہو کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خادم بن جائیں گی.یہ بھی اقوام عالم میں سے ہیں.یہ کس طرح اسلام لائیں گی ؟ اور یہ کیسے ہو گا ؟ غرض اس قسم کی دعائیں ذہن میں آتی تھیں اور ساری رات میرا یہی حال رہا.چند منٹ کے لئے سوتا تھا.پھر جاگتا تھا.پھر چند منٹ کے لئے سوتا تھا.ایک کرب کی حالت میں، میں نے رات گزاری.وہاں دن بڑی جلدی چڑھ جاتا ہے.میرے خیال میں تین یا ساڑھے تین بجے کا وقت ہوگا.میں صبح کی نماز پڑھ کر لیٹا تو یکدم میرے پر غنودگی کی کیفیت طاری ہوئی.اور قرآن کریم کی یہ آیت میری زبان پر جاری ہو گئی:.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق:۴) اس بات کا بھی جواب آ گیا کہ ذرائع نہیں، کام کیسے ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر تو کل رکھو.اور جو شخص اللہ پر توکل رکھتا ہے، اسے دوسرے ذرائع کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی.وہ اس کے لئے کافی ہے.إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِه اللہ تعالیٰ جو اپنا مقصد بناتا ہے، اسے ضرور پورا کر کے چھوڑتا ہے.اس لئے تمہیں یہ خیال نہیں آنا چاہئے، یہ خوف نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ یہ نہیں ہوسکتا.یہ ہوگا اور ضرور ہوگا.کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض ہی یہ ہے کہ تمام اقوام عالم کو وحدت اسلامی کے اندر جکڑ دیا جائے.اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں لا کر کھڑا کر دیا جائے.دوسرا یہ خیال تھا اور اس کے لئے میں دعا بھی کرتا تھا کہ خدایا یہ ہو گا کب؟ اس کا جواب بھی مجھے مل گیا.قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور تخمینہ مقرر کیا ہوا ہے.جس وقت، وہ وقت آئے گا، ہو جائے گا.تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں.مادی ذرائع اگر نہیں ہیں تو تم فکر نہ کرو.اللہ کافی ہے.وہ ہو کر رہے گا.چنانچہ میرے دل میں بڑی تسلی پیدا ہوگئی.اس کے متعلق میں نے آپ کے سامنے کوئی سکیم نہیں رکھی.کیونکہ ابھی وہاں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کا منشا معلوم نہیں ہوا.البتہ سپین کے متعلق میں ایک اور کوشش کر رہا ہوں، جس کو ظاہر کرنا، اس وقت مناسب نہیں.لیکن جس کے لئے دعا کرنا، آج ہی ضروری ہے.اس لئے بڑی کثرت سے یہ دعا کریں کہ 523

Page 541

خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم جس مقصد کے لئے میں سپین گیا تھا اور جس کے پورا ہونے کے بظاہر آثار پیدا ہو گئے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ہمارا کام کر دے.کیونکہ ہم کمزور اور عاجز بندے ہیں.پھر وہ دن ساری امت مسلمہ کے لئے بڑی خوشی کا دن ہوگا.بعض اس کو پہچانیں گے اور خوش ہوں گے.بعض نہیں پہچانیں گے اور خوش نہیں ہوں گے.یہ ان کی بدقسمتی ہوگی.لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دن ساری امت مسلمہ کے لئے خوشی کا دن ہو گا.میں نے مغربی افریقہ کے ممالک جہاں مسلمانوں کی بڑی بھاری اکثریت ہے، ان میں سے بعض کے سفراء سے یہ کہہ دیا تھا کہ میرا ایک مشن ہے، جس کے لئے میں پین جارہا ہوں.اور تم دعا کرو اور اس سے اصل مقصد میرا یہ تھا کہ میں دعا کے لئے کہوں گا، ان کے دل میں بھی احمدیت کی کوششوں کے بارے میں ایک چسپی اور پیار پیدا ہو گا.چنانچہ وہ اتنے خوش ہوئے کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے.اور انہوں نے بڑی دعائیں دیں.بلکہ ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ مسٹر گر نیکوکو کہہ دینا کہ میرے چانے سپین کی اس وقت مدد کی تھی، جب کہ انہیں مدد کی ضرورت تھی.اگر وہ آپ کا یہ کام کر دیں تو میرا اچھا بھی بہت خوش ہوگا.غرض انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا.لیکن میں نے انہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ پر میرا تو کل ہے، وہ پورا کرے گا.انشاء اللہ خدا کرے کہ وہ وقت مقدر جلد آ جائے.اور ہمارے لئے آج ہی وہ خوشیوں کے دن کی ابتدا بن جائے.بو میں بھی گرمی میں مجھے سفر کے بعد بڑی کوفت کے باوجود کوئی اڑھائی ہزار احباب سے مصافحے کرنے پڑے تھے.مجھے شبہ تھا کہ میں بے ہوش ہو کر نہ گر جاؤں.جب یہ کیفیت پیدا ہوئی تو میں نے پانی مانگا اور پھر میں نے ان سے کہا، مجھے پانی پلاتے جاؤ یا شاید ڈاکٹر صاحب تھے، ان کو خیال آیا.غرض تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دوست مجھے پانی پلا دیتے تھے اور میں پھر وہ سلسلہ شروع کر دیتا، یہاں بھی میں یہی کر رہا ہوں.) آج کے خطبہ میں، میں نے بعض اصولی اور بنیادی باتوں کا ذکر کیا ہے.افریقہ میں اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے وقت مجھے ان کی یہ کیفیت بڑی پیاری لگی کہ مذہب دل کا معاملہ ہے.مذہب کے معاملہ میں لڑائی بالکل احمقانہ بات ہے.چنانچہ وہ آپس میں بالکل نہیں لڑتے ، نہ عیسائی مسلمانوں سے اور نہ مسلمان عیسائیوں سے.بلکہ امن سے وہ رہ رہے ہیں.وہ آپس میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں، دلائل دیتے ہیں.ایسے دلائل کہ ان کو سن کر یہاں شاید لوگ ایک دوسرے کا سر پھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں.مگر وہ بشاشت سے ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ جس کے دل کی کھڑکیاں کھول دے ، وہ اسلام لے آئے.وہ اور بات ہے.لیکن ان کو یہ پتہ ہے کہ مذہب بہر حال دل کا معاملہ ہے.اسے سر پھوڑ کر حاصل نہیں کیا جا سکتا.524

Page 542

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 12 جون 1970ء آپ یہ بھی دعا کریں کہ جن ملکوں میں یہ ذہنیت نہیں، اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں بھی یہ ذہنیت پیدا کر دے اور ان کو بھی سمجھ آجائے.میں تو بڑی تحدی کے ساتھ یہ بات کیا کرتا ہوں اور مخالف اسلام کو شرمندہ کر دیتا ہوں.ہوائی جہاز میں دو امریکن بیٹھے ہوئے تھے.ہم 35 ہزارفٹ کی بلندی پر اڑ رہے تھے کہ کسی چھوٹی سی بات پر ان سے واقفیت ہوگئی.وہ میرے پیچھے ہی بیٹھے ہوئے تھے.مجھے موقع مل گیا، میں نے ان سے کہا کہ میں تو حیران ہوتا ہوں کہ فر فرد سے نفرت اور حقارت کا اظہار کر رہا ہے، قومیں قوموں کو نفرت اور حقارت سے دیکھ رہی ہیں.پیار سے کوئی ایک دوسرے سے معاملہ نہیں کرتا.میں نے ان سے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ انسان انسان سے پیار کرنا سکھے.چونکہ ہیں تو یہ پڑھی لکھی ہوشیار تو میں ، نہ میں نے امریکہ کا نام لیا تھا اور نہ روس کا ، وہ آگے سے مجھے کہنے لگے کہ اب ہماری روس کے ساتھ Under Standing ( انڈرسٹینڈنگ ہوگئی ہے.یعنی کچھ معاملہ فہمی ہو گئی ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے لگے ہیں.وہ سمجھ گئے کہ یہ ہمیں کو سمجھا رہا ہے.میں نے ان سے کہا، یہ ٹھیک ہے تمہاری روس سے Under Standing ( انڈرسٹینڈنگ ) ہوگئی ہے.But out of fear Not out of love تم نے سمجھوتہ اس خوف سے کیا ہے کہ ایک دوسرے کو ہلاک نہ کر دیں.محبت کے نتیجہ میں یہ سمجھوتہ نہیں ہوا.چنانچہ وہ گھسیانے سے ہو کر کہنے لگے، بات آپ کی ٹھیک ہے.لیکن بہر حال ایک قدم صحیح راستے کی طرف اٹھ کھڑا ہوا ہے.میں نے کہا ، یہ ٹھیک ہے، یہ میں مان لیتا ہوں لیکن یہ ظلم ہے کہ ہم محبت کرنا بھول گئے.ایک مسلمان کے لئےلمحہ فکر یہ ہے کہ جس کو وہ اپنا آقا و مطاع کہتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ، جس کے متعلق وہ اس عقیدے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اللہ کا محبوب اور اللہ کی محبت اس کی محبت کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی اس کے مسلک کو چھوڑتے ہیں.کس سے نفرت کی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ کوئی ہمیں بتائے.جب سختی کی اصلاح کے لئے کی.آپ کی زندگی میں انسان کے لئے نفرت اور حقارت کا کوئی ایک واقعہ بھی نہیں دکھا سکتا.انسان کی بد اعمالیوں سے نفرت بھی کی، انہیں حقارت سے بھی دیکھا.بد اعمالیوں سے ہمارا بھی حق ہے کہ ہم نفرت کریں.ورنہ ہمارے اندر وہ اثر کریں گی ، جس سے ممکن ہے ، ہمارے بچے ہلاک ہو جائیں.لیکن بد عمل یعنی بر اعمل کرنے والے سے آپ نے نفرت نہیں کی.اس یہودی سے آپ نے نفرت نہیں کی، جس نے اپنی بیماری کی وجہ سے آپ کے بستر کو گندا کر دیا تھا.اس قوم سے نفرت نہیں کی، جس نے سالہا سال تک آپ کو آپ کے صحابہ کو انتہائی تکالیف پہنچائیں.جنہوں نے اڑھائی سال تک شعب ابی طالب میں قید رکھ کر آپ کو بھوکا مارنا چاہا.جب ان کی بھوک کا وقت آیا تو خدا کے اس بندے نے ان کے لئے روزی اور ان کے پیٹ بھرنے کا سامان پیدا کیا.525

Page 543

خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم انہیں یہ نہیں کہا کہ تم حقیر اور قابل نفرت لوگ ہو، جاؤ، مر جاؤ بھوکے، مجھے اس سے کیا.بلکہ انسانی ہمدردی جوش میں آئی اور انسانی بھائی کا پیار جو ہے، اس کی موجیں دل سے اٹھیں اور ان کی خدمت کے لئے (بہتوں کے پیٹ کاٹ کر شاید ) پہنچ گئے.کس انسان سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نفرت کی تھی کہ کوئی آج ہم سے کہے کہ تم دوسرے انسان سے نفرت کرو؟ اس سفر میں کئی جگہ جاہل اور کم علم لوگ مجھ سے یہی توقع کرتے رہے کہ میں نفرت کے بیان دوں.ان سے میں نے یہی کہا اور اپنے جلسوں میں بھی یہی کہا کہ مجھے خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ تم تمام بنی نوع انسان کے دلوں کو محبت اور پیار کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتو.میں کسی قوم یا فرد سے نفرت نہیں کر سکتا.اور نہ ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ سکتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے ظلی طور پر انہیں ، جس طرح وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے تھے، میرے بھی پیارے بنا دیا ہے.اور یہ میں نے اپنی زندگی میں مشاہدہ کیا ہے کہ پیار میں، میں نے جو طاقت دیکھی ہے ، وہ دنیا کی تمام مادی طاقتوں سے بڑھ کر ہے.اور پیار جو چیزیں جیت سکتا ہے، وہ دنیا کی مادی طاقتیں نہیں جیت سکتیں.پس اے میرے پیارے احمدی بھائیو اور بہنوں اور بڑوں اور بچوں ! اس سبق کو یا درکھو.دنیا اپنی طاقت کے زعم میں دوسروں کو ہلاک کر سکتی ہے اور ان کے سر پھوڑ سکتی ہے، مگر میں اور تم اس غرض کے لئے پیدا نہیں کئے گئے.ہم صرف ایک ہی مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ ہم محبت اور پیار کے ساتھ دنیا کے دلوں کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتیں.اور وہ تو حید قائم ہو، جس تو حید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے.پس کسی سے نفرت نہ کرو.ہمارے اس ملک میں بھی ایک بے ہودہ اور گندی آگ سلگ رہی ہے.خود کو اس کے اندر نہ پھینکو ، خود کو اس گند میں ملوث نہ کروں کسی سے نفرت نہ کرو، گند کو دور کرنے کی کوشش کر وہ ظلم کو مٹانے کی کوشش کرو حق دار کو حق دلانے کی کوشش کرو تم ہر ایک سے محبت اور پیار سے پیش آؤ.انشاء اللہ ایک دن آئے گا، جب یہی لوگ شرمندگی کی وجہ سے آپ کے سامنے آنکھیں اٹھا کر نہیں دیکھ سکیں گے.کیونکہ انہوں نے آپ کو ہر قسم کے دکھ پہنچائے اور آپ کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھا لیکن اس کے بدلے میں انہوں نے آپ کی طرف ذرا بھی دیکھ نہیں پایا.اور نہ انہوں نے اپنے لئے آپ کی نگاہ میں سوائے پیار کے کوئی اور جذبہ موجزن پایا.اللہ تعالیٰ ہم میں سے سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.ہمارا یہی ایک ہتھیار ہے اور بڑا پیارا ہتھیار اور اسی ہتھیار کے ساتھ ہم نے اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق دنیا کے دل جیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اللهم امین.مطبوعه روزنامه الفضل 15 جولائی 1970 ء ) 526

Page 544

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرمود : 19 جون 1970ء جامعہ احمدیہ میں کتابی تدریس کے علاوہ محبت الہی کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جون 1970ء تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے قرآن مجید کی یہ آیات پڑھیں :.اِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ عَلَى الْأَرَابِكِ يَنْظُرُونَ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ 8 يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّختُومٍ خِتُمُهُ مِسْكَ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِيهِ عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ (سورۃ مطفیفین آیت 23 تا 29 ) اور پھر فرمایا:.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو نیکیوں میں آگے بڑھ جاتے اور سبقت لے جاتے ہیں، انہیں مقام نعیم میں رکھا جاتا ہے.ان کا مقام، وہ مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر وقت نعمتوں کا نزول ان پر ہوتا رہتا ہے.اور اس مقام نعیم کی وجہ سے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے وہ وافر حصہ پاتے ہیں، ان کے چہروں پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شادابی دنیا دیکھتی ہے.محبت الہی میں ہر وقت وہ مست رہتے ہیں.اور یہ محبت الہی ان کے رگ وریشہ میں کچھ اس طرح سرایت کر جاتی ہے کہ ان کے وجود مشک کی طرح مہک اٹھتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی خوشبو لوگ بھی ان کے وجود سے سونگھتے ہیں.فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے کہ ایک خواہش کرنے والے، ایک آرزو کرنے والے کو چاہئے کہ اس مقام کی خواہش کرے.اس سے نیچے کی خواہش تو کوئی خواہش نہیں.انسان کو اس مقام کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی آرزو ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مقام نعیم عطا کرے.اور یہ وہ مقام ہے کہ حقیقی عزت اور حقیقی شان انسان کی اسی مقام میں ہے.ایک دنیا دار انسان کو ساری دنیا کی بادشاہتیں بھی حقیقی عزت عطا نہیں کر سکتیں.اگر ساری دنیا کی بادشاہتیں اکٹھی ہو کر یہ فیصلہ کریں کہ فلاں شخص دنیا میں معزز ترین انسان ہے اور اسی کے مطابق ( ظاہری طور پر ) اس سے سلوک کریں.لیکن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کے لئے پیار نہ ہو بلکہ غضب کی جھلکیاں نظر آ رہی ہوں تو نہ کوئی عزت ہے اس شخص کی ، نہ کوئی 527

Page 545

خطبه جمعه فرموده 19 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم شان ہے اس شخص کی.یہ مقام نعیم کی شان اور عزت اور احترام ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس کے لئے میں نے تمہیں پیدا کیا.اور اس کے حصول کی تمہیں کوشش کرنی چاہئے.افریقہ کے دورہ میں واقفین مبشرین کے حالات میں نے دیکھے، ان سے ملا.جو عزت اللہ تعالیٰ نے ان کی اس مقام نعیم کی وجہ سے قائم کی ہے، وہ میرے مشاہدہ میں آئی.لیکن کچھ وہ بھی تھے کہ جو مقام نعیم کو حاصل نہیں کر سکے تھے.ان کو بھی میں نے دیکھا اور ان کی زندگیوں کا مطالعہ کیا.اور ان کے کاموں پر تنقیدی نگاہ ڈالی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان چھ ممالک کے تمام مبشر انچارج جو ہیں، وہ ظاہری طور پر جو مجھے نظر آیا ( دلوں کا حال تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور مستقبل اور غیب کی خبر صرف اسی کو ہے.لیکن جو میں نے محسوس کیا.) اور جو میں نے مشاہدہ کیا، وہ یہ تھاکہ اللہ تعالیٰ کا ان پر بڑا فضل ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اس مقام نعیم میں رہنے والے ہیں.بے نفس، اللہ کی محبت میں مست ، اس کی مخلوق کی خدمت کرنے والے اور اللہ تعالی کے حکم سے اس دنیا میں بھی عزت کو پانے والے ہیں.نائیجیریا میں فضل الہی صاحب انوری ہیں.غانا میں کلیم صاحب ہیں.آئیوری کوسٹ میں قریشی ( محمد افضل ) صاحب ہیں.جن کو پنجابی میں بیبا مبشر بھی کہا جا سکتا ہے.بہت سادہ اور پیاری ان کی طبیعت ہے.بڑی پیار کرنے والی اور آرام سے سمجھانے والی اور اپنے آرام کو اور اپنی بہت سی ضرورتوں کو دوسروں کے لئے قربان کر دینے والی ہے طبیعت ان کی.لائبیریا میں نئے مبلغ گئے ہیں، امین اللہ سالک.ابھی ان کے متعلق پوری طرح تو کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس وقت تک جو کام انہوں نے کیا، اس سے یہی پتہ لگا.وہاں کے پریذیڈنٹ شب مین بھی ان کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.سیرالیون میں ہمارے صدیق صاحب ہیں.گیمبیا میں مولوی محمد شریف صاحب ہیں.میں نے محسوس کیا کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے مقام نعیم عطا کیا ہے.اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ، میں نے ان کے لئے عزت کا مقام دیکھا ، اسی طرح دنیا کی نگاہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک عزت اور احترام کا مقام عطا کیا ہے.ہمارے سفراء ان کی تعریف کرتے تھکتے نہیں.دوسرے ملکوں کے سفراء ان سے بڑے پیار سے ملتے ہیں اور پیار کے تعلقات ان کے ساتھ قائم ہیں.حکومت ان سے راضی ہے، عوام ان پر خوش ہیں.غرض ہر لحاظ سے ان کے چہروں پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کی شادابی ہمیں نظر آتی ہے.اور ہماری جماعت کو ان کے لئے بہت دعا ئیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ انہیں ابرار ہی میں رکھے اور ہمیشہ اپنی نعمتوں کا وارث انہیں بنا تار ہے.وہ ابرار کے گروہ میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوں اور ابرار کے گروہ میں ہی اس دنیا میں وہ اٹھائے جائیں.528

Page 546

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود : 19 جون 1970 ء لیکن بعض نہایت افسوسناک مثالیں بھی نظر آئیں.ایک نئے ناتجربہ کار مبلغ گئے ہوئے ہیں.ہم مختلف مقامات پر جاتے تھے تو وہاں کے مقامی لوگ بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے ) ایک سفر میں ملک کی ساری جماعت کے پریذیڈنٹ اور ایک نوجوان مبلغ ایک ہی کار میں بیٹھے ہوئے تھے ، ہمارے قافلے کے بھی ایک دوست اسی کار میں تھے.انہوں نے بتایا کہ اتنی بدتمیزی سے ہمارے مبلغ نے اس بوڑھے مؤمن فدائی سے بات کی کہ میں بڑا پریشان ہوا.لیکن انہوں نے اس مبلغ کو کہا کہ دیکھو! میں پرانا احمدی ہوں ، احمدیت میرے رگ وریشہ میں رچی ہوئی ہے، تمہاری اس بے ہودہ بات کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ، نہ ہو سکتا ہے.لیکن میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ اگر تم نے نوجوانوں کے سامنے اس قسم کی بات کی تو تم اس بات کے ذمہ دار ہو گے کہ تم انہیں احمدیت سے دور لے گئے ہو.ایک اور کے متعلق پتہ لگا کہ ہمارے ایک سکول کے معائنہ کے لئے اس ملک کے محکمہ تعلیم کا انسپکٹر ہمارا افریقن بھائی آیا تو ہمارے مبلغ صاحب کہنے لگے کہ اس کے ساتھ میرابیٹھنا، میری ہتک اور بے عزتی ہے.میں اس کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا.نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے رپورٹ کی کہ یہ سکول احمدیوں سے چھین لیا جائے اور اس پر قبضہ کر لیا جائے.پھر ہمارے مبلغ انچارج ان کے پاس گئے اور ان سے پیار کی باتیں کر کے سمجھایا اور معاملہ کو رفع دفع کیا.اس مبلغ کو میں نے کہا کہ جماعت احمدیہ نے تمہیں یہاں فرعون بناکر نہیں بھجوایا، ایک خادم بنا کر بھجوایا ہے.اگر تم خدمت نہیں کر سکتے تو واپس چلے جاؤ.لیکن یہ استثناء ہیں.گو تکلیف دہ استثناء ہیں اور فکر پیدا کرنے والے استثناء ہیں.چنانچہ میں نے دعا کی اور میں نے بہت استغفار کیا.کیونکہ آخری ذمہ داری بہر حال خلیفہ وقت پر آتی ہے کہ اس قسم کے مبلغوں کو میں نے وہاں بھجوایا، جو خود تربیت کے محتاج تھے.پھر دعاؤں کے بعد اور بہت استغفار کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہمیں اپنا نظام بدلنا چاہئے.اس وقت جامعہ احمدیہ سے جو نوجوان شاہد فارغ ہوتے ہیں، سارے کے سارے تربیت یافتہ نہیں ہوتے.ایک تو جامعہ احمدیہ کو سدھارنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.ان میں سے بعض وقف کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اور اس وجہ سے ان کو اخراج از جماعت بھی کرنا پڑتا ہے.بعض ایسے بھی ہیں، جو باہر کام کرتے رہے اور ان کو جماعت سے فارغ کرنا پڑا.کیونکہ ان کی کوئی تربیت نہیں تھی.اخراج کے بعد جن کے اندر نیکی اور سعادت ہوتی ہے ، وہ تو بہ کی طرف مائل ہوتے ہیں اور استغفار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں.بہتوں کو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.بعض ایسے بھی ہیں، جوٹوٹ جاتے ہیں.529

Page 547

خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم لیکن یادرکھو کہ خدا تعالیٰ کو ایک انسان کیا، سارے انسان بھی اس سے پھر جائیں تو کیا پرواہ ہے؟ وہ سب انسانوں کو ہلاک کر کے ان کی جگہ ایک مخلص اور جاں نثار جماعت پیدا کرتا ہے.قرآن عظیم یہی اعلان کرتا ہے کہ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْقُوَّةُ وَالْعِزَّةُ کوئی چیز اس کے لئے غیر ممکن نہیں.اور عملاً بھی دنیا میں یہ نظارے اللہ تعالیٰ کے قہر کے انسانوں نے دیکھے ہیں.پس جامعہ احمدیہ میں کتابی تدریس کے علاوہ محبت الہی کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے.جن کو میں نے مقام نعیم پر اپنے مشاہدہ کے لحاظ سے پایا، یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے اپنے نفس کو کلیہ اپنے رب کے لئے قربان کر دیا تھا.اور وہ اپنی عاجزی کا ہر وقت اقرار کرتے رہتے ہیں.اور وہ جانتے ہیں کہ ہر عزت اور ہر طاقت اور ہر اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے.جس طرح سپین کے ہمارے ایک بادشاہ نے اپنے محل میں رہائش اختیار کرنے سے پہلے ہزاروں جگہ یہ لکھوایا اور زیادہ تو اس کے دماغ میں یہی فقرہ آیا، وہی لکھا ہوا ہے."لا غَالِبَ إِلَّا الله " کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو غلبہ حاصل نہیں.لیکن اس کے علاوه الْمُلْكُ لِلَّهِ الْقُدْرَةُ لِلَّهِ الْعِزَّةُ لِلهِ" کو اس نے کثرت سے لکھوایا.یہ بڑی لمبی تفصیل ہے.اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا.اور جب یہ حل اللہ تعالیٰ کی حمد کے کلمات سے اس طرح حسین بن گیا تب اس نے وہاں رہائش رکھی.چنانچہ ہمارے یہ ابرار بشر (اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے اور استقامت عطا کرے.) یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں علم ہے کہ غلبہ اور اقتدار اور قدرت اور عزت سب اللہ کی ہے.اور حقیقی معنی میں اسی سے ملتی ہے.بے نفس ہو کر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اور انتہائی پیار کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع کرتا ہے.پھر وہ غریب ، جنہیں پیٹ بھر کر شاید کھانا بھی نہ ملتا ہو، خدا کی خاطر غربت کی زندگی گزار رہے ہیں.سات ہزار میل اپنے رشتہ داروں سے دور لیکن ایسی زندگی کہ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ سے بھی جو زیادہ قریب ہے، اس کا احساس رکھتے ہیں.اور جو دوریاں ہیں، وہ سب بھول چکے ہیں.رشتہ داروں سے دوری، ملک سے دوری، اپنے معاشرہ کے حالات سے دوری ، ہزار قسم کی دوریاں ہیں، جن کا انہیں سامنا ہے.انہوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی.جب انہوں نے خدا کے لئے ” بعد کی قربانی بھی دی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں قرب سے نوازا.یہ اس کی شان ہے.530

Page 548

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جون 1970ء لیکن اگر ایک شخص بھی ایسا ہو، جیسا کہ میں نے مثالیں دی ہیں تو جماعت کی بدنامی کا موجب، ہماری رسوائی کا باعث اور بڑی قابل شرم بات ہے.جامعہ احمدیہ میں بے نفس زندگی گزارنے کا سبق دینا ضروری ہے.یہی اسلام کی روح ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان اپنے وجود کو بکرے کی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور رکھ دے کہ چھری پھیرے، جس طرح چاہے.جب تک یہ روح نہیں پیدا ہوتی ، ہمارا مبشر مبشر نہیں.اگر محض چند دلائل سکھا کر ہم نے وہاں تبلیغ کرنی ہو تو بہت سے عیسائی بھی تیار ہو جائیں گے کہ چند دلائل سکھا دو ہم تمہاری تبلیغ کرتے ہیں.جو بھوکا مرتا ہے، وہ تنخواہ کے ساتھ یہ کام کرنا شروع کر دے گا.لیکن ہمیں ایسے مبلغ کی ضرورت نہیں.ہمیں تو اس مبلغ کی ضرورت ہے، جس کا نفس باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ سے قدرت کو پانے والا اور عزت کو پانے والا اور اثر ورسوخ کو پانے والا ہو.غلبہ ہو اس کا، لیکن وہ غلبہ، وہ احترام اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہو.غلبہ تو یہ ہے کہ جو Head of the states (ہیڈ آف دی سٹیٹس) ہیں، وہ بھی بڑی قدر کی نگاہ سے ان لوگوں کو دیکھتے ہیں.ان بے نفس، اللہ کے پیارے بندوں کے کاموں کا نتیجہ تھا کہ نائیجیریا کے ہیڈ آف دی سٹیٹ کو جب میں ملنے گیا تو نو جوان جرنیل، جس نے امریکہ کے مقابلہ میں سول وار (Civil War) جیتی تھی ، ابھی ابھی میرے جانے سے کچھ عرصہ پہلے جیتی تھی ، بظاہر دنیوی لحاظ سے اس کو بڑا مغرور ہونا چاہئے تھا، لیکن میں جو اس کے لئے بالکل انجان تھا، میں مسلمان تھا اور وہ عیسائی، اس کے باوجود اس کے ذہن پر ہمارے کام کا اتنا اثر تھا کہ وہ مجھے کہنے لگا کہ اس ملک کی ترقی کے جو منصوبے ہیں اور جو کوششیں ہیں، ان میں ہم اور آپ برابر کے شریک ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے کاموں کی اس سے بڑھ کر اور کوئی تعریف نہیں ہو سکتی.ایک غیر ملک کے سربراہ کو ان حالات میں کہ امریکہ کو اس نے شکست دی تھی اور اسے جائز فخر تھا ، مجھے کہنے لگا کہ ان غیر ملکی حکومتوں اور غیر ملکی عیسائی مشنز نے اپنا پورا زور لگایا کہ ہمارے ملک کو تباہ کر دیں، اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمیں بچالیا.یہ اس کا فقرہ تھا، اس نے عیسائی مشن پر تنقید کی اور ہمارے متعلق یہ کہا کہ ہم اور آپ ملک کی Progress ( پروگریس ) میں، ملک کی ترقی کی جدو جہد اور کوشش میں Partner ( پارٹنر ) ہیں.برابر کے شریک ہیں.یہ تاثر اس قسم کے دماغوں پر محض اس وجہ سے ہے کہ ہمارے مبلغوں کی بڑی بھاری اکثریت کا اور Missions (مشنز ) کے انچارج جو ہیں، ان کا نفس باقی نہیں رہا.انہوں نے سب کچھ اللہ کے حضور 531

Page 549

خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پیش کر دیا اور پھر سب کچھ اس سے وصول بھی کر لیا.غیر ملکی حاکم جب دوسرے ملک میں داخل ہوتا ہے تو سب کچھ لے جاتا ہے، دیتا کچھ نہیں.ا اِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا لیکن ہمارا پیارا رب ہمارا رب کریم جب سب کچھ لے لیتا ہے تو جتنالیتا ہے، اس کے مقابلہ میں ( دینے والے نے گو سب کچھ دیا مگر اتنی سی چیز تھی، اللہ تعالیٰ کی عطا کے مقابلہ میں اور اس اتنی سی چیز کو لے کر اس نے اپنا سب کچھ اسے دے دیا.اور اس نے کہا، جو میرا ہے، وہ سب کچھ تمہارا ہے.اور پھر اپنی قدرت کے مظاہرے ان کی زندگی میں ان کو دکھاتا ہے.ایک احمدی کی زبان تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے تھکنی نہیں چاہئے.ہر وقت زبان پر حمد رہنی چاہئے.ہر احمدی کو بحیثیت احمدی اجتماعی طور پر بھی اور جماعتی رنگ میں بھی اسے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنی چاہئے کہ جماعت پر اس نے کتنے فضل کئے ہیں.اب اتنے بے نفس لوگوں میں چند نفس پرست بھی ہوں تو بڑی نمایاں ہو جاتی ہے ان کی بدی کہ ایک طرف وہ ہے کہ جس کا نفس باقی نہیں اور ایک طرف وہ ہے کہ جس نے نفس کا کوئی حصہ بھی اللہ کی راہ میں قربان نہیں کیا.اور ایک انسان جس کے کان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز پہنچی تھی کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کہ میں تمہارے جیسا انسان ہوں.اس کے کان میں ہمارے مبلغ کی یہ آواز پہنچی کہ تم اتنے ذلیل ہو کہ اگر میں تمہارے ساتھ بیٹھوں تو میری بے عزتی ہو جائے.پس حقیقتا ایسا ذ ہن جو ہے، وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی ہے کہ آپ کی آواز تو ایک افریقن کے کان میں یہ پہنچتی ہے کہ میں تمہارے جیسا انسان ہوں اور تم میرے جیسے انسان ہو.لیکن ایک مبلغ منسوب تو ہوتا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور کہتا یہ ہے کہ تمہارے ساتھ میرا بیٹھنا بھی میری بے عزتی ہے.یہ خالص شیطانی فقرہ ہے، جو فرعون کے منہ سے تو نکل سکتا ہے لیکن ایک شریف انسان کے منہ سے بھی نہیں نکل سکتا.کجا یہ کہ احمدی مبلغ کے منہ سے نکلے ! پس جامعہ احمدیہ کو اپنی فکر کرنی چاہئے.جامعہ احمدیہ میں مجھے رپورٹ ملی ہے، میں نے تحقیق ابھی نہیں کی کہ بعض ایسے اساتذہ بھی ہیں، جنہوں نے اپنی کلاس میں یہ کہا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے جو غیر کی ہے، وہ غلط ہے اور میں تمہیں صحیح تفسیر بتا تا ہوں.ایسا استاد جامعہ احمدیہ کی کیسے 532

Page 550

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء تربیت کر سکتا ہے؟ پھر تو وہ اس شخص کے خلاف بھی بغاوت کریں گے، خدا کے خلاف بھی بغاوت کریں گے.کیونکہ بغاوت کا سبق ان کو جامعہ احمدیہ میں دیا گیا ہے.خدا کو نہ ایسے استاد کی ضرورت ہے اور نہ ایسے شاگرد کی ضرورت ہے.پس جامعہ احمدیہ کو اپنی فکر کرنی چاہئے.اور جماعت کو جامعہ احمدیہ کی فکر کرنی چاہئے.پھر جب فارغ ہو جاتے ہیں تو بعض تو ہماری غلطیاں ہیں ، اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کرنا چاہئے.ایک نیا نیا نو جوان فارغ ہوتا ہے، ہم اسے باہر بھیج دیتے ہیں.اس کی نہ کوئی تربیت کی ، نہ ہم نے اس کے ذہن کو Polish ( پالش ) کیا.وہ باہر جا کر غلطیاں کرے گا ، ہم بھی اس کے ذمہ دار ہیں.کیونکہ اس وقت تک دستور یہ رہا ہے کہ اگر جامعہ احمدیہ سے آٹھ شاہد کامیاب ہوئے ، چار تحریک جدید میں چلے گئے اور چار چلے گئے صدر انجمن احمدیہ میں.جو صدرانجمن احمدیہ کے حصے میں آئے ، ان کو یہیں خدمت کا موقع ماتا ہے اور جو تحریک میں گئے تحریک ان کو یہاں تو نہیں رکھ سکتی ، وہ انہیں باہر بھیج دیتی ہے.ابھی تک ہم نے اس کو پوری طرح Polish ( پالش نہیں کیا، اس کی پوری تربیت نہیں کی ، اس کے پورے حالات نہیں معلوم کہ وہ کیسا کام کر سکتا ہے؟ اس کو ہم ایک ابتلا میں ڈال دیتے ہیں.اس حد تک ہماری ذمہ داری ہے.جس حد تک کہ اس نے اپنے مقام کو نہیں پہچانا، یہ اس کی ذمہ داری ہے.انسان کا مقام تو دراصل عاجزی کا مقام ہے.سرکا مقام زمین ہے، بلندی نہیں.جسم کے اوپر لگا ہوا ہے لیکن ہے اس کا مقام پاؤں پر.لائبیریا کے پریذیڈنٹ ٹب مین نے ہماری دعوت کی.ان کے محل میں جو کھانے کا کمرہ ہے، اس کی چھت شیشوں کی ہے.جس میں آدمی نظر آتا ہے.لیکن چھت پر اگر شیشہ ہو تو دیکھنے سے سر نیچے نظر آئے گا اور پاؤں اوپر نظر آئیں گے.وہاں جا کر بیٹھتے ہی میں نے انہیں کہا کہ میں آپ کے اس کمرے میں آکر بہت خوش ہوا ہوں.کیونکہ یہاں جو انسان آتا ہے، اس کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کے سر کا اصل مقام کون سا ہے؟ وہ اس سے بہت محفوظ ہوئے.اگر چہ اس کی عمر تر اسی سال ہے مگر وہ بڑا بیدار مغز انسان ہے.اور وہ اپنی قوم کے لئے باپ کی طرح ہے.میں نے اس میں یہ بڑی خوبی دیکھی ہے.کسی سے بھی آپ بات کریں ، وہ اسے باپ سمجھے گا اور باپ ہی کہے گا.اس نے اپنے ملک کی 1944 ء سے اس وقت تک بڑی خدمت کی ہے.ان کا دستور ہے کہ کھانے کے بعد کھڑے ہو کر چھوٹی سی تقریر کرتے ہیں.میں نے بھی کی.وہ کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ ہوں تو میں عیسائی لیکن میں خدائے واحد و یگانہ پر ایمان رکھتا ہوں اور سارے مذاہب میرے لئے برابر ہیں.میں بحیثیت پریذیڈنٹ مذہب مذہب میں تفریق نہیں کر سکتا.اور پھر اس 533

Page 551

خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم نے کہا کہ میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ اس وقت روحانیت کا ایک بادشاہ ہمارے درمیان موجود ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہلوایا، میں تو ایک عاجز اور نا کارہ انسان ہوں.لیکن اللہ تعالیٰ جب فضل کرنا چاہتا ہے تو ایک ناکارہ ذرہ کو بھی ایک مقام دے دیتا ہے، عزت کا.اور وہ (عب مین ) بہت خوش تھے.اور لوگوں کو کہا کہ یہ با برکت وجود ہے، ان کے وجود سے امید ہے، ہمارے ملک کو برکت ملے گی.یہ کلمات اس کے منہ سے نکلے.یہ تو اللہ تعالیٰ کی دین ہے.ہمارے دل میں کبھی ایسی خواہش ہی نہیں پیدا ہوئی.ہمیں دنیا نے کیا دینا ہے؟ دنیا کے سب سر براہ مل کر بھی مہدی معہود علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ کو وہ عزت نہیں دے سکتے ، جو اسے پہلے سے ہی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حاصل ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھ کر کہ ایک عیسائی ہے، غیر ملکی ہے، اس سے زیادہ لمبی چوڑی واقفیت بھی نہیں ہے اور جو کلمات اس کے منہ سے نکلے ، وہ کسی کتاب میں تو اس نے نہیں پڑھے.وہ تو فرشتوں نے اس کے دل میں القا کئے اور اس کی زبان نے ان کو ظاہر کر دیا.اس قسم کی عزت تو ہمارے بے نفس مبلغ، جو وہاں ہیں، ان کو بھی مل رہی ہے.لیکن جس نو جوان کو یہ سبق ملے گا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر میں غلطیاں کیں اور آؤ، اب ہم ان کو درست کریں، اس نے کیا خدمت کرنی ہے جا کر.وہ تو قطع ہو گیا، ٹوٹ گیا.یہ فقرہ سنے کے بعد تو اس کے پر خچے اڑ گئے.اب میں ایک نئی تنظیم کا اعلان کرنے لگا ہوں.میں نے بہت سوچا، بہت دعائیں کیں، میں اللہ تعالیٰ کی طرف عاجزانہ جھکا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمیں اپنا پرانا طریق بدل دینا چاہئے.اور یہ چیز پہلے مبلغین پر بھی حاوی ہو جائے گی اور نئے آنے والوں پر بھی.کہ نہ کوئی تحریک کا ہوگا، نہ کوئی انجمن کا ہو گا.تمام واقفین کا ایک خاص گروہ بن جائے گا، ایک جماعت، ایک Pool (پول) ہوگا، ایک Reservior ( ریز روائیر ) ہوگا، ایک تالاب ہوگا ، جس میں یہ روحانی مچھلیاں اجتماعی زندگی گزاریں گی اور تربیت حاصل کریں گی اور نشو ونما پائیں گی.نئے اور پرانے اس پول میں چلے جائیں گے.جو پرانے ہیں، ایک سال کے اندر ہم ان کی Screen (سکرین) کریں گے.یعنی بصیغہ راز ان کے تمام حالات، ان کی ذہنیت وغیرہ وغیرہ معلوم کریں گے.یہ ضروری نہیں کہ کسی میں کوئی نقص ہو، اس کی وجہ سے اس کو باہر نہ بھیجا جائے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے حالات یا اس کی ذہنیت ایسی ہو کہ وہ یہاں بہت اچھا کام کر سکتا ہوں، باہر نہ کرسکتا ہو.یہ سارے کوائف ہم اکٹھے کریں گے.اور اسی طرح مثلاً آٹھ ، جو میں نے پہلے مثال دی تھی کہ جامعہ سے جو نئے 534

Page 552

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 19 جون 1970ء فارغ ہوئے ہیں، ان نئے فارغ ہونے والوں کو اس پول میں بھیج دیا جائے گا.نہ کوئی تحریک کے پاس جائے گا، نہ انجمن کے پاس.لیکن تعداد دونوں کی مقرر ہو جائے گی.مثلاً پہلے ساٹھ مبلغ ہیں.اس سال آٹھ نئے مبلغ پیدا ہوئے ہیں تو چار ان کے حصہ میں آئیں گے.تو یہ ہو جائے گا کہ پہلے تحریک جدید کے ساتھ تھے، اب چونسٹھ ہو گئے.اور اگر پہلے اسی مبلغ ہیں، صدر انجمن احمدیہ کے، اب ان کو چار ملے تو چوراسی ہو گئے.لیکن وہ کون کون ہوں گے؟ اس کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا.وہ پول کے ہوں گے اور وہیں سے وہ باہر جائیں گے.اور کوئی شخص باہر نہیں جائے گا، جب تک کم از کم تین سال تک اس نے پاکستان میں کام نہ کیا ہو اور اس کے حالات اور اس کی ذہنیت کا ہمیں علم نہ ہو.اور پہلوں کی Screening (سکریننگ ) تو اسی سال ہوگی.اور نئے آنے والوں کی سکریننگ تین سال کے بعد ہو گی.اور پھر ان میں سے Ear mark (ایر مارک ) معین کر دیئے جائیں گے.یعنی نشان دہی ہو جائے گی کہ یہ یہ مبلغ ایسے ہیں، جو بیرونی ممالک میں کام کرنے کے قابل ہیں.پھر جتنے ان کے حصے کے ہیں، اتنے ان میں سے باہر بھیج دیئے جائیں گے.ایک اور خرابی یہاں پیدا ہوتی تھی کہ جب وہ واپس آتے تھے تو ان کا کوئی کام نہ ہوتا.باہر وہ مبلغ انچارج ہے، اللہ تعالٰی نے اسے ایک مقام دیا ہے اور عزت دی ہے لیکن یہاں اسے کوئی کام نہیں ہوتا.دفتر میں کلرک لگا دیئے جاتے ہیں ، وہ بے نفس تھے، پرواہ نہیں کرتے تھے، کلر کی کرتے تھے.لیکن اس لحاظ سے ان کی طبیعت پر بہر حال اثر پڑتا تھا، ان کو کسی علمی کام میں لگایا جا تا تبلیغ کے میدان میں رکھا جاتا، نئی کتابیں پڑھائی جاتیں تحقیق کروائی جاتی ، یہ ان کا کام تھا.لیکن چونکہ اس قسم کا تحریک کے پاس کام نہیں ہوتا ، اس واسطے ان سے وہ ایسے کام کروانے پر مجبور ہوتے تھے.اس میں ان کا کوئی قصور نہیں.پھر سوال یہ ہے کہ ان کو تین سال یہاں کیوں رکھا جائے؟ پہلے بھی کچھ باتیں میں نے محسوس کی تھیں.اب میں نے ان کو حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو تین سال سے زیادہ باہر نہیں رکھا جائے گا.وہ یہاں آئے ، جو ہمارے پرانے مبلغ تھے ، دس دس پندرہ پندرہ سال باہر رہے، ان کے لئے عملاً بعض الجھنیں پیدا ہو گئیں.مثلاً ایک جرمنی کا مبلغ ہے، وہ پانچ سال کا بچہ وہاں لے کر گیا.اگر وہ بارہ سال سے وہاں ہے تو سترہ سال کی عمر کا وہ بچہ ہو گیا.ساری ابتدائی تعلیم اس نے جرمن زبان میں حاصل کی.اب وہ یہاں آئے تو اس کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے.وہاں رہے تو اس کے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے.اس لئے عجیب کشمکش پیدا ہوگئی.میں نے تو ان کو یہی کہا ہے، اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو.اللہ تعالیٰ تمہارے بچوں پر فضل کرے گا.لیکن ان کے خاندانی حالات میں ایک پیچیدگی ضرور پیدا ہوئی.535

Page 553

خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اگر ہم تین سال کے لئے باہر بھیجیں تو میں اپنی بہنوں کو یہ سنانا چاہتا ہوں کہ اگر ایک عیسائی لڑکی نوجوان اپنے بال کٹوا کر ساری عمر کے لئے Catholic nun کیتھولک نن ) بنتی ہے اور تثلیث کے ساتھ یہ عہد کرتی ہے کہ میں تثلیث کی خدمت کے لئے کنواری رہوں گی تو کیا آپ بہنیں تو حید کی خدمت کے لئے تین سال تک کے لئے اپنے خاوندوں سے علیحدہ نہیں رہ سکتیں ؟ اگر آپ اتنا بھی نمونہ قربانی کا پیش نہیں کر سکتیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی جائز وجہ ہوگی کہ آپ اپنے خاوندوں سے خلع لے لیں.یہ آپ کے لئے بھی بہتر ہے اور ان کے لئے بھی بہتر ہے اور ہمارے لئے بھی بہتر ہے.لیکن اگر آپ کے دل میں اللہ کی محبت اور پیار ہے تو اس قربانی کے لئے ، جو عیسائی نوں (nuns) کی قربانی کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہے ، تیار ہو جا ئیں.پس ہمیں اپنے مبلغوں کو تین سال سے زیادہ عرصہ تک باہر نہیں رکھنا چاہئے.چاہے ہم انہیں چھ مہینہ کے لئے بلائیں.پہلے چونکہ آمد ورفت کے لئے پیسے کم تھے ، جب خاندان بچوں سمیت باہر چلے جاتے تھے، خرچ زیادہ ہوتا تھا تو تحریک کے لئے مجبوری تھی.یعنی پہلا جو قانون تھا، وہ مجبوراً جاری کیا گیا تھا کہ مبلغ کے ساتھ ان کے بیوی بچوں کو بھی بھیج دو.دس دس ، پندرہ پندرہ سال وہاں رہیں گے.اب تجربہ کے بعد ہمیں پتہ لگا کہ یہ درست نہیں ہے.سوائے اس مبشر کے کہ جس کے ساتھ بیوی کا جانا جماعتی کام کے لئے ضروری ہے، باقیوں کو قربانی دینی چاہئے.دو، تین سال کے بعد واپس آ جائیں گے.بہت سے معصوم احمدی ناجائز طور پر پانچ ، پانچ سال کی قید کی سزا بھی بھگتے ہیں.کئی ایک کا مجھے بھی علم ہے.بالکل بے گناہ لیکن جھوٹی گواہیوں پر پانچ، پانچ سال کی سزا ان کومل گئی.کیا اس قیدی کی بیوی اپنے خاوند سے پانچ سال علیحدہ نہیں رہتی ؟ تو کیا تم اپنے رب کے عاشق کی جدائی تین سال برداشت نہیں کر سکتیں؟ اور وہ علیحدہ رہتی ہے تو اسے کوئی ثواب نہیں ملتا اور اگر تم علیحدہ رہوگی تو تمہیں ثواب ملے گا.وہ علیحدہ رہتی ہے تو اکثر اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اور تمہاری دیکھ بھال کرنے والے موجود ہیں.اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل ہے.یہ صحیح ہے کہ آپ بہنیں بعض دفعہ اپنے حقوق سے زیادہ کا مطالبہ کرنے لگ جاتی ہیں، دنیا کی حرص میں.اور آپ کی وہ بات نہیں مانی جاتی تو پھر آپ کے دل میں شکوہ پیدا ہوتا ہے.لیکن اگر دنیا کی حرص نہ ہو اور صرف جائز حقوق ہوں تو جائز حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری جماعت اور مہدی معہود کا خلیفہ ہے.لیکن یہ فیصلہ کرنا، بہر حال نظام کا کام ہے اور خلیفہ وقت کا کام ہے.آپ کو اس دنیا میں بھی بہت سی سہولتیں مل جاتی ہیں.536

Page 554

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء کئی ہماری بہنیں وہاں جا کر اپنے خاوندوں کو پریشان کرتی ہیں.کیونکہ دنیا کی حرص ان میں ہوتی ہے، ان کی پوری تربیت نہیں ہوئی ہوتی.اور عجیب کشمکش پیدا ہو جاتی ہے، ایک مبلغ اور اس کی بیوی کے درمیان.وہ بے نفس زندگی گزارنا چاہتا ہے اور یہ ایسی کہ اس کا نفس موٹا اور دنیا کی لالچ اور حرص.اس پر گھر میں جھگڑا رہتا ہے، اس لئے وہ اپنا کام پورا نہیں کر سکتا.لیکن بہت سی بیویاں اللہ تعالیٰ کی فدائی، بے نفس ایسی دیکھی ہیں کہ ہر وقت ان کے لئے دعا ئیں کرنے کو دل چاہتا ہے.کلیم صاحب کی ان پڑھ بیوی ان کے ساتھ گئی تھی.ان کو باہر گئے ہوئے بڑا لمبا عرصہ ہو گیا ہے.انشاء اللہ، اب وہ جلد واپس آرہے ہیں.ان کی بیوی نے منصورہ بیگم کو بتایا، وہ کہنے لگی کہ جب میں یہاں آئی تو میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ نہ مجھے انگریزی آئے ، نہ کوئی اور زبان آئے ، اردو تھوڑی بہت آتی ہے، وہ بھی زیادہ نہیں آتی اور میں ایک مبلغ انچارج کی بیوی بن کر یہاں آئی ہوں مگر کوئی خدمت نہیں کر سکتی.دعا کرتی رہی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالا کہ تم انگریزی سیکھنے کی بجائے ان کی مقامی زبان سیکھ لو.پھر انہوں نے بڑی محنت سے وہاں سالٹ پانڈ کی مقامی زبان سیکھ لی اور بڑی اچھی زبان بولتی تھیں.اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش اور آرزو کو پورا کیا.ایسی خواہشیں مقام نعیم کی طرف لے جانے والی ہیں.ان کو توفیق ملی کہ انہوں نے سینکڑوں افریقن احمدی بچوں کو قرآن کریم پڑھایا اور اس کا ترجمہ سکھایا.کیونکہ ان کی زبان میں بڑی روانی سے بات کرتی تھیں.پس ایسی بھی ہیں لیکن بعض دوسری قسم کی بھی ہیں.جیسے بعض استثناء مبلغوں کے ہیں.یہ استثناء ہیں، اکثریت ایسی نہیں.جو گندی مثالیں ہیں، وہ بالکل استثنائی ہیں.لیکن ہم ایک زندہ جماعت ہیں اور ایک زندہ جماعت میں ایک مثال بھی ایسی ہو تو اس کو برداشت نہیں کر سکتی.حالانکہ برداشت کرنا چاہئے.ور نہ آہستہ آہستہ زنگ بڑھتا چلا جاتا ہے اور زندگی کے بجائے موت کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً چھ ملکوں میں ہمارے درجنوں مبلغ ہیں، ماشاء اللہ.صرف دو کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس قسم کے ہیں.وہ ہیں بھی نوجوان اور پھر غیر تربیت یافتہ.غلطی کی کہ فوراً ان کو باہر بھجوا دیا.اسی طرح ہماری مستورات ہیں ، وہاں ان کا بے حد اثر ورسوخ ہے ، وہ بڑی خدمت کر رہی ہیں.وہ ایک قسم کی مبلغ اور مبشرہ ہیں.اللہ تعالی انہیں بھی جزائے خیر دے اور اپنے خاوندوں کے ساتھ ان کو بھی مقام نعیم میں رکھے.لیکن عورتوں میں بھی استثناء ہیں.ہماری جو بہن ایسی ہوگی ، یعنی مبلغ کی بیوی، جسے ہم سمجھیں گے کہ اس کو ساتھ جانا چاہئے ، اس کے لئے شرط لگائیں گے کہ چھ مہینے وہاں کی زبان سیکھے.کیونکہ انگریزی کی نسبت وہاں کی مقامی زبان کا جاننا بہت ضروری ہے.537

Page 555

خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم متعدد مقامات پر یہ ہوا کہ مبلغ نے کہا کہ آپ کے سامنے بارہ ہزار آدمی بیٹھا ہوا ہے.ان کا محتاط اندازہ غلط تھا.میں نے حساب لگایا تو ہیں ہزار سے زیادہ سالڈ پانڈ میں ہمارے احمدی مرد و زن جمع تھے ) وہ کہتے تھے کہ ان میں سے صرف دس فیصدی انگریزی جانتے ہیں، اس لئے ترجمہ ہو گا.یہ نہیں کہ کھڑا ہو کر میں انگریزی میں بات کروں اور صرف ایک زبان میں خطبہ ہو جائے.لیسٹر کی مسجد کے افتتاح اور خطبہ جمعہ کے موقع پر دو مترجم رکھنے پڑے.ایک کر بول زبان میں ترجمہ کرتے تھے، ( یہ عیسائیوں کی زبان ہے، جس میں کچھ انگریزی کے لفظ صحیح شکل میں اور کچھ بگڑے ہوئے، کچھ دوسری زبانوں کے ملے جلے ہیں.وہ زبان ایک عجیب مرغوبہ سا ہے.ایک اور زبان تھی ، ان کی ، جو باہر سے آئے ہوئے تھے.مجھے کہا کہ نصف لوگ یہ زبان سمجھیں گے اور نصف وہ زبان سمجھیں گے.اس لئے دو متر جم کھڑے تھے.مجھے بڑی مشکل پڑ گئی.میں ایک فقرہ کہتا تھا، اس کا پہلے ایک زبان میں ترجمہ ہوتا ، پھر دوسری زبان میں ترجمہ ہوتا، پھر میری باری آتی تھی.میں تو ذہن پر بڑا بوجھ ڈال کر تسلسل قائم رکھنے کی کوشش کرتا تھا.ایک اور جگہ وہ کہنے لگے کہ صرف پانچ ، چھ فیصدی انگریزی سمجھیں گے.باقی جو ہیں قریبا نصف نصف ایک نصف حصہ ثمنی زبان جانتا ہے اور دوسرا نصف حصہ مینڈے زبان جانتا ہے.میرے ساتھ دومتر جم کھڑے کر دیئے ، یہ کام اسی طرح ہوا.پس یہاں سے جو ہماری بہن خدمت کے جذبہ سے جانا چاہے اور ہم بھی اس کو بھیجنا چاہیں تو اس کے لئے یہاں پانچ، چھ مہینے زبان سیکھنے کا انتظام کریں گے.ایک اور سکیم ہے، میں کسی اور وقت جماعت کو بتاؤں گا.یہاں ان کو مقامی زبان کے کئی سو فقرے ہم یاد کروادیں گے اور وہ وہاں جا کر دو، چار مہینے میں بڑی جلدی روانی کے ساتھ بولنے لگ جائیں گی.پس بعض مقامات پر بعض حالات میں ہمیں مبلغوں کی بیویاں بھی بھیجنی پڑیں گی.لیکن جماعتی مفاد جہاں ہوگا ، وہاں انہیں بھیجیں گے.جہاں جماعتی مفاد نہیں ہو گا، وہاں ہماری احمدی بہن کو اور ایک مبشر کی بیوی کو اور اس کے بچوں کو یہ قربانی دینی پڑے گی کہ تین سال تک اس سے جدار ہیں.اب تو میں بڑی سختی کے ساتھ تین سالہ پابندی کروارہا ہوں.پھر یہاں جو آتے ہیں، ضروری نہیں کہ ہم تین سال تک ان کو یہاں رکھیں.چھ مہینے یا سال یا تین سال ہم یہاں رکھیں گے.یا ممکن ہے، وہ دوبارہ جائیں ہی نہ.کیونکہ وہ تو Pool(پول) کے ہوں گے.پول میں سے اگر ساٹھ مبلغ تحریک کے ہیں تو تحریک پول میں سے چنیدہ اور سکریننگ کے بعد، تربیت کرنے کے بعد، ریفریشر کورس کے بعد ان کو باہر بھیجے گی.اور جو باقی ہیں، ان کی بھی یہاں سکرینینگ 538

Page 556

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود : 19 جون 1970 ء کے بعد نظارت اصلاح وارشاد کو دیں گے.اور باقیوں میں سے ممکن ہے، پانچ ، دس ایسے ہوں کہ ہم ان کو کہیں تم ربوہ میں رہو اور ریفریشر کورس کرو.یا تو اپنی تربیت کر لو، کوشش اور دعا کے ساتھ اور یا پھر ہم تمہیں فارغ کر دیں گے.غرض ہم نے خانہ پری نہیں کرنی.کیا خانہ پری سے اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو گا ؟ اللہ تعالٰی ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ مخلصین اس کی راہ میں قربان کریں.اللہ تعالیٰ اس بات سے خوش نہیں ہو سکتا کہ چند سو غیر مخلص، بدنیت اس کے حضور پیش کر دو.جس طرح بعض لوگ قربانی کرتے وقت جو سب سے لاغر بکرا ہوتا ہے، اس کی قربانی کر دیتے ہیں.انسانوں کا جسم جو تمام اجسام سے زیادہ اچھا ہے، خدا کی نگاہ میں اور فائن بھی زیادہ ہے، اس کے گوشت کی بناوٹ جانور جیسی نہیں.جانور کے گوشت کو انسانی جسم تحلیل کرتا ہے اور اپنے مطلب کی چیز لے لیتا ہے اور جو اس کے جسم سے مناسبت نہیں رکھتا ، اسے باہر نکال دیتا ہے، فضلے کے ذریعہ سے.ایک دفعہ میں لاہور جارہا تھا کہ لاہور سے دس، بارہ میل ورے مجھے بیل اور گائیں لاہور کی طرف جاتی ہوئی نظر آئیں.میں موٹر میں تھا اور ان کی ہڈیاں نکلی ہوئیں اور گوشت غائب، صرف چھڑا اور ہڈیاں نظر آ رہی تھیں.ان کی شکل میں نے دیکھی ، میں نے کہا کہ یہ جارہے ہیں مذبحہ خانے، انسانوں کی غذا بنیں گے.ہماری کارنے جب ہارن بجایا تو ان میں سے ایک اسی طرح کا نیم مردہ بیل ہارن کی آواز سن کر اور ڈر کر دوڑ پڑا.اور وہ تمہیں گز ہی دوڑا ہوگا کہ اس کی حرکت قلب بند ہوگی اور مر گیا.یہ تو انسان کی مناسب غذا نہیں.پس انسان کو بہترین، اشرف المخلوقات بنایا ہے، اللہ تعالیٰ نے.اور اشرف ہی اس کو بننا چاہئے ، جسمانی قومی کے لحاظ سے بھی اور روحانی تربیت کے لحاظ سے بھی.پس با اخلاق اور روحانی انسان بنا کر مبلغوں کو باہر بھیجنا چاہئے.وہاں مبلغوں میں سے اس کا اثر ہے، جو دعا کرنے والا اور بے نفس ہے.اور اس کا اثر ہونا چاہئے.جب ہم نے خدا کی طرف بلانا ہے تو جو خدا سے دور ہوگا، وہ خدا کی طرف کیسے بلائے گا ؟ خدا کی طرف تو وہی بلا سکتا ہے، جو خدا تعالیٰ کا مقرب ہوگا.جس کو اس کا قرب حاصل ہوگا.جس کو خود اس کا قرب حاصل نہیں، وہ دوسرے کو قرب کی راہیں کیسے دکھا سکتا ہے؟ تو مبلغ کے لئے بنیادی چیز یہ ہے کہ وہ بے نفس ہو، غرور اور تکبر اس میں نہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا زندہ تعلق ہو.اور یہ قومیں، خصوصاً افریقہ کی، پیار کی اتنی بھوکی ہیں اور اتنی پیاسی ہیں کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.زمبیا کے ایک وزیر ، لندن کے ایروڈ رام پر اتفا قامل گئے تھے، جب ہم واپس آ رہے تھے.ان کا ہائی کمشنر بھی ان کے ساتھ تھا اور ایک دس، بارہ سال کا بچہ بھی ساتھ تھا.میں نے اس کو گلے لگالیا اور پیار کیا.539

Page 557

خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم اس کا اتنا اثر ہوا، زمبیا کے وزیر اور ہائی کمشنرز پر کہ وہ میرا شکریہ ادا کر رہے تھے اور ہونٹ ان کے پھڑ پھڑا رہے تھے، اتنے جذباتی ہو گئے تھے.چنانچہ میں نے شیخ صاحب سے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ یہ بات تو ان کے تصور میں بھی نہیں آسکتی کہ کوئی ان کے بچے کو پیار کر سکتا ہے.اتنی مظلوم ہیں، وہ تو میں.اتنی پیار کی وہ پیاسی ہیں.اور ہم وہاں اسلام کی محبت اور پیار اور ہمدردی اور غمخواری اور مساوات اور جذبہ خدمت ( یہ ہمارے ہتھیار ہیں ) دے کر اپنے مبلغوں کو بھیجتے ہیں.بجائے اس کے وہ ان کے بچوں کو گود میں اٹھائے ، یہ کہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے میں میری بے عزتی ہے.تو کام کیسے کرے گا ؟ وہ محبت کا پیغام کا میاب کیسے ہوگا؟ وہاں میں نے دھڑلے کے ساتھ عیسائیوں کو یہ کہا کہ میں مانتا ہوں کہ جب تم صدیوں پہلے ان ملکوں میں داخل ہوئے تو تمہارا بھی یہی دعویٰ تھا کہ تم عیسائیت کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہو.لیکن تمہارے پیچھے یورپی ممالک کی فوجیں اپنی توپوں سمیت داخل ہوئیں اور ان تو پوں کے دہانوں سے محبت کے پھول نہیں برسے بلکہ گولے باہر نکلے.اور جو انہوں نے تباہی مچائی تم جانتے ہو، اس پر زیادہ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیت محبت کے پیغام کا دعوی کرنے کے باوجود نا کام ہوئی اور اسے ناکام ہونا چاہئے تھا.کیونکہ اس سے زیادہ پیارا اور حسین محبت کا پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آسمان سے نازل ہو چکا تھا.اب ہم یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کر آئے ہیں.اور پچاس سالہ خدمت اور محبت اور ہمدردی اور غمخواری اور مساوات کا سلوک اس بات پر شاہد ہے اور تم اس کا انکار نہیں کر سکتے کہ نہ تمہاری سیاست میں ہمارا کوئی دخل نہ اس سے کوئی دلچپسی ، نہ تمہارے مال میں کوئی دلچسپی.ایک دھیلہ تمہارے ملکوں سے باہر نہیں نکالا.بلکہ لاکھوں روپے باہر سے لا کر تمہارے ملکوں میں خرچ کئے ہیں.اس لئے ہم جو پیغام محبت، ہمدردی اور غمخواری اور مساوات لے کر تمہارے پاس آئے ہیں، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے، وہ ضرور کامیاب ہوگا.نا کام نہیں ہوسکتا.کیونکہ حقیقی معنی میں محبت کا جو بھی پیغام دنیا کی طرف آیا، انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کبھی بھی وہ ناکام نہیں ہوا.اس لئے ہم جیتیں گے.دنیا جتنا چاہے، زور لگا لے.اسلام کی فتح اور اس کے غلبہ کے دن آگئے ہیں.اور بڑی تحدی سے میں یہ اعلان کرتا تھا.امریکہ سے Peace Core (پیس کور ) کے کچھ استاد ، جو ہمارے سکولوں کے ساتھ بھی حکومت نے لگائے ہوئے ہیں، ایک موقع پر احمدی سکولوں کے ساتھ بو میں جب پندرہ سو طالب علم جمع تھے تو ان کے ساتھ ان کو بھی آنا پڑا.سارے اساتذہ ان کے ساتھ تھے.میری تقریر کے بعد وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے.جو ہمارے دوستوں نے سنیں.وہ کہنے لگے کہ حضرت صاحب نے اتنی تحدی سے یہ بات کہی 540

Page 558

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء ہے کہ اسلام کے غلبہ کے دن آگئے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی.اس لیے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے.اور یہ بات بھی ان کے نقطۂ نگاہ سے فکر کی بات ہے اور ہمارے نقطہ نگاہ سے دنیا کے لئے خوش قسمتی کے دن ہیں کہ یہ خدا سے دوری میں دن گزار رہے تھے، اب خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں ان پر کھولی جارہی ہیں.بہر حال اپنے نقطہ نگاہ سے ان کو یہی کہنا پڑا کہ ہمیں اب اپنی فکر کرنی چاہئے.پس ہمارا جو مبلغ حقیقی معنی میں محبت اور ہمدردی اور غمخواری اور مساوات اور جذبہ خدمت لے کر اور وہاں نہیں جاتا اورمحمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حبت بھرا پیغام ان کو نہیں پہنچا تا ، وہ کامیاب نہیں ہوسکتا.آپ کی تو کیفیت تھی.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِيْنَ یہ جذ بہ اگر اس کے دل میں نہیں ہے تو وہ ناکام مبلغ ہے.اس کا کوئی اثر نہیں ہے.لیکن اگر یہ ان سے محبت نہ کرے، میں تو سات سات، آٹھ آٹھ دن مختلف ملکوں میں رہا ہوں.مگر جتنے بچوں سے میں نے پیار کئے ہیں، اتنے ہمارے سارے مبلغوں نے تین سال میں بھی نہیں کئے ہوں گے ، ان کے بچوں سے پیار.پھر میں ان کے بڑوں کا بھی بہت خیال رکھتا تھا.جب ہم بو پہنچے ، ایک سو ستر میل سفر تھا.گرمی ، جبس، کھانا بھی وقت سے بے وقت اور میرا جسم کوفت کی وجہ سے کام کے قابل نہیں تھا.میں اپنے کمرہ میں چلا گیا.جسم انکار کر رہا تھا، کام کرنے سے.وہاں بے وقت پہنچے.اس وقت مجھے اطلاع ملی کہ دو ہزار سے زیادہ احمدی یہاں پہنچ گیا ہے، لاج میں.اور وہ کہتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ حضرت صاحب تھکے ہوئے ہیں.لیکن ہمیں صرف اپنی شکل دکھا دیں اور ہم سلام کریں گے اور چلے جائیں گے.میں نے سوچا اگر وہ میری شکل دیکھنے کے بھوکے ہیں تو مجھے بہر حال تکلیف اٹھانی چاہئے.میں نے انہیں کہا کہ میں تمہیں شکل ہی نہیں دکھاؤں گا، میں تم سے مصافحے بھی کروں گا.پھر میں نے ان سے مصافحے کئے ، ان کو گلے لگایا.دو گھنٹے کے قریب میں نے ان سے مصافحے کئے.میرا حال یہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا، مصافحوں کے دوران کہ مجھے یقین تھا کہ میں بیہوش ہو کر گر جاؤں گا.لیکن یہ ان کا حق تھا، جسے میں نے بہر حال ادا کرنا تھا.ایک ڈاکٹر صاحب، جو ڈیوٹی پر تھے، بطور ڈاکٹر کے تو ان کی ضرورت نہیں پڑی لیکن وہ پانی وغیرہ کا خیال رکھتے تھے.ان کو میں نے کہا کہ میری یہ حالت ہے، دس، دس منٹ کے بعد مجھے پانی دیتے چلے جاؤ.چنانچہ وہ دودو، چار چار گھونٹ پانی کے مجھے پکڑاتے تھے تو میں پی لیتا تھا اور مجھے سہارا مل جاتا تھا.اور سارا وقت میں نے ایسا کیا.جتنے پیار میں نے ان کے بچوں سے ایک ایک ملک میں کئے اور جس قدر محبت اور شفقت کا سلوک ان کے بڑوں سے کیا ، وہ بے ثمر نہیں رہا.541

Page 559

خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اکرہ سے کماسی 170 میل ہے اور کماسی سے بچی من 70 میل کے قریب.وہاں سے کئی سومیل شمال مغرب کی طرف ہماری وا کی جماعتیں ہیں.وہ علاقہ وا کہلاتا ہے.وہاں بھی ہماری بیسیوں جماعتیں ہیں.میں کماسی سے جس روز جارہا تھا، ستر میل دوسری طرف ٹیچی من کی مسجد کے افتتاح کے لئے.مجھے بتایا گیا کہ وا کے دوسو احمدی بسیں لے کر آج رات پہنچ رہے ہیں.یعنی جس صبح کو ہم نے ٹیچی کے لئے چلنا تھا، اس سے پہلی رات کو انہوں نے مجھے یہ کہا.میں نے انہیں کہا کہ اب تو ٹیچی من کا پروگرام ہے اور یہ قریب تھا، وہاں کیوں نہیں آئے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ وہ رستے ٹھیک نہیں، یہ اچھا راستہ ہے.چنانچہ وہ کماسی پہنچ گئے.میں نے ان سے کہا کہ ان سے کہو، پھر انتظار کرو.میں ستر میل وہاں گیا ، وہاں سارے دن کا پروگرام تھا.پھر ستر میل واپس آیا.مغرب سے ذرا پہلے پہنچے.نماز پڑھانے چلا گیا.سکول میں کئی ہزار آدمی آ جاتا تھا ، مغرب و عشاء میں.کماسی میں انہیں کہا کہ نماز کے بعد صبح مجھ سے ملیں.میں نے یہ خیال نہیں کیا کہ میں تھکا ہوا ہوں ، مجھے آرام چاہئے.میں تو وہاں بمشکل ڈیڑھ، دو گھنٹے سوتا تھا.وہاں تو مجھے نیند نہ آتی تھی.اب آنی شروع ہوئی ہے.بہر حال وہاں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.اور میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میں نے تکلیف اٹھائی.کیونکہ میں نے کوئی تکلیف نہیں اٹھائی.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ اس کے باوجود میری صحت اچھی ہوگئی.ڈاکٹر کی مجھے ضرورت نہیں پڑی.بشاش ہنستا کھیلتا میں ان میں رہا ہوں.سارا وقت نماز کے بعد میں مردوں سے ملا اور منصورہ بیگم مستورات سے (منصورہ بیگم کو اللہ تعالیٰ جزا دے، انہوں نے بڑا کام کیا میرے ساتھ ) اور ان مستورات کی بڑی خدمت کی ہے.مثلاً مستورات سے ملنا ملانا.ورنہ ان کی سیری نہیں ہوتی.بہر حال مجھے خیال آیا کہ کئی سو میل سے آئے ہیں ، زیادہ وقت میرے ساتھ رہ نہیں سکے، صبح ہی انہوں نے واپس چلے جانا ہے، یہی گھنٹہ، دو گھنٹہ ہیں، جو بیٹھ سکتے ہیں، میرے ساتھ.دوسروں کی نسبت جن کو زیادہ وقت ملا ہے، یہ زیادہ مستحق ہیں.میں ان کے لئے کیا کروں کہ ان کا حق ادا ہو جائے.پھر مجھے خیال آیا کہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ میں معانقہ کروں گا.چنانچہ سوا سو آدمیوں کے ساتھ میں نے معانقہ کیا اور پھر تقریر کی.اس موقع پر ان کی زبان بولنے والا کوئی ایسا شخص نہ تھا کہ میری انگریزی زبان کا ترجمہ کر دیتا.پھر بڑی مشکل پیش آئی.میں تو بہر حال انگریزی بولتا تھا اور ہمارے مبلغ کو بھی وہ زبان نہیں آتی تھی.پھر پتہ لگا کہ عربی سمجھنے والے چند ایک ان میں ہیں.میں نے کہا پھر میں عربی بولوں گا.پھر تقریر جو کرنی تھی، عربی میں کی ، میں نے.پھر ترجمہ ہوا ، اس کا.پھر میں نے معانقہ کیا اور معانقہ سے ان کو جو خوشی ہوئی ، اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے.ان میں سے ایک کی تصویر سلائیڈ مولوی عبدالکریم صاحب نے لی، وہ میں اپنے ساتھ لے آیا ہوں، کسی 542

Page 560

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 جون 1970ء وقت دکھاؤں گا.آپ یہ دیکھیں گے کہ ان کے چہرہ سے اطمینان اور محبت اور پیار اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ایسے ملے جلے جذبات کا اتنا خوبصورت مظاہرہ ہے کہ دل حمد باری سے بھر جاتا ہے.پس اللہ کے فضل سے ہزاروں سے معانقہ کیا، ہر ملک میں اور سینکڑوں ہزاروں کو پیار کیا.مجھے یقین ہے کہ ہمارے مبلغوں نے تین تین سالوں میں بھی اتنا پیار نہیں کیا ہوگا.یہ تو میں پیار کی بھوکی ہیں.بڑے مخلص ہیں.لیکن ہمارے بعض مبلغوں کو اس کا خیال نہیں.وہ وہاں مستقل بیٹھے ہوئے ہیں، ہر وقت کا ملنا جلنا ہے.اگر وہ بھی اس طرح بچوں سے پیار کریں، بڑوں کو سینے لگائیں، ان سے ہمدردی کریں اور پیار اور محبت کا مظاہرہ کریں، ان کی بیویاں وہاں کی احمدی مستورات سے پیار کریں تو ساری قوم احمدیت قبول کرلے.ایک دن میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ عیسائی اور بدھ مذہب والوں کو میں نے دیکھا کہ مجھے دیکھ کر خوشی سے ناچنے لگتے ہیں.ان پر کیا چیز اثر کر رہی تھی؟ (ویسے تو اللہ کا فضل تھا، اسی کا فضل ہے ) انہوں نے دیکھا کہ ایسا آدمی آیا ہے، جو ہم سے پیار کرتا ہے اور ہمارے بچوں کو سینہ سے لگا لیتا ہے، ہمارے مردوں سے معانقہ کرتا ہے اور اسے اپنے آرام کا کوئی خیال نہیں.ہمارے پیار میں محو ہے.ان کے پیار سے میں نے جسمانی قوت بھی بڑی حاصل کی.میں کم خور ہوں، میں نیند ویسے بھی نہیں لے سکا ، لیکن اس محبت اور پیار سے میری روح غذا لے رہی تھی اور میرا جسم پوری طرح مطمئن تھا.غرض یہ اثر عیسائیوں پر تھا.آپ کہیں گے کہ یہ کیسے پتہ لگا کہ یہ عیسائی ہیں؟ عیسائیوں کا پتہ اس طرح لگتا تھا کہ مسلمان سڑکوں پر ناچتے نہیں، عیسائی اور غیر مذہب والے ناچتے ہیں.چنانچہ مجھے دیکھ کر جو ناچنے لگ جاتے تھے، میں سمجھتا تھا کہ یہ یا عیسائی ہے یا مشرک ہے.بہر حال مسلمان نہیں ہے.احمدی ہو یا غیر احمدی ان کی عورتیں اور مرد اس طرح سڑکوں پر نہیں ناچتے.رقص اور ناچ عیسائی معاشرے کا حصہ ہے، اسلامی معاشرہ کا حصہ نہیں ہے.چنانچہ ایک دن میں پچاس ہزار سے زائد غیر مسلم مجھے دیکھ کر خوش ہوئے.ویسے تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.میں نے اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد کی.نہ جان، نہ پہچان، غیر مذہب کا ایک آدمی ان کے اندر آیا ہے، یہ اسے دیکھ کر خوش ہورہے ہیں.(وہاں مذہبی لڑائیاں نہیں لیکن ایک مخالفت تو ہے نا وہاں.ہم نے اعلان کیا کہ ہم شکست دیں گے، عیسائیت کو ، پیار کے ساتھ شکست دیں گے، دلائل کے ساتھ ، آسمانی نشانوں کے ساتھ شکست دیں گے.بہر حال ہمارا اور ان کا مقابلہ ہے.لیکن اس کے باوجود مجھے دیکھ کر وہ خوش ہوتے تھے.اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ وہ شخص ہے، جو باہر سے آیا ہے، ہمیں نہیں جانتا.لیکن اس کے دل میں ہمارا پیار ہے.اس کا جواب مجھے مل رہا تھا.543

Page 561

خطبه جمعه فرمود و 19 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم میں وہاں پر اپنے مبلغوں کو کہتا رہا تھا کہ دیکھو! نہ جان، نہ پہچان نہ ہم مذہب، نہ ہم خیال، نہ کوئی واسطہ، جب وہ مجھے دیکھتے ہیں تو میں مسکراتا ہوں تو وہ بھی مسکراتے ہیں.بڑے افسردہ چہروں کو بھی میں نے دیکھا، گواتنے زیادہ افسردہ چہرے تو مجھے نظر نہیں آئے لیکن ایک سنجیدہ آدمی کو جب بھی میں نے مسکرا کر سلام کیا تو بشاش ہو کر اس کے دانت نکل آتے تھے اور سلام کا جواب مسکرا کر دیتا تھا.میں نے اعلان کیا کہ آج کا دن مسکراہٹوں کا دن ہے، تقسیم کرنے کا دن“ کا اعلان کر دیا.میں نے کہا، آج کے دن اتنی مسکراہٹیں چہروں پر کھلی ہیں کہ آج کے دن کو میں مسکراہٹوں کا دن قرار دیتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں.اور جب ان کے ہیڈ آف دی سٹیٹس سے میں نے ملاقات کی تو ان کو میں نے کہا کہ میں نے کل کے دن کو مسکراہٹوں کا دن قرار دیا ہے.کیونکہ مسلم بھی، غیر مسلم بھی ، عیسائی بھی ، مشرک بھی، پچاس ہزار سے لاکھ تک مسکراہٹیں میں نے تمہاری قوم سے وصول کی ہیں.اس پر وہ بڑا خوش تھا.میں نے کہا کہ یہاں مجھے کوئی بدامنی کوئی غصہ کوئی رنجش کوئی لڑائی اس قوم میں نظر نہیں آئی.چنانچہ وہ بڑا خوش ہوا.اسے خوش ہونا چاہئے.کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا اچھا لیڈر دیا ہے اور اس لیڈر کو دنیوی لحاظ سے بڑی اچھی قوم دی ہے.ابھی ہم نے ان کو دین سکھانا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں قائم کرنی ہے.وہ علیحدہ بات ہے.لیکن دنیوی لحاظ سے وہ قوم بڑی اچھی اور ان کا لیڈر بڑا اچھا، پیار کرنے والا ہے.پریس کانفرنس میں پوچھا گیا کہ آپ کا ہمارے لیڈر کے متعلق کیا خیال ہے؟ میں نے جواب میں کہا کہ تمہیں اپنے لیڈر پر فخر کرنا چاہئے.اور اسے تم پر فخر کرنا چاہئے.You should be proud of him.He should be proud of you.اسے تم پر فخر کرنا چاہئے ، ایسی اچھی قوم اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے.بات یہ میں آپ کو بتارہا ہوں کہ وہ پیار کے بھوکے اور پیاسے ہیں.اور میں غیر ملک سے گیا، نہ جان، نہ پہچان، میں نے ان کو پیار دیا اور پیار ان سے وصول کیا اور ان کے لئے یہ بڑی حیرت انگیز بات تھی کہ ایک مسلم رہنما، اپنی جماعت کا ہیڈ ، خلیفہ اور امام اور وہ آ کر بے تکلف ایک غریب آدمی کے بچہ کو اٹھاتا اور اس سے پیار کرتا ہے.وہ حیران ہو کر دیکھتے تھے اور خوشی سے اچھل پڑتے تھے.جہاں رکنا پڑتا تھا، وہاں دوسرے بچوں کو بھی اسی طرح پیار دیتا تھا.ہر ایک کو پتہ تھا کہ ہمارے ساتھ ایک پیار کرنے والا آ گیا ہے.544

Page 562

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 19 جون 1970ء پس ہمارے ایسے مبلغ وہاں جانے چاہئیں کہ جو ایک طرف اپنے رب کریم سے انتہائی ذاتی محبت اور پیار کرنے والے ہوں اور دوسری طرف اس رب کریم کی مخلوق سے پیار کرنے اور پیار سے ان کی خدمت کرنے والے ہوں.تب ہماری جیت ہوگی.وہ جو بد تمیزی سے اپنے بڑوں سے بات کرتے ہیں یا جو یہ سمجھتے ہیں کہ کالے افریقن کے ساتھ بیٹھنے سے ان کی بے عزتی ہو جاتی ہے، وہ نہ مخلوق کی خدمت کر سکتے ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کا پیار دلوں میں قائم کر سکتے ہیں.کچھ ان کا قصور ہے، کچھ ہمارا قصور ہے.اب میں نے نظام بدل کر اس کا اعلان کر دیا ہے.اس کے لئے میں ایک کمیٹی بناؤں گا.کیونکہ اس کے لئے بہت سی دفتری باتیں ہیں ، ان کا فیصلہ کرتا ہے.ان کے پراویڈنٹ فنڈ اور ان کے حقوق وغیرہ کے متعلق ان سب پر غور کر کے اس پول کے اندر لے کر آنا ہے.خدا کے فضل سے مالی معاملات کے احمدی ماہر اس وقت گورنمنٹ میں کام کرتے ہیں.ان میں سے ایک کو میں نے پیغام بھیج دیا ہے کہ ایک ہفتہ کی چھٹی لے کر یہاں آ جاؤ.تب وہ پول بن جائے گا، انشاء اللہ.لیکن ان ساری باتوں کے علاوہ جو بنیادی بات ہے، وہ میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کی تدبیر بھی اچھے نتائج نکالتی ہے ، جب اللہ تعالیٰ کا فضل ، اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے ساتھ شامل ہو.اس لئے آپ سب دعائیں کریں اور میں بھی دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ایک نئی تدبیر ذہن میں ڈالی ہے، اس کو ٹھیک طور پر عملی جامہ پہنانے کی بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے اور اس کے بہترین نتائج نکالے.تا کہ جو ہم محسوس کر رہے ہیں کہ اگر ہم انتہائی کوشش کریں تو بہت جلد ساری کی ساری قو میں احمدیت کی آغوش میں آجائیں گی ، یہ نظارہ ہم اپنی زندگیوں میں آٹھ ، دس سال کے اندر اندر دیکھ لیں.اور اس سے زیادہ خوشی اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ لوگ ، جو محد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور تھے ، وہ جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن نہ دیکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حسن کے جلوے بھی نہیں دیکھے، وہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین امتی حضرت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام سے دور ہیں، یہ سارے حسن اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مختلف جلوے، جو اس دنیا میں ہمیں نظر آتے ہیں، وہ بھی ان کو پہچاننے لگیں اور اس حسن کے گرویدہ ہوں اور ان حسنوں سے برکتیں حاصل کریں اور دین و دنیا کی ترقیات ان کو ملیں.اور وہ بھی اس مقام نعیم میں آجائیں کہ دنیا جب ان کے چہروں پر نگاہ ڈالے تو انہیں کالے رنگ نہ نظر آئیں بلکہ انہیں منور دل نظر آئیں اور ساری دنیا ایک برادری اور ایک خاندان بن کر امن اور سکون کی اور اطمینان کی اور محبت و پیار کی زندگی گزارنے لگے.( مطبوعه روزنامه الفضل 30 جولائی 1970 ء ) 545

Page 563

Page 564

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه 26 جون 1970ء اپنی غفلتوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی عظیم بشارت کے وارث بننے کی سعی کریں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جون 1970ء.....دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے نصرت جہاں ریز روفنڈ“ کا اعلان کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے مخلصین نے اس پر اس وقت تک بہترین رنگ میں لبیک کہا ہے.کل شام کی جو رپورٹ ہے، اس کے مطابق ساڑھے بارہ لاکھ روپے کے قریب وعدے ہو گئے ہیں اور قریباً سوالاکھ، ڈیڑھ لاکھ روپے نقد آ گئے ہیں.نقد اس لئے کم جمع ہوئے ہیں کہ میں نے نومبر تک مہلت دے رکھی ہے.لیکن جو دوست اس وقت ادا کر سکتے ہوں، انہیں ادا کر دینا چاہئے.نومبر کا انتظار نہیں کرنا چاہئے.نومبر تک کی مہلت تو زیادہ تر زمیندار بھائیوں کی سہولت کے لئے دی گئی ہے.تا کہ انہیں قرضے لے کر اس مد میں رقم ادا نہ کرنی پڑے.کیونکہ جب خریف کی فصلیں آئیں گی تو اس وقت ان کی مالی حالت ایسی ہوگی کہ وہ سہولت کے ساتھ یہ قربانی دے سکیں گے.غرض ان ( زمینداروں ) کو مد نظر رکھتے ہوئے، نومبر تک کی مہلت دی گئی ہے.بعض اور دوست بھی ایسے ہو سکتے ہیں، جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس مہلت سے فائدہ اٹھا لیں.لیکن جو دوست آج ادا کر سکتے ہیں، انہیں کل کا انتظار نہیں کرنا چاہئے.اسی سلسلہ میں ایک اور بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر انگلستان کی جماعت اس مد میں فضل عمر فاؤنڈیشن سے دو اڑھائی گنازیادہ رقم دے سکتی ہے تو میری غیرت اور آپ کی غیرت یہ نہیں پسند کرے گی کہ ہم لوگ انگلستان کی جماعت سے پیچھے رہ جائیں.اس لئے اس مد میں پاکستان کا چندہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے چندہ سے دو اڑھائی گنا زیادہ ہونا چاہئے.اگر دوست توجہ کریں اور اللہ تعالیٰ ہم پر فضل اور رحم فرمائے تو ہم یہ حقیری قربانی اس کے حضور پیش کر دیں گے.اور اپنے رب سے یہ کہیں گے کہ اے ہمارے پیارے محبوب رب کریم ! ہم نے تیری رضا کے حصول کے لئے یہ حقیرسی قربانیاں دیں.اور تو نے جو یہ اظہار کیا ہے کہ مومن کا ہر قدم پہلے سے آگے ہی پڑتا ہے، اس کے مطابق ہم نے کوشش کی.تو جو تمام خزانوں کا مالک ہے، تو ان نہایت حقیر قربانیوں کو قبول کر اور ہمیں اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کر.547

Page 565

اقتباس از خطبه جمعه 26 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تیسری بات، جو میں کہنا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ علاوہ مال کے ( جو ضرورت کے لحاظ سے بہت تھوڑا ہے.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ ہمیں جتنی توفیق دیتا ہے، ہم وہی اس کے حضور پیش کر سکتے ہیں.) ہمیں آدمیوں کی بھی ضرورت ہے.اور اس کے متعلق میں آج یہاں غالباً پہلی دفعہ یہ اپیل کر رہا ہوں.انگلستان میں جب میں نے تحریک کی تو وہاں کے بعض بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور اونچی ڈگریاں لینے والے احمدی ڈاکٹروں نے افریقہ میں کام کرنے کے لئے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیں.بہر حال ہمیں کم سے کم 30 ڈاکٹروں اور 70,80 ٹیچرز کی ضرورت ہے.ہمارا ایم.بی.بی.ایس ڈاکٹر بھی وہاں کام کر سکتا ہے.ایسے ڈاکٹر وہاں اس وقت کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب ہیں.ٹیچنگ لائن میں ایک بی.اے، جس نے ٹریننگ حاصل کی اور جو بی.ایڈ کہلاتا ہے، اسے وہ لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں.اور ایک ایم ایس سی اور ایم.اے کی نسبت اس کے لئے جلدی اور سہولت سے پر مٹ مل جاتا ہے.غرض بی.اے، بی ایس سی، جس نے ٹریننگ بھی حاصل کی ہو، اسے وہاں کی حکومتیں ترجیح دیتی ہیں.اس کے مقابلے میں اگر کوئی محض ایم.اے یا ایم.ایس سی ہو اور ٹر ینگ حاصل نہ کی ہو.اسے وہ اقوام ٹیچنگ لائن میں وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھتیں.البتہ جس نے ایم.اے ایم.ایس سی کے ساتھ ٹریننگ بھی کی ہو، وہ تو اور بھی اچھی بات ہے.یہاں پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال سینکڑوں، ہزاروں احمدی نوجوان بی.اے، بی ایس سی اور ایم.اے، ایم ایس سی کا امتحان پاس کرتے ہیں.ان سینکڑوں، ہزاروں میں سے اس وقت ہمیں 80, 70 نو جوانوں کی ضرورت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کریں.جو دوست وہاں جاتے ہیں، وہ اکثر جگہ ( ہر جگہ تو نہیں.کیونکہ جہاں نئے سکول کھولیں گے، وہاں ہم اتنا گزارہ نہیں دیں گے.لیکن وہ سیرالیون میں مثلاً یہاں کے یونیورسٹی کے پروفیسروں جتنی تنخواہ بھی لے رہے ہیں.اوراللہ تعالی کا ثواب بہر حال اس پر زائد ہے.لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ان ملکوں کا دورہ کرتے وقت میرا احساس یہ رہا ہے کہ ہمارے مبلغوں سے ہمارے ٹیچر ز کسی بھی لحاظ سے کم نہیں ہیں.وہ بڑے پیار اور بڑی تندہی سے کام کرنے والے ہیں.مجھے شرم سے یہ اظہار کرنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کا کام اپنی سنجیدگی اور متانت کے لحاظ سے، اپنی ذمہ داری کے احساس کے لحاظ سے اور جو وقت وہ خرچ کر رہے ہیں، اس کے لحاظ سے اور جو اثر وہ اپنے طلبہ پر پیدا کر رہے ہیں، اس کے لحاظ سے، غرض بہت سی باتوں میں وہ تعلیم الاسلام کالج سے بھی زیادہ اچھے ہیں.اور یہ شرم کی بات ہے.ہمارے مرکز 548

Page 566

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه 26 جون 1970ء کے سارے تو نہیں لیکن بعض اساتذہ یہ مجھتے ہیں کہ وہ گئیں ہانکنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.اور اگر سٹاف روم میں بیٹھ کر گئیں ہانکتے رہیں تو گویا انہوں نے اپنا فریضہ ادا کر دیا.انہیں بھی شرم آنی چاہئے.ہمیں بھی شرم آرہی ہے.جو سات ہزار میل دور جاتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا بھی دی (اس کا دماغ خراب ہو سکتا تھا، جیسا کہ دنیا داروں کا ہو جاتا ہے) لیکن اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے ان کے ذہنوں کو سنبھالا.وہ بالکل بے نفس ہیں.یعنی پیسہ ان کومل رہا ہے لیکن آپ یہ محسوس نہیں کریں گے کہ انہیں زیادہ پیسہ مل رہا ہے.وہ بڑی محنت و اخلاص سے وہاں کام کر رہے ہیں.طلباء میں اتناؤ سپین ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.ہمارے تعلیم الاسلام کالج کے مقابلے میں وہاں کے طلباء میں زیادہ ڈسپلن ہے.حالانکہ ان میں سے بہت بڑی تعدا د غیر احمدیوں ، عیسائیوں اور مشرکوں کے بچوں کی ہوتی ہے.عیسائیوں اور مشرکوں میں سے بہت سے ماں باپ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے سکولوں میں اپنے بچوں کو اس لئے داخل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں، ہمارے سکولوں میں ان کے بچے خراب نہیں ہوں گے.لیکن کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا بچہ تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہو کر خراب نہیں ہو گا ؟ سوال میں کر دیتا ہوں، جواب آپ خود سوچ لیں.پھر وہاں بڑی خوبی کی بات یہ ہے، ( کہ یہاں عام طور پر سٹاف کے ممبر آپس میں لڑتے رہتے ہیں مگر وہاں سٹاف کے ممبروں میں غیر احمدی بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں اور بعض غیر ملکی بھی ہیں.لیکن ان میں آپس میں بڑا پیار ہے، کوئی لڑائی جھگڑا نہیں.بڑی امن کی فضا ہے اور اس پر امن فضا کے پیدا کرنے میں ہمارے یہاں کے پاکستانی اساتذہ کا بڑا حصہ ہے.جن میں سے ( ساری جگہوں پر تو نہیں لیکن ) بہت سے پرنسپل ہیں.اللہ تعالٰی نے انہیں بڑے اچھے دل اور دماغ اور جذبات اور احساسات دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں استقامت بخشے اور اپنی برکات سے نوازے.جوڈا کٹر وہاں اس وقت کام کر رہے ہیں، وہ بھی بہت اخلاص سے کام کر رہے ہیں.ہمارے ہیلتھ سنٹر ابھی چند ہی ہیں.مثلاً نائیجیریا میں ہمارے تین ہیلتھ سنٹرز ہیں، ایک گیمبیا میں ہے اور یہاں بہت سارے کھولنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا جو منشا مجھے معلوم ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے ہیلتھ سنٹرز کھولنے کی طرف توجہ دینی چاہئے.کیونکہ یہ بڑا غریب ملک ہے.اور بیماری میں تو انسان ویسے ہی قابل رحم بن جاتا ہے.وہ بیمار ہوتے ہیں تو انہیں وہاں کوئی معمولی طبی امداد دینے والا بھی نہیں ہوتا.میں نے بتایا تھا کہ سارے گیمبیا میں ایک بھی Eye Specialist (آئی سپیشلسٹ ) نہیں.وہاں جس بیچارے کی آنکھیں خراب ہو جائیں، وہ اپنی آنکھیں دکھانے کے لئے پاسپورٹ لے کر کئی سو میل دور سینیگال کے 549

Page 567

اقتباس از خطبہ جمعہ 26 جون 1970ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم دارالخلافہ ڈا کار جاتا ہے.پھر اگر اسے عینک لگی ہوتو وہ واپس آکر جس نمبر کی اسے عینک لگتی ہوتی ہے، اسے لندن خط لکھ کر وہاں سے منگوانی پڑتی ہے.اور جو عینک یہاں آٹھ ، دس روپے میں بن جاتی ہے، وہاں اس کے اوپر 100 روپے سے بھی زیادہ رقم خرچ کرنی پڑتی ہے.پس وہاں ایسے علاقوں کے علاقے پائے جاتے ہیں، جہاں کوئی ڈاکٹر نہیں.کماسی میں ایک پیرا ماؤنٹ چیف کئی سو میل سے مجھے ملنے آیا اور ایک M-P(ایم پی ) کو اپنے ساتھ سفارشی بنا کر لایا.وہ کہنے لگا کہ ہمارے علاقے میں طبی امداد کا کوئی انتظام نہیں.آپ ہمارے ساتھ محبت کا سلوک کریں، ہمارے علاقہ میں طبی مرکز کھولیں.میں نے اس سے وعدہ کیا کہ ٹھیک ہے، کھولیں گے، انشاء اللہ.ان کے ساتھ جو ایم پی تھا ، وہ کہنے لگا کہ جو دفتری کارروائی ہے، جسے ہم سرخ فیتہ کہتے ہیں، اس کی ذمہ داری میں لیتا ہوں.ہم وہ قوم نہیں ہیں، جسے اپنی کامیابی کے لئے ملکی قانون توڑنے کی ضرورت پڑے.ہم ملکی قانون کے پابند رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقیات کرتے چلے آتے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے.کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے.کوئی دنیوی طاقت اس کے راستے میں روک نہیں بن سکتی.پس نو جوانوں کو بھی آگے آنا چاہئے.وہ نیک نیتی سے اپنے نام پیش کر دیں.پھر ان میں سے ہم انتخاب کریں گے اور مختلف ملکوں میں ان کے کاغذ بھیجیں گے.میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ کام اس سال کے اندراندر ہو جائے.اس طرح وہاں انشاء اللہ بہت سے طبی مراکز کھل جائیں گے.ویسے ایک طبی امداد کے مرکز کے لئے شروع میں یہ بھی ضروری نہیں کہ وہاں ہم اپنا کلینک بنائیں یا اپنی عمارت ہو.کوئی مکان کرایہ پر لے کر ہم اپنا کام شروع کر سکتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ توفیق دے گا اور دے رہا ہے، دلوں کے جو بٹوے ہیں، ان کو اس نے کھول دیا ہے.کیونکہ جب تک دل کا منہ نہ کھلے، اس وقت تک کسی کی جیب کے بٹوے کا منہ نہیں کھلا کرتا.اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں قربانی کے لئے دلوں کے بٹووں کے منہ کھول دیئے ہیں.میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا ؟ اور آئے گا بھی یا نہیں ؟ پیسہ یقینا آئے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تو جماعت سے قربانیاں مانگ، وہ قربانیاں دے گی.انگلستان میں بھی میں نے یہی کہا تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے میرے منہ سے یہ کہلوایا ہے کہ دس ہزار پاؤنڈ میرے جانے سے پہلے جمع ہو جائیں گے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ جمع نہ ہوں؟ میرے منہ سے جو بات نکلی ہے، خدا تعالی خلافت کی غیرت کی وجہ سے اسے پورا کرے گا.اور اس نے اپنے فضل سے پورا کر دیا.یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے.1927ء کی بات ہے، میں غالبا پہلے بھی بتا چکا ہوں، ایک موقع پر جب 550

Page 568

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه 26 جون 1970ء مجھ سے بارہ ( یہ پادریوں کی ایک ایسوسی ایشن تھی ، اس کے نمائندے اکٹھے ملنے آئے تھے.تو ایک شخص کے متعلق بے خیالی میں ہی میرے منہ سے نکل گیا کہ تمہیں مذہبی قانون آتا ہے، (وہ پادری جو کج بحثی کر رہا ہے.تم اسے جواب دو.میں جواب نہیں دوں گا.جس وقت میرے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا تو فوراً مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ اسے مذہبی قانون آتا ہے یا نہیں؟ اگر اس نے آگے سے یہ جواب دیا کہ مجھے مذہبی قانون نہیں آتا تو یہ میرے لئے شرمندگی کا باعث ہوگا.لیکن ہوا یہ کہ اسے مذہبی قانون آتا تھا.بعد میں وہ کمال یوسف صاحب سے کہنے لگا کہ میں حیران ہوں، حضرت صاحب کو کیسے پتہ لگ گیا کہ مجھے مذہبی قانون آتا ہے؟ کیونکہ میں اس وفد میں ایک اور آدمی کے بیمار ہو جانے کی وجہ سے عین آخری وقت میں شامل کیا گیا ہوں.اور میں یہ نہیں سوچ سکتا کہ میرے متعلق علم حاصل کر لیا ہو.کیونکہ میں وفد آنے سے ایک، دو گھنٹے پہلے شامل ہوا ہوں.پس وہ حیران تھا.اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کو اس طرح بھی دکھاتا ہے.اس نے جب یہ کہا، میں نے خلافت کو اپنی برکتوں اور رحمتوں کے نزول کے لئے قائم کیا ہے تو دنیا جو مرضی جھتی رہے، اپنے یا غیر جو مرضی کہتے رہیں، اللہ تعالیٰ کی برکات اور رحمتیں تو خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں.وہ اپنے بے شمار فضل جماعت پر نازل کر رہا ہے.منافق ان فضلوں کو دیکھ کر کڑھتا اور جنتا اور اندر ہی اندر بھتا ہے.دوسرے مخالفین کو بھی یہی کہا گیا ہے اور منافقین کو بھی یہی کہا گیا ہے.مُوتُوا بِغَيْظِكُم اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ تم اپنے غصہ میں جلو، مرو.اللہ تعالٰی اور اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلوں کو تمہاری کیا پرواہ ہے؟ یہ عظیم نشان جس کے ہزاروں، کروڑوں پہلو ہیں.یہ عظیم نشان جماعت کے اندر نظر آ رہا ہے.خدا تعالیٰ اپنی پوری شان کے ساتھ اور اپنی تمام صفات کے جلووں کے ساتھ ہم پر جلوہ گر ہے.اس واسطے بغض و عناد کے جو دھوئیں ہمارے سامنے آتے ہیں، ان کی حقیقت ایک مردہ مچھر کی بھی نہیں ہے.اور ہر احمدی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ مچھر بھی تو ہمیں آکر کا تا ہے اور بخار چڑھا دیتا ہے.لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہزاروں مچھر کاٹتے ہیں مگر جسے اللہ تعالیٰ زندہ رکھنا چاہتا ہے، اسے زندہ رکھتا ہے.پس جو الہی سلسلہ کا وجود ہے، کیا وہ مچھروں کے کاٹنے سے نقصان اٹھائے گا ؟ یہ بات تو عقل میں نہیں آتی.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہورہے ہیں.ان کے حاصل کرنے کا دروازہ آپ کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کا موقع آپ کو دے دیا ہے.آپ اس کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو حاصل کریں اور اس کے پیار اور اس کی رضا کے وارث بنیں.یہ دنیا اور اس دنیا کے اموال اور اس کی عزتیں کھلا.551

Page 569

اقتباس از خطبه جمعه 26 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہیں کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں ایک سیکنڈ کے لئے اس کی محبت کا جلوہ دیکھ لینا، اتنی عظیم چیز ہے کہ ساری دنیا اور اس کی ساری دولتیں اور عزتیں اس پر قربان کی جاسکتی ہیں.ہم میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہزاروں دوست ہیں، جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کے محبوب ترین روحانی فرزند مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکات اور فیوض کے طفیل اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پیار اور محبت اور رضا کا جلوہ دیکھ رہے ہیں.پس جو دوست اپنا نام پیش کریں گے، ( مجھے یقین ہے، کثرت سے نام پیش کریں گے.وہ اپنے کوائف وغیرہ سے متعلق مجلس نصرت جہاں، وکالت تبشیر تحریک جدید کو مطلع کریں.ایک دوسری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے، جو مالی کمیٹی کہلاتی ہے.مگر یہ انتظامی کمیٹی ہے.یہاں سے جو پہلے ڈاکٹر گئے ہیں.ان کے متعلق خط و کتابت ہوتی رہی ہے، اسے دیکھ کر اس انتظامی کمیٹی کے ممبر ) اخبار میں شائع کر دیں گے کہ اس قسم کے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.پس ہمیں فوری طور پر کو الف چاہئیں.وہ آپ جلد بھجوا دیں.تا کہ ہم حسب ضرورت اجازتیں لیتے چلے جائیں.ممکن ہے، بہت زیادہ آدمیوں کی طرف سے درخواستیں آجائیں.اس وقت جتنے آدمیوں کی ضرورت ہوگی، انہیں بھیج دیں گے.پھر باقیوں کو بھی اگر اگلے سال ضرورت ہوئی تو اس وقت بھیج دیں گے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو دعاؤں کے ساتھ اور تدبیر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ توفیق مانگنی چاہئے کہ ہم کم از کم تھیں ہیلتھ سنٹرز (یعنی طبی امداد کے مراکز) اسی سال کے اندر کھول دیں.یہ کام بڑا ہی ضروری ہے.بعض تفاصیل ہیں ، وہ تو میں اس وقت نہیں بتاؤں گا.لیکن یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے نوجوانوں کے دل بھی اور ہمارے بزرگ ڈاکٹروں کے دل بھی اس خدمت کے لئے کھول دے اور تیار کر دے اور ان کے دل میں خدمت کا جذبہ پیدا کر دے.جو دوست وہاں جائیں، وہ یہ یاد رکھیں کہ وہ دنیا کمانے کے لئے وہاں نہیں جار ہے.(اگر چہ دنیا ان کو پھر بھی مل جاتی ہے.ان کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ وہ دنیا کمانے کے لئے نہیں جارہے بلکہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے جارہے ہیں اور اس کی مخلوق کی خدمت کرنے کے لئے جارہے ہیں.پس ان لوگوں سے پیار کریں ، ان سے ہمدردی رکھیں.جب کوئی بیمار آپ کے پاس آئے یا آپ کسی بیمار کے پاس جائیں تو آپ اس سے نہایت محبت اور خندہ پیشانی سے اور ہمدردانہ طریق سے پیش آئیں.ایک اچھے اور نیک ڈاکٹر کی تو باتیں بھی آدھی مرض کو دور کر دیتی ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق ان 552

Page 570

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه 26 جون 1970ء کے لئے بہت دعائیں کریں.اور یہ ایک عظیم فرق ہے، ایک احمدی ڈاکٹر اور اس ڈاکٹر میں ، جو بھی احمدی نہیں.ایک احمدی ڈاکٹر اپنے مریض کی صرف تشخیص ہی نہیں کرتا یا اسے دو ہی نہیں دیتا بلکہ اس کے لئے دعائیں بھی کرتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں برکت ڈالتا ہے.جس کے نتیجہ میں ان مریضوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے.ہم نے دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول کے لئے اپنی محبت اور پیار اور خدمت اور ہمدردی اور غم خواری اور مساوات کے جذبہ سے جیتنے ہیں.یہ ہمارا فرض ہے.پس ہر ڈاکٹر کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ کس غرض کے لئے وہاں گیا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں شفا بخشے گا.اس وقت جو ڈاکٹر وہاں گئے ہیں.میں عام طور پر ان کے لئے دعائیں کرتا ہوں.مثلاً ڈاکٹر سعید بھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے، وہاں گئے ہیں.میں نے انہیں بھجوایا تھا.ان دنوں میں میرے دل میں خاص طور پر یہ جذبہ تھا.میں نے بڑی دعا کی کہ اے اللہ ! تیری راہ میں یہ شخص سات ہزار میل دور جارہا ہے، تو اپنے فضل سے اس کے ہاتھ میں شفا بخش دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا بخش دی اور وہاں وہ بڑے کامیاب ڈاکٹر ہیں.پس کم از کم 30 ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.(اور مجھے امید ہے، اس سے زیادہ ہو جائیں گے.کچھ تو انگلستان میں پڑھنے والے ڈاکٹروں میں سے بھی بعض نے اپنی خدمات پیش کی ہیں.لیکن میں نے بتایا ہے کہ ہمارے پاس سب کے نام آجانے چاہئیں، پھر ہم ان میں سے انتخاب کریں گے.ان کی Qualification ( کولیفیکیشن ) دیکھیں گے اور اسی طرح دوسرے کوائف مثلا عمر اور عادات وغیرہ وغیرہ، ہزاروں باتیں ہیں، یہ سب دیکھ کر پھر ان کو وہاں بھجوائیں گے.ویسے وہاں بڑا ہی مخلص دل انسان جانا چاہئے.جس کے اوپر ہم پورے طور پر اعتماد کر سکیں.مثلاً نائیجیریا میں ہمارے ایک ہسپتال کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ انہوں نے پندرہ ہزار پاؤنڈ سے زیادہ کی سیونگ کی.وہاں ان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا.بس اخلاص سے وہ ہر مہینے آپ ہی رقم بھیج دیتے ہیں.سارے میڈیکل سنٹرز کا یہی حال ہے.وہ لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے سارے اخراجات کے بعد یہ رقم بچی ہے، اسے ہم بھجوا رہے ہیں.پس ہمیں اس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.کیونکہ جو تم بچتی ہے، وہ کسی کی ذات پر تو خرچ نہیں ہوئی.ان ملکوں پر خرچ ہونی چاہئے.اور میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر گیمبیا میں مثلاً چار ہیلتھ سنٹر کھل جائیں تو ہم وہاں ہر سال ایک نیا ہائی سکول کھول سکتے ہیں.ہم نے ان دونوں میدانوں میں متوازی طور پر بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے.لیکن وہاں پہلے طبی امداد کے مراکز کھلنے چاہئیں.553

Page 571

اقتباس از خطبه جمعه 26 جون 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دوست اپنے نام پیش کریں اور محمد اسماعیل صاحب منیر، جو متعلقہ کمیٹی کے سیکرٹری مقرر کئے گئے.ہیں، وہ مطلوبہ کوائف کے متعلق اخبار میں اعلان کرائیں اور بار بار اعلان کرائیں.میرے خیال میں ہمارے احمدی ڈاکٹروں کی ایک مجلس بھی ہے، اس کی میٹنگ بھی بلائیں.پھر انہی کے سپرد کر یں گے کہ سب کے کوائف کو مد نظر رکھ کر منتخب کریں کہ کون زیادہ موزوں ہے؟ ویسے تو بعض دفعہ بظاہر ایک ناموزوں انسان بھی جب وہاں چلا جاتا ہے تو اگر وہ دعا کرنے والا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی قابلیت بھی بڑھا دیتا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سرچشمہ ہے، علوم کا اور قابلیت کا ، شفا بھی اس کی ہے.باقی تو اس دنیا میں سب پر دے ہیں، جن کے پیچھے ہمیں اس کی صفات کے جلوے نظر آ رہے ہیں.آج میں نے تین باتیں کہی ہیں.ایک یہ کہ آپ کی فراست اور آپ کی بیداری سے منافق کو پتہ لگ جانا چاہئے کہ نفاق اس سلسلہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا.دوسرے یہ کہ میں نے جو نصرت جہاں ریزروفنڈ قائم کیا ہے، اس میں اس وقت تک انگلستان کی جماعتیں دوسرے ہر ملک کی جماعتوں سے آگے نکلی ہوئی ہیں.اس وقت تک کا میں نے اس لیے کہا ہے کہ اس فنڈ کے متعلق میں نے پہلے ان سے اپیل کی تھی.لیکن خدا کرے کہ صرف یہی وجہ ہو ، اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہ ہو.اور آپ جلد ان سے آگے نکلنے کی کوشش کریں.اور تیسری بات میں نے یہ کہی ہے کہ احمدی ڈاکٹر اور ٹرینڈ ٹیچر ز رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں اور دین و دنیا کی حسنات کے وارث ہوں.جیسا کہ میں نے لندن میں بھی کہا تھا، آپ کو بھی وہی بات کہہ دیتا ہوں.آپ رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں ورنہ اگر رضا کارانہ طور پر جو خدمات پیش کی گئیں، اگر ضرورت کے مطابق نہ ہوئیں تو پھر میں حکم دوں گا.اور اس صورت میں آپ کے لئے دو راستے کھلے ہوں گے.یا جماعت کو چھوڑ کر علیحدہ ہو جائیں یا پھر خلافت کی اطاعت کریں.اور آپ خلافت کی ضرور اطاعت کریں گے ، انشاء اللہ.لیکن ایک رضا کارانہ خدمت اور ایک وہ خدمت ، جس میں کچھ مجبوری کا اثر بھی ہو، اس خدمت میں ہماری عقل ( اللہ تعالی کو تو پتہ نہیں، کیا منظور ہوتا ہے؟ ) ضرور فرق کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق بخشے ، جن سے وہ راضی ہو جائے اور جس کے نتیجہ میں اس کا وہ وعدہ پورا ہو، جو اس نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا.اور جس کے پورا کرنے کے 554

Page 572

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه 26 جون 1970ء لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا.اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کے نتیجہ میں مہدی معہود کے زمانہ میں تمام اقوام عالم کو اخوت اور برادری کے سلسلہ میں پرو دیا جائے گا.یہ وہ عظیم وعدہ ہے، جو ہمیں دیا گیا ہے.اور یہ وہ عظیم وعدہ ہے، جس کے پورا ہونے کے آثار اسلام کے افق پر آج ہمیں نظر آ رہے ہیں.اور خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ کیا ہے، وہ اسے ضرور پورا کرے گا.سوال صرف یہ ہے کہ اس وعدہ کے پورا کرنے کے لئے وہ ہم سے جو قربانیاں مانگتا ہے، کیا ہم اس کی منشا کے مطابق اس کی رضا کے حصول کے لئے اس قدر قربانی پیش کر دیں گے؟ جتنی وہ چاہتا ہے کہ ہم پیش کریں.اگر ہم ایسا کریں گے تو آپ یہ یاد رکھیں کہ خدا تعالٰی نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ذریعہ یہ بشارت دی ہے کہ ہم پر بھی ہمارا رب کریم اسی طرح فضل اور رحم فرمائے گا، جس طرح اس نے صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارش برسائی تھی.اس سے بڑھ کر ہمیں کوئی بشارت مل نہیں سکتی.اور اس سے بڑھ کر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث بن نہیں سکتا.پس آج وقت ہے.دنیا، دنیا کے کاموں میں محو اور غافل ہے، آپ خدا کے لئے اپنی غفلتوں کو چھوڑ کر اس کی اس عظیم بشارت کے وارث بننے کی سعی کریں.اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.مطبوعہ روزنامہ الفضل 22 جولائی 1970 ء) 555

Page 573

Page 574

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرموده دوران دورہ ایبٹ آباد 1970ء دنیا میں جماعت احمدیہ کی مقبولیت اور اس کا اثر ونفوذ ارشادات فرموده دوران دورہ ایبٹ آباد 1970ء 28 جون حضور نے فرمایا:.چند سال ہوئے ، ایک عیسائی بشپ افریقہ کے ایک ملک میں 52 سال تک عیسائیت کا پر چار کرتا رہا، جب وہ ریٹائر ہو کر واپس جانے لگا تو بے تکلفی میں ہمارے مبلغ کے سامنے وہ اپنی اس حسرت کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکا کہ نصف صدی سے زائد عرصہ میں وہ صرف ایک آدمی کو عیسائی بنا سکا.جس کے متعلق وہ حتمی طور پر کہہ سکتا تھا کہ وہ دل سے عیسائی ہے.باقی بہت ساروں نے عیسائیت کا لیبل لگا لیا ہے.کسی نے دودھ کی خاطر کسی نے تعلیم کی خاطر اور کسی نے کپڑوں کی خاطر.مگر دل سے عیسائی نہیں.ہمارے مبلغ اس سے کہنے لگے، ہم تو عیسائیوں میں سے بھی اور مشرکوں میں سے بھی ، ہزاروں افراد کو حلقہ بگوش اسلام کر چکے ہیں.جن کا زندہ خدا سے زندہ تعلق پیدا ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ ان سے پیار کا سلوک کرتا ہے اور انہیں بشارتوں سے نوازتا ہے.افریقہ میں اسلامی خدمات کے حلقہ کو وسیع تر کرنے کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا:.میں نے الہی منشاء کے ماتحت ایک نئی سکیم ( نصرت جہاں ریز در فنڈ کے نام سے جاری کی ہے، جس کے ذریعہ وہاں انشاء اللہ تعالیٰ کئی نئے ہائی سکول اور ہسپتال کھولے جائیں گے.اور ان سے جو آمد ہوگی ، وہ بھی انہی ملکوں کی بہتری اور بہبودی کے لئے خرچ کی جائی گی.فرمایا:.مغربی افریقہ میں ہمارے کئی ہیلتھ سنٹر پہلے سے قائم ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مقبول ہیں.اگر چہ شافی تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے مگروہ اپنے فضل سے بعض انسانوں کے ہاتھ میں غیر معمولی شفا رکھ دیتا ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 05 جولائی 1970ء ) 557

Page 575

ارشادات فرموده دوران دوره ابیٹ آباد 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم 08 جولائی حضور نے فرمایا:.الحمد للہ میرے مغربی افریقہ کے دورہ کے بڑے خوشکن نتائج ظاہر ہورہے ہیں.نائیجیریا میں ابا دان ایک بہت بڑا شہر ہے، اس کے نواحی قصبات کے لوگوں نے خود احمد یوں کو بلایا اور دو گھنٹے کے تبادلہ خیالات کے نتیجہ میں 40 آدمیوں نے قبولیت اسلام کا شرف حاصل کیا.جن کا تعلق تیرہ دیہات سے ہے.ایک سکول کے قریباً سوطلبہ نے بیعت کی ہے.سیرالیون میں پانچ نئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.پڑھے لکھے طبقہ میں احمد بیت اور اسلام کے حق میں ایک روپیدا ہوگئی ہے.یوں لگتا ہے، دنیا بدل گئی ہے اور ایک عظیم انقلاب رونما ہورہا ہے.حکومتی سطح پر جماعتی خدمات کی قدر دانی اور ان کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاتا ہے.نائیجیریا کے ہیڈ آف دی سٹیٹ نے تو یہاں تک کہ دیا تھا کہ ملکی ترقی میں حکومت اور جماعت احمد یہ برابر کے شریک ہیں.جماعتی خدمات کی اس سے زیادہ اچھی تعریف اور کیا ہوسکتی ہے؟ چنانچہ وہاں کی حکومتیں اب نئے ہسپتال اور سکول کھولنے کے سلسلہ میں ضروری سہولتیں بہم پہنچانے میں عملاً تعاون کر رہی ہیں.فرمایا:.یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یہاں مذہب کے نام پر باہمی مخالفت اور سب وشتم کا بازار گرم ہے.مگر افریقہ کے مزعومہ وحشی، جنہیں تہذیب و تمدن سے بظاہر نابلد سمجھا جاتا ہے، وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مذہب دل کا معاملہ ہے.دلوں کو جیتنے کے لئے جبر و تشدد سے کام نہیں لینا چاہئے.فرمایا:.ولوں کو جیتنے کے لئے اسلام ہمیں محبت و پیار، ہمدردی و غمخواری اور اخوت و مساوات سکھاتا ہے.ہم اسی تعلیم پر عمل پیرا ہیں.ہمارے مخالفین جتنا چاہیں زور لگالیں ، ہمارے دل میں ان کے لئے کبھی نفرت پیدا نہیں ہوگی.ان کی مخالفت پر ہمیں کبھی غصہ نہیں آتا.کیونکہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ کی رو سے انسانیت کے محسن اعظم، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ حسنہ کی پیروی میں ہماری زندگیوں میں بھی ”بخع“ کی حالت کارفرما ہونی چاہئے.ہماری تعلیم کا تقاضا یہی ہے.ہماری روایات بھی یہی ہیں.بعض ایسے حضرات جنہوں نے ساری عمر احمدیت کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر جب وہ زندگی کی آخری گھڑیوں میں متروک مہجور اور علاج تک کے محتاج تھے ، ہم نے ان کی 558

Page 576

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرموده دوران دورہ ایبٹ آباد 1970ء مقدور بھر مرد کی.یہ دو ہی کچھ ایسا ہے.لیکن بیٹا باپ کو چھوڑ سکتا ہے یا باپ بیٹے کو چھوڑ سکتا ہے لیکن ایک احمدی کسی انسان کو مصیبت میں تنہا نہیں چھوڑ سکتا.کیونکہ وہ دنیا میں محبت و اخوت اور ہمدردی و غمخواری کے لئے پیدا کیا گیا ہے.یہ اس کا فرض ہے، جسے اس کو نباہنا چاہئے.فرمایا:.انسانی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ محبت و پیار کا یہ پیغام نہ پہلے کبھی نا کام ہوا ہے اور نہ آئندہ انشاء اللہ کبھی نا کام ہوگا.اس لئے ہم بہر حال جیتیں گے.البتہ ہماری دعا ہمیشہ وہی ہونی چاہئے ، جو قرآن کریم میں حضرت موسی کے منہ سے کہلوائی گئی ہے کہ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير یہ بڑی پیاری دعا ہے.اس میں خیر یعنی بھلائی کو کسی خاص رنگ میں یا کسی معین مطالبے کی صورت میں پیش نہیں کیا گیا.اس لئے ہماری بھی یہی دعا ہونی چاہئے کہ جس چیز میں ہمارے لئے خیر ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ ہمیں عطا فرمائے.فرمایا:.دنیا کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے.ان کی مخالفت ہمارا راستہ نہیں روک سکتی.کیونکہ دلوں کو جیتنے کے لئے دلائل ان کے پاس نہیں.آسمانی نشانوں کے نزول کے دروازے انہوں نے خود اپنے او پر بند کر رکھے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی اتباع میں انسانیت کی خدمت اور پیارو محبت سے ان کے دل جیتنے کی انہیں توفیق نہیں.یہ شرف اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو عطا فرمایا ہے.اس لحاظ سے ہم پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے نباہنے کی ہمیں بیش از بیش توفیق عطا فرمائے.14 جولائی مطبوعہ روزنامہ الفضل 16 جولائی 1970 ء ) حضور نے اپنے مغربی افریقہ کے حالیہ دورہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.آج سے اسی سال قبل ایک گمنام بستی سے جو آواز اللہ تعالیٰ کی سچی توحید اور حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بلند ہوئی تھی، اس نے سات ہزار میل دور افریقہ کے سبزہ زاروں میں بسنے والی حضرت بلال کی قوم کے دلوں کو جس رنگ میں مسخر اور متاثر کیا ہے، اسے دیکھ کر میرا دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور جذبات تشکر سے لبریز ہے.559

Page 577

ارشادات فرموده دوران دوره ابیٹ آباد 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم فرمایا:.مغربی افریقہ میں جماعت کی مقبولیت اور اس کے ہمہ گیر اثر و نفوذ کا یہ عالم ہے کہ ایک موقع پر وہاں کے ایک غیر از جماعت دوست (جن کا حلقہ اثر بہت وسیع ہے) نے استقبالیہ دعوت میں بڑے عقیدت مندانہ رنگ میں ایڈریس پیش کیا اور شروع اس طرح کیا کہ میں احمدی نہیں ہوں لیکن آپ کو بھی پتہ ہے اور مجھے بھی پتہ ہے کہ اس صدی کے شروع میں ہم اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے تھے، یہ جماعت احمدیہ کی برکت ہے کہ ان کے طفیل آج ہم فخر سے سر اٹھا کر اسلام کا نام لیتے ہیں.فرمایا:.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ افریقہ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے رکھا ہوا ہے.اب وہاں جا کر میں نے بنظر غور جائزہ لیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ واقعی افریقہ میں عیسائیت کے ساتھ لڑی جانے والی اس آخری جنگ میں انشاء اللہ فتح اسلام ہی کی ہوگی.کیونکہ یورپ میں تو عیسائیت کی مذہبی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی ہے.گرجوں کو سامنے " for sale" کے بورڈ آویزاں ہیں.بہت سے گرجے فروخت ہو کر بعض گیراج میں تبدیل ہو گئے ، کہیں شراب خانے بن گئے اور کسی میں رقص گاہ بن گئی.اور تو اور ملکہ انگلستان، جسے ”محافظ عیسائیت کا لقب دے رکھا ہے، وہ ایک ایسے بل کی توثیق کرنے پر مجبور ہوئی ، جو سراسر غیر فطری اور خود عیسائی مسلمات کے منافی تھا.اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک گرجا میں بعض نوجوانوں کے مطالبہ پر سنڈے سروس کے بعد شراب اور رقص کا انتظام بھی جائز قرار دے دیا گیا ہے“.فرمایا:.ان باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ براعظم یورپ میں خال خال علاقوں کے علاوہ عیسائیت کی مذہبی حیثیت کا جنازہ نکل چکا ہے.اب یہ افریقہ میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور مادی وسائل کی فراوانی کے بل بوتے پر دجل کے جال پھیلا رکھے ہیں.مگر وہ دن دور نہیں کہ اسلام کی روحانی تاثیرات سے عیسائیت کا یہاں بھی سارا تار و پود بکھر کر رہ جائے گا“.16 جولائی حضور نے سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی چار صفات کا ذکر کرتے ہوئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صفت رحمن اور رحیم کا مظہر اتم ہونے کی حیثیت میں آپ کی شان محمد بیت اور احمدیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ 560

Page 578

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرموده دوران دورہ ایبٹ آباد 1970ء جہاں اسلام کے ابتدائی دور میں آپ کی محمدیت کی شان جلالی رنگ میں نہایت آب تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ، وہاں یہ بھی مقدر تھا کہ مسلمانوں کے تنزل کے زمانہ میں آپ " کی شان احمدیت آپ کے ایک بروز کامل اور محبوب ترین روحانی فرزند ، مہدی معہود اور مسیح موعود کے وجود میں ظہور پذیر ہوگی.جس کے ہاتھ سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں اسلام پھر سے ترقی کرے گا.یہاں تک کہ ساری دنیا پر غالب آجائے گا“.اسلام کے اس آخری زمانہ میں اسلام کی نا گفتہ بہ حالت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اسلام مخالف طاقتوں میں گھر ا ہوا تھا.سب طاقتیں اکٹھی ہو کر اسلام کو مٹانے کی درپے تھیں.عیسائیت کی طرف سے اسے نیست و نابود کرنے کے لئے ایک سے ایک بڑھ کر خطرناک منصوبہ بنایا جار ہا تھا.اور ہر قسم کے دجل کا ایک جال پھیلا رکھا تھا.چنانچہ برصغیر پاک و ہند کے بعض مسلمان علماء اور حفاظ عیسائی ہورہے تھے.جس کی بناء پر عیسائی عمائدین یہ کہنے لگ گئے تھے کہ عنقریب ہندوستان میں مسلمان ڈھونڈھے سے نہیں ملے گا.بعض پادری یہ بڑہانک رہے تھے کہ نعوذ باللہ خانہ کعبہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرایا جائے گا.بعض نے کہا کہ وہ براعظم افریقہ سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیں گئے.فرمایا:.ایسے پر آشوب زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا.آپ نے خدا کے نام پر اسی کی نصرت اور تائید کے سہارے دنیا میں سچی تو حید کو قائم کرنے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے دکھانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور اسلام کی صداقت ثابت کرنے کا بیڑا اٹھایا.آپ نے آسانی رہنمائی میں قرآن کریم کے زبردست دلائل کے ساتھ عیسائیت کے پر نچے اڑا کر رکھ دیئے.فرمایا:.اب آجا کر افریقہ ہی ایک ایسا ملک رہ گیا ہے، جہاں عیسائیت نے اپنے بے شمار مالی وسائل کے بل بوتے پر پاؤں پھیلا رکھے ہیں.مگر یہاں بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، ہماری حقیر کوششوں کے لاکھوں گنا زیادہ ثمرات حاصل ہورہے ہیں“.فرمایا:.حضرت مسیح موعود کی جماعت پر ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی عظیم الشان ذمہ داری ڈالی گئی ہے.مالی قربانی پیش کرنے میں جماعت نے بڑے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے.جانی قربانی کے لحاظ سے جہاں تک اساتذہ کا تعلق ہے، ضرورت سے زیادہ نام آگئے ہیں.مگر ڈاکٹروں کی ابھی ضرورت 561

Page 579

ارشادات فرموده دوران دورہ ایبٹ آباد 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پوری نہیں ہوئی.اس لئے ریٹائر ڈ اور صحت مند یار یٹائرڈ ہونے والے احمد کی ڈاکٹر آگے بڑھیں اور اس کار خیر میں حصہ لیتے ہوئے ثواب دارین حاصل کریں“.مستقل نظام وقف کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر حضور نے اس طرف بھی خاص طور پر جماعت کو متوجہ کیا کہ «غریب، متوسط اور امیر گھرانوں کے ذہین مخلص اور سعید الفطرت طلبہ جامعہ احمدیہ میں آنے چاہئیں.کیونکہ اس طرح کا ایک سمویا ہوا معاشرہ ہی جماعت کی بڑھتی ہوئی تبلیغی اور تربیتی اغراض کو کما حقہ پورا کر سکتا ہے.05 ستمبر مطبوعه روزنامه الفضل 23 جولائی 1970ء ) مغربی افریقہ میں میڈیکل سنٹرز اور سکولوں کے اجراء کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.خدا کے فضل سے بعض میاں بیوی کوالیفائیڈ ٹیچر ز نے زندگی وقف کی ہے.اور اب نایجیریا کے مسلم نارتھ میں جہاں عورتوں سے بڑا سخت پردہ کر وایا جاتا ہے، وہاں کے ماحول کے مطابق حسب منشاء سکولوں کے اجراء کی صورت پیدا ہو گئی ہے.اسی طرح وہاں میڈیکل سنٹر کھولنے کی بھی ضرورت ہے.جس کے لئے دولیڈی ڈاکٹر ز نے اپنی خدمات پیش کر دی ہیں.مگر یہ غیر شادی شدہ ہیں.اس لئے اب ہمیں ایسے دو ڈاکٹروں کی بھی ضرورت ہے، جو ان سے شادی کر لیں اور میاں بیوی کی حیثیت میں خدمات بجالاتے ہوئے ثواب دارین حاصل کریں.فرمایا:.اب وہ وقت دور نہیں ، جب یوگو سلاوین احمدیوں کے ذریعہ انشاء اللہ کمیونسٹ ممالک میں بھی اسلام کو فروغ حاصل ہوگا“.حضور نے فرمایا:.اب ویسے بھی عالمی دباؤ کے نتیجہ میں روس میں مذہب پر مختلف قیود کی گرفت ڈھیلی پڑرہی ہے اور مذہبی آزادی کی ایک خوشگوار رو چل پڑی ہے.اور اس کی واضح مثال مستقبل قریب میں تاشقند میں منعقد ہونے والی ایک مذہبی کا نفرنس ہے.جس میں دنیا بھر کے قریب پانچ ہزار علماء مدعو کئے جارہے ہیں“.562

Page 580

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم ارشادات فرموده دوران دورہ ایبٹ آباد 1970ء آپ نے فرمایا:.اس کا نفرنس میں اسلام کی نمائندگی کی بہترین صورت یہ ہے کہ اسلام کے زندہ خدا کی زندہ قدرتوں کے ثبوت میں واقعاتی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے تازہ نشانات اور اس کی تائید و نصرت کو پیش کیا جائے“.06 ستمبر مطبوعه روزنامه الفضل 10 ستمبر 1970 ء ) ”ہمارے پاکستانی بھائیوں کو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ قرآن کریم کی پیشگوئیوں اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے مطابق دنیا میں اسلام کے حق میں ایک عظیم انقلاب بر پا ہو رہا ہے.فرمایا:.کمیونزم کے گھٹا ٹوپ بادل اب آہستہ آہستہ چھٹ رہے ہیں.دہریت والحاد میں ڈوبی ہوئی فضا میں جہاں کل تک مذہب کا نام لینا جرم تھا، اب وہاں مسجد میں آباد ہو رہی ہیں.اسلامیات پر درس و تدریس کے سلسلے بحال ہورہے ہیں اور مسلمان حلقوں میں اسلامی اخلاقیات پر بڑا زور دیا جارہا ہے.دوسری طرف یورپ و امریکہ میں عیسائیت کی مذہبی حیثیت ختم ہو چکی ہے.عیسائیت اب براعظم افریقہ میں ہاتھ پاؤں ماررہی ہے اور جماعت احمدیہ کے ساتھ اسے زبردست مقابلہ در پیش ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری تبلیغی جد و جہد کے نتیجہ میں وہ لرزہ براندام ہے اور قریباً ہر میدان میں پسپا ہو رہی ہے.جدوجہ 66 ( مطبوعه روزنامه الفضل 10 ستمبر 1970ء) 563

Page 581

Page 582

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم " اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1970ء اسلام کی جنگ سوائے احمدیت کے کسی اور نے نہیں لڑنی خطبہ جمعہ فرمودہ 03 جولائی 1970ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی بڑی غرض یہ ہے کہ تمام اقوام عالم کو اسلام کی حسین تعلیم کا گرویدہ بنا کر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مضبوط رشتہ روحانی کو جوڑ دیں.اس نقطہ نگاہ سے ہر احمدی بوڑھے، جوان، بچے اور عورت کو دنیا پر نگاہ ڈالنی چاہئے کہ ہم نے انشاء اللہ بنی نوع انسان کے دلوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنا ہے.جب ہم مذہبی نقطہ نگاہ سے دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو جو نقشہ ہمارے سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ دہریت اور الحاد کا شکار ہو چکا ہے.مثلاً روس ہے، یہ ایک بہت بڑا ملک ہے.روسی نہ صرف یہ کہ خدا کو بھلا بیٹھے ہیں بلکہ ایک وقت میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ زمین سے (نعوذ باللہ ) اللہ کے نام کو اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹادیں گے.ضمنا میں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشہور " Iron Curtain" (آئرن کرشن میں ہماری خاطر شگاف ڈال دیا ہے اور کمیونسٹ ممالک میں لوگ احمدی ہونے شروع ہو گئے ہیں.ایک یوگوسلاوین ڈاکٹر آصف ، جب میں دورہ پر گیا ہوں، مجھے زیورک میں ملے.چند دن تک وہ وہیں رہے.نہایت شریف اور ذہین آدمی ہیں.میڈیسن کے ڈاکٹر ہیں لیکن اٹامک ریسرچ میں بھی انہیں مہارت ہے.لیکن اس کے تشخیص والے حصے میں دلچسپی رکھتے ہیں.پہلے میرا خیال تھا کہ چونکہ اٹامک انرجی کے ذریعہ علاج ہونے لگ گیا ہے، شاید وہ اس میں دلچسپی لیتے ہوں گے.اس لئے دس پندرہ منٹ میں نے ان سے گفتگو کی اور بتایا کہ یہ تو ایک غیر فطری علاج ہے، جس کی طرف اب دنیا جا رہی ہے.چنانچہ اس کے متعلق جو دلائل اس وقت میرے ذہن میں آئے ، وہ میں نے انہیں بتائے ، وہ چپ کر کے خاموشی سے میری باتیں سنتے رہے.پھر جب میں خاموش ہوا تو وہ کہنے لگے ، مجھے اس علاج والے حصہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، صرف تشخیص والے حصہ سے مجھے دلچسپی ہے.چند سال ہوئے ، وہ احمدی ہوئے تھے.پھر وہ واپس اپنے ملک یوگوسلاویہ گئے ، وہاں انہوں نے تبلیغ شروع کر دی.اور اب وہاں ان کے ذریعہ ایک 565

Page 583

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 03 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم جماعت قائم ہوگئی ہے.اسی طرح پولینڈ میں بھی چند آدمی احمدی ہو چکے ہیں.چیکو سلاو کیہ ہماری جماعت کے ساتھ بڑی دلچسپی لے رہا ہے.میں بڑا حیران ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نام دنیا سے مٹانا چاہتے تھے.مگر ا کرہ ( گھانا ) میں مسجد کے سنگ بنیاد کے موقع پر اور سفراء، جو مسلمان تھے ، وہ تو آئے ہی تھے نہیکن چیکوسلا و کیہ کا سفیر بھی وہاں موجود تھا.وہ ہمارے کاموں میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا.اگرہ میں ہمارے قیام کے دوران میں جو بھی Function ( فنکشن ) ہوا، اس میں چیکوسلا و کین سفیر شامل ہوتارہا.ایک ایسی عمارت میں دلچسپی لینا ، جس کے متعلق اسلام کہتا ہے کہ یہ انسان کی ملکیت ہی نہیں.انَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ یہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے.ایک ایسی عمارت میں دلچسپی لینا، جس میں پانچ وقت اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہوتا اور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار کیا جاتا ہے، اس کے سنگ بنیاد کی تقریب میں ایک ایسے ملک کے سفیر کا شامل ہونا ، جو دنیا سے اللہ تعالیٰ کا نام مٹانا چاہتے تھے، بہت معنی رکھتا ہے.میں اس کی تفصیل میں اس وقت نہیں جاسکتا.بہر حال دنیا کا ایک بڑا علاقہ ایسا ہے، جہاں دہریت اور الحاد کی حکومت ہے.اگر چہ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالی نے اس " Iron Curtain" (آئرن کرشن ) میں ہمارے لیے شگاف پیدا کر دیا ہے اور ہم ان علاقوں میں داخل ہو چکے ہیں.مگر یہ ابھی ابتدا ہے.اس کی انتہا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے:.میں اپنی جماعت کورشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں“.یہ آپ کا کشف ہے.لیکن اس انتہا کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس کے متعلق میں اس وقت بات کر رہا ہوں.اسی طرح چین ہے، وہاں سے بھی مذہب کو نکال دیا گیا ہے اور اس کی جگہ دہر بیت اور الحادآ گیا ہے.(یورپ کے بعض ممالک میں بھی یہی حالات ہیں.مگر یہ تو وہ علاقے ہیں، جہاں حکومت اور عوام نے اعلان کر دیا کہ مذہب سے ان کا کوئی تعلق ، واسطہ نہیں.علاوہ ازیں دنیا کے بہت بڑے علاقے ایسے ہیں، جن پر عیسائیت کا لیبل لگا ہوا ہے.مثلاً عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ سارا یورپ عیسائی ہے.عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ انگلستان ایک عیسائی ملک ہے.عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ عیسائی ممالک ہیں.عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ کینیڈا اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ عیسائی ممالک ہیں.عام گفتگو میں آپ کہیں گے کہ جنوبی 566

Page 584

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1970ء امریکہ (جس میں بہت سے ممالک ہیں.عیسائی ملک ہے.اسی طرح افریقہ کے بعض حصوں کے متعلق آپ کہیں گے کہ یہ عیسائی ممالک ہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ عیسائی ممالک نہیں ہیں.البتہ کسی وقت یہ عیسائی ممالک ہوا کرتے تھے.اب مثلاً یورپ ہے.یورپ میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے تثلیث کو ختم کر دیا ہے.یعنی گر جا کے ساتھ انہیں کوئی دلچسپی نہیں رہی.البتہ ان قوموں پر عیسائیت کا لیبل لگا ہوا ہے.آپ نے بھی خواب میں بھی نہیں دیکھا ہو گا، آپ اپنے تصور میں بھی نہیں لا سکتے کہ کسی مسجد کے سامنے For Sale (فارسیل) کا بورڈ لگا ہوا ہو ، یعنی یہ مسجد قابل فروخت ہے.لیکن خود میری ان آنکھوں نے لندن کے بعض گرجوں کے سامنے For Sale (فارسیل) کا بورڈ لگا ہوا دیکھا ہے.دوسری مصروفیات کی وجہ سے مجھے اکثر باہر نکلنے کا کم ہی موقع ملتا تھا.لیکن جب کبھی میں موٹر میں با ہر نکلتا اور کہیں گر جا نظر آتا، خصوصاً اتوار کے روز تو میں یہ دیکھنے کی کوشش کرتا کہ مجھے اندر جانے والے یا باہر نکلنے والے نظر آ جائیں اور میں یہ معلوم کر سکوں کہ وہ کس عمر یا کس ٹائپ کے لوگ ہیں؟ جب میں 67ء میں وہاں گیا تھا تو اس وقت ایک موقع پر ہماری کارایک گرجے کے سامنے سے ایسے وقت گزری، جب کہ پرستش کرنے کے بعد عیسائی گر جاتے باہر نکل رہے تھے.چنانچہ میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ (اگر میں بہت ہی محتاط اندازہ لگاؤں تو یہ ہوگا کہ ان میں 95 فیصد لوگ ساٹھ سال سے بڑی عمر کے تھے اور بمشکل 5 فیصد لوگ ساٹھ سال سے کم عمر کے تھے.اس طرح نو جوانوں کی گویاتین نسلیں سمجھنی چاہئیں یعنی اگر ہر ایک نسل 20 سال کی ہو تو پچھلی تین نسلیں ایسی ہیں، جنہیں عیسائیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے.پھر یہ بھی دیکھیں کہ انگلستان ایک عیسائی مملکت کہلاتی ہے.مگر عجیب عیسائی مملکت ہے کہ وہاں کی ملکہ کو سوڈومی (Sodomy) بل پر مجبور او ستخط کرنے پڑے.67ء میں ایک دفعہ ایک پادری نے تھوڑی سی شوخی دکھائی تھی.اگر چہ وہ بڑے ادب سے بات کرتا تھا لیکن مجھے اس کی باتوں میں ہلکی سی شوخی کی بو آئی.اس کا جواب میں نے یوں دیا کہ مجھے تم لوگوں پر رحم آتا ہے.اس کے سوال اور میرے جواب میں بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا.لیکن میں تو اسے جھنجھوڑ نا چاہتا تھا.وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگ گیا کہ مجھے ان پر کیوں رحم آتا ہے؟ میں نے اسے کہا کہ مجھے تم پر اس لئے رحم آتا ہے کہ جسے تم نے "Defender of Faith" ( ڈیفنڈر آف فیتھ ) قرار دے رکھا ہے، (عیسائیت نے انگلستان کے بادشاہ یا ملکہ کو محافظ عیسائیت کا لقب دے رکھا ہے.وہ مجبور ہوئی ،سوڈومی (Sodomy) بل پر دستخط کرنے کے لئے.اس سے زیادہ تمہاری قابل رحم حالت اور کیا ہو سکتی ہے؟ 567

Page 585

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بہر حال یہ عیسائی ممالک تو کہلاتے ہیں مگر ان میں عیسائیت نہیں ہے.کسی وقت تھی.مگر اب انہیں پتہ ہی نہیں کہ عیسائیت کسے کہتے ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ وہاں بہت سے پادری ہیں.یہ اور بعض دوسرے لوگ عیسائیت پر دیانتداری سے ایمان رکھتے ہوں گے.ہم بدظنی نہیں کرتے کہ کسی کو تثلیث جیسے نامعقول عقیدے پر دیانتداری سے ایمان نہیں.ٹھیک ہے، ہزاروں ہوں گے اور کروڑوں کی آبادیوں میں شاید لاکھوں بھی ہوں، جو دیانتداری سے سمجھتے ہوں کہ تثلیث اور کفارہ کا مسئلہ صحیح ہے.لیکن بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے، جنہیں عیسائیت سے کوئی دلچسپی نہیں.صرف نام کے عیسائی ہیں اور بس.کبھی گر جا چلے گئے، کبھی نہ گئے.مذہب کی جو غرض ہے، وہ بالکل مفقود ہے.اس وقت جہاں عیسائیت کا کچھ Hold (ہولڈ ) مجھے نظر آتا ہے، (ہوسکتا ہے، میرا اندازہ غلط ہو.لیکن جہاں تک میں نے سوچا ہے، مجھے اس زمین پر عیسائیت کی تین Pockets (پاکٹس ) نظر آتی ہیں.ایک سپین ہے.وہاں ابھی تک Catholicism ( کیتھولک ازم) کا Hold ( ہولڈ) ہے.اور کسی وقت تو اتنی سخت گرفت تھی کہ وہ دوسرے عیسائی فرقوں کو گرجے اور دوسری عبادت گاہیں بنانے کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے.ابھی چند سال ہوئے، انہوں نے کچھ نرمی کی ہے.ہمارا ڈرائیور پروٹسٹنٹ تھا.وہ بڑے غصے سے کہتا تھا کہ ایسے بار بیرین دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوئے.کیونکہ ان پر انہوں نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں.بہر حال کیتھولکس عیسائیت کا ایک فرقہ ہے اور سپین میں اس کا قوم پر کچھ نہ کچھHold ( ہولڈ) ہے.اس کے علاوہ جنوبی امریکہ ہے.وہاں بھی سپین اور پرتگال کے لوگ گئے ہوئے ہیں.اور وہاں یہی سپینش زبان بولتے ہیں.اور غالباً اسی وجہ سے ان کے دماغ پر بھی اور ان کی زندگیوں پر بھی عیسائی مذہب کا ایک حد تک Hold ( ہولڈ) ہے.لیکن آج دنیا میں عیسائیت کی دوسرے مذاہب سے جو جنگ ہو رہی ہے، اس میں پین کا اگر کوئی حصہ ہے تو بہت معمولی اور جنوبی امریکہ کا غالباً کوئی حصہ نہیں ہے.شاید کچھ پیسے وغیرہ ان سے لے لیتے ہوں گے.اس جنگ میں وہ اس طرح شریک نہیں کہ وہ فرنٹیئر یعنی محاذ پر آکر اسلام کے مقابلے میں کھڑے ہوں.پادری ابھی یورپ سے ہی جارہے ہیں.مثلاً بلیجیم ، ہالینڈ، اٹلی اور فرانس ہیں، یہ عیسائیت کی پاکٹس رہ گئی ہیں.ان ملکوں کی اکثریت تو میرے نزدیک عیسائی نہیں رہی.لیکن بہر حال ان ممالک میں عیسائیت کی سٹرانگ پاکٹس ہیں.وہاں افریقہ میں ان ملکوں کے پادری جارہے ہیں.ممکن ہے، کچھ پین کے بھی ہوں.568

Page 586

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1970ء فکر اور تدبر کرنے والے عیسائی پادری میرے نزدیک اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کا اسلام کے ساتھ آخری معرکہ افریقہ میں ہے.اور اب وہاں بڑا زور دے رہے ہیں.انگلستان میں گرجے برائے فروخت اور افریقہ میں نئے گرجے بنوا ر ہے ہیں.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز اس وقت انگلستان یا یورپی ممالک نہیں بلکہ افریقہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت مختلف عیسائی پادریوں کی جو بین الاقوامی کا نفرنسیں ہوا کرتی تھیں، ان میں وہ بیان دیا کرتے تھے (اور وہ چھپے ہوئے ہیں، ہمارے پاس ان کے حوالے موجود ہیں ) کہ افریقہ ان کی جیب میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت افریقہ عیسائیوں کے خیال میں ان کی جیب میں تھا.پھر اس کے بعد حالات بدلے، اللہ تعالیٰ نے فضل اور رحم کیا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے اور وہ افریقہ، جو عیسائیت کی جیب میں تھا، ( ذمہ دار پادریوں اور بشپس کے حوالے موجود ہیں کہ افریقہ ان کی جیب میں ہے.) اس کے متعلق انہوں نے یہ کہنا، شروع کر دیا کہ یہ بات مشتبہ ہے، پتہ نہیں، یہ براعظم عیسائیت کی جیب میں آتا ہے یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے نیچے جمع ہو جاتا ہے.چنانچہ وہ فٹی ففٹی چانس کی باتیں کرنے لگے.پھر جب ہماری تبلیغی مہم اور تیز ہوئی تو انہوں نے بین الا قوامی کانفرنسوں میں یہ بیان دیتے ہیں کہ اگر وہ ایک افریقن کو عیسائی بناتے ہیں تو احمد کی دس افریقنوں کو مسلمان بنا لیتے ہیں.چنانچہ انہوں نے ایک اور دس کی نسبت سے اسلام کی فتح اور عیسائیت کی شکست تسلیم کرلی.پھر جنہیں وہ عیسائی بناتے ہیں، ان کی حالت یہ ہے کہ بلجیم کے ایک پادری افریقہ کے ایک ملک میں 52 سالہ تبلیغ کرنے کے بعد بوڑھے ہو کر واپس جارہے تھے.ہمارے ایک مبلغ بھی Courtesy call ( کرٹسی کال) کے طور پر اس سے ملنے گئے.اور اتفاق کی بات تھی کہ وہاں اس وقت اور کوئی نہیں تھا، صرف وہ تھایا ہمارا مبلغ تھا.بے تکلفانہ باتیں شروع ہوگئیں.وہ عیسائی پادری کہنے لگا کہ کچی بات یہ ہے کہ میرے 52 سالہ تجر بہ اور کوش کا نچوڑ یہ ہے کہ اس عرصہ میں ، میں نے صرف ایک آدمی کو عیسائی بنایا ہے.ویسے ہزاروں پر میں نے عیسائیت کے لیبل لگائے ہیں.لیکن مجھے پتہ ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں.کوئی ہم سے دودھ لینے کی خاطر عیسائی ہوا ہے، کوئی ہم سے تعلیم حاصل کرنے لئے عیسائی بنا ہے، کوئی نوکری کی خاطر عیسائی ہو گیا ہے، کوئی گندم اور دوسری غذائی ضرورتوں کی خاطر عیسائی بنا ہے.مجھے پتہ ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں.ہمارے مال اور دولت میں انہیں دلچسپی ہے ، عیسائیت میں انہیں دلچسپی 569

Page 587

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم نہیں ہے.لیکن ایک آدمی کے متعلق مجھے علم ہے کہ وہ دل سے عیسائی ہوا ہے.ہمارے مبلغ نے اس سے کہا کہ ہم تو ہزاروں تم میں سے بھینچ کر مسلمان بنا چکے ہیں.جن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ زند تعلق ہے اور ان کے متعلق ہم علی وجہ البصیرت کہہ سکتے ہیں کہ وہ پختہ مسلمان ہیں.اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے ہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کا ذاتی مشاہدہ کر کے آپ سے انتہائی محبت کرنے والے ہیں.اور یہ ایک حقیقت ہے.ہم نے بھی وہاں اس قسم کے بہت نظارے دیکھے ہیں.بہر حال مذہبی نقطہ نگاہ سے دنیا کا جونقشہ اس وقت ہمارے سامنے ہے، وہ یہ ہے کہ بعض علاقوں میں تو ان اقوام نے اعلان کر دیا کہ وہ عیسائی نہیں.وہاں تو دہریت اور الحاد کا زور ہے.یہ ہمارے لئے ایک علیحدہ محاذ ہے.اس کے متعلق میں کسی اور خطبہ میں بیان کروں گا.دنیا کا ایک علاقہ اور یہ بہت بڑا علاقہ ہے، اس میں ہمیں یا تو نام کے عیسائی نظر آتے ہیں یاد ہر یہ ہیں.اور وہ کہتے ہیں کہ ہم عیسائی نہیں ہیں لیکن عیسائیت کا نام ان ملکوں میں ہے.اور جہاں عیسائیت کا کافی Hold (ہولڈ) ہے ، وہ سپین اور جنوبی امریکہ کے علاوہ افریقہ کا براعظم ہے، جہاں اسلام اور عیسائیت کے درمیان جنگ لڑی جارہی ہے.اگر دنیا کا یہ نقشہ صحیح ہو اور میرے نزدیک صحیح ہے تو اس لحاظ سے جماعت احمدیہ پر یہ زبردست ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ اس محاذ پر عیسائیوں کو شکست دے.وہاں افریقہ میں بھی عیسائیوں کا یہ حال ہے کہ ہمارے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ پہلے شہروں اور قصبوں میں پڑھے لکھے لوگوں میں ان کی تبلیغ کا بڑا زور تھا.لیکن جب سے ہم آئے ہیں، یہ اب Bush ( بش ) میں چلے گئے ہیں.وہ دوست اپنی طرف سے تو یہ کہہ رہے تھے کہ اب ہم کیا کریں؟ میں نے انہیں فوراً کہا،Follow them to the Bush تم بھی Bush میں جا کر ان کا پیچھا کرو، انہیں یہاں بھی سکنے نہیں دینا.عیسائیت اسلام کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، یہ صحیح ہے.لیکن یہ افریقہ کے معاشرہ پر اثر انداز نہیں ہوئی.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں، ابھی آٹھ ، دس دن ہوئے ، رپورٹ آتی ہے کہ ہمارے چلے آنے کے بعد کماسی میں ایک بہت بڑا عیسائی پیرا ماؤنٹ چیف مر گیا.وہ خود عیسائی اور اس کے حلقہ اثر میں ہزاروں کی تعداد میں عیسائی.لیکن اس پیرا ماؤنٹ چیف کے مرنے پر جس طرح بد مذہب والے یعنی مشرک دفن کیا کرتے تھے، وہی رسوم شروع ہو گئیں.مرنے والا بھی عیسائی اس کے علاقے میں اس کے ماتحت جو تھے، ان میں سے بڑی بھاری اکثریت عیسائیوں کی.لیکن رسوم جاہلیت کی اور ان کے مطابق اسے دفنا یا.اس کا مطلب یہ ہوا کہ عیسائیت نے لیبل لگا دیا ہے لیکن معاشرہ میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی.570

Page 588

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1970ء 66 اس کے مقابلے میں ( دنیا ویسے آگے نکل گئی ہے، ہمیں وہی آواز پیاری ہے، جو حضرت بلال کی تھی) ہزاروں کی تعداد میں ہم نے عیسائیوں میں سے بھی اور مشرکوں میں سے بھی مسلمان بنائے ہیں.اور ان کے سینے اللہ کے نور سے منور ہیں.وہ اسهَدُ اَنْ لا اله " کہنے والے نہیں بلکہ ” اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ “ کہنے والے ہیں.یعنی ان کا عربی کا تلفظ بھی صحیح ہے.وہ عربی کے ساتھ تعلق رکھنے میں بھی جنونی ہیں.احمدیت اور اسلام سے انہیں جو پیار ہے، وہ تو ہے ہی.لیکن عربی زبان سے بھی وہ عشق رکھتے ہیں.انہیں عربی بولنے کا بڑا شوق ہے.چنانچہ وہاں کئی علاقوں میں عربی بولی جاتی ہے.کماسی سے قریبا دو ، اڑھائی سو میل دور گھانا کے بارڈر پر واقع ہماری وا (Wa) کی جماعتیں ہیں.کچھ وقت کم تھا، کچھ وہاں کے حالات مثلاً سڑکوں اور سفر کی دوسری سہولتوں کا علم نہیں تھا.اور پھر Briefing ( بریفنگ ) ناقص تھی.چنانچہ ہمارا پروگرام یہ طے پایا کہ کماسی سے صبح نیچی مان، جوستر میل کے فاصلے پر تھا، وہاں جائیں گے اور پھر واپس آ جائیں گے.کماسی میں وا کے دوس نمائندے آگئے.آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہاں ہماری کتنی جماعتیں ہوں گی.یعنی مختلف جماعتوں کے دوسو نمائندے اکٹھے ہو کر آگئے اور مشکل یہ پیدا ہوگئی کہ ان کی اپنی لوکل زبان تھی.جو کماسی کی زبان سے بالکل مختلف تھی.اگر میری تقریر کا کماسی کی زبان میں ترجمہ ہوتا تو وہ بالکل سمجھ ہی نہیں سکتے تھے.چنانچہ میں نے دوستوں سے مشورہ کیا.کہنے لگے کہ اگر آپ انگریزی میں بولیں گے تو ان میں سے 10-5 فیصد سمجھ جائیں گے لیکن 90 فیصد بالکل نہیں سمجھیں گے.اور پھر انگریزی تقریر کی صورت میں ان کی لوکل زبان میں ترجمہ کرنے والا بھی کوئی نہیں.لیکن اگر آپ عربی میں بولیں تو یہ انگریزی سے زیادہ عربی سمجھ جائیں گے.ہماری وہاں کی جماعتوں کے ایک پریذیڈنٹ بھی اس وفد میں شامل تھے، وہ عربی بڑی اچھی جانتے تھے.وہ کہنے لگے کہ میں آپ کی عربی تقریر کا اپنی لوکل زبان میں ترجمہ کر دوں گا.چنانچہ وہاں مجھے مختصر عربی میں تقریر کرنی پڑی.میں آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ انہیں عربی سے بڑا پیار ہے.اس علاقے کے لوگ ہماری طرح کی پگڑیاں باندھتے ہیں.ہماری نقل میں نہیں بلکہ ویسے ہی ان کا پرانا رواج ہے.کلاہ غالبا نہیں ہوتا.اپنی ٹوپی پر پگڑی باندھتے ہیں.لیکن ہمارے ملک کی طرح طرہ نکلا ہوا اور بالکل یہی شکل ہوتی ہے.وہ بڑے اچھے اور سادہ لوگ تھے.ہمارے جو دوست احمدی ہوتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ شروع میں بعض میں کمزوری ہوتی ہوگی کیونکہ ولی بن کر تو اس نے احمدی نہیں ہونا بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے احمدی ہو کر ولی بنے گا، اس کے لئے لمبے عرصہ تک تربیت کرنے کی ضرورت ہے، بہر حال وہ لوگ بڑے مخلص احمدی ہیں.571

Page 589

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 03 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہمارے ایک نوجوان نا تجربہ کار مبلغ نے ہمارے نائیجیریا کے پریذیڈنٹ ، جن کا نام بکری ہے.ان کے ساتھ موٹر میں بیٹھے ہوئے کوئی بد تمیزی کر دی.بکری صاحب کا ایک بٹیا وہاں کی ہائیکورٹ کا جج بھی ہے اور مخلص احمدی.( نائیجیریا کے دو مسلمان حج ہیں اور دونوں احمدی ہیں.ایک ہمارا احمدی ہے اور ایک باغیوں میں سے احمدی ہے.بہر حال وہ بھی اپنے آپ کو احمد ی ہی کہتے ہیں.) بکری صاحب نے جو اس مبلغ کو جواب دیا، اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ کس قسم کے احمدی ہیں.وہ اسے کہنے لگے، دیکھو تم نے بدتمیزی کی ہے.میں ایک پرانا احمدی ہوں اور احمدیت میرے رگ وریشہ میں رچی ہوئی ہے.مجھ پر تمہاری اس بات کا کوئی اثر نہیں.لیکن میں تمہیں یہ بتادیتا ہوں، اگر تم نے نو جوانوں کے سامنے ایسی بات کی تو ان کو احمدیت سے دور لے جانے کے تم ذمہ دار ہو گے.وہ لوگ احمدیت کے عاشق اور بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں.ان کا جو کیریکٹر ہے اور ان کی جو عادتیں ہیں ، وہ اتنی اچھی اور خوبصورت ہیں کہ مجھے بعض دفعہ فکر پیدا ہوتی ہے کہ وہ کہیں ہم سے آگے نہ نکل جائیں.اللہ تعالیٰ کا ہمارے ساتھ کوئی رشتہ تو نہیں کہ جو مرضی ہم کریں اور وہ ہمارے اوپر مہربان رہے.اور دوسرے اس کی راہ میں زیادہ قربانیاں دینے والے، اس کے زیادہ عاشق اور اس سے زیادہ محبت کرنے والے ہوں اور وہ انہیں بھلا دے.یہ تو نہیں ہو سکتا.وہاں جو نسل اس وقت پرورش پارہی ہے، وہ بڑی سنجیدہ ہے.حالانکہ تعلیمی لحاظ سے بڑے پیچھے ہیں.لیکن اس کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ قوم سعید فطرت لے کر پیدا ہورہی ہے.( دنیوی لحاظ سے بھی) مثلاً کوئی بچہ سڑک پر نہیں آئے گا.وہاں دور کو کوئی خدشہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی انسان کو Knock down کر دے گا اور اسے مصیبت پڑ جائے گی.اور اسی واسطے وہ بالعموم ستر، اتنی میل کی رفتار سے کار چلاتے ہیں.چنانچہ ہم نے بو (Bo) سے سیرالیون تک 170 میل کی مسافت سوا تین گھنٹے میں طے کی.کوئی آدمی سڑک پر نہیں آتا.سڑک کے کنارے سے سات آٹھ سال کے بچے کداڑے لگا رہے ہوتے ہیں مگر کیا مجال ان میں سے کوئی سڑک پر آ جائے.وہ سڑک کے کنارے یاد کانوں کے پاس رہتے ہیں.مگر جہاں سے ٹریفک گزر رہی ہوتی ہے، وہاں بالکل نہیں جاتے.ان کی سنجیدگی کا یہ حال ہے کہ ایک چھوٹی افریقن بچی ، جسے ہم نے اپنی بیٹی بنایا ہے.(اس کا باپ راضی ہو گیا تھا، اسے ہم ساتھ تو لا نہیں سکتے تھے، تیاری مکمل نہیں ہو سکتی تھی ، مثلاً پاسپورٹ وغیرہ بنوانا تھا.وہ بچی منصورہ بیگم کو اس لئے پسند آئی کہ تین گھنٹے کا جلسہ اور پانچ سال کی وہ لڑکی.منصورہ بیگم کہتی 572

Page 590

تحریک جدید- ایک البمی تحریک...جلد چہارم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1970ء ہیں کہ وہ میرے قریب آ کر بیٹھ گئی اور تین گھنٹے تک خاموشی سے بیٹھی رہی.یہاں تک کہ اس نے اپنی ٹانگ بھی نہیں ہلائی اور جلسہ کی کاروائی کو بڑی توجہ سے سنتی رہی.حالانکہ اسے کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا.بچپن آخر اس کا بھی ہے.صرف ہمارے بچوں کا بچپن تو نہیں ہوتا.چنانچہ بچپن کی عمر نے بھی کوئی جوش نہیں دکھایا.وہ ہلی تک نہیں.بلکہ ساتھ بیٹھی ہوئی عورت نے اسے کہا بھی کہ تم تھک گئی ہوگی ، اپنی ٹانگوں کو ہلا ؤ جلاؤ مگر اس نے سنی ان سنی کر دی اور اسی طرح بیٹھی رہی.پس اس قسم کے نیچے وہاں پیدا ہور ہے ہیں.وہاں ہمارے سکولوں میں عجیب ڈسپلن ہے.انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے.یہ صحیح ہے کہ زیادہ ڈسپلن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سکولوں میں پیدا ہوا ہے.لیکن اس ڈسپلن کو قبول کرنے والے تو وہی افریقن ہی ہیں.وہ تعلیم میں بڑے اچھے جارہے ہیں.مجھے بھی بعض موقعوں پر یہ نہیں کہ میں نے ان میں کوئی نقص دیکھا.) یہ بات کہنی پڑتی تھی کہ پیچھے نہ.یہ درست ہے، تم مظلوم ہو، کئی سو سال تمہیں یورپی اقوام نے لوٹا تمہیں تعلیم نہیں دی، اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں.لیکن پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں.اس لئے کہ اگر تعلیم کے اور مادی ترقیات کے اور روحانی ترقیات کے دروازے تم پر بند ہوتے اور تمہیں اپنے مستقبل کی طرف پیٹھ کرنی پڑتی تو تم پیچھے دیکھتے اور کڑھتے ، گالیاں دیتے اور بدلہ لینے کی سوچتے.لیکن جب اللہ تعالیٰ نے علم کے میدان میں بھی اور مادی ترقیات کے میدان میں بھی اور روحانی ترقیات کے میدان میں بھی تمہارے لئے بزرگ شاہراہیں کھول دی ہیں تو اب آگے بڑھو.سامنے کی طرف دیکھو، پیچھے کیوں دیکھتے ہو؟ ویسے ان کے اندر آ گے بڑھنے کی اہلیت پائی جاتی ہے.وہ بڑی سمجھ دار قوم ہے.وہ توجہ سے پڑھتے ہیں اور وقت کو ضائع نہیں کرتے ، اس لئے وہ آگے بڑھ رہے ہیں.ایک نسل کے بعد دوسری نسل آتی ہے، پتہ ہی نہیں ہوتا، ایک صبح کو دنیا اٹھ کر دیکھتی ہے کہ جس قوم کو لوگ پیچھے سمجھتے تھے، وہ ان سے آگے نکل گئی ہے.جاپان کی تاریخ میں ایسا ہی ہوا.یورپ سمجھتا تھا کہ کوئی ایشیائی ملک ان سے آگے نہیں نکل سکتا.مگر ایک صبح کو انہیں یہ اقرار کرنا پڑا کہ جاپان ان سے آگے نکل گیا یا کم از کم ان کے برابر آ گیا ہے.(اعلان تو شاید برابر آنے کا کیا تھا کیونکہ اپنے سے آگے نکل جانے کا تو وہ مان نہیں سکتے تھے.) اور یہ اس لئے کہ جو ایک اندورنی تبدیلی رونما ہوتی ہے، ایک نسل کے بعد جب دوسری نسل وہ مقام حاصل کر رہی ہوتی ہے تو کسی کو پتہ ہی نہیں لگتا، دنیا حیران رہ جاتی ہے.یہ جو افریقہ میں اگلی نسل پرورش پارہی ہے، جسے میں دیکھ کر آیا ہوں، اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور صداقت ان پر کھولے اور دین و دنیا کی حسنات سے ان کو نوازے، وہ ایسے سعید فطرت ہیں کہ اگر ان کی صحیح 573

Page 591

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تربیت کی جاسکے تو وہ دوسری قوموں سے آگے نکل جائیں گے.روحانی لحاظ سے بھی وہ ہم سے آگے جاسکتے ہیں.ہم نے کوئی Monopoly ( اجارہ داری تو نہیں کی ہوئی، اللہ تعالیٰ سے.جو آدمی اس کی راہ میں زیادہ قربانیاں دے گا، جو اس سے زیادہ پیار کرے گا، جو دنیا کو چھوڑ کر اس کی طرف زیادہ توجہ کر رہا ہو گا، اس سے وہ زیادہ پیار کرے گا.کیونکہ قرآن کریم میں جو اصول بیان ہوئے ہیں، اس کے خلاف تو نہیں ہو سکتا.بہت سارے Digression (ڈائی گریشن) یعنی ادھر ادھر بھی میں گیا ہوں ، حالات بھی بتائے تھے.جو بات میں نے آپ سے اس وقت کہی ہے، وہ خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کی جنگ سوائے احمدیت کے کسی اور نے نہیں لڑنی.اور جو اسلام کی جنگ لڑی جانی ہے، اس کے بڑے محاذ ہیں.(اور چھوٹے چھوٹے محاذ بھی ہیں، کسی وقت ان پر بھی روشی ڈالوں گا.) ایک دہریت اور لادینیت کا محاذ اور دوسرا نام نہا دعیسائیت کا محاذ.نام نہاد میں نے اس لئے کہا ہے کہ عیسائیت اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے.لیکن مادی لحاظ سے اور دنیوی طاقت کے لحاظ سے اس کا دنیا میں بڑا اثر و رسوخ ہے.ایک خلاف فطرت کام کرنے والا افسر اور لیڈر جو ہے، جہاں عیسائیت کا مقابلہ ہوگا ، وہ عیسائیت کی مدد کر جائے گا.حالانکہ اس کے سارے اعمال اور زندگی عیسائی نقطہ نگاہ سے بھی گند میں ملوث ہے.یہ جنگ جو ہم نے عیسائیت سے لڑنی ہے، اس کا فیصلہ افریقہ میں ہوگا.کیونکہ اگر آج ہم افریقہ سے عیسائیت کو نکال دیں تو پھر ان کے لئے یہ بڑا ہی مشکل ہے، سپین یا جنوبی امریکہ میں اس طرح اکٹھے ہو جانا.اور Counter attack ( کاؤنٹر اٹیک) کے لئے جمع ہو جانا کہ جس میں انہیں کامیابی کی کوئی امید ہو.عیسائیت کے دلائل کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتناز بر دست لٹریچر جمع کر دیا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک ایک چیز کو لے کر اس کے پر خچے اڑا دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ نو جوانوں کے لئے ان کا ایک خلاصہ شائع کر دیا جائے گا، جس میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ دلائل ہوں گے.پیس افریقہ میں لڑی جانے والی جنگ کو جیتنے کے لئے ہم پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اس سلسلہ میں بہت ساری باتیں میں پہلے بیان کر چکا ہوں.مثلاً نصرت جہاں ریزروفنڈ قائم ہمیں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، ہمیں ٹیچرز کی ضرورت ہے ڈاکٹروں اور ٹیچروں کو رضا کارانہ طور پر خدمات پیش کرنے کی جو میں نے تحریک کی تھی، اس سلسلہ میں شاید ایک بات رہ گئی تھی.وہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے ڈاکٹروں کی بھی ضرورت ہے، جن کی بیویاں بھی ڈاکٹر ہوں.اور ایسے ٹیچرز کی بھی ہے.574

Page 592

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 جولائی 1970ء ضرورت ہے، جن کی بیویاں بھی وہاں کام کر سکیں.یعنی وہ بھی بی.اے، بی ایڈ یا بی.ایس سی، بی ایڈ ہوں.کیونکہ وہاں بعض جگہیں ایسی بھی ہیں، جہاں مسلمان لڑکی تعلیم میں بہت پیچھے ہے اور پردے میں غلو کر رہی ہے.اس لحاظ سے تو اچھا ہے کہ وہاں بے پردگی نہیں.اور بے پردگی سے پردہ میں غلوا چھا ہے.لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں کی مستورات علم سے ( اور علم در اصل خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں اور ان سے وہ) محروم ہیں.ہماری طرف سے یہ کوشش ہورہی ہے کہ ایسے علاقوں میں با پردہ پڑھائی کا انتظام کیا جائے.تا کہ اگلی نسل کی بچیوں کو ہم علم کے نور سے منور کر سکیں.ہمیں بڑی دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا.جب اللہ تعالیٰ فضل کرے اور اپنے پیار کا جلوہ دکھائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی.میں وہاں پانچ ہیڈز آف دی سٹیٹس سے ملا ہوں.میں ایک غیر ملکی ، نہ میری ان سے جان ، نہ پہچان، مگر انہوں نے مجھ سے بے حد پیار کیا.ان پانچ میں سے تین تو عیسائی تھے باقی دو غیر احمدی مسلمان تھے.لیکن مجھ سے اس طرح ملتے تھے، جیسے ان کا کوئی بزرگ ہو.میں دل میں حیران بھی ہوتا تھا اور الحمدللہ بھی پڑھتا تھا کہ میں تو بالکل عاجز اور ناکارہ انسان ہوں، یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے.ایک جگہ ایک آرچ بشپ نے شروع میں تھوڑی سی شوخی کی تھی اس کی تفصیل بڑی لطیف ہے، بعد میں کسی وقت بتاؤں گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ پر ایسا رعب ڈالا کہ واپسی پر مصافحہ کرتے وقت اس طرح جھک گیا، جس طرح اپنے سے بڑے بشپ کے سامنے جھک رہا ہو.اس وقت بھی میرے دماغ میں یہی آیا کہ تثلیث تو حید کے سامنے جھکی ہے.یہ خیال نہیں پیدا ہوا کہ یہ شخص میرے سامنے جھکا ہے.میں تو ایک عاجز انسان ہوں.میں نے اس سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے موضوع پر باتیں کی تھیں.جس سے وہ اتنامرعوب ہوا کہ چلتے وقت اسے جھکنا پڑا.پس اللہ تعالیٰ تو بے حد فضل کرنے والا ہے.ہمیں یہ معلوم کرنا چاہئے کہ معرفت یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرتیں کیا ہیں؟ احمدیت کی زندگی کی یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حد رحم کرنے والا ہے، وہ بڑا پیار کرنے والا اور اپنی بے شمار نعمتوں سے نواز نے والا ہے.اگر ہم پھر بی الحمدللہ نہ کہیں تو ہم بڑے ہی بدقسمت ہوں گے.پھر تو وہ آگے آجائیں گے، جو الحمد للہ کہنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا کرے اور ہماری نسلوں کی صحیح تربیت کی ہمیں توفیق دے.اور ہمیں یہ بھی توفیق دے کہ ہم ہمیشہ مسابقون میں رہیں، کسی سے پیچھے ندرہ جائیں“.روزنامه الفضل 20 اگست 1970 ء) 575

Page 593

Page 594

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 10 جولائی 1970ء غلبۂ اسلام کے دن مجھے افق پر نظر آرہے ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1970ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آپ دوستوں کی یہ خواہش ہوگی کہ میں اپنے دورہ کے متعلق کچھ باتیں کہوں اور آپ میر - منہ سے وہ باتیں سنیں.بہت کچھ تو آپ رپورٹوں میں پڑھ چکے ہیں.واقعات اور حالات کا یہ قریباً بیسواں حصہ ہوگا.کچھ تھوڑا بہت میں نے اپنے گذشتہ تین خطبات میں بیان کیا ہے.یہ خطبات انشاء اللہ چھپ جائیں گے اور آپ انہیں بھی پڑھیں گے.بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ جو دیکھنے سے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتی تھیں، ان کا بیان ممکن نہیں.لیکن حس اور جذبہ کی ، جن تاروں کو ان واقعات نے جنبش دی، وہ حرکت احساس میں اور جذبات میں سالوں سال قائم رہے گی.اس وقت میں مختصراً چند عمومی باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے ان اقوام کو کیسا پایا؟ جہاں تک میں نے غور کیا اور جہاں تک میرے مشاہدہ میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اقوام بڑی شریف النفس سعید الفطرت اور سادہ مزاج ہیں.ان کے معاشرہ کے بعض پہلو ہم پاکستانیوں کے لئے بھی قابل رشک ہیں.مثلاً وہاں افسر اور ماتحت میں اتنی دوری نہیں ، جتنی کہ ہمیں یہاں نظر آتی ہے.بعض دفعہ جب ہم بڑے بڑے افسروں سے ملنے جاتے تو نسبتاً جو نیئر افسر ہمارے وفد میں شامل ہوتے.وہ بے دھڑک وہاں پہنچتے اور ذرا ذراسی بات کا اس طرح خیال رکھتے ، جس طرح اس دفتر میں انہی کی حکومت ہو.اور ہیڈ آف دی سٹیٹ سے بھی بڑے دھڑلے سے ملتے.وزراء کا یہ حال ہے کہ مجھے ایک پرنسپل نے بتایا کہ جب سکول میں داخلے کے دن ہوتے ہیں تو بعض دفعہ ایک، ایک دن میں چھ، چھ وزیر میرے پاس بعض بچوں کی سفارش لے کر آتے ہیں.نائیجیریا میں، میں نے سکو تو کے گورنر ( سکو تو ، نارتھ ویسٹ سٹیٹ ہے.یعنی شمال مغربی صوبہ.اسے انہوں نے سٹیٹ کہا ہے.نئے Constitution(آئین) کے مطابق انہوں نے اپنے ملک کو بارہ صوبوں میں تقسیم کر دیا ہے.یہ سکو تو مسلمانوں کا علاقہ ہے.) کے پاس جس دوست کو بھیجاتھا، وہ کیبنٹ سیکرٹریٹ 577

Page 595

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم میں ڈپٹی سیکرٹری تھے.چنانچہ وہ بڑے دھڑلے سے گئے اور گورنر سے گفتگو کی.اور میری تجویز کو ان کے سامنے ایسے انداز میں پیش کیا کہ وہ گورنر صاحب بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے ہماری پیش کش کو جو دراصل انہی کے فائدے کے لئے تھی، قبول کر لیا.اور اب جور پورٹیں مجھے موصول ہو چکی ہیں، ان کے مطابق انہوں نے ہمارے سکولوں کے لئے 40-140 یکٹر زمین بھی دے دی ہے.فالحمد للہ علی ذالک.غرض یہ بعد جو افسر اور ماتحت کا ہمیں یہاں نظر آتا ہے، وہ مغربی افریقہ کی ان اقوام میں مجھے نظر نہیں آیا.ہم جب Reception ( ریسپشن) میں جاتے تھے تو وزراء اور کمشنر زیاڈی سی وہ مختلف نام استعمال کرتے ہیں.آپس میں اس طرح گھلے ملے ہوتے تھے کہ آپ پتہ نہیں کر سکتے تھے کہ کون منسٹر ہے اور کون چھوٹا افسر ہے؟ وزراء کے علاوہ ہر دفعہ وہاں کے Ambassador (سفیر ) بھی ہوتے تھے.بڑے بڑے امیر بھی ہوتے تھے، بڑے اثر و رسوخ والے سیاسی لیڈر بھی ہوتے تھے.اور سب وہاں اس طرح گھوم رہے ہوتے تھے کہ کسی آدمی کو جو باہر سے گیا ہو یا ذاتی طور پر ان سے واقف نہ ہو، یہ معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ وزیر صاحب ہیں اور یہ حکومت کا ایک معمولی افسر ہے یا یہ ملک کا ایک معمولی دکاندار ہے.دوسری چیز جو مجھے وہاں نمایاں طور پر نظر آئی، وہ یہ ہے کہ جو بعد امیر اور غریب میں ہمیں یہاں نظر آتا ہے، وہاں نظر نہیں آتا.ایک تو بظاہر لباس کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں.جہاں تک صفائی کا تعلق ہے، ایک چپڑاسی بھی اتنے ہی صاف کپڑوں میں آپ کو نظر آئے گا، جتنے صاف کپڑوں میں ایک وزیر نظر آئے گا.اور ویسے بھی کپڑوں میں بہت سادگی ہے.ہمارے ملک میں تو ہزاروں لوگ ایسے ہیں، جو چار، پانچ سوروپے گز سے کم والے سوٹ کو پہنے کے لئے دہنی طور پر تیار نہیں ہوتے.اور اسی وجہ سے ہمارے معاشرہ میں بہت سا گند آ کر شامل ہو گیا ہے.البتہ مغربی افریقہ کے لوگوں کو جسے پہنے کا بہت شوق ہے.اور رنگدار کپڑوں کے استعمال کا مردوں کو بہت شوق ہے.میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہمارے ملک میں عورتیں اتنے رنگ برنگے کپڑے نہیں پہنتیں، جتنے کہ وہاں مرد پہنتے ہیں.اور پھر نئے سے نئے ڈیزائن، رنگ کے لحاظ سے، پھولوں کے لحاظ سے، ان کے جبوں پر نظر آتے ہیں.ایک دفعہ مجھے خیال آیا اور میں نے اس بارہ میں غور کیا.ہم موٹر پر جارہے تھے.مجھے میل دو میل کے اندر سینکڑوں جسے نظر آئے.مگر ان میں سے کوئی دو جسے ایک رنگ کے نہیں تھے.پتہ نہیں وہ کس طرح اتنے مختلف ڈیزائن بنا لیتے ہیں؟ وہ بہر حال بناتے ہیں.کیونکہ یہ وہاں کی مانگ ہے.ویسے جب وہ جبہ بدلتے ہیں تو ان کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں.ہم پہچان نہیں سکتے تھے کہ کیا یہ وہی شخص ہے، جو کچھ دیر پہلے تھا؟ جس نے کپڑے بدل لئے اور اب کچھ اور لگتا ہے.578

Page 596

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 10 جولائی 1970ء میں اس سلسلہ میں آپ کو ایک لطیفہ بھی سنا دیتا ہوں.ہم نے جس روزا جے بواوڑے جانا تھا، اس سے پہلی رات ہمارے ایمبیسیڈر کے ہاں ہمارا کھانا تھا.ان کی بیوی نے پتہ نہیں کیوں منصورہ بیگم سے کہا کہ یہ علاقہ بڑا خطرناک ہے، آپ کو دیر ہو جائے گی.آپ کوشش یہ کریں کہ سورج غروب ہونے سے قبل واپس لیگوس پہنچ جائیں.غرض اس نے وہاں کے حالات کا اچھا خاصا بھیا نک نقشہ کھینچا، جو میرے نزدیک غلط تھا.بہر حال جب انہوں نے یہ کہا اور مجھے اس کا پتہ لگا تو میں نے اپنی جماعت سے کہا کہ ہمارے احمدی پولیس افسر بھی ہوں گے اور فوجی افسر بھی ہوں گے، کسی کو کہیں کہ وہ ہمارے ساتھ چلے.چنانچہ انہوں نے ایک میجر کی ڈیوٹی لگائی.اس نے کہا کہ میں اپنے دفتر کا کام ختم کر کے دو پہر کے بعد اپنی آرمڈ یونٹ لے کر پہنچ جاؤں گا اور واپسی پر آپ کے ساتھ آؤں گا.کوئی 80-70 میل کے فاصلے پر وہ جگہ تھی.چنانچہ وہ وہاں پہنچے اور جب مجھ سے ملے تو وہ یونیفارم میں تھے.جب ہم واپس لیگوس اپنے ہوٹل میں پہنچے تو وہ مجھے نظر نہ آئے.میں نے سمجھا شاید انہوں نے جلد اپنی ڈیوٹی پر پہنچنا ہو اور وہ راستے سے ہی اپنی بیرک میں چلے گئے ہوں.میں نے دوستوں سے پوچھا کہ ہمارے میجر صاحب ہمارے ساتھ تھے.کیا وہ راستے ہی سے چلے گئے ہیں؟ کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے کہ یہ پانچ قدم پر آپ کے سامنے کھڑے ہیں.ہوا یہ تھا کہ موٹر ہی میں انہوں نے اپنی یونیفارم اتار کر اپنا جبہ پہن لیا تھا اور اس سے ان کی شکل بھی بدل گئی تھی.ممکن ہے کہ اس طرح ایک غیر ملکی کے لئے انہیں پہچاننا آسان نہ ہو.لیکن میرا تو خیال ہے کہ بحیثیت مجموعی ان کی شکلیں بھی بدل جاتی ہیں.کیونکہ انسان کی شکل صرف اس کے چہرے کے فیچر ز یعنی نقوش ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کا لباس ہے اور اس کی طرز ہے.ان ساری چیزوں کے ملنے سے دماغ میں کسی شخص کی شکل کا ایک تصور قائم ہوتا ہے.بہر حال امیر اور غریب میں جو بعد یہاں پایا جاتا ہے اور جو تفریق یہاں پائی جاتی ہے، وہ ان ملکوں میں نہیں پائی جاتی.میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ ہماری جس احمدی بہن نے اکیلے پندرہ ہزار پاؤنڈ سے زیادہ خرچ کر کے ابے بو اوڈے میں مسجد تعمیر کروائی ہے، جس کا میں نے افتتاح کیا تھا، وہ ہماری بہت بڑی جامع مسجد ہے.میں نے وہاں یہ دیکھا کہ ان کے لئے اور عام مزدور یا جو ان کی وہاں نوکرانیاں تھیں، ان کے لئے جو کھانا پک رہا تھا، وہ مختلف نہیں تھا.بلکہ ایک ہی کھانا تھا، جس میں وہ بھی شامل ہوئی ہوں گی.انہوں نے میرے سامنے تو نہیں کھایا.البتہ میرا اندازہ تھا کہ کوئی الگ کھانا نہیں پک رہا.چنانچہ میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو میرا خیال درست تھا.معلوم ہوا کہ ایک ساتھ اکٹھے کھانے 579

Page 597

خطبہ جمعہ فرمود : 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کا آپس میں کوئی فرق نہیں ہوتا.اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو بعض دفعہ Discontentment ( بے اطمینانی ) اور بد دلی ہمیں یہاں نظر آتی ہے، وہاں یہ نظر نہیں آتی.بڑا عجیب نظارہ ہے.میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ایک دن بہت مصروف پروگرام تھا.ہم نے ایک جگہ سے دوسری جگہ موٹروں پر جانا تھا.میں نے دوستوں سے کہا کہ ایک تو پیار ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، دوسرے مسکراہٹ کا جواب ہمیشہ مسکراہٹ سے ملتا ہے.اور میں آج یہ کرتا رہا ہوں.میرا اندازہ یہ ہے کہ میں نے لیگوس کے باشندوں سے کم از کم پچاس ہزار مسکراہٹیں وصول کیں.اور کسی جگہ میں نے مایوسی افسردگی اور بے زاری یا Discontentment ( بے اطمینانی ) نہیں پائی.وہ سب بڑے خوش اور ہشاش بشاش دکھائی دیتے تھے.حالانکہ وہ ابھی سول وار جیت کر ہٹے تھے.اس کے سکار ز کہیں تو نظر آنے چاہئے تھے.مگر کہیں بھی نظر نہیں آئے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب امیر اور غریب ایسے ہوں کہ ان کے رہن سہن میں زیادہ فرق نہ ہو، ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار نہ ہو، تکبر اور غرور نہ ہو تو وہ قوم خوشی اور بشاشت کی زندگی گزار رہی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اس چیز پر بھی استقامت بخشے اور باہر کے غیر ملکی گندے اثرات ان کے معاشرہ کو گندا کرنے میں کامیاب نہ ہوں.جیسا کہ نائیجیر یا کوتباہ کرنے کے لئے کوششیں کی گئی تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں مفسد دنیا کو کامیاب نہیں ہونے دیا.جب میں یعقو بو گوون سے ملا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر کچھ ایسا تصرف کیا تھا کہ وہ میرے ساتھ نصف گھنٹے تک اس طرح بیٹھا رہا کہ جس طرح اس کے گھر کا ایک فرد ہو.وہ بڑی بے تکلفی سے باتیں کرتا رہا.امریکن اور یور بین اقوام، جو وہاں فساد پیدا کرنا چاہتی تھیں ، وہ ان پر جو تنقید کر رہا تھا ، وہ تو کرہی رہا تھا.مجھے اس نے یہ بھی کہا کہ غیر ملکی عیسائی مشنز ( خود وہ عیسائی ہے) نے پورا زور لگایا کہ ہمارے ملک کو تباہ کر دیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، ہمارا ملک تباہ ہونے سے بچ گیا.میں نے اس سے کہا کہ تمہاری قدر میرے دل میں اس لئے بھی ہے (ویسے میں نے اس کے متعلق اور بھی بہت سی معلومات حاصل کی تھیں، وہ بڑے ہی اچھے دل کا مالک ہے ) کہ میں پورے غور سے عوام کو سڑکوں اور دکانوں کے سامنے دیکھتا رہاہوں مگر میں نے کسی جگہ بھی یہ محسوس نہیں کیا کہ تمہاری خانہ جنگی کا قوم پر کوئی اثر ہو.ویسے تو وہ ہر ایک کا خیال رکھتا ہے، اس کی حالت یہ تھی کہ میں نے اسے یہ کہا کہ دیکھو! تم نے سول وار جیتی ہے اور یور بین اقوام کی مخالفت اور مداخلت کے باوجود جیتی ہے، یہ تمہارا بڑا کارنامہ ہے.تمہارے کندھوں پر بڑا بوجھ پڑا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ اہم اور ضروری اور مشکل کام اب تمہیں کرتا ہے اور وہ یہ 580

Page 598

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 10 جولائی 1970ء ہے کہ تم نے بیا فرا کو ویسے تو جنگ کے ذریعہ جیت لیا ہے لیکن ان کے دلوں کو جیتنا ابھی باقی ہے.اس لئے کوئی Heat generate (ہیٹ جنریٹ نہیں ہونی چاہئے.ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور ان کے ساتھ پیار کا معاملہ کرو.چنانچہ اس نے میری اس نصیحت کو بڑی بشاشت سے سنا اور مجھے کہنے لگا کہ مجھے اس وقت کا خود بھی خیال ہے.میں ان سے یہی سلوک کروں گا.وہ میرا بڑا ممنون تھا.چونکہ ان کا معاشرہ بہت سے گندوں سے محفوظ ہے، اس لئے آپ کو ہنستے کھیلتے چہرے نظر آئیں گے، بڑے ہشاش بشاش، کوئی شکایت نہیں، کوئی Discontentment ) بے اطمینانی ) نہیں، کوئی بد دلی نہیں، کوئی اداسی نہیں، کوئی یہ خیال نہیں کہ انہیں حقیر سمجھا جاتا ہے.آپس میں ایک دوسرے کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے.اور یہی پیغام میں لے کر گیا تھا.اس واسطے ان کو اس نے اپیل کیا.میں نے ایک دن انہیں یہ بھی کہا کہ میں آج تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ تمہاری عزت اور احترام کا دن طلوع ہو چکا ہے.اب دنیا تمہیں نفرت اور حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی.میرے ذہن میں تو یہ تھا کہ ان کی عزت اور احترام کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا.اس لحاظ سے ہم ان کے محافظ ہیں ان کی عزت و احترام کے، اور ہم محافظ ہیں ان کی جانوں اور مالوں کے، اور ہم محافظ ہیں شیطانی یلغاروں سے انہیں بچانے کے.یعنی شیطان سے بچانے کا جو کام ہے، وہ ہمارے سپرد ہے.اور جو ان کی ضرورتیں ہیں، وہ حتی الوسع ہم نے پوری کرنی ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے میں سمجھتا ہوں، اس وقت کے حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے علم سے یہ اعلان کیا تھا کہ افریقہ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے محفوظ رکھا ہوا ہے.اور یہ اب نظر آ رہا ہے کہ اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو نبا ہیں تو وہ لوگ بہت جلد اسلام کو ، احمدیت کو قبول کر لیں گے.اور پھر اللہ تعالی ہمیں توفیق دے گا Sweet revengc ( سویٹ ریوینج) کی.میں آپ کو کہتا تھا، ہم نے ایک حسین انتقام ظالموں سے لینا ہے.وہاں ہمارے عبد الوہاب ہیں، جامعہ سے پڑھ کر گئے ہیں.بڑے مخلص اور بڑے مستعد اور ہمت والے مبلغ ہیں.وہ نہایت اچھا کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں بیوی بھی بڑی اچھی دی ہے.اس کے دل میں بھی اسلام کا درد اور احمدیت کا پیار ہے.وہ سارا دن بچے اور بچیوں کو قرآن کریم پڑھانے میں مشغول رہتی ہیں.ان کے علاقے میں جاکر اور یہ حالات دیکھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی.میں نے عبدالوہاب سے کہا کہ تیار ہو جاؤ، ہمارے حسین انتقام کے دن قریب آرہے ہیں.اور میں نے وہاں اعلان کر دیا کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں زندہ رہا تو میں یا میرے بعد جو بھی ہو 581

Page 599

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم گا، وہ تمہیں گلاسکومشن کا انچارج بنا کر بھیجے گا.وہ تو میں جو صدیوں تک تم پر ظلم کرتی رہی ہیں، انہیں یہ پتہ لگنا چاہئے کہ تم لوگ اس قابل ہو کہ دین کے میدان میں پیار کے میدان میں اور محبت کے میدان میں اور ہمدردی اور غم خواری کے میدان میں، خدمت کے جذبہ کے میدان میں اور مساوات کا پیغام دینے کے میدان میں تم ان کے استاد بنو گے، انشاء اللہ.ان سے میں نے کہہ دیا کہ تم چار سال کے بعد ر بوہ آؤ گے اور یہاں اپنی انگریزی (ویسے تو اچھی خاصی جانتے ہیں) اور زیادہ improve ( بہتر ) کرو گے اور پھر یہاں سے تمہیں گلاسکو بھیج دیں گے.ان کے ملک کو بھی میں نے کہہ دیا ہے کہ ہمارا تو یہ پروگرام ہے.ہمارے ایک بڑے مخلص افریقن کماسی میں، جو غانا کا ایک مشہور شہر ہے، ہمارے ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں.وہاں ان کے ملک کی یہ پالیسی ہے اور یہ درست ہے کہ جو استاد یا پرنسپل انہیں افریقی ملے گا، اس کی جگہ وہ غیر ملکی کونہیں رکھیں گے.چنانچہ شروع میں ہمیں یہ خیال تھا کہ کہیں اس کا ہمارے سکولوں پر برا اثر نہ پڑے.لیکن چونکہ وہاں کا معاشرہ کچھ اور رنگ رکھتا ہے.عملاً یہ ثابت ہوا کہ کوئی برا اثر نہیں پڑا.لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ہمارے کماسی کے اس نہایت اعلیٰ اور مقبول اور بہت ہی کامیاب سکول (جو ہمارے انٹر میڈیٹ کالج کے برابر ہے ) کا جو افریقی پر نسپل مقرر کیا گیا، وہ ایک احمد ہی تھا.اس سے بھی میں نے کہا کہ تم بھی تیار ہو جاؤ ممکن ہے، کسی دن میں تمہیں پاکستان میں بلا کر یہاں کے کسی سکول کا ہیڈ ماسٹر بنا دوں.کیونکہ جہاں تک احمدیت کا تعلق ہے، کسی ایک ملک یا کسی ایک قوم کی اجارہ داری نہیں ہے.إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ * ط (الحجرات :14) میں "حسم" کے مخاطب پاکستانی نہیں یا صرف پہلے عرب نہیں تھے.بلکہ ہر انسان اس کا مخاطب ہے.جو بھی تقوی میں آگے نکل جائے گا خواہ وہ فرد ہو یا قوم، اللہ تعالیٰ کو وہ دوسرے فرد یا قوم سے زیادہ پیارا ہو گا.اور جو آگے نکل گئے ہیں، اپنے خلوص اور قربانیوں میں، بہر حال ہمارا یہ کام ہے، جماعت احمدیہ کے خلفاء کا یہ کام ہے کہ ان کو دوسروں کی نسبت زیادہ عزت اور احترام دیں.پس وہ بھی یہاں آئیں گے، جس طرح ہم یہاں سے مبلغ اور پرنسپل وہاں بھجوا رہے ہیں.وہاں کے لوگ یہاں آئیں گے اور پھر دوسرے ملکوں میں جائیں گے.ساری دنیا کو پتہ لگے گا کہ وہ حسین معاشرہ پھر دنیا میں قائم ہونا شروع ہو گیا ہے، جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں اور پھر جب اسلام غالب آیا تو ساری دنیا میں قائم کیا تھا.582

Page 600

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 10 جولائی 1970ء ہماری اسلامی تاریخ میں میرے خیال میں درجنوں ایسے بادشاہوں کے خاندان ہوں گے، جو حبشی غلاموں سے تعلق رکھتے تھے.مثال تو اس وقت میں ( وقت کی رعایت سے ) جو بہت ہی حسین اور نمایاں ہے، وہ دیتا رہا ہوں.تین، چار موقعوں پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی مثال میں نے بیان کی.ویسے حضرت بلال کے ساتھ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی پیار کے سلوک کئے ہیں.وہ بھی بڑی حسین مثالیں ہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے پھر کبھی توفیق دی اور وہاں جانے کا موقعہ ملاتو اور بہت ساری مثالیں دے دیں گے ، اس دنیا میں.اور اس وقت بھی میرے خیال میں پاکستان کے بہت سے سمجھتے ہوں گے کہ انسان، انسان میں فرق ہے.اسلام تو انسان، انسان میں فرق مٹانے کے لئے آیا تھا.قائم کرنے یا قائم رہنے دینے کے لئے نہیں آیا تھا.ایک حبشی اپنے تصور میں لے آؤ، جس قسم کا وہ ہوتا ہے (ویسے عملاً وہ ویسا ہی ہوتا ہے ) یہاں انگریز نے ہمارے بچپن میں جو تصور دیا تھا، وہ یہ تھا کہ حبشیوں کے ہونٹ لٹکے ہوئے اور نچلا ہونٹ ٹھوڑی کے کنارے تک پہنچا ہوا اور آنکھیں سرخ ہوتی ہیں، جس طرح کی شکل و شیطان کی بناتے تھے، اسی طرح کی شکل حبشی کی بھی بنا دیتے تھے.مگر وہاں ایسا نہیں ، الَّا مَا شَاءَ الله بعض اس سے ملتی جلتی شکلیں تو ہیں لیکن اتنی بھیانک نہیں ہیں.ان کے بڑے تیکھے نقوش ( اور اس وقت جو دوست میرے سامنے بیٹھے ہیں، عام طور پر ان سے ملتے جلتے چہرے ) ہم نے وہاں دیکھتے ہیں.خصوصاً احمد یوں میں اور پھر دوسرے مسلمانوں میں اس قسم کے بھدے اور ڈراؤ نے نقوش نہیں ہیں.البتہ عیسائیوں میں مجھے کہیں کہیں نظر آئے ہیں.پتہ نہیں اس میں کیا حکمت ہے؟ وه بہر حال ایک حبشی جو مکہ کے پیرا ماؤنٹ چیفس کا غلام تھا.اور وہ اس کے ساتھ نفرت اور حقارت کے ساتھ پیش آتے تھے.ان کے دلوں میں اس کی کوئی عزت نہیں تھی، کسی قسم کی عزت کا اظہار ان سے نہیں ہوا کرتا تھا.پھر خدا کا کرنا کیا ہوا کہ یہی حبشی غلام، جو ان کی نگاہوں میں بڑا ذلیل تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے نور دکھایا اور وہ اسلام لے آیا.پہلے صرف نفرت اور حقارت تھی ، اب نفرت اور حقارت کے ساتھ ظلم بھی ہو گیا.انہوں نے اس کو اس طرح اذیت پہنچائی کہ آج بھی ہم سوچتے ہیں تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر ایک مسلمان کو خیال آیا، اس نے اسے خرید کر آزاد کر دیا.اور وہ مسلمان معاشرہ کا ایک فرد بن گیا.مسلمان معاشرہ کا فرد تو ویسے اسلام لانے کے بعد ہی بن گیا تھا مگر غلامی کی زنجیروں کی وجہ سے عملاً مسلمان معاشرہ کا فرد نہیں بن سکا تھا.پھر وہ بڑے سے بڑے مسلمان گواس وقت چند ایک ہی سہی کیونکہ اس وقت رؤسائے مکہ میں سے چند ایک مسلمان ہو چکے تھے، ان کے برابر ہو گیا.اور وہ عملاً ان کی 583

Page 601

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم زندگیوں کے برابر تھا، کوئی فرق نہیں تھا.پھر خدا تعالیٰ نے فتح مکہ کے موقع پر انسانیت کو وہ عظیم نظارہ دکھایا.کہ دنیا کی تاریخ جس کی مثال نہیں لاسکتی.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جھنڈ ا تیار کر وایا ( میں نے تصور کی نگاہ سے وہاں کا نقشہ اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کی ہے ) لوگ حیران ہوتے ہوں گے کہ ایک نیا جھنڈا کیوں تیار کروایا جارہا ہے؟ بہر حال ایک جھنڈا تیار کروایا اور فرمایا، یہ بلال کا جھنڈا ہے.آپ نے اس جھنڈے کو بلال کا نام دیا اور ایک جگہ اسے نصب کروا دیا اور پھر انہی رؤسائے ملکہ کو فرمایا کہ جس شخص کو تم نفرت اور حقارت سے دیکھا کرتے تھے اور جس پر تم ظلم ڈھایا کرتے تھے، آج اگر پناہ چاہتے ہو تو اس کے جھنڈے کے نیچے آ جاؤ.یہ ایک مثال ہے، جو درجنوں مثالوں میں سے نظر آتی ہے.ہمارا یہ دعویٰ کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں تبھی کسی حقیقت اور صداقت کا حامل بن سکتا ہے، اگر ہم اس کے مطابق عمل کریں.تاہم اس حصہ کو میں بعد میں لوں گا.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ حسنہ میرے سامنے تھا.چنانچہ ان کے سامنے جب میں یہ بات بیان کرتا تھا، مختلف موقعوں پر مختلف لوگوں کے سامنے، کیونکہ ملک بھی دوسرا ہوتا تھا اور جگہ بدلنے سے 99 فیصد جو اس جلسے میں ہوتے تھے ، وہ بھی مختلف ہوتے تھے.بلا مبالغہ Scientific Explanation سائنٹیفک ایکس پلے نیشن) تو میرے ذہن میں نہیں آیا لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان کی خوشی صوتی لہروں میں بھی ایک ارتعاش پیدا کرتی تھی.بغیر آواز کے اور میرے کانوں نے ان کی خوشی کی لہروں کو محسوس کیا.اور اس کا اثر صرف مسلمانوں پر ہی نہیں ہوتا تھا.ان کو تو تھوڑا بہت پہلے سے علم ہے.عیسائی بھی متاثر ہوتے تھے اور وہ مشرک اور بدھ مذہب، جن میں ابھی تک بڑی ظالمانہ رسوم رائج ہیں، وہ بھی سنتے تھے کہ اسلام کا پیش کردہ صداقت اور محبت اور پیار اور ہمدردی اور غم خواری اور خدمت اور سلام مساوات کا یہ اعلان ہے اور یہ ہے تو اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے.غرض کیا عیسائی اور کیا مشرک اور بدھ مذہب ؟ جب ہماری ان باتوں کو سنتے تھے تو وہ اتنا اثر قبول کرتے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.سلوک ٹیچی مان میں عبدالوہاب بن آدم ہمارے مبلغ ہیں، جو انشاء اللہ گلاسکو میں جا کر وہاں کے انچارج مشن بنیں گے.وہ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں.وہاں ہم گئے تھے، انہوں نے وہاں بہت بڑی مسجد بنوائی ہے.جو آپ کا نقشہ ہے اس مسجد کا ، اس سے چار گنا بڑی ہے.میں نے اس کا افتتاح کرنا تھا ، دوستوں سے ملنا تھا.وہاں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جماعت کا اتنا رعب ہے کہ بڑے بڑے پادریوں کو بھی مجبوراً ہمارے جلسوں میں شامل ہونا پڑتا ہے.کچھ تو انہوں نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ کام کیا کر رہے ہیں؟ اور کس 584

Page 602

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 10 جولائی 1970ء طرف ان کا رخ ہورہا ہے؟ غرض اس جلسہ میں جو پادری آئے ہوئے تھے، ان میں اس سارے علاقے کے کیتھولک مشنز کا انچارج بشپ بھی موجود تھا.لیکن بیٹھا شروع میں اس طرح تھا کہ جیسے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے.مجبوری تھی ، شامل ہو گیا.ایک موقع پر تقریر کے دوران میں، میں نے یہ کہا، One who was paramount prophet.پیرا ماؤنٹ چیف ان کا محاورہ ہے، میں نے ان سے عاربیتہ لے لیا.) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وہ تمہارے کان میں یہ کہہ رہے ہیں کہ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (لحم السجدة :07) میں تمہارے جیسا انسان ہوں، تم میرے جیسے انسان ہو.بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.تو پھر "Those who were junior to him like moses and christ." وہ بھی انسان ہی تھے.اس لحاظ سے وہ تم پر کیسے برتری کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ وہ پادری صاحب اچھل کر بیٹھ گئے.کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ لوگ اس سے متاثر ہوں گے.پس میں نے ان کو بڑا شریف النفس ، سعید الفطرت اور سادہ مزاج پایا.اور میں نے ان کو جو دیا ، وہ اسلام کا یہ پیغام تھا کہ انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں ہے.ہر ایک سے محبت کرنی چاہئے.اردو میں جس معنی میں محبت کا لفظ استعمال ہوتا ہے، اس معنی میں، میں اس کو استعمال کر رہا ہوں.کیونکہ میں اردو میں بات کر رہا ہوں.(عربی میں ایک اور معنی میں استعمال ہوتا ہے، وہ یہاں استعمال نہیں ہو سکتا.( جس کو ہم پیار اور محبت کہتے ہیں.اسلام کا وہ پیغام ہے، ہمدردی اور خیر خواہی اور مساوات کا کہ کوئی فرق نہیں کرنا.اپنے آپ کو کسی دوسرے انسان سے بڑا نہیں سمجھنا.یہ پیار میں ان کے پاس لے کر گیا تھا، یہ محبت میں ان کے پاس لے کر گیا تھا.ہمدردی اور غم خواری اور خدمت کا یہ جذ بہ اور مساوات کا یہ اعلان میں ان کے پاس لے کر گیا تھا اور اس کے وہ حق دار تھے.ابھی چند دن ہوئے ، مجھے عبدالوہاب ہی کا خط آیا ہے.اس نے لکھا ہے کہ آپ نے احمدی، غیر احمدی، بڑے چھوٹے ، عیسائی اور مشرک ہر ایک سے جس قسم کی شفقت کا سلوک کیا ہے، اس کی یاد ہماری قوم کے دل سے نہیں مٹے گی.میں نے ان کو جو جواب دیا ، وہ یہ ہے کہ جو میں نے دیا، وہ ان کا حق تھا.ان 585

Page 603

خطبہ جمعہ فرمود : 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کا جو حق تھا، وہ میں نے انہیں دے دیا.اس واسطے میں نے کیا احسان کیا ؟ میں سوچا کرتا تھا کہ میں بچوں کو جو پیار کرتا تھا، یہ ان کا حق تھا.میں ان کو دے رہا ہوتا تھا.اب پیار پر نہ دھیلہ خرچ ہو، نہ وقت خرچ ہو.لیکن اتنا اثر ہوتا تھا کہ اگر آپ لاکھ روپیہ خرچ کر دیں تو اس کا شاید اتنا اثر نہیں ہوگا.وہ پیار کے بھوکے ہیں.کیونکہ وہ صدیوں پیار کی آواز میں گم ہو کر غیر ملکوں کی توپوں کا نشانہ بن گئے تھے.میں نے بہت سے عیسائیوں کو کہا کہ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں (ضمناً میں یہ بتادوں کہ جو سچ ہے، اسے بہر حال تسلیم کرنا چاہئے.جو امر واقعہ ہے، اس کو چھپانے کی ضرورت نہیں.غرض میں نے ان سے کہا ) کہ جب تمہارے ملکوں میں عیسائی پادری داخل ہوئے تو انہوں نے یہی نعرہ لگایا تھا کہ ہم عیسائیت کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں.لیکن ان کے پیچھے پیچھے ان ممالک کی جہاں سے وہ آئے تھے، فوجیں تمہارے ملکوں میں داخل ہوئیں، توپ خانے لے کر.گوان تو پوں کے مونہوں سے پھول نہیں جھڑتے تھے بلکہ گولے نکلے تھے.اور پھر جس طرح ان ملکوں نے تمہیں Expliol (ایکسپلائٹ ) کیا اور پھر جس طرح تمہیں تباہ کیا، اس کے متعلق مجھے کہنے کی ضرورت نہیں.تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو.کیونکہ تم صدیوں سے اس ظلم کا شکار بنے رہے ہو.اب میں محبت کا پیغام لے کر آیا ہوں.لیکن میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ ہم قریباً پچاس سال سے تمہارے ویسٹ افریقہ میں کام کر رہے ہیں.اور اس عرصہ میں ہم نے کبھی تمہاری سیاست میں دلچسپی نہیں لی.اور کبھی تمہاری دولت پر حریصانہ نگاہ نہیں ڈالی.ہم نے یہاں بہت کچھ کمایا، جیسا کہ میں بتا چکا ہوں.ہمارے کلینک وہاں بہت کماتے ہیں.کانو میں ہمارے کلینک کے پاس پندرہ ہزار پاؤنڈ زیادہ جمع ہو گیا تھا.ڈیڑھ ، دو سال ہوئے ، انہیں یہاں مرکز سے ہدایت کی گئی کہ اس رقم کو اسی ہسپتال کی عمارت پر خرچ کر دو.پہلے وہ کلینک تھا ، اب ایک نہایت شاندار ہسپتال بن گیا ہے.چنانچہ اسی طرح کی بیسیوں مثالیں ہیں.ہم نے ایک دھیلہ ان ملکوں سے باہر نہیں نکالا.میرے خیال میں اس وقت تک لاکھوں پاؤنڈ باہر سے لے جا کر ان ملکوں میں خرچ کر چکے ہیں.وہاں کی حکومتوں کو بھی اس کا علم ہے اور وہاں کے عوام کو بھی اس کا علم ہے.پس میں نے کہا کہ ہم پچاس سال سے تمہارے پاس ہیں اور جو بھی یہاں کمایا ، وہ تم پر خرچ کر دیا.باہر سے جو کچھ لائے ، وہ بھی تم پر خرچ کر دیا.ہم نے تمہیں سچا اور حقیقی پیار دیا.اور اس کے متعلق تم سب کچھ جانتے ہو.اور یہ چیز ان پر اثر کئے بغیر نہیں رہتی تھی.میں ان سب ملکوں میں اپنی طرف سے بعض چیزیں امتحانا کیا کرتا تھا.ان میں سے ایک چیز یہ تھی کہ میں انہیں کہتا تھا تم سوچو اور مسلمان ہو جاؤ.مگر کسی ایک نے مجھے یہ نہیں کہا کہ نہیں ، ہم مسلمان نہیں 586

Page 604

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 10 جولائی 1970ء ہو سکتے.یا احمدی مسلمان نہیں ہوتے.ہر ایک نے یہی کہا ٹھیک ہے، ہم سوچیں گے اور غور کریں گے اور پھر احمد بیت اور اسلام کو قبول کر لیں گے.ہم نے ان کے اوپر پیار کا ہاتھ رکھا ہے.اور پیار کی لمس لمس جو ہے، اس کے وہ عادی ہو چکے ہیں.دوسروں کو وہ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنا پیار کرتے ہیں.ہمارے مبلغوں کی رپورٹ کے مطابق افریقن یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم بھی پیدا ہو سکتی ہے، جو ان کے بچوں کو پیار کرے.اور میں نے وہاں ہزاروں بچوں کو اٹھایا ، ان سے پیار کیا.ویسے پانچ ، سات سال کے جو تھے، انہیں بغیر اٹھائے جھک کر پیار کیا.یہ دیکھ کر ان کی عجیب حالت ہوتی تھی.ایک قسم کے مست ہو جاتے تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ خیر وہاں جو ہوا ، وہ تو ہوا.مشرقی افریقہ کے ایک ملک زمبیا کے ایک وزیر انگلستان میں کسی کامن ویلتھ کا نفرنس کو Attend ( اٹنڈ) کرنے آئے ہوئے تھے.جس روز ہم وہاں سے پاکستان کے لئے روانہ ہورہے تھے، اسی روز انہوں نے بھی روانہ ہونا تھا.اور اتفاق کی بات ہے کہ اسی کمرہ میں وہ بھی اپنے جہاز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے، جہاں ہم نے بھی اپنے جہاز کے انتظار میں بیٹھنا تھا.ان کے ساتھ زمبیا کے ہائی کمشنر اور ان کا آٹھ ، دس سال کا ایک بچہ بھی تھا.چنانچہ انہوں نے کہا، ہم ملنا چاہتے ہیں.میں ان سے ملا اور پانچ ، سات منٹ تک ان کے ساتھ باتیں کیں.پھر وہ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گئے، میں اپنے دوستوں کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا.ایک احمدی دوست کو خیال آیا، وہ ایک پاؤنڈ کا نوٹ لے کر میرے پاس آ گیا کہ اس پر دستخط کر دیں، میں اسے اپنے پاس یادگار کے طور پر رکھوں گا.پھر اسے دیکھ کر ایک دوسرا آ گیا.اسی طرح آٹھویں دسویں نوٹ پر دستخط کر کے جب میں نے سراٹھایا تو وہ آٹھ ، دس سال کا حبشی بچہ ہاتھ میں نوٹ لے کر دستخط کروانے کے لئے کھڑا تھا.اس کو خیال آیا یا وزیر کو خیال آیا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کا ان کو ایک نشان دکھانا تھا اور ایسے سامان پیدا کر دیے.مجھے خیال آیا کہ یہ غیر ملکی یہاں میرا مہمان ہی ہے.ہماری تو ساری دنیا مہمان ہے نا.اس لئے میں اس کے نوٹ کی بجائے اپنے نوٹ پر دستخط کر دیتا ہوں.چنانچہ میں نے اپنی جیب سے ایک نوٹ نکالا اور اس پر دستخط کر کے اسے پکڑا دیا.یہ تو بالکل معمولی بات تھی.پھر کھڑا ہوا اور میں نے اس بچے کو گلے لیا اور اس کو پیار کیا.ان کے جہاز نے پہلے جانا تھا.اور جب اعلان ہوا کہ اس ہوائی جہاز کے مسافر آ کر ہوائی جہاز میں بیٹھ جائیں تو وہ کھڑے ہوئے اور میرے پاس آگئے.میں بھی کھڑے ہو کر ان سے ملا.اس وزیر کا یہ حال تھا کہ میرا شکر یہ ادا کرتے ہوئے ، اس کے ہونٹ پھڑ پھڑا رہے تھے.وہ اتنا جذباتی ہوا تھا.اس نے کہا، ہم آپ کے زیر احسان اور بہت زیادہ ممنون ہیں.پتہ نہیں اور کیا 587

Page 605

خطبہ جمعہ فرمود : 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کچھ کہہ رہا تھا.اور میری آنکھیں مارے شرم کے جھک رہی تھیں.میں دل میں کہتا تھا، میں نے تمہیں کیا دیا ہے؟ اسلام کا ایک چھوٹا ساتھصہ ہی ہے نا ! جو میں نے تمہیں دیا ہے.لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ایسا شخص بھی دنیا میں ہے، جو ہمارے بچوں کو اس طرح پیار کر سکتا ہے.مگر اللہ تعالی نے ایک شخص نہیں، ایک قوم پیدا کر دی ہے، جو ان کے بچوں، بڑوں، بوڑھوں اور جوانوں سے پیار کر رہی ہے.اور یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ اسے نباہنے کی ہمیں تو فیق عطا کرے.ویسے میں یہ فقرہ کہنے پرخود کو مجبور پاتا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند کی پیاری جماعت ( اللہ تعالیٰ کا آپ پر سلام ہو ) بے حد قربانی کرنے والی ہے.جب میں افریقہ سے واپس انگلستان آیا تو میری طبیعت میں بڑی بے چینی اور گھبراہٹ تھی.اور یہ بے چینی اس وجہ سے تھی کہ کوئی حصہ جماعت کا کہیں کمزوری نہ دکھا جائے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ پانچواں ملک گیمبیا تھا.جب میں اس ملک کا دورہ کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ کا مجھے یہ منشا معلوم ہوا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ فوری طور پران وں میں غلبہ اسلام کے لئے خرچ کرو.ویسے تو جب اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے تو وہ چیز مل جاتی ہے.بعض دفعہ منہ سے کوئی فقرہ نکل جائے تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے عاجز اور حقیر بندے کی عزت رکھنے کے لئے اس کی بات پوری کر دیتا ہے.لیکن پھر بھی خطرہ تو رہتا ہے کہ کوئی حصہ جماعت کا کمزوری نہ دکھا جائے.مگر میں بڑا خوش ہوا.انگلستان میں ہماری چھوٹی سی جماعت ہے، بچوں سمیت ان کی تعداد شاید پانچ دس ہزار ہی ہو گی.پہلے جمعہ کے دن اور پھر اتوار کو میں مجموعی طور پر قریباً پونے دو گھنٹے یا دو گھنٹے ان کے پاس بیٹھا ہوں.اس دوران 30-28 ہزار پاؤنڈ کے وعدے اور 5-4 ہزار پاؤنڈ نقد رقم جمع ہوگئی.جس کو وہیں میں نے نصرت جہاں ریزروفنڈ کا نام دے کر عام جو ہماری مد ہے، اس سے علیحدہ مدکھلوا کر جمع کروا دیا.اور جو بات میرے منہ سے نکلی، وہ یہ تھی کہ قبل اس کے کہ میں انگلستان چھوڑوں ، دس ہزار سے زائد رقم اس میں جمع ہونی چاہئے.ہمارے وہاں کے جو عہدیدار ہیں ، امام رفیق سمیت، ان کو یہ یقین تھا کہ یہ ہوہی نہیں سکتا.اور اسی لئے انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ دس، بارہ دن کے بعد آپ جارہے ہیں، یہ رقم بڑی ہے.جو دوست آپ کے سامنے آکر بیٹھے اور جنہوں نے آپ کی باتیں سنی ہیں، وہ تو انگلستان کی جماعت کا مشکل سے پانچواں یا چھٹا حصہ ہوں گے.بڑی چھوٹی جماعت ہے، آپ مجھے ایک ماہ کی مہلت دیں.میں انگلستان کی ساری جماعتوں کا دورہ کروں گا اور پھر امید ہے ایک مہینے میں یہ دس ہزار پاؤنڈ جمع ہو جائیں گے.میں نے مسکرا کر انہیں کہا کہ میں آپ کو ایک دن کی مہلت بھی نہیں دوں گا.اور جب میں یہاں سے 588

Page 606

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 10 جولائی 1970ء جاؤں گا تو انشاء اللہ دس ہزار پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم اس مد میں جمع ہو چکی ہوگی.آپ فکر نہ کریں.میں نے ان سے یہی کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے یہ نکلوایا ہے تو وہ آپ ہی اس کا انتظام بھی کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک چھوٹا سا فقرہ نظم میں کہا ہوا ہے کہ گھر سے تو کچھ نہ لائے اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اسی نے توجہ اس طرف پھیری ہے، اس کا منشاء مجھے معلوم ہوا ہے، اس لئے اس کا انتظام تو ہو جائے گا.جب میں نے انگلستان کی جماعت کو یہ تحریک کی ، جس کا رد عمل بڑا اچھا ہوا تو میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ میں تم سے جو مطالبہ کر رہا ہوں، وہ پورا ہوگا یا نہیں ؟ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ پورا ہو جائے گا.میں نے آدمی بھی بھیجنے ہیں ، ڈاکٹر بھی اور سکول ٹیچر ز بھی.مجھے یہ فکر نہیں کہ یہ آدمی کہاں سے آئیں گے؟ کیونکہ خدا کہتا ہے کہ وہاں آدمی بھیج، میں نے تو انسان کو پیدا نہیں کیا ، اسی نے انسان پیدا کئے ہیں، وہ آپ ہی اس کا بھی انتظام کرے گا.لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے اور تمہیں بھی فکر کرنی چاہئے ، وہ یہ ہے کہ محض قربانی دے دینا کافی نہیں ہوتا.جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول نہ کرلے.سعی مشکور ہونی چاہئے.خالی قربانی پیش کر دینا تو کسی کام کا نہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بڑی تفصیل سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ سینکڑوں آدمیوں کی قربانی (جو دہ دے چکتے ہیں) پر جب ثواب دینے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس قربانی کو اٹھا کر ان کے منہ پر مارتا ہے کہ تمہارے اندر فلاں کمزوری تھی، ریا تھا، تکبر تھا، توحید پر پورے طور پر قائم نہیں تھے.میں نے تمہارے مال کو کیا کرنا ہے؟ کوئی چیز تمہاری قبول نہیں.پس میں نے وہاں اپنے دوستوں سے کہا تم اس کی فکر کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری قربانیوں کو قبول کرے.میں دعا کروں گا ، اپنے لئے بھی اور تمہارے لئے بھی تم بھی دعائیں کرو.پھر مجھے اور فکر پڑ گئی.گو ایک لحاظ سے تسلی بھی تھی.بہر حال امام جماعت کو فکر تو رہتی ہے کہ جماعت کے کسی حصے میں بھی کمزوری نہ واقع ہو جائے.اب میں نے پاکستان میں آنا ہے اور یہاں میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں، ایسا نہ ہو کہ پاکستان کے کسی حصے میں کوئی کمزوری نظر آئے.چنانچہ آپ کے پاس اخبار الفضل پہنچا ہوگا.اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا ہے کہ سترہ دن میں سترہ لاکھ کے وعدے اور دولاکھ سے اوپر نفقد جمع ہو گیا ہے.ان وعدہ جات میں سے پنجابی میں جسے پیج دونجی کہتے ہیں، یعنی 2/5 کی فوری ادائیگی کرنی ہے اور فوری سے میری مراد نومبر تک ہے.جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اور مجھے یقین ہے 2/5 سے کہیں زیادہ نقد نومبر سے پہلے پہلے انشاء اللہ جمع ہو جائے گا.لیکن اس کے باوجود جماعت کا یہ نہایت شاندار رویہ ہے.یعنی 589

Page 607

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم جب آپ اس چیز کو غیر کے سامنے بیان کریں تو پہلے تو وہ اس کا اعتبار ہی نہیں کرے گا.اور وہ کہہ دے گا کہ آپ یونہی گپ مار رہے ہیں.اور جب اعتبار کرے گا تو حیران ہوگا.اس کی سمجھ میں بھی نہیں آئے گا کہ یہ کیا ہو گیا ہے؟ کیا دنیا میں ایسا بھی ہوا کرتا ہے؟ اسلام کے نام پر ایسا ہونے لگ گیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو مسلمانوں میں سے آپ کے ساتھ وہ لوگ شامل ہورہے تھے، جنہوں نے اس کی خاطر بھی ایک دھیلہ بھی نہیں دیا تھا.پھر جب وہ احمدی ہو گئے ، انہوں نے شروع میں آنہ ماہوار دینا شروع کیا، کسی نے چار آنے ماہوار دینے شروع کئے.کہنے کو تو ایک آنہ یا چار آنے کوئی چیز نہیں.لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ اس سے دلوں میں ایک عظیم انقلاب بپا ہو گیا کہ ساری عمر میں کبھی ایک آنہ نہیں دیا تھا لیکن اب ایک آنہ ماہوار دینا شروع کر دیا.ساری عمر میں کبھی چونی نہیں دی تھی اور اب ہر مہینے چوٹی دینی شروع کر دی.تو اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عظیم انقلاب کو نمایاں کرنے کے لئے اور ان کے لئے دعاؤں کے دروازے کھولنے کی خاطر اپنے ان صحابہ کا نام اپنی کتابوں میں لکھ دیا.آپ کتابیں پڑھیں تو آپ کو پتہ لگے گا کسی نے آنہ دیا کسی نے چونی دی اور کسی نے اٹھنی دی اور کتابوں میں ان کا نام درج ہے.قیامت تک جب احمدی ان کتب کو پڑھیں گے تو ان کے لئے دعائیں کریں گے.مگر پھر یہی لوگ تھے کہ جب ایک وقت آیا ، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھے اور انہوں نے آپ سے روحانی تربیت حاصل کی تو انہوں نے بعض دفعہ اپنی ساری جائیداد آپ کے قدموں پر لا کر ڈال دی کہ یہ لیں.خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو آپ اسے قبول کریں.یہاں ایبٹ آباد میں ایک دوست نے بتایا کہ ان کے حلقہ میں ایک صاحب ہیں.انہوں نے ساری کتابیں پڑھ لی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہر بات مانتا ہوں پر میں نے بیعت نہیں کرنی.کیونکہ اگر میں نے بیعت کر لی تو تم مجھ سے چندہ لینے لگ جاؤ گے.میں نے ان سے کہا کہ یا وہ یہ بات سچ کہتے ہیں کہ ان کے دل میں احمدیت کی صداقت گھر کر گئی ہے مگر وہ پیسے دینے سے گھبراتے ہیں.اور یاوہ آپ سے مذاق کر رہے ہیں.دونوں میں سے ایک بات ضرور ہے.میں آپ کو اجازت دیتا ہوں ، آپ ان سے کہیں کہ یہ بیعت فارم ہے اور اس کے او پر دستخط کر دیں.خواہ ایک پیسہ مہینہ مقرر کر دیں ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا.اگر وہ مذاق کر رہے ہیں تو پتہ لگ جائے گا اور غلط انہی دور ہو جائے گی.اور اگر وہ مذاق نہیں کر رہے اور یہ کہنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر وہ ایک پیسہ یا ایک آنہ لکھوا دیں گے.وہ اچھے پیسے کما رہے ہیں، یعنی درمیانہ درجے کے.590

Page 608

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 10 جولائی 1970ء بہت زیادہ امیر تو نہیں، بہر حال درمیانہ درجے کے ہیں.ہمارے جو یہاں سیکریٹریٹ میں بڑے کلرک وغیرہ ہیں، اتنی تنخواہ وہ لے رہے ہیں.میں نے کہا، آج پیسہ یا آنہ مہینہ دیں گے تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.جب وہ احمدیت میں روحانی طور پر تربیت پالیں گے اور احمدیت کے رنگ میں رنگے جائیں گے تو پھر کسی وقت ایسا وقت ان پر بھی آسکتا ہے، جیسا کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر آیا تھا کہ وہ آ کر کہیں، یہ لیں ، سارا مال اسے خدا کی راہ میں خرچ کر دیں.اب دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ آپ یہ دعا کریں کہ بجائے اس کے کہ وہ پیچھے ہٹیں، وہ پیسہ لکھوا کر بیعت فارم پر دستخط کر دیں.پس ہمیں یہاں پاکستان میں ویسے جائزہ لیتے رہنا چاہئے.یہ امیر جماعت کا فرض ہے کہ وہ دیکھے ہماری جماعت کی کوئی پاکٹ کمزوری دکھانے والی تو نہیں.ویسے تو بحیثیت مجموعی سترہ دن میں سترہ لاکھ کے وعدے اور دولاکھ کے اوپر نقد رقم کا جمع ہو جان تسلی بخش ہے.جب کہ یہ آواز ابھی تک دیہاتی جماعتوں تک پوری طرح نہیں پہنچی.جن میں احمدیت کی اکثریت ہے.اور ان کے لئے ابھی موقع بھی نہیں.کیونکہ وہ گندم تو پیچ باچ کرختم کر چکے ہیں اور خریف کی فصلوں کا وقت ابھی آیا نہیں.فوری ادائیگی کے لئے نومبر تک کی حد مقرر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض دوستوں نے کہا کہ زمینداروں کو اس وقت ادا کرنے میں سہولت رہے گی.بہر حال دل تو یہ کرتا ہے کہ آپ خلافت احمدیہ کو اس طرح منائیں کہ جو 62 سال احمدیت کی خلافت پر گزرے ہیں ، 62 لاکھ روپے جمع ہو جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو جائے.جس طرح یہاں کی رپورٹیں بڑی خوشکن ہیں، اسی طرح وہاں کی رپورٹیں بھی بڑی خوشکن ہیں.میں نے بتایا ہے کہ سکو تو کے گورنر نے حکم دے کر 40-140 ایکڑ زمین ہمارے سکولوں کے لئے دی ہے.اس کے علاوہ ہسپتال کھولنے کے لئے (جس کو وہاں ہیلتھ سنٹر کہتے ہیں.) بھی لوگ تعاون کر رہے ہیں.غانا کے ایک پیراماؤنٹ چیف نے زمین کا ایک بہت بڑا قطعہ دیا ہے.جس میں ایک کافی بڑی عمارت بھی بنی ہوئی ہے، جو ہسپتال کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے.اس نے کہا ہے کہ یہ لے لو اور یہاں ڈاکٹر بھیجو.اسی طرح اس دورہ کے بعد پڑھے لکھے لوگوں کو احمدیت میں بڑی توجہ ہوگئی ہے.نائیجیریا میں ابادان، جو کہ بہت بڑا مسلم ٹاؤن ہے، اس کی آبادی دس یا بارہ لاکھ ہے اور 95 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں، اس کے قریب اس عرصہ میں 13 نئی جماعتیں قائم ہو گئی ہیں.انہوں نے ابادان میں ہماری جماعت کے صدر کو، جو افریقن ہیں، خود بلایا کہ اس علاقے کے مختلف قصبوں کے لوگ فلاں وقت اکٹھے ہوں گے، وہ آپ سے تبادلہ خیالات کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ وہاں دو، تین گھنٹے کے تبادلہ خیالات کے بعد ان تیرہ 591

Page 609

خطبہ جمعہ فرموده 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم قصبوں کے 40 سے زیادہ آدمیوں نے بیعت کر لی.وہاں احمدیت کی طرف بڑا رجحان پیدا ہو گیا ہے.اور بھی کئی جگہ سے رپورٹیں آئی ہیں.مثلاً سیرالیون میں بھی پانچ نئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.یہ بھی رپورٹ آئی ہے کہ نارتھ کے علاقے میں بہت توجہ پیدا ہوگئی ہے.امید ہے، وہاں بھی بہت سی نئی جماعتیں قائم ہو جائیں گی.وہاں وہی کچھ ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ نے جس طرح یہاں شروع میں کیا تھا.اب تو ہم اسلام آباد میں بھی ماشاء اللہ بہت سے احمدی بیٹھے ہیں.بدر کے وقت مسلمانوں کی جو تعداد تھی، کام کرنے والوں کی، اس سے زیادہ ماشاء اللہ صرف اسلام آباد کی تعداد ہے.لیکن شروع میں پہلے ابتداء اس طرح کی اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت معلوم ہوتی ہے کہ کہیں ایک گھر احمدی ہو گیا، کہیں دو گھر احمدی ہو گئے.پھر انہوں نے ماریں کھائیں، انہیں جو تیاں پڑیں ، گالیاں دی گئیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر قسم کی آگ میں سے گزارا.اور ہر آگ، جو ان کے لیے جلائی جاتی تھی ، ان کے کان میں اللہ تعالیٰ کی یہ پیاری آواز آتی تھی کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ ، آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.غرض حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند کے غلاموں کو سینکڑوں بلکہ لاکھوں دفعہ آگ میں سے گزرنا پڑا.اور وہ آگ ان کے لئے پھول بن گئی.ان کے جلانے کا باعث نہیں بنی.وہاں مجھے ایک دن خیال آیا.میں نے سیرالیون کا نقشہ سامنے رکھا اور وہاں ہمارے جو دو، تین مبلغ ہیں، ان سے میں نے کہا کہ جہاں جہاں احمدی ہیں، وہ جگہیں مجھے بتاؤ.تاکہ میں نقشے پر نشان کروں.چنانچہ انہوں نے سر جوڑا.کوئی آدھے، پونے گھنٹے کے بعد انہوں نے مجھے مختلف جگہوں کے نام بتائے.میں نے ان پر نشان لگا دیئے اور اس کے گھنٹے ، دو گھنٹے بعد جماعت سے ملاقات تھی.میں ان سے پوچھتا تھا، آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ اگر چہ سارے نام تو حافظے میں یاد نہیں رہ سکتے تھے ، پھر نام بھی غیر ملکی تھے لیکن میں نے اندازہ لگایا کہ یہ بیسیوں ایسی جماعتوں کے نام بتارہے ہیں، جو مبلغوں نے مجھے نقشے پر نہیں بتائے تھے.اور پھر یہ جماعتیں یوں بکھری ہوئی ہیں، جس طرح 20 ہزارفٹ کی بلندی سے گندم کے دانے ہوائی جہاز سے پھینکے جائیں تو وہ مختلف جگہوں میں بکھر جاتے ہیں.اسی طرح وہاں ہماری جماعت بھی بکھری ہوئی ہے.بالکل بارڈر تک یوں ہر جگہ ایک چکر لگا ہوا ہے، جماعتوں کا.کہیں کم ہیں اور کہیں زیادہ ہیں.لیکن ہر جگہ پہنچے ہوئے ہیں.اب غانا میں وا کی ہماری بڑی مخلص پگڑیاں پہننے والی جماعت ہے.وہ جماعت احمدیہ کی وجہ سے پگڑیاں نہیں پہنتے.بلکہ اس علاقہ میں پہلے سے پگڑیاں پہنے کا 592

Page 610

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1970ء رواج ہے.بلکہ ہماری طرح وہ طرہ دار پگڑیاں پہنتے ہیں.وہاں ہمارا عربی کا ایک ٹرینگ سکول بھی ہے اور اس جماعت نے سکول کے لئے زمین کا ایک بہت بڑا قطعہ بھی دیا ہے.میں نے ان کو لکھا ہے کہ میں کلینک بھی بنواؤں گا، اس کے لئے مجھے رپورٹ کرو.اب یہ حالات ہیں.بعض دفعہ میں اس وجہ سے پریشان ہو جاتا ہوں.یہ پریشانی میرے لئے ہے، اس کے بغیر چارہ نہیں ہے.ویسے اللہ تعالیٰ کے وہاں بھی فضل دیکھے، یہاں بھی فضل دیکھے.آپ کے دلوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے یوں اپنے قبضہ میں لیا اور اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے سامان پیدا کر دیئے.پریشانی اس طرح ہوتی ہے کہ ہماری بات، ہمارے حالات وہاں پہنچنے میں بعض دفعہ مہینہ لگ جاتا ہے اور وہاں بہت ساری جگہوں میں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ مثلاً پاکستان اور انگلستان میں کیا ہو رہا ہے؟ وہ مجھے ڈر ڈر کر لکھتے ہیں کہ یہاں فلاں جگہ بھی ہسپتال کھل سکتا ہے، فلاں جگہ بھی سکول کھل سکتا ہے ، آدمیوں کا انتظام، اور یہ، اور وہ.انہیں یہ خیال ہے کہ شاید پیسے نہ ہوں، انتظام نہ ہو سکے، شاید آدمی میسر نہ آئیں.میں انہیں خط لکھ رہا ہوں ، پتہ نہیں کتنے دنوں کے بعد انہیں پہنچتا ہے؟ ( ہمارے اپنے بعض خطوط 25, 20 دن تک بھی وہاں نہیں پہنچے تھے.بعد میں چکر لگا کر ہمارے پاس یہاں پہنچے ہیں.ان کو میں نے لکھ بھیجا ہے کہ میرے پاس سب کچھ ہے.اللہ تعالیٰ نے روپیہ بھی دے دیا ہے، آدمی بھی دے دیتے ہیں.تم دوڑنے کی بھی کوشش کرو، اب چلنا ہمارے لئے کافی نہیں.اب دوڑنے کا وقت آ گیا ہے.پس میں یہ چاہتا ہوں اور آپ سے بھی یہ توقع رکھتا ہوں کہ آپ بھی میری اس دعا میں اپنی دعاؤں کو شامل کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ سامان پیدا کر دے کہ سال، ڈیڑھ سال کے اندر کم از کم 30 میڈیکل کلینک وہاں ان ملکوں میں کھول دیئے جائیں.اس لئے کہ میڈیکل سنٹر یا ہیلتھ سنٹر جو ہے، وہ ہمارے کام کرنے کی دراصل بنیاد بنتا ہے.ہر ایک کلینک اوسطاً اڑہائی ہزار پاؤنڈ سالانہ کما رہا ہے.یعنی سارے اخراجات کے بعد اتنی سیونگ ہو رہی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ جس ملک میں ہمارے چار سنٹر ہیں ، وہاں دس ہزار پاؤنڈ کی سیونگ ہوتی ہے.پھر ہمیں یہ فکر نہیں رہتی کہ دنیا کے حالات بدل رہے ہیں.بہت سارے ملکوں میں آزادی تھی کہ اس ملک کی کرنسی جہاں اور جتنی مرضی ہو، باہر بھیج دو.مگر اب وہ پابندیاں لگارہے ہیں.ہو سکتا ہے کہ ایک اور عالمگیر جنگ، جواس وقت Horizon ( ہوریزن ) پر نظر آ رہی ہے، اس کی وجہ سے کوئی ایسا وقت آ جائے کہ ہم باہر سے ایک پیسہ بھی وہاں بھجوانہ سکیں.اس لئے ان ملکوں میں ہماری آمد کے ذرائع پیدا ہونے چاہئیں.اور یہ تو ہم خرما وہم ثواب والی 593

Page 611

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بات ہے.ہم ان کی خدمت بھی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں پیسے بھی دیتا ہے اور ان کو بھی پتہ ہے اور ہمیں بھی پتہ ہے کہ ہم نے یہ پیسے باہر لے کر نہیں جانے ، ان کے ملکوں ہی میں خرچ کر دیں گے.پس وہاں کے مبلغوں کی تنخواہیں ہیں اور وہاں کے سکولوں کے ابتدائی اخراجات ہیں.کیونکہ وہاں کے سکول پہلے دو سال میں خرچ ما نگتے ہیں، پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں.ہاں ایک چیز رہ گئی ہے اور وہ بھی بڑی ضروری ہے اور بڑی عجیب ہے.میں نے ان کے معاشرہ کی جو خصوصیات دیکھیں، ان میں، میں نے یہ بھی دیکھا اور میں یہ دیکھ کر بڑا خوش ہوا کہ ان ملکوں کی حکومتوں کو اپنے سکولوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی طرف بے انتہا توجہ ہے.میں بغیر کسی مبالغہ کے کہہ سکتا ہوں کہ جتنی توجہ وہ اپنے سکولوں کی طرف دیتے ہیں، اس کا سواں حصہ بھی ہمارے ملک میں سکولوں کی طرف نہیں دیا جارہا.وہاں ہمارے اپنے سکول ہیں.میرا خیال ہے کہ 99 فیصد پاکستان کے گورنمنٹ کالجز کی لیبارٹریز اتنی اچھی Equipped (سامان سے آراستہ) نہیں، جتنی اچھی وہاں ہمارے ہائر سیکنڈری سکولز کی لیبارٹریز ہیں.سارا خرچ حکومت دیتی ہے.اور پھر ہمیں اپنی پالیسی چلانے کی بھی اجازت ہے.سکولوں کے سٹاف کی ساری تنخواہیں حکومت دے رہی ہے.مثلاً سیرالیون میں ہمارے چار سکول ہیں.(اور جگہوں پر بھی ہیں.ان چاروں سکولوں کے سارے سٹاف کی تنخواہیں حکومت دیتی ہے.اور اب وہ بعض دفعہ عیسائی ٹیچر بھی مقرر کر دیتے ہیں.لیکن تربیت کے لحاظ سے، دینیات پڑھانے کے لحاظ سے، ہماری پالیسی چل رہی ہے.مثلا فری ٹاؤن کے سکول کے اساتذہ میں میرے خیال میں پانچ ، چھ غیر احمدی ہیں.یہ میں نے پتہ نہیں لیا، ان میں کوئی عیسائی بھی ہے یا نہیں.البتہ کماسی میں تین، چار عیسائی بھی ہیں.لیکن اس کے باوجود ہمارے فری ٹاؤن کے سکول کی آخری کلاس، جو 27 لڑکوں پر مشتمل تھی ، جب امتحان پاس کر کے نکلی تو ساروں کے ساروں نے بلا استثناء بیعت فارم پر دستخط کئے اور اپنے سرٹیفکیٹ لے کر گھروں کو چلے گئے.پس پیسے وہ خرچ کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کام ہمارے کئے جارہا ہے.لیکن یہ تو علیحدہ معاملہ ہے.اس پر شاید یہاں سمجھ آنے میں کچھ دیر لگے.اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ عطا کرے.لیکن یہ کہ سکول اچھا ہو ، سٹاف اچھا ہو ، اس طرف ان کو توجہ ہے.اس وجہ سے ایک وزیر ہمارے پرنسپل کو کہنے لگے کہ لوگ ہماری بوٹیاں نوچ رہے ہیں کہ اس سکول کو کہو کہ زیادہ لڑکوں کو داخل کرے.کیونکہ وہ اپنے لڑکوں کوکسی اور سکول کی بجائے وہاں داخل کروانا چاہتے ہیں.ہوا یہ تھا کہ حکومت نے یہ قانون بنایا کہ کسی ہائی سکول میں، جو کہ پانچ سالہ کورس کا ہے، یعنی 594

Page 612

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1970ء ہائر سیکنڈری سکول میں 350 یا 360 سے زیادہ لڑ کے داخل نہیں کئے جائیں گے چنانچہ اس کا اعلان کر دیا.گیا.لوگوں نے شور مچادیا کہ حکومت کا یہ قانون احمد یہ سکولوں پر لاگو نہ کیا جائے.چنانچہ حکومت کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہمارا یہ قانون احمد یہ سکولوں پر نہیں لگے گا.اور حد مقرر ہوئی ہے، تقریباً ساڑھے تین سو کی.اور فری ٹاؤن کے ہیڈ ماسٹر پر زور دے رہے ہیں کہ اس Admission ( داخلہ ) کے وقت ، جو غالبا یہاں کی طرح ستمبر، اکتوبر میں ہوتی ہے، ساڑھے چھ سولر کا داخل کرو، ورنہ لوگ ہمیں تنگ کریں گے.اور اس کے لئے انتظام کرو.سٹاف جتنا چاہئے ، وہ لو اور کمرے بنوانے کی ضرورت ہو تو کمرے بنواؤ.پیسے تو وہاں کی حکومت ہی دیتی ہے یا جو ہم Save ( بچت) کرتے ہیں، وہ وہاں لگا دیتے ہیں.لیکن اس کا بہت بڑا بار جو ہے، وہ حکومت خود اٹھا لیتی ہے.یعنی ہمارا اپنا سکول ہے ، ہم وہاں تبلیغ کر رہے ہیں اور وہاں اسلام کے غلبہ کے لئے نوجوان نسل کو تیاری کروارہے ہیں.خرج حکومت دے رہی ہے اور پھر ساتھ ممنون بھی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہمارے ماڈل سکول ہیں.ایک پیراماؤنٹ چیف ( یعنی علاقے کا رئیس آپ سمجھ لیں) کا بچہ پڑھتا نہیں ہو گا، اسے کہا کہ اگر تم مڈل میں اچھے نمبر لے کر پاس ہو گئے تو تمہیں ہائر سیکنڈری سکول میں داخل کروا دوں گا.اسی سال کی بات ہے کہ اس نے امتحان دیا ہوا ہے.پتہ نہیں نتیجہ نکلا ہے یانہیں؟ ایک دن وہ اپنے باپ سے کہنے لگا کہ ابا آپ کو یاد ہے ، آپ کا مجھ سے وعدہ ہے کہ اگر میں اچھے نمبر لے کر پاس ہو گیا تو آپ مجھے ہائر سکینڈری سکول میں تعلیم دلوائیں گے.انہوں نے کہا، ہاں، مجھے یاد ہے.کہنے لگا کہ پھر یاد رکھیں میں احمدیہ میں داخل ہوں گا.اور کسی سکول میں داخل نہیں ہوں گا.وہاں ہمارے سکول احمد یہ سکول نہیں کہلاتے بلکہ عام محاورے کے لحاظ سے صرف احمدیہ کہلاتے ہیں.اس کا یہ کہنا کہ میں احمدیہ میں داخل ہوں گا، کسی اور سکول میں داخل نہیں ہوں گا، اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے سکولوں کی بڑی مقبولیت ہے.اگلی نسل کے دلوں میں بھی اور بڑوں کے دلوں میں بھی.میں نے بتایا ہے کہ وزراء سفارشیں لے کر جاتے ہیں اور یہ تو ان کے معاشرہ کے حسین ہونے کی دلیل ہے.یعنی ایک وزیر اور سکول کے ایک پرنسپل میں کوئی فرق نہیں.یہاں تو میرے خیال میں کسی وزیر صاحب کے پاس جانا آسان نہیں.اب تو مارشل لاء ہے، سول حکومت آئے گی تو دیکھیں گے ، وہ کیا کرتی ہے؟ پہلی سول حکومتیں تو یہی کیا کرتی تھیں کہ وہ سکول کے ہیڈ ماسٹر کو ملاقات کا وقت تو کیا بڑے اچھے اچھے کانجوں کے پرنسپل کو بھی ملنے کے لئے کئی دن دھکے کھانے پڑتے تھے.یہ ہماری تصویر ہے اور ان کی تصویر 595

Page 613

خطبہ جمعہ فرمود 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم یہ ہے کہ وزیر سکول میں آ رہا ہے اور سفارش لے کر آ رہا ہے کہ لڑکے کو ضرور داخل کرنا ہے.اور ایک دو نہیں بلکہ ایک، ایک دن میں چھ، چھ وزیر آ رہے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کوکوئی جھجک نہیں.بڑے سادہ معاشرہ میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں مبارک کرے.اور بھی زیادہ سادگی پیدا کرے.وہاں کبھی بھی بڑے اور چھوٹے کا فرق پیدا نہ ہو.غرض ان ملکوں میں حکومت کو سکولوں کی طرف بڑی توجہ رہتی ہے.میں نے گیمبیا میں ان کے معاشرہ کے لحاظ سے اپنے ایک دوست سے کہا کہ یہاں کے وزیر تعلیم ، جو وزیر صحت بھی ہیں.انہیں میرے پاس لے کر آؤ، میں نے ان سے باتیں کرنی ہیں.خیر وہ آگئے ، میں ان سے کہوں کہ میں نے پہلے یہاں میڈیکل سنٹر ز کھولنے ہیں.کیونکہ میرے ذہن میں تو یہ تھا کہ یہاں مجھے آمد کا ذریعہ بنا دینا چاہئے.لیکن وہ یہ کہیں کہ ہمارا ملک تعلیم میں بہت پیچھے ہے، آپ یہاں پہلے ہائی سکول کھولیں.اور ہائی سکول کھولنے پر پہلے سال چار، پانچ ہزار پاؤنڈ اپنے پاس سے خرچ کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد حکومت مدد دینا شروع کر دیتی ہے.میں نے انہیں کہا، دیکھیں! آپ میرے ساتھ تعاون کریں اور جیسا کہ میں نے پروگرام بنایا ہے، چارنے میڈیکل سنٹرز یہاں کھلنے دیں اور اس سلسلہ میں ہمارے ساتھ پورا تعاون کریں.اور میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے ہمیں یہ سہولتیں دے دیں یعنی زمین اور ڈاکٹروں کے لئے انٹری پر مٹ تو ہم انشاء اللہ ہر سال ایک نیا ہائی سکول کھولتے چلے جائیں گے.گیمبیا تعلیم میں اتنا پیچھے ہے کہ جب میں وہاں گیا تو مجھے خیال آیا کہ میں ان سے کہوں کہ وہاں یو نیورسٹی نہیں تم یونیورسٹی بناؤ.نصف نصف بار ہم تقسیم کر لیں گے.وزیر تعلیم ہنس پڑے، کہنے لگے کہ ہمارے ملک کی ٹوٹل پاپولیشن میں سے دسویں جماعت کے طلباء کی تعداد صرف ایک ہزار ہے.سارے ملک میں سے ایک ہزار لڑکا دسویں جماعت کے امتحان میں بیٹھتا ہے.ہم یونیورسٹی کس برتے پر بنا سکتے ہیں.اس لئے پہلے آپ ہائی سکول کھول دیں.میں نے ان سے کہا کہ وہ تو انشاء اللہ کھل جائیں گے.خدا کرے کہ 10-8 سال کے بعد وہ ملک اس قابل ہو جائے کہ وہاں ایک یونیورسٹی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہو.اور ہمیں 50 فیصد کا بوجھ حکومت کے کندھوں پر ڈالنے کی ضرورت پیش نہ آئے.یہ بوجھ بھی ہم خود ہی برداشت کر لیں اور وہاں ایک یو نیورسٹی کھول دیں.اللہ تعالیٰ سے کوئی بعید نہیں.آپ الحمد للہ بہت پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک حسین اور عظیم رنگ میں ایک چھوٹے سے منصوبہ کے لئے قربانی کرنے کی توفیق عطا کی ہے.اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول 596

Page 614

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1970ء فرمائے.اور پھر یہ بھی دعا کریں کہ جو خوبصورت اور حسین شکل مجموعی طور پر پاکستان میں بنی ہے، ہر شہر اور ہر قصبے کی وہی خوبصورتی قائم رہے.ہمیں کسی جگہ بھی کوئی کمزوری نظر نہ آئے.بعض دفعہ راولپنڈی اور اسلام آباد مالی قربانی میں کمزوری دکھا جاتے ہیں.میں نے بڑا غور کیا ہے اور بڑی دعائیں بھی کی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ مجھے اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی.بڑی مخلص جماعت ہے.ہر طرح قربانیاں دیتی ہے.کہیں کوئی خرابی ہے.کہاں ہے، وہ میں Pin Point ( پن پوائنٹ ) نہیں کر سکا.یعنی اس کے اوپر انگلی نہیں رکھ سکا.خدا کرے، وہ کمزوری جہاں بھی ہے، وہ دور ہو جائے.ایک چیز تو یہ ہے ممکن ہے، اس کا اثر ہو کہ یہاں کے عہدیدار جماعت کو اپنے اعتماد میں نہیں لیتے.یہ بڑی سخت غلطی ہے.یہ ایک آدمی یا آدمیوں کا کام نہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم انسان تو نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ پیدا ہوسکتا ہے.انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے دل میں بشاشت پیدا کرنے کے لئے یہ حکم دیا.وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ (آل عمران: 160) کہ مشورہ میں ان کو شریک کرو.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی فراست ، اپنے مقام اور اس زندہ تعلق کی وجہ سے، جو آپ کو ہر وقت اپنے رب کے ساتھ تھا، کسی اور کے مشورہ کی آپ کو ضرورت نہیں تھی.وہ علام الغیوب اور ہادی برحق ہر وقت آپ کو مشورہ اور ہدایت دیتا تھا.سارا قرآن کریم یہی ہے.یہ ہمارا ہدایت نامہ ہے.لیکن حکم یہی دیا، وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ اور ایک اور بات میں آپ کو بتادوں.مجھے اس کا بڑی شدت سے احساس ہے.میں نے وہاں جب کمیٹی بنائی نصرت جہاں ریزروفنڈ کے اکاؤنٹ کو اوپریٹ کرنے کے لئے تو ان سے میں نے کہا کہ اس کمیٹی میں ایک نوجوان ضرور رکھوں گا.اگلی نسل کو یہ پتہ لگنا چاہئے کہ ہماری بھی ذمہ داری ہے.اور ہماری بھی Contributions(کنٹری بیوشنز ) ہیں.صرف بڑوں کا یہ کام نہیں ہے.نوجوان نسل ساتھ شامل ہونی چاہئے.چنانچہ اس سہ رکنی کمیٹی میں ایک نوجوان کو نامزد کر کے اس کا اعلان کر دیا.تاہم یہ مستقل نہیں ہے.ہر سال میں بدل دیا کروں گا تاکہ دوسرے نوجوان آگے آئیں.پھر ان کی عزت افزائی ہوگی اور کام کرنے اور ثواب کمانے کا موقع ملے گا.597

Page 615

خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پس جہاں جہاں بھی ہمارے نظام قائم ہیں، ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ نو جوانوں میں سے 30 فیصدی کو اپنے مشوروں میں اور دوسرے جماعتی کاموں میں شامل کریں.ورنہ انگلی نسل کو یہ پتہ ہی نہیں لگے گا کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور انہیں کس طرح نباہنا ہے ؟ اور ذمہ داریوں کو نباہ کر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعامات کس رنگ میں اور کن شکلوں میں نازل ہوتے ہیں؟ ہم نے نسلاً بعد نسل خدا تعالیٰ کے فضلوں سے اپنے نوجوانوں کو متعارف کرواتے چلے جانا ہے.انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے تبھی متعارف ہوتا ہے، جب وہ اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کرتا ہے.اللہ تعالی بڑا ہی پیار کرنے والا ہے.وہ جو خلوص نیت کے ساتھ اس کی راہ میں اپنے نفس کو پیش کرتے ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو اس رنگ میں پاتے ہیں کہ انسانی دماغ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.بیسیوں چیزیں ہیں کہ جنہیں ان نعمتوں کو حاصل کرنے والا بیان نہیں کر سکتا.یعنی اس کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ بیان کرے.اس رنگ میں اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے.ضرورت کے وقت بعض چیزوں کو بتانا بھی پڑتا ہے.لیکن ایسی بے شمار چیزیں ہیں کہ جن کے بتانے کی نہ ضرورت ہے اور نہ اجازت ہے.بہت ساروں کی اجازت نہیں ہوتی.پس یہ جو ہماری نوجوان نسل ہے، اس کو اپنے جماعتی کاموں میں شامل کرو.تا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول میں شامل ہوں.ان کو پتہ لگے کہ قربانیاں ہیں کیا چیز؟ دنیا ہے کیا چیز ؟ دنیا ہمیں ڈرا نہیں سکتی.کب اور کس نے یہ توفیق پائی کہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف جماعت احمدیہ کو ہلاک کر دے؟ کسی نے بھی یہ توفیق نہیں پائی.اسی سال سے دنیا اکٹھی ہو کر ہمیں مٹانے کی کوشش کر رہی ہے.میں نے افریقہ والوں سے بھی یہ کہا اور وہ یہ سن کر بڑے خوش ہوئے کہ 80 سال سے ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہو کر اس ایک آواز کو خاموش کرنے کے پیچھے لگی ہوئی ہیں، جو یکہ و تہا تھی ، جب وہ آواز اٹھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی لیکن دنیا اسے خاموش نہیں کر سکی.تمہاری آواز میں اسی آواز کی بازگشت ہیں، جو میں سن رہا ہوں.اس لئے میں خوش ہوں.پس ایسا کبھی نہیں ہوگا اور نہ ہو سکتا ہے کہ وہ آواز خاموش کرا دی جائے.لیکن جو فرداً فرداً اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں، وہ ہماری Young Generation ینگ جنریشن ) یعنی نو جوانوں کو معلوم ہونے چاہئیں کہ اس میں کیا لذت اور کیا سرور اور کیا مزہ ہے؟ تاکہ وہ ساری دنیا سے بے پرواہ ہو کر اور بے خوف ہوکر قربانیوں اور ایثار کے میدان میں آگے آئیں.اور وہ کام انجام پائے ، جو مشروط طور پر ہوتا ہے کہ تم قربانی دو گے تو انعام ملے گا.ورنہ قرآن کہتا ہے کہ اللہ ایک اور قوم کو لائے گا، جو ان نعمتوں کی وارث بنے گی.پس جو نعمتیں ایک عام اندازہ 598

Page 616

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 10 جولائی 1970ء کے مطابق اس رنگ میں اور اس شان کے ساتھ آج سے 20 سال بعد ہمیں ملنی ہیں ، وہ نو جوانوں کی جوانی کے جوش اور قربانی اور ایثار کے نتیجہ میں 20 سال کی بجائے دس سال کے بعد مل جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور عقل اور ذمہ داری کا احساس دے اور دعا کی توفیق دے.اور بے نفس اپنی جانوں کو اس کے حضور پیش کرنے کی طاقت دے اور جو چھوٹی سی قربانیاں تھوڑی تھوڑی سی ہم پیش کر رہے ہیں، ان کو وہ قبول کرے.اور اپنی بشارتوں کے مطابق ان کے نتائج نکالے.ان قربانیوں کے نتائج ان قربانیوں کے حجم کے مطابق نہ ہوں بلکہ ان بشارتوں کے مطابق ہوں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ذریعہ خدائے قادر و توانا سے ہم نے پائی ہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.میری طبیعت پر یہ اثر ہے.لندن میں بھی میں نے کہا تھا اور یہ کہنے پر مجبور ہو گیا تھا، میں سوچتا ہوں تو میرے دل کی کیفیت یہ ہوتی ہے.ع گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار غلبہ اسلام کے دن مجھے Horizon ( افق پر نظر آ رہے ہیں.یہ سورج انشاء اللہ طلوع ہوگا اور نصف النہار پر پہنچے گا.اور بہت جلدی پہنچے گا.لیکن اس سورج کی تپش کے ذریعہ سے گناہ کی خنکی سے بچنے کے سامان اللہ تعالی پیدا کرے.تبھی ہمیں فائدہ ہے.اور جو توانائی اس مادی دنیا کو سورج کی شعائیں دے رہی ہیں.روحانی سورج کی شعاعیں ہماری روحانی دنیا میں ہمیں ان فیوض کا اہل پائیں.اور ہمیں وہ اتنی ملیں ، اتنی ملیں کہ ہم حقیقتا اور واقعہ میں صحابہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہو جائیں جیسا کہ ہمیں وعدہ دیا گیا ہے.،، ( مطبوعه روز نامہ الفضل ربوہ 21 اپریل 1971ء) 599

Page 617

Page 618

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 17 جولائی 1970ء آگے بڑھو اور قربانیاں دو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنو "" خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 1970ء افریقہ میں، جہاں کا میں اب دورہ کر کے آیا ہوں، جو روپیہ عیسائیت خرچ کر رہی ہے، اس کے مقابلہ میں ہم شاید ہزارواں بلکہ لاکھواں حصہ بھی خرچ نہیں کر رہے.لیکن ان کے لاکھوں گنا زیادہ خرچ کا نتیجہ اور ہمارے لاکھویں حصہ خرچ کا نتیجہ اگر ہمارے سامنے ہو اور ہم مقابلہ کریں تو ان کے اپنے کہنے کے مطابق یہ ہے کہ اگر وہ ایک آدمی کو عیسائی بناتے ہیں تو احمد بیت دس کو حلقہ بگوش اسلام بنا لیتی ہے.یعنی کوشش لا کھواں حصہ اور نتیجہ دس گنا زیادہ.یہ ہماری کوشش کا نتیجہ نہیں ہو سکتا، نہ ہماری قربانی ایثار اس بات کا استحقاق رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ نتیجہ پیدا کرے.یہ محض اس کا فضل اور رحمت ہے، جس کے نتیجہ میں یہ تبدیلیاں اور یہ انقلاب دنیا میں پیدا ہور ہے ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام احمد کے روپ میں ، احمد کے مظہر ہو کر، احمد کے ظل بن کر اس دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے.اور جمالی طور پر ( تلوار کے ذریعہ نہیں بلکہ ) اخلاق کے ساتھ ، دلائل کے ساتھ ، تائیدات سماویہ کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ دنیا پر غالب ہونے کی ذمہ واری آپ کی جماعت پر ڈالی گئی ہے.یہ بہت بڑا کام ہے.سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بس کا تو یہ روگ ہی نہیں ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہ ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت خلوص نیت کے ساتھ اپنی بساط کے مطابق قربانی دے گی تو انہیں یہ بشارت دی جاتی ہے کہ ساری دنیا میں اسلام غالب آ جائے گا.اگر یہ وعدہ نہ ہوتا تو کوئی عقل مند کھڑے ہو کر یہ نہ کہتا کہ مال کی قربانی دو یا جان کی قربانی دو.بلکہ اللہ تعالیٰ جو اپنے قول کا صادق اور اپنے وعدوں کا سچا ہے، اس نے یہ کہا ہے کہ جو تمہاری طاقت میں ہے، وہ میرے حضور پیش کر دو.پھر جو میری طاقت کے جلوے ہیں، انہیں اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کرو اور میرے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھو.چونکہ یہ بشارتیں ہمیں حاصل ہیں، اس لئے ہم کھڑے ہو کر جماعت سے یہ کہتے ہیں کہ آگے بڑھو اور قربانیاں دو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنو.ان فضلوں کا کہ تمہاری کوششیں اگر کروڑ گنا بھی زیادہ ہوتیں ، تب بھی وہ اس فضل کا تمہیں مستحق نہ بنا تیں.چھوٹی سی قربانی کے 601

Page 619

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تم سے بے حد اور بے شمار فضلوں کا وعدہ کیا ہے.اور اسی وعدہ کے پیش نظر ہم کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ آگے بڑھو اور قربانیاں دو.مالی قربانی کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے اخلاص کا نمونہ پیش کیا ہے.جانی قربانی کے متعلق جہاں اساتذہ کا سوال تھا، ہماری ضرورت سے زیادہ آگئے ہیں.لیکن جہاں تک ڈاکٹروں کا سوال ہے، ابھی تک یہ کہہ رہا ہوں، یوں مجھے امید ہے کہ بعد میں آ جائیں گے.لیکن توجہ دلانا اور یاد دہانی کرانا میر افرض ہے.) پس ابھی تک جتنے ڈاکٹروں کی ہمیں ضرورت ہے، وہ پورے نہیں ہوئے.ایک تو میرا خطبہ بھی ابھی نہیں چھپا.بہت سارے لوگوں کو اس کی اہمیت کا بھی پتہ نہیں ہوگا.بہر حال میرے اس پہلے خطبہ کے چھپنے اور اس خطبہ کے چھپنے کے درمیان غالباً 34 ہفتوں کا فرق پڑ جائے گا.ایک اور یاد دہانی ہو جائے گی.اس وقت جتنے بھی آدمیوں کی احمدیت اور اسلام کو ضرورت ہے، وہ ہمیں دینے چاہئیں.یعنی جو ہماری طاقت میں ہو، اس سے دریغ نہیں کرنا چاہئے.ہم جب یہ قربانی دے دیں گے، پھر بھی عیسائیت کے لئے زندگی وقف کرنے والوں کے مقابلہ میں ہماری تعداد غالباً ہزارواں حصہ ہوگی.کیونکہ وہ اس وقت لاکھوں کی تعداد میں دنیا میں کام کر رہے ہیں.پھر ان کی عورتیں ہیں، وہ بھی لاکھوں کی تعداد میں نہیں ( Nuns) بن کر، جو ایک غیر فطری چیز ہے، سر منڈا لیتی ہیں اور ساری عمر کنواری رہنے کا عہد کرتی ہیں.اور ان کے مقابلہ میں تو تم اپنی بہنوں سے یہ قربانی لے ہی نہیں سکتے.کیونکہ اسلام نے اسے جائز قرار نہیں دیا.جو قربانی ہم لے سکتے ہیں اور لینا چاہتے ہیں ، وہ یہ ہے:.اول :.ہماری ہوشیار، دیندار، ذہین اور صاحب فراست بچیاں اپنی خوشی سے واقفین کے ساتھ شادیاں کریں اور دنیا کی طرف نہ دیکھیں، دین کی نعمتوں کو ترجیح دیں.دوم:.اپنے خاوندوں کے ساتھ جب باہر جائیں تو ان کی ممدومعاون بنیں.اگر غیر ممالک میں بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں پیش آئیں تو ان سے گھبرا کر اپنے خاوندوں کا وقت ضائع کرنے کی کوشش نہ کریں اور انہیں صراط مستقیم سے ہٹانے کا موجب نہ بنیں.سوم :.وہ ایسے علوم حاصل کریں کہ وہ بھی جب اپنے خاوندوں کے ساتھ باہر جائیں تو دین کا کام بھی کرنے والی ہوں ، صرف گھر کو سنبھالنے والیاں نہ ہوں.اور یہ بہت سے طریقوں سے ہو سکتا ہے.اس کی تفصیل میں ، میں اس وقت نہیں جانا چاہتا.602

Page 620

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جولائی 1970ء میں نے بتایا تھا کہ غانا میں ہمارے انچارج مبلغ کلیم صاحب کی بیوی بالکل ان پڑھ تھیں، جب وہ ان کے ساتھ باہر گئیں.لیکن چونکہ مخلص اور اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والی تھیں، انہوں نے منصورہ بیگم کو خود بتایا کہ میں نے سوچا، میں ایک ان پڑھ عورت ایک مبلغ انچارج کی بیوی کی حیثیت میں یہاں آئی ہوں ، اردو بھی ٹھیک طرح مجھے نہیں آتی ، انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتی ، میں اپنے مبلغ خاوند کے ساتھ کیسے تعاون کروں گی؟ اور ان کا کس طرح ہاتھ بٹاؤں گی ؟ وہ کہنے لگیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ تم انگریزی اور اس قسم کی جود نیا میں اور مشہور زبانیں ہیں، وہ نہ سیکھو.بلکہ وہاں کی مقامی زبان ( لوکل ڈائیلیکٹ ) جو ہے، وہ سیکھ لو.چنانچہ انہوں نے مقامی زبان سیکھنی شروع کر دی اور اس میں بڑی اچھی مہارت حاصل کی.اور پھر سارا دن بچے اور بچیوں کو قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھاتی رہتی تھیں.ان کے میاں باہر دوسری نوعیت کا تبلیغی کام کرتے تھے اور یہ گھر میں بیٹھ کر گھر بھی سنبھالتیں اور بچوں کو قرآن کریم بھی پڑھاتی تھیں.پس اگر اس قسم کا دل ایک احمدی بچی میں ہو اور ایسا ہی دل ہراحمدی بچی میں ہونا چاہئے تو پھر اسے خود سوچ کر دعائیں کرنے کے بعد اس قدر علم حاصل کر لینا چاہئے کہ جو باہر کے ممالک میں اسلام کے غلبہ کی اللہ تعالیٰ نے جو ہم چلاتی ہے، اس میں ممد و معاون ثابت ہو.ہمارے احمدی ڈاکٹر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہیں.پہلے تو شاید کم ہوتے ہوں گے لیکن اس سال کا میرا جو اندازہ ہے، وہ یہ ہے کہ سارے مغربی پاکستان میں ہمارے30-20 احمدی بچے انشاء اللہ ڈاکٹری کا امتحان پاس کر کے ڈاکٹر بنیں گے.اور موجودہ صورت میں بہت سارے تو باہر بھی چلے گئے ہیں.کچھ مزید پڑھنے کے لئے اور کچھ نوکریاں کرنے کے لئے.لیکن پھر بھی پاکستان میں ہمارا کئی سوڈاکٹر ہونا چاہئے.ان میں سے ہمیں سر دست 30 کی ضرورت ہے.بعض تو جو میرے علم میں ہیں یعنی میری یاداشت میں ہیں، ان کو تو میں خط بھی لکھوا رہا ہوں کہ آگے آؤ.لیکن جو ڈاکٹر بالکل نیا ہو گا، یعنی جس نے اس سال یا پچھلے سال ڈاکٹری کی ہے، وہ فی الحال وہاں اتنا اچھا کام نہیں کر سکتا.کیونکہ اس کا تجربہ زیادہ نہیں.سوائے اس کے کہ کسی اچھے ماہر ڈاکٹر کے ساتھ جو پہلے وہاں کام کر رہے ہوں ، ان کے ساتھ اسے لگا دیں.اور ان کے ساتھ مل کر دو، چار سال کام کرے اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں بھی شفادے دے، علم میں بھی زیادتی دے دے.اس لئے فی الحال بہتر یہ ہے کہ ایسے ڈاکٹر زندگی وقف کریں جو یا تو ریٹائر ہو چکے ہوں اور ان کی صحت بھی اچھی ہو.اور یادو، چار سال کے اندر ریٹائر ہونے والے ہوں.اور وہ اپنے 603

Page 621

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم محکمہ سے چھٹی لے لیں یا فراغت حاصل کر لیں.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ 4-3 سال کی چھٹی لیں.اور پھر ایک سال یہاں آکر کام کریں اور پھر محکمہ سے پوری طرح فراغت پا کر وہاں چلے جائیں.بہر حال جس تیزی کے ساتھ اس سکیم کے بعض شعبوں میں ہمیں یہاں کام کرنا چاہئے ، اسی تیزی سے ہمارے لئے اللہ تعالیٰ وہاں راہیں کھول رہا ہے.شمالی نائیجیریا میں حکومت نے ہمارے دو سکولوں کے لئے ہمیں 40-140 یکٹر مفت زمین دینے کا فیصلہ کر دیا ہے.دوسرے دو سکول بھی وہاں کھلنے چاہئیں.کیونکہ میں نے ان سے چار کا وعدہ کیا ہے.ان کے لئے بھی وہ عنقریب جب بھی ہم ان سے کہیں گے، زمین دے دیں گے.ہمارے آدمی وہاں ست تھے، میں نے انہیں تیز کیا ہے.ایک پیرا ماؤنٹ چیف نے ایک خاصا بڑاز مین کا قطعہ ، جس میں کچھ عمارتیں بنی ہوئی ہیں ، دیا ہے.اور کہا ہے کہ اسے سنبھالو اور یہاں سکول کھولو.اسی طرح وا ( Wa ) جو کہ غانا کا شمال مغربی علاقہ ہے، وہاں ہماری بڑی جماعتیں ہیں.وہاں ہمارا ایک عربی کا سکول بھی ہے.وہاں کی جماعت نے زمین کا ایک وسیع قطعہ سکول اور میڈیکل سنٹر کھولنے کے لئے وقف کیا ہے.پس اگر وہ لوگ تو قربانی پیش کر دیں، اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ وہاں کی حکومتیں، غیر از جماعت امراء اور پیرا ماؤنٹ چیفس یا اس قسم کے دوسرے لوگ ہمیں زمینیں بھی دیں اور مکان بھی دیں گے اور آپ کہیں ہم آدمی نہیں دیتے تو اس سے بڑھ کر سکی اور شرم کی کوئی اور بات نہیں ہوسکتی.لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہو گا.لیکن اس یقین کے باوجود چونکہ مجھے ذکر یعنی یاد دہانی کروانے کا حکم بھی دیا گیا ہے، اس لئے میں آپ کو یاد دہانی کراتا رہوں گا.جب تک میرے اس ابتدائی منصوبہ کے لئے جتنے آدمی چاہئیں ، وہ مجھے مل نہ جائیں.جتنا مال چاہئے ، وہ مجھے مل جائے.مجھے اپنی ذات کے لئے تو ایک دھیلہ بھی نہیں چاہئے.نہ کسی اور کے لئے چاہئے.اللہ تعالیٰ کے دین کو فروغ دینے کے لئے ضرورت ہے.اس سکیم کے ماتحت تو ساری رقم افریقہ پر یا افریقہ کے لئے خرچ ہوگی.پس دوست وقف کی طرف توجہ دیں.تین تحریکیں میں اس وقت کرنا چاہتا ہوں.ایک یہ کہ ڈاکٹر واقف زندگی بن کر آگے آئیں.دوسرے یہ کہ اچھے ٹیچر ز واقف زندگی بن کر آگے آئیں.تیسرے یہ کہ جو ہمارا مستقل نظام وقف ہے اور واقفین بچے جامعہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں، اس میں بھی اب دس یا پندرہ یا بیس سے ہمارا کام نہیں چلے گا.کیونکہ ضرورت اسلام کے غلبہ کی مہم کو اس سے 604

Page 622

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جولائی 1970ء بہت زیادہ کی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم 50 میٹرک پاس طلبہ اس سال جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے چاہئیں اور 100 اگلے سال.پھر شاید ہم اپنی ضرورت کو پورا کرسکیں.یہ جو پچاس ہوں گے یا جو سو اگلے سال داخل ہوں گے ، سات سال کے بعد ان کا نتیجہ نکلے گا اور یہ مبلغ بنیں گے.میں نے سوچا ہے کہ یہ جو درمیانی عرصہ ہے، اس کے لئے پھر ریٹائر ڈ احمدی بہت سارے ایسے ہیں، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا اچھا خاصا مطالعہ کیا ہوا ہے اور انگریزی بھی جانتے ہیں، انہیں باہر بھجوا دیں گے کہ جا کر مبلغ کے طور پر کام کرو.اور پھر آٹھ ، دس سال کے بعد پیچھے سے زیادہ تعداد میں ہمارے نوجوان مبلغین آنے شروع ہو جائیں گے.اس سلسلہ میں دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ ( میں ان کی نیت پر حملہ نہیں کرتا لیکن ) ایسا کرتے ہیں اور بڑی شرم آتی ہے کہ ایسے لوگ خدا کو کیا منہ دکھا ئیں گے؟ اور ہم بھی اگر ہم نے ان کی بات مان لی تو خدا کو کیا جواب دیں گے ؟ بڑے آرام سے آکر کہہ دیتے ہیں کہ میرا بچہ نہایت نخذ، پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتا، آوارگی اس کے اندر ہے، میٹرک میں اس نے لوئر تھرڈ ڈویژن کے نمبر لئے ہیں، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ آپ اسے جامعہ احمدیہ میں داخل کر لیں.اللہ تعالیٰ کے حضور تم وہ بھیر پیش کر رہے ہو، جس کے اوپر گوشت ہی نہیں.اور ہڈیاں بھی اس کی گلی ہوئی ہیں اور آدھ موا چمڑا اس کے اوپر ہے.یعنی اس کے اندر کوئی قابلیت نہیں.اور آ کر کہتے ہیں کہ چونکہ دنیا میں اس کے لئے کہیں اور راستہ نہیں،اس لئے آپ اسے جامعہ احمدیہ میں داخل کر لیں.ایسا بچہ مبلغ کیسے بن سکتا ہے؟ اس extreme ایکسٹریم) یا مثال کے بچے کو تو ہم بہر حال داخل نہیں کرتے.لیکن اور بہت ساری مثالیں ہیں کہ اس قسم کے لڑکے آکر داخل ہو جاتے ہیں.لیکن دراصل نہ ان کا حق ہوتا ہے، نہ اہلیت ہوتی ہے.پھر میرے نزدیک جو اوسط درجہ کا طالب علم آتا ہے، یہ بھی درست نہیں.دین کے لئے ٹاپ کا، نہایت اعلیٰ درجہ کا ذہن وقف ہونا چاہئے.یعنی ایساذ ہن کہ اس سے بہتر کوئی اور ذہن نہ ہو، بہت سارے ایسے لوگ بھی آجاتے ہیں ، بعض سادگی میں بھی بات کر دیتے ہیں، پچھلے سال ایک صاحب، جنہوں نے اپنے بچہ دین کے لئے وقف کیا ہوا تھا، ان سے میری ذاتی واقفیت بھی ہے، پھر ان کا کام بھی ایسا ہے کہ وہ مجھے بڑی کثرت سے ملتے رہتے ہیں، ان کا بچہ بھی ملتا رہتا تھا، اس نے میٹرک میں نہایت اعلیٰ درجہ کی فسٹ ڈویژن لی، وہ میرے پاس آگئے کہ یہ بچہ کہتا ہے کہ میرے اتنے اچھے نمبر ہیں، مجھے شاید وظیفہ مل جائے.مجھے اجازت دیں کہ میں کسی کالج میں داخل ہو جاؤں اور سائنس پڑھوں یا کسی اور مضمون میں 605

Page 623

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم آگے ترقی کروں.مجھے پتہ تھا کہ یہ وسوسہ ہے، جو بڑی جلدی دور ہو جائے گا.میں نے مسکرا کر ان سے کہا کہ نہیں، میں اس کی اجازت نہیں دیتا.جیسا کہ تم وقف ہو ، جا کر جامعہ احمدیہ میں داخل ہو جاؤ.اس قسم کے بعض دوسرے لوگ بھی میرے پاس آتے ہیں.پس ایک تو دین کے لئے ہمیں اچھے ذہن چاہئیں، دوسرے معاشرہ کے لحاظ سے جامعہ احمدیہ میں ایک سمویا ہوا گر وہ ہونا چاہئے.یعنی غریبوں کے بچے بھی ہوں، متوسط خاندانوں کے بچے بھی ہوں اور اچھے امیروں کے بچے بھی وہاں آئیں.اگر یہ نہیں ہوگا تو ان کی صحیح تربیت نہیں ہو سکے گی.صحیح تربیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ غریب اور متوسط اور امیر گھرانوں کا بڑا اچھا تعلق ہو، ورنہ تو معاشرہ خراب ہو جاتا ہے.میں نے بتایا تھا کہ جو بعد ہمیں یہاں ایک وزیر اور ایک عام آدمی کے درمیان نظر آتا ہے، وہ بعد افریقہ میں نظر نہیں آتا.ایک عام معمولی آدمی وزیر سے بڑے دھڑلے کے ساتھ جا کر بات کرنے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا.کیونکہ ان کا آپس میں کوئی بعد نہیں.مگر یہاں بڑا بعد ہے.یہاں پر وزیر تو الگ رہا، وزیر کا چپڑاسی بھی اچھے بھلے شریف آدمیوں کو بعض دفعہ دھکے دے کر باہر نکال دیتا ہے.لیکن وہاں تو ایک وزیر بھی ایسا نہیں کر سکتا.ان کا معاشرہ ہی ایسا ہے.اسے میں اسلام کا معاشرہ تو نہیں کہہ سکتا کیونکہ اسلام کا معاشرہ اس سے بھی زیادہ حسین ہے.لیکن ہمارے ملک کے معاشرہ کے مقابلہ میں وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ کے زیادہ قریب ہے.پس ہمارا یہ معاشرہ یعنی انسانی مساوات که انسان انسان میں کوئی فرق نہیں، یہ پوری طرح قائم نہیں ہوسکتا.جب تک ہم ہر شعبہ میں یہ ثابت نہ کریں کہ انسان انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں.اور ایک شعبہ ہمارا جامعہ احمدیہ کا ہے.وہاں جو ہمارے Millionaire) ملین ایر اگر کوئی ہوں ، ہماری جماعت میں تو ان کے بچے بھی آنے چاہئیں.اور ایک جیسے ماحول میں انہیں تعلیم حاصل کرنی چاہئے.اور پھر ایک جیسی پابندیوں کے ساتھ انہیں باہر جا کر تبلیغ کرنی چاہئے.تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے اندر حقیقی معنی میں مساوات قائم ہے.اگر دنیا آج ہمیں یہ کہے کہ مساوات قائم کرنے کا دعوی کرتے ہو لیکن تمہارا جامعہ احمدیہ، جہاں سے تمہارے مبلغ بن کر نکلتے ہیں، وہاں غریبوں کے بچے بھی ہیں متوسط خاندانوں کے بچے بھی ہیں لیکن امیر گھرانے کا کوئی بچہ نہیں کیا جواب دیں گے آپ یا کیا میں جواب دے سکتا ہوں؟ یہ حقیقت ہے، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا.ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ جامعہ احمدیہ میں صحیح اسلامی معاشرہ کا امکان امراء کی غفلت کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوسکا.606

Page 624

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جولائی 1970ء پس امیروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے ذہین بچوں کو جامعہ احمدیہ میں بھجوائیں اور اس کے مطابق ان کی تربیت کریں.بعض نے کی ہے.مثلاً ہمارے مرزا عبد الحق صاحب بڑے اچھے اور کامیاب وکیل ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو پیسہ بھی دیا ہے.ان کا ایک بچہ یہاں جامعہ احمدیہ میں پڑھتا رہا ہے.آج کل بیچارا جرمنی میں ہے.بیچارا میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ مصیبت میں ہے.اس کا آگے پڑھائی کا کام نہیں ہورہا.بہر حال وہ جامعہ احمدیہ میں اپنے خرچ پر پڑھا اور پھر جرمنی چلا گیا.اب تو اس کا وظیفہ بھی مصر سے آ گیا تھا لیکن میں نے اسے ہدایت کی تھی کہ نہیں، اب تم جن تکالیف سے گذرے ہو، شاید اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہو کہ تم جرمن زبان اچھی طرح سے سیکھ لو.اس لئے اب جرمنی میں ہی رہو اور جرمن زبان سیکھو.خدا کرے، اس میں وہ کامیاب ہو جائے.زبان سیکھنے کا ملکہ بھی کسی کسی کو ہوتا ہے، ہر ایک کو نہیں ہوتا.بہر حال ہمارے جامعہ احمدیہ میں امیروں کے بچے بھی آنے چاہئیں، متوسط طبقہ کے بھی آنے چاہئیں اور غریبوں کے بچے بھی آنے چاہئیں.لیکن سارے کے سارے ذہین ہونے چاہئیں اور بڑے مخلص ہونے چاہئیں اور سعید الفطرت ہونے چاہئیں.ویسے تو کسی نے یہ ٹھیک نہیں لیا کہ فطرتی سعادت پر انسان ہمیشہ قائم رہے.ٹھوکریں بھی لگ جاتی ہیں.بلعم باعور کے قصے بھی ہم نے پڑھتے ہیں.اچھے اچھے مخلص خاندانوں کے بچے بھی خراب ہو جاتے ہیں.اور بعض دفعہ نہایت ذلیل اور کمینے اور دہریہ اور اللہ تعالیٰ کی ہستی سے بیزار اور مذہب سے نفرت کرنے والے گھروں میں متقی اور پرہیز گار اور خدا کا خوف رکھنے والے اور خشیۃ اللہ سے جن کے سینے معمور ہوں ، وہ پیدا ہو جاتے ہیں.اس لئے قرآن کریم نے کہا ہے کہ یہ اللہ ہے، جو مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے.یہ چکر تو اپنی جگہ چل رہا ہے.لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے، خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ظاہر پر اپنا حکم جاری کرو اور اسی کے مطابق فیصلہ کرو.پس ظاہری طور پر خلص، دیندار اور ایثار پیشہ، اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت رکھنے والے، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی محبت سے جن کے سینے پر اور دل منور ہوں ، ایسے بچے ہمیں چاہئیں اور ہر طبقے سے چاہئیں.تا کہ ہم سی ذہنی اور اخلاقی نشو و نما کر سکیں.پس اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک Representative ( ری پری زینٹیو ) یعنی نمائندہ گروه جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہا ہو.سب طبقوں کی نمائندگی کر رہا ہو.اور صحیح معاشرہ اور صحیح معاشرہ کے اسباق کی نشاندہی کر رہا ہو.آخر انہوں نے باہر جا کر دنیا کا معلم بننا ہے.ان میں سے ہر ایک کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ امیر کی تھنگ کیا ہے؟ یہ صحیح ہے کہ ہماری تھنکنگ یعنی ہماری سوچ اور فکر کا اسلوب دوسروں سے مختلف ہوگا.607

Page 625

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم لیکن ایک امیر کے لڑکے کا اسلوب، متوسط اور غریب طبقہ سے بھی مختلف ہوگا.وہاں آ کر وہ آپس میں سموئے جائیں گے.ان کی ذہنی تربیت ہوگی، ان کی اخلاقی تربیت ہوگی.پھر وہ جو امیر کا بچہ ہے، وہ یہ دیکھے گا کہ میں غریب کے بچے کو علم اور شرافت اور اخلاق کے مظاہرے میں آگے نہ نکلنے دوں.اس قسم کی مسابقت اور بڑے صحتمند مقابلے کی روح پیدا ہوگی.اور غریب کا بچہ کہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہے تو کیا ہوا، مجھے اللہ تعالیٰ نے جو دوسری قوتیں اور استعداد میں دی ہیں، ان میں، میں اس سے آگے نکلوں گا.پس ایسے ماحول میں ہر فرد خوش ہوتا ہے.اس لئے اس قسم کے بچے جامعہ احمدیہ میں آنے چاہئیں اور بڑی کثرت سے آنے چاہئیں.کیونکہ ہر روز جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ہماری ضرورت پہلے دن سے بڑھی ہوتی پاتا ہے.لیکن سورج کی آنکھ تو ہماری ضرورت میں وسعتوں کا مشاہدہ کرے اور ہماری آنکھ جو ہے، وہ بندر ہے اور نا بینا بن جائے تو یہ تو کوئی خیر اور خوبی کی بات نہیں ہے.ہماری ضرورتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل بڑی وسعت اور شدت کے ساتھ موسلا دھار بارش کی طرح ہم پر نازل ہورہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے جو یہ عظیم اور کثیر انعامات ہم پر ذمہ داریاں عاید کرتے ہیں، ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی ہمیں ہوش بھی ہونی چاہئے اور ہمارا ارادہ بھی ہونا چاہئے اور ہماری مخلص نیت بھی ہونی چاہئے اور ایثار کا جذبہ بھی ہونا چاہئے.یعنی جو ابتدائی چیزیں ہونی چائیں ، وہ ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں.پھر ان کے نتائج جو ہیں، وہ نکلنے چاہئیں.تب جا کر ہم اس کام میں کامیاب ہو سکتے ہیں، جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ جس طرح اسلام کی نشاۃ اولی میں تمام دنیا پر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فر مایا تھا، اپنی جلالی صفات کے اظہار کے ساتھ ، اسی طرح آج کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات ہمارے وجود میں کچھ اس طرح چمکیں کہ دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہوں اور تمام دنیا کی اقوام کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد اکٹھی کر دینے والی ہوں.یہ کام ہے، ہمارا.اور اس سے کم پر نہ ہم اپنے آپ سے خوش رہ سکتے ہیں، نہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے انسان اس کی رضا کو حاصل کرتا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے ، ایسے اعمال کے بجالانے کی کہ وہ ہم سے راضی اور خوش ہو جائے.اور وہ وعدے، جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ غلبہ اسلام کے ہم سے کئے ہیں ، وہ ہماری زندگیوں میں پورے ہونے لگیں.رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 608

Page 626

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 جولائی 1970ء اقوام عالم کو وحدت انسانی میں منسلک کرنے کے ذرائع اور طریق خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 1970 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فنافی الرسول کا جو مقام حاصل تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو قرب میسر تھا، وہ امت محمدیہ میں کسی اور کے نصیب میں نہ ہوا، نہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ وعدہ دیا اور یہ بشارت دی کہ تیرے ذریعہ سے تمام اقوام عالم وحدت انسانی میں منسلک کی جائیں گی.وہ سب تیرے گرد پیار اور محبت سے گھو میں گی اور تیری اطاعت اور اتباع میں اپنے محبوب اور مقصود اللہ کی رضا کو حاصل کریں گی.اقوام عالم کا وحدت انسانی میں منسلک ہونے کا کام جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے، مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے ساتھ وابستہ تھا.کامل دین آ گیا اور شریعت مکمل ہو گئی.تمام دنیا کو قرآن عظیم میں عظیم بشارتیں دیں.لیکن اس وحدت کی طرف دنیا کی اقوام نے صدیوں مزید سفر کرنا تھا.اس وقت تک کے لئے جب مہدی معہود دنیا کی طرف معبوث ہوں اور اللہ تعالیٰ کی یہ روشنی ساری اقوام عالم کو منور کرنے والی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا حقیقی اور بنیادی فرض ہے ہی یہ کہ تمام اقوام عالم کو اسلام کے نور سے منور کر کے اور اسلام کے حسن کا گرویدہ بنا کر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں پر لاڈالیں.باقی تو سب فروعات ہیں.وہ راستے ہیں، جو مختلف جہات سے ہو کر اس ایک مرکز کی طرف رواں دواں ہیں.اس وحدت اقوامی کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو ہتھیار یا ذرائع اور اسباب لا سکتے تھے، وہ لائے.اس وحدت اقوامی کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تین باتوں کی ضرورت ہے.ایک کا تعلق آپ سے نہیں کیونکہ وہ دنیوی بات ہے.اس کا تعلق عام انسان کی ترقی اور سائنس کے زیادہ سے زیادہ حقائق کو حاصل کرنے سے ہے.مثلاً ہوائی جہازوں کی ایجاد اور سمندری جہازوں کی ایجاد اور ریلیں، موٹریں ہیں.ہفتوں میں انسان یہاں سے موٹر میں یورپ وغیرہ میں پہنچ جاتا ہے.ہوائی جہاز کے نتیجہ میں سالوں کا فاصلہ ایک دن میں طے ہو جاتا ہے.مثلاً ہم جب افریقہ گئے، جو یہاں 609

Page 627

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 31 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سے سات ہزار میل دور ہے تو اڑان کا وقت ہمارا چھ اور نو قریباً پندرہ ، سولہ گھنٹے تھا.پندرہ ، سولہ گھنٹے میں جہاز سات ہزار میل دور کے ممالک میں پہنچا دیتا ہے.کوئی وقت تھا کہ یہاں سے افریقہ جانے کا خیال بھی انسان نہیں کر سکتا تھا.اگر کوئی بہادر اور جری اور علم کے حصول کا جنون رکھنے والا روانہ ہوتا تھا، ابن بطوطہ کی طرح تو سالہا سال کے سفروں کے بعد اس کے لئے ممکن ہوتا تھا کہ وہ اپنے گھر کو واپس لوٹ سکے.تو وحدت اقوامی کے قیام کے لئے ضروری تھا کہ means of communication (میز آف کمیونی کیشن ) جسے کہتے ہیں، رسل ورسائل اور آپس کے تعلقات کو قائم کرنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے.وہ اس حد تک ترقی یافتہ ہوجائیں کہ قوم قوم کے درمیان فاصلہ مکان کا فاصلہ اور زمان کا فاصلہ جو ہے، وہ بہت کم ہو جائے.ایسا ہی کم ہو جائے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ سے مکہ تک پہنچایا اس سے بھی کم عرصہ میں دنیا کے بہترین حصہ میں انسان پہنچ سکتا ہے.تو ایک اس کے بغیر وحدت اقوامی کا قیام ممکن نہیں کہ تمام بنی نوع انسان ایک برادری بین جائیں.اور ان کا باپ اس دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو.بقیہ دو باتوں کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ایک تو ایسا زمانہ چاہئے.ایک تو یہ ہو کہ رسل و رسائل means of communication (میز آف کمیونی کیشن) اتنے ہوں کہ تمام دنیا ایک ملک کی طرح بن جائے.دوسرے یہ کہ وہ حالات ایسے ہوں اور طبائع میں جوش اس قدر ہو کہ تمام مذاہب اپنے اپنے مذہب کی صداقت کے فیصلہ کے لئے تیار ہوں.حالات بھی ایسے ہوں کہ ان کا آپس میں مقابلہ ہو سکے.مذاہب کی گشتی کا امکان پیدا ہو جائے.جو اس زمانہ میں ہو گیا.ایک تو یہ کہ مذہبی آزادی سوائے ایک تنگ ذہن کے ہر جگہ ہمیں نظر آتی ہے.مذہب کی بناء پر آج تلوار نہیں نکالی جا رہی.نہ کسی کو قتل و غارت کے میدان میں دھکیلا جارہا ہے.الا ماشاء الله.ساری دنیا جو ہے، وہ باتوں کو سنتی ہے.ہمارے ملک میں تعصب ہے.مگر ایک چھوٹے سے حصہ میں ہزار میں سے ایک شخص ہو گا، جو اس تعصب کی بیماری میں مبتلا ہوگا.ہمارے پاکستان والے بھی تحمل سے بات سنتے ہیں.اس زمانہ میں ہم ہی بعض دفعہ ستی دکھاتے ہیں، انہیں بات نہیں سناتے.وہ سننے کے لئے تیار ہیں.اور کسی پر زبردستی نہیں.میرے سامنے جب بھی بعض دفعہ جوش میں آکر احمدی کہہ دیتے ہیں کہ انہوں نے بہت کچھ پڑھا ہے لیکن یہ صاحب جو ہیں ، وہ سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، احمدیت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.تو میں نے انہیں کبھی یہ نہیں کہا کہ تم فارم پر دستخط کرو اور تم بیعت کرلو.میں نے انہیں نصیحت کی کہ دیکھو! یہ جو مرضی ہے، کہتے ر ہیں، جب تک انشراح صدر نہ ہو، تم احمدیت میں داخل نہ ہونا.کیونکہ گنتی سے تو کوئی فائدہ نہیں.نہ گنتی میں 610

Page 628

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 جولائی 1970ء کوئی دلچسپی ہے.جیسا کہ ان آیات میں بھی جو میں نے تلاوت کی ہیں، بڑی وضاحت سے یہ بیان ہوا ہے.تو بات سنتے ہیں اور ہمیں سنانی چاہئے.تو جس وقت مذاہب کی کشتی ہو، اس وقت غالب آنے والے مذہب کے پاس اس قدر ز بر دست دلائل ہونے چاہئیں کہ ان دلائل کے سامنے دوسرے مذاہب ٹھہر نہ سکیں.یہ زبردست دلائل تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام تھا، لانا اور آپ لے آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب اور سب سے بڑا بد مذہب یعنی دہریت جو ہے، اس کے خلاف بڑے بڑے دلائل دے دیئے ہیں.لیکن محض دلائل دینا بھی غالب آنے کے لئے کافی نہیں ہوا کرتے.دنیا کی تاریخ سے ہمیں پتہ لگتا ہے، اس کی تفصیل میں ہمیں جانے کی ضرورت نہیں.اس لئے آپ نے فرمایا کہ دوسری چیز جو وحدت اقوامی کے لئے ضروری تھی، ایسی فضا تھی، جس میں مذاہب کی گشتی امن کی فضا میں ممکن ہو.اور جو دلیل اور حجت میں زبردست اور طاقتور ہو، اس کی جیت ہو.اور وہ دلائل تھے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیئے.اور تیسری چیز جو اس وحدت اقوام کے لئے ضروری تھی ، وہ یہ تھی کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے اس گروہ کو آسمانی نشانات اور تائیدات سے نوازا گیا، جو آپ کی زندگی میں اور آپ کے بعد دو، تین نسلوں میں پیدا ہوں ، اس طرح ایک قوم صحابہ سے ملتی جلتی پیدا کی جائے ، جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آسمانی نشانات اور تائیدات کی وارث بنے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا وجود تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں اس طرح فانی ہے کہ علیحدہ کوئی چیز ہمیں نظر نہیں آتی.اس وجود کی جھلک، اس وجود کا حسن، اس وجود کا احسان جو ہے، وہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود میں نظر آتا ہے.اور ان میں کوئی فرق نہیں.اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہی کہا کہ دیکھنا ! فرق نہ کرنا ورنہ پاؤں پھسل جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ صرف خود بڑی کثرت سے بے حد و حساب آسمانی نشانات دنیا کو دکھائے.بلکہ آپ نے دنیا میں یہ اعلان بھی کیا کہ میرے بچے اور کامل تبعین بھی آسمانی نشانوں کے وراث بنیں گے.یہاں تک فرمایا کہ میرے کامل متبعین کو اللہ تعالیٰ اس قدر برکت دے گا کہ اگر وہ کسی چیز کو چھوئیں گے تو وہ چیز بابرکت ہو جائے گی.قبولیت دعا کا نشان ہے، یہ ساری ہماری جماعت.جو شخلصین کا حصہ ہے، (منافقین اور کمزوروں کو نکال کر ) ان کو اللہ تعالیٰ یہ نشان دکھاتا ہے.ان کے وجود میں برکت رکھی ہے، ان کے وجود میں جاذبیت رکھی ہے، اثر رکھا ہے.611

Page 629

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 31 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم جو بے نفس، آپ کور بوہ کی گلیوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اور آپ کے دل میں ان کی قد روشناخت نہیں ہوتی.جب وہ باہر جاتے ہیں تو وہاں کے سر براہ مملکت جو ہیں ، وہ بھی ان کی عزت کرتے ہیں.ہم نے خود مشاہدہ کیا.وہاں پھر آدمی سوچ میں پڑتا ہے کہ بظاہر تو یہ شخص اس قابل نہیں تھا.ہر انسان کی توجہ اس طرف جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ کیا تھا اور وہ اپنے وعدوں کا سچا ہے اور اس نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بے نفس تبعین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مست رہنے والے جو ہیں، ان کو یہ اپنا نشان دکھایا ہے اور یہ برکتیں ان کو دی ہیں.تو وحدت اقوامی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.تیسری چیز جو نہایت ضروری بھی ہے ، وہ الہی تائید اور نصرت اور آسمانی نشانات ہیں.اور وہ آپ لے کر آئے اور ایک ایسی جماعت آپ نے پیدا کی کہ جو سچا ایمان اور حقیقی اخلاص رکھنے والی بے نفس جماعت تھی اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو نشان دکھا رہا ہے اور وحدت اقوامی کے لئے حالات سازگار کر رہا ہے، اس کثرت سے اور اس طرح پھیلے ہوئے ہیں، یہ نشانات کہ انسان دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ افریقہ میں ہماری ایک بہن تھیں ، جن پر مجھے اس خیال سے رحم آیا کہ اگر وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو دعا کے لئے اسی طرح لکھتی رہتی تو اس وقت ان کی مراد پوری ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نشان بھی دکھانا تھا کہ اس کی شادی کو چالیس سال گذر چکے تھے اور کوئی لڑکا نہیں تھا، غالباً کوئی بچہ ہی نہیں تھا.اور میری خلافت کے شروع میں انہوں نے دعا کے لئے لکھنا شروع کیا اور شادی کے چالیس سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو لڑ کا دیا.سات ہزار میل دور چالیس سال شادی کو ہوچکے.انگریز ڈاکٹر تو کہتے ہیں کہ عام عورت پندرہ ، ہیں سال کے بعد بچہ جننے کے قابل ہی نہیں رہتی.اور پھر اس عمر میں اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ نشان قبولیت دعا کا دکھایا.وہاں بھی لوگ دعاؤں کے نشان دیکھتے ہیں.بڑی کثرت سے یہ نشان اللہ تعالیٰ ظاہر کر رہا ہے.اس لئے ہمیں علاوہ اور باتوں کے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو ایک خاندان بنانے کا وقت آ پہنچا.یہ بڑا اہم کام ہے، یہ بنیادی کام ہے، دراصل یہی کام ہے.باقی جیسا کہ میں نے کہا شاخیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو دوسرے کام ہیں، اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف شاہراہیں ہیں ، جو اللہ تعالیٰ نے تیار کی ہیں.مختلف دروازے ہیں، جو اس کے اندر ہمیں لے کر جا 612

Page 630

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 جولائی 1970ء رہے ہیں.اصل چیز یہ ہے کہ ہم نے تمام انسانوں کو الا ماشاء اللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کے بندھن میں باندھ دینا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، جو اسلام سے باہر رہ جائے گا، ان کی حالت چوہڑوں چماروں کی طرح ہوگی.اگر لاہور کی آبادی کا مقابلہ چوہڑوں چماروں سے کریں تو شاید ایک فیصدی ہوں یا دو فیصدی ہوں.یہ نہ ہونے کے برابر ہے، جو ان کی حیثیت ہوگی.اس کام کو کرنے کے لئے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ایک جنون کی ضرورت ہے.ایسا جنون جودنیا کے تمام اصولوں کو توڑ ر پرے پھینک دے.اور یہ کہے کہ میں ان کا پابند نہیں ہوں، میں اللہ کا عاشق ہوں اور میں اپنے اس عشق کے مطابق دنیا میں کام کروں گا.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جو مضمون بیان کیا ہے، وہ لمبا ہے.میں اس کے بعض پہلولوں گا.اس میں یہ فرمایا ہے کہ جو قوم اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے، اسے بھی یاد دہانی کرانی پڑتی ہے اور اس میں کمزور بھی ہوتے ہیں، ان کو جھنجوڑنا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے ایمان کا دعویٰ کیا ہے لیکن جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے اپنے گھروں اور اپنے وطنوں سے نکلو اثَاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ تمہاری طبیعت یا تم میں سے بعض جو ہیں، وہ الارض کی طرف، جس کے معنی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے وطن بھی کئے ہیں، یعنی وطن کی محبت آڑے آتی ہے.وہ کہتے ہیں، ہم اپنے وطن کو کیسے چھوڑیں؟ اور وطن کی محبت میں ہی گھر کی، خاندان کی بیوی بچے کی محبت شامل ہے.کیونکہ انہیں محبتوں کا مجموعہ وطن کہلاتا ہے.وطن کی محبت کوئی علیحدہ چیز تو نہیں ہے.کسی کو بیوی بچوں کی فکر ہوتی ہے، کسی کو مال و دولت کی فکر ہوتی ہے، کسی کو کچھ اور کسی کو کچھ.ان کے اندر فکر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کیفیت نہیں رہتی ، جس کے نتیجہ میں انسان کے لئے روحانی رفعتوں کی طرف پرواز کرنا ممکن ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سے ہم نے جو وعدہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ دین اور دنیا کی حسنات تمہیں ملیں گی.اگر تم ہمارے قول کے مطابق، ہماری ہدایت کے مطابق، ہمارے حکم کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارو گے، وہ حسنات دارین کا وارث کرے گا.اور تم صرف ایک بہتری کے پیچھے پڑ جاتے ہو، اس دنیا کی.جو مجموعی طور پر جو تم سے سے وعدہ کیا گیا ہے، اس کا کروڑواں، اربواں، کھر بواں حصہ بھی نہیں.کیونکہ اخروی زندگی جو ہے، وہ نہ ختم ہونے والی ہے.اور اس کی نعمتیں اگر دنیا کی فرض کر لو نعمتوں کا 1/4 بھی ہوں تو اسی سال کی زندگی میں جو عمتیں 613

Page 631

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس دنیا کی ملیں 240 سال میں اس دنیا میں وہ نعمتیں مل جائیں گی.اور پھر بعد میں بے شمار زمانہ پڑا ہے، نعمتوں کے حصول کا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اخروی نعماء کے مقابلہ میں اس دنیا کی نعمتیں اور آرام اور آسائش اور عیش وعشرت جو ہے، وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا، نہ ہونے کے برابر ہے.لیکن تم اس حقیقت کو بھول جاتے ہو.اور خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، ان قربانیوں کے دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہو، جن کا تم سے مطالبہ کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ہماری آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور مدد کے لئے آگے نہیں بڑھو گے تو اس دنیا کی خاطر تم ایسا کر رہے ہو گے اور ہم اس دنیا میں تمہیں عذاب دیں گے.جس چیز کی تمہیں تلاش ہے، وہ تمہیں اس دنیا میں نہیں ملے گی.إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبُكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا تمہیں اللہ تعالی ایک دردناک عذاب پہنچائے گا.اور دوسری متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کا عذاب اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی ظاہر ہوتا ہے.لیکن یہ سمجھنا کہ تم اگر بے وفائی کرو گے اور نفاق کی راہوں کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا منشاء پورا نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ کی تقدیر جو ہے، اس کے راستے میں روک پیدا ہو جائے گی، ایسا ہر گز نہیں ہوگا.وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ اللہ تعالیٰ تو قادر ہے کہ وہ تمہیں مٹادے گا اور ایک اور قوم لے آئے گا.وہ قوم تمہاری طرح ایمان کی کمزور اور دل کی منافق نہیں ہوگی.وہ عاشق ہوگی اپنے رب کی اور پیار کرنے والی ہوگی اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے.وہ قربانیاں دے گی بشاشت کے ساتھ ، جن کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا.اور پھر وہ اس دنیا کی حسنات کے بھی وارث ہوں گے اور اس کی بھی حسنات کے وارث ہوں گے.لَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ط تم نے کیسے سوچ لیا کہ اللہ تعالیٰ ایک تقدیر اس دنیا میں جاری کرنا چاہے اور تم اس کے رستے میں روک بنو؟ تم روک نہیں بن سکتے ، اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.کیونکہ اللہ تعالیٰ جس چیز کو چاہتا ہے، کر گذرتا ہے.ہر چیز پر قادر ہے وہ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری یہ مد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے خلفاء کو حاصل ہوتی رہے گی.یہاں پر دو کا ذکر ہے.( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے خلفاء کا ظاہری طور پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں لیکن معنوی طور پر آپ کا خلیفہ ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس غار میں اور اس سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھی کسی دوسرے مخلص کو نہیں بنایا بلکہ 614

Page 632

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 جولائی 1970ء اس کو بنایا ، جس نے پہلی خلافت کی کرسی کے اوپر متمکن ہونا تھا.اور اس طرح ہمیں یہ بتایا کہ اللہ تعالی کی مد داس کے رسول اور اس کے خلیفہ کو پہنچتی ہے.اور خلیفہ وقت کو کہا کہ تم جماعت کی طرف نہ دیکھنا کہ اگرتم اکیلے رہ گئے.جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ، خلافت راشدہ میں ہر خلیفہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ہیں.ثانی اثنین.کیونکہ آپ کے بغیر آپ سے بعد میں، آپ سے دوری میں ، آپ سے قطع تعلق کر کے خلافت راشدہ نہیں رہی.ثانی اثنین میں جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوال ہے، خلافت راشدہ میں آپ ساتھ ہیں.اور جو دوسرے ہیں، وہ معنوی لحاظ سے آپ کے ساتھ ہیں.اسی واسطے قرآن کریم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کہا ، نام نہیں لیا بلکہ کہا ایک ساتھی کے ساتھ.دو میں دوسرا تھا.ظاہری جسم کے لحاظ سے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور مقام کے لحاظ سے پہلے خلیفہ تھے امت مسلمہ کے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم مدد کر دیا نہ کرو.میری مدد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلیفہ کے ساتھ رہے گی.اور اگر تم مدد نہیں کرو گے تو آسمان سے ایسی فوجیں اتریں گی، جو کمزوری ایمان کے نتیجہ میں تمہیں نظر نہیں آئیں گی اور وہ مدد کر رہی ہوں گی.جب ایسی فوجیں بہت سے موقعوں پر اتریں تو جن کے ایمان مضبوط تھے، ان کو نظر آ رہی تھیں وہ فوجیں.بڑی کثرت سے صحابہ نے ان فوجوں کے متعلق باتیں کیں کہ ہم نے یوں دیکھا، ہم نے یوں دیکھا.ڈرانے کے لئے استثنائی طور پر کافروں کو بھی بعض چیزیں اللہ تعالیٰ نے دکھا دیں.لیکن مومنوں کے دلوں کو مضبوط کرنے اور ان کو اور بھی ہشاش بشاش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ نظارے دکھائے ، ایمان کی پختگی کے نتیجہ میں.لیکن جو کمزور ایمان والا یا منافق ہے اور وہ جس کے دل کے اندرا بھی تک ایمان داخل نہیں ہوا ، اس کو یہ آسمانی فوج نظر نہیں آتی.لیکن وعدہ ہے اور یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے.اب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے افریقہ میں جو کارنامہ کیا اپنی خلافت میں اور ہم نے وہاں دیکھا.اگر ہم ان مبلغین کی طرف دیکھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وہاں خلوص کے ساتھ ایثار اور قربانی کی توفیق عطا کی تو وہ نتیجہ نہیں نکل سکتا، جو میں نظر آیا.اس سے ہزارواں حصہ شاید کم نکلتا، اگر عمل اور اس کے نتیجہ پر نگاہ کی جائے.لیکن عمل ایک اور نتیجہ ایک ہزار.اس کا مطلب یہ ہوا کہ نوسو، نانوے نتیجہ پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فوجوں کو نازل کیا.اور وہ نتائج ہمیں بتاتے ہیں کہ آسمان سے ملائکہ کا نزول ہوا.اور انہوں نے اس وعدہ کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا تھا، غلبہ اسلام کے سامان پیدا کئے.اس وقت اللہ تعالیٰ خلافت ثالثہ کے ذریعہ دلائل کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ غلبہ اسلام کے 615

Page 633

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 31 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرتا جاتا ہے اور کرتا چلا جائے گا.جب تک کہ وہ آخری غلبہ اسلام کو حاصل نہیں ہو جائے گا، جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے ہیں.اور تمام بنی نوع انسان جب تک اسلام میں داخل ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فدائی نہ بن جائیں.اس غلبہ کے حصول کے لئے جس جہاد کی ضرورت ہے، وہ تلوار کا جہاد نہیں.کیونکہ اسلام کے خلاف تلوار میان سے نہیں نکالی گئی.نہ مذہب کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم استعمال کیا جاتا ہے.دشمن قوم کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم تو استعمال کیا جاتا ہے.اور ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ اس کی ہلاکت کا جسموں پر اثر ہے.لیکن مذہب کے مقابلہ میں ایٹم بم نہ استعمال کیا جاتا ہے، نہ استعمال کیا جاسکتا ہے.کیونکہ جیسا کہ میں نے یورپ کو کہا، آپ کو بھی بتایا کہ ساری دُنیا کے ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم مل کر بھی ایک دل میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.لاکھوں، کروڑوں کو تباہ کر سکتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں.لیکن ایک دل میں وہ تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.دل میں تبدیلی پیدا کرنا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا کرتا ہے.وہ فضل اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ شامل کر دیا ہے.ہم اس کی حمد کرتے ہیں اور ہم حد کر نہیں کر سکتے.ہم عاجز بندے ہیں.اتنا انعام ہم پر وہ کر رہا ہے.بہر حال جو غلبہ اسلام کے سامان پیدا ہور ہے ہیں.اور جس طرح ایک وقت میں جب مضبوط ہو گئی عرب کی قوم ، عرب میں جو مسلمان تھے ، ان کو طاقت ہوئی، ارتداد کا فتنہ اٹھا، وہ فتنہ دبا دیا گیا اور پھر عرب اسلام کے جھنڈے تلے متحد ہو گیا.تب اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا کہ اس وقت کی جو معلوم دنیا تھی ، اس پر غالب آیا.چھیڑ چھاڑ شروع کی ایرانیوں نے بھی اور رومیوں نے بھی اور مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کرنا پڑا.ان حالات کے لحاظ سے جو نہایت اعلیٰ تلواریں یعنی ایرانیوں اور رومیوں کے پاس وہ کند تلواریں اور گندے لوہے کی تلوار میں اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے کہا، نکالو! کیونکہ تلوار کے لوہے نے فیصلہ نہیں کرنا، میرے حکم نے فیصلہ کرنا ہے.آدمی تاریخ پڑھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے.خالد بن ولید تھے بڑے مخلص، بڑے سمجھدار اور قرآن کریم کے رموزو اسرار سے واقف، کیونکہ اگر ان کی تقریریں پڑھیں تو آدمی ان سے یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ وہ نڈر فدائی تھے.اور بعض دفعہ ایک ایک جنگ میں نو ، نو تلوار میں ان کے ہاتھ سے ٹوٹ جاتی تھیں.یہ اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے کہ سپاہی لڑ رہا ہو، اس کے سامنے دشمن ہو اور تلوار ٹوٹ جائے اور پھر بھی اس کی جان کی حفاظت ہو تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ ان کی حفاظت کرتا تھا.لیکن اس سے پتہ لگتا تھا کہ ان کی تلواریں ان کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں.نو نو تلواریں ایک دن میں ایک معرکہ میں شاید ایک گھنٹہ کے اندراندر 616

Page 634

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 31 جولائی 1970ء ٹوٹ جاتی تھیں.کیا کرتے ، بیچارے جو ان کے پاس تھا، وہ اپنے رب کے حضور پیش کر دیتے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرتا تھا.آسمان سے ان پر فرشتے نازل ہوتے تھے.پھر رومیوں کے ساتھ ان کمزور فدائیوں کو لڑنا پڑا.ڈیڑھ، ڈیڑھ لاکھ اور دو، دولاکھ فوج کے مقابلہ میں ہیں ، ہمیں ، پینتیس ہزار بعض دفعہ پانچ ہزار بعض دفعہ دس ہزار کی فوج جاتی تھی اور اللہ تعالیٰ ان کو فتح دیتا تھا اور کثرت کا خیال نہیں رکھتا تھا.کیونکہ جو سبق دیا گیا تھا، ان آیات میں جس کا ذکر ہے، وہ تو یہ ہے کہ اگر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلیفہ جیسی حیثیت رکھیں گے، اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ساری دنیا پر غالب ہوں گے.وہ مقابلہ تو دو کا تھا ، ساری مخالف دنیا کے ساتھ.جس میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب کیا.اس وقت کچھ مراکز بنے ، ساری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لئے.ایک تو ایران کا ملک تھا ، جس کے ماتحت عراق بھی تھا.عراق کے ورلے حصے، جو عرب سے ملتے تھے ، وہ Base (ہیں) بنی.وہ ایک Camp (کیمپ) بنا.ان حصوں کی طرف فاتحانہ یلغار کا اور دوسری طرف شام بنا.میں سوچتا ہوں اور طبیعت پر یہ اثر ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طبیعت پر بھی یہی اثر تھا کہ ایک Base (ہیں) ہماری افریقہ ہے.اور اس وقت ہماری حالت دنیوی مماثلت کے لحاظ سے وہ ہے، جو عراق کے ورلے علاقہ میں مسلمان فوجوں کی تھی.جس وقت وہ عرب سے باہر نکلے اور انہوں نے آزادی ضمیر کی خاطر ایران جیسی زبر دست سلطنت سے ٹکر لی.وہ حالت ابھی نہیں آئی، کچھ بدل گئے ہیں.روم کی حالت ہے کیونکہ روم میں کسری سے لڑائی ہوئی.ہماری پہلی لڑائی ایسا معلوم ہوتا ہے، عیسائی مذہب سے ہوگی.جس طرح رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی ہوئی.ویسے تاریخ کے لحاظ سے وہ دوسری لڑائی ہے، مسلمانوں سے.اس زمانہ میں اور ہماری دوسری لڑائی دہریوں سے ہوگی.جیسا کہ ایران میں مسلمانوں کی لڑائیاں ہوئیں.کیونکہ وہاں آتش پرست تھے.خدائے واحد و یگانہ کو ماننے والے نہ تھے.رومی جو تھے ، وہ تثلیث کے بھی قائل تھے.بیچ میں یونیٹیرین بھی تھے.بہر حال وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نازل شدہ شریعت اور ہدایت کے ماننے والے تھے.یعنی شریعت ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دی تھی اور ہدایت ان کو حضرت عیسی علیہ السلام نے دی تھی.اس وقت جو ابتدائی ہماری جنگ غلبہ اسلام کے سلسلہ میں ہے ، وہ ہم نے افریقہ میں لڑنی ہے.اور افریقہ میں مغربی افریقہ ہمارے لئے Camp ( کیمپ) اور Base (بیس) بنے گا اور بن رہا ہے.اس جنگ کے لئے میں نے مالی اور جانی جہاد کی ندادی ہے.آپ کو اس کی طرف بلایا ہے.اور میں خوش ہوں 617

Page 635

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اور اللہ تعالیٰ کا بڑا افضل دیکھتا ہوں کہ جماعت کی بڑی بھاری اکثریت نے انتہائی فدائیت اور جاں نثاری کا ثبوت دیا ہے، جانی میدان میں بھی اور مالی میدان میں بھی.ایک مہینہ نہیں گزرا، ابھی پہلے سترہ دن میں تو سترہ لاکھ روپیہ (نصرت جہاں ریز روفنڈ ) میں ہو گیا تھا.اور جتنے ٹیچر چاہئے تھے، ان سے زیادہ ہمارے پاس آگئے ہیں.اور ڈاکٹروں کی کچھ کمی تھی ، وہ پوری ہو گئی.اور مالی لحاظ سے بھی، ٹیچر بھی اور دوسرے بھی.لیکن جس قسم کی مذہبی جنگ جو دلائل اور آسمانی نشانوں کے ساتھ لڑنی اور جیتی ہے، اللہ کے فضل سے اس کی توفیق سے، اس کے لئے پتہ نہیں کل کو کتنے آدمیوں کی ضرورت ہوگی ؟ ڈاکٹروں کی ضرورت ہوگی، ٹیچر اور مبلغین کی بھی.اور یہ تو یقینی بات ہے، جس قسم کے اس وقت ہمارے پاس ہیں ، ان سے زیادہ مخلص فدائی اور جنونی آدمی ہمیں چاہئیں.ہمارا نظام رٹ کے اندر جس کو کہتے ہیں ، رستہ بنایا ہوا ہے، پہیہ اس میں پڑ گیا ہے.حالانکہ ہمارا ماحول اور ہماری ضرورت اور ہمارے مخالف کا جو طریق جنگ ہے، ہمیں اس رٹ سے پہیہ اس نشان سے باہر نکالنا ہے.اور ہم نے دفاع نہیں کرنا کیونکہ دفاع کا وقت گزرگیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود میں ہزار سے زیادہ اعتراض عیسائیوں کے اکٹھے کئے اور ان کا جواب دیا.اب عیسائی جو ہے، وہ اپنا دفاع کر رہا ہے اور ہم اس کے اوپر حملہ آور ہیں.اور اس حملہ میں ہماری وہ فراست ہونی چاہئیے ، جو دوسری جنگ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ میدان جنگ میں دکھایا کرتے تھے.اس قسم کی فدائیت چاہئے.آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ بعض دفعہ ایسی جھڑ ہیں ہوئیں کہ مسلمان چار ہزار اور دشمن سولہ ہزار اور بہر حال ان کو زیادہ قربانی اس لحاظ سے بھی دینی پڑتی تھی کہ ان کی تو با ہیں شل ہو جاتی تھیں.وہ دشمن چار ہزار پیچھے ہٹا لیتے تھے اور تازہ دم چار ہزار لڑنے کے لئے آگے بھیج دیتے تھے.تو چاروں ٹکڑیوں کے ساتھ ایک ٹکڑی کوٹڑ نا پڑتا تھا کیونکہ وہ ان سے چار گنے زیادہ تھے.اس کے باوجود تاریخ لکھتی ہے کہ قریباً ساری رات وہ قرآن کریم کی تلاوت اور نوافل میں گزارتے تھے اور صبح کے وقت میدان جنگ میں چلے جاتے تھے.تو ان کی قوت اور طاقت کا منبع اور سر چشمہ نیند اور آرام یا کھانا نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش تھی.اس طرف ہمارے بہت سے مبلغ ہیں، جو توجہ دے رہے ہیں.لیکن ایسے بھی ہیں، جو توجہ نہیں دے رہے.اگر تم نے اپنے جسم اور روح کی طاقت اللہ تعالیٰ سے حاصل نہ کی تو تمام ادیان کے مقابلہ میں جو جنگ تم لڑ رہے ہو، اس کی طاقت تم کیسے پاؤ گے ؟ تم لڑہی نہیں سکتے.تمہارے جسم تمہارے ذہن، تمہارے حافظے اور تمہاری ذہنی اور روحانی قو تیں جو ہیں، وہ اتنی کمزور ہوں گی (اس منبع سے کٹ کر ) کہ تم غالب نہیں آسکتے ، اپنے مخالف پر تم 618

Page 636

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 جولائی 1970ء ناکارہ سپاہی تو کہلا سکتے ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس فوج کا، جو آج ساری دنیا سے برسر پیکار ہے، روحانی اور علمی لحاظ سے.لیکن تمہیں کار آمد وجود اس فوج کا نہیں کہہ سکتے تمہیں اپنا تعلق اپنے پیدا کرنے والے رب سے مضبوط کرنا پڑے گا اور اپنی ساری طاقت اس سے حاصل کرنی پڑے گی.اور اپنے نفس کو مارنا پڑے گا اور ایک نئی زندگی اس سے پانی پڑے گی ، جب تم جا کر اس میدان میں فتح حاصل کر سکتے ہو.ورنہ نہیں کر سکتے.تو ہمارے جو مبلغ ہیں اور رضا کار ہیں، ان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.ورنہ ان کا وجود ایک ناکارہ وجود ہے، بے ثمر وجود ہے، جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اور نہ ہی نکل رہا ہے.ایسے جو ہیں.لیکن اگر اللہ تعالیٰ سے ہمارا پختہ تعلق ہو اور اگر ساری طاقتوں کا منبع اور سر چشمہ ہم اس ذات کو سمجھیں اور اس کے حضور عاجزانہ جھک کر اور اپنے پر ایک موت وارد کر کے اس کو کہیں کہ اے خدا! ہمارا کچھ نہیں ، ہماری زندگی بھی نہیں ، ہم ایک مردہ لاشہ کی طرح ہیں.ہم تیرے دین کے غلبہ کے لئے اپنی خدمات کو پیش کرتے ہیں.تو ہمیں نئی زندگی اور نئی طاقت اور نئی فراست کے نور سے ہمارے سینوں کو بھر دے.اور ہم میں وہ برکت ڈال، جس برکت کا تو نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی قوت کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا.اگر اس طرح ہم اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق کو پیدا کر سکیں اور ساری طاقتیں اس کے قدموں میں پھینک کر اس سے طاقت حاصل کریں تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں.ورنہ ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.تو جو نئے آنے والے ہیں ، ان کو بھی میری یہ نصیحت ہے اور جو پرانے آئے ہوئے ہیں، ان کو بھی میں یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تمہارے اندر کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ تم عظیم جہاد میں کامیاب جرنیل ثابت ہو سکو.اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا اور دنیا میں اپنے مقصود کو پانا ہے اور اگر تم چاہتے ہو کہ واقع میں اسلام دنیا میں غالب آجائے تو اپنے اوپر ایک موت وارد کر کے اپنے رب سے ایک نئی زندگی پاؤ.تب تم واقع میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی جنت کو بھی پاؤ گے اور دنیا میں آنے والی نسلیں تمہیں عزت اور احترام کے ساتھ یاد کریں گی.ورنہ جس طرح دنیا ابی ابن سلول کو نہیں بھولی تم میں سے بعض کو نہیں بھولے گی.خواہ وہ اپنے زعم میں خود کو کتنا ہی قابل عزت اور قابل احترام بھی نہ سمجھتا ہو.اس طرح تمہیں بھی یادر کھے گی.لیکن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرح، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرح، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرح تمہیں یاد نہیں رکھے گی.اس سے بڑھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی 619

Page 637

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 31 جولائی 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم طرح جس طرح ان بزرگ فدائیوں کو جو ثانی اثنین تھا، ہر ایک کو انہوں نے یادرکھا ، اس طرح تمہیں یاد نہ رکھے گی.لیکن اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا ہو کر اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے قدموں میں ڈال دو تو خدا تعالیٰ کی رحمت آسمانوں سے تم پر نازل ہوگی اور وہ فوجیں اتریں گی، جنہیں تم تو دیکھو گے لیکن دنیا نہیں دیکھ رہی ہوگی.نہ کمزور ایمان اور منافق انہیں دیکھ رہا ہوگا.نتائج ظاہر کر رہے ہوں گے کہ ایک انقلاب عظیم آیا ہے، اس کے پیچھے کوئی ہاتھ ہونا چاہئے.لیکن وہ ہاتھ نظر نہیں آ رہا ہوگا.کیونکہ وہ غیر مرئی ہاتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا ہوگا.جسے یہ انسان اور اس کی آنکھ نہیں دیکھا کرتی.اور جو مالی مطالبہ ہے، میں سمجھتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ اسے اتنے لاکھ ہو جانا چاہئے ، جو خلافت احمدیہ کے سال ہیں.یعنی اس وقت تک دو خلافتیں اور کچھ سال پتہ نہیں کب تک میں نے زندہ رہنا ہے، لیکن اس وقت تک جو زندگی اللہ تعالیٰ مجھے دے چکا ہے، اس کو پہلی دو خلافتوں کے سالوں ، میں شامل کر کے جتنے سال بنتے ہیں ، تقریباً 62 سال، اتنے لاکھ (چندہ نصرت جہاں ریز روفنڈ کا ) ہونا چاہئے.اور جانی قربانی اتنی کثرت سے اور اس قدر ایثار سے ہونی چاہئے کہ اگلے پانچ سال، پچھلے ساٹھ سالہ ظاہری ترقی کے مقابلہ میں زیادہ ہوں.یعنی اگلے پانچ سال میں اتنی Base ( میں ) کو اپنے حملہ کے لئے ، جو تیاری ہو یعنی آخری کامیاب حملہ کی جو تیاری ہو، اس کے لئے اس قدر تیار کر لیں کہ آہستہ آہستہ بتدریج اللہ تعالیٰ نے جو ترقی دی تھی، اگلے پانچ یا دس سال میں ہم اس سے آگے نکل جائیں.یہ ضروری ہے، کامیابی آئے محض ترقی ضروری نہیں.محض اپنی رفتار کو قائم رکھنا، یہ کافی نہیں.بلکہ ہر دوسرا قدم پہلے سے آگے بڑھنا چاہئے اور اس کو انگریزی میں Momentum کہتے ہیں.یعنی ہر سال کوشش اور اس کا نتیجہ پہلے سال سے دگنا ہونا چاہئے.تب ہم جا کر اگلے دس سال میں اسی چیز کو حاصل کر سکتے ہیں، جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں.اور جس کے حصول کو اللہ تعالٰی نے بالکل ممکن بنا دیا ہے.جو میں وہاں دیکھ کر آیا ہوں.آدمی کثرت سے آئیں مخلص آئیں ، ایسے آئیں کہ جو فدائی ہوں، بے نفس ہوں ، مردہ ہوں ، دنیا کی نگاہ میں اور اللہ تعالیٰ سے زندگی کو حاصل کرنے والے ہوں.خدا کرے ایسا ہو.خدا کرے کہ ہماری آج کی جو ذمہ داری ہے، اس کو ہم نبھا سکیں.آج ہم انتہائی طور پر نازک دور میں سے اس معنی میں گزر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری عظیم کامیابیوں کے لئے دنیا کی فضا کو ہمارے لئے بہتر بنا دیا ہے.اور اس تبدیلی کا جو امکان ہے، اس تبدیلی کو عملی شکل دینا، یہ ہمارے سپر د کر دیا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے قریباً پھل تیار کر کے اس طرح جس طرح دس فٹ کے اوپر اس 620

Page 638

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 جولائی 1970ء درخت کا پھل پک جائے، جو خود بخود نہیں گرا کرتا، یعنی ٹپکا نہیں ہوتا.بعض ایسے درخت ہوتے ہیں، جس کا پھل پکا نہیں ہوتا ، آم تو ٹپک پڑتا ہے.بعض پھل پکنے کے بعد بھی درخت کے ساتھ لگے رہتے ہیں.تو جو دس فٹ اوپر پھل ہے اور پک جاتا ہے، اس کو توڑنا انسان کا کام ہے.پھل پک چکا ہے لیکن گرے گا نہیں.جس طرح میں نے افریقنوں کو کہا تھا، ایک مضمون کے سلسلہ میں آپ کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کی کامیابی کے جو مختلف دور ہیں اور جن مدارج میں سے ہم نے گزرنا ہے.سیڑھی یہ سیڑھی چڑھ کر بہت عظیم انقلاب ہمارے سامنے ہے.مقدر ہو چکا ہے.لیکن اس Destiny ( ڈسٹی ) اس تقدیر کا پھل ہم نے توڑنا ہے.ہماری گود میں نہیں گرے گا.پھل تیار ہے.رفعتوں کو آپ حاصل کریں اور پھل کو پالیں.اثَاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ خدانخواستہ ہماری ذہنیت ہو تو جو بلندیوں میں پھل تمہارا انتظار کر رہا ہے، زمین پر گر جانا یاز مین کے ہو جانے سے وہ پھل تمہیں نہیں مل سکتا.ایسا نہ کبھی ہوا، نہ ہو سکتا ہے اور نہ بھی ہوگا.تو جو چیز تمہارے لئے مقدر ہو چکی ہے، اس کے حصول کے لئے انتہائی کوششیں کرو.اور اللہ کے انتہائی فضلوں کو حاصل کرو.خدا آپ کو بھی اور مجھے بھی اس کی توفیق عطا کرے“.( اللهم امین) از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 621

Page 639

Page 640

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 21 اگست 1970ء ابتلاء آئیں گے، جب تک کہ وہ آخری وعدہ پورا نہ ہو، جو ہمیں افق پر نظر آ رہا ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 21 اگست 1970ء ہمارے لئے ابتلاء مقدر ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا امتحان لینا ہے.لیکن ہم میں سے جو پاس ہو جائے، جنہیں اللہ تعالیٰ یہ سمجھے کہ یہ امتحان میں پورے اترے ہیں اور خدا کرے کہ ہم سارے ہی اس امتحان میں پورے اتریں، ان کے لئے جو بشارتیں دی گئی ہیں، ان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں جو محبت کا پیغام دیا گیا ہے، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے، اس اجتماعی حیات احمدیت سے اللہ تعالیٰ جو پیار کر رہا ہے، جو اجتماعی معجزے دکھا رہا ہے، جو دنیا کے دلوں میں ایک انقلاب عظیم پیدا کر رہا ہے، دنیا کے دل میں جو یہ ایک احساس پیدا کر رہا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ علیہ وسلم کی شان اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہمیں احمدیت کی وجہ سے پتہ لگا ہے، اس واسطے ایک طرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا سمندر ان کے دلوں میں موجزن ہوا تو دوسری طرف وہ ہمارے ساتھ پیار کرنے لگ گئے.کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا کہ کتنا بڑا احسان ہے، اس چھوٹی سی غریب جماعت کا کہ وطنوں سے بے وطن ہو کر اور اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ کر انہوں نے ہماری خاطر یہ قربانی دی کہ ہمیں آج وہ حسین چہرہ ، جس سے بڑھ کر کوئی حسن نہیں.وہ حسین چہرہ ، جو خود منبع اور سرچشمہ ہے، تمام حسنوں کا ، اس کے ساتھ متعارف کروایا، اس کی معرفت ہمیں حاصل ہوگئی ، اس لئے وہ ہم سے پیار کرتے ہیں اور ہم ان سے پیار کرتے ہیں.کیونکہ ہم دونوں ایک ہی کشتی میں ہیں یعنی نوح کی کشتی، جس کے متعلق سلامتی کا وعدہ ہے.پس ابتلاء تو آئیں گے، لوگ کافر کہنے سے باز نہیں آئیں گے، جب تک کہ وہ آخری وعدہ پورا نہ ہو جائے ، جو ہمیں افق پر نظر آ رہا ہے اور عنقریب پورا ہونے والا ہے.ہیں، تمہیں یا پچاس سال دنیا کی زندگی میں یہ کوئی زمانہ نہیں.لیکن یہ کوئی لمبا عرصہ نہیں ہے.اب میری تو رائے یہ ہے کہ شاید اس کے آثار ہیں اور تمیں سال کے اندر شروع ہو جائیں گے.گو اس کا کلا نمک ممکن ہے، صدی کے اندر کسی وقت ہو.لیکن نمایاں طور پر ایک بات سامنے آجائے گی کہ احمدیت جیت چکی ہے اور اس کی مخالفت نا کام ہو چکی 623

Page 641

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 21 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہے.بہر حال غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے.ہم تو جو سمجھتے ہیں، وہ نیک نیتی سے بیان کر دیتے ہیں.تا کہ آپ بھی دعا کریں اور سارے مل کر یہ دعا کریں کہ جو ہمارے اندازے ہیں، وہی صحیح نکلیں ، جلد تر ساری دنیا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آکر جمع ہو جائے اور اپنے رب کے حضور اسلام ( لفظ اسلام اور معنی اسلام) جوقربانی چاہتا ہے ، اس کو ہمیں پیش کرنا چاہئے.ہماری یہ دعا اور یہ تمنا ہے.غرض کسی سے بگاڑ نہیں ، نہ کسی سے نفرت اور دشمنی ہے.اپنے آپ کو ہم کچھ سمجھتے نہیں.نہ کبر ، نہ غرور، نہ بڑائی اور نہ فخر ہے.لاشے محض خود کو سمجھتے ہیں.اور سوائے اللہ کے ہر دوسری ہستی کو لاشے محض سمجھتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی بشارتوں پر پورا یقین رکھتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے وعدے ہمیں تسلی اور تسکین دلاتے ہیں کہ آخر اسلام اور احمدیت کا غلبہ ہوگا.خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے سلامتی کا سامان پیدا کیا ہے.آگیں ہمارے لئے جلائی جائیں گی مگر ہمیں بھسم کرنے اور راکھ کرنے کے لئے نہیں.بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے معجزانہ ہاتھ دکھا کر دنیا پر یہ ثابت کرے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کو نا کام نہیں کر سکتی ، دنیا کی کوئی آگ انہیں جلا نہیں سکتی ، دنیا کا کوئی منصو بہ انہیں منتشر نہیں کر سکتا.وو پس یہ کمزوریاں تھنگنگ (Thinking) کی فکر و تدبر کی، یہ بھی چھوڑو، جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، صرف وہی ہوتا ہے.اور آج اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ اسلام اور احمدیت غالب آئے.اور انشاء اللہ اسلام اور احمد بیت غالب آئے گی.میں جب بھی سوچتا ہوں، مجھے مخالفین کے منصوبوں سے کبھی فکر پیدا نہیں ہوئی.میں ایک لحظہ کے لئے بھی پریشان نہیں ہوا.لیکن جو چیز مجھے پریشان کر دیتی ہے اور بعض دفعہ میری راتوں کی نیند حرام کر دیتی ہے، وہ جماعت کی اپنی کمزوری ہے.آپ یا درکھیں کہ آپ کا بیرونی دشمن آپ کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا.البتہ آپ کے دل کا چور آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے.آپ کے دل کا نفاق آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے.آپ میں دلی طور پر کمزور ایمان والا آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے.لیکن بیرونی مخالفت آپ کوکوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.اس کی فکر کرنی چاہئے.پس آپ اپنی تربیت کی فکر کریں اور ان لوگوں کے لئے دعائیں کریں.کسی پر غصہ نہ کریں، کسی سے تمسخر نہ کریں، اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھیں.اپنے دل میں ان لوگوں کے لئے ”بخع“ کی کیفیت پیدا کریں.ان سے نفرت کی بجائے پیار پیدا کریں، بددعا کرنے کی بجائے ان لوگوں کو دعائیں دیں.اللہ تعالی ایک دن یہ دعائیں قبول کرے گا.یہ اس کا وعدہ ہے.پھر ہمارے مونہوں سے بھی انشاء اللہ وہ یہ 624

Page 642

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 21 اگست 1970ء کہلوائے گا.لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ تمہیں نور نظر آ گیا، اس لئے آج تمہارے ساتھ سارے جھگڑے ختم ہو گئے.ہم کسی انسان کے دشمن نہیں.لیکن اس دنیا میں ظلمت کو ہم برداشت نہیں کر سکتے.اور نہ ہی یہ اس دنیا میں رہے گی.اسی کے لئے ہماری زندگی اور اسی کے لئے ہماری موت ہے.بالآخر میں حضرت مسیح موعود رو علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اقتباس کو پڑھ کر اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں، آپ فرماتے ہیں:.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو، جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی.اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.(اس کا ایک نظارہ تو ہم دیکھ کر آئے ہیں.دنیا کے ملک ملک میں اس درخت کی شاخیں ہیں، جن کے اوپر احمدیت کے پرندے اور اللہ تعالیٰ کی جنت کے پرندے بسیرا کر رہے ہیں.) پس مبارک وہ، جوخدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے.کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے.تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے؟ وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا، وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا.اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی.اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا.مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قو میں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی ، وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.انشاء اللہ تعالی.( الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 309) پس تم یہ دعا کرتے رہوکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس گروہ میں شامل کرے، جن کے پاؤں میں کبھی لغزش نہیں آتی ، جو پختگی کے ساتھ اور ثبات قدم کے ساتھ اس بزرگ شاہراہ پر قدم بقدم اپنی منزل مقصود کی طرف چل رہے ہیں اور ہر قدم پہلے سے زیادہ تیز اور ہر صبح پہلے سے زیادہ شاندار اور ہر طلوع آفتاب احمدی قوم کو پہلے دن کے طلوع کے وقت ان پر جو نظر اس کی پڑی تھی، اس سے زیادہ طاقتور اور اس سے زیادہ باعزت اور اس سے زیادہ بارعب اور اس سے زیادہ پیار کرنے والے دیکھتا ہے.خدا کرے کہ ہر 625

Page 643

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 21 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سورج پہلے سے زیادہ طاقتور اور زیادہ معزز اور اللہ کی نگاہ میں زیادہ کامیابی کے قریب احمدیت کو دیکھتا چلا جائے.یہاں تک کہ تمام دنیا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے اور قرآن کریم کی وہ پیشگوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ الہام پورا ہو کہ اقوام عالم ایک برادری بن جائیں گی اور ان تمام کا ایک ہی مذہب ہوگا ، اسلام اور ایک ہی کتاب ، قرآن اور ایک ہی پیشوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 626

Page 644

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 28 اگست 1970ء احمدیت کو غالب کرنے کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1970ء تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ (البقرة:4) اپنے ایمانوں کو پختہ کرو.ایمانوں کو پختہ کرو کہ اس کے بغیر تم اور میں ان بشارتوں کے وارث کبھی نہیں بن سکتے ، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں دی ہیں.اس موضوع پر میں پہلے بھی 2 یا 3 خطبات میں ایمان کے مختلف پہلو بیان کر چکا ہوں.میں نے بتایا تھا کہ ایمان کا لفظ قران کریم میں دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے.ایک تو اس معنی میں کہ لفظ ایمان استعمال کیا جاتا ہے اور یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس چیز پر ایمان؟ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایمان کے جس قدر تقاضے قرآن کریم میں اور ان کی جس قدر تفاسیر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان کی ہیں، ان تمام تقاضوں کو پورا کرو.قرآن کریم نے ایمان کے ساتھ ان تقاضوں کا بھی ذکر فرمایا ہے.مثلا قرآن کریم فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ.قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ کے رسل پر ایمان لاؤ.قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو پہلی کتب بھجوائی جاچکی ہیں، ان پر ایمان لاؤ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کامل کتاب قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی ہے، اس پر ایمان لاؤ.بعض جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یوم آخرت پر ایمان لاؤ، آخرت پر ایمان لاؤ ، غیب پر ایمان لاؤ.غرض بہت سی جگہوں پر ایمان کے تقاضوں کو ساتھ ہی بیان کر دیا گیا ہے.اور بعض جگہ صرف ایمان یا اس کے مشتقات میں سے کوئی مشتق استعمال ہوتا ہے.اور مراد یہ ہوتی ہے کہ تمام تقاضوں کو پورا کرو.مثلاً اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے.أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ (ال عمران: 140) 627

Page 645

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کوئی طاقت تم پر غالب نہیں آسکتی.تم ہی دنیا کی سب طاقتوں پر غالب آؤ گے.اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ (ال عمران : 140) اگر تم حقیقی معنی میں مومن ہو گے، ایمان کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گے.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ مؤمن بالله يا مؤمن بالغيب يا مؤمن بالرسل وغیرہ وغیرہ مختلف تقاضے ہیں.محض مؤمن کا لفظ استعمال کیا ہے.ایمان باللہ کے متعلق قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس کی معرفت پالیتا ہے، وہی حقیقی معنی میں مسلم کہلا سکتا ہے اور وہی تمام بشارتوں کا وارث بنتا ہے.اس ایمان باللہ کی دراصل آگے مختلف شاخیں ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے وجود کو اللہ کی شکل میں جن صفات کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور اپنے آپ کو جن کمیوں اور عیبوں اور نقائص اور عیوب سے منزہ ہونے کی صورت میں پیش کیا ہے، اس کو سمجھنا اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو دنیا کا پیدا کرنے والا اور دنیا کو زندگی دینے والا اور دنیا کو زندہ رکھنے والا اور دنیا کو سنبھالنے والا اور دنیا کے دکھ دور کرنے والا وغیرہ وغیرہ، نہ سمجھنا، یہ ایمان باللہ کی ساری تفاصیل ہیں.اس شکل میں ایمان لانا، یہی دراصل اسلام کی جان اور ہماری زندگیوں کی روح ہے.اس معرفت کے بغیر دراصل زندگی ، زندگی نہیں.بہر حال کچھ مختصر روشنی میں نے پچھلے خطبے میں ڈالی تھی.آج میں ایمان بالغیب کے متعلق یایوں کہو کہ میں ایمان بالغیب کے ایک پہلو کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.قرآن کریم میں بڑی تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ غیب پر ایمان لاؤ.غیب اپنے معنی کی وسعت کے لحاظ سے، اس کی application اپلیکیشن ( یعنی جہاں جہاں اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کے لحاظ سے بڑا وسیع ہے.اور نسبتی بھی ہے.فرد فرد کے لئے اور ایک عام انسان کے لئے بھی ہے.ہر انسان کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ مستقبل کا علم نہیں رکھتا.پس وہ مستقبل بنی نوع انسان کے لئے غیب ہے.یعنی جو بھی مستقبل ہے، وہ غیب ہے.ماضی کے دھند لکے بڑھتے بڑھتے بعض دفعہ اس قسم کا اندھیرا پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ چیز غیب بن جاتی ہے.مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کے حالات، ان کا زمانہ، ان کی مشکلات، ان کی تکالیف، ان کی کوششیں اور جدو جہد اور ان کی کوششوں پر جو ثواب مترتب ہوئے ، ان کی تفصیل ہے.لیکن ہمیں ان کا علم نہیں.البتہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.628

Page 646

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم كَتَبَ اللهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِى ط خطبہ جمعہ فرموده 128 اگست 1970ء (المجادلة 22) میرے رسول ہمیشہ غالب آتے ہیں.حضرت آدم علیہ السلام کو خواہ کسی قسم کی مشکلات سے واسطہ پڑا ہو، آپ غالب ضرور آئے.لیکن کیسے غالب آئے ؟ یہ ہمارے لئے غیب ہے.اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیاب کرنے کے لئے کیا سامان پیدا کئے ؟ انہیں کس طرح اپنی بعض نعمتوں اور اپنے پیار سے نوازا، اس کے متعلق تفصیل کا ہمیں علم نہیں ہے.لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام غالب آئے.کہتے ہیں، ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہوئے ہیں.اور ان میں سے چند ایک کے علاوہ باقی کے تو ہمیں نام کا بھی پتہ نہیں.البتہ ہمیں اتنا پتہ ہے کہ اِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر: 25) مگر اس کا بڑا حصہ ماضی سے تعلق رکھتا ہے.آئندہ کے متعلق کچھ کہ نہیں سکتے.یعنی دنیا میں اور جگہ بھی آبادیاں ہیں، وہاں کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے والا ہے ؟ اس کا کسی کو پتہ نہیں ہے.لیکن یہ یقینی بات ہے کہ ہر امت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ڈرانے والا مبعوث ہوا اور اس پر ہم ایمان لاتے ہیں.اور پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہی غالب ہوئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ان کے لئے غیب تھا، یعنی جو بشارتیں ان کو ملی تھیں اور ابھی پوری نہیں ہوئی تھیں یا کامل طور پر ابھی پوری نہیں ہوئی تھیں، اس کے اوپر ایمان رکھتے تھے اور جو ایمان رکھتے تھے ، وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوئے.غیب حال کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے.مثلاً امریکہ کی کیا حالت ہے؟ اس وقت روس کی کیا حالت ہے؟ آج ان کے مفکرین دنیا میں تباہی مچانے اور دنیا کی آپس کی حقارتوں کو اور بھی زیادہ شدید بنانے کے لئے کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ ہمیں کچھ پتہ نہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے.بعض کے متعلق ان کو بھی پتہ نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ یعنی انسان کی اپنی کوشش کا جو نتیجہ ہے، وہ اس کے لئے غیب ہے.اور ان اقوام کی جو کوششیں ہیں ، وہ ہمارے لئے غیب.اور ان کوششوں کا نتیجہ ان کے لئے غیب ہے.روس سوچ رہا ہے (اگر وہ اپنے دعوئی میں سچا ہے، جیسا کہ اس نے اعلان کیا تھا ) کہ میں زمین سے اللہ کے نام اور آسمان سے اس کے وجود کو مٹا دوں گا.لیکن جو غیب کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ہمیں دی ہے.وہ یہ ہے کہ میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں“.( تذکرہ ایڈیشن چہارم 691) 629

Page 647

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم وہ سوچ کچھ رہے ہوں گے، اگر وہ اپنے دعوئی میں بچے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے علم میں کوئی اور چیز ہے، وہ سمجھتے ہوں گے کہ ہماری اتنی بڑی طاقت ہے کہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں ہم شمار ہوتے ہیں، سارے منصوبے ضرور کامیاب ہوں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو مرضی سوچتے رہو، اپنی جتنی طاقت سمجھو، میرے مقابلے میں تمہاری کوئی طاقت نہیں.ہوگا وہی، جس کا میں ارادہ کروں گا.اور جو میں تمہیں غیب کے متعلق بتاتا ہوں ، وہ پورا ہوگا.تمہاری تمام کوششیں نا کام ہو جائیں گی.نہ تم آسمان سے خدا کے وجود کو مٹا سکو گے، نہ اللہ کے نیک بندوں کے دل سے اس کے نام اور پیار اور محبت اور عشق کو مٹا سکو گے.اور احمدیت کے ذریعے تمہاری قوم کے دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیں گے.اور ایک، دو کے نہیں، جیسا کہ کمیونسٹ ملکوں میں واقع ہو چکا ہے، وہاں احمد یہ جماعتیں قائم ہورہی ہیں.غرض اتنی کثرت سے جیتے جائیں گے کہ اگر تمہارے ملک کے ریت کے ذروں کو شمار نہیں کیا جا سکتا تو اسی طرح احمدی مسلمانوں کو بھی شمار نہیں کیا جاسکے گا.جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری بڑی بھاری اکثریت تمہارے دعوؤں کے ہوتے ہوئے اور تمہاری کوششوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کو پہچانے گی، اس کی معرفت حاصل کرے گی اور اس کے فضلوں کی وارث بنے گی.ہمارے لئے یہ آئندہ کے متعلق غیب ہے.اور جس طرح ہمیں یہ یقین ہے کہ اس وقت سورج | چمک رہا ہے اور دن ہے.جس طرح ماں اور باپ کو یہ یقین ہے کہ ان کے ایک، دو، تین، چار یا جتنے بھی خدا نے بچے دیئے ہیں اور زندہ ہیں، مرے ہوئے نہیں ہیں.جس طرح خاوند کو یہ یقین ہے کہ اس کی ایک بیوی بھی ہے اور جس طرح بیوی اس یقین پر قائم ہوتی ہے کہ اس کا ایک خاوند بھی ہے، ہر ایک احمدی کو اس سے بھی زیادہ یقین پر قائم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے جو غیب کے متعلق وعدے کئے ہیں، وہ انشاء اللہ ضرور پورے ہوں گے.ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے میں روک نہیں بن سکتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں صرف یہ نہیں فرمایا کہ اپنے ایمانوں کو پختہ کرو، الہی بشارتوں کے متعلق یہ یقین رکھو کہ وہ پوری ہوں گی.کیونکہ آسمان اور زمین کے خدا نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا ہے.بلکہ آپ کے دل میں الہی وعدوں پر بھی نہایت پختہ یقین تھا اور آپ اپنی جماعت میں بھی اس یقین کو پختہ کرنا چاہتے تھے.صرف یہ نہیں کہا کہ دشمن ایذاد ہی کرتا ہے، گندہ دہنی سے کام لیتا ہے، کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے، ہلاکت کے منصوبے بناتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوگا.بلکہ مخالف کو مخاطب کر کے یہ بھی کہا کہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ مرے خلاف زور لگاؤ اور اتناز در لگاؤ کہ اس سے زیادہ تمہاری 630

Page 648

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 128 اگست 1970ء طاقت میں نہ ہو.اور پھر دیکھو کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ نتیجہ وہی نکلے گا، جو میرے خدا نے مجھے بتایا ہے.وہ نتیجہ نہیں نکلے گا، جو تمہارے منصوبے، تمہارے دل میں خواہش پیدا کریں گے.پس غیب کا تعلق مستقبل سے بھی ہے اور اس وقت اسی کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.مستقبل کے متعلق جو غیب ہے، وہ پھر ہزاروں شاخوں میں آگے بٹاہوا اور تقسیم ہے.لیکن مستقبل کے جس غیب کا جماعت احمدیہ سے تعلق ہے، وہ غیب ہے.جو بشارتوں کے رنگ میں ہمیں دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کو دہرایا ہے، نئے وعدے نہیں، اصل وعدے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہم تک پہنچائے گئے ہیں.لیکن نئے حالات میں جن نئی شکلوں میں انہوں نے ظاہر ہونا تھا، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں بتائے گئے ہیں.قرآن کریم میں یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ (ال عمران: 140) ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو گے، غالب آؤ گے.ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کرو گے، ملعونی قومیں بھی تم پر غالب آجایا کریں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قرآن کریم کا یہی وعدہ دیا گیا ہے.لیکن اس بشارت کے ساتھ کہ وہاں جوشرط لگائی تھی یعنی اِن كُنتُمْ مُؤْمِنِینَ کی ، جماعت احمدیہ کا بڑا حصہ اس شرط کو پورا کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ فرمایا گیا کہ شرط نہیں، میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تمہاری جماعت ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے گی اور میری بشارتوں کی وارث ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا:.اللَّهُ يُعْلِينَا وَ لَا تُعَلى اللہ ہم کو غالب کرے گا اور ہم پر کوئی غالب نہیں آئے گا.قرآن کریم کی شرط تو نہیں مٹائی جا سکتی.اسی کی طرف اشارہ ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو ان كُنتُم مُّؤْمِنِینَ کی شرط پوری ہو رہی تھی.مگر پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمانوں نے اس شرط کو پورا نہیں کیا اور وہ بشارتوں کے وارث نہیں بنے.اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا کہ تمہیں جو جماعت دی جارہی ہے ، وہ اس شرط کو پورا کرنے والی ہے.اس واسطے یہ اعلان کر دو کہ 631

Page 649

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1970ء اللهُ يُعْلِيْنَا ولا تعلى تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اللہ تعالیٰ ہمیں غالب کرے گا اور دنیا کی کوئی طاقت ہم پر غالب نہیں آسکے گی.خدا کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ.یعنی جماعت احمدیہ کی اکثریت، ویسے الہی سلسلوں میں کمزور ایمان والے بھی ہوتے ہیں اور منافق بھی ہوتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کی اکثریت اس شرط کو پورا کرنے والی ہوگی.اور دنیا میں یہ اعلان کرنے والی ہوگی.اللَّهُ يُعَلِينَا وَلَا تُعَلَى اللہ تعالیٰ ہمیں غالب کرے گا اور ہم پر کوئی غالب نہیں آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کو اس قدر بشارتیں دی ہیں، آپ نے جماعت کی ترقیات کا اس دھڑے کے ساتھ اعلان کیا ہے، آپ نے ان منافقوں اور کمزور ایمان والوں کو بھی ڈرایا ہے.لیکن بحیثیت جماعت کے آپ نے جماعت کو یہ تسلی بھی دی ہے کہ عاجزانہ راہوں کو تم اختیار کرتے جانا، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے تم وارث ہوتے چلے جاؤ گے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی ہے کہ آپ اور آپ کے نائین اور خلفاء جماعت کی اس رنگ میں تربیت کرنے کے قابل ہوں گے کہ جماعت کے لوگ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ شرط کو پورا کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بڑے ابتدائی زمانہ میں سے بشارتیں ملی تھیں، آپ فرماتے ہیں کہ جب میں اکیلا تھا اور کوئی شخص میرے سلسلہ بیعت میں ابھی داخل نہیں ہوا تھا، گو یہ صحیح ہے کہ میرے ساتھ چند دوست تھے لیکن بیعت ابھی کسی نے نہیں کی تھی ، اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے کہا تھا ، میں تجھے کامیاب کروں گا اور دشمن تیرے اوپر غالب نہیں آسکے گا.اور اس وقت جب میرے ساتھ کوئی نہیں تھا اور بڑے بڑے علماء ظاہر نے اکٹھے ہو کر سر جوڑا اور ہلاکت کا ایک یہ منصوبہ بھی تیار کیا کہ دوسو چوٹی کے علماء ظاہر کے دستخطوں سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اس تکفیر بازی کے نعروں میں پہلے احمدی نے بیعت کی.آپ فرماتے ہیں کہ جب میرے خلاف یہ شور بلند ہوا، اس وقت تک بیعت کسی نے نہیں کی ہوئی تھی.پس کفر کا فتویٰ اور تکفیر کا نعرہ پہلے لگا اور وہ پہلا شخص بعد میں ہوا، جس نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا.اور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے ، اس کی رحمتوں کے چشموں سے جسمانی اور روحانی سیری حاصل کی.آپ فرماتے ہیں کہ اس وقت میرے قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے ، مجھے ہلاک کرنے کی سکیمیں تیار کی گئیں، عوام کو میرے خلاف بھڑکا یا گیا اور اعلان کیا گیا کہ جو شخص مجھے قتل 632

Page 650

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 128 اگست 1970ء کرے گا، وہ بڑے ثواب کا مستحق ہوگا، وغیرہ.غرض سارے جتن کئے ، ہر قسم کی تدبیر کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان نعروں کے درمیان وہ اکیلا اک سے ہزار نہیں بلکہ اک سے کروڑ ہونے تک پہنچ گیا.یہ ہمارا پس منظر ہے.نئے نعرے، نئے فتوے، نئے بازار تکفیر سجانے سے ہمیں کون ڈرا سکتا ہے؟ ہم نے اپنے بزرگوں کی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلووں کو مشاہدہ کیا اور ہم نے اپنی عاجزانہ زندگیوں میں بھی اس کی قدرت کے جلووں کا نظارہ کیا.دنیا کی کوئی دھمکی ، دنیا کا کوئی شور، دنیا کا کوئی منصوبہ، دنیا کی کوئی چالا کی ہمیں مرعوب نہیں کر سکتی.اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں.اور اس کے اظہار میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ جہاں تک دنیوی سہاروں کا تعلق ہے، ہم بے سہارا ہیں اور ہمارے پاس کوئی سہارا نہیں ہے.لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑے ہوئے ہیں اور وہی ہمارا سہارا ہے.اور اس سے بہتر نہ کوئی سہارا ہے، نہ کسی سہارے کی ہمیں ضرورت ہے.نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ الْوَكِيل اللہ تعالیٰ ہی ہمارا واحد سہارا ہے.ابھی چند دن ہوئے، ایک سیاست دان میرے پاس ایبٹ آباد میں آئے.ان کے لیڈر نے اعلان کیا تھا کہ احمدی تو کافر ہیں.( گوانہوں نے لفظ کا فر تو استعمال نہیں کیا تھا مگر کہا کہ یہ ہماری طرح کے مسلمان نہیں ہیں.) یہ نہ کبھی ہماری پارٹی میں داخل ہوئے ، نہ اس وقت شامل ہیں اور نہ آئندہ ہو سکتے ہیں.نہ کبھی شامل ہوئے اور نہ اس وقت ہیں.یہ تو ایک جھوٹ تھا، جو اسی وقت ان پھر کھل گیا.کیونکہ بعض احمدی دوست جو سیاسی لحاظ سے ان کے ساتھی تھے ، وہ کھڑے ہو گئے اور اس سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا ؟ ہم تو1 195ء سے آپ کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہے، ہم قادیانی ہیں.( یہی لفظ اس نے استعمال کیا تھا.چنانچہ وہ بڑا شرمندہ ہوا اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گیا.لیکن وہ علیحدہ بات ہے.یہ دوست جو مجھ سے ملنے آئے تھے، ان سے میں نے کہا کہ تمہارے لیڈر نے کہا ہے کہ کوئی احمدی میری پارٹی کا مبر نہیں ہے.اور تم آگئے ہو، میرے پاس ووٹ لینے.میں وہ بے غیرت احمدی کہاں سے تلاش کروں گا ، جو تمہارے اس لیڈر کے اعلان کرنے کے بعد تمہیں آکر ووٹ دے دیں گے؟ اور میں نے اسے بتایا کہ مجھے کسی احمدی کو کہنے کی ضرورت نہیں.البتہ اسے یہ پتہ لگنا چاہئے کہ تمہارے لیڈر نے یہ کہا ہے.پھر وہ آپ ہی فیصلہ کر لے گا اور اس کا فیصلہ یہی ہوگا کیونکہ کوئی احمدی بے غیرت نہیں ہوتا.میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے احمدیوں کے کا فر ہونے کا اعلان کر دیا، پتہ نہیں احمدیوں کو 633

Page 651

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کیا ہو جائے گا؟ کیونکہ احمدی بے سہارا ہیں، ان کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کرلو.میں نے کہا، یہ درست ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو اور ہم بھی یہ سمجھتے ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ کوئی دنیوی سہارا ہمارے پاس نہیں ہے.ہم نے زید یا بکر کا دامن نہیں پکڑا ہوا، ہم نے دولت کو بت نہیں بنایا، نہ کثرت کی ہم پرستش کرتے ہیں، نہ طاقت ہمارے سامنے کسی دیو یا شیطان کی شکل میں آتی ہے، ہمارے پاس طاقت نہیں ہے، ہمارے پاس دولت نہیں ہے، ہمارے پاس سیاسی اقتدار نہیں ہے، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں.دنیا دارد نیا کے جن سہاروں کو سہارا سمجھتا ہے، ہمارے پاس کوئی بھی ایسا سہارا نہیں.یہ ایک حقیقت ہے.اس کا ہم انکار نہیں کریں گے.علی الاعلان اس کا اظہار کریں گے.لیکن یہ یادرکھو کہ وہ جو سب سہاروں سے زیادہ افضل اور زیادہ قابل بھروسہ اور جس پر زیادہ تو کل کیا جاسکتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ، اس کا سہارا ہمیں حاصل ہے.اس واسطے کسی اور سہارے کی ہمیں ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی.چونکہ انسانی زندگی (فرد کی زندگی نہیں میں کہہ رہا) میں بڑوں کے بعد چھوٹے ابھر رہے ہوتے ہیں، ان میں اکثر وہ ہوتے ہیں، جنہیں اپنی پہلی تاریخ کا علم نہیں ہوتا.اس واسطے اگر کوئی ذراسی بھی آواز بلند ہو تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محد حسین بٹالوی اور نذیر حسین دہلوی سے بھی زیادہ بلند آواز ہے.حالانکہ اگر آج بھی آپ ان لوگوں کے علماء ظاہر سے جا کر پوچھیں کہ آپ نے ان جیسے عالم پیدا کئے تو اغلبا وہ بھی جن میں تھوڑی بہت دیانتداری ہے، وہ کہیں گے کہ نہیں، وہ ہم سے زیادہ بڑے عالم تھے.پس جو اس زمانے کے تمہارے نزدیک سب سے بڑے عالم تھے، ان کے کفر کے فتویٰ نے سوائے اس کے جو عورت کپڑ اسی رہی ہو، اس کے ہاتھ میں بھی سوئی چبھ جاتی ہے یا مرد اپنے کاغذ کو پن لگائے تو ذرا چبھ جاتا ہے، جسے انگریزی میں پن پر کنگ کہتے ہیں، اس سے زیادہ ہمیں کوئی تکلیف یا نقصان نہیں دیا.سوئی بھی چھی، پن بھی چھا، تمہارے شور سے ہمارے دل دکھے ضرور.کیونکہ یہ ایک طبعی چیز تھی.یہ ایک اور مسئلہ ہے.لیکن اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، اس لئے وہ میں بیان کر رہا ہوں.جب اس قسم کی کوئی گندی گالی دی جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کفر کا فتویٰ لگایا جاتا ہے تو ہمارے جذبات ہیں، یہ انسانی فطرت کا ایک حصہ ہیں، بڑا سخت دکھ ہوتا ہے.بعض دفعہ وہ نا قابل برداشت ہو جاتا ہے لیکن ہم اسے برداشت کرتے ہیں.پس جہاں تک فطرت کا تقاضا ہے، فطرت کا تقاضا پورا ہوتا ہے.ہمیں بڑا سخت رکھ پہنچتا ہے.لیکن جہاں تک اس دکھ اور ایذا دہی کے رد عمل کا تقاضا ہے، اس میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت چلنا پڑتا ہے.اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ یہ حکم دیا ہے کہ 634

Page 652

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم گالیاں سن کر دعا دو، پا کے دکھ آرام دو خطبہ جمعہ فرموده 128 اگست 1970ء اس واسطے جو کوئی کفر کا فتویٰ لگاتا ہے، ہم اس کے لئے اور بھی زیادہ دعائیں شروع کر دیتے ہیں.ہمیں جس سے تکلیف پہنچتی ہے، ہم اس کے لئے راحت اور مسرت کے لئے دعائیں کرنی شروع کر دیتے ہیں.مثلاً ایک شخص آج یا آج سے اسی سال پہلے یا آنے والی کل ( یہ تو چلے گا سلسلہ ) کفر کا فتویٰ دیتا ہے تو اگر آپ سوچیں اور میں نے سوچا ہے اور جو میں بیان کروں گا، اسی کو حقیقت پایا.آپ بھی سوچیں تو آپ کو بھی یہی حقیقت سمجھ آئے گی کہ سب سے سخت سزا، جو ہم ایسے کافر کہنے والوں کو دے سکتے ہیں، وہ وہ سزا ہے، جو ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کوملی تھی.آپ ان کے لئے دعا کریں کہ وہ احمدی ہو جائیں.جب وہ احمدی ہو جائیں گے تو ان میں سے ہر ایک کا دل ساری عمر کڑھتا رہے گا کہ میں کتنا احمق تھا کہ ایک وقت میں اس قسم کا فتویٰ دے دیا یا کوئی فیصلہ کر دیا یا اعلان کر دیا.پس وہ آپ کو کا فرکہیں آپ دعا کریں کہ ان میں سے ہر ایک مومن ہو جائے.حضرت خالد بن ولید نے یرموک کے موقع پر عکرمہ اور ان کے ایسے ہی ساتھیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہمیشہ جنگ کرتے رہے تھے، یہ مشورہ دیا تھا کہ تمہارے چہروں پر ایسے داغ ہیں، جو انتہائی قربانی کے بغیر دھل نہیں سکتے ، آج موقع ہے، اپنے خونوں سے اپنے چہروں کے داغ دھو ڈالو.چنانچہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ جو بعد میں آنے والے تھے اور ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور کی جنگوں میں آپ کے خلاف لڑتے رہے تھے، اس وقت دوسو کے قریب تھے.و سارے کے سارے دشمن کی فوج میں گھس گئے.کیونکہ حضرت خالد بن ولید نے ان سے کہا تھا کہ میں اپنی فوج کو حکم نہیں دوں گا، ہم نمایاں ہو جاؤ اور دشمن کی فوج پر حملہ کر دو.حالانکہ دشمن کی تعداد بعض مورخین کے نزدیک اڑھائی لاکھ تھی.یہ دو سو اپنے چہروں کے داغ دھونے کے لئے اس فوج کے اندر گھس گئے اور اپنے وعدے کو سچا ثابت کر دکھایا.سارے کے سارے شہید ہو گئے.ان میں سے صرف ایک زخمی ہونے کی حالت میں واپس آئے اور بعد میں انہی زخموں سے وہ بھی فوت ہو گئے.ایسے لوگوں کو ، جو آج اس قسم کی حرکتیں کر رہے ہیں، میں یہ کہوں گا کہ اگر تمہاری قسمت میں نیکی لکھی ہوئی ہے تو تمہیں خدا کی رضا کی جنت کے حصول کے لئے عکرمہ اور اس کے ساتھیوں جیسی قربانی دینی پڑے گی.اور ہم تمہارے لئے دعا کرتے ہیں.ہمارے دل میں کسی کی دشمنی کسی کی حقارت اور کسی سے نفرت نہیں ہے.اور ہمیں گالیاں دینے والی دنیا، ہمیں کافر کہنے والی دنیا، ہمیں راندہ درگاہ سمجھنے والی دنیا، 635

Page 653

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ہماری بلاکت کے منصوبے بنانے والی دنیا، ہر قسم کی ایذا پہنچانے کی تیاریاں کرنے والی دنیا کان کھول کر یہ سن لے کہ وہ جو مرضی ہو، کر لیں.ہمارے دل میں اپنی نفرت اور حقارت پیدا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے.اس لئے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے دلوں کو محبت اور پیار کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کے لئے پیدا کیا ہے.اور ہمیں یہ وعدہ دیا ہے کہ ہم اپنی اس مہم کو اور اس کوشش اور اس منصوبے میں اسی کے فضل سے، نہ اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں کامیاب ہوں گے.اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارے راستے میں روک نہیں بن سکتی.یہ وہ پیشگوئیاں ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ذریعہ ہمیں ملیں.اور یہ وہ پیش خبریاں اور بشارتیں اور مسرتیں اور خوش خبریاں ہیں، جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی باتیں ہیں، انہیں سنبھال کر رکھو اور اپنے صندوقوں میں بند کر لو کہ خدا کی بات ایک دن پوری ہو کر رہے گی.اللہ تعالیٰ ہم سے جو اپنی محبت اور پیار کا سلوک کرتا ہے، ( میں ان کو کہتا ہوں، جو ہمیں کافر سمجھتے ہیں کہ ) تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.جس دن یہ ایک نیا واقعہ ہوا اور اس کے بعد میرے پاس بیسیوں خطوط آئے اور اسی کے متعلق میں اپنے نو جوانوں کو سمجھانے کے لئے آج میں اس موضوع پر بول رہا ہوں اور اس سے پہلے بھی بولتا رہا.ہوں کہ تمہیں کس بات کی فکر ہے؟ تم خدا کی گود میں بیٹھے ہوئے ہو.جس دن یہ واقعہ ہوا ہے، ( یعنی اخبار میں آیا ہے، واقعہ تو پہلے ہوا ہو گا.) مجھے کچھ پتہ نہیں تھا.اس سے دو راتیں پہلے ساری رات بلا مبالغہ اللہ تعالیٰ مجھے دشمنوں کی ناکامی اور نامرادی کی خبریں دیتا رہا اور جماعت احمدیہ کی ترقی کے متعلق بتا تا رہا.اور صبح جب میں اٹھا تو میری طبیعت میں جہاں بشاشت تھی ، وہاں میں کسی ایسے واقعہ کا انتظار بھی کر رہا تھا.کیونکہ دودن پہلے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے تسلی دے دی ہوئی تھی.غرض قرآن کریم کی آیات ، دوسرے الفاظ عربی میں ، اردو میں ، انگریزی میں اور ساری رات یہ سلسلہ جاری رہا.اس خواب میں یا خواب تو نہیں کہنا چاہئے ، میری زندگی کا تو یہ پہلا تجربہ تھا لیکن ساری رات اسی طرح ہوتا رہا.کچھ دیر کے لئے دماغ غائب ہو جاتا، پھر وہ سلسلہ شروع ہو جاتا تھا اور پورا بیدار ہو جاتا تھا.میں کسی سے باتیں کر رہا ہوں اور انگریزی میں بول رہا ہوں.اور میں تین سلسلوں کے متعلق بات کر رہا ہوں اور وہ فقرے ایسے ہیں کہ انسان خود نہیں بنا سکتا.یعنی اس حالت میں بھی میرے اوپر وجد کی کیفیت طاری ہے.اور سوائے ایک لفظ کے باقی الفاظ یاد نہیں رہے، مجھے اس کا دکھ ہے.قرآن کریم کی جو آیات ہیں، ان کا تو تلاوت کے وقت مجھے پتہ لگ جائے گا، اگر چہ میں اس وقت بھولا ہوا ہوں اور وہ آخری پانچ پاروں ہی سے ہیں.بہر حال 636

Page 654

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 28 اگست 1970ء میں ان کو کہ رہا ہوں کہ فلاں سلسلہ جو تھا، اس کی خصوصیت اور کامیابی کا راز اس چیز میں تھا.یہ مجھے یاد نہیں رہا، مفہوم اس کا یاد ہے کہ یہ بات میں نے کہی ہے اور اس کے بعد دوسرے سلسلہ کے متعلق میں نے یہ کہا، جو فلاں سلسلہ تھا، اس کی خصوصیت اور کامیابی کا راز اس چیز میں تھا ( یہ پہلے سے مختلف تھی ) اور پھر میں نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی خصوصیت اور اس کی کامیابی کا راز ڈسپلن میں ہے، یعنی نظم وضبط اور اطاعت.جماعت احمدیہ کی بنیاد ہی خلافت پر ہے.اور خلافت جو ہے، اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ کسی نے بہت ہی شاندار عمارت بنائی تھی، اس نے اس کی بنیادوں کے نیچے چھ، چھ انچ ریت ڈالی.ریت کے ذرے بڑے کمزور ہوتے ہیں لیکن اس ریت کو کچھ اس طرح باندھا کہ وہ پتھر سے زیادہ مضبوط بنی.اور اس ساری تعمیر کا بوجھ اس نے اپنے اوپر اٹھا لیا.اسی طرح خلافت جو ہے، اسے ریت کے ذرے سمجھ لو.کیونکہ حقیقی طور پر خلفائے راشدین کی خلافتوں میں سے ہر خلافت کی نمایاں خصوصیت عاجزی ہے.انہوں نے اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہی ریت کے ذروں کو اپنی قدرت کی انگلیوں میں کچھ اس طرح پکڑا کہ وہ ساتویں آسمان تک جانے والی اتنی بلند عمارت کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو گئے.میں خواب میں اس کو کہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی خصوصیت اور کامیابی کا راز ڈسپلن میں ہے.میں انگریزی میں اس سے بات کر رہا ہوں.اور پتہ نہیں بعض دفعہ یاد ہی آ جاتا ہے، (اگر یاد آ جائے تو میں اپنے رب کا بڑا ہی ممنون ہوں گا.) میں نے بتایا ہے کہ انگریزی کے یہ فقرے اس قسم کے تھے.یہ میری اس کیفیت میں بھی ایک اور کیفیت پیدا ہو گئی تھی.بہر حال ہمارے ساتھ تو ہمارا رب اس طرح کا پیار کرتا ہے.اس کے بعد اگر ساری دنیا کی طاقتیں مثلاً صدر نکسن بھی ہو یا رشیا کا صدر بھی ہو ، یورپین اقوام کے سربراہ بھی ہوں یا افریقی اقوام کے سربراہ بھی ہوں، جزائر کے رہنے والوں کے پرائم منسٹر بھی ہوں، سارے مل کر بھی مجھے آکر یہ کہیں کہ ہم نے سر جوڑا اور فیصلہ کیا کہ ہم جماعت احمدیہ کو ہلاک کر دیں گے اور اسے مٹادیں گے تو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر میرا جواب انہیں یہ ہوگا کہ تم افراد کے قتل پر تو قدرت رکھتے ہو، چونکہ پہلے الہی سلسلوں میں بھی یہی نظر آتا رہا ہے، اس لئے تم مجھے مار سکتے ہو، لیکن تم احمدیت کو مٹانے کے قابل کبھی نہیں ہو سکتے.کیونکہ احمدیت خدا تعالی کی حفاظت اور اس کی امان میں ہے.اور احمدیت کو غالب کرنے کا حکم اور فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا ہے.اور یہ بھی فیصلہ ہو چکا ہے کہ بتدریج ( یعنی تدریج کے مختلف دوروں میں سے گزرتی ہوئی ) احمدیت تمام دنیا پر خدمت کے طور پر غالب آئے گی.یعنی وہ دنیا کی خادم بن جائے گی.غالب آنے کا ہمارا یہ 637

Page 655

خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم مطلب نہیں کہ ہم دنیا کو ایکسپلائٹ (exploit) کریں گے.جب ہم دنیا پر غالب آنا کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا ہمیں ایکسپلائٹ (exploit) کرے گی.یعنی ہم سے خدمت لے گی.پس ہم خادم کی حیثیت سے دنیا پر غالب آئیں گے، حاکم کی حیثیت سے نہیں.جس طرح ماں اپنے بیٹے پر حاوی ہوتی ہے، اسی طرح یہ جماعت بنی نوع انسان سے ماں سے زیادہ پیار کرنے کے لحاظ سے اس پر حاوی ہوگی.وہ اس پیار کوا Resis (ریڈیسٹ ) نہیں کر سکیں گے.وہ اس پیار کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.وہ اس پیار کے گھائل ہو جائیں گے.وہ اس پیار کے نتیجہ میں جماعت سے چمٹ کر اس میں غائب ہو جائیں گے.اور پھر سب کے سب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جمع ہو جائیں گے اور جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رہے گا، اس کی حیثیت چوہڑے اور چماروں کی طرح ہوگی.یہ وعدے ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں اور ان وعدوں پر پختہ یقین رکھنا میرا اور آپ کا فرض ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 638

Page 656

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء مخلص، پیار کرنے والے، دعا گو ، صاحب علم و تجر بہ ڈاکٹرز کی ضرورت ہے " خطاب فرمودہ 30 اگست 1970ء حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے احمدی ڈاکٹروں کے ایک خصوصی اجتماع سے نہایت تفصیلی بصیرت افروز خطاب فرمایا، اس سے خطاب کے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں:.....ڈاکٹروں پر اس وقت افریقہ نے بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی، اس لئے میں نے آپ کو آج یہاں جمع ہونے کی تکلیف دی ہے.ایک تو افریقہ میں خدمت خلق کے نکتہ نگاہ سے ڈاکٹروں کی بڑی ضرورت ہے اور دوسرے وہاں ڈاکٹر حقیقی اسلام کے لئے بڑا اچھا کام کر سکتے ہیں.یہ صحیح ہے کہ وہاں جانے والے ڈاکٹروں کو قربانی بہر حال دینی پڑے گی.مگر اس وقت ہم ڈاکٹروں سے اتنی بڑی قربانی نہیں لے رہے.مثلاً انگلستان میں جو عام ڈاکٹر گورنمنٹ سے تنخواہ پارہے ہیں، ٹیکس وغیرہ ادا کرنے کے بعد، ان کی خالص آمد 120 پاؤنڈ ماہانہ ہے.وہاں بڑے بھاری ٹیکس عائد ہوتے ہیں.اب جب میں انگلستان گیا تو میں نے ڈاکٹروں سے اس سلسلہ میں پوچھا تھا.چنانچہ انگلستان میں ڈاکٹروں کو ملنے والے 120 پاؤنڈ کے مقابلے میں ہم افریقہ میں 60 پونڈ بالمقطع دیتے ہیں.اور اس کے علاوہ جو ہسپتال کے ذریعہ سے خالص بچت ہوتی ہے، اس کا ایک چوتھائی بھی.چنانچہ اس وقت تک ہمارے تین ڈاکٹر افریقہ میں کام کر رہے ہیں.ان کو ساٹھ پاؤنڈ تو ویسے دیئے جاتے ہیں اور ان کی ہسپتال کی آمدنی کا 1/4 حصہ ملا کر ان کو قریباً 140 پاؤنڈ مل جاتے ہیں.یعنی انگلستان میں 120 پاؤنڈ اور افریقہ میں 140 پاؤنڈ.پھر یہ بھی ہے کہ انگلستان میں بعض کو تو کوارٹروں میں جگہ مل جاتی ہے لیکن بعض کو نہیں ملتی.جس کی وجہ سے ان کو کرایہ پر مکان لینا پڑتا ہے.لیکن افریقہ میں رہائش ، پانی ،بجلی وغیرہ کلینک ہی دیتا ہے.ہمارا Latest طبی مشن گیمبیا میں کھلا ہے.ڈاکٹر سعید صاحب وہاں گئے ہیں.ان کو وہاں کام شروع کئے ہوئے، دو سال ہو گئے ہیں.شروع میں انہیں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا.کچھ تعصب بھی تھا، کچھ ہم نے انہیں دیہات میں پھینک دیا تھا.بایں ہمہ دو سال میں ان کی جو Net Saving ہے یعنی اپنا چوتھائی حصہ نکال کر باقی تین چوتھائی پانچ اور چھ ہزار پاؤنڈ کے درمیان ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ 639

Page 657

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اڑھائی اور تین ہزار پاؤنڈ سالانہ آمد ہے.جس سے ان کے حصہ میں 1/4 کے لحاظ سے قریباً ڈیڑھ ، دو ہزار پاؤنڈ آتا ہے.اور اس طرح ان کا 140 پاؤنڈ سے بھی زیادہ بن جاتا ہے.لیکن ہمارا جو مطالبہ ہے، وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر بڑا تخلص ہونا چاہئے اور بڑا دعا گو ہونا چاہئے.کیونکہ وہاں اس وقت ہمارا عیسائیوں سے سخت مقابلہ ہے.وہ بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں، انہوں نے بڑے اچھے ہسپتال بنارکھے ہیں، جن میں کوالیفائیڈ ڈاکٹر ز کام کرتے ہیں.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ان کے مقابلے میں جہاں بھی ہمارا کلینک کھلا ہے، زیادہ مقبول ہو گیا ہے.ہمارے کلینک کی اس حد تک مقبولیت ہو چکی ہے کہ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کا نو میں ہیں.یہ علاقہ نائیجیریا کا مسلم نارتھ کہلاتا ہے.انہوں نے مجھے بتایا کہ بعض وزراء تک گورنمنٹ ہسپتال میں جانے کی بجائے ان کے پاس آتے ہیں.حالانکہ ایک وزیرکوان کے کسی دوست نے کہا کہ گورنمنٹ ہسپتال موجود ہے، آپ وہاں نہیں جاتے اور ان کے کلینک میں چلے جاتے ہیں.(اس وقت تک یہ کلینک تھا، اب تو اچھی خوبصورت عمارت پر مشتمل ہسپتال بن چکا ہے.اس نے کہا کہ مجھے وہاں زیادہ فائدہ ہوتا ہے.چنانچہ وہ اپنا اور اپنے رشتہ داروں کا علاج ہمارے ہسپتال میں آکر کراتا ہے.شاید ظاہری علمیت کے لحاظ سے عیسائی زیادہ اچھے ہوں گے لیکن وہ دعا کرنے والے نہیں.اور ہمارے ڈاکٹروں کے مقابلے میں ان کی کم از کم دعا قبول نہیں ہوتی.ویسے تو اللہ تعالیٰ سب کی دعائیں قبول کرتا ہے لیکن جب مقابلہ ہو جائے تو احمدی ڈاکٹر کے ہاتھ میں بہر حال زیادہ شفا ہے.دوسرے ہمیں وہاں ایسا ڈاکٹر چاہئے، جو ہمیں حساب کے جھمیلوں میں نہ پھنسائے.اس وقت تک ان تینوں ڈاکٹروں یعنی کا نو میں ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب، لیگوس میں ڈاکٹر عمر الدین صاحب سدھو اور یہاں گیمبیا میں ڈاکٹر سعید صاحب نے اس سلسلہ میں بھی بہت ہی اچھا نمونہ دکھایا ہے.یہ ہر مہینہ کے آخر میں اپنے مبلغ انچارج کو کہتے ہیں کہ اتنی رقم Not Saving کی ہے، آپ لے لیں یا میں بھجوا دوں.یا اگرا کا ؤنٹ کھلا ہوا ہو تو وہ خود وہاں جا کر جمع کروادیتے ہیں.ہم ان سے ایک سرسری سا حساب تو لیتے ہیں لیکن ہمیں یہ فکر نہیں ہوتی کہ یہاں کوئی غیر مخلصانہ اقدام بھی کیا گیا ہو گا.وہ اپنی اپنی جگہ بڑے اخلاص سے کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا عطا فرمائے.جو ڈاکٹر وہاں جانا چاہیں، وہ وقف ہوں گے.البتہ ان کے لئے یہ ضروری نہیں ہوگا کہ وہ ساری عمر کے لئے زندگی وقف کریں.مثلاً چھ سال کے لئے وقف کر سکتے ہیں اور اس کے بعد ہمارے ساتھ Clash کئے بغیر اگر انہی ملکوں میں اپنی پریکٹس کرنا چاہیں تو کوئی ہرج نہیں، بڑی خوشی سے کریں.ہمیں تو 640

Page 658

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرمود 30 اگست 1970ء اس کی تقویت ہی ہے.لیکن جو وقف کا عرصہ ہے، اسے انہوں نے بہر حال نبھانا ہے.زندگی وقف کرنے والے ڈاکٹر کے لئے ہم نے ایک معاہدہ تیار کیا.تین آدمیوں کی یا پانچ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی جائے ، جو آج ہی غور کر کے تجاویز پیش کرے تا کہ ان پر غور کیا جا سکے.تحریک جدید نے ڈاکٹروں کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا، اس میں، میں نے تھوڑی سے تبدیلی کی ہے.یعنی اگر ڈاکٹر چاہیں تو وہ تین سال یا چھ سال کے لئے بھی وقف کر سکتے ہیں.چھ سال زیادہ اچھا ہے.لیکن اگر کسی ڈاکٹر کے حالات زیادہ دیر وقف کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوں، ہم تین سال کے لئے بھی اس کا وقف منظور کر لیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اور ڈاکٹر دے دے گا.علاوہ طبی خدمات کے ہمیں جو وہاں زیادہ فائدہ پہنچتا ہے، وہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم غریبوں کا مفت علاج کرتے ہیں اور بہت کچھ مدد کرتے ہیں، ہمارے اپنے مبلغین کا مفت علاج ہوتا ہے.پھر بھی ایک، ایک کلینک کی اڑھائی، تین ہزار پاؤنڈ سالانہ آمد ہورہی ہے.اگر ایک ملک میں چار ہیلتھ سنٹر ز ہوں تو ہماری سالانہ خالص آمد دس ہزار پاؤنڈ بنتی ہے.اگر جماعت کے چندے اتنے ہوں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے یا اتنے ہوں کہ زائد بچ جائے یا جن ملکوں کے چندوں کی رقم بچی ہوئی ہو، اسے ہم دوسرے ملکوں میں، جہاں جماعتیں مضبوط نہیں ہیں، ان کی مدد کے لئے بھیج دیں.تو پھر اس بات کا فکر نہیں رہتا کہ اگر کسی وقت یہاں سے روپیہ نہ بھجوایا جا سکے تو ہماری طبی اور تبلیغی سرگرمی اثر انداز ہوگی.مثلاً گیمبیا ہے، میں نے ان سے بھی یہی کہا تھا، وزیر صحت ہم سے بڑا تعاون کرتا ہے.ان کو میں نے اپنے پاس بلایا تھا اور ان سے تبادلہ خیال کیا تھا.وہ کہتا تھا کہ ان کے پاس جنرل سرجن کا صرف ایک سنٹر ہے.وہ چار مختلف جگہوں پر ہیلتھ سنٹر ز کھلوانا چاہتا تھا.اور ان کے علاوہ باتھرسٹ میں سپیشل سنٹر.میں نے اس سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں.اور تعاون کے لئے دو چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں.ایک تو حکومت ہمیں زمین دے، جہاں کہیں زمین کی ضرورت ہو.کیونکہ زمین ہم باہر سے نہیں لا سکتے ، زمین تمہیں دینی پڑے گی.اور دوسرے یہ کہ ڈاکٹروں کے لئے ریذیڈنٹ پرمٹ دیں، ورنہ وہ یہاں آنہیں سکتے.میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ اگر آپ تعاون کریں اور ہم یہاں میڈیکل سنٹر جلدی کھول سکیں تو میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں ہر سال یہاں ایک ہائی سکول کھولتا چلا جاؤں گا“." مطبوعه روزنامه الفضل 13 اپریل 1972 ء ) گیمبیا علیم میں بہت پیچھے ہے.اس حد تک پیچھے ہے کہ مجھے خیال آیا کہ اس کے پاس یو نیورسٹی کوئی نہیں.( یہ جو وزیر صحت ہیں، ان کے پاس ہی وزارت تعلیم کا محکمہ بھی ہے.میں نے ان سے 641

Page 659

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کہا کہ ہم 50.50 فیصدی بوجھ برداشت کر کے یہاں ایک یو نیورسٹی کھول دیتے ہیں.تو وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ ہمارے طلباء کی کل تعداد جو ہر سال میٹرک کے امتحان میں شامل ہوتی ہے، صرف ایک ہزار ہے.اس میں سے چار، ساڑھے چارسولڑ کا پاس ہوتا ہے.تو یو نیورسٹی کیسے چلے گی؟ چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ یہاں میڈیکل سنٹر ز کھولنے میں ہماری مدد کریں تو میں یہاں ہر سال ایک ہائی سکول کھولتا ہوں.کیونکہ جس وقت تک ہمیں کسی ملک سے باہر بھیجنے کے لئے روپے کی ضرورت نہیں پڑتی ، ہم اس وقت تک اس ملک سے روپیہ باہر نہیں نکالتے ، ہم وہیں invest کر دیتے ہیں.چنانچہ وہ بڑے خوش تھے.گیمبیا میں تو اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا ہے کہ جہاں ڈاکٹر سعید صاحب کام کر رہے ہیں، وہاں بھی ہمیں زمین نہیں مل رہی تھی کیونکہ ایک چیف نے زمین دی اور گورنمنٹ کے...نے کہا کہ اس چیف کو زمین دینے کا کوئی اختیار ہی نہیں.چنانچہ جھگڑا پڑ گیا.بالآخر انہوں نے زمین تو دے دی مگر 20 پونڈ سالانہ ront بطور لیز لگا دیا.کوشش ہوتی رہی، اب میرے آنے کے بعد اس کا کرایہ 20 پونڈ کی بجائے ایک شلنگ سالانہ مقرر ہو گیا ہے.اور یہ اکیس سال کے لئے لیز ملی ہے.دنیا میں عام طور پر 99 سال یا 50 سال کی لیز ہوتی ہے.میں نے اپنے مشن کو کہا تھا کہ 20 سال سے اوپر کا period ( پیریڈ ) ملے تو لے لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں.کیونکہ 20 سال میں انشاء اللہ ان ملکوں میں ایک انقلاب عظیم رونما ہو چکا ہو گا.پھر ہمیں لیز پر لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا.اور ہمیں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی.چنانچہ اس کے علاوہ ہمیں گیمبیا میں ہیلتھ سنٹر کے لئے مزید تین جگہ زمین مل گئی ہے.ایک جگہ تو ایک سیٹلائٹ ٹاؤن بن رہا ہے.جہاں ہمارے سابق گورنر جنرل سنگھاٹے نے بھی کوٹھی بنوائی ہے.اس کے قریب ہی برلب سڑک سپیشلسٹ سنٹر کے لئے جگہ دے دی ہے.جب اس وزیر صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ مجھے کہنے لگے کہ بالکل باتھرسٹ کے اندر تو آپ زمین کا مطالبہ نہیں کر رہے؟ میں نے کہا نہیں، میر امطالبہ یہ ہے کہ باتھرسٹ سے دس میل کے اندر اندر ہو اور پختہ سڑک پر ہو.وہاں سڑکیں بہت کم ہیں.سارے ملک میں ایک دوسٹر کیں ہیں.ویسے یہ ملک بھی بہت چھوٹا ہے لیکن آب و ہوا کے لحاظ سے بڑا اچھا ہے.غرض حسب منشاء زمین مل گئی ہے، ہیلتھ سنٹر کھولنے کے لئے.لیکن اب وہ پیچھے پڑا ہوا ہے کہ کہاں ہیں تمہارے ڈاکٹر ؟ ان کے کاغذات آنے چاہئیں.ان کے ساتھ میں نے وعدہ کیا تھا، تین پیشلسٹس کا یعنی ایک Eye Specialist اور ایک اچھا ڈنٹسٹ اور ایک ٹی بی سپیشلسٹ گیمبیا کے سارے ملک میں ایک بھی Eye Specialist نہیں ہے.اگر وہاں کسی بیچارے کی نظر کمزور ہورہی ہو تو اسے اپنی آنکھ دکھانے کے لئے سینگال کے دارالخلافہ ڈا کا ر جانا پڑتا ہے.اور پھر جو نمبر 642

Page 660

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء ملتا ہے، اسے وہ لندن بھجواتا ہے اور وہاں سے ٹینک بنواتا ہے.اور جو عینک ہمارے ہاں دس، بارہ روپے میں بن جاتی ہے، اس پر اسے کم و بیش پانچ پونڈ خرچ کرنے پڑتے ہیں.اور دوسرے اخراجات مثلاً دوسرے ملک میں جانا وغیرہ، اس کے علاوہ ہیں.پھر اسی طرح سارے ملک میں کوئی اچھاڈینٹسٹ بھی نہیں ہے.ان کے بڑے ہسپتال میں ایک ٹی بی سنٹر تو ہے، جس میں نارتھ یا شائد ساؤتھ کوریا کے دوڈاکٹر کام کرتے ہیں.جو سال میں چھ مہینے چھٹی پر رہتے ہیں اور اس چھ ماہ کے عرصہ میں وہاں ٹی بی کا علاج کرنے والا کوئی ماہر نہیں ہوتا.میں نے ان سے کہا تھا کہ ہمیں کافی زمین دو کیونکہ ہمیں ٹی بی والا حصہ بہر حال الگ رکھنا پڑے گا.چنانچہ انہوں نے اس غرض کے لئے بڑی اچھی زمین دے دی ہے.میں چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک ایسا آئی سپیشلسٹ مل جائے ، جو وہاں دکان بھی کر سکے.کیونکہ عینک کے لئے لندن بھجوانے والا قصہ تو نہیں رہنے دینا.ایسا ڈا کٹر ہونا چاہیے، جو نظر ٹسٹ بھی کرے، عینک بنا بھی دے اور لگا بھی دے.ڈینٹسٹ تو ہمارے پاس دوا چھے آگئے ہیں.لندن میں ڈاکٹر ولی شاہ صاحب جو مشرقی افریقہ کے اقبال شاہ صاحب کے بیٹے ہیں، وہ بڑے اچھے ڈینٹسٹ ہیں.انہوں نے وہاں کئی ہزار پونڈ خرچ کر کے اپنا ایک کلینک بنارکھا ہے، جس میں دوڈاکٹر ملازم رکھے ہوتے ہیں اور ان کا بڑا اچھا کام چل رہا ہے.میرے خیال میں وہ چار، پانچ سو پونڈ ماہانہ کمارہے ہیں.وہ بڑے مخلص احمدی ہیں.ان کا مجھے خط آیا تھا کہ میرے لئے کیا ہدایت ہے؟ کیا میں اپنا کلینک بیچ دوں؟ میں نے ان سے کہا کہ ابھی نہ بیچو.بہر حال ڈینٹسٹ تو ہمیں مل گئے ہیں.ٹی بی کے ڈاکٹر بھی مل گئے ہیں.البتہ آئی سپیشلسٹ کی فوری ضرورت ہے.ایک اور تجویز ہے، اس سرجن والے حصے کی کہ جب ہمارے بہت سے سنٹر بن جائیں تو یہ ہوسکتا ہے کہ یہ جو چار مہینے انگلستان میں جا کر ضائع کرتے ہیں، اس میں سے دو مہینے وہاں جا کر کام کریں.ویسے بھی مشورہ ہوتا ہے، آلات ہیں.مثلاً ٹی بی کے لئے میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ایکسرے پلانٹ بھجوائیں گے.یعنی مکمل لیبارٹری ہوگی اور ایسا کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے مگر ہمارا پیسہ ضائع نہیں ہونا چاہیے.پیسے ضائع کرنے کے لئے اللہ میاں ہمیں دیتا ہی نہیں.یعنی ہمیں ایک دھیلہ بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں ملتا لیکن ہماری ضرورت کو پورا کرتا ہے.یہ للہ تعالی کا بڑا فضل ہے.سی ڈاکٹر جنہوں نے پانچ اور چھ ہزار کے درمیان سالانہ آمد پیدا کی ہے، ان کو ہم نے یہاں سے جاتے وقت دوائیاں وغیرہ خریدنے کے لئے صرف پانچ سو پونڈ دیا تھا.اور انہوں نے سارے اخراجات 643

Page 661

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم نکالنے کے بعد دو سالوں میں پانچ ، چھ ہزار پونڈ Save کر لیا.اور یہ معین اس لئے نہیں کہ پانچ ہزار سے رقم بڑھ چکی تھی.لیکن وہ کہتے تھے کہ آخری Balance Sheet نہیں بنی تھی.اس لئے وہ کہتے تھے کہ میں نہیں کہہ سکتا اغلباً چھ ہزار پونڈ سے زیادہ ہے.اور یہ بڑی رقم ہے.دنیا کے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں.ہو سکتا ہے، کسی ملک میں ہمیں اپنے مشن چلانے کے لئے روپے کی ضرورت ہو.مگر ہم باہر سے نہ بھجواسکیں.تو اس صورت میں اگر ہمارے یہ سنٹرز ہوں گے تو ہمیں کوئی فکر نہیں ہوگی.یہی میڈیکل سنٹر ز رقم مہیا کریں گے.کا نو میں پندرہ ہزار پونڈ سے زیادہ بچایا ہوا تھا.جسے اسی کلینک پر خرچ کر کے ایک بہت اچھی خوبصورت بلڈنگ بنادی گئی ہے.(ایبٹ آباد میں اس کی تصویر پڑی ہوئی ہے.آپ دیکھتے تو بہت خوش ہوتے.اور ابھی ایک چوتھائی کام رہتا ہے.چند دن ہوئے، مجھے خط آیا ہے کہ اس حصے پر بھی لٹل پڑ گئے ہیں.) وہ اچھا بڑا ہسپتال بن گیا ہے.یہاں بہت سے ڈینٹسٹ نے وقف کیا تھا.لیکن وہاں اس وقت تک Demand نہیں تھی.اب وہاں سے اطلاع آئی ہے کہ اگر کوئی ڈینٹسٹ آئیں گے تو وہ بھی اچھا کام کر سکیں گے.لیکن جو چیز بڑی ضروری ہے، وہ اخلاص ہے اور عادت دعا ہے.اس کے بغیر تو ہمارا ڈاکٹر وہاں کام نہیں کر سکتا.اگر ڈاکٹر میں اخلاص نہیں ہو گا تو وہ ہمارے لئے پرابلم بن جائے گا.اگر وہ دعا گو نہیں ہوگا تو وہ اپنے مریض کے لئے پرابلم بن جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بڑا ظالم ہے، وہ طبیب جو اپنے مریض کے لئے دعا نہیں کرتا.اور حقیقت یہی ہے.اب ڈاکٹر عمر الدین صاحب نے لیگوس میں دو کلینک کھول لئے ہیں.یعنی ایک تو انہوں نے کرنل یوسف والا کلینک سنبھالا تھا، ان کی وفات کے بعد اور اب بالکل شہر کے سنٹر میں غریبوں کے محلے میں ایک اور کلینک کھولا ہے.جہاں ساتھ ہی دو اور کلینک کھل گئے ہیں.ایک تو کسی افریقن نے کھولا ہے اور دوسرا کسی غیر ملکی غالبا لبنانی نے کھولا ہے.یہ ہفتے میں دو دفعہ اس کلینک میں جاتے ہیں.ان کی رپورٹ تھی کہ دوسروں کے مقابلے میں ہمارا کلینک اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقبول ہورہا ہے.پس اللہ تعالیٰ اتنا فضل کر رہا ہے اور اتنا پیار کرتا ہے، جماعت سے کہ ہمیں انفرادی طور پر بھی ناشکرا بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے.جماعت تو شکر گزار ہے.لیکن کسی ایک فرد کو بھی نا شکر ابندہ نہیں بنتا چاہئے.ہمارے مالوں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے.ہم خوش ہیں.اب ہمارے یہ بڑی عمر کے دوڈاکٹر 644

Page 662

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء جارہے ہیں.ایک ہمارے یہ ریٹائر ڈ بریگیڈئیر احمد اور دوسرے سید غلام مجتبی صاحب.ان ( سید غلام مجتبی صاحب) کے تو کل پنشن کے 3 سال رہتے تھے.تو ان سے میں نے کہا کہ 3 سال کی چھٹی لیں.کیونکہ اگر ان کی پینشن کم ہو تو یہ بھی دراصل ایک لحاظ سے جماعت کا نقصان ہے.ان سے میں نے کہا ہے کہ 3 سال کے بعد چھ ماہ یا سال کے لئے یہاں آجائیں اور اپنا عرصہ ملازمت پورا کر کے کل پنشن پر ریٹائر ہو کر پھر وہاں چلے جائیں.بعض ہمارے سترہ اٹھارہ سال کی سروس کے ڈاکٹر ہیں، سرحد کے.وہ بھی بڑے مخلص ہیں.ان سے بھی میں نے یہ کہا ہے کہ چھٹی لو.کیونکہ ان کے پانچ، چھ سال رہتے ہیں فل پنشن میں.3 سال گزار نے کے بعد وہ پھر یہاں آجائیں اور ان کی جگہ کسی اور کو 3 سال کے لئے بھجوا دیں گے.پھر فل پنشن ملنے پر وہاں چلے جائیں گے.ہم اپنی طرف سے تو چاہتے ہیں کہ پورا خیال رکھیں لیکن کام کو نقصان پہنچائے بغیر.غرض اس وقت آپ کے تعاون کی اشد ضرورت ہے.کیونکہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا ہے کہ بارہ جگہوں سے ہمیں یہ پیشکش آچکی ہے کہ ابتدائی اخراجات، جسے کیپٹل انوسٹمنٹ کہتے ہیں، وہ سارے ہم برداشت کرتے ہیں، آپ یہاں ہیلتھ سنٹر کھولیں.اور یہ پیشکش کرنے والوں میں سے بعض عیسائی پیراماؤنٹ چیف بھی ہیں اور غیر احمدی پیراماؤنٹ چیف بھی ہیں.سیرالیون کے نارتھ میں جودو، ایک جگہ ہے.یہاں ہمارا ایک بڑا اچھا ہائی سکول ہے.یہاں کے ایک پیراماؤنٹ چیف کا خط حال ہی میں مجھے ابیٹ آباد میں ملا، جس میں اس نے لکھا ہے ، ہم آپ کے بڑے ممنون ہیں.آپ نے ہمارے علاقے میں ہائی سکول کھولا اور اس وجہ سے میری چیف ڈم کا نام ہمارے ملک میں مشہور ہو گیا.حتی کہ دنیا میں مشہور ہو گیا.ربوہ والے بھی جانتے ہیں کو جورو کی ایک چیف ڈم ہے، جہاں یہ سکول کام کر رہا ہے.اس شکریہ کے بعد اس نے لکھا کہ میری چیف ڈم کا خیال یہ ہے کہ اگر میرے علاقے میں کوئی آدمی بیمار ہو جائے تو اسے 30-20 میل دور جا کر میڈیکل ایڈ ملتی ہے.اس لئے زمین میں دیتا ہوں، او پر مکان بنا کر میں دیتا ہوں، آپ یہاں ہیلتھ سنٹر کھولیں.اور اسی قسم کی دس، بارہ پیشکشیں آچکی ہیں.ایک جگہ تو اس غرض کے لئے ہمارے احمدیوں نے کرایہ پر مکان لے لیا ہے.نیچی من ایک جگہ ہے اور یہ بھی غانا کے نارتھ میں ہے.اکرہ سے 240 میل دور واقع ہے.وہاں ہمارا مشن ہے.بہت بڑی جماعتیں ہیں.میں نے انہیں لکھا تھا کہ ہم یہاں ہیلتھ سنٹر کھولنا چاہتے ہیں، تم اس کا انتظام کرو.انہوں 645

Page 663

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم نے وہی مکان ، جس میں ہم چند گھنٹے کے لئے ٹھہرے تھے، معمولی سے کرایہ پر لے لیا ہے.اور یہ اس کالونی میں واقع ہے، جو وہاں کے احمدیوں کے اشتراک سے بن رہی ہے.نائیجیریا میں اجے بواوڈے میں ہماری ایک احمدی بہن نے پندرہ ہزار پونڈ سے زیادہ خرچ کر کے ایک جامع مسجد تعمیر کروائی ہے.ہماری یہ بہن بڑی ہمت والی ہے.اس نے خود کھڑے ہو کر اپنی نگرانی میں یہ مسجد بنوائی ہے.اس نے مجھے سے کہا تھا کہ یہاں عربی کا سکول کھولیں.اب میں نے یہاں سے اسے لکھا ہے کہ میں اجے بو اوڈے میں ہائی سکول کے علاوہ میڈیکل سنٹر بھی کھولنا چاہتا ہوں.کیونکہ میرے نزدیک اجے بواوڑے کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہاں سے Bush ( بش) یعنی پیکن کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے.اور ان میں اسلام کی تبلیغ کی بڑی ضرورت ہے.اب اس مخلصہ احمدی بہن کا خط آیا ہے کہ جماعت نے بڑی کوشش کی تھی ، زمین نہیں مل رہی تھی.میں نے جماعت کی ناکامی کے بعد کوشش کر کے زمین خرید لی ہے.اور میں اس کی ذمہ داری لیتی ہوں.لیکن عربی جانے والا استادضرور بھیجیں.کیونکہ میں اپنی باقی زندگی قرآن کریم سیکھنے میں خرچ کرنا چاہتی ہوں.یہ دو جگہیں تو ایسی ہیں، جہاں احمدیوں نے ہیلتھ سنٹر کے لئے کوشش کی ہے.لیکن باقی جگہوں میں دوسروں نے پیشکش کی ہے.ایک قصبے میں غیر احمد یوں نے چار ہزار پونڈ ا کٹھے کر لئے میڈیکل سنٹر کھولنے کے لئے.ایک دوسرے تھے میں انہوں نے اس سلسلہ میں تین ہزار پونڈ جمع کر لئے.اور وہ کہتے ہیں کہ ہم مکان بنانے کی پوری ذمہ داری لیتے ہیں، آکر یہاں میڈیکل سنٹر کھولیں.ان دس، بارہ جگہوں پر تو میری خواہش ہے کہ دو، تین مہینوں کے اندر اندر ہمارے ڈاکٹر چلے جائیں.اور ویسے تو 40-30 یا جتنے بھی زیادہ ہیلتھ سنٹر ہو جائیں گے، اتنا ہی ہر لحاظ سے فائدہ ہے.مثلاً اسلام کی تبلیغ کے لئے بہت بڑا فائدہ ہے ہمشن کی مضبوطی کے لحاظ سے بڑا فائدہ ہے." ፡፡ (مطبوعہ روز نامہ افضل 14 اپریل 1972ء)...یہاں مولوی صاحبان تو ہمارے خلاف بولتے رہتے ہیں.اس وقت تک اس سلسلہ میں ہمارے خلاف مولویوں کی طرف سے دو قسم کی تنقید ہو چکی ہے.ایک مولوی صاحب نے سرگودھا میں تقریر کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ نایجیریا کے احمدیوں کو حکما رو کے کہ وہاں یہ براڈ کاسٹنگ سٹیشن نہ لگا ئیں.مولویوں کی تنقید اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے.اور دوسرے لائکپور کے مولوی صاحب ہیں، جنہوں نے یہ کہا ہے کہ نصرت جہاں ریز روفنڈ کھول کر حکومت سے بڑا فراڈ کیا گیا ہے.646

Page 664

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء اصل مقصد یہ ہے کہ یہاں کے سرمایہ دار روپیہ باہر جو اسکیں اور اس وقت تک دو کروڑ روپیہ باہر جاچکا ہے.اس لئے حکومت کو چاہئے کہ ان کو فارن ایہنچ نہ دے.اس سلسلہ میں فارن اینج نہ ہم نے مانگا ہے، نہ انہوں نے دیا ہے.ایک دھیلہ بھی نہیں دیا.یعنی ہمیں اس وقت تک مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی.ایک اور رپورٹ ہے کہ نصرت جہاں ریز روفنڈ نعوذ باللہ ایک Dubious Scheme ہے.ہے.یہ تبلیغ کے لئے نہیں بلکہ بعض سیاسی پارٹیوں کو مدد دینے کے لئے رو پیدا کٹھا کیا جارہا ہے.پس اس قسم کی تنقید میں ہو چکی ہیں.ویسے ہم خوش ہیں کہ تم بولتے جاؤ، ہم کام کرتے جائیں گے.میں نے ایک شرط لگائی ہے کہ ڈاکٹر صاحبان اسے یادرکھیں ، ہم پہلے یہاں سے جو سکول ٹیچرز بھیجتے تھے، (چنانچہ جہاں جہاں ہمارے سکول اسٹیشن ہو گئے ہیں ) وہاں ان کی ساری تنخواہیں حکومت دیتی ہے.مثلاً سیرالیون میں اس وقت ہمارے چار سکول اس ملک میں چوٹی کے ہیں.یعنی فری ٹاؤن میں ، بو میں، جو رو میں اور بواجے بو میں.ہمارے جو سکول ہیں، وہ چوٹی کے سکول سمجھے جاتے ہیں.بو سے 70 میل کے فاصلے پر نارتھ ایسٹ میں جو رد ہے اور قریباً 70 میل نارتھ ویسٹ میں بواجے بو ہے.یہ سکول بڑے مقبول ہیں.استادوں کی تنخواہیں اور سکول کا سارا خرچ حکومت برداشت کرتی ہے.لیبارٹریز کو Equip کرنے کا سارا خرچ حکومت دیتی ہے.اور وہاں ہمارے سکولوں کی لیبارٹریز اتنی اچھی ہیں کہ یہاں ہمارے انٹر میڈیٹ کا لجز کو تو چھوڑیں، اکثر گورنمنٹ ڈگری کالجز میں بھی اتنی اچھی لیبارٹریز نہیں.یا اس قسم کا سائنس آپر یٹس نہیں ہے.انہوں نے جاپان سے (یا جہاں سے Latest چیز تیار ہوتی ہے، وہاں سے ) منگوا کر اپنی لیبارٹریز کو مکمل کیا ہے.اور ان کے اتنے بڑے خرچ کے باوجو د سکولوں میں پالیسی ہماری چلتی ہے.یعنی خرچ ان کا اور پالیسی ہماری.حکومت نے کچھ عرصہ ہوا، بعض کریچن اور غیر احمدی ٹیچر ز بھی ہمارے سکولوں میں لگادیئے تھے.کیونکہ استادوں کی تقرری تو حکومت خود کرتی ہے.چنانچہ جب یہ صورت پیدا ہوئی تو شروع میں ہمیں خیال تھا کہ کہیں وہ تکلیف نہ دیں لیکن اب تجربے نے ثابت کیا ہے کہ وہ بڑا تعاون کرنے والے ہیں.ان میں سے بہت سارے احمد کی ہو گئے ہیں.جب میں گیا ہوں تو سکول ٹیچر ز میں سے بھی بعض نے بیعت کر لی.ایک سکول میں سولڑکوں نے بیعت کی.ایک دوسرے سکول کے ساتھ ،ستر طلباء نے بیعت کی.اور ایک تیسرے سکول میں سے بھی ساٹھ ستر نے بیعت کر لی لیکن بو میں وہ ایسانہ کر سکے کیونکہ جب ہم بو میں دو، تین دن کے لئے گئے تو سارا سٹاف اور جماعت کے عہد یدار انتظام وغیرہ میں لگے ہوئے تھے.سکول کے لڑکوں کو انہوں نے کہا ہی نہیں کہ جو بیعت کرنا چاہتا ہے، وہ بیعت کرلے.647

Page 665

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ا حضرت صاحب آئے ہوئے ہیں.وہاں پر جو طلباء جور و سے آئے تھے، وہ بھی اپنے ساتھ سینتالیس بیعت فارم لے کر آئے تھے.وہیں بواجے بوسے ساٹھ ستر بیعت فارم ساتھ لے کر آئے تھے.جب میں وہاں سے واپس آ گیا تو بو کے سکول کے لڑکے استادوں کے پیچھے پڑگئے کہ آپ نے ہم پر بڑا ظلم کیا ہے.حضرت صاحب یہاں آئے تھے اور آپ نے ہماری بیعت نہیں کروائی.اور پھر غالبا سو بیعتیں انہوں نے بذریعہ ڈاک کروائیں.فری ٹاؤن میں ہمارا جو سکول ہے، اس میں اس دفعہ 27 طلباء نے آخری کلاس کا امتحان دیا.(یہ در اصل سینئر کیمبرج کے برابر ہے.) اور جب انہوں نے یہ امتحان پاس کیا تو بلا استثناء ہر ایک نے بیعت کی اور اپنے سرٹیفیکیٹ لے کر چلے گئے.غرض خرچ سارا حکومت کرتی ہے اور پالیسی ہماری چلتی ہے، تبلیغ ہماری ہورہی ہے.انہوں نے ہمیں تبلیغ کرنے کی آزادی دے رکھی ہے.سکول کے اساتذہ جو یہاں سے گئے ہیں، وہ بھی مبلغوں سے کم نہیں.وہ بھی افریقنوں سے بڑا پیار کرتے ہیں.وہ قو میں پیار کی بھوکی ہیں.اتنی پیار کی بھوکی ہیں کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے.مجھے بھی اس کا پہلے اندازہ نہیں تھا.مجھے بھی پہلی بار اس وقت اندازہ ہوا، جب میں نے ایک افریقن بچے کواٹھا کر پیار کیا تو آٹھ ، دس ہزار کے مجمعے میں ایک ایسی خوشی کی لہر دوڑ گئی، جس کے آثار نہ صرف میری آنکھوں نے ان کے چہروں پر دیکھے بلکہ میرے کانوں نے بھی اس خوشی کو سنا.ان کے اوپر انناز بر دست اثر ہوا کیونکہ ہمارے جانے سے پہلے وہ تو میں یہ بجھتی تھیں کہ دنیا میں کوئی قوم پیدا نہیں ہوئی، جو ہم سے پیار کر سکے.کیونکہ انگریزوں نے Message of Love دے کر اپنے پادریوں کے بھیجا تھا، انہوں نے آکر لوگوں کے سامنے محبت کے پیغام کا پرچار کیا تھا.مگر ان کے پیچھے ان کی تو ہیں آرہی تھیں.میں ان سے یہ کہتا تھا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے اعلان یہی کیا تھا کہ ہم Message of Love لے کر آئے ہیں.لیکن ان پادریوں کی صفوں کے پیچھے غیر ملکوں کی جو فو جیں داخل ہورہی تھیں، ان کی توپوں کے مونہوں سے پھول نہیں جھڑے تھے، گولے برسے تھے.اور مجھ سے تمہیں اس کا زیادہ پتہ ہے.اس واسطے مجھے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.چنانچہ عیسائیوں کے اس سلوک کا ان پر بڑا شدید اثر ہے.اور وہ بڑے سخت متنفر ہیں.یعقو بو گوون ہیں تو عیسائی مگر وہ غیر ملکی حکومتوں کو Criticise نہیں کر رہا تھا بلکہ فارن کر چین مشن کے متعلق خود ان کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے بیا فرا کی خانہ جنگی میں ہمارے ملک کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے.خدا تعالیٰ نے فضل کیا کہ ہم بچ گئے.اور پھر ہم نے افریقہ میں جو کچھ کمایا ، وہ انہی پر خرچ کر دیا.یہ ہوسکتا ہے کہ افریقن ملکوں کے اندر ایک دوسرے کو چلا گیا ہو.لیکن ایسا بھی بہت کم ہوا ہے.کیونکہ ابھی وہ اس سٹیج پر پہنچے ہیں کہ و 648

Page 666

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء ملک کو مالی طور پر سپورٹ کر سکیں.لیکن اس وقت تک یہ حال تھا کہ جتنے پیسے کمائے تھے ، وہ اس ملک میں انوسٹ کر دئیے.ان حکومتوں کو بھی علم ہے اور عوام کو بھی اس کا علم ہے.پھر جو میں نے ان سے پیار کیا، وہ بہت ہی زیادہ تھا.میں نے اپنے مبلغوں سے کہا تھا کہ اب تمہارے لئے مشکل پڑ گئی ہے.کیونکہ یہ میرے پیار کے عادی ہو گئے ہیں.اب تم سے وہی پیار چاہیں گے ، اس لئے اس میں سستی نہ کرنا.ہمارے مبلغ ما شاء اللہ بڑے اچھے ہیں.ان میں سے ایک، دو نا تجربہ کار مبلغ بھی تھے ، جن کے بارہ میں، میں نے خطبہ میں ذکر کیا تھا ، وہ تو واپس آرہے ہیں.میں نے کسی تقریر یا خطبہ میں بتایا تھا کہ زمبیا (ایسٹ افریقہ ) کے ایک وزیرلندن امیر پورٹ پر اسی کمرہ میں تھے، جس میں ہم نے جاکر انتظار کرنا تھا.ہمارے ساتھ ہیں ، بچھپیں مقامی احباب بھی تھے.ان کے ساتھ زمبیا کا ہائی کمشنر ( متعینہ انگلستان) اور اس کا ایک دس، بارہ سال کا بیٹا تھا.مجھ سے دوستوں نے نوٹوں پر دستخط کروانے شروع کئے تو اس بچے کو بھی شوق پیدا ہوا تو وہ بھی میرے پاس نوٹ لے آیا.میں نے سوچا یہ تو پیار کے بھوکے ہیں، اس کے نوٹ پر دستخط نہ کروں.چنانچہ میں نے اپنی جیب سے ایک نوٹ نکال کر اس پر دستخط کئے اور اسے دے دیا.یہ تو معمولی بات تھی.لیکن جو اصل چیز تھی ، جس کا اس وزیر پر بھی اثر ہوا، وہ میرا اس بچے کو گلے لگا کر پیار کرنا تھا.اب چند سیکنڈ وقت خرچ ہوا.ایک دھیلہ اس پر خرچ نہیں کیا.پیار کا ایک اظہار ہی تو ہے.مگر اس کا ان پر بہت اثر ہوا.وہ وزیر اگر چہ پہلے مجھ سے مل چکے تھے مگر جب ان کے جہاز کے اڑنے کی اناؤنسمنٹ ہوئی اور جہاز میں بیٹھنے کے لئے جانے لگے تو پھر میرے پاس آگئے اور شکر یہ ادا کرنے لگے.اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہونٹ پھڑ پھڑا رہے تھے اور منہ سے صحیح الفاظ نہیں نکل رہے تھے کہ ہم آپ کے بڑے ممنون ہیں.اس لئے ممنون ہیں کہ آپ نے ہمارے بچے سے پیار کیا ہے.پس وہاں کے لوگوں کی اس قسم کی ذہنیت ہے.اس لئے ہمیں ایسے ڈاکٹر چاہئیں، جو ان لوگوں سے پیار کرنے والے ہوں اور دعائیں کرنے والے ہوں.چونکہ بارہ جگہ سے پیشکش آچکی ہے، اس لئے یہ بارہ ڈاکٹر تو مجھے فورا چا ہیں.ویسے اس وقت تک ہمارے پاس پندرہ سولہ ڈاکٹروں کے نام تو آچکے ہیں.لیکن ان میں سے اکثر نو جوان ہیں.اگر بوڑھے نہیں جائیں گے تو پھر نو جوانوں کو بھیجنا پڑے گا.ہمارے اگر ہزار ڈاکٹر بھی ہوں تو اس میں سے مجھے ایک سوڈاکٹر ملنا چاہیے.وو 66 ( مطبوعه روزنامه الفضل 15 اپریل 1972ء) ضمناً ایک بات میں اور بتا دیتا ہوں کہ سکیم اپنی نہ بنائیں کہ ہمارے کندھے اس کا بوجھ برداشت ہی نہ کر سکیں.میں نے بتایا ہے کہ ڈاکٹر سعید صاحب کو شروع میں ہم نے ادویات اور آلات 649

Page 667

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم وغیرہ کے لئے صرف پانچ سو پونڈ دیئے تھے.پھر انہوں نے کمایا اور پھر وہ بڑھا.کیونکہ ہم تو ان پر ایک پیسہ نہیں خرچ کرتے.اب وہ فزیشن سرجن ہیں، مجھے کہنے لگے کہ ابھی تک میں نے کوئی آپریشن اس لئے نہیں کیا کہ میرے پاس Dust Proof (ڈسٹ پروف) ایر کنڈیشنڈ کمرہ نہیں.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ آپ کے پاس پیسے ہیں.میری طرف سے اجازت ہے، آپ ایسا کمرہ فوراً بنوالیں.انہوں نے مجھے یہ بتایا تھا کہ وہ آنکھوں کا اچھا آپریشن کر سکتے ہیں، انہیں اس سلسلہ میں کافی تجربہ ہے.پس وہاں جو سال، دو سال میں کمائیں گے، وہیں خرچ ہوتا جائے گا.اور ساتھ ہی سامان بھی مکمل ہوتا چلا جائے گا.کیونکہ شروع میں ہم اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے.اس وقت تو اس بات کی ضرورت ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہیلتھ سنٹر یا کلینک کھول دیئے جائیں.کیونکہ وہ تعاون کر رہے ہیں.مثلاً نائیجیریا نے پہلے ہمیں ڈاکٹروں کے لئے الگ طور پر کوئی کوٹہ نہیں دیا تھا.لیکن اب وہاں کی حکومت کہتی ہے کہ 30 ڈاکٹر بھی بھیجو تو ہم ان کا پرمٹ دیتے ہیں.پس حکومت تعاون کر رہی ہے، عوام تعاون کر رہے ہیں.وہ ہمارا بہت سا بوجھ اٹھانے کے لئے بھی تیار ہیں.یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ وہ زمین دیتے ہیں، مکان دیتے ہیں کہ آجاؤ اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے.اور وہ ہیں غیر احمدی یا عیسائی یا شائدان میں کوئی مشرک بھی ہو.دراصل ان کو اس وقت ضرورت ہے.ان کو دوا حساس ہیں.ایک اپنی ضرورت کا احساس اور دوسرا احمدی کے اخلاق کا.اور اس بات کا کہ وہ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے شفار کھی ہوئی ہے.پس اس بھرم کو رکھنا بڑا ضروری ہے.شروع میں بہر حال تکلیف ہوگی.دوائیاں وغیرہ خرید نے میں دقت پیش آئے گی.میرے خیال میں شروع میں کام چلانے کے لئے پانچ سو پونڈ کافی ہیں.لیکن اگر اس سلسلہ میں کوئی تکلیف یا دقت پیش آئے گی تو اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ازالہ ہو جائے گا.آمد پیدا ہونے لگے گی تو ساتھ کے ساتھ آلات بھی خریدے جاسکتے ہیں.(اس کے بعد جو نیا معاہدہ یا قاعدہ مرتب کیا گیا ہے، وہ پڑھ کر سنایا گیا.اس قاعدہ پر کہ مبلغ ڈاکٹر کے درمیان اختلاف نہیں پیدا ہونا چاہئے.فرمایا ) اس وقت تک جو تین ڈاکٹر گئے ہیں، انہیں اپنے اپنے مبلغوں سے اختلاف کی ضرورت پیش نہیں آئی.کیونکہ مبلغ بھی مخلص اور سمجھ دار اور ڈاکٹر بھی مخلص ہیں.ڈسپلن کی ہدایت تو ہونی چاہیے.لیکن اس کی ضرورت نہیں پڑی.خدا کرے کہ کبھی نہ پڑے.650

Page 668

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء ہمارے جو سکول ٹیچر ز شروع میں گئے ہیں، ان کو چونکہ حکومت بڑی تنخواہیں دیتی ہے، اس لئے ان کے ساتھ تحریک نے یہ کیا ہوا تھا کہ اپنی تنخواہوں میں سے اتنا ضرور چندہ میں دے دیا کرو گے، جو بعض دفعہ دس فیصدی سے بھی بڑھ جاتا تھا.اس لئے میں نے کہا ہے کہ یہ ڈاکٹروں اور ٹیچروں کے دماغ پر زائد نفسیاتی بوجھ ہے، اسے کیوں ڈالا جائے؟ اس واسطے معاہدہ میں وصیت ضروری قرار دی گئی ہے.ویسے تو ہمارے ڈاکٹر بالعموم موصی ہوتے ہیں، اسی طرح ٹیچر بھی.جہاں تک سکولوں کے اجراء کا تعلق ہے، بالعموم دو سال تک سکول کا سارا خرچ اٹھانا پڑتا ہے.اس کے بعد جب حکومت سمجھتی ہے کہ اب یہ اسٹیبلش ہو گیا ہے اور کام ٹھیک ہورہا ہے تو پھر یا تو سارا یا بہت سا بوجھ خود اٹھا لیتی ہے.اس واسطے آپ کے ساتھ گو اس کا تعلق تو نہیں لیکن سکول کے لئے بھی ہم نے جو گزارہ رکھا ہے، وہ اس سے کم ہے، جو حکومت دیتی ہے.اور یہ معاہدہ لازمی اس معنی میں ہے کہ اگر آپ چھوڑ نا چاہیں تو آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا.اگر ہمیں ضرورت پڑی تو ہم جرمانہ دے دیں گے.معاہدہ کی بہر حال پابندی ضروری ہے، جو ہر احمدی سے کروائی جاتی ہے.یہ بڑی ضروری چیز ہے....معاہدہ کا پاس اسلام نے بڑا ضروری قرار دیا ہے.معاہدے خواہ اندرونی طور پر مثلاً وقف وو کے ہوں یا غیروں کے ساتھ ہوں،سب کے ساتھ بڑی سختی سے پابندی ہونی چاہیے.....پس آپ وقف کا یہ معاہدہ جو کریں گے، اس میں بھی آپ اس بات کو پیش نظر رکھیں.اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل: 35) یہ معاہدہ کم از کم 3 سال تک استثنائی طور پر ، ویسے عمومی طور پر ساری عمر کے لیے کریں تو زیادہ ثواب ہے.اگر کوئی ڈاکٹر یہ سمجھتا ہو کہ چھ سال کے بعد وہ دنیا میں کسی اور جگہ زیادہ ترقی کر سکتا ہے تو ہم اس کے راستے میں روک نہیں بنیں گے.لیکن اس نے جو عہد کیا ہے، اس کے مطابق اسے باوفا طور پر اپنی زندگی گزارنی چاہیے.( مطبوعه روزنامه الفضل 16 اپریل 1972ء)...ویسے بھی سن لیں، میں نے لندن میں بھی دوستوں سے کہا تھا کہ جماعت کی ضرورت تو بہر حال پوری ہونی ہے.انشاء اللہ العزیز.اس لئے ڈاکٹر صاحبان یا تو رضا کارانہ طور پر وقف کر دیں یا پھر میں حکم دوں گا.اس صورت میں آپ کے لئے دور استے کھلے ہوں گے.ایک تو یہ کہ آپ میرے حکم کی پابندی کریں اور دوسری صورت یہ ہے کہ حکم عدولی کی وجہ سے جماعت کو چھوڑ دیں.آپ کو پتہ ہے، میں 651

Page 669

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم نے نصرت جہاں ریزروفنڈ کا لندن میں اعلان کیا تھا.اس سلسلہ میں ہم نے بنک میں اکاؤنٹ کھلوانا تھا.بنک کے منیجر کے ساتھ ہمارے تعلقات تھے، ہمیں اس سلسلہ میں بنک میں نہیں جانا پڑا.وہ منیجر خود ہی ہماری مسجد میں آگئے تھے.تا کہ جو کمیٹی بنائی گئی تھی، اس کے دستخط وغیرہ لے لیں.ان سے میں نے یہ بات کی کہ اس طرح میں نے ڈاکٹروں سے کہا ہے.چنانچہ اس پر انہوں نے بڑے قہقہے لگائے کہ آپ نے ان کو خوب جکڑا ہے یا خود وقف کر دیا میں حکم دوں گا اور تمہیں اس کی پابندی کرنی پڑے گی.ہماری اس سکیم کا اس وقت جو یہاں مخالفانہ رد عمل ہوا ہے، وہ بہت دلچسپ ہے.اور آپ سن کر خوش ہوں گے.اس وقت تک میری ایک source سے یہ رپورٹ ہے.البتہ کئی طرف سے رپورٹ آئے تو اسے میں پختہ سمجھتا ہوں.بہر حال ایک source کی یہ رپورٹ ہے کہ جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے یہ ریزولیوشن پاس کیا ہے کہ ویسٹ افریقہ میں احمدیت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہاں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اس واسطے پاکستان میں ان کو کچل دو.تا کہ ان کی سرگرمیوں پر اس کا اثر پڑے اور جماعت کمزور ہو جائے.بالفاظ دیگر جو ہمارا حملہ وہاں عیسائیت اور شرک کے خلاف ہے، اسے کمزور کرنے کے لئے لوگ یہاں سکیم سوچ رہے ہیں.ویسے وہ تلوار اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کسی مخالف کو نہیں دی، جو جماعت کی گردن کو کاٹ سکے.باقی افراد کو تو بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے.دو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑے زبر دست وعدے دیئے ہیں.جن کے متعلق ایک زاویہ نگاہ یہ بھی ہے کہ اتنے ہی زبر دست وعدے دیئے ہیں، جو صحابہ کو دیئے گئے تھے.اس وجہ سے بھی آپ نے فرمایا ہے کہ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا امت محمدیہ کے پہلے حصے کو جو وعدے دیئے گئے تھے ، وہی وعدے اب امت محمدیہ کے اس حصے کو بھی دیئے گئے.جماعت احمدیہ نے اپنے اسی سالہ دور میں ان وعدوں کو پورے ہوتے دیکھا.ہزار مخالفت ہوئی اور ہزار مخالفت نے ناکامی کا منہ دیکھا.میں اپنے نو جوانوں کو کہتا ہوں کے کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ گنتی کے چند آدمی بھی نہیں تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود ایک جگہ یہ تحریر فرمایا ہے کہ اس وقت جب کہ کسی ایک آدمی نے بھی میری بیعت نہیں کی تھی ، البتہ میرے چند دوست تھے ) اس وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی نے دو سو چوٹی کے مولویوں کو اپنے ساتھ ملا کر کفر کا فتویٰ دیا اور آپ کو واجب القتل ٹھرایا اور 652

Page 670

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء لکھا کے جو آپ کو قتل کر دے گا ، وہ ثواب کمائے گا.اس فتویٰ نے ہندوستان میں ایک ہنگامہ بپا کر دیا اور لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑ کا دیا.اس وقت ان کے کفر کے فتوؤں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا.تو اب کیا پہنچا لیں گے؟ ہم تو کفر کے فتوؤں کی بوچھاڑ میں کہیں سے کہیں پہنچ گئے.ساری دنیا میں اب احمدیت پھیل گئی.یہ حماقت ہی ہے کہ کوئی سمجھے کے پاکستان میں احمدیوں کو قتل کر کے لوگ احمدیت کو مٹا سکتے ہیں.یہ سمجھنا سراسر حماقت ہے.کیونکہ احمدیت صرف پاکستان میں ہی نہیں، ایک لاکھ، پینسٹھ ہزار بالغ احمدی تو صرف غانا میں ان کی حکومت کی مردم شماری کے لحاظ سے 1960ء میں تھے.غانا ویسٹ افریقہ کا ایک ملک ہے.اس کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں میں بھی بڑی بڑی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں“.وو ( مطبوعه روزنامه الفضل 18 اپریل 1972ء) پخته ایمان کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بڑی کھلی شاہراہ کھولی ہے.البتہ انفرادی قربانی ضرور دینی پڑے گی.کیونکہ یہ بھی ہوا ہی نہیں کہ کوئی قوم قربانی دینے کے بغیر ترقی کر سکی ہے." انگریزوں نے ایک وقت میں یہ کہا تھا کہ ان کی وسیع و عریض برٹش کامن ویلتھ پر سورج غروب نہیں ہوتا.وہ زمانہ ختم ہو گیا.اب برٹش کامن ویلتھ پر سورج غروب ہوتا ہے.لیکن جماعت احمدیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا.لیکن خالی یہ چیز نہیں ایک اور چیز بھی ہے، جس کا انگریز دعوئی نہیں کر سکتے تھے لیکن جس کا جماعت احمد یہ دعوی کر سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو جماعت کو پہلے سے زیادہ کثیر اور پہلے سے زیادہ مضبوط دیکھتا ہے.اگر سورج کو زبان دی جائے تو وہ گواہی دے گا کہ ہر صبح کو میں یہ دیکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے اور پہلے سے زیادہ کثیر ہو چکی ہے.مثلاً افریقہ سے روزانہ بیعتیں آتی رہتی ہیں.ہمارے غیر مبائعین کے سالانہ جلسہ میں پچھلے سال جتنے آدمی اکٹھے ہوئے تھے ، ان سے زیادہ میں ایک ایک دن بیعت فارموں پر دستخط کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے.لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں لا فخر یہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں.ہم تو بڑے ہی کمزور اور عاجز ہیں.ہمارے پاس دنیا کا سہارا نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہمارا کام کر رہے ہیں اور ثواب ہمیں مل رہا ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے ورنہ آپ کیا قربانی دیتے ہیں.جب تحریک جدید شروع ہوئی تو شائد لاکھ ، ڈیڑھ لاکھ کا سارا بجٹ تھا.جس میں سے اکثر حصہ یہاں خرچ ہوتا تھا.دفتر کے اخراجات میں مبلغوں کی ٹریننگ ہے، کتابوں کی اشاعت کا کام ہے.میرے 653

Page 671

اقتباس از خطاب فرمودہ 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خیال میں اتنے بجٹ میں سے غیر ممالک میں خرچ کرنے کے لئے بمشکل 30-25 ہزار روپیہ ہوگا.اور یہ بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ذریعہ اللہ کا ایک بہت بڑا معجزہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس کے باوجود احمدیت کو شاندار ترقیات عطا ہوتی رہی ہیں.1945 ء تک اگر چہ غیر ممالک میں جماعتیں تو قائم ہو چکی تھیں.لیکن انہیں ابھی چندہ دینے کی عادت نہیں پڑی تھی.اس لئے یہیں سے خرچ ہوتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہمارے بعض بڑے بزرگ لوگوں نے چار آنے چندہ دیا، آپ نے ان کا نام اپنی کتابوں میں لکھ دیا، جس کے نتیجہ میں ان کو قیامت تک جماعت کی دعاؤں کی وجہ سے بھی ثواب ملتا رہے گا.مگر چندہ ان میں سے کسی کا چار آنے کسی کا آٹھ آنے اور کسی کا ایک روپیہ ماہوار تھا اور ان کا نام لکھ کر انہیں اس لئے اہمیت دی گئی کہ اس وقت امت مسلمہ اسلام کی راہ میں ایک دھیلہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں تھی.چنانچہ ان کی اس پہلی عادت کے مقابلے میں 4 آنے دینا واقعی بڑی بات تھی.پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے خدا کی راہ میں اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی ہر چیز قربان کر دی.مجھے پتہ ہے اور میں آپ کو علی وجہ البصیرت بتارہا ہوں کہ ایک شخص جو قادیان میں شروع زمانے میں بڑے اخلاص سے کام کرتا تھا اور جسے پانچ روپے ماہوار گزارہ ملتا تھا اور اس کے چھ ، سات لڑکے تھے.چنانچہ اب ایک ایک لڑکے کو تین تین، چار چار ہزار روپے ماہوار آمد ہوتی رہی ہے.پس اللہ تعالیٰ تو اس دنیا میں بھی کسی کا قرض نہیں چھوڑتا.البتہ قربانی ضرور لیتا ہے تا کہ وہ آزمائش کرے کہ کون اپنے عہد میں پکا ہے اور کون کمزور اور ٹوٹنے والا ہے؟ لیکن یہ کہ وہ ہمیں اس دنیا میں چھوڑ دے، یہ نہیں ہوسکتا.شروع میں تحریک جدید کا شاید لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ جمع ہوا تھا.لیکن اب میں نے انگلستان میں جب نصرت جہاں ریزروفنڈ کی تحریک کی تو پونے گھنٹے کے قریب میں پہلے دن اپنے بھائیوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوں اور اس وقت میرے خیال میں انگلستان کی ساری احمدی آبادی کا پانچواں یا ساتواں حصہ جمع تھا.سارے احباب تو ویسے بھی آنہیں سکتے.کیونکہ دور دراز علاقوں یا شہروں میں رہتے ہیں.کسی کو چھٹی نہیں ملتی.اس پونے گھنٹے میں سترہ ہزار سے زیادہ کے وعدے ہو گئے تھے.اور پھر دوبارہ اتوار کے روز ایک گھنٹے کے قریب میں ان میں دوبارہ بیٹھا ہوں، جس کے نتیجہ میں یہ وعدے 32 ہزار پونڈ تک پہنچ گئے.اور جب میں وہاں سے روانہ ہوا ہوں تو 40 ہزار کے وعدے ہو گئے تھے.پس کجاوہ زمانہ کہ بار بار تحریک کی گئی اور سارے سال میں لاکھ، ڈیڑھ لاکھ روپے اور کجا یہ کہ ڈیڑھ، دو گھنٹے میں 40 ہزار پونڈ یعنی نو لاکھ روپے کے قریب وعدے ہو گئے.654

Page 672

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء میں انگلستان میں قیام کے دوران چند دنوں کے لئے پین چلا گیا.یہ بھی ایک برکت ہے.میرے پیچھے لوگوں نے وعدے کئے اور نہ نقد پیسے دیئے.میں جب سپین سے واپس آیا تو امام رفیق کو خیال آیا کہ دس ہزار پونڈ نقد میری واپسی تک جمع نہیں ہو سکیں گے.مجھے کہنے لگے کہ یہ جو آپ نے ٹارگٹ مقرر کیا ہے، دس ہزار پونڈ نقد جمع کرنے کا، اس وقت تک 6 ہزار پونڈ نقد رقم جمع ہو چکی تھی وہ پورا نہیں ہو گا.آپ مجھے ایک ماہ کی مہلت دیں.میں نے کہا، کیسے نہیں جمع ہوں گے.جب اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے نکلوایا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اپنے فضل سے میری بات پوری کرے گا.چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جب میں وہاں سے روانہ ہوا تو دس ، ساڑھے دس ہزار پونڈ نقد جمع ہو گیا تھا.الحمد للہ علی ذالک.میرا خیال تھا کہ بہت سے ایسے دوست ہیں کہ جو انتظار کر رہے ہیں کہ میں پین سے واپس آؤں اور وہ میرے ہاتھ میں چیک دیں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح شاید انہیں زیادہ ثواب مل جائے گا.چنانچہ بہتوں نے بڑی قربانی کر کے دیئے بھی تھے.اب بھی میں یہاں سے ایک خط کے ذریعہ سے تحریک کر رہا ہوں.میرا خیال ہے کہ اب تک جو گیارہ ہزار سے اوپر نفر جمع ہو چکے ہیں کہ جلد از جلد میں ہزار پونڈ تک پہنچ جائیں.تا کہ کسی سٹیج پر روک پیدا نہ ہو.یہاں سے تو ہم ایک پیسہ بھی باہر نہیں بھیج سکتے.ہمیں فارن ایکسچینج نہیں دے رہے.لیکن یہاں بہت سارے کام ہیں.مثلاً یہاں سے جو آدمی جائیں گے، ان کا کرایہ وغیرہ پر خرچ ہو گا.میرے خیال میں اگر سارے استاد اور ڈاکٹر چلے جائیں تو اس پر دو، اڑھائی لاکھ روپیہ خرچ ہو جائے گا.بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ رقم Invest کر کے اس کی آمد سے خرچ کیا جائے.یہ میری سکیم نہیں ہے.یہ میراوہ سرمایہ نہیں ہے، جس کی آگے آمد سے افریقہ میں خرچ کرنا ہے.بلکہ اس سارے سرمایہ کو لگا دینا ہے.اور اگر میں 40 ہیلتھ سنٹر کھولنے میں کامیاب ہو جاؤں، اللہ تعالٰی آپ کو توفیق دے میرے ساتھ تعاون کرنے کی تو یہ پہلے ہیلتھ سنٹ کا تجربہ ہوا ہے، اس کے مطابق ایک لاکھ پونڈ سالانہ کی Not Saving بھی ہوسکتی ہے اور اگر ہم اس سرمایہ کو Invest کر دیں گے تو ہمیں دس ہزار پونڈ سالانہ آمد ہوگی.لیکن اگر ہم اس سرمایہ کے ذریعہ ہیلتھ سنٹر کھول لیتے ہیں تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اللہ تعالیٰ اس میں دنیوی لحاظ سے بھی برکت ڈالے گا.آپ اپنے اپنے یہاں دے جائیں ، آپ میری ان باتوں سے سمجھ گئے ہوں گے کہ جس حد تک ممکن ہوسکتا ہے، میں ڈاکٹروں پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کی کوشش کروں گا.مثلاً اگر کسی کے حالات ایسے ہیں کہ وہ باہر نہیں جاسکتا اور اس نے ہمارے ساتھ پانچ سال کا معاہدہ کر رکھا ہے تو اگر مجھے اس کی ضرورت نہ پڑی تو نہیں 655

Page 673

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بھیجوں گا.اور اگر مجھے اس کی ضرورت پڑگئی تو میں اس کو کہوں گا کہ معاہدے کی شق سے فائدہ اٹھاؤ کہ اگر بیچ میں چھوڑنا ہے تو اتنا حرجانہ دے دو اور آزاد ہو جاؤ.لیکن ایک حصہ بہر حال قربانی کا ہے.اگر وہ قربانی نہ ہو تو آپ کو ثواب نہیں ملے گا.میری یہ دعا ہے کہ آپ کو بھی دوسروں کے ساتھ بے حد ثواب ملے.لیکن جو باتیں میں نے اخلاص اور دعا وغیرہ کے متعلق کی ہیں، آپ ان کا ضرور خیال رکھیں.ہمارے میڈیکل ہیلتھ سنٹر کا جوڈا کٹر ہے، لوگ اس کو مبلغ بھی سمجھتے ہیں.اس لئے آپ کو وہاں جانے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتا بیں اچھی طرح سے پڑھنی پڑیں گی.مثلاً وہاں عیسائیت کے ساتھ مقابلہ ہے یاد ہر یت کے ساتھ مقابلہ ہے.بعض ملکوں میں تو بڑی بھاری اکثریت مشرکوں کی ہے.مثلاً لائبیریا ہے.یہاں بہت سے مشرک پائے جاتے ہیں.یہاں کے پریذیڈنٹ طب میں تھے، انہوں نے ہمیں سوا یکٹر زمین دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن عملاً انہوں نے ڈیڑھ سو ایکڑ زمین دینے کا حکم دے دیا ہے یعنی ڈیڑھ گنا زیادہ.لائبیریا میں حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 13 فیصدی عیسائی ہے اور 25 فیصدی مسلمان ہیں اور باقی 62 فیصدی پیکن یعنی مشرک ہیں.مختلف علاقوں میں مختلف قسم کی رسوم کے پابند ہیں.مسلمان کا یہ خیال ہے کہ یہ اعلان غلط ہے.ان کے خیال میں 50 فیصد مسلمان ہیں اور 13 فیصد عیسائی اور باقی مشرک ہیں.میں نے کہا کہ تمہیں حکومت کے خلاف کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ تم کوشش کر کے 25 فیصدی پیکن یعنی مشرکوں میں سے مسلمان بنا لوتو وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے کہ مسلمان اکثریت میں ہو گئے ہیں.اور احمدی اگر اتنے ہو جا ئیں تو غیر احمدی تو آپس کے جھگڑوں میں مبتلا ہیں، وہ اپنے حقوق کو حاصل نہیں کر سکتے.لیکن اللہ تعالیٰ احمدی کو یہ توفیق دیتا ہے، وہ دلیری کے ساتھ اپنے حقوق کو منواتا ہے.اور لوگ ان کے حقوق دیتے ہیں.انہیں یہ سمجھ ہے کہ اگر احمدیوں کے حقوق مارے گئے تو ہمارے لئے مشکل پڑ جائے گی.اگر ہم ایسے ملکوں میں مثلاً مشرکوں میں سے 25 فیصدی احمدی کر لیتے ہیں تو پھر وہ ملک کی اکثریت ہونے کی وجہ سے حکومت میں اسی نسبت سے اثر ورسوخ بڑھے گا اور ہماری تبلیغ اسلام کا کام بڑا تیز ہو جائے گا.میں نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بھی کہا تھا کہ اسلام کی عیسائیت کے خلاف اصلی جنگ اس وقت ویسٹ افریقہ میں ہو رہی ہے.کیونکہ اسلام کو چھوڑ کر باقی دنیا اس وقت مذہبی لحاظ سے دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے.ایک حصے پر دہریت کا لیبل ہے اور دوسرے حصے پر عیسائیت کا لیبل لگا ہوا ہے.دہریت والے حصے کو تو چھوڑ دیں کیونکہ انہوں نے مذہب کو خیر باد کہنے کا اعلان کر دیا ہے.لیکن جہاں تک عیسائیت 656

Page 674

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء کے لیبل کا تعلق ہے، اب یورپ بھی عیسائی نہیں رہا، جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا.جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں، ایک انگریز صحافی کے ایک سوال کے جواب میں، میں نے اسے بتایا تھا کہ تمہارے گرجے کے سامنے For Sale کا بورڈ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری نئی پود عیسائیت سے کوئی دلچسپی نہیں لے رہی.لیکن ان پر عیسائیت کا لیبل لگا ہوا ہے.اب ویسٹ افریقہ میں عیسائی بڑا زور لگا رہے ہیں کہ وہاں وہ کامیاب ہو جائیں.کیونکہ ان کو یہ نظر آ رہا ہے کہ یہ قو میں جس مذہب میں چلی گئیں، دنیا میں اس کا بڑا اثر ہوگا.اور یورپ سے وہ مایوس ہو ہی چکے ہیں.انگلستان سے وہ مایوس ہو چکے ہیں، امریکہ سے وہ مایوس ہو چکے ہیں ،صرف لیبل ہے.الا ماشاء الله.بعض لوگ دیانتداری سے عیسائیت پر ایمان رکھنے والے بھی ہوں گے لیکن ان کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے، لیبل والا حصہ بہت زیادہ ہے.اس لئے اب افریقہ میں عیسائیت کے ساتھ ہماری جنگ ہو رہی ہے.اگر ہم جنگ جیت جائیں تو دوسرے ممالک میں، جو عیسائیت کے لیبل والے ہیں ، ان میں بھی جیت جائیں گے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عظیم نعرہ لگایا تھا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف : 111) مسلمان اس کو بھول گئے.اتنے بڑے نبی کی زبان مبارک سے یہ نعرہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.یہ بہت عظیم نعرہ ہے.فرمایا.میں تمہارے جیسا انسان اور تم میرے جیسے انسان ہو.بحیثیت انسان ہم سب برابر ہیں.یہ نعرہ اس وقت ہم احمدیوں کا نعرہ ہے.غیر احمدیوں کا تو یہ نعرہ نہیں ہے.کیونکہ انہیں آپس میں بھی ایک دوسرے سے نفرت اور حقارت ہے.بڑا دکھ ہوتا ہے.لیکن ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی جھگڑا نہیں.گو منافق ضرور ہیں."" ( مطبوعہ روزنامہ 19 اپریل 1972ء)...بہر حال افریقہ میں بہت سی باتیں غور طلب ہیں.ہم نے عملی زندگی میں مساوات کو قائم کرنا ہے.مثلاً وہاں غانا میں شیطان نے آٹھ ، دس مخلص احمدیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ اب ہمارا افریقن غانین ربوہ جا کر شاہد کی ڈگری لے کر آیا ہے، آٹھ ، دس سال وہاں پڑھا ہے، اس کو ہمارے ملک کا انچارج بننا چاہئے.مشنری انچارج اس افریقن مبلغ کو ہونا چاہیے.ایک پاکستانی کو کیوں انچارج بنا دیا ہے؟ یہ بہت بڑی جماعت ہے.میں نے بتایا ہے، پونے دولاکھ کے قریب بالغ احمدی 1960ء میں 657

Page 675

اقتباس از خطاب فرمودہ 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد چہارم تھے.گو اس قسم کا خیال رکھنے والے آٹھ ، دس تھے.لیکن وہ پڑھے لکھے اور عہدیدار تھے.شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات پیدا کر دی.مجھے اس کا پتہ لگا تو میں کسی کوختی سے اور کسی کو نرمی سے سمجھا تارہا.پہلے تو میں نے سمجھا کہ عبدالوہاب ، جس کا وہ نام لے رہے تھے، اس کو کہیں خراب نہ کریں.وہ بڑا مخلص اور کام کرنے والا افریقن مبلغ ہے.اس سے میں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ ہم تو بین الاقوامی سطح پر سوچتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ سارے انسان بحیثیت انسان برابر ہیں.میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ تمہیں غانا کا مشنری انچارج نہیں بلکہ سکاٹ لینڈ یا کسی اور علاقہ کا مشنری انچارج بنادوں.اور تم سوچ رہے ہو کہ GHANIAN.FOR GHANA تمہارا یہ انداز فکر ، احمدیت کا انداز فکر نہیں ہے.خیر وہ تو بڑا مخلص ہے ، اس کے دماغ میں کیڑر انہیں تھا، میں تو اس کو اس خیال سے بچانا چاہتا تھا.پھر میں نے دوسروں کو بھی سمجھایا.ایک نوجوان اچھے بڑے عہدے پر کام کرتا ہے، ڈیڑھ، دو ہزار روپے تنخواہ لینے والا ہے.جس وقت میں نے غانا سے روانہ ہونا تھا، اس کی کہیں باہر جانے کی ڈیوٹی لگ گئی تو وہ اس ہوٹل میں الوداع کہنے کے لیے آ گیا، جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے.اور کہنے لگا کہ افسوس ہے، میں ایئر پورٹ پر نہیں آسکتا.اس لئے میں یہاں آ گیا ہوں.ہمارے مبلغ انچارج نے مجھے بتایا کہ یہ بھی ان آٹھ ، دس میں شامل ہے.چنانچہ میں نے اسے ایک طرف لے جا کر کہا کہ تم احمدیت کی سوچ کے خلاف یہ کیا سوچ رہے ہو؟ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ تمہارے آدمیوں کو باہر لے جا کر یورپ کے کسی ملک کا انچارج بنادوں اور تم یہ سوچ رہے ہو GHANIAN.FOR GHANA میں نے جب ذراختی سے یہ کہا تو اس نے بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رونا شروع کر دیا اور اسے اپنے اوپر بالکل قابو نہ رہا.اس کا رو رو کر برا حال ہو گیا.پھر میں نے اسے گلے لگایا اور اس کی گردن پر پیار کیا.مگر پھر بھی اس کا رونا بند نہ ہوا.پھر میاں مبارک احمد صاحب سے بھی اس نے کہا کہ حضرت صاحب کے پاس مبلغ انچارج نے میری شکایت کر دی ہے.غرض وہ بڑی سعید روحیں ہیں اور وہ لوگ اخلاص سے بھرے ہوئے ہیں.لیکن ہمارا مساوات کا خالی دعوی کافی نہیں ہے.اس طرح آج نہیں تو کل شیطان کسی اور کے دماغ میں یہ کیڑا پیدا کر دے گا.اس واسطے میں نے غانا میں کماسی کے مقام پر ہمارے جو افریقن ہیڈ ماسٹر ہیں، ہمارا یہ سکول بہت اعلیٰ درجے کا ہے.) اس کو میں نے کہا کہ میرا تو دل کرتا ہے کہ میں تمہیں پاکستان کے اپنے کسی ہائی سکول کا ہیڈ 658

Page 676

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء ماسٹر لگاؤں.کیونکہ جب تک ہم عملاً ان سے یہ سلوک نہیں کریں گے، اس وقت تک ہمارا یہ دعویٰ آج نہیں تو کل ضرور کھوکھلا نظر آئے گا.وہ پیار کے بڑے بھوکے ہیں.اور اس کے وہ حق دار بھی ہیں.بو میں جورو کے ایک پیرا ماؤنٹ چیف جس کا اب مجھے خط ملا ہے اور اس میں اس نے لکھا ہے کہ میں نے آپ کے بو میں آنے پر اپنے پندرہ آدمی بطور آبزور بھیجے تھے، جن میں اکثر غیر احمدی تھے اور میں ان کے ذریعے یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آپ لوگوں سے کیسے سلوک کرتے ہیں؟ انہوں نے آکر مجھے بڑی اچھی رپورٹ دی ہے.خصوصا ( یہ چیز میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ پیار کرنے کا کیا اثر ہوتا ہے؟ اس بات پر بڑا اثر ہے کہ آپ نے ان سے معانقہ کیا ہے.اب معانقہ کرنے پر انسان کا کیا خرچ آتا ہے؟ لیکن یہ چیز بڑا ہی اثر پیدا کرتی ہے.ان کے بچوں کو پیار کرنے سے، ان کو گلے لگا لینے سے، ان کی غیر ملکیوں کے خلاف جو نفرت اور حقارت ہے، وہ ایک لمحہ میں دھل جاتی ہے.لیکن اسے ہم نے عملاً ثابت کرنا ہے.اب تو حالات ایسے نہیں لیکن وہ وقت دور نہیں ، جب ہمارے ہیں، ہیں افریقن غیر ملکوں کے مشن میں بھجوائے جائیں گے.اب مثلاً نجی ہے، وہاں سے مجھے کل ہی خط آیا ہے کہ کسی افریقن مشنری کو یہاں بھجوائیں.کیونکہ یہاں افریقن بھی آباد ہیں بلکہ مقامی باشندے شاید افریقن نسل سے ہی ہیں اور وہ افریقن مبلغ ان کے ساتھ ملے اور تبلیغ کرے تو بڑا اچھا اثر ہوگا.پس یہ مساوات کا سبق بھی ہم نے ہی ان قوموں کو دینا ہے.یہ جو اپنے آپ کو بڑی مہذب قومیں کہتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کا نعرہ قرآن کریم کے مطابق حضرت عیسی نے بھی لگایا تھا.سارے رسول یہی کہتے آئے ہیں.لیکن ان کی جو تو میں تھیں، وہ بعد میں خراب ہو گئیں.چنانچہ یہ عیسائی تو میں اپنے آپ کو مہذب کہتے ہوئے بھی انسانی مساوات پر عمل نہیں کرتیں.اور افریقہ میں یہ افریقن اور یورپین کے درمیان امتیاز کو قائم رکھتی ہیں.میں نے وہاں انہیں کئی دفعہ یہ کہا کہ اگر انسانیت سے تمہیں پیار ہوتا تو تم ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم کبھی ایجاد نہ کرتے.اس قسم کی تمہاری یہ ایجادیں اپنی ذات میں اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ تمہیں انسانیت سے کوئی پیار نہیں ہے.اپنے آپ سے پیار ہے، اپنی قوم سے پیار ہے، لیکن انسان سے بحیثیت انسان تمہیں کوئی پیار نہیں ہے.اس دفعہ جب میں افریقہ گیا ہوں تو دو بوڑھے امریکن فرینکفورٹ سے لیگوس تک کی چھ گھنٹے کی پرواز کے دوران ہمارے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے.ان سے میری واقفیت ہو گئی.چنانچہ آپس میں ہماری باتیں 659

Page 677

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہونے لگیں.میں نے ان سے کہا کہ جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ فرد فرد سے محبت سے پیش نہیں آتا ، فرد فرد سے نفرت اور حقارت کا سلوک کر رہا ہے، قوم قوم سے نفرت کرتی ہے تو مجھے شرمندگی بھی ہوتی ہے اور بڑا دکھ بھی ہوتا ہے.کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ انسان انسان سے پیار کرنا سیکھ لے؟ ویسے چونکہ یہ پڑھی لکھی اور ہوشیار قو میں ہیں، نہ میں نے روس کا نام لیا تھا، نہ میں نے امریکہ کا نام لیا تھا، ان میں سے ایک نے آگے سے یہ جواب دیا کہ اب تو روس کے ساتھ ہماری انڈرسٹینڈنگ ہوگئی ہے.میں نے اس سے کہا ، OUT OF FEAR NOT OUT OF LOVEوہ کھسیانہ سا ہو کر کہنے لگا ، ہاں، یہ بات ٹھیک ہے.بہر حال ایک قدم صحیح DIRECTION (جہت) کی طرف اٹھایا گیا ہے.میں نے کہا، یہ صحیح ہے، یہ میں مان لیتا ہوں.لیکن تم نے انسان سے پیار کرنا نہیں سیکھا.کیونکہ جس کو انسان سے پیار ہوتا ہے، وہ ہیروشیما پر ایٹم بم نہیں کراتا.معصوم بچوں، عورتوں اور بیماروں سب کو ایک ہی ہتھیار کے ساتھ آنکھیں بند کر کے آگ کے اندر بھسم کر دیا.بھلا اس قسم کے اقدام سے انسان سے پیار کہاں ثابت ہوتا ہے؟ غرض آج دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے، جو انسان کو انسان سے پیار کرنے کا سبق پڑھا سکتی ہے.اور یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے.بری عادتوں کو چھوڑنا پڑے گا ، رسوم کو چھوڑنا پڑے گا.میرا تو دل کرتا ہے ، 50 یا سو افریقن عورتوں کو بلا کر یہاں پاکستانی احمدیوں کے ساتھ شادی کروادوں اور یہاں کی لڑکیوں کی وہاں کے احمدیوں سے شادی کروا دوں.ہمارے افریقن بھائی بڑے اچھے دل کے مالک ہیں، بڑا اچھا مزاج رکھتے ہیں.اپنی بیویوں سے بڑا اچھا سلوک کرنے والے ہیں.وہاں کثرت ازواج کا بڑا رواج ہے.وہ بالعموم ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں.لیکن میاں بیوی کی آپس میں کوئی تلخی نہیں ہوتی.خاوند اپنی ساری بیویوں سے بڑا اچھا سلوک کرتا ہے.ہمارے سنگھاٹے صاحب کی غالباً دو یا تین بیویاں ہیں.وہ منصورہ بیگم سے ملتی رہی ہیں.لیکن ان کے آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا.میں سمجھتا ہوں کہ افریقن معمولی باتوں پر لڑ نا تو شاید جانتاہی نہیں.نہ ہی وہ مذہبی اختلاف پر کبھی لڑتے ہیں.اور یہ واقعی بڑی عجیب بات ہے اور بڑی ہی اچھی اور حسین کہ مذہب کے نام پر وہاں کوئی لڑائی نہیں ہوتی.وہاں مباحثے ہوتے ہیں، تقریریں ہوتی ہیں، بھیج یا غلط دلائل دیئے جاتے ہیں، یہ سب کچھ ہے.لیکن یہ کہ ڈانگ ہے، رائفل ہے، پستول ہے یا مکا ہے، یہ کوئی نہیں ہے.چنانچہ وہاں ہماری کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ افریقن بڑے آرام سے بات سن لیتے ہیں.میں نے آزمائش کے طور پر ملک کے عیسائیوں سے یہ کہا کہ تم اسلام کی کتابیں پڑھو، اگر نور نظر آ جائے تو پھر اسے قبول کر لینا.مگر مجھے ایک نے بھی یہ جواب نہیں 660

Page 678

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء دیا کہ ہم عیسائیت پر مطمئن ہیں، اس لئے ہم اپنا مذ ہب کیوں بدلیں؟ بلکہ ہر ایک نے مجھے یہی جواب دیا کہ ٹھیک ہے، ہم کتابیں پڑھیں گے ، اگر صداقت نظر آگئی تو مان لیں گے.بو میں ریڈیو کی نمائندہ ایک خاتون تھی ، جو ہمارے ساتھ لگی ہوئی تھی.اس کا باپ کسی زمانہ میں عیسائی ہو گیا تھا.البتہ اس کے دو تین چا مسلمان تھے.وہ منصورہ بیگم سے بڑا تعلق رکھتی تھی اور باتیں کیا کرتی تھی.چنانچہ منصورہ بیگم کے کہنے پر کہ اسے تبلیغ کرنی چاہیے.میں نے اسے بیعت فارم دیا اور کہا کہ میں یہ فارم تمہیں اس لئے نہیں دے رہا کہ تم بیعت کے لئے دستخط کر دو بلکہ میں تمہیں اس لئے دے رہا ہوں کہ اس میں بہت ساری شرائط لکھی ہوئی ہیں ، اس سے تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ ہمارے عقائد کیا ہیں؟ ساتھ ہی میں تمہیں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہماری کتابیں پڑھو، پھر اگر اسلام کا نور نظر آئے تو اسے قبول کرنے میں اپنے باپ سے نہ ڈرنا.پھر مسلمان ہو جانا.چنانچہ وہ کہنے لگی، ٹھیک ہے.چلتے وقت منصورہ بیگم نے بتایا کہ اس نے آٹھ ، دس دفعہ کہا کہ حضرت صاحب کو میرے لئے دعا کے لئے کہتے رہیں.پس اس لحاظ سے وہ بڑے اچھے ہیں.لیکن دنیا نے انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا.پچاس سالہ تو ان کا تجربہ تھا کہ احمدی ہوتے کیسے ہیں؟ اب میں ایک اعلان کر آیا ہوں اور جماعت پر اس کی ذمہ داری ہے.میں نے وہاں ایک جلسے میں آٹھ ، دس ہزار آدمیوں کے سامنے یہ اعلان کیا تھا کہ آج کے بعد دنیا تمہیں حقارت اور نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی.اب تمہاری عزت اور تمہارا احترام کیا جائے گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات کی ذمہ داری لیتے ہیں کہ ہم افریقن کی عزت اور احترام کو دنیا میں قائم کریں گے.اب جماعت کا یہ فرض ہے کہ میں نے جو یہ اعلان کیا ہے، اس کے مطابق عملاً یہ ثابت کرے.اس وقت افریقہ میں ہمارے اور عیسائیت کے درمیان آخری اور زبردست جنگ لڑی جارہی ہے.اگر ہم افریقہ میں عیسائیت سے یہ جنگ جلدی جیت لیں تو اس کا رد عمل دوسرے ممالک میں بڑاز بردست ہوگا.اب میرے پانچ ، چھ ہفتہ کے دورے کا رد عمل پاکستان میں تو یہ رونما ہوا کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت جو بڑے منظم چھوٹے چھوٹے سیلز پر مشتمل ہے.اور امیر بھی بہت ہے.ہم سے ہزار گنا زیادہ امیر ہے.اسے بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ویسٹ افریقہ میں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن یہ تو ابھی بالکل ابتداء ہے.ہم نے ساری دنیا سے یہ منوانا ہے.ہم اس پیغام محبت میں ناکام ہو ہی نہیں سکتے.میں وہاں یہ اعلان کر آیا ہوں کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے، دنیا میں حقیقی محبت کا پیغام کبھی نا کام نہیں ہوا.عارضی طور پر ابتلاؤں میں سے ضرور گذرا ہے لیکن نا کام نہیں ہوا.661

Page 679

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم یہاں میرے پاس کئی نوجوان آجاتے ہیں اور بڑے غصے میں ہوتے ہیں کہ ان کے گاؤں کا مولوی لاؤڈ سپیکر پر انہیں بے نقط گالیاں دیتا ہے.چنانچہ ایک دفعہ ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں کا ایک احمدی نوجوان ملنے آیا.وہ بڑے غصے میں تھا، نیوڑی اس کی چڑھی ہوئی تھی اور آنکھیں لال پیلی.کہنے لگا کہ میرے گاؤں کا ایک مولوی روزانہ زور زور سے گالیاں دیتا ہے.میں اس کی ساری سرگزشت سنتا رہا.جب وہ خاموش ہو گیا تو میں نے اسے کہا کہ اپنے گاؤں کے مولوی سے جا کر کہو کہ جتنا زور چاہوں گا لو تم ہمارے دل میں اپنے لئے نفرت نہیں پیدا کر سکتے.ہم تو انسان سے محبت کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.اور اس معاملہ میں آج نہیں تو کل تمہیں اس کا قائل ہونا پڑے گا.تم بچ کر نہیں جاسکتے.محبت کی تلوار ایک ایسی تلوار ہے، جس سے کوئی بچ نہیں سکتا.پس یہ ہمارا مقام ہے اور یہ ہماری تعلیم.افریقہ میں طبی امداد بہم پہنچانا، اس تعلیم اور جذبے کا ایک معمولی سا اظہار ہے.اس لئے مجھے جتنے آدمی چاہئیں، وہ مجھے رضا کارانہ طور پرپل جانے چاہئیں.ور نہ پھر میں حکم دوں گا اور آپ کو ماننا پڑے گا.وہ بھی رضا کارانہ ہی ہے.کئی تو میرے ذہن میں تھے، ان سے میں نے کہا بھی ہے کہ وقف کر دو.مثلاً ڈاکٹر انوار ہیں، وہ بالکل نوجوان ہیں.انہوں نے بڑی اچھی مثال پیش کی ہے.غالباً دو، تین سال پہلے انہوں نے ڈاکٹری کی ڈگری لی ہے.یہ ہمارے خان شمس الدین خان صاحب پشاور کے صاحبزادے ہیں اور آج کل ڈاڈر میں لگے ہوئے ہیں.کیونکہ انہوں نے ٹی بی کی ٹریننگ لی ہوئی ہے.ان سے میں نے کہا کہ مجھے ایک ٹی بی سپیشلسٹ چاہئے ہم تجربہ حاصل کرو اور وقف کر دو.چنانچہ اس نے اس وقت میرے سامنے کسی قسم کا اظہار نہیں کیا.میری بات سنی اور چلا گیا.بعد میں مجھے دفتر نے بتایا کہ اس نے خط لکھا ہے کہ میں اپنی زندگی وقف کرتا ہوں.ویسے اس قسم کے مخلص نوجوان ڈاکٹر ہوں ، جو وصیت کریں اور ڈاڑھی وغیرہ رکھ لیں تو ٹھیک ہے.ویسے صرف داڑھی رکھنے سے کیا ہوتا ہے؟ اب تو ہمپیز نے ڈاڑھی رکھنا شروع کر دیا ہے.میں ان کی تنظیم کی پیروی کرتے ہوئے ، یہ نہیں کہوں گا کہ عورتوں کی طرح بال رکھ لو یا بندریوں کی طرح گھگھری پہن لو.وہاں ٹریفگر سکوائر لندن میں 67ء میں بھی اور اب بھی میں نے دیکھا ہے کہ جس طرح بندر نچانے والا بندر یا کوھنگھری پہناتا ہے، بلا مبالغہ لڑ کے اس قسم کی گھنگھری پہنے ہوئے گھڑے ہیں.میں نے دل میں کہا، تمہیں قِرَدَةً خَسِينَ 662

Page 680

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء کا مطلب آج سمجھ آ گیا ہے.آپ ہی بندر بن گئے ہو اور حیوانوں کی طرح زندگی گزارنے کے آپ ہی مصداق بن گئے ہو.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ان سے نفرت کرتا ہوں.مجھے ان سے ہمدردی ہے.انسان کی زندگی کا حقیقی مزہ اور مسرت ان کو نہیں مل رہی.لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ رپورٹنگ میں وہ بڑے دیانت دار ہیں.وہ ساری بات شائع کر دیتے ہیں.مگر ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی صحافی ترک وطن کے مسئلہ پر لال پیلے ہورہے تھے.میں نے ان سے کہا کہ یہ انگریزوں کا ملک ہے، اگر یہ تمہیں یہاں نہیں رکھنا چاہتے تو تم یہاں سے چلے جاؤ.ویسے میں نے انہیں اصول بتایا کہ If you win their hearts they are not going to turn you out, if don't, you have got no right to stay here.اس کے اوپر ہی انہیں غصہ چڑھ گیا تھا.اور پھر ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی صحافی نے جب ان کا غصہ دیکھا تو ان کا غصہ نرم کرنے کے لئے مجھ سے کہنے لگا کہ روڈ یشیا اور سوڈ تھ افریقہ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ جس طرح یہ ملک انگریزوں کا ہے، اسی طرح وہ ملک افریقنوں کا ہے.اور جب بھی اللہ تعالیٰ انہیں طاقت دے ( اور میں امید کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ ان سفید فام لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں گے.یہ بھی دراصل سفید فام کو چھیڑ لگانے کے مترادف تھا.مگر یہ بھی انہوں نے اپنی اخباروں میں دے دیا." ( مطبوعه روزنامه الفضل 120اپریل 1972ء) ہ یہ آپ اچھی طرح سے یاد رکھیں کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ساری دنیا کو بحیثیت انسان، انسان سے محبت کا سبق دینا، جماعت احمدیہ کا کام ہے.کوئی اور دے بھی نہیں سکتا اور نہ ان کی ذمہ داری ہے.اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا فضل ہے.اب میں مغربی افریقہ میں گیا ہوں.مجھے ایک لحظہ کے لئے بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میں اپنے گھر سے دور ہوں.بلکہ بعض دفعہ یہ احساس پیدا ہوتا تھا کہ گھر میں مجھے اتنی محبت نہیں ملتی تھی، جتنی یہ لوگ دے رہے ہیں.وہ عجیب قوم ہے.مجھ سے مصافحہ کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے اور بغیر کچھ کہے یا بات کئے کھڑے ہیں اور منہ تکے جارہے ہیں.میں اپنی طبیعت کے لحاظ سے حجاب کی وجہ سے منہ نیچے کر لیتا تھا اور گردن جھکا لیتا تھا.وہ میرا ہاتھ نہیں چھوڑتے تھے.پیچھے سے دوسرا افریقن اسے ٹھونگے لگا رہا ہوتا تھا کہ چھوڑ دو، میری باری ہے.لیکن وہ کھڑے ہیں.ابادان میں Actualy یہ ہوا کہ ایک آدمی نے مصافحہ کیا اور ہاتھ چھوڑ نہیں رہا تھا.دوسرے نے زور سے اس کا 663

Page 681

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ہاتھ پرے کھینچا اور فورا آگے آگیا اور اس طرح ہاتھا پائی ہوا کرتی تھی.میں ان پر حکومت کرنے کے لئے تو نہیں گیا تھا.سارے بھائی بھائی ہیں.یہ آپ سوچا کریں.خدمت کرنے کی میرے اوپر ذمہ داری ہے.اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سوائے میرے اور کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہو.بڑی سخت جواب رہی ہے.لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے.اگر میں آپ کے سامنے جواب دہ ہوتا تو آپ کے ساتھ شاید ہزار چالاکیوں سے کام لیتا.لیکن اگر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں تو کوئی چالا کی نہیں کر سکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے.اس واسطے میں تو ہر وقت ڈرتے ڈرتے عاجزانہ زندگی گزار رہاہوں.باقی یہ ہے کہ اس نے میرے سپر د جو کام کیا ہے، اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں نہ میں آپ سے ڈرتا ہوں اور نہ کسی اور طاقت سے ڈرتا ہوں.وہ کام تو میں ضرور کروں گا اور اپنی پوری طاقت سے کروں گا.کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں.یہ اس کا دوسرا رخ ہے.کیا وہ مجھے یہ نہیں کہے گا کہ تمہارے سامنے دس ہزار پاکستانی احمدی تھے، مگر ان کے سامنے کیوں خوف کا اظہار کیا ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ سوائے اللہ کے کسی اور سے نہ ڈرو.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو یہی کہتا ہے.بعض میرے سامنے بے تکلف بات کرنے والے ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے بت نہیں بنایا.نہ پہلوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بنایا تھا اور نہ اس وقت بنایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ایک بت کی طرح اپنی جماعت کے احباب میں بیٹھوں.اور ہمارے تو کبھی یہ خیال میں بھی نہیں آیا.لیکن جو ذمہ داریاں اور تعلقات ہیں، وہ تو آپ کو بھی نباہنے چاہئیں اور میں بھی جہاں تک مجھے اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے، نباہنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، میں نے کم از کم تھیں میڈیکل سنٹر کھولنے کا اعلان کیا ہے.زیادہ سے زیادہ جتنی تعداد میں خدا تعالیٰ ہمیں کھولنے کی توفیق دے، یہ اس کا فضل ہیں.مگر سر دست تمیں سنٹر کھولنے کا اعلان کیا ہے.کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے، میڈیکل سنٹر ز کھولنے کئی پہلوؤں سے ہمارے لئے بہت ضروری ہیں.اور اب جب کہ اتنی رو پیدا ہو چکی ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ افریقہ کے سارے ملکوں میں اس قسم کی رو پیدا ہو جائے تو اس صورت میں اس سے فائدہ اٹھانا ، بڑی بری بات ہے.نارتھ نائیجریا احمدیت کے حق میں بڑا متعصب ہے.کیونکہ عثمان بن فودی جو حضرت مسیح موعود سے پہلی صدی میں نائجیر یا میں مجدد ہوئے ہیں.وہاں انہی کے مرید پائے جاتے ہیں.سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کی صحیح شکل دکھائی.اب چھلکا رہ گیا ہے ، روح غائب ہوگئی ہے.لیکن اس میں شک تو 664

Page 682

تحر یک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء نہیں کہ بظاہر مذہبی لحاظ سے بڑے پکے ہیں اور ہمارے بڑے مخالف ہیں.اب نائیجریا کے نئے دستور کے مطابق مسلم نارتھ کئی سٹیٹس میں تقسیم ہو گیا ہے، کئی ریاستیں بنادی گئی ہیں.جب ہم شروع میں نائیجریا میں گئے ہیں تو ہماری تمام تر توجہ ویسٹ اور ایسٹ نائیجریا میں تھی.نارتھ میں وہ ہمیں گھنے نہیں دیتے تھے، اس لئے وہاں ہماری جماعت تو کیا ایک آدمی بھی احمدی نہیں تھا.پھر اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے وہاں ایسا انتظام کیا کہ کانو کی سٹیٹ، جو اس مسلم نارتھ کا ایک حصہ ہے.وہاں غالباً 1958 ء ، 1959 ء ، 1960ء میں ہم داخل ہوئے ، پہلے وہاں ایک، دو احمد کی ہوئے ، جو مسلم نارتھ کے رہنے والے تھے اور دوسری جگہوں پر رہتے تھے.پھر وہ بڑھنے شروع ہوئے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں جماعت قائم ہو گئی ہے.پھر میڈیکل سنٹر کھلا، جماعت اور بھی زیادہ مقبول ہو گئی.امیر آف کانو، جو عثمان بن فودی کی نسل میں سے ہیں ( یعنی عثمان بن فودی کے ایک بیٹے سلیمان کی نسل میں سے ہیں.) اور امیر آف کا نو کہلاتے ہیں، وہ ہمارے ساتھ تعاون بہت کرتے ہیں.دوسری طرف سکو تو جہاں عثمان بن فودی کا لڑ کا خلیفہ بنا، وہاں ابھی تک ہماری کوئی جماعت نہیں.چنانچہ جب سکوتو کے گورنر نے اعلان کیا کہ ان کی سٹیٹ تعلیم میں بہت پیچھے ہے تو میں نے کہلا بھیجا کہ ہم فوری طور پر چار سکول کھولتے ہیں، جس پر اس نے پورے تعاون کا یقین دلایا.اب یہ ہماری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ فرشتوں نے اس کے دل میں یہ بات ڈالی اور وہ کہنے لگا کہ اگر آپ سکو تو کے علاقے میں اپنی محبت پیدا کرلیں اور ان کے دل جیت لیں تو آپ سارے مسلم نارتھ کا دل جیت لیں گے.کیونکہ سکو تو مسلم نارتھ کا دل ہے.(اس لحاظ سے کہ یہیں عثمان بن فودی پیدا ہوئے اور ان کی آگے نسل چلی ہے.) اور یہ کہ میں آپ سے پورا تعاون کروں گا.چنانچہ اس نے ایک سکول کے لئے چالیس ایکڑ زمین دلوا دی ہے اور مزید تین سکولوں کے لئے دلوا دیں گے.اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غیروں کے دلوں میں بھی احمدیت کے حق میں ایک رو پیدا ہو رہی ہے.اور یہ کام پورے نہیں ہو سکتے ، جب تک یہاں سے ڈاکٹر اور ٹیچر رضا کارانہ طور پر کام کرنے کے لئے نہ جائیں.ہمیں اس وقت زیادہ تر ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.ٹیچر ز تو ضرورت سے زیادہ آگئے ہیں.یورپ میں ہمارے کئی افریقن احمدی زیرتعلیم ہیں.زیادہ تر سکالرشپ پر آئے ہوئے ہیں.کیونکہ افریقہ میں بہت کم لوگ امیر ہیں.بعض دفعہ ان کے لڑکے پڑھائی میں اچھے نہیں ہوتے.بہر حال ہمارے افریقن طلباء یورپ میں آکر بڑی تبلیغ بھی کرتے ہیں.یوں لگتا ہے کہ وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے عاشق ہیں.یورپ میں جب میں دونوں دفعہ گیا ہوں تو وہاں بھی مجھے ملتے رہے ہیں.میں نے ان میں بڑا 665

Page 683

اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تغیر دیکھا ہے.ان کا رنگ نظر نہیں آتا ، ان کے دل کا نور نظر آرہا ہوتا ہے.انہیں دیکھ کر یہ گمان نہیں ہوتا کہ یہ کالے رنگ کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہے.وہ بڑی محنت کے ساتھ پڑھائی بھی کرتے ہیں اور بڑے اخلاص کے ساتھ جماعتی کام بھی کرتے ہیں.ہمارے پاکستانی بعض دفعہ اچھا نمونہ نہیں دکھاتے.بہت کمزوریاں دکھا جاتے ہیں.لیکن جو افریقہ سے آتے ہیں، ان کا نمونہ بہت اچھا ہوتا ہے.اس لئے ہمیں نوجوانوں کی فکر کرنی چاہیے، انہیں سنبھالنا چاہیے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، آپ زیادہ سے زیادہ وقف کر دیں.ہم چھان بین کرلیں گے، حالات دیکھیں گے.اور جوں جوں ضرورت پڑی یا جوں جوں ضرورت بڑھتی چلی جائے گی، انہیں بلا لیا جائے گا.وہاں کی ڈاک کا انتظام بھی خاطر خواہ اور تسلی بخش نہیں ہے.مجھے کئی دوستوں نے افریقہ میں خط لکھے، جو کئی کئی مہینوں کے بعد یہاں واپس آکر ملے ہیں.25 دن میں وہاں نہیں پہنچے.اور بعض دفعہ پانچویں، ساتویں دن خط وہاں پہنچ جاتا ہے.پتہ نہیں ڈاک کا کیا حساب ہے؟ اگر دو دفعہ بھی غیر ملکی حکومتوں سے اس سلسلہ میں خط و کتابت کرنی پڑے تو وہ تین مہینے ہم لیٹ ہو جاتے ہیں.پھر منظوریاں لینی ہوتی ہیں.اس لئے جو بھی وقف کریں خواہ چھ سال کے لئے یا استثنائی صورت میں 3 سال کے لئے یا ساری عمر کے لئے وقف کریں، سب کے فارم جمعہ نقول سرٹیفکیٹ آجانے چاہئیں.اپنی ایم بی بی ایس کی ڈگری کی فوٹوسٹیٹ کا پی ضرور آنی چاہئے.ایک تو ابھی سے ORIGINAL ڈگریاں سنبھال کر رکھیں اور اگر گم ہو چکی ہو تو ان کی DUPLICATE کا پیاں حاصل کر لیں.کرنل یوسف صاحب مرحوم کے بارہ میں بھی کچھ دقت پیش آئی تھی.لیکن چونکہ ان کا ساری عمر کا تجربہ تھا، اس لئے انہیں اجازت مل گئی تھی.حکومت ان معاملات میں بڑی سخت ہے.اور ہونی بھی چاہئے.میں خوش ہوں ، وہ رعایت نہیں کرتے.جو ملکی قانون ہے، اس کی وہ بہر حال پابندی کرتے ہیں.اور سرٹیفکیٹ وغیرہ دیکھ کر پوری تسلی کرنے کے بعد اجازت دیتے ہیں.یہ تو اس لحاظ سے بھی اچھا ہے کہ اس سے ہمارے ملک کو سبق لینا چاہئے کہ قانون کی پابندی ضروری ہے.شروع میں میرا خیال تھا کہ شاید دقت پیدا ہو.لیکن اب ایسا کوئی خدشہ نہیں ہے.غانا نے شروع میں ایک ڈاکٹر کی بھی اجازت نہیں دی تھی.انہوں نے ہمارے مبلغوں کے کوٹے میں سے پرمٹ دے رکھا تھا.میں اس طریق سے متفق نہیں تھا.میں نے وہاں کی جماعت سے کہا کہ یہ تم ظلم کر رہے ہو.میری ہدایت کے خلاف تم نے مبلغوں کے کوٹے میں سے نئے ڈاکٹر کے لئے پر مت لے لیا ہے.چنانچہ جب میں نے انہیں سختی سے منع کیا تو وہ متعلقہ وزیر سے ملے، وہ مان گیا اور اس نے پہلی منظوری منسوخ کر کے ڈاکٹر کا الگ پرمٹ جاری کیا.666

Page 684

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 30 اگست 1970ء پس غانا کی حکومت جہاں پہلے ایک ڈاکٹر کی منظوری نہیں دیتی تھی ، اب وہ تھیں ڈاکٹروں کی منظوری دینے پر رضامند ہوگئی ہے.واقفین ڈاکٹر صاحبان اپنے ساتھ اپنی فیملی کو بھی لے جاسکتے ہیں.بعض ہماری ڈاکٹرلڑکیوں نے زندگی وقف کی ہے.ان کے لئے مجھے ڈاکٹرلڑکوں کی تلاش ہے.اس لئے جس نے ایسی ڈاکٹر لڑکی سے شادی کرنی ہو مجھے بتادے، ہم دونوں کو وقف کے طور پر وہاں بھیج دیں گے.وہاں کی حکومت کی طرف سے تو اس بات پر کوئی پابندی نہیں کہ کوئی لیڈی ڈاکٹر بھی ضرور آئے.لیکن ہمیں اس لئے ضرورت ہے کہ نائیجریا کے مسلم نارتھ میں خصوصا پر دے کا بڑا رواج ہے.اور وہاں حال یہ ہے کہ جو عورت مررہی ہوگی، وہی ڈاکٹر کے پاس جائے گی.اور کئی اس طرح مر جاتی ہوں گی.اس لئے اگر ہم وہاں لیڈی ڈاکٹر بھجواسکیں اور وہ خدا کے فضل سے وہاں مقبول ہو جا ئیں تو ہماری تبلیغ کا ایک راستہ کھل جائے گا“.( مطبوعہ روز نامہ الفضل 21 اپریل 1972ء) 667

Page 685

Page 686

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 04 ستمبر 1970ء جتنی عظیم بشارت ہو، اتنی ہی عظیم ذمہ داری اور انتہائی قربانی دینی پڑتی ہے.خطبہ جمعہ فرمودہ 04 ستمبر 1970ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.”میرے یہ خطبات اس نصیحت کے سلسلہ میں اور اس وضاحت کے بیان میں ہیں کہ اپنے ایمانوں کو پختہ کرو.میں نے ربوہ میں گذشتہ خطبہ جمعہ میں ایمان بالغیب کے اس حصے پر روشنی ڈالی تھی کہ اس سے ایک مراد یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سلسلہ قائم کرتا ہے، اسے بشارتیں ملتی ہیں اور جو بشارتیں اسے ملتی ہیں، ان پر پختہ یقین ہونا چاہئے.جب تک ان بشارتوں پر پختہ یقین نہ ہو، ہم بشاشت کے ساتھ وہ قربانیاں نہیں دے سکتے ، جن قربانیوں کا ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے.گذشتہ جمعہ میں نے قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو بذریعہ الہام اور وحی بشارتیں دی گئی ہیں، ان کی روشنی میں اس مضمون کو بیان کیا تھا.میں نے متعلقہ اقتباسات پڑھ کر نہیں سنائے تھے.آج اس خطبہ کے تسلسل میں تتمہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں سے بعض کو میں اس وقت پڑھ کر سناؤں گا.تا کہ آپ میں سے اللہ تعالیٰ جنہیں سوچنے اور فکر و تدبر کرنے کی توفیق عطا کرے اور طاقت بخشے ، وہ غور کریں ، سوچیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا وعدے ہیں؟ کس قدر عظیم بشارتیں ہیں؟ اور ان کے لئے ہمیں کس قدر قربانیاں دینی پڑیں گی ؟ جب اللہ تعالیٰ کسی کو بشارت دیتا ہے تو اس کے ساتھ ہی قوم پر یا اپنے سلسلہ پر عظیم ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے.تاریخ نبوت میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بشارت دی ہو، اس کو پورا کرنے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں اور انسانی تدبیر کے بغیر وہ اپنا کام کر رہے ہوں.یہ تو صحیح ہے کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور وہ اپنا کام کرتے ہیں.لیکن انسان کو بھی تدبیر کرنی پڑتی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی تھی کہ کسری اور قیصر کی سلطنتیں مغلوب ہوں گی اور وہاں اسلام غالب آئے گا.اس وقت قریباً دس ہزار تربیت یافتہ صحابہ تھے، جنہوں نے انتہائی قربانیاں دے کر ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کی تدبیر کی.انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے 669

Page 687

خطبہ جمعہ فرمود 04 ستمبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اور اللہ تعالی قادر توانا اور متصرف بالا رادہ ہے.وہ آسمان سے صرف حکم دے کر ان سلطنتوں کو پاش پاش اور ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی طاقت رکھتا ہے.وہ حکم دے گا اور یہ سلطنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی اور اسلام غالب آ جائے گا، ہم آرام سے گھروں میں بیٹھے رہیں گے.وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے کہ بشارت کے ساتھ ذمہ داری آتی ہے.اور جتنی عظیم بشارت ہو، اتنی ہی عظیم ذمہ داری اور اتنی ہی انتہائی قربانی دینی پڑتی ہے.اور ایثار پیشہ اور فدائی بن کر زندگی گزارنی پڑتی ہے.چنانچہ انسان یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے کیسی عظیم الشان قربانیاں دیں.یہ ایک ایسی تربیت یافتہ قوم تھی، جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لمبی تربیت حاصل کی تھی.ان کی تعداد بمشکل آٹھ ، دس ہزار تھی.اور یہی وہ لوگ تھے، جن کی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں سے کام لیا.کیونکہ یہ تدبیر کی دنیا ہے، یہاں اللہ تعالیٰ کے ارادے باکل ظاہر ہو کر سامنے نہیں آیا کرتے.ورنہ تو پھر دوسری زندگی یعنی جنت اور دوزخ کا جو ثواب ہے، وہ رہے ہی نہ.جب اللہ تعالیٰ ” شحن “ کہہ کر بارش برسا دیتا ہے.اگر اسی طرح اس نے ” مسکن “ کہہ کر انسان کے دل میں اپنی محبت پیدا کر دینی ہوتی اور انسان کو کچھ نہ کرنا پڑتا تو پھر جو بارش برسنے کی جزا با دل کو مل سکتی ہے، وہی انسان کو ملتی.اس سے زیادہ کا تو وہ حق دار نہ بنتا.لیکن بادل کو تو کوئی جز انہیں ملتی.اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا ہے کہ جو میں کہوں گا ، وہ تم کرو گے اور بس.اس کے بعد اس کی نہ کوئی اور زندگی اور نہ کسی اور شکل میں جزا ہے.انسان کو کہا، جو میں کہتا ہوں تم کو کرنا پڑے گا.اور اگر تم کرو گے تو جو تھوڑی سی آزادی میں نے تمہیں ایک خاص ماحول میں دے رکھی ہے، اس میں تم میری جزا کو حاصل کرو گے.اس جزا کے لئے اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے ، اس کی رضا کی جنت میں داخل ہونے کے لئے ایک عقل مند ، معرفت رکھنے والا انسان اس کی راہ میں اس دنیا کی محبتوں اور حقیر ، بے معنی اور بے وزن چیزوں کو یوں قربان کر دیتا ہے کہ واقعہ میں دنیا بجھتی ہے کہ یہ لوگ پاگل ہیں.اسی لئے لوگ مجنون کہا کرتے تھے.کہ یہ لوگ پاگل ہیں.کیونکہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ دنیا کی چیزوں کی کوئی قیمت بھی ہے یا نہیں؟ انسانی جان کی کوئی قیمت بھی ہے یا نہیں؟ انسان کو بچوں سے پیار بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ ان کا عمل بھی یہی ثابت کرتا ہے.جولوگ مدینہ سے سب کچھ چھوڑ کر چلے گئے ، مہاجر بھی، جنہوں نے مدینہ کو اپنا دوسرا گھر بنایا تھا اور انصار بھی، جو وہاں کے رہنے والے تھے، سالوں دور رہتے تھے.انہوں نے تو کبھی اپنے بچوں کا خیال نہیں کیا، نہ انہوں نے اپنے خاندانی حالات کی پرواہ کی.انہیں ایک ہی خیال تھا اور ایک ہی دھن تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول تھا.670

Page 688

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 04 ستمبر 1970ء ہماری جماعت میں ان بشارتوں پر یہ انتہائی یقین پیدا ہونا چاہئے.بہتوں کو ہے.جوست ہیں، انہیں اپنی مستیاں دور کرنی چاہئیں.کتنے عظیم وعدے ہیں ، ہمارے ساتھ اور پھر وعدے دینے والا عظیم قدرتوں کا مالک ہے ، عزت کا سر چشمہ بھی وہی ہے، اسی کے ہاتھ میں اقتدار اور دنیوی وجاہت اور طاقت ہے.جو اسی سے حاصل ہو سکتی ہے.باقی تو اس دنیا میں عارضی چیزیں ہیں.آج جو پریذیڈنٹ بن جاتا ہے، کل وہی شخص قوم سے گالیاں کھا رہا ہوتا ہے.اس دنیا کی عزت کی پائیداری ہمیں تو کہیں نظر نہیں آتی.ساری انسانی تاریخ میں دیکھ لیں کہیں بھی دنیوی عزت ہمیں پائیدار نظر نہیں آتی.بڑے بڑے لوگ ہوئے، مثلاً ہٹلر جیسا آدمی، جس کے نام سے دنیا کانپ اٹھتی تھی ، وہ کہاں گیا ؟ اب بھی میں وہاں گیا ہوں، اس زمانے میں بھی جایا کرتا تھا، اس کے ساتھ لوگوں کی محبت کے نظارے بھی میں نے دیکھے ہیں.ایک دفعہ ہم ایک پرانے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے، اتفاقا ہٹلر بھی اپنی پارٹی کے بعض لوگوں کے ساتھ وہیں ایک کونے میں بیٹھا تھا.وہاں عموما یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی میز کے ارد گرد کوئی کرسی خالی پڑی ہو تو جان پہچان نہ ہونے کے باوجود اس پر کوئی اور آدمی آکر بیٹھ جاتا ہے.ہماری میز پر ایک عورت آکر بیٹھی ، جسے ہٹلر سے اس طرح کا پیار تھا، جس طرح واقعی ابناء سے پیار ہوتا ہے.وہ کہنے لگی ، ہمارا تو دل کرتا ہے کہ دشمن ہماری بوٹی بوٹی نوچ کر لے جائے مگر ہٹلر کو کچھ نہ ہو.پس اس کے لئے قوم کا وہ پیار بھی دیکھا اور اب جب ہم گئے ہیں تو اسی قوم کا ہٹلر کو گالیاں دیتے بھی سنا.غرض دنیا کی عزتیں تو آنی جانی چیزیں ہیں.لیکن اللہ تعالٰی ، جو حقیقی عزت کا سر چشمہ ہے، جب اس کی نگاہ میں انسان اس کا پیار دیکھ لیتا ہے اور پھر اگر یہ ٹھیک رہے تو اسے ہمیشہ پیار ملتا رہتا ہے.اس دنیا میں بھی اور ابد الآباد تک.یعنی آخری دنیا میں بھی.اس دنیا میں ڈھکے چھپے پیار کے نظارے ہوتے ہیں.کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ یہ مادی دنیا ہے.میں نے یہاں پردہ ڈالا ہوا ہے.لیکن انسان کو اس زندگی کے بعد جو پیار نظر آئے گا ، وہ تو اللہ تعالٰی کے پیار کو بھی سمجھے گا کہ مجھے وہاں تھوڑا سا ملا تھا اور میں بہت کچھ سمجھا.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کے اصل نظارے تو اب دیکھ رہا ہوں.پس ہمیں جو وعدے دیئے گئے ہیں، وہ ہمارے سامنے آتے رہنے چاہئیں.اور جوان وعدوں اور بشارتوں کے تقاضے ہیں، وہ ہمیں پورے کرنے چاہئیں.اس واسطے آج میں یہ نئی طرز کا خطبہ دینے لگا ہوں کہ چند حوالے پڑھ دوں گا اور ان پر کوئی رائے نہیں دوں گا.آپ غور سے سنیں اور سوچیں کہ ایک ، ایک عبارت میں ہیں، ہمیں ایسے وعدے ہیں، جو بڑے عظیم ہیں.ہر وعدہ جو ہے، ہر بشارت جو ہے، وہ ہم پر ایک عظیم ذمہ واری ڈالتی چلی جاتی ہے.آپ ہی کے کچھ تو بچے ہیں، ان کو تو کسی اور وقت تفصیل سے 671

Page 689

خطبہ جمعہ فرمود 04 ستمبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چهارم سمجھانا پڑھے گا.لیکن جو پرانے احمدی ہیں، انہیں اس سے پہلے سوچنا چاہئے تھا.اور اگر نہیں سوچا تو انہیں اتنی سمجھ اور عقل ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز قربان کر کے ان بشارتوں کا اپنے آپ کو وارث بنا ئیں.پس وہ تو سمجھ سکتے ہیں اور میں ان کو یا ان کے ذہنوں کو اس طرف لانا چاہتا ہوں کہ میں عبارت پڑھوں اور احباب سوچتے رہیں.چند ایک حوالے میں نے لئے ہیں.1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تذکرۃ الشہادتین میں دنیا کو بھی بتایا اور اپنی جماعت کو بھی مخاطب کیا.آپ فرماتے ہیں:.اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے، جس نے زمین و آسمان بنایا.(اس واسطے کہ یہ پوری نہیں ہوگی ، اس کا تو کوئی سوال ہی نہیں.ذمہ داری کے سمجھنے اور اس کے ادا کرنے کا سوال ہے.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا ، جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.( یہاں میں تھوڑی سی وضاحت کردوں.خدا اس مذہب یعنی اسلام اور اس سلسلہ یعنی احمدیت میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.) اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے، نامر اور کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا.(ایک صدی کے لئے نہیں ) یہاں تک کہ قیامت آجائے گی“.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی ختنہ ائن جلد 20 صفحہ 66) یہ 1903ء کا اقتباس ہے.پھر آپ کو 1904ء میں اوپر نیچے یہ دو الہام ہوئے ، جن میں دو بشارتیں تھیں.ایک 08 دسمبر 1904ء کو اور دوسری 12 دسمبر 1904ء کو.پہلی بشارت یہ ملی کہ: رسید مژده که ایام نو بہار آمد 604 ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه 439 ) یعنی اللہ تعالیٰ نے بشارت دی کہ نئے سرے سے بہار آ رہی ہے.اور نو بہار سے مراد یہ ہے کہ ایک بہار پہلے اسلام پر آچکی ہے، یعنی نشاۃ اولی میں اور اب نشاۃ ثانیہ میں ایک اور بہار کا وعدہ ہے.اور یہ بہار بالکل ویسی ہے، جیسی کہ نشاۃ اولیٰ کی بہار ہے.جو اگلے الہام سے ثابت ہے کیونکہ قرآن کریم نے نشاة اولیٰ کی بہار کا ذکر کوثر کے لفظ میں بیان فرمایا ہے.یعنی 672

Page 690

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم انَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَةُ خطبہ جمعہ فرموده 04 ستمبر 1970ء یہ بہار تھی.اور اب بھی اس کے ساتھ وہی وعدہ ہے، یعنی نو بہار میں بھی کوثر کا وعدہ ہے.اس تفصیل میں تو میں اس وقت نہیں جاسکتا.بہر حال إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَةُ ایک بڑی عظیم بشارت تھی، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تھی.تفسیر کبیر میں اسے بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے.جو دوست اسے پڑھ سکتے ہیں ، وہ ضرور پڑھیں.غرض یہ ایک عظیم اور All round (آل راؤنڈ ) یعنی باقی بشارتوں پر محیط ہے.پس یہ إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ اس قسم کی بشارت تھی.اب پہلے یہ فرمایا کہ وو رسید مژده که ایام نو بہار آمد یعنی ایک بہار پہلے آچکی ہے اور نئی بہار آ رہی ہے.یہ خوشخبری ہمیں 8 کو ملی اور 12 تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ما فر مایا.لَا تَيْتَسُوا مِنْ خَزَائِنِ رَحْمَةِ رَبِّي ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه 440 ) ابھی تک جو مسلمان احمدی نہیں ہوئے ، ان پر تنزلی کا زمانہ ہے.وہ بڑے مایوس ہیں.مایوس ہونا بھی چاہئے.کیونکہ ہر طرف الہی وعدوں کے خلاف تنزلی اور بے عزتی کے حالات میں سے وہ گزر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے اور انہیں ہدایت دے.لا تَيُنَسُوا مِنْ خَزَائِنِ رَحْمَةِ رَبِّي میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے یہ فرمایا کہ اس کی رحمت کے خزانے ، جو کوثر کی شکل میں اس سے پہلے آئے تھے ، وہ اب پھر آنے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزائن سے تم مایوس نہ ہو.إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ یہ اسی الہام کا ایک حصہ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند ہیں.اس لئے ہم اس کا ترجمہ یوں کریں گے کہ وہ کوشر ، جو حضرت نبی کریم صلی 673

Page 691

خطبہ جمعہ فرمود 04 ستمبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا تھا، اس کا تمہیں پھر سے مہتم بنا کر مبعوث کیا ہے.اسی کوثر کا اہتمام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے زور سے فرمایا ہے.سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے“ ( در مشین صفحه 36) پس فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جو خزانے دنیا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام کی نشاۃ اولی میں حاصل کئے اور آسمان سے نازل ہوتے دیکھے.دنیا اب وہی جماعت احمدیہ کی شکل میں دوبارہ دیکھے گی.کیونکہ کوثر کا مہتمم حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو بنا دیا گیا ہے.پھرا پریل 1905ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی یہ خبر دی کہ جب اس قسم کا الہی سلسلہ امت محمدیہ کے اندر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے طور پر اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے قائم ہوگا، دنیا اس کی مخالفت کرے گی اور وہ اس میں ناکام ہوگی.یہ ایک واقعہ ہے، ایک بشارت ہے.پس دنیا کی مخالفت ضروری تھی اور ساری دنیا نے دیکھی.دنیا کی ساری طاقتیں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز کو خاموش کرنے کے لئے متحد ہو گئیں اور دنیا کی سب طاقتیں متحد ہونے کے باوجود ناکام ہوئیں.اور وہ آواز خاموش نہیں کی جاسکی.وہ آواز گونج رہی ہے اور انشاء اللہ گونجتی چلی جائے گی.یہاں تک کہ قیامت آ جائے.جیسا کہ پہلے حوالہ گزر چکا ہے اور یہ ایک بڑی زبردست دلیل ہے.افریقہ والے اسے بڑی آسانی سے سمجھ لیتے تھے.بہر حال یہ بشارت دی کہ دشمن اپنے منصوبوں میں نا کام ہوگا.جماعت کو آسمانی تائیدات اور آسمانی نشانات حاصل رہیں گے.آپ فرماتے ہیں:.یا در ہے کہ ان نشانوں کے بعد بھی بس نہیں ہے.بلکہ کئی نشان ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے.یہاں تک کہ انسان کی آنکھ کھلے گی اور حیرت زدہ ہو کر کہے گا کہ کیا ہوا چاہتا ہے؟ ہر ایک دن سخت اور پہلے سے بدتر آئے گا.خدا فرماتا ہے کہ میں حیرت ناک کام دکھلاؤں گا اور بس نہیں کروں گا.جب تک کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کرلیں.(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 451) پھر اس کے بعد بشارت دی کہ تمام مسلمان حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کے جھنڈے تلے جمع کر دیئے جائیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ الہام فرمایا.إِنِّي مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللهِ" 674 ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 490 )

Page 692

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 04 ستمبر 1970ء اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند میں تیرے ساتھ ہوں.جس طرح میں تیرے باپ کے ساتھ تھا.ورنہ ابن کہنے کی ضرورت نہیں.اس وجہ سے میں یہ ترجمہ کر رہا ہوں.پھر فرمایا:.سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں، جمع کرو.عَلَی دِینِ وَاحِدٍ " " ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه 490) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس الہام پر ایک لطیف علمی نوٹ تحریر فرمایا ہے کہ احکام البی دو قسموں کے ہوتے ہیں.ایک کا تعلق شریعت سے ہوتا ہے، مثلاً نماز پڑھو، خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لاؤ، زکوۃ دو، روزے رکھو وغیرہ.یہ سارے احکام شریعت سے تعلق رکھنے والے ہیں.اور اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس حکم کے باوجود سب لوگ اس پر عمل بھی کریں گے.بلکہ شریعت سے تعلق رکھنے والے بعض احکام ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں یہ اشارہ ہوتا ہے کہ ایک گروہ ایسا بھی ہوگا، جو ان پر عمل نہیں کرے گا.اس واسطے انہیں پہلے ہی جھنجھوڑا ہے کہ تمہیں عمل کرنا چاہئے.اور ایک اشارہ یہ آ گیا کہ بہر حال وہ شریعت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور انسان کو یہ آزادی ہے کہ چاہے تو ان پر عمل کرے اور چاہے تو نہ کرے.لیکن ان کے علاوہ ایک خونی اوامر ہوتے ہیں، جن کا شحن " کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.یعنی تقدیر کے ساتھ اور وہ ضرور ہو جاتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین میں ہیں، جمع کرو.عَلى دِينِ واحِدٍ، یہ ایک خاص قسم کا امر ہے.احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں، جیسے نماز پڑھو، زکوۃ دو، خون نہ کر دوغیرہ.اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہوں گے، جو اس کی خلاف ورزی کریں گے.جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو حرف مبدل نہ کرنا.یہ بتا تا تھا کہ بعض ان میں سے کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاح شریعت ہے.پھر آپ فرماتے ہیں:.دوسرا امر کونی ہوتا ہے.اور یہ احکام اور امر قضا و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں، جیسے قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرُ دَاوَّ سَلَامًا ( برد اور سلام ہو تو یہ شرعی حکم نہیں تھا، آگ ٹھنڈی ہو گئی ، اس کے بغیر چارہ ہی نہ تھا.اور وہ پورے طور پر وقوع میں آ گیا اور یہ امر، جو میرے اس الہام میں ہے، یہ بھی اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا 675

Page 693

خطبہ جمعہ فرمود 04 ستمبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہے کہ مسلمانانِ روئے زمین عَلی دِین واحد جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے.ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے.اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہو گا، جو قابل ذکر اور قابل لحاظ نہیں.( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه 490) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ ایک عظیم بشارت ہے اور یہ پوری ہو کر رہے گی.اب یہ جو تفرقہ ہے اور اس تفرقہ کے نتیجہ میں ہمیں جو سوئیاں چھوٹی جاتی ہیں، اس سے زیادہ تو ہمارا کوئی نقصان نہیں کر سکتے.بہر حال جو سوئیاں چھوٹی جارہی ہیں، وہ تو ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور مستقبل اس حقیقت کو اپنی گود میں لئے دنیا کا مستقبل نہیں بن سکتا کہ یہ تمام فرقے ، جو مختلف راہوں پر چل رہے ہیں ، وہ تمام اسلام کے صحیح حسن کے گرویدہ ہو کر مہدی معہود کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور واقعہ بھی ہوگا اور اس کی ذمہ واری اس امر میں ہے کہ جمع کرو.پس ہمیں ہر قسم کی قربانی دے کر اس پیشگوئی کو پورا کرنا ہے.اس واسطے میں اپنی بنگر جنریشن یعنی نئی پود کو یہ بار بار کہہ رہا ہوں کہ کسی کے خلاف تمہارے دل میں غصہ نہیں پیدا ہونا چاہئے.لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں.جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مجد د جانتے ہیں، وہ بھی بعض دفعہ اس قسم کی بے ہودہ بات لکھ دیتے ہیں کہ اسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.مثلاً پیغام صلح میں خاندان خلافت کی عورتوں پر ایسی خبیثا نہ چوٹ کی ہے، جو محض بکواس ہے، جسے انسان برداشت نہیں کر سکتا لیکن ہمیں غصہ نہیں آنا چاہئے.ہم نے انہیں بھی کھینچ کر اپنی طرف لانا ہے اور بھینچ کر لارہے ہیں.جو غیر احمدی ہیں، انہیں بھی ہم نے کھینچ کر لانا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیار کے لئے پیدا کیا ہے.اور ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ تم تمام مسلمان فرقوں کو حضرت مہدی معہود کے جھنڈے تلے جمع کر کے علی دِینِ وَاحِدٌ لاؤ.سارے تفرقے مٹ جائیں گے.باقی انسان انسان کی طبیعت اور مزاج اور قوتوں میں فرق ہوتا ہے، اس کے نتیجہ میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے.یہ اپنی جگہ درست ہے.لیکن ایسا اختلاف قابل اعتناء نہیں ہوتا.بلکہ اگر عقلمندی سے ایسے اختلافات سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ اِخْتِلَافُ أُمَّتِی رَحْمَةٌ “ کا مصداق بن جاتے ہیں.لیکن یہ سارے فرقے مٹ جائیں گے اور یہ بریلوی، دیوبندی اور دوسرے جھگڑے مٹ جائیں گے اور یہ جو انہوں نے آپس میں کفر بازی شروع کی ہوئی ہے، جسے یہاں دہراتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.ویسے ہم نے ضرورت کے لئے ان کے ایک وو 676

Page 694

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 04 ستمبر 1970ء دوسرے کے خلاف فتاویٰ کفر کو اکٹھا کر وایا ہے اور میں نے ان کی ایک کاپی بنوائی ہے.ہر فرقے نے دوسرے کو کا فر ہی نہیں کہا بلکہ اس کے خلاف اتنی گندی زبان استعمال کی ہے کہ اسے پڑھ کر انسان بڑا حیران اور پریشان ہو جاتا ہے.میں نے ان کے اس قسم کے فتووں کو ایک جگہ اکٹھا کر وا دیا ہے.تا کہ اگر کوئی آئے اور کہے کہ جی احمد یوں پر کفر کا فتویٰ لگا ہوا ہے تو اس کو کہا جائے کہ پڑھ لو، پھر ہمارے ساتھ بات کرنا.لیکن یہ کفر بازی بے ہودگی ہے، اسے ہم درست نہیں سمجھتے.ہم تو اس ایمان پر قائم ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی کلمہ گوگو کا فرنہیں کہا جاسکتا.لیکن صرف اتنا ہی نہیں فرمایا بلکہ کچھ اور بھی فرمایا ہے.یہ ہمارے لاہور والے بھائی اگلا حصہ بھول جاتے ہیں.آپ نے یہ تو فرمایا ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ کسی کلمہ گوکو کافر نہیں کہا جاسکتا.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے لیکن اس کے بعد جو فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ جو سی کلمہ گو کو کافر کہے گا، وہ کفر الٹا اس پر پڑے گا اور وہ کافر بن جائے گا.ہم نے کسی کو کا فرکیا کہنا اور کیوں کہنا ؟ اول تو یہی سوچنا چاہئے ، میرا جیسا عاجز انسان تو یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ میں کسی کو کافر کہوں اور وہ کافر بن جائے گا.انسان کا کام کا فر بنانا نہیں ، نہ دین دار بنانا ہے.قرآن کریم نے اس کی وضاحت کی ہے.جسے اللہ تعالیٰ ہلاک کرنا چاہے تم اسے جا کر کیسے ہدایت دے دو گے؟ قرآن کریم کہتا ہے، ہدایت بھی اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور کفر کا فتویٰ بھی اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے.پس اس دوسرے حصے کے متعلق خاموش ہو جانا، یہ تو درست نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً تین سال تک ( یہ میرا اندازہ ہے، پوری طرح اس زمانے کا جو امتداد ہے، اسے چیک نہیں کیا گیا.لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ آپ نے 3 سال تک ) ان دوسو چوٹی کے مولویوں کو ، جنہوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا، انہیں سمجھاتے رہے کہ تم اس کھیل میں نہ پڑو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے.اگر تم اصرار کرو گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق اپنے آپ کو بھی کافر بنا لو گے.یہاں تک کہ جب انہوں نے اصرار سے مباہلے کا چیلنج دیا تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا چیلنج قبول کرنے کے لئے اس لئے تیار نہیں کہ میں کسی کلمہ گوگو کا فرنہیں کہتا.اور جو کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہے، اس کے مباہلہ کو جائز نہیں سمجھتا.لیکن آگے سے آپ کو جواب یہ ملا کہ آپ ہمیں کافر نہ سمجھتے ہوں ، ہم تو آپ کو کا فر سمجھتے ہیں، ہم سے مباہلہ کریں.غرض بڑے لمبے عرصہ تک آپ انہیں سمجھاتے رہے.یہاں ہمارے ایک ڈین (Deen) آئے تھے، انہیں یہ مسئلہ سمجھ نہیں آرہا تھا.میں نے انہیں بتایا کہ ہم تو عاجز بندے ہیں، ہماری کیا مجال کہ کسی کلمہ گوگو کا فرکہیں ؟ لیکن ہماری یہ بھی مجال نہیں کہ جسے آنحضرت 677

Page 695

خطبہ جمعہ فرمود 04 ستمبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ہیں، ہم اسے مسلمان سمجھنے لگ جائیں.میں نے اسے جب یہ مسئلہ سمجھایا تو وہ کہنے لگے کہ اب مجھے سمجھ آگئی ہے.اس وقت تو اس نے بیعت نہیں کی تھی مگر بعد میں اس نے بیعت کر لی.پس سچی بات یہی ہے.اس لئے آپ بھی تیزی نہ دکھایا کریں.کسی کلمہ گوکو کافر کہنے کا کسی کو حق نہیں ہے.لیکن جو کلمہ گو کو کا فرکہتا ہے، اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فر کہہ چکے ہیں.ہمیں کہنے کی ضرورت ہی نہیں.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق خود ہی کا فر بن گیا.آپ میں نہ اتنی طاقت ہے اور نہ اتنی بزرگی ہے کہ کسی کو کا فرکہہ سکیں.لیکن آپ میں اتنی جرات بھی نہیں ہونی چاہئے کہ جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ہیں، آپ اسے مسلمان سمجھنے لگ جائیں.یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شوخی ہے.بہر حال یہ کفر بازیاں سب ختم ہو جائیں گی.ہم اس بات سے خوش ہیں.ہمیں اس بات پر رونا نہیں کہ آج ایک دنیا جو ہے، اس گند میں پھنسی ہوئی ہے، ایک دوسرے کو کافر کہہ رہی ہے، ہمیں اس کی پرواہ ہی کوئی نہیں.کیونکہ ہمارے لئے جو راہ مقرر ہے، ہم اس پر گامزن ہیں.اور ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ یہ تمام فرقے ، جو ایک دوسرے کو کافر کہہ رہے ہیں ، وہ ہدایت کو پالیں گے اور وہ ایک روشنی اور صداقت اور اسلام کے حسین چہرہ کو دیکھ لیں گے اور اسلام کے جھنڈے تلے آکر جمع ہو جائیں گے.ہم اس بات سے خوش ہیں کہ کفر بازیاں ختم ہو جائیں گی.اس دن تک پتہ نہیں کون زندہ رہتا ہے اور کون نہیں؟ جس دن جماعت احمدیہ کو یہ حکم دینا پڑے گا کہ اس گند کے نقش مٹادو.یعنی اس قسم کی کتابیں لائبریریوں سے نکال کر جلا دی جائیں گی، جن میں بریلویوں نے دیوبندیوں اور دیوبندیوں نے بریلویوں پر اور اسی طرح جتنے فرقے ہیں ، انہوں نے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے ہیں.اب تو سیاسی فتوے بھی ان میں شامل ہو گئے ہیں، وہ بھی جلا دیے جائیں گے.دنیا ان کو بھول جائے گی.اس واسطے بھول جائے گی کہ ان کی ضرورت ہی نہیں رہے گی.پیار کو یادرکھنے کی ضرورت ہوگی.ہم ایک دوسرے کے ساتھ پیار کریں گے.دشمنی اور حقارت اور غصہ اور غلط طعنے اور کفر کے فتوے یہ سب کے سب قصہ پارینہ بن جائیں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ بشارت ملی.اور یہ قوی بشارت ہے.یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو دین واحد پر جمع کریں.آپ فرماتے ہیں کہ یہ ہو کر رہے گا.یہ ہو نہیں سکتا کہ یہ پیشگوئی پوری نہ ہو.ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اس بشارت کے پورا ہونے کے راستہ میں روک نہیں بن سکتیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.678

Page 696

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 04 ستمبر 1970ء خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنے سچائی کے نو راور اپنے دلائل اور نشانوں کی روسے سب کا منہ بند کر دیں گئے.(تذکرہ ایڈیشن چهارم صفحه 517) یہ بڑی زبر دست بشارتیں ہیں، جو احمدیت کے ذریعہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرنے کے کام سے تعلق رکھتی ہیں.یعنی پختگی ایمان اور آسمانی نشانوں کے ساتھ تمام دنیا پر غالب آنا.انسانی حقیقت کیا ہے، بڑائی کی ضرورت نہیں.اتنا کہہ دیتا ہوں کہ جماعت نے میری قبولیت دعا کے ہزاروں نشان دیکھے ہیں.بعض کو میں بیان کر دیتا ہوں اور بعض کے متعلق اعلان نہیں کرتا.لیکن اگر ہم نہیں کرتے تو ان کو کرنا چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نشان جماعت کے ساتھ رہے گا.اگر ہمارے پاس انہیں آسمانی نشان نظر نہیں آتا تو ان کے پاس ہونا چاہئے.ورنہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے.ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ان کے پاس نشان ہے یا نہیں؟ لیکن ان کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ان کے پاس نشان ہے.ہم سچائی کے نو ر اور اپنے دلائل اور نشانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل میں پیش کریں گے.البتہ سچائی کے نور کی وضاحت مجھے کرنی پڑے گی.کیونکہ ممکن ہے، کوئی اس کو نہ سمجھ سکا ہو.سچائی کے نور کا مطلب یہ ہے کہ نورانی زندگی حاصل ہوگی.یہ بڑی زبردست دلیل ہے.اس واسطے اپنی تربیت کی فکر کرنی چاہئے.ایک تربیت یافتہ وجود سچائی کے نور کو اپنے وجود سے ظاہر کرتا ہے اور وہ یہ بتارہا ہوتا ہے، اس نے خدا کے لئے اس کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے ، اپنی زندگی کے دن گزارے ہیں اور گزار رہا ہے.یہ سچائی کا نور انسان کے جسم سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتا ہے.اب وہاں افریقہ میں یا دوسری جگہوں پر جو ہمارے مبلغین گئے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی عزت اس وجہ سے غیروں کے دل میں ڈالی ہے کہ ان کے وجود سے غیروں نے نور کی کرنیں نکلتی دیکھیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ تربیت کے لحاظ سے جماعت اپنے بلند مقام پر قائم رہے گی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ چندلوگوں کے علاوہ باقی جماعت بڑے بلند مقام پر قائم ہے.اور دوسرے دلائل میں بھی ان کا کوئی مقابلہ کر سکتا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے دلائل ایک بڑا سمندر ہے، جو قیامت تک 679

Page 697

خطبہ جمعہ فرمود 04 ستمبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ختم نہیں ہوگا.لیکن یہ سمندر بڑی بلندی پر ہے.ہماری دنیا کا جو سمندر ہے، وہ بلندی پر نہیں ہوتا.اس واسطے اس کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا، جو بلندی پر واقعہ پانی کا نکلا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دلائل کا سمندر حضرت بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت اور شہادت کے نتیجہ میں ساتویں آسمان پر ہے.آپ نے اپنے مہدی (انَّ لِمَهْدِينَا ) اور مسیح کو ساتویں آسمان پر دیکھا.یہ عجیب بات ہے اس میں بھی آپ غور کریں کہ ساتویں آسمان پر آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہیں دیکھا، جو آپ سے پہلے نسبتاً مکمل شریعت لے کر دنیا کی طرف آئے تھے.ساتویں آسمان پر آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا اور مسیح موعود کو دیکھا.اور یہ ہر دو غیر تشریعی نبی ہیں.پس روحانی بلندی کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نسبتاً کامل شریعت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تھی.کیونکہ یہ قریب قریب زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل اور دوسری برکات کا جوسمندر ہے، وہ ساتویں آسمان پر ہے.سات ہزارفٹ بلند پہاڑوں پر جو Lakes (لیکس ) ہوتی ہیں، ان کے نتیجہ میں پہاڑوں پر چشمے پیدا ہو جاتے ہیں مگر سمندر کا جو پانی ہے، اس کے نتیجہ میں چشمے پیدا نہیں ہوتے.کیونکہ وہ سب سے زیادہ نشیب میں ہوتا ہے.اسی سے ہم اپنی بلندی کو ناپتے ہیں.جیسے مثلاً یہ محاورہ ہے جو سائنس میں مستعمل ہوتا ہے ) کہ سطح سمندر سے سات ہزارفٹ کی بلندی.اگر چہ سمندر کا پانی عظیم ہے ابے فیض ہے.اس میں رطب و یابس آکر مل گیا ہے.لیکن جو چودہ ہزارفٹ کی بلندی پر پہاڑوں میں Lakes (لیکس ) ہوتی ہیں یعنی بہت بڑی بڑی اور میل ہا میل چوڑی جھیلیں ہوتی ہیں، ان کے نتیجہ میں کسی پہاڑی ٹکڑی سے آپ کو چھوٹا بڑا چشمہ نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سمندر نور کا بھی اور دلائل کا بھی اور نشانات کا بھی ساتویں آسمان پر ہے.( جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات دکھایا تھا.دنیا میں سب سے زیادہ چشمے اس پانی کے پھوٹنے ہیں اور وہ پھوٹ رہے ہیں.ہمارے ہزاروں خاموش مجاہد پیدا ہوئے ، جس طرح فوجیوں نے Unknown Soldiers کا تہوار بنالیا ہے، ہم تو ایسے تہواروں کے قائل نہیں ورنہ وہ بھی بن جاتا.ہمارے اندر سینکڑوں، ہزاروں لوگ ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھتے ہیں.لیکن اس نور کے جو ان کے جسموں سے پھوٹ رہا ہوتا ہے.کسی اور کو ان کا علم ہی نہیں ہوتا.کیونکہ ان کو ظاہر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی.جس طرح مثلاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی ہزاروں باتیں بتائی گئیں، جو بالکل تفصیلی ہیں اور ان میں سے کچھ احادیث نے ، کچھ تاریخ نے محفوظ رکھیں.چند ایک ایسی ہیں، جو آپ نے اپنے صحابہ کو بتادیں.مثلاًا صحابی تھے، جنہیں آپ نے ایسے منافقین کے نام تک بتا دیئے تھے، جنہوں نے امت میں فتنہ پیدا کرنا تھا.اس میں یہ بھی کمال ہے کہ ایک بات تھی، جسے عام نہیں کیا.680

Page 698

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرموده 04 ستمبر 1970ء دوسرے یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ فتنہ کے وقت زندہ رہے گا.ورنہ اسے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی.اور پھر وہ زندہ رہا.پھر وہ اپنے اپنے وقت کے اوپر اشارے کر جاتے تھے.پس ایک شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ یہ زندہ رہے گا، اسے یہ باتیں بتا دو تا کہ اپنے وقت پر امت محمدیہ ان سے فائدہ اٹھائے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہزاروں وجیاں ایسی بھی ہوئیں تھی، بعض ایسی تھیں، جس کا احادیث میں ذکر آ گیا.بعض ایسی تھیں، جو بعض لوگوں کو بتادی گئیں.مگر قرآن کریم جو کامل اور مکمل شریعت کی وحی تھی ، وہ محفوظ رہی.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ اس کا ایک ایک حرف محفوظ رہے گا.کتنی زبر دست ضمانت ہے.( میں نے تو شروع میں کہا تھا کہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا لیکن چلا گیا.اسی الہام کے تسلسل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی.(چشمے سے پانی پیئے گی کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ چشمہ نکل آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے محمدی آپانی کا کوئی گھانا میں، کوئی نائیجیریا میں، کوئی گیمبیا میں، کوئی پین میں، کوئی جرمنی میں کوئی یورپ کے دوسرے ممالک میں، کوئی کمیونسٹ ممالک میں ، وہی پانی جو آب محمد ہے.یعنی آب زلال محمد اس پانی کے چشمے آپ کی Lake (لیک) ہی سے نکلیں گے اور وہ سیراب کریں گے.اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا.یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آ ئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.آپ نے بڑی تحدی سے پھر آگے فرمایا:.سوالے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے، جو ایک دن پورا ہوگا.( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه 517 ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس تحدی کے ساتھ اور جس یقین اور وثوق کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ اے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو کہ یہ خدا کا کلام ہے، جو ایک دن پورا ہوگا.ہر احمدی کے دل میں ان بشارتوں کے متعلق یہ وثوق اور یہ یقین پیدا ہونا چاہئے اور قائم ہونا چاہئے.یہ ہماری ذمہ واری ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ان ذمہ داریوں کرنبا ہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 681

Page 699

Page 700

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 1970ء اللہ تعالی نے جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1970ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پچھلے چند دنوں سے کئی تکلیفیں اکٹھی ہوگئی ہیں.ایک تو پیچش نے بڑا شدید حملہ کیا، دو، تین دن سے بخار بھی آ رہا ہے اور خون کا دباؤ بھی کافی کم رہا ہے، اس لئے میں اس وقت مختصراً ایک ضروری امر کی طرف پورے زور کے ساتھ دوستوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ یہ اطلاع دی کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے یا اپنی کسی جماعت سے پیار کرتا ہے اور اپنی نعمتوں سے اور اپنے فضلوں سے اور اپنی رحمتوں سے انہیں نوازتا ہے تو جَعَلَ لَهُ الْحَاسِدِينَ فِي الْأَرْضِ زمینی لوگ حسد کرنے لگ جاتے ہیں.یعنی آسمانی تائید کے نتیجہ میں زمینی حسد پیدا ہوتا ہے.جس کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں.مگر یہ سب کی سب حسد کا نتیجہ ہوتی ہیں.اس وقت اللہ تعالٰی نے بڑا فضل کرتے ہوئے ، غلبہ اسلام کے یہ سامان پیدا کئے ہیں کہ افریقن اقوام کا دل اسلام اور احمدیت کی طرف پھیرا.اور جو منصوبہ وہاں غلبہ اسلام اور خدمت اقوام افریقہ کے لئے تیار کیا گیا تھا، اس میں وہ لوگ بڑی محبت اور بڑے شوق سے حصہ لے رہے ہیں.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ آٹھ ، دس سے زیادہ مقامات سے ہمیں یہ درخواست پہنچی ہے کہ زمین بھی ہم دیں گے اور عمارت بھی ہم بنائیں گے، آپ یہاں میڈیکل سنٹر ز کھولیں اور ڈاکٹر بھجوائیں.یعنی جو ہمارا ابتدائی سرمایہ ہے، وہ ان کی جیبوں سے خرچ ہوگا.اور جو ہمارا کام ہے، یعنی تبلیغ اسلام کا ، وہ ہمارا ہی ہوگا.اور ہم وہاں کام کریں گے.وہاں شکل یہ بنتی ہے کہ ایسے اداروں کو وہ جماعت کے نام پر رجسٹرڈ کروا دیتے ہیں.چنانچہ اس طرح یہ جماعت کی ملکیت بن جاتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اس کے نتیجہ میں حسد پیدا ہونا چاہئے تھا.جیسے کہ ہمیں پہلے بتایا جا چکا ہے.چنانچہ حسد پیدا ہوا.مثلاً ایک بڑی منتظم جماعت ہے، اس کے متعلق ایک ذریعہ سے یہ خبر ملی ہے.والله اعلم، کہاں تک درست ہے؟ یہ بات مضمون کے لحاظ سے تو درست معلوم ہوتی ہے لیکن 683

Page 701

خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم Source of information یعنی ذریعہ خبر ابھی تک ایک ہے، پہلے تو بہت سارے ذرائع سے علم ہوتا رہتا ہے.انشاء اللہ پتہ لگ جائے گا کہ یہ بات کہاں تک درست ہے؟ بہر حال بظاہر درست معلوم ہوتی ہے.اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ریزولیوشن پاس کیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ افریقہ میں جماعت احمد یہ اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہاں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، اس لئے پاکستان میں ان کو کچلو.تا کہ ان کے جو وہاں پروگرام ہیں، ان کے اوپر اثر پڑے.جماعت احمدیہ کو کچلنے کی طاقت تو اللہ تعالٰی نے کسی کو نہیں دی.لیکن اس نے حسد کرنے کا اختیار سب کو دیا ہے.ویسے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور فرمایا کہ یہ تمہاری اپنی مرضی ہے کہ رشک کر دیا حسد کرو.یعنی جب اللہ تعالیٰ کے فضل کسی پر نازل ہوں تو ایک ذہنیت یہ پیدا ہوتی ہے کہ خدا کا بندہ کہتا ہے کہ میرے بھائی نے خلوص نیت کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنا سب کچھ دے دیا اور اس کے فضلوں کو حاصل کیا اور ان فضلوں کے حصول کا یہ دروازہ میرے لئے بھی کھلا ہے.تو جس طرح میرے بھائی نے ایثار اور قربانی اور اخلاص کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت کو حاصل کیا، میں بھی حاصل کروں گا.اور کوشش یہ کروں گا، میں اس سے بھی زیادہ الہی فضلوں کا وارث بنوں.اس کو رشک کہتے ہیں.لیکن ایک اور آدمی اگر اس کا ذہن صحیح راستے سے بھٹک جائے تو وہ یوں سوچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اس بھائی پر فضل کیا اور مجھے یہ برداشت نہیں.میں یہ کوشش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے جس حد تک اس سے چھین سکوں ، وہ میں چھین لوں اور اس کو نقصان پہنچاؤں.اب ظاہر ہے کہ کسی انسان یا کسی مخلوق کو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے کوئی فضل چھین لے.دینے والا جب اللہ تعالیٰ ہو اور وصول کرنے والا اس کا ایک بے نفس بندہ ہو تو پھر اس کے فضل تو نہیں چھینے جاسکتے.لیکن ایسا شخص یا ایسا گروہ یا ایسی جماعت یا ایسا فرقہ یا ایسی تنظیم اپنی گمراہی اور اپنی تباہی کا سامان پیدا کر لیتی ہے.اسی طرح ایک اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے والی جماعت ہے، جس کے متعلق یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ یہ منصوبہ بنا رہے تھے کہ ساری جماعت سے ہم نے کہاں لڑنا ہے؟ جو اس وقت اس کا امام ہے، اسے (معاذ اللہ ) قتل کر دیا جائے تو اس طرح ہم اپنے مقصد کو حاصل کر لیں گے.یہ بھی ایک نادانی ہے.اس دنیا کی کسی تنظیم کے امام سے جو مرضی کہ لو.ہمارے لئے یہ خلافت کا سلسلہ ہے اور جماعت احمدیہ کا امام اس کا خلیفہ وقت ہے.لیکن جو بھی کہ لو، اس نے قیامت تک تو زندہ نہیں رہنا.اور جب تک اس شخص کی جان لینے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا نشانہ ہو، دنیا کی کوئی طاقت اس کی جان نہیں لے سکتی.جب خدا تعالیٰ 684

Page 702

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبه جمعه فرموده ۱۱ ستمبر 1970ء اسے اس دنیا سے اٹھانا چاہے تو ساری دنیامل کر بھی اگر اسے زندہ رکھنا چاہے تو اسے زندہ نہیں رکھ سکتی.اس واسطے کسی شخص کا اس قسم کے منصوبے بنانا، اس کی اپنی نالائقی یا ہلاکت کے سامان تو پیدا کر سکتا ہے.لیکن اللہ تعالی کی منشاء کے بغیر کسی کی جان نہیں لی جاسکتی.سید الانبیاء، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے تھے، کمزور تھے ، غریب تھے ، بے کس تھے اور سرداران مکہ اپنے آپ کو دنیا کے معیار کے مطابق بہت بڑا بلکہ فراعنہ مصر سمجھتے تھے.ان میں سے ہر ایک سمجھتا تھا کہ میں فرعون ہوں.اور سال ہا سال تک انہوں نے اپنی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت کوششیں کیں.مگر آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکے.البتہ اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کر لئے.جس شخص کو مکہ میں فنا کرنا چاہتے تھے ، اس شخص کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکہ فتح ہوا.اور اس فتح مکہ کی شان یہ تھی کہ ان سرداروں نے حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر پناہ نہیں لی.کیونکہ آپ کا اعلان یہ تھا کہ بلال کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جاؤ.آپ نے انہیں ایک افریقن کے جھنڈے کے نیچے پناہ دلوائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ ان سرداروں سے ایک حسین انتقام لیا.پس اس قسم کے منصوبے تو ایسے وقت میں ضرور بنا کرتے ہیں.دنیا کی تاریخ دیکھ کر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی جو ترقیات ہیں، بعض لوگوں کو ان کے خلاف حسد پیدا ہوتا ہے اور بعض کو ان کے خلاف حسد نہیں پیدا ہوتا.لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل نازل ہوتے ہیں تو یہ ہوہی نہیں سکتا کہ حسد پیدا نہ ہو.آپ دنیا کی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں، حسد ضرور پیدا ہوتا ہے.اور پھر اس کی اطلاع تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہانا بھی دی گئی ہے.اب جو مخالف اسلام ہے، ( میں احمدیت اس لئے نہیں کہہ رہا کہ ہمارے نزدیک احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز کا نام ہے.) وہ اپنے ان منصوبوں سے اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتا.یہ واضح بات ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کے از سر نو غلبہ کے دن آگئے ہیں اور اسلام غالب آئے گا.ہمیں کمزور کرنے کا ہر منصوبہ حقیقتاً اسلام کو کمزور کرنے کا منصوبہ ہے.کیونکہ ہمیں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی قادرانہ انگلیوں کے درمیان پکڑا اور فرمایا کہ میں اس عاجز ، کمزور اور بے کس جماعت سے کام لوں گا اور ان کے ذریعہ سے میری قدرت دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوگی.پس جب اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے تو حاسد ضرور پیدا ہو جاتے ہیں.جب حاسد پیدا ہوتے ہیں تو وہ معقول ذرائع سے اپنے حسد کا اظہار نہیں کرتے.بلکہ غیر معقول اور اپنی ہی تباہی کے 685

Page 703

خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سامان پیدا کرنے والے ذرائع استعمال کرتے ہیں.اب ہم تو عاجز اور کمزور ہیں، اس میں کوئی شکو نہیں.ہم برملا کہتے ہیں، ہم بے سہارا ہیں، کوئی سیاسی اقتدار نہیں.( اور نہ اس کی خواہش ہے.ہمارے پاس اتنا مال و دولت نہیں کہ امریکہ کے روپے کی طرح لوگوں کو خاموش کرنے یا اپنے حق میں زبانیں کھلوانے کے لئے تقسیم کر دیں.لیکن اگر یہ حقیقت ہے اور ہمارے نزدیک یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ ہم سے یہی کام لینا چاہتا ہے تو جو بھی جماعت کے خلاف منصوبہ بنائے گا، اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائے تو غلبہ اسلام کی جو عظیم مہم جاری ہے، اس میں کمزوری پیدا ہو جائے گی.اور اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں کر سکتا کیونکہ یہ کی مشیت کے خلاف ہے کہ شیطانی طاقتیں کامیابی کا منہ دیکھیں.پس حسد کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی Activities یعنی اس کی سرگرمیوں اور منصوبوں میں انشاء اللہ تعالیٰ کوئی کمزوری نہیں پیدا ہو سکتی.لیکن حسدا اپنی جگہ پر مسیح ہے اور اس کے مقابلے میں تدبیر کرنا ضروری ہے.اور ہمارے ہاتھ میں ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے دعا کی تدبیر.اس واسطے میں جماعت کو یہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اپنی عاجزی کا اپنے اندر پورا احساس پیدا کرتے ہوئے ، نہایت انکساری کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکیں اور اپنے مولا سے یہ عرض کریں کہ تو نے ہمیں غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا اور تو نے نہیں یہ توفیق دی کہ ہم تیری راہ میں تیرے ہی دیئے ہوئے مال میں سے کچھ پیش کر سکیں تا کہ تیرا جوارادہ ہے، وہ اس دنیا میں پورا ہو.اسلام غالب ہو اور خدا کرے، جلد غالب ہو.لیکن تیرے اپنے بنائے ہوئے قانون اور تیری اپنی دی ہوئی بشارت اور پیشگوئی کے مطابق حاسد پیدا ہورہے ہیں.وہ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں، مادی سامانوں کے لحاظ سے، وہ ہم سے امیر ہیں، دنیوی دولت کے لحاظ سے ، وہ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں، اپنے جتھے کی کثرت کے لحاظ سے.لیکن دنیا کی ساری دولتیں اور دنیا کے سارے اقتدار اور دنیا کی ساری طاقتیں تیرے ارادہ کے مقابلے میں کھڑی نہیں ہوسکتیں.ہمیں اپنی کمزوریوں کا اعتراف ہے.ہم تیرے عاجز بندے ہیں، ہم خطائیں بھی کرتے ہیں مگر تیری طرف ہی آتے ہیں، تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور تو بہ واستغفار بھی کرتے ہیں تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری کمزوریوں کو دور کر دے اور ان حاسدوں کو ان کے ارادوں میں نا کام کر.پس دعائیں کریں.اللہ تعالی بڑا پیار کرنے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے.انفرادی طور پر قربانیاں دینے والے موجود ہونے چاہئیں.اجتماعی طور پر جماعت اس مقام پر کھڑی ہونی چاہئے کہ حاسدوں کا حسد کچھ نہ کر سکے اور طاقتور کی طاقت ہمارے خلاف کامیاب نہ ہو سکے.686

Page 704

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 1970ء إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ کی شرط تو دور نہیں کی جاسکتی کیونکہ قران کریم کی کوئی آیت یا اس کا کوئی ٹکڑا منسوخ نہیں کیا جا سکتا.اس قسم کی شرائط تو بہر حال قائم رہیں گی.ایمان کی پختگی ضروری ہے.اگر وہ ایمان، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہمیں ملا ہے، یعنی صفات باری اور معرفت صفات باری کے متعلق اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان اور ان کے جلووں کا مشاہدہ کرنے کے سلسلہ میں، اگر ہم اس قسم کے ایمان پر قائم رہیں گے تو انشاء اللہ غلبہ ہمیں ہی نصیب ہوگا.قربانیاں ہمیں ہی دینی پڑیں گی.حاسد نا کام ہی رہیں گے.خدا تعالیٰ کی مدد کی اور اس کے فضل کی اور اس کی رحمتوں کی ہمیں ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو دعا کی تدبیر سے جذب کرنا، یہ ہمارا فرض ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے“.(آمین) از رجسٹر خطبات ناصر.غیر مطبوعہ ) 687

Page 705

Page 706

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 02 اکتوبر 1970ء نصرت جہاں ریز روفنڈ کا منصو بہ تو بنیاد ہے، اس کے اوپر عمارت بنی ہے رو خطبہ جمعہ فرمودہ 02 اکتوبر 1970ء...اب یہ نصرت جہاں ریزروفنڈ ہے.میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ خلافت احمدیہ پر باسٹھ سال کے قریب گزر چکے ہیں، جماعت طاقت رکھتی ہے کہ اگر بشاشت سے ہمت کر کے کام کرے تو باسٹھ لاکھ روپیہ، ایک لاکھ روپیہ فی سال کے حساب سے، نصرت جہاں ریز روفنڈ میں جمع ہو جانا چاہئے.اس وقت تک جو وعدے ہوئے ہیں، وہ چھپیں لاکھ سے اوپر پاکستان کے ہیں اور کوئی بارہ لاکھ کے قریب بیرون پاکستان کے ہیں.بیرون پاکستان کے لحاظ سے یہ نسبت بہت اچھی ہے.باسٹھ لاکھ کی حد میں سے باقی رہ جاتے ہیں، جو ہیں، پچیس لاکھ.لیکن باہر کی جماعتوں میں بعض کا ابھی مجھے علم نہیں.مثلاً میں نے کہا تھا، امریکہ کی جماعت سے کہ میں ہزار ڈالر دو، اس فنڈ میں.اسی طرح غانا ہے، لیگوس ہے، لیگوس کے تو غالبا میں ہزار پاؤنڈ کے قریب یعنی ایک لاکھ ستر ہزار یا دولاکھ کے قریب وعدے ہو چکے ہیں.اسی طرح غانا کو میں نے کہا تھا کہ دولاکھ دو.ان کے انشاء اللہ تعالی زیادہ ہو جائیں گے.پھر افریقہ کے دوسرے ممالک ہیں یا دنیا کے دوسرے ممالک ہیں.مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں لاکھ سے زائد یہ رقم بن جائے گی.گو اس وقت تک چودہ لاکھ کے وعدے باہر سے آئے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ بیالیس لاکھ کے وعدے اور رقوم اپنے وقت تک پاکستان سے وصول ہونی چاہئیں.اس وقت جو مجھے دوسو دوست چاہئے تھے ، جو پانچ ، پانچ ہزار روپیہ کے وعدے کرنے والے ہوں، ان میں سے ابھی صرف ایک سو اکتالیس دوست آگے آئے ہیں.دوسو، جنہوں نے دو، دو ہزار کا وعدہ کرنا تھا، وہ قریباً پورے ہو چکے ہیں.ان کے ایک سو چھیانوے وعدے ہو چکے ہیں.میرا خیال ہے کہ اس مہینہ میں وہ وعدے پورے ہو جائیں گے.لیکن میرے لئے یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور آپ کے لئے بھی خوشی کی بات ہونی چاہئیے کہ میرا اندازہ تھا کہ جماعت میں سے صرف ایک ہزار آدمی شاید ایسا نکلے، جو پانچ سو روپیہ فی کس کا وعدہ کرے اور ادا کرے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے تئیس سو کو یعنی اس سے اڑھائی گنا زیادہ کو تو فیق دی ہے کہ وہ پانچ ، پانچ سو کا وعدہ کریں.اور وہ وعدے پورے کر رہے ہیں.انہوں نے 689

Page 707

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اخلاص سے وعدے کیے ہیں.ان اڑھائی ہزار میں سے ( میرا خیال ہے) کئی سو ایسے ہیں، جو پانچ ، پانچ سوروپے سے بڑھ کر دو ہزار تک آجائیں گے.یعنی وہ ( دو ہزار فی کس تک ) آسکتے ہیں.جس دن بھی میں نے ان کو توجہ دلائی ، وہ انشاء اللہ تعالیٰ اس صف میں آجائیں گے.اور پندرہ ، نہیں آدمی (جن کو اللہ تعالیٰ نے طاقت دی ہوئی ہے) تھیں، چالیس، پچاس ہزار دینے کی، وہ بھی پانچ ہزار پر آ کر ٹھہر گئے ہیں.پستہ نہیں کیوں؟ شاید ان کو سحر کے حکم کے مطابق یاد دھانی نہیں کرائی گئی.لیکن میں ان کو چھوڑتا ہوں.چندہ دینے والے کی نسبت یہ فکر تو ہوتی ہے کہ وہ پیچھے نہ رہ جائے لیکن یہ مجھے فکر نہیں ہے کہ اگر پیسے یہی ہیں تو زیادہ کہاں سے آئیں گے؟ مجھے پیسے آپ نے نہیں دینے کیونکہ آپ نے مجھے خلیفہ نہیں بنایا.اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور وہ مجھے پیسے دیتا ہے، اپنے کاموں کے لئے اور وہ دے گا.اس لئے اس کی تو مجھے کوئی فکر نہیں ہے.لیکن اس شخص کے متعلق فکر ہو جاتی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے زیادہ دینے کی توفیق دی تھی ، وہ پیچھے کیوں رہ رہا ہے؟ اور تئیس سوایسے ہیں، جنہوں نے پانچ سو کا وعدہ کیا ہے اور وہ روزانہ بہت بڑھ ر ہے ہیں.آج کی رپورٹ میں بھی شاید دس پندرہ ہیں، جو پانچ، پانچ سو کا وعدہ کرنے والے ہیں.ابھی تو بعض پہلو ایسے ہیں، جن کا میں نے اظہار نہیں کیا.بعض جماعتیں اور بعض علاقے ایسے ہیں، جن کو میں نے ابھی توجہ نہیں دلائی.مثلاً زمیندار ہیں.جب ان کی خریف کی فصل ان کے گھروں میں آ جائے گی ، پھر ربیع کی فصل بھی آجائے گی تو ان میں سے بہت سارے ( اس تحریک میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے.ویسے بھی زمیندار میں کچھ پچکچاہٹ ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے.کیونکہ فصل جب تک گھر نہ آجائے، اس کا اعتبار نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ ہزار ہا آزمائشیں رکھتا ہے.میں بھی خاموش ہوں اور وہ بھی خاموش ہیں.میں خاموش بھی ہوں اور دعا بھی کر رہا ہوں.کاش! میرے زمیندار بھائی جو ہیں، وہ خاموش بھی رہیں اور دعا بھی کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ان کی فصلوں میں برکت ڈالے.پھر ان کو تو فیق بھی دے کہ اس کی راہ میں پھر قربانیاں دیں اور انشاء اللہ اب مجھے امید ہے کہ یہ تعداد بھی پانچ ہزار تک پہنچ جائے گی.اس وقت تک کوئی ستائیس اٹھائیس سو تک ہے.کوشش تو زیادہ کی ہے.جو پانچ سو سے کم چندہ دینے والے ہیں، وہ تو کسی شمار میں نہیں آتے.ہمارے شمار میں نہیں آتے.اللہ تعالیٰ کے شمار میں تو ہیں.وہ بھی اگر ملائے جائیں تو چندہ دینے والے بھی شاید پانچ ہزار تک پہنچ جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کو سامنے رکھ کر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ باسٹھ لاکھ (کم از کم ) روپیہ دینے والوں کی تعداد پانچ ہزار کی ہو جائے.اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس 690

Page 708

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اکتوبر 1970ء تعداد کو با برکت تعدا د بنادے.در اصل تعداد بھی کوئی چیز نہیں، پیسہ بھی کوئی چیز نہیں ، اللہ کی برکت چاہیئے.پھر کام ہوتے ہیں.اسی طرح باہر کی جماعتوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں.مثلاً (حالیہ سفر افریقہ و یورپ میں ) میں لنڈن میں ٹھہرا تو انگلستان کی جماعتوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں.وہاں ڈنمارک کے ایک دوست آئے ہوئے تھے.ڈنمارک بعد کا مشن ہے.یہ نوجوان مشن ہے.میرا خیال ہے کہ یہ مشن اس چندہ میں یورپ میں سب سے آگے نکل گیا ہے.دو ہزار پاؤنڈ تک ان کا چندہ پہنچ گیا ہے.ان کی تعداد کے لحاظ سے ) تربیت کے لئے زمانہ لازم ہے.تربیت زمانہ کا مطالبہ کرتی ہے.زمانہ گذرنے پر آہستہ آہستہ تربیت پختہ ہوتی ہے.یہی خدا کا اصول ہے.ڈنمارک ایک نیا اور نو جوان مشن ہے، وہ دوسروں سے آگے نکل گیا ہے.اب انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے کہ دوسرے ملکوں کو بھی غیرت آئے گی.آج بھی مجھے خط ملا ہے کہ ہمیں پتہ نہیں کہ یہ تحریک (نصرت جہاں ریز روفنڈ کی ) ہمارے ملک کے لئے بھی ہے یا نہیں ؟ خود تو ہم فیصلہ کر نہیں سکتے.اس کے متعلق ہمیں بتایا جائے.اب تو یہ تحریک عالمگیر بن گئی ہے.ایسے ممالک سے مجھے امید ہے کہ باہر والے بیس لاکھ روپیہ ادا کر دیں گے.ان کے متعلق تو مجھے امید ہے لیکن پاکستان کے متعلق مجھے یقین ہے کہ یہ پینتالیس لاکھ سے زیادہ رقم دے سکتے ہیں.اگر نہ دیں تو ان کی سنتی ہوگی.اللہ تعالیٰ کے فضل کی کمی اس کا نتیجہ نہ بھی جائے گی.تو مستیاں دور کرو، باسٹھ لاکھ (کم از کم ) دے دینا چاہئے.باقی ہمارا قدم تو آگے ہے.اور اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ جو کچھ اس نے قبول کر لیا ہے، اگر ہم زندگی بھر الحمد للہ پڑھتے رہیں تو اس کی قبولیت کا شکر ادا نہیں کر سکتے.ایبٹ آباد میں ہمارے بچوں کو پتہ لگا کہ ایک دوست کے پاس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی 1955ء کی تقریر ریکارڈ کی ہوئی ہے، وہ اسے لے آئے.میں نے بھی سنی.ساری رات سوچتارہا اور الحمد للہ بھی پڑھتارہا.خدا کی شان دیکھو کہ 1955ء میں ایک غیر ملکی مہم کے لئے (باہرکسی ملک میں کوئی کام تھا) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ساری جماعت سے پینتیس ہزار روپیہ جمع کرنے کی تحریک کی.اور یہ کہا کہ اگر جماعت پینتیس ہزار روپیہ مجھے دے دے گی تو یہ کام ہو جائے گا.اب پاکستان میں بھی بہت سارے دوست ہیں، انگلستان کے دو دوستوں کے چندے اتنے ہیں کہ جن کی مقدار پینتالیس ہزار بنتی ہے.اور وہ دو دوست ایسے ہیں، جو دے چکے ہیں.میں ایسے دو کے متعلق بتارہا ہوں ، ان کا نام نہیں لے رہا کہ جنہوں نے نقد دے دیا.ایک نے پورے کا پورا اور ایک نے اپنے وعدہ کا پانچواں حصہ دے دیا.اور یہ رقم بنتی ہے (ایک کا پانچواں حصہ اور دوسرے کا پورا ادا کر دینے کے بعد ) پینتالیس ہزار 691

Page 709

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم حضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت ساری جماعت سے اپیل کی تھی کہ پینتیس ہزار دوتو یہ کام ہو جائے گا.یہ 1955ء کی بات ہے ، بڑی دور کی بات نہیں.اللہ تعالیٰ نے پندرہ سال کے اندر اندر ساری جماعت پر اتنا فضل کیا ہے کہ ان کی دولت کو کہیں سے کہیں تک بڑھا دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ان کے اموال میں برکت دوں گا.ان کے اموال میں بڑی نمایاں برکت ہمیں نظر آئی.مثال کے طور پر یہ جو نصرت جہاں ریزروفنڈ کا چندہ ہے، اس میں ایک آدمی تین گنے کا وعدہ کر کے ہمیں ہزار میں سے نقد بھی ادا کر دیتا ہے.اور اخلاص میں بھی برکت پیدا ہوئی، ہمارے ملک کے لحاظ سے.ہمارا ملک ایک غریب ملک ہے.قریبا تین ہزار کا پانچ پانچ سور و پیر کا وعدہ کرنا اور اڑھائی ہزار کا دو، دو سور و پیہ نقد دے دینا، بڑی چیز ہے.دنیا تو خدا کے نام پر ایک دھیلہ بھی نہیں دیتی.اصل میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جو اسلام کی خدمت ہو رہی ہے، وہ صرف احمدی کر رہے ہیں.لیکن جماعت کے اندر ایک انقلاب عظیم ( میں اس کے نتائج نہیں بتا رہا) پیدا ہو گیا ہے.ان کے اخلاص میں برکت اور مال میں برکت، اس کے نتائج میں برکت پیدا کر دی گئی.کس کس نعمت کا تم شکر ادا کرو گے ؟ ایک ہی فضل ایسا ہوتا ہے کہ اگر انسان بچے طور پر سوچے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے.کہ خدا کے ایک فضل کے بعد اگر میں ساری عمر الحمد للہ پڑھتار ہوں تو شکر ادا نہیں کر سکتا.یہاں تو فضل اتنے ہیں کہ گنے نہیں جا سکتے.جو خدا کو نہیں پہچانتے ، ان پر جو اللہ تعالیٰ فضل نازل کرتا ہے، وہ بھی گنے نہیں جاسکتے.تو جو اللہ تعالیٰ کو پہچانتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے جماعت میں داخل ہونے کی توفیق دی ہے، ان پر جو فضل ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے نہ پہچاننے والوں کے مقابلہ میں اتنے ہیں کہ وہ گنے نہیں جاسکتے.ہمارا تو دماغ چکرا جاتا ہے، جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کتنے فضل ہیں ؟ انسانی ذہن کو یہ طاقت ہی نہیں دی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا احاطہ کر سکے.یہ سچائی ہے، اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا.تو جتنازیادہ سے زیادہ طاقت میں ہے، خدا کی حمد کرنا ، اس کا شکر کرنا، اتنی حمد اور شکر کرو.پھر عاجزی کے ساتھ اپنے رب کریم سے کہو کہ تو نے جتنی طاقت ہمیں دی، اس کے مطابق جتنا ہم شکر کر چکے، وہ ہم تیرے حضور پیش کرتے ہیں.تو نے وعدہ کیا ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں اور دوں گا.اگر ہم میں کمیاں رہ گئیں ہیں، کیونکہ ہم تیرے عاجز بندے ہیں تو تو ہمیں معاف کر اور تو ہمارے تھوڑے شکر کو بہت سمجھ اور ہمارے دماغ کو صحت مند کر، کیونکہ دماغی بیماریاں بھی ہوتی ہیں.اور ہمارے اخلاص کی کمی کو نظر انداز کر دے.اے ہمارے خدا! ایسا سمجھ لے اپنے فضل سے کہ واقعہ میں اپنی طاقتوں کو مد نظر رکھ 692

Page 710

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اکتوبر 1970ء کر جتنا تیرا شکر ادا کرنا چاہئے تھا، اتنا ہم نے شکر ادا کر دیا اور اس کے مطابق ہم سے سلوک کر.اور اپنے پیار میں اس کے مطابق زیادتی کرتا چلا جا.تو یہ دعائیں کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو.نومبر تک چالیس فیصدی کے لحاظ سے موجودہ شکل میں دس لاکھ روپیہ نقد ہونا چاہئے.اس وقت پانچ لاکھ سے اوپر ہے.لیکن چونکہ کئی دوستوں نے اکٹھی رقم دے دی ہے، چالیسواں حصہ نہیں دیا.اس واسطے عملاً بارہ لاکھ ہونا چاہئے.بعض زمینداروں نے تو اپنے وعدے لکھوادیے ہیں اور بعض مجھے یقین ہے کہ بچائے اور اچھا کیا کہ انہوں نے ابھی وعدے نہیں لکھوائے.ہوسکتا ہے کہ وہ پانچ سو نقد ادا کر دیں.پھر اگلی فصل کا انتظار کریں، پھر اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے تو پانچ صدا ادا کر دیں.بہر حال نومبر سے پہلے بارہ لاکھ کے قریب رقم آنی چاہئے.وہ آپ یا درکھیں، خدا سے آپ نے وعدہ کیا ہے، اس کو پورا کریں.اور جو یہ منصوبہ ہے، نصرت جہاں ریز روفنڈ کا یہ تو بنیاد ہے نا اس کے اوپر عمارت بنی ہے.وہ اور چیز ہے.اس کے اوپر عمارت بنی ہے ہمیں، چالیس ہسپتالوں کی.اور اس کے اوپر عمارت بنی ہے،ستر ، اسی ، نوے، سونٹے ہائی سکولوں کی.اور باہر کے ملکوں کی رقوم کو ابھی میں نے شامل نہیں کیا.بہت سے عیسائی پیرا ماؤنٹ چیف ایسے ہیں، جنہوں نے لکھا ہے کہ زمین بھی ہم مفت دیں گے اور تعمیر بھی ہم مفت کر کے دیں گے.(اور وہ ہمارے نام رجسٹری بھی کروا دیتے ہیں.) آپ یہاں ڈاکٹر بھیجیں.کیونکہ یہاں ڈاکٹروں کی بڑی ضرورت ہے.ان کی قیمتوں کا تو اندازہ نہیں.ہمارے ملک کے لحاظ سے لاکھ، لاکھ روپے کی وہ زمین اور عمارت ہے.وہ ہم نے شمار نہیں کی.ایسے ایسے وعدے ہیں، جو انہوں نے کئے ہیں.اللہ تعالیٰ جب قبول کرتا ہے، اپنے بندہ کی عاجزانہ پیش کش کو تو اس کے دو نتیجے برآمد ہوتے ہیں.ایک یہ کہ اس میں برکت پڑتی ہے اور دوسرے یہ کہ حاسد پیدا ہو جاتے ہیں.حاسد بھی پیدا ہور ہے ہیں.اور عیسائی ، بد مذہب، مشرک جو ہیں، وہ مائل بھی ہورہے ہیں.تو قبولیت کے دونوں نتیجے جو نکلنے چاہئیں ، وہ نکل رہے ہیں.لیکن ”لا فخر “.ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ ہمیں کوئی فخر نہیں ہے.اپنی کوئی ذاتی خوبی نہیں ہے.نہ مجھ میں ہے، نہ آپ میں ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.تمام حسن و احسان کا وہی سر چشمہ ہے.اس کا انعکاس کہیں زیادہ چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتا ہے، کہیں ذرامد ہم شکل میں انعکاس ہو جاتا ہے.سب اسی کے سائے ہیں، بھی اس کے انعکاس ہیں.اسی کی روشنی کی چہکار ہے.تو تکبر اور غرور اور فخر اور ریا جیسے شیطانی وسوسے دل میں نہیں پیدا ہونے چاہئیں.اللہ فضل کر رہا ہے، ہم اس کے عاجز بندے ہیں.وہ فضل کرتا چلا جائے گا.کیونکہ اس نے خود یہ کہا ہے کہ میں اس وقت تک جماعت احمد یہ پر 693

Page 711

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم فضل کرتا چلا جاؤں گا، جب تک کہ تمام دنیا کے عیسائی، تمام دنیا کے دھر یہ اور تمام دنیا کے بد مذہب جو ہیں، وہ اسلام اور احمدیت میں داخل نہیں ہو جائیں گے.اور جو باہر رہیں گے، ان کی حیثیت چوہڑوں، چماروں کی طرح بن جائے گی.یہ تو ایسا فیصلہ ہے، جو ہو کر رہے گا.دنیا دنیوی لحاظ سے اپنے آپ کو بڑا طاقتور سمجھتی ہے.لیکن ان ساری طاقتوں کو اور ان طاقتوں کو جو ابھی تک انسان کے علم میں نہیں آئیں، اللہ تعالیٰ نے ایک حکم ”کن“ کے ساتھ پیدا کر دیا.اسی ایک حکم کے ساتھ جب وہ چاہے گا ، اسے مٹادے گا.تو دنیا پتہ نہیں کس چیز پر فخر کرنے لگ جاتی ہے؟ پس آپ کو کہیں شیطان ورغلانہ دے، آپ کے دل میں وسوسہ نہ پیدا ہو.جماعت بڑی قربانی کر رہی ہے.لیکن صرف اس وجہ سے کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہی منشا ہے کہ جماعت قربانی دے.اگر اس کا فضل شامل حال نہ رہے تو آپ ایک دھیلے کی قربانی نہیں کر سکتے.اور فضل کے بغیر جس دھیلے کی آپ قربانی کریں گے، اللہ تعالیٰ اسے ہاتھ سے پکڑ کر تمہارے منہ پر مارے گا کہ لے جاؤ ، اسے مجھے غیر مخلص پیسہ نہیں چاہئے.اپنی فکر کرتے رہو اور خدا کے دامن سے چھٹے رہو.دنیا کی کوئی طاقت آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی.اور شیطان کے سب حملے خواہ کسی شکل میں کسی طاقت کے ساتھ ہوں ، وہ نا کام ہو کر واپس چلے جائیں گے.کیونکہ آپ کو شیطان اپنے پیدا کرنے والے رب کی گود میں پائے گا اور وہ اس سے خوف کھائے گا.پس دعا ئیں کرو، اللہ کے دامن کو نہ چھوڑو.اہل دنیا سے پیار کرو، ان سے نفرت نہ کروں کسی سے دشمنی نہ کرو، کسی کو دکھ نہ پہنچاؤ.اور وہ ، جو تمہیں دکھ پہنچانے والے ہیں اور تمہارے ساتھ دشمنی کرنے والے ہیں، ان سے فکر مند بھی نہ ہو.جو جائز تدبیر ہے، وہ بہر حال ہم نے کرنی ہے.کیونکہ خدا کا یہی حکم ہے.لیکن اس جائز تدبیر کے بعد آپ کے لئے خائف ہونے کی کوئی وجہ نہیں.کیونکہ خدا کہتا ہے کہ یہ نا کام ہوں گے.جس کے کانوں میں خدا تعالیٰ کے میٹھے بول پڑ رہے ہوں، اسے دنیا کی کس طاقت سے ڈر ہے ؟ خدا کرے کہ آپ کو سننے کی بھی توفیق عطا کرے“.(اللهم امین) (رجسٹر خطبات ناصر، غیر مطبوعہ ) 694

Page 712

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 09 اکتوبر 1970ء حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ اسلام کی حجت تمام دنیا پر پوری ہو خطبہ جمعہ فرمودہ 09 اکتوبر 1970ء حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز اور ناکارہ پر خطا اور نالائق غلام احمد ، جو تیری زمین ملک ہند میں ہے.اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تو مجھ سے راضی ہو اور میری خطیبات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور و رحیم ہے.اور مجھ سے وہ کام کرا، جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے.مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال.اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر ایک قوت اور جو مجھے حاصل ہے، اپنے ہی راہ میں کر.اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل حسین میں مجھے اٹھا.اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے، اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا.اور عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں، پوری کر.اور اس عاجز اور اس کے تمام محبوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے ظل اور حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفل بن.اور سب کو اپنی دارالرضا میں پہنچا اور اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر.آمین ثم آمین.پھر آپ فرماتے ہیں:.(الحلم 6/13 ، اگست 1898، صفحہ 13,14) ”اے میرے قادر خدا! میری عاجزانہ دعائیں سن لے.اور اس قوم کے کان اور دل 695

Page 713

خطبہ جمعہ فرموده 09اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کھول دے.اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دنیا سے اٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے اور زمین تیرے راست باز اور موحد بندوں سے ایسی بھر جائے ، جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے.اور تیرے رسول کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے.آمین.اے میرے قادر خدا! مجھے یہ تبدیلی دنیا میں دکھا اور میری دعائیں قبول کر جو ہر یک طاقت اور قوت تجھ کو ہے.اے قادر خدا! ایسا ہی کر.آمین ثم آمین.تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 603) ان اقتباسات میں جو ابھی میں نے پڑھ کر سنائے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آپ کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ اسلام کی حجت تمام مخالفین اسلام پر پوری ہو.اور اس کے نتیجہ میں وہ اسلام کے حسن اور خوبیوں کو جاننے اور پہچانے لگیں.اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی توحید انسانوں کے دل میں پیدا ہو جائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کے حسن و احسان کے جلوے بنی نوع کے دل منور کریں اور پھر آپ نے اپنے متبعین کے لئے دعا فرمائی ہے، جو اس کام میں آپ مددگار اور معاون بنیں.حجت اسلام بنی نوع انسان پر پوری کرنا، آسان کام نہیں ہے.دنیا اسلام کے حسن اور اسلام کے احسان سے واقف نہیں.لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید پہچانتے ہی نہیں یا اس کی معرفت ہی نہیں رکھتے.اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں یا اس کو بے بس اور کمزور سمجھتے ہیں.اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی سے انہیں پیار نہیں.دنیا اللہ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہے.ہزار بدظنیاں ہیں، ہزار جہالتیں ہیں، جو غلط خیالات اور غلط تصورات دل میں جماتی ہیں.تعصبات ہیں، یہ احساس ہے کہ انہیں سننے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے.اسلام کو کمزور کرنے اور اس کے حسن کو چھپانے کے لئے بے شمار منصوبے بنائے جاتے ہیں.تمام دنیا کی طاقتیں اسلام کے مقابلہ پر اکٹھی ہو گئی ہیں.ہمارے دل میں بنی نوع کی محبت ہے.اس لئے ان کو جہنم کی آگ سے بچانا بڑا اہم اور بڑا ضروری ہے.ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کی بعثت کی غرض کو پورا کرنے کے لئے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنے والے ہوں.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں خبر دار کیا ہے کہ ہم عاجز اور کمزور ہیں، ہمیں اپنی ذات پر یا اپنی طاقتوں پر یا اپنے علم پر یا اپنی فراست پر یا اپنے جتھے پر بھروسہ نہیں رکھنا چاہئے.کیونکہ ظاہری لحاظ سے دنیا کی دولت کے مقابلہ میں ہمارے پاس دولت تو یوں کہنا چاہئے ، 696

Page 714

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 09 اکتوبر 1970ء ہے ہی نہیں.اور دنیا کی طاقتوں کے مقابلہ میں ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں ہے.اور دنیا کی تدبیروں کے مقابلہ میں ہماری تدبیر نہایت ہی عاجز اور کمزور ہے.اور جہاں تک ہماری ذات اور ہمارے نفس کا تعلق ہے، ہمیں اس احساس کو اپنے دلوں میں زندہ اور قائم رکھنا چاہئے کہ ہم لاشئی محض ہیں اور انتہائی طور پر عاجز ہیں.اگر وہ ذمہ داری جو ہم پر ڈالی گئی ہے، اس کا کروڑواں حصہ بھی ہم پر ذمہ واری ہوتی.تب بھی ممکن نہیں تھا کہ ہم اس ذمہ داری کو اپنی طاقت سے نبھا سکتے.لیکن یہاں تو اس سے کہیں زیادہ ہم پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے.یہ کوئی سہل اور آسان کام نہیں کہ تمام بنی نوع انسان کے دلوں کو خدا اور اس کے رسول کی محبت سے بھر دیا جائے اور اس طرح پر اسلام کی حجت کو ان پر پورا کر دیا جائے.تیسری بات جو یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتائی ہے، یہ ہے کہ جہاں ہمارے دلوں میں عاجزی اور بے کسی اور بے مائیگی کا احساس ہو اور شدت کے ساتھ زندہ احساس ہو، وہاں ہمیں اس بات پر پختہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک اور سرچشمہ ہے.اور کوئی چیز اس کے سہارے کے بغیر قائم نہیں رکھی جاسکتی.اور نہ اس کی مدد اور نصرت کے بغیر حاصل کی جاسکتی ہے.کمزور تو ہیں ہم لیکن اگر ہمارا زندہ تعلق اپنے رب کریم سے پیدا ہو جائے تو ہم محض اس کی مدد اور نصرت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل ہو سکتے ہیں.یہاں ایک اور بات بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مد داور نصرت کے حصول کے لئے حقیقی دعا کی ضرورت ہے.ہم دعا کے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدداور نصرت کو حاصل نہیں کر سکتے.اس لئے جو دعا نہیں کرتا ، وہ اپنے بے نیاز اور غنی خدا سے دور رہتا ہے.جو اس کی پرواہ نہیں کرتا، اللہ بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا.دعا حقیقی ہونی چاہئے ، دعا اپنی تمام شرائط کے ساتھ ہونی چاہئے.لیکن دعا ہونی چاہئے.اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کو حاصل نہیں کیا جاسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کے مضمون پر بڑی تفصیلی اور گہری بحث کی ہے.ایک فلسفی دماغ کو بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے اور ایک عام انسان کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ( سورة فرقان : 78) کہ جب تک تم دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو پختہ نہیں کروگے اور اس کی قدرت اور طاقت کو جذب نہیں کرو گے ، اس وقت تک اللہ تمہاری مدد نہیں کرے گا.اور جب اللہ تمہاری مدد نہیں کرے گا تو تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.697

Page 715

خطبہ جمعہ فرموده 09 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مختصری دعا میں ہم پر یہ واضح کیا ہے کہ اگر ہم اپنے مقصد کو پہچانتے ہیں، جو یہ ہے کہ حجت اسلام ساری دنیا پر پوری ہو جائے.اگر ہم اپنے نفس کی عاجزی اور بے کسی کا احساس رکھتے ہیں، اگر ہم اپنے رب کی کامل طور پر معرفت رکھتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ جوتی کا تسمہ ہو یا تمام دنیا میں حجت اسلام کو پورا کرنا ہو، اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا.اس لئے ہر دم اور ہر آن اپنی بقا اور اپنی جدو جہد میں کامیابی اور مثمر ثمرات ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کی قوت اور اس کی طاقت اور اس کی مدد و نصرت کی ضرورت ہے.اس لئے آج میں پھر اپنے بھائیوں اور بہنوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ دعاؤں کی طرف بہت متوجہ ہوں اور عاجزانہ طور پر اور عاجزی کے اس احساس کو شدت کے ساتھ اپنے دل میں پیدا کر کے اور سوز و گداز کے ساتھ اور ایک تڑپ کے ساتھ محبت ذا یہ الہیہ کی آگ کے شعلوں میں داخل ہو کر وہ اپنے رب کے حضور پہنچنے کی کوشش کریں.تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیار کے پانی سے اس تپش محبت کو ٹھنڈا کر دے اور سرور محبت عطا فرمادے.ہمارے دلوں ، دماغوں اور روح میں سرور پیدا کرے.اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ وہ مقصد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا ہے اور جس کی ذمہ داری آج ہمارے کندھوں پر ہے، ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جائیں.دنیا نمیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی ، ہم سے مخالفت سے پیش آتی ہے.ہمیں اس کی پرواہ نہیں.جس چیز کی ہمیں پرواہ ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کی نگاہ میں عزت کو پائیں.دنیا ہیں پہچانتی نہیں اور چونکہ وہ ہمیں پہچانتی ہیں، اس لئے ہزار قسم کے جھوٹ ہمارے خلاف بولے جارہے ہیں.ہر شخص اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے کہ وہ ہمارے خلاف زبان دراز کرے.اور ہمارے خلاف جتنا چاہے، جھوٹ بولے.اور دنیا کی سب طاقتیں ہمارے خلاف مجتمع ہوگئی ہیں اور اکٹھی ہوگئی ہیں.وہ چاہتی ہیں کہ اسلام غالب نہ ہو.لیکن خدا چاہتا ہے کہ اسلام غالب ہو.یہ عیسائی اور یہ مشرک اور یہ دہر یہ اپنے ان منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے کہ اسلام کو مغلوب کر دیں اور مغلوب رکھیں.اسلام ان پر ضرور غالب آئے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہی فیصلہ کیا ہے.لیکن زمین پر اس نے ہم پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ ہم دعا اور تدبیر کو کمال تک پہنچا کر خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کو اپنے نفسوں میں اور اپنی زندگیوں میں پورا کرنے کی کوشش کریں.ہم تو صرف اس حد تک کر سکتے ہیں، جس حد تک اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذرائع اور اسباب عطا کئے ہیں، ہم اس سے زیادہ نہیں کر سکتے.لیکن دعا بھی ایک تدبیر ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعا کو اس کے کمال تک پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہر 698

Page 716

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 09 اکتوبر 1970ء ایک شخص کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ اس کے حضور جب عاجزانہ جھکے تو گریہ وزاری اور سوز و گداز کو انتہا تک پہنچا کر ایک ایسی آگ اپنے گرد جلا دے اور اس آگ کو اتنا تیز کر دے کہ اس کا نفس باقی نہ رہے.اور اپنے اوپر ایک موت وارد کر دے تاکہ اللہ تعالیٰ سے ایک نئی زندگی حاصل کرنے والا ہو.اور اس نئی زندگی پانے کے بعد سے اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ملے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض پوری ہو جائے.پس دعاؤں کی طرف بہت ہی توجہ دیں.اور ہماری حقیقی دعا یہی ہے کہ اے خدا! جیسا کہ تو نے چاہا ہے، ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری مدد اور نصرت کے ساتھ حجت اسلام ساری دنیا پر پوری کرنے والے ہوں.اور اسلام کا حسین چہرہ ہمارے وجودوں ، ہمارے افعال و اقوال سے نظر آ جائے.وہ حقیقی توحید کی معرفت حاصل کریں اور سچا عشق اور محبت تیرے ساتھ پیدا ہو جائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو، آپ کے جلال کو اور آپ کی صداقت کو اور آپ کے حسن و احسان کو پہچانے لگیں.اور اس پہچان اور معرفت کے نتیجہ میں ان کے دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے معمور ہو جائیں.دعا ہماری زندگی کا ، ہماری جدوجہد کا اور ہماری کوشش کا سہارا ہے.دعا کو اپنے کمال تک پہنچاؤ.اپنے رب پر پورا بھروسہ رکھو.کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں ہے.اگر اس کی رضا کو پالو گے، اگر اس کی خوشنودی اور محبت کو حاصل کر لو گے تو دنیا جو چاہے کر لے، دنیا کی آج کی طاقت اور کل کی طاقت مل کر بھی تمہیں غلبہ اسلام سے روک نہیں سکتی اور تمہیں نا کام نہیں رکھ سکتی.اپنی انتہائی قربانیاں اپنی انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنے رب کریم کے حضور پیش کرو اور دعائیں کرو کہ وہ انہیں قبول کرے اور اپنی مددو نصرت کا وارث بنائے تا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض پوری ہو.(اللهم امین) مطبوعه روزنامه الفضل 11 نومبر 1970 ء) 699

Page 717

Page 718

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1970ء دعا اور مجاہدہ کریں کہ اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کا سہرا ہمارے ہی سروں پر باندھے خطبہ جمعہ فرمودہ 23اکتوبر 1970ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے ان آیات کی تلاوت کی.فَمَا أُوتِيْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَمَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ قُلْ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التَّجَارَةِ وَاللهُ خَيْرُ الرُّزِقِيْنَة اور پھر فرمایا:.(الشوری آیت 37) ( الجمعه آیت 12) پچھلے جمعہ میں نے دوستوں کو بتایا تھا کہ میرے خون کی شکر معمول سے کافی بڑھ گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے بغیر دوائی کے استعمال کے گزشتہ اتوار کو خون کا جو دوسرا امتحان ہوا ، اس میں خون کی شکر 262 سے گر کر 221 پر آگئی تھی.یہ بھی زیادہ ہے.بہر حال دوست دعا کرتے رہیں.اس عرصہ میں پیچش کا مجھے تیسر احملہ ہوا ہے.یہ مرض پیچھا نہیں چھوڑتی.دوائی کھاتا ہوں آرام آجاتا ہے، دوائی چھوڑ دیتا ہوں تو پھر حملہ کر دیتی ہے.اسی طرح چل رہا ہے.پھر صبح سے گلے کی خراش اور نزلے کی تکلیف شروع ہو گئی ہے.دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ساری زندگی کام کی زندگی بنائے.ان تین دنوں میں انصار اللہ کا اجتماع ہے.انصار اللہ کے دوست باہر سے آئے ہوئے ہیں.یہ بھی کافی بڑا پروگرام ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے نباہنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں، جو یکم نبوت ( یکم نومبر ) سے شروع ہوگا.یہ نیا سال تحریک جدید کے دفتر اول کا سینتیسواں سال ہے اور دفتر دوم کا ستائیسواں سال ہے اور دفتر سوم کا چھٹا سال ہے.دو سال قبل میں نے جماعت کو یہ توجہ دلائی تھی کہ تحریک جدید کے کام کی طرف پہلے سے زیادہ متوجہ ہوں اور زیادہ قربانیاں کریں اور زیادہ ایثار دکھائیں.اور اپنی نئی نسل کو زیادہ بیدار کریں اور انہیں 701

Page 719

خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم قربانیوں کے لئے تیار کریں.دفتر سوم کی ذمہ داری تو انصار اللہ پرڈالی گئی تھی ، اس میں بھی ابھی کافی ستی ہے.اس دو سال میں وہ ٹارگٹ ، جو میں نے تحریک جدید کے سامنے رکھا تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ تحریک کے تعلق میں جماعت کے سامنے رکھا تھا.وہ یہ تھا کہ پاکستان کے احمدیوں کی یہ مالی قربانی سات لاکھ نوے ہزار روپے ہونی چاہیے.مگر جماعت اس ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکی.کچھ جائز وجوہات بھی ہیں.پہلے فضل عمر فاؤنڈیشن کے چندوں کا زائد بار تھا.اب بار تو نہیں کہنا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کے جو دروازے کھولے تھے، ہم اپنی غفلتوں کی وجہ سے یا اپنی بشری کمزوری کے نتیجہ میں اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکے، جتنا کہ ہمیں اٹھانا چاہیے تھا یا جتنا ہمارا پیارا رب ہم سے توقع رکھتا تھا کہ ہم اٹھائیں گے.باوجود فضل عمر فاؤنڈیشن کی زائد قربانیوں کے، جو جماعت دے رہی تھی ، پھر بھی پہلے کی نسبت تحریک نے ترقی کی ہے.پنتیسویں سال میں چھ لاکھ ہمیں ہزار تک پہنچے اور چھتیسویں سال میں چھ لاکھ، پینسٹھ ہزار تک پہنچے اور سات لاکھ نوے ہزار تک، جو میں نے ٹارگٹ مقرر کیا تھا، اس میں ابھی ایک لاکھ پچیس ہزار کی کمی ہے.کیونکہ اس عرصہ میں نصرت جہاں ریز روفنڈ کا بھی مطالبہ ہوا ہے.یہ مطالبہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوا ہے، مغربی افریقہ کی ضرورت کے مطابق یہ مطالبہ ہوا ہے.اس لئے میں نے سات لاکھ نوے ہزار کا جو ٹارگٹ رکھا تھا کہ یہاں تک جماعت کو پہنچنا چاہیے، اس میں کوئی زیادتی نہیں کرنا چاہتا.لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس سال انشاء اللہ وہاں تک پہنچ جائے گی.بعض جماعتوں نے اس طرف توجہ دی ہے، بعض نے بڑی غفلت برتی ہے.اگر ہم جماعتوں کا سرسری جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کراچی کی جماعت اپنے ٹارگٹ کو پہنچ گئی ہے.جب میں نے یہ اعلان کیا تھا یعنی سات لاکھ نوے ہزار کا ٹارگٹ مقرر کیا تھا تو دفتر تحریک نے ہر بڑی جماعت اور ضلع کا نسبتی طور پر ٹارگٹ مقرر کر دیا.یعنی جو چونتیسویں، پینتیسویں سال کا چندہ تھا، اس کے ٹوٹل اور سات لاکھ نوے ہزار کی جو نسبت بنتی تھی ، اس نسبت سے تحریک نے کہا کہ ہر جماعت اور ضلع اتنا زیادہ دے دے تو جو ٹارگٹ ہے ، وہ پورا ہو جاتا ہے.اس نسبت سے یعنی سات لاکھ نوے ہزار کے ٹارگٹ کے لحاظ سے کراچی کو جتنا دینا چاہیے تھا، اتنا اس نے دے دیا ہے.الحمد للہ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.اسی طرح اسلام آباد ہے، پھر ضلع ہزارہ ہے، پھر جہلم شہر ہے، اسی طرح بنوں شہر وضلع ہے، پھر ساہیوال شہر ہے، پھر ڈیرہ غازیخاں شہر ضلع ہے، پھر بہاولپور شہر ضلع ہے اور اسی طرح ڈھا کہ شہر.ان سب نے اپنے تحریک جدید کے چندے اس نسبت سے بڑھا دیئے کہ جس نسبت سے سات لاکھ نوے ہزار کی رقم پوری کرنے کے لئے ان پر ذمہ آتی بھی ایسی داری آتی تھی.اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر عطا فرمائے.لیکن بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں، جو کچھ ست 702

Page 720

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 1970ء ہیں.اور بعض ایسی جماعتیں ہیں، جن سے ہم توقع رکھتے تھے کہ وہ اس طرف زیادہ توجہ دیں گی مگر انہوں نے توجہ نہیں دی.مثلا ربوہ ہے.ربوہ اپنے اس ٹارگٹ کو نہیں پہنچا اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے.ربوہ کو تو باہر کی جماعتوں کے لئے نمونہ بننا چاہیے.مگر یہ نمونہ نہیں بنے.نہ صرف یہ کہ ربوہ کے دوست باہر کی جماعتوں کے لئے نمونہ نہیں بنے بلکہ انہوں نے کراچی اور دوسرے شہر واضلاع کے نمونے سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا.ٹارگٹ کے لحاظ سے ربوہ کو نوے ہزار کی رقم دینی چاہیے تھی.جس میں سے صرف ستاون ہزار کے وعدے ہیں.اسی طرح لاہور شہر کا حال ہے.یہ امیر احمدیوں کا شہر ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی کامل روح موجود نہیں یا اس روح کو بیدار نہیں کیا گیا.دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے روح تو ہے لیکن نظام جماعت لاہور نے اس روح کو کما حقہ بیدار نہیں کیا.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کا بھی چورانوے ہزار ٹارگٹ بنتا تھا لیکن صرف بہتر ہزار کے وعدے ہیں.پھر سیالکوٹ شہر ہے.انہیں پندرہ ہزار کا ٹارگٹ دیا گیا تھا.ان کے دس ہزار کے وعدے ہیں.ویسے میں نے سینکڑے چھوڑ دیئے ہیں، ہزاروں میں بات کر رہا ہوں.اسی طرح راولپنڈی شہر ہے، جس کے پہلو میں اسلام آباد شہر ہے، جس نے اپنا ٹارگٹ پورا کر دیا ہے.لیکن راولپنڈی شہر کا چون ہزار روپے ٹارگٹ بنتا تھا اور انہوں نے وعدے صرف تمہیں ہزار کے کئے ہیں.یعنی قریباً پچپن فیصد ہیں.یہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں.پھر ملتان شہر ہے ، اس کا ٹارگٹ سترہ ہزار تھا اور انہوں نے وعدے کئے ہیں، گیارہ ہزار کے.دفتر نے یہ رپورٹ دی ہے کہ جو شہر یعنی ضلع کا صدر مقام ہے، وہاں کی ضلعی جماعتیں بھی پیچھے ہیں.یہ تو ایک طبعی بات ہے.جب کسی جماعت نے توجہ نہیں کی اور سستی دکھائی ، نظام جماعت نے اپنی ذمہ داری کو نہیں نباہا تو اگر شہر پیچھے ہے تو ضلع یقین پیچھے ہوگا.بلکہ غالباً کچھ زیادہ پیچھے ہوگا.بہر حال ہمارے سامنے یہ بڑی افسوسناک تصویر آتی ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ہمیں اپنی ذمہ داری نباہنے کی توفیق عطا کرے.میں نے آپ کو کچھ معیار بھی بتائے تھے.یعنی دفتر اول اس حساب سے اوسطا رقم دے رہا ہے، دفتر دوم کی اوسط کیا ہے؟ اور دفتر سوم کی اوسط کیا ہے؟ اور چونکہ دفتر اول کی اوسط بہت اچھی تھی اور اب بھی ہے، اس لیے میں نے اس میں زیادتی نہیں کی تھی.دفتر اول میں جو حصہ لینے والے ہیں، ان کی اوسط فی کس -64 روپے ہے اور یہ اوسط بڑی اچھی ہے.کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ دفتر اول میں بہت سے احباب کافی بڑی عمر کے ہیں.اور میرا یہ خیال ہے (اگر چہ اس حصہ کی میرے پاس رپورٹ تو نہیں لیکن ان کی میرے پاس جو روزانہ رپورٹیں آتی ہیں، ان سے پتہ لگتا ہے ) کہ دفتر اول کی مجموعی رقم کم ہوگئی ہے.اور ہونی چاہیے تھی.کیونکہ بڑی عمر کے لوگ اس میں شامل ہیں.وفات بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.بعض دفعہ تو و 703

Page 721

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم روزانہ یا دوسرے دن یہاں جنازہ آجاتا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ زندگی تو فانی ہے.ہمیشہ کے لئے دنیا میں تو کسی نے نہیں رہنا.ہم یہاں آئے ہیں، پھر گذر جائیں گے.تاہم دفتر اول والوں نے اپنی 64 کی اوسط برقرار رکھی ہے اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا عطا فرمائے.64 کے مقابلے میں دفتر دوم کی اوسط فی کس غالباً 20 یا 21 تھی.لیکن میں نے کہا کہ اسے 30 تک لے کر جاؤ.یہ اوسط بڑھی تو ہے لیکن 30 تک ابھی نہیں پہنچی.صرف 24 تک پہنچی ہے.دفتر دوم، وہ دفتر ہے، جس نے دفتر اول کی جگہ لینی ہے اور عملاً خاموشی کے ساتھ لے رہا ہے.دفتر اول میں حصہ لینے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے.کیونکہ نئے تو اس میں شامل نہیں ہو رہے.دفتر دوم کی تعداد زیادہ ہے اور انہوں نے ان کی جگہ لینی ہے.اور پھر دفتر سوم نے دفتر دوم کی جگہ لینی ہے.اور پھر دفتر چہارم آجائے گا، اپنے وقت پر جس نے دفتر سوم کی جگہ لینی ہے.دفتر اول کی اوسط فی کس اور دفتر دوم کی اوسط فی کس میں بڑا فرق ہے.ایک طرف 64 روپے فی کس اور دوسری طرف 24 روپے فی کس.جس کا مطلب یہ ہے کہ 40 روپے فی کس کا فرق ہے.اور یہ فرق ہمیں فکر میں ڈالتا ہے.اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ دفتر دوم میں قربانی کی وہ روح نہیں، جو دفتر اول میں پائی جاتی ہے.یہ صحیح ہے کہ دفتر دوم والوں کی آمد شروع میں تھوڑی ہوتی ہے مگر انسان ترقی کرتا ہے.مثلاً جو دوست گورنمنٹ کے ملازم ہیں، ان کی ہر سال ترقی ہوتی ہے.جتنی بڑی عمر کے ہوں گے، وہ زیادہ تنخواہ لے رہے ہوں گے.پھر انسان تجربے میں بھی ترقی کرتا ہے.ایک شخص نو کر نہیں لیکن تجارت کر رہا ہے.شروع میں اسے تجربہ نہیں یا شروع میں اس کے پاس سرمایہ نہیں تھا، پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ، جن لوگوں کے مالوں میں برکت ڈالتا ہے، وہ اپنے تجربے میں بھی ترقی کرتے ہیں اور ان کے سرمائے میں بھی ترقی ہوتی ہے، ان کی آمد بھی زیادہ ہونے لگ جاتی ہے.یہ اپنی جگہ صحیح ہے.لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ 64 اور 24 کی نسبت ہمارے دل میں بڑا فکر پیدا کرتی ہے.اس لئے ہمیں دفتر دوم کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے اور ان کے معیار کو بلند کرنا چاہیے.دفتر سوم میں بہت سے طالب علم بھی ہیں.دفتر دوم میں بھی کچھ ہوں گے لیکن دفتر سوم کی نسبت بہت کم ہیں.دفتر سوم کا معیار 13 فی کس تھا.پھر میں نے کہا، اسے بڑھا کر 20 تک لے جاؤ.یہ بڑھا تو ہے یعنی 13 سے 15 تک آگئے ہیں.لیکن ابھی 20 تک نہیں پہنچے.دفتر سوم کی دو ذمہ داریاں انصار اللہ پر عائد ہوتی ہیں.ایک یہ کہ دفتر سوم میں زیادہ کم عمر بچے ہیں.یا وہ ہیں، جن کی احمدیت میں کم عمر ہے.اور یہ ہر دو تربیت کے محتاج ہیں.اور ان ہر دو کی تربیت کا کام خدام الاحمدیہ کا نہیں بلکہ انصار اللہ کا کام ہے.مجموعی حیثیت میں وہ زیادہ تربیت یافتہ ہیں.یہ صحیح ہے کہ 704

Page 722

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1970ء انصار اللہ میں بعض نئے احمدیت میں داخل ہونے والے بھی شامل ہو جاتے ہیں.انہیں ہم خدام الاحمدیہ یا اطفال میں تو نہیں بھیجتے.مثلاً جو 45 یا 50 سال کی عمر میں آج احمدی ہوا ہے اور ہر مہینے بیسیوں اور سینکڑوں لوگ ایسے ہوتے ہیں.ایسے لوگ بہر حال اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ میں جائیں گے.اور ان کی تربیت کمزور ہوگی.لیکن زیادہ رو اس وقت نو جوانوں میں ہے.اور میں بڑا خوش ہوں، ہماری اگلی نسل میں بڑوں کی نسبت دین کی طرف بھی اور اسلام کے حقیقی نور کی طرف بھی اور احمدیت کی طرف بھی زیادہ توجہ ہے.اور ( بعض جگہ تو اس وجہ سے فکر پیدا ہوتی ہے، دو تین جگہ سے یہ رپورٹ آئی ہے کہ انہوں نے ایک فتویٰ دے دیا تھا کہ احمدی کا فر ہیں، اس کے مقابلے میں اس وقت تک دو چیزیں آگئی ہیں.) میں ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ دنیا جو مرضی کہتی رہے، اگر ہمارا رب ہمیں کافر نہیں کہتا تو ہمیں کوئی فکر نہیں لیکن چونکہ بہت سے احمدیت سے باہر ہیں، وہ غلط راستے پر چل سکتے ہیں، غلط نتائج لے سکتے ہیں.اس لئے ہمیں بعض دفعہ کفر کے فتوؤں کا جواب دینا پڑتا ہے.ہائیکورٹ نے بھی یہ فیصلہ کیا اور قوم کے محبوب سیاسی رہنما قائد اعظم نے بھی یہ کہا، وغیرہ وغیرہ.یہ جو نئے نئے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں یا جو احمدی نہیں ہیں، ان کے لئے ہمیں یہ چیزیں چھپوانی پڑی ہیں.ورنہ ہمیں کیا ضرورت ہے؟ جس کے کان میں اللہ تعالیٰ یہ کہ رہا ہو کہ میں تجھے مسلمان سمجھتا ہوں، اسے کسی اور کے فتوے کی ضرورت تو باقی نہیں رہتی.اللہ تعالیٰ کا فرمان کافی ہے.اور الحمد للہ وہ ہمیں یہی کہہ رہا ہے، میں تمہیں مسلمان سمجھتا ہوں.لیکن جب ہم دوسروں کے لئے چھپواتے ہیں.جماعت احمد یہ لا ہور کے ایک دوست نے کچھ پوسٹر بھی شائع کئے تو دو تین جگہ سے یہ رپورٹ آئی کہ جب یہ پوسٹر لگائے جارہے تھے تو چونکہ ہمارے خلاف تعصب بھی ہے ( اور یہ تعصب جہالت کے نتیجہ میں ہے یا عدم علم کے نتیجہ میں ہے.یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں صحیح واقفیت بہم پہنچا ئیں.اس لئے ایسے موقع پر ہمیں ان کے اوپر رحم ہی آتا ہے.اپنے اوپر غصہ آتا ہے کہ ہم نے صداقت صحیح رنگ میں ان تک کیوں نہیں پہنچائی ؟ بہر حال تعصب ہے.چنانچہ کئی لوگ کھڑے ہو گئے کہ ہم یہ پوسٹر نہیں لگانے دیں گے.اس پر کئی غیر احمدی دوست ان کے مقابلہ پر کھڑے ہو گئے کہ ہم دیکھیں گے تم کس طرح پھاڑتے ہو؟ پس ایسی لڑائی میں ہم شامل تو نہیں ہوں گے لیکن ملوث سمجھے جائیں گے.حالانکہ وہاں کوئی احمدی نہیں لڑے گا.کیونکہ لڑنے کا تو نہ ہمیں حکم ہے اور نہ ہمیں ایسی تربیت دی گئی ہے.لیکن جن کی توجہ غلبہ اسلام کی اس مہم کی طرف ہوتی ہے، ان کو جوش آجاتا ہے اور ہمیں وہاں خاموش ہی رہنا پڑتا ہے.53ء میں جب کالج پر کئی طرف سے انہوں نے یورش کی تو ایک ایسا گروہ آیا، جس نے پتھراؤ کیا.تعلیم الاسلام کالج اس وقت لاہور میں ڈی اے وی کالج کی بلڈنگ میں تھا.چنانچہ جب کالج پر پتھراؤ کیا گیا 705

Page 723

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم تو ان کے مقابلے میں ہمارے طالب علموں نے بھی پتھراؤ کیا.مجھے جب پتہ لگا تو میں بڑا پریشان ہوا کہ انہوں نے احمدیت کی تربیت کے خلاف ایسا کیسے کر دیا؟ دراصل ہمارے کالج کے ہوسٹل میں 60 فیصد طالب علم ایسے تھے، جو احمدی نہیں تھے.جب میں نے تحقیق کی تو مجھے پتہ لگا کہ جن لڑکوں نے جوابا پتھراؤ کیا ہے، ان میں ایک بھی احمدی نہیں تھا.لیکن چونکہ وہ ہمارے درمیان رہتے تھے، ہمارے طالب علموں کو دیکھتے تھے ، ہمارے ساتھ ان کا تعلق تھا، انہیں یہ پتہ تھا کہ یہ مظلوم جماعت ہے، اس لئے ان کو غصہ آگیا اور جوابی پتھراؤ کیا.مگر اس میں احمدی طلبہ ملوث نہیں تھے.انکوائیری کمیشن میں آئی جی انور علی صاحب نے اس بات کو پیش کرایا کہ دیکھیں جی، یہ دونوں طرف سے ہو جاتا ہے.اس سے زیادہ طیش آ جاتا ہے.تعلیم الاسلام کا لج پر جب حملہ ہوا تو اندر سے بھی پتھراؤ ہو گیا.میرے ساتھی میرے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ آپ کو پتہ ہے کہ اس پتھراؤ میں احمدی طلبا شامل نہیں تھے ، اس لئے ہماری طرف سے یہ موقف لینا چاہیے کہ یہ غیر احمدی طلباء کا کام ہے.میں نے کہا، یہ نہیں ہو سکتا.جنہوں نے پیار کے ساتھ ہمارا ساتھ دیا ہے، ہم ان کے خلاف انکوائری کمیشن میں کچھ نہیں کہیں گے.ہمیں وہ بدنام کرتے ہیں تو کرتے رہیں.لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ طالب علم ، جو احمدی نہیں تھے، ان کو اپنے کالج کے لیے جوش اور غیرت آئی اور انہوں نے ہماری خاطر ایک قدم اٹھایا.بے شک وہ ہمارے نزدیک غلط قدم تھا.لیکن ان کے نزدیک تو درست تھا.اگر ان کا قدم غلط ہے تو باہر سے بھی پتھراؤ اندر نہیں آنا چاہیے تھا اور اندر سے بھی باہر پھر نہیں جانا چاہیے تھا.لیکن جنہوں نے ہماری خاطر یہ قدم اٹھایا ہے، ہم ان کے خلاف یہ قدم نہیں اٹھائیں گے.وہ احمدی نہیں تھے، غیر احمدی تھے.وہ تو ہمارے ہیں، چاہے احمدی ہیں یا نہیں.ہماری خاطر انہیں غیرت آئی، ہماری خاطر انہیں جوش آیا.پس ہمیں فکر یہ رہتا ہے کہ کام کوئی کرے گا اور نام ہمارا بد نام ہو گا.ہمارا موقف پیار کا موقف ہے.ہم ان کو بدنام نہیں کریں گے ، جو ہماری خاطر غلطی کر رہے ہوں گے ، اپنے سر لے لیں گے.غرض یہ نوجوان طبقہ اس وقت احمدیت کی طرف زیادہ توجہ کر رہا ہے.اور ہم پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.پڑھے لکھے طالب علم ہیں لیکن اکثر مظلوم ہیں.ان سے بھی کوئی پیار نہیں کرتا.ایک دفعہ بہت سے غیر احمدی طالب علم مجھ سے ملنے آئے.ان میں کئی ایک لیڈر ٹائپ کے تھے.جب میں اٹھا تو ایک لیڈر طالب علم کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلا، جسے سن کر مجھے خوشی بھی ہوئی لیکن مجھے دکھ بھی بہت ہوا.جب ہم ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد فارغ ہوئے ، اس کے بعد مصافحہ کرنا تھا، وہ میرے دائیں طرف بیٹھا ہوا تھا.پہلے اس سے میں نے مصافحہ کرنا تھا، وہ آہستہ سے مجھے کہنے لگا کہ آج پہلی دفعہ کسی شریف آدمی نے ہم سے شرافت سے باتیں کی ہیں.مجھے یہ سن کر خوشی تو ہوئی کہ اس طرح جماعت کا اس 706

Page 724

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1970ء پر اثر ہوا.لیکن مجھے انتہائی دکھ ہوا کہ وہ نسل، جس کے اوپر قوم کی ساری ذمہ داری پڑنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل دی ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں فراست دی ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں جذبہ دیا ہے، وہ آگے نکلنے والی نسل ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ان سے کبھی کسی نے شرافت سے بات کی ہے یا نہیں؟ میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان کے دل میں یہ احساس ہے کہ ہم سے کسی نے کبھی شرافت سے بات نہیں کی.اور اصل تو احساس ہوتا ہے.پس جہاں مجھے تھوڑی بہت خوشی ہوئی ، وہاں مجھے بڑی تکلیف بھی ہوئی.پس یہ پیارے بچے اب آرہے ہیں اور آئیں گے.ان کی تربیت انصار اللہ کا کام ہے.یہ کام میں نے خدام الاحمدیہ کے سپردنہیں کیا.اس طرف توجہ دینی چاہیے.دفتر سوم کے چندے کی فی کس اوسط 13 سے 15 تک پہنچ گئی ہے، یہ خوشکن ہے.لیکن 20 تک ان کو پہنچنا چاہیے اور اس سال پہنچنا چاہیے.انصار اللہ ہر جگہ جائزہ لیں اور اپنی تھوڑی سی بستیاں ترک کر دیں تو زیادہ اچھا ہے.حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں.مثلاً افریقہ ہے.یہ بات بھی ضمنا ہے.خوشخبری ہے، اس لئے آپ کو سنا دیتا ہوں.جو ہماری آگے بڑھوں کی سکیم نصرت جہاں ریز روفنڈ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، اس کے ماتحت ہمارے پہلے ڈاکٹر نے غانا میں جا کر کام شروع کر دیا ہے.الحمد الله.اور زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ جس جگہ انہوں نے کام شروع کیا ہے، وہاں ان کو رہائش کے لئے مکان اور کلینک کے لئے اتنا بڑا مکان، جسے حکومت نے بھی مان لیا ہے کہ یہ ٹھیک ہے، وہ ایک ایسے پیرا ماؤنٹ چیف نے عطا کیا ہے، ہم اس کے بڑے ممنون ہیں ) جو بھی احمدی نہیں ہے.اس قسم کے حالات ہیں.وہ تو میں ہم سے تعاون کر رہی ہیں.کئی اور قومیں ہیں، جو ہم سے حسد کر رہی ہیں.ہمیں حسد کی کوئی پرواہ نہیں ہے.جو قومیں ہم سے تعاون کر رہی ہیں، وہ اس بات کی اہل ہیں، ان کا یہ حق ہے کہ ہم ان کی خدمت کے لئے وہ سب کچھ کریں، جو ہمارے بس میں ہے.اس طرح وہاں بہت سارے وعدہ کئے گئے ہیں.عمل بھی شروع ہو گیا ہے.پیرا ماؤنٹ چیف نے بہت بڑا ہال کلینک کھولنے کے لئے دے دیا ہے.دراصل غانا کی حکومت کچھ نخرے دکھا رہی ہے کہ پہلے ان سے کلینک کے لئے مکان کی approval ( اپروول ) لو.اور یہ کرو اور وہ کرو.مگر یہ ہال اتنا بڑا تھا کہ حکومت غانا کو کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوا اور ڈاکٹر بھی جارہے ہیں.غرض یہ بات ضمناً بھی ہے اور اس کا تعلق بھی ہے.یہ جو اگلی نسل ہمارے اندر شامل ہو رہی ہے اور بڑی تعداد میں شامل ہو رہی ہے، اس کی تربیت کی رفتار پہلے کی نسبت زیادہ ہونی چاہیے.تا کہ یہ اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے زیادہ قابل ہو جائیں.کیونکہ جب کام بڑھ گیا تو بہر حال ہمیں ادھر ادھر سے اور 707

Page 725

خطبه جمعه فرمودہ 23اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم زیادہ آدمی لینے پڑیں گے.اور اس وقت کام بڑھنے کا یہ حال ہے.نائیجیریا نے ہمیں مجھے صبح یاد نہیں ) 8 یا 10 آدمیوں کا کوٹا دے رکھا تھا، اس سے زیادہ وہاں ہمارے آدمی نہیں جاسکے.کیونکہ حکومت نے تعداد مقرر کی ہوئی ہے.اب جب میں وہاں گیا، ان سے باتیں کیں تو وہاں کی جماعت کو بھی جوش آیا اور ان کا ایک وفد وہاں کے وزیر سے ملا اور مطالبہ کیا کہ جس طرح حکومت نے کیتھولکس کو 150 ڈاکٹروں اور پادریوں کو اجازت دے رکھی ہے، اسی طرح ہمیں بھی اجازت دو.چنانچہ انہیں ابھی 150 کی اجازت ملنے کی امید ہے.دوست دعا کریں 150 آدمیوں کی اجازت مل جائے.اس وقت وہاں دس آدمی ہیں، 140 آدمی، جن کی اجازت ملے گی ، وہ وہاں موجود نہیں.اور اگر آپ نے وہاں آدمی نہ بھیجے تو بڑی سبکی ہو گی.وہ کہیں گے کہ تم بڑے طمطراق کے ساتھ آگئے تھے کہ ہمیں دس کی بجائے 150 کی اجازت دو.اور تم آدمی کوئی نہیں بھیج رہے.اور اگر ہم آدمی بھیج دیں تو بڑی ذمہ داری ہے.مالی لحاظ سے بھی اور کئی دوسرے لحاظ سے بھی.مثلاً رضا کار بھی آنے چاہیں، پیسہ بھی وہاں خرچ ہو گا.پس آپ دعا بھی کریں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پیسے بھی دے گا اور رضا کار بھی دے گا.لیکن اپنے تعلق کو اپنے رب سے قطع نہ کریں.کیونکہ جب تک یہ تعلق قائم ہے، ہمیں فکر نہیں.ہم میں بعض کمزور ہیں.جو چست ہیں، وہ ان کو تیز کر دیں گے.اس وقت تو ضرورت کچھ اس قسم کی ہے کہ جس طرح روم اور ایران کے فتنے کو اور جو ان کے منصوبے تھے، اسلام کو مٹانے کے ان میں ان کو نا کام کرنے کے لئے بے شمار جرنیلوں کی ضرورت پڑی تھی.( بیشمار تو ہمارا محاورہ ہے ) ہمیں وہ کہیں نظر ہی نہیں آرہے تھے.ضرورت سے پہلے نمایاں طور پر ان کا نام ہی نہیں لکھا گیا.لیکن ضرورت پڑنے پر وہ اس طرح ابھرے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.رومیوں اور ایرانیوں کو سینکڑوں سال سے فنون جنگ کی مہارت حاصل تھی اور پھر یہ تو میں بزدل بھی نہیں تھیں کہ مسلمان اٹھے اور ان کو شکست دے دی.یہ بڑے بہادر تھے.اتنے بہادر تھے کہ ایران میں یہ دستور تھا کہ کئی سپاہی زنجیروں سے اپنے آپ کو جکڑ لیتے تھے اور یہ زنجیریں غالباً چار قسم کی ہوتی تھیں.تین آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی ، پانچ آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی ، سات آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی اور دس آدمیوں کو آپس میں باندھنے کی.اب دس سپاہی کھڑے ہوتے ہیں، تلواریں اور نیزے لے لے کر اور ان کے پاؤں ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں بندھے ہوتے ہیں.اگر وہاں ان میں سے ایک مرجائے تو وہ بوجھ ہے، باقی دو پر یا نو پر.اور دو، ایک نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں زنجیروں میں بندھ کر مسلمانوں کے خلاف کھڑے ہو جاتے تھے اور بڑے مالدار بھی تھے اور پوری طرح مسلح ہوتے تھے.اس زمانہ میں ہندی فولاد بڑا مشہور تھا، اس کی انہوں نے 708

Page 726

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1970ء زر ہیں پہنی ہوئی تھیں، خود پہنی ہوئی تھیں.ان کی تلواریں اچھی ، زرہ اور خود اچھے ، نیزے اچھے، جرنیل اچھے کئی سالوں کی ان کی ٹریننگ ہوتی تھی.ان کی خود کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ ان کا ایک جرنیل نکلا.ان کا یہ دستور تھا کہ انفرادی جنگ کے لئے وہ اپنے مد مقابل سے دست بدست جنگ کے لئے آدمی بلاتے تھے.چنانچہ ان کا ایک جرنیل نکلا اور اس نے حضرت خالد بن ولید کو للکارا کہ میرے مقابلے پر آؤ.جب یہ گئے تو انہوں نے اپنی تلوار پورے زور کے ساتھ اس کے سر پر ماری.مگر ان کے ہاتھ میں صرف دستہ رہ گیا اور تلوار ٹوٹ کر دور جا پڑی اور دستہ ہاتھ میں.مگر اس جرنیل کو کچھ نہ ہوا.خیر اللہ تعالیٰ نے حضرت خالد کو بچالیا.میں اس وقت اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.میں یہ بتارہا ہوں کہ وہ ہر لحاظ سے مسلح اور تربیت یافتہ ہوتے تھے.اسلام سے پہلے عرب کی لڑائیاں قبیلے قبیلے کی لڑائیاں ہوا کرتی تھیں.نہ ان کو اس قسم کے فنون جنگ آتے تھے ، جس قسم کے رومیوں اور ایرانیوں کے تھے.گوان کے طریقوں میں آپس میں کچھ اختلاف بھی تھا.مگر مسلمانوں کو یہ طریقے نہیں آتے تھے.لیکن ایک صبح کو جب ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہترین فوجی دماغ عطا کر دئیے.اس کے خزانے تو خالی نہیں ، وہ تو بھرے ہوئے ہیں.پس آپ یہ دعا کریں کہ جس صبح کو ہمیں ضرورت پڑے تو ہمیں نہایت ذہین اور صاحب فراست اور تحمل والے اور غیروں کے ساتھ پیار کرنے والے اور ان کی خاطر قربانیاں دینے والے اور ان کی خدمت کرنے والے اور ان کو اپنے سینے سے لگانے والے روحانی جرنیل مل جائیں.وہاں جا کر یہ بھی جرنیل ہیں مگر تلوار کے بغیر.جس کے ہاتھ میں قرآن کریم ہے، وہ زیادہ اچھا جرنیل ہے.قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے ہاتھ میں بھی قرآن کریم تھا.لیکن دشمن نے مجبور کر دیا تھا تلوار نکالنے پر ، ورنہ وہ بھی صرف قرآن کریم لے کر باہر نکلتے تھے.غرض جتنے بھی جرنیلوں کی ہمیں ضرورت پڑے وہ ہمیں ملتے چلے جائیں.آخر پہلے زمانہ میں مسلمانوں نے جرنیل بنانے کے لئے سٹاف کالج تو نہیں کھولے تھے.اللہ تعالٰی جو معلم حقیقی ہے، اس نے ضرورت پڑنے پر اپنے پیار کا جلوہ دکھایا.بڑا ہی حسین جلوہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.میں نے بتایا ہے کہ تاریخ میں ان لوگوں کے نام کسی شمار میں نہ تھے.آدمی حیران ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے آگیا ؟ پتہ لگا، یہ مدینہ سے آگیا ہے.اور مدینہ کی گلیوں میں وہ بے چارا اس طرح پھر رہا ہوگا، جس طرح ہمارانا یجیریا کا مبلغ انچارج ربوہ میں آکر ربوہ کی گلیوں میں پھرتا ہے.اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا اور اس کی مدد کو جذب کرنے کے لئے ایک تو ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت چاہیے اور دوسرے عاجزانہ دعا ئیں چاہیں.آپ کی محبت میں اللہ تعالیٰ کی محبت آجاتی ہے.آپ نے اپنے پیدا کرنے والے رب سے جو محبت کی ہے، وہ کسی اور فردبشر نے نہیں کی.709

Page 727

خطبہ جمعہ فرموده 23 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم دفتر سوم کو جس میں روز بروز ترقی ہوتی چلی جائے گی کیونکہ نو جوانوں کو اس طرف بڑی توجہ پیدا ہو رہی ہے، وہ آئیں گے تو دفتر سوم میں داخل ہو جائیں گے.دفتر سوم میں جب داخل ہوں گے، غیر تربیت یافتہ ہوں گے.آج احمدی ہوئے ، کل کو اس نے تحریک جدید کا چندہ لکھوا دیا.اس پر ذمہ داری پڑ گئی ، جو ہر احمدی نوجوان پر پڑتی ہے.اس کو اپنا نفس مارنا پڑے گا، اس کو گالیاں سن کر بجائے چھیڑ لگانے کے دعا دینی پڑے گی.اسے بڑے زبر دست ضبط اور نفس پر قابو پانے کی ضرورت ہے.دوسروں کو تو بڑا آرام ہے، غصہ آیا ، چیڑ لگا دی.ایک چیڑ کھالی، ایک چیڑ لگا دی.پر ایک احمدی کی نہ یہ تربیت ہے اور نہ اسے یہ زیب دیتا ہے.اسے تو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ چیڑ کھاؤ اور دعا دو اور دل جیتو.ہم نے لوگوں کے سر پھاڑ کر ترقی نہیں کرنی.بلکہ غلبہ اسلام کی یہ مہم لوگوں کے دل جیت کر سر ہوگی.جس طرح یورپ سے میں نے جا کر کہا تھا کہ تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام کو پھیلائیں گے، اسی طرح میں یہاں بھی کہتا ہوں.کسی سے ہماری دشمنی اور لڑائی نہیں.ہم دل جیتیں گے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو پھیلائیں گے.اس لئے جب تم چپیڑ کھاؤ گے تو چیز کا جواب چھیڑ سے نہیں دینا.اس لئے بڑی زبر دست تربیت کی ضرورت ہے.نفس کی مثال گھوڑے کی ہے.نفس یا تو منہ زور گھوڑا بن سکتا ہے یا مطیع گھوڑا بن سکتا ہے.گھوڑے میں بڑی طاقت ہے.اگر چاہے اور مطیع نہ ہو تو دس آدمیوں کو کھینچ کر لے جائے.لگام آپ جتنی مرضی کھینچتے رہیں ، وہ کوئی پرواہ نہیں کرتا.اسی طرح نفس امارہ اور اس کی بدیاں بڑی زور دار ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت کی اور عاجزانہ دعاؤں کی لگام اس کے منہ میں پڑنی چاہیے اور اس کو ایک ہلکا سا اشارہ کافی ہونا چاہیے.گھوڑے کو جو سکھایا جاتا ہے،صرف اشارہ سکھایا جاتا ہے.اسے یہ نہیں بتایا جا تا کہ میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں.یہ بتایا جاتا ہے کہ میں تم سے زیادہ ہوشیار ہوں.تمہیں میرے اشارے پر چلنا پڑے گا.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ گھوڑے کو ہم نے تمہارے لئے مسخر کیا ہے.اور یہی گھوڑے کو سمجھایا جاتا ہے.ویسے لگام کا اشارہ ہوتا ہے لیکن اگر اچھا گھوڑا ہو تو سوار اگر بغیر لگام کے اشارے کے ٹھہرانا چاہے تو وہ کھڑا ہو جاتا ہے.پس نفس کو بھی اسی طرح مطیع ہونا چاہیے.یہ نہیں کہ جو مرضی کرے.آپ کا شعور یہ کہے کہ اللہ تعالی کہتا ہے کہ اچھے کھانے نہ کھاؤ.اس وقت مجھے تمہارے پیسوں کی اس لئے ضرورت ہے، تم اپنے جسموں کو کھانے سے اس لئے محروم کرو کہ کسی اور روح کو تمہارے پیسے کی ضرورت ہے.تو بہر حال یہ روح جسم پر مقدم ہے.پس اپنے جسم کی آسائش اور اچھے کھانے کی لذت کی قربانی دو تا کہ کوئی اور روح جہنم سے بچائی جاسکے.اور یہ تربیت نفس کو آپ نے دینی ہے.وہ جو باہر سے آئیں گے، وہ تو اور بھی فکر 710

Page 728

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1970ء مند کر دیں گے کہ پہلوں کی جو تربیت ہے، اس میں رخنہ نہ پڑ جائے.ان کو آتے ہی سنبھالنا چاہیے اور پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ صحیح راستہ پر ان کو لگا دینا چاہیے.یہ ذمہ واری انصار اللہ پر ہے.باقی آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مال خرچ کرتے ہیں، وہ اس لئے خرچ نہیں کرتے کہ ہم نے ایک منصو بہ بنایا اور اس منصوبہ کو ہم کامیاب کرنا چاہتے ہیں.بلکہ میں بھی اور آپ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی اپنی استعداد اور اخلاص کے مطابق جو مالی قربانی پیش کرتے ہیں ، وہ اس لئے پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک منصوبہ بنایا اور ہمیں یہ فرمایا کہ اس کو کامیاب کرنے کے لئے قربانیاں دو.غرض یہ منصوبہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے اور ہم سے اس کا یہ وعدہ ہے کہ تم اپنی استعداد کے مطابق قربانیاں دیتے چلے جاؤ.منصوبہ میں نے کامیاب کرنا ہے، تمہارے سر پر سہرا باندھ دوں گا.خدا تعالیٰ کو تو سہرے کی ضرورت نہیں.سہرے کی احتیاج تو اس کے بندے کو ہوا کرتی ہے.اس سہرے کی ، جو اللہ تعالیٰ باندھے.پس ہمارا رب بڑا پیار کرنے والا ہے.غلبہ اسلام کا خود ایک منصو بہ بنایا اور فرمایا کہ دنیا جو مرضی کرے، ساری اقوام عالم حلقہ بگوش اسلام ہو کر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار اور مست ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدموں میں جمع ہو جائیں گی.اور ہمارا رب فرماتا ہے میں یہ کر کے چھوڑوں گا.اور ہمیں فرمایا کہ تمہارے سر پر میں سہرا باندھنا چاہتا ہوں.اس واسطے میرے کہنے کے مطابق تم قربانیاں دو.غلبہ اسلام کا جو نتیجہ نکلے گا، وہ تمہاری قربانیوں کے مقابلے میں بہت عظیم ہو گا.اس کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوگی.لیکن چونکہ میں تم سے پیار کا ایک مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں، اپنی محبت کا تمہیں ایک جلوہ دکھانا چاہتا ہوں، اس لئے کامیابی تو میری قدرت کاملہ سے ہوگی لیکن میں اپنے ہاتھ سے تمہارے سروں پر سہرا باندھ دوں گا.پس دوست دعا کریں، اعمال صالحہ سے عاجزانہ مجاہدہ کریں کہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہمارے دلوں کو اور ہماری روح کو اس طرح پاک اور مطہر کر دے کہ وہ اپنے پیارے ہاتھوں سے غلبہ اسلام کا یہ سہرا ہمارے ہی سروں پر باندھے“.(آمین) مطبوعه روزنامه الفضل 20 دسمبر 1970ء ) 711

Page 729

Page 730

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خلاصہ خطاب فرموده 29 اکتوبر 1970ء جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے، اس پر کبھی خزاں نہیں آسکتی خطاب فرمودہ 29 اکتوبر 1970ء حضرت خلیفة المسیح الثالث کی دورہ مغربی افریقہ سے کامیاب مراجعت پر جماعت احمدیہ کی مرکزی تنظیموں کی طرف سے ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی.اس موقع پر سپاسناموں کے جواب میں حضور نے جو خطاب فرمایا، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے.حضور نے بتایا:.” جب میں مغربی افریقہ کے دورہ سے یہاں واپس آیا تو یہاں بھی میں نے پیاری جماعت کے چہروں پر وہی خوشی اور مسرت دیکھی، جو ان ممالک کے افریقی احمدیوں کے چہروں پر دیکھی تھی.سوان کا اور یہاں ہم سب کا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ کر اس کی حمد سے بھر جانا اور بے انتہا خوشی اور مسرت سے ہمکنار ہونا، ایک قدرتی امر ہے.ہماری خوشی اس لئے نہیں تھی کہ ہم نے وہاں کوئی کارنامہ انجام دیا تھا.خوش ہم اس لئے تھے کہ ہم اپنی بے مائیگی کو دیکھتے ہوئے ، یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہم وہاں دین کی راہ میں کسی کام آسکتے ہیں.یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے ہمیں اپنی قدرت کی انگلیوں میں پکڑا اور خود ہی ہم سے وہ کام لینے شروع کر دیئے ، جو وہ لینا چاہتا تھا.غلبہ اسلام کی موجودہ مہم کی عالمگیر نوعیت اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے قبل مختلف ملکوں میں جو مجددین پیدا ہوئے تھے، انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں تجدید دین کا فریضہ ادا کیا.ان کی تجدید اور اصلاح کا دائرہ محدود تھا.مثال کے طور پر حضور نے حضرت سید احمد شہید اور حضرت عثمان بن فودیو ( جو ایک ہی وقت میں علی الترتیب برصغیر اور نائیجیریا میں مجدد تھے.) کے تجدیدی کارناموں اور ان کی گراں قدرا فادیت بایں ہمہ ان کی محدود نوعیت پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ:.713

Page 731

خلاصہ خطاب فرموده 29 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اطاعت میں کامل فنا کے مقام پر فائز تھے اور خدا تعالیٰ اس آخری زمانہ میں کسی ایک قوم کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جمع کرنا چاہتا تھا، اس لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ساری دنیا کی طرف اپنا مامور بنا کے بھیجا.چنانچہ آپ کے ذریعہ سے غلبہ اسلام کی عالمگیر مہم کا آغاز ہوا اور بیک وقت ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کی بنیاد پڑی.اور دنیا کی ہر قوم کی سعید روحیں اسلام میں داخل ہو کر محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا دم بھرنے لگیں.اسی تسلسل میں حضور نے افریقہ میں احمد یہ مشنوں کے قیام اور وہاں مخلص و فدائی جماعتوں کے معرض وجود میں آنے اور پھر مغربی افریقہ کے چھ ممالک میں اپنے حالیہ سفر اور وہاں کی جماعتوں کے محبت واخلاص اور خدمت و فدائیت کے قابل قدر جذ بہ اور وہاں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ماتحت رونما ہونے والے غلبہ اسلام کے نمایاں تر آثار کا ذکر کرتے ہوئے ، بڑے ولولہ انگیز پیرائے میں فرمایا:.فریقہ میں اب غلبہ اسلام کی صبح صادق نمودار ہو چکی ہے.ہم نے اور ہمارے افریقی بھائیوں نے وہ صبح طلوع ہوتے دیکھی ہے.خدا کے فضل سے وہاں اسلام کا سورج افق آسمان پرنکل آیا ہے.اور جب سورج طلوع ہوتا ہے تو وہ نصف النہار پر بھی ضرور پہنچتا ہے.چنانچہ اسلام کی صبح صادق کا ظہور اس حقیقت کو دنیا پر آشکار کر رہا ہے کہ اسلام اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا سورج اس زمانہ میں ہی نصف النہار پر پہنچے گا.اور ساری دنیا پر یہ سورج بڑی شان سے چمکے گا.اور ایک افریقہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے گوشہ گوشہ کو منور کر دکھائے گا.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض کو پورا کرنے کے سامان فرمائے ہیں اور اس غرض کو پورا ہوتے ہوئے ، ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.اسی لئے ہم خدائی ارشاد خوش ہوا اور خوشی سے اچھلوں“ کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ لے کر مسرور ہیں.دنیا ان مسرتوں کو جو خدا نے اپنے وعدہ کے بموجب ہمیں خود عطا کی ہیں، ہم سے چھین نہیں سکتی.دنیا نے اسی سال تک ہماری مخالفت کی.لیکن وہ ہم سے یہ مسرتیں، جو اول دن سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی چلی آرہی ہیں، نہیں چھین سکتی.یہ مسرتیں اور مسکراہٹیں آج بھی ہمارے چہروں پر رقصاں ہیں.ہم اس لئے خوش ہیں کہ غلبہ اسلام کی صبح نمودار ہو چکی ہے اور سورج افق سما پر طلوع ہو چکا ہے.اسلام کا یہ سورج ہمیں گرمی دے رہا ہے اور ہماری زندگیوں میں حرارت پیدا کر رہا ہے.چنانچہ ہم غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور بڑھتے چلے جائیں گے.یہاں تک کہ دنیا کی ساری اقوام محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آجمع ہوں گی“.714

Page 732

خلاصہ خطاب فرموده 29 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم حضور نے مزید فرمایا کہ:.جن لوگوں کو دنیا نے حبشی کہہ کر ان سے نفرت کی تھی ، خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آوازان تک پہنچادی ہے کہ اب دنیا تم سے نفرت نہیں کرے گی.بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے طفیل عزت اور احترام کا مقام تم کو ملے گا.یہی ہے وہ منادی، جو میں نے وہاں کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت وہ اس سے متاثر ہوئے.حضور نے فرمایا:.میں اس دورہ میں محبت اور مساوات، ہمدردی غمخواری اور خدمت کا پیغام لے کر افریقہ کے ممالک میں گیا تھا.اور اللہ کے فضلوں کا منادی بن کر واپس آیا.نہ صرف اس وقت جبکہ میں وہاں تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نے شمار فضلوں سے نوازا بلکہ اب تک اس کے فضل نازل ہورہے ہیں.Leap Forward Programme کے تحت ہم نے وہاں میڈیکل سنٹر ز اور سکول کھولنے کا فیصلہ کیا ہے.اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے آسانیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں“.حضور نے نائیجیریا اور گھانا میں اس پروگرام کے بروئے کار آنے اور اس راہ میں پیدا ہونے والی بعض آسانیوں اور سہولتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.میں تو یہ سوچتا ہوں کہ میں وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑے ڈیم یا بند کی افتتاحی تقریب کے لئے لے جایا گیا تھا.اس بند کا افتتاح عمل میں آچکا ہے اور دریاؤں میں پانی آگیا ہے.یہ پانی اب آگے ہی آگے بڑھتا اور پھیلتا چلا جائے گا.یعنی میرے افریقی بھائی خدا کی راہ میں قربانیاں دیتے ہوئے، دنیا کے خطوں میں پھیل جائیں گے.وہ ہمارے پہلو بہ پہلو اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کے جلوے قریہ قریہ محلہ محلہ اور گھر گھر لے جائیں گے.اور دنیا کو مخاطب کر کے کہیں گے کہ تم نے ہمیں حقارت سے دیکھا اور ہمارے خلاف زبان بھی چلائی اور ہر قسم کے دکھ دیئے.لیکن اس سلوک کے جواب میں ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کے جلوے سجا کر تمہارے پاس لائے ہیں.تم بھی انسان ہو اور ہماری طرح کوئی حیثیت نہیں رکھتے.ہماری آواز کوسنو اور اس راہ کی طرف دیکھو، جو خدا نے روشن کی ہے.وہ ہمارے پہلو بہ پہلو آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے.اور اس وقت تک دم نہ لیں گے، جب تک کہ اسلام ساری دنیا میں غالب نہ آجائے“.715

Page 733

خلاصہ خطاب فرموده 29 اکتوبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تقریر کے آخر میں حضور نے اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ البی سلسلے سدا بہار پودوں کی مانند ہوتے ہیں، جن پر کبھی خزاں نہیں آتی ، فرمایا:.”جماعت احمدیہ اللہ تعالی کے ہاتھ کا گایا ہوا پودا ہے، اس پر کبھی خزاں نہیں آسکتی، یہ ہمیشہ سرسبز ہی رہے گا.چند ایک ٹہنیاں خشک تو ہو سکتی ہیں اور انہیں تراشا بھی جاسکتا ہے.لیکن اس کی سرسبزی اور تر و تازگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا.خدا تعالیٰ نے ، جس نے یہ پودا خود اپنے ہاتھ سے لگایا ہے، کہا ہے کہ میں اس کو ایک تناور درخت بناؤں گا.یہ تو ہو کر رہے گا.لیکن ہمیں یہ امر بھی فرموش نہیں کرنا چاہئے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے ” میرے، تیرے لئے نہیں ہورہا.سب کچھ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہو رہا ہے.ہم کسی شمار میں نہیں ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر مار میں ہیں.ہمارا تو ایک ہی فرض ہے، اور وہ یہ کہ ”میری، تیری ذمہ داری بہر حال پوری ہونی چاہئے.غلبہ اسلام کے ضمن میں ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، انہیں پورا کرنا بہر حال ضروری ہے.اس کے بغیر ہم اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو منصوبہ افریقہ کے تعلق میں مجھ پر ظاہر فرمایا ہے، اسے وہ اپنے فضل سے جلد کامیاب کرے.ہمیں وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر خود ہی ہماری کوششوں میں برکت ڈالے.تاکہ ہم اپنی زندگیوں میں یہ خوشکن نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آ گیا ہے.716 (مطبوع روزنامه الفضل 04 نومبر 1970ء )

Page 734

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم وو واقفین زندگی سے بیاہ اقتباس از خطبه نکاح فرمودہ 04 دسمبر 1970ء خطبہ نکاح فرمودہ 04 دسمبر 1970ء قرون اولیٰ میں ، خصوصا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ، منافقین کے علاوہ سبھی آدمی واقفین زندگی تھے.وہ اپنا کام بھی کرتے تھے لیکن جب اسلام پر حملہ ہوتا تو وہ بے سروسامانی کے باوجود اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار بھی رہتے تھے.اس لئے اس وقت اس آدمی کے دل کی خواہش ، جو اپنی بچی کو ایک واقف زندگی سے بیاہنا چاہتا ہو، پوری ہو جاتی تھی.اس میں کوئی تکلیف نہیں تھی.لیکن اب وہ زمانہ بدل گیا.اس وقت جماعت احمدیہ میں ایسے ہزاروں خاندان ہیں، جو واقف ہی ہیں.خواہ انہوں نے ظاہری طور پر وقف کیا ہوا ہے یا نہیں.میں ایسے سینکڑوں دوستوں کو جانتا ہوں، جو اپنے کاموں کے علاوہ پانچ پانچ ، چھ چھ ، سات سات اور آٹھ آٹھ گھنٹے روزانہ جماعتی کاموں پر خرچ کرتے ہیں.اب جس آدمی نے اپنی زندگی با قاعدہ وقف کی ہوتی ہے، ہو سکتا ہے بعض دفعہ وہ بے توجہی کے نتیجہ میں روزانہ جتنا کام کرتا ہے، یہ اس سے زیادہ کام کر رہے ہوں.لیکن جو نو جوان نسل ہے، ان کے متعلق حسن ظن بھی ہوتا ہے اور دل میں خوف بھی پیدا ہوتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے خاندان میں سے اکثر کے دل میں (سب) کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا) یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ان کی بچیاں اگر خاندان سے باہر جاتی ہیں تو واقف زندگی کے ساتھ بیاہی جائیں.انہیں دنیوی دولت اور مال کی طمع نہیں ہوتی بلکہ دل کے اخلاص کی دولت کی خواہش ہوتی ہے.لیکن مشکل یہ ہوتی ہے کہ پوری طرح تسلی نہیں ہو پاتی.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ پریشانی اٹھانی پڑتی ہے.اس لئے اس موقع پر میں دوستوں سے یہ کہوں گا کہ بہترین تحفہ، جو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بچی کے نکاح کے موقع پر اس کو پیش کر سکتے ہیں، وہ یہ دعا ہے کہ خدا کرے، وہ خود بھی اور اس کا ہونے والا خاوند بھی حقیقی وقف کی روح کے ساتھ زندگی گزارنے والا ہو.( مطبوعه روزنامه الفضل 13 جنوری 1972 ء ) 717

Page 735

Page 736

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خلاصه تقریر فرموده 12 دسمبر 1970ء پاکستان کی احمدی خواتین اپنے معیار قربانی کو بلند سے بلند کریں تقریر فرمودہ 12 دسمبر 1970ء حضرت خلیفة المسیح الثالث کی خدمت میں احمدی خواتین کے مختلف شعبوں کی طرف سے منعقدہ استقبالیہ تقریب میں حضور نے جو تقریر فرمائی ، اس کے خلاصہ سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں:.اللہ تعالیٰ کے فضل اور بے پایاں احسان کے نتیجہ میں اسلام کی نشاۃ اولیٰ کے دور کی طرز 55 اب پھر وہی زمانہ عود کر آیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دور میں احمدی مستورات کو مردوں کے پہلو بہ پہلو ایک جیسی قربانیاں کرنے کی توفیق مل رہی ہے.اور فی زمانہ اپنی ان عدیم النظیر قربانیوں کی جہ سے غلبہ اسلام کی موجودہ جد و جہد میں بحمد اللہ تعالیٰ وہ برابر کی شریک ہیں.وجہ.حضور نے فرمایا:.وو دنیا کی تاریخ کھنگال ڈالو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ابدی حیات کے طفیل دو ہی دور ایسے ملتے ہیں.ایک اسلام کی نشاۃ اولی کا دور اور ایک اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا موجودہ دور، جس میں دین کی سر بلندی کی خاطر قربانیوں کے میدان میں نہ عورتیں مردوں سے پیچھے رہیں اور نہ مرد عورتوں سے پیچھے رہے.دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کو پانے کے لئے ایک جیسی قربانیاں کرنے والے تھے اور ہیں.اگر انسان غور کرے تو یہ بڑا ہی حسین نظارہ ہے، جو اسلام کی نشاۃ اولیٰ کے دور میں دیکھنے میں آیا یا جواب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے موجودہ دور میں دنیا دیکھ رہی ہے.یہ ایک ایسی خصوصیت ہے، جماعت کی جس کی نظیر آج کی دنیا میں نہیں ملتی.اور یہ ایک ایسی خصوصیت ہے، امت مسلمہ کی ، (جیسا کہ پہلی تین صدیوں میں ہوا.) جس کا آدم سے لے کر موجودہ زمانہ تک دنیا کی کوئی قوم مقابلہ نہیں کر سکتی.اور وہ خصوصیت جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ، یہ ہے کہ دور اول میں مسلمان عورتیں قربانیوں کے میدان میں مردوں سے پیچھے نہیں رہیں.اور نہ اب نشاۃ ثانیہ کے موجودہ دور میں احمدی خواتین قربانیوں کے میدان میں مردوں سے پیچھے ہیں.انہوں نے اس وقت بھی یکساں قربانیاں کیں اور وہ اب بھی یکساں قربانیاں کر رہی ہیں.اسی لئے اس وقت بھی مسلمان عورتیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی یکساں وارث بنیں اور آج بھی انہیں کی بہنیں یعنی احمدی خواتین اللہ کے فضلوں سے یکساں طور پر حصہ پا رہی ہیں“.719

Page 737

اقتباس از خلاصه تقریر فرموده 12 دسمبر 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس مرحلہ پر حضور نے پاکستان کی احمدی خواتین کو اپنی قربانیوں کے معیار کو مزید بلند کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے ، افریقہ کی احمدی خواتین کے جذبہ قربانی وایثار کی بہت تعریف فرمائی.حضور نے اپنے دورہ مغربی افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے ، پہلے تو اس دورہ میں وہاں کی ہزاروں ہزار احمدی خواتین اور ہزاروں ہزار بچیوں کے ساتھ ملنے ، ان کے ساتھ کمال درجہ شفقت اور محبت و پیار کا سلوک فرما کر ان کی روحانی سیری اور سیرابی کا سامان کرنے کے سلسلہ میں حضرت بیگم صاحبہ مدظلہا کی نہایت درجہ قابل قدر خدمات کا ذکر فرمایا اور پھر وہاں کی احمدی خواتین کے جذبہ قربانی وایثار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.وہاں کی احمدی عورت، اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلحاظ قربانی ، وہاں کے احمدی مرد سے پیچھے وو نہیں ہے.بلکہ شاید مالی قربانی کے لحاظ سے مردوں سے آگے ہی ہو.حضور نے فرمایا:."" میرے علم میں افریقی ممالک کا کوئی اکیلا احمدی مرد ایسا نہیں ہے کہ جس نے بیک وقت چھپیں، میں ہزار پونڈ چندہ دیا ہو.وہاں افریقہ کی ایک احمدی بہن ایسی ضرور ہے، جس نے میرے دورہ افریقہ کے دوران اتنی خطیر رقم بطور چندہ پیش کی اور بڑی بشاشت کے ساتھ پیش کی.نائیجیریا میں، میں نے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اسلام کی تبلیغ کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے ایک ریڈ یوٹیشن قائم کیا جائے.اس کے لئے میں عورتوں سے اپیل کروں گا کہ وہ مالی قربانیاں پیش کریں.چنانچہ وہاں ایک احمدی بہن نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا.اس احمدی بہن نے پچھپیں، تمہیں ہزار پونڈ بطور چندہ دینے کا وعدہ کیا اور کیا بھی بہت بشاشت کے ساتھ.وہاں کی احمدی خواتین میں دین کی خاطر قربانی کرنے کا اتنا شوق اور جذ بہ پایا جاتا ہے کہ شاید آپ ( یعنی پاکستان کی احمدی خواتین) بھی ان کا مقابلہ نہ کر سکیں.اسی لئے میں نے مغربی افریقہ کے دورہ سے واپس آنے کے بعد ایک خطرہ کا اظہار کیا تھا.میں نے کہا تھا کہ آپ کو یہاں تربیت کے مواقع حاصل ہیں ، برخلاف اس کے افریقہ کی احمدی خواتین کو تربیت کے یہ مواقع حاصل نہیں.اور اس لحاظ سے وہ یہاں کی احمدی مستورات سے پیچھے ہیں.لیکن اگر انہیں بھی تربیت کا یہ موقع مل گیا تو وہ یقینا آپ سے آگے نکل جائیں گی.خدا کسی کا رشتہ دار نہیں ہے کہ وہ اس سے خواہ وہ قربانی کرے یا نہ کرے ، ضرور محبت کرے گا.اس کی نگاہ میں وہی معزز اور پیار کے لائق ہے، جو اس کے منشاء کے مطابق عمل کرتا اور اس کی راہ میں بڑھ چڑھ کر قربانیاں کرتا ہے.جس مقام پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے، وہ ایسا نہیں کہ آپ خواتین 720

Page 738

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خلاصه تقریر فرموده 12 دسمبر 1970ء میں سے قربانیوں کے میدان میں جو پیچھے رہ جائے، میں اپنی اس بچی کو زیادہ عزیز رکھوں.قربانی دینے والا ہی میری توجہ کو زیادہ کھینچے گا ، وہی میری دعاؤں کا مستحق ہوگا“.افریقہ کی احمدی خواتین کے ایمان، اخلاص اور جذ بہ قربانی کا ذکر کرنے اور پاکستان کی احمدی خواتین کو اپنے معیار قربانی کو بلند سے بلند کرنے کی تلقین کرنے کے علاوہ حضور نے احمدی خواتین کو ان کی ایک اور اہم ذمہ داری کی طرف بھی توجہ دلائی.حضور نے فرمایا:.وو جہاں آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ابدی کے ایک شیر میں شمر کے طور پر دین کی راہ میں مردوں کے پہلو بہ پہلو ایک جیسی قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، وہاں آپ کا یہ بھی فرض ہے کہ آپ اپنی اس بے مثال خصوصیت پر کسی قسم کا فخر نہ کرتے ہوئے ، عاجزی کی راہیں اختیار کریں.اور اللہ تعالیٰ کی اس دین اور عطا پر اس کی شکر گزار بندیاں بننے کی کوشش کریں اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ فی الواقعہ آپ اپنے بے حد کرم کرنے والے رب کی شکر گزار ہیں.شکر گزاری کا ایک نہایت اہم عملی تقاضا یہ ہے کہ آپ نئی نسلوں کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ غلبہ اسلام کی ان پر ذمہ داریوں کو جو آگے چل کر ان پر پڑنے والی ہیں کما حقہ ادا کر سکیں.اس میں شک نہیں کہ آگے چل کر خدمت دین کا بار آئندہ آنے والی نسلوں نے ہی اٹھانا ہے.انکے وقت میں جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہوگی وہ انہوں نے ہی کرنی ہے.لیکن خود قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسلوں کے ذہنوں کی تربیت اس طرح کرنا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگ جائیں اور آئندہ ان کے کندھوں پر جو بوجھ پڑنے والا ہے.اسے اٹھانے کے قابل ہو جائیں.یہ آپ خواتین کی ذمہ داری ہے.( مطبوعه روزنامه افضل 24 دسمبر 1970ء ) 721

Page 739

Page 740

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء ملائکہ کے نزول کے وقت الہی جماعتوں کی ذمہ واری بہت بڑھ جاتی ہے تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء برموقع مجلس مشاورت تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ایک عظیم انقلاب روحانی بھی اور جسمانی بھی مقدر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم روحانی فرزند کی بعثت کے بعد ہم مختلف ادوار سے گذرے ہیں.اور اب ایسا معلوم ہوتا ہے، ہم اس اب عظیم کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور آسمان سے فرشتوں کا بکثرت نزول شروع ہو چکا ہے.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح پکے ہوئے پھل کو گرانے کے لئے درخت کی شاخوں کو ہلایا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے یہ فرشتے اس حکم سے انسانیت کے درخت کی شاخوں کو ہلا رہے ہیں.پھل گر رہے ہیں، ہماری جھولیاں بھر رہی ہیں.فالحمد للہ علی ذالک انقلاب اسی طرح اور بھی ایسے بہت سارے آثار ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ بڑی تیز حرکت میں ہیں.اور جس وقت آسمانوں سے ملائکہ کا نزول ہو اور ان کی حرکت میں شدت پیدا ہو جائے ، اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والی جماعت کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہیں.ان کی طرف زیادہ توجہ دینی ضروری ہوتی ہے.میں اس وقت ملائکہ کی حرکت میں شدت اور تیزی کی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں.ایک یہ کہ ایک عراقی عرب تیس سال سے پٹرول کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں مثلا بحرین، ابوظمی ، کویت وغیرہ ان میں سے کسی ایک ریاست میں رہائش پذیر ہیں اور اس ریاست کا نام اس وقت جان کر چھوڑ رہا ہوں.چند ہفتے ہوئے ، ایک احمدی دوست ان سے ملے اور انہوں نے لکھا کہ وہ اپنے علاقہ میں بابا قمر در ولیش کے نام سے بڑے بزرگ مشہور ہیں اور بڑے مقبول ہیں.چار، پانچ کاریں ان کے ڈیرے پر ہر وقت کھڑی رہتی ہیں.کیونکہ کئی لوگ ان سے برکت حاصل کرنے کے خیال سے ان کے ڈیرے پر جاتے رہتے ہیں.ان کی عمر اس وقت سو سال کے قریب ہے.ان کے ساتھ احمدیت کے بارہ میں باتیں ہوئیں 723

Page 741

تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء 66 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اور پھر جب انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دکھائی گئی تو وہ بے اختیار بول اٹھے یہ تو سچا ہے.چنانچہ وہ اس وقت سے باقاعدہ ایک مبلغ کی طرح وہاں احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہیں.انہوں نے کتابیں ، جو بھی وہاں میسر آسکیں ، وہ پڑھ لیں ہیں.ہمارے احمدیوں کے ذہن بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے عجیب بنائے ہیں.اس احمدی دوست نے یہ بھی لکھا کہ ان کی سوسال کی عمر ہے اور علاقہ بھر میں بڑے اثر ورسوخ کے مالک ہیں.احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہیں.اس لئے میں تو یہ دعائیں کر رہا ہوں کہ اے خدا! میری عمر میں سے دو، چار سال ان کو دے دے تا کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ رہیں اور احمدیت کی تبلیغ کریں.میں اس کے اس جذبہ سے بہت لطف اندوز ہوا.ایک اور عظیم واقعہ پچھلے حج کے موقع پر رونما ہوا.اس پر ہمیں رشک بھی آتا ہے کہ ایک بیرونی ملک پاکستان ( جماعت احمدیہ کے مرکز) سے سبقت لے گیا.کراچی کے ایک احمدی دوست نے مجھے بتایا کہ حج کے دنوں میں میں خانہ کعبہ کے اندر ایک حبشی نوجوان کھڑا ہوا اور اس نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت شروع کی.اور اس طرح بہت سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف پھیر لی.پھر اس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر کرنی شروع کی اور اس تفسیر میں اس نے بتایا کہ منعم علیہ گروہ کون سا ہوتا ہے؟ اور اس کی علامات کیا ہیں؟ اور پھر اس کے بعد اس نے کہا کہ اس منعم علیہ گروہ کا تعلق مسیح موعود اور مہدی معہود سے ہے.پھر اس نے کہا میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مسیح موعود اور مہدی معہود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے روپ میں مبعوث ہو گئے ہیں.اور لوگوں کو مخاطب کر کے کہا) میں آپ کی توجہ اس طرف پھیرتا ہوں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب مہدی ظاہر ہو تو اسے میر اسلام پہنچانا.پس اے مکہ معظمہ میں جمع ہونے والو! آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ خدا کے اس مہدی کو سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچائیں.پندرہ ، بیس منٹ کی اس تقریر میں اس نے خانہ کعبہ میں حج کے دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت بیان کی اور پھر وہ وہاں سے چلا گیا.معلوم ہوتا ہے کہ اس کو تبلیغ کا جنون ہے.وہ نائیجیریا کا رہنے والا ہے.وہاں سے تو کوئی رپورٹ نہیں آئی.لیکن ایک کراچی کے دوست، جنہوں نے اس سال حج کیا ہے، بتاتے ہیں کہ انہیں اس شخص کی وجہ سے کیا فائدہ ہوا؟ وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں اس سے ملنے کا شوق پیدا ہوا.چنانچہ ہم اس سے ملنے گئے ، اس سے باتیں کیں.پھر ہم نے اس سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم اس سے اور باتیں کرنا چاہتے ہیں، اس لئے ہمیں وہ کل کوئی اور وقت دے.اس احمدی نوجوان نے کہا مجھے افسوس ہے، میں آپ کو وقت نہیں دے سکتا کیونکہ میں بہت مصروف ہوں.اور میری مصروفیت یہ ہے کہ نائیجریا سے جو مختلف ٹولیاں حج کرنے کے لئے آتی ہیں، ان کی کھوج لگا کر ان کو تبلیغ کرنا چاہتا ہوں.724

Page 742

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء اس ضمن میں حضور انور نے مکرم چوہدری عبدالمجید صاحب نمائندہ کراچی سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:.حج کے موقع پر اس افریقن احمدی کی خانہ کعبہ میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تقریر کرنے کی بات آپ کے بھائی کی طرف منسوب ہوئی ہے، شاید ان کا نام عبد الرشید ہے.(اس پر حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ وہ دوست قریشی نام کے ہیں.بہر حال آپ ان سے یہ واقعہ لکھوا کر مجھے بھجوا دیں کیونکہ لکھتے وقت آدمی زیادہ محتاط ہوتا ہے.یہ ایک ایسا واقعہ ہے، جو مستند طور پر سامنے آجانا چاہیے.اور ہماری تاریخ میں بھی محفوظ ہو جانا چاہیے.آپ ان سے کہیں کہ وہ اپنے دماغ پر بوجھ ڈال کر اور سوچ سمجھ کر صحیح واقعہ لکھ دیں.مثلاً اس وقت وہاں پر جو مجمع تھا، اس کی انداز التعداد و غیرہ کتنی تھی ؟ پھر ایک عرب علاقے میں پچھلے سال 35 خاندان احمدی ہوئے ہیں.جن کی وجہ سے وہاں ایک بہت بڑی جماعت قائم ہوگئی ہے.اسی طرح ایک اور قصبے میں پچھلے ایک، دو ماہ میں پہلے دو اور پھر تین کل پانچ خاندان احمدی ہوئے ہیں اور وہاں بھی جماعت بن گئی ہے.غرض عربی بولنے والے علاقوں کے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے یہ حرکت پیدا کی ہے کہ وہ احمدیت کی طرف متوجہ ہوں.اسی طرح جس وقت میں 1967ء میں یورپ گیا ہوں، اس وقت ڈنمارک میں مصری سفیر کے تعصب کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنے سفارت خانہ کے تمام کارکنوں کو مسجد احمد یہ میں جانے سے منع کر رکھا تھا.اسی طرح احمدیوں سے تعلق رکھنے کی بھی ممانعت تھی.چنانچہ میرے اس دورہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ تغیر پیدا کیا کہ نئے سفیر نئی ہدایات لے کر آگئے.لیکن چونکہ پہلے سفیر اپنے عملے کو احمدیوں سے ملنے جلنے سے روکتے رہے تھے اور انہوں نے دوری کی راہوں کو اختیار کر رکھا تھا، اس لئے انہیں بھی شروع میں حجاب محسوس ہوا.چنانچہ پہلے انہوں نے وہاں کے آرکیٹکٹ ، جنہوں نے ہماری مسجد بنانے کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا، انہیں چائے کی دعوت پر بلایا اور ان سے ہمارے مشن کے حالات پوچھتے رہے.پھر وہاں کے بعض مقامی دوستوں کو بلایا اور اب انہوں نے اپنے عملہ کو یہ اجازت دے دی ہے کہ جو چاہے، جب چاہے، مسجد احمد یہ آجا سکتا ہے.پچھلی عید کے موقع پر خود یہ مصری سفیر بھی غالباً ہماری مسجد میں آئے ہوئے تھے.میں نے شاید جلسہ سالانہ پر بھی بتایا کہ لیبیا کے سفیر نے خط میں یہ تحریر کیا کہ جو رقم میں بھجوا رہا ہوں، وہ میری حکومت کی طرف سے ہے.چنانچہ انہوں نے پانچ ہزار کی رقم ہماری مسجد کے لئے بھجوادی کہ یہ میری حکومت کی طرف سے بطور عطیہ ہے.اسی طرح عراق کا ایک وفد ڈنمارک گیا ہوا تھا، اس نے بھی عطیہ دیا.اس وقت عرب طالب علم مختلف ممالک میں تعلیم کی خاطر پھیلے ہوئے ہیں.کیونکہ آج کل تعلیم کا یہ عام 725

Page 743

تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم رواج ہے.ہمارے پاکستانی طالب علم بھی امریکہ، جاپان وغیرہ ہر جگہ پہنچے ہوئے ہیں.اسی طرح عرب ممالک کے طلباء بھی ہر جگہ پہنچے ہوئے ہیں.چنانچہ جب احمدی ان سے ملتے ہیں اور انہیں اپنے عقائد بتاتے ہیں تو وہ جماعت میں یا جماعت کے کاموں میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں.اور اس طرح جو غلط فہمیاں ہوتی ہیں ، وہ دور ہو جاتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے عرب ممالک میں احمدیت کی طرف متوجہ ہونے کی ایک رو چلا دی ہے.اور وہاں پہلے کی نسبت زیادہ تعداد میں لوگ احمدیت میں داخل ہونے لگ گئے ہیں.اور امید ہے کہ انشاء اللہ اگر یہی حالت رہی اور اگر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو بابا، جو اس شدید حرکت ملائکہ کے نتیجہ میں ہم پر عائد ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اور بھی نمایاں کامیابیاں اور بہتر نتائج احمدیت اور اسلام کی زندگی اور اس کے غلبہ کے پیدا کرے گا.ابھی میں یہاں آکر بیٹھا تھا کہ ایک دوست نے مجھے یہ رجسٹر ڈ خط دیا ہے، جو جدہ سے آیا ہے.اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے جنوری سے مارچ تک کا ماہانہ چندہ بھجوایا ہے، جو 33 پونڈ بنتا ہے.اور فضل عمر فاؤنڈیشن کے عطیہ کے طور پر 13 پونڈ اور تحریک جدید فنڈ میں 16 پونڈ اور یہ کل 63 پونڈ اور 6 شلنگ کی رقم بنتی ہے.یہ جدہ سے اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کئے ہیں.یہ دوست کسی غیر ملک سے وہاں گئے تھے اور اب وہیں آباد ہو گئے ہیں.اب احمد یوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے کی نسبت حج کی زیادہ تو فیق مل رہی ہے.اس لئے بھی کہ پہلے صرف یہاں سے جاتے تھے، ہندوستان تھا اور پھر ہندوستان اور پاکستان بن گیا اور اب قریباً دنیا کے ہر حصے میں جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.کوئی انڈونیشیا سے حج کرنے آرہا ہے، اسی طرح افریقہ کے تمام ممالک سے احمدی حج کو جارہے ہیں.میرا خیال ہے کہ کم از کم ایک ہزار احمدی حج کے موقع پر مکہ میں پہنچتا ہوگا.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے، وہاں کے حالات کافی بدل گئے ہیں.لیکن یہ ساری علامات پیاس کی علامات ہیں، سیری کی علامات نہیں.سیر آپ نے ان کو کرنا ہے.ان کی پیاس بھڑک اٹھی ہے، یہ پیاس آپ نے بجھانی ہے.فرشتوں نے تاریں ہلا دی ہیں.اگر آپ نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا اور انہیں روحانی پانی پلانے کے لئے آپ وہاں نہ پہنچے اور ان کی روحانی طور پر سیرابی کا سامان نہ کیا تو یہ بات آپ کی بد قسمتی کی دلیل اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوگی.فرشتوں کا کام تھا، ان کے اندر پیاس پیدا کرنا.آپ کا کام ہے، اس پیاس کو بجھانا.اس لئے آپ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کو نبھانے کی کوشش کریں.یہ سارے حالات دیکھ کر مجھے یہ ضرورت محسوس ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بڑے زور سے یہ تحریک فرمائی کہ یہاں ہمارا ایک اچھا پریس ہونا چاہئے.اور چونکہ فوری تحریک تھی اور اللہ تعالی 726

Page 744

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء کے نزدیک ضرورت بھی فوری تھی.اللہ تعالیٰ تو وقت کی قیود سے آزاد ہے.ہم تو وقت میں بندھے ہوئے ہیں.اس نے اپنے فضل سے ایک لمحہ میں ساری سکیم میرے ذہن میں ڈال دی.یعنی یہ کہ اس کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ کتنے میں یہ حکیم پایہ تکمیل کو پہنچے گی ؟ وغیرہ.میرے دماغ میں یہ ڈالا گیا کہ دس لاکھ روپے میں ایک بڑا اچھا پر میں ابتدا میں قائم ہو سکتا ہے.پھر تو وہ آگے بڑھے گا.بہر حال جہاں تک ابتدائی اخراجات کا تعلق ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کا میں نے جائزہ لیا ہے، کم و بیش دس لاکھ کے اندر بڑا اچھا پر لیس لگ جاتا ہے.ہم اس سلسلہ میں ضروری معلومات فراہم کر رہے ہیں.ہمارا خیال ہے کہ جاپان سے ہمیں نسبتا ستامل جائے گا.اگر اس سلسلہ میں کسی دوست کو کوئی علم ہو تو وہ ہمیں اپنا مشورہ لکھ کر ( کیونکہ اس وقت غالباً یہ معاملہ زیر غور نہیں ہے.) ضرور بھیج دے.اس وقت تک ہم نے یورپ کے بعض ممالک مثلاً انگلستان اور یورپ کے جو اشترا کی ممالک ہیں، ان میں سے بعض ممالک سے بھی اطلاعات منگوائی ہیں.جاپان کے ساتھ ابھی ہمارا رابطہ قائم نہیں ہوا.البتہ انگلستان سے پوری تفصیل آگئی ہے.یعنی پورے پریس کے متعلق یہاں تک کہ جلدیں بنانے والے حصہ وغیرہ کا بھی پتہ لگ گیا ہے.انشاء اللہ پر لیس قائم ہو جائے گا.اس کی ان دنوں بڑی ضرورت ہے.میں تو اس بات کو بڑے قلق سے کہہ رہا ہوں.مجھے تو اس پریس کے قیام کا ہر وقت خیال رہتا ہے اور اس کی بے حد ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے.ابھی مجھے خیال آیا کہ جب عرب ممالک کی اتنی توجہ ہے اور اتنی غلط باتیں مخالفین نے پھیلائی ہوئی ہیں، اس لئے ان ملکوں میں کم از کم ایک چھوٹا سا رسالہ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی کتب کے اقتباسات پر مشتمل ہو ، وہ شائع کر دینا چاہئے اور بڑی کثرت سے اسے پھیلانا چاہئے.چنانچہ یہ چھوٹا سا رسالہ تیار کیا گیا، جو بمشکل چالیس، پچاس صفحات پر مشتمل ہے.لیکن اس کے متعلق بھی خیال ہے کہ پتہ نہیں دس دن میں چھپتا ہے یا نہیں.پھر اسے لاہور کے جس پر لیس سے چھپوانا ہے، وہ بھی اتنا اچھا نہیں.اس میں عربی حروف کے اعراب نہیں لگتے.میں جب 1938ء میں انگلستان گیا تھا تو کچھ عرصہ کے لئے مصر میں بھی ٹھہرا تھا.اس وقت میں نے بعض عربی کتب قاہرہ سے خریدی تھیں.بڑی خوبصورت کتابیں ہیں اور اب تک بڑی خوبصورت لگتی ہیں.مثلاً ان میں بعض کتابیں ایسی ہیں، جن میں وہاں کے شعراء کا کلام ہے.بڑے خوبصورت انداز میں چھپی ہوئی ہیں اور معرب ہیں.یعنی ان پر اعراب لگے ہیں.38ء کے بعد سے اب تک تو دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے.اب جو پریس کے متعلق انگلستان سے پورا ڈھانچہ آیا ہے، اس میں انہوں نے جو عربی رسم الخط کا نمونہ دیا ہے، وہ اتنا خوبصورت ہے کہ اسے دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ اگر اپنا پریس ہوتا تو ہم ایک رات میں 727

Page 745

تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد چہارم شاید چالیس، پچاس ہزار سے بھی زیادہ ہی رسالے شائع کر دیتے.بہر حال انسانی تدبیر سےتعلق رکھنے والی ہر چیز کچھ وقت لیتی ہے.ایک تو آپ یہ دعا کریں کہ اگلے جلسہ سالانہ تک ہماری پریس کی یہ سکیم یا تو مکمل ہو جائے اور یا قریباً مکمل ہو جائے.کچھ وقت تو بہر حال مشینری وغیرہ آنے میں لگے گا.پھر انہیں کے کہنے کے مطابق کچھ عرصہ کے لئے مکان بنانے میں لگے گا.ویسے ضرورت بڑی سخت پیدا ہوگئی ہے.آپ اس بات سے اندازہ لگالیں کہ افریقہ کے صرف ایک ملک سے قرآن کریم کے 20 ہزار نسخے بھجوانے کا آرڈر آ گیا ہے.اور یہ اس وجہ سے کہ وہاں ہمارا ایک وقار تھا، ان سے تعلقات تھے، کوئی جماعتی خدمات کا اثر تھا، جس کی وجہ سے انہیں یہ خیال پیدا ہوا کہ احمدیوں سے قرآن کریم خریدا جائے.لیکن یہاں تو ہمارے پاس اپنے بچوں کے لئے قرآن کریم نہیں ہے.اور ساری خرابی یہ ہے کہ پریس نہیں.اگر اپنا پر لیس لگ جائے تو ایسی باتوں کی طرف ذہن متوجہ ہو سکتا ہے، جن کی طرف اب نہیں ہو رہا.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل ہو نہیں ہیں تو دماغ سوچتا نہیں.اگر وسیلہ ہو پر لیس ہو تو ہمارا دماغ سوچے گا کہ یہ بھی شائع کر دیں.یہ پریس جس کا نمونہ آیا ہے، اس لئے بھی مجھے پسند آیا ہے کہ اس میں دنیا کی ہر زبان کی ایڈیشن وسکتی ہے.یعنی ایک اور زبان مثلاً اردو، فارسی، عربی صرف دس ہزار کے خرچ سے اس میں زائد کر سکتے ہیں.وہ کہتے ہیں، مثلاً جرمن زبان جو ہے، اس کی ایڈیشن پر دس ہزار بھی نہیں لگے گا.اس کے انگریزی کے حروف سے چند ایک حروف ایسے ہیں، جن کی شکل مختلف ہے.اسی طرح فرانسیسی کے چند ایک حروف ہیں، جن کی شکل مختلف ہے.ان کی شائد دو، چار ہزار روپے کے تھوڑے تھوڑے خرچ سے ایڈیشن ہو جائے گی.اب مثلاً سندھی ہے، گورمکھی ہے، جاپانی ہے، چینی ہے ، دس، دس ہزار روپے آپ خرچ کرتے جائیں اور ایک نئی زبان کی ایڈیشن ہوتی چلی جائے گی.پس اس وقت ساری دنیا میں فرشتوں کے ذریعہ پیاس پیدا کی جارہی ہے.ہمیں ساری دنیا کی پیاس بجھانے کے سامان پیدا کرنے چاہئیں.ہمیں اس پیاس کے بجھانے کے لئے سر توڑ کوشش کرنی چاہئے.اب مثلاً انڈونیشیا ہے.انڈونیشیا کی ایک اپنی زبان اور اپنا رسم الخط ہے.وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری بہت بڑی جماعت ہے.لیکن وہاں عیسائیت بھی شوخی دکھا رہی ہے.اب اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق عطا فرمائی ہے، انہوں نے تفسیر صغیر کی طرز پر تشریحی نوٹوں کے ساتھ قرآن کریم کا انڈونیشین زبان میں ترجمہ کیا ہے.اور تین جلدوں میں سے پہلی جلد جو سورۃ تو بہ تک ہے، وہ شائع ہو چکی ہے.یہ جلد پرسوں 728

Page 746

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء ہی ہوائی جہاز کے ذریعہ یہاں میرے پاس پہنچی ہے.الحمد للہ ایک تہائی کام ہو گیا ہے، باقی بھی انشاء اللہ جلد مکمل ہو جائے گا.وہاں کمیٹی بیٹھی ہوئی ہے ، وہ کام کر رہے ہیں.دوسری دو جلدیں بھی شائع ہو جائیں گی.لیکن اگر ہمارے پاس مثلاً یہاں پر لیس ہو تو ہم اس زبان میں بھی کتابیں شائع کر کے وہاں بھجوا سکتے ہیں.اس طرح کچھ ستا بھی رہتا ہے.کیونکہ ہمارے ملک کی نسبت انڈونیشیا میں مہنگائی زیادہ ہے.تنزانیہ سے سواحیلی میں لٹریچر کا مطالبہ کیا گیا ہے.کچھ کتابیں تو ہم نے انہیں یہاں سے شائع کر کے بھیجی ہیں.لیکن ان کا سارا مطالبہ پورا نہیں ہوا.ان کی ڈیمانڈ ہے کہ بھیجتے چلے جاؤ.کیونکہ ہر آدمی کو توجہ پیدا ہورہی ہے.اب زنجبار میں ایک مولوی صاحب تھے ، وہ پہلے ہم سے تعلق رکھتے تھے.مگر بعد میں مخالف ہو گئے.ہمارا سواحیلی میں قرآن کریم ترجمہ چھپ چکا ہے.چنانچہ انہوں نے بھی کچھ نوٹس کے ساتھ سواحیلی میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا اور اس میں بہت ساری گالیاں بھی دے دیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیر احمدی پڑھے لکھے عوام میں یہ رد عمل ہوا ہے کہ یہ شخص بڑا نالائق ہے، جس نے قرآن کریم کے ترجمہ میں اس طرح گالیاں دی ہیں.چنانچہ اس کے نتیجہ میں ہماری کتابوں کی اتنی مانگ پیدا ہوگئی ہے اور ہمارے ترجمہ پر اتنی اچھی تنقید آنی شروع ہو گئی ہے کہ جس سے ہماری کتابوں کا مطالبہ دن بدن بڑھ رہا ہے.اور یہ ہم شائع نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس پریس نہیں ہے.اب فرانسیسی ترجمہ ہے.یہاں لاہور والوں نے انکار کر دیا کہ ان کے پاس فرانسیسی کے جو چند حروف مختلف ہیں، وہ نہیں.اس لئے وہ اسے شائع نہیں کر سکتے.اگر اپنا پریس ہوتا تو اسے فوراً چھاپ دیتے.اس سے آپ پر یس کی ضرورت کا اندازہ لگا سکتے ہیں.یہاں اس وقت بعض شوقین بھی بیٹھے ہوئے ہیں، وہ شائد یہ معلوم کرنا چاہیں کہ اس پر لیس کی Capacity ( کام کی استعداد ) کیا ہوگی؟ یہ پریس کوئی سات، آٹھ لاکھ صفحات 24 گھنٹوں میں پرنٹ کر جائے گا اور یہ اس کی بڑی Capacity ہے.بڑا کام کرتا ہے اور یہ انشاء اللہ دس لاکھ کے اندر لگ جائے گا.ایک تو دنیا کی پیاس بجھانے کے لئے اس پریس کی بڑی ضرورت ہے.پھر یہ کہ ہماری ذمہ واری بڑی ہے.اس لئے میں آپ کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.یہ کام آپ نے کرنا ہے.دوسری ضرورت جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن کو متوجہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی حالت ایسی ہے کہ ہمیں دنیا میں کسی جگہ اپنا براڈ کاسٹنگ اسٹیشن لگا دینا چاہئے.”ہمیں" سے مراد جماعت احمدیہ ہے.پریس کی ذمہ واری پاکستان کی جماعت پر ہے اور انہیں قربانی دینی پڑے گی اور 729

Page 747

تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دوست انشاء اللہ قربانی دیں گے.اس براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کی ذمہ داری بیرون پاکستان کی جماعتوں پر ہے.اور مجھے امید ہے، انشاء اللہ وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبا ہیں گے.میں اس ریڈیو اسٹیشن کے متعلق بھی معلومات حاصل کر رہا ہوں.البتہ یہ سکیم تین مدارج میں ذہن میں آئی ہے.( بغیر خرچ کے اندازے کے یعنی اللہ تعالیٰ نے ذہن میں ابھی یہ روشنی نہیں ڈالی ) ایک تو یہ ہے کہ بہت سے ممالک میں ہم پہلے اتنے چھوٹے چھوٹے براڈ کاسٹنگ سٹیشن ( وہاں کی حکومتوں کی اجازت سے ) لگادیں، جو ان ملکوں میں چند سو میل تک کام کریں.پھر جہاں اللہ تعالیٰ چاہے، دوسرا مرحلہ یہ ہو کہ ایک بڑا اسٹیشن لگا دیں.اور تیسرا مرحلہ یہ ہو کہ جتنی طاقت کا اسٹیشن اس وقت روس اور چین سے باتیں کر رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ طاقت کا اسٹیشن خدائے حی و قیوم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کر رہا ہو.اور دنیا کی جو کہ اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے اور آواز یعنی صورتی لہروں سے بھر دے، باقی ساری لہریں اس کے نیچے دب جائیں.یہ ہے وہ خواہش ! اور یہ ہے وہ بات، جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن کو متوجہ کیا ہے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب ہم اس کا جائزہ لیں تو پہلے مرحلے کو ہم چھوڑ ہی دیں ، دوسرے مرحلے پر ہم افریقہ میں ایک ایسی جگہ براڈ کاسٹنگ اسٹیشن لگائیں، جو نہ صرف پورے افریقہ کو اپنی آواز سنا سکے بلکہ عرب ممالک کو بھی اپنی آواز سنا سکے.اور ممکن ہے، پاکستان کے بعض حصوں تک بھی اس کی آواز پہنچ جائے.ابھی اس کے متعلق کہا نہیں جاسکتا.اور تیسرے مرحلے پر تو میں نے بتایا ہے کہ ایسا براڈ کاسٹنگ شیشن ہوگا، جو ساری دنیا میں آواز پہنچارہا ہوگا.پس یہ مختلف شکلیں ہیں.ابھی اس سلسلہ میں بعض معلومات حاصل کی ہیں.بعض نسبتا سستے بھی ہیں، بعض مہنگے بھی ہیں.بعض چیزوں میں ہمیں پیسہ بچانے کے لئے جسمانی آرام کی قربانیاں بھی دینی پڑیں گی اور وہ ہمیں دینی چاہئیں.مثلاً آپ کسی براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کو جا کر دیکھیں.جنہوں نے دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ متعلقہ افسروں کے لئے بڑی اچھی اچھی کوٹھیاں ہیں.مگر جو احمدی افسر ہے، وہ تو احمدی خادم ہے، اس کو تو کوٹھی کی ضرورت نہیں.اس کو تو افریقہ میں گھاس پھوس کی جھونپڑی بنا کر دیں گے کہ تم اس میں رہو اور کام کرو.اس طرح ہم بہت سارا پیسہ بچالیں گے.اس طرح پیسہ بچانے کی اور بہت ساری تدبیریں ہیں.لیکن بہر حال یہ کام جماعت پاکستان کا نہیں.( مرکز کا تو ہے کیونکہ مرکز کا تعلق تو سارے ملکوں اور ساری جماعتوں سے ہے.لیکن پاکستان کی جماعتوں کا اس دوسرے منصوبہ یا سکیم 730

Page 748

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء تعلق نہیں.بیرون پاکستان کی جماعتیں انشاء اللہ تعالیٰ اس ضرورت کو پورا کریں گی.ہم انہیں Material (مواد) یعنی کتب اور حوالے اور دلائل اور ساری دنیا میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ احمدیت کے حق میں معجزات اور نشانات اور آسمانی تائیدات رونما کر رہا ہے، وہاں انہیں پہنچاتے چلے جائیں گے.جنہیں وہ براڈ کاسٹنگ اسٹیشن میں feed ( فیڈ ) کرتے جائیں گے اور وہاں سے ساری دنیا میں یا شروع میں جہاں تک اس کا دائرہ ہوگا ، اس میں ان کو پھیلائیں گے.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا، اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا ہے.ملائکہ بڑی تیزی سے حرکت میں آئے ہوئے ہیں.مثلاً اس حرکت کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ میں جب 1967ء میں یورپ گیا تو ایک اٹالین سکالر، جنہیں اسپر نٹو میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کا شوق تھا، وہ مجھے ملنے آئے.وہ دل سے مسلمان ہو چکے تھے گو قبول احمدیت کی طرف ابھی ان کو توجہ نہیں ہوئی تھی.لیکن ظاہر اوہ مسلمان بھی نہیں تھے.کیونکہ وہ خود اور ان کی بیوی کٹر کیتھولک تھے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو بدلا اور وہ احمدی مسلمان ہو گئے اور قبول احمدیت کے بعد ان کا ترجمہ قرآن کریم مکمل ہوا.لیکن یہ ترجمہ انہوں نے ہمارے تراجم سے کیا ہے.کیونکہ وہ فرانسیسی اور جرمن اور انگریزی زبان بھی جانتے ہیں اور ان زبانوں میں ہمارے تراجم ہو چکے ہیں.علاوہ ازیں چھوٹے چھوٹے نوٹ بھی ہیں.( گواٹالین میں تو ہمارا ترجمہ نہیں ہوا لیکن انہوں نے ) ان سے فائدہ اٹھایا اور اسپر نٹو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا.پچھلے سال ان کا یہ ترجمہ مکمل ہوا ہے.کل مجھے ان کا خط ملا ہے.گو یہ ایک چھوٹی سے بات ہے لیکن اس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں میں کتنا اخلاص پیدا کر دیا ہے.انہوں نے اپنے خط کو شروع اس طرح کیا ہے کہ میں جانتا ہوں، آپ دورہ کے لئے باہر جارہے ہیں اور آپ بڑے مصروف ہوں گے.لیکن میں دو باتیں کہے بغیر رہ نہیں سکتا.کیونکہ ان کا تعلق مجھے سے نہیں، ساری جماعت سے ہے.اور وہ دو باتیں یہ ہیں که اسپرنو زبان دانوں کی ایک ایسوسی ایشن ہے، جو تراجم وغیرہ کراتی ہے اور پھر انہیں مقبول بنانے کی کوشش کرتی ہے.ان کی جو میگزین ہے، اس کا نام بھی غالباً اسپر نٹ ہے.اس میگزین میں یہ خبر چھپی ہے کہ اسپرنٹو میں قرآن کریم کا ترجمہ اپنی مقبولیت کے لحاظ سے سال رواں کی بہترین کتاب ہے.یہ شائع ہوتے ہی چند مہینوں کے اندر سارے کا سارا بک گیا اور اب اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جا رہا ہے دوسری خبر انہوں نے دیکھی ہے کہ اسپر نٹو زبان کی جو انتظامیہ ہے، ( یہ ساری دنیا میں اپنے نقطہ نگاہ سے کام کر رہے ہیں.انہوں نے مجھے اپنی تنظیم کا ممبر بنالیا ہے.اور اس کی اطلاع مجھے مل چکی ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کو دنیا میں یہ عزت بخشی ہے.731

Page 749

تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا تھا:.”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے“.ایک تو اس کی ظاہری طور پر یہ مراد ہے کہ بادشاہ احمد بیت میں داخل ہوں گے.اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے حالات پیدا ہور ہے ہیں.ویسے یہ پیشگوئی بادشاہ کے رنگ میں بھی پوری ہو چکی ہے.لیکن ایک بادشاہت ہر علم کی ہوتی ہے.ہر جدو جہد کی بادشاہت بھی ہوتی ہے.کسی چیز میں کمال حاصل کرنا بادشاہت کے مترادف ہے.کیونکہ کمال کن که عزیز جہاں شوی یہ کمال کی بادشاہتیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کومل رہی ہیں.مثلاً ڈاکٹر عبد السلام ہیں.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں میں سے ایک غلام ہیں.اور بڑے بے نفس انسان ہیں.اللہ تعالیٰ نے سائنس کی نیو کلیر فزکس میں ان کو اتنی عزت بخشی ہے کہ امریکہ جو آج ساری دنیا کے لئے ایک ہوا بنا ہوا ہے، وہاں کے چوٹی کے سائنسدان اگر کہیں بیٹھے ہوئے ہوں اور ڈاکٹر سلام ان کے کمرے میں جائیں تو وہ سب ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں.بہر حال ہمارے اس اٹالین دوست کو ایک اور رنگ کی عزت ملی ہے.یہ پچھلے سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں میں شامل ہوئے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں اسپر نٹو زبان میں قرآن کریم کا ایک ایسا ترجمہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، جو مقبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے.حالانکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں میں سے ایک لحاظ سے بچہ غلام ہیں.کیونکہ انہیں غلامی میں آئے ابھی دو، تین سال ہی تو ہوئے ہیں.یعنی احمدیت میں تو ان کی عمر 3 سال ہی ہے.اللہ تعالیٰ نے انہیں کہاں سے کہاں اٹھا کر رکھ دیا ہے.اسی طرح سپین میں فرشتوں نے تاریں ہلانی شروع کی ہیں اور وہاں بڑا انقلاب آچکا ہے.کجایہ کہ وہ مسلمان کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے تھے، (سوائے اس مسلمان نام کے جو بگڑی ہوئی شکل میں کسی عیسائی کی طرف سے رکھا گیا تھا.چنانچہ بہت سارے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے نام ہیں، جن کو عام آدمی پہچان بھی نہیں سکتا.دراصل وہ عربی کا نام ہوتا ہے، جو سپین کا باشندہ رکھ لیتا ہے.) اب وہاں یہ رو پیدا ہوئی ہے کہ جنرل فرانکو کے بعض دوستوں نے ہمارے وہاں کے مبلغ سے یہ کہا کہ اگر آپ درخواست دیں تو حکومت آپ کو مسجد بنانے کی اجازت دے دے گی.میں کچھ اور سوچ میں پڑا ہوا ہوں.آپ دعا کریں کہ میں جس سوچ میں ہوں، اللہ تعالیٰ اس میں مجھے کامیابی عطا فرمائے.اور پھر اس کامیابی کے بعد 732

Page 750

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء میں آپ کو بتاؤں گا کہ اللہ تعالٰی نے اپنی کیا شان دکھائی ہے اور کتنا فضل فرمایا ہے.اس میں ہم کامیاب ہو جائیں تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان ہوگا.میں یہ ساری باتیں کسی قدر تفصیل سے ایک خاص غرض کے ماتحت بیان کر رہا ہوں.ان میں سے اکثر باتیں غالبا وہ ہیں ، جن کا ایجنڈا سے تعلق نہیں.لیکن چونکہ شوری کا یہ سارا عرصہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعاؤں میں گزرے گا اور یہ ساری چیزیں ایسی ہیں، جن کے لئے بہت کثرت سے دعا کرنی چاہئے.اس لئے ان کاموں کے لئے آپ دعا کرتے رہیں.ایک اور بات جو میں دعا کی غرض سے کہنا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ گزشتہ سال مغربی افریقہ جانے کا پروگرام بنا تھا لیکن ملکی حالات کی وجہ سے میں باہر نہیں جاسکا تھا.اس وقت بعض دوستوں نے جو یہاں آئے ہوئے تھے، مجھے مشورہ دیا کہ ان حالات میں مرکز میں رہنا چاہیے.اب مغربی افریقہ کے دورہ کے لئے اپریل میں جانے کا ارادہ ہے.اپریل کی کسی تاریخ کو انشاء اللہ یہاں سے روانہ ہوں گے.اس سلسلہ میں کئی ہفتے ہوئے بہت سے دوستوں کو میں نے دعا کے لئے لکھا تھا.میں خود بھی دعائیں کرتا رہا ، دوستوں نے بھی دعائیں کیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ میں مختلف دوستوں کو جو علم دیا گیا، اس کے تین پہلو ہیں.اور ان ہر سہ پہلوؤں کے لئے دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس عرصہ میں منافق جماعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے.شر کا جو علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے دے دیا جاتا ہے، اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ شرکا وہ پہلو ضرور ظاہر ہو گا.بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکے، دعا کرے اور تدبیر سے بھی کام لے.تا کہ اس دعا اور صدقات اور تدابیر کے نتیجہ میں شرمل جائے.اور اللہ تعالیٰ منافق کے شر کو نا کام کرے اور جماعت احمدیہ کو ان تمام شرور کے باوجود آگے سے آگے ہی بڑھنے کی توفیق عطا کرے.دوسرا پہلو یہ نظر آیا ہے کہ شاید سفر کے دوران بعض مراحل میں کئی مشکلات بھی پیدا ہوں.اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک مومن کے لئے مشکلات برداشت کرنا تو بالکل آسان ہے.لیکن اگر کوئی ایسی مشکل ہو کہ جس سے غلبہ اسلام کی جو ہم ہے، اس کی حرکت میں رکاوٹ پیدا ہو جائے.تو یہ بہر حال ہم سب کے لئے دیکھ دہ بات ہے.پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مشکلات کو برداشت کرنے کی توفیق عطا ا فرمائے اور کسی مشکل کے نتیجہ میں ہمارے قدم میں سستی پیدا نہ ہو.اللہ تعالیٰ ان ہر دوشرور سے جماعت کو بھی اور جماعت کے امام کو بھی محفوظ رکھے.733

Page 751

تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس سلسلہ میں بڑی کثرت سے بشارتیں دی گئی ہیں.الحمد لله علی ذالک ان میں سے میں نے چند ایک کا انتخاب کیا ہے.میں نے ان کے لئے ایک الگ فائل بنوائی ہے، اس میں ہر ایک کو جمع کرتا جارہا ہوں اور بھی آرہی ہیں.قریباً روزانہ ڈاک میں کوئی نہ کوئی بشارت آجاتی ہے.چنانچہ ایک دوست نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا ہجوم ہے، جس سے میں (مرزا ناصر احمد ) خطاب کر رہا ہوں اور دائرہ کے سامنے پہرے دار بیٹھے ہیں، جن کے ہاتھ میں لمبی لاٹھیاں ہیں اور ان کے سروں پر بر چھے ہیں اور ان برچھوں پر سیاہ کپڑے کا غلاف چڑھایا ہوا ہے.اس کی تعبیر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حفاظت کی ضرورت ہے.لیکن کسی جگہ حفاظتی سامان کو ننگے کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی.ایک اور دوست نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا ہجوم ہے، جن کے چہرے وہی ہیں اور رنگت بھی وہی ، جو افریقہ میں رہنے والوں کی ہے.ایک اور دوست نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان میں کثرت سے لوگ جمع ہیں اور ایک شخص رحمت ( یہ رحمت کی تعبیر بڑی اچھی ہے.بلند آواز سے پکارتا ہے، آؤ بیعت کرو.چنانچہ 30-30 افراد بیعت کے لئے اندر جاتے ہیں.خواب دیکھنے والے یہ دوست لکھتے ہیں کہ خواب میں ہی ان کے قریب ایک محل ہے، جو کہتا ہے کہ اس تنظیم کے سردار کا نام القاسم ہے.یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے خزانوں کو تقسیم کرنے والا.ایک اور صاحب نے خواب میں دیکھا.وہ کہتے ہیں کہ پہلے دو خواب تو میں نے دیکھے کہ سفر میں بعض عوائق اور مشکلات پیش آئیں گی.لیکن تیسری خواب یہ دیکھی کہ ایک مرد اور ایک عورت یعنی مرد وزن کے نمائندہ بڑے الحاج اور منت سے کہہ رہے ہیں کہ میں ( یعنی وہ جو خواب دیکھنے والے دوست ہیں ) ان کی بیعت دست مبارک پر کرواؤں.ایک اور دوست نے بھی خواب میں دیکھا.وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ القا ہوا ، انا فتحنا لک فتحاً مبيناً.وہ لکھتے ہیں کہ میں آپ کے اس سفر کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کر رہا تھا تو مجھے یہ آواز آئی.پھر دوسرے موقع پر ظفر امبینا کی آواز آئی.اسی طرح ایک اور دوست نے لکھا ہے کہ مجھے اس سفر کے متعلق دعا کرتے ہوئے ، یہ آواز آئی، فانظر الی آثار رحمۃ اللہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نشانات اور علامات تو دیکھو.ایک اور دوست نے خواب میں دیکھا.وہ پہلی خواب کا حصہ ہے، جو میری نظر سے رہ گیا تھا.) انہوں نے دیکھا کہ وہ یورپ میں ہیں اور وہاں بڑے بڑے اسٹور ہوتے ہیں جنہیں ڈیپارٹمنٹ سٹور کہتے 734

Page 752

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد چہارم - تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء ہیں.ان میں ہر قسم کی چیزیل جاتی ہے.یعنی چنے کے دانے سے لے کر پچاس ہزار کے ہیرے تک.غرض ہر قسم کی چیز وہاں مل جاتی ہے اور یہ اسٹور کہلاتا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ خواب میں اس قسم کے ایک اسٹور میں ایک بکس ہے، جس میں پلاسٹک کے تھیلوں میں بیچنے کے لئے کچھ تصویریں رکھی ہوئی ہیں.میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ بڑی بڑی تصویریں ہیں.ان میں سے ایک کو میں نے اٹھایا تو اس میں میرے مغربی افریقہ کے دورے کی تصاویر تھیں.یعنی بڑے بڑے سائز کی تصاویرہ یورپ کی دکانوں پر بک رہی تھیں.غرض یہ چند مثالیں میں نے بیان کی ہیں.اللہ تعالیٰ جب بشارت دیتا ہے، تب بھی ذمہ داری ڈالتا ہے.کیونکہ اس صورت میں بھی تدبیر کرنا، پھر بھی انسان کے ذمہ ہوتا ہے.یعنی انسان تدبیر کرے، اس کا یہ نتیجہ نکلے گا.دراصل بشارت تو انسانی تدبیر، جد و جہد اور دعا کا نتیجہ بتارہی ہوتی ہے.یعنی یہ تو نہیں ہوسکتا کہ بشارت ملنے پر انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ر ہے اور پھر بھی وہ بشارت پوری ہو جائے.مثلاً اگر کسی شخص کو یہ کہا جائے کہ میٹرک میں تم فرسٹ آؤ گے تو وہ کہے گا کہ ٹھیک ہے، میں میٹرک میں فرسٹ آؤں گا ، اس لئے میں میٹرک کا امتحان نہیں دیتا، غلط ہے.یہ تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس کو یہ خوشخبری ملے کہ میٹرک میں فرسٹ آؤگے، اسے میٹرک کا امتحان بہر حال دینا پڑے گا.اور میٹرک کے امتحان کے لئے انتہائی تیاری کرنی پڑے گی.تب وہ خوشخبری پوری ہوگی.پس ہر بشارت انجام بتارہی ہوتی ہے.اور ہر بشارت کا جتنا بڑا انجام ہے، اس سے پہلے جتنی عظیم کوشش اور جتنا عظیم مجاہدہ چاہئے، وہ ہونا چاہیے.جتنی عظیم تدبیر کی ضرورت ہے، اتنی عظیم تدبیر ہونی چاہئے.جتنی دعاؤں کی ضرورت ہے، وہ دعائیں ہونی چاہئیں.پس اس سلسلہ میں بہت سی بشارتیں ملی ہیں، جن میں سے بعض اس وقت میں نے دوستوں کو سنائی ہیں ، بہت سوں کو میں نے چھوڑ دیا ہے.مگر یہ بشارتیں بتا رہی ہیں کہ ان ایام میں جماعت احمدیہ پر ایک مخصوص ذمہ داری یہ بھی عائد ہوگی کہ وہ دعا اور تدبیر کو کمال تک پہنچائے اور خود کوان بشارتوں کا وارث بنائے، جو اللہ تعالیٰ نے تازہ بتازہ جماعت کو دی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.افریقہ کا یہ براعظم بھوکا بھی ہے اور پیاسا بھی ہے اور مظلوم بھی ہے.سینکڑوں سال سے اسے ذلیل بھی کیا گیا اور اس کی عزت بھی چھینی گئی ہے.اس لئے یہ ان کا حق ہے کہ ان کو انسانیت کے اس مقام پر لا کھڑا کیا جائے کہ جو مقام عزت اور شرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے افریقہ کے ایک نمائندہ حضرت بلال کو دیا تھا.فتح مکہ کے دن ان قریش سرداروں کو جو اپنے ایک عظیم بھائی کے سامنے بھی گردن اکڑا کر چلتے اور اس پر ظلم کرتے تھے ان کو یہ آواز دی گئی تھی اور ان کو اس طرف بلایا گیا تھا کہ آج بلال کا جھنڈا 735

Page 753

تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تمہارے غرور کو توڑنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے.جولوگ حضرت بلال کے جھنڈے کے نیچے آکر جمع ہو جائیں گے، ان کی جانیں اور ان کی عزتیں محفوظ ہو جائیں گی.یہ وہ اعلیٰ مقام ہے، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افریقہ کے ایک حبشی کو دیا تھا.لیکن دنیا نے اس براعظم افریقہ کو وہ مقام نہیں دیا.اور وہ خود بھی اپنے مقام کا علم نہیں رکھتا تھا.اور یہ اس قوم کی عجیب بدقسمتی ہے.ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کو یہ بتائیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ، جو آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ہاتھ میں دیا گیا ہے.تب چھوٹے جھنڈے تمہارے ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور پھر مغرور روس اور متکبر امریکہ کو بھی انشاء اللہ تمہارے جھنڈے کے نیچے پناہ لینی پڑے گی.پس یہ وہ چیز ہے، جو ہم نے اہل افریقہ کو دینی ہے.آپ دعا کریں، اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ عطا کرے اور وہ خود اپنی عزت اور اپنے مرتبہ اور اپنی حرمت اور اپنے شرف کو پہچانے لگیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو اسلام کا خوبصورت دین اور وں کے لئے بھی اور ان کے لئے بھی لے کر آئے تھے، اس کو وہ قبول کریں.دنیا کی عزتیں اور دنیا کی وجاہتیں اور دنیا کے شرف کو بھی وہ حاصل کریں.لیکن اس سے بھی کہیں بڑھ کر وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اپنے لئے وہ پیار دیکھیں تا کہ دنیا اور آخرت کے خزانے ان کول جائیں.اے خدا! تو انہیں اس کی سمجھ عطا فرما.آمین.میں نے یہ مختلف باتیں دوستوں کے سامنے اس لئے رکھی ہیں کہ ان دنوں میں خاص طور پر اور یہاں سے جانے بعد بھی دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ذریعہ اس دنیا میں جو تیز حرکت جاری کی ہے، اس کے نتیجہ میں ہماری جو ذمہ داریاں ہیں، اللہ تعالٰی اپنے فضل سے ہمیں اپنے ظرف اور طاقت کے مطابق ان کے نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ ہمارا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ ہم تھوڑا سا کام کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے بے انتہا نتائج نکال دیتا ہے.ہمیں تو یہ کہا گیا ہے کہ مقدور بھر تھوڑی سی قربانی کرو اور آکر انعام لے جاؤ.کام تو دراصل اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہی کر رہے ہیں اور وہ کرتے چلے جائیں گے.لیکن اگر ہم نے آج اسلام کی ضرورت کے وقت خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منہ موڑا تو پھر ہمارا نہ اس دنیا میں کوئی ٹھکانا ہوگا اور نہ اس دنیا میں.اللہ تعالیٰ اپنے غضب سے ہمیں محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ اپنی رضا کی جنتیں ہمیں یہیں عطا کر دے.نہ ختم ہونے والی جنتیں.جو ہم اپنے ساتھ ہی اس دنیا میں لے جائیں.اللہ تعالی افریقن ممالک کو بھی اور یورپین ممالک کو بھی، غرض جہاں جہاں بھی انسان بستا ہے، ان کو تو فیق عطا کرے کہ وہ اسلام کے 736

Page 754

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تقریر فرمودہ 27 مارچ 1970ء نور کو پہچانیں اور اس سے منور ہو جائیں.اور وہ خدا تعالیٰ جو عزت کا حقیقی سرچشمہ ہے، اس کی طرف بڑھیں اور دنیا کی ساری عزتیں اپنی جھولیوں میں سمیٹ کر وہ اپنے ملکوں کو جائیں.اور وہ دنیا کے لئے بھی اور اپنی نسلوں کے لئے بھی عزت کے سامان اور جنت کے سامان پیدا کرنے والے ہوں“.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 27 تا 29 مارچ 1970 ء ) 737

Page 755

Page 756

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1970ء تحریک جدید کی رپورٹ پر بعض اہم ہدایات ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1970ء برموقع مجلس مشاورت فرمایا:.بیرونی ممالک میں موصیوں کی تعداد زیادہ تر مقامی احباب پر مشتمل ہے.مثلاً لائبیریا کی وصایا مقامی افریقن احمدیوں کی ہیں.جاپان مشن کے ذکر پر فرمایا :.اس مشن کے لئے جو رقوم وصول ہوئی ہیں، ان میں زیادہ رقوم تو وہ ہیں، جو میں نے بھجوائی ہیں.اس مد میں چندہ بہت کم آیا ہے.بعض دوست مجھے کچھ تم بھجوا دیتے ہیں کہ آپ جہاں چاہیں، خرچ کر دیں.اس لئے جاپان مشن کا جو بارہ ہزار کا چندہ بتایا گیا ہے، اس میں بھاری رقوم ایسی ہیں ، جو میری طرف سے بھجوائی گئی ہیں.یہ ساری رقمیں ملا کر کوئی آٹھ ، دس ہزار تک جا پہنچتی ہیں.ابھی حال ہی میں، میں نے پانچ ، چھ ہزار کی رقم بھجوائی ہے.غرض اس طرح میری طرف سے بھجوائی جانے والی رقوم دس ہزار روپے کے لگ بھگ ہیں.اور یہ زیادہ تر ان دوستوں کی رقوم ہیں، جو میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں، ہم اتنی رقم آپ کو دیتے ہیں، آپ جہاں مرضی خرچ کر دیں.بعض دفعہ ایسی رقوم کو میں ایک ہی مد میں بھجوا دیتا ہوں.اور ان کو رسید بھجوا دیتا ہوں.بعض دفعہ اس کو تقسیم کر دیتا ہوں.یعنی کچھ جاپان مشن کو اور کچھ اس وقت فرانسیسی ترجمہ ہو رہا ہے، اس کے لئے بھجوادیتا ہوں.یا اس قسم کی دوسری ضرورتیں ہیں، ان کے لئے تقسیم کر دیتا ہوں“.لیکن کوئی مشن مستقل طور پر غیر مستقل آمد کے منبع پر تو نہیں چل سکتا.اس لئے جاپانی مشن کے لئے مستقل ذریعہ آمد علیحدہ طور پر تجویز ہونا چاہیے.ویسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی ایک سال تک تو ہم اسی طرح اخراجات پورے کر لیں گے.پس اس سال تو بے شک بجٹ میں نہ رکھیں.لیکن آئندہ سال کے لئے تحریک جدید کو چاہیے کہ اس جاپانی مشن کو بجٹ میں شامل کر لیں." اسی طرح حضور نے یہ بھی فرمایا:.’نائیجیریا کے شمالی حصہ میں قریباً ساری مسلمان آبادی ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلی صدی میں اولیاء کی بشارتوں کے مطابق یہاں حضرت عثمان 739

Page 757

ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم بن فودی مجدد ہوئے.اور انہوں نے بدعات کے خلاف عظیم جہاد کیا.اور اس جہاد میں چونکہ ان کے خلاف تلوار اٹھائی گئی تھی، اس لئے انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے تلوار نکالی اور اس میں کامیاب ہوئے.اسی صدی کے ایک اور مجددیہاں ہمارے علاقے میں بھی ہوئے ، جنہوں نے تلوار کا جہاد کیا.جس میں حضرت عثمان بن فودی کی طرح تو کامیاب نہیں ہوئے.کامیاب تو یقیناً ہوئے لیکن کامیابی کی شکل مختلف تھی.چنانچہ وہ اور ان کے ایک بزرگ ساتھی اور ان کے ساتھ اور بھی بہت سارے مسلمان بالا کوٹ کے مقام پر شہید ہو گئے.غرض نائیجیریا کے مسلم نارتھ میں اسلام کی ظاہری طور پر اب بھی بڑی عزت کی جاتی ہے.اور یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ وہ مذہبی معاملات میں دوسری انتہا کو نکل گئے ہیں.مثلاً ابادان کے علاقے میں مسلمان قبائل کی عورتیں غیر مہذب علاقوں کی طرح نیم برہنہ پھرتی ہیں.لیکن شمال میں جہاں حضرت عثمان فودی کا اثر تھا، وہاں دن کے وقت برقعے میں بھی عورتوں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں.اگر کسی عورت کو کہیں باہر جانا ہو تو وہ برقع پہن کر اور خوب اچھی طرح چادر میں اپنے آپ کو لپیٹ کر اور اوپر رات کے اندھیرے کی چادر اوڑھ کر باہر نکلتی ہے.غرض انتہا پسندی میں دوسری طرف نکل گئے.یہ وہ علاقہ ہے، جو احمد بیت کو قبول نہیں کر رہا تھا.چند سال پہلے تک کافی مخالفت تھی.کوئی اکا دکا آدمی جو باہر دوسرے علاقے میں گیا ہوتا، وہ احمدی ہو جاتا تھا.لیکن یہ احمدیت کی طرف توجہ نہیں کر رہے تھے.اب اس علاقے میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے.چنانچہ پہلے اس علاقے میں کانو کے مقام پر ہمارا ایک طبی مشن قائم ہوا.پھر ان کے کہنے پر اور ان کی مدد سے کانو ہی میں ہائرسیکنڈری سکول کی اجازت ملی تھی.چند دن ہوئے ، یہاں سے ہمارے ایک نوجوان واقف زندگی گئے ہیں.انہوں نے اطلاع دی ہے کہ اپریل کے شروع میں یہ سکول اپنا کام شروع کر دے گا.غرض پہلے یہاں ہمارا ایک میڈیکل مشن تھا، اب وہاں سکول بھی قائم ہو گیا ہے.جلسہ سالانہ پر وہاں سے دوست آئے تھے.ملاقات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ تمہارے ملک میں یونیورسٹیاں کتنی ہیں؟ مجھے یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس ملک میں پانچ یو نیورسٹیاں ہیں.جن میں سے صرف ایک اس علاقے میں ہے.حالانکہ اس علاقے کی آبادی سارے ملک کی نصف سے بھی زیادہ ہے.باقی چار یونیورسٹیاں ان کی سرحدوں پر واقع ہیں.شاید یہ بھی ان سے کچھ فائدہ اٹھاتے ہوں گے.لیکن دو یونیورسٹیاں تو ان سے اتنی دور ہیں کہ ان سے ان کے فائدہ اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس یہ عجیب بات ہے کہ نصف آبادی کے لئے ایک یو نیورسٹی اور باقی نصف آبادی کے لئے چار یو نیورسٹیاں ہیں.کسی کو اس طرف توجہ 740

Page 758

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1970ء نہیں ہوئی.میں نے جلسہ سالانہ پر آنے والے دوستوں سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ شمالی علاقہ میں جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے، حکومت ہمارے ساتھ تعاون کرے اور نصف نصف بوجھ اٹھا کر وہاں ایک نئی یو نیورسٹی بنادی جائے.میں نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہاں جا کر اس سلسلہ میں مشورے کریں.وہ کہتے تھے کہ وہاں اس کے علاوہ ایک زنانہ سکول کی ضرورت ہے.کیونکہ وہاں کی عورتیں تعلیم میں بہت پیچھے ہیں.وہ دن کو برقع پہن کر بھی باہر نہیں نکلتیں.ان کو دنیا کی ہوا تک نہیں لگی.اسلام نے عورت کو گندی عادتوں سے تو محفوظ کیا ہے لیکن مردوں کی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بھی جو قو تیں اور استعداد میں عطا کی ہیں، ان کی کامل نشو و نما کا ہمیں حکم دیا ہے.ورنہ تو اللہ تعالیٰ پر یہ اعتراض آجاتا ہے کہ اس نے ایک عورت کو اتنا اچھا ذ ہن دیا کہ وہ قاضی اسلم صاحب کا بھی فلاسفی میں مقابلہ کر سکے.اور ساتھ یہ کہہ دیا کہ تم نے پڑھنا نہیں.پس یہ بات تو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی.اگر عورتوں کو تعلیم نہ دی جائے تو یہ ایک لحاظ سے ظلم کے مترادف ہے.اگر کسی ماحول میں گند نہ ہو بلکہ اس میں ظاہری اور باطنی پاکیزگی اور طہارت ہو، اس میں عورت کی دینی قوتوں کی نشو و نما ہونی چاہیے.ان کا مشورہ تھا کہ زنانہ سکول کھولنے کے لئے کوشش کی جائے.میں سمجھتا ہوں اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو اس علاقے میں انشاء اللہ ویسے بھی حقیقی اسلام کا فروغ اور اثر قائم ہوگا.اور اسلامی تعلیم اور اسلامی روح کا غلبہ ہوگا.وہاں جا کر یہ مشورے بھی کرتے ہیں.آپ لوگ دعا بھی کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے غلبہ اسلام کے سامان پیدا کر دے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تو فیق عطا کرے کہ ہم وہاں کی بچیوں کی ذہنی قوتوں کو استعدادوں کو تباہی سے بچانے کے سامان پیدا کرسکیں“.تحریک جدید کے نظام کے ماتحت تعمیر ہونے والی مساجد خصوصاً غانا میں ایک وسیع اور شاندار مسجد کی تعمیر کے متعلق فرمایا :.اس کی ضرورت بھی تھی کیونکہ اس وقت تک وہاں کوئی جامع مسجد نہیں تھی.حضور نے تنزانیہ مشن کے بارہ میں فرمایا:.یشن اپنا خرج خود برداشت کر رہا ہے.یہاں سے ہم اس کی مدد کے طور پر کوئی پیسے نہیں بھیجتے.حضور نے غانا میں زیر تجویز میڈیکل مشن کے ذکر پر فرمایا:.ایک ڈاکٹر تو مقرر ہو چکے ہیں.ان کے علاوہ ایک اور ڈاکٹر صاحب بھی ہیں.جس وقت ضرورت پڑی ، ہم ان کو بھی فارغ کروالیں گے.اللہ تعالیٰ نے انہیں وقف کرنے توفیق دی ہے.ابھی ان کی ریٹائر منٹ میں سال ، ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی ہے.اس وقت سیرالیون میں ضرورت ہے.جس وقت 741

Page 759

ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1970ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم بھی وہاں انتظام ہو جائے گا یعنی کام کرنے اور ڈسپنسری وغیرہ کے لئے ریذیڈنٹ پرمٹ مل جائے گا، اس وقت انہیں فارغ کروائیں گے.دوسرے دوستوں کو بھی آگے آنا چاہئے.وہاں لوگوں کی میڈیکل امداد کرنا ، ہمارے احمدیت کے استحکام کے علاوہ ان کا حق ہے.کیونکہ وہاں ان کو طبی امداد کما حقہ نہیں پہنچ رہی.ہمارے ملک سے بھی بہت کم انتظام ہے.آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، یہ ہمارے ملک کے اس تھوڑے سے انتظام کے مقابلے میں انہیں شاید ہزارواں حصہ طبی امداد میسر آ رہی ہے“.تحریک جدید کی رپورٹ میں لٹریچر کی اشاعت کے ذکر پر حضور نے فرمایا:.لندن سے پرسوں خط آیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ٹائمنز آف لندن اور ڈیلی ٹیلیگراف میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا اشتہار دیا گیا.جس کے نتیجہ میں خطوط کے ذریعے تین سو کا پیاں فروخت ہو گئیں.یہ انگلستان میں ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کی گئی تھی.اس کی مزید اشاعت درکار ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اس طرف توجہ دیں تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ پھیلا سکتے ہیں.میں اس سلسلہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس ترمیم کو پیش کرنے والے کو باہر کی جماعتوں اور باہر کے احمدیوں کا شاید علم نہیں ہے.میرا تاثر تو یہ ہے اور وکیل البشیر صاحب سے بھی میں نے مشورہ کیا ہے.ان کا بھی یہی تاثر ہے کہ ہمارے پاکستان کے مقابلے میں غیر ممالک کے احمدی قرآن کریم سیکھنے اور اس کا ترجمہ وتفسیر جانے کا بہت زیادہ شوق رکھتے ہیں.ان کا تو یہ حال ہے، ہمارے جرمنی کے مبلغ نے بتایا کہ ایک نوجوان احمد کی ہوئے ، ان کا رات کے ایک بجے فون آجاتا کہ میں نے اپنے کام سے فارغ ہو کر قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا.ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کے ساتھ اور فلاں آیت پر آکر اٹک گیا ہوں.اس کا مطلب مجھے سمجھ نہیں آتا.اگر میں ابھی یہ مطلب سمجھ نہ سکا تو رات کو سو نہیں سکوں گا.اس واسطے مجھے ابھی یہ بتائیں کہ اس آیت کی کیا تفسیر ہے؟ میں نے بتایا تھا کہ 24 جولائی 67ء کوجو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سویڈن کی ایک بچی احمدی ہوئی تھی، جس کا نام قانتہ رکھا گیا تھا.پچھلے سال جب سویڈن میں پیدائشی مسلمانوں کے گھرانے احمدی ہوئے تو ان کو یہ خیال آیا کہ بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا انتظام ہونا چاہیے.ان پیدائشی مسلمانوں کے پاس کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا ، جو بچوں کو قرآن کریم پڑھا سکے.تو ہماری اس نو مسلمہ قانتہ بچی نے ، جسے احمدی ہوئے صرف دو سال ہوئے تھے، رضا کارانہ طور پر اپنی خدمت پیش کی اور کہا کہ میں جاتی ہوں اور ان کو پڑھاتی ہوں.چنانچہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ احمدیت نے ان کے دلوں میں قرآن کریم کی بہت زیادہ محبت پیدا کر دی ہے“.742

Page 760

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1970ء " آپ میری اس بات کو یادرکھیں کہ جب تک ہم قرآن کریم کو مضبوطی سے نہ پکڑیں ، اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز نہ بنائیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں، اس وقت تک ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے ، جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے اور جماعت احمدیہ قائم ہوئی.ہماری کامیابی کے راستے میں آج صرف ایک ہی روک ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت نے قرآن کریم کے انوار سے وہ حصہ نہیں لیا، جو اسے لینا چاہیے تھا.جنہوں نے قرآنی انوار سے حصہ لیا ہے، وہ تھوڑے ہیں.ان میں سے بعض باہر گئے.استثناء تو ہر جگہ ہوتا ہے.ان میں سے اکثر زیادہ دعائیں کرتے ہیں.شاید پھنسے ہوئے ہوتے ہیں.ہمارا مبلغ اکیلا ایک جگہ چلا جاتا ہے، جہاں چاروں طرف دشمن ہوتے ہیں.جو د نیوی لحاظ سے بڑے عالم فاضل اور بڑی بڑی ڈگریاں لی ہوئی ہوتی ہیں.جب ان سے ہمارے مبلغ کا مقابلہ ہوتا ہے تو وہ دعا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.بعض دفعہ مجھے یہ شبہ پڑتا ہے کہ ہمارا مبلغ غانا میں یا نائیجیریا میں یا سیرالیون میں تو زیادہ دعائیں کر رہا ہوتا ہے مگر جب یہاں آتا ہے تو slack (ست) ہو جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں تھوڑ اسا آرام کرلوں.حالانکہ دعائیں کرنے کا جو سبق ہے یا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ، جو محنت اور مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، اس میں تو آرام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہ تو ہر وقت زندگی کے ساتھ لگا ہوا ہے.چنانچہ جب ہمارے مبلغ غیروں کے مقابلہ میں دعائیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں فہم قرآن عطا کرتا ہے.جس سے وہ بڑے بڑے لوگوں کو خاموش کر دیتے ہیں.بلی گراہم جیسا آدمی، جس کو امریکہ کے پریذیڈنٹ نے گھنٹے کی audience دی تھی اور وہ جو دو منٹ کی بات کرنے سے پہلے بڑی خوشامد میں کرواتا ہے اور اس کے ہزاروں کارندے سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کسی کو وقت دیا جائے یا نہ دیا جائے.وہ افریقہ میں آیا اور ہمارے دنیوی لحاظ سے کم عزت رکھنے والے مبلغ نے اس کا مقابلہ کیا اور روحانی میدان میں اس کو مات دی.اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہمارے مبلغین کی جوعزتیں ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.لیکن دنیا کی نگاہ میں شیخ مبارک احمد ہوں یا مغربی افریقہ کے مبلغ ہوں ، ان کی کوئی عزت نہیں ہے.در اصل بات یہ ہے کہ یہ ترجمہ کرنا بڑا نازک مسئلہ ہے.اگر آپ اس بات کی اجازت دے دیں اور اس کی طرف توجہ نہ دیں تو پھر ترجمے سے آگے ترجمہ اور پھر اسے آگے ترجمہ ہوتے رہنے سے مفہوم بالکل ہی بدل جائے گا.اس لئے اس میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ کسی زبان میں ترجمہ، ترجمے سے نہیں ہوگا 66 743

Page 761

ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1970ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بلکہ اصل سے ہوگا.مثلاً یہ نہیں ہو گا کہ کشتی نوح کا ترجمہ انگریزی میں ہو، پھر انگریزی سے ترجمہ کیا جائے جرمن زبان میں.اور پھر جرمن زبان سے ترجمہ کیا جائے فرانسیسی زبان میں.اور فرانسیسی زبان سے ماریشس میں اپنی زبان بولی جاتی ہے، یعنی ان کی اپنی dialogue ( ڈائیلاگ ہے، اس میں ترجمہ کیا جائے.پھر یہ ماریشس کی جو مقامی زبان ہے، اس کے ترجمہ سے آگے سواحیلی ترجمہ ہو.اس طرح ہیں زبانوں میں ترجمہ کرتے کرتے شاید وہ کچھ اور چیز بن جائے، اصل غائب ہو جائے.اس واسطے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ جو اصل متن ہے، اس سے ہر زبان میں ترجمہ ہو.ترجمے پر سے دوسرا ترجمہ نہ ہو.اور اسی لئے یہ ضروری ہے کہ ساتھ متن لگایا جائے.بعض زبانوں کے لئے عارضی طور پر وقتیں پیدا ہوسکتی ہیں.مثلاً اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے والے تو مل گئے لیکن اگر اردو سے جرمن زبان میں ترجمہ کرنے والے نہ ملیں تو اس کے لئے یہ شرط ہو کہ ایک بورڈ بیٹھے، جوار دو جانتا ہو اور وہ انگریزی زبان سے جرمن میں جو تر جمہ ہوا ہے، اس کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے.انگریزی ترجمے سے نہیں بلکہ اصل متن سے.بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو مثلا ترجمہ نہیں کر سکتے لیکن ترجمے کی غلطی نکال سکتے ہیں.تو ایسے لوگ پھر یہ تسلی کریں کہ جرمن زبان میں جس نے ترجمے سے ترجمہ کیا ہے، وہ اصل متن کے ساتھ ملتا ہے یا نہیں.اور جب تک اس کی تصدیق نہ ہو، اسے شائع نہ کیا جائے.پھر یہ ہے کہ اس سے عربی کے ساتھ محبت پیدا ہوگی.جب میں انگلستان میں پڑھا کرتا تھا، اس وقت ایک انگریز نو مسلم احمدی تھوڑی بہت اردو جانتا تھا اور وہ الفضل باقاعدگی سے پڑھتا تھا.تو اگر ساتھ ترجمہ ہو گا تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اردو پڑھنے کا شوق پیدا ہو گا.وہ اردو سیکھیں گے، مقابلہ کریں گے ، لفظ اٹھائیں گے اور اس طرح اپنی محبت کا اظہار کریں گے.بہر حال ترجمہ ضروری بھی ہے اور ترجمے میں احتیاط بھی بڑی ضروری ہے.ترجمہ صحیح ہونا چاہیے.یہ نہ ہو کہ مفہوم ہی بدل جائے.البتہ متن کے بغیر اجازت نہیں ہے“.کل میں نے مغربی افریقہ میں نائیجیریا کے شمال میں زنانہ سکول کے اجراء کے سلسلہ میں ذکر کیا تھا.اس بارہ میں لجنہ اماءاللہ کی طرف سے یہ یادداشت آئی ہے کہ 44ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے گولڈ کوسٹ (اب غانا کہلاتا ہے.) میں سالٹ پانڈ کے مقام پر زنانہ سکول کھولنے کے فیصلے کا اعلان فرمایا تھا.اور اس سلسلہ میں لجنہ اماءاللہ کے ذمہ چار ہزار روپے کی رقم ڈالی تھی.اور لجنہ اماءاللہ نے یہ رقم قلیل عرصہ میں جمع کر کے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دی تھی.معلوم نہیں، کیا وجوہات پیش آئیں ، غالباً تھوڑے عرصہ کے بعد ہجرت کرنی پڑی اور شاید اس وجہ سے یہ سکول جاری 744

Page 762

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1970ء نہ ہوسکا؟ اس کے متعلق تحریک جدید کی رپورٹ ہے کہ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے غانا، مغربی افریقہ میں بچیوں کی تعلیم کے لئے سکول کے اجراء کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا.لیکن چونکہ اس سکول کے لئے اس وقت ٹرینڈ استانیاں میسر نہ آسکیں، اس لئے اس سکیم کوعملی جامہ نہ پہنایا جا سکا.اس سلسلہ میں جو چندہ جمع ہوا اور جتنا بھی ہوا، یہ تقسیم ملک سے پہلے کی بات ہے.یہاں پاکستان کے ریکارڈ کی چھان بین کرنے کے بعد ہی بتایا جا سکتا ہے کہ بعد میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ رقم کہیں خرچ کر وادی یا کسی مد میں وہ جمع ہے.اس کا پتہ لے لیں گے.لیکن 44 ء کے بعد اب تک 27-26 سال کا عرصہ گذر گیا.اس عرصہ میں خرچ میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور وہاں کے حالات بھی بدل گئے ہیں.چنانچہ جو کام اس وقت چار ہزار روپے میں ہو سکتا تھا، اب شاید ہمیں ساٹھ ، ستر ہزار روپیہ خرچ کر کے یہ کرنا پڑے.اس وقت زیادہ ضرورت شمالی نائیجیریا میں ہے.گو اس کی ضرورت تو ہر جگہ ہے لیکن شمالی نائیجیریا میں ضرورت زیادہ ہے.جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے سکول کھولنے کے لئے حالات سازگار ہوئے تو اس کے لئے روپے کا بھی انشاء اللہ انتظام ہو جائے گا.مجھے اس کی فکر نہیں.آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں اس بات کے قبول کرنے کا جذبہ پیدا کر دے کہ وہ ہماری اس پیشکش کو قبول کر لیں اور ہم ان کی بچیوں کو پڑھانے کے لئے ایک ہائر سیکنڈری سکول کھول سکیں“.ر پورت مجلس شوری منعقدہ 27 تا 29 مارچ 1970ء ) 745

Page 763

Page 764

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خلاصه ارشادات فرموده دوران دوره گھوڑ انگلی اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے ذریعہ اسلام کی بعثت اولی کا نظارہ پھر ہمیں دکھایا ہے 27 جون وو خلاصه ارشادات فرموده دوران دور و گھوڑ انگلی 1971ء مغربی افریقہ میں ہم نے حال ہی میں ہسپتال کھولنے شروع کئے ہیں.ایک ہسپتال ہم نے گھانا میں ٹیچی مان کے مقام پر کھولا ہے.جہاں ڈاکٹر بشیر احمد صاحب کام کر رہے ہیں.اس جگہ رومن کیتھولک کا ایک پرانا ہسپتال پہلے سے موجود ہے.(اس کے علاوہ ایک اور مشن ہسپتال ہے.) اس رومن کیتھولک ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بعض مریضوں کو لاعلاج قرار دے کر ہسپتال سے رخصت کر دیا تھا.جب ہم نے یہاں ہسپتال کھولا تو قدرتاً یہ مایوس لوگ بھی ہماری طرف آئے.ہمارے ڈاکٹر صاحب نے دعاؤں کے ساتھ ان کا علاج شروع کیا.اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار اور محبت کا جلوہ یوں دکھایا کہ ان میں سے اکثر کو شفا ہوگئی اور صحتیاب ہو کر ہمارے ہسپتال کی شہرت کا بھی باعث بن گئے.اب ایسے مریضوں کو جن کو ڈاکٹر لا علاج قرار دے چکے تھے، صرف اللہ تعالیٰ کی خاص تائید سے ہی شفا ہوسکتی تھی.اس میں ہمارا کوئی کارنامہ نہ تھا.بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام واحمدیت کے حق میں اور ہمارے واقف زندگی ڈاکٹروں کے حوصلے بڑھانے کے لئے اور افریقن لوگوں کو ہماری طرف راغب کرنے کے لئے یہ معجزہ دکھایا.ایسے معجزات خدا تعالی کے فضل سے ہمارے ہرمشن میں نظر آتے رہتے ہیں....حال ہی میں افریقہ سے بعض تصاویر آئی ہیں، جو نہایت ایمان افروز ہیں.ان تصاویر میں ہمارے نئے افریقن احمدی دوست جو احمدیت سے قبل بت پرست تھے، اپنے بتوں کو جلا رہے ہیں.جن کو وہ پوجا کرتے تھے.اور ایسا کرتے ہوئے ، ان کے چہروں پر بڑے اطمینان کے آثار نظر آتے ہیں.اب اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے ذریعہ اسلام کی بعثت اولیٰ کا نظارہ پھر ہمیں دکھایا ہے کہ مشرکین داخل حق ہو کر اپنے بتوں کو جلا ڈالیں“.( مطبوعه روز نامہ افضل 27 جولائی 1971ء) 747

Page 765

خلاصه ارشادات فرموده دوران دورہ گھوڑا گلی 29 جون تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم افریقہ سے نصرت جہاں آگے بڑھو پروگرام کے ماتحت گئے ہوئے ، ایک ڈاکٹر صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ مستقبل بعید میں افریقن حکومتیں ہمارے ہسپتالوں اور کلینکوں کو قومیالیں.اس پر فرمایا:."...ڈاکٹر صاحب کو لکھ رہا ہوں کہ اس سے زیادہ خوشی کی بات ہمارے لئے اور کیا ہوگی کہ افریقن بھائی اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں.جب بھی وہ سکولوں اور ہسپتالوں کو چلانے کے قابل ہو گئے ، ہم ان کو دعوت دیں گے کہ ہمارے سکولوں اور ہسپتالوں کا انتظام سنبھال لیں.ہم نے یہ سکول اور ہسپتال ان کی خیر خواہی کے جذبہ سے کھولے ہیں.ہمیں ان سے کسی قسم کی مالی منفعت یا سیاسی فائدہ کی طلب نہیں ہے.ہم تو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر میدان میں آئے ہیں“.کماسی میں ہمارا نہایت اچھا سیکنڈری سکول ہے ، چند سال ہوئے کہ گورنمٹ نے اعلان کیا کہ سکولوں کے ہیڈ ماسٹر اب گھانا کے باشندوں میں سے مقرر کئے جائیں گے.اس وقت ہیڈ ماسٹر اور دیگر اساتذہ کی اکثریت ہم پاکستان سے بھجواتے تھے.اس خبر کے شائع ہونے پر مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے اساتذہ اور دوسرے احمدی احباب کو گھبراہٹ ہو رہی ہے کہ اب کیا ہوگا ؟ میں نے اس وقت بڑے زور کے ساتھ یہ کہا کہ ہم تو بہت خوش ہیں کہ گھانا کے لوگ اب سکولوں کے انتظامات کو سرانجام دینے کے قابل ہو گئے ہیں.ہمارا مقصد بھی یہی تھا کہ ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے ہم الگ ہو جائیں گئے.پس اب ہم اپنے مقصد کے بہت قریب آگئے ہیں.اس لئے ہمیں تو خوشی اور مسرت اور اطمینان کا اظہار کرنا چاہیے، نہ کہ کسی قسم کی گھبراہٹ کا.چنانچہ گھانا کی حکومت نے کماسی کے سکول کے ہیڈ ماسٹر کے عہدے کے لئے اخبارات میں اعلان کر دیا اور عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جو ہیڈ ماسٹر اس سکول کے لئے منتخب ہوئے، وہ گھانا کے ایک مخلص احمدی دوست تھے.پس ہمارا مقصد دکھی انسانیت کی خدمت ہے.اور یہ خدمت قطعاً بے لوث ہے.ہمیں نہ تو نام و نمود کی خواہش ہے، نہ سیاسی اقتدار کی اور نہ مال کی.اور جب اس جذبے سے کوئی قوم میدان عمل میں آئے تو وہ ہر گز شکست نہیں کھا سکتی“."...اسلام ایک عالمی برادری کے قیام کا علم بردار ہے.اسلامی نظام میں رنگ و نسل کی تمیز کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے.دنیا میں رہنے والا ہر انسان ہمارا بھائی ہے اور ہمارا دل ان کی محبت میں گداز 748

Page 766

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خلاصه ارشادات فرموده دوران دورہ گھوڑ انگلی ہے.خواہ یہ انسان انگلستان میں رہتا ہو یا افریقہ میں یاکسی اور خطہ ارضی میں.ہمارا جذ بہ خدمت رنگ و نسل اور جغرافیائی حدود سے بالاتر ہونا چاہئے.میں نے اپنے دورہ افریقہ کے دوران ان ممالک کے سر بر اہان کو بتایا کہ ہم پچھلے 50-40 سال سے آپ کے عوام کی خدمت میں مصروف ہیں.لیکن اس دوران میں ہم ایک پائی بھی آپ کے ملک سے باہر نہیں لے گئے.بلکہ جو کچھ ہمیں چندوں یا سکولوں یا ہسپتالوں کی آمدنی کی صورت میں ملا، ہم نے آپ ہی کے ممالک میں، آپ کے عوام کی بہبود کے لئے اس کو خرچ کر دیا.اس بات سے یہ سر بر اہان اور عوام بہت متاثر ہوتے تھے."" اگر میری زندگی میں ایسا دور آیا کہ افریقن عوام اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے تو میں خود ان کو دعوت دوں گا.ہمارے اداروں کو چلانے کے لئے آگے بڑھیں اور ان کا انتظام سنبھالیں.اور ہمیں اس بات سے بڑی خوشی ہوگی کہ ہمارا مقصد حاصل ہو گیا ہے“.مطبوعه روزنامه الفضل مورخہ 04 جنوری 1972 ء ) 749

Page 767

Page 768

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خلاصه ارشادات فرموده دوران دوره اسلام آباد احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر سورج غروب نہیں ہوتا خلاصه ارشادات فرموده دوران دوره اسلام آباد 1971 24 جولائی وو " احمدیت یہ دعویٰ لے کر اٹھی ہے کہ اس نے ہمدردی اور پیار کے ساتھ دنیا کے دلوں کو جیتنا اور اسے حلقہ بگوش اسلام کرنا ہے.دنیا میں ہمارے راستے میں مشکلات کے پہاڑ کھڑا کرے، کوئی پرواہ نہیں.مخالفتوں کے طوفان برپا کرے، کوئی فکر نہیں.ہماری تحقیر و تذلیل کے سامان پیدا کرے، کوئی فرق نہیں پڑتا.ہم اسلامی محبت واخوت کے حسین پیغام کا دنیا بھر میں پر چار کرتے رہیں گے.ہمیں یقین ہے کہ انشاء اللہ پیار کا جواب بالآخر پیار کی صورت میں رونما ہو کر رہے گا“.آج سے اسی ، بیاسی سال پہلے قادیان کی گمنام بستی سے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی تنہا آواز اٹھی تھی.اس اکیلی آواز کو خاموش کرنے کے لئے دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہو گئیں.آپ کے سلسلہ کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا.مگر یہ آواز کسی کے دبانے سے دب نہ سکی اور یہ سلسلہ کسی کے مٹانے سے مٹ نہ سکا.اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کی پشت پناہی کا یہ کرشمہ ہے کہ اب احمدیت کے ذریعہ اسلام کا ڈنکا دنیا کے کونے کونے میں بج رہا ہے.ایک وقت میں انگریزوں کو اس بات پر بڑا ناز تھا کہ ان کی سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا.اب ان کی سلطنت پر تو سورج غروب ہوتا ہے لیکن اگر سورج غروب نہیں ہوتا تو وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر نہیں ہوتا“." صرف غانا (مغربی افریقہ ) میں اس وقت تین لاکھ بالغ احمدی ہیں، جنہوں نے اسلام کو حسن نیت اور خلوص دل سے قبول کیا ہے.اور یہی حال دنیا میں بسنے والے دیگر احمد یوں کا ہے.میں اہل افریقہ سے یہ نہیں کہتا تھا کہ تم احمدی ہو جاؤ، میں ان سے کہتا تھا کہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کا فیصلہ آسمان پر ہو چکا ہے اور یہ انقلاب احمدیت کے ذریعہ مقدر ہے، تم احمدیت کا مطالعہ کرو.اگر سمجھ آئے تو مان لو.اسلام نے تو بہر حال دنیا میں غالب ہونا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے، جو کسی کے روکنے سے رک نہیں سکتی.احمدیت اپنی جانی اور مالی قربانی کے ذریعہ اس عظیم جہاد میں مصروف ہے.سوچنے والی بات یہ ہے کہ تمہارا اس جدو جہد میں کتنا حصہ ہے؟ ( مطبوعه روز نامه الفضل کیکم اگست 1971ء) 751

Page 769

خلاصه ارشادات فرموده دوران دوره اسلام آباد تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم 29 جولائی وو " اب دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن، پر سکون اور اطمینان بخش ماحول کا قیام احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے وابستہ ہے.کیونکہ احمدیت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے بچے پیار اور خدمت کے بے لوث جذبہ کی بدولت ساری دنیا کے دل انسانیت کے محسن اعظم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے ہیں..میں نے پچھلے سال مغربی افریقہ کے دورے میں حالات کو بچشم خود دیکھا ، میرا یہ مشاہدہ بالآخر نصرت جہاں ریزروفنڈ کے قیام کا باعث بنا.دوستوں نے اس میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر اپنے اپنے طور پر اخلاص کا بھر پور مظاہرہ کیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک اب بڑی بابرکت ثابت ہو رہی ہے.مغربی افریقہ کے بعض ملکوں میں اب تک کئی ہسپتال اور سکول کھل چکے ہیں، جن میں لوگوں کو بی اور تعلیمی سہولتیں بہم پہنچائی جا رہی ہیں.اسلام کے حسن و احسان کا کرشمہ ہے کہ افریقہ میں کاروان اسلام چھلانگیں لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے.لوگ عیسائیت کو خیر باد کہ کر حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 07 اگست 1971 ء ) 07 اگست " نصرت جہاں آگے بڑھو کی سکیم کے ماتحت مغربی افریقہ میں اسلام کے حق میں ایک عظیم انقلاب بر پا ہے.ہمارے ملک کے مالی حالات ایسے نہیں کہ حکومت ہمیں فارن اینج دے سکے.اس لئے اس سلسلہ میں عملاً بیرون پاکستان کی جماعتیں خصوصاً انگلستان زیادہ بوجھ اٹھا رہا ہے.انگلستان کی چھوٹی سی جماعت نے 50 ہزار پونڈ کے وعدے کئے تھے.جس میں سے وہ23-22 ہزار پونڈ ادا کر چکی ہے.خود افریقی ممالک کی اکثر جماعتیں بڑے اخلاص اور قربانی کا مظاہرہ کر رہی ہیں.حالانکہ مالی قربانی کے لحاظ سے ہم ابھی تک ان کی کماحقہ تربیت نہیں کر پائے.ہمارے ڈاکٹرز اور اساتذہ کے پہنچنے پر جہاں جہاں ہسپتالوں اور سکولوں کا اجراء ہوا ہے، وہاں کی مقامی آبادی نے اس سکیم کا پر جوش خیر مقدم کیا ہے.ان کی خوشی کا یہ عالم ہے کہ جہاں بھی سکول یا ہسپتال کا افتتاح ہوتا ہے، وہاں کیا عوام اور کیا خواص اپنے اپنے مخصوص روایتی انداز میں کئی کئی دن تک اچھلتے کودتے رہتے ہیں.سیرالیون میں ہماری اسی قسم کی ایک تقریب کے موقع پر وہاں کے وزیر صحت ( جو پہلے تعلیم سے متعلق رہ چکے ہیں) نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں جماعت احمدیہ کی تعلیمی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتارہا ہوں اور اب طبی محاذ پر جماعت کی کوششوں کا خیر مقدم کرتا ہوں.752

Page 770

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم 2 خلاصه ارشادات فرموده دوران دوره اسلام آباد...اصل میں یہ انقلاب اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کی بدولت رونما ہوا ہے.ورنہ ہماری کوششیں بڑی حقیر ، ہمارا سرمایہ بڑا کم اور ہماری جانی قربانی چند سونفوس سے زیادہ نہیں.اللہ تعالیٰ کے ان وو بے انتہا فضلوں کے مقابلے میں دراصل ہماری اس Contribution کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں..اس وقت عیسائیوں کے ساتھ زبردست مقابلہ ہورہا ہے.دنیا کی ساری دولتیں ان کے پاس جمع ہیں.مگر وہ اپنے ہر قسم کے ساز و سامان اور جدوجہد کے باوجود اسلام کی روز افزوں ترقی پر تلملا رہے ہیں.وہ ہمارے ہیلتھ سنٹر یا سکول کی افتتاحی تقریب میں جاتے تو حالات کا جائزہ لینے کے لئے ہیں مگر ہماری کوششوں کی افریقنوں میں پذیرائی پر کف افسوس مل کر رہ جاتے ہیں.حالانکہ ہم چند آدمی ، تھوڑے سے پیسے، جو ہمیں بیرونی ملکوں سے تھوڑے تھوڑے بھجوانے پڑتے ہیں.کیونکہ یہاں زرمبادلہ کی تنگی ہے اور ہاتھ بڑا روک کر خرچ کرنا پڑتا ہے.مگر پھر بھی عیسائی جن کے پاس ہر قسم کے دنیوی وسائل موجود ہیں اور جنہیں ہر قسم کی سہولتیں میسر ہیں، وہ گھبرا اٹھے ہیں.اس سے پتہ لگتا ہے کہ پیسے سے نتیجہ نہیں نکلتا، نتیجہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ جوشانی مطلق ہے ، وہ اپنے فضل سے ہمارے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفار کچھ دیتا ہے.لوگ عیسائی ڈاکٹروں کو چھوڑ کر ہمارے ڈاکٹروں کے پاس آجاتے ہیں.اس سے ان کی شہرت دن بدن بڑھ رہی ہے.کماسی، غانا کا ایک بہت بڑا شہر ہے.ظاہر ہے، اس میں بہت بڑے بڑے سرکاری اور مشن ہسپتال ہوں گے.مگر یہاں سے بعض دفعہ دس، دس مریض اپنا شہر چھوڑ کر تمیں میل پر ہمارے ڈاکٹر کے پاس ایک چھوٹے سے گاؤں میں علاج کروانے آجاتے ہیں“." نیچی مان (غانا) میں ہمارے ڈاکٹر کی کیتھولک ہسپتال والے بڑی مخالفت کر رہے تھے.خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ایک دن جب کہ ان کا ڈاکٹر بیمار تھا، ان کے ہسپتال میں رات کے دس بجے ایک ایسی مریضہ آگئی، جس کا خاصا الجھا ہوا اکیس تھا اور فوری آپریشن کی ضرورت تھی.اس پر وہ ہمارے ڈاکٹر سے تعاون کی درخواست کرنے پر مجبور ہو گئے.چنانچہ ہمارے ڈاکٹر نے اسی وقت رات کو اس کا آپریشن کیا ، جو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہا.اور 4-3 دن کے بعد مریضہ بالکل ٹھیک ہوگئی.اللہ تعالیٰ کے ان فصلوں پر ہمیں سجدات شکر بجالانے چاہئیں اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتے رہنا چاہئے.تا کہ ہم اس کے فضل اور اس کی رحمتوں اور اس کے پیار اور اس کی محبت کے زیادہ سے زیادہ وارث بنیں.مطبوعه روزنامه الفضل 13 اگست 1971 ء ) 753

Page 771

خلاصہ ارشادات فرموده دوران دوره اسلام آباد 16 اگست وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم حضور نے یورپ اور پھر پچھلے سال افریقہ کے دورہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دورے بہت کامیاب رہے.اسلام کی ہمہ گیر تبلیغ واشاعت کی نئی راہیں کھلیں.اسلام کے عالمگیر غلبہ کے آثار دنیا کے افق پر پہلے سے زیادہ نمایاں ہوئے.غیر ملکی اور عیسائی پریس میں اسلام کی بھر پور اشاعت ہوئی.ابلاغ عامہ کے دوسرے ذرائع سے بھی اس کا کھل کر چرچا ہوا.عیسائی دنیا بھی اسلام دشمنی کے باوجود اسلام کی روح پرور زندگی بخش اور پرتاثیر تعلیمات کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکی.مگر اسلام کے حق میں رونما ہونے والی یہ عظیم الشان تبدیلی، ہمارے ملک میں درخور اعتناء نہ بجھی گئی.اسلام کا یہ ہمہ گیر اور روز افزوں اثر ہمارے ملکی پریس میں جگہ نہ پاسکا.اگر ذکر بھی کیا گیا تو دو، چار سطروں میں.اور وہ بھی سینما کے اشتہار کے نیچے.جس کی ہمیں ضرورت ہی کیا تھی“.17 اگست حضور نے محترم خواجہ غلام نبی گل گار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.انہوں نے بائبل کے حوالے سے کشمیری زبان میں عبرانی کے ذخیرہ الفاظ پر جو ریسرچ کی ہے، وہ واقعی قابل داد ہے“.ہمارے مبلغین کو بھی اسی لگن اور محنت سے غیر ملکی زبانیں سیکھنی چاہئیں.کیونکہ ہماری بڑھتی ہوئی تبلیغی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے غیر ملکی زبانوں کا جانا از بس ضروری ہے.تا کہ مبلغین کا ہر تین سال کے بعد تبادلہ کرنے میں مشکل پیش نہ آئے“.وو....اس زبان کے مسئلہ کی بناء پر بعض مبلغین کو تین سال سے زائد عرصہ کے لئے ایک جگہ رکھتے چلے جانے سے کئی انتظامی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں.جو بعض دفعہ بڑھ کر ہمارے بعض پرانے اور مخلص مبلغین کے لئے بھی وجہ ابتلاء بن جاتی ہیں.07 ستمبر وو مطبوعه روزنامه الفضل 27 اگست 1971ء) کینما سیرالیون میں مسجد احمدیہ کے تعمیر کے لئے ایک چیف (سردار ) نے زمین دی تھی.جب اس پر مسجد تعمیر ہونے لگی تو بعض لوگوں نے شور مچادیا.معاملہ عدالت تک پہنچا.عیسائی حاکم کے سامنے مخالفین نے خلاف حقیقت باتیں بنائیں اور جماعت احمدیہ کو خانہ خدا کی تعمیر سے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی 754

Page 772

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خلاصه ارشادات فرموده دوران دوره اسلام آباد کا زور لگایا.مگر حج پر ان کے دروغ بے فروغ کی حقیقت کھل گئی.اس نے احمدیوں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ چونکہ چیف احمدیوں کو زمین دے چکا ہے اور سیرالیون کے دستور میں دی گئی ، مذہبی آزادی کی رو سے ہر فرد اور جماعت کو اپنی مذہبی عبادت گاہ بنانے کا حق حاصل ہے، اس لئے احمدیوں کو مسجد کی تعمیر روکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ اس مسجد کی بنیاد رکھی جاچکی ہے اور تعمیر کا کام شروع ہے." یہ مقام شکر ہے کہ جماعت اپنی بساط کے مطابق مالی و جانی قربانیاں دے رہی ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور پیار سے ان قربانیوں کے توقع سے کہیں بڑھ کر زیادہ اچھے نتائج نکال رہا ہے.فالحمد الله علی ذالک اس واسطے ہمارا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کا جو ہمیں شرف حاصل ہورہا ہے، اس کا جو تعلق مرد کے رنگ میں، برکت کے رنگ میں، رحمت کے رنگ میں اور اچھے نتائج نکالنے کے رنگ میں ظاہر ہو رہا ہے، اس میں ہم کمی نہ آنے دیں.بلکہ اس میں ترقی کرتے چلے جائیں.ہم اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار میں فنا ہو کر خدائی صفات کے رنگ میں رنگین ہو جائیں.یہاں تک کہ دنیا ہمارے وجود ہی میں اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی تائیدات کا مشاہدہ کرنے لگ جائے.یہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی تجلیات ہی ہیں، جن سے مادیت اور دجالیت کا سحر پاش پاش ہو جاتا ہے.یہ الہی نشانات اور تائیدات سماویہ کا ایک ایسا سیل رواں ہے، جس میں دہریت اور الحاد خس و خاشاک کی طرح یہ نکلتا ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 25 ستمبر 1971ء) 21و24 ستمبر وو بعض ملکوں نے زبان سیکھنے کے مسئلہ کو بڑی خوبصورتی سے حل کیا ہے.وہاں انہوں نے ہر زبان کے مختلف حلقے مقرر کر دیئے ہیں.جو آدمی باہر سے جاتا ہے، اسے متعلقہ حلقے میں بھیج دیا جاتا ہے.جہاں اس زبان کے سیکھنے کے لئے اسے زیادہ سے زیادہ ایک ہزار فقرات یاد کر وا دیئے جاتے ہیں اور اس کے بعد اسے زندگی کے مختلف شعبوں میں کام پر لگا دیا جاتا ہے.22 اگر لوگ دنیوی کاموں کے لئے چند سو فقرات یاد کر کے کام چلا سکتے ہیں تو کیوں نہ ہم دین کی خاطر اس بارے میں بھی سبقت لے جائیں؟ میں نے سوچا ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیم کے متعلق ضروری اور آسان فقرات مقرر کر کے یورپ اور افریقہ اور دوسرے ممالک کی زبانوں میں ان کا ترجمہ کرا لیا جائے اور پھر مثلاً جس نے یوگنڈا جانا ہے، وہ یہاں سے سیکھ کر جائے“.755

Page 773

خلاصہ ارشادات فرموده دوران دوره اسلام آباد 22 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم افریقہ کے کسی ایک ملک میں براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کے قیام پر ایک لاکھ پونڈ خرچ کا اندازہ ہے.اس کے متعلق بھی بات چیت ہو رہی ہے.اس کے تمام اخراجات افریقن ممالک کے ذمہ ہیں.ہماری ایک افریقن بہن، جس نے کم و بیش 25 ہزار پونڈ کے زرکثیر سے ایک مسجد تعمیر کروائی ہے، اس نے اس کارخیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا ظہار کیا ہے.(فجزاها الله خیراً) اگر امریکی نشریات میں عیسائیت کی تبلیغ شامل ہو سکتی ہے تو اسلام کی حقانیت پر مشتمل تقریر کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاسکتی؟“ وو.پچھلے سال افریقہ کا دورہ ختم کر کے جب میں لندن پہنچا تو وہاں ریڈیو نے میرا انٹرو یولیا اور اپنے ہفتہ وار پروگرام میں تین بار نشر کیا.جس سے ہر احمدی کو خوشی ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ساری دنیا میں نشر ہوتا رہا ہے.756 ( مطبوعه روزنامه الفضل 23 اکتو برا 197 ء )

Page 774

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم پیغام فرموده بر موقع جلسه سالانه برطانیه لیپ فارورڈ پروگرام کے ذریعہ تعظیم الشان فتوحات حاصل ہوئی ہیں پیغام فرمود و بر موقع جلسه سالانہ برطانیہ منعقدہ 28، 29 اگست 1971ء آج اسلام افریقہ میں ایک روحانی معرکہ سر کر رہا ہے.یہ بات ہم سے قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے.لیپ فارورڈ پروگرام کے ذریعہ عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لئے نصرت جہاں فنڈ کے لئے اپنے وعدہ جات جلد پورا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو“.( مطبوعه روزنامه الفضل 23 ستمبر 1971 ء ) 757

Page 775

Page 776

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 09 اکتوبر 1971ء ہمارے کام بڑے اہم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سہارے کے بغیر یہ ہو ہی نہیں سکتے خطاب فرمودہ 09 اکتوبر 1971 ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ وو کیونکہ ہمارے کام بڑے اہم ہیں اور ہماری طاقتیں اور وسائل بہت تھوڑے ہیں.ہمیں محض اپنے اوپر بھروسہ کرتے ہوئے ، ان کاموں میں ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں پیدا ہوتی.اس لئے کسی اور کے سہارے کی ضرورت میں بھی اور میرا ہر احمدی بھائی اور بہن بھی محسوس کرتے ہیں کہ ساری دنیا کو حلقہ بگوش اسلام کرنا اور تمام بنی نوع انسان کے دل میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت پیدا کرنا اور خدا تعالیٰ کی شناخت اور معرفت پیدا کرنا اور خدا میں ہو کر فنا کا جبہ پہننے کے لئے ہر انسان کو تیار کرنا اور اس مہم میں جور کا وٹیں مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام کے غلبہ کی راہ میں حائل ہیں، ان سے نپٹنا اور ان کے مقابلے میں کامیاب ہونا، یہ ایسا پروگرام نہیں کہ اگر ہم عقل رکھتے ہوں اور ہمارے ذہنوں میں فراست ہو تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی ہم یہ سمجھ سکیں کہ اپنے زور سے، اپنے وسائل کے ذریعہ یا اپنی ہمت سے اپنی ذمہ داریوں سے (جن کا میں نے مختصر اذکر کیا ہے ) ہم عہدہ برآ ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے سہارے کے بغیر یہ ہو ہی نہیں سکتا اور ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی ایسا سوچ نہیں سکتے.دراصل سہارے کی ضرورت دو وجہ سے پیدا ہوتی ہے.ایک اس لئے کہ جو کام سپر د کیا گیا ہو، وہ انسان کی اپنی طاقت سے باہر ہوتو پھر وہ کسی غیر کا سہارا ڈھونڈتا ہے.دوسرے یہ کہ انسان کے راستے میں جور کا وٹیں ہوں، ان کو دور کرنے کی ہمت یا وسیلہ نہ ہو تو پھر بھی اپنے علاوہ کسی اور کے سہارے کی اسے ضرورت محسوس ہوتی ہے.کامیاب ہونے کے لئے بھی اور کامیابی کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں ، انہیں دور کرنے کے لئے بھی اگر دل میں یہ احساس ہو کہ ہم خود ایسا نہیں کر سکتے ، نہ اپنے زور بازو سے کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ اپنی ہمت سے دشمن کی ساری روکیں ، جو اسلام کے غلبہ کی راہ میں آج وہ کھڑی کر رہا ہے، دور کر سکتے ہیں تو پھر انسان خود کو کسی سہارے کا محتاج محسوس کرتا اور پاتا ہے.دنیا دار لوگ جو اپنے پیدا کرنے والے رب کو پہچانتے نہیں، وہ سائنسی علوم کا سہارا ڈھو وہ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اکٹھی کی ہوئی دولت اور اموال کا سہارا ڈھونڈتے ہیں.وہ اپنے جتھوں کا سہارا اور جائز اور 759

Page 777

اقتباس از خطاب فرموده 09اکتوبر 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ڈھونڈتے ہیں.وہ اپنے سمجھوتوں اور معاہدوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں.بعض قو میں ملا کر ایک گروپ بنالیتی ہیں اور مجھتی ہیں کہ اس طرح انہیں سہارا مل گیا.لیکن یہ چیزیں سہارے کے لائق نہیں ہیں، ہم ان پر اعتماد نہیں کر سکتے.ہمارا دل تسلی نہیں پاتا کہ ان سہاروں سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں، اس لئے کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی وہ کام نہیں کرسکتیں، جو ہمارے سپرد ہے.لیکن دنیا کی طاقتیں ہمیں نہیں ملیں.اور ساری دنیا کے اموال بھی وہ کام نہیں کر سکتے ، جو ہمارے سپرد کئے گئے ہیں.اور دنیا کے اموال بھی ہمیں نہیں ملے.اور یہ اتنا عظیم کام ہے کہ انسان کے تخیل سے بھی بالا ہے.جس طرح نشأة اولی کے مسلمان یہ بات دماغ میں بھی نہیں لا سکتے تھے، وہ سوچتے ہوں گے تو دماغ چکراتا ہوگا.ان کے دماغ میں بھی نہیں آتا تھا کہ چند مٹھی بھر لوگ اسلام کو غالب کیسے کریں گے؟ سرداران مکہ کے ساتھ جو پہلی جنگ ہوئی ، اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین سو اور کچھ مسلمان میدان جنگ میں گئے تھے.یعنی اسلام کے لئے جانیں قربان کرنے کے لئے اس وقت ساری دنیا میں صرف تین سو اور کچھ مسلمان تھے.اور سارا عرب ان کے مخالف تھا.وہ سوچتے ہوں گے، خدا تعالیٰ نے وعدے تو بڑے کئے ہیں مگر ہم چیونٹی کے برابر بھی نہیں.یہ اگر ہمیں اپنے پاؤں تلے مسلیں تو ہمارا کچھ بھی باقی نہ رہے.منافق بھی اعتراض کر دیتا تھا کہ بڑے وعدے کئے گئے ہیں لیکن سامان نہیں دیئے گئے.منافق کی آنکھ ظاہر کو دیکھ رہی تھی ، مومن کی آنکھ باطن پر پڑ رہی تھی.وہ اپنے اللہ کی قدرتوں کو دیکھتا اور اس کی صفات کو پہچانتا تھا، اس کی قدرتوں پر بھروسہ رکھتا تھا.اسی طرح آج پھر ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کیا جائے گا.اور دنیا کی سب قو میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھجنے لگیں گی اور خدائے واحد و یگانہ کی پرستش ملک ملک شہر شہر اور قریہ قریہ ہونے لگے گی.دہریت بھی منادی جائے گی اور شرک بھی دنیا سے نابود کر دیا جائے گا.البتہ جس طرح عجائب گھر میں چیزیں رکھی جاتی ہیں، اسی طرح کچھ انسان ایسے بھی رہیں گے ، جود ہر یہ ہوں گے اور کچھ انسان ایسے بھی رہیں گے، جو مشرک ہوں گے.مگر ان کی حیثیت ایسی ہوگی، جو عجائب گھر میں نمونہ کے طور پر رکھی جانی والی چیزوں کی ہوتی ہے.انسان بحیثیت مجموعی اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف واپس آئے گا اور اس کی حمد کے ترانے گانے لگے گا.یہ وعدہ ہے، جو ہم سے کیا گیا ہے.لیکن جب ہم غور کرتے ہیں تو اس عظیم بشارت کے نتیجہ میں جس قربانی کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے، وہ چیز میں اپنے پاس نظر نہیں آتی.نہ وہ طاقت ہے اور نہ وہ جنتھہ 760

Page 778

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 109اکتوبر 1971ء ہے اور نہ وہ مال ہے اور نہ وہ وسیلہ ہے.(یہی ذرائع ہیں، جن کی بناء پر ) انسانی عقل آج ظاہری طور پر یہ سمجھتی ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں گی.مگر یہ ذرائع نہیں نہیں دیئے گئے.دنیا کے یہ اموال ہمیں نہیں دیئے گئے ، دنیا کا اقتدار ہمیں نہیں دیا گیا، نہ اس اقتدار کے لئے ہمارے دلوں میں کوئی محبت اور پیار پیدا کیا گیا.ہمارے مخالف کو یہ سب کچھ دے دیا.مثلاً عیسائی پادریوں کے پاس اتنی دولت ہے اور اتنے سامان ہیں اور اسی طرح دہر یہ کمیونسٹوں کے پاس.اور ان کے مقابلے کا حکم اور ان پر غالب آنے کی ہمیں بشارت.لیکن سامان ہمارے پاس نہیں.اپنے ذرائع کو دیکھیں ، اپنی عقل کو دیکھیں، اپنے علم کو دیکھیں ، تب بھی مشکل نظر آتی ہے.اسلام کا جو دشمن ہے، اس کے ذرائع کو دیکھیں، ان کے جذبے کو دیکھیں کہ لاکھوں پادری اور لاکھوں نز ( عورتیں جنہوں نے باطل کے لئے زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں ) ساری دنیا میں پھیل کر اسلام کے خلاف دجل پھیلا رہی ہیں.اور ہمارے پاس نہ اتنے آدمی ہیں اور نہ اتنے وسائل.اور جو ہمیں کام کرنا ہے، وہ عظیم الشان ہے.مثلاً قرآن کریم کی اشاعت ہے.یورپ میں اور افریقہ میں بھی ، قریباً سارے ملکوں میں ( شاید مسلمان ملکوں کے علاوہ) ہر ملک میں ہر ہوٹل کے ہر کمرے میں بائبل کا ایک نسخہ موجود ہے.اگر ہم ہر ہوٹل کے ہر کمرے میں قرآن مترجم کا ایک نسخہ رکھنا چاہیں تو اس کے لئے شایدار بوں روپے کی ضرورت ہو.یہ اور بات ہے کہ اگر ایک ہزار یادس ہزار آدمی اس قسم کے کمرے میں ٹھہریں اور ان میں سے شاید ایک آدمی ہو، جسے بائیل سے دلچسپی ہو.لیکن جس آدمی کو دلچسپی ہے اور ہو پڑھنا چاہتا ہے، اس کے لئے بائبل اس کمرے میں موجود ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ اگر میں ہزار میں سے ایک شخص ایسا ہو کہ جسے قرآن کریم کے علوم پڑھنے یا انہیں دیکھنے میں دلچسپی ہو اور کسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہو تو اس کے لئے قرآن کریم کے نسخے کا وہاں موجود نہ ہونا ، بڑی شرم کی بات ہے.لیکن ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں.اور ہمارے وسائل سے باہر کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر نہیں ڈالی.البتہ اس نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے کہ جتنا ہم نے تمہیں دیا ہے، طاقت کے لحاظ سے ، ہمت کے لحاظ سے ، عزم کے لحاظ سے، جرات کے لحاظ سے، مال کے لحاظ سے، وسائل کے لحاظ سے، اتنی تم کوشش کر لو.اس کوشش میں جو فرق رہ جائے گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، وہ میں پورا کر دوں گا.اور اس کوشش سے مراد وہ کوشش ہے، جو کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہے.اور اس کوشش سے مراد یہ ہے کہ جو تمہاری طاقت ہے، اتنی کوشش کر دیکھو.( مطبوعه روز نامه الفضل 03 فروری 1972 ء ) | 761

Page 779

اقتباس از خطاب فرموده 09 اکتوبر 1971ء " تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم.پس آپ کسی اور کی طرف نگاہ نہ کریں محض اللہ اور اللہ تعالیٰ ہی ہے، جس پر تو کل کیا جا سکتا ہے.اور اللہ تعالیٰ ہی ہے، جس پر ہم اسی کے فضل سے تو کل کرتے رہیں گے، جب تک کہ وہ اپنے فضل اور رحمت اور اپنی قدرتوں کے نتیجہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہر دل میں گاڑ نہیں دیتا.اور اور اور ل ا ا اور ہر زبان پر اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے نہیں گائے جاتے.اب ہم دعا کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سے جو کام لینا چاہتا ہے، ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.وہ جو چاہتا ہے، ہم ویسا بن جائیں اور وہ ہم پر جو فضل کرنا چا ہے، ہم اس کی نگاہ میں ان فضلوں کے حقدار اور سزاوار ٹھہریں.آمین.762 مطبوعه روزنامه الفضل 05 فروری 1972ء)

Page 780

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء نصرت جہاں ریز روفنڈ ایک اور سنگ میل ہے خطاب فرمودہ 15 اکتوبر 1971ء برموقع سالانہ مرکزی اجتماع مجلس انصاراللہ وو خلیفہ وقت کا کام ہے، وہ جماعت سے محنت کرواتا ہے.دوست ایک قربانی دیتے ہیں تو وہ ان سے ایک بڑی قربانی کا مطالبہ کر دیتا ہے.چنانچہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ پچھلے چند سالوں میں اتنا Momentum ( مومینٹم ) یعنی غلبہ اسلام کی شاہراہ پر ہماری جو حرکت ہے، اس میں اتنی شدت پیدا ہو چکی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.جس دن فضل عمر فاؤنڈیشن شاہراہ غلبہ اسلام پر حرکت میں آئی تھی ، اس کی نسبت بہت زیادہ حرکت جماعت کے دوسرے اداروں میں پیدا ہو چکی ہے.مثلاً پچھلے سال نصرت جہاں آگے بڑھو کے لئے جس مال کی ضرورت تھی، اس کی خاطر میں نے نصرت جہاں ریز روفنڈ جاری کیا.چنانچہ اس مالی تحریک کے علاوہ وصیت کے چندے، عام چندے، تحریک جدید کے چندے، وقف جدید کے چندے، خدام الاحمدیہ کے چندے، انصار اللہ کے چندے اور لوکل جماعتوں کے چندے تھے.اور پھر ان کے علاوہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے 33لاکھ روپیہ دے کر دوست بظاہر تھکے ہوئے تھے.مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی تھی اور خود راہنمائی فرمائی تھی کہ تم جماعت سے قربانی لو میری یہ قوم بشاشت سے قربانی دیتی چلی جائے گی.چنانچہ وہ لوگ جو دنیا کی نگاہ میں تھکے ہوئے سمجھے جاتے تھے، انہوں نے فضل عمر فاؤنڈیشن سے کہیں زیادہ مال نصرت جہاں ریزروفنڈ میں دے دیا." جس وقت مال آتا ہے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ دنیا میں ہر قسم کے ذہن ہوتے ہیں.مسلمانوں میں بھی تاجرانہ ذہن پایا جاتا ہے.بنیا ہونا صرف ہندو کی اجارہ داری نہیں ہے.مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہیں ، جو بڑے تاجرانہ ذہن رکھتے ہیں.ایسے تاجرانہ ذہنوں کو فکر پڑ گئی کہ پیسہ آ گیا ہے، اس کو تجارت میں لگنا چاہیے، ورنہ یہ بڑھے گا نہیں.میرے پاس ایک سے زیادہ دوست آئے.انہوں نے کہا کہ روپیہ جمع ہے، اسے تجارت میں لگائیں.آج کل بعض کمپنیاں اچھی ہیں.اگر وہ مل جائیں اور ان میں پیسہ تجارت میں لگایا جائے تو دس فیصد تک نفع مل جاتا ہے.میں نے ان کی بات سنی ( میں ہر ایک کی بات 763

Page 781

اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم آرام سے سنتا ہوں) اور مسکرا کر کہا کہ جس ہستی سے میں تجارت کر رہا ہوں، مجھے امید ہے کہ وہ مجھے دس فیصد سے کہیں زیادہ نفع دے گا.میں تو اس سے 300 فیصد نفع کی امید لگائے بیٹھا ہوں.اس لیے اگر آپ 300 فیصد سے زیادہ نفع کسی اور جگہ سے لے دیتے ہیں تو پھر ہم تھوڑا سا پیسہ وہاں بھی لگا دیں گے.مگر یہاں 300 فیصد کون دیتا ہے؟ خیر وہ تو ہوا.جماعت سے میں نے کہا تھا کہ خرچ کر دینا ہے.افریقہ میں بھی یہی کہا تھا.لیکن مجھے پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ” تجارت کا محاورہ ویسے ہی استعمال نہیں کیا.جو اللہ تعالیٰ سے تجارت کرتا ہے، وہ گھاٹے میں کس طرح رہ سکتا ہے؟ صرف ایک مثال دے دیتا ہوں.اس کی تفصیل میں آگے چل کر بتاؤں گا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح فضل کیا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ وہ ہماری کمر پر ہاتھ رکھیں اور ہمیں آگے ہی آگے تیزی سے چلاتے چلے جائیں.مغربی افریقہ کے ایک ہیلتھ سنٹر (جس کی میں مثال دے رہا ہوں اور وہ دوسروں سے نسبتاً اچھا ہے) کے جاری کرنے پر ہم نے ڈیڑھ ہزار پونڈ خرچ کیا.( یہ سب خرج بیرون پاکستان کی جماعتوں کے چندہ سے کیا جاتا ہے.دس فیصد کے لحاظ سے ڈیڑھ ہزار پونڈ پر میں ڈیڑھ سو پونڈ سال کا نفع ہونا چاہیے تھا.یعنی اگر ہم یہی ڈیڑھ ہزار پونڈ کسی اچھی کمپنی میں لگا دیتے تو سال کے بعد وہ کمپنی ہمیں ڈیڑھ سو پونڈ نفع دے دیتی.مگر اللہ تعالیٰ نے ڈیڑھ ہزار کے اوپر ہمیں پانچ مہینے کے بعد جو نفع دیا، وہ چھ ہزار پونڈ ہے.پھر یہ تو ایک مالی چیز ہے.اصل چیز عوام کی خدمت ہے.اس سے وہاں ایک جوش اور پیار پیدا ہو رہا ہے.(جوش کام کے لیے اور پیار ان خادموں کے کام کے ساتھ ) اصل بنیادی چیز اسلام ہے، جس کے ساتھ ہم پیار پیدا کرنا چاہتے ہیں.اور جس کے نتیجے میں خدائے واحد و یگانہ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیار پیدا ہو گا.عیسائی باشندے ہیلتھ سنٹرز کے لیے ہمیں زمینیں دے رہے ہیں اور پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ جلد ہسپتال کھولے جائیں.اور ابھی وقت بھی کیا ہوا ہے.میں پچھلے سال مئی میں افریقہ سے واپس آیا تھا اور اس طرح قریباً چودہ مہینے ہوئے ہیں.اور وعدہ میں نے یہی کیا تھا کہ اگلے پانچ سال کے لیے سکیم بنار ہے ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ کم از کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کردو.اور اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء گیمبیا میں مجھ پر ظاہر ہوا تھا.اور یہ اس وقت ظاہر ہوا تھا، جب میرے اس کام کے لیے لاکھ آنہ بھی نہیں تھا.لیکن مجھے کوئی گھبراہٹ اس لیے نہیں ہوئی کہ جب خدا تعالیٰ جو تمام دولتوں کا مالک ہے، وہ کہتا ہے تو وہ مجھے دے گا بھی.چنانچہ میں نے لندن آکر بھی یہی اعلان کیا تھا اور یہاں آکر بھی یہی اعلان کیا کہ مجھے یہ فکر نہیں 764

Page 782

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء کہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ دولتوں کا اصل مالک ہے.اس نے کہا ہے تو وہ دے گا.کیونکہ اس کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے.یا مجھے ی فکر نہیں تھی کہ آدمی کہاں سے آئیں گے؟ چند سال ہوئے ، میں نے تحریک جدید کو کہا کہ تم وہاں اور ڈاکٹر ز کیوں نہیں بھیجتے ؟ تو تحریک نے کہا کہ کوئی ڈاکٹر ہی نہیں ملتا، ہم بھیجیں کیسے؟ اور وہاں میں وعدہ کر آیا تھا ، چھ ملکوں کے لیے کم سے کم 18 ڈاکٹروں کا.اور یہ کہتے تھے کہ ہمیں وہاں بھیجنے کے لیے ایک ڈاکٹر بھی نہیں ملتا.لیکن مجھے کوئی فکر نہیں تھا.بلکہ مجھے یقین تھا کہ جب خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ وہاں ڈاکٹر ز بھیجے جائیں تو ڈاکٹر آئیں گے.کیونکہ میں نے ڈاکٹر پیدا نہیں کرنے ، اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے.جتنے سکولوں کا میں نے وعدہ کیا تھا، نیز یہ جو ہیلتھ سینٹرز ہیں، ان کا یعنی سکولوں اور ہسپتالوں کا پانچ سالہ بجٹ ایک کروڑ ، چالیس لاکھ روپیہ ہے.اور اس کا چندہ بصورت وعدے نصرت جہاں ریز روفنڈ 48لاکھ کے قریب پہنچا ہے اور خرچ ایک کروڑ ، چالیس لاکھ روپے کا ہے.باقی قریبا نوے لاکھ روپے کہاں سے آئیں گے؟ مگر مجھے فکر نہیں تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیے کہ اب یہی ہیلتھ سنٹرز روپیہ کما رہے ہیں.اور ان کے ذریعہ جو کمایا جاتا ہے، وہ وہیں ان لوگوں پر خرچ کر دیا جاتا ہے.کیونکہ ہم exploitation میکس پلائیٹیشن ) کے لیے وہاں نہیں گئے.ہم اسلام کی محبت پیدا کرنے کے لیے گئے ہیں.اور اسلام کی محبت پیدا ہی نہیں ہو سکتی، اگر آپ ایک دھیلہ بھی وہاں سے نکالیں.پھر تو وہ کہیں گے تم تو ہمارے پیسے کے لالچ میں یہاں آئے تھے.ہم ان سے کہتے ہیں، ہم پیسہ کی لالچ میں نہیں آئے ، ہم خدمت کے جذبہ سے آئے ہیں." ( مطبوعه بروزر نامه الفضل 10 فروری 1972ء) نائیجیریا میں ڈاکٹروں کا ایک crisis ( کرائسز ) پیدا ہوا اور ہماری پریشانی کا باعث بنا.ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیونکہ یعقو بوگون بڑے پیار سے ملے تھے.میں نے ان سے بھی اپنی سکیم کے متعلق باتیں کی تھیں اور وہ بڑے خوش تھے.اب وہ ہمیں ڈاکٹروں کے لئے ریزیڈنشل رمٹ نہیں دے رہے تھے.میں بڑا پریشان تھا کہ بات کیا ہے؟ شاید بیچ میں کوئی ایسا متعصب آدمی آگیا ہے، جو رعب ڈال رہا ہے.فکر تھا کہ کیا بات ہے؟ بعد میں یہ پتہ لگا کہ وہاں افریقن ڈاکٹر جو گورنمنٹ کے نوکر تھے، انہیں یکدم یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ہم استعفی دے کر اپنی پریکٹس کریں تو زیادہ کما سکتے ہیں.چنانچہ انہوں نے استعفے دینے شروع کر دیئے.جس سے حکومت نایجیریا کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ بہت سارے 765

Page 783

اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہسپتال بند کرنے پڑیں گے.غرض انہوں نے ہمارے ڈاکٹروں کو روک دیا اور کہا کہ ہم اجازت نہیں دیتے.اور وجہ یہ بتائی کہ جس نے ہاؤس جاب نہیں کیا ، اس کو ہم اجازت نہیں دیں گے.اب ہاؤس جاب تو سارے ڈاکٹر نہیں کرتے.بعض ڈاکٹروں کی پندرہ پندرہ سال کی پریکٹس ہے.اور یہ پندرہ سال کی پریکٹس ہاؤس جاب سے بہر حال زیادہ کوالیفکیشن ہے.ہاؤس جاب تو صرف ایک سال کا ہوتا ہے.مگر پھر بھی انہوں نے کہا کہ نہیں ، ہم نے اجازت نہیں دینی.اتفاق کی بات ہے اور یہ بھی خدا کی شان ہے کہ مجھے خیال آیا کہ میں اپنے مشن کو لکھ دوں کہ ان سے کہو کہ اپنے ہسپتالوں میں ہمارے ڈاکٹروں کو ہاؤس جاب کروا دو.خیال یہ تھا کر ممکن ہے، ان کو ڈاکٹروں کی ضرورت ہو.ادھر ہمارے مبشر انچارج نے لکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ ہم کر سکتے ہیں.غرض وہ اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتے تھے.میرے ساتھی کچھ گھبرائے تو میں نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے.ہم نے وہاں سردست چار ہیلتھ سنٹر کھولنے تھے.مگر اب ہم ان کو لکھ رہے ہیں کہ ہم دس ڈاکٹر بھیجتے ہیں، جنہیں تم ہاؤس جاب کرواؤ اور ایک سال کے بعد ان کو فارغ کر دینا.اگر وہ دس، بارہ کی اجازت دے دیں تو وہاں سولہ ہیلتھ سنٹر کھل جائیں گے.اس وقت سوال تھا پیسے کا، وہ اللہ تعالیٰ نے دے دیا ہے.جماعت نے پہلے سے زیادہ قربانی کی ہے اور اس طرح غلبہ اسلام کی اس مہم کی حرکت میں بڑی شدت پیدا ہورہی ہے.اور اس سے ہم امید رکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا عنقریب ساری دنیا کے دل میں گاڑھ دیا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اس وقت تک جو ڈاکٹر وہاں پہنچ چکے ہیں، ان کی تعداد چودہ ہو چکی ہے.جو تیار ہیں اور روانہ ہونے والے ہیں، ان کی تعداد چار ہے.یعنی سولہ کا وعدہ کر کے آیا تھا، پانچ سال کے لئے اور سولہ کی بجائے اٹھارہ ڈاکٹر ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میں پہنچ جائیں گے.ایک اس کا اثر اور ہوا.وہاں کے پیرا اماؤنٹ چیف پہلے یہ سمجھتے تھے کہ امام جماعت احمدیہ آئے ہیں، ان کے دل میں پیار تو بڑا ہے لیکن انہوں نے ایسا وعدہ کیا ہے کہ جسے یہ اتنی جلدی پورا نہیں کر سکیں گے.ان کے دل میں چونکہ یہ خیال تھا، اس لئے وہ آرام سے بیٹھے ہوئے تھے.جب ہمارے ڈاکٹر پہنچنے لگے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اور ڈاکٹر دیں، ہم زمین دیتے ہیں، ہم اور help (ہیلپ ) کرتے ہیں، ہم حکومت سے اجازت لے کر دیتے ہیں، ہمیں اور ڈاکٹر ز دیں.پس اس وقت تک 19 اور ڈاکٹروں کا مطالبہ آچکا ہے.ان 18 کے علاوہ، جن میں سے اکثر پہنچ چکے ہیں اور کچھ پہنچنے والے ہیں.اس کی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے ہی فضل سے ہمارا کام بڑی جلدی سے کر دیا اور اس میں برکت ڈال دی.766

Page 784

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء ایک امریکن غانا میں ریسرچ سکالر کے طور پر کام کر رہا ہے.اس نے ایک افریقن عورت سے شادی کی ہوئی ہے.وہ مجھے نیچی من (غانا) میں ملا تھا.یہ نیچی من وہ جگہ ہے، جہاں حال ہی میں ہمارا ایک ہیلتھ سنٹر کھلا ہے.چند روز ہوئے ، اس کے متعلق الفضل میں چھپا ہے.میرے دورے کے وقت یہ امریکن وہاں نیچی من میں بھی آیا ہوا تھا.اب وہ سیاحت پر ہے، مجھے یہاں بھی ملا.یہاں میرے سامنے تو بات نہیں کی لیکن ہمارے دوستوں سے کہنے لگا کہ انہوں نے مغربی افریقہ کے ممالک میں جو پروگرام بتایا ہے، ہم نے سوچا کہ اگر ہم اتنا بڑا پروگرام طے کرتے تو باوجود ساری دنیا کی دولت ہمارے پاس ہونے کے، ہم اس کو تین سال میں مکمل کر سکتے تھے.مگر ابھی تو ایک سال بھی نہیں گزرا کہ آپ کے کام شروع ہو گئے ہیں.تم کس طرح اور کیا کرتے ہو؟ ہمیں تو سمجھ نہیں آرہی.غیر کیا جانے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل کب، کس پر اور کیوں نازل ہوگا؟ یہ امر انسان کے دماغ میں بھی نہیں آتا.یہ تو اس کو پتہ لگتا ہے، جس پر فضل نازل ہو رہا ہوتا ہے.ٹیچی من میں ایک بہت بڑا عیسائی پیرا ماؤنٹ چیف ہے، یہ اپنے علاقے کا صدر بھی ہے اور کنگ کہلاتا ہے.اور نانا کے پیرا ماؤنٹ چیف کی جو مجلس ہے، جسے انہوں نے ابھی تک روایتا رکھا ہوا ہے، اس مجلس کا یہ نائب صدر ہے.یعنی چیف کے لحاظ سے سارے نانا میں یہ دوسرے نمبر پر ہے.غرض یہ اتنا بڑا چیف اور عیسائی ہے.بایں ہمہ اس نے ہمیں اڑھائی سو ایکٹر زمین مفت دی ہے.اور جب میں وہاں گیا تھا تو اس نے جو ایڈریس پڑھا، وہ اس طرح لگتا تھا کہ گویا کسی احمدی کا لکھا ہوا ہے.ٹیچی من میں کیونکہ عیسائی پہلے سے پہنچے ہوئے ہیں، یہاں عیسائیوں نے دو بڑے ہسپتال بنارکھے ہیں.ایک کیتھولک ہسپتال ہے اور دوسرا کسی اور عیسائی فرقے کا ہے.اس وقت میرے ذہن میں نہیں کہ وہ کس فرقے کا ہے.بہر حال ان دونوں ہسپتالوں میں یورپین ڈاکٹر ز ہیں.چنانچہ جس وقت میں نے اپنی جماعتوں کے دوستوں سے کہا کہ ٹیچی من میں ہیلتھ سنٹر کھولو تو وہ مجھے اصل وجہ تو بتا ئیں نہ اور کہیں یہاں مناسب نہیں ہے.پھر مجھے یہاں خط لکھنے شروع کیے کہ یہ جگہ مناسب نہیں ہے.اس سے تو فلاں جگہ اچھی ہے.اگر آپ اجازت دیں تو وہاں کھول دیں.میرے دماغ نے فیصلہ کیا تھا کہ اس جگہ ہیلتھ سنٹر ضرور کھلنا چاہیے.کیونکہ شیچی من ایک مرکزی نقطہ بنتا ہے.اس کے لحاظ سے کہ اس کے جنوب مشرق اور مغرب میں عیسائی اور بت پرست ( پیکن زیادہ ہیں اور مسلمان نسبتا کم اور شمال میں مسلمانوں کی اکثریت ہے.اور یہ ایک مرکزی کا نقطہ ہے.عیسائیوں نے وہاں اپنا سارا زور لگایا ہوا تھا.کیونکہ وہ بت پرستوں کو عیسائی بنارہے تھے.اور مسلمانوں کے بچوں میں اپنا دجل پھیلا رہے تھے.ہماری جماعت کے دوستوں کا یہ خیال تھا کہ وہ مشن ہسپتال ہیں، جن کی اچھی عمارتیں ہیں، جن میں یورپین ڈاکٹر ز بیٹھے ہوئے ہیں.یہ زور لگا ئیں گے 767

Page 785

اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اور حکومت ہمارے ہسپتال کو روک دے گی.جس سے ہماری سبکی ہوگی.مگر میرا دل کہتا تھا کہ میں نے یہیں ہسپتال بنانا ہے.چنانچہ وہ مجھے بار بار خط لکھ رہے تھے کہ یہ جگہ مناسب نہیں ہے، فلاں جگہ مناسب ہے، وہاں ہسپتال ہونا چاہیے.میں نے کہا کہ جب میں نے فیصلہ کر دیا ہے تو وہیں بنے گا.چنانچہ میں نے یہاں سے ڈاکٹر بشیر صاحب کو بھیج دیا.وہ سرحد کے رہنے والے ہیں اور بڑے مخلص ہیں.انہوں نے بڑا ہی اچھا کام کیا ہے.چنانچہ اس علاقے کا جو عیسائی ہیلتھ آفیسر تھا، اس نے ہمارے حق میں رپورٹ دے دی.اور رپورٹ دے کر وہ خود چھٹی پر چلا گیا.اس کی جگہ عارضی طور پر جو دوسرا آدمی آیا، وہ بڑا متعصب تھا.اس نے عیسائی پادریوں اور ڈاکٹروں سے مل کر مرکزی حکومت پر زور دینا شروع کیا کہ ان کو ہسپتال کھولنے کی اجازت نہ دو.چنانچہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا.پھر انہوں نے مجھے لکھنا شروع کیا کہ یہاں یہ قصہ ہے.میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا، تم گھبراتے کیوں ہو؟ چار، پانچ مہینے تک یہ ہی حالت رہی.مگر انہوں نے اس عرصے میں ہمارے ڈاکٹر کاریذیڈنٹ پرمٹ منسوخ نہیں کیا.کیونکہ پہلا ہیلتھ آفیسر یہ رپورٹ کر چکا تھا کہ عمارت بھی مناسب ہے اور ڈاکٹر بھی اہل ہے.چنانچہ حکومت نے کہہ دیا کہ جب تک ہم اجازت نہیں دیتے ، اس وقت تک یہ ڈاکٹر پریکٹس کرے، ہم کچھ نہیں کہیں گے.چنانچہ اس نے پریکٹس شروع کر دی.پریکٹس کے دوران ایک دن کی تھولک کے علاوہ عیسائیوں کے دوسرے فرقے کا جو ہسپتال تھا، اس کا یورپین ڈاکٹر اچانک مر گیا اور ان کے پاس کوئی ڈاکٹر نہ رہا.اور یہ جو کیتھولک ڈاکٹر تھا، یہ ایک دن بیمار پڑ گیا.اور اسی دن ایک بڑی خطرناک مریضہ کا کیس آ گیا.اس پر انہیں مجبوراً رات کو ہمارے ڈاکٹر بشیر کے پاس درخواست کرنا پڑی کہ اس طرح ایک مریضہ آئی ہوئی ہے، تم ہمارے ہسپتال میں آکر اس کا آپریشن کر دو.انہوں نے آپریشن کیا اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوا.اور مریضہ اچھی ہو گئی.کچھ ایسے بھی مریض تھے، جن کو ان عیسائی ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دے رکھا تھا.جب ہمارا ڈاکٹر پہنچا تو مریض کے رشتہ دار (جو کہ ذرا سا بھی کہیں سے سہارا ملے تو اس کی تلاش کرتے ہیں ) ہمارے ڈاکٹر کے پاس آگئے.انہوں نے ان کا علاج کیا تو خدا کے فضل سے ان میں سے بہت سے اچھے ہو گئے.جنہیں عیسائی ڈاکٹر لا علاج قرار دے چکے تھے.اب یہ چیز تو کسی منصوبے کے اندر نہیں آتی.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جو آسمان سے نازل ہوتا ہے.پس اٹھارہ ڈاکٹروں کا تو میں نے وعدہ کیا تھا اور وہ بھی ان سے کہا تھا کہ انشاء اللہ پانچ سال کے اندرا نظام ہو جائے گا.مگر اب یہ اٹھارہ تو سمجھیں کہ پہنچ گئے ہیں.کیونکہ چودہ ڈاکٹر پہنچ چکے ہیں اور چار تیار ہیں، چند دنوں تک پہنچ جائیں گے.علاوہ ازیں انیس ڈاکٹروں کے اور مطالبے آگئے ہیں.اور اگر 768

Page 786

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء نائیجیریا نے ہمیں کہا کہ ہاؤس سرجن کے طور پر ڈاکٹر دے دو اور اس طرح ہماری مدد کرو تو شاید اللہ تعالیٰ اور بھی سامان پیدا کر دے.وو ( مطبوعه روزنامه الفضل 11 فروری 1972ء)...ہمارے احمدی ڈاکٹروں نے بڑی اچھی مثال پیش کی ہے.دنیا میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ مثلاً ایک ڈاکٹر جولندن میں قریباً چار سو پونڈ ماہانہ کمارہا تھا، وہ ساٹھ پونڈ ماہانہ پر وقف کرنے کے لئے تیار ہو گیا.میں نے اسے خود روکا ہوا ہے کیونکہ وہ ڈینٹسٹ ہے اور مجھے ابھی ان کی ضرورت نہیں تھی.ایک اور ڈینٹسٹ ڈاکٹر مجھے مل گئے تھے، ان کو میں نے گیمبیا بھجوا دیا ہے اور اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے.پاکستان میں نوری صاحب ہمارا ایک نوجوان ڈاکٹر ہے، پچھلے سال وہ یو نیورسٹی میں اپنے لاہور ایریا میں فرسٹ آیا ہے، اس نے زندگی وقف کر دی ہے.وہ بغیر ہاؤس جاب کئے جانے کے لئے تیار تھا.لیکن جب میں نے دوستوں سے مشورہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اگر اس کو higher qualification کے لئے امریکہ یا انگلستان بھیجنا ہو تو پھر اس کے لئے ہاؤس جاب کرنا ضروری ہے.چنانچہ میں نے اسے کہا کہ پہلے ہاؤس جاب کرو.غالبا ڈیڑھ ، دو مہینے تک اس کا ہاؤس جاب ختم ہو رہا ہے.اس کے متعلق میرا پروگرام یہ ہے کہ پہلے اسے وہاں بھجوا دیں گے، پھر تین سال کا عرصہ وہاں خدمت کرے گا.اس عرصہ میں پیسے بھی کمائے گا اور کچھ جوڑے گا اور پھر وہ لندن جائے گا.اور وہاں دو، اڑھائی سال میں higher degree لے گا.بلکہ میرا خیال ہے کہ وہ اس سے بھی جلدی لے لے گا.کیونکہ وہ ماشاء اللہ بڑا ذہین بچہ ہے.اللہ تعالیٰ اس کی ذہانت اور صحت کو قائم رکھے اور اسے لمبی زندگی عطا فرمائے.اسی طرح کئی اور نو جوان ڈاکٹروں نے اپنی زندگی وقف کر دی ہے.دنیا میں یہ بھی نہیں ہوا.دنیا تو بڑے بڑے جبہ پوشوں کو بھی مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ رہی ہے.لیکن یہ تو جماعت ہی اللہ تعالیٰ نے عجیب پیدا کر دی ہے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں دے گا اور ہمیں کچھ نہیں کرنا.خدا تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اپنا پورا زور لگا لو، پھر جو کمی رہ جائے گی، وہ میں پوری کر دوں گا.اب غلبہ اسلام کے لئے جتنی طاقت کی ضرورت ہے یا جتنی انسانوں کی اور جتنے مال و دولت کی ضرورت ہے، اس کا شاید کروڑواں حصہ بھی ہمارے پاس نہیں ہے.مگر آج ہمارے کان میں یہ آواز پڑ رہی ہے کہ جتنی ضرورت ہے، اس کا کروڑواں حصہ تم خرچ کر دو، باقی میں دے دوں گا.یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل اور رحم ہے.جہاں تک نئے سکولوں کے اجراء کا تعلق ہے، نایجیر یا پیچھے رہ گیا ہے.نائیجیریا میں کچھ جذباتی بات بھی آگئی تھی.حضرت مصلح موعودؓ نے شروع میں جب وہاں مبلغ بھیجے اور جماعت قائم ہوئی تو اس وقت 769

Page 787

اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم جو ہمارے دوست وہاں گئے تھے، ان کو یہ خیال آیا کہ یہاں سکول کھلنے چاہئیں.مسلمان بچے تعلیم میں بہت پیچھے ہیں.چنانچہ انہوں نے وہاں اسکول کھولے.وہاں کے مقامی لوگوں نے بھی مدد کی.جس وقت ہ اسکول آمد کا ذریعہ بن گئے تو بعض احمدی بھائیوں کو ٹھوکر لگی.کوئی کانسی ٹیوشن constitution بھی تک بنی نہیں تھی.اور عہدیداروہ تھے.اور چونکہ کانسی ٹیوشن کوئی نہیں تھی ، اس لئے لیگل کیس کوئی نہیں بنتا تھا.انہوں نے اسکول سنبھال لئے اور پیسے کھانے شروع کر دیئے.میں نے اپنی نائیجیرین جماعت سے کہا کہ میری غیرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان سے دگنے اسکول میں یہاں جلدی سے جلدی کھلوا دوں.سولہ ہائی سیکنڈری اسکول یعنی انٹر میڈیٹ کالج کا میں وعدہ کر کے آیا ہوں.ان کے علاوہ اور بھی ہیں.گیمبیا میں ایک اسکول کھل گیا ہے.صرف یہ ایک ہی نہیں اور کئی جگہ بہت سے اسکول کھلے ہیں.مثلاً اس عرصے میں غانا میں چار ہائر سیکنڈری اسکول کھل چکے ہیں.اور ان اسکولوں کو ہم انٹر میڈیٹ کالج کہہ سکتے ہیں.وہاں یہ ہائر سیکنڈری اسکول کہلاتے ہیں.یعنی بارہ سال کا کورس بلکہ شاید تیرہ سال کا کورس ہے.پس سیرالیون میں چار اسکول کھل چکے ہیں.نائیجیریا میں دو سکول کھل چکے ہیں.گیمبیا میں ایک اسکول کھل چکا ہے.غانا میں ایک اسکول کھل چکا ہے.ان کی کل تعداد آٹھ بنتی ہے.اور ان آٹھ اسکولوں کا خرچ یعنی جو شروع کا سرمایہ ہے، مثلاً بلڈنگ ہے، فرنیچر ہے اور دیگر سامان ہے، وغیرہ وغیرہ.پانچ سال کا خرچ فی اسکول ہیں ہزار پونڈ ہے.اور اس طرح اس سال آٹھ اسکولوں کے لئے ایک لاکھ، ساٹھ ہزار پونڈ سالانہ خرچ کا وعدہ اور عہد ہو چکا ہے.یعنی خرچ تو وہ پانچ سال میں ہوگا.کیونکہ ہر سال نئی کلاس نے کھلنا ہے.پہلے سال تو سارا خرچ کرنا ضروری نہیں ہوتا.کیونکہ پہلے سال ایک نویں کلاس ہی ہوتی ہے.(وہاں ہائیر سیکنڈری میں آٹھویں کلاس نہیں ہوتی.پھر دسویں، پھر گیارہویں، پھر بارہویں، پھر تیرہویں کلاس.غرض پہلے سال نویں کلاس ہوتی ہے، اس لئے شروع میں تھوڑا اخرچ کرنا پڑتا ہے.ان میں سے جو نائیجیریا کے جو اسکول کھلے ہیں، ان میں جنوری 1972ء میں دوسری کلاس آ جائے گی.تو پھر یہ چار اسکول بن جائیں گے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے، نایجیریا کے شمال مغرب میں سکو تو کا صوبہ ہے.وہاں کے گورنر نے لیگوس کا بینہ کی میٹنگ میں شامل ہونے کے لئے آتے ہوئے ائیر پورٹ پر اعلان کیا کہ ہم تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور اس واسطے ہم نے emergency declare ( ایمر جنسی ڈکلیئر کر دی ہے.اور پبلک کو چاہئے کہ وہ میرے ساتھ تعاون کرے.میں نے اپنے ایک دوست کو بھیجا، میں نے کہا، میری 770

Page 788

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء طرف سے اسے کہو کہ میں تعاون کرتا ہوں، چار اسکول کھولتا ہوں، آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں.اور دو قسم کا تعاون کریں.ایک یہ کہ زمین مفت دیں کیونکہ میں پاکستان سے زمین نہیں لاسکتا.اور دوسرا ریزیڈنشل پرمٹ دیں.کیونکہ اس کے بغیر ہمارے ٹیچر یہاں رہ نہیں سکتے.اس پر وہ بہت خوش ہوا اور ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا.چنانچہ ان چار میں سے دو اسکول ایک سال کے اندر کھل گئے اور ڈیڑھ سال کے اندر اندر چار بن جائیں گے.دراصل دولڑکوں کے کھولنے تھے اور دولڑکیوں کے.وہ تو حکومت کی ریڈ ٹیپ ازم ایسی چلی کہ لڑکوں کے اسکول کے لئے زمین مل گئی اور لڑکیوں کے لئے نہیں ملی.اور میں دونوں (یعنی لڑکے اور لڑکیوں کے اسکول) ایک ہی جگہ کھولنا چاہتا ہوں.اس واسطے میں نے وہاں میاں بیوی ٹیچرز کو بھجوانا ہے.اور اگر بیوی میاں سے 200 میل دور رہے تو محرم کے بغیر غیر ملک میں عورت کا اتنی دور رہنا، مناسب نہیں ہے.مگر وہاں کی لوکل جماعت کے ذہن میں خود ہی یہ آگیا اور انہوں نے بڑا اچھا کیا کہ شروع میں لڑکے اور لڑکیوں کو اکٹھا داخل کر دیا.کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ نویں جماعت میں لڑکے اور لڑکیاں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کے لئے الگ الگ سکول کی ضرورت نہیں.دسویں میں ہم دو کالج بنائیں گے.لڑکیوں کو ادھر لے جائیں گے (سیکنڈ ائیر میں ) اور لڑکے یہاں رہ جائیں گے.اور اس طرح چار اسکول ہو جائیں گے.پس جنوری 72ء میں نائیجیریا میں چار سکول ہو جائیں گے.اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ فضل کر رہا ہے اور ان ہی ممالک میں آمد کے ذرائع پیدا کر رہا ہے.اب ان کو خرچ کے لئے رقم کی ضرورت تھی.یہاں سے تو ہم بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ ملک میں فارن اینچ کی دقت ہے، اس لئے ہم یہاں سے کوئی پیسہ باہر نہیں بھیج سکتے اور نہ بھیج رہے ہیں.بعض لوگ بغیر سوچے سمجھے اعتراض کر دیتے ہیں کہ یہ ضرور کوئی شرارت کرتے ہوں گے.یہ نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں ہماری جماعتیں ہیں.بعض دیگر ممالک میں بھی وقتیں ہیں.جہاں سے ہم پیسے باہر نہیں بھیج سکتے.لیکن ہم انگلستان سے بھیج سکتے ہیں، جرمنی سے بھیج سکتے ہیں، سوئٹزر لینڈ سے بھیج سکتے ہیں، امریکہ سے بھیج سکتے ہیں.امریکہ نے 33 ہزار ڈالر کے وعدے کئے ہیں اور غالباً 12 ,10 ہزار ڈالر اس وقت تک وہ جمع بھی کر چکے ہیں.میں نے سہولت کی خاطر امریکہ اور continent ( کانٹی نٹ) کے جو پیسے ہیں، وہ سوئٹزرلینڈ میں جمع کرا دیئے ہیں.غرض بیرون پاکستان کی جو ہماری احمدی جماعتیں ہیں، وہ ان کو پیسے بھیجتی ہیں.البتہ ہم یہاں سے جو آدمی بھیجتے ہیں، ان کا کرایہ دیتے ہیں اور یہاں سے جتنی کتابیں قانو نا ساتھ جا سکتی ہیں، وہ ساتھ بھیجواتے ہیں.یا بعض دوسرا 771

Page 789

اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سامان بھی ہے.مگر ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے خرچ کرتے ہیں.خدا تعالیٰ فضل کرے اور یہاں ہمارا پریس لگ جائے تو ہمارا دل کرتا ہے کہ ہمارے پاس جتنے پیسے ہیں، یعنی پاکستان کی جماعت کا کل چندہ ساڑھے ستائیس لاکھ ہے.اس میں سے دولاکھ رکھ کر باقی پچیس لاکھ کی حکومت سے اجازت لے کر ایک سال کے اندراندر قرآن کریم شائع کر کے ساری دنیا میں پھیلا دیں.پس نصرت جہاں ریز روفنڈ ایک اور سنگ میل ہے اور اس میں ہماری دوڑ تیز ہوتی ہے.یہ عجیب بات ہے کہ انسانی جسم تو ایسا ہے کہ زیادہ دوڑے تو تھک جاتا ہے.مثلاً جس آدمی نے دس میل کی دوڑ لگائی ہو ، وہ دسواں میل بڑا آہستہ طے کرے گا.لیکن جو الہی جماعتیں ہوتی ہیں، وہ دسواں میل پہلے نویں میل سے زیادہ تیزی سے طے کرتی ہیں.اور ہم اس کا عملاً مظاہرہ کر رہے ہیں.ہمیں نظر آرہا ہے، ہماری حرکت میں اتنی تیزی اور شدت پیدا ہو گئی ہے کہ مجھے بعض دفعہ یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں بعض لوگ ڈگمگا نہ جائیں.جس طرح تیز دوڑنے والے آدمی کے متعلق یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے.بہر حال ہماری جد و جہد اور حرکت میں بڑی تیزی پیدا ہوئی ہے.اور یہ بڑے تھوڑے عرصہ میں پیدا ہوئی ہے.چنانچہ چودہ ڈاکٹروں نے کام شروع کر دیا ہے اور آٹھ اسکول کھل گئے ہیں.اور باقی ڈاکٹر تیار ہیں.( مطبوعه روز نامه الفضل 12 فروری 1972 ء ).اس وقت دنیا میں عیسائیت سے اسلام کی جو جنگ ہے، وہ دراصل افریقہ میں ہی لڑی جانے والی ہے.میں نے بڑا غور کیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا بھی یہی خیال تھا، میں نے عیسائیت اور اسلام کے نقطہ نگاہ سے ساری دنیا کا ایک جائزہ بھی لیا تھا، جس کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عیسائیت افریقہ میں پیچھے ہٹ رہی ہے.پہلے وہ ہمارے بچے اغوا کر کے لے جاتے تھے.اور اغوا کا مطلب یہ ہے کہ عیسائی سکول تھے، داخل ہوتا تھا محمد اور پہلے دن رجسٹر پر نام لکھا جاتا تھا ایم ( محمد کا اور ساتھ ) پیٹر اس کو کہتے تھے تم محمد ہو اور نام اس کا عیسائیوں والا رکھ دیتے تھے.پانچ سال کے بعد جب وہ سکول سے نکلتا تھا تو وہ عیسائی ہوتا تھا.نہ انجیل کا پتا، نہ اس کے اصول اور قواعد کا پتا.لیکن نام بدل دیا اور وہ اپنے آپ کو عیسائی کہنے لگ گیا.اب باپ بڑا مخلص مسلمان اور بیٹا نام کا عیسائی.بڑے آرام سے اور بغیر کسی جھگڑے کے وہ پیٹر بن گیا.اب گیمبیا سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں ہمارے سکول کا افتتاح ہو گیا ہے.وہاں سے یہ بھی اطلاع آئی ہے کہ وہاں کا جوسب سے بڑا یعنی لاٹ پادری ہے، اس نے اپنا بیٹا ہمارے اسکول میں داخل 772

Page 790

تحریک جدید- ایک المی تحریک...جلد چہارم - اقتباس از خطاب فرموده 15 اکتوبر 1971ء کروا دیا ہے.کسی نے اس سے کہا بھی کہ یہاں تو قرآن کریم ضرور پڑھائیں گے.اس نے کہا، بیشک پڑھائیں، میں تو اپنے بچے کو یہیں داخل کر اوؤں گا.علاوہ ازیں بعض پر اماؤنٹ چیف کے بچے والدین سے لڑتے ہیں کہ ہم نے احمدیہ میں داخل ہونا ہے.افریقہ کی زبان میں احمدیہ سے مراد احمد یہ سکول ہے.چنانچہ وہ خالی احمد یہ کہتے ہیں کہ ہم کو احمد یہ میں داخل ہونا ہے.یعنی ہم احمد پوں کے سکول میں جائیں گے.پس اللہ تعالیٰ بے حد فضل کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی اپنی استطاعت اور ہمت کے مطابق نصرت جہاں ریزروفنڈ میں عطیہ دینے اور نصرت جہاں آگے بڑھو کے لئے جانی اور وقتی جہاد کرنے کی توفیق عطا فرمائی.میں پہلے دن سے ہی یہ دعا کر رہا ہوں (میں نے پہلے بھی یہ اعلان کیا تھا اب بھی کرتا ہوں اور آپ بھی کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور کچھ پیش کر دینے سے کچھ نہیں بنتا، جب تک اللہ تعالیٰ کی قبولیت حاصل نہ ہو.اس واسطے آپ نے پیش تو کر دیا مگر وہ جوساری دولتوں کا مالک ہے، اس کے لئے آپ نے ہزار، دو ہزار تو دے دیا تو کیا دیا.لیکن اگر وہ اپنے فضل اور رحم سے ایک دھیلے کو قبول فرما لے تو آپ کو سب کچھ مل گیا.پس آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ قبول فرما لے.اور جس طرح اس نے اس وقت تک برکت ڈالی ہے، اس سے زیادہ برکت ڈالتا چلا جائے ہماری کوششوں میں.اور ہم آخری کامیابی کا دن جلد تر دیکھ لیں“.مطبوعه روز نامه الفضل 13 فروری 1972ء) 773

Page 791

Page 792

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خلاصه خطاب فرموده 17 اکتوبر 1971ء ہمارا فرض ہے کہ اسلام اور قرآن کی اشاعت کے لئے انتہائی کوشش کریں خطاب فرموده 17 اکتوبر 1971ء برموقع سالانہ اجتماع انصار الله 55 جولوگ قرآن کریم کی خدمت کرتے ہیں اور اس طرح غلبہ اسلام کی عملی جدو جہد میں حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ان پر انتہائی فضل کرے گا.وہ ان لوگوں میں شامل نہیں ہوں گے، جن سے متعلق فرمایا:.عَامِلَةً نَّاصِبَةٌ یعنی وہ اپنی محنت کا نتیجہ نہ پا کر تھکن سے چور ہو جاتے ہیں.بلکہ ان میں شامل ہوں گے، جن کے متعلق فرمایا:.وَجُوهٌ يَوْمَيذٍ نَاعِمَةٌ لِسَعْيِهَا رَاضِيَةً فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ لَا تَسْمَعُ فِيهَا لَا غِيَةً (الغاشیہ) یعنی ان کے چہروں سے خوشی اور مسرت پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہوگی.وہ اپنی کوششوں کا نتیجہ دیکھ کر مطمئن ہوں گے.اور وہ کبھی لغو باتوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کریں گئے."" جو کوششیں بھی دعاؤں کے حصار کے اندر رہ کر نہیں کی جائیں گی ، ان کا نتیجہ کبھی حقیقی خوشی کی صورت میں ظاہر نہیں ہو سکتا.حقیقی خوشی کی صورت میں ظاہر ہونے والا نتیجہ صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے، جو دعاؤں کے حصار میں رہ کر کوشش کرتے ہیں.اور جو لوگ غیر محد و دروحانی انعامات کے حصول کے لئے قرآن کی خدمت اور اس کی اشاعت میں حصہ لیتے ہیں ، وہ مسلسل کوشش کرتے ہیں.ان کی ہر کوشش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انہیں ایک خاص لذت اور سرور بخشتا ہے.لیکن ہر لذت اور سرور کے نتیجہ میں وہ پھر مزید کوشش کرتے چلے جاتے ہیں اور کبھی تھکتے نہیں.اور نہ اپنے وقت کو لغو باتوں میں ضائع کرتے ہیں.گویا انعامات کی لذت اور سرور اور کوشش اور جدو جہد متوازی چلتے چلے جاتے ہیں.اور خدا کے پیار کو حاصل کرنے کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ اسلام کی خدمت اور قرآن کی اشاعت کے لئے انتہائی کوشش اور محنت سے کام لے اور کوشش اور محنت کے تسلسل کو ہمیشہ قائم رکھے.تا کہ خدا کے پیار اور اس کی محبت کا تسلسل بھی قائم رہے“.مطبوعه روزنامه الفضل 19 اکتوبر 1971ء) 775

Page 793

Page 794

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 29 اکتوبر 1971ء تحریک جدید کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے خطبہ جمعہ فرموده 29 اکتوبر 1971ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو اپنی رحمتوں سے بے حد نواز نے والا ہے، میں تحریک جدید کے دفتر اول کے اڑتیسویں، دفتر دوم کے اٹھائیسویں اور دفتر سوم کے ساتویں سال کا اعلان کرتا ہوں.آج سے تین سال قبل جب تحریک جدید کا چندہ پانچ لاکھ، پچاس ہزار روپے تھا تو میں نے جماعت کو اس طرف متوجہ کیا تھا کہ جہاں تک میرا خیال ہے، جماعت پاکستان اس سے زیادہ چندہ دے سکتی ہے.اور اسے زیادہ دینا چاہیے.اور میرے اندازہ کے مطابق یہ رقم سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانی چاہیے تھی.لیکن اس سے اگلے سال (یعنی 69-1968 میں ) پانچ لاکھ، پچاس ہزار سے بڑھ کر صرف چھلا کھ نہیں ہزار اور پھر ایک سال کے بعد چھ لاکھ، پینسٹھ ہزار روپے تک پہنچی.اور جو سال ابھی ہم ختم کر رہے ہیں.اس میں چند گر کر پھر چھلا کھ اور میں ہزار روپے پر آ گیا ہے.اس کے متعلق ایک موٹی وجہ جو تحریک جدید نے مجھے بتائی ہے، وہ یہ ہے کہ چالیس ایسے احمدی دوست تھے، جن کا چندہ ایک ہزار روپے فی کس تھا اور اب گزشتہ سال میں (جسے ہم ختم کر رہے ہیں) انہوں نے ایک ہزار چندہ نہیں دیا.ان میں سے چار نے تو اس لئے نہیں دیا کہ ان کی وفات ہو گئی تھی اور باقی چھتیں نے مالی حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اپنے معیار کو قائم نہیں رکھا اور نہ وہ قائم رکھ سکتے تھے.ہم ان کے اوپر الزام نہیں دھرتے.لیکن جماعت پر یہ الزام آتا ہے کہ اگر ایک سال چالیس دوستوں کے مالی حالات ایسے نہ رہیں کہ وہ ایک ہزار چندہ تحریک جدید کو دے سکیں تو ان کی جگہ اور کھڑے ہونے چاہئیں.اور ہر سال چندے میں زیادتی ہونی چاہیے.کیونکہ جماعت کے مال میں تو بہر حال ترقی ہورہی ہے.اس لئے جماعت کو چالیس سے زیادہ ایسے دوست کھڑے کرنے چاہیے تھے، جو ایک ہزار یا اس سے زائد رقم تحریک جدید میں چندہ دیتے اور یہ کی نہ آتی.اس میں شک نہیں کہ یہ سال جو گذرا ہے، اس میں جماعت نے ایک اور مالی بوجھ ( اور وہ بھی معمولی نہیں ہے) اٹھایا.اور وہ نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریک ہے.جو نصرت جہاں آگے بڑھوں کے 777

Page 795

خطبہ جمعہ فرموده 29 اکتوبر1971ء منصور تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم مو بہ کو مالی سہارا دینے والی ہے.اس میں پاکستان کی جماعت نے گذشتہ سال قریباً بارہ، تیرہ لاکھ دیا.اس لئے عذر معقول بھی ہے.لیکن کسی نئے کام میں ہاتھ ڈالنے کے یہ معنی نہیں ہوا کرتے کہ جو کام ہو رہا ہے، اس میں رکاوٹ پیدا ہو جائے.تحریک جدید کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے.اور ہماری ضرورتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں.ان بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا اور کرتے رہنا، یہ جماعت کا فرض ہے.اور جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے.اور اللہ تعالیٰ جس حد تک توفیق دے، اپنے مالوں کو (جو دراصل اپنے نہیں ) اس کے حضور پیش کر دینا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کے ایک معنی یہ بھی کئے ہیں کہ یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے.بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.غرض مال جب ہمارا ہے ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے تو پھر یہ تو اس کا احسان ہوا کہ اس نے ہمیں فرمایا کہ یہ مال میں تمہیں دیتا ہوں اور تم اس میں سے میری راہ میں خرچ کرو اور میں تمہیں ثواب دوں گا.مثلاً جس طرح ایک چھوٹا بچہ جو بھی کما نہیں رہا، پانچویں یا چھٹی یا ساتویں میں پڑھ رہا ہے، اس کے والدین اسے ایک روپیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جا کر وقف جدید کے چندے میں دے دو.اب وہ روپیہ اس نے کما کر نہیں دیا.لیکن اس طرح ایک عادت پڑی اور ثواب کا ایک ذریعہ بن گیا.پس یہ سمجھنا کہ باپ تو بچے کے لئے ثواب کے سامان پیدا کرنے کا اہل ہے اور اس کی توفیق رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا یا نہیں کر سکتا، یہ غلط ہے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ایسا کرتا ہے.باپ نے تو وہ اٹھنی یا روپیہ بھی جو دیا، اس کا اپنا نہیں تھا.کیونکہ سے تو کچھ نہ لائے جو اللہ تعالیٰ نے مال اسے دیا تھا، اس میں سے ایک تو اس نے اس رنگ میں دیا کہ اس خدمت کو اپنی طرف منسوب کر لیا اور کہا کہ میں نے دیا.اور دوسرے اس رنگ میں دیا کہ اپنے بچے کو کہا کہ تم خرچ کرو، میرے ثواب میں تم بھی شریک ہو جاؤ.غرض خدا تعالیٰ پر ہمارا احسان نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ وہ ہمیں مال دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میری راہ میں خرچ کرو اور ثواب حاصل کر لو.مال تو اللہ کا تھا، اس پر ثواب نہیں ملنا چاہیے تھا.778

Page 796

تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 29 اکتوبر 1971ء مگر اپنے فضل سے وہ ثواب عطا کرتا ہے.جب آپ کسی کو اس کی امانت واپس کرتے ہیں تو کوئی احسان تو اس پر نہیں کرتے کہ اتنی رقم اس کو ادا کی.پس جو اللہ تعالیٰ کا مال ہے، وہی آپ اللہ تعالیٰ کو واپس کر رہے ہیں.اس میں نیت اور اخلاص کا سوال ہے، احسان تو نہیں.اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر فرمایا تمہارے لئے میں نے ثواب کا ایک موقع بہم پہنچایا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دو بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے.جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا ہے.دنیا کے سارے اموال، دنیا کی سب دولتیں جو ہیں، ان کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے.ہمیں تو اس نے مال دیا اور فرمایا، یہ تمہارا حصہ ہے، میں تمہیں دیتا ہوں.تمہارا حصہ اس معنی میں کہ تمہارے اور بھی بھائی انسان ہیں اور بھی بہنیں انسان ہیں، ان کو بھی دیا تمہیں بھی دیا.یہ مال و دولت جو میں نے پیدا کیا ہے، تمہارے لئے پیدا کیا ہے.اس میں سے اپنے اپنے حق ( وہ حق جو میں نے مقرر کئے ہیں ) وہ لے لو.اور پھر فرمایا کہ اس میں سے اتنا میری راہ میں خرچ کرو.اور خود ہی راہ اور ضرورت کی تعیین کر دیتا ہے.یہ ضرورت بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے.مثلاً تحریک جدید کی جب ابتداء ہوئی تو اس سے پہلے تو تحریک جدید کے کاموں کے لئے مال کی ضرورت نہیں تھی.پہلے عام چندہ دیتے تھے یا وصیت کے چندے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک اور ضرورت پیدا کر دی اور فرمایا، اتنا مال اور میری راہ میں خرچ کرو.یعنی تحریک جدید کا بھی چندہ دو.پھر جماعت نے تحریک جدید کے چندے بھی دینے شروع کئے.پھر وقف جدید کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور ضرورت پیدا کر دی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اس میں بھی چندے دو.پھر اس کے بعد علاوہ اور بہت سارے چھوٹے چھوٹے چندوں کے، جن میں جماعت بشاشت سے حصہ لیتی ہے، فضل عمر فاؤنڈیشن کا ایک نیا منصوبہ بنا اور اس طرح ایک اور ضرورت پیدا کر دی گئی.پھر اس کے بعد نصرت جہاں آگے بڑھو کا ایک منصوبہ بنا اور اللہ تعالیٰ نے ایک اور ضرورت پیدا کر دی.اور قربانی کی ایک اور راہ کھول دی.پس اللہ تعالیٰ جتنی ضرورت پیدا کرتا ہے، اتنی ہم سے امید رکھتا ہے کہ اسی کی عطا میں سے اپنے اموال کا ایک حصہ اس کے کہنے کے مطابق اور اس کی پیدا کردہ ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس کے حضور پیش کر دیا جائے گا.اس امید پر اور اس تو کل اور بھروسہ پر کہ اللہ تعالیٰ جہاں ہمارے اندرا خلاص پیدا 779

Page 797

خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اکتوبر 1971ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم کرے گا، وہاں ہمارے اخلاص کو شیطانی یلغار سے محفوظ بھی رکھے گا.اور جب ہم اس کے حضور اسی کے مال کا ایک حصہ پیش کریں گے تو وہ اسے قبول کرے گا اور اس طرح پر ہمیں تو اب مل جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.پس چاہیے کہ خدا پر توکل کر کے پورے اخلاص اور جوش اور ہمت سے کام لیں کہ یہی وقت خدمت گزاری کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ پورے اخلاص اور پورے جوش اور پوری ہمت سے کام لیں.بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور پورے جوش اور پوری ہمت سے کام لیں.اس لئے کہ اخلاص خواہ بظاہر انسان کے اندازہ کے مطابق کامل ہی کیوں نہ ہو اور جوش بھی ایسا کہ دنیا واہ واہ کرنے لگے اور ہمت بھی ایسی کہ انسان انسان کی نگاہ میں اولو العزم بن جائے ، تب بھی انسان خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ثواب کا مستحق نہیں بنتا.جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہو.اور اس کے لئے انسان کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا پڑتا ہے.انسان کو جب اپنی کمزوری اور اپنے نفس کا احساس ہو اور انسان کو جب یہ معرفت اور یقین حاصل ہو کہ اس کا خدا کے حضور کسی چیز کا محض پیش کر دینا کافی نہیں ہے، جب تک کہ وہ مقبول نہ ہو جائے.یہ احساس جو ہے، اس کے نتیجہ میں یا تو شیطان آئے گا اور کہے گا کہ جب پتہ ہی نہیں کہ ثواب ملتا ہے یا نہیں؟ تو نہ دو.یا فرشتے آئیں گے اور کہیں گے، جس نے تمہیں پیدا کیا، جس نے ان ساری چیزوں کو پیدا کیا، اس نے تمہیں مال دیا اور اس نے تمہارے لئے ثواب کے یہ سارے مواقع بہم پہنچائے ہیں.اس پر تو کل رکھو.دراصل خدا کے سہارے کے بغیر خدا کا سہارا بھی نہیں ملتا.اور خدا کے سہارے کے بغیر، خدا پر توکل کئے بغیر، انسان نہیں کہہ سکتا کہ جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے، وہ مقبول ہو گیا اور اس کا آگے ثواب مل گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کی چیز تھی ہم اس کی راہ میں دے رہے ہو.تمہارا خیال ہے کہ اخلاص میں کوئی کمی نہیں، دنیا سمجھتی ہے کہ تمہارے اندر بڑا جوش پایا جاتا ہے اور دنیا کی نگاہ تمہیں اولوالعزم اور صاحب ہمت بھی بجھتی ہے لیکن دنیا کی نگاہ اوراللہ تعالیٰ کی نگاہ میں فرق ہے.جب تک دنیا کی نگاہ میں وہی کچھ نہ ہو، جواللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہے، اس وقت انسان کی کوشش بے نتیجہ ہوتی ہے.پس یہ دعا بھی کرو اور اللہ پر تو کل بھی رکھو کہ وہ تمہاری اس دعا کو قبول کرے گا اور جو اس نے تم سے مطالبہ کیا اور اسکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، جو کچھ تم نے اس کے حضور پیش کیا، اگر اس کے اندر کوئی خامی یا 780

Page 798

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 29 اکتوبر 1971ء کمزوری یا کوئی شیطانی کیڑا بھی ہو، تب بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ان کیٹروں کو مار دے گا اور ان کمزوریوں کو کی دور کر دے گا اور تمہاری پیشکش کو قبول کر لے گا.اس رنگ میں کہ تمہیں زیادہ سے زیادہ ثواب عطا فرمائے گا.پھر محض چندے لکھوا دینا بھی کافی نہیں.جماعت کا ایک حصہ ایسا ہے، جو کمزوری دکھاتا ہے.بعض دوستوں کے تو حالات بدل جاتے ہیں.مثلاً یہ چالیس آدمی جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے، انہوں نے ایک وقت میں ہزار روپے فی کس دیئے تھے مگر اب نہیں دے سکے.ان کا عذر معقول بھی ہوگا.اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں حسن ظنی ہی سے کام لینا چاہیے.لیکن بعض آدمی ایسے بھی ہیں ، جو وعدے لکھوا دیتے ہیں مگر پھر پورا نہیں کرتے.اور ان کی وجہ سے وعدے اور اصل آمد میں فرق پڑ جاتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مثلاً آپ نے اپنے کاموں کا منصوبہ تو شروع سال میں ان وعدوں کے مطابق بنایا، مثلاً پانچ لاکھ روپے کی بادس لاکھ کی یا میں لاکھ روپے کی آمد ہوگی اور اس کے مطابق ہم فلاں فلاں کاموں پر خرچ کریں گے.لیکن اگر دوران سال اتنے پیسے نہیں آتے تو آپ کے کاموں پر اثر پڑے گا.کام کی رفتار میں کمی آ جائے گی اور کسی قوم کا بحیثیت قوم عزم کر لینا اور پھر پورا نہ کرنا ، بڑی ہلاکت کا موجب ہوتا ہے.جب تک ایسے لوگ تعداد میں تھوڑے سے ہیں، اس وقت تک تو کوئی فرق نہیں پڑتا.لیکن اگر خدانخواستہ یہ ایک رو جاری ہو جائے تو اس سے بڑا فرق پڑ جاتا ہے.پس محض دعوی بے معنی ہے.جب تک کہ مخلصانہ عمل شامل حال نہ ہو.اس سے کہیں بہتر ہے کہ ایسا شخص ، جس کی نیت نہیں ہے دینے کی ، وہ وعدہ ہی نہ کرے.لیکن جس کی نیت ہے دینے کی مگر بعد میں اس کے حالات بدل جاتے ہیں، جس پر اس کا کوئی اختیار نہیں، وہ زیر الزام نہیں آتا.اللہ تعالیٰ ایسے بھائیوں اور بہنوں کے حالات درست کرے اور ان کے مالوں میں اور بھی زیادہ برکت ڈالے.لیکن جس شخص کی پہلے دن سے دینے کی نیت نہیں ، صرف دعوی ہے، وہ اپنے آپ کو دوہری مصیبت میں ڈال رہا ہے.اور استغفار کے علاوہ اس کے بچے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے.پس ایسے لوگوں کواستغفار کرنا چاہیے اور وعدہ نہیں کھانا چاہیے.اللہ تعالیٰ کا مال ہے، وہ تو دیتا چلا جارہا ہے.آگے سے بڑھ کر دیتا چلا جارہا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے پانچ سال میں جماعت کی آمد مجموعی طور پر تین گناسے زیادہ بڑھ گئی ہے.یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.اس میں نہ میری کوئی خوبی ہے اور نہ آپ کی کوئی خوبی ہے.یہ حض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے.پس دینے والا تو بڑا دیا لو ہے.لیکن اپنے دلوں میں فتور پیدا کر کے ہم میں سے بعض خدا تعالیٰ کے ثواب اور اس کے پیار سے محروم ہو جاتے ہیں.اس لئے وہ راہیں، جو اللہ تعالیٰ کو غصہ دلانے والی ہیں ، 781

Page 799

خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اکتوبر 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم سے تم ان راہوں پر نہ چلو.اور جن راہوں کو تم اس کی رضا کے لئے اختیار کرتے ہو، ان راہوں پر جوش اور ہمت اور اخلاص کے ساتھ چلو.تا کہ اپنے تو کل اور اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے نتیجہ میں تم اللہ تعالیٰ اس کے اس پیار کو حاصل کر لو ، جس پیار کو دینے کے لئے اس نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو امت محمدیہ میں مبعوث فرمایا ہے.کیونکہ یہی پیار در حقیقت دنیا کے لئے نمونہ بنتا ہے.آج غلبہ اسلام کی جو خوشبو ہم سونگھ رہے ہیں ، وہ ہماری قربانیوں کا نتیجہ نہیں ہے.بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس پیار کا نتیجہ ہے، جو جماعت سے وہ کرتا ہے.اور وہ خوشبو اللہ تعالیٰ کی محبت کے عطر کی خوشبو ہے.دنیا جب اسے سونگھتی ہے تو اس طرف متوجہ ہوتی ہے.دنیا کی آنکھ جب معجزانہ پیار کو مشاہدہ کرتی ہے تو لوگوں کا دل اس طرف مائل ہوتا ہے.اور وہ سمجھتے ہیں کہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ ہے اور واقعہ میں اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم رہنے والی شریعت ہے.جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی تھی.پس ہمیں چاہیے کہ ہم شریعت محمدیہ کی برکتوں سے حصہ لینے کے لئے وہ سب کچھ کریں، جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ پر اس کی تمام صفات کے ساتھ ایمان لائیں.اس کو ہر قسم کے عیب سے اور تمام کمزوریوں سے اور سب نقائص سے مبراسمجھیں اور حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کریں.قرآن کریم کی شریعت کو ابدی اور دائی شریعت مانیں کہ جس میں ہر قسم کا روحانی اور جسمانی حسن پایا جاتا ہے.اور جس کے اندر ہر قسم کے احسان کی طاقت پائی جاتی ہے.پس اس کتاب کو مہجور کی طرح چھوڑتے ہوئے اس پر ایمان نہ لائیں.بلکہ اس کتاب پر اس کی تمام صفات کو سمجھتے ہوئے اور اس سے برکتیں حاصل کرنے کی نیت سے ایمان لائیں.دنیا خدا تعالیٰ کے پیار کا نشان دیکھ کر خدا تعالیٰ کی طرف مائل ہوتی رہی ہے اور آج بھی دنیا خدا تعالیٰ کے پیار کا نشان دیکھ کر اللہ تعالیٰ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل اور متوجہ ہورہی ہے.ہم مختلف ذرائع سے اور مختلف راہوں پر چل کر اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر رہے ہیں.پس چاہیے کہ میں اور آپ سب اللہ تعالیٰ کے پیار کی تمام راہوں پر چل کر سارے ہی پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں.اور اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اور آپ کو تحریک جدید کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انہیں نبھانے کی توفیق بخشے.اور پھر آپ نے اللہ تعالیٰ پر جو تو کل کیا اور اللہ تعالٰی سے جو امیدیں باندھیں ، خدا کرے کہ ہماری کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت باری ان امیدوں کو پورا کرے.اور میں اور آپ ہم سب اس کے پیار کو پانے والے ہوں.اللهم آمین“.( مطبوعه روز نامه الفضل 09 نومبر 1971ء) 782

Page 800

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم " وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 نومبر 1971ء اپنی دعاؤں میں تحریک جدید کے مخلصین کو یا درکھو خطبہ جمعہ فرمودہ 19 نومبر 1971ء جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کی راہ کے مالی میدان میں مجموعی لحاظ سے کیا خرچ کر رہی ہے؟ وہیں سے مالی لحاظ سے ہمارا عمل شروع ہوتا ہے.اس کے لئے ذرائع اور وسائل اکٹھے کئے جاتے ہیں.لیکن اس کے مقابلے میں اتنے زبر دست نتائج نکل رہے ہیں کہ میں تو جب سوچتا ہوں تو میری عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ جماعت احمدیہ اور غلبہ اسلام کے حق میں اس وقت جو ایک انقلاب بپا ہورہا ہے، اسے میں کس طرح اپنی کوششوں کی طرف منسوب کر دوں؟ ہر دو میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے.ہماری کوشش بہت تھوڑی سی ہوتی ہے لیکن نتائج بڑے زبر دست نکل رہے ہیں.اسی لئے میں آپ کو بار بار توجہ دلا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا ت شکر ادا کیا کریں.کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے، وہی اس کی مزید رحمتوں کا مستحق بنتا ہے“.پس اپنے اس پیارے رب سے اپنا تعلق پیدا کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھاؤ اور اپنی دعاؤں میں تحریک جدید کے ان مخلصین کو بھی یادرکھو، جو اخلاص کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیسے خرچ کرتے ہیں.تحریک جدید کی طرف سے کل رپورٹ آئی تھی ، مجھے تو آج ہی ملی ہے ، سال رواں میں نوسو، پندرہ مخلصین نے اپنے وعدے کی پوری رقوم ادا کر دی ہیں.گو میں نے ایک سرسری نظر ڈالی تھی ، پھر بھی مجھے تعجب ہوا کہ بعض دوستوں نے اپنی حیثیت سے بہت کم چندہ لکھوایا ہوا ہے.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ ان کو اجر عطافرمائے.ان میں سے اکاون مخلصین نے ایک، ایک ہزار روپے کا وعدہ کیا تھا اور وہ پورے کا پورا ادا کر دیا ہے.ان کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں اور جنہوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا، ان کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے.مالی لحاظ سے بھی اور اخلاص کے لحاظ سے بھی کہ وہ بھی جلدی اپنے اپنے وعدوں کو پورا کریں.( مطبوعه روز نامه افضل 16 جنوری 1972ء) 783

Page 801

Page 802

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 دسمبر 1 اسلام کا عالمگیر غلبہ اللہ تعالی کی ایک تقدیر ہے، جو کبھی لا نہیں کرتی وو خطبہ جمعہ فرمودہ 24 دسمبر 1971ء خون ، موت !!یہ تو ”اسلام“ کے معنی کے اندر ہی موجود ہے.اسلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ میں گم ہو کر اپنے اوپر ایک موت وارد کرنا اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے ایک نئی زندگی پانا.میدان جنگ میں شرف شہادت پانے والا اگر وہ نیک نیتی سے اور خدا تعالیٰ کے لئے جان دے رہا ہو تو شہادت حاصل کر کے اسی وقت زندوں کے زمرہ میں دوبارہ آجاتا ہے.قرآن کہتا ہے ، تم ان شہیدوں کو مرا ہوا نہ کہو.لیکن صرف شہید ہی نہیں بلکہ ایک کامل ایمان والا مسلمان جب خدا تعالیٰ کے لئے اپنے اوپر ایک موت وارد کرتا ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ سے اپنے لئے ایک ابدی زندگی حاصل کرتا ہے.اگر آج ہم اپنے اوپر اس قسم کی موت وارد کر لیں ، اگر ہم خدا تعالیٰ کے پیار میں کھوئے جائیں، اگر ہم اپنے وجود پر فنا کی آندھیاں چلا کر خدا تعالیٰ کی صفات سے حصہ لینے لگیں تو دنیا کی کون سی طاقت ہے، جو ہمیں مار سکے ؟ دنیا کی کوئی طاقت خدا تعالیٰ کے پیاروں کو نیست و نابود اور ہلاک نہیں کر سکتی ، اس لئے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.گو آج دنیا ہمیں طعنے دے رہی ہے اور ہمیں تضحیک کا نشانہ بنارہی ہے مگر ہم ان چیزوں کی اس لئے پرواہ نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ غلبہ اسلام کا سورج طلوع ہو چکا ہے.کالی دیوی کی کالی بدلیاں اگر سامنے آجائیں تو وقتی اور عارضی طور پر روشنی تو دور ہو سکتی ہے لیکن وہ غلبہ اسلام کی راہ میں ہمیشہ کے لئے روک نہیں بن سکتیں.لوگ کہتے ہیں کہ مسلم بنگال واپس کیسے آئے گا؟ میں کہتا ہوں تم مسلم بنگال کی بات کر رہے ہو ، ہم تو غیر مسلم دنیا کو بھی اسلام کی طرف لانے والے ہیں.اور یہ وعدہ الہی ایک دن پورا ہو کر رہے گا اور اس کے آثار آج افق غلبہ اسلام پر ہمیں نظر آرہے ہیں.مجنون کا یہ خواب نہیں کہ مسلم بنگال واپس آ جائے گا، مجنون کا خواب یہ ہے کہ اسلام مغلوب ہو جائے گا.اسلام مغلوب نہیں ہوگا.مسلم بنگال کیا، ہندو بنگال بھی.مسلم بنگال کیا ، ہندو بھارت بھی.مسلم بنگال کیا، عیسائی دنیا بھی.مسلم بنگال کیا، کمیونسٹ ممالک بھی.مسلم بنگال کیا ، دہریہ اور بت پرست بھی.یہ سارے کے سارے اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے.785

Page 803

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 دسمبر 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے، جو کبھی ٹلا نہیں کرتی.یہ تو انشاء اللہ ہوکر رہے گا.مگر تم خدا سے قوت حاصل کرو اور کثرت سے استغفار کرو.کیونکہ خدا تعالٰی کی رحمت اور اس کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے اپنے اوپر اس کی محبت میں گم ہو کر ایک موت وارد کرو گے تو پھر تمہیں ایک ایسی زندگی ملے گی کہ تمہارے لئے بھی نہایت برکت، خوشی اور مسرت کا موجب ہوگی اور دنیا کے لئے بھی رحمت اور برکت کا موجب بنے گی.خدا کرے کہ جلد ایسا ہو جائے“.( مطبوعه روزنامه الفضل یکم جنوری 1972ء) 786

Page 804

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشاد فرمودہ 30 دسمبر 1971ء دنیا بھر کے مشہور ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھوانے کا بندوبست کیا جائے ارشاد فرمودہ 30 دسمبر 1971ء حضور انور کے حکم پر حال ہی میں پاکٹ سائز قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ شائع کیا گیا ہے.اور جس کی قیمت صرف تین روپے رکھی گئی ہے، اس کے متعلق فرمایا کہ: میرا ارادہ ہے کہ اگلے تین سال میں کم از کم ایک ملین کی تعداد میں اس کو شائع کیا جائے اور دنیا بھر کے مشہور ہوٹلوں میں اس کو رکھوانے کا بندوبست کیا جائے.اسی واسطے اس کو لاگت پر فروخت کیا جا رہا ہے اور ہر گز کوئی منافع نہیں لیا جارہا“." میرا ارادہ یہ بھی ہے کہ عنقریب لاکھوں کی تعداد میں قرآن کریم بلاتر جمہ بھی شائع کرا دوں تا کہ ہر احمدی بچے کے پاس قرآن کریم کا اپنا نسخہ ہو.(مطبوعه روزنامه الفضل 11 جنوری 1972ء) 787

Page 805

Page 806

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم " ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1971ء جماعت بڑے پیار اور محبت سے قربانی دیتی ہے ارشاد فرمود و 27 مارچ 1971 ء بر موقع مجلس مشاورت فضل عمر فاؤنڈیشن کا ذکر کرنے کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہ یہ بھی ختم ہوئی تھی کہ میں نے نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریک کی.اس وقت تو انسانی دماغ کچھ اور سوچتا ہے.حالانکہ بعض الہبی اشارے بھی تھے، جیسا کہ میں نے کئی دفعہ ذکر کیا ہے.بہر حال جماعت کے حالات دیکھ کر اور اپنے اندازے کے مطابق میں نے کچھ اعلان کیئے.چنانچہ اللہ تعالی نے اس میں بھی بہت زیادہ فضل کیا.جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے طاقت بھی تھی.انہوں نے میرے اعلان اور میری تعیین پر ٹھہر نا پسند نہیں کیا.بلکہ آگے بڑھ گئے.مجھے اس سے بڑی خوشی ہوئی ہے.مثلاً اس وقت میرے ذہن میں یہ تھا کہ ایک ہزار دوست پانچ سوروپے والی صف سوم میں شامل ہوں لیکن ایک ہزار کی بجائے 2800 سے بھی زیادہ احمد کی دوست اس صف میں شامل ہو چکے ہیں.یعنی قریباً تین گنا زیادہ.دو ہزار روپے دینے والی صف دوم تھی.اس کے لئے میں نے کہا تھا کہ دوسو یا اس سے زائد ایسے دوست ہوں، جو دو ہزار یا اس سے زائد روپے فی کس دیں.بہر حال میرا اندازہ تھا کہ اگر جماعت میں دوسو ایسے دوست ہوں، جو دو ہزار فی کس دیں تو یہ بھی بڑی بات ہے.چنانچہ 201 دوست ایسے ہیں، (ممکن ہے، یہ تعداد زیادہ ہوگئی ہو کیونکہ یہ دو، تین دن پہلے کی رپورٹ ہے.) جنہوں نے دو ہزار اور بعض نے اس سے کچھ زائد دینے کا وعدہ کیا ہے.البتہ پانچ ہزار روپے دینے والی جو صف اول ہے، وہ میرے اندازے کے مطابق پوری نہیں ہوئی بلکہ کم ہے.ویسے اب بھی مجھے یقین ہے کہ جماعت میں چند ایک ایسے امیر دوست ہیں، جنہوں نے ستی کی ہے.اگر چہ رقم تو زیادہ ہے، اس میں شک نہیں.لیکن دوسو بھی کوئی ایسی تعداد نہیں تھی کہ پوری نہ ہوتی.145 احباب نے اس صف اول میں حصہ لیا ہے.ابھی 65 کی اور گنجائش موجود ہے.65 کی کمی کوئی ایسی چیز نہیں کہ پوری نہ ہو.اس سلسلہ میں دفتر والوں نے مجھے یاد دہانی کرانی شروع کی تھی تو میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ چپ کر کے اپنے کام کئے جائیں.میرے نزدیک صف سوم میں بھی بعض دوست ایسے ہیں اور اسی طرح صف دوم میں بھی ایسے دوست ہیں، جو اوپر کی صف میں جاسکتے 789

Page 807

ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1971ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ہیں.اگر صف سوم والے صف دوم میں آجائیں تو صف سوم پر تو اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ ایک ہزار کے بجائے 2862 اس وقت بھی شامل ہیں اور بھی آرہے ہیں.صف دوم دوسو کے بجائے تین سو تک پہنچ سکتی ہے اور صف دوم ہی سے یا صف سوم میں بھی ایسے دوست ہو سکتے ہیں، جو Jump کر کے بدلے ہوئے حالات میں پانچ ہزاری بن جائیں.پانچ ہزاری مغل بادشاہوں کی طرف سے منصب بھی دیا جاتا تھا.مگر یہ تواللہ تعالیٰ کا عطا کردہ منصب ہے کہ پانچ ہزار دو اور زیادہ ثواب لے جاؤ.غرض اس طرح پانچ ہزاری بن جائیں اور وہ جو دو ہزاری ہیں، ان کی تعداد بھی کم نہ ہو.پس بدلے ہوئے حالات میں اللہ تعالیٰ نے جن دوستوں کو پیسے دیئے ہیں، وہ اس طرف توجہ کریں اور پانچ ہزاری بن جائیں.جہاں تک بدلے ہوئے حالات کا تعلق ہے، اس سے میری مراد دو قسم کے بدلے ہوئے حالات سے ہے.ایک یہ کہ اخلاص کی حالت بدل جائے اور طبیعت میں زیادہ جوش پیدا ہو جائے.اگر کوئی دوست پانچ ہزار دینے کے قابل تو پہلے بھی تھا لیکن نہیں دیئے تو اب خدا تعالیٰ اس کے اخلاص کو بڑھا دے اور وہ کہے، میں نے ستی کی.دوسرے یہ کہ پہلے طاقت ہی نہیں تھی.پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ، اسے زیادہ پیسے دے دیئے اور وہ کہے کہ میں دو ہزار پر کیوں ٹھہروں ؟ جب خدا تعالیٰ نے اپنے دین اور عطا میں کمی نہیں کی بلکہ میرے مال میں یکدم بہت زیادتی کر دی ہے تو پھر میں پیچھے کیوں رہوں، مجھے آگے آنا چاہئے.مثلاً سرگودھا میں کسی کا ایک مربع میں باغ تھا، پچھلے سال موسم ٹھیک نہیں تھا، اس لئے اس کی آمد دس ہزار روپے ہوئی.اس دفعہ اگر اس مربع کی فصل اللہ تعالٰی نے اچھی کر دی اور دس کی بجائے اسے تھیں ہزاریل گئے تو اس طرح میں ہزار روپے کی زائد آمدنی ہوگئی ، اس لئے وہ دو ہزار سے آسانی سے پانچ ہزار تک پہنچ سکتا ہے.پس ایک یہ بھی بدلے ہوئے حالات ہیں.اور یہ محض فلسفہ نہیں بلکہ حقیقت ہماری عملی زندگی میں ایسے حالات سامنے آتے رہتے ہیں.مجھے دوست لکھتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یکدم فضل کیا اور پیسے زیادہ آگئے ، اس لئے ہم یہ مالی قربانی اور دے رہے ہیں.انگلستان میں تین سال کی کوشش سے فضل عمر فاؤنڈیشن کی وصولی کے زمانے میں 21 ہزار پونڈ جمع ہوا تھا.مگر جماعت آگے نکل گئی.اور نصرت جہاں ریز روفنڈ میں گوا بھی سال ختم نہیں ہوا، 21 ہزار پونڈ جمع ہو چکے ہیں.پچاس ہزار پونڈ کے قریب ان کے وعدے ہیں.امام مسجد لنڈن بشیر احمد رفیق صاحب ایک مہینہ پہلے جب وہاں سے آرہے تھے تو میں نے ان کو لکھا تھا کہ جب آپ انگلستان چھوڑ میں تو اس مد میں 21 ہزار پونڈ جمع ہونا چاہیے.اس وقت غالباً 16,17 ہزار پونڈ کے درمیان جمع تھا.مگر جس وقت یہ 790

Page 808

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1971ء وہاں سے چلے ہیں، اس وقت 21 ہزار پونڈ نصرت جہاں ریزروفنڈ میں جمع ہو چکا تھا.اس کے بعد وصولی کی اور اطلاعات بھی آئی ہیں.نصرت جہاں ریزروفنڈ کے متعلق ایک لطیفہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے مہربان ہیں.ایک مہربان نے یہ کہ دیا کہ نصرت بھٹو“ کے نام پر سیاسی فنڈ اکٹھا کر لیا گیا ہے.مجھے خیال آیا کہ اگر چہ اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بہر حال حکومت کے جو ذمہ دار افسر ہیں، ان کے علم میں لانا چاہئے کہ اصل واقعہ کیا ہے؟ اور بھی دو چار باتیں تھیں.چنانچہ میں اس نیت سے حکومت کے ایک بڑے افسر سے ملا اور ان سے میں نے کہا کہ ہمارے متعلق آپ دو باتوں کا خیال رکھا کریں.ایک تو یہ کہ ہمارا ہر پیسہ رجسٹر پر چڑھتا ہے اور ہر خرچ Cheque (چیک) کے ذریعہ ہوتا ہے.کسی وقت آپ اپنا آدمی بھیج کر چیک کروا سکتے ہیں کہ کہاں خرچ ہوا ہے؟ دوسرا یہ کہ اتنے اخلاص سے جو جماعت چندہ دینے والی ہے، ان کے چندوں کو ہم اتنے پاگل اور ظالم ہیں کہ مرکز میں بیٹھ کر سیاست پر ضائع کر دیں گے.میں نے ان سے کہا.میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں.تین دن ہوئے ، لندن سے مجھے ایک نوجوان کو خط ملا.اس نے مجھے لکھا کہ میں نے اپنی شادی کے لئے کچھ رقم جمع کی تھی کہ آپ کا خط آ گیا.( کچھ دوستوں کو میں نے یہاں سے اپنے دستخطوں سے خط بھیجے تھے کہ جلدی رقم دیں) جب آپ کا خط آیا تو میں نے اپنی شادی ملتوی کر دی اور اپنے وعدے کی سو یا دو سو پونڈ کی رقم ساری کی ساری پہلے سال ہی ادا کر دی.میں نے ان سے کہا کہ اتنے پیار اور اخلاص سے جو لوگ چندہ دیتے ہیں، ان کے چندوں کو ہم اس طرح سیاست میں ڈبو کر ضائع کر دیں گے؟ اس لئے آپ کو اس کا خیال بھی نہیں کرنا چاہئے.اگر آپ ایسی باتیں مان لیں تو ہمیں بڑا دکھ ہوتا ہے.پس جماعت بڑے پیار اور محبت سے قربانی دیتی ہے.لیکن خدا کے لئے جتنا زیادہ پیار اور اخلاص ہو،شیطان کو اتنا زیادہ دکھ پہنچتا ہے.پھر شیطان ثواب کو ضائع کرنے کے لئے حملے کرتا ہے.انسان کبروغرور میں پڑ جاتا ہے اور یہ جتانے لگتا ہے کہ اس نے یہ قربانی کی.بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اس قسم کے فتنوں میں پڑ جاتے ہیں.اس سے بھی ہمیں بچنا چاہئے.کیونکہ خدا تعالیٰ کو تو ہمارے پیسے کی ضرورت نہیں، وہ تو ہمیں ثواب کا موقع بہم پہنچاتا ہے.اس واسطے جیسا کہ میں نے نصرت جہاں ریز روفنڈ کے اعلان پر بھی کہا تھا کہ مجھے یہ فکر نہیں تھی کہ پیسے آئیں گے بھی یا نہیں؟ اور آئیں گے تو کیسے آئیں گے؟ کیونکہ میں جانتا تھا کہ جب خدا نے مجھے خرچ کرنے کے لئے کہا ہے تو وہ پیسے بھی دے گا.کوئی معمولی انسان تو ایسا کر لیا کرتا ہے لیکن امیر آدمی بھی ایک حد تک جب کہتا ہے، یہ خرچ کرو تو ساتھ 791

Page 809

ارشاد فرموده 27 مارچ 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پیسے کا بھی انتظام کرتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ تو سارے خزانوں کا مالک ہے.جب اس نے یہ کہا کہ خرچ کرو تو وہ ضرور دے گا.مجھے اس کی کوئی فکر نہیں.جس چیز کی مجھے فکر ہے ، وہ یہ ہے کہ خالی دینا کافی نہیں ہے.بلکہ اس کا مقبول ہو جانا ، اصل ہوتا ہے.یہ مذہب کا ایک بنیادی نقطہ ہے، آپ اسے کبھی نہ بھولیں.پہلے انبیاء کی جماعتیں اس نکتے کو بھول کر تباہ ہوگئیں.انہوں نے یہ سمجھا کہ جان یا مال کو خدا کے حضور پیش کر دینا کافی ہے.یہ درست نہیں.خدا تعالیٰ کے حضور جو جان اور مال پیش کیا جائے ، اس کا مقبول ہو جانا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے تب فائدہ ہوتا ہے.میں نے ایک خطبہ میں دوستوں کو ایک حدیث سنائی تھی اور مختصراً اس کی تشریح بھی کی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ بعض دفعہ کسی نے کوئی ثواب کا کام کیا.فرشتوں تک نے یہ سمجھا کہ وہ خدا کا مقبول بندہ ہے.لیکن جب وہ اس کا اعمال نامہ خدا کے حضور لے گئے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا، اسے واپس لے جاؤ اور اس کے منہ پر مارو.کیونکہ اس میں فلاں برائی تھی ، اس واسطے میں اس کی یہ نیکی قبول نہیں کرتا.ظاہر اور چھپے ہوئے گناہوں پر اللہ تعالیٰ ہی پردہ ڈال سکتا ہے.اس سے استغفار کرنا چاہئے.پس ہمیں یہ دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہماری حقیر سی پیش کش کو قبول کر لے.اگر وہ قبول ہو جائے تو ایک دھیلہ ہمارے لئے ساری دنیا کے خزانوں سے زیادہ مفید ہے.اور اگر رد ہو جائے تو پانچ ہزار کیا پانچ ارب بھی آپ دے دیں تو کسی کام کا نہیں ہے.اس وقت تک پاکستان میں نصرت جہاں ریزروفنڈ کے وعدہ جات میں سے - 11,08,576 روپے کی وصولی ہو چکی ہے.لیکن ابھی بہت سے دوست ایسے ہیں، جنہوں نے 40 فیصد ادا نہیں کیا.جب کہ بہت سے دوست ایسے بھی ہیں، جنہوں نے سو فیصد ادا کر دیا ہے.مجموعی طور پر تو 40 فیصد سے زیادہ وصولی ہو چکی ہے.یعنی - 26,54,594 روپے کے کل وعدے ہیں.ان میں سے - 11,08,576 روپے وصول ہو چکے ہیں.تو اس طرح یہ 40 فیصد سے زیادہ ہے.لیکن چونکہ بعض دوستوں نے 40 فیصد سے زیادہ بلکہ بعض نے تو اپنا وعدہ سو فیصد ادا کر دیا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس طریق سے جوست ہیں، ان کی سستی پر پردہ ڈال دیا ہے.اور مجموعی طور پر یہ شکل ہمارے سامنے آگئی کہ 40 فیصد سے زیادہ جمع ہو چکا ہے.لیکن قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا پردہ فاش کرے.آپ اپنے ذمہ کی رقم ادا کر دیں.اللہ 792

Page 810

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1971ء تعالیٰ نے آپ کو ایک موقع عطا فرمایا ہے، 40 فیصد فوراً ادا کر دیں.تا اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا زیادہ سے زیادہ وو ثواب عطا فرمائے.میں نے بتایا تھا کہ چونکہ ملک میں زرمبادلہ کی دقت ہے، اس واسطے ہم براہ راست رقم باہر نہیں بھیج سکتے.لیکن اس میں سے بعض خرچ یہاں کرنے پڑیں گے.مثلا کتا بیں شائع کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ.یا یہاں سے جو آدمی باہر جائیں گے، ان کا کرایہ ہے.پھر اسی سلسلہ میں جو کتا بیں شائع کی گئی ہیں، وہ تبلیغ کا کام بھی دیتی ہیں مثلاً ” Africa Speaks “ ہے.میرے علم کے مطابق ہمارے ہرایسے دوست، (جن کا ابھی تک جماعت سے تعلق پیدا نہیں ہوا) جن کے ہاتھ میں یہ Africa Speaks “ گئی ہے، وہ اثر لئے بغیر نہیں رہے.بلکہ ان میں سے اکثر نے یہ کہا ہے کہ انہیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ آپ دنیا میں کیا کچھ کر چکے ہیں.اور جو اللہ تعالیٰ فضل کر رہا ہے، اس کے متعلق میری نیت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالٰی نے تو فیق دی تو آخری اجلاس میں کچھ بیان کروں گا.اس وقت میں اس کے مالی حصہ کے متعلق ہی بتارہا ہوں.بیرون پاکستان 29 ملک نصرت جہاں ریزروفنڈ کی تحریک میں شامل ہوئے ہیں.اور ان ملکوں میں مجموعی رقم جس کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ 22 لاکھ روپے کے قریب ہے.اور یہاں کی 26 لاکھ روپے.یہ کل رقم 50 لاکھ روپے کے قریب بنتی ہے.اس تحریک کا اعلان کرتے وقت خلافت احمدیہ پر 62 سال گذر چکے تھے.میری یہ خواہش ہے کہ نصرت جہاں ریزروفنڈ کی رقم 62لاکھ روپے تک پہنچ جائے.مجھے امید ہے، انشاء اللہ ضرور پہنچے گی، تھوڑی سے رقم رہ گئی ہے.ابھی بہت سی رقمیں شمار بھی نہیں ہوئیں.مثلاً دفتر والوں نے جو 22 لاکھ روپے غیر ممالک کو دکھائے ہیں، اس میں انگلستان کا اٹھارہ ہزار پونڈ لیا ہے.لیکن میں نے بتایا کہ وہاں 21 ہزار پونڈ کی رقم جمع ہوگئی ہے اور بھی بہت سی رقمیں آگئیں ہیں، جو ابھی تک دفتری حساب میں محسوب نہیں ہو ئیں.دراصل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت پر کتنے فضل کر رہا ہے.ہمیں ایک جگہ ٹھہر نے نہیں دیا.فضل عمر فاؤنڈیشن کے تین سالوں کے درمیان اس شاہراہ کے جن حصوں میں سے ہم گزرے ہیں، اس سے ہم قریباً تین گنا آگے نکل گئے ہیں.ویسے میزان کے لحاظ سے تو ڈیڑھ گنا بنتا ہے.لیکن غیر ملکی چندے کے لحاظ سے تین گنا ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن کا غیر ملکی چندہ 9لاکھ روپے ہے.نصرت جہاں ریز روفنڈ میں ہم اس وقت تک قریباً 25 لاکھ روپے تک پہنچ گئے ہیں.اور جب 27 لاکھ پر پہنچ گئے تو تین گنا آگے بڑھ جائیں گے.یہ تین گنا آگے نکل جانا اور پہلے سال میں اتنی رقم کا اکٹھا ہو جانا، خواب و خیال 793

Page 811

ارشاد فرمودہ 27 مارچ 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم میں بھی نہیں آسکتا تھا.پھر یہ جو حقیری کوشش تھی، اسے اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں قبول فرمایا اور جونتائج ظاہر فرمائے ، اس کے متعلق میں بعد میں بتاؤں گا.30 ہزار ڈالر سے اوپر امریکہ میں وعدہ ہوا ہے.جب کہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے کل 16 ہزار ڈالر تھے.وہاں تو قریباً د گنے پر پہنچیں گے.لیکن میزان میں ہم انشاء اللہ آگے نکل جائیں گے.غانا اور نائیجیریا کا فضل عمر فاؤنڈیشن کا چندہ 20 ہزار روپے تھا مگر اب نصرت جہاں ریز روفنڈ میں صرف غانا کا 20 ہزار سیڈیز ہے.(ایک سیڈی دس شلنگ کے برابر ہوتا ہے.) یعنی دس ہزار پونڈ صرف غانا کا ہے.پھر سیرالیون کا دس ہزار لے آن یعنی پانچ ہزار پونڈ ہے.نائیجیریا کا میں نے دو ہزار پونڈ کا کہا تھا، ان کا اس سے زیادہ ہو جاتا ہے.انہوں نے اس وقت تک سات ہزار پونڈ کا وعدہ کیا ہے.یہ تین گنا سے بھی آگے نکلے ہوئے ہیں.لائبیریا سے متعلق مجھے شبہ ہے کہ کہیں غلط فہمی نہ ہوئی ہو.یہ چیک کرنے والی بات ہے.بہر حال مجموعی طور پر تین گنا سے زیادہ ہے.پاکستان تین گنا آگے نہیں بڑھا.پاکستان تو قریباً برابر ہی ہوا ہے.اس لئے میں پاکستان کی رقم بڑھاؤں گا نہیں.اگر مجھے دوسو پورے پانچ ہزاری مل جائیں.میرا تاثر یہی ہے کہ جو آدمی زیادہ امیر ہے، میرے نزدیک اس نے سستی کی ہے.واللہ اعلم بہر حال بحیثیت مجموعی جماعت آگے نکل گئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل بھی اسی طرح دن بدن زیادہ سے زیادہ نازل ہورہے ہیں.مگر ساتھ ہی ہماری ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں.اگلی نسل ہے، نئے احمدی ہیں.پہلے ایک چھوٹے سے دائرے کے اندر نسل پیدا ہورہی تھی اور نیا احمدی ہورہا تھا.اب یہ ہے کہ میں نے بتایا ہے کہ 29 غیر ممالک میں جہاں دوستوں نے کافی بڑی بڑی رقمیں چندے میں دیں ہیں.وہاں بڑی بڑی جماعتیں بن گئیں ہیں.ان میں بڑا اخلاص پایا جاتا ہے.مگر محض اخلاص کافی نہیں.ان کی تربیت کی ضرورت ہے.تربیت آپ نے کرنی ہے یا وہاں مربی بنانے ہیں، وہ بھی آپ ہی کا کام ہے.اس کے متعلق کچھ گفتگو انشاء اللہ بعد میں کریں گئے“.رپورٹ مجلس شوری منعقد ہ 27 تا 29 مارچ 1971ء) 794

Page 812

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء جس جماعت کا دائرہ عمل ساری دنیا پر محیط ہو، اس کی سوچ محدود نہیں ہونی چاہیے " ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء برموقع مجلس مشاورت کنر می سندھ کی طرف سے دراصل تجویز یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب کا سندھی ترجمہ ہونا چاہئے.مجھے بڑی تکلیف ہوئی یہ پڑھ کر.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا فکر اور تدبر بڑا محدود ہے.جس جماعت کو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے پیدا کیا ہے، اس کا فکر سندھ یا پنجاب یا سرحد یا بلوچستان میں محدود ہو کر نہیں رہ جانا چاہئے.اس واسطے میں نے اپنی طبیعت کے مطابق ان کا یہ فقرہ بدل دیا کہ سندھی میں کیوں؟ غیر ملکی زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں، ان میں تراجم ہونے چاہئیں.بڑی ضرورت ہے.زبانوں اور تراجم کے لحاظ سے تو اور بہت سے کام ہیں، جس کی تفصیل اس وقت بتانا مناسب نہیں.میں نے جو دورہ میں دیکھا اور مشاہدہ کیا اور اسی وجہ سے میری خواہش ہے کہ جلد یہاں پریس لگ جائے.اللہ نے توفیق دی تو میں کل کچھ تفصیل بتاؤں گا.انشاء اللہ.پس سب زبانوں میں تراجم ہونے بڑے ضروری ہیں.اور آہستہ آہستہ ہوں گے.لیکن کوئی قدم اٹھنا چاہئے.جوشخص کھڑا ہے، وہ سو گز پر بھی پہنچنے کی توقع نہیں رکھ سکتا.وہ تو وہیں کھڑا ہے.لیکن جو صبح ہی صبح چل پڑا اور اس نے یہ عہد کیا کہ میں شام تک چلتا ہی رہوں گا تو وہ دس پندرہ میل تک چلا جائے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ چل سکتا ہے.پس حرکت میں آنا چاہئے اور ہر شعبہ زندگی میں ایک حرکت پیدا ہو جانی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے قرآن کریم کی جو تفسیر فرمائی ہے، اس کے اندر دو اہم خاصیتیں پائی جاتی ہیں ، اس کا ترجمہ بہت ضروری ہے.دو خاصیتوں میں سے ایک یہ ہے کہ آج کے مسائل کو سلجھانے کا مواد اس کے اندر موجود ہے.اور دوسرا یہ کہ قرآن کریم کی تفسیر کو آپ نے اس نہج پر بیان فرمایا ہے کہ در در رکھنے والا دل اور غور کرنے والا دماغ اور دعاؤں میں مصروف رہنے والی روح آپ کی تفسیر کو آگے چلا کر کل کے مسائل کو حل کرنے کی بھی توفیق پاسکتی ہے.پس آدم کی زندگی میں یہ جو حرکت ہے، جس کے پہلو بہ پہلو ہم نے اب اپنے زمانے میں چل کر ان کی برائیاں اور ان کی کمزوریاں اور ان کے نقائص کو دور کر کے نہ صرف انسانیت کے صحیح مقام پر ان کو لانا 795

Page 813

ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اور وہاں قائم رکھنا ہے بلکہ زمانہ کے ساتھ ساتھ آگے بھی بڑھنا ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر انسان تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام پہنچا دیں.یہ صحیح ہے کہ ترجمہ بہر حال ترجمہ ہے.اصل سے تو وہ کسی طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا.لیکن ان کو جب ترجمہ پڑھ کر اس بیان کا چسکا پڑ جائے گا، جس کا کہ وہ ترجمہ ہے تو پھر کہیں گے کہ ہمیں اردو سکھاؤ تا کہ ہم اصل کو بھی پڑھیں.باہر سے آنے والوں میں جنہوں نے اردو سیکھی ہے اور جنہوں نے صحیح اردو نہیں سیکھی ، ان کا آپس میں بڑا فرق ہے.شروع میں یہ رو جاری ہوئی تھی.میرے بچپن کے زمانے میں جب کہ میں مدرسہ احمدیہ میں تھا، انڈونیشیا اور جاوا، سماٹرا اسے دس، بارہ لڑکے آگئے تھے.ان میں سے ابو بکر بھی تھے، جواب پیچھے جاوا، سماٹر امشنز کے انچارج بھی رہے ہیں.وہ میرے ہم عمر تھے.شاید ایک، دو سال کا فرق ہوگا.وہ اس طرح اردو بولتے تھے، جس طرح کے ہمارے ملک کے اچھے اردو دان.اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا تھا کہ اچھے دماغ زبان کے لحاظ سے بھی مل گئے.عربی ان کی بڑی اچھی تھی اور وہ بڑے اچھے مبلغ ثابت ہوئے لیکن جو باہر سے پڑھنے کے لئے آتے ہیں اور اردو نہیں سیکھتے ، ان پر یہاں آ کر تھوڑا سا بلکا سارنگ چڑھ جاتا ہے.جس طرح کہ رنگ ختم ہورہا ہوتو بعض دفعہ اور پیسے ما لک خرچ نہیں کرنا چاہتا تو مزدور کو یہ کہتا ہے کہ جو رنگ باقی تھوڑا سا بچ گیا ہے، اس میں بہت سا پانی ملا کر میرے غسل خانے میں رنگ کر دو.اس طرح ان کے اوپر ایک ہلکا سارنگ تو بہر حال چڑھتا ہے.لیکن اس میں وہ مزا نہیں ہے، جو اسلام کا پورا نورانی رنگ رکھتا ہے.چمک اور بشاشت اور رعب اور غلبہ کی شعاعیں اس کے اندر سے نکلتی ہیں ، وہ رنگ ان پر نہیں چڑھتا.ایک دفعہ ہمارے کالج میں اردو کا نفرنس ہوئی تھی.اس موقع پر میں نے ان کو کہا تھا کہ جماعت احمدیہ کا زبان اردو پر یہ احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی کتب پڑھنے کی خاطر ساری دنیا کی قوموں میں اردو پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا ہے.یعنی ایک حصہ میں تو اب ہے اور کچھ کو بعد میں احمدیت کی وجہ سے شوق ہو جائے گا.عربی تو ہے ہی ہماری زبان کیونکہ وہ قرآن کریم کی زبان ہے.اور ہمارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے.اس لئے وہ تو ہماری ہی زبان ہے.وہ ہمیں آتی ہو یا نہ آتی ہو، اپنی زبان سے زیادہ پیار ہے، ہمیں عربی سے.لیکن اس کے بعد اردو ہے.کیونکہ قرآن کریم کی ایسی تفسیر ہمیں تو کہیں نظر نہیں آئی.افریقہ میں بڑے اچھے لوگ ہیں.ایک نوجوان صحافی جو احمدی نہیں تھا، مجھ سے پوچھنے لگا کیا بات ہے، ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں، آپ ہمارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا بات تو کچھ 796

Page 814

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء نہیں.صاف بات ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ امام صلوۃ تم مقر نہیں کرو گے میں مقرر کروں گا.چنانچہ آپ نے مقرر کر دیا اور مقرر اس طرح کیا کہ آپ نے فرمایا، جس کو زیادہ قرآن کریم آتا ہو، وہ امامت کرایا کرے.اب مہدی آگیا.اس نے اللہ سے قرآن کریم کی تفسیر سیکھی اور ہمیں سکھا دی.تمہیں تو نہیں نہ آتی وہ تفسیر؟ کہنے لگا، نہیں آتی.میں نے کہا، چونکہ ہمیں زیادہ قرآن کریم آتا ہے، اس لئے تم ہمارے پیچھے نماز پڑھا کرو.ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امام بنا گئے ہیں.یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی کیونکہ دماغ میں کوئی تعصب نہیں تھا.یوں بھی وہ بڑے بے تعصب لوگ ہیں.پس قرآن کریم کی تفسیر جو آج کے مسائل بھی حل کرتی ہے اور ایسی تفسیر ہے، جو کل کے مسائل کے حل کرنے کے علوم کا بیج بھی اپنے اندر رکھتی ہے، اس کا ترجمہ ہونا چاہئے.صرف سندھی میں کیوں؟ جیسا کہ کنری نے تجویز کیا.پشتو میں بھی ترجمہ ہونا چاہئے ، فارسی میں بھی ہونا چاہئے ، پنجابی میں بھی ہونا چاہئے.پنجابی صرف پنجابی کے جوش میں آکر کہہ دیں کہ ہمیں اردو نہیں آتی تو الگ بات ہے.ورنہ ہر پنجابی کو اتنی اردو ضرور آتی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان کتب کی زبان سمجھ لے جو دعوے کے بعد لکھی گئیں.دعوے سے پہلے علماء آپ کے مخاطب تھے اور وہ بڑی ثقیل زبان بولا کرتے تھے.اگر ان کی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بات نہ کرتے تو کہتے تمہیں تو زبان ہی نہیں آتی ، تم نے ہمارے ساتھ کیا مقابلہ کرنا ہے.اس واسطے ایسی زبان کو استعمال کیا ہے اردو میں بھی، فارسی میں بھی اور عربی میں بھی حتی کہ عرب میں رہنے والے بڑے بڑے عرب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی عبارتیں پوری طرح سمجھ نہیں سکتے.کیونکہ ان پر خدا تعالیٰ نے یہ رعب ڈالنا تھا کہ یہ میرا شاگرد ہے، تم اس پہلو سے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.پھر ایک دن خدا نے کہا کہ جا میرے بندوں کو ، جنہیں دنیا عوام کہتی ہے، اکٹھا کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لے آ.جب مخاطب عوام ہو گئے تو زبان بدل گئی.اتنی تبدیلی ہوئی کہ اگر ماہر زبان کے سامنے دو کتا ہیں بتائے بغیر رکھی جائیں تو وہ بڑا ہی ثبوت اپنی مہارت کا دیتے ہوئے کہے گا کہ یہ دونوں کتابیں ایک شخص کی نہیں.پس اتنا فرق ہے، زبان میں.کیونکہ مخاطب بدل گیا تھا.آپ کا استاد اللہ تعالی تھا اور یہ تو کسی کو ہی موقع ملتا ہے.پس ان کتب کے ترجمے ہونے چاہئیں.لیکن یہ محدود وفکر کہ سندھی میں ترجمہ ہونا چاہئے ، مجھے پسند نہیں آئی، ساری زبانوں میں ہونا چاہئے.اور اس کے لئے ہمیں ابھی سے کوئی مستقل سب کمیٹی مقرر کر دینی چاہئے.کیونکہ زیادہ تفصیل میں تو ہم اتنی بڑی مجلس میں بحث نہیں کر سکتے.لیکن وہ کمیٹی آکر بتایا 797

Page 815

ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کرے کہ ہم نے غور کیا ہے.لیکن وہ غوران کا صرف مارچ کے مہینے میں نہ ہو بلکہ ہر مہینے میں ہوا کرے.ضمنا شوری کی دونوں سٹینڈنگ سب کمیٹیوں کے سیکرٹری نوٹ کرلیں کہ انہوں نے مہینہ میں ایک میٹنگ ضرور کرنی ہے اور مجھے رپورٹ بھی دینی ہے کہ اتنے گھنٹے کی سب کمیٹی کی میٹنگ ہوئی اور ہم نے غور کیا.یہ ٹھیک ہے کہ یہ سارے رضا کارانہ کام کرنے والے ہیں اور ان کے اپنے کام بھی ہیں اور ہمیں ان کے اپنے کاموں میں کوئی اعتراض نہیں.لیکن ہمیں اس بات پر ضرور اعتراض ہے کہ مہینے میں اپنے کام چھوڑ کر ایک دن کے لئے بھی نہیں بلکہ تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ کر اس ضروری کام کی طرف توجہ نہ دیں، جو جماعت کا اور بنی نوع انسان کا کام ہے.نمائندگان سے مخاطب ہو کر حضور نے فرمایا:." کیا سب متفق ہیں کہ زیادہ سے زیادہ زبانوں میں جلد سے جلد تراجم کرائیں جائیں؟“ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کا منشاء معلوم ہوا تو میں نے اس بات کا اظہار بھی کیا اور میرا دل بھی اس ایمان سے بھر گیا کہ یہ کام تو ضرور ہوگا.لیکن کس رفتار سے ہوگا اور کتنی جلدی ہوگا ، اس کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی تھا.ظاہری حالات میں یہ نظر آتا تھا کہ شاید اس منصوبہ کے پہلے مرحلے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر پانچ سال یا ممکن ہے سات سال لگیں گے.اس کا اظہار میں نے وہاں بھی کیا.چنانچہ میں جب وہاں سے واپس آیا تو مجھے نظر آنے لگا اور میری بعض حسوں نے ( جو ہر ایک کو میسر نہیں آتی ، اللہ تعالیٰ بعض بندوں کو دے دیتا ہے.محسوس کیا کہ یہ کام تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی جلدی سے ہو جائے گا.وہ تو یہاں سے اتنی دور بیٹھے ہوئے ہیں.بعض دفعہ ایک مہینے کے بعد خط پہنچتا ہے.ان کو تو حالات کا پتہ نہیں تھا.میں نے ان سے جو باتیں کیں، وہ ان کے کانوں میں پڑی ہوئی تھیں.اس کے مطابق وہ اپنی سکیم بڑی آہستہ آہستہ بنارہے تھے.چنانچہ ان کو ڈانٹنا پڑا کے دوڑو.میں تو دوڑ رہا ہوں، تم آہستہ آہستہ چل رہے ہو.میرے ساتھ کیسے رہو گے؟ دوڑ و تا کہ اکٹھے چلیں.اب ظاہری حالات میں یہ وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ایک سال پورا نہیں ہو گا کہ ہمارا کام کافی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.ایک تو ڈاکٹروں نے وہاں کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنی شروع کیں اور دوسرے اساتذہ نے اپنی زندگیاں وقف کرنی شروع کیں اور بڑی تیزی سے کام شروع ہو گیا.اس وقت تک یعنی ایک سال کے اندر اندر تین ڈاکٹروں نے کام شروع کر دیا ہے.تیسرے کے متعلق ابھی غانا سے اطلاع نہیں آئی.لیکن یہ اطلاع تھی کہ وہ جلدی ہی ایک دودن میں کام شروع کر دیں گے.اس مہینے کے آخر میں کسی وقت انہوں نے کام شروع کرنا تھا.798

Page 816

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء دو جگہ تو غیر احمدی پیراماؤنٹ چیفس نے پختہ مکان، جو وہاں بہت کم ہیں ، ( کنکریٹ کی چھتوں والے ) وہ ہمارے ہیلتھ سنٹر ز کو دیئے ہیں.جس جگہ ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب ہیں ، وہاں تو اتنا بڑ امکان ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اکیس (21) بیڈ کا ان ڈور ہسپتال بھی تیار کر لیں گے.اور جہاں پہلے کام شروع ہوا ہے یعنی کماسی سے 20 میل شمال مغرب میں وہاں بھی خاصی بڑی عمارت ہے.لیکن اتنی بڑی نہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی وہاں انہوں نے نصف میل ( ایک جگہ غلطی سے میرے منہ سے میل یا ڈیڑھ میل نکل گیا تھا، دراصل نصف میل مربع) کا علاقہ وہاں کے لوگوں نے ہمیں دیا ہے.تا کہ ہم اپنے کام یعنی ہیلتھ سنٹرز وغیرہ کو وسیع کر سکیں.نصف میل مربع تھوڑا علاقہ نہیں.یہ بہت بڑا علاقہ ہوتا ہے.66 اجے بواڈے، جہاں ہماری ایک احمدی بہن الحاجہ فاطمہ نے کوئی 25-20 ہزار پونڈ اپنی طرف سے خرچ کر کے ایک بہت بڑی مسجد بنوائی تھی اور جس کا میں نے افتتاح کیا تھا، وہاں کی اسیر یا لوکل کمیٹی نے ہمیں 120 ایکڑ زمین دی ہے.آج اخبار میں آیا ہے، بعضوں نے پڑھ لیا ہوگا.بعض اخبار نہیں پڑھتے سب کو اخبار پڑھنا چاہیئے.نائیجیریا کے شمال میں سکوٹوسٹیٹ ہے.یعقوب گوون صاحب نے نائیجیریا کی بارہ نئی سٹیٹس بنائی ہیں.ان میں سے ایک یہ سکوتو کی سٹیٹ ہے.میں نے وہاں چار سکول کھولنے کی پیش کش کی تھی.دو لڑکوں اور دولڑکیوں کے.کیونکہ مسلمان لڑکیاں تعلیم میں بہت پیچھے ہیں.وہاں کی حکومت نے ہمیں دو جگہ 140-40 یکٹر زمین ہمارے سکولوں کے لئے دی ہے.یہ بھی بڑی زمین ہے.سال کے اندر اندر یہاں شمالی علاقہ میں لڑکوں کے دو سکول کھل چکے ہیں.ایک تو کھل گیا ہے، دوسرے کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس مہینے کی 29 تاریخ کو کھل جائے گا.نائیجیریا میں ان دو سکولوں کے علاوہ غانا میں بھی دونئے سکول کھل گئے ہیں.ایک تو لڑکوں کے لئے اور دوسرا لڑکیوں کے لئے.حالانکہ اس پر کافی وقت لگتا ہے.بعض دفعہ تو ہمارے خط کا جواب دو، اڑھائی مہینے کے بعد آتا ہے.بعض دفعہ جلدی آجاتا ہے بعض دفعہ بڑی در لگتی ہے.ریڈ ٹیپ ازم جس طرح ہمارے ملک میں ہے، وہاں ان کے ملکوں میں بھی ہے.اساتذہ اور ڈاکٹروں کے لئے ریذیڈنٹ پر مٹ یا ڈاکٹروں کے لئے گورنمنٹ سے اجازت وغیرہ کے سلسلہ میں کافی دیر گتی ہے.لیکن پرمٹ ابھی یہاں پہنچے نہیں تھے کہ انہوں نے وہاں عارضی انتظام کر کے سکول جاری کر دیئے تھے.اب پرمٹ کی وصولی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے.799

Page 817

ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دوڈاکٹر گیمبیا میں جارہے ہیں.ان میں سے ایک تو یہاں سے روانہ ہو گیا ہے اور دوسرا ڈاکٹر بھی یہاں سے انشاء اللہ 15 دن تک روانہ ہو جائے گا.کئی اور ڈاکٹر بھی پیچھے تیار کھڑے ہیں.میرے تو و ہم گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اتنے فضل نازل کرنے کا ارادہ کر چکا ہے.” بہر حال یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہے، جو لوگوں کے دلوں کو بدل رہا ہے.وہاں ایک ایسا ڈاکٹر بھی بھیج رہے ہیں، جو انگلستان میں بڑے آرام سے بیٹھا ہوا تھا اور وہ ڈینٹسٹ ڈاکٹر عبدالحق صاحب لا ہور والوں کا صاحبزادہ ہے.انہوں نے وقف کیا ہے.وہ اب 60 پونڈ اور One fourth of the net income پروہاں بڑے اخلاص سے جا رہے ہیں.یہاں ہمارے ایک ڈاکٹر نے چھٹی مانگی تھی.کیونکہ میں نے یہ ہدایت کی تھی تین ، تین سال کی چھٹیاں لیں اور وہاں چلے جائیں.نوکریاں نہ چھوڑیں.پھر یہاں آکر ملک کی خدمت کریں.بعض جگہ ان کی چھٹیاں منظور ہو گئیں ، بعض جگہ منظور نہیں ہوئیں.تعصب یا جہالت ہر جگہ ہوتی ہے.بہر حال ایک ڈاکٹر کو محکمہ نے چھٹی نہیں دی تو اس نے استعفیٰ دے دیا.اب وہ استعفی منظور کرنے میں دیر کر رہے ہیں.لیکن یہ تو Pinpricks ہیں.جس طرح سوئی چھوئی جاتی ہے.سوئی چھنے سے انسان مرتا تو نہیں لیکن تکلیف ضرور ہوتی ہے.ایسی سوئیاں تو ہمیں چھتی ہی رہتی ہیں.اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا.غرض انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے کہ میں نے تو بہر حال جانا ہے، زندگی وقف کی ہوئی ہے.بڑے اخلاص سے نوجوان ڈاکٹروں اور بڑی عمر کے ڈاکٹروں نے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے.دوست دعا کریں، اللہ تعالیٰ ان کی اس پیش کش کو قبول فرمائے اور انہیں اپنی رحمتوں سے نوازے.پس آپ خدا تعالیٰ کی بڑی حمد کریں.وہ جماعت پر اتنے فضل کر رہا ہے کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے.ہمیں اس وقت سکولوں کے پھیلاؤ کے لئے پہلے مرحلے پر 70 سے 80 ٹیچرز کی ضرورت تھی.چنانچہ سو، دوسوٹیچر ز نے اپنی اپنی زندگی سلسلہ کے لئے وقف کر دی ہے.اس طرح بہت سے ڈاکٹروں نے بھی زندگی وقف کی ہے.جنہیں ہم نے سر دست Waiting List پر رکھ لیا ہے.لاہور ریجن میں اس سال جولر کا میڈیکل کے آخری امتحان میں فرسٹ آیا ہے، وہ ہمارا بڑا پیارا احمدی نوجوان ہے.اس نے بھی اپنی زندگی وقف کر دی ہے.کوئی اور فرسٹ آتا تو اس نے اپنے ملک میں بھی اس طرح خدمت نہیں کرنی تھی.اس نے سوچنا تھا کہ کوئی انگریزی فرم اسے زیادہ پیسے دے کر رکھ لے تو زیادہ اچھا ہے.لیکن اس احمدی بچے نے کہا کہ میں افریقہ میں جاکے خدمت کروں گا.میں نے مشورے کے بعد اس 800

Page 818

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء کے لئے یہ پروگرام بنایا ہے کہ وہ پہلے یہاں ہاؤس جاب ضرور کرے.اس لئے کہ افریقہ میں وقف زندگی کے بعد خدمت انشاء اللہ برکات کا موجب ہوگی.اور اس فرد کے لئے بھی اس کی ترقی کی راہوں میں روک نہیں بنے گی.چنانچہ ڈاکٹروں سے میں نے مشورہ کیا.میں نے کہا کہ میں ان بچوں کی آگے علمی استعدادوں کی زیادتی کے راستے میں روک نہیں بنا چاہتا.اس واسطے یہ بتاؤ کہ اگر یہ ہاؤس جاب کئے بغیر چلے جائیں تو آئندہ ان کی مزید پڑھائی میں حرج تو نہیں ہو گا ؟ چنانچہ مجھے بتایا گیا کہ اگر اس طرح اگر چلے گئے تو F.R.C.S وغیرہ کے جو امتحان ہوتے ہیں، ان میں شامل نہیں ہو سکتے.پھر واپس آکر ایک سال ہاؤس جاب کریں، تب ان کو اجازت ملے گی.میں نے کہا کہ پھر نہیں بھیجیں گے.یہ ابھی ہاؤس جاب کریں گے.یہ دو بچے ہیں.ان کو میں نے روک لیا ہے کہ تم ہاؤس جاب کرو.پھر وہاں تین سال خدمت کرو.اور بجائے اس کے کہ تم تین سال کے بعد واپس آکر پھر انگلستان جاؤ.پیسے تم نے جمع کئے ہوئے ہوں گے، وہیں سے انگلستان جا کر Higher Digree لو.پھر یہاں آکر اپنے ماں باپ سے ملو اور پھر اگلے تین سال کے لئے وہاں جا کر خدا کا کام کرو.دین بھی تمہیں ملے گا، دنیا بھی تمہیں ملے گی.ہم تو انشاء اللہ بفضلہ تعالیٰ دین اور دنیا میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جانے والی قوم ہیں.غرض نوجوانوں میں بھی اور بڑوں میں بھی اتنا اخلاص پایا جاتا ہے کہ آدمی بے اختیار ہوکر خدا تعالیٰ کی حمد میں مصروف ہو جاتا ہے.پس ہمیں خدا تعالیٰ کی ہر وقت حمد کرتے رہنا چاہئے.نائیجیریا میں دس میڈیکل سنٹر کھولنے کی تجویز تھی.وہاں کی حکومت نے ابھی اصولی طور پر پانچ کی اجازت دی ہے اور ریزیڈنٹ پرمٹ تو ابھی تک شاید ایک کا آیا ہے، باقی کی انہوں نے منظوری تو دے دی ہے.ان کے جانے میں کچھ وقت لگے گا.غانا میں چار میڈیکل سنٹر کھولنے کا میں نے کہا تھا.اب وہ زور دے کر پانچ کا کہتے ہیں اور پانچواں ڈاکٹر بھجوانے کا مطالبہ کر رہے ہیں.گیمبیا میں بھی جب ڈاکٹر جائیں گے تو پھر مطالبے بہت شروع ہو جائیں گے.میں نے گیمبیا میں ایک سکول کی بنیا درکھ دی تھی.اس وقت مولوی محمد شریف صاحب ( بڑے سمجھدار آدمی ہیں لیکن پتہ نہیں کیا نا مجھی کی بات کر گئے ) نے مجھے سے وعدہ کر لیا کہ 18 مہینے میں ہم اس سکول کی عمارت کو مکمل کر لیں گے.حالانکہ گیمبیا کی جماعت کے خزانے میں اس کام کے لئے ایک دھیلہ بھی نہیں تھا.لیکن مجھے انہوں نے یہ تاثر دیا کہ ہمیں کوئی وقت نہیں پیسے بھی جمع ہو جائیں گے اور باقی سب کچھ بھی ہو جائے گا.میں نے اس وقت ان سے کہا کہ 18 مہینے کیوں؟ کوشش کرو ایک سال کے اندر سکول کی عمارت مکمل ہو جائے.جب میں افریقہ 801

Page 819

ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کے دورے سے واپس آگیا تو مجھے پتہ لگا کہ بس بنیاد رکھی ہوئی ہے اور کام ہو نہیں رہا کیونکہ پیسے نہیں.ہمارے مبلغوں کو اس قسم کی غلطی نہیں کرنی چاہئے.یوں تو اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرتا ہے.گیمبیا میں ہمار ایک ہی میڈیکل سنٹر ہے.ان سے میں نے بذریعہ خط پوچھا کہ تمہارے پاس بنک میں آمد کی رقم کتنی ہے؟ انہوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ ساڑھے چھ ہزار پونڈ موجود ہے اور اگلے ایک، دو مہینے میں جو تمہیں آنے والی ہیں، وہ بھی امید ہے، ہزار سے پندرہ سو پونڈ تک پہنچ جائیں گی.ان کو لا کر زیادہ فنڈ ہو جائے گا.اس واسطے اگر چہ ان کا ابھی ایک سال نہیں ہوا تھا.لیکن میں ان کو واپس گیمبیا بھیج رہا ہوں کہ وہاں جا کر کام سنبھالیں.کیوں غلطی کر کے آئے ہیں؟ یہ ان کو دو، اڑھائی ہزار پونڈ کی سکول کے لئے (Sanction ) منظوری دیں گے.پہلے سال میں سارا خرچ کرنا ضروری نہیں ہوتا.پہلے سال تو پہلی کلاس کی ایک یا دو سیکشن ہوں گی یا دو کلاسیں ہوں گی.زیادہ رقم کی ضرورت نہیں ہوگی.نقشہ بنا ہوا ہے.جتنی ضرورت ہے، کمرے بنا لو اور کام شروع کر دو.اگلے سال اور پیسے دے دیں گے یا خود جمع کر لیں گئے.22 وہاں باتھرسٹ ( گیمبیا) جو میڈیکل سپیشلسٹ سنٹر بنا تھا، اس کے لئے وہ چونکہ نئے نئے آزاد ہوئے ہیں، ان کو یہی خوف رہتا ہے کہ ہم ان کو زمین دے دیں، پتہ نہیں یہ بناتے ہیں یا بنا ئیں گے تو کب بنائیں گے؟ اصولی طور پر وزیر صحت نے منظوری دے دی ہے، زمین کی تسلی دلا دی ہے.لیکن عملاً زمین نہیں دی.میں سمجھتا ہوں کہ وہ انتظار کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر پہنچیں تو پھر زمین دیں.لیکن اگر وہ زمین پہلے دے دیتے تو ڈاکٹر کے پہنچنے سے پہلے ہم ضروری عمارت تعمیر کر دیتے.اب ہمارا ڈاکٹر جائے گا، اس کو عارضی طور پر کرایہ کے مکان میں رہنا پڑے گا.میں نے اپنے ان میڈیکل سینٹر کا کام شروع کرنے کے لئے 3 ہزار پونڈ کی منظوری دے دی ہے.یہ رقم وہ وہاں کمائیں گے.ہمیں اہل افریقہ کے مال و دولت میں تو کوئی دلچسپی نہیں.ہم تو انہی پر خرچ کرنا چاہتے ہیں.ہمارے ایک میڈیکل سینٹر کی جو Earning ہے، اس میں دو، اڑھائی ہزار پونڈ سکول کے ابتدائی اخراجات کے لئے اور تین ہزار پونڈ میڈیکل سنٹر کے لئے منظوری دے دی گئی ہے.چونکہ یہ مثلاً T.B کا سنٹر ہوگا، اس کے لئے بہر حال علیحدہ عمارت کی ضرورت ہے.اور اسی طرح یہ جو T.B کے لئے مرض کی نوعیت کے لحاظ سے بھی اور کام کے لحاظ سے بھی ہمیں بہت بڑا ایکسرے پلانٹ چاہئے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک بڑا ایکسرے پلانٹ منگوا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ Shift ( شفٹ ) کیا جائے تو وہ ٹوٹ جائے گا.مثلاً پہلے ایک کرائے کے مکان میں اور پھر دوسرے کرائے کے مکان میں منتقل کرتے رہنے سے اس کے ٹوٹ جانے کا احتمال ہوتا ہے.کیونکہ کرائے ތ 802

Page 820

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء کے مکانوں کا تو پتہ نہیں ہوتا.چاہے تو مالک مکان چار مہینے کے بعد خالی کرنے کا نوٹس دے دے.اس صورت میں پھر وہاں سے اکھیڑ اور دوسری جگہ لے کر جاؤ.اور وہ بڑی قیمتی چیز ہے.اس کے بنانے والے انجینئر خود آتے ہیں اور اسے نصب کر کے دیتے ہیں.ایک دفعہ تو وہ آکر نصب کر جائیں گے.بعد میں ہم پر ذمہ داری پڑ جائے گی.ہم خواہ مخواہ اپنے پیسے کا نقصان کیوں کریں؟ چنانچہ اسی واسطے Siemens جرمنی کے ایجنٹ کو میں نے بلا کر کہا تھا کہ جہاں کے لئے ہمیں ایکسرے پلانٹ درکار ہے، وہاں کے یہ حالات ہیں.تم مجھے ایک اچھا Portable ایکسرے پلانٹ دو، جسے ہمارا ڈاکٹر جہاں چاہے، استعمال کرے.اسے باہر بھی لے جاسکے.کیونکہ باہر بھی اس کی ضرورت رہے گی.ایک سال تک انشاء اللہ وہاں ہمارا کلینک بن جائے گا اور وہ کمرے بن جائیں گے، جہاں ہم ایکسرے پلانٹ لگا سکیں گے.پھر ہم اس سے بھی بہت بڑا منگوا لیں گے.یعنی اس وقت جو ہمارے یہاں کے ہسپتال ہیں ، اس سے اچھایا اتنا ہی بڑا منگوالیں گے.بہر حال ہم یہ دیکھ لیں گے جو بھی اچھا اور مناسب حال ہو، وہ منگوالیں گے.اب یہ دوڈاکٹر وہاں چلے جائیں گے.آنکھوں سے متعلق پیشل سنٹر کھولنے کا کام ابھی باقی ہے.خدا کرے آنکھوں کا ماہر ڈاکٹر بھی جلدی مل جائے.غرض جو خرچ ہوتا ہے، اس کا بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی انتظام کر دیا ہے.یہ بھی اس کا خاص فضل ہے، ورنہ تو یہاں سے ہم ایک دھیلہ بھی باہر نہیں بھیج سکتے.زرمبادلہ کی پابندی ہے.دوسرے ہم جو آدمی باہر بھیجتے ہیں، ان کے ٹکٹ زیادہ تر Bonus Vocher پر لینے پڑتے ہیں.اسی طرح کتا بیں چھاپنی پڑتی ہیں یا ٹرینگ دینی پڑتی ہے.اس قسم کے کام یہاں کے روپے سے ہوتے ہیں.ہم باہر سے روپیہ آسانی کے ساتھ بھجوا سکتے ہیں.مثلاً انگلستان میں 21 ہزار پونڈ جمع ہے.یوں تو ان کے وعدے 50 ہزار پونڈ کے قریب پہنچے ہوئے ہیں.وہ بھی انشاء اللہ آجائیں گے یا 30 ہزار ڈالر امریکہ میں ہے، جس کا مطلب ہے، بارہ ہزار پونڈ.یہ بھی کافی رقم ہے یا کچھ رقم سوئٹزر لینڈ میں جمع ہے.یہ وہ ملک ہیں، جہاں سے ان ملکوں کے اندر کمانے اور عطایا دینے والوں کی رقم کو باہر بھجوانے میں کوئی پابندی نہیں ہے.سیرالیون کے لئے دوست دعا کریں.وہاں جانے کے لئے ہمارے ڈاکٹر تیار تھے.وہاں ہمارے چار (ہمارے یہاں کے انٹر کالج کے معیار پر ) ہائر سیکنڈری سکول ہیں.ان کا معیار ایف اے.ایف ایس سی تک ہے.یہاں کے کالجز میں ایف ایس سی بلکہ بی ایس سی کی جو لیبارٹریز ہیں، ان کے مقابلے میں ہمارے سکولوں کی لیبارٹریز بلا مبالغہ دس گنا زیادہ اچھی ہیں.ممکن ہے، سو گنا اچھی ہوں لیکن 803

Page 821

ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دس گنا زیادہ اچھی تو میں علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں.وہاں کی لیبارٹریز میں نے دیکھی ہیں.بعض لیبارٹریز تو ہمارے کالج کی لیبارٹری سے اچھی ہیں.حالانکہ مغربی پاکستان میں اس وقت جو سائنس کا لجز ہیں، ان میں ہمارا کالج خدا کے فضل سے سب سے اچھی لیبارٹری رکھتا ہے.وہاں اس قسم کے ہمارے ہائیر سیکنڈری سکول موجود ہیں.پس ہمارے ڈاکٹر تو تیار تھے لیکن وہاں ایک، دو ہفتے ہوئے فوجی بغاوت ہوگئی ہے.وہاں پہلے بھی بغاوتیں ہوتی رہی ہیں.اللہ تعالیٰ فضل کرتا رہا ہے.نہ ہماری جماعت کو کوئی نقصان پہنچا، نہ کوئی ہمارے سکولوں وغیرہ کے کاموں پر کوئی برا اثر پڑا ہے.کیونکہ وہاں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچے اور حقیقی خادم کی حیثیت سے یہاں آئے ہیں.ہماری سیاست سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں، ہمارے اموال سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں ، صرف ہماری خدمت سے ان کو دلچسپی ہے.جس کا ہم سہرا نہیں چاہتے.لیکن بہر حال ہم تو اللہ تعالی کی پناہ میں ہیں اور اس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے.یہ تو مادی دنیا ہے اور مادی دنیا کی جو حکومتیں ہیں، ان میں لوگوں نے پناہ لینی شروع کر دی.بے وفا ہے، یہ دنیا اور یہاں کی حکومتیں بھی الیکن ہمارا اللہ جو باوفا ہستی ہے، وہ ہمارے گناہوں کو بخشتار ہے اور اپنی پناہ میں کھے.ہمیں تو وہی چاہئے.اس کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے“.غرض اس نکتے کو آپ سمجھیں اور پھر ہم یہاں جو تفصیلی گفتگو کرتے ہیں، اور کبھی نہیں بھی کرتے اور اپنے امام کی صحت کا خیال رکھ لیتے ہیں اور باتیں سن لیتے ہیں ) یہ تو تفصیلی چیزیں ہیں.اصل بنیادی چیز ہے، وہ آپ کے سامنے رہنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ جب تک اسلام کو عالمگیر غلبہ حاصل نہیں ہو جاتا اور یہی وہ غرض ہے، جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام مبعوث ہوئے ہیں، اس وقت تک ہمیں اپنی اولاد کو نسلاً بعد نسل ان کے صحیح مقام پر رکھنا کرنا پڑے گا.دنیا کہتی ہے کہ انگریز کو مسلمان بنانا ناممکن ہے، امریکہ کو مسلمان بنانا ناممکن ہے، یورپ کے ممالک کو مسلمان کرنا ناممکن ہے، کمیونسٹ چین اور کمیونسٹ روس کو مسلمان کرنا ناممکن ہے.ہم یہ کہتے ہیں کہ جس خدا پر ہم ایمان لاتے ہیں، اس کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے.ہمارے پاس ان کو سمجھانے کے لئے عقلی دلیل نہیں ہے.البتہ ہمارے پاس ان کو سمجھانے کے لئے عملی دلیل ہے.ہم نے اپنی زندگیوں میں کتنے ہی ناممکنات کو خدا کے فضل اور اس کے حکم اور اس کے قدرت کاملہ کے نتیجہ میں ممکن ہوتے دیکھا ہے.ہم نے اپنی زندگیوں میں اس زندہ اور طاقتور اور علام الغیوب اور حاکم اور قادر کی طاقتوں اور قدرتوں کے جلوے دیکھے ہیں.اس واسطے جہاں اللہ تعالی کا نام آ جائے ، وہاں ہماری زبان پر نہ مکن نہیں آیا کرتا.بے شک ہم کمزور ہیں، ہم غریب ہیں، 804

Page 822

تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 28 مارچ 1971ء ہم کم علم ہیں، ہم دنیا کے دھتکارے ہوئے ہیں، ہمارے پاس کوئی سیاسی اقتدار نہیں، نہ ہمیں کسی سیاسی اقتدار کی خواہش ہے.یہ بات اپنی جگہ درست ہے.لیکن جب ہماری زبان پر ہمارے اللہ اور ہمارے رب کا نام آتا ہے تو پھر کوئی چیز ناممکن نہیں رہتی.اس کے لئے ہر چیز ممکن ہے.جو وہ چاہتا ہے، وہ ہوگا.البتہ ہر چیز کے وقوع پذیر ہونے کا اس نے وقت مقرر کیا ہوا ہے.اور اس کا اسی کو علم ہے.اس نے ہمیں بتایا نہیں.لیکن وہ جس وقت پردہ اٹھائے گا اور ہمیں دکھائے گا کہ اس کا حکم پورا ہو گیا، اس وقت تک اس نے ہمیں کہا ہے کہ میری راہ میں قربانیاں دیتے چلے جاؤ.پس اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس وقت تک اس کی منشاء کے مطابق اتنی قربانی جتنی وہ چاہتا ہے، اس کے حضور پیش کرتے چلے جائیں اور وہ اسے قبول فرمائے اور ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازے.اب ہم دعا کر لیتے ہیں.اس کے بعد اس شوریٰ کا اختتام ہو گا اور آپ دوست اللہ کی پناہ اور اس کے فضلوں اور رحمتوں کے سایہ میں اپنے اپنے گھروں کو واپس جائیں گے.آپ خیرت سے رہیں، یہاں بھی اور وہاں بھی اور آپ کے ساتھ تعلق رکھنے والے بھی.اللہ تعالیٰ دنیا کے لئے بھلائی اور بہتری کے سامان پیدا کر دے.خدمت دین کی جو ذمہ داریاں ہم پر ڈالی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور اصلاح نفس اور تربیت اولاد کی جو دو دھاری تلوار ہے، اس کے بھی ہم دھنی اور ماہر ہوں.یعنی اپنے نفس کی بھی اصلاح کرنے والے ہوں اور اپنے غیر کی بھی اصلاح کرنے والے ہوں.( اور اس نقطہ نگاہ سے اپنا بچہ بھی غیر ہی ہوتا ہے، وہ اپنا نفس تو نہیں ہوتا ) اور پھر سارے بھائی ہیں، ان کے لئے بھی بھلائی اور بہتری کی کوشش کرنے والے ہوں.ہمارے لئے تو غیر کوئی نہیں ہے.صرف اپنے نفس سے علیحدہ بتانے کے لئے غیر کا لفظ بولا گیا ہے.پس یہ جو دوہری ذمہ داری ہے ، خدا تعالیٰ اس کے نباہنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور جو خواہش اور جذبہ ہر احمدی کے دل میں ہے کہ اسلام دنیا میں جلد غالب ہو اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا ہو اور انسانی روح آپ کی عظمت اور شان کی شنا سا بنے ، خدا کرے، ہماری یہ خواہش جلد تر پوری ہو.آمین.آؤ اب دعا کر لیں“.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 27 تا 29 مارچ 1971 ء ) 805

Page 823

Page 824

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم پیغام فرموده بر موقع سالانہ تبلیغی کا نفرنس منجی نظام جماعت کی پابندی اپنا شعار بناؤ پیغام فرمود پر موقع سالانہ تبلیغی کانفرنس جماعتہائے احمد یہ جزائر فی منعقدہ کی 02 جنوری 1972ء السلام عليكم ورحمة الله وبركاته میری طرف سے آپ سب کو مسجد اقصیٰ ناندی کا افتتاح کرنا ، بہت بہت مبارک ہو.اللہ تعالیٰ اس مسجد کو اس علاقہ میں اسلام کی ترقی اور اشاعت کا کامیاب مرکز بنائے.خلافت سے وابستگی اور نظام جماعت کی پابندی اپنا شعار بناؤ.( مطبوعه روزنامه الفضل 06 جون 1972ء) 807

Page 825

Page 826

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشاد فرمودہ 02 جنوری 1972ء اب اسلام کی ترقی کا سورج طلوع ہو چکا ہے ارشاد فرمودہ 02 جنوری 1972ء امریکہ کے ایک احمدی دوست جونا بیجیریا میں آباد ہیں، بمع اہل وعیال حضور انور کی ملاقات کے لئے آئے.حضور نے ان سے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا کہ:.""...اب اسلام کی ترقی کا سورج طلوع ہو چکا ہے.اور بہت جلد انشاء اللہ اسلام دنیا بھر میں غالب ہوگا.عیسائیت کو تو شکست ہو چکی ہے اور یورپ میں عوام چرچ سے بیزار ہوتے جارہے ہیں.امریکن دوست نے بتایا کہ ملکہ انگلستان کی جو حال ہی میں ملاقات پوپ سے ہوئی ہے ، وہ مذہبی حلقوں میں خاصی اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے.حضور نے فرمایا کہ:..اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا.اگر یہ سب بھی متحد ہو جائیں ، تب بھی فتح انشاء اللہ اسلام کی ہوگی.گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے.ان کا اس طرح اکٹھے ہونا ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کو اسلام کی یلغار سے خوف لاحق ہو چکا ہے.مطبوعه روزنامه الفضل 11 جنوری 1972ء) 809

Page 827

Page 828

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 07 جنوری 1972ء تحریک جدید کے کام کا تقاضا یہ ہے کہ بہت بڑے عالم ہوں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 07 جنوری 1972ء بدلے ہوئے حالات میں ہماری قربانیاں اور ہمارے خدمت کے طریق بدل جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اور اپنی محبوب جماعتوں کو نئی راہیں بتاتا ہے اور انہیں نئے طریقے سکھاتا ہے.نئے نئے طریقوں سے انہیں ترقی پر ترقی دیتا چلا جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی ایک طریقہ یا ایک سبیل یا ایک راہ یا ایک صراط مستقیم وقف جدید کی شکل میں ہمارے سامنے رکھی ہے.اور وقف جدید کی روح یہ ہے کہ وقف کی روح کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت میں وسعت پیدا کی جائے.چنانچہ حضرت المصلح الموعود رضى الله تعالیٰ عنہ کا دراصل یہی منشا تھا.کیونکہ اس سے پہلے جماعتی نظام تو موجود تھا، تحریک جدید بھی قائم تھی اور وہ اپنے کاموں میں لگی ہوئی تھی.جماعت کی ہر ایک تنظیم کا اپنا انتظام تھا اور وہ اپنے کام میں لگی ہوئی تھی.لیکن میں نے جہاں تک غور کیا اور میں سمجھتا ہوں، یہ میرا اپنا تجزیہ اور استدلال ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک طرف تو یہ بات تھی کہ تحریک جدید کا اپنا ایک طریق متعین ہو گیا ہے اور تحریک جدید کے کام کا تقاضا یہ ہے کہ بہت بڑے عالم ہوں.( خدا کرے کہ ہمیں ایسے عالم میں اور ہمیشہ ملتے رہیں.) کیونکہ انہیں باہر بھی جانا پڑتا ہے.جہاں انہیں بڑے بڑے پادریوں سے، جو اپنے آپ کو دنیا کا معلم سمجھتے ہیں.خواہ وہ معلم ہوں یا نہ ہوں.بہر حال وہ اپنے آپ کو دنیا کا معلم سمجھتے ہیں، ان کے ساتھ باتیں کرنی پڑتی ہیں.اس غرض کے لئے جامعہ احمدیہ قائم ہے.جامعہ احمدیہ کو بھی اپنی ترقی کے لئے سوچنا چاہئے اور بہتری کے لئے سامان کرنا چاہئے.جامعہ احمدیہ سے شاہد کرنے کے بعد پھر ہم ان کو ریفریشر کورسز کرواتے ہیں، پھر بعض کو زبانیں سکھاتے ہیں، اس کے اوپر بڑا خرچ آتا ہے.ہمیں اس وقت جتنی ضرورت ہے، اس کے مطابق ہمارے پاس وسائل نہیں ، ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں.حالانکہ کام بڑھ گیا ہے.811

Page 829

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 جنوری 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم مبلغین کے علاوہ ہمارے پاس پاکستان میں جو شاہد اور معلم ہیں، جو پرانے اصلاح کرنے والے ہیں ، وہ بھی اسی طرح بڑے پایہ کے ہونے چاہئیں.یہ سارے اس پایہ کے نہیں ، جس پایہ کے ان کو ہونا چاہئے.اس لئے انہیں یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ اعلیٰ پایہ کے مربیان معلمین بن جائیں.اور وہ بن سکتے ہیں.اگر چہ جامعہ احمدیہ کی پڑھائی کے نتیجہ میں تو نہیں بنتے لیکن وہ اپنی دعاؤں کے نتیجہ میں پانی کے مبلغ ضرور بن سکتے ہیں.کیونکہ دعاؤں کے نتیجہ میں اگر چیز حسب منشاء بن سکتی ہے تو اس لحاظ سے ہر شخص پایہ کا مبلغ بھی بن سکتا ہے.جو شخص خدا تعالیٰ سے پیار کا تعلق پیدا کرے گا اور دعائیں کرے گا تو خدا تعالیٰ خود اسے سکھائے گا اور اس کا معلم بنے گا.پس جہاں انتظامیہ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے ، وہاں ہر شاہد کو بھی اپنی ذات کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے.ورنہ اگر دوسرے عریبک ٹیچرز کی طرح زندگی گزارنی ہے ( میں شاہدین سے کہ رہا ہوں ) تو پھر آپ نے کیا زندگی گزاری؟ اگر آپ نے سکولوں کے عام عربی معلم اور مدرس کی طرح زندگی گزاری تو پھر آپ نے یہ تو بڑا ظلم کیا.اس معلم کو تو علم ہی نہیں کہ وہ خدا کا پیار کس طرح حاصل کر سکتا ہے اور کتنا حاصل کر سکتا ہے؟ پس شاہدین کو یہ علم ہوتے ہوئے اور دوسروں کو دیکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کتنا پیار کرنے والا ہے اور یہ کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکتے ہیں، پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کے پیار سے محروم رہیں تو میرے نزدیک اس سے زیادہ بد قسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی.بہر حال جامعہ احمدیہ پر بھی بڑے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں.میٹرک پاس طلباء لیتے ہیں اور پھر ان کو آگے پڑھاتے ہیں.پھر جس طرح ہر زندہ اور ہرے بھرے درخت کی ٹہنیاں سوکھ جاتی ہیں، اسی طرح شاہدین میں سے بھی کچھ کاٹنے پڑتے ہیں، ہر سال کچھ چھانٹی کرنی پڑتی ہے.نتیجہ بہت تھوڑا نکلتا ہے، خرج بڑا ہوتا ہے.ہمارے وسائل محدود تھے اور جو مبلغین ہم تیار کر رہے تھے، ان پر فی کس خرچ بہت زیادہ تھا.لیکن یہ کام اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑا اہم ہے، اس لئے اسے جاری رکھنا ضروری تھا.پس ایک طرف یہ چیز تھی اور دوسری طرف وسعت پیدا کرنی تھی.اب میں سوچتا ہوں کہ جس طرح میرے دماغ میں آیا ہے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دماغ میں بھی یہی بات آئی تھی کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے کام میں وسعت پیدا کریں.اور وسعت پیدا کریں، ان لوگوں کے ذریعہ جو تھوڑا گزارہ لیں اور وقف کی روح کے ساتھ آئیں.چنانچہ آپ نے ایک خطبہ میں ہزاروں کی سکیم بنادی.آپ نے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا.اب وہ میں سال کے بعد پوری ہوتی ہے یا پچاس سال کے بعد پوری ہوتی ہے، یہ ایک علیحدہ بات ہے.لیکن آپ نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کر دیا.مطبوعه روز نامه افضل 06 فروری 1972ء) 812

Page 830

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم رمایا:- سادگی میں بڑی برکت ہے ارشاد فرموده دوران دوره اسلام آباد ارشاد فرموده دوران دورہ اسلام آباد 1972ء سادگی میں بڑی برکت ہے.سادہ خوراک اور سادہ لباس صحت مند معاشرہ کے لئے دو بنیادی امور ہیں.اگر قوم ان دوامور پر عمل پیرا ہو جائے تو انشاء اللہ، بہت جلد مبادہ ترقی پر گامزن ہو جائے گی“.مطبوعه روزنامه الفضل 04 فروری 1972ء) 813

Page 831

Page 832

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 24 مارچ 1972ء وو ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو خطبہ جمعہ فرمودہ 24 مارچ 1972ء غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری ذہنیت ایسی ہونی چاہئے کہ تم ہر حالت میں اور ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہوگے.اگر تمہارا یہ پختہ عزم ہو گا کہ تم خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہو گے اور کسی صورت میں بھی اس عہد کے خلاف کام نہیں کرو گے تو آسمان کے فرشتے نازل ہوں گے، جو تمہارے قدموں میں ثبات پیدا کر دیں گے اور پھر تم خدا تعالیٰ کی مہربانی سے اپنے عہد پر پورا اترو گے.پس يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ میں اس نصرت الہی کا وعدہ ہے، جو خدا تعالیٰ کے فرشتے ثبات قدم پیدا کریں گے.کیونکہ اس کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا.اور اِنْ تَنْصُرُوا الله کے ظاہری طور پر صرف یہی معنی نہیں کہ مثلاً لوگ خدا کی راہ میں لڑنے کے لئے ہتھیار لے کر آ گئے یا جہاد کے لئے پیسے دے دیئے.بلکہ اللہ کے دین کی نصرت سے مراد وہ فدائیت ہے، جو انسانی فطرت کا جزو بن جاتی ہے، جو اس کی ذہنیت بن جاتی ہے، جو انسان کی روح بن جاتی ہے.انسان کی ایمانی روح ہی یہ ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے ، اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے رہنا ہے.اور پھر دین کی یہ نصرت ہزار قسم کی ہوسکتی ہے.کیونکہ ہزار قسم کے مطالبات ہیں، جو ہزار قسم کے مختلف حالات میں کئے جاتے ہیں.مثلاً مالی قربانیاں ہیں، جان کی قربانیاں ہیں، یعنی وقف زندگی کی شکل میں زندگی کی قربانی ہے.پھر اشاعت قرآن کے لئے جدو جہد ہے، جو آج کل بڑے زور سے شروع ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں کامیابی عطا فرمائے.اور یہ دراصل جہاد کبر ہے.کسی آدمی نے پتہ نہیں یہ کیسے کہہ دیا تھا کہ اسلام کی اشاعت کے لئے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار ہو، تب صحیح نتائج بر آمد ہوتے ہیں؟ لیکن ہمیں تو خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے اور یہی حقیقی الہی آواز ہے، جو ہمارے کانوں میں پڑی 815

Page 833

اقتباس از خطبه جمعه فرمود 24 مارچ 1972ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ہے اور جس کا ہم دنیا میں اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور ہمارے دوسرے ہاتھ میں بھی قرآن ہے.قرآن کریم نے ہمارے دونوں ہاتھوں کو مصروف رکھا ہوا ہے.البتہ قرآن کریم جب یہ کہتا ہے، تلوار پکڑ لوتو ہم تلوار پکڑ لیتے ہیں.لیکن قرآن کریم ہی جب یہ کہتا ہے کہ مدافعانہ تلوار کا زمانہ گزرر گیا، اب ہم نے تلوار کا کام قلم سے دکھانا ہے، اب ہم نے تلوار کا کام نیکی کی باتوں کو بیان کر کے اپنی زبان سے دکھانا ہے، اب ہم نے میدان تبلیغ میں کود کر ان لوگوں سے مشابہت حاصل کرنی ہے، جو میدان جنگ میں کود جاتے تھے، اب ہم نے میدان تبلیغ اور اشاعت اسلام کے میدان میں ڈٹ جانا ہے اور اس میں ثبات قدم کے ساتھ کوشاں رہنا ہے، ہم نے اس میدان سے منہ نہیں پھیرنا، کمزوری نہیں دکھانی ، دنیا کی لالچ میں نہیں پڑنا، کیونکہ ہم نے خدا تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد کیا ہوا ہے کہ ہم تیرے دین کی مدد کریں گے.پس یہ وہ ذہنیت ہے، جس کی طرف اِنْ تَنْصُرُوا اللهَ میں اشارہ کیا گیا ہے.یعنی اگر تم خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے اس طرح تیار ہو جاؤ گے کہ ہر دوسری چیز کو بھول جاؤ گے تو تمہاری یہی ایمانی روح خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کا ذریعہ بن جائے گی.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے ہیں اور ہم نے آپ ہی کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کا مشاہدہ کیا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی خدا تعالیٰ کے عشق میں مخمور ہو جاتا ہے، اس کو تو اس بات کی ہوش بھی نہیں ہوتی کہ میری کوئی تعریف کر رہا ہے یا نہیں؟ میرے اوپر کوئی لعن طعن کر رہا ہے یا نہیں؟ وہ تو اللہ تعالیٰ کے عشق میں مست ہوتا ہے.دل ریش رفته رفتہ بکوئے دگر تحسین ولعن جہاں بے خبر پس یہ خدا تعالیٰ کے عشق میں مست ہونے کی جو حقیقت ہے، اسی کی طرف اِنْ تَنْصُرُوا اللهَ میں اشارہ کیا گیا ہے.یعنی اگر تم اسی فدایا نہ ذہنیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرو گے اور کچھ ادھر اور کچھ ادھر نہیں جاؤ گے، (انہی آیات میں آگے یہ کہا گیا ہے، ان کی میں نے اس وقت تلاوت نہیں کی ، ان کا مفہوم بیان کر رہا ہوں کہ تم یہ نہیں کہو گے کہ ہم کچھ باتوں کی اطاعت کریں گے اور کچھ میں اپنی مرضی چلائیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم کچھ باتوں میں اپنی مرضی چلاؤ گے اور کچھ میں 816

Page 834

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرمود 240 مارچ 1972ء میری اطاعت کرو گے تو میری ساری لعنت تم پر پڑے گی.فرماتا ہے، میں یہ نہیں کہوں گا کہ کچھ میری رحمت کہ کچھ میری رحت سے حصہ لے لو اور کچھ میرے قہر اور غضب سے حصہ لے لو.پس اس ذہنیت کا پیدا ہونا ، جس کی طرف إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ میں اشارہ کیا گیا ہے، بڑا ضروری ہے.خصوصاً ایک احمدی کے لئے بڑا ضروری ہے.اور احمدیوں میں سے اس گروہ کے لئے بڑا ضروری ہے، جنہوں نے خدا تعالیٰ سے ایک نیا عہد باندھا ہے کہ ہم اپنی زندگیاں تیرے دین کے لئے تیری راہ میں وقف کرتے ہیں.(مطبوعہ روزنامه الفضل 21 مئی 1972 ء ) 817

Page 835

Page 836

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم ارشاد فرمود 16 جولائی 1972ء اللہ تعالیٰ نے ہم پر اسلام کی عالمگیر تبلیغ کی عظیم الشان ذمہ داری ڈالی ہے وو ارشاد فرمودہ 16 جولائی 1972ء اللہ تعالیٰ نے ہم پر اسلام کی عالمگیر تبلیغ واشاعت کی عظیم الشان ذمہ داری ڈالی ہے.ہماری تمام تر توجہ اس پر مرکوز رہنی چاہیے.اور اس سے کما حقہ عہدہ براں ہونے کے لئے ہمیں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے.اللہ تعالی نے جماعت احمدیہ کو بہت کی بشارتیں دے رکھی ہیں.جو اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی.مگر یہ خدا کے کام ہیں.انہیں خدائے صادق و واحد پر چھوڑ دینا چاہیے.جو ہمارے کرنے ہو " وو کے کام ہیں، انہیں خلوص نیت اور صدق دل سے انجام دینے کی پوری کوشش کرتے رہنا چاہئے.جماعت احمدیہ کے قیام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں بنی نوع انسان سے حقیقی پیار اور سچی ہمدردی کی جائے.اور اس حسن وسلوک میں رنگ و نسل اور مذہب وملت کا کوئی امتیاز روانہ رکھا جائے.چنانچہ براعظم افریقہ میں جماعت احمدیہ اس کا عملی مظاہرہ کر کے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کر چکی ہے.افریقن دوست جو سالہا سال سے عیسائیوں کے ہاتھوں استحصال اور تحقیر کا نشانہ بنے وئے تھے، احمدیت کے ذریعے اسلام کی حقانیت سے روشناس ہوئے تو ان میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی اور ان کا سر فخر سے بلند ہو گیا.چنانچہ سیرالیون کے ایک سر بر آوردہ غیر از جماعت دوست نے ، جو سابقہ حکومت میں نائب وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں، نے ایک استقبالیہ میں اس بات کا کھلے بندوں اعتراف کیا اور کہا کہ اس صدی کے شروع میں ہم اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے تھے اور اغیار کے سامنے ہمارے سر جھکے رہتے تھے.احمدیت کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اسلام کی حقانیت کو بدلائل واضح کیا اور مخالفین اسلام کی زبانیں بند کر دیں.اب ہمارے سر فخر سے بلند ہو گئے ہیں.اسلام کی تبلیغ اور قرآن کریم کی اشاعت کوئی معمولی کام نہیں ہے.اس لئے اس کے لئے جہاں لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ 819

Page 837

ارشاد فرمودہ 16 جولائی 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کی رو سے نوع انسانی کی ہدایت کا اپنے دل میں حقیقی درد پیدا کرنے کی ضرورت ہے، وہاں یہ کام ایک مضبوط اور ایثار پیشہ تنظیم اور سب سے بڑھ کر آسمانی رہنمائی کا بھی محتاج ہے.....ہماری دیکھا دیکھی ایک دفعہ از ہر یونیورسٹی کے چند فارغ التحصیل علماء سیرالیون پہنچے.مگر ان کی سہل پسند طبیعت وہاں بھی آڑے آئی ، جلد ہی اسلام کا سارا درد کا فور ہو گیا.ابھی لوگ ان کی ایک جھلک بھی دیکھ نہ پائے تھے کہ وہ مصر واپس لوٹ گئے.اسی طرح یہاں کی ایک تبلیغی جماعت کے کچھ افراد کو اسلام کی تبلیغ کا جوش آیا تو وہ امریکہ تشریف لے گئے.اور بڑے طمطراق سے حیات مسیح پرلیکچر دینے لگے.ہمارے بعض نو مسلم امریکن دوستوں نے ان سے کہا کہ مشکل سے ہم نے عیسائیت سے نجات حاصل کر کے اسلام کی زندگی بخش تعلیم میں پناہ لی ہے، اب آپ اسلام کی بجائے الٹا عیسائیت کو سچا ثابت کر رہیں ہیں.یہ تو اسلام کی " خدمت نہیں ہے.چنانچہ اپنے ترکش کے اس آخری تیر کی ناکامی پر ان کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا.اسلام کا عالمگیر غلبہ اب احمدیت کے ذریعے مقدر ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کے حق میں ہر قسم کے دلائل کے علاوہ معجزات اور قبولیت دعا کے نشانات ہمارے ہاتھ میں بطور ہتھیار دیئے ہیں.یہی وہ ہتھیار ہیں، جن کے ذریعہ ہم اسلام کو ادیان باطلہ پر غالب کرنے میں شب و روز کوشاں ہیں.اس میں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.مطبوعه روز نامه الفضل 08 اگست 1972ء) 820

Page 838

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اگست 1972ء ہمارا فکر، تدبر، پڑھنا سننا ہونا اور جاگنا اسلام کی ترقی کے لئے وقف ہے " خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اگست 1972ء ہماری جماعت ایک ایسی جماعت ہے، جس کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آ جائے.اسلام کے مقابلے میں تمام ادیان باطلہ مٹ جائیں ، سارے اندھیرے جاتے رہیں، اسلام کا نور ساری دنیا میں پھیل جائے.لوگ اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں کسی کو اسلام کی اشاعت کا فکر نہیں اور نہ اسلام کا درد ہے.یہ جماعت احمدیہ ہی ہے، جس کے دل میں اسلام کا درد ہے.اس لئے ہمارا فکر اور ہمارا تدبر، ہمارا پڑھنا اور ہماراسنا ، ہمارا سونا اور ہمارا جا گنا اسلام کی ترقی کے لئے وقف ہے.لیکن دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور ہے.دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور ہے، ملک کے حاکموں کے مقابلے میں.دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور ہے، پاکستان کے مقابلہ میں.اس لئے وہ اسے مٹانا چاہتا ہے.غرض اس وقت کئی خیالات ہیں، جو لوگوں میں چکر لگارہے ہیں.تاہم جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے، ہمارے پاس کچھ نہیں.مجھے تو یہ کہتے ہوئے ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی کہ میں بڑا غریب ہوں.میں سے مراد جماعت احمدیہ ہے.کیونکہ جماعت احمدیہ اور اس کا امام ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.بہر حال ہمارے پاس نہ کوئی سیاسی اقتدار ہے اور نہ سیاسی اقتدار کے لئے اپنے اندر کوئی دلچسپی محسوس کرتے ہیں.نہ ہمارے پاس تلوار ہے اور نہ بندوق ہے اور نہ کوئی اور سامان ہیں.لیکن ایک ہتھیار اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا دیا ہے، جس کے مقابلے میں کوئی ہتھیار ٹھہر نہیں سکتا.اور وہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا ہتھیار ہے.انسان جب اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزانہ طور پر جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کے لئے آتا ہے.چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے جب کبھی شکست کھائی یا دشمن سے مار کھائی یا دشمن کے ہاتھوں ذلت اٹھائی تو وہ اسلام کو چھوڑ کر اور خدا تعالیٰ سے دور ہو کر اٹھائی.پس دوستوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ایک زبر دست ہتھیار ہے، تم اسے استعمال کرو اور بہت دعائیں کرو".بہر حال ہم عاجز بندے ہیں.اور یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے، ہم اسے بھولے تو نہیں.اللہ تعالیٰ کے نشان دیکھنے پر ابھی اتنا زمانہ نہیں گذرا کہ ہم یہ کہیں کہ پہلوں نے نشان دیکھے تھے، ہمیں کیا معلوم 821

Page 839

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اگست 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہے؟ نہیں، ہمیں بھی معلوم ہے.کیونکہ ہم بھی روز یہ نشان دیکھتے ہیں.کوئی پشاور میں نشان نظر آ رہا ہے، کوئی نشان گوجرانوالہ میں نظر آ رہا ہے، کوئی گجرات میں نظر آ رہا ہے، کوئی سیالکوٹ میں نظر آ رہا ہے، کوئی نشان ملتان، بہاولپور اور کراچی ،غرض سارے پاکستان میں یہاں تک کہ ساری دنیا میں نشان نظر آ رہے ہیں.ہمارا رب بڑا ہی پیار کرنے والا ہے.اگر ہم اس سے بے وفائی نہ کریں تو وہ انسان سے کہیں زیادہ وفادار ہے.اگر ہم اس کے شکر گزار بندے بنیں تو وہ ہمیں اپنے فضلوں سے بہت زیادہ نوازتا ہے.اسی لئے اس نے قرآن کریم میں فرمایا:.لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم 08) پس اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے.بعض لوگ جو بھی احمدی نہیں ہوئے ، مثلاً افریقہ میں بھی ہیں اور دوسری جگہوں پر بھی ہیں، وہ اپنی تقریروں میں علی الاعلان بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے احمدیت کی صداقت کے نشان دیکھے ہیں.چنانچہ سیرالیون کے ایک سابق ڈپٹی پرائم منسٹر کے متعلق میں پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں کہ جب میں افریقہ کے دورے پر گیا اور سیرالیون پہنچا تو اس نے پیچھے پڑ کر استقبالیہ دیا.میں سمجھتا ہوں کہ سابق نائب وزیر اعظم صاحب اس لئے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ اس طرح وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے.چنانچہ وہ اپنی استقبالیہ تقریر میں یہ کہتے تھے کہ میں احمدی نہیں ہوں.لیکن جس شخص نے ( یہ ان کے الفاظ تھے ) بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت کی، اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ کر کے رکھ دیا.اب وہ ایک ایسے شخص سے، جو یہاں سے پانچ ہزار میل دور سیرالیون کے رہنے والے تھے ، نہ وہ یہاں آئے ، نہ مرکز سلسلہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق تھا ، احمدی وہ نہیں تھے، محض ایک سیاستدان ہیں.مگر انہوں نے اپنی تقریر میں کہا میں نام نہیں لیتا ( شاید ان کی وزارت کے زمانہ میں کوئی وزیر تھا ) بڑا امیر آدمی تھا، اس کے پاس کاریں تھیں، وہ بڑے پیسے والا تھا مگر اس نے جماعت کی بڑی مخالفت کی تھی.تم میں سے ہر ایک شخص کو پتہ ہے، میں اس کا نام نہیں لیتا.مگر اب بتاؤ کہاں ہے وہ آدمی ؟ کہاں ہیں اس کی کاریں؟ اور کہاں ہے اس کا خاندان؟ غرض یہ الفاظ ایک غیر از جماعت سمجھدار اور سابق نائب وزیر اعظم کے ہیں، جس نے اپنی تقریر میں برملا اظہار کیا اور احمدیت کی صداقت کا ایک نشان بنا.غرض اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے حق میں ساری دنیا میں اپنی قدرت اور اپنے پیار کے نشان دکھاتا ہے.جب تک ہم اس کے وفادار اور شکر گزار بندے بنے رہیں گے، اس وقت تک ہم اللہ تعالیٰ کی 822

Page 840

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اگست 1972ء قدرتوں کے نشان اور اس کے پیار کے جلووں کو دیکھتے رہیں گے.اس واسطے عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کے پیار اور اس کے فضلوں کو جذب کرو تا کہ دشمنوں کی طرف سے جو بھی فتنہ کھڑا ہو، وہ کامیاب نہ ہو.ہمیں ان کی ہلاکت سے کوئی غرض نہیں ہے اور نہ ہماری یہ خواہش ہے کہ وہ ہلاک ہوں.ہم تو ان کی اصلاح چاہتے ہیں.ہم ان کے مقابلے پر کھڑا ہونا نہیں چاہتے.ہم دعا کرتے ہیں کہ ان کے جو منصوبے ہیں، وہ خَيْرُ الْمَاكِرِین تو ڑ کر رکھ دے.وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب نہ ہوں.اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اسلام کو غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھاتی چلی جائے.احباب اس کے لئے دعا کرتے رہیں.وو پس ہمارے ہر چھوٹے اور بڑے خصوصاً نو جوانوں کو یہ بات کبھی بھولنی نہیں چاہئے کہ آج دنیا میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر ، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اور اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کی خاطر جو جنگ لڑنی ہے، وہ کوئی معمولی جنگ نہیں ہے.وہ بڑی زبر دست جنگ ہے.دہریت ( جسے ہم اشتراکیت اور کمیونزم بھی کہتے ہیں.دنیا کی آدھی آبادی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ حصے پر چھائی ہوئی ہے.دوسری طرف مذہب کے نام پر زندہ رہنے والی قو میں خواہ کتنی ہی کمزور ایمان والی کیوں نہ ہوں یا بد مذہب جن میں کسی نبی کی تعلیم کا ایک معمولی ساعکس نظر آتا ہے اور اسے بھی وہ اب بھول چکے ہیں، لیکن بہر حال وہ لامذہب نہیں کہلا سکتے.( بد مذہب کی اصطلاح نئی نہیں ہے، اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعمال فرمایا ہے.انہوں نے آدھی دنیا کی دولت سنبھالی ہوئی ہے.اور دنیوی لحاظ سے ان کی بہت بڑی طاقت ہے.اور اسلام دشمنی میں بھی یہ لوگ بہت نمایاں ہیں.جس طرح آج جو شخص بھی مفسدانہ نعرہ لگانا چاہتا ہے، وہ مرزائیت کے خلاف نعرہ لگا دیتا ہے.حالانکہ مرزائیت تو دنیا میں ہے ہی کہیں نہیں.یہ تو احمدیت ہے.لیکن بہر حال فساد بر پا کرنے کی نیت سے مرزائیت کے خلاف نعرہ لگ جاتا ہے.لیکن جو باہر کی دنیا ہے، یعنی اسلام سے باہر کی دنیا، وہ جب بھی شرارت کرنا چاہیں، وہ اسلام کو ملوث کرتے اور اس کے خلاف باتیں کرنے لگ جاتے ہیں.ایک عیسائی، جو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے کلی طور پر علیحدہ اور جدا ہو چکا ہے، اس کے دل میں عیسائیت سے کوئی پیار نہیں رہا، وہ بات بات میں کہے گا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق تمہیں بات کرنے کا حق تب پہنچتا، جب تم حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان رکھتے.کوئی ان سے پوچھے کہ عیسائیت پر سے ایمان تو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا، اب اسلام کے خلاف یہ دلچپسی تمہارے اندر کہاں سے پیدا ہوگئی ہے کہ تم بات بات میں اسلام کے خلاف جھوٹ بولنے لگے ہو؟ 823

Page 841

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اگست 1972 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم میں نے اس وقت تک یورپ کے دو دورے کئے ہیں.مجھے وہاں یہ عجیب بات نظر آئی کہ عیسائیت غائب ہے اور اسلام دشمنی قائم ہے.پہلی بار جب میں 1967ء میں وہاں دورے پر گیا تھا تو دو جگہ مجھ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کو کیسے پھیلائیں گے؟ میں نے اس سوال کا یہ جواب دیا تھا کہ تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام پھیلائیں گے.ایک پریس کانفرنس میں 25-20 صحافی یہ جواب سن کر بلا مبالغہ سن ہو کر رہ گئے تھے.ایک منٹ تک تو ان کے منہ سے کوئی بات نہیں نکل سکی تھی.کیونکہ انہوں نے ساری عمر یہ سن رکھا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.اور ان کا سوال دراصل اسلام پر یہ طعن تھا کہ اسلام تو تلوار کے زور سے پھیلتا ہے، تلوار ہم نے اسلام کے ہاتھ سے چھین لی ہے، اب تم ہمارے ملکوں میں اسلام پھیلانے کے لئے کیا جھک مارتے پھرتے ہو.لیکن جس وقت انہوں نے میرا یہ جواب سنا تو مبہوت ہو کر رہ گئے.غرض اسلام کو پھیلانے کے لئے تلوار کی ہمیں ضرورت ہی نہیں.ہم لوگوں کے دل جیتیں گے اور اسلام پھیلائیں گے.کیونکہ اسلام کی تعلیم کے اندرا اتنا حسن و احسان موجود ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے تلوار کی ضرورت ہی نہیں ہے.میں چونکہ پہلے بھی اپنے کئی خطبات میں اس مضمون پر روشنی ڈال چکا ہوں، اس لئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.تاہم میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت ادیان باطلہ کے خلاف ہماری زبردست جنگ جاری ہے.اس وقت دنیا کا جاہل بھی اور پڑھا لکھا طبقہ بھی، دنیا کا مذہبی بھی اور خدا کو گالیاں دینے والا گروہ بھی اسلام پر حملہ آور ہے.ہم نے نہ صرف اسلام کا دفاع کرنا ہے بلکہ دنیا کو اسلام کے حسن و احسان کا گرویدہ بنا کر اسے محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالنا ہے.یہ کام بڑا ہی عظیم کام ہے.جتنا یہ عظیم الشان کام ہے، ہم پر اتنی ہی زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اس لئے ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہماری جو نوجوان نسل ہے، وہ ہمارے سید و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلامی فوج میں بھرتی ہونے کے قابل نہ ہو اور غیر تربیت یافتہ ہو.(مطبوعه روزنامه الفضل 10 ستمبر 1972ء) 824

Page 842

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 ستمبر 1972ء ہم ہر اس قربانی کے لئے تیار ہیں جو ہماری روحانی جنگ کے لئے ضروری ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 08 ستمبر 1972ء گذشتہ سے پیوستہ سال جب میں افریقہ گیا تو نائیجیریا کے سربراہ یعقو بوگوون سے میری ملاقات تھی.اس سے پہلے میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ میں نے ایک، دودن میں جو جائزہ لیا ہے اور مشاہدہ کیا ہے، میرا یہ تاثر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہر نعمت عطا فرمائی تھی مگر تم ہر نعمت سے محروم کر دیئے گئے ہو.وہ سمجھتے تھے کہ میرا عیسائی مشنوں کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ اگلے روز جب یعقو بوگوون سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے کہا، میرا یہ تاثر ہے، جس کا میں نے اپنے دوستوں سے اظہار بھی کیا ہے کہ You had all but you were deprived of all.اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہر چیز عطا فرمائی تھی مگر تم ہر چیز سے محروم کر دیئے گئے ہو.میں نے جب یہ فقرہ کہا تو اس نے بے ساختہ کہا:.How true you are! How true you are!! How true you are!!! پس کہنے کو تو بغیر کسی عمل کے نائیجیریا پر احسان دھرنے گئے تھے.نائیجیریا نے انگریز پر کوئی احسان تو نہیں کیا تھا کہ وہ وہاں پہنچا تھا.بقول خود ان کی خدمت کرنے کے لئے ان کا یہ عمل رحمان کی صفت سے ملتا جلتا ہے.کیونکہ صفت رحمن کا مطلب یہ ہے کہ کسی عامل کے عمل کے بغیر اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے.مثلاً اس نے ہماری پیدائش سے بھی پہلے ہمارے لئے ہزار ہا چیز میں پیدا کر دیں.انگریزوں کا اہل افریقہ سے سلوک گو بظاہر اس سے ملتا جلتا ہے لیکن حقیقتاً اس کے برعکس ہے.انگریز ان کو ایکسپلائٹ کرنے کے لئے گئے تھے.میں اپنی تقریروں میں اپنے افریقن دوستوں سے کہتا تھا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جب پاور یوں کی فوج تمہارے ملک میں داخل ہوئی تو اعلان انہوں نے یہی کیا تھا کہ وہ خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں.لیکن ان پادریوں کی صفوں کے پیچھے ان کی جوفو جیں داخل ہوئیں، ان کی توپوں سے پھول نہیں جھڑتے تھے بلکہ گولے برسے تھے.اور انہوں نے جو تمہارا حال کیا ، وہ تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو.مجھے 825

Page 843

اقتباس از خطبه جمعه فرمود 08 ستمبر 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن ہم (جماعت احمدیہ کے مبلغین بعض ملکوں میں ) پچاس سال سے کام کر رہے ہیں اور تم جانتے ہو.تم بھی گواہ ہو اور تمہاری حکومتیں بھی گواہ ہیں.ہم تمہاری ایکسپلانٹیشن کے لئے نہیں آئے ، ہم تمہاری خدمت کرنے کے لئے آئے ہیں.ہم ایک پیسہ تمہارے ملکوں سے باہر لے کر نہیں گئے.اور لاکھوں روپے باہر سے لا کر تمہارے ملکوں میں خرچ کر دیئے ہیں.چنانچہ اس بے لوث خدمت کا ان کے عوام کو بھی پتہ ہے اور ان کی حکومت کو بھی علم ہے.اس واسطے ہمارے ساتھ ان کا سلوک برادرانہ ہے.حالانکہ وہاں اکثر ملکوں میں کئی انقلاب آئے ، یکے بعد دیگرے حکومتیں بدلتی رہیں.کبھی فوجی حکومت آئی کبھی سول حکومت آئی.لیکن ہر حکومت ہمارے ساتھ بڑی عزت و احترام سے پیش آتی رہی.تاہم جہاں کہیں بھی تعصب برتا جاتا ہے، اس کی ذمہ دار عیسائیت ہے.کیونکہ عیسائیت کے ساتھ ہماری روحانی جنگ ہو رہی ہے اور یہ انشاء اللہ جاری رہے گی.ہم اس کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں.اس لئے جہاں کہیں عیسائی پادریوں کا داؤ لگتا ہے، وہ ہماری مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے“.مطبوعه روزنامه الفضل 14 نومبر 1972ء) 826

Page 844

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود و 22 ستمبر 1972ء جب تک ہر احمدی نسل قربانی نہ دے، ہماری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی خطبہ جمعہ فرمودہ 22 ستمبر 1972ء میں ایک اور بات یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں موت وحیات کا سلسلہ تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے.جماعت احمدیہ پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، ان ذمہ داریوں کو جماعت احمدیہ کی صرف ایک نسل پوری طرح ادا نہیں کر سکتی.کیونکہ قربانیوں کا زمانہ اپنے اندر بڑی وسعت اور پھیلا ؤ رکھتا ہے.ساری دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بندھنوں میں باندھنا کوئی آسان بات نہیں ہے.یہ ایک بہت بڑا کام ہے.آپ سوچیں اور ان بشارتوں کو دیکھیں، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو دی ہیں.اور دوسری طرف ان کمزوریوں پر نظر ڈالیں ، جن میں ہم خود کو پاتے اور نہایت بے بسی کی حالت میں دیکھتے ہیں.ہمارا تو سوچ کر بھی سر چکرا جاتا ہے کہ کتنے عظیم وعدے ہیں اور کتنے کمزور کندھے ہیں؟ کتنے وسیع کام ہیں اور کتنے محدود رائع ہیں ؟ اگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کی برکت ہمارے شامل حال نہ ہو ، اگر اس کا حکم فرشتوں کو اور اس عالمین کو اور ان جہانوں کو نہ ہو کہ انہوں نے غلبہ اسلام کے لئے اس چھوٹی سی جماعت کی مدد کرنی ہے تو پھر تو ہماری کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.پس ایک تو ہر احمدی کو ہر وقت یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے جو کام لینا چاہتا ہے، اس میں ہم کمزوری نہ دکھائیں.اور دوسرے ہم نوجوان نسل کی تربیت کی طرف خاص طور پر توجہ دیں.کیونکہ جد و جہد، قربانی اور ایثار کے زمانہ میں بڑا پھیلاؤ ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو جو نسل قربانیاں دینے اور ایثار دکھانے کے لئے عطا فرمائی تھی، ان میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ، چند ایک باقی ہیں.اس کے بعد دوسری نسل پیدا ہوئی ، اس میں سے بھی بہت سے وفات پا گئے.اللہ تعالیٰ نے بہتوں کو یہ توفیق دی اور دے رکھی ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی عاجزانہ کوششوں اور عاجزانہ دعاؤں کو پیش کرتے رہیں.ہمارے بھائی ابوبکر ایوب صاحب بھی انہی میں سے ایک تھے، جو مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ 827

Page 845

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 22 ستمبر 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کے مصداق بن گئے.بہت سے زندہ ہیں، جو قربانیاں دے رہے ہیں اور اپنے اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں.ہماری دعا ہے بعد کی نسل، اس کے بعد کی نسل اور پھر اس کے بعد کی نسل اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری خواہش اور کوشش بھی یہی ہونی چاہئے کہ قیامت تک کی ہر احمدی نسل خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والی اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی ہو.اللہ تعالیٰ بعد میں آنے والے مربیوں کو بعد میں آنے والی نسلوں کی تربیت کی توفیق عطا فرمائے.تاہم جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، ہمیں اس ذمہ داری کو کما حقہ پوری توجہ اور دعاؤں اور کوشش کے ساتھ نباہنا چاہئے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہمارے بھائی ابوبکر ایوب صاحب بڑے مخلص احمدی تھے.خدا کرے کہ جماعت کو اسی قسم کے مخلص دل اور روشن دماغ اور پوری توجہ اور انہماک سے قربانیاں دینے والے سینکڑوں ہزاروں مخلصین ملتے رہیں.تاکہ کام کے اندرسہولت اور کام کے اندر وسعت اور کام میں تیزی پیدا ہو.اور جلد ہی نتیجہ نکلنے کے امکانات پیدا ہو جائیں.خدا کرے کہ دنیا کے تمام اندھیروں کے باوجوداللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ اپنے نور سے منور ہی رکھے اور اپنی رحمتوں سے نوازتا ہی رہے.اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں اس جہت کی طرف ہدایت دیتا چلا جائے ، جس جہت کی طرف وہ ہمیں لے جانا چاہتا ہے اور جس مقصود تک وہ ہمیں پہنچانا چاہتا ہے، اس مقصود تک وہ اپنے فضل سے اپنی راہنمائی میں ہمیں پہنچا دے.وہ ہماری زندگیوں کو کامیاب اور خوشحال اور ہر طرح سے قابل اطمینان بنادے“.( مطبوعه روزنامه الفضل یکم اکتوبر 1972ء) 828

Page 846

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1972ء ایک چیلنج جو مجھے اور آپ کو رمضان اور رمضان کا یہ آخری جمعہ دیتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1972ء غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے، جمعہ اور رمضان کا یہ مضمون بہت لمبا ہو گیا ہے ابھی میں نے ایک اور بات بھی کہنی ہے ) آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے.اوروہ یہی قبولیت دعا کا تعلق ہے.رمضان کا جمعہ بالخصوص یہ آخری جمعہ ہمیں یہ پینج دیتا ہے اور کہتا ہے، اگلے سال میں پھر آؤں گا تو دیکھوں گا تم نے روحانی طور پر ترقی کی ہے یا نہیں؟ پس رمضان کا مہینہ تو اب گزرا چاہتا ہے.اس میں قبولیت دعا کی جود کان کھلی تھی ، یہ ہر جمعہ کو کھلتی رہے گی.جس میں روحانی اجر اور ثواب اللہ کے فضل اور اس کی رحمتیں قسم قسم کی برکتیں اور نعمتیں میسر آئیں گی.مگر ہر انسان اپنے اپنے اعمال اور مجاہدہ کے مطابق انہیں حاصل اور روحانی حسن کو دو بالا کر سکے گا.غرض رمضان میں اور پھر ہر جمعہ کے دن روحانی بھوک کی سیری کا انتظام کیا گیا ہے.ایک چیلنج جو مجھے اور آپ کو رمضان اور رمضان کا یہ آخری جمعہ دیتا ہے، وہ اس دفعہ اکٹھا ہو گیا ہے.ہم ہر سال یکم نومبر تحر یک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا کرتے ہیں.چنانچہ اب اس جمعہ نے ہمیں یہ پینج دیا کہ پچھلے سال سے آگے بڑھ کر دکھاؤ.یعنی یہ جمعۃ المبارک ہمیں یہ کہہ کر جا رہا ہے کہ میں اگلے سال آؤں گا اور دیکھوں گا کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے برکتوں اور نعمتوں کے جو سامان پہلے سے زیادہ مہیا کئے تھے، ان میں سے تم نے کتنا حصہ پایا ؟ اس چیلنج پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورا اترنے کی توقع کے ساتھ میں آج تحریک جدید کے انتالیسویں اور انتیسویں اور آٹھویں سال کا اعلان کرتا ہوں.تحریک جدید کے تین دفتر ہیں.یکم نومبر سے دفتر اول کا انتالیسواں، دفتر دوم کا انتیسواں اور دفتر سوم کا آٹھواں سال شروع ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے.چار سال ہوئے ، میں نے اس وقت کے حالات کے مطابق اور گزشتہ سالوں میں تحریک جدید کی مالی قربانیوں کا جائزہ لے کر جماعت کے سامنے ایک ٹارگٹ رکھا تھا.اور وہ یہ تھا کہ اندرون پاکستان تحریک جدید کا چندہ سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانا چاہیے.ویسے تو تحریک جدید کا مجموعی بجٹ یعنی تحریک جدید کی ساری دنیا کی آمد جب اکٹھی کی جائے تو وہ کم و بیش پچاس لاکھ روپے بنتی ہے.جس 829

Page 847

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 نومبر 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم میں آپ کا یعنی پاکستان کی جماعتوں کا چندہ اس وقت بہت کم ہے.اس لئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ تحریک جدید کا چندہ سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانا چاہیے.لیکن ایسا نہیں ہو سکا.تا ہم اس کی چند وجوہ ہیں.گزشتہ چار سال میں ملک میں جو حالات گزرے ہیں، جب ان کا جائزہ لیتا ہوں تو میں اپنے دل کو حمد کے جذبات سے معمور پاتا ہوں.آپ کے خلاف میرے دل میں غصہ نہیں پیدا ہوتا.تحریک جدید کے دفتر اول کے چونتیسویں سال یعنی 68-1967ء میں دفتر دوم اور سوم کو بھی ملا کراندرون پاکستان تحریک جدید کا چندہ پانچ لاکھ ، پچاس ہزار روپے تھا.اور اس سے اگلے سال یعنی 1968-69ء میں چھ لاکھ تمہیں ہزار تک پہنچ گیا.یعنی اسی ہزار روپے کا اضافہ ہوا.اور یہ بڑا خوشکن اضافہ تھا.پھر اس سے اگلے سال یعنی 70- 1969ء میں یہ چندہ چھ لاکھ، میں ہزار سے بڑھ کر چھ لاکھ، پینسٹھ ہزار روپے تک پہنچ گیا.مگر اس سے اگلے سال یعنی 71-1970ء میں یہ رقم چھ لاکھ، پینسٹھ ہزار سے گر کر چھ لاکھ، ارتمیں ہزار روپے پر آگئی.کیونکہ ملک میں ہنگاموں کی وجہ سے بڑا شور مچ گیا.جلوس اور سٹرائیکس ، گھیراؤ اور جلاؤ کی ایک جنونی کیفیت تھی، جو قوم پر طاری ہوگئی.لیکن اتنے بڑے ہنگاموں اور اس قدر جنونی کیفیت کے باوجود تحریک جدید کے چندوں میں صرف ستائیس ہزار روپے کی کمی واقع ہوئی.اور میں سمجھتا ہوں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.ورنہ ملکی حالات تو بڑے دگر گوں تھے.چنانچہ ملک میں سٹرائیکس وغیرہ کا سلسلہ ایک حد تک اب بھی جاری ہے.کوئی کہ سکتا ہے کہ ملکی سٹرائیکس کا تحریک جدید کے چندوں کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اس کا تعلق ہمارے تاجروں کے ساتھ ہے اور اس کا تعلق ہمارے دوستوں کے ساتھ ہے، جو کارخانوں میں ملازم ہیں اور اس کا تعلق ان چیزوں کے ساتھ ہے، جو کارخانوں میں بنتی ہیں یا نہیں بنتیں.ہڑتالوں کی وجہ سے جب پیداوار کم ہوگی تو ملک کی آمد بھی مجموعی طور پر کم ہو جائے گی.پیداوار اور آمد ایک ہی چیز کی دو شکلیں اور دوز دیئے ہیں.ہم ایک کو پیداوار اور دوسرے کو آمد کہہ دیتے کو ہیں.بہر حال ہنگاموں اور ہڑتالوں کی وجہ سے جہاں ملکی معیشت تباہ ہوتی ہے.وہاں تحریک جدید اور جماعت کے دوسرے چندوں پر بھی اثر پڑتا ہے.مگر ان غیر تسلی بخش حالات کے باوجود تحریک جدید کے پچھلے سال یعنی 72-1971ء میں چھ لاکھ، چھتر ہزار روپے کی آمد ہوئی.حالانکہ اس میں مشرقی پاکستان کا چندہ شامل نہیں ہے.گو ہماری دعائیں ہیں کہ خدا کرے ملک کے دونوں حصے پھر سے ایک ہو جائیں.لیکن بظاہر حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ تحریک جدید کا جو چندہ مشرقی پاکستان کی جماعتوں کی طرف سے آتا تھا، وہ نہیں آسکا اور نہ آ سکتا تھا.ویسے ہم امید رکھتے ہیں اور غیر ممالک مثلاً انگلستان سے مختلف 830

Page 848

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم - اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ03نومبر 1972ء ذرائع سے ہمیں خبریں بھی مل رہی ہیں کہ مشرقی پاکستان کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ہنگاموں کو اور وحشتوں کے باوجود مالی قربانیاں بھی دے رہی ہے، وہاں نئی سے نئی جماعتیں بھی قائم ہو رہی ہیں، نئے احمدی بھی ہورہے ہیں.چنانچہ اس قسم کی خوشکن خبریں جب انگلستان یا دوسرے ممالک میں پہنچتی ہیں تو یہ ایک قدرتی بات ہے کہ وہاں کے دوست ہمیں بھی اس خوشی میں شامل کرتے ہیں اور ان کے حالات لکھ بھیجتے ہیں.غرض مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات کے باوجود پچھلے سال تحریک جدید کا چندہ تدریجی ترقی کے آخری سال یعنی چھ لاکھ، پینسٹھ ہزار سے بڑھ کر چھ لاکھ، چھتر ہزار تک جا پہنچا.حالانکہ اس میں مشرقی پاکستان کی آمد شامل نہیں ہے.اگر وہ بھی چھ لاکھ، پینسٹھ ہزار روپے والی آمد کی طرح ہی سمجھ لی جائے تو یہ رقم سات لاکھ ، پانچ ہزار روپے بنتی ہے.پس اگر چہ ساری دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے لیکن چونکہ ہمارے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ، یہ آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کی اس قدرت کا مظاہرہ تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ کی صورت میں ہوا.لوگوں کی آمدنیوں پر اثر پڑنا چاہیے تھا مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو مجموعی طور پر یہ تو فیق عطا فرمائی کہ وہ اس فتنہ و فساد کی آگ سے اپنی آمدنیوں کو متاثر نہ ہونے دیں.تا کہ غلبہ اسلام کے لئے قربانیاں دینے کی جو ذمہ داری ان پر عائد کی گئی ہے، وہ اثر انداز نہ ہو.اور ان کی کوششوں میں کمی واقع نہ ہو.یا اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں کمی نہ آجائے.ویسے پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال غیر ممالک میں جماعت پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل نازل ہوا ہے، جو آپ کے سامنے بھی آنا چاہیے.اس لئے تحریک جدید کو چاہیے کہ وہ چھوٹے چھوٹے نوٹ الفضل میں دیا کریں.اسی طرح نصرت جہاں آگے بڑھو کی سکیم ہے.اس سکیم کے ماتحت بہت سے کام ہو رہے ہیں.اس الہی سکیم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی رحمت کے عجیب نظارے ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظارے جماعت کے سامنے آنے چاہئیں.تا کہ وہ بھی شکر ادا کریں اور دل کی گہرائیوں سے الحمد للہ کا ورد کریں.اور دین کی راہ میں بشاشت کے ساتھ مزید قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں.بہر حال سات لاکھ، پانچ ہزار کی رقم بھی ٹارگٹ سے کم ہے.اس میں پچاسی ہزار روپے کا فرق ہے.اس لئے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ٹارگٹ تک پہنچنے کے لئے اس کمی کو اس نئے سال میں پورا کرنے کی 831

Page 849

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 نومبر 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد چہارم کوشش کریں.میں بھی کوشش اور دعا کروں گا.آپ بھی دعا ئیں کریں.میری کوشش اور دعائیں کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ دعا ئیں نہ کریں.آپ دعا ئیں بھی کریں اور کوشش بھی کریں.اور میں کوشش بھی کروں گا اور دعائیں بھی کروں گا تا کہ یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے.میں پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ تحریک جدید میں چندوں کی کمی کو پورا کرنے کی اصل ذمہ داری دفتر سوم پر عائد ہوتی ہے.کیونکہ یہ نیا دفتر ہے اور اس کے قیام پر ابھی سات سال گزرے ہیں.اس دفتر نے آگے چل کر دفتر دوم کی قائم مقامی کرنی ہے اور پھر دفتر اول کی قائم مقامی کرنی ہے.دفتر اول میں شامل ہونے والوں میں سے کچھ دوست ہر سال وفات پا جاتے ہیں.بعض دوست ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کی پانچ، پانچ ہزار روپے آمد تھی لیکن بڑھاپے کی وجہ سے ان کی آمد کم ہوگئی ہے.اس کمی کو تو وہ خدا تعالیٰ کے پیار میں شاید برداشت کر لیتے ہوں.لیکن ان میں سے اکثر وفات پا جاتے ہیں اور اس میں نہ میرا اختیار ہے اور نہ آپ کا اختیار ہے.پس اگر چہ دفتر اول نے اپنے وقت پر تحریک جدید کے چندوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا.مگر طبعی اثرات کی وجہ سے مشکل یہ بن گئی کہ دفتر اول کا چندہ گرتے گرتے 68-1967ء میں (اس سے پہلے کے اعداد وشمار میرے پاس نہیں ہیں) ایک لاکھ، پچپن ہزار روپے پر آ گیا.پھر تین سال بعد 1971-72ء میں ایک لاکھ، پنتالیس ہزار روپے رہ گیا.ان تین چار سال میں دس ہزار روپے کی کمی بتاتی ہے کہ بعض دوست وفات پاگئے یا بعض پنشن پر آگئے اور آمد کم ہوگئی یا بڑھاپے کی وجہ سے تجارت کرنا چھوڑ دی اور اپنے بیٹوں سے کہہ دیا کہ وہ کاروبار سنبھالیں.ایسی صورت میں تحریک جدید کا چندہ ان کے بیٹوں کے حساب میں لکھا جائے گا.لیکن ایسے بوڑھے دوستوں کی آمدنی تو بہر حال کم ہو جاتی ہے.اس طرح ان کا چندہ بھی.ایسے دوستوں سے تو پھر تھوڑے سے چندے کی توقع کی جاسکتی ہے.یعنی وہ اپنے جیب خرچ یا اس آمد سے جو وہ اپنے لئے علیحدہ کر لیتے ہیں، اس میں سے ہی چندہ دے سکتے ہیں.اس لئے ان حالات میں 68-1967 ء اور 72-1971 ء کے درمیانی عرصہ میں دفتر اول کے چندوں میں دس ہزار کی کمی، کوئی اتنی بڑی کمی نہیں ہے.عام حالات میں اس سے زیادہ کمی واقع ہونے کا اندیشہ تھا.ویسے تو خدا تعالیٰ دس آدمیوں کو بھی اگر یہ توفیق عطا کرے کہ وہ اس دفتر میں پچاس گنا زیادہ چندہ دیں تو یہ فرق دور ہو جائے گا.اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ انسانی زندگی کا یہ معمول ہے کہ کچھ عرصہ زندگی گزارنے کے بعد ہر انسان پر بڑھاپا آتا ہے اور پھر موت آتی ہے.اس لحاظ سے دفتر اول بظاہر کمی کی طرف جارہا ہے اور پچھلے سالوں میں عملاً کمی واقع بھی ہو چکی ہے.832

Page 850

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1972ء پھر دفتر دوم جو مالی قربانی کے لحاظ سے 28 سال گزار چکا ہے، اس میں دوستوں نے ہمت کی ان کا چندہ چار لاکھ ، پچپن ہزار تک پہنچ گیا ہے.جبکہ 68-1967ء میں تین لاکھ ، چون ہزار روپے تھا.گویا دوست ان چند سالوں میں قریباً 99 ہزار کی حد تک آگے بڑھے ہیں اور انشاء اللہ سات، آٹھ یا دس سال میں اور آگے بڑھیں گے.اور پھر یہ دفتر دفتر اول کی جگہ لے لے گا.دفتر سوم نے چونکہ دفتر دوم کی جگہ لینی ہے، اس واسطے اگلے آٹھ ، دس سال میں دفتر دوم کا چندہ ساڑھے چار اور چھ لاکھ کے درمیان پہنچنا چاہیے.ساڑھے چار لاکھ روپے کے قریب تو ہماری یہ موجودہ نسل پہنچ گئی ہے.اگلی نسل اپنی تعداد کے لحاظ سے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں اپنی آمد کے لحاظ سے بہر حال بڑھے گی.انشاء اللہ تعالی.تو پھر اس لحاظ سے ان کا تحریک جدید کا چندہ بھی بڑھے گا.بہر حال اب اس سال کی میں بات کر رہا ہوں، اس میں دفتر سوم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ کریں اور اسے مقررہ ٹارگٹ تک لے جائیں.یعنی مجموعی چندہ ان کی کوشش سے یا مجھے یوں کہنا چاہیے کہ ٹارگٹ تک لے جانے کے لئے بڑی کوشش ان کی ہونی چاہیے.تا کہ اس سال تحریک جدید کے چندوں کی رقم سات لاکھ نوے ہزار تک پہنچ جائے.اس میں کچھ دفتر دوم بھی حصہ دار ہوگا.دفتر اول کے لئے تو بظاہر مشکل ہے.بعض دفعہ استثنائی حالات میں اللہ تعالیٰ معجزہ دکھا دیتا ہے، یہ اور بات ہے.ہم عاجز اس کے مستحق تو نہیں مگر اس نے ہمیں اپنی رحمتوں کے لئے چنا ہے، اس لئے ہمارے دلوں میں تقویت پیدا کرنے کے لئے اور ہمارے چہروں پر بشاشت پیدا کرنے کے لئے وہ معجزے دکھاتا ہے اور کہتا ہے، تم میری راہ میں تھوڑا دیتے ہو اور میں تم پر بہت فضل نازل کرتا ہوں.اس لئے تم میری راہ میں اور دو.تا کہ تم میرے فضلوں کے مزید حقدار اور وارث بنو.ایک اور بات میں مختصر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دفتر نے مجھے لکھا ہے کہ سابقہ تعامل یہ ہے کہ 31 امان یعنی 31 مارچ تک وعدے آتے رہتے ہیں مگر تحریک جدید کا بجٹ مشاورت سے کئی مہینے پہلے تیار ہونا چاہیے اور وہ 1 3 دسمبر تک تیار ہوتا ہے، اس لئے وعدہ کی تاریخ بدل دینی چاہیے.میں سمجھتا ہوں کہ وکیل المال اول کی رائے درست ہے.اس طرح کام میں سہولت پیدا ہوگی.کام تو وہ پہلے بھی کرتے تھے اور اب بھی کریں گے.لیکن ان کی سہولت کے پیش نظر بالفاظ دیگر اپنے احمدی بھائی اپنے دوسرے بھائیوں کی سہولت کے مد نظر اپنے وعدے 31 دسمبر سے پہلے دفتر وکالت مال تحریک جدید میں بھجوادیں.تا کہ ان کے کام میں سہولت پیدا ہو جائے اور آسانی کے ساتھ وہ اپنے بجٹ وغیرہ تیار کر سکیں.یہ کوئی مشکل بات 833

Page 851

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 نومبر 1972ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم نہیں.آپ بعض لوگوں کو چھ مہینہ کا عرصہ کیوں دیتے ہیں؟ آپ سوچیں گے ، آپ کو شرم آئے گی.آپ غصہ کے خط لکھیں گے کہ پہلے تاریخ کیوں نہیں بدلوائی؟ بہر حال 31 دسمبر تک یہ وعدے دفتر وکالت مال میں پہنچ جانے چاہئیں.میں اس سلسلہ میں دو جماعتوں کو اچھی مثال کے طور پر اپنے بھائیوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.ایک اسلام آباد کی جماعت ہے.سات لاکھ نوے ہزار کے ٹارگٹ کے مطابق ان کے حصہ میں، جور تم آئی تھی، وہ انہوں نے ادا کر دی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا عطا فرمائے.دوسری کراچی کی جماعت ہے.انہوں نے بذریعہ تار اطلاع دی ہے کہ سال رواں کے تحریک جدید کے وعدوں کی سوفی صدی وصولی کرلی ہے.وہ کچھ رقم بھجوا چکے ہیں اور باقی ماندہ بھجوار ہے ہیں.ٹارگٹ کے لحاظ سے جور قم ان کے حصہ میں آتی تھی ، وہ انہوں نے ادا کی ہے یا نہیں؟ اس کا تو تار میں ذکر نہیں.تاہم اس وقت جب کہ اکثر جماعتوں کی ادائیگی سو فیصد نہیں ہوئی.انہوں نے چھ مہینے پہلے تحریک جدید کا وعدہ سو فیصد پورا کر دیا ہے.فجزاهم الله تعالى خيراً.دیسے تحریک جدید کا نیا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے.یہ تو کچھ سہولتیں جماعت کے مختلف چندوں کی وصولی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جماعت کو دی گئی تھیں.بہر حال ایسی جماعتیں چند ایک ہی ہیں، جو وقت سے پہلے سو فیصد ادائیگی کر دیتی ہیں.اس سلسلہ میں کراچی کی جماعت قابل ذکر ہے.ان کی طرف سے سال رواں کا وعدہ ایک لاکھ سولہ ہزار کا تھا.اب انہوں نے نیا وعدہ ایک لاکھ، ہیں ہزار روپے کا بھجوایا ہے.اسی طرح لاہور کی جماعت ہے، راولپنڈی کی جماعت ہے، پشاور کی جماعت ہے.پانچ، سات بڑی بڑی جماعتیں ہیں، جو تحریک جدید ( اور دوسرے چندوں کا بھی ) بڑا بوجھ اٹھاتی ہیں.اب مثلاً تحریک جدید کے سال رواں کے بجٹ میں سے ایک لاکھ ، سولہ ہزار روپے کا بجٹ کراچی نے پورا کیا ہے.جو پاکستان میں تحریک کے چندوں کے سارے بجٹ کا قریباً پانچواں حصہ ہے.گویا میں فیصد بوجھ صرف کراچی کی جماعت نے اٹھا لیا ہے.ان کے علاوہ بھی بہت سی جماعتیں نومبر تک یہ چندہ ادا کرسکتی ہیں یا کم از کم دسمبر سے پہلے دے سکتی ہیں اور ان کو دینا چاہیے.تاہم اگر بر وقت ادائیگی نہیں ہوتی تو اس میں ان کا اتنا قصور نہیں جتنا لینے والوں کا قصور ہے.دفتر انہیں یاد دہانی نہیں کراتے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے یوں ہی بلا وجہ ”ذکر“ کی نصیحت نہیں فرمائی.خدا تعالیٰ نے مختلف پہلوؤں سے مختلف محاورے استعمال کر کے مختلف مضامین کے ضمن میں ”ذکر“ کا لفظ 834

Page 852

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1972ء استعمال کر کے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تم لوگوں کو یاد دلاتے رہا کرو.کیونکہ بعض دفعہ ایک انتہائی مخلص انسان بھی سستی کر جاتا ہے.پس ذکر یعنی یاد دہانی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جس آدمی کو یاد دہانی کرائی جا رہی ہے، اس کے اندر اخلاص نہیں ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کو ذکر کی یاددہانی کرنے کی نصیحت کی گئی تھی ، اس نے اس حکم پر عمل نہیں کیا.پس یہ ایک چیلنج ہے، جو رمضان کا یہ آخری جمعہ ہمیں دے کر رخصت ہو رہا ہے.ہمیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمانے کے لئے بھی دعا کرو.چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زمانے کو برا بھلا نہ کہو.جس کا مطلب یہی ہے کہ زمانے کو اچھا کہو.اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ زمانے سے کہو، تیرا شکریہ ! چنانچہ اس کے متعلق حدیث میں ایک معنی یہ بھی بیان ہوئے ہیں کہ زمانہ کوئی چیز نہیں، اصل تو خدا تعالیٰ ہی ہے.پس جب اصل خدا تعالیٰ ہی ہے تو پھر زمانہ کو برا بھلا نہ کہو کے مقابل پر آئے گا.الحمد للہ پڑھو.اور الحمد للہ ان نعمتوں کو دیکھ کر پڑھی جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں.پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کے پیار اور اس کی رضا کی تلاش میں ایک گروہ ، ایک جماعت کوشاں ہوتی ہے اور وہ مجاہدہ میں مصروف ہوتی ہے.غرض جس زمانہ میں رضائے الہی اور محبت الہی کے حصول کے لئے انسانوں کی ایک جماعت کی جماعت (اگر چہ کبھی چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی بڑی ہوتی ہے لیکن کوئی زمانہ اس سے خالی نہیں ہوتا ) جب کوشاں ہوتی ہے، اس کے لئے مجاہدہ کر رہی ہوتی ہے تو اس زمانہ کوتم کیسے برا کہو گے؟ چنانچہ اس معنی کے اعتبار سے ہم یہ کہیں گے کہ زمانہ کے لئے بھی دعائیں کرو.پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اے آج کے یوم الجمعة! تیرے اندر زندگی گزارنے والی وہ جماعت جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے، خدا کرے کہ تیرا وجود دن کے لحاظ سے ان کے لئے ایک بابرکت دن بنے.جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی برکتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والے ہوں.اے خدا تو ایسا ہی کر“.مطبوعه روزنامه الفضل 22 نومبر 1972ء) 835

Page 853

Page 854

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم پیغام بنام جماعت احمد یہ جزائر فینی مرکز سے دوری اخلاص کی کمی اور ایثار وقربانی سے بے پرواہی پر منتج نہیں ہوتی پیغام بنام جماعت احمدیہ جزائر فنی تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے فرمایا:.ونجی میں بسنے والے احمدی بھائیو! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مرکز احمدیت سے آپ کے جزائر کا فاصلہ ہزاروں میل کا ہے.لیکن صرف آپ ہی مرکز سے اتنے فاصلے پر نہیں، مغربی افریقہ میں بسنے والے احمدی بھی ہزاروں میل کے فاصلہ پر ہیں.اسی طرح امریکہ میں بسنے والے احمدی، آپ سے بھی زیادہ فاصلہ پر بستے ہیں.پس محض مرکز سے دوری اخلاص کی کمی اور ایثار اور قربانی سے بے پرواہی پر منتج نہیں ہوتی.بلکہ فاصلے محبت اور پیار سے اخلاص اور ایثار سے سکڑ جاتے اور زائل ہوتے جاتے ہیں.جو محبت، جو ایثار اور غلبہ اسلام کے لئے جو جوش میں نے مغربی افریقہ کے افریقین احمدیوں میں پایا ہے، اگر ویسا ہی اخلاص اور جوش ساری دنیا کے احمدیوں میں ہو جائے ، آپس میں پیار کرنے لگیں، بنی نوع انسان کی خدمت پر کمر بستہ ہو جائیں اور اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق کو بھی اسی طرح ادا کریں، جس طرح انہیں اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین اور وصیت کی گئی ہے تو غلبہ اسلام کی جو ہم اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جاری کی ہے، اس کے اور بھی زیادہ خوش کن نتائج بہت جلدی ہماری آنکھوں کے سامنے آجائیں.اور اپنی زندگیوں میں ہم غلبہ اسلام کی آخری فتح اور آخری غلبہ کے ایام اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگیں.ہماری روح انہیں محسوس کرنے لگے اور ہماری خوشیوں کی کوئی انتہانہ رہے.کیونکہ اسی میں ہماری خوشی اور مسرت ہے.یہ دنیا اور اس دنیا کے اموال اور دنیا کی مسرتیں اور لذتیں حقیقی نہیں ، ابدی بھی نہیں ہیں.ابدی اور حقیقی مسرت تو اللہ تعالیٰ کے پیار میں انسان کو ملتی ہے.اور اسی کی طرف رجوع کر کے اس کے پیار کو ہمیں حاصل کرنا چاہیے.آج اس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معبوث کر کے ہمیں یہ وعدہ دیا ہےکہ تم نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے اس موعود عظیم روحانی 837

Page 855

پیغام بنام جماعت احمد یہ جزائر فجی تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم فرزند کی باتوں کو سنو اور غلبہ اسلام کی جو ہم اس نے جاری کی ہے، اس میں حصہ لو.معمولی حصہ نہیں بلکہ انتہائی حصہ.ساری دنیا کی لذتوں اور دولتوں کو بھول کر اس حقیقی لذت اور حقیقی ودیت کی تلاش کرو، جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.پس اگر تم حقیقی معنی میں پورے اخلاص کے ساتھ خدا کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرو گے اور توحید حقیقی پر پوری طرح قائم ہو جاؤ گے اور بے نفس محبت اسلام سے کرو گے اور قرآن کریم کی عظمت کو دلوں میں بٹھاؤ گے اور خدا کی رضا کے متلاشی رہو گے اور خدا کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ساری دنیا کے دل میں بٹھانے کی کوشش کرو گے تو اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لو گے.اگر یہ نہیں کرو گے تو دنیا تو تباہی کی طرف جارہی ہے، تم اس قافلے کے ساتھ کیوں شامل ہونا چاہتے ہو، جس کے لئے ہلاکت مقدر ہو چکی ہے؟ تم اس جماعت میں پوری طرح اور اخلاص سے کیوں رہنا نہیں چاہتے کہ جس کے لئے دنیا کی عزتیں اور آخرت کی عزتیں مقدر ہو چکی ہیں؟ اور جو پیدا ہی اس لئے کئے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں، اپنے فضلوں اور پیار سے نوازے.خدا آپ کو بھی اور ہمیں بھی اور دنیا میں ہر جگہ بسنے والے احمدیوں کو بھی یہ توفیق عطا کرے.یہ سب احمدی انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی لحاظ سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں اور جو کام اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کیا ہے ، خدا کی رضا کے لئے وہ اس کام میں ہمہ تن مشغول رہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کو پائیں اور ابدی جنتوں کے وہ وارث ہوں.آمین اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.السلام علیکم.مطبوع روزنامه الفضل 08 نومبر 1972ء) 838

Page 856

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم " اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1972ء ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا، کوئی کھیل تو نہیں خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر 1972ء.پس اگر ہم نے یہ امید رکھنی ہو کہ ہر احمدی اس عظیم ذمہ داری کو اٹھانے اور نباہنے کے قابل ہوگا ، جواللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی خاطر اس کے کندھوں پر ڈالی ہے تو یہ امید بھی پوری ہو سکتی ہے کہ جب جماعت اجتماعی رنگ میں اور ہر احمدی کو انفرادی طور پر جتنی اللہ تعالیٰ نے طاقت اور قوت بخشی ہے، اس کے مطابق اس کی انتہائی نشو ونما ہو.اس وقت انسان پر انتہائی بوجھ ڈال دیا گیا ہے.ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا، کوئی کھیل تو نہیں.ساری دنیا میں کسی مذہب کو غالب کرنا ، یہ صرف مسلمان پر فرض ہوا.کیونکہ پہلے مذاہب تو ساری دنیا کے لیے تھے ہی نہیں.چھوٹے چھوٹے شہروں کے لیے، پھر علاقوں کے لئے اور پھر ملکوں کے لئے انبیاء آئے.جیسے جیسے حالات بدلتے رہے، اللہ تعالیٰ کی حکمت نے جو تقاضہ کیا، وہ اسے پورا کرتے رہے.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام سے پہلے کوئی ایسی جماعت یا گروہ یا قوم نہیں گزری کہ جس کی ذمہ داری ہو کہ وہ مذہب کو ساری دنیا میں پھیلائے اور غالب کرے.یہ ذمہ داری امت مسلمہ پر پہلی اور آخری دفعہ ڈالی گئی.اور اسی لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں، جو بنی نوع انسان کو بلند تر رفعتوں تک لے گئے.پس ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کریں.جس قوم کی اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، اس کے افراد کیا چھوٹے ، کیا بڑے کیا مرد اور کیا عور تیں صحت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھے ہونے چاہئیں." یہ مہینہ عام دعاؤں کے علاوہ خصوصی دعائیں کرنے کا مہینہ ہے.ایک خاص دعا ہوتی ہے اور ایک عام دعا ہوتی ہے.مثلاً عام دعا ئیں تو میں ہر نماز میں کرتا ہوں.مثلاً جماعت کی پریشانیوں کی دوری کے لئے ، بیماروں کی صحت کے لئے ، تنگ دست دوستوں کی فراخی رزق کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں.لیکن ان عام دعاؤں کے علاوہ بعض مواقع پر خاص دعا ئیں بھی کرنی پڑتی ہیں.دسمبر کا مہینہ آج شروع ہورہا ہے.اس میں جلسہ سالانہ کے لئے خاص دعائیں کرنے کی ضرورت ہے.ہمارا جلسہ دنیا کے عام جلسوں کی طرح نہیں ہے.بلکہ یہ اس عظیم جدو جہد کا ایک ضروری حصہ ہے، جو آج غلبہ اسلام کے لئے 839

Page 857

اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم جاری ہے.یعنی تکمیل اشاعت ہدایت بذریعہ ان عاجز بندوں کے.پس ہمارا سالانہ جلسہ تربیت کے لیے اجتماعی بندھنوں کو مضبوط کرنے کے لئے بڑی مفید چیز ہے.اس کی بڑی اہمیت ہے.یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو کسی نہ کسی کو ہزار پریشانیاں، دکھ اور تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں عام طور پر تکلیف سے محفوظ رکھتا ہے“." ابھی پیچھے افریقہ کے ایک ملک میں بعض متعصب عیسائی کیتھولکس کی سازش کے نتیجہ میں ہمارے بعض کلینک بند ہو گئے تھے.وہاں سے دوستوں نے مجھے گھبراہٹ کے خطوط لکھے.بہر حال اصل ذمہ داری تو امام کی ہوتی ہے.دوست تو طبعاً گھبرا جاتے ہیں کہ دو مہینے ہو گئے ہیں، کلینک بند پڑے ہیں.ڈاکٹروں کو تنخواہ دے رہے ہیں، میل نرسز کو تنخواہ دے رہے ہیں، حکومت کہتی ہے ، آج فیصلہ کریں گے ، کل فیصلہ کریں گے.میں نے کہا، آرام سے بیٹھیں.ایک دوست تو بہت زیادہ تیز تھے.ان سے میں نے کہا، حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی جو تعبیر کی تھی، وہ تم پڑھ لو.چنانچہ ان کا مجھے خط آیا کہ میں امیر صاحب سے پوچھوں گا کہ وہ کیا تعبیر تھی ؟ اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ سات سال کماؤ گے اور سات سال کھاؤ گے.میں نے کہا تم سمجھو کہ یہ وہ زمانہ ہے، جو حضرت یوسف علیہ السلام کے وقت میں اس قوم پر آیا تھا کہ پہلے کمائے ہوئے سے کھانا پڑا تھا.خدا تعالیٰ نے تمہارے مال میں برکت دی اور خدا تعالیٰ نے جو دیا، اسے بیٹھ کر آرام سے کھائیں گے.ان کی مخالفتوں کے مقابلہ میں ہمارا کام صبر دکھانا ہے.وہ سمجھتے کہ دو مہینے نکے بیٹھیں گے، چار مہینے نکے بیٹھیں گے، جب تنخواہیں دیتے دیتے تنگ آجائیں گے تو کہیں گے، کسی اور ملک میں چلے جاتے ہیں.میں نے کہا، آرام سے بیٹھے رہو، کتنی دیر تک وہ ہمیں ستاتے رہیں گے.آخر کار ہمارا صبر پھل لایا.چند دن ہوئے ، خط آیا ہے کہ حکومت نے نو مہینے کے بعد کلینک کھولنے کی اجازت دے دی ہے.چنانچہ میرا یہ عزم تھا کہ سوائے اس کے کہ حکومت ان کو حکما اپنے ملک سے باہر نکال دے، ڈاکٹر کو وہاں سے نہیں بلائیں گے.کیونکہ جب ملک چھوڑنے کا حکم مل جائے تو پھر تو کوئی شخص اس ملک میں رہ نہیں سکتا.میں نے دوسرے ملکوں کو اطلاع بھی دے دی تھی.لیکن میں نے کہا، اس سے ورے ورے سال، دوسال، تین سال تک بیٹھے رہو.اس سے مخالفین کو پتہ لگ جائے گا کہ تم میں کتنی سکت ہے.وہ مقابلہ کر کے دیکھ لیں گے کہ کسی چیز میں بھی اور کسی میدان میں بھی شکست کھانے کے لئے احمدی پیدا نہیں ہوا.چنانچہ نو مہینے کے بعد اجازت دے دی.اس سے ہمیں کیا فرق پڑا؟ لیکن ان کو یہ پتہ لگ گیا کہ اسلام کے ساتھ کوئی آسان مقابلہ نہیں ہے.840

Page 858

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1972ء غرض عیسائیوں کی سازش ناکام ہوگئی اور ان کو سمجھ آگئی.انہوں نے ہمارے کلینک کے متعلق عجیب اعتراض کر دیئے تھے.ایک یہ اعتراض تھا کہ لکڑی کی میز پر ڈاکٹر کیوں آپریشن کرتا ہے؟ اس کے لئے با قاعدہ آپریشن ٹیبل ہونی چاہیے.بندہ خدا ! اگر ڈاکٹر کے پاس اپنڈے سائنٹس کا ایک مریض درد سے تڑپتا ہوا آئے تو کیا ڈاکٹر اس سے یہ کہے گا کہ جب تک ولایت سے میری ٹیبل نہ آجائے ، اس وقت تک انتظار کرو؟ اس وقت تو زمین کے اوپر لٹا کر بھی آپریشن کر دینا چاہیے.کیونکہ اس کی تکلیف کو دور کرنا ، دراصل اس کی جان کی حفاظت کرنا ہے.پھر یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ اگر تم نے ان ڈور مریض رکھنے ہیں تو اگر ہیں مریضوں کی گنجائش ہے یا نہیں چار پائیاں ہیں تو ہیں نرسیں رکھو.خواہ کسی وقت وہاں بارہ مریض ہی کیوں نہ ہوں.حالانکہ یہ معیار تو امریکہ میں بھی نہیں ہے.چنانچہ کہہ دیا کہ فی مریض ایک نرس رکھو.تب تمہیں اجازت دیں گے.مگر انہوں نے یہ اعتراض کرتے ہوئے ، یہ نہ سوچا کہ ان کے اپنے بڑے بڑے ہسپتالوں میں تو ایک وقت میں تین تین، چار چار نرسیں ہی کام کر رہی ہوتی ہیں.اور ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہو کہ فی مریض ایک نرس رکھو.لیکن میں نے اپنے دوستوں سے کہا، ٹھیک ہے، ان سے جنگ ہے، چلنے دو، اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.ہم نے جس سہارے کو پکڑا اور جس سہارے پر ہمارا تو کل ہے، وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.ہم تو ایک ادنی خادم ہیں.ہم تو خدا کے بڑے لکھے مزدور ہیں.وہ پہلے بھی فضل فرماتا اور ہم نالائقوں سے کام لیتا رہا ہے، اب بھی فضل فرمائے گا.تاہم اپنی طرف سے ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیے.روحانی ہتھیاروں سے ساری دنیا کا مقابلہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.دوست اس بات کو کبھی نہ بھولا کر ہیں کہ ہمارے سامنے ایک عظیم الشان مقصد ہے، یعنی ساری دنیا میں غلبہ اسلام.اس مقصد کے حصول میں ساری توجہ مرکوز رکھنی چاہیے اور ذراذراسی بات پر آپس میں نہیں الجھنا چاہیے.کیونکہ میدان جنگ میں تو ہر قسم کے الجھاؤ، ہر قسم کی پریشانیوں کے باوجود بھی جذبہ اخوت قائم رہتا ہے.مطبوعه روزنامه الفضل 21 مارچ 1973ء) 841

Page 859

Page 860

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1972ء دوران سال تحریک جدید کی کارگذاری کا جائزہ خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1972ء بر موقع جلسہ سالانہ حضور انور نے تحریک جدید کے تحت بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا جوعظیم الشان کام ہورہا ہے، اس کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دوسالوں میں بیرونی ممالک میں 24 سے زیادہ نئی مساجد تعمیر ہوئیں.17 نئی جماعتیں قائم ہوئیں.34 مبلغین اسلام کو اس عرصہ میں تبلیغ کے لئے بیرونی ممالک بھجوایا گیا.جبکہ 28 مبلغین فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد واپس مرکز میں تشریف لائے.کل 31 ممالک میں اس وقت تحریک " 66 جدید کے تحت تبلیغ اسلام کا کام سرانجام دیا جا رہا ہے".تحریک جدید کے تحت جو اسلامی لٹریچر شائع کیا گیا، اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے، حضور نے بتایا کہ سواحیلی زبان میں ترجمہ قرآن کریم پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا.اور یوگنڈوی زبان میں پانچ پاروں کی طباعت ہوئی.سویڈش زبان میں قرآن کریم کے 21 پاروں کا ترجمہ تیار ہو چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چار کتب پانچ، پانچ ہزار کی تعداد میں انگریزی زبان میں شائع کی گئیں.حضور علیہ السلام کی تصانیف کشتی نوح اور مسیح ہندوستان میں سپینش زبان میں زیر طبع ہیں.جبکہ حضور علیہ السلام کا لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی دو ہزار کی تعداد میں سپینش زبان میں شائع ہو چکا ہے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آٹھ اہم تصانیف انگریزی، عربی، ترکی، سواحیلی اور سپینش زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں یاز مرطبع ہیں.( حضرت ) خلیفة المسیح الثالث ( رحمہ اللہ تعالیٰ) کا افریقہ کے نام محبت اور اخوت کا پیغام انگریزی زبان میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے.اور ( حضور کا فرمودہ ) امن کا پیغام اور حرف انتباہ یوگوسلاوین زبان میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے.ان کے علاوہ بھی متعدد کتب شائع کی گئی ہیں اور بعض کتب ترکی، فرینچ، جرمن زبانوں میں زیر طبع ہیں.حضور نے ادارہ طباعت و اشاعت قرآن عظیم کی کارگزاری کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس ادارے کی طرف سے اس وقت تک 75,000 کی تعداد میں قرآن مجید طبع ہو چکے ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے.843

Page 861

اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1972ء ترجمہ قرآن کریم انگریزی پاکٹ سائز 25,000 ترجمه قرآن کریم حمائل سائز قرآن مجید اردو حمائل سائز قرآن مجید ساده بطرز یسر نا القرآن 30,000 10,000 10,000 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم 31,294 قرآن مجید مندرجہ ذیل ممالک میں بھجوائے جاچکے ہیں.نائیجیریا، سیرالیون، غانا، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، جنوبی افریقہ، امریکہ.حضور نے بتایا کہ...پریس کی تعمیر کا کام ابتدائی مراحل میں شروع ہو چکا ہے.احباب دعا کریں کے جلد پریس لگ جائے.تاکہ میری یہ خواہش پوری ہو سکے کہ آئندہ پانچ سال میں دس لاکھ قرآن کریم کے نسخوں کی اشاعت کر دی جائے.اس کے بعد حضور نے نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت اللہ تعالیٰ کے طرف سے نازل ہونے والے فضلوں اور انعامات کا اور اس کی تائید و نصرت کے نشانات کا ایمان افروز تذکرہ فرمایا.حضور نے بتایا کہ به کیم 1970ء میں مغربی افریقہ کے چھ ممالک کا دورہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اذن کے مطابق جاری کی گئی تھی.جب کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشا مجھ پر ظاہر ہوا کہ کم از کم ایک لاکھ پونڈ (جو اس وقت کی شرح کے مطابق تیرہ، چودہ لاکھ روپیہ بنتا تھا.) افریقہ میں اس سکیم پر خرچ کیا جائے.اب دیکھو، اس تنظیم میں اللہ تعالیٰ نے کتنی برکت عطا فرمائی ہے.نصرت جہاں ریز وفنڈ میں 58,41,115 روپے کے وعدے جو ہوئے تھے، جن سے اب تک افریقہ کے مختلف ممالک میں 16 طبی مراکز اور دس نئے ہائی سکینڈری سکول کھل چکے ہیں.ان طبی مراکز سے 37,825 نادار مریض اب تک بلا معاوضہ فائدہ اٹھا چکے ہیں.3,04,887 مریضوں نے فیس دے کر علاج کرایا.اب تک طبی مراکز پر 17,15,829 روپے خرچ ہوئے.جبکہ 32,56,635 روپے آمد ہوئی.گویا 15,40,806 روپے خالص بچت ہوئی.اس بچت میں سے 13,21,359 روپے دس مزید ہائر سیکنڈری سکولوں کے کھولنے پر خرچ ہوئے.پھر بھی 2,19,447 روپے بیچ رہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ تمیں لاکھ روپے خرچ کرنے کے باوجود دسرمایہ بھی پورے کا پورا محفوظ رہا اور بچت کی دولاکھ روپے سے زائد رقم بھی بچی رہی.الحمد للہ.844

Page 862

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم حضور نے فرمایا:."" اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1972ء بعض دوستوں نے مجھے یہ مشورہ دیا تھا کہ نصرت جہاں ریز روفنڈ میں جو رقم جمع ہو، اسے کسی منافع کے کام پر لگا دیا جائے.اور پھر اس کی جو آمد ہو، وہ افریقہ میں خرچ کی جائے.تا کہ اصل سرمایہ بھی محفوظ رہے.لیکن میں نے اس مشورہ پر عمل کرنے کی بجائے ساری کی ساری رقم افریقہ میں رہنے والوں کی خدمت پر لگادی.کیونکہ میرے سامنے اللہ تعالیٰ کا ارشاد تھا کہ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةٌ (البقرة) میں نے اپنے رب کریم پر بھروسہ کرتے ہوئے سارا سرمایہ خرچ کر دیا.اور اپنے رب سے ایسی تجارت کی ، جس میں ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اصل سرمایہ بھی محفوظ رہا اور دولاکھ سے زائد رقم کی بچت بھی ہوگئی.اور اس طرح خدا نے جو تمام خزانوں کا اصل مالک ہے، ہماری حقیر کوششوں میں غیر معمولی برکت ڈال دی.پھر خدا نے یہ بھی فضل کیا ، احمدی ڈاکٹروں کے علاج میں بھی خاص برکت ڈالی اور ان کے ہاتھوں سے لاعلاج مریضوں کو شفا بخشنے کے بکثرت معجزے ظاہر ہوئے.جو بجائے خود ایک نشان ہے.تقریر کے آخر میں حضور نے احباب جماعت کو یہ خوشخبری سنائی کہ نائیجیریا کی حکومت نے ہماری جماعت کو وہاں پر براڈ کاسٹنگ سٹیشن کھولنے کی اجازت دے دی ہے.الحمد للہ.( مطبوعه روزنامه الفضل 09 جنوری 1973ء) 845

Page 863

Page 864

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 31 مارچ 1972ء ہمارے سپر اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کو امت واحدہ بنانے کا کام کیا ہے تقریر فرمودہ 31 مارچ 1972ء بر موقع مشاورت د میں نے پہلے بھی غالباً ایک خطبہ میں کہا تھا کہ یہ تو عارضی چیز ہے.میرا اور آپ کا نقطہ نگاہ یہ تو نہیں کہ بنگلہ چلا گیا.اور جو بنگلہ اب کہلاتا ہے، یعنی مشرقی پاکستان وہ ہم سے کٹ گیا اور نہ جانے کیا ہو گیا.ہمارے سپرد تو اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہے کہ مشرقی پاکستان ہی نہیں ، ہمیں تو افریقہ کے سارے ممالک ، امریکہ میں بسنے والوں ، یعنی شمالی اور جنوبی امریکہ میں بسنے والوں اور یورپ میں بسنے والوں اور جزائر میں رہائش رکھنے والوں کو امت واحدہ یعنی ایک قوم بنادینا ہے.اور وہ اللہ تعالٰی کے فضل اور اسی کی اور رحمت سے ایک ملک بن جائیں گے.انشاء اللہ.یہ تو عارضی جدائی ہے.لیکن یہ عارضی جدائی بھی ہمارے لئے دکھوں کا باعث ہے، خوشی کا باعث نہیں ہے.اور ہماری یہ حالت دعاؤں کی محتاج ہے.جو واقعہ ہو گیا اور پاکستان میں جو انقلاب آ گیا ہے، یہ ہماری دعاؤں کا محتاج ہے.اور یہ اس بات کا محتاج ہے کہ ہم مشرقی پاکستان کے استحکام کے لئے قربانیاں دیں.اپنے جذبات کی بھی ، اپنے اموال کی بھی اور اپنے اوقات کی بھی.پس دوست ہر وقت بیدار ہیں اور یہاں دشمن کو کامیاب نہ ہونے دیں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.سات، آٹھ دن ہوئے ، میں نے مغربی پاکستان کے متعلق بھی ایک بڑی منذ رخواب دیکھی ہے.لیکن منذ ر خوا ہیں اس لئے دکھائی جاتی ہیں کہ انسان دعا اور صدقہ کے ذریعہ اس شر سے محفوظ رہ سکے.پس اپنے ملک کے لئے دعا کریں اور صدقات دیں.آپ کو تو جماعت نے صدقات کرنے کی عادت ڈال دی ہے.اور نیکی کریں اور غریبوں کے دکھوں کا مداوا نہیں اور دعا کریں کہ اے خدا! ہماری ان قربانیوں کو قبول فرما.اور ہمارے اس ملک کو جسے تو نے غلبہ اسلام کی مہم کا مرکز بنایا ہے، ہر قسم کے فسادات اور نقصانات سے محفوظ رکھ.پھر ایک اور انقلاب عظیم بپا ہوا، جس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے جلووں کو دیکھا یعنی ایسے جلوے دیکھے، جنہوں نے دنیا میں ایک انقلاب عظیم بپا کیا ہے.خوشی کی بات ہے پہلے دو تو دکھ وہ انقلاب ہیں.یہ خوشکن انقلاب ہے.میں نے افریقہ میں کچھ وعدے کئے تھے اور آج سے قریباً چار سال یا 847

Page 865

اقتباس از تقریر فرموده 31 مارچ 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اس سے زائد عرصہ ہوا، میں نے تعمیر کعبہ کے مقاصد پر خطبات دیئے تھے، جو چھپ چکے ہیں.جن کی طرف میں نے آج کے خطبہ میں بھی اشارہ کیا ہے.اس کے آخر میں ، میں نے کہا تھا کہ ان کے جو عملی پہلو ہیں یعنی یہ مقاصد جو ذمہ داریاں ڈالتے ہیں، اس کے لحاظ سے بھی میں جماعت کو کچھ کہوں گا اور ان کے متعلق کچھ پروگرام بناؤں گا.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ الہی منشاء یہی تھا کہ اس طرح وہ سامنے نہیں آئے.لیکن بعض باتیں اس کے مطابق ہم نے شروع کر دیں.مثلاً الطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ کی جو ذمہ داری تھی، وہ وقف عارضی اور تعلیم القرآن کلاس کی شکل میں ایک حد تک پوری ہو رہی ہے.تاہم بہت حد تک اس میں ابھی اور کام کرنے والے ہیں.کچھ اور باتیں آجائیں گی.مثلاً اشاعت قرآن ہے، غیر ممالک میں تبلیغی مراکز قائم کرنا.بیت اللہ کے اظلال ساری دنیا میں قائم کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے جماعت پر ڈالی ہے اور اب یہ ساری دنیا میں تو نہیں.تا ہم بڑی خوشکن خبر ہے کہ تھیں ممالک نے نصرت جہاں ریزروفنڈ میں حصہ لیا ہے اور یہ تمیں ممالک پاکستان کے علاوہ ہیں.وہ قوم، جس کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام ہوں، جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے ہی پیارے تھے، اسی لئے اکیلے ہی آپ کے سلام کے مستحق ٹھہرے.وہ اکیلے تھے.ایک احمدی بھی آپ کے ساتھ نہیں تھا.کیونکہ ابھی بیعت لینے کا حکم نہیں ملا تھا.ابھی اس کی اجازت نہیں ملی تھی.اور اس وقت دو سو چوٹی کے علماء کے کفر کے فتوے موجود تھے، جو انہوں نے آپ کے خلاف لگائے تھے.اور اس وقت احمدی کوئی نہیں تھا اور آج ساری دنیا میں اس اکیلے خدا کے پہلوان اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کی آواز گونج رہی ہے اور دنیا پر اپنا رعب بٹھا رہی ہے.اور قوت اصلاح رکھتی ہے، جو ظاہر ہورہی ہے.یعنی وہ آواز ہر جگہ جاتی ہے.مجھ میں اور آپ میں کیا لیاقت ہے کہ پانچ ہزار میل دور ملکوں میں بسنے والی قوموں کی فطرت بدل دیں؟ اور وہ لوگ جو اپنے جسموں سے بھی غافل تھے اور ننگے پھرا کرتے تھے، ان کو خدا تعالیٰ اور اس کی صفات کی معرفت حاصل ہو جائے؟ جو DARK CONTINENT یعنی ایک تاریک بر اعظم کہلاتا تھا، جن کے جسم بھی اس ظاہری آنکھ NAKED EYE کو کالے نظر آتے ہیں ، ان کے دل اور سینے اور دماغ نور محمدی سے اس طرح بھر جائیں کہ ان کے اندر سے شعائیں نکل نکل کر دوسری دنیا کے لئے ہدایت کا موجب بن جائیں؟ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کی برکات ، جو اس نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سےہی ہی تھیں، ان برکتوں کے طفیل وہ جو 848

Page 866

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 31 مارچ 1972ء اکیلا تھا اور دوسو مولویوں کے کفر کے فتوے اس کے گھر میں پڑے تھے، خدا تعالیٰ نے اپنی عظمت اور اپنے جلال کے جلوے اپنی صفات کے مظاہروں میں ہمیں دکھائے ہیں.1947ء تک تحریک جدید کے غیر ممالک کے مشنوں پر ان کے اپنے چندوں کا ایک دھیلا بھی خرچ نہیں ہورہا تھا بلکہ باہر کے ملکوں کی جماعتوں میں مالی قربانی کے لحاظ سے زندگی تھی ہی نہیں.اور گزشتہ تین، چار سال سے پہلے آپ تحریک جدید کا جو چندہ دیتے تھے اور جو تحریک جدید کی زمینیں ہیں، (اس وقت پورا تو میں نہیں کہہ سکتا کیونکہ اعداد وشمار میں نے اکٹھے نہیں کروائے لیکن ) قریباً سارا بوجھ ان زمینوں نے اٹھایا ہوا تھا.اور پچھلے تین سال سے تحریک جدید کی زمینوں کا ایک دھیلا بھی غیر ممالک میں خرچ نہیں ہوا.کیونکہ وہ لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں اور چار سال سے چونکہ غیر ملکی سرمایہ یعنی فارن ایکھینچ کے حصول میں کچھ دقتیں پیدا ہوگئی ہیں، اس لئے چار سال سے تحریک جدید کے چندہ کے علاوہ دوسرے چندوں سے بھی باہر روپیہ بھیجنے کی اجازت نہیں ملی.یعنی ایک وہ زمانہ کہ 1944 ء تک وہ ایک دھیلا بھی اپنے پاس سے خرچ نہیں کر رہے تھے اور ایک یہ زمانہ کہ پچھلے چار سال سے وہ آپ کے ایک دھیلے کے بھی محتاج نہیں رہے.اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے خزانوں کی کھڑکیاں اور دروازے کھول دیئے ہیں.اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں.پچھلے سال میں نے جو وعدے کئے تھے کہ جلد ہی فلاں جگہ ہیلتھ سنٹر ز اور سکول کھولیں گے.اس وقت تک دس ہائر سیکنڈری سکول ان ملکوں میں کھل چکے ہیں اور پندرہ ہیلتھ سنٹرز کے لئے وہاں احمدی ڈاکٹر جاچکے ہیں.اور ابھی کچھ اور ڈاکٹر زحکومت کی اجازت سے وہاں جائیں گے.اور یہ ڈاکٹر وہاں غریبوں کا مفت علاج کرنے کے لئے گئے تھے.اور انہوں نے وہاں مفت علاج کیا.ایک ایک ڈاکٹر نے ایک ایک ماہ میں ہزار ہا غریبوں کا مفت علاج کیا.لیکن ان کو ہم نے یہ نہیں کہا تھا کہ اگر تمہارے پاس کوئی امیر آدمی آ جائے تو تم نے اس کا علاج نہیں کرنا.انہیں یہ ہدایت بالکل نہیں تھی اور نہ ہمیں عقلاً ان کو یہ ہدایت دینی چاہئے تھی.ہم نے ان کو کہا تھا کہ تمہیں غریب کی ہمدردی میں ،غریب کے علاج کے لئے بھجوایا جارہا ہے.اس کا مفت علاج کرو.لیکن جس شخص میں جتنی طاقت ہو اور وہ تمہیں کچھ دینا چا ہے تو وہ تم لے لیا کرو.چنانچہ بڑے بڑے امیر لوگ حتی کہ وزراء اور بعض ملکوں کے سربراہوں کے رشتہ دار ہمارے ہسپتالوں میں آنا شروع ہوئے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے وہاں ایسا سامان پیدا کیا کہ وہاں کے جو بڑے امیر لوگ تھے ، جن کو اچھی سے اچھی طبی امداد حاصل ہوسکتی تھی ، ان کو بھی ہمارے غریبانہ قسم کے 849

Page 867

اقتباس از تقریر فرموده 31 مارچ 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کلینک ( ابھی تو بعض جگہیں کرایہ پر لی ہوئی ہیں) کی طرف مائل کر دیا اور وہ بھی آنے لگ گئے.اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غرباء کا مفت علاج کرنے کے باوجود ہمیں نقصان نہیں ہوا.امیر لوگوں کے دل میں فرشتوں نے تحریک چلا دی کہ تم احمد یہ کلینک میں جاؤ اور وہاں پیسے دو اور علاج کرواؤ.اور تحریک اس طرح چلا دی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفا عطا فرمائی.دوست یہ بات یاد رکھیں کہ شانی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، انسان کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ کسی کی صحت درست کر دے.آپ میں یہ طاقت ہے کہ اپنے بچے کو ڈاکٹر بنا دیں.آپ کے بچے ڈاکٹر میں یہ طاقت ہے کہ وہ کسی مریض کے لئے نسخہ لکھ دے.آپ میں یہ طاقت ہے کہ اگر کوئی غریب ہے اور آپ کے دل میں اس کے لئے ہمدردی پیدا ہوئی ہے تو بازار سے دوائی لا کر اسے مفت دے دیں.لیکن آپ میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اس مریض کو شفا دے دیں.یہ طاقت کسی انسان کو حاصل ہی نہیں.شفاء اللہ تعالیٰ نے دینی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنی برکت اور اپنے پیار کا اس طرح اظہار فرمایا کہ بعض وہ مریض جن کو بڑے بڑے چوٹی کے یورپین ڈاکٹروں نے ، جو بڑی بڑی ڈگریاں رکھتے تھے ، انہوں نے لاعلاج قرار دے دیا تھا، ان کو ایک غریب دعا گو عاجز بندۂ خدا کے ہاتھوں شفا مل گئی.اور سارے علاقہ میں ایک شہرت اور مقبولیت پیدا ہوگئی.اور اس پر امیر لوگوں نے بھی وہاں آنا شروع کر دیا.اس عرصہ میں کہ جس میں ہمارے اکثر ڈاکٹر ایسے ہیں، جن کو ابھی وہاں پہنچے ہوئے پورا سال نہیں ہوا.ایک، دو ہیں، جنہیں بارہ مہینے ہو گئے یا شاید ایک ڈاکٹر ایسا بھی ہے، جسے سوا سال ہو گیا ہے اور وہ ہیں بھی بوڑھے آدمی اور اس طرح زیادہ کام نہیں کر سکے.وہ سرجن بھی نہیں ہیں.ہمیں وہاں ایسے ڈاکٹر ز چاہئیں، جو فزیشن اور سر جن دونوں کام کر سکتے ہوں.یعنی ایک ہی ہاتھ فریشن کے طور پر نسخہ لکھنے والا بھی ہو اور سرجن کے طور پر آپریشن کے لئے نشتر پکڑنے والا بھی ہو.غرض کوئی ڈاکٹر وہاں آٹھ مہینے سے کام کر رہا ہے، کوئی تو مہینے سے کام کر رہا ہے اور بعض اس سے بھی کم عرصہ سے وہاں کام کر رہے ہیں.اور جو امراء وہاں پہنچے ہیں اور انہوں نے وہاں فیس دی ہے، جس سے ہمارے روز مرہ کے خرچ نکال کر جو خالص بچت ہوئی ہے، اس کی مقدار 48,526 پونڈ اسٹرلنگ ہے.الحمد للہ علی ذالک.اس کا مطلب یہ ہے کہ 20 پونڈ کے حساب سے قریباً ساڑھے نو لاکھ روپے بنتے ہیں.اب یہ خالص بچت ہے.حالانکہ وہ غریبوں کا مفت علاج کرنے کے لئے گئے تھے.البتہ امیر لوگوں کا علاج کرنے سے انہیں منع نہیں کیا گیا تھا.اور نہ امیروں کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے ابھی تک بظاہر سامان ہیں.کیونکہ اپنے کلینک تو ابھی تک نہیں بنے ، عارضی طور پر کرایہ کے مکانوں میں شفا خانے بنارکھے ہیں.850

Page 868

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 31 مارچ 1972ء لوگوں نے جب دیکھا کہ یہ مقبول ہورہے ہیں.غانا میں کچھ ہندؤں نے اور کچھ عیسائیوں نے شرارت کی ہے.انہوں نے مل کر روکیں ڈالنی شروع کیں کہ یہ مکان تو ٹھیک نہیں ہے.وہاں ایک ہندوستانی ڈاکٹر صاحب ہیں، مجھے تو ان کی عقل پر حیرت آتی ہے کہ چونکہ SOPHISTICATED یعنی اچھی بنی ہوئی آپریشن ٹیبل احمدی ڈاکٹروں کے پاس نہیں، اس لئے وہ آپریشن نہیں کر سکتے.اب اس سے پوچھیں، بندہ خدا اگر کوئی APPENDIX(اپنڈیکس) کا مریض چیختا ہوا، ان کے پاس آ جائے تو کیا وہ اس کو یہ کہیں گے کہ جرمنی سے جب ہماری آپریشن ٹیل آجائے گی ، اس وقت ہم تمہارا آپریشن کریں گے؟ اس وقت تو زمین پر لٹا کر اس کا آپریشن کر دینا چاہئے.تا کہ اسے تکلیف سے نجات مل جائے.لیکن بہر حال لوگ اس قسم کی روکیں ڈال رہے ہیں.لیکن میں اس کی توقع رکھتا تھا.کیونکہ جہاں اللہ تعالی کی برکات نازل ہوتی ہیں، وہاں ضروری ہے کہ حسد بھی پیدا ہو.اگر حسد پیدا نہ ہو تو گویا آپ کی قربانی قبول نہیں ہوئی.چنانچہ حسد ضرور پیدا ہوتا ہے.مجھے ان کا خط آیا کہ گورنمنٹ کہتی ہے ، یہ ہے، وہ ہے ، عمارت ٹھیک نہیں ہے.حالانکہ ہم نے اس غرض کے لئے بڑی اچھی عمارتیں کرایہ پر لے رکھی ہیں.تو خدا تعالیٰ نے اتنا فضل کیا ہے.اس ایک ملک میں، میں نے کہا، ہمیں ہزار پونڈ میں منظور کرتا ہوں.اپنی عمارت بنانی شروع کر دو.آخر یہ لوگ کس کس راستہ سے ہماری ترقی کو روکیں گے؟ اور اب ان کو اور ضرورت پڑی ہے.کہتے ہیں ، ضرورت پوری کر دیں گے.وہاں گیمبیا میں مجھ سے سکول کی بنیادر کھوالی تھی.اس وقت وہاں ہمارے مبلغ مولوی محمد شریف صاحب تھے.وہ جب کچھ عرصہ کے بعد مرکز میں آئے تو میں نے ان سے پوچھا ، سکول بن گیا ہے.(یعنی ہائر سیکنڈری سکول جو یہاں کے انٹر میڈیٹ کالج کے برابر ہے ) تو کہنے لگے ، ہمارے پاس تو پیسے ہی نہیں ہیں.میں نے انہیں کہا، بندۂ خدا! مجھے تم نے خوامخواہ شرمندہ کرنا تھا.اگر پیسے نہیں تھے تو مجھ سے بنیاد رکھوانے کی تمہیں کیا مصیبت پڑی تھی؟ کہنے لگے، بس یوں ہو گیا، ووں ہو گیا.میں نے کہا تو پھر میری طبیعت تو یہ برداشت نہیں کرتی.میں عاجز بندہ ہوں، اس میں شک نہیں.لیکن مجھے اس جماعت کا امام بنایا گیا ہے، جس کے بانی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سلام بھجوایا تھا.وہیں ( یعنی گیمبیا میں ) ہمارے ڈاکٹر بھی دوسری سکیم کے ماتحت کام کر رہے ہیں.ان سے میں نے پستہ لیا اور ہدایت کی کہ 3 ہزار پونڈ فوراً منظور کرتا ہوں.مولوی صاحب کو میں نے واپس بھیج دیا اور ہدایت دی کہ جو میں نے وعدے کئے ہیں، وہ بہر حال پورے ہونے چاہئیں.چنانچہ اب تک اس سکول کا ایک خوبصورت ونگ بن گیا ہے.دوسرا بھی 851

Page 869

اقتباس از تقریر فرموده 31 مارچ 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بن جائے گا.حالانکہ وہ تو کہتے تھے کہ آج کل تو بنا بڑا مشکل ہے.میں نے ان سے کہا، مجھے مشکل و شکل کا کوئی پتہ نہیں.مجھے اگلی شرم سے پہلے وہاں سکول کی عمارت چاہئے.چنانچہ انہیں سختی سے کہ کر بھجوایا تھا اور اب وہاں عمارت بن گئی ہے.پہلے وہ سوچ رہے تھے کہ آرڈر دیں گے تو ولایت سے لوہے کی کھڑکیاں بن کر آئیں گی.وہ چھ مہینے کے بعد پہنچیں گی.یہ ہو گا اور وہ ہوگا.میں نے کہا، مجھے کچھ پتہ نہیں.مجھے تو اکتوبر سے پہلے سکول کی عمارت چاہئے تاکہ وہاں پڑھائی شروع ہو سکے.پھر وہاں اساتذہ جا رہے ہیں.میاں بیوی اساتذہ جارہے ہیں.میں بڑا خوش ہوں کیونکہ عورتوں کو تو میں نے وہاں نہیں بھیجنا تھا.میں اسلام کی تعلیم کے خلاف یعنی بغیر محرم کے انہیں کیسے غیر ملکوں میں بھجوا سکتا ہوں؟ ان کا محرم ساتھ ہونا چاہئے.ایک تو جوش میں اپنے بھائی کے ساتھ چلی گئی، بھائی بھی محرم ہے.دونوں نے اکٹھے رہنا ہے.لیکن باقی جتنے وہاں گئے ہیں، وہ میاں بیوں اکٹھے گئے ہیں.اور دونوں کوالیفائڈ اور ماہر ہیں.اب جہاں جہاں احباب سکول کھولنے لگے ہیں، وہاں بھی مخالفت شروع ہو گئی ہے.جب مجھے مخالفت کی خبر ملتی ہے تو میری فطرت ایسی ہے کہ جب میں اکیلا بیٹھا ہوا، خط پڑھ رہا ہوتا ہوں ، تب بھی میرے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے کہ 80 سال سے تم مخالفت کر کے ہماری راہیں روکتے رہے ہو، اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟ اب اور مخالفتیں کرلو، نتیجہ تو کوئی نہیں نکلنا.کیونکہ اسلام نے غالب آنا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ احمدیت نے جیتنا ہے.کیا میں اپنے لئے کام کر رہا ہوں ؟ یا اس لئے ہم کام کر رہے ہیں کہ کہیں سے مربعے مل جائیں گے.ہم تو خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جونور دنیا میں لائے تھے، اس نور سے اس دنیا کو منور کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم نا کام ہوں؟ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ بڑا پیارا لگتا ہے کہ میری فطرت میں نا کامی کا ضمیر نہیں ہے.ہم نے سوچا، غور کیا، مخالفت کے طوفان آئے ، آگئیں لگائی گئیں ، ہمیں تباہ کرنے کے لئے منصوبے بنائے گئے.تب بھی دل کے اندر سے اور روح کے چھپے ہوئے گوشوں سے یہ آواز نکلی کہ ہماری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے.فرو قربانی دیتے ہیں اور جانیں بھی دے دیتے ہیں.فرد سے قربانیاں لی جاتی ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک، ایک آدمی بارہ، بارہ ہزار ایکڑ زمین سے زیادہ قیمتی وجود تھا.سندھ میں ہماری انجمن اور تحریک کی جو زمین ہے، وہ قریبا بارہ ہزار ایکڑ ہے.اب ایک ایک صحابی کے وجود کی قیمت آپ میں سے کون ہے، جو بارہ ہزارایکٹر لگائے گا؟ وہ وجود تو اس سے کہیں زیادہ 852

Page 870

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از تقریر فرموده 31 مارچ 1972ء قیمتی تھے.لیکن بعض دفعہ جنگ کے بعد ایک گڑھا کھود کر بہت سے صحابہ کی نعشوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دفن کیا اور واپس تشریف لائے.انہوں نے قربانی دی اور خدا تعالیٰ کی جنتوں میں چلے گئے.ہم انتظار کر رہے ہیں.ہمارے لئے تو دو ہی راستے ہیں.یا اس دنیا کے بہترین سرور اور جو عقل میں آنے والی خوشیاں اور خوشحالیاں ہیں، وہ مل جائیں گی یا اس دنیا کی کامیابیاں ملیں گی.تیسرا کوئی ALTERNATIVE ( متبادل) نہیں ہے.پس ہمیں کون ہرا سکتا ہے؟ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے ہو کہ تم ہماری جان لے لو.پس ہم بھی ان لوگوں کو جو نا سمجھ اور بے علم اور جاہل ہیں، یہی کہتے ہیں کہ تم زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے ہو.لیکن یہ کہ ہماری حرکت میں تم روک بن جاؤ اور ہمیں آگے بڑھنے سے روک دو اور اس میں STAGNATION پیدا ہو جائے یا جو کامیابیاں اور ہماری روحانی مسرتیں ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے جو بے شمار فضل صبح سے لے کر شام تک دیکھتے ہیں، ان کے راستے میں تم حائل ہو جاؤ، یہ ناممکن ہے.جب خدا کا نور ہم پر نازل ہوتا ہے، ہمارے سامنے اگر دس ہزار آدمیوں کی دیوار بنی ہوئی ہو تو وہ اس سے بھی نکل کر ہم تک آجائے گا.کون ہے، جو خدا تعالیٰ کے فضلوں کے ہم تک پہنچنے کے راستے میں روک بن جائے ؟ اور کون ہے، جو آج غلبہ اسلام کی مہم کو نا کام کرنے میں کامیاب ہو جائے ؟ یہ تو نہیں ہوگا.انشاء اللہ.البتہ ہم پر جو ذمہ داریاں ہیں، وہ ہمیں بشاشت سے نباہنی چاہئیں.صدرا انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی سندھ میں جو زمینیں ہیں، وہ 1935ء میں خریدی گئی تھیں.ان کو آباد کرنے لئے ان پر بڑی محنت کرنی پڑی اور بڑا روپیہ خرچ کرنا پڑا.اور اس میں سے کما کر بہت سا روپیہ اس پر لگا دیتے تھے.اور اب قیمتیں بڑھیں، سب کچھ ہوا تو اس کی آمد سوا چھ لاکھ روپے ہے.اور وہاں افریقہ میں پہلے سال جو پودا لگا، اسے تم نے دیکھ لیا.قریباً ساڑھے نو لاکھ روپے آمد ہوئی ہے.اور ابھی پورا سال نہیں گذرا.میں نے بتایا کہ بعض ڈاکٹروں کو نو مہینے، کسی کو آٹھ مہینے اور کسی کو سات مہینے ہوئے ہیں اور ایک ڈاکٹر تو ابھی پہنچے ہیں، وہ ابھی کام شروع نہیں کر سکے.کئی ایک کے راستے میں روکیں پڑ گئیں.سامان نہیں پہنچا، اس لئے وہ ابھی تک کام شروع نہیں کر سکے.تو کون ہے، جو خدا تعالیٰ کے خزانوں کی کھڑکیاں بند کر سکے؟ کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جناء نہ آئندہ جنے گی.یہ خدا کے وعدے ہیں، جو اپنے وقت میں ضرور پورے ہوں گے.لیکن خدا تعالیٰ کے سارے وعدے ذمہ داریاں ڈالتے ہیں.آپ ان ذمہ داریوں کے متعلق سوچا کریں اور مجھے بھی چاہئے کہ میں بھی سوچا کروں.کیونکہ ایک تو ذاتی طور پر میں نے ان ذمہ داریوں کو نباہنا ہے.دوسرے قوم کی 853

Page 871

اقتباس از تقریر فرموده 31 مارچ 1972ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم قیادت کرنی ہے.اور ان کو بتانا ہے کہ یہ تمہاری ذمہ داریاں ہیں، ان کو ادا کرنے کے لئے احباب جماعت کو سمجھانا ہے، ان کے اندر بشاشت پیدا کرنی ہے.بعض اوقات ہمارا ایک شخص دولاکھ روپیہ چندہ دے دیتا ہے اور وہ مسکرا رہا ہوتا ہے“.ر پورٹ مجلس شوری منعقدہ 31 مارچ 1020 اپریل 1972 ء ) 854

Page 872

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1972ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصل مشن امت واحدہ کا قیام ہے وو ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1972ء ہاں یہ پادریوں کا جواب ہے.غانا میں دو چار آدمی تھے، انہوں نے کہنا شروع کیا GHANIAN FOR GHANA یعنی غانا جو مبلغ انچارج ہے، وہ غانا کا باشندہ ہونا چاہئے.مجھے رپورٹ ملی تو میں ان کو دورے میں انفرادی طور پر بھی سمجھا تارہا.میں نے کہا، اگر تم یہ نعرہ لگاؤ گے، غانین فارغا نا.تو اگر تمہاری بات مان لی جائے تو پھر شاید کسی غیر ملک میں کسی غانین کو نہیں بھیجا جا سکتا.کیونکہ اگر میں باہر بھیجوں گا تو وہ ملک کہے گا کہ ایسے آدمی کو ہمارے پاس بھیج دیتے ہیں، جس کے اپنے خیالات یہ ہیں.اسی واسطے ہماری تو بین الاقوامی برداری ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصل مشن امت واحدہ کا قیام ہے.ساری دنیا میں، ساری قومیں، سارے ملکوں میں بسنے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے.اس لئے یہ نعرہ نہیں لگے گا.میں نے ان سے کہا، دیکھو! میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ تمہارے عبدالوہاب صاحب کو انگلستان کا مبلغ بناؤں اور اس طرح SWEET REVENGE یعنی ایک میٹھا اور شیریں انتقام ہم اس قوم سے لیں کہ جولوگ دو سو سال تک تمہارے اوپر حاکم رہے.اب یہ جا کر ان پر روحانی طور پر حکومت کریں گے اور ان کے معلم بنیں گے.غرض وہاب صاحب اس سکیم کے ماتحت یہاں آئے ہوئے ہیں اور بڑے پیار سے یہاں رہ رہے ہیں.انشاء اللہ یہ انگلستان کے کسی حصہ میں دو یا تین سال کی ٹرم کے طور پر بطور مبلغ کام کریں گے.پس یہ خیال درست ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ہمارا بین الاقوامی برادری کا نعرہ صرف لفظی نہ رہے بلکہ اس پر ہم عمل کرنا بھی شروع کر دیں.کیونکہ عمل ابھی ممکن ہوا ہے.اس سے پہلے ممکن نہیں تھا.چنانچہ وہاں غانا میں کماسی میں ہمارا ایک بہت اچھا سکول ہے.اور وہاں کے چوٹی کے سکولوں میں سے ایک ہے.کچھ عرصہ ہوا، غانا کی حکومت نے کہا، سکولوں میں استاد ہم مقرر کریں گے.ویسے وہ بڑی مدد کرتے ہیں.میں نے کہا، ٹھیک ہے، وہ مقرر کر دیں.خدا اپنا حکم چلاتا ہے.بندے کا حکم تو خدا کی مرضی پر نہیں چل سکتا.انہوں نے کہا، ہم اپنا انتخاب کر دیں گے.اللہ میاں نے کہا، ہم اپنا انتخاب کریں 855

Page 873

ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم گے تو تمہیں FOLLOW کرنا پڑے گا.انہوں نے اپنے انتخاب میں ایک احمدی کو منتخب کیا.ان کا نام پہلے عیسائیوں والا تھا.میں نے کہا، اس کو چھوڑ کر، ناصر لگاؤ.اب ان کا پورا نام عبد اللہ ناصر ہے.ان کو میں نے کہا، میں تمہیں ایک سال کے لئے ربوہ کے ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر لگاؤں گا تم چھٹی لے کر ربوہ آجانا.تو یہ محض دعوی نہیں ہونا چاہئے.البتہ پہلے ممکن نہیں تھا.اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ممکن ہو گیا ہے.پہلے ہم پر اگر کوئی یہ اعتراض کرتا تو یہ اعتراض احمقانہ اور نا مجھی کا ہوتا.اور ہم اس کو سمجھا سکتے تھے کہ ہم ان حالات میں ایسا نہیں کر سکتے.لیکن اب ہمیں اس پر عمل کرنا شروع کر دینا چاہئے.ورنہ ہم پر جائز اعتراض ہوگا کہ تم کہتے کچھ ہو اور اس کے مطابق تمہارا عمل نہیں.جس طرح یہاں سے مبلغ جاتے ہیں.اب یہی وہاب صاحب یہاں سے پڑھ کر گئے ہیں.مرکز تو بہر حال مرکز ہے.یہ تو جب تک خدا چاہے، ساری جماعت کا مرکز رہے گا.اور اللہ کرے کہ قادیان مل جائے تو پھر وہ مرکز بن جائے گا.جو دائی مرکز ہے.لیکن یہاں سے تربیت حاصل کریں، دوستوں سے ملیں ، سارا کچھ قریب آکر دیکھیں.چنانچہ وہاب صاحب جامعہ احمدیہ کے پڑھے ہوئے ہیں، اردو اس طرح بولتے ہیں کہ یہاں سے بعض پڑھے لکھے لوگوں نے باتیں کرتے ہوئے تلفظ بگاڑ دیئے ہیں.مگر آپ ان کی باتیں سنیں تو ان سے کم تلفظ بگڑا ہوا پائیں گے.ہمارے ریڈیو والوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے.اردو زبان کے تلفظ بگاڑ رہے ہیں.ایک ہی فقرہ میں اقدار اور اقدار اور اسرار کو اسرار کہہ جاتے ہیں، کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے.لیکن ان کی زبان ویسے اردو کی اچھی ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو سمجھ دی ہے اور بڑا اخلاص دیا ہے.ہمیں یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص بخشے اور اس پر قائم رکھے اور اس میں بڑھائے.یہ انگلستان جا کر کام کریں گے.اس طرح یہ کام انشاء اللہ پھیلتا جائے گا.اب میں نے امریکہ لکھا ہے کہ فلاں شخص کو میں افریقہ میں مبلغ بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں.پس اب وقت آگیا ہے، اپنے حالات کے مطابق گو پہلے ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم اپنی بنیادوں کو مضبوط کرتے.لیکن اب خدا کے فضل سے بنیاد میں مضبوط ہو چکی ہیں.اب اس کے اوپر منزلوں پر منزلیں بنتی چلی جانی چاہئیں.یہاں بعض اور غانین لڑکے آئے ہوئے تھے.دوسال کی بات ہے، میں ایبٹ آباد میں تھا، وہ نئے نئے آئے تھے، اس وقت ان کو آئے شاید چند مہینے ہوئے تھے.میں نے کہا کہ نئے آئے ہیں، دل اداس ہو جاتا ہے.میں نے اپنے پاس ایبٹ آباد بلا لیا اور ان کو اپنے پاس رکھا.اسی اثناء میں جماعت احمد یہ ایبٹ آباد نے عصرانہ دیا، جس میں ایک خرانٹ مخالف وکیل (جن کا پندرہ ، ہیں 856

Page 874

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1972ء سال کا تجربہ تھا اس نے ان افریقن بچوں سے اختلافی مسئلوں پر بات شروع کر دی.انہوں نے اردو میں ایسے اچھے جواب دیئے کہ وکیل صاحب ہمارے ایک بزرگ احمدی سے کہنے لگے کہ تم پندرہ سولہ سال سے مجھے یہ مسئلہ سمجھاتے رہے ہو اور تم مجھے خاموش نہیں کرا سکے.مگر اس بچے نے مجھے دو فقروں میں خاموش کرا دیا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا جذ بہ دیا ہے، سمجھ دی ہے.لیکن دعاؤں کی ہمیں بہر حال ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل جاری رہیں.ان کا تسلسل ٹوٹ نہ جائے اور جو رشتہ ہے، وہ منقطع نہ ہو جائے.وہ تسلسل تو بہر حال جاری رہنا چاہئے ، یہ ٹھیک ہے"."...ایک امریکن دوست مجھے ملنے آئے.ان سے میں نے کہا کہ میں نے بڑے سائز کی حمائل قرآن کریم افریقہ کے لئے چھپوائی ہے، اس کی پانچ شلنگ قیمت رکھی ہے.میں نے ان سے کہا کہ میں نے امریکہ میں بھی بھیجنا ہے.وہ کہنے لگے، خدا کے لئے وہاں اس کی قیمت پانچ شلنگ نہ رکھیں.ور نہ امریکن سمجھیں گے کہ یہ کوئی فضول چیز ہے.اس کے لینے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے.کیونکہ پانچ شلنگ ان کے نزدیک کوئی قیمت ہے ہی نہیں.وہ تو کہتے تھے کہ اس کی قیمت دس ڈالر رکھیں یعنی ساٹھ روپے.میں نے کہا، میرا تو یہ دل نہیں مانتا.آخر میرادل اڑھائی ڈالر پر مان گیا.لیکن اب ان کے ساتھ جو خط و کتابت ہوئی ہے، اس کے نتیجہ میں وہاں سے یہ اطلاع ملی ہے کہ بعض بڑی بڑی کمپنیاں ، جو تھوک میں آگے کتا میں تقسیم کرتی ہیں، جس کے ایجنٹوں کا دنیا بھر میں جال پھیلا ہوا ہے، وہ ساٹھ فی صد کمیشن مانگتی ہیں.اس واسطے انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ جو قیمت رکھنی ہو، اس میں ان کا کمیشن جمع کر دیں اور یہاں سے وہاں تک پہنچنے میں جو خرچ آئے گا، وہ بھی شامل کر لیں.ہم اس کو لاکھوں کی تعداد میں مارکیٹ میں رکھوادیں گے.اگر اس میں ہم کامیاب ہو جائیں تو میں نے ایک لاکھ کاپی کا پہلا ٹارگٹ ان کے لیے رکھا ہے.قرآن کریم کا یہ ترجمہ ایک لاکھ تعداد میں وہاں بھجوایا جائے گا.اس طرح کوئی پندرہ ، ہمیں لاکھ روپیہ ہمارے ملک کو فارن اینج بھی مل جائے گا.اس میں ملکی قانون کے مطابق ہمارا حصہ بھی ہے.اس سے ہمیں بھی سہولت پیدا ہو جائے گی.دل یہ کرتا ہے کہ کہ جو چیز امریکہ میں جائے ، وہ بہت ہی اچھی ہو.کیونکہ ہم نے وہاں مقابلہ کرنا ہے، بہت اچھی طباعت اور اچھے کاغذ کے ساتھ.دنیا جس کو بائبل پیپر کہتی ہے، میں اس کو قرآن پیپر کہتا ہوں.آپ بھی اسے قرآن پیپر کہا کریں.اصل تو ہر چیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے لئے پیدا کی ہے.اس پیپر کے اوپر شائع کریں گے تو اس سے بھی طباعت کا معیار زیادہ اچھا ہو جائے گا.یہ آپ ( شیخ محمد حنیف صاحب بھی دیکھ لیں، یہ دیکھنے کے لئے ہے.قیمتاً مولوی ابو المنير 857

Page 875

ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم صاحب سے خریدیں ، یہ کاپی مجھے واپس کر دیں.اس کا چھوٹا سائز طلباء کے لئے ہے.کیونکہ وہ زیادہ پیسے خرچ نہیں کر سکتے.اور وہ تین روپے کا ہے اور مع انگریزی ترجمہ کے ہے.چھوٹا سائز ہے، یہ افریقہ میں انشاء اللہ کافی نکلے گا.نائیجیر یا والوں نے تو آرڈر بھی بھجوایا ہے کہ ہم فوری طور پر دس ہزار کا پیاں تقسیم کر سکتے ہیں.لیکن بڑے سائز میں ہمیں زیادہ دلچسپی ہے.سات ہزار کا پیاں اس وقت تک جو قانو نا ہم بھیج سکتے تھے، وہ بھجوائی جا چکی ہیں.اور اس کے علاوہ ہمارے پاس اپنی چھپی ہوئی حمائل نہیں تھی.یہ حمائل بھی آ گئی ہے.اس کی بھی چھ روپے قیمت رکھی ہے.یہ تاج کمپنی سے ملتی جلتی ہے.مگر انہوں نے اس کی قیمت دس روپے رکھی ہوئی ہے.ہماری طرف سے چھپی ہوئی حمائل ہمارے ہر گھر میں ہونی چاہئے.بچوں کے لئے ضرورت پڑتی ہے.اس کی بھی اشاعت ہونی چاہئے.پھر تفسیر صغیر کی قیمت 20 روپے ہے.اس کے نیچے تفسیری نوٹ ہیں.لیکن میں نے سوچا اور اندازہ لگایا کہ بمشکل پانچ سے دس فی صد ایسے لوگ ہوں گے، جو تفسیر صغیر لیتے اور تفسیری نوٹوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، باقی نہیں اٹھا سکتے.ان کے لئے بس ترجمہ کافی ہے.لیکن وہ تفسیری نوٹوں کے ساتھ بھی لے لیتے ہیں.اس واسطے تفسیری نوٹ علیحدہ کر کے میں ترجمہ شائع کروارہا ہوں.ایک ڈیڑھ مہینے میں چھپ کر آ جائے گا.اس کی قیمت بھی 6 روپے رکھی گئی ہے.ہیں روپے کے مقابلہ میں 6 روپے میں آپ کو تفسیر صغیر کا ترجمہ مل جائے گا.انڈیکس نہیں ہے.بہر حال اس کا ترجمہ 6 روپے میں مل جائے گا.بڑا فرق ہے ایک کاپی میں چودہ روپے کا فرق پڑ جاتا ہے.جہیز میں آپ نے جو چیز دینی ہے، (میرا مشورہ ہے میرا حکم نہیں ) میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ نازک سی بچی جو لہن ہونے کی حیثیت میں گھونگھٹ میں نیچے نظریں ہوتی اور ہاتھ ہل نہیں رہا ہوتا ، اس کو وزنی قرآن کریم دینے کی بجائے اس نسخہ کی اچھی جلد کروائیں.اس میں بعض کی اچھی جلدیں بھی ہم نے کروائی ہیں.اچھی جلد کے لئے اچھے میٹریل کی ضرورت ہے.یہ تو ایک انگریزی ترجمہ دوسائزوں میں اور ایک حمائل ہے، جس کا میں ذکر کر رہا ہوں.حمائل کی بھی چھ روپے قیمت ہے.قاعدہ میسر نا القرآن کی عربی طرز اختیار کی گئی ہے.لجنہ کے ذریعہ بچوں سے میں نے مشورہ کیا ہے، کہتے ہیں، جو بچے قرآن کریم نئے پڑھنے والے ہیں، وہ اس کو پڑھ لیں گے.یہ سیپاروں میں یعنی علیحدہ علیحدہ پاروں میں بھی مل جائے گی.یعنی اگر کسی چھوٹے بچے نے شروع کرنا ہے تو پہلا پارہ درکار ہوتا ہے.پھر اس سے کچھ پھتا بھی رہتا ہے.وہ سیاہی کے کئی اور داغ ڈال دیتا ہے.بچہ تو بہر حال بچہ ہے.اس 858

Page 876

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم وو ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1972ء واسطے عام دستور یہ تھا کہ پہلا پارہ لے لیا، پھر دوسرا پارہ لے لیا.جب یہ ختم کر لیا تو پھر سارا قرآن کریم لے کر اسے دے دیا.کتابیں جلد کرنے کے لئے جو کپڑے ملتے ہیں، وہ اڑھائی روپے سے سات روپے گز تک مل جاتے ہیں.(ممکن ہے، اڑھائی سے بھی کم ہو اور سات سے بھی زیادہ ہو.میرے سامنے جو چیز آئی ہے، اسے میں بیان کر رہا ہوں.بہر حال اڑھائی سے سات روپے گز تک ہے.یہ سات روپے والا کپڑا ہے.اس کی پانچ ، چھ روپے صرف جلد کی قیمت آئی ہے.میں نے جو کچھ نسخے تحفہ دینے تھے، دنیوی لحاظ سے صاحب اثر ورسوخ اور وجاہت والوں کو ، ان کے لئے ایسی جلد میں کروادی گئی تھیں، جنہیں مخملی ڈبہ میں رکھ کر پیش کیا گیا تھا.کیونکہ جن کو قرآن کریم سے اتنا زیادہ پیار نہیں، پیار تو ہر مسلمان کو ہے لیکن جن کے دل میں زیادہ پیار نہیں، ان کے لئے ماحول کے لحاظ سے ان کے سامنے قرآن کریم چلا جانا چاہئے...اس سلسلہ میں دوسرے لٹریچر کے متعلق بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو مقاصد تعمیر کعبہ کے متعلق میرے خطبات کا مجموعہ ہے، اس کے آخر میں ، میں نے کہا تھا کہ ذمہ داریوں کے لحاظ سے ان سب کو ایک ایک کر کے لوں گا.وہ بھی علیحدہ علیحدہ آگئی ہیں.یعنی وقف عارضی کی شکل میں ، قرآن کریم کی تعلیم کی شکل میں تعلیم القرآن کلاس کی شکل میں.پھر جہاں تک اشاعت قرآن کا تعلق ہے، میرا یہ ارادہ ہے کہ غیر زبانوں میں ارادہ بھی ہے، خواہش بھی ہے ) اگلے پانچ سال کے اندراندر اس کی دس لاکھ کاپی دنیا میں تقسیم کروا دوں.آپ دعاؤں کے ساتھ میری مدد کریں.اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس کے سامان پیدا کر دے گا.ہم دولا کھ قرآن کریم امریکہ میں بسنے والوں کے اصول اور ان کی عادات کے مطابق بھیجواد میں تو باقی آٹھ لاکھ شاید نصف قیمت پر یا اس سے بھی کم کر کے باہر بھجوادیں.لیکن یہ ضروری ہے کہ خواہ مخواہ پھینکنے نہ دیا جائے.ایسے ہاتھ میں جائے، جو اس میں کچھ دلچسپی رکھتا ہو ، سنبھال کر رکھے ، پڑھے اور فائدہ اٹھائے.خواہ سوفی صدی نہ سہی، دس فی صدی ہی فائدہ اٹھائے.لیکن اٹھائے ضرور.اسی طرح دنیا میں جو بہت بڑے بڑے ہوٹل ہیں، ان کے ساتھ بھی ملاپ کرنا ہے.دنیا کی بڑی بڑی لائبریریاں ہیں ، ان کے ساتھ بھی ملاپ کرنا ہے.کیونکہ ابھی یہ دس لاکھ بھی اسی طرح ہیں، جس طرح ملک بھر میں جماعت پھیلی تھی.اللہ تعالیٰ نے یوں آسمان سے چھٹا دے کر بیج بکھیر دیا.پانچ پیچ اگ آئے سرگودھا میں، کوئی دو اگ آئے کوئٹہ میں اور کوئی ایک دوسری جگہ میں.پہلے پہل اسی طرح ہوا تھا.تو یہ بھی آپ سمجھیں کہ ایسا ہی ہے.دنیا کی آبادی اور پھیلا ؤ اور وسعت کے لحاظ سے ہوگا.لیکن درخت اگ آنے چاہئیں.یعنی ہمارا جو کام ہے، قرآن کریم کے خوبصورت اور حسین درخت ، ایسے لذیذ اور مزہ دینے والے اور آنکھوں کو خوش کرنے 859

Page 877

ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم والے، جو اس کے ثمرات اور پھل ہیں، یہ درخت ہیں، انہیں کہیں کہیں نمونہ کے طور پر لگا دیں.تا کہ دنیا دلچسپی لے تو پھر تو یہ مین نہیں بلکہ بلین کی تعداد میں دنیا اس کا مطالبہ کرے گی.اب یہ جو انگریزی ترجمہ ہے، اس کو دیکھ کر جرمنی سے مطالبہ آگیا ہے (حالانکہ جرمن زبان میں پہلے سے ترجمہ شائع ہو چکا ہے) کہ ہمیں آپ نے کیوں نظر انداز کر دیا ؟ آپ اسی سائز میں ہمیں بھی قرآن کریم عنایت فرمائیں.اس کا بھی انشاء اللہ انتظام ہو جائے گا.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارا پنا پر لیس ہو.دو تین سال ہوئے، اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق میں نے اس کی سکیم چلائی تھی.لیکن ہر جگہ ہمارے خلاف تعصب رکھنے والے لوگ موجود ہیں.ابھی تک اس کی منظوری نہیں ہوئی.اور اس وقت جو ملک کے حالات اچھے نہیں، اس واسطے میں خود بھی کسی کو نہیں کہنا چاہتا.دو، تین مہینے کے بعد کہوں گا.یہ کوئی اسی دقت نہیں ہے، پر لیس لگ جائے تو سالوں کا کام مہینوں کے اندر بلکہ بعض دفعہ ہفتوں کے اندر ہو جائے گا.آپ یہ سوچیں اور مجھے مشورہ دیں کہ کس طرح صحیح طور پر میں اور جماعت ( میں اور جماعت ایک ہی وجود کے مختلف نام ہیں ) صحیح ہاتھوں میں اپنالٹر پچر پہنچا دیں.میرا اندازہ ہے کہ پاکستان میں لاکھوں، لاکھوں ، لاکھوں ایسے دوست ہیں، جو بھی احمدی نہیں ہوئے.مگر ہمارا لٹریچر پڑھنا چاہتے ہیں.لیکن ہم ان سے واقف نہیں، اس لئے کہ ان کے ہاتھ میں ہمارا لٹریچر نہیں پہنچتا.اور ہزاروں ایسے ہیں، جو نہیں پڑھنا چاہتے.ان کے لئے بھی ہم دعا کریں گے اور یہ کوشش کریں گے کہ پہلے وہ پڑھنے کا جذ بہ اپنے اندر پیدا کریں، اس کے بعد پھر ہم اپنا لٹریچر دیں گے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ذاتی واقفیت پیدا کی جائے.اب جماعت اتنی پھیل چکی ہے.دوستوں کو ہر جگہ اپنی ذاتی واقفیت پیدا کرنی چاہئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ہر احمدی سال میں ایک احمدی بنائے.میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ نے یعنی جماعت کو ئٹہ نے دوران سال کتنے احمدی بنائے ؟ میں آپ کا نہیں کہتا.کیونکہ وہ ایک ذاتی چیز بن جاتی ہے.کوئٹہ کی جماعت نے ہر سال اپنے افراد کے لحاظ سے بالغ مردوں کے افراد کے لحاظ سے کتنے احمدی بنائے ہیں؟ وہ حکم تو منسوخ نہیں ہوا.اور اس وقت تک چلتا رہے گا، جب تک اس پر عمل نہیں ہوتا.اور اس کے بعد جاری رہے گا ( یاددہانی کروائی جاتی رہے گی ) جب تک کہ دنیا کی اکثریت احمدی نہیں ہو جاتی.اور کوئی شخص کسی کو احمدی بنانے کے قابل ندر ہے.کیونکہ اس وقت غیر از جماعت لوگ اتنی تعداد میں ہی نہیں ہوں گے.دوسرا حکم آج میں آپ کو یہ دے رہا ہوں کہ ہر بالغ احمدی ذاتی طور پر پانچ سے دس ایسے دوست بنائے.یہ نہ ہو کہ چار آدمی کہیں کہ دس دوست ہیں اور وہ دس ہی رہیں، چالیس نہ بنیں.یا پانچ ہی رہیں 860

Page 878

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1972ء اور میں نہ بنیں.یعنی آپس میں ان کا ٹکراؤ نہ ہو.ان کے الگ الگ دوست ہوں.اگر ہر احمدی پانچ سے دس تک ایسے دوست بنائے کہ ان کے ساتھ اس کی دوستی ہو.اس سے اور زیادہ بڑھ جائے تو وہ اور بھی اچھی بات ہے.لیکن کم از کم اتنی دوستی ضرور ہو کہ وہ بشاشت اور خوشی سے ہمارالٹر بیچر لے لیں.اس طرح دوستیاں کرنے سے آپ کو دس ہمیں لاکھ آدمی مل جائیں گے تو اس کے لئے آپ کوشش کریں اور مجھے لکھیں کہ ہماری جماعت کے اتنے بالغ دوست ہیں اور انہوں نے فلاں فلاں کو اپنا دوست بنالیا ہے“....در اصل مبلغ کا کام تبلیغ کرنا بھی ہے، جماعت کی تربیت کرنا بھی ہے اور دوسروں کو قائل کرنا بھی ہے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جماعت کو اس قابل بنانا بھی ہے کہ وہ دوسروں کو قائل کر سکیں.مربی کے فرائض میں جو قیادت والا حصہ ہے، اس کی طرف بہت کم توجہ ہے.مربیان کا صرف یہ سمجھنا کہ وہ مسجد میں صبح و شام درس دے دیں گے یا کسی کے گھر جا کر اس کی تربیت کر دیں گے یا کبھی کسی سے گفتگو کا موقع ملا تو اس سے گفتگو کر دیں گے، مہینے میں ایک یا دو دفعہ تقریر کر دیں گے اور اس طرح ان کا کام ختم ہو جائے گا، یہ بالکل غلط ہے.ان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ تن تنہا عمل کے میدان میں حرکت نہ کر رہے ہوں بلکہ ان کا اپنے حلقہ عمل میں اتنا اثر ہو کہ جماعت ان کے پیچھے چلنے لگے.وہ کہے میں یہ کام کر رہا ہوں، تم بھی کرو.اگر وہ قیادت کرنے لگ جائیں تو ایک سے دوسو، دوسو سے دو ہزار، دو ہزار سے ہیں ہزار، جیسا جیسا ان کا قائد ہوتا ہے، ویسا ہی وہ بن جاتے ہیں.لیکن اس طرف وہ توجہ نہیں کر رہے.آپ ٹھیک کہتے ہیں، مربیان کو اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.تحریک جدید کی مالی قربانیوں میں حصہ لینے والوں کی تعداد پہلے بہت کم تھی.جماعت کے بہت سے چندہ دہندگان تحریک جدید میں حصہ نہیں لیتے تھے.لیکن اب جبکہ دفتر سوم بھی جاری ہو چکا ہے اور دفتر دوم میں یہ زیادتی ہو گئی تھی تو اب کوئی ایسا فرق نہیں رہا.تحریک جدید کے دفتر اول، دوم اور سوم کے چندہ دہندگان کی مجموعی تعداد 400, 23 ہے.جب کہ صدر انجمن احمدیہ کے چندہ دہندگان کی تعداد چار، پانچ ہزار سے زیادہ ہوگی.اس لئے کوئی زیادہ فرق نہیں ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک جدید میں چندہ دینے والے کافی مائل ہوئے ہیں.لیکن تحریک جدید میں ان کے چندوں کی شرح وہ نہیں، جو پہلوں میں سے بعض کی تھی.مکرم مرزا عبدالحق صاحب کی تقریر سے شاید آپ یہ تاثر لیں گے کہ جو دفتر اول میں تھے، وہ سارے کے سارے دل کھول کر چندہ دینے والے تھے، یہ غلط ہے.جماعت کے بعض بڑے مخیر دوست 861

Page 879

ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ایسے بھی ہیں، جنہوں نے دفتر اول میں مضحکہ خیز حد تک کم چندے دیئے ہیں.تا ہم یہ صحیح ہے کہ دفتر اول میں کثرت سے ایسے دوست ہیں، جنہوں نے تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھا اور دل کھول کر چندہ دیا ہے.اور عمل کے میدان کے شیر بنے ہیں.اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا دل اور اس کی روح بدظنی کے داغ سے بالکل صاف ہو.کیونکہ بدظنی کرنے والا انسان قربانی نہیں کر سکتا.اور جس گھر میں بدظنی کی عادت ہوتی ہے، وہ اپنی آئندہ نسل کو تباہ کر دیتا ہے“.در پورٹ مجلس شوری منعقد ہ 31 مارچ تا 02 اپریل 1972 ء ) 862

Page 880

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 102 اپریل 1972ء جو اپنے آپ کو وقف کا اہل ثابت کرے گا ، وہی وقف میں رہے گا ارشادات فرمود 0 2 10 اپریل 1972 ء بر موقع مجلس مشاورت وقف اور جامعہ احمدیہ کے قواعد میں نرمی کی تجویز پر حضور نے فرمایا:.وو نہیں ! نالائق ، نااہل، جاہل علم سے بے بہرہ اور علم سے دلچسپی نہ لینے والوں کے راستے میں روک بنے گا، واقفین کے راستے میں روک نہیں بنے گا.جو فیل ہو جاتا ہے، وہ اس قابل نہیں کہ اسے جامعہ میں رکھا جائے.آپ ایک سال کے بعد فیل ہونے کی بات کر رہے ہیں، آکسفورڈ میں ایک ٹرم کے بعد واپس بھیج دیئے جاتے تھے کہ تم یہاں نہیں پڑھ سکو گے.سلسلہ احمدیہ کو اور خدا کو ایسے بچوں کی ضرورت ہی نہیں ہے، جن میں علم کے لئے اور قیادت کے لئے دماغ نہیں ہیں.جو نیت ہے، اس پر کسی کو اعتراض نہیں.باپ نے اپنی نیت کا ثواب خدا سے حاصل کرنا ہے.لیکن باپ کے خلوص نیت کا سارا بار جونگی پیدا کرنے والا اور مصیبت کھڑی کرنے والا ہے، اس کو جماعت نہیں اٹھائے گی.انہوں نے ایک مثال دی ہے.پچھلے سال شاید ہم نے دس، بارہ لڑکے نکالے ہیں.یہاں کوئی ایسا لڑکا نہیں رہے گا، جو تعلیم حاصل کرنے کا اہل نہیں ہے.باقی ثواب کا میں ٹھیکیدار نہیں ہوں.وہ تو اسے اللہ تعالیٰ نے دینا ہے.جن کے دل میں خلوص ہے، وہ اس کا ثواب اپنے رب سے حاصل کریں گے.لیکن جو ہماری ذمہ داریاں ہیں اور جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا:.ان تُؤَدُّوا الْاَ مُنْتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء:59) خدا تعالیٰ کا یہ حکم نہیں توڑا جائے گا، نہیں تو ڑا جائے گا.جولڑ کا اپنے آپ کو وقف کا اہل ثابت کرے گا ، وہی وقف میں رہے گا.باقی دوسرے کام ہیں ، وہ کرے.نیکیاں کرے، اعمال صالحہ بجالائے ، خدا کے فضلوں کا وراث بنے.خدا کے فضلوں کے دروازے تو کوئی بند نہیں کر سکتا.لیکن وقف کے لحاظ سے نا اہل لڑکوں کو اہل لڑکوں کی صف میں نہیں کھڑا کیا جا سکتا.وقف زندگی کی شرائط میں نرمی کی ایک تجویز پر واقفین زندگی نے اپنے نہایت اخلاص کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو محض اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر پیش کیا ہے.ہمیں نہ کسی بدلے 863

Page 881

ارشادات فرمودہ 102 اپریل 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کی خواہش ہے، نہ ہمارا کوئی مطالبہ ہے.بلکہ اس تصور سے ہی ہم کانپ اٹھتے ہیں کہ اپنے محسن اور خالق و مالک کے سامنے کوئی شرطیں رکھیں.وقف کا قبول ہونا جانا ہی فلاح ہے.ہمیں اس تجویز سے سخت صدمہ پہنچا ہے.اس پر حضور نے فرمایا:.وو جب یہ تجویز مرکز میں پہنچی تو مرکز غور کرتا ہے کہ آیا یہ مجلس مشاورت میں پیش ہونی چاہیے یا نہیں ؟ پیش ہونی چاہیے تو اس وجہ سے پیش ہونی چاہیے.اس قسم کی سفارشیں میرے پاس آتی ہیں.اس تجویز کے متعلق سفارش نہیں آئی تھی کہ یہ تجویز پیش نہیں ہونی چاہیے.لیکن جب یہ تجویز میں نے پڑھی تو مجھے اتنا دکھ ہوا کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.پھر میں نے سوچا کہ اس دکھ میں آپ کو بھی شریک کروں اور جو زخم میری روح پر لگایا گیا ہے، آپ بھی اس زخم کا مزہ چکھیں.اس لئے میں نے یہ تجویز مجلس شوری میں پیش کرنے کا حکم دیا.ورنہ صدرانجمن احمدیہ کی سفارش تھی کہ اسے مجلس میں پیش نہ کیا جائے.حقیقت یہ ہے کہ ایک واقف کے خیالات جوٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ادا کئے جاسکتے ہیں، وہ آپ نے واقفین کے منہ سے سن لئے ہیں.اور جو واقف نہیں ہیں، جنہوں نے اس دنیا کا مزہ نہیں چکھا، اس کا حسن نہیں دیکھا، اس کا سرور حاصل نہیں کیا ، خدا کی محبت کے جو جلوے اس میدان میں انسان پر ظاہر ہوتے ہیں، وہ ان پر ظاہر نہیں ہوئے کہ اس دنیا کے رہنے والوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں.اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں (اور یہی غرض تھی اس تجویز کوشوری میں رکھنے کی ) کہ اس قسم کی ساری تجاویز ہمیشہ رد کر دی جاتی ہیں.ایسی تجاویز آئندہ پیش نہیں ہوں گی.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 31 مارچ تا 2 10اپریل 1972 ء ) 864

Page 882

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم نصرت جہاں آگے بڑھو تقریر فرموده 102 پریل 1972ء تقریر فرمودہ 102 اپریل 1972ء برموقع مجلس مشاورت...پھر میں نے بتایا ہے کہ ہمارے اس منصوبے میں قرآن کریم کو اصل لاگت پر فروخت کرنا ہے.اصلاح وارشاد نے بھی قرآن کریم چھاپے ہیں مگر اس میں انہوں نے نفع رکھا ہوگا.ہمارے انگریزی اور اردو ترجمہ قرآن میں، میں نے کہا ہے، کوئی نفع نہیں رکھنا.کیونکہ بہت سے کام ہیں، جن کو ہم رضا کارانہ طور پر لے کر خرچ کو کم کر دیتے ہیں، تب ہی یہ چھ روپے میں ملتا ہے.جو حمائل ہے، اس میں مجبوراً کچھ نفع رکھا ہے.وہ نفع ہے ، صرف اٹھنی کا.اب اٹھنی تو کوئی ایسا نفع نہیں ہے.اور اٹھنی اس لئے رکھا ہے کہ وہ چونکہ پیر صاحب کا لکھا ہوا ہے اور وہ ان کے خاندان کی ملکیت ہے، ان سے اجازت لے کر شائع کیا گیا ہے.میں نے وعدہ کیا تھا کہ ایک چونی فی نسخہ حق ملکیت کی رائلٹی (Royalty) کے طور پر ادا کروں گا.چونی ان کے لئے ہے اور چونی اپنے لئے ہے.کیونکہ اس وقت میرے منہ سے نکل گیا تھا کہ نفع کا نصف تمہیں دوں گا.اس لحاظ سے چونی اپنے پاس رکھنی پڑتی ہے.اور یہ نفع بھی قران کریم کی اشاعت پر خرچ ہوتا ہے.یہ چونی نفع کی مد میں نہیں جائے گی بلکہ قرآن کریم کی مفت تقسیم کی مد میں جائے گی.باقی تراجم پر ایک دھیلے کا نفع نہیں ہے.دنیا حیران ہے.ہمارے ایک مربی ایک ریلیجس بکس سوسائٹی کے ہاں گئے تو کہا کہ میں نے بائبل خریدنی ہے.تمہارے پاس جو سستی ترین بائبل ہے، وہ مجھے دکھاؤ.انہوں نے سستی ترین بائبل دکھائی، جو چھ روپے کی تھی.اور وہ قریبا اس طرح کی تھی ، جس طرح کا ہمارا تین روپے والا قرآن کریم ہے.ہمارے دوست کہنے لگے، ہم آپ سے جیت گئے.آپ نے چھ روپے میں سنتی بائبل فروخت کرنی شروع کی ہے اور ہم نے تین روپے میں قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ شائع کر دیا ہے.وہ ( ان کا جو بھی نمائندہ یا سیلز مین تھا) کہنے لگا، یہ ہو ہی نہیں سکتا.انہوں نے کہا کہ یہ ہوسکتا ہے یا نہیں ہو سکتا ؟ یہ تو الگ مسئلہ ہے.مگر یہ امر واقعہ ہے کہ تم اگر ہزار کا پی کا آرڈر دو تو میں ابھی لا کر دیتا ہوں.غرض ہم نے ان سے آگے نکلنا ہے.کیونکہ انہوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کی اور بھی بہت ساری ترکیبیں کی ہوئی ہیں.ان 865

Page 883

تقریر فرمودہ 102 اپریل 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دھاگوں کو ہم نے کاٹنا ہے.حکمت عملی سے، ایک سے زیادہ تدابیر اختیار کر کے.ایک یہ تدبیر ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں میں ستے قرآن کریم پہنچائے جائیں.ترجمہ قرآن کریم میں نئی طرز کا اجراء ایک اور بڑی اچھی چیز عمل میں آتی ہے.پتہ نہیں لوگوں کی توجہ اس طرف گئی ہے یا نہیں؟ ایک وقت میں یہ انگریزی بولنے والے اور انگریزی کی طرح لکھی جانے والی زبانیں بولنے والے قرآن کریم سے ذرہ بھر بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے.اس لئے جب ہم نے ان قوموں کے دلوں میں قرآن کریم سے دلچسپی پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تو ہم نے قرآن کریم کے متن کو بائیں سے دائیں لکھنا شروع کیا.یعنی ہماری سورۃ حمد، جو قرآن کریم کے پہلے صفحہ پر آتی ہے ، اردو رسم الخط کے حساب سے وہ آخری صفحہ پر چلی گئی.یعنی قرآن کریم کے متن نے ترجمہ کو follow کیا.لیکن اب خدا کے فضل سے حالات بدل گئے ہیں اور قرآن کریم میں اتنی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے کہ ہم قرآن کریم کے متن کے مطابق تراجم کو لکھیں.اور ترجمہ متن کے پیچھے آئے ، متن ترجمہ کے پیچھے نہ آئے.چنانچہ ہم نے اس منصوبہ کے ماتحت جو قرآن کریم شائع کئے ہیں اور افریقہ میں جاچکے ہیں، انہوں نے بھی اس کو بڑا پسند کیا ہے.یورپ میں بھی گئے ہیں اور انہوں نے بھی دیکھ کر کوئی اجنبیت محسوس نہیں کی کہ یہ کیا ہو گیا ؟ کیونکہ یہ ہوسکتا تھا کہ وہ کہتے ہم اس کو کس طرح پڑھیں گے؟ غرض کسی جگہ کے لوگوں نے بھی کسی قسم کی اجنبیت محسوس نہیں کی.چنانچہ متن کے ساتھ انگریزی کا ترجمہ چلتا ہے.اور اب آئندہ اس طرز پر چلے گا.کیونکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت اور برکت سے ایک تبدیلی پیدا ہو چکی ہے.جہاں تک قرآن کریم سے متعارف ہونے اور قرآن کریم سے دلچسپی رکھنے کا سوال تھا، یہ تبدیلی رونما ہو چکی، انقلاب عظیم پیدا ہو گیا.انقلاب عظیم“ کا محاورہ ، میرا محاورہ نہیں ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا محاورہ ہے.میرے خیال میں انقلاب عظیم کا اس رنگ میں اور اس کثرت سے استعمال سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی فرمایا ہے.پہلے لوگوں کی تحریرات میں گو اس کا ذکر ہے لیکن اس رنگ میں نہیں ہوا ، جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.مثلاً ' صبح صادق کا ظہور یہ محاورہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے استعمال فرمایا تھا اور اب اشتراکیت نے بھی اسے استعمال کیا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی شان کے ساتھ اس محاورہ کو استعمال فرمایا ہے.دوسرے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خوشہ چین ہیں.اب جب کہ یہ ستی اور مناسب سائز میں اور اچھی چھپی ہوئی ، انگریزی ترجمہ قرآن کی جلدیں انگلستان پہنچیں تو جرمنی سے مطالبہ آگیا کہ آپ ہمیں کیوں نظر انداز کر رہے ہیں؟ قرآن کریم کا جرمن زبان 866

Page 884

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم تقریر فرموده 102 اپریل 1972 ء میں ترجمہ موجود ہے.وہ بھی ہمیں اسی رنگ میں، اسی سائز میں ، اسی قیمت پر دیں.پھر سواحیلی میں ترجمہ قرآن کریم کا اور پھر انڈونیشیا سے مطالبہ آجائے گا.ساری زبانوں میں ہم نے تراجم شائع کرنے ہیں.بہر حال ایک سنت قائم ہوگئی ہے.میری زندگی میں بھی کام ہوں گے.پھر میرے بعد آنے والے کام کریں گے.ایک نیا راستہ یا ایک وسیع سڑک کی ضرورت تھی.(شاہراہ تو ایک ہی ہے، اسے وسعت دی جاسکتی ہے.) اصل تو ایک ہی شاہراہ ہے اور ایک ہی صراط مستقیم ہے.ضرورت تھی زیادہ وسیع سڑک کی سوالحمد للہ دنیا کے حالات بدلنے سے وہ وسیع ہو گئی.گویا یہ نیا راستہ نہیں ہے.راستوں کی وسعتوں کو ہی ہم عام طور پر نئے راستے کہہ دیا کرتے ہیں.انشاء اللہ یہ کام اپنے وقت پر مکمل ہو جائے گا.اس کے لئے ایک ضروری قدم اٹھانا ہے.خدا کی شان یہ ہے کہ ہم نے تراجم بعد میں شائع کئے ، جو چیز پہلے تھی، اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے میری توجہ قریباً دو سال ہوئے ، قریباً ایک ہی وقت میں افریقہ کے دورہ کے دوران پھیری.یعنی نائیجیریا میں براڈ کاسٹنگ اسٹیشن اور دوسرے ربوہ میں بہت ہی اعلی درجہ کے پریس کا قیام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب پریس لگ گیا تو اس پریس کی سہولت کے نتیجہ میں کچھ ذیلی سہولتیں ملتی ہیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ بڑے سائز کا جو قرآن کریم ہم اس وقت چھ روپے میں دینے کے قابل ہوئے ہیں، اس کے بعد ہم انشاء اللہ چار روپے میں دینے کے قابل ہو جائیں گے.جہاں تک براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کے قیام کا تعلق ہے، ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے.اور کچھ عرصہ اس کے لئے بہر حال کام کرنا پڑتا ہے.چنانچہ افریقہ کے دورے کے دوران میں نے مختلف ملکوں میں احباب جماعت کو تحریک کی.نائیجیر یا والوں کو یہاں سے خطوط کے ذریعہ یاد دہانی کراتا رہا.وہاں کی جماعت حکومت سے خط و کتابت کرتی رہی.خاموشی تھی، کوئی پتہ نہیں لگ رہا تھا.ایک بڑا خوش کن قدم نائیجیریا کی حکومت نے اٹھایا ہے.خدا کرے، اس کا نتیجہ ویسا ہی نکلے، جیسا کہ ہم چاہتے ہیں.اس لئے دوست دعا کرتے رہیں.اس وقت تک جو اس معاملہ میں سکوت طاری تھا، وہ ٹوٹ گیا اور جو انجماد کی سی کیفیت تھی ، وہ دور ہو چکی ہے.چنانچہ وہاں کی حکومت نے کچھ فارم بھجوائے ہیں کہ تمہاری اس سلسلہ میں درخواست آئی ہے.یہ فارم ہیں، ان کو پر کر کے بھجوا دیں.پہلے غور کرنے کا سوال ہی نہیں تھا.چپ کر کے بیٹھے ہوئے تھے ، اب وہ غور کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں.بعض چیزوں کے متعلق چونکہ ہم نے یہاں سے کوائف دینے تھے، اس لئے کچھ فارم یہاں بھی آئے اور جب ان کی طرف سے منظوری مل گئی تو اس کے لئے یہاں سے 867

Page 885

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تقریر فرمودہ 102 اپریل 1972ء پیسے نہیں جائیں گے.( یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ حکومت کو غلط خبریں پہنچادیتے ہیں.) ہمیں اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں بڑی دولت دی ہے.صرف ایک ملک میں ہی دولت نہیں دی.یہ اللہ تعالی کا فضل ہے، لوگوں کو حسد نہیں کرنا چاہئے.اللہ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.شروع میں ایک جاپانی فرم کے متعلق خیال تھا کہ وہ نوے، پچانوے ہزار پونڈ سٹرلنگ میں ریڈیو سٹیشن لگا دے گی.ہمارے سرکاری نرخ کے مطابق 1,12 1 لاکھ روپے بنتے ہیں اور یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے.غرض اب حکومت نائیجیریا نے غور کرنے کا قدم اٹھایا ہے اور میں بڑا خوش ہوں.یہ مشاورت سے چند دن پہلے اطلاع آئی تھی، ابھی تک مشاورت کی وجہ سے اس کا جواب ہی نہیں دیا.ریڈیو سٹیشن کے قیام کا بڑا فائدہ ہے.یہ میری خواہش ہے اور احباب اس کو یا درکھیں کہ جماعت احمدیہ نے اس خواہش کو پورا کرنا ہے.دنیا میں سب سے بڑا براڈ کاسٹنگ اسٹیشن گندے گانے گا کر اخلاق کو خراب کرتا ہے یا لغو باتیں بیان کر کے انسان کے وقت کو ضائع کرتا ہے یا اشتہارات وغیرہ کے لئے وقف ہوتا ہے یا غلط قسم کی فلسفیانہ دلیلیں اپنے حق میں اور مخالفوں کے خلاف دیتا ہے.اس قسم کی باتیں ہمارے ریڈیو اسٹیشن سے نشر نہیں ہوں گی.میں مانتا ہوں کہ آج کل کے ریڈیو اسٹیشنوں سے بعض اچھی باتیں بھی نشر ہوتی ہیں.آنکھیں بند کر کے تنقید بھی نہیں کرنی چاہئے.اور نہ لوگ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بحیثیت ادارہ آنکھیں بند کر کے تنقید کرنے کے مجاز ہیں اور نہ اہل ہیں اور نہ اس کی اجازت ہے.ہر چیز بنیادی طور پر خیر و برکت کا موجب ہے.ہم اس کو غلط راہوں پر چلا کر اپنے لئے بدی کے سامان پیدا کر لیتے ہیں.اب یہ ٹیلی ویژن فی الحقیقت بہت اچھی چیز ہے.جب میں اپنی سکیمیں بتاتا ہوں تو بڑا مزہ آتا ہے.لیکن آج کے ٹیلی ویژن سے اس قسم کا فائدہ نہیں اٹھایا جارہا.جب ہمارے ہاتھ میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن آگیا تو ہم دنیا کو بتا ئیں گے کہ ٹیلی ویژن سے کیا کیا نیکی کے کام اور کیا کیا علمی ترقی کے کام اور اخلاقی اصلاح کے کام لئے جاسکتے ہیں؟ بجائے اس کے کہ وہ مخرب الاخلاق ہو ، وہ اخلاق پر حسن چڑھانے کا موجب بن سکتا ہے، وہ علم میں ترقی کا موجب بن سکتا ہے، وہ تقویٰ کی راہوں کو زیادہ نمایاں کر کے بنی نوع انسان کے سامنے رکھنے کا موجب بن سکتا ہے.پس ہم جو ریڈیو اسٹیشن لگائیں گے تو اس سے انشاء اللہ یہ کام لئے جائیں گے.اس وقت جو سب سے بڑا ریڈیو اسٹیشن ہے، وہ میرے خیال میں روس میں ہے.دل یہ کرتا ہے کہ اپنی زندگی میں (موجودہ نسل کی زندگی میں) کم از کم اتنا بڑا براڈ کاسٹنگ اسٹیشن ضرور لگ جائے.ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کے خلاف جو لوگ باتیں کرنے والے ہیں یا مذ ہب کے خلاف باتیں کرنے والے 868

Page 886

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم تقریر فرموده 102 اپریل 1972 ء ہیں، ان سے زیادہ طاقتور صوتی لہریں توحید باری تعالی کو دنیا میں پھیلانے والی اور قرآن کریم کی شعاعوں کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے والی ہوں.یہ ایک بڑی خوشکن خبر ہے، جس میں، میں آج آپ کو شریک کرتا ہوں.تا کہ آپ پھر میرے ساتھ اس مہم کو کا میاب انجام تک پہنچانے کی دعاؤں میں شرکت کے قابل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں و دن جلد دکھائے ، جب دنیا کے کونے کونے میں خدا اور خدا کے رسول کا نام بلند ہورہا ہوگا.03.اس سکیم کے پہلے مرحلہ میں ، میں چاہتا ہوں کہ خدا کرے، ہم اس میں کامیاب ہو جائیں.اور مشرق وسطی کے ملکوں میں عربی میں ہم ان سے باتیں کریں.اگر کہیں پابندیاں ہیں، ناسمجھی کی وجہ سے اور بزدلی کے نتیجہ میں اور کم بختی کے باعث تو وہ کمزوریاں ان لوگوں میں ہیں، جن کے ہاتھ میں اس وقت اللہ تعالیٰ نے حکومت کی باگ ڈور دی ہوئی ہے.اور وہ اپنے فرائض کو فراست اور عقل اور ہمدردی اور اخوت سے نہیں نباہ رہے.یہ ایک حقیقت ہے اور اس کے اعلان میں مجھے کوئی باک نہیں لیکن وہاں کے جو عوام ہیں، ان کے متعلق یہ بدظنی کبھی نہ کریں کہ وہ بھی ہماری باتیں سننے کے لئے تیار نہیں.وہ ہماری باتیں سنتے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ مثلاً عراق میں ہمارے علم میں کوئی احمدی نہیں تھا، بعض لوگ باہر سے وہاں گئے ہوئے ہیں.ایک عراقی وفد موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں جو مدینہ یا مکہ یا جدہ میں منعقد ہورہا تھا، اس میں شرکت کے لئے گیا تو وفد کے اراکین میں ایک احمدی دوست بھی شامل تھے.ہمیں اس کا کچھ پتہ نہیں تھا.اور جس وقت وہ عراق سے باہر نکلے اور سعودی عرب ( یعنی غیر ملک) میں داخل ہوئے تو وہاں سے انہوں نے مجھے خط لکھا، جس میں انہوں نے بڑے اخلاص اور محبت اور نیک جذبات کا اظہار کیا اور جماعت کی ترقی کے متعلق دعائیں کیں.اور بتایا کہ وہ موتمر عالم اسلامی کے عراقی وفد میں شامل ہیں.لیکن عراق کا اپنا پتہ نہیں دیا تھا.سعودی عرب میں موتمر عالم اسلامی کا پتہ تو دے دیا.اس واسطے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں کے حالات اس وقت سازگار نہیں ہیں.سعودی عریبیہ میں بیت اللہ شریف کے متعلق کل میں نے کہا تھا کہ یہ تو ہمارا ہے.اللہ تعالیٰ نے علاوہ عقلی دلیل کے جو ہمارے دماغ میں آئی ہے کہ اگر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام واقعہ میں مسیح اور مہدی ہیں اور خدائی وعدے اور بشارتوں کے ساتھ جو قریباً معروف انبیاء میں سے سب کو دی گئی تھیں.جو ایک لاکھ چوبیس ہزار میں سے جن کے نام کا بھی پتہ نہیں، ان کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.لیکن جن کے حالات ہم جانتے ہیں اور جن کے متعلق تاریخ نے ریکارڈ کر کے بعض باتیں پہنچائی ہیں، ان میں سے 869

Page 887

تقریر فرمودہ 102 اپریل 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اکثر نے خبر دی ہے.خواہ ان کا تعلق ایران سے تھا یا جو ہندوستان کہلا تا تھا، وہاں کے انبیاء نے بھی اور دوسرے ملکوں کے انبیاء نے بھی دی.پھر محدثین نے بھی خبر دی.میں اکثر نائیجیریا کے حضرت عثمان بن فود یو کا ذکر کرتا ہوں.جنہوں نے بڑی دلچسپ کتابیں لکھی ہیں.ان پر کسی نے اعتراض کر دیا کہ تم تو کافر ہو.اور کافر اس لئے ہو کہ تم نے مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے، اس واسطے تم کا فر ہو.انہوں نے کہا کہ میں تو کافر نہیں ہوں، میں تو خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں.لیکن یہ جھوٹا الزام ہے کہ میں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.کیونکہ میں مہدی نہیں ہو سکتا اور نہ مہدی ہونے کا دعوی کر سکتا ہوں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کی جو علامات بتائی ہیں، وہ میری زندگی میں پوری نہیں ہو رہی ہیں.لیکن ایک بات میں تمہیں بتا دیتا ہوں اور یہ بڑی دلچسپ بات ہے.اب وہ شخص عالم الغیب نہیں.جو بات انہوں نے بتائی، وہ اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے بتائی.انہوں نے لکھا ہے کہ ایک بات میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ مہدی کے ظہور کا زمانہ بالکل قریب آگیا ہے اور انگی ہجری صدی مہدی معہود کی ہے.اس کے بعد 1818ء میں وہ فوت ہوئے اور 36-1835ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور انگلی صدی میں دعوی کر دیا.یہ خبر تو وہ خدا تعالیٰ سے پا کر دے سکتے تھے کہ مہدی کا زمانہ بالکل قریب ہے.پس میں یہ بتارہا ہوں کہ اگر واقعی ( بلکہ ہمارا یقین ہے کہ واقعہ یہی ہے ) مرزا غلام احمد قادیانی خدا کے مسیح اور مہدی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور حبیب اور سلامتی کی دعائیں حاصل کرنے والے اور اسلام کے غلبہ کو اس زمانہ میں قائم اور مستحکم کرنے والے ہیں تو پھر ساری دنیا آپ کی جماعت میں داخل ہوگی اور اس میں سعودی عرب باہر نہیں رہے گا.یہ تو ہے عقلی دلیل، اس کے علاوہ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ نظارہ دکھایا کہ سعودی عرب میں احمدی ہی احمدی ہیں.اس واسطے میں نے کہا تھا کہ یہ دروازے جو تم عارضی طور پر تو بند کر سکتے ہو، ہمیشہ کے لئے بند نہیں کر سکتے.لیکن جہاں تک احمدیت کے نظام کا تعلق ہے، اس میں بعض لوگ بعض دفعہ غلطی کر جاتے ہیں.دوست اپنی زبان کے محاوروں کو درست رکھا کریں.ہمیں قطعاً کسی حکومت کی ضرورت نہیں ہے.لیکن روحانی انتظام ہمارے ہی مشوروں سے ہوا کرے گا اور وہ ہمیں ملے گا.حکومت ہم نہیں چاہتے.دنیا میں دنیوی فراستیں رکھنے والے لوگوں کو حکومتیں مبارک ہوں ، ہمیں حکومتوں سے کوئی غرض نہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا 870

Page 888

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد چہارم تقریر فرموده 102 پریل 1972ء ہمیں کیا دلچسپی ہے، حکومتوں سے.حکومتیں تو تم کو جو اس وقت حاکم خاندان ہو، خدا مبارک کرے.لیکن جو دینی کام ہیں، وہ احمدیت ہی کو کرنے پڑیں گے.انشاء اللہ.اور پھر اس وقت جو اشد ترین بغض رکھنے والا اور مخالفت کرنے اور گندہ دہنی کرنے والا اور ایذاء رسانی کرنے والا اور خود کو مسلمان ہونے کا اعلان کرنے والا ہو گا، اس پر جماعت احمدیہ کے انتظام میں خانہ کعبہ کے دروازے بند نہیں کئے جائیں گے.انشاء اللہ.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے یہ دروازے کھولے ہیں کسی انسان کی یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ان دروازوں کو بند کر دے.اور کسی انسان کو یہ اخلاقی اور مذہبی جرات نہیں ہونی چاہئے کہ وہ عارضی طور پر ان دروازوں کو کسی قوم پر بند کرے.مگر یہ تو نصیحت ہے، جو میں آج کر رہا ہوں.باقی جو واقعات اور حقائق ہیں، جن کا مستقبل کے ساتھ تعلق ہے، وہ اپنے وقت پر ایک ٹھوس حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آئیں گے.اور ایک لحظہ کے لئے میرے دل میں کوئی شبہ پیدا نہیں ہوا ، نہ آپ کے دل میں پیدا ہونا چاہیے.وو...اب میں نصرت جہاں ریزور فنڈ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس تحریک کا القاء اس وقت فرمایا تھا، جب میں اپنے دورہ کے پانچویں ملک گیمبیا میں تھا.شروع میں یہ تحریک ایک پیج کے طور پر میرے ذہن میں ڈالی گئی.میں وہاں سے سیرالیون گیا اور پھر یہ دورہ ختم کر کے انگلستان آگیا.وہاں گیمبیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ منصوبہ بتایا.اور مجھے خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ کم از کم ایک لاکھ پونڈ اس منصوبہ پر جلد خرچ کرو.اس منصوبے میں نئے مبلغوں کا جانا بھی تھا.لیکن یہ امر اس خرچ کے دائرے میں نہیں آتا.لیکن نئے سکول اور ان کے لئے اساتذہ کا جانا ، ہسپتالوں اور ان کے لئے ڈاکٹروں کا جانا ، اس منصوبے میں شامل تھا.جب خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اس غرض سے ایک لاکھ پونڈ جلد از جلد خرچ کرو تو میں تو ایک درویش صفت انسان ہوں، مجھے اس کے لئے قطعاً کوئی فکر نہیں پیدا ہوا.میں نے سمجھا خدا نے فرمایا ہے، اسی کا یہ کام ہے، وہی خدا اپنے فضل سے سامان پیدا کرے گا.میں نے اس سلسلہ میں پہلا خطاب انگلستان کی جماعت سے کیا.اور جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں ، خدا تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کو ایسی ایثار پیشہ جماعت عطا فرمائی ہے کہ وہ بشاشت سے قربانی دیتی ہے.گو قربانی میں تکلیف تو ضرور ہوتی ہے مگر وہی قربانی قربانی کہلانے کے لائق ہے، جس میں بشاشت پائی جائے.جو لوگ جہاد میں جاتے تھے ، وہ شہید ہو جاتے تھے.خدا کے فرشتے آ کر اپنے بازؤوں پر دشمن کی تلواروں کو تو نہیں لیتے تھے.وہ انتہائی بشاشت کے ساتھ آگے بڑھتے اور اپنی جان قربان کر دیتے تھے.871

Page 889

تقریر فرمودہ 102 اپریل 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم غرض میں نے انگلستان کی جماعت کو اس فنڈ میں حصہ لینے کی تحریک کی اور پچاس ہزار پونڈ کا ٹارگٹ مقرر کیا.چنانچہ اڑتالیس ہزار پونڈ کے وعدے ہو گئے اور دوست اب تک 32 ہزار نقدا دا بھی کر چکے ہیں.پھر میں نے یہاں آکر تقریریں کیں، اللہ تعالیٰ نے بڑے فضل فرمائے.حالانکہ قوم تھکی ہوئی تھی.فضل عمرفاؤنڈیشن کے چندے دے کرستانے ہی لگی تھی کہ خدا نے فرمایا تمہیں ستانے کا حکم نہیں.انگریز جرمنوں سے پہلے تو اپنی شکست پر شکست خریدنے کے لیے اپنے آراموں کو چھوڑ رہے تھے، جب کہ ہم پر تو فتح پر فتح پانے کے لئے آراموں کو چھوڑ رہے ہیں.انگریزوں اور ان کے اتحادیوں یا دولت مشترکہ کی افواج اور ہماری کوششوں میں بڑا فرق ہے.وہ شکست اٹھا رہے تھے اور اپنے آرام کو چھوڑ رہے تھے.ایک برگیڈئیر نے لکھا ہے کہ جرمن فوجیں آگے بڑھ رہی ہوتی تھیں، ہم رات کے ایک بجے اس جگہ پہنچتے تھے، جہاں ہمیں ٹھہرنے کا حکم ہوتا تھا اور وردی سمیت لیٹنے نہ پاتے تھے کہ دوسرا حکم آجا تا تھا کہ جرمن فوجیں آگے بڑھ رہی ہیں، پیچھے ہٹو.اس نے لکھا ہے، اس کا اردلی آکر جھنجھوڑ کر بٹھا دیتا تھا اور کافی یا چائے کا گرم گرم کپ پکڑا تا تھا کہ پیو.کہتا ہے، آنکھیں بند اور دو چار گھونٹ پی کر جب ہوش آتا تھا تو وہ کہتا تھا، پیچھے دوڑنا ہے.انہوں نے آرام نہیں کیا اور شکست پر شکست کھاتے چلے گئے.اور ہمیں بھی بعض دفعہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم نے آرام نہیں کرنا ، آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے.فتح پر فتح حاصل کرو.مگر آرام نہیں کرنے دوں گا.چنانچہ فضل عمر فاؤنڈیشن میں جماعت نے بڑی قربانی دی اور اس پر خدا کی خوشنودی کے لئے ہر قسم کی کوفت اور تکلیف اٹھائی.اگر تکلیف نہ ہو تو قربانی کیسی؟ اور اس کی جزاء اور انعام کیسا؟ فاؤنڈیشن کے وعدے پورے ہوئے تو جماعت نے سمجھا ، اب سستانے کا وقت ہے.خدا نے فرمایا میں تمہیں ستانے نہیں دوں گا.اور آگے بڑھو اور نئی فتح حاصل کرو.چنانچہ نصرت جہاں ریزروفنڈ کی تحریک ہوئی اور اس کے لئے پہلے سے زیادہ قربانی دینے کا مطالبہ ہوا.حالانکہ فاؤنڈیشن کے وعدہ جات کی وصولی کو ختم ہوئے، چند مہینے ہوئے تھے.فاؤنڈیشن کی رقم نفع وغیرہ ملا کر چالیس لاکھ تک پہنچتی ہے.میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس کا چندہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کے جتنے سال ہیں، اتنے لاکھ ہو جائے.خدا تعالیٰ نے فرمایا، میری تقدیر سے کم خواہش پیدا ہوئی ، اس سے زائد دوں گا.خواہش تو یہ تھی کہ 53لاکھ ہو جائے.تاکہ خلافت ثانیہ کے سال کے حساب سے ہمیں ایک لاکھ زائد چندہ آ جائے.چنانچہ نصرت جہاں ریزروفنڈ میں پاکستانی جماعتوں کے وعدے 27 لاکھ اور وصولی قریباً پندرہ لاکھ اور بیرون پاکستان کا وعدہ قریباً 1 لاکھ ہے.یہ کل 38 لاکھ بن جاتا ہے.اور اس وقت تک پہلے سال کی جو آمد ہوئی ہے، اس کی مالیت قریباً نولاکھ روپے ہے.جو کل 47 لاکھ بن جاتی ہے.اور یہ رقم جو آرہی 872

Page 890

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم تقریر فرموده 102 پریل 1972ء ہے، یہ ایک سال کی نہیں ہے.بلکہ کسی ڈاکٹر کی آٹھ ماہ کی آمد ہے.اس میں گو یا ابھی 06 لاکھ کی کمی ہے.اگلا سال ختم نہیں ہو گا کہ ہماری آمد 53 لاکھ کی خواہش سے انشاء اللہ اور آگے بڑھ جائے گی.اصل میں تو ہماری خواہش یہ تھی کہ ہمیں 53لاکھ کا سرمائیل جائے.اور جو ہماری کل بچت ہے، وہ ہمارا سرمایہ ہے.میں یہ بتا دوں کہ ہمارے ڈاکٹر جو دوائیں خریدتے ہیں، ان پر خرچ ہوتا ہے.بعض دفعہ ایک کلینک میں چار، چار سو پونڈ کی دوائیں منگوانی پڑتی ہیں.اسی طرح انہوں نے جو سامان خریدا ہے، مثلاً پورے کا پورا ایکسرے پلانٹ ہے، وہ سرمایہ ہے.بعد کا خرچ وہاں کی آمد میں سے منہا کیا گیا اور پھر خالص بچت نکالی گئی ہے.اور ہماری اصل آمد اس سے بہت زیادہ تھی.چنانچہ سارے اخراجات نکالنے کے بعد اصل بچت 48 ہزار پونڈ ہوئی ہے.اگر اس کو بھی شامل کر لیا جائے ، جو نصرت جہاں ریز روفنڈ کی آمد ہے، جس کی دوشاخیں ہیں یا جس کے دو حصے ہیں.اندرون ملک اور بیرون ملک کے عطایا.اور دوسری شاخ خالص بچت ہے.وہ بھی خدا کی دین ہے.پہلے عطایا کے متعلق ہمارے دل کی آواز یہی کہتی ہے کہ خدا سے ملا، جو کچھ ملا.گھر سے تو کچھ نہ لائے.ہم یہ عطا یا بھی گھر سے تو نہیں لائے.اللہ تعالیٰ نے ہماری حرکت میں تیزی پیدا کرنے کے لئے تدبیر کا یہ ایک راستہ بنایا.اور دوسرے بچت عطا فرمائی.تو یہ دو الگ الگ حصے ہیں.لیکن درحقیقت ایک ہی ہیں.یہ آمد ہی ہے، جو مختلف شکلوں میں عطا ہوتی ہے.اگلے تین سال کے اندران عطا یا جات کی رقم انشاء اللہ پوری ہو جائے گی.ان تین سال کے عرصہ میں ایک کروڑ کے قریب آمد چلی جائے گی بلکہ اس سے بھی زیادہ.اور پھر خلافت ثانیہ کے ہر سال کی رقم دو لاکھ ہو جائے گی.یعنی اپنی خواہش سے دو گنا.اور یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے.میں نے کل بتایا تھا کہ میڈیکل سنٹرز ہیں، سیکنڈری سکولز ہیں ، اب مثلاً دس سیکنڈری سکولز کا کھولنا، کوئی معمولی کام نہیں ہے.جو لوگ محکمہ تعلیم سے ذرا بھی واقفیت رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد ہماری حکومت نے ایک سال میں کبھی بھی اس قدر انٹر میڈیٹ کا لجز نہیں کھولے.کوئی حکومت اتنے کا لجز کھول ہی نہیں سکتی.حالانکہ اس کے پاس بہت سے وسائل ہوتے ہیں اور ہم ایک غریب جماعت ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو برکت اور خلوص عطا فر مایا ہے، اس میں کوئی حکومت ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی.جماعت خدا کے لئے جو قربانی کرتی ہے، اس کا رنگ ہی علیحدہ ہے.گویا دس ہائیر سیکنڈری سکوٹر کھل جائیں گے.ایک سال میں مختلف ممالک میں تو یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے.873

Page 891

تقریر فرمودہ 102 اپریل 1972ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ی اللہ تعالی کا عظیم فضل ہے کہ ہم اس کا کماحقہ شکر نہیں کر سکتے.ہماری زبانیں الحمد للہ پڑھتے ہوئے خشک ہو جا ئیں ، تب بھی الحمد للہ پڑھنے کی جو ذمہ داری ہے، وہ پوری نہیں ہوتی.پس نصرت جہاں کی جو سکیم ہے، یعنی LEAP FORWARD جس کا ترجمہ آگے بڑھو سکیم کیا گیا ہے، اسے بھی کچھ بدلنا پڑے گا.گویا نصرت جہاں آگے بڑھو میں نصرت جہاں سکیم کا نام ہے اور وہ ایک شعبے کا نام ہے.ایک نصرت جہاں ریز روفنڈ اور دوسری نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم ہے.ہم نے ایک جگہ کھڑا نہیں ہونا، اس سکیم کے ماتحت تیزی سے آگے بڑھنا ہے.اگر قانونی روکیں پیدا نہ ہو جائیں تو میں کہتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ آٹھ، نوڈاکٹر تو شاید ہم فوری طور پر چند مہینوں کے اندر اندر بھجوا سکیں.لیکن پچھلی جنگ کی وجہ سے ہمارے ملک کو ڈاکٹروں کی ضرورت پڑی.کچھ ہمارے واقفین ڈاکٹر ، جو بڑے لائق اور مخلص ہیں، لاہور میں ہاؤس جاب (HOUSE JOB) کر رہے تھے.ان کو فوج نے بلا لیا ہے.وہ میرے پاس آئے ، کہنے لگے، ہم نے زندگی وقف کی ہوئی ہے، اب فوج نے بلا لیا ہے، کیا کریں؟ میں نے کہا تم انٹرویو کے لئے جاؤ اور ان سے صاف بات کرو.کیونکہ ہم صاف گو لوگ ہیں.ان سے کہو ، آپ نے بلایا ہے ، ہم آگئے ہیں.لیکن ہم نے وقف کیا ہوا ہے اور افریقہ میں جا کر سیاہ فام قوموں کی خدمت کرنی ہے.اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی پاکستان کی خدمت ہے.کیونکہ اس طرح پاکستان کا نام روشن ہوتا ہے، پاکستان کی محبت دلوں میں پیدا ہوتی ہے.لیکن ہم اس بارہ میں امام جماعت احمدیہ سے مشورہ کرنے گئے تھے، انہوں نے کہا ہے کہ ان سے جا کر کہہ دو کہ اگر پاکستان کو ضرورت ہے تو اپنے ملک کو بہر حال ترجیح دی جائے گی.اور اگر آپ کو ایسی ضرورت ہو، جو وقتی طور پر ہوتو ہم اپنی خدمات قوم اور ملک کے لئے وقف کرتے ہیں.اس عرصہ کے ہم پیسے نہیں لیں گے، مفت خدمت کریں گے.ایک جرنیل صاحب کے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ ایسی باتیں استثنائی ہیں.یعنی اس قسم کی باتیں جو تم کر رہے ہو ، شاذ ہی تجربہ میں آتی ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ ایسی استثنائی باتیں ہمیں ہمیشہ جماعت احمد یہ میں نظر آتی ہے.چنانچہ اس کا ان پر بڑا اثر ہوا.ہمیں کسی دنیوی جزا کی ضرورت نہیں ہے.یہ ہمارا ملک ہے، جس میں ہمیں اچھا کہنے والے بھی ہیں اور برا کہنے والے بھی ہیں.لیکن ہم نہ کسی سے برا کرنے والے ہیں اور نہ کسی کو برا کہنے والے ہیں.ہمیں حکم ہے کہ بنی نوع انسان سے پیار کرو اور ان کی خدمت کرو.جب تک ہم اس حکم کے مطابق کام کریں گے ، اللہ تعالیٰ بڑی برکت نازل فرمائے گا“.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 31 مارچ تا 2 10 اپریل 1972 ء ) 874

Page 892

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم وو اقتباس از خطبه عیدالاضحیہ فرمودہ 16 جنوری 1973ء اسلام کا عالمگیر غلبہ ایک حقیقت اور بنیادی صداقت ہے خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 16 جنوری 1973ء انسان پر ایک موت تو وقتی طور پر آتی ہے، جو ایک لحظہ کے اندر ختم ہونے والی ہے.مگر ایک موت ایسی ہے، جو انسان کی ساری زندگی کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے.یہی وہ موت ہے، جس کے منبع سے ابدی حیات کا چشمہ پھوٹا ہے.یہی وہ ذبح عظیم ہے، جس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے ذریعہ سے قائم کی گئی.اور پھر جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں عشق الہی ، فدائیت، جانثاری انتہا کو پہنچی تو ایک ایسی قوم تیار ہوئی، جو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے زیادہ جذبہ قربانی رکھنے والی تھی، جو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے عشق اور محبت رکھنے والی تھی.کیونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تربیت حاصل کی تھی مگر صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت حاصل کی تھی.وہ آنحضرت صلی اللہ وسلم کی بعثت سے قبل روحانی طور پر مردہ تھے.دنیا کی نگاہ انہیں مردہ بجھتی تھی.لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت نے انہیں زندہ کیا تھا.انہوں نے دنیا میں ایک عظیم انقلاب بپا کیا اور اس وقت کی محدود دنیا میں اسلام کو کلی طور پر غالب کیا.محدود دنیا سے مراد معروف دنیا ہے.کیونکہ اس وقت دنیا بنی نوع انسان سے معمور نہیں تھی.کرہ ارض کے بہت سے ایسے علاقے بھی تھے، جہاں تک ابھی انسان کا علم نہیں پہنچا تھا، جہاں ابھی آبادیاں نہیں ہوئیں تھیں، بعد میں آبادیاں ہوئیں.غرض صحابہ کرام نے اپنے زمانہ میں اسلامی انقلاب بپا کیا.پھرالہی نوشتوں کے مطابق مسلمانوں پر ایک تنزل کا زمانہ آیا، یہ ایک لمبا زمانہ ہے، جس میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاکھوں پروانے اس دعا میں مشغول رہے کہ شیطان پر وہ آخری فتح ، جس کا اسلام میں وعدہ دیا گیا ہے، اس آخری فتح کے دن جلد آئیں.تب مہدی معہود علیہ السلام کا ظہور ہوا.یعنی وہ مہدی، جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کی دعاؤں میں محفوظ ہے.یہی وہ مبارک وجود ہے، جس تک آپ کا سلام پہنچا.بندوں نے بھی سلام پہنچایا ، خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے بھی پہنچایا اور الہی تقدیر نے بھی پہنچایا.چنانچہ اسی سلامتی کی دعا کی یہ برکت ہے کہ آج جب ہم بنی نوع انسان پر مجموعی 875

Page 893

اقتباس از خطبه عید الاضحیہ فرمود 16 جنوری 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں وہ ایک ہی حقیقت نظر آتی ہے.آج نوع انسان کی زندگی میں صرف ایک حقیقت کو پائی جاتی ہے.اور وہ یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو اکٹھا کر کے امت واحدہ بنادیا جائے گا.تمام لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اور آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے.یہ ایک حقیقت ہے، اس کے علاوہ جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے، وہ حقیقت نہیں ہے ، وہ عارضی چیزیں ہیں.وہ اگر آج ہیں تو کل غائب ہو جائیں گی.لیکن اسلام کا عالمگیر غلبہ ایک حقیقت اور بنیادی صداقت ہے، یہ ظاہر ہوگی اور ظاہر ہوتی چلی جائے گی.یہ ایک روشن حقیقت ہے، جس کی روشنی سے پورا کرہ ارض جگمگا اٹھے گا.دنیا جاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ کی مصداق بن جائے گی.شیطان شکست کھائے گا.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی صداقت غالب آئے گی.یہ ایک بنیادی صداقت ہے.اللہ تعالیٰ کا آسمانوں پر فیصلہ ہے، یہ ہو کر رہے گا.اللہ تعالیٰ نے اس عظیم صداقت کے ظہور کے لئے مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعے جوتحریک شروع کی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ نا کام ہو؟ وہ تو انشاء اللہ ضرور کامیاب ہوگی.دنیا کی ساری مخالفتیں نا کام ہوں گی ، اسلام غالب آئے گا.دنیا کی ساری دولتیں نا کام ہوں گی ، اسلام غالب آئے گا.دنیا کے سارے ہتھیار نا کام ہوں گے، اسلام کے روحانی ہتھیار غالب آئیں گے.دنیا کی ساری بادشاہتیں مٹ جائیں گی مگر اسلام کی بادشاہت کبھی نہیں مٹے گی.اس روحانی بادشاہت کے لئے جو عاجز بندے تیار کیے گئے ہیں، وہ آپ لوگ ہیں.اس عظیم مقصد کے سامنے میری اور آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہے.اگر ہمارے وجود کو پیسا جائے اور ذرہ ذرہ کر دیا جائے اور ہمارے اپنے ہی خون میں اس کا گارا تیار کیا جائے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلعہ کو مضبوط کرنے اور اس کی دیواروں کو وسیع و عریض کرنے کے لئے اس گارے کو وہاں استعمال کر دیا جائے تو یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے.لیکن اگر دنیایہ بجھتی ہے کہ وہ دنیا کی دولت، دنیا کی عزتوں ، دنیا کے اقتدار اور دنیا کے ہتھیاروں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کو ٹال سکتی یا مٹاسکتی یا کمزور کرسکتی ہے تو یہ اس کی غلام نہی ہے، یہ اس کی بھول ہے.ایسا نہیں ہوگا.کیونکہ خدا ، جوق در اور توانا خدا ہے، جو سب طاقتوں کا مالک خدا ہے اور جو اپنے امر پر غالب بھی ہے.وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے.اس کا یہ فیصلہ ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا اور یہ غلبہ احمدیت کے ذریعے مقدر ہے.876

Page 894

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه عیدالاضحیہ فرمودہ 16 جنوری 1973ء پس آج دنیا میں ایک ہی صداقت ہے اور ایک ہی بنیادی حقیقت ہے.اور وہ یہ ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا.اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ تمام انسانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے گا.یہ جھنڈا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے.تمام بنی نوع انسان کو خواہ وہ دنیا کے کسی دور در از خطہ میں رہائش پذیر کیوں نہ ہوں؟ ایک ہاتھ پر جمع کر دیا جائے گا.یہ ہاتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ہے.جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ہاتھ نہیں، یہ میرا ہاتھ ہے.خدا تعالیٰ کے اس ہاتھ کا اثر ، اس کی قوت قدسیہ اور اس کی طاقت اب بھی ویسی ہی ظاہر ہوگی، جیسے قرون اولی میں ظاہر ہوئی تھی.یہ بنیادی صداقت اور یہ بشارت ہم سے ( جو احمدیت کی طرف منسوب ہونے والے ہیں ) قربانی چاہتی ہے.وہی قربانی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اور اولاد نے خدا کے حضور پیش کی تھی.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی بیٹوں اور فرزندوں سے بھی اسی قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے.اس قربانی کے لئے آپ تیار ہو جائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بنیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی قربانیوں کے پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه روزنامه افضل 05 جون 1973 ء) 877

Page 895

Page 896

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 1973ء احمدی ڈاکٹر زا اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے پیش کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 1973ء تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں 1970ء میں مغربی افریقہ کے دورہ پر گیا تو اس وقت مجھ پر اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ظاہر ہوا تھا کہ کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ مغربی افریقہ کے مختلف ممالک میں بنی نوع انسان کی خدمت کے مختلف منصوبوں پر خرچ کروں یہ بھی دراصل خدمت اسلام ہی ہے کیونکہ اسلام کے حکم اور اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہی انسان انسان کی علی وجہ البصیرت خدمت کر سکتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس منشاء کے مطابق جماعت نے اس مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مال میں بڑی برکت ڈالی.چنانچہ کئی لاکھ پاؤنڈ یامل گئے یا بن گئے.اللہ تعالیٰ نے اس سکیم کو چلانے کیلئے مال بھی دیا اور کام کرنے کے لئے آدمی بھی دیئے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اب بھی حسب ضرورت اور دے گا.اللہ تعالی اس کمزور اور دنیا کی دھتکاری ہوئی جماعت کی بے لوث خدمات کو اپنے فضل اور رحم سے قبول بھی فرمائے گا اور حسنات دارین بھی عطا فرمائے گا.یہ 1970ء کی گرمیوں کی بات ہے.ابھی تین سال پورے نہیں ہوئے.مگر جیسا کہ میں گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر بتا چکا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ہماری حقیر مساعی میں برکتیں ڈالیں اور رحمتوں کی بارشیں برسائیں.پھر اس کے بعد بھی وہ خدا جو غیر محدودخترانوں کا مالک ہے، اپنی رحمتوں کے خزانہ سے ہم پر بے بعد وہ خدا جو پر انتہا فضل اور برکتیں نازل کر رہا ہے.تاہم جماعت احمدیہ کو یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھنی چاہئے کہ ہم وہاں پیسہ کمانے کے لئے نہیں بلکہ اہل افریقہ کی خدمت کرنے کے لئے گئے ہیں.گواللہ تعالیٰ ہمیں پیسے بھی دیتا ہے لیکن وہ بھی انہی پر خرچ کرنے کے لئے ہوتے ہیں.شروع میں یہاں سے جو ڈاکٹر اور پروفیسر صاحبان وہاں گئے تھے.ان میں سے بعض نے مجھے یہ لکھا کہ یہ لوگ کچھ عرصہ کے بعد ہمارے طبی مراکز اور کالجوں کو قومی ملکیت میں لے لیں گے.اس لئے ان کے نزدیک ہمیں ہسپتالوں اور کالجوں کی عمارتوں پر رقم خرچ نہیں 879

Page 897

خطبه جمعه فرمودہ 23 مارچ1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کرنی چاہئے.میں نے اُن کو یہی جواب دیا کہ ہم وہاں ان کی خدمت کیلئے گئے ہیں.جس وقت بھی وہ قو میں، جس حد تک طبی مراکز اور کالج سنبھالنے کے قابل ہو جائیں گی ، ہمارے لئے خوشی کا باعث ہوگا اور ہم بشاشت کے ساتھ ان کو پیش کر دیں گے کہ یہ لو اپنی چیز اور اس کو سنبھالو.لہذا خرچ کی راہ میں یہ امر میرے لئے روک نہیں بن سکتا.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ نائیجیریا میں نئے دستور کے مطابق موجودہ حکومت نے بارہ صوبے جن کو وہ امریکہ کی طرح سٹیمیں کہتے ہیں) بنا دیئے ہیں.چھ شمالی صوبے ہیں، جن میں بہت بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے.شمالی صوبوں میں شاید 98-99 فیصد مسلمان آباد ہیں.چھ صوبے جنوب میں ہیں ، جن میں بعض جگہوں پر غیر مسلم کچھ زیادہ ہیں اور بعض جگہوں پر وہاں بھی 45-46 فیصد مسلمان آباد ہیں.گویا نائیجیر یا حقیقتاً ایک مسلمان ملک ہے.ان کی اپنی ایک تاریخ، اپنا ایک شاندار ماضی ہے قوموں پر ابتلاء آتے رہتے ہیں.نائیجیرین قوم بھی بعض لحاظ سے ایک ابتلاء میں سے گذر رہی ہے.لیکن اس وقت جوسر براہ مملکت ہیں اور جن کا نام یعقو بو گوون ہے.وہ دل کے بڑے اچھے ہیں.مسلمانوں کا اسی طرح خیال رکھتے ہیں.جس طرح عیسائی بھائیوں کا رکھتے ہیں.عیسائیوں اور مسلمانوں میں کوئی تمیز روانہیں رکھتے.خدا تعالیٰ نے اُن کو بڑا پیار کرنے والا دل اور بڑا سمجھدار دماغ عطا فرمایا ہے.نائیجیریا کا یہ شمالی حصہ عیسائیت کی مخالفت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے پرانے خیالات کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ پر اپنے دروازے بند رکھتا تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کا نو میں ایک کلینک (اب تو وہ بڑی اچھی عمارت والا ہسپتال بن گیا ہے ) کھلوایا.کا نو نائیجیریا کا ایک صوبہ (سٹیٹ ) ہے اور شمال میں واقع ہے.حضرت عثمان فوری جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلی صدی میں نایجیریا کے مجدد تھے اس شمالی علاقے کے رہنے والے تھے.ہر صدی میں بہت سے مجدد ہوتے رہے ہیں.یہ بھی ان میں سے ایک تھے.ان کے متعلق اللہ نے اس وقت کے اپنے پیارے بندوں کو بشارت دی تھی.ان کی پیدائش کے وقت یا اس سے بھی پہلے کہ وہاں ایک مجدد پیدا ہونے والا ہے.چنانچہ جب انہوں نے تجدید دین کا کام شروع کیا تو ان پر کفر کا فتوی بھی لگا.وہ واجب القتل بھی قرار دئیے گئے.ان کے خلاف عملاً میان سے تلوار بھی نکالی گئی.لیکن چونکہ وہ خدا کے پیارے تھے.اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اپنی طاقتوں کے تار ہلائے اور ان کو مخالفوں کے ہر شر سے محفوظ رکھا.وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوئے.نائیجیریا میں بھی اور اس کے ساتھ کے دوسرے ملکوں میں بھی ان کا اثر ورسوخ بڑھ گیا.ان کی وفات کے وقت ان کے ایک 880

Page 898

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم - خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 1973ء بھائی تھے جو بہت بڑے بزرگ عالم تھے اور بعض بڑی اچھی عربی کتابوں کے مصنف بھی تھے.بڑی اچھی عربی لکھنے والے تھے.میں نے خود ان کی بعض کتابیں پڑھی ہیں.کچھ تو نایاب تھیں.حال ہی میں ان کی دوبارہ اشاعت ہوئی ہے.جن میں سے کچھ ہمیں بھی ملی ہیں.بعض کی تلاش ہورہی ہے.غرض وہ بڑے سمجھدار، دینی تفقہ اور روحانی فراست رکھنے والے بزرگ تھے.حضرت عثمان فوری کے ایک لڑکے تھے، جن کا نام محمد بن عثمان تھا.یہ بھی بڑے عالم اور متقی انسان تھے.حضرت عثمان فودی نے اپنی وفات سے قبل وہ علاقہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے ہاتھ پر غلبہ اسلام کے لئے فتح ہوا تھا.اس وقت کے جغرافیہ کے لحاظ سے اسے تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ( بعد میں بعض جغرافیائی تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں).ایک حصہ سیاسی لحاظ سے اپنے بھائی کو دیا اور ایک حصہ اپنے بیٹے محمد بن عثمان کو دیا تھا.یہ ان کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ بھی بنے اور امیر المومنین کے لقب سے معروف ہوئے.حضرت عثمان خودی کا ایک اور بیٹا بھی تھا جو ان کی وفات کے وقت چھوٹا تھا.شاید اسی لئے ان کی مہمات دینیہ یعنی جہاد اور اشاعت اسلام اور احیائے سنت کے لئے ان کی جو کوششیں تھیں، ان میں اس چھوٹے بیٹے کا نام نہیں.لیکن جب بعد میں وہ بڑے ہوئے تو ایک تہائی حصہ ان کے تصرف میں آیا.چنانچہ اس چھوٹے بیٹے کے علاقہ کا ایک حصہ کا نو کے صوبہ میں شامل ہے.جس میں اس کی نسل آباد ہے.اس وقت بھی ان کا مذہبی اثر ورسوخ بہت ہے.حضرت عثمان فودگی کے جو بیٹے خلیفہ بنے تھے.یعنی محمد بن عثمان ان کا جو علاقہ اور صوبہ ہے، اس کو سکو تو کہتے ہیں.ان کی نسل کے دینی رہنما سلطان آف سکو تو کہلاتے ہیں اور کانو والے امیر آف کا نو کہلاتے ہیں.سکو تو کا صوبہ ہم سے دور دور رہتا تھا.اب دیکھیں خدا تعالیٰ کی شان وہ کتنا فضل کرنے والا ہے.میں مصلحت کسی کا نام نہیں لوں گا اور نہ ان کے عہدے بتاؤں گا.تا ہم آپ سمجھ جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ہماری کوتاہیوں کے باوجود احمدیت کی اشاعت کے وہاں سامان پیدا کئے.ایک تو اس طرح کہ سکو تو کے جو باشندے تجارت یا دوسرے کاموں کے سلسلہ میں نائیجیریا کے دوسرے حصوں میں یا غیر ممالک کو چلے گئے تھے ، ان میں سے بہت سے خاندان اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہو گئے.پھر ان میں سے بہت سارے خاندان اپنے وطن واپس آگئے.اور کچھ اس طرح کہ سکو تو کے بعض بچے ایسے سکولوں میں پڑھے، جہاں احمدی کام کر رہے تھے یا سکول کے علاوہ ہمارے احمدی دوستوں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی اور وہ بچپن میں احمدی ہو گئے.چنانچہ اب جب کہ یک دم تبلیغ کا دروازہ کھلا تو پتہ لگا کہ یہاں تو پہلے سے احمدی موجود ہیں.پہلے تو اس علاقہ میں کسی احمدی مبلغ کے لئے شاید تقریر کرنا بھی مشکل ہوتا ہو 881

Page 899

خطبه جمعه فرمودہ 23 مارچ1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چهارم گا.لیکن اب حالات بدل گئے اور یہ حالات اس طرح بدلے.اور ہماری تبلیغ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس طرح دروازہ کھولا کہ جب میں 1970ء کے مغربی افریقہ کے دورہ میں نائیجیریا میں تھا، تو ایک دن ریڈیو پر یہ خبر آئی کہ سکو تو کے گورنر فاروق کا بینہ کے اجلاس میں شمولیت کے لئے (آٹھ نو سو میل دور اپنی سٹیٹ سے) آئے ہیں.ہوائی اڈہ پر صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سکو تو کی ریاست تعلیم میں بہت پیچھے ہے.اس لئے انہوں نے تعلیمی محاذ پر اپنی ریاست میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ لوگ ان کے ساتھ تعاون کریں گے.ہمیں تو سفر میں بڑی مصروفیت رہتی تھی.اسلئے کبھی ریڈیو کی خبریں سنتے تھے اور کبھی نہیں سنتے تھے.لیکن خدا نے یہ خبر سنانی تھی اس لئے اتفاقا یہ خبر سن لی.میں نے صبح سویرے ایک افریقن احمدی بھائی کو ان کے پاس بھیجا کہ میری طرف سے ان سے کہو کہ اس طرح ریڈیو پر ہم نے یہ خبر سنی ہے کہ آپ نے اپنے صوبہ میں تعلیمی محاذ پر ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا ہے.میں آپ کے صوبہ میں چار سکول کھولنے کی پیشکش کرتا ہوں.دور کیوں اور دولڑکوں کے لئے.آپ ہم سے تعاون کریں تو انشاء اللہ جلدی کھل جائیں گے.اور ہم دو باتوں میں تعاون چاہتے ہیں ایک یہ کہ آپ ہمیں سکولوں کے لئے زمین دیں.کیونکہ ہم پاکستان سے زمین نہیں لا سکتے.دوسرے یہ کہ ہمارے اساتذہ کے مظہر نے کا اجازت نامہ دیں.اس کے بغیر وہ ٹھہر نہیں سکتے.چنانچہ وہ اس پیشکش کو سن کر بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ میں پورا تعاون کروں گا.بعد میں انہوں نے ہمارے ساتھ واقعی تعاون بھی کیا.دوسکولوں کے لئے قریباً چالیس، چالیس ایکڑ زمین دی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے دوسکول وہاں کھل چکے ہیں.جن میں ابتدائی کلاسیں شروع ہو چکی ہیں.آہستہ آہستہ ترقی ہوگی.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے یہ 1970ء کی بات ہے.ابھی پونے تین سال ہی ہوئے ہیں کہ پچھلے سال وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ سارے سکول قومی ملکیت میں لے لئے جائیں اور ان کا معاوضہ ادا کیا جائے اور اگر باہر کے اساتذہ رہنا چاہیں تو ان کو رکھ لیا جائے.نیز یہ کہ ہر ریاست اپنے اپنے حالات کے مطابق اس سکیم پر عمل کرے.چنانچہ سکو تو نے سب سے پہلے سکولوں کو قومی ملکیت میں لینے کا فیصلہ کیا.جہاں تک ہمارے سکولوں کا تعلق ہے ، گوان کیلئے زمین تو انہوں نے ہی دی تھی لیکن اس پر عمارتیں ہم نے بنائی تھیں.قریباً چار چارلاکھ روپیدان پر خرچ آیا تھا.ہم نے خرچ کیا کیا؟ خدا نے دیا تھا.و ہیں خرچ کر دیا اللہ کے نام کی سربلندی کے لئے.جب مجھے اطلاع ملی کہ حکومت نے ہمارے سکول قومی ملکیت میں لے لئے ہیں تو میں نے کہا بڑا اچھا کیا.انہوں نے ان کو قومی ملکیت بنالیا ہے.ہم تو ان کی 882

Page 900

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 1973ء خدمت کے لئے گئے تھے.وہ قومی ملکیت میں لینا چاہتے ہیں تو بڑی خوشی سے لیں.ہمیں کوئی اعتراض نہیں.دوسرے میں نے وہاں کی جماعت کو یہ بھی لکھ کر بھیجا کہ اگر وہ اساتذہ کو رکھنا چاہیں تو ہمارے اساتذہ وہاں کام کریں گے اور اپنا نیک نمونہ پیش کریں گے.جس سے اپنے آپ تبلیغ ہوتی رہے گی.گویا ہمارا کام اسی طرح ہوتا رہے گا.جس طرح وہ اپنے سکول میں رہ کر کرتے.تیسرے اگر وہ اخراجات کا معاوضہ دینا چاہیں تو وہ ہم نہیں لیں گے.ہم وہاں ان کی خدمت کیلئے گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس حد تک اور جتنے عرصہ تک خدمت کی توفیق دی، ہم نے خدمت کی.اب ہم ان کو بنی بنائی چیز دیتے ہیں.چنانچہ جب ہمارا وفد ملنے گیا اور یہ پیشکش کی گئی کہ ہم خرچ نہیں لیں گے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی.ویسے بھی انسان کے ساتھ اگر کوئی پیار کا برتاؤ کرے تو وہ خوش ہوتا ہے.تا ہم ان کیلئے خوشی کی اصل وجہ اور تھی.اور وہ مجھے دو ایک ہفتے بعد میں معلوم ہوئی.دوست جانتے ہیں کہ عیسائی پادری وغیرہ بھی وہاں گئے ہوئے ہیں اور انہوں نے بھی وہاں سکول کھول رکھے ہیں.جب حکومت نے سکولوں کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تو وہ بڑے تلملائے.کیونکہ وہ خدمت کے جذبہ سے تو وہاں جاتے نہیں.بلکہ عیسائیت کے پھیلانے اور پیسے کمانے کے لئے وہاں جاتے ہیں.غرض عیسائیوں نے جب یہ سنا کہ حکومت سکولوں کا معاوضہ دے گی.تو انہوں نے بڑے مبالغہ آمیز دعاوی تیار کئے.لیکن جب ہماری طرف سے ایک وفد کے ذریعہ خرچ نہ لینے کی پیشکش کی گئی تو وہاں کے اخبارات، ریڈیو، ٹیلیویژن پر شور مچ گیا.عیسائی سکولوں والے بہت ہی تلملائے.اُن کے منتظمین ہمارے اساتذہ اور مبلغوں کے پاس آئے کہ آپ نے یہ کیا ظلم کر دیا ہے.حکومت چنگے بھلے پیسے دے رہی ا، آپ نے لینے سے انکار کیوں کر دیا ہے؟ اس سے ہمارے لئے مشکل پڑ گئی ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمیں وہاں بے لوث خدمت کرنے کی توفیق ملی.کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہمارے سکولوں کو کھلے ہوئے تو ابھی ڈیڑھ سال ہوا ہے.لیکن ڈیڑھ سال تک بھی بنی نوع انسان کی اس رنگ میں بے لوث خدمت کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے.خدا تعالی کا پیار تو ایک لمحہ کے لئے مل جائے تو وہ بھی بڑی چیز ہے.ہماری دعا ہے کہ ہر وقت ہی اس کا پیار ملتا رہے.اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی.اللہ تعالیٰ کے ایک لمحہ کے پیار کے سامنے ساری دنیا کے خزانے بیچ ہیں.ہمیں ڈیڑھ سال تک اللہ کے پیار اور محبت کو پانے کی توفیق ملی.اس عرصہ میں ان کی خدمت ، سکول کی عمارت، سکول کا انتظام ، سکول کے فرنیچر، سکول کے لئے یہاں سے اساتذہ بھجوانا وغیرہ 883

Page 901

خطبه جمعه فرمودہ 23 مارچ 1973 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کوئی معمولی خدمت نہیں ہے.پھر اس کے علاوہ یہ خدمت بھی ملی کہ جو لوگ وہاں پیسے کمانے گئے تھے ان کو پیسے نہیں کمانے دیئے اور اب ان کو بڑی دقت کا سامنا ہے.حکومت ان کو معاوضہ دے گی تو ضرور لیکن اتنا نہیں دے گی، جتنا وہ سوچ رہے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ سارے مل کر حکومت سے زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کی کوشش کریں.لیکن چونکہ ایک حصہ ( یعنی احمد یوں ) نے کہا کہ ہم حکومت سے ایک دھیلہ نہیں لیتے.اس لئے اب ان کی خواہشات پوری نہ ہوسکیں گی.اس کے علاوہ اس سٹیسٹ کے باشندے گو باہر نکل کر احمدی ہو جاتے تھے.لیکن وہاں ریاست کے اندر ہمارے مبلغ کا جانا بھی مشکل تھا.اب وہاں ہماری تبلیغ کا دروازہ کھل گیا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر سب سے بڑا فضل ہوا ہے.اب وہاں نئی جماعتیں قائم ہونی شروع ہوگئی ہیں.ابھی پرسوں ترسوں مجھے خبر ملی کہ اس ریاست میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد بھی بن گئی ہے.الحمد للہ علی ذالک.پھر جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا تھا، وہاں کے چندلوگوں نے جو وہاں کی دینی اور دنیوی اثر ورسوخ رکھنے والی ہستیاں ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم تو بڑی دیر سے احمدی ہیں.جماعت سے ان کا عملی تعلق اس وجہ سے نہیں تھا کہ اس علاقے کے حالات ہی کچھ ایسے تھے.چنانچہ ایسے ہی ایک بہت بڑے آدمی سے ہمارے ایک احمدی ٹیچر نے کہا ، اگر آپ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں تو پھر حضرت صاحب کو لکھ دوں.تو وہ کہنے لگے میرے متعلق ضرور لکھ دو، میرے لئے دعا کے لئے بھی عرض کرو اور یہ بھی لکھو کہ میں تو حکیم فضل الرحمان صاحب کے زمانہ میں بچہ تھا.ان کے پاس بیٹھا کرتا تھا، اس وقت سے احمدی ہوں.اب دینی اور دنیوی ہر دو لحاظ سے اس کا بڑا بلند مقام ہے.اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ وہاں اور بھی بہت سے چھپے ہوئے احمدی ہیں.گویا وہاں احمدی تو تھے لیکن ہمیں ان کا علم نہیں تھا.وہاں کے مقامی حالات کی وجہ سے جماعت سے ان کا کوئی عملی تعلق نہیں تھا.غرض اللہ تعالیٰ اپنے پیار اور رحمت سے ہماری حقیر سی کوششوں کے بڑے اچھے نتائج نکال رہا ہے اور ہمارے لئے جسمانی اور روحانی خوشیوں اور مسرتوں کے سامان پیدا کر رہا ہے.جیسا کہ میں نے پچھلے جلسہ سالانہ پر بھی بتایا تھا، اب وہاں کے ایک ملک کے سفیر نے یہ کہا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ اس سال کے بعد ہمارے ملک میں (ویسے ملک چھوٹا سا ہے ) اکثریت احمدیوں کی ہو سا چکی ہوگی.اس لئے میں نے اپنے بیٹے سے کہا ہے ابھی جا کر بیعت کر لو.جب اکثریت احمدی ہو جائے گی تو اس وقت بیعت کرو گے تو کیا مزہ آئے گا.مجھے پتہ لگا ہے کہ کچھ سمجھدار لوگ اس دفعہ حج پر گئے ہوئے تھے.انہوں نے افریقہ سے آنے والے حاجیوں سے ملاپ کیا.مختلف ملکوں کے حاجی تھے خصوصاً افریقہ 884

Page 902

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 1973ء سے آنے والے حاجیوں سے بھی ملے.اور ان سے سوال کئے اور حالات دریافت کرتے رہے.چنانچہ یہاں آکر ان میں سے بعض نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ نائیجیریا کے افریقن حاجیوں سے بھی ملے ہیں.اور ان سے یہ پتہ لگا ہے کہ نائیجیریا میں ہر جگہ احمدیوں کا اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہی ہے جس کا نتیجہ نکل رہا ہے.نائیجیریا کی ایک ریاست کی حج کمیٹی کے صدر ایک احمدی دوست ہیں.جس وقت حج پر جانے کا وقت آیا تو سعودی سفارت نے ویزا دینے میں لیت ولعل کیا.وہ بڑے مخلص احمدی اور صاحب اثر در سوخ تھے اور چونکہ ایک پوری ریاست کی حج کمیٹی کے صدر بھی تھے اسلئے وہاں شور پڑ گیا.چنانچہ اس پر نائیجیریا کی حکومت نے مداخلت کی اور سینکڑوں نائیجیرین احمدی حج کی برکات سے مستفید ہوئے.پس وہاں کی حکومت نے جرات سے کام لیا.دوست دعا کریں بعض دوسری حکومتیں جو اس معاملہ میں کمزوری دکھا جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو مضبوط کرے اور ان میں جرات پیدا کرے.پس کام تو ہم نے گو تھوڑا سا کیا ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے ان لوگوں سے کئی گنا بہتر ہے.جواربوں روپے کے مالک ہیں اور اربوں روپے عیسائی پادریوں کو دے کر افریقہ میں بھجوا رہے ہیں، ان کے مقابلہ میں بظاہر آپ کی قربانی کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے.آپ نے چند لاکھ روپیہ خرچ کیا ہے اور یہ کوئی دولت تو نہیں ہے جو آپ نے خدا کی راہ میں لٹا دی.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھ کر کہ ابھی میں نے ان کو تھوڑا دیا ہے اور یہ اس تھوڑے میں سے کچھ حصہ میرے لئے نکالتے اور اسے میری راہ میں خرچ کر رہے ہیں اس لئے میں ان کو جزا دوں گا اور ان کے مالوں میں برکت ڈالوں گا.مال کی زیادتی کی شکل میں بھی اور مال کے بہترین نتائج نکلنے کی شکل میں بھی اور اصل برکت یہی ہے.آپ ایک پیسہ خرچ کرتے ہیں ، مگر ہزار روپے خرچ کر کے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ آپ کے ایک پیسے سے نکل آتا ہے.999 روپے 99 پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ وہ آسمان سے برکت کی شکل میں آتے ہیں.پھر اسی طرح ڈاکٹر آئے اور بہت ڈاکٹر آئے.مجھے ڈاکٹروں کے آنے کی بہت زیادہ خوشی دوجہ سے ہوئی.ایک تو یہ کہ میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ صوبہ سرحد کے ہمارے احمدی دوست جانی قربانیوں کے پیش کرنے میں پیچھے ہیں.لیکن اس تحریک میں صوبہ سرحد نے حصہ رسدی کے طور پر بشاشت کے ساتھ شمولیت کی.ان کی چھپی ہوئی ایمانی کیفیت کا اظہار میرے لئے خوشی کا باعث تھا.دوسرے یہ کہ اس تحریک میں نو جوان احمدی نسل نے بہت اچھا نمونہ دکھایا اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.چنانچہ وہ نسل جو عام طور پر مغربیت زدہ کہلاتی ہے لیکن جہاں تک 885

Page 903

خطبه جمعه فرمودہ 23 مارچ1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم نو جوان احمدی نسل کا تعلق ہے، یہ دوسروں سے بدرجہا بہتر ہے.مثلاً میں نے جب ڈاکٹروں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کی تو ہمارے چند نوجوان ڈاکٹر جو ڈاکٹری کے آخری سال میں پڑھ رہے تھے، انہوں نے اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر اس خدمت کے لئے پیش کیا.ان میں سے ایک نو جوان ڈاکٹر وہ بھی تھا، جو لاہور کے علاقہ میں یونیورسٹی بھر میں اول آیا تھا.لیکن جس وقت ان کا نتیجہ نکلا بھارت کے ساتھ ہماری جنگ شروع ہوگئی اور ہمارے ملک کو ڈاکٹروں کی ضرورت پڑ گئی.تو ہمارے ان ڈاکٹروں کو بھی انٹرویو کے لئے بلا لیا گیا.وہ میرے پاس آئے کہ ہم نے وقف کیا ہوا ہے.لیکن حکومت کی طرف سے یہ چٹھی آگئی ہے.میں نے ان کو سمجھایا کہ بات یہ ہے کہ جہاں تک اپنے ملک کا سوال ہے اس کی خدمت کو بہر حال مقدم رکھا جائے گا.اگر ہمارے ملک کو آپ کی خدمت کی ضرورت ہے تو جب تک ملک کو آپ کی ضرورت رہے آپ اپنے ملک کی خدمت کرتے رہیں.مگر انٹر ویو بورڈ سے صاف صاف کہہ دیں اس میں گھبرانے کی یا جھجکنے کی یا ڈرنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے.آپ کہیں کہ ہمارا قصہ یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں، ہم نے اپنی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کیا ہوا ہے.ہماری نیت یہ ہے اور ہمارے لئے پروگرام بھی یہی ہے کہ ہم افریقہ کے جنگلوں میں جا کر اسلام کی خدمت کریں اور اسلام کے غلبہ کی مہم کو کامیاب کرنے کے لئے بساط بھر کوشش کریں.مگر جس وقت آپ نے ہمیں انٹرویو کیلئے بلایا تو ہم اپنے امام کے پاس گئے اور انہوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر ملک کو ضرورت ہو اور جب تک ضرورت ہو اس وقت تک کام کرتے رہو.اور ہمیں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بورڈ سے یہ بھی کہہ دینا کہ ہم بغیر تنخواہ کے بھی ملک کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ جب میں نے انٹرویو بورڈ کے صدر ( جو ایک جرنیل صاحب تھے ) کے سامنے یہ بات کی تو ان کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ ایسی باتیں استثنائی صورت ہی میں سننے میں آتی ہیں اور عجیب بات ہے کہ جب بھی استثنائی طور پر کوئی ایسی بات ہوتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے منہ سے نکل رہی ہوتی ہے.ابھی ہنگامی حالات ہیں.اس لئے حکومت نے ہمارے واقف ڈاکٹروں کو فارغ نہیں کیا.بلکہ جس ڈاکٹر کے متعلق میں نے بتایا ہے وہ اپنی کلاس میں اول آیا تھا، اس کو اس کے بریگیڈ پرڈاکٹر نے کہا کہ خدا نے تمہیں اتنی اعلی عقل و فراست عطا کی ہے تم ایک ہائر کورس (Higher Course) کرو لیکن اس کے لئے تمہیں پانچ سال کا معاہدہ کرنا پڑے گا.اس نے مجھ سے پوچھا.میں نے کہا، چپ کر کے اپنا کام کئے جاؤ.لیکن بریگیڈیر صاحب کے ذہن پر ہمارے اس بچے کی ذہانت کا کچھ ایسا تاثر تھا کہ وہ ہمارے ایک احمدی کرنل سے کہنے لگے ، کہ اس کو جب میں یہ کہتا 886

Page 904

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 1973ء ہوں کہ کورس کرلو تو یہ کہتا ہے میں نے وقف کیا ہوا ہے.تم میری طرف سے حضرت صاحب سے کہو کہ یہ بچہ بڑا ذہین ہے.اس کو کورس کر لینے دیں.پانچ سال کا معاہدہ ہے.اس کے بعد نوکری چھوڑ کر خدمت کر سکتا ہے.چنانچہ پھر میں نے بھی اجازت دی کہ اچھا ہے ایک اور ٹریننگ بھی ہو جائے گی ، اب وہ اپنا کام بھی کر رہا ہے.ساتھ ہی کو رس بھی کر رہا ہے.پس چونکہ ہمارے ملک کو ڈاکٹروں کی ضرورت پڑی.ہمارے چند واقف ڈاکٹر بھی ملک کی خدمت کر رہے ہیں ( غیر واقف ڈاکٹر تو بہت ہیں جو ملک کی خدمت کر رہے ہیں.ان کو ہم فی الحال باہر نہیں بھجوا سکتے.دوسرے ، بعض ڈاکٹروں کو افریقہ میں گئے ہوئے قریباً دو سال کا عرصہ ہو گیا ہے.تین سال کے بعد ہم نے ان کو واپس بلانا ہے.تیسرے بعض ڈاکٹر یہاں سے چھٹی لے کر گئے ہوئے ہیں.میں نے ہی ان کو مشورہ دیا تھا کہ فراغت لینے کی بجائے محکمہ سے چھٹی لو اور وہاں جا کر خدمت کے کام کرو.ان کو واپس بلانا ہے تا کہ وہ کچھ عرصہ یہاں آکر کام کریں اور پھر دوبارہ چلے جائیں.ویسے بھی واقفین چاہے ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہوں، ان کو کچھ عرصہ کے بعد واپس آنا چاہیئے.غرض ان وجوہ کی بنا پر یعنی ایک تو یہ کہ ہمارے کچھ ڈاکٹر پاکستان میں قوم کی خدمت کر رہے ہیں.دوسرے بعض ڈاکٹروں کو ہم نے واپس بلانا ہے.یا بعض ایسے ڈاکٹر ہیں جو وہاں کما حقہ کام نہیں کر سکے.کیونکہ ہر آدمی ہر کام کے لئے نہیں بنا ہوتا.اور یہ بات تجربہ سے معلوم ہوتی ہے.چنانچہ ایسے ڈاکٹروں کی کوششوں کو بے نتیجہ تو نہیں کہا جا سکتا.لیکن ان کی کوشش کامیاب ڈاکٹروں کے نتائج کے سویں حصے تک بھی نہیں پہنچی.اور وہ بمشکل اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں اور یہ بھی دراصل ان کی ناکامی ہی ہے.ایسے ڈاکٹروں کو بہر حال واپس بلانا ہے اور ان کی جگہ یہاں سے دوسرے ڈاکٹروں کو بھجوانا ہے.پس اس وقت دنیا کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت اور اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے ذریعہ جو مہم جاری ہے.اس کے ایک حصہ یعنی مغربی افریقہ میں جو کام ہو رہا ہے.اس کے لئے آٹھ دس ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.جن کے نام ہمیں دو، تین مہینوں کے اندراندریل جانے چاہئیں.اس واسطے پاکستانی احمدی ڈاکٹروں اور ان پاکستانی یا غیر پاکستانی احمدی ڈاکٹروں کو جو انگلستان میں یا امریکہ میں یا دوسرے ملکوں میں ہیں، ان کو میں اللہ کے نام پر آواز دیتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کیلئے پیش کریں.پھر ہم ان میں سے حالات اور ضرورت کے پیش نظر جتنوں کی ضرورت ہوگی.جب چاہیں گے بلالیں گے.سردست ان کو اپنے نام پیش 887

Page 905

خطبه جمعه فرمود 23 مار 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کر دینے چاہئیں.پاکستان میں بھی اور بیرون پاکستان میں بھی.میرے خیال میں بیرون پاکستان بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے سو سے اوپر احمدی ڈاکٹر ہوں گے، جو اپنا کام کر رہے ہوں گے.یا کچھ ایسے بھی ہوں گے، جو اگلے دو چار ماہ میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے والے ہوں گے.غرض اگلے تین ماہ کے اندر اندر آٹھ ، دس ڈاکٹر بہتر ہو کہ فزیشن سرجن ہوں یعنی نسخے لکھنے کے علاوہ آپریشن کرنا بھی جانتے ہوں.ورنہ خالی فزیشن ہوں یا خالی سرجن ہوں، وہ اپنے نام پیش کر دیں.پھر ان کو حسب حالات اور ضرورت باہر بھجوانے کا انتظام کیا جائے گا.بہت ساری ایسی خوشیاں ہیں جو مجھے اپنے دل میں رکھنی پڑتی ہیں اور پھر مناسب موقع پر جماعت کو بتادی جاتی ہیں.چنانچہ ایسی ہی کئی خوشیاں ہیں، جن میں سے بعض کو ممکن ہے میں شوری پر بتاؤں گا یا اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر بیان کروں گا.اس وقت جماعت کا ایک حصہ اکٹھا ہوتا ہے.جلسہ سالانہ کا ذکر ہوا ہے تو میں ضمناً یہ بتا دیتا ہوں کہ کسی دوست نے ایک تجویز بھیجی ہے ( میں خود حیران ہوں کہ ہمیں پہلے کیوں خیال نہیں آیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے ) انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ جماعت کا ایک بہت تھوڑا حصہ جلسہ سالانہ پر آتا ہے.اور بہت بھاری اکثریت ایسی ہے جو اپنے اپنے حالات اور مجبوریوں کی وجہ سے جلسہ سالانہ پر نہیں آسکتی.لیکن جلسہ سالانہ کے دنوں میں الفضل بند کر دیا جاتا ہے اور ان کو کچھ پتہ نہیں چلتا.دوست بے چین رہتے ہیں.پھر کہیں مہینے کے بعد جب ان کو جلسہ سالانہ کی خبریں پہنچتی ہیں تو جہاں خوشی کے خط آتے ہیں وہاں دوستوں کے گلے شکوے بھی ہوتے ہیں کہ کیوں اتنے لمبے عرصہ کے بعد یہ باتیں معلوم ہوئیں.جماعتوں تک ان کے جلد پہنچانے کا انتظام ہونا چاہئے تھا.اس سلسلے میں ایک اور بڑا اچھا انتظام زیر غور ہے.اس پر کچھ خرچ آئے گا تا ہم اس کے ذریعہ بڑی جلدی خبریں پہنچانے کا انتظام ہو جائے گا.یہ سکیم تو ابھی ابتدائی شکل میں ہے.انشاء اللہ اس کی تکمیل پر بہت اچھا انتظام ہو جائے گا.لیکن سردست جلسہ سالانہ کے دنوں میں روزانہ کی رپورٹ مثلاً ہر روز آٹھ بجے شام تک کی رپورٹ اگلے دن صبح چھپ جانی چاہئے.خواہ وہ الفضل کے حجم کا ایک ورق یعنی بڑی مختصر رپورٹ ہی کیوں نہ ہو.اور پھر اسی دن بذریعہ ہوائی ڈاک ساری دنیا میں بھجوانے کا انتظام ہونا چاہئے.بلکہ تحریک جدید کو چاہئے کہ وہ اس کے ساتھ اس کا انگریزی میں ترجمہ یا الگ اپنی طرف سے آزادانہ طور پر انگریزی میں روزانہ کی رپورٹ تیار کر کے بذریعہ ہوائی ڈاک بھجوانے کا انتظام کرے.اس طرح بعض جگہ تو 3-4 دن میں اور بعض جگہ 15-20 دن کے اندر خبریں پہنچ جائیں گی.بعض جگہیں تو ایسی بھی ہیں کہ 888

Page 906

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 1973ء جہاں ڈاک کا انتظام خراب ہونے کی وجہ سے دو دو تین تین ہفتے کے بعد ڈاک پہنچتی ہے.دوست تو یہ سمجھتے ہوں گے کہ ہوائی ڈاک زیادہ سے زیادہ پانچ دس دن میں پہنچ جاتی ہوگی.مگر بعض جگہ ایسا نہیں ہوتا.مجھے یاد ہے، جب میں مغربی افریقہ کے دورہ پر گیا تھا تو جو خطوط مجھے یہاں سے پہلے ہفتے میں لکھے گئے تھے ان میں سے بعض خطوط دو اڑھائی مہینے کے بعد مجھے اس وقت ملے، جب میں دورہ ختم کر کے لندن سے ہوتا ہوا یہاں واپس پہنچ چکا تھا.گویا اڑھائی تین مہینے اور بعض خطوط چار مہینے تک ساری دنیا کا چکر کاٹ کر یہیں واپس آگئے.پس اگر چہ دنیا کے بعض حصوں میں ڈاک کا انتظام ٹھیک نہیں ہے.لیکن جب تک کوئی دوسرا انتظام نہیں ہو جاتا اس وقت تک جلسہ سالانہ کے دنوں میں الفضل کو بند نہیں ہونا چاہئے.ان دنوں اس پر زیادہ عملہ لگانا چاہئے.تحریک بھی علیحدہ طور پر انگریزی میں بلیٹن تیار کرے.اس کے لئے اخبار ہی کی پیروی کرنا ضروری نہیں ہے.یعنی الفضل تو اخبار کی شکل میں شائع ہوگا.لیکن تحریک اپنی رپورٹ بلیٹن کی شکل میں شائع کرے.غرضیکہ جلسہ سالانہ کی کارروائی کی اطلاع بیرونی دنیا میں ساتھ کے ساتھ ہونی چاہئے.بعض جگہوں پر تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوست جلسہ سالانہ پر آتے ہیں، جب وہ دس پندرہ دن کے بعد واپس جاتے ہیں تو وہاں کے مقامی دوست ان سے کئی دن تک کرید کرید کر جلسہ سالانہ کی روداد سنتے رہتے ہیں.میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضل جماعت پر نازل ہوتے رہتے ہیں.جلسہ سالانہ میں ان فصلوں کو مختصر تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے.جس کا دنیا بھر کی جماعتوں کو جلد تر پتہ لگنا چاہئے.تاہم یہ ایک ضمنی بات تھی جس کا بعد میں تفصیل سے ذکر ہوگا.میں نے اس وقت آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کی کچھ باتیں بتائی ہیں تا کہ آپ اللہ تعالی کے شکر گزار بندے بننے کی کوشش کریں اور اپنے رب کی بہت حمد کریں.میں نے اس وقت احمدی ڈاکٹروں کو وقف کی تحریک کی ہے.آٹھ دس ڈاکٹروں کی فوری ضرورت ہے.تین مہینے کے اندر اندر ڈاکٹروں کے نام آجانے چاہئیں.ہمارا اصل سہارا تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جس کے فضلوں کے حصول کا ذریعہ دعا ہے.دعا کے بغیر ہمیں کام کرنے والے نہیں مل سکتے.دعا کے بغیر ان کے کاموں میں برکت نہیں پڑ سکتی.دعا کے بغیر جماعت کو بحیثیت مجموعی ان کی حقیر کوششوں کا بے انتہا اور بڑا پیارا بدلہ نہیں مل سکتا.اس لئے دوست بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں کا ہر لحاظ سے وارث اور ہر جہت سے اہل بنائے اور ہر شعبۂ عمل میں آگے سے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے.اللهم امین“.مطبوعه روزنامه الفضل 31 مارچ1973ء) 889

Page 907

Page 908

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1973ء دوست دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1973ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.ہم نے اپنی زندگیوں میں ہمیشہ یہی مشاہدہ کیا ہے کہ:.شمار فضل اور رحمت نہیں نیز یہ کہ:.تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے ( ورشین :54) ( در شین :54) حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل آپ کے محبوب مہدی معہود کے غلاموں کو ہر وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازتا رہتا ہے.میں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے دو فضلوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ایک یہ کہ تحریک جدید نے کئی سال ہوئے ، کانو ( نائیجیریا) میں ایک ہائر سیکنڈری سکول (جس کی حیثیت ہمارے ہاں کے انٹر میڈیٹ کالج کی ہے ) کھولا تھا.لیکن اس کی ترقی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں تھیں.کانو کا علاقہ نائیجیریا کا جو مسلم نارتھ یعنی "مسلمانوں کا شمالی علاقہ“ کہلاتا ہے، اس کا ایک صوبہ ہے.مسلم نارتھ وہ علاقہ ہے، جس میں حضرت عثمان بن فودی علیہ الرحمۃ اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے مطابق اپنے زمانہ میں مجدد بن کر آئے تھے.ان کی وفات غالباً 1818ء میں ہوئی.یہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے پہلی صدی کے مجدد ہیں.نائیجیریا کے شمالی علاقوں میں ان کی نسل صاحب اثر ورسوخ ہے.اکثر لوگ انہی کے ماننے والے اس علاقہ میں پائے جاتے ہیں.یہ علاقہ ایک عرصہ تک ہم پر بند رہا.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کے دروازے ہمارے لئے کھول دیئے.کانو میں ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے بڑی محنت کی اور قربانی دی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے ذریعہ وہاں ایک کامیاب ہسپتال جاری ہو گیا.پھر وہیں ایک سکول بھی کھل گیا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.891

Page 909

خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم کانو کے مغرب میں سکو تو کا صوبہ ہے.جہاں حضرت عثمان بن فودی علیه الرحمة کے بڑے بیٹے کی نسل آباد ہے.اور مذہبی اثر ورسوخ اور سیاسی اقتدار کی مالک ہے.کانو کا علاقہ ان کے چھوٹے بیٹے کو ملا تھا.حضرت عثمان بن فودی علیہ الرحمۃ نے اپنی زندگی میں ہی حصے بانٹ دیئے تھے.چنانچہ کا نو کا علاقہ ان کے چھوٹے بیٹے کے حصہ میں آیا تھا.اس علاقہ میں جب ہمارا ہسپتال اور سکول کھل گیا تو وہاں کے افسروں کا ایک حصہ تو ہمارے ساتھ بڑا تعلق رکھنے لگا لیکن تبلیغ واشاعت کے دروازے کھلنے کی وجہ سے بعض افسروں کی طرف سے بڑی مخالفت رہی.اور اب بھی ہے.مخالفت سے ہم ڈرتے نہیں کیونکہ یہ تو دراصل ہماری ترقی کے لئے بہت ضروری ہے.چنانچہ کا نو میں سکول تو کھل گیا.لیکن حکومت اس کو مالی امداد دینے کے لئے ایک با قاعدہ سکول کے طور پر ابھی تک تسلیم نہیں کر رہی تھی.اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ گو ہم نے تمہیں سکول کھولنے کی اجازت تو دے رکھی ہے اور تمہار اسکول عملاً کام بھی کر رہا ہے لیکن تمہارے پاس نہ اپنی زمین ہے اور نہ اپنی عمارت.تم کرایہ کی ایک عمارت میں کام کر رہے ہو ، ہم اسے با قاعدہ سکول سمجھ کر کیسے مدد دینی شروع کر دیں.تاہم وہ افسر جو ہم سے اچھا تعلق رکھتے تھے ، وہ ہمارے سکول کے لئے مالی امداد کے حصول کی برابر کوششیں کرتے رہے.اور ادھر مخالفین بھی اپنی مخالفت میں لگے ہوئے تھے.مگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.ابھی تھوڑا عرصہ ہوا وہاں سے یہ اطلاع ملی ہے کہ حکومت نے ہمارے اس سکول کے لئے دس ایکڑ زمین عطیہ کے طور پر یا برائے نام قیمت پر دے دی ہے.الحمد للہ علی ذالک اب یہ روک تو دور ہو گئی ہے.انشاء اللہ وہاں سکول کی عمارت بھی بن جائے گی اور باقاعدہ سکول بھی بن جائے گا.جب سکولوں کو حکومت کی طرف سے امداد ملنی شروع ہو جائے تو پھر سکولوں کے اخراجات کا بوجھ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے.لیکن جب تک امداد نہ ملے ان کا سارا بوجھ جماعت کو اٹھانا پڑتا ہے.ظاہر ہے سکول چلانا کوئی معمولی بات نہیں، اس پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے.ہم نے تو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہوتا ہے.وہی ہمیں دیتا ہے اور کہتا ہے خرچ کرو یعنی خود ہی دیتا ہے اور خود ہی خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اور ہمیں ثواب دے دیتا ہے.ہم اس کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے بڑے ممنونیت اور حمد سے بھرے ہوئے جذبات رکھتے ہیں.پس ایک تو یہ فضل ہے جس کا ذکر میں آج اس خطبہ میں کرنا چاہتا تھا تا کہ یہ بات جماعت کے علم میں آجائے اور ہم سب اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ تحمید اور تسبیح کرنے والے بن جائیں.دوسری خوشخبری، جس کا میں اس وقت ذکر کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ 1970ء میں جب میں مغربی افریقہ کے دورہ پر گیا تو لائبیریا میں پریذیڈنٹ ٹب مین صاحب سے بھی میری ملاقات ہوئی.892

Page 910

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 06 جولائی 1973ء ہمارے مبلغ نے گوان سے یہ تو کہا تھا کہ حضرت صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں.آپ اس موقع پر ہمارے مشن ہاؤس اور ہسپتال وغیرہ کے لئے ہمیں ایک سو ایکٹر زمین کا تحفہ دیں.لیکن ان سے یہ نہیں کہا گیا تھا اور نہ خواہش کی گئی تھی.نہ ہمارا خیال تھا اور نہ ایسا خیال پیدا ہو سکتا تھا، کہ وہ جو استقبالیہ دعوت دیں گے ، اس میں اس کا اعلان بھی کر دیں گے.چنانچہ انہوں نے ہمیں جو استقبالیہ دیا، جس میں سب وزراء اور بڑے بڑے افسر اور دیگر صاحب اثر ورسوخ شہری بھی شامل تھے.اس میں انہوں نے اپنی تقریر کے دوران اچانک یہ اعلان بھی کر دیا، کہ میں نے جماعت احمدیہ کو سوا یکٹر زمین دینے کا وعدہ کیا ہے.اس موقع پر ان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوئی اور اس کا انہوں نے اظہار کر دیا.میں سمجھتا ہوں اس میں ضرور کوئی خدائی حکمت تھی.کیونکہ بعد میں جو حالات پیدا ہوئے ، ان سے بھی یہ پتہ لگتا ہے کہ بڑا اچھا ہوا.بھری محفل میں حکومت کے سب ذمہ دار افراد کی موجودگی میں ان کے پریذیڈنٹ کی طرف سے یہ اعلان ہو گیا کہ میں نے امام جماعت احمدیہ کو ایک سوا سیکٹر زمین دینے کا وعدہ کیا ہے.جب میں وہاں گیا تھا تو اس وقت ان کی عمر 85 سال کے لگ بھگ تھی.گو بڑے بوڑھے آدمی تھے لیکن بڑی ہمت والے انسان تھے.پچھلے سال ان کی وفات ہوگئی.زمین کے متعلق دفتری کارروائی جاری رہی تھی.یہ کارروائی بہر حال کچھ وقت لیتی ہے.پھر وہاں کی اکثر زمینیں جنگلات کی صورت میں پڑی ہوئی ہیں.جنگلات بھی ایسے کہ جن میں نہ کوئی پٹواری گیا اور نہ کوئی قانون گو، جن میں نہ کوئی نشان لگا اور نہ حد بندی ہوئی.بس ایک وسیع جنگل ہے جو خالی پڑا ہوا ہے.علاوہ ازیں وہاں پر زمین کی دوہری ملکیت ہے.حکومت بھی مالک ہے اور کئی افراد یا پرانے قبائل کی بھی ملکیت ہے.جب کوئی حصہ زمین فروخت ہوتا ہے، تو اس کی قیمت کا ایک حصہ حکومت لیتی ہے اور ایک حصہ قبائل کو ملتا ہے.یہ گویا کچھ اس قسم کا انتظام ہے جو ہمارے یہاں سے بالکل مختلف ہے.مجھے اس کی تفصیل کا پور اعلم بھی نہیں.صرف اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے ملک سے ان کا انتقال اراضی کا نظام بہت مختلف ہے.غرض پریذیڈنٹ ٹب مین صاحب کی زندگی میں تو سو ایکڑ زمین ہمیں نہ مل سکی.لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو چونکہ ان کے آئین کے مطابق وہاں کا نائب صدر نئے انتخابات تک صدر بن جاتا ہے.اس لئے مسٹر ٹالبرٹ جو وہاں کے نائب صدر تھے اور بڑی اچھی شخصیت کے مالک تھے.صدر بن گئے ان سے بھی میری ملاقات ہوئی تھی.یہ بھی ہمارے ساتھ بڑا تعلق رکھتے تھے لیکن جو تعلق پریذیڈنٹ ٹب مین کے دل میں ہمارے لئے تھا، جس کا انہوں نے اظہار بھی کیا تھا.مسٹر البرٹ کا ہمارے ساتھ ویسا تعلق تو نہیں 893

Page 911

خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تھا، لیکن پھر بھی مسٹر ٹالبرٹ ہم سے بڑا اچھا تعلق رکھتے تھے.ان کے زمانہ میں بھی ہمارا یہ معاملہ سرخ فیتہ کی زد میں رہا.ایک لمبے عرصہ تک کارروائی ہوتی رہی.کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کب اور کیا فیصلہ ہو گا ؟ کبھی کوئی مشکل پیش آ جاتی تھی.کبھی کہتے تھے دستاویز کے الفاظ درست نہیں.غرض یہ معاملہ بڑے لمبے عرصہ تک چلتا رہا.یوں سمجھئے کہ اس بات کو قریباً تین سال ہو گئے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.اب چند دن ہوئے اطلاع آئی ہے کہ ہمارے حق میں فیصلہ ہو گیا ہے.پہلے یہ اطلاع ملی کہ پریذیڈنٹ ٹالبرٹ نے نقشہ پر منظوری دیدی ہے لیکن کچھ قانونی کام کرنے باقی ہیں.پھر اب یہ اطلاع ملی ہے کہ باقاعدہ منظوری کے بعد دستاویز ہائیکورٹ میں رجسٹر ہوگئی ہے.گو اس میں انہوں نے ایک شرط تو لگائی ہے اور وہ شرط یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے اس کا کچھ بھی نہیں لیا، یا اگر کچھ لیا ہے تو وہ بھی برائے نام ہے.یوں سمجھیں کہ بالکل مفت ملی ہے لیکن وہ شرط ہے بالکل جائز.شرط یہ ہے کہ جن مقاصد کے لئے زمین دی گئی ہے اگر جماعت احمد یہ اس کا استعمال نہ کرے یا نہ کرنا چاہے یانہ کرسکتی ہو تو وہ اس زمین کو بیچ نہیں سکتی بلکہ یہ حکومت کو واپس چلی جائے گی.یہ شرط معقول ہے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.یہ تو سوا پکڑ ہیں.ہمیں تو انشاء اللہ اگلے دس پندرہ سال میں وہاں کے لئے معلوم نہیں مزید کتنے سینکڑے ایکٹر زمین کی ضرورت ہوگی.غرض لائبیریا میں زمین مل گئی ہے.اس زمین کو جلد استعمال میں لانے کے لئے ایک تو فوری طور پر وہاں ایک سکول کھلنا چاہئے.دوسرے ہسپتال کھولنے کے لئے ایک ڈاکٹر جانا چاہئے.تیسرے سکول اور ہسپتال کی عمارتوں پر رقم خرچ کرنی پڑے گی.شروع میں میرا خیال ہے کہ شاید آٹھ دس ہزار پاؤنڈ ( قریباً 2لاکھ 70 ہزار روپے) کی رقم درکار ہے.بعد میں تو مزید اخراجات بھی ہوتے ہیں، جو بہر حال کرنے پڑتے ہیں.یہ دس ہزار پاؤنڈ بھی بڑی رقم ہے.خصوصاً آجکل کے حالات میں جب کہ زرمبادلہ کی پاکستان میں کمی ہے.اس لئے یہاں سے تو یہ رقم بھجوانا سر دست مشکل ہے.ہمیں ملک پر بوجھ بھی نہیں ڈالنا چاہئے.یہ بوجھ تو انشاء اللہ بیرون پاکستان کی جماعتیں اٹھا لیں گی.(انگلستان نے نصرت ریز روفنڈ میں 52 ہزار پاؤنڈ کے وعدے کئے تھے.ان کی طرف سے 35 ہزار پاؤنڈ سے زائد ادا ئیگی ہو چکی ہے.بقیہ رقم بھی وہ جلد ادا کر دیں گے یہ کوئی ایسی بات نہیں.اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے پیسوں کا انتظام کرتا ہے.اب لائبیریا کے سکول اور ہسپتال کے لئے بھی کر دے گا.بہر حال یہ بڑی خوشی کی بات ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایک نئے ملک میں ایک چھوٹے کالج (جو بعد میں کسی وقت بڑا بھی ہو سکتا ہے ) اور ایک بڑے ہسپتال کے لئے ایک سوا ایکڑ زمین 894

Page 912

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 06 جولائی 1973ء دے دی ہے.جماعت کو اپنے رب کریم کی کثرت سے حمد کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہمارے لئے اور زیادہ جوش میں آئے اور زیادہ حسین پیرایہ میں جلوہ گر ہو.ہم ہر آن اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے مورد ٹھہریں.اللہ تعالیٰ کا ہر چھوٹا اور بڑا فضل انسان پر ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے.یوں ویسے اللہ تعالیٰ کا کوئی فضل چھوٹا تو نہیں ہوتا، البتہ نبی لحاظ سے اپنی ہی دینی حالت اور ذمہ داری کے مقابلہ میں ہم کسی کو چھوٹا اور کسی کو بڑا کہہ دیتے ہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے.100 ایکڑ زمین مل گئی.لیکن اس فضل کے ساتھ ہی جماعت پر یہ ذمہ داری بھی آپڑی ہے کہ جماعتیں ڈاکٹر مہیا کریں.اساتذہ دیں اور اخراجات کے لئے رقم فراہم کریں.جب آپ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے پر انتظام کر لیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑا افضل نازل فرمائے گا.ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہر آن زیادہ شدت کے ساتھ نازل ہو رہے ہیں.جس وقت خدا تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو لائبیریا میں سکول اور ہسپتال کے لئے عمارتیں بنانے اور اساتذہ اور ڈاکٹر بھجوانے کی توفیق عطا فرمائے گا، تو پھر آپ کی ذمہ داری اور بڑھ جائے گی.ان لوگوں کی تربیت کرنے اور ان سے پیار کرنے کی ذمہ داری بہت بڑھ جائے گی.وہ قومیں پیار کی بھوکی ہیں.آپ کو اسی حسین قول اور شیریں گفتار کے ساتھ ان سے پیش آنا پڑے گا ، جس طرح کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کے ساتھ الفت اور اخوت کی تعلیم دی اور خود اس پر چل کر دکھایا تھا.بنی نوع انسان کے دل جیتنے کی ذمہ داری سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اور بنی نوع انسان سے الفت اور اخوت کا کوئی موقع رائیگاں نہ جانے دیں.یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل چلتا رہے گا اور اس میں وسعت پیدا ہوتی رہے گی.اس لئے آئندہ نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے یہ بڑا اہم کام ہے.آئندہ نسل کی تعلیم و تربیت کی ضرورت دن بدن بڑھ رہی ہے.کیونکہ ہر نسل تعداد میں پہلے سے زیادہ ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کا یہی قانون چل رہا ہے.اس لئے جہاں جماعت احمدیہ پر ہر آن اللہ کا فضل نازل ہورہا ہے، وہاں ہر فضل پہلے سے زیادہ ذمہ داریاں بھی ڈالتا ہے اور ساتھ ہی پہلے سے بڑھ کر الہی فضلوں کو جذب کرنے کے سامان بھی پیدا کرتا ہے.اسی طرح یہ تسلسل جاری رہتا ہے.اسی حقیقت کو میں عام طور پر ان الفاظ میں بیان کیا کرتا ہوں، غلبہ اسلام کی شاہراہ پر ہنستے مسکراتے آگے بڑھتے چلے جانے کے سامان آپ کے لئے پیدا ہوتے رہتے ہیں.جس کے نتیجے میں ہماری زبان پر بے اختیار الحمد للہ الحمد لله الحمد للہ کے الفاظ جاری رہتے ہیں.895

Page 913

خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم میں ایک اور بات بھی احباب جماعت سے کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم نے اشاعت قرآن کا ایک منصو بہ بنایا تھا.جس کی خدا تعالیٰ کے فضل سے ابتداء بھی ہو چکی ہے.یہ منصوبہ دو حصوں پر مشتمل ہے.ایک یہ کہ ہمارا اپنا چھا پر خانہ ہو، دوسرے یہ کہ با قاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ دنیا میں کثرت سے قرآن کریم کی اشاعت کی جائے.جہاں تک ایک جدید پریس کے قیام کا تعلق ہے، جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اس کی ابتداء ہو چکی ہے عمارت زیر تعمیر ہے.اہل ربوہ نے ، بچوں نے ، بڑوں نے، خدام نے ، انصار نے اور اطفال نے حتی کہ اطفال سے کم عمر کے بچوں نے بھی بڑے پیار سے اور بڑی محنت سے اور بڑے استقلال سے نہ خانہ کی کھدائی کا کام مکمل کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے اہل ربوہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی.ہماری گرد میں اللہ تعالیٰ کے اس پیار پر اس کے حضور جھک جاتی ہیں.تہ خانہ کی کھدائی کے بعد اب تعمیر کا کام شروع ہے، جسے اکتوبر نومبر تک مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے.تاہم انجینئر صاحب کو میں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر وہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے مکمل کر دیں، تب بھی غنیمت ہے.مجھے تسلی ہو جائے گی اور میں جلسہ پر احباب سے کہہ سکوں گا اور جماعت اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی کہ پریس کی عمارت تیار ہوگئی ہے.اس کے اندر جو مشینیں لگتی ہیں وہ تو پریس کی عمارت کا انتظار کر رہی ہیں.جو نہی عمارت مکمل ہو گئی وہ لگ جائیں گی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ منصوبہ جسے اگر چار ادوار میں تقسیم کیا جائے تب بھی پہلے دور کے آخری حصے میں ہے.ابھی اس نے تین ادوار میں سے گزرنا ہے.جلسہ سالانہ تک عمارت بن گئی تو ممکن ہے کچھ حصہ کام کا بھی شروع ہو جائے گا.میں نے اس منصوبہ کے اعلان کے وقت بھی کہا تھا کہ ہمیں ایک نہیں سینکڑوں چھا پہ خانوں کی ضرورت پڑے گی.تاہم ایک پریس کا کام شروع ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بتایا کہ اس سے بھی ایک بڑا کام ہے، تمہیں اس کی طرف توجہ دینی چاہئے.چنانچہ یہ تنظیم ہوئی کہ اس پریس کے علاوہ ہمارے دو اور پریس ہونے چاہئیں.ایک افریقہ میں اور ایک براعظم یورپ میں (انگلستان میں ) یا جہاں بھی حالات اجازت دیں.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، ربوہ میں ایک جدید پریس کے قیام کا منصوبہ پچھلے حصہ سے تعلق رکھتا ہے.دوسرے مرحلے میں قرآن عظیم کی ہمہ گیر اشاعت کا کام کرنا ہے.اب تک اسی ہزار کے قریب قرآن کریم انگریزی ترجمہ اور سادہ چھپ چکے ہیں.جس میں کچھ مائل قرآن کریم انگریزی ترجمہ کے ساتھ ہیں اور کچھ جیسی سائز، جن کا بڑا حصہ افریقہ میں بھجوایا گیا تھا.وہاں وسیع پیمانے پر ان کی اشاعت کی گئی ہے.مثلاً غانا میں تو یہ سارے اچھے ہوٹل جو حکومت غانا کے پاس ہیں اور ان کے کمروں کی مجموعی 896

Page 914

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1973ء تعداد غالبا 828 ہے.پچھلے دنوں ایک خاص تقریب میں جس کی تصویر میں یہاں بھی آئی ہیں.ان سب کو کمروں میں رکھنے کے لئے 828 قرآن عظیم کے نسخے ہوٹلوں کے انچارج کو پیش کئے گئے.اس نے اس موقع پر ایک بڑی اچھی تقریر کی اور جماعت احمدیہ کی تعلیمی مساعی کی تعریف کی.حالانکہ وہ خود عیسائی ہے.اس تقریر سے پتہ لگتا ہے کہ غلبہ اسلام کی مہم کو سر کرنے کے لئے ، احمد یہ تحریک جسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے جاری کیا ہے، اس کا عیسائیوں پر کتنا اثر ہے.مجلس نصرت جہاں نے ایک چھوٹا سا با تصویر رسالہ انگریزی میں طبع کروایا ہے.جس میں یہ تقریر بھی شامل ہے.اس میں چند ایک واقعات لے کر بتایا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی کس طرح اشاعت کی جارہی ہے.اس کا اردو ترجمہ بھی زیر طبع ہے.وہ بھی انشاء اللہ جلد شائع ہو جائے گا.آپ دیکھیں گے تو بہت خوش ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد کریں گے.اس رسالہ کو ضرور پڑھنا چاہئے ، تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل دیکھ کر آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کی تحریک پیدا ہو.جو دوست انگریزی جانتے ہیں، وہ انگریزی میں لیں اور کالجوں کے طلبہ اور دوسرے احباب میں تقسیم کریں.اس کی تعداد بہت کم ہے.انگریزی میں شاید تین ہزار کی تعداد میں چھپا ہے اور اردو میں پانچ ہزار کی تعداد میں زیر طبع ہے.احباب ایک ایک کاپی لے کر خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھائیں.ای طرح سیرالیون اور نائیجیریا میں بھی، بہت سے ہوٹلوں میں، ہر ہوٹل کے کمروں کی تعداد کے مطابق انگریزی ترجمہ والا قرآن کریم رکھوا دیا گیا ہے.اس کا ایک اثر تو ہوٹلوں کی انتظامیہ پر پڑا ہے، دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ خود ہی سامان پیدا کر دیتا ہے.جب تک ہوٹلوں کے مالکوں کو کوئی جماعت قرآن کریم پیش کرنے کے قابل نہیں تھی ، تو ان پر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا تھا کہ تم بائیل رکھتے ہو، قرآن کریم کیوں نہیں رکھتے.اگر کوئی یہ اعتراض کرتا تو وہ بڑے آرام سے کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم بائبل اس لئے رکھتے ہیں کہ بائبل سوسائٹیز میں بائبل رکھنے کے لئے دیتی ہیں.تم قرآن کریم لاؤ ہم وہ بھی رکھ لیں گے.ان کی یہ فراخ دلی جو اس وقت وہ دکھاتے تھے اب ہمارے کام آ گئی.چنانچہ اب کئی ہوٹل والے یسے بھی ہوں گے جو دل میں کڑھتے ہوں گے کہ یہ کیا ہو گیا.لیکن اب وہ قرآن کریم رکھنے پر مجبور ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے منہ سے فراخدلی کی باتیں نکلوا تارہا.اب وہ انکار نہیں کر سکتے.پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہوٹل تو سب کے لئے برابر ہیں ، وہ انکار کر بھی نہیں سکتے.897

Page 915

خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم غرض ان میں سے بعض نے تو نیکی کا کام سمجھ کر قرآن کریم رکھ لئے اور ان پر بڑا خوشکن اثر بھی ہوا ہے اور بعض مجبور بھی ہوئے مگر انکار نہ کر سکے.یہ باتیں اسی سال 1973 ء سے تعلق رکھتی ہیں.میں نے اس سے پہلے کے واقعات نہیں لئے اور نہ وہ کسی رسالے میں پاکستان میں چھپے ہیں اور نہ میں ان کی بات کر رہا ہوں.یہ وہ چند واقعات ہیں جو پچھلے چند مہینوں میں رونما ہوئے ہیں.بہت سے مسلمان جوان ہوٹلوں کے کمروں میں ٹھہرے اور وہاں انہوں نے انگریزی ترجمہ قرآن کریم دیکھا.تو انہوں نے بڑے تعریفی خطوط لکھے کہ آپ نے بڑا اچھا کیا.ہوٹلوں کے کمروں میں قرآن کریم رکھوا دیئے.لیکن یہ تو ہماری اس مہم کے ایک حصے کی ایک چھوٹی سی شاخ ہے، یعنی اگر ہم ساری دنیا کے تمام ہوٹلوں کے، ہر کمرہ میں قرآن کریم مترجم مختلف ملکوں میں ان کی اپنی زبانوں میں رکھنا چاہیں، تب بھی ہمارا یہ کام 1/1000 سے بھی کم ہوگا.اس لئے کہ انسان کی مجموعی آبادی کے مقابلہ میں ہوٹلوں کے کمروں کی تعداد شاید ہزار میں ایک بھی نہ ہو.حالانکہ ہم نے تو دنیا کے ہر انسان کے ہاتھ میں قرآن کریم پہنچانا ہے.اس لئے یہ خیال پیدا ہوا کہ ابھی سے ہمیں اس کا پورا جائزہ لے لینا چاہئے.کیونکہ کسی منصو بہ کوکامیاب بنانے کے لئے پورا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے.اس کے بغیر صحیح منصوبے نہیں بنتے اور نہ کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں.گویا ہم نے اس بات کا جائزہ لینا ہے، کہ یورپ میں کس جگہ با آسانی ہم اپنا پر لیں کھول سکتے ہیں اور افریقہ میں کون سا ملک اس کام کے لئے زیادہ موزوں ہے.چنانچہ اس وقت تک جو اشاعت قرآن کریم ہوئی ہے اس میں افریقہ کا زیادہ حصہ ہے.یہ کام نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے ماتحت ہو رہا ہے.لیکن جماعت احمدیہ کا کام تو بہت پھیلا ہوا ہے.اس سارے کام کے ہزارویں حصہ تک نصرت جہاں سکیم کا کام منحصر ہے لیکن چونکہ نصرت جہاں منصوبہ کے ساتھ اس کی ابتداء ہوئی تھی.اس لئے قرآن کریم کی زیادہ اشاعت بھی افریقہ میں ہوئی خصوصاً ان ملکوں میں جن کا میں نے دورہ کیا تھا، وہاں سے کئی عیسائی طالب علم بچے مجھے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم مترجم بھجوا ئیں.میں ان کو لکھ دیتا ہوں کہ وہاں کے امیر سے ملو.ایک طالب علم نے مجھے لکھا کہ ایک نسخہ بائبل کا اور ایک قرآن کریم مترجم کا بھجوا دیں.وہ شاید عیسائیت اور اسلام کا موازنہ کر رہا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہدایت کی راہیں کھول دی ہیں اور وہ اسلام میں بہت دلچسپی لینے لگ گئے ہیں.امریکہ اور انگلستان میں اور اسی طرح یورپ کے دوسرے ممالک میں، اشاعت قرآن کریم کا جو کام ہے، وہ کچھ مختلف ہے اور حقیقی معنی میں ابھی اس کی ابتدا بھی نہیں ہوئی.وہاں اشاعت کے کام میں 898

Page 916

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمود 06 جولائی 1973ء بھی وہ وسعت پیدا نہیں ہوئی، جو افریقہ میں پیدا ہو چکی ہے.قرآن کریم کے بہت کم نسخے یورپ و امریکہ میں گئے ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ احمدی دوستوں نے خریدے ہیں.دراصل ملک ملک کے مزاج میں فرق ہوتا ہے.جس کا غذ پر ہم نے قرآن کریم چھپوایا ہے وہ بڑا اچھا ہے.پاکستان میں کسی آدمی کو اس کاغذ پر اعتراض نہیں ہو گا.اسی طرح افریقہ میں بھی بہت پسند کیا جاتا ہے.وہاں تو میں نے دیکھا ہے کہ جو قرآن کریم بعض انجمنوں کی طرف سے وہاں بھجوائے جاتے ہیں.ان کا کاغذ تو بہت ہی معمولی ہوتا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے ردی کے ڈھیر میں سے کاغذ اٹھا کر اس کے اوپر قرآن مجید جیسی عظیم کتاب کی طباعت کر دی ہے.لیکن اس وقت امریکہ کا معیار طباعت سب سے اونچا ہے.روس کا ہمیں پتہ نہیں.البتہ چین کا معیار بھی بہت بلند ہے، امریکہ سے کم نہیں.یورپ کا معیار طباعت میں بڑا اونچا ہے.شاید اتنا اونچا تو نہ ہو جتنا امریکہ کا ہے.لیکن اگر فرق بھی ہے تو انہیں نہیں کا ہے.اس سے زیادہ نہیں.ہم نے اس وقت تک جو قرآن کریم انگریزی ترجمہ والے چھپوائے ہیں ان کا کاغذ اور چھپوائی، امریکہ اور یورپ کے معیار کے مطابق نہیں.اس لئے لجنہ اماءاللہ انگلستان نے لجنہ کے پچاس سالہ جشن کے موقع پر خلافت کو کچھ رقم بذریعہ چیک پیش کی تھی تو میں نے کہا یہ پیسے وہیں رکھو.اس رقم سے جماعت کے لئے کوئی چیز تحفہ بھجوا دینا.چنانچہ بعد میں ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ اچھے کاغذ کا تحفہ بھجوا دو تا کہ تمہارے خلوص کا ہد یہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں تم نے پیش کیا ہے.اس کو ہم ایسے کام میں استعمال کریں کہ وہ تمہارے لئے وہاں بہت بڑے ثواب کا موجب بن جائے.چنانچہ کم و بیش چار ہزار پاؤنڈ کا کاغذ سویڈن سے خریدا گیا ہے اور انشاء اللہ اسی ماہ وہاں سے چل پڑے گا.ہمارا اندازہ ہے کہ اس پر قرآن کریم حمائل ( درمیانہ سائز) کے چودہ پندرہ ہزار نسخے چھپ جائیں گے اور باوجود اس کے کہ وہ بھی اسی پریس میں چھپیں گے، جس میں لے چھپے ہیں ان کی طباعت بدر جہا اچھی ہوگی.کیونکہ کا غذا چھا ہے.طباعت کی ایک خرابی اس وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے کہ، پاکستانی کاغذ کہیں سے موٹا ہوتا ہے اور کہیں سے پتلا.جہاں زیادہ موٹا ہوتا ہے، وہاں پریس کی سیاہی پھیل جاتی ہے اور جہاں پتلا ہوتا ہے، وہاں الفاظ کا ایک سایہ سا آتا ہے.الفاظ پوری طرح نہیں ابھرتے.لیکن جو کاغذ سویڈن سے آ رہا ہے، وہ اس لحاظ سے بھی اچھا ہے کہ اس کی موٹائی ہر جگہ برابر ہوتی ہے.اس لئے اس پر قرآن کریم کی طباعت بھی عمدہ اور دیدہ زیب ہوگی.پھر یہ نسخے ہم امریکہ اور یورپ بھجوائیں گے.اور وہاں ایک منصوبہ کے تحت قرآن کریم کی اشاعت کی جائے گی.میرا خیال ہے کہ وہاں بھی ہوٹلوں میں رکھوانے کا پروگرام بنایا جائے.افریقہ کے ہوٹل، یورپ اور امریکہ کے ہوٹلوں 899

Page 917

خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم کی نسبت غریب ہیں.اس لئے ہمیں ان کو قرآن کریم مفت بھی دینے پڑتے ہیں.لیکن امریکہ اور یورپین ممالک بڑے امیر ہیں.وہ پیسے بھی خرچ کر سکتے ہیں.ان سے ہم یہ کہیں گے کہ تم قرآن کریم خرید و اور ہوٹلوں میں رکھو.کیونکہ ہم مسلمان بھی تمہارے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں.اس لئے جہاں عیسائیوں کے لئے تم نے بائبل رکھی ہوئی ہے، وہاں مسلمانوں کے لئے قرآن کریم بھی رکھو.مجھے امید ہے اللہ تعالی کے فضل سے بہت سے ہوٹل تیار ہو جائیں گے کیونکہ یہ ملک اپنے ہوٹلوں سے بہت زیادہ کمارہے ہیں.ان کے لئے فی کمرہ ایک پاؤنڈ خرچ کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے.بعض ہوٹلوں کے ایسے سلسلے قائم ہیں، جن کی یومیہ آمد کروڑوں میں ہے.ان کے لئے ایک پاؤنڈ قرآن کریم پر خرچ کرنا بہت معمولی بات ہے.تا ہم ہمارے لئے یہ امر از بس ضروری ہے کہ قرآن عظیم کو ان کے سامنے ایسی عمدہ حالت میں پیش کریں کہ وہ ظاہری طور پر بھی دنیوی معیار کے مطابق ہو.گویا جہاں قرآن کریم دینی اور دنیوی ہر دو لحاظ اچھا ہے ، وہاں اس کی طباعت بھی ہر لحاظ سے معیاری ہونی چاہئے.سے پس یہ ایک منصوبہ ہے، جو ذہن میں آیا ہے.اسی طرح کچھ اور جماعتی کام ہیں.ان کاموں کا پورا جائزہ لینے اور بیرونی جماعتوں کے بعض احباب سے مشورہ کرنے کے لئے میں نے سوچا کہ مجھے اس سال کچھ عرصہ کے لئے انگلستان جانا چاہئے.پہلے میرا خیال تھا کہ اگر اللہ تعالی توفیق دے تو میں انڈونیشیا کی جماعتوں کا دورہ کروں.پچھلے سال ان سے وعدہ بھی کیا تھا.لیکن حالات ایسے تھے کہ ہم وہاں نہیں جا سکے.لیکن اس دفعہ بڑی شدید تحریک پیدا ہوئی کہ قرآن کریم کے کام میں وسعت پیدا کرنے کے لئے وہاں خود جا کر احباب سے مشورہ کرنا ضروری ہے.اس لئے ہم نے فی الحال انڈونیشیا کا دورہ ملتوی کر دیا ہے اور انگلستان جانے کا پروگرام بنایا ہے.اس سلسلہ میں دعائیں کی بھی ہیں اور دعائیں کروائی بھی ہیں.اللہ تعالیٰ کے بعض بندوں نے خدا تعالیٰ سے بڑی بشارتیں بھی حاصل کی ہیں.اور کچھ انذاری پہلو بھی سامنے آئے ہیں.لیکن ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان سے کوئی نقصان نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا اور کامیابی حاصل ہوگی.واللہ اعلم بالصواب.چنانچہ اس بارہ میں میں نے چند دوستوں سے پہلے بھی درخواست دعا کی تھی.انہوں نے بھی دعائیں کیں.اب میں ساری جماعت کی خدمت میں درخواست کرتا ہوں کہ ساری جماعت دعا کرے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور برکت کے ساتھ اس سفر کی توفیق عطا فرمائے.اسلام کی عالمگیر اشاعت اور ترقی کے لئے اللہ تعالٰی ہمارے دل میں جو ارادے اور خواہشات پیدا کرتا ہے، وہ خود ہی اپنے فضل سے ان کے پورا کرنے 900

Page 918

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1973ء کے سامان بھی پیدا کر دے.تا کہ اسلام کو بہت ترقی بھی ہو اور اس کے عالمگیر غلبہ کی نئی سے نئی راہیں بھی کھلتی چلی جائیں.جس سے ہمارے دل بھی خوشی اور راحت محسوس کریں اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان بھی پیدا ہوں.ہماری روح بھی اسلام کے عالمگیر غلبہ کامیابی سے حقیقی لذت اور سرور حاصل کرے.پس اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کی تلاش میں آٹھ دس دن تک وہاں کے لئے روانگی ہوگی اور چند ہفتے وہاں قیام ہوگا.دوست آج ہی سے دعائیں کرنا شروع کر دیں، تا کہ جو غرض ہماری زندگی کی ہے، جو غرض ہماری زندگی کے ہر منصوبے کی ہے اور جو غرض ہماری زندگی کے ہر منصوبے کی ہر شاخ کی ہے، وہ پوری ہو.اور آخری غلبہ اسلام کا دن جلد سے جلد اور قریب سے قریب تر آتا چلا جائے.اور اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرمائے اور ان کے نتائج احسن رنگ میں نکالے.دنیا میں صرف وہی انسان مظلوم نہیں جس پر دوسرے انسانوں نے ظلم کیا ہو.اس سے بھی زیادہ مظلوم وہ شخص ہے جس پر شیطان نے ظلم کیا ہو.اس لئے میں یہ کہوں گا کہ اس مظلوم دنیا کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے اپنی زندگی کو، اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو اور اپنے آرام کو غرضیکہ اپنا سب کچھ قربان کر دینا چاہئے.تا کہ وہ لوگ جو شیطانی حملوں کی وجہ سے مظلوم بن گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت سے محروم ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مظلومیت کے دور کو ختم کر دے اور اس کے پیار کے سایہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سارے کے سارے بنی نوع انسان پھر سے امت واحدہ بن کر آ جمع ہوں.خدا کرے ایسا ہی ہو.پس دوست دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.دن کو بھی دعائیں کریں اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر بھی دعائیں کریں.نمازوں میں بھی دعائیں کریں اور نوافل میں بھی دعائیں کریں.غرض اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں اور اس کی توحید کو قائم کرنے کے لئے اس کی مدد اور نصرت کے حصول کے لئے اس کے سامنے عاجزانہ ہاتھ پھیلائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ہاتھوں کو جو اس کے سامنے پھیلے ہوں اور آپ کی جھولیوں کو جو اس کے سامنے پھیلی ہوں، اپنی رحمتوں اور فضلوں سے اس طرح بھر دے کہ ان میں کوئی مزید گنجائش باقی نہ رہے.اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے اور جماعت احمدیہ کو جو ادنی خادم ہیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حقیر بچے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی معہود کے، انہیں اپنی رحمتوں اور فضلوں کے حصول کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے.اور ہمیشہ ہی اپنے فضلوں اور رحمتوں کا وارث بنائے رکھے.اللھم آمین.مطبوعه روزنامه الفضل 17 جولائی 1973ء) 901

Page 919

Page 920

تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 جولائی 1973ء ہر انسان کے ہاتھ میں قرآن کریم مترجم پہنچانا، جماعت احمدیہ کا کام ہے " خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 1973ء جماعت احمد یہ جو دراصل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا باغ ہے، جسے قدرت کے ہاتھ نے خود لگایا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اس باغ کو شمر آور کرے اور اس جماعت کو غالب کرے.قرآن کریم نے ایک اصول بیان کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرت کے ہاتھ نے دنیا میں اس اصول کو قائم کیا ہے اور کر رہا ہے.دنیا پر یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ جو سلسلہ خدا کی طرف سے ہے وہ دن بدن بڑھ رہا ہے.پس یہ ہماری ایک جدوجہد ہے، جو شروع ہے.اس کے لئے کچھ ذیلی باتیں میں نے بتادی ہیں.کچھ بنیادی باتیں ہیں اور وہ یہ کہ ساری دنیا میں قرآن کریم کی اشاعت ہونی چاہئے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر گھر میں جہاں انسان رہائش پذیر ہیں، ہم نے قرآن کریم صرف متن ہی نہیں بلکہ اس زبان میں مترجم جس زبان کو اس گھر کے مکین بولتے اور سمجھتے ہیں، اس گھر میں قرآن کریم کو پہنچانا ہے.یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے.یہ بہت عظیم الشان کام ہے مگر یہ انشاء اللہ ہوکر رہے گا.اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے کہ یہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہوگا.تا ہم اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت نہیں دی کہ زید یا بکر کے ذریعہ ہوگا.اسی لئے خدا تعالیٰ دوسری جگہ انذار کا پہلو سامنے لے آیا ہے کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ ایک اور قوم پیدا کرے گا، جو خدا تعالیٰ کا منشاء پورا کرے گی.خدا تعالی کی تدبیر اور اس کا منصوبہ اور اس کا ارادہ ناکام نہیں ہوا کرتا.ہر گھر میں قرآن کریم کا اس زبان میں ترجمہ شدہ نسخہ جس کو اس گھر کے مکین بولتے اور سمجھتے ہیں ، وہ ہم نے پہنچانا ہے.اللہ تعالیٰ کو انسان کے دل سے پیار ہے.اس نے انسان کو اپنی محبت کے حصول کے لئے پیدا کیا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان اس کا بندہ بنے.اس کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھائے.انسان جو زبان بولتا ہے، اللہ تعالیٰ کو وہ زبان تو پیاری نہیں ہے ، سوائے اس الہبی زبان کے جو کہ بنی نوع انسان کے فائدہ کے لحاظ سے بہترین زبان تھی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو اختیار فرمایا.یہ نہیں کہ جو ہمارا محاورہ ہے کہ باقی زبانیں سوتیلی تھیں اور عربی اس کی اپنی تھی اس لئے اس نے عربی کو اپنا یا، ایسا نہیں ہے.اس زبان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح بنایا ہے اور انسانی دماغ کو اس طرف رہنمائی کی کہ ابدی زبان جو اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ نظر آتی ہے، وہ قرآن کریم کی زبان بن گئی.903

Page 921

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پس عربی زبان کو اختیار کرنے کا صرف یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے یہ چاہا کہ صرف یہی ایک زبان ہے، جس میں آخری شریعت اگر اتاری جائے تو نوع انسانی کو اس سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے.کیونکہ یہ زبان مختلف معانی کی مشتمل ہے.یہ زمانہ اور ہے ملک کے حالات بدلتے رہتے ہیں.اور اس تبدیلی کے نتیجہ میں کئی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں.اور کئی نئے مسائل جنم لیتے ہیں.ان کو حل کرنے کے لئے زبان کے اندر وسعت کو سمیٹ لینا اور اس سمٹی ہوئی وسعت کو چھپالینے کی طاقت ہوئی چاہئے.یعنی ایسی زبان ہونی چاہئے جس کے متعلق محض فلسفیانہ رنگ میں نہیں ، یا اپنی خواہش کے رنگ میں نہیں، بلکہ فی الحقیقت یہ کہا جا سکتا ہو کہ اس کے اندر باطنی رموز و اسرار ر کھے جاسکتے ہیں.اگر وہ زبان نہ ہو، تو اس زبان میں اللہ تعالیٰ کے کلام نے ہر زمانہ کے مسائل کو حل کرنا ہو ، تو وہ نہیں کر سکے گی.لیکن اگر اس زبان میں اتنی وسعت ہو کہ قیامت تک کے مسائل کے حل کرنے کے لئے وہ پوشیدہ اسرار جو اس زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.پوشیدہ اسرار کے طور پر ودیعت کر دیے جائیں.تو پھر اس زبان کو اختیار کیا جا سکتا ہے، ورنہ نہیں کیا جاسکتا.پس اصل زبان عربی ہے.لیکن دنیا کے مختلف حصوں کے لوگوں کو سمجھانے کے لئے اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے.جوحتی الوسع کوشش کے باوجود پھر بھی ناقص رہتا ہے.اس لئے ہم کہتے ہیں متن سے پیار کرو.کیونکہ مظہر دل کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تمہیں حالات کے مطابق قرآن کریم کے معانی بتائے گا.ان نئے معانی کا سیکھنا حقیقتا تو عربی زبان ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے.کیونکہ عربی زبان ہی اس کی متحمل ہو سکتی ہے.اس کے بعد طفیلی طور پر ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اردو کا جس رنگ میں استعمال کیا ہے ، وہ بھی بڑا قادرانہ استعمال ہے.اس کے ذریعہ بھی بہت سارے اسرار ورموز قر آنید انسان پر کھل سکتے ہیں اور کھلتے رہے ہیں.یہ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے لیکن یہ تو ایک طفیلی چیز ہے.اصل عربی ہے.اس لئے متن کو تو ہم نے بہر حال قائم رکھنا ہے.لیکن متن سے انس اور پیار کو قائم کرنے کے لئے اور قرآن کریم سے ایک لگاؤ اور الفت پیدا کرنے کے لئے ، یہ بات اشد ضروری ہے کہ ہم ہر انسان کے سامنے متن بھی رکھیں.کیونکہ اس کے دل میں ایک وقت میں یہ خواہش پیدا ہو سکتی ہے اور پیدا ہوتی ہے کہ اسے ترجمہ کے علاوہ عربی سیکھنی چاہئے.مجھے اس کا ذاتی طور پر علم ہے.کیونکہ بہت سے دوست مجھے خط لکھتے ہیں کہ ان پر ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے سمجھا تراجم اور تفسیری نوٹوں سے تو ان کی سیری نہیں ہوتی.اس لئے انہیں اپنی سیری کے لئے عربی زبان سیکھ کر عربی متن پر غور کرنا چاہئے.904

Page 922

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 جولائی 1973ء غرض ہر گھر میں قرآن کریم پہنچانا ایک بہت بڑا کام ہے.اور اس سے بھی بڑھ کر ہر فرد واحد کے ہاتھ میں، اس کی اپنی زبان میں قرآن کریم پہنچانا ، اس سے بھی بڑا کام ہے.کیونکہ گھر کے مکین ایک وقت میں دومیاں بیوی اور بچے بھی ہوتے ہیں.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ بعض گھروں میں بچے نہیں ہوتے.عموماً ہر گھر میں چار پانچ بچے ہوتے ہیں.یہ اور بات ہے کہ کسی کہ ہاں ہالہ کے ہالہ بچے ہوتے ہیں.(ہالہ بنگالیوں کی اصطلاح ہے.ایک ہالہ میں چار بچے ہوتے ہیں ) گوکشمیریوں کے ہاں بھی بہت بچے ہوتے ہیں.تاہم بنگالی اس میں مشہور ہیں.وہ یہ نہیں کہتے کہ ہمارے اتنے بچے ہیں.بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے اتنے ہالہ بچے ہیں.اگر کوئی یہ کہے کہ صرف چار ہالہ بچے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے سولہ بچے ہیں.گویا ہر گھر میں بچوں کی تعداد کم و بیش ہوتی ہے.تاہم بڑے بچوں کے لئے بھی ہر گھر میں قرآن کریم پہنچانا ہے.تم اگر یہ سوچو اورگھبر اؤ اور کہو کہ ہمارے اوپر ذمہ داری نہیں ہے.تو تمہاری مرضی.لیکن اگر تمہارے دل میں صدق اور صفا اور وفا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو مانتے اور اس کی بشارتوں پر ایمان لاتے ہو، تو تمہیں یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ تمہارے اوپر یہ بات فرض کر دی گئی ہے.البتہ یہ بھی ہے کہ یہ کام بہت وسیع ہے.یہ ذمہ داری بہت بھاری ہے.اور یہ کام اتنی دولت کا محتاج ہے کہ آج ہماری وسعت یا ہماری دولت یا ہماری طاقت اس کو نباہ نہیں سکتی.لیکن جس ہستی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں تمہارے ذریعہ یہ کام کرواؤں گا.وہ ہمیں پیسے بھی دے گا.وہ ہمارے اندر ہمت اور وسعت بھی پیدا کرے گا.وہ اپنی قادرانہ صفات کے جلوے ہمارے وجود میں ظاہر فرمائے گا.کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.اس لئے اس بات کی تو فکر نہیں کرنی چاہئے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں.یہ کام کیسے ہوگا.احباب کو یاد ہوگا میں نے 1970ء میں کہا تھا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ افریقی ممالک میں غلبہ اسلام کی مہم میں شدت اور تیزی پیدا کرنے کیلئے کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ خرچ کرو.میں نے کہا، مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے.دولت اور خزانوں کا مالک تو خود خدا تعالیٰ ہے.اس نے کہا ہے تو وہ خود اس کا انتظام فرمائے گا.یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے نوکر کو یہ کہے کہ مہمان آگئے ہیں.تم جا کر چار آنے کا رہی لے آؤ.وہ کہے حضور پیسے دو.کہے میں پیسے نہیں دوں گا.وہ کہے گا، پھر دہی کہاں سے لاؤں.اگر ایک عقلمند مالک وہی کا حکم دیتے ہوئے نوکر کے ہاتھ پر پیسے بھی رکھ دیتا ہے تا کہ وہ فورا ہی لے آئے.تو وہ جو تمام حکمتوں کا سر چشمہ ہے اور عقل و فراست کا منبع ہے اور ہر امر کا مصدر ہے، اس کے متعلق تم یہ خیال کرتے ہو کہ وہ تمہیں وسیع پیمانے پر قرآن کریم کی اشاعت کا حکم دے اور 905

Page 923

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تمہارے لئے پیسوں کا انتظام نہ کرے.یہ تو نہیں ہو سکتا.چنانچہ میں نے دوستوں سے کہا مجھے پیسوں کی فکر نہیں ہے.اسی طرح اس نے کہا ہے کہ ڈاکٹر بھیجو.ٹیچر بھیجو.میں نے کہا مجھے اس کی بھی فکر نہیں ہے.مجھے جس چیز کی فکر ہے اور تمہیں بھی ہونی چاہئے.وہ یہ ہے کہ ہماری حقیر کوششیں، جب اس کے حضور پیش ہوں، تو وہ ان کو قبول بھی کرے گایا نہیں.ہماری اپنی غفلت، اپنی کوتاہی اور اپنے گناہ یا اپنی غلطی کہیں ہماری ناکامی کا موجب نہ بن جائے.کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کہے میرے پاس کیا لے کر آئے ہو.میرے خزانے بھرے ہوئے ہیں، اس لئے لے جاؤ مجھے تمہارے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے.اور یہ ہمارے اپنے دلوں کے گند کارد عمل ہو کہ ہم اس کے حضور پیش کریں مگر وہ عنداللہ قبول نہ ہو.اس لئے یہ وہ مقام ہے، جس کی فکر کرنی چاہئے.پس تم کچھ کر کے بھی فخر نہ کرو، بلکہ کچھ کر کے اور زیادہ عاجزانہ طور پر اپنی گردنوں کو اس کے حضور جھکالو.کیونکہ خطرے کا وقت اب آ گیا ہے.تم نے اپنی طرف سے قربانی پیش کر دی.دیکھنا یہ ہے کہ عند اللہ قبول بھی ہوتی ہے یا نہیں.یہ ایک بنیادی نکتہ ہے، جو ہر وقت مومنوں کے سامنے رہنا چاہئے.جب ایک مومن خدا کے حضور کوئی قربانی پیش کرتا ہے، تو وہ اسی پر بس نہیں کرتا.بلکہ اس کے دل میں خدا کے حضور پیش کرنے کا پہلے سے زیادہ جذبہ پیدا ہوتا ہے.اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پتہ نہیں قبول ہو گا یا نہیں.لیکن جب تم نے کچھ پیش ہی نہیں کیا تو قبول ہونے ، نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.لیکن جس وقت تم نے خدا کے حضور کچھ پیش کر دیا.اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا عنداللہ مقبول بھی ہے یا نہیں.یہ ایک بڑا اہم سوال ہے اور بڑا نازک سوال ہے.ہر ایک احمدی کو اس کی فکر کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے کہا یہ تھا کہ مغربی افریقہ میں خرچ کرنے کے لئے کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ جمع کرو.اور خدا تعالیٰ نے دے دیا تین چار گنا زیادہ.جماعت نے یہ قربانی باقی چندوں میں اسی طرح شدت اور تیزی کو قائم رکھتے ہوئے دی.یعنی باقی چندوں کا تسلسل قائم رہا (یہ میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب پاؤنڈ گیارہ بارہ روپے کا تھا اب تو اس کی قیمت بڑھ گئی ہے).چنانچہ پاکستان کی جماعتوں نے قریباً تین لاکھ پاؤنڈ چندہ دیا.اور ایک لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ بیرون پاکستان کی جماعتوں نے چندہ دیا.کہا تھا کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ ہونا چاہئے اور دے دیا ہمیں قربانی کی شکل میں ساڑھے تین لاکھ اور چارلاکھ پاؤنڈ.صرف یہی نہیں بلکہ ہم نے وہاں جو کلینک کھولے ہیں، ان سے جو بچت ہوئی ہے وہ ایک لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ ہے.- الحمد لله علی ذالک.906

Page 924

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 جولائی 1973ء اب دیکھو اللہ تعالیٰ کتناد یا لو ہے.اس لئے جب میں یہ کہوں یا کوئی اور کہے کہ ہر انسان کے ہاتھ میں قرآن کریم مترجم پہنچانا جماعت احمدیہ کا کام ہے.تو دنیا جو کہے سو کہے ، آپ میں سے کسی شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ یہ کہے کہ یہ غریب جماعت اس عظیم الشان کام کو کیسے کرے گی.آخر اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال کی شکل میں جو دولت عطا فرمائی ہے، وہ تمہارے پاس کیسے آگئی.ماؤں کے پیٹ سے لے کر تو کوئی نہیں آیا تھا.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی دین ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کا نتیجہ ہے.تو کیا اب خدا تعالیٰ کے خزانے خالی ہو گئے ہیں؟ نہیں! اس کے خزانے اب بھی بھرے ہوئے ہیں.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس پر کامل تو کل اور پوری امید رکھی جائے.جب اس نے یہ کہا کہ یہ کام کرو.دنیا میں وسیع پیمانے پر اشاعت قرآن کریم کا یہ کام کرو.تو وہ اس کے لئے وسائل بھی مہیا فرمائے گا.خود قرآن کریم نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی جو تدابیر نافذ ہوتی ہیں اور منصوبے بنائے جاتے ہیں.ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں ایک وقت مقدر ہوتا ہے.اس وقت پر وہ کامیابی نمایاں ہو کر بنی نوع انسان کے سامنے آجاتی ہے.چنانچہ مجھے بھی ایک بشارت کے سلسلہ میں ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ کام اپنے وقت پر ہوگا.یہ اس وقت کی بات ہے ، جب میں سپین کا دورہ کر رہا تھا.اسے میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.غرض ہمارے ساتھ تو خدا تعالیٰ بہت پیار کرتا ہے.اگر کوئی احمدی یہ کہے کہ یہ کیا خدا نے ہمارے ذمہ اتنا بڑا کام لگا دیا ہے.ہم اس کو کیسے کریں گے.ہمیں اس کی طاقت ہی نہیں ہے.تو میں سمجھتا ہوں کہ اس احمدی سے بڑا بد قسمت اور کوئی انسان نہیں ہے.پرسوں کا ایک واقعہ ہے.میں دوستوں کو بتادیتا ہوں کیونکہ اس سے خدا کا پیار ظاہر ہوتا ہے.میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات موجزن ہیں.کسی نے مجھے کہا کہ انگلستان کا ویزہ لینے کے لئے فلاں شخص سے کہا جائے.کیونکہ لاہور کے برٹش قونصلیٹ (British Consolate) میں ان کی کسی سے دوستی ہے.وہ جلدی ویزہ لے دے گا.کیونکہ ہماری تیاری میں دیر ہوگئی تھی.ملکی حالات کی وجہ سے پروگرام پیچھے ڈالتے رہے تھے.اب چند دن بعد ہم نے روانہ ہونا تھا.چنانچہ میں نے ان کو فون کیا کہ میں اس سلسلہ میں تمہارے پاس آدمی بھجوا رہا ہوں.تم کوشش کر کے انگلستان کا ویزا حاصل کرو.میرا پیغام ان کی بیگم نے سنا تھا.میں نے آدمی بھیجوا دیا.لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا.پیر کی شام کو ان کا فون آگیا کہ حضرت صاحب کو کسی نے غلط بتایا ہے.برٹش قونصلیٹ میں میرے کسی سے ایسے تعلقات نہیں ہیں کہ میں ایک دن میں ویزہ لے سکوں.کیونکہ یہ لوگ تو جب ویزے کی درخواست جائے، تو دو ہفتے سے 907

Page 925

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم لے کر آٹھ ہفتے تک وقت دیتے ہیں کہ آکر پہلا انٹرویو دو کہ تمہیں ویزا کیوں دیا جائے.لہذا ایک دن میں تو ویز املنا مشکل ہے.وہ خود بڑے گھبرائے ہوئے تھے.مجھے خود بھی بڑی تشویش تھی اور پریشانی بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.ویزا ملنے کی کوئی صورت نکل آئے.چنانچہ منگل کی صبح نماز کے بعد میں لیٹا ہوا تھا اور اپنے رنگ میں دعائیں کر رہا تھا.تو اس دعا کے اندر ایک فقرہ خود میرے دل میں ابھرا.اور اس نے ایک مجسم شکل اختیار کی.اس کے پورے الفاظ مجھے یاد نہیں رہے کیونکہ اس وقت میں نے لکھے نہیں تھے.کچھ اس قسم کا فقرہ تھا.مجھ سے امید نہیں ہے؟ اس میں اللہ تعالیٰ کے پیار کا اظہار بھی تھا اور کچھ تھوڑی سے ڈانٹ بھی تھی.اس سے ایک طرف تو مجھے بڑی تشویش ہوئی کہ میں نے غلطی کی ہے.خدا تعالیٰ پر امید رکھنی چاہئے تھی.دعا کے الفاظ میں غلطی ہو گئی ہے.دوسری طرف مجھے اللہ تعالیٰ کے اس پیار پر اتنا لطف آیا کہ میں بتا نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندوں سے اتنا پیار کرتا ہے کہ انسان کماحقہ شکر بھی ادا نہیں کر سکتا.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساری مخلوق سے جو رشتہ قطع ہونا چاہئے ، وہ پوری طرح قطع ہونا چاہئے.اگر خدا تعالیٰ کی راہ میں کام ہے تو اس قسم کی روکیں لا یعنی اور بے معنی ہیں.چنانچہ جب میں نو بجے کے قریب اپنے دفتر میں گیا، تو پرائیویٹ سیکریٹری ( آج کل چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ہیں ) آئے اور میں نے ان سے کہا صبح اشارہ ہو گیا ہے.انشاء اللہ سب کام ٹھیک ہو جائے گا.ابھی میرے منہ سے یہ فقرہ نکلا ہی تھا کہ دفتر کے ایک اور صاحب دوڑے ہوئے آئے اور کہا کہ فلاں صاحب کا فون آیا ہے.وہ کہتے ہیں میں برٹش قونصلیٹ سے ملا ہوں، وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے.ہم ابھی ویزا دے دیتے ہیں.وہ ویزا جس کے لئے اُن کے خیال میں دو ہفتے سے آٹھ ہفتے تک صرف انٹرویو پر وقت لگتا ہے.ایک دن میں مل گیا.بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب کے لئے ویزے کی کیا ضرورت ہے.وہ تو جس ملک میں جانا چاہیں بغیر ویزے کے جاسکتے ہیں.خیر یہ تو انہی تصرف تھا، جو اس کے دل پر ہوا.ہمارے دوست نے کہا جو آپ کا ملکی قانون ہے وہ تو پورا کرو اور ویز اجاری کر دو.چنانچہ دوسرے دن ویزامل گیا.اب یہ ایک چھوٹی سے بات تھی جس کے لئے صحیح راستہ بھی بتا دیا گیا.مجھے اس الہی پیار پر بہت لطف آیا.میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات موجزن ہو گئے، کہ اللہ تعالیٰ میرے جیسے عاجز انسان سے یہ پیار کرتا ہے، کہ وہ کام جس کے لئے ہفتوں درکار تھے منٹوں میں ہو گیا.پس یہ سوال نہیں ہے کہ ایسا نہیں ہوگا.یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.سوال یہ ہے کہ ہر گھر کے ہر انسان کے ہاتھ میں، اس کی اپنی زبان میں ترجمہ شدہ قرآن کریم پہنچانا ہے.یہ کام انشاء اللہ ہوکر رہے گا.یہ بات تو سوچنی بھی نہیں اور یہ ہماری ذمہ داری بھی نہیں ہے کہ روپیہ کہاں سے آئے گا.جس ہستی نے کہا 908

Page 926

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 جولائی 1973ء ہے، یہ کام ہو وہ اس کا انتظام بھی کرے گا.ہماری ساری توقعات اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات سے وابستہ ہیں.اس نے اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے یہ نہیں کہا کہ ہر انسان مثلاً اگر دنیا میں ڈیڑھ ارب گھر ہو تو ڈیڑھ ارب گھر میں قرآن کریم پہنچانے کے لئے ( حمائل سائز قرآن کریم جو بڑا ستا نظر آتا ہے ) نو ارب روپے چاہئیں.خدا تعالیٰ نے مجھ پر اور آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی کہ ہم نوارب روپیہ اکٹھا ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھ پر اور آپ پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ جو کام تم کر سکتے ہو اس کو انتہا تک پہنچا دو.جو شخص دو پیسے دینے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اگر دھیلا دیتا ہے تو گنہگار ہے لیکن جو شخص دو پیسے دینے کی استطاعت رکھتا ہے اور دو پیسے دے دیتا ہے.تو اس نے گویا اپنی کوشش اور تد بیر کو انتہا تک پہنچانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیار کو حاصل کر لیا.اور ایک دوسرا شخص جو خدا کی راہ میں 20 ہزار روپے دے سکتا ہے.اگر اس نے 10 ہزار روپے دیئے تو اس نے گویا اپنی تدبیر کو انتہا تک نہ پہنچانے کی وجہ سے اس سے کم پیار حاصل کیا، جس نے دو پیسے کے دو پیسے دے دیئے.کیونکہ نہ دو پیسے دینے کا حکم ہے نہ 20 ہزار روپے دینے کا حکم ہے اور نہ 20 لاکھ دینے کا حکم ہے.خدا تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق انتہائی کر نے یا نے.قربانی کر جاؤ.جواب طلبی خدا نے کرنی ہے.میں نے یا آپ میں سے کسی نے نہیں کرنی.اس لئے انسان کو سوچنا پڑے گا، اور اپنے اندرونہ پر نگاہ ڈالنی پڑے گی کہ وہ اپنے نفس کو کہیں جھوٹی تسلی تو نہیں دے رہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت نہیں تھی.اس لئے قربانی نہیں دے سکتا تھا.خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا ہے کہ تمہارے اندر طاقت تھی یا نہیں.تاہم یہ بڑے خوف کا مقام ہے.اس تدبیر کو انتہا تک پہنچانے کے مختلف طریقے ہیں.کچھ آپ سے ذاتی اور کچھ آپ کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.کچھ پاکستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں.کچھ بیرون پاکستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں.کچھ ساری دنیا کے احمدیوں کی مجموعی زندگی جسے احمدی زندگی کہا جاتا ہے، اس سے تعلق رکھتے ہیں.جن کا تعلق بیرون پاکستان کی جماعتوں سے ہے مثلاً جو ذمہ داریاں انگلستان یا یورپ کی جماعتوں پر ہیں یا امریکہ کی جماعتوں پر ہیں یا مغربی افریقہ کی جماعتوں پر ہیں یا مشرقی افریقہ کی جماعتوں پر ہیں، ان کے متعلق احباب سے مشورہ کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے.بیرون پاکستان کے احباب جماعت سے باتیں کرنا، اسلام کا تبلیغ اور قرآن کریم کی ہمہ گیر اشاعت کے متعلق سوچنا اور موقع پر مختلف کمیٹیاں مقرر کرنا اور منصوبے بنانا یا دوسرے لفظوں میں صحیح طور پر اعداد وشمار اکٹھے کرناوغیرہ بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں.قرآن کریم نے کہا ہے.909

Page 927

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّوا لَهُ عُدَّةً ( التوبة :46) کہ کسی کام کے کرنے سے پہلے بڑی تیاری کرنی پڑتی ہے.اگر چہ یہ منافقوں سے کہا گیا ہے کہ اگر تمہیں جہاد میں شامل ہونا تھا، تو جہاد میں شامل ہونے کے لئے جس قسم کی تیاری کی ضرورت تھی ، وہ تمہیں کرنی چاہئے تھی.تا ہم اس میں ایک اصول یہ بتایا گیا ہے کہ جس قسم کا کام ہوتا ہے، اس قسم کی پوری تیاری کرنی چاہئے.کسی کام کی تیاری کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ کام کرنے کی نیت ہے.اگر کوئی شخص مثلاً جمعہ کی نماز میں شامل ہونے کے لئے (چھوٹی سی مثال لیتا ہوں تا کہ چھوٹے بچے بھی سمجھ جائیں) یہ کہے کہ میری یہ خواہش ہے کہ جمعہ میں شامل ہوں.اب وہ جمعہ کی نماز میں شامل تو ہونا چاہتا ہے، مگر یہاں جمعہ ہوتا ہے، ڈیڑھ بجے.سوائے اس کے آج میں آ گیا ہوں اور وقت بدل دیا ہے اور آپ کو نصف گھنٹے تک انتظار کروایا ہے.بہر حال اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈیڑھ بجے سے پہلے کھانا کھا لے.اس کا مطلب ہے ہے کہ وہ ڈیڑھ بجے سے پہلے غسل کر کے نئے کپڑے پہن لے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھر سے ایسے وقت چلے کہ ڈیڑھ بجے سے پہلے پہلے احمد یہ ہال میں پہنچ جائے.اگر ایک گھنٹے کا راستہ ہے اور کوئی شخص یہ کہے کہ جمعہ میں شامل ہونے کی میرے دل میں تو اتنی خواہش ہے اور نہ شامل ہو کر مجھے اتنا دکھ ہوتا ہے کہ کراچی میں کسی احمدی کے دل میں جمعہ چھوڑنے پر اتنا دکھ نہیں ہوتا.اب وہ دعوئی تو یہ کرے لیکن گھر میں بیٹھا ر ہے اور جب ڈیڑھ بجے جائے تو سستی سے آنکھیں ملتا ہوا نیم دلی سے وضو کرے اور کپڑے بدلے اور کہے دیر ہوگئی ہے.اب نہانا چھوڑتا ہوں اور پون گھنٹہ اسے اپنے گھر سے یہاں پہنچنے میں لگتا ہو تو جمعہ جو ایک فرض نماز ہے، اس میں تو وہ شامل نہیں ہو سکے گا اور ممکن ہے وہ اپنے دل کو طفل تسلی دینے کے لئے یہ کہہ دے کہ اوہو! بڑی دیر ہوگئی ہے.بہن نے جمعہ ملنا ہی نہیں ، ہن جان دا کی فائدہ اے.کوئی گل نہیں ، گھر میں بیٹھ جاندے آں.پس جس آدمی کی کام کرنے کی نیت ہو، وہ اس کے لئے تیاری کیا کرتا ہے.ایک چھوٹی سی اور مثال دے دیتا ہوں.جس عورت یا جس بیوی کی یہ خواہش ہو کہ وہ اور اس کا میاں اور بچے بھوکے نہ رہیں.تو وہ چولہا جلاتی ہے.گرمیوں کے دنوں میں تکلیف اُٹھاتی ہے.آگ کے سامنے بیٹھتی ہے اور سالن تیار کرتی ہے اور روٹیاں پکاتی ہے.لیکن اگر کوئی عورت ( اور ایسی عورتیں ہیں ہمارے سامنے ان کے واقعات آتے رہتے ہیں) یہ کہے کہ مجھے تو اپنے میاں اور بچوں کا بڑا خیال ہے.لیکن میں گرمی برداشت نہیں کر سکتی.910

Page 928

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 جولائی 1973ء میں ان کے لئے کھانا نہیں پکا سکتی، اس لئے وہ جائیں جہنم میں.جو مرضی آئے کرتے رہیں.اب ان سے پیار کا اظہار بھی ہے اور جہنم میں بھجوانے کی باتیں بھی کرتی ہے.اس قسم کی باتیں ایسی ہیں ، جن کو انسانی عقل قبول نہیں کرتی.اللہ تعالیٰ جو عقل کل کا منبع اور سر چشمہ ہے، وہ ان کو کیسے قبول کرے گا.پس ہم نے تیاری کرنی ہے.یہ ہمارا فرض ہے.جماعت احمدیہ کے افراد کو انفرادی اور اجتماعی، ہر دو اعتبار سے جتنی جتنی وسعت اور استطاعت ہے، وہ پوری کی پوری خدا کی راہ میں خرچ کر دیں.پھر اللہ تعالیٰ کا ان کو پورا ثواب اور پیار ملے گا.اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں کیا ہی خوب فرمایا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا جو کمی رہ جائے گی ، اس کے لئے فرمایا.لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ (البقرة:287) پہلے ٹکڑے میں بشارت دی گئی اور عظیم بشارت دی گئی ہے.لیکن عظیم بشارت کے مطابق تم سے وہ قربانی نہیں مانگی گئی ، جس کی تم کو طاقت نہیں دی گئی.لیکن جتنی تم کو طاقت دی گئی ہے ، اس کے مطابق انتہائی قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور پھر کامیابی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.وہی کامیابی عطا کرتا ہے، وہ آسمانوں سے سامان نازل کرتا ہے.وہ زمین سے کہتا ہے کہ میری تدبیر کو کامیاب کرنے کے لئے سامان اگلو.چنانچہ بہتے ہوئے چشموں کی طرح سامان مہیا ہو جاتے ہیں ، کیونکہ وہ قادر مطلق ہے.اس کے لئے کوئی چیز انہونی نہیں ہے لیکن جو ہماری ذمہ داری ہے ، وہ ہم نے بہر حال نباہنی ہے.اس کے بغیر تو کوئی چارہ کار نہیں ہے.جہاں تک قرآن کریم کی اشاعت اور اس کے لئے مطبع کا تعلق ہے، یہ کام پورے زور کے ساتھ شروع ہو چکا ہوا ہے.مجھے بڑی خوشی ہے اور آپ کو خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تھوڑے سے عرصہ میں اپنا مطبع نہ ہونے کے باوجود 80 ہزار کے قریب قرآن کریم طبع ہو کر قریباً سارے کے سارے تقسیم بھی ہو گئے ہیں.ابھی اور چھپ رہے ہیں پھر مطبع کی عمارت کا کام بھی شروع ہو گیا ہے.اسی طرح پریس کی معلومات اور اس کے دوسرے لوازمات کی فراہمی کا کام بھی شروع ہے.انشاء اللہ اپنے وقت پر مکمل ہو جائے گا.اس میں وقتیں پیش آئیں، روکیں پیدا ہوئیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے ایک بہادر مسلم احمدی کی طرح تمام روکوں کو پھلانگا.ہمارے سامنے کوئی ایسی روک نہیں ہے، جو ہمیں ایک 911

Page 929

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم جگہ پر کھڑا کر دے.کھڑا ہونے یا بے حرکت ہونے یا مر جانے کے لئے ہم پیدا ہی نہیں ہوئے.ہم تو زندہ رہنے اور زندہ کرنے اور ہمیشہ متحرک رہنے اور حرکت میں شدت پیدا کرتے چلے جانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.جب تک انتہائی اور آخری کامیابی حاصل نہ ہو اور تمام دنیا پر اسلام غالب نہ آجائے.ہم ایک لمحہ کے لئے دم نہیں لیں گے.اور ہر وقت خدمت دین میں کوشاں رہیں گے.یہی وہ غرض ہے جس کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں اور جس کے لئے سلسلہ احمدیہ قائم کیا گیا ہے.غرض جہاں تک پریس کے قیام کا تعلق ہے، کام ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک سال کے عرصہ میں مکمل ہو جائے گا.مگر خدا تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ ابھی پر نیں مکمل نہیں ہوا.ابھی اس کے مکمل ہونے میں ایک سال لگ جائے گا.لیکن خدا تعالی کا یہ منشاء مجھ پر ظاہر ہوا کہ یہ تو کافی نہیں ہے، جماعت احمدیہ کے سپر د جومہم کی گئی ہے.اس طرح ایک چھاپہ خانہ اور وہ بھی پاکستان میں یہ تو کافی نہیں ہے.اس لئے ایک اور چھا پہ خانہ لگایا جائے.چنانچہ مجھے اس کی یہ تفہیم ہوئی کہ ایک مطبع یورپ میں کسی جگہ اور ایک افریقہ میں کسی جگہ لگ جانا چاہئے.اور اس کے لئے ابھی سے تیاری ہونی چاہئے کہ اس غرض کے لئے کون سا ملک زیادہ مناسب ہے.اور اس ملک میں کون سے شہر زیادہ مناسب ہیں اور اس غرض کے لئے کتنی زمین درکار ہے اور وہ کس قیمت پر ملے گی.زمین لینے میں دیر لگے گی.پھر اس پر پریس کی عمارت کھڑی کرنے میں وقت لگے گا.اس غرض کے لئے دو چار سال لگ جائیں گے.جو پریس پاکستان میں لگ رہا ہے، جب یہ کام کرنے لگ جائے گا تو اتنے میں وہ (یورپ اور افریقہ کے پریس) بھی تیار ہو کر اپنا کام شروع کر دیں گے.اشاعت قرآن کریم کے سلسلہ میں ہم نے ابھی تک جو کوشش کی ہے.اس کا اثر افریقہ خصوصاً مغربی افریقہ میں بہت زیادہ ہوا ہے.وہیں زیادہ تعداد میں قرآن کریم گئے ہیں.یورپ اور امریکہ میں بہت کم تعداد میں گئے ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ عادتاً اچھے اور عمدہ کاغذ پر خوبصورت رنگ میں چھپے ہوئے قرآن کریم پڑھنا چاہتے ہیں.ان کے لئے ہمیں اچھے کاغذ کا انتظام کرنا پڑے گا.وہ بھی انشاء اللہ ہو جائے گا.اس غرض کے لئے اور علاوہ ازیں کئی اور جماعتی کام تھے.میرا ارادہ بدلا.پہلے میرا خیال تھا کہ اس سال انڈو نیشیا جائیں گے.ان سے میں نے وعدہ بھی کیا ہوا ہے اور ان کا حق بھی ہے.لیکن اشاعت قرآن عظیم کی خاطر جب یہ چیزیں میرے ذہن میں ڈالی گئیں.تو میں نے ارادہ کیا کہ مجھے انگلستان جانا چاہئے اور وہاں مختلف کمیٹیاں بنا کر اس منصوبہ پر عمل درآمد شروع کر دینا چاہئے.پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے اور بہت سے باتیں ہیں جن پر انشاء اللہ وہاں جا کر غور کریں گے.912

Page 930

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 جولائی 1973ء اس کے علاوہ بعض دوسرے ضروری کام ہیں.کچھ اپنا بھی ہے دراصل تو اپنا وہ بھی نہیں ہے.اس سال مجھے گرمی لگ گئی تھی (اسے انگریزی میں ہیٹ سٹروک کہتے ہیں ) اور اس کے نتیجہ میں میں بڑا کمزور ہو گیا ہوں.کام کرنے سے مجھے کوفت ہو جاتی ہے.یہ بیج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری فطرت کچھ ایسی بنائی ہے کہ وقت آنے پر کافی کام کر سکتا ہوں، لیکن بعد میں پھر مجھے تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے.مثلاً اب میں یہاں آ گیا ہوں مجبور ہو کر آپ کے پیار سے.تاکہ جمعہ کی نماز پڑھاؤں اور آپ کے کانوں میں نیکی کی باتیں ڈالنے کی کوشش کروں.اس کمزوری کی حالت میں سفر کی تیاری کی وجہ سے میں گذشتہ رات ڈیڑھ سے ساڑھے تین بجے تک صرف دو گھنٹے سوسکا.پھر ربوہ سے لاہور تک کا موٹر کا سفر تھا.اس میں بڑی کوفت ہوئی.پھر ہوائی جہاز کا سفر.یہاں آتے ہی میں نماز پڑھانے کے لئے آ گیا ہوں.اگلی رات بھی مجھے جاگنا پڑے گا.لیکن اگر کوئی جماعتی کام آ گیا تو میں پھر اسی طرح بشاشت سے وہ کام کر رہا ہوں گا.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.لیکن اب میں محسوس کرتا ہوں کہ کام کی وجہ سے تھک جاتا ہوں.میرے اوپر بہت زیادہ جماعتی کاموں کا بوجھ ہو تو جسم کو فت محسوس کرتا ہے.میرا خیال تھا کہ میں وہاں جا کر پانچ سات دن آرام کروں گا.اس کے بعد کام کریں گے.جس طرح آپ کے دلوں میں نظام خلافت کا احترام ہے.اسی طرح بیرون پاکستان کے احمدیوں کے دل میں بھی خلافت سے بہت پیار ہے.وہ تو بیچارے میرے جانے پر مختلف کاموں کی وجہ سے تھکے ہوئے ہوتے ہیں، مگر کام کئے جاتے ہیں.دراصل خلافت ایک انسٹی ٹیوشن ہے.ایک فرد نہیں ہے.یہ وہ چیز ہے جس کے متعلق میں نے ڈنمارک کے پادریوں سے کہا تھا کہ تمہارا سوال غلط ہے.انہوں نے پوچھا تھا آپ کا مقام جماعت احمدیہ میں کیا ہے؟ میں نے جواب دیا تھا میں اور جماعت احمدیہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.اس واسطے میرا مقام جماعت احمدیہ میں کیا ہے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.پس ہمارا ایک وجود ہے مثلاً میری انگلیوں پر چوٹ آئی ہو اور مجھے ان پر دوائی لگانی ہو تو میں رات پھر چوکس اور بیدار ہوں گا اور رات کو اٹھ اٹھ کر دوائی لگاؤں گا.تو جماعت احمد یہ جو خدا کے لئے کام کر رہی ہے ، اس کے لئے بھی میں رات کو بھی اٹھوں گا اور کام کروں گا.مجھے یاد ہے 1947ء میں میں دو مہینے تک رات کو سو یا ہی نہیں تھا ورنہ عام طور پر میری عادت ہے کہ سات آٹھ گھنٹے نیند پوری کر لوں تو دماغ چوکس اور بیدار رہتا ہے.بچپن سے یہی عادت رہی ہے.لیکن جب کام پڑ جاتا ہے تو پھر یہ عادت چھوڑ نی پڑتی ہے.یہی حال 1947ء میں تھا، جب کہ بہت کام در پیش تھا.احباب جماعت کے لئے بہت کام 913

Page 931

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کرنے پڑتے تھے.اُن کی حفاظت کی تدبیریں کرنی پڑتی تھیں.ان کے کھانے پینے اور پھر انہیں پاکستان بھجوانے کا انتظام اور اسی قسم کے دوسرے بہت کام تھے.چنانچہ میں بلا مبالغہ کہہ رہا ہوں کہ میں دو مہینے تک نہیں سویا.اس معنی میں کہ اگر رات کے ایک بجے ( میں دفتر میں لیٹتا تھا ) کام پڑ گیا تو میرے ساتھی مجھے اٹھا دیتے تھے.لیکن اب عمر کا تقاضا ہے.تاہم کام کرنا پڑتا ہے خواہ کیسے بھی حالات کیوں نہ ہوں.پس ارادہ ہے کہ لندن پہنچ کر چند دن آرام کروں گا.یہ مجھے یقین نہیں کہ یہ میرا ذاتی کام ہے.یہ بھی دراصل جماعتی کام ہے.آخر میری صحت ہوگی تبھی تو میں جماعتی کاموں کا بوجھ اٹھا سکوں گا.غرض میری نیت ہے اور میں نے اس کے متعلق اس لئے اظہار کر دیا ہے، تا کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ آپ نے دو چار دن آرام بھی کیا تھا.حالانکہ کہا یہ تھا کہ میں ایک دن بھی آرام نہیں کروں گا.میں نے اس بات کو کھول کر بیان کر دیا ہے کیونکہ خلیفہ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.اس لئے میرے (خلیفہ وقت ) اور آپ کے درمیان کوئی راز اور تکلف نہیں ہے.جو بات بھی ہوگی ، وہ آپ کے سامنے کھل کر بیان کروں گا.اس لئے کہ ہمارا کام سانجھا ہے.اگر چہ تھوڑی سی ذمہ داری اہمیت کے لحاظ سے انگلستان اور یورپ پر زیادہ پڑ گئی ہے.اسی طرح کچھ مغربی افریقہ پر.تاہم مجموعی طور پر ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے جس کا ہم نے وہاں جا کر حالات کے لحاظ سے پورا جائزہ لینا ہے.پس اشاعت قرآن عظیم کے لئے اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے میں اس سفر کو اختیار کر رہا ہوں.اور آپ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنی بھر پور اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ میری مددکریں گے.اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے.یہ کہ ایک چھوٹی سے مہم ہے.اس بہت بڑے منصوبے کی جو اشاعت وو قرآن کے سلسلہ میں رو بعمل آتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس مہم میں کامیابی عطا فرمائے“..پس دوست بہت دعائیں کریں، اور بہت دعائیں کریں.عاجزانہ دعائیں کریں.گڑ گڑا کر دعائیں کریں.ابتہال کے ساتھ دعائیں کریں، کہ اللہ تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپرد کیا ہے ، اس کے لئے ہمیں اپنی طاقت کے مطابق جو جو قربانیاں دینی چاہئیں.اللہ تعالیٰ وہ وہ قربانیاں دینے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.پھر ہمارے دل تسلی یافتہ ہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ اگر ہمیں توفیق ہے دھیلے کی تو کام ہمارے سپر د کر دیا ہے ایک ارب کا.باقی اس نے کہا ہے میں انتظام کروں گا کیونکہ میں خزانوں کا مالک ہوں لیکن اگر ہم میں طاقت ہو دھیلے کی اور دیں دمڑی بھی نہ تو پھر خدا نے کہا ہے کہ میں کوئی اور قوم ڈھونڈوں گا.اور اسے لا کر تمہارا قائمقام بنادوں گا، پھر تمہارے حق میں خدائی بشارتیں پوری نہ ہوں گی.خدا ایسا نہ کرے.914

Page 932

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 13 جولائی 1973ء ہماری تو یہ دعا ہے کہ جو بشارتیں ہیں، وہ ہمیں حاصل ہوں ، ہماری نسلوں کو بھی حاصل ہوں.اللہ تعالیٰ کو اس کے لئے کوئی اور قوم نہ ڈھونڈنی پڑے.کوئی اور قوم نہ پیدا کرنی پڑے.یہ تو محاورہ ہے ، ویسے تو وہ قادر مطلق ہے، وہ جو چاہے کر سکتا ہے.لیکن اس نے ہماری زبان میں سمجھانے کے لئے ایسا بھی کہا ہے.بہر حال دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے اموال میں بھی برکت ڈالے اور گھر یلو حالات میں بھی برکت ڈالے.آپ کے صدق و وفا میں پختگی پیدا کرے.اور آپ کو یہ سمجھ بھی دے کہ آپ کی طاقت کی انتہا کیا ہے.اور آپ کو یہ توفیق بھی ہے کہ آپ خدا کے حضور اپنی طاقت کی انتہا کو پیش کریں.یہ عرض کرتے ہوئے کہ جو تو نے طاقت دی تھی ، وہ تیرے حضور پیش ہے اور جو کامیابی اور اس توفیق کے درمیان فاصلہ ہے.وہ اپنے وعدوں کے مطابق پاٹ دے اور ہمیں کامیابی عطا فرمائے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.از رجسٹر خطبات ناصر غیر مطبوعہ ) 915

Page 933

Page 934

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 1973ء قربانیاں دیتے چلے جاؤ اور خدا کا پیار حاصل کرتے جاؤ خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 1973ء تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ایک مختصری زندگی عطا کی ہے.اس مختصر زندگی میں انسان اپنی خوشحالی اور بہبودی کے لئے بنیادی طور پر دو چیزوں کا محتاج ہوتا ہے.اول یہ کہ انسان اس دنیا کے مصائب اور تکالیف سے امن میں رہے اور یہ کہ اس دنیا میں جو ابتلا امتحان کے رنگ میں آتے ہیں.اس میں وہ کامیاب ہو جائے اور دوسرے یہ کہ انسان روحانی بیماریوں سے نجات پاتا رہے.اور روحانی طور پر صحت مند زندگی گزارے اور یہ کہ صحت مند زندگی گزارنے کے لئے اس نے خدا تعالیٰ کو جو کچھ پیش کرنا ہے، خدا تعالیٰ اس کو منظور فرما لے.تو انسان کو خوش حال زندگی کے لئے ان دو چیزوں اور شاخوں سمیت کل چار چیزوں کی ضرورت ہے.دنیا میں تر بیر اور عمل کا حکم ہے، محض ایمان انسان کے لئے کافی نہیں.ایمان کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ بجالانے پڑتے ہیں اور یہ اعمال صالحہ شاخ در شاخ بے شمار حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں مثلاً وہ اعمال صالحہ جن کا تعلق اموال سے ہے یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال کو قربان کرنا.اسی طرح وہ اعمال صالحہ جن کا تعلق انسان کے اپنے نفس کے ساتھ ہے کہ انسان اپنے نفس کو بہکنے نہ دے.اس کی تربیت اس رنگ میں کرے کہ وہ صراط مستقیم پر قائم رہ سکے.پھر اعمال صالحہ کا تعلق اولاد کے ساتھ ہے.اولاد کے ساتھ اس رنگ میں بھی کہ اولاد کی صحیح تربیت ہو اور اس رنگ میں بھی کہ اگر خدا تعالیٰ یہی پسند کرے تو ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنی اولاد کے گلے پر چھری پھیرنے کے لئے تیار ہو جائے.اعمال صالحہ کا تعلق جذبات کے ساتھ بھی ہے اور عزت نفس کے ساتھ بھی.ہم بار بار خدام کو کہتے ہیں کہ اپنے جلسوں میں اعلان کرو کہ ہم اپنی عزتوں کو خدا کی راہ میں قربان کریں گے.ہم بار بار کہتے ہیں کہ دوسروں کی طرف سے جو تکلیفیں پہنچ رہی ہوں، بشاشت کے ساتھ ان کو حصول رضائے الہی کی خاطر برداشت کرو.ہم وہ قوم ہیں، جو ہر قسم کی تکالیف کو خوشی سے برداشت کرتے ہوئے غلبہ اسلام کی شاہراہ پر بڑھتے ہی بڑھتے جارہے ہیں.917

Page 935

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم انسانی عقل راہ راست پر بھی رہتی ہے اور اس سے بھٹک بھی جاتی ہے.عمل صالح عقل کے لحاظ سے بھی ہے.جب انسان اپنی عقل پر اس قدر قابو رکھ سکتاہوکہ وہ بہکے نہیں اورصراط مستقیم پر قائم رہے اور غلط نہیں بلکہ صحیح نتائج نکالے.دنیا جب جنون میں مبتلا ہوئی تو اس نے کہا کہ محض عقل کافی ہے، الہام کی ضرورت نہیں.عقل کی مثال اس دنیا میں انسانی آنکھ سے دی جاسکتی ہے.بینا ہونے کے لئے باہر کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے.رات کو روشنی بند کرنے کے بعد جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو اگر چہ آنکھیں آپ کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن پھر بھی آپ دیکھ نہیں سکتے.اگر الہام کی روشنی نہ ہو تو عقل اندھیرے میں پڑ جاتی ہے.پس ایسے اعمال اعمال صالحہ کہلائیں گے جو عقل کی روشنی مہیا کرنے کا موجب ہوں.پھر مال تھوڑا بھی ملتا ہے اور بہت بھی.اولا د ایک دو تک بھی ہوتی ہے اور بعض معاشروں میں سولہ سترہ تک بھی ہوتی ہے.بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں بچے کی ضرورت نہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بعض اعمال صالحہ سے اپنے آپ کو محروم رکھنا چاہتے ہیں.ایسے لوگ تربیت کے بوجھ سے آزاد رہنا چاہتے ہیں یا پھر یہ ہوگا کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار نہیں.دنیا کی ہر چیز ہمارے لئے ثواب اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے.رہبانیت کی اسلام میں اجازت نہیں بلکہ جس قدر نعماء کی فراوانی ہوگی.اسی قدر اعمال صالحہ بجالانے کے زیادہ مواقع ہوں گے.مومن دنیا سے گھبرا تا نہیں ، دنیا سے بے زار نہیں.مومن دنیا کما تا تو ہے لیکن دنیا کی بادشاہت قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا.وہ دنیا کے مال کو اس کی دولت کو ، مذہب کا خادم بنا کر حاصل کرنا چاہتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دیکھیں.یہ تو نہیں کہ آپ فقیر تھے.دنیا کی دولت اللہ تعالیٰ نے آپ کے قدموں میں لاکر رکھ دی اور وہ قدم جو اللہ کی یاد میں محو تھے انہوں نے اس دولت کو ٹھوکر مار کر پھینک دیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شعر میں کہا ہے کہ تیرے پیارے کو دنیا جہان مل جاتا ہے لیکن وہ اس جہان کو لے کر کرے کیا ؟ جس قدر دنیاوی نعماء میں وسعت ہوگی اتنے ہی زیادہ عذاب کے مواقع میسر آنے کا خطرہ ہوگا.اسی نسبت سے انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور فضلوں کو جذب کرنے کے مواقع بھی اپنے لئے پیدا کر سکتا ہے اور خدا تعالی کی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے.پھر آپ کی کوششیں، قربانیاں، ایثار، دنیا سے بے رغبتی ، خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لینا یہ آپ کا اپنا کام ہے.918

Page 936

تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 1973ء آپ جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس وقت انگلستان ہے یا بعض دوسرے ممالک ہیں جہاں آپ کو ثواب کے بعض مواقع سے محروم رہنا پڑتا ہے مثلاً پاکستان میں بعض مخالف کھڑے ہو جاتے ہیں اور مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں.ابھی چند دن ہوئے بلوچستان میں احمدیوں پر گولی چلائی گئی جس سے ان کو عارضی طور پر بے گھر ہونا پڑا.وہاں کی جماعت کے پریذیڈنٹ کی انگلی پر راکفل کی ایک گولی لگی.اگر نیت یہ ہو کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں ہم نے اپنے رب کی راہوں کو تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جانا ہے تو انگلی کا معمولی زخم بھی شہیدوں میں شامل کر دیتا ہے.اب جو صلہ ان لوگوں کو تکلیفیں اٹھا کر ملا آپ اس سے محروم ہیں.ایک دفعہ بعض غرباء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! غریب لوگ دوسروں جیسا اخلاص رکھتے ہیں.دل میں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے کا ویسا ہی جذبہ ہے لیکن امراء کی قربانیوں میں ہماری قربانیوں کی نسبت زیادہ وسعت ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک طریق بتاتا ہوں اسکو اختیار کرو پھر تمہیں اور ثواب ملے گا.چنانچہ آپ نے ان کو ایک وظیفہ بتایا.اس پر غرباء نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اگر امیروں کو اس کا پتہ چل گیا تو پھر وہ بھی اس پر عمل شروع کر دیں گے.یہ جذ بہ جو صحابہ رضوان اللہ علیہم کے سینوں میں پیدا ہوا ، وہی جذبہ خدا تعالیٰ کی ہر پسندیدہ اور چنیدہ جماعت میں پیدا ہونا چاہیے.دنیا کی کسی نعمت کے نتیجے میں کوئی قربانی دینی پڑے تو ہم دینگے.لیکن قربانی کی ایک راہ بند ہو جائے تو ہم دوسری راہ تلاش کر لیں گے.تا خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی بعض رحمتوں سے محروم نہ ہو جائیں.اب آپ یہ تو کر نہیں سکتے کہ خواہ مخواہ کسی سے جھگڑا کر کے چانٹے کھائیں.آپ لوگ تو اس قسم کی ایذاء دینے والی باتیں نہیں سن پاتے جو ہمیں سننی پڑتی ہیں.جب آپ کے کان میں وہ باتیں ہی نہیں پڑیں گی تو کسی رد عمل کا سوال ہی نہیں پیدا ہو گا.اس لئے میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ ثواب کے حصول کی بعض راہیں آپ پر بند ہیں.اس لئے جو راہیں آپ پر کھلی ہیں ان میں اپنے ایثار اور قربانی میں شدت اختیار کریں اور اپنے ماحول کے مطابق قربانیوں میں آگے نکلنے کی کوشش کریں.دنیا کی فضا ہم درست کر دیں اور دنیا کو یہ بنیادی سبق سکھا دیں کہ اسلام کا پیغام محبت اور اخوت کی بنیادوں پر کھڑا ہوا ہے.نفرت ، حقارت ظلم، نا انصافی اور دکھ دینے کی بنیادوں پر کھڑا نہیں ہوا.قرآن کریم کو ہم نے شروع سے آخر تک پڑھا کہیں بھی نفرت ، حقارت، نا انصافی ، دکھ دینے اور زبان درازی کی تعلیم نہیں پائی بلکہ یہ پڑھا کہ اللہ تعالی ظالم اور بے انصاف سے پیار نہیں کرے گا.خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے پاک اور مطہر راستوں کو اختیار کرنا پڑے گا.یہ پڑھا کہ صراط مستقیم خدا 919

Page 937

خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم تعالی سے ملاتی اور انسان اپنی کوششوں اور عمل کے ذریعے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتا چلا جاتا ہے تا وہ ضالین اور مغضوب علہیم والے راستوں کو اپنے اوپر بند کر لے.اسلام ہمارے لئے صراط مستقیم لے کر آیا ہے اور شریعت جو قیامت تک کے لئے ہے، ایک ایسی شریعت جس میں اس قدر حسن ہے کہ انسان اس حسن کی چمک برداشت نہیں کر سکتا.جس طرح لوگ فریج (Fridge) میں بہت سا کھانا اکٹھا رکھ لیتے ہیں، لیکن کھانا رکھ لینے سے پیٹ نہیں بھرتا.پیٹ تو اس وقت بھرے گا جب کھانے کو صحیح طریق پر پکایا جائے گا اور پھر کھایا جائے گا.صرف فریج کو خوراک سے بھر لینا کافی نہیں.پس اسلام حسن سے بھرا پڑا ہے.اسلام ان راہوں کی نشاندہی سے پر ہے جو خدا تعالیٰ کے قرب اس کے پیار اور رضا کے لئے ضروری ہیں لیکن ان راہوں پر چلنا ان کے حصول کے لئے قربانیاں دینا یہ ہمارا کام ہے.آپ کے بعض بھائی قربانیوں میں آپ سے آگے بڑھ رہے ہیں آپ اپنے لئے قربانیوں کی مزید راہیں اور قربانیوں کی راہوں کو کشادہ کرنے کے مزید طریق اختیار کریں.پیچھے نہ رہیں.مومن کے دل میں قربانیوں کی راہ میں مسابقت کا جذبہ ہوتا ہے.قربانیاں دو.ساری دنیا آپ کو مل جائے گی.ایک اکیلا فرد تھا، جس نے دعویٰ کیا کہ خدا نے مجھے مبعوث کیا ہے تا میں اسلام کو ساری دنیا پر غالب کروں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو ہر شخص کے دل میں گاڑ دوں.خدا تعالٰی نے کہا، میں تیرے ساتھ ہوں.خدا نے کہا، میں تجھے نہیں چھوڑوں گا.آج یہاں دیکھ لیں ابھی تک سارے لوگ نہیں آئے.کسی وقت انگریز کہا کرتا تھا کہ ہماری کامن ویلتھ پر سورج غروب نہیں ہوتا.اب تو سوچتا ہوں کہ شاید انگلستان میں سورج چڑھتا بھی نہیں.غروب ہونے کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے لیکن وہ جوا کیلا تھا اس کی آواز پھیلی بہت سے انسانوں کے دل میں اس کی محبت پیدا ہوئی.اس وقت جہاں جہاں لوگ بس رہے ہیں اس کو دیکھ کر صرف جماعت احمدیہ ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے دعویٰ کر سکتی ہے کہ جماعت احمد یہ پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا.خدا کی شان ہے اس نے جو وعدے کئے تھے کچھ پورے ہو گئے اور کچھ مستقبل قریب میں پورے ہوں گے لیکن جو وعدے پورے ہو گئے انہوں نے ہمارے دل میں یہ یقین پیدا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی خاص مصلحت کے مطابق اس زمانے کے لئے مبعوث کیا.جماعت احمدیہ کے ذریعہ خدا تعالی اسلام کو غالب کرنے والا ہے.ہوسکتا ہے ہم سے کوئی ٹھوکر کھا جائے اور گر جائے.یہ علیحدہ چیز ہے.اس کی جگہ ایک اور قوم آگے آ جائے گی.ایک اور نسل پیدا ہو 920

Page 938

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 1973ء جائے گی.خدا تعالیٰ کا آسمانوں پر یہ فیصلہ ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کے ذریعے اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے گا.ہم اس وعدہ کو عملاً ظہور پذیر ہوتے ہوئے آج دیکھ رہے ہیں.افریقہ، امریکہ، انگلستان اور دیگر ممالک میں مومینٹم گین (Momentum Gain) پچھلے سات سال میں جس تیزی کے ساتھ جماعت احمدیہ کی قربانیوں میں برکت پیدا ہوئی.نتائج میں نہیں نہ رہا.میری خلافت کو ابھی سات سال ہوئے ہیں.ان سات سال میں ہمارا بجٹ ہی لے لیں، مالی قربانیوں میں جماعت احمد یہ پچھلے 72 سالہ قربانیوں سے جس مقام پر پہنچی تھی ، اس سے اڑھائی گنا زیادہ بڑھ گئی.اللہ تعالیٰ نے رعب ایسا دیا ہے، جو جانتے ہیں ان کے دلوں میں بھی رعب پیدا ہوتا ہے اور جو نہیں جانتے ان کے دلوں میں بھی رعب پیدا ہو جاتا ہے، خواہ یہ بڑے بڑے دنیا دار ہوں.اگر چہ ہمیں اس سے کیا تعلق جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار جن کو پیار ہے اللہ تعالیٰ ان کی گردنیں احمدیت کے سامنے جھکا دیتا ہے.خدا تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ آپ کی جھولیاں اس فضل کو سمیٹ نہیں سکتیں.کیا پھر بھی آپ خدا تعالیٰ کے ناشکرے بندے بن کر اس کے فضلوں کو دھتکار دیں گے؟ دیکھا کریں اور تلاش کیا کریں کہ کہاں کہاں ہم سے قربانی کا مطالبہ ہے ہم وہ قربانی دے سکتے ہیں یا نہیں ؟ پس قربانیاں دیتے چلے جاؤ اور خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرتے چلے جاؤ.خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دنیاوی لحاظ سے آپ کے آباء نے جو حاصل کیا آپ نے اس سے زیادہ حاصل کیا.دنیوی لحاظ سے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا جتنا بوجھ آپ لوگوں پر ہے، وہ آپ کے آباء سے کہیں بڑھ کر ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت کے نشانوں کو دیکھیں اور اس پختہ عزم اور یقین کے ساتھ کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نا کام ہونے کے ہم پیدا نہیں ہوئے.کامیاب ہونے کے لئے جو ہمیں کرنا چاہیے اسے ضرور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں“.کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.مطبوعه روزنامه الفضل 22 اگست 1973 ء ) 921

Page 939

Page 940

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1973ء ہمارا مقصد یہ ہے کہ اسلام کا پیغام ساری دنیا کے ہر فرد تک پہنچ جائے ارشادات فرمودہ دوران دورہ یورپ 1973ء 27 جولائی، بریڈ فورڈ " افریقہ کہ ایک ملک میں سکولوں کو قومی تحویل میں لئے جانے پر میں نے ہدایت کی کہ اگر حکومت معاوضہ پیش کرے تو معاوضہ نہ لیا جائے.اور جماعت کی طرف سے کہا جائے کہ ہم تو یہاں خدمت کی نیت سے آئے ہیں، ہم سکولوں کو قومی تحویل میں لئے جانے پر کس قسم کا معاوضہ یا ہر جانہ قبول نہ کریں گے.بلکہ اگر ہمارے اساتذہ کی خدمات کی ضرورت ہو تو وہ بھی خدمت کے لئے تیار ہوں گے.اور اگر بلا تنخواہ خدمت کے لئے کہا جائے تو بلا تنخواہ خدمت کریں گے.اس پر وہ لوگ بہت حیران ہوئے اور نہ صرف ہمارے اساتذہ کو بھی سکولوں میں جذب کر لیا بلکہ جماعت کی قدر و منزلت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کے دلوں میں قائم فرما دی.ہماری بلا معاوضہ پیشکش پر عیسائی مشنری، جن کے ادارے وہاں قائم تھے، بہت جز بز ہوئے اور جماعت سے شکوہ کیا کہ ہم نے تو اپنے سکولوں کی جائیداد کی قیمت وصول کرنے کے لئے بڑی لیبی چوڑی فہرستیں بنائی ہوئی تھیں، یہ آپ لوگوں نے کیا غضب کیا کہ ہمارے راستے میں روک پیدا کر دی“.مطبوعه روزنامه الفضل مورخه 09 اگست 1973 ء) "" 23 اگست، فرینکفورٹ...آئندہ پچاس سال تک انشاء اللہ جرمن قوم اسلام قبول کر لے گی.اسلامی نقطہ نظر اور سائنسی ترقی میں با ہم کوئی تضاد نہیں.اس لئے ہمیں یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن اسلام ضرور یورپ میں پھیلے گا.آئندہ زمانے میں آپ نہیں تو آپ کے بچے ضرور اسلام قبول کر لیں گے.میں نے عرصہ ہوا خواب میں دیکھا تھا کہ جرمن قوم کے دلوں پر لا الہ الا الله محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے.اس لئے مجھے یقین ہے کہ یہ قوم بالآخر ضر ور مسلمان ہوگی.(انشاء اللہ.سوال: جماعت کے اخراجات کیسے پورے کئے جاتے ہیں؟ جواب: ہر فرد اپنی آمد کا کم از کم 1/16 حصہ ادا کرتا ہے.جماعت کا ایک حصہ وہ بھی ہے، جو 1/10 حصہ ادا کرتا ہے.اس کے علاوہ طوعی چندوں کے لئے بھی ضرورت پڑنے پر اپیل کی جاتی ہے".923

Page 941

ارشادات فرموده دوران دورہ یورپ 1973ء "" تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ایسی ہی اپیل میں نے مغربی افریقہ کے ممالک کے دورہ کے موقع پر کی تھی کہ ہمارے افریقن بھائیوں کا بھی حق ہے کہ وہاں میڈیکل سنٹر اور سکول کھولے جائیں.چنانچہ میری اپیل پر صرف جماعت انگلستان نے 50,000 پاؤنڈ پیش کر دئیے اور ہم نے دوسال کے اندر اندر کم و بیش سولہ میڈیکل سنٹر اور اتنے ہی سکول افریقہ میں کھول دیئے." ہمارے مشن اور مراکز اور جماعتیں تقریباً دنیا کے ہر ایک ملک میں موجود ہیں اور آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا“.25 اگست، زیورک سوال: دنیا میں کتنے احمدی مسلمان ہوں گے؟ ( مطبوعه روزنامه الفضل 16 ستمبر 1973ء) جواب: ہم نے کبھی مردم شماری تو نہیں کروائی انداز ایک کروڑ ہوں گے.سوال: کیا آپ کا مقصد یورپ کے سارے عیسائیوں کو مسلمان بنانا ہے؟ جواب : یورپ میں عیسائی رہ ہی کتنے گئے ہیں، جن کو مسلمان بنایا جائے.پھرفرمایا:.ہمارا مقصد یہ ہے کہ اسلام کا پیغام نہ صرف یورپ بلکہ ساری دنیا کے ہر فرد تک پہنچ جائے.سوال: کیا آپ نے کمیونسٹ ممالک میں مشن قائم کرنے کی کوشش کی ہے؟ جواب : بعض کمیونسٹ ممالک میں جہاں ایک حد تک مذہبی آزادی ہے، کچھ احمدی مسلمان ہیں.بعض ممالک میں ہم نے مبلغ بھجوائے تھے لیکن ان کو تبلیغ اسلام کی اجازت نہیں ملی.اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی سچائی سے وہ لوگ ڈرتے ہیں.اس لحاظ سے یہ امر بے حد دلچسپ ہے اور اہم ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے آپ نے ایک رویا میں رشیا (Rusia) میں اپنی جماعت کو اس کثرت سے دیکھا، جیسے ریت کے ذرات ہوں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 19 ستمبر 1973 ء) 924

Page 942

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 28 ستمبر 1973ء یورپ میں تبلیغ اسلام کا ایک بہت بڑا منصو بہ اللہ تعالیٰ نے ذہن میں ڈالا ہے "" خطبہ جمعہ فرمودہ 28 ستمبر 1973ء چنانچہ میں نے یورپ کے دورہ میں لوگوں کو بتایا، پیار سے بتایا، سمجھا کر بتایا، یہ بڑی لمبی باتیں ہیں، جن کو میں بعد میں بیان کروں گا.اس وقت تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے، مختصراً اور اشارہ چند باتیں بیان کروں گا.جو چیز میں نے وہاں دیکھی اور میرے لئے حیران کن تھی ، وہ یہ تھی کہ ہائینڈ میں (پر یس کا نفرنس تو نہیں تھی ، پر لیس کے کچھ نمائندے آئے ہوئے تھے ) پھر فرینکفورٹ میں، زیورک میں، ڈنمارک میں اور گوٹن برگ، سویڈن میں پوری پریس کا نفرنسیں تھیں.جن میں بڑے تیز قسم کے صحافی آئے ہوئے تھے.مگر کسی ایک نمائندے نے یہ نہیں کہا کہ آپ جو باتیں کہتے ہیں، وہ پیاری نہیں یا غلط ہیں.دو جگہوں پر آخر میں مجھ سے مختلف الفاظ میں ایک سوال کیا گیا، جس کا جواب میں نہیں دے سکا.ڈنمارک میں مجھے ایک صحافی کہنے لگے کہ آپ نے جو باتیں ہم سے کی ہیں، وہ بڑی ہی پیاری ہیں اور بڑی اچھی لگی ہیں اور ان کی ہمیں ضرورت ہے.لیکن آپ یہ بتائیں کہ ڈنمارک کے عوام تک ان باتوں کے پہنچانے کا آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟ ابھی ہم انتظام نہیں کر سکے، یہ ایک حقیقت ہے.لیکن یہ ایک ایسا سوال ہو گیا، جس کا جواب میرے پاس نہیں تھا اور مجھے شرمندہ کرنے والا تھا.لیکن یہ سوال آئندہ کے پروگرام کی بنیاد بننے والا ہے.اسی قسم کی اور باتیں تھیں، جن کے نتیجہ میں یورپ میں تبلیغ اسلام کا ایک بہت بڑا منصو بہ اللہ تعالیٰ نے ذہن میں ڈالا ہے.جس کا تعلق بڑی حد تک اس بہت بڑے منصوبہ سے ہے، جس کا ذکر اس کی تفاصیل کے ساتھ انشاء اللہ اور اس کی توفیق سے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کو بتاؤں گا.دوست دعا کریں، اللہ تعالیٰ صحت سے رکھے اور ذہن میں ہر قسم کی جلا پیدا کرے اور اس کے سارے پہلوؤں کو اجا گر پانے اور جا گر کر کے روشن کر کے آپ دوستوں کو دکھانے کی توفیق عطا فرمائے.غرض دوست اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ وہ اپنے فضل سے مجھے زندگی اور صحت دے تا کہ ایک بہت بڑا منصوبہ، جو خدا تعالیٰ کے اذن سے ذہن میں آیا ہے، اس کو صحیح طور پر اور ضروری تفاصیل کے ساتھ جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت احمدیہ کے سامنے رکھنے کی توفیق پاؤں.925

Page 943

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 ستمبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم تاہم یورپ میں تبلیغ کے پروگرام کے کچھ حصے کو میں اپنے خطبات میں بتاؤں گا.اب ایک ہی وقت اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ میرے سامنے یہ دو منصوبے آگئے.جن کا آپس میں بھی بڑا گہرا تعلق ہے.اور ویسے ایک کا تعلق صرف یورپ سے ہے اور دوسرے کا ساری دنیا اور تمام بنی نوع انسان سے ہے.کچھ حصے جو اس بڑے منصوبے سے بلاواسط تعلق نہیں رکھتے ، وہ بتادوں گا کہ بالواسطہ کیا تعلق رکھتے ہیں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے، پریس کانفرنس کے دوران دو جگہ ایک سوال کیا گیا.اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا اور سوچنے کے نتیجہ میں بہت سے کوائف معلوم کیے.میں نے مبلغین کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ فلاں فلاں معلومات حاصل کر کے مجھے بھیجو.کیونکہ یہ ہے بڑا ظلم کہ مہدی معہود علیہ السلام آگئے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اسلام کو غالب کرنے کی بنیا درکھ دی.مگر اب تک تبلیغ کا دائرہ وسیع نہ ہو سکا.جس کی وجہ سے دنیا کا وہ حصہ جو اس وقت خدا سے بہت دور ہے، اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ باتیں تو اچھی ہیں.اسلام ہمارے مسائل حل تو کرتا ہے لیکن ہمارے عوام تک ان باتوں کے پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے؟ پس یہ سوال بنیاد بنی، اس یورپین منصوبہ کی، جس کا ایک حصہ آپ کے سامنے آجائے گا.اس کے لئے آپ کو انتظار کرنا پڑے گا.علاوہ ازیں ہم نے اس سفر میں خدا کے بڑے فضل دیکھے.اس کی رحمتوں کو دیکھا چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کو پایا اور بڑی بڑی باتوں میں بھی اس کی صفات کے حسین جلوے دیکھے اور اس کے قادرانہ تصرفات کا مشاہدہ کیا“....پھر دوست یہ بھی دعا کریں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا جو مقصد ہے، یعنی ساری نوع انسانی کو امت واحدہ بنا کر ایک خاندان بنا کر اور پیار اور محبت کے بندھنوں میں باندھ کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.جماعت احمد یہ کو اس مقصد کے پورا کرنے کے سامان جلد میسر آجائیں.اور ہماری حقیر اور نا چیز کوششوں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے.ہماری زندگیوں ہی میں وہ مقصد پورے ہو جائیں یا ان مقاصد کے پورا ہونے کی ہمیں ایک جھلک نظر آ جائے.ہم خوشی اور بشاشت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوں کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو ایک حد تک عاجز بندے ہونے کے باوجو د نباہ دیا ہے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے“.مطبوعه روزنامه الفضل 04 نومبر 1973 ء) 926

Page 944

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 105اکتوبر 1973ء چوتھا انقلاب جو دنیا میں بپا ہو چکا ہے، سو سال کے اندر اپنے عروج کو پہنچ جائے گا 22 خطبہ جمعہ فرمودہ 05 اکتوبر 1973ء اور تیسری بات جو میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہم نے نصرت جہاں کے نام ، سے ایک منصوبہ بنایا تھا اور پچھلے تین سال سے زائد عرصہ میں ہم اس پر عمل کرتے رہے ہیں.اس منصوبہ کے دو حصے ہیں.ایک اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے مالی قربانیاں دینا.اور دوسرے اس کی بنیادوں پر منزل پر منزل بناتے چلے جانا.جہاں تک مالی لحاظ سے قربانیاں دینے کا سوال ہے، ہم عاجز بندوں کا یہ منصوبہ اور یہ تدبیر اس سال ختم ہو رہی ہے.مالی قربانی کے سلسلہ میں دوستوں نے جو وعدے کئے تھے اور جن کو انہوں نے تین سالوں پر پھیلا کر پورا کیا ہے، اس کا تھوڑا سا حصہ باقی ہے.اس وقت یہاں کے صحیح اعداد و شمار تو میرے ذہن میں نہیں.کیونکہ مجھے رپورٹ نہیں ملی.لیکن انگلستان کی جماعت سے میں نے رپورٹ لی تھی اور وہ اس کا وقت میرے ذہن میں ہے.خلافت ثانیہ جتنے سالوں پر ممتد تھی ، اس کے لحاظ سے انہوں نے 51 ہزار پاؤنڈ کے وعدے نصرت جہاں کے منصوبہ کے لئے تھے.جن میں سے وہ 46/47 ہزار پاؤنڈ ادا کر چکے ہیں.4/5 ہزار پاؤنڈ بھی باقی ہے.ان کو میں نے توجہ دلائی تھی کہ تھوڑی سی رقم باقی رہ گئی ہے، اس کی جلد ادائیگی کریں.قریباً اسی نسبت سے پاکستان اور بیرون پاکستان کی جماعتوں کا بقایا ہوگا.پس جہاں تک مال کے وصول کرنے کا تعلق ہے، اگر میں نے مہلت دی تو زیادہ سے زیادہ جلسہ سالانہ تک دے سکتا ہوں، اس سے زیادہ مہلت دینا، میرے بس کی بات نہیں ہے.اس کی طرف میں ابھی اشارہ کر دوں گا.بہر حال میں آپ سے اس وقت تاکید کہنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں کے ذمہ نصرت جہاں سکیم کے وعدے ہیں، وہ جلد ادا کر دیں.غالباً نومبر میں آخری سال ختم ہو رہا ہے.لیکن آج میں ایک مہینے کی اور مہلت دے دیتا ہوں.20 دسمبر سے پہلے پہلے بقایا جات ادا ہو جانے چاہئیں.نصرت جہاں کا دفتر نوٹ کرے اور جماعتوں کے ذمہ دار احباب اسے یاد رکھیں کہ اس کے بعد کوئی رقم اس مد میں وصول نہیں کی جائے گی.ہم وصولی کے کھاتے بند کر دیں گے.باقی رہیں، وہ برکتیں جواللہ تعالیٰ نے اس سکیم سے وابستہ فرمائی ہیں، وہ تو انشاء اللہ بڑھتی چلی جائیں گی.اللہ تعالیٰ بڑی برکتیں دینے والا اور بڑی رحمت اور پیار کا سلوک کرنے والا ہے.927

Page 945

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 05اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہم نے مغربی افریقہ میں جو ڈاکٹر بھیجے تھے، جن میں سے بعض بڑے پرانے اور تجربہ کار ڈاکٹر تھے اور چھٹیاں لے کر وہاں گئے ہوئے ہیں.کام چلانے کے لئے ہم نے ان کو 500 پاؤنڈ کی رقم دی تھی ( بیرون پاکستان کی مالی قربانیوں میں سے ) اور اس کے بعد انہوں نے وہاں سے جو پیسے کمائے ، وہ بھی وہیں خرچ کر دیئے.کیونکہ ہم میں سے کسی فرد کو ذاتی طور پر مال سے دلچسپی نہیں ہے.جہاں خدا کی راہ میں مال خرچ ہونا چاہیے ، وہاں خرچ ہوتا ہے.افریقی ممالک کے متعلق اس وقت یہی ہورہا ہے.ہماری ریت اور روایت یہی ہے کہ جو کچھ ہم اللہ کے فضل سے کسی ملک میں کماتے ہیں، وہ اسی ملک پر خرچ کر دیتے ہیں.اور جو ہم اس ملک میں نہیں کماتے ، ( کمانا اس معنی میں نہیں، جس معنی میں مزدور کماتا ہے بلکہ اس معنی میں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جو کچھ دیتا ہے ) دوسرے ملک میں ہمیں حاصل ہوتا ہے، وہ بھی ہم ان ملکوں میں حسب ضرورت بھجوا دیتے ہیں.مثلاً یہ 500 پاؤنڈ فی ڈاکٹر جو رقم دی گئی تھی، وہ بھی ہم نے باہر سے بھجوائی تھی.اب مثلاً غانا کو لے لیں.غانا میں اس تھوڑے سے عرصہ میں جوقریباً دو سواد و سال کا عرصہ یا زیادہ سے زیادہ اڑھائی سال کا ہوگا ، اس میں ہسپتالوں کی دو نہایت شاندار عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں.اور نی عمارت قریباً دس، دس لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہے.اس میں وہ خرچ شامل ہے، جومستقبل قریب میں ہونے والا ہے.جو اس وقت تک خرچ ہو چکا ہے، وہ تو کوئی پانچ ، چھ لاکھ روپے کا ہے.لیکن ابھی بہت سے سامان وہاں جانے والے ہیں.اور اس طرح خرچ دس لاکھ روپے تک پہنچ جائے گا.اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اپنی ہی قائم کردہ جماعت کو توفیق دی ہے کہ وہ اس کی راہ میں خرچ کرے.جن ڈاکٹروں کو ہم نے 500 پاؤنڈ دے کر وہاں بھیجا تھا، ان ڈاکٹروں کے ہسپتالوں کی عمارتوں پر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے 500 پاؤنڈ کے مقابلہ میں 35 ہزار پاؤنڈ خرچ ہو چکا ہے اور ابھی اور خرچ ہونے والا ہے.گویا ایک اور 50 کی نسبت سے تو ہم خرچ کر چکے ہیں اور ابھی اور خرچ بھی ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہی خوب فرمایا تھا کہ دو گھر سے تو کچھ نہ لائے“ یہ رقم بھی کیا ہم گھر سے لے کر گئے یا آپ نے دی یا یہ صرف آپ کی قربانیوں کا حصہ ہے؟ نہیں.یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نتیجہ ہے.اس نے اپنے خاص تصرف سے اپنی قدرت کی تاروں کو ہلا دیا اور ہمارے لئے دولت کے سامان پیدا کر دیئے.اور ایک ملک میں دو ہسپتال بن گئے.دوسرے ممالک میں 928

Page 946

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 105 اکتوبر 1973ء حسب ضرورت سکولوں کی کئی عمارتیں بنیں.ہسپتال کا تو یہ حال ہے کہ اس پر بتدریج خرج تو کرتے ہیں لیکن ضرورت تو ایک حد تک بتدریج نہیں.( جیسا سکول کی تعمیر میں ہوتا ہے.بلکہ ایک ہی وقت میں ضرورت پڑتی ہے.مثلاً پہلے دن ہی ان کو Outdoor Patient کے لئے کمروں کی ضرورت ہوتی ہے Indoor Patient کے لئے کمروں کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی طرح آپریشن تھیٹر کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ اب ان دو ہسپتالوں میں سے، جن کا میں ذکر کر رہا ہوں، ایک ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کا مجھے خط ملا ہے.پتہ نہیں، ان کو کیا خیال آیا ؟ بڑی نیکی کا خیال آیا.اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا ، انہوں نے مجھے لکھا.ابھی یہاں آکر پرسوں، اتر سوں ان کا خط پڑھا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ گوا میر صاحب نے میرے ہسپتال کے متعلق تفصیل لکھ دی ہوگی اور وہ آپ تک پہنچ چکی ہوگی لیکن میں بھی تفصیل لکھ دیتا ہوں ( یہ ہسپتال جماعت کی ملکیت ہے.اس کا کچھ حصہ خریدا گیا ہے.بہت بڑی زمین کے ساتھ اور کچھ حصے بنائے گئے ہیں.اپنی طرف سے جو حصہ خریدا گیا ہے، اس میں بہت بڑی عمارت تھی.) کہ اس ہسپتال کے مختلف ونگز (Wings) ہیں اور بڑے بڑے کمرے ہیں، جن میں مریضوں کے لئے رہائشی کمرے بھی شامل ہیں.گویا یہ ہسپتال اکیس کمروں پر مشتمل ہے.اس کے علاوہ ڈاکٹر اور دوسرے عملہ کی رہائش کا بھی پورا انتظام ہے.چنانچہ میں نے اس پر نوٹ دیا تھا کہ یہ ساراخط تفصیل کے ساتھ الفضل میں شائع کرا دیا جائے کہ ہسپتال کی یہ شکل ہے.اتنے کمرے آؤٹ ڈور کے لئے اور اتنے ان ڈور کے لئے اور اتنے آپریشن تھیٹر کے لئے ہیں.میرے خیال میں وہاں (اگر مجھے صحیح یاد ہے ) تین کمرے آپریشن تھیٹر کے لئے ہیں.ہمارے یہاں اس وقت تک فضل عمر ہسپتال میں صرف ایک آپریشن تھیٹر کی ضرورت پڑی اور ایک موجود ہے.میرے علم میں نہیں کہ یہاں کوئی دوسرا یا تیسرا آپریشن تھیڑ بھی ہے.غرض اللہ تعالیٰ ہمارے اموال میں برکت ڈالتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے جو دروازے ہیں، یہ تو بند نہیں ہوں گے.لیکن آپ نے اپنے لئے الہی رحمتوں کے سامان مالی قربانیوں کے نتیجہ میں جو پیدا کرنے ہیں، اس کا دروازہ نصرت جہاں کے لحاظ سے 20 دسمبر کے بعد آپ پر بند ہو جائے گا.اس کے بعد اس مد میں کوئی رقم وصول نہیں کی جائے گی.باقی رہا، اللہ تعلی کا فضل تو وہ تو جماعت پر بے حساب نازل ہورہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کو یہ بشارت دی تھی کہ جب تک تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے رہو گے، دنیا پر تمہارا بڑا ارعب رہے گا.اب یورپ دولت کی بڑی فراوانی رکھتا ہے.وہ بڑے امیر لوگ ہیں.ہمارا اثر یا ہمارے پیسے کا اثر سکوں میں نہیں، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی شکل میں ہے.929

Page 947

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہمارے خزانے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھرے ہوئے ہیں، پاؤنڈ یا سونے، چاندی یا ہیروں سے نہیں بھرے ہوئے.مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی شکل میں جو چیز ہے، وہ دنیا کی ہر چیز مثلاً سونے، چاندی اور ہیرے، جواہرات سے کہیں زیادہ قیمتی اور مفید ہے.اور پھر وہ بے وفائی کرنے والی بھی نہیں.یہ دنیوی سکے ہی ہیں، جو بے وفائی کر جاتے ہیں.ابھی پچھلے دو، تین سال میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ ڈالر ڈگمگا گیا یا پاؤنڈ کی کوئی حیثیت نہیں رہی.مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے متعلق کبھی آپ نے سوچا یا تصور میں لائے کہ وہ ڈگمگا گئی یا اس کی کوئی قیمت نہیں رہی؟ انسان نے خود کو اس سے محروم کر دیا تو کر دیا لیکن اس کی رحمت کا جو اثر ہے اور اس کی جو افادیت ہے اور انسان کو اس کی جو ضرورت ہے اور انسان کے لئے اس میں جو جوش ہے، اس میں کبھی کوئی فرق نہیں آتا.بہر حال یورپین بڑے امیر لوگ ہیں.چنانچہ سوئٹزر لینڈ میں ڈیڑھ، پونے دو گھنٹے کی پریس کا نفرنس میں ایک شخص جو سوال کر رہا تھا اور وہ بڑا تیار ہو کر آیا تھا، میرے ذاتی حالات کے متعلق اس نے علم حاصل کیا، پھر جماعت کے متعلق اور پیچھے پاکستان میں جو الیکشن ہوئے ، اس سلسلہ میں اس نے پتہ نہیں کہاں کہاں سے معلومات حاصل کی تھیں اور وہ بڑی ہوشیاری سے سوال کر رہا تھا.چنانچہ اس نے مجھ سے سوال پوچھا (یہ میں مثال دینے لگا ہوں ، رعب کے اس اثر کی ، جوان قوموں پر بھی ہے، جو بڑی امیر | ہیں کہ آپ کی جماعت کا حکومت پاکستان سے کیا تعلق ہے؟ یہ سوال ایسا تھا کہ میں نے سمجھا کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی بات ہے.میں نے جواب دیا کہ ہر اچھے شہری کا ایک اچھی حکومت سے جیسا تعلق ہونا چاہیے، ویسا ہمارا اپنی حکومت سے تعلق ہے.تو پھر اس کے دل میں جو چھپی ہوئی بات تھی، وہ باہر آ گئی.اس نے سوچا کہ انہوں نے ایک اصولی جواب مجھے دے دیا ہے.جو بات میں چاہتا تھا، وہ تو معلوم نہیں ہوئی.چنانچہ پھر وہ مجھے کہنے لگا کہ کیا حکومت آپ کو اپنے کاموں کے چلانے کے لئے روپیہ دیتی ہے؟ اب دیکھو، جماعت احمد یہ ایک غریب کی جماعت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے نتیجہ میں تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہے.مگر لوگوں کے ذہن میں اس سوال کا پیدا ہونا کہ جب تک حکومت ان کو مالی امداد نہ دے، اس وقت تک جماعت اس قسم کا کام نہیں کر سکتی.یہ دلیل ہے، اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے سونے، چاندی اور ہیرے جواہرات کے خزانوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں.خیر میں مسکرایا اور کہا کہ ہمیں حکومت کوئی پیسے نہیں دیتی اور نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک فدائی جماعت اسلام کی راہ میں قربانیاں دینے والی پیدا کی ہے.جس کا ایک حصہ اپنے اموال کا10\1 اور کچھ اس سے بھی 930

Page 948

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 105 اکتوبر 1973ء زیادہ دینے والے ہیں.اور جماعت کا ایک حصہ 16\1 دے دیتا ہے.اور اس کے علاوہ جب ہمیں ضرورت پڑتی ہے اور ہم اعلان کرتے ہیں، خاص منصوبوں کے لئے تو جماعت ان کے لئے مالی قربانی دیتی چلی جاتی ہے.پھر میں نے اس کو غالباً کوئی مثال دی اور نصرت جہاں سکیم کی مثال دی ہوگی کہ اس طرح ہمیں ضرورت پڑی اور اس طرح جماعت نے قربانیاں دیں.پس یہ رعب ہے، جس کا اثر غیروں پر بھی ہے.مگر یہ اس پیسے کا رعب نہیں ، جس سے آپ کے خزانے خالی ہیں.بلکہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کے پیار کا رعب ہے، جو محض اللہ تعالیٰ کی رحمت نے آپ کے لئے مہیا کیا ہوا ہے.اور جس سے آپ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں.فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی.مگر یہ حقیقت عقل سے کام لینے اور سوچنے پر ہی معلوم ہوسکتی ہے.پس اس لحاظ سے بھی دوستوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بڑے شکر گزار بندے بن کر زندگی کے دن گزار دیں.یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت پر بہت بڑا فضل ہے اور سوچنے کا مقام ہے کہ کس طرح وہ جو چوٹی کے ملک ہیں اور جنہوں نے ساری دنیا کی دولت سمیٹی ہوئی ہے، ان پر ہمارا اتنا رعب ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ کام نہیں کر سکتے ، جب تک حکومتیں مالی لحاظ سے ان کی پشت پناہی نہ کریں؟ باقی رہا، میرا یہ کہنا کہ میں بے بس ہوں اور 20 دسمبر کے بعد نصرت جہاں کی مد میں پیسے وصول نہیں کئے جائیں گے.اس کی ایک وجہ ہے، وہ میں بتا دیتا ہوں.شاید آپ کے دماغ پریشان ہوں گے کہ یہ کیا بے بسی ہے؟ دراصل اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بعض اور منصوبوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.جو نصرت جہاں کے منصوبے سے بہت بڑے منصوبے ہیں، اپنے کام کے لحاظ سے بھی اور زمانے کی وسعت کے لحاظ سے بھی.اور ان کا اعلان میں اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی رحمت سے جلسہ سالانہ کے موقع پر کرنا چاہتا ہوں.اس لئے یہ درخواست کروں گا کہ جہاں آپ میری صحت کے لئے دعا کریں، وہاں یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے زندگی اور توفیق عطا فرمائے کہ میں اس کی منشاء کے مطابق اس نہایت اہم منصوبہ کی تفاصیل جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کے سامنے رکھنے کی تو فیق پاؤں.اور اللہ تعالیٰ جماعت کو بھی یہ توفیق دے کہ وہ اس منصوبے کی اہمیت اور افادیت کو سمجھے.اور اس کے لئے آنے والے سالوں میں ( پتہ نہیں کتنے سال ہیں، جن کا میں اعلان کروں گا ؟ ) قربانیاں دیتے چلے جائیں.اس وقت جہاں تک یورپ کا سوال ہے، ہم بڑے نازک مقام پر کھڑے ہیں.اگر ہم نے اس وقت یورپ میں اسلام پھیلانے کے لئے قربانیاں دیں (ویسے اس منصوبے کا تعلق صرف یورپ سے نہیں 931

Page 949

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم بلکہ ساری دنیا سے ہے.لیکن میں اس منصوبہ کی صرف ایک چھوٹی سی مثال دے رہا ہوں ) تو خدا کرے اور اس کی رحمت جوش میں آئے تو کوئی بعید نہیں کہ اگلے دس سال میں جہاں ہم آج سینکڑوں کی باتیں کرتے ہیں کہ ان ملکوں میں اتنے سواحمدی ہیں، جو عیسائیت یا دہریت یا مذہب سے لا پرواہی کو چھوڑ کر مسلمان ہوئے ہیں.وہاں ہم لاکھوں کی باتیں کرنے لگیں.پس دوست دعا کریں، اللہ تعالیٰ مجھے توفیق بخشے اور میں جماعت کے سامنے یہ منصوبہ پیش کر سکوں اور جماعت کو اسے سمجھنے اور اس کے لئے قربانیاں دینے کی توفیق ملے.اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس سے زیادہ اچھے اور بہتر نتائج نکالے، جو ہمارے دماغ اپنے تصور میں لا سکتے ہیں.کیونکہ ہمارے دماغ محدود ہیں مگر اس کی رحمتیں غیر محدود ہیں.اس نے تو سارے کرہ ارض کو لپیٹا ہوا ہے.فرینکفرٹ مغربی جرمنی میں میری ایک پریس کانفرنس اور جماعت احمدیہ کے متعلق ایک کیتھولک اخبار نے قریباً 4, 3 صفحے کا نوٹ دیا ہے.اور سوائے ایک بات کے جس کا ایک ذرا سا حصہ وہ نہیں سمجھے اور وہ اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے واضح ہے، باقی باتیں بغیر کسی تنقید کے شائع کر دی ہیں.میں حیران ہوں کہ ایک کیتھولک اخبار ہے اور عیسائیت سے ہماری جنگ ہورہی ہے مگر اخبار نے بالکل صحیح اور دیانت داری کے ساتھ میری باتیں بیان کر دیں.جن میں سے ایک یہ کہ مرزا ناصر احمد نے ہمیں یہ بتایا کہ سرمایہ داری کے بعد اشتراکی انقلاب آیا اور پھر اس کے بعد چینی سوشلسٹ انقلاب ہے اور اب چوتھا روحانی انقلاب اسلامی انقلاب کی شکل میں بپا ہو چکا ہے.اور ایک سو سال کے اندر اندر یہ اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جائے گا.اور ساری دنیا کو اپنے احاطہ میں لے لے گا.اس نوٹ کا ترجمہ ہو رہا ہے، انشاء اللہ یہ بھی آپ کے سامنے آ جائے گا.اس پریس کانفرنس میں، جوقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی، جو باتیں میں نے بیان کی تھیں، کچھ مختصر اور کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ ، وہ ساری تو نہیں دے سکتے تھے یا ساری باتوں کے لئے جگہ نہیں دے سکتے تھے.ورنہ تو سارا اخبار بھر جاتا.4, 3 صفحہ کا دینا بھی بڑی بات ہے، علاوہ تصویر کے حصہ کے.بہر حال یہ ایک مثال میں نے دی ہے، جو اس بڑے منصوبے کا ایک حصہ بننے والی ہے.اگر یورپ میں ہم اپنی سی کوشش کر ڈالیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے گی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ دس سال کے اندر اندر یورپ میں لاکھوں نئے مسلمان احمدی دنیا کو نظر آنے لگ جائیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور توفیق سے ہو سکتا ہے.ورنہ ہم تو عاجز بندے ہیں اور اس کی مدد کے ہر آن محتاج ہیں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 21 اکتوبر 1973ء) 932

Page 950

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اکتوبر 1973ء تشہد وتعوذ اورسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: طبیعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بہتر ہے، الحمد للہ.اس وقت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جنگ لڑی جارہی ہے.عیسائی طاقتیں اور یہودی روپیہ اور اثر و رسوخ ایک ایسے خطہ ارض پر مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں.جس کے متعلق شروع ہی میں یعنی 1948ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دنیائے اسلام کو ایک انتباہ کیا تھا.جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو اتحادیوں نے اپنے مفاد کی خاطر مسلم ممالک سے بہت سے وعدے کئے اور اس طرح اپنے وعدوں کی آڑ میں مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کیا.اور دوسری طرف یہودی دولت کی لالچ میں ان سے وعدے کئے.ان ہر دو وعدوں میں تضاد تھا.جو 1948ء میں اسرائیل کی حکومت کے قیام کی شکل میں ظاہر ہوا.اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے الْكُفْرُ مِلَّةً وَاحِدَةٌ کے نام سے ایک مضمون میں (جو بعد میں ٹریکٹ کی صورت میں شائع بھی کر دیا گیا تھا) مسلمانوں کو یہ بتایا کہ ان کے خلاف ایک خطرناک منصو بہ بنایا گیا ہے.اب وقت ہے کہ مسلمان متحد ہو جائیں اور اس طاقت کو جو مستقبل میں بڑی بن سکتی ہے اور کسی وقت خطر ناک شکل اختیار کر سکتی ہے، اس کو شروع ہی میں چل دیا جائے.چنانچہ آپ نے اپنے مضمون میں تمہید ابتایا کہ کس طرح یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کے خیا نہ اور ظالمانہ منصوبے بنائے.آپ کو قتل کرنے اور صلح کے بہانے گھر پر بلا کر چکی کا پاٹ کو ٹھے پر سے گرا کر مارنے کی سازشیں کیں ، وغیرہ.پھر اس کے بعد آپ فرماتے ہیں: " یہی دشمن ایک مقتدر حکومت کی صورت میں مدینہ کے پاس سراٹھانا چاہتا ہے.شاید اس نیت سے کہ اپنے قدم مضبوط کر لینے کے بعد وہ مدینہ کی طرف بڑھے.جو 933

Page 951

خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم مسلمان یہ خیال کرتا ہے کہ اس بات کے امکانات بہت کمزور ہیں، اس کا دماغ کمزور ہے.عرب اس حقیقت کو سمجھتا ہے، عرب جانتا ہے کہ اب یہودی عرب میں سے عربوں کو نکالنے کی فکر میں ہیں.اس لئے وہ اپنے جھگڑے اور اختلافات کو بھول کر متحدہ طور پر یہودیوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا ہے.مگر کیا عربوں میں یہ طاقت ہے؟ کیا یہ معاملہ صرف عرب سے تعلق رکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہ عربوں میں اس مقابلہ کی طاقت ہے اور نہ یہ معاملہ صرف عربوں سے تعلق رکھتا ہے.سوال فلسطین کا نہیں ، سوال مدینہ کا ہے.سوال یروشلم کا نہیں، سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے.سوال زید اور بکر کا نہیں ، سوال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کا ہے.دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہو گیا ہے.کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہوگا ! ی مضمون کے تسلسل میں پھر آپ نے فرمایا:.پس میں مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس نازک وقت کو سمجھیں اور یا درکھیں کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ الكُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَة لفظ بلفظ پورا ہورہا ہے.یہودی اور عیسائی اور دہر بیل کر اسلام کی شوکت کو مٹانے کے لئے کھڑے ہو گئے ہیں.پہلے فرداً فرد ایور چین اقوام مسلمانوں پر حملہ کرتی تھیں.مگر اب مجموعی صورت میں ساری طاقتیں مل کر حملہ آور ہوئی ہیں.آؤ ہم بھی سب مل کر ان کا مقابلہ کریں.کیونکہ اس معاملہ میں ہم میں کوئی اختلاف نہیں.دوسرے اختلافوں کو ان امور میں سامنے لانا، جن میں کہ اختلاف نہیں، نہایت ہی بے وقوفی اور جہالت کی بات ہے.اسی تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 386 تا 388) پس یہ وہ زبردست انتباہ ہے، جو اس فتنہ کے آغاز میں کیا گیا تھا.یعنی 1948 ء میں جب کہ اسرائیل کی حکومت معرض وجود میں آئی تھی.اس میں ایک عظیم منصوبے کی طرف رہنمائی کی گئی تھی.جس کے لئے تمام مسلم اقوام اور مسلم گروہوں میں اتحاد کی ضرورت تھی.پھر اس میں مسلمانوں کو عقلاً سمجھایا گیا تھا کہ تم اس وقت اختلافات کو زیر بحث نہ لاؤ اور جو عقائد اور عادات اور روایات اور بدعات کی وجہ سے اختلافات پیدا ہو گئے ہیں، ان کو بھول جاؤ.کیونکہ جو مسئلہ ہمارے سامنے ہے، وہ اختلافی نہیں ہے.و.وہ 934

Page 952

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبه جمعه فرموده 19 اکتوبر 1973ء اسلام کی عزت کی حفاظت کا سوال ہے.کوئی مسلمان یہ کبھی نہیں کہہ سکتا اور نہ اس کے دل میں یہ خیال ہی پیدا ہوسکتا ہے کہ جہاں اسلام کی عزت اور اس کی حفاظت کا سوال ہو، وہاں اختلاف بھی ہو سکتا ہے.غرض آپ نے عالم اسلام پر یہ واضح کیا کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے، جس میں کوئی اختلاف ہو.اس لئے ایک ایسے مسئلے میں، جس میں اختلاف کی نہ کوئی گنجائش ہے اور نہ اختلاف کا کوئی تصور پیدا ہو سکتا ہے، تم ایسے مسائل کو بیچ میں کیوں گھسیٹتے ہو، جو اختلافی ہیں؟ اس وقت تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب متحد ہو کر عزت و حفاظت اسلام کی خاطر قربانیوں کے لئے تیار ہو جائیں.لیکن اس وقت تو اس عظیم انتباہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اور آج ایک طبقہ ہمارے خلاف باتیں بنارہا ہے.اس کی تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں ہے.بہر حال ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی عزت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے.جتنا خدا مانگتا ہے، جماعت احمدیہ دیتی چلی جاتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، ولا فخر.ہمارے اندر کوئی خوبی اور بڑائی نہیں ، جس کے نتیجہ میں ایسا ہوا.اللہ تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ وہ اسلام کو غالب کرے اور اللہ تعالیٰ کی اس مرضی کے نتیجہ میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا.گویا ایک ایسی جماعت دنیا میں پیدا ہو چکی ہے، جو اسلام کی خاطر اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرتی ہے اور قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے.پس وہ لوگ جو اس غیر اختلافی مسئلہ میں فساد کی خاطر اور وحدت اسلامی کو کمزور کرنے کی خاطر آج باتیں بنارہے ہیں، ان کو ہم یہ کہہ سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وزیر اعظم بھٹو کی قیادت میں حکومت پاکستان ، اہل پاکستان سے جس قسم کی قربانی لینا چاہتی ہو، اس میں جماعت احمدیہ نہ صرف یہ کہ دوسروں سے پیچھے نہیں رہے گی بلکہ یہ ثابت کر دے گی کہ وہ ان قربانیوں میں دوسروں سے کہیں آگے ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے.کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اس کی بشارتوں پر ایمان رکھتے ہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ ہم کمزور ہیں اور ہم میں نہ کوئی طاقت ہے اور نہ کوئی خوبی.لیکن ہم وہ ذرہ نا چیز ہیں ، جس کو خدا نے اپنے دست قدرت میں پکڑا اور اعلان فرمایا کہ میں اس ذرہ نا چیز کے ذریعہ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کروں گا.اس لئے جن قربانیوں کے دینے کا تصور بھی بعض لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرتا ہے، ان سے کہیں زیادہ قربانیاں ہم عملاً ایثار کے میدان میں دے دیتے ہیں.ہماری تاریخ نوع انسانی کی تاریخ اور ملک ملک کی تاریخ ہمارے اس بیان پر شاہد ہے.935

Page 953

خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم پس حکومت وقت یا دوسری اقوام عالم جن کا تعلق اسلام سے ہے، ان کا یہ کام ہے ( ہر فرداگر اپنے طور پر اس قسم کے منصوبے بنائے تو فائدہ کی بجائے نقصان ہوا کرتا ہے ) کہ وہ سر جوڑیں اور منصوبے بنائیں اور پھر ہر اسلامی ملک کی ذمہ داریوں کی تعین کریں.مثلا کہیں کہ فلاں ملک اس مہم اور مجاہدے میں یہ یہ خدمات اور قربانیاں پیش کرے یا اس قسم کا ایثار اور قربانی سامنے آنی چاہیے.جب سارے اسلامی ممالک کسی منصوبے کے ماتحت اسلام کے دشمن کو جو اپنے ہزار اختلافات کے باوجود اکٹھا ہو گیا ہے، اس کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے ایک جدو جہد، ایک عظیم جہاد اور مجاہدے کا اعلان کریں گے تو پھر دیکھیں گے کہ کون اس میدان میں آگے نکلتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اور ایک ہزار کی نسبت سے آگے نکل جائیں گے.بلکہ ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ آگے نکلنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.پس میں تو یہ کہتا ہوں کہ یہ باتیں بنانے کا وقت نہیں ہے اور نہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا وقت ہے.یہ کام کا وقت ہے.اپنی حکومت کو توجہ دلانے ، اس کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے اور اسے تسلی دلانے کا وقت ہے کہ اس وقت جو بھی مطالبہ کیا جائے گا، ہم میدان عمل میں وہ مطالبہ پورا کریں گے.غرض جب بھی حکومت اہل پاکستان سے مطالبہ کرے گی ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ دیکھیں گے کہ جماعت احمدیہ کا مقام کتنا بلند اور کتنا ارفع ہے.تاہم یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہوگا.اللہ تعالیٰ پر ہی ہمارا تو کل ہے، اسی کی قدرتوں کے جن قادرانہ تصرفات کو ہماری آنکھوں نے مشاہدہ کیا ہے، اس کی وجہ سے ہمارے دل نتیجہ کے لحاظ سے بھی مضبوط ہیں اور قربانیوں کے لحاظ سے بھی ہشاش اور بشاش ہیں.قربانیاں دینے سے احمد می گریز نہیں کرتا.وہ مسکراتے چہرہ کے ساتھ قربانیاں دیتا چلا آیا ہے اور اب بھی قربانیاں دے رہا ہے اور قربانیاں دیتا چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالی.ایک اور ضروری بات بھی میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں.کیونکہ انتظار نہیں کیا جاسکتا، اس لئے طبیعت میں کمزوری کے باوجود میں وہ بات ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا، ایک وقت تھا ، قادیان سے باہرا کا د کا خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے واقفیت رکھتے تھے اور آپ کے مقام کو پہچانتے تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا، قادیان کے ماحول میں جماعت پھیلی.پھر پنچاب میں پھیلنی شروع ہوئی.پھر متحدہ ہندوستان (یعنی پاکستان بننے سے پہلے کے ہندوستان) میں پھیلنے لگی.پھر الہی بشارتوں کے ماتحت بیرونی دنیا میں پھیل 936

Page 954

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء گئی.مگر 1944 ء تک بیرونی ہندوستان کی جماعتیں مالی قربانیوں میں بہت پیچھے تھیں.حتی کہ وہ اس قابل بھی نہیں تھیں کہ ان کا نام لیا جاتا.یعنی ان کے علیحدہ کوئی کھاتے نہیں تھے.آمد وخرچ کے کوئی رجسٹر نہیں تھے، اخراجات کے بجٹ نہیں بنتے تھے.گویا ان کی مالی قربانی نہ ہونے کے برابر تھی.جو لوگ مالی قربانی میں حصہ لینے والے تھے، ان میں شاید 99 فیصد یعنی بھاری اکثریت ان لوگوں کی تھی، جو اس وقت کے متحدہ ہندوستان سے باہر مختلف ملکوں میں آباد ہوئے اور وہیں دولت کما رہے تھے.اور بڑی بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں دے رہے تھے.پھر 1944ء میں پہلی بار بیرون ملک کی جماعتوں کی مالی قربانیاں بجٹ کے ذریعہ نمایاں ہو کر جماعت کے سامنے آنی شروع ہوئیں اور ہر سال ترقی کرتی چلی گئیں.یہاں تک کہ میرا خیال ہے کہ اگر اس وقت ہر قسم کی مالی قربانیوں کو اکٹھا کیا جائے تو پاکستان کے مقابلہ میں ( اب متحدہ ہندوستان تو نہیں رہا، جس کی ہم بات کریں.اب تو ہمارا مرکز پاکستان میں ہے.اس لئے ہم پاکستان کی بات کریں گے.) کہ تحریک جدید کی 50 فیصد سے زیادہ مالی قربانیاں بیرون پاکستان کی جماعتیں دے رہی ہیں.گویا بڑی وسعت پیدا ہوگئی ہے اور اس وقت میں اس وسعت کی بات کر رہا ہوں.مالی قربانیوں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.صرف اس وسعت کو بتانے کے لئے میں نے مالی قربانیوں کا ذکر کیا ہے.چنانچہ نائیجیریا جو ایک بہت بڑا ملک ہے، وہاں بڑی بڑی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.اور وہاں بڑے بڑے افسرحتی کے صوبوں کے وزرا ء تک احمدی ہیں اور بڑا اخلاص رکھتے ہیں.وہاں یہ حالت نہیں ہے کہ اکا دکا خاندان احمدی ہو.مثلاً کچھ عرصہ ہوا ہمیں پتہ لگا کہ سوڈان میں ایک خاندان احمدی ہے.لیکن وہاں ابھی جماعت نہیں بنی.لیکن نائیجیریا میں بڑی بڑی جماعتیں ہیں اور سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں.پھر غانا ہے، جہاں کی 30لاکھ کی آبادی میں سے تین لاکھ سے زائد احمدی بالغ مرد اور عورتیں ہیں، بچے ان کے علاوہ ہیں.یہ بھی ایک بہت بڑی جماعت ہے، جو ملک کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوئی ہے.اسی طرح سیرالیون ہے جہاں بہت بڑی جماعتیں ہیں.پھر افریقہ کے دوسرے ممالک ہیں، جہاں نائیجیریا اور غانا کی طرح بڑی بڑی جماعتیں تو نہیں لیکن وہاں بڑی تیزی کے ساتھ جماعت احمد یہ کو کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں.وہاں کے لوگوں میں بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ اگر ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات میں حصہ دار بنا ہے تو ہمیں جماعت احمدیہ میں شامل ہو جانا چاہیے.937

Page 955

خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اسی طرح انگلستان ہے.اس میں بھی خدا کے فضل سے بہت بڑی جماعت ہے.گو تعداد کے لحاظ سے اتنی بڑی تو نہیں، جتنا افریقہ کی جماعتیں ہیں.لیکن اپنی کارکردگی کے لحاظ سے بڑی جماعتوں میں شمار ہوسکتی ہے.جماعتہائے احمد یہ انگلستان نے نصرت جہاں ریزروفنڈ کے لئے علاوہ دوسرے چندوں کے ساڑھے بارہ لاکھ روپے کے وعدے کئے تھے.جن میں سے گیارہ لاکھ سے اوپر وہ ادا بھی کر چکے ہیں.یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی اسلام کے حق میں ایک خوشگوار رو چل پڑی ہے.امریکہ میں اتنی مخلص جماعتیں ہیں کہ آپ ان کا اندازہ نہیں کر سکتے.وہاں سے جور پورٹیں آئی ہیں، ان سے پتہ لگتا ہے کہ امریکن باشندے جماعت میں شامل ہورہے ہیں.(جولوگ یہاں سے نوکریاں وغیرہ کے سلسلہ میں جاتے ہیں، میں ان کی باتیں نہیں کر رہا.چنانچہ وہاں بھی بڑی مخلص جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.پھر انڈونیشیا میں بہت بڑی بڑی جماعتیں ہیں، نجی آئی لینڈ میں بھی ایک بڑی تیز حرکت ہے، ماریشس کا بھی یہی حال ہے.غرضیکہ ساری دنیا میں مختلف ملکوں میں، اس وقت یا تو بڑی بڑی جماعتیں ہیں یا تعداد کے لحاظ سے نسبتاً چھوٹی جماعتیں ہیں.لیکن یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ اشاعت اسلام کے کام میں بہت وسعت پیدا ہوگئی ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ ایک وقت میں انگریز کا یہ دعویٰ تھا ( صحیح تھا یا غلط ) کہ برٹش کامن ویلتھ پر سورج غروب نہیں ہوتا.مگر آج وہ یہ دعوی نہیں کر سکتا.کیونکہ کامن ویلتھ ختم ہو چکی ہے.اب ایک نیا بین الاقوامی اجتماعی وجود دنیا میں ابھرا ہے اور وہ جماعت احمدیہ اسلامیہ ہے، جو اسلام کو غالب کرنے کی مہم میں مصروف ہے اور یہ دعوی کر سکتی ہے کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا.کیونکہ جماعت احمد یہ ساری دنیا میں پھیل گئی ہے.پس یہ ایک حقیقت زندگی ہے، جو ہمیں بھولنی نہیں چاہیے کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی وسعت حاصل ہوگئی ہے.ساری دنیا میں جماعت پھیل گئی ہے اور بہت سے ممالک میں جماعتہائے احمدیہ کی بڑی کثرت سے بیسیوں جماعتیں بڑا اثر ورسوخ رکھنے والی ہیں.یہ ایک حقیقت زندگی ہے.اور دوسری حقیقت زندگی یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.میری بعثت کی بنیادی غرض یہ ہے کہ تمام نوع انسانی کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے امت واحدہ کی شکل میں اکٹھا کیا جائے.یعنی تمام بنی نوع انسان ایک خاندان اور ایک امت بن جائیں.938

Page 956

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء گرچہ یہ کام بڑا اہم ہے اور مشکل بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی حرکت، اس کا پھیلا ؤ اور وسعت روز افزوں ترقی پر ہے.یہ گویا ایک پہلو ہے حقیقت زندگی کا.یعنی جماعت دنیا میں پھیل گئی اور سے بڑی وسعت حاصل ہو گئی.اس حقیقت زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی غرض بعثت یہ تھی کہ اس کرہ ارض پر بسنے والی تمام نوع انسانی کو اکٹھا کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے.گویا آج کی زندگی کی یہ ایک دوسری حقیقت ہے.اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم فاصلے کے بعد کو ایسی شکل اختیار نہ کرنے دیں کہ تمام دنیا کو امت واحدہ بنانے کا ہمار جو مقصد ہے اس میں کوئی روک یا ستی پیدا ہو جائے یعنی جماعت ہائے احمد یہ جو مختلف ممالک میں بسنے والی ہیں ان کو قریب سے قریب تر لانے کے لئے ایک جدو جہد جاری رہنی چاہیے.یہ بڑی ضروری بات ہے ورنہ اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ اسی طرح نہ ہو جس طرح پہلے ہوا.جب مسلمانوں کا آپس کا تعلق ٹوٹ گیا.ایک دوسرے سے قطع تعلق ہو گیا اور مسلمان علیحدہ علیحدہ ٹکڑیوں میں بٹ گئے تو اسلام کی وہ شان و شوکت نہ رہی جو ا سے قرون اولیٰ میں حاصل ہوئی تھی.اب پھر اللہ تعالیٰ کا منشا ہے کہ اسلام کو بہت بڑے پیمانے پر آخری فتح نصیب ہو گو یا غلبہ اسلام کے لئے ایک جنگ جاری ہے.جنگ کے شروع میں فتح نہیں ہوا کرتی.جنگ کے آخر میں فتح ہوا کرتی ہے.یہ روحانی جنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شروع ہوئی.پھر خلفائے راشدین کی زندگی میں فتوحات ہوئیں اور پھر ان کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ اسلام عرب و عجم میں دور دور تک پھیل گیا.ایک طرف یورپ تک جا پہنچا.دوسری طرف ترکی اور اس سے آگے یورپ کے دوسرے حصے پولینڈ تک پھیل گیا.روس میں ایک وقت میں بارہ خوانین ( پٹھانوں ) کے خاندان ریاستوں کی شکل میں خود ماسکو کے اردگرد کے علاقوں میں حکومت کر رہے تھے.پھر چین میں مسلمان گئے لیکن وہاں اتنی زیادہ وسعت اختیار نہ کر سکے تاہم ایک بڑے پیمانے پر سارے نوع انسان کو اکٹھے کرنے کی مہم جاری ہوگئی.مگر اب اس سے بھی بڑے پیمانے پر اسلام کوفتوحات حاصل ہونے والی ہیں کیونکہ شیطانی طاقتوں سے اسلام کی یہ آخری اور کامیاب ) جنگ ہے.کیونکہ اس وقت امریکہ کا کسی کو پتہ نہیں تھا.آسٹریلیا کا کسی کو پتہ نہیں تھا.نیوزی لینڈ کا کسی کو پتہ نہیں تھا.انڈونیشیا کے تعلقات باقی دنیا سے بہت تھوڑے تھے اسی طرح نجی ، آئی لینڈ ، فلپائین وغیرہ کے تعلقات دوسرے خطہ ہائے ارضی سے نہیں تھے.مگر اب دنیا کے ہر ملک کا دوسرے ملک سے تعلق قائم ہے.اس لئے اب جہاں جہاں اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے پاؤں مضبوط کر 939

Page 957

خطبه جمعه فرموده 19اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم رہا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم میلوں کے فاصلوں کو ایک دوسرے سے بعد میں تبدیل نہ ہونے دیں.اور ساری دنیا کے احمدیوں کو ( جو بھی اس وقت تک نوع انسان میں سے احمدی ہو سکے ہیں ان کو) ایک دوسرے سے قریب تر لانے کی کوشش کریں.چنانچہ اس دورے میں میرے دل میں یہ احساس بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوا.اس بارہ میں، میں نے بہت سوچا.اس ضمن میں بہت سی باتیں تو ایسی ہیں، جن کو جلسہ سالانہ سے پہلے بیان کرنا شاید مناسب نہ ہو.لیکن دو باتیں ایسی ہیں جن کو میں اس تمہید کے ساتھ تفصیلاً بیان کرنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا جلسہ سالانہ اور ہماری مشاورت اس قسم کے مواقع ہیں جن میں تمام دنیا کے احمدیوں کی شرکت ضروری ہوگئی ہے.فی الحال میں جلسہ سالانہ کولوں گا.مجلس مشاورت میں ساری دنیا کے احمدی نمائندگان کی شرکت کے متعلق بعض باتیں ابھی مزید غور طلب ہیں ان پر غور کرنے کے بعد ہم انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اور اس کی ہدایت کی روشنی میں کوئی منصوبہ بنائیں گے.اس وقت تک جو بات ذہن میں ڈالی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے متعلق کام شروع کر دینا چاہیے.یہ میچ ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر شاید درجنوں کی تعداد میں یا اس سے کم بیرون جات کے احمدی جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے یہاں ہر سال آتے ہیں مگر وہ کسی منصوبہ کے ماتحت نہیں آتے.اس لئے آج میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں بسنے والی تمام احمدی جماعتیں جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی اپنی جماعت کی طرف سے وفود بھجوایا کریں.جو جلسہ سالانہ میں شریک ہوں، یہاں کی تصاویر لیں، یہاں کے حالات دیکھیں ، جماعت پر خدا تعالیٰ کی جو بے شمار رحمتیں نازل ہورہی ہیں ان کو دیکھیں.ان کے متعلق سنیں اور ان کو نوٹ کریں اور پھر اپنے اپنے...ان کو بیان کریں.یعنی اپنی اپنی جماعت کے احباب کو بتائیں کہ ہم جلسہ سالانہ پر گئے وہاں پر ہم نے یہ دیکھ اور یہ سنا کہ کس طرح دنیا میں ایک حرکت پیدا ہو رہی ہے.کتنی خوش کن تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کی مہم میں کامیاب کرنے کے لئے اپنے فضل سے اس پر اپنی عنائتیں اور رحمتیں نازل کر رہا ہے اور غلبہ اسلام کے حق میں عظیم حرکت ہے جو روز بروز شدت اختیار کرتی چلی جارہی ہے.پس بیرون پاکستان کے ہر ملک سے احمدیوں کو وفود کی شکل میں جلسہ سالانہ پر پورے انتظام کے ساتھ آنا چاہیے.اس سلسلہ میں کچھ ہمیں بھی یہاں انتظام کرنا پڑے گا.مثلا سلائیڈز کا انتظام کرنا پڑے گا.کچھ ان لوگوں کو انتظام کرنا پڑے گا مثلاً بڑی سکرین کا جس پر ٹرانس پیرنسی یعنی خاموش تصاویر دکھائی جاتی ہیں.940

Page 958

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء غرض وفود کی شکل میں بیرون پاکستان سے احباب جماعت یہاں آئیں.یہاں کا ماحول دیکھیں اور حالات معلوم کریں.جلسہ سالانہ والوں کو چاہیے کہ وہ پہلے سے ایک چھوٹا سا رسالہ (چار ورقہ ہو یا اس سے زیادہ کا ہو کیونکہ کاغذ وغیرہ کی کمی نہیں ہے ) شائع کریں اور باہر سے آنے والوں کے لئے اسے انگریزی میں طبع کروا ئیں.جس میں جلسہ سالانہ کے سارے انتظامات کا تعارف کروایا گیا ہو.مثلاً اتنے لنگر خانے ہیں.اتنے آدمیوں کو پچھلے سال کھانا کھلایا گیا تھا اور اب اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے بڑھ کر کھلایا جائے گا وغیرہ وغیرہ تا کہ جو دوست باہر سے آئیں وہ یہ اطلاعات لے کر جائیں.پھر اس کے علاوہ جو کچھ وہ خود دیکھیں.عقائد کے متعلق دلائل سنیں.واقعات کے متعلق میرا تبصرہ سنیں، جو ساری جماعت کے بارہ میں میری پہلی تقریر میں ہوتا ہے.پھر علوم قرآنی جو موجودہ مسائل کو حل کرنے والے ہیں، وہ ان کے کانوں میں پڑیں اور واپس جا کر اپنی اپنی جماعت میں اپنے تاثرات بیان کریں.ایک اور بات بھی یہاں کے انتظام سے تعلق رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ باہر سے آنیوالوں میں سے اکثر وہ لوگ ہوں گے ، جو انگریزی سمجھتے ہوں گے اور اکثر وہ ہوں گے جوار دو نہیں سمجھتے ہوں گے ، اس لئے تحریک جدید ابھی سے plan (پلان) کرے.انگریزی بولنے والے اتنے آدمی موجود ہونے چاہئیں کہ ایک ایک آدمی ہر وفد کے ساتھ لگ جائے.جو سونے کے وقت کے سوا ہر وقت ان کے ساتھ رہے.تا کہ ہر وفد کے اراکین جلسہ سالانہ کی کاروائی سمجھ سکیں.یہاں ہمارے جلسہ کی کاروائی اس زبان میں ہوتی ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسرار قر آنیہ کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے یعنی اردو میں اس لئے ترجمانی ضروری ہے.پھر کچھ ایسے وفود بھی ہوں گے جو انگریزی بھی نہیں جانتے ہوں گے.مثلاً یوگوسلاوین احمدی جن کو میں جلسہ سالانہ پر آنے کی دعوت دیکر آیا ہوں.ایک درجن میں سے دو کی اطلاع مل گئی ہے کہ وہ بڑے شوق سے آئیں گے.وہ مختلف جگہوں کے رہنے والے ہیں.ایک تیسری جگہ کے احمدی خاندانوں میں سے جس ایک کو بلایا گیا ہے.اب ان کے ساتھ اسی آدمی کو لگانا پڑے گا جو ان کی زبان جانتا ہو.ورنہ مقصد پورا نہیں ہو سکے گا.ہمارے یہاں یہ مسئلہ نمبر 2 کی شکل میں آجائے گا یعنی یہ کہ مختلف زبانیں جاننے والے کثرت سے تیار کرنے چاہئیں (جن کا تعلق پاکستان سے ہو تو بہتر ہے ).جو فرانسیسی زبان جانتے ہوں.جرمن زبان جانتے ہوں.یوگو سلاوین زبان جانتے ہوں.البانین زبان جاتے ہوں.اسی طرح افریقہ میں گوانگریزی بولی اور کبھی جاتی ہے، لیکن اگر تھوڑی بہت سواحیلی اور ہونسا زبان یا جو بعض دوسری 941

Page 959

خطبہ جمعہ فرموده 119اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم افریقن زبانیں بولی جاتی ہیں ، وہ بھی سیکھنی چاہئیں.ہمارے مبلغین جو وہاں سے آتے ہیں وہ اگر یہ زبانیں جانتے ہوں تو ان سے کام لیا جا سکتا ہے.بہر حال یہ کام نہیں کرنا پڑے گا.یہ تو ٹھیک ہے کہ اس پر کچھ وقت تو ضرور لگے گا لیکن وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّوا لَهُ عُدَّةً کی روح سے ہمارے اس ارادے کی عملی شکل بھی ظاہر ہونی چاہیے.پس جب ہم نے یہ ارادہ کر لیا ہے تو اب خدا تعالیٰ کی راہ میں کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی ترک نہیں کرنا جو غلبہ اسلام کی اس مہم میں مفید اور مد و معاون ہو.تاہم اس وقت میں زبانوں کے سیکھنے کے بارے میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.اس سلسلہ میں ایک منصوبہ میرے ذہن میں ہے، جسے بروئے کارلانے کے لئے جلد عملی قدم اٹھایا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ جہاں تک جلسہ سالانہ پر بیرون ملک سے احمدی احباب کا وفود کی شکل میں آنے کا تعلق ہے، اس سال چونکہ جلسہ سالانہ میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے اس لئے میں ابھی اس کو لازمی قرار نہیں دیتا.لیکن جہاں تک ممکن ہو تحریک جدید پورا زور لگائے کہ ملک ملک سے دوست وفود کی شکل میں تشریف لائیں.جن میں زیادہ تر مقامی باشندے ہوں.یعنی یہ نہ ہو کہ ہمارے پاکستانی دوست جو باہر گئے ہوئے ہیں اور وہ وہاں پیسے کما رہے ہیں اور انہوں نے اپنی چھٹی کا ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ وہ جلسہ سالانہ پر آجائیں ، ان کو وفد میں شامل کر لیا جائے یا صرف انہی سے وفد تشکیل کر لیا جائے.ٹھیک ہے اگر ایسے دوست کی نیت نیک ہے تو چونکہ خدا تعالی بڑا دیا لو ہے ، وہ اس کی نیک نیتی اور قربانی کی اسے بہترین جزاء عطا فرمائے گا.لیکن جو بات میں کہہ رہا ہوں ، وہ یہ ہے کہ ایسے وفود آئیں جن کا مقصد صرف جلسہ سالانہ کی برکات سے متمتع ہونا ہو اور جو فوراً واپس بھی چلے جائیں.مگر چھٹی پر آنے والے دوستوں کے کئی مقاصد ہوتے ہیں.مثلاً پچھلے سال جلسہ سالانہ اور حج اور پھر واپس گھر پہنچنے کے درمیان قریباً ڈیڑھ دو مہینے کا فرق تھا.چنانچہ کئی دوست بیرونی ممالک سے تشریف لائے.انہوں نے جلسہ سالانہ سنا اور پھر فریضہ حج ادا کرنے کی سعادت بھی پائی.یہ ایک بہت بڑے ثواب کا کام ہے.ہمارے اکثر دوست جن کے حج کی راہ میں جہالت اور غفلت آڑے نہیں آتی یا قرآن کریم سے لاپرواہی کے نتیجہ میں جن پر حج کی راہیں بند نہیں کر دی جاتیں، وہ حج کرتے ہیں اور ثواب پاتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانتے ہیں اور اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مکہ مکرمہ میں پہنچ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو احسن جزاء عطا فرمائے.یہ اپنی جگہ ایک بہت 942

Page 960

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء بڑی نیکی کا کام ہے لیکن وفود کی شکل میں دوستوں کا جلسہ سالانہ پر آنا، در اصل حج اور دوسری نیکیوں کے حصول کے لئے مخلصانہ تڑپ پیدا کرنے کے مترادف ہے یعنی اس طرح ایسی جماعت پیدا کرنا مقصد ہے جن کے دل ہر وقت اخلاص کے ساتھ قرب الہی کے حصول کے لئے بے قرار اور رحمت الہی کی تلاش میں سرگرداں ہوں.پس یہ منصوبہ دراصل حج کی تڑپ رکھنے والی جماعت تیار کرنے کا منصوبہ ہے، جو تمام روکوں کو پھلانگ کر فریضہ حج ادا کر سکے.اس لئے بیرون ملک سے وفود کی شکل میں دوست جلسہ سالانہ پر تشریف لائیں اور پھر ادھر ادھر ٹھہرے بغیر وہ واپس چلے جائیں.اس طرح وہ وہاں جا کر جو کام کریں گے، اس کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ لوگ حج کرنے کی کوشش کریں گے.کچھ کو روکا جائے گا اور کئی ساری روکوں کے باوجود دیار حرم میں پہنچ جائیں گے.یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے.بہر حال زیادہ سے زیادہ وفود کی شرکت اس سال سے شروع ہو جانی چاہیے.ایک اور بات جس کا میں اس وقت اعلان کرنا چاہتا ہوں، وہ قلم دوستی ہے.اور یہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں سے ایک ہے جو ملک ملک کے درمیان قرب پیدا کرنے کے لئے ہیں.قلم دوستی ایک منصوبہ کے ماتحت عمل میں آنی چاہیے.مثلاً انگلستان اور دوسرے ملکوں سے پتہ لیا جائے اور مجھے رپورٹ ملنی چاہیے کہ انگلستان میں اس قد ر ا حباب تیار ہیں ( مجھے امید ہے انگلستان میں رہنے والوں میں سے پا نچ سونو جوان مل جائیں گے شروع میں ایک سوتو یقینی مل جائیں گے ) اتنے نائیجیریا کے تیار ہیں، اتنے غانا کے تیار ہیں، اتنے آئیوری کوسٹ کے تیار ہیں، اتنے لائبیریا کے تیار ہیں، اتنے سیرالیون کے تیار ہیں، اتنے گیمبیا کے تیار ہیں، اتنے سنیگال کے تیار ہیں.اور بھی کئی ملکوں میں ہماری احمدی جماعتیں قائم ہیں.ان میں سے بھی چاہیے، احباب تیار ہوں.کیونکہ اس تحریک میں ضرور شامل ہونا چاہیے.اسی طرح کے رہنے والے، انڈونیشیا کے رہنے والے، آسٹریلیا کے رہنے والے، یورپین ممالک کے رہنے والے، ہندوستان کے رہنے والے، پاکستان کے رہنے والے مصر کے رہنے والے سعودی عرب کے رہنے والے، ( کوئی یہ نہ سمجھے کہ عرب ممالک میں کوئی احمدی نہیں.دنیا مخالفت کرتی ہے تو کرتی رہے.وہاں احمدی ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا.) ابوظبی میں رہنے والے.غرض مشرق وسطی کے سارے ممالک میں رہنے والے احمدی، قلم دوستی کی مجالس میں شامل ہونے کے لئے اپنے نام پیش کریں.پھر ایک منصوبہ کے ماتحت ان کی آپس میں دوستیاں قائم کی جائیں گی.اس قسم کے قریبی اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی مثال ایک شاندار رنگ میں اور شاندار پیمانے پر آنحضرت صلی 943

Page 961

خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتی ہے.اب چونکہ امت محمدیہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے.اس صورت میں ان میں دوستانہ اور قریبی تعلقات پیدا کرنے کی ایک راہ یہ ہے کہ ان کی آپس میں قلم دوستی ہو.اس کا اثر اس مثال سے واضح ہو جائیگا کہ فرض کریں سوئٹزر لینڈ میں ہماری ایک چھوٹی سی جماعت ہے.ہمارے سوئس دوست جو پہلے عیسائی تھے یاد ہر یہ تھے.وہ احمدی مسلمان بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جماعت احمدیہ کے سپر د جو کام کیا ہے ، وہ اس میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں.پس سوئٹزر لینڈ میں گوا بھی ہماری ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن اگر وہاں سے دس آدمی قلم دوستی کے لئے تیار ہوں اور ان میں سے دور بوہ میں خط و کتابت کر رہے ہوں.ایک نائیجیریا سے خط و کتابت کر رہا ہو.ایک غانا سے خط و کتابت کر رہا ہو.ایک سیرالیون سے خط و کتابت کر رہا ہو.ایک انڈونیشیا سے خط و کتابت کر رہا ہو.ایک شمالی امریکہ سے خط و کتابت کر رہا ہو.ایک انگلستان سے خط و کتابت کر رہا ہو.اسی طرح اگر ملک ملک میں ایک دوسرے سے قلم کا تعلق قائم ہو جائے اور دوست آپس میں خط و کتابت کرنے لگیں تو اس باہمی اخوت سے خوشگوار تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا.اب مثلاً سوئٹزر لینڈ کے دس آدمی ہر پندرھویں دن یا ہر مہینے خط لکھیں گے، اور ملک ملک سے ان کو جواب ملیں گے تو جب جمعہ اور اتوار کو یہ اکٹھے ہوں گے اور سر جوڑیں گے اور آپس میں باتیں کریں گے، تو ایک کہے گا مجھے (ربوہ سے ) میرے قلم دوست نے مثلاً مجھے یہ اطلاع بھیجی ہے کہ مشاورت اس اس طرح اختتام پذیر ہوئی ہے.اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے اور نوع انسان کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے یہ یہ سکیمیں بنی ہیں.اور یہ ہوا اور وہ ہوا ہے.دوسرا کہے گا مجھے نائیجیریا سے میرے قلم دوست کا خط ملا ہے.اس نے لکھا ہے کہ ہم نے یہاں اتنے اور میڈیکل سنٹر بنادیئے اور اتنے مزید سکول کھول لئے ہیں اور اتنے لوگ جو پہلے بت پرست تھے اب تو حید کا کلمہ پڑھنے لگ گئے ہیں.لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کا پیارا کلمہ ان کی زبانوں پر جاری ہو گیا ہے.اسی طرح ان میں سے ایک یہ کہے گا کہ مجھے امریکہ سے خط آیا ہے.جس میں اس کے قلم دوست نے لکھا ہے کہ اس طرح ہم نے غلبہ اسلام کے لئے گھنٹہ بھر روروکر دعائیں کیں.یہاں تک کہ ہماری آنکھوں سے آنسو نہیں تھمتے تھے.ایک اور سوئس دوست کہے گا، مجھے میرے قلم دوست نے انگلستان سے خط لکھا ہے کہ ہماری جماعت یہ یہ اچھا کام کر رہی ہے.پس اس طرح ہم تبلیغ کر رہے ہیں ( انگلستان میں اکثریم التبلیغ منایا جاتا ہے ) اور اس اس طرح تبلیغی وفود گئے اور کامیاب ہو کر واپس آئے.944

Page 962

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء غرض سوئٹزر لینڈ کے دس کے دس احباب جب اکٹھے مل بیٹھیں گے تو آپس میں تبادلہ خیال کریں گے.ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جو نظارے احمدی دیکھ رہے ہیں، ان کے متعلق مختلف احباب کے تاثرات اکٹھے ہو جائیں گے.اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو علمی اور تبلیغی لحاظ سے حسین اور خوشکن اثر پیدا کرے گی.پس دوسری بات جس کا میں اعلان کر رہا ہوں ، وہ قلم دوستی کی تحریک ہے.دوست جہاں یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مجھے صحت دے اور کام آنے کی توفیق عطا فرمائے ، وہاں یہ دعا بھی کریں کہ جتنے آدمی اس وقت اس تحریک کے لئے درکار ہیں وہ مل جائیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ میرے دماغ میں منصوبے ڈالتا ہے اور کام کرنے کی تفصیلات بھی بتا تا ہے.لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ میرے پاس ایسے دوست ہونے چاہئیں ، جن کو میں یہ کہوں کہ یہ کام کرو.یہ ساری باتیں اور یہ سارے کام میں اکیلا تو نہیں کر سکتا.سوائے اس کے کہ پانچ سو گھنٹے کا ایک دن ہو جائے اور اس کا کچھ حصہ میں کام کر جاؤں.لیکن دن تو بیچارہ چوبیس گھنٹے سے آگے نہیں بڑھ سکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ نہ سورج چاند کو پکڑ سکتا ہے اور نہ چاند سورج کو.دن اور رات کا فرق تو یہی رہنا ہے.انسانی جسم کی اپنی حد بندیاں ہیں.ہر انسان خواہ وہ پہلوان ہو یا عام آدمی ہو ، اس کا جسم ایک وقت میں جا کر تھک جاتا ہے.اسے سونے اور آرام کرنے کی ضرورت پڑتی ہے.پھر جو کام ہوتا ہے، اس کی ترتیب ہوتی ہے.کچھ وقت ہم احمدیوں کا تلاوت قرآن کریم پر لگتاہ، کچھ وقت تم احمدیوں کا قرآن کریم کی مختلف آیات کی تفسیر اور ان کے معنی پر غور کرنے پر خرچ ہوتا ہے.کچھ وقت ہم احمدیوں کا مطالعہ پر خرچ ہوتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ کو مجموعی طور پر اتنا اعلیٰ دماغ اور روشن دل عطا ہوا ہے، جس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی.اور یہ اس لئے ہے کہ دوست ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں.میرے خطبے سنتے ہیں، جن میں ، میں مختلف مسائل اور موضوعات پر باتیں کرتا ہوں.میں بعض دفعہ جان بوجھ کر چھوٹی چھوٹی تفصیلات بتا دیتا ہوں.جس نے کوئی تفصیلی بات پہلے سنی ہوتی ہے، وہ کہہ دیتا ہے حضرت صاحب نے یہ کیا بات شروع کر دی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں کی تفصیل بیان کرنے لگ گئے ہیں.مثلاً میں نے اپنے پچھلے خطبہ میں بلڈ پریشر ( خون کے دباؤ سے متعلق بات کی تھی اور جان بوجھ کر اس کی تفصیل بیان کر دی تھی.اس لئے کہ ہمارے بہت سے بچے اور بعض دوسرے لوگ بھی اس کی تفصیل نہیں جانتے اور یہ ایک ایسی بات ہے جوان کے علم میں آنی چاہیے.945

Page 963

خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم خدا تعالیٰ کی صفات سے متصف ہونا، ہماری زندگی کا ایک بنیادی مقصد ہے اور اس کا ہمیں بنیادی طور پر حکم بھی دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی قرآن کریم کی ی تعلیم پیش کی ہے.آپ سے پہلے جتنے بزرگ گزرے ہیں، وہ بھی یہی تعلیم پیش کرتے رہے.اور آپ کے بعد بھی یہی پیش کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنے اوپر صفات باری کا رنگ چڑھانا ہے.اللہ تعالیٰ کی ایک صفت اس کا علام الغیوب ہونا ہے.یعنی اس کائنات کی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے.ہم نے بھی اس صفت سے متصف ہونا ہے، مگر ایک محدود دائرہ کے اندر.ہم پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ خدائے علام الغیوب کی طرح کوئی چیز بھی ہم سے بھی پوشیدہ نہ ہو.لیکن ہم پر یہ ذمہ داری ضرور ہے کہ اپنی استعداد کے مطابق جتنی غیب کی چیزیں حاضر میں لائی جاسکتی ہیں، اتنی حاضر میں لانی یا ہمارے علم میں آنی چاہئیں، اور اس طرح ہمارا علم بڑھنا چاہیے.پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم کتابیں پڑھنے والی قوم ہیں.ہم علمی باتیں سننے والی قوم ہیں.ہم با ہمی تبادلہ خیال کرنے والی قوم ہیں.ہم دوسروں سے کہیں زیادہ اور بلا جھجک سوال کرنے والی قوم ہیں.ہمارے دل میں اگر کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو ہم بلا جھجک اس کا حل تلاش کرنے والی قوم ہیں.آپ باہر نکلیں تو پتہ لگتا ہے کہ جماعت کی علمی استعداد کہاں تک پہنچی ہوئی ہے.اس سفر میں مجھے بعض دفعہ پریس کانفرنسوں میں یہ کہنا پڑا کہ مجھ سے حجاب کی کیا ضرورت ہے.میں تو ایک درویش آدمی ہوں.تمہارے دل میں جو سوال پیدا ہوتا ہے، وہ کرو تا کہ ہر قسم کی غلط فہمیاں دور ہو جائیں.لیکن بعض دفعہ میں یہ محسوس کرتا تھا کہ کچھ صحافی جھجک محسوس کر رہے ہیں.حالانکہ ہم تو سیدھے سادھے لوگ ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا ایک پہلوان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (ص: 87) اس لئے کسی قسم کا تکلف نہیں چاہیے.پیار سے باتیں کرنی چاہئیں.بعض لوگ پیار سے جواب دیتے ہیں.بعض جواب نہیں بھی دیتے ہوں گے.وہ غلطی کرتے ہیں.پیار سے جو سوال کیا جائے ، اس کا پیار سے جواب ملنا چاہیے.ورنہ علم نہیں بڑھتا.تاہم اس کے لئے پیار کا ماحول اور پیار کی فضا پیدا کرنی ضروری ہے.یہاں تک کہ جو چھوٹے بچے مسجد میں آجاتے ہیں اور بعض ان میں سے سو بھی جاتے ہیں.ان کو جگانا نہیں چاہیے.وہ کچھ باتیں سن لیتے ہیں.کچھ لیٹے لیٹے ان کے کان میں پڑ جاتی ہیں.اور نہ سہی 946

Page 964

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء تو مسجد میں اچھی خواہیں دیکھ لیں گے.اس لئے چھوٹے بچوں کو مسجد میں آنے سے روکنا نہیں چاہیے، مسجد کے ساتھ ان کا پیار قائم رہنا چاہیے.غرض میں بتا یہ رہا ہوں کہ ہم علام الغیوب تو نہیں بن سکتے.لیکن ہمیں اس صفت کا مظہر بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں.چنانچہ ساری دنیا کے حالات وغیرہ جاننے کے سلسلہ میں باہمی خط و کتابت یعنی قلم دوستی کی جس سکیم کا میں نے اعلان کیا ہے، اس سے علم بڑھے گا.دوست ایک دوسرے سے خطوط کے ذریعہ مختلف کام سیکھیں گے.مختلف حالات اور واقعات سے آگاہ ہوں گے.مثلاً لوگ افطاری کس چیز سے کرتے ہیں.اب مثلاً کھجور ہے یہ ہمارے روزے کی افطاری کا ایک نشان ہے.بعض جگہ کھجوریں مل جاتی ہیں.لیکن کئی گھروں میں کھجور میسر نہیں آتی.کئی ملکوں میں کھجور پیدا ہی نہیں ہوتی.ڈبوں میں بند بھی نہیں ملتی یا یہ کہ لوگ کھانا کیا کھاتے ہیں.غرض اس قسم کی بے شمار معلومات بڑی دلچسپ ہوتی ہیں.میں جب 37-1936ء میں انگلستان میں پڑھا کرتا تھا، تو ایک دفعہ میں نے ایک انگریز دیہاتی بچے سے پوچھا تم نے کل شام کو کیا کھایا تھا.کہنے لگا، ابلے ہوئے آلو.میں نے کہا تم نے کل دوپہر کو کیا کھایا تھا.کہنے لگا، ابلے ہوئے آلو.پھر میں نے پوچھا تم نے کل صبح ناشتہ کس چیز کا کیا تھا.کہنے لگا، ابلے ہوئے آلو.گویا وہ سارا دن ابلے ہوئے آلو استعمال کرتا رہا.اس سے مجھے پتہ لگا کہ جس طرح یہاں کا غریب آدمی روکھی روٹی کھاتا ہے، وہاں کے غریب لوگ آلو ابال کر کھا لیتے ہیں.روکھی روٹی میں تو پھر بھی کچھ مزہ ہوتا ہے، لیکن ابلے ہوئے آلوؤں میں تو کچھ بھی مزہ نہیں ہوتا.معلوم ہوا وہ بیچارے بڑے ہی غریب لوگ تھے.یہاں تو لوگ روکھی روٹی سالن کی عدم موجودگی میں نمک مرچ کی چٹنی کے ساتھ کھا لیتے ہیں.لیکن وہاں تو لوگ صرف نمک لگا کر آلو کھا لیتے ہیں.تاہم اب وہاں کی یہ حالت نہیں ہے.اب تو وہاں کا غریب آدمی بھی اتنا کھاتا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ گویا پہلوان بنا ہوا ہے.دراصل وہ لوگ اقتصادی لحاظ سے بڑی ترقی کر گئے ہیں.میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں اور مفید بھی.اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ مختلف ملکوں میں کیا پکتا ہے اور کیا کھایا جاتا ہے اور لوگوں کی عادتیں کیسی ہیں وغیرہ.میں نے 1970ء میں جب مغربی افریقہ کا دورہ کیا، تو مجھے معلوم ہوا کہ افریقہ میں لوگ میٹھا نہیں کھاتے.چنانچہ سیرالیون کے گورنر نے ہماری دعوت کی.ہم نے ان کی جوابی دعوت کی.جس میں میں نے منصورہ بیگم سے کہہ کر بڑے پیار سے گورنر صاحب کی خاطر ایک ایسا میٹھا کھانا تیار کروایا.جو صرف 947

Page 965

خطبه جمعه فرموده 119اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہمارے گھر میں پکتا ہے اور کوئی آدمی اس کو پکانا جانتا ہی نہیں.ہم اسے ملائی کے گلگے کہتے ہیں.اس نام کی کوئی چیز شاید کسی اور جگہ مل جائے، مگر یہ چیز جو ہمارے گھر پکتی ہے، وہ اور کہیں نہیں ملتی.چنانچہ ہم نے بڑی مشکل سے اس کے اجزا اکٹھے کئے ، جو اس میں پڑتے ہیں.منصورہ بیگم خود باورچی خانہ میں گئیں، جہاں ہمارے احمدی اساتذہ کی مستورات کھانا وغیرہ تیار کرتی تھیں.اور اپنی نگرانی میں اسے تیار کروایا.مگر جب کھانے پر بیٹھے تو گورنر جنرل صاحب کہنے لگے، میں تو میٹھا نہیں کھایا کرتا.میں نے کہا، لو ایک نیا علم حاصل ہوا.خیر میں نے ان سے کہا، آپ میٹھا نہیں کھایا کرتے ٹھیک ہے نہ کھایا کریں لیکن یہ چیز سوائے آج کی اس دعوت کے اور کہیں نہیں ملے گی.کیونکہ یہ ہمارے گھر کا نسخہ ہے.اس لئے چکھ کے تو دیکھ لیں.چنانچہ میرے کہنے اور زور دینے پر انہوں نے تھوڑا سا ٹکڑا لے کر کھا لیا.لیکن باقی وزراء اور حج صاحبان اور دوسرے معزز افریقن دوست جو میرے قریب نہیں بیٹھے ہوئے تھے اور جن کو میں اصرار سے منوانہ سکا، انہوں نے میٹھا نہیں کھایا ہوگا.اب دیکھو ایک ملک ہے، جہاں کے لوگ میٹھا کھاتے ہی نہیں.اور ایک ملک ہے مثلاً ہمارا پاکستان جس میں کروڑوں روپے کی کھانڈ باہر سے منگوانی پڑتی ہے.چنانچہ کچھ عرصہ ہوا حکومت کو اس غرض کے لئے ساٹھ کروڑ روپے کا زرمبادلہ خرچ کرنا پڑا.اور یہ بڑا ظلم ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ اتنی بڑی زرمبادلہ کی رقم کسی اور مفید چیز کے منگوانے پر خرچ ہوتی مگر حکومت مجبور ہے.لوگ کہتے ہیں ہم میٹھے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے.حالانکہ باپ تو تمہارا گڑ اور شکر کھایا کرتا تھا تم اتنی جلدی کھانڈ پر کیسے آگئے.تمہارے باپ دادوں میں سے 999 اس قسم کا گڑ کھایا کرتے تھے جس کو تم آج ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرو گے.کیونکہ اس وقت تک میل کاٹنے والے آلات اور کیمیاوی نسخے نہیں بنے تھے.گنا عام تھا اس سے گڑ بنا لیا جاتا تھا اور اسے فیشن کی چیز سمجھا جاتا تھا.میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ میں علم بڑھانے کے لئے ہر چیز کا مشاہدہ کرتا رہتا ہوں.ایک دفعہ ہم صبح سویرے تیتر کا شکار کرنے کے لئے باہر گئے تو ہم ایک ایسے کنویں پر جا پہنچے، جہاں ایک زمیندار جس نے ساری رات کنواں چلوایا تھا بیٹھا ہوا تھا.ہم نے وہاں موٹریں کھڑی کیں اور سوچا کہ اسی جگہ ڈیرہ ڈال لیتے ہیں.دوپہر کے کھانے کے وقت پانی مل جائے گا صبح کا وقت تھا.اس زمیندار کی بیوی اس کے لئے کھانا لے کر آئی.مجھے خیال آیا کہ دیکھنا چاہیے کہ ساری رات بیچارہ کام کرتا رہا ہے، اب یہ کھائے گا تو کیا کھائے گا.چنانچہ میں السلام علیکم کہ کر اس کے پاس چلا گیا اور کہا میں تمہارا مہمان آیا ہوں.کیا تم اپنے مہمان کو بھی کھانے کا پوچھو گے.کہنے لگا کیوں نہیں پوچھوں گا.خیر میں اس 948

Page 966

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء کے پاس بیٹھ گیا اور دیکھا کہ باجرے کی روٹی ہے، جس میں گھی ملا ہوا ہے.میں نے روٹی کا ایک ٹکڑا لیا اور اس سے اتنی لذت حاصل کی کہ کوئی حد نہیں.لیکھن کی وجہ سے وہ چکنی ہوگئی تھی.اس کے ساتھ سرخ مرچ تھی.میں سرخ مرچ استعمال نہیں کرتا.کیونکہ اس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے.میں نے روٹی کا صرف ایک ٹکڑا اٹھا لیا اور اس سے بڑی لذت حاصل کی.میں نے تو صرف یہ علم حاصل کرنا تھا کہ ساری رات کام کرتے کرتے تھکا ہوا یہ زمیندار کیا کھا رہا ہے.چنانچہ جب میں باجرے کی روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کھا کر اٹھا تو اس کی بیوی جو ایک طرف بیٹھی ہوئی تھی کہنے لگی اے وی تے لوجی“.میں نے سمجھا اپنے خاوند کے پیار میں خاص طور پر کوئی بہت ہی اچھی چیز لائی ہے.جس کے متعلق اس نے سمجھا ہے کہ اس میں مہمان کو بھی شریک کرنا چاہیے.جب اس کے چھائے کو دیکھا تو اس میں گڑ کی ڈلیاں پڑی ہوئی تھیں.اور یہ اس کے لئے ایک بہت بڑی چیز تھی.اس نے سمجھا کہ مہمان بغیر گڑ کھائے جا رہا ہے ، اسے گڑ پیش کرنا ہیے.لیکن اب یہ نوبت آ پہنچی ہے کہ گویا ہم کھانڈ کے بغیر زندہ رہ ہی نہیں سکتے.خواہ ملک اقتصادی طور پر کمزور ہی کیوں نہ ہو جائے.کھانڈ ضرور استعمال کرنی ہے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ساٹھ کروڑ روپے کی کھانڈ باہر سے درآمد کی گئی.اس کی بجائے اور کئی مفید اور ضروری اشیاء مثلاً مشینری وغیرہ منگوائی جا سکتی تھی، جس سے ملک کو فائدہ پہنچتا.یا قرآن کریم کی اشاعت کے لئے پریس کی مشینری منگوانے کے لئے ہمیں زرمبادلہ کی ضرورت ہے.اس کے لئے زرمبادلہ بچایا جا سکتا تھا.یہ تو ایک کار ثواب ہے.کھانڈ منگوا منگوا کر اور میٹھا گھول گھول کر پی لینے کا کیا فائدہ ہے.صرف افریقہ ہی نہیں جہاں میٹھا کھایا ہی نہیں جاتا.چین میں بھی بہت کم استعمال ہوتا ہے میرے خیال میں چین نے ایک چھٹانک چینی بھی باہر سے کبھی نہیں منگوائی ہوگی.جس شکل میں وہ میٹھا بناتے ہیں، اسی میں استعمال کر لیتے ہیں.مثلا گڑ ہے وہ استعمال کر لیا شکر ہے تو وہ استعمال کر لی یا اگر کہیں کھانڈ بنانے کے کارخانے ہیں تو کھانڈ کی شکل میں استعمال کر لیتے ہیں.گویا ملکی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں.باہر سے منگوانے پر پیسے ضائع نہیں کرتے.یہ ساری چیزیں جو میں نے اس وقت آپ کو بتائی ہیں، ان میں سے بعض کا شاید آپ کو پتہ نہیں ہوگا اور اس طرح آپ کو نئے نئے علم حاصل ہو گئے.اپنے ملک کے فائدہ کے لئے بہت ساری چیزیں سوچنی پڑتی ہیں.مثلاً اگر کسی ملک کے ہیں فیصد لوگ کھڑے ہو جائیں اور مطالبہ کریں کہ کھانڈ باہر سے نہ منگوائی جائے تو اس سے اس ملک کی اقتصادی حالت بدل جائے.اگر سارے افریقن بھائی کھانڈ کا 949

Page 967

خطبه جمعه فرموده 119اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم استعمال کئے بغیر طاقت ور اور ہم سے زیادہ قوت کے ساتھ محنت کر سکتے ہیں اور زندگی گزار سکتے ہیں، تو ہم اس کے بغیر زندہ کیوں نہیں رہ سکتے.پس ایک تو میں نے یہ کہا ہے کہ بیرون پاکستان کے احباب وفود کی شکل میں جلسہ سالانہ پر آئیں.زیادہ سے زیادہ وفود آنے چاہئیں.اس سال ابتداء ہو جائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.اگلے دو تین سال میں اس کا پورا انتظام ہو جائیگا.اور ہر ملک جلسہ میں شمولیت کے لئے اپنا وفد بھجوائے گا.یہاں ان کے لئے رہائش کا انتظام کرنا ہے.اکرام ضعیف کے حکم کے ماتحت ان کی عادتوں کے مطابق ان کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا انتظام کرنا ہے.ان کے ساتھ ایسے آدمی رکھنے ہیں جو ان کو ساری چیزیں بتاتے رہیں.پھر ان کے لئے ایسا انتظام کرنا ہے کہ جب وہ واپس جائیں تو ان کو ساری چیزیں بھولی ہوئی نہ ہوں.بلکہ کچھ تصاویر کی شکل میں، کچھ حافظہ کی مدد سے ، وہ اپنی اپنی جماعت میں جلسہ سالانہ کی روداد بیان کریں.اور بتائیں کہ انڈونیشیا کے وفد سے ملے تو اس نے ہمیں یہ باتیں بتائیں.امریکہ کے وفد سے ملے تو اس نے ہمیں یہ باتیں بتا ئیں.غرض یہ وفود اپنے اپنے ملک میں جا کر تقاریر کا ایک سلسلہ جاری کریں گے اور دوستوں کو بتائیں گے کہ جماعت احمد یہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے.دیر کی بات ہے میں اس وقت کالج کا پرنسپل اور افسر جلسہ سالانہ بھی تھا.ہمارے ایک افریقن دوست جلسہ سالانہ پر تشریف لائے ہوئے تھے.25 دسمبر کی شام کو وہ باہر ٹہل رہے تھے کہ اسی اثنا میں سیالکوٹ کی طرف سے ایک پیشل ٹرین آئی.جس میں اتنی بھیڑ تھی کہ بعض لوگ دروازں کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے اور وہ سب نعرے لگارہے تھے.ہمارے اس افریقن دوست نے جب یہ نظارہ دیکھا تو پوچھنے لگے کہ یہ سارے احمدی ہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ ہاں یہ سارے ماشاء اللہ احمدی ہیں.ابھی وہ وہیں کھڑے تھے کہ ایک اور سپیشل آگئی اور وہ بھی بھری ہوئی تھی اور جس میں سے دوست نعرے لگا رہے تھے.انہوں نے جب دوبارہ یہ نظارہ دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے.فرط جذبات سے کہنے لگے یہ بھی سارے احمدی ہیں اتنے زیادہ احمدی ہیں؟ اب ان کا اپنے ملک میں احمدیوں کا تصور اور تھا.مگر جب انہوں نے یہاں آکر دیکھا تو نقشہ ہی اور تھا.کانوں سے سننے اور آنکھوں سے دیکھنے میں بڑا فرق ہوتا ہے اور اس کا ایک تجربہ جلسہ سالانہ پر آنے سے ہی ہوتا ہے.پس وفود کی شکل میں جب ہر ملک سے دوست جلسہ سالانہ پر آئیں گے اور یہاں کے حالات کو دیکھیں گے تو ان کا علم بڑھے گا.میں نے بتایا تھا کہ ایک یوگوسلاوین جسے میں مہمان بنا کر انگلستان کے جلسہ پر لے گیا تھا.وہ سولہ سو آدمیوں کا جلسہ دیکھنے کے بعد کہنے لگا جب میں نے واپس جا کر اپنے 950

Page 968

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء دوستوں سے باتیں کیں تو وہ کہیں گے تم گئیں ماررہے ہو.اتنے احمدی کہاں سے آگئے.وہ افسوس کر رہا تھا کہ اگر تصویر میں لے کر جاتا تو ان کو پتہ لگتا.اب میں نے اس کو کہا ہے کہ کیمرہ اپنے ساتھ لے کر آنا.کیونکہ یہاں تو اسے دنیا ہی اور نظر آتی ہے جو شخص یہاں لاکھ سوالاکھ احمدی دیکھے گا.اس کا علم بہت بڑھ جائے گا.اس کی اگر تصاویر لے لی جائیں تو وہ شخص جو زبانی با تیں نہیں مانتا، جب تصویریں دیکھتا ہے تو اسے یقین کرنا پڑتا ہے.یہ ایسی چیزیں ہیں، جن کو دیکھ کر منکرین صداقت کہہ دیا کرتے ہیں کہ ان سے نہ ملو.یہ جادو کر دیتے ہیں.چنانچہ اگر نائیجیریا میں ہمارے خلاف جو مولوی بیٹھا ہوگا اس سے جب کوئی احمدی دوست یہ کہے گا کہ میں نے اسی ہزار آدمیوں کا کھانا پکتے تقسیم ہوتے اور کھلاتے دیکھا ہے تو وہ کہے گا، تم پاگل ہو گئے ہو، بھلا کبھی یہ دنیا میں ہوا ہے.وہ کہے گا معلوم ہوتا ہے اس (احمدی) پر جادو کر دیا گیا ہے.پس خدا تعالیٰ کے پیار اور اس کی رحمتوں کے جو نظارے ہم مشاہدہ کرتے ہیں وہ منکرین کی نگاہ میں وہ جادو ہے اور بس.وہ تو مان ہی نہیں سکتے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی جماعت پر اس قدر فضل نازل ہو سکتا ہے.غرض ایک یہ بھی وجہ بن جاتی ہے جادو گر کہلانے کی یا جادو کر دینے کی ٹھیک ہے ہمیں اللہ تعالیٰ کا پیار چاہیے.اس پیار کا نام کوئی جادور کھ لے تو یہ اس کی مرضی ہے.ہمیں اس قسم کی باتوں سے گھبراہٹ نہیں ہوتی.دنیا اس قسم کی باتیں کر کے خوش ہوتی ہے تو ہولے.ہم اپنی جگہ اپنے رب کریم سے بہت خوش ہیں.خدا تعالیٰ نے مومن کے روحانی عروج کا یہی مقام بتایا ہے کہ تمہارا رب تم سے راضی اور تم اپنے رب سے راضی.جب کسی شخص کو یہ شرف حاصل ہو جاتا ہے تو پھر اسے دنیا کی مخالفتوں کی کیا پرواہ ہے اور کیسی گھبراہٹ؟ غرض میں نے اس وقت دو باتوں کی طرف تمام احمدی جماعتوں کو توجہ دلائی ہے.ایک یہ ہے کہ ملک ملک سے جلسہ سالانہ پر وفود آئیں.دوسرے یہ کہ احباب آپس میں قلم دوستی کریں.قلم دوستی کے ضمن میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے ایسے آدمیوں کی تلاش ہے، جو میری ہدایت کے مطابق کام کریں.لیکن اس خطبہ کے ذریعہ غیر ملکوں میں اور خود اپنے ملک میں جہاں جہاں بھی میرا یہ پیغام پہنچے دوست رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں اور اپنے نام مجھے بھجوائیں.اصل منصوبہ یہیں سے بنے گا.یہ وہ چیزیں ان آٹھ دس چیزوں میں سے ہیں، جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے میری توجہ پھیری ہے.جو وسعت کو سمیٹ کر پیار کے بندھنوں میں باندھ کر قرب کی کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے آج از بس ضروری ہیں.ایک جلسہ سالانہ پر وفود کی شکل میں آنا اور دوسرے قلم دوستی کے ذریعہ ملک ملک کے 951

Page 969

خطبہ جمعہ فرموده 119اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم احمدیوں کا آپس میں بھائی بن کر اور ایک دوسرے کو خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے نشانات بتا کر اور خدا تعالیٰ کی محبت میں شدت پیدا کر کے مزید اور پہلے سے بڑی قربانیوں کے لئے تیار کرتے رہنا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے“.مطبوعه روزنامه الفضل 05 دسمبر 1973 ء ) 952

Page 970

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم نوع انسانی کی اصل عید خطبہ عیدالفطر فرمودہ 28اکتوبر 1973ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.د تمام بھائیوں اور بہنوں کو عید مبارک.خطبہ عید الفطر فرمودہ 28 اکتوبر 973 اسلامی تعلیم کے حسن کے ساتھ اور اسی کی وجہ سے اسلامی تہواروں میں بھی ایک حسن اور خوبصورتی نظر آتی ہے.جمعہ کی عید کے علاوہ ہمارے لئے سال میں دو بار عید آتی ہے اور ہر دو عیدوں کا تعلق ایک مومن مسلم احمدی کی زندگی کے دو پہلوؤں سے ہے ایک وہ عید ہے، جو بعض مخصوص عبادات کے بعد ماہ رمضان کے ختم ہونے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا ہوتی ہے.ایک دوسری عید ہے جو ایک دوسری قسم کی عبادات کے بعد ہمیں میسر آتی ہے گویا ہماری مومنانہ زندگی کے دو پہلوں سے ان دو عیدوں کا تعلق ہے.اسلام میں خوشی کا فلسفہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب انسان پر مہربان ہو اور اسے اللہ کا پیار اور اس کی رضا حاصل ہو جائے تو یہ اس کے لئے حقیقی خوشی کا موجب ہے اس طرح اگر چہ ایک مومن کی زندگی کا ہر لمحہ ہی عید ہے لیکن بعض چیزوں کو نمایاں کیا گیا ہے تا کہ ہم اپنی زندگیوں کے اس دور میں جس میں سے ہم گزررہے ہیں یا جس سے ہم غافل رہے، اس کا محاسبہ کرسکیں.نوع انسانی کی اصل عید تو اس سورج (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا طلوع تھا جو فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا.جس نے ایک دنیا کو منور کیا اور جس کے نور کی شعاعوں نے اندھیروں سے ایک عظیم اور فاتحانہ جنگ لڑی اور ظلمات کو دور کر دیا.مگر جیسا کہ مقدر تھا اور جیسا کہ پہلے سے خبر دی گئی تھی.کچھ عرصہ کے بعد اگر چہ اندھیرے بادلوں نے اس سورج کی روشنی کو چھپا دینا تھا.لیکن ایسی صورت میں یہ بشارت بھی دی گئی تھی کہ مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ وہی نوراسی کے غلاموں کی وساطت سے دنیا پر پھر طلوع ہوگا اور ساری دنیا کو اپنی نورانی شعاعوں کی لپیٹ میں لے کر ظلمات کو ہمیشہ کے لئے دور کر دے گا.پس جماعت احمدیہ کی عید تو اس صبح صادق کے ظہور سے شروع ہوئی، جس کی خبر پہلوں نے دی اور جس کی بشارت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے امت مسلمہ نے پائی.اس صبح صادق 953

Page 971

خطبہ عید الفطر فرمودہ 28 اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کے ظہور کے ساتھ اسلام کی عید دنیا پر نمایاں طور پر ظاہر ہوئی اور یہی ہمارے لئے خوشی منانے اور اچھلے کودنے کا موقع ہے.یعنی اس بات کے اظہار کا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جس طرح ہم نے پایا اور اس کے پیار کو حاصل کیا اسی طرح نوع انسانی کے لئے الہی رحمت اور پیار کے حصول کے مواقع اب میسر آنے والے ہیں.یہ صبح صادق کا ظہور اور ہماری عید کی ابتداء ہے اور اس صبح صادق کے ظہور کے بعد وہ زمانہ جب اسلام کا سورج اپنی پوری شان کے ساتھ نصف النہار تک پہنچ کر ساری دنیا کو اپنی نورانی شعاعوں میں لپیٹ لے گا.وہ ہماری عید کا عروج ہوگا.یہ عیدیں تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس حقیقی عید کی طفیلی عیدیں ہیں.اگر اسلام نہ ہوتا تو اس مبارک اور حسین شکل میں یہ عیدیں بھی نہ ہوتیں.پس ہماری یہ عید جسے ہم رمضان کے بعد مناتے ہیں یا حج کے موقعہ پر ہمارے لئے عید الاضحی کی شکل میں خوشی کا ایک اور موقع پیدا ہوتا ہے.یہ خوشی کے مواقع تو اسی صبح صادق کے ظہور کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جس کا تعلق اس سراج منیر سے ہے، جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود میں اپنے کامل انوار کے ساتھ دنیا میں جلوہ گر ہوا.مگران خوشیوں کے ساتھ قربانیوں کا تعلق ہے.ان خوشیوں کے ساتھ بڑی ذمہ داریوں کا تعلق ہے.ان خوشیوں کے ساتھ مومنانہ ایثار کا تعلق ہے.ان خوشیوں کے ساتھ عاشقانہ جانثاری کا تعلق ہے.ان خوشیوں کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہونے کے جذبہ صادق کا تعلق ہے.غرض ان خوشیوں کے ساتھ اسلام کو جیسا کہ وعدہ دیا گیا ہے ساری دنیا پر غالب کرنے کے لئے ان انتہائی قربانیوں کے دینے کا تعلق ہے.جن کا غلبہ اسلام کی مہم آج جماعت احمدیہ اور اس کے افراد سے مطالبہ کر رہی ہے.پس عید تو دراصل بہت کچھ لینے کے بعد بہت کچھ مزید دینے کے لئے منائی جاتی ہے.عید تو در اصل ایک نشان اور علامت ہے، اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے گذشتہ قربانیوں کے نتیجہ میں ہم نے کچھ حاصل کیا.عید ہمارے اس عزم کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہم نے اپنے رب غفور اور رب کریم سے جو کچھ حاصل کیا، اس میں زیادتی کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو پہلے سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے ہم پہلے سے زیادہ قربانی دیں گے.اور ہم اس مقصد کے حصول کی جدو جہد کو تیز کر دیں گے جس مقصد کے حصول کے لئے مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا اور ہی ہماری عید ہے.آپ فرماتے ہیں."یقیناً سمجھو کہ نصرت کا وقت آ گیا.اور یہ کاروبار انسان کی طرف سے نہیں اور نہ کسی انسانی منصوبہ نے اس کی بناڈالی.بلکہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہوگئی ہے، جس کی 954

Page 972

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطبہ عید الفطر فرموده 28 اکتوبر 73 پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر دی گئی تھی.خدا تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد کیا.قریب تھا کہ تم کسی مہلک گھڑے میں جا پڑتے.مگر اس کے باشفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اٹھالیا.سو شکر کرو اور خوشی سے اچھلو، جو آج تمہاری تازگی کا دن آگیا.خدا تعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی، کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا.وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو.جس میں موجود برکت کچھ بھی نہ ہو.وہ ظلمت کے کامل غلبہ کے وقت اپنی طرف سے نور پہنچاتا ہے.کیا اندھیری رات کے بعد نئے چاند کے چڑھنے کی انتظار نہیں ہوتی ؟ کیا تم سطح کی رات کو، جو ظلمت کی آخری رات ہے، دیکھ کرحکم نہیں کرتے کہ کل نیا چاند نکلنے والا ہے.افسوس کہ تم اس دنیا کے ظاہری قانون قدرت کو تو خوب سمجھتے ہو مگر اس روحانی قانون فطرت سے جو اسی کا ہم شکل ہے، بکلی بے خبر ہو“.اب دیکھو آپ کا یہ ارشاد کہ (ازالہ اوہام حصہ اول صفحه 504) خدا تعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا.اور اسی طرح آپ کا یہ فقرہ کہ ” وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو، جس میں موجود برکت کچھ بھی نہ ہو.قابل غور ہے.حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ وہ برکت، جس سے امت مسلمہ کا ایک بڑا حصہ ہاتھ دھو بیٹھا تھا.دوبارہ امت مسلمہ میں جماعت احمدیہ کو ملی.حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ ایک ایسی قوم تیار ہوئی، جس نے اس بات کا عزم کر لیا کہ وہ اسلام کے باغ پر پھر تر و تازگی کے سامان اسی طرح پیدا کرے گی جس طرح پہلوں نے اس باغ کو اپنے خونوں سے بھینچ کر اس کی تازگی اور خوبصورتی کا سامان پیدا کیا تھا.ہماری یہ عید دو قربانیوں کے زمانہ کے درمیان آتی ہے.لیکن ایک مومن کے چہرے پر پہلی اور مقبول قربانیوں کے نتیجہ میں پژمردگی اور تھکن کے وہ آثار نمودار نہیں ہوتے جو بسا 955

Page 973

خطبہ عید الفطر فرمودہ 28 اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اوقات دنیا داروں کی کوششوں میں ناکامی کے بعد ان کے چہروں پر انسان کو نظر آتے ہیں.نہ ہی مومن کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے.یہ سوچ کر کہ اب اسے پہلے سے زیادہ قربانیاں دینی پڑیں گی.بلکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم فضلوں کے حصول کے بعد اور ان عظیم رحمتوں کے پالینے کے بعد جن کا حصول قربانیوں کا مرہون منت ہے.مومن کے چہرہ پر وہی تازگی ، وہی بشاشت، وہی خوشی ، وہی خوشحالی کے آثار اور وہی اطمینان نظر آتا ہے جو اس کے چہرے پر ہونا چاہیے جو اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے رب کریم کی گود میں گزار نے والا ہے.اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہارے لئے دو جنتیں تیار کی گئی ہیں.ایک جنت وہ ہے، جس کا تعلق اسی دنیوی زندگی کے ساتھ ہے اور ایک جنت وہ ہے جس کا تعلق اخروی زندگی کے ساتھ ہے.یعنی ایک جنت وہ ہے جس میں جنت کے باوجود امتحان بھی ہیں ، ابتلا بھی ہیں، اور آزمائش بھی ہیں.گویا اس دنیوی جنت میں اللہ تعالیٰ کبھی اموال واپس لے کر آزمائش کرتا ہے.کبھی ( قرآن کریم کہتا ہے ) دوسروں کی زبانیں تمہارے لئے ایذا رسانی کے سامان پیدا کریں گی.کبھی اسلام کہتا ہے، تمہارا امتحان تمہارے خونوں کی قربانی سے لیا جائے گا.کبھی خدا تعالی فرماتا ہے ہم تمہارے جذبات کو ابتلاء میں ڈال کر تمہارا امتحان لیں گے.کبھی کہتا ہے کہ تمہیں اپنے بیوی اور بچوں کی قربانی دے کر میرے امتحان پر پورا اترنا ہوگا.بھی کہتاہے تہاری دوستیں چھین لی جائیں گی لیکن تمہارے چہروں کی مسکراہٹیں نہیں.چھینی جاسکیں گی.کبھی کہتا ہے تمہیں یہ قربانی دینی پڑے گی اور کبھی قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایک دوسری قسم کی قربانی دینی پڑے گی.مگر ان ساری قربانیوں کے باوجود، ان سب ابتلاؤں اور امتحانوں کے ہوتے ہوئے اس دنیوی زندگی کو جنت کہا گیا ہے.اور یہ ایک سوچنے والی بات ہے ایک مومن تو اسے جنت محسوس کرتا ہے کیونکہ یہ سارے ابتلاء اور امتحان اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے پیار کواور بھی تیز کرنے والے ہیں.جس شخص کے دل میں یہ یقین ہو کہ وہ اپنے رب کریم سے اس کی رضا اور پیار کو حاصل کر رہا ہے.وہ ان ابتلاؤں اور ان امتحانوں اور ان قربانیوں کو کوئی چیز ہی نہیں سمجھتا.وہ ان کو اپنی راہ کے کانٹے نہیں سمجھتا.بلکہ وہ ان کو اپنے راستے کے پھول پاتا ہے.کیونکہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے پیار کے بڑے حسین جلوے اس پر ظاہر ہوتے ہیں.اسی لئے جو الفاظ اس جنت کے متعلق کہے گئے ہیں جو اس زندگی کے بعد آنے والی ہے، قرآن میں وہی الفاظ اس دنیوی زندگی کی جنت کے متعلق بھی کہے گئے ہیں اور وہ یہ ہیں : وُجُوهٌ يَوْمَبِذٍ مُّسْفِرَةٌ ضَاحِكَةً مُّسْتَبْشِرَةٌ 8 (عبس 39,40) یعنی کچھ چہرے روحانی مسرتوں سے اس دن روشن ہوں گے ہنستے مسکراتے اور خوش و خرم ہوں گے.956

Page 974

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطبہ عید الفطر فرمودہ 28 اکتوبر 1973ء رہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص کے دل میں ایمان کی بشاشت پیدا ہو جائے ، اس کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا.اور اصل مسرت اور بشاشت تو دلوں میں پیدا ہوتی اور چہروں سے ظاہر ہوتی ہے.اسی لئے جماعت احمدیہ کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ دنیا جس طرح چاہے ان کا امتحان لے لے، وہ ان کے چہروں کی مسکراہٹیں ان سے نہیں چھین سکتی.یہ دنیا کی طاقت میں نہیں.اس لئے کہ احمدیوں کے چہروں کی مسکراہٹیں اور بشاشت اور مسرت کے جذبات ان کے جسم کی نس نس اور روئیں روئیں سے نکل ہوتے ہیں.ان کا منبع خدائے قادر مطلق اور قادر وتوانا کی ذات ہے.اس کے مقابلہ میں جو ابتلاء اور امتحان ہیں، ان کا منبع بھی الہی منشا سے ہے.یہ تو درست ہے لیکن ان کا تعلق ایک لحاظ سے خدا تعالیٰ کی اس مخلوق سے ہے جن کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ اے خدا ان پر بھی فضل فرما، کیونکہ یہ جوحرکتیں کر رہے ہیں اس لئے کر رہے ہیں کہ یہ سمجھتے نہیں.نہ یہ اپنا مقام پہنچانتے ہیں.نہ ان کو اسلام کی عظمت کا خیال ہے.اور نہ ہی مہدی معہود علیہ السلام کی شان کو پہچانتے ہیں.حالانکہ مہدی معہود علیہ السلام ساری امت مسلمہ میں سے وہ فرد واحد ہے، جس پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سلام بھیجا.مگر لوگ اس کی قدر نہیں کرتے اور اس کے مقام کو نہیں پہچانتے.بایں ہمہ ہم ان کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اے خدا جس طرح تو ہمارے لئے یہاں دنیوی جنتوں کے سامان بھی پید کر رہا ہے اسی طرح تو ہمارے مسلمان بھائیوں کے لئے بھی دنیوی جنتوں کے سامان پیدا کرتا کہ پھر ان کے لئے اخروی جنتوں کے سامان بھی پیدا ہو جائیں.پس ہمارے چہرے تو ہر وقت مسکرانے والے چہرے ہیں.ہمارے چہروں کی مسکراہٹوں کو چھینے والا کسی ماں نے کوئی بچہ نہیں جنا.اس لئے کہ ہمارے کان میں ہر لحظہ خدا کے پیار کی آواز پڑتی ہے.اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس صبح صادق کی روشنی کو دیکھنے اور پہچاننے کی توفیق عطا فرمائی، جو اسلام کے آخری غلبہ کے لئے مقدر تھی.پس جس شخص کو ابدی نور کی کرنیں میسر آجائیں ، وہ اندھیروں اور ظلمتوں سے ڈرا نہیں کرتا.کیونکہ وہ تو خود ایک روشن مینار بن جاتا ہے.روشن مینار کے گرد ظلمات نہیں آیا کرتے.نہ اندھیروں کی یلغار جو کبھی منہ (زبان) کے اندھیروں کی کبھی ہاتھ کے اندھیروں کی اور کبھی ظالمانہ منصبوں کے اندھیروں کا روپ دھار لیتی ہے.وہ نور کے میناروں کے گرد جونور کی فضا ہوتی ہے، اس کو دور نہیں کرسکتی.بلکہ یہ اندھیرے قریب آنے کی کوشش کرتے اور بھاگ جاتے ہیں.اس لئے ہمارے چہرے اس آیہ کریمہ کے مطابق آج بھی عید کی اس ظاہری علامت کے طور پر مسفرہ یعنی روحانی مسرتوں سے روشن ہیں.ہم ہنتے اور مسکراتے ہیں.ہم خوش و خرم ہیں.اس لئے کہ ہمیں اپنے رب کریم کا پیار ملا.957

Page 975

خطبہ عید الفطر فرمودہ 28 اکتوبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ہمیں یہ یقین دلایا گیا ہے کہ اسلام کے غلبہ کا زمانہ آ گیا.ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تمام بشارتیں جو امت مسلمہ کو یہ کہہ کر دی گئی تھیں کہ ایک جماعت پیدا ہوگی.جس کے ذریعہ اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا.ان کے پورے ہونے کا وقت آگیا ہم خدا کے عاجز بندے ہیں ہم کمزور اور گنہگار بندے ہیں.ہم ذرہ ناچیز سے بھی ناچیز ہیں.مگر خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ اس نے اپنی حکمت کا ملہ سے غلبہ اسلام کی عظیم مہم کے لئے ہمیں چنا.ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز ہیں.ہماری ہر قوت اور ہماری ہر شے (جس کے ہم مالک ہیں اسی کے فضل سے ) اس کی راہ میں قربان ہونے کیلئے ہر وقت تیار ہے.پس یہ قوم وہ قوم ہے جو ہنستے مسکراتے عید میں مناتے شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جانے والی ہے.اس لئے اے خدا کی پیاری قوم! خدا تیرے لئے اس عید کو اور اس کے بعد بھی ہر آنے والی عید کو مبارک کرے اور اپنے پیار کو تیرے لئے زیادہ سے زیادہ مقدر کرے.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا:.اب ہم دعا کریں گے.سب دوست دعا میں شامل ہوں.اللہ تعالیٰ ان وعدوں کو جو ہمیں دیئے گئے ہیں، ہماری زندگیوں میں پورا ہونے کے زیادہ سے زیادہ سامان پیدا کرے.اسلام کے عالمگیر غلبہ کی خوشیاں ہی ہمارے لئے حقیقی خوشیاں ہیں.ان سے ہم اور ہماری آنے والی نسلیں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے والی ہوں.اسی طرح ہمارے خاندان نسلاً بعد نسلاً خدا کی راہ میں قربانیاں دینے والے اور اس کے پیار کو پانے والے ہوں.آؤ دعا کرلیں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 26 فروری 1974ء) 958

Page 976

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم خطاب فرمودہ 26 دسمبر 1973ء آسمانوں پر جو فیصلہ ہو چکا ہے، زمین کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی خطاب فرمودہ 26 دسمبر 1973ء بر موقع جلسہ سالانہ سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں: رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيَّا تُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِةً رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ( آل عمران 194-195) رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِة اور پھر فرمایا.(الاعراف: 90) حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانو! تم مغرب کے اندھیروں میں مستانہ وار گھس کر خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرتے اور اس کی توحید کو قائم کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہو.اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تم پر سلام ہو.اے اسلام کے فدائیو! تم خوابیدہ مشرق کی فضاؤں میں گھستے ہو اور اسلام کی اشاعت کے لئے ہزاروں میل دور جا کر اور جزائر جزائر پھر کر لوگوں تک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے روحانی فرزند حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کا پیغام پہنچاتے ہو.تم پر اللہ اور اس کے رسول کا سلام ہو.اے وہ گروہ ! جو شمال کی برفانی ہواؤں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شمال کی بلندیوں کی طرف پرواز کرتے ہوئے ، ان لوگوں تک خدائے اعلیٰ کا پیغام پہنچاتے ہو، جو مادی بلندیوں کو تو پہچانتے ہیں مگر روحانی رفعتوں سے بے بہرہ اور غافل ہیں.تم پر اللہ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام ہو.اور اے وہ لوگو! جو زمین کے جنوبی کناروں تک پھیل کر قرآن کریم کی عظمت کو لوگوں کے دلوں میں بٹھانے کی کوشش کرتے ہو، تم قرآن کریم کی عظیم بشارتوں کے وارث بنو.اور اسلام، بانی اسلام اور بانی اسلام کو بھیجنے والے خدا کا تم پر سلام ہو.959

Page 977

خطاب فرمودہ 26 دسمبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم اے ہمارے رب! ہم نے ایک ایسی آواز سنی جو نہایت شیریں اور پیاری ہے.اور اسلام کی ہمدردی اور تنخواہی سے لبریز ہے.یہ وہ آواز ہے، جو ہمیں کہتی ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور تمہیں خدا کی طرف لے جانے کے لئے آئی ہوں.یہ وہ آواز ہے، جس نے ہمیں نور فراست عطا کی.جوصرف اسلام کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے.یہ وہ آواز ہے، جس نے ہمارے دلوں میں توحید حقیقی اور عظمت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قائم کیا.یہ وہ پیاری آواز ہے، جس نے ہمیں علی وجہ البصیرت یہ یقین دلایا اور ہمیں اس ایمان پر قائم کیا کہ قرآن کریم نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آخری شریعت ہے بلکہ ایک کامل اور مکمل ہدایت نامہ ہے.انسان کی نجات کی سب راہیں اسی سر چشمہ سے نکلتی ہیں.خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا ہر راستہ قرآن کریم کے نور ہی سے منور ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے.ہم نے اس آواز کو سنا ، ہم اس منادی پر ایمان لائے.ہم نے اس حقیقت کو جانا اور اس صداقت کو پہچانا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ اسلام کی آخری جنگ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ جیتی جائے گی.آخری فتح اسلام کو ہوگی ، تمام شیطانی قوتیں پسپا ہو جائیں گی ، اسلام کا سورج تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ہر ملک میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند ہو گا.دوسرے سب جھنڈے سرنگوں ہو جا ئیں گے.یہ جنگ شروع ہو چکی ہے.اس جنگ کو جیتنے کے لئے ہمیں کہا گیا ہے کہ تم اپنی جانوں کو اور اپنے مالوں کو اور اپنی اولادوں کو ، غرض ہر اس چیز کو جو تمہاری طرف منسوب ہوتی ہے اور تم اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھتے ہو، اسے خدا کی راہ میں قربان کر دو.تا کہ خدا کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت بنی نوع انسان کے دل میں بیٹھ جائے.اس آواز کو سن کر اس پر لبیک کہتے ہوئے ، ہم ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے.لیکن اے ہمارے رب! ہم کمزور ہیں، ہماری فطرت میں بھی کمزوری ہے.ہماری غفلتوں کے نتیجہ میں بھی ہم سے کمزوریاں اور گناہ سرزد ہو جاتے ہیں.فَاغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا اے ہمارے محبوب آقا! ہمارے مالک و خالق خدا! تو اپنے فضل سے اپنے فرشتوں کے ذریعہ ہمارے لئے ایسے سامان پیدا کر کہ ہم گناہوں اور غفلتوں اور سستیوں اور کوتاہیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں.اگر کبھی ہم سے بشری کمزوری کے نتیجہ میں غفلت اور گناہ سرزد ہو جائیں تو اے ہمارے پیارے رب ! تو ہمیں ہماری غفلتوں اور گناہوں کے برے نتائج سے بچا اور تو ہمیں اپنی راہ میں اس قسم کی اور اس قدر نیکیوں کی تو فیق عطا فرما کہ گویا ہم نے بھی گناہ کیا ہی نہیں.کیونکہ نیکیاں گناہوں کو 960

Page 978

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم خطاب فرمودہ 26 دسمبر 1973ء مٹادیا کرتی ہیں.اے ہمارے رب ! جب ہم نے اس منادی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تمام ادیان کو تیری طرف بلانے کی کوشش کی تو مخالفین اسلام کو تو غصہ آنا ہی تھا کیونکہ انکو تو یہ نظر آنے لگا کہ اب پیار کے ساتھ ، دلائل کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ کے روحانی فرزند پر نازل ہونے والے آسمانی نشانوں کے ذریعہ سارے ادیان مٹا دیئے جائیں گے.اس رنگ میں کہ ان کے ماننے والے حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں گے.وہ لوگ بھی جن کی چودھراہٹ جاتی تھی یا جن کی قیادت پر ہاتھ پڑتا تھا یا اس وعظ کے نتیجہ میں جن کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اس طرح ان کی روزی ان سے چھن جائے گی، کیونکہ وہ رب العالمین خدا پر حقیقی ایمان نہیں لاتے تھے انہوں نے بھی اس آواز کو دبانے کے لئے بھر پور کوشش کی حتی کہ ساری دنیا اکٹھی ہوگئی کہ یہ آواز بلند نہ ہو.مشرق اور مغرب کی طاقتیں اور دنیا کے امیر ترین ممالک اس آواز کو دبانے کے لئے صف آراء ہو گئے.وہ جو صاحب اقتدار تھے اور ساری دنیا کو اپنے قبضے میں سمجھتے تھے اور اپنے ملکوں سے باہر کے لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے تھے، اس اکیلی آواز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے.غرض دنیا کی ساری دولتیں، سارے اقتدار، ساری طاقتیں، سارے ہتھیار اور لوگوں کے ہر قسم کے منصوبے ان کے علم ، ان کے فلسفے ، ان کی سائنس اور ان کی ایجادات اس کیلی آواز کو جو آج سے 80-85 سال پہلے دنیا میں بلند ہوئی تھی، اس کو دبانے کے لئے اکٹھی ہو گئیں.مگر وہ اکیلی آواز آج لاکھوں انسانوں کی آواز بن کر ساری دنیا کے گرد چکر لگارہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.اے ہمارے رب! ہم نے ان واقعات میں تیرے قادرانہ تصرفات کو دیکھا اور ہم اس یقین پر قائم ہوئے کہ جو تجھ سے چمٹ جاتا ہے، وہی سب کچھ پالیتا ہے.اور جو تجھ سے دور رہتا ہے، اس کی ہلاکت ہے.اے ہمارے رب! ہم تیرے حقیر اور عاجز بندے ہیں، ہم تیرے کمزور اور بے کس بندے ہیں، ہم تیرے بے یار و مددگار بندے ہیں، ہم تیرے بے زر اور بے مال بندے ہیں.ہم تیرے قدموں کو پکڑتے ہوئے اور تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے، دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں.اے خدا! ہماری ان حقیر کوششوں کی کم مائیگی اور کمزوری کی طرف نہ دیکھ ، اس جذ بہ کو دیکھ ، جو ہمارے دلوں میں سمندروں کی طرح موجزن ہے.ہمیں ہر لمحہ یہ خیال تڑپاتا ہے کہ کسی طرح تیرے بندے جلد تیری گود میں واپس آجائیں.وہ ایک لمحہ بھی شیطان کی گود میں نہ رہیں.اے خدا! تو ہماری ان کوششوں میں برکت ڈال اور آسمان سے فرشتوں کے نزول سے ہماری مددفرما.جسمانی لحاظ سے بھی ہمیں صحت مند رکھ، ہمارے اندر اپنی محبت کی وہ تپش پیدا کر ، جو اس گہری دھند کو، سردی کی اس شدید لہر کو اور ان آبی 961

Page 979

خطاب فرمودہ 26 دسمبر 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم بخارات اور ان کے برے اثرات کو منادیتی ہے.اے خدا! تیری محبت کی گرمی ہمارے وجود کر گرم رکھے اور ہمیں عمل پیہم کی تو فیق عطا کرتی رہے.تاکہ دنیا بھی یہ سمجھ لے، دنیا بھی یہ جان لے کہ اور دنیا بھی یہ پہچان لے کہ ہمارا رب اور ان کا رب جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے اور اس کی مدد اس کو حاصل ہے.اور اس کے فرشتے اس کی نصرت کے لئے آسمانوں سے نازل ہوتے ہیں.اور دنیا کو یہ بات بھی سمجھ میں آجائے کہ آسمانوں پر جو فیصلہ ہو چکا ہے، زمین کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی.پس ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرمائے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل ہماری کوششوں کو ، ہماری قربانیوں کو اور اس ایثار کو جو اس کے حضور جماعت احمد یہ اور اس کے افراد کی طرف سے خلوص نیت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، قبول فرمائے.اور دینی اور دنیوی برکات سے ہمارے گھروں کو بھر دے.اور اے خدا! جس طرح تو نے ہمارے دلوں میں اپنی محبت کی شمع روشن کی ہے، اسی طرح ہماری آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی اپنی محبت کی ایسی تپش پیدا کر کہ وہ ان کے دل سے ہر دوسری چیز کو جلا کر راکھ کر دے.اللہ کے سوا ہماری اور ہماری نسلوں کی توجہ کو کوئی چیز اپنی طرف کھینچنے والی نہ ہو.جب ہم تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، اپنے گھروں سے نکلیں تو اے ہمارے رب ! تو ہمارا بھی حافظ و ناصر ہو اور جن کو پیچھے ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے ہیں، ان کی حفاظت فرما.ہم تیرے عاجز بندے ہیں تو اپنے فضل سے ہم سب کی حفاظت اور خوشحالی اور بہتری کے سامان پیدا کر.دعا تو آج کی دنیا کی اور آج کے زمانہ کی ایک ہی ہے.(باقی تو ذیلی دعائیں ہیں ) اور وہ یہ کہ اے ہمارے رب! تو نے اسلام کے آخری غلبہ کی اور حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دنیا کے ہر دل میں پیدا ہو جانے اور توحید حقیقی کا جھنڈا ہر گھر میں لہرانے کی جو بشارتیں دی ہیں، اے ہمارے پیارے رب کریم ! تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر کہ یہ بشارتیں ہماری زندگیوں ہی میں پوری ہو جائیں.تاکہ جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں تو ہمارے دل اس خوشی سے معمور ہوں کہ جو فرض ہمارے کمزور کندھوں پر عائد کیا گیا تھا.اس کو ہم نے تیری ہی توفیق سے اے ہمارے مولا! اور تیری رضا کے مطابق ادا کر دیا ہے.اے ہمارے رب ! تو ایسا ہی کر اللهم آمین اللهم آمین، اللهم آمین !!! آواب دعا کرلیں.مطبوعه روزنامه الفضل 11 جنوری 1974 ء) 962

Page 980

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم اقتباس از خلاصه خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1973ء ہمارا عزم یہ ہے کہ دنیا کے ہر ہوٹل کے ہر کمرے میں قرآن مجید رکھوادیں خلاصہ خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1973ء بر موقع جلسہ سالانہ حضور نے فرمایا:."...امسال افریقہ کے 5 ممالک کے 31 ہوٹلوں میں 2867 قرآن مجید رکھوائے گئے.ہمارا عزم یہ ہے کہ دنیا کے ہر ہوٹل کے ہر کمرے میں قرآن مجید رکھوا دیں“.پھر حضور انور نے تحریک جدید کے کام کا جائزہ لیا اور بتایا کہ اس کے ماتحت انگریزی ، ڈچ ، جرمنی، ڈینش، انڈو نیشین اور سواحیلی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم ہو چکے ہیں.19 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں.سکنڈری سکول اور تین میڈیکل سینٹر کام کر رہے ہیں“.حضور نے نصرت جہاں سکیم کے ماتحت ہونے والے کام کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے جماعت سے ایک لاکھ پونڈ کا مطالبہ کیا تھا اور 5 سال میں افریقہ کے مختلف ممالک میں 16 طبی مراکز قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ڈیڑھ سال کے عرصہ میں 16 سے زیادہ طبی مراکز قائم ہو چکے ہیں اور جماعت نے ایک لاکھ کی بجائے دو لاکھ پونڈ ( پچاس لاکھ روپیہ ) اس مد میں پیش کر دیا.اور آمد اس کی 70لاکھ روپیہ تک پہنچ گئی ہے.وو آخر میں حضور نے فرمایا:.....ہماری جماعت کی ابتدائی حالت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لنگر خانہ میں ایک کنواں لگوانے کے لئے 250 روپے کی تحریک فرمائی اور حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ عنہ کو خط میں تحریر فرمایا کہ ہم نے آپ کے ذمہ 2 آنہ چندہ لگایا ہے.لہذا آپ یہ دو آنے بھجوا دیں.یہ ابتدا تھی اور اس کے مقابلہ میں اب یہ حالت ہے کہ 25 لاکھ روپیہ کی اپیل کی جاتی ہے اور جماعت پچاس لاکھ روپے سے بھی زیادہ شرح صدر سے پیش کر دیتی ہے.ہمارے قلوب اللہ تعالیٰ کی حمد سے ہمیشہ لبریز رہنے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا فضل واحسان ہے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 29 دسمبر 1973 ء ) 963

Page 981

Page 982

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد چہارم وو ارشادات فرمودہ 31 مارچ 1973ء ہمارا تو کل اور ہمارا بھروسہ اللہ تعالی کی ذات پر ہے ارشادات فرمودہ 31 مارچ 1973ء برموقع مجلس مشاورت جہاں تک جماعت احمدیہ سے اس کا تعلق ہے، آج سے کئی سال قبل سیرالیون اور بعض دوسری جگہوں پر بھی ہمارے سکول حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیے تھے.صرف سیرالیون میں چار ہائر سیکنڈری سکول قومیالیے گئے تھے، تو وہاں کی جماعت نے مجھے بھی لکھا کہ اب کیا ہوگا.میں نے کہا، کچھ نہیں ہوگا.تم آرام سے بیٹھو، خدافضل کرے گا.کیونکہ ہمارا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہے کسی انسان پر نہیں ہے.کل بھی میں نے اپنے خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ اس کفر و ایمان کی حقیقت کیا ہے، جس کی بنیاد انسان کی سند یا فتویٰ پر ہو تو کیا انسان کا فتویٰ اسے کافر بنادے گا ؟ ( یہ بات میں اس لیے دہرا رہا ہوں کہ بہت سے دوست جن میں بعض امراء بھی تھے تاخیر سے پہنچے تھے وہ میرا خطبہ نہیں سن سکے تھے ) لیکن جس شخص کو خدا کہتا ہو کہ تو مومن ہے اسے کسی انسان کی سند یا فتوی کی ضرورت نہیں ہوتی.مجھے تو خدا کہتا ہے کہ تو مومن ہے.یہ خدا کا فضل ہے اور اس کا رحم ہے.آپ کو بھی خدا نے یہی کہا ہے.کسی کو بالواسطہ کہا ہے، کسی کو بلا واسطہ کہا ہے.پس جس کو خدا کہتا ہے کہ تو مومن ہے.اس پر ساری دنیا کے مولوی مل کر یا ساری دنیا کی حکومتیں اکٹھی ہو کر کفر کا فتویٰ لگائیں تو اس کے ایمان کی حقیقت تو نہیں بدل سکتی.البتہ شور مچے گا.قربانیاں دینی پڑیں گی لیکن جب ایمان کی حقیقت انسانی سند یا فتویٰ پر نہیں تو پھر کفر کا فتویٰ کیا اثر کرے گا.کیونکہ انسانی مخلوق خدا سے زیادہ طاقتور تو نہیں ہوتی.میں بتا رہا ہوں کہ ہمارا تو کل اور ہمارا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے اور اسی کی رضا ہمارا منتہائے مقصود ہے.اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا ہے تو اس بات کا کہ کہیں ہم اس کی نگاہ میں گرنہ جائیں.ہمیں یہ خوف کبھی نہیں ہوا کہ انسان کی نگاہ میں نہ گر جائیں.انسان سے ہمارا کیا واسطہ اور دنیوی حکومتوں سے ہمارا کیا تعلق؟ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ فرماتے ہیں:.مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار 965

Page 983

ارشادات فرموده 31 مارچ 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم چنانچہ جب سیرالیون کے دوستوں نے مجھے لکھا کہ ہمارے سکول حکومت نے اپنی ملکیت میں لے لیے ہیں تو میں نے کہا کوئی بات نہیں تم اپنا کام کئے جاؤ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.جب انہوں نے ہمارے سکول قومی ملکیت میں لے لیے تو پہلے تو ہمیں کہنا پڑتا تھا کہ مثلاً فلاں جگہ سکول کی عمارت میں ایک نئے wing( ونگ) کی ضرورت پڑگئی ہے.نصف ہم خرچ کرتے ہیں اور نصف حکومت دے تا کہ وہ حصہ عمارت بھی مکمل ہو جائے.مگر اب قومی ملکیت میں لینے کا مطلب یہ نکلا کہ سارا خرچہ حکومت کرے گی.پالیسی ہماری چلے گی.پہلے ہم کہتے تھے کہ اپریس منگوانے کے لیے امپورٹ لائسنس دو.اس سلسلہ میں کئی افراد کی خوشامد میں کرنی پڑتی تھیں.کئی ایک کو سمجھانا پڑتا تھا کہ ہم اس غرض کے لیے منگوا رہے ہیں وغیرہ.چنانچہ کئی مہینے نخرے دکھانے کے بعد حکومت اجازت دیتی تھی اور امپورٹ لائسنس ملتا تھا.اب وہ کہتے ہیں کہ سکولوں کا سامان ہم منگوا کر دیں گے اور پیسے بھی ان کے ہوں گے.ہمیں کیا نقصان ہوا.ہمارے سکولوں کی شہرت تو اب بھی قائم ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمارے سکول احمد یہ کہلاتے ہیں.سکول کا لفظ نہیں بولتے یعنی سیرالیون کا عام آدمی ہمارے سکولوں کو احمدیہ کے لفظ سے پکارتا ہے مثلا بیٹا کہتا ہے باپ سے کہ میں نے احمد یہ میں داخل ہونا.اس سے مراد احمد یہ سکول میں داخل ہونے کی خواہش ہوتی ہے.چار ہائر سکینڈری سکول اگر چہ حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیے.لیکن سٹاف کا سارا خرچ حکومت برداشت کر رہی ہے.اور سارے اپریٹس وغیرہ کا جو خرچ یا دیگر سامان ہے یا عمارت کا کوئی نیاونگ بنانا ہے،اس کا سارا خرچ حکومت اٹھاتی ہے.فری ٹاؤن میں ہمارا ہائرسکینڈری سکول (انٹر میڈیٹ کا لج ) بہت اچھا کام کر رہا ہے.حکومت نے ایک وقت میں فیصلہ کیا تھا کہ کسی ہائر سکینڈری سکول میں چار سو سے زیادہ طالب علم نہیں ہوں گے.لیکن پبلک نے شور مچادیا کہ تمہارا یہ قانون احمدیہ پر نہیں چلے گا.یعنی عوام نے یہ مطالبہ کیا کہ حکومت اپنا فیصلہ واپس لے چنانچہ حکومت عوام کے مطالبہ کے سامنے مجبور ہو گئی یہ کہنے پر کہ ہمارے اس قانون سے ریہ یعنی چاروں احمد یہ سکول مستثنی ہوں گے.یہ تو ان سکولوں کا حال ہے جو پہلے سے کام کر رہے ہیں.اب تو نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے ماتحت وہاں اور بھی سکول کھل رہے ہیں.ایک تو حال ہی میں کھل چکا ہے.آپ نے اس کے متعلق غالبا الفضل میں پڑھا ہوگا.اگر ابھی تک نہیں چھپا تو آپ سن لیں کہ وہاں سکول کے اجراء پر جو تقریب منعقد ہوئی ، اس میں وہاں کے وزیر نے شمولیت کی اور بڑی خوشی کا اظہار کیا.966

Page 984

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم ارشادات فرمودہ 31 مارچ 1973ء غرض جہاں تک ان سکولوں پر خرچ کا تعلق ہے ، حکومت کی تحویل میں چلے جانے کے بعد حکومت کرتی ہے.لیکن جہاں تک نظم و نسق چلانے اور ماحول کو کنٹرول کرنے کا کام ہے ، وہ ہمارے ہاتھ میں ہے.گویا خرچ سارا حکومت کر رہی ہے اور کام سارا ہم کر رہے ہیں.چنانچہ جب 70ء میں میں مغربی افریقہ کے دورے پر گیا تو اس وقت جو کلاس پاس ہو کر نکلی ، اس ساری کی ساری کلاس نے بیعت کی اور سندات لے کر چلے گئے.اب بھی مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس سال فارغ ہونے والی کلاس نے بھی بیعت کر لی ہے.گویا سارا خرچ حکومت کر رہی ہے مگر وہاں اخلاقی فضاء پیدا کرنا اسلامی اخلاقیات سے روشناس کرانا، اخلاقی اسباق دینا ، قرآن کریم سکھانا، صحیح اسلام پیش کرنا اس میں ہم آزاد ہیں.ہم پر کوئی پابندی نہیں ہے تو پھر کیا نقصان ہوا.ہمیں تو فائدہ پہنچا.خرچ حکومت کے ذمہ اور کام ہمارا ہو رہا ہے.تحریک جدید کے کام اور ذرائع ہر دو میں 1944ء کے بعد ایک انقلاب عظیم جو بپا ہونا شروع ہوا تھا.اس نے اب پوری وسعتوں کے ساتھ صحیح شکل اختیار کر لی ہے.1944ء تک تحریک جدید کے سارے کاموں کا بوجھ جماعت ہائے احمد یہ ہندوستان پر تھا.بیرون ہندوستان آمد کا کوئی ذریعہ نہیں تھا.نہ چندے کی شکل میں اور نہ کسی اور شکل میں.میں نے اس سلسلہ میں شوری یا جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی دوستوں کے سامنے بعض باتیں کی تھیں اور بتایا تھا کہ 1944ء کے بعد آہستہ آہستہ بیرون پاکستان کی جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑی ہونی شروع ہوئیں.اور وہ غرض جس کے لیے تحریک جدید کو قائم کیا گیا تھا، گو وہ اپنے کمال کو تو ابھی نہیں پہنچ سکی.شائد ایک صدی اور لگ جائے.لیکن ایک انقلاب کی نمایاں شکل ہمیں نظر آنے لگ گئی.ایک وہ زمانہ تھا جب بیرون پاکستان تبلیغ کا سارے کا سارا بوجھ جماعت احمد یہ ہندوستان اٹھا رہی تھی.اور آج 27 ،28 سال کے بعد تحریک جدید کے جس بجٹ کو آپ نے پاس کیا ہے، اس میں 16 لاکھ روپیہ کا بوجھ پاکستان کی جماعتوں پر ہے.اور اس کے مقابلہ میں 96لاکھ روپے کا بوجھ بیرون پاکستان کی جماعتوں پر ہے.گویا مالی قربانی کے لحاظ سے آپ اور ان میں ایک اور چھ کی نسبت ہے.سولہ لاکھ کے مقابلہ میں قریباً ایک کروڑ روپیہ بیرون پاکستان کی جماعتوں کے چندے یا دوسرے ذرائع آمد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں.پھر آپ اس امر کو بھی مدنظر رکھیں کہ آپ نے بیرون پاکستان کا بجٹ بقدر 96 لاکھ روپے اپنے بھائیوں کی غیر حاضری میں پاس کیا ہے.اور فنی اعتبار سے 96 لاکھ روپے کا بوجھ اپنے ان بھائیوں کے کندھوں پر ڈالا ہے، جن کی آپ نے رائے نہیں لی.اور مجھے قوی امید ہے کہ وہ اپنے حصے کا بجٹ بقدر 96 967

Page 985

ارشادات فرموده 31 مارچ 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم لاکھ روپے ضرور پورا کریں گے.اور خود اپنے کندھوں پر صرف 16 لاکھ روپے کا بوجھ ڈالا ہے.یعنی ان جماعتوں پر جن کے نمائندے یہاں موجود ہیں.پس اس لحاظ سے بھی یہ امر آپ کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور آپ کا فرض ہے کہ آپ 16 لاکھ روپے کے بجٹ کو پورا کریں.اپنے ان بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، جن پر مالی بوجھ تو ڈالا گیا ہے لیکن وہ اس موقع پر حاضر نہیں ہیں، وہ اس شوری میں شریک نہیں ہیں.جو دوست اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، ان کا تو بدرجہ اولیٰ فرض ہے کہ وہ تحریک جدید کی مالی قربانیوں کو ادا کرنے میں مقدور بھر سعی کریں.آپ نے 16 لاکھ روپے کا جو بوجھ اپنے کندھوں پر ڈالا ہے، اس میں آپ کے لیے جو ٹارگٹ مقرر کیا گیا تھا، اس میں ایک لاکھ تئیس ہزار روپے (1,23,000) کی کمی ہے.اور اس سے چھ گنا زیادہ بوجھ آپنے اپنے ان بھائیوں پر ڈال دیا ہے، جن سے آپ نے کوئی مشورہ نہیں لیا.اور مجھے امید ہے خدا کے فضل سے وہ کم و بیش اپنا بجٹ ضرور پورا کریں گے.اس لیے آپ سے بھی یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آپ کم از کم 16 لاکھ روپے بشمول ایک لاکھ تئیس ہزار روپے (1,23,000) کی کمی کو بھی پورا کریں گے.میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ جماعت کو خدا تعالیٰ نے یہ استعداد عطا فرمائی ہے کہ وہ اس کمی کو پورا کر دے.لیکن جماعت کی یہ بدقسمتی ہے کہ جماعت کے بعض علاقوں میں عہدیداروں کو یہ استعداد نہیں ملی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک طرح ادا کریں.ورنہ وہ تحریک جدید کیا اور دوسرے چندے کیا سب وصول کر لیتے.جماعت جماعت میں بھی فرق ہے مثلا کراچی کی جماعت ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کا قدم آگے سے آگے بڑھتار ہے وہ کسی وقت پیچھے نہ ہٹیں.میں نے کل بتایا تھا کہ کراچی میں صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تین لاکھ پچاس ہزار روپے کا تھا.وہ اس وقت تک تین لاکھ چون ہزار روپیہ ادا کر چکے ہیں.مزید برآں وہ کوشش کر رہے ہیں کہ وصولی چار لاکھ روپے تک لے جائیں.زائد وصولی میں جتنی بھی کوشش کامیاب ہو خوشی کی بات ہے.اور سب سے بڑھ کر خوشی کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے ایک ٹارگٹ رکھا ہے اور اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں.دوسرے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا، دوست اس بات کو یا درکھیں کہ جب تک آپ اپنے علاقے میں پیار کا ماحول پیدا نہیں کرتے ، اس وقت تک آپ اچھے نتائج نہیں پیدا کر سکتے.اس میں میرے اور تیرے کا سوال نہیں.خدا نے کسی کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اپنی حکومت قائم کرے.خدا اور اس کے رسول کی حکومت کو قائم کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.پس اپنے اندر بشاشت پیدا کریں اور پیار 968

Page 986

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 31 مارچ 1973ء سے اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی طرف دوستوں کو ترغیب دلائیں.اور اکٹھے ہنستے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اس سے جماعت کوئی تھکان اور کوفت محسوس نہیں کرے گی.لیکن اگر آپ دلوں میں بشاشت پیدا کرنے میں ناکام ہو جائیں گے اور جماعت کے سب افراد کو اکٹھے ایک خاندان کی طرح آگے لے جانے کی کوشش نہیں کریں گے اور دعاؤں کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو حقیقی کامیابی نصیب نہیں ہوگی.پس تحریک جدید کے بجٹ کو بڑھانے کے لیے جتنا ٹارگٹ میں نے مقرر کیا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اس سے زیادہ رقم دے سکتی ہے.صرف توجہ کی ضرورت ہے.لاہور کے امیر جماعت چوہدری اسد اللہ خان صاحب زیادہ بوڑھے ہو گئے ہیں.بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ ان کو آئندہ تکلیف نہ دی جائے لیکن اس بیماری اور پیرانہ سالی میں بھی میرے لیے یہ بات بڑی خوشی کا موجب ہے کہ پچھلے دو تین سال میں انہوں نے جماعتی لحاظ سے بڑی ترقی کی ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس مادی دنیا میں جب کہ ہر طرف سے نوجوان نسل پر بداثرات پڑ رہے ہیں.جہاں قوم کے بعض افراد نے اس اثر کو قبول کیا ہے، وہاں ہماری نوجوان نسل کے ایک حصہ کی زندگی میں بڑا حسین اور عظیم رد عمل پیدا ہوا ہے.موجودہ گندے رجحانات کے خلاف ایک بغاوت پیدا ہو گئی ہے.چنانچہ مختلف شکلوں میں یہ چیز ظاہر ہوتی رہتی ہے.مثلاً لا ہور کے خدام بعض جائز طریقوں سے یا جائز وجوہات کے مقابلہ میں ہر وقت قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں.بعض دفعہ ہمیں ان کی لگام کھینچنی پڑتی ہے.ورنہ ان کا جوش ایسا ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں.چاہے اس کی آج ضرورت نہ ہو.تاہم یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان کو بتائیں کہ آج اس قربانی کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ تمہیں جزا دے.جب قربانی دینے کی ضرورت ہوئی ، اللہ تعالی تمہیں تو فیق دے گا قربانی دینے کی.اور ہمیں بھی توفیق دے گا قربانی دینے کی بھی اور قربانی لینے کے سلسلہ میں جماعت کے بڑوں اور چھوٹوں کی راہنمائی کرنے کی.پس جہاں بھی جماعت نے نوجوان نسل کو انتظامی کاموں کے لیے اپنے ساتھ لگایا ہے.وہاں جماعت کے کاموں میں بڑی تیزی پیدا ہوگئی ہے.میں بعض جگہوں کے نام بھی لوں گا.اس لیے نہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ نام لیے جائیں بلکہ اس لیے کہ دوسروں کے لیے وہ نمونہ بنیں.بعض دفعہ ضلعی امارتوں میں یہ کوشش نہیں کی گئی کہ اہل اور تجربہ کارلوگوں کی لائن تیار کی جائے.جو بوقت ضرورت جماعت کی ذمہ داریوں کو سنبھال سکے.گویا قطار لگی ہوئی ہو اور ایک کے بعد دوسرا اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے 969

Page 987

ارشادات فرموده 31 مارچ 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم آگے آئے.تا کہ یہ خطرہ نہ رہے کہ کسی ایک کارکن کے چلے جانے یا بیماری کی وجہ سے کام رک جائے گا.یہ انسانی خاصہ ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ اعضاء کمزور پڑ جاتے ہیں.تا ہم انسان اصابت رائے سے مشورہ زیادہ دے سکتا ہے.بعض ضلعی امارتوں کے متعلق مجھے اس قسم کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی.بعض کے متعلق مجھے بڑی فکر رہتی ہے مثلاً میر پور خاص ہے.اس کے متعلق مجھے بڑی فکر رہتی ہے.جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں خود ہی کام کرتا رہوں گا.اس کو یہ یا درکھنا چاہیے کہ اس نے قیامت تک زندہ نہیں رہنا.لیکن جماعت احمدیہ نے قیامت تک کام کرتے رہنا ہے.بعض جگہ ٹیم ورک کے طور پر کام انتہائی خوش اسلوبی سے سرانجام پا رہا ہے.نوجوان اکٹھے مل کر کام کرتے ہیں.اس سلسلہ میں کراچی اور سرگودھا کی جماعتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں.انہوں نے اپنی جماعت کی اور خصوصاً نو جوانوں کی بڑے عمدہ رنگ میں تربیت کی ہے.اور بوقت ضرورت ہر آدمی کام کرنے کی اہلیت رکھتا ہے.وو پس ہر جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ احباب کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائے.اسی لیے میں نے اپنی عمر میں اس بات کا بہت خیال رکھا ہے.شاید بعض دفعہ کوئی غلطی بھی کی ہو گی.اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے.خدام الاحمدیہ میں اگر ہر سال مجلس عاملہ کے دس افراد ہیں تو ان کے کام بدل دیے جاتے تھے.ہر سال کام بدلتا رہتا تھا.اگر ایک سال کوئی مال کا مہتمم ہے تو اگلے سال اس کو تجنید کا شعبہ دے دیا جاتا تھا.غرض ہر ایک خادم کو ہر ایک شعبہ کا کام سکھایا جاتا تھا.پس جہاں اور جس جماعت میں ٹیم ورک نہیں ہے.بلکہ انفرادی طور پر کام پر زیادہ زور ہے وہاں برکت کوئی نہیں ہوتی.جہاں آپ کا ٹیم ورک نہیں ہے اور جماعت کے ایک یا دو افراد کی اجارہ داری بن گئی ہے، وہاں نہ صرف کام کے لحاظ سے برکت نہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ یہ صورت انتظام کے لحاظ سے بڑی مہلک ہے.کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کام تو اللہ تعالیٰ کا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذریعہ امت محمدیہ کو خوشخبری دی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب روحانی فرزند مہدی معہود آ گیا اور قیامت تک کے لیے غلبہ اسلام کی مہم کو چلانا اور اس مہم کے نتائج کی جو حسین شکل ہے اس کو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ قائم رکھنے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے.اگر ساری دنیا احمدی ہو جائے تب بھی آپ کا کام ختم نہیں ہوگا.پھر اس کے لیے دنیا کو اسلامی معیار پر قائم رکھنے کا کام شروع ہو جائے گا.لیکن موخر الذکر یعنی تربیت کا کام بالعموم نظروں سے اس لیے اوجھل ہو جاتا ہے کہ یہ نمبر دو پر آیا ہوا ہے.اصل مہم تو غلبہ اسلام کی ہے.قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی سے نکل کر جماعت احمدیہ کے کاموں نے کتنی وسعت 970

Page 988

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 31 مارچ 1973ء اختیار کی.اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج جماعت کے ایک شعبہ زندگی یعنی تحریک جدید میں اندرون پاکستان کی جماعتوں کے 16 لاکھ کے مقابلے میں بیرون پاکستان کی جماعتوں نے 96 لاکھ روپے کی مالی قربانی کا وعدہ کیا ہے.اس سے بڑی اور کیا وسعت ہوگی تاہم یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ؟ ہے.ہماری اپنی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے.اس لیے ہمارا سر تو ان کا میابیوں پر خدا کے حضور زمین کی طرف جھک رہنا چاہیے اور اس کی صفات پر پورا توکل رکھنا چاہیے.ایک لمحہ کیلئے بھی اس کے فضلوں سے ناامید نہیں ہونا چاہیے.خدا نے ہمیں فرمایا :.فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ (مائده:45) لوگوں سے تم کیوں ڈرتے ہو.تمہارے دل میں یہ خوف پیدا ہونا چاہیے کہ میرے پیار کی نظر کے غیر مستحق نہ قرار دے دیے جاؤ.پس احباب جماعت سے میں یہ کہوں گا کہ جماعتی کاموں کو بطریق احسن سرانجام دینے کے لئے منتظمین کی ٹیم تیار کرو.اور کوشش کرو کہ ساری جماعت ایک خاندان کی طرح اپنے مقصد کے حصول میں آگے سے آگے بڑھتی چلی جائے.شیطان نئے نئے کپڑے دماغ میں ڈالتا ہے اور جماعت میں فتنہ یدا کرنا چاہتا ہے.تاہم کسی اچھی تجویز کو بڑی دیانت داری کے ساتھ پیش کرنے والا شیطان کا چیلا نہیں کہلوائے گا.لیکن بعض نا سمجھی سے کسی مخلص آدمی کے دل میں بھی شیطانی خیالات آجاتے ہیں.ایسے دوستوں کا خیال رکھنا اور ان کی نگرانی کرنا اس خیال سے کہ ان کی وجہ سے جماعت میں کوئی خرابی پیدانہ ہو.یہ ایک ایسا نازک کام ہے جسے احباب صرف اسی صورت میں احسن طریق پر کر سکتے ہیں جب کہ ہر حلقے کی جماعت ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کے بالکل قریب ہو جائے اور ان کے اندر بشاشت پیدا ہو جائے.ہر ایک دوست بولے اور ہر ایک بات کرے.جس طرح اچھا باپ وہ ہے جس کا بیٹا اس کا دوست ہے اور اس کی تربیت سے غافل نہیں.اسی طرح اچھا امیر ضلع وہ ہے جسے ضلع کی جماعت کا ہر فرد اپنا بڑا بھائی سمجھے اور اس سے بے تکلف رنگ میں بات کرئے“.دو تحریک جدید کے سلسلہ میں بہت سی دوسری باتوں کے علاوہ بنیادی بات یہ بتائی ہے کہ دیکھیں اللہ تعالیٰ کتنا رحم کرنے والا ہے.اس جماعت پر کہ 66ء میں بیرون ملک کی جماعتوں کا ایک دھیلہ کا بھی حصہ شامل نہیں تھا اور آج کے بجٹ ( جسے آپ نے منظور کیا ہے ) میں پاکستان کے 16 لاکھ کے 971

Page 989

ارشادات فرمودہ 31 مارچ 1973ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک..مقابلے میں غیر ممالک کا بجٹ 6 9لاکھ قریباً ایک کروڑ روپے ہے.اللہ تعالیٰ جتنی رحمتوں سے نوازتا ہے، اتنا ہی زیادہ اس کا شکر گزار بننے کی ذمہ داری آپڑتی ہے.اس لئے ہمارے دل اس کی حمد سے معمور اور ہماری روح اس کے ذکر سے ہر آن مرتعش رہنی چاہئے.کیوں کہ انسانی جذبات اور اس کے دل و دماغ کی لہلا ہٹ اور ان کی سرسبزی و شادابی کا دارو مدار خدا کے فضل پر ہے.اور خدا کے فضلوں کو جذب کرنے کا ایک بڑا ذریعہ خدا تعالیٰ کی تسبیح وتحمید ہے.جب کبھی خدا کا کوئی خوبصورت نظارہ سامنے آتا ہے تو حساس آنکھ وجد میں آجاتی ہے.بہر حال ہماری روح اپنے مالک اپنے رب کی بارگاہ میں بجز و نیاز کے جذبات سے لبریز رہنی چاہئے." تربیتی لحاظ سے ہماری دوضرورتیں ہیں.ایک ضرورت کو ماہرین پوری کرتے ہیں.اس کے لئے جامعہ احمدیہ ہے.جہاں ایک لمبا عرصہ درکار ہے.ایک ہماری روزمرہ کی ضرورت ہے.اس کے لئے ہر جگہ ماہرین کی ضرورت نہیں.البتہ اگر زیادہ تعداد میں جامعہ احمدیہ سے پاس طلبہ مل جائیں تو وہاں بھی ان کو بھجوایا جائے تو اچھا ہے.لیکن ابھی ہم ایسا نہیں کر سکتے.اس لئے ہماری یہ ضرورت وقف جدید پورا کرتی ہے.عام تربیتی امور سے جماعت کو آگاہ کرتی ہے.ہر گاؤں میں معلم ہوتا ہے.اس کو بھی نمونہ ہونا چاہئے.لیکن اس میں جہاں تک معلم وقف جدید اور ایک ماہر مربی کا تعلق ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے.دونوں کو اعلی قسم کا نمونہ پیش کرنا چاہئے.مربیان اور معلمین میں کئی اعلیٰ نمونہ بنتے ہیں اور کئی ٹوٹ جاتے ہیں.یہ کمزوری انسانی زندگی کے ساتھ لگی ہوئی ہے.اس میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جس میں ایک دفعہ بال آجائے.وہ پھر ہمارے کام کا نہیں رہتا.اس کلیہ کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے.کسی کو کسی کے متعلق سفارش نہیں کرنی چاہئے.جس کے اندر بال آجاتا ہے ہے وہ بال کو دور کئے بغیر تو ٹھیک نہیں ہو سکتا.بال کے متعلق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص میں بال آجائے اس سے جماعتی کام نہیں لینا چاہئے.ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے روگردانی نہیں کر سکتے.آپ نے فرمایا کہ جس رکابی میں بال آجائے ، اس میں کھانا نہیں کھانا چاہئے.اب جس رکابی میں یا جس پیالے میں بال آجائے ، اس میں کھانا نہیں کھانا تو پھر جس معلم وقف جدید کی ذہنیت میں بال آجائے تو اس سے کس طرح جماعتی کام لے سکتے ہیں.یہ غلط ہے.ایسا نہیں ہو سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مادی دنیا کی مثال دے کر فرمایا، اسے روحانی دنیا پر چسپاں کرو.کبھی روحانی دنیا کی مثال دے کر فرمایا، اسے مادی دنیا پر چسپاں کرو لیکن بہر حال ہمارے علم کا 972

Page 990

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ 31 مارچ 1973ء منبع اور تربیت کا منبع حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے.اس رنگ میں بھی کہ آپ کے ذریعہ ہمیں قرآن کریم کی شکل میں شریعت حقہ کاملہ اسلامیہ عطا ہوئی.اور اس رنگ میں بھی کہ قرآن کریم کی بہترین بنیادی اور اصولی تغییر آپ نے بیان فرما دی کہ آج جب چودہ سو سال کے بعد بھی ہم اسے دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ محسن اعظم نے چودہ سو سال بعد میں پیدا ہونے والی مسلمانوں کی نئی نسلوں کی تربیت اور ان کے سکون اور آرام کا کس رنگ میں خیال رکھا.اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزاروں رحمتیں اور سلام ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر.پس احباب تحریک جدید کے چندہ کو 6 1لاکھ جمع ایک لاکھ تئیس ہزار روپے تک پہنچانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.وقف جدید کے لئے مخلص سمجھدار، عقل مند اور صاحب فراست اور جذ بہ خدمت رکھنے والے معلمین دیں.کیونکہ عدم تربیت کی وجہ سے بعض جگہ دوستوں کی حالت ہمارے لئے پریشانی اور دکھ کا موجب بنی ہوئی ہے.یہ حالت دور ہونی چاہیے“.رپورٹ مجلس شورای منعقدہ 30 مارچ تا یکم اپریل 1973ء ) 973

Page 991

Page 992

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء فتح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو ہوگی البتہ ہاتھ آپ کے ہوں گے ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973 ء برموقع مجلس مشاورت مجلس مشاورت میں ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں الفضل شائع نہیں ہوتا.جس سے وہ لوگ جو کسی وجہ سے جلسہ میں شامل نہیں ہو سکتے ، جلسہ کی کاروائی کی خبر سے بھی محروم ہو جاتے ہیں، اس لئے تجویز ہے کہ اگر ان ایام میں پورا اخبار شائع کرنا ممکن نہ ہو تو جلسہ کی مختصر کاروائی شائع کی وو جائے.اس پر حضور نے فرمایا:.جب یہ تجویز میرے سامنے آئی تو میں نے سمجھا کہ اس کا شوری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.انتظامی معاملہ ہے.لیکن میں نے اس ایجنڈے میں اس لئے رکھوا دیا تھا کہ شاید اس کے متعلق کوئی مفید مشورہ ہل جائے.میں نے خطبہ جمعہ میں کہہ دیا تھا کہ جلسہ سالانہ پر افضل کی اشاعت کا انتظام ہونا چاہئے اور بہت بہتر انتظام ہونا چاہئے.اس وقت دنیا کے جو حالات ہیں، اس وقت دنیا میں جماعت احمدیہ کی ترقی کی جو رفتار ہے، اس وقت دنیا کے دور دراز ممالک میں مخلص احمدی احباب کو جو اخلاص ہے، وہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کو جماعتی خبریں جلد سے جلد پہنچیں.آپ چونکہ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، اس لحاظ سے ان کی بے تابی کا اندازہ نہیں لگا سکتے.آپ کو اگر مرکز سے کوئی لکھی ہوئی خبر پہنچے تو آپ بسا اوقات اسے شام کو پڑھتے ہیں.مگر وہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان کے پاس دو پہر کو پہنچے تو وہ شام کا انتظار نہیں کرتے.بلکہ وہ اپنا کام چھوڑ کر اسی وقت پڑھتے ہیں.اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہیں.جن کی بنا پر ہمیں جلد سے جلد جماعتی خبریں ساری دنیا میں پھیلا دینی چاہئیں.یہ تو ایک بڑا چھوٹا سا طریق ہے.اس لئے جو تجویز پیش ہوئی ہے، اس کے متعلق میں پہلے ہی ہدایت دے چکا ہوں.اور اس سلسلہ میں کسی سے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے.میں نے اس تجویز پر عمل کرنے کی ہدایت کر دی ہے.اس سے بڑھ کر ہدایت دی ہے کہ تحریک جدید جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک انگریزی میں پلیٹن شائع کیا کرے.لیکن خالی جلسہ کے ایام میں نہیں.عام حالات میں بھی اور جلسے کے دنوں میں بھی ہر روز کی خبر ساری دنیا میں پہنچنی چاہئے.اس کا کوئی انتظام ہونا چاہئے.اس وقت دنیا میں دو مختلف قسم کے براڈ کاسٹنگ سٹیشن ہیں.ایک وہ جو تجارتی اصول پر چل رہے ہیں اور دوسرے وہ جو حکومت کے زیر اہتمام کام کرتے ہیں.جو حکومت کے ریڈیو ہیں، ان میں سے آگے 975

Page 993

ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو پورا پروگرام غیر تجارتی اصولوں پر چلا رہے ہیں.اور ایک وہ جن کے پروگرام کا اکثر حصہ غیر تجارتی اصول پر چلتا ہے یعنی خبریں ہیں اور پرو پیگنڈا ہے اور ایک حصہ ایسا ہے جو شمر شل ہے جس طرح مثلاً ہمارے ریڈیو پر ایک پروگرام کمرشل ہوتا ہے ایک حصہ حکومت کی عام پالیسی کے مطابق خبروں وغیرہ کا ہوتا ہے یا حزب اقتدار اور اختلاف کی تقریریں ہوتی ہیں.اس وقت جو کمرشل قسم کے براڈ کاسٹنگ اسٹیشن ہیں وہ ہماری بات پیسے لے کر بھی نشر کرنے لئے تیار نہیں ہیں.چند سال ہوئے مجھے خیال آیا کہ وائس آف امریکہ کو خط لکھا جائے ، جو کمرشل بنیادوں پر چل رہا ہے اور غالبا سیلون ( سری لنکا ) میں قائم ہے.وہ خبریں دیتے ہیں لیکن دراصل وہ ہے کمرشل.جہاں تک اس کی خبروں کا تعلق ہے ، وہ محض پروپیگنڈا ہے جو بڑی ہوشیاری سے کیا جاتا ہے.میں نے ان کو لکھا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اتنے منٹ دیں اور اپنے نرخ کے مطابق اس کے ہم سے پیسے لے لیں.ہم یہاں سے ریکارڈ کر کے بھجوادیں گے، آپ اسے نشر کر دیں.میرا خیال تھا کہ میں اپنی آواز میں پیغام ٹیپ کر کے بھجواؤں.جس میں دعائیں ہوں اور وہ ساری دنیا کی احمدی جماعتوں میں نشر ہو جائیں.ایک دوست سے میں نے یہ کہا تھا کہ آپ وائس آف امریکہ سے بات کریں.کیونکہ دنیا تڑپ رہی ہوتی ہے، خلیفہ وقت کا پیغام اور آواز سننے کے لئے.اس نشریاتی ادارہ کی طرف سے جواب ملا کہ نہیں ہم نشر نہیں کر سکتے.بی بی سی کہنے کو تو آزاد نشریاتی ادارہ ہے لیکن ہے نیم آزاد.لیکن دکھاوے کے طور پر اسے آزاد بنا رکھا ہے.اس کو بھی اگر ہم کہیں کہ پیسے لے کر ہمارا پیغام نشر کر دو تو کبھی نشر نہیں کرے گا.اگر خدا تعالیٰ ان کی گردن پکڑے تو وہ نشر کر دیں گے.میں جب 67ء میں یورپ کے دورہ پر گیا تو جماعت انگلستان کے وہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ انٹرویو لے کر نشر کریں گے.ایک صبح دوست مجھے مل رہے تھے کہ امام رفیق میرے پاس آئے اور کہنے لگے ایک شخص آیا ہے کہتا ہے میں بی بی سی کا نمائندہ ہوں اور وہ آپ کا انٹرویو لینا چاہتا ہے.پہلے تو مجھے تھوڑا غصہ آیا کہ ایک مصروف آدمی کے پاس وہ بغیر وقت لئے آگیا ہے.کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں یہاں فارغ بیٹھا ہوا ہوں.میں نے کہا اس وقت مجھے فرصت نہیں.میں دوستوں سے ملاقاتیں کر رہا ہوں.کوئی اور وقت مقرر کر کے انٹرویو لے لیں.جب امام رفیق باہر نکلے تو میں نے سوچا یہ تو اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا ہے.ہم اگر ان کو پانچ ہزار پونڈ بھی دیتے تو انٹرویو لے کر نشر نہ کرتے.کیونکہ وہ ادارہ ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ حکومت کی بات بھی نہیں مانتا.اس لئے یہ تو الہی تصرف ہے.اس لئے ابھی انٹرویو دے دینا چاہیے.پھر میں نے امام رفیق کو بلا کر کہا آٹھ دس منٹ کے بعد اس کو اندر لے 976

Page 994

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء آئیں.وہ آیا تو اس کی دماغی کیفیت یہ تھی کہ کبھی کا پی بند کرے کبھی کھولے.وہ سمجھتا تھا کہ وہ سوال کرے گا اور میں جواب دوں گا ٹیپ ریکارڈر اس کے ساتھ تھا.میں نے کہا کہ پتہ نہیں تم کیا سوال لکھ کر لے کر آئے ہو.ٹیپ ریکارڈ کرنے سے پہلے ہم آپس میں تبادلہ خیال کر لیتے ہیں کہ مجھے تمہارے کن سوالوں کا جواب دینا ہے اور کن کا جواب نہیں دینا چاہئے.پھر تم ریکار ڈ کر لینا.وہ سر پھرا تھا، کہنے لگا اس کی کیا ضرورت ہے.میں تو سوال لکھ کر لایا ہوا ہوں.آپ ان کے جواب دے دیں اور بس.ایک لمحہ کے لئے تو میری طبیعت میں انقباض پیدا ہوا.لیکن میں نے سوچا پہلے جب کبھی کوئی کانفرنس ہوتی ہے ، اس میں سوالوں کے جواب کب خود دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خود ہی جواب سکھا دیتا ہے اب بھی خدا تعالیٰ خود ہی سکھائے گا.میں نے کہا ٹھیک ہے تم سوال کیے جاؤ.میں جواب دوں گا.اس نے سوال کرنے شروع کئے اور میں نے جواب دیئے اور وہ ریکار ڈ ہو گئے.قریباً نصف گھنٹہ تک سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.یہ لوگ اپنے آپ کو ایڈیٹنگ کا یہ حق دیتے ہیں کہ بیچ میں سے کچھ کاٹنا چاہیں تو کاٹ دیں.وہ ہمیں جاتے ہوئے یہ کہہ گیا کہ آج فلاں وقت پر یہ انٹرویو نشر ہو گا.غالباً ان کے ہفتہ وار پروگرام OUT LOOK میں نشر ہونا تھا.یہاں ہم نے تار بھی دیا لیکن وہ یہاں بر وقت پہنچ نہ سکا.لیکن دنیا کے بعض دوسرے حصوں میں لوگوں نے عادتاً اس پروگرام کو سنا.اب دیکھو بی بی سی کا نمائندہ خود ہمارے پاس آیا اور بغیر پیسے لئے انٹرویور ریکارڈ کیا اور ساری دنیا میں نشر کیا.اس کے اگلے ہفتے پھر نشر ہوا.اور اس طرح دو تین دفعہ نشر ہوتا رہا.لیکن اگر ہم کہتے تو انہوں نے ماننا نہیں تھا.پس ایک تو گورنمنٹ کے براڈ کاسٹنگ سٹیشن ہیں، جن کی نوعیت دو قسم کی ہے.ایک پرائیویٹ ہیں یا نیم پرائیویٹ ہیں اور وہ بھی ہماری باتیں دنیا تک پہنچانے سے ڈرتے ہیں.اس وقت ہمارے لئے خبریں پہنچانے کا بہت اچھا ذریعہ ریڈیو تھایا ہے.لیکن اس ذریعہ سے ابھی تک ہم محروم ہیں.اس محرومی کا ثواب جماعت احمدیہ کومل رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا تو انشاء اللہ اپنا بھی ایک براڈ کا سٹنگ سٹیشن لگ جائے گا.لیکن فی الحال ہمارے ملک میں اتنی جلدی نہیں ہو گا.کیونکہ یہاں کے حالات ہی ایسے ہیں.کسی اور ملک میں اس کا انتظام ہو جائے گا.نائیجیریا میں ایک چھوٹا سا اسٹیشن لگانے کی اجازت مل گئی تھی.لیکن چھوٹا ہونے کی وجہ سے نائیجیریا کی جماعت نے اس کا لائسنس نہیں لیا.پھر میں نے ان کو لکھا کہ یہ غلطی ہے.چھوٹا لے لو اور بڑے کے لئے کوشش کرو.جتنا کام ہم کر سکتے ہیں، اتنا تو کرنا چاہئے.اسی طرح سیرالیون کو میں نے لکھا ہے کہ وہ بھی درخواست دیدیں لیکن سیرالیون اور نائیجیریا میں 977

Page 995

ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم جماعت احمدیہ کا براڈ کاسٹنگ سٹیشن ہو تو وہ بھی روزمرہ کی خبریں نشر نہیں کرسکتا.کیونکہ وہاں تک خبریں پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے.البتہ ایک ہفتہ کے پروگرام ٹیپ ہو کر جائیں گے تو نشر ہو جایا کریں گے.یہ بھی بہت فائدہ مند صورت ہے.اس کے لئے بعض اور فرمیں ہیں یا کمپنیاں ہیں.ان سے کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور اس کے لئے بھی انتظام ہورہا ہے.غرض ان ممالک میں میں نے دو چار آدمیوں کو معلومات اکھٹی کرنے پر لگایا ہوا ہے.اس میں کوئی دقت نہیں مثلاً ٹیلی پر نٹر کے ذریعہ اخبارات کو خبر دینا ممکن ہے اس کے تین چار یونٹ پر لا کھ سوالاکھ روپیہ خرچ آجائے.اس کے ذریعہ فوراً خبر پہنچ جایا کرے گی.شروع میں ہفتہ میں ایک دن کر سکتے ہیں پھر اس سے بڑھ سکتے ہیں.اگر آپ چاہیں تو روزانہ بھی وقت دے دیتے ہیں.پھر ٹیلی پرنٹنگ کے دوحصے ہیں.ایک وہ ہے، جس کا تعلق صرف اخبارات کے ساتھ ہے.اس کا انتظام نسبتا آسان ہے.شروع میں ہم بھی اسی کا انتظام کریں گے.کیوں کہ ہمارالندن میں بھی اخبار ہے.اور لندن سارے یورپ میں خبریں پہنچانے کا مرکز بن جائے گا.لندن میں ہی اگر کوئی خبر پہنچ جائے تو پھر آگے پہنچانا بڑا آسان ہے.یہاں سے لندن فون کرنا ہو تو اس کے لئے چوبیس گھنٹے پہلے وقت مقرر کرانا پڑتا ہے.پھر بھی وہ بسا اوقات کہہ دیتے ہیں کہ ایک دن اور انتظار کریں.اور وہاں اسی طرح سارے یورپ میں ڈائل کر کے فون کیا جا سکتا ہے.جس طرح آپ ربوہ میں ایک دوسرے کو فون کرتے ہیں.یہ بھی نہیں جس طرح ہم ربوہ سے لائکو فون کرنا چاہیں تو بسا اوقات کہہ دیا جاتا ہے کہ لائن خراب ہے.کتنی دفعہ لاہور سے دوستوں نے مجھے فون کئے اور انہوں نے بتایا کہ ہمیں یہ جواب دیا گیا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے.یہ ہمارے دوست ہیں جن کا ہمارے ساتھ تعلق ہے.مگر یورپ میں ایسا نہیں ہے.وہاں تو لندن میں بیٹھ کر آپ جہاں چاہیں ڈائل کر کے فون کر سکتے ہیں.جب میں فرینکفورٹ میں پہنچا تو وہاں پہنچتے ہی لندن سے ایک منٹ میں ملاپ ہو گیا.اتفاقاً چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی وہیں تھے اور وہ بھی بڑے جذباتی ہو گئے تھے.یہ دیکھ کر کہ جماعت کا خلیفہ وقت اسلام کی سربلندی کے لئے دورے پر باہر نکلا ہے.وہ چونکہ کچھ دن پہلے بیمار ہے تھے.مجھے تشویش پیدا ہو گئی کہ کہیں بیماری کی وجہ سے تو ان کی آواز کانپ نہیں رہی.بعد میں معلوم ہوا کر نہیں واقعی فرط جذبات سے ان سے بولا نہیں جاتا تھا.پس اگر لندن میں ہماری خبر پہنچ جائے تو پندرہ منٹ کے اندر اندر ہم سارے یورپین مشنوں کو خبریں پہنچا سکتے ہیں.اس لئے فی الحال ایک تو انگلستان کے لئے اور دوسرا امریکہ کے لئے انتظام کرنا 978

Page 996

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء ہے.اس لئے کہ لندن سے وہاں فون تو ہو جاتا ہے.لیکن اس پر خرچ زیادہ آتا ہے.اسی طرح فی الحال افریقہ کے ایک یا دو ملکوں میں بھی انتظام کرنا پڑے گا اور اگر ممکن ہوا تو انڈونیشیا میں بھی انتظام کرنا پڑے گا.پھر ہم اپنی جماعتوں کے 50 فیصد حصے تک جماعتی خبریں پہنچا سکتے ہیں.یہ انتظام کو بہت مشکل ہے لیکن ہے بڑا ضروری.آپ کو علم ہے کہ بیرونی جماعتوں کے احمدیوں کے جذبات کی کیا کیفیت ہے.خصوصاً افریقہ کی جماعتوں کے جذبات کا یہ عالم ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ پانچ ہزار میل دور بیٹھے ہوئے لوگ نہ مرکز میں کبھی آئے.پہلی مرتبہ 70ء میں میں ان کے پاس گیا.اس سے پہلے نہ ان کی خلیفہ وقت سے کبھی ملاقات ہوئی.مگر جب وہ ملتے تھے تو ہاتھ نہیں چھوڑتے تھے.کئی دفعہ تو مجھے یہ خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ کہیں میرے ہاتھ کو موچ نہ آجائے.کیونکہ بعد میں آنے والا آدمی پہلے آدمی سے فرط جذبات میں زبردستی ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتا تھا.وہ لوگ بڑے مخلص ہیں.گوان کی تربیت کا وہ معیار نہیں ہے جو ہم چاہتے ہیں.یہاں بھی یہی حال ہے.اس لئے سب جماعت احمدیہ کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ان کا وہ معیار نہیں ہے.جس تک وہ پہنچ سکتے ہیں کیونکہ انسان پر ترقی کے دروازے تو کبھی بند نہیں ہوتے.روحانی رفعتیں تو ملتی رہتی ہیں.البتہ یہ غیر محدود حرکت کا تقاضا کرتی ہیں.بہر حال خالی الفضل یا تحریک جدید کا بلیٹن ہی نہیں بلکہ ٹیلی پرنٹنگ کی بھی کوشش ہو رہی ہے.اس سال پھر جلسہ سالانہ کے دنوں میں خاص طور پر وقت لیا جاسکتا ہے.اس طرح روز کے روز ایک مقررہ وقت پر چند گھنٹوں کے اندراندر یومیہ روئید ادلندن پہنچ جائے گی.امریکہ پہنچ جائے گی ، مغربی افریقہ پہنچ جائے گی اور انڈونیشیا پہنچ جائے گی.پھر وہ آگے اپنی اپنی جماعتوں میں خبریں بھجوائیں گے.پس فی الحال ٹیلی پرنٹنگ کا انتظام کیا جا رہا ہے.کیونکہ یہ بات بڑی معقول ہے افسوس ہے کہ اس کا پہلے خیال کیوں نہیں آیا.جلسہ سالانہ پر تو ایک لحاظ سے نمائندے آتے ہیں.ساری جماعت تو نہیں آتی مثلاً کراچی ہے.وہاں سے ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر 800 آدمی شامل ہوئے تھے.حالانکہ جمعہ کے دن احمد یہ حال میں 2000 ہزار مردو زن نماز پڑھتے ہیں.اس کے علاوہ ڈرگ روڈ پر بھی جمعہ نماز ہوتی ہے.بالعموم 60 فیصد دوست نماز جمعہ پر آتے ہیں اور یہ میں نے مثال کے طور پر بہت اچھی جماعت کی ہے.جس میں سے اتنی دور سے سات آٹھ سو کا جلسہ سالانہ میں آجانا بڑی اچھی بات ہے.اس ایک جماعت سے ساتواں آٹھواں حصہ جلسہ سالانہ میں شامل ہوا.جلسہ سالانہ میں اس دفعہ 72 ہزار مرد اور 45 ہزار مستورات تھیں.دونوں کی مجموعی تعد ا دسوالاکھ بن جاتی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ندازہ یہ ہے 979

Page 997

ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم کہ یہاں پاکستان میں اس سوالاکھ کی نسبت سے 40 سے 45 لاکھ احمدی بالغ بن جاتے ہیں.لاہور میں جب میں رہا کرتا تھا تو اس وقت عید کی حاضری اور نماز جمعہ کی حاضری میں کم از کم ایک اور چار کی نسبت ہوتی تھی.عید کی نماز میں دوست زیادہ آیا کرتے تھے.میں نے کئی دفعہ خدام سے کہا کہ اگر جماعت کی تعداد معلوم کرنی ہے تو عید کی نماز میں حاضری کو مد نظر رکھا کرو.یہ ٹھیک ہے عید کے موقع پر کچھ باہر سے بھی دوست آجاتے ہیں.لیکن پھر بھی جمعہ کی نماز اور عید کی نماز کی حاضری کا بڑا فرق ہوتا ہے.اب تو میرا اندازہ ہے کہ لاہور کی جماعت کی تعداد بچوں اور عورتوں سمیت 40 ہزار سے کم نہیں ہوگی.بہر حال جلسہ سالانہ پر ساری جماعت تو نہیں آتی.جو لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں ، ان کی بڑی تعداد ہے.اور انہیں بھی جلسہ سالانہ کی خبریں ملنی چاہئیں.صرف اندورن پاکستان ہی نہیں ، بیرون پاکستان بھی سارے احمدیوں کو ساتھ کے ساتھ خبریں بہم پہنچانے کی ضرورت ہے.کل مجھ سے ایک غلطی ہوگئی اور اس پر ایک لطیفہ بھی ہو گیا.غلطی یہ ہوئی کہ ہماری جماعت کی آمد پونے دو کروڑ تک پہنچ گئی ہے.یہ میں نے غلط کہا آج میں آپ کو صحیح بتاؤں گا.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.مجھے یاد ہے کہ شروع میں جب میں چھوٹا تھا تو مشاورت میں مجھے زائرین کا ٹکٹ دیتے ہوئے بھی منتظمین گھبراتے تھے کہ یہ بچہ ہے.میرا خیال ہے کہ حضرت صاحب نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ ان کے کانوں میں شوری کی آواز پڑنی چاہئے.تب ہمیں زائر کا ٹکٹ ملنا شروع ہوا تھا.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مولوی عبد المغنی خاں صاحب ناظر بیت المال ہوا کرتے تھے.مجلس مشاورت میں یہ بحث ہوا کرتی تھی کہ صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان کو چار ماہ سے گزارے نہیں ملے اور بڑی تکلیف میں ہیں.ایک دفعہ چھ ماہ تک گزرے نہیں ملے تھے.حالانکہ یہ حالت بھی بڑی ترقی یافتہ مجھی جاتی ہے.اس سے پہلے دو دو آنے چندہ دینے والے لوگ تھے.جن کا ذکر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قیامت تک کے لئے دعاؤں کا سامان پیدا کر دیا.اور یہ اس لئے کہ یہ بھی بڑی قربانی تھی.کیونکہ اس زمانے میں خدا کی راہ میں ایک دھیلہ خرچ کرنے کی بھی کسی کو عادت نہ تھی.غلبہ اسلام کی مہم پر خرچ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعوی کیا تو ابتداء میں یہ حالت تھی چندہ دینے والوں کی.پھر ہم لاکھوں کے بجٹ پر پہنچے اور اس وقت یہ حالت تھی کہ بعض چندے کی ایسی تحریکیں بھی ہوئی ہیں کہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ دوست تحریک جدید میں ساڑھے ستائیس ہزار روپے دے دیں.اور 1934ء میں ساڑھے ستائیس ہزار روپے کی تحریک بھی ایک بہت بڑی تحریک سمجھی گئی تھی.تحریک جدید کے لئے مال کی جو تحریک ہوئی تھی ، وہ صرف ساڑھے 980

Page 998

تحریک جدید- ایک المی تحریک...جلد چہارم ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء ستائیس ہزار روپے کی تھی.گو عملاً ایک لاکھ سے زائد جمع ہو گیا تھا.اب فرق اتنا پیدا ہو گیا ہے کہ 70ء میں میں نے جماعت احمد یہ انگلستان کو کہا کہ میرا ادل کرتا ہے کہ جتنے سال خلافت احمدیہ کے قیام پر گزر چکے ہیں.فی سال اتنے ہزار پونڈ دے دو تو انہوں نے اتنے کے وعدے کر دیئے جن میں سے 38 ہزار پونڈ سے زیادہ نقد ادا بھی کر چکے ہیں.اب اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے یہ بتانے کے لئے کہ میرے فضل سے یہ کام ہو رہا ہے.ساری دنیا کو ہمارا مخالف بھی بنادیا ہوا ہے تا کہ کوئی احمدی یہ نہ سمجھے کہ شاید یہ اس کی کوشش کا نتیجہ ہے.ساری دنیا سے تو کوئی نہیں لڑسکتا.کوئی پاگل ہی ایسا سوچ سکتا ہے.البتہ اس آدمی سے زیادہ پاگل اور کوئی آدمی نہیں جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ زور سے لڑے اور کامیاب ہو جائے گا.پس خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.خدا ہمارے کاموں میں برکت ڈال رہا ہے.کل میں نے غلطی سے یہ کہہ دیا کہ جماعت احمدیہ کی ساری آمد پونے دو کروڑ روپے ہے.اس پر ہمارے ایک پڑھے لکھے سمجھدار دوست کہنے لگے پونے دو کروڑ کہاں ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ تو بن گیا ہے لیکن پیسے وصول نہیں ہوتے.پھر مجھے خیال آیا کہ صحیح اعداد وشمار دینے چاہئیں.اس طرح آئندہ سال کا جو ہمارا صیح بجٹ بنا ہے، وہ پونے دو کروڑ کا نہیں ہے وہ دو کروڑ تیرہ لاکھ کا ہے.اس میں مثلاً نصرت جہاں ریز روفنڈ کا صرف وہ حصہ شامل ہے، جو ابھی تک وصول نہیں ہوا اور اگلے سال وصول ہونا ہے یعنی جو وصول ہو چکا ہے وہ اس بجٹ میں شامل نہیں ہے.اس میں سے تحریک جدید کا بجٹ 16 لاکھ اندرون پاکستان اور 96 لاکھ بیرون پاکستان کا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیرون پاکستان تحریک جدید کی اس مد میں کتنی برکت عطا فرمائی ہے.اب اس میں تھوڑ اسا حصہ لیا ہے نصرت جہاں سیکیم نے.نصرت جہاں سکیم کو شروع ہوئے دو سال ہوئے ہیں.پھر بھی اس کی غیر ممالک کی متوقع آمد قریباً 50 لاکھ روپے ہے.پھر تحریک جدید کی متوقع آمد 6 9 لاکھ روپے ہے.اور یہ ایک کروڑ 28 لاکھ روپے بیرون پاکستان جماعت ہائے احمدیہ کی آمد ہے جو بجٹ میں شامل ہے.اس کے علاوہ بھی بہت سے اخراجات ہیں مثلاً غرباء فنڈ ہے.خدام الاحمدیہ کے مختلف چندے ہیں ، وہ اس میں شامل نہیں ہیں.اس طرح جماعت کی کئی لاکھ کی مالی قربانی ہے جو اس میں آ ہی نہیں سکتی.84لاکھ 93 ہزار یعنی قریباً85لاکھ کی مالی قربانی اندرون پاکستان کی جماعتیں مختلف شعبوں میں دے رہی ہیں اور ایک کروڑ 28لاکھ 38 ہزار (پاکستانی کرنسی میں بیرون پاکستان کی آمد ہے.یہ گویا پونے دو کروڑ ہیں بلکہ یہ رقم دو کروڑ 28 لاکھ بنتی ہے.گویا کل میں نے 53 لاکھ روپے کم شمار کئے.اب میں 981

Page 999

ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم نے دوبارہ وضاحت بھی کر دی ہے اور مجھے امید ہے کہ دوستوں کی سمجھ میں آ گئی ہو گئی کہ سوا دو کروڑ سے زائد کا بجٹ ہے ، جو انشاء اللہ پورا ہوگا.ابھی ابھی لجنہ اماءاللہ کی طرف سے چٹ ملی ہے کہ ان کا بجٹ کا اندازہ دس لاکھ رپے کم لگایا گیا ہے.بہر حال اب جو میں نے اندازہ پیش کیا ہے اس سے زیادہ ہی ہوگا کم نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے اور اللہ کے یہ فضل میں اس لئے نہیں گنوار ہا کہ آپ کے دل میں کوئی فخر پیدا ہو.بلکہ اس لئے گنواتا ہوں کہ آپ کے دل میں اور زیادہ بجز اور انکساری پیدا ہو کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ہمارے جیسے کمزور بندوں کو جب نواز نا چاہے تو اس طرح نوازتا ہے.مکرم مرزا عبد الحق صاحب نے ابھی بتایا ہے کہ 67ء کو جب میں سرگودھا گیا تھا تو اس وقت باتوں باتوں میں ایک عام اندازہ لگایا گیا تھا کہ جماعت کی آمد ایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے.اور اس وقت جو ایڈریس پیش کیا گیا تھا، اس میں بھی اس بات کا اظہار کیا گیا تھا اور اب 1973ء میں بالکل صحیح اعداد و شمار کی رو سے آمد دو کروڑ 28 لاکھ تک پہنچ گئی ہے.فالحمد للہ.یہ حض اللہ کے فضل کا نتیجہ ہے بہت سے لوگ اس میں بھی بڑا شور مچائیں گے اور کچھ یہ لکھ دیں گے (پہلے کئی لوگ اس قسم کی باتیں لکھ چکے ہیں) کہ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ جماعت احمد یہ نائیجیریا کے چندے منجمد کر دے حالانکہ نائیجیریا کی حکومت پر تو ان کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے.اسی طرح جب میں نے کہا کہ نائیجیریا نے ریڈیو اسٹیشن لگانے کی اجازت دے دی ہے تو اخباروں میں آگیا کہ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ اس کو فوراً بند کروانے کا انتظام کرے.پاکستان کی حکومت نائیجیر یا یں تو پابندی نہیں لگا سکتی.وہ تو یہاں بھی ہمارے لئے سہولتیں ہی پیدا کرے گی اور زیادہ سے زیادہ پیدا کرتی چلے جائے گی.انشاء اللہ.تا ہم اس کی تفصیل اس کو نظر آئے یا نہ آئے.لیکن مجموعی کیفیت یہ ہی ہے کہ جماعت ترقی کرتی چلی گئی.کئی جگہ شاید نظر آیا ہو کہ لوگ ہماری مخالفت کر رہے ہیں.لیکن عملا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی چیز ہمارے خلاف نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی.اس لئے کہ خدا تعالیٰ مخالفت کے تیر کو خود ہی موڑ دیتا ہے.صفات باری کے مظہر اتم نے مٹی کے ذروں کو پھینکا تھا جنہوں نے خدا کی طاقت سے کفار کی آنکھوں کو چندھیا دیا تھا.پس تیر کا رخ کسی اور طرف ہوتا ہے لیکن خدائی تصرف اس کا رخ پھیر دیتا ہے.قیصر روم کے خلاف جب خلافت اولی میں جنگیں ہوئیں تو ایک موقع پر انہوں نے مسلمانوں پر رعب ڈالنے کے لئے عورتوں اور عام شہری لوگوں کو بھی فصیل کے اوپر لاکر کھڑا کر دیا.ان کے پادری بھی وہاں آکر کھڑے ہوئے.حضرت خالد بن ولید کو عجیب خیال آیا انہوں نے تیر اندازوں کو بلایا اور کہا کہ آگے بڑھو اور فصیل پر کھڑے لوگوں کو تیروں کا نشانہ بناؤ.پھر کہا میرا تمہیں یہ حکم ہے کہ ایک ہزار آدمیوں 982

Page 1000

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء کی آنکھیں پھوڑ دو.چنانچہ انہوں نے تیراندازی کی.ان تیراندازوں میں ایک مسلمان لڑکی بھی شامل تھی.جسے بیوہ ہوئے صرف ایک دن گزرا تھا.مسلمانوں نے تیراندازی سے ایک ہزار آدمیوں کی آنکھوں کا نشانہ لیا.اب کیا وہ کوئی انسان تھا جس نے آنکھوں میں تیر مارے؟ نہیں! انسان نہیں مار سکتا.میں نے بڑا سوچا اور یہی سمجھا ہے کہ پتہ نہیں تیر کدھر جا رہے تھے فرشتوں نے پکڑ کر رومیوں کی آنکھوں میں گھسیڑ دیئے.خدا تعالیٰ کی قدرت پس پردہ کارفرما ہوتی ہے.ورنہ تو جزاوسزا کا مسئلہ ہی کوئی نہ رہے.اگر خدا تعالیٰ کی صفات ظاہر و عیاں ہو کر سامنے آجائیں تو ایمان بالغیب جو ایمان کی بنیادی کیفیت ہے وہ کس طرح پیدا ہو.جب حضرت خالد بن ولید نے تیر اندازوں کو دشمن کی آنکھوں کا نشانہ لینے کا حکم دیا تھا تو اس وقت ایک منافق کہتا ہوگا کہ خالد پاگل ہو گیا ہے کہ وہ اس قسم کا حکم دیتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے حضرت خالد کے دل میں ڈالا کہ تیراندازوں کو آنکھوں کا نشانہ لینے کا حکم دو اور فرشتوں کو کہا کہ تیروں کو پکڑ کر آنکھوں میں ڈال دو.چنانچہ ایک ہزار آدمی چیختا چلاتا شہر کی طرف بھاگا کہ ہم اندھے ہو گئے.ہم اندھے ہو گئے جس کی وجہ سے سارے شہر میں سنسنی پھیل گئی.اور ان کا یہ خیال تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف لڑ سکتے ہیں ختم ہو گیا.ویسے بھی جس فوج کو پتہ چل جائے کہ مقابلے میں جو فوج ہے وہ آنکھوں کا نشانہ کامیابی سے لے سکتی ہے تو اس کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں.نہیں یہ تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ جماعت کو ترقی پر ترقی عطا کرتا چلا جارہا ہے اور دنیا کو اپنی قدرت کے جلوے دکھا رہا ہے.تاہم یہ ایک پردہ ہے، جس کی روحانی آنکھ ہے ، وہ اس پردے کو چیرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے دیکھ لیتی ہے.لیکن جو دنیا دار ہے، وہ اعتراض کرتا چلا جاتا ہے اور مخالفانہ کوشش کرتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ خدا سے جنگ نہیں لڑ رہا.حالانکہ نتیجہ بتا تا ہے کہ دراصل اس کی کوشش خدا سے جنگ لڑنے کے مترادف ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ کہا ہے انسانوں سے نہ ڈرنا بلکہ صرف مجھ سے ڈرنا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے تو غلبہ اسلام کے لئے کھڑے ہو کر کام کرنے کا حکم ہے.جولوگ کمزور ہیں وہ میر اساتھ چھوڑ دیں.آخر آپ نے کس برتے پر کہا کہ جو کمزور ہیں وہ میرا ساتھ چھوڑ دیں.آپ نے قربانی کا جو نقشہ کھینچا ہے، ہو سکتا تھا کہ آپ نے بھی سوچا ہو کہ شاید ایک آدمی بھی آپ کے ساتھ نہ رہے.مگر آپ کا خدا پر کامل یقین اور ایمان تھا کہ آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال نہ ہوا کہ اگر سارے لوگ بھی آپ کو چھوڑ دیں تو پھر کیا ہوگا.آپ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اگر لوگ میرا ساتھ چھوڑ دیں گے تو پتھر میری صداقت کی گواہی دیں گے.کیونکہ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ مسیح موعود کی 983

Page 1001

ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم صداقت بہر حال ظاہر ہوگی.پس حضرت مسیح موعود کو جو بشارتیں دی گئی ہیں وہ بھی تو بہر حال پوری ہوں گی.اور خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جوان بشارتوں کے پورا کرنے میں ( جو بظاہر پردوں کا انتظام کیا گیا اس میں انتہائی قربانیاں دیتے ہوئے حصہ دار بن جائیں گے اور خدا کے فضلوں کے مور د ھہریں گے.پس دنیا اپنے کام میں مشغول ہے ہمیں ان کی طرف توجہ ہی نہیں دینی چاہئے.خوف کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان اس طرف دیکھنے لگ جاتا ہے.اگر کسی کے سامنے سانپ آجائے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ توجہ دوسری طرف پھیر لے.وہ تو سانپ سے آنکھیں ہی نہیں ہٹائے گا کہ کہیں اسکا میری طرف رخ نہ ہو جائے.پیچھے بٹے گا، بھاگے گا، دوڑے گا اپنی جگہ تبدیل کر یگا اور بھی بچاؤ کا جو بھی ذریعہ اس کے دماغ میں آئے گا اسے اختیار کرے گا.مگر وہ اپنے دشمن سانپ کو آنکھ میں پکڑے رکھے گا.پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ میرے سوا کسی سے ڈرنا نہی تو ہمیں یہ بھی فرمایا کہ کسی کی طرف توجہ نہیں کرنی.کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھنا.ان کو لاشئی محض سمجھنا ہے ان کو ایک مردہ کیڑے سے زیادہ اہمیت نہیں دینی.خدا پر توکل رکھنا وہ سچے وعدوں والا ہے وہ خود ہی اپنے فضل سے اپنے وعدوں کو پورا کریگا اور یہ کام ہو جائے گا.جو ہمارا کام ہے وہ ہم کر رہے ہیں انشاء اللہ بیرونی جماعتوں میں خبریں پہنچائیں گے.جماعت دعائیں کرے گی.ان کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ کرے ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے ہمارے گی.ان کہ تعالی وجہ او پر جوفضل نازل ہورہے ہیں ان میں کمی واقع نہ ہو.اور خدا کے فضلوں کے نزول میں روز بروز جو شدت پیدا ہورہی ہے، وہ ہمیشہ ہی قائم رہے.دنیا مختلف رنگوں میں یہ کہہ رہی ہے اور ہمارا بھی یہی تاثر ہے کہ غلبہ اسلام کی مہم میں یہ شدت اگلے چند سالوں میں اور بھی تیز ہو جائے گی اور حالات بہت بدل جائیں گے.تکلیفیں تو ہیں، ابتلاء تو آتے رہیں گے.لیکن جو لوگ اخلاص کے ساتھ اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے اپنے مقام پر کوہ ہمالیہ سے بھی زیادہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہیں گے.وہ اللہ تعالیٰ کے ایسے فضلوں کو سمیٹیں گے کہ قیامت تک کی نسلیں ان پر رشک کرتی رہیں گی.کیونکہ جو ترقی کا زمانہ ہے اس کی اور کیفیت ہوتی ہے مثلاً جب جنگ ہو رہی ہوتی ہے تو اس وقت اور کیفیت ہوتی ہے.اور جب ساری دنیا میں اسلام قائم ہو جائے گا اور اقوام عالم مسلمان ہو جائیں گی تو ان کی ایک خاص روحانی اور اخلاقی معیار پر اور اسلامی معیار پر قائم رکھنے کی مہم چلائی جائے گی.دنیا کو اسلام کی طرف کھینچ کر لانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیاران کے دلوں میں پیدا کرنے اور اللہ تعالیٰ کے قدموں پر اقوام کو اکٹھا کر کے امت واحدہ بنانے کی جو عظیم جد و جہد ہے، وہ ہی عظیم چیز ہے.دنیا کی کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.جو لوگ اس میں اپنی ذمہ 984

Page 1002

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم ارشادات فرمودہ یکم اپریل 1973ء داری کو اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق نباہنے والے ہیں انسان تو کیا فرشتے بھی ان پر رشک کریں گے.آپ کو اور مجھے یہ زمانہ میسر آیا ہے.خدا تعالیٰ جو فضل نازل کرنا چاہتا ہے، ہم خود کو اور اپنی نسلوں کو ان سے کیوں محروم رکھیں.ہماری زندگی چند روزہ ہے اور یہ زمانہ بھی جیسا کہ ہمیں نظر آرہا ہے.کچھ وقت تو لگے گا آخری فتح پر یعنی جب ساری اقوام مسلمان ہو جائیں گی.لیکن جو کامیابیاں مثلاً پچھلے بیس سال میں حاصل ہوئیں یا جو کامیابیاں پچھلے سات سال میں حاصل ہوئیں اگلے سات سال میں یا اگلے بیس سال میں اس سے کہیں زیادہ کامیابیاں مقدر ہیں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے.اس لئے نہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کا جھنڈا دنیا پر ہرانا چاہتے ہیں.بلکہ اس لئے کہ ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دیا گیا تھا اس نے اس جھنڈے کو سرنگوں کر دیا.اب صرف ایک جماعت ہے جس نے اس جھنڈے کو سر بلند کر رکھا ہے اور دوسروں کے ہاتھوں میں دے کر اسے ساری دنیا میں بلند کرنا چاہتی ہے.پس فتح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو ہوگی البتہ ہاتھ آپ کے ہوں گے.جہاں تک ہاتھوں کا تعلق ہے، کمزور ہاتھ ہیں.لیکن چونکہ خدا یہ کہتا ہے کہ تمہارے ہاتھ کے پیچھے میرا ہاتھ سہارا دیئے ہوئے ہے.تمہارا ہاتھ خدا کے فضل سے نیچے نہیں جھکے گا.پس تم اپنے اس زمانے کی قدر کرو اور خدا پر احسان جتانے کی کوشش نہ کیا کرو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے.وو افریقہ میں نصرت جہاں سیکیم کے ماتحت ہم نے بعض جگہ لڑکیوں کے سکول بھی کھولے ہیں.ان کے یونیفارم بھی یہاں کی طرح کی میض اور شلوار رکھ دی ہے.وہاں مغربی تہذیب نے اتنا گند پھیلا دیا تھا کہ کہ ان کی سکرٹ (Skirt) یورپ کی سکرٹ سے بھی اونچی ہوگئی تھی.چنانچہ جب ہم نے یو نیفارم تجویز کی تو غیر احمدی بلکہ عیسائی والدین تک نے ہمیں یہ کہا کہ آپ نے ہماری بچیوں کو اس قسم کے کپڑے پہنا کر ہم پر بڑا احسان کیا ہے.تاہم یہ کہنا کہ پتلون کافرانہ لباس ہے تو یہ غلط ہے.لیکن یہ سمجھنا کہ ہم لندن کا لباس پہن کر یا دوسرے یورپین ممالک کا لباس پہن کر یا امریکہ کا لباس پہن کر یا روس اور چین کا لباس پہن کر زیادہ معزز بن جائیں گے تو یہ غلط ہے“.رپورٹ مجلس شوری منعقد ہ 30 مارچ تا یکم اپریل 1973 ء ) 985

Page 1003

Page 1004

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چہارم اشاریہ آیات قرآنیہ 2.احادیث مبارکہ 3 کلید مضامین -4 اسماء 5- مقامات 6.کتابیات اشاریہ 987

Page 1005

Page 1006

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد چہارم الفاتحة آیات قرآنیہ اشاریہ، آیات قرآنیہ انفقوا في سبيل الله....( 195 353 21,33,45,87,131,141, وما تفعلوا من غير يعلمه الله.....(198) 149,153,167,209,229,235,253,291,292, 311,319,329,347,371,383,405,415,425, 431,469,495,527,560,577,669,683,695, 701,723,777,879,891,917,933,953,959 البقرة هدى للمتقين.....( 3 )347,354 يومنون بالغيب.....( 6274 و عمارت قنهم ينفقون....( 4 778 ان الذين كفروا سواء عليهم....(3497 قردة خاسئين.....( 66 (662 ما يود الذين كفروا.....( 106 )425,427 425,428 ان الذين امنو او الذين هاجروا.....( 88219 من ذالذى يقرض الله قرضاً.....(246) 27,28,845 انفقوا مما رزقنكم....(255 353 والكفرون هم الظلمون.....(353255 لا يكلف الله نفساً إلا وسعها.....(287) 279,911 آل عمران ربنا لا تزغ قلوبنا بعد ان هديتنا.....( 9 ) 347,348 وما تقدمو الانفسكم.....(425111 لن تنالوا البر حتى تنفقوا....( 93 ) 354,355 طهر ابيتي للطائفيس.....( 126 127 واعتصموا بحبل الله جميعا....(104) ربنا تقبل منا.....127 128).215,467 و من ذريتناامة مسلمة لك....( 129 127 ولتكن منكم امة يدعون....( 105 ) 330 باسرها الذين امنوا استعينوا.....( 154 )48,50 موتوا بغيظكم.....( 120 )477,551 وبشر الصبرين.....(397156 انتم الاعلون.....(140)627,628,631 ان الله وانا اليه راجعون.....(157) ولين قتلتم في سبيل الله او متم...(94158 378,397,405 و شاورهم في الأمر.....( 597160 989

Page 1007

اشاریہ آیات قرآنیہ ان ينصر كم الله فلا غالب.....(27161 ولا يحسبن الذين.....(181,182) 357,358,359 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم الا تنفروا يعذبكم.....( 39 )614 ولو ارادوا الخروج لا عدو.....( 46 ) 232,277,910,942 ان الله فقير ونص اغنيا.....( 182 )362 ومن الاعراب من يتخذ.....( 98 )425,427 ربنا اننا سمعنا منادياً.....(194,195 )959 مردوا على النفاق........( 101 )33,42 النساء أن تؤدوا الأملت الى الهليا.....( 59 )863 عسى الله ان يتوب عليهم.......( 103 ) 36,37 يايها الذين امنو اذا ضربتم.....(9595 خذ من أموالهم صدقة.......( 103 37,38 ان العزة لله جميعا....( 40 ) 13 المائدة وتعاونوا على البر والتقوى....( 3 )452,465 اليوم ا ٢ اكملت لكم دينكم.....(1504 اتممت عليكم نعمتي.....( 4 )150 ورضيت لكم الإسلام دينا....( 4 )150 فلا تخشوا الناس واخشون.....( 45 )971 ان صلوتك سكن لهم.....( 103 )42 33(102,103)..و اخرون اعترفوا بذنوبهم.يونس ويجعل الرجى.....(101)409 فلا راد لفضله.....( 108 )425 يوسف انا انزلنه قرأناً عربياً.....( 3 )406 بهايها الذين امنوا من برند.....( 55 )89 انما اشكو ابتی و حزني الى الله....(4987 الاعراف ربنا افتح بيننا وبين قومنا.....( 90 )959 الانفال والذين امنو او هاجروا.....( 75 )91 التوبة انفروا في سبيل الله.....( 38 )95 اشا قلتهم الى الارض.....( 38 )613,621 ابر القيم لئن شكرتم لأزيدنكم.....( 8 )822 النحل جادلهم بالتي هي احسن....(350126 بنی اسرائیل وما كنا معذبين حتى نبعث رسولا..( 16 )302 ان العربد كان مسئولا.....( 35 )651 990

Page 1008

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد چہارم جاء الحق وزهق الباطل....( 82 )876 الكريف ماشاء الله لا قوة الا بالله....( 40 )380 قل انما انا بشر مثلكم.....(111) 532,657-659 الانبياء فلا كفران السعيه....(41995 الحج فالهكم اله واحد.....(41135,36 النور لقمان اشاریہ، آیات قرآنیہ واذ قال لقمى ابنه.....( 14 (151 الاحزاب من قضى نحبه.....82724 فاطر يايها الناس انتم الفقراء.....(18-16) 357,359,360,362,378 ان من امة الاخلا فيها نذير.....( 25 )629 وما انا من المتكلفين.....( 87 )946 الزمر نور السموات والارض....( 44336 الله نزل احسن الحديث كتباً.....(41024 في بيوت اذن الله ان ترفع ويذكر فيها 102(37)....st الفرقان وجا لقد هم به جهاداً كبيراً.....( 53 )96 قل ما يعبوا بكم ربي.....( 69778 ہی الشعراء لملك باضع نفسك....( 4 ) 541,558,819 النمل ان الملوك اذادخلو اقرية.....( 35 ) 532 القصص اليس الله بكاف عبده....( 37 ) 162,170,198,246,254,255,264 لا تقنطوا من رحمة الله.......( 53 )10 حم السجدة قل انما انا بشر مثلكم.....( 497,5857 الشورى فما اوتيتم من شي......( 37 )701 الدخان ان المتقين في مقام امين......( 52 403 محمد ان تنصروا الله....( 8 )817-815 رب اني لما انزلت الى.....( 25 ) 362,559 ينصركم ويثبت اقدامكم....( 8 )815 991

Page 1009

اشاریہ آیات قرآنیہ هانتهم هولاء تدعون.....( 39 ) 371,375,376,379,614 الحجرات ان اكر كم عند الله اتقاكم.....( 14 )582 من حبل الوريد.....( 17 )530 هذا ما توعدون....(41133,34 النجم و ان ليس للانسان الا ما سطى....( 40 )70 المجادلة كتب الله لا غلين انا ورسلي.....( 22 )629 العشر تحسبهم جميعا وقلوبهم.....(15)409 الصف يايها الذين امنو هل ادلكم.....(871112 الجمعة قل ما عند الله خير.....( 701112 الطلاق من يتوكل على الله.....(5234 الحاقة ذرعها سبعون ذراعا ( 33 )120 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم الجن ان المساجد لله....( 19 )242,566 المدثر ولربك فاصبر.......( 7 ) عبس وجود يومئذ مسفرة.....(39,40 )956 المطففين ان الطبرار لفي نعيم.....29-23 27 الفاشية عاملة ناصبة.....( 4 )775 وجوه يومئذ ناعمة.....(12-9)775 البلد فلل اقتحم العقبة.....(17-12 )119 الكوثر انا اعطيناك الكوثر.....( 2 )673 992

Page 1010

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم احادیث مبارکہ اشاریہ، احادیث مبارکہ ان المهدينا آيتين 218,294,514,680 حضرت نبی اکرم اور اصحاب نبوی کی قربانیاں 128 معجزات النبي 131,132 كاد الفقران يكون كفراً 120,122 مؤاخاة 123 حرمت بركة الوحى 330 اختلاف امتى رحمة 676 ولا فخر 693 احاديث بالمعنى آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت 151 مسیح موعود کے زمانے کو با برکت قرار دینا 157 بشاشت ایمانی کے نتیجہ میں شیطانی حملوں سے تحفظ 201,957 بیکار رہنے والے لوگ شیطان کے آلہ کار 19 امام کے دل میں جماعت کی محبت پیدا کی جاتی ہے 209 رسول اکرم کا کھانے پینے کے تمام سامان لینا 25 جوتی کا ایک قسمہ بھی خدا کے منشا کے بغیر نہیں مل سکتا 359 حسب حالات وضرورت قربانیوں کے منصوبے 38 ایک نو مسلم قبیلہ کا ہجرت کر کے مدینہ آنا 361 انسان کا دل خدا کی دو انگلیوں میں ہے 379 سچی توبہ کرنے والے کی کیفیت 43 صحابہ کی مالی قربانی کے واقعات 69 ایک یہودی کا آپ کے بستر کو گندا کرنا 525 ماؤں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے 79,85 شعب ابی طالب میں قید کی تکلیف 525 بچے پر دس سال کی عمر میں نماز فرض ہو جاتی ہے 80 فتح مکہ کے موقع پر حضرت بلال کے جھنڈے تلے پناہ مسلمان بچوں کا باوجود چھوٹی عمر کے جہاد میں حصہ لینا 84 583,584,685,736 ہجرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم 91 ہجرت کی مناہی 91,92 آغاز اسلام کے واقعات 91,92 بعض دفعہ خدا تعالیٰ قربانی قبول نہیں کرتا 589,792 جو کسی کلمہ گو کو کافر کہے، وہ خود کافر ہے 677 معراج النبي 680 حضرت ابوبکر کا اپنا سارا مال پیش کرنا 93,360 رسول کریم کا ایک صحابی کو منافقین کے نام بتانا 680 حضرت رسول کریم کا امام مہدی کو سلام بھیجنا امامت کا حق 797 101,724,851,875,957 زمانے کو برا نہ کہو 835 تیز ہوا کی طرح آپ کی سخاوت 121 غرباءکو وظیفہ بتانا 919 993

Page 1011

اشاریہ، احادیث مبارکہ جب تک تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے رہوگے، دنیا پر تمہارا رعب رہے گا 929 جس شخص میں بال آجائے اس سے جماعتی کام نہیں لینا چاہئے 972 994 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم

Page 1012

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم آزادی ضمیر 39 الله اخد اتعالیٰ 72,822 اللہ تعالیٰ کے افضال احسانات رانعامات کلید مضامین حفاظت الہی 397 حقوق اللہ 237,238,298 خشیت الہی 664 رجوع الی اللہ 184,206,217 اشاریہ، کلید مضامین 259,269,291,297,308,312,320,434 رضا الى 288,695,835 158,167,221, 222,225,226,245,247,253,255,256, 261,264,266-269,271,274,275,279, 319,320,323-327,333,343,374,495, 498,506,512,513,515,516,551,601, 608,683,715, 736,753,755,767,768, 783,800,844,850,853,889,891-895, 901,907,908,929,930,966,983,984 رضا و قرب الہی کا حصول 43,275 زنده خدا 104 شکر الہی274,319,82 صفات الهبية 983 عبادت الہی 618,619 عذاب الہی 434 عشق الہی 816 فنافی اللہ 31,50,785,786 اللہ تعالیٰ کی ذات ہی حقیقی رزاق ہے 131 قرب الہی 41,90,105,341 محبت الہی 31,782,835 اللہ تعالیٰ ہی ہمارا واحد سہارا ہے 633 احکام الہی احکام الہی کی دو اقسام 675 تائید الہی 598,612 تعلق باللہ 147,225,226,250 توکل علی اللہ 759,760,762,779,780,965 مظہر صفات باری تعالیٰ 36,359,360,946 معرفت الہی 239 نصرت الہی 614,615,697,698,709 ولایت الہی 452 995

Page 1013

اشاریہ، کلید مضامین ابتلا / مصائب / تکالیف 623,625,956 ابتال تضرع 225 اتحاد 273,275,276,467 اتمام حجت 145,164,178,305,306 احسان اردو پر احسان 796 احمدیت جماعت احمدیہ سلسلہ احمدیہ / 5,7,10,14,17,18,39- 41,57,63,70,93,116,142,149,154, تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم دنیا میں احمدیت کی مقبولیت 562 سپین میں احمدیت کی مقبولیت 732 عرب ممالک میں احمدیت کی مقبولیت 726-723 کمیونسٹ ممالک میں احمدیت کی مقبولیت 565,566 یورپ میں احمدیت کی مقبولیت, 160,161,163 164,176,177,181,188,190-192,197- 204,211,214,216-218,223,224,229, 230,243,245,279,309,344,383,925 جماعت احمدیہ / احمدیوں کی ذمہ داریاں 48 70,159,161,204-206,231,232,234, 248,276,277,279,281,282,288,289, 291,292,303,309,312,313,321,342, 367,425,428,435-438,442,483,484, 518,559,561,570,574,620,621,669, 670,676,681,698,736,819,824,827, 157,159,207,215,225,230,253,274, 282,374,415-417,420,423,518,632, 636,637,654,660,663,679,686,716, 751,783,791,819,821,903,935,985 امن کا قیام احمدیت سے وابستہ ہے 75 اشاعت احمدیت 393-220,391 احمدیت کی مقبولیت افریقہ میں احمدیت کی مقبولیت 469-471,479-481, 839,848,853,854,895,911,969,970 جماعت احمدیہ سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض 107,231,281,819 جماعت احمدیہ پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا 653,751,920 جماعتی ترقیات 632,636 جماعت احمدیہ.خدمت انسانیت 461 جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد 351 جماعت احمدیہ میں خلیفہ کا مقام 250-248 483,495,498-502,504,505,514-517, 524,540-544,557-561,563,571-573, 575,581,586,587,591,592,601,615, 665,714,747,819,822,825,826,848, 882,884,885,887,892-894,966,967 996

Page 1014

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم جس جماعت کا دائرہ عمل ساری دنیا پر محیط ہو، اس کی ارتداد 89 سوچ محدود نہیں ہونی چاہئے 795 جماعت احمدیہ کا اپنا ریڈیو اسٹیشن 720 استحکام پاکستان 847 استقامت 36,95 اشاریہ، کلید مضامین جماعتی براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کی ضرورت واہمیت و فوائد استقامت کے معنی 35 729-731,845,867-869,975-979 استقلال 89 جماعتی پریس کی ضرورت واہمیت وفوائد - 455 اسلام, 18,38,39,67,69 457,484,726-729,844,867,896,912 جماعتی ٹرانسمیٹنگ اسٹیشن کی ضرورت و اہمیت و فوائد 457-459 70,103,150,153,154,197,206,207, 225,230,282,285,291,292,299,323, 367,368,426,748,820,935,936,955 جماعتی اتحاد 233,250 حقیقی احمدی 152 جماعتی ادارہ جات نشأة اولى ونشأة ثانيه 101,323,426 اسلام کے معنی 785 اسلام کی مضبوطی کی ضرورت 17 تمام جماعتی ادارے اپنے کام کی منصوبہ بندی اسلام کی نا گفتہ بہ حالت 561 کریں 15,16,107,108 جماعتی تعلیمی ادارے ,461 462,594,595,773,923,965,966,967 افریقہ کے ممالک میں سکولوں کا قیام 76 احتیاج 362,363 اختلاف باہمی اختلاف نہیں ہونا چاہئے 67 اخلاص,201,203,204 اسلام کی جنگ احمدیت کے علاوہ کسی نے نہیں لڑنی 574 اسلام کی ترقی کا سورج طلوع ہو چکا ہے 809 اسلامی تعلیمات 71,90 151,152,300,468,495,496,558 عزت کی حفاظت کے متعلق اسلامی تعلیم 151 اشاعت اسلام 84 104,201,211,215,216,233,235,253, 267,313,374,406,424,442,495,714, 211,222,224,229,243,244,269-273, 374,415,561,692,779,827,837,838 اخلاق 396,402 754,775,816,819,821,824,900,924 تبلیغ اسلام کے مراکز 10 حجت اسلام 698-696 997

Page 1015

اشماریہ، کلید مضامین خدمت اسلام 373 صداقت اسلام 155 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم شمار فضل اور رحمت نہیں ہے 343,891 صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا 652 غلبہ اسلام ,1,6,7,10,15,45,57,60,75,103,107 مجھ کو کیا ملکوں سے میر املک ہے سب سے جدا 142,143,154,155,157,159,164,209, 221,232,249,253,276,279,281,282, 287,298,299,301,310,332,333,335, 341,345,351,363,364,368,375,383, 405,406,425,433,465,467,523,599, 613,615,674,679,685,686,694,699, 711,714,751,760,763,775,782,783, 785,786,804,820,821,876,877,920, 921,939,958,960-962,970,983-985 غلبہ اسلام کے لئے افریقہ میں کیمپ ہے 617 اشاعت لٹریچر 742,843,859 اشعار و مصرعے اک سے ہزار ہوویں 324,326 870,965 ز بذل مال در راہش کے مفلس نے گرد و 25 کسب کمال کن که عزیز جہاں شوی 732 ياعين فيض الله والعرفان 117 انا الغنى واموالى المواعيد 490 يا ابن ادم المال مالي والجنة جنتى و انتم عبادى 491,510 نشان فتح نمایاں برائے ما باشد 399 ندائے فتح نمایاں بنام ما باشد 399 رسید مژده که ایام نو بہار آمد 672,673 دل ریش رفتہ بکوئے دگر 816 ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی 513 اصلاح 223 خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا 21,26 اصلاح نفس 231,232,805 کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں 471 اطاعت 263,637,816,817 گالیاں سن کر دعا دو، پاکے دکھ آرام دو 635 اطفال الاحمدیہ 158 گھر سے تو کچھ نہ لائے 353,473,509,589,778,928 اعتراض / اعتراضات 255 اعمال 34,36 سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے 674 اعمال صالحہ 14,37,43,419,917,918 تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے 513,891 الكفر ملة واحدة933,934 998

Page 1016

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد چہارم الزام تراشی 151 الہام الہامات / وحی 205 آگ سے ہمیں مت ڈراؤ508,592,831 اشاریہ، کلید مضامین لا تيئسوا من خزائن رحمة ربي 673 انا اعطینک الکوثر 673 انی معک یا ابن رسول الله 674 انگلستان میں سفید پرندے پکڑنا 436 امت واحده میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا 265 555,847,855,876,926,938,939,984 کوریا خطرناک حالت میں ہے.مشرقی طاقت 400 امر بالمعروف و نہی عن المنکر 367 تینوں اتنا دیاں گا کہ تو رج جاویں گا 518 امن تزلزل در ایوان کسری فتاد 400 امن و سلامتی 150,292 رسید مژده که ایام نو بهار آمد 672 امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ 291,292,306,307 نشان فتح نمایاں 399 انبیا ورسل میں اپنی جماعت کو روس میں ریت کے ذروں کی مانند انبیاء کی بعثت کی بڑی غرض 367 دیکھتا ہوں 436,629 زندہ رسول 104 میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال انتباہ 262,268,271,303 حاصل کریں گے 679 انتقام سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں، جمع کرو.علی حسین ، شیریں انتقام 584,855,856-581 دين واحد675 انداز فکر ہندو مذہب کا ایک دفعہ پھر اسلام کی طرف رجوع کرنا 436 اپنے انداز فکر کو بین الاقوامی بنا ئیں 391 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 732 انذار 211,212,320,428,434,467 ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی 681 انداری پیشگوئی 298 اليس الله بکاف عبده 162,198,246,254,255,264 انجام انجام بخیر 375 مبارک و مبارک و کل امر مبارك يجعل فيه 174 انصار الله 372,704,705,707,711 ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء 326 دفتر دوم کی ذمہ داری انصار اللہ پر 372 الله يعلينا ولا نعلى 632 دفتر سوم کی ذمہ داری انصار اللہ پر 702 999

Page 1017

اشاریہ، کلید مضامین انفاق فی سبیل اللہ 25,27,28,31,69,71,93,94,96,353- 356,373,376,778,779,780,781,917 انفاق فی سبیل اللہ کی برکت 377,378 انقلاب انقلاب عظیم 866,932 روحانی وجسمانی انقلاب 299,723 روحانی انقلاب کے لئے ہماری ذمہ داریاں 10 روسی انقلاب 298-296 ایثار 6,39,72,224,243,245,281,374 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم نفوس اور اموال میں برکت 13 براڈ کاسٹنگ اسٹیشن 756 جماعتی براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کی ضرورت واہمیت و فوائد 729-731,845,867-869,975-979 بشاشت ایمانی 202 بنجع 58 558 بخل357,358,364,376,378 بعثت انبیاء کی بعثت کی بڑی غرض 367 حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض 45 59,67,137,163,182,183,212,213,258, 259,288,449,565,609,696,804,938 ایمان 223,627,630,631,669,671,681,687,960 ایمان بالغیب 631,983-628 ایمان بالله 628 بشاشت ایمانی 202 ).بنی نوع انسان / انسان / انسانیت 150,157,204,238,292,461,526 بنی نوع انسان سے حسن سلوک ؟ نفس انسانی 711 بھوک 122 پرده 158,159 پریس ا پریس کانفرنس (الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ) 163,179,180,182-190,211-214, 216,244,247,248,256-264,266,267, 287-289,305,309,311,312,320,383, 388,467,515-517,544,657,661,663, بدی 36 بدظنی 151,862 برکت / برکات 323-327,373,374,377,378,381,445, 446,611,612,655,692,693,732,929 برکت کے معنی 13,14 انفاق فی سبیل اللہ کی برکت 377,378 سادگی میں بڑی برکت ہے 813 1000

Page 1018

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چہارم 754,756,824,913,923-926,930,932 جماعتی پریس کی ضرورت و اہمیت و فوائد - 455 اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید, 8,59,60,82,83,87,92 457,484,726-729,844,867,896,912 پیشگوئی پیشگوئیاں 98,109,113,115,123,139,168,311, 313,371,389,417,442,653,654,701, 777,782,811,829,849,888,891,937 205,206,212,214,218-221,294-298, 301-303,306-308,400,401,434,436- 438,508,669,670,672-676,678,681 انداری پیشگوئی 298 پیار ( دیکھئے محبت ) تاریخ اسلام 101,102 نتباہی عالمگیر تباہی سے بچنے کا واحد طریقہ 155 تبليغ 67-11,65 تحریک جدید.ایک الہبی تحریک 415 تحریک جدید کی اہمیت اور برکات 21 تحریک جدید کے ثمرات 939-391,937 تحریک جدید.خلافت کی برکت 391 تحریک جدید - حضرت مصلح موعود کی ایک عظیم یادگار سرزنشانی 415,417 تحریک جدید کے چند نمایاں پہلو 415,416 تحریک جدید کے کام اور ذرائع 433,967 تحریک جدید کے کام کا تقاضا 811 تحریک جدید کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے 778 77,109,116-118,162,201,203,238, 291,312,317,320,350,388,393,396, 401,402,435,502,531,570,714,724, 754,793,816,819,820,843,860,861, 880-882,884,909,924,925,926,967 تحریک جدید وقتی نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے 60 وقتی تحریک جدید کو ہدایت 16 تحریک جدید کے کاموں کا جائزہ 739-745,843,844,963 اپنی دعاؤں میں تحریک جدید کے مخلصین کو یا درکھو 783 تبلیغ اسلام کا ایک بڑا منصوبہ 925,926,931,932 چنده تحریک جدید 94,96 تبلیغ اسلام کے مراکز 10 تبلیغ کا ایک ذریعہ.سکول 78 تجارت / تاجر 763,764 تجدید دین 421,422,713,880,881 98,314,315,364-366,371-373,379, 380,415,417-419,431-433,445-450, 701-704,710,777,783,829-834,849, 861,862,967-969,971-973,980,981 1001

Page 1019

اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد چہارم چندہ تحریک جدید کی مثال سنتوں کی سی ہے 81 تزکیہ نفس 34 تحریک جدید کے وعدہ جات 24,41 تحریک جدید کے وعدہ جات کا جائزہ 21,220 تحریک جدید کے وعدہ جات لکھوانے میں تاخیر کے نقصانات 22,23 دفاتر تحریک جدید 60,61,87,96,97,313,371,833 دفتر دوم کی ذمہ داری خدام الاحمدیہ پر 24 تعصب 395,664,705,726-392 تکبر / متكبر 433 تنظیمیں جماعتی رذیلی تنظیمیں 7,442 توبہ استغفار 34,36,37,43,298,792 توحید / قیام توحید 83,233,276,281,313,522,838 توکل علی الله 11,132 دفتر دوم کی ذمہ داری انصار اللہ پر 372 دفتر سوم کی ذمہ داری انصار اللہ پر 702 274,368,524,759,760,762,779,780 دفتر سوم تحریک جدید 387 ٹرانسپیرنسی 387,388 مطالبات تحریک جدید 71,416 مطالبات تحریک جدید کی دہرائی 72 بیرون ممالک کاموں کی ٹرانسپیرنسی تیار ہوں اور مرکز بھجوائی جائیں 113 مطالبات تحریک جدید قرآن کریم کے پیش کر وہ مطالبہ جماعتی ٹرانسمٹنگ اسٹیشن کی ضرورت و اہمیت و فوائد جہاد کی ہی مختلف شقیں ہیں 87,96 تربیت,126,127,223,233 457-459 ٹیلی پرنٹنگ 978,979 236,238,250,269,290,347-349,374, 375,415,435,529,679,704,706,707, 721,804,827,861,917,918,972,973 ٹیم ورک 970,971 ثانی اثنین کا مفہوم 614,615 تربیت اولا و 79,80,85,282,283,805 ج 743,744,795-798,860,866,867 جامعہ احمدیہ ترقی /ترقیات ترقیات کے حصول کی کوشش 70 1002 66,132,337-339, 529-533,562,604-608,811,812,863,972

Page 1020

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد چہارم جلسہ سالانہ 839,840,888,889 جلسہ سالانہ پر غیر ملکی وفود آئیں 943,950,951-941 جلسہ سالانہ کے ایام میں الفضل کی اشاعت 975 جمعہ اور رمضان 829,835 جماعت / سلسلہ انتظام 275 جنت 956 جنگ لڑائی آخری جنگ 233 روحانی جنگ 15 جنگ عظیم چندہ تحریک جدید 94,96 اشاریہ، کلید مضامین 98,314,315,364-366,371-373,379, 380,415,417-419,431-433,445-450, 701-704,710,777,783,829-834,849, 861,862,967-969,971-973,980,981 چندہ تحریک جدید کی مثال سنتوں کی سی ہے 81 چرچ لوتھرن چرچ 263 چینج 271 جنگ عظیم اول 296,297 جنگ عظیم دوم 296 جنگ عظیم سوم ( پیشگوئی ) 297,298 جہاد 83,96,428 جہادا کبر 815 جہاد فی سبیل اللہ 613 حالات 811 حديقة المبشرين 536,538,539,545-534 حدیث ( دیکھئے احادیث مبارکہ) 260,261,273,683-686,693,7076 حقوق اللہ 237,238 حقوق العباد 237,238,298 جہاد بالقرآن 442 5327 مطالبات تحریک جدید قرآن کریم کے پیش کردہ مطالبہ جہاد کی ہی مختلف شقیں ہیں 87,96 مجاہد 96,120,288,419-84,88,89,91 چ چنده ( وعده ، ادائیگی ، وصولی ) جماعتی چندہ جات 40,81,449,763,779,923,981,982 خ خدام الاحمدیہ 237,368,369,704 دفتر دوم کی ذمہ داری خدام الاحمدیہ پر 24 خدمت 664,826,883,884 خدمت خلق 545,638,811 363,426,559 خیر خواہی 298 1003

Page 1021

اشاریہ، کلید مضامین خلافت خلافت احمد یہ خلیفہ وقت 441,550,552,637 خلافت کے کام 441,442 خلافت سے تعلق و محبت 211,222-209 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم ذَكَّرُ 834,835 رسم و رواج 72 رعب 931-929 ز خلافت سے وابستگی 236,237,807,913 خلافت کی برکت.تحریک جدید 391 رمضان المبارک روزے صیام خلیفہ وقت کا کام 763 119,121,124 1004 جماعت احمدیہ میں خلیفہ کا مقام 250,263-248 رمضان اور جمعہ 829,835 خلق جديد 360 خوشی 955,957 خوشی کا فلسفہ 953 رؤیا / کشوف/ خواب 6,153,162,167-175,193-197, 226,227,246,247,254,255,734,735 , 11,42,43,164,223,279,320, 347,380,395,403,463,491,553,575, 625,626,697-699,708,709,733,735, 775,780,821,823,827,828,832,839, 847,901,914,915,959,960,962,984 مبلغین کو دعاؤں کی تحریک 3 قربانی کرنے والوں کے لئے دعا 41 قبولیت دعا 611,612,820,829 کچی اور جھوٹی خواب میں فرق 178 ریڈیو جماعت احمدیہ کا اپنا ریڈیو سٹیشن 720 زبانیں زبان سیکھنا 65 زبان دانی 754,755 ز زمان 157,835 اس سادہ زندگی 71,123 دوستی قلم روستی 949,951-943 سادگی میں بڑی برکت ہے 813 دہریہ ادہریت 46,154,350,565,566,823 سال نو کی مبارک باد 13 دیانتداری 236,239 سائنسی ترقی 609,610

Page 1022

اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم سبیل کے معنی 88 سکول افریقہ کے ممالک میں سکولوں کا قیام 76 سوانح حضرت مسیح موعود علیہ السلام 294 علم/ تعلیم / علوم قرآنی تعلیم ( تعلیم القرآن ) 150,410,412,413,848 عیسائی رعیسائیت 59,69,154,233,234 سینما بینی 71 ش شرک | مشرک | مشرکین 154 شیطان نو جوانوں کو شیطان کے حملہ سے بچانا 19 مبر 50,51,395,397 ص 264,271,289,299,308,311,312,344, 345,350,351,393,394,517,560,566- 570,574,656,657,753,772,824,826 300 عید 55,119,124,125,953,954,958 صبر کے معانی 49 صداقت حضرت مسیح موعود 724,725,870 اصل عید 58,953,954 غریب / غربت 120,122 صدر انجمن احمد یہ 7 غذا 122 صدقہ و خیرات 847 غلامی 122-119 صفائی 503 غنا 359,360,362 ظ غیبت 151 ظلم 397,401-395 ق ع 225,239,246,53376 عاجزانہ راہیں 236,239 عبودیت 225 عزت حقیقی عزت 131 قبض وبصط کی تفسیر 30-28 قرآن کریم 223,309,406,407,410,743,816 قرآنی برکات 411 قرآنی علوم 408-406 اشاعت قرآن 84,96,104,111,112 389,728,729,731,761,787,815,819, 1005

Page 1023

اشاریہ، کلید مضامین 843,844,848,857-860,865-867,896- 900,903-905,907-909,911,912,914 خدمت قرآن 775 مطالعه قرآن کریم 409 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم قربانیاں (روحانی ، جانی، مالی، دینی ، اولا د اور وقت کی قوم / اقوام 5,6,17,37-41,50,70- 73,79-81,83,98,104,120,125,127, 128,158,159,164,165,200,204,224, 229,235,245,246,249,275,276,281, 282,306,310,312,313,315,323,326, 332-334,339,341,342,351,357-363, 373-375,377,381,403,415,417,419, 430,433,436,438,439,450,484,491, 510,518,532,536,555,561,588-591, 598,599,601,602,604,614,615,618, 620,635,652,653,656,670,687,690, 694,696,699,701,711,719-721,755, 760,761,766,780,782,783,791,805, 815,827,828,837,847,871,873,875, 877,911,914,917-921,930,931,935, 936,954,956,958,960,961,969,983 قربانی کا مطالبہ 60,155 مالی قربانی میں بچوں کی شمولیت 82 بچوں کے دل میں قربانیوں کا شوق پیدا کر و 139 لجنہ عورتوں کی قربانیاں 142,160 قوانین کی پابندی 392,398 افریقن قوم -581,594-577 596,606,648,659-661,666,735,736 جرمن قوم 923 چینی قوم 46,47 روسی قوم 45,214,215 عرب قوم 617 عیسائی قوم 47 کتاب / کتب زنده کتاب 104 کتب حضرت حضرت مسیح موعود 797-795 جماعتی کتب کی خریداری کی تحریک 9 کتب سلسلہ کی اشاعت 111,112,115 کتب سلسلہ کے تراجم 111,112 کسوف و خسوف 295 294 تعمیر کعبہ کے مقاصد 125 قربانی کا ایک نمونہ 55 مقبول قربانی ہی اصل چیز ہے 792 کمال کا حصول 35,36 کمیونزم 298-296 1006

Page 1024

اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم کمیونیکیشن میز آف کمیونیکیشن 609,610 کوثر کی تشریح 672 مبلغین کو سلام 959 مجدد 421,422 محبت ( پیار) 273,277,482-269 گناہ گناہ گار 38-34,36 ل لجنہ اماء الله / عورت.143,150,157,244, 525,526,539-545,559,572,586-588, 648,649,659,660,663,715,751,819 غیر اللہ کی محبت 34,35 245,289,290,306,602,603,719-721 لجنہ اماءاللہ کے قیام کی غرض 79 لجنہ عورتوں کی ذمہ داریاں 80,84,85 عورتوں کو نصائح 81 عورتوں کی قربانیاں 142 لیلة القدر 331,332 محنت کی عادت 236,237 مخالفت 477,478,508,551 559,592,623-625,633-636,646,647, 652,653,661,662,664,674,676,677, 684-686,698,705-707,751,754,823, 831,840,851,852,880,957,965,982 مذہب مذاہب 524,558,660 مبلغین امر بیان رمبشرین 66,76,77,95,109 مذہبی آزادی 610,611 بد مذہب 47,48,823 113,339,340,365,368,373,374,405, 406,408-413,420,421,423,443,528- 532,534-539,541,543-545,562,572, 603-605,615,618,619,649,650,657, 658,679,709,743,754,812,826,972 مدارج روحانی مدارج کا حصول 38 مرکز ر مرکزیت 837 مبلغین اور مبشرین کی ضرورت 10,206 مبلغین کو نصائح 1,2,65 مبلغین کو دعاؤں کی تحریک 3 مبلغ رمربی کا ایک بڑا کام 409,861 تبلیغ اسلام کے مراکز 10 مساوات 496-498,541,584,585,606,657-659,715 مسجد / مساجد 63,80,141 مساجد کی تعمیر کی غرض 242 1007

Page 1025

اشاریہ، کلید مضامین مسجد نصرت جہاں کا افتتاح 143,241,305,309 مسجد نصرت جہاں کی اہمیت 241 مسجد نصرت جہاں کی مقبولیت 242,243,287,289,309 مسجد کو پر بیگن کا افتتاح 168 مسلمان مسلمان کی زندگی 288 مسلمانوں کا زوال 522,561 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم ناصرات الاحمد یہ 158 ناممکن کی اقسام 75 نبی ررسول ( دیکھئے انبیاء ) نجات 36 نشان / نشانات 821,822 آسمانی نشانات 611,612 نصائح ,225,246,369,398,403 مسئلہ مسئلہ کفر و اسلام 677,678 مطالعہ 1,2,292,369 408-413,420,463,464,602,618,619, 624,648,669,679,694,807,837,838 نصائح کا طریق 449.453 اساتذہ کو نصائح 651,665 مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود 2,385,387,605 ڈاکٹر ز کو نصائح معاہدہ 651 معجزات 820 معلمين 972 مقام حضرت مسیح موعود کا مقام 101,103 مقام نعیم 528,545 ملائکہ 723,725,726,732 منافق / منافقین / منافقت 33,223,249,250,427 مومن مومنین 33,223 مومن اور منافق میں فرق 42 میراث کے معنی 358 639-651,656,662,665-667,886-889 عورتوں کو نصائح 81 مبلغین کو نصائح 1.2 نصرت جہاں سیکیم 512-508,510-487491,506 519,522,548-550,552-554,561,562, 586,593,594,596,602-604,618,639- 647,649-652,654-656,664-683,693, 708,709,716,747,749,764-771,773, 793,798-804,849-853,871,873,879, 880,882,883,885-887,891-895,897, 905,906,927-929,931,967,981,985 1008

Page 1026

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چہارم اشاریہ، کلید مضامین نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم 707,715,748 نوجوانوں کو شیطان کے حملہ سے بچانا 19 752,757,777,831,844,874,898,966 نصرت جہاں ریزروفنڈ 494-472,473,492 نیک / نیکی 36 , واقفین زندگی ,53,57,83,92,132 509,518,520,521,547,550,554,557, 574,588,589,591,597,618,620,646, 647,652,689-693,702,707,752,757, 763,765,772,773,777,789-794,845, 871-873,894,924,927,928,931,981 285,550,553,561,562,574,575,589, 602,604,708,709,717,817,863,864 واقفین کی ضرورت 104 واقفین اپنے مقام کو سمجھیں 133 نصرت جہاں ریز روفنڈ کے منصوبہ کے اعلان کی وحدت انسانی و اقوامی 609,612 وجوہات ، دلائل اور ضرورتیں 471,474-477,483,486 نظام نظام جماعت 7,8,80,807 عالی نظام 7 نظم وضبط 637 نفاق 33,42,273,275,554 نفس اصلاح نفس 231,232,805 وحدت اقوامی کے حصول کے ذرائع 611-9 وفا وفاداری 269,270 وقف جدید 82,811,972 وقف / وقف زندگی جائیداد/ آمد / اولاد 10,17,53,56-58,66,67,69, 84,92,95,104,125-129,131,329,330, 338,339,430,449,450,530,531,548- 550,552,554,562,574,602-606,639- 641,651,666,667,717,769,798,800, 801,811,812,815,863,864,886,889 تزکیه نفس 34 نفس انسانی 711 وقف ابراهیمی 125 نماز رصلوة وقف بعد از فراغت 385,386 صلوۃ کے معانی 49 وقف عارضی 417,848 نماز کی عادت 80 نوجوان 66,67,367 ہجرت 91,92,95 D 1009

Page 1027

اشاریہ، کلید مضامین ہدایت 349 ہمت ہمت کے معانی 26 ہمدردی 526,541,559,715,751,819,820 ییز 662,663 ی یورپ میں احمدیت کی مقبولیت 160,161,163,164 176,177,181,188,190-192,197-204,211, 214,216,217,223,224,229,230,243,245 1010 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم

Page 1028

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چہارم اسماء اشاریہ، اسماء آدم، حضرت علیہ السلام 509,628,629 آصف، ڈاکٹر 565 ابراہیم، حضرت علیہ السلام 55,56,58,125,126, 128,129,174,339,680,875,877,917 ابو المنير، مولوی 858 ابوبکر ایوب 827,828 ابوبکر صدیق ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 93,360,422,614,615,619 ابو جہل 635 ابو عبیدہ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 619 احسان علی ، ڈاکٹر 168 احمد سرہندی بریلوی، حضرت سید 422,713 احمد بشیر، امام 423 اسد اللہ خاں، چوہدری (امیر جماعت لاہور ) 969 اسماعیل ، حضرت علیہ السلام 55,56,58,127,128,875 اقبال شاہ 643 امتہ الحفیظ بیگم حضرت نواب 172 امته الشکور، صاحبزادی ( بنت حضرت خليفة المسيح الثالث ) 195 امری عبیدی 423 امین اللہ خان سالک 479,502,528 انوار، ڈاکٹر 662 انور علی(G.7061 ایف ایم.سنگھاٹے 9,642,660 بشیر الدین محمود احمد ، مرزا، حضرت خلیفة المسيح الثاني، المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ 1,8,10,13,15,16,21,24, 25,40,59-61,71,81,82,87,94,96,97, 108,111,115,196,201,211,230,236, 237,241,243,245,269,273,282,283, 313,333,338,391,415-417,423,433, 442,445,452,453,461,464,481,506, 518,532,534,560,574,581,612,613, 615,617,654,691,692,744,745,769, 771.811.812,843,860,872,880,933 بشیر الدین عبید اللہ ، حافظ 329 بشیر احمد ، آرچرڈ 175 1011

Page 1029

اشاریہ، اسماء بشیر احمد رفیق، امام , 189,224,274,423 490,492,510,511,588,655,790,976 بشیر احمد شیخ 115 بشیر احمد، ڈاکٹر 747,768 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم داؤ د احمد ، سید میر 9 و بکری عبیدی 572 ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اعظم پاکستان 935 بلال ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 483,496 رشیدالدین، حضرت ڈاکٹر 963 497,559,571,583,584,685,735,736 س بلی گراہم 743 سعد ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 619 سعید، ڈاکٹر 553,639,640,642,649 ٹالبرٹ مسٹر ( نائب صدر لائبیریا) 893,894 سلطان احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا 168 طب مین، مسٹر (صدر لائبیریا) سلیمان ( ابن حضرت عثمان بن فوديو ) 487,665 476,507,528,533,534,656,892,893 で ض ضیاء الدین، ڈاکٹر ا 487,640,89 جانسن 479,502 جمیل ناصر 479,502 حمیدہ بیگم 172 حنیف احمد ، صاحبزادہ مرزا 217 خ خالد بن ولید ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 270,616,618,619,635,709,982,983 خان شمس الدین خان 662 b طاہر احمد، مرزا، حضرت خليفة المسيح الرابع 441 ظ ظفر اللہ خاں ، حضرت سر چوہدری 2,190,191,256,268,490,491,510,978 ظہور احمد شاہ سید 329 ظہور احمد باجوہ 908 ع عباس احمد خان نواب 474 1012

Page 1030

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد چہارم عبدالحق،مرزا 607,861,982 عبد الحق ، ڈاکٹر 800 عبد المغنی خان، مولوی 980 عمادالدین مولوی (پادری) 59,75 عمر فاروق ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 93,360,422,619 عیسی ، حضرت علیہ السلام اشاریہ، اسماء 154,182-184,213,233, 257,258,288,300,308,309,312,318, 350,497,498,561,617,659,823,825 عبدالرحمان بنگالی، چوہدری 329 عبدالرشید 725 عبدالسلام، ڈاکٹر 494,732 عبد السلام، میڈ سن 201,203,307,345 عبد الکریم سیالکوٹی ، حضرت مولوی، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 542 عبدالکریم شرما، مولوی 77-75 عبد اللہ بن ابی بن سلول 619 عبداللہ ناصر 856 عبدالمجید، چوہدری 725 عبد الوہاب بن آدم.501,581 584,585,658,855,856 عثمان بن فودیو، حضرت رحمۃ اللہ علیہ 421,422,487,489,507,664,665, 713,739,740,870,880,881,891,892 عثمان غنی ، حضرت رضی اللہ تعالی عنہ 360,619 عطاء اللہ کلیم 537,603 عکرمہ 270,635 علی حضرت ، کرم اللہ وجہہ 619 عمر الدین سدھو، ڈاکٹر 640,644 غ غلام احمد قادیانی مرزا، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام 1,2,6,7,9,13,14,17,25,26,39,40,45, 47,48,57,59,67,69,75-77,101-104, 115-118,132,136,137,141,142,153- 155,157,158,160,163,165,170,172, 174,177,178,182,183,198-200,202, 203,205,206,211-214,216,219-222, 227,231,250,258,259,269-271,273, 274,281,288,290,291,293,295-300, 306-308,312,317,323,324,326,332, 333,335,341-343,345,348,350,355, 363,373,378,383,385,386,393,395, 399,400,402,403,405,408,421,422, 426,431,434-438,441,442,449,456, 459,463,465,469,470,473,477,483, 484,487,501,502,504,513,515,516, 522,523,531,534,536,545,552,555, 561,565,566,569,574,581,590,591, 1013

Page 1031

اشاریہ، اسماء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چهارم قدرت اللہ ، حافظ 183,213 598,599,605,607-613,615,616,618, 619,623,625-627,629-632,634,636, 644,652,654,655,664,669,672-681, 683,685,687,692,695-698,701,713, 714,717,723-725,732,733,736,739, 742,743,756,757,779,780,782,795- 797,804,816,820,823,827,837,843, 848,852,855,866,869,870,875,880, 891,901,904,918,920,924,926,928, 935,936,938,939,941,946,953-955, قمر در ولیش، با با 723 قیصر ( عیسائی بادشاہ ، شاہ روم ) 270,982 ک کرم الہی ظفر 77 کسر مٹی ( شاہ ایران (400,617 کمال یوسف، امام 201,203,215 243,291,306,343,344,551 گ 957,959,963,965,970,980,983,984 گرینگو، مسٹر 524 غلام باری سیف 329 غلام رسول را جیکی حضرت مولوی، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 6 غلام فرید ، ملک ، ایم.اے115 غلام مجتبی ،سید 645,799 غلام مرتضی، حضرت مرزا ( حضرت مسیح موعود کے والد ماجد) 293 | لقمان احمد ، صاحبزادہ مرزا 151,152 گومانگا، چیف 490 لال دین ، ڈاکٹر 65,68 غلام نبی گلگار، خواجہ 754 فاطمہ، الحاجه 799 فاروق (گورنر سکوتو 882 فضل الہی انوری 528 لوط، حضرت علیہ السلام 303 مبارک احمد، صاحبزادہ مرزا 63,222,658 مبارک احمد ، حافظ 247 مبارک احمد ، شیخ 490,510,743 فضل الرحمان حکیم 884 فرینکو، جنرل 77,732 قانت 742 1014 مبارکہ بیگم، حضرت نواب 172,194 محمد ابراہیم، حکیم 76 محمد اسلم ، قاضی 741 محمد اسماعیل منیر، مولوی 398,399,554

Page 1032

اشاریہ، اسماء 563,565,569,570,582-585,588,589, 592,597,599,601,607-617,619,620, 623,624,626,627,630,631,635,636, 638,664,669,670,673-675,677,678, 680,685,687,695-697,709,711,714- 717,719,721,723,724,730,734-736, 759,760,762,764,766,772,782,792, 796,797,805,816,823,824,827,835, 837-839,848,851-853,855,858.870.871,875-877,887,891,892,895,901, 903,919,920,926,929,933,934,937- 939,943,944,946,953,954,957,959- 962,970,972,973,975,982,984,985 1015 محمود اسماعیل زوش 181 محمود الحسن نوری، ڈاکٹر 769 محموده 203,271 مختار احمد شاہجہانپوری, حافظ 405,413 مش، محمد شفیع ( کالم نگار ( 260 مشتاق احمد باجوہ، چوہدری 162,175,182,212,239,258 مظفراحمد،صاحبزادہ مرزا 194 موسیٰ ، حضرت علیہ السلام 159,362,497,498,559,617,680 ،مریم ، حضرت علیہا السلام 233,300 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم محمد افضل قریشی 528 محمد بن عثمان بن فوديو 487,881 محمد حسین بٹالوی 634,652 محمد حنیف، شیخ 857 محمد شریف، مولوی 528,801,851 محمد صدیق، مولوی 329,528 محمد علی ، چوہدری 163,176,183,213,388,502 محمد علی جناح ،مسٹر، قائد اعظم 705 محمد مصطفیٰ ، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2,3,5,10,15, 19,25,26,38-40,42,43,47,48,51,55,67, 69,76,77,79-81,83-85,87,92,93,101- 105,118-121,124-126,128,129,131, 132,136,137,142,151,154-156,160, 161,187,198,201,202,206,209,211, 212,219,220,230,233,243,245,247, 249,253,259,264,266,269,270,273, 276,277,281,287,291,294,295,299- 301,305-310,313,317,326,330-334, 344,349,351,360,361,367,374,375, 393,401,402,406-408,415,416,420- 422,426,428,429,435-439,443,449, 450,457,458,463,464,467-471,476, 478,481-483,486,495-499,501,504, 505,510,514,519,522,523,526,532, 540,541,545,552,554,555,558-561,

Page 1033

اشاریہ، اسماء مریم صدیقہ ، سیدہ (ام متین ) 143,172,193 منصورہ بیگم، سیده ( حرم اول حضرت خلیفة المسیح الثالث) تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چہارم 524,526,528,529,531,532,535,536, 538-545,547,548,550,551,553,554, 557,559,565-568,570-572,575,577- 583,585-590,593-596,598,599,601- 605,606,607,608,610,611,612,613, 160,162,168,169,171,174, 195,222,502,503,516-518,537,542, 572,579,603,660,661,720,947,948 619,620,623,624,629,630,633,635- 639,641,643-652,654-656,658-665, 667,669,671-673,677,680,681,683, ناصر احمد، مرزا، حضرت خلیفة المسیح الثالث 689,690,697,703,705-707,710,713, 1,2,5,913,15-17, 715,716,719,720,723,725,730-732, 19,23,29,36,41,48,51,53,57,61,65, 734-736,739,741-745,748,749,759, 69,71,72,75,76,83,87,105,108,111, 763-773,777,781-783,785,787,789- 113,114,116,118,124,125,133,135- 793,795-798,800,804,807,809,811, 137,142,143,147,149,152-155,158, 816,821,822,824,825,827-829,832- 159,161-164,167-172,174,175,177- 834,840,841,843-845,847,851-853, 179,181,182,184-188,190,192-200, 855-857,859,860,863-865,868,869, 202-207,209-223,225,226,229-231, 871-873,879,880,882-884,886-889, 233-236,238,239,241-243,246-250, 892,896,903-905,907-909,911,912, 253-255,257,259-265,269,271,272, 914,917,924-926,930-932,935,938, 274,276,281,287,293,299,301-303, 940,941,943,945,947-949,951,954, 305,306,308-311,313,314,317,319, 963,965-971,975-978,980,982,985 320,327,329,333,335,337-340,343, نذیر حسین دہلوی ، مولوی 634,652 نصرت جہاں 203,271 نصرت جہاں بیگم سیدہ حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا 173 نصرت بھٹو ( اہلیہ ذوالفقار علی بھٹو ) 791 نلسن (صدر) 637 345,365,366,372,377,379,380,385, 386,388,391,392,395-402,408,410, 415,417-420,423,431,432,441,446, 447,450,455-457,459,464,465,468, 470-473,475-478,481-491,493,494, 498,500,503-506,509,512-515,517- 1016

Page 1034

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چہارم نوح، حضرت علیہ السلام 303 نوراحمد 203 نورالدین، الحاج حکیم مولانا، حضرت خليفة المسيح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ 26,273,333 ولی شاہ ، ڈاکٹر 643 ہاجرہ، حضرت علیہا السلام 58-55 ہیکر 671 ی یعقوب علی عرفانی، حضرت شیخ ، رضی اللہ عنہ 168,169 یعقوبو گوون,478,481,499 505,580,648,799,825,880 یوسف، حضرت علیہ السلام 840 یوسف، کرنل 666 اشاریہ، اسماء 1017

Page 1035

Page 1036

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چہارم مقامات اشاریہ مقامات 498,503,506,511,512,519,524,528, آب زمزم 56 آسٹریا 392 آسٹریلیا 189,566,939,943 آکسفورڈ 189,385,863 اگر 59,750 آئیوری کوسٹ 149,507,528,844,943 ابادان 501,558,663,740 ابوظہبی 723,943 149,192,391,568 اجے بواڈے 579,646,647,799 احمدیہ ہال، کراچی 979 استنبول 210 اسرائیل 147 اسلام آباد592,597,702,703,834 اکرا ( اكره ) 495,501,566,645 539,557-561,563,567-570,573,574, 581,582,588,598,601,606,609,610, 612,615,617,637,639,648,653,657, 659,661,662,665,666,674,679,683, 684,689,691,714-716,720,721,726, 728,730,735,736,743,747-749,751, 755,756,761,764,772,773,793,796, 800-802,819,822,825,840,843-845, 847,853,856-858,866,867,874,879, 884-887,896,898,899,905,912,921, 923,937,938,941,949,963,979,985 الجزائر 149,424 الحکم سٹریٹ ، قادیان 168 امریکہ,45,47,50,51,220,221 229-231,234,273,287,297,301,302, 392,434,437,457,458,475,482,494, 525,531,540,563,566,580,629,657, افریقہ 660,686,689,726,732,736,743,769, 5,8,9,16,17,47,68,76,112,113,255, 771,803,804,809,820,837,841,844, 297,299,301,365,388,392,421,443, 847,856,857,859,880,887,898-900, 456,457,475,476,480-483,487,495, 1019

Page 1037

اشاریہ، مقامات 909,921,938,939,944,978,979,985 انگلستان / انگلینڈ 45,47,50,51, 135,179,190,195,197,210,218,221, 222,224,229,238,247,260,266,268, 269,272,291,436,472,474,475,490, 494,496,508,509,511,518,519,521, 547,548,550,553,554,560,566,567, 569,587,588,593,639,643,649,654, 655,657,691,727,742,744,749,752, 769,771,790,803,809,830,831,855, 856,866,871,872,887,894,896,898- 900,907,912,914,919-921,924,927, 938,943,944,947,950,976,978,981 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم بحرین 723 برصغیر پاک ہند 1 56 3926 بریڈ فورڈ 923 568,569 بلوچستان 795,919 بنگال 785,905 505,516,517,524,540,572,647,659,661 بہاولپور 702,822 بھارت 66,436,785,886 پاکستان, 1,2,8,63 67,104,111,113,115,116,191,197, 199,204,209,210,224,260,337,388, انڈونیشیا 392,726 391,415,418,432,456,458,461,462, 728,729,793,796,800,801,867,900, 474,475,481,484,485,492,494,519, 909,912,938,939,943,944,950,979 520,548,577,582,587,589,591,593, ایبٹ آباد 594,603,610,652,653,658,661,684, 557,590,633,644,645,691,856,943 691,702,720,721,724,726,729,730, 742,745,748,752,764,769,771,772, ایڈنبرا 492 ایسٹ افریقہ 649 777,778,792-794,804,812,821,822, ایسٹ نائیجیر یا665 829,830,834,847,848,860,872-874, 76,297,301,302,307,392,436,437 ایران 458,617,708,870 1020 882,887,888,894,898,899,906,909,

Page 1038

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد چہارم 912-914,919,928,930,935-937,940, 941,943,948,949,967,971,980-982 اشاریہ، مقامات 268,287,388,392,402,458,535,607, 681,742,744,771,803,851,860,866 پارک کارنر ، لندن 268 پشاور 662,822,834 پنجاب 795 پولینڈ 566,939 پرتگال 568 جنوبی افریقہ 391,844 جنوبی امریکہ 273,392,567,568,570,574 جور و 648,659-645 جہلم 702 تاشقند 562 ترکی 458,939 تنزانیہ 67,149,423,729,741 ٹریفلگر سکوائر، لندن 662 چیکوسلواکیہ 566 چین ,46,47,51,297,298,392,398 422,566,730,804,899,939,985 ح حیدرآباد 22 خ ٹیچی مان 501,542,571,584,645,747,753,767 خانہ کعبہ ( بیت اللہ شریف ) 125,128,129 ج 287,483,561,724,848,859,869,871 5,302,434,436,437,637,847717 و جاپان 205,296,298,389 دی ڈوور 344 573,647,726,727,739,868 ڈ جامعہ نصرت ، ربوہ 287,290,386 ڈاڈر 662 جاوا 796 ڈھا کہ 702 جده 726,869 جرمنی 113 149,163,180,181,184-186,192,197- 200,209,221,215,247,260,262,266, ڈاکار 642 ڈرگ روڈ ، کراچی 979 ڈیرہ غازی خان 702 ڈنمارک 63,143,149 1021

Page 1039

اشاریہ، مقامات 168,176,192,197,201,214-216,229, 242,260,263,287,289,305-309,345, 383,392,393,467,475,691,913,925 راولپنڈی 41,378,597,834 21,24,41,112,77,209,241,0% 254,319,343,364,443,461,462,463, 474,505,520,539,582,612,645,657, 669,703,709,856,867,896,944,978 روڈ یشیا 663 روس (رشیا) 45,195,215,219,220,296-298,400, 433,434,436,482,525,562,565,566, 629,660,730,804,899,924,939,985 روم 617 ز زنجبار 729 زیورک رز یورچ 161 162,174,180,182,184,187,210,239, 243,244,259,266,267,565,924,925 زیمبیا 480,540,587,649 س سالٹ پانڈ 537,538,744 ساہیوال منٹگمری 702 1022 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم ساؤتھ افریقہ 149,192 392,472,491,492,496,522,523,524, 530,568,570,574,655,681,663,732 سین 907 سرحد 645,768,795,885 سرگودھا 22,646,790,859,970,982 سکاٹ لینڈ 175,189,658 سکاچ کارنر ہوٹل 195 سکوتو 487,488,507 577,591,665,770,799,881,882,892 سماٹرا 796 254,493,795,852,853 سیالکوٹ 21,338,662,703,822,950 سیرالیون 149,216,265,287,458,489 490,504,507,508,515,528,558,572, 592,594,645,647,741,743,752,754, 755,770,794,803,819,820,822,844, 897,937,943,944,947,965,966,977 سعودی عرب 117,242,266, 287,388,869,870,885,943 سیلون سری لنکا 265,392,976 سینیگال 549,642,943 سیکنڈے نیویا 143,203,243,266,287,402 سوئٹزرلینڈ 113,147,197,258,268 392,771,803,930,943,945

Page 1040

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد چہارم سویڈن 149,197,214,242,247,260 اشاریہ، مقامات 289,392,742,771,899,925 شام 117,422 شمالی افریقہ 391 شمالی امریکہ 944 شمال مغربی سٹیٹ ( نائیجیریا ) 506 شمالی نائیجیر یا487,745 شعب ابی طالب 525 شورکوٹ 210 فاران 953 392,659,807,938,939 فرانس 45,149,389,398,455,456,458,568 فری ٹاؤن 517,594,595,647,648,966 فرینکفورٹ ,174,180,181,209,212 261,266,659,923,925,932,978 فلپائن 939 فلسطين 117,934 ق قادیان شیخو پوره 338 160,168,254,293,393,654,751,856,936 b قاہرہ 727 طهران (ایران) 209 قصر خلافت ، ریوه 254 ع عراق 617,723,725,869 665,740,880,881,891,892 عرب 616,617,725,727,760,934,943 کانگو 487,498,640,644 غ 149,457,458,512,528, 582,591,592,603,604,645,653,657, 658,666,689,707,741,743-745,751, 753,767,770,794,798,799,801,844, 851,855,856,896,928,937,943,944 غرناطه 522 کراچی 174,185,190,196-116,167,172 210,260,364,378,379,447,492,702, 724,822,834,910,968,970,979,980 کشمیر 905 کمپالا 65 سماسی 501,505,570,571,582 594,658,748,753,799,855 1023

Page 1041

اشاریہ، مقامات کنری 795 کوپن ہیگن 63 141,143,149,150,160,161,168,174- 176,187,188,193,197,203,210,212, 216,229,241,243,247,248,251,253, 260,262,265-267,287,289,305,519 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد چہارم لائل پور 22,646 لاہور 174,194 378,402,455,539,613,677,703,705, 727,729,800,834,886,907,969,980 لائبيريا ,149,423,457 کوریا 400,643 کویت 388,723 کوئٹہ 388,859,860 كينما 754 476,489,490,502,507,528,533,656, 739,769,794,844,892,894,895,943 لندن , 190,201-135,172,174,188 209,210,212,224,229,260,267,291, کینیا 67 کینیڈا 392,458,566 گ گیمبیا,9,149,306 458,471,477,479,489,490,507,508, 528,549,588,596,639-642,681,764, 770,772,800-802,844,851,871,943 گجرات 22,822 گلاسگو 174,195,210,212,260,311,492,582,584 گوٹن برگ 925 گوجرانوالہ 338,822 گولڈ کوسٹ 744 گھانا 287,501,503,507,566,681,715,747,748 1024 306,311,423,472,474,475,476,478, 490,494,504,508,539,550,554,567, 599,643,649,662,691,742,756,764, 769,790,791,889,914,978,979,985 ليبيا 149,725 لیسٹر 538 لیگوس 488,501,504,579 580,640,644,659,689,770 ماسکو 180,209,939 ماریشس 229,230,392,398,744 مبارک ، مسجد ( قادیان ( 160,247 مدینہ منورہ 123,361,610,670,709,869,933 مرا کو 216,266

Page 1042

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد چہارم مسقط 388 مشرق وسطی 215,434,458,869,943 مشرقی افریقہ 65,66,67,75,76,77,111,117 226,351,388,391,392,401,587,909 مشرقی پاکستان 830,831,847 مشرقی یورپ 297 مغربی افریقہ 66 117,215,226,316,350,388,391,423, 424,458,463,464,469,471,472,475, 485,495,500,513,524,557,558-560, 562,578,617,663,702,713,720,733, 735,743-745,747,751,752,764,767, 837,844,879,882,887,889,892,906, 909,912,914,924,928,947,967,979 مغربی پاکستان 122,603,847 اشاریہ، مقامات ناندی 807 نائیجیریا (149 215,229,230,287,401,421,457,458, 487-489,498,499,506,528,531,549, 553,558,562,577,591,604,640,646, 650,664,665,681,708,709,713,715, 720,724,740,743,744,765,769,770, 771,794,799,801,809,825,844,845, 858,867,868,870,880,881,882,885, 891,897,937,943,944,951,977,982 نصرت جہاں مسجد 143,241,243,244,251,287,289,309 نیوزی لینڈ 566 و مغربی جرمنی 145,932 117,242,287,388,607,725,727,943,** مکه مکرمه 299,437,467,482,496 584,610,724,760,869,934,942 ملتان 22,210,703,822 میر پور خاص 970 ناروے 149,197,214,242,271,392 نارتھ ویسٹرن سٹیٹ ( نائیجیریا (507 592,604(t), ولایت 268,841 وانڈ زورتھ ہال لندن 218,291 ویسٹ افریقہ 652,653,657,661 ویسٹ نائیجیریا665 ہالینڈ 113,147,213,247,268,392,568,925 ہڈرزفیلڈ 210 ہزارہ 702 1025

Page 1043

اشاریہ، مقامات ہند / ہندوستان 197,224 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم 269,299,300,365,400,402,415,458, 561,653,726,870,936,937,943,967 ہمبرگ 186-145,147,163,174,184 197,198,201,210,212,215,260,266 174,184,210,212,489,507 ہیروشیما 660 ی یروشلم 934 یورپ 113,141,143,163 168,172,174,179,183,188,189,192, 193,196,197,206,209,211,214,215, 220,229,234,235,238,241,243,250, 253,254,267,279,289,291,300-302, 305,307,308,312,318-320,383,394, 407,408,416,434,436,437,458,467, 481,498,507,540,560,563,566,567, 569,573,580,609,616,657,658,665, 681,691,710,727,731,734-736,754, 755,761,804,809,824,847,866,896, 898,899,900,909,912,914,923,925, 926,930,931,938,939,943,978,985 یوگوسلاویہ 562,565,941,950 یوگنڈا 65,67,149,755 1026

Page 1044

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد چہارم انجیل 300 دار قطنی 294 کتب سلسلہ عالیہ احمدیہ آئینہ کمالات اسلام 437 ازالہ اوہام (حصہ اول )955 اسلامی اصول کی فلاسفی 77,111,742,843 الوصیت 441,625 تاریخ احمدیت (جلد 12 )934 تبلیغ رسالت ( جلد ششم (301,438 تذکره کتابیات 400,434,436,629,672-676,679,681 تذكرة الشهادتين 438,672 ترجمة القرآن مع تفسیر و تریاق القلوب 258 تفسیر القرآن 115 تفسیر صغیر 728,858 تفسير كبيرا حقیقۃ الوحی 303,436,696 در شین 674,891 رپورٹ مجلس شوری 109,113,118,335,340 342,384,389,403,448,453,737,745, 794,805,854,862,864,874,973,985 اشاریہ، کتابیات رجسٹر خطبات ناصر ( غیر مطبوعہ ) 277,279 608,621,626,638,681,687,694,915 فتح اسلام 348 کشتی نوح 744,843 مرزا غلام احمد اپنی تحریروں کی رو سے 9 مسیح ہندوستان میں 843 ملفوظات ( جلد چہارم) 69 نور الحق (حصہ دوم) 435 یسرنا القرآن (قاعده ) 858 793 Africa Speaks اخبارات ورسائل الحكم 695 السٹریٹڈ ویکلی 177 الفضل,3,6,8,11,19,25,31 43,51,53,58,61,63,68,73,78,85,99, 105,124,125,129,133,137,139,142, 143,145,147,152,154,155,159,165, 173,174,180,192,194,207,227,229, 234,239,251,254,283,285,290,303, 310,318,321,327,330,334,345,351, 356,366,369,381,414,418,420,424, 1027

Page 1045

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد چہارم اشاریہ، کتابیات 430,439,443,459,462,465,468,474, 486,494,520,526,545,555,557,559, 562,563,575,589,599,641,646,649, 651,653,657,663,667,699,711,716, 717,721,744,747,749,751-757,761, 762,765,769,772,773,775,782,783, 786,787,807,809,812,813,817,820, 824,826,828,835,838,841,845,877, 888,889,901,921,923,924,926,929, 932,952,958,962,963,966,975,979 پیغام ع 676 تحریک جدید، ماہنامہ 115,979 ٹائمنر آف لنڈن 184,189,190,260,261,742 چرچ بلیٹن 289 ڈیلی ٹیلی گراف 742 ڈی ویلٹ 185,260 ریویو آف ریجنز 291,306 نوائے وقت 260 ملٹی میڈیا (ریڈیو، ٹی وی چینلز و پروگرامز ) بی بی سی 265,976,977 وائس آف امریکہ 265,976 264,977Out Look 1028

Page 1045