Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے تحریک جدید کے قیام، اغراض و مقاصد اور عالمگیر ترقیات متعلق خطبات، خطابات اور ارشادات پر مشتمل یہ کتاب وکالت الدیوان تحریک جدید انجمن احمدیہ کی مرتب کردہ ہے۔پہلی تین جلدوں میں خلافت ثانیہ کے دور کا مواد جمع کیا گیا ہے۔
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم ارشادات حضرت خلیفہ اسی الثانی نوراللہ مرقدہ اس تحریک جدید ۱۹۴۸ء تا ۱۹۶۴ء s
بسم الله الرحمان الرحيم پیش لفظ 1934ء کے اختتام پر حضرت مصلح موعود نے القائے الہی کے ماتحت تحریک جدید کا بابرکت آغاز فرمایا.حضرت مصلح موعود نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر جب اس تحریک کا آغاز فرمایا تو اس کے بعد جیسے جیسے اللہ تعالیٰ آپ کی راہنمائی فرما تارہا، آپ جماعت کو اس عظیم الشان تحریک کے اغراض و مقاصد سے روشناس کرواتے رہے.آپ نے بے شمار مواقع پر بار بار مختلف پیرایوں میں جماعت سے اس تحریک کی اہمیت ضرورت اور برکات کا ذکر فرمایا اور ان کو اس میں شامل ہونے کی تلقین فرمائی.مثلاً تحریک جدید کے آغاز اور جماعتی جذبے کا ذکر حضرت مصلح موعود نے یوں فرمایا :." جس جوش اور جس جذبہ اور ایثار کے ساتھ جماعت کے دوستوں نے پہلے سال کے اعلان کو قبول کیا تھا اور جس کم مائیگی اور کمزوری کے ساتھ ہم نے یہ کام شروع کیا تھا، وہ دونوں باتیں ایمان کی تاریخ میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہیں.وہ جذ بہ ، جوش اور ایثار بھی جس کے ساتھ اس کام کو شروع کیا گیا تھا، غیر معمولی اور مومنوں کی شاندار روایات کے مطابق تھا اور وہ بے بسی اور کم مائیگی ، جس کے ساتھ ہم نے یہ کام شروع کیا تھا، وہ بھی مومنوں کی تاریخ کی ایک زندہ مثال تھی.یعنی تھی تو وہ بے بسی تھی تو وہ بے کسی تھی تو وہ کم مائیگی لیکن وہ اس بات کی شہادت دے رہی تھی کہ مومن ایسے ہی حالات سے گزرا کرتے ہیں.وہ اس بات کی شہادت دے رہی تھی کہ گزشتہ انبیاء کی جماعتوں کو ایسی مشکلات سے ہی دو چار ہونا پڑا ہے.پس وہ بے بسی، بے کسی اور کم مائیگی بھی مومنوں کی جماعت سے ہماری جماعت کو ملاتی تھی.اور وہ جوش اور وہ جذبہ اور ایثار، جو جماعت نے دکھایا، وہ بھی ہمیں مومنوں کی جماعت سے ملاتا تھا.گویا 34ء کا نومبر ایک نشان تھا ، سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں کے لئے.وہ ایک دلیل اور برہان تھا سو چنے اور غور کرنے والوں کے لئے.کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ انہیں قدروں پر چل رہی ہے، جن پر گزشتہ انبیاء کی جماعتیں چلتی چلی آئی ہیں.(خطبہ جمعہ 25 نومبر 1949ء)
پھر ایک موقع پر تحریک جدید کی اہمیت ان مختصر مگر جامع الفاظ میں بیان فرمائی کہ پس تحریک جدید کوئی معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی کوششوں میں سے ایک زبردست کوشش ہے.وو (خطبہ جمعہ فرموده 17 دسمبر 1954 ء ) جماعت کو اس کے مقام اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.یہ کام اللہ تعالیٰ کا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے لئے وہ خود ہی ہر قسم کے رستے کھولے گا.لیکن یہ اس کی عنایت ہے کہ وہ ہمیں کام کا موقع دے رہا ہے.پس مبارک ہے، وہ شخص جسے خدا تعالیٰ نے ایسے زمانہ میں پیدا کیا، جس کی امید لگائے ہوئے بڑے بڑے صلحاء اور اولیاء اور بزرگ سینکڑوں سال سے انتظار کر رہے تھے.اور مبارک ہے، وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں پیدا کر کے اسے حضرت مسیح موعود و مہدی موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی شناخت کی بھی توفیق بخشی ، جس کی انتظار سینکڑوں سال سے دنیا کر رہی تھی...اور پھر مبارک ہے، وہ شخص جس کو حضرت مسیح موعود مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت کے بعد خدا تعالیٰ نے کام کی توفیق بخشی اور ایسے کام کی توفیق بخشی کہ اسے اس غرض کو ، جس کے لئے وہ دنیا میں آیا تھا، پورا کرنے کے لئے معتد بہ حصہ ملا اور ایسا حصہ ملا کہ خدا تعالیٰ کے دفتر میں وہ سابقون الاولون میں لکھا گیا.پس نو جوانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں زریں موقع عطا فرمایا ہے.جو صدیوں بلکہ میں کہتا ہوں، ہزاروں سال میں بھی میسر نہیں آتا...اس زمانہ کو شیطان کی آخری جنگ کہا گیا ہے.گویا اس سے زیادہ نازک وقت دین پر کبھی نہیں آیا اور آئندہ بھی نہیں آئے گا.سو اس موقع پر جس کو کام کرنے کی توفیق ملے، وہ نہایت ہی بابرکت انسان ہے.پس اپنی اہمیت کو سمجھو، وقت کی نزاکت کو محسوس کرو اور خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر کرو، جو اس نے تمہارے ہاتھوں کی پہنچ میں رکھی ہے ، صرف تمہیں اپنا ہاتھ لمبا کرنے کی ضرورت ہے.جس کے لئے وہ صلحاء اور بزرگ بھی ترستے رہے، جن کو یاد کر کے تمہاری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور تم ان پر رشک کرتے ہو.جس طرح ان کا تقویٰ ).
اور ان کا زہد تمہارے لئے قابل رشک ہے، اسی طرح تمہارا اس زمانہ میں کام کرنا ، ان کے لئے بھی قابل رشک ہے.تمہیں اس بات پر رشک آتا ہے کہ انہوں نے کس کس رنگ میں خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے کوشش کی اور کیا کیا رستے برکتوں کے خدا تعالیٰ نے ان کے لئے کھولے.اور تم رشک کرنے میں حق بجانب ہو کیونکہ وہ اپنے زمانہ میں دین کے ستون تھے.وہ اپنے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی رحمت کے نشان تھے اور خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھانے والے تھے.لیکن میں سچ کہتا ہوں، وہ بھی تم پر رشک کرتے ہیں.کیونکہ تمہیں خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں پیدا کیا ہے، جس کے لئے ان کو بھی تڑپ تھی.پس اپنی حیثیت کو سمجھتے ہوئے اور اپنے عالی مقام کو دیکھتے ہوئے تم وہ طریق کار تلاش کرو، جو بڑے درجہ کے لوگوں کو اختیار کرنا چاہئے.تحریک جدید میں شمولیت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.وو (خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 1950ء)...ہر ایک احمدی کو بتاؤ کہ اس کا تحریک جدید میں حصہ لینا، احمدیت کے قیام کی غرض کو پورا کرنا ہے.اگر کوئی شخص تحریک جدید میں حصہ نہیں لیتا تو اس کے احمدیت میں داخل ہونے کا کیا فائدہ؟ "" خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 1952 ء ) تحریک جدید کے بنیادی اصولوں کے متعلق فرمایا:.تحریک جدید کی بنیاد در حقیقت انہی اصول پر ہے، جن پر اسلام کی بنیا درکھی گئی ہے.اسلام کی بنیاد بھی اس بات پر رکھی گئی تھی کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی تشہیر اور ترویج کی جائے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو پیغام دیا ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پیغام کو ساری دنیا تک پہنچائیں.پس تحریک جدید کی بنیاد بھی اس بات پر ہے کہ اسلام کے نام کو روشن کیا جائے اور قرآن کریم کے پیغام کو دنیا تک پہنچایا جائے.تحریک جدید کے مطالبات کے بارے میں فرماتے ہیں:.22 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1952 ء ) قرآن کریم میں متواتر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کا مال اور ان کی جانیں لے لی ہیں اور اس کے بدلہ میں ان سے جنت کا وعدہ کیا ہے.اور یہی چیز
تحریک نے پیش کی ہے.ایک طرف وہ نوجوانوں سے کہتی ہے کہ آؤ اور خدمت دین کے لیے اپنی جانوں کو پیش کر دو.یہ وہی چیز ہے، جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ نے تم سے تمہاری جانیں اور تمہارے مال خرید لیے ہیں تحریک جدید اس پیشگوئی کے ماتحت جنت کو پیش کر کے تم سے مطالبہ کرتی ہے کہ تم اپنے مال اور جانیں پیش کر دو.(خطبہ جمعہ فرموده 26 نومبر 1948 ء) تحریک جدید کے دائمی ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:.تحریک جدید ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ادارہ ہے.جب تک قوم زندہ رہے گی ، یہ ادارہ قوم کے ساتھ وابستہ رہے گا.اور جب افراد میں زندگی مستقل ہو جائے گی یعنی جماعت کے کچھ افراد مردہ ہو جائیں گے اور کچھ زندہ رہیں گے تو یہ ادارہ زندہ افراد کے ساتھ وابستہ ہو جائے گا“.ایک اور موقع پر فرمایا:.خطبہ جمعہ فرمودہ 05 دسمبر 1952ء) پس یہ تحریک ہے تو دائگی اور نہ صرف دائمی بلکہ ہمارے ایمان اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنور 1953 ء) پس تحریک جدید اس غرض کو پورا کرنے کے لئے قائم فرمائی گئی، جس غرض کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوئی اور جس غرض کے لئے جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس تحریک کے تمام مطالبات پر عمل کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں ، جس غرض کے لئے ہم احمدی ہوئے ہیں.آمین محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصره العزیز کی دعاؤں اور منظوری سے صد سالہ خلافت جو بلی کے موقع پر تحریک جدید سے متعلقہ خلفاء کرام کے خطبات ، خطابات اور ارشادات کو تحریک جدید.ایک الہی تحریک“ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کرنے کی توفیق پارہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.,
اس سلسلہ میں اس کتاب کی پہلی اور دوسری جلد ، جو بالترتیب 1934ء تا 1939ء اور 1940ء تا 1947ء کے خطبات ، خطابات اور ارشادات پر مشتمل تھیں، شائع ہو چکی ہیں.یہ اس سلسلہ میں اس کتاب کی تیسری جلد ہے.جو 1948ء تا 1964ء کے خطبات ، خطابات اور ارشادات پر مشتمل ہے.اسی طرح مجالس شورای کی رپورٹس سے بھی متعلقہ مواد شامل کیا گیا ہے.مجالس شورای کے علاوہ باقی مواد کو تاریخ وار رکھا گیا ہے.جبکہ مجالس شورای کی رپورٹس سے متعلقہ مواد ہر سال کے آخر پر درج کیا گیا ہے.نومبر 1964ء کے بعد حضرت مصلح موعود کا تحریک جدید سے متعلقہ کوئی ارشاد نہیں ملا.خاکساران تمام احباب کا شکر گزار ہے، جنہوں نے اس کتاب کے مختلف مراحل میں تعاون فرمایا.جنہوں نے ہر مرحلہ پر رہنمائی فرماتے خصوصاً ہوئے اپنی قیمتی ہدایات سے نوازا.کتاب کی ترتیب وتدوین انتھک جدوجہد کا ثمرہ ہے.اسی طرح بی کے کارکنان بھی مختلف مراحل میں شامل رہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا عطا فرمائے.آمین.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو با برکت کرے، اس کو قبول فرمائے ، اس کو نافع الناس بنائے اور ہم کو ان ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
عناوین فہر * 1948 ڈر ہے کہ قربانیوں اور چندوں میں ستی دکھانے والے دیوالیہ نہ ہو جائیں حضرت مسیح موعود کی اولاد پر سب سے بڑا اور اہم فرض عائد ہے ہم پھولوں کی سیج پر چل کر دلوں کو فتح نہیں کر سکتے امریکہ، ہالینڈ، جرمنی اور انگلستان کے نومسلموں کے اخلاص کا ذکر اب اسلام کو تمہاری جان کی ضرورت ہے حضرت مصلح موعودؓ کے خاندان پر بعض اعتراضات کے مفصل جوابات ہر احمدی دنیا کو بتا دے کہ ہم ہر حالت میں اپنے ایمان پر قائم رہنے والے ہیں تاریخ فرموده صفحه نمبر 01 16.01.1948 07 30.01.1948 17 13.02.1948 21 28.03.1948 23 29.03.1948 25 14.05.1948 37 28.05.1948 43 27.08.1948 53 59 14.10.1948 63 26.11.1948 میں ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں کہ خدائی بادشاہت کا وقت قریب آرہا ہے حقیقی فتح کے لئے ضروری ہے کہ قوم کی کئی نسلیں حقیقی ایثار و اخلاق کا نمونہ دکھا ئیں 24.09.1948 کوئی قومی ترقی بغیر اولاد کی قربانی کے نہیں ہوسکتی تحریک قرآنی پیشگوئی کے تحت جنت کے بدلہ مال اور جان کا مطالبہ کرتی ہے 83 i نمبر شمار 01 02 03 04 05 06 07 08 09 10 11
$ 1949 12 13 14 15 16 17 18 اخلاقی لحاظ سے سادہ لوگ ہی خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہوتے ہیں تحریک جدید کی اصل بنیا د وقف زندگی پر ہوگی عہدہ اور اختیار سے کام نہیں چلتا بلکہ کام کرنے سے کام ہوا کرتا ہے احمدی مستورات خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں 77 04.02.1949 79 30.09.1949 91 07.10.1949 95 14.10.1949 تحریک کے آغاز پر جماعتی جذ بہ او کم مائیگی دونوں ایمانی تاریخ میں زندہ مثال میں 25.11.1949 101 اعلیٰ اخلاق کے بغیر کوئی قوم طاقت حاصل نہیں کر سکتی احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہو سکتی $1950 خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر کرو، جو اس نے تمہیں دی ہے نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے غالب ہم ہیں جن کے ساتھ غالب خدا ہے اپنے حوصلے، افکار اور خیالات بلند بناؤ، ان کے بغیر دشمن کا مقابلہ ممکن نہیں یہ نہ دیکھو کہ قربانی کتنی بھاری ہے بلکہ دیکھو کہ انعام کتنا بھاری ہے بوجھ سے مت ڈرو بلکہ دیکھو کہ کتنے بڑے کام سرانجام پا جاتے ہیں تبلیغ کرو اور دعائیں مانگو ہم بھی انہیں حالات سے گزریں گے جن سے گزشتہ انبیاء کی جماعتیں گزریں خدائی سلسلوں میں افراد کی نہیں بلکہ صرف اخلاص کی قیمت ہوتی ہے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو، دلوں کو بدلو اور دعاؤں پر زور دو جب تک ساری دنیا میں ہمارے مراکز قائم نہ ہوں ہم جیت نہیں سکتے 111 16.12.1949 123 30.12.1949 127 13.01.1950 131 18.01.1950 133 27.01.1950 137 28.04.1950 145 05.05.1950 155 12.05.1950 161 23.06.1950 165 05.08.1950 167 15.09.1950 177 27.10.1950 181 24.11.1950 197 01.06.1951 201 31.08.1951 * 1951 خدا تعالیٰ کی محبت میں مرنے والے کو وہ ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیتا ہے وہ راستہ قربانی کا اختیار کرو جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 ==
205 02.09.1951 217 07.09.1951 225 30.11.1951 247 14.12.1951 257 24.03.1951 259 04.01.1952 261 18.01.1952 265 24.01.1952 267 08.02.1952 271 18.04.1952 279 02.05.1952 281 21.11.1952 285 28.11.1952 297 05.12.1952 303 27.12.1952 305 23.01.1953 311 10.07.1953 321 24.07.1953 323 27.11.1953 335 04.12.1953 345 26.12.1953 347 27.12.1953 iii جب تک تم اپنی روح میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے تم اس بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے مومن کا کام یہی ہونا چاہیے کہ وہ جو کہے اسے پورا کرے اسلام نے غالب آتا ہے اور ضرور آنا ہے اور ہمارے ہاتھوں سے ہی آنا ہے تحریک جدید کے چندہ کو زیادہ منتظم اور با قاعدہ کیا جائے تحریک جدید کے کام کی اہمیت * 1952 ہر محکمہ کی ایک پلین اور تجویز ہونی چاہیے اور پھر وقت مقرر ہونا چاہیے تحریک جدید میں حصہ لینا احمدیت کے قیام کی غرض کو پورا کرنا ہے ایسے لوگ تلاش کرنے ہوں گے جو اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہوں خدا تعالی کی خاطر جو خدمات کی جاتی ہیں وہ پے در پے نفع لاتی ہیں تبلیغ ہی بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کا ایک طبعی ذریعہ ہے نئے شامل ہونے والے پہلوں کے مقابلہ میں نواں حصہ قربانی کر رہے ہیں نوجوان اپنے فرائض منصبی اور قومی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کریں تحریک جدید کی بنیاد انہی اصول پر ہے، جن پر اسلام کی بنیاد ہے تحریک جدید ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ادارہ ہے بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد اور چندہ تحریک جدید کی اہمیت $1953 ہمارے ایمان اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے ہماری جماعت غیر ممالک میں مساجد کے قیام کی اہمیت کو سمجھے ہماری جائیدادیں تبھی فخر کا موجب ہو سکتی ہیں جب وہ خدا کے کام آئیں جس قدر قربانی کرو گے، اس قدر اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتے چلے جاؤ گے ہر فرد کی زندگی کا سب سے اہم کا م تبلیغ و اشاعت اسلام ہونا چاہیے تبلیغ اسلام کے عظیم الشان کام کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں احباب جماعت خصوصا خواتین سے چند اہم تحریکات 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53
349 27.12.1953 353 28.12.1953 355 01.01.1954 359 22.01.1954 371 05.02.1954 377 12.02.1954 389 08.10.1954 395 15.10.1954 405 19.11.1954 411 26.11.1954 427 03.12.1954 441 17.12.1954 451 27.12.1954 453 27.12.1954 457 27.12.1954 465 28.12.1954 467 24.01.1955 473 28.01.1955 483 04.02.1955 485 18.02.1955 493 25.02.1955 497 11.03.1955 تحریک جدید اب اپنے اہم ترین دور میں سے گزر رہی ہے تحریک جدید کو جاری کرنے کی غرض * 1954 کوشش کی جائے کہ جماعت کا کوئی فرد تحریک جدید سے باہر نہ رہے خدا تعالیٰ کا فضل اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ تم تحریک جدید میں حصہ او مبارک ہیں وہ ، جو ان دنوں سے فائدہ اُٹھا ئیں اور اس خدمت کو انعام سمجھیں پس جماعت کو چاہیے کہ وہ تمام افراد کو کھینچ کر تحر یک جدید میں شامل کرے خدمت دین کا ثواب دائمی ہے اور دنیوی مال ایک عارضی اور فانی چیز ہے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اپنے اپنے خاندان کے نوجوانوں کو وقف کرو ہر کسے در کار خود با دین احمد کار نیست تحریک جدید کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے زبر دست کام کی بنیاد رکھی گئی ہے اگر تم قومی لحاظ سے جوان رہنا چاہتے ہوتو ہر روز اپنی قربانی بڑھانی پڑے گی تحریک جدید معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی ایک زبر دست کوشش ہے ہالینڈ کی مسجد بنانا، عورتوں کے ذمہ لگایا گیا ہے بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد کی تحریک تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے شاندار تبلیغی نتائج ہماری ساری عزتیں اسلام ہی سے وابستہ ہیں $1955 مبلغین کو غیر ممالک میں اشاعت اسلام کے متعلق بعض اہم ہدایات مرکز بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے اور جماعت بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھے جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرانا ہے قابلیت ہے تبھی خدا نے آپ کو چنا ہے، پس اپنی طاقت کو ضائع مت کرو ہم نے ساری دنیا میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانا ہے میری نگرانی میں فتح کا دن دیکھنا چاہتے ہو تو دعاؤں اور قربانیوں میں لگ جاؤ 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 iv
501 29.06.1955 503 09.09.1955 513 16.09.1955 521 23.09.1955 535 30.09.1955 539 07.10.1955 543 14.10.1955 555 21.10.1955 567 28.10.1955 577 26.12.1955 579 10.02.1956 585 02.03.1956 589 09.03.1956 607 29.06.1956 623 06.07.1956 625 26.10.1956 639 02.11.1956 643 23.11.1956 651 29.03.1956 655 19.04.1957 661 03.05.1957 665 10.05.1957 667 26.10.1957 V ہمارے خدا نے ہمارا یہ فرض قرار دیا ہے کہ ہم دنیا بھر میں اسلام کو پھیلائیں آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لئے ایک عظیم الشان تحریک ہے جو شخص سچا اور حقیقی مبلغ ہوتا ہے، وہ دنیا میں خدا کا نمائندہ ہوتا ہے جب تک واقفین زندگی پیدا نہ ہوں ، اسلام کبھی غالب نہیں آسکتا سلسلہ احمدیہ کا کام روپیہ سے بھی زیادہ انسانوں سے وابستہ ہے خاندانی طور پر اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرو ينصرك رجال نوعى اليهم من السماء واقفین زندگی دعاؤں کی عادت ڈالیں تم اپنی نسلوں میں وقف کی عظمت اور اہمیت کا احساس پیدا کرو $1956 کوئی دینی جماعت بغیر علماء کے نہیں چل سکتی کیونکہ وہ ان کی فوج ہیں دعائیں کرتے ہوئے تحریک جدید کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور ر کریں وقف زندگی کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے بعض اہم تجاویز ہمارا خدا، ایک زندہ خدا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اللہ تعالیٰ اپنے زندہ ہونے کے ثبوت دیتا چلا آیا ہے اور دیتا چلا جائے گا ہمت کر کے آگے بڑھو اور اپنی جانوں اور مالوں کو اسلام کی خاطر قربان کر دو تحریک جدید کی ذمہ واری بہت بڑی ذمہ واری ہے فتح کے دن کو جلد لانے کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرو وہ دن قریب آرہے ہیں، جب خدا تعالی کامیابی کے راستے کھول دے گا * 1957 خدا نے اس غریب جماعت کو قبول کیا اور اسلام کی خدمت اس کے ذمہ لگادی نئی مساجد کی تعمیر اور ان کی اہمیت وہ وقت دور نہیں ، جب ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا غیر ممالک میں اسلام کی اشاعت کا واحد ذریعہ ہمارے پاس تحریک جدید ہی ہے 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98
677 10.01.1958 683 11.07.1958 687 15.08.1958 693 01.11.1958 699 27.12.1958 705 13.02.1959 707 01.11.1959 709 24.01.1960 713 24.01.1960 715 30.10.1960 717 28.12.1960 723 28.11.1961 727 28.10.1962 729 13.12.1962 731 03.11.63 733 28.12.1963 1958 مجھے یقین ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آسمان سے اترے گی جب انسان دین کی تائید کے لئے کھڑا ہو تو خدا خود اس کی مدد فرماتا ہے اسلام کی تبلیغ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ ساری جماعت کا فرض ہے تحریک جدید غیر ملکوں میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے ہے اشاعت اسلام کے کام کو جماعت کی خاص توجہ کے بغیر چلانا مشکل ہے $1959 مبلغ ہی ہیں، جن کے کام پر ہماری جماعت فخر کرتی ہے پھیر دے میری طرف اے ساریاں جنگ کی مہار * 1960 دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے ہماری جماعت کو قائم کیا گیا ہے آئندہ خلفاء اور اپنی اولاد کو وصیت تحریک جدید کوئی نئی یا عارضی چیز نہیں بلکہ قیامت تک قائم رہنے والی چیز ہے ہمارے سپر د جو کام ہے، وہ بغیر مستقل جد و جہد کے سرانجام نہیں دیا جا سکتا $ 1961 اپنے سچے غلام ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے خدا کی آواز کو دنیا میں پھیلا دو f * 1962 تبلیغ کریں تبلیغ کریں تبلیغ کریں آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی اسلام اور احمدیت کی کامیابی کی بشارت لکھ چکی ہے $1963 جو احمد کی اس تحریک میں حصہ نہیں لے گا ، ہم اسے کمزور سمجھیں گے اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو اسلام کا بہادر سپاہی بنانے کی کوشش کرو 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 vi
vii 735 01.01.1964 737 04.11.1964 741 743 745 777 785 793 ₤1964 امانت فنڈ کی تحریک الہامی تحریک ہے دوست قربانی کریں اور پچھلے سال سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں اشاریہ آیات قرآنیہ احادیث کلید مضامین اسماء مقامات کتابیات 115 116 117 118 119 120 121 122
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 1948ء ڈر ہے کہ قربانیوں اور چندوں میں ستی دکھانے والے دیوالیہ نہ ہو جائیں خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 1948ء سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گذشتہ سفر میں شاید ہوا لگ جانے کی وجہ سے میری طبیعت کل سے زیادہ خراب ہے.اسی لئے کل میں نمازوں میں بھی نہ آسکا.آج صبح طبیعت اچھی تھی لیکن اس وقت پھر حرارت کی وجہ سے تکلیف ہورہی ہے.اس لئے آج میں جمعہ اور عصر کی نمازیں بھی جمع کرا کے پڑھاؤں گا اور خطبہ بھی طبعا مختصر ہی دے سکتا ہوں.دنیا میں ایک قانون قدرت ہے، جو اس کے ہر شعبہ میں کام کرتا ہوا ہمیں نظر آتا ہے.وہ قانون قدرت یہ ہے کہ ہر چیز کے متعلق ایک زمانہ اس کے بونے کا ہوتا ہے اور ایک زمانہ اس کے کاٹنے کا ہوتا ہے.یہ ایک ایسا قانون قدرت ہے، جو دنیا کی ہر چیز میں ہمیں کارفرما نظر آتا ہے.درخت ہیں، ان کے لئے بھی سال میں ایک زمانہ بونے کا ہوتا ہے تو دوسرا کاٹنے کا فصلیں ہیں تو ان کے لئے بھی سال میں ایک بونے کا زمانہ آتا ہے تو دوسرا کاٹنے کا.اسی طرح انسانوں کی حالت ہے.انسان بھی اسی طرح بویا جاتا اور کاٹا جاتا ہے.ایک زمانہ تو انسان پر ایسا آتا ہے کہ وہ اپنے اندر نسل پیدا کرنے کی قابلیت رکھتا ہے.مگر پھر ایک زمانہ اس پر ایسا بھی آتا ہے کہ یہ قابلیت اس کے اندر سے مفقود ہو جاتی ہے.اور اس وقت وہ اپنی پہلی پیدا شدہ نسل سے ہی فائدہ اٹھارہا ہوتا ہے یا نقصان برداشت کر رہا ہوتا ہے.یعنی ایک نسل جو اس نے بوئی تھی اس کی نیک یا بد تربیت کرنے کی وجہ سے اسے اجر یا سزامل رہی ہوتی ہے.اگر اس نے اپنی نسل کی تربیت اچھی کی ہوئی ہو تو اسے نیک پھل ملتا ہے اور اگر تربیت اچھی نہ کی ہوئی ہو تو وہ اس کا خمیازہ بھگتا ہے.اسی طرح قوموں کی بھی حالت ہوتی ہے.ان کے لئے بھی ایک زمانہ ہونے کا اور ایک زمانہ کاٹنے کا مقدر ہوتا ہے.قوموں کے بونے کا زمانہ تو وہ ہوتا ہے، جب تو میں اپنی بقا کے لئے قربانیاں کرتی ہیں اور کاٹنے کا زمانہ وہ ہوتا ہے، جب وہ اپنی قربانیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہوتی ہیں.انبیاء کی جماعتوں کا ابتدائی زمانہ بونے کا ہوتا ہے اور آخری زمانہ کاٹنے کا ہوتا ہے.یعنی انبیاء کی جماعتوں کا ابتدائی زمانہ جماعت کے افراد سے انفرادی اور اجتماعی قربانیوں کا متقاضی ہوتا ہے.مگر اس قربانیوں کے زمانہ میں بھی 1
خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 1948ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم لگ الگ دور ہوتے ہیں.کوئی دور تو ایسا آجاتا ہے کہ وہ قربانیوں کی انتہا چاہتا ہے اور کوئی دور ایسا آجاتا ہے کہ قربانیوں کی گوضرورت تو ہوتی ہے مگر کم.گویا یہ قربانیوں کے زمانے لہروں کی طرح آتے ہیں.کبھی یہ لہریں اونچی اٹھنے لگتی ہیں اور کبھی نیچی ہو جاتی ہیں.ہماری جماعت کے لئے بھی یہ زمانہ دوسروں کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے.اور بہت زیادہ محنت اور توجہ کے ساتھ ہونے کا زمانہ ہے.اس لئے یہ زمانہ ہم سے زیادہ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے.کیا اس لحاظ سے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قریب ہونے کی وجہ سے ابتدائی زمانہ میں سے گزر رہے ہیں اور کیا اس لحاظ سے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس ابتدائی زمانہ کو لمبا کرتا چلا جارہا ہے.مصلح موعود کی پیشگوئی کے معنی ہی یہ تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کولمبا کر دیا جائے.گو اس زمانہ کے لمبا ہونے کی وجہ سے ہمیں بہت زیادہ قربانیاں پیش کرنے کی ضرورت ہوگی مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ثواب بھی ہمیشہ انہیں زمانوں کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے ابتدائی زمانوں میں قربانیاں کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے.ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ زمانہ بالکل اسی طرح لمبا کر دیا ہے، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے کیا تھا.یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کے زمانہ کو یوشع نبی تک لمبا کر دیا تھا، اسی طرح حضرت مسیح موعود کے ذریعہ موعود کی پیشگوئی کر ا کر یہ بتادیا کہ یہ زمانہ مصلح موعود کے زمانہ تک لمبا ہو جائے گا.پس یہ زمانہ ہماری جماعت کے لئے خاص قربانیوں کا زمانہ ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہمارے زمانہ میں قربانیوں کے لحاظ سے لہریں پیدا ہورہی ہیں اور موجودہ ہر تو بہت زیادہ بلندی تک چلی گئی ہے.اور ہماری جماعت کو ایسے ابتلا اور ایسی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے، جن کی مثال ہماری گزشتہ ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں مل سکتی.بے شک پہلے بھی ہماری جماعت پر ابتلا آتے رہے مگر وہ ابتلا محدود ہوتے تھے.مگر موجودہ ابتلا ایسا ہے، جس میں جماعت کو علاوہ دیگر نقصانات کے ایک بڑا بھاری نقصان یہ بھی پہنچا ہے کہ جماعت کا بیشتر حصہ مرکزی مقام سے کٹا ہوا ہے.پس یہ زمانہ ہم سے زیادہ سے زیادہ قربانیاں چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ زمانہ ہماری انفرادی اور قومی اصلاح کا بھی تقاضا کر رہا ہے.کیونکہ ہر قسم کی اقتصادی مشکلات کا ایک سیلاب ہے جو ہم پر انڈا چلا آرہا ہے.ہم اپنے مرکز سے دور ہو چکے ہیں.نہ ہمارے پاس دفاتر بنانے کے لئے کوئی جگہ ہے اور نہ اپنے کارکنوں کے ٹھہرانے کے لئے کوئی جگہ ہے.نہ ہمارے پاس کوئی ایسی جگہ ہے، جہاں ہم سارے اداروں کو اکٹھارکھ سکیں.نہ ہی کوئی ایسی جگہ 2
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 1948ء ہمارے پاس موجود ہے، جہاں ہم باہر کی جماعتوں کو بار بار بلا کر ظہر کیں.پھر ہماری جماعت کا معتد بہ حصہ تہی دست ہو چکا ہے اور اسی لئے ہمارے چندوں میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے.گویا اس وقت ہماری مشینری کی کوئی کل بھی ٹھیک نہیں رہی اور کوئی پرزہ بھی اپنی چول میں ٹھیک نہیں بیٹھتا.ہر کل اور ہر چول ڈھیلی ہو چکی ہے اور ہر سامان بگڑا ہوا ہے.اس وقت دنیا کی کوئی اور جماعت ہوتی تو اسے بہت زیادہ پریشانی لاحق ہوتی.مگر ہماری جماعت کے لئے یہ وقت پریشانی کے خیالات کو لے کر بیٹھ جانے کا نہیں بلکہ قربانیوں کے مظاہرے کا وقت ہے.اس وقت جماعت کا کچھ حصہ تو ایسا ہے ، جو اپنی قربانیوں میں اضافہ کر کے یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس کا قدم آگے کی طرف اٹھ رہا ہے.مگر کچھ حصہ یہ بھی ثابت کر رہا ہے کہ اس نے اس عظیم الشان تغیر کو ایک کھیل سے زیادہ وقعت نہیں دی.یا تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس حصہ کے اندر احساس کی کمی ہے اور یا یہ سمجھا جائے گا کہ اس کے اندر ایمان کی کمی ہے اور عقل کے ہوتے ہوئے بھی اس نے غور نہیں کیا کہ یہ تغیر ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اس حصہ کو چھوڑ کر باقی جماعت اخلاص اور قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کر رہی ہے اور ہر شہر اور ہر قصبہ میں اخلاص دکھانے والے موجود ہیں.اسی طرح ایشیا، یورپ اور امریکہ اور انڈونیشیا کی جماعتیں بھی قربانی کا شاندار مظاہرہ کر رہی ہے.یہ اخلاص کا نمونہ دکھانے والے ہمارے لئے اس خوشخبری کا پیش خیمہ ہیں کہ آہستہ آہستہ جماعت ایک ایسے مقام پر پہنچے گی، جس پر پہنچنا خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اس کے لئے مقدر ہو چکا ہے.بہر حال جماعت کو قربانیوں کی طرف اور اس کے فرائض کی طرف توجہ دلانا اور اس کو ابھارنا میرا اور جماعت کے ہر کارکن کا فرض ہے.گزشتہ ایام میں ، میں نے تحریک جدید کے چودھویں سال کا اعلان کیا تھا مگر اس کے متعلق بار بار دفتر کی طرف سے مجھے یہ رپورٹ ملی ہے کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت وعدوں میں بہت زیادہ کمی ہے.اس کی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ جماعت میں سے چالیس فیصدی لوگ غریب ہو چکے ہیں، ان کی جائیدادیں جاتی رہیں، ان کی تجارتیں تباہ ہو گئیں اور ان کے املاک و اسباب چھن گئے.اور وہ اس وقت کنگالی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں.اور اگر وہ تھوڑا بہت کماتے بھی ہیں تو بڑی مشکل سے وہ اپنے لئے بستر یا کپڑے یا خوردنوش کا انتظام کرتے ہیں.لیکن جہاں کمی کی یہ وجہ موجود ہے، وہاں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ جماعت کا ساٹھ فیصدی حصہ ایسا ہے، جس پر کوئی مصیبت نہیں آئی اور خدا تعالیٰ نے انہیں تباہی سے بچالیا ہے.اگر یہ ساٹھ فیصدی تباہی سے بچ جانے والا حصہ اس نکتہ کو سمجھتا اور وہ اپنے تباہ شدہ چالیس فیصدی بھائیوں کا بوجھ اٹھالیتا تو اس کمی کو دور کیا جاسکتا تھا اور وہ حصہ سلسلہ کے لئے مفید ہوسکتا تھا.مگر 3
خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 1948 ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ساٹھ فیصدی حصہ نے، جو تباہی سے سو فیصدی بچا رہا ہے، اپنے فرائض کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی.پھر تحریک جدید کے چودھویں سال میں وعدے پیش کرنے والوں میں ان لوگوں کے وعدے بھی شامل ہیں، جن کی ساری جائیداد میں تباہ ہو چکی ہیں.انہوں نے یہ وعدے اس لیے پیش نہیں کیے کہ ان کے پاس ان وعدوں کے پورا کرنے کے سامان موجود ہیں.بلکہ انہوں نے میرے کہنے پر اپنے وعدے پیش کر دیئے ہیں.اس امید پر کہ شاید خدا تعالیٰ انہیں وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق دے دے.اور یہ خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان لوگوں کی حالت اس سال درست ہوتی ہے یا اگلے سال یا چند سالوں میں جا کر ہوگی.بہر حال چودھویں سال کے وعدوں میں سے ایسے لوگوں کے وعدے، جو شاید ہیں یا پچیس فیصدی ہوں گے، کم کر دینے پڑیں گے.اس لئے کہ شاید وہ لوگ اپنے وعدوں کو پورا نہ کر سکیں.اگر ان وعدوں کو بھی کم کر دیا جائے تو باقی وعدوں کی تعداد بہت تھوڑی رہ جاتی ہے.پس میں جماعت کے ان دوستوں کو ، جن پر وہ آفت نہیں آئی ، جو مشرقی پنجاب کے احمدیوں پر آئی تھی ، ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ، یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے بھجوائیں اور زیادہ سے زیادہ بھجوائیں اور جلد سے جلد انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں.اس کے ساتھ ہی پچھلے سال کے وعدوں میں سے جو ایک لاکھ کے وعدے ابھی تک وصول ہونے باقی ہیں، ان کو بھی پورا کریں.تحریک جدید کے وعدوں کی کمی کے ساتھ ہی صدر انجمن احمد یہ کے چندوں میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے.یہ صورتحال نہایت خطرناک ہے.کیونکہ سلسلہ گذشتہ مہینوں میں دو، تین لاکھ کا مقروض ہو چکا ہے.اگر جماعت نے اپنے فرائض کونہ پہچانا اور اس کمی کو پورا کرنے کی طرف توجہ نہ کی.تو دو، چار مہینوں کے اندر سلسلہ کے دیوالیہ ہو جانے کا خطرہ نظر آ رہا ہے.یہ تو مجھے یقین ہے اور میری قریباً ساٹھ سالہ عمر کا تجربہ بتا رہا ہے کہ سلسلہ بھی دیوالیہ نہیں ہوگا.مگر مجھے ڈر ہے کہ قربانیوں اور چندوں میں سستی دکھانے والے دیوالیہ نہ ہو جائیں.ایک لمبا تجربہ میری آنکھوں کے سامنے ہے.ایک لمبازمانہ ہماری جماعت کی مخالفت میں مولویوں نے بھی زور گایا اور حکومت نے بھی.عیسائیوں نے بھی زور لگایا اور آریوں نے بھی.ہندؤوں نے بھی زور لگایا اور سکھوں نے بھی.اور یکے بعد دیگرے مخالفت کے بیسیوں طوفان آئے سینکڑوں گھٹائیں اٹھیں.مگر عین اس وقت جب کہ جماعت کو کوئی راستہ کامیابی کا نظر نہ آتا تھا، خدا تعالیٰ نے ہمیشہ ہی مجھے اور جماعت کا کامیاب بنایا اور مخالفین کو نیچا دکھایا.اور مخالفت کے وہ خوفناک بادل، جن کے متعلق یہ خیال کیا جا تا تھا کہ وہ کبھی دور نہیں ہوں گے، خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ ہی آپ چھٹ جاتے رہے.4
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 1948ء پس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مایوس نہیں ہوں.اور اس وقت بھی صرف یہی ایک راستہ مجھے نظر آرہا ہے کہ وہ خدا، جو ہمیشہ میرا اور ہماری جماعت کا ساتھ دیتا رہا، وہ اب بھی اپنی ساری قوتوں کے ساتھ موجود ہے.اور اس کی سنت ہمیں بتاتی ہے بلکہ ہمیں یقین دلاتی ہے کہ اب بھی وہ ہماری مدد کرے گا.پس خدا کی سنت کے ماتحت تو ہمیں کامیابی کا پورا یقین ہے مگر اپنے مادی اسباب کے ذریعہ ہمیں کامیابی کی کوئی امید نہیں.کیونکہ مادی اسباب کو مہیا کرنے کا کام جماعت کے کندھوں پر ہے اور جماعت نے اس حد تک اپنے فرض کو نہیں پہچانا ، جس حد تک پہچاننا چاہیے تھا.اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ جماعت کے وہ لوگ ، جو اس عظیم الشان تغیر سے سبق حاصل نہ کرتے ہوئے ،ہستیوں کو نہیں چھوڑتے ، وہ کہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد نہ بن جائیں.میری مثال اس وقت اس عورت کی سی ہے، جس کی ایک بیٹی کمہاروں کے ہاں بیاہی ہوئی تھی اور دوسری مالیوں کے ہاں.جب کبھی بادل اسے آسمان پر نظر آتے تھے تو وہ عورت گھبراہٹ کی حالت میں ادھر ادھر پھرتی اور کہتی کہ میری دونوں بیٹیوں میں سے ایک کی خیر نہیں.یعنی اگر بادل برس گیا تو وہ لڑکی ، جو کمہاروں کے ہاں بیاہی ہوئی ہے، اس کے مٹی کے برتنوں کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے.اور اگر بادل نہ بر سا تو وہ لڑکی ، جو مالیوں کے ہاں بیاہی ہوئی ہے، اس کے باغ کے پودوں اور سبزیوں کے خشک ہو جانے کو کا خطرہ ہے.میں بھی جب ان حالات پر غور کرتا ہوں تو میری حالت بالکل اس عورت کی سی ہو جاتی ہے.کیونکہ جب میں سوچتا ہوں کہ یہ سلسلہ کو اس وقت فلاں فلاں مشکلات کا سامنا ہے تو میرا دل سلسلہ کی وجہ سے گھبرا اٹھتا ہے.مگر جب میں گزشتہ لمبے تجربہ کی بنا پر خدا تعالیٰ کی سنت اور سلوک کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان ستی دکھانے والے لوگوں کے انجام کی وجہ سے گھبراہٹ ہوتی ہے کہ جب خدا تعالی سلسلہ کو ان تمام مصائب اور ابتلاؤں سے نکال لے گا تو ان سنتی دکھانے والوں کو مصائب میں ڈال دے گا.پس کبھی ایک صدمہ میرے دل پر طاری ہو جاتا ہے اور کبھی دوسرا.کیونکہ قدرتی طور پر مجھے ان لوگوں سے جنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ میں شمولیت اختیار کی ہے، محبت اور انس ہے.یوں تو سلسلہ پر میرا کوئی عزیز سے عزیز بھی قربان ہو جائے تو مجھے ہر گز پرواہ نہ ہوگی.مگر ایک شخص کے میرے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہونے کی وجہ سے مجھے جو محبت اور پیار اس کے ساتھ ہوتا ہے، اس سے میں مجبور ہوں کہ میں اسے توجہ دلاؤں کہ وہ اپنے حالات کو درست کرے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچالے.اور ساتھ ہی وہ مایوس بھی نہ ہو کہ جماعت کا اب کیا بنے گا؟ بلکہ وہ سمجھ لے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے 5
خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جنوری 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم گذشتہ ساٹھ سالوں میں جماعت کو مخالفتوں کے باوجود بڑھایا ہے، اسی طرح اب بھی وہ بڑھائے گا.بلکہ یہ تو ممکن ہے کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل آئے مگر یہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا سلسلہ درہم برہم ہو جائے.خدا تعالیٰ کی باتیں ضرور پوری ہو کر رہیں گی اور اس طرح پوری ہوں گی کہ دشمن حیرت کے ساتھ کہے گا کہ یہ بھی کوئی ابتلا تھا، جو اس جماعت پر آیا.ایسے معمولی ابتلاؤں میں سے تو لوگ بچ کر نکلا ہی کرتے ہیں.مطبوعه روزنامه الفضل 12 فروری 1948ء) 6
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1948ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد پر سب سے بڑا اور اہم فرض عائد ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1948ء...یادرکھو کہ یہ زمانہ ہماری جماعت کے لئے نہایت ہی نازک ہے.نہ صرف ہماری جماعت کے لئے بلکہ سارے اسلام کے لئے نازک ہے.دوسرے مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں یا نہ سمجھیں، ہماری جماعت اس بات کی مدعی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے تازہ پیغام کی حامل ہے.اگر دوسرے لوگ اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت کرتے ہوں تو اس کا یہ نتیجہ نہیں نکلنا چاہیے کہ ہم بھی غافل ہو جائیں.اگر مسلمان اس حالت پر غور کریں، جو اس وقت اسلام کی ہے.اگر وہ جھوٹے دعووں کو چھوڑ دیں، اگر وہ اس امر کو اپنے دلوں میں سے نکال دیں کہ ہم اللہ اکبر کے نعرے لگائیں گے تو یوں ہو جائے گا.اور وہ اس دھو کہ سے اس طرح بچ سکتے ہیں کہ وہ غور اور فکر سے کام لیں.اگر وہ اسلام کی موجودہ حالت پر سیح طور پر تدبر کریں تو انہیں نظر آئے گا کہ اسلام کے پاؤں اس وقت اکھڑ رہے ہیں، اسلام کی جڑیں اس وقت کے ہل رہی ہیں.اسلام کی سیاسی حالت پہلے ہی کمزور ہو چکی تھی ، اب عقائد کی حالت بھی کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے.اور اس وقت اسلام کے نام کو دنیوی اغراض کے لئے استعمال کیا جارہا ہے.جس طرح آج سے پہلے دنیا کا ہر وہ کام ، جس کے لئے قرآن آیا تھا ، لوگوں نے نظر انداز کر دیا تھا.اور قرآن کریم کے صرف دو کام رہ گئے تھے ، مردوں پر پڑھنا اور عدالتوں میں قرآن ہاتھ میں لے کر جھوٹی قسمیں کھانا.اسی طرح اس زمانہ میں اسلام کی غرض صرف اس قدر رہ گئی ہے کہ اسلام کا نام لے کر عوام الناس میں جوش پیدا کیا جائے اور سیاسی اغراض میں اس کی مدد سے اپنے رقیب کو شکست دینے کی کوشش کی جائے.وہ عدالتوں میں جھوٹی قسمیں کھانا اور قبروں پر قرآن کا پڑھنا بھی ایک لغو کام تھا مگر یہ تو بہت ہی خطرناک اور اسلام کو سخت نقصان پہنچانے والا فعل ہے.نام اسلام کا لیا جاتا ہے مگر غرض ایک دوسرے پر سیاسی فوقیت حاصل کرنا ہوتی ہے.اسلام، اسلام کا نعرہ لگانے والا خود اسلام پر عامل نہیں ہوتا.وہ نماز کا تارک ہوتا ہے، وہ ان تمام آداب اور طریقوں کے خلاف چل رہا ہوتا ہے، جن کا اسلام نے بنی نوع انسان سے مطالبہ کیا ہے.مگر وہ اسلام کا نعرہ لگانے میں سب سے زیادہ حصہ لیتا ہے.اس کی آواز باقی سب آوازوں سے 7
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 30 جنوری 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اونچی ہوتی ہے.وہ جتنا زیادہ اسلام کا منکر ہوتا ہے، اتنی ہی بلند آواز سے وہ اسلام، اسلام کا نعرہ لگاتا ہے.تا اس کے اسلام سے انکار اور اسلام پر عمل نہ کرنے کے عیب پر پردہ پڑ سکے.پس یہ وقت ہماری جماعت کے لئے نہایت ہی نازک ہے.اس لئے کہ اسلام کی کشتی کو پار لگانا ہمارے ذمہ ہے.بے شک ہر شخص، جو مسلمان کہلاتا ہے، یہ فرض اس پر بھی عائد ہوتا ہے.لیکن یہ فرض اسے بھولا ہوا ہے اور نئے سرے سے وہ کوئی عہد نہیں کرتا.اور اگر عہد کی کوئی حقیقت ہے؟ اگر عہد جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے، مسئول ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا.تو پھر اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کے حضور تازہ عہد کرنے والے زیادہ ذمہ دار اور جوابدہ ہیں.باقی لوگ وہ ہیں، جن میں سے کسی نے دس پشت سے اور کسی نے نہیں پشت سے عہد کیا تھا.ماں باپ نے عہد کیا، جو اولا د نے بھلا دیا.بے شک ان کی اولاد کا بھی فرض ہے کہ اپنے ماں باپ کے عہد کی قدرو قیمت کا احساس کریں اور اپنے اعمال میں تغیر پیدا کریں.لیکن اس عہد کی وہ شان نہیں ، جو اس عہد کی ہے، جو براہ راست کیا جائے.پس جب تک جماعت اس ذمہ داری کو نہیں سمجھتی ، جو اس تازہ عہد کی وجہ سے اس پر عائد ہوتی ہے.اس وقت تک وہ اپنے ایمان کا کوئی ثبوت مہیا نہیں کرتی.اور اس وقت تک اسلام اور احمد بیت کا بھی روشن مستقبل نظر نہیں آسکتا.اس بارہ میں بے شک جماعت کے اور افراد بھی ذمہ دار ہیں مگر سب سے زیادہ فرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان پر عائد ہوتا ہے.میں نے کہا تھا کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں، جو اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے.بہت سے ایسے ہیں ، جو دنیوی کاموں میں مشغول ہیں اور ایسے نازک وقت میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اپنے ذاتی کاموں میں لگے ہوئے ہیں.میں نے بتایا تھا کہ ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں بالصراحت اس کا ذکر آتا ہے کہ اگر وہ نیکی کریں گے تو ان کی نیکیاں، انہیں دوسروں سے زیادہ ثواب کا مستحق بنا ئیں گی.لیکن اگر وہ غلطیاں کریں گے تو ان کی غلطیاں، انہیں دوسروں سے زیادہ سزا کا مستحق بنائیں گی.میں نے اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ جماعت کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے.جماعت بھی لفظی صاحبزاد گیوں کی طرف جاتی ہے.حالانکہ لفظی صاحبزادگیوں کی بجائے ہمیں حقیقی صاحبزادگی اپنے مدنظر رکھنی چاہیے.گویا ان کا طریق عمل بھی دوسروں کو سبق دینے والا نہیں.شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں جتنی کمزوری ہوگی.ہم کو اس سے زیادہ کمزوری دکھانے کا موقع ملے گا.اس لئے منع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر اس طریق پر چل کر 8
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم دونوں میں سے کسی کا بچاؤ نہیں ہوسکتا.خدا سے عہد باندھ کر اسے توڑ دینا ایسی چیز نہیں جو معاف کی جا سکے.یہ اس دنیا میں بھی ان کو ذلیل کر دے گی اور اگلے جہاں میں بھی ان کو ذلیل کرے گی.میرے اس خطبہ کے جواب میں ، ہمارے خاندان کے دو نو جوانوں نے مجھے لکھا ہے کہ ہم نے تو پہلے ہی اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کی ہوئی ہیں.میں نے اس محکمہ کے ذریعہ، جو وقف کا ریکارڈ رکھتا ہے، انہیں جواب دیا ہے کہ پہلے اپنی شکل تو اسلام اور احمدیت والی بناؤ.اور اسلام اور احمدیت پر عمل کر کے دکھاؤ.اگر تم اپنی شکل اسلام اور احمدیت والی نہیں بنا سکتے اور نہ اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہو تو تمہارا اپنے آپ کو وقف کرنا محض ایک دھوکہ ہوگا.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس چیز کے لئے آئے تھے؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دفتروں کی کلرکیاں کرنے کے لئے آئے تھے؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تجارتیں کرنے کے لیے آئے تھے؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا رخانے قائم کرنے کے لیے آئے تھے؟ آخر کس چیز پر ہم ان کو لگا ئیں؟ جب وہ قرآن اور حدیث ہی نہیں جانتے اور جب وہ ان پر عامل ہی نہیں تو ہم ان کو کس چیز پر لگائیں ؟ جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نقش قدم پر چلنے کے لئے نہیں ، جب ان کا لباس اور طور طریق بھی اسلام کے مطابق نہیں تو ہم نے ان کے وقف کو لے کر کیا کرنا ہے؟ آخر ان کو دیکھ کر ایک چمار عیسائی کے لباس اور ان کے لباس میں کیا فرق نظر آتا ہے؟ ایک چوڑھا عیسائی ہوتا ہے تو وہ بھی اسی طرح پینٹ پہن لیتا ہے.ایک سانسی عیسائی ہوتا ہے تو وہ بھی اسی طرح پینٹ پہن لیتا ہے.جب ان کے اندر اتنی بھی غیرت نہیں، جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان کے دلوں میں اتنی بھی محبت نہیں کہ وہ اپنے لباس اور طریق کو درست کر سکیں.اور جب اسلام کی ان میں اتنی بھی محبت نہیں کہ وہ قرآن اور حدیث پڑھ کر دین کی واقفیت حاصل کریں تو ان کے وقف کے معنی ہی کیا ہیں؟ کلرک تو ہم عیسائی بھی نوکر رکھ سکتے ہیں، تجارت کا کام بھی عیسائیوں سے کروایا جا سکتا ہے.جس کام پر غیر مذاہب کے لوگ نہیں رکھے جاسکتے ، وہ تبلیغ ہے، وہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہے.اگر واقعہ میں ان کے دلوں میں اسلام اور احمدیت کی کوئی محبت ہے تو انہیں قرآن پڑھنا چاہئے ، حدیث پڑھنی چاہئے ، اپنے لباس اور طرز رہائش کو درست کرنا چاہئے.جب تک وہ یہ کام نہیں کر سکتے ، اس وقت تک ان کا اپنے آپ کو وقف کرنا، دنیا کو بھی دھوکہ دینا ہے اور اپنے آپ کو بھی دھوکہ دینا ہے.دنیا کو وہ دھوکہ دے سکتے ہیں.لیکن اگر اپنے آپ کو بھی دھوکہ دیتے رہے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے تو وہ اپنی نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کریں گے.9
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم جس قسم کے حالات جماعت کو آئندہ پیش آنے والے ہیں، وہ نہایت خطرناک ہیں.پہلے بھی میں نے تفصیل سے حالات نہیں بتائے تھے، صرف اجمالاً آئندہ آنے والی مشکلات کا ذکر کیا تھا.اور تم نے دیکھا کہ جو کچھ میں نے کہا تھا، وہ لفظاً لفظ پورا ہوا.اب میں اس سے بھی زیادہ خطرناک حالات جماعت کے متعلق دیکھتا ہوں.میں اس سے بھی زیادہ مشکلات احمدیت کے راستہ میں حائل ہوتی ہوئی دیکھتا ہوں.احمدیت تو بہر حال غالب آئے گی.لیکن احمدیت کی جنگ 20-15 سال سے زیادہ نہیں چل سکتی.15-20 سال کے عرصہ میں یا تم غالب آجاؤ گے یا تم تباہ کر دیئے جاؤ گے.ان دونوں میں سے ایک بات ضرور ہو کر رہے گی.میں تم“ کا لفظ استعمال کرتا ہوں ، احمدیت کا لفظ استعمال نہیں کرتا.کیونکہ احمدیت بہر حال غالب آئے گی.صرف 20-15 سال کی مہلت ہے، جو تمہیں دی گئی ہے.ان پندرہ بیس سالوں میں سے ہر پہلا سال آئندہ آنے والے سال سے زیادہ قیمتی ہے.48ء، 49ء سے زیادہ قیمتی ہے اور 1949ء 50 ء سے زیادہ قیمتی ہے.اور 50ء،51 ء سے زیادہ قیمتی ہے اور 51ء،52 ء سے زیادہ قیمتی ہے اور 52ء،53 ء سے زیادہ قیمتی ہے.تم اگر یہ کہو کہ اگر میں نے 48ء میں یہ کام نہیں کیا تو کیا ہوا ،49ء میں کرلیں گے؟ تو تم کچھ نہیں کر سکو گے.لیکن اگر تم یہ کہو گے کہ 49ء کا کام ، ہم 48ء میں کر لیں.تب بے شک تمہاری کامیابی قریب آ سکتی ہے.بہر حال اس زمانہ میں سب سے بڑا فرض اور سب سے اہم فرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد پر عائد ہوتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ قادیان سے نکلے اور نظام کے درہم برہم ہو جانے پر بجائے اس کے کہ جماعت کے نوجوان خدمت دین کے لیے آگے آتے ، قریباً چالیس فیصدی انجمن کے کارکنان بھاگ کر باہر چلے گئے ہیں.گویا جس وقت لوگ دنیا میں اکھٹے ہو جایا کرتے ہیں، اس وقت ہماری جماعت کے نوجوانوں نے غداری اور بے ایمانی کا ثبوت دیا.بجائے اس کے کہ وہ اپنے کام چھوڑ کر سلسلہ کی خدمت کے لئے آ جاتے ، وہ سلسلہ کا کام چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ بہتوں کے منہ پر یہ الفاظ ہیں کہ اگر ہم باہر نہ جائیں تو کھائیں کہاں سے؟ مگر یہ سوال صرف تمہارے سامنے ہی نہیں بلکہ پہلی جماعتوں کے سامنے بھی یہ سوال تھا.اور پھر بھی وہ دین کا کام کرتی چلی گئیں.پس میں کہتا ہوں کہ اگر یہ سوال غلط اور بے معنی ہے تو پھر وہ کون ہے، جس کو سب سے زیادہ سزا ملے گی اور وہ خدا کے سامنے ایک ذلیل چور کی حیثیت میں پیش ہوگا؟ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ایسے افراد.یہ لوگ اس دنیا میں بھی ذلیل کئے جائیں گے اور اگلے جہاں میں بھی ذلیل کئے جائیں گے.یہ کوئی 10
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 جنوری 1948ء 034 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم عزت اپنی تجارتوں اور نوکریوں سے حاصل نہیں کر سکیں گے.کیونکہ ان کو جو خدا نے عزت دی تھی ، و دوسروں کو نہیں دی.اور خدا نے ان پر جو فضل نازل کئے تھے، وہ دوسروں پر نہیں کئے.اس لئے اب اللہ تعالیٰ جو قربانی ان سے چاہتا ہے، وہ بھی دوسروں سے نمایاں ہے.بے شک اللہ تعالیٰ اپنے دربار میں آگے بڑھنے کا ہر ایک کو موقع دیتا ہے.مگر جو نہیں آتے یا آ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں، وہ سب سے بڑے مجرم ہو جاتے ہیں.پس جن جن لوگوں میں بھاگنے کی روح پیدا ہو رہی ہے، ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اپنا فرض ادا نہیں کر رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں شاید تمام محکمے بند کرنے پڑیں گے اور ہمیں پھر اپنا تمام کام اسی ابتدائی حالت پر لے جانا پڑے گا، جس حالت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تھا.اور شاید وہ وقت بھی آجائے جبکہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولا پر، اگر ان میں ایمان اور دیانت ہوئی ، یہ تمام بوجھ آ پڑے.لیکن وہ اس بات کی طرف متوجہ ہیں کہ دوسرے لوگ یہ کام کریں اور ہم اپنے دنیوی کاموں میں مصروف رہیں.میں سمجھتا ہوں، اب وقت آچکا ہے کہ ہم اس بارہ میں زیادہ سخت قدم اٹھا ئیں گے.اگر ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم کسی ست اور کوتاہ بین انسان کو اس کے اعمال کی وجہ سے سلسلہ سے نکال دیں تو یقیناً ہمیں یہ حق بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کو اختیار کرتے ہوئے ، جو لوگ خدمت دین میں حصہ نہیں لے رہے، ان کو ہم خاندان مسیح موعود میں سے نکال دیں.اگر ہمیں عام احمدیوں کے مقاطعہ کا حق حاصل ہے تو یقینا ہمیں یہ حق بھی حاصل ہے کہ جولوگ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان میں سے دین کی خدمت سے غافل ہیں، ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے خاندان میں سے نکال دیں.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے نکالا جا سکتا ہے تو مسیح موعود کی اولاد میں سے کیوں نکالا نہیں جاسکتا ؟ اور اگر دوسرے لوگ قربانیاں کر سکتے ہیں تو مسیح موعود کی اولاد کیوں قربانی نہیں کر سکتی؟ ان کی قربانیاں یقینا دوسروں کے اندر جوش پیدا کریں گی.اور اگر نہیں کریں گی تو اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کے ذریعہ ایک نئی جماعت پیدا کر دے گا.بہر حال ان کا یہ کام نہیں کہ وہ دین سے غافل رہیں ، قرآن اور حدیث سے واقفیت پیدا نہ کریں اور کرنٹے بنے ہوئے چوڑھے عیسائیوں کی طرح پتلونیں پہنے پھریں.اگر ایسی صورت میں وہ اپنے آپ کو وقف بھی کرتے ہیں تو ان کے وقف کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے.آخر وقف کے بعد ہم ان سے کیا کام لیں گے ؟ یہی کام لیں گے کہ وہ مختلف علاقوں میں جائیں اور تبلیغ کریں.مگر اس کے لئے انہیں سب سے پہلے اپنا نمونہ پیش کرنا چاہئے.11
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 جنوری 1948 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم لر وہ یہ کام نہیں کر سکتے ، اگر وہ اس اہم امر کی طرف توجہ نہیں کر سکتے تو انہوں نے کرنا کیا ہے؟ کیا ہم نے ان کا مربہ اور اچار ڈالنا ہے؟ یا ہم نے ان کی چٹنیاں ڈالنی ہیں؟ یہی کام ہے، جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں مبعوث ہوئے تھے کہ اسلام اور احمدیت کو پھیلایا جائے.اگر ان کے دلوں میں قرآن و حدیث پڑھنے کا شوق نہیں ، اگر ان کے دلوں میں قرآن وحدیث کا درس دینے کا شوق نہیں تو کیا کام ہے، جو وہ کرنا چاہتے ہیں؟ اور کس غرض کے لئے وہ اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں؟ جو کام وہ اس وقت کر رہے ہیں، اس کے لئے تو ایک ہندو اور عیسائی بھی نوکر رکھا جا سکتا ہے.پس پہلے انہیں اپنے اندر دین پیدا کرنا چاہیے.پہلے اپنی نمازیں درست کرنی چاہیں.پہلے قرآن اور حدیث پڑھنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اس کے بعد انھیں دین کی تبلیغ کے لئے نکل جانا چاہیے.جیسے پرانے زمانہ میں صوفیاء باہر نکلے اور ملکوں کے ملک انہوں نے اسلام میں داخل کر لیے.یہی ملک جس میں سے آج چھپن لاکھ مسلمان اس طرح بھاگا ہے کہ چنددنوں میں سارا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو گیا.اس ملک میں حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی آئے اور سارا ملک انہوں نے مسلمان بنالیا.آخر وہ کیا چیز تھی ، جو خواجہ معین الدین صاحب چشتی " کو حاصل تھی؟ وہ کیا چیز تھی ، جس نے حضرت باوانا تک کو حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج والوں کے دروازہ پر لا کر ڈال دیا؟ اگر فرید الدین صاحب شکر گنج والے اپنے عمل اور طریق سے باوانا تک کی آنکھوں کو نیچا کر سکتے تھے تو اگر اس زمانہ کا مسلمان بھی فرید الدین بن جائے تو کیوں وہ سکھ کی آنکھ کو نیچا نہیں کر سکتا ؟ یقیناوہ ایسا کر سکتا ہے.مگر اس کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن اور حدیث کو پڑھا جائے ، قرآن اور حدیث پر عمل کیا جائے اور قرآن اور حدیث کی تعلیم کو پھیلایا جائے.اگر اس کام کے لئے ہم تیار ہیں تو یقینا ابتلاؤں پر ہم غالب آ جائیں گے لیکن اگر ہم اس کے لئے تیار نہیں تو ابتلا ہم پر غالب آجائیں گے.پس میں ایک دفعہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ اپنی اصلاح کرلیں تو وہ دہرے ثواب کے مستحق ہوں گے.لیکن اگر انہوں نے اصلاح نہ کی تو جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے، وہ دہرے عذاب کے مستحق ہوں گے.بہر حال خدا تعالیٰ کی طرف سے جب تک سلسلہ کی یہ حیثیت قائم ہے، جب بھی کوئی آواز بلند ہوگی ، اس آواز کا پہلا مخاطب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان ہوگا.اور ان کا فرض ہوگا کہ وہ قرآن پڑھیں ، حدیث پڑھیں اور مختلف ملکوں میں تبلیغ کے لئے نکل جائیں.تا پھر مسلمان ایک ہاتھ پر جمع ہو کر اسلام کی عظمت کا 12
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1948ء موجب بنیں.جو افتراق اور شقاق اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے، وہ اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ ہر مسلمان اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کی فکر میں ہے.کہیں مذہبی اختلاف کو آپس کے افتراق کا ذریعہ بنایا جارہا ہے اور کہیں سیاسی اختلافات کو آپس کے افتراق کا ذریعہ بنایا جارہا ہے.اس تباہی اور بر بادی کا سوائے اس کے اور کوئی علاج نہیں کہ پھر مسلمان احمدیت کے ذریعہ ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں اور پھر کفر پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا جائے.اور یقیناً ایسا ہوسکتا ہے.یہ خیال کہ ہم تھوڑے ہیں اور دشمن زیادہ ہے، بالکل غلط ہے.ہندوستان کے نو کروڑ مسلمان، جو اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اگر ان کا چوتھا حصہ یعنی سوا دو کروڑ مسلمان بھی ایک ہاتھ پر جمع ہو جائے تو نہ صرف ہندوستان کے تئیں کروڑ غیر مسلموں پر بلکہ چین اور جاپان پر بھی، جس کی آبادی شامل کر کے ایک ارب تک پہنچ جاتی ہے، ہمیں غلبہ حاصل ہو سکتا ہے.ہم اس سے گھبرانے والے نہیں کہ ہم تھوڑے ہیں اور دشمن زیادہ ہے.روحانیت میں بہت بڑی طاقت ہوتی ہے اور یہ طاقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حاصل ہے.بے شک مادی اور ظاہری سامانوں میں بھی طاقت ہوتی ہے مگر مادی اور ظاہری سامان صرف جسم فتح کرتے ہیں.روحانی طاقت دشمن کے اس مقام پر حملہ کرتی ہے، جہاں اس کا بچاؤ بالکل ناممکن ہوتا ہے.اگر اسلام کا صحیح نمونہ پیش کیا جائے اور والہانہ طور پر اس کی تبلیغ اور اشاعت کی جائے تو وہی لوگ ، جو آج ہمارے دشمن اور کا ہمارے مقابل میں لڑ رہے ہیں، کل ہمارے ساتھ شامل ہو کر اسلام کی طرف سے کفر کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو خانہ کعبہ کے پجاری بھی بظاہر مسلمان ہو گئے.اس وقت کا ایک پجاری کہتا ہے کہ میرے خاندان کے بہت سے آدمی چونکہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، اس لئے گو میں بظاہر مسلمان ہو گیا مگر میں نے اپنے دل میں قسم کھائی کہ جب بھی مجھے موقعہ ملا، میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کر کے اپنے خاندان کے افراد کا بدلہ لوں گا.اس کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اس کی اس خواہش کے پورا ہونے کا ذریعہ بھی نکل آیا.طائف والوں سے جنگ ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کا مقابلہ کرنے کے لئے صحابہ کو لے کر چل پڑے.اس وقت یہ شخص بھی جو آپ کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا لشکر میں شامل ہو گیا.اس کا اپنا بیان ہے کہ میں نے سمجھا کہ میرے لئے بہت ہی عمدہ موقعہ پیدا ہو گیا ہے.اگر لڑائی میں کوئی ایسا موقع آیا، جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہوئے تو میں انہیں مارڈالوں گا.اسی لئے میں آپ کے قریب قریب رہتا تھا.آخر ایسے سامان بھی 13
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 جنوری 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم پیدا ہو گئے کہ اسے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا.اسلامی لشکر جب آگے بڑھا تو دشمن نے کمین گاہوں سے تیر برسانے شروع کر دیئے مکہ کے حدیث العہد اور نئے نئے مسلمان ، جن میں بعض کا فر بھی شامل تھے اور جو بڑے تکبر سے آگے آگے چل رہے تھے، جب ان پر تیروں کی بوچھاڑ ہوئی تو وہ بے تحاشا پیچھے کی طرف بھاگے.ان کے بھاگنے اور سواریوں کے بدکنے کی وجہ سے باقی لشکر میں بھی بھا گڑ مچ گئی اور سب لشکر میدان سے بھاگ نکلا.یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے.اس وقت حضرت ابو بکر نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لوٹائیں.چنانچہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی باگ پکڑ لی اور کہا یا رسول اللہ اب ہمیں لوٹنا چاہیے.تا کہ ہم لشکر کو جمع کر کے پھر حملہ کریں.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے جوش سے فرمایا چھوڑ دو، میری سواری کی باگ کو.اور حضرت عباس کو بلا کر کہا عباس آواز دو کہ اے انصار ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت مہاجرین کا نام نہیں لیا.اس کی وجہ یہ ہے مہاجرین کی سفارشوں پر ہی کفار مکہ کو ساتھ لیا گیا تھا.چونکہ وہ مہاجرین کے رشتہ دار تھے ، انہوں نے سفارش کی کہ ان کو بھی ساتھ لیا جائے اور ان کو بھی خدمت کا موقع دیا جائے.چونکہ ان کی اس سفارش کی وجہ سے ہی اسلامی لشکر کو نقصان پہنچا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خفگی کا اس نہایت ہی لطیف پیرا یہ میں اظہار کیا.کہ مہاجرین کا نام نہیں لیا.بلکہ صرف یہ فرمایا کہ اے انصار ! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.مہاجرین بعض دوسرے الفاظ میں بے شک شریک ہو جاتے تھے مگر علیحدہ طور پر آپ نے اُن کا نام نہیں لیا.مثلا بعض روایتوں میں ذکر آتا ہے کہ آپ نے فرمایا، اے بیعت رضوان والے لوگو! اور بیعت رضوان میں مہاجرین شامل تھے.بہر حال اس عرصہ میں دشمن نے اور حملہ کیا اور ایک وقت ایسا بھی آگیا ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں اکیلے رہ گئے.اس وقت صرف ایک صحابی سفیان آپ کے پاس تھے یا وہ شخص تھا، جو آپ کو قتل کرنے کی نیت سے آیا تھا.وہ کہتا ہے، جب میں نے دیکھا کہ آپ اکیلے ہیں تو میں نے سمجھ لیا کہ اب میرے لئے حملہ کا موقع آگیا ہے.میں آگے بڑھا، اس نیت اور اس ارادہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماردوں.جب میں آگے بڑھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مجھ پر پڑگئی.آپ نے فرمایا آگے آجاؤ، میں اور آگے چلا گیا.جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے اپنا ہاتھ لمبا کیا ، میرے سینہ پر اپنا ہاتھ پھیرا اور کہا اے خدا تو اس کے دل سے سارا کینہ اور بعض نکال دے.وہ کہتا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کا میرے سینہ پر سے ہٹنا تھا کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ دنیا کی 14
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1948ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد سوم ساری محبت میرے دل میں سمٹ آئی ہے.جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اتنے پیارے معلوم ہونے لگے کہ ان سے زیادہ پیارا مجھے دنیا میں اور کوئی وجود نظر نہیں آتا تھا.پھر آپ نے فرمایا آگے بڑھو اور دشمن کا مقابلہ کرو.وہ کہتا ہے کہ اس وقت یہ بات میرے واہمہ اور خیال میں بھی نہ رہی کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کے لئے آیا تھا بلکہ اس کی بجائے آپ کی محبت کا اس قدر جوش میرے دل میں پیدا ہوا کہ خدا کی قسم اگر اس وقت میرا باپ بھی میرے سامنے آتا تو میں فوراً اس کی گردن کاٹ ڈال دیتا.اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جب کسی انسان میں تغیر پیدا ہوتا ہے تو اس کی حالت کیا سے کیا ہو جاتی ہے؟ وہ ایک معمولی آدمی تھا ، وہ کفر کی حالت میں نکلا اور اس ارادہ کے ساتھ نکلا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں گا.محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پھر جانے کی وجہ سے اس میں ایسا تغیر پیدا ہو گیا کہ وہ آپ کی خاطر ہر بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو گیا.کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے اندر اتناتو تغیر پیدا کریں، جتنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پھر جانے کی وجہ سے اس انسان میں پیدا ہوا.غرض میں جماعت کو عموماً اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کو خصوصاً اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے تیار کریں.دشمن اپنا سارا زور اسلام کے مٹانے کے لئے لگائے گا.بے شک جہاں تک احمدیت کا سوال ہے، خدا اس کا محافظ ہے.مگر ہمارا بھی فرض ہے کہ جب خدا یہ کام کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کے ہتھیار بن کر زیادہ سے زیادہ برکات اور ثواب حاصل کریں.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے، یہ فضل اسی طرح حاصل ہوسکتا ہے کہ ہم قرآن اور ، حدیث پڑھیں، قرآن اور حدیث پر عمل کریں اور قرآن اور حدیث پر عمل کرائیں.میں کہتا ہوں، اب وقت آ گیا ہے کہ جس طرح پرانے زمانے میں حضرت معین الدین صاحب چشتی ، حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کا کی اور دوسرے اولیاء بغیر ڈر کے دشمن میں گھس گئے اور انہوں نے اسلام پھیلا دیا.اسی طرح اب بھی لوگ بغیر کسی ڈر کے اسلام کی تبلیغ کے لئے نکل جائیں اور اس امر کی پرواہ تک نہ کریں کہ دشمن ان سے کیا سلوک کرے گا ؟ اور یقیناً جولوگ اس نیت اور اس ارادہ سے نکلیں گے کہ وہ اس قابل ہوں گے کہ بڑے سے بڑے دشمنوں کے دلوں کو بھی پھیر دیں، جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے اس کافر کے دل کو بدل دیا.آخر خدا کے کام معجزانہ ہی ہوتے ہیں.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کیوں کر ہوگا.جو کام خدا کے ہوتے ہیں، ان میں ” کیوں کر اور کس طرح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کیا تم کو پتہ ہے کہ دنیا 15
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 جنوری 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کیوں کر پیدا ہوئی ؟ کیا تم کو پتہ ہے کہ کائنات کیوں کر بنی ؟ نہ تم کو یہ پتہ ہے کہ دنیا کیوں کر پیدا ہوئی اور نہ تم لو یہ پتہ ہے کہ کائنات کیوں کر بنی.فلاسفر آج تک بخشیں کرتے رہے مگر وہ ان امور کو حل نہ کر سکے.تمہارے سامنے دنیا موجود ہے تم بتاؤ تو سہی کہ ستارے کہاں ختم ہوتے ہیں؟ پھر اس کے بعد کیا ہے؟ اگر کہو کہ یہ سلسلہ غیر محدود ہے.تو غیر محدود ایک ایسی اصطلاح ہے، جو کسی انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتی.جس طرح وہ یہ باور نہیں کر سکتا کہ کوئی چیز محدود ہو اور اس کے بعد کچھ نہ ہو.جس طرح انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ دنیا ہمیشہ سے چلی آرہی ہے.اسی طرح وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ پہلے کچھ نہ ہو اور پھر دنیا کا سلسلہ قائم ہو.بے وقوف اور جاہل بے شک ان باتوں کو مان لیتے ہیں مگر جو لوگ عقلمند ہوتے ہیں، وہ صاف طور پر کہہ دیتے ہیں کہ یہ باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں.پھر بعض لوگ اس سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ خدا کوئی نہیں.اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا تو ہے مگر اس کی باتیں انسانی سمجھ سے بالا ہیں.غرض خدا تعالیٰ کے تمام کام کیوں اور کیوں کر اور کس طرح سے بالا ہوتے ہیں.اگر تم ہر بات کو کیوں اور کس طرح سے حل کرنے لگے تو تمہیں پہلے اپنا انکار کرنا پڑے گا تمہیں ستاروں کا انکار کرنا پڑے گا، تمہیں دنیا کا انکار کرنا پڑے گا.جب خدا دنیا میں ایک نئی جماعت قائم کرنا چاہتا ہے تو باوجود مخالف حالات کے وہ کس طرح غالب آ جاتی ہے، اسے نہ تم سمجھ سکتے ہواور نہ کوئی اور مجھ سکتا ہے؟ مگر دنیا میں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے.اس کیوں کر اور س طرح کے سوال کے ہوتے ہوئے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا پر غالب آگئے.اس کیوں کر اور کس طرح کے ہوتے ہوئے ، حضرت موسی اپنے مخالفین پر غالب آگئے.کیوں کر اور کس طرح کے سوال ہوتے ہی رہے اور نوح اپنے مخالفین پر غالب آگئے.اب بھی دنیا کیوں کر اور کس طرح ہی کہتی رہے گی اور سچا احمدی پھر دنیا پر اسلام کو غالب کرے گا.پھر دنیا کی مایوسی اور نا امیدی کے باوجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کر دے گا.مگر پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اپنے دلوں پر قائم کرو.تمہارے دلوں پر قائم ہونے کے بعد ہی وہ دنیا میں قائم ہو سکتی ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 07 اپریل 1948ء ) 16
زیک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 فروری 1948ء ہم پھولوں کی پیج پر چل کر دلوں کو فتح نہیں کر سکتے خطبہ جمعہ فرمودہ 13 فروری 1948ء جس شخص کے دل میں خدا تعالیٰ کے احسانات کی یہ عظمت ہو، جس شخص کے دل میں خدا تعالیٰ کے احسانات کی یہ قدر ہو، اس کی زندگی ہی اصل زندگی ہے.اگر اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمتیں ملتی ہیں اور وہ ان نعمتوں کو کھاتا ہے تو ان نعمتوں کے کھانے پر اگر کوئی شخص اعتراض کرتا ہے تو وہ کافر ہے، بغیر اس کے کہ وہ خدا کا انکار کرے.کیونکہ وہ خدا کی صفت کا انکار کرتا ہے.اور اگر وہ فاقے کرتا ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کے فاقے پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ کیا یہ بھی خدا کا بندہ ہے، جو فاقے کر رہا ہے؟ تو وہ بھی کافر ہے.اس لئے کہ اس کی زندگی اپنی زندگی نہیں.نہ اس کا کھانا اپنا ہے، نہ اس کا پینا اپنا ہے، نہ اس کا جینا اپنا ہے.وہ کھاتا ہے تو خدا کے لئے کھاتا ہے، وہ پیتا ہے تو خدا کے لئے پیتا ہے، وہ فاقے کرتا ہے تو خدا کے لئے فاقے کرتا ہے.یہ وہ زندگی ہے، جو ایک مومن کی زندگی ہوتی ہے.جب تک اس احساس کے ساتھ کوئی شخص خدا کے لئے اپنی زندگی وقف نہیں کرتا ، اس وقت تک وہ ہرگز مومن نہیں کہلا سکتا.میں ان کو بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان میں سے زندگیاں وقف کر چکے اور کام کر رہے ہیں اور خصوصا وہ میرے بیٹے ہی ہیں، کہتا ہوں کہ تم بھی میرے خطبوں پر یہ مت خیال کرو کہ تم کو بری سمجھا گیا ہے.تمہارا اپنے آپ کو وقف کرنا یا کام کرنا، یہ ثابت نہیں کرتا کہ تم خدا کے بندے ہو.ہو سکتا ہے کہ تم خدا کے بندے نہ ہو بلکہ میرے بندے ہو.ہو سکتا ہے کہ تم نے خدا کو خوش کرنے کے لئے نہیں بلکہ مجھے خوش کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہو.اس لئے تم بھی اپنے حالات کا جائزہ لو.اگر اپنی زندگی وقف کرنے کے بعد پھر بھی تمہارے اندر دنیا کی لالچ پائی جاتی ہے، اگر پھر بھی تمہارے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ تمہارا باپ یا تمہاری ماں کس حد تک تمہاری خدمت کرتے ہیں؟ اگر پھر بھی تمہارے قلوب میں بشاشت پیدا نہیں ہوئی بلکہ وقف کے بعد تمہارے اندر مایوسی پیدا ہو جاتی ہے یا امنگ پیدا نہیں ہوتی تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ تم نے جبر کے ماتحت اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے.جس طرح زبردستی کا کلمہ پڑھانا کسی کو جنت کا مستحق نہیں بنادیتا، اس طرح زبردستی کا وقف بھی کسی کو خدارسیدہ نہیں بنا سکتا.17
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 فروری 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سو اگر تم نے خدا کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں تو تم پر اداسی کیوں طاری ہے؟ کسی تکلیف کے پہنچنے پر تمہارے اندر احساس کمتری کیوں پایا جائے؟ اگر تمہارا کوئی عزیز دنیا کماتا ہے تو تمہارے دل میں لالچ کیوں پیدا ہوتی ہے؟ کیا کسی کو پاخانہ کھاتے دیکھ کر تمہارے دل میں بھی رغبت پیدا ہوتی ہے؟ اگر تم نے صحیح طریق اختیار کیا ہوا ہوتا تو تم سمجھتے کہ وہ نجاست کھا رہا ہے اور ہمیں اس کی نسبت کھانے والے شخص سے گھن آنی چاہئے تھی ، نفرت اور کراہت آنی چاہئے تھی.لیکن اگر تمہیں کراہت نہیں آتی تو تم بھی ویسے ہی مجرم ہو جیسے وہ.فرق صرف یہ ہے کہ وہ ظاہری کا فر ہے تم باطنی کا فر ہو.اور کوئی فرق نہیں.اور اگر جس لائن کو تم نے اختیار کیا ہے اس کے فوائد تم پر روشن ہیں.تم اپنی زندگی وقف کرنے کے بعد اپنے دلوں میں ایک عظیم الشان تغیر محسوس کرتے ہو تم یقین رکھتے ہو کہ یہ ایک بھاری نعمت ہے، جو تمہیں دی گئی ہے.دنیا تمہاری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور خدا ہی خدا تمہیں نظر آنے لگتا ہے.اسی طرح تمہارے کاموں میں وہ اولوالعزمانہ شان پیدا ہو جاتی ہے کہ جو خدا کے بندوں میں پیدا ہونی چاہیے.اور تم صرف مفوضہ کام کا بجالانا ہی کافی نہیں سمجھتے بلکہ تمہیں یہ بھی مدنظر ہوتا ہے کہ جماعت کی ساری ذمہ داریاں تم پر ہیں.اس راہ میں مرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہو.تب بیشک یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم نے وقف کی حقیقت کو سمجھا ہے.یا درکھو بغیر موت قبول کرنے کے کوئی مذہبی جماعت، مذہبی جماعت نہیں بن سکتی.تم کو پہلے قربانیاں دینی پڑیں گی اور جماعت کو بعد میں قربانی کے لیے بلایا جائے گا.تم اگر یہ امید کرتے ہو کہ پہلے دوسرے لوگ قربانیاں کریں تو تم کا فر اور مرتد ہو.پہلے تمہیں اپنی قربانیاں پیش کرنی پڑیں گی.اور وہ دن کچھ زیادہ دور نہیں بلکہ وہ دن دروازے پر کھڑے ہیں، جب تم کو اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کرنی پڑیں گی.یہ عیاش لوگوں کے خیالات ہوتے ہیں کہ اگر ہم آگے بڑھے تو ہمارے بچے یتیم اور ہماری بیویاں بیوہ ہو جائیں گی.مؤمن ان چیزوں کو فخر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قبول کرتا ہے.اگر خدا کی مرضی یہی ہے تو ہونے دو بیویوں کو بیوہ ، ہونے دو بچوں کو یتیم.ہمارا مٹ جانا خدا کی راہ میں اگر اسلام کو مضبوط بناتا ہے تو ہم ضرور مئیں گے اور ہمارا منا ہمارے لیے فخر کا موجب ہوگا.ہمارا یہ احساس کہ ہم زندہ رہ کر دین کی خدمت کریں، یہ دہریت ہے، یہ کفر ہے، یہ بے ایمانی ہے.تم کو سب سے پہلے اپنی قربانی پیش کرنی ہوگی اور تمہاری اس قربانی کے بعد وہ ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ احمدی جو اس وقت نابینا ہیں اور صرف منہ سے اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی آنکھوں کو بھی بینا کر دے گا اور ان کے ایمانوں کو بھی مضبوط بنا 18
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 فروری 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم دے گا.ہم پھولوں کی پیچ پر چل کر دلوں کو طے نہیں کر سکتے.دلوں کو تح کرنے کے لیے بارود کی سرنگوں پر چلنا پڑتا ہے.اور بارودی سرنگیں جب پھٹتی ہیں تو ہڈیوں تک کو اڑا دیتی ہیں اور جسم کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گیا ہے؟ ان رستوں پر چلے بغیر تم خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم نہیں کر سکتے.اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم کئے بغیر تم خدا تعالیٰ کو منہ بھی نہیں دکھا سکتے“.مطبوعه روزنامه الفضل 11 مارچ 1948ء) 19
تحریک جدید - ایک انہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرمودہ 28 مارچ 1948ء امریکہ، ہالینڈ، جرمنی اور انگلستان کے نومسلموں کے اخلاص کا ذکر وو خطاب فرمودہ 28 مارچ 1948ء بر موقع جلسہ سالانہ ای طرح امریکہ کی جماعت کی طرف سے بھی تار آئی ہے کہ ہمارا سلام بھی جماعت تک پہنچا دیا جائے اور دعا کی بھی تحریک کی جائے.امریکن جماعتوں نے اطلاع دی ہے کہ ان کا اس سال کا تحریک جدید کا چندہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں دگنے سے بھی زیادہ ہے.اس سال انہوں نے تحریک جدید میں تین ہزار ڈالر سے بھی زیادہ کا وعدہ کیا ہے.ماہوار چندے اور دوسرے چندے ملا کر امریکن جماعتوں کا چندہ دس ہزار ڈالر بنتا ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں پچیس ہزار روپیہ سالانہ ایک ایسا ملک، جو شدید مذہبی تعصب رکھتا ہے اور جو کروڑوں کروڑ رو پیدا اسلام کی مخالفت کے لیے اپنے مشنریوں کو دیتا ہے، اس میں ہمارا پچیس ہزار روپیہ سالانہ کا حصہ گویا بالکل حقیر نظر آتا ہے.مگر اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ یہ حصہ ہم نے کس سے لیا ہے؟ جور تم ہمیں چھوٹی نظر آتی ہے، درحقیقت روحانی طور پر بہت بڑی بن جاتی ہے.اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے وہاں ہر سال جماعت ترقی کر رہی ہے، نئے نئے مشن قائم ہورہے ہیں.اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ پرانے نو مسلموں میں بھی اخلاص اور ایمان ترقی کر رہا ہے تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ 25 ہزار ، 25 لاکھ کا اور 25 لاکھ ، 25 کروڑ کا اور 25 کروڑ ، 25 ارب کا پیش خیمہ بننے والا ہے.امریکہ کے علاوہ پرسوں ہی مجھے جرمنی کے متعلق بھی چھٹی ملی ہے.ایک جرمن نوجوان جن کا کنزے نام تھا اور جن کا اسلامی نام میں نے عبد الشکور رکھا ہے، ان کی خواہش تھی کہ وہ ہندوستان آئیں.خصوصا جب قادیان پر حملہ ہوا تو وہ بار بار خواہش کرتے تھے کہ اگر میرے لئے پاسپورٹ کا انتظام ہو جائے تو میں مرکز کی حفاظت کے لئے جانا چاہتا ہوں.آخر ایک لمبی خط و کتابت کے بعد اب گورنمنٹ برطانیہ نے ہمارے مبلغوں کو اطلاع دی ہے کہ جس قدر سوالات گورنمنٹ کے سامنے ان کے متعلق تھے، وہ سب حل ہو چکے ہیں اور اب انہیں جلد ہی پاسپورٹ دے دیا جائے گا.امید ہے کہ پاسپورٹ ملنے پر وہ بہت جلد اسلام سیکھنے اور پھر اپنے ملک میں اسلام پھیلانے کے لئے یہاں پہنچ جائیں گے.اسی طرح ایک اور جرمن تو مسلم نے بھی ہمارے سویٹزرلینڈ کے مبلغ کو خط لکھا ہے، وہ ہمبرگ کے رہنے والے ہیں کہ 21
اقتباس از خطاب فرموده 28 مارچ 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کستان کے متعلق جو مشکلات ہیں، خصوصا کشمیر کا جومسئلہ در پیش ہے، اس میں اگر کسی طرح میری خدمات مفید ہوسکتی ہوں تو میں اپنی خدمات پیش کرتا ہوں.جس محکمہ کو چاہیں ، میرا نام پیش کر دیں.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جرمنی میں اسلام کی تبلیغ اچھی پھیل رہی ہے.عجیب بات یہ ہے کہ جرمنی اور ہالینڈ میں جو لوگ اسلام لا رہے ہیں، ان میں بہت زیادہ جوش پایا جاتا ہے اور وہ بہت اخلاص اور قربانی کے ساتھ تبلیغی دائرہ کو وسیع کر رہے ہیں.ان میں یہ بھی جوش پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے وطنوں کو چھوڑ کر یہاں تعلیم حاصل کریں اور پھر مبلغ بن کر اپنے ملکوں میں واپس جائیں اور اسلام کی اشاعت کریں.انگلستان میں یہ بات نہیں.اسی طرح امریکہ میں بھی یہ جوش ابھی تک میں نے نہیں دیکھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں دین کے متعلق بڑا جوش پایا جاتا ہے اور وہ چندے خوب دیتے ہیں.مگر میں نے ان میں یہ جوش نہیں دیکھا کہ وہ اپنے وطنوں کو چھوڑ کر آئیں یا جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں.جرمن نو مسلموں میں خاص طور پر یہ بات پائی جاتی ہے.خصوصا کنزے کے ہمارے مبلغ سوئٹزر لینڈ کو خطوط آتے رہتے ہیں کہ کاش مجھے وہاں آنے کی اجازت مل جائے تو میں کچھ اسلام کی خدمت کر سکوں.اسی طرح ہالینڈ والوں میں بھی بڑا جوش پایا جاتا ہے.انگلستان میں اب بڑے عرصہ کے بعد ایک انگریز لیفٹیننٹ نے اپنی زندگی اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کی ہے.اور اب وہ انگلستان میں ہی تبلیغ پرمتعین ہیں.مگر اس کو جوش سے تبلیغ کر رہے ہیں کہ نہایت مسرت حاصل ہوتی ہے.چاروں طرف پیدل بھر کر تبلیغ کرتے ہیں.گرجوں میں جاتے اور دیوانہ وار تبلیغ کرتے ہیں.ایک دفعہ اشتہارات چھپوانے کے لئے ان کے پاس پیسے نہ تھے تو انھوں نے مزدوری کی اور جو کچھ حاصل ہوا، اس سے اشتہارات چھپوا لئے.یہ پہلی مثال ہے، جو انگلستان میں تمیں سالہ جدو جہد کے بعد ہمیں دکھائی دی ہے.لیکن جرمن اور ہالینڈ دونوں جلدی جلدی اسلام کی طرف رغبت کر رہے ہیں اور اپنے اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں.( مطبوعه روز نامہ الفضل 20 اپریل 1948ء) 22
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سو اقتباس از ملفوظات فرموده 29 مارچ 1948ء اب اسلام کو تمہاری جان کی ضرورت ہے ملفوظات فرمودہ 29 مارچ 1948ء جس طرح درخت مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح ایمان بھی مختلف قسم کے ہیں.چندہ کا ایمان، نمازوں کا ایمان ، روزے کا ایمان اور جان کا ایمان وغیرہ.تم نے چندہ کے ایمان کی گٹھلی کو قربانی وایثار کا پانی دیا تو وہ ترقی کر گیا اور آج دنیا کی بڑی سے بڑی جماعت بھی اس میں تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتی.مگر اب جان کے ایمان کی ضرورت ہے.ایمان کا بیج تمہارے دلوں میں موجود ہے، صرف پانی کی ضرورت ہے.لہذا میں ہر احمدی کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب دوسرے سے ملے تو اس سے یہ کہے کہ جان دینے کے لئے تیار ہو جاؤ کہ اب اسلام کو تمہاری جان کی ضرورت ہے.(مطبوعہ روز نامہ الفضل یکم اپریل 1948ء) 23
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 مئی 1948ء حضرت مصلح موعودؓ کے خاندان پر بعض اعتراضات کے مفصل جوابات خطبہ جمعہ فرمودہ 14 مئی 1948ء....اس خاتون نے جو اعتراضات لکھے ہیں، وہ یہ ہیں کہ خاندان کی عورتیں سادہ زندگی بسر نہیں کرتیں، خود کام نہیں کرتیں بلکہ گھروں میں انہوں نے نوکر رکھے ہوئے ہیں.گوٹہ کناری سے دوسروں کو منع کیا جاتا ہے مگر خود گوٹہ کناری استعمال کی جاتی ہے.سواری استعمال کرتی ہیں.لجنہ کی کلرک ہے، وہ خود کام نہیں کرتیں ؟“ جہاں تک سادہ زندگی کا تعلق ہے، یہ ایک نسبتی لفظ ہے.ہم سادہ زندگی کی کوئی ایک تعریف نہیں کر سکتے.مثلاً سادہ زندگی میں پہلے کھانا آتا ہے.کھانے کے متعلق ہم نے یہ اصول مقرر کیا ہوا ہے کہ ایک کھانا ہو.اس کے متعلق اس خاتون سے بہر حال میں زیادہ واقف ہو سکتا ہوں.کیونکہ میں روزانہ گھر میں کھانا کھاتا ہوں.اور یہ بھی لازمی بات ہے کہ اگر گھر میں ایک سے زیادہ کھانے پکے ہوں تو عورت اپنے خاوند کے آگے ہی وہ کھانے رکھتی ہے.مگر جہاں تک میراعلم ہے، ہمارے گھروں میں ایک ہی کھانا پکتا ہے، سوائے بیمار کے.مثلاً بیمار کو بے مرچ سالن چاہیئے ، اب سب گھر والوں کو تو بے مرچ سالن نہیں دیا جا سکتا.اگر کسی بیمار کے لئے بعض دفعہ بے مرچ سالن بھی تیار ہو جائے تو اس کو دو کھانے نہیں کہہ سکتے.یا مثلاً کسی کو پیچش ہو اور اس کے لئے خشکہ پک جائے تو یہ بھی دوکھانے نہیں ہوں گے.کیونکہ روٹی اور نے کھانی ہے اور خشکہ اور نے کھانا ہے.پچھلے دنوں مجھے پیچش کی شکایت رہی ہے.اس لئے میرے لئے ساگودانہ الگ پکتا رہا ہے.کیونکہ اطباء نے لکھا ہے کہ پیچش میں ساگودانہ وغیرہ چیزیں استعمال کرنی چاہیں تا کہ انتڑیوں میں لزوجت پیدا ہو اور زخم جلدی مندمل ہوسکیں.ایک بچہ تو ساگودانہ پر گزارہ کر سکتا ہے مگر بڑا آدمی گزارہ نہیں کر سکتا، اس لئے علاوہ ساگودانہ کے خشکہ شور با یا خشکہ دال بھی پکانا پڑتا ہے.یا بعض اطباء اسپغول تجویز کرتے ہیں.مگر اس کو بھی دوسرا کھانا نہیں کہا جاسکتا.بہر حال جہاں تک کھانے کا سوال ہے، میں گواہی دے سکتا ہوں اور باورچی خانہ والے بھی گواہی دے سکتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ہمیشہ ایک کھانا تیار ہوتا ہے.سوائے اس کے کہ غلطی سے کوئی شخص اور نتیجہ نکال لے.مثلاً ہمارے باورچی خانہ میں سات آٹھ گھروں کے 25
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کھانے پکتے ہیں.میرے بہنوئی ہیں، بہنیں ہیں، بھائی ہیں بھیجے ہیں، چونکہ سب کے کھانے ایک ہی جگہ تیار ہوتے ہیں، اس لئے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص غلطی سے یہ سمجھ لے کہ یہ سب کھانے ایک گھر کے لئے ہیں.حالانکہ وہ الگ الگ گھروں کے لئے تیار ہوتے ہیں اور الگ الگ افرادان کے اخراجات کے ذمہ دار ہیں.بہر حال ہمارے گھر میں صرف ایک کھانا پکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں.باقی ربالباس کا سوال.سولباس آج کل جس قدر گراں ہے، وہ سب کو معلوم ہے.دو دو، اڑھائی اڑھائی روپے میں آج کل لٹھے کا ایک گز آتا ہے.اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ لباس میں تعیش یا آرائش کا خیال بہت بڑی رقم کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے.اور رقم ، جو میں دیتا ہوں، اس کا علم بھی مجھے کو ہی ہو سکتا ہے.اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس رقم میں سے کس حد تک اخراجات کئے جاسکتے ہیں؟ جنگ سے پہلے میں اپنی بیویوں کو پندرہ روپے ماہوار دیا کرتا تھا.( یہ بھی قریب کی بات ہے، ورنہ شروع میں ہی سات روپے ماہوار اور کپڑے اور دوسرے اخراجات کے لیے دیا کرتا تھا.لیکن جب سے جنگ شروع ہوئی ہے، میں اپنی بیویوں کو نہیں روپے ماہوار دیا کرتا ہوں.میری بڑی بیوی جب سے لاہور آئی ہیں، وہ ساری کی ساری رقم انجمن میں بھیج دیتی ہیں اور ان کے پاس صرف صفر رہ جاتا ہے.اب وہ خاتون خود ہی سوچیں کہ صفر میں کتنی عیاشی کی جاسکتی ہے؟ میری باقی بیویوں کے اخراجات کا بھی آسانی کے ساتھ پتہ لگ سکتا ہے.وصیت سب نے کی ہوئی ہے، تحریک جدید کے دفتر سے پوچھ لیں کہ وہ تحریک میں کتنا چندہ دیتی ہیں؟ پھر لجنہ اماء اللہ کا چندہ بھی دیتی ہیں، یہ چندہ کم از کم پندرہ روپے ماہوار جاپڑتا ہے اور زیادہ سے زیادہ پندرہ روپے ان کے پاس باقی رہ جاتے ہیں.اگر یہ سارے کے سارے کپڑوں پر ہی لگا دیئے جائیں تو سال میں صرف چھ سات جوڑے لٹھے اور ململ کے بنا سکتی ہیں.اب وہ خاتون خود ہی سوچھیں کہ وہ کون سی عیاشی ہے، جو اس رقم میں ہو سکتی ہے؟ یہ تو میں نے عقلی دلیل دی ہے، باقی ان کے لباس مجھے نظر آتے ہیں.یہ تو نہیں کہ وہ دروازے بند کر لیتی ہیں اور صرف لجنہ کے ممبروں کو کہتی ہیں کہ آؤ اور ہمارے لباس دیکھ لو.سب سے زیادہ میری ہی نظر ان کے لباس پر پڑتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ پچھلے سات آٹھ ماہ میں ان میں سے ہر ایک کے لباس اتنے بوسیدہ ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس کوئی جوڑا بھی اب ایسا نہیں، جو کئی جگہ سے سلا ہوانہ ہو.اسی وجہ سے بعض دفعہ تحفہ کے طور پر جب لٹھا یا ململ بعض دوست مجھے دے جاتے ہیں تو میں اس میں سے کبھی کسی کو پاجامہ یا کوئی اور کپڑا بنوا دیتا ہوں، جس سے گزارہ ہوتا رہتا ہے.مگر اس کے باوجود یہ اعتراض کیوں پیدا ہوا؟ اصل بات یہ ہے کہ بعض عورتیں انتظام اچھا جانتی ہیں اور بعض اچھا انتظام کرنا نہیں جانتیں.اس انتظام کے اچھا یا برا ہونے کی وجہ سے بہت بڑا فرق پیدا ہو 26
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 مئی 1948ء جاتا ہے.اچھا انتظام کرنے والے تھوڑے روپیہ میں اچھا گزارہ کر لیتے ہیں اور ناقص انتظام والے زیادہ روپیہ میں بھی اچھا گزارہ نہیں کر سکتے.پرسوں انجمن کی میٹنگ تھی ، میں نے لنگر والوں سے لنگر کا حساب پوچھا؟ لنگر والے پہلے سالن میں نہ بناسپتی گھی ڈالتے تھے، نہ حیوانی.جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے ان سے کہا کہ اس سے تو لوگوں کی صحبتیں برباد ہو جائیں گی.کم سے کم دو چھٹانک فی سیر گھی ضرور ڈالنا چاہیے.پرسوں انہوں نے حساب بتایا کہ اس طرح چودہ روپے مہینہ فی کس خرج بن گیا ہے.میں نے کہا اتنا خرچ کس طرح آسکتا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ نے جو فر مایا تھا کہ گھی ڈالا کرو.اس وجہ سے یہ خرچ اتنا نکلا ہے.یکدم مجھے خیال آیا کہ ہمارے گھر میں لنگر کی طرف سے جو بل بھیجا گیا ہے، وہ اس سے کم ہے.قادیان میں جب ہم تھے تو ملازم بازار سے سودا سلف لے آیا کرتے تھے.لیکن جب سے لا ہور آئے ہیں ہنگر والے ہی سب اشیاء مہیا کرتے ہیں.پھر بل بنا کا بھیج دیتے ہیں.میری بیویاں رقعہ لکھ کر بھیج دیتی ہیں اور سودا انہیں لنگر والے منگوا دیتے ہیں.میں نے کہا آپ نے ابھی مجھے بل بھجوایا ہے اور اس بل میں ہمارے گھر کا خرچ اس سے کم دکھایا گیا ہے.ہمارے گھر میں 4-3 چھٹانک کے درمیان کا سے کم گیا گھی پڑتا ہے اور آپ نے جو مجھے بل بھیجوایا ہے، اس میں ہمارے گھر کا خرچ پونے دس روپے فی کس لکھا ہے.حالانکہ ہمارے گھر کا کھانا آپ سے بہت اچھا ہوتا ہے.پھر آپ کا چودہ روپے کس طرح خرچ ہو گیا ؟ (پکا ہوا کھانا نگر نہیں بھجواتا کہ یہ سمجھا جاسکے کہ وہ ہم سے رعایت کرتے ہیں.بلکہ ہم ان کی معرفت جنس منگواتے ہیں.جس پر وہ کچھ رقم مزدوری وغیرہ کی لگا کر ہم کو بل دیتے ہیں.کھانا پکتا ہمارے گھر میں ہے.انہوں نے کہا خرچ یہی ہے، ہم حساب سامنے رکھ دیتے ہیں ، آپ دیکھ لیں.بیان کرنے والا بھی باورچی نہیں تھا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ وہ حساب نہیں سمجھا بلکہ ملک سیف الرحمن صاحب تھے.یہ درست ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے کوشش کی تھی کہ صحیح حساب پیش کریں مگر آخر میں نے ان کی غلطی نکال لی.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا خرچ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم 320 آدمیوں کے لئے 20 سیر گوشت پکاتے ہیں.گویا ایک وقت میں ایک چھٹانک فی کس جا پڑتا ہے.میں نے کہا آپ نے ہمارا خرچ 90 آدمیوں پر ڈالا ہے.اور آپ کی پرچیوں سے پتہ لگتا ہے کہ دوسیر گوشت ایک وقت میں آتا ہے.گویا جہاں ایک سیر میں آپ 16 آدمیوں کوکھانا کھلاتے ہیں وہاں ہمارے گھر میں سیر میں 45 آدمی کھانا کھاتے ہیں.پھر ہمارا کھانا لنگر کی نسبت زیادہ اچھا ہوتا ہے.لنگر کا کھانا یقیناً ہم لوگ زیادہ دیر تک نہیں کھا سکتے.اصل میں نوے کا حساب تو غلط تھا، دراصل 70 آدمی کھانا کھاتے ہیں اور اس طرح 45 کی بجائے 27
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم 35 آدمی کھانا کھانے والے بن جاتے ہیں.مگر یہ بھی نصف چھٹانک فی کس سے کم بنتا ہے.حالانکہ بہت سے گھر ایسے ہیں، جن میں چھٹانک چھٹانک ، ڈیڑھ ڈیڑھ چھٹانک فی کس گوشت استعمال کیا جاتا ہے.لیکن اگر وہ ہمارے گھر کا کھانا دیکھ لیں تو شور مچانے لگ جائیں کہ یہ کھانا زیادہ اچھا ہے.اصل میں کھانا پکانے کی بہت سی جزئیات ہوتی ہیں، اگر کھانا صحیح طور پر پکایا جائے ، گوشت کو اچھی طرح گلایا جائے تو بہت تھوڑی چیز میں نہایت اچھا کھانا تیار ہو سکتا ہے.میں ایک دفعہ راجپورہ گیا.میرے پاس بائیس تنیس آدمی تھے.گوشت سبزی وہاں نہیں ملتی.بلکہ بعض دفعہ دال تک بھی میسر نہیں آتی.میں نے کہا چلو مرغی لے کر اس کا شوربہ ہی پکالو.میرا خیال تھا کہ شور بہ اتنا بن جائے گا کہ وہ بائیس تئیس آدمیوں کو کافی ہوگا.مگر میں نماز پڑھ کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک برات آ گئی اور انہوں نے کہا کہ ہم نکاح پڑھوانا چاہتے ہیں.اس برات میں 35 کے قریب آدمی تھے.میں نے ام طاہر مرحومہ کو اندر رقعہ لکھا کہ چیز تو یہاں ملتی کوئی نہیں اور 35 مہمان آگئے ہیں.اب اس کی تدبیر کچھ اس طرح کرو کہ مجھے اندر بلالو، ہم سب فاقہ کر لیں گے اور ان کو کھانا کھلائیں گے.انہوں نے کہا کہ میں نے باورچی سے بات کر لی ہے.اس نے کہا ہے کہ میں اسی میں 55 آدمیوں کو بھگتا لوں گا.آپ کوئی فکر نہ کریں.میں ان سے باتیں بھی کروں اور دل بھی دھڑ کے کہ اب بنے گا کیا؟ پہلے خیال تھا کہ شاید وہ نہ ٹھہریں.مگر چونکہ وہ دور سے آئے تھے، اس لئے میں نے ام طاہر مرحومہ سے کہا کہ غالباً وہ یہاں ٹھہریں گے.اگر ایسا ہوا تو یہی صورت ہے کہ ان کو کھانا کھلا دو، ہم سب فاقہ کر لیں گے.تھوڑی دیر کے بعد کھانا آ گیا ، شور به نهایت مزیدار پکا ہوا تھا.ہم سب نے خوب پیٹ بھر کر کھایا.اس کے بعد میں گھر گیا اور پوچھا کہ باہر تو گزرگئی تم نے بھی کچھ کھایا یا نہیں.انہوں نے کہا کہ ہم سب نے کھا لیا ہے.اب یہ اس باور چی کا کمال تھا کہ اس نے بوٹی اور ہڈی کو اس طرح گلا دیا کہ پانی کے اندر بھی شور بے کا مزہ آنے لگا.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم جب زندہ تھے، ان کا میرے ساتھ ہمیشہ یہی جھگڑا رہتا تھا.وہ کہتے تھے کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ اتنے تھوڑے روپیہ میں گزارہ ہو سکتا ہے.اس وقت ہمارا سات روپیہ مہینہ فی کس ناشتہ اور کھانے پر خرچ آتا تھا.مجھے یاد ہے، امتہ اکئی مرحومہ جب تک زندہ رہیں، میں سات روپیہ فی کس کے حساب سے خرچ دیا کرتا تھا.اس وقت ان کے بطن سے دو بچے تھے، تیسرا ان کی وفات کے قریب پیدا ہوا.میں تھا، نوکر تھا، پھر اوپر کے اخراجات ، لباس وغیرہ کے متعلق تھے.مگر ان سب اخراجات کو ملا کر ہمارا بجٹ ہمیشہ 59 روپے مہینہ ہوتا تھا.لیکن اعتراض کرنے والے اس وقت بھی اعتراض کرتے 28
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم تھے.ایک دفعہ ایک شخص نے لکھا کہ میری بیوی کہتی ہے، آپ کی بو از خطبه جمعه فرمورد 14 متی کی کے پاس پانچ، پانچ ایک ایک جوڑا ہے.میں نے ان سے کہا کہ وہ بڑے شوق سے آجائیں، میں اپنی بیویوں کے ٹرنک لا کر ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں.وہ پانچ ، پانچ سو کے جوڑے ہمیں دیتی جائیں اور ہمارے کپڑے خود اٹھا کر لے جائیں.اس طرح ہمارا ہی فائدہ ہوگا ان کا نہیں.بلکہ اگر ہمارے سارے کپڑے اور جو تیاں وغیرہ ملا کر بھی پانچ سو سے کم کے ہوئے تو انہیں کم از کم ایک جوڑ اتو پانچ سو کا ہمیں ضرور دینا پڑے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے گھر میں گوٹہ کناری بھی استعمال کرنے والے ہیں.مگر ایک بھی نہیں ، جس نے ان دنوں گوٹہ کناری خریدا ہو.پھر بات کیا ہے؟ بات وہی سلیقہ اور ہنر والی آجاتی ہے.ہماری والدہ ہندوستانی ہیں اور اس وجہ سے ہمارے ہاں دلی کا رواج ہے.اور دلی کی عورتیں گوٹہ کناری کو ایسا سنوار کر رکھنا جانتی ہیں کہ ہماری والدہ کو ان کی دادی کے لباس جہیز میں ملے تھے اور وہ ہم کو دکھایا کرتی تھیں.بلکہ دلی والے تو سوسو سال تک بھی گوٹہ لے جاتے ہیں.پس یہ تو ٹھیک ہے کہ ان میں بعض گوٹہ کناری استعمال کرتی ہیں، مگر یہ گوٹہ وہی ہے، جو ان کی شادیوں پر خریدا گیا تھا.اس کے بعد انہوں نے نہیں لیا یا تحریک جدید کے بعد نہیں لیا.گوٹہ کناری والے کپڑے ایسے ہی ہیں، جو یا تو بیویوں کو بری میں دیے گئے تھے یا جہیز میں آئے ہیں.ابھی چند دن ہوئے ، میں نے اپنی بڑی لڑکی ناصرہ سے جہیز کے ایک کا جوڑے سے متعلق پوچھا.اس کی شادی 1933ء میں ہوئی تھی ، جس پر چودہ سال گزر چکے ہیں.اس وقت میں نے اس کو ایک سنہری کام والا کپڑا خرید کر دیا تھا، جو مجھے بہت پسند آیا تھا.میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ جوڑا اس کے پاس ہے؟ اس نے کہا، وہ اب تک محفوظ ہے.اب وہ اس لباس کو کہیں استعمال کر لے تو یہ قابل اعتراض بات نہیں ہوگی.دیکھنے والے میں اگر عقل کا مادہ ہو تو اسے پہلے یہ پوچھنا چاہئے کہ یہ کپڑے کب کے بنے ہوئے ہیں؟ اگر جواب میں اسے یہ بتایا جائے کہ یہ 1934ء کے بعد کے ہیں ، تب تو یہ قابل اعتراض امر ہے.لیکن اگر وہ کہے کہ میں نے دیر سے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں.تو یہ قابل تعریف بات ہوگی اور اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ بڑے اقتصادی دماغ رکھنے والے آدمی ہیں اور اپنی ہر چیز کو سنبھال کر رکھتے ہیں.میرا بوٹ ہی ہے، اس کو پہنے اڑھائی سال گزر چکے ہیں.حالانکہ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کی دوسرے مہینہ میں ہی ایڑی کھل جاتی ہے اور وہ سلیپر بنا کر گھسٹتے پھرتے ہیں.پس اگر کسی چیز کا صحیح استعمال کیا جائے تو یہ قابل اعتراض بات نہیں بلکہ قابل تعریف بات ہے.پھر اصل سوال، جو قابل غور ہے، وہ یہ ہے کہ مساوات کے یہ معنی ہیں کہ تمام دنیا ایک لیول پر ہویا مساوات کے یہ معنی ہیں کہ نبی طور پر ہر شخص قربانی کرے.اگر اس کے معنی یہ لئے جائیں کہ سب لوگ ایک 29
اقتباس از خطبه جمعه فرمود 140 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم لیول پر ہوں تو یہ بات ایسی ہے، جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عمل نہیں کرتے تھے.احادیث میں ب شخص کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ نماز پڑھایا کرتا تھا تو نگا ہوجاتا تھا.کیونکہ اس کا کرتہ لمبانہ تھا.کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس بھی ایسا ہی ہوتا تھا؟ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس پورا ہوتا تھا.بلکہ احادیث میں یہاں تک ذکر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جہ تھا، جو آپ خاص طور پر جمعہ کے دن پہن کر جایا کرتے تھے تو مساوات کہاں رہی ؟ پھر احادیث میں آتا ہے کہ آپ کے پاس گھوڑا ، اونٹ اور خچر بھی تھے.مگر صحابہ میں وہ بھی تھے، جن کے متعلق ذکر آتا تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہمیں کوئی چپلی ہی دے دیں، ہم جہاد میں شامل ہونا چاہتے ہیں.مگر آپ نے فرمایا میرے پاس چہلی بھی نہیں.اگر مساوات کے یہ معنی ہیں کہ سب کے لباس ایک جیسے ہوں تو میں اس خاتون سے یہی سوال کرتا ہوں کہ کیا اس کا اور اس کی چوڑھی کا لباس ایک جیسا ہے؟ وہ یہی کہے گی کہ میں اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتی ہوں اور وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتی ہے.پھر اگر خدا کسی کو زیادہ دیتا ہے اور وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتا ہے تو اس پر اعتراض کیسا ؟ اب تو ہماری جائیداد کو ایک حد تک نقصان پہنچ گیا ہے.پچھلے ایام میں میرا چندہ آمد پر 80 فیصدی ہوتا تھا اور یہ بھی اس صورت میں جبکہ مجھ پر اتنا قرض تھا.اور اتنا قرض ہے کہ دوسرے آدمی کا اتنے قرض میں دل بیٹھ جائے.ایسے لوگ جن پر نبتی طور پر اس کا دسواں حصہ بھی قرض ہوتا ہے، چندہ دینے سے عموما گریز کرنے لگ جاتے ہیں.مگر میں اتنے قرض کے باوجود اپنی آمد پر 80 فیصدی چندہ دیتا رہا ہوں.پس سوال نسبتی بات کا ہوتا ہے.بعض چیزوں کے بارے میں بے شک اصول مقرر ہیں اور اس میں سب برابر ہیں.مثلاً ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ سب لوگ ایک کھانا کھا ئیں.مگر ہم نے یہ نہیں کہا کہ صرف دال کھاؤ.جو گوشت کھا سکتا ہے، وہ گوشت کھائے.جو بھنا ہوا گوشت کھا سکتا ہے، وہ بھنا ہوا گوشت کھائے.ہزاروں احمد می ایسے ہوں گے، جن کے گھروں میں بھنا ہوا گوشت پکتا ہوگا.ہم تو پچھلے آٹھ مہینہ سے پتلے اور لمبے شوربہ پر ہی گزارہ کرتے ہیں.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اگر کوئی بھنا ہوا گوشت کھاتا ہے تو یہ قابل اعتراض امر ہے.اگر ایک آدمی کے گھر افراد کم تھے اور اس کے گھر کے حالات بھی اچھے تھے اور اس نے بھنا ہوا گوشت کھایا تو یقینا اس نے ایک کھانا کھانے کے حکم کو پورا کر دیا.لیکن کئی احمدی ایسے بھی ہیں ، جن کو شور بہ تو کیا، دال بھی مشکل سے ملتی ہے.ایسے احمدیوں سے ہماری حالت یقیناً اچھی ہے.پھر کئی ایسے بھی ہیں، جن کو دال بھی نہیں ملتی.بلکہ ایسے بھی پائے جاتے ہیں، جن کو دو وقت کے 30
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم فاقے آتے ہیں.تم ساروں کے متعلق کوئی ایک قانون نہیں بنا سکتے.ہاں اپنی اپنی حالت کے مطابق ہر شخص سادہ زندگی اختیار کرے گا.دو وقت کا فاقہ کرنے والا ، جس نے پھٹا پرانا لباس پہنا ہے، دوسرے کو یہ نہیں کہ سکتا کہ وہ کیوں سیر ہو کر کھانا کھاتا ہے یا کیوں اس نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہیں؟ ہم کہیں گے کہ ایک کی آمد زیادہ ہے، وہ اچھے کھانے کھاتا اور اچھے کپڑے پہنتا ہے اور دوسرے کی آمد کم ہے، اس لیے وہ فاقے کرتا ہے یا تن ڈھانکنے کے لیے اس کے پاس پھٹا پرانا لباس ہے.لیکن قانون کی پابندی دونوں نے کی ہے.یعنی ایک ہی کھانا کھایا ہے اور گوٹے کناری پر اپنا روپیہ تحریک کے بعد ضائع نہیں کیا.غرض سادگی ایک نسبتی چیز ہے اور قربانی بھی ایک نسبتی چیز ہے.پھر ہمارے لئے کیوں ایسا کرنا جائز نہیں ؟ اگر ہم چندہ دوسروں کی نسبت زیادہ رکھیں اور ہمارا میعار قربانی بھی دوسروں کی نسبت زیادہ بلند ہو.اور پھر ہماری حالت ہر شخص سے اچھی ہو اور بعض سے خراب تو ہم پر اعتراض کیسا؟ بہر حال تمہیں دو میں سے ایک بات ضرور مانی ہوگی.شتر مرغ کی طرح تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اونٹ بھی ہیں اور مرغ بھی.یا تو تمہیں اونٹ بننا پڑے گا یا مرغ.یہ دونوں چیزیں ایک وقت میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں.یا تو یہ فیصلہ کیا جائے کہ جماعت کے غریب سے غریب آدمی کی حالت کے برابر سب کو رہنا چاہئے.تو ہم انشاء اللہ کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے.اور اگر یہ فیصلہ ہو کہ یہ نسبتی چیز ہے.تو جو اپنے لئے قانون بناؤ گے، وہی ہمارے لئے ہونا چاہیے.بہر حال ایک ہی قانون ہونا چاہیے.یہ نہیں کہ کسی کے لئے کوئی قانون ہو اور کسی کے لئے کوئی قانون.اگر جماعت یہ فیصلہ کرے کہ ہر امیر وغریب کو فاقہ سے رہنا چاہیے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا.یقیناً اگر جماعت ایسا کرنا چاہئے تو گو یہ غیر طبعی بات ہوگی مگر ہوگی مفید.دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوا، سوائے جنگ کے حالات کے.جنگ کے دوران میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اگر کسی کے پاس ایک من غلہ ہے تو ایک من غلہ لے آئے اور جس کے پاس ایک سیر غلہ ہے تو وہ ایک سیر غلہ لے آئے اور سب مل کر کھائیں.مگر عام حالات میں ایسا کبھی نہیں ہوا.نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا، نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایسا کیا ، نہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایسا کیا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسا کیا.پھر بھی جماعت اگر ایسا فیصلہ کر دے تو اس کے کئی پہلو نیک بھی ہو سکتے ہیں.لیکن اگر یہ فیصلہ ہو کہ سادگی اور قربانی دونوں نسبتی چیزیں ہیں تو ہمارے خاندان کے افراد سے بھی نسبتی قربانی کا ہی مطالبہ ہو سکتا ہے.اگر وہ اس سے زیادہ کریں، یہ ان کی خوش قسمتی ہوگی.مثلاً جماعت سے میں نے مطالبہ کیا ہے کہ جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے، وہ 50 فیصدی چندہ دیں.اب اگر کوئی 31
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ایسا شخص 50 فیصدی چندہ دے دیتا ہے اور پھر اس کے پاس اتنار و پیہ بچ جاتا ہے، جس سے وہ گوشت کھاتا ہے تو دال کھانے والا آدمی اس پر یہ اعتراض نہیں کر سکتا ہے کہ وہ دال کیوں نہیں کھاتا؟ یہ اعتراض اسی وقت ہو سکتا ہے، جب جماعتی طور پر یہ فیصلہ کیا جائے کہ ہر شخص دال ہی کھائے.تب بے شک اگر کوئی شخص دال نہیں کھاتا اور شور بہ کھاتا ہے تو وہ غداری کرتا اور دھوکہ بازی کا ارتکاب کرتا ہے.پھر اس خاتون نے لکھا ہے کہ خاندان کی عورتیں کام نہیں کرتیں.یہ بھی واقعہ کے خلاف ہے.اول تو ہر چیز کی ایک نسبت ہوتی ہے.میری بڑی بیوی کی عمر اس وقت 57 سال کی ہے.پھر انہیں بلڈ پر یشر کا مرض ہے، دل کی دھڑکن تیز ہے اور استحاضہ کی بھی بیماری ہے، جس میں عورت قریب المرگ ہو جاتی.اب مساوات تو تبھی ہوسکتی ہے ، جب اس عورت کو بھی یہی بیماریاں ہو جائیں.ورنہ یہ کتنی حماقت کی بات ہوگی کہ ساٹھ سالہ عورت کے متعلق ایک 25 سالہ عورت یہ کہنے لگ جائے کہ دیکھو میں یہ کام کر لیتی ہوں ، وہ نہیں کرتی.اس عمر اور ان بیماریوں کے ساتھ اگر موازنہ کیا جائے ، پھر مساوات ہوتی ہے.ولایت میں دستور ہے کہ گھوڑ دوڑ سے پہلے گھوڑے اور سوار کا وزن کر لیتے ہیں اور جتنی کمی ہو، اتنا بوجھ ساتھ باندھ دیتے ہیں.اس طرح اعتراض تبھی صحیح ہو سکتا ہے، جب اعتراض کرنے والی کی وہی عمر ہو ، وہی صحت ہو.یہ کیا کہ بڑی عمر اور کمزور صحت والی عورت سے وہ عورت مقابلہ کرنے کے لئے کھڑی ہو جائے ، جو چھوٹی عمر کی ہو اور جس کی صحت اچھی ہو.اور کہے کہ میں کام کرتی ہوں اور وہ کام نہیں کرتی.پھر یہ بھی غلط ہے کہ ہمارے گھر کی مستورات کام نہیں کرتیں.جب ہم قادیان سے آئے ہیں تو ہمارے گھر میں ایک لنگر جاری تھا.اڑھائی سو کے قریب افراد تھے اور ان اڑھائی سو افراد کے کھانے کا انتظام، جن میں میرے بھائی بہنیں بھتیجے سب شامل ہیں، سات آٹھ ماہ تک میری بڑی بیوی ام ناصر کے سپر درہا.وہی سب کھانا پکواتی اور تقسیم کرتی تھیں.باقی گھر کے لوگ اگر کسی چھوٹی موٹی بات میں مدد کر دیتے تو اور بات تھی.ورنہ پکا پکا یا کھانا ہی ہمیشہ ان کے سامنے رکھا جاتا تھا.پھر انہیں دنوں یہاں رتن باغ میں چودہ سو سے زیادہ مہاجر عورتیں ٹھہری ہوئی تھیں، ان کو کون کھلا تا تھا ؟ کیا لا ہور کی عورتیں ان کو آکر کھلاتی تھیں ؟ مہینوں سینکڑوں عورتیں یہاں پڑی رہیں ، سب عورتوں کی ہر طرح خدمت کی جاتی رہی.یہ خدمت ہمارے گھر کی مستورات ہی کرتی تھیں اور یا پھر مہاجرات میں سے بعض عورتیں ان کی مدد کر دیتی تھیں.پس یہ کہنا کہ ہمارے گھر کی عورتیں کام نہیں کرتیں ، غلط ہے.باقی رہا یہ سوال کہ ہماری عورتیں موثر و غیرہ پر سواری کرتی ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ اگر سواری گھر میں ہوگی تو ضرور استعمال کی جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سواری استعمال کیا کرتے 32
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم تھے.جس کو سواری نصیب ہو، آخر وہ کیوں استعمال نہ کرے؟ اس طرح وقت بھی بچ جاتا ہے، کام بھی جلدی ہو جاتا ہے.مجھے پر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ میں موٹر میں سواری کیا کرتا ہوں.اگر سواری نہ کروں تو پھر کہیں گے کہ کام تھوڑا کرتا ہے.یہ بات تو ویسی ہی ہے، کہتے ہیں کوئی خاوند اپنی بیوی کے پیچھے پڑ گیا کہ جب تو روٹیاں پکاتی ہے تو تیری کہنیاں کیوں ہلتی ہیں؟ اب یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک عورت روٹیاں بھی پکائے اور اس کی کہنیاں بھی نہ ہیں؟ اسی طرح یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کام بھی زیادہ ہو اور اسباب بھی مہیا نہ ہوں.جماعت یہ تو کہے کہ ہماری چٹھیوں کا جواب جلدی کیوں نہیں دیا جاتا مگر اعتراض یہ کرے کہ ایک پرائیویٹ سیکریٹری اور سات، آٹھ آدمی عملہ میں کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ یہ بھی مطالبہ کرے کہ رقعوں کا جواب جلدی دیا جائے اور یہ بھی کہے کہ جواب دینے والا عملہ نہ ہو.یہ عقل کے خلاف بات ہے.یہ جو کہا گیا ہے کہ لجنہ کی کلرک کیوں ہے؟ اس کے متعلق یاد رہے کہ لجنہ کی ایک کلرک نہیں بلکہ دو کلرک ہیں.اس طرح میں اعتراض کرنے والی کے اعتراض کو اور بھی پکا کر دیتا ہوں.لیکن مجھے دو پر بھی اعتراض ہے.میں قریباً سال بھر سے اپنی بیوی سے جھگڑا کر رہا ہوں کہ دو کلرک کافی نہیں، ایک تنخواہ دار سیکریٹری کا بھی اضافہ کیا جائے.مگر اس خاتون کو اعتراض ہے کہ ایک کلرک بھی کیوں ہے؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستان اور امریکہ میں چار سو لجنات پائی جاتی ہیں.ان سب کا کام ایک کلرک کیسے کر سکتی ہے؟ اس خاتون نے تو دفتر میں کبھی کام نہیں کیا، اس کے خاوند نے کیا ہوگا.وہ اپنے خاوند سے پوچھے کہ چار سو ڈ پٹی کمشنروں سے خط و کتابت کرنے کے لئے کتنے عملہ کی ضرورت ہوتی ہے؟ یہاں پنجاب میں سولہ ڈپٹی کمشنر ہیں.ان سولہ ڈپٹی کمشنروں کی نگرانی کے لئے کمشنروں کے دفاتر میں کتنا عملہ رکھا ہوا ہے؟ پھر چار سو لجنات کے لئے کوئی ایک کلرک کس طرح کافی ہوسکتی ہے؟ پھر اس خاتون نے تو غالبا تعلیم نہیں پائی ، اس لئے شاید وہ اس کی اہمیت نہ سمجھ سکیں.لیکن وہ اس بارہ میں اپنے خاوند سے ہی دریافت کر لیں.میری بیوی ایم.اے کا امتحان دے رہی ہے اور دو سال کی پڑھائی آٹھ مہینہ میں کر رہی ہے.اس خاتون نے خود تو کائی امتحان نہیں دیا ہوگا، اس کے خاوند اور بھائیوں نے تو ایم.اے کی تیاری کی ہوگی.وہ ان سے ہی پوچھ سکتی ہیں کہ اس پر کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ چار گھنٹے ان کو صرف پروفیسر پڑھاتے ہیں اور پھر پڑھائی کو یاد کرنے کے لئے بھی وقت کی ضرورت ہوتی ہے.کچھ میں بھی ان سے دفتر کا کام لیتا ہوں.اس لئے ان پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ وہ کام نہیں کرتیں.یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ آپ کے خاندان کی عورتیں لجنہ میں نہیں جاتیں.واقعہ یہ ہے، عورتیں اس وقت بیٹھی سن رہی ہیں کہ یہاں دو جلسے ہوتے ہیں.ایک جلسہ قادیان کی لجنہ کا ہوتا ہے اور 33
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 مئی 1948ء دوسرا جلسہ لاہور کی لجنہ کا ہوتا ہے.ابھی کچھ دن ہوئے ، لاہور کی لجنہ کا جلسہ ہوا، جب تعداد معلوم کرنے کے لئے پوچھا گیا کہ لاہور کی عورتیں کھڑی ہو جائیں تو اس میں لاہور کی صرف 5 عورتیں تھیں اور دوسو قادیان کی عورتیں تھیں.یہ لاہور کی لجنہ کا حال ہے.لیکن قادیان والی عورتوں کے جلسہ میں شاذ و نادر ہی کوئی لاہور کی عورت آتی ہے.پس یہ اعتراض بھی غلط ہے.غرض تمام باتیں ، جو اس خاتون نے لکھی ہیں، غلط نہی پر بنی ہیں.لیکن اگر میرے اس جواب سے بھی ان کو تسلی نہ ہو تو صحیح طریق یہ ہے کہ وہ خاتون اپنے خاوند کو ساتھ لے کر آجائیں.ہم ٹرنک ان کے سامنے رکھ دیں گے، وہ دیکھ لیں کہ ہمارے گھر میں کتنے گوٹہ کناری والے کپڑے ہیں اور وہ کب سے بنے ہوئے ہیں؟ وہ کپڑوں کی قیمت کا بھی اندازہ لگالیں ، اگر ان کے بیان کردہ قیمت سے وہ کم قیمت کے ہوئے تو وہ اس کمی کو پورا کر دیں.ہاتھ کنگن کو آرسی کیا.جو چیز آسانی سے طے کی جا سکتی ہے، اس کے لئے کسی جھگڑے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اب بھی جمعہ کی نماز میں میری بیویاں آئی ہوئی ہیں اور وہ وہاں بیٹھی ہیں.ان کا لباس وہ دیکھ لیں ، دو کو میں نے یہ خط بتایا ہی نہیں، دو کو میں نے بتایا ہے.مگر وہ اسی لباس میں ہی آگئی ہیں.خط سننے کے بعد انہوں نے لباس کو بدلا نہیں اور اس کی میں خود گواہی دیتا ہوں.ان کے لباس کو دیکھ لیں کہ کیا یہ اعتراض درست ہے؟ باقی رہاسنگار کا سوال.سوظاہر ہے کہ وہ سنگھار اسی رقم میں سے کر سکتی ہیں، جو میں ان کو دیتا ہوں اور وہ رقم میں بتا چکا ہوں.ایک کے پاس جیسا کہ میں نے بتایا ہے،صفر بچتا ہے.اور صفر سے جتنا سنگار کیا سکتا ہے، وہ ظاہر ہے.باقی بیویوں کے پاس بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ روپے بچتے ہیں.اور آج کل گرانی کا جو حال ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.ان پندرہ روپوں میں جتنا کپڑا خریدا جاسکتا ہے یا جتنی جوتیاں خریدی جاسکتی ہیں، اس کے متعلق ہر شخص خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے.آج کل تو اتنے روپیہ میں جوتیاں بھی مشکل سے خریدی جاسکتی ہیں.قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ حیرت آتی ہے.دس پندرہ روپے میں ایک معمولی جوتی آتی ہے.اگر دیسی جوتی کا بھی استعمال کیا جائے تو جو جوتی کبھی سوار و پے میں آتی تھی ، اب آٹھ آٹھ ، نونو روپے میں آتی ہیں.پھر تیل اور صابن وغیرہ سب چیزیں نکال کر دیکھنا چاہیے کہ ان کے پاس کیا بچتا ہے اور اس میں سے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ باقی رہا ہنر ، سو اگر کوئی ہنر اور سلیقہ شعاری سے کام لیتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا بلکہ یہ قابل تعریف بات ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کے لئے ایک بکرے کی ضرورت تھی.آپ 34
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم نے ایک صحابی کو بلایا اور اسے ایک دینار دے کر فرمایا کہ اس کا بکرا لے آؤ.وہ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو اس نے کہا یا رسول اللہ ! یہ بکر ابھی حاضر ہے اور دینار بھی حاضر ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ تم نے کیا کیا، کیا بغیر قیمت ادا کئے لے آئے ہو؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! یہ بات نہیں.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ بجائے مدینے سے خریدنے کے میں تین، چار میل باہر چلا گیا.وہاں ایک دینار کے دو بکرے مل گئے.مدینہ آکر میں نے ایک بکرا، ایک دینار میں بیچ دیا.اب یہ بکرا بھی حاضر ہے اور دینار بھی حاضر ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس صحابی کو کوئی سزا نہیں دی.یہ نہیں فرمایا کہ تو بہت نالائق ہے تو بکرا بھی لے آیا اور دینار بھی واپس کر رہا ہے.بلکہ فرمایا، خدا تعالیٰ تمہارے کاموں میں برکت دے.پھر اس صحابی کے کاموں میں اتنی برکت پیدا ہوئی کہ صحابہ کہتے ہیں، اگر وہ مٹی کو بھی ہاتھ لگا تا تو سونا بن جاتی.لوگ آتے اور اس کے گھر میں روپیہ دے کر کہتے کہ کسی ایک تجارت میں ہی ہمارا حصہ ڈال لو.پس عقل اور سمجھ سے کام لیتے ہوئے ، اگر کسی کی صفائی زیادہ ہو تو بری بات نہیں ، اچھی بات ہے.میری ایک شادی ہوئی ، اس بیوی کی والدہ انتظامی معاملات میں کچھ کچھی تھیں.انہوں نے لڑکی کو بستر دیتے وقت ایک گدیلا بھی ساتھ رکھ دیا اور کہا کہ اگر لڑ کی ایک گدلا کہیں پھینک دے تو دوسرا استعمال کر لینا.ان کی اس بات پر اب بھی ہمارے خاندان میں جنسی ہوا کرتی ہے.انہوں نے خیال کیا کہ جس طرح میں اپنی چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کی عادی نہیں، اسی طرح یہ بھی ہوگی.ایسی حالت میں یہ گدیلا اس کے کام آجائے گا.پس ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں.مگر وہ بھی ہوتے ہیں، جو چیز کو سنبھال کر رکھنے کے عادی ہوتے ہیں.ایسی چیز خواہ کتنی ہی پرانی ہو جائے لوگوں کو اچھی نظر آتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ میرا لباس اور دوسری چیزیں عام طور پر دیر تک چلتی چلی جاتی ہیں اور پھر اس قدرا اکٹھی ہو جاتی ہیں کہ میں ان کو بانٹ دیتا ہوں.پھر دوبارہ یہ سلسلہ اس طرح پر چل پڑتا ہے.لباس کو بار بار بدلنا اور اس کے متعلق خاص احتیاط سے کام لینا، یہ مجھے پسند نہیں.جب میں ولایت گیا تو دوکوٹ بنوا کر اپنے ساتھ لے گیا تھا.ان میں سے میں نے صرف ایک ہی استعمال کیا، دوسرے کو چھوا بھی نہیں.دوستوں نے کہا بھی کہ اس کا برا اثر ڑے گا.مگر میں ان سے یہی کہتا کہ ان لوگوں کے نزدیک معیوب بات ہے، ہمارے نزدیک تو معیوب نہیں.چنانچہ جس لباس میں میں گیا تھا، اسی میں واپس آگیا.وہاں کے لحاظ سے یہ بات معیوب ہوگی مگر یہاں کے لحاظ سے ہمیں تو برا لگتا ہے کہ بار بار کپڑے بدلنے پر وقت ضائع کیا جائے.بہر حال پھوہر ین قابل ملامت چیز ہے اور عقل قابل تعریف چیز ہے.اسراف قابل الزام چیز ہے اور عقل اور سمجھ سے کام لے کر چیزوں کو سنبھال کر رکھنا ، قابل تعریف چیز ہے.35
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم اگر کوئی شخص عقل اور سمجھ کا دروازہ بند کر کے اعتراض کرتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ انسانی دماغ کی قیمت گراتا ہے اور چاہتا ہے کہ انسانی تمدن اور تہذیب پہلے سے گر جائیں.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اس خاتون کے الفاظ پر پتہ لگتا ہے کہ اس کے مدنظر صرف اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ اعتراضات کی اصل غرض اصلاح تھی.چاہے یہ اعتراضات کیسی ہی غلط فہمی پر مبنی تھے.اس لئے میں اس خاتون کے اس فعل کو اچھا سمجھتا ہوں اور اس کے خاوند پر ہی الزام لگا تا ہوں کہ وہ کیوں خفا ہوا ؟ اور کیوں اس نے ایسا جواب دیا، جو اعتراض کو پکا کرنے والا تھا.اسے چاہیے تھا کہ اعتراض کو بجائے پکا کرنے کے اس کا مدلل جواب دیتا.ہر شخص کو دلیل سے قائل کرنا چاہیے، خواہ بیوی ہو یا خاوند کسی کا کوئی حق نہیں کہ وہ دماغی افکار پر حکومت کرنا چاہے.دماغی افکار پر سوائے خدا کے اور کوئی حکومت نہیں کر سکتا اور خدا بھی کہتا ہے کہ میں ایسا نہیں کیا کرتا.پھر اور کون ایسا کر سکتا ہے؟“.( مطبوعه روزنامه الفضل 26 مئی 1948ء) 36
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 28 مئی 1948ء ہر احمدی دنیا کو بتا دے کہ ہم ہر حالت میں اپنے ایمان پر قائم رہنے والے ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 1948ء...ہماری جماعت باقی مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑے دور ابتلاء سے گزری ہے.اس لئے میرا یہ خیال تھا کہ بوجہ ایمان کی زیادتی کے بوجہ نشانات اور معجزات دیکھنے کے، بوجہ آسمانی تائیدات دیکھنے کے اور بوجہ مرنے کے بعد کی زندگی پر کامل ایمان اور پورا یقین ہونے کے، ہماری جماعت قربانی اور ایثار کے اس درجہ پر پہنچ چکی ہوگی کہ وہ یکدم کود کر ایک بڑی منزل کو تھوڑے سے وقت میں طے کر لے.لیکن تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پیشگوئی ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم کے متعلق تھی کہ وہ بہت آہستہ آہستہ ترقی کرے گی.وہ پیشگوئی ابھی تک جاری ہے.اور ابھی جماعت میں وہ طاقت اور قوت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ بڑی قربانیوں کے لئے یکدم تیار ہو سکے.شاید میرا وہ الہام جو 1943ء میں ہوا تھا اور اسی وقت شائع بھی ہو گیا تھا کہ روز جزا قریب ہے اور رہ بعید.اس کا ایک مفہوم یہ بھی تھا کہ الہی نشانات کے کا ظاہر ہونے کا وقت تو قریب آچکا ہے مگر جماعت کے لئے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی راہ ابھی بعید ہے.اور ہم آہستہ آہستہ اس درجہ اور مقام تک پہنچیں گے کہ ان عظیم الشان نشانات کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں.بہر حال اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ہماری نسبت اچھی طرح پڑھ سکتا ہے.ہم اپنے متعلق غلطی کر سکتے ہیں لیکن خدا تعالی غلطی نہیں کر سکتا.جو وہ کہتا ہے ، وہی صحیح ہے.اور جو اس کا علم ہے، ہمیں بہر حال اس کے تابع چلنا چاہیے، اور تابع چلنا پڑے گا.غرض اس بات پر غور کر کے اور اس بات کو سمجھ کر اور اس کے فوائد کی اہمیت کو محسوس کر کے کہ ہمارے چند افراد قوم کا کوئی بڑی قربانی کر دینا اتنا شاندار نہیں ہوتا ، جتنا اکثر افراد قوم کا یاسب قوم کا اس سے کم قربانی کرنا.اگر قوم میں سے دو یا چار آدمی سو میں سے اسی یا نوے نمبر حاصل کر لیتے ہیں تو یہ جماعت کے لئے اتنا شاندار اور بابرکت نہیں ہوسکتا، جتنا سو میں سے اسی کا ، چالیس پاپنتالیس نمبر لے لینا.میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جس قربانی کا میں نے جماعت سے مطالبہ کیا تھا ، اس کی شکل بدل دوں.میرے نزدیک جو بات میں نے کہی تھی ، وہ چوٹی کی قربانی کے مطابق نہیں تھی.چوٹی کی قربانی یقینا اس 37
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم سے زیادہ شاندار ہوتی ہے اور ہونی چاہیے.کیونکہ جہاں تک ایمان کامل کا سوال ہے، اس میں کسی نسبت ) اور غیر نسبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مومن کی طرف سے شرطیں نہیں ہوا کرتیں ، مومن کی طرف سے حد بندیاں نہیں ہوا کریں.یہ سب چیزیں ایمان کی کمزوری تک ہی چلتی ہیں.وو یہ سمجھتے ہوئے کہ جماعت ابھی اس مقام پر نہیں پہنچی کہ بلاشرط قربانی کے لئے تیار ہو جائے.یہ تحریک کی تھی کہ اس بڑی مصیبت کے نازل ہونے کے بعد جبکہ ہماری جماعت کی جائیدادیں مکان کی صورت میں بھی اور نقد روپیہ کہ صورت میں بھی ضائع ہو چکی ہیں اور باہر اور قادیان میں ہمارے اخراجات بڑھ گئے ہیں ، جماعت کے افراد 25 فیصدی سے لے کر 50 فیصدی تک چندہ دیں.مگر اس مجلس میں شریک ہونے والوں میں سے چند افراد کے سوا باقی جماعت نے اس میں حصہ نہ لیا.لیکن اس تحریک کو میں نے جاری رکھا اور یہ تحریک مختلف ذرائع سے کی جاتی رہی.کیونکہ میرا یہ تجربہ ہے کہ اکثر افراد کے دلوں میں ایمان موجود ہے.گو وہ کمزور ہی سہی، ایسا ہی سہی، جیسے بجلی کے قمقموں کے مقابلہ میں مٹی کے تیل کا ایک چھوٹا سا دیا ہوتا ہے، لیکن ہے ضرور.میں نے سمجھا کہ متواتر تحریک کے نتیجہ میں جماعت کا ایک حصہ ضرور اس پر عمل پیرا ہو گا.گو میں یہ سمجھتا تھا کہ جماعت ایمان کے اس مقام پر نہیں پہنچی کہ اس کا سو فیصدی یا ایک معتد بہ حصہ اس میں حصہ لے.چنانچہ متواتر تحریک کے نتیجہ میں بہت سے لوگ ، جنہوں نے پہلے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا ، اب انہوں نے بھی حصہ لینا شروع کر دیا ہے.اور شاید اب سینکڑوں تک ایسے لوگوں کی تعداد پہنچ گئی ہو، جنہوں نے 25 سے 50 فیصدی تک چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے.لیکن جماعت کی تعد ادلا کھوں کی ہے، ہزاروں کی بھی نہیں.اس لئے سینکڑوں کا لفظ ہمارے لئے کسی قسم کی خوشی کا موجب نہیں ہوسکتا.بہر حال یہ تحریک بڑھ رہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسے جاری رکھا جائے تو یہ سینکڑوں سے نکل کر ہزاروں تک پہنچ جائے گی.لیکن جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا ہے، میری رائے یہ ہے کہ بعض افراد کا زیادہ.سے زیادہ قربانی کرنا، اتنا خوش کن نہیں ہوسکتا، جتنا زیادہ سے زیادہ افراد کا تھوڑی قربانی کرنا.گوتجربہ نے بتا دیا ہے کہ جماعت متواتر تحریکات کے نتیجہ میں اپنے اخلاص میں ترقی کرتی ہے اور کرتی چلی جائے گی.پہلے اگر روکیں پیدا بھی ہوں تو آہستہ آہستہ وہ روکیں دور ہونا شروع ہو جاتی ہیں.اس تحریک کے شروع میں بھی روکیں پیدا ہوئیں لیکن وہ روکیں آہستہ آہستہ دور رہورہی ہیں اور لوگوں میں بیداری پیدا ہورہی ہے.لیکن اس رفتار کو دیکھ کر میں ڈرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں زیادہ تر جماعت ثواب سے محروم رہ جائے گی.اس لئے غور کرنے پر میں نے اس سکیم میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں ، جن کا میں آج اعلان کر 38
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 28 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد سوم دینا چاہتا ہوں.وہ تبدیلی یہ ہے کہ بجائے 25 فیصدی کے ساڑھے سولہ فی صدی اور بجائے 50 فیصدی کے 33 فیصدی حد رکھی جائے.اس میں وہ تمام چندے شامل ہوں گے، جو اس وقت تک سلسلہ کی طرف سے عائد ہیں.مثلاً تحریک جدید کا چندہ ، جلسہ سالانہ کا چندہ، نئے مرکز کا چندہ ، انجمن کا چندہ لیکن شرط یہ ہوگی کہ اس تحریک سے پہلے یعنی ستمبر والی تحریک سے پہلے، جو چندہ کوئی شخص دیتا تھا ، اس سے یہ چندہ کم نہ ہو.مثلاً اگر 1946 ء ی 1947ء میں کسی نے کوئی وعدہ کیا تھا اور اس وعدہ کے مطابق سوائے اطاعت مرکز کے چندہ کے تحریک جدید اور دوسرے چندہ کو ملا کر اس کا چندہ ساڑھے سولہ فیصدی سے زائد ہو جائے تو اسے زیادہ دینا پڑے گا اور اگر اس سے کم ہو تو اتنا چندہ ہی کافی سمجھا جائے گا.حفاظت مرکز کے چندہ کے لئے جو تحریک کی گئی تھی، چونکہ وہ رقم بڑی بھاری ہے، اس لئے شرط یہی ہوگی کہ اگر کوئی شخص 25 فیصدی چندہ دیتا ہے تو چندہ حفاظت مرکز اس میں شامل ہوگا.لیکن 25 فی صدی تک اگر چندہ نہیں دیتا تو حفاظت مرکز کا چندہ اس میں شامل نہیں ہوگا.ساڑھے سولہ فی صدی میں سے تمام چندوں کو نکال کر جو روپیہ باقی بچے گا، اسے علیحدہ ریز رور کھا جائے گا.مثلاً ایک شخص کا چندہ 15 فیصدی بنتا ہے تو اس میں سے ڈیڑھ فیصدی ریز در فنڈ میں شامل کر دیا جائے گا.اور اگر بارہ فیصدی بنتا ہے تو ساڑھے 4 فیصدی ریز روفنڈ میں شامل کر لیا جائے گا.اور اگر دس فیصدی بنتا ہو تو ساڑھے چھ فیصدی ریز روفنڈ میں شامل کر دیا جائے گا.حفاظت مرکز کی اس سال کی تحریک کے ختم ہونے کے بعد آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اس وقت تک اسے جاری رکھا جائے گا، جب تک ہمیں قادیان واپس نہیں مل جاتا.بلکہ قادیان کے مل جانے کے بعد بھی اس تحریک کو چند سالوں تک جاری رکھنا پڑے گا.بہر حال اس سال، جو تحریک کی گئی ہے، اس کا ادنی درجہ ساڑھے سولہ فیصدی ہوگا اور اوپر کا درجہ 1/3 تک کا بشر طیکہ کسی کے پچھلے موعودہ چندوں کی مقدار ساڑھے سولہ فیصدی سے زیادہ نہ ہو جاتی ہو.ایسی صورت میں وہ اپنے موعودہ چندہ کے مطابق چندہ دے گا.اس کے علاوہ اس وقت میرے نزدیک کم سے کم تحریک یہ ہونی چاہیے کہ جماعت کا ہر فر دوصیت کر دے.دنیا میں ہر چیز کے مظاہرے کا ایک وقت ہوتا ہے.ہمارے ہاتھ سے قادیان نکل جانے کی وجہ سے دشمن کی نظریں اس وقت خاص طور پر اس امر کی طرف لگی ہوئی ہے کہ بہشتی مقبرہ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے، جس کے لئے یہ لوگ وصیت کیا کرتے تھے.اب ہم دیکھیں گے کہ یہ لوگ کیسے وصیت کرتے ہیں؟ اس اعتراض کو رد کرنے کا ہمارے پاس ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہر احمدی وصیت کر دے اور دنیا کو بتا دے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر جو ایمان اور یقین حاصل ہے ، وہ قادیان کے ہمارے ہاتھ سے نکلنے یا 39
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم سے وابستہ نہیں.بلکہ ہم ہر حالت میں اپنے ایمان پر قائم رہنے والے ہیں.یہ کم سے کم مظاہرہ ایمان ہے، جس کی اس وقت تم سے امید کی جاتی ہے.پس جو شخص ساڑھے سولہ فیصدی بھی نہیں دے سکتا.میں سمجھتا ہوں اس کے لئے کم از کم اس قدر ایمان کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے کہ وہ وصیت کر دے.اور کوشش کرے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے، جس نے وصیت نہ کی ہو.اگر اس تحریک کو پورے زور سے جاری رکھا جائے تو دشمن کا منہ خود بخود بند ہو ہو جائے گا اور وہ سمجھے گا کہ ان لوگوں میں ایمان کی کچی حلاوت پائی جاتی ہے.پس ہر شخص کو چاہیے کہ وہ وصیت کر دے اور اس طرح دنیا کو بتا دے کہ قادیان کے نکلنے سے ہمارا ایمان کمزور نہیں ہوا.بلکہ ہم اپنے ایمان میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ مقبرہ بہشتی کے وعدے دنیا کے ہر گوشہ میں ہم کو ملتے رہیں گے.ایک بات میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ چونکہ اس کا تعلق صدر انجمن احمدیہ سے ہے اور دفاتر میں عام طور پر رقابت پائی جاتی ہے، اس لئے اس بارہ میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے.میں نے دیکھا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ میں جماعتوں اور افراد کی طرف سے اس تحریک کے سلسلہ میں جو روپیہ آ رہا ہے، اس میں تحریک جدید کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے.مگر صدر انجمن احمد یہ خاموشی سے اس روپیہ کو اپنے خزانہ میں ڈال لیتی ہے.تحریک جدید والوں کو ان کا چندہ ادا نہیں کرتی.پس چونکہ اس قسم کے خدشات کو موجود ہیں، اس لئے میں یہ قانون مقرر کرتا ہوں کہ ہر شخص کی طرف سے صدر انجمن احمدیہ کو جو چندہ ملتا ہے، اس سے زیادہ کی وہ مالک نہیں ہوگی، جتنا کوئی پہلے چندہ دیا کرتا تھا.اسی نسبت سے صدر انجمن احمد یہ کو چندہ ملے گا.باقی روپیہ میں اگر تحریک جدید کا چندہ شامل ہوگا تو وہ حصہ تحریک جدید کو ملے گا ، حفاظت مرکز کا چندہ شامل ہوگا تو اتنا حصہ حفاظت مرکز کو ملے گا اور جو کچھ باقی بچے گا، اسے میں اپنے اختیار سے سلسلہ کے مختلف محکموں میں تقسیم کر دوں گا.وہ رقم صدر انجمن احمدیہ کی ملکیت نہیں ہوگی.صدر انجمن احمد یہ کا حصہ صرف اتنا ہی ہوگا، جتنا اسے پہلے ملاکرتا تھا.لیکن بہر حال صدر انجمن احمدیہ کے پاس عذر ہوتا ہے کہ چندہ آیا، بھیجنے والے نے کوئی خاص وضاحت نہیں کی تھی ، اس لئے ہم نے اسے اپنے خزانہ میں داخل کر لیا.اگر چندہ بھیجنے والا واضح کر دیتا تو ایسا نہ ہوتا.پس میں جماعت پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص فتنہ سے بچنا چاہتا ہے اور آئندہ خط و کتابت کی اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کا خواہش مند ہے تو اسے تحریک جدید والوں کو بھی لکھ دینا چاہیے کہ اتنا چندہ میں دیا کرتا ہوں.اس میں اتنا حصہ تمہارا ہے، باقی ریز روفنڈ میں شامل کر دیا جائے اور 40
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم خلیفۃ المسیح کے حکم کے ماتحت خرچ کیا جائے.جولوگ ایسا نہیں کریں گے، انہیں زائد چندوں میں الگ حصہ لینا پڑے گا.مثلاً نئے مرکز کی تحریک ہو تولازمی طور پر اس کا الگ وعدہ لیا جائے گا.لیکن میرا منشاء یہ ہے کہ سر دست عام چندوں اور تحریک جدید کے چندوں کو کاٹ کر جو کچھ بچے ، اسے ریزرور کھا جائے.مگر یہ ایسی صورت میں ہو سکتا ہے، جب چندہ دینے والا صدرانجمن احمدیہ کو اور مقامی سیکریٹری کو اطلاع دے دے کہ پہلے میرا چندہ اتنا تھا، اب میں اتنا دوں گا.اس میں سے اتنی ریز روفنڈ رقم ہوگی، جو محفوظ اپنی چاہیے اور اتنی تحریک جدید کی ہوگی.ورنہ وہ ساری رقم صدر انجمن احمدیہ کے عام چندوں میں داخل کر لی ہے.جائے گی اور اسے نئے سرے سے چندہ دینا ہوگایا صدرانجمن احمدیہ سے جھگڑا شروع کرنا پڑے گا.اب تک یہی ہو رہا ہے کہ جو رقم آتی ہے، صدرا مجمن احمد یہ اسے اپنے کھانہ میں جمع کر لیتی - جب تحریک جدید نے اپنے حصہ کا مطالبہ کیا تو ان کو مشکل پیش آگئی.اور اس سے زیادہ مشکل ان لوگوں کو ہوگی ، جنہوں نے چندہ دیا ہے.دفتر والے مانگیں گے اور وہ کہیں گے کہ ہم نے چندہ دے دیا ہے.مگر تحریک والے کہیں گے کہ تمہاری طرف سے کوئی چندہ نہیں آیا.پس ہر چندہ دینے والا ان پر واضح کر دے که اتنا چنده صدر انجمن احمدیہ کا ہے، اتنا وصیت میں وضع کر لیا جائے ،اتنا تحریک میں دے دیا جائے اور باقی روپیہ ریز روفنڈ میں داخل ہو یا لکھ دیں کہ یہ روپیہ تمبر کی تحریک میں جمع کر لیا جائے.کیونکہ یہ تحریک ستمبر 47ء میں جاری ہوئی تھی ، اس لئے ریز روفنڈ کی جگہ اس کا نام ” تحریک ستمبر“ مناسب رہے گا.بہر حال عام قاعدہ یہی ہو گا کہ نئے مرکز کا چندہ اس سے وضع کر لیا جائے گا.مگر یہ بھی ہوسکتا ہے، جب سب دوست یہ واضح کر دیں کہ پہلے میں اتنا چندہ دیا کرتا تھا، اب اتنا دوں گا.اور اس میں سے پہلے چندہ کی رقم کاٹ کر باقی روپیہ تحریک ستمبر میں داخل کیا جائے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہاری کمزوری کو دیکھتے ہوئے تخفیف کر دی ہے.میں نے بھی یہ دیکھ کر کہ تم ابھی اس مقام تک نہیں پہنچے، جو کامل ایمان کا مقام ہوتا ہے، اپنے مطالبہ میں تخفیف کر دی ہے.قرآن مجید کا مفہوم تو اور ہے مگر کمزور ایمان والے اس کے یہی معنی لیتے ہیں اور میں نے بھی انہیں معنوں میں تخفیف کی ہے.پس اس تحریک کی آئندہ یہ صورت ہوگی کہ ساڑھے سولہ فیصدی سے 33 فیصدی تک چندہ دینا ہو گا.اور جو لوگ اس مقام پر نہ پہنچ سکیں ، ان کے لئے کم سے کم ایمان کا مظاہرہ یہ ہوگا کہ وہ وصیت کر دیں.کوئی مردہ کوئی عورت کوئی بالغ بچہ ایسا نہ رہے، جس نے وصیت نہ کی ہو.تا دنیا کو معلوم ہو جائے کہ تم میں حقیقی ایمان پایا جاتا ہے اور قادیان کے کھوئے جانے کی وجہ سے مقبرہ بہشتی یا اس کے نظام کے متعلق تمہیں کسی قسم کا شک وشبہ پیدا نہیں ہوا.41
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 مئی 1948 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم میں پھر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ چندہ دینے والوں کو یہ بتا دینا چاہیے کہ پہلے وہ اتنا چندہ دیتے تھے اور اب اتنا چندہ دیں گے.بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ میری اس تحریک کے جواب میں چندہ وصیت کو بڑھا دیتے ہیں.میری تحریک کا ہر گز یہ مطلب نہیں.میں نے چندہ بڑھانے کو کہا ہے، وصیت کو بڑھانے کو نہیں کہا.میری بات کو پورا کرنے والے آپ تبھی بنیں گے، جب آپ اپنے موعودہ چندہ وصیت اور دوسرے موعودہ چندوں سے زائد رقم کو تحریک ستمبر میں جمع کرنے کی ہدایت دیں گے.اگر وصیت کو بڑھائیں گے تو وصیت کی زیادتی کا ثواب تو ضرور آپ کو ملے گا مگر میری بات کا ثواب آپ کو نہیں ملے گا.مگر میری بات ماننے کی صورت میں آپ کو دو ثواب ملیں گے.اسی طرح خدا تعالیٰ چاہے تو ہر شخص کو تحریک کا ممبر بنے کی توفیق بھی مل جائے گی.آخر تبلیغ کا وہ وسیع سلسلہ، جو تحریک جدید کے ذریعہ دنیا میں نہایت کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور جس کے نہایت اچھے آثار اور خوش کن نشانات نظر آرہے ہیں.اس کے متعلق کسی مومن کا دل یہ برداشت ہی کس طرح کر سکتا ہے کہ اس میں اس کا حصہ نہ ہو.ہم تو دیکھتے ہیں، دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی باتوں میں بھی حصہ لینے کے لئے انسان تیار ہو جاتا ہے.بلکہ اچھی باتیں تو الگ رہیں، بری سے بری بات میں بھی حصہ لینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.وو...در اصل رو چلنے کی دیر ہوتی ہے.جب روچل جائے تو لوگ خود بخود اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.اگر ہماری جماعت میں بھی قربانی کی روچل جائے گی تو یہ لازمی بات ہے کہ ہر روانہیں پہلے سے اور زیادہ آگے لے جائے گی اور یہ سلسلہ اسی طرح بڑھتا چلا جائے گا.ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی رو پیدا ہوگی اور قربانی میں ترقی کرتے کرتے تمہاری یہ حالت ہو جائے گی کہ وہی چیز ، جسے تم آج اپنی موت سمجھتے ہو، اگر اس کے چھوڑنے کا تم سے تمہاری بیوی مطالبہ کرے گی تو تم اس بیوی کو طلاق دینے کے لئے تیار ہو جاؤ گے.اگر تمہارا بچہ اس قربانی کے خلاف مشورہ دے گا تو تم اس بچہ کو عاق کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ گے.اور وہی چیز ، جو آج تم کو موت سے پیچھے ہٹا دیتی ہے، تمہیں سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ خدا کے قریب کرنے والی نظر آئے گی“.( مطبوعه روزنامه الفضل 05 جون 1948ء) 42
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 اگست 1948ء میں ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں کہ خدائی بادشاہت کا وقت قریب آرہا ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اگست 1948ء خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایک خاص مقصد کے لیے قائم کیا ہے.اور وہ مقصد یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنا ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله.کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ اس لئے فرمائی ہے تا اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض ہی یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنا ہے.یہ غلبہ ہزاروں ہزار اقسام کا ہے.اس زمانہ میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ، جس میں اسلام غالب نظر آتا ہو.دین کو لے لو، اگر چہ عیسائیت جھوٹی ہے اور اسلام ہی سچا مذہب ہے.مگر پھر بھی عیسائیوں میں کئی لاکھ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو اپنے دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں.عیسائیوں کا چھ لاکھ باقاعدہ مبلغ ہے.وہ صرف پروٹسٹنٹ اور پریسٹرین چرچوں کا ہے، رومن کیتھولک ان کے علاوہ ہے.سارے ملا کر قریبا ہیں، پچیس لاکھ پادری بن جاتے ہیں.اب دیکھو انہیں صرف جھوٹا کہنے سے کیا بنے گا ؟ جھوٹے کے معنی تو یہ ہیں کہ بچے کے اندر اس سے زیادہ قربانی پائی جائے.لیکن حال یہ ہے کہ جو جھوٹا ہے، وہ تو ایک انسان کی خدائی منوانے کے لئے لاکھوں مبلغ دیتا ہے لیکن سچا، خدا کی خدائی منوانے کے لیے سینکڑوں مبلغ بھی نہیں دیتا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں ایسے پچاس آدمی بھی نہیں پائے جاتے.اس کے مقابلہ میں عیسائیت کے پاس لاکھوں مبلغ ہیں، جو بڑے جوش کے ساتھ کام کر رہے ہیں.افریقہ کے ایک علاقہ میں ایک دفعہ عیسائیوں کے چھ، سات مشنری گئے.وہاں کے مردم خور آدمیوں نے انہیں کھا لیا.جب یورپ میں یہ خبر پہنچی تو تین ، چار دن میں کئی ہزار مردوں اور عورتوں نے اپنے نام پیش کر دیئے کہ ہم وہاں جانے کے لیے تیار ہیں.مسلمان اول تو وہاں گئے ہی نہیں لیکن اگر چلے بھی جاتے اور مردم خور انسان انہیں کھا لیتے تو جب وہاں سے خبر آتی ، ہماری عورتیں کہتیں شکر ہے، ہمارا بچہ نہیں گیا تھا.اس کے مقابلہ میں عیسائیوں میں کتنا جوش ہے.43
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 اگست 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم صرف یہ کہنے سے کہ ہمارا مذ ہب سچا ہے اور وہ جھوٹے ہیں، کیا بن جاتا ہے؟ سچاند ہب کیا کوئی جادو اور ٹو نہ ہے کہ اگر اس کا نام لے لیا تو اللہ تعالیٰ ہمیں آسمان پر جگہ دے دے گا.بچے کی کوئی علامت ہوئی چاہئے.پھر عیسائیت کے مقابلہ میں ہم اگر لاکھوں مبلغ بھی دیں تو وہ کون ہوں گے؟ وہ ایسے ہوں گے، جن کی چھپیں سے پچاس تک ماہوار آمدن ہوگی، جو دال روٹی کھانے والے ہوں گے.ان کو اگر ایک آدھ وقت کا فاقہ بھی آگیا تو آخر کون سا فرق پڑے گا؟ لیکن عیسائیت میں جن لوگوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں، انہیں ہر قسم کی دولت میسر تھی.اگر مسلمان اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں تو گویا 50 روپے ماہوار خرچ کرتے ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں عیسائی لوگ ہزار، دو ہزار تین ہزار روپیہ ماہوار خرچ کرتے ہیں.ان میں طاقت تھی کہ وہ اتنی کمائی کر سکیں.لیکن اس آمدن کو چھوڑ کر وہ چلے گئے.ایسے ایسے ڈاکٹر ، جو سارے علاقے میں مشہور تھے، جو شہر میں پریکٹس کے ذریعہ چالیس چالیس، پچاس پچاس ہزار روپیہ ماہوار کما سکتے تھے، گرجے میں تنگی سے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں.انہیں وہاں معمولی کھانے پینے کومل جاتا ہے.دو، تین جوڑے کپڑے پہنے کومل جاتے ہیں اور پھر وہ اپنی ساری عمر گرجے میں لگا دیتے ہیں.پنجاب میں ایک ڈاکٹر ٹیلر تھا.وہ آنکھوں کے علاج میں سارے پنجاب میں مشہور تھا.گزشتہ جنگ کے دنوں میں وہ چند دن سرکاری ہسپتال میں بھی لگا تھا.میں نے خود اس سے علاج کروایا ہے.ہزاروں ہزار مریض اس کے پاس آتے تھے اور ان میں سے ہر ایک کم از کم پندرہ روپیہ اسے دیتا تھا.اور جو آپریشن کرواتے تھے، وہ تو سوسو، دو دو سو بھی دیتے تھے.لیکن وہ اپنی ساری آمدن گرجے میں دے دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تو پادری ہوں اور میں نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے.پس اگر ہم تعداد میں بھی ان کے برابر ہوتے تب بھی ہماری قربانی ، ان کی قربانی کے برابر نہیں ہو سکتی تھی.امریکہ کے بعض پروفیسر سوسو، ڈیڑھ ڈیڑھ سو میں کام کر رہے ہیں.اگر انہیں گورنمنٹ منگوائی تو ہزار ہزار، ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار ماہوار دیتی.پس ان کے افراد کے مقابلہ میں بھی ہم نے کوئی قربانی نہیں کی اور لیاقت کے مقابلہ میں بھی ہم نے کوئی قربانی نہیں کی.اور پھر یہ تو میں نے ہزاروں شاخوں میں سے ایک شاخ گنوائی ہے.اب اگر ہم کہیں ليظهره على الدين كله کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو دنیا کے باقی ادیان پر غالب کرنا ہے.تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ کوئی ایسی جماعت پیدا ہو جائے ، جس کے افراد دوسرے مذاہب سے زیادہ دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.وہ دوسرے مذاہب سے زیادہ لیاقت کی قربانی کریں.اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو اسلام دوسرے مذاہب پر غالب کیسے ہوگا ؟ 44
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 اگست 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم یا مثلا لعلیم کو لے لو تعلیم میں جتنی انہوں نے ترقی کی ہے، ہمارا ان سے مقابلہ ہی کہاں ہے؟ ان کا ادنیٰ سے ادنی عالم ہمارے بڑے سے بڑے عالم کے مقابلہ میں زیادہ علم رکھتا ہے.گویا علم کے میدان میں بھی ہم انہیں اس وقت تک شکست نہیں دے سکتے ، جب تک ایسے علماء پیدا نہ کئے جائیں ، جن کے سامنے یورپ کے علماء بیچ رہ جائیں.پھر خدمت خلق کا کام ہے.وہ ہزاروں ہزار اس کام میں لگے ہوئے ہیں.کہیں ریڈ کر اس سوسائٹیاں قائم کی جارہی ہیں، کہیں ہسپتال کھولے جا رہے ہیں اور کہیں سکول کھولے جا رہے ہیں.اس میدان میں بھی اگر ہم انہیں شکست نہ دیں تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.خدمت خلق ایسی ہونی چاہیے کہ کوئی مذہب ہمارا مقابلہ نہ کر سکے.پس اگر قرآن کریم کی یہ پیشگوئی پوری ہوسکتی ہے تو اسی وقت ، جب ہم ہر میدان میں اور ہر کام میں انہیں شکست دیں.پھر عیسائیوں کو جانے دو، ہندوستان میں ہندوؤں کے کتنے سادھو پائے جاتے ہیں؟ خواہ وہ مذہب جھوٹا ہی ہے مگر ان کے سادھوؤں کا کم از کم سولہ لاکھ کا اندازہ ہے.اس کے معنی ہیں ہوئے کہ ہندوستان میں سولہ لاکھ ہندو ایسے ہیں، جو شادی بیاہ کا خیال ترک کر کے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر ننگ دھڑنگ بھوت بنے پھر رہے ہیں.کانگریس کو جو کامیابی ہوئی ہے، اس میں بڑی مددان سادھوؤں کی تھی.اور مجھے یاد ہے جب گاندھی جی نے رولٹ ایکٹ پر شورش کا فیصلہ کیا اور کہا کہ ہم نان کو اپریشن Non cooperation کریں گے، اس وقت تین ، چار دن کے اندر سارے ہندوستان میں ایسی آگ لگ گئی تھی کہ حیرت آتی تھی.ہم سمجھتے تھے کہ قادیان ایک طرف ہے، اس طرف کسی کی توجہ نہیں.انہوں صرف پندرہ دن پہلے اعلان کیا تھا، اس لئے خیال تھا کہ سب ملک میں خبر نہ پہنچی ہوگی.میں نے چاہا کہ اپنے گروہ کے لوگوں کو سمجھاؤں تا فساد نہ ہو.میرا خیال تھا کہ یہاں کے لوگوں کو اس تحریک کی خبر تک نہ ہو گی.جب میں نے رؤسا کو اکٹھا کرنے کے لئے آدمی بھیجے تو ان میں سے ایک آدمی نے مجھے آکر بتایا کہ فلاں گاؤں کے زمیندار کو میں نے بڑی مشکل سے یہاں آنے پر راضی کیا ہے.وہ بات سننے سے پہلے ہی کہنے لگے کہ آخر مرزا صاحب کے آباؤ اجداد بھی اس علاقہ کے حاکم تھے اور اگر وہ دوبارہ حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں.ان کے ذہنوں میں یہ تھا کہ ہم نے انگریزوں کا مقابلہ کرنا ہے.قادیان کے پاس ہی تین میل کے فاصلہ پر ٹھیکری والا ایک گاؤں ہے.وہاں ان دنوں کافی تعداد میں پستول پہنچ گئے تھے اور وہاں ان کی پریکٹس بھی ہوا کرتی تھی.میں نے جب اس کی تحقیقات کی تقم 45
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 اگست 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم معلوم ہوا کہ یہ سب کام سادھوؤں کا تھا.جنہوں نے تمام علاقہ میں پھر کر اور چکر لگا کر یہ خبر پہنچا دی تھی.ہندوستان میں آٹھ لاکھ گاؤں ہیں.اس طرح 16 لاکھ سادھوؤں کے یہ معنی ہوئے کہ دو، دو سادھو ایک وقت میں ایک، ایک گاؤں میں جاسکتے ہیں اور اس طرح ایک چیز سارے علاقہ میں ایک دن میں پھیلائی جاسکتی ہے.اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں ایسے کتنے لوگ ہیں، جنہوں نے دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں؟ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے.اے مسلمانوں ! تمہارا جو مقصد ہے تمہاری ہر وقت اس کی طرف توجہ ہونی چاہئے.وو ""...خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ قوم کو پراگندہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے.بلکہ فرماتا ہے کہ اسے مسلمانو ! تم جس طرف بھی نکلو، تمہارا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے دین کو کامیاب کرنا ہے.جب تک تم اس رنگ میں کام نہیں کرو گے تمہیں کامیابی کی امید نہیں رکھنی چاہیے.صحابہ نہیں یہ چیز پیدا ہو گئی تھی ، اس لئے وہ ہر رنگ میں اس کے لئے کوشش کرتے تھے اور آخر انہیں کامیابی ہو جاتی تھی.جب تک کوئی قوم اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنی زندگیاں صرف نہ کر دے، وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی.بلکہ اس وقت تک کسی کامیابی کی امید رکھنا ہی غلط ہے.میں نے تمام مذاہب کی تاریخوں میں، جو بھی محفوظ ہیں، کہیں بھی نہیں دیکھا کہ ایک آدمی اگر تجارت کر رہا ہے تو وہ تجارت ہی کر رہا ہے.اور اگر اس نے تھوڑا بہت چندہ دے دیا تو سمجھ لیا کہ اس نے دین کہ بہت بڑی خدمت کر دی ہے.میں نے ایسی کوئی مثال نہیں دیکھی، نہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ایسا کیا، نہ عیسی علیہ السلام کی قوم نے ایسا کیا ، نہ رام اور کرشن علیہما السلام کی قوموں نے ایسا کیا اور نہ زرتشت علیہ السلام کی قوم نے ایسا کیا.غرض کسی بھی نبی کی قوم نے ایسا نہیں کیا.سارے ہی موت کو قبول کرتے تھے.تجارت اور پیشے کرنا، ان میں بھی تھا.مگر وہ جو بھی کرتے تھے، اپنے مقصد کی تائید کے لئے کرتے تھے.وہ نوکریاں اس لئے کرتے تھے تا جماعت کی ترقی کے لئے کوئی موقع مل سکے.وہ زراعت اور صنعت و حرفت اس لئے کرتے تھے تا جماعت کی ترقی کے لئے کوئی موقع مل سکے.وہ پیشے اس لئے کرتے تھے تا جماعت کی ترقی کے لئے کوئی موقع مل سکے اور وہ تجارتیں اس لئے کرتے تھے تا جماعت کی ترقی کے لئے کوئی موقع مل سکے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے بہت سے ایسے افراد ہیں کہ اگر وہ پانچ وقت نمازیں پڑھ لیتے ہیں یا چندہ دے دیتے ہیں تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے خدائی سپاہی کا کام پورا کر دیا.اگر کسی ملک کے ایسے سپاہی ہوں تو وہ ایک ہی سال میں تباہ ہو جائے.جب بھی کوئی نبی دنیا میں آتا ہے، اس کے 46
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 اگست 1948ء ماننے والے روحانی سپاہی ہوتے ہیں.ان کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں صرف کریں کہ وہ اپنے مقصد کو پورا کر لیں.اگر وہ اپنی زندگیوں کو ایسے رنگ میں صرف نہیں کرتے کہ ان کا مقصد پورا ہوتو وہ بھی کامیاب نہیں ہو سکتے.کامیاب وہی قوم ہوگی ، جو اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں لگا دے کہ وہ جب دفتر جارہے ہوں ، تب بھی ان کے دماغ میں یہ ہو کہ ہم نے دین کو غالب کرنا ہے.جس دفتر سے واپس آرہے ہوں ، تب بھی ان کے دماغ میں یہ ہو کہ ہم نے دین کو غالب کرنا ہے.وہ جب تجارت کر رہے ہوں اور ترازو ان کے ہاتھ میں ہو، تب بھی ان کے دماغ میں یہ ہو کہ ہم نے دین کو غالب کرنا ہے.وہ اگر ہل چلا رہے ہوں، ان کا ہاتھ بل پر ہو مگر ان کا دماغ اس طرف جا رہا ہو کہ ہم نے دین کو غالب کرنا ہے.جب تک آپ لوگوں میں یہ روح پیدا نہیں ہو جاتی ، اس وقت تک کامیابی کی امید رکھنا عبث ہے.میں یہ تو نہیں کہتا کہ یہ سلسلہ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کیا ہوا ہے، کامیاب نہیں ہو گا.یہ سلسلہ ضرور کامیاب ہو گا خواہ آپ سب مرتد ہو جائیں.مگر بے شرمی یہ ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں اس کامیابی میں حصہ دار ہوں“..پس یہ سوال نہیں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا یا نہیں؟ یہ سلسلہ یقیناً کامیاب ہوگا.بلکہ سوال یہ ہے کہ کمزور ایمان اور منافق لوگ بھی ان نعمتوں میں اپنے آپ کو شریک سمجھتے ہیں.وہ نوکریاں کرتے ہیں، تجارتیں کرتے ہیں، پیشے کرتے ہیں اور دنیا کے دیگر کاروبار کرتے ہیں مگر اسلام کو ان پر حاوی اور غالب نہیں سمجھتے.پھر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس مقصد عالی میں شریک ہو گئے ہیں، جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے؟ میں کوئٹہ کی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں اور اس جماعت کے ذریعہ دوسری جماعتوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میں طاقت ہے مگر وہ ہر کام نہیں کیا کرتا.کیا اس میں یہ طاقت نہیں کہ وہ کوئٹہ کو اٹھا کر الٹ دے؟ مگر وہ ایسا نہیں کرتا.کیا اس میں یہ طاقت نہیں کہ تمام عیسائی مر جائیں؟ کیا اس میں یہ طاقت نہیں کہ تمام عیسائی ایک دن میں اپنے خزانے کھولیں اور وہ سب خزا نے احمدیوں کے گھروں میں پڑے ہوں اور وہ خود قلاش ہو جائیں؟ مگر کیا خدا تعالیٰ ایسا کرتا ہے؟ یہ کہہ دینا کہ وہ ایسا کر دے گا، جماعت کی بات ہے.سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کس رنگ میں استعمال کرتا ہے؟ اس میں یہ طاقت ہے کہ وہ دس ہیں سال میں تمہیں دس کروڑ کر دے.یہ اس کے لئے ناممکن نہیں مگر کیا وہ ایسا کرتا ہے؟ وہ ایسا کر سکتا ہے کہ مردوں کو پھر زندہ کر دے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں واپس لے 47
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 اگست 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم آئے ، حضرت موی وعیسی علیہا السلام کو دوبارہ لے آئے مگر کیا وہ ایسا کرتا ہے؟ اور اگر وہ ایسانہیں کرتا تو محض یہ کہہ دینا کہ وہ ایسا کر دے گا، درست نہیں.وہ اپنے قانون کو تمہارے لئے کیوں توڑ دے گا ؟ اس کا یہ قانون ہے کہ اگر اس کا کسی سے وعدہ ہے تو وہ قربانی کرے اور اس کے لئے جدو جہد کرے تو وہ اس کی مدد کرے گا اور وہ کامیاب ہو جائے گا.جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ کامیاب ہو جاتے ہیں.یا کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو ایسا کرتے ہیں، خدا تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں.اور جولوگ ایسا نہیں کرتے ، ان کو وہ مرتد اور بے ایمان بنا دیتا ہے، ان کا ایمان سلب ہو جاتا ہے.پس ہماری جماعت کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کر لینا چاہیے کہ ہم اس چیز کی امید نہیں رکھ سکتے ، جو پہلے نبیوں کے ساتھ نہیں ہوئی.پہلے انبیاء کی جماعتوں کو قربانیاں کرنی پڑیں، پہلے انبیاء کے ماننے والے اپنے ملک اور قوم میں مجنون کہلاتے تھے.قرآن کریم اس قسم کے واقعات سے بھرا پڑا ہے.پس جب تک ہم پہلی جماعتوں کی طرح قربانیاں نہیں کرتے ، پہلی جماعتوں کی طرح جب تک ہم مجنون نہیں کہلاتے ، ہم کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اگر آپ اپنے گھر جاتے ہوئے، اپنی حفاظت کے لئے ادھر ادھر نظر مارتے جاتے ہیں اور ڈر کی وجہ سے تبلیغ نہیں کرتے ، دین کی خدمت کی طرف توجہ نہیں کرتے تو ہم مجنون نہیں کہلا سکتے.مجنون کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اپنی عاقبت کی پرواہ نہیں کرتا.پھر بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ اس کا طرح نوکریاں جاتی رہیں گی ،تجارتیں ضائع ہو جائیں گی اور پھر جماعت کے پاس روپیہ کم ہو جائے گا، جماعت کے اخراجات کیسے چلیں گے؟ ایسے لوگوں کو یا درکھنا چاہیے کہ ہم مال کے ذریعہ دنیا کے مقابلہ میں جیت نہیں سکتے.امریکہ کا ایک مالدار ہماری جماعت کی تمام جائیدادیں خرید سکتا ہے اور پھر بھی اس کے خزانے میں روپیہ رہتا ہے.امریکہ کے بعض مالداروں کے پاس ہماری ساری جماعت سے زیادہ روپیہ ہے.بعض کے پاس تو ہیں، ہمیں ارب روپیہ ہے اور اتنا روپیہ ہماری ساری جماعت کے پاس نہیں.ان میں ایسے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں، جن کے پاس اربوں روپیہ ہے.وہ لوگ ڈالروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں کہ فلاں کے پاس ہزار ملین ہیں، فلاں کے پاس دو ہزار ، فلاں کے پاس تین، چار یا پانچ ہزار ملین ڈالر ہے.اور یہ تین ارب روپیہ سے لے کر پندرہ ارب روپیہ تک ہو جاتا ہے.ایسی قوم کا مقابلہ تم دولت سے کس طرح کر سکتے ہو؟ پھر ہمارے پاس دنیاوی طاقت بھی نہیں.پیشوں کو لے لو تجارت کو لے لو، تعلیم کو لے لو، صنعت و حرفت کو لے لو کسی چیز میں بھی تو ہم غالب نہیں آسکتے.پس اگر ہم دنیوی لحاظ سے دیکھیں تو سیدھی بات ہے کہ ہم دوسری قوموں پر غالب نہیں آسکتے.اگر ہم غالب آ سکتے ہیں تو محض اس طرح سے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کر کے اپنے آپ کو پاگل بنا دیں.اگر 48
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 اگست 1948ء ہم اپنے آپ کو پاگل بنادیں تو ایک سال میں ہم وہ کام کر لیں ، جس سے دنیا کی کایا ہی پلٹ جائے.میں نے جماعت کو کئی بار توجہ دلائی ہے کہ ہر احمدی سال میں کم از کم ایک احمدی بنائے.اور میں نے حساب لگا کر بھی بتایا تھا کہ اس طرح ہم دس پندرہ سال میں کہیں کے کہیں پہنچ جائیں گے.اگر ہر احمدی سال میں ایک، ایک احمدی بنائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم اس وقت ہندوستان میں 3لاکھ ہیں.ایک سال کے بعد ہم 6 لاکھ ہو جائیں گے.دو سال کے بعد 12 لاکھ ہو جائیں گے.تین سال کے بعد 24 لاکھ ہو جائیں گے.چار سال کے بعد 48لاکھ ہو جائیں گے.پانچ سال کے بعد 96لاکھ ہو جائیں گے.چھ سال کے بعد 1 کروڑ 92لاکھ ہو جائیں گے.سات سال کے بعد 3 کروڑ 84لاکھ ہو جائیں گے.آٹھ سال کے بعد 7 کروڑ 68 لاکھ ہو جائیں گے.نو سال کے بعد 15 کروڑ 36لاکھ ہو جائیں گے.دس سال کے بعد 30 کروڑ 72 لاکھ ہو جائیں گے.تو دیکھو اگر ہر ایک احمدی سال میں ایک، ایک احمدی بنائے تو دس سال میں کتنا بڑا تغیر پیدا ہو جاتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کرتے ہیں یا نہیں؟ سال میں ایک احمدی بنانا، کوئی مشکل چیز نہیں.بشرطیکہ کوئی عقل سے کام لے اور اپنے اوپر جنون وارد کرے.لیکن اصل میں یہ رسمی طور پر ہوتا ہے.اگر کوئی دوست پسند آ گیا اور اس سے کوئی بات کہہ دی تو سمجھ لیا کہ اس نے سلسلہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے.درحقیقت دوست بنانا مقصود ہوتا ہے تبلیغ کرنا مقصود نہیں ہوتا.اس کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ تعیش کے لئے کوئی بانداق آدمی مل جائے لیکن وہ سمجھتا که سلسله پر وہ احسان کر رہا ہے.حالانکہ وہ شخص بعض اوقات اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ اسے تبلیغ کی جائے.اور بسا اوقات تبلیغ کی بھی نہیں جاتی.کسی وقت وہ اگر اتنی سی بات کہہ دیتا ہے کہ فلاں ملک میں ہمارے فلاں مبلغ نے تبلیغ کی تو وہ دوست کہ دیتا ہے، واہ واہ، سبحان اللہ یہ تو بہت ہی اچھا کام ہے.اور احمدی سمجھ لیتا ہے کہ آج وہ آدھا احمدی ہو گیا ہے.پھر کسی دن یہ کہ دیا کہ ہم نے ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کی ہے تو وہ دوست کہہ دیتا ہے، سبحان اللہ بہت اچھا کام ہے.وہ احمدی اس سے یہ نتیجہ نکال لیتا ہے کہ وہ آج تین چوتھائی احمدی ہو گیا ہے.غرض اگر کوئی اتنی تعریف بھی کر دے، جتنی کوئی ایک گاجر کے ٹکڑے پر تعریف کر دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے.آخر آپ کو دنیا کے کاموں سے اتنی محبت کیوں ہے؟ دین کی خاطر تو اتنا وقت بھی خرچ نہیں کیا جاتا، جتنا وقت کسی کی بیوی یا خادمہ روٹی پکانے میں خرچ کر دیتی ہے.پھر یہ کیا بے ہودگی اور مداہنت ہے کہ آپ تبلیغ پر اتنا وقت بھی نہیں لگاتے ، جتنا وقت روٹی پکانے پر لگ جاتا ہے، اور پھر سمجھتے ہیں کہ ہم قربانی کرتے ہیں؟ 49
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 اگست 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم میں آپ لوگوں کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں کہ خدائی بادشاہت کا وقت قریب آرہا ہے.اور جب خدائی بادشاہت کا وقت آتا ہے تو کمزور ایمان اور منافق لوگ کفار سے زیادہ مرتے ہیں.جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو لوگ ایک بزرگ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ آپ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہلاکو خان سے ہمیں محفوظ رکھے.اس بزرگ نے کہا، میں کیا دعا کروں، میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر سب فرشتے یہ دعا کر رہے ہیں.ایھاالکفار اقتلوا الفجار.ايها الكفار اقتلوا الفجار.یعنی اے کا فرو! فاجروں کو قتل کرو.اے کا فرو!! فاجروں کو قتل کرو.جہاں اتنا فرشتہ دعا کر رہا ہے، وہاں میری دعائیں کیا کریں گی ؟ پس جب خدائی بادشاہت کا وقت آتا ہے تو اس قسم کے لوگ مجرموں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور کسی قسم کے انعام کے مستحق نہیں ہوتے.جب خدائی بادشاہت قائم ہو جائے، پھر اس قسم کے لوگ بھی کامیاب ہو جاتے ہیں.کیونکہ اس کے بعد تنزل کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور جب تنزل کا وقت آتا ہے تو منافق بھی دولت سے حصہ لے لیتے ہیں.جب مسلمانوں کی بادشاہت آئی تو جعفر برمکی جیسے تو وزیر بن گئے لیکن سید عبدا القادر جیلانی جیسے بزرگ تو گوشہ نشین ہی تھے.پس دنیوی اقتدار کے وقت میں تو منافق کا میاب ہو جاتے ہیں مگر ابتدائی زمانہ میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے.بلکہ بادشاہتوں کے بعد تو اکثر دولت منافق لے جاتے ہیں.بنوامیہ کے بادشاہوں کو لے لو، وہ منافق ہی تھے، جو دنیا کو لوٹتے تھے فسق و فجور میں مبتلا ہے تھے، رشوتیں لیتے تھے ، ضیافتیں کرتے تھے.مگر جو نیک لوگ تھے، وہ گوشہ شین ہی تھے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابی بن سلول کو تو خلافت نہیں ملی تھی.پس اللہ تعالیٰ کا سلوک ابتدائی زمانہ میں اور ہوتا ہے اور ترقی کے زمانہ میں اور ہوتا ہے.اس وقت دین غالب ہو جاتا ہے اور اس کے غلبہ کے لئے دنیا وی اقتدار کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، اس لئے اگر اس وقت منافق دولت میں سے حصہ لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا.لیکن جب ابتدائی زمانہ ہوتا ہے، جب دین کے غلبہ کے لئے دنیوی اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے، اس وقت دنیوی اقتدار میں سے حصہ اس کو ملتا ہے، جو مخلص اور مومن ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلیفہ ہم نے بناتے ہیں.کیونکہ ابتدائی زمانہ میں خلیفہ وہی ہونا چاہیے، جو خدا تعالیٰ کے منشا کو جاری کرے لیکن جب خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو جاتی ہے، پھر یزید جیسے بھی بادشاہ بن جاتے ہیں.ہزاروں ہزار ایسے فاسق ہوتے ہیں، جو بادشاہ بن جاتے ہیں مگر اولیاء اللہ کو بعض اوقات روٹی بھی نہیں ملتی.دہلی کے تخت پر جب مسلمان بادشاہ متمکن تھے ، سید ولی اللہ شاہ صاحب جیسے بزرگ کپڑے کو بھی ترستے تھے.آپ کو صفائی کا بہت شوق تھا اور روز کپڑے دھلوا کر بدلتے تھے.آپ کی دنیوی حالت 50
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 اگست 1948ء پادشاہوں کے نوکروں جیسی بھی نہیں تھی.پس جب دنیوی اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، اس وقت یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اس میں نیکوں کو ہی حصہ ملے.خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ اس وقت ختم ہو جاتا ہے.پس جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر ایک خاص قسم کی تبدیلی پیدا کرے.جب بھی دنیا میں کوئی مامور آتا ہے تو ابتدائی زمانہ میں اس کے ماننے والوں میں سے ہر ایک دین کا سپاہی ہوتا ہے، جو اپنی جان دین کے لئے پیش کر دیتا ہے.اس کا بدلہ کیا ملتا ہے؟ حضرت ابوھریرہ ایک غریب آدمی تھے ، ان کے بھائی میں بھی اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنے بھائی کو ، جو دین کی خاطر سب کچھ چھوڑ کر بیٹھ گیا تھا، وہ کھانا دے سکے.لیکن ابو ھریرۃ کو صرف ابو ھریرۃ ہی نہیں کہتے.بلکہ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی جب آپ کا نام لے گا تو ساتھ رضی اللہ عنہ کہے گا.ایک مزدور، چکی پینے والے، گدھے چلانے والے اور اونٹ لا دنے والے صحابی کا بھی آج جب نام لیا جاتا ہے تو ساتھ رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے.لیکن بڑے سے بڑے بادشاہ کا جب نام لیا جاتا ہے تو کوئی اسے رضی اللہ عنہ نہیں کہتا.اکبر، جو بہت بڑا بادشاہ گذرا ہے، اس کے نام کے ساتھ کوئی رضی اللہ عنہ نہیں کہتا.مگر حضرت ابو ھریرۃ کا جب بھی نام لیا جاتا ہے تو ساتھ رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے.وہ ابوھریرۃ جس کو سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا، جس کی بعض دفعہ بھوک کی وجہ سے ایسی حالت ہو جاتی تھی کہ مرگی کا دورہ سمجھ کر آپ کو لوگ جو تیاں مارا کرتے تھے، وہ تو رضی اللہ عنہ کہلاتا ہے مگر اکبر، بابر، ہمایوں ، شاہ جہاں، عالمگیر ، تیمور وغیرہ بادشاہوں کا نام جب لیا جاتا ہے تو ان کے ساتھ کوئی بھی رضی اللہ عنہ نہیں کہتا.یہ ان صحابہ کی قربانیوں کا نتیجہ تھا، جو انہوں نے اسلام کے ابتدائی زمانہ میں کی تھیں.انہوں نے دنیا کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا، اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے انہیں بادشاہ کر دیا.اب بڑے سے بڑا بادشاہ بھی ان کی برتری کا اقرار کرتا ہے.ہر زمانہ کے لئے الگ الگ انعام اور ذمہ داریاں ہیں.ہم اس وقت کی ابتدائی جماعت ہیں.ہماری حالت بالکل الگ ہے.بعد میں زمانہ، اور تقاضہ کرے گا.ہوسکتا ہے کہ بعد میں اگر کوئی نمازیں پڑھ لے یا چندہ دے دے تو خدا تعالیٰ اسے بڑا بزرگ سمجھ لے.لیکن جب تک ہم تلوار کی دھارے کے نیچے اپنی گردنوں کو نہیں رکھتے ، جب تک آروں کے نیچے آکر ہم نہیں چیرے جاتے ، ہم اس انعام کے مستحق نہیں ہو سکتے.جماعت کے ہر آدمی پر ایک جنون سا ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ جو بوجھ خدا تعالیٰ نے اس کے کندھوں پر ڈالا ہے، وہ اسے پورا کرے.( مطبوعه روزنامه الفضل 18 ستمبر 1948ء) 51
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 24 ستمبر 1948ء حقیقی فتح کیلئے ضروری ہے کہ قوم کی کئی نسلیں حقیقی ایثار و اخلاق کا نمونہ دکھا ئیں خطبہ جمعہ فرمودہ 24 ستمبر 1948ء چند ماہ ہوئے ، میں نے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ یہ ایسا زمانہ نہیں جس میں مالی قربانی کی کوئی ضرورت نہ ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں نے پچھلے دنوں جماعت میں یہ تحریک کی تھی اور اس پر زور دیا تھا کہ جماعت جانی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور نمایاں حصہ لے.جانی قربانی ہی ہے، جس سے گزشتہ خدائی سلسلے مضبوط ہوتے آئے ہیں اور جانی قربانی ہی ہے، جس کی وجہ سے ان کی جڑیں پاتال تک پہنچ گئی تھیں.مگر ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ایسا زمانہ ہے، جس میں دشمن کا مقابلہ صرف جانی قربانی سے ہی نہیں کیا جاسکتا، جب تک ہمارے پاس مال نہ ہو.اور جب تک ہم انہی ہتھیاروں سے کام نہ لیں جن سے دشمن کام لے رہا ہے، اس وقت تک ہم اس کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے.تبلیغ کو ہی لے لو، فرض کرو ایک جگہ پر کوئی فتنہ کھڑا ہو جاتا ہے.اس کی وجہ سے وہاں کی جماعت کے کو مرکز سے امداد کی ضرورت ہوتی ہے.ہم نے وہاں ایک مبلغ بھجوانا ہے یا دو چار مبلغ بھجوانے ہیں.ہم ان مبلغوں سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ سلسلہ پر بار نہ بنیں بلکہ فتنہ کی جگہ پر مفت پہنچیں.لیکن مبلغ کا ایمان اور اخلاص روپیہ پیدا نہیں کر سکتا.ایک مبلغ یہی کر سکتا ہے کہ وہ کہے، بہت اچھا میں ہوائی جہاز میں نہیں جاتا، ریل میں چلا جاتا ہوں.یا کہے میں سیکنڈ کلاس میں نہیں جاتا، انٹر میں چلا جاتا ہوں یا تھرڈ میں چلا جاتا ہوں.یا کہے میں ریل میں نہیں جاتا ، لاری میں چلا جاتا ہوں.یا کہے میں لاری میں نہیں جاتا، تانگے میں چلا جاتا ہوں.یا کہے میں تانگے میں نہیں جاتا، گھوڑے یا گدھے پر چلا جاتا ہوں.یا کہے میں گھوڑے یا گدھے پر نہیں جاتا، پیدل ہی چلا جاتا ہوں.مبلغ تو صرف یہی قربانی کر سکتا ہے.مگر وہ روپیہ پیدا نہیں کر سکتا.فرض کرو ہم یہاں بیٹھے ہیں اور بمبئی میں کوئی فتنہ پیدا ہو گیا ہے.وہاں کی جماعت ہمیں ایک تار بھیج دیتی ہے کہ یہاں دشمن علماء کی یلغار ہوگئی ہے، آپ ہماری امداد کریں اور مرکز سے مبلغ روانہ کریں.ہمارے پاس وہاں بھیجنے کے لئے مبلغ موجود ہیں.ہمارے پاس ایسے لوگ موجود ہیں، جو دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں پیش کر دیں.لیکن بمبئی یہاں سے ہزاروں میل دور ہے اور راستہ کے لئے 53
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 ستمبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد سوم کرامیہ اور دیگر اخراجات کی ضرورت ہے.اگر ہم اپنے مبلغوں کے لئے کسی سواری کا بندوبست نہ کر سکیں اور وہ وہاں پیدل جائیں تو لازماً وہ وہاں پانچ چھ مہینے میں پہنچیں گے.وہ لوگ قربانی تو کریں گے ، اپنی جان پیش تو کر دیں گے مگر کیا وہ مقصد جو ان کے سامنے ہوگا، پورا ہو جائے گا ؟ کیا وہ بمبئی کے احمدیوں کی امداد کے قابل ہو سکیں گے؟ یہ تو یقینی بات ہے کہ اگر وہ پیدل جائیں تو وہ بمبئی میں اتنے عرصہ کے بعد پہنچیں گے کہ وہاں کے لوگوں کو اس فتنہ کی یاد بھی بھول چکی ہوگی.وہ یہ جانتے بھی نہیں ہوں گے کہ یہ احمق یہاں کیوں آئے ہیں؟ یہاں ان کا کیا کام ہے؟ مولوی وہاں آئے اور چلے گئے.اگر جماعت کو خدا تعالیٰ نے فتح دی ہوگی تو کچھ نئے لوگ جماعت میں شامل ہو چکے ہوں گے اور اگر فتح نہیں دی تو کچھ لگ مرتد ہو چکے ہوں گے.اس وقت ہمارے مبلغ وہاں پہنچیں گے اور کہیں گے ، ہم غیر احمدی علماء سے بحث کرنے کے لئے آئے ہیں.کیا ان کا وہاں ایسے وقت میں جانا جبکہ فتنہ کی یاد بھی بھول چکی ہوگی ، جماعت کے لئے کسی فائدہ کا موجب ہو سکتا ہے؟ غرض ہماری جماعت کے لئے صرف جانی قربانی ہی کافی نہیں.بلکہ ہمارے لئے روپیہ کی بھی ضرورت ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ پہلے زمانے میں ایسا کیوں نہیں تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں دشمن بھی کسی جگہ اتنی جلدی نہیں پہنچ سکتا تھا.جتنی دیر میں کسی جگہ پر پہنچنے میں لگ جاتی تھی ، اتنی دیر دشمن کو بھی لگ جاتی تھی.اس زمانہ میں تو دشمن ہوائی جہاز ، ریل بالاری وغیرہ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.اور ان چیزوں کی مدد سے جس جگہ چاہے جلد پہنچ سکتا ہے.اگر ہمارا مبلغ پیدل جائے تو دشمن وہاں بہت عرصہ پہلے پہنچ چکا ہوگا.پچھلے زمانہ میں اگر دشمن گھوڑے یا گدھے پر سوار ہو کر کسی جگہ پر پہنچتا تھا تو اس کے مقابلہ کے لئے دوسرے لوگ بھی گھوڑے یا گدھے پر سوار ہو کر اس جگہ پہنچ جاتے تھے.پس پہلا زمانہ ایسا تھا کہ اس میں تبلیغ کرنے کے لئے زیادہ روپیہ کہ ضرورت نہیں ہوتی تھی.اس زمانہ کے حالات ایسے تھے کہ سفر بغیر روپیہ کے ہوسکتا تھا.مگر اس زمانہ میں سفر بغیر روپیہ کے نہیں ہوسکتا.فرض کرو ہمارے کسی مبلغ نے افریقہ یا امریکہ جانا ہے تو اس کے لئے جہاز کے کرائے اور دوسرے اخراجات کی ضرورت ہوگی.کوئی کہہ سکتا ہے لہ کیا پہلے زمانہ میں ایسا نہیں ہوتا تھا؟ ہم کہتے ہیں، پہلے تو امریکہ معلوم بھی نہیں تھا.جتنی دنیا اس وقت معلوم تھی ، وہ بغیر سمندر کے تھے اور سفر کے لئے جہاز یا کشتی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی.خشکی کا سفر پیدل یا گھوڑوں اور گدھوں وغیر پر ہوتا تھا.لیکن اس زمانہ میں سفر کرنے والا بعض اوقات سمندر میں سفر کرنے پر مجبور ہوتا ہے، جس کے لئے اسے کرایہ کی ضرورت ہوتی ہے.اس زمانہ میں آبادی اور دنیا کا تمدن ایسا تھا 54
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کہ معلوم دنیا کے ہر گوشہ میں بغیر جہاز یاستی پہنچا جا سکتا تھا اور ابال از خطبه جمعه فرموده 24 ستمبر 948 کے لئے روپیہ کہ ضرورت نہیں ہوتی تھی.مگر اب پہلے زمانہ کے تمدن اور اس زمانہ کے تمدن میں بہت فرق پیدا ہو چکا ہے.پھر اس زمانہ میں مہمان نوازی، انسانیت اور شرافت کا جزو سمجھی جاتی تھی.اس زمانہ میں اگر کوئی شخص کسی گاؤں میں چلا جاتا تھا تو خواہ وہ کسی کا واقف ہو یا نہ ہو ، سارے گاؤں کے لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے تھے اور اسے کہتے تھے کہ تم ہمارے ہاں مہمان ٹھہرو.جگہ جگہ سرا ئیں بنی ہوئیں تھیں.جن میں مسافروں کی رہائش کا مفت انتظام ہوتا تھا.کسی قسم کا خرچ نہیں آتا تھا.اگر کوئی ایسا قصبہ ہوتا، جس کے رہنے والوں میں مہمان نوازی کا جذ بہ نسبتا کم ہوتا تو پھر بھی مسافر کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی.قصبہ میں ایسی سرا ئیں بنی ہوئی ہوتی تھیں، جہاں چند آدمی بٹھائے ہوئے ہوتے تھے ، جو مسافر کی خدمت دو چار آنہ کے بدلے میں کر دیا کرتے تھے.باقی سرائے کا کوئی خرچ نہیں ہوتا تھا.اب بھی ہندوستان میں سڑک کے کناروں پر جگہ جگہ سرائیں بنی ہوئی نظر آتی ہیں.گواب ویران ہیں.ان میں سے بعض سرائیں امراء نے بنائی تھیں اور کچھ سرائیں خود حکومت نے بنائی تھی.لیکن اب تو ایسا رواج ہو گیا ہے کہ جو کوئی دوسرے شہر میں جاتا ہے ، وہ ہوٹل میں ٹھہرتا ہے.اور اس زمانہ میں معمولی سے معمولی اور ذلیل سے ذلیل ہوٹل بھی ایک روپیہ فی کس کرایہ کا ان سے لیتا ہے اور کھانے وغیرہ کے اخراجات اس کے علاوہ ہوتے ہیں.پھر خوراکیں بھی بدل گئی ہیں.پہلے زمانہ میں امیر سے امیر اور غریب سے غریب آدمی کی خوراک میں بہت کم فرق ہوتا تھا.لیکن اب بہت زیادہ فرق ہے.اس زمانہ میں ایک امیر سے امیر آدمی اور ایک غریب سے غریب آدمی بڑی آسانی کے ساتھ اکٹھا بیٹھ کر کھا سکتے تھے کیونکہ ان کی خوراکوں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا.مگر اب تو ایک امیر آدمی معمولی آدمی کے ساتھ تو کیا ایک درمیانے درجے کے آدمی کے ساتھ بھی اکٹھا بیٹھ کر کھانا کھانے سے گریز کرتا ہے.کیونکہ اس کی خوراک اس کے موافق نہیں.غرض تمدن کے فرق کی وجہ سے، ذرائع نقل و حرکت کے فرق کی وجہ سے اور اس فرق کی وجہ سے کہ اس زمانہ میں آبادیاں اس طور پر تھیں کہ ان میں بغیر سواری کے سفر کیا جا سکتا تھا تبلیغ بغیر پیسہ کے ہو جاتی تھی.مگر اب تبلیغ بغیر پیسہ کے نہیں ہو سکتی.قربانی کرنے والے تو آگے آجائیں گے، جانیں پیش کرنے والے بھی مل جائیں گے.لیکن یہ چیز اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتی، جب تک جانی قربانی کے ساتھ مالی قربانی بھی پیش نہ کی جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فتح نو جوانوں سے ہی ہوتی ہے.مگر جب تک پیسہ نہ ہو، ان کی قربانیوں سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا.الفضل میں دوستوں نے پڑھا ہوگا کہ مجھے ایک غیر احمدی فوجی افسر نے چٹھی لکھی تھی.جس 55
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 ستمبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم میں اس نے لکھا تھا کہ آپ جس رنگ میں تبلیغ کر رہے ہیں، وہ بے فائدہ ہے.آپ مبلغ تو باہر بھیج دیتے ہیں مگر انہیں کافی سامان نہیں دیتے.جس کی وجہ سے ان کی صحتیں برباد ہو جاتی ہیں اور وہ صیح طور پر کام نہیں کر سکتے.میں نے اس چیز کا خود تجربہ کیا ہے.میں دو، تین سال ملایا میں رہا ہوں اور آپ کے مبلغین کی حالت کو دیکھا ہے.میں باوجو د سلسلہ احمدیہ کی عظمت کو تسلیم کرنے کے اور اس کی تبلیغی مساعی سے متاثر ہونے کے ، یہ عرض کروں گا کہ آپ مبلغین کو اتنا کھانا ضرور دیں، جس سے وہ اپنی صحتوں کو قائم رکھ سکیں.یہ چٹھی ایک ایسے شخص نے لکھی ہے، جس کا احمدیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.گویا ایک غیر احمدی بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ہم مبلغین کو اتنا خرچ نہیں دے رہے، جو ان کی محنتوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے.غرض تبلیغ کے لیے روپیہ کی بھی ضرورت ہے.پھر تعلیم کا کام ہے، وہ بھی بغیر روپیہ کے نہیں ہو سکتا.پہلے زمانہ میں روپیہ کی بہت کم قیمت تھی.اس زمانہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ایک جگہ پر بیٹھ جاتا تھا اور وہ دوسروں کو پڑھا دیا کرتا تھا.وہ یہ کام مفت ہی کر دیا کرتا تھا.ہاں تعلیم حاصل کرنے والے اس کی تھوڑی بہت خدمت کر دیتے تھے.لیکن اس زمانہ میں اور اس زمانہ بہت فرق ہے.اس زمانہ میں اگر ایسے آدمی کی بیوی کسی مجلس میں چلی جاتی تھی اور اس کے پاس کپڑے اچھے نہیں ہوتے تھے تو اسے اس کا احساس نہیں ہوتا تھا.کیونکہ اس کے اور دوسری عورتوں کے کپڑوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امیر آدمی روپیہ سے اچھے لباس خرید سکتا ہے.لیکن اس وقت کپڑے ہوتے ہی نہیں تھے.اس زمانہ میں جو بھی کپڑے ہوتے تھے ، نہایت معمولی ہوتے تھے.بہر حال جب وہ عورت اپنے ہمسائیوں سے ملتی تھی تو اس میں احساس ذلت پیدا نہیں ہوتا تھا.وہ اپنے خاوند کے گلو گیر نہیں ہوتی تھی کہ اس نے اپنے علم کو ضائع کر دیا.مگر اب اتنا فرق پیدا ہو چکا ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کرے تو اس کے بیوی بچے اس کے گلے کا ہار بن جاتے ہیں کہ اس نے انہیں ذلیل کروا دیا ہے.وہ دوسروں میں ادنی سمجھے جاتے ہیں.خدا نے اسے علم دیا ہے، اگر وہ آمدن پیدا کرتا تو وہ بھی دوسروں کے شانہ بشانہ بیٹھ سکتا تھا اور ہمیں بھی بٹھا سکتا تھا.یہی حال باقی کاموں کا ہے.میں نے جماعت کے دوستوں سے خصوصیت سے کہا تھا کہ ہم قادیان میں سلسلہ کی ساری جائیدادیں چھوڑ آئیں ہیں، اس لئے ان دنوں سلسلہ کو زیادہ امداد کی ضرورت ہے.پھر ہم صرف سامان اور جائیداد میں ہی نہیں چھوڑ آئے بلکہ جماعت کے لاکھوں آدمی ایسے ہیں، جو گزشتہ فسادات کی وجہ سے سلسلہ کی اتنی مددنہیں کر سکتے جتنی وہ پہلے کر سکتے تھے.پس یہ زمانہ ایسا ہے، جس میں ہمیں زیادہ قربانیاں کرنی ہوں گی.56
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 ستمبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم تحریک جدید کے متعلق بھی میں نے دیکھا ہے کہ سال میں سے نو مہینے گزر چکے ہیں بلکہ ساڑھے نو مہینے گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک دو تہائی چندہ بھی نہیں آیا.سال میں سے ساڑھے نو مہینے گزرنے کے باوجود بھی تحریک جدید کا چندہ سات ماہ کے چندہ سے کم رہا ہے.یہ بھی نہایت افسوس ناک امر ہے.بلکہ دور دوم ، جو کہ نو جوانوں کا دور ہے، جن کے متعلق ہم یقین رکھتے تھے کہ وہ دور اول میں حصہ لینے والے بوڑھوں سے زیادہ تیز چلنے والے ہوں گے، اس کا یہ حال ہے کہ لاکھوں روپے کے وعدے وصولی کے قابل پڑے ہیں.یہ تو ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کام بہر حال پورا ہوگا.مگر یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ قوم کی آئندہ نسل اور پود بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے جارہی ہے.اور یہ نہایت ہی خطرناک بات ہے.ہر قوم کی نسل کو آگے بڑھنا چاہئے.جس قوم کی نسل ایمان، ایثار اور قربانی میں پہلوں سے آگے نہیں بڑھتی ، وہ قوم جیتا نہیں کرتی.قوموں کی جنگ دو، تین سو سال تک رہتی ہے.اور جب تک کسی قوم کی پندرہ ، ہیں نسلیں اپنے پہلوؤں سے آگے نہ بڑھتی جائیں، اس جنگ کا کامیاب فیصلہ نہیں ہو سکتا.فرد واحد کی جنگ 30-25 سال تک ہوتی ہے.مگر قوموں کی جنگ لمبی ہوتی ہے اور اس کے لیے زیادہ قربانی اور ایثار کی ضرورت ہوتی ہے.ظاہری طور پر جو ہم نے فتح حاصل کی ہے کہ جماعت ایک سے لاکھوں ہوگئی ہے، ظاہری طور پر جو ہم نے فتح حاصل کی ہے کہ ہمارا دس روپے سے لاکھوں روپیہ کا بجٹ ہو گیا ہے، ظاہری طور پر جو ہم نے فتح حاصل کی ہے کہ ہماری جماعت کے افراد ادنی عہدوں سے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے ہیں، ظاہری طور پر جو ہم نے فتح حاصل کی ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان تعلیم میں پہلے سے زیادہ ترقی کر گئے ہیں، ظاہری طور پر جو ہم نے فتح حاصل کی ہے کہ ہمارے مشن اب ساری دنیا میں قائم ہو گئے ہیں، یہ تو اک نسبتی فتح ہے، حقیقی فتح نہیں.در حقیقت نہ ہم نے افراد میں ترقی کی ہے، نہ اموال میں ترقی کی ہے اور نہ ہی تبلیغ میں ترقی کی ہے.کیونکہ ہماری ترقی نسبتی ترقی ہے، اس لئے ہماری خوشی اور اطمینان کا موجب نہیں ہو سکتی.ہمارے لئے خوشی اور اطمینان کا موجب نہیں ہو سکتی.ہماری آخری جنگ کے دن قریب ہیں اور اس میں ہم اس وقت تک فتح کی امید نہیں کر سکتے ، جب تک ہمارے نوجوان ہم سے زیادہ ایثار کا نمونہ نہ دکھائیں.بلکہ ہم تب بھی فتح کی امید نہیں کر سکتے ، جب تک ان سے اگلی نسل بھی زیادہ ایثار کا نمونہ نہ دکھائے.اگر کسی قوم کی کم از کم بارہ نسلیں حقیقی ایثار کا نمونہ نہیں دکھاتیں حقیقی اخلاق کا نمونہ نہیں دکھا ئیں تو اس قوم کوحقیقی فتح حاصل نہیں ہو سکتی.ہماری جماعت کے ابھی بچپن کے دن ہیں، بڑھاپے کے دن تو ابھی دور ہیں.ہمارے بعد نو جوانوں نے ہی اسلام کے 57
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 ستمبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم جھنڈے کو بلند رکھنا ہے.انہیں چاہیے کہ وہ اخلاص اور ایثار میں ہم سے زیادہ ہوں علم دین میں ہم سے زیادہ ہوں، عبادت کی رغبت میں ہم سے زیادہ ہوں.جماعت کی آئندہ ترقی کی ذمہ داری ہم پر نہیں، آپ نو جوانوں پر ہے.اس جنگ میں فتح حاصل کرنا آپ کے ذمہ ہے.جب تک آپ ہم سے زیادہ قربانی اور ایثار کا نمونہ نہیں دکھاتے ، احمدیت کو فتح حاصل نہیں ہوسکتی.یا یوں کہو کہ احمدیت کو تو فتح حاصل ہو گی مگر آپ اس سے محروم رہ جائیں گے.پس آپ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں، اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں.اور قربانی اور ایثار کا وہ نمونہ پیش کریں، جسے دیکھ کر پہلے لوگ شرمندہ ہوں.بجائے اس کے کہ وہ کہیں، افسوس تم ہماری اچھی نسل نہیں ہو، وہ یہ کہیں کہ کاش ہم کو بھی ایسی قربانی کی توفیق ملتی.یہ وہ معیار ہے، جس کو پورا کرنے سے احمدیت غالب آ سکتی ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 06اکتوبر 1948ء) 58
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبه عید الاضحیہ فرموده 14 اکتوبر 1948ء کوئی قومی ترقی بغیر اولاد کی قربانی کے نہیں ہوسکتی خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ 14 اکتوبر 1948ء 194814 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی، ایک رؤیا کی بنا پر، ایک ارشاد الہی کی بنا پر.اور خدا نے ان کے اس فعل کو پسند فرما کر حکم دیا کہ تم بکرے کی قربانی کرو، بیٹے کی قربانی نہ کرو.میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو یہ دکھائی دیا تھا کہ اپنے بیٹے کو قربان کر رہے ہیں، اس کی کیا تعبیر تھی؟ میں بار ہا تا چکا ہوں کہ بیٹے کی قربانی کا یہ مطلب نہیں تھا کہ چھری لے کر اپنے بیٹے کو ذبح کر دو.بلکہ مطلب یہ تھا کہ دین کی خدمت کے لئے اپنے میٹے کو وقف کر دو.دنیوی ترقیات کے رستہ کو چھوڑ دینا، دنیوی عزتوں پر لات مار دینا اور دنیوی کامیابیوں کے حصول کے تمام ذرائع کو نظر انداز کر دینا، ایک بہت بڑی موت ہوتی ہے.جو بسا اوقات دوسری موت سے زیادہ سخت معلوم ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ دوسری موت کو تو قبول کر لیتے ہیں لیکن اس کا موت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.کیونکہ اس میں احساس اذیت بہت لمبا ہوتا ہے.اور ایک لمبے عرصہ تک انسان کو تکالیف میں مبتلا رہنا پڑتا ہے." یہ عید اس خوشی میں منائی جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی خدا تعالی کی راہ میں پیش کی.لیکن ہماری یہ حالت ہے کہ ہم ان کے دنبہ کی قربانی کو تو یا در رکھتے ہیں لیکن ہمارا ذہن اس طرف بالکل نہیں جاتا کہ ہم کس چیز کی یاد مناتے ہیں اور کس چیز کی یاد بھلاتے ہیں؟ حضرت ابراہیم کی دوقربانیاں تھیں.ایک وہ قربانی ، جو انہوں نے اپنے بیٹے کی کی اور ایک وہ قربانی، جو انہوں نے بکرے کی کی.بکرے کی قربانی محض یادگار کے طور پر تھی تا کہ جو حقیقی قربانی انہوں نے پیش کی تھی ، اس کی ایک ظاہری شکل بھی پیدا کر دی جائے.اصل قربانی ان کی یہی تھی کہ انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع.میں نے اپنی نسل کو خدائے واحد کی یاد اور اس کے ذکر کے لئے ایک ایسی جگہ بسا دیا ہے، جہاں دنیوی آمد کا کوئی ذریعہ نہیں اور جہاں کی زندگی دنیوی مال ومتاع کے کمانے میں محمد نہیں ہوسکتی.یہ قربانی تھی، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی.59
اقتباس از خطبه عید الاضحیہ فرمودہ 14 اکتوبر 1948ء " تحریک جدید - ایک الہی تحریک حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دوھل کئے تھے.ایک انہوں نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی تھی اور دوسرے اس کی یاد میں انہوں نے بکرے کی قربانی پیش کی.مگر آج کے دن مسلمان کیا کرتے ہیں؟ وہ بکرے کی قربانی تو پیش کرتے ہیں لیکن بیٹے کی قربانی بھول جاتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ کوئی نسل اور کوئی قوم اور کوئی خاندان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا، جب تک وہ اپنی اولاد کی قربانی پیش نہ کرے.جس طرح کوئی زمیندار اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا ، جب تک وہ اپنے حاصل شدہ غلہ کی قربانی نہ کرے.زمیندار ہل چلاتا ، زمین کو نرم اور ہموار کرتا اور پھر بطور یج اپنا وہ غلہ زمین میں ڈالتا ہے، جو کما کر وہ اپنے گھر میں لا چکا ہوتا ہے.اس امید پر کہ اس کے ہاں موہوم غلہ پیدا ہو گا.جو چیز وہ زمین میں ڈالتا ہے، وہ یقینی اور قطعی ہوتی ہے.اور جو چیز پیدا ہونے والی ہوتی ہے، وہ وہی ہوتی ہے.مگر کامیاب وہی زمیندار ہوتا ہے، جو ایک وہمی چیز کے لئے اپنی حاضر چیز قربان کر دیتا ہے.جو زمیندار اس بات کے لئے تیار نہیں ہوتا کہ اپنے حاضر غلہ کو موہوم غلہ کے لئے قربان کر دے، وہ خود بھی آئندہ ترقی سے محروم رہتا ہے اور اپنے ملک کو بھی آئندہ ترقی سے محروم رکھتا ہے.اسی طرح اگر کوئی قوم یہ بجھتی ہے کہ اس کی اولاد کی حاضر زندگی زیادہ قیمتی ہے اور وہ اپنی اولا د کو آئندہ کی زندگی کے حصول کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی.وہ بھی اسی طرح تباہ ہو جاتی ہے، جس طرح وہ زمیندار تباہ ہو ہو جاتا ہے، جو اپنے حاضر غلہ کو محفوظ رکھتا ہے اور غائب غلہ کو نظر انداز کر دیتا ہے." بہر حال اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی اس قربانی کی یادگار میں کہ وہ اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے ، بکرے کو رکھا تھا.مگر ہم تمثیل کو قبول کرتے ہیں اور حقیقت کو رد کرتے ہیں.ہماری زندگیاں گزرتی چلی جاتی ہیں، ہماری اولادوں کی زندگیاں گزرتی چلی جاتی ہیں، ہمارے بھائیوں کی زندگیاں گزرتی چلی جاتی ہیں، ہمارے ہمسایوں کی زندگیاں گزرتی چلی جاتی ہیں، مگر ہم میں سے کوئی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی پیش نہیں کرتا.لیکن ہم میں سے ہر شخص ابراہیم کے بکرے میں سے گوشت کھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے“." ہماری جماعت کو بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا قربانی کے لحاظ سے اس کے افراد کے اندر وہ نسبت پائی جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رکھنے والی ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو یہ کتنے بڑے خوف کا مقام ہے کہ وہ دعوئی تو ایمان کا کرتے ہیں اور عمل وہ کرتے ہیں، جو ایمان کے خلاف ہوتا ہے....پھر اب ایک اور وادی غیر ذی زرع اس رنگ میں بھی ہمارے سامنے ہے کہ ہم مرکز سلسلہ کے لئے ایک نئی بستی اسی قسم کے مقام پر بسا رہے ہیں.یہ بستی بھی اسی لئے بسائی جارہی ہے کہ بد 60
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبہ عید الاضحیه فرموده 14 اکتوبر 1948ء ماحول اور برے خیالات سے الگ ہو کر ہماری جماعت کے افراد دین کی تعلیم حاصل کریں اور پھر اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں.یہ ایک چھوٹی قربانی ہے، جس کے ذریعے جماعت کے افراد اپنے اخلاص کا ثبوت دے سکتے ہیں اور دیں گے.مگر عملاً وہی ثبوت دیں گے، جو اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ ہمارا اس وادی غیر ذی زرع میں رہنا صرف اس غرض کے لئے ہے کہ ہم دین کی اشاعت کریں.اس کے بغیر اگر وہاں رہیں گے تو انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا.بہر حال میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ کوئی قومی ترقی بغیر اولاد کی قربانی کے نہیں ہو سکتی.جو قوم یہ چاہتی ہے کہ وہ ترقی یافتہ قوموں کی صفوں میں جا کھڑی ہو اور پھر وہ اپنی اولاد کی قربانی سے دریغ کرتی ہے، وہ ایک ناممکن بات کا قصد کرتی ہے اور اپنے وقت کو ضائع کرتی ہے.گری ہوئی تو میں تبھی بڑھتی ہیں اور تبھی وہ ترقی یافتہ قوموں کی صفوں میں اپنا رستہ بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں، جب وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنی اولادوں کو وادی غیر ذی زرع میں رکھنے اور خدا کے لئے انہیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.جب وہ مرنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں، جب وہ اپنی اولادوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت اس وقت کی زندہ قوموں کی زندہ نسلیں مرجاتی ہیں.یہ قانون قدرت ہے، جس کا ہر جگہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے.بوڑھا درخت مرتا ہے اور نیا درخت ترقی کرتا ہے.پس دنیوی لحاظ سے بھی ترقی کی یہی راہ ہے کہ اپنی اولادوں کو قربان کیا جائے.اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ یورپ کے لوگوں پر غلبہ حاصل کریں تو انہیں اپنی اولادوں کو قربان کرنا پڑے گا ، انہیں تعیش کے سامانوں کو اپنے لئے حرام کرنا پڑے گا.یہ موت ہے، جو انہیں قبول کرنی پڑے گی.اس موت کے دروازہ سے زندگی ملتی ہے.اور اسی دروازہ میں سے گزر کر گری ہوئی تو میں دنیا پر غالب آیا کرتی ہیں.اگر آج مسلمان اپنی زندگیوں کو سادہ بنالیں اور اپنی جانوں اور اپنی اولادوں کی جانوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جا ئیں تو اب بھی کچھ نہیں گیا.جس وقت عیسائیت بڑھنی شروع ہوئی ہے، اس وقت اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کی جو حالت تھی، آج عیسائیت کی ترقی کے زمانہ میں مسلمانوں کی حالت اس سے بدرجہ ہا اچھی ہے.اگر عیسائیت ہم سے کمزور ہو کر ساری دنیا پر غالب آ سکتی ہے تو مسلمان ساری دنیا پر کیوں غالب نہیں آ سکتے ؟ اگر وہ اپنے نفس میں تغیر پیدا کریں، اگر وہ اپنی اولادوں کو شیطان کے قبضہ میں دینے کی بجائے خدا تعالیٰ کے قبضہ میں دے دیں تو یقینا اسلام کفر پر غالب آسکتا ہے.یقینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حکومت آج بھی ساری دنیا پر قائم ہوسکتی ہے.61
اقتباس از خطبه عیدالاضحیه فرموده 14 اکتوبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دلوں کے زنگ دور کرے اور ان کی آنکھوں کو کھوئے.ان کی غفلتوں اور کوتاہیوں کو دور کرے اور انہیں صحیح طور پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.تا جس طرح وادی غیر ذی زرع میں بسنے والے اسماعیل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک نورانی چراغ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صورت میں روشن کیا، جس سے تمام دنیا جگمگا اٹھی ، اسی طرح خدا محمدیت کے باغ میں سے ایک نیا پودا پھوڑے، جو ساری دنیا کو اسلام اور صداقت کی طرف کھینچ لانے کا موجب ہو.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ پودا خدا نے پیدا کر دیا ہے.کاش مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ سمجھیں کہ آج سوائے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کے ان کی نجات کی کوئی صورت نہیں.اور اس شخص کے ہاتھ پر تمام دنیا کے لوگ اکٹھے ہو سکتے ہیں، جسے خدا نے کھڑا کیا ہو.کوئی انسانی ہاتھ ساری دنیا کومتحد نہیں کر سکتا.عرب عراق کے ہاتھ پر جمع نہیں ہو سکتا.عراق، سعودی عربیہ کے ہاتھ پر جمع نہیں ہوسکتا.مصر، شام کے ہاتھ پر اکٹھا نہیں ہوسکتا اور یہ عربی علاقے پاکستان کے ہاتھ پر اکٹھے نہیں ہو سکتے اور پاکستان ان کی اتباع نہیں کر سکتا.ہر شخص کو اپنی آزادی پیاری ہوتی ہے.کون ہے، جو دوسرے کے لئے اپنی آزادی قربان کر دے؟ اسی کے لئے اپنی آزادی قربان کی جاسکتی ہے، جس کے متعلق انسان کو یہ یقین ہو کہ اس کا ہاتھ انسان کا ہاتھ نہیں بلکہ خدا کا ہاتھ ہے.ابھی تھوڑے دن ہوئے ایک جرمن نو مسلم کا خط میرے نام آیا.جو بڑے اخلاص اور محبت کے ساتھ لکھا ہوا تھا.میں نے اسے جواب میں لکھا کہ کیا یہ ممکن تھا کہ جرمن کے لوگ ہندوستانیوں کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتے ؟ یہ خدا کا ہاتھ ہی ہے، جو تمہیں ہندوستان میں رہنے والے ایک شخص کی طرف کھینچ لایا.ورنہ وہ لوگ جو ایشیا اور ہندوستان میں رہنے والوں کو ذلیل سمجھا کرتے تھے، ان سے یہ کب امید ہو سکتی تھی کہ وہ ان کی اطاعت کریں گے؟ یہ خدا کے ہاتھ کی ہی برکت ہے کہ اسی ہاتھ پر سب دنیا جمع ہو گی اور اسی سے ساری دنیا ایک دن عدل وانصاف سے بھر جائے گی.اب میں دعا کر دیتا ہوں ، سب دوست میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو حقیقی طور پر ابراہیم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور باقی مسلمانوں کی بھی آنکھیں کھولے.تاوہ اپنے اس فرض کو پہچانیں، جو ان پر عائد ہوتا ہے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ نور، جو آج دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے اور جس کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ذریعہ سے پھر ظاہر ہو، اس میں وہ اپنی غفلتوں اور سستیوں سے روک نہ بنیں.بلکہ اس جماعت میں شریک ہو کر اللہ تعالیٰ کے نور کے پھیلانے میں ممد ہوں.تا جلد سے جلد اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور وہ اس دنیا کی حالت کو بدل دے.مطبوعه روزنامه الفضل 08 مارچ 1949ء) 62
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء تحریک قرآنی پیشگوئی کے تحت جنت کے بدلہ مال اور جان کا مطالبہ کرتی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تحریک جدید کے چودھویں سال کی تحریک پر ایک سال گزر چکا ہے اور اب نیا سال آگیا ہے.جس میں کہ تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کے لئے پندرھویں سال کا وعدہ کرنا ہے.اس لئے آج میں دور اول کے دوستوں کو پندرھویں سال کے وعدوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.جیسا کہ احباب کو معلوم ہے تحریک جدید کے ذمہ ہندوستان سے باہر کی تبلیغ کے سارے کام ہیں.اور مبلغین کی تیاری اور واقفین کی تیاری کا کام بھی اس کے ذمہ ہے.اس کے علاوہ بعض اور کام ، جو صدر انجمن احمدیہ کو کرنے چاہئے تھے لیکن اس نے نہیں کئے یا وہ ان کی طرف توجہ نہیں کر سکی ، وہ بھی اسی کے ماتحت آگئے ہیں.مثلاً سائنٹیفک ریسرچ صنعت و حرفت کا محکمہ ہے، تجارت کا محکمہ ہے اور ان کے ذریعہ گو بہت آہستہ آہستہ مگر کچھ نہ کچھ ترقی کی صورت پیدا ہو رہی ہے.اس طرح تحریک جدید کے ذریعہ سے بیرونجات کے مشن خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ترقی کر چکے ہیں.بہت سی نئی جگہوں میں تبلیغ کا کام شروع ہو چکا ہے اور بہت سی پہلی جگہوں میں کام پہلے سے زیادہ وسیع ہو چکا ہے.تحریک جدید کے شروع ہونے سے پہلے ایران میں ہمارا کوئی مبلغ نہیں تھا.لیکن اس وقت وہاں ہمارے دو مبلغ کام کر رہے ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ ایران میں ، جہاں ہمارے خاندان یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کا درمیانہ قدم پڑا تھا، ہمارا خاندان بخارا سے نکل کر پہلے ایران میں بسا اور وہاں سے پھر ہندوستان آیا تھا.مشن قائم ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں.لیکن اس وقت تک وہاں ایک بھی احمدی نہیں ہوا.تحریک ضرور ہے اور کچھ لوگوں سے آہستہ آہستہ تعلقات بھی پیدا ہور ہے ہیں لیکن ابھی تک وہاں احمدیت پھیل نہیں سکی.اور یہی ایک ایسا ملک ہے، جہاں باوجود اس کے کہ ہمارے مبلغ پانچ سال سے جاچکے ہیں لیکن پھر بھی وہاں کوئی مقامی احمدی نہیں ہوا.تحریک جدید کے ماتحت دوسرامشن، جو قائم ہوا یا یوں کہو کہ دوسرامشن، جسے تقویت حاصل ہوئی ، مشن وہاں پہلے سے ہی قائم تھا مگر اب وہاں مبلغ زیادہ ہو گئے ہیں اور کام زیادہ ہور ہے ہیں، وہ فلسطین کا 63
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم علاقہ ہے.وہاں پہلے بھی کام کافی ہو ہاتھ مگر تحریک جدید کے ذریعہ کام اور بھی زیادہ بڑھ گیا.پہلے وہاں حیفہ میں جماعت تھی یا اس کے پاس پہاڑی پر جماعت رہتی تھی.لیکن بعد میں آہستہ آہستہ اردگرد کے علاقوں میں پھیلی.یہ حالت بھی تباہی سے پہلے تھی ، جواب وہاں آئی ہے.مشرقی پنجاب پر جیسے تباہی آئی، ویسے ہی یہودیوں کے حملہ کی وجہ سے فلسطین پر آئی ہے.اور خطر ناک جگہ وہی تھی ، جہاں ہماری جماعت تھی.حیفہ کا کچھ حصہ فسادات سے پہلے ہی مشن چلا گیا تھا، باقیوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں آئی.چوہدری محمد شریف صاحب نے ، جو وہاں کے مشنری انچارج تھے، وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے کام کیا اور اپنا ایک مبلغ شرق اردن بھجوادیا اور اسے ہدایت کی کہ پتہ نہیں ہمارا کیا حال ہو؟ تم وہاں جا کر نیا مرکز بنانے کی کوشش کروں.گویا انہوں نے وہی تدبیر اختیار کی ، جو ہم نے قادیان سے نکلنے کے وقت اختیار کی تھی.اور اپنا ایک ساتھی شرق اردن میں بھجوا دیا.اسے گئے ہوئے سات آٹھ ماہ ہو گئے ہیں یا سال بھر کے قریب ہو گیا ہے لیکن ابھی تک وہاں جماعت قائم نہیں ہوئی ، جماعت کا اثر ورسوخ پیدا ہورہا ہے.شام میں کسی وقت ہمارے مبلغ گئے تھے لیکن کافی عرصہ سے یہ میدان خالی پڑا تھا.تحریک جدید کے ماتحت شیخ نوراحمد صاحب کو وہاں بھیجا گیا.ان کے ذریعہ جماعت میں ایک خاص بیداری پیدا ہو رہی ہے.وہاں کے دوست منیر الحصنی صاحب مقامی احمدی ہیں، جو کہ نہایت ہی مخلص اور اچھے تعلیم یافتہ ہیں.انہوں نے یورپ میں فرانس وغیرہ میں تعلیم حاصل کی ہے.وہ آسودہ حال اور تاجر ہیں.ان کے چھوٹے بھائی دمشق کے سب سے بڑے تاجر ہیں اور ان کے بھائی کی قاہرہ (مصر) میں ایک بڑی دکان ہے.ان کے خاندان کے سب افراد احمدی ہو گئے ہیں اور بہت مخلص اور قربانی کرنے والے لوگ ہیں.ہمارے مبلغ کے وہاں جانے کی وجہ سے اور برادر منیر الحصنی صاحب کے قادیان میں رہ جانے کی وجہ سے، وہاں کی جماعت میں ایک خاص احساس اور بیداری پیدا ہو چکی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا اثر پیدا ہوا ہے.عجیب بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے خلاف یہاں تعلیم یافتہ اور با اثر لوگوں میں تبلیغ کا زور بڑھ رہا ہے.یہ شام وہی ہے، جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے الہام فرمایا تھا کہ يَدْعُوْنَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ شام کے ابدال تیرے لیے دعا کرتے ہیں.اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شام کی جماعت اس وقت قائم ہوگی جبکہ جماعت احمدیہ پر ایک ابتلاء آنے والا ہے.عجیب بات یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں اور قریب ہی کے عرصہ میں پنجاب اور فلسطین میں، جس میں سب سے پہلے بڑی جماعت قائم ہوئی تھی ، ، قائم 64
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء تباہی آئی.تحریک جدید کے ماتحت دو واقف زندگی وہاں گئے.گو وہاں پہلے جماعت موجود تھی لیکن ان کے ذریعہ اس کا سلسلہ کے ساتھ گہرا تعلق پیدا ہو گیا.پھرابی سینیا کا علاقہ ہے.یہ وہ ملک ہے، جہاں مسلمان شروع میں ہجرت کر کے گئے.اس ملک میں بھی تحریک کے ماتحت ایک واقف زندگی گئے اور انہوں نے وہاں جماعت قائم کی.اس جگہ جماعت میں نئے احمدی بھی داخل ہو رہے ہیں.اور بعض افراد نے کہا تھا کہ وہ قادیان میں دینی تعلیم حاصل کرنے جائیں گے.اس طرح تحریک جدید کے ماتحت مشرقی افریقہ میں کئی مشن قائم کئے گئے ہیں اور اس وقت وہاں غالباً دس مبلغ کام کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اب حبشی لوگوں میں تبلیغ شروع ہو گئی ہے اور ان لوگوں کو، جو پہلے عیسائی ہو گئے تھے، واپس لایا جارہا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے یوگنڈا، کینیا، ٹا نگانیکا تینوں جگہوں پر بڑے زور کے ساتھ تبلیغ جاری ہے.آگے سے زیادہ جماعتیں قائم ہو چکی ہیں، جماعت پھیل گئی ہے، نئی مساجد بنائی گئی ہیں اور حکومت بھی تعاون کر رہی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی اچھی بنیاد قائم ہوگئی ہے.پھر تحریک جدید کی کوشش سے مغربی افریقہ میں مشن بہت زیادہ پھیل چکے ہیں.وہاں پہلے تو ہمارے دو ہی مبلغ ہوا کرتے تھے لیکن اب وہاں مرکز سے بھیجے ہوئے اور مقامی دو درجن کے قریب مبلغ ہیں.اور جماعت کے بہت سے سکول چل رہے ہیں.تجارتی محکمہ بھی قائم کیا گیا ہے.اگر چہ وہ ابتدائی حالت میں ہی ہے لیکن جو رپورٹ وہاں سے آئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کامیابی ہو رہی ہے.وہاں کے حالات کو دیکھ کر، جو کی تعلیم کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں تحریک جدید نے اپنا ایک آدمی کئی سالوں سے انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا ہوا ہے تا وہ وہاں سے تعلیمی ڈگری بھی حاصل کر لے اور Ph.D کی بھی.پھر وہاں ایک کالج کھولا جائے گا.دو گر یجوایٹ یہاں سے بھیجے جارہے ہیں.اس طرح اس ملک میں اپنا احمد یہ کالج کھول کر تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے دین کا راستہ کھول دیا جائے گا.اسی طرح وہاں زمیندارہ اسٹیٹس کے لیے بھی کوشش کی جارہی ہے اور رؤسا کے ذریعہ، جو احمدی ہو گئے ہیں، ایگریکلچلر اسٹیٹس بنا کر ان کی آمدن سے کام چلایا جائے گا.انگلستان میں دیر سے مشن قائم ہے.لیکن تحریک جدید کے ماتحت اب وہاں بجائے ایک مبلغ کے ایک وقت میں پانچ مبلغ رہتے ہیں.اس وقت بھی وہاں چھ مبلغ ہیں.جن میں سے ایک انگریز ہے، 65
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم جس نے دین کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے اور نہایت مخلص اور نیک ہے.اسی طرح ہمارے مشر ہسپانیہ میں ، فرانس میں ، سوئٹزر لینڈ میں ، ہالینڈ میں، جرمنی میں قائم ہیں.اٹلی میں ہمارا مشن تھا مگر فی الحال اسے وہاں سے ہٹالیا گیا ہے.کیونکہ جس قابلیت کے آدمی وہاں چاہیے تھے، ویسے آدمی وہاں نہیں بھیجے گئے.لیکن آہستہ آہستہ جیسے جیسے اس قابلیت کے لوگ تیار ہوں گے، وہاں بھجوائے جائیں گئے.ہسپانیہ کے مبلغ نے بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے.جب سلسلہ کی مشکلات بڑھیں اور ان نقصانات کے بعد، جو مشرقی پنجاب میں ہوئے ہیں، ہم مجبور ہو گئے کہ وہاں سے مشن ہٹالیں اور اسے بتایا گیا تو اس نے لکھا کہ مجھے واپس نہ بلایا جائے بلکہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں اپنے گزارہ سے یہاں کام کروں.چنانچہ اس نے پھیری کا کام کر کے گزارہ کیا اور نہ صرف گزارہ کیا بلکہ اس نے ایک کافی رقم جمع کر کے میرے لیکچر اسلام کا اقتصادی نظام کا ترجمہ کر کے شائع کیا ہے.دواڑھائی ہزار روپیہ کے قریب اس پر خرچ آیا ہے اور اب وہ اس فکر میں ہے کہ وہ اسی طرح کام کو وسیع کرے.فرانس میں بھی مبلغ بھیجے گئے مگر کامیابی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی.وہاں کے بھی مبلغ کو، جو لاہور کے ہی ہیں، کہا گیا کہ تم واپس آجاؤ تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ مجھے واپس نہ بلایا جائے.میں یہاں اپنی کمائی سے کام کروں گا.انہیں وہاں چھوڑ دیا گیا اور انہیں اپنے خرچ پر کام کرنے کی اجازت دی گئی.اب وہاں بھی کام شروع ہو گیا ہے.ان کی تار آئی ہے کہ اب وہاں بھی جلسوں اور تقریروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے.پریس اور دوسرے لوگ بھی توجہ کر رہے ہیں.آج ہی اطلاع ملی ہے کہ وہاں ایک سوسائٹی نے اقرار کیا ہے کہ اگر الہام کے متعلق مضامین لکھے جائیں گئے تو وہ خود بھی ان کی اشاعت میں مدد کرے گی.سوئٹزر لینڈ کا علاقہ پرانا پروٹسٹنٹ علاقہ ہے اور مذہبی تعصب کی خاص جگہ ہے.جب ہمارے مبلغ وہاں گئے تو انہیں چیلنج دیا گیا تھا کہ دنیا کے ہر طبقہ میں اسلام پھیل سکتا ہے مگر اس جگہ نہیں پھیل سکتا.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں بھی ایک دواحمدی ہو چکے ہیں اور لوگوں کی توجہ بڑھتی جارہی ہے.ہالینڈ میں سب سے زیادہ کامیابی ہوئی ہے.وہاں جو احمدی ہوئے ہیں، وہ تعلیم یافتہ ہیں.سلسلہ کی تبلیغ بڑھتی جارہی ہے.اس کے بعد جرمن کا علاقہ ہے.وہاں ہمبرگ کے دس احمدی ہوئے ہیں اور ایک برلن میں.وہ اکثر تعلیم یافتہ لوگ ہیں.ان میں سے ایک نے اپنی زندگی دین کے لیے وقف کر دی ہے اور بڑی جدو جہد کے بعد وہ وہاں سے چل کر دینی تعلیم کے لئے انگلینڈ پہنچ گیا ہے.اور امید ہے کہ دسمبر کے آخر میں وہ پاکستان پہنچ جائے گا.وہ فوجی افسر ہیں اور ان کا منشا ہے کہ دینی تعلیم حاصل کر کے اپنے 66
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء ملک میں یا جہاں انہیں مقرر کیا جائے تبلیغ کریں.اسی طرح دو اور افراد کی طرف سے بھی ہالینڈ اور جرمن سے وقف زندگی کے لیے درخواستیں آئی ہیں اور ہم ان پر غور کر رہے ہیں.اگر فیصلہ ہو گیا تو وہ بھی اپنا نام خدمت دین کے لیے پیش کر دیں گے.یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ میں پہلے ہمارا ایک مبلغ ہوا کرتا تھا، اب ہمارے وہاں تین مبلغ تھے، جن میں سے ایک فوت ہو گیا ہے.اس کی جگہ وہاں ہم ایک اور مبلغ بھجوا رہے ہیں.وہاں کی جماعت بہت منظم ہوتی چلی جاتی ہے.وہاں کی جماعت کا سب قسم کا چندہ اب تمیں چالیس ہزار تک پہنچتا ہے.ظاہری طور پر یہ کوئی بڑی چیز نہیں.لیکن وہاں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا.اور اب کوشش کر رہے ہیں کہ اپنا بوجھ خود ہی اٹھائیں.اور اگر یہ سکیم جاری ہوگی تو قلیل عرصہ میں وہاں کا مشن مضبوط ہو سکے گا اور وہاں کے مقامی آدمی بھی تیار ہوسکیں گے.پھر تحریک جدید کے ماتحت ارجنٹائن میں مشن قائم کیا گیا ہے.اگر چہ وہاں کوئی مقامی احمدی نہیں ہوا لیکن عربوں میں سے بعض احمدی ہوئے ہیں.اب وہاں ہمارا ایک اور مبلغ جا رہا ہے.ہم نے پہلے ایک مبلغ بھیجا تھا لیکن وہ انگلینڈ میں بیمار ہو گیا تھا اور وہ اب تک وہ وہاں ہی ہے.اب نیا مبلغ بھجوایا جا رہا ہے اور اس کے لیے پاسپورٹ کی کوشش ہو رہی ہے.تحریک جدید کے ماتحت سابق میں ہنگری میں، یونان میں، یوگوسلاویہ میں ، پولینڈ میں اور چیکوسلواکیہ میں مشن قائم کئے گئے تھے.مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے وہ مشن بند کر دیئے گئے اور اس کے بعد جنگ کی وجہ سے دوبارہ مبلغ نہ بھجوائے جاسکے.مگر بہر حال وہاں احمدیت کا بیج بویا جا چکا ہے.اب بعض لوگوں کی وہاں سے چٹھیاں آئی ہیں کہ جنگ کی وجہ سے ہمارے تعلقات مرکز سے منقطع ہو گئے تھے ، اب ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس لٹریچر آئے تو ہم تبلیغ کے کام کو وسیع کریں.اس کے بعد انڈونیشیا کے علاقے ہیں.جاوا ، سماٹر اوغیرہ.جو آج کل عام مرجع توجہ بنے ہوئے ہیں اور دیر سے وہاں جنگ جاری ہے.وہاں ہمارے صرف ایک ہی مبلغ مولوی رحمت علی صاحب تھے.تحریک جدید کے ماتحت جاوا میں اور مبلغ بھیجے گئے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ہزاروں ہزار لوگ احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں.جن میں سے بعض بہت ہی بارسوخ ہیں.جن کا حکومت کے ساتھ بھی تعلق ہے.امید کی جاتی ہے کہ اگر انہوں نے استقلال سے کام لیا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بہت ترقی کر جائے گی.ہمارے تعلقات جاوا سے ہیں.سماٹرا سے خط و کتابت بند ہے.کیونکہ وہاں کمیونسٹ فتنہ بہت بڑھا ہوا ہے.67
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم ملا یا ایک اور جگہ ہے، جہاں ہمارا مشن قائم ہے.سنگا پور میں بھی بہت بڑی جماعت قائم ہے اور اس کے ارد گرد بھی.مگر افسوس کہ یہاں کے مبلغوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا ہے.اگر وہ صحیح طور پر کام کریں تو یہ ایک اہم جگہ ہے.مشرق و مغرب کے درمیان رستہ پر یہ ایک اہم مقام ہے.اگر کوشش کی جائے تو مشرق و مغرب میں ترقی کے لیے بہت سی سہولیات پیدا ہو سکتی ہیں.پھر بور نیو کا علاقہ ہے، جو قریبا نصف ہندوستان کے برابر ہے.مگر آبادی بہت کم ہے.اس میں بھی ہمارے مبلغ گئے ہیں.اور بعض علاقہ میں لوگ احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں اور اچھا اثر پڑ رہا ہے.مجھے ایک کارڈ ملا ہے، جس پر ایک جنگل کی خوبصورت تصویر ہے.اس میں صرف یہ لکھا ہوا ہے کہ آپ کے زمانہ میں ، جس میں اسلام کی تعلیم ہر طرف پھیل رہی ہے، کیا بالی جزیرہ اس سے محروم رہے گا ؟ لکھنے والا کوئی غیر احمدی ہے.اس نے اردگر د تبلیغ دیکھ کر مجھے خط لکھ دیا ہے.بالی جزیرہ کے لوگ فوجی اور بہادر ہیں.وہاں ابھی تک تبلیغ نہیں ہوئی.معلوم ہوتا ہے کہ اردگر تبلیغ ہوتی دیکھ کر اس نے مجھے لکھ دیا.مگر معلوم نہیں کہ اسے میرا پتہ کہاں سے ملا ؟ بہر حال احمدیت خود بخود پھیل رہی ہے.اس طرح امریکہ کے جزائر ہیں، جنہیں ویسٹ انڈیز بھی کہا جاتا ہے.ان جزائر میں بھی تبلیغ شروع ہے.وہاں سے بھی خطوط آرہے ہیں اور وہ مبلغ مانگ رہے ہیں.اور وہاں مبلغ بھیجنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے.صرف کا بل کا علاقہ ہے، جو بند پڑا ہے.مگر اب احمدیت کی تبلیغ اس طرح ہو رہی ہے کہ وہاں بھی اس کا اثر پڑے گا.غرض سارے پردہ زمین پر تحریک جدید کے ماتحت تبلیغ کو پھیلانے کی سکیمیں بن رہی ہیں اور اس کے لیے اربوں ارب روپے بھی تھوڑے ہیں.در حقیقت ہمارے مبلغ بہت کم گزارے پر کام کر رہے ہیں.بلکہ خشک روٹی پر گزارہ کر رہے ہیں.” الفضل میں ایک غیر احمدی کیپٹن کا خط شائع ہوا تھا.جنہوں نے لکھا تھا، میں جہاں جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں اور باہر نکل گئے، وہاں مجھے جماعت پر افسوس ہے، جس نے اس بات پر کبھی بھی غور نہیں کیا کہ اس کے مبلغ باہر کھا کیا رہے ہیں؟ باوجود غیر احمدی ہونے کے، جس دکھ میں، میں نے انہیں دیکھا ہے، اس سے مجھے خیال ہوا کہ میں جماعت کی توجہ اس طرف پھر اؤں کہ وہ کم از کم انہیں کھانے کو اتنا تو دے، جس سے ان کا پیٹ بھر سکے اور پہنے کو اتنا تو دے، جس سے وہ اپنا تن ڈھانپ سکیں اور تبلیغ کا کام صحیح طور پر کرسکیں.بہر حال ہم ادنیٰ سے ادنی طور پر بھی خرچ کریں تو ہمارا خرچ کروڑوں تک جا پہنچتا 68
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سو خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء ہے.مثلاً اس وقت ہمارے پچاس کے قریب مبلغ ہیں.پچاس تو میرے ذہن میں ہیں اور یہ وہ ہیں، جو یہاں سے گئے ہیں.اس سے کم نہیں، زیادہ ہی نکلیں گے.اور مقامی مبلغ ، جو کام کر رہے ہیں، وہ ان کے علاوہ ہیں.ان ممالک کی رہائش کا اگر اندازہ رکھا جائے تو ان کے کھانے پینے اور مکان کا خرچ 20 پونڈ ہے اور یہ کم از کم ہے.اس کے بعد تبلیغ کے اخراجات ہیں، لڑ پچر ہے ، خط وکتابت ہے ، 20 پونڈ کے قریب اس پر خرچ آجاتا ہے اور یہ چالیس پونڈ فی کس بنتا ہے.اور 40 کے یہ معنی ہوئے کہ کل مبلغ 50 ہیں.گو وہ مبلغ ان کے علاوہ ہیں، جو مقامی طور پر اپنے علاقوں میں بطور مبلغ کام کر رہے ہیں.اگر ان کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ سو سے زیادہ بن جاتے ہیں.اگر چالیس پونڈ فی کس خرچ کیا جائے تو دو ہزار پونڈ بنتا ہے.اور اگر روپے کے حساب سے لیا جائے تو چھبیس ہزار روپے بنتے ہیں اور اگر اسے بارہ سے ضرب دیں تو یہ تین لاکھ سے اوپر بنتا ہے.یہ ادنیٰ سے ادنی خرچ ہے، جو ان پر ہونا چاہئے.پھر اگر جلسے کئے جائیں، یہاں لاہور میں ہی اگر کوئی جلسہ کیا جائے تو اس کے اعلان اور دوسرے انتظامات پر سو، ڈیڑھ سوروپیہ سے زیادہ خرچ ہو جائیں گے ، اگر دوسرے ممالک میں فی جلسہ کا خرچ تین، چار سو ر کھا جائے اور سال میں بارہ جلسے کئے جائیں تو سال میں ہر مشن کا جلسوں کا خرچ چار ہزار اور ساڑھے چار ہزار ہو جاتا ہے.پچاس مشنوں میں یہ خرچ دولاکھ کا ہو جاتا ہے.پھر اگر صحیح طور پر لٹریچر اور اشاعت کا کام کیا جائے تو کسی مشن کا خرچ دس، بیس پونڈ ماہوار سے کم نہیں ہو سکتا.یہ رقم ایک لاکھ 25 ہزار روپے سالانہ کی ہوتی ہے لیکن در حقیقت چار، پانچ لاکھ روپیہ سالانہ اشاعت لٹریچر کا خرچ ہونا چاہیے.پس اگر صحیح طور پر تبلیغ کی جائے تو صرف موجودہ مشنوں کا خرچ نو لاکھ کے قریب سالانہ ہونا چاہیے.اسی طرح بیرونجات کے لیے مبلغ بھی تیار کرائے جاتے ہیں اور انہیں بھی تحریک ہی خرچ دیتی ہے.یہ بھی کوئی ڈیڑھ لاکھ کے قریب بنتا ہے، بیسیوں لڑکے ہیں، جنہیں تعلیم دی جارہی ہے.کیونکہ بنے بنائے مبلغ نہیں مل سکتے.ان لڑکوں میں سے کوئی ایف اے میں پڑھ رہا ہے، کوئی بی.اے میں پڑھ رہا ہے، کوئی ایم.اے میں پڑھ رہا ہے.بہت سے مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں.بہت سوں کو دین کی تعلیم پرائیویٹ دلوائی جارہی ہے.بہت سے غرباء کے لڑکے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیوں کو وقف کیا ہوا ہے.کوئی لڑکا نویں جماعت میں پڑھتا ہے، اس کے ماں باپ غریب ہیں اور وہ کہتے ہم زیادہ سے زیادہ انٹر پاس کروا سکتے ہیں یا لڑکا آٹھویں میں پڑھتا ہے، والدین کہتے ہیں کہ ہم میں آگے پڑھوانے کی ہمت نہیں.ہم نے دیکھالڑ کے ذہین ہیں تو ہم نے انہیں اپنے خرچ پر پڑھوانا شروع کر دیا.غرض درجنوں ایسے لڑکے ہیں، جو تحریک کے 69
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم خرچ پرتعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان پر بڑی بھاری رقمیں خرچ ہو رہی ہیں.پھر مرکز کے اخراجات ہیں.بیت المال اور دیگر محکمے ہیں.ان تمام پر ڈیڑھ ، دو لاکھ کے قریب خرچ ہورہا ہے.ہمارا سارا بجٹ چار لاکھ کے قریب ہے اور یہ بھی اس طرح کا ہے کہ مبلغوں کو روکھی سوکھی روٹی مل سکتی ہے.اس کے مقابلہ میں دور اول میں پچھلے سال کا دولاکھ اسی ہزار کا وعدہ تھا.لیکن وصولی ساری دولاکھ ہوئی ہے.اتنی بڑی رقم کے علاوہ گزشتہ سالوں میں جو قر ضے ہوتے چلے گئے ہیں، وہ بھی گیارہ لاکھ کے ہیں.قادیان میں کچھ جائیدادیں تھیں، جو تحریک کے کام آسکتی تھیں مگر اب وہ بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہیں.پچھلے سال ہم نے کچھ قرضے اتارے بھی تھے لیکن اب بھی نو لاکھ کے قریب قرضہ باقی ہے.ادھر آمد سے خرچ زیادہ ہے، اور پچھلا قرضہ بھی ہے.کچھ خرچ تو ہم اس طرح نکال لیتے ہیں کہ بیرونی ممالک کی جماعتوں پر زور ڈال کر کچھ وصول کر لیتے ہیں لیکن وہ ابتدائی جماعتیں ہیں اور وہ اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں.اور کچھ ہم دوسرے سالوں کے بقایوں کی وصولی سے کام چلا لیتے ہیں.لیکن اب زمانہ آ گیا ہے کہ قرضے جلدی سے جلدی اتار دیئے جائیں.کیونکہ اگر ہم قرمضنے جلدی نہیں اتاریں گے تو مشکلات بڑھ جائیں گی.دوراؤل پانچ سال کے بعد ختم ہونے والا ہے.اگر یہ ختم ہو گیا تو تمام بوجھ دور ثانی پر پڑ جائے گا.دفتر دوم کے وعدے پچھلے سال ایک لاکھ کے قریب تھے، جن میں سے صرف 54 ہزار روپے کی رقم وصول ہوئی تھی.یہ حال رہا تو ہم چار لاکھ سالانہ کا خرچ کہاں سے نکالیں گے؟ پس اس نئے دور سے پہلے ضروری ہے کہ ہم پہلے قرضوں کو اتار دیں.ورنہ بعد میں کام کو بڑھانا تو ایک طرف رہا، ہم موجودہ کام کو بھی نہیں چلا سکیں گے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے ، اپنے وعدے لکھوائیں.میرے مخاطب اس وقت دور اول کے لوگ ہیں، جنہیں سابقون الاولون میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے.اور جنہیں خدا تعالیٰ توفیق دے، وہ پہلے سے بڑھ کر وعدے لکھوائیں.میں نے تحریک ستمبر کے متعلق کہا تھا کہ جن دوستوں کا چندہ 33 سے 50 فیصدی کے حساب سے عام چندوں سے بڑھ جاتا ہے، ان کا تحریک کا چندہ اس میں شامل ہوگا.اور پھر میں نے اعلان کر دیا تھا کہ لوگ با قاعدہ طور پر بتائیں کہ ان کے اس چندے میں کون کون سے چندے شامل ہیں؟ فرض کرو ، ایک آدمی کا 20 فیصدی چندہ بنتا تھا، اب وہ پچیس فیصدی دے تو اس میں تحریک جدید کا چندہ شامل ہوگا.لیکن بیت المال والوں نے بتایا ہے کہ بہت کم لوگ ہیں، جنہوں نے ایسا کیا ہے.اب اگر ان لوگوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ تحریک جدید کے وعدے پورے کریں تو اس کی ذمہ داری خودان پر ہوگی.کسی کو کیا پتہ 70
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم ہے کہ وہ کیا کیا چندے ادا کرتے ہیں؟ اسکا پی تو دفتر کبھی نہیں ہوسکتا.پس اگر کسی دوست نے اس طرح کا وعدہ کیا ہے اور اس کا چندہ اتنا ہو چکا ہے کہ اس سے سب چندے ادا کر کے کچھ بیچ جاتا ہے تو اس میں تحریک جدید کا وعدہ شامل ہوگا.دوستوں کو چاہیے کہ وہ واضح کر دیں اور لکھوادیں کہ اس چندہ میں میرا چندہ عام اتنا ہے ، چندہ جلسہ سالانہ اتنا ہے تحریک جدید کا اتنا ہے اور ان کے علاوہ اس میں فلاں فلاں چندہ شامل ہے.اور چونکہ میرا وعدہ عام چندہ سے بڑھ جاتا ہے، اس لئے مجھے زیادہ چندہ دینے سے بری سمجھا جائے.اگر کوئی ایسا کر دے گا تو ٹھیک ہوگا.اور ہم تمام چندے اس رقم سے منہا کریں گے.اور اگر وہ اس طرح نہیں کرتا تو تمام چندہ ، جو وہ بھیجتا ہے، اس میں تحریک جدید کا چندہ شامل نہیں ہو گا.تحریک کا دعوی اسی طرح قائم رہے گا.جب کوئی رقم صدر انجمن احمدیہ کے پاس آتی ہے تو وہ اسے اپنے خزانہ میں داخل کر لیتی ہے.اور جب تک کوئی ہدایت نہ آئے ، وہ اسے اپنا ہی حق بجھتی ہے.پھر بعض دفعہ اس سے دھوکا بھی لگ سکتا ہے.اور وہ اس طرح کہ صدر انجمن احمد یہ کہتی ہے کہ ابھی تو میرا ہی حق پورا نہیں ہوا یا کہتی ہے کہ ابھی تو میرا ہی چندہ پورا ہوا ہے.اور تحریک وعدہ کنندوں کو یاد نہیں کرائے گی کہ شاید ان کا چندہ تحریک ستمبر میں آ رہا ہے.چنانچہ ایسے جھگڑے بعض دوستوں سے ہوئے بھی ہیں.پس دوستوں کو واضح طور پر لکھ دینا چاہیے کہ ان کا ماہوار چندہ، جو واجب الادا تھا، وہ اتنا بنتا ہے اور تحریک کا چندہ اس قدر ہے.یا کوئی اور چندہ ہو تو اس قدر ہے.اور چونکہ تحریک ستمبر کے ماتحت جو چندے میں دیتا ہوں ، اس سے میرے مقررہ اور موعودہ سب چندے پورے ہو جاتے ہیں، اس لئے میں الگ چندہ نہیں لکھواؤں گا.ہاں جو رقم مقر ر اور موعودہ چندوں سے بڑھ جائے گی ، اسے تحریک ستمبر میں داخل کیا جائے.اس امر پر افسوس کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ دوستوں نے تحریک ستمبر کی طرف پوری توجہ نہیں دی.ایک سال میں ” تحریک ستمبر میں صرف سنتیس ہزار روپے چندہ جمع ہوا ہے.حالانکہ اس عرصہ میں یہ چندہ پانچ سات لاکھ ہونا چاہیے تھا.یا تو دوستوں نے اس تحریک میں بہت کم حصہ لیا ہے یا اگر حصہ لیا ہے تو انہوں نے بتایا نہیں کہ اس رقم میں ان کا فلاں فلاں چندہ اس اس مقدار میں شامل ہے اور باقی جو بچے ، وہ تحریک ستمبر میں چلا جائے.بہر حال تحریک کے کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ، دور اول کے سپاہی ، جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے، وہ جلد از جلد وعدے لکھوائیں.اور جیسا کہ ہمیشہ قاعدہ ہے، میں اعلان کرتا ہوں کہ 10 فروری ان وعدوں کی آخری میعاد ہے.لیکن پسندیدہ یہی ہوگا کہ دسمبر کے خاتمہ سے پہلے پہلے وعدے آجائیں.کیونکہ پھر 71
خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم دوسرے سال کا بجٹ بنانا ضروری ہوتا ہے.اور اگر وعدے دیر سے آئیں تو ان سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا.پس مناسب یہی ہے کہ دسمبر کے خاتمہ تک دوست اپنے اپنے وعدے لکھوا دیں.لیکن کسی مشکل کی وجہ سے کوئی فرد یا جماعت رہ جائے تو وہ اپنا وعدہ دس فروری تک بھیج دے.جس خط پر دس فروری کی مہر ہوگی ، وہ قبول کر لیا جائے گا.گزشتہ سال مشرقی پنجاب کے فسادات اور تباہی کی وجہ سے دوست اس میں اچھی طرح حصہ نہیں لے سکتے تھے لیکن اب ان میں سے ایک حصہ آباد ہو چکا ہے.بلکہ ان میں سے اکثر آباد ہو چکے ہیں اور ان کی مالی حالت آگے سے بہت اچھی ہے.کیونکہ ہندؤوں کی بھی تجارتیں اور کارخانے انہیں مل گئے ہیں.اور ان میں سے بعض آگے سے دس دس ہیں ہیں گنے زیادہ کمارہے ہیں.مجھے بعض لوگوں کا حال معلوم ہے، مشرقی پنجاب میں وہ اگر سات، آٹھ ہزار کا مال لٹا کر آئے تھے تو آج وہ آٹھ ، دس لاکھ کے مال بن گئے ہیں.یہ عجیب قسم کی تقسیم ہوئی ہے، خدا کی دین ہے.ایک شخص کے بارے میں نے سنا، وہ قادیان کا ایک تاجر تھا، چھابڑی پر رکھ کر چیزیں بیچا کرتا تھا، اس کی ماہوار آمدنی تمہیں، چالیس روپے ہوگی.ایک دوست نے مجھے بتایا کہ وہ رستہ میں جار ہا تھا کہ ایک موٹر پاس سے گزرتی ہوئی آئی اور میرے پاس ٹھہر گئی.وہی شخص موٹر سے اترا اور کہا، میں نے تمہیں دیکھا تو سلام کرنے کے لئے ٹھہر گیا.چونکہ میرا کام زیادہ ہوتا گیا ہے، اس لئے میں نے بائیس ہزار کی موٹر خرید لی ہے تا چلنے پھرنے میں آسانی رہے.تو دیکھو حالات کہاں سے کہاں بدل گئے.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دوست ایسے بھی ہیں، جواب تک پراگندہ پھر رہے ہیں.ابھی رپورٹ آئی ہے کہ ایک احمدی کہیں جارہے تھے کہ تحصیلدار نے ان کا مال چھین لیا.یہ ایک ایسے ضلع کا واقعہ ہے، جہاں ڈی سی احمدی ہے.جس سے ہم زیادہ دیانت داری اور محنت کی امید کرتے ہیں.اس خرابی سے ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ دوسری جگہوں پر کیا ہورہا ہوگا.بہر حال جماعت کا اکثر حصہ وہ ہے، جو اپنے اپنے کاموں میں لگ گیا ہے.اور اگر ادھر ان کی زمینیں بارانی تھیں تو ادھر انہیں نہری زمینیں مل گئی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لوگ جو اس طرف آسودہ تھے اور ان کی پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ گھماؤں زمین تھی ، وہ اب غریب ہو گئے ہیں.اب انہیں آٹھ ، دس گھماؤں زمین ملی ہے.مگر اکثر ایسے ہیں، جن کی ادھر دو، دو کنال زمین تھی اور اب انہیں دس، دس ایکٹر زمین مل گئی ہے.کیونکہ ان کے گھر کے افراد دس تھے.ہمارے ایک مخلص دوست ہیں، جو پھیر و پیچی کے رہنے والے ہیں.میں ایک دفعہ پھیر و پیچی گیا.میری بھی اس کے قریب زمین تھی اور میں تبدیلی آب و ہوا کے لئے وہاں جاتا تھا.وہ میرے پاس آئے اور کہا حضور دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ میری تکلیف کم کر دے.انہیں لوگ مولوی 72
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم احب کہا کرتے تھے.اگر چہ وہ مولوی نہیں تھے.وہ بڑے دیندار تھے اور ابھی تک زندہ ہیں.میں نے کہا، کیوں مولوی صاحب کیا زمین کم ہے یا کوئی اور بات ہے؟ وہ بڑی سادگی سے کہنے لگے، چار کنال زمین میرے باپ کی تھی اور دو کنال ارد گرد لے لی ہے، زمین کافی ہے.کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہے.دیکھو، وہ چھ کنال کو ہی کافی زمین سمجھا کرتے تھے.اب ایسے لوگوں کو دس ایکٹر مل گئے ہیں.بعض لوگ ایسے ہیں، جن کی وہاں کنووں والی زمین تھی ، اب انہیں نہری زمین مل گئی ہے.بس ان کی حالت اچھی ہوگئی ہے، اب انہیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض ایسے بھی ہیں، جن کی ادھر آسودہ حالت تھی ، اب وہ لٹ گئے ہیں.وہاں وہ دس ہیں لاکھ چھوڑ کر آئے ہیں، یہاں ان کی پیسے کی آمد بھی نہیں.انہیں جانے دو، ایسے لوگ بہت کم ہیں.اکثر حصہ غرباء کا ہے، جو ہزاروں سے لکھ پتی بن گئے ہیں.جن کی وہاں دس کنال زمین تھی ، اب انہیں دس ایکڑ زمین مل گئی ہے.پہلے ان کی بارانی زمین تھی ، اب انہیں نہری زمین مل گئی ہے.یا پہلے ان کی چاہی زمین تھی ، اب انہیں نہری زمین مل گئی ہے.ان کو بھی اپنے حصہ سے، جو اس بوجھ میں ان کا ہے، پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے.پھر میں مغربی پاکستان والوں کو لیتا ہوں.خدا تعالیٰ نے ان پر بڑا فضل کیا ہے کہ اس نے انہیں اس تباہی سے بچایا ہے.انہوں نے اس طرف اپنی جائیداد کا کوئی حصہ نہیں چھوڑا لیکن اس طرف انہوں کا نے دوسروں کے ساتھ برابر کا حصہ لیا ہے.سینکڑوں ایسے آدمی ملتے ہیں، جن کی پہلے کوئی جائیداد نہیں تھی ، اب کارخانوں کے مالک بن گئے ہیں.بعض لوگ ایسے بھی ہیں، جو ہندوستان سے باہر گئے ہوئے تھے.فسادات میں وہ یہاں آگئے تالوٹ مار میں ان کو بھی حصہ مل جائے.بہت شہروں میں ایسا ہوا ہے.بہر حال اکثر کی اقتصادی حالت پہلے سے بہت اچھی ہے.جن کی حالت پہلے سے خراب ہے ، وہ چند ہی ہیں.ان کی وجہ سے کوئی اثر نہیں پڑتا.ایسے لوگ سو میں سے دو یا چار ہوں گے.پہلے تو میں ان لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نئے سال سے نئے وعدے لکھوائیں.ادھر پھر جو ستر ، اسی ہزار کے وعدے گزشتہ سال کے پورا ہونے سے رہ گئے ہیں، انہیں بھی جلد پورا کریں.اس طرح ساٹھ ستر ہزار کے وعدے، جو گزشتہ سال سے پہلے کے سالوں کے پورا ہونے سے رہ گئے ہیں، انہیں بھی پورا کریں.اگر یہ وعدے پورے ہو جائیں تو قرضے میں ڈیڑھ لاکھ کی کمی ہو جائے گی.اس کے بعد دفتر دوم والوں کو لیتا ہوں.میں ان نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں ان پر بہت زیادہ امید تھی.مگر افسوس ہے کہ وہ قربانی میں بہت پیچھے ہیں.دور اول کے پہلے سال کے وعدے ایک لاکھ ، سات ہزار کے نکلے تھے اور دفتر دوم کے چوتھے سال ایک لاکھ، چھ ہزار کے وعدے تھے.دوراؤل 73
خطبہ جمعہ فرموده 26 نومبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کے ایک لاکھ ، سات ہزار کے وعدوں میں سے ایک لاکھ، دس ہزار کی وصولی تھی.یعنی وعدہ سے زیادہ رقم وصول ہوئی تھی.لیکن دفتر دوم کے نوجوان کی ہمتوں پر افسوس ہے کہ ایک لاکھ، چھ ہزار کے وعدوں میں سے صرف 54 ہزار کی وصولی ہوئی ہے اور سال ختم ہو گیا ہے.وہ وعدوں میں بھی پیچھے رہے اور ادائیگی میں بھی پیچھے رہے.اور یہی حالت پچھلے سال کی تھی.پچھلے سال بھی پچاس ہزار کے قریب وصول ہوا تھا اور اس سال بھی.اگر یہ لوگ بھی اپنے وعدوں کو پورا کر دیں تو تین لاکھ کی وصولی گزشتہ سالوں کے وعدوں سے ہو سکتی ہے اور قرضہ نولاکھ سے چھ لاکھ پر آجاتا ہے.اگر نئے نوجوان اپنے فرض کو سمجھیں تو نئی پود کے وعدے ساڑھے تین لاکھ سے کم نہیں ہونے چاہئیں.اور اگر ان کے وعدے اس حد تک پہنچ جائیں تو امید ہے کہ دور اول کے ختم ہونے پر ہم اس بوجھ کو بوڑھوں کے کندھوں سے اتار کرنی پود کی قربانی سے جاری رکھ سکیں گے.آخر پانچ سال کے بعد دور اول ختم ہو جائے گا.اور اگر وہ ختم نہ بھی ہو اور پرانے لوگ بھی چندے دیتے رہیں تو بھی نوجوانوں کے لیے یہ عزت کی بات نہیں بلکہ ذلت کی بات ہوگی کہ وہ اپنا فرض پوری طرح ادا نہیں کر سکے.یہ تو ایسا ہے کہ نوجوان گھر بیٹھا کھائے اور بوڑھا کمائے.نوجوان خود تو اس بوجھ کو نہ اٹھائیں بلکہ اسی نوے سالہ بوڑھوں سے کہیں کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا ئیں.انہیں چاہئے کہ نہ صرف اپنے وعدوں کو اس پیمانہ پر لے جائیں کہ وقت آنے پر تبلیغ کا سارا بوجھ ان کے چندوں سے پورا ہو سکے.دور اول تین لاکھ اسی ہزار تک پہنچا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اسے پانچ لاکھ تک پہنچا دیں تو پھر تیسرے دور والوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اسے آٹھ لاکھ تک پہنچادیں گے اور اس سے اگلے دور والے اسے دس، بارہ لاکھ تک پہنچا دیں گے.اگر ایسا ہو جائے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ہم بیرونی ممالک میں تبلیغ کا جال پھیلا دیں گے اور اس کے ذریعہ اسلام کا قلعہ ہر ملک میں قائم کر دیں گے.اس کے لیے ارادہ کی ضرورت ہے ، نیت کی ضرورت ہے.اس کے لیے ضرورت ہے، ایسے باپوں کی ، جو اپنی اولا د کو کہیں کہ وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اس کے لیے ضرورت ہے، ایسی ماؤں کی، جواپنی اولاد کو ہیں کہ وہ اس جہاد سے پیچھے نہ رہے.اس کے لیے ضرورت ہے، ایسی بیویوں کی ، جو اپنے خاوندوں سے کہیں کہ اس جہاد میں ان کی گردن میں کسی سے نیچے نہ ہوں.اس کے لیے ضرورت ہے، ایسے نوجوانوں کے حوصلہ کی ، جو یہ کہیں کہ ہم اپنے زمانہ کے بوجھ کو دوسروں پر کیوں ڈالیں؟ اگر قوم کے اندر ایسی ہمت اور امنگ پیدا ہو جائے تو ان کے سامنے کوئی چیز روک نہیں بنا کرتی.روپیہ سے ہی صرف کام نہیں چلا کرتا، جانوں سے بھی تو تم اپنے دین کی خدمت کر سکتے ہو.تمہارے لیے دو مثالیں موجود ہیں.ایک ہسپانیہ کے ملک کی ، جو بہت گراں ہے اور تمام دوسری طاقتوں 74
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1948ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم نے اس کا محاصرہ اور بائیکاٹ کر رکھا ہے.وہاں کا مبلغ خود پیسے کما کر لڑ پچر شائع کرتا ہے اور فرانس میں بھی ہمارے مبلغ نے سراٹھانا شروع کر دیا ہے.آہستہ آہستہ وہاں بھی کام ہونا شروع ہو جائے گا.اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس میں روپیہ کی قربانی کی ہمت نہیں تو وہ اپنی جان پیش کر دے اور خود کمائے اور خدمت دین کرے.اور جس کے پاس روپیہ ہے، وہ روپیہ پیش کر دے.جس طرح دو بیل ایک گاڑی کو چلاتے ہیں، اسی طرح یہ دو چیزیں ہی ایسی ہیں، جن سے قومی گاڑی چلتی ہے.قرآن کریم میں متواتر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کا مال اور ان کی جانیں لے لی ہیں اور اس کے بدلہ میں ان سے جنت کا وعدہ کیا ہے.اور یہی چیز تحریک نے پیش کی ہے.ایک طرف وہ نو جوانوں سے کہتی ہے کہ آؤ اور خدمت دین کے لیے اپنی جانوں کو پیش کر دو.یہ وہی چیز ہے، جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ نے تم سے تمہاری جانیں اور تمہارے مال خرید لیے ہیں.تحریک جدید اس پیشگوئی کے ماتحت جنت کو پیش کر کے تم سے مطالبہ کرتی ہے کہ تم اپنے مال اور جانیں پیش کر دو.کیونکہ قوم کی گاڑی دوہی بیلوں سے چلا کرتی ہے اور وہ جان اور مال ہیں.کوئی شخص اگر مال کی قربانی کی توفیق نہیں پاتا تو وہ اپنی جان پیش کر دیتا ہے اور کہتا ہے، لو یہ روپیہ اور اس سے لڑ پچر شائع کرو، ریلوں اور ہوائی جہازوں میں جاؤ اور با ہر تبلیغ کرو.یہ دونوں مطالبے ہوتے ہیں، جو تحریک جدید میں شامل ہیں.اس کا کے لیے انیس اور بیس سال کی شرط نہیں.انیس اور بیس کا سوال تو افراد کے لیے ہے، جنہوں نے مرجانا ہے.خدا تعالیٰ کے کام تو قیامت تک چلے جاتے ہیں.میرے لیے انیس اور بیس سال ہو سکتے ہیں، تمہارے لیے انیس اور نہیں ہو سکتے ہیں تحریک جدید کے لیے نہیں.تبلیغ کے لیے سال نہیں ہوتے.اگر آخری انسان بھی زندہ ہے اور وہ خدا تعالیٰ اور اسلام سے محبت کرتا ہے تو وہ اسلام کے پھیلانے کی کوشش کرتا رہے گا اور کرتا چلا جائے گا“.( مطبوعه روزنامه الفضل 05 دسمبر 1948ء) 75
تحریک جدید- ایک ابی تحریک....جلد سوم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 فروری 1949ء اخلاقی لحاظ سے سادہ لوگ ہی خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہوتے ہیں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 04 فروری 1949ء اب ہمارا غیر بھی سمجھنے لگ گیا ہے کہ ہماری جماعت کو کوئی خاص کام تفویض ہوا ہے لیکن ہماری جماعت ہی اس کام کو نہ سمجھے اور اپنے اندر صحیح تبدیلی پیدا نہ کرے تو اس سے زیادہ بد قسمتی اور کیا ہوگی؟ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کرے، اپنے اندر سی تبدیلی پیدا کرے اور اپنے آپ کو سچا مخلص اور سچا مسلم ثابت کرے.اگر آج تم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرتے اور آج تم اپنی اصلاح نہیں کرتے تو وہ دن کون سا آئے گا، جب تم اپنی اصلاح کرو گے؟ ہر دن جو آتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے بعض مر جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابی ہم سے جدا ہورہے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ دن آ جائے گا، جب یہ کہا جائے گا کہ کیا تم میں سے کوئی ہے، جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہے اور ہمیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا.کیا وہ دن ہو گا، جس دن تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو گے؟“ وو ہماری جماعت پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائکہ ہیں.اور ہم ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر سکتے ، جب تک ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کریں.اور جب تک ہم اپنے اندر تبد یلی پیدا نہیں کریں گے ، ہم فتح حاصل نہیں کر سکتے.ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کے بعدہی دنیا کو فتح کر سکتے ہیں.ہم اس وقت ہی فتح حاصل کر سکتے ہیں، جب ہم اپنے آپ کو اس رنگ میں رنگین کر لیں، جس رنگ میں صحابہ رنگین تھے.جب تک ہم اپنے دلوں کی اصلاح نہ کریں، جب تک ہم اپنے اندر دیانت اور امانت پیدا نہ کریں، جب تک ہم سے جھوٹ اور فریب کی عادت جاتی نہ رہے بلکہ جب تک ہم اپنے اعمال کو سادہ نہیں بنا لیتے ، جب تک ہم اپنے آپ کو سادہ مسلمان نہیں بنا لیتے ، ایسا مسلمان جس کو دوسرے لوگ تو لوٹ سکتے ہیں مگر وہ خود کسی کو نہیں لوشتا، جب تک ہم ایسے مسلمان نہیں بن جاتے ہم دنیا کو فتح نہیں کر سکتے.دنیا کو وہی لوگ فتح کر سکتے ہیں اور فرشتے انہیں لوگوں پر اترتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں وہی لوگ داخل ہوتے ہیں، جو اخلاقی لحاظ سے اپنے آپ کو سادہ بنا لیتے ہیں اور ان کے اندر بے ایمانی ، جھوٹ اور فریب کی روح نہیں پائی جاتی.( مطبوعه روزنامه الفضل 16 فروری 1949ء) | 77
یک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1949ء تحریک جدید کی اصل بنیاد وقف زندگی پر ہوگی خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1949ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ر بھی ہماری نماز اس جگہ پر عارضی طور پر ہے.ابھی اس مقام پر مسجد کی بنیاد نہیں رکھی گئی.مسجد کی منظوری حکومت کی طرف سے ابھی ہوئی ہے.جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے، ربوہ مقام کے لئے حکومت نے کچھ قوانین مقرر کئے ہیں.گو یہ ایک وادی غیر ذی زرع ہے اور ایک غیر آباد علاقہ ہے لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جلد ہی ربوہ کو ایک شہر کی حیثیت دینے کی کوشش کی جائے گئی ، حکومت نے یہ قانون بنا دیا تھا کہ یہ زمین اس شرط پر دی جاتی ہے کہ حکومت کے منظور کردہ نقشہ کے مطابق سڑکیں وغیرہ بنائی جائیں اور اس کے مطابق عمارتیں تعمیر کی جائیں.یعنی جو جگہ گورنمنٹ نے رہائش کے لئے تجویز کی ہے، اس میں رہائشی مکانات بنائے جائیں اور اتنی ہی جگہ میں بنائیں جائیں، جتنی جگہ اس نے رہائشی مکانات کے لئے تجویز کی ہے.اور جو جگہ اس نے دکانوں کے لئے تجویز کی ہے، اس میں دکانیں بنائی جائیں.جتنی جگہ گورنمنٹ نے تجویز کی ہے اور جو جگہ حکومت نے مدرسہ، دفاتر یا مسجد کے لیے تجویز کی ہے، اسی جگہ پر مدرسہ، دفاتر اور مسجد وغیرہ کی تعمیر ہو.بعض حلقے اس میں ایسے بھی چھوڑے گئے ہیں، (جیسے یہ حلقہ ہے، جس میں، میں خطبہ دے رہا ہوں.( جس میں مرکزی ادارہ قائم کرنے کی تجویز ہے.جس جگہ ہم اس وقت اکٹھے ہیں، گورنمنٹ کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق قصر خلافت کی جگہ ہے.یعنی اس میں خلیفہ وقت کا مکان ہوگا.اسی طرح اس میں لنگر خانہ خلافت اور مہمان خانہ وغیرہ بنے گا.اس کے پہلو میں مشرق کی طرف یا نیم مشرق کی طرف سمجھ لیں، کیونکہ یہ جگہ کچھ ٹیڑی ہے، دفاتر وغیرہ بنیں گے.مغرب اور شمال اور رقبہ ریل کے پار جتنا علاقہ ہے، اس میں مختلف لوگوں کے رہائشی مکانات اور سکول وغیرہ بنیں گے.اور جس جگہ ہم کھڑے ہوئے ہیں، اس کے مغرب، جنوب میں لجنہ اماءاللہ اور لڑکیوں کے سکول وغیرہ کی جگہ ہے.ہسپتال بھی اسی کے قریب علاقے میں تجویز ہوا ہے.چونکہ ہم پابند ہیں کہ گورنمنٹ نے جو جگہیں تجویز کی ہیں، ہم انہیں جگہوں پر اس کی تجویز کردہ عمارات بنائیں، اس لئے فوری طور پر عمارتیں شروع نہیں کی جاسکتیں.اب ان نقشوں کردہ عمارت اسلئے فوری طور پر میں 79
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کے مطابق جو گورنمنٹ نے تجویز کئے ہیں ، داغ بیل لگ رہی ہے.جب داغ بیل لگ گئی تو گورنمنٹ کو اطلاع دی جائے گی اور پھر اصل عمارات شروع کی جائیں گی.اس وقت منظوری کے بعد اس جگہ کی تعمیر شروع ہوگی، جسے اور عمارات پر مقدم رکھا جائے گا.کیونکہ سب سے پہلے خدا کا گھر بنانا ضروری ہے.وہ عارضی مکانات جو بنائے جاچکے ہیں، اس لئے بنائے گئے ہیں کہ مستقل مکانات سے پہلے ان عارضی مکانات کا بنانا ہمارے لئے ضروری تھا.لیکن مستقل عمارات میں سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی جائے گی اور اس کے بعد ارد گرد کے مکانات وغیرہ بنائے جائیں گے.یہ مسجد وہ مسجد ہے، جو خلیفہ وقت کے مکان کے ساتھ ہو گئی.میں اپنا مکان اس لئے نہیں کہتا کہ میں الگ چیز ہوں اور خلیفہ الگ چیز ہے.میں ایک فرد ہوں، جو اس وقت خلیفہ ہوں.لیکن میرے بعد کوئی اور شخص خلیفہ ہوگا اور وہ لازما اس مکان میں رہے گا ، جو مسجد کے قریب ہوگا تا کہ وہ اس میں امامت کر سکے اور جو لوگ مسجد میں آئیں، انہیں دین کی تعلیم اور درس و تدریس وغیرہ دے.گویا یہ مسجد، مسجد مبارک کی قائم مقام اور اس کا حل اور مثیل ہوگی.جامع مسجد ، جس میں سارے شہر کے لوگ نماز پڑھیں گے، وہ ریل کے پار تجویز کی گئی ہے.وہ بہت بڑی جگہ میں ہوگی، جس میں ہماری عیدگاہ بھی ہوگی.اس میں سارے شہر کے لوگ جمعہ کے لئے بھی اکٹھے ہوں گے اور عید بھی وہیں پڑھیں گے.وہ مسجد ، جہاں تک میرا اندازہ ہے، اس مسجد سے ہیں پچیس گنے زیادہ ہوگی.ہوسکتا ہے کہ اس کے اندر آئندہ ہمارا جلسہ بھی ہو.کیونکہ وہ زمین کافی وسیع اور کھلی ہے.اب یہاں ہماری عمارتیں بنی شروع ہوگئی ہیں، لوگ رہنے لگ گئے ہیں، دکانیں کھل گئی ہیں، کچھ کارخانوں کی صورت بھی پیدا ہورہی ہے، کیونکہ چکیاں وغیرہ لگ گئی ہیں، مزدور بھی آگئے ہیں، پیشہ ور بھی آگئے ہیں اور دفتر بھی آگئے ہیں.مگر یہ سب عارضی انتظام ہے.مستقل انتظام کے لئے یہ شرط ہوگی کہ صرف ایسے ہی لوگوں کو ربوہ میں رہنے کی اجازت دی جائے گی ، جو اپنی زندگی عملی طور پر دین کی خدمت کے لیے وقف کرنے والے ہوں گے.میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہاں رہنے والا کوئی شخص دکان نہیں کر سکتا یا کوئی اور پیشہ نہیں کر سکتا.وہ ایسا کر سکتا مگر عملاً اسے دین کی خدمت کے لئے وقف رہنا پڑے گا.جب بھی سلسلہ کو ضرورت ہوگی ، وہ بلا چون و چرا اپنا کام بند کر کے سلسلہ کی خدمت کرنے کا پابند ہو گا.مثلاً اگر تبلیغ کے لئے وفد جارہے ہوں یا علاقہ میں کسی اور کام کے لئے اس کی خدمات کی ضرورت ہو تو اس کا فرض ہوگا کہ وہ فورا اپنا کام بند کر کے باہر چلا جائے.انہی شرائط پر لوگوں کو زمین دی جائے گی اور جولوگ اس کے پابند نہیں ہوں گئے ، انہیں یہاں زمین نہیں دی جائے گی.80
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1949ء ہم چاہتے ہیں کہ یہ جگہ، ایک مثالی جگہ ہو.جس طرح ظاہر میں ہم اسے دین کا مرکز بنار ہے ہیں، اسی طرح حقیقی طور پر یہاں کے رہنے والے سب کے سب افراد دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں اور بقدر ضرورت وہ دنیا کا کام بھی کرتے ہوں لیکن ان کا اصل مقصد دین کی خدمت اور اس کی اشاعت ہو.یوں تو صحابہ بھی دنیا کے کام کرتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں کوئی ایک سپاہی بھی ایسا نہیں تھا، جو تنخواہ دار ہوں.کوئی دکاندار تھا، کوئی زمیندار تھا، کوئی مزدور تھا، کوئی لوہار تھا، کوئی ترکھان تھا.غرض سارے کے سارے پیشہ ور تھے.جس طرح آپ لوگوں کی دکانیں ہیں ، اسی طرح ان کی بھی دکانیں تھیں.جس طرح آپ لوگوں کی زمینداریاں ہیں، اسی طرح ان کی بھی زمینداریاں تھیں.اگر آپ لوگ مختلف پیشوں سے کام لیتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں یا بڑھئی یا لوہار کا کام کرتے ہیں تو وہ بھی یہ سب کام کرتے تھے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کے لئے نکلتے تو وہ سب کے سب آپ کے ساتھ چل پڑتے تھے.اس زمانہ میں جنگ تھی، اس زمانہ میں تبلیغ کا کام ہمارے سپرد ہے.آپ صحابہ سے فرماتے چلو تو سب چل پڑتے تھے.وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہماری دکانیں بند ہو جائیں گی.پھر یہ بھی نہیں کہ ان کے بیوی بچے نہیں تھے.آج کل لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر ہم دین کی خدمت کے لئے جائیں تو ہمارے بیوی بچوں کو کون کھلائے گا؟ سوال یہ ہے کے آیا صحابہ کے بیوی بچے تھے یا نہیں ؟ اگر تھے تو جنگ پر جانے کے بعد انہیں کون کھلاتا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی ترقی قربانی سے وابستہ ہے، روپیہ ایک عارضی چیز ہے.جیسے تحریک جدید کے ابتدا میں ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ روپیہ ایک ضمنی چیز ہوگی.تحریک جدید کی اصل بنیاد وقف زندگی پر ہوگی.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب واقفین میں سے ایک حصہ کا رجحان روپیہ کے طرف ہورہا ہے اور وہ یہ سوال کر دیا کرتے ہیں کہ ہم کھائیں گے کہاں سے؟ حالانکہ وقف کی ابتدائی شرطوں میں ہی صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ زندگی وقف کرنے والا ہر قسم کی قربانی سے کام لے گا اور وہ کسی قسم کے مطالبے کا حقدار نہیں ہو گا.حقیقت یہ ہے کہ جو شخص خدا کے لئے قربانی کرتا ہے، خدا خود اس کا مددگار ہو جاتا ہے.آخر ہمارے وقف کے دوہی نتیجے ہو سکتے ہیں یا تو ہمیں کچھ ملے یا نہ ملے.میں ”ہمارے“ کا لفظ اس لئے کہتا ہوں کہ میں بھی جوانی سے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں اور میں جب دین کی خدمت کے لئے آیا تھا، اس وقت میں نے خدا تعالیٰ سے یا خدا تعالیٰ کے نمائندوں سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ میں اور میرے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گئے ؟ مگر اب تم میں سے کئی لوگوں کو یہ نظر آتا ہے کہ میرے پاس روپیہ بھی ہے اور میں کھاتا پیتا بھی 81
خطبہ جمعہ فرمود و 30 ستمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلدسوم با فراغت ہوں.مگر سوال یہ ہے کہ میں نے تو کوئی شرط نہیں کی تھی.جو کچھ خدا نے مجھے دیا، یہ اس کا احسان.یہ کا ہے.میر احق نہیں کہ میں اس کی کسی نعمت کو رد کروں.لیکن جب میں آیا تھا ، اس وقت میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پہلے میرے بیوی بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت پیدا کی جائے ، اس کے بعد میں اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کروں گا.یہ اس کا سلوک ہے، اس میں کسی بندے کو کوئی اختیار نہیں.اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں حضرت عیسی علیہ السلام بھی تھے، جنہوں نے روٹی کھائی ہوتی تو وہ کہتے کہ فلاں مرید کو کہہ دو کہ وہ مجھے روٹی بھجوادے اور اس کے نبیوں میں حضرت سلیمان بھی تھے، جن کے دائیں بائیں دولت گر رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے اپنے الہامات میں داؤد کہا ہے.ہم نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کے اس مختلف سلوک کی وجہ کیا ہے؟ یہ ایک راز ہے، جو اس نے اپنے قبضہ میں رکھا ہوا ہے.ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ شاید کوئی شخص اور لحاظ سے تو کام کا اہل ہوتا ہے مگر اس کی صحت اور حالات تقاضا کرتے ہیں کہ اسے روپیہ دیا جائے یا اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے وہ دنیا کا امتحان لینا چاہتا ہے.بہر حال اس کا سلوک ہے یہی کہ کسی کو وہ بے انتہا دیتا چلا جاتا ہے اور کسی کو اپنی مصلحتوں کے مطابق مشکلات میں مبتلا کرتا ہے.حضرت خلیفہ اول ہمیشہ دعوی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خدا تعالیٰ اپنے پاس سے رزق دیتا ہے.ہمارے ناناجان حضرت میر ناصر نواب صاحب کو سلسلہ کی خدمت کا شوق تھا اور وہ چندے کے لئے باہر چلے جاتے تھے.اسی چندہ سے انہوں نے دار الضعفاء بنوایا، مسجد نور بنوائی ، اسی طرح اور تین چار کام کئے.وہ باہر سے چندہ لالا کر یہ عمارتیں تعمیر کراتے تھے.ان کے بڑھاپے کی عمر میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا، میر صاحب! ہمیں خدا نے ایک نسخہ بتایا ہوا ہے کہ جس کے نتیجہ میں ہمیں خود بخودرو پیٹل جاتا ہے.اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو بھی وہ نسخہ بتا دوں؟ اس کے بعد آپ کو باہر چندہ کے لئے جانے کی ضرروت نہیں رہے گی.میر صاحب مرحوم نے جواب دیا کہ آپ جو بتائیں گئے ، اس کے نتیجہ میں مجھے جو کچھ ملا، اسے دیکھ کر میرے دل میں یہی خیال پیدا ہوگا کہ آپ کے نسخہ کی وجہ سے یہ روپیہ ملا ہے.مگر اب تو یہ مزہ آتا ہے کہ خدا خود اپنے پاس سے روپیہ دے رہا ہے.یہ مزا آپ کے نسخہ سے جاتا رہے گا.حضرت خلیفہ اول ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ساری عمر میں صرف ایک شخص کے آگے اس نسخہ کو پیش کیا اور اس نے بھی لینے سے انکار کر دیا.حضرت خلیفہ اول نے بار ہا میرے سامنے بھی یہ بات بیان کی اور ایسے رنگ میں بیان کی کہ گویا آپ چاہتے تھے کہ میں اس کے متعلق آپ سے سوال کروں.مگر میں 82
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1949ء نے آپ سے بھی نہیں پوچھا اور نہ میں نے کبھی ایسے علم کے پوچھنے کی ضرورت کبھی.اور واقعہ یہ ہے ؟ حضرت خلیفہ اول کے پاس جتنا روپیہ آتا تھا، اس سے بہت زیادہ روپیہ خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.اس کی وجہ اصل تو فضل الہی ہے اور ظاہری یہ کہ میں نے خدا تعالیٰ سے کبھی ٹھیکہ نہیں کیا.ہم جب قادیان سے آئے ، اس وقت ہمارے خاندان کی تمام جائیدادیں پیچھے رہ گئی تھیں اور ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.بعض دوستوں کی امانتوں کا صرف نو سور و پیہ میرے پاس تھا.ادھر ہمارے سارے خاندان کے دوسو کے قریب افراد تھے اور ان میں سے کسی کے پاس روپیہ نہیں تھا.اس حالت میں بھی میں نے یہ نہیں کیا کہ لنگر سے کھانا منگوانا شروع کر دوں.بلکہ میں نے سمجھا کہ وہ خدا، جو پیسے دیتا رہا ہے، اب بھی دے گا.چنانچہ میں نے اپنے خاندان کے سب افراد سے کہا کہ تم فکر مت کرو، سب کا کھانا اکٹھا تیار ہوا کرے گا.اور ایسا ہی ہوا.اپنے خاندان کے تمام افراد کے کھانے کا انتظام میں نے کیا اور برابر کئی ماہ تک اس بوجھ کو اٹھایا.آخر کسی نے چھ ماہ کے بعد اور کسی نے نو ماہ کے بعد اپنے اپنے کھانے کا الگ انتظام کیا.اس عرصہ میں وہ لوگ جن کا روپیہ میرے پاس امانتا پڑا ہوا تھا ، وہ بھی اپنا روپیہ لے گئے.اور ہمیں بھی خدا نے اس طرح دیا کہ ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم کوئی اور تدبیر ایسی اختیار کریں، جس سے ہماری روٹی کا انتظام ہو.میں جب تک لاہور نہیں پہنچا، ہمارے خاندان کے لئے لنگر سے کھانا آثار ہا تھا.مگر جہاں تک مجھے علم ہے، اس کی بھی لنگر کو قیمت ادا کر دی گئی تھی.اور اس کے بعد اپنے خاندان کے دوسو افراد کا بوجھ اٹھایا.حالانکہ اس وقت ماہوار خرچ کھانے کا کئی ہزار روپیہ تھا.غرض خدا دیتا چلا گیا اور میں خرچ کرتا چلا گیا.اگر میں خدا تعالیٰ سے ٹھیکہ کرنے بیٹھا جاتا اور اس سے کہتا کہ پہلے میری تنخواہ مقرر کی جائے، پھر میں کام کروں گا اور خدا تعالیٰ خواب یا الہام کے ذریعہ پوچھتا کہ بتا تجھے کتنا روپیہ چاہیے؟ تو اس زمانے کے لحاظ سے جب میری ایک بیوی اور دو بچے تھے، میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا تھا کہ سوروپیہ بہت ہوگا.مجھے ایک سوروپیہ ماہوار دے دیا جائے لیکن اگر میں ایسا کرتا تو آج کیا کرتا ، جبکہ میری چار بیویاں اور بائیس بچے ہیں اور بہت سے رشتہ دار ایسے ہیں، جو اس بات کے محتاج ہیں کہ میں ان کی مدد کروں؟ میرے وہ رشتہ دار، جن کا اب بھی میرے سر پر بوجھ ہے، ساٹھ ستر کے قریب ہیں.اگر سوروپیہ میں اپنے لئے مانگتا تو ان کو ڈیڑھ ڈیڑھ روپیہ بھی نہیں آسکتا تھا.پھر میں روٹی کہاں سے کھاتا، کپڑے کہاں سے بنواتا، اپنے بچوں کو تعلیم کس طرح دلاتا اور اپنے خاندان کے افراد کی پرورش کس طرح کرتا ؟ بہر حال میں نے خدا تعالیٰ سے یہ کبھی سوال نہیں کیا کہ تو مجھے کیا دے گا؟ اور خدا تعالیٰ نے بھی 83
خطبہ جمعہ فرمود و 30 ستمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم میرے ساتھ بھی سودا نہیں کیا.میں نے خدا تعالیٰ سے یہی کیا کہ مجھے ملے نہ ملے، میں تیرا بندہ ہوں اور میرا کام یہی ہے کہ میں تیرے دین کی خدمت کروں.اور اس کے بعد خدا تعالیٰ نے بھی یہی کیا کہ یہ سوال نہیں کہ تیری لیاقت کیا ہے؟ یہ سوال نہیں کہ تیری قابلیت کیا ہے؟ ہم بادشاہ ہیں اور ہم اپنے بادشاہ ہونے کے لحاظ سے تجھے اپنی نعمتوں سے متمتع کرتے رہیں گے.غرض خدا سے سچا تعلق رکھنے والا انسان ہمیشہ آرام میں رہتا ہے.لیکن فرض کرو ، وہ یہی فیصلہ کر دیتا ہے کہ ہم بھو کے مر جائیں.تو کم از کم مجھے تو وہ موت نہایت شاندار معلوم ہوتی ہے، جو خدا تعالیٰ کی راہ میں بھوکے رہ کر حاصل ہو، بجائے اس کے ہم پیٹ بھر کر خدا تعالیٰ کے راستہ سے الگ ہو جائیں.اگر ہم اس کی راہ میں بھوکے مر جائیں تو خدا تعالیٰ کے سامنے ہم کتنی شان سے پیش ہوں گے، کتنے دعوئی کے ساتھ پیش ہوں گے کہ ہم نے تیرے لئے بھوکے رہ کر اپنے جان دے دی.مگر میں دیکھتا ہوں کہ زندگی وقف کرنے والے نو جوانوں کے جدید حصہ میں اب وہ تو کل نہیں ، جو ایک سچے مومن کے اندر ہونا چاہیے.حالانکہ اگر سلسلہ ان کو ایک پیسہ بھی نہ دے اور وہ تو کل سے کام لیں تو یقینا ز مین ان کے لئے اگلے گئی اور آسمان ان کے لئے اپنی نعمتیں برسائے گا.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب زلزلہ کے الہامات کی وجہ سے باغ میں تشریف لے گئے تو ایک دن آپ نے گھر میں حضرت ام المومنین سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ روپیہ بالکل نہیں رہا، ہمارا خیال ہے کہ بعض دوستوں سے قرض لے لیا جائے.مگر پھر آپ نے فرمایا کہ یہ بھی تو کل کے خلاف ہے.اس کے بعد آپ مسجد میں گئے اور نماز ہوئی ، جب واپس آئے تو آپ نے ایک پوٹلی نکالی اور اس کو کھولا اور پھر اسے کو دیکھ کر فرمانے لگے (میں بھی اس وقت پاس ہی کھڑا تھا ) کہ جب میں نماز کے لئے باہر گیا تو ایک غریب آدمی، جس کے کپڑے پھٹے پرانے تھے ، اس نے یہ پوٹلی ہماری جیب میں ڈال دی.اور چونکہ بوجھل تھی ، میں نے سمجھا کہ اس میں پیسے وغیرہ ہوں گئے.مگر جب گھر آکر میں نے اس پوٹلی کو کھولا تو اس میں سے روپے اور نوٹ نکلے.پھر آپ نے ان روپوں اور نوٹوں کو گنا تو وہ چار پانچ صد کے قریب نکلے.آپ نے فرمایا ، اگر ہم قرض لیتے تو یہ توکل کے خلاف ہوتا.ادھر ہمیں ضرورت پیش آئی اور ادھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے ذریعہ سے روپیہ بہم پہنچا دیا ، جس کا ہمیں و ہم اور خیال بھی نہیں تھا.میں نے خود اپنی ذات میں خصوصاً قادیان سے نکلنے کے بعد خدا تعالیٰ کے ایسے ہی نشانات دیکھے ہیں.ایسے انسان، جن کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ میں ان کی مدد کروں.وہ اصرار کر کے مجھے ایسی رقوم دے گئے کہ میرے وہم میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وہ اتنا روپیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں.84
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1949 ء غرض اللہ تعالیٰ پر تو کل ہی انسان کو حقیقی زندگی دیتا ہے اور تو کل ہی ہر قسم کی برکات کا انسان کو مستحق بناتا ہے.جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہم السلام کے ذریعہ خداتعالی نے مکہ بنوایا تواس وقت اس نے یہی کہا کہ یہاں تو کل سے رہنا اور خدا تعالیٰ سے روٹی مانگنا، بندوں سے نہ مانگنا.اسی نیت اور ارادہ کے ساتھ نہیں قادیان میں بھی رہنا چاہیے تھا.مگر وہ احمدیت سے پہلے کی بنی ہوئی بہتی تھی اور ابھی بہت سے لوگ اس سبق سے نا آشنا تھے.لیکن یہ نئی بستی، جہاں ایک طرف مدینہ سے مشابہت رکھتی ہے، اس لحاظ سے کہ ہم قادیان سے ہجرت کرنے کے بعد یہاں آئے ، وہاں دوسری طرف یہ مکہ سے بھی مشابہت رکھتی ہے کیونکہ یہ نئے سرے سے بنائی جارہی ہے اور محض احمدیت کے ہاتھوں سے بنائی جارہی ہے.جس طرح حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ہاتھ سے اللہ تعالی نے مکہ معظمہ بنوایا.وہاں بھی خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی نسل سے یہی کہا تھا کہ تم اپنی روٹی کا ذمہ دار مجھے سمجھنا، کسی بندے کو نہ سمجھنا.پھر میں تم کو دوں گا اور اس طرح دوں گا کہ دنیا کے لئے حیرت کا موجب ہوگا.چنانچہ دیکھ لو، ایسا ہی ہوا.مکہ والے بیشک محنت مزدوری بھی کرنے لگ گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں، اگر وہ محنت مزدوری چھوڑ دیتے ، تب بھی جس طرح بنی اسرائیل کے لیے خدا تعالیٰ نے ایک جنگل میں من و سلوی نازل کیا تھا، اسی طرح مکہ والوں کے لئے من و سلوی اترنے لگے.کیونکہ وہاں پر رہنے والوں کا رزق خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے.اسی طرح ہم کو بھی اس جنگل میں، جس جگہ کوئی آبادی نہیں تھی ، جس جگہ رزق کا کوئی سامان نہیں تھا، جو مکہ کی طرح ایک وادی غیر زرع تھی اور جہاں مکہ کی طرح کھاری پانی ملتا ہے اور جو اس لحاظ سے بھی مکہ سے ایک مشابہت رکھتا ہے کہ مکہ کی طرح یہاں کوئی سبزہ وغیرہ نہیں اور پھر مکہ کے گرد، جس طرح پہاڑیاں ہیں، اس طرح اس مقام کے ارد گرد پہاڑیاں ہیں، اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے بسائیں.پس اس موقع پر ہمیں بھی اور یہاں رہنے والے سب افراد کو بھی یہ عزم کرنا چاہیے کہ انہوں نے خدا سے مانگنا ہے، کسی بندے سے نہیں مانگنا.تم اپنے دل میں ہنسو تمسخر کرو، کچھ سمجھو، حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے معزز روزی وہی ہے، جو خدا تعالیٰ سے مانگی جائے.وہ کوئی روزی نہیں ، جو انسان کو انسان سے مانگ کر ملتی ہے.بلکہ حقیقت تو یہ ہے ( مگر یہ اعلیٰ مقام کی بات ہے اور اعلیٰ درجہ کی روحانیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور شاید تم میں سے بہتوں کی سمجھ میں بھی نہ آئے ) کہ وہ روزی بھی اتنی اچھی نہیں، جو خدا تعالیٰ سے مانگ کر ملتی ہے.بلکہ اعلیٰ روزی وہ ہے، جو خدا تعالیٰ خود دیتا ہے اور بے مانگے کے دیتا 85
خطبہ جمعہ فرمود 300 ستمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہے.مجھے اپنی زندگی میں ہمیشہ ہنسی آتی ہے، اپنی ایک بات پر ( مگر یہ ابتدائی مقام کی بات تھی اور اعلیٰ مقام ہمیشہ ابتدائی منازل کو طے کرنے کے بعد ملتا ہے اور ابتدائی مقام یہی ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے، میں نے خدا سے مانگنا ہے.) کہ میں نے بھی خدا سے کچھ مانگا اور اپنے خیال میں انتہائی درجہ کا مانگا.مگر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے، اپنی بیوقوفی پر اور ہمیشہ لطف آتا ہے، خدا تعالیٰ کے انتقام پر کہ جو کچھ ساری عمر کے لیے میں نے مانگا تھا، وہ بعض دفعہ اس نے مجھے ایک ایک ہفتہ میں دے دیا.میں زمین پر شرمندہ ہوں کہ میں نے کیا حماقت کی اور اس سے کیا مانگا اور وہ آسمان پر ہنستا ہے کہ اس کو ہم نے کیسا بدلہ دیا اور کیسا نادم اور شرمندہ کیا؟ پھر میں نے سمجھا کہ مانگنا بھی فضول ہے.کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کریں کہ وہ ہمیں بے مانگے ہی دیتا چلا جائے.ایک شخص جو کسی بڑے شخص کے گھر مہمان جاتا ہے، اگر اس سے جا کر کہے کہ صاحب میں آپ کے گھر سے کھانا کھاؤں گا تو اس میں میزبان اپنی کتنی ہتک محسوس کرتا ہے.جب وہ اس کے ہاں مہمان آیا ہے تو صاف بات ہے کہ وہ اس کے ہاں سے کھانا کھائے گا.اس کا یہ کہنا کہ میں آپ کے ہاں سے کھانا کھاؤں گا، یہ مفہوم رکھتا ہے کہ وہ میزبان کے متعلق اپنے دل میں یہ بدظنی محسوس کرتا ہے کہ شاید وہ کھانا نہ کھلائے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا جو مہمان ہو جاتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ خود کھلاتا اور پلاتا ہے.اگر وہ اس سے مانگے تو اس میں اس کی اعلیٰ وارفع شان کی ہتک ہوتی ہے.مگر خدا تعالیٰ کا سلوک ہر بندے سے مختلف ہوتا ہے.وہ، جو خدا کے لئے اپنی زندگی وقف نہیں کرتے ، ان کو بھی وہ روزی بہم پہنچاتا ہے اور جو اس کے لئے اپنی ساری زندگی کو وقف کیسے ہوئے ہوتے ہیں، ان کو بھی وہ روزی بہم پہنچاتا ہے.وہ فرماتا ہے.كُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ ہم اس کے لئے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں، جو ایمان سے خارج اور دہر یہ ہوتا ہے اور اس کے لئے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں، جو ہم پر کامل ایمان رکھنے والا ہوتا ہے.یہ دوگروہ ہیں ، جو الگ الگ ہیں.ایک وہ ہے، جو ہمیں گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں خود کمائی کروں گا اور اپنی کوشش سے رزق حاصل کروں گا.اور ایک گروہ وہ ہے، جو کہتا ہے کہ کمائی لغو چیز ہے بلکہ میں نے تو خدا تعالیٰ سے بھی نہیں مانگنا ، اس کی مرضی ہے، چاہے دے یا نہ دے.فرماتا ہے، ہم اس گروہ کو بھی دیتے ہیں اور اس گروہ کو بھی دیتے ہیں.ایک ھؤلاء ان لوگوں کی طرف جاتا ہے، جو بد ترین خلائق ہوتے ہیں اور جو مادیات کے اتنے دلدادہ اور عاشق ہوتے ہیں کہ سمجھتے ہیں، سب نتائج کی بنیاد مادیات پر ہی ہے.اور ایک هؤلاء ان 86
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1949 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم لوگوں کی طرف جاتا ہے، جو مادیات سے بالکل بالا ہو کر اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ سمجھتے ہیں ، ہم نے خدا سے بھی نہیں مانگنا.اور ایک درمیانی گروہ ہوتا ہے، وہ اپنے اپنے درجہ کے مطابق ظاہر میں کچھ مادی کوششیں بھی کر لیتے ہیں اور پھر ساتھ اس کے اللہ تعالیٰ پر تو کل بھی رکھتے ہیں.کبھی مانگتے ہیں اور کبھی نہیں مانگتے.یا اپنی زندگی میں سے کچھ عرصہ کوشش اور جدو جہد کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کوشش اور جدو جہد کو ترک کر دیتے ہیں.ظاہری تدبیر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بھی کی.آپ طلب کرتے تھے اور روپیہ کماتے تھے.اور ظاہری تدبیر ہم نے بھی کی.ہم بھی زمیندارہ کرتے ہیں اور بعض دفعہ تجارت بھی کر لیتے ہیں مگر اس نیت سے کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے.اگر وہ کہے کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں دینا تو ہمیں اس سے کوئی شکوہ نہیں ہوگا، ہمیں اس کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا.ہم پھر بھی یہی سمجھیں گے کہ وہ ہماری اتنی ہی حمد کا مستحق ہے، جتنی حمد کا اب مستحق ہے.بلکہ وہ ہماری اتنی حمد کا مستحق ہے، جتنی حمد ہم کر بھی نہیں سکتے.پس اس مقام کے رہنے والوں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ تو کل سے کام لیں اور ہمیشہ اپنی نگاہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلند رکھیں.جو دیانتدار اور احمدی ہیں، میں ان سے کہوں گا کہ اگر وہ کسی وقت یہ دیکھیں کہ وہ تو کل کے مقام پر قائم نہیں رہے تو وہ خود بخود یہاں سے چلے جائیں.اور اگر خود نہ جائیں تو جب ان سے کہا جائے کہ چلے جاؤ تو کم سے کم اس وقت ان کا فرض ہو گا کہ وہ یہاں سے فورا چلے جائیں.یہ جگہ خدا تعالٰی کے ذکر کے بلند کرنے کے لئے مخصوص ہونی چاہیے.یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لئے مخصوص ہونی چاہیے.یہ جگہ خدا تعالیٰ کے دین کی تعلیم اور اس کا مرکز بننے کے لئے مخصوص ہونی چاہیے.ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی اولا داور اپنے اعزہ اورا قارب کو اس رستہ پر چلانے کی کوشش کرے.یہ ضروری نہیں کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہو سکے.نوع کی کوشش کے باوجود اس کا بیٹا اس کے خلاف رہا ، لوط" کی کوشش کے باوجود اس کی بیوی اس کے خلاف رہی، اسی طرح اور کئی ابنیاء اور اولیاء ایسے ہیں، جن کی اولادیں اور بھائی اور رشتہ داران کے خلاف رہے.ہم میں سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے خاندان میں سے کتنوں کو دین کی طرف لا سکے گا؟ مگر اس کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس کی ساری اولا داور اس کی ساری نسل دین کے پیچھے چلے.اور اگر اس کی کوشش کے باوجود اس کا کوئی عزیز اس رستہ سے دور چلا جاتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ میری اولاد میں سے نہیں.میری اولا دو ہی ہے، جو اس منشاء کو پورا کرنے والی ہے، جو الہی منشا ہے.جو شخص دین کی خدمت کے لئے تیار نہیں، وہ ہماری اولاد میں سے 87
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم نہیں.ہم اپنی اولاد کو مجور نہیںکر سکتے کہ ہ ضرور دین کے پیچھے چلیں.ہم ان کے دل میں ایمان پیدا نہیں کر سکتے.خدا ہی ہے، جو ان کے دلوں میں ایمان پیدا کر سکتا ہے.لیکن ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ جو اولا داس منشاء کو پورا کرنے والی نہ ہو، اسے ہم اپنے دل سے نکال دیں.بہر حال اگر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اعلیٰ مقام دے تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس مقام کو دین کا مرکز بنائے رکھیں.اور ہمیشہ دین کی خدمت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے وہ اپنی زندگی وقف کرتے چلے جائیں.لیکن ہماری کسی غلطی اور گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ مقام ہمیں نصیب نہ کرے اور ہماری ساری اولادیں یا ہماری اولادوں کا کچھ حصہ دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہ ہو، اللہ تعالیٰ پر توکل اس کے اندر نہ پایا جاتا ہو، خدا تعالیٰ کی طرف انابت کا مادہ اس کے اندر موجود نہ ہو تو پھر ہمیں اپنے آپ کو اسی امر کے لئے تیار رکھنا چاہیے کہ جس طرح ایک مردہ جسم کو کاٹ کر الگ پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح ہم اس کو بھی کاٹ کر الگ کر دیں اور اس جگہ کو دین کی خدمت کرنے والوں کے لئے ان سے خالی کروالیں.بہر حال میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر یہ عزم پیدا کرے.یہ عزم پیدا کرنا، کوئی معمولی چیز نہیں.بڑے کام، بڑے ارادوں کے ساتھ ہوا کرتے ہیں.بڑے کام ، بڑے عزم سے ہوا کرتے ہیں اور بڑے کام، بڑی قربانیوں سے ہوا کرتے ہیں.انسان ہزاروں دفعہ موت سے ڈر کر پیچھے ہتا ہے، حالانکہ وہی وقت اس کی دائمی زندگی کا ہوتا ہے.جہنم میں جانے والوں میں سے کروڑوں کروڑ انسان ایسے ہوں گے کہ جب ان کے اعمال ان کے سامنے کھولے جائیں گے تو انہیں پتہ لگے گا کہ صرف ایک سیکنڈ کی غلطی کی وجہ سے وہ جہنم میں گر گئے.اگر ایک سیکنڈ وہ اور صبر کرتے تو خدا تعالیٰ کا فیصلہ ان کے حق میں صادر ہو جاتا.مگر وہ ایک سیکنڈ پہلے خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گئے.وہ ایک سیکنڈ پہلے بے صبری کا شکار ہو گئے اور صرف ایک سیکنڈ کی غلطی کی وجہ سے دوزخ میں جا گرے.کروڑوں کروڑ انسان ایسے مقام پر پہنچ کر دوزخ میں چلا جاتا ہے، جب خدا کی طرف سے ان کے ولی بننے کا فیصلہ ہورہا ہوتا ہے.کروڑوں کروڑ انسان اس وقت بددیانت ہو جاتا ہے، جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کی دیانت کے قائم رکھنے کے لئے ہر قسم کے مادی سامان بہم پہنچائے جانے کا فصیلہ ہورہا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ ہمارا امتحان لیتا ہے اور اس میں بعض دفعہ ہم اس وقت فیل ہو جاتے ہیں ، جب امتحان کے پرچوں کا ہمارے حق میں فیصلہ ہونے والا ہوتا ہے.پیشتر اس کے کہ ہم اپنا پر چہ ختم کرتے اور وہ ہمیں پاس کرتا ، ہم مایوس ہو کر امتحان کے کمرہ سے باہر نکل جاتے ہیں اور اپنی کامیابی کو نا کامی میں بدل لیتے ہیں.88
ریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1949ء پس مت سمجھو کہ عزم کوئی معمولی چیز ہے.( یہاں تین فقرات Misprinting کی وجہ.باوجود ہر ممکن کوشش کے سمجھ نہیں آسکے.ناقل ) وہ شخص جو طاقت تو رکھتا ہے مگر پھر بھاگنے کا خیال اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے، میں اسے کہتا ہوں ٹھہر اور صبر کر.تیرے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ کے کھلنے والا ہے.بسا اوقات خدا خود چل کر آرہا ہوتا ہے اور وہ دروازہ کی کنڈی کھول رہا ہوتا ہے کہ تو منہ پھیر کر چلا جاتا ہے.اور اس طرح خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ کے لئے دور چلا جاتا ہے.اور ساری چیزیں ہزاروں نہیں ، لاکھوں دلائل سے ہم ثابت کر سکتے ہیں.آدم سے لے کر اب تک ایک ایک بات ہو چکی ہے لیکن اس مادی دنیا کے اثر کے نیچے ہزاروں ہزار بلکہ اربوں ارب ایسے لوگ ہیں، جو اس رستہ پر چلنے سے گھبراتے ہیں.کاش وہ اپنے گردو پیش کو نہ دیکھیں بلکہ پیچھے کی طرف دیکھیں.وہ اس دنیا کی طرف دیکھیں، جو پیچھے گزر چکی ہے.اس دنیا کی طرف نہ دیکھیں، جس کی اصلاح اور درستی کے لیے وہ کھڑے کئے گئے ہیں.کیا ہی بد قسمت وہ انسان ہے کہ جس کی اصلاح کے لئے اسے بھیجا جائے ، اسی کے مرض میں وہ خود بھی گرفتار ہو جائے.کتنا بد قسمت وہ سپاہی ہے، جو چور کو پکڑنے کے لئے بھیجا جائے اور خود اس کے ساتھ مل کر چوری کرنے لگ جائے.جو شخص ، اس وقت مادیات میں مبتلا ہوتا ہے، وہ اس مادی اثر کے نتیجہ میں ہوتا ہے، جو اس وقت دنیا میں پایا جاتا ہے.لیکن اس مادی اثر کو مٹانے کے لئے ہی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا گیا تھا.پھر ہم سے زیادہ بدنصیب اور کون ہوگا کہ خدا نے تو ہمیں اس لئے بھیجا کہ ہم دین کے چوروں اور باغیوں کو پکڑ کر اس کے سامنے لائیں اور ہم ان کے آرام اور ترقی کو دیکھ کر خود بھی انہی چوروں اور باغیوں میں شامل ہو جائیں.پس اپنے اندر عزم پیدا کرو اور سوچو کہ ہمیں کیوں بھیجا گیا ہے؟ ہمیں انہی چیزوں کو دیکھنے کے لئے بھیجا گیا ہے، جن کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں لالچ پیدا ہوتی ہے.ہمیں انہی چیزوں کو ہٹانے کے لیے بھیجا گیا ہے، جن کو دیکھ کر تمہارے دلوں میں ان کے پیچھے چلنے کا شوق پیدا ہوتا ہے.تم سمجھو یا نہ سمجھو، یہ خدا کا کام ہے اور بہر حال ہو کر رہے گا.اگر تم یہ کام نہیں کرو گئے تو خدا اور لوگ کھڑے کر دے گا ، جو اس کام کو سرانجام دیں گے.یہ نظام بدلا جائے گا اور ضرور بدلا جائے گا.امریکہ اور روس اور انگلستان کے مادی لیڈر اور اسی طرح کے اور صنادید، جو اس وقت ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں، جو دنیا کے من مستقبل پر مادی اسباب سے قبضہ جمانے کی فکر میں ہیں، یہ مٹائے جائیں گئے ، یہ تباہ کیے جائیں گئے ، یہ بر باد کئے جائیں گے.اور پھر دنیا اس پرانے طریق پر لائی جائے گی، جو آج سے تیرہ سو سال پہلے جاری تھا.بلکہ خودان 89
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم لوگوں کی اولا د اسی طریق کو اختیار کرے گی اور اپنے آباء کے راستہ کو چھوڑ دے گی.کوئی تدبیر اس تقدیر کو بدل نہیں سکتی.یہ ناممکن نظر آنے والی چیز دنیا میں سب سے زیادہ ممکن چیز ہے.ایک رستم زماں کے لئے ایک چھوٹے سے کنکر کا اٹھالین ناممکن ہو سکتا ہے لیکن دنیا کے موجودہ نقشہ کا تبدیل نہ ہونا، ناممکن ہے ہے.یہ نظام بدلے گا اور ضرور بدلے گا.سوال صرف یہ ہے کہ کس کے ہاتھ سے بدلے گا ، ہمارے ہاتھ سے یا اور لوگوں کے ہاتھ سے؟ اگر ہمارے ہاتھ سے اس نظام نے بدلنا ہے تو ہمیں پہلے اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا.جس چیز کو بدلنے کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں، اسے ہم اپنے لئے کس طرح اختیار کر سکتے ہیں؟ ایک درخت کے متعلق اگر ہم جانتے ہیں کہ وہاں بجلی گرنے والی ہے تو کیا یہ بدقسمتی نہیں ہوگئی کہ ہم اس کے نیچے کھڑے ہو جائیں؟ ایک مکان کو اگر آگ لگنے والی ہے تو کیا یہ بدقسمتی نہیں ہوگی کہ ہم اس مکان میں رہنے لگ جائیں؟ ایک پہاڑ پر اگر زلزلہ آنے والا ہے تو کیا یہ بد قسمتی نہیں ہوگی کہ ہم اس پہاڑ پر چلے جائیں؟ اسی طرح وہ چیز ، جس کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے تباہی مقدر ہے، جس کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بربادی مقدر ہے، اس کی نقل کرنا اور اس کی پیروی اختیار کرنا ، یہ ضرور ہماری بدقسمتی ہوگی ، یہ ہماری انتہا درجہ کی حماقت ہوگی اور ہماری یہ کوشش اپنی خود کشی کے برابر ہو گئی.پس ایمان کے ارادے کے ساتھ یہاں رہو اور تو کل کی گرہ باندھ کر رہو اور ایک زندہ خدا پر یقین رکھتے ہوئے یہاں رہو.اگر خدا پر تمہارا یقین ہوگا، اگر خدا پر تمہارا ایمان ہوگا تو تم دیکھو گئے کہ زمین تمہارے لئے بدل جائے گی ، آسمان تمہارے لئے بدل جائے گا.ہمارا خدا وہی ہے، جو آدم علیہ السلام کے وقت میں تھا.مگر خدا بوڑھا نہیں ہوتا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس نے زمین اور آسمان کو بدل دیا تھا، حضرت عیسی علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ اسلام، حضرت یوسف علیہ اسلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے لئے اس نے زمین و آسمان کو بدل دیا تھا ، اسی طرح اور لاکھوں لوگ ہیں ، جن کے لئے خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بدلا.یہی زمین و آسمان بدلنے تمہارے لیے بھی مقدر ہیں.بشرطیکہ تم ان لوگوں کے نقش قدم پر چلو، جن کے لئے خدا تعالٰی نے پہلے زمین و آسمان کو بدلا تھا.مطبوعه روزنامه الفضل 06 اکتوبر 1949ء) 90
خر یک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 اکتوبر 1949ء عہدہ اور اختیار سے کام نہیں چلتا بلکہ کام کرنے سے کام ہوا کرتا ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 07 اکتوبر 1949ء بیرونی مشنوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بعض اچھے اچھے کارکن نکل رہے ہیں اور بعض نے تو نہایت اعلیٰ درجہ کا قربانی کا نمونہ دکھایا ہے.جو بتاتا ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو وقت پڑنے پر بغیر کسی مدد اور اعانت کے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.اس بارہ میں سب سے اچھا نمونہ اس نوجوان نے دکھایا ہے، جو سب سے کم تعلیم یافتہ ہے.یعنی کرم الہی ظفر.جب موجودہ مشکلات کی وجہ سے ہم نے بعض بیرونی مشنوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اور کہہ دیا کہ وہی لوگ کام جاری رکھیں، جو اپنا بوجھ آپ اٹھانے کے لیے تیار ہوں.تو اس وقت وہ مشن جن کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ان میں فرانس اور ہسپانیہ مشن بھی تھے.ہمارے اس فیصلہ پر ان دونوں ممالک کے مشنریوں نے درخواست کی کہ ہمارے مشن بند نہ کئے جائیں.اخراجات بیشک بند کر دیے جائیں، ہم اپنا بوجھ خود اٹھا ئیں گے اور ان مشنوں کو جاری رکھیں گے.چنانچہ ان دونوں مشنریوں کی دو سال کے عرصہ میں ہم نے کوئی مد نہیں کی.بلکہ پارٹیشن سے کچھ عرصہ پہلے کی بعض رقمیں بھی انہیں بھجوائی نہیں گئیں.اگر اس عرصہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ اڑھائی یا پونے تین سال کا عرصہ بن جاتا ہے.جہاں تک ہمت سے بیٹھے رہنے کا سوال ہے، اس میں یہ دونوں برابر ہیں.دونوں ہمت سے بیٹھے رہے اور تنگی ترشی سے گزارہ کرتے رہے.لیکن جہاں تک تبلیغ کو فورا سنبھال لینے کا سوال ہے، اس میں کرم الہی صاحب ظفر مقدم ہیں.کیونکہ ملک عطاء الرحمن صاحب جو لاہور کے ہی باشندے ہیں، ایک لمبا عرصہ کے بعد تبلیغ کے کام کو سنبھال سکے.اب تو انہوں نے بھی جلسے کرنے شروع کر دیتے ہیں اور تبلیغ کو کچھ ڈاک کے ذریعہ وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ لڑ پچر بھی فرانسیسی زبان میں شائع کرنے لگے ہیں.مگر یہ موجودہ چھ مہینے کی بات ہے.اس سے پہلے وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ہی کوشش کرتے رہے.لیکن کرم الہی صاحب ظفر نے ابتدائی چھ مہینے کے اندر اندر ایسی صورت پیدا کر لی کہ جس کی وجہ سے وہ اپنی تبلیغ کو وسیع کرنے میں کامیاب ہو گئے.انہوں نے میری ایک کتاب کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کیا اور اسے ملک میں شائع کیا.اور اب اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ کر کے انہوں نے شائع کیا ہے.اور یہ ساری کمائی انہوں نے خود محنت کر کے کی ہے.اور بعض دفعہ تو ایسے رنگ میں کمائی کی 91
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07اکتوبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلدسوم ہے کہ آج کل کے تعلیم یافتہ نو جوان اگر اس رنگ میں کام کریں تو ان کی طبائع پر سخت گراں گزرے.یعنی بازار میں کھڑے ہو کر عطر کی شیشیاں فروخت کرتے اور پھر جو کچھ آمد ہوتی، اس سے اپنے اخراجات چلاتے.ایک طرف بازار میں کھڑے ہو کر شیشیاں بیچنا اور دوسری طرف مبلغ کا لباس ہو اور اس کے اعزاز و احترام کا سوال ہو.یہ بڑا مشکل مرحلہ ہے اور ہر شخص ایسا نہیں کر سکتا.ہزاروں میں سے کوئی ایک ہوتا ہے، جو بڑامشکل اور ایسا کر سکتا ہے.بلکہ ہزاروں میں سے بھی نہیں.لاکھوں میں سے کوئی ایک ہوتا ہے، جو ایسا کر سکتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ ایسا ہوا بھی کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ تمہاری یہ کیا حالت ہے تم تو مبلغ ہو اور پھیری کا کام، جو گداگری کے برابر ہے، کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا جو سچائی ہے، وہ لوگوں تک پہنچانا ہمارا فرض ہے.مگر ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے ، وہ خرچ نہیں دے سکتی، اس لئے میں خود کمائی کر رہا ہوں.اس پر بعض دفعہ ہسپانیہ کے بعض بڑے بڑے آدمیوں نے انہیں چار چار، پانچ پانچ پونڈ تھفہ کے طور پر دیئے اور کہا کہ ہمیں بھی ان نیک مقاصد میں شامل کیجئے.اسی طرح بعض اور مشنریوں نے اپنی اپنی جگہ اچھا نمونہ دکھایا ہے.بلکہ بعض مولویوں نے بھی بیرونی ممالک میں نہایت اچھا کام کیا ہے.عام طور پر مولوی چونکہ باہر نہیں نکلتے ، اس لئے ان کے متعلق یہ شبہ ہی رہتا ہے کہ وہ دلیری سے ہر موقع پر اپنے آپ کو کام کا اہل ثابت کر سکتے ہیں یا نہیں.لیکن ہمارے ہالینڈ کے مبلغ حافظ قدرت اللہ صاحب مولویوں میں سے اچھا کام کرنے والوں کی بہترین مثال ہے.اسی طرح پرانے مبلغوں میں سے مولوی رحمت علی صاحب نہایت اچھا کام کرنے والے ہیں.ان کے ذریعے ہزاروں افراد کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی.اور نہ صرف عام طبقہ کے لوگوں تک انہوں نے احمدیت کا پیغام پہنچایا بلکہ ملک کے جو چوٹی کے آدمی ہیں، ان کو بھی وہ تبلیغ کرتے رہتے ہیں.ابھی ڈاکٹر کہ جوانڈونیشیا کے وزیر اعظم ہیں، ڈچ حکومت سے معاہدہ کرنے کے لئے ہالینڈ گئے اور ہمارا مشنری ان سے ملنے گیا تو ڈاکٹر حطہ نے فوراً کہا کہ میں آپ کی جماعت کو خوب جانتا ہوں.آپ کے مبلغ مجھ سے ملتے رہتے ہیں اور وہ ہمیں تبلیغ کرتے رہتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مبلغ ملک کے چوٹی کے آدمیوں تک بھی پہنچتے اور انہیں احمدیت کا پیغام پہنچاتے ہیں.پس میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے نوجوان قطعی طور پر ناکام رہے ہیں.ہمارے نوجوانوں میں سے ایک طبقہ ایسا ہے، جو نہایت اچھا کام کر رہا ہے.امریکن مشن کو خلیل احمد صاحب ناصر نے انگریزی مشن کو مشتاق احمد صاحب باجوہ نے اور سوئزرلینڈ کے مشن کو شیخ ناصر احمد صاحب نے عمدگی سے سنبھالا ہوا ہے.جرمنی کے مشن کی مشکلات اب شروع ہو رہی ہیں.پہلے اس مشن میں ایسے آدمی آملے تھے ، جو مجھتے تھے کہ پاکستان اور ہندوستان مالدار ملک ہیں.ہم اس مشن میں شامل ہو کر 92
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 107 کتوبر 1949ء ان ممالک سے کمائی کر سکیں گے.مگر جب ان پر حقیقت کھلی کہ یہ تو قربانی کا مطالبہ کرنے والی جماعت ہے تو ان کا گروہ کا گروہ الگ ہو گیا.اب عبد اللطیف صاحب، جو وہاں کے مبلغ ہیں، اپنے طرز پر جماعت بنانے "" کی کوشش کر رہے ہیں.وہ خاموش طبیعت نوجوان ہے مگر اچھا کام کرنے والا ہے.پس میرا یہ منشاء نہیں کہ ہمارے نوجوانوں نے ہر موقع پر نا کامی اور نامرادی کا طریقہ اختیار کیا.ان میں سے بعض نے نہایت اچھا نمونہ دکھایا ہے.خصوصا ان نو جوانوں نے ، جو غیر ممالک میں گئے.مگر جو نو جوان ہمارے مرکز میں کام پر لگے ہوئے ہیں، ان میں سے اکثر ایسے نکلے ہیں کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ، لڑائی جھگڑے میں ہی اپنا وقت گزارتے رہتے ہیں.اور ان کی بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کوئی عہدہ مل جائے ، کوئی اختیار حاصل ہو جائے.حالانکہ عہدہ اور اختیار سے کام نہیں چلتا.کام کرنے سے کام ہوا کرتا ہے“..پس اگر جماعتوں میں کمزوری پیدا ہوتی ہے تو مخلصین سے کہتا ہوں تم ہمت کرو، آگے بڑھو اور ان کی کمزوری کو تبلیغ اور ارشاد کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کرو.اور پھر جو کمی ان کے ارتداد سے سلسلے کے اموال میں ہو، اس کو خود اپنے چندے بڑھا کر پورا کرو.یہ کوئی سوال نہیں کہ سیکر یٹری کون ہے اور پریذیڈنٹ کون؟ دیکھو وہ ہمارے مرکزی سیکریٹری ہی تھے، جنہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم اتنا مال جمع نہیں کرتا سکتے کہ مبلغوں کے اخراجات کے لئے روپیہ دے سکیں.مگر ہمارے نوجوانوں نے کہا کہ آپ لوگ اگر ہمیں روپیہ نہیں بھجواتے تو بے شک نہ بھیجوائیں، ہم ٹوکریاں اٹھا ئیں گے اور اپنے لئے آپ گزارہ پیدا کریں گے.اور انہوں نے ایسا کر کے دکھا دیا.اسی طرح مقامی جماعتوں کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ اگر کام نہیں کرتے تو تم خود افراد جماعت کو بیدار کرو اور ان کے اندر ایک نئی زندگی اور نئی روح پیدا کرنے کی کوشش کرو.یہ بیداری کا وقت ہے، یہ کام کرنے کا وقت ہے.یہ سونے اور غافل ہو جانے کا وقت نہیں.تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو سکریٹری اور پر پیزیڈنٹ سمجھے.اور تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلسلے کا ذمہ دار سمجھے.جب تم میں سے ہر شخص کا ایمان اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ وہ سمجھے گا کہ سلسلہ کی عمارت کا بوجھ مجھ پر ہی ہے.میں ہی وہ ستون ہوں، جس پر احمدیت کی چھت قائم ہے.اگر میں ہلا تو احمدیت بھی مل جائے گی.تب تمہیں وہ مقام میسر آجائے گا کہ کوئی آفت تمہارے سر کو نیچا نہیں کر سکے گی ، کوئی مصیبت تمہارے قدموں کو ڈگمگا نہیں سکے گی اور کوئی ابتلا تمہیں ہراساں نہیں کر سکے گا.کیونکہ تم میں سے ہر شخص ایک چھوٹا نمونہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا.اور تم سمجھو گے کہ کام ہم نے کرنا ہے کسی اور نے نہیں کرنا.اور جب کسی جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں تو وہ جماعت کبھی مٹ 93
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 107 کتوبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم نہیں سکتی.اگر عزم کے ساتھ گیارہ آدمی بھی کھڑے ہو جائیں اور ان میں سے دس مر جائیں تو باقی رہنے والا ایک آدمی پھر ان دس مرنے والوں کو زندہ کر دے گا.اگر اس عزم کے ساتھ نوسوننانوے آدمی کھڑے ہو جا ئیں اور نو سو جگہ پر قیامت آجائے تو ننانوے آدمی پھر باقی نو سو جگہوں کو زندہ کر لیں گے.پس اصل چیز یہی ہے کہ اپنے اندر عزم پیدا کرو.جب ہماری جماعت کے نوجوان یہ فیصلہ کر لیں گے کہ ہم میں سے ہر شخص سلسلہ کا ذمہ دار ہے تو کیا وہ لوگ ، جنہوں نے ساری دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے، وہ اپنے محلہ کو فتح نہیں کر سکیں گے؟ اپنے گاؤں یا اپنے شہر کو فتح نہیں کر سکیں گے ؟ جب ہماری جماعت کے لوگ یہ عزم کرلیں گے کہ ہم دنیا کو فتح کریں گے تو ساری دنیا کو فتح کرنے میں تو کچھ دیر لگے گی ، وہ محلہ اور شہر کو نہیں چھوڑیں گے اور اسے جھوڑ کر رکھ دیں گے.اور جب وہ اپنے محلہ اور شہر والوں کو جنجھوڑ دیں گے تو جن لوگوں کے دلوں میں ایمان ہوگا، وہ بیدار ہو جائیں گے اور وہ بھی ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار ہو جائیں گے.پس اپنی ذمہ داری کو سمجھو اور وقت کی نزاکت کا احساس کرو.میں کہہ چکا ہوں کہ یہ خطبہ صرف لاہور کی جماعت کے لئے نہیں بلکہ باہر کی جماعتوں کے لئے بھی ہے.اس لئے میں ہر جگہ سے نوجوانوں اور احمدیوں سے کہتا ہوں کہ وہ تو جو تمہارے کارکن ہیں ، تم ان کو ہوشیار کرو لیکن اگر وہ ہوشیار نہ ہوں تو پھر ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس نازک وقت میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے آگے آئے.اور سیکر یٹری کا کام خود سرانجام دے.اگر اس وقت ہماری مالی حالت درست نہ ہوئی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چار پانچ سال تک ہم پچھلے قرضہ کو اتارنے میں لگے رہیں گے اور نیا کام نہیں کر سکیں گے.پس یہ ایک نہایت ہی نازک وقت ہے.اس نازک وقت کی اہمیت کو محسوس کرو اور اپنے فرض کی طرف توجہ کرو.اور وقت کی نزاکت کا تم اس سے اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ پیشگوئی جو چار ہزار سال سے چند ہزار چلی آرہی ہے کہ ایک زمانہ میں یا جوج و ماجوج کی لڑائی ہونے والی ہے، وہ وقت اب آنے ہی والا ہے.اس وقت کو اگر ہم نے ضائع کر دیا اور اپنی ترقی کی کوئی کوشش نہ کی تو اس سے زیادہ ظلم اور کوئی نہیں ہوگا.پس وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہر شخص کھڑا ہو جائے اور قطع نظر اس سے کہ سیکریٹری کون ہے اور پریزیڈنٹ کون؟ وہ خود کام کرنے لگ جائے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 13 اکتوبر 1949ء) 94
خر یک جدید - ایک الہی تحریک...جلدسوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1949ء احمدی مستورات خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں " خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1949ء چند مہینوں سے میں غور کر رہا تھا کہ ہماری تبلیغ کے راستہ میں بہت سی مشکلات نظر آ رہی ہیں.ہماری اندرونی اور بیرونی تبلیغ بہت سست ہے.اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے غور کر کے سمجھا کہ اس کی زیادہ تر وجہ عورتوں میں اس آزادی اور بے دینی کا پیدا ہونا ہے، جو ان میں مغرب کے اثر کی وجہ سے آگئی ہے.ویسے تو اسلام نے بھی عورتوں کو آزادی دی ہے.لیکن ان کی مغربی رنگ کی آزادی ان کے احمدیت قبول کرنے میں مانع ہے.اور جب یہ آزادی عورت کے احمدیت قبول کرنے میں مانع ہوتی ہے تو ماں کے جو اولاد پیدا ہوتی ہے، اسے بھی وہ احمدیت کے قبول کرنے سے روکتی ہے.اسی طرح وہ اپنے خاوند کو بھی احمدیت کے قبول کرنے سے روکے گی.کیونکہ اگر وہ احمدیت قبول کرلے تو اس کی آزادی میں فرق آ جائے گا.غرض عورتیں ہماری تبلیغ میں روک بن رہی ہیں اور یہ حلقہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا جائے گا.کیونکہ یہ جب بڑے بڑے شہروں میں پھیل جائے گی تو بڑے شہروں سے قصبات میں آجائے گی اور قصبات سے گاؤں میں آجائے گی اور بڑے گاؤں سے چھوٹے گاؤں میں پھیل جائے گی.مردوں کی نسبت عورتیں احمدیت کی تبلیغ میں زیادہ روک بن رہی ہیں.کوئٹہ میں ملٹری آفیسرز میں میں نے ایک لیکچر دیا.جب وہ آفیسر زاپنے گھروں میں واپس گئے تو عورتوں نے بہت لے دے کی.انہوں نے اپنے خاوندوں سے کہا تم احمدیوں کے جلسے میں کیوں گئے تھے ؟ بعض لوگ احمدیت کے بالکل قریب تھے لیکن محض عورتوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ پیچھے ہٹ گئے.ایک عورت نے اپنے خاوند کو، جو ایک فوجی افسر تھے، کہا کہ احمدی تو پردہ کی تعلیم دیتے ہیں، ایک سے زیادہ بیویوں سے شادی کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، اگر تم ان کی مجالس میں گئے تو میرا اور تمہارا گزارہ مشکل ہو جائے گا.تعدد ازدواج، پردہ اور دوسری مختلف باتیں، جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں اور جن کو آج کل کی عورتیں پارہ پارہ کرنا چاہتی ہیں ، وہ احمدیت میں پائی جاتی ہیں.اس لئے وہ احمدیت کی تبلیغ میں روک بن رہی ہیں اور روک بنتی چلی جاتیں ہیں.اور یہ روک دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے.95
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم عورتیں سمجھتی ہیں کہ پردہ کی وجہ سے انہیں بلاوجہ گھروں میں بند رکھا جاتا ہے، غیر مردوں سے ملنے سے روکا جاتا ہے.کثرت ازدواج کی وجہ سے ان کی بہتک کی جاتی ہے.وہ سمجھتی ہیں کہ مشرقی پنجاب میں جو عظیم الشان تبا ہی عورتوں پر آئی ہے، وہ محض پردہ کی وجہ سے ہے.مغربی لوگوں کو بھی مسلمانوں سے نفرت ہے کیونکہ مسلمان عورتیں پردہ کرتی ہیں.لیکن جب وہ ہندوؤں کے پاس جاتے ہیں ، ان کی بیویاں ان سے آزادی سے ملتی ہیں، وہ ان سے باتیں کرتی ہیں، اس لئے وہ ہندؤوں کا اچھا اثر لے کر واپس جاتے ہیں کیونکہ انہیں عورتوں سے بات چیت کرنا زیادہ مرغوب ہوتا ہے.کہیں مغربیت کے دلدادہ لوگ محض اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کا آلہ کار بنانے کے لئے انہیں علمی اور سیاسی میدان میں لانے کا بہانہ بنا کر پردہ کے خلاف بھڑکاتے ہیں.کہیں وہ اپنے آپ کو علماء میں سے گردانے جانے کا ارادہ اور سعی لے کر عورتوں کے مطالبات کو پورا کرنے کا سوال لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.یہ چیزیں جہاں عورت کو احمدیت کے قبول کرنے سے روک رہی ہیں، وہاں مردوں میں بھی تبلیغ کے رستہ میں روک بن رہی ہیں.مرد بھی عورت کا نام لے کر احمدیت سے ہٹ رہے ہیں.کچھ تو اس لئے کہ عورتوں کی مجلس سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کچھ اس لئے کہ اگر چہ ان میں عورتوں کی مجلس سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی خواہش نہیں لیکن ان کی عورتیں، بہنیں اور بیٹیاں کالجوں میں جاتی ہیں، وہ مغربیت کی دلدادہ ہوتی ہیں، اس لئے وہ مردوں کو بھی احمدیت سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتی ہیں.غرض مرد کبھی ذاتی طور پر اور کبھی بیوی بچوں کی خواہشات کا خیال کر کے مغربیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے.اور جو اس کی مخالفت کرتا ہے، اسے وہ برا سمجھتا ہے.اب اگر عورتوں کے مسائل پر روشنی ڈالی جائے تو یہ چیزیں عورتوں کے حق کی طرف مائل ہونے میں روک بن جاتی ہیں.وہ سارے دلائل سن کر یہ کہہ دیتی ہیں ، ہاں جی تم مرد جو ہوئے.آپ کی تو غرض ہی یہ ہے کہ ہم تہذیب سے بے بہرہ رہیں، پردہ ہمارے منہ پر ہوتا ہے ، نقاب سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے، دوسری شادی سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے.تمہارے تو مزے ہی مزے ہیں.آپ ایسا نہ کریں تو پھر مزے کیسے اٹھائیں؟ پھر بعض عورتیں یہ کہہ دیتی ہیں کہ مرد کے ہاتھ میں قلم جو ہوا، اس لئے جو چاہے ، وہ لکھ دے.وہ یہ کہنے سے ڈرتی ہیں کہ مذہب ایسا کہتا ہے.وہ کہتی ہیں ، مرد جو چاہتا ہے ، مذہب کے نام پر کہہ دیتا ہے.اس کے ہاتھ میں قلم ہے، جو چاہے، لکھ دے.گویا یہ باتیں مذہب سے تعلق نہیں رکھتیں.مردوں نے محض اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے مذہب کے نام پر لکھ دی ہیں.96
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1949ء اس کا ایک ہی علاج ہوسکتا ہے.وہ یہ کہ عورتیں مبلغ بنیں.اگر وہ عورتوں میں تبلیغ کریں گی تو ہمارے رستہ سے یہ روک یقینا ہٹ جائے گی.مرد عورتوں میں تبلیغ کرے گا تو انہیں یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ مرد کے ہاتھ میں قلم جو ہوئی، جو چاہا لکھ دیا.لیکن اگر عورت تبلیغ کرے گی تو دلائل پر بات آجائے گی.اور ہمیں یقین ہے کہ اسلام دلائل میں ہمیشہ غالب رہتا ہے.مر تبلیغ کرے گا تو جذباتی باتیں تبلیغ میں روک بن جائیں گی ، دلائل پر بات نہیں آئے گی.عورت سمجھے گی کہ بوجہ مرد ہونے کے یہ اس بات پر زور دیتے ہیں.عورت مرد کے مقابلہ میں دلیل کو سوچتی نہیں، اس لئے ہماری ہر دلیل بے کار جائے گی.لیکن یہی باتیں جب ایک عورت کے منہ سے نکلیں گی تو بات جذباتی رنگ میں ہی نہیں رہے گی بلکہ خالص عقلی رنگ اختیار کر جائے گی.اور خالص عقلی رنگ میں یقیناً ہمارا پہلو غالب رہے گا.دوسرے عورتیں عورتوں میں تبلیغ کر کے انہیں اسلام کی طرف لے آئیں گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مردگھروں میں بجائے مخالفت کے احمدیت کی تعریف سنیں گے اور اس طرح وہ احمدیت کے زیادہ قریب آجائیں گے.ان سب باتوں کو سوچنے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں عورتوں میں بھی وقف زندگی کی تحریک کو جاری کروں.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں مشکلات بھی ہوں گی.مگر ان کا حل بھی سوچا جا سکتا ہے.پھر اگر عورتیں اس تحریک میں شامل ہوں گی تو ان کے لئے علیحدہ نظام قائم کرنا ہوگا اور اسے عورتوں کے سپر دہی کرنا ہو گا.ورنہ مشکلات زیادہ پیدا ہو جائیں گی اور مخالفین کی طرف سے اعتراضات بھی ہوں گے.لیکن لجنہ کے ذریعہ یہ کام کیا جاسکتا ہے.جس طرح تحریک جدید مردوں کے لئے کام کر رہی ہے، اسی طرح لجنہ اماء اللہ عورتوں کے لئے کام کرے گی.اس کی طرف سے بجٹ آجایا کرے گا اور ہم اسے منظور کر دیا کریں گے.لیکن خرچ سارا عورتوں کی کمیٹی ہی کرے گی.یہ کام کس طرح ہوگا اور واقف زندگی عورتوں کی زندگی کیسے گزرے گی؟ یہ بھی ایک نازک سوال ہے.واقف زندگی عورتیں اگر واقف زندگی مردوں سے نہیں بیاہی جائیں گی تو بہت سی مشکلات پیش آئیں گی.خاوند کہیں نوکری کررہا ہوگا اور عورت کہیں تبلیغی کام کر رہی ہوگی.اس کا حل یہی ہے کہ جو عورتیں اس تحریک میں شامل ہوں ، وہ واقف زندگی مردوں سے شادی کریں.جب وہ واقف زندگی مردوں سے شادی کریں گی تو عورت کو مقدم رکھتے ہوئے ، ہم اس کے خاوند کو بھی اسی علاقہ میں لگا دیں گے، جہاں عورت کے کام کو زیادہ اہمیت ہوگی.پھر تبلیغ کی کیا صورت ہوگی؟ میں نے اس پر بھی غور کر کے تسلی کر لی ہے.اس کا انتظام ایک بڑی حد تک ہو سکتا ہے.اصل سوال شادی کا ہے اور اس کا علاج یہ ہے 97
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم کہ ایسی عورت کی شادی واقف زندگی مرد سے ہو.یا شروع شروع میں ایسی عورتیں لے لی جائیں، جو بیوہ ہوں یا بڑی عمر کی ہوں، ان کے بچے جوان ہو چکے ہوں، انہیں گھروں میں کوئی خاص کام نہ ہو اور ان کے مرد بھی انہیں اجازت دے دیں کہ وہ اشاعت اسلام کا کام کریں.ایسی عورتوں کو ہم کہیں گے کہ جاؤ تم دین کی خدمت کرو.شریعت نے تمہیں ان قیود سے آزاد کر دیا ہے، جو اسلام کی وجہ سے ایک نوجوان عورت پر عائد ہوتی ہیں.شروع شروع میں ایسی عورتوں کو تربیت دے کر کام کو فوراً شروع کر دینا چاہئے.اس کے بعد وہ لڑکیاں ، جن کو ان کے والدین اجازت دیں ، انہیں صنعت و حرفت اور دوسری چیزیں ، جو عورتوں میں تبلیغ کے لئے ضروری ہیں ،سکھا کر اور دینی تعلیم دے کر باہر بھجوایا جائے.یہ ایک نئی چیز ہے لیکن مسیح اول کے زمانہ میں اس پر عمل ہوا ہے.ہمارے سامنے بھی وہ مشکلات در پیش ہیں، جو مسیح اول کو در پیش آئیں.اس لئے انہیں دور کرنے کے لئے وہی طریقہ استعمال کیا جائے گا، جو مسیح اول کے حواریوں نے کیا.وہ بھی عورتوں سے تبلیغ کا کام لینے پر مجبور ہو گئے تھے اور ہم بھی عورتوں سے تبلیغ کا کام لینے کے لئے مجبور نظر آتے ہیں.قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو وہ مشکلات پیش نہیں آئی تھیں، جو ہمیں پیش آ رہی ہیں.کیونکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے مثیل تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہاں مہدی اور احمد تھے، وہاں آپ کو عیسی اور مسیح کا نام بھی دیا گیا ہے.مسیح اور عیسی ہونے کی وجہ سے آپ کو بھی وہی مشکلات پیش آئیں گی، جو مسیح اول کو پیش آئیں.اور ان کے دور کرنے کے لئے وہی طریقہ استعمال کیا جائے گا، جو مسیح اول کے حواریوں نے استعمال کیا." ہم مومنوں کی نقل کریں گے اور جو کام مخلصین اور مومنین کرتے تھے ان میں یہ بھی شامل تھا کہ انہوں نے عورتوں سے تبلیغ کا کام لیا بلکہ فلسطین میں حضرت مسیح علیہ السلام کی موجودگی میں عورتوں سے یہ کام لیا گیا.پس اس اعلان کے ذریعہ میں اس نئے پہلو کو بھی جماعت کے سامنے رکھتا ہوں.ایسی عورتیں، جو گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد ہوگئی ہوں اور وہ مجھتی ہوں کہ وہ سلسلہ کے لئے مفید ہوسکتی ہیں، انہیں میں تحریک کرتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ انہیں توفیق دے تو وہ اپنی بقیہ عمر احمدیت کی تبلیغ میں لگائیں.اور پھر وہ لڑکیاں ، جن کے والدین اجازت دے دیں اور وہ بجھتی ہوں کہ وہ تبلیغ کر سکتی ہیں، وہ آگے آئیں.لیکن وہ یا درکھیں کہ وہ سلسلہ کے لئے اسی وقت ہی مفید ہوسکتی ہیں، جب ان کے خاوند واقف زندگی ہوں.ان کی اگر کسی واقف زندگی سے منگنی ہو گئی ہے تو پھر ان کے لئے اس تحریک میں شامل ہونا آسان ہے.یا اگر وہ 98
جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1949 ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک کجھتی ہیں کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پالیں گی اور شادی کے لئے اپنے انتخاب کو واقفین تک ہی محدود کر سکیں گی تو وہ آگے آئیں اور اس تحریک میں شامل ہوں.کل جب میں نے اس تحریک کا ذکر کیا تو ایک لڑکی نے کہا، میں بھی اپنی زندگی وقف کرنا چاہتی ہوں.میں نے اس سے کہا پہلے تم اپنے خاوند کی زندگی وقف کراؤ.میں سمجھتا ہوں کہ اس ذریعہ سے تبلیغ بہت زیادہ کارآمد ہو جائے گی اور اس سے بہت زیادہ مفید نتائج پیدا ہوں گے.اور یہ پردہ جو صرف جسم پر ہی نہیں ، عقلوں پر بھی پڑا ہوا تھا، دور ہو جائے گا.اور چند سال تک ہماری تبلیغ بیسیوں گنے زیادہ ہو جائے گی لیکن اس کے لئے نیا انتظام کرنا ہوگا.میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کے لئے جو وقف زندگی کا نظام قائم کیا گیا ہے، وہ بھی ناقص ہے.دو سال تک میں اس پر غور کرتارہا ہوں.خدا نے چاہا تو جب میں ربوہ میں مستقل رہائش اختیار کرلوں تو اس وقت اس نظام میں ہی ایسی تبدیلیاں کی جائیں گی، جو سلسلہ کے لئے زیادہ مفید اور زیادہ کارآمد ہوسکیں“.مطبوعه روزنامه الفضل 26 اپریل 1950 ء ) 99
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1949ء تحریک کے آغاز پر جماعتی جذ بہ اور کم مائیگی دونوں ایمانی تاریخ میں زندہ مثال ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1949ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.چونکہ مجھے تین دن سے در دنفرس کا دورہ ہے، اس لئے میں کھڑے ہو کر خطبہ نہیں پڑھ سکتا.بلکہ ممکن ہے، نماز بھی بیٹھ کر پڑھاؤں.ہاں کوشش کروں گا کہ نماز کھڑے ہو کر ہی پڑھاؤں لیکن درد کی شدت کی وجہ سے مجھے سجدے اور قعدے میں پاؤں نکال کر ہی سجدہ یا قعدہ کرنا پڑے گا.جیسا کہ احباب کو معلوم ہے یا کم از کم ان احباب کو معلوم ہے، جو معاملات کو سوچنے اور ان پر غور کرنے کے عادی ہیں اور اس پر ان کے خطوط ، جو دو تین ہفتے سے آ رہے ہیں، شاہد ہیں کہ یہ جمعہ سابقہ روایات کے مطابق تحریک جدید کے نئے سال کی تحریک کے اعلان کرنے کا جمعہ ہے.تحریک جدید کو شروع ہوئے پندرہ سال ہو چکے ہیں.اب یہ سولہواں سال شروع ہورہا ہے.جس جوش اور جس جذ بہ اور ایثار کے ساتھ جماعت کے دوستوں نے پہلے سال کے اعلان کو قبول کیا تھا اور جس کم مائیگی اور کمزوری کے ساتھ ہم نے یہ کام شروع کیا تھا، وہ دونوں باتیں ایمان کی تاریخ میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہیں.وہ جذبہ، جوش اور ایثار بھی جس کے ساتھ اس کام کو شروع کیا گیا تھا، غیر معمولی اور مومنوں کی شاندار روایات کے مطابق تھا اور وہ بے بسی اور کم مائیگی جس کے ساتھ ہم نے یہ کام شروع کیا تھا، وہ بھی مومنوں کی تاریخ کی ایک زندہ مثال تھی.یعنی تھی تو وہ بے بسی تھی تو وہ بے کسی تھی تو وہ کم مائیگی لیکن وہ اس بات کی شہادت دے رہی تھی کہ مومن ایسے ہی حالات سے گزرا کرتے ہیں.وہ اس بات کی شہادت دے رہی تھی کہ گزشتہ انبیاء کی جماعتوں کو ایسی مشکلات سے ہی دو چار ہونا پڑا ہے.پس وہ بے بسی، بے کسی اور کم مائیگی بھی مومنوں کی جماعت سے ہماری جماعت کو ملاتی تھی.اور وہ جوش اور وہ جذ بہ اور ایثار، جو جماعت نے دکھایا، وہ بھی ہمیں مومنوں کی جماعت سے ملاتا تھا.گویا 34ء کا نومبر ایک نشان تھا، سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں کے لئے.وہ ایک دلیل اور برہان تھا، سو چنے اور غور کرنے والوں کے لئے.کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ انہیں قدروں پر چل رہی ہے، جن پر گزشتہ انبیاء کی جماعتیں چلتی چلی آئی ہیں.101
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1949ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد سوم تحریک جدید کے پہلے سال، میں نے جماعت سے 27 ہزار روپیہ کی اپیل کی تھی.میں اب خود بھی نہیں مان سکتا کہ آیا ایسا ہوسکتا ہے.لیکن جیسا کہ خطبہ کے الفاظ سے ظاہر ہے، وہ 27 ہزار روپیہ کی اپیل تین سال کے لئے تھی.یعنی وہ 27 ہزار روپیہ 9- 9 ہزار روپیہ سالانہ کر کے تین سال کے لئے مانگے گئے تھے.اپنی ہوش کے وقت ، یعنی اب جبکہ میں سوچتا ہوں، میں یہ خیال بھی نہیں کر سکتا اور نہ جماعت کے غور کرنے والے لوگ خیال کر سکتے ہیں کہ اس کے معنی کیا تھے؟ کہا یہ گیا تھا کہ ہم ساری دنیا کو فتح کرنے کے لئے نکلنے لگے ہیں.کہا یہ گیا تھا کہ اب طاغوتی طاقتیں انتہائی زور کے ساتھ اسلام اور احمدیت پر حملہ آور ہوئی ہیں، اس لئے ہمیں اب احمدیت کی حفاظت کے سامانوں کو کمال تک پہنچا دینا چاہئے.دعوئی تو یہ کیا گیا تھا کہ ہم تمام دنیا کے حملوں کا دفاع کرنے کے لئے کھڑے ہورہے ہیں.اور یہ کہ ہم نے دنیا بھر میں احمدیت کی تبلیغ کو وسیع کرنا ہے.لیکن اس کام کے لئے مانگا گیا تھا، صرف نو ہزار روپیہ سالانہ ، جو امریکہ جانے والے مبلغ کے ایک طرف کے کرایہ میں ہی خرچ ہو جاتا ہے.ابھی کچھ دن ہوئے خلیل احمد ناصر امریکہ گئے ہیں.غالبا ان کے پاکستان کے امریکہ تک کے کرایہ پر نو ہزار روپے لگے ہیں.اسی طرح صوفی مطیع الرحمن صاحب، جب امریکہ سے واپس آئے تھے تو ان کے کرایہ پر دس بارہ ہزار روپیہ خرچ آ گیا تھا.پس صرف ایک جگہ پر جانے والے مبلغ کے ایک طرف کے کرایہ کے لئے جتنے اخراجات کی ضرورت تھی، اتنی رقم کے لیے جماعت میں تحریک کرنا عقل سے باہر نہیں تو اور کیا ہے؟ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس وقت ہماری بے بسی اور بے کسی کی کیا حالت تھی ؟ اس وقت میں یہ محسوس کرتا تھا کہ ہماری جماعت اتنی کمزور اور اتنی غریب ہے کہ ان سے نو ہزار روپیہ سے زائد رقم مانگی ، ناممکن بات ہے.اور میں نے اس وقت یہ سمجھا تھا کہ اس وقت جوش کی حالت میں ہم جماعت سے اتنا روپیہ لے لیں تو لے لیں، ور نہ ہو سکتا ہے کہ اگلے سال جماعت میں اتنا جوش نہ ہو کہ وہ نو ہزار روپیہ کی رقم دے سکے.اس لئے میں نے تین سال کے لئے نو نو ہزار روپیہ کے حساب سے ستائیس ہزار روپیہ غالبا اکٹھاما نگ لیا.پس میری وہ تحریک بتاتی ہے کہ کم از کم میں اس وقت یہ سمجھتا تھا کہ جماعت کی حالت نو ہزار روپیہ دینے کی نہیں.میری یہ تحریک بتاتی ہے کہ میں اس وقت یہ سمجھتا تھا کہ ہم نے اگر انتہائی زور لگا کر روپیہ جمع کر لیا تو صرف نو ہزار روپیہ سالانہ جمع کر سکتے ہیں.میری یہ تحریک بتاتی ہے کہ میں اس وقت یہ سمجھتا تھا کہ یہ نو ہزار روپے بھی جمع کرنا ، وقتی جوش کے مطابق ممکن ہیں.ورنہ بالکل ممکن ہے کہ جوش ٹھنڈا ہو جائے تو یہ بھی جمع نہ ہوسکیں.اس لئے میں نے کہا کہ تین سال کی رقم اکٹھی لے لو اور 27 ہزار لے لو لیکن ہوا کیا ؟ ہوا یہ کہ جماعت نے جو 102
- خطبہ جمعہ فرموده 25 نومبر 1949 ء تحریک جدید.ایک الہی تحریک...جلدسوم وعدہ کیا ، وہ ایک لاکھ روپیہ کا تھا.یعنی بجائے 9 ہزار روپیہ کے، جماعت کے وعدے ایک لاکھ روپے کے ہو گئے.لیکن وصولی ایک لاکھ، دس ہزار روپیہ کی ہوئی.لوگوں کے دلوں میں تو یہ خوف ہوتا ہے کہ جو وعدہ کیا گیا ہے، وہ پورا بھی ہوگا یا نہیں.لیکن ہم نے یہ نمونہ دیکھا کہ جماعت نے ایک لاکھ روپیہ کا وعدہ کیا اور وصولی ایک لاکھ ، دس ہزار روپیہ کی ہوئی.گو یا جس چیز کو جماعت سے تین سال کے لئے مانگا گیا تھا، اس سے چار گنا زیادہ رقم پہلے ہی سال ہمارے پاس آگئی.اور جب کام کرنے لگے تو یہ محسوس ہوا کہ 9 ہزار روپیہ سالانہ کی رقم شاید سوتے ہوئے یا نیم بے ہوشی کی حالت میں تجویز کی گئی تھی.یہ رقم تو ان اخراجات کا ، جو ہم نے کرنے ہیں، ایک قلیل ترین حصہ کہلانے کی بھی مستحق نہیں.تب میں نے دوسرے سال پھر تحریک کی اور جماعت سے کہا کہ میں ایک لاکھ دس ہزار روپیہ، جو جمع کیا گیا تھا، خرچ کر چکا ہوں، اب اور روپیہ لاؤ.اس وقت شاید پانچ ، چھ آدمی تھے، جنہوں نے کہا، حضور ! ہمیں جہاں تک یاد ہے، آپ نے یہ روپیہ تین سال کے لئے مانگا تھا.اور جو چندہ ہم نے دیا تھا، وہ تین سال کے لئے دیا تھا.لیکن باقی ساری جماعت نے یہ لفظ بھی نہیں کہے کہ آپ نے تو یہ روپیہ تین سال کے لئے مانگا تھا.ابھی پہلا ہی سال گزرا ہے، آپ مزید روپیہ کیسے مانگ رہے ہیں؟ گویا پانچ ہزار افراد میں سے ، جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا، صرف پانچ آدمیوں کا ذہن اس طرف گیا کہ آپ نے 127 ہزار روپیہ تین سال کے لئے مانگا تھا اور ہم نے ایک لاکھ دس ہزار روپیہ دیا ہے، اب آپ دوبارہ کیسے مانگ رہے ہیں؟ یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ یہ بات صرف پانچ آدمیوں کے ذہن میں آئی ، باقی چار ہزار، نوسو، پچانوے آدمیوں نے بھی میرا وہ خطبہ پڑھا تھا یا نہیں؟ ان کے کان میں بھی میرے 27 ہزار روپیہ والے مطالبہ کے الفاظ پڑے تھے یا نہیں؟ جن سے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ یہ رقم تین سال کے لئے مانگی گئی تھی ، ان چار ہزار نوسو، پچانوے آدمیوں کی ضروریات بھی ویسی ہی تھیں ، جیسے ان پانچ آدمیوں کی ، جنہوں نے یہ کہا کہ آپ نے یہ رقم تین سال کے لئے مانگی تھی.ان کے بھی بیوی بچے تھے ، ان کے لیے بھی سامان معیشت جمع کرنے میں مشکلات تھیں.لیکن میرے 27 ہزار و پیر والے مطالبہ کے الفاظ یاد دلاتے ہیں، صرف پانچ آدمی.باقی چار ہزار نوسو، پچانوے آدمی یہ الفاظ اپنی زبانوں سے نہیں نکالتے کہ آپ نے تین سال کے لئے یہ رقم مانگی تھی.وہ بغیر کسی اعتراض کے بغیر کسی احتجاج کے اور بغیر کسی یاد دہانی کے چندہ لکھواتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ لکھواتے ہیں.اور دوسرے سال ایک لاکھ بیس ہزار کے وعدے وصول ہوتے ہیں.103
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم پھر یہ تحریک جاری رہی اور بڑھتی رہی، یہاں تک کہ دسویں سال جماعت کا تین لاکھ روپیہ کا وعدہ تھا.پھر میں نے کہا کہ دس سال نہیں، میں اس تحریک کو انہیں سال چلانا چاہتا ہوں.اور نو جوان اور ان احمدیوں کے لئے ، جو اس تحریک کے بعد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں، نئی تحریک کرنا چاہتا ہوں.میں نے اس وقت کہا کہ پچھلی تحریک میں حصہ لینے والوں میں سے، جو چاہیں ، اپنے نویں سال کے وعدہ کے برابر دے سکتے ہیں.پھر اگلے سال ، وہ اپنے آٹھویں سال کے وعدہ کے برابر دیں.اسی طرح وہ آئندہ اپنے وعدوں میں کمی کرتے چلے جائیں.یہاں تک کہ انیسویں سال، ان کا وعدہ پہلے سال کے وعدہ کے برابر ہو جائے.لیکن ہوا یہ کہ بہت کم لوگوں نے اس رخصت سے فائدہ اٹھایا اور گیارھویں سال بھی باوجود میری اس رعایت کے اڑھائی لاکھ روپیہ وصول ہوا.اور اب قریباً تین لاکھ کے وعدے آتے ہیں.گویا بجائے پیچھے ہٹنے کے جماعت آگے کی طرف بڑھی ہے.یہ تحریک اسی طرح چلتی گئی.یہاں تک کہ ہمیں قادیان سے نکلنا پڑا اور مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے بعض اور علاقوں کے لوگ اپنے مرکزوں سے ہل گئے اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے.لیکن باوجود اس کے جو تحریک 1947ء میں ہوئی ، وہ 1946 ء کی تحریک سے کم نہیں تھی.اور وصولی کا حال بھی قریباً ویسے ہی رہا.پھر 1948ء میں جو تحریک ہوئی ، وہ 1947ء کی تحریک سے کم نہیں تھی.لیکن 1948 ء ) کی تحریک کے متعلق میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس کی وصولی کی نسبت وہ قائم نہیں رہی، جو پہلے سالوں کی رہی ہے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، پچھلے سالوں میں سو فیصدی سے بھی زیادہ وصولی ہوئی.لیکن اس دفعہ جو وصولی ہوئی ہے، وہ کوئی 70 فیصدی کے قریب ہے.گویا 30 فیصدی وعدے ابھی واجب الا دا ہیں.اور جیسا کہ میں پہلے اعلان کر چکا ہوں، یہ وصولیاں جاری رکھی جاتی ہیں.سوائے ان لوگوں کے جو بلا عذر چندہ ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں.انہوں نے بقایا کیا ادا کرنا ہے، وہ تو ایک دن خدا کی جماعت سے نکالے جائیں گے.باقی لوگ، جو مجبوری کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ باوجود ان کی کمزوری کے اللہ تعالیٰ انہیں پورا ثواب دے دیتا ہوگا.اور وہ بھی ناخنوں تک زور لگا دیں گے کہ اپنے بقائے بھی صاف کریں اور آگے کی طرف بھی قدم بڑھا ئیں.لیکن جو لوگ غفلت اور سستی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور قربانی کی پوری کوشش نہیں کرتے ، وہ خدا تعالیٰ کے دربار میں اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے ، جس مقام پر وہ لوگ پہنچتے ہیں، جو دین کے لئے اپنی جان تک لڑا دینے میں دریغ نہیں کرتے.نومبر 44ء میں جونئی تحریک کی گئی تھی اور نو جوانوں اور احمدیت میں نئے داخل ہونے والوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اس میں حصہ لیں ، میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ تحریک اس شان تک نہیں پہنچی ، 104
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1949 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم جس تک پہلی تحریک پہنچی تھی.یقیناً اس وقت کی جماعت ، اس جماعت سے بہت زیادہ ہے، جو 34 ء میں تھی.اور یقیناً بہت سے نئے آدمی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.جو تجارتوں، نوکریوں ، کمائی اور علم کے لحاظ سے اس جماعت کے افراد سے بہت زیادہ ہیں، جو 1934ء میں تھی.اور بہت سے نوجوان ایسے ہیں، جن کو اب نوکریاں ملی ہیں.پہلے انہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا یا پہلے ماں باپ نے رسمی طور پر ان کی طرف سے حصہ لیا ہوا تھا.اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ان پر اتنی ذمہ داریاں نہیں ، جو پہلوں پر ہیں ، کیونکہ ان میں سے اکثر اہل وعیال والے تھے اور یہ نوجوان یا غیر شادی شدہ ہیں یا ان کے اولاد نہیں ، اس نئی تحریک کے وقت ان سے یہ امید کی جاتی تھی کہ وہ پہلوں سے پیچھے نہیں رہیں گے.لیکن پانچ سالہ دور کے بعد ان کے وعدے صرف ایک لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچے ہیں.اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کی طرف سے وصولی بھی بہت کم ہوئی ہے.مثلاً پانچویں سال کے وعدوں میں سے صرف 46 یا 47 فیصدی وعدے وصول ہوئے ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں نو جوانوں کے ایمان کی فکر کرنی چاہئے.اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ٹی پور پروہ اعتماد نہیں کر سکتے، جو پہلوں پر کیا جاسکتا تھا.لیکن ہمارا سفر ابھی بہت لمبا ہے، ہمارا کام بہت بڑا ہے، ہماری منزل ابھی بہت دور ہے.ان حالات میں ایک یا دو نسل کا سوال نہیں ، اسلام کی فتح تک شاید پانچ یا چھ نسلیں لگ جائیں.گی.کیونکہ اسلام کی کامل فتح کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کا اکثر حصہ مسلمان ہو جائے.اسلام کی فتح کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کی اکثر حکومتیں مسلمان ہو جائیں.یہ دن کتنی دور ہیں؟ جس رفتار سے ہم چل رہے ہیں، اس رفتار سے شاید ہمیں اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے کئی ہزار سال چاہئیں.لیکن الہی سنت یہ ہے کہ الہی جماعتوں کی رفتار پہلے ست ہوتی ہے، پھر الہی نشانوں کے ساتھ یکدم ترقی ہو جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے.آپ کے دعویٰ نبوت سے دس سال بعد تک آپ پر صرف 80 یا 90 آدمی ایمان لائے اور تیرہ سال کے بعد آپ پر ایمان لانے والے صرف اڑھائی ، تین سو تھے.لیکن پھر یکدم آپ کی امت بڑھنی شروع ہوئی اور جہاں تیرہ سال میں صرف اڑھائی، تین سو آدمی آپ کی امت میں شامل ہوئے تھے ، وہاں اگلے آٹھ سال میں سارا عرب مسلمان ہو چکا تھا.پس گو پہلے رفتار سست تھی لیکن بعد میں رفتار ترقی تیز ہوگئی.اسلام کے تنزل کے زمانہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوگ رات کو مسلمان سوئیں گے اور صبح کو کافر اٹھیں گے.لوگ صبح کو مسلمان اٹھیں گے اور رات کو کا فرسوئیں گے.لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ قول الٹ جاتا ہے.دین کی فتح اور کامیابی کا جب وقت آتا ہے تو یہ حالت ہو جاتی ہے کہ لوگ رات کو کا فر ہوتے ہیں، صبح کو اٹھتے ہیں تو مسلمان ہوتے ہیں.105
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم صبح کو کا فراٹھتے ہیں مگر جب رات کو سوتے ہیں تو مسلمان ہوتے ہیں.اور دنیا تیز قدمی کے ساتھ بھاگتی دوڑتی اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جاتی ہے.ہم موجودہ زمانہ کی ترقی پر قیاس نہیں کر سکتے.ہم اس الہی سنت کو دیکھتے ہیں، جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ چلتی چلی آئی ہے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پہلے 13 سال والی ترقی کو مد نظر رکھا جائے تو پہلے تیرہ سال میں صرف اڑھائی، تین سو آدمی ایمان لائے تھے.اگر بعد میں بھی یہی رفتار ترقی رہتی تو 1300 سال میں صرف 30 ہزار مسلمان ہوتے.مگر اب تو میں لاکھ بھی نہیں تمہیں کروڑ بھی نہیں، دنیا میں ساٹھ کروڑ مسلمان ہیں.کتنے گندے ہی سہی مگر اسلام کا نام تو لیتے ہیں.لیکن اگر وہی رفتار ترقی رہتی، جو پہلے تیرہ سال میں حاصل ہوئی تو آج تیرہ سو سال کے بعد صرف تیس ہزار مسلمان ہوتا.لیکن ہیں 60 کروڑ.یعنی 20 ہزار گنا زیادہ ہیں.گویا جس قدم کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہلے 13 سالوں میں چلے تھے ، بعد میں آنے والے سالوں میں اس سے ہیں ہزار گنازیادہ چلے.لیکن میں اس میں بھی غلطی کر رہا ہوں.پچھلے پانچ سو سال سے تو مسلمان گر رہے ہیں.اس لئے مسلمانوں کی جو تعداد بڑھی، وہ اس ترقی کا نتیجہ ہے، جو انہوں نے پہلی تین، چار صدیوں میں کی.اگر مسلمانوں کی موجودہ ترقی کو پہلی چند صدیوں تک پھیلایا جائے تو گویا جس قدم کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہلے 13 سالوں میں چلے تھے ، بعد میں آنے والے سالوں میں اس سے میں لاکھ گنا زیادہ چلے.اسی رنگ میں اگر ہماری ترقی ہو اور ہیں لاکھ کو ہماری موجودہ تعداد سے ضرب دو تو دنیا پر کوئی آدمی باقی نہیں رہ جاتا.دنیا کی ساری آبادی دوارب ہے.گویا اگر موجودہ حالت سے ہم ہیں لاکھ گنا زیادہ ترقی کریں تو دس کھرب ہو جاتے ہیں.اس لئے ہمیں موجودہ حالت سے قریباً ساڑھے چار ہزار گنا زیادہ رفتار کی ضرورت ہے.ہمیں لاکھ گنا زیادہ رفتار کی نہیں.غرض ہم اپنی آئندہ ترقی کو موجودہ رفتار پر قیاس نہیں کر سکتے.لیکن بہر حال فتح کے لئے کچھ وقت تو چاہئے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی ترقی میں تین سو سال لگے تھے.ہمارے مسیح محمدی ہیں، موسوی نہیں.اس لئے اگر اس سے آدھا زمانہ بھی لے لو تو ایک سو پچاس سال بنتے ہیں.275 سال میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی جماعت کو ایک ملک یعنی روم کی حکومت ملی تھی.اگر اس مدت کا نصف لے لیں تو ایک سو سینتیس سال میں ہمیں ایک حکومت مل سکتی ہے.ہماری جماعت پر ساٹھ سال گزر چکے ہیں تو گویا آئندہ 77 سال کے عرصہ میں ہمیں ایک حکومت مل جانی چاہئے.ہمارے ہاں اوسط عمر 30 سال ہے.لیکن اگر اوسط عمر 25 سال لے لی جائے تو 77 سال میں تین نسلیں ہوئیں.اور موجودہ نسل کو ملا کر چار ہوئیں.گویا چار نسل میں ہم چھوٹی سے چھوٹی 106
تحریک جدید - ایک اپنی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1949ء ترقی کر سکتے ہیں.مگر ایک حکومت کامل جانا کوئی ترقی نہیں.ویسے اگر خداتعالی جلد ترقی دے دے تو دے دے، ورنہ یہ چیز ایسی ہے، جو ہمیں گھبرا دیتی ہے کہ ایک چھوٹی سے چھوٹی ترقی کے لئے ہمیں چار نسلوں کی ضرورت ہے.اور اگر ہماری نسل کمزور ہورہی ہو تو آئندہ تین نسلوں کا کیا حال ہو گا ؟ پس میں نو جوانوں اور خصوصاً ان نو جوانوں کو ، جو مجلس خدام الاحمدیہ میں داخل ہو چکے ہیں، ہوشیار کرتا ہوں کہ وہ اپنے مقام اور فرض کو پہچانیں اور اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کریں کہ ان کو پہلے لوگوں سے کم ایماندار قرار نہ دیا جائے.ان کی آگ پہلوں سے زیادہ جوش والی ہونی چاہئے ، ان کے شعلے پہلوں سے زیادہ اونچے ہونے چاہئیں، ان کی رفتار پہلوں سے زیادہ تیز ہونی چاہئے.ان نصائح کے بعد میں تحریک جدید کے دفتر اول کے سولہویں سال اور دفتر دوم کے چھٹے سال کا اعلان کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ دوست اس میں پہلے سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کریں گے.اور دفتر دوم میں پہلے سے زیادہ لوگ حصہ لینے کی کوشش کریں گے اور گزشتہ سال جو غلطی ان سے سرزد ہوئی ہے، اس کا بھی ازالہ کریں گے اور اس سال میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے.دیکھو ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے، جو ہمیں کرنا ہے.جب ہندوستان سے باہر ہم نے اپنا کوئی مبلغ نہیں بھیجا تھا تو دوسرے ممالک کے لوگ ہمیں شرمندہ نہیں کر سکتے تھے.کیونکہ وہ ہم سے واقف نہیں تھے.لیکن اب جبکہ دوسرے ممالک میں ہم اپنے مشن قائم کر چکے ہیں، مالی تنگی کی وجہ سے انہیں بند کر دیں تو دنیا ہمیں کتنا ذلیل سمجھے گی.مثلاً جب تک امریکہ میں ہم نے اپنا مبلغ نہیں بھیجا تھا، وہاں کے رہنے والے ہمیں شرمندہ نہیں کر سکتے تھے.لیکن جب ہم نے اپنا مبلغ بھیج دیا تو آج ہم اگر اس مشن کو بند کردیں گے تو ہماری آنکھیں ان کے سامنے ہمیشہ نیچی رہیں گی.وہ لوگ کہیں گے کہ ایک قوم اٹھی ، اس نے جھوٹے دعوے کئے کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نقش قدم پر ہیں.لیکن جب کام کا وقت آیا تو وہ میدان سے بھگوڑوں کی طرح بھاگ گئی.پس اگر ہم نے شرمندگی سے بچنا ہے تو ہمیں اپنی قربانیوں کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا پڑے گا.میں گزشتہ سالوں میں سال کے اختتام سے تین، چار ماہ پہلے چند بار دوستوں کو یاد دہانی کرایا کرتا تھا.لیکن اس سال میں نے یاد دہانی نہیں کرائی.اس لئے کہ میں دیکھوں تم خود کیا کرتے ہو؟ آئندہ خطبات میں بھی میں دوستوں کو اس طرف توجہ دلاؤں گا.لیکن اب صرف ان الفاظ کے ساتھ تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز کرتا ہوں.جو لوگ اس میں پہلے شامل تھے ، وہ کوشش کریں کہ اس میں زیادہ حصہ 107
خطبہ جمعہ فرمود و 25 نومبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم ہیں.سوائے ان کے ، جو ملازمتوں سے ریٹائر ہو گئے ہیں.ان کے لئے رعایت کے وہی قواعد ہیں، جن کا پہلے اعلان کیا جا چکا ہے اور جو فوت ہو گئے ہیں، ان کے چندے جاری سمجھیں جائیں گے.کیونکہ موت ان کے اختیار میں نہ تھی.سوائے ان کے، جن کے عزیزوں نے ان کو ثواب پہنچانے کے لئے ان کے چندے کو جاری رکھا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کے لئے اس کا ثواب لکھتا رہے گا.دفتر دوم کے لئے نو جوانوں کو خصوصاً خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ جہاں جہاں بھی ہوں ، پورے زور کے ساتھ اس میں حصہ لیں اور دوسروں کو اس میں حصہ لینے کی ترغیب دلائیں.انہیں چاہئے کہ وہ سارے شہر اور علاقہ میں پھریں، خود وعدے لکھوائیں اور جو لوگ اس میں شامل نہیں ہیں یا جو لوگ مصنوعی طور پر اس میں شامل تھے ، یعنی ان کے برسر روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ان کے والدین نے رسمی طور پر ان کی طرف سے حصہ لیا ہوا تھا یا جن لوگوں نے پورے طور پر اس میں حصہ نہیں لیا تھا، ان لکھوائیں اور زیادہ سے زیادہ لکھوائیں اور پھر ان کی وصولی کی طرف بھی توجہ دیں.میں نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا بار اسی لئے اٹھایا ہے تا جماعت کے نوجوانوں کو دین کی طرف توجہ دلاؤں.سو میں سب سے پہلے ان کے سپرد یہ کام کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کا ثبوت دیں گے اور آگے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے.اور کوئی نوجوان ایسا نہیں رہے گا، جو دفتر دوم میں شامل نہ ہو.اور کوشش کریں سے وعدے کہ ساری کی ساری رقم وصول ہو جائے.پہلی غلطیاں جو سرزد ہوئی ہیں، ان کا بھی ازالہ کریں.اگر گزشتہ سالوں کے بقائے وصول ہو جائیں تو دو، اڑھائی لاکھ روپیہ آجاتا ہے.ابھی بہت سے کام ہیں، جو ہم نے کرنے ہیں.تحریک جدید کا بہت سا قرض باقی ہے، جو ادا کرنا ہے.اور ابھی بعض جگہوں پر جہاں مشن قائم ہو چکے ہیں، مسجدیں تیار کرنی ہیں اور یہ کام روپیہ چاہتے ہیں.لیکن پہلے ہمارا فرض ہے کہ اپنا قرض اتاریں.میں دیکھتا ہوں کہ بیرونی ممالک کی جماعتوں کے چندے جس نسبت سے بڑھ رہے ہیں، اس نسبت سے ہمارے چندے نہیں بڑھ رہے.مثلاً گولڈ کوسٹ کی جماعت نے اس سال ایک لاکھ روپیہ چندہ دیا ہے.اب انہوں نے ایک لاکھ روپیہ اس کالج کے لئے بھی دینے کا وعدہ کیا ہے، جو وہاں بنایا جائے گا.دیکھو وہ کتنی نئی اور چھوٹی جماعت ہے لیکن وہ اپنی قربانی کو بڑھا رہی ہے.اس طرح مجھے اس بات سے بھی خوشی ہوئی ہے کہ ہندوستان کی جماعتوں نے ، جو قادیان کے مرکز کے ساتھ وابستہ ہیں، قربانی میں معتد بہ حصہ لیا ہے.کجا یہ حالت تھی کہ ان کی طرف سے کوئی رقم وصول نہیں ہورہی تھی اور کجا یہ کہ اس سال ان کا بجٹ ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گیا ہے.حالانکہ وہ پاکستان کی جماعت کا صرف آٹھ فی صدی ہیں.گو ضرورت اس 108
زیک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1949ء سے بھی زیادہ قربانی کی ہے.لیکن بہر حال جماعت نے قربانی کی اعلیٰ درجہ کی مثال پیش کی ہے.اس لحاظ سے ہمارا یہاں کا بجٹ 18 لاکھ کا ہونا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ لیکن ہمارا بجٹ بہت کم ہے.صدر انجمن احمدیہ کی موجودہ آمدن صرف آٹھ نو لاکھ ہے.حالانکہ ہندوستان کے احمدیوں کی مالی حالت پہلے کی نسبت بہت زیادہ کمزور ہے.ان کی آمد میں محدود ہو چکی ہیں اور ابھی بہت سی جماعتیں باقی ہیں، جن کی طرف سے چندہ کی تفصیلات وصول نہیں ہوئیں.ہوسکتا ہے کہ قادیان سے وابستہ جماعتوں کا بجٹ دولاکھ تک پہنچ جائے.جب میں خلیفہ ہوا تھا، ہمارا بجٹ 60 ہزار روپیہ کا تھا.گویا قادیان سے وابستہ جماعتوں کا سالانہ بجٹ ، اس بجٹ کے تین گنے سے بھی زیادہ ہے.پس یہاں کی جماعتوں کو قربانی میں بہت زیادہ آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.مومن کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ پیچھے نہ رہے.پس میں اس دعا کے ساتھ کہ خدا تعالیٰ آپ سب کو ایمان میں ہر روز بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے ، اس سولہویں سال کی تحریک کو شائع کرتا ہوں.اور امید کرتا ہوں کہ دوست اپنے بقائے بھی ادا کریں گے اور پہلے سے زیادہ وعدے بھی لکھوائیں گے.اور خدام الاحمدیہ کوشش کریں کہ کوئی نوجوان ایسا ندر ہے، جس نے تحریک جدید دفتر دوم میں حصہ نہ لیا ہو اور پھر کوئی رقم ایسی نہ رہے، جو وصول نہ ہو.( مطبوعه روزنامه الفضل 02 دسمبر 1949ء) 109
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1949ء اعلیٰ اخلاق کے بغیر کوئی قوم طاقت حاصل نہیں کر سکتی خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1949ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج میں واقفین تحریک جدید اور کارکنان سلسلہ احمدیہ کے متعلق خواہ وہ آنریری ہوں یا گزارہ خوار ہوں، بعض ضروری امور بیان کرنا چاہتا ہوں.تحریک جدید کو چاہئے کہ وہ فوراً اس خطبہ کو شائع ہونے کے بعد رجسٹر ڈ کر کے ہر مبلغ کو خواہ وہ ملک کے اندر کام کر رہا ہے یا ملک سے باہر کام کر رہا ہے، بھجوا دے.اور مدارس میں وہ طلباء ، جنہوں نے زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں یا جو مبلغ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، ان کو بھی اکٹھا کر کے یہ خطبہ سنادیا جائے.اور اس بات پر کفایت نہ کی جائے کہ انہوں نے خطبہ خود سن لیا ہے.قرآن کریم سے یہ بات ظاہر ہے اور میں نے جماعت کو اس کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے کہ اصل طاقت انسان میں اس کے اخلاق فاضلہ سے پیدا ہوتی ہے.اخلاق فاضلہ سے میری مراد اس جگہ پر ہندوستانی اخلاق نہیں.یعنی کسی سے نرمی اور ملاطفت سے پیش آنا.یہ چیز بھی بے شک اخلاق فاضلہ میں ہی داخل ہے.لیکن یہ اخلاق فاضلہ کے نہایت ہی محدود معنی ہیں.اخلاق فاضلہ کے معنی در حقیقت ان اعلیٰ افعال کے ہوتے ہیں، جو ہر قسم کے انسانی اعمال کا محرک بنتے ہیں.اور جب تمام انسانی اعمال اعلیٰ درجہ کے خیال اور اعلیٰ درجہ کے اصول کے تابع ہو جائیں یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ شریعت کے مطابق ہو جائیں تو وہ ملک کے لئے مفید ہوتے ہیں.خلق کے معنی جہاں یہ ہیں کہ انسان کسی دوسرے سے نرمی کا برتاؤ کرے، وہاں خلق کے معنوں میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ وہ موقع پر بہادری، دلیری اور جرات سے کام لے.خلق کے معنی جہاں مناسب موقعہ پر اپنے جذبات کو ابھارنے کے ہوتے ہیں ، وہاں خلق کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اطاعت اور فرماں برداری سے کام لے اور نظم کی پابندی اختیار کرے.یہ ساری باتیں اخلاق میں داخل ہیں.جہاں خلق کے معنی نرمی کے ہیں، وہاں خلق کے معنی یہ بھی ہیں کہ موقع پر دہ جرات اور دلیری سے دشمن کا مقابلہ کرے اور اس کو زیر کرے.جہاں خلق کے معنی غربت اور تکلیف کو برداشت کرنے کے ہیں، وہاں خلق کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ مال آنے پر اس کا صحیح استعمال کرے اور خدا تعالی اور اس کے بندوں کی رضامندی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.111
خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم در حقیقت اعلی اخلاق کے بغیر کوئی قوم طاقت حاصل نہیں کر سکتی.بعض تو میں ایسی ہوتی ہیں، جن کو اپنے اعداد پر بھروسہ ہوتا ہے.بعض قوموں کو استعداد پر بھروسہ ہوتا ہے.بعض قوموں کو اپنے مال اور دولت پر بھروسہ ہوتا ہے.لیکن الہی سلسلے ابتداء میں ان سب باتوں سے محروم ہوتے ہیں.نہ ان کے پاس حکومت ہوتی ہے، نہ ان کے پاس مال و دولت ہوتی ہے، نہ ان کے پاس دنیاوی سامان ہوتے ہیں، نہ ان میں دنیا وی استعدادیں ہوتی ہیں اور نہ ان کے اعداد زیادہ ہوتے ہیں.تعداد میں وہ کم ہوتے ہیں، دنیوی سامانوں میں وہ کم ہوتے ہیں، مال ان کے پاس تھوڑے ہوتے ہیں ،حکومت انہیں حاصل نہیں ہوتی.پھر وہ کیا چیز ہے، جس کے ذریعہ انہیں امید ہوتی ہے کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے اور دنیا کو فتح کرلیں گے؟ ظاہر ہے کہ وہ چیز صرف الہی فضل ہے.مگر فضل الہی کو جذب کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ فضل الہی اعمال صالحہ سے جذب کیا جاتا ہے اور اعمال صالحہ کا نام ہی اخلاق فاضلہ ہے.پس وہ ایک ہی چیز ، جو الہی سلسلوں کی فتح کا موجب ہوا کرتی ہے، یہی اعلیٰ کردار اور بلند اخلاق ہیں.اگر ان کی طرف سے ہماری توجہ ہٹ جائے ، اگر اساتذہ یہ مد نظر نہ رکھیں کہ تعلیم میں سب سے زیادہ اہمیت اخلاق فاضلہ کو حاصل ہے تو جو پور پیدا ہوگی ، وہ سلسلہ کے لئے زیادہ مفید نہیں ہوگی.میں کچھ عرصہ سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے مبلغین میں وہ اخلاق فاضلہ نظر نہیں آتے ، جو ان میں ہونے چاہئیں.جہاں جہاں ہمارے ایک سے زیادہ مبلغ ہیں، وہاں سے متواتر رپورٹیں آرہی ہیں کہ وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور ماتحت مبلغ اپنے افسر مبلغین کی اطاعت نہیں کرتے.نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ وہاں ہماری تبلیغ رک جاتی ہے اور وہاں کی جماعت پر اس کا برا اثر پڑتا ہے.یہ لوگ سلسلہ کا روپیہ لے کر وہاں بیٹھے پارٹی بازی کر رہے ہیں.بھلا یہ کون سے فخر کی بات ہے کہ کوئی کہے کہ اگر میں وقف میں نہ آتا تو میں دو، اڑھائی سو روپیہ ماہوار کا سکتا تھا اور یہاں مثلاً 60-70 روپے ملتے ہیں؟ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا 60-70 روپے حرام کھانے جائز ہیں؟ فرض کرو ایک شخص وقف میں نہ آتا تو وہ دو، اڑھائی سور و پیہ ماہوار کما سکتا تھا، وہ اتنی آمد چھوڑ کر وقف میں آیا اور اخلاق فاضلہ نہ دکھائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کا اس کے بدترین دشمنوں سے بھی زیادہ دشمن ہے.کیونکہ بدترین سے بدترین دشمن بھی اپنا نقصان کر کے خدا تعالیٰ کی دشمنی نہیں کرتا.مگر یہ شخص اپنا نقصان کر کے بھی خدا تعالیٰ کی دشمنی کر رہا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی دشمنی میں انتہا درجہ کا بڑھا ہوا ہے.پہلے یہ بات افریقہ میں شروع ہوئی ، پھر ملایا میں، پھر انڈونیشیا سے ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہوئی، پھر ملایا انڈونیشیاسے شروع ہوئیں، اب انگلینڈ سے بھی ایسی رپورٹیں آرہی ہیں، جن سے شقاق اور لڑائی جھگڑے کی بو آتی ہے.112
خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم افریقہ کے تو ایک مبلغ کو میں نے واپس بلا لیا ہے اور دفتر والوں کو ہدایت دی ہے کہ اس سے آئندہ تبلیغ کا کام نہ لیا جائے بلکہ دفتر میں کلرک کا کام لیا جائے.مگر مجھے اطلاع نہیں ملی ، آیا میرے اس حکم پر عمل کیا گیا ہے یا نہیں؟ بلکہ مجھے شبہ ہے کہ اس کو بھلانے کی کوشش کی جارہی ہے.لیکن بہر حال خواہ اس کے ہمدرد اور دوست اس پر کتنا ہی پردہ ڈالنے کی کوشش کریں ، وہ اس پر پردہ نہیں ڈال سکیں گے.انڈونیشیا سے بھی ایسی اطلاع آئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض جو نیز مبلغ سینئر مبلغ کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے ہیں اور وہ لوگوں کو ان کے خلاف ابھارتے ہیں.اب انگلینڈ سے یہ اطلاع آئی ہے کہ افسر نے اپنے ماتحت کو کوئی حکم دیا مگر اس نے ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ظلمانہ حکم ہے، میں اسے ماننے کے لئے تیار نہیں.حالانکہ وہ حکم صرف یہی تھا کہ ہمارے سلسلہ کے پرانے کارکن مفتی محمد صادق صاحب کو کوئی مضمون چاہئے تھا.جس رسالہ میں وہ چھپا تھا، اس کا حاصل کرنا مقصود تھا.انہوں نے انگلینڈ کے مبلغ انچارج کو لکھا کہ اس کی نقل مجھے بھجوادی جائے یا یہ لکھا کہ اس کی نقل فلاں آدمی کو جوز برتبلیغ ہے، بھجوا دی جائے.اس نے اپنے ماتحت مبلغ کو کہا کہ اس مضمون کی ایک نقل ٹائپ کر دے.لیکن اس نے کہا کہ یہ ظالمانہ حکم ہے، میں اسے ماننے کے لئے تیار نہیں.میرے نزدیک ایسے لوگ سلسلہ کے پکے دشمن ہیں.وہ اپنی زندگیاں وقف کریں یا اپنا کوئی اور نام رکھ لیں.بھلا اس سے زیادہ جہالت کی بات اور کیا ہوگی کہ کوئی شخص نظم میں فرق کرے؟ دنیا میں کتنی حکومتیں چل رہی ہیں، ان میں کسی ماتحت افسر کو یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ اپنے اعلیٰ افسر کا حکم ماننے سے انکار کر دے.لیکن ہمارے مبلغین اپنے افسروں کا حکم نہیں مانتے اور ان کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے ہیں اور لوگوں کو ان کے خلاف ابھارتے ہیں.اس کا یہی مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ جوتیاں نہیں مارسکتا، دنیوی افسر جوتیاں مار سکتے ہیں.اور چونکہ یہ لوگ جو تیاں مار سکتے ہیں، اس لئے ان کے سامنے سر جھک جاتا ہے.اور خدا تعالیٰ چونکہ جو تیاں نہیں مارتا ، اس لئے لوگ بے ایمان ہو جاتے ہیں اور اس کی گرفت کو نہیں پہچانتے.میں مرکزی کارکنوں کو بھی نصیحت کروں گا کہ اس کی ایک حد تک ذمہ داری ان پر بھی ہے.ان میں سے بعض ذاتی تعلقات کو سلسلہ کے مفاد پر ترجیح دیتے ہیں.کسی کا کوئی رشتہ دار یا دوست آگیا اور اس نے کوئی بات کہہ دی تو اس کا کام کر دیا.میں ایسے لوگوں کو بھی خواہ وہ افسر ہوں یا ماتحت یہ کہوں گا کہ سلسلہ خدا کا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر میں مرجاؤں گا تو خدا تعالیٰ مجھ سے بہتر آدمی کھڑا کرے گا ، جو اس کو چلائے گا.جب تک آسمان کا فیصلہ زمین پر صادر نہیں ہوتا ، یہ سلسلہ کمزور نہیں ہوسکتا.پس یہ لوگ یہ خیال نہ کر لیں کہ چلو اس خلیفہ کو ٹرخاتے جاؤ، دوسرے سے ہم بچ جائیں گے.یہ یا درکھو جو حالات خلافت اولی میں پیدا ہوئے تھے، وہ یہاں پیدا نہیں ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وقت میں تو 113
خطبہ جمعہ فرمود : 16 دسمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلدسوم بادشاہت فور امل گئی تھی لیکن ہمیں نہیں ملی.مگر وہاں تنظیم بگڑ گئی تھی ، یہاں تنظیم نہیں بگڑے گی.بعض لوگو استنباط کر کر کے مجھے لکھتے ہیں کہ تیسرے یا چوتھے خلیفہ کے وقت میں یوں ہو گیا تھا.میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جو اس وقت وہاں ہوا تھا، یہاں ہوا ہے؟ وہ تو بادشاہ ہو گئے تھے.لیکن مجھے تو ابھی بادشاہت نظر نہیں آتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں جو فرق تھا، وہ فرق یہاں بھی نظر آئے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت مسیح علیہ السلام کے مثیل ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد جلد ہی تنظیم بگڑ گئی تھی.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد بھی تنظیم بگڑ گئی.حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت اب بھی چل رہی ہے، خواہ اب پہلی صورت نہیں رہی لیکن پوپ اب بھی چل رہا ہے.اس لئے تمہیں یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت جلد یا بدیرختم ہو جائے گی اور تم من مانی کاروائیاں کر سکو گے.تمہارے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا، جو سیح علیہ السلام کی جماعت کے ساتھ کیا گیا تھا.یہ درست ہے کہ یہاں باغی عناصر موجود ہیں لیکن تمہیں یا درکھنا چاہیئے کہ باغی عناصر حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں بھی موجود تھے.مگر کیا انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام یا آپ کی جماعت کو کوئی نقصان پہنچایا؟ اسی طرح ان لوگوں کا اس قسم کی امید رکھنا احمقانہ بات ہوگی.اور ان کی خواہشات ان کی اپنی تعبیر کے مطابق کبھی بھی پوری نہیں ہوں گی.لیکن ساتھ ہی میں افسروں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دینداری اور تقویٰ اختیار کریں اور اپنے ماتحتوں میں نظم پیدا کرنے میں کوتاہی نہ کریں.اور ساتھ ہی میں انہیں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ماتحت سے محبت سے پیش آئیں.بے شک وہ شخص منافق ہے، جو کسی بھی اشتعال پر نظم کو توڑتا ہے.بے شک وہ شخص مردود ہے، جو کسی بھی اشتعال پر نظم کو توڑتا ہے.اگر اشتعال انتہا درجہ کا بھی ہو، تب بھی اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ نظم کو توڑے.ہاں بعد میں وہ اپیل کر سکتا ہے اور اپنی بات افسران بالا تک پہنچا سکتا ہے.لیکن اگر وہ نظم کو توڑتا ہے تو اسی وقت جماعت سے نکل جاتا ہے، وہ احمدی نہیں رہتا.جب تک وہ تو بہ کر کے احمدیت میں دوبارہ داخل نہ ہو.لیکن وہ افسر جو ایسے سامان پیدا کر دیتے ہیں کہ دوسرا شخص مرتد ہو جائے ، وہ بھی کم سزا کا مستحق نہیں.حضرت مسیح ناصری نے کہا ہے کہ افسوس ہے ، اس شخص پر جس کی وجہ سے دوسرا آدمی ٹھو کر کھا جاتا ہے.اور حقیقت یہی ہے کہ ایسا آدمی جس کی وجہ سے دوسرا آدمی مرتد ہو جائے ، حالانکہ وہ اس طریق سے جائز طور پر بچ سکتا تھا، کم سزا کا مستحق نہیں.114
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود 160 دسمبر 1949ء ہمارے اخلاق دوسروں سے بالا ہونے چاہئیں.ابھی جب میں لا ہور گیا تو مجھے ایک غیر ملکی کا پیغام ملا کہ وہ مجھے ملنا چاہتا ہے.میں نے انہیں چائے پر بلا لیا.جب وہ مجھے ملنے آئے تو ان کے ساتھ ان کا ایک اور دوست بھی تھا، جو ان سے درجہ میں کم تھا.میں دروازہ میں کھڑا تھا.میں نے دیکھا کہ اس شخص نے ، جو آگے تھا، دوسرے شخص کو اشارہ کیا کہ آپ آگے بڑھیں.لیکن پھر پچھلے شخص کا ہاتھ مجھے نظر آیا، جس سے میں نے سمجھا کہ پچھلے شخص نے اگلے شخص سے کہا ہے کہ نہیں آپ ہی آگے جائیں.ان کے اس طریق کار سے میں یہی سمجھا کہ وہ شخص بڑا ہے اور یہ ماتحت ہے.جب وہ چائے کے میز کے قریب پہنچے تو جیسے یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ بڑا آدمی میزبان کے قریب بیٹھتا ہے اور چھوٹا کرسی پر بیٹھتا ہے، اگلے آدمی نے پچھلے کو آگے بڑھنے کے لئے کہا.مگر اس نے اشارہ کیا کہ آپ ہی بیٹھ جائیں.اور وہ آگے آکر میرے پاس بیٹھ گیا.مجھے یہ معلوم تھا کہ میرے پاس بیٹھنے والا شخص بھی دوسرے شخص سے تعلق رکھتا ہے.کیونکہ میں اس سے پہلے مل چکا تھا، میں اتنا سمجھتا تھا کہ یہ بھی اس کے کام میں شریک ہے.اور ایک بڑا ہے اور ایک چھوٹا.مگر دوسرے شخص کو آگے کرنے کی وجہ سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ دوسرا کام میں بڑا درجہ رکھتا ہے اور وہ جسے میں جانتا ہوں ، چھوٹا.خیر باتیں ہوتیں رہیں.بعد میں، میں نے ایک دوست سے، جوان کا واقف تھا، پوچھا کہ کیا جو نیا آدمی تھا، وہ بڑے درجے کا تھا اور پرانا چھوٹے درجہ کا ؟ تو اس نے کہا کہ نہیں، جو نیا آدمی ہے، وہ تو پرانے سے بہت چھوٹا ہے.میں نے کہا، پھر یہ کیا بات ہے کہ جب وہ مجھے ملنے کے لئے آیا تو بڑے نے چھوٹے کو آگے بڑھنے کے لئے کہا؟ اس پر مجھے جواب ملا کہ مغربی لوگوں میں یہ رواج ہے کہ اپنے سے چھوٹوں میں وقار نفس پیدا کرنے کے لئے ان کی بہت عزت کرتے ہیں.یہ طریق نہایت اچھا ہے.اور افسروں کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ اپنے ماتحتوں کا ادب اور احترام کریں اور ان سے اس رنگ میں سلوک کریں کہ انہیں احساس ہو کہ ان کا افسران کا اعزاز کرنا چاہتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جو تعلیمی ادارے ہیں، ان کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے.ہمارے تعلیمی ادارے اخلاق کی طرف بہت کم توجہ دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے دینیات کی تعلیم کا بھی ستیا ناس ہو رہا ہے اور اخلاق بھی ستیا ناس ہو رہے ہیں.انہیں اداروں سے مبلغ بن کر آتے ہیں.ہاں کالج اور ہائی سکول کی حالت بہتر ہے.اور یہ افسوسناک امر ہے کہ دین داری کی تعلیم دینے والے ادارے، بے دین ثابت ہورہے ہیں.لیکن جو دینداری کی تعلیم دینے والے ادارے نہیں، ان کی حالت بہتر ہے.میں ان لوگوں کو واضح طور پر کہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر وہ سلسلہ احمدیہ میں رہنا چاہتے ہیں اور اس کا مفید وجود بننا 115
خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم چاہتے ہیں تو وہ اپنی بھی اصلاح کریں اور تلامذہ کے اخلاق کو بھی درست کریں.ورنہ میری نظر میں ان کی کو علمیت کوئی حیثیت نہیں رکھتی.اگر وہ سلسلہ کے لئے مفید وجود ثابت نہ ہوں تو ان کی میری نظر میں کوئی قدر نہیں.ایسے آدمی جو اخلاق میں گرے ہوتے ہیں، انہیں اسی طرح باہر پھینک دیا جائے گا، جس طرح دودھ سے مکھی کو نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے.کتنے افسوس کی یہ بات ہے کہ وہ مبلغ جن کا یہ کام ہے کہ وہ دوسروں میں نظام کی روح پیدا کریں ، وہ جہاں جاتے ہیں، لڑنے لگ جاتے ہیں.مولوی کیا ہو ہلکا کتا ہوا کہ جہاں جاتا ہے ، لوگوں کو کا تنا پھرتا ہے.آخر وجہ کیا ہے کہ دوسری قوموں میں بھی نظم پایا جاتا ہے لیکن تم میں نظم نہیں پایا جاتا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ اساتذہ یہ باتیں تلامذہ کے کانوں میں نہیں ڈالتے.وہ صرف فَعَلَ فَعَلا فَعَلُوا کی گردانیں رٹواتے ہیں، عمل کی طرف توجہ نہیں دلاتے.حالانکہ میں سمجھتا ہوں، عربوں نے فعل کی گردانیں بنائی ہی اس لئے تھیں کہ وہ عمل کی طرف توجہ دلائیں.فعل کے معنی کام کرنے کے ہوتے ہیں.بنانے والوں نے تو فعل کی گردانیں بنائیں لیکن پڑھنے والوں نے عمل ہی چھوڑ دیا.اساتذہ کو نہ عمل کی طرف توجہ ہے، نہ اخلاق کی طرف توجہ ہے.نہ انہیں اس ذمہ داری کا احساس ہے، جو سلسلہ کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہے اور نہ انہیں یہ روح تلامذہ میں پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے.میں کہتا ہوں کہ ماتحت کو اپنے افسر کا حکم ماننا ہی پڑے گا، خواہ وہ کتنی ہی ذلت اور رسوائی والا حکم ہو.اسے کام سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ، چاہے اسے موت ہی آجائے.ہاں بعد میں وہ اپیل کر سکتا ہے اور اس افسر کے خلاف بھی کاروائی ہوسکتی ہے.لیکن پہلے اسے حکم مانا ہوگا، بعد میں اپیل ہوگی.پھر افسر کے خلاف باتیں نہیں کرنی چاہئیں، لوگوں میں اس کے خلاف پراپیگنڈا نہیں کرنا چاہئے.جو ایسا کرتا ہے، ایک جاہل بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ روپیہ ضائع کرتا ہے.یہی جھگڑا، جو انگلستان میں ہوا ہے، بتا تا ہے کہ اس شخص میں پہلے سے منافقت پائی جاتی تھی.چنانچہ ایک یورپین مرتد نے ایک جگہ کہا کہ انگلستان کے سب مبلغوں میں سے وہ شخص (یعنی یہ منافقت کا مرتکب ) سب سے اچھا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرتد کے کان بھرنے والوں میں سے یہ شخص بھی تھا اور اپنے افسر کے خلاف اسے ابھارتا تھا.اس لئے وہ خوش تھا کہ یہ میری تائید کر رہا ہے.اگر یہ نہیں تو وجہ کیا ہے کہ ایک منافق ، ایک مومن کی تعریف کرتا ہے؟ سیدھی بات ہے کہ جو منافق ، رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اعتراض کرتا ہے ، وہ حضرت ابوبکریا حضرت عمرؓ کی تعریف نہیں کرے گا.اگر وہ کسی ایسے شخص کی ، جو بظا ہر مومن کہلاتا ہے، تعریف کرتا ہے تو معلوم ہوگا کہ اس میں بھی منافقت کی روح پائی جاتی ہے.116
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1949ء ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس ایک یہودی ، ایک مسلمان کے خلاف مقدمہ لے کر آیا.آپ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا.مسلمان باہر نکلا اور اس نے یہودی سے کہا کہ چونکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے اچھی طرح بات نہیں کر سکا، اس لئے چلو، حضرت عمر سے فیصلہ کرائیں.یہودی چونکہ تھوڑے تھے، اس نے سمجھا شاید اگر میں نہ مانا تو اپنا حق حاصل نہ کر سکوں.اس نے یہ بات مان لی.وہ حضرت عمر کے پاس گئے اور کہا کہ ہم آپ سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانا چاہتے ہیں.بات میں تفصیل کا بھی پتہ چل جاتا ہے.اس یہودی نے باتوں باتوں میں کہا کہ میں نے یوں کہا، اس نے یوں کہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یوں کہا.حضرت عمرؓ نے فرمایا.اس کا کیا مطلب ہے؟ اس نے کہا، ہم پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس مقدمہ لے گئے تھے اور آپ نے میرے حق میں فیصلہ فرما دیا تھا.حضرت عمر اندر گئے اور تلوار لے آئے اور اس سے اس مسلمان کی گردن اڑا دی.اور فرمایا جو شخص ، رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فیصلہ پر راضی نہیں اور مجھ سے فیصلہ کرانا چاہتا ہے، وہ مجھے منافق بنانا چاہتا ہے.پس جو اعلی کارکنوں پر معترض ہے اور کسی دوسرے کارکن کی تعریف کرتا ہے تمہیں فوراً سمجھ جانا چاہئے کہ اس میں بھی منافقت کی کوئی رگ پائی جاتی ہے.یہ مغربی مرتد کہتا ہے کہ انگلینڈ میں سب برے تھے، صرف فلاں شخص اچھا تھا.اور یہ شخص وہ ہے، جس نے نظم کوتوڑا اور افسر کی بات ماننے سے انکار کیا.پس معلوم ہو گیا کہ یہ شخص پہلے سے منافق تھا اور منافق اس سے خوش تھے.میں تم پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ تم اپنے تئیں تباہ کر رہے ہو.اور جب تم اپنے تئیں تباہ کر رہے ہو تو یہ میرے بس کی بات نہیں کہ میں تمہیں بچا سکوں.اور نہ ہی خدا تعالیٰ تمہیں بچا سکتا ہے.کیونکہ اس نے پہلے سے یہ فیصلہ کر دیا ہوا ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو تباہ کرنا چاہتا ہے، وہ کرلے، میں اسے نہیں بچاؤں گا.اس لئے میں کہتا ہوں کہ تم اگر خدا تعالی کی جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہو یا نجات کا دروازہ اپنے اوپر بند کرنا چاہتے ہو تو میں تمہاراذمہ دار نہیں اور نہ ہی خدا تعالیٰ تمہیں بچاسکتا ہے.پس اساتذہ کا یہ طریق درست نہیں کہ وہ تلامذہ کے اخلاق کو درست کرنے کے لئے کوشش نہیں کرتے.ورنہ یہ نہ ہوتا کہ مولوی جہاں جاتے ، فساد کرتے.جو ایسا کرتے ہیں، احمدیت سے ان کا دور کا تعلق بھی نہیں.ایسے شخص لعنتی ہیں.مجھے ڈر ہے کہ ان کی اولادیں بھی لعنتی ہوں گی.کوئی مولویت کا تمغہ انہیں خدا کی لعنت سے بچ نہیں سکتا.تیرہ سو سال کے بعد خدا تعالیٰ نے دنیا میں دوبارہ نور کو قائم کیا ہے.تیرہ 117
خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم سو سال کے بعد خدا تعالیٰ نے اسلام کی عظمت کے دوبارہ سامان پیدا کئے ہیں.تیرہ سو سال کے بعد تم لوگو ایسے تھے، جن کو خدا تعالیٰ نے اس نور کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی تم میں سے ایک مولوی ایسا کرتا ہے تو اول درجے کا بے ایمان ہے.تمہارا یہ فرض ہے کہ تم ایسے آدمیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھو اور انہیں منہ نہ لگاؤ تم میں سے ہر شخص یہ سمجھ لے کہ یہ کالی بھیڑ ہے، یہ بھیڑیا ہے، یہ ایک داغ ہے، جو جماعت کے ماتھے پر لگا ہوا ہے.تم اسے اگر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہو اور اسے منہ نہیں لگاتے تو سمجھ لو، دو میں سے ایک بات ضرور ہوگی یا تو وہ اپنی اصلاح کرلے گا اور ہمیں اس بات سے خوشی ہوگی کہ ہمارا ایک بھاگا ہوا بھائی ہمیں دوبارہ آ ملا.یا پھر وہ بھاگ جائے گا اور اگر وہ بھاگ جائے گا تو خدا تعالیٰ ہمیں ایک لعنت سے بچالے گا.شاید آپ لوگوں میں سے کوئی شخص کہے کہ اگر کوئی بے ایمان ہے تو اس میں جماعت کی ذمہ داری کیا ہے؟ میں کہتا ہوں، اس میں جماعت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھے اور منہ نہ لگائے.جب کوئی شخص بے ایمان ہوگا تو تمہارے ان جذبات کی وجہ سے یا تو وہ اپنی اصلاح کرلے گا اور یا جماعت سے اپنا رشتہ توڑلے گا.چوہڑوں کو ہی دیکھ لو، جب وہ کسی کا مقاطعہ کرتے ہیں تو وہ سیدھا ہو جاتا ہے.کیونکہ وہ قوم کا فرد ہوتا ہے اور جب اس کی قوم اس کا حقہ پانی بند کر دے تو فی الواقع اس کا حقہ پانی بند ہو جاتا ہے.اس لئے اگر چہ تم تھوڑے ہو لیکن اگر منافقوں کو معلوم ہو جائے کہ تم ایسا کرو گے تو وہ فور سیدھے ہو جائیں گے یا تم کو چھوڑ دیں گے.قطع نظر اس کے کہ اس میں کسی افسر کی غلطی ہے.سوال یہ ہے کہ کیا اس نے فرمانبرداری کی؟ افسر کا حکم ظالمانہ ہی سہی مگر کیا اس نے وہ حکم مانا؟ اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے تمہارا فرض ہے کہ خواہ کوئی شخص تمہارا کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، جب وہ نافرمانی کرے اور اسے سزا ملے یا اس کے خلاف کوئی اور تادیبی کاروائی کی جائے تو یہ بحث نہ کرو کہ ایسا کیوں ہوا؟ اگر تم میں یہ روح پیدا ہو جائے گی تو منافقین فوراً اپنی اصلاح کرلیں گے یا جماعت کو چھوڑ کر ایک طرف ہو جائیں گے.اگر چوہڑے ایسا کر سکتے ہیں تو تم ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟ احمدی چوہڑوں سے تو کمزور نہیں.یہ بھی ایسا کر سکتے ہیں.لیکن ان میں اتنا جذ بہ نہیں پایا جاتا ، جتنا چو ہڑوں میں پایا جاتا ہے.اگر یہ جذ بہ بالکل ہی نہ پایا جاتا تو اتنے عظیم الشان کام ہوتے کیسے، جو اس جماعت نے کئے ہیں؟ مگر ابھی اور شدید جذبہ کی ضرورت ہے.تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ جب ہم قادیان میں تھے تو منافق فورا ظاہر ہو جاتا تھا اور خلیفہ کے علم میں آجا تا تھا.لیکن اب تم ہر جگہ پھیل چکے ہو، اب اگر کوئی منافقت کرتا ہے تو تمہیں اس وقت اس کی منافقت کا پتہ لگے گا، جب سینکڑوں، ہزاروں آدمی تباہ ہو جائیں گے.افریقہ کی جماعت کو لے لو، وہ 118
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1949ء فورم مبلغوں کے سامنے چوں چرا نہیں کرتے تھے.مبلغ ہر طرح ان سے سلسلہ کا کام لے رہے تھے لیکن جب اپنے ہی مبلغ نے یہ کہا کہ ہمارا امام ایسا ہے.تو ان کے لفظ تھے کہ اگر تم پنجابی ہی آپس میں جھگڑتے ہو تو تم ہماری اصلاح کس طرح کر سکتے ہو؟ یہ معمولی بات نہیں.یہاں کوئی فتنہ ہو تو اس کا دبانا آسان ہے.لیکن جب باہر کسی ملک میں فتنہ پھیل جائے تو اس کا دبانا، ہمارے بس کی بات نہیں رہتی.یہ بات نہیں کہ ہم ایسے فتنوں کے دبانے میں کامیاب نہیں ہوتے ، اکثر جگہوں پر ہم کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن بعض جگہوں پر جماعتیں ٹوٹ جاتی ہیں.پس یہ بہت احتیاط والی بات ہے، یہ بہت ڈر اور خوف والی بات ہے.تم اپنے اندر ایسا جذبہ ایمان پیدا کرو کہ جو شخص نظم کو توڑتا ہے تم اسے منہ نہ لگاؤ.وہ تمہارا دشمن ہے.اگر تمہارا یہ جذبہ انتہاء کو پہنچ جائے تو ممکن نہیں کہ یہ لوگ اپنی خرابی کو دور کرنے کی کوشش نہ کریں.یہ جذ بہ صحابہ میں کتنا شاندار تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جنگ تبوک پر تشریف لے گئے، تین مخلص آدمی پیچھے رہ گئے ، وہ بے ایمان نہیں تھے بلکہ کسی وجہ سے ان سے یہ غلطی سرزد ہوگئی.اس وقت ایک چوتھے صحابی بھی تھے ، جو پیچھے رہ گئے.انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے باہر کسی کام سے بھیجا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم باہر نکل چکے تھے، وہ گھر آئے.کئی دن گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے انہیں قدرتا یہ خیال آیا کہ میں اپنی بیوی کو پیار کروں.وہ بنتے بنتے اندر گئے اور اپنی بیوی کو پیار کرنا چاہا.لیکن اس نے انہیں دھکا دے کر پیچھے کر دیا اور کہا تمہیں شرم نہیں آتی.خدا کا رسول لڑنے کے لئے گیا ہے اور تمہیں بیوی سے پیار سوجھ رہا ہے.دیکھو، ان میں اسلام کی کتنی غیرت تھی.شاید آج کل کی عورت اس بات پر ناراض ہو جائے کہ اس کے خاوند نے اس سے پیار کیوں نہیں کیا ؟ لیکن وہ صحابیہ اس بات پر ناراض ہوگئیں کہ ان کے خاوند نے ان سے کیوں پیار کرنا چاہا ہے؟ حالانکہ ان کا کوئی قصور نہیں تھا.صرف اتنی بات تھی کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جنگ میں تبوک پر تشریف لے جانے کے بعد گھر پہنچے تھے.لیکن بیوی کی منشاء یہ تھی کہ وہ وہیں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ مل جاتے اور گھر آتے ہی نہ.اس بات کا یہ نتیجہ تھا کہ ان میں اتنی طاقت پیدا ہوگئی کہ دنیا ان سے خوف کھانے لگی.ایک دفعہ ایک جنگ کے موقع پر جب صحابہ میں آپس میں شکر رنجی ہوگئی تو عبد اللہ بن ابی بن سلول نے اس موقع کو غنیمت جانا اور چاہا کہ مسلمانوں میں آگ سلگا دے.اس نے کہا کہ کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ان مہاجرین کو سر پر نہ چڑھاؤ ؟ تم نے انہیں سر چڑھایا تو ذلت دیکھنی پڑی.اب بھی 119
خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کوئی بات نہیں مدینہ جالینے دو.وہاں جا کر سب سے معزز شخص یعنی میں سب سے ذلیل شخص یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ( نعوذ باللہ من ذالک) مدینہ سے نکال دے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس یہ بات پہنچی.آپ نے انصار کو اکٹھا کر کے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے؟ انصار نے جواب دیا، یارسول اللہ اعبداللہ بن ابی بن سلول نے یہ بات کہی ہے.جو سزا آپ فرما ئیں ، ہم اسے دینے کو تیار ہیں.بعض نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو ہم اسے قتل کر دیں.آپ نے فرمایا میں یہ نہیں چاہتا کہ اسے قتل کروں.عبداللہ کا اپنا لڑ کا آپ کے پاس آیا.یہاں تو دور کی بھی رشتہ داری ہوتی ہے تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ظلم ہوا.مگر وہاں اس کا اپنا لڑکا آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے ایسی بات کہی ہے.یا رسول اللہ! ایسے شخص کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں، اسے قتل کی ہی سزاد ینی چاہئے.مگر یارسول اللہ ! ایک بات میرے ذہن میں آئی ہے، وہ یہ کہ ممکن ہے کہ آپ کسی صحابی کو حکم دیں کہ وہ میرے باپ کو مار دے اور کسی وقت مجھ میں کمزوری آجائے اور میں کہوں کہ چونکہ اس شخص نے میرے باپ کو قتل کیا تھا، اس لئے میں اسے قتل کر دوں.یا رسول اللہ ! اس چیز سے بچنے کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ آپ مجھے ہی حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کر دوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ، ہم ایسا کوئی اقدام کرنے کے لئے تیار نہیں.صحابہ کی نظروں میں یہ بات ختم ہوگئی کہ اس رحیم ترین انسان نے اس ظالم ترین منافق کو معاف کر دیا.مگر بیٹے کے لئے یہ بات ختم نہ ہوئی.اس کے دل میں غصہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق میرے باپ نے یہ لفظ کہے تھے کہ مدینہ پہنچ لینے دو، وہاں پہنچ کر سب سے معزز شخص یعنی میں سب سے ذلیل شخص یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو (نعوذ بالله من ذالک) مدینہ سے باہر نکال دے گا.لشکر واپس آرہا تھا.جس وقت مدینہ کی دیوار میں نظر آئیں ، عبداللہ کے بیٹے نے تلوار نکالی اور گلی کے دروازے پر کھڑا ہوگیا اور کہا کہ میرا باپ مدینہ آ گیا ہے، یہ وہ جگہ ہے، جس کے متعلق تم نے یہ الفاظ کہے تھے کہ میں وہاں پہنچ کر سب سے ذلیل شخص یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو (نعوذ باللہ من ذالک ) مدینہ سے باہر نکال دوں گا.خدا کی قسم میں آج تمہیں گھی میں گھنے نہیں دوں گا، جب تک تم میرے سامنے یہ اعلان نہ کرو کہ میں سب سے زیادہ ذلیل شخص ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں.جب تک عبداللہ نے یہ اعلان نہیں کیا ، اس کے بیٹے نے اسے شہر میں گھنے نہیں دیا.تم سمجھ سکتے ہو کہ اس قسم کے جذبات کے مقابلہ میں بھلا منافقت پنپ سکتی ہے؟ ہاں اگر تم ان جذبات کو چھوڑ دو گے تو منافقت ہر جگہ پہنے گی اور تمہاری جڑوں میں تیل ڈالے گی.120
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1949ء پس میں مولویوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاق درست کریں ، ورنہ مولویت انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچائے گی.ان سے وہی سلوک کیا جائے گا ، جو منافقوں سے کیا جاتا ہے.اور میں کالجوں اور سکولوں کے افسروں اور اساتذہ سے یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاق میں تبدیلی پیدا کریں.ورنہ جو مبلغ برانمونہ دکھائے گا، میں انہی کو ذمہ دار ٹھہراؤں گا.اور میں جماعت کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ آپ کی قربانیوں اور ایثار نے خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچا اور جماعت، جو ایک کو نیل کی طرح تھی، اسے ایک درخت کی طرح بنا دیا.کونپل پر کسی جانور کا پاؤں آ جائے تو وہ تباہ ہو جاتی ہے اور درختوں میں اگر کیٹر ا لگ جائے تو انہیں کسی کام کا نہیں چھوڑتا، وہ سوکھ جاتے ہیں.تم کسی جانور کے پاؤں سے مسلے جانے کی حالت سے تو نکل چکے ہولیکن کیڑے کی آفت سے ابھی دور نہیں ہوئے.اس سے بچنے کا طریق یہی ہے کہ تم منافقت کو منہ نہ لگاؤ.بے شک منافق کو یہ بات بری لگے گی اور وہ کہے گا کہ دیکھو یہ ختی پر اتر آئے ہیں لیکن جب تک میری زندگی قائم ہے، میں تو انہیں سوراخوں سے نکال نکال کر باہر پھینک دوں گا.کیونکہ میں نے نہ خلافت چاہی تھی اور نہ خلافت کا بھوکا تھا.اگر تم سب مجھے چھوڑ دو گے تو مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں.مجھے تو ایک چیز کی ہی بھوک تھی ، بھوک ہے اور رہے گی کہ خدا تعالیٰ مجھ سے کوئی خدمت لے لے.اگر جماعت اس میں روک بنے گی تو مجھے اس بات میں خوشی ہوگی کہ وہ مجھے چھوڑ دے.میرے ساتھ چاہے ایک ہی آدمی رہ جائے، مجھے کچھ خوف نہیں.میں سمجھتا ہوں ایک سے ہی ہم کروڑوں بن جائیں گے.منافق یہ نہ سمجھیں کہ وہ مجھے کوئی نقصان پہنچائیں گے.بہتیروں نے یہ کوشش کی اور وہ ناکام رہے، اب یہ بھی ناکام ہوں گے.جس کو خدا تعالیٰ کی پناہ ہو، اس کو کسی کا کیا ڈر؟ میں تو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوں اور اسی کا ہتھیار ہوں.مجھے نہ دشمن نقصان پہنچا سکتے ہیں ، نہ اپنے پہنچا سکتے ہیں.میں ایک کام کے لئے کھڑا ہوا ہوں، جب تک اس کام کا وہ حصہ، جو میرے سپرد ہے، ختم نہ ہوئے، مجھے دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی.اور جب وہ وقت آئے گا کہ مجھے اس دنیا سے جانا ہو گا تو مجھے وہاں جانا نا پسندیدہ نہیں ہوگا.کیونکہ اگلے جہاں میں ، اس جہاں کے لوگوں کی نسبت میرے زیادہ پیارے لوگ بستے ہیں.(مطبوعه روزنامه الفضل 22 فروری 1950ء) 121
ر یک جدید - ایک الہی تحریک...جلدسوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 دسمبر 1949ء احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہو سکتی خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1949ء ” جب میں خطبہ پڑھنے کے لئے مسجد میں آنے لگا تو مجھے ایک تار ملی.جو تار مجھے ملی ، وہ ایک دو گھنٹہ پہلے کی گئی تھی لیکن پڑھی نہیں جاتی تھی.بعد میں دفتر والوں سے مل کر اسے پڑھا.اس تار سے ایک افسوس ناک خبر ملی ہے، جس کی وجہ سے میں نے خطبہ کے موضوع کو بدل دیا.اب میں اسی بارہ میں خطبہ پڑھنا چاہتا ہوں.یہ تار جس کا میں نے ذکر کیا ہے، ماریشس سے ملی ہے اور اس سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے وہاں کے مبلغ حافظ جمال احمد صاحب فوت ہو گئے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اچانک بیماری آئی ہے.کیونکہ اس سے پہلے ان کی بیماری کی کوئی خبر نہیں آئی.حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ماریشس بھیجے گئے تو اس وقت جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی.اتنی کمزور کہ ہم کسی مبلغ کی آمد ورفت کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے.میں نے تحریک کی کہ کوئی دوست اس ملک میں جائیں.اس پر حافظ صاحب مرحوم نے خود اپنے آپ کو پیش کیا یا کسی اور دوست نے تحریر کیا کہ حافظ جمال صاحب کو وہاں بھیج دیا جائے.چونکہ پہلے وہاں صوفی غلام محمد صاحب مبلغ تھے اور وہ بھی حافظ تھے، اس لئے احباب جماعت نے وہاں ایک حافظ کے جانے کو ہی پسند کیا.گو صوفی غلام محمد صاحب بی.اے تھے اور ان کی عربی کی لیاقت بھی بہت زیادہ تھی اور حافظ جمال احمد صاحب غالباً مولوی فاضل نہیں تھے.ہاں عربی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی اور قرآن کریم حفظ کیا ہوا تھا.لیکن بہر حال انہیں صوفی صاحب کی جگہ مبلغ بنا کر ماریشس بھیج دیا گیا.حافظ صاحب کی شادی مولوی فتح الدین صاحب کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی ، جنہوں نے شروع شروع میں پنجابی میں کا من لکھے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے پہلے کے تعلق رکھنے والے دوستوں میں سے تھے.ان کے سسرال کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ان کے بعد ان کے بیوی بچوں کا انتظام مشکل تھا، اس لئے انہوں نے مجھے تحریک کی کہ انہیں بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے.چونکہ اس وقت سلسلہ کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ پیسے پیسے کا خرچ بو جھل معلوم ہوتا تھا.اور 123
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 دسمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلدسوم ادھر حافظ صاحب مرحوم کی حالت ایسی تھی کہ انہیں اپنے بیوی بچے اپنے پیچھے رکھنے مشکل تھے.میں نے کہا میں آپ کو بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دیتا ہوں مگر اس شرط پر کہ آپ کو ساری عمر کے لئے وہاں رہنا ہوگا.اس وقت کے حالات کے ماتحت انہوں نے یہ بات مان لی اور سلسلہ اور ان کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ وہ ہمیشہ وہیں رہیں گے.ایک لمبا عرصہ کے بعد جب ان کے لڑکے جوان ہوئے اور لڑکی بھی جوان ہوئی.انہوں نے مجھے تحریک کی کہ میرے بچے جوان ہو گئے ہیں، اس لئے ان کی شادی کا سوال در پیش ہے.آپ مجھے واپس آنے کی اجازت دیں تا بچوں کی شادی کا انتظام کر سکوں.لیکن میری طبیعت پر چونکہ یہ اثر تھا کہ وہ یہ عہد کر کے وہاں گئے تھے کہ ہمیشہ وہیں رہیں گے ، اس لئے میں نے انہیں لکھا کہ آپ کو اپنے عہد کے مطابق عمل کرنا چاہیے.انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اپنا عہد یاد ہے لیکن میری لڑکی جوان ہوگئی تھی ، جس کی وجہ سے مجھے واپس آنے کی ضرورت پیش آئی.اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں یہیں رہوں تو میں اپنی درخواست واپس لے لیتا ہوں.بعد میں محکمہ کی طرف سے بھی کئی دفعہ تحریک کی گئی کہ انہیں واپس بلا لیا جائے.لیکن میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ انہوں نے عہد کیا ہوا ہے اور اس عہد کے مطابق انہیں وہیں کا ہورہنا چاہیے.ابھی کوئی دو ماہ ہوئے، میں نے سمجھا کہ چونکہ اب حالات بدل چکے ہیں اور اب نیا مرکز بنا ہے، اس لئے ان کو بھی نئے مرکز سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہیے، میں نے انہیں یہاں آنے کی اجازت دے دی اور محکمہ نے انہیں واپس بلوا بھیجا.لیکن خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں.جب تک ان کی اپنی خواہش واپس آنے کی تھی، وہ زندہ رہے.چونکہ وہ آخری اختیار رکھنے والے نہیں تھے، اس لئے اپنی خواہش کے مطابق وہ واپس نہیں آسکتے تھے لیکن جب میں نے اجازت دے دی تو خدا تعالیٰ نے کہا اب ہم اپنا اختیار استعمال کرتے ہیں اور انہیں وہیں وفات دے دی.میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارے واقعات اپنے اندر ایک نشان رکھتے ہیں.ایک شخص عہد کرتا ہے اور سالہا سال تک اس پر پاپند رہتا ہے.اس کے بعد وہ اسے توڑتا نہیں مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے واپس آنے کی اجازت مانگتا ہے.لیکن میں اصرار کے ساتھ ان کی درخواستیں رد کرتا چلا جاتا ہوں اور وہ چپ کر جاتا ہے.پھر محکمہ بھی اس کے بلانے پر اصرار کرتا ہے لیکن میں اسے واپس بلانے کی اجازت نہیں دیتا.یہ بھی نہیں کہ حافظ صاحب کوئی بڑی عمر کے تھے ، شاید وہ مجھ سے چھوٹے تھے.انہوں نے جب خود واپس آنا چاہا تو میں نے ان کی درخواستیں رد کر دیں.جب محکمہ نے ان کے واپس بلانے پر اصرار کیا تب بھی میں 124
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1949ء نے اصرار کیا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں.لڑکوں کے متعلق انہوں نے اصرار کیا کہ ان کی تعلیم کا حرج ہورہا ہے تو میں نے کہا اچھا انہیں یہاں بھیج دو.چنانچہ ان کا ایک لڑکالا ہور پڑھتا ہے اور سلسلہ کی طرف سے اسے امداد دی جاتی ہے.لیکن قادیان سے نکلنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ انہوں نے نیا ماحول تو دیکھا نہیں، اس لئے انہیں واپس بلا لیا جائے اور اس نئے ماحول سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے.میں نے انہیں واپس آنے کی اجازت دی.لیکن جب اس حکم پر عمل کرنے کا وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے انہیں واپس بلالیا.تا وہ اپنے عہد کو پورا کرنے والے بنیں اور منهم من قضى نحبہ کی جماعت میں شامل ہو جائیں.اس آیت قرآنیہ میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ منهم من قضى نحبه کچھ تو ایسے صحابہ نہیں ، جنہوں نے موت تک اپنے عہد کو نہایا ہے.ومنهم من ينتظر اور کچھ ایسے ہیں کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ انہیں موقع ملے تو وہ اپنے عہد کو پورا کریں“.ہماری جماعت میں بھی خدا تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کئے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ حافظ جمال احمد صاحب بھی انہیں میں سے تھے.جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ منهم من قضى نحب.وہ یہاں سے عہد کر کے گئے تھے کہ وہ وہیں کے ہور ہیں گے.جب ہم نے چاہا کہ وہ آجائیں.تو خدا تعالیٰ نے کہا نہیں میں ان کا عہد پورا کروں گا.ماریشس ایک ایسا ملک ہے، جہاں بہت ابتداء سے ہمارے مشن جارہے ہیں.میری خلافت کے دوسرے یا تیسرے سال سے وہاں مشن جارہے ہیں.ایسے پرانے ملک کا بھی یہ حق تھا کہ وہ کسی صحابی یا تابعی کی قبر اپنے اندر رکھتا ہو.ہم شرک نہیں کرتے ، ہم قبروں پر سے مٹیاں لینے والے نہیں ، ہم قبروں پر پھول چڑھانے والے نہیں.ہمیں تو یہ بھی سن کر تعجب آتا ہے کہ ابن سعود کے نمائندے بھی قبروں پر پھول چڑھانے لگ گئے ہیں.مجھے حیرت آتی ہے کہ اگر کوئی پھول چڑھانے کی مستحق قبر تھی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر تھی.کیا حضرت ابوبکر " کو پھول نہ ملے کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر پھول چڑھاتے ؟ کیا حضرت عمر کو پھول نہ ملے کہ وہ آپ کے مزار پر پھول چڑھاتے ؟ اگر آپ کے مزار پر ان بزرگوں نے پھول چڑھائے ہوتے تو ہم اپنے خون سے پھولوں کے پودوں کو سینچتے تا آپ کے مزار پر پھول چڑھائیں.مگر افسوس زمانے بدل گئے اور ان کی قدریں بدل گئیں.لیکن ہم موحد ہیں ، مشرک نہیں.بلکہ ہمیں تو ان موحدوں پر افسوس آتا ہے، جو تو حید پر عمل کرتے تھے لیکن اب ان کے نمائندے قبروں پر جاتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں.دنیا میں جو لوگ اچھے کام کر جاتے ہیں، ان کی قبروں پر جانا اور ان کے لئے دعائیں 125
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 دسمبر 1949ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم کرنا ہی ان کے لئے پھول ہیں.گلاب کے پھول ان کے کام نہیں آتے ، عقیدت کے پھول ان کے کام آتے ہیں.اور یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتے ہیں، ان کے مزاروں پر دعا کرنا بسا اوقات بہت بڑی برکتوں کا موجب ہو جاتا ہے.ان سے مانگنا جائز نہیں ، ہاں کی ان کی قربانی یاد دلا کر خدا تعالیٰ سے مانگنا چاہیے.جیسے حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قحط پڑا تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم آپ کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا مانگا کرتے تھے.اب وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں، ان کے چچا عباس کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ اس قحط کو دور فرما.جیسے لوگ کہتے ہیں، بچوں کا صدقہ.اسی طرح خدا تعالیٰ سے بھی اس کے پیاروں کا واسطہ دے کر مانگنا جائز ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ماریشس اس بات کا مستحق تھا کہ اس میں کسی صحابی یا کسی ایسے تابعی کی، جس کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قریب پہنچتا ہو، قبر ہو.تاوہ اس کے مزار پر خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں.میں نے صحابی یا تابعی اس لئے کہا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ حافظ صاحب مرحوم صحابی تھے یا نہیں.جب سے میں انہیں دیکھتا رہا ہوں، وہ حضرت خلیفة المسیح اوّل کا زمانہ تھا اور اگر میرے دیکھنے پر اس کی بنیاد ہو تو وہ تابعی تھے.میں دوسرے نو جوانوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہو سکتی.انہیں بھی اس چیز کا احساس ہونا چاہیے.سینکڑوں ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کیا.مگر سینکڑوں انتظار کرنے والے بھی آگے آئیں تا ان کے نام خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں لکھے جائیں.126 (مطبوعه روزنامه الفضل 12 فروری 1950ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 جنوری 1950ء خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر کرو، جو اس نے تمہیں دی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 1950ء.اس کے بعد میں دوستوں کو تحریک جدید کے وعدوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.میں نے اس دفعہ جب تحریک جدید دفتر اول کے سولہویں اور دفتر دوم کے چھٹے سال کی تحریک کی تو اس وقت یہ بیان کرنا بھول گیا کہ وعدوں کی آخری میعاد کیا ہوگی ؟ پھر جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی تقریر کے نوٹوں میں ، میں نے یہ بات درج کی تھی کہ میعاد کا اعلان کروں گا.لیکن جب تقریر کے لئے کھڑا ہوا اور دوسرے مضامین لمبے ہو گئے تو یہ بات ذہن سے اتر گئی.اس کے بعد ارادہ تھا کہ خطبہ جمعہ میں ، جو اس سال کا پہلا خطبہ ہوگا ، میں میعاد کا اعلان کروں گا.لیکن بیماری کی وجہ سے پچھلے جمعہ میں خطبہ کے لئے نہ آسکا.اس لئے آج میں اس بارہ میں اعلان کرتا ہوں اور چونکہ اعلان کرنے میں اب دیر ہو گئی ہے، اس لئے میں میعاد کو کچھ لمبا کر دیتا ہوں.یعنی پہلے وعدوں کی آخری میعاد 7 فروری ہوتی تھی اور اس وقت تک مخلصین جماعت کوشش کرے کے پورے وعدے لکھوا دیتے تھے.لیکن اس دفعہ چونکہ میعاد کا اعلان نہیں کیا گیا، اس لئے لوگ اس دبدبہ میں رہے کہ پتہ نہیں تحریک جدید کے وعدوں کی آخری میعاد کیا ہوگی؟ اس لئے بجائے 7 فروری کے میں 28 فروری آخری میعاد مقرر کرتا ہوں.یعنی 28 فروری تک جو دوست اپنے وعدے لکھوا دیں گے، ان کے وعدوں کو قبول کر لیا جائے گا.یا یکم مارچ تک جو وعدے ڈاک میں ڈال دیں گے، ان کے متعلق سمجھ لیا جائے گا کہ انہوں نے وقت کے اندر اندر وعدہ لکھوا دیا ہے.میں نے گذشتہ تحریک کے اعلان کے موقع پر خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ خصوصیت کے ساتھ تحریک جدید دفتر دوم کی طرف توجہ کریں.بعض جماعتوں کی طرف سے اطلاع آئی ہے کہ وہ اس کام کے لئے کوشش کریں گی.اور یہ کہ وہ اپنا پور از ور لگائیں گی کہ سال ششم میں زیادہ سے زیادہ وعدے کئے جائیں اور کوئی نو جوان اس میں حصہ لینے سے پیچھے نہ رہے.لیکن جو اعداد و شمار میرے سامنے پیش کئے گئے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال کے وعدے گذشتہ سال کے وعدوں کے مقابلہ میں 60 فیصدی ہوئے ہیں.گویا بجائے بڑھنے کے پچھلے سال سے بھی وعدے 40 فیصدی کم ہیں.اسی طرح اس وقت تک 127
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 13 جنوری 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم جو وعدے دفتر اول کے آئے ہیں، ان میں بھی پچھلے سال کی نسبت پچاس ہزار کے وعدوں کی کمی ہے.حالانکہ کام ہمارا بہت بڑھ رہا ہے اور بڑھتا چلا جائے گا.ہمارا سالانہ بجٹ ابھی اتنا نہیں کہ اس سے ایک چھوٹے سے قصبہ کا کام بھی کیا جائے.مگر ہم اسی بجٹ سے ساری دنیا کا کام کر رہے ہیں.اور یہ اللہ تعالی کا فضل ہے کہ ہم اتنی چھوٹی سی رقم سے اس پر قادر ہو گئے ہیں.بہر حال ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی مقدرت کے مطابق اپنا کام بڑھاتے جائیں.جو قو میں ٹھہر جاتی ہیں، وہ ترقی کی طرف نہیں جاسکتیں.دنیا کو خدا تعالیٰ نے اس طور پر بنایا ہے کہ جو کھڑا ہوا، مرا.گویا کھڑا ہونا، ایک موت ہے.یہ بات خوب یادرکھو کہ کھڑا ہونا کوئی چیز نہیں.یا تم آگے بڑھو گے یا پیچھے ہٹو گے.تم کسی جگہ پر کھڑے نہیں ہو سکتے.الہبی قانون تمہیں کھڑا نہیں ہونے دے گا.جو بھی کھڑا ہوگا، یقینا پیچھے جائے گا.پس ضروری ہے کہ ہم اپنا قدم آگے کی طرف بڑھا ئیں.میں نے احباب کو اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ ہمارا ارادہ ہے کہ اس سال تین جگہ پر اپنے نئے مشن کھولیں.اور پھر بعض مبلغوں کا آپس میں تبادلہ بھی ہورہا ہے.یعنی بعض مبلغین کو واپس بلایا جارہا ہے اور بعض کو ان کی جگہ پر بھجوایا جارہا ہے.اس کی وجہ سے اخراجات میں 30-40 ہزار کی زیادتی ہوگی.ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ کے سیاسی مرکز واشنگٹن میں ، جہاں ان کا پریذیڈنٹ رہتا ہے، اپنا مشن جلد کھول دیں.اور پھر بجائے اس کے کہ ہم کرایہ پر مکان لیں) وہاں اپنا مکان خریدیں تا وہ ہمارا مستقل مرکز ہو.چنانچہ ایک اعلیٰ جگہ پر ایک مکان خرید لیا گیا ہے، جو پریزیڈنٹ کے مکان کے بالکل قریب ہے.اتنا قریب تو نہیں، جو ہم سمجھتے ہیں بلکہ جتناٹریفک کی سہولت کی وجہ سے وہاں قریب سمجھا جاتا ہے، قریب ہے.اور یہ مکان غالباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ میں آئے گا.یہ تین منزلہ مکان ہے.علاوہ پانچ رہائشی کمروں کے ڈائننگ روم اور سٹنگ روم وغیرہ بھی ہیں.اس مکان کے متعلق میں نے لکھا تھا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو بھی دکھا لیا جائے اور ان کی پسندیدگی حاصل کرلی جائے.سو آج ہی مجھے ایک تار ملا ہے، جس میں لکھا ہے کہ مکان چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی دکھا دیا گیا ہے اور انہوں نے اسے پسند کیا ہے.خاص طور پر انہوں نے مکان کے محل وقوع کو بہت پسند کیا ہے.یہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کا مزید خرچ بھی اس سال زائد پڑے گا.اسی طرح ہالینڈ میں بھی ہم مسجد بنانے کی تجویز کر رہے ہیں.غالباً ایک لاکھ کے قریب وہاں بھی خرچ آئے گا.غرض قریباً تین لاکھ روپیہ کا خرچ اس سال مزید اٹھانا پڑے گا.پس جماعت کو چاہئے کہ وہ بجائے اس کے کہ ستی کرے، اپنے قدم تیز کرے.جس رنگ میں اور جس اخلاص کے ساتھ جماعت نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ظاہر کیا، اسے دیکھتے ہوئے ، میں امید کرتا 128
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 جنوری 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سو ہوں کہ مخلصین جماعت اور کارکن بہت جلد اس طرف توجہ کریں گے اور اپنے قدموں کو آگے بڑھانے کی اور توجہ کوشش کریں گے.اس کے علاوہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے ، جماعتیں حفاظت مرکز کے چندے بھی وصول کرنے کی کوشش کریں.میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں دو سال یعنی 50 ء اور 51 ء خاص طور پر مالی بوجھ کے آئیں گے.ان دونوں سالوں میں خصوصیت کے ساتھ جماعت پر بہت مالی بوجھ پڑے گا.اور اس کے بعد بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عارضی طور پر جو مالی دباؤ پڑا ہے، وہ کم ہو جائے گا.سو جماعت کو ہر وقت یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ یہ دو سال خاص قربانیوں کے ہیں.بلکہ در حقیقت 46ء سے ہی جماعت پر مالی دباؤ پڑا رہا ہے.اس لئے پچھلے تین سالوں کو ساتھ ملالیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ 5 سال کا عرصہ مالی لحاظ سے خصوصیت سے جماعت کے لئے امتحان اور آزمائش کا عرصہ ہے.کارکنوں کو چاہئے کہ اگلے دو سال میں وہ اپنے گھروں کو مضبوط کریں.اور اس عرصہ میں امید کی جاتی ہے کہ سلسلہ کے تجارتی اور صنعتی ادارے اتنی آمد پیدا کرنا شروع کردیں گے کہ سلسلہ کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے.اور اگر دیانت دار کارکن مل جائیں تو یہ معمولی بات ہے اور ایک ادنی توجہ کے ساتھ اس ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے.خدام الاحمدیہ کو میں دوبارہ اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ اس سال وہ کوشش کریں کہ کوئی نوجوان ایسا نہ رہے، جس نے تحریک جدید دفتر دوم میں حصہ نہ لیا ہو.ہر جگہ کے خدام الاحمدیہ ہر فرد کے پاس جائیں اور تسلی کر لیں کہ ایک نو جوان بھی ایسا نہیں رہا ، جس کا تحریک جدید دفتر اول میں حصہ نہیں تھا اور تحریک جدید دفتر دوم میں بھی اس نے حصہ نہیں لیا.اسی طرح جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے ہر جگہ خدام الاحمدیہ قائم نہیں.میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنی جگہوں پر مجلس خدام الاحمدیہ قائم کریں اور کوئی جگہ ایسی نہ رہے، جہاں جماعت احمد یہ موجود ہو اور خدام الاحمدیہ قائم نہ ہو.تا نو جوانوں میں کام کی جو تحریک کی جائے ، وہ جلد اور بسہولت ترقی کرے.یہ کام اللہ تعالیٰ کا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے لئے وہ خود ہی ہر قسم کے رستے کھولے گا.لیکن میہ اس کی عنایت ہے کہ وہ ہمیں کام کا موقع دے رہا ہے.پس مبارک ہے، وہ شخص جسے خدا تعالیٰ نے ایسے زمانہ میں پیدا کیا ، جس کی امید لگائے ہوئے بڑے بڑے صلحاء اور اولیاء اور بزرگ سینکڑوں سال سے انتظار کر رہے تھے.اور مبارک ہے، وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں پیدا کر کے اسے حضرت مسیح موعود و مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت کی بھی توفیق بخشی ، جس کی انتظار سینکڑوں سال سے دنیا کر رہی تھی.اس کی اہمیت اس بات سے معلوم ہوسکتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ 129
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 جنوری 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اگر تمہیں برف کے میدانوں میں گھٹنوں کے بل بھی چل کر جانا پڑے تو اس کے پاس پہنچو اور اسے میرا سلام بھی پہنچاؤ.اور پھر مبارک ہے، وہ شخص جس کو حضرت مسیح موعود مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت کے بعد خدا تعالیٰ نے کام کی توفیق بخشی اور ایسے کام کی توفیق بخشی کہ اسے اس غرض کو ، جس کے لئے وہ دنیا میں آیا تھا، پورا کرنے کے لئے معتد بہ حصہ ملا اور ایسا حصہ ملا کہ خدا تعالیٰ کے دفتر میں وہ سابقون الاولون میں لکھا گیا.پس نو جوانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں زریں موقع عطا فرمایا ہے.جو صدیوں بلکہ میں کہتا ہوں، ہزاروں سال میں بھی میسر نہیں آتا.دنیا نے 6 ہزار سال تک انتظار کیا اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیدا ہوئے.پھر 13 صدیاں مسلمانوں نے بھی انتظار میں گزاریں.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نائب ، بروز اور خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا ہوئے.اس زمانہ کو شیطان کی آخری جنگ کہا گیا ہے.گویا اس سے زیادہ نازک وقت دین پر کبھی نہیں آیا اور آئندہ کبھی نہیں آئے گا.سو اس موقع پر جس کو کام کرنے کی توفیق ملے، وہ نہایت ہی بابرکت انسان ہے.پس اپنی اہمیت کو سمجھو، وقت کی نزاکت کو محسوس کرو اور خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر کرو، جو اس نے تمہارے ہاتھوں کی پہنچ میں رکھی ہے ، صرف تمہیں اپنا ہاتھ لمبا کرنے کی ضرورت ہے.جس کے لئے وہ صلحاء اور بزرگ بھی ترستے رہے، جن کو یاد کر کے تمہاری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور تم ان پر رشک کرتے ہو.جس طرح ان کا تقویٰ اور ان کا زہد تمہارے لئے قابل رشک ہے، اسی طرح تمہارا اس زمانہ میں کام کرنا ، ان کے لئے بھی قابل رشک ہے.حضرت شبلیؒ ، حضرت جنید بغدادیؒ ، حضرت شہاب الدین سہروردی، خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت محی الدین ابن عربی کے نام جب تم پڑھتے ہوتو تمہیں اس بات پر رشک آتا ہے کہ انہوں نے کس کس رنگ میں خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے کوشش کی اور کیا کیا رستے برکتوں کے خدا تعالیٰ نے ان کے لئے کھولے.اور تم رشک کرنے میں حق بجانب ہو کیونکہ وہ اپنے زمانہ میں دین کے ستون تھے.وہ اپنے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی رحمت کے نشان تھے اور خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھانے والے تھے.لیکن میں سچ کہتا ہوں، وہ بھی تم پر رشک کرتے ہیں.کیونکہ تمہیں خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں پیدا کیا ہے، جس کے لئے ان کو بھی تڑپ تھی.پس اپنی حیثیت کو سمجھتے ہوئے اور اپنے عالی مقام کو دیکھتے ہوئے تم وہ طریق کار تلاش کرو، جو بڑے درجہ کے لوگوں کو اختیار کرنا چاہئے“.مطبوعه روز نامه افضل 22 جنوری 1950ء) 130
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم پیغام فرموده 18 جنوری 1950ء نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پیغام فرمودہ 18 جنوری 1950ء بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ نوجوانان جماعت ! هو الناصر نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے السلام عليكم ورحمة الله وبركاته تحریک جدید کے دفتر دوم کی مضبوطی کا کام اس سال میں نے خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا ہے.بعض مجالس کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ اس بارہ میں کوشش کر رہے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ہر جگہ کے خدام سر گرم کوشش کر کے دفتر دوم کے وعدوں کو اس سال پانچ لاکھ تک لے جائیں.اس کے لئے 05 فروری 1950ء کا دن مقرر کیا جاتا ہے.اس دن ہر شہر اور گاؤں میں جلسے کئے جائیں ، جن میں تحریک جدید کی اہمیت واضح کی جائے.اور اس کے بعد خدام گھر یہ گھر پھر کر نئے سال کے وعدے لیں اور یہ تسلی کریں کہ ان کے شہر میں کوئی ایسا نو جوان باقی نہ رہے، جو تحریک جدید کے دفتر اول یا دوم میں شامل نہ ہو.چندہ کی شرح میں بھی کچھ رعایت کر دیتا ہوں، آئندہ دفتر دوم کا کم از کم وعدہ ماہوار آمد کے بیس فیصدی کے برابر کیا جا سکتا ہے.لیکن پانچ روپے سے کم کوئی وعدہ نہ ہونا چاہیے.اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو اور اس مہم میں آپ کو کامیاب کرے.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد خليفة المسيح الثاني 18 جنوری 1950ء ( مطبوعه روزنامه الفضل 21 جنوری 1950ء) 131
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلدسوم ہو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 جنوری 1950ء غالب ہم ہیں، جن کے ساتھ غالب خدا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جنوری 1950ء میرے گلے میں ابھی تک تکلیف ہے، جس کی وجہ سے میرے لئے بولنا مشکل ہے.اس لئے میں آج مختصر طور پر جماعت کو بعض باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ کے موقع پر بیان کیا تھا ، جماعت کو تحریک جدید کے وعدوں کی طرف جلد سے جلد توجہ کرنی چاہئے.میرے خطبہ کے اعلان کے بعد، جو الفضل میں تھوڑے ہی دن دئے ، شائع ہوا ہے، کچھ فرق تو پڑا ہے.لیکن ابھی تک تحریک جدید کے وعدوں کی مقدار پچھلے سال کے وعدوں کی مقدار سے کم ہے.گو وعدوں کا فرق پہلے دور میں قریباً65 ہزار کا تھا، جواب 21 ہزار کے قریب رہ گیا ہے.گویا 34 ہزار کا فرق اس عرصہ میں پورا ہو گیا ہے.اسی طرح دفتر دوم کا فرق بھی پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے.تحریک جدید دفتر اول کے سولہویں اور دفتر دوم کے چھٹے سال کی تحریک کرتے ہوئے، میں نے وعدوں کی میعاد کی تعیین نہیں کی تھی، جس کی وجہ سے وعدوں کی رفتارست رہی.اب میں نے میعاد اسی غرض کے لئے بڑھادی ہے تا جماعت کی اس طرف توجہ ہو سکے.اور میں امید کرتا ہوں کہ احباب اس میعاد میں پوری کوشش کریں گے کہ سال گذشتہ کے تمام وعدے وصول ہو جائیں.اور آئندہ کے لئے بھی تمام افراد سے تحریک جدید کے وعدے لئے جائیں.اس سال کی آمد اس حد تک کم ہے کہ بالکل ممکن ہو سکتا ہے کہ بقیہ سال تحریک جدید قرضہ لے کر گزارے.اور ایسا گذشتہ 15 سال میں کبھی نہیں ہوا.حتی کہ سال 47-48 میں بھی ، جو کہ بڑی تباہی کا سال تھا تحریک جدید کو قرضہ لے کر نہیں گزارنا پڑا.اب جبکہ امن ہو چکا ہے، ایسی حالت کا پیدا ہو جانا، خطرناک ہے.ابھی بقیہ مہینوں میں تحریک جدید کا نوے ہزار کا خرچ باقی ہے اور خزانہ میں صرف 15 ہزار روپیہ کی رقم ہے.اور اتنی رقم اور وصول ہوسکتی ہے کہ نوے ہزار ہو جائے اور تحریک جدید خیریت سے بقیہ سال گزار سکے.غرض 75-80 ہزار کے وعدے باقی ہیں اور دفتر دوم کی حالت تو بہت ہی خراب ہے.دفتر دوم کی مقدار چونکہ کم ہے، اس لئے بقایا کم ہے.لیکن اس کا بقایا کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے.اگر وہ وصول ہو جائے تو ان قرضوں کی ادائیگی میں بہت کچھ آسانی ہو جائے ، جو 133
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جنوری 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم تحریک جدید نے جائیدادیں بنانے کے لئے ، لئے تھے.پس احباب، اول تو پورا زور لگا کر فروری مارچ اور اپریل میں دفتر اول اور دوم کے گذشتہ بقائے وصول کر لیں.اور دوسرے دور اول اور دوم کے موجودہ سال کے وعدوں کو پیچھلے سالوں کے وعدوں سے بڑھانے کی کوشش کریں.بلکہ دفتر دوم کو تو بہت زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے.کیونکہ اب وہ وقت قریب آنے والا ہے، جبکہ سارا بوجھ دفتر دوم پر ڈال دیا جائے.اب تو صرف یہ ہوتا ہے کہ دفتر اول خرچ اٹھاتا ہے اور دفتر دوم قرضوں کو ادا کرنے میں مدد دیتا ہے.لیکن آئندہ سارا بوجھہ دفتر دوم پر ڈال دیا جائے گا.نئی پود خدا تعالیٰ کے فضل سے تعداد میں زیادہ ہے اور ان کی آمدنی بھی پہلوں کی آمد سے زیادہ ہے، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ وہ سارا بوجھ نہ اٹھا سکے.بشرطیکہ اس کے اندر اس کا احساس پیدا ہو جائے.اس کے بعد دوسرا امر ، جس کے متعلق میں آج کچھ کہنا چاہتا ہوں ، یہ ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ جب جماعت کی مخالفت پھر اس ملک میں شروع ہو جائے.دشمن اپنی دنیوی اغراض کے لئے مختلف بہانے بنا بنا کر اور اپنے پاس سے جھوٹ تراش کر جماعت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے.بلکہ علی الاعلان یہ ترغیب دلائی جاتی ہے کہ اگر تم ایک ایک احمدی کو مارڈالوتو یہ جماعت ختم ہو سکتی ہے.1947 ء میں پارٹیشن سے پہلے جب جماعت ان مظالم کا مقابلہ کر رہی تھی، جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر ہورہے تھے تو اس کی تعریفیں کی جاتی تھیں.جب مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کے نکل جانے کے بعد قادیان کا مرکز قائم رہا اور دشمن کا مقابلہ کرتارہا تو اس کی تعریف کی جاتی تھی.جب کشمیر کے معاملہ میں سب سے پہلے میں نے توجہ دلائی کہ یہ اہم چیز ہے اور یہ کہ باؤنڈری کمیشن نے دیدہ دانستہ گورداسپور کا علاقہ اس لئے ہندوستان کے سپرد کیا تھا تا کشمیر ان کے ہاتھ آسکے تو اس وقت جماعت کی تعریف کی جاتی تھی.جب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے امریکہ میں عرب اور پاکستان کے کیس کو اس عمدگی سے پیش کیا کہ ساری دنیا گونج اٹھی تو اس کی تعریف کی جاتی تھی اور احمدی بہت خوش تھے.جب میں انہیں کہتا تھا کہ تبلیغ کرو تو وہ کہتے تھے، حضور ! کچھ عرصہ ٹھہر جائیے ، جماعت کے لئے فضا بہت اچھی ہے، لوگ اس پر خوش ہیں، کہیں یہ فضا خراب نہ ہو جائے لیکن میں کہتا تھا کہ وہ وقت دور نہیں ، جب وہی زبان، جواب تمہاری تعریف کر رہی ہے، تمہاری موت کا فتوی دے گی.اور آج کے دن پر تم پچھتاؤ گے کہ تم نے اسے ضائع کر دیا اور تبلیغ نہ کی.میری عمر میں سینکڑوں دفعہ میرا اور غیر مسلموں کا اختلاف ہوا، میری عمر میں بہت دفعہ میرا اور حکومت کے افسروں کا اختلاف ہوا، میری عمر میں کئی دفعہ جماعت کے ساتھ بھی میرا اختلاف ہوا اور خدا تعالیٰ نے ہر دفعہ بلا استثناء 134
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 جنوری 1950ء دور ثابت کر دیا کہ میں ہی حق پر ہوں.اب بھی یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اس بات میں کہ وہ وقت دور نہیں، جب وہی زبان ، جو جماعت کی تعریف میں لگی ہوئی ہے، وہ احمدیوں کی موت کا فتویٰ دے، میں ہی حق پر تھا.تم میں وہ لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں، جو کہتے تھے ، جماعت کے لئے فضا اچھی ہے، ہمیں یہ اچھے دن گزار لینے دو لیکن میں کہتا تھا کہ یا درکھو، تھوڑے دنوں میں ہی یہ فضا تمہارے خلاف ہو جائے گی اور تم پچھتاؤ گے کہ یہ اچھا وقت ہم نے تبلیغ میں کیوں نہ گزارا.وہ دن، جو آنے والے تھے ، آگئے ہیں اور تم میں سے کئی لوگوں کے پیروں تلے سے زمین نکل رہی ہے.تم میں سے بعض تو قادیان کے ہمارے ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ سے ڈگمگا گئے تھے اور ڈگمگائے ہوئے ہیں.میرا ان کو بھی یہی جواب تھا.جیسے حضرت ابو بکر نے کہا تھا ، من كان يعبد محمدًا فان محمد اقدمات.جو تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا، وہ دیکھ لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں.ومن كان يعبد الله فان الله حي لا يموت.اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا ، وہ یادر کھے کہ اس کا خدا اب بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گا.میں بھی یہ کہتا ہوں کہ مـن كـان يـعـبـد قادیان فان قادیان قدوضع فی ایدی المخالفين.تم میں سے جو شخص قادیان کی پرستش کرتا تھا ، وہ سن لے کہ قادیان اب مخالفین کے ہاتھ میں ہے، ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے.ومن كان يعبد الله فان الله حي لا يموت اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا، اس کا خدا اب بھی زندہ ہے ، اس کا خدا اب بھی آزاد ہے، اس کا خدا اب بھی سب پر غالب ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا.اسی طرح آج بھی کچھ لوگ ہیں ، جو پہلے دشمن کی تعریفوں پر خوش تھے اور اس لذت کے زمانہ کولمبیا کرنا چاہتے تھے مگر اب وہ کا نپتے ہیں لرزتے ہیں اور ڈرتے ہیں.میں ان کو بھی کہتا ہوں اور پھر میری بات ہی سچی نکلے گی کہ تم نے تبلیغ کے وقت کو ضائع کیا اور ملمع کو سونا کہا لیکن وہ ایک دھوکا تھا، اب پھر تم دھوکا کھا رہے ہو اور دشمن کو طاقت ور سمجھتے ہو.تمہیں وہ چلتے پھرتے اور زندہ دکھائی دیتے ہیں مگر مجھے تو ان کی لاشیں نظر آ رہی ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ دشمن نہ زندہ ہے اور نہ غالب ہے.غالب ہم ہیں، جن کے ساتھ غالب خدا ہے.وہ سر، جو خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بندوں کی پرستش میں لگے ہوئے ہیں، کٹ جائیں گے اور بے دین مریں گے.مگر جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں، تمام مشکلات پر غالب آئیں گے.مگر یہ بھی یاد رکھو کہ خدا تعالی کی مدداسی کا ساتھ دینے کے لئے آتی ہے، جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے.تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو تم اپنے اندر خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرو، اپنے اندر ذکر الہی اور نمازوں کی پابندی پیدا کرو اور دین اسلام کے 135
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جنوری 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم شعائر کو زندہ رکھنے کی رغبت پیدا کرو.بھول جاؤ، اس بات کو کہ کوئی تمہارا دشمن ہے.بھول جاؤ، اس بات کو کہ کوئی تمہاری مخالفت پر آمادہ ہے.جب تم خدا تعالیٰ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ گے، جب دنیا کی طرف تمہاری پیٹھ ہوگی تو وہ ہاتھ جو نمبر لے کر تمہاری پیٹھ پر حملہ کے لئے بڑھے گا، خدائے واحد سے مل کر دے گا.وہ دماغ، جوتم پر حملہ کی تدبیر سوچے گا، بریکار کر دے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ تم اپنا منہ خدا تعالیٰ کی طرف کر لو اور اپنی پیٹھ بندوں کی طرف پھیر لو.اگر تم ایسا کرو گے تو دنیا کی کوئی مصیبت تمہیں کچل نہیں سکتی.تم بے وقوفی سے یہ نہ سمجھ لینا کہ کسی پر موت نہیں آئے گی یا کسی پر ظلم نہیں ہوگا.انبیاء پر بھی موتیں آئیں، انبیاء بھی شہید ہوئے ، ان کی جماعتیں بھی شہید ہوئیں.جو میں کہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ یہ جماعت مٹ نہیں سکتی.اور جب میں تم کہتا ہوں تو اس سے مراد جماعت ہے نہ کہ تم.ہو سکتا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ مارے جائیں بلکہ غالب ہے تم میں سے بعض مارے جائیں.ہو سکتا ہے کہ تم میں سے بعض گھروں سے نکالے جائیں بلکہ غالب ہے کہ وہ گھروں سے نکالے جائیں.ہوسکتا ہے کہ تم میں سے بعض قیدوں میں ڈالے جائیں بلکہ غالب ہے کہ وہ قیدوں میں ڈال دیئے جائیں.لیکن جو بات نہیں ہو سکتی ، وہ یہ ہے کہ اگر تم لوگ خدا تعالیٰ سے صلح کر لوتو تم یعنی تمہاری قوم تباہ ہو جائے تم بحیثیت احمدی ہلاک نہیں ہو سکتے ہم بحیثیت جماعت کے مٹ نہیں سکتے تم بحیثیت جماعت کے مغلوب نہیں ہو سکتے.کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف منہ کرے ، لازمی امر ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی طرف منہ کرے گا اور جب خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہو کہ کوئی حملہ کر رہا ہے تو وہ اسے مقصد میں کامیاب کیسے ہونے دے گا؟ پولیس کی موجودگی میں، اگر وہ دیانت دار ہو تو کوئی حملہ نہیں کر سکتا.پھر خدا تعالیٰ کی موجودگی میں کوئی حملہ کیسے کرسکتا ہے.پس دوسری بات یہ ہے کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کرو.تم روحانی سلسلہ کے افراد بنو.نمازوں کے پابند بنو.ذکر الہی پر زور دو.اسلام کے شعائر کو زندہ رکھنے کی کوشش کرو.اپنے اندر طہارت پاکیزگی اور تقویٰ پیدا کرو.نہ تم کسی کی تعریف سے خوشی محسوس کرو اور نہ کسی کی مذمت سے ڈرو.کیونکہ جو خدا تعالیٰ کے لئے ہو جائے، دنیا کی تعریف اسے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی.خدا کی تعریف ہی اسے فائدہ پہنچائے گی.اگر تم خدا کے لئے ہو تو دنیا کے لوگوں سے ڈرنا، بے معنی بات ہے.تمہیں صرف اور صرف خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے.کیونکہ جوشخص کہتا ہے کہ میں خدا کا ہوں اور پھر وہ بندوں سے ڈرتا ہے یالوگوں کی تعریف سے خوش ہوتا ہے، وہ جاہل یا منافق ہے“.مطبوعه روزنامه الفضل 16 فروری 1950ء) 136
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 28 اپریل 1950ء اپنے حوصلے، افکار اور خیالات بلند بناؤ، ان کے بغیر دشمن کا مقابلہ ممکن نہیں خطبہ جمعہ فرمود و 28 اپریل 1950ء میں نے مدت سے جماعت کو اس طرف توجہ دلانی شروع کی ہے کہ اسے اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرنا چاہئے.سب سے پہلے فرض کا محسوس کرنا ، ان مرکزی انجمنوں پر عائد ہوتا ہے، جو اس کام کے لئے مقرر ہیں یعنی صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید.اور پھر صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے ناظر اور وکلاء یعنی جن اعضاء سے یہ دونوں انجمنیں بنتی ہیں، ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے.اور پھر ان سے اتر کر دوسرے کارکن، جو ان کے ماتحت ہیں، ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے.ان کے علاوہ نہایت ہی اہم طور پر فرض جماعت کے علماء پر عائد ہوتا ہے، جو مذہبی خیالات اور اخلاقی معیاروں کے لئے ایک راہنما کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک نمونہ کی شکل میں دیکھے جاتے ہیں.ان سب کو یا درکھنا چاہئے کہ بڑے کاموں کے لئے دماغ ہر وقت کام میں لگائے رکھنا ضروری ہے ہوتا ہے.اور یہی وہ عادت ہے، جس کے ماتحت کوئی شخص کسی بڑے کام کے قابل ہو سکتا ہے.یہ ہو سکتا ہے کہ دماغ کو ہر وقت کام میں لگائے رکھنے کے بعد بھی کوئی شخص کسی بڑے کام کے قابل نہ ہو لیکن یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص اپنے دماغ کو ہر وقت کام میں لگائے رکھے اور پھر وہ کسی بڑے کام میں نا کام ہو گیا ہو.ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اپنے دماغ کو ہر وقت کام میں لگائے رکھے اور وہ غلطی پر ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ دماغ کو ہر وقت کام پر نہ لگانے والا ہو اور پھر وہ کوئی بڑا کام کر سکے.انبیائے کرام کو ہم دیکھتے ہیں کہ رات دن وہ اپنی قوم کی اصلاح و بہبودی کے فکر میں لگے رہتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی نسبت فرماتے ہیں کہ میں سوتے ہوئے بھی جاگتا ہوں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سوتے ہوئے واقعی جاگ رہے ہوتے تھے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں سونے لگتا ہوں ، تب بھی قوم کی اصلاح و بہبود کے لئے سوچ رہا ہوتا ہوں اور جاگنے لگتا ہوں، اس وقت بھی میرا دماغ انہیں افکار میں مشغول ہوتا ہے.گویا آپ کا یہ دعوی تھا کہ میں چوبیس گھنٹے قوم کی ترقی واصلاح کے کاموں اور ان کے صحیح طور پر سر انجام پانے کی فکر میں لگا رہتا ہوں.حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نماز پڑھا رہا ہوتا 137
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1950ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم ہوں اور اسلامی لشکر بھی تیار کر وار ہا ہوتا ہوں.اب بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حضرت عمر نماز سے غافل ہوتے تھے اور وہ ایسا کام کرنے لگ جاتے تھے ، جس کا نماز کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا تھا.آپ فرماتے ہیں.اصلی واجهز الجيوش.میں نماز پڑھتا ہوں اور ساتھ ساتھ لشکر کی تیاری میں بھی لگارہتا ہوں.یہ کیفیت نا تجربہ کار اور جاہل لوگوں کے لئے واقعی ٹھوکر کا موجب ہو سکتی ہے.وہ سمجھیں گے کہ پھر نماز کیا ہوئی ؟ لیکن واقف کار جانتا ہے کہ فکر کا ایک مقام ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک وقت میں دو دو، تین تین کاموں میں مشغول رہتا ہے.نماز بھی پڑھ رہا ہوتا ہے اور قوم کے کاموں میں بھی مصروف ہوتا ہے.مجھے کئی دفعہ لوگ ملنے کے لئے آتے ہیں، میں بعض کا غذات دیکھ رہا ہوتا ہوں، وہ خاموش ہو جاتے ہیں تا میں اپنے کام سے فارغ ہو جاؤں.لیکن میں انہیں کہتا ہوں کہ بات کریں، میں آپ کی بات بھی سنتا جاؤں گا اور اپنا کام بھی کرتا جاؤں گا.اور یہ چیز میرے لئے ممکن ہوتی ہے.میں کھانا کھاتے ہوئے بھی سوچ رہا ہوتا ہوں ، پانی پیتے ہوئے بھی سوچ رہا ہوتا ہوں ، پیشاب کرتے وقت بھی سوچ رہا ہوتا ہوں، پاخانہ کرتے وقت بھی سوچ رہا ہوتا ہوں ، طہارت کرتے وقت بھی سوچ رہا ہوتا ہوں.غرض کوئی وقت مجھے ایسا نظر نہیں آتا ، جب میرا دماغ فارغ ہو یا میرا دماغ فارغ ہونا چاہے یا میراد مارغ فارغ ہو سکے.لیکن اس کے مقابلہ میں ، میں یہ دیکھتا ہوں کہ ہماری یہ دونوں انجمنیں بیکار اور عضو معطل کے طور پر ہیں.ایک ادنیٰ سے ادنی کاغذ، جو ان کے سامنے آتا ہے، ان کی توجہ کو پھر الیتا ہے.اور اہم چیزوں کے متعلق تو ان کا دماغ چلتا ہی نہیں.میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنے اوقات کو اس طرح صرف کرنا چاہئے ، جس طرح ایک قومی لیڈ راپنے اوقات کو صرف کرتا ہے.لیکن فلاں کی دوا نہ کی ترقی کرنی چاہیئے اور فلاں کی چار آنہ کی ، ان کا سارا وقت انہیں باتوں میں صرف ہو جاتا ہے.حالانکہ صدر انجمن احمدیہ کے فرائض میں ہندوستان کی تبلیغ جماعت کی تربیت و تنظیم ، دشمن کے مقابلہ کی کوشش ، اس کی طرف توجہ کرنا نئی پود کا تیار کرنا نئی اسکیمیں بنانا ، جن سے اخلاص ، قوت، حوصلہ علم اور دماغی افکار بلند سے بلند تر ہوتے جائیں ، شامل ہیں.لیکن ان میں سے دسواں حصہ بھی نہیں، بیسواں حصہ بھی نہیں سینکڑواں حصہ بھی نہیں ، کروڑواں حصہ بھی نہیں ، دس ہزار ار بواں حصہ بھی نہیں ، جو صدرانجمن احمدیہ نے کیا ہو.یہی حال تحریک جدید کا ہے.تحریک جدید کے ذمہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اور اس کے متعلق سامان بہم پہنچانا ہے.اور یہ روپیہ کی صورت میں بھی ہوتا ہے، آدمیوں کی صورت میں بھی ہوتا ہے تعلیم کی صورت میں بھی ہوتا ہے اور لٹریچر کی صورت میں بھی ہوتا ہے.پھر بیر ونجات میں جو مبلغ جاتے ہیں ، ان کو 138
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1950ء مناسب وقت پر تبدیل کرنا بھی تحریک جدید کے ذمہ ہے.پھر ان کے کام کی نگرانی کرنا اور یہ دیکھنا کہ و پیچ طور کام کرتے ہیں یا نہیں؟ وہ جماعت کی تنظیم کے لئے کیا کچھ کر رہے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں؟ پھر ان ممالک میں مقامی مبلغ تیار کرنا تا وہ مقامی تبلیغ کا کام سنبھال سکیں.یہ بیسیوں قسم کے کام ہیں، جو تحریک جدید کے سپرد ہیں.لیکن کیا تحریک جدید نے کبھی بھی ان باتوں پر غور کیا ہے؟ اور تو اور جو مبلغ باہر بھیجا جاتا ہے، اس کے تبادلہ کا بھی انہیں کبھی خیال نہیں آتا.آخر اس کے بیوی بچے ہوتے ہیں، ماں باپ ہوتے ہیں، بہن بھائی اور دوسرے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں.لیکن ان کے واپس بلانے کا انہیں خیال تک نہیں آتا.اب میں نے جبر آ پانچ سات مبلغین کو واپس بلایا ہے، ورنہ انہیں اگر ہیں سال بھی باہر گذر جاتے ، تب بھی تحریک جدید کو ان کے واپس بلانے کا خیال پیدا نہ ہوتا.یہ سب کام تحریک جدید کے ہیں لیکن وہ ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کر رہی.اگر وہ مبلغوں کو واپس بلانے کی سکیم تیار کرتی تو اس کے سب کام کے مقابل پر یہ بات ایسی ہوتی ہے، جیسے کسی کی جوتی پھٹی ہو اور اس کا تلوہ نکل گیا ہو اور وہ موچی کے پاس جا کر اس کی مرمت کرالے لیکن یہ لوگ اتنا بھی نہیں کراتے.گویا ان کے اپنے فائدہ کا کام ہوتا ہے، وہ بھی نہیں کرتے.اب اگر کوئی شخص اپنی پھٹی ہوئی جوتی موچی سے مرمت کرائے اور کوئی شخص اس سے یہ پوچھے کہ تم نے قوم کے فائدہ کے لئے کون سا کام کیا ہے؟ اور وہ جواب دے کہ میں نے اپنی پھٹی ہوئی جوتی درست کرائی ہے تو سب لوگ ہنس پڑیں گے اور کہیں گے کہ یہ بھی کوئی قومی کام ہے.لیکن صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید اتنا بھی نہیں کرتیں.یہ قدرتی بات ہے کہ جس شخص کو باہر بھیجا جائے ، اس کو واپس بھی بلانا چاہئے.لیکن انہیں اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا.پھر سوال یہ ہے کہ اگر ان کا کوئی قائمقام وہاں نہیں جائے گا تو وہ آئیں گے کس طرح ؟ اور جب تک ان کا قائمقام تیار نہیں کیا جائے گا وہ وہاں جائے گا کس طرح؟ اب تو میں نے جماعت میں وقف کی تحریک کر دی ہے اور کچھ نہ کچھ آدمی ہمارے پاس موجود ہیں.مجھے حیرت آتی ہے کہ جب امریکہ کے مبلغ کو واپس بلانے کا سوال پیدا ہوا کہ وہ سالہا سال سے وہاں بیٹھا ہے، اسے واپس بلانا چاہئے.تو اس وقت امریکہ کے مبلغ کی حیثیت میں اس کے قائمقام کے طور پر جو نام پیش کئے گئے، ان میں ایک مڈل پاس بھی تھا.اس وقت بیرونی تبلیغ کا کام بھی صدرانجمن کے ماتحت تھا.مجھے اب تک حیرت ہے کہ وہ شخص جو دفتر میں کلرک کا کام بھی نہیں سنبھال سکتا تھا ، اسے ایک ایسے ملک میں بھجوانے کی تجویز کی گئی، جو اپنے علم اور تجربہ اور روشن خیالی کی وجہ سے اپنے آپ کو دنیا کا لیڈر 139
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 اپریل 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم سمجھتا ہے.وہ شخص، جو پچاس گاؤں کا بھی لیڈر نہیں بن سکتا ، اسے ایک ایسے ملک میں جماعت کا نمائندہ بنا وہ کر بھیجنا چاہا، جس کی آبادی سولہ کروڑ ہے.جس میں بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں.جنہوں نے اس قدر دماغی ترقی کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسان نہیں بلکہ افضل انسان (Superman) سمجھتے ہیں.جس ملک کی عملی طور پر تمام دنیا پر دھاک بیٹھی ہوئی ہے اور وہ دنیا پر ایک حکمران کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی عقلی اور عملی برتری کا یہ نمونہ ہے کہ دنیا کے ایک طرف پڑا ہوا ملک ساری دنیا کی دولت کھینچ رہا ہے.پاکستان کی سالانہ آمد ایک ارب ہے.مشترکہ ہندوستان کی سالانہ آمد چار ارب تھی.انگلستان ، جو بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے، جس نے ایک وقت تک دنیا کے اکثر حصہ پر حکومت کی ہے، اس کی سالانہ آمد 28 ارب ہے.لیکن امریکہ 30 ارب صدقہ کے طور پر دوسرے ممالک کو دے رہا ہے.اب اس کی مالی طاقت کا اندازہ کر لو.انگلستان کی ساری آمد 18 ارب ہے.جس میں اس کا فوجی خرچ بھی شامل ہوتا ہے، ہوائی فوج کا خرچ بھی شامل ہوتا ہے، سمندری جہازوں کا خرچ بھی شامل ہوتا ہے، مجسٹریٹ بھی ہوتے ہیں، بیج بھی ہوتے ہیں تنخواہوں کے اخراجات بھی اس میں شامل ہیں، صحت کے اخراجات بھی شامل ہیں، ان سب پر انگلستان 28 ارب خرچ کرتا ہے.لیکن امریکہ 30 ارب صدقہ کے طور پر دوسرے ممالک کو دیتا ہے.ایسے ملک میں جماعت کے نمائندہ کے طور پر ہمارے لال بجھکڑ ایک مڈل پاس کی سفارش کرتے ہیں.ہم جب ربوہ میں آئے تو آخر مکانوں کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہوسکتا تھا.میں نے کچھ عارضی مکانوں کی اجازت دے دی.لیکن صدر انجمن احمدیہ نے اس عرصہ میں مستقل مکانات کے متعلق ایک سطر بھی نہیں لکھی، وہ ہمیشہ یہی لکھتی رہتی ہے کہ فلاں عارضی مکان کی اجازت دی جائے ،فلاں کی اجازت دی جائے.آخر یہ عارضی کام رکے گا بھی کہ نہیں اور مستقل عمارات کا سلسلہ چلے گا کہ نہیں ؟ اب میں نے دو ماہ سے عارضی مکانات بنانے سے روک دیا ہے ورنہ صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے عارضی مکانات بنانے کی سفارش کا سلسلہ اب تک جاری تھا.پھر مستقل عمارات کے متعلق صدر انجمن احمدیہ نے اب تک کچھ نہیں کیا.میں نے بیماری کی حالت میں بیٹھ کر نقشے تیار کئے ہیں اور تعمیر والوں کو دیئے ہیں کہ وہ نقشے بنا کر کمیٹی میں پیش کر کے ان کی منظوری لے لیں تا مستقل عمارات بن جائیں اور عارضی تعمیر پر روپیہ ضائع نہ ہو.اسی طرح آدمی تیار کرنے کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں بلکہ میں کہتا ہوں اور سب چیزیں جانے دو.فرض کر لو، ہم مکانوں میں نہیں رہیں گے، خیموں میں اور جھونپڑیوں میں رہیں گے مگر زندگی سانس لینے کا نام نہیں ، زندگی نام ہے کسی کام کا.اگر ہم ان سب تکالیف کے لئے تیار ہو جائیں ، تب بھی یہ ایک کتے 140
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 اپریل 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم کی سی زندگی ہوگی کوئی قربانی نہیں کہلائے گی.محض قربانی کرنا اور تکلیف اٹھانا ہمیں زیادہ سے زیادہ ایک جانور کی شکل دے سکتا ہے.انسانیت والا کام بھی ہو سکتا ہے، جب مثبت کام ہو منفی کام نہ ہو.دھوپ میں بیٹھ رہنا، سایہ میں بیٹھ رہنا، بے کپڑوں کے بیٹھ رہنا، فاقہ برداشت کر لینا، یہ سب منفی کے کام ہیں اور یہ کتا بھی کرتا ہے.ان سب باتوں کے بعد ہم زیادہ سے زیادہ کتے سے مشابہہ ہو جاتے ہیں.کہتے ہیں کسی صوفی سے جو مکے میں رہتے تھے، کسی نے پوچھا کہ تو کل کی کیا تعریف ہے؟ انہوں نے کہا تو کل کی تعریف یہ ہے کہ جو مل گیا کھا لیا اور اگر کھانے کو کچھ نہ ملا تو صبر کر لیا.اس آدمی نے کہا، حضور پھر کتے اور انسان میں کیا فرق ہے؟ وہ صوفی دم بخودرہ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ وہ نو جوان اس مقام کو ان سے زیادہ سمجھتا ہے.یعنی کتا بھی تو یہی کام کرتا ہے.اگر انسان نے وہ کام کر لیا تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ کتا بن گیا.در حقیقت اب کام کا سوال ہے.جماعت احمدیہ پر اب چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں، مختلف جگہوں پر ہمارے خلاف جلسے منعقد ہورہے ہیں.ہمارا کام یہ تھا کہ ایک سکیم کے ماتحت دشمن کا مقابلہ کرتے اور اسے کچل ڈالنے کی کوشش کرتے.لیکن صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے اجلاسوں میں صرف دونی اور چونی کی ترقی کی بحثیں ہوتی ہیں.اور انہوں نے یہ کبھی خیال نہیں کیا کہ جماعت کے مقابلہ میں دشمن اپنی ساری طاقتیں جمع کر رہا ہے.انہوں نے اس چیز کے متعلق نہ کوئی فیصلہ کیا ، نہ مشورہ کیا اور نہ ہی کوئی سکیم تیار کی.یہ بریکار زندگی ہے، یہ محض ادنی جانور کی سی زندگی ہے.بلکہ ایک رنگ میں جانور ان لوگوں سے بہتر ہے.کیونکہ اسے غذامل جائے تو وہ کھالیتا ہے ، ورنہ صبر کرتا ہے.ہمارے کارکن تو پہلے روٹی کے لئے کچھ نہ کچھ مقرر کرواتے ہیں.مان لیا، باہر تنخواہیں زیادہ مل سکتی ہیں، کاروبار زیادہ اچھی طرح چلائے جاسکتے ہیں اور یہاں تنخواہیں کم مل رہی ہیں لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ تو ہمارے لئے مقرر ہے.خواہ تھوڑا ملے یا زیادہ ملے ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ملے گا.لیکن جانور کو یہ یقین بھی نہیں ہوتا.منفی کی صورت میں جانوروں سے انسان بہتر ہو جاتا ہے.ہاں ہمارے کارکنوں کے کام اگر مثبت قسم کے ہوں تو پھر وہ یقینا اشرف المخلوقات ہیں.یہی حال تحریک جدید کا ہے.میں حیران ہوں کہ آخر ان کی آنکھیں کب کھلیں گی ؟ ان کی سمجھ میں یہ بات اب تک نہیں آئی کہ ان کا رات دن سونا ، جا گنا، اٹھنا، بیٹھنا سب کچھ خدا کے لئے ہے.تو پھر تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ والی حالت ہونی چاہئے.کھاتے ہوں، پیتے ہوں ، کھڑے ہوں، بیٹھے ہوں ، کلام کر رہے ہوں 141
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 اپریل 1950ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم یا خاموش ہوں، وہ قوم کی ترقی اور بہبودی کے لئے سوچ رہے ہوں.اور اپنی ذمہ داری کو ایسی اعلیٰ شان میں پیش کر رہے ہوں کہ دیکھنے والا سمجھے کہ واقعی کوئی کام ہورہا ہے.بیرونی ممالک کا کوئی آدمی یہاں آئے ، یہ الگ بات ہے کہ شرم کے مارے، وہ یہ سوال نہ کرے لیکن اگر صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید سے پوچھے کہ گذشتہ تین ماہ میں تم نے کیا کام کیا ہے؟ تو جواب صفر ہوگا.لیکن اگر یہی سوال وہ امریکن گورنمنٹ سے کرے تو وہ کتابوں کے طومار نکال کر رکھ دے گی اور اسے بتائے گی کہ ان تین ماہ میں ہم نے رومانیہ، روس، ہنگری، یوگوسلاویہ اور سپین کے سب راز معلوم کرلئے ہیں.اپنی قوت کو بڑھانے کے لئے ہم نے یہ یہ کاروائیاں کی ہیں.ہم نے اپنے ملک کی خاطر یہ یہ چالاکیاں کی ہیں.انگلستان سے پوچھے تو وہ ساری تاریخیں بتا دے گا.وہ کہے گا کہ انڈونیشیا اور ہندوستان میں اپنا رسوخ بڑھانے کے لئے ہم نے یہ یہ کاروائیاں کی ہیں.ادنیٰ سے ادنی اور جاہل سے جاہل حکومت سے بھی دریافت کیا جائے تو وہ کچھ نہ کچھ باتیں بیان کردے گی اور کچھ نہ کچھ کام بتادے گی.لیکن ہماری صدر انجمن احمدیہ سے کوئی پوچھے کہ تمہارا تو ہر ملک سے مقابلہ ہے.امریکہ کا ہر ملک سے مقابلہ نہیں لیکن انہوں نے بہت کچھ کیا ہے.تمہارا ہر ملک سے مقابلہ ہے تم نے کیا کیا ہے؟ تو وہ ایک رجسٹر دکھا دے گی کہ ہم نے دونی کا فلاں کی تنخواہ میں تنزل کیا ہے اور فلاں کی تنخواہ میں چوٹی کی ترقی کی ہے.لیکن کیا اس سے امریکہ مسلمان ہو جائے گا ؟ کیا اس سے کمیونزم تباہ ہو جائے گا ؟ کیا اس سے احراری مر جائیں گے؟ غرض وہ ایک بیکار وجود ہیں، جس کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کام کس طرح کیا جاتا ہے؟ عشق کیا ہوتا ہے؟ وہ کیا آگ ہوا کرتی ہے، جو انسان کو خدا تعالیٰ کا مقرب بنادیتی ہے اور جس کے بعد انسان ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور انسان خدا تعالیٰ کے فضل کا مورد بن جاتا ہے؟ ایک دفعہ اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، میں صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنا مثبت کام دکھا ئیں.جب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا تھا تو کیا اس لئے بھیجا تھا کہ ایک سکول جاری کر دو یا اس لئے بھیجا تھا کہ ایک کالج جاری کر دو؟ کیا اس لئے بھیجا تھا کہ سو آدمی نوکر کر لو اور ان کی ترقی اور تنزل کے سوال طے کر دیا یہ کہہ کر بھیجا تھا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا.لیکن خدا تعالیٰ اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں کے ساتھ اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ؟ کیا خدا تعالیٰ کبھی آسمان سے اترا ہے؟ کیا اس نے کبھی تلوار اٹھائی ہے؟ پھر یہ زور آور حملے کس نے کرنے ہیں؟ یہ زور آور حملے ہم نے کرنے ہیں.” بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر 142
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 اپریل 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کر دے گا“ کے یہ معنی ہیں کہ اس میں جماعت احمدیہ کا کام بنایا گیا ہے.تمہی نے اس کے نمائندے بن کر اس کی صداقت کو ظاہر کرنا ہے.اور یہ ہمارا کام ہے مگر ہم نے اس میں سے کسی حصہ پر عمل کیا ہے ؟ زور آور حملے تم نے کرنے تھے مگر ہو یہ رہا ہے کہ حملے دشمن کر رہا ہے.خدا تعالٰی نے اس الہام میں یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم نے دشمن کے حملوں کو روکنا ہے اور اس کا مقابلہ کرنا ہے.بلکہ اس نے بتایا تھا کہ تم دشمن پرزور آور حملے کرو گے.پس چاہئے تو یہ تھا کہ دشمن پر حملے کر کے اسے دفاع پر مجبور کر دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا.تلوار دشمن کے ہاتھ میں ہے اور تم دفاع بھی نہیں کر رہے.دور کے کام جانے دو، یہاں معمولی کام بھی نہیں ہو رہا.ایک چھوٹا لڑکا میرا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور پوچھتا ہے ، حضور میرے وظیفہ کا کیا بنا ہے؟ میں اسے سمجھاتا ہوں اور کہتا ہوں ، بتاؤ روپیہ کہاں جاتا ہے؟ وہ کہتا ہے، انجمن میں.میں کہتا ہوں پھر انجمن کے پاس جا کر وظیفہ کا پتہ کرو مگروہ کہتا ہے کہ میں انجمن کے پاس گیا تھا، وہ کہتے ہیں، حضور کے پاس جاؤ.یعنی وہ اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے وہ اسے میرے پاس بھیج دیتے ہیں.اگر وظیفہ نہیں دینا تو اپنے منہ سے کہا کریں کہ ہم نے وظیفہ نہیں دینا.جس بچے کو وظیفہ دینا ہوتا ہے، اسے تو کہتے ہیں ، آؤ بچے.اور جس کو نہیں دینا ہوتا، اس کو کہتے ہیں، خلیفة المسیح کے پاس جاؤ.حالانکہ شائستہ اور مہذب دنیا کا یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ افسر کو بری الذمہ قرار دیا جاتا ہے اور ما تحت عملہ اپنے پر ذمہ داری لیتا ہے.لیکن یہاں جو کام افسر کا نہیں ، اس میں بھی ذمہ داری اس پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے.یہ نہایت کمزوری کی علامت ہے.گویا کام کرنا تو الگ رہا، دونی چونی کے تنزل اور ترقی کے جو کام کرتے ہیں، ان میں بھی الزام مجھ پر ہی آتا ہے.پس ایک دفعہ پھر میں صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں پر رحم کرو.آخر یہ بلائیں ساروں پر پڑیں گی.اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت ہوگی تو وہ گرفت سب پر ہوگی اور اگر کوئی گرفت دنیا کی طرف سے ہوگی تو وہ بھی سب پر ہوگی.اگر کوئی مرتد ہو کر غیر احمدی ہو جائے تو اور بات ہے.لیکن جس کے اندر صداقت کو سمجھنے کی قوت ہے، وہ ایسا نہیں کرے گا.بلا تمہارے سامنے ہے اور تم بڑے آرام سے سورہے ہو.گویا تمہارے اندر قربانی کا مادہ ہی نہیں.پس اپنے حوصلے بلند، افکار بلند اور خیالات بلند بناؤ اور سوچنے کی عادت ڈالو، نیک جذبات کی عادت ڈالو.ان کے بغیر دشمن کا مقابلہ مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے.مطبوعه روزنامه الفضل 07 مئی 1950 ء) 143
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1950ء یہ نہ دیکھو کہ قربانی کتنی بھاری ہے بلکہ دیکھو کہ انعام کتنا بھاری ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 05 مئی 1950ء.اس کے بعد میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید وہ محکمہ ہے، جس کے سپرد ہندوستان اور پاکستان سے باہر کی تبلیغ ہے.عرب، ایران، افغانستان، شام، مصر، سوڈان، ایسٹ افریقہ کے ممالک ، ویسٹ عرب کے ممالک ساؤتھ افریقہ کے ممالک، سپین، فرانس ، سوئٹزرلینڈ، بھیجیم ، ڈنمارک، ہالینڈ، جرمنی ، انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے ممالک انڈونیشیا، ملایا، سیلون، برما، فلپائن، انڈو چائنا، تھائی لینڈ، جاپان، چین، یونائٹڈ سٹیٹس امریکہ، برازیل، کینیڈا، ارجنٹائن اور ہزاروں ہزار جزائر جو امریکہ اور انڈونیشیا کے درمیان واقع ہیں، ان سب کی تبلیغ تحریک جدید کے سپرد ہے.جب میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے.اس وقت صرف تین مبلغ ویسٹ افریقہ میں تھے ، ایک مبلغ ایسٹ افریقہ میں تھا، ایک مبلغ ممالک عریبیہ میں تھا، ایک مبلغ انگلینڈ میں تھا، دو مبلغ انڈونیشیا میں تھے، ایک مبلغ یونائٹڈ سٹیٹس امریکہ میں تھا، ایک مبلغ ماریشس میں تھا، یہ سارے کوئی نو، دس کے قریب بنتے ہیں.تحریک جدید کے قیام کے بعد یہ سلسلہ وسیع ہونا شروع ہوا.تین مبلغ انڈونیشیا میں زائد کئے گئے، ملایا میں تین مبلغ بھیجے گئے، جن میں دو مبلغ اب انڈونیشیا میں کام کر رہے ہیں، ایک اور مبلغ ملایا میں بھیجا گیا ، وہ بھی اب انڈونیشیا میں کام کر رہا ہے اور ایک مبلغ بور نیومیں کام کر رہا ہے، یہ آٹھ مبلغ وہاں زائد کئے گئے ہیں.گیارہ مبلغ ایسٹ افریقہ میں گئے ہیں، دو مبلغ عرب ممالک میں گئے ہیں، دوایران میں گئے ہیں، انگلستان میں دو مبلغ زائد مقرر کئے گئے ہیں، امریکہ میں تین مبلغ زائد کیے گئے ہیں، ویسٹ افریقہ میں قریباً 18 مبلغ زائد کئے گئے ہیں، دو مبلغ ہالینڈ میں زائد کیے گئے ہیں، پین، فرانس اور سویٹزرلینڈ میں ایک ایک مبلغ مقرر کیا گیا ہے.یہ اکاون مبلغ ہوئے ، جو تحریک جدید کے قیام کے بعد زائد مقرر کئے گئے ہیں.(ویسٹ افریقہ کے کالج کے لئے جو دو نوجوان بھیجے گئے ہیں، وہ ان کے علاوہ ہیں.گویا ان دنوں نو مبلغین کی جگہ ساٹھ مبلغین ہو گئے اور یہ سات گنا ترقی ہے.اور صرف یہ ہی نہیں کہ نو سے ساٹھ ہو گئے بلکہ نو مبلغ جو پہلے گئے تھے، ان کا کوئی قائمقام پیدا نہیں کیا گیا تھا، وہ نو کے نو ہی تھے.ان میں سے جب کسی کو 145
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم بلانے کا سوال آتا تھا تو جیسا کہ میں نے پہلے خطبہ میں بتایا تھا، صدرانجمن حد یہ بعض دفعہ مڈل پاس لوگوں کے نام پیش کر دیتی تھی.اس وقت تمہیں کے قریب علماء اور ہیں، جو یہاں تیاری کر رہے ہیں.ریز رو فوج کے طور پر کچھ لوگ ان کے علاوہ بھی ہیں.تین سکول میں بطور ٹیچر کام کر رہے ہیں ، آٹھ کے قریب کالج میں پروفیسر ہیں ، 9-8 کے قریب ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کام کر رہے ہیں، ان لوگوں کو اعلی تعلیمیں دلوا کر ان کاموں پر لگایا گیا ہے.حسب ضرورت یہ لوگ تبلیغ کا کام بھی دے سکتے ہیں اور مختلف مقامات پر ان کے ذریعہ کالج بھی کھولے جا سکتے ہیں.مثلاً پہلا کالج ، جو ویسٹ افریقہ میں کھولا گیا ہے، اس کے لئے تحریک جدید نے ایک واقف زندگی انگلینڈ بھیجا اور تین سال تک تعلیم دلوا کر پی.ایچ.ڈی کروایا اور اب اسے وہاں پر پرنسپل مقرر کیا گیا ہے.یہاں سے ایک بی.اے.بی.ٹی ان کے نائب کے طور پر گئے ہیں.اس قسم کے جب اور کالج قائم ہو گئے تو مسلمان، جن کے پاس اور کوئی کالج نہیں ، ہمارے ہی کالجوں میں تعلیم حاصل کریں گے.اور لازمی بات ہے کہ وہ احمدی ہو جائیں گے.اور جو احمد ہی نہ ہوں گے، وہ بوجہ اس کے کہ انہوں نے احمدی اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ہوگی، احمدیت سے متاثر ہوں گے اور جہاں کہیں بھی کوئی ایسا سوال پیش آئے گا، احمدیت سے ہمدردی کا اظہار کریں گے.ہمارا یہ پہلا تجربہ ہے اور ارادہ ہے کہ اس کے علاوہ ایسٹ افریقہ، ملایا اور انڈونیشیا میں بھی کالج کھولے جائیں تا آئندہ تعلیم یافتہ ان طبقہ احمدی علماء کا مرہون منت ہو.یہ ریز رو فورس اگر ملالی جائے تو 60-70 کے قریب اور آدمی ہمارے پاس موجود ہیں اور وقت پر کام دے سکتے ہیں.پھر اگر وہ آدمی بھی ملالئے جائیں، جو تنظیم کے لئے دفاتر میں لگائے گئے ہیں اور علماء، جو مبلغ تیار کرنے پر لگائے گئے ہیں تو سو ہوا سو آدمی یہ بھی ہو جاتا ہے ، جن کو دفاتر سے نکال کر تبلیغ کے کام میں لگایا جاسکتا ہے.اور اگر ان طالب علموں کو بھی ملا لیا جائے ، جن کو وظیفے دے کر تحریک جدید تعلیم دلوا رہی ہے تو وہ بھی چالیس، پچاس کے قریب ہوں گے.جامعہ احمدیہ کے طلباء ان کے علاوہ ہیں.گویا 15 سال میں 30 گنا زیادہ ترقی ہو چکی ہے اور اگر صحیح طور پر تنظیم کی جائے تو آئندہ چند سال میں شاید پچاس، ساٹھ گنے سے بھی زیادہ ہو جائیں.ہمارے ملک میں ایک گریجوایٹ یا اس کے قائمقام کی اوسط تنخواہ سو سے دوسور و پیہ ماہوار کے درمیان ہے اور غیر ممالک میں اس سے بہت زیادہ ہے.اور پھر جو سائر خرچ ہوا کرتا ہے، وہ اتنا ہی اور اوپر لگ جاتا ہے.ہمارا کام چونکہ تبلیغی ہے، مبلغ کا آنا جانا، جلسے کرنا، اشتہار اور مختلف ٹریکٹ شائع کرنا اور اس طرح کے اور بہت سے اخراجات ہمیں کرنے پڑتے ہیں.اس کام میں سائر تبھی مفید ہوسکتا ہے، جب 146
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اقتباس عملہ کی تنخواہوں سے تین گنے ہو.اس حساب سے اگر ہم صحیح طور تبلی از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 10 تو باہر کے مبلغین اور ان کے قائمقام مبلغین ، جو یہاں تیار ہو رہے ہیں اور ان پر جو سائر اخراجات ہوئے ہیں ،موجودہ حالت میں ان کی اوسط چالیس ہزار روپے ماہوار ہو جاتی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کے لئے ہمیں کم از کم چار لاکھ 80 ہزار روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے.اور اگر انتظامی عملہ کو اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ کم از کم چھ لاکھ روپیہ سالانہ کا خرچ ہو جاتا ہے.لیکن جیسا کہ پچھلی تحریک کے موقع پر میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی پہلے دور کے وعدے دولاکھ ستر ہزار روپیہ کے قریب ہوئے ہیں اور دوسرے دور کے وعدے ایک لاکھ ، دس ہزار روپیہ کے قریب ہوئے ہیں.اس سال بڑی تحریک کے بعد دوسرے دور کے وعدے ایک لاکھ تمہیں ہزار تک پہنچے ہیں اور دفتر اول کے وعدے وہی دو لاکھ ، 70-80 ہزار کے درمیان ہیں.صدر انجمن احمدیہ کے ذمہ میں نے یہ ڈالا ہے کہ جو اخراجات وہ بیرونی تبلیغ پر خرچ کر رہے تھے یا جو کارکن انہوں نے تحریک جدید سے مانگ کر لئے ہیں، ان کی تنخواہیں وہ تحریک جدید کو دیا کریں اور تحریک جدید انہیں اپنے پاس سے الاؤنس دیا کرے.اس طرح ایک لاکھ ، چالیس ہزار کی رقم تحریک جدید کو ملتی ہے.یعنی یہ رقم ناظروں ، نائب ناظروں بنکر کوں، پروفیسروں، استادوں اور دیگر کارکنوں کے بدلہ میں صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید کو دیتی ہے.یہ ساری رقم پانچ لاکھ ، چالیس ہزار روپیہ بن جاتی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اگر صحیح طور پر ہم خرچ کریں تو ہمیں چھ لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے.میں نے اس رقم میں صدر انجمن احمدیہ میں کام کرنے والے واقفین کے اخراجات کو شامل نہیں کیا.اس لئے ان کے بدلہ میں جور تم تحریک جدید کوملتی ہے، وہ بھی اس میں شامل نہیں کرنی چاہئے.اس آمد کو اگر الگ کر لیں تو ہمیں صرف چارلاکھ روپیہ کی آمد ہوتی ہے اور خرچ کے لئے ہمیں چھ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے.ساتھ ہی یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ دفتر دوم اس وقت تک کام کرنا شروع کرے گا، جب دفتر اول والے اپنا کام ختم کر لیں گے.اس لئے دفتر دوم کی آمد بھی اس میں سے نکال لینا چاہئے.اس طرح در حقیقت ہماری آمد پونے تین لاکھ ہے اور خرچ کم از کم چھ لاکھ کا ہے.یہ صاف بات ہے کہ ہم چھ لاکھ روپیہ خرچ نہیں کرتے.جب ہمیں چھ لاکھ روپیہ وصول ہی نہیں ہوتا تو خرچ کس طرح کیا جاسکتا ہے.لیکن جہاں یہ درست ہے کہ ہم چھ لاکھ روپیہ خرچ نہیں کرتے ، وہاں یہ بھی درست ہے کہ ہم اتنے اخراجات میں خراب قسم کا کام کرتے ہیں.مثلاً اگر ہم ایک مبلغ کو زیادہ سائر اخراجات دیں اور وہ دورے کر کے تقریریں کرتا رہے تو لازمی بات ہے کہ تین، چار سو کا خرچ بڑھ جائے گا، آنے جانے کا کرایہ ہو گا ، خوراک کا خرچ ہو گا ، 147
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہال وغیرہ کا کرایہ ہوگا.لیکن اس وقت ہم یہ اخراجات اسے نہیں دیتے اور وہ ایک جگہ پر بیٹھارہتا ہے.ور نہ ایک آدمی ایک شہر سے زیادہ کام ہر ملک میں کر سکتا ہے.چونکہ ابھی جماعتیں بہت کم ہیں، اس لئے تربیت کی ضرورت کم ہے اور مبلغ بڑی آسانی کے ساتھ دورے کر کے تقریروں کے ذریعہ اکثر ملک کو احمدیت سے روشناس کر سکتا ہے.پس یہ درست ہے کہ ہم کام کرتے ہیں مگر اتنی قلیل رقم میں کام خراب قسم کا ہورہا ہے اور اس کام کی خرابی کا تبلیغ پر بھی اثر پڑتا ہے اور نتائج اتنے شاندار نہیں نکلتے ، جتنے شاندار نکلنے چاہئیں.پھر کام کے بڑھانے کا جو احساس ہے، وہ بالکل پیدا نہیں ہوتا.جب انسان یہ سمجھتا ہو کہ موجودہ کام کو چلانے کے لئے بھی میں پورا خرچ نہیں دے سکتا تو اسے کام بڑھانے کا احساس کیسے ہوسکتا ہے؟ میں اگر یہاں ان جماعتوں کا ذکر نہ کروں ، جنہوں نے اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کیا ہے تو یہ ان کی حق تلفی ہوگی.بعض جماعتوں کو میں نے کہا ہے کہ وہ اپنا خرچ خود اٹھائیں پاکستان نے 50 سال تک نہ صرف خودا اپنا فرض ادا کیا ہے بلکہ لاکھوں لاکھ روپیہ بیرونی تبلیغ پر بھی خرچ کیا ہے.یہ بوجھ صرف پاکستان پر ہی نہیں پڑنا چاہئے بلکہ بیرونی جماعتوں کو بھی اس بوجھ کے اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.کم از کم یہ تو ہونا چاہئے کہ جو مبلغ بیرونی جماعتوں میں جاتے ہیں، وہ جماعتیں ان کا اور ان کے بیوی بچوں کا خرچ برداشت کریں تاہم اس خرچ سے دوسری جگہ مبلغ بھیج سکیں.اس لحاظ سے صرف تین ممالک ہیں، جنہوں نے اپنے فرض کو ادا کیا ہے.اور وہ ایسٹ افریقہ، ویسٹ افریقہ اور امریکہ ہیں.امریکہ کے بہت تھوڑے احمدیوں کا تیں، پینتیس ہزار چندہ ہوتا ہے اور وہ بہت سا بوجھ خود اٹھاتے ہیں.اور اگر چہ وہ اپنا سارا بوجھ نہیں اٹھاتے لیکن پھر بھی ان کی قربانی میں کوئی شبہ نہیں.ایسٹ افریقہ کی جماعت نہ صرف اپنے مبلغین اور ان کے بیوی بچوں کے اخراجات برداشت کرتی ہے بلکہ کچھ رقم بطور چندہ مرکز میں بھی بھیجتی ہے.مالی قربانی کی تعداد کے لحاظ سے ایسٹ افریقہ سب بیرونی جماعتوں سے فائق ہے.ویسٹ افریقہ والے مبلغین کے سارے اخراجات ادا کرتے ہیں اور ان کے بیوی بچوں کے اخراجات میں سے بھی ایک حصہ دیتے ہیں.پس ایسٹ افریقہ کے بعد ویسٹ افریقہ نے فرض شناسی میں بہت حصہ لیا ہے.ان کے علاوہ دوسری جماعتیں ایک ادنی حصہ چندہ کا دے دیتی ہیں یا کچھ بھی نہیں دیتیں اور امید رکھتی ہیں کہ ہم ان کے ملک پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرتے رہیں.وہ نہیں جانتیں کہ جو چیز موجود ہوتی ہے ، وہی خرچ ہوتی ہے.پاکستان کی محدود جماعت سارا خرچ برداشت نہیں کر سکتی.اگر بیرونی جماعتیں اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتیں تو وہ اپنے لئے خود قبر کھودتی ہیں.سارا خرچ پاکستان کے ذمہ ڈال دینا عقل کے خلاف ہے.148
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1950ء جتنا بوجھ پاکستان نے اٹھایا ہے، اتنا بوجھ فی فرد دوسری جماعتوں نے نہیں اٹھایا.اور جتنا خرچ ایک پاکستانی اٹھاتا ہے، دوسری جماعتوں کا فرد اس سے نصف بھی نہیں اٹھاتا ، الا ماشاء اللہ.یہ چیزیں ہیں ، جن کو سامنے رکھتے ہوئے، میں کہتا ہوں کہ اتنے خطرناک حالات کے ہوتے ہوئے ، اگر کوئی شخص کمزوری دکھاتا ہے تو کام کیسے چلے گا ؟ تحریک جدید دفتر دوم میں اس سال صرف ایک لاکھ ہمیں ہزار کے وعدے ہوئے ہیں.پچھلے سال ایک لاکھ، دس ہزار کے وعدے ہوئے تھے لیکن وصول صرف ساٹھ ہزار روپیہ ہوا تھا.دفتر اول کے دو لاکھ ستر ہزار کے وعدے ہوئے تھے لیکن وصولی دولاکھ ، چالیس ہزار کی ہوئی تھی.اس ماہ کے اخراجات قرض لے کر ادا کئے گئے ہیں.اگر بقایا داران اپنے فرائض کو سمجھتے اور اپنے وعدوں کو پورا کر دیتے تو ہم اس ماہ کے اخراجات بھی ادا کرتے اور دس پندرہ ہزار روپیہ قرض کی ادائیگی کے لئے بھی بچ جاتا.یا درکھنا چاہئے کہ تحریک جدید نے 30 لاکھ روپیہ کی جائیداد خریدی تھی، جس میں سے 11 لاکھ روپیہ کا قرضہ ابھی باقی ہے.اس لئے میں نے جو کہا تھا کہ فلاں فلاں رقوم اس میں شامل نہیں کرنی چاہئیں ، وہ اس قرضہ میں جاتی ہیں اور ابھی تین چار سال تک ہم اس قرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتے.ہاں اگر خدا تعالیٰ کا کوئی خاص فضل ہو جائے تو اور بات ہے.غرض جب دفتر دوم کے ایک لاکھ، دس ہزار کے وعدے ہوں اور وصولی ساٹھ ہزار کی ہو اور دفتر | اول کے دولاکھ 70 ہزار کے وعدے ہوں اور وصولی دولاکھ 40 ہزار روپیہ ہو تو کام کیسے ہو سکتا ہے؟ جہاں میں نے آپ لوگوں کی برکت کی اور تعریف کی ہے کہ آپ نے اپنی ذمہ داریوں کو خوب سمجھا ہے اور وہ قربانیاں کی ہیں، جن کے مقابلہ میں غیر ممالک کی جماعتیں نصف قربانی بھی نہیں کر سکتیں.وہاں میں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ بڑی ذمہ داری رکھتا ہے.تم ایک معمولی ہمسائے کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو بھی بھلا نہیں سکتے.وہ جہاں بیٹھتا ہے تمہیں تنگ کرتا ہے.وہ تمہیں سزا نہیں دے سکتا ، وہ تمہیں گرفتار نہیں کر سکتا، وہ تمہیں ملک بدر نہیں کر سکتا، وہ تمہیں قید نہیں کر سکتا مگر اتنا ضرور کرتا ہے کہ جہاں مجلس ہوتی ہے ، وہ کہتا ہے، اے فلاں صاحب ! آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا لیکن اسے پورا نہیں کیا.اور بعض دفعہ اس قسم کے طعنوں پر خونریزی بھی ہو جاتی ہے.پھر تم حکومت سے کئے ہوئے وعدوں کو بھی بدل نہیں سکتے.جتنے قانون ہیں، وہ گورنمنٹ سے وعدے ہی ہیں.ہمارے نمائندے جاتے ہیں اور وہ حکومت سے ایک وعدہ کر آتے ہیں اور وہی قانون ہوتا ہے، جس کی نافرمانی پر انسان سزا پاتا 149
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم ہے.پس جب تم ایک معمولی ہمسائے کی سزا سے نہیں بچ سکتے ، جب تم حکومت کی سزا سے نہیں بچ سکتے تو تم خدا تعالیٰ کی سزا سے کس طرح بچ سکتے ہو ؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ وعدے، جو خدا تعالیٰ سے کئے جاتے ہیں ، وہ مسئول ہیں.یعنی ان کے بارہ میں جواب طلبی ہوگی.وہ آدمی ، جس نے وعدہ نہیں کیا ، وہ کمزور ہے اور خدا تعالیٰ اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھے گا.لیکن جس نے وعدہ کیا ہے اور اسے پورا نہیں کیا ، وہ مجرم ہے اور خدا تعالیٰ اسے سزادے گا.پس یہ وعدے معمولی چیز نہیں.اول تو یہی چیز افسوس ناک ہے کہ اتنا عظیم الشان کام اور اتنی معمولی قربانی.پھر اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ وعدوں کے پورا کرنے کی طرف بہت کم توجہ ہے.اب تک وعدوں پر پانچ ماہ گزر چکے ہیں اور اس پانچ ماہ کے عرصہ میں صرف 60 ہزار روپیہ کی رقم دفتر اول میں وصول ہوئی ہے.حالانکہ قریبا نصف سال گزر چکا ہے اور اس عرصہ میں ایک لاکھ، چالیس ہزار روپیہ کی رقم وصول ہونی چاہئے تھی.تب کہیں وہ کل وعدوں کا نصف - ہوتی.اب جب آمد کا یہ حال ہے تو تحریک جدید والے مبلغوں کو وقت پر خرچ کیسے دے سکتے ہیں؟ یا درکھو تمہاری ذمہ داری سب سے پہلے ہے.بے شک جو بوجھ تم پر ڈالا گیا ہے، وہ دوسروں پر نہیں ڈالا گیا.بے شک جو تکالیف خدا تعالیٰ کی خاطر تم نے اٹھائی ہیں، وہ دوسروں نے نہیں اٹھا ئیں.مگر یہ بھی یادرکھو کہ جو کچھ تمہیں ملنے والا ہے، وہ دوسروں کو نہیں ملے گا.تم خدا تعالیٰ کی نظر میں السابقون الاولون میں سے ہو.خدا تعالیٰ نے السابقون الاولون کا انعام اور مقرر کیا ہے اور دوسرے مومنوں کا انعام اور مقرر کیا ہے.دوسرے مومنوں کے لئے خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ انہیں جنت ملے گی نعماء ملیں گی اور وہ آرام کی زندگی بسر کریں گے.خدا تعالیٰ نے السابقون الاولون کی نسبت فرمایا ہے.والسيقُوْنَ السَّبِقُونَ أُولَيكَ الْمُقَرَّبُونَ (الواقعہ رکوع 1) دوسرے مومن جنت میں ہوں گے مختلف نعماء سے متمتع ہورہے ہوں گے مگر سابقون میرے پاس عرش پر ہوں گے.اور ایک عاشق صادق کے نزدیک جنت خدا تعالیٰ کے عرش کے پائے کے پاس ہونے کے مقابلہ میں کیا چیز ہے.وہ اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتی ، جتنی حیثیت ایک کھری اور کچی اشرفی کے مقابلہ میں ایک کھوٹا پیسہ رکھتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا اور اس کے بعد طائف فتح کیا اور مالدار قوم کے ذخیرے، اونٹ، گھوڑے اور بکریاں اور غنیمت ملے تو آپ نے وہ مال مکہ کے حدیث العہد مسلمانوں 150
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1950ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد سوم میں تقسیم کر دیئے.کسی کو سو کسی کوسوا، سو اونٹ دے دیئے اور کسی کو دو ہزار بکریاں دے دیں.انصار میں سے ایک نوجوان نے جب یہ نظارہ دیکھا تو اس نے کہا ، خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مال غنیمت اپنے رشتہ داروں میں بانٹ دیا ہے.کسی نے یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی پہنچادی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا اے انصار! مجھے یہ اطلاع پہنچی ہے.میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ خبر درست ہے؟ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم میں سے ایک نوجوان نے یہ کہا کہ فتح ہم نے کی ہے، خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال غنیمت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں میں بانٹ دیا ہے.انصار رو پڑے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بات تو سچی ہے لیکن ہم میں سے ایک بے وقوف نوجوان نے یہ بات کہی ہے ، ہم اس سے متفق نہیں.آپ نے فرمایا، اے انصار ! اس کے منہ سے جو نکلنا تھا ، وہ نکل گیا اور واپس نہیں لیا جاسکتا.اے انصار ا تم کہہ سکتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ میں ظاہر ہوئے ، ان کی قوم نے انہیں دھتکار دیا، اس نے آپ کا انکار کیا تکلیفیں دیں، دکھ دیئے اور جب مظالم انتہا کو پہنچے تو مدینہ نے اپنا دروازہ آپ کے لئے کھول دیا ، مدینہ کے لوگ آپ کو اپنے گھر لے آئے ، آپ کو اپنی حفاظت و پناہ میں رکھا اور آپ کی خاطر سارے عرب سے لڑائی کی اور مکہ بھی فتح کیا.لیکن جب مال غنیمت ہاتھ آیا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا.انصار اور شدت سے رونے لگے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہمارے ایک نوجوان نے یہ ایک بے وقوفی کی ہے، ہم یہ خیال بھی دل میں نہیں لا سکتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، اے انصار! لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے.جہاں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور اموال غنیمت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیئے ہیں، وہاں تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی پیشگوئی کے مطابق مکہ میں پیدا کیا لیکن جب مکہ والوں نے گستاخی سے کام لیا تو خدا تعالیٰ نے وہ نعمت اس سے چھین کر مدینہ کو دے دی.پھر خدا تعالیٰ کے فرشتوں اور لشکروں نے ساتھ ہو کر عرب فتح کیا اور مکہ بھی فتح کیا.جب مکہ فتح ہوا اور مکہ والوں کو سمجھ آگئی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بچے ہیں اور انہوں نے خیال کیا کہ شاید ہماری کھوئی ہوئی نعمت ہمیں پھر واپس مل جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ میں آجائیں گے اور مکہ جو آپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایک بیوہ کی حیثیت رکھتا ہے، سہاگ والی عورت کی شکل اختیار کر لے گا.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں اونٹ دیئے، 151
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم گھوڑے دیئے، بکریاں دیں اور وہ اونٹ گھوڑے اور بکریاں ہا تک کر اپنے گھروں کو لے گئے اور مد بینہ والے خدا کے رسول کو اپنے ساتھ لے گئے.اس تقریر نبوی میں وہی بات بیان کی گئی ہے، جو وَالسَّبِقُونَ السَّبِقُونَ أُولَيكَ الْمُقَرَّبُونَ میں بیان کی گئی ہے.یعنی لوگ کہیں گے کہ باقی لوگ تو جنت لے گئے، پھر اعلی قربانیوں والوں کو کیا ملا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، وہ خدا تعالیٰ کو اپنے ساتھ لے گئے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مکہ والے تو اونٹ اور بکریاں اپنے گھروں کو لے گئے اور مدینہ والے خدا کے رسول کو اپنے ساتھ لے گئے.سو تم اس وعدہ کے مطابق، جو اس نے السابقون الاولون کے متعلق کیا ہے، قربانیاں کرو اور زیادہ سے زیادہ ایفائے عہد کرو.تم میں سے ایک کمزور شخص بھی، جس نے تحریک جدید میں ایک پیسہ بھی نہیں دیا ہوتا ، جب غیر احمدیوں میں بیٹھتا ہے تو کہتا ہے، دیکھو ہم امریکہ میں تبلیغ کر رہے ہیں، ہم افریقہ اور ایشیا میں تبلیغ کر رہے ہیں.وہ اس پر فخر کرتا ہے.حالانکہ نہ اس کا بیٹا وہاں گیا ہوتا ہے، نہ بھائی اور نہ اس نے چندہ دیا ہوتا ہے لیکن وہ فخر میں شامل ہو جاتا ہے.پھر تم یہ بھی تو سوچو کہ آخر تمہاری مخالفت کتنی شدید ہے؟ دشمن تمہاری ساری خوبیوں کا انکار کر دیتا ہے لیکن یہاں آکر اس کی آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں.ہمارا شدید ترین دشمن مصری اخبار الفتح ، لکھتا ہے کہ یہ برے سہی لیکن تبلیغ کا کام، جو انہوں نے کیا ہے، وہ تیرہ سوسال میں اور کسی نے نہیں کیا.یہی حال ایران اور عرب کے اخباروں کا ہے.وہ جہاں ہمیں کشتی گردن زدنی مقاطعہ کے قابل اور ملک بدر کرنے کے قابل سمجھتے ہیں، وہاں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ احمد یہ جماعت وہ کام کر رہی ہے، جو آج تک کسی مسلمان فرقہ نے نہیں کیا.غرض یہ ایک ہی کام ہے، جس سے تمہارے دشمنوں کی گردنیں نیچی ہو جاتی ہیں.تم سچ زیادہ بولتے ہو تم نمازیں زیادہ پڑھتے ہو تم روزے زیادہ رکھتے ہو.لیکن دشمن کہہ دیتا ہے کہ ہمارے پاس فلاں احمدی ہے، وہ نماز نہیں پڑھتا یا روزے نہیں رکھتا.اب اس کی کون تحقیقات کرے، وہ کون سا ادارہ مقرر ہے، جو کہے نہیں احمدی زیادہ نمازیں پڑھتے ہیں، احمدی بچ زیادہ بولتے ہیں اور احمدی زیادہ دیانت دار ہیں؟ لیکن جب دشمن یہاں پہنچتا ہے تو اس کی زبان بند ہو جاتی ہے.وہ یہ دھوکا کیسے دے سکتا ہے کہ انگلینڈ، امریکہ اور ایشیا میں ہمارا غیر تبلیغ کر رہا ہے؟ یہاں اس کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے، اس کی آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں، اس کی گردن جھک جاتی ہے.غرض یہ ایک ہی فخر کی چیز ہے اور تم اس کے متعلق بھی کمزوری دکھانے لگ گئے ہو.یہ وہی چیز ہے، جس کے سامنے بادشاہوں کی 152
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم گردنیں بھی جھک جاتی ہیں.اور " الفتح " نے بھی یہی لکھا ہے کہ بادشاہوں نے بھی وہ کام نہیں کیا، جو اس مٹھی بھر غریب جماعت نے کیا ہے.غرض تم فخر کے وہ دروازے بند کرتے ہو، جن کے اقرار سے شدید سے شدید ترین دشمن بھی نہیں رکتا.تم یہ کہو گے کہ ہم پر بوجھ زیادہ ہے، دوسری جماعتیں یہ بوجھ نہیں اٹھاتیں، یہ بوجھ ہماری کمریں توڑنے والا ہے، میں اس کا انکار نہیں کروں گا.میں کہوں گا بے شک تم پر بوجھ زیادہ ہے لیکن تم یہ بتاؤ کہ خدا تعالیٰ کے پاس بیٹھے اور اس بوجھ کے اٹھانے میں کوئی نسبت بھی ہے؟ اگر تمہیں روحانیت کی آنکھیں نصیب ہو جائیں اور موت کے بعد کا نظارہ تم دیکھ سکو کہ کس طرح خدا تعالٰی کے پاس بیٹھے ہو اور دوسرے مومن جنت میں شربت اور دودھ پی رہے ہیں تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ دودھ ان کے حلق سے نہیں گزرتا ، وہ شربت ان کے منہ میں کڑوا لگ رہا ہے اور حسرت سے وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں کہ کاش وہ تمہاری جگہ پر ہوتے اور تم ان کی جگہ پر ہوتے.پس تم یہ نہ دیکھو کہ یہ قربانی کتنی بھاری ہے بلکہ یہ دیکھو کہ تمہیں جو انعام ملے گا، وہ کتنا بھاری ہے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 28 مئی 1950.153
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 مئی 1950ء بوجھ سے مت ڈرو بلکہ دیکھو کہ کتنے بڑے کام سرانجام پا جاتے ہیں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 12 مئی 1950ء " میں آج نہایت ہی اختصار کے ساتھ جماعت کو ان چندوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں، جن کا اعلان کچھ عرصہ سے وکالت مال کی طرف سے اخبار میں ہو رہا ہے.یعنی مسجد ہالینڈ اور مسجد واشنگٹن کے لئے چندہ کی تحریک.دنیا میں ہر زمانہ میں کچھ آبادی کے مرکز ہوا کرتے ہیں اور کچھ تہذیب کے مرکز ہوا کرتے ہیں، اسی طرح کچھ مذہب کے مرکز ہوا کرتے ہیں.اس زمانہ میں چند اقوام کو دنیا میں خصوصیت حاصل ہے.ایک تو اس وقت ہندوستان کو فوقیت اور اہمیت حاصل ہے.یعنی وہ ہندوستان، جس میں پاکستان اور بھارت دونوں شامل ہیں.بھارت میں احمدیت کا وہ مستقل مرکز موجود ہے، جس کو خدا تعالیٰ نے اسلام کی اشاعت اور ترقی کے لئے موجودہ دور میں مرکزی مقام قرار فرمایا ہے اور پاکستان میں اس وقت وہ فعال مرکز ہے، جس کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہو رہی ہے.پس مذہبی مرکز کے لحاظ سے تو ہندوستان یا وہ ملک جو پاکستان اور بھارت کا مجموعہ ہے، سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے.پھر دوسرے نقطہ نگاہ سے، یعنی اصلیت کے لحاظ سے عرب ممالک نہایت ہی اہم حیثیت رکھتے ہیں.کیونکہ اسلام انہیں سے نکلا اور انہی سے باہر پھیلا اور وہ مقامات جن کے ساتھ انسانی عبادات وابستہ ہیں، وہیں واقع ہیں.لیکن اس وقت وہ فعال مرکز نہیں.اسلام کی اشاعت اور تنظیم کی طرف انہیں کوئی توجہ نہیں.غرض اصلیت کے لحاظ سے عرب ممالک دنیا پر فوقیت رکھتے ہیں، خواہ وہاں تبلیغ کا کام نہ ہورہا ہو.تیسرا مرکز اس وقت جنوب مشرقی ایشیا ہے.جو آبادی کے لحاظ سے بہت بڑی فوقیت اور عظمت رکھتا ہے.انڈو چائنا، ملایا، سیام، انڈونیشیا او فلپائن ان کو اگر ملا لیا جائے تو آبادی کے لحاظ سے یہ علاقہ دنیا کا تیسرا حصہ ہے.لیکن رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا حصہ تو کجا چھٹا حصہ بھی نہیں.ان ممالک میں سے جو اسلام کے ساتھ تعلق رکھنے والا علاقہ ہے، وہ انڈونیشیا کا ہے.انڈو نیشیا اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اسلام اگر مشرقی ایشیا میں ترقی کر سکتا ہے تو صرف یہی ملک اس کا مرکز ہو سکتا ہے.چین میں بھی سکتا کا 155
اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 12 مئی 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم مسلمان ہیں لیکن اتنی آبادی نہیں جتنی انڈونیشیا کی ہے.دوسرے یہ کہ وہ اقلیت کی حالت میں ہیں اور اپنے وجود کو غیر مسلموں سے منوا نہیں سکتے.انڈونیشیا کو یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ یہ ملک ایشیائیوں کے ماتحت بھی ہے اور اس میں آبادی بڑھنے کے سامان بھی موجود ہیں.بور نیو کا جزیرہ ہندوستان کے نصف سے بڑا ہے.لیکن اس کی آبادی صرف 25-30 لاکھ ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کا ایک حصہ ایسے ملک پر قابض ہے کہ وہاں دس پندرہ کروڑ کی آبادی بڑھائی جاسکتی ہے.یہ فوقیت اور کسی ملک کو حاصل نہیں.باقی ملک گنجان طور پر آباد ہیں اور ترقی کی گنجائش ان میں موجود نہیں.پھر انڈونیشیا کا ہالینڈ سے تعلق ہے اور چونکہ وہ چھوٹا سا ملک ہے، انڈونیشیا کے اس کے ساتھ ملنے کی وجہ سے مسلمانوں کی آبادی ڈچ ایمپائر میں بڑھ جاتی ہے اور اس وجہ سے ایک یور چین ایمپائر میں مسلمانوں کا حصہ زیادہ ہو کر مسلمانوں کا سیاسی نفوذ بڑھ جاتا ہے.چوتھی اہمیت امریکہ کو حاصل ہے.جو اسے تہذیب اور کمال کے لحاظ سے حاصل ہے.امریکہ کی لیم ، دولت ، تجارت، صنعت و حرفت ، حکومت اور تہذیب کے لحاظ سے سارے ملکوں میں نمبر اول پر ہے.پانچویں خصوصیت دنیا کے ملکوں میں سے افریقن قبائل کو حاصل ہے، خصوصا وسطی قبائل کو.شمالی حصہ پہلے سے مسلمان ہے اور جنوبی حصہ پر بعض مغربی تو میں قابض ہیں.لیکن وسطی حصہ ابھی تک مقامی لوگوں کے ماتحت ہے اور اس میں اب بیداری کے سامان پیدا ہور ہے ہیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعض پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی وقت چوٹی کے ملکوں میں شامل ہو جائے گا.یہ پانچ ایسے ملک ہیں، جو دوسرے ممالک پر اہمیت اور خصوصیت رکھتے ہیں.ان میں سے چار ملک ایسے ہیں، جن میں نمایاں طور پر احمدیت کو خصوصیت حاصل ہے.مثلاً پاکستان اور ہندوستان میں، جن کو آج کل ایشیا میں سیاسی برتری حاصل ہے، یہاں احمدیت کے مراکز واقع ہیں.انڈونیشیا ان ابتدائی ممالک میں سے ہے، جہاں احمدیت پھیلی اور پھیل رہی ہے.افریقہ میں اگر کوئی اسلامی جماعت کام کر رہی ہے یا کسی اسلامی جماعت کو نفوذ اور اثر حاصل ہے تو وہ احمد یہ جماعت ہے.اور امریکہ میں بھی ہماری جماعت کی تبلیغ ہورہی ہے اور وہاں کے لوگوں کو احمدیت میں صرف داخل ہونے کی توفیق ہی نہیں ملی بلکہ انہیں قربانی کرنے کی بھی توفیق ملی ہے.یوں تو اتنے بڑے ملک میں چار، پانچ سولوگوں کا احمدی ہو جانا کوئی حیثیت نہیں رکھتا.لیکن جنس دیکھی جاتی ہے ، تعداد کی کمی اور زیادتی کو نہیں دیکھا جاتا.ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ کتنے لوگوں نے احمدیت قبول کی ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ وہ کتنی قربانی کرنے والے ہیں؟ مثلاً بڑی 156
اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 12 مئی 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم بات یہ ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں بھیجا ہے.مسٹر رشید احمد یہاں ہیں اور سینٹ لوئیس سے بھی مجھے خط آیا ہے کہ ایک نوجوان یہاں آنے کی تیاری کر رہے ہیں.اسی طرح سفید لوگوں میں سے بھی ایک عورت نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی ہے.ہمارے نزدیک تو سفید اور سیاہ سب برابر ہیں لیکن امریکہ میں ان میں ایک حد تک امتیاز اب تک برتا جاتا ہے.میں نے اس عورت کو فی الحال یہاں آنے سے روک دیا ہے.یہ چار ملک ہو گئے.عربی ممالک میں بے شک ہمیں اس قسم کی اہمیت حاصل نہیں ، جیسی ان ممالک میں حاصل ہے.لیکن پھر بھی ایک طرح کی اہمیت ہمیں حاصل ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ فلسطین میں عین مرکز میں اگر مسلمان رہے ہیں تو وہ صرف احمدی ہیں.بعض ہندوستانی اخبارات جن کو دشمنی کی وجہ سے ہمارا یہ کام قابل اعتراض نظر آیا ہے، لکھتے ہیں کہ اگر انہیں فلسطین سے یہودیوں نے نہیں نکالا تو ضرور یہ یہود سے ملے ہوئے ہیں.جیسے ہم جب قادیان میں جم کر مقابلہ کر رہے تھے تو سب لوگ ہماری تعریفیں کرتے تھے.لیکن اب کہتے ہیں کہ چونکہ احمدی ابھی تک قادیان میں بیٹھے ہیں، انہیں ہندوستان سے ضرور کوئی تعلق ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ دولاکھ کے قریب عرب ابھی مقبوضہ فلسطین میں ہیں.مگر جو فوقیت ہمیں حاصل ہے، وہ یہ ہے کہ ہم عین مرکز میں موجود ہیں.جیسے بھارت میں ابھی چار کروڑ مسلمان پائے جاتے ہیں لیکن ہمیں جو فوقیت حاصل ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اس مرکز میں موجود ہیں، جہاں دوسرے مسلمان نہیں پائے جاتے.دوسرے شام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الہاموں سے پتہ چلتا ہے کہ احمدیت کے دور میں وہ خصوصیت حاصل کرے گا.ان سب ممالک میں ہم نے احمدیت کا دائرہ وسیع اور منظم کرنا ہے.ان میں سے افریقہ میں جماعت سب سے زیادہ ہے اور ایسٹ افریقہ اور ویسٹ افریقہ دونوں کو ملا کر ایک لاکھ کے قریب جماعت ہو جاتی ہے.اور پھر ان میں سرعت کے ساتھ احمدیت بڑھ رہی ہے اور درجن کے قریب ہمارے مبلغ کام کر رہے ہیں بلکہ اگر مقامی مبلغوں اور معلموں کو ملا لیا جائے تو وہاں 50-60 سے زائد مبلغ کام کر رہے ہیں.امریکہ میں اس وقت چار مبلغ کام کر رہے ہیں مگر ابھی تک امریکہ کے مرکز میں مسجد نہیں بنی تھی.اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ واشنگٹن ، جو امریکہ کا دارالحکومت ہے، وہاں مسجد بنائی جائے.بلکہ ایک مکان سوالاکھ روپیہ کا خرید لیا گیا ہے.اس کے لئے دوماہ سے جماعت میں چندہ کی تحریک ہو رہی ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میری طرف سے تحریک نہیں 157
اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 12 مئی 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہوئی.حالانکہ جو الہامی سلسلے ہوتے ہیں، ان میں افراد کو نہیں دیکھا جاتا ، کام کو دیکھا جاتا ہے.جب مرکز کی طرف سے کوئی تحریک ہو تو خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹے کارکن کی طرف سے ہی ہو ، مرکزی ہی سمجھی جائے گی اور اسے وہی اہمیت حاصل ہو گی ، جو کسی مرکزی تحریک کو حاصل ہوتی ہے.کیونکہ سارے کام ایک ہی آدمی نہیں کر سکتا اور نہ ہی ساری دنیا کو ایک آدمی سے عقیدت ہوسکتی ہے.مثلاً اگر ہر کام خلیفہ ہی کرے تو وہ اسلام کی طاقت کا موجب نہیں ہوگا بلکہ اسلام کی کمزوری کا موجب ہوگا اور یہ چیز شرعاً نا جائز ہے.یہ تحریک کسی فرد کی طرف سے نہیں کئی گئی ، جماعت کی طرف سے کی گئی تھی اور چاہئے تھا کہ دوست یہ نہ دیکھتے کہ یہ تحریک میں نے کی ہے، کسی ناظر ، وکیل، نائب وکیل یا کسی اور نے کی ہے بلکہ وہ اس کی اہمیت کو دیکھتے اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ، اس میں حصہ لیتے.امریکہ وہ ملک ہے، جو کھربوں میں کھیل رہا ہے.اس کے لئے جو جگہ خریدی گئی ہے، وہ سوالاکھ روپیہ کی ہے اور پچیس ہزار ابھی اور اس پر خرچ ہو گا.در حقیقت یہ عمارت بھی وہاں کی عظمت کے لحاظ سے چھوٹی ہے.ان پر اثر ڈالنے کے لئے تو ہیں، پچیس لاکھ روپیہ کی عمارت چاہئے تھی.لیکن موجودہ حالات میں صرف ڈیڑھ لاکھ پر ہی کفایت کی گئی ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بتایا ہے کہ ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ اگر یہ عمارت دولاکھ روپیہ کی بھی مل جائے تو اسے ستی سمجھنا چاہئے.لیکن ہمیں وہ ایک لاکھ، بیس ہزار روپیہ میں مل گئی ہے اور اس پر فرش کرنے اور قانونی طور پر بعض اصلاحیں مہیا کرنے پر پندرہ ، ہیں ہزار اور خرچ ہو چکا ہے اور کل خرچ ایک لاکھ، پچاس ہزار کے قریب ہوگا.واشنگٹن ایک اہم مقام ہے، جہاں یہ مکان احمدیت کی ترقی اور اس کی اشاعت میں مفید ہو سکتا ہے.چونکہ امریکہ کو باقی ممالک پر ایک فوقیت حاصل ہے، اگر اس میں احمدیت پھیل جائے تو اس مکان کے ذریعہ سے دوسرے ممالک پر بھی احمدیت کا اثر پڑے گا اور امریکہ کے احمدیوں کے ذریعہ سے دوسرے ممالک میں احمدیت کو نفوذ اور اثر حاصل ہوگا.دوسری تحریک مسجد ہالینڈ کے لئے چندہ کی ہے.کہتے ہیں عورتوں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا.لیکن شاید ان کا دل بڑا ہوتا ہے.مردوں نے ڈیڑھ لاکھ روپیدا کٹھا کرنا ہے اور اس وقت تک صرف پونے بارہ ہزار کے وعدے ہوتے ہیں اور عورتوں نے ساٹھ ہزار روپیہ جمع کرنا ہے مگر اس وقت تک ان کے پونے سترہ ہزار کے وعدے ہیں.گویا عورتوں کے وعدے مردوں سے ڈیڑھ گنا ہیں.میرے پاس جو چندہ کی رپورٹیں آتی ہیں، ان میں دس میں سے نو جگہیں ایسی ہوتی ہیں، جہاں عورتوں کا چندہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے.بہر حال ہالینڈ کو بھی یہ فوقیت حاصل ہے کہ انڈونیشیا آزاد ہو گیا ہے.پس اب ان دونوں ملکوں کی 158
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 12 مئی 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم آپس میں دوستی کے تعلقات بڑھتے جائیں گے اور ڈچ کامن ویلتھ میں انڈونیشیا کے شامل ہونے کی وجہ سے چونکہ مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہوگی، اس لئے ڈچ مسلمانوں کی طرف مائل ہوں گے.اور ممکن ہے کہ ہالینڈ اسلام کا مرکز بن جائے.اس لئے وہاں کی مسجد بھی ایک اہم مسجد ہے.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس چیز کا خیال جانے دیں کہ ان پر کتنے بوجھ ہیں.وہ ہمیشہ بوجھ کے نیچے رہیں گے.دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں رہا، جس پر کوئی بوجھ نہیں ہو گا.جس انسان پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا ، وہ خود بوجھ بنالیا کرتا ہے.مثلاً امیر لوگ ہیں، وہ یہی بوجھ بنا لیتے ہیں کہ کہیں ڈا کہ نہ پڑ جائے اور وہ لٹ نہ جائیں.پس بوجھ سے مت ڈرو بلکہ یہ دیکھو کہ تمہاری زندگیوں میں کتنے بڑے کام سرانجام پا جاتے ہیں.تم اپنی اس مختصر زندگی میں اور پھر اس سے بھی زیادہ مختصر دولت اور اقتصاد میں اگر کوئی عظیم الشان کام کر جاتے ہو تو تمہاری زندگی ناکام زندگی نہیں ہوتی.بلکہ تمہاری زندگی کامیاب زندگی ہوتی ہے، جس پر بڑے بڑے لوگ، جن کو بظاہر دولت اور اقتصاد حاصل ہوتا ہے، حسد کرتے ہیں یا رشک کرتے ہیں اور یا قتل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.( مطبوعه روز نامہ الفضل 18 مئی 1950ء) 159
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم " تبلیغ کرو اور دعائیں مانگو اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 23 جون 1950ء خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جون 1950ء ہماری جماعت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ایک مامور من اللہ کی جماعت ہے.اور مامور دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں آئے ہیں.بلکہ ایک حدیث کی رو سے دنیا میں ایک لاکھ بیس ہزار مامور من اللہ گزرے ہیں.ان کے حالات ہمارے سامنے ہیں اور ان کی جماعتوں کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک لاکھ بیس ہزار ماموروں کے حالات ہمارے پاس نہیں.مگر جن کے نام قرآن کریم میں مذکور ہیں یا جن کا بائبل یا دوسری کتابوں نے ذکر کیا ہے، ان کے حالات تو ہمارے سامنے ہیں.وہ ہم سے پوشیدہ نہیں.ان نبیوں میں سے ایک نبی بھی ایسا نہیں گزرا ، جس کی جماعت نے آگ میں پڑے بغیر ، خون کی ندیوں میں سے گزرے بغیر ترقی کی ہو.وو ہمیں سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ہمارا یہ خیال کہ ہم صاحبزادوں کی طرح اپنی زندگیاں گزار دیں گے اور گزشتہ نبیوں کی جماعتوں کے سے حالات میں سے نہیں گزریں گے محض ایک دھوکا ہے.مگر یہ نہایت ہی حیرت انگیز اور قابل افسوس بات ہے کہ میں اب بھی دیکھتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ ہم میں اب یہ احساس پیدا ہو جاتا کہ ہمیں بھی آگ اور خون کی ندیوں میں سے گزرنا پڑے گا ، ہم اس واقعہ کو بھول گئے ہیں اور ہماری جماعت نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا“.وو ""...ہماری جماعت کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے اندر ایک بیداری پیدا کر لیتی اور اس آدمی کی مانند جو آتش فشاں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہوتا ہے، اپنے آپ کو تیار کر لیتی.واقعہ یہی ہے کہ تبلیغ کے بغیر نہیں چارہ نہیں بس ایک طرف تبلیغ کرنی چاہیے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنی چاہیں تبھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اور اپنے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں.تبلیغ تمہاری تعداد کو بڑھائے گی اور دعا ئیں خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچیں گی.تبلیغ سے ہر درجہ اور حلقہ کے لوگ احمدی ہوں گے یا پھر انہیں کم از کم یہ پتہ لگ جائے گا کہ احمدی کیسے ہوتے ہیں؟ بے شک وہ احمدی نہ ہوں لیکن انہیں یہ تو پتہ لگ جائے گا کہ احمدیت کی تعلیم کیا ہے؟ اور جب انہیں احمدیت کی تعلیم کا پتہ لگ 161
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 جون 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم جائے گا تو پھر اگر کوئی شخص احمدیوں کے خلاف ان کے کان بھرنے کی کوشش کرے گا تو وہ فورا کہہ دیں گے کہ ہم جانتے ہیں کہ احمدی ایسے نہیں ہیں.لیکن اگر وہ احمدیت کی تعلیم سے واقف نہیں تو جس طرح کوئی ان کے کان بھرے گا، ان کے پیچھے لگ جائیں گے.گویا تبلیغ کے ذریعہ ہمیں دو فائدے حاصل ہوں گے.اول، جو لوگ صداقت کو قبول کرنے کی جرات رکھتے ہیں، وہ صداقت کو قبول کر لیں گے.اور جو صداقت کو قبول کرنے کی جرات نہیں رکھتے ، وہ ہمارے حالات سے واقفیت کی بناء پر کلمہ خیر کہا کریں گے....دعاؤں سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے.خدا تعالیٰ ہے شک رحیم اور رحمان ہے مگر اس کے سامنے جھکنے اور آہ وزاری کرنے سے جو اس کی مدد کا احساس ہوتا ہے، وہ ویسے نہیں ہوتا.ویسے تو وہ دلوں کی باتوں کو جانتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے خود ہی یہ قانون بنارکھا ہے کہ جو چیز دل میں ہوتی ہے، اس کا ظاہر میں بھی ہونا ضروری ہے.اور جب خدا تعالی کا یہ قانون موجود ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ جو چیز دل میں ہوگی ، وہ ظاہر میں بھی ہوگی." دعاؤں کی طرف توجہ کرنے سے صحیح قربانی کا احساس ہوتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جتنا بڑا کام ہمارے سپرد ہے، اس کے مقابلہ میں ہماری قربانی بیچ ہے.دنیا بھر میں جماعتیں قائم کرنا، اپنے ملک کے لوگوں کو احمدیت کی طرف متوجہ کرنا ، بہت بڑا کام ہے.اور اس کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا.مگر اس کے مقابلہ میں ہماری قربانیاں کچھ بھی نہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو لوگ تبلیغ کرتے ہی نہیں اور جو تبلیغ کرتے ہیں، وہ مجنونانہ رنگ میں نہیں کرتے.یہی علاقہ جس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ بہت چھوٹا سا ہے، اگر تم کوشش کرو تبلیغ کرو اور ہمدردی کے جذبات لے کر لوگوں کے پاس جاؤ تو یہ سارا علاقہ احمدی ہو سکتا ہے.اس بات پر تین سال گزر گئے ہیں لیکن اس کام کو کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی.واقعہ یہ ہے کہ جماعت کے ہر فرد میں احساس نہیں کہ وہ اپنا رستہ چھوڑ کر تبلیغ کر.سے لوگ صرف سلام کہنے کو ہی تبلیغ سمجھ لیتے ہیں.کسی کو سلام کہ دیا اور کہہ دیا کہ ہماری فلاں میٹنگ میں تشریف لانا اور اس نے وعدہ کر لیا تو خوشی سے گھر چلے گئے اور سمجھ لیا کہ ہم نے بڑی تبلیغ کی ہے.یا کسی سے چند باتیں کیں اور اس نے ہاں میں ہاں ملا دی تو سمجھ لیا کہ لوگ احمدیت کی طرف توجہ کر رہے ہیں.لیکن یہ تبلیغ نہیں تبلیغ یہ ہے کہ حق کو دوسروں پر کھولا جائے اور انہیں دعوت دی جائے کہ وہ اس کو قبول کریں.یہ امر ظاہر ہے کہ جب بھی کبھی کسی مامور کی جماعت کو خدا تعالیٰ غلبہ دیا کرتا ہے تو پہلے وہ افراد پیدا کیا کرتا ہے، پھر غلبہ دیا کرتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ایسا ہوا، حضرت عیسی علیہ السلام " 162
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 23 جون 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سو کے وقت میں بھی ایسا ہوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوا اور اب بھی ایسا ہی ہوگا.یہ کبھی نہیں ہو گا کہ خدا تعالی لاکھ، دولاکھ افراد کو دنیا پر غالب کر دے.وہ پہلے لاکھ، دولاکھ کو دس ہیں کروڑ بنائے گا اور پھر انہیں غلبہ بخشے گا.اور یا اگر ہمیں خدا تعالیٰ نے فردی طور پر ترقی دی تو پھر کسی ایسے ملک میں، جس کی آبادی پانچ ، چھ لاکھ کی ہو، دو، تین لاکھ آدمی اس جماعت میں داخل کرے گا اور اس جگہ پر احمدیت کو غلبہ عطا کرے گا.اور پھر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ملک پر غلبہ عطا کرتا جائے گا.لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ افراد میں کثرت کے بغیر کسی جماعت کو پہلا غلبہ عطا کرے.اگر ہمارے پاس افراد کی زیادتی نہیں تو ہم دنیا میں صحیح جمہوریت کو قائم نہیں کر سکتے.اسلام جبر کو جائز نہیں سمجھتا.اگر ہم تھوڑی تعداد کے ذریعہ دنیا میں حکومت کو قائم کریں گے اور اسلامی نظام کو دنیا پر جاری کریں گے تو یہ ظلم ہوگا.اور اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا.اور اسلام کی بناوٹ ہی اس قسم کی ہے کہ وہ صحیح جمہوریت کو قائم کرتا ہے.پس غلبہ حاصل کرنے کا قاعدہ یہی ہے کہ پہلے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں اکثریت بنائی جائے اور غلبہ حاصل کیا جائے.اور اس کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے ملک پر غلبہ حاصل کیا جائے.ہمارا پیج پھینکنے کا زمانہ بہت لمبا ہو گیا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں بیچ پھینکنے میں نہایت شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے.ایک چھوٹی سی جماعت ہونے کے باوجود اس کے افراد کا ہندوستان، چین، ملایا، انڈونیشیا، آسٹریلیا کے قریب کے جزائر ، عراق، افغانستان، ایران ، شرق، اردن، شام، فلسطین، لبنان، مصر، سعودی عرب، ایسے سینا، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ ، پین ، فرانس، جرمنی، اٹلی، انگلینڈ، ویسٹ افریقہ ایسٹ افریقہ، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ اور کئی اور ممالک میں، جن کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں ، ایک ایک، دو دویا دس ہیں یا سو، دوسو یا ہزار ، دو ہزار اور بعض جگہوں میں پچاس پچاس ہزار کی تعداد میں پایا جانا، ایسی فتح ہے ، جو دوسروں کو نصیب نہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے، یہ استحکام دین کا ثبوت نہیں.ہاں ، خدا تعالیٰ نے اسے استحکام دین کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے.اور استحکام دین کا ذریعہ اور اس کا حکم ہونا ، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں.جیسے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہونے سے اس کی نسل کے قیام کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے.لیکن کیا اس سے اس کی نسل قائم بھی ہو جاتی ہے؟ نہیں بلکہ پہلے وہ بچہ زندہ رہتا ہے اور اتنی لمبی زندگی پاتا ہے کہ وہ بالغ ہوتا ہے اور شادی کے قابل ہوتا ہے، پھر اس کے لئے بیوی کی تلاش کی جاتی ہے، دونوں میاں بیوی آپس میں ملتے ہیں اور ان کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے ، تب ہم کہتے ہیں کہ فلاں کی نسل قائم ہوگئی.اسی طرح ہماری جماعت کے افراد کا ہر ملک میں پھیل جانا ، استحکام دین کا ایک ذریعہ تو بن گیا.163
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 جون 1950ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم - لیکن ذریعہ نتائج پیدا نہیں کیا کرتا.نتائج کے لئے ہمیں ایک اور قدم آگے اٹھا نا ہوگا اور کسی نہ کسی ملک میں احمدیت کی اکثریت پیدا کرنی ہوگی.ہمیں پتہ نہیں کہ پہلے یہ امر کہاں نصیب ہوگا؟ لیکن ہر جماعت کو کوشش کرنی چاہئیے کہ وہ اس امر کے حاصل کرنے میں اول ثابت ہو“." پس تم اس چیز کی پروا مت کرو کہ لوگ کیا کہتے ہیں؟ لوگ جو کچھ کہتے ہیں، انہیں کہنے دو.ہوگا وہی ، جو خدا تعالیٰ کرے گا.مگر خدا تعالیٰ وہی کرے گا، جس کے کرنے کی اسے دعوت دی جائے گی.اور اسے دعوت اس طرح دی جاتی ہے کہ انسان اس کی محبت میں بڑھتا جاتا ہے اور دوسروں کو اس کی طرف دعوت دیتا ہے.(مطبوعہ روز نامہ الفضل 05 جولائی 1950ء) 164
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خلاصه خطبہ نکاح فرمود : 05 اگست 1950ء ہم بھی انہی حالات سے گزریں گے، جن سے گزشتہ انبیاء کی جماعتیں گزریں " خطبہ نکاح فرمودہ 05 اگست 1950ء....ہماری جماعت سنت انبیاء کے مطابق قائم ہوئی ہے.اور یہ لازمی امر ہے کہ ہماری جماعت انہی حالات میں سے گزرے گی، جن حالات میں سے گزشتہ انبیاء کی جماعتیں گزری ہیں.انبیاء کی جماعتوں کو قتل کیا گیا ، انہیں وطن سے بے وطن کیا گیا، انہیں جائیدادوں سے بے دخل کیا گیا، انہیں مارا پیا گیا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا.اور یہ تمام حالات لازمی طور پر ہمیں بھی پیش آنے والے ہیں.میں اپنی جماعت کو بارہا اس طرف توجہ دلا چکا ہوں.مگر دیکھتا ہوں کہ ہجرت کے باوجود جماعت نے اب تک حقیقت کو نہیں سمجھا.اور لوگ اس طرح آرام سے بیٹھے ہیں ، جس طرح قادیان میں رہتے تھے.اور بار بار یہی سوال کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں قادیان کب ملے گا؟ حالانکہ ہمیں سوچنا یہ چاہیے کہ ہمیں ربوہ سے نکل کر آگے کہاں جانا پڑے گا؟ کیونکہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا ، جس کی جماعت کو ان حالات میں سے نہ گزرنا پڑا ہو.اور اب تو ظاہری طور بھی ہماری مخالفت وسیع نمایاں اور روشن ہوتی جارہی ہے.پس ہماری جماعت کو اپنے خیالات وسیع کرنے چاہیں اور اسے اپنی نظروں کو اونچار کھنا چاہیے“.وو یہ جذباتی چیز ہوتی ہے کہ کوئی شخص کسی خاص جگہ کو پسند کرتا ہے.لیکن جذبات واقعات سے ہمیشہ دب جاتے ہیں.مکہ کی قیمت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کچھ کم نہیں تھی.مگر جب مکہ دوبارہ فتح ہو گیا تب بھی آپ نے اپنا مرکز وہاں تبدیل نہیں کیا.پھر اسلام کو جوں جوں ترقی ملتی گئی ، وہ اپنا مرکز بدلتا گیا.اگر علماء اسلام مدینہ میں ہی بیٹھے رہتے تو اسلام کو وہ عظمت حاصل نہ ہوتی ، جواب حاصل ہے.اس وقت حالات اتنے خطرناک ہیں کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جماعت اپنا کہاں کہاں مرکز بناتی چلی جائے گی ؟ اصل مرکز تو ہمارے ہاتھ ضرور آئے گا.لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ درمیانی زمانہ کے تغیرات میں ہم اصل کام سے غافل ہو جائیں اور اینٹوں اور مکانوں اور محلوں کی یاد میں روتے رہیں.ہمارا ند ہی مرکز بے شک قادیان ہی رہے گا مگر عملی مرکز بدل سکتا ہے.اگر عملی مرکز مکہ نہیں رہ سکا تو قادیان اس سے بڑا درجہ نہیں رکھتا.پس ہو سکتا ہے کہ مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر ہمیں اپنے 165
اقتباس از خلاصه خطبه نکاح فرموده 05 اگست 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم مراکز بنانے پڑیں.در حقیقت جماعت کے افراد کا مختلف ممالک میں پھیل جانے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اگر ایک جگہ پر دشمن اسے کلی طور پر کچل ڈالے تو دوسرے ممالک کے لوگ کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیں.پس مختلف مراکز اور ملکوں میں جتنی بھی احمدیت پھیلے اور جتنی بھی وہاں کے رہنے والوں سے اپنے تعلقات وسیع کیے جائیں، اتنا ہی ہمارے لئے مفید ہو گا.عرب قوم نے اس نکتہ کو سمجھا، انہوں نے اپنی لڑکیاں دوسری قوموں میں بیاہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی اور ایسا طریق اختیار کیا کہ باہر سے آنے والا اپنے آپ کو غیر ملکی اور اجنبی خیال نہیں کرتا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں وہ ساری دنیا میں پھیل گئے..اگر مختلف ممالک میں ہماری لڑکیاں چلی جائیں تو کسی مصیبت کے آنے پر اگر ہماری جماعت کے افرادان ملکوں میں جانے پر مجبور ہوں گے تو وطنی تعلق کی وجہ سے ہمیں وہاں جتھہ بنانے اور پھیل جانے میں سہولت حاصل ہوگی اور ہم آسانی کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھ سکیں گے.( مطبوعه روزنامه الفضل 10 اگست 1950 ء ) 166
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 ستمبر 1950ء خدائی سلسلوں میں افراد کی نہیں بلکہ صرف اخلاص کی قیمت ہوتی ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1950ء " میں آج جماعت کے دوستوں کو ان کے اس ضروری فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے تبلیغ کے کام کو زیادہ سے زیادہ وسیع کریں.وہ وقت قریب سے قریب تر آ رہا ہے، جب دنیوی نقطہ نگاہ سے یا تو احمدیت کو اپنی فوقیت ثابت کرنی ہوگی اور یا اس جدو جہد میں فنا ہونا پڑے گا.اور دینی نقطہ نگاہ سے اور روحانی نقطہ نگاہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ان تغیرات کے رونما ہونے کا وقت آچکا ہے اور آ رہا ہے، جو کہ احمدیت کو ایک لمبے عرصہ تک کے لئے دنیا میں قائم کر دیں گے.اور اس کا غلبہ اس کے دوستوں اور اس کے مخالفوں سے منوالیں گے.مگر ان تمام تغیرات کے لئے انسان کی قربانیاں اور انسان کی جدو جہد نہایت ضروری ہوتی ہے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت نے قربانی کا ابھی وہ نمونہ پیش نہیں کیا ، جس نمونہ کے پیش کرنے کے بعد قوم اپنی انتہائی جدوجہد کا مظاہرہ کر دیتی ہے.پچھلے دو تین سیال سے تحریک جدید کے وعدوں میں ستی ہو رہی ہے اور اس کے ایفاء میں تو نہایت ہی خطرناک غفلت برتی جارہی ہے.یہ غفلت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب ہم مجبور ہیں کہ یا تو اپنے نصف کے قریب مشن باہر کے بند کر دیں اور یا پھر نصف کے قریب جماعت کے افراد کو اپنی جماعت میں سے نکال دیں.کیونکہ وہ وعدہ پورا نہیں کر رہے.ان دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کئے بغیر ہمارا گزارا نہیں چل سکتا.مثلاً اسی سولہویں سال کے وعدے قریباً دولاکھ ، اسی ہزار کے تھے.اعلان دسمبر کے قریب ہوتا ہے.دسمبر سے اگست تک نو مہینے ہوئے اور اب ستمبر کا مہینہ بھی نصف گزر چکا ہے.گویا بارہ میں سے ساڑے نو مہینے گزر چکے ہیں اور سال کے پورا ہونے میں صرف اڑھائی مہینے باقی رہ گئے ہیں.لیکن جماعت کی غفلت کی یہ حالت ہے کہ دو لاکھ ، اسی ہزار کے وعدوں میں سے صرف ایک لاکھ، میں ہزار وصول ہوا ہے.گویا ساڑھے نو مہینہ میں چالیس فی صدی رقم وصول ہوئی ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک سال کا چندہ اڑھائی سال میں جا کر وصول ہو.ادھر یہ حالت ہے کہ بیرونی جماعتیں اور بیرونی ممالک اصرار کے ساتھ نئے مبلغ مانگ رہے ہیں اور لوگوں میں سلسلہ کی طرف اس قسم کی توجہ پیدا ہو رہی ہے کہ معلوم ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ جلد ہی اس آواز کو جو حضرت 167
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 ستمبر 1950ء سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ بلند ہوئی ہے، پوری قوت کے ساتھ دوسرے ممالک میں پھیلانے والا ہے.سال بھر سے امریکہ سے مطالبہ ہے کہ امریکہ، جو ہندوستان سے رقبہ میں بہت بڑا ہے، اس میں اور مبلغ بھجوائے جائیں.اس کے صرف جنوب مشرق میں کچھ مشن ہیں.لیکن شمال مغرب، وسط امریکہ، جنوب مغرب اور شمال مشرق کے علاقے بالکل خالی ہیں.اور وہاں کے لوگوں میں، جن کے پاس ہمارا لٹر پچر پہنچتا ہے، یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ جماعت کے مشن ہمارے ملکوں میں بھی کھولے جائیں.لیکن جبکہ ہم ان مبلغوں کو بھی خرچ نہ بھجواسکیں ، جو اس وقت باہر کام کر رہے ہیں تو یہ ظاہر بات ہے کہ ہم نئے مشن نہیں کھول سکتے.بلکہ چالیس فیصدی چندہ کی وصولی کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں اپنے ساٹھ فیصدی مشن بند کر دینے چاہئیں.یعنی بجائے اس کے کہ امریکہ میں ہم پانچ سات اور مشن کھول دیں ، جیسا کہ ان کا اصرار ہے کہ مرکز کو چھ ، سات نئے مشن اس ملک میں فوری طور پر کھول دینے چاہئیں.ہمیں چاہئے کہ امریکہ کے چار مشنوں میں سے کم سے کم دو بند کر دیں.یورپین ممالک میں اس وقت ہمارے سات مشن کام کر رہے ہیں.یعنی ہالینڈ میں ایک انگلینڈ میں دو، جرمنی میں ایک، سوئٹزر لینڈ میں ایک فرانس میں ایک پین میں ایک.اب بجائے اس کے کہ یہ وسیع ممالک، جو چالیس چالیس، پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ بلکہ اسی اسی ہزار مربع میل کے علاقہ میں پھیلے ہوئے ہیں، ان میں ہم آہستہ آہستہ ایک ایک کی بجائے دو دو یا تین تین مشن کھول دیں، ہمیں چاہئے کہ سارے یورپ کے سات مشنوں میں سے چار کو بند کر دیں.ہمارے ایسٹ اور ویسٹ افریقہ میں اس وقت ساٹھ ستر مشن ہیں.لیکن چندہ کی موجودہ حالت ایسی ہے کہ بجائے اس کے کہ ان ممالک میں ہم اپنے کام کی رفتار کو تیز کریں، جیسا کہ ایسٹ اور ویسٹ افریقہ کے قدیمی باشندوں میں احمدیت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ مقبول ہورہی ہے.اور بجائے اس کے کہ ہم اپنے ساتھ بستر مشنوں کو ڈیڑھ سو بنا دیں ہمیں چاہئے کہ ان میں سے چالیس، پنتالیس مشن بند کر دیں.پھر اس وقت ہمارے دو بیر ونجات کے مبلغ اپنی زندگی وقف کر کے آئے ہوئے ہیں اور سات ، آٹھ امریکن دوستوں کی ان کے علاوہ درخواستیں آئی ہوئی ہیں کہ ہمارے آدمی بھی دینی تعلیم کے حصول کے لئے وہاں آنا چاہتے ہیں.اب بجائے اس کے کہ اس تعداد کو بڑھا کر ہم آٹھ ، دس ملکوں کے نمائندوں کو بلائیں، ہمیں چاہیے کہ آئندہ یہ سلسلہ بالکل بند کر دیں.گویاوہی ایک چیز جس کے متعلق دشمن بھی اقرار کرتا ہے کہ اس میں وہ جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اسی کو ہم ہاتھ سے ضائع کر دیں.جہاں ہماری دین داری کا سوال آتا ہے، دشمن اعتراض کرتا ہے اور کہتا ہے تم کہتے ہو، احمدی نیک ہوتے ہیں.میرے ہمسایہ میں تو فلاں احمدی رہتا ہے، جو جھوٹ بولتا 168
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 ستمبر 1950ء ہے، فلاں احمدی رشوت لیتا ہے یا فلاں احمدی ظلم کرتا ہے.اسی طرح وہ ہزاروں قسم کے اعتراض کرنے لگ جاتا ہے.ہماری جماعت کی ملکی خدمات پر بھی اس کو بہت کچھ اعتراض ہوتے ہیں.چاہے ہماری خدمات کتنی ہی بے غرضانہ ہوں، دشمن ہم پر اعتراض کرنے سے نہیں رکتا.مثلاً وہ یہی کہہ دے گا کہ یہ لوگ پاکستان کے مخالف اور غدار ہیں.مگر جس چیز پر آکر ایک شدید ترین دشمن بھی چپ کر جاتا ہے، وہ بیرونی ممالک کی تبلیغ ہے.اس مقام پر شدید ترین عنادر رکھنے والوں کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جماعت احمد یہ بہت بڑا کام کر رہی ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے ، فوجیوں کی ایک دعوت چائے کے موقع پر گفتگو شروع ہوئی تو ایک شخص نے نامناسب اعتراض کرنے شروع کر دیئے.مگر بات کرتے ہوئے ، جب بیرونی ممالک کی تبلیغ کا ذکر آیا تو وہ کہنے لگا کہ اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ تبلیغ آپ لوگ ہی کر رہے ہیں.گویا ایک ہی چیز ، جو جماعت کی عزت اور اس کے وقار کو قائم رکھے ہوئے ہیں، آپ لوگوں کی ستی اور غفلت کی وجہ سے یا تو اسے بند کرنا پڑے گا اور یا پھر فیصلہ کرنا پڑے گا کہ جماعت کے اہم کاموں میں بھی جو لوگ دلچسپی نہیں رکھتے ، ان کو الگ کر دیا جائے.کیونکہ ایک طرف یہ دعویٰ کرنا کہ جماعت بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف یہ کہنا کہ ہم اپنے کچھ مشنوں کو بند کر رہے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم بے ایمان ہورہے ہیں.لیکن اگر ہم دشمن کو کہیں کہ ہم نے اپنی آدھی جماعت نکال دی ہے تو وہ مشنوں کے کم ہونے پر اعتراض نہیں کر سکتا.کیونکہ وہ کہے گا کہ جب آپ کی جماعت کم ہو گئی ہے تو مشن بھی لازماً کم ہونے تھے.لیکن ایک طرف یہ کہنا کہ جماعت بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف یہ کہنا کہ کام گھٹ رہا ہے، اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا.پس میں جماعت کو ایک دفعہ پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھے.مجھے معلوم نہیں کہ جماعت کراچی کس حد تک تحریک جدید کے وعدوں کو پورا کر رہی ہے؟ جہاں تک نئے نو جوانوں کا تعلق ہے، میں دیکھتا ہوں کہ ان کی حالت بہت زیادہ افسوسناک ہے.چھٹے سال کے وعدے ایک لاکھ بیس ہزار کے تھے مگر اس میں سے صرف 43 فی صدی وصولی ہوئی ہے.حالانکہ نو جوانوں میں اخلاص اور قربانی کی روح پہلوں سے زیادہ ہونی چاہئے.کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، جب تک اس کے نوجوان پہلوں سے زیادہ قربانی کرنے والے نہ ہوں.پس ایک طرف تو میں آپ لوگوں کو ، جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں اور اتفاق کی بات ہے کہ مجھے پہلے یہیں اس بات کے کہنے کا موقع ملا، توجہ دلاتا ہوں کہ اگر تحریک جدید کے وعدوں کے بارہ میں آپ کے اندر غفلت پائی جاتی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں.ورنہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان دو کے علاوہ تیسر اعلاج کوئی نہیں.مجھے کیمیا گری نہیں آتی کہ 169
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 ستمبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم پ چندے نہ دیں اور میں کیمیا گری سے اس کمی کو پورا کر لیا کروں.روپیہ، بہر حال جیسے آدم سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ تک اللہ تعالیٰ کی سنت چلی آئی ہے، جماعت کو ہی مہیا کرنا پڑے گا اور جماعت کے دوستوں کو ہی یہ بوجھ برداشت کرنا پڑے گا.نہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیمیا گری کر کے روپیہ بنایا ، نہ حضرت عیسی نے ایسا کیا، نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایسا کیا اور نہ کسی اور نبی نے ایسا کیا.میں بھی ان کی سنت اور طریق پر کیمیا گری سے یہ روپیہ پیدا نہیں کر سکتا.بہر حال جماعت کو ہی یہ چندہ دینا پڑے گا اور ان کے ایمان کی آزمائش کے بعد ہی یہ کام چل سکے گا.اگر جماعت کے ایک حصہ کو، جو وعدہ تو کرتا ہے مگر اس کے ایفاء کی طرف توجہ نہیں کرتا ، ہمیں الگ کرنا پڑے تو ہم اس کے نکالنے میں ذرا بھر بھی پرواہ نہیں کریں گے.بلکہ میرے نزدیک تو آدھی یا 3/4 جماعت بھی اگر الگ کر دی جائے تو ہمیں اس کے الگ کرنے میں کوئی گھبراہٹ نہیں ہو سکتی.میں نے ایک وسیع تجربہ کہ بعد اور کلام الہی کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد اس حقیقت کو پالیا ہے کہ خدائی سلسلوں میں افراد کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ،صرف اخلاص کی قیمت ہوتی ہے.اگر جماعت کا کچھ حصہ کٹ جائے یا کاٹنا پڑے تو اس سے جماعت کو ہر گز کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا بلکہ پھر بھی وہ آگے ہی اپنا قدم بڑھائے گی.مگر یہ بھی ایک وسیع مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آدمیوں سے ہی کام لیتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر سو میں سے پچاس آدمی رہ جائیں تو خدائی جماعت کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ کامیابی اور فتح کے لئے یہ ضروری ہے کہ پچاس کو سو بنایا جائے ،سو کو ہزار بنایا جائے ، ہزار کو لاکھ بنایا جائے اور لاکھ کو کروڑ بنایا جائے.آدمیوں پر خدائی سلسلوں کا انحصار نہیں ہوتا مگر فتح کے لئے آدمیوں کی اکثریت ضروری ہوتی ہے.اور اکثریت پیدا کرنے سے غافل رہنا، نادانی اور جہالت کا کام ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کہا کہ مجھے آدمیوں کی ضرورت نہیں.اگر میں کہتا ہو کہ مجھے آدمیوں کی ضرورت نہیں تو اس کے یہ معنی نہیں کہ ہمیں آدمی بڑھانے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے صرف اتنے معنی ہیں کہ جماعت کا قیام اور اس کی ترقی آدمیوں پر مخصر نہیں.اگر کسی وقت کمزور عصر کو الگ کر دیا جاتا ہے تو جماعت کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.ورنہ کوشش ہم بھی یہی کرتے ہیں کہ ہم سو سے ہزار بہنیں اور ہزار سے دس ہزار نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ اکثریت بنا کر اپنے سلسلہ کو غلبہ دیا کرتا ہے.یہ صرف جبری طاقتوں کا طریق ہوتا ہے کہ وہ اقلیت میں ہوتے ہوئے ، اکثریت پر حکومت کرنے لگ جاتی ہیں.جیسے بالشوازم ہے یا یسی ازم ہے یا فائسزم ہے، ان کو جب اتنی طاقت 170
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 15 ستمبر 1950ء حاصل ہوگئی کہ زیادہ لوگوں کو دبا سکیں تو انہوں نے دبالیا.لیکن اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.وہ اسی وقت اجازت دیتا ہے، جب مومنوں کی اکثریت ہو.اقلیت کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ زبر دستی حکومت پر قبضہ کر لے.اس قسم کا خیال قطعاً غیر اسلامی ہے.جس کی اسلام تائید نہیں کرتا.اب یہ جو تعداد بڑھانے کا سوال ہے، یہ تبلیغ سے تعلق رکھتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہمارے بیرونی مشنوں کی یہ حالت ہے کہ ہم انہیں با قاعدہ خرچ بھی نہیں دے سکتے.ابھی دو، تین تاریں مجھے ربوہ سے آچکی ہیں کہ وہ ریز روفنڈ ، جو قرآن کریم کی اشاعت کے لیے قائم ہے، اس میں سے خرچ کرنے کی اجازت دی جائے.میں نے انہیں جواب دے دیا ہے کہ مشن بے شک بند کر دیں، کیونکہ اس کی جماعت پر ذمہ داری ہے، مگر میں یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ ریز روفنڈ ، جو قرآن کریم کے لئے محفوظ ہے، اسے خرچ کر دیا جائے.باقی اس ملک کی تبلیغ ہے.دینی نقطۂ نگاہ سے تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نئے لوگ داخل ہوں گے تو ہماری مدد کریں گے.لیکن دنیوی نقطۂ نگاہ سے انسان خیال کر سکتا ہے کہ جماعت بڑھے گی " تو بوجھ اٹھانے والے بھی پیدا ہو جائیں گے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ تبلیغ کی طرف بھی بہت کم توجہ ہے“.باقی تبلیغ کے متعلق میں نے گذشتہ دنوں خدام الاحمدیہ کو کچھ مشورہ دیا تھا.جماعت کے دوستوں کو بھی میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ بغیر تبلیغ کے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.ہم کوئی پولیٹیکل جماعت نہیں کہ موقع پاکر اکثریت پر غالب آجائیں اور اپنا افتد ارلوگوں پر قائم کر لیں.یہ طریق ہمارے غلبہ کا نہیں.ہمارا غلبہ صرف دلوں پر ہو سکتا ہے.یہ نہیں ہوسکتا کہ سرکاری اداروں پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لیں.یہ شیطانی طریق ہے.خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں کا طریق نہیں.اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو کیا وہ ڈنڈے کے زور سے لوگوں کو ٹھیک نہیں کر سکتا تھا؟ وہ ایک دن میں اپنے فرشتے بھیج کر ابو جہل کی گردن مروڑ سکتا تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے ابو جہل کی گردن مروڑنے کے لئے نہیں بھیجے بلکہ اس کے بیٹے عکرمہ کا دل مروڑنے کے لئے بھیجے اور وہ مسلمان ہو گیا.پس اسلامی طریق یہی ہے کہ دلوں پر غلبہ حاصل کیا جائے اور اس کے لئے تبلیغ ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے.آپ لوگوں کو چاہئے کہ تبلیغ کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر کے احمدیت کے حلقہ کو وسیع کرنے کی کوشش کریں.مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں کے بعض دوست واقع میں تبلیغ کرتے ہیں.اور ان کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی جدو جہد کے نتیجہ میں ایک جماعت احمدیت کے قریب آرہی ہے.مگر ایک لمبے عرصہ تک ان کے قریب آنے کے دھوکہ میں مبتلا رہنا بھی غلطی ہوتی ہے.کچھ عرصہ کی تبلیغ کے بعد ان کو صاف طور 171
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 ستمبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم پر کہہ دینا چاہیے کہ اگر آپ لوگ احمدیت کو سمجھ چکے ہیں تو اب آپ کو اس میں داخل ہو جانا چاہئے.ورنہ ہمارے نزدیک آپ خود بھی دھوکہ میں مبتلا ہیں اور ہمیں بھی دھوکا میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں.ہمارے بعض دوست اتنے بھولے بھالے ہوتے ہیں کہ وہ سالہا سال اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ لوگ ان کی تبلیغ سے احمدیت کے قریب آرہے ہیں.حالانکہ قریب آنے والے کو کبھی تو منزل پر پہنچنا چاہئے.اگر وہ نہیں پہنچتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جسے قریب سمجھا جاتا تھا، وہ محض نظر کا دھوکا تھا.پس قریب آنے والا تم اس کو مجھو، جو واقعہ میں قریب آجائے اور احمدیت کو قبول کرلے.اگر وہ احمدیت کو تو قبول نہیں کرتا مگر کہتا یہ ہے کہ میں احمدیت کے قریب ہوں تو وہ خود بھی دھو کہ میں مبتلا ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی دھوکا میں مبتلا کرتا ہے.مجھے یاد ہے، میں ایک دفعہ شملہ گیا تو ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے مجھے کہا کہ " حقيقة الوحی“ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض شرائط کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ جن لوگوں میں یہ شرائط پائی جائیں گی، ہم انہیں مسلمان سمجھیں گے.کیا آپ ان شرائط کو اب بھی درست سمجھتے ہیں؟ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ لکھا ہے، ہم اسے بالکل درست سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شرط یہ قرار دی ہے کہ ایسا شخص آپ کو اپنے تمام دعاوی میں سچا سمجھتا ہو.دوسری شرط آپ نے یہ لکھی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تازہ وحی پر ایمان رکھتا ہو.تیسری شرط آپ کو نے یہ رکھی ہے کہ اس کے اندر منافقت کا ایک شائبہ تک نہ پایا جاتا ہو.اگر یہ تینوں شرطیں کسی شخص میں پانی جائیں تو ہم یقیناً سمجھیں گے کہ وہ مسلمان ہے.میں نے اس سے کہا کہ بتاؤ کہ کیا کوئی غیر احمدی ہے، جو ان شرائط کا پابند ہو ؟ وہ کہنے لگا، میرا ایک غیر احمدی دوست ہے، اس میں یہ سب باتیں پائی جاتی ہیں.میں نے کہا اس سے جا کر پوچھو کہ کیا تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تمام دعاوی میں سچا سمجھتے ہو؟ اگر وہ کہے ہاں تو پھر اس سے کہنا کہ کیا تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تازہ وحی پر ایمان رکھتے ہو؟ اگر وہ کہے ایمان رکھتا ہوں تو پھر تیسر اسوال اس سے یہ کرنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو تازہ وجی ہوئی ہے، اس میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا اور میری بیعت میں شامل نہیں ہوتا ، وہ کاٹا جائے گا.بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ.اگر تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تازہ وحی پر ایمان رکھتے ہو تو بیعت میں کیوں شامل نہیں ہوتے؟ اس کے بعد لازماً یا تو وہ احمد کی ہو جائے گا اور یا پھر ماننا پڑے گا کہ اس میں منافقت پائی جاتی ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب انہوں نے اس رنگ میں اس غیر احمدی کے سامنے بات پیش کی تو وہ کہنے لگا تم نے مجھے بیعت کے لئے پہلے بھی کہا ہی نہیں.لو، میں آج ہی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.172
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1950ء تو حقیقت یہ ہے کہ ایک عرصہ کی تبلیغ کے بعد بھی جو شخص بیعت نہیں کرتا، اس کے متعلق یہ سمجھنا کہ وہ احمدیت کے قریب آچکا ہے غلطی ہوتی ہے.ایک حد تک تبلیغ کرنے کے بعد اصرار کرنا چاہئے کہ اب آپ فیصلہ کریں اور ہمیں بتائیں کہ آپ احمدیت میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں ؟ اگر احمدیت کی آپ کو سمجھ آ چکی ہے تو بیعت کر کے جماعت کے بوجھوں کو اٹھائیے.ورنہ اس دھو کہ میں نہ خود رہیے ، نہ دوسروں کو رکھئے کہ آپ صداقت کو مان رہے ہیں.اگر اس طرح اصرار کر کے سمجھایا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ صداقت کو نہ مانا جائے تو دل سیاہ ہو جاتا ہے تو ہزاروں ہزار لوگ اب بھی غیر احمدیوں میں ایسے ہیں ، جو مان لیں گے.لیکن ہزاروں ہزار ایسے بھی نکلیں گے، جو کہیں گے کہ ہم تو محض باتیں کر رہے تھے.ایسے لوگوں کے متعلق ماننا پڑے گا کہ وہ صرف منافق ہیں، جو منہ کی باتوں سے دوسروں کو خوش کرنا چاہتے ہیں.باقی بڑی چیز نیک نمونہ ہوتی ہے.تبلیغ بغیر نیک نمونہ کے نہیں ہو سکتی.اگر ہم باتیں تو بڑی اچھی کرتے ہیں لیکن ہمارا عمل اسلام کے مطابق نہیں تو ہمارے منہ کی باتیں لوگوں پر کوئی اثر پیدا نہیں کر سکتیں.پس ہماری جماعت کے تمام افراد کو ہمیشہ اپنے اعمال پر کڑی نگاہ رکھنی چاہئے اور اپنے برے نمونہ سے دوسروں کے ٹھوکر کا موجب نہیں بننا چاہیے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے اکثر ملازم پیشہ لوگوں کے متعلق جھوٹ یا سچ یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ وہ جنبہ داری کرتے ہیں اور اپنی پارٹی کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے.میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ باتیں کس حد تک درست ہیں؟ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قسم کی باتیں لوگوں میں اکثر ہوتی رہتی ہیں.پس ہماری جماعت کے جو افراد، جس جس کام پر بھی مقرر ہیں، ان کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ان کا نمونہ احمدیت کے بڑھنے یا نہ بڑھنے میں بہت کچھ دخل رکھتا ہے.اور ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے فرائض کو دیانتداری کے ساتھ ادا کریں.دنیا میں دو قسم کے مومن ہوتے ہیں.ایک اجڈ مومن ہوتا ہے ، وہ کہتا ہے، میں نے عقل سے کام نہیں لینا ، صرف قانون سے کام لینا ہے، چاہے کسی کو فائدہ پہنچے یا نقصان.ایسے شخص کو خواہ ہم اجد کہیں، وحشی کہیں، کم عقل کہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس میں ایمان ضرور ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں ایک عقلمند مومن ہوتا ہے، اسے جہاں قانون اجازت دیتا ہے، وہاں وہ دوسروں کو فائدہ پہنچا دیتا ہے اور اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ اس پر اعتراض کریں گے.وہ جس شخص کو بھی مظلوم دیکھتا ہے یا جس کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور قانون اس کے راستہ میں حائل نہیں ہوتا، اسے فائدہ پہنچا دیتا ہے.اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ، دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے افسروں کے سامنے علی الاعلان 173
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم تسلیم کر سکے کہ ہاں، میں نے فلاں کو فائدہ پہنچایا ہے.جو ایسا کہہ سکے، اس کے لئے دوسروں کو فائدہ پہنچانا جائز ہے.لیکن اگر وہ چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کام میں نے نہیں کیا ، فلاں افسر نے کیا ہے یا میرے فلاں ساتھی نے کیا ہے یا اس میں یہ غلط فہمی ہو گئی ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے، ناجائز کیا ہے.بہر حال اگر کوئی شخص علی الاعلان کہہ سکے کہ میں نے فلاں شخص کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے تو اس کے لئے دوسرے کی مدد کرنا، جائز ہے.کیونکہ قانون کے بھی بعض حصے ایسے ہوتے ہیں، جن کے ماتحت دوسرے کی جائز مدد کی جاسکتی ہے.زیادہ سے زیادہ لوگ یہی کہیں گے کہ اس نے اپنے فلاں دوست یا واقف کی مدد کی ہے.سو یہ اعتراض کوئی حقیقت نہیں رکھتا.کیونکہ انسان کہہ سکتا ہے کہ جو میر ا واقف تھا، اس کو میں فائدہ پہنچا سکتا تھا.جو واقف ہی نہیں، اس کو فائدہ کیا پہنچایا جاسکتا تھا؟ بہر حال افسروں کو خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ انہیں دیانتداری کے دو مقاموں میں سے ایک مقام ضرور حاصل ہو جائے.ایک مقام تو یہ ہے کہ انسان کہے، میں اجتہاد سے کام نہیں لیتا.مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں اجتہاد سے کام لوں اور بعد میں میری ضمیر مجھے ملامت کرے؟ میں لفظی طور پر قانون کے پیچھے چلوں گا، خواہ کسی کو فائدہ ہو یا نقصان.دوسرا مقام یہ ہے کہ انسان قانون کے اندر رہتے ہوئے عقل اور اجتہاد سے کام لے کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے.مگر اس میں بھی وہ انصاف سے کام لینے والا ہو.یہ نہ ہو کہ بعض کو نقصان پہنچ جائے یا بعض سے وہ اس لئے حسن سلوک کرنے یا ان کی مدد کرنے کے لئے تیار نہ ہو کہ میرا محدود دائرہ محدود دوستوں تک ہی قائم رہے گا کسی اور کو میں اس میں شامل کرنے کے لئے تیار نہیں.باقی اپنے کاموں میں دیانتداری اور محنت اور چستی سے کام لینا، خصوصا نو جوانوں کے لئے ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے.میرا تجربہ یہ ہے کہ جہاں بھی نوجوانوں کو کام پر لگایا جاتا ہے، وہاں ان کی ستیاں اور غفلتیں اتنی نمایاں ہوتی ہیں کہ کام رک جاتا ہے یا کم از کم وہ ترقی نہیں ہوتی ، جو عام حالات میں ہونی چاہئے.گورنمنٹ کے دفتروں میں تو انسان مجبور ہوتا ہے کہ محنت کرے، سلسلہ کے کاموں میں بھی انسان کو محنت اور قربانی اور دیانت اور چستی اور وقت کی پابندی کا نمونہ دکھانا چاہئے.میں نے دیکھا ہے کہ گورنمنٹ کے محکموں میں ہمارے جہاں بھی احمدی دوست کام کر رہے ہیں، وہ نہایت مفید ثابت ہو رہے ہیں.کیونکہ وہ محنت اور عقل سے کام کرتے ہیں اور گورنمنٹ بھی جانتی ہے کہ یہ لوگ ہم پر بوجھ نہیں بلکہ ہمارے لئے کمائی پیدا کرنے والے ہیں.اگر ایک شخص ایک ہزار روپیہ تنخواہ لیتا ہے اور میں ہزار 174
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 ستمبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد گورنمنٹ کو کما کر دیتا ہے تو وہ یقیناً ایک مفید وجود ہوتا ہے اور اس کی ہر جگہ قدر کی جاتی ہے.یہی نمونہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کو اپنے تمام کاموں میں دکھانا چاہئے.اور چستی اور محنت اور دیانتداری کے ساتھ اپنا ہر کام سرانجام دینا چاہئے.میرا ارادہ یہاں صرف دس، بارہ دن ٹھہرنے کا تھا مگر پھر میں نے پانچ دن اور بڑھا دیئے تاکہ دوسرا جمعہ بھی میں یہاں پڑھا سکوں اور آپ لوگوں کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاؤں.یہ زندگی صرف چند روزہ ہے.اس دنیا میں نہ میں نے ہمیشہ رہنا ہے، نہ آپ نے.اگر ہم خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے ایک نیک بنیاد قائم کر دیں گے تو ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جائیں گی لیکن اگر ہم اس نیک بنیاد کو قائم کرنے میں حصہ نہیں لیں گے تو آپ لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ گوروحانی نقطہ نگاہ کے ماتحت ہم کچھ کریں یا نہ کریں، یہ سلسلہ بہر حال ترقی کرتا چلا جائے گا.کیونکہ یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے.لیکن دنیوی نقطہ نگاہ کے ماتحت ہم اور ہماری اولادیں ان انعامات سے محروم ہو جائیں گی ، جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ کی خدمت کرنے والوں کے لئے مقدر ہیں اور جو لازماً ایک دن ملنے والے ہیں.زمین ٹل جائے ، آسمان ٹل جائے ، آخر احمد بیت نے دنیا میں قائم ہونا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی ایک اہل تقدیر ہے.اس کی طرف یہ منسوب کرنا کہ اس نے اپنا ایک مامور بھیجا مگر وہ ہار گیا، ایک پاگل پن کی بات ہے.اگر خدا ہے اور اگر خدا اپنے نبیوں کو بھیجتارہا ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا تھا تو ہم اپنے وجود میں شبہ کر سکتے ہیں، ہم اپنے کان ، ناک، منہ اور زبان میں شبہ کر سکتے ہیں، ہم اپنے بیوی بچوں کے وجود میں شبہ کر سکتے ہیں مگر ہم اس بات میں کوئی شبہ نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ کا مامور اور مرسل جس تعلیم کو لے کر آیا ہے، وہ یقینا اپنے وقت پر کامیاب ہوگی.دشمن اس سے ٹکرائے گا تو پاش پاش ہو جائے گا.جس طرح ایک دریا کی زبر دست لہریں چٹان سے ٹکرا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتی ہیں ، اسی طرح ان کی مخالفت ناکام ثابت ہوگی اور یہ سلسلہ عروج حاصل کرتا چلا جائے گا.ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر سے ہم نے کتنا فائدہ اٹھایا ہے؟ لوگ نہ ہونے والی چیزوں کے متعلق اپنا پور از ور صرف کر دیا کرتے ہیں اور ہم تو وہ کام کر رہے ہیں، جو یقینا ہونے والا ہے اور جس کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے 175
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 ستمبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اگر خدا تعالی کی بات ٹل جائے تو اس کی خدائی ہی باطل ہو جائے.اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کی باتوں میں فرق یہی ہوتا ہے کہ بندہ بعض دفعہ پورے سامانوں کے ساتھ اٹھتا ہے اور نا کام ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جس بات کا فیصلہ کرلے، اس کے پورا ہونے میں کوئی چیز روک نہیں بن سکتی.آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہوگی ، اگر آپ اس کام میں حصہ لے کر آنے والی کامیابی کو قریب کر دیں اور خدا تعالیٰ کی بات کو پورا کر کے اس کا ہتھیار بن جائیں.کیونکہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا ہتھیار بن جاتا ہے، وہ بابرکت ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ میں تجھے بہت برکت دوں گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑے آپ کے جسم سے چھو کر بابرکت ہو گئے تو یہ سمجھ لو کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے ہتھیار بن جاؤ گے تو تم میں کتنی برکت پیدا ہو جائے گی ؟ یقیناً اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جسم کے ساتھ چھو جانے کی ال وجہ سے آپ کے کپڑوں کو برکت حاصل ہوگئی تو وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا ہتھیار بن کر خود اس کے ہاتھ میں آ جائے گا، وہ ان کپڑوں سے بہت زیادہ با برکت ہوگا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو بھی اگر برکت دی تو خدا نے دی اور آپ کے کپڑوں کو بھی اگر برکت دی تو خدا نے دی.پس یقیناً وہ ان برکتوں کا وارث ہوگا ، جو دنیا کی بڑی سے بڑی حکومتوں اور طاقتوں میں بھی نہیں پائی جاتیں.مطبوع روزنامه الفضل 29 ستمبر (1950ء) 176
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 اکتوبر 1950ء اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو، دلوں کو بدلو اور دعاؤں پر زور دو خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اکتوبر 1950ء آج میں اختصار اجماعت کو اس کے اس فرض کی طرف توجہ دلاؤں گا ، جس کی طرف میں نے پچھلے جمعہ میں بھی توجہ دلائی تھی.مرکز میں جمع ہونے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اوروں سے زیادہ اخلاص اور قربانی سے کام لیا جائے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس جگہ کے رہنے والوں میں وہ قربانی نہیں پائی جاتی ، جو مرکز کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.یہاں تو یوں معلوم ہونا چاہیے کہ انسان چل نہیں رہا بلکہ بھاگ رہا ہے.اور جب تک وہ اپنا کام نبھانہ لے ہوئے نہیں.اگر دوست ایسا کرنا شروع کر دیں تو یقینا ہمارے کام پہلے سے بہتر ہو جائیں گے.اس وقت جماعت پر خطر ناک طور پر نازک وقت آیا ہوا ہے اور مالی مشکلات ہیں.ایک طرف چندے وصول نہیں ہور ہے اور دوسری طرف اخراجات بڑھ رہے ہیں.تحریک جدید کو اس سال اتنا نقصان پہنچا ہے کہ مجھے یہ سوال اٹھانا پڑے گا کہ بعض مشن بند کر دیئے جائیں.کیونکہ جماعت اگر مبلغین کو خرچ نہیں دے سکتی تو انہیں کیوں وہاں بھو کا بٹھائے رکھا جائے ؟ انہیں واپس بلا لینا چاہئے تاوہ واپس آکر کمائیں، کھائیں اور چندہ دیں.پہلے کبھی تحریک جدید کی آمد میں اتنی کمی نہیں آئی.دسویں سال تک تو تحریک جدید کے چندے سو فیصدی وصول ہوتے رہے.بعد میں اگر چہ کچھ رقم وصولی سے رہ جاتی تھی مگر دوسری طرف وعدے بھی بڑھ جاتے تھے اور اس طرح دوسری آمدنوں کو ملا کر گزارہ ہوتا رہتا تھا.لیکن اس سال دولاکھ ، اسی ہزار روپے کے وعدوں میں سے ایک لاکھ، 36 ہزار روپیہ کی رقم وصول ہوئی ہے.اس رقم سے یہاں کے مقامی اخراجات بھی نہیں چل سکتے.چہ جائیکہ بیرونی ممالک کے مبلغین کے اخراجات بھیجے جائیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کام کو وسیع کریں.اور اس کا پہلا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو بدلے.اگر لوگ محنت کرنے لگ جائیں اور دعاؤں پر زور دیں تو خدا تعالی مشکلات کو دور کر دے گا.آخر یہ کمی کیوں ہوئی ہے؟ یہ کمی اس لئے ہوتی ہے کہ جماعت کے کچھ حصہ میں بشاشت ایمان نہیں رہی.مالی کمزوری تو صحابہ میں بھی تھی.بلکہ ان میں مالی کمزوری ہم سے زیادہ تھی.لیکن ان کے اندر بشاشت ایمان 177
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27اکتوبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم تھی.جہاں روپیہ سے کام نکلتا تھا، وہ اپنا روپیہ بے دریغ بہا دیتے تھے اور جب روپیہ نہیں ملتا تھا تو وہ اپنی جانیں پیش کر دیتے تھے.انہیں کام سے غرض تھی.وہ روپیہ کی کمی کو جان کی قربانی کے ذریعہ پورا کرتے تھے.جب وہ دیکھتے تھے کہ روپیہ سے کام چلے گا تو وہ اپنی سب جمع پونجی خرچ کر دیتے تھے اور جہاں روپیہ میں کمی ہوتی، وہ اپنی جانیں قربان کرنے میں دریغ نہ کرتے.اگر یہ روح ہماری جماعت میں بھی پیدا ہو جائے تو ہمارے سب کام چل جائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کون سے اخبار تھے ؟ کون سا الفضل تھا ؟ کون سار یویو تھا؟ کون ساسن رائز (Sun Rise) تھا ؟ کون سا مصباح تھا؟ ایک آواز نکلتی تھی اور لوگ کام کر دیتے تھے.اب روزانہ اعلان ہوتے ہیں مگر لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے.اب تو اتنے اعلان ہونے لگ گئے ہیں کہ مجھے بھی یہ بات بری محسوس ہوتی ہے.آخر اتنے اعلانوں کی ضرورت کیا ہے؟ اگر لوگ چندہ نہیں دیتے تو نہ دیں.میں یہ نہیں کہتا کہ اعلان کرنا بالکل بند کر دیا جائے.کسی حد تک اعلان کرنا تو ضروری ہے.ہر سال کے آخر میں میری طرف سے بھی ایک چھوٹا سا اعلان الفضل میں متواتر شائع ہوا کرتا تھا اور میں چاہتا ہوں کہ وہ اعلان اب میں دوبارہ شائع کرانا شروع کروں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ الفضل کا اکثر حصہ اس وقت اشتہاروں میں خرچ ہوتا ہے.یہ روکنا چاہیے.مثلاً آج کے الفضل کا ایک صفحہ تو انچارج بیعت نے ہی لے لیا ہے.اگر یہ اعلان شائع نہ ہوتا تو کیا حرج تھا ؟ لیکن الفضل میں ان کا نام کیسے چھپتا ؟ ہر محکمہ کا افسر یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی کارروائی دکھانے کے لئے اپنا اعلان الفضل میں شائع کرتار ہے.اور پھر صفحہ بھر سے کم بھی نہ لے اور اس طرح اس کا نام لوگوں کے سامنے آتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، آج کے الفضل کا ایک صفحہ انچارج بیعت نے ہی لے لیا ہے.حالانکہ یہ بات پانچ سطروں میں آجاتی تھی.یونہی مختلف خانے بنا بنا کر اعلان کو لمبا کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ فلاں جماعت کی طرف سے اتنی بیعتیں ہوئی ہیں اور فلاں کی طرف سے اتنی بیعتیں ہوئی ہیں.اور پھر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فلاں جماعت کی طرف سے صفر بیعت ہوئی ہے.لوگ دس ہیں کو تو گنتے ہیں، صفر کو نہیں گنتے تم نے کبھی کوئی تاجر ایسا نہیں دیکھا ہوگا، جو یہ لکھتا ہو کہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک دکان پر بیٹھا لیکن کوئی آمد نہ ہوئی.وہ یہی لکھتا ہے کہ مثلاً دو بجے ایک گا ہک آیا اور دور وپیہ کی آمد ہوئی.میں بار ہا سمجھا چکا ہوں کہ ایسا نہ کیا جائے لیکن ہر محکمہ کا آفیسر چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کا نام الفضل میں آجائے.اور الفضل والوں کو بھی خدا ایسے اعلان دے.جب ان کے پاس کوئی اعلان پہنچتا ہو گا ، وہ کہتے ہوں گے ، الحمد للہ آج مضمون نہیں لکھنا 178
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 اکتوبر 1950ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد سوم ے گا.الفضل کے ایڈیٹروں کو یہ موقع دینا چاہیے کہ وہ بھی کوئی مضمون لکھا کریں.اس وقت یہ حالت ہے کہ الفضل کا ایک حصہ غیروں کے پڑھنے کے قابل نہیں ہوتا.کوئی مبلغ ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ چلو، اپنی کچھ روئیداد ہی لکھ دوں.وہ روئید ادلکھ دیتا ہے اور الفضل اسے شائع کر دیتا ہے.حالانکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ بددیانت ہوتا ہے اور دفتر کی طرف سے زیر عتاب ہوتا ہے.لیکن الفضل اس کا نام اچھالتا رہتا ہے.اس میں اصلاح کی ضرورت ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم بالکل اعلان نہ کرو، اعلان کرو لیکن کوشش کرو کہ الفضل کی تھوڑی جگہ لو.مگر سب سے ضروری یہ بات ہے کہ لوگ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں، اپنے دلوں کو بدلیں اور دعاؤں پر زور دیں.یہی لوگ ، جو یہاں بیٹھے ہیں ، اگر راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعاؤں میں لگ جائیں کہ جن لوگوں نے وعدے کیے ہیں اور انہیں ایفا نہیں کیا ، اے خدا! تو انہیں اپنے وعدے ایفا کرنے کی توفیق عطا فرما، ان کے دلوں کو صاف کر ، ان کی مستیاں دور فرما تو کام کرنے والا خدا ہے.وہ خدا ، جس نے جماعت کو ایک سے لاکھوں کر دیا، وہی خدا اب بھی اسے لاکھوں سے کروڑوں کر دے گا اور وہ خدا، جس نے ایک روپیہ سے لاکھوں کر دیا، وہی خدا اب بھی کھوٹے سکوں کو ، جو اخلاص کی کمی کی وجہ سے نہیں دیئے جاتے قیمتی کر دے گا.میں پہلے ربوہ کے رہنے والوں سے کہوں گا کہ وہ دعائیں کریں اور اپنے قلوب کو ان صاف کریں تا ان کی مستیاں دور ہوں.اس وقت ساری دنیا کی زندگی اور موت کا سوال ہے، اس وقت تمہاری اپنی زندگی اور موت کا سوال ہے، اس وقت تمہارے بیوی بچوں کی زندگی اور موت کا سوال ہے، اس وقت جنت اور دوزخ کا سوال ہے.تم اپنے قلوب کو صاف کرو اور دعاؤں میں لگ جاؤ تا تمہاری ستیاں دور ہو جائیں.جو وعدہ تم نے خود کیا ہے، آخر اس کے متعلق تم خدا کے سامنے کیا جواب دو گے؟ تحریک جدید کے کارکنوں کو دوماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں.آخر وہ کام کریں گے کیا ؟ انہیں پہلے ہی تنخواہ کم دی جاتی ہے اور وہ بھی دو ماہ سے روکی ہوئی ہے.مجھے ایک واقف زندگی کے متعلق دفتر کا خط آیا کہ اس کی بیوی بیمار ہے اور ڈاکٹروں کی رائے میں اسے فوراً ہسپتال میں داخل کروانا ضروری ہے.آپ اس کے لئے روپیہ منظور کریں.میں نے کہہ دیا تم نے خود آمد بڑھانے کے لئے کوشش نہیں کی.اس لئے میں کیا کر سکتا ہوں؟ اس کی ذمہ داری تم پر ہے.لیکن در حقیقت اس کی ذمہ داری جماعت پر ہے.اگر کوئی کارکن فاقہ کی وجہ سے مرجاتا ہے تو جماعت کا ہر فرد اس کا ذمہ دار ہے.کیونکہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ میں اتنا چندہ دوں گا لیکن سال کے گیارہ مہینے گزر گئے اور اس نے چندہ ادا نہیں کیا.179
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 127اکتوبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم یہ چیز کسی نہ کسی روحانی بیماری پر دلالت کرتی ہے.تمہیں چھینک آتی ہے تو تم کہتے ہو، میں بیمار ہوں تمہیں ڈکار آتا ہے تو تم کہتے ہو، میں بیمار ہوں تمہیں پسینہ زیادہ آتا ہے تو تم کہتے ہو، میں بیمار ہوں.پسینہ کم آتا ہے تو تم کہتے ہو، میں بہار ہوں تمہیں قے آنے لگتی ہے تو تم کہتے ہو، میں بیمار ہوں.تمہارے ناک سے پانی بہہ رہا ہوتا ہے تو تم کہتے ہو، میں بیمار ہوں.تمہارا جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو تم کہتے ہو، میں بیمار ہوں.تمہارا جسم زیادہ گرم ہو جاتا ہے تو تم کہتے ہو، میں بیمار ہوں.تمہارا پا خانہ بند ہو جاتا ہے تو تم سمجھتے ہو، مجھے کوئی بیماری لگ گئی ہے.تمہیں پاخانہ زیادہ آتا ہے تو تم سمجھتے ہو، مجھے کوئی بیماری لگ گئی ہے.لیکن جماعت کا چندہ نصف ہو گیا، اس کے مشن بند ہونے کو ہیں لٹریچر کی اشاعت اور مبلغین کے سفر کے لئے روپیہ نہیں، مقامی دفتر بند ہورہے ہیں اور تم سمجھتے ہو، الحمد للہ کوئی بیماری نہیں.یقینا کوئی ایسی بیماری ہے، جو جماعت کو اندر ہی اندر اس طرح کھا رہی ہے، جس طرح کسی درخت کی جڑ کو کیڑا کھا جاتا ہے.کیونکہ تم ایسی حرکت کر رہے ہو، جو کوئی عقل سلیم رکھنے والا نہیں کر سکتا.تمہارے سپر د ایک ہی کام ہے، جو تم نہیں کر رہے.اس کا علاج اب یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے پاس جاؤ اور اس سے اپنے قلوب کی صفائی کے لئے دعا کرو تا تمہاری بستیاں دور ہو جائیں اور تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگ جاؤ.شیطان بھی اللہ تعالیٰ کا کتا ہے، جو تمہیں ہر نیک کام سے روکتا ہے.جو نہی تم اللہ تعالیٰ کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہو، وہ تمہارا دل خراب کرتا ہے، تمہارے اندر وساوس پیدا کرتا ہے، تمہارے اندر بے ایمانی کے خیالات پیدا کرتا ہے اور قربانی نہ کرنے کے جذبات کو ابھارتا ہے.اگر تم اسے پرے نہیں ہٹا سکتے تو تم خدا تعالیٰ کو پکارو اور اس سے کہو کہ وہ اسے پرے ہٹالے.پس یہی ایک علاج ہے، جس سے تم اللہ تعالیٰ کے گھر میں داخل ہو سکتے ہو.تم پہلے دعائیں کرو.پھر باہر کی جماعتوں کے لوگ دعائیں کریں.اگر دعا کرنے والوں سے کوئی کمزوری سرزد ہوئی ہے تو وہ دعا اسے دور کر دے گی.اور اگر ان کے ہمسایوں سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو دعاؤں کے نتیجہ میں وہ پھر اتنی حماقت نہیں کریں گے ، جو شاید گاندھی جی کی کوہ ہمالیہ والی غلطی سے بھی بڑی ہے.تم اپنی اندر بیداری پیدا کرو اور خدا تعالیٰ سے دعا کرو تا وہ تمہیں مومنوں والا اخلاص اور عمل بخشے اور تمام جماعت کو بھی مومنوں والا اخلاص اور عمل بخشے."" مطبوعه روزنامه افضل 03 نومبر (1950ء) 180
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1950ء جب تک ساری دنیا میں ہمارے مراکز قائم نہ ہوں، ہم جیت نہیں سکتے " خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1950ء......ہماری جماعت کا قیام اسلام کے دوبارہ احیاء اور اس کو دنیا میں شوکت و عظمت کے ساتھ قائم کرنے کے لئے ہوا ہے.گویا احمدیت کی شکل میں کوئی نیا مذ ہب قائم نہیں ہوا ہے، احمدیت نے کوئی نئی شریعت پیش نہیں کی ، احمدیت کوئی نیا مسلک لے کر نہیں آئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا، احمد بیت لفظ بلفظ اس کی نقل ہے اور حرف بحرف اسی کی تصدیق ہے.احمدیت کے آنے کی وجہ اور اللہ تعالیٰ کے ایک مامور کو کھڑا کرنے کی وجہ صرف اور صرف اتنی ہی تھی ، اتنی ہی ہے اور اتنی ہی رہے گی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لائے ہوئے ، اسلام کو، جو مسلمانوں نے بھلا دیا تھا اور آپ کے بتائے ہوئے ، رستہ کو، جو مسلمانوں نے ترک کر دیا تھا اور آپ کی سکھائی ہوئی تعلیم کو، جسے لوگوں نے چھوڑ دیا تھا اور اس کے نتیجہ میں اپنے عمل کی کمزوری اور خدا کی گرفت کی وجہ سے مسلمانوں کا قدم ذلت ، نکبت اور رسوائی کی طرف لوٹ گیا تھا اور یا تو وہ ایک وقت میں دنیا کے ایک بڑے حصہ پر غالب تھے اور یاوہ سارے ممالک میں مغلوب ہو گئے اور ان کی دینی، اخلاقی، سیاسی، تمدنی اور علمی برتری ، دینی ، اخلاقی، سیاسی، تمدنی اور علمی شکست اور کمزوری میں متبدل ہوگئی ہے، خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ اس ذلت کو دور کرے اور پہلے طریق کو دوبارہ دنیا میں رائج کرے اور اسلامی اخلاق کو دوبارہ پیدا کرے اور اپنے دین کو پھر دنیا میں غالب کرے اور کفر اس کے مقابلہ میں شکست کھا کر اپنی مقررہ جگہ پر چلا جائے.یہی احمدیت کے قیام کی غرض تھی ، یہی غرض اب بھی ہے اور یہی غرض قیامت تک رہے گی.دشمن خواہ کتنی غلط باتیں ہماری طرف منسوب کرے ، وہ خواہ کتنے غلط عقیدے ہماری طرف منسوب کرے، وہ خواہ کتنی باتیں اپنے دل سے بنا کر ہمارے عقیدوں میں داخل کرنے کی کوشش کرے، یہ ایک صداقت ہے، جس کا کوئی غیر بھی دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کرے گا تو اس پر واضح ہو جائے گی اور اسے تسلیم کرنا ہوگا کہ احمدیت کا مقصد اور مدعا ابتداء سے لے کر آج تک یہی رہا ہے اور آج سے لے کر قیامت تک یہی رہے گا.اور اگر یہ صحیح ہے کہ یہی منشاء احمدیت کے قیام کا تھا، یہی منشاء احمدیت کے قیام کا ہے اور یہی منشاء احمدیت کے قیام کا رہے گا.اور اگر یہ صحیح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف 181
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم سے دنیا میں بھیجے گئے تھے اور قرآن کریم خدا تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے اور قیامت تک قائم رہنے والی کتاب ہے تو پھر یہ تیسرا نتیجہ بھی ضروری ہے کہ یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ دنیا کی طاقتیں اور قوتیں، خواہ وہ سیاسی ہوں ، تمدنی ہوں علمی ہوں یا کسی قسم کی بھی ہوں منفر دانہ طور پر یا مشترک طور پر الگ الگ وقتوں میں یا ایک ہی وقت میں مختلف سکیموں کے ماتحت یا ایک ہی سکیم کے ماتحت ، اچانک یا کسی سوچی سمجھی ہوئی تدبیر کے مطابق، اگر حملہ کریں گی تو وہ نا کام نامرادر ہیں گی اور احمد بیت ہی غالب آئے گی لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ احمدی اپنے فرائض کو ادا کریں اور وہ اپنے مقصد کو اپنے سامنے ہمیشہ زندہ رکھیں.جہاں تک مقصد کا سوال ہے، احمدیت کا وہی مقصد ہے، جو اسلام کا تھا.اور وہ میں نے بتایا ہے دین الہی کا دنیا پر غالب کرنا.اس مقصد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایجاد نہیں کیا، اس کو صرف دہرایا ہے یا یاد دلایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مقصد کو دنیا کے سامنے نئے سرے سے پیش نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے نئے سرے سے قائم کرنے کے لیے آپ کو کھڑا کیا ہے.پس جہاں تک مقصد کا سوال ہے، ہر بیدار اور دیانتدار غیر احمدی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا.پھر ایک احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ احمدی اور غیر احمدی میں یہی فرق ہے کہ ایک غیر احمدی اس مقصد کو اپنے سامنے نہیں رکھتا ، عام غیر احمدی اس مقصد کو بھول گئے ہیں.لیکن دیانتدار غیر احمدی اسے تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اسے پورا کرنے کے لئے مشتر کا نہ اور متحدانہ جد و جہد کے لئے تیار نہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک ایسی جماعت قائم کی ہے، جو اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے مشتر کا نہ اور متحدانہ جد و جہد کا اقرار کرتی ہے.حقیقتا اگر دیکھا جائے تو یہ ایک فرق ہے، جو غیر احمدی اور احمدی میں پایا جاتا ہے.باقی سب باتیں اس کے تابع ہیں.اگر نئے الہام کی ضرورت پیش آئی، اگر نئی وحی کی ضرورت پیش آئی تو اسی لئے کہ تا اس اقرار کے اندر زور پیدا کیا جائے اس کے اندر پختگی پیدا کی جائے اور جو اس مقصد کو پورا کرنے والے ہیں ، خدا تعالیٰ ان کے ایمانوں کو ایسا مضبوط کر دے کہ وہ سب کچھ اس کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.اگر غور کیا جائے تو مسیحیت، مہدویت، الہام جدید اور وحی الہی ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوئی ، وہ معجزات اور نشانات ، جو آپ نے دکھائے ، وہ سب اس کے تابع ہیں.وہ نشانات اور وحی اس مقصد کو دہرانے کے لئے ہیں.پس احمدیت کوئی نئی چیز پیش کرنے کے لئے نہیں آئی.وہ اس لئے آئی ہے کہ تا زندہ خدا کو لوگوں کے سامنے کھڑا کرے.اور اسے دیکھ کر ان کے اندر عزیمت، ہمت اور ولولہ پیدا ہو جائے اور وہ 182
یک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1950ء قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں کہ جس کے بغیر اسلام اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل نہیں کر سکتا اور اگر حقیقت یہی ہے تو احمدی وہی کہلا سکتا ہے، جو قربانی کے لئے تیار ہو.اور اس کے سامنے ہمیشہ یہ بات رہے کہ اس نے ساری دنیا میں اسلام کی عظمت اور شوکت کو قائم کرنا ہے.اگر یہ مقصد کسی کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے یا اس کی قربانی کمزور پڑ جاتی ہے تو یقیناً جتنی جتنی اس کی قربانی کمزور ہوتی جاتی ہے، اتنا اتنادہ احمدیت سے دور چلا جاتا ہے اور آپ ہی آپ احمدیت سے خارج ہو جاتا ہے.جہاں تک گھروں میں بیٹھ کر نماز پڑھنے اور ذکر الہی کرنے کا سوال ہے، ہزاروں ہزار غیر احمدی بھی ایسا کر رہے ہیں.جو کام وہ نہیں کر رہے اور جس کی حقیقت سے وہ غافل ہیں، وہ یہ ہے کہ قرآن وہ عظمت و شوکت اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کے ذریعہ توپ و تفنگ کے بغیر بھی دنیا کو فتح کیا جاسکتا ہے.اب غیر احمدیوں میں بھی بیداری اور قربانی کی روح پیدا ہورہی ہے.لیکن قربانی کی وہ روح انہیں توپ و تفنگ کی طرف لے جاتی ہے، قرآن کریم کی طرف نہیں لے جاتی.وہ قرآن کریم کو ایسا ہی بے کار سمجھتے ہیں ، جیسا کہ ان سے پہلے ان کا ایک سویا ہوا بھائی سمجھتا تھا.بے شک آجکل کا ایک مسلمان آج سے سو یا پچاس سال قبل مسلمان کی نسبت بیدار ہے لیکن وہ تو پوں اور تلواروں کی طرف بھاگ رہا ہے، وہ حسرت سے ایٹم بم بنانے والوں کی طرف دیکھ رہا ہے.اور اس امید میں ہے کہ وہ اسے بھی صدقہ کے طور پر کچھ ہتھیار بخش دیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ تمہاری توپ قرآن ہے، تمہاری رائفل قرآن ہے، تمہاری بندوق قرآن ہے، تمہارا پستول قرآن ہے، قرآن تمہارا وہ ہتھیار ، جس سے تم نے دنیا کا سر کچلنا ہے.پس تم فتح کے لئے اس امر کے محتاج نہیں ہو کہ انگلستان تمہیں تو ہیں دے تم فتح کے لئے اس امر کے محتاج نہیں کہ امریکہ تم پر مہربان ہو اور ایک دو ایٹم بم دے، دے یا فرانس اور جرمن تمہیں کیمیاوی چیزیں پیدا کر کے دے.بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم قرآن کریم لو اور دنیا کو فتح کرلو.حقیقت یہ ہے کہ وہی فرق ، جو عقائد سے تعلق رکھتا ہے، یہاں بھی چلتا ہے.غیر احمدی دین کے بارہ میں بھی اس امید میں ہیں کہ موسوی سلسلہ کا مسیح اسلام کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو باہر نکالے گا اور سیاسی اور تمدنی طور پر اسلام کے غلبہ کے لئے بھی غیر احمدی مغرب کی تو پوں اور گولہ بارود کی فکر میں ہیں.لیکن احمدیت کہتی ہے، نہ تو مذہبی طور پر اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کے لئے موسوی سلسلہ کے مسیح (علیہ السلام) کی ضرورت ہے اور نہ اسلام کو سیاسی اور تمدنی طور پر دنیا پر غالب کرنے کے لئے یورپ اور امریکہ سے ملے ہوئے گولہ بارود کی ضرورت ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھیجا ہوا ، جرنیل ہی اسلام کو 183
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم روحانیت کے لحاظ سے تمام دنیا پر غالب کرے گا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی لائی ہوئی تلوار ہی اسلام کو سیاسی اور تمدنی طور پر دنیا پر غالب کرنے کے لئے کام کرے گی.احمدیت یہ پیش کرتی ہے کہ سیاسی طور پر جو ہتھیار کام دے گا ، وہ قرآن کریم ہے اور مذہبی طور پر جو شخص اسلام کو دنیا پر غالب کرے گا اور دنیا میں اسے دوبارہ قائم کرے گا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہی ایک شاگرد ہوگا.لیکن بہر صورت یہ بات تو ہے کہ اسلام کی تبلیغ ہو یا اسلام دنیا میں پھیلے اور دوسرے ادیان پر اس کا غلبہ ہو ، ان امور کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے، روپے کی ضرورت ہے، وقت کی ضرورت ہے، کتابوں کی ضرورت ہے ، لٹریچر کی ضرورت ہے، اشتہاروں کی ضرورت ہے، اس کے لئے قربانی کرنی ہو گی.دوسرے مسلمان اپناروپیہ تلواروں ، پستولوں اور گولہ بارود پر خرچ کریں گے مگر احمدی بھی خرچ سے نہیں بچیں گے.وہ قرآن کریم ، رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات کی برتری اور دین کی اشاعت اور سپاہی بھیجنے کی بجائے مبلغ بھیج کر اپنا روپیہ خرچ کریں گے.اسی غرض کے لئے میں نے تحریک جدید کا اعلان کیا تھا اور اسی مقصد کے لئے ہر سال نئے سال کی تحریک کی جاتی ہے.شاید کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لی جائے اور پھر باہر جایا جائے.پاکستان میں ابھی 99 فیصدی یا اس سے بھی زیادہ لوگ احمدیت سے دور ہیں، پھر غیر ممالک میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے لئے یا درکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب بھی وہ دنیا میں کوئی سچائی بھیجتا ہے ، وہ اسی طرح بھیجتا ہے، جس طرح زمیندار چھینٹا دے کر بیج ہوتا ہے.یورپ میں بیج بونے کا طریق یہ ہے کہ پہلے نالیاں بنائی جاتی ہیں، پھر ان نالیوں میں بیج ڈالا جاتا ہے تا اسے ترتیب کے ساتھ اگایا جائے.مگر یہ خدائی طریق نہیں.الہی سنت یہی ہے.بلکہ اس کے قانون قدرت میں یہی بات ہے کہ وہ چھنٹے کے طور پر پیچ ہوتا ہے.پھر وہ پیج اپنی اپنی جگہ پر پھیلتا ہے.اگر ہم یورپ کے طریق پر عمل کریں تو ملک کا سوال نہیں، جب ہم قادیان میں تھے، ہم بٹالہ کی تحصیل میں پہلے تبلیغ کرتے.جب وہ سارے کے سارے لوگ احمدیت میں داخل ہو جاتے تو گورداسپور کے ضلع میں تبلیغ کرتے.جب سارا ضلع احمدی ہو جاتا تو ہوشیار پور اور امرتسر کی طرف رخ کرتے.جب یہ دونوں ضلعے احمدیت میں داخل ہو جاتے تو سیالکوٹ اور جالندھر کی طرف اپنی توجہ کرتے لیکن کوئی عقلمند شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس طرح کامیابی ہوتی.بعض علاقوں میں ابھی تک دو دو، تین تین احمدی ہیں.لیکن بعض علاقوں میں آج سے بیس سال قبل کوئی احمدی نہیں تھا ، اب ہزاروں احمدی ہیں.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون ماننے والا ہے اور کون نہیں؟ اس کے 184
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1950ء لئے اس کا یہ طریق ہے کہ وہ چھنٹے کی طرح بیج بوتا ہے اور اس طرح وہ ہمیں کام کرنے کا حکم دیتا ہے.غرض ایک علاقہ کے ساتھ وابستہ ہونا، الہی سنت کے خلاف ہے.دوسرے جو جماعتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں، یہ سنت ہے کہ لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں.قرآن کریم کہتا ہے.يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمُ مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا كَانُوْا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وَنَ کہ افسوس بنی نوع انسان پر کہ کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ میں نے کوئی رسول ان کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا ہو اور انہوں نے اس سے ٹھٹھا نہ کیا ہو.اگر لوگ دشمنی کرتے ہیں تو ان کی دشمنی کی حد بندی کرنا، ہمارے اختیار میں نہیں ہے.ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ اتنی مخالفت کرو ، آگے نہ کرو.یہ دشمن کا کام ہے کہ وہ اپنی دشمنی کی حد بندی کرے یا نہ کرے.یہ جاہل کا کام ہے کہ وہ لڑائی کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو سمجھتا ہے کہ لڑائی یہاں تک ہوگی، آگے ختم ہو جائے گی.ہمارے ملک میں ایک پاگل ڈپٹی کمشنر آیا تھا.اس کا ایک بہرہ تھا.وہ بہرہ ایک معزز اور غیرت مند خاندان سے تھا.غربت کی وجہ سے اس نے بہرہ کا کام شروع کر دیا تھا.ایک دن ڈپٹی کمشنر کو اس پر غصہ آیا اور اس نے اسے کہا سور.بہرہ نے کہا تو سو ر تمہارا باپ سؤر.ڈپٹی کمشنر کو یہ امید نہ تھی کہ وہ بہرہ ہو کر ایسا کہے گا.وہ پاگل تھا لیکن اس کا دماغ منطقی تھا.اس نے کہا بس بس ، آگے نہیں.میں نے تم کو سور کہا ہے، تمہارے باپ کو سور نہیں کہا.اس لئے تم مجھے گالی دے لولیکن میرے باپ کو کچھ نہ کہو.یہ بے شک ایک مجنون کا فعل تھا لیکن سوال یہ ہے کہ جب لڑائیاں شروع ہو جائیں تو ان کی حد بندی کیوں؟ دشمن کبھی دس تک پہنچے گا، کبھی میں تک پہنچے گا کبھی میں تک پہنچے گا.وہ قوم جاہل ہے، جو دشمنوں سے گھری ہوئی ہو اور پھر لڑائی کو محدود تصور کرے کہ فلاں حد تک دشمنی ہوگی ، آگے ختم ہو جائے گی.دنیا کی مثالوں کو دیکھ لو کہ دشمنیاں کہاں تک گئی ہیں؟ یہ بھی ہوا ہے کہ کسی نے مار پیٹ کر چھوڑ دیا، یہ بھی ہوا کہ کسی نے لوٹ کر چھوڑ دیا، یہ بھی ہوا ہے کہ کسی نے کسی فرد کو قتل کر کے لڑائی ترک کر دی اور یہ بھی ہوا کہ اسے ملک سے نکال دیا.اگر کسی شخص کا یہ مقصد ہے کہ وہ سچائی کے پیچھے ہے اور وہ کہے کہ اچھا ہم مر جائیں گے لیکن اسے چھوڑیں گے نہیں.اور وہ مر جاتا ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے.لیکن اگر اس نے سچائی کا صرف ساتھ نہیں دینا بلکہ دنیامیں قائم کرنا ہے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم مر جائیں گے لیکن سچائی کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے.کیونکہ اگر وہ مر جائیں گے تو ان کا مقصد ختم ہو جائے گا.کیونکہ وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم سچائی کو نہیں چھوڑیں گے.اگر وہ کہتے ہیں ہم سچائی کو نہیں چھوڑیں گے تو ان کا مرنا ہی ان کی جیت ہوگا.لیکن اگر وہ یہ کہتے ہیں 185
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کہ ہم سچائی کو قائم کر کے چھوڑیں گے تو خواہ وہ صداقت کی خاطر مارے جائیں گے، وہ ہاریں گے.کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم سچائی کو قائم کر کے چھوڑیں گے.یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مر جائیں مگر سچائی کو نہیں چھوڑیں گے.پس اگر تم نے یہ کہا ہے کہ ہم نے سچائی کو قائم کرنا ہے تو اگر دشمن تمہیں مار دیتا ہے تو تمہارا مقصد ختم ہو جاتا ہے.ہاں اگر تمہارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سچائی کا دامن نہیں چھوڑ نا اور دشمن تمہیں مار دیتا ہے تو تمہاری جیت ہوتی.لیکن تم نے یہ دعوی کیا ہے کہ ہم نے اسلام کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنا ہے.اب اگر تم بحیثیت جماعت مرجاتے ہو تو تمہاری جیت نہیں ، ہار ہے.اگر ایک آدمی مر جاتا ہے یا دو آدمی مر جاتے ہیں یا دس آدمی مر جاتے ہیں تو پھر تو جیت ہے.لیکن بحیثیت قوم تم مرجاؤ تو یہ تمہاری ہار ہوگی.جن قوموں کا یہ دعوئی ہوتا ہے کہ اگر دوسرے لوگ ہمیں ملک سے نکال بھی دیں ، تب بھی ہم نے سچائی کو قائم کر کے چھوڑنا ہے، ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دوسرے ممالک میں بھی اپنے مراکز بنا ئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قوم نے جب آپ کو نکال دیا تو آپ نے مدینہ میں اپنا مرکز قائم کیا.بعض مسلمانوں کو آپ نے حبشہ کی طرف بھی بھیجا لیکن وہاں کا میابی نہیں ہوئی.مگر مدینہ کی ہجرت کامیاب رہی.حالانکہ ہجرتیں دونوں ہی تھیں.ان میں فرق کیا تھا کہ حبشہ میں کامیابی نہ ہوئی اور مدینہ میں کامیابی ہوئی ؟ ان دونوں میں فرق یہ تھا کہ حبشہ میں ہجرت سے قبل کوئی مسلمان نہیں تھا، ہجرت کر کے وہاں جانے والوں کو خوش آمدید کہنے والا نہیں تھا، کوئی وطنی مسلمان ایسا نہیں تھا، جو ان کے ساتھ مل کر کام کرتا.لیکن مدینہ میں ہجرت سے پہلے مسلمان موجود تھے.پہلے دسیوں تھے، پھر بیسیوں ہوئے، پھر سینکڑوں ہوئے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجرت سے پہلے لوگ بڑی تعداد میں مسلمان ہو چکے تھے.بہر حال ہجرت سے قبل مدینہ میں ایسے ہزاروں مسلمان تھے، جو مدینہ کومرکز بنا کر تمام دنیا کے اندر اسلام کی اشاعت کرنے کے لئے تیار تھے اور یہی مسلمانوں کی کامیابی کا ذریعہ بنا.پس جس جماعت نے تمام دنیا پر غالب آنے کا دعوی کیا ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسرے ممالک میں بھی اپنے مراکز بنائے.تا اگر اسے اپنے ملک سے نکال دیا جائے تو وہاں سے دوسرے ملک میں چلے جائیں.اور جتنے وسیع ملکوں میں وہ جماعت پھیلے گی، اتنے ہی زیادہ امکانات ہوں گے کہ وہ ان میں مرکز بنالیں گے.کیونکہ ایک ہی وقت میں سارے ممالک مخالف نہیں ہو جاتے.کسی کا مقولہ ہے تم کچھ آدمیوں کو ہمیشہ کے لئے دھوکہ دے سکتے ہو لیکن تم ساری دنیا کو ہمیشہ کے لئے دھوکہ نہیں دے سکتے.اس نے ساری دنیا کو کچھ وقت تک دھوکہ دینے کے امکان کو ظاہر کیا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا کو کچھ وقت کے لئے 186
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم بھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.اس لئے اگر احمدیت سارے ممالک میں پھیلی ہوئی ہے تو اگر کسی ایک ملک میں اس کے دشمن بر سراقتدار آجائیں ( ہر نہ مانے والا دشمن نہیں ہوتا.جیسا کہ اس وقت مسلم لیگ کی حکومت ہے، وہ ہمارے مذہب کی نہیں.مگر اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک سیاسی حکومت ہے، مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کسی پر ظلم کرنے کے لئے تیار نہیں.لیکن فرض کرو کہ احرار ملک میں صاحب اقتدار ہو جائیں تو پھر ملکی حکومت ظالموں اور جبابرہ کی حکومت ہوگی اور اس سے انصاف کی تم توقع نہیں کر سکتے ،نہ اور کوئی شخص ان سے انصاف کی توقع کر سکتا ہے، جو ان سے اختلاف رکھتا ہو.) اور اس کا قانون اور حکومت بھی اس کے خلاف ہو جائے تو احمد یوں کو ایسے رستے مل جائیں گے کہ وہ کسی اور ملک میں پھیل جائیں گے.اگر کسی میں عقل اور سمجھ ہو اور اسے توفیق ملی ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی سنت کا مطالعہ کر کے اس کے نبیوں کے ساتھ کیا گزرا ہے؟ تو اسے ماننا پڑے گا کہ جب تک ساری دنیا میں ہمارے مراکز قائم نہ ہو جائیں ، ہم جیت نہیں سکتے.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کون سا ملک ہمیں امان دینے والا ہو گا ؟ پس احمدیت کا جو دعوی ہے کہ اس نے اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرنا ہے، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مختلف ممالک میں تبلیغ کی جائے اور مختلف ممالک میں ہماری جماعتیں قائم ہوں.تا اگر کسی ملک میں احمدیوں کو تبلیغ سے روک دیا جائے اور ان کو وہاں پھیلنے کا آزادی کے ساتھ موقع نہ ملے تو اس مجبوری کی وجہ سے اس ملک کے احمد کی اس ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں چلے جائیں.تحریک جدید کے ذریعہ جو مشن باہر بھیجے جاتے ہیں ، وہ انہی دو حکمتوں کے ماتحت بھیجے جاتے ہیں.ان کی ایک حکمت یہ بھی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ سچائی ایک جگہ نہیں پھیلتی بلکہ وہ مختلف ممالک میں پھیلا کرتی ہے.ہر ملک میں کچھ نہ کچھ آدمی شریف اور عقلمند ہوتے ہیں.ان کے سامنے اگر سچائی پیش کی جائے تو وہ اسے مان لیتے ہیں.اگر سلسلہ کے لوگ ایک ملک میں ہی رہیں تو عظمند تو مان لیں گے لیکن جو لوگ اپنے آپ کو زیادہ عقلمند اور لائق سمجھتے ہیں یا کم عقلمند ہوں گے، وہ اسے ماننے کے لئے با آسانی تیار نہیں ہوں گے.اگر وہ ایک ہی جگہ کے لوگوں پر اتنا خرچ کرتے رہیں گے تو ان کو احمدیت میں داخل کرنے پر بیسیوں سال لگ جائیں گے.لیکن اگر ساری دنیا میں جائیں گے تو سچائی مانے والے لوگ جہاں بھی ہوں گے، انہیں مل جائیں گے.جرمن جو سچائی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں، وہ احمد بیت کومل جائیں گے.افریقن جو سچائی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں، وہ احمدیت کومل جائیں گے.انڈو نیشین جو سچائی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں، وہ احمدیت کومل جائیں گے.امریکن جو سچائی قبول کرنے کے لئے 187
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم تیار ہیں ، وہ احمدیت کومل جائیں گے.اسی طرح باقی ممالک اور جزائر میں جولوگ سچائی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں، وہ احمد بیت کومل جائیں گے.اگر سارے ممالک میں احمدی نہیں جائیں گے تو سچائی کو ماننے والے مر جائیں گے اور ہمارا ٹکراؤان سے ہوگا، جو سچائی کو نہیں مانیں گے.پس دوسرے ممالک میں احمدیت کے مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے، تمام انبیاء کے وقت میں ایسا ہی ہوا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھ لو، آپ فلسطین میں پیدا ہوئے لیکن ان کا مذہبی ٹکراؤ کبھی روما میں ہوا، کبھی مصر میں کبھی ایرانی سرحدوں پر ہوا.ایک جگہ پر عیسائی مارے گئے تو انہوں نے اپنا مرکز دوسری جگہ بنالیا.فلسطین میں اگر وہ تبلیغ نہ کر سکے تو انہوں نے اپنا مرکز اسکندریہ میں بنالیا.پھر وہاں ظلم ہوا تو ٹرکی کے ساتھ ساتھ کے جزائر میں انہوں نے اپنا مرکز بنالیا.وہاں ظلم ہوا تو وہ یونان میں چلے گئے اور وہاں اگر مخالفت ہوئی اور وہ کامیابی کے ساتھ تبلیغ نہ کر سکے تو انہوں نے اپنا مرکز روما میں بنالیا.اسی طرح وہ تبلیغ کرتے گئے ، یہاں تک کہ وہ ساری دنیا پر غالب آگئے.پس اگر ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ ہم نے تمام دنیا پر غالب آتا ہے تو ضروری ہے کہ ہم تمام ممالک میں اپنے مراکز بنائیں تا اگر ایک جگہ پر لوگوں میں جوش پیدا ہو جائے تو ہم دوسری جگہ اپناز ور لگائیں.اور اگر ہم ایک ہی جگہ رہیں گے تو ہم فتنہ کا مقابلہ نہ کر سکیں گے.تحریک جدید کے قیام کی یہی دو و جہیں ہیں.اور ظاہر ہے کہ ان دونوں وجوہ کو نظر انداز کر کے تمہاری ہستی قائم نہیں رہ سکتی.ابھی تو در حقیقت یہ سوال ہی نہیں کہ ہم تبلیغ کے ان میدانوں میں ترقی حاصل کرنے کی کیا صورت کریں؟ ابھی بہت سے میدان ایسے ہیں، جہاں ہمارے مبلغ نہیں پہنچے.ابھی تک ایسے ممالک بھی ہیں، جہاں احمدیت کی ابتدائی تبلیغ بھی نہیں ہوئی.اور یہ ہزاروں ہزار کی تعداد میں ہیں.صرف ہیں، چھپیں ایسے ممالک ہیں، جہاں احمدیت کی تبلیغ ہورہی ہے.اور اگر جزائر کو ملا لیا جائے تو ان میں سے بعض مجموعے ایسے بھی ہیں، جو ہزار ہزار جزیرے پر مشتمل ہیں، اس طرح تین چار ہزار ایسے ممالک نکل آئیں گے، جہاں احمدیت کی تبلیغ نہیں ہوئی.تبلیغ صرف ہیں ، پچیس ممالک میں ہورہی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ احمدی ہو جانے کے بعد لوگ یہ سوچتے نہیں رہتے کہ تبلیغ کا کیا مقام ہے؟ بہت سے لوگ تو تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھتے ہی نہیں.وہ اس لئے چندہ دے دیتے ہیں کہ میری طرف سے چندہ کی تحریک ہوئی ہے.اور وہ سمجھتے ہیں کہ دروازہ پر سوالی آیا ہے، اس کی آواز رائیگاں نہ جائے.حالانکہ یہاں ان کی زندگی کا سوال ہے، ان کے بیوی بچوں کی زندگی کا سوال ہے، ان کے ایمان کا سوال 188
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم ہے، ان کے ایمان کے بچاؤ کا سوال ہے.یہاں یہ سوال نہیں کہ ہم نفلی نیکی کر کے چندہ دیتے ہیں بلکہ اس پر ہماری زندگی کا انحصار ہے.اگر تم غیر ممالک میں اپنے مراکز نہیں بناؤ گے تو جس طرح چوہے کو بل میں بند کر دیا جاتا ہے، تم بعض ممالک میں اس سے بھی بری طرح بند کر دیے جاؤ گے.اسی طرح ایسے نیک طبیعت لوگ ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں مر جائیں گے، جن تک تم نے احمدیت کا پیغام نہیں پہنچایا ہوگا اور اس طرح تم خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم بن جاؤ گے.پس مجھے جماعت کے افراد کی حالت کو دیکھ کر افسوس آتا ہے کہ وہ سستی اور غفلت دکھاتے کیوں ہیں؟ جیسا کہ میں نے پہلے بھی اعلان کیا ہے، سال کے بارہ مہینے گزر گئے ہیں لیکن وعدے نصف سے بھی کم وصول ہوئے ہیں.اب میرے زور دینے کے بعد وصولی کی مقدار کچھ اونچی ہوئی ہے.یہ طوعی چندہ ہے، جس کو تم اپنے اوپر فرض کر لیتے ہو.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا جو تم اقرار کرتے ہو، یہ تم مت سمجھو کہ وہ نفلی ہے ، وہ فرضی ہے اور قیامت کے دن یہ سوال کیا جائے گا کہ تم نے وہ عہد پورا کیوں نہیں کیا؟ پس تمہیں چاہئے تھا کہ تم اپنے عہد کو پورا کرتے.لیکن انتہائی یاد دہانی کے بعد 52-51 فیصدی وعدے وصول ہوئے ہیں.اور 52-51 فیصدی کے معنی یہ ہیں کہ اگلے سال بھی تم وعدہ پورا نہیں کر سکو گے.اگر یہی حال رہا تو کام بڑھے گا کیسے؟ بہر حال اس امر کو سمجھتے ہوئے کہ جماعت پر عارضی طور پر غنودگی کا وقت آیا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ صرف خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے، جس پر غنودگی اور نیند کا وقت نہیں آتا، اپنے فرض کو ادا کرتے ہوئے ، میں تحریک جدید کے سترھویں سال کا اعلان کرتا ہوں.بعض لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں اور ان میں بعض مبلغ بھی شامل ہیں کہ آپ نے پہلے دس سال کے چنیدہ کا اعلان کیا تھا، پھر اسے انیس سال کر دیا.یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تمہارے لئے مدیر کی تھی کہ تم اپنے ایمانوں کو بڑھاؤ.یہ اعتراض ایسا ہی ہے، جیسے کہتے ہیں، کوئی شخص کسی جگہ سے گزر رہا تھا، اس نے دیکھا کہ ایک شخص گرمی کے موسم میں دھوپ میں بیٹھا تھا.اس نے اسے کہا، میاں چھاؤں میں بیٹھ جاؤ.اس نے جواب دیا، اگر میں چھاؤں میں بیٹھ جاؤں تو تم مجھے کیا دو گے؟ یہ تو خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے تدبیر کی ہے اور تم کہتے ہو یہ کیا بات ہے؟ پہلے پہل تو میرے منہ سے ایک مشتبہ فقرہ نکلا تھا.جس سے بعض لوگوں نے ایک سال کی تحریک سمجھا تھا اور بعض لوگوں نے اسے تین سال کی تحریک سمجھا تھا.اگر خدا تعالیٰ جماعت کو چوٹ نہ لگاتا، یہ مشتبہ فقرہ میرے منہ سے نہ نکلتا تو تم میں سے بعض کو 16 سال 189
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم تک جو چندے دینے کی توفیق ملی ہے، وہ نہ ملتی اور تم میں سے بہت سے لوگ پیچھے رہ جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی پہلے پہل یہ اعلان فرمایا تھا کہ جو شخص تین ماہ کے بعد ایک دھیلہ بطور چندہ نہیں دیتا، وہ میری جماعت میں سے نہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے، جنہوں نے وصیت میں اپنی آمد کا کم از کم دسواں حصہ دینے کا اعلان کیا.اگر خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے ایک دھیلہ فی سہ ماہی کی بجائے ماہوار آمد کا1/10 حصہ نکلوا تا تو بہت سے احمدی اس قربانی سے رہ جاتے.ایک دھیلے فی سہ ماہی پر بھی لوگوں کے خطوط آتے تھے کہ اس سے لوگوں کو ٹھوکر لگے گی.پھر اس دھیلے سے آمد کا1/10 ہوا، پھر تحریک ستمبر میں میں فیصدی ہوا، پھر میں فیصدی ہوا، پھر چالیس، پچاس فیصدی تک چندہ گیا.گو یہ تحریک عارضی تھی لیکن اس میں پچاس فیصدی تک چندہ گیا ہے.اور جماعت کا کچھ حصہ ایسا ہے، جس نے پچاس فیصدی کچھ عرصہ تک دیا ہے.لیکن یہی تحریک کسی وقت ایک دھیلہ کے برابر تھی.جو شخص اس زمانہ میں ایک سوروپیہ ماہوار کماتا ، اسے یہ کہا گیا تھا کہ تم ایک دھیلہ فی سہ ماہی دیا کرو.تمہیں رو پید اور ایک دھیلہ میں کتنا فرق ہے؟ تمہیں روپے کے 3840 دھیلے بنتے ہیں.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چار ہزار گنا چندہ بڑھا دیا تھا.پہلے کہا کہ تین ماہ کے بعد ایک دھیلہ دیا کرو.پھر اسی شخص کو کہا کہ تم اپنی ماہوار آمد کا دس فیصدی دو.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے چندہ کو چار ہزار گنازیادہ کر دیا تو تمہارے دل میں وسوسہ نہ پیدا ہوا.میں نے تحریک کی میعاد کو دس سال سے انیس سال کر دیا تو تمہیں اعتراض سوجھنے لگا.میں اگر اس تحریک کو تمہاری ساری عمر کے لئے بھی کر دوں اور عمر ساٹھ ، ستر سال فرض کی جائے تو اس صورت میں میں اسے صرف 4 گنا کروں گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے چار ہزار گنا کر دیا تھا.پھر نمازوں کو دیکھ لو، جب قائم ہوئی تو یہ دو رکعت تھی، پھر 4 رکعت ہوگئی.جس کو تم قصر کہتے ہو ، وہ قصر نہیں ، وہ اصل ہے.صرف عام نماز دگنی ہوگئی ہے.گویا سفر میں آدھی نماز نہیں ساری ہے.حضر میں وہ دگنی ہو گئی ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں.لوگ کہتے ہیں، نماز قصر ہو گئی ، وہ قصر نہیں ہوئی.بات یہ ہے کہ حضر میں نماز دگنی ہوگئی ہے.خدا تعالیٰ نے کہا تھا، یہ زیادتی تمہارے ایمانوں کو قائم رکھنے کے لئے ہے.میں نے بھی تمہارے ایمانوں کو بچانے کے لئے قدم بقدم کام لیا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا نماز کو دورکعت سے چار رکعت کرنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک دھیلہ فی سہ ماہی سے آمد کا دس فی صدی چندہ کر دینا دھوکہ نہیں اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو آئندہ ترقیات کا علم نہیں تھا تو میرا دس سال سے انہیں سال کرنا 190
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم دھو کہ کیسے ہوا؟ اگر یہ دھوکہ ہے تو خدا تعالیٰ کا دورکعت نماز کو چار رکعت کرنا بھی نعوذ باللہ دھوکہ ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک دھیلہ فی سہ ماہی چندہ کو آمد کا 1/10 کرنا بھی نعوذ باللہ دھوکا ہے؟ اور اگر ایسا نہیں تو پھر میر اطریق بھی تمہارے ایمانوں کو قائم رکھنے کے لئے ہے.پھر یہ دھوکا اس وقت بنتا، جب یہ کام مفید نہ ہوتا یا کام دس سال میں پورا ہو جاتا.مگر کیا تم اتنے ہی بے وقوف ہو کہ تم سمجھ رہے ہو کہ دنیا دس سال میں فتح ہو جائے گی یاد نیا انیس سال میں فتح ہو جائے گی ؟ تمہیں تو یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ خدا تعالیٰ تمہیں قدم بقدم ایمان کی طرف لے جارہا ہے.دس اور انیس سال کا یہاں سوال نہیں.کیا تم نے بیعت کرتے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ میں دس سال تک قربانی کروں گا ؟ تمہیں ٹھو کر گئی تھی تو اس بات پر لگنی چاہئے تھی کہ میں نے دس سال یا انہیں سال کیوں کہے ہیں؟ تم پوچھتے ، حضور ! ہم نے قربانی کا وعدہ تو بیعت کرتے وقت موت تک کیا تھا اور آپ دس سال یا انیس سال تک ہمیں لے جا کر چھوڑ رہے ہیں؟ پس دیانتداری کا یہ طریق تھا کہ تم پوچھتے کہ ہمیں 19 سال کے بعد کیوں چھوڑ دیں گے؟ کیا انیس سال بعد نمازیں اور روزے معاف ہو جائیں گے؟ کیا انہیں سال کے بعد تم بیوی بچوں کی پرورش چھوڑ دو گے؟ کیا انیس سال کے بعد تم کھانا کھانا چھوڑ دو گے؟ اگر انیس سال کے بعد تم نمازیں اور روزے چھوڑ نہیں دو گے، اگر انیس سال کے بعد تم بیوی بچوں کی پرورش چھوڑ نہیں دو گے، اگر انیس سال کے بعد تم کھانا کھانا چھوڑ نہیں دو گے تو پھر اسلام کو یہ کہتے ہوئے کیوں چھوڑ دو گے کہ وہ ترقی کرے یا نہ کرے، ہم نے تو انہیں سال چندہ دے دیا ؟ یہ تو پاگلوں والا خیال ہے کہ دس سال سے انیس سال تک تحریک کیوں بڑھا دی گئی ؟ سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ یہ تحر یک انیس سال سے زیادہ کیوں نہیں؟ جب کہ بیعت کرتے وقت ہم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم مرتے دم تک قربانی کرتے رہیں گے.پس سترھویں سال کی تحریک کا اعلان کر کے میں کہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں یہ مثل مشہور ہے کہ جتنا گڑ ڈالو گے، اتنا ہی شربت میٹھا ہو گا.تم جتنی قربانی کرو گے، اتنی ہی جلدی اسلام پھیلے گا.تم اپنی زبان سے کئی بار کہتے ہو کہ ہمیں قادیان کب ملے گا؟ سوال یہ ہے کہ قادیان کو کیا فضیلت ہے؟ کیا قادیان کے لوگ پاخانہ کہ بجائے مشک پھرتے ہیں؟ یا وہاں کے مکانوں کی اینٹیں مٹی کی بجائے ہیرے جواہرات کی بنی ہوئی ہیں؟ قادیان کو اگر کوئی فضیلت حاصل ہے تو وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے اس زمانہ میں اسلام کی اشاعت کا مرکز بنایا ہے.اگر تمہارے اندر اسلام کی اشاعت کا جوش نہیں، اگر تم قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں تو قادیان تمہاری نظروں میں مزبلہ اور اروڑی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.اگر تمہیں 191
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم قادیان کے ساتھ واقعی محبت، انس اور محبت ہے تو تمہیں قربانیاں دینی پڑیں گی.اور قربانی کے بعد قربانی دینی پڑے گی.اگر کوئی قربانی سے گریز کرتا ہے تو چاہے وہ منہ سے نہ کہے، وہ اپنے عمل سے کہتا ہے.فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا فَعِدُونَ جاؤ ، اے محمد ! ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ہم لڑنے کے لئے تیار نہیں تم اور تمہارا رب دونوں لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.دنیا کے ہر ملک میں، دنیا کے ہر گوشے میں ، دنیا کے ہر پردہ پر اور دنیا کی ہر حکومت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم قابل تحقیر بھی جاتی ہے.تم نے اسے نئے طور پر قائم کرنا ہے.تم ایک معمولی مکان پر باوجود معمولی حیثیت ہونے کے ہزاروں روپے لگا دیتے ہو لیکن یہاں تم نے ساری دنیا کی عمارت کو گرا کر اسے نئے سرے سے تعمیر کرنا ہے.پہلے تمہیں اس عمارت کو شمالی کرہ سے لے کر جنوبی کرہ ارض تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک منہدم کرنا ہوگا اور انہدام پر بھی بڑا خرچ ہوگا اور پھر اسے دوبارہ تعمیر کرنا ہوگا اور تعمیر پر بڑا خرچ ہوگا.تم یہ کس طرح امید کر سکتے ہو کہ تم اپنی انتہائی قربانی کے ساتھ انیس سال میں اس عمارت کی بنیاد بھی رکھ سکو گے؟ میں تو سمجھتا ہوں، ابھی پاکستان اور بھارت میں بھی تبلیغ کی بہت ضرورت ہے.اور صدرانجمن احمد یہ اس میں کوتاہی سے کام لے رہی ہے اور وہ نئے مبلغ نہیں رکھ رہی.پچھلے دس سالوں میں اس نے ایک نیا مبلغ بھی نہیں رکھا.ایک دفعہ جب میں نے پوچھا تو پاکستان کے مبلغ انہوں نے بڑے زور کے ساتھ آٹھ ، دس تک بتائے.آٹھ کروڑ کی آبادی میں صرف آٹھ نو مبلغ رکھنے کے کوئی معنی ہی نہیں.بھارت کے مبلغوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو وہ کل چودہ مبلغ بنتے ہیں.یعنی ایک مبلغ تین کروڑ افراد کے لئے رکھا ہوا ہے.اگر اس مبلغ کا ذرہ ذرہ کر کے ایٹم بنایا جائے اور پھر الیکٹران بنائے جائیں تو مبلغ کا ایک ایک الیکڑان ایک ایک آدمی کے حصہ میں بھی نہیں آئے گا.غرض باہر کے لوگ تو الگ رہے، یہاں پاکستان اور ہندوستان میں بھی مبلغوں کی ضرورت ہے اور یہاں بھی لٹریچر پھیلانے کی ضرورت ہے.بہر حال اس تمہید کے ساتھ میں سترھویں سال کے وعدوں کے لئے اعلان کرتا ہوں اور اس کے ساتھ یہ باتیں بھی بیان کر دیتا ہوں کہ وعدہ بھیجنے کا آخری وقت دس فروری ہوگا.مغربی پاکستان کے جو وعدے دس فروری تک آجائیں گے، وہ قبول کر لئے جائیں گے.لیکن بجٹ کے بنانے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ وعدے دسمبر تک پہنچ جائیں.تمام جماعتوں کو چاہئے کہ وہ کوشش کریں کہ جلسہ سے پہلے یا جلسہ کے ایام میں آکر اپنے وعدے دے دیں.الا ماشاء الله.پھر میں مخلصین سے کہوں گا کہ 192
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1950ء چاہے ہم گذشتہ وعدے پر ایک پیسہ یا روپیہ ہی بڑھاؤ ، ضرور بڑھاؤ کم عقلی سمجھتا ہوں کہ کوئی س اپنا وعدہ اتنا بڑھا دے کہ وہ ادا بھی نہ کر سکے.یہ اخلاص نہیں ، نیو ستھینیا کی ایک قسم ہے.لیکن اس لئے کہ تمہارا قدم ہمیشہ آگے رہے، ہم گذشتہ وعدہ پر ایک پیسہ یا روپیہ ہی بڑھا دو تو یہ کوئی بوجھ نہیں.قدم آگے رکھنا مومن کی علامت ہے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وعدے وہی لوگ لکھوا سکتے ہیں، جنہوں نے گذشتہ سال کے وعدے سو فیصدی پورے کر دیئے ہیں.جن لوگوں نے گذشتہ سال کے وعدے پورے نہیں کئے ، ان میں سے وہی لوگ وعدے بھجوا سکتے ہیں، جن کے ذمہ ہیں فیصدی سے زیادہ گذشتہ سالوں کا بقایا نہ ہو.اور جن لوگوں کے ذمے میں فیصدی سے زیادہ رقم بقایا ہو گی ، ان سے وعدے اسی صورت میں لئے جائیں گے جب وہ وعدے کے ساتھ یہ پختہ عہد لکھ کر بھیجیں کہ وہ اپریل 1951 ء تک اپنا سب بقایا سو فیصدی پورا کر دیں گے اور سترھویں سال کا وعدہ 30 نومبر تک پورا کر دیں گے.اور اگر اس تحریر کے ساتھ اپنا وعدہ نہیں بھیجیں گے تو وہ قبول نہیں کئے جائیں گے.بھارت اور مشرقی پاکستان کے وعدے 10 اپریل تک لئے جائیں گے اور ہندوستان و پاکستان سے باہر کے وعدے 10 جون تک وصول کئے جائیں گے.تحریک جدید دفتر دوم سال ہفتم کا بھی میں اس کے ساتھ ہی اعلان کرتا ہوں اور نو جوانوں سے کہتا ہوں، ابھی وعدوں میں بہت کمی ہے.پہلے لوگوں نے وعدوں کو تین لاکھ تک پہنچایا تھا نئی پود کو اس سے بھی اوپر جانا چاہئے.لیکن اس میں بعض وقتیں بیان کی گئی ہیں.ان کو سمجھتے ہوئے میں قواعد میں تبدیلی کر دیتا ہوں.تحریک جدید دفتر دوم میں شامل ہونے کے لئے پہلے یہ شرط تھی کہ حصہ لینے والا پچھلا بقایا بھی ادا کرے.آئندہ کے لئے میں یہ ترمیم کر دیتا ہوں کہ یہ تحریک 19 سال کی ہے.گوجیسا کہ میں نے بتایا ہے، تمہیں اس پر بھی اعتراض ہونا چاہئے کہ صرف اتنے سال کے لئے کیوں ہے؟ بہر حال جس سال بھی کوئی تحریک جدید دفتر دوم میں شامل ہوگا، اس کا وہی پہلا سال شمار ہوگا.مثلاً جو شخص اس سال تحریک جدید میں شامل ہوتا ہے، اسے یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ پہلے سالوں کا بقایا بھی ادا کرے.اس کا یہ سال پہلا سال شمار ہو گا.اس کے بعد اسے 19 سال تک چندہ دینا ہو گا.مگر اس میں نابالغی کے سال شامل نہ ہوں گے، وہ زائد ہوں گے.دوسری تبدیلی میں یہ کرتا ہوں کہ دفتر اول کی طرح دفتر دوم کی بھی یہی شرط ہو گی کہ حصہ لینے والا پانچ دس یا ہیں روپے کی شکل میں چندہ دے یہ کہ حصہ لینے والا اپنی آمد کا نصف، تیسرا یا چوتھا حصہ دے، میں اس شرط کو اڑا تا ہوں.مخلصین آپ ہی آپ زیادہ چندہ دیں گے.دفتر اول میں، میں نے بعض 193
اقتباس از خطبه جمعه فرمود 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم دوست ایسے دیکھے ہیں، جو ایک، ایک ماہ یا دو، دو ماہ کی آمد بطور چندہ دیتے ہیں.ایسے لوگ تو چندہ دیں گے ہی لیکن کمزور لوگ پیچھے رہ جائیں گے.وہ ڈریں گے کہ پچھلے سالوں کے بقائے کس طرح ادا کریں گے؟ قربانی کرنے کی عادت ہمیشہ آہستہ آہستہ پڑتی ہے.پس تحریک جدید میں شامل ہونے کے لئے ابتداء میں پانچ روپے کا وعدہ ہوسکتا ہے.لیکن اس کے ساتھ شرط یہ ہوگی کہ وعدہ لکھوانے والا اپنی ماہوار آمد بھی لکھوائے.اور کوشش کی جائے کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے، جس نے تحریک جدید میں حصہ نہ لیا ہو.تا ساری جماعت فخر کے ساتھ کہہ سکے کہ اسلام کا جھنڈ ابلند کرنے میں اس کا ہر فرد شامل ہے.مگر دفتر اول والی شرائط ان پر بھی چسپاں ہوں گی.یعنی جو لوگ پہلے سے وعدہ کرتے آئے ہیں، ان میں سے جولوگ وعدہ ادا کر چکے ہیں، ان کے وعدے قبول کئے جائیں گے، دوسروں کے نہیں.ہاں اگر کسی کے ذمہ ہیں فی صدی بقایا ہے تو ہم اس پر اعتبار کریں گے اور اس کا آئندہ وعدہ قبول کر لیں گے.لیکن باقی لوگوں کو وعدہ کرتے وقت تحریری طور پر یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ آئندہ اپریل کے آخر تک کل سابقہ بقایا ادا کر دے گا.اور 30 نومبر 51 ء تک نئے سال کا وعدہ بھی ادا کر دے گا.اگر وہ گذشتہ سالوں کے بقائے اور اس سال کے وعدے ادا نہ کریں تو بے شک انہیں اس فوج سے، جو مجاہدین اسلام کی فوج ہے، نکال دیا جائے.میں امید کرتا ہوں کہ نئی شرطوں کے ساتھ ہر احمدی کے لئے تحریک جدید میں حصہ لینا آسان ہو جائے گا.پہلے سال اگر کوئی پانچ روپے چندہ لکھاتا ہے تو دفتر کا فرض ہے کہ وہ اتنا چندہ لکھ لے.اگر خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو مزید تقویت دے گا تو وہ اور چندہ لکھوائے گا.میں جانتا ہوں کہ بعض لوگوں نے دفتر اول میں پہلے سال پانچ، پانچ روپے کے وعدے لکھائے تھے اور اب ان کے وعدے سینکڑوں روپے تک پہنچ گئے ہیں.کیونکہ ان کا اخلاص پہلے کی نسبت بڑھ گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مدینہ لے جانے والے انصار کا آپ سے جو معاہدہ ہوا تھا اور جس میں حضرت عباس بھی شریک تھے، وہ معاہدہ یہ تھا کہ اگر دشمن نے مدینہ پر حملہ کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو انصار اپنی جان و مال قربان کر کے دفاع کریں گے.لیکن اگر مدینہ سے باہر جنگ ہوئی تو انصار پر دفاع کی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی.جب بدر کا موقع آیا اور مسلمانوں کا لشکر باہر گیا تو خیال تھا کہ ان کا مقابلہ یا تو تجارتی قافلہ سے ہوگا اور یا پھر مکہ سے آنے والے لشکر سے ان کی لڑائی ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یا بتایا گیا تھا کہ مقابلہ لشکر سے ہے، مگر ساتھ ہی یہ اشارہ کیا گیا کہ ان لوگوں کو ابھی بتانا نہیں کہ لڑائی مکہ سے آنے والے لشکر سے ہوگی.194
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1950ء جس طرح میرے منہ سے خدا تعالیٰ نے پہلے دس سال نکلوائے ، پھر انہیں ہو گئے ، اسی طرح بدر کے مقام پر پہنچ کر یہ پتہ لگا کہ قافلہ تو نکل چکا ہے، اب مکہ سے آنے والے لشکر سے ہی مسلمانوں کی لڑائی ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کو بلایا اور فرمایا کہ قافلہ نکل چکا ہے، اب لڑائی مکہ سے آنے والے لشکر کے ساتھ ہو گی.آپ لوگ مجھے اس بارہ میں مشورہ دیں.مہاجرین نے مشورے دینے شروع کئے لیکن انصار خاموش رہے.آپ نے پھر فرمایا، اے لوگو! مجھے مشورہ دو.اس پر اور مہاجرین اٹھے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.اس طرح ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہوتا اور وہ کہتا ، یا رسول اللہ ! ہم تو مکہ والوں کی شرارتوں سے تنگ آگئے ہیں.مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو یہاں بھی وہ آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے.ہم قافلہ سے بھی لڑنے کے لئے آئے تھے، اب اگر دوسر الشکر بھی آ گیا ہے تو اس سے بھی ہمیں لڑنا چاہئے.لیکن ہر ایک کا جواب سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہی فرماتے ، اے لوگو! مجھے مشورہ دو.اس پر ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا، یارسول اللہ ! آپ کی مراد شاید انصار سے ہے.کیونکہ مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے لیکن پھر بھی آپ بار بار مشورہ طلب کر رہے ہیں.یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! ہم تو اس لئے خاموش بیٹھے تھے کہ حملہ آور لشکر مہاجرین کا رشتہ دار ہے.اگر ہم نے لڑائی کا مشورہ دیا تو مہاجرین کا دل دکھے گا اور وہ کہیں گے کہ اچھا بھائی چارہ ہے کہ اب یہ ہمارے رشتہ داروں سے بھی لڑنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں.پھر انہوں نے کہا ، یارسول اللہ ! شاید آر اس لئے مشورہ مانگ رہے ہیں کہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جنگ ہوئی تو ہم حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہوں گے.شاید آپ کا اشارہ اس معاہدہ کی طرف ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، ٹھیک ہے.اس انصاری نے کہا، یا رسول اللہ ! وہ وقت تو ایسا تھا کہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ آپ کی حیثیت اور شان کیا ہے؟ اور چونکہ ہم آپ کی حیثیت اور شان سے نا واقف تھے، اس لئے ہم نے وہ معاہدہ کیا.یا رسول اللہ ! آپ مدینہ تشریف لائے اور آپ کے نشانات اور معجزات ہم نے دیکھے، آپ کی صداقت ہم پر ظاہر ہوئی اور ہم نے آپ کے مرتبہ اور شان کو پہچان لیا.اب معاہدوں کا سوال نہیں رہا، یا رسول اللہ ! ہم موسی کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا فَعِدُونَ کہ موسیٰ تو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے جنگ کرتے پھر و، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.بلکہ ہم آپ 195
اقتباس از خطبه جمعه فرمود 24 نومبر 1950ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور یا رسول اللہ ہم جب تک زندہ ہیں، دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا.دشمن آپ تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آئے تو آئے.پھر انہوں نے کہا، یارسول اللہ ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے، یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے، ( عرب لوگ سمندر سے ڈرتے تھے ) آپ ہمیں حکم دیں کہ سمندر میں اپنی سواریاں ڈال دو تو ہم بغیر کسی تردد کے اپنی سواریاں سمندر میں ڈال دیں گے.غرض جب ایمان بڑھ جاتا ہے تو قربانی حقیر ہو جاتی ہے اور جب ایمان کم ہوتا ہے تو قربانی کی عظمت بڑھتی جاتی ہے.پس میں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ایک آدمی پانچ روپے چندہ لکھا کر یہ سمجھے گا کہ وہ لہولگا کر شہیدوں میں شامل ہو گیا بلکہ اس کا پھل بھی اسے ملے گا.کھیت میں اگر پانچ سیر گندم کا بیج ڈالا جائے تو اس سے پانچ سیر ہی گندم نہیں نکلتی بلکہ وہ کئی من ہو جاتی ہے.اسی طرح پانچ روپے، پانچ روپے نہیں رہیں گے.اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں طاقت دی تو یہ پانچ دس ہو جائیں گے، دس ہیں ہو جائیں گے، ہیں پچاس ہو جائیں گے اور اگر اور طاقت مل گئی تو ان پچاس روپے کا بیج یقینا اور زیادہ کھیتی نکالے گا.پس جب میں پانچ کہتا ہوں تو یہ جانتے ہوئے کہتا ہوں کہ جو پانچ روپے کا بیج ڈالے گا آئندہ اس سے کئی گنا فصل کاٹے گا.ہر دوسرے سال کا چندہ پہلے سال کی فصل ہے اور ہر تیسرے سال کا چندہ دوسرے سال کی فصل ہے.اور فصل بیج کے برابر نہیں ہوا کرتی بلکہ اس سے کئی گنازیادہ ہوا کرتی ہے.پس میں نو جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں سے کہتا ہوں کہ پانچ روپے کی حقیر رقم دے کر تحریک جدید کی فوج میں اپنے آپ کو شامل کر لوتا تمہارا ایمان بڑھے اور تمہیں پہلے سے بڑھ کر قربانیاں کرنے کی توفیق ملے.تا کہ جب اسلام کا غلبہ حاصل ہو تو تم فخر سے محسوس کر سکو کہ اس غلبہ میں تمہارا بھی حصہ ہے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 30 نومبر 1950ء) 196
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از تقریر فرموده یکم جون 1951ء خدا تعالیٰ کی محبت میں مرنے والے کو وہ ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیتا ہے تقریر فرمودہ یکم جون 1951ء اصل شہید وہ لوگ ہیں، جو خدا تعالیٰ کی محبت میں مارے جاتے ہیں.اور وہ شخص جو خدا تعالی کی محبت میں مرتا ہے، وہ مرنے کے باوجود بھی نہیں مرسکتا.جس شخص نے خدا تعالیٰ کے لئے موت قبول کی، چاہے تلوار کے ذریعہ کی ، چاہے دین کی اشاعت کرتے ہوئے کی، چاہے دنیا کی مصیبتوں اور آفات کا مقابلہ کرتے ہوئے کی ، خدا تعالٰی کی غیرت یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ جس نے اس کے لئے موت برداشت کی ہے، وہ اسے مرا ر ہنے دے.وہ اسے زندگی دیتا ہے اور ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیتا ہے.پس اس روح کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کی تبلیغ کرو، اس ارادہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے نکلو کہ اس نے اپنے دین کو قائم کرنے کے لئے صرف تم کو چنا ہے.تم بھول جاؤ، اس بات کو کہ دنیا میں کوئی اور انسان بھی ہے.تم بھول جاؤ، اس بات کو کہ دنیا میں کوئی اور ملک بھی ہے.تم بھول جاؤ، اس بات کو کہ دنیا میں کوئی اور قوم بھی ہے.تم صرف ایک بات کو یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نے کام کرنا تمہارے سپرد کیا ہے.خدا تعالیٰ نے اس عظیم الشان منصب کے لئے تمہیں اور صرف تمہیں چنا ہے.جب تم اس حقیقت کو سمجھ لو گے تو دین تمام خطروں سے محفوظ ہو جائے گا.اور اگر کسی ایک جگہ دین کی شمع کو بجھایا جائے گا تو تم فوراً ایک دوسرے مقام پر اس شمع کو روشن کرو گے.اگر شیطانی طاقتوں میں ایک زندگی پائی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مومنوں کے اندر اس سے بڑھ کر زندگی نہ ہو.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر میں ایک سوراخ میں سے آگ کا ایک شعلہ نکلا ، میں اسے بجھانا چاہتا ہوں تو معا دوسری جگہ سے ایک اور شعلہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے.میں اس کی طرف دوڑتا ہوں تو تیسری جگہ سے آگ نکلنی شروع ہو جاتی ہے.آخر میں حیران ہو کر کھڑا ہو گیا کہ اب میں ان شعلوں کو کس طرح دباؤں ؟ اس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور آپ ایک سوراخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ محمود تم اس جگہ کو دباؤ.میں نے اس جگہ پر اپنا ہاتھ رکھا تو تمام شعلے خود بخود بجھ گئے.197
اقتباس از تقریر فرموده یکم جون 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم پس جب شیطان کے اندر یہ طاقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا مٹانا مشکل ہو جاتا ہے تو کیا نعوذ باللہ الہ تعالیٰ میں ہی یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو زندہ رکھ سکے؟ اس میں طاقت ہے.مگر اس کے زندہ رہنے کی یہی صورت ہوتی ہے کہ مومن اپنے دل میں یہ ارادہ رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے کہ اگر مجھے یہاں مارا گیا تو میں وہاں زندہ ہو جاؤں گا، وہاں مارا گیا تو یہاں زندہ ہو جاؤں گا.جب یہ روح کسی جماعت میں پیدا ہو جاتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی.کیونکہ کوئی طاقت ایسی نہیں، جو دنیا میں ہر جگہ پہنچ سکے.جب خدا تعالیٰ کا نور دنیا کے گوشے گوشے سے پھوٹ پڑنے کو تیار ہو ، جب مومن کا عزم اسے ہر جگہ پہنچنے کے لئے بے قرار کر رہا ہو ، جب موت اس کی نظروں میں ایک حقیر اور ذلیل چیز ہو کر رہ جائے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنا، اسے اپنا سب سے بڑا مقصد دکھائی دے تو شیطان مایوس ہو جاتا ہے اور وہ حیران ہوتا ہے کہ میں اب کہاں جاؤں؟ یہاں جاؤں یا وہاں جاؤں؟ اس کو مٹاؤں یا اس کو مٹاؤں ؟ دنیا کا چپہ چپہ اس روئیدگی کو اگانے کے لئے تیار کھڑا ہے.پہاڑوں کی چوٹیاں بھی اس روئیدگی کو پیدا کر رہی ہیں، وادیاں بھی اس روئیدگی کو پیدا کر رہی ہیں، نشیب بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہے ہیں ، چٹیل میدان بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہے ہیں، ریتلے بیابان بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہے ہیں، دریاؤں کی تہیں بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہی ہیں، شہر بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہے ہیں، دیہات بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہے ہیں، مشرق بھی وہی روئیدگی نکال رہا ہے، مغرب بھی وہی روئیدگی نکال رہا ہے، شمال بھی وہی روئیدگی نکال رہا ہے اور جنوب بھی وہی روئیدگی نکال رہا ہے.اب شیطان جائے تو کہاں جائے ؟ خدائی طاقتیں اسے حاصل نہیں ہوتیں.وہ زور لگا تا ہے مگر نور کی وسعت اس کی دوڑ سے بہت آگے نکل جاتی ہے.اور آخر وہ مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے.کیونکہ جہاں بھی روئیدگی شیطانی حملوں سے بچ جاتی ہے، وہیں سے وہ آگے بڑھ کر ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے.یہی روح ہے، جس سے قوموں کو فتح کیا جاسکتا ہے.یہی روح ہے، جو حضرت عیسی نے اپنے حواریوں میں پیدا کرنی چاہی.یہی روح ہے، جو حضرت سلیمان نے اپنے متبعین میں پیدا کرنی چاہی.اور یہی روح ہے، جو اسلام دنیا کے ہر فرد میں پیدا کرنا چاہتا ہے.جب تک ہمارے مبلغ یہ سوچتے رہیں گے کہ ایک مرکز ہے، جو کام کر رہا ہے، اس وقت انہیں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.مرکز ہے اور ضرور ہے.مگر صرف اشارہ اور راہنمائی کے لئے ہے ،صرف کمزوروں کو سہارا دینے کے لئے ہے.ورنہ مومن خود اپنی ذات میں مرکز ہوتا ہے اور اس کو کسی بیرونی مرکز کی ضرورت نہیں ہوتی.وہ جانتا ہے کہ مرکز اس کے لئے نہیں بنایا گیا کہ سارا کام مرکز ہی کرے.بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ کام میں نے کرنا ہے، مرکز صرف جماعت کے کمزوروں کی نگرانی اور راہنمائی کے لئے ہے.جب یہ روح لوگوں میں پیدا ہو جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو مٹا نہیں سکتی.198
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از تقریر فرموده یکم جون 1951ء پس ہمارے مبلغوں کو، جب بھی کسی ملک میں تبلیغ اسلام کے لئے جائیں ، اپنی اس حیثیت کو سمجھ کر جانا چاہئے کہ وہ ایک نئے آدم ہیں، جنہیں خدا تعالیٰ نے دنیا میں پیدا کیا ہے.جب آدم کو خدا تعالیٰ ن پیدا کیا تو پہلی نسلیں ساری کی ساری ختم ہو گئیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ جب آدم پیدا ہوا تو اس وقت دنیا پر اورنسلیں بھی آباد تھیں.تم ان کا نام جن رکھ لو، بھوت رکھ لو، پریت رکھ لو، شیطان رکھ لو ، ابلیس رکھ لو، بہر حال کوئی نہ کوئی مخلوق تھی، جس نے آدم سے بحث کی.مگر آج وہ میرے ساتھ کیوں بحث نہیں کرتی؟ تمہیں ماننا پڑے گا کہ جب آدم پیدا ہوا تو آہستہ آہستہ وہ نسلیں ، جنہوں نے آدم کو نہیں مانا، دنیا سے مٹ گئیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو آدم کے لئے پیدا کیا تھا.جب مالک آ گیا تو غاصب بھاگ گیا.اب اس کا اس دنیا کے ساتھ کیا تعلق تھا؟ پس جب ایک مبلغ کو ملک میں بھجوایا جاتا ہے تو اسے اس یقین اور وثوق کے ساتھ اس ملک میں اپنا قدم رکھنا چاہئے کہ اسے اس ملک کے لئے آدم بنا کر بھیجوایا گیا ہے.اب ظلماتی طاقتیں اس ملک میں باقی نہیں رہ سکتیں ، وہ مٹا دی جائیں گی ، وہ فنا کر دی جائیں گی اور صرف اس کی جسمانی یا روحانی نسل ہی اس ملک میں باقی رہے گی.جب اس نیت اور ارادہ کے ساتھ کوئی شخص جا.تو وہ کس طرح اس بات پر خوش ہو سکتا ہے کہ چالیس یا پچاس آدمیوں نے بیعت کر لی ہے؟ وہ تو اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتا ، جب تک سارے ملک کو نہیں نہیں نہ کر دے.جب تک چپے چپے پر آدم کی نسل کو نہ پھیلا دے.ورنہ وہ آدم کس طرح ہے؟ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا بیج کس طرح ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے مبلغ یہ نیت اور ارادہ لے کر نہیں جاتے ، یہ آگ اپنے سینہ میں لے کر نہیں جاتے کہ ہم نے دنیا کے ایک ایک فرد کو اپنے اندر شامل کرنا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں وہ گرمی پیدا نہیں ہوتی، جو انسان کو کام کرنے پر آمادہ کر دیا کرتی ہے، جو کفر کو جلا کر بھسم کر دیا کرتی ہے.وہ تو اس پر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ذریعہ سے دس ، ہمیں یا سو آدمی نجات پاگئے.حافظ بشیر الدین صاحب، جو اس وقت ماریشس جارہے ہیں.جیسا کہ انہوں نے بتایا ہے، ان کے والد اسی علاقہ میں کام کرتے رہے ہیں اور آخر کام کے دوران میں ہی وہ شہید ہو گئے.آج صبح جب یہ میری ملاقات کے لئے آئے تو میں نے انہیں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں ہمیں اس جزیرہ میں بڑی کامیابی عطا فرمائی تھی.مگر اب ہیں پچیس سال سے وہ ترقی ختم ہو چکی ہے اور شاذ و نادر ہی کسی بیعت کی اطلاع آتی ہے.چنانچہ ان کے بیان کے مطابق 1923 ء سے لے کر اب تک صرف انیس بیعتیں ہوئی ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ در حقیقت اس ذمہ داری کا احساس تازہ نہیں رکھا گیا ، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد کی گئی تھی.حالانکہ اس ذمہ داری کا احساس آدم میں ہی نہیں بلکہ آدم کی اولاد میں بھی ہونا 199
اقتباس از تقریر فرموده کیم جون 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلدسوم چاہیے.میں یہ نہیں کہتا کہ مبلغ میں کمزوری پیدا ہوئی تھی.بلکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مبلغ کی روحانی اولاد میں کمزوری پیدا ہوگئی.انہیں کبھی یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ تم نے اس خطہ میں پھیلنا ہے، تم نے اس علاقہ کی دوسری نسلوں کو روحانی طور پر ختم کرنا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ترقی رک گئی.اب ان کو چاہیے کہ وہاں جا کر لوگوں کے اندر ایک نئی روح پیدا کریں.ماریشس ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، جس کو فتح کر لینا کوئی بڑی بات نہیں.لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں ایک آگ پیدا کی جائے.ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے اور ہر احمدی مرد اور عورت کے دل میں یہ جذبہ پیدا کیا جائے کہ ہم نے تمام علاقہ کو اسلام اور احمدیت کے لئے فتح کرنا ہے.پھر مبلغ کی بعض دفعہ بہت سی طاقت اس لئے بھی ضائع چلی جاتی ہے کہ عورتوں کی تبلیغ اور ان کی تعلیم کے سلسلہ میں اس کا کوئی ہاتھ بٹانے والا نہیں ہوتا.مگر خوش قسمتی سے ان کی بیوی ، جوان کے ساتھ جا رہی ہیں ، وہ ایک مخلص اور علم والی عورت ہیں.پس اب کم سے کم ایک ایسا ہتھیار ان کے پاس موجود ہے، جو ہمارے پہلے مبلغوں کے پاس نہیں تھا.حافظ صوفی غلام محمد صاحب کی بیوی بھی تعلیم یافتہ تھی ، بخاری تک انہوں نے پڑھی ہوئی تھی.مگر تبلیغ کا ان میں اتنا مادہ نہیں تھا اور پھر وہ تقریر بھی نہیں کر سکتی تھیں.ان کی طبیعت میں حیا کا مادہ زیادہ تھا، خواہ ہم اسے غلط ہی قرار دیں.مگر حافظ بشیر الدین صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ ایک زائد طاقت بخشی ہے کہ ان کی بیوی علم بھی رکھتی ہیں اور اس کو بیان کرنے کا بھی انہیں شوق ہے.چنانچہ ان کے کئی اچھے اچھے مضامین چھپ چکے ہیں.یہ ایک زائد چیز ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نوازا ہے.شاید خدا تعالیٰ نے اب اس جزیرہ کی قسمت بدلنے کا فیصلہ کر دیا ہے.شاید خدا تعالیٰ اب اس مردہ زمین کو پھر زندہ کرنا چاہتا ہے.پس اس خدائی تدبیر کو انہیں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہئے اور جلد سے جلد ہمیں یہ خبر پہنچانی چاہئے کہ ماریشس اسلام اور احمدیت کے لئے فتح ہو گیا ہے.پھر صرف ماریشس کا ہی سوال نہیں، اس کے ارد گرد کے جزائر کا بھی سوال ہے.ماریشس کی آبادی چار، پانچ لاکھ کے قریب ہے.مڈغاسکر کی آبادی 50 لاکھ ہے.ریونین کی آبادی ایک لاکھ سے بھی کم ہے.اسی طرح اور کئی جزائر ہیں ، جو ماریشس کے ارد گرد ہیں.اگر ان لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کریں تو انہیں مختلف مقامات پر پھیلایا جاسکتا ہے.اور اس طرح انہیں اتنی بڑی طاقت حاصل ہو سکتی ہے، جو صرف ماریشس ہی کو نہیں بلکہ اس کے اردگرد کے جزائر کو بھی درست کر سکتی ہے.مطبوعہ روز نامه الفضل 19 جون 1951ء) 200
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم "" اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 اگست 1951ء وہ راستہ قربانی کا اختیار کرو، جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اگست 1951ء گزشتہ 17 سال سے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور سب سے پہلے میں نے قادیان کے لوگوں کو مخاطب کیا تھا اور اب میرے سامنے ربوہ کے لوگ بیٹھے ہیں.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چند سالوں سے جماعت کی تحریک جدید کی طرف وہ توجہ نہیں رہی، جو پہلے تھی.حالانکہ کام پہلے سے بیسیوں گنے بڑھ گیا ہے.مبلغوں کی تعداد، جواب ہے، اس سے پہلے اس کا بیسیوں حصہ بھی نہیں تھی.نظر جماعت کی جو عظیم اب ہے، اس سے پہلے اس کا بیبیوں حصہ بھی نہیں تھی.جماعت کی جو تعداد، اب ہے، اس سے پہلے اس کا یوں حصہ بھی نہیں تھی.الا ماشاء اللہ بعض جگہوں پر جماعت کم ہو گئی ہے، ورنہ عام طور پر جماعت بڑھتی ہے.لیکن ابھی تک ہماری تبلیغ اتنی بھی نہیں، جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے.اس وقت ہمارا مخاطب طبقہ دس پندرہ لاکھ کی تعداد میں ہے اور دنیا کی تعداد اڑھائی ارب ہے.ہم نے تو اس تعداد کو دس کروڑ بنانا ہے اور پھر اڑھائی ارب لیکن ہم ابھی سے سو گئے ہیں.جو تعداد ہماری مخاطب ہے، وہ اڑھائی ارب میں اڑھائی ہزارواں حصہ بھی نہیں.اتنا حصہ نمک اگر آٹے میں ڈال دیا جائے تو اس کا پتہ بھی نہیں لگے گا.مثلاً آدھ سیر آٹا ہو تو آدھ سیر میں 40 تولے ہوتے ہیں اور 40 تولے میں 480 ماشے ہوتے ہیں اور 480 ماشوں میں 3840 رتیاں ہوتی ہیں.گویا ہم اگر دنیا کی آبادی کے لحاظ سے اپنی تبلیغ کا اندازہ لگائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح آدھ سیر آٹے میں رتی یا ڈیڑھ رتی نمک ڈالا جائے.اگر آدھ سیر آٹے میں رتی یا ڈیڑھ رتی نمک ڈالا جائے تو اس کا پتہ بھی نہیں لگے گا بلکہ اگر اتنی مقدار نمک کی ایک لقمہ میں بھی ڈال لی جائے تو وہ زیادہ محسوس نہ ہو گا.لیکن اتنی بات پر ہی ہم میں غفلت پیدا ہوگئی ہے.حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ ہماری تبلیغ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچتی.پھر یہ بھی سوچو کہ سارے لوگ ہماری بات نہیں مانتے.دس، گیارہ لاکھ آدمی کے یہ معنی ہیں کہ ہزار، دو ہزار آدمی ہماری بات مانیں گے.باقی لوگ ہمارے مخالف ہو جائیں گے یا بات سن کر اس پر عمل نہیں کریں گے.اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے کہ ہماری تبلیغ ساری دنیا میں پھیلے تو دس ہیں یا تمیں ہزار کیا؟ دو، تین لاکھ ہماری باتیں سنیں اور انہیں مانیں ، تب کام ہوگا.201
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 اگست 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم پھر بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی علاقہ میں سچائی پھیل جاتی ہے تو سارا ملک کا ملک اس سچائی کو قبول کر لیتا ہے.حضرت موسی کے پاس بھی پہلے ایک ایک کر کے آدمی آئے ، حضرت عیسی کے پاس بھی پہلے ایک ایک کر کے آدمی آئے ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی پہلے ایک ایک کر کے آدمی آئے ، پھر سب لوگ آگئے.اگر اسی طرح ہمارے پاس کسی جزیرہ کے لاکھ، دولاکھ آدمی آجائیں اور وہ وہاں کی آبادی کے تمھیں، چالیس فیصدی ہو جائیں تو باقی ساٹھ ستر فیصدی ایک دن میں ایمان لے آئیں گے.پھر ایک جزیرہ سے دوسرا جزیرہ متاثر ہوگا اور وہاں کے لوگ ایمان لے آئیں گے.لیکن اس دن کو لانے کے لئے کوئی معیار تو ہونا چاہیے کہ ہماری تبلیغ اڑھائی ارب لوگوں میں پھیل جائے.لیکن ہم دس، پندرہ لاکھ سے بھی نیچے اتر رہے ہیں.دفتر سے مجھے روزانہ کا غذات آتے ہیں کہ فلاں کام کو بند کر دیا جائے ، فلاں محکمہ کو توڑ دیا جائے کیونکہ اب سارا کام قرضہ پر چل رہا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سب سے بڑی ذمہ داری مرکز پر آتی ہے.قادیان باقی دنیا سے پوشیدہ ہے.وہ صرف اب ہندوستان کا مرکز ہے.وہ اب بور نیو، ملایا، سماٹرا، جاوا، سلیپس ، انگلینڈ، جرمنی ، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ ، امریکہ، ایسٹ افریقہ (یعنی ٹانگانیکا، کینیا، کالونی اور یوگنڈا)، مغربی افریقہ ( یعنی گولڈ کوسٹ، نائجیر یا اور سیرالیون ) ، عراق، شام، عرب ،فلسطین ، پاکستان اور سیلون و غیره کے سامنے نہیں.پس ہمیں مرکز کو پکڑنا چاہئے اور ہمیں مرکز میں کام اس قدر مکمل کر لینا چاہئے کہ ہم باہر کی جماعتوں کو چیلنج کر سکیں کہ مرکز نے اپنے اندر اس قدر تبدیلی پیدا کر لی ہے تمہیں بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنا چاہئے.ہمیں اپنی تحریکوں میں جو کامیابی ہوئی ہے، اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ مرکز رکا ہوتا تھا.اور جب مرکز پکا ہوتا ہے تو پھر کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، لوگ خود بخود اپنے اندر بیداری پیدا کر لیتے ہیں.جلسہ تو اتوار کو ہے لیکن شاید بیماری کی وجہ سے مجھے وہاں آنے کا موقع نہ ملے ، اس لئے میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں.ربوہ کی تمام مجلسیں ، ادارے، پریزیڈنٹ صاحبان ہیکرٹری مل کر ایسی کوشش کریں کہ ہر مرد عورت ، جس کے لئے مادی لحاظ سے تحریک جدید میں حصہ لینا ممکن ہے، وہ اس میں حصہ لے اور پھر وہ اپنے وعدے کو جلدی سے پورا کرے.اور یہ تبھی ہوسکتا ہے، جب باقی شرائط کو بھی پورا کیا جائے.میں نے دیکھا ہے کہ باقی شرائط پر ہمارے گھر میں بھی اب پوری طرح عمل نہیں ہو رہا.اور وہ شرائط سادہ زندگی بسر کرنا، فضول خرچی سے بچنا اور زیورات اور کپڑوں پر زیادہ خرچ نہ کرنا، ایک سالن کھانا سنیما اور تماشوں میں نہ جانا.ہمیں پہلے یہ شکایت نہیں تھی کہ 202
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 اگست 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم جماعت کے نوجوان سنیماؤں میں جاتے ہیں.لیکن اب بعض اوقات ایسی شکایات ملتی ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے یہ سارے تو نہیں لیکن ایک تعداد نو جوانوں کی سنیماؤں میں جاتی ہے.اگر سولر کا سنیما میں جائے اور چار آنہ کا بھی ٹکٹ ہو تو تین سو روپیہ سالانہ ہمارا اس طرح ضائع ہوتا ہے.اگر یہ روپیہ تحریک میں جا تا تو اس سے عظیم الشان فائدہ ہوتا.پھر کھانے میں صحیح طور پر بچت کی جائے تو پانچ ، چھ روپے ماہوار کی بچت ہو جاتی ہے اور ایک غریب سے غریب آدمی بھی اٹھنی ماہوار بچالیتا ہے.اب اگر اٹھنی ماہوار کا بھی اندازہ رکھا جائے تو کتنی بچت ہوسکتی ہے.اگر جماعت کا ہر بچانے والا اٹھنی ماہوار بھی بچالے اور اس کا نصف بھی تحریک میں دے تو لاکھوں روپے کی آمد ہوسکتی ہے.اگر ایک آنہ بھی ماہوار آئے تو موجودہ بجٹ سے 75000 ہزار روپے زیادہ آمد ہو سکتی ہے.وو تم لغو باتوں سے الگ ہو جاؤ.خواہ ملک کے لئے قربانی کا سوال ہو یا مذ ہب کے لئے.وہ راستہ قربانی کا اختیار کرو، جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے.نہ نعرے ملک کے کام آتے ہیں، نہ وعدے دین کے کام آتے ہیں.ٹیکسوں کا صحیح ادا کرنا اور دفاع کے اصول سیکھنا ، ملک کے لئے ضروری ہے.اور چندوں کے وعدے کرنا اور پھر وقت پر ادا کرنا اور نیک نمونہ اور تبلیغ دین کے لئے ضروری ہے.تم میں سے بعض جب غیر احمدیوں سے بات کرتے ہیں تو ان کے منہ سے جھاگ آنے لگتی ہے کہ ہم نے فلاں ملک میں تبلیغ کی ہے، فلاں ملک میں مبلغ بھیجے ہیں.حالانکہ انہوں نے تحریک جدید میں پانچ روپے کا حصہ بھی نہیں لیا ہوتا.جس شخص نے سو روپیہ ماہوار دیا ہوتا ہے ، وہ تو خاموش رہتا ہے لیکن جس نے اس میں سرے سے حصہ ہی نہیں لیا ہوتا ، وہ جب کسی غیر احمدی سے بات کرتا ہے تو اس کے منہ سے جھاگ آنے لگتی ہے.اگر یہ بات واقعی اچھی اور قابل فخر ہے کہ جماعت نے غیر ممالک میں مشن کھولے ہیں، جن کے ذریعہ اسلام کی تعلیم کو پھیلایا جارہا ہے تو تم تکلیف اٹھا کر بھی تحریک جدید میں حصہ لو.یہ کوشش کرو کہ سوائے اشد معذور پن کے سب لوگ اس میں حصہ لیں.کوئی ایسا آدمی جو مالی لحاظ سے اس تحریک میں حصہ لینے کے قابل ہے، اس سے پیچھے نہ رہے.اور پھر باہر کی جماعتوں میں اپنا نمونہ پیش کرو.میں نے اپنے گھر کے افراد کو چیک کیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ پچھلے تین سالوں سے ہمارے خاندان کے افراد کی طرف سے بھی چندہ تحریک جدید کی وصولی کم ہوئی ہے.گو اس بات کا آپ کو پتہ نہیں.لیکن مشہور ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے.خاندان مسیح موعود کے دلوں پر ربوہ کی جماعت کا اثر پڑا اور انہوں نے بھی سستی کی اور پھر اذ فسدت فسد الجسد كله جب مرکزی خرابی ہوئی ، دوسروں پر بھی اس کا اثر ہوا.203
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 31 اگست 1951 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم پس تم کو کم سے کم جو چیز سامنے ہو، اس کی تو تنظیم کر لینی چاہئے.اور یہ کوئی مشکل امر نہیں.اگر آپ اپنی مکمل تنظیم کرلیں تو پھر آپ دوسری جماعتوں کو کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب مہاجر ہیں، شاذ و نادر ہی ہم میں سے کوئی مقامی ہے، اگر ہم اتنی قربانی کر سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں کر سکتے ؟ ہم نے کام کو بڑھانا ہے، گرانا نہیں.مگر اسے گرنے سے بچانا زیادہ مقدم ہے.بچہ پیدا کرنے کے لئے تم کیا کیا جتن نہیں کرتے ؟ کئی احمدی دوا فروش حب اٹھرا بیچ رہے ہیں.اب کوئی شخص حب اٹھرا خریدے اور ادھر بچے کا گلا گھونٹ دے تو اسے کون عقلمند خیال کرے گا ؟ جب وہ اٹھرا پر رقم خرچ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بچہ کو بچانا چاہتا ہے.یہ نہیں کہ ایک طرف وہ جب اٹھرا خریدے اور دوسری طرف وہ بچہ کا گلا گھونٹ دے.پس اگر یہ بات سچی ہے کہ تم لوگ تمام دنیا کو مسلمان بنانا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ اگر تمہارا مخاطب دس، بارہ لاکھ کا طبقہ ہے تو اسے کروڑ تک پہنچا دو.اگر تمہاری قربانی یہ نتیجہ پیدا نہیں کرتی تو تمہارا دعویٰ یقینا جھوٹا ہے اور تم ساری دنیا کو ہرگز مسلمان نہیں کر سکتے“.( مطبوعه روزنامه افضل 15 ستمبر 1951ء) 204
تحریک جدید - ایک الی تحریک...جلد سوم - اقتباس از تقریر فرمود : 02 ستمبر 1951ء جب تک تم اپنی روح میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے ہم اس بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے " تقریر فرمودہ 02 ستمبر 1951ء غرض یہ ابتلاء اور مصائب ایمان دار کے لئے کوئی چیز نہیں.ہاں کمزور اس سے خائف ہو جاتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ دشمن سے لڑائی کی کبھی خواہش نہ کرو.جس کے معنی یہ ہیں کہ ابتلا ؤں اور مصائب کی دعا نہ کرو.ہمیشہ دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں ان سے محفوظ رکھے.لیکن باوجود اس کے مومن کا حوصلہ اتنا بلند ہونا چاہیے کہ ساری دنیا بھی مقابلہ پر آئے تو جسم میں لرزہ پیدا نہ ہو.جب تک یہ چیز انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر لیتا، اس کا یہ خیال کر لینا کہ وہ مامور کی جماعت میں داخل ہے، اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.ہمارے رستہ میں کانٹے ہی کانٹے اور قربانیاں ہی قربانیاں ہیں.اگر ہم یہ خیال کر لیں کہ ہم پر کوئی مصیبت اور ابتلاء نہیں آئے گا تو یہ ہماری کمزوری ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے، میری جماعت میں شامل ہونا پھولوں کی سیج پر چلنا نہیں بلکہ کانٹوں پر چلنا ہے.اگر تم نازک بدن ہوتا اور کانٹوں پر چلنا برداشت نہیں کر سکتے تو کہیں اور چلے جاؤ.ہم احرار یوں ہے، جو ہمیں ہر وقت مارنے کے لئے تدابیر کرتے رہتے ہیں نہیں ڈرتے.ہم تم سے ڈرتے ہیں.ہم اس شخص سے ڈرتے ہیں، جو ہمارے ساتھ چل پڑتا ہے اور پھر تلواروں سے ڈرتا ہے.ایسا شخص ہمیں کمزور کر سکتا ہے.احراریوں کے مقابلہ میں تو ہمارا ایک ایک احمدی ان کے دس دس ہزار آدمی سے زیادہ طاقتور ہے.غرض منافقت سب سے زیادہ خطر ناک چیز ہے.مگر لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ منافق خود بھی اپنے آپ کو منافق سمجھتا ہے.حالانکہ یہ درست نہیں.منافق اپنے آپ کو مومن ہی سمجھتا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس کے کام بھی مومنوں والے ہیں یا نہیں ؟ صرف اپنے آپ کو مومن کہہ دینا، مومن بننے کے لئے کافی نہیں.مومن قربانی میں ہمیشہ آگے بڑھتا ہے اور پھر افسوس کرتا ہے، میں نے اس قدر قربانی نہیں کی ، جس قدر کرنی چاہئے تھی.حضرت عمر فرماتے ہیں.نية المؤمن خير من عمله شراح حدیث نے تو اس کی عجیب و غریب تفسیر کی ہے.لیکن اس کی سیدھی سادھی تفسیر یہی ہے کہ مومن کا نیک کام رنے کا ارادہ، اس کے عمل سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے.وہ اگر چھ نمازیں، یعنی پانچ فرض اور چھٹی تہجد کی نماز 205
اقتباس از تقریر فرموده 02 ستمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم پڑھتا ہے تو ساتھ ہی یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں ان سے زیادہ نمازیں پڑھوں.وہ جس قدر نیک عمل کرتا ہے، اس کا سے بڑھ کر نیک عمل کرنے کی نیت کرتا ہے.وہ اگر ایک روپیہ چندہ دیتا ہے اور خواہش یہ رکھتا ہے کہ ہو سکے تو وہ دور و پیہ چندہ دے اور اگر دور و پیہ چندہ دیتا ہے تو وہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ اڑھائی روپے چندہ دے.غرض مومن کی نیت اس کے عمل سے زیادہ ہوتی ہے.لیکن تم میں سے بعض کی حالت یہ ہے کہ وہ قربانی کرتے وقت یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے یہ قربانی کی تو فلاں خرچ کہاں سے پورا کریں گئے ؟ جب تمہارا بچہ بیمار ہو جاتا ہے، اسے ٹائیفا کڈیا ہیضہ ہو جاتا ہے تو کیا تمہاری اس وقت کی قربانی اور دین پر حملہ کے وقت کی تمہاری قربانیاں ایک سی ہیں ؟ اگر دونوں مواقع پر تمہاری قربانیاں ایک سی ہیں ، تب تو کوئی بات ہے.لیکن تم اگر اپنے بچہ کی بیماری کے وقت تو اپنا لحاف اور پگڑی بھی بیچنے پر تیار ہو جاتے ہو اور اس سے علاج کے اخراجات پورے کرتے ہو اور جب دین کی خاطر قربانی کا وقت آتا ہے تو تم بہانے بنانے لگ جاتے ہو تو تم کیسے مومن ہو؟ تمہارا یہ کہہ دینا کہ تم مومن ہو تمہیں مومن نہیں بنا سکتا.اور تمہاری یہ دلیل درست نہیں ہو سکتی کہ تم اپنے آپ کو منافق خیال نہیں کرتے بلکہ مومن خیال کرتے ہو تم مومن ہویا منافق ہو، اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ نے کرنا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں نہیں فرمایا کہ منافق یہ کہتا ہے کہ میں منافق ہوں، مومن نہیں ہوں.وہ کہتا یہی ہے کہ میں مومن ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق کہ یہ علامت ہے کہ وہ موقع پر جھوٹ بولتا ہے، غصہ آئے تو گالیاں دینے لگ جاتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے، جھوٹا کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرتا ہے.اب دیکھ لو، ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہیں نہیں کہا کہ منافق اپنے آپ کو منافق سمجھتا ہے.وہ اپنے آپ کو مومن سمجھتا ہے لیکن موقع پر جھوٹ بولتا ہے.وہ اپنے آپ کو مومن سمجھتا ہے لیکن غصہ آنے پر وہ گالیاں دینے لگ جاتا ہے.اور وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا.( جیسے کمزور وعدہ کرنے والے تحریک کے دفتر سے معاملہ کر رہے ہیں.) اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے.یہ وہ فیصلہ ہے، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کے متعلق فرمایا ہے.اب جو شخص اس کے خلاف منافق کی تعریف یہ کرتا ہے کہ منافق وہ ہے، جو اپنے آپ کو منافق کہتا ہے یا سمجھتا ہے.اس کی مثال در حقیقت اس پٹھان کی سی ہے، جس نے فقہ کی کتاب ” قدوری یا "کنز پڑھی.(پٹھان فقہ بہت پڑھتے ہیں.اور فقہ میں پڑھا کہ حرکت قلیلہ بھی نماز کو توڑ دیتی ہے.پھر اس نے ایک دن حدیث میں پڑھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روتے ہوئے بچہ کوگود میں اٹھالیا.تو کہنے لگا، خومحمد صاحب کا نماز 206
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از تقریر فرمود 0 02 ستمبر 1951ء ٹوٹ گیا.کسی دوسرے شخص نے کہا کہ نماز تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے.پھر تم کون ہو، یہ کہنے والے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حرکت سے نماز ٹوٹ گئی؟ پس فیصلہ تو خدا اور اس کے رسول نے کرنا ہے.تم خودا اپنے آپ کو مومن سمجھ لو تو یہ درست نہیں ہوسکتا.مومن اور منافق میں یہ فرق ہے کہ مومن ہر ضرورت کے وقت قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور اس کی نیت عمل سے بڑھتی جاتی ہے.یعنی وہ قربانی کرتا ہے اور اس کا نفس کہتا ہے کہ یہ قربانی تھوڑی ہے، میں اور قربانی کروں.اور پھر وہ ان بوجھوں کو برداشت کرتا ہے، جو اس کے لئے ضروری ہوتے ہیں.اور جو وعدہ کرتا ہے، اسے ضرور پورا کرتا ہے.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد منشی اروڑے خان صاحب ایک دفعہ قادیان آئے.آپ پہلے منشی تھے، بعد میں ترقی کر کے تحصیلدار ہو گئے تھے.اس زمانہ میں منشی کی تنخواہ سات آٹھ روپے ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت کی وجہ سے وہ ہر اتوار قادیان آتے.منشی صاحب کپور تھلے کے تھے اور ان کا گاؤں قادیان سے چھپیں، چھبیس میل کے فاصلہ پر تھا.وہ پیدل چل پڑتے اور رستہ میں کہیں دو پیسے یا آنہ دے کہ تانگہ پر بیٹھ جاتے اور پھر پیدل چل پڑتے.آٹھ ، دس روپے تنخواہ کے لحاظ جو وہ جمع کر سکتے تھے جمع کرتے اور جب قادیان آتے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بطور نذرانہ پیش کر دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام کی وفات سے کچھ دیر قبل یا وفات سے کچھ دیر بعد وہ تحصیلدار ہو گئے اور ان کی تنخواہ بھی بڑھ گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے چھ سات ماہ بعد وہ قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفہ اول سے کہنے لگے، مجھے ایک رقعہ لکھ دیں، میں نے میاں صاحب سے ملنا ہے.اس وقت خلیفہ تو آپ ہی تھے لیکن آپ نے پھر بھی ایک رقعہ بطور سفارش مجھے لکھ دیا.اور وہ رقعہ انہوں نے اندر بھیجا اور میں باہر آگیا.انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مصافحہ تک اپنے جذبات پر قابورکھا.ان کے ہاتھ میں کچھ نقدی تھی.انہوں نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا اور رونے لگ گئے.ان کی حالت ایسی تھی ، جس طرح کسی بکرے کو ذبح کیا جاتا ہے.میری عمر چھوٹی تھی اور میں حیران تھا کہ انہیں کیا ہو گیا کہ یہ رور ہے ہیں؟ آٹھ ، دس منٹ کے بعد انہوں نے بولنا شروع لیکن پھر بھی وہ متواتر نہیں بول سکتے تھے.آدھا فقرہ کہتے اور رونے لگ جاتے.پھر ایسا کرتے.آٹھ ، دس منٹ میں جو فقرہ انہوں نے مکمل کیا ، وہ یہ تھا کہ میں ہمیشہ خیال کرتا تھا کہ کتنی دیر کے بعد خدا تعالیٰ نے امت کی التجاؤں کو سنا ہے اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے.میں دیکھتا تھا کہ لوگ اپنے پیروں کو سونا پیش کرتے ہیں.اور آپ کی شان تو ان سے بہت زیادہ ہے.207
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اقتباس از تقریر فرموده 02 ستمبر 1951ء میری خواہش تھی کہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں سونا پیش کروں.لیکن زیادہ دیر انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا.جو رقم جمع ہوتی، میں وہ یہاں آکر پیش کر جاتا.آخر وہ وقت بھی آگیا کہ خدا تعالیٰ نے میری تنخواہ بڑھادی اور اس نے توفیق دی کہ سونا جمع کر کے میں اپنی خواہش کو پورا کر سکوں.لیکن جب یہ وقت آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے.یہ فقرہ کہا ہی تھا کہ ان کی چیخ نکل گئی.پھر وہ کچھ سنبھلے اور کہا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دنیا میں تھے تو مجھے سونا میسر نہیں تھا اور جب سونا میسر آیا تو آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے.ان کے ہاتھ میں اس وقت پانچ یا سات اشرفیاں تھیں ، وہ انہوں نے مجھے دیں اور کہا یہ اب حضرت امیر المؤمنین کو دے دی جائیں.وہ لوگ بھی انسان تھے، جنات نہیں تھے.وہ بھی تمہارے جیسے مرد تھے، فرشتے نہیں تھے.ان کو بھی کھانے پینے کی ضرورت تھی ، ان کے ساتھ بھی دنیاوی حوائج لگی ہوئی تھیں.لیکن ان کے اندر ایمان کا شعلہ بھڑک رہا تھا.اور وہ قربانی کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے.وہ کہتے تھے کہ خواہ ہم ننگے رہیں لیکن خدا تعالیٰ کا بلند کیا ہوا جھنڈا اونچار ہے.لیکن تم ان سے کئی گنے زیادہ ہو چکے ہو تم احمد بیت سے جو لذت حاصل کر رہے ہو، یہ لذت وہ حاصل نہیں کرتے تھے.اس وقت احمدیوں کی تعریف کرنے والا کوئی نہیں تھا، اس وقت ابھی مرکز کی بنیاد رکھی جارہی تھی، جیسے مکڑی اپنا جالا بنتی ہے.لیکن یہ کہ وہ دور دور ممالک میں نکل جائیں تبلیغ کریں اور عیسائیوں اور ادنی اقوام کو مسلمان بنا ئیں اور اس طرح اسلام کا جھنڈا بلند کریں، یہ چیز انہیں حاصل نہیں تھی.یہ چیز اب تمہیں نصیب ہوئی ہے.اس لئے کہ تم نے تحریک جدید میں دو دو، چار چار سوسو، دو دو سوروپے دیئے ہیں اور اس خرچ سے باہر مبلغ بھیجے جاتے ہیں اور وہ دوسری اقوام میں تبلیغ کرتے ہیں.جب تمہیں احراری یا اس قسم کے دوسرے لوگ گالیاں دے رہے ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک آدمی کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ چاہے تم انہیں گالیاں دو لیکن اسلام کی صحیح خدمت یہی لوگ کر رہے ہیں.پس چاہئے تو یہ تھا کہ ہر احمد ی اس تحریک میں شامل ہوتا اور پھر ہر سال آگے نکلنے کی کوشش کرتا اور اپنے وعدہ کو پورا کرتا لیکن حالت یہ ہے کہ بجٹ وہی ہے.بجٹ میں جو بارہ لاکھ روپیہ کی رقم دکھائی گئی ہے.اس میں بیرونی ممالک کی رقوم بھی شامل ہیں.جو پہلے بجٹ میں شامل نہیں کی جاتی تھیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اصلی بجٹ بھی پہلے سے 50 سے 60 ہزار زیادہ ہے.لیکن ہر سال پانچ ، سات ہزار کا خرچ بڑھ جانا، معمولی چیز ہے.اعتراض تب تھا، جب مقامی اخراجات زیادہ بڑھ جاتے.لیکن صورت یہ ہے کہ بجٹ بڑھا نہیں لیکن باوجود اس کے کہ بجٹ وہی ہے ، ساری آمد پہلے تین ماہ میں خرچ ہو جاتی ہے.یہ اس لئے نہیں کہ اخراجات کا بجٹ زیادہ ہو گیا ہے بلکہ یہ اس لئے ہے کہ جماعت میں سے ایک حصہ سست ہو گیا ہے.208
تحریک جدید - ایک ابی تحریک....جلد سوم اقتباس از تقریر فرموده 02 ستمبر 1951ء پچھلے سال بھی مجھے بار بار توجہ دلانی پڑی اور میرے بار بار توجہ دلانے پر جماعت سنبھل گئی.لیکن یہ سال پچھلے سال سے بھی بدتر ہے.پچھلے سال اس وقت تک ایک لاکھ، اٹھارہ ہزار روپیہ وصول ہو چکا تھا.اور وہ سال اتنا خراب تھا کہ کئی دن بغیر کسی آمد کے گزر جاتے تھے.اس سال با وجود اس کے کہ احباب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ وقت پر وعدہ ادا کریں گے اور قربانی پیش کریں گے، صرف ایک لاکھ ، بارہ ہزار، پانسو روپیہ کی آمد ہوئی ہے.گویا تحریک جدید کے لحاظ سے جو سال تاریک اور برا تھا، یہ سال اس سے بھی زیادہ تاریک اور برا ہے.ان حالات میں جولوگ وعدہ پورا کرنے میں سستی کر رہے ہیں، ان کا کیا حق ہے کہ وہ کہیں کہ ہم وہ جماعت ہیں، جس نے اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرنا ہے.اگر وعدہ نہ کرتے تو اس سے بہتر تھا کہ ہم وعدہ کر کے انہیں پورا نہیں کر رہے.اصل بات تو یہی تھی کہ وہ بھی وعدے کرتے اور دوسرے احمدی بھی وعدے کرتے اور پھر ان کو جلد سے جلد ادا کرتے.تحریک جدید کے قواعد کے ماتحت اپنے ماحول کو ، اپنے اخراجات کو ایسا بناتے کہ وہ قربانی کر سکتے.مگر اس سے اتر کر یہ مقام تھا کہ وہ کہہ دیتے کہ ہم اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکتے.تم ہنستے ہو، حضرت موسی کی قوم پر کہ انہوں نے وقت پر حضرت موسی سے کہہ دیا.فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا فَعِدُونَ کہ جاؤ تو اور تیرا رب لڑتے پھر وہ ہم یہاں بیٹھے ہیں.مگر وہ لوگ ان سے اچھے تھے، جنہوں نے تحریک کے وعدے کر دیئے اور وقت پر پورا کرنے کی کوشش نہ کی.کیونکہ انہوں نے اپنے نبی سے بچ سچ کہہ دیا کہ ہم تمہارے ساتھ مل کر دشمن سے نہیں لڑسکتے.انہوں نے حضرت موسی کو دھوکہ نہیں دیا.اگر پچاس، ساٹھ ہزار آدمی ان کے ساتھ مل جاتا اور پھر دشمن کے مقابلہ پر آکر بھاگ جاتا تو یہ زیادہ خطرناک تھا.میں اگرا کیلا باہر نکلوں گا تو میں اپنی طاقت کے مطابق سکیم تیار کروں گا.لیکن اگر پچاس، ساٹھ آدمی کا جتھہ میرے ساتھ دشمن کے ساتھ لڑنے کے لئے نکل کھڑا ہو اور جب دشمن سامنے آجائے تو بھاگ کھڑا ہو تو اس سے وہ کام ، جس کے لئے ہم باہر نکلے تھے، پورا نہیں ہو سکتا.بلکہ خود امام کی جان خطرہ میں پڑ جاتی ہے.پس اگر ان لوگوں میں روحانیت ہوتی، اگر ان میں ایمان ہوتا ، اگر شرافت ہوتی تو وہ اپنے وعدوں کو جلد ادا کر دیتے.اس سال سے پہلے دو لاکھ اسی ہزار تک بھی وعدے ہوتے رہے ہیں اور وہ وعدے پورے ہوتے رہے ہیں.لیکن اس سال دولاکھ سینتالیس ہزار روپے میں سے صرف ایک لاکھ ، بارہ ہزار، پانچ صد روپے وصول ہوئے ہیں.یہ کیا کمال ہے، جس کا دعویٰ کرتے ہوئے تم میں سے بعض کے منہ سے جھاگ آنے لگتی ہے.ان لوگوں نے اپنے اندر کا فروں والی دلیری ہی کیوں پیدا نہ کر لی کہ یہ 209
اقتباس از تقریر فرموده 02 ستمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کہہ دیتے کہ جاؤ، ہم تمہارے ساتھ مل کر کام نہیں کرتے ؟ جس سے کم سے کم یہ پتہ تو لگ سکتا کہ میرے ساتھ کتنے آدمی ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے سویں حصہ سے کام لے لیا تھا.اگر پہلے دن ہی یہ معلوم ہو جاتا کہ ہمارے ساتھ کام کرنے والے تھوڑے ہیں تو ہم کام کی نوعیت بدل دیتے اور بجائے مرکز قائم کرنے کے ہم خود ہی باہر نکل جاتے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہتے.لیکن اب شروع سال میں تو انہوں نے وعدے کئے کہ ہم قربانی کریں گے، پیچھے نہیں نہیں گے مگر موقع پر آ کر دھو کہ دے دیا.اول تو وعدے بھی بعض کے اپنی شان سے کم ہوتے ہیں اور بعد میں عین وقت پر ایسے لوگ بھاگ جاتے ہیں.اگر وعدہ پورا نہیں کرنا تھا تو پھر وعدہ ہی کیوں کیا تھا؟ انہوں نے کیوں اپنا ایسا ماحول پیدا نہ کر لیا کہ جس سے وعدہ ادا کرنے میں سہولت ہوتی ؟ آج سے پندرہ سال پہلے جب تحریک جدید شروع ہوئی تو اس وقت کے لوگ زیادہ چستی کے ساتھ ادائیگی کرتے تھے.اس وقت ایک چیڑ اس کی تنخواہ بارہ، تیرہ روپے تھی اور اب چالیس روپے کے قریب ہے.اگر آج سے دس پندرہ سال قبل وہ تیرہ روپے سے پانچ روپے سالانہ دے سکتا تھا تو وہ آج کیوں پانچ روپے نہیں دے سکتا؟ یہ صرف اس لئے ہے کہ آج سے دس پندرہ سال پہلے تحریک جدید میں حصہ لینے والا یہ سمجھتا تھا کہ ان پانچ روپے پر میری آئندہ زندگی کا دارو مدار ہے اور وہ شروع سال سے ہی ان کی ادائیگی کی فکر کر لیتا تھا.اب چالیس روپے تنخواہ والا آدمی بھی بیٹھا رہتا ہے اور خیال کر لیتا ہے کہ اب پانچ روپے میں کون سی جلدی ہے ، جلد ادا کرلوں گا؟ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کیا ہے، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لئے باہر تشریف لے گئے، اس وقت تین صحابہ سے سنتی ہو گئی تھی اور وہ اس جنگ میں شریک نہیں ہو سکے تھے.انہوں نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہمیں کون سی جلدی ہے، روپیہ پاس ہے، جب چاہیں گے، تیاری کر لیں گے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جائیں گے؟ وہ اسی طرح کرتے رہے حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت دور نکل گئے اور وہ صحابہ آپ کے ساتھ نہ مل سکے.اگر تم پہلے دن سے اپنے وعدے کی ادائیگی کی فکر کرتے تو اپریل مئی تک اپنے وعدے ادا کر لیتے.جو قربانی تم نے اب کمزور بن کر کرنی ہے ، وہ تم نے اعلیٰ مومن بن کر ہی کیوں نہ کر لی ؟ اب تم قربانی بھی کرو گئے اور کمزور کے کمزور بھی رہو گئے.لیکن اس سے پہلے ہی قربانی کرتے تو تم اعلیٰ مومن کہلاتے.اور پھر وہ قربانی موجودہ قربانی سے کم ہوتی.قربانی کا اصل وقت وعدے کے بعد کے پہلے چھ ماہ ہوتے ہیں.اگر تم 210
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از تقریر فرموده 02 ستمبر 1951ء اس وقت وعدہ پورا کر لیتے تو اب چھاتی تان کر پھرتے کہ ہم نے تبلیغ کے لئے جس رقم کا وعدہ کیا تھا، وہ ہم ادا کر چکے ہیں.اب سردیوں کا موسم آنے والا ہے، کسی نے لحاف بنانا ہے، کسی نے سردیوں کے لئے کپڑوں کی مرمت کرانی ہے، جس پر کافی خرچ آئے گا اور پھر بچوں کے لئے اور اپنے لئے گرم کپڑے بنوانے ہیں.گرمیوں میں بستروں کی ضرورت نہیں ہوتی ، بستروں اور زیادہ کپڑوں کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے.میں اس دفعہ بعض وجوہات کی بناء پر کسی پہاڑ پر نہیں جاسکا، ساری گرمیاں یہیں رہا ہوں.میں نے مہینہ بھر قیص نہیں پہنی.رات کو صرف نہ بند باندھ کر سوتا رہا ہوں.کیونکہ سرسے پیر تک گرمی کے دانوں کی وجہ سے زخم پڑے ہوئے تھے.کھانا کھانا چاہتا تھا تو بھوک محسوس نہیں ہوتی تھی.لیکن سردیوں میں زیادہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کھایا پیا اچھا جاتا ہے.پس اس وقت تو آپ لوگوں کے سامنے سردیوں کے اخراجات آ چکے ہیں، جو عام طور پر نومبر، دسمبر تک ہوتے ہیں.اس کے بعد انسان اس بوجھ سے فارغ ہو جاتا ہے.پس قربانی کا بہترین وقت جنوری سے لے کر جون جولائی تک ہوتا ہے، خرچ کم ہوتا ہے اور زمینداروں کی دونوں فصلوں کی آمد اس عرصہ میں آجاتی ہے.اور پھر تازہ وعدہ کی وجہ سے دلوں میں جوش ہوتا ہے.جو اس وقت کو گزار دیتا ہے، وہ اپنے آپ کو وعدہ خلافی کے خطرہ میں ڈال دیتا ہے.میں اس بات کا اقرار کروں گا کہ یہ پہلا سال ہے، جس میں میرا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا تھا.لیکن اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ میں وعدہ پورا کر چکا ہوں.قریباً ایک ماہ ہوا کہ دفتر والوں نے مجھے یاد دہانی کرائی.اس پر میں نے انہیں کہا کہ تم نے اس سے پہلے مجھے کیوں یاد نہیں کرایا؟ لیکن کل میں نے دفتر میں چیک دے دیا ہے کہ وہ تحریک جدید کوادا کر دیں.معلوم نہیں کہ انہوں نے وہ چیک دے دیا ہے یا نہیں ؟ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ چیک خزانہ میں پہنچ چکا ہے.میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ میں مارچ ، اپریل تک اپنا وعدہ ادا کر دوں.مارچ، اپریل میں وعدہ پورا کرنا آسان ہوتا ہے اور انسان فارغ ہو کر اگلے سال کے متعلق سوچ بچار کرتا ہے اور اس کے لئے سکیمیں بنانا شروع کر دیتا ہے.اگر نئے سال کے وعدہ تک بوجھ سر پر رہے تو وقت آنے پر انسان بزدل ہو جاتا ہے.ایک طرف بھوک نہ لگنے کی وجہ سے طبیعت پریشان ہوتی ہے تو دوسری طرف شدت گرمی اور تپ وغیرہ کے ساتھ جان نکل رہی ہوتی ہے.پھر سردی کے اخراجات کا فکر شروع ہو جاتا ہے.اس طرح نئے وعدہ تک انسان کی جان نکل جاتی ہے اور اس کے لئے وعدہ میں اضافہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے.اگر جنوری سے اگست تک وعدہ ادا کیا جاتا تو نئے وعدہ سے دس ماہ قبل وہ اکثر کر چلتا اور نیا وعدہ بڑھ چڑھ کر کرتا.پہلے وعدہ ادا کرنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک لمبا عرصہ بوجھ سے فارغ رہنے کی وجہ سے قربانی میں بڑھنے کا موقع ملتا ہے.211
اقتباس از تقریر فرموده 02 ستمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم پس تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.جماعت کے پاس روپیہ ہے.ہم نے تقسیم ملک سے قبل جماعت کی ماہوار آمد کا اندازہ لگایا تھا تو وہ 13 لاکھ روپیہ کی تھی اور ابھی کئی وعدے وصول نہیں ہوئے تھے.اندازہ تھا کہ پندرہ سولہ لاکھ روپیہ ماہوار جماعت کی آمد ہے.اگر پندرہ سولہ لاکھ جماعت کی ایک ماہ کی آمد ہے تو اس کا اگر 33 فیصد بھی دیا جائے تو ہمیں چھ لاکھ روپیہ مل سکتا ہے.لیکن واقعہ یہ ہے کہ وصولی بہت کم ہے.تین لاکھ، پچاس ہزار روپیہ کے کل وعدے ہیں لیکن وصولی صرف ایک لاکھ، بارہ ہزار کی دفتر اول میں ہوئی ہے اور دفتر دوم میں صرف 40-30 ہزار روپیہ وصول ہوا ہے.اس کی کام سے کوئی نسبت ہی نہیں.تمام دنیا میں تبلیغ کرنا کوئی معمولی کام نہیں.تم پہاڑ کو خلالوں سے کھود نہیں سکتے ہم پھونکوں سے ہنڈیا کا نہیں سکتے ، تم تنکے پر بیٹھ کر دریا پار نہیں کر سکتے.تم نے جو کام کرنا ہے، وہ نہایت عظیم الشان ہے.اتنے قریب وقت میں اتنے وسیع پیمانے پر دنیا کی کسی اور قوم نے کام نہیں کیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں معلومہ دنیا، شام، فلسطین، عراق، مصر اور عرب تک محدود تھی.اب ہمارے مخاطب لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے.تمام دنیا معلوم ہو چکی ہے اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے ذرائع آمد و رفت میں سہولت پیدا ہوگئی ہے.پہلی قوموں کے اگر دس پندرہ لاکھ انسان مخاطب ہوتے تھے تو ہمارے اڑھائی ارب انسان مخاطب ہیں.اب تمہیں پہلوں سے بہت بڑھ کر قربانی کرنا پڑے گی.لیکن واقع یہ ہے کہ ہم پہلوں والی قربانی بھی نہیں کرتے.جب تک تم اپنی روح کو بدلو گئے نہیں، جب تک تم اس طرح غسل نہیں لے لیتے ، جس طرح حضرت مسیح نے جاری کیا تھا.آپ نے بپتسمہ جاری کیا.آپ جسم پر پانی کا چھینٹا دیتے اور کہتے ”لواب تو پاک ہو گیا ہے.بپتسمہ کا مطلب یہی تھا کہ جس طرح تمہیں ظاہری غسل دیا گیا ہے اور اس سے تم پاک ہو گئے ہو، اسی طرح تم اپنی روح کو بھی غسل دو اور اسے صاف کرو.پس جب تک تم اپنی روح میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے ہم اس بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے.اگر تم نے وعدہ کر کے اسے ادا نہیں کرنا تو تم پہلے سے ہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے ؟ تم اس کام میں شامل ہو کر اور وعدوں کی عدم ادائیگی سے جماعت کو نقصان پہنچا رہے ہو.آج سے سترہ سال قبل بھی تو کام ہو رہا تھا، اگر چہ وہ محدود تھا لیکن اس وقت جماعت کا چندہ کہاں تھا؟ ہر زمانے کے مطابق انسان اپنی سکیم بناتا اور اس کے مطابق کام کرتا ہے.لیکن اب سکیم بعض وعدہ کرنے والوں کے جھوٹے وعدوں کے مطابق بنائی جاتی ہے.اس لئے درمیان میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے.کل ہی ایک مبلغ کی شکایت آئی ہے کہ مجھے چھ ماہ تک کوئی خرچ نہیں ملا.وہ مبلغ جھوٹ نہیں بولتا محکمہ بہانے بنائے گا، گو واقعہ کا انکار نہیں کرے گا.لیکن حقیقت یہی نکلے گی کہ روپیہ نہیں تھا.ویسے وہ 212
اقتباس از تقریر فرموده 02 ستمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم بہانے بنائے گا اور دوسرے محکمہ کو لکھے گا کہ رپورٹ کرو، اس پر دس پندرہ دن لگ جائیں گے ، پھر تیسرے محکمے کو لکھا جائے گا کہ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس کی رپورٹ آنے تک دس، بارہ دن اور گزر جائیں گے.پھر اوپر کے محکمہ کولکھا جائے گا کہ اب کیا کریں؟ لیکن مبلغ وہاں اکیلا بیٹھا ذلیل اور رسوا ہورہا ہے.لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، کپڑے دھلانے کے لئے پیسے نہیں ، سفر کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں اور اس کا دل بیٹھا جاتا ہے.پس تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.اور اگر تم نے اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرنی تو صاف کہہ دو کہ ہم کام نہیں کریں گے تاکہ ہم اس کے مطابق اپنی سکیم بدل دیں.خدا تعالیٰ نے انسان پر اتنی ذمہ داریاں ہی ڈالی ہیں، جتنے سامان اسے مہیا کئے گئے ہیں.خدا تعالیٰ جو سامان مہیا کر دے گا ، اس کے مطابق ہم کام کرتے جائیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ مخلصین کی جماعت اس وقت آگے نکل آئے گی.میں نے اس تحریک کا آغاز کرتے ہوئے ہی بتا دیا تھا کہ اس تحریک کی بنیاد روپے پر نہیں، اس کی بنیاد قربانی پر ہے.اس وقت کئی لوگ ہزاروں میل پیدل یا جہاز کے ڈیک پر یاریل کا تھرڈ کا ٹکٹ لے کر باہر نکل گئے تھے.میرے نزدیک اس ستی کی ذمہ داری صرف جماعت پر نہیں، دفتر پر بھی ہے.نوجوان دفتروں میں آگئے ہیں اور انہیں ہوائی جہاز کے سفر کے سوا کوئی بات سوجھتی ہی نہیں.اس کا بجٹ پر اثر پڑتا ہے.لیکن اس کے علاوہ جو کام اس سے پہلے ایک وکیل اپنے ہاتھ سے کرتا تھا، اس کے لئے اب وہ ایک ایک، دود و کلرک مانگتا ہے.ان چیزوں سے نقصان ہوتا ہے.دس، بارہ سال تک جب تک کام میرے سپر درہا، اگر کوئی وکیل کہتا کہ مجھے ایک آدمی کی ضرورت ہے تو میں کہتا کہ تم بھی آدمی ہو، تم ہی کام کرو.پہلے صرف دو آدمی تھے ، جن کے سپر د تحریک جدید کا کام تھا.مولوی عبد الرحمان صاحب انور عام کاموں کے سیکرٹری تھے اور چوہدری برکت علی خان صاحب مال کے سیکرٹری تھے.پھر قریشی عبدالرشید صاحب آگئے اور یہ تینوں کام چلاتے رہے.اگر چہ بعد میں انہوں نے ایک ایک، دود و کلرک لے لئے تھے لیکن کام بہت سادہ تھا.لیکن اب وہی محکمہ صدر انجمن احمدیہ کو چیلنج کر رہا ہے.حالانکہ صدر انجمن احمدیہ کی آمد تحریک جدید کی آمد سے پانچ گنے زیادہ ہے.نو جوان آئے اور انہوں نے مرکز کی اس روح کو بدل ڈالا.معملہ بڑھایا جارہا ہے، پھر بھی کام میں دیر ہو جاتی ہے.پہلے سیدھے سادھے طور پر وہ کاغذات میرے سامنے لاتے تھے، اب ہر جگہ شکایت ہے کہ کام کو لمبا کیا جاتا ہے.کئی دفعہ خود مجھے تین تین، چار چار دفعہ کاغذ بھجوانے پڑتے ہیں، پھر کہیں جواب آتا ہے.پہلی دفعہ کاغذ بھیجتا ہوں، چند دن کے بعد وہ سمجھتے ہیں، بھول گیا ہوں گا.آخر میں بھی انسان ہوں، بعض دفعہ میں بھی بھول جاتا ہوں.پھر دوبارہ کاغذ بھیجتا ہوں اور وہ کہتے ہیں ہم اس کا 213
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از تقریر فرموده 02 ستمبر 1951ء جواب بھیجتے ہیں، پہلے ستی ہو گئی تھی ، اب نہیں ہوگی لیکن کاغذ بھی پاس رکھ لیتے ہیں.پھر چند دن کے بعد یہ سمجھ کر کے میں بھول گیا ہوں گا، بے فکر ہو جاتے ہیں.غرض مرکز میں بھی اب نقص پیدا ہو رہا ہے.وکلاء اس معیار پر قائم نہیں، جس معیار پر انہیں قائم ہونا چاہیے تھا.وہ ذاتی طور پر بہت کم کام کرتے ہیں اور دوسروں سے کام لینے کی خواہش رکھتے ہیں.ساری عمر ہم نے خود کام کیا.اور دفتر سے پتہ کیا جا سکتا ہے کہ میرے ہاتھ کا لکھا ہوا روزانہ کتنا ہوتا ہے؟ بے شک اب نقرس (Cout) کی وجہ سے مجھ سے لکھا کم جاتا ہے اور اکثر اوقات میں کسی دوسرے شخص سے لکھواتا ہوں لیکن یہ بیماری کی وجہ سے ہے، پہلے میں کتا بیں بھی تصنیف کرتا تھا اور اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا، ڈاک پر نوٹ بھی میں خود لکھتا تھا، مسلوں پر نوٹ بھی میں خود لکھتا تھا اور یہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ میں نے اس کام کے لئے کوئی آدمی رکھا ہو.اب بھی شوق ہے کہ میں انگلیوں کو کام کی عادت ڈالوں اور پھر خود کام کرنا شروع کر دوں.لیکن نقرس کی وجہ سے انگلیاں چلتی نہیں.پھر بھی ہر ناظر اور وکیل سے زیادہ تحریر میری ہوتی ہے.بہر حال دفتر میں یہ نقص بھی ہے کہ وکلاء خود کام کم کرتے ہیں اور عملہ کو بڑھاتے جا رہے ہیں.لیکن اس کا تعلق آمد سے نہیں ، صرف تحریک کی روح کی خلاف ورزی ہے.آمد سے تعلق تب ہوتا ہے، اگر وعدوں سے بجٹ کو بڑھا کر مگر ایسا نہیں.خرچ کے بجٹ میں زیادتی ہوتی تو مرکزی انجمن ذمہ دار تھی.لیکن واقعہ یہ ہے کہ آمد کم ہورہی ہے.چھ ماہ میں جہاں تین لاکھ روپیہ وصول ہو جاتا تھا، وہاں اب نو ماہ میں صرف ڈیڑھ لاکھ روپیہ وصول ہوا ہے.حالانکہ ملک میں آمد میں بڑھ رہی ہیں.جب سے پاکستان بنا ہے، ملک آزاد ہو جانے کی وجہ سے تجارت اور صنعت بڑھ گئی ہے.جس کا ماہوار آمدنوں پر اثر پڑا ہے.سنٹرل گورنمنٹ نے اب جو گریڈ بنائے ہیں، اس پر دو کروڑ روپیہ زائد خرچ آئے گا اور جن لوگوں کے گریڈ بڑھے ہیں، ان میں احمدی بھی ہیں.پھر صوبائی حکومت نے بھی تنخواہوں میں زیادتی کی ہے اور ملکی آزادی کی وجہ سے لوگوں کی آمد نہیں بڑھ گئی ہیں.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ چندے بڑھ جائیں." میں جماعت سے کہوں گا کہ جو لوگ کام کرنا نہیں چاہتے ، بہتر ہے کہ وہ الگ ہو جائیں.جن لوگوں کا اس تحریک میں حصہ لینے کو جی نہیں چاہتا، ہم ان کو بھی برا سمجھتے ہیں.لیکن وہ لوگ ان لوگوں سے اچھے ہیں، جنہوں نے وعدہ کیا اور پورا نہ کیا.کم سے کم وقت پر انہوں نے اس سے ہمیں ہوشیار تو کر دیا.یہودیوں نے حضرت موسی سے کہا.فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا فَعِدُونَ تو حضرت موسی اور حضرت ہارون ہوشیار ہو گئے اور انہوں نے ایک اور سکیم بنالی.اگر یہودی ان 214
اقتباس از تقریر فرموده 02 ستمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کے ساتھ ہو جاتے لیکن وقت پر بھاگ جاتے تو بوجہ نبی ہونے کے حضرت موسی اور حضرت ہارون بھاگ تو نہیں سکتے تھے ، لازمی بات تھی کہ وہ کم سے کم مارے جاتے کے خطرہ میں پڑ جاتے.لیکن جب یہودیوں نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں جائیں گے تو انہوں نے ایک نئی سکیم بنائی.جس سے ان کی جانیں بھی بچ گئیں اور کام بھی ہو گیا.لیکن اگر قوم انہیں عین وقت پر دھوکہ دیتی تو ان کی جانیں خطرہ میں پڑ جاتیں.مسلمان جنگ حنین میں اپنی غلطی کی وجہ سے بھاگے اور ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف ایک شخص رہ گیا.یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا، جس نے مدد کی اور آپ کو دشمن کے نرغہ سے بچالیا.لیکن جہاں تک ظاہری تدبیر کا سوال ہے، اس وقت جو صورت پیدا ہو گئی تھی ، اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت یقینی تھی.خدا تعالیٰ نے ہی معجزہ دکھلایا.ورنہ بھاگنے والوں نے تو آپ کو دشمن کے سپر د کر دیا تھا.اگر وہ ساتھ نہ جاتے تو خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی اور تدبیر بتا دیتا، جس سے آپ کی جان محفوظ رہتی اور طائف بھی فتح ہو جاتا.آخر مد ینہ بھی تو بغیر لشکروں کے فتح ہوا تھا.پس تمہارے سامنے دونوں طریق موجود ہیں.زیادہ صحیح یہی ہے کہ ہر احمدی تحریک جدید میں حصہ لے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لے.زندگی کو اتنا سادہ بنالے کہ اس پر یہ قربانی دوبھر نہ ہو اور تمام وعدے پہلے تین ، چار ماہ میں ہی ادا ہو جائیں.دوسرا مقام یہ ہے کہ تم بالکل انکار کر دو کہ ہم اس میں حصہ نہیں لیں گے.لیکن یہ سب سے خطر ناک ہے کہ تم وعدہ کرو اور وقت کے اندر پورا نہ کرو.تم پہلے یہ چیز پوری طرح سمجھ لواور پھر کام کرو.چاہئے کہ تم سب اس میں شامل ہو جاؤ.اپنی زندگی کو سادہ بناؤ اور وعدے کو وقت کے اندر پورا کرو.یا تم میں سے ایک حصہ یہ کہہ دے کہ ہم آپ کے ساتھ اسلام کی جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے.لیکن اگر تم وعدہ کرو اور پورا نہ کرو تو یہ منافق کا کام ہے.تم اس صورت میں خدا تعالیٰ کے سامنے کبھی بھی اپنی برکت نہیں کر سکتے تم خود سمجھ لو کہ ان تینوں فریقوں میں سے تم کون سے فریق میں شامل ہو؟ جب تم وعدہ لکھاتے ہو تو کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے وعدہ لکھوا دیا ہے.لیکن دل میں یہ کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے غضب کے ماتحت ہم نے وعدہ کو پورانہیں کرنا.یہ کتنی خطرناک چیز ہے کہ ایک دوست کے سامنے جس کا تم پر کوئی تصرف نہیں ، وہ تمہیں انگلی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا تم خوش ہونا چاہتے ہو.لیکن خدا تعالیٰ کے سامنے تم اپنا منہ کالا کرتے ہو، جس سے تمہارا ہر وقت کا واسطہ ہے.اس سے بہتر تھا کہ تم ادنی درجہ کے مومن بن جاتے اور منافقوں میں تمہارا شمار نہ ہوتا“.مطبوعه روزنامه الفضل 18 ستمبر 1951 ء ) | 215
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم " اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 1951ء مومن کا کام یہی ہونا چاہئے کہ وہ جو کہے، اسے پورا کرے خطبہ جمعہ فرمودہ 07 ستمبر 1951ء پچھلا ہفتہ تحریک جدید کا ہفتہ تھا.اتوار کے دن ساری احمدی جماعتوں یا اکثر جماعتوں نے اپنی اپنی جگہ جلسے کئے اور تحریک جدید کے مختلف مقاصد کے متعلق لٹریچر دیئے.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان جلسوں سے وہ مقصد حل ہو گیا، جن کے حل کی فکر میں ہم تھے؟ کیا ان جلسوں کی وجہ سے جماعت میں بیداری پیدا ہوگئی ہے؟ اور جنہوں نے غفلت، ستی اور لا پرواہی کی وجہ سے چندہ کی ادائیگی کی کوشش نہیں کی تھی یا انہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی تھی، کیا انہوں نے چندے ادا کر دیئے اور ہمارے کام کی مشکلات دور ہو گئیں؟ اگر تو ان جلسوں سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جماعت کے ان لوگوں نے ، جنہوں نے ابھی تک وعدے ادا نہیں کیے تھے، انہوں نے وعدے ادا کر دیئے ہیں.تب تو یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ جماعت کے اندر ہوشیاری اور بیداری پیدا ہوگئی ہے.اور اگر جلسے ہوئے اور ان میں تقریریں ہوئیں ، جیسا کہ مجھے کئی جماعتوں سے چٹھیاں وصول ہوئی ہیں کہ دھواں دھار اور شاندار تقریریں ہوئیں، میں نے تین گھنٹہ دھواں دھار تقریر کی اور فلاں نے اڑھائی گھنٹے تقریر کی لیکن اس کا نتیجہ کوئی نہیں نکل تو یہ تقریریں میرے لئے خوشی کا پیغام نہیں لا ئیں بلکہ رنج کا پیغام لائیں کہ جماعت کے لوگ اس قدرست ہو گئے ہیں کہ انہیں دھواں دھار تقریریں بھی بیدار نہیں کر سکیں.یا ان تحریروں اور رپورٹوں کا میں یہ مطلب نکال سکتا ہوں کہ یہ محض حسن ظنی ہے کہ تقریریں ہوئیں.ورنہ نہ کوئی اڑھائی گھنٹے تقریر ہوئی ہے اور نہ دھواں دھار اور شاندار تقریر ہوئی ہے.وہی پھپھی اور بددل کرنے والی باتیں کی گئی ہیں.غرض میں صرف دو نتیجے نکال سکتا ہوں کہ یا تو دھواں دھار اور شاندار تقریریں نہیں کی گئیں ، صرف رپورٹوں کے کاغذوں کو سیاہ کیا گیا ہے.اور یا پھر یہ کہ جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں ( تھوڑے بہت تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور ہر زمانہ میں ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ تھے.اور ان کی اتنی تعداد ہو گئی ہے کہ ان کی کمزوری کی وجہ سے اب تحریک جدید کا چلنا قریباً ناممکن ہو گیا ہے اور یہ دونوں نتائج نہایت تکلیف دہ ہیں.یہ کہہ دینا کہ جماعت کے سات، آٹھ فیصدی طبقہ میں ستی پیدا ہوگئی ہے، جو تحریک جدید میں جا کر پچاس، ساٹھ فیصدی ہو گئی ہے.یہ بڑی 217
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم خطرناک چیز ہے.اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تحریک جدید میں وعدہ کرنے والے سب مخلص نہیں ہیں بلکہ جماعت کا کمزور طبقہ محض دکھاوے کی خاطر اس میں وعدہ کر دیتا ہے.یہ کتنی خطرناک بات ہے.یا پھر یہ بات ہے کہ رپورٹ کرنے والوں نے سچائی سے کام نہیں لیا.تقریریں کرنے والے جلسہ میں آئے اور تقریریں کر کے چلے گئے اور چندہ کی وصولی یا وصولی کے معین وعدے نہیں لیے اور جماعت میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا نہیں ہوا.اس قسم کے جلسوں کا بلا فائدہ ہی کیا ہے؟ جو دھواں دھار تقریریں ہوا کرتی ہیں ، وہ دلوں کو ہلا دیتی ہیں اور ان کے نتیجہ میں انسان اپنے اندر تبدیلی محسوس کرتا ہے.یہ جلسے اس لئے کیے گئے تھے کہ جن لوگوں نے سستی اور غفلت کی وجہ سے ابھی تک وعدے ادا نہیں کیے، انہیں کہا جائے کہ اگر تم اب وعدے ادا نہیں کرو گے تو کب کرو گے؟ اگر تم نے ابھی تک وعدہ نہیں کیا یا اس کی ادائیگی میں ستی کی ہے تو اس سے جماعت کو کیا ؟ خواہ تم فاقہ کرو، تکلیف برداشت کرو، اس وعدہ کو ادا کرو.جن کے پاس رقوم ہیں، وہ ابھی ادا کر دیں اور جن کے پاس گنجائش نہیں، وہ وعدہ کریں کہ جلد سے جلد کس دن ادا کر دیں گے؟ اگر اس طرح کیا گیا ہے، تب تو جلسہ کا کوئی مطلب ہوا.ورنہ خالی تقریریں کسی کام کی نہیں.بعض دفعہ تقریر کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس نے دھواں دھار تقریر کی ہے.حالانکہ وہ دھواں دھار تقریر ہی کیا ، جس کے نتیجہ میں نہ کسی نے وعدہ کیا اور نہ کسی نے اپنا وعدہ پورا کیا ؟ وہ خالی دھواں ہوسکتا ہے، جس کے تلے آگ نہیں.وہ محض مٹی اور غبار تھا، جواڑا.ورنہ جہاں آگ لگی ہو، وہاں عشق کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں.یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ حقیقی دھواں ہو اور پھر اس کے نیچے آگ نہ ہو.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ تمہارے اندر آگ ہو اور تمہارا ہمسایہ اس سے کوئی اثر قبول نہ کرے.اگر تمہارے گھر کو آگ لگتی ہے تو اول تو تمہارے ہمسایہ کا گھر بھی جل جاتا ہے ، ورنہ وہ جھلستا ضرور ہے.اسی طرح اگر تمہارے دل میں آگ لگی ہوئی ہے تو تمہارے ہمسایہ کے اندر بھی آگ لگ جائے گی.اگر آگ نہیں لگتی تو وہ بے تاب ضرور ہو جائے گا.پس اگر ان تقریروں کے نتیجہ میں سننے والوں کے اندر آگ نہیں لگی تو پھر یہ کس قسم کی دھواں دھار تقریریں تھیں؟ نہ تو وہاں دھواں نظر آتا ہے، نہ دھار نظر آتی ہے.صرف زیب داستاں کے لئے رپورٹیں بھیج دی جاتی ہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ ساری جماعتوں نے ایسا کیا ہے.ان رپورٹوں میں سے، جو میرے پاس آئی ہیں، بعض ایسی بھی ہیں، جو بہت خوش کن ہیں.جماعت کے دوستوں کو بلا کر ان پر زور دیا گیا ہے کہ وعدے ادا کرو اور اگر وعدے نہیں کیے تو اب وعدے کرو اور یہ وعدے جلد ادا کرو.غرض ان سے معین 218
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 1951ء صورت میں وعدے لیے گئے ہیں.لیکن نصف کے قریب رپورٹیں ایسی ہیں ، جن میں صرف قلم سے لکھ دیا گیا ہے کہ دھواں دھار تقریریں کی گئیں.لیکن نہ ان میں دھواں تھا اور نہ دھار تھی.ان کے نتیجہ میں نہ کسی نے وعدہ کیا اور نہ کسی نے وعدہ ادا کیا.حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ جماعت کے دوستوں کو بلا کر ان سے پوچھا جاتا کہ وہ وعدے کب ادا کریں گے؟ دس دن کے بعد ادا کریں گے یا پندرہ دن کے بعد ادا کریں گے؟ اور اگر وہ کہتے کہ ہمیں تکلیف ہے تو انہیں کہا جاتا تم نے یہ مشکل خود اپنے لئے پیدا کی ہے.اگر پہلے سے اس طرف توجہ کرتے تو یہ مشکل پیدا نہ ہوتی.اب اگر تم تکلیف میں پڑ گئے ہو تو اس کی سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی.اس کی سز ا سلسلہ کیوں بھگتے ؟ اگر ایسا کیا جاتا تو لازمی بات تھی کہ اس کا نتیجہ نور نکلتا.لیکن بعض لوگوں کی طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ اپنی تعریف آپ کرنا چاہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے وہ وہ دلائل دیئے ہیں ، ہم نے وہ وہ باتیں کی ہیں کہ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتیں اور اس طرح وہ اپنی تعریف کے پل باندھ دیتے ہیں لیکن وہ سب دلائل اور باتیں رطب و یا بس ہوتی ہیں.بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ دھواں دھار تقریر کر ہی نہیں سکتیں“.وو لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ مفت میں تعریف کرانے اور انعام حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہیں.کوئی ایک آدھ بات کریں گے اور کہہ دیں گے کہ میں نے دھواں دھار تقریر کی.دھوئیں سے تو رونا آتا ہے، کیا تمہاری تقریر سے سامعین کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے؟ پھر دھوئیں سے پانی گرتا ہے، کیا سامعین عرق ندامت سے بھیگ گئے تھے؟ اور اگر ایسا ہوتا اور سامعین کو کہ دیا جاتا کہ اب خواہ کوئی چیز بیچیں لیکن وعدہ کو ضرور وفا کریں.اور پھر ایک حد تک وعدے ادا ہو جاتے تو ہم سمجھتے کہ تقریر دھواں دھار تھی.لیکن ان تقریروں کے نتیجہ میں نہ تو کسی کی آنکھوں میں آنسو آئے اور نہ کسی کو ندامت کی وجہ سے پسینہ آیا.جیسے لوگ ہنستے ہوئے آئے تھے، ویسے ہنستے ہوئے چلے گئے.نہ کسی نے جیب سے پیسہ نکالا اور نہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا وعدہ کیا.پھر دھواں دھار کیا ہوا ؟ مفت میں تعریف حاصل کرنا، کوئی چیز نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ تم وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی ذمہ داری کارکنوں پر ہے کہ انہوں نے جماعت کے افراد کو صحیح رستہ پر لانے کی کوشش نہیں کی.جلسہ کی غرض یہ تھی کہ وہ لوگوں کو ان کی غلطی کا احساس کرا دیتے اور انہیں نادم کرتے اور اس کے بعد وعدے وصول کرتے.اور اگر دس پندرہ 219
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم فیصدی وعدے بھی ادا ہو جاتے تو مجھے خوشی ہوتی.انہوں نے خدا تعالی کونو ماہ تک ناراض کیا، اگر وہ اسے جلدی خوش نہیں کرتے تو وعدے کا فائدہ ہی کیا تھا ؟ اگر ان جلسوں سے ہمیں کوئی فائدہ ہوتا تو وہ تقریریں دھواں بھی رکھتی تھیں اور دھار بھی رکھتی تھیں.لیکن ہوا یہ کہ جس طرح لوگ جیبیں بند لائے تھے، اسی طرح بند جیبیں لے کر وہ واپس چلے گئے.بعض جگہوں پر کارکن کھڑے ہوئے اور انہوں نے اچھل اچھل کر تقریر کر دی.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ہوا، اس کا اکثر حصہ عبث ہوا.تم تبلیغ کرنے نہیں گئے تھے تم فرض شناسی کی طرف توجہ دلانے گئے تھے.تبلیغ میں تو بعض دفعہ سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر کوئی نتیجہ نکلتا ہے.لیکن فرض شناسی میں پندرہ سولہ منٹ کی دیر بھی نہیں لگتی.تم اگر کسی دہریہ کو کہو گے کہ نماز پڑھو تو وہ پہلے خدا پر ایمان لائے گا، پھر رسول پر ایمان لائے گا اور پھر نماز کا اسے پتہ لگے گا.لیکن اگر تم کسی مسلمان بچہ کو کہو گے، نماز پڑھو تو تم ایک دفعہ نصیحت کرو گے اور وہ عمل کرنے لگ جائے گا.اور یا پھر تم اس کو تھپڑ مارو گے کہ مسلمان بچے ہو کر نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ تم نے احمدیوں سے وعدے پورے کروانے تھے ، یورپیئن ، ہندؤوں، چینیوں، زرتشتیوں یا جاپانیوں سے وعدے پورے نہیں کروانے تھے.اگر تم نے یورپین ، ہندؤوں، چینیوں، زرتشتیوں یا جاپانیوں سے وعدے پورے کروانے ہوتے تو پھر بے شک انتظار کی ضرورت تھی.لیکن یہ جلسے تو تربیتی جلسے تھے.ان کا نتیجہ اسی وقت نکل آنا چاہیے تھا.آخر جو احمدی کہلاتا ہے، وہ ایک مکان کی اینٹ بن چکا ہے، وہ زنجیر کا ایک حصہ بن چکا ہے، اس نے بیعت کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ میں دین کو رکھوں گا، میں دین کے لئے جان و مال اور عزت سب کچھ قربان کر دوں گا.اس کا چندہ ادانہ کرنا محض سستی ہے اور کچھ نہیں.چاہیے تھا کہ کہا جاتا ، نوماہ تک تم نے ستی کی ہے، اب تم بیدار ہو جاؤ اور و عده ادا کر دو.اگر اب ادا ئیگی میں تمہیں کوئی مشکل نظر آتی ہے تو اس کو برداشت کرو.سستی اور غفلت کی سزا تمہیں بھگتی چاہیے نہ کہ سلسلہ کو.یہ چیز تھی، جو اس جلسہ کی غرض تھی.ورنہ محض دھواں دھار تقریروں سے، جن کا کوئی اثر نہ ہو، کیا بنتا ہے؟ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جتنی رپورٹیں میرے پاس آئی ہیں، ان میں سے اکثر محض زیب داستاں کے لئے تھیں.اور شاید اگلے ماہ مجھے جلسہ کی پھر ضرورت ہوگی.یہ جلسہ دھواں دھار تقریریں کرنے کے لئے نہیں ہوگا.بلکہ اس جلسہ میں جماعت کے دوستوں کو کہا جائے گا کہ یا تو اتنی رقم یہاں رکھ دو یا دس، پندرہ دن تک ادا کرنے کا وعدہ کرو.یہ دین کا کام ہے، جو باقی سب کاموں پر مقدم ہے.اور اگر آپ دنیا پر مقدم را لوگوں کو ادائیگی میں کوئی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے تو وہ تکلیف تمہیں برداشت کرنی پڑے گی.220
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 1951ء ٹریک جدید کے وعدوں کو ادا کرنے کے ذرائع بھی بتائے گئے ہیں کہ اس اس طرح زندگی بسر کرو تو اتنی گنجائش اخراجات سے نکل آئے گی کہ آپ وعدہ ادا کر سکیں گے.بے شک بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اتنا وعدہ کیا ہے کہ وہ اب اسے ادا نہیں کر سکتے.ایسے لوگ سات ، آٹھ ہزار وعدہ کرنے والوں میں سے سو ڈیڑھ سو ہوں گے.بے شک ان لوگوں نے اتنی رقم کا وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے ادا نہیں کر سکتے.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ ان میں سے بھی دس، بارہ فیصدی لوگوں نے سستی کی ہوگی.ورنہ اکثر لوگوں نے وعدے ادا کر دیئے ہیں.ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ ہمیشہ زیادہ وعدہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں وقت کے اندر ادا کرنے کی توفیق بھی دے دیتا ہے.زیادہ تر نادہندگان ان میں سے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ اپنی حیثیت سے کم وعدے کیے ہیں.کیونکہ ایک بدی، دوسری بدی پیدا کرتی ہے.جب انسان پوری قربانی نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اس میں زور اور طاقت پیدا نہیں کرتے.استثناء ہر جگہ ہوتا ہے.جن لوگوں نے اپنی حیثیت سے کم وعدے کیے ہیں، ان لوگوں میں سے بھی بعض نے وعدے پورے کر دیئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں، جنہوں نے وعدے پورے نہیں کیے.اس طرح جن لوگوں نے اپنی حیثیت سے زیادہ وعدے کیے ہیں، ان میں سے بھی بعض نے وعدے پورے کئے ہیں اور بعض نے ابھی وعدے پورے نہیں کیے.لیکن اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو جن لوگوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر وعدے کیے ہیں، ان میں سے نوے فیصدی نے وعدے ادا کر دیئے ہیں.اور جن لوگوں نے اپنی حیثیت سے کم وعدے کیے ہیں ، ان میں سے پچاس فیصدی ایسے ہوں گے، جنہوں نے ابھی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کی.یہ اس لئے ہے کہ جو لوگ اپنی حیثیت سے زیادہ وعدے کرتے ہیں ، خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کی مدد کرتے ہیں.کیونکہ وہ ایک ناممکن کام کر رہے ہیں.لیکن حیثیت سے کم وعدہ کرنے والے اس مدد سے محروم رہتے ہیں.کیونکہ وہ مکن کام بھی نہیں کر رہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگلے ماہ مجھے دوبارہ جلسہ کروانا پڑے گا تاوہ جلسہ ، کام کا جلسہ ہو.اس میں صرف دھواں دھار تقریریں نہ ہوں.ربوہ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے.دھواں دھار تقریروں پر ہی بس کر دی گئی ہے.بے شک میری بھی تقریر ہوئی ہے اور اس کی بناء پر کچھ وعدے کیے گئے ہیں.لیکن ہر ایک شخص کا کام الگ الگ ہوتا ہے.خلیفہ کا یہ کام نہیں کہ وہ گھر گھر جائے اور وعدے لے.اور سب دنیا کے پاس جا بھی کس طرح سکتا ہے؟ چاہیے یہ تھا کہ گروپ بنائے جاتے اور خدام کو اس کام پر لگا کر تمام لوگوں کی نسیں بنائی جاتیں اور کہا جاتا کہ تمہارا اس سال کا اتناوعدہ تھا.نو ماہ تم نے سستی سے کام لیا ہے، اب اسے ادا کر 221
اقتباس از خطبه جمعه فرمود: 07 ستمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم دو.ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا.اس طرح جن لوگوں نے وعدہ نہیں کیا، ان سے وعدے لیتے اور ان اور سے جلد وصولی کا انتظام کرتے تاروپیہ آتا اور مشکل دور ہوتی.اس ماہ دفتر کے کارکنوں کو گزارہ نہیں ملا.وہ کیا کریں گے؟ کیا یہ کہ دیا جائے گا کہ گوجرانوالہ کی ایک دھواں دھار تقریر، ایک محکمہ کو دے دی جائے اور ان کو کہا جائے کہ وہ اس کو آپس میں تقسیم کر لیں؟ لاہور کی دھواں دھار تقریر، دوسرے محکمہ کو دے دی جائے کہ وہ آپس میں تقسیم کر لیں ؟ راولپنڈی کی دھواں دھار تقریر، تیسرے محکمہ کو دے دی جائے کہ وہ آپس میں تقسیم کر لیں؟ جھوٹ بولنے سے کیا فائدہ؟ پہلے یہ گناہ کیا کہ پہلے وعدہ ادا نہیں کیا اور اب مزید جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ ہم نے دھواں دھار تقریریں کر دی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ توجہ سے کام نہیں کیا گیا.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے، بعض رپورٹیں خوش کن ہیں.انہوں نے ایسا ہی کیا ہے کہ یا تو وعدہ ادا کر کے جاؤ یا یہ بتاؤ کہ کس دن ادا کرو گے ؟ حتی کہ بعض مہاجرین کی جماعتیں ہیں، انہوں نے اس رنگ میں کام کیا ہے اور ان کی کوشش کے نتیجہ میں لوگوں نے وعدے ادا کیے ہیں.اور جن لوگوں نے وعدے ادا نہیں کیے، انہوں نے ایک معین وقت کے بعد ادائیگی کا وعدہ کیا ہے.پس جماعت کو چاہیے کہ وہ جس کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے، وہ اس کے رنگ کو بھی اختیار کرئے“.وو تحریک جدید کے جلسوں کی غرض یہ تھی کہ وعدوں کی ادائیگی میں جن لوگوں سے غفلت ہوئی ہے، انہیں کہا جائے کہ وعدے پورے کرو.نہ یہ کہ دھواں دار تقریریں کرو اور عملی طور پر کچھ نہ کرو.وعدوں اور چندوں کو دھوئیں میں اڑا دو.بلکہ ان جلسوں کی غرض یہ تھی کہ وعدے وصول کرو اور جو کہتے ہیں کہ اب وعدہ ادا کرنا مشکل ہے، انہیں کہو کہ سلسلہ کا کیا قصور ہے؟ یہ مشکل تم نے اپنے لئے خود پیدا کی ہے.تم نے وعدہ وقت پر ادا نہیں کیا.اب اس کی سزا خود بھگتو ، استغفار کرو اور قربانی کر کے وعدوں کو ادا کروں لیکن 02 ستمبر کے جلسوں میں کچھ بھی نہیں ہوا.صرف بعض خطوط آگئے ہیں، جو میں نے تحریک جدید کو بھجوا دیئے ہیں کہ مبارک ہو، تمہارا کام ہو گیا.تقریریں کرنے والوں اور رپورٹیں لکھنے والوں کو سوچنا چاہیئے کہ آیا محض تقریروں اور کا غذ سیاہ کر دینے سے کچھ بنتا ہے؟ کیا یہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہے؟ خدا تعالیٰ کا منشاء تو یہ ہے کہ ایک دفعہ منہ سے کہ دو، اسے پورا کرو.وہ خدا تعالیٰ جو کہتا ہے، وہی کرتا ہے.خواہ ہزاروں آدمی مر جائیں ، اس کی پرواہ نہیں.چنانچہ دیکھ لو، خدا تعالیٰ کا نبی جب دنیا میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے خدا نے کہا ہے ، یوں ہوگا تو خواہ 222
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده: 07 ستمبر 1951ء لاکھوں آدمی مریں ، ہو گا وہی ، جو خدا تعالیٰ نے کہا ہے.یعنی اس کا نبی ہی جیتے گا.یہی رنگ ہے، جو خدا تعالیٰ کا ہے.یعنی جو وہ کہتا ہے، اس سے پھرتا نہیں.لَا يُخْلِفُ اللهُ الْمِيعَادَ جب خدا تعالیٰ کسی چیز کے لیے جگہ یا وقت کا تعین کرتا ہے تو وہ اس کے خلاف نہیں کرتا.ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے یہی مومن کا کام ہونا چاہئے کہ وہ جو کہے، اسے پورا کرے.دین پر مصیبت نہیں آنی چاہئے.ایسا کرنے میں تم پر تکلیف ضرور آئے گی.کیونکہ ہمارا ملک غریب ہے، ہماری قوم غریب ہے اور ہمارے گزارے معمولی ہیں.دشمن ہنستا ہے لیکن ہمارا ایک منافق جو کام کر سکتا ہے، دوسرے مسلمان وہ کام نہیں کر سکتے.الا ماشاء الله ، ان میں بھی بعض اچھے لوگ ہیں.لیکن اکثر حصہ ان میں نعرے مارنے والوں کا ہے.جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں، وہ نعرے نہیں لگایا کرتے.مجموعی طور پر جس نسبت سے ہماری جماعت قربانی کر رہی ہے، کسی دوسری قوم میں یہ قربانی نہیں پائی جاتی.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جس حد تک تمہاری قربانی پہنچ چکی ہے، اس سے آگے بڑھنا ضروری نہیں.خدا تعالیٰ اگر تمہیں دوسروں سے شیر جتنا بلند کرنا چاہتا ہے تو ایک بلی یا اس سے کچھ اوپر نکلنے سے وہ خوش نہیں ہوگا.اگر وہ تمہیں شیر جتنا بلند کرنا چاہتا ہے تو ایک بلی جتنا بلند ہونے سے کیا بنے گا؟ دوسروں سے زیادہ قربانی کرنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ قربانی کی جائے ، جس سے اسلام دوبارہ کھڑا ہو جائے.اگر تم اس سے دھاگہ بھر بھی نیچے رہو گے تو تم اپنے ہاتھوں سے اس مشن کو کمزور کر دو گے، جس کے لئے خدا تعالیٰ نے تمہیں کھڑا کیا ہے.( مطبوعه روزنامه افضل 16 ستمبر 1951ء) 223
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلدسوم - خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء اسلام نے غالب آتا ہے اور ضرور آتا ہے اور ہمارے ہاتھوں سے ہی آنا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِيْهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا اس کے بعد فرمایا:.آج تحریک جدید کے سلسلہ میں اٹھارواں سال شروع ہونے والا ہے.پس میں جماعت کے سامنے اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ سال کے لئے تمام احباب، خواہ وہ ربوہ کے رہنے والے ہوں یا باہر کی جماعتوں کے، حسب قاعدہ ایک مدت مقررہ کے اندر ، جس کا بعد میں اعلان کیا جائے گا، اپنے وعدے مرکز میں بھجوانے شروع کر دیں.تحریک جدید کی تحریک کو جاری کئے ہوئے سترہ سال ہو چکے ہیں اور اب اٹھارواں سال شروع ہونے والا ہے.سترہویں سال میں احباب نے سولہویں سال کی نسبت اس رنگ میں زیادہ قربانی کا ثبوت دیا ہے کہ سترھویں سال کے وعدوں کی وصولی کی رفتار ، سولہویں سال کے وعدوں کی وصولی کی رفتار سے زیادہ ہے.اور دفتر دوم کے ساتویں سال کے وعدوں کی وصولی کی رفتار، چھٹے سال کے وعدوں کی وصولی کی رفتار سے زیادہ ہے.اور فیصدی کے لحاظ سے تو یہ فرق اور بھی بڑھ جاتا ہے.گزشتہ سال کی وصولی اس وقت تک پچپن فیصدی تھی لیکن اس سال کی وصولی تر اسی فیصدی ہے.دوسرے دور کے متعلق مجھے پوری معلومات حاصل نہیں ہو سکیں مگر غالبا اس سال کی وصولی چوہتر ، پچھتر فیصدی کے قریب ہے.جبکہ گذشتہ سال کی وصولی پچاس فیصدی کے قریب تھی.بہر حال فیصدی وصولی کے لحاظ سے اس سال جماعت کی قربانی پچھلے سال سے زیادہ ہی رہی ہے، پہلے دور کی بھی اور دوسرے دور کی بھی.فجزاكم الله احسن الجزاء.لیکن پہلے دور کے متعلق ایک بات افسوسناک بھی نظر آتی ہے.اور وہ یہ کہ اس کے وعدے پچھلے تین سالوں سے متواتر نیچے گرتے چلے گئے ہیں.چودھویں سال میں دولاکھ ، تر اسی ہزار کے وعدے تھے.225
خطبہ جمعہ فرمود و 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم حالانکہ چودھواں سال سخت تباہی کا سال تھا، اس میں ملک کے دوٹکڑے ہو چکے تھے، بہت لوگ اپنی جائیدادوں سے محروم ہو گئے تھے اور آئندہ کے متعلق انھیں کوئی امید نہیں رہی تھی.گواب اکثروں نے یہاں آکر اپنی جائیداد میں بنالی ہیں.بلکہ بہتوں کے لئے ملک کی یہ تقسیم بابرکت ہوگئی ہے.وہ لوگ جن کی وہاں صرف دودو، چار چار کنال زمین تھی، یہاں آکر ان کو سات سات، آٹھ آٹھ گھماؤں زمین مل گئی ہے.لیکن وہ لوگ جن کی وہاں زیادہ زمینیں تھیں، ان کو یہاں کم زمینیں ملیں ہیں.بہر حال چودہواں سال ، وہ سال ہے، جو ہماری جماعت کے لئے ایک نازک ترین سال تھا.اس وقت کم جائیدادوں کے باوجود، کم سامانوں کے باوجود، کم آمد نیوں کے باوجود جماعت نے دولاکھ، تر اسی ہزار کے وعدے کئے تھے.لیکن اگلے سال جماعت کے وعدے اس سے کم ہو گئے.یعنی پندرہویں سال میں جماعت کے وعدے دولاکھ ، پچھتر ہزار ہو گئے.سولہویں سال میں آکر کوئی دو لاکھ ستر ہزار کے قریب ہو گئے اور ستر ہویں سال میں آ کروہ دولاکھ، تریسٹھ ہزار ہو گئے.گویا جو اصل مصیبت کا وقت تھا، اس وقت جماعت نے وعدوں کے لحاظ سے اپنی قربانی کو تیز کر دیا.لیکن جب وقفہ بڑھتا چلا گیا تو بعض لوگ اپنے ایمان کے معیار کو اس حد تک قائم نہ رکھ سکے ، جس حد تک خوف اور مصیبت کے زمانہ میں انہوں نے اپنے ایمان کو قائم رکھا تھا.یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ زیادتی در حقیقت ان لوگوں کی طرف سے تھی ، جو تقسیم کی ضرب سے محفوظ رہے.چونکہ تازہ بتازہ انھوں نے یہ بات دیکھی تھی کہ ان کے بھائی اپنی جائیدادوں سے بے دخل کر دیئے گئے، اپنے گھروں سے بے دخل کر دیئے گئے اور اپنے سامانوں سے بے دخل کر دیئے گئے اور اپنے وطنوں سے نکال دیئے گئے.اس لئے ان کے دل ہل گئے اور انھوں نے سمجھا کہ یہ دنیا بے ثبات ہے، اس کی دولت کا کوئی اعتبار نہیں.چلو خدا تعالیٰ کے راستہ میں ہی ہم اپنے اموال کو قربان کر کے اس کی رضا حاصل کریں.جب سال گذر گیا تو وہ خوف کم ہو گیا اور ایمان ، اس معیار پر نہ رہا، جس پر پہلے تھا اور وعدے پہلے سے کم ہو گئے.جب دو سال گذر گئے تو ایمان اور بھی نیچے آ گیا اور جب تین سال گذرے تو ایمان اس سے بھی زیادہ نیچے آ گیا.اور 47ء کی وہ مصیبت ، آفت اور تباہی ، جو مسلمانوں پر آئی تھی، انہیں بھول گئی.پس ہو سکتا ہے کہ اس کی کمی کی ایک یہ وجہ بھی ہو لیکن یہ توجیح کرنی طبیعت پر گراں گذرتی ہے اور دل کو تکلیف پہنچاتی ہے.کیونکہ اس سے ایک اور نتیجہ بھی نکلتا ہے، جو خطرناک ہے.جہاں ہم اس کمی کی یہ توجیح کر لیتے ہیں کہ در حقیقت یہ زیادتی ان لوگوں کی طرف سے ہوئی تھی ، جن پر مصیبت نہیں آئی تھی.اور اس وجہ سے ہوئی تھی کہ انہوں نے اپنے ساتھ کے مسلمانوں کی تباہی کو دیکھا اور وہ اتناڈر 226
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء گئے کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ دنیابے ثبات ہے، اس کی ہر چیز فانی ہے اور بے حقیقت ہے.اور عقلمندی اسی میں ہے کہ وہ ان چیزوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں تا کہ انہیں اس کی طرف سے ثواب تو حاصل ہو.مگر پھر جوں جوں صدمہ کم ہوتا چلا گیا توں توں ان کی قربانی بھی کم ہوتی چلی گئی.اگر ہم یہ توجیح کریں اور ساتھ اس امر کو بھی مدنظر رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے سامان ضرور کرتے ہیں.یہ ہو نہیں سکتا کہ جس مذہب کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ اسے سارے دینوں پر غالب کرے، جس مذہب کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ وہ تمام پرانے دینوں کو کھا جائے ، عین اس وقت جب خدا تعالیٰ کا منشاء اس کو غالب کرنے کا ہو، وہ گر جائے اور ہار جائے.یہ تو قطعی طور پر ناممکن ہے.دوسرے اس بات کو مدنظر رکھیں کہ یہ بھی یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ کام انہی لوگوں سے لینا ہے، جنہوں نے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہوا ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالٰی نے اپنے کام ان سے لئے ہوں، جنہوں نے خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا.حضرت موسی اعلیہ السلام آئے تو خدا تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے دین کی اشاعت فرعون اور اس کے ساتھیوں سے نہیں لی بلکہ موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں سے لی.حضرت عیسی علیہ السلام آئے تو خدا تعالیٰ نے عیسی کی تعلیم اور ان کی باتوں کی اشاعت یہودیوں اور ان کے علماء سے نہیں کرائی بلکہ عیسی کی باتوں اور ان کی تعلیم کی ترویج اور اشاعت عیسی کے ماننے والوں کے ذریعہ ہی ہوئی.اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو بعثت اولی میں جو قرآن کریم پھیلا اور دنیا میں توحید پھیلی اور دوسرے علوم پھیلے، ان باتوں کو ابو جہل اور عقبہ اور شیبہ نے رائج نہیں کیا بلکہ ان باتوں کو ابو بکر، عمر، عثمان علی اور دوسرے صحابہ نے رائج کیا.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہمیشہ سے چلی آتی ہے اور اس زمانہ میں بھی یہ بدل نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اس کی سنت بدلا نہیں کرتی.اور اس کی یہ سنت ہے کہ ہمیشہ ہی اس کی طرف سے جو پیغام آتا ہے، اس کی اشاعت اور تبلیغ اور ترویج اس پیغام پر پہلے ایمان لانے والوں کے ذمہ ہوتی ہے اور وہی اس خدمت کو سرانجام دیتے ہیں.جب یہ دو حقیقتیں ثابت شدہ ہیں تو ہم نے جو پہلی توجیح کی تھی ، اسے دیکھ کر دل ڈر جاتا ہے.کیونکہ جب یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسلام نے ضرور غالب آتا ہے.اور جب یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسلام نے انہیں لوگوں کے ہاتھوں غالب آتا ہے، جنہوں نے خدا تعالیٰ کے مامور کو مانا.تو اس کے ساتھ ہی جب یہ بھی ثابت ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کو ماننے والی اس وقت کی جماعت تب قربانی 227
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کرتی ہے، جب خدا تعالٰی کا تھپڑ ان کو پڑتا ہے.اگر خدا تعالی ک تھپڑ نہیں پڑتا تو وہ قربانی بھی نہیں کرتے.تو لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا تھپڑ پھر پڑے گا تا کہ ان کی سستی اور غفلت دور ہو.یا تو یہ صورت ہوتی کہ دین اسلام کے متعلق یہ فیصلہ ہوتا کہ اس نے دنیا پر غالب نہیں آنا.ایسی صورت میں ہم کہہ سکتے تھے کہ چلو جب اسلام نے غالب ہی نہیں آنا تو ہم اس کے لئے قربانی کیوں کریں؟ اور یا پھر یہ صورت ہوتی کہ دین کی ترویج غیر لوگوں کے ہاتھوں سے بھی ہو جاتی.ایسی صورت میں بھی ہم کہ سکتے تھے کہ ہمارا کیا ہے، خدا تعالیٰ یہ کام ہندوؤں سے بھی کر والے گا یا عیسائیوں سے کروا لے گا؟ لیکن جب اسلام نے غالب آتا ہے اور ضرور آتا ہے اور جب اسلام نے ہمارے ہاتھوں سے ہی غالب ہونا ہے اور ہم عادی ہوں، اس بات کے کہ ہم تھپڑ کھاتے ہیں تو کام کرتے ہیں چھپڑ نہ پڑے تو کام نہیں کرتے تو سیدھی بات ہے کہ ہمیں تھپڑ پڑے گا اور پہلے سے زیادہ سخت پڑے گا.پس وہ جو پہلی توجیح تھی کہ غربی پاکستان میں رہنے والے احمدی یا سندھ اور صوبہ سرحد میں رہنے والے احمدی ، جن کو مشرقی پنجاب والی چوٹ نہیں پڑی تھی.ان کے دلوں میں زیادہ خوف پیدا ہوا اور ان کی وجہ سے ہمارے چندوں میں اضافہ ہو گیا لیکن بعد میں وہ اس صدمہ کو بھول گئے اور ان کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا.یہ توجیح نہایت بھیانک خطرہ آئندہ کے لئے پیدا کرتی ہے، جس کو دیکھنا یا سننا بھی کوئی شخص برداشت نہیں کر سکتا.اس کے مقابلہ میں ہمارا دل اس بات کو زیادہ برداشت کر لیتا ہے کہ کچھ احمد یوں میں کمزوری پیدا ہوئی اور انہوں نے اس تحریک میں اتنا حصہ نہیں لیا، جتنا حصہ انہیں لینا چاہئے تھا اور اس وجہ سے وعدوں میں کمی آگئی.لیکن باقی احمدی اپنے اخلاص پر قائم رہے.یہ توجیح زیادہ تسلی کا موجب ہوتی ، اگر ایسا ہوتا.یہ نسبت اس کے کہ یہ سمجھا جائے کہ اس ضرب کی وجہ سے، جو تقسیم ملک کی وجہ سے پڑی تھی ، لوگوں نے اپنی قربانی زیادہ کر دی تھی.بہر حال کوئی وجہ بھی ہو تحریک جدید کے اس سال اور گزشتہ دو سال کے وعدے پسندیدہ نہیں سمجھے جاسکتے ، کیونکہ ان سالوں میں لوگوں کے وعدے اوپر سے نیچے کی طرف گرنے شروع ہو گئے ہیں.اس سے پہلے ان کے وعدے نیچے سے اوپر کی طرف چڑھتے تھے اور یہی ایک مومن کی شان ہونی چاہیے کہ وہ نیچے نہ گرے.اور واقعات بھی یہی بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد عام طور پر ہمارے ملک کی مالی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی ہے تنخواہیں بڑھ گئی ہیں، تجارتیں وسیع ہو رہی ہیں ، کارخانے کھل گئے ہیں اور وہ وپیہ، جو پہلے ہندو کی جیب میں جاتا تھا ، اب مسلمان کے ہاتھ میں جاتا ہے اور بحصہ رسدی احمدیوں کے 228
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء ہاتھ میں بھی آتا ہے.پس بظاہر حالات چاہیے یہ تھا کہ یہ رفتار اوپر کی طرف چلتی اور پہلے سے زیادہ سرعت کے ساتھ ترقی کرتی ، نہ یہ کہ پہلے معیار سے بھی گر جاتی.پس ایک تو میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ غفلت جہاں سے بھی پیدا ہوئی ہے، اسے دور کرنا چاہئے.یا تو یہ بات ہے، جونہایت خطرناک ہے کہ 47ء کی چوٹ کے خوف کی وجہ سے تمام احمد یوں نے یکدم اپنے وعدے زیادہ کر دیئے تھے، خدا نہ کرے ایسا ہو.اور یا پھر اس کی یہ وجہ ہے کہ بعض احمدیوں نے کمزوری دکھائی اور ان کی وجہ سے کمی آگئی.بہر حال کوئی صورت ہو اور کسی وجہ سے بھی کمی آگئی ہو، اگر دین کے لئے روپیہ کم آئے گا تو اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر تبلیغ بھی کم ہوگی.چاہے کوئی وجہ ہو، خواہ چوری ہوگئی ہو اور اس وجہ سے روپیہ کم ہو گیا ہو یا آمد کم ہوگئی ہو یا سنتی اور غفلت واقع ہوگئی ہو.نتیجہ یہی نکلے گا کہ پیسہ کم آئے گا اور جب پیسہ کم آئے گا تو اسلام کی اشاعت اور اسلام کی ترویج کو بھی نقصان پہنچے گا.اور ظاہر ہے کہ یہ بات ناپسندیدہ ہوگی.قوم کے معنی ہی یہی ہوتے ہیں کہ اگر ایک میں کوتاہی پیدا ہو تو دوسرا اس کو دور کر دے.ایک گھوڑے کی گاڑی کا گھوڑ ا جب تھک جاتا ہے تو گاڑی ٹھہر جاتی ہے.لیکن دو گھوڑے کی گاڑی کا اگر ایک گھوڑا تھک بھی جاتا ہے تو دوسرا چلتا چلا جاتا ہے.جماعت اور فرد میں یہی فرق ہے، جو کام ایک فرد کر رہا ہو، وہ جہاں کمزور ہو جائے گا، کام ختم ہو جائے گا.لیکن جو کام ایک قوم کر رہی ہو ، اس کام کے کرتے ہوئے ، اگر ایک شخص میں کمزوری بھی پیدا ہو گئی ہوگی تو باقی آدمی اس بوجھ کو بانٹ لیں گے اور اس طرح وہ قومی کام کے تسلسل میں کوئی روک پیدا نہیں ہونے دیں گے.پس جماعت کے قائم کرنے کی جو غرض ہے، ہماری جماعت کو وہ کبھی نہیں بھولنی چاہئے.اگر وہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کا کچھ حصہ کمزور ہے، خواہ ایمانی لحاظ سے یا مالی لحاظ سے یا قربانی میں شمولیت کے عزم کے لحاظ سے تو باقیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے قدم کو تیز تر کر دیں اور جماعتی کاموں میں کوئی رخنہ واقع نہ ہونے دیں.جماعت تبھی جماعت کہلا سکتی ہے، جب وہ دوسروں کا بوجھ بٹانے کے لئے ہر وقت تیار رہے اور سمجھے کہ اگر کسی حصہ میں بھی کمزوری پیدا ہوئی تو میں خود وہ بوجھ برداشت کر کے اس کمزوری کو ظاہر نہیں ہونے دوں گا.پس اس حصہ کی کمی کو بھی دور کرنا چاہیے.باقی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال وصولی زیادہ ہوئی ہے.لیکن اس سال اخراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں.جس کی وجہ سے تحریک جدید کی مالی حالت خطرہ میں گھری ہوئی ہے.اگر اسے جلدی ضبط میں نہ لایا گیا تو ممکن ہے کہ خدانخواستہ ہمیں اپنے بعض مشن بند کرنے پڑیں.ہم یقین 229
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم تو یہی رکھتے ہیں کہ چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے، اس لئے وہ اس کی ترقی کے لئے کوئی نہ کوئی سامان پیدا کر دے گا.وہ خود لوگوں کے دلوں میں قربانی کی روح پیدا فرمائے گا یا نٹے آدمی لائے گا ، جو اس بوجھ کو خوشی سے اٹھانے کے لئے تیار ہو جائیں گے.لیکن جہاں تک ہم ظاہری حالات کو دیکھتے ہیں.ہمارے دل میں دھڑکن پیدا ہونے لگتی ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کی فتح کا جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے، اس میں کوئی روک پیدا نہ ہو جائے.جہاں تک میں دیکھتا ہوں، ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے اور جہاں تک میں دیکھتا ہوں ، ہماری جماعت کے نوجوان اچھے تعلیم یافتہ نکل رہے ہیں اور ان کی مالی حالت ترقی کر رہی ہے.ان امور کو دیکھتے ہوئے ، ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ اگر جماعت کی تربیت کی جائے اور صحیح طور پر کی جائے تو یہ کام ہمیشہ ترقی ہی کرتا جائے گا.چونکہ اب نیا سال شروع ہونے والا ہے، اس لئے میں گذشتہ سال کی طرح پھر جماعت کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ پچھلے سال کے وعدوں سے غافل نہ ہو.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ اب نیا سال شروع ہو گیا ہے، اس لئے ہمارا پچھلا وعدہ معاف ہے.مگر یہ بالکل غلط ہے.خدا تعالیٰ سے کئے گئے وعدے اگر پورے نہ کئے جائیں تو انسان کو اگلی نیکیوں کی بھی توفیق نہیں ملتی.یہ کسی بندے سے معاملہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے، جو عالم الغیب ہے.بندوں سے اگر تم کوئی وعدہ خلافی کرو تو ہوسکتا ہے کہ وہ تمہاری وعدہ خلافی کو بھول جائیں.مگر خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ تم نے اس سے کیا وعدہ کیا تھا اور تم اسے کیوں پورا نہیں کر رہے؟ پس دوستوں کو یا درکھنا چاہیے کہ یہ وہ وعدہ ہے، جو انہوں نے خدا تعالیٰ سے کیا ہے.تم گورنمنٹ سے وعدہ کر کے اسے نہیں توڑ سکتے تم محلہ والوں سے وعدہ کر کے اسے نہیں توڑ سکتے ہم اپنے افسروں سے وعدہ کر کے اسے نہیں توڑ سکتے بلکہ بڑے تو الگ رہے، اگر تم اپنے بچوں سے کوئی وعدہ کرتے ہو، پھر اسے توڑنے لگتے ہوتو وہ شور مچادیتے ہیں کہ آپ یہ کیا کرنے لگے ہیں.اور تمہیں اپنے بچوں کا وعدہ بھی پورا کرنا پڑتا ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے ، میں نے ایک امریکن کا ایک قول پڑھا، جو مجھے بڑا دلچسپ معلوم ہوا.وہ لکھتا ہے، معلوم نہیں کیا بات ہے کہ ہمارے بچوں کو کبھی بھی یہ بھول جاتا ہے کہ وہ سکول میں داخل ہیں اور انہوں نے مدرسہ میں پڑھنے کے لئے جانا ہے کبھی کبھی ہمارے بچوں کو یہ بھی بھول جاتا ہے کہ بڑوں اور بزرگوں کے سامنے جاتے وقت کیا آداب بجالانے چاہیں اور کون سے طریق ہیں، جو انہیں اختیار کرنے چاہئیں، کبھی کبھی ہمارے بچوں کو یہ بھی بھول جاتا ہے کہ انہیں اپنا لباس درست رکھنا چاہیے، کبھی انہوں نے کوٹ نہیں پہنا ہوتا، کبھی ان کے پاؤں میں جواب نہیں ہوتی کبھی جوتی نہیں ہوتی ، ہمارے بچوں کو 230
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود و 30 نومبر 1951ء کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ آداب، جو کھانے پینے کے ہیں کہ ہاتھ دھو کر کھانا کھاؤ اور خدا تعالیٰ سے دعا کردو، یہ انہیں ہمیشہ ملحوظ رکھنے چاہئیں، وہ بعض دفعہ بغیر ہاتھ دھوئے ، کھانا شروع کر دیتے ہیں یا اللہ تعالی سے دعا نہیں کرتے لیکن ایک بات ہے، جو بچے کبھی نہیں بھولتے اور وہ یہ کہ خواہ جھوٹے طور پر ہی کسی زمانہ میں منہ سے بات نکل جائے کہ ہم تمہیں یہ چیز لے کر دیں گے تو وہ اس بات کو کبھی نہیں بھولتے اور اس وقت تک پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں ، جب تک وہ چیز انہیں لا کر نہ دی جائے؟ در حقیقت اس میں بہت بڑی سچائی بیان کی گئی ہے.اور ہر گھر میں ماں باپ کو اس کا تجربہ ہوگا کہ بچہ کو خواہ اس کے والدین مذاق ہی سے یہ کہہ دیں کہ تمہیں فلاں چیز لے کر دیں گے اور پھر لے کر نہ دیں تو وہ ہمیشہ کہتا رہتا ہے کہ فلاں چیز کا میرے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا مگر مجھے وہ چیز لے کر نہیں دی گئی.اگر بچہ بھی اپنا وعدہ پورا کرواتا ہے تو ہمارا خدا کیا بچوں سے بھی گیا گذرا ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کروائے گا؟ اور اگر بچوں کے ڈر کے مارے تم ان کے وعدوں کو بھی پورا کر دیتے ہو تو کیا ہمارا خدا ہی ایسا ہے کہ تم اس سے ڈر کر اپنے وعدوں کو پورا نہ کرو؟ پس تم نے جو خدا تعالیٰ سے وعدے کئے ہیں، ان وعدوں کی عظمت کو پہچانو اور یا درکھو کہ تمہارا مستقبل تمہاری اولاد کا مستقبل ،تمہاری قوم کا مستقبل تمہارے ملک کا مستقبل تمہاری حکومت کا مستقبل بلکہ ساری دنیا کا مستقبل خدا تعالیٰ سے ہی وابستہ ہے.اگر اس سے صلح رکھی جائے گی تو تمہارے ہر کام میں برکت پیدا ہو جائے گی.لیکن اگر تم اس سے صلح نہیں رکھو گے تو تمہارا ہر کام خراب ہوگا اور تم اپنی کامیابی سے کوسوں دور چلے جاؤ گے.پس گذشتہ سال کے جو وعدے ہیں، ان کو پورا کرنا بھی تمہارا فرض ہے اور پورا بھی اسی سال کے اندر کرنا ہے.دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان وعدوں کو جلد تر پورا کرنے کی کوشش کریں.بعض جماعتوں کی طرف سے اطلاعیں آرہی ہیں کہ انہوں نے چندے بھی بھجوا دیئے ہیں اور بعض رقوم چیکوں کے ذریعہ آرہی ہیں، جو ابھی تک نہیں پہنچے.ان چندوں کو ملا کر اس سال کی فیصدی انشاء اللہ اور بھی بڑھ جائے گی.لیکن اگر پھر بھی بعض لوگوں کے وعدے رہ جائیں تو انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے وعدوں کو جلد سے جلد ادا کر دیں.تا کہ انہیں اگلے سال کے وعدوں کو پورا کرنے کی جلدی توفیق مل سکے.جس شخص پر پچھلے سال کا بھی بوجھ ہوتا ہے ، وہ اگلے سال کا بوجھ اٹھانے میں اتنی بشاشت محسوس نہیں کرتا، جتنی بشاشت اور آسانی وہ شخص محسوس کرتا ہے، جس پر گزشتہ سال کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا.اس کے علاوہ دوستوں کو ایک اور امر بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ ابھی چھٹے سال کے بلکہ اس سے بھی پہلے سالوں کے کئی وعدے ایسے ہیں ، جو پورے نہیں ہوئے.ان وعدوں کو بھی اگر مد نظر رکھا جائے 231
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم تو ابھی ایک لاکھ کے قریب وصولیاں باقی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اس سال اخراجات کی ایسے رنگ میں زیادتی ہوئی ہے کہ چندے کی وصولی اور اچھی وصولی کے باوجود ابھی تک اخراجات پورے نہیں ہوئے.مثلاً اس وقت تک سترہویں سال کی ساری آمد خرچ ہو چکی ہے.اس طرح ساتویں سال کی آمد بھی بجائے اس کے کہ ریزروفنڈ میں جاتی ، ساری کی ساری اس سال کے اخراجات میں صرف ہو چکی ہے.اور اس کے علاوہ ابھی چوالیس ہزار روپیہ قرض لیا گیا ہے.گویا چوہتر فیصدی آمد کے باوجود بھی چھ مہینے کے اخراجات باقی ہیں.یہ چھ ماہ کے اخراجات اسی صورت میں چل سکتے ہیں، جب ستر ہو ئیں سال کے بھی سارے بقائے وصول ہو جائیں اور سولہویں سال کے بھی سارے بقائے وصول ہو جائیں اور جب ساتویں سال کے بھی سارے بقائے وصول ہو جائیں اور چھٹے سال کے بھی سارے بقائے وصول ہو جائیں.تب جا کر یہ سال صحیح طور پر گزرسکتا ہے اور آئندہ سالوں کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے.اس کے ساتھ ہی احباب یہ بھی مدنظر رکھیں کہ اگلے سال کے وعدے وہ نمایاں اضافوں کے ساتھ پیش کریں اور اپنا قدم آگے بڑھانے کی کوشش کریں.یہ غلط طریق ، جو اختیار کر لیا گیا تھا کہ وعدے اوپر سے نیچے آنے شروع ہو گئے تھے، اس کو دور کیا جائے اور دوست اپنے وعدوں میں نیچے سے اوپر کی طرف جائیں اور اپنے وعدوں میں زیادتی کریں.ایک اور سخت ردک ، جو ہمارے راستہ میں پیدا ہوگئی ہے، دوست اس کو بھی مد نظر رکھیں اور وہ یہ کہ اب ہندوستان کا روپیہ ہمارے پاس نہیں آ رہا.ہندوستان کہ چھتیس ہزار روپیہ کے وعدے تھے، جن میں سے ایک پیسہ بھی ہمیں نہیں مل سکتا.ساری دنیا سے روپیہ یہاں آجاتا ہے اور ان کے وعدے یہاں پہنچ جاتے ہیں، لیکن ہندوستان سے روپیہ نہیں آسکتا.اس کے علاوہ قادیان میں بھی روپیہ کی ضرورت ہے.پس چھتیس ہزار کی تو اس طرح کمی آگئی.در حقیقت ہندوستان کے وعدوں کو نکال کر دولاکھ ،ستائیس ہزار آمد پہلے دور کی رہ جاتی ہے اور ہمارا بجٹ ساڑھے چار لاکھ کا ہے.پس کچھ تو وعدوں کے لحاظ سے کمی ہوئی ہے اور کچھ ہندوستان سے روپیہ نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے کمی ہوئی ہے.ہمیں اس سال کوشش کرنی چاہیے کہ ہندوستان کے وعدوں کے لحاظ سے ہمارے چندوں میں جو کمی ہوئی ہے، اس کو بھی پورا کریں.اور افراد کی ستی اور غفلت نے جو کمی پیدا کی ہے، اس کو بھی دور کریں.اور پھر پاکستان اور بیرونی دنیا کے وعدوں کو زیادہ سے زیادہ بلند کریں.یہاں تک کہ یہ وعدے اس حد تک پہنچ جائیں ، جس حد تک چودہویں سال میں تھے.بلکہ ہمیں تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ چودہویں سال میں اگر دولاکھ ، تر اسی ہزار کے وعدے آئے 232
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود و 30 نومبر 1951ء تھے تو اب ہمارے وعدے تین لاکھ سے بھی اوپر نکل جائیں.اور ساتویں سال کی جماعت اپنے وعدوں کو اور بڑھا کر دواڑھائی لاکھ تک پہنچا دے.در حقیقت سیدھی بات تو یہ ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے.ہمیں اگر خدمت کی توفیق ملتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ہم پر فضل نازل ہو رہا ہے اور ہمیں اس کی رضا حاصل ہے.اور اگر ہمیں خدمت کی توفیق نہیں ملتی تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے خفا ہے اور وہ ہمیں قربانیوں سے محروم کر کے ہمیں سزا دے رہا ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہوتا ہے، جو وہ اپنے بندوں سے خدمت لے لیتا ہے.بندوں کا خدا تعالیٰ پر کوئی احسان نہیں ہوتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ لا تَمُنُّوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَذَيكُمْ لِلْإِيْمَانِ (حجرات ۲۶ ۶۲ ) تم مجھ پر یہ احسان نہ جتلاؤ کہ ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے.اسلام قبول کر کے تم نے خدا تعالیٰ پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ خدا تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے.پس جتنا جتنا کسی کو ثواب کا موقع ملنا ہے ، وہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہوتا ہے اور خدمت کے مواقع سے محروم ہو جانا یا اس میں کمی واقع ہو جانا ، یہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا نشان ہوتا ہے، خواہ دنیا میں کسی کو نظر آئے یا نہ آئے.بہر حال جب بھی کوئی شخص قربانی میں کمزور ہوتا ہے ، وہ مالی قربانی سے دریغ کرتا ہے یا وقت کی قربانی سے دریغ کرتا ہے یا عزت اور وجاہت کی قربانی سے دریغ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہے.چنانچہ اس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ بعض لوگ بے دین اور مرتد ہو جاتے ہیں.بے شک مرتد ہونے پر وہ یہ کہتا ہے کہ الحمد للہ میں ہدایت پا گیا.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ارتداد سے پہلے اسے خدمت دین کی توفیق مل رہی تھی ؟ اگر اس کے حالات کو غور سے دیکھا جائے گا تو یہی معلوم ہوگا کہ وہ نمازوں میں بھی سست تھا ، چندوں میں بھی ست تھا، قومی کاموں میں بھی ست تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین کی محبت اس کے دل سے جاتی رہی، ایمان اڑ گیا اور ارتداد نے اس کی جگہ لے لی.پس جب کسی شخص پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے تو اسے دین کی خدمت کی توفیق ملاتی ہے اور جب اس کی قربانیوں میں کمی آجائے تو یہ ثبوت ہوتا ہے، اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ کا اس سے تعلق کمزور ہورہا ہے اور خدا تعالیٰ اس سے خفا ہے.ایک اور بات میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس تحریک کے متعلق دوستوں کے دلوں میں جو غلط فہمی پائی جاتی ہے، خواہ اس غلط فہمی کے پیدا کرنے کا موجب میرے اپنے ہی اقوال کیوں نہ ہوں، اسے دور 233
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کر دینا چاہئے غلطی، بہر حال غلطی ہے اور اس کا ازالہ ضروری ہے.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ یہ تحریک صرف چند سالوں کے لئے جاری کی گئی تھی مگر اب اس کو ممتند کیا جارہا ہے.گزشتہ سال بھی میں نے اس طرف اشارہ کیا تھا.جس پر بعض سمجھ گئے بعض ادھورا سمجھے اور بعض اب تک بھی نہیں سمجھے.میں نے جب یہ تحریک جاری کی تھی تو تین سال کے لئے جاری کی تھی.پھر میں نے اس تحریک کو دس سال تک بڑھا دیا اور پھر اسے انیس سال تک ممتد کر دیا.بعض ایسے تھے ، جنہوں نے تین سال کے اختتام پر اس تحریک میں حصہ لینا چھوڑ دیا اور انہوں نے کہا کہ بس ہم سے اتنے عرصہ کے لئے ہی قربانی کا مطالبہ کیا گیا تھا، اب ہم زیادہ قربانی نہیں کر سکتے.بعض ایسے تھے، جنہوں نے دس سال تک چندہ دیا اور کہا کہ اب ہم اس سے آگے جانے کے لئے تیار نہیں.کیونکہ آپ نے دس سال تک اس تحریک کو بڑھایا تھا.اس کے بعد جب یہ تحریک انیس سال تک ممتد کر دی گئی تو گو ایسے لوگ بھی ہیں، جو میرے خطبات اور اعلانات کو سن کر حقیقت کو سمجھ چکے ہیں، مگر اب بھی بعض لوگ ایسے ہیں، جنہوں نے میرے مفہوم کو ادھورا سمجھا ہے اور انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ آپ کے اعلانات سے پتہ لگتا ہے کہ انہیں سال کے بعد یہ قربانی ختم ہو جائے گی مگر ہم تو ہر وقت قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں.آپ جب تک قربانی کے لئے بلاتے رہیں گے، ہم اس پر لبیک کہتے چلے جائیں گے.اب یہ فقرہ بظاہر تو بڑے اخلاص والا معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقتاً اس میں بھی کمزوری پائی جاتی ہے.سوال یہ ہے کہ دین کی خدمت میں میرے بلانے کا کیا سوال ہے؟ فرض کرو د نیا میں ایک ہی مسلمان رہ جائے تو کیا وہ ایک مسلمان دین کی خدمت چھوڑ دے گا، اس لئے کہ اسے بلانے والا کوئی نہیں ؟ جہاں عشق ہوتا ہے، وہاں تو بلانے اور نہ بلانے کا سوال ہی نہیں ہوتا.لوگوں نے لطیفہ بنایا ہوا ہے کہ ایک چھوٹا سا جانور ہے، جو رات کو الٹا سوتا ہے.کسی نے اس سے پوچھا کہ تورات کو ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھا کر کیوں سوتا ہے؟ اس نے کہا دیکھو ساری دنیا رات کو سو جاتی ہے اور غافل ہو جاتی ہے، اگر آسمان رات کو گر پڑے تو سارے کے سارے تباہ ہو جا ئیں.پس میں سوتے وقت ٹانگیں اٹھا لیتا ہوں تا کہ اگر آسمان گرے تو میری ٹانگوں پر گرے، دنیا تباہ نہ ہو.اب ہے تو یہ ایک لطیفہ، جانوروں سے کون باتیں کیا کرتا ہے؟ مگر پرانے زمانہ میں دستور تھا کہ حکمت کی بات جانوروں کے منہ سے بیان کی جاتی تھی.ساری مثنوی رومی ایسی ہی حکایات سے بھری پڑی ہے.اسی طرح کلیلہ دمنہ وغیرہ میں بھیڑ یاما شیر یا بلخ یا مرغوں کی زبان سے کئی داستانیں بیان کی گئیں ہیں.کیونکہ لوگ سمجھتے تھے کہ دوسروں کو حکمت کی بات سمجھانے کا ایک موثر ذریعہ ہے اور اس طرح زیادہ آسانی کے ساتھ وہ دوسرے کی 234
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم بات کو سمجھ لیتے ہیں.اسی طرح اس لطیفہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب انسان کے اندر لوگوں کی خیر خواہی کا احساس ہو اور ان کی محبت موجزن ہو تو وہ ان کی محبت میں یہ نہیں دیکھا کرتا کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں یا نہیں بلکہ وہ اپنی قربانی پیش کر دیتا ہے.یہ نکتہ ہے، جو اس لطیفہ میں بیان کیا گیا ہے.ورنہ ایک چھوٹے سے جانور نے بھاری آسمان کو اپنی ٹانگوں پر کیا اٹھانا ہے؟ اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ اس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ.وہ اپنی ٹانگیں اٹھا دیتا ہے تا کہ اگر آسمان گرے تو ان پر گرے، لوگ اس سے تباہ نہ ہوں.اس لطیفہ کا مقصد کسی جانور کا قصہ بیان کرنا نہیں بلکہ یہ مقصد ہے کہ انسانوں میں سے ہر وہ انسان، جس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت ہوتی ہے ، وہ اپنی قربانی پیش کر دیتا ہے.چاہے اس کا کچھ بھی نتیجہ ہو.ہمیں بھی اسلام کی محبت کا دعویٰ ہے.ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے قائم ہی اس لئے کیا ہے کہ وہ اسلام کو پھر اس کی بنیادوں پر مضبوطی سے قائم کر دے اور کفر کو شکست دے.پس ہمارے لئے یہ سوال ہی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں دین کی خدمت کے لئے کوئی بلاتا ہے یا نہیں؟ بے شک اس وقت ایک نظام خدا تعالیٰ نے تم کو دے دیا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر میں کسی معاملہ میں نہ بھی بلاؤں اور تمہیں نظر آتا ہو کہ وہ دین کی خدمت کا کام ہے تو تمہارا فرض ہے کہ وہ کام کرو.لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض بلانے پر بھی نہیں بولتے بلکہ ان کے سامنے ہر وقت یہی سوال رہتا ہے کہ دیکھئے سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں وہ کہتے ہیں پہلے تین سال کہا تھا، پھر دس سال کر دئیے ، اب 19 سال کر دیئے گئے ہیں.مگر میں تمہیں کہتا ہوں کہ انیس سالوں کا بھی کیا ہے، اگر ہزار سال تمہاری عمر ہو تو اگر تم عاشق صادق ہو تو یہ کام تم کو ہزار سال کر کے بھی تھوڑا نظر آنا چاہیے.تم سے پہلوں کے ساتھ بھی بعض معین وعدے کئے گئے تھے مگر انہوں نے تین یا دس کی پروا نہیں کی.انہوں نے سمجھا یہ تین اور دس اور انہیں تو ہمارے فائدہ کے لئے ہیں.یہ فائدہ جتنا بھی بڑھتا چلا جائے ، ہمارے دل میں اتنی ہی خوشی پیدا ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کو جب مکہ والے متواتر دکھ دیتے چلے گئے اور انہوں نے اسلام کے مٹانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے چند لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نصیحت فرمائی کہ مدینہ میں تبلیغ کے ذریعہ اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرو.چنانچہ اگلے سال حج کے موقع پر وہ بہت 235
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم بڑی تعداد میں مکہ پہنچے اور وہ آپس میں یہ مشورہ کر کے آئے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کریں گے کہ اب مکہ کو چھوڑیے اور ہمارے شہر میں تشریف لے آئے.چنانچہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ سے ملے، انہوں نے آپ سے باتیں کیں ، آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ ہمارے ساتھ چلیں اور اب مکہ کو چھوڑ دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ملاقات کے وقت حضرت عباس کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے.جو اگر چہ عمر میں آپ سے صرف دو سال بڑے تھے لیکن بڑے زیرک اور ہوشیار تھے.مکہ کے بیچ تھے اور اس وجہ سے سیاسیات کو خوب سمجھتے تھے.اور گو وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھے تعلقات رکھتے تھے، اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بھی اپنے ساتھ لے گئے.جب مدینہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو حضرت عباس نے کہا باتیں کر لینی آسان ہوتی ہیں لیکن ان کو نبھانا مشکل ہوتا ہے.اگر تم لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے گئے تو تمہیں یا درکھنا چاہیے کہ مکہ والوں نے اپنی مخالفت سے باز نہیں آنا اور پھر وہاں بھی مخالفت کا ہونا ، ایک لازمی امر ہے.مکہ میں تو ان کے رشتہ دار موجود ہیں اور اس وجہ سے لوگ ان پر حملہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں.لیکن مدینہ میں رشتہ دار نہیں ہوں گے ، اس لئے تم خوب سوچ سمجھ کر بات کرو.اگر تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے جاؤ گے تو تمہیں آپ کی حفاظت کے لئے مرنا بھی پڑے گا.انہوں نے کہا ہم اس بات کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم نے تمام باتوں کو سوچ سمجھ کر ہی یہ درخواست کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لے چلیں.حضرت عباس نے کہا تو پھر آؤ اور معاہدہ کرو.چنانچہ ایک معاہدہ کیا گیا.جس میں یہ شرط بھی رکھی گئی کہ اگر مدینہ پر کفار حملہ کریں تو چونکہ آپ مدینہ ہماری درخواست پر تشریف لے جارہے ہیں، اس لئے مدینہ کے مسلمان اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار رہیں گے اور سارے کے سارے مر جائیں گے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند نہیں پہنچنے دیں گے.لیکن اگر مدینہ سے باہر نکل کر کسی اور مقام پر لڑائی ہوئی تو چونکہ مدینہ ایک گاؤں ہے اور گاؤں کے رہنے والے سارے ملک کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، اس لئے ہم مدینہ سے باہر لڑائی کرنے کے پابند نہیں ہوں گے.غرض معاہدہ ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے.جب آپ مدینہ چلے گئے تو وہی ہوا، جس کا حضرت عباس کو خطرہ تھا.ادھر آپ مدینہ پہنچے اور ادھر مکہ والوں نے انہیں کہنا شروع کر دیا کہ کم بختو تم بڑے بے ایمان ہو گئے ہو، یہ شخص تمہارے بتوں کی بہتک کرتا ہے، تمہارے باپ دادا کو جھوٹا 236
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء کہتا ہے اور پھر تمہارے شہر میں بیٹھ کر اپنے عقائد پھیلا رہا ہے.یا تو تم خود اس کے ساتھ لڑائی کرویا اسے اپنے شہر سے نکال دو، ورنہ ہم سب مل کر مدینہ پر حملہ کر دیں گے اور تمہیں اس کی سزا دیں گے.ادھرا کار کا مسلمانوں پر انہوں نے حملے شروع کر دیئے.ان کے قافلے ، جو شام میں تجارت کے لئے جاتے تھے، انہوں نے اپنے اصل راستہ کو چھوڑ کر مدینہ کے ارد گرد کے قبائل میں سے گزرنا شروع کیا اور ان کو مدینہ والوں کے خلاف اکسانا شروع کر دیا.غرض ملک میں چاروں طرف ایک شورش برپا ہوگئی.اسی دوران میں بعض چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بھی ہوئیں.اور اس کے بعد بدر کی مشہور اور معرکتہ الآرا جنگ ہوئی.اس جنگ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ شام سے کفار کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں آرہا تھا.مکہ کے لوگوں نے اس خیال سے کہ کہیں مسلمان اس قافلہ پر حملہ نہ کر دیں، ایک بہت بڑا لشکر ابوجہل کی قیادت میں تیار کر کے بھجوا دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ بتایا کہ دشمن آ رہا ہے.قافلہ بھی آرہا ہے اور فوج بھی آرہی ہے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ یہ صورت حالات ہے، اگر اس وقت ہم باہر نہ نکلے تو کفار تمام عرب میں شور مچائیں گے اور اردگرد کے قبائل مسلمانوں کے خلاف بھڑک اٹھیں گے.اس لئے مناسب یہی ہے کہ باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریباً تین سوصحابہ لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے.مگر اس وقت تک صحابہ " کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آیا مقابلہ قافلہ والوں سے ہوگا یا اصل لشکر سے ہوگا.مگر اللہ تعالیٰ یہی چاہتا تھا کہ قافلہ سے نہیں بلکہ اصل لشکر سے مقابلہ ہو.جب بدر کے قریب پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بتایا کہ الہی منشاء یہی ہے کہ مکہ کے اصل لشکر سے، جو ابو جہل کی قیادت میں آرہا ہے، ہمارا مقابلہ ہو.جہاں تک میرا امطالعہ ہے، مجھے قرآن کریم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو مدینہ میں ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کا کفار کے اصل لشکر سے مقابلہ ہوگا.مگر ساتھ ہی آپ کو منع کر دیا گیا تھا کہ ابھی یہ بات صحابہ کو بتائی نہ جائے.لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب آپ باہر نکل آئے ، تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر اصل حقیقت کو ظاہر کیا گیا.بہر حال جب کئی منزل طے کرنے کے بعد آپ بدر کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ " کو حکم ہوا کہ اب یہ بات صحابہ کو بتادی جائے.یا اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر یہ امر ظاہر کیا گیا کہ قافلہ تو نکل گیا ہے، اب صرف لشکر کے ساتھ مقابلہ ہو گا.آپ کے باہر نکلنے کی غرض یہی تھی کہ ان لوگوں کا دفاع کیا جائے.کیونکہ یہ لوگ مدینہ کے پاس پہنچ کر شور مچائیں گے کہ ہم مکہ سے چل کر آگئے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ 237
خطبہ جمعہ فرمود و 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم یہ وسلم اور آپ کے ساتھی مدینہ میں ہی بیٹھے ہیں.اس سے لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے متعلق تحقیر اور تذلیل کے خیالات پیدا ہوں گے اور ہمارا ان لوگوں میں رہنا مشکل ہو جائے گا.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ شام سے جو تجارتی قافلہ آرہا تھا، وہ تو نکل گیا ہے.اب دشمن کا لشکر اس طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے، بتاؤ اب تمہاری کیا تجویز ہے؟ کیا ہم پیچھے ہٹ جائیں یا ان لوگوں کا مقابلہ کریں؟ اس پر ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہوتا اور کہتا یا رسول اللہ پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال نہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمن سے لڑیں ورنہ وہ دلیر ہو جائے گا اور لوگوں میں فخر کرے گا کہ وہ باہر بھی آیا مگر مسلمان اس کے مقابلہ کے لئے نہ نکل سکے.مگر تقریر کرنے کے بعد جب بھی کوئی مہاجر بیٹھتا ، آپ فرماتے ، اے لوگو! مجھے مشورہ دو.اس پر پھر کوئی مہاجر صحابی کھڑا ہوتا اور کہتا یا رسول اللہ مقابلہ کیجیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں.مگر جب وہ بیٹھ جاتا تو آپ پھر فرماتے ، اے لوگو! مجھے مشورہ دو.جب یکے بعد دیگرے کئی مہاجر اپنا مشورہ دے چکے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہاجر کی تقریر کے بعد یہی فرماتے کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو.تو ایک انصاری کھڑے ہوئے.اس وقت تک انصار کا گروہ خاموش بیٹھا ہوا تھا.مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو.تو انصار نے سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہم سے ہے، ورنہ مہاجرین تو مشورہ دے ہی رہے ہیں.چنانچہ ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! مشورہ تو آپ کو دیا جا رہا ہے، مگر آپ جو بار بار فرما رہے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے کہ مہاجر تو بول رہے ہیں، انصار کیوں نہیں بولتے ؟ یا رسول اللہ ہم تو اس لئے چپ تھے کہ وہ لشکر جو مکہ کی طرف سے آیا ہے، اس میں ان مہاجرین کا کوئی باپ ہے، کوئی بیٹا ہے، کوئی بھائی ہے اور کوئی اور عزیز ہے.ہم اس شرم کے مارے نہیں بولتے تھے کہ اگر ہم نے کہا مقابلہ کریں تو مہاجرین یہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارے ماں باپ اور بھائیوں اور بیٹوں کو مارنا چاہتے ہیں.پس ہماری خاموشی کی اصل وجہ یہ تھی.پھر اس نے کہا یا رسول اللہ آپ جو ہم سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ بولو تو شاید آپ کا اشارہ اس معاہدہ کی طرف ہے، جو آپ کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے ہم نے کیا تھا اور جس میں ہم نے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر مدینہ پر کسی دشمن نے حملہ کیا تو ہم اپنی جانیں دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرنا پڑا تو ہم اس میں شریک ہونے کہ پابند نہیں ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے.( اب دیکھو، وہاں ایک معاہدہ ہو چکا تھا.مگر میں نے تو تمہارے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا.میرا اصرف ایک اعلان تھا، یہ نہیں کہ میرے اور تمہارے 238
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء درمیان کوئی باقاعدہ معاہدہ ہوا ہو کہ میں تم سے صرف تین سال چندہ لوں گا یا دس سال چندہ لوں گا.مگر یہاں تو انصار کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ تھا کہ اگر مدینہ پر حملہ ہوا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا تو ہم اس میں شامل ہونے کے پابند نہیں ہوں گے.) اس صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! جب یہ معاہدہ کیا گیا تھا ، اس وقت ہمیں یہ پتہ نہیں تھا کہ نبی کیا ہوتا ہے اور رسول کیا ہوتا ہے؟ ہمیں آپ کی باتیں پسند آئیں اور ہم نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو آواز اٹھی ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو قبول کر لیں.لیکن اس کے بعد ہم نے خدا تعالیٰ کے متواتر نشانات دیکھے، آپ کی صداقت کے سینکڑوں معجزات دیکھے اور ہمیں معلوم ہوا کہ آپ کی شان کیا ہے.پس یا رسول اللہ ! اب معاہدات کا کوئی سوال نہیں.معاہدات کا زمانہ گزر گیا، اب اور زمانہ آگیا ہے.یا رسول اللہ ! سامنے سمندر ہے، آپ حکم دیجیے، ہم اس میں اپنے گھوڑے ڈالنے کے لئے تیار ہیں.اور یا رسول اللہ! اگر دشمن کا مقابلہ کرنے کا ہی فیصلہ ہوا تو ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا ، جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے.پس جب میں نے تم کو تین سال کہا یا دس سال کہا یا انیس سال کہا تو مجھے پتہ نہیں تھا کہ ہمارے سامنے خدا تعالیٰ کی کیا سکیم ہے؟ جب میں نے تم سے کہا کہ آؤ اور تین سال کے لئے قربانی کرو تو اس وقت صرف احراری فتنہ سامنے تھا.جب میں نے کہا، آؤ اور دس سال تک قربانی کرو تو ہم نے سمجھا کہ باہر کی جماعتوں میں، جو ہم نے چند مشن قائم کر دیئے ہیں، یہ اس وقت تک اپنا کام کرنا شروع کر دیں گے.اس وقت میرا ذہن اس وسعت کی طرف نہیں گیا کہ ہم نے ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنی ہے.پھر میں نے دس سالہ تحریک کو 19 سال تک ممتد کر دیا اور ایک دوسرے دور کا بھی ساتھ ہی آغاز کر دیا.کیونکہ اس وقت مجھے ایک حد تک روشنی نظر آنے لگ گئی تھی اور کام نے اپنی عظمت کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا.مگر ابھی اس کام کی پوری اہمیت ہم پر روشن نہیں ہوئی تھی.مگر سولہویں اور ستر ہویں سال میں آکر اللہ تعالیٰ نے اس سکیم کی عظمت کو مجھ پر روشن کر دیا اور میرا اذہن اس طرف مائل ہوا کہ اس سکیم کے لئے سالوں کی تعیین بے معنی ہے.ہم نے ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنی ہے، ہم نے چپہ چپہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کرنی ہے اور یہ کام چند سالوں کا نہیں، یہ کام ہمیشہ ہمیش کا ہے.پس میں نے جب کہا تھا کہ آؤ تین سال کے لئے قربانی کرو یا دس سال کے لئے قربانی کرو تو میں نہیں جانتا تھا کہ میرے سامنے کتنا بڑا کام ہے؟ جب تم نے کہا کہ ہم تین سال کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں یا دس سال کے لئے 239
خطبه جمعه فرمودہ 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریکہ جلد سوم قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں تو تم بھی نہیں جانتے تھے کہ تمہارے سامنے کتنا بڑا کام ہے؟ لیکن اب جبکہ تمہیں پتہ لگ گیا ہے کہ تمہارا کیا کام ہے؟ جبکہ تمہیں پتہ لگ گیا ہے کہ دنیا بھر میں اسلام پھیلا نا تمہارا کام ہے.اور مجھ پر خدا تعالیٰ کی سکیم کا ایک بڑا حصہ ظاہر ہو گیا ہے تو میرا مطالبہ بھی اس کے مطابق ہونا چاہیے اور تمہارا بھی اس وقت وہی جواب ہونا چاہیے، جو مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا.اب تمہیں بھی یہی کہنا چاہئے کہ اب تین یا دس یا انیس کا کیا سوال ہے؟ ہم اسلام کی حفاظت کے لئے اس کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن ہماری لاشوں پر سے گذرے بغیر اسلام کے جسم تک نہیں پہنچ سکتا.غرض وعدے زمانہ کے لحاظ سے ہوتے ہیں.لیکن وعدہ ، معاہدے سے بہر حال کم ہے.وعدہ ایک طرف سے ہوتا ہے اور معاہدہ دونوں طرف سے ہوتا ہے.اور میں نے تم سے کوئی وعدہ بھی نہیں کیا ، صرف ایک اعلان تھا، جو میں نے کیا.اور وہ بھی ان حالات میں اعلان تھا ، جب مستقبل میرے سامنے نہیں تھا، جب مستقبل تمہارے سامنے نہیں تھا.اگر مستقبل تمہارے سامنے ہوتا کہ اب ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کا وقت آن پہنچا ہے تو میں نے جب تم سے کہا تھا کہ آؤ اور تین سال کے لئے قربانی کرو تو تم فوراً کھڑے ہو جاتے اور کہتے کہ تین سال میں کیا ہو سکتا ہے؟ تین سال میں تو ساری دنیا میں تبلیغ ) اسلام کی بنیاد میں بھی نہیں رکھی جاسکتیں.پھر اگر مستقبل تمہارے سامنے ہوتا تو جب میں نے تم سے کہا تھا کہ آؤ اور دس سال کے لئے قربانی کرو تو تمہارا فرض تھا کہ تم کھڑے ہو جاتے اور کہتے دس سال میں ہم ساری دنیا میں کس طرح تبلیغ اسلام کر سکتے ہیں؟ پھر اگر مستقبل تمہارے سامنے ہوتا تو جب میں نے تم سے کہا تھا کہ آؤ اور انیس سال کے لئے قربانی کرو تو چاہئے تھا کہ تم کھڑے ہو جاتے اور کہتے ، کیا انیس سال میں اسلام ہمیشہ کے لئے قائم ہو سکتا ہے؟ یہ کام تو قیامت تک کے لئے ہے.جس طرح نماز دس سال کے لئے نہیں، نماز انیس سال کے لئے نہیں، روزہ دس سال کے لئے نہیں، روزہ انیس سال کے لئے نہیں ، اسی طرح اسلام کی تبلیغ اور جہاد بھی دس یا انیس سال کے لئے نہیں ہو سکتے.اگر نماز انیس سال کے لئے ہو سکتی ہے، اگر روزہ انیس سال کے لئے ہو سکتا ہے، اگر ز کوۃ انیس سال کے لئے ہو سکتی ہے تو پھر جہاد بھی انہیں سال کے لئے ہو سکتا ہے.لیکن اگر نماز ہمیشہ کے لئے ہے، اگر روزہ ہمیشہ کے لئے ہے، اگر ز کوۃ ہمیشہ کے لئے ہے تو پھر جہاد بھی ہمیشہ کے لئے ہے.جس دن مسلمان جہاد سے غافل ہوئے ، اسی دن وہ تباہی کے گڑھے میں گرنے شروع ہو گئے.اور یا تو وہ ساری دنیا پر غالب اور حکمران تھے اور یا ہر جگہ محکوم اور ذلیل ہو گئے.کوئی زمانہ تھا کہ یہی مقام ، 240
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء جہاں کھڑے ہو کر میں اس وقت خطبہ پڑھ رہا ہوں، یہاں مسلمانوں کی چھاؤنی ہوا کرتی تھی اور ادھر سے ادھر فوجیں جایا کرتیں تھیں اور یا اب ادھر سے ادھر فو جیں آنے لگ گئی ہیں.اس لئے کہ مسلمان جہاد بھول گئے.پہلے تم مسجدیں بناتے چلے جاتے تھے مگر اب تم واپس آرہے ہو اور مساجد گرائی جارہی ہیں، ہزاروں ہزار بزرگوں کے مقابر اس وقت مشرقی پنجاب میں گرے ہوئے ہیں، کتے ان پر پیشاب کرتے ہیں تو کوئی ہزاروں ہزار مسجدمیں مشرقی پنجاب اور یوپی وغیرہ میں گری ہوئی ہیں اور ان کی بے حرمتی کی جارہی ہے.محض اس لئے کہ مسلمانوں نے جہاد کو ترک کر دیا.اگر مسلمان جہاد حقیقی کو سمجھ لیتا، اگر مسلمان جان لیتا کہ صرف تلوار چلانا ہی جہاد نہیں تو آج وہ دنیا میں ذلیل نہ ہوتا.اس نے سمجھا کہ تلوار کا جہاد ہی اصل جہاد ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ جب انہوں نے کوئی علاقہ فتح کر لیا توسمجھ لیا کہ اب ان کا کام ختم ہو گیا ہے.اگر وہ اس جہاد کو سمجھتے ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کیا ہے کہ کبھی تلوار چلانا جہاد ہوتا ہے، کبھی تبلیغ کرنا جہاد ہوتا ہے، کبھی اشاعت لٹریچر کرنا جہاد ہوتا ہے، کبھی تربیت کرنا جہاد ہوتا ہے، کبھی تعلیم دینا جہاد ہوتا ہے تو جب ہندوستان کو انہوں نے فتح کر لیا تھا، وہ یہ نہ مجھتے کہ ان کا کام ختم ہو گیا ہے.بلکہ سمجھتے کہ اب ہمارا اور کام شروع ہو گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لڑائی سے واپس آئے تو آپ نے فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد سے اب بڑے جہاد کی طرف آئے ہیں.یعنی وہ جہاد تو ختم ہو گیا، اب تعلیم و تربیت کا جہاد شروع ہوگا ، جو اس جہاد سے زیادہ اہم ہے.پس جہاد ہمیشہ کے لئے ہے.یہ محض مولویوں کی نادانی اور بیوقوفی تھی کہ انہوں نے تلوار کے جہاد کو ہی جہاد سمجھا اور اس طرح اسلام کو نقصان پہنچا دیا.چنانچہ جب تلوار کا جہاد ختم ہو گیا تو مسلمانوں نے سمجھا کہ اب ان کا کام بھی ختم ہو گیا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ آج بھی ہندوسان میں 32 کروڑ ہندو اور آٹھ کروڑ مسلمان ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام والا جہاد اختیار کیا جاتا تو آج 32 کروڑ مسلمان اور آٹھ کروڑ ہندو ہوتے.بلکہ آٹھ کروڑ ہندو بھی نہ ہوتے ، سب کے سر ہوتے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ سات سو سال تک حکومت کی جائے اور پھر کافر باقی رہ جائیں ؟ اگر تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا جاتا تو یہ ناممکن تھا کہ غیر مذاہب کے لوگ اتنی کثرت کے ساتھ موجود رہتے.پس جب میں نے کہا کہ یہ تحریک تین سال کے لئے ہے یا جب میں نے کہا کہ یہ تحریک دس سال کے لئے ہے تو یقیناً میں نے غلط کہا.مگر اس لئے کہا کہ جو کچھ خدا کا منشاء تھا، وہ میں پورے طور پر نہیں سمجھا تھا.جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ والوں کے معاہدہ کی حقیقت کو اس وقت پورے طور پر نہیں سمجھے.تم مجھے کہہ سکتے ہو کہ اس وقت تم نے حقیقت کو پورے طور پر کیوں نہیں سمجھا ؟ میرا جواب یہ ہے کہ کیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا ہوں؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس وقت یہی کا سلمان 241
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم سمجھا تھا کہ ملکہ کے لوگ مدینہ پر حملہ کر کے آئیں گے.ان کے دفاع کے لئے مدینہ والوں کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو جانا چاہیے.لیکن خدا تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ آپ کو ساری دنیا پر غالب کرے، خدا تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ آپ باہر نکل کر کفار کا مقابلہ کریں.اگر اس وقت یہ بات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوتی تو جب مدینہ والوں نے یہ کہا تھا کہ اگر کسی قوم نے مدینہ پر حملہ کیا تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے تو آپ فرماتے تم یہ کیا کہ رہے ہو، ہمیں تو باہر بھی دشمن کا مقابلہ کرنا پڑے گا ؟ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا.کیونکہ اس وقت اصل حقیقت آپ پر روشن نہیں ہوئی تھی.پھر تم نے بھی میری بات کو اسی طرح نہیں سمجھا ، جس طرح صحابہ نے نہیں سمجھا.انصار نے یہی سمجھا تھا کہ یہ لڑائی اگر ہوئی بھی تو صرف مدینہ میں ہو گی.انہیں کب معلوم تھا کہ مدینہ کا سوال نہیں، یہ لڑائی ساری دنیا میں لڑی جانے والی ہے؟ کیا کسی انصاری کے وہم و گمان میں بھی یہ بات آسکتی تھی کہ پنجاب اور ہندوستان میں پنجاب اور ہندوستان میں بیٹھ کر بھی ایک مسلمان کولڑنا پڑے گا ؟ اسی طرح چین اور جاپان اور سماٹرا اور جاوا اور وہ دوسرے ملک ، جن کے نام بھی وہ نہیں جانتے تھے، ان میں مسلمانوں کولڑنا پڑے گا؟ لیکن خدا اس بات کو جانتا تھا.چنانچہ جب اس کی حکمت واضح ہوئی تو معاہدات ختم ہو گئے.اسی طرح جب میں نے تم سے تین سال کے لئے قربانی کرنے کو کہا تو میں نے اس قربانی کو ایک وقتی چیز سمجھ کر یہ اعلان کیا اور خدا نے ہمیں اس وقت فتح بھی دے دی.چنانچہ احرار کو ہمارے مقابلہ میں خطر ناک شکست ہوئی.اس کے بعد جب میں نے اس تحریک کو دس سال تک بڑھایا تو اس وقت مجھے کچھ کچھ روشنی نظر آنے لگ گئی تھی اور تبلیغ کا ایک رستہ کھل گیا تھا.پھر جب میں نے انیس سال کہا تھا، اس وقت تک اور زیادہ روشنی نمودار ہو چکی تھی.مگر اب ستر ہویں سال میں آکر پتہ لگا کہ خدا تعالیٰ کی سکیم بڑی بھاری ہے اور وہ قیامت تک کے لئے ہے.اور جب یہ بات کھل گئی تو اب میں بھی تم سے اٹھارہ یا انیس سال کے لئے قربانی کرنے کو نہیں کہتا.جب تک تمہارے جسموں میں خون چلتا ہے، اگر تم میں ایمان کا ایک ذرہ بھی موجود ہے تو تمہیں دین کی خدمت کرنی ہوگی.بلکہ اگر تمہارے دلوں میں ایمان موجود ہے تو تمہاری تو یہ کیفیت ہونی چاہیے، اگر انیس سال کے بعد تم سے یہ کہا بھی جائے کہ اب تمہاری قربانی کی ضرورت نہیں تو تم رونے لگ جاؤ اور کہو کہ کیا ہم بے ایمان ہو گئے ہیں یا ہم دین سے مرتد ہو گئے ہیں کہ ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ اب تم سے دین کی خدمت کا کام نہیں لیا جائے گا ؟ پس آج میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اٹھارہ یا انہیں سال کا کوئی سوال نہیں.ہم نے تمام دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنی ہے.اور یہ کام ہم سے ہماری دائی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے.اس وقت مغرب میں 242
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء بھی ہمارے مبلغ موجود ہیں اور مشرق میں بھی ، شمال میں بھی ہمارے مبلغ موجود ہیں اور جنوب میں بھی.آج ہر ملک اور ہر قوم میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا گاڑا جارہا ہے.ابھی ہمارے مبلغ تھوڑے ہیں اور ہمیں بار بار ان کو مدد بھجوانی پڑے گی.اس طرح جس طرح شام اور ایران کے اسلامی لشکروں کو کمک کی ضرورت پڑتی تھی.ایران میں جب مسلمانوں کو ایک جنگ میں شکست ہوئی تو اس وقت مدینہ میں مزید فوج بھجوانے کے لئے اعلان کیا گیا.مگر مدینہ اور اس کے نواح میں کوئی فوج نہیں تھی، جو مسلمانوں کی مدد کے لئے بھجوائی جاتی.یہی کیفیت اس وقت ہماری ہوگی.ہمیں بھی اسی طرح جس طرح ایک بھٹیارہ پتے اور سوکھی شاخیں اپنی بھٹی میں جھونکتا چلا جاتا ہے، اسلام کی اشاعت کے لئے متواتر اور مسلسل اپناروپیہ بھی جھونکنا پڑے گا ، اپنے آدمی بھی جھونکنے پڑیں گے، اپنی کتابیں بھی جھونکنی پڑیں گی ، اپنا لٹریچر بھی جھونکنا پڑے گا اور اس راستہ میں ہمیں کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا پڑے گا.شیطان اپنی کرسی کو آسانی سے نہیں چھوڑ سکتا.اس وقت خدا کے تخت پر شیطان متمکن ہے.اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت پر شیطان کے ساتھیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ اسے آسانی سے نہیں چھوڑ سکتے.وہ لڑیں گے اور پورے زور کے ساتھ ہمارا مقابلہ کریں گے.اور ہم کو بھی اپنا سب کچھ اس راہ میں قربان کر دینا پڑے گا.بہر حال جب یہ چیز واضح ہو جائے اور اس لڑائی کی اہمیت کو انسان سمجھ لے تو اس کے بعد تین یا دس یا انیس کا سوال، کوئی احمق ہی کر سکتا ہے.جب ہم نے یہ تحریک شروع کی تھی ، اس وقت ہم اس کے نتائج سے ایسے ہی ناواقف تھے، جیسے مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنے والے انصار اپنے معاہدہ کی حقیقت سے ناواقف تھے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اسلام کا شاندار مستقبل ابھی پورے طور پر روشن نہیں ہوا تھا، اسی طرح ہم پر بھی اس تحریک کا مستقبل اس وقت روشن نہیں ہوا.پس میں نے تم سے اسی طرح وعدہ لیا، جس طرح انصار سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ لیا تھا.اور تم نے اسی طرح اقرار کیا ، جس طرح انصار نے معاہدہ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اقرار کیا تھا.لیکن جب زمانہ نے پردے اٹھا دیئے ، قدرت نے انکشاف کر دیا تو نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ وعدہ رہا اور نہ انصار کا معاہدہ معاہدہ رہا.اب دنیا ہی بدل چکی تھی ، اب ساری دنیا کو فتح کرنے کا سوال تھا ، اب ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کا سوال تھا، اب مدینہ کے اندر یا مدینہ کے باہر کا کوئی سوال نہ تھا ، اب ہر جگہ یہ لڑائی لڑی جانے والی تھی.اسی طرح اب ہمارے لئے یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے لئے وہ دن قریب سے قریب تر لانا چاہتا ہے، جب ہم نے اسلام کی لڑائی کو اس کے اختتام اور 243
خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریکہ جلد سوم.کامیاب اختتام تک پہنچانا ہے.اب کسی ایک ملک یا دو ملکوں کا سوال نہیں.اب کسی ایک مبلغ یا دو مبلغوں کا سوال نہیں اب سردھڑ کی بازی لگانے کا سوال ہے.یا کفر جیتے گا اور ہم مریں گے ، یا کفر مرے گا اور ہم جیتیں گے، درمیان میں اب بات رہ نہیں سکتی.ایک ادنیٰ سے ادنی سپاہی دس، پندرہ روپے لے کر میدان جنگ میں جاتا اور اپنے سینہ کو گولی کے لئے پیش کر دیتا ہے.ہمارے لئے تو پندرہ کا سوال نہیں.قرآن کہتا ہے کہ ہم نے مومنوں سے سودا کر لیا ہے، ہم نے ان سے ان کی جانیں اور مال لے لئے ہیں اور انھیں اپنی جنت دے دی ہے.اگر پندرہ روپوں کے لئے ایک سپاہی اپنی جان دے سکتا ہے تو جنت کے لئے ایک مومن کو کتنی خوشی اور بشاشت سے قربانی پیش کرنی چاہئے.پس اپنے دلوں سے دس یا میں کا سوال اٹھا دو.یہ قربانی تمہیں مرتے دم تک کرنی پڑے گی.جو کچھ ہوسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ چونکہ بعض نے اس تحریک کو صرف انیس سالہ تحریک سمجھ کر اتنا بوجھ اپنے اوپر برداشت کر لیا تھا، جو ان کی طاقت کے لحاظ سے بہت زیادہ تھا، اس لئے دفتر سے بات کر کے ان کو اتنی کمی کرنے کی اجازت دے دی جائے گی کہ وہ مستقل طور پر آسانی کے ساتھ اس بوجھ کو اٹھاتے چلے جائیں.ان کے علاوہ باقی تمام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق تحریک جدید میں حصہ لیں.اسی حکمت کے ماتحت دفتر دوم قائم کیا گیا ہے، جس میں ہر وقت انسان شامل ہو سکتا ہے.لیکن اس ارادہ کے ساتھ کہ وہ اپنا قدم اب پیچھے نہیں ہٹائے گا.گویا یہ بھی ایک قسم کا وقف ہے، جس میں ہر شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ میری جان اور مال اسلام کے لئے حاضر ہے.پس اپنی توفیق کے مطابق ہر شخص کو اس میں حصہ لینا چاہیے.مرد بھی اور عورتیں بھی، بچے بھی اور بوڑھے بھی ، امیر بھی اور غریب بھی.سب لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق تحریک جدید کے دوسرے دور میں شریک ہوں.دوسری مثال اسی قسم کے معاہدہ کی قرآن کریم میں موجود ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وَوعَدْنَا مُوسى ثَلْثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنُهَا بِعَشْرٍ (الاعراف ع ۱۷) ہم نے موسیٰ سے تمیں راتوں کا وعدہ کیا تھا مگر پھر ہم نے اس وعدہ کو چالیس راتوں میں بدل دیا.آریوں اور عیسائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ اسلام کا خدا نعوذ باللہ جھوٹا ہے.کیونکہ اس نے تمیں کو چالیس کر دیا.اگر خدا میں کو چالیس کر سکتا ہے تو میں تین کو دس اور دس کو انہیں کیوں نہیں کر سکتا ؟ اگر خدا عالم الغیب ہونے کے باوجود تھیں کو چالیس کر سکتا ہے تو میں، جو عالم الغیب نہیں ہوں، میں اس میعاد کو کیوں 244
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1951ء نہیں بڑھا سکتا تھا ؟ آخر سوچنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ پر کیوں اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اس نے موسیٰ سے تھیں راتوں کا جو وعدہ کیا تھا، اسے اس نے چالیس راتوں میں بدل دیا ؟ اس لئے کہ تمہیں دن کی عبادت سے چالیس دن کی عبادت زیادہ مبارک ہے.اگر موسیٰ کو میں کی بجائے چالیس دن عبادت کرنے کا موقع مل گیا تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہوا ظلم نہ ہوا.اسی طرح اگر تمہیں ساری عمر دین کے لیے قربانی کرنے کا موقع مل جاتا ہے تو تمہارے لئے دائمی طور پر خدا تعالیٰ کی برکتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے.لیکن پھر بھی جو شخص سمجھتا ہے کہ دین کے لئے چندہ دینا اس کے لئے بوجھ ہے اور وہ انیس سال سے زیادہ یہ قربانی کرنے کی اپنے اندر طاقت نہیں پاتا، میں اس کہوں گا کہ دین کو بے شک قربانی کی ضرورت ہے، اسلام کو بے شک قربانی کی ضرورت ہے، لیکن اگر یہ قربانی تم پر بوجھ ہے تو تم پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ تم ایک پیسہ بھی اسلام کی خدمت کے لئے دو.تمہارا پیسہ ہمارے لئے گندہ اور ناپاک ہے.ہم نہیں چاہتے کہ تمہارے پیسوں کے ساتھ ہم اسلام کے پاک اموال کو بھی ملوث کر دیں.یہ تحریک صرف اسی شخص کے لئے ہے، جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قربانی کرنا، اپنے لئے برکت اور فضل اور احسان سمجھتا ہے.جو سب کچھ دینے کے باوجود یہ یقین رکھتا ہے کہ اس نے خدا اور اس کے دین کے لئے احسان نہیں کیا بلکہ خدا نے اس پر احسان کیا ہے کہ اس نے اسے خدمت کی توفیق دی.پس ہر وہ شخص ، جو کہتا ہے کہ اس تحریک میں شمولیت اس کے لئے بوجھ ہے، میں اسے کہتا ہوں کہ تم چپ رہو، جب تک خدا تمہارے ایمان کو درست نہ کر دے، اس وقت تک تم ایک پائی بھی چندہ مت دو.اور پھر دیکھو کہ خدا اس سلسلہ کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے؟ پس اس اعلان کے ساتھ میں تحریک جدید کے نئے سال کو شروع کرتا ہوں.لیکن ابھی اس خطبہ کے کئی حصے باقی ہیں، جو میں انشاء اللہ اگلے خطبہ یا خطبات میں بیان کروں گا.انشاء اللہ.( مطبوعه روزنامه الفضل 04 دسمبر 1951 ء ) 245
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 دسمبر 1951ء تحریک جدید کے چندہ کو زیادہ منظم اور باقاعدہ کیا جائے خطبہ جمعہ فرمودہ 14 دسمبر 1951ء وعدے تحریک جدید کا اعلان میں کر چکا ہوں اور اس وقت تک جماعت کی طرف سے جو جواب آئے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت نے اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح سمجھا ہے اور وہ پوری توجہ کے ساتھ اپنے وعدے بھجوارہی ہے.چنانچہ تحریک جدید دور دوم کے وعدے اس وقت تک جو آچکے ہیں، گو وہ ضرورت کے مطابق تو نہیں لیکن بہر حال گزشتہ سال کی نسبت یعنی پچھلے سال اس وقت تک جتنے وعد وصول ہوئے تھے، ان سے اس سال کے وعدے دگنے ہیں.اس کے لازما یہ معنی نہیں کہ جب وعدوں کی معیاد ختم ہو جائے گی تو اس سال کے وعدے گزشتہ سال کے وعدوں سے دگنے ہو جائیں گے.لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ جماعت اپنے وعدے بھجوانے میں پچھلے سال سے زیادہ مستعدی اور بیداری سے کام لے رہی ہے.دور اول کے وعدوں کا مجھے صحیح اندازہ نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی ڈیوڑھے کے ہیں.گو جتنے وعدے پورے وقت کے بعد ہو جاتے ہیں ، ان سے وہ ابھی بہت کم ہیں.یعنی صرف پانچویں حصہ کے برابر ہیں.لیکن گزشتہ سال اس وقت تک جتنے وعدے آئے تھے، ان سے تحریک جدید دور اول کے وعدے ڈیوڑھے اور دور دوم کے وعدے دگنے کے قریب آچکے ہیں.اس سے امید پیدا ہوتی ہے کہ انشاء اللہ وعدوں کی تاریخ کے اختتام پر پچھلے سالوں سے زیادہ ہی وعدے ہوں گے.اور جس سرعت کے ساتھ جماعت نے اپنے وعدے بھجوانے میں کام لیا ہے، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں امید کرنی چاہیے کہ ان وعدوں کو پورا کرنے میں بھی جلدی کرے گی.اور کسی قسم کی غفلت اور تساہل سے کام نہیں لے گی.میں نے بتایا ہے کہ اس سال تحریک جدید کا بجٹ تقریبا پچاس ہزار روپے تک پیچھے ہے.بلکہ پچاس ہزار بھی نہیں ، اسی نوے ہزار روپیہ کے قریب اس پر بار ہے.یعنی اس وقت تک جو رقوم ادا کی گئی ہیں ، وہ ساری کی ساری اس سال کے چندے میں سے ادا نہیں کی گئی بلکہ پچاس ہزار روپیہ قرض لیا گیا ہے اور ابھی پانچ مہینے اخراجات کے باقی ہیں.جنوری، فروری، مارچ، اپریل اور مئی.ہمارا مالی سال اپریل میں ختم ہوتا ہے.مگر مئی کے شروع میں جو اخراجات دیئے جاتے ہیں، وہ چونکہ اپریل کے ہوتے ہیں، اس 247
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 دسمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم لئے گزشتہ سال کی آمد میں سے دیئے جاتے ہیں.فروری کے بل مارچ میں ادا ہوتے ہیں، مارچ کے بل اپریل میں ادا ہوتے ہیں اور اپریل کے بل مئی میں ادا ہوتے ہیں.اور پھر مئی کے بل، جو جون میں ادا ہوتے ہیں، وہ درحقیقت نئے مالی سال کے پہلے مہینہ کی آمد میں سے ادا کئے جاتے ہیں.اس لحاظ سے اب جنوری میں جو بل ادا ہوں گے ، وہ اصل میں دسمبر کے ہوں گے.اور اس وقت تک صرف نومبر کے بل ادا ہوئے ہیں اور وہ بھی پچاس ہزار روپیہ قرض لے کر.گویا مئی، جون ، جولائی اگست ستمبر اکتوبر اور نومبر.صرف سات ماہ کا خرچ ہم اپنی آمد سے ادا کر سکے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں ادا کر سکے ہیں، جبکہ پچاس ہزار روپیہ دوسری جگہوں سے قرض لیا گیا ہے.اب تقریبا چار مہینے کی آمد باقی ہے اور پانچ مہینے کا خرچ باقی ہے.لیکن جو آمد باقی ہے، اگر احباب اس کے ادا کرنے سے اس لئے غفلت نہ کرتے کہ اب نیا سال شروع ہو گیا ہے.اور جو گزشتہ بقائے پندرہویں اور سولہویں سال کے ہیں یا دور دوم کے پانچویں اور چھٹے سال کے ہیں، وہ بھی احباب ادا کر دیں تو امید کی جاتی ہے کہ اس سال کا خرچ نکل جائے گا.لیکن پچاس ہزار روپیہ کا بار پھر بھی رہے گا.ہاں اگر گزشتہ سالوں کے سارے بقائے ادا کرنے کی جماعت کو توفیق مل جائے تو یہ پچاس ہزار کا بار اور پچھلے سال کا اٹھارہ ہزار کا بار گویا ستر ہزار کے قریب تحریک جدید پر جو بار ہے ، وہ سب کا سب دور ہو جائے گا.میہ لازمی بات ہے کہ اگر ہم اپنی زندگی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر سال اپنے کام کو بڑھانا پڑے گا اور اگر ہر سال ہم اپنے کام کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں خرچ بھی ہر سال زیادہ کرنا پڑے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چندے کے علاوہ بھی بعض اور ذرائع ہوتے ہیں، جن سے آمد پیدا کی جاتی ہے لیکن ہمارے کارکنوں کو ابھی ویسی مشق نہیں ، اس لئے ابھی وہ ان ذرائع کو اختیار نہیں کر سکے یا سستی کر جاتے ہیں یا اختیار کرتے ہیں تو نا کام رہ جاتے ہیں.حالانکہ انہیں ذرائع سے دوسری قومیں اور افراد اپنی مالی حالت کو درست کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں.یہ کوتا ہی جو ہم میں ہے اور جو درحقیقت سارے ہی مسلمانوں میں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ چار پانچ سو سال سے حکومت ، تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی ہیں اور اب غیر قو میں اس میدان میں بہت آگے نکل گئی ہیں.لیکن بہر حال اپنی سستی اور عدم توجہی کے نتیجہ میں مسلمانوں نے جو حالات پیدا کئے ہیں، اب وہ بہت بڑی جدو جہد سے ہی دور ہو سکتے ہیں.صرف ارادہ اور معمولی کوشش سے دور نہیں ہو سکتے.لیکن ہر چیز وقت چاہتی ہے اور پھر عزم چاہتی ہے.جب تک تحریک جدید کے کارکنوں میں یہ عزم پیدا نہ ہو جائے اور جب 248
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 دسمبر 1951ء تک ان میں سے ایک طبقہ کو صحیح جدو جہد کے کرنے کی توفیق نہ مل جائے ، اس وقت تک کامل انحصار بہر حال کو چندوں پر ہی رکھنا پڑے گا.کچھ کچھ جماعت میں تجارتی ذہنیت آرہی ہے.لیکن ابھی وہ اس حد تک نہیں آئی کہ ہم اسے اپنی آمد کا ایک بڑا منبع سمجھ لیں.وہ ایک چھوٹا سا منبع تو ہو گیا ہے لیکن اگر صحیح جدو جہد کی جائے اور پوری توجہ سے کام کیا جائے تو یقیناً تجارت اور زراعت وغیرہ سلسلہ کی آمد کا بہت بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں.لیکن جب تک نہیں بنتے ہمیں جماعت سے ہی کہنا پڑے گا کہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرو.جو وعدے گزشتہ سالوں کے ابھی تک ہم نے پورے نہیں کئے ، ان کو جس طرح بھی ہو سکے پورا کرو.اور آئندہ کے لئے اپنے وعدوں کو سال بہ سال ادا کرنے کی کوشش کرو.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس سال تحریک جدید پر اس قدر مالی بوجھ آپڑا ہے کہ دور دوم کی آمد جو ریز روفنڈ کے طور پر ہمیں محفوظ رکھنی چاہیے تھی ، وہ اس سال ریز روفنڈ میں نہیں جاسکی بلکہ ساری کی ساری خرچ ہوگئی ہے.مگر باوجود دونوں سالوں کی آمد کے خرچ ہو جانے کے پچاس ہزار روپیہ قرض لیا گیا ہے.بلکہ دونوں دوروں کے قرض کو ملا کر یہ رقم اسی ہزار کے قریب بن جاتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی بہت سے بقائے وصول ہونے باقی ہیں لیکن پانچ ماہ کے اخراجات بھی باقی ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر بقائے ادا ہو جائیں اور ہم اس سے پانچ ماہ کے اخراجات تنگی سے گزارہ کر کے پورے بھی کر لیں ، تب بھی پچاس ہزار روپیہ قرض باقی رہے گا.پس دوستوں کو اپنے بقائے جلد سے جلد ادا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے.میں دیکھتا ہوں کہ جب بھی نئے سال کی تحریک ہوتی ہے بعض دوست یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب نئی تحریک شروع ہوگئی ہے اور پرانی ختم ہوگئی ہے.وہ یہ نہی سمجھتے کہ وعدہ پورا کرنے میں دیر کرنا، انسان کو اس وعدہ سے آزاد نہیں کر دیتا بلکہ اسے زیادہ مجرم بنا دیتا ہے.مگر بعض لوگوں کی یہ ذہنیت ہو گئی ہے کہ وہ نئے سال کی تحریک پر پچھلے سال کی تحریک کے وعدوں کو بھول جاتے ہیں.مثلاً پچھلے سال اگر انہوں نے پچاس کا وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ ابھی انہوں نے پورا نہیں کیا تھا تو نئے سال کی تحریک ہونے پر وہ فوراً پچھتر کا وعدہ کر دیں گے.اور یہ وعدہ کرتے وقت ان کا دل اتنا خوش ہوتا ہے کہ وہ اس خوشی میں گزشتہ سال کے وعدہ کو بالکل بھول جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پچھلا سال تو گیا ، اس سال ہم پچھتر روپے ادا کر دیں گے.پھر پچھتر بھی ادا نہیں کرتے اور اس سے اگلا سال شروع ہو جاتا ہے.اس پر وہ پھر سور و پسیہ کا وعدہ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں، الحمد لله، خدا تعالیٰ نے ہمیں پچھلے سال سے بڑھ کر چندہ لکھوانے کی توفیق عطا فرمائی.اور یہ بھی خیال نہیں آتا کہ وہ پچھلے پچاس اور پچھتر بھی ادا کریں.اس قسم کی ذہنیت والے آدمی بھی 249
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 14 دسمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہیں ، جو در حقیقت کام کو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں.لیکن جو لوگ وعدے کرتے ہیں اور پھر ان وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ خدا تعالیٰ کے حضور بھی سرخرو ہوتے ہیں اور دین کے کام میں بھی مددگار بنتے ہیں.پس ایسے افرادکو میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.اور چونکہ جماعتوں پر اس قسم کے افراد کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جب تک کسی جماعت میں نقص واقع نہ ہو، اس وقت تک اس کے افراد میں یہ ذہنیت پیدا نہیں ہو سکتی.اس لئے میں جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بقایا داروں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائیں.انہیں نصیحت کریں اور سمجھا ئیں اور یا درکھیں کہ احمدی ہونا آسان نہیں.جو شخص احمدی ہوتا ہے، وہ یہ سمجھ کر ہوتا ہے کہ مجھے مخالفتیں بھی برداشت کرنی پڑیں گی تکلیفیں بھی سہنی پڑیں گی اور قربانیاں بھی کرنی پڑیں گی.پس وہ ایمان کی وجہ سے احمدیت میں داخل ہوتا ہے اور ایمان دار کو اس کی غفلت پر متنبہ کر دینا بالکل آسان ہوتا ہے.اگر اس میں سستی پائی جاتی ہے یا غفلت پائی جاتی ہے اور ایمان اس کے دل میں موجود ہے تو توجہ دلانے پر وہ فوراً اپنی اصلاح کرے گا.اور کام میں جو حرج واقع ہو رہا ہوگا ، وہ دور ہو جائے گا.اس کے بعد میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وعدے تو آ رہے ہیں اور انشاء اللہ آئیں گے.مگر جیسا میں نے بتایا ہے، اب کام بڑھ رہا ہے اور وہ جو تحریک جدید کی آمد سے جائیداد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اس میں سے بھی سات، آٹھ لاکھ روپیہ ابھی قرض باقی ہے.دوست چونکہ بھول جاتے ہیں ، اس لئے انہیں بار بار بتانا پڑتا ہے.واقعہ یہ ہے کہ تحریک جدید کے لئے ریز روفنڈ قائم کرنے کی خاطر سندھ میں دس ہزا را یکڑ یعنی چار سو مربع زمین خریدی گئی ہے.اس زمین کی قیمت جو ادا کی گئی ، وہ مختلف زمانوں میں مختلف ہوتی رہی ہے.چونکہ ہم یک دم قیمت نہیں دے سکے تھے، اس لئے ہمیں تاخیری قیمت دینی پڑی تھی، جو اصل قیمت سے زیادہ تھی.جیسے مشینوں کی فروخت کے متعلق دستور ہوتا ہے کہ اگر نقد قیمت ادا کی جائے تو مثلاً سوروپیہ دینا پڑتا ہے اور اگر قسطوں میں ادا کی جائے تو سوا سو دینا پڑتا ہے.ہم نے بھی اس زمین کی قسط وار قیمت ادا کی ہے.بعض جگہ سواد و سور و پیہ فی ایکڑ ، بعض جگہ اڑھائی سوروپیہ فی ایکڑ بعض جگہ تین سوروپیہ فی ایکڑ اور بعض جگہ تین سو ساٹھ روپیہ فی ایکڑ.اس طرح ہماری اوسط قیمت فی ایکڑ اڑھائی سو روپیہ کے قریب پڑی ہے اور یہ سارا سودا چھپیں لاکھ روپیہ کا ہے.بلکہ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ میں لاکھ کے قریب کا یہ سودا ہے.لیکن چندوں کے ذریعہ اس کی جو رقم ادا ہوئی ہے، وہ 250
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 دسمبر 1951ء کوئی دس، بارہ لاکھ کے قریب ہے اور آٹھ لاکھ کے قریب قرضہ لے کر ادا کی گئی ہے.جس میں خلافت جو بلی فنڈ کا بھی روپیہ ہے.اس وقت یہ سمجھ کر کہ یہ کام ضروری ہے، میں نے خلافت جو بلی فنڈ سے روپیہ نکالنے کی اجازت دے دی تھی.جب تحریک جدید روپیہ واپس کرے گی تو پھر خلافت جو بلی فنڈ قائم ہو جائے گا.بہر حال اکیس لاکھ کے قریب تو یہ ہوا اور سات آٹھ لاکھ روپیہ وہ ہے، جو ان زمینوں کی آمد سے ادا ہوا.اس وقت اس زمین کی اوسط قیمت تین سو روپیہ فی ایکڑ جھنی چاہیے.یہاں تو فی ایکڑ ایک ہزار روپیہ سے دو ہزار روپیہ تک بھی قیمت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قیمت مل جاتی ہے.اگر وہاں بھی کسی وقت یہی قیمت ہو جائے تو ایک ہزار روپیہ فی ایکڑ کے لحاظ سے ایک کروڑ اور دو ہزار روپیہ فی ایکٹر کے لحاظ سے دو کروڑ روپیہ کی وہ جائیداد بن جاتی ہے.اور اس طرح تحریک جدید کا دو کروڑ روپیہ کاریز روفنڈ قائم ہو جاتا ہے.لیکن سردست ہم اس کا صحیح انتظام نہیں چلا سکے.بعض سالوں میں ہمیں قرض لے کر کام کرنا پڑا ہے.اس سال بھی پچیس ہزار روپیہ قرض لیا گیا ہے.لیکن بعض سالوں میں آمد بھی ہوئی ہے ، جیسے کہ میں نے بتایا ہے کہ چھ سات لاکھ روپیہ اس کی آمد میں سے خرچ کیا گیا ہے.بہر حال اگر یہ زمین صیح طور پر آمد دینے لگ جائے اور قرض ادا ہونے کے بعد اس سے ایک ریز روفنڈ قائم ہو جائے تو خطرہ کے موقع پر ہمیں اس طرح اعلان نہ کرنا پڑے، جس طرح مجھے گذشتہ سال اخباروں میں بار بار اعلان کرنا پڑا کہ دوستوں کو جلدی اپنے وعدے ادا کرنے چاہیئیں ، ورنہ سلسلہ کے کاموں میں تعطل واقع ہو جائے گا.ایسی صورت میں آسانی سے لاکھ، دولاکھ روپیہ وہاں سے لیا جاسکتا ہے اور سلسلہ کے کاموں میں کوئی حرج واقع نہیں ہو سکتا.لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا.کامیابی کے آثار نظر آرہے ہیں اور کام پہلے سے بہتر ہوتا جا رہا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ اصلاح کی ضرورت ہے.مگر یہی کام کافی نہیں.بڑی چیز یہ ہے کہ جہاں جہاں ہم اپنے مشن قائم کریں، وہاں ہمارا اپنا مکان اور اپنی مسجد بھی ہو.اس کے بغیر بھی بھی صحیح طور پر کام نہیں ہوسکتا.اب ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے ایک مشنری نے کوئی مکان کرایہ پرلیا ہوا ہوتا ہے، مگر کچھ عرصہ کے بعد اسے نوٹس مل جاتا ہے کہ مکان خالی کردو.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس مکان کو روشناس کرنے میں جو وقت اور روپیہ صرف ہو چکا ہوتا ہے، وہ سارے کا سارا ضائع چلا جاتا ہے.اور پھر وہ مبلغ کسی اور مکان میں چلا جاتا ہے، جس کی طرف لوگوں کو کوئی توجہ نہیں ہوتی.تبلیغ کا کام صیح طور پر تبھی چل سکتا ہے، جب اپنی جگہ ہو.انگلستان میں اگر چہ دین کی طرف رغبت لوگوں کو کم ہے لیکن چونکہ ہمارا وہاں اپنا مکان ہے، اپنی مسجد ہے اور دیر سے مشن قائم ہے، اس لئے ہمارا وہاں کافی رسوخ ہے.وزرا ء تک 251
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 دسمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم وہاں آتے ہیں اور اگر کسی معاملہ میں ان سے پروٹسٹ کیا جائے یا ملاقات کی جائے تو وہ ہمارا ادب بھی کرتے ہیں، لحاظ بھی کرتے ہیں، جواب بھی دیتے ہیں اور خوش کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں ہماری دیر سے مسجد موجود ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہاں ڈیرہ قائم ہو چکا ہے.لیکن جہاں یہ ڈیرے قائم نہیں، وہاں بڑی وقتیں پیش آتی ہیں.پس جہاں جہاں ہم مشن کھولنا چاہتے ہیں، ضروری ہے کہ وہاں کم از کم کسی ایک شہر میں ، جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو، ہمارا اپنا مکان ہو.لیکن یورپیئن ملکوں میں ایک، ایک مکان کے لئے لاکھوں روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے.مثلاً ابھی ہم نے واشنگٹن میں مرکز کے لئے ایک مکان خریدا ہے، جس پر بیالیس ہزار ڈالر خرچ آیا ہے.بیالیس ہزار ڈالر کے معنی ہیں، ایک لاکھ، پینتالیس ہزار روپیہ اور یہ روپیہ صرف مکان خرید نے پر خرچ ہوا ہے.اگر ہم مسجد بنا ئیں تو قریباً ستر ، اسی ہزار روپیہ اور خرچ ہوگا.مگر جماعت کے چندہ کی یہ حالت ہے کہ دوستوں میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی تحریک کی گئی تو آیا صرف چالیس ہزار.باقی رو پید ادھر ادھر سے قرض لے کر پورا کیا گیا ہے.بعض قرض دینے والوں سے تو ہم شرمندہ بھی ہیں.اور ایک دوست سے صرف چھ ماہ وعدے پر قرض لیا گیا تھا.مگر وقت گزر گیا مگر روپیہ ادانہ ہو سکا.انہیں بھی ضرورت تھی ، آخر انجمن نے مجھے لکھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم وہی مکان گردر کھ کران کا روپیہ ادا کریں.میں نے کہا کہ بے شک مکان گرور کھ دو اور ان کا روپیہ ادا کر دو.اب یہ ہے تو بڑے شرم کی بات کہ جو مکان مسجد کے لئے خریدا گیا تھا ، اس کو گرو رکھنے کی اجازت دے دی جائے.مگر یہ صورت حالات اس لئے پیدا ہوئی کہ اتنے اہم کام کی طرف جماعت نے اتنی کم توجہ کی کہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی تحریک کی گئی اور چندہ چالیس ہزار روپیہ آیا.ہالینڈ کی مسجد کے متعلق عورتوں میں تحریک کی گئی تھی.انہوں نے مردوں سے زیادہ قربانی کا ثبوت دیا ہے.گوان کی تحریک بھی چھوٹی تھی.عورت کی آمدن ہمارے ملک میں تو کوئی ہوتی ہی نہیں.اگر اسلامی قانون کو دیکھا جائے تو عورت کی آمد مرد سے آدھی ہونی چاہیے.کیونکہ شریعت نے عورت کے لئے آدھا حصہ مقرر کیا ہے اور مرد کے لئے پورا حصہ.پس اگر مردوں نے چالیس ہزار روپیہ دیا تھا تو چاہیے تھا کہ عورتیں بیس ہزار روپیہ دیتیں.مگر واقعہ یہ ہے کہ مردوں نے اگر ایک روپیہ چندہ دیا ہے تو عورتوں نے سوارو پے کے قریب دیا ہے.انہوں نے زمین کی قیمت ادا کر دی ہے اور ابھی چھ ، سات ہزار رو پید ان کا جمع ہے.جس میں اور روپیہ ڈال کر ہالینڈ کی مسجد بنے گی.پھر یہ چندہ انہوں نے ایسے وقت میں دیا ہے جبکہ لجنہ کا دفتر بنانے کے لئے بھی انہوں نے چودہ، پندرہ ہزار روپیہ جمع کیا تھا.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ 252
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 دسمبر 1951ء شریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم - جتنا جتنا کسی کے پاس روپیہ کم ہوتا ہے، اتنا ہی اس کا حوصلہ زیادہ ہوتا ہے.مردوں کے پاس چونکہ روپیہ زیادہ ہوتا ہے، اس لئے ان کا حوصلہ کم ہوتا ہے.لیکن عورتوں کے پاس چونکہ روپیہ کم ہوتا ہے ، اس لئے وہ کہتی ہیں کہ روپیہ تو یوں بھی ہمارے پاس ہے نہیں ، چلو جو کچھ ملتا ہے، وہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں ہی قربان کر کے اس کی رضا حاصل کریں.مگر جس کے پاس روپیہ ہوتا ہے، وہ کہتا ہے میرا فلاں کام بھی پڑا ہے، اس کے لئے مجھے دس روپے چاہیں.فلاں کام پڑا ہے ، اس کے لئے ہیں روپے چاہیں.غرض ہمارا تجربہ ہمیشہ یہی بتاتا ہے کہ عورت اپنی توفیق اور ہمت سے بہت زیادہ قربانی کرتی ہے اور مرد اپنی توفیق اور ہمت سے کم قربانی کرتا ہے.بے شک ایسے مرد بھی موجود ہیں، جو اپنی توفیق اور ہمت سے بہت زیادہ قربانی کرنے والے ہیں.لیکن اگر اکثریت کو دیکھا جائے تو عورت کا پلہ بھاری نظر آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی جب خاص قربانی کی ضرورت ہوا کرتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے ہی اپیل کیا کرتے تھے.کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ عورت جذباتی ہوتی ہے، جب قربانی کرنے پر آجائے تو وہ غیر معمولی طور پر قربانی کر جاتی ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ضرورت پیش آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز کے بعد عورتوں میں تحریک کی اور انہوں نے اپنے زیورا تار کر چندہ میں دینے شروع کر دیئے.یوں تو عورت کو سب سے زیادہ زیور ہی پسند ہوتے ہیں کیونکہ وہی اس کی جائیداد ہوتے ہیں.لیکن جب اسے جوش آجائے تو پھر وہ اسی زیور کو جو اسے محبوب ہوتا ہے، اتار کر پھینک دیتی ہے.عورتوں نے اسی طرح کیا اور زیورا تارا تا ر کر دینے شروع کر دیئے.مگر چونکہ اکثر غریب عورتیں تھیں، اس لئے ان کے پاس کم قیمت زیور تھے.کسی نے چھلہ دے دیا، کسی نے مرکی دے دی، کسی نے اسی قسم کی کوئی اور چیز دے دی.ایک صحابی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیور اکٹھے کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ جھولی پھیلائے ادھر ادھر پھر رہے تھے اور عورتیں گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھیں.اتنے میں ایک امیر گھرانے کی لڑکی نے سونے کا کڑا اپنے ہاتھ سے اتارا اور اس کی جھولی میں ڈال دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا کہ اس نے بڑی بھاری رقم خدا تعالی کی راہ میں دی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا دوسر ہاتھ بھی درخواست کرتا ہے کہ تو اسے دوزخ سے بچا.اس پر اس نے اپنا دوسرا کڑا بھی اتار کر دے دیا.تو عورتوں میں، میں نے دیکھا ہے کہ ان میں قربانی کا مادہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے.کچھ جذباتی ہونے کی وجہ سے اور کچھ یہ خدائی قانون ہے کہ روپیہ جتنا کم ہو، اتنی ہی ہمت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور جتنازیادہ روپیہ ہو ، اتنے ہی تفکرات زیادہ ہو جاتے ہیں کہ فلاں کام بھی ہو جائے ، فلاں کام بھی ہو 253
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 دسمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم جائے.چونکہ عورت کے پاس روپیہ کم ہوتا ہے، اس لئے وہ قربانی میں مردوں سے آگے نکل جاتی ہے.لیکن اس واقعہ کو بدلنا بھی ہمارے اختیار میں ہے.بے شک واقعہ یہی ہے کہ عورتیں زیادہ قربانی کرتی ہیں لیکن یہ خدا تعالیٰ کا کوئی اٹل فیصلہ نہیں کہ وہی زیادہ قربانی کریں گی ، مرد زیادہ قربانی نہیں کر سکتے.یہ صرف ایک کمزوری اور ضعف کی علامت ہے، جسے کوشش کے ساتھ دور کیا جاسکتا ہے.اگر عورت اپنی طبعی کمزوری اور فطری ضعف کے باوجود قربانی کے میدان میں آگے نکل جاتی ہے تو مرد کیوں اپنی کمزوری کو دور نہیں کر سکتے ؟ جب مردوں کو جائیداد میں سے دوسرا حصہ ملتا ہے تو انہیں ہمت بھی دگنی دکھانی چاہیے.خدا تعالی نے انہیں دو روپے دیئے ہیں مگر چندہ دیتے وقت وہ عورت کے مقابلہ میں اٹھنی دیتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مردوں اور عورتوں کے مجموعی چندوں کو اگر دیکھا جائے تو مردوں کا چندہ زیادہ ہوتا ہے.لیکن نسبتی لحاظ سے چندہ دیتے وقت اگر عورت ایک روپیہ دینے کا حوصلہ رکھتی ہے تو مرد اٹھنی دینا چاہتے ہیں.حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ مرد اس کے ایک روپیہ کے مقابلہ میں دو بلکہ چار روپے دینے کا حوصلہ رکھتے.بہر حال اس چیز کو بدلنا ہمارے اختیار میں ہے.اگر ہم جدوجہد کریں ، خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں ، اس کے حضور استغفار سے کام لیں اور اس سے دعا کریں کہ الہی تو نے ہمیں طاقت زیادہ دی ہے لیکن ہم میں حوصلہ کم ہے.تو ہماری اس کمزوری اور ضعف اور غفلت کو دور فرما.اور جس طرح تو نے ہمیں عورت پر درجہ کے لحاظ سے فضیلت دی ہے، اسی طرح تو ہمیں عورت پر قربانی کے لحاظ سے بھی فضیلت دے.تو یقینا خدا تعالیٰ ہماری سنے گا اور وہ ہم میں بھی قربانی کی زیادہ روح پیدا کر دے گا.پس یہ کام ایسے ہیں، جو بہت سے اخراجات چاہتے ہیں.پھر لٹریچر ہے.دنیا میں پانچ ، سات ہزار زبان ہے لیکن صرف آٹھ ، دس زبانوں میں احمدیت کا لٹریچر ہے.عیسائیوں نے قریباً ہر زبان میں اپنے لٹریچر کا ترجمہ کر دیا ہے.یہ کام بھی ہم سے بہت بڑے اخراجات کا مطالبہ کرتا ہے.غرض ایک بہت وسیع کام ہے، جو ہمارے سامنے ہے.مگر ہمارا سالانہ بجٹ جب ہمارے روز مرہ کے اخراجات کے لئے بھی کافی نہیں ہوسکتا تو ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ایک کروڑ روپیہ کاریز روفنڈ قائم کریں.تا کہ کسی حادثہ اور مصیبت کے وقت اگر خدانخواستہ ہمارے چندے مرکز کی عارضی ضرورت کو پورا نہ کر سکیں تو وہ ریز روفنڈ کی آمد سے پوری ہو سکے اور سلسلہ کے کاموں کو کوئی نقصان نہ پہنچے.آج سے چالیس یا پچاس سال کے بعد جب ہماری جماعت ترقی کر جائے گی اور بڑے بڑے امراء ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے تو اس وقت لوگ جب میرے اس خطبہ کو پڑھیں گے تو وہ حیران ہوں گے کہ ہمارا خلیفہ، جو موعود خلیفہ تھا، جو صلح موعود تھا، اتنا چھوٹا حوصلہ رکھتا تھا کہ پہلے اس نے تمیں لاکھ کا 254
اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 14 دسمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم ریز روفنڈ قائم کیا اور پھر اس نے کہا کہ اب ہمیں ایک کروڑ روپیہ کا ریز روفنڈ قائم کرنا چاہیے.وہ حیران ہوں گے کہ کیا یہ بھی کوئی روپیہ ہے، جس کا اتنے بڑے خلیفہ نے مطالبہ کیا تھا؟ آکسفورڈ یو نیورسٹی نے ایک دفعہ روپیہ کے لئے اعلان کیا تو مسٹر مارلین نے فوراً پندرہ لاکھ روپیہ کا چندہ پیش کر دیا.راک فیلر را شیلڈ وغیرہ نے چھ چھ سات سات کروڑ روپیہ چندہ دیا ہے.پس جب وہ میرے اس خطبہ کو پڑھیں گے تو حیران ہوں گے اور وہ اس تھوڑے سے روپیہ کو ہمارے حوصلہ اور عزم کی کمی پر محمول کریں گے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں، اپنی جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے کہ رہے ہیں.ورنہ ہم بھی جانتے ہیں کہ جو عظیم الشان کام ہم نے انجام دینا ہے، اس کے لئے کروڑوں ہی نہیں، اربوں ارب روپیہ کی ضرورت ہے.لیکن اس وقت ہماری نگاہ میں وہی روپیہ بڑی قیمت رکھتا ہے، جو ہماری جماعت اپنی غربت کی حالت میں پیش کر رہی ہے.پیس بے شک بعد میں بڑے بڑے امراء آئیں گے.لیکن یہ زمانہ ہماری کمزوری کا زمانہ ہے.اس وقت ہماری جماعت کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایک کروڑ روپیہ کاریز روفنڈ قائم کر دے.بے شک ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ بعض امراء حیران ہوں گے کہ کیا ہماری جماعت اتنی کمزور تھی کہ اتنا بڑا خلیفہ صرف ایک کروڑ روپیہ کو اپنا بڑا مقصد قرار دیتا تھا.لیکن ہمارا روپیہ ہمارے دل اور جگر کا خون ہوگا اور ان کا رو پیران کے دل اور جگر کا خون نہیں ہو گا.بلکہ وہ نہایت آسانی کے ساتھ اپنی جیب میں سے نکال کر دے دیں گے اور انہیں کچھ بھی تکلیف محسوس نہیں ہوگی.پس ہمارے کروڑ اور ان کے کروڑ میں فرق ہے“......بی حالات بہر حال بدلیں گے.ایک جیسی حالت کسی قوم پر ہمیشہ نہیں رہ سکتی.مگر آنے والے امراء کا روپیہ دریا میں سے ایک قطرہ ہوگا.اور ہمارا روپیہ وہ ہے، جو ہم خون دل اور خون جگر کے ساتھ جمع کر رہے ہیں اور قطرہ میں سے دریا کا رنگ رکھتا ہے.پس ان کا حیران ہونا کہ کسی وقت ہماری جماعت کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ ایک کروڑ روپیہ جمع کرنا بھی بڑی بات سمجھی جاتی کوئی تعجب کی بات نہیں.مگر اس وقت کے آنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم حسن تدبیر سے اور عقل سے اور قربانی سے کام لیں.اور اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر چندوں میں ایسی با قاعدگی اختیار کریں کہ سالانہ اخراجات کو پورا کرنے کے علاوہ ہم مستقل طور پر ایک کروڑ کاریز روفنڈ قائم کر سکیں.تا کہ مشکل کے وقت اس کی آمد ہمارے کام آئے.جیسے میں نے بتایا ہے، ہم نے مسجد کے لئے زمین خریدی تو ایک دوست سے قرض لے کر.اور اب ہم شرمندہ ہیں کہ قرض واپس نہیں کر سکے.اگر ریز روفنڈ قائم ہوتا تو ہمیں کوئی مشکل پیش نہ آتی.ہم یہ 255
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 دسمبر 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم قرض وہاں سے ادا کر دیتے اور جماعت سے آہستہ آہستہ چندہ وصول کرتے رہتے.پس یہ بھی ایک جائیداد ہے، جو تحریک جدید کے چندہ سے قائم ہوئی ہے.ابھی وہ ابتدائی حالت میں ہے.لیکن اس کو بڑھانے اور مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ تحریک جدید کے چندہ کو زیادہ منظم اور باقاعدہ کیا جائے اور اس کی وصولی کے لئے زور دیا جائے.اس سال کے تحریک جدید کے وعدوں کے لئے میں نے وقت کا اعلان نہیں کیا تھا.اب میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ تحریک جدید کے وعدوں کی آخری میعاد مغربی پاکستان والوں کے لئے 15 فروری ہو گی.ایسٹ پاکستان اور ہندوستان سے آنے والے وعدوں کے لئے آخری تاریخ دس مارچ ہوگی.اور پاکستان اور ہندوستان سے جو باہر کے ممالک ہیں، مثلاً امریکہ ہے، انگلستان ہے، ایسٹ افریقہ ہے، ویسٹ ریقہ ہے یا اور دوسرے ممالک ہیں، ان سب کے وعدوں کے لئے 10 مئی آخری تاریخ ہوگی.( مطبوعه روزنامه افضل 20 دسمبر 1951 ء ) 256
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سو سوم اقتباس از تقریر فرموده 24 مارچ 1951ء وو تحریک جدید کے کام کی اہمیت تقریر فرمودہ 24 مارچ 1951ء بر موقع مجلس شوری تحریک کا بجٹ گو خوشکن ہے لیکن مالی لحاظ سے تحریک جدید، صدر انجمن احمدیہ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک حالات میں سے گزر رہی ہے.پچھلے دو سال سے چندوں کی وصولی میں کمی واقع ہوگئی ہے.حالانکہ کام کی اہمیت اور اس کے خوشکن نتائج کے پیش نظر لوگوں میں قربانی کا جوش بڑھ جانا چاہئے تھا.یہ تحریک جدید کی ہی برکت ہے کہ آج مختلف ممالک کے لوگ علم دین حاصل کرنے کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں اور اس وقت بھی ہمارے درمیان موجود ہیں.طلباء کی آمد کا سلسلہ بدستور جاری ہے.علاوہ از میں بیرونی ممالک کے احمدی بڑھ چڑھ کر خدمت اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر رہے ہیں.امریکہ کے رشید احمد ، زندگی وقف کرنے کے بعد ایک عرصہ سے ربوہ میں مقیم ہیں.ان کے علاوہ امریکہ سے چار اور نو جوانوں کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں.انہوں نے بھی خدمت اسلام کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے.ادھر د نیوی لحاظ سے بھی بیرونی جماعتیں بفضلہ ترقی کر رہی ہیں.گولڈ کوسٹ کے حالیہ انتخابات میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تین احمدی کامیاب ہو کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں.یہ چیز میری سمجھ سے باہر ہے کہ تحریک جدید کی اتنی اہمیت کے باوجود احباب نے چندوں کی ادا ئیگی میں غفلت سے کیوں کام لیا ہے؟ شاید لوگوں نے سمجھ لیا کہ بیرونی ممالک میں مشن قائم کر کے ہم نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے اور ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئے ہیں.حالانکہ میدان تبلیغ کی وسعت کے مقابلے میں ہماری مساعی کی کوئی حیثیت نہیں ہے.ہمارے مبلغ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں.اگر صحیح معنوں میں تبلیغ کی جائے تو ہر تین سو آدمیوں پر ایک مبلغ ہونا چاہئے.یاد رکھو، تبلیغ کا حق اس وقت ہی ادا ہو گا کہ جب ہر ایک فرد تک اسلام واحمدیت کا پیغام پہنچ جائے گا اور اس پر صداقت واضح کر دی جائے گی.دنیا کی موجودہ آبادی کو دیکھتے ہوئے لاکھوں لاکھ مبلغین اس کام پر متعین کرنے کی ضرورت ہے.اس کے بالمقابل ہم نے صرف چند سو مبلغ دنیا میں پھیلا رکھے ہیں.جو آٹے میں نمک کے برابر بھی قرار نہیں دیئے جا 257
اقتباس از تقریر فرموده 24 مارچ 1951ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم سکتے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دوستوں نے اس تحریک کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کا کما حقہ احساس نہیں کیا گیا.اگر وہ اس کی اہمیت کو سمجھ لیتے تو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے اور انہیں تن کے کپڑے بھی بیچ ڈالنے سے دریغ نہ ہوتا“....بیرونی ممالک میں احمدیت کی روز افزوں ترقی اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ ہم وہاں اپنی مساعی کو اور زیادہ تیز کر کے خدائی منشاء کو پورا کریں.ہونا یہ چاہئے کہ تحریک کا بجٹ منظور ہونے کے بعد اب کوئی فرد ایسا نہ رہے کہ جو تحریک جدید میں حصہ نہ لے اور دوسروں سے بھی وعدہ پورا کرانے کا بیڑا نہ اٹھائے.احباب جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں ، جب تک کہ تمام وعدہ کرنے والوں سے ان کا وعدہ پورا نہ کروالیں“.( مطبوعه روزنامه الفضل 28 مارچ 1951ء) 258
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 جنوری 1952ء ہر محکمہ کی ایک پلین اور تجویز ہونی چاہیے اور پھر وقت مقرر ہونا چاہیے خطبہ جمعہ فرمودہ 04 جنوری 1952ء پس ایک تو میں مرکزی محکموں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نئے سال کے لئے ایک خاص پلین بنا ئیں اور پھر اسے پورا کرنے کی پوری کوشش کریں.میں نے تحریک جدید کے محکموں کو جلسہ سالانہ سے قبل اس طرف توجہ دلائی تھی.معلوم نہیں، انہوں نے میری ہدایت کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا ہے یا نہیں؟ میں نے انہیں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہر محکمہ کی ایک پلین اور تجویز ہونی چاہیے.اور پھر اس کے لئے وقت مقرر ہونا چاہیے.مثلاً یہ کہنا چاہیے کہ ہم فلاں کام چھ ماہ ، سات ماہ ، سال یا ڈیڑھ سال میں کریں گے.تا اس عرصہ کے بعد جماعت ان پر گرفت کر سکے کہ آیا انہوں نے اس پلین اور تجویز کے مطابق، جو انہوں نے شروع سال میں پیش کی تھی، کام کیا ہے یا نہیں ؟ شروع سال میں ہر محکمہ اور ہر صیغہ کو اپنی پلین اور تجویز دینی چاہیے.اور وہ پلین اور تجویز ایسی ہونی چاہیے کہ جسے واقعات کے لحاظ سے پکڑا جا سکے.مطبوعه روزنامه الفضل 11 جنوری 1952ء) 259
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 جنوری 1952ء تحریک جدید میں حصہ لینا، احمدیت کے قیام کی غرض کو پورا کرنا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 1952ء آج جنوری کی 18 تاریخ ہے اور ایک مہینہ کے اندر اندر تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد ختم ہو جائے گی.اس لئے آج میں پھر خطبہ تحریک جدید کے متعلق ہی پڑھتا ہوں.دوستوں کو معلوم ہے کہ اس سال میں نے وضاحت سے بتا دیا ہے کہ تحریک جدید کا کام نہ چند سال کا ہے اور نہ چند افراد کا ہے.بلکہ در حقیقت احمدیت کے قیام کی جو غرض تھی، یعنی غلبہ اسلام علی الادیان، اس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ کام جاری کیا گیا ہے.اور ظاہر ہے کہ جس غرض کے لئے احمدیت قائم کی گئی تھی اور جس غرض کے لئے کوئی شخص احمدیت میں داخل ہوتا ہے، اس کے متعلق وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ کام دوسروں کا ہے، میرا نہیں.اگر یہ اس کا کام نہ ہوتا تو اسے احمدیت میں داخل ہونے کی ضرورت کیا تھی؟ آخری زمانہ میں اسلام ایسی مصیبت کے دور سے گزرنے والا تھا ، جس نے اس کی عظمت اور شوکت کو مسخ کر دینا تھا، کفر کو اسلام پر پھبتیاں اڑانے کا موقع ملنے والا تھا، کفر کو اسلام کی تضحیک اور تحقیر کرنے کا موقع ملنے والا تھا.اس کے بعد اسلام نے اپنے رتبہ کو دوبارہ حاصل کرنا تھا اور اس مقام پر پہنچنا تھا، جس کو دیکھ کر کفار اپنی کامیابی اور ترقی سے مایوس ہو جائیں گے.اور یہ کام ہر اس شخص کے ذمہ ہے یا یہ کام ہر اس شخص کا ہے، جو اپنے آپ کو مسلمان یا احمدی کہتا ہے.پس اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنا اور احمدیت کو قائم کرنا ، وہ کام نہیں، جس کے متعلق کوئی مسلمان یا احمدی یہ کہہ سکے کہ یہ کام فلاں کا ہے، میرا نہیں.یہ کام ہر احمدی کا ہے اور یہ ہر زمانہ میں زندہ رہے گا اور قیامت تک چلے گا.پس میں نے واضح کر کے بتا دیا تھا کہ تحریک جدید کا کام چند سال کا نہیں اور نہ یہ کام چند افراد کا ہے.اور اب جبکہ میں نے حقیقت کو کھول دیا ہے، آئندہ یہ سوال نہیں ہو گا کہ کون چندہ دیتا اور کون چندہ نہیں دیتا؟ بلکہ اس وضاحت کے بعد ہر شخص، جو احمدیت میں شامل ہوتا ہے، بلکہ میں کہتا ہوں کہ ہر شخص، جو احمدیت سے دلچسپی لیتا ہے، خواہ وہ احمدی نہ بھی ہو ، اس پر یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ وہ اس کام میں حصہ لے.اور پھر اپنی حیثیت کے مطابق حصہ لے.اب صرف ان لوگوں سے وعدے لے کر نہیں بھجوانے ، جو 261
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم پہلے سے وعدے کرتے آئے ہیں.بلکہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ ہر احمدی سے، خواہ وہ بچہ ہو ، جوان ہو یا بوڑھا ہو یا مرد ہو یا عورت ہو، امیر ہو یا غریب اور پھر خواہ کسی حیثیت کا ہو، اس کی حیثیت کے مطابق تحریک جدید کے وعدے لے کر بھجوائیں.اور ہر ایک پر واضح کر دیں کہ اسلام کی اشاعت اور غیر مسلموں کو اسلام میں داخل ہونے کے لئے تبلیغ کرنا ہی ایسے کام ہیں، جن کی وجہ سے ہم اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کر سکتے ہیں.نہ کفر و اسلام کی جنگ نے قیامت تک ختم ہونا ہے اور نہ قربانیوں کا سلسلہ بند ہوسکتا ہے.یہی جہاد ہے، جو مختلف رنگوں میں ہمیشہ کیلئے مسلمانوں پر فرض ہے." ایک احمدی کے عقیدہ کے مطابق جہاد کی جو شرائط پہلے پائی جاتی تھیں، وہ شرائط اب بھی پائی جاتی ہیں.اس وقت بھی امن کی ضرورت تھی اور اب بھی امن کی ضرورت ہے.جس جہاد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کیا تھا اور جو جہاد ہم کر رہے ہیں ، وہ کسی وقت بھی بہٹ نہیں سکتا.ہر وقت نماز ، جہاداور ذکر الہی ضروری ہیں.جہاد کے معنی ہیں، اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنا اور غیر مسلموں کو اسلام میں لانے کے لئے تبلیغ کرنا.اور روز وشب جماعت سے ہمارا یہی خطاب ہوتا ہے.ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ تم دوسرے لوگوں کو تبلیغ کے ذریعہ مسلمان بناؤ.ہمارا جہاد وہ ہے، جو نماز کی طرح روزانہ ہو رہا ہے.اور جو احدی اس جہاد میں حصہ لیں گے، وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جہاد کر رہے ہیں.لیکن جو لوگ اس جہاد میں حصہ نہیں لیں گے، ہم ان متعلق فتوے تو نہیں دیتے لیکن جس طرح نماز نہ پڑھنے والا سچا مسلمان نہیں ہوسکتا، اسی طرح اسلام کی اشاعت کے لئے قربانی نہ کرنے والا بھی سچا مسلمان یا سچا احمدی نہیں کہلا سکتا.لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مقدمات میں کس طرح اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں.اب کفر و اسلام کے مقدمہ میں جو حصہ نہیں لیتا اور اسے نقل سمجھتا ہے، وہ کیسے سچا مسلمان کہلا سکتا ہے؟ تحریک جدید فعلی اس لئے ہے کہ ہم اس میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دیتے.لیکن فرض اس لحاظ سے ہے کہ اگر تمہیں احمدیت سے سچی محبت ہے تو تحریک جدید میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے.جب ماں بچہ کے لئے رات کو جاگتی ہے تو کون کہتا ہے کہ اس کے لئے رات کو جاگنا فرض ہے؟ بچہ کی خاطر رات کو جا گنا فرض نہیں نفل ہے.لیکن اسے رات کو جاگنے سے کون روک سکتا ہے؟ جس سے محبت ہوتی ہے، اس کی خاطر ہر شخص قربانی کرتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنا فرض نہیں نفل ہے.اسی طرح جو شخص اسلام اور احمدیت سے سچی محبت رکھتا ہے، وہ یہ نہیں کہے گا کہ ان کی اشاعت کی خاطر قربانی کرنا فرض نہیں.بلکہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے قربانی کرنا ، اسے فرض سے بھی زیادہ پیارا 262
تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 جنوری 1952ء لگے گا.کیونکہ وہ سمجھے گا کہ ایسا کرنے سے اسلام کو دوبارہ شوکت وعظمت حاصل ہو جائے گی.بلکہ جب تبلیغ جہاد کا ایک حصہ ہے تو اس میں حصہ لینا فرض ہی کہلانے کا مستحق ہے.پس اس خطبہ کے ذریعے میں جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اب دوست صرف یہ نہ کریں کہ جولوگ اس میں حصہ لیتے ہیں، ان سے وعدے لے کر بھجوا دیے جائیں.بلکہ ہر بالغ احمدی کو تحریک جدید میں شامل کریں.بلکہ نابالغ بچوں کو بھی تحریک جدید میں شامل کر سکتے ہیں.تا انہیں احساس رہے کہ انہوں نے بڑے ہو کر اسلام کی اشاعت میں حصہ لینا ہے.ہمارے گھروں میں نا بالغ بچوں کی طرف سے والدین حصہ لیتے ہیں اور انہیں بتا دیتے ہیں کہ تمہارا تحریک جدید کا وعدہ اس قدر ہے.تا انہیں احساس ہو کہ وہ بڑے ہو کر اس میں حصہ لیں.پس تم اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے بھی حصہ لے سکتے ہو.انہیں بتاؤ کہ تمہاری کامیابی کا طریق یہی ہے کہ تمہیں اشاعت اسلام کے کاموں میں رغبت ہو اور بڑے ہو کر اس کام کو پورا کرنے کی کوشش کرو.پس اب جبکہ بہت تھوڑ ا وقت باقی ہے، ( میں نے پندرہ فروری آخری تاریخ مقرر کی تھی.میں پھر جماعتوں کو توجہ دلا دیتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے وعدے اس رنگ میں بھجوائیں کہ ہر ایک بالغ احمدی اس میں شامل ہو جائے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ لے.ہر ایک احمدی کو بتاؤ کہ اس کا تحریک جدید میں حصہ لینا، احمدیت کے قیام کی غرض کو پورا کرنا ہے.اگر کوئی شخص تحریک جدید میں حصہ نہیں لیتا تو اس کے احمدیت میں داخل ہونے کا کیا فائدہ؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ لوگوں پر بہت بوجھ ہے.غرباء کی حالت کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے.ان پر اتنا بوجھ ہے، جو پہلے کبھی نہیں پڑا.لیکن اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ اسلام پر بھی وہ بوجھ آپڑا ہے، جو پہلے کبھی نہیں پڑا.مصیبت کے وقت ہر ایک کو بوجھ اٹھانا ہی پڑتا ہے.جب دنیا میں اسلامی حکومت اس رنگ میں قائم ہو جائے گی کہ ہر ایک شخص کو خوراک اور لباس مہیا کر دیا جایا کرے گا، اس وقت چندہ دینا موجودہ وقت میں چندہ دینے سے سواں حصہ بھی برکت کا موجب نہیں ہوگا.پس بے شک تم پر بوجھ زیادہ ہے اور میں اس بوجھ کو محسوس کرتا ہوں.اور ساری دنیا تمہاری تعریف کر رہی ہے.لیکن ہمارا کام بھی بہت بڑا ہے اور ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے.باوجود اس کے کہ ہم پر بوجھ زیادہ ہے، ہمیں اسلام کی خاطر قربانی کرنی پڑے گی.کیونکہ ہمارے خدا نے ہم پر اعتبار کر کے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے.( مطبوعه روزنامه افضل 24 جنوری 1952ء) 263
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلدسوم خلاصه از تقریر فرموده 24 جنوری 1952ء ایسے لوگ تلاش کرنے ہوں گے جو اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہوں وو تقریر فرمودہ 24 جنوری 1952ء شیخ مبارک احمد صاحب نے مشرقی افریقہ کے متعلق بعض باتیں بیان فرمائی ہیں.انہوں نے بتایا ہے کہ ہمارے مقابلہ میں عیسائی مشنریوں کو کیا کیا سامان اور سہولتیں میسر ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری کوششیں کمزور ہیں اور کمزور ہونی چاہئیں.لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے کاموں میں صیح طریق اختیار کریں.مشرقی افریقہ میں اگر چہ وحشی خشی تعداد میں زیادہ ہیں لیکن روپیہ انگریزوں، پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے پاس زیادہ ہے.وہاں تین لاکھ کے قریب پاکستانی اور ہندوستانی بستے ہیں، جو ہماری اپنی زبان بولتے ہیں اور ہمارے جیسے جذبات اور احساسات رکھتے ہیں.پچھلی ربع صدی میں ہم نے ان میں سے ایک تعداد احمدیت میں داخل کی ہے اور وہی تعداد ہمار ا 99 فی صدی بوجھ اٹھا رہی ہے.ہما را چندہ 80-90 ہزار شلنگ سالانہ ہے.لیکن خود افریقن لوگوں میں سے جو ایک ہزار احمدی ہوا ہے، ان کا چندہ 70 شلنگ ماہوار بھی نہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ اس تعداد کو بڑھایا نہ جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو تبلیغ کے بغیر ہماری ترقی مشکل ہے.جوں جوں ان لوگوں میں ہماری تعداد بڑھتی جائے گی ، ہماری تبلیغ ترقی کرے گی.یورپ میں بھی ابھی تک ظاہری تعداد کی طرف توجہ کی جارہی ہے.ہمیں اس قسم کے لوگ تلاش کرنے چاہیں ، جو اسلام کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں.تعداد کو بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں.اگر اس قسم کا ایک احمدی بھی مل جائے تو وہ اپنی جگہ احمدیت کا ستون اور عمود ہوگا“.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگ بیرونی ملک کے لوگوں کی بات سن لیتے ہیں.لیکن جب رو آتی ہے تو وہ مقامی لوگوں کے ذریعہ سے ہی آتی ہے.ایک پاکستانی اگر مجنونانہ تبلیغ کرے گا تو وہ لوگ اس کی مختلف تاویلیں کریں گے.لیکن جب یہ جنون ان کے ہم وطنوں پر بھی سوار ہو جائے گا تو انہیں اسلام کی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہے گا.کسی شخص کے سامنے صداقت کو پیش کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسے قبول نہ کرے.ہمارے مبلغین کو اپنا رویہ بدلنا چاہیے اور ایسے لوگ تلاش کرنے چاہئیں ، جو اسلام کو قبول کر لینے کے بعد مجنونانہ رنگ اختیار کر لیں.وہ اسلام کو اپنے تمام کاموں پر ترجیح دیں اور اس کے لئے اپنے تمام جذبات کو قربان کر دیں.وو ( مطبوعه روزنامه الفضل 07 فروری 1952ء) 265
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلدس سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1952ء خدا تعالی کی خاطر جو خدمات کی جاتی ہیں، وہ پے در پے نفع لاتی ہیں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1952ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.چار، پانچ ہفتے ہوئے ، میں نے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ہمارے نوجوان ، جو تعلیم پاتے ہیں اور پھر آگے ملازمتیں کرتے ہیں، یہ بھی ایک ضروری حصہ قومی ترقی کا ہوتا ہے.اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا.لیکن یہ کام کسی ترتیب اور کسی حکمت کے ماتحت ہونا چاہیے.ملک میں مختلف ادارے ہیں، کچھ تو حکومت کی ملازمتوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، جیسے مرکزی انتظامی ، مالی ، صوبہ جاتی انتظامی، قضائی فوجی، پولیس کی انجنیئر نگ تعلیم، صحت، خوراک وغیرہ.کچھ تجارتوں اور صنعتوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور کچھ آزاد پیشوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، مثلاً ڈاکٹری ہے، وکالت ہے.ان تمام جگہوں پر ہمارے آدمیوں کا ہونا، قومی ترقی اور جماعتی نظام کو مکمل کرنے کے لئے ضروری ہے.لیکن جہاں تک میرا تجربہ ہے، میں نے بتایا تھا کہ اپنے نوجوان ایک ہی رو میں یہ جاتے ہیں.مثلاً پچھلے ایام میں جب فوج میں تنخواہیں زیادہ ملی تھیں ، ہمارے نوجوان کثرت سے فوج میں جانے لگے.اس کے دو نقصان ہوئے.ایک تو باقی صیغے خالی رہے اور ان میں ہمارا کوئی آدمی نہ گیا اور دوسرا یہ کہ ان کے اس طرح ایک ہی محکمے میں اچانک جانے سے خواہ مخواہ دشمن کو اعتراض کا موقع ملا کہ احمدی فوج پر چھار ہے ہیں.حالانکہ باوجود اس کے کہ وہ فوج میں کثرت سے گئے ، ان کی تعداد دوسروں کے مقابلہ میں نہایت قلیل ہے.فوج میں ہمارے نوجوان دوسروں کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن دشمن کو تو اعتراض کا موقع چاہیے.جب وہ سو فیصدی جھوٹ بولنے سے نہیں ہچکچاتا تو نانوے فیصدی جھوٹ بولنا تو اس کے لئے نہایت آسان امر ہے.سو میں نے اس خطبہ جمعہ میں ماں باپ کو توجہ دلائی تھی اور خود طالب علموں کو بھی توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے آپ کو مختلف کاموں اور پیشوں کے لئے تیار کریں.گورنمنٹ کے پاس صرف فوجی محکمہ ہی نہیں بلکہ 15-20 قسم کے محکمے ہیں.جہاں ہمارے نوجوان جاسکتے ہیں اور اچھی آمد پیدا کر سکتے ہیں.تم اگر مختلف محکموں میں جاؤ تو تم پر دشمن کی خواہ مخواہ نظر نہیں پڑے گی اور اسے یہ اعتراض کرنے کا موقع نہیں ملے گا کہ 267
خطبه جمعه فرموده 08 فروری 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم تم کسی خاص مقصد کے لئے اس محکمہ میں گئے ہو.تمہارا فوج میں جانا، صرف قومی خدمت کے جذبہ کی وجہ سے تھا اور یا پھر تمہیں یہ خیال تھا کہ فوج میں تنخواہ زیادہ ملتی ہے.حالانکہ مالی لحاظ سے اور بھی بہت.ایسے محکمے ہیں، جہاں روپیہ کمایا جاسکتا ہے.بہر حال تمہارا یہ فعل کسی سکیم کے ماتحت نہیں تھا.لیکن دشمن نے یہ اعتراض کیا کہ تم کسی خاص سکیم کے ماتحت فوج میں گئے ہو.گویا ایک طرف تمہارا ذاتی نقصان ہوا اور دوسری طرف قومی نقصان ہوا کہ خواہ مخواہ دشمن کو اعتراض کرنے کا موقع مل گیا.میں آج پھر ماں باپ کو اور جماعت کے نوجوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب امتحانات قریب ہیں، چند ماہ کے بعد نئے گریجوایٹ پیدا ہوں گے، نئے ایم.اے پیدا ہوں گے، نئے گریجوایٹ نکلیں گے ،سکولوں سے نئے طلباء نکلیں گے اور انہیں اپنے مستقبل کے لئے مختلف مضامین چننے ہوں گے، اس لئے مضامین کے انتخاب کے وقت تم کسی صیغہ کو بھی اپنے سامنے رکھو گے تو اس میں جانے کے لئے تمہارے لئے زیادہ سہولت ہوگی.اس سلسلہ میں، میں نے وکلاء اور ناظروں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے کاموں کے متعلق تفصیلی سکیم تیار کر کے پندرہ سولہ جنوری تک میرے سامنے پیش کریں.لیکن وکلاء اور ناظر شاید جمعہ میں بھی شامل نہیں ہوئے اور نہ ہی الفضل میں شائع شدہ خطبہ پڑھتے ہیں.کیونکہ کسی ایک ناظر یا وکیل نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی.اور کسی وکیل اور کسی ناظر نے اپنی ایک سالہ یا دو سالہ یا سہ سالہ سکیم تیار کر کے میرے سامنے پیش نہیں کی.(اس خطبہ کے بعد بعض ناظروں نے کچھ خاکے پیش کئے.مگر تحریک کے وکلاء میں سے ایک کو بھی یہ توفیق نہیں ملی.حالانکہ میں نے بتایا تھا کہ وقت آتا ہے اور گزر جاتا ہے.ہم لوگ وقت گزر جانے کے بعد افسوس کرتے ہیں کہ ہم نے کوئی سکیم بنا کر اس کے مطابق کام نہیں کیا.حالانکہ ہر سال گزرنے کے بعد خواہ ہم روتے رہیں، چلاتے رہیں، اس سے بنتا کیا ہے؟ وقت سے پہلے سکیم بنانی چاہیے تاکہ سال کے آخر میں ہم اس کا نتیجہ دیکھ سکیں.عجیب بات یہ ہے کہ کسی ناظر اور وکیل نے میرے سامنے اپنے محکمہ کے لئے کوئی سکیم پیش نہیں کی.میں آج خطبہ کے ذریعہ انہیں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ قوم کے لیڈر سمجھے جاتے ہیں، وہ قوم کے راہنما سمجھے جاتے ہیں، وہ قوم کے ماں باپ سمجھے جاتے ہیں.اور جس قوم کے لیڈر، راہ نما اور ماں باپ اپنے فرائض سے غافل ہوں، اس کی ترقی میں جو روکیں پیدا ہوسکتی ہیں، ان کا اندازہ تم خود لگا سکتے ہو.باپ بننا آسیان امر نہیں.کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ ایک باپ جس کے دو تین بیٹے ہوتے ہیں، اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے؟ اسے ان کے کھلانے کا فکر ہوتا ہے، ان کے پلانے کا فکر ہوتا ہے، ان کے لباس کا فکر ہوتا ہے.لیکن ہمارے 268
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم خطبه جمعه فرموده 08 فروری 1952ء ناظر اور وکلا ء گولاکھوں لاکھ کے باپ ہیں.ان کے اندر جو فکر اور مستعدی ہونی چاہیے، وہ بہر حال اس باپ کے مقابلہ زیادہ ہونی چاہیے، جس کے چار پانچ بچے ہیں.لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ غالباً وہ پنجابی کی اس ضرب المثل پر عمل کرتے ہیں کہ چڑھیا سوتے لتھا ہو.یعنی جس شخص پر سوروپے قرض ہو جاتا ہے تو وہ بے فکر ہو جاتا ہے کہ اب یہ قرض اترے گا نہیں.اسی طرح غالباً ہمارے ناظر اور وکیل بھی سمجھتے ہیں کہ چار، پانچ بچے ہوں تو فکر بھی ہو لیکن ہمارے بچے تو اب لاکھوں ہو گئے ہیں، اب فکر کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا ہمارے ناظروں اور وکلاء نے کبھی یہ غور بھی کیا ہے کہ ناظر یا وکیل بننا کتنی بڑی عزت کی بات ہے؟ کسی شخص کو اگر ایک منظم قوم کا لیڈر بنے کا موقع مل جائے تو اس کی سات پشتوں کو اگر چوہڑوں کی طرح بھی کام کرنے کا موقع ملے تو وہ اسے اپنے لئے قابل فخر سمجھیں گے.دنیا میں کس طرح لوگ لیڈر بننے کی کوشش کرتے ہیں.مسلم لیگ میں دیکھو کتنی تفرقہ بازی ہے.مولوی لوگ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں.وہ ایک دوسرے کے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں.یہ صرف اسی چیز کے لئے ہے، جو تمہیں مفت مل گئی ہے.کیا یہ بے قدری اس لئے ہے کہ تمہیں یہ لیڈری مفت مل گئی ہے؟ اگر تم کسی اور جماعت میں ہوتے تو لیڈری حاصل کرنے کے لئے تمہیں ہزاروں منصوبے کرنے پڑتے ، ہزاروں جھوٹ بولنے پڑتے اور قسم قسم کی دھوکہ بازیاں کرنی پڑتیں کہ کسی طرح تم دوسروں کو گرا ؤ اور خود آگے آؤ.اور اگر تم ان کے منصوبوں ، جھوٹوں اور دھوکہ بازیوں کے نتیجہ میں کامیاب ہو جاتے تو اس قوم کے لیڈر بن جاتے.لیکن ساتھ ہی شیطان بھی بن جاتے.پس ایک لیڈری شیطان بن کر ملتی ہے اور ایک لیڈری خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے.ان دونوں میں کتنا فرق ہے؟ دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ تھوڑے ہوتے ہیں، جن کو فریب ، دھوکہ بازی اور منصوبہ بازی کے بغیر لیڈری مل جائے.بعض لوگ قوم کی خدمت کرتے ہیں اور اس طرح آگے آجاتے ہیں.مثلاً سرسید علی گڑھی ، مولانا محمد علی جوہر، میاں فضل حسین اور قائد اعظم محمد علی جناح ، سراقبال.یہ وہ لوگ تھے، جن کو تمام مسلمان جانتے ہیں.انہوں نے اپنی ذاتی اغراض کے لئے کوئی کام نہیں کیا بلکہ محض قوم کی خدمت کی نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ انہیں آگے لے آیا.مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں.ورنہ چھوٹی چھوٹی انجمنوں تک میں ہزاروں ریشہ دوانیاں ہوتی ہیں کہ کسی طرح کوئی خاص پارٹی آگے آجائے.اور غرض یہ ہوتی ہے کہ زید یا بکر اس انجمن کے لیڈر بن جائیں ہسیکرٹری بن جائیں یا انہیں کوئی اور عہدہ مل جائے.ایسے آدمی جنہوں نے قوم کی خدمت کی اور آگے آئے ، وہ کروڑوں کی جماعت میں درجنوں اور بیسیوں کے اندر ہی رہ جاتے ہیں.لیکن ہماری جماعت میں بغیر کسی قسم کے دھوکہ، فریب اور منصوبہ کے آپ ہی آپ نظام کے ماتحت کچھ لوگ اوپر آ جاتے ہیں اور جماعت کی باگ 269
خطبہ جمعہ فرمودہ 08 فروری 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے.ان کی زندگیوں میں تو ایک تغیر ہونا چاہیے تھا.جس طرح خدا تعالیٰ نے ان سے سلوک کیا ہے اور انہیں بلا استحقاق قوم کا لیڈر بنا دیا ہے، اسی طرح ان کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے لیڈر بنیں، جن کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہو.ان کے کام اپنے نفس کی خاطر نہیں ہونے چاہیں بلکہ ان کے کردار، ان کے افعال، ان کے اخلاق اور ان کے طریق خالصہ مذہب کے لئے وقف ہوں.اور جب کسی کی زندگی خالصہ کسی مذہب یا جماعت کے لئے ہو جاتی ہے تو اس کے عمل میں دیوانگی پیدا ہو جاتی ہے.وہ ڈاک خانہ بن کر نہیں رہ جاتا کہ چند خطوط کا جواب دے دیا اور سمجھ لیا کہ بڑا کام کیا ہے.بلکہ ایسا شخص رات دن سکیمیں سوچتا ہے کہ کس کس طرح میں اپنی قوم کو اونچا کروں ، جس کی وجہ سے اسے عزت ملی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر جو خدمات کی جاتی ہیں ، وہ پے در پے نفع لاتی ہیں.ان کی یہ خدمت بھی بلا معاوضہ نہیں ہوتی.فرض کر و جماعت تین لاکھ کی ہے اور وہ قربانی کرتے ہیں اور تعداد تین لاکھ سے چھ لاکھ ہو جاتی ہے.تو انہوں نے صرف قوم کی خدمت نہیں کی ، انہوں نے اپنی خدمت بھی کی ہے.وہ پہلے تین لاکھ کے لیڈر تھے ، اب چھ لاکھ کے لیڈر ہو گئے.اگر وہ اور قربانی کریں اور تعداد بارہ لاکھ ہو جائے تو یہ خدمت اسلام کی بھی ہوگی مگر ساتھ ہی اپنی خدمت بھی ہوگی.کیونکہ کل وہ چھ لاکھ کے لیڈر تھے تو آج وہ بارہ لاکھ کے لیڈر بن گئے ہیں.غرض ان کے اندر ایسی دیوانگی ہونی چاہیے، جو دوسری قوموں میں نہ ملے.لیکن ہمیں نظر آتا ہے کہ یورپین قوموں میں کسی قدر دیوانگی پائی جاتی ہے.اگر چہ اتنی نہیں ، جتنی اسلام چاہتا ہے.لیکن ہمارے ناظر اور وکلاء پوسٹ آفس سے بن جاتے ہیں کہ خط آیا اور اس کا جواب دے دیا.میں ایک دفعہ ان کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے فرائض کو سمجھو.تم نے بہت بڑا کام کرنا ہے تمہاری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں.تم اس دن کو یاد کرو، جب تم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گے تو کیا کہو گے کہ تم کس استحقاق کے ماتحت لیڈر بنے ؟ مسلم لیگ کی کتنی طاقت ہے لیکن دیکھ لو لیگ کی اخباروں میں پرائم منسٹر اور دوسرے وزراء پر کس طرح پھبتیاں اڑائی جاتی ہیں.لیکن تم جماعت کے نظام میں کس طرح محفوظ ہو.اس لئے نہیں کہ تم مکمل ہو بلکہ اس لئے کہ جماعت تم پر پھبتیاں اڑانے کی اجازت نہیں دیتی.وہ تمہاری عزت کی اتنی حفاظت کرتی ہے، جتنی دوسری جماعتیں نہیں کرتیں.یہ بھی ایک بہت بڑا احسان ہے.اگر تم اس احسان کو ہی سمجھو تو تمہاری کام کی روح کئی گنا تیز ہو جائے“.مطبوعه روزنامه الفضل 17 فروری 1952ء) 270
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اپریل 1952ء تبلیغ ہی بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کا ایک طبعی ذریعہ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 1952ء....اس سال ہماری مجلس شوری ہوئی.ہم نے غور کیا اور اس غور کے نتیجہ میں ہم اس بھیانک حقیقت سے آگاہ ہوئے کہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید دونوں ہی ایسے خطرناک مالی تنگی کے دور سے گزر رہی ہیں کہ اگر اس کا علاج نہ ہوا تو آئندہ ترقی تو الگ رہی ، ہمیں گزشتہ کام کو بھی بند کرنا پڑے گا.اس کی اصلاح کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے.ہم نے لپیٹ لپاٹ کر اس سال کے بجٹ کو پورا کیا ہے.مگر نہ تو اس قسم کا پٹا لپٹایا اور گھڑا گھڑایا بجٹ قومی زندگی کو برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ کسی قوم کا آئندہ بجٹ وہی رہ سکتا ہے، جو گزشتہ سال تھا.ہماری جماعت ابھی ابتدائی حالت میں سے گزر رہی ہے ، ہمارا نظام ابھی ادھورا ہے، ہم ابھی اپنی زندگی کے اتنے سال نہیں گزار چکے کہ ہمارے کارکنوں میں سے نصف حصہ ابتدائی تنخواہیں لیتا ہو اور نصف حصہ انتہائی تنخواہیں لیتا ہو.ہمارے اکثر کارکن ابتدائی تنخواہیں لے رہے ہیں.واقفین ہیں تو ان کے بچے ہونے والے ہیں ، دوسرے کارکن اور ملازم ہیں تو انہیں ترقیات ملنے والی ہیں.اس لئے اگر آج ہمارا سوروپے میں گزارہ ہو جاتا ہے تو پانچ ، دس سال کے بعد ڈیڑھ ، دوسور و پہیہ میں ہوگا.بغیر اس کے کہ ہم اپنا کام بڑھائیں یا کوئی نیا مشن یا سکول کھولیں.ہمارا سالانہ بجٹ بوجہ سالانہ ترقیات اور واقفین کی اولا د اور شادیوں کے بڑھے گا.باقی رہ ترقی کے روکنے کا سوال سو یہ بھی نہیں ہوسکتا." پس تمہیں اپنے اندر فکر کرنے کا مادہ پیدا کرنا چاہئے.تمہیں ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.یہی حال تحریک جدید کا ہے.تحریک جدید نے بھی 82 ہزار روپیہ قرض لے کر اس سال کا بجٹ پورا کیا ہے.تحریک جدید پر بھی لاکھوں روپیہ کا قرض ہے.میں نے ساڑھے دس لاکھ روپیہ کے قرضہ کا اندازہ لگایا ہے.پھر انہوں نے اپنا کام بھی چلانا ہے.تحریک جدید کا کام اگر چہ زیادہ اہم ہے.مگر ہمیں دوسرے ممالک میں لڑائی ، بحث مباحثہ اور شورش کا مقابلہ زیادہ نہیں کرنا پڑتا.امریکہ، انگلینڈ، جاپان وغیرہ بڑی بڑی طاقتیں ہیں، جن کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے.پھر عرب ہے، جو ہمارا مذہبی مرکز ہے، اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.لیکن چونکہ جس قسم کا بحث مباحثہ، تبادلہ خیالات اور لڑائی یہاں ہے، وہ دوسرے ملکوں میں نہیں.اس لئے ہم وہاں زیادہ مبلغ رکھنے پر مجبور نہیں ہیں.271
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم میں نے تحریک جدید میں اس سال یہ قانون تو رکھ دیا ہے کہ اس سال کوئی نیامشن نہ کھولا جائے.لیکن جہاں ہم پہلے مشن کھول چکے ہیں، اگر ہم حالات کے لحاظ سے اس بات پر مجبور ہو جائیں کہ وہاں اور مبلغ بھیجیں تو کچھ نہ کچھ خرچ بڑھے گا.پھر واقفین کی اولا د بڑھ جانے سے بھی کچھ خرچ بڑھے گا.اس سال تھیں کے قریب واقفین فارغ کئے گئے ہیں.انہیں فارغ کرنے کے بعد بھی تحریک جدید پر 82 ہزار روپیہ کا قرض ہے.ان کو شامل کر لیا جائے تو ایک لاکھ، دس ہزار روپیہ کا خسارہ تھا، جو ہمیں قرض لے کر پورا کرنا پڑتا.میں نے جو کمی کی ہے ، وہ چالیس ہزار روپیہ کی ہے.اور اس سے پہلے مجلس تحریک جدید بھی 60-50 ہزار روپیہ کی کمی کر چکی تھی.اور پھر پچھلے سال کا قرض بھی تھا.گویا ایک لاکھ تمہیں ہزار روپیہ کی کمی ہے، جو اس سال تحریک جدید کے بجٹ میں کی گئی ہے.پھر موجودہ حالت میں جو کٹوتی کی گئی ہے، یہ بڑھے گی بھی.اور اگر تحریک جدید کی مالی حالت یہی رہی تو اگلے سال ایک لاکھ، چار ہزار روپیہ قرض لے کر گزارہ کرنا پڑے گا.اور اگر اگلے سال بھی تحریک جدید کی مالی حالت یہی رہی تو ایک لاکھ ، انتیس ہزار روپیہ لے کر گزارہ کرنا پڑے گا.اور اگر اس سے اگلے سال بھی مالی حالت یہی رہی تو ایک لاکھ ، پچپن ہزار روپیہ قرض لے کر گزارہ کرنا پڑے گا.پھر اتنا قرض ہو جائے گا، جو برداشت نہیں ہو سکے گا.بشرطیکہ ہم اپنی مالی حالت سدھار لیں.یہ کمیاں اس طرح دور کی جاسکتی ہیں کہ اول ہم اس کا طبعی ذریعہ اختیار کریں اور وہ تبلیغ ہے.اس طرح جوں جوں ہمارا کام بڑھے گا ، جماعت کی تعداد بھی بڑھتی جائے گی.اور جوں جوں جماعت کی تعداد بڑھتی جائے گی، چندہ زیادہ آئے گا.اگر جماعت کی تعداد 35-30 ہزار سالانہ بڑھنی شروع ہو جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گئے کہ دو تین لاکھ روپیہ کی آمد صدر انجمن احمدیہ کی بڑھ سکتی ہے اور تحریک جدید کی بھی آمد ایک لاکھ روپیہ تک بڑھ سکتی ہے.پس کمیوں کو دور کرنے کا اصل طریق یہی ہے کہ تبلیغ کی جائے.ہم اس طریق کو اختیار نہ کرنے کی وجہ سے کمزور ہورہے ہیں.جب تک کام ہوتا ہے ، لوگ غافل ہو جاتے ہیں.وہ یہ سوچتے نہیں کہ ہمارا اصل کام دنیا میں احمدیت کو پھیلانا ہے.جس غریب کو مرکز میں دکان بنانے کا موقع مل جاتا ہے یا جس شخص کو فیس معاف ہو جانے کے بعد اپنے بچے کو پڑھانے کا موقعہ مل جاتا ہے، کتا بیں مفت مل جاتی ہیں یا وظیفہ مل جاتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنا کام پورا کر لیا ہے.حالانکہ احمدیت اس بات کا نام نہیں کہ کسی کے بچے کی کتابیں خریدنے کے لئے پیسے مل جائیں یا اسے وظیفہ مل جائے یا باہر سے مارکھا کر کوئی یہاں آ جائے اور یہاں آکر دکان کھول لے.جو شخص ان چیزوں کو سامنے رکھ کر خوش ہو جاتا ہے، وہ نہ احمدی ہوتا 272
ٹریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 1952ء ہے اور نہ وہ احمدی بن کر زندہ رہے گا اور نہ احمدی بن کر مرے گا.وہ شخص دھو کہ میں ہے، وہ احمدیت کو سمجھتا نہیں.اسے صرف وہم ہو گیا ہے کہ وہ احمدی ہے.ہماری اصل غرض احمدیت کا پھیلانا ہے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے، جب ہم مجنونانہ تبلیغ کریں.اگر ہماری جماعت ابتداء میں 25-30 ہزار سالانہ کی تعداد میں بڑھنا شروع کر دے تو لازمی طور پر دو، تین لاکھ روپیہ کا بجٹ ابتداء میں بڑھے گا.اور پھر اسی طرح جب جماعت بڑھے گی تو بجٹ اور زیادہ ترقی کر جائے گا.اب تو جماعت کے افراد اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ہیں اور اس بات کا نام ترقی رکھ لیتے ہیں کہ دشمن انہیں ان کے جتھے میں مارتا نہیں.حالانکہ اس سے احمدیت کا کوئی واسطہ نہیں.اس سے اتر کر یہ چیز ہے کہ ست افراد کو بیدار کیا جائے اور ان سے بقائے وصول کئے جائیں.عام اندازے کے مطابق ہماری جماعت کی تعداد پاکستان میں اڑھائی لاکھ ہے.اور اگر ہم اوسط چندہ 8 روپے سالانہ فی فرد بھی رکھیں تو عام اندازے کے مطابق ہمارا سالانہ چندہ ہیں لاکھ روپیہ بنتا ہے.لیکن صدرا انجمن احمدیہ کا چندہ صرف آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ ہے اور اگر اس میں تحریک جدید کا چندہ بھی ملالیا جائے تو یہ بارہ لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے.گویا عام اندازے کے مطابق بھی ہما را چندہ آٹھ لاکھ روپیہ کم رہتا ہے.اگر ہم کمزوروں کو بیدار کریں اور ان سے چار لاکھ روپیہ بھی وصول کر لیں تو صدرانجمن احمدیہ کو تین لاکھ روپیہ کی بچت ہو جاتی ہے.اور اگر اس کا چوتھا حصہ بھی تحریک جدید کول جائے تو اس کا 82 ہزار کا خسارہ نفع میں بدل جاتا ہے.گویا اس طرح صدر انجمن احمدیہ کا پونے دولاکھ روپیہ کا خسارہ سوالاکھ روپیہ کے نفع میں بدل جاتا ہے.اور تحریک جدید کا اس ہزار روپیہ کا خسارہ میں ہزار روپیہ کے نفع میں بدل جاتا ہے.گویا ہم اس آٹھ لاکھ روپیہ میں سے...لاکھ روپیہ بھی وصول کریں اور پھر تبلیغ کے ذریعہ جماعت کو بڑھا ئیں تو صدرانجمن احمدیہ کا چار، پانچ لاکھ روپیہ اور تحریک جدید کو ڈیڑھ ، دولاکھ روپیہ کی آمد ہو جاتی ہے.اور قرض بھی آسانی سے اتارا جاسکتا ہے.بلکہ کچھ رقم ریز روفنڈ میں بھی رکھی جاسکتی ہے.اور اس طرح تبلیغ کو پھیلایا جاسکتا ہے.بجٹ کمیٹی کی طرف سے کی بھی تھی کہ چندے بڑھا دیئے جائیں کر دیا تھا.کیونکہ اس کا صرف یہ اثر ہوتا کہ جو شخلصین پہلے ہی چندے دے رہے ہیں ، وہی اور زیادہ بار کے نیچے آجاتے.16 آنہ میں سے پہلے ہی چندہ عام کے ذریعہ ایک آنہ لے لیتے ہو اور وصیت کے ذریعہ ڈیڑھ آنہ لے لیتے ہو.اور اگر ہم اس طرح کریں کہ 16 آنہ میں سے نصف بطور چندہ لے لیں تو ہم چھ، سات آنے اور چندہ لے سکتے ہیں.فرض کروہ مخلصین چندہ بڑھا بھی دیں تو موجودہ بجٹ چھ گنا بڑھ جائے گا.اور اگر ہمارا بجٹ اتنی 273
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اپریل 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم مقدار میں بڑھ جائے تب بھی دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ رکھنے والی قوم کا یہ بجٹ ، ایک جنسی والی بات ہوگی.فرض کرو تم نے آٹھ آنے فی روپیہ چندہ مقرر کر دیا اور لوگوں نے اس حساب سے چندہ بھی دے دیا تو بجٹ چھ گنا بڑھ جائے گا اور اس طرح ہمیں 48 لاکھ روپیہ آ جائے گا.لیکن کیا کسی کے ذہن میں بھی یہ چیز آسکتی ہے کہ 48لاکھ روپیہ سے دنیا فتح ہو جائے گی ؟ بڑے بڑے شہروں کی میونسپلیوں کی سالانہ آمد نہیں بھی 48 لاکھ روپیہ سے زیادہ ہوتی ہیں.کلکتہ اور بمبئی کی میونسپلٹیوں کی سالانہ آمد نہیں ڈیڑھ کروڑ روپیہ تک ہیں.لیکن وہ اس ڈیڑھ کروڑ روپیہ سے شہر کا پاخانہ بھی نہیں اٹھا سکتیں.پھر تم 48لاکھ روپیہ میں دلوں کا گند کیسے اٹھا سکتے ہو؟ صحیح طریق یہی ہے کہ پہلے تم اپنے بجٹ کو دس لاکھ تک لے جاؤ ، پھر تم اپنے بجٹ کو پچاس لاکھ تک لے جاؤ، پھر تم اپنے بجٹ کو ایک کروڑ تک لے جاؤ، پھر تم اپنے بجٹ کو دس کروڑ تک بنادو.غرض جتنی دنیا ہے.اس کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمیں روپے بھی چاہیں.زیادہ نہیں تو دنیا کی آبادی دوارب ہے، اگر اتنی مقدار میں ہی روپیہ لیا جائے تو کیا 8 آنے فی روپیہ چندہ لگانے سے ہمیں دوارب روپیل جائے گا؟ پس تبلیغ ہی ایک طبعی ذریعہ ہے، جس کے ذریعہ ہم اپنے خسارے کو پورا کر سکتے ہیں.تم چندہ میں زیادتی کر کے کمزورں کی روح کو توڑ سکتے ہو تم مخلصین کے کاروبار تباہ کر سکتے ہو لیکن اپنے کام کو ترقی نہیں دے سکتے.تم اپنے کام کو بھی ترقی دے سکو گے، جب ضرورتوں کے مطابق جماعت بڑھے بھی.پھر دوسری چیز یہ ہے کہ تم اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرو، انہیں تعلیم دلواؤ ، ان کی ترقی کی فکر کرو.یہ چیز تبلیغ سے دوسرے نمبر پر تمہارے خزانہ کو بھرنے والی ہے.میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ، ورنہ ان کی حیثیت پنچائتوں کی سی ہو جائے گی.اور پنچائتیں چوڑھوں اور سانسیوں کی بھی ہوتی ہیں.چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی آمد میں بارہ بارہ، تیرہ تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کی ہوتی ہیں.مالیر کوٹلہ کی ریاست ہے.یہ ریاست پندرہ، ہیں میل کے قریب رقبہ کی ہے لیکن اس کا سالانہ بجٹ پندرہ لاکھ روپیہ کا ہے.بہاولپور ریاست کا سالانہ بجٹ پونے تین کروڑ روپیہ کا ہے.خیر پور ریاست کا سالانہ بجٹ بھی پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ کا ہے.مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ دنیا کی ترقی اور اصلاح کے مقابلہ میں ان ریاستوں کے یہ بجٹ کوئی حیثیت رکھتے ہیں؟ ان کی حیثیت کچھ بھی تو نہیں.لیکن تمہارا بجٹ تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ کو ملا کر بارہ لاکھ روپیہ کا ہے.یہ تو کوئی چیز بھی نہیں.اس سے کوئی کام نہیں ہو سکتا ہے.یہ بحث اس صورت میں کارآمد ہوسکتا ہے کہ ہر سال جماعت اس قدر بڑھ جائے کہ بجٹ میں معتد بہ فرق پڑ جائے.یعنی وہ بارہ لاکھ سے سترہ لاکھ بن جائے ، 274
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اپریل 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم سترہ لاکھ سے بیس لاکھ بن جائے، ہمیں لاکھ سے تمیں لاکھ بن جائے تمہیں لاکھ سے پینتالیس لاکھ بن جائے ، پینتالیس لاکھ سے ساٹھ لاکھ بن جائے ،ساٹھ لاکھ سے نوے لاکھ بن جائے ، نوے لاکھ سے ایک کروڑ یا دس کروڑ بن جائے اور اسی طرح بڑھتا جائے.یہ اصل طریق ہے، ترقی کا.اس کے سوا کوئی اور طریق ترقی کا نہیں.پس جہاں میں اس خطبہ کے ذریعہ باہر کی جماعتوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں ، وہاں ربوہ پر بہت زیادہ ذمہ داری آتی ہے.تمہیں اپنی اصلاح اور اپنے آپ کو اس بات کا اہل بنانے کی ضرورت ہے کہ فاتح اور دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے والے تم ہی ہو.اگر تم محض دنیا کمانے کی خاطر یہاں آئے ہو تو تم سے زیادہ ذلیل اور کوئی وجود نہیں.تم بھگوڑے ہو، جو لڑائیوں سے ڈر کر یہاں آگئے ہو.اور قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جو شخص لڑائی سے بھاگ کر آجاتا ہے، وہ دوزخی بن جاتا ہے.گویا تمہارے ربوہ آجانے کے یہ معنی ہیں، تم نے اپنے آپ کو دوزخی بنالیا ہے.لیکن اگر تم یہاں سپاہی کے طور پر آئے ہو، اگر تم اس لئے یہاں آئے ہو که اشاعت و تبلیغ کا فن سیکھو تعلیم اور تربیت کا فن سیکھو تو تم وہ نمونہ بھی دکھاؤ.تم اس نازک دور میں اپنی اصلاح کرو.مقامی افسر جلسے کریں اور یہاں کے رہنے والوں کی مکمل فہرست تیار کریں.میں نے بعض تحریکیں کی تھیں اور محلہ کے عہدیداروں نے لکھ یہ دیا کہ ہمارے محلہ کے چالیس افراد نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے.حالانکہ مجھے کیا پتہ ہے کہ محلہ میں سو چندہ دینے والا ہے، جن میں سے چالیس افراد نے میری تحریک میں حصہ لیا ہے؟ اگر تم ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیتے کہ محلہ میں اتنے لوگ چندہ دینے والے ہیں، ان میں سے فلاں فلاں اس تحریک میں حصہ لینا چاہتا ہے اور فلاں فلاں نہیں تو وہ فہرست صحیح ہو سکتی تھی.تم ہر مرد اور عورت کی ، جن کی عمر بارہ سال سے زیادہ ہے، فہرست بناؤ اور ان کی آمد کی تشخیص کرو.پھر میں دیکھوں گا کہ ربوہ میں سے کتنا اور چندہ وصول کرنے کی گنجائش ہے.میرا خیال ہے کہ ابھی نصف کی اور گنجائش ہے اور 25 فی صدی کی گنجائش تو کہیں گئی ہی نہیں.اگر تم پچیس فیصدی اور چندہ وصول کر لوتو تم باہر کی جماعتوں سے بھی مطالبہ کر سکتے ہو.اگر مقامی اور باہر کی جماعتوں کا چندہ 25 فیصدی اور بڑھ جائے تو تحریک جدید کو ایک لاکھ اور صدرانجمن احمدیہ کو اڑھائی لاکھ روپیہ کی آمد ہوسکتی ہے اور قرضہ اتارنے کا راستہ کھل جاتا ہے.پھر تم اولاد کی اصلاح اور اس کی تعلیم و تربیت اور ترقی کی طرف توجہ کرو تو یہ آمد اور بھی بڑھ جائے گی.پس میں سب سے پہلے ربوہ کی جماعت اور مقامی افسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ معقول وقت کے اندر یعنی پندرہ سولہ دن کے اندر یا بیس دن کے اندر تمام افراد کے نام لکھ لیں.پھر میں چیک کروں گا 275
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اپریل 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم کہ واقعی وہ فہرست صحیح ہے یا نہیں.(ایک نامکمل فہرست اس عرصہ میں پیش ہوئی ، جب جرح کر کے واپس کی گئی تو مقامی صدر نے اب تک رپورٹ نہیں کی.) پھر جو آمد وہ تشخیص کریں گے، ہم انہیں چیک کریں گے.ہم سب کو بلائیں گے اور سب کے سامنے یہ دریافت کریں گے کہ یہ شخص اپنی سورو پیہ ماہوار آمد بتا تا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ تم ان کی عورتوں سے پوچھو کہ ان کی آمد کیا ہے؟ اور تو الگ رہے، میرے اپنے بیٹے بھی میرے نزدیک شرح کے مطابق چندہ نہیں دیتے کیونکہ ان کی صحیح نگرانی نہیں کی جاتی.بہت سے لوگ ایسے ہیں ، جن کی آمد ہے.لیکن وہ اس آمد کے مطابق چندہ دیتے ہیں، جو انہیں صدر انجمن احمدیہ سے ہوتی ہے.پھر تاجر لوگ اپنی آمد کم بتاتے ہیں اور پھر بہت سے لوگ ایسے ہیں، جو چندہ دیتے ہی نہیں.میری اپنی رائے میں ربوہ کے چندہ میں 25 فیصدی اور ترقی کی جاسکتی ہے.جب ربوہ کی جماعت چندہ میں 25 فیصدی اور ترقی کرلے گی تو ہم جماعت میں اعلان کریں گے کہ ہم نے اپنے آپ کو منظم کر لیا ہے، تم بھی اپنی اپنی جماعت کو منظم کرو.اس ذریعہ سے ہم موجودہ صدمہ سے بیچ سکتے ہیں اور اس خلیج سے پار ہو سکتے ہیں، جس میں ہم گر رہے ہیں.پھر اس کے بعد ہمیں موقع مل جائے گا کہ اپنی تبلیغ کو وسیع کریں اور اگلے سال اس میں زیادتی کے لیے رقم جمع کریں.میں صدرا انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنا خرچ نہ بڑھائیں.محکمے جو کچھ کہتے ہیں، وہ ان کے ساتھ چل پڑتے ہیں.اصول یہ ہونا چاہئے کہ جو محکمہ شور مچاتا ہے کہ مجھے مزید اخراجات کی ضرورت ہے، اس سے یہ کہا جائے کہ ہمارے پاس رقم نہیں ہم ہی بتاؤ ، ہم کس محکمہ کواڑا ئیں؟ اگر وہ کسی محکمے کا نام لے تو کہو پہلے اس کو منا لو.اس طرح وہ آپس میں لڑتے رہیں گے اور ہمارا پیچھا چھوڑ دیں گے.در حقیقت جو محکمے شور مچاتے ہیں، وہ تمہارا ناک مروڑتے جاتے ہیں.میں حیران ہوں کہ جب انہیں نظر آتا تھا کہ اتنی مصیبت آرہی ہے تو انہوں نے پچھلے سال اس کا خیال کیوں نہ کر لیا؟ اگر وہ اس کا پچھلے سال خیال کر لیتے تو اتنی مصیبت نہ ہوتی، جو اس سال پیش آئی ہے.بجائے پونے دولاکھ روپیہ کی کٹوتی ہونے کے ستر ، اسی ہزار روپے کی کٹوتی ہوتی اور ہمیں ایک دو سال اصلاح کے لئے مل جاتے.ہم اپنی تنظیم کے لئے چندہ بڑھاتے اور خطرہ سے نکل جاتے.اب تو تم اتنے خطرناک حالات میں تھے کہ اگر فائنس سٹینڈنگ کمیٹی کی اس طرف توجہ نہ جاتی اور اگر وہ بجٹ کے نقائص کو معلوم نہ کرتی اور بجٹ اس طرح پاس ہو جا تا تو اگلے سال ہمارے بچنے کا کوئی ذریعہ ہی نہ تھا.فائنٹس سٹینڈنگ کمیٹی نے وقت پر ہمیں ہوشیار کر دیا کہ بجٹ غلط اندازے پر بنایا گیا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ بجٹ پورا ہے اور ہمیں کوئی خطرہ نہیں، 276
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اپریل 1952ء ہم روپیہ جمع کر رہے ہیں.لیکن دراصل بجٹ خسارہ میں جارہا ہے.پس فائنس سٹینڈنگ کمیٹی شکر یہ کی مستحق ہے کہ اس نے وقت پر بتادیا کہ بعض حسابی غلطیوں کی وجہ سے بجٹ غلط بنا ہے اور اس کی اسی سال اصلاح ہو گئی.ہمیں اس احسان کی قدر کرنی چاہئے اور گڑھے میں گرنے سے پہلے ہمیں اپنی آنکھیں کھول کر کوشش کرنی چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں عذاب سے بچایا ہے تو ہم اس عذاب کو قربانی کے ذریعہ بالکل دور کر دیں اور اس کی بجائے خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل کو کھینچیں.مطبوعه روزنامه الفضل 27 مئی 1952ء) 277
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و02 مئی 1952ء نئے شامل ہونے والے پہلوں کے مقابلہ میں نواں حصہ قربانی کر رہے ہیں " خطبہ جمعہ فرمودہ 02 مئی 1952ء تحریک جدید کے چندہ کو لے لو تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ پہلے لوگ جو تھے، انہوں نے تین لاکھ تک اس چندہ کو پہنچایا.جس کے معنی یہ ہیں کہ نئے آدمیوں کو اس حساب سے بارہ لاکھ تک چندہ پہنچانا چاہئے تھا.مگر ان کا چندہ ایک لاکھ، چالیس ہزار تک پہنچا ہے.گو یا دفتر دوم میں شامل ہونے والے پہلوں سے قریبا نواں حصہ قربانی کر رہے ہیں.اگر ان کی مالی حالت کی زیادتی کو دیکھا جائے ، اگر ان کی تعداد کی زیادتی کو دیکھا جائے اور پہلوں کے مقابلہ پر اسے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ نواں حصہ قربانی کر رہے ہیں.( مطبوعه روزنامه الفضل یکم جون 1952ء) 279
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 21 نومبر 1952ء نوجوان اپنے فرائض منصبی اور قومی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کریں 22 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1952ء اب میں نوجوانوں کو خطاب کر کے انہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض منصبی اور قومی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی طرف توجہ کریں.ان کے ماں باپ بھی اس وقت میرے مخاطب ہیں.قومی زندگی نوجوانوں کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جس وقت احرار کا فتنہ 1934ء میں شروع ہوا تھا، اس وقت نہ معلوم کیا حالات تھے، جن کی وجہ سے جماعت میں اتنی بیداری پیدا ہوئی کہ سینکڑوں نو جوانوں نے زندگیاں وقف کیں؟ اور پھر ایسے حالات میں اپنی زندگیاں وقف کیں، جو آج کل کے حالات سے بالکل مختلف تھے.آج کل تو واقفین کے گزارے ایک حد تک معقول ہیں.لیکن اس وقت جو گزارے دیئے جاتے تھے، وہ بہت قلیل تھے.لیکن اس کے باوجود سینکڑوں نو جوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں.اب جو نو جوان باہر جاتے ہیں، انہیں علاوہ مکان اور دوسرے ضروری اخراجات کے گیارہ پونڈ ماہوار دیئے جاتے ہیں.اگرچہ پونڈ کے علاقوں میں گیارہ پونڈ بھی بہت کم ہیں مگر پھر بھی مبلغ کو مکان کے اخراجات ، پانی کے اخراجات بجلی کے اخراجات وغیرہ علاوہ مل جاتے ہیں.لیکن اس وقت ہم انہیں اس سے بھی کم اخراجات دیتے تھے اور بعض اوقات تو کچھ بھی نہیں دیتے تھے.بلکہ کہتے تھے جاؤ اور کام کرو.بعض اوقات چھ ، سات پونڈ دے دیتے تھے اور کہتے تھے اس رقم سے مکان ، پانی ، خوراک اور بجلی وغیرہ کا انتظام کرو.لیکن اس زمانہ میں جب احمدیت کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ شدید مخالفت اٹھی اور احمدیت سے محبت رکھنے والوں کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اب دین کی حالت نہایت نازک ہے، مجھے جماعت کے نوجوانوں میں وہ بیداری نظر نہیں آئی، جو پہلے ان میں پیدا ہوئی تھی.احرار کے پہلے فتنہ کے وقت تو یہ حالت تھی کہ اسے دیکھ کر سینکڑوں نوجوانوں نے زندگیاں وقف کر دیں.لیکن اس شورش کے وقت میں، میں دیکھتا ہوں کہ سینکڑوں نوجوانوں کا زندگیاں وقف کرنا تو ایک طرف رہا، درجنوں نوجوانوں نے بھی زندگیاں وقف نہیں کیں.بلکہ ہفتہ، دو ہفتہ میں ایک آدھ درخواست ایسی آجاتی ہے کہ مجھے وقف 281
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 21 نومبر 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم سے فارغ کر دیا جائے کیونکہ میں تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ ایسے حالات میں ایسے شخص کا ایمان کوئی ایمان نہیں.اس وقت اس کے لئے دو ہی راستے کھلے ہیں یا تو اپنی جان کی قربانی دے کر دین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا اور یا مرتد ہو جانا.دشمن اسے اس سے ورے نہیں چھوڑتا.دشمن اس دنیا میں اسے ان دو چیزوں میں سے ایک چیز ضرور دے گا.یا تو وہ اسے مرتد کر دے گا اور یا اسے موت دے گا.اور جب ارتداد اور موت ایک طرف ہوں تو مال اور جان کی قیمت ہی کیا رہ جاتی ہے.انسان سمجھتا ہے کہ چلو جہاں دین سلامت رہتا ہے، وہیں چلو، میں اپنی جان کی قربانی دے دیتا ہوں.دنیوی جنگوں کے موقع پر لاکھوں لاکھ لوگ اپنی جانیں پیش کر دیتے ہیں.33 پس جب ہمیں اتنی بڑی قربانیاں نہیں کرنی پڑتیں ، جو پہلوں کو کرنی پڑیں یا اب بھی بعض قومیں کر رہی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم قربانی کرنے میں پس و پیش کریں؟ یہ یقیناً ہماری کمزوری کی علامت ہے.پھر جو لوگ قربانی پیش کرتے ہیں، انہیں بھی دیکھتا ہوں کہ وہ بھی کمزوری دکھاتے ہیں.انسان کو کم از کم کسی ایک طرف تو ہونا چاہیے.انسان یا تو خدا تعالیٰ کا ہور ہے یا دنیا کا ہور ہے.ہمارے ہاں پنجابی میں کہاوت ہے کہ یا توں اس دے لڑ لگ جایا اس دے لڑ لگ جا.یہ ایک محاورہ ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ تو کسی کے دامن سے وابستہ ہو جا.کیونکہ دنیا میں عزت اسی کی ہوتی ہے، جو کسی کے دامن سے وابستگی رکھتا ہے.یا تو خدا تعالیٰ کے دامن سے وابستہ ہو جا اور یادنیا کا دامن پکڑ لے.یہ نہیں کہ تو کسی کے دامن سے بھی وابستہ نہ ہو.میں نے بار ہا نو جوانوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی تعلیم کی طرف توجہ کریں.وہ ان باتوں کو نہ دیکھیں کہ فلاں قسم کی تعلیم حاصل کرنے سے انہیں فلاں محکمے میں ملازمت مل جائے گی.حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہیے کہ انہیں کوئی ملازمت مل جائے گی.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس ملک کا بھی تمدن اعلیٰ ہے، اس کے کاریگر اور دوسرے پیشہ ور، ملازموں کی نسبت زیادہ مرفہ الحال ہوتے ہیں.آبادی کا بہت تھوڑ ا حصہ ملازموں کا ہوتا ہے، زیادہ حصہ دوسرے لوگوں کا ہوتا ہے“.وو پس ہمارا دنیوی حصہ بھی بہت کمزور نظر آتا ہے.میرے نزدیک جتنے لوگوں کی حکومت کو ضرورت ہے، ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو خود آزاد پیشوں کے ذریعہ روزی کمانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے.اس سے ملک کو ترقی حاصل ہوگی.وو....پس ہمارے نو جوانوں کو محنت کی عادت پیدا کرنی چاہیے.282
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم 33 اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 21 نومبر 1952ء پس سمجھدار نو جوانوں کا کام ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور ماحول پر غور کریں اور دیکھیں کہ ملک اور قوم کی ترقی کے کون سے ذرائع ہیں؟ ان ذرائع کو استعمال کریں تا ملک ترقی کرے.ملک میں جو صنعتیں اور تجارتیں پہلے نہیں، ان کی طرف توجہ دی جائے.اگر نو جوان اس طرف توجہ کریں تو بے شک ابتداء میں وہ تکلیف بھی اٹھائیں گے لیکن آخر میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے، جو ان کے خاندان اور ملک کے لئے مفید ہوں گے.( مطبوعه روزنامه الفضل 14 دسمبر 1952ء) 283
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1952ء تحریک جدید کی بنیاد انہی اصول پر ہے، جن پر اسلام کی بنیاد ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1952ء...اس کے بعد میں آج کا خطبہ شروع کرتا ہوں.جو تحریک جدید کے انیسویں سال کے متعلق ہے.تحریک جدید 34ء میں شروع ہوئی.1934 ء کے نومبر میں اس کا اعلان ہوا اور اب 1952ء کا نومبر ہے.گویا وعدوں کے لحاظ سے 18 سال ختم ہو گئے ہیں اور انیسواں سال شروع ہو گیا ہے.اور ادائیگی کے لحاظ سے اگلے سال نومبر تک انیسواں سال ختم ہو جائے گا.تحریک جدید کی بنیاد در حقیقت انہی اصول پر ہے، جن پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے.اسلام کی بنیاد بھی اس بات پر رکھی گئی تھی کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی تشہیر اور ترویج کی جائے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو پیغام دیا ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پیغام کو ساری دنیا تک پہنچائیں.اگر ہم اس پیغام کو ساری دنیا تک پہنچاتے ہیں تو دنیا اس پیغام سے غافل نہیں ہوگی اور لوگوں کو ایمان لانے کا موقع مل جائے گا.اگر کسی شخص کو کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچ جاتا ہے اور وہ ایمان نہیں لاتا تو ہماری ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور اس کی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے.اور اگر اس تک خدا تعالیٰ کا پیغام نہیں پہنچتا تو ہماری ذمہ داری رہ جاتی ہے اور اس کی ذمہ داری شروع نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ ظالم نہیں.وہ اس شخص پر گرفت کرتا ہے، جس پر حجت پوری ہو جاتی ہے.اگر ہم اس تک خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچائیں گے تو حجت بھی پوری ہوگی اور اگر ہم اس تک خدا تعالیٰ کا پیغام نہیں پہنچاتے تو اس پر حجت پوری نہیں ہو سکتی.پس تحریک جدید کی بنیاد بھی اس بات پر ہے کہ اسلام کے نام کو روشن کیا جائے اور قرآن کریم کے پیغام کو دنیا تک پہنچایا جائے.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے تحریک جدید کے ماتحت بیرونی دنیا میں مبلغ بھجوائے گئے.تحریک جدید کے جاری ہونے سے قبل صرف چند ممالک میں ہمارے مبلغ تھے.ایک مبلغ امریکہ میں تھا، ایک مبلغ انگلینڈ میں تھا، ایک شام میں تھا، افریقہ اور انڈونیشیا میں بھی ہمارے مبلغ تھے.لیکن تحریک جدید کے جاری ہونے کے بعد انڈونیشیا کے مبلغ کئی گنے زیادہ ہو گئے ، امریکہ کے مبلغ چار گنے زیادہ بڑھ گئے ، ہالینڈ، جرمنی ، سپین، سوئٹزر لینڈ اور ایک عرصہ تک فرانس میں نئے مشن کھولے گئے.اور اب خدا تعالی کے فضل سے وہاں جماعتیں قائم ہیں اور دین سیکھنے کے لئے بعض طالب علم بھی یہاں آئے ہیں.285
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 28 نومبر 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم چنانچہ جرمن کے ایک نوجوان عبد الشکور کنزے اس وقت یہاں دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تا بعد میں وہ اپنے ملک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کر سکیں.امریکہ سے بھی اس تحریک کے سلسلے میں ایک نو جوان یہاں پہنچے ہیں اور وہ بھی دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.ایک اور نوجوان کے متعلق بھی اطلاع آئی ہے کہ وہ دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ آرہے ہیں اور وہ غالباً جلسہ سالانہ تک یہاں پہنچ جائیں گے.اسی طرح جرمنی سے بھی اطلاع آئی ہے کہ ایک اور نو جوان دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ آرہے ہیں.اس سے قبل غیر ممالک کے طالب علم مرکز سلسلہ میں نہیں آئے تھے.لیکن تحریک جدید کے جاری ہونے کے بعد باہر سے بھی طلباء آنے شروع ہو گئے اور اب تمہیں کے قریب غیر ملکی طالب علم ربوہ میں موجود ہیں.چین کے طالب علم بھی ہیں، انڈونیشیا کے طالب علم بھی ہیں، برما کے طالب علم بھی ہیں ،سیلون کے طالب علم بھی ہیں، سوڈان کے طالب علم بھی ہیں ، ایسے سینا کے طالب علم بھی ہیں ، شام کے طالب علم بھی ہیں، جرمنی اور امریکہ کے طالب علم بھی ہیں، انگلینڈ کے طالب علم بھی ہیں ، سمالی لینڈ کے طالب علم بھی ہیں اور ابھی مزید طلباء کے آنے کی اطلاع موصول ہوئی ہے.آج بھی ایسے سینا سے ایک نوجوان کا خط ملا ہے کہ وہ تعلیم دین کے حصول کی خاطر ربوہ آنا چاہتے ہیں.اسی طرح سمالی لینڈ سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں سے بھی بعض اور طالب علم یہاں آ رہے ہیں.گویا اس تحریک کے نتائج اس رنگ میں ظاہر ہیں کہ بیرونی ممالک کے طلباء ، جن میں سے بعض واقف زندگی ہیں اور بعض واقف زندگی نہیں، یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں.بے شک بعض نوجوان واقف زندگی نہیں، وہ اپنے طور پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن اگر وہ اخلاص سے دنیوی کا روبار کے ساتھ ساتھ اشاعت اسلام بھی کرتے رہیں تو یہ بھی اسلام کی ایک بھاری خدمت ہو گئی.بہر حال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باہر سے آنے والے نوجوان سارے واقف زندگی نہیں.کچھ واقف زندگی ہیں اور کچھ نہیں.لیکن جو واقف زندگی نہیں ، وہ بھی ایسے ممالک سے آئے ہیں، جن تک تحریک جدید سے قبل احمدیت کی تعلیم نہیں پہنچی تھی.جب یہ نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے ملکوں میں پہنچیں گے تو اسلام کی اشاعت کے نئے ذرائع نکل آئیں گے.غرض تحریک جدید سے پہلے تو تین، چار مبلغ بیرونی ممالک میں تبلیغ کر رہے تھے لیکن تحریک جدید کے اجراء کے بعد میرے خیال میں یہ مبلغ پچاس کے قریب ہو گئے ہیں.گو یا دس گنے زیادتی ہوئی ہے اور ابھی تو ابتداء ہے.صاف بات ہے کہ جب تک مبلغ پیدا نہیں ہوں گے، اسلام کو ساری دنیا میں نہیں پھیلایا جا سکتا.میں ان کی موجودہ زیادتی کونہیں دیکھتابلکہ آئندہ کا نقشہ دیکھ رہا ہوں.اس وقت تحریک جدید کا 286
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد سوم ایک کالج قائم ہے.اس میں سے آٹھ، دس مبلغ سالانہ نکلتے ہیں.جن از خطبه جمع فرموده 28 نومبر 952 میں نصف تو صدرانجمن احمد یہ لے لیتی ہے اور نصف تحریک جدید لے لیتی ہے.اگر تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ کو ملنے والے مبلغین کی تعداد پانچ، پانچ بھی ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ پچھلے انیس سال میں دس گنا مبلغ ہوئے ہیں.اور اگلے انیس سال میں ان کی تعداد میں گنے ہو جائے گی.یعنی جو مبلغ ابتداء میں تھے، اس سے موجودہ مبلغین کی تعداد اس وقت تک تمہیں گنے زیادہ ہو جائے گی.کون کہہ سکتا ہے کہ جماعت آئندہ ترقی نہیں کرے گی ؟ اگر جماعت اخلاص اور ارادے میں بڑھ جائے تو جامعة المبشرین کے فارغ ہونے والے طلباء کی تعداد آٹھ ، دس نہیں رہے گی.بلکہ ان کی تعداد پندرہ ہیں تک یا چالیس، پچاس تک بڑھ جائے گی اور اس صورت میں آئندہ انیس سال کے بعد مبلغین تحریک جدید سے پہلے کے مبلغین سے تہیں گنے سے زیادہ نہیں ہو جائیں گے.بلکہ پچاس گنے یا سو گنے زیادہ ہو جائیں گے.غرض تحریک جدید کے اجراء کے بعد نہ صرف کئی ممالک میں نئے مشن قائم ہو گئے ہیں بلکہ زائد بات یہ ہوئی ہے کہ براہ راست ان ممالک سے بعض طالب علم یہاں آئے ہیں اور وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں.اپنی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنے اپنے ملک میں جا کر اسلام کی اشاعت کریں گئے“.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے، تحریک جدید کے اجراء سے پہلے کوئی مشنری کا لج نہیں تھا.اب مشنری کالج کا اجراء ہو گیا ہے اور اس کالج سے ایسے نو جوان نکل رہے ہیں، جو پہلے طلباء سے علم میں زیادہ ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ معیار کے عین مطابق ہیں.ابھی ان کے لئے اخلاقی علمی اور دینی ترقی کی بہت گنجائش ہے لیکن بہر حال وہ پہلوں سے زیادہ عالم ہیں.پھر تحریک جدید کے اجراء سے پہلے ہمارے پاس ایسے گریجوائٹ نہیں تھے، جو دینیات سے بھی واقف ہوں.لیکن اب ایسے نوجوان موجود ہیں، جو مولوی فاضل ہیں اور گریجوائٹ بھی ہیں یا بی اے ہیں اور آئندہ مولوی فاضل بن جائیں گے.اور اس قابل ہو جائیں گے کہ اگر وہ انگریزی دانوں کی مجلس میں جائیں اور وہ کہیں کہ یہ ملاں ملتے ہیں تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح انگریزی جانتے ہیں اور اگر مولویوں کی مجلس میں جائیں اور وہ کہیں کہ تم انگریزی دان ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم مولوی فاضل بھی ہیں اور دین سے ہمیں واقفیت ہے.گویا جو کچھ تم جانتے ہو، وہ ہم بھی جانتے ہیں.غرض تبلیغ اور اشاعت اسلام کی نئی راہیں کھل رہی ہیں اور کچھ عرصہ تک علم دین اور علم دنیا میں جوخلیج حائل ہے، وہ پاٹ جائے گی اور اس پر ایسے پل بن جائیں گے، جن کے ذریعے تمام اختلافات دور ہو جائیں گے.287
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1952ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم تحریک جدید کے اجراء کے وقت اس میں یہ بات بھی شامل کی گئی تھی کہ ہمارے سارے پروگرام سادہ ہوں.ہم سادہ کپڑے پہنیں، سادہ خوراک استعمال کریں ، دعوتوں اور شادیوں میں سادگی اختیار کریں.کچھ عرصہ تک تو اس پر عمل ہوتا رہا لیکن اب اس میں ایک حد تک کمزوری پیدا ہوگئی ہے.دراصل اس میں بعض باتیں اصلاح طلب تھیں.مثلاً بعض بیمار ہوتے ہیں.وہ بیمار ہونے کی وجہ سے اس تحریک پر پوری طرح عمل نہیں کر سکتے یا بعض جگہوں پر ملکی رسم ورواج کے مطابق کھانے کی طرز ایسی ہوتی ہے کہ ایک کھانے میں کفایت نہیں ہو سکتی.مثلاً جب یہ تحریک شروع ہوئی تو مجھے بہار اور بنگال سے خطوط آنے شروع ہوئے کہ ہمارے ہاں کھانے کا دستور ایسا ہے کہ ہم اس سکیم پر پوری طرح عمل نہیں کر سکتے.وہاں چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی ایک دوکھانے تیار ہو جاتے ہیں.مثلاً وہ لوگ ابلے چاول کھاتے ہیں.خشک چاول کو کھانے کے لئے اور اسے صحیح طور پر ہضم کرنے کے لئے کسی پہلی چیز کی ضرورت ہوتی ہے.وہ لوگ پتلی سی دال بنا لیتے ہیں اور اس سے چاولوں کو تر کر لیتے ہیں.لیکن وہ ہمیشہ اس سادہ دال سے طاقت قائم نہیں رکھ سکتے ، اس لئے وہ تھوڑ اسا سالن بھی ساتھ پکا لیتے ہیں.دال کے ساتھ خشکہ کو کھانے کے قابل کر لیتے ہیں اور صحت کو برقرار رکھنے کے لیے تھوڑ اسا سالن بھی استعمال کر لیتے ہیں.غرض کھانے کے دستور کے مطابق چھوٹے چھوٹے گھر میں بھی دو ستم کا سالن تیار ہو جاتا ہے.اب اگر یہ حکم دیا جائے کہ وہ ایک سالن پکا ئیں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ یا تو وہ صرف دال پر گزارہ کریں اور اس سے ان کی صحتیں خراب ہوں گی اور یا پھر سالن پکائیں.اگر وہ روزانہ سالن پکائیں گے تو اس پر خرچ زیادہ ہوگا.پس چاہئے تھا کہ ہم آہستہ آہستہ ان کی مشکلات کو دور کرتے اور انہیں ایسا بنا دیتے کہ وہ اس سکیم پر عمل کر سکتے.اسی طرح بیمار اور بوڑھے ہیں ، ان کے لئے بھی ایک کھانے پر گزارہ کرنا مشکل ہے.اس لئے چاہئے تھا کہ ایسی تجاویز اختیار کی جاتیں کہ احمدی اپنی صحت اور قوت کو بھی برقرار رکھ سکتے اور پھر بھی سادہ رہتے.لیکن چونکہ ان باتوں پر پہلے غور نہیں کیا گیا، اس لئے بعض لوگوں کے لئے یہ سکیم نا قابل عمل ہو گئی اور آہستہ آہستہ وہ لوگ اس پر عمل کرنے میں کمزوری دکھانے لگے.مگر ضرورت ہے کہ بعض طریق ایسے اختیار کئے جائیں کہ جماعت کے لوگ سادگی کی زندگی بسر کریں.اور اس کے لئے وقتاً فوقتاً غور ہوتار ہے.مثلاً شادیوں اور بیاہوں پر ہم نے دعوتوں کو روک دیا تھا.بعض لوگ چوہدری ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے کوئی حکم نہیں.میں بعض دعوتوں پر گیا تو چوہدری قسم کے لوگوں نے چائے وغیرہ تیار کر دی.میں نے چائے نہ پی.اس پر آہستہ آہستہ ان لوگوں کو 288
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1952ء نے بھی دعوتوں کو ختم کر دیا.یہ دستو راب کم سے کم مرکز میں قائم ہو گیا ہے.بہر حال کچھ چیزیں ایسی ہیں، جنہیں جاری کرنا ضروری ہے.لیکن چونکہ ہم بعض باتوں کو جاری نہیں رکھ سکے، اس لئے ہم اپنے مقام سے ہٹ گئے.حالانکہ کھانے وغیرہ میں سادگی نہایت ضروری چیز ہے.ہم نے تحریک جدید کے اجراء کے ساتھ ساتھ کفایت کا سلسلہ اس لئے شروع کیا تھا کہ انسان پر قحط کا وقت بھی آتا ہے، جب ایسا وقت آجائے تو وہ اشاعت اسلام میں سستی نہ کرے.وہ برابر چندے دے تا کہ کام رکے نہیں.جب اسے سادگی کی عادت ہوگی تو لازما خرچ بھی کم ہوگا اور جب خرچ کم ہوگا تو وہ قحط میں بھی چندے ادا کر سکے گا.لیکن جو شخص رفاہیت اور کھانے پینے میں تکلفات کا عادی ہے، وہ شخص چندوں میں بھی ست ہو جائے گا.بے شک مومن تو ہر حالت میں مالی قربانی کرے گا لیکن جو کمزور ایمان والا ہے، وہ سہولت کے دنوں میں تو چندہ دے گا لیکن جب قحط کی حالت ہوگی تو وہ چندوں میں ستی کرے گا اور اس طرح اپنے ثواب کو کم کرے گا.میں نے تحریک جدید کے اجراء کے وقت خاص طور پر عورتوں کو سادگی کی طرف توجہ دلائی تھی.لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے پوری طرح تعاون نہیں کیا.اور مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ لجنہ اماءاللہ نے اپنے فرض منصبی کو پورا نہیں کیا.وہ اس بات پر خوش ہیں کہ انہوں نے مکان اور دفتر بنالیا ہے.ممکن ہے کہ مجھے اور لجنہ اماءاللہ کو توڑ کر عورتوں کی تنظیم کسی اور رنگ میں کرنی پڑے.کیونکہ ان میں کام کی صحیح روح نہیں پائی جاتی.باہر سے مجھے چٹھیاں آتی ہیں کہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے کوئی تحریک نہیں آتی ، چٹھیوں کا جواب نہیں دیا جاتا.چنانچہ امریکہ سے مجھے خط آیا ہے کہ سال بھر میں مرکز کی طرف سے کوئی تحریک نہیں آئی اور ہمیں پتہ نہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا خدا تعالیٰ اور دین سے دور جا چکی ہے.اور اب اس پر اتنے مصائب اور آفتیں آئی ہیں کہ اس میں تڑپ پیدا ہو گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آواز آنی چاہیے.خدا تعالیٰ کی آواز کے بغیر ان کا گزارہ نہیں.بیرونی ملکوں سے بھی اب اس قسم کے خطوط آتے ہیں کہ دنیوی ذرائع سے اب ہم اتنے تنگ آگئے ہیں.اب خدا تعالیٰ ہی مدد کرے تو کرے، ہماری تمام تدابیر فیل ہوگئی ہیں.غیر اور دشمن تو اسلام سے ناواقف ہے ہی ، وہ اسلام کو ایسے رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے کہ انسان کو گھن آتی ہے لیکن بڑی مصیبت یہ ہے کہ اپنے بھی اسلام کو بدنام کر رہے ہیں." میں نے انہی حالات کو دیکھتے ہوئے اور ان کی غرض وغایت کو پہچانتے ہوئے ، جماعت کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ نوجوان آگے آئیں اور اشاعت اسلام کے لئے اپنی جانیں پیش 289
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کریں.وہ اپنی زندگیاں سلسلہ کے لیے وقف کریں اور باقی لوگ اپنی جیبیں کھولیں اور چندے دیں.خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کے دل کھول دیئے اور آپ نے تحریک جدید میں چندہ دے کر حصہ لیا اور نو جوانوں کے دل کھولے اور انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں.لیکن اب آہستہ آہستہ لوگوں کو مصیبت کے دن بھول گئے ہیں.حالانکہ مصائب آگے سے بھی زیادہ ہیں.اب نو جوان پہلے کی طرح اپنی زندگیاں وقف نہیں کر رہے.بلکہ جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں ، ان میں سے بعض نے آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کر دیا ہے.شروع میں، میں نے یہ طریق رکھا تھا کہ جو واقف زندگی اپنے وقف سے بھاگے، اسے جماعت سے خارج کر دیا جاتا تھا.لیکن بعد میں، میں نے سمجھا کہ جو اس قسم کے گندے لوگ ہیں، ہمیں ان کو رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو شخص ہمارا نہیں، اسے ہم کیوں لیں؟ اس لئے جو شخص جاتا ہے، اسے جانے دو.چنانچہ جن نو جوانوں نے کہا کہ ہم وقف میں نہیں رہنا چاہتے اور ان کے ذمہ کوئی تعلیمی یا دوسرا قرض نہ تھا، میں نے انہیں فارغ کرنا شروع کر دیا.اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ لوگ کسی نہ کسی معیار کے کمزور ضرور ہیں.یا تو وہ پورے غدار ہیں یا آدھے غدار ہیں یا چوتھا حصہ غدار ہیں یا ان میں دسواں ، بیسوں ، پچاسواں ، سواں یا ہزارواں حصہ غداری کا پایا جاتا ہے.اور غداری نہیں تو کمزوری ضرور ہے.بہر حال وہ نص جو ایک دفعہ وقف کرتا ہے اور پھر اس سے پیچھے ہتا ہے ، غداری یا کمزوری سے پاک نہیں.اب ہماری یہ پالیسی ہے کہ جس شخص نے ہمارا روپیہ استعمال نہیں کیا ، وہ اگر وقف سے فراغت مانگتا ہے تو مانگ لے، ہم اسے اجازت دیتے ہیں.ہاں ہم ان کو برا ضرور مانتے ہیں، جو وقف سے بھاگنا تو چاہتے ہیں لیکن وہ ہمارے منہ سے کہلوانا چاہتے ہیں کہ تم چلے جاؤ.مثلاً وہ کام خراب کرنا شروع کر دیتے ہیں.ایسے لوگ یقینا غدار ہیں.لیکن جو شخص خود کہتا ہے کہ میں وقف سے فارغ ہونا چاہتا ہوں، ہم اسے فارغ کر یتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے ایمان میں کمزوری ہے ، شاید با ہر جا کر اس کا ایمان مضبوط ہو جائے.لیکن جو شخص ہمیں دھوکا دینا چاہتا ہے، وہ باہر جا کر بھی کمزور اور بے ایمان ہی رہے گا.چندوں کے لحاظ سے بھی ، جب میں نے سن چونتیس میں تحریک جدید کا اجراء کیا تھا، اس وقت جماعت کی مالی حالت آج کی نسبت بہت کم تھی.اس کی تعداد بھی آج کی نسبت بہت کم تھی.اب تعداد بہر حال بہت زیادہ ہے اور مالی حالت اس زمانہ کی نسبت بہت اچھی ہے لیکن اس وقت جس طرح تحریک جدید کا خیر مقدم کیا گیا تھا، ویسا خیر مقدم اب نہیں کیا جاتا.اب بھی لوگ تحریک جدید میں حصہ لیتے ہیں لیکن زیادہ تر تعداد حصہ لینے والوں میں انہی لوگوں کی ہے، جنہوں نے شروع میں ہی میری آواز پر لبیک کہا تھا.بے شک بعد والوں میں بھی جوش ہے لیکن اتنا جوش نہیں ، جتنا ابتداء میں لوگوں میں پایا جاتا تھا.290
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1952ء اس وقت کام کی ابتداء ہے.ابھی تک دنیا کی دوارب ، ہمیں کروڑ کی آبادی میں ہمارے پچاس مبلغ کام کرتے ہیں.اگر اس آبادی کے چوتھے حصہ تک بھی ہم خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا ئیں اور سال میں پچاس کروڑ انسانوں کو چار صفحہ کا اشتہار صرف ایک دفعہ پہنچائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ایک ہزار اشتہار شائع کیا جائے تو اس پر بارہ روپے خرچ آتے ہیں.پھر ان اشتہارات کو لوگوں تک پہنچانے کولیا جائے تو کل خرچ قریبا ہیں روپے تک آئے گا.اور اگر ایک لاکھ اشتہارات چھپوا ئیں تو دو ہزار روپیہ خرچ آئے گا.ایک کروڑ اشتہارات چھپوائیں تو دولاکھ روپیہ خرچ آئے گا.اور اگر پچاس کروڑ اشتہارات شائع کریں تو ایک کروڑ روپیہ لگے گا.یعنی ایک کروڑ روپیہ سے ہم دنیا کی چوتھائی آبادی کو صرف ایک دفعہ چار صفحہ کا ایک اشتہار بھیج سکتے ہیں.وہ بھی اس امید پر کہ چار میں سے ایک شخص اسے پڑھے گا اور باقیوں کو سنا دے گا.اب آپ لوگ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنا بڑا کام ہمارے سامنے ہے.ابھی تو ہمارالٹر پچر ار دوزبان میں بھی مکمل نہیں ہوا.غیر زبانیں تو ابھی بالکل تشنہ ہیں.ابھی تک ہم نے بیرونی ملکوں کے احمدیوں میں اسلام کے موٹے موٹے اصول پھیلائے ہیں.لیکن اب وہ کہتے ہیں، ہم موٹے اصول پر کفایت نہیں کر سکتے ، اب تو تفصیلی احکام بتاؤ ، فقہ لاؤ، ان کتابوں کے ترجمے لاؤ.ابھی ایک ڈاکٹر صاحب، جو انگلینڈ میں ہیں اور انہوں نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا ہے، ان کا مجھے خط آیا ہے کہ میری بیٹیوں میں سعادت تو ضرور پائی جاتی ہے، اسلام کی طرف انہیں رغبت بھی ہے اور انہوں نے مجھے دیکھ کر اسلام قبول بھی کر لیا ہے.لیکن میرے پاس وہ کتا بیں نہیں کہ جن سے میں انہیں بتا سکوں کہ ان پر کیا کیا ذمہ داریاں ہیں؟ در اصل بات یہ ہے کہ جن چیزوں کی ضرورت پہلے اسلامی دنیا کو تھی ، اب ان چیزوں کی باہر بھی ضرورت ہے.اب ہمیں حدیث ، تصوف، فقہ، قرآن کریم اور دوسرے ضروری مسائل کا ترجمہ کر کے پھیلانا ہوگا.اگر ایک زبان میں دس دس صفحات کی چھوٹی چھوٹی کتابیں بھی پھیلائی جائیں تو دنیا میں پندرہ بیس ہزار زبانیں ہیں.اگر بڑی بڑی زبانوں کو ہی لے لیا جائے تو وہ ہیں تمہیں زبانیں ہو جاتی ہیں.اگر ان زبانوں میں ہی ہم ایک ایک لاکھ صفحات شائع کریں تو یہ بیس لاکھ صفحات ہو جاتے ہیں.اور اگر ہر کتاب کے دس دس ہزار نسخے بھی رکھ لیے جائیں تو یہ اربوں صفحات بن جاتے ہیں.اور پھر کہیں جا کر ہم ان لوگوں کو اسلام کے ابتدائی مسائل سمجھا سکتے ہیں.لیکن ابھی تو انہیں یہ بھی پتہ نہیں لگا کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے؟“ 291
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1952ء "" تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم غرض جب تک تفصیلات سے دوسری قوموں کو واقفیت نہیں ہوگی ، وہ صحیح طور پر اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کر سکتیں.اس لئے ضروری ہے کہ کتب کا ان کی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے.ہماری منزل تو ابتداء کی ہے، ابھی انتہا بہت دور ہے.اگر ہم ابتداء میں ہی تھک کر رہ گئے تو آخر میں ہمارا کیا حال ہوگا ؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بڑا احسان کیا ہے کہ اس نے ابتداء میں یہ تحریک مجھ سے غفلت میں کروائی.اگر وہ پہلے اس بات کا انکشاف کر دیتا کہ یہ تمہارے لئے اور تمہاری آئندہ نسلوں کے لئے ہے تو شاید تم میں سے بہت سے لوگ اس ثواب سے محروم رہ جاتے.اس نے مجھ سے یہ بات چھپائے رکھی اور صرف تین سال کے لئے تحریک کروائی.اور پھر اس صورت میں بھی حقیقت پردہ میں رکھی.میرے الفاظ خطبہ میں مہم رنگ میں چھپ گئے اور بعض لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ ہم ایک سال چندہ دیں گے اور وہ آئندہ تین سالوں میں خرچ ہوگا.لیکن جب دوسرے سال ان سے چندہ مانگا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ یہ تحریک تین سال تک رہے گی تو انہوں نے کہا کہ اچھا یہ بات ہے.ہم تو یہ خیال کرتے تھے کہ صرف ایک سال چندہ دینا ہے، اچھا چندہ لے لو.تین سال گزرنے پر میں نے اس تحریک کو دس سال تک بڑھا دیا تو لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ سات سال اور ہیں، چلو اتنے سال اور چندہ دے دیں.دس سال گزرنے پر آپ لوگ اس قابل ہو گئے تھے کہ لمب قدم اٹھا سکیں، اس لئے میں نے اس تحریک کو انیس سال تک بڑھا دیا.چونکہ یہ فاصلہ زیادہ تھا، اس لئے بعض لوگ اس دفعہ گر گئے اور انہوں نے خیال کر لیا کہ چلو دس سال پورے ہو گئے ہیں.پھر جب یہ تحریک انیس سال کے قریب آئی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ سوال پیدا کیا کہ میں نے یہ کام کس غرض کے لئے جاری کیا تھا؟ میں نے کہا یہ کام میں نے تبلیغ اسلام کے لئے جاری کیا تھا.اس پر خدا تعالیٰ نے مجھ پر القاء کیا کہ کیا تبلیغ اسلام صرف انہیں سال تک ہو گی ، بعد میں یہ کام معاف ہو جائے گا؟ تب میری آنکھیں کھلیں اور میں نے جماعت پر یہ واضح کیا کہ یہ کام قیامت تک جاری رہے گا اور جس دن بھی ہم نے اس کام کو چھوڑ دیا ، ہم مرے“." یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے پہلے مجھ سے چند سال کے لئے تحریک کروائی اور پھر ا سے بڑھوا دیا.اور جب آخری سال یعنی انیسواں سال قریب آیا تو اس نے یہ ظاہر کر دیا کہ یہ انہیں کا عد کوئی چیز نہیں.جب تک میں اور آپ لوگ زندہ ہیں، یہ فرض ہے، جو خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگایا ہے.اور جب تک ہماری اولادیں زندہ رہیں گی ، اس وقت تک یہ فرض ہے، جو ان کے ذمہ لگایا گیا ہے.اسے کوئی ہٹا نہیں سکتا اور اسی طرح ہر نسل پر واجب ہوتا چلا جائے گا.اگر تم ایک زندہ قوم ہو تو یہ فرض تم سے 292
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1952ء تمہاری اولادوں کی طرف اور تمہاری اولادوں سے ان کی اولاد ہوتا رہے گا.اور اگر تم زندہ قوم نہیں ہو تو تم میں سے جن میں سچا ایمان پایا جاتا ہے، وہ جب تک زندہ رہیں گے اور موت اس دنیا سے انہیں دوسری دنیا میں نہیں لے جاتی، اس وقت تک وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرتے رہیں گے.گویا تحریک جدید ایک دن کی نہیں، وہ دو دن کی نہیں بلکہ ہر مومن کے لئے ہمیشہ کے لئے ہے.اس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے کہ قیامت تک تم میں ایک ایسی جماعت رہنی چاہئے ، جو تبلیغ اسلام کا کام کرے.یہ آیت ایک دن کے لئے نہیں، یہ آیت دو دن کے لئے نہیں بلکہ یہ آیت قیامت تک کے لئے ہے.اسی طرح تحریک جدید بھی قیامت تک کے لئے ہے کیونکہ یہ اس آیت کا ترجمہ ہے.جو شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے، وہ قرآن کریم کو مانتا ہے اور جو اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا، وہ قرآن کریم کو نہیں مانتا.اور جتنا جتنا کوئی شخص اس تحریک سے دور ہے، اتنا ہی وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری سے دور ہے.پس میں آج تحریک جدید کے انیسویں سال کا اعلان کرتا ہوں.اگر تم میں ایمان ہے تو تمہیں یہ کہنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ اس انیس کو اڑ میں بنائے اور اڑتیں کو چھہتر بنائے اور اس تحریک کو اس وقت تک لمبا کرے، جب تک کہ ہم آخری سانس موت کے حوالہ نہ کر دیں.وو پس ہر مومن، جو اس جہاد میں حصہ لیتا رہے گا ، وہ اسے لمبا کرتا جائے گا.ہاں چونکہ ار مختلف دور بن جائیں گے، اس لئے جو لوگ اس جہاد میں پہلے شریک ہوئے ، وہ سابقون الاولون کا خطاب پائیں گے کیونکہ سب سے پہلے دین کے جھنڈے کو بلند کیا.اور باقی لوگ صرف مجاہد کہلائیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان مجاہدین میں سے بھی بعض لوگ سابقون الاولون ہوں گے.لیکن جو لوگ ابتداء میں اس جہاد میں شریک ہوئے ، وہ بحیثیت جماعت سابقون الاولون قرار پائیں گے اور بعد میں آنے والے صرف انفرادی طور پر اس مقام کو حاصل کر سکتے ہیں“.مومسن ایمان کی وجہ سے یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اپنی خدمات پیش کرے.بیشک دنیا میں تغیرات بھی آئیں گے، خرابیاں بھی ہوں گی ، قحط بھی پڑیں گے، مصائب اور آفات بھی آئیں گی.لیکن جو شخص مومن ہے، اس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا.قحط اور مصائب اس کے قدم کو ست نہیں کر دیں گے.پس تحریک جدید کو آگے بڑھانا ہمارا کام ہے.یہ کام کہیں ختم نہیں ہوتا.پہلی جماعت ، جس نے اس میں حصہ لیا، وہ سابقون الاولون کہلائے گی.اور جو بعد میں آئے ، وہ مجاہد کہلا ئیں گے.پھر ان مجاہدین میں سے بھی بعض اپنے وقت میں سابقون ہوں گے.لیکن یہ صرف بحیثیت فرد 293
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم - سابقون ہوں گے اور جو جماعت پہلے دور میں اس جہاد میں شریک ہوئی ، وہ من حيث الجماعت | سابقون الاولون ہوگی.میں تحریک جدید کے کارکنوں کو بھی اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اندر ایمان پیدا کریں.افسوس ہے کہ کارکن کام کو اس طرح نہیں کرتے کہ چندے سو فیصدی جمع ہوں.مثلاً دور دوم کا ہمیشہ ہی یہ حال رہا ہے کہ وہ کبھی سو فیصدی پورا نہیں ہوا.میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس دور میں حصہ لینے والے اخلاص میں کم ہیں لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ کارکن کام میں سست ہیں ، اس لئے اس دور کا چندہ پورے طور پر وصول نہیں ہوتا.وعدوں کے لحاظ سے دور دوم کے مخلصین بھی ترقی کر رہے ہیں.پچھلے سال ایک لاکھ، بتیس ہزار کے وعدے تھے اور اس سال ایک لاکھ ، چالیس ہزار کے وعدے تھے.لیکن پچھلے سال 69 فیصدی وعدے وصول ہوئے تھے اور اس سال 64 فیصدی وعدے وصول ہوئے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت رقم زیادہ آئی ہے مگر فی صدی نسبت کم ہوگئی ہے.اسی طرح میں واقفین کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاص کو دیکھیں، وقت کو نہ دیکھیں.عاشق وقت کو نہیں دیکھا کرتا، نوکر وقت کو دیکھتا ہے.ہمارے ہاں تو اصل غرض کام سے ہے، کام کو وقت پر کریں.اب تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کہیں کوئی نقص ہو جاتا ہے تو میں دفتر کو توجہ دلاتا ہوں.پھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ دریافت کرتا ہوں تو مجھے بتایا جاتا ہے کہ تین ماہ ہوئے ، ہم نے ایک خط لکھا تھا.مگر اس کا کوئی جواب نہیں آیا.گویا ایک خط لکھ کر تین ماہ تک خاموشی طاری رہتی ہے.حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ ہر دس دن کے بعد خط لکھا جاتا.میں یاد کراتا ہوں تو خط لکھتے ہیں.یہ ستی کی علامت ہے اور مومن کو اس سے بچنا چاہئے.میں نو جوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ وقت کی قدر کو سمجھیں.جو بھاگنے والے ہیں، میں انہیں کچھ نہیں کہتا بلکہ میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمیں ان سے نجات ملی گئی.لیکن جو نو جوان وقف میں نہیں آئے ، انہیں میں کہتا ہوں کہ اخلاص سے آگے آؤ.ہمیں لاکھوں نو جوانوں کی ضرورت ہے.اگر ہر پانچ سو افراد پر بھی ایک مبلغ ہو تو دوارب نہیں کروڑ کی آبادی کے لئے ہمیں پچاس لاکھ مبلغین کی ضرورت ہے.ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ ہم تبلیغ کے فرض سے فراغت حاصل کرلیں اور نہ کوئی ایسا وقت آ سکتا ہے.اگر ایسے موقع پر نو جوان قربانی نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا ؟ تم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ انسان کی زندگی کا بہترین مصرف یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہو.جو شخص اسے نہیں سمجھتا، اس کے ایمان میں کمزوری پائی جاتی ہے.اس کمزوری کو دور کرنا چاہئے.جس کا ایمان مضبوط ہوتا ہے، وہ اس موقع پر آگے بڑھتا ہے.صحابہ کو دیکھ لو، ان میں یہ روح کس حد تک پائی جاتی ہے.294
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم تم بھی وقف کی عظمت کو مجھو.وقف کا ملا عباس از خطبه اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1952ء تم اور ملتا، وقف کا بدلہ خدا تعالیٰ سے ملتا ہے.سلسلہ کے ابتدائی زمانہ میں علماء نے دین کی بہت خدمت کی ہے.لیکن اب تعلیم بھی زیادہ ہے ، سامان اور سہولتیں بھی میسر ہیں لیکن علماء مسجدوں میں نہیں آتے.دنیا کے پیچھے لگے رہتے ہیں، انہیں عہدوں اور تنخواہوں کا خیال زیادہ رہتا ہے.یہ بات بتاتی ہے کہ انہیں صرف عہدوں اور مال سے دلچسپی ہے.حالانکہ عہدوں سے روحانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.جن کاموں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، وہی کام کرنے چاہیں اور انہی کی طرف دوڑنا چاہئے“.مطبوع روزنامه الفضل 04 دسمبر 1952ء) 295
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 دسمبر 1952ء تحریک جدید ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ادارہ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 05 دسمبر 1952ء میں نے گزشتہ جمعہ تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی جماعت کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ تحریک جدید ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ادارہ ہے.جب تک قوم زندہ رہے گی، یہ ادارہ قوم کے ساتھ وابستہ رہے گا.اور جب افراد میں زندگی مستقل ہو جائے گی ، یعنی جماعت کے کچھ افراد مردہ ہو جائیں گے اور کچھ زندہ رہیں گے تو یہ ادارہ زندہ افراد کے ساتھ وابستہ ہو جائے گا.اسلام کی گذشتہ تاریخ میں جہاں مسلمانوں سے بعض بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں.وہاں ایک اہم ترین غلطی ان سے یہ ہوئی کہ تبلیغ کو انفرادی فرض سمجھ لیا گیا.بے شک مسلمانوں میں مبلغ رہے.گذشتہ صدیاں تو الگ رہیں، قریب کے زمانہ تک بھی مسلمانوں میں مبلغ رہے.بلکہ اس زمانہ تک رہے، جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ اس میں اسلام مٹ گیا اور مسلمانوں پر موت طاری ہوگئی ، اس میں بھی خدا تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے تھے، جو زندہ تھے اور تبلیغ اسلام کے فرض کو ادا کرنے میں خوشی ، رغبت اور لذت محسوس کرتے تھے.پہلی صدی کو تو جانے دو، جب ہر مسلمان ہی ایک مبلغ تھا.دوسری صدی کو بھی جانے دو، تیسری صدی کو بھی جانے دو اور چوتھی، پانچویں، چھٹی اور ساتویں صدی کو بھی جانے دو، جب تبلیغ کرنے والے اور اس کا انتظام کرنے والے بڑے اہم آدمی تھے، ان کی بعد کی صدیوں کو بھی جانے دو، جب تبلیغ نہایت محدود دائرے کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گئی تھی لیکن پھر بھی لوگ دوسرے ملکوں میں جاتے تھے ، میں تو تیرھویں صدی کے متعلق کہتا ہوں بلکہ چودھویں صدی کی ابتداء کے متعلق کہتا ہوں، جب بظاہر مسلمانوں پر موت آگئی کہ اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے ایسے بندے موجود تھے، جو اسلام کی تبلیغ کرتے تھے.مثلاً مغربی افریقہ ہے، اس میں اسلام بہت قریب کے زمانہ میں پھیلا ہے.یعنی اس ملک میں تبلیغ ساٹھ ستر یا سو سال کے اندر ہوئی ہے.بالعموم بربری ، شامی اور سوڈانی لوگ وہاں گئے اور انہوں نے اسلام کی تبلیغ کی ، جس کے نتیجہ میں لاکھوں لوگ مسلمان ہوئے.پس انفرادی حیثیت سے مسلمانوں میں آخر تک تبلیغ ہوتی رہی ہے، گو محدود ہوئی ہے.لیکن اجتماعی رنگ میں تبلیغ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی 297
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 505 تمبر 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم وفات کے بعد ہی قریبا مفقود ہوگئی.کیونکہ خلفاء ان جنگوں میں جو عیسائیوں اور زرتشتیوں کے خلاف لڑی گئیں ، اس قدر الجھ گئے کہ اس وقت جہاد اور تبلیغ دونوں کو ایک سمجھ لیا گیا.اور خلفاء کے بعد مسلمانوں پر جمود طاری ہو گیا ، وہ دنیوی شان و شوکت اور ترقیات کو اپنا منتہائے مقصود سمجھ بیٹھے اور تبلیغ کی اصل روح کو بھول گئے.پس انفرادی طور پر اسلام میں نہایت عظیم الشان لوگ پیدا ہوئے ہیں، جنہوں نے تبلیغ اسلام کے فرض کو اچھی طرح ادا کیا.افغانستان میں مسلمان پھیل گئے ، افریقہ میں وہ گئے اور وہاں تبلیغ کی ، وہ چین، جاپان ، انڈونیشیا اور ہندوستان میں آئے اور یہاں اسلام کی تبلیغ کی اور لاکھوں لوگ ان کے ذریعہ مسلمان ہوئے.غرض انہوں نے تبلیغ کی اور بڑی شان سے تبلیغ کی.لیکن یہ انفرادیت تھی ، اجتماعیت نہیں تھی.حالانکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.وَلَتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةً يَدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ یعنی تم میں ہمیشہ ایک ایسی امت ہونی چاہئے ، جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے اور انہیں نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے“.وو اب تبلیغ جیسے عظیم الشان کام کو جاری کرنے کے لئے سلسلہ احمدیہ نے تحریک جدید جاری کی ہے.تا باہر سے لوگ بلوائے جائیں، جو یہاں آکر دین سیکھیں.اور ان میں سے ایسے لوگ تیار کئے جائیں، جو باہر جا کر لوگوں کو دین سکھائیں.یہی قرآن کہتا ہے کہ تم باہر کے لوگوں کو تحریک کرو کہ وہ تمہارے پاس آکر دین سیکھیں اور مرکز میں تم ایک ایسی جماعت تیار کرو جو باہر جائے اورلوگوں کودین سکھائے.تحریک جدید ان دونوں مقاصد کو پورا کرتی ہے.1300 سال کے عرصہ میں بعد از زمانہ نبوت صحابہ کے وقت میں مجبوراً اور ان کے بعد مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے ہمیں یہ چیز نظر نہیں آتی.آج صرف ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق ہے.کتنا عظیم الشان کام ہے.اس ایک کام کی وجہ سے تمہیں دوسروں پر فضیلت حاصل ہو جاتی ہے اور تمہارے مقابلہ میں کوئی اور ٹھہر نہیں سکتا.یہی وجہ ہے کہ مصری لوگ اگر چہ ہم سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں، ہمارے ساتھ ان کے تعلقات قائم نہیں اور اس وجہ سے وہ عام طور پر ہماری مخالفت کرتے ہیں.لیکن متواتر کچھ عرصہ کے بعد مصری اخبارات میں ایسے مضامین نکلتے رہتے ہیں، جن میں بتایا جاتا ہے کہ 1300 سال تک کسی نے وہ کام نہیں کیا، جو آج جماعت احمد یہ کر رہی ہے.حال ہی میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اور جماعت احمدیہ کے خلاف مصر کے مفتی اعظم نے فتویٰ 298
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 دسمبر 1952ء دیا ہے.ایک شخص نے اپنے اخبار میں اس کے متعلق ایک مضمون لکھا.مگر ایک طرف وہ اس فتوی کی تائید کرتا ہے اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ جماعت احمد یہ دنیا میں ایک واحد جماعت ہے، جو تبلیغ کا کام کر رہی ہے.اس کے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں کئی مبلغ ہیں، جو یہ کام کر رہے ہیں.اگر چہ اس نے جھوٹ کو عظمت دی ہے لیکن ساتھ ہی اسے یہ اقرار کرنا پڑا ہے کہ تبلیغ صرف جماعت احمد یہ ہی کر رہی ہے.اور یہ ایک فضیلت ہے، جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دوسرے مسلمانوں پر دی ہے.اور یہ فضیلت ایسی ہے کہ لوگ اس کی نقل بھی نہیں کر سکتے.اب احراری شور مچار ہے ہیں کہ مسلمان ایک کروڑ روپیہ چندہ دیں تا مبلغ تیار کئے جائیں اور یہ مبلغ دوسرے ممالک میں جا کر احمدیوں کے خلاف پروپیگنڈا کریں.ہر جگہ ہم ہی غالب ہوں گے، نہ کہ مغلوب.ہمیں تو خوشی ہوگی کہ یہ لوگ اپنے مبلغ بیرونی ممالک میں بھیجیں.اول تو خدا گنجے کو ناخن نہ دے ، یہ لوگ یہ کام کر ہی نہیں سکتے.یہ تو دس کروڑ روپیہ بھی ہوگا تو کھا جائیں گے.لیکن اگر یہ لوگ مبلغ بھیجیں گے تو ان کا یہ اقدام ہمارے لئے خوشی کا وو موجب ہوگا.ان کا مبلغ ہمارے مقابلہ میں جو مسئلہ بھی پیش کرے گا، وہ اسے ذلیل کرے گا“.پس اللہ تعالیٰ نے تمہیں عظیم الشان موقع عطا کیا ہے.اگر تم اسے اپنے ہاتھ سے چھوڑ دو گے تو تم کتنے بدقسمت ہو گے.پس یہ تحریک اپنے ساتھ بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے.اتنی بڑی اہمیت کہ تیرہ سو سال تک کسی شخص کواس کام کی توفیق نہیں لی ، جواس تحریک کے ماتحت کیا جارہا ہے.دوسرے خدا تعالٰی نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ اس کام میں کوئی شخص تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا.یا تو اسے احمدی ہونا پڑے گا اور یا شرمندہ ہونا پڑے گا.وو پس تحریک جدید خدا تعالیٰ کے فضل اور برکت سے آئی ہے اور ہر شخص کو اس میں حصہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے.میں نے پچھلی دفعہ کہا تھا کہ یہ قحط کا زمانہ ہے، مصائب اور آفات کا زمانہ ہے، لیکن جس طرح ایک ماں اپنے آپ کو فاقہ میں رکھتی ہے لیکن اپنے بچہ کو فاقہ نہیں آنے دیتی ، اسی طرح تم بھی دین سے ماں جیسی محبت کرو تم خود فاقہ کرو لیکن دینی کاموں میں سستی نہ آنے دو“.وو.پس بے شک یہ دن قحط کے ہیں، مصائب کے ہیں، آفات کے ہیں لیکن دین کی خدمت کرنے والا بھی تو تمہارے سوا اور کوئی نہیں.اگر دین کو فاقے مارو گے تو تمہی مارو گے اور اگر اسے پالو گے تو تمہی پالو گے.اگر اس کی خاطر فاقہ کرو گے تو تمہی کرو گے اور کوئی قربانی کرو گے تو تہی کرو گے.اور کوئی نہیں کرے گا.اس کا وجود خدا تعالیٰ نے تمہارے سپرد کیا ہے.تمہی اس کے ولی ہو، تمہی اس کے 299
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 دسمبر 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم متکفل ہو ، تمہی اس کے مربی ہو اور تمہی اس کے محافظ ہو.اس کا ولی اور محافظ تمہارے سوا اور کوئی نہیں.نہ کوئی آج تمہارے سوا اسلام کی خبر پوچھنے والا ہے، نہ کوئی اس کی خاطر قربانی کرنے والا ہے اور نہ کوئی اس سے محبت کرنے والا ہے.اگر تم غفلت کرو گے تو یہ مردہ ہو جائے گا اور اگر تم ہوشیار رہو گے تو یہ جیے گا.اگر اس کی خاطر قربانی کرو گے تو تم کرو گے.لیکن یا درکھو، اگر تم دین کے لئے قربانی کرو گے تو تم بھی زندہ رہو گے.کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ اور اس کے دین کی خاطر قربانی کرتا ہے، خدا تعالیٰ اسے مرنے نہیں دیتا.دنیا میں لوگوں پر فاقے آتے ہی ہیں، لوگوں پر مصائب اور آفات آتی ہی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ پر بھی فاقے آئے ، مصائب آئے ، آفات آئیں اور ہم پر بھی مصائب، تکالیف اور فاقے آئیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے ان فاقوں اور آفات و مصائب میں بھی دین کی خاطر قربانی کرنے سے دریغ نہیں کیا.ہمیں بھی ان کی طرح نمونہ دکھانا ہوگا“." تمہیں خدا تعالیٰ نے وہ موقع عطا فرمایا ہے، جو سال، دو سال میں تو کیا دوسرے لوگوں کو صدیوں میں میسر نہیں آیا.یہ عید سینکڑوں سال کے بعد آئی ہے.عام عید آتی ہے تو لوگ گھروں میں خوشیاں مناتے ہیں، ان کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں.لیکن تمہاری عید اور تمہارا چاند تو نرالا ہے.دنیا کے مصائب اور آفات تمہارے دلوں کو افسردہ نہیں کر سکتیں.دنیا کے رنج و آلام تمہارے چہروں پر غم کے آثار پیدا نہیں کر سکتے.مخالفتیں تمہیں قربانی سے پیچھے نہیں ہٹا سکتیں.اس لئے کہ تمہیں وہ کچھ ملا ہے، جو پچھلی تیرہ صدیوں میں دوسروں کو نہیں ملا.خوش قسمتی سے یہ موقع نہ ہی کوئی صدیوں کے بعد ملا ہے.صدیاں گزر جاتی ہیں اور یہ مبارک موقع کسی کو نہیں ملتا.اور صدیاں گزرگئیں، یہ موقع کسی کو نہیں ملا.یہ موقع بڑی قسمت کے ساتھ ملا کرتا ہے.ایک لحاظ سے دین کا ضعف بھی انسان کے لئے طاقت کا موجب ہوتا ہے.ان تکالیف اور مصائب کے وقت میں وہی لوگ قربانیاں کرتے ہیں، جو خدا تعالیٰ کے مقرب اور محبوب ہوتے ہیں، جو لوگوں کے لئے مثال اور نمونہ بنتے ہیں، جنہیں آنے والی نسلیں فخر کے ساتھ یاد کرتی ہیں.ان کے کارناموں کو دیکھ کر وہ حسرت سے دعائیں کرتی ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں ان کے نقشے قدم پر چلنے کی توفیق دے.تمہیں وہ دن نصیب ہوا ہے، تم اسے ضائع نہ کرو تم قربانیاں کرو.دین کی خاطر ہر مصیبت اٹھاؤ اور اسلام کی خدمت کرنے میں برکت تلاش کرو.خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے، میں نے اس سال بھی وعدوں کی آخری تاریخ 21 فروری مقرر کی ہے.یعنی تمام وعدے 21 فروری تک ہو جانے چاہیں.سوائے پاکستان کے باہر کے ملکوں کے، جن 300
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 دسمبر 1952ء کے متعلق جلد اعلان کیا جائے گا.بہر حال ہر ایک احمدی کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ وعدے جلسہ سالانہ سے پہلے آجائیں.تا آئندہ سال کا بجٹ تیار کرنے میں سہولت ہو.اب چونکہ تحریک جدید ہمیشہ کے لئے ہے، اس لئے اگلے سال سے آگے بڑھنے کی جو پابندی تھی ، وہ نہیں رہے گی.حالات اور آمد کی تبدیلی پر وعدے میں بھی تبدیلی ہو سکے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وصیت کی طرح تحریک جدید کے لئے آمد کا کوئی جزو مقرر نہیں.لیکن یہ ضرور ہے کہ جس طرح وصیت کا چندہ آمد کے کم اور زیادہ ہونے کی وجہ سے بدل جاتا ہے، مثلاً سوروپے ماہوار آمد ہے تو دس روپے چندہ وصیت ہوگا اور اگر ساٹھ روپے آمد ہو گئی ہے تو چھ روپے ماہوار چندہ ہوگا، اسی طرح تحریک جدید میں بھی حالات کے تبدیل ہو جانے پر تبدیلی ہو سکے گی.اگر ایک شخص پہلے سوروپے چندہ دیتا تھا اور بعد میں اس کے حالات بدل گئے، مثلاً ملازم تھا، ریٹائر ہو گیا تو اس کا چندہ تحریک جدید کم ہو سکتا ہے.ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ دفتر سے خط و کتابت کرے اور خط و کتابت کے بعد چندہ کو گھٹا لے یا آمد زیادہ ہوگئی ہے تو چندہ کو بڑھائے.دفتر کو چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کرے اور جو لوگ مستحق ہیں اور جن کی آمد کم ہوگئی ہے اور وہ اپنا چندہ گھٹانا چاہتے ہیں، ان کا چندہ گھٹا دیں.لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ امید رکھنی چاہیے کہ سلسلہ کا لحاظ رکھا جائے.جہاں سلسلہ کمزور کی تائید کرتا ہے، وہاں سلسلہ یہ امید بھی کرتا ہے کہ جو مالدار ہو، وہ اپنا چندہ بڑھا بھی دے تا توازن قائم رہے.اگر بعض لوگ چندہ کم کر دیں تو بعض لوگ چندہ کو زیادہ کر دیں.زندہ قوموں میں یہی ہوتا ہے.بہر حال یہ یا در رکھیں کہ اب یہ پابندی نہیں ہوگی کہ ہر شخص ہر سال وعدہ میں کچھ زیادتی کرے.اگر آمد اچھی ہو جائے تو چندہ زیادہ کر دو اور اگر آمد کم ہو جائے تو دفتر سے خط و کتابت کر کے اپنا چندہ گھٹا دو.اس میں شرم نہ کیا کرو.اس سے آپ لوگ گنہ گار بنیں گے.جب آمد کم ہو جائے تو یہ غلطی نہ کریں کہ آپ چپ چاپ بیٹھ جائیں.بعض لوگ آٹھ ، آٹھ سال سے چندہ ادا نہیں کر رہے ہوتے لیکن لکھ دیتے ہیں کہ پچھلے سال میرا پانچ سو روپے کا وعدہ تھا بعض وجوہات کی وجہ سے میں ادا نہیں کر سکا، اس سال میں ایک ہزار روپے کا وعدہ کرتا ہوں.اگلے سال وہ ہزار روپے بھی ادا نہیں کرتے اور ڈیڑھ ہزار روپے کا وعدہ کر دیتے ہیں.سوال یہ ہے کہ جب تم نے چندہ ادا ہی نہیں کرنا تھا تو سیدھا دس کروڑ کا وعدہ کیوں نہ کر دیا ؟ یونہی رقوم لکھ دینے سے کچھ نہیں بنتا."".پس دفتر کے کارکن وعدوں کو چیک کر لیں.اگر کسی شخص کی یہ حالت ہے کہ وہ وعدہ ادا نہیں کر سکتا تو اس کو رد کر دیا جائے.بعض خوشیاں جھوٹی ہوتی ہیں.حقیقی خوشی یہ ہے کہ انسان کو نیکی کی توفیق 301
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 دسمبر 1952ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ملے.یہ نہیں کہ پانچ، چھ ہزار روپیہ لکھ دے اور ادا کچھ بھی نہ کیا جائے.اگر حالات ٹھیک نہیں، مالی حالت کمزور ہوگئی ہے تو دفتر سے کہو کہ پچھلا چندہ معاف کر دو اور آئندہ حالات کے مطابق وعدہ کرو.اگر پہلے سو روپے کا وعدہ تھا لیکن وہ ادا نہیں ہوا تو اس کی معافی لے لی جائے اور آئندہ اپنی مالی حالت کے مطابق چاہے وہ پانچ روپے ہو، وعدہ لکھایا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا.لیکن جماعتی طور پر یہ کوشش ہونی چاہیے کہ قدم آگے بڑھے.جماعت دن بدن بڑھ رہی ہے، اگر جماعت کے تمام افراد اپنے فرائض کو ادا کرتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ موجودہ تحریک، جسے دفتر دوم کہتے ہیں، پانچ ، چھ لاکھ تک پہنچ جاتی.لیکن بات یہ ہے کہ جماعت کے ہر فرد سے وعدہ نہیں لیا جاتا.اگر جماعت کے ہر مرد اور عورت ، جوان اور بوڑھے سے وعدے لئے جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ تحریک کے وعدے موجودہ وعدوں سے دگنے لگنے ہو جا ئیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے کام کو بہت کچھ وسیع کر سکتے ہیں“.مطبوعه روزنامه الفضل (17 دسمبر (1952ء) 302
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلدسوم - خلاصه از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1952ء بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد اور چندہ تحریک جدید کی اہمیت خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1952ء برموقع جلسہ سالانہ بیرونی ممالک میں مساجد کی تعمیر کی اہمیت کے متعلق فرمایا:.وو میں نے اس سال شوری کے موقع پر بیرونی ممالک میں مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی اور اس کے لئے ایسے طریق تجویز کئے تھے، جن پر عمل کر کے ہر شخص بغیر کسی خاص بوجھ کے بڑی آسانی سے اس میں حصہ لے سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس تحریک پر پوری طرح عمل کیا جائے تو دو لاکھ روپیہ سالانہ بڑی آسانی سے ہم جمع کر سکتے ہیں.یادرکھو کہ بیرونی ممالک میں جب تک ہم مساجد تعمیر نہ کریں گے، وہاں پر تبلیغ اسلام کرنے میں ہمیں کامیابی نہیں ہوگی.کیونکہ مسجد ایک بہترین مبلغ کا کام دیتی ہے.لوگوں کے قلعے توپوں اور بندوقوں سے آراستہ ہوتے ہیں اور انہی سے وہ ملک فتح کرتے ہیں.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلعے مساجد ہوتے ہیں.جہاں سے اللہ اکبر کی آواز سے دلوں کو فتح کیا جاتا ہے.وہاں سے رات دن اذان کی گولہ باری ہوتی ہے، جو کفر و ظلمت کی خندقوں کو پاٹ کر دلوں کو دلوں سے ملادیتی ہے.دنیوی قلعوں سے لوگ خوف کھاتے ہیں.دنیا کی بڑی سے بڑی حکومت بھی دوسری حکومت کو اپنے ملک میں قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دیتی.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قلعہ ایسا ہے، جو ہم ہر ملک اور ہر علاقہ میں آسانی سے تعمیر کر سکتے ہیں.اور اس طرح اسلام کی اشاعت کا سامان پیدا کر سکتے ہیں.اگر ہم ایسا نہ کریں تو یہ ہماری کوتاہی ہوگی.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد کی اہمیت کو سمجھے اور اس فنڈ میں مقررہ طریق کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لے.تاکہ ہم جلد سے جلد دنیا کے ہر ملک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلعے تعمیر کرسکیں.چندہ تحریک جدید کے متعلق فرمایا:.....یہ ایک جہاد ہے.اس لئے ہر احمدی کو اس میں حصہ لینا چاہئے.تم کوشش کرو کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے، جو اس میں حصہ نہ لے رہا ہو.اب یہ ضروری نہیں رہا کہ ہر سال اپنے چندہ میں اضافہ ہی کیا جائے.اگر تمہاری آمدنی میں کمی واقع ہو گئی ہے تو بے شک چندے میں کمی کر دو.لیکن حصہ لینے سے محروم نہ رہو.مطبوعه روزنامه الفضل 02 جنوری 1953 ء ) | 303
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم....خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1953ء ہمارے ایمان اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1953ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد میں، جو پاکستان کے لئے ہے، ایک مہینہ باقی رہ گیا ہے.غالبا میں نے ہندوستان اور بیرونی ممالک کے لئے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تھا.لیکن اس سال بھی وعدوں کے لئے آخری تاریخ وہی ہے، جو پچھلے سالوں میں مقر تھی.یعنی ہندوستان اور مشرقی پاکستان کے لئے اپریل تک کی میعاد ہے اور جون تک دوسرے ممالک کی میعاد ہے.مثلاً امریکہ ہے، انڈونیشیا ہے، ویسٹ افریقہ ہے، جن میں ہماری زبان بولنے والے نہیں پائے جاتے یا ہمارے ملک کے افراد کم ہیں.چونکہ اب صرف ایک مہینہ باقی رہ گیا ہے، اس لئے جماعت کو میں پھر تحریک جدید کے وعدوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.آج قریباً دو ماہ ہو گئے کہ یہ تحریک ہوئی تھی.شروع شروع میں جس طرح ) وعدے آئے تھے، ان سے پتہ لگتا تھا کہ جماعت اپنی ذمہ داری کو خوب سمجھ رہی ہے اور اپنے فرض ادا کرنے کی طرف متوجہ ہے.لیکن جلسہ کے قریب آکر وعدوں کے آنے میں ستی ہوگئی اور شاید گزشتہ انیس سال کے عرصہ میں یہ پہلی مثال ہے کہ اس وقت تک گزشتہ سال جتنے وعدے آگئے تھے، اس سال اس سے تمہیں ہزار کے وعدے کم ہیں.اس میں کچھ حصہ تو وہ ہے، جس کا پاکستان کی انجمن سے تعلق نہیں.یعنی وہ ہندوستان کے وعدے جہاں سے پچھلے سال 22 ہزار اور کچھ سو کے وعدے آئے تھے اور اس سال 12 ہزار اور کچھ سو کے وعدے آئے ہیں.چونکہ یہ رقم وہیں وصول ہوتی ہے اور وہیں خرچ ہوتی ہے.اس لئے ممکن ہے کہ وعدوں کے بھیجے جانے میں پوری توجہ نہ دی گئی ہو یا جماعتیں یہاں وعدے بھیجنے کی ضرورت نہ بجھتی ہوں.لیکن ہندوستان کے وعدوں کو چھوڑ کر پاکستان اور غیر ملکوں سے اس وقت تک جتنے وعدے آ جاتے تھے، اس سال ان میں سے بھی بیس ہزار کی کمی ہے.سابق دستور کے مطابق بجائے اس کے کہ ہر سال وعدوں میں زیادتی ہوتی ، اس سال وعدوں میں کمی واقع ہوگئی ہے.تحریک جدید کا دفتر ، جو دفتر دوم“ کہلاتا ہے، وہ اگر چہ اب ہمیشہ کے لئے ہے لیکن نام اس کا دفتر دوم ہی رہے گا.کیونکہ جب اس دفتر کا آغاز کیا گیا تو اس کا نام ” دفتر دوم ہی رکھا گیا تھا.اب 66 305
خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم آئندہ لوگ اس دفتر میں شامل ہوں گے.صرف یہ ہوگا کہ ہر شخص کا کھاتہ الگ الگ ہوگا اور اس میں درج ہوگا کہ اس نے کس وقت سے کس وقت تک اشاعت اسلام میں مدد دی ہے؟ ممکن ہے کہ بعد میں بعض اور ذرائع بھی استعمال کئے جائیں کہ ان لوگوں کے نام یادگار کے طور پر محفوظ کر لئے جائیں، جنہوں نے اشاعت اسلام میں مدد دی.لیکن جیسا کہ میرا ارادہ ہے، 19 سال کے پورے ہونے پر جن لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے، (اگر چہ یہ چندہ جاری رہے گا لیکن جن لوگوں نے اس وقت تک اس تحریک میں حصہ لیا ہے ) ان کے نام ریکارڈ میں محفوظ کر لئے جائیں.میرا ارادہ ہے کہ انیس سال کے اختتام پر ایک رسالہ شائع کیا جائے اور اس میں ان سب لوگوں کے نام لکھے جائیں، جنہوں نے اشاعت اسلام میں انیس سال تک مدد دی.اور پھر وہ رقم بتائی جائے، جو انہوں نے اس تحریک کے ماتحت اشاعت اسلام کے لئے دی.اس طرح آئندہ بھی مختلف اوقات پر مختلف طریقے استعمال کئے جائیں گے، جن سے ان لوگوں کے نام بطور یادگار محفوظ کر لئے جائیں گے تا بعد میں آنے والے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں.اور ہم آئندہ آنے والوں کے سامنے ان لوگوں کی مثال پیش کر سکیں.لیکن یا درکھو یہ چندہ عمر بھر کے لئے ہے اور یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے گی.بلکہ ہماری فطرت اور ا ہمارے ایمان کو اس سے انکار کرنا پڑے گا ، اس چیز کونا پسند کرنا پڑے گا کہ کسی وقت بھی یہ چندہ ان سے جاتا رہے.اور کہا جائے کہ آئندہ سے تم سے یہ چندہ نہیں لیا جائے گا.جس طرح ہم یہ پسند نہیں کرتے ، ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے ، ہم اس کا خیال بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص ہماری طرف یہ بات منسوب کرے بلکہ ہم اسے برا مناتے اور گالی تصور کرتے ہیں کہ کوئی ہمیں کہے کہ تم کسی وقت جا کر باوجود صحت اور طاقت کے روزہ چھوڑ دو گے.جس طرح ہم یہ پسند نہیں کرتے ، ہم یہ سننے کی برداشت نہیں کرتے کہ کوئی کہے کہ باوجود اس کے کہ تمہارے پاس مال ہوگا لیکن کسی وقت جا کر تم زکوۃ نہیں دو گے.جس طرح ہم یہ پسند نہیں کرتے ، ہم یہ سننا برداشت نہیں کرتے کہ کسی وقت جا کر ہم باوجود طاقت اور قوت اور مالی وسعت کے حج نہیں کریں گے.جس طرح ہم یہ سنا پسند نہیں کرتے کہ کوئی کہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب تم سچ کو چھوڑ دو گے.جس طرح ہم یہ نہیں سن سکتے کہ کوئی شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے کہ کچھ دنوں کے بعد یا دس ہیں سال کے بعد تم دیانت چھوڑ دو گے.جس طرح ہم یہ نہیں سن سکتے کہ ہمارے متعلق کوئی کہے کہ پندرہ میں سال تک تو تم عدل وانصاف سے کام لو گے لیکن اس کے بعد تم عدل و انصاف کو چھوڑ دو گے اور تم ظالم 306
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1953ء بن جاؤ گے.اسی طرح ہم یہ بھی پسند نہیں کرتے ، ہم یہ بھی سن نہیں سکتے کہ کچھ عرصہ تک تو ہم پر جہاد ، جس رنگ میں بھی وہ اس زمانہ میں ہم پر فرض ہے، واجب رہے گا اور پھر ہمیں معاف ہو جائے گا اور ہم اسے چھوڑ بیٹھیں گے.اگر ہمیں روٹی کھانا معاف نہیں ہو سکتا ، اگر ہمیں پانی پینا معاف نہیں ہو سکتا ، اگر ہمیں کپڑا پہننا معاف نہیں ہوسکتا تو روحانی زندگی کے سامان کیسے معاف ہو سکتے ہیں؟ پس یہ تحریک ہے تو دائمی اور نہ صرف دائگی بلکہ ہمارے ایمان اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے، جس طرح روٹی کھانا دائی ہے.خدا تعالیٰ نے ہم پر روٹی کھانا واجب نہیں کیا لیکن جس ہمیں روٹی نہیں ملتی تو ہم چلاتے ہیں، خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں کہ وہ ہمیں روٹی دے دے.ہم یہ نہیں کہتے کہ بیس سال تک روٹی کھائی ہے، اب کہہ دیا گیا ہے کہ تم روٹی نہ کھاؤ تو چلو چھٹی ہوئی.ہمیں روٹی نہ ملے تو ہم اس پر خوش نہیں ہوتے بلکہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتے ہیں کہ وہ ہمیں کھانا دے.انجیل میں بھی یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا! تو ہماری روز کی روٹی ہمیں بخش.پس اگر ہمیں روٹی ملتی ہے تو ہم خدا تعالیٰ کے ممنون ہوتے ہیں اور اگر روٹی نہیں ملتی تو ہم متفکر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں، روتے ہیں، چلاتے ہیں کہ وہ ہمیں روٹی دے.اسی طرح اشاعت دین کی بھی ہمیں ضرورت ہے.اگر ہمیں اشاعت دین کی توفیق ملتی ہے تو ہم خدا تعالیٰ کے ممنون ہوتے ہیں اور اگر ہمیں اشاعت دین کی توفیق نہیں ملتی تو ہم شکر نہیں کرتے بلکہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں کہ اس نے ہم میں کیوں ضعف پیدا کر دیا ہے؟ ہم دین کی خاطر کیوں اتنی قربانی نہیں کر سکتے، جتنی قربانی ہم پہلے کرتے تھے؟ یہی ایمان کی ایک زندہ علامت ہے.اگر یہ علامت نہیں پائی جاتی تو سمجھ لو کہ ایمان بھی نہیں پایا جاتا.پس جہاں تک چندے کا سوال ہے، میں اس کی نوعیت بتا چکا ہوں.بار بار بتانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ جن لوگوں نے پہلے نہیں سنا تھا، وہ اب سن لیں.اور پھر بسا اوقات ستی اور غفلت ہو جاتی ہے اور دوبارہ بیان کرنے سے انسان کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ سستی اور غفلت کو ترک کر کے بیدار ہو جائے ، اسے اس طرف توجہ ہو جائے.لیکن ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ بعض مراحل پر آکر انسان کو خاص اخلاص اور جوش دکھانا پڑتا ہے.جب پہلی تحریک کے جتنے سال مقرر تھے، ختم ہونے لگے تو جماعت نے غیر معمولی طور پر اس سال وعدے کئے اور اتنے غیر معمولی طور پر کئے کہ بعد میں بھی وعدوں کی تعداد اس حد تک نہیں پہنچی.اسی طرح اب یہ انہیں سالہ دور ختم ہونے والا ہے، یہ غیر معمولی دور ہے.اگر چہ ہم بعد میں بھی چندہ دیں گے لیکن یہاں وہ دور ختم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہم سابقون 307
خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم الاولون اور دفتر اول“ والے کہلائے تھے.یہاں ایک مرحلہ ختم ہو جاتا ہے، اس لئے میری تجویز ہے کہ انیس سال کے خاتمہ پر ان لوگوں کی قربانیوں کا ریکارڈ رکھنے کے لئے ایک رسالہ شائع کر دیا جائے تا لوگوں کے لئے ان کی ایک مثال قائم ہو جائے.شاید سردی کی وجہ سے، جو ان دنوں خاص طور پر پڑ گئی ہے، جماعتیں اس سال دیر سے وعدے لکھ رہی ہیں.اس لئے وعدے گزشتہ سال کی نسبت کم آئے ہیں.گزشتہ سالوں میں ان دنوں وعدے دوبارہ آنے شروع ہو جاتے تھے.لیکن اس سال جلسہ سالانہ کی وجہ سے وعدوں کی آمد میں جو روک پڑ جاتی ہے ، وہ برابر جاری ہے.اس کی وجہ سے بجائے اس کے کہ پچھلے سال سے اس وقت تک زیادہ وعدے آ جاتے ہیں ہزار کے وعدے کم آتے ہیں.اس لئے میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وقت تھوڑا ہے تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور جلد سے جلد وعدے لکھواؤ اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرو.میں دفتر دوم والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں، اس سال دفتر دوم والوں کی کوشش ہے کہ دو، اڑھائی لاکھ کے وعدے آ جائیں تا پنشن پانے والوں اور وفات پا جانے والوں کی وجہ سے وعدوں میں جو کمی آگئی ہے، وہ پوری ہو جائے.اسی لئے دفتر دوم والوں کو بھی خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور اپنے وعدوں کو اس سال کم از کم دو، اڑھائی لاکھ تک پہنچادینا چاہئے.یا درکھو کہ اس وقت اشاعت دین کا کام تم ہی کر رہے ہو، تمہارے سوا اور کوئی نہیں رہا.دنیا میں صرف تم ہی ایک جماعت ہو، جو خدا تعالیٰ کے دین کے جھنڈے کو اٹھائے ہوئے ہو.تمہیں شکوہ ہوگا کہ تم ہی وہ لوگ ہو ، جنہیں خارج از اسلام کہا جاتا ہے.تم ہی وہ لوگ ہو، جن کے خلاف مولوی اکٹھے ہو کر کفر کے فتوے لگاتے ہیں.لیکن یہ شکوہ کی بات نہیں.اس سے تو تمہارے کام کی عظمت اور شان اور بھی بڑھ جاتی ہے.ایک شخص دین کی اس لئے خدمت کرتا ہے کہ اسے اس کا بدلہ ملے گا.ایک شخص دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا بدلہ نہیں ملتا.اور ایک شخص دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے نہ صرف اس کا بدلہ نہیں ملتا بلکہ الٹا اسے جھاڑیں پڑتی ہیں، اسے برا بھلا کہا جاتا ہے ، گالیاں دی جاتی ہیں.تم دیکھ لو ان تینوں میں سے کس کا درجہ بڑا ہوتا ہے؟ آیا اس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے، جو دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ ملتا ہے.یا اس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے، جو دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ نہیں ملتا.یا اس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے، جو دین کی خدمت کرتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسے اس کا بدلہ ہی نہیں ملتا بلکہ الٹا اسے جھاڑیں پڑتی ہیں، اسے گالیاں دی جاتی ہیں.صاف بات ہے کہ جو شخص ان حالات میں خدمت 308
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود و 23 جنوری 1953ء دین کرتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اسے اس خدمت کا معاوضہ نہیں ملتا بلکہ اسے الٹا جھاڑیں پڑتی ہیں، اسے گالیاں دی جاتی ہیں، اس کا درجہ ایمان اس شخص سے بلند ہے، جو خدمت دین کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ ملتا ہے یا خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ نہیں ملتا لیکن جھاڑیں بھی نہیں پڑتیں.در حقیقت محبت کامل کا معیار ہی یہی ہوتا ہے.اگر میں غلطی نہیں کرتا تو غالباً ابراہیم ادھم تھے ، جن سے دوزخ اور جنت کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا مجھے جنت اور دوزخ سے کیا غرض ہے؟ خدا تعالیٰ جہاں مجھے رکھنا پسند کرے گا، میں رہوں گا.اگر وہ مجھے جنت میں رکھنا پسند کرے گا تو میں جنت کو پسند کروں گا اور اگر وہ مجھے دوزخ میں رکھنا پسند کرے گا تو میں دوزخ ہی کو پسند کروں گا.پس جو شخص قطع نظر کسی معاوضہ کے دین کی خدمت کرتا ہے بلکہ نہ صرف قطع نظر کسی معاوضہ کے دین کی خدمت کرتا ہے بلکہ اسے معلوم ہے کہ اسے بجائے کسی معاوضہ کے الٹا جھاڑیں پڑیں گی اور اسے گالیاں کھانی پڑیں گی لیکن وہ پھر بھی خدمت سے باز نہیں آتا ، وہ یقینا خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کو جذب کرنے والا ہے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جب قیامت کے دن سب لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو انبیاء کے بعد سب سے مقدم وہ شخص ہوگا، جس کو دین کی خدمت کا نہ صرف یہ کہ معاوضہ نہ ملا بلکہ اسے جھاڑیں پڑیں، اسے گالیاں کھانی پڑیں لیکن وہ خدمت سے پھر بھی باز نہ آیا.اگر روزہ رکھنے والوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کہے گا کہ ان کا معاوضہ میں ہوں تو یقینا وہ لوگ ، جنہوں نے دین کی خدمت کی اور اس حالت میں خدمت کی کہ نہ صرف یہ کہ انہیں کوئی معاوضہ نہ ملا بلکہ انہیں جھاڑیں پڑیں ، انہیں برا بھلا کہا گیا، انہیں گالیاں دی گئیں، انہیں واجب القتل قرار دیا گیا، انہیں اخراج عن الوطن کی دھمکیاں دی گئیں.انہیں خدا تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا کہ اگر انسانوں کے پاس تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں تو تمہاری جگہ میری گود میں ہے.اور اگر انسانوں کے نزدیک تم واجب القتل قرار دئیے گئے تھے لیکن تم نے دین کی خدمت پھر بھی نہ چھوڑی تو تمہیں ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنا مجھ پر فرض ہے.پس تمہارے لئے خدا تعالیٰ نے اس نعمت کے دروازے کھولے ہیں، جس کے دروازے سینکڑوں سال سے دوسروں پر نہیں کھولے گئے.سینکڑوں سال گزر گئے اور دنیا اس نعمت سے محروم رہی.جب اسلام ترقی پر تھا، اس وقت اسلام کی خدمت کرنے والوں کی تعریف کی جاتی تھی ، ان کی قدر کی جاتی تھی.لیکن آج جب اسلام نہ صرف باطنی لحاظ سے بلکہ ظاہری لحاظ سے بھی گر چکا ہے.وہ نہ غیر مسلموں 309
خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کے نزدیک مقبول ہے، نہ مسلمانوں کے نزدیک مقبول ہے.خدا تعالیٰ اپنی قبولیت اور اپنا دست محبت تمہاری طرف بڑھاتا ہے، وہ تمہیں اپنی محبت اور پیار کی بشارت دیتا ہے.پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے فرائض کو ادا کرو.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو رحمتیں اور برکتیں تمہیں ملتی ہیں، ہم انہیں زیادہ سے زیادہ حاصل کر لو.ایسا زمانہ بہت کم آتا ہے.اور مبارک ہوتے ہیں وہ لوگ جو ایسے زمانے میں پیدا ہوتے ہیں.یہی لوگ نحوست سے دور اور خدا کی جنت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ جو کہا ہے کہ اس دن جنت قریب کر دی جائے گی ، اس کا بھی یہی مفہوم ہے کہ خدا تعالیٰ ایسی جماعت کھڑی کر دے گا ، جو دین کی خدمت کرے گی.اور نہ صرف یہ کہ اسے اس خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا، اسے جھاڑیں پڑیں گی ، اسے گالیاں دی جائیں گی ، دنیا اسے دھتکارے گی کہ وہ کیوں خدا تعالیٰ کی ہو گئی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے دین کی کیوں خدمت کر رہی ہے؟ اس لئے لازمی طور پر خدا تعالیٰ اسے قبول کرے گا.پس تم ان وقتوں کی قدر کرو اور اپنے لئے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر لو تا خدا تعالیٰ کے سامنے بھی تم سرخرو ہو جاؤ اور آئندہ نسلوں کے سامنے بھی تمہارا نام عزت سے لیا جائے“.( مطبوعه روز نامه الفضل 03 فروری 1953ء) 310
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1953ء ہماری جماعت غیر ممالک میں مساجد کے قیام کی اہمیت کو سمجھے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1953ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب زکوٰۃ کے احکام نازل ہوئے تو آپ نے ایک کے پاس جو مالدار تھا، اپنا نمائندہ روانہ کیا.تا کہ وہ اس سے زکوۃ وصول کرے.جب وہ نمائندہ اس شخص کے پاس پہنچا تو بجائے اس کے کہ وہ زکوۃ ادا کرتا ، اس نے کہا، کیا ہمارے اپنے خرچ تھوڑے ہوتے ہیں؟ ہم پر اتنے بوجھ پڑے ہوئے ہیں اور یہ اٹھتے ہیں تو کہتے ہیں، چندہ دے دو، زکوۃ دے دو.ان کو چندے اور زکوۃ لینے کی ہی پڑی رہتی ہے اور ہمارے بوجھ اور ذمہ واریوں کا خیال نہیں ہوتا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ اس شخص سے زکوۃ وصول نہ کی جائے.اس شخص کے دل میں ایک حد تک ایمان پایا جاتا تھا.کہنے کو تو اس نے یہ بات کہہ دی.لیکن چونکہ اس کے دل میں ایمان تھا، بعد میں اسے خیال پیدا ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے اور خدا تعالیٰ کا حق میں نے ادا نہیں کیا.چنانچہ وہ جلدی جلدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا، یا رسول اللہ! مجھ سے غلطی ہو گئی تھی، میں زکوۃ لایا ہوں ، اب مجھ سے زکوۃ لے لی جائے.آپ نے فرمایا ، اب نہیں.کیونکہ ہم نے حکم دے دیا ہے کہ تم سے زکوۃ وصول نہ کی جائے.اگر وہ آجکل کے لوگوں کی طرح ہوتا تو شاید خوش ہوتا کہ چلو چھٹکارا ہو گیا.مگر باوجود اس کے کہ وہ ضعیف الایمان تھا ، آجکل کے ایمان داروں سے وہ زیادہ ایمان دار تھا.چنانچہ اس انکار سے وہ خوش نہیں ہوا کہ چلو چھٹی ہو گئی بلکہ اس کے دل کو صدمہ پہنچا اور اس نے سمجھا کہ مجھ سے زکوۃ لینے سے جو انکار کیا گیا ہے، یہ میرے لئے سزا ہے، انعام نہیں.اور وہ افسوس اور ندامت کا اظہار کرتا رہا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوۃ وصول نہیں کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ حضرت ابو بکر کے زمانہ خلافت میں پھر ز کوۃ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.مگر حضرت ابوبکر نے فرمایا، جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوۃ وصول نہیں کی ، اس سے میں بھی زکوۃ وصول نہیں کر سکتا.اور وہ روتا ہوا واپس چلا گیا.311
خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1953 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم غرض انسان مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے اپنے حالات کو دیکھتا ہے.کئی غریب لوگ ہوتے ہیں، جنہیں دین کی خدمت کا موقع ملے تو وہ اتنے خوش ہوتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے انہیں کوئی بہت بڑی دولت مل گئی ہے.اور کئی آسودہ حال لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی جان نکلتی ہے اور دین کی خدمت کے لئے اپنا روپیہ خرچ کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے وہ اس طرح بھاگتے ہیں، جس طرح دیوانہ کتے سے انسان بھاگتا ہے.یہاں سندھ میں بھی میں نے دیکھا ہے، کنری اور بعض دوسرے مقامات پر جو احمدی دوست موجود ہیں، وہ الاماشاء اللہ قریباً سب کے سب ایسے ہیں، جو ہجرت سے پہلے مالی لحاظ سے مختلف قسم کی مشکلات میں مبتلا تھے.مگر ہجرت کے بعد ان کی مالی حالت اچھی ہوگئی.یا ہجرت سے پہلے ان کی کوئی تجارت نہیں تھی.یا اگر تجارت تھی تو اس میں نقصان ہی نقصان ہوا کرتا تھا.مگر کنری میں آئے تو انہیں دکانیں بھی مل گئیں ، زمینیں بھی مل گئیں اور ان کی تجارتیں کامیاب طور پر چل نکلیں.یا اگر پہلے ان کے پاس کوئی زمین نہیں تھی تو یہاں سلسلہ کی اسٹیٹس پر مزارعہ بن کر انہوں نے زمینیں خرید لیں.لیکن باوجود اس کے کہ یہاں کے لوگوں کی مالی حالت پہلے سے بہت زیادہ اچھی ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں ، ان لوگوں میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا احساس بہت کم ہے.مثلاً گذشتہ سال میں نے مختلف ممالک میں مساجد تعمیر کرنے کے لئے جماعت میں ایک تحریک کی اور میں نے کہا کہ وہ زمیندار، جن کی زمین دس ایکڑ سے کم ہے، وہ ایک آنہ فی ایکڑ کے حساب سے اور جن کے پاس اس سے زیادہ زمین ہے، وہ دو آنے فی ایکڑ کے حساب سے مسجد فنڈ میں چندہ دیں.اسی طرح وہ مزارع ، جن کے پاس دس ایکڑ سے کم مزارعت ہے، وہ دو پیسہ فی ایکڑ کے حساب سے اور اس سے زائد مزارعت والے، ایک آنہ فی ایکڑ کے حساب سے رقم ادا کریں.اسی طرح تاجروں کے متعلق میں نے کہا کہ جو بڑے تاجر ہیں، مثلاً منڈیوں کے آڑھتی ہیں یا کمپنیوں اور کارخانوں والے ہیں، وہ ہر مہینہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دیا کریں.اور جو چھوٹے تاجر ہیں، وہ ہر ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دیا کریں.(یہ تمام تفاصیل 16 مئی 52 ء کے خطبہ جمعہ میں درج ہیں، جو الفضل 3 جون 52ء میں شائع ہو چکا ہے.لیکن جہاں تک میر اعلم ہے، شاید ہی اس علاقہ میں سے کسی نے اس تحریک میں حصہ لیا ہو.( نبی سر روڈ کے احمدی تاجروں نے لکھا ہے کہ وہ اس پر عمل کر رہے ہیں، تحقیق بعد میں ہوگی.یا اگر کسی نے حصہ لیا ہے تو میرے سامنے اس کی مثال نہیں آئی.اوروں کو جانے دو، یہاں جو مالک زمیندار ہیں، ان کی طرف سے بھی اس تحریک میں کوئی حصہ نہیں لیا 312
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1953ء گیا.جہاں تک میری ذات کا سوال ہے، میں کہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں مجھ پر کوئی الزام نہیں.کیونکہ میں نے اپنے دفتر انچارج کو اس طرف متواتر توجہ دلائی ہے.مگر باوجود اس کے حقیقت یہی ہے کہ یہ چندہ میری طرف سے بھی ادا نہیں ہوا.(میرے اس خطبہ کے بعد میرے دفتر کے انچارج نے چندہ ادا کر دیا.( اور خود انجمن کی طرف سے بھی ادا نہیں ہوا.اسی طرح جو احمدی مزارع ہیں، انہوں نے بھی اس تحریک کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.گویا جہاں تک میر اعلم ہے، سندھ کے زمینداروں کا اس تحریک میں قریباً صفر حصہ ہے، یہی حال تاجروں کا ہے.کنری میں بھی اور نبی سر روڈ اور جھڈو میں بھی ہمارے احمدی تاجر پائے جاتے ہیں.مگر انہوں نے بھی غفلت سے کام لیا ہے اور اس چندہ کی اہمیت کو نہیں سمجھا.یہ چیز یا تو اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ انسان کے پاس جوں جوں پیسے آتے جاتے ہیں، وہ سست اور غافل ہوتا چلا جاتا ہے اور یا پھر اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ بعض لوگ اپنے آپ کو چودھری سمجھنے لگ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ جتنے حکم ہیں، وہ دوسروں کے لئے ہیں، ہمارے لئے نہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ آپ اپنے اوقات کا اکثر حصہ باہر ہی گزارتے تھے.یہ میری عادت نہیں اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسا کیا کرتے تھے.بہر حال چونکہ آپ زیادہ تر باہر ہی تشریف رکھتے تھے ، اس لئے جب آپ کی طبیعت علیل ہوتی تو چونکہ بیمار آدمی بعض دفعہ دوسروں کی موجودگی کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتا ہے، اس لئے جب آپ بیٹھے بیٹھے تھک جاتے تو فرماتے کہ اب لوگ چلے جائیں.اگر اس وقت ہیں، بائیں آدمی آپ کے پاس ہوتے تو یہ بات سن کر بارہ، تیرہ آدمی چلے جاتے اور آٹھ ، دس بیٹھے رہتے.آپ پانچ سات منٹ انتظار فرماتے اور پھر دوبارہ فرماتے کہ اب لوگ چلے جائیں، مجھے تکلیف ہورہی ہے.اس عرصہ میں دو، چار اور نئے آدمی آپ کی مجلس میں آکر بیٹھ جاتے تھے.آپ کی یہ بات سن کر چھ ، سات آدمی اور چلے جاتے اور چار، پانچ پھر بھی بیٹھے رہتے.اس پر آپ پانچ ، دس منٹ اور انتظار فرماتے اور پھر فرماتے کہ اب چودھری بھی چلے جائیں.یعنی میں دو دفعہ ایک بات کہہ چکا ہوں مگر ہر دفعہ کہنے کے بعد کچھ لوگ بیٹھے رہتے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ یہ حکم ہمارے لئے نہیں، دوسروں کے لئے ہے.گویا وہ اپنے آپ کو چودھری سمجھتے ہیں.اس لئے آپ فرماتے کہ اب چودھری بھی چلے جائیں.تو کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اپنے آپ کو چودھری سمجھتے ہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ تمام احکام دوسروں کے لئے ہیں، ان کے لئے نہیں.جب کہا جائے کہ چلے جاؤ تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اوروں کے لئے حکم ہے، ہمارے لئے نہیں.جب کہا جائے چندے دو تو وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو چندہ دینے 313
خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کا حکم دیا گیا ہے، ہمیں چندہ دینے کا حکم نہیں دیا گیا.جب کہا جائے احمدیت پر جو اعتراضات ہوتے ہیں، ان کے جوابات دو اور لوگوں کے بغض اور کینہ کو دور کرنے کی کوشش کرو تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم بھی دوسروں کے لئے ہے، ہمارے لئے نہیں.پس اس غفلت اور جمود کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بعض لوگ مغرور ہو جاتے ہیں اور جتنا جتنا پیسہ انہیں ملتا جاتا ہے، اتنا ہی وہ اپنے آپ کو خدائی احکام سے آزاد سمجھنے لگ جاتے ہیں.اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو حکم بھی دیا جائے ، اس کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کے لئے ہے ، ہمارے لئے نہیں.اس مسجد میں اس وقت دو، اڑھائی سو آدمی موجود ہے، اگر مجھے پیاس لگے تو معقول بات تو یہ ہوگی کہ میں کسی شخص کو مخاطب کر کے کہوں کہ میرے لئے پانی لاؤ لیکن اگر میں کسی کو مخاطب نہیں کرتا اور صرف اتنا کہہ دیتا ہوں کہ کوئی شخص پانی لائے تو دو، چار سو آدمیوں میں سے بعض دفعہ صرف ایک شخص اٹھے گا اور بعض دفعہ ایک بھی نہیں اٹھے گا.اور ہر شخص یہ خیال کرلے گا کہ یہ بات دوسروں سے کہی گئی ہے، مجھے نہیں کہی گئی.گویا وہ سب اپنے آپ کو چودھری سمجھنے لگ جائیں گے اور صرف ایک شخص ایسا ہوگا ، جو اپنے آپ کو اس حکم کا مخاطب سمجھے گا اور بعض دفعہ ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر خطیب ایسا فقرہ بولتا ہے تو اس کا یہ منشا نہیں ہوتا کہ ساری مجلس اٹھ کر چلی جائے اور وہ اکیلا مسجد میں رہے اور نہ اس فقرہ کو کلی طور پر پیچ قرار دیا جا سکتا ہے.حقیقتا اسے کسی ایک شخص کو مخاطب کرنا چاہئے اور بجائے مہم فقرہ استعمال کرنے کے، اسے کسی معین شخص کو کہنا چاہئے کہ وہ جائے اور پانی لائے.لیکن اگر وہ غلطی سے ایسا نہیں کرتا تو پھر اس فقرہ کا ہر شخص مخاطب ہوگا اور ہر شخص کا فرض ہوگا کہ وہ اٹھے اور پانی لائے.ہاں اگر انہیں تسلی ہو جائے کہ کوئی خص پانی لانے کے لئے چلا گیا ہے تو پھر باقی لوگ بیٹھ سکتے ہیں.لیکن جب تک یہ اطمینان نہ ہو، ہر شخص اس حکم کا مخاطب ہوگا اور ہر شخص کا فرض ہوگا کہ وہ اس کے مطابق عمل کرے.غرض چودھر بیت والا احساس کہ ہم مخاطب نہیں ، دوسرے لوگ مخاطب ہیں، ہمیشہ انسان کو نیکی سے محروم کر دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن مسجد میں تقریر فرمارہے تھے کہ بعض لوگ آئے اور کناروں پر کھڑے ہو کر تقریر سننے لگ گئے.ان کے بعد جو اور لوگ آئے ، وہ ان کھڑے ہونے والوں کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پوری طرح سن نہیں سکتے تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بعض لوگ بعض دوسرں کو تقریر سننے سے محروم کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا ، بیٹھ جاؤ.جب آپ نے فرمایا، بیٹھ جاؤ تو اس سے مراد وہی لوگ تھے ، جو آپ کے سامنے کھڑے تھے.مگر چونکہ آپ نے بلند آواز سے یہ بات کہی، آپ کی آواز باہر بھی پہنچ گئی.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ 314
خطبہ جمعہ فرمود و 10 جولائی 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم تعالی عنہ اس وقت تقریر سننے کے لئے آرہے تھے اور ابھی آپ مسجد کے باہر تھے کہ یہ آوازان کے کانوں میں پہنچ گئی.جب انہوں نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمارہے ہیں کہ بیٹھ جاؤ تو وہ اسی جگہ بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھٹتے ہوئے ، انہوں نے مسجد کی طرف بڑھنا شروع کر دیا.کوئی اور شخص پیچھے سے آیا تو اس نے کہا، عبداللہ بن مسعود! تم یہ کیا بچوں والی حرکت کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا، ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کانوں میں آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ ، اس لئے میں یہیں بیٹھ گیا.اس نے کہا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو نہیں دیکھا، انہوں نے تو ان لوگوں کو فر مایا ہو گا ، جو آپ کے سامنے کھڑے ہوں گے.اس لئے آپ اس حکم کے مخاطب نہیں ہو سکتے.انہوں نے کہا ٹھیک ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو فرمایا ہے کہ بیٹھ جاؤں مگر زندگی کا اعتبار نہیں.میں نے سمجھا کہ اگر اس جگہ پہنچنے سے پہلے پہلے میری جان نکل گئی اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ایک حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تم نے نہیں مانا تو میں اس کا کیا جواب دوں گا؟ اس لئے خواہ یہ حکم میرے لئے ہو یا نہ ہو، میں نے سمجھا کہ جب یہ آواز میرے کان میں پڑ گئی ہے تو اب میرا فرض ہے کہ میں اس پر عمل کروں.اسی طرح ایک دفعہ صحابہ بیٹھے تھے اور شراب پی رہے تھے.اس وقت تک ابھی شراب کی منا ہی کا حکم نازل نہیں ہوا تھا.کوئی شادی تھی، جس کی خوشی میں شرابیں پی جارہی تھیں اور گانے گائے جارہے تھے.کہ اتنے میں شراب کی حرمت کا حکم نازل ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عام طریق یہی تھا کہ جب آپ پر کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو آپ مسجد میں تشریف لاتے اور ذکر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے پر یہ وحی نازل ہوئی ہے.پھر جو لوگ وہاں موجود ہوتے ، وہ آپ سے سن کر آگے دوسرے لوگوں میں بات پھیلا دیتے اور اس طرح سب میں مشہور ہو جاتی.اس دن آپ مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام قرار دے دیا ہے.جو لوگ وہاں موجود تھے، وہ یہ سنتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے اور جس گلی کوچہ میں سے گذرتے ، یہ اعلان کرتے جاتے کہ شراب حرام ہوگئی ہے.جب اعلان کرنے والا اس گلی میں سے گذرا ، جہاں لوگ دعوت کھا رہے اور شرابیں پی رہے تھے اور وہ ایک مٹکا ختم کر چکے تھے اور دوسرا من کا شروع کرنے والے تھے، یہاں تک کہ بعض لوگ مخمور ہو چکے تھے اور بعض مخمور ہونے کے قریب تھے تو اس نے وہاں بھی اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ نے آج سے شراب حرام کر دی ہے.جب یہ آواز ان کے کانوں میں پڑی تو ایک صحابی نے دوسرے سے کہا کہ ذرا اٹھ کر اس شخص سے پوچھو تو سہی کہ کیا بات ہے؟ اور کیا واقع میں شراب حرام ہوگئی ہے؟ جس شخص سے یہ بات کہی گئی تھی ، اس نے بجائے اعلان کرنے 315
خطبہ جمعہ فرموده 10 جولائی 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم والے سے دریافت کرنے کے سوٹا اٹھایا اور زور سے شراب والے مٹکے پر مار کر اسے توڑ دیا اور کہا، پہلے میں شراب کا مٹکا توڑوں گا اور پھر اس سے پوچھوں گا کہ کیا حکم ہے؟ یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے ایک بات بیان کی جارہی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ پہلے اس پر عمل کریں اور پھر اگر تحقیقا کرنا چاہیں تو بے شک تحقیقات کریں.غرض زندہ قوموں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے افراد کے اندر اپنی ذمہ واریوں کا احساس ہو.ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنی ہے اور جہاں ہم تبلیغ اسلام کریں گے، وہاں لاز ما مساجد بھی بنانی پڑیں گیں اور اسلام کے نشانات بھی قائم کئے جائیں گے.اور یہ کام ہماری جماعت کے افراد نے ہی کرنا ہے.اس لئے سب کا فرض ہے کہ خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، اس ذمہ واری کی ادائیگی کے لئے اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھیں.لیکن اگر ہر شخص چودھری بن جائے اور یہ کہے کہ یہ کام دوسرں نے ہی کرنا ہے، میں نے نہیں کرنا تو یہ کام کس طرح ہوگا؟ پس اپنے اندر قربانی کا مادہ پیدا کرو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہر وقت زندہ رکھو.مسلمان صرف چھ ، سات سو تھے ، جب ان کی قربانیوں سے ساری دنیا گونج اٹھی تھی یا کم سے کم عرب کا علاقہ گونج گیا تھا.اور پھر جب وہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہو گئے تو ساری دنیا ان کی قربانیوں سے گونج اٹھی.تو اب تو ساٹھ کروڑ مسلمان ہے لیکن دنیا پھر بھی اسلام سے ناواقف ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ آج ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کی اشاعت کی ذمہ داری دوسروں پر ہے، اس پر نہیں.لیکن جب وہ ہزاروں یالا کھوں کی تعداد میں تھے تو ہر فرد کے دل میں یہ احساس تھا کہ اسلام کو میں نے ہی پھیلانا ہے.یہی حال ہماری جماعت کا ہے.ہماری جماعت کی تعداد تھوڑی ہے لیکن اسلام کی اشاعت کی ذمہ واری اس نے اپنے اوپر عائد کی ہوئی ہے.اور اسلام کی اشاعت یا مبلغوں کے ذریعہ ہوگی اور یا مساجد کے ذریعہ ہوگی.غیر ممالک میں مساجد کے پاس سے جب بھی گزرنے والے گزریں گے سوال کریں گے کہ یہ کیا عمارت ہے؟ اس پر لوگ انہیں بتائیں گے کہ یہ مسجد ہے.وہ پوچھیں گے کہ مسجد کیا چیز ہوتی ہے؟ اس پر انہیں بتایا جائے گا کہ عیسائیوں میں گرجے ہوتے ہیں، اسی طرح مسلمانوں نے اپنی عبادت کے لئے مسجدیں بنائی ہوئی ہیں.اور چونکہ مسجد ان کے لئے ایک بالکل نئی چیز ہوگی ، وہ اس کے دیکھنے کی طرف مائل ہو جائیں گے.کیونکہ انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ کوئی نئی چیز آ جائے تو لوگ اس کو دیکھنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں.آخر یہ تماشا گا ہیں اور سیر گاہیں، جن میں لوگوں کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے، یہ کیا چیز ہیں؟ اور کیوں ان کی طرف لوگ کھچے چلے جاتے ہیں؟ صرف اس لئے کہ یہ ایک نئی چیز ہوتی ہے.آدمی 316
تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1953ء وہی ہوتے ہیں ، گھوڑے وہی ہوتے ہیں، شیر، چیتے وہی ہوتے ہیں لیکن سرکس آ جائے تو سب لوگ اسے دیکھنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں.کیونکہ ان کے کانوں میں یہ آواز پڑتی ہے کہ سرکس میں گھوڑے پر کھڑے ہو کر اس کو دوڑایا جاتا ہے.اور چونکہ یہ نئی چیز ہوتی ہے، اس لئے لوگ اس کو دیکھنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں.یہاں تک کہ سرکس جب گاؤں میں چلے جاتے ہیں تو لوگ اس کو دیکھنے کے لئے اپنے برتن تک بیچ ڈالتے ہیں.یا مثلا تھیٹر کو ہی لے لو.آدمی وہی ہوتے ہیں، مگر انہوں نے کسی کا نام ہریش چندر رکھا ہوا ہوتا ہے اور کسی کا نام سکندر رکھا ہوا ہوتا ہے، کسی کا نام دار ارکھا ہوا ہوتا ہے اور کسی کا نام با بر رکھا ہوا ہوتا ہے.اور وہ ایک کھیل کھیلتے ہیں.چونکہ یہ دیکھنے والوں کے لئے ایک نئی چیز ہوتی ہے، اس لئے وہ تھیٹر دیکھنے کے لئے بے تاب ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب مسجد کے پاس سے گذرنے والا شخص پوچھتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اور اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی مسجد ہے.تو وہ حیران ہو کر دریافت کرتا ہے کہ مسجد کیا ہوتی ہے؟ اس پر لوگ اسے بتاتے ہیں کہ جیسے گر جا میں تم لوگ جمع ہو کر عبادت کرتے ہو، اسی طرح مسلمان مسجدوں میں اکٹھے ہو کر عبادت کرتے ہیں.جب اسے یہ بات بتائی جاتی ہے تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ مجھے دیکھنا تو چاہئے کہ مسلمان کیا کرتے ہیں؟ اور وہ اپنے دل میں سوچتا ہے کہ کبھی فرصت ملی تو میں مسجد کوضرور دیکھوں گا.ایسے سو آدمی بھی اگر مسجد کے سامنے سے گذرتے ہیں تو وہ سو کے سوا اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم فرصت ملنے پر کسی دن مسجد دیکھنے کے لئے ضرور آئیں گے.مگر پھر ان سو میں سے نوے بھول جاتے ہیں اور دس کو توفیق مل جاتی ہے.اور وہ کسی وقت مسجد دیکھنے کے لئے آ جاتے ہیں.وہاں امام موجود ہوتا ہے.وہ مسجد دیکھنے کے بعد اس سے سوال کرتے ہیں کہ اسلام کیا چیز ہے؟ تم لوگ عیسائی کیوں نہیں ہو جاتے ؟ اسلام میں عیسائیت سے بڑھ کر کیا بات پیش کی جاتی ہے؟ اور وہ ان باتوں کا جواب دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان دس میں سے ایک شخص ایسا بھی نکل آتا ہے، جس کے دل پر زیادہ گہرا اثر پڑتا ہے اور وہ بار بار مسجد میں آتا اور امام سے ملنا شروع کر دیتا ہے.اور آخر وہ مسلمان ہو جاتا ہے.تو مسجد بھی ایک مبلغ ہے، جس طرح مبلغ ، ایک مبلغ ہے.پس ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ غیر ممالک میں مساجد کے قیام کی اہمیت کو سمجھے اور اس کے لئے ہرممکن جدوجہد اور قربانی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرے.یورپ میں اسلام کا بہترین اشتہار مسجد ہے.بلکہ عیسائی ممالک کے لئے ہی نہیں، ہندو ممالک کے لئے بھی اور چینی ممالک کے لئے بھی اور جاپانی ممالک کے لئے بھی مسجد ایک عجوبہ ہے.جس طرح لوگ پرانے مقابر اور محلات 317
خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1953 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم دیکھنے کے لئے جاتے ہیں، اسی طرح وہ مسجد دیکھنے کے لئے جاتے ہیں.اور جب وہ جاتے ہیں تو ان کا امام سے تعلق ہو جاتا ہے اور تبلیغ اسلام کا رستہ کھل جاتا ہے.جب تک ہماری جماعت اپنے اس فرض کو نہیں سمجھتی ، اس وقت تک اس کا یہ امید کر لینا کہ وہ اسلام کو دنیا پر غالب کرنے میں کامیاب ہو جائے گی ، غلط ہے.اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوگی، جیسے چھپکلی کی دم کاٹ دی جائے تو وہ دم تھوڑی دیر کے لئے تڑپ لیتی ہے، لیکن پھر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے.ہمیں سوچنا چاہئے ، آیا تو ہماری غرض صرف اتنی ہی تھی کہ ہم دنیا میں شور مچادیں.اور اگر یہی ہماری غرض تھی تو یہ کام ہم نے کر لیا ہے، اب ہمیں کسی مزید کام کی ضرورت نہیں.اور یا پھر ہماری غرض یہ تھی کہ ہم دنیا میں اسلام پھیلا ئیں.اور اگر یہی ہماری غرض ہے تو اس کے لئے متواتر قربانیوں اور جدوجہد اور نیک نمونہ کی ضرورت ہے.اور ہماری تبلیغ تھی کا میاب ہو سکتی ہے، جب ہمارا عملی نمونہ اسلامی تعلیم کے مطابق ہو.اگر ہمارے اندر دیانت پائی جاتی ہے، اگر ہمارے اندر سچائی پائی جاتی ہے، اگر ہمارے اندر نیک چال چلن پایا جاتا ہے، اگر ہمارے اندر معاملات کی صفائی پائی جاتی ہے تو ہر شخص ، جو ہمیں دیکھے گا ، وہ سمجھے گا کہ اس جماعت کے ساتھ مل کر دین کی خدمت کی جاسکتی ہے.لیکن اگر ہمارا نمونہ اچھا نہیں تو وہ کہے گا کہ دور کے ڈھول سہانے“.باتیں تو ہم بڑی سنتے تھے لیکن پاس آکر دیکھا تو ہمیں معلوم ہوا کہ اس کا پھل ایسا میٹھا نہیں.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور چندہ مساجد کی تحریک میں حصہ لو.اگر ہماری جماعت کے تمام لوگ اس چندہ میں حصہ لینا شروع کر دیں تو ہر سال ایک خاص رقم اس غرض کے لئے جمع ہو سکتی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ جہاں پاکستان کی اور سب جماعتوں میں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے، وہاں اس جگہ ہر شخص اپنے آپ کو چودھری سمجھتا ہے.اور وہ خیال کرتا ہے کہ یہ تحریکات دوسروں کے لئے ہیں، اس کے لئے نہیں.اب میں اس سفر میں دیکھوں گا کہ یہاں کی جماعتوں نے اس چندہ میں کس حد تک حصہ لیا ہے؟ اسٹیوں کے دورہ کے وقت مالکان زمین کے متعلق بھی یہ دیکھا جائے گا کہ انہوں نے اس تحریک میں کتنا حصہ لیا ہے؟ اور دوکانداروں کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ انہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے یا نہیں لیا ؟ آخر وہ تجارت کرتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں.وہ بتائیں کہ اس عرصہ میں انہیں کوئی آمدنی ہوئی ہے یا نہیں؟ کوئی نفع ہوا ہے یا نہیں؟ اگر ہوا ہے تو انہوں نے خدا کا حق کیوں ادا نہیں کیا؟ چھوٹے تاجروں کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ ہر ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دیا کریں.فرض کرو، ان کے ایک دن میں نہیں سودے ہوتے ہیں تو سات دن میں ایک سو چالیس سودے ہوئے ، اور چونکہ ہفتہ کے ایک دن کے 318
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1953ء ایک سودے کا منافع اس تحریک کے لئے رکھا گیا ہے، اس لئے اس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں اپنے نفع کا 1/140 حصہ دینا پڑا.اور ایک سو چالیسواں حصہ دینا ہر گز کوئی ایسا بوجھ نہیں، جو کسی معمولی سے معمولی تاجر کے لئے بھی نا قابل برداشت ہو.اسی طرح وہ زمیندار ، جن کے پاس دس ایکڑ سے زیادہ زمین ہے، ان کے لئے دو آنہ فی ایکڑ کے حساب سے چندہ دینا، کوئی بڑی بات نہیں.دس ایکڑ سے کم زمین والوں کے لئے صرف ایک آنہ فی ایکڑ کے حساب سے چندہ مقرر کیا گیا ہے.اسی طرح مزار عین کے لئے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جن کے پاس دس ایکڑ سے کم مزارعت ہو، وہ دو پیسہ فی ایکڑ کے حساب سے اور اس سے زائد مزارعت والے ایک آنہ فی ایکٹر کے حساب سے رقم ادا کریں.اگر کوئی سولہ ایکٹر کاشت کرے تو سولہ ایکٹر کے حساب سے صرف ایک روپیہ اسے ادا کرنا پڑے گا.اگر چوہیں ایکٹر کاشت کرے تو ڈیڑھ روپیہ دینا پڑے گا.اسی طرح مالکوں میں سے اگر کسی کے پاس سو ایکڑ زمین ہے تو اسے دوسو آنہ دینا پڑے گا اور اگر ہزار ایکڑ ہے تو دو ہزار آنہ دینا پڑے گا.اور سو ایکٹر پر دوسو نہ یا ہزار ایکڑ پردوہزار آ نہ دے دینا، کوئی بڑی بات نہیں.یہ اس قسم کا ہلکا اور آسان چندہ ہے کہ جنسی خوشی سے ایک لاکھ روپیہ سالانہ چندہ جمع ہوسکتا ہے.مگر اب یہ حالت ہے کہ لاکھ امریکہ میں مسجد کے لئے زمین خریدی گئی تو باوجود اس کے کہ تین سال گذر گئے ، اب تک زمین کی قیمت کا بھی چندہ نہیں ہوا.پچھلے سال یہ تحریک کی گئی تو پچیس ہزار چندہ جمع ہوا.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ساری جماعت حصہ لیتی تو ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ آنا چاہئے تھا.36-35 ہزار پہلے آیا ہوا تھا، گویا صرف ساٹھ ہزار روپیہ امریکہ کی مسجد کے لئے آیا ہے.حالانکہ ایک لاکھ ، چالیس ہزار کی صرف زمین تھی اور قریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ بھی مسجد کی تعمیر کے لئے اس پر اور خرچ ہوگا.موجودہ رفتار کو مدنظر رکھتے ہوئے ، اگر جماعت میں موجودہ اخلاص برابر قائم رہے تو دس سال میں صرف امریکہ کی مسجد کے لئے چندہ جمع ہو سکتا ہے.حالانکہ اگر سب دوست با قاعدهہ چندہ دیں تو دس سال میں تین، چار مسجدیں بن سکتی ہیں.اور امریکہ کی مسجد بڑی آسانی سے دو، اڑھائی سال میں تیار ہو سکتی ہے.یہ چیز اپنی ذمہ واری کے احساس کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.جتنا جتنا کسی میں اپنی ذمہ واری کا احساس ہوتا ہے، اتنا ہی اس کے اندر جوش اور قربانی کا مادہ پایا جاتا ہے.اگر ہمارے یہ دعوے جھوٹے ہیں کہ ہم نے دنیا میں اسلام کی اشاعت کرنی ہے تو ہمیں ساری دنیا سے لڑائی مول لینے کی بجائے ان کے ساتھ مل جانا چاہئے.اور جس طرح وہ مردہ ہیں، اسی طرح خود بھی مردہ بن جانا چاہئے.اور اگر ہمارے اندر زندگی کے آثار ہیں اور ہم اپنے دعوؤں میں بچے ہیں تو پھر ہمیں یہ نہیں دیکھنا پڑے گا کہ ہمارے 319
خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1953 ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم حالات کیا ہیں؟ اور ہم پر کس قدر بوجھ پڑے ہوئے ہیں؟ بلکہ ہمیں آخر دم تک دین کی خدمت کے لئے اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار رہنا پڑے گا.اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو ہر قسم کی قربانی کے لئے پوری بشاشت کے ساتھ تیار رہتے ہیں.ہماری جماعت میں ایک غریب سقہ تھا.جب بھی چندہ کی کوئی تحریک ہوتی وہ فوراً آجاتا اور کچھ نہ کچھ چندہ دے دیتا.اس کی تنخواہ صرف تمہیں روپے ماہوار تھی.مگر آہستہ آہستہ اس کے چودہ ، پندرہ روپے چندہ میں جانے لگے.اور وہ ہر نئی تحریک پر اصرار کرتا کہ اس میں میرا بھی حصہ شامل کیا جائے.وہاں کے امیر جماعت نے مجھے لکھا کہ ہم اس کو بار بار سمجھاتے ہیں کہ تمہاری مالی حالت کمزور ہے، تم ہر تحریک میں حصہ نہ لیا کرو.ہر تحریک غرباء کے لئے نہیں ہوتی.مگر وہ کہتا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ چندہ کی تحریک ہو اور پھر میں اس میں حصہ نہ لوں؟ اس لئے آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ اسے روکیں.چنانچہ میں نے اسے پیغام بھجوایا کہ آپ چندوں میں اس قدر زیادہ حصہ نہ لیا کریں.تب کہیں جا کر وہ رکا.تو ایسے لوگ ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں، مگر ان کی تعداد کم ہے.زیادہ تر وہی لوگ ہیں، جو اپنے آپ کو چودھری سمجھتے ہیں اور جن کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں.وہ احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں، بغیر اس کے کہ اس امر پر غور کریں کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ اور بغیر اس کے کہ اس امر پر غور کریں کہ احمدیت کی وجہ سے ان پر کیا ذمہ واریاں ہیں ؟ مگر یہ وہ لوگ نہیں، جن سے احمدیت ترقی کرے گی.یہ وہ لوگ نہیں ، جن کے ذریعہ اسلام دنیا میں پھیلے گا.احمدیت اگر پھیلے گی اور اسلام اگر ترقی کرے گا تو انہیں لوگوں کے ذریعہ، جو سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کرنا ہے، ہم نے ہی کرتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم سے اپنے دین کی خدمت کا کوئی کام لے رہا ہے تو یہ ایک انعام ہے، جو ہم پر کیا جارہا ہے.اور اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ایسے زمانہ میں ہم کو اسلام کی خدمت کے لئے چنا، جبکہ اسلام کمزور ہورہا ہے اور مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں.ایسے ہی لوگ ہیں، جو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے جائیں گے اور ان کے نام اسلام کے مجاہدین میں شمار کئے جائیں گئے“.( مطبوعہ روز نامہ الصلح 22 جولائی 1953 ء) 320
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 24 جولائی 1953ء ہماری جائیدادیں تبھی فخر کا موجب ہو سکتی ہیں ، جب وہ خدا کے کام آئیں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 1953ء ی دولت اور زمین اسی وقت مفید ہو سکتے ہیں اور یہ احمدی اس وقت بابرکت ہو سکتے ہیں، جب یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے کام آئے.صرف ہمارے کام آنا ، ہمارے لئے کسی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا.یوں تو عیسائیوں کے پاس بھی بڑی جائیدادیں ہیں، ہندوؤں کے پاس بھی بڑی جائیدادیں ہیں، یہودیوں کے پاس بھی بڑی جائیداد میں ہیں.اور اسی طرح اور کئی قوموں کے پاس بڑی جائیدایں ہیں.اگر اسی رنگ میں ہمارے پاس بھی کچھ جائیدادیں ہو جائیں تو یہ ہمارے لئے کسی فخر کا موجب نہیں ہو سکتیں.ہماری جائیدادیں ہمارے لیے تبھی فخر کا موجب ہو سکتی ہیں اور تبھی ہم ان کے ملنے پر خوشی محسوس کر سکتے ہیں، جب وہ خدا کے کام آئیں.اور خدا تعالیٰ کے کام ہمارے اموال اور ہماری جائیدادیں اسی رنگ میں آسکتی ہیں، جب ہم لوگوں کو کے دلوں کو خدا تعالیٰ کی طرف مائل کر سکیں، ان کے کینہ اور بغض کو دور کر سکیں اور وہ خود ہم سے حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کریں.اور جب وہ ہمارے قریب آئیں تو ہمارے عملی نمونہ کو دیکھ کر ان کے دل بالکل صاف ہو جا ئیں بغض ان کے دلوں سے نکل جائے اور وہ صداقت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.پھر یہاں کی زمین اس طرح بھی خدا کے کام آسکتی ہے کہ یہ زمین ہمیں اتنا نفع دینے لگے کہ اس کی آمد سے ہم بیرونی ممالک میں اور زیادہ تبلیغی مشن قائم کر دیں.ہمارے بیسیوں مشن عیسائی ممالک میں ہوں، بیبیوں مشن ہندوستان میں ہوں ، بیسیوں مشن سکھوں میں کام کر رہے ہوں ، بیسیوں مشن چینیوں میں کام کر رہے ہوں، بیسیوں مشن جاپانیوں میں کام کر رہے ہوں.غرض تمام دنیا میں اشاعت اسلام ہو رہی ہو اور ہر جگہ محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام بلند کیا جارہاہو.مگر ابھی یہ زمینیں ہمیں اتنا نفع نہیں دے رہیں.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب سے دسواں حصہ کم روپیہ یہ زمینیں ہمیں دے رہی ہیں.پنجاب میں ایک مربع عام طور پر اڑھائی ہزار روپیہ سالانہ ٹھیکہ پر چڑھتا ہے.ہمارے ایک دوست ہیں، جن کے سات مربعے ہیں اور وہ سات مربعے 21 ہزار روپیہ ٹھیکے پر 321
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک چڑھے ہیں.تحریک جدید کا سندھ میں چار سو مربع ہے.اس لحاظ سے اسے بارہ لاکھ سالانہ کی آمدن ہونی جدید کاسندھ اسے بارہ کی چاہئے.لیکن ان زمینوں نے صرف پچھلے دو سالوں میں ایک لاکھ روپیہ دینا شروع کیا ہے.غرض پنجاب اور سندھ کی زمینوں کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں.وہاں بعض دفعہ ایک ایک مربع پانچ پانچ ، سات سات ہزار روپیہ پر بھی چڑھ جاتا ہے.اگر پانچ ہزار روپیہ پر یہاں بھی ایک مربع چڑھے تو تحریک جدید کو ہیں لاکھ روپیہ اور اگر سات ہزار پر چڑھے تو 28 لاکھ روپیہ ملنا چاہئے.مگر ہمیں صرف ایک لاکھ روپیہ ملتا ہے.پس جہاں تک آمد کا سوال ہے، یہاں کی زمینوں کی آمد، پنجاب کی آمد کے پاسنگ بھی نہیں.بلکہ پنجاب کی آمد کے مقابلہ میں بیسواں حصہ بھی نہیں.جتنی زمین سے وہاں ہیں روپے کمائے جاتے ہیں، اتنی زمین سے یہاں ایک روپیہ بھی نہیں کمایا جا سکتا.پس وہ دن تو ابھی دور ہے، جب اس زمین سے ہمیں اس قدر نفع حاصل ہونا شروع ہو جائے کہ ہم دنیا کے گوشہ گوشہ میں اپنے تبلیغی مشن قائم کر سکیں.المصد ( مطبوع روزنامه اصبح 23 ستمبر 1953 ء ) 322
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1953ء جس قدر قربانی کرو گے، اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتے چلے جاؤ گے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1953ء.آج میں حسب دستور سابق تحریک جدید کے وعدوں کے لئے جماعت میں تحریک کرنا چاہتا ہوں.پہلے دفتر کے لوگوں کے لئے بھی، کہ جن کے لئے ابتدا تین سالوں کی تحریک کی گئی اور ان تین سالوں کو بعض لوگ ایک ہی سال سمجھتے رہے.پھر وہ تحریک دس سال تک ممتد کی گئی.پھر اس کے لئے 19 سال کی حد لگائی گئی.اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ انہیں سال بھی پورے ہو جاتے ہیں.اس اثناء میں تحریک جدید کے کام کو وسیع کرنے کے بعد خدا تعالیٰ نے میرا ذہن اس طرف پھیرا کہ تمہارے منہ سے جو عر صے بیان کروائے گئے تھے ، وہ محض کمزور لوگوں کو ہمت دلوانے کے لئے تھے.ورنہ حقیقتا جس کام کے لئے تو نے جماعت کو بلایا تھا، وہ ایمان کا ایک جزو ہے.اور ایمان کو کسی حالت میں اور کسی وقت بھی معطل نہیں کیا جا سکتا اور اسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جاسکتا.جس خدا نے آسمان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کر کے مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی تلقین فرمائی، جس خدا نے آسمان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کر کے مسلمانوں کو زکوۃ کی تلقین فرمائی، جس خدا نے آسمان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کر کے مسلمانوں کو روزے رکھنے کی تلقین فرمائی، جس خدا نے آسمان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کر کے مسلمانوں کو حج کی تلقین فرمائی ، اسی خدا نے آسمان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی کہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے اور کوئی روح ایسی باقی نہ رہے، جس تک خدا تعالیٰ کا کلام پہنچ نہ جائے.اس نے اپنے کلام میں اس تعلیم کا نام جہاد رکھا.اور اپنے پیارے رسول کو مخاطب کر کے فرمایا.وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا تو اس قرآن کے ذریعہ ساری دنیا کے لوگوں کے ساتھ جہاد کر.پس اگر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آؤ! میری خاطر 19 سال نماز پڑھ لو، اگر کوئی شخص یہ کہہ سکتا کہ آؤ! میری خاطر 19 سال زکوۃ دے لو، اگر کوئی شخص یہ کہ سکتا کہ آؤ! میری خاطر 19 سال تک روزے 323
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم رکھ لوتو وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میری خاطر 19 سال اشاعت اسلام میں حصہ لے لو.لیکن اگر کسی شخص کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے یہ کہے کہ تم میری خاطر 19 سال نماز ادا کرلو یا یہ کہے کہ تم میری خاطر 19 سال زکوۃ دے لو یا میری خاطر تم 19 سال روزے رکھ لو تو اس کے لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ کسی کو 19 سال کے لئے تبلیغ اسلام اور جہادروحانی کے لئے بلائے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ تم نے خود جماعت کو 19 سال کے لئے تبلیغ اسلام اور جہاد روحانی کے لئے بلا کر اس فعل کا ارتکاب کیا ہے.تو میرا جواب یہ ہوگا کہ اس فعل کا ارتکاب تو میں نے نہیں کیا ، ہاں اس جرم کا مرتکب ضرور ہوا ہوں.کیونکہ زمانہ تبلیغ اسلام اور جہادروحانی کے فرض کو اتنا بھول گیا تھا اور لوگ اس سے تنے غافل اور نا واقف ہو گئے تھے کہ میری عقل نے بھی خیال کیا کہ 19 سال تک کی کوششوں کے بعد ان کے گناہوں کا ازالہ ہو جائے گا.لیکن 19 سال کام کرنے کے بعد مجھے اس کا یہ انعام ملا کہ میرا دماغ روشن ہو گیا اور میں نے اپنی غلطی محسوس کرلی کہ میرا 19 سال کی جہادروحانی کے لئے تحریک کرنا لغو بات تھی.پس مجھے تو نقد جز امل گئی تم کو تو تمہاری قربانیوں کے بدلہ میں اگلے جہاں انعام ملے گا لیکن مجھے اس کا انعام نقد و نقد مل گیا ہے.میں نے خیال کیا تھا کہ شائد 19 سال کے بعد میں تم کو فارغ کر سکوں گا لیکن 19 سال ختم ہونے سے پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے نور بخشا اور میں نے اپنی غلطی کو محسوس کر لیا اور سمجھا کہ میرا 19 سال کے لئے تحریک کرنا لغو بات تھی.جس طرح نماز، روزہ اور زکوۃ ایک مسلمان پر قیامت تک کے لئے فرض ہیں، جہاد روحانی اور تبلیغ اسلام بھی اس پر قیامت تک کے لئے واجب اور فرض ہے.پس میری مثال اس شخص کی سی ہوگئی ، جو ایک ایسا درخت نگار ہاتھا، جو بہت دیر میں پھل دینے والا تھا.بادشاہ اس جگہ سے گزرا، اس کا وزیر بھی ساتھ تھا اور وزیرکو بادشاہ کا یہ حکم تھا کہ جب میں کسی شخص کے کام پر خوش ہو کر زہ یعنی مرحبا یا آفریں کا لفظ کہہ دوں تو اسے تین ہزار درہم دے دیا کرو.بادشاہ نے جب اس بڑھے کو دیر سے پھل دینے والا درخت لگاتے دیکھا تو اس نے کہا بڈھے کیا تیری عقل ماری گئی ہے کہ تو یہ درخت لگا رہا ہے؟ یہ درخت تو بڑی دیر سے پھل دیتا ہے.جب یہ درخت پھل لائے گا، اس وقت سے پہلے تم قبر میں جا پڑو گے.بڑھے نے کہا بادشاہ سلامت! آپ کہتے ہیں کہ میں یہ کام کیوں کر رہا ہوں ؟ حالانکہ یہی کام میرے باپ دادا نے بھی کیا تھا.اگر یہی خیال میرے باپ دادا کو بھی آتا تو وہ یہ درخت نہ لگاتے اور آج میں اس کا پھل نہ کھاتا.انہوں نے یہ درخت لگایا اور ہم نے پھل کھایا.اب میں یہ درخت لگاؤں گا اور میرے بچے اس کا پھل کھائیں گے.پھر وہ یہ درخت لگائیں گے اور ان کی اولا د پھل کھائے گی.جب 324
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم 66 اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1953ء شروع سے یہ طریق چلا آرہا ہے کہ باپ درخت لگاتا ہے اور اولا داس کا پھل کھاتی ہے تو میں اس کے خلاف کس طرح کر سکتا تھا ؟ میں یہ درخت لگا رہا ہوں تا میری اولاد اس کا پھل کھائے.بادشاہ نے یہ جواب سن کر کہا ”زہ.واقع میں اس بڑھے نے درست کہا ہے.اگر پرانے لوگ یہ درخت نہ لگاتے تو ہم اس کا پھل نہ کھاسکتے.بادشاہ نے زہ" کہا تو اس کے حکم کے ماتحت وزیر نے تین ہزار درہم اس دہقان کے سامنے رکھ دیئے.وہ بڑھا تھا بڑا ہوشیار ، اس نے جھٹ کہا، بادشاہ سلامت! آپ تو فرماتے تھے کہ تو مر جائے گا اور اس درخت کا پھل نہیں کھائے گا لیکن میں تو ابھی اس درخت کو لگا کر گھر بھی نہیں گیا اور اس کا پھل کھا لیا ہے.بادشاہ نے پھر کہا " زہ.اور وزیر نے تین ہزار درہم کی ایک دوسری تھیلی اس کے سامنے رکھ دی.اس پر بڑھے نے کہا، بادشاہ سلامت! آپ تو فرماتے تھے کہ تو مر جائے گا اور اس درخت کا پھل نہیں کھائے گا.لوگ درخت لگاتے ہیں تو سالوں بعد وہ پھل لاتا ہے.اور لوگ اس کا پھل سال میں ایک دفعہ کھاتے ہیں.لیکن میں نے ایک گھنٹہ میں دو دفعہ اس کا پھل کھا لیا.بادشاہ نے کہا "زہ.اور وزیر نے تین ہزار درہم کی ایک اور تھیلی اس کے سامنے رکھ دی.اس پر بادشاہ نے وزیر سے کہا، یہاں سے جلدی چلو، ورنہ یہ بڑھا تو ہمیں لوٹ لے گا.پس اس بڑھے کی طرح مجھے بھی ہاتھوں ہاتھ انعام مل گیا.یہ ایک ایسی غلطی تھی، جس کا موجب مسلمانوں کا جمود اور ستی تھی.میں نے خیال کیا کہ 19 سال تک کام کرنے کی وجہ سے یہ جمود ، غفلت اور ستی دور ہو جائے گی.حالانکہ 19 ہزار سال تک بھی یہ کام کیا جاتا تو اس کو ختم کرنے کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا تھا.فرض کر لو، اس دنیا کی زندگی ابھی 19 لاکھ سال ہے.تو جس طرح نماز، روزے، زکوۃ اور حج 19 لاکھ سال تک جائیں گے تحریک جدید بھی 19 لاکھ سال تک جائے گی.اگر فرض کر لو کہ دنیا کی زندگی ابھی 19 ہزار سال ہے.تو جس طرح نماز، روزے، زکوۃ اور حج 19 ہزار سال تک جائیں گے، تحریک جدید بھی 19 ہزار سال تک جائے گی.اگر فرض کر لو کہ دنیا کی زندگی ابھی 19 سو سال ہے.تو جس طرح نماز، روزے، زکوۃ اور حج 19 سو سال تک جائیں گے تحریک جدید بھی 19 سو سال تک جائے گی.تحریک جدید نام تو تمہارے اندر ایک امنگ پیدا کرنے کے لئے رکھا گیا ہے، ورنہ ہے یہ وہی چیز جو وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا میں بیان کی گئی ہے کہ تو قرآن کو لے کر ساری دنیا میں جہاد کر.قرآن کریم میں متعدد بار نیکی کو پہنچانے، پھیلانے اور اس کی تبلیغ کرنے کے ارشاد آئے ہیں.اور ان کی تعداد کم نہیں.جیسے نماز، روزہ اور 325
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم زکوۃ کے لئے قرآن کریم میں احکام نازل ہوئے ہیں، ویسے ہی جہاد روحانی اور تبلیغ اسلام کے متعلق بھی ارشادات نازل ہوئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اس کی جو تعریف کی ہے، وہ تھوڑی نہیں.ایک دفعہ آپ نے حضرت علی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، اے علی ! یہ سامنے دونوں پہاڑوں کے درمیان جو وادی نظر آتی ہے، اگر اس وادی میں اونٹ اور گھوڑے بھرے ہوں اور وہ سب اونٹ اور گھوڑے تجھے مل جائیں تو یہ کتنی بڑی بات ہے.پھر فرمایا ، اگر تجھے اتنے اونٹ اور گھوڑے مل جائیں تو اس سے بہت زیادہ یہ دولت ہے کہ کسی ایک انسان کو تیرے ذریعہ ہدایت مل جائے.دیکھو ! تبلیغ کرنے اور دوسروں کو ہدایت کی طرف لانے کی کتنی فوقیت اور عظمت آپ نے بیان فرمائی ہے.پس یہ وہ کام ہے، جس کو کسی وقت بھی چھوڑ انہیں جاسکتا.پس میں 19 سال کا دور ختم ہونے پر یہ مانتے ہوئے کہ میں نے یہ کہا تھا کہ 19 سال کے بعد یہ دور ختم ہو جائے گا، یہ جانتے ہوئے کہ میں نے یہ الفاظ کہہ کر تمہارے اندر یہ امید پیدا کر دی تھی کہ اس عرصے کے بعد یہ مالی بوجھ تمہاری پیٹھ سے اتر جائے گا، بیسویں سال کے وعدوں کی تحریک کرتا ہوں.چاہے تم یہ کہ لو کہ میں بے شرم ہو کر پھر مانگتا ہوں.یا یہ سمجھ لو کہ میں اب زیادہ نور پا کر آ گیا ہوں.یا پہلے میں غلطی کا مرتکب ہوا تھا اور اب خدا تعالیٰ نے مجھے غلطی سے نکال لیا ہے.تم یوں بھی کہہ سکتے ہو اور یوں بھی کہہ سکتے ہو.میری مثال وہی ہے ، جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا اور اس کے بعد طائف کی لڑائی ہوئی اور فتح کے بعد غنیمت کے اموال آئے تو آپ نے مکہ والوں کو نئے مسلمان سمجھ کر ان کی استمالت قلب کے لئے اور انہیں اپنی طرف کھینچنے کے لئے اور تالیف قلوب کے لئے اموال ان میں تقسیم کر دئیے.اس پر مدینہ کے انصار میں سے ایک نوجوان نے کہا، خون تو ہماری تلواروں کے سروں سے ٹپک رہا ہے اور اموال آپ نے اپنے رشتہ داروں اور خاندان کے افراد میں تقسیم کر دیئے ہیں.یہ بات آپ تک بھی پہنچی.آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا، اے انصار! مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم میں سے بعض لوگوں نے یہ بات کہی ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اموال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیئے ہیں.انصار نے کہا، یا رسول اللہ ! یہ درست ہے کہ ہم میں سے بعض نو جوانوں نے ایسا کہا ہے.لیکن ہم ان سے متفق نہیں ہیں.آپ نے فرمایا، انصار ! جو بات کسی کے منہ سے نکل گئی ، نکل گئی.اے انصار ! تم یہ کہہ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے ، 326
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم جب بڑے ہو کر آپ نے دعوی نبوت کیا تو قوم نے آپ کو رد کر دیا.مکہ والوں نے آپ کو دھتکار دیا اور اپنے گھر سے نکال دیا.ہم جو غیر تھے اور سینکڑوں میل دور رہتے تھے، ہم نے آپ کو پناہ دی اور آپ " کو مکہ والوں کے خلاف مدد دی.مکہ والے غصہ میں آکر مدینہ پہنچے اور آپ پر حملہ کیا.اس پر ہم آپ کے دائیں بھی لڑے اور بائیں بھی لڑے، آگے بھی لڑے اور پیچھے بھی لڑے، ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے آپ کا وطن فتح کر کے دیا.مگر جب ہمارے خونوں سے آپ کی عزت قائم ہوئی اور آپ کا وطن مکہ فتح ہوا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا اور ہمیں اس سے محروم کر دیا.انصار ایک بڑی مومن قوم تھے.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی باتیں سنتے جاتے تھے اور آہ وزاری سے ان کی ہچکیاں بندھتی جاتی تھیں.انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم نے یہ نہیں کہا ، ہم میں سے بعض بے وقوف نو جوانوں نے ایسا کہا ہے، بڑوں نے یہ بات نہیں کہی ، ہم سب اس سے بیزار ہیں.آپ نے فرمایا، اے انصار! اس مسئلہ کا ایک دوسرا رخ بھی ہے.تم یوں بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ نے اپنا آخری نبی مکہ میں بھیجا اور اس کی وجہ سے مکہ والوں کو عزت بخشی گئی.لیکن مکہ والوں کی بدقسمتی اور ان کے بد اعمال کی وجہ سے وہ اپنے رسول کو مدینہ لے گیا.اور جو نعمت مکہ کے لئے مقدر تھی ، وہ مدینہ کو دے دی گئی.پھر خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوئے اور غیر معمولی نشانوں کی مدد سے اس نے اپنے رسول کو فتح نصیب کی.جب اس نے مکہ فتح کر لیا اور کفر کو وہاں سے نکال دیا تو مکہ والوں کو یہ امید پیدا ہوئی کہ ان کی نعمت انہیں واپس مل جائے گی.لیکن ہوا یہ کہ مکہ والے تو اونٹ اور بکریاں ہانک کر لے گئے اور مدینہ والے خدا تعالیٰ کے رسول کو اپنے ساتھ لے گئے.کیونکہ باوجود مکہ فتح ہونے کے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینہ نہیں چھوڑا.پس آپ نے فرمایا، اے انصار ! تم اس طرح بھی کہہ سکتے ہو.انصار کی روتے روتے پھر ہچکیاں بندھ گئیں اور کہا، یا رسول اللہ ! ہم نے یہ بات نہیں کہی.اسی طرح آج انہیں سال کے بعد یہ بھی ہوسکتا تھا کہ میں تمہارے اموال واپس کر دیتا اور کہتا ، 19 سال تک جو مال تم نے دیا، وہ مال تم لے جاؤ اور اپنے گھروں میں رکھو.مگر جیسا کہ فتح مکہ کے بعد ہوا، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ میں کہتا مال اور دولت کی کوئی قیمت نہیں ہم مال اور دولت اپنے گھروں میں نہ لے جاؤ بلکہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اپنے گھروں میں لے جاؤ تم میں سے کوئی شخص مجھے بیوقوف سمجھے یا عقلمند سمجھے، لیکن میں نے تمہارے لئے دوسری چیز کو قبول کیا.جب 19 سال ختم ہونے کو آئے تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں تحریک جدید کو اس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک کہ تمہار ا سانس قائم ہے.تا خدا تعالیٰ کا 327
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم فضل اور اس کی رحمت صرف 19 سال تک محدود نہ رہے بلکہ وہ تمہاری ساری عمر تک چلتی چلی جائے.اور جس کی ساری زندگی تک خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعام جاتے ہیں، اس کے مرنے کے بعد بھی وہ اس کے ساتھ جاتے ہیں.پس میں پھر تم کو تحریک جدید کے وعدوں کی طرف بلاتا ہوں.ان کو بھی ، جن کو ابتدائی دور میں حصہ لینے کی توفیق ملی اور ان کو بھی ، جو بعد میں آئے اور وہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں یا انہیں کوشش کرنی چاہئے.میں نے سوچا ہے کہ اب تحریک جدید کی یہ شکل کر دی جائے کہ ہر دفتر جو بنے گا، اس کے دور اول اور ثانی بنتے چلے جائیں اور ہر ایک 19 سال کا ہو.جن احباب نے بچپن سے وعدے کئے تھے ممکن ہے کہ انہیں چار یا پانچ دور میں حصہ لینے کی توفیق مل جائے.مثلاً اگر چار دور میں حصہ لینے کی کسی کو توفیق ملے تو 19 کو 4 سے ضرب دینے سے 76 سال بن جاتے ہیں.اب اگر کسی شخص نے 13 سال کی عمر میں تحریک جدید میں حصہ لیا ہو اور چار دوروں میں شریک رہا ہو اور 80 سال اس کی عمر ہو تو وہ چار دوروں میں شامل ہو جائے گا.اور اگر کوئی شخص 90 سال یا 100 سال کی عمر کو پہنچ جائے تو وہ پانچ دوروں میں شامل ہو سکتا ہے.اس کے بعد دوسرے لوگ بھی اسی طرح 19-19 سال کے دوروں میں حصہ لیتے چلے جائیں گے.19 سال میں، میں نے جو حکمت رکھی تھی، میں اسے بدلنا نہیں چاہتا.ہر دور کے بعد ایک کتاب لکھی جائے ، جس میں تمام حصہ لینے والوں کے نام محفوظ کئے جائیں.اور اس کتاب کو جماعت کی لائبریریوں اور مساجد میں رکھا جائے.تا آئندہ آنے والے اسے پڑھیں، اپنی قربانیوں کا اس سے مقابلہ کریں اور دیکھیں کہ انہوں نے کس روح سے کام کیا ہے؟ اس وقت تک دفتر دوم نے قربانی کا وہ نمونہ نہیں دکھایا، جس کی ان سے امید کی جاتی تھی.دفتر دوم کے افراد کی قربانی دفتر اول کے افراد کی قربانی سے نصف بھی نہیں.اگر دفتر اول کے چندہ کی نسبت، ان کی آمد کا بارہواں، دسواں یا آٹھواں حصہ بنتی ہے تو دور دوم کے چندے کی نسبت ، دور اول کے چندہ کی نسبت کا 1/4 یا 1/2 ہو گی.اس کی یہی وجہ ہے کہ اگر چہ ہمارے نو جوان تنخواہوں کے لحاظ سے پہلوں سے بہت بڑھ گئے ہیں لیکن ان کے تحریک جدید کے وعدے تم ہیں اور وصولی اور بھی کم ہے.جب کتاب چھپے گی تو دفتر دوم والوں کو معلوم ہوگا کہ ان کی قربانیاں ان کے بزرگوں کی نسبت کتنی گری ہوئی ہیں؟ اسی طرح یہ 19 سال کا دور انگلوں میں تحریک کرتا جائے گا.ہر 19 سالہ دور کے بعد حصہ لینے والوں کی نسبت نکالی جائے گی اور اسے کتاب میں محفوظ رکھا جائے گا.تا آئندہ آنے والے اس سے سبق حاصل کریں اور اپنی قربانیوں کو پہلے لوگوں کی نسبت سے زیادہ بڑھائیں.328
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1953ء میں آخری وعدوں کی میعاد مقرر نہیں کرتا.کیونکہ میں ابھی دفتر سے بات نہیں کر سکا اور نہ پچھلے سالوں کی تاریخیں مجھے یاد ہیں.یہ تاریخیں غالباً مارچ تک جاتی ہیں.ہاں جماعت کو یا درکھنا چاہئے کہ تحریک جدید کی وصولی اس سال نہایت خطرناک طور پر کم رہی ہے.ممکن ہے، اگر وصولی کا یہی حال رہا تو کام رک جائے.ابھی تک صرف چھ ماہ کا خرچ ادا ہوا ہے اور ابھی چھ ماہ باقی ہیں.لیکن جو خرج متوقع ہے، اس کے مقابلہ میں خزانہ میں جو روپیہ ہے، وہ بہت کم ہے.بجائے اس کے کہ آئندہ چھ ماہ کا خرچ جمع رہتا، کیفیت یہ ہے کہ مجھے ڈر آ رہا ہے کہ موجودہ رقم سے ہم خرج ادا نہیں کر سکیں گے.اور اگر یہی حالت رہی اور دو، تین ماہ کا خرچ قرض اٹھا کر کرنا پڑا تو تحریک جدید ایسی لپیٹ میں آجائے گی، جس سے نکلنا ، اس کے لئے مشکل ہوگا.تحریک جدید کی جائیدادا بھی اس کے خرچ میں مدد نہیں کر سکتی.ابھی تک قرضے اتارے جارہے ہیں.ان اخراجات کی وجہ سے، جو اس جائیداد کی خرید کے سلسلہ میں اس پر ہوئے یا اس وقت تحریک جدید نے بعض قرضے لئے تحریک جدید پر ساڑھے آٹھ لاکھ کا قرض تھا.اس لئے جائیداد سے جو آمد ہوتی ہے، وہ قرضہ اتارنے میں خرچ ہو جاتی ہے.میں سمجھتا تھا کہ تحریک جدید دفتر دوم اور جائیداد کی آمد دونوں کو ملا کر قرضے اتارے جائیں گے.لیکن اب تو اتنا بوجھ پڑ گیا ہے کہ دفتر اول سے 80 فیصد رقم دینے کے بعد بھی اخراجات پورے نہیں ہوتے.پس میں ان دوستوں کو، جن کے ذمہ بقائے ہیں، توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بقائے جلد ادا کر دیں.وہ مجھے یہ بات یاد نہ دلائیں کہ اس وقت مشکلات بہت زیادہ ہیں.یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے.تم کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی معلوم ہے.تم بھی اسی ملک کے رہنے والے ہو اور میں بھی اسی ملک کا رہنے والا ہوں تم میں سے اکثر کی آمد کے ذرائع بھی وہی ہیں، جو میرے ہیں.یعنی تمہاری آمدنی کا ذریعہ بھی زمینداری ہے اور میری آمدنی کا ذریعہ بھی زمینداری ہے.بلکہ میری زمین ایسے علاقہ میں ہے، جس کی فصل اس سال قطعی طور پر ماری گئی ہے اور یہ سال اس علاقہ کے زمینداروں کے لئے بغیر قرض لئے بظاہر گزارنا مشکل ہے.الا ماشاء الله.پس میں یہ چیز بھی جانتا ہوں، اس کے دوہرانے کی ضرورت نہیں.لیکن تم بھی یہ جانتے ہو کہ باوجود ان مشکلات کے تم اپنے بیوی بچوں کو خرچ دے رہے ہو تم اپنے گھر کے تمام اخراجات چلا رہے ہو تم تعلیم کے اخراجات چلا رہے ہو.اگر تم با وجود ان مشکلات کے اپنے سارے کام کر رہے ہو اور سمجھتے ہو کہ شاید اللہ تعالیٰ اگلے سال ہمیں فراخی دے دے تو جیسے تم دوسرے کام کرتے ہو، یہ کام بھی کر لو.آخر اس قسم کی تباہیاں ہمیشہ نہیں آیا کرتیں.آٹھ ، دس سال کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ شدید 329
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم بارش ہو جائے اور فصل تباہ ہو جائے.لیکن ہر سال ایسا نہیں ہوتا.یہی ہوتا ہے کہ کسی سال پندرہ ہیں فیصدی فصل زیادہ ہو گئی اور کسی سال اس قدر فصل کم ہو گئی.یہ تباہی کی فصل پچنیں ہمیں فی صدی تک آ جائے ، جس کی وجہ سے اخراجات تو سب اٹھانے پڑیں لیکن نفع کا حصہ سارا ضائع ہو جائے، کیونکہ مالیہ وغیرہ تو دینا ہی پڑتا ہے، یہ ہمیشہ نہیں ہوتا.پچھلے سال ہمارے ملک میں کپاس کم ہوئی ، زمیندار بہت گھبرائے.اس سال بھی ایسا ہی ہوا ہے.پھر پچھلے سال جہاں کپاس کم پیدا ہوئی، وہاں قیمتیں بھی بہت زیادہ گر گئیں.مگر کسی کے خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ گندم کی قیمت یکدم بڑھ جائے گی.چنانچہ سات روپے من سے ساڑھے بارہ روپے من تک وہ پہنچ گئی بلکہ کئی علاقوں میں پندرہ سولہ روپے فی من کے حساب سے گندم کی.اب اگر کپاس کی فصل اچھی نہ ہونے اور بھاؤ گر جانے کی وجہ سے کسی زمیندار کی آمد 300 کی بجائے 150 روپے رہ گئی تھی تو گندم کے مہنگا ہونے کی وجہ سے اس کی آمد 300 کی بجائے 600 | ہو گئی.اور اس طرح کپاس کی قیمت کی کمی نے زمیندار کی آمد کوکم نہ کیا بلکہ گندم کی قیمت کی بڑھوتی نے اس کی آمد کو اور زیادہ کر دیا.پس جو کی ایک فصل کی خرابی کی وجہ سے ہوئی، اسے دوسری فصل نے دور کر دیا.اس سال بھی یہی سنے میں آرہا ہے کہ اس علاقہ کی کپاس کی فصل قریباً تباہ ہوگئی ہے.اللہ تعالی اس کمی کو دور کرنے کے سامان پیدا کرے گا.ممکن ہے گندم یا دوسری فصلوں مثلاً کماد میں جو ابھی بیلا نہیں گیا اور اس سے گڑ نہیں نکالا گیا، اس سے اتنی آمد ہو جائے کہ کپاس کی تباہی کی وجہ سے آمد میں جو کمی ہوئی ، وہ دور ہو جائے.اور پھر ممکن ہے بعض علاقوں میں کپاس کی فصل اچھی ہوئی ہو.آمدنوں کا اندازہ خیالی باتوں پر نہیں رکھنا چاہئے.یہ عقل کی بات نہیں کہ ایک سال بعض اتفاقی واقعات کی بنا پر قیمت چڑھ جائے تو آئندہ سال اپنی آمدن کا اندازہ اس اتفاقی قیمت پر رکھ لیا جائے.جو لوگ خیالی قیمتوں پر اپنی آمد کا اندازہ لگاتے ہیں، وہ ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں.مثلاً پچھلے سے پچھلے سال کپاس کی قیمت 40 روپے من ہوگئی تھی اور اس سے پہلے اس کی قیمت 55 روپے من تک پہنچ گئی تھی.اب جو شخص اپنی آمد کا اندازہ اس قیمت کے لحاظ سے لگائے گا ، وہ حماقت کرے گا.کپاس کی اصل قیمت سات ، آٹھ سے دس روپے فی من ہوتی ہے، 55 روپے نہیں ہوتی.ان قیمتوں کامل جانا تو ایسا ہی ہے، جیسے کسی شخص کو بازار سے گزرتے ہوئے روپوں کی تحصیلی مل جائے.پس ہمیں اپنے اخراجات کا اندازہ لگاتے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کپاس کی قیمت سات، آٹھ یا حد سے حد دس روپے فی من ہے اور گندم کی قیمت پانچ ، چھ روپے فی من ہے.اگر لوگ ایسا کریں گے تو ان کے حالات درست ہو جائیں گے اور وہ اپنی آمد کو بڑھانے کی ضرورت محسوس کریں گے.330
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1953ء یہی فصل یورپ اور امریکہ میں بھی ہوتی ہے لیکن وہ لوگ ہم سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں.جب جاپان میں پاکستانی وفد گیا تو اگر چہ اس میں کسی حد تک مبالغہ بھی تھا لیکن اس وفد کی یہ رپورٹ تھی کہ وہاں فی خاندان تین ایکڑ زمین ہوتی ہے لیکن اس کی آمد 6000 روپے سالا نہ ہوتی ہے.یہ قیمت ہمارے ملک کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے.یہ آمد ہم سے 20 گنے زیادہ ہے.ہمارے ملک میں جس شخص کے پاس ایک مربع زمین ہوتی ہے اور اس کو پانی وغیرہ خوب ملتا ہے تو اسے خوشحال سمجھا جاتا ہے.ایک مربع کو تین ایکڑ زمین سے ایک اور آٹھ کی نسبت ہے.جاپان کی آمد میں اور ہمارے ملک کی آمد میں ہیں گنے کا فرق ہے.یہ فرق اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے سوچا، غور کیا، محنت کی اور اپنے حالات کو درست کرنے کے بعد ایسی تدابیر نکالیں، جس سے ان کی آمد ہم سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئی.جو لوگ 55 روپیہ فی من کے حساب سے کپاس کی آمد کا اندازہ لگاتے ہیں، انہیں آمد بڑھانے کے متعلق سوچنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی.جب وہ کپاس کی قیمت سات آٹھ روپیہ فی من لگا ئیں گے اور گندم کی قیمت پانچ ، چھ رو پیرنی من لگائیں گے تو انہیں اپنی آمد بڑھانے کی فکر ہوگی اور اس سے یقینا انہیں فائدہ ہوگا.حال ہی میں، میں نے مکئی کے متعلق تحقیقات کی ہے.میں امریکہ سے مکئی کا پیج منگوانا چاہتا تھا.ہمارے مبلغ ہو.این او کے ماہرین زراعت کو ملے تو انہیں معلوم ہوا کہ اس زمانہ میں ایسے بیج بھی ایجاد ہوئے ہیں، جن سے 50 من سے 100 من تک فی ایکڑ پیداوار ہوتی ہے.اب تم سمجھ لو کہ ہماری آمد کو ان کی آمد سے کیا نسبت ہے؟ یہاں کی کی پیداوار دس من سے بیس من تک ہے.اچھے اچھے علاقوں میں 30 35 من فی ایکڑ ہے.گویا تمہاری اونی پیداوار یعنی دس من کے مقابلہ میں ان کی پیداوار 50 من ہے.اور تمہاری اعلیٰ پیداوار 20 من کے مقابلہ میں ان کی پیداوار 100 من ہے.اب تم سمجھ لو کہ اگر ایک شخص کے پاس 14 ایکڑ زمین ہو اور وہ اس میں سے 12 یکٹر میں مکی بولے تو اسے سومن فی ایکڑ کے حساب سے دو سو من مکی حاصل ہو گی.اب اگر یکی کی قیمت 5 روپے فی من بھی فرض کر لی جائے تو تین سو من مکی سے اسے 1500 روپے مل جائیں گے اور اس کے پاس دوا یکٹر زمین پھر بھی رہ جائے گی.فرض کر لو وہ پھر ایک ایکٹر میں گنا بوتا ہے، اب گڑ کے لحاظ سے مدر اس سے ماریشس تک الگ الگ نسبتیں ہیں.بعض ملکوں میں تین ، چار سو من بھی گڑ حاصل ہو جاتا ہے.بلکہ گنے کے حساب سے تو یہاں تک ترقی کی گئی ہے کہ ایک دفعہ کا بویا ہوا گنا، گیارہ گیارہ سال تک کام آتا ہے.اب اگر 300 من گرفی ایکٹر فرض کر لیا جائے تو 12 ایکڑ سے 600 من گڑ میسر آ جائے گا.اگر گڑ کی پرانی قیمت بھی لگا و یعنی پانچ روپے فی من بھی لگالو تو اس کی آمد 3000 روپے کی ہوگی.331
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم اور اگر مکی کی قیمت 1500 روپے اس رقم میں شامل کر دئیے جائیں تو کل آمد 4500 روپے کی ہوئی اور زمین صرف تین ایکڑ تھی.یہ معمولی آمد ہے، جو دوسرے ملکوں میں پیدا کی جاتی ہے.پس بجائے مہنگا انتاج فروخت کرنے کے اگر یہ کوشش کرو کہ تمہیں اچھے پیج مل جائیں ، پھر زمین میں اچھے بل دیئے جائیں اور پانی دیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا.لیکن اگر قیمت کا اندازہ پہلے ہی 50 روپے فی من لگالیا جائے تو زمیندار کو فصل زیادہ کرنے کی کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ اتنی زیادہ قیمت ہر سال نہیں ملتی.ہر سال جو حالات ہوتے ہیں، ان کو مد نظر رکھا جائے تو قیمت یہی ہوگی.بہر حال اگر کسی ملک میں کسی سال غلہ کم ہوتا ہے تو وہ تکلیف اٹھاتا ہے اور اگلے سال ضرور فصل زیادہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.مگر حکومتی معیار پر یہ بات کبھی کامیاب نہیں ہوتی.اس میں زمیندار کا تعاون لازمی ہے.اس کے تعاون کے بغیر حکومت کی سب تدبیر پیچ جاتی ہے.دیکھ لو، اس دفعہ امریکہ سے غلہ منگوایا گیا.لیکن گورنمنٹ کے تمام افسر پیداوار زیادہ کرنے کے لئے زور لگا رہے ہیں.اور جب ملک میں غلہ بڑھ جائے گا اور باہر سے غلہ کم آئے گا تو اس کی قیمت گر جائے گی.پچھلی جنگ کے بعد گندم کی قیمت سوار و پیہ فی من تک پہنچ گئی تھی.ایک دفعہ لائل پور کے ایک خوشحال زمیندار قادیان آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میری سر سکندر حیات صاحب کے پاس سفارش کریں.(وہ ان دنوں ریو نیومنسٹر تھے.) میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ حکومت مجھ سے ساری گندم لے جائے لیکن گرفتار نہ کرے.اس سال گندم کی قیمت اتنی کم ہے کہ میں ریو نیوس را ادا نہیں کر سکتا.پچھلے سال زیورات بیچ کر میں نے مالیہ ادا کیا تھا.اس سال زیورات بھی نہیں ہیں، مجھے قید ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ میں سخت کانگریسی رہا ہوں.اس وقت مجھے آپ کے سوا کوئی نظر نہیں آیا ، جس کے سامنے دست سوال دراز کروں.آپ اتنی مہربانی کریں کہ ان کے پاس میری یہ سفارش کر دیں کہ حکومت ساری گندم لے لے اور باقی مالیہ مجھ پر قرض رکھے.کیونکہ میں اس کے ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.یہ بات بہت ہی تکلیف دہ تھی.میں نے سردار سکندر حیات صاحب کو خط لکھا کہ اگر یہ واقعات صحیح ہیں تو ہر شریف آدمی کا دل رحم سے بھر جائے گا.آپ اس واقعہ کو دیکھ لیں، اگر یہی حالات ہوں تو محض اس لئے کہ وہ کسی وقت کانگریسی تھا یا اب کانگریسی ہے، اسے مارنے سے کوئی فائدہ نہیں.وہ آدمی شریف الطبع تھے، انہوں نے چوتھے یا پانچویں دن اس کا جواب لکھوایا.انہوں نے خود تو خط نہ لکھا بلکہ میاں محمد ممتاز صاحب دولتانہ کے والد محروم سے لکھوایا.جن کے مجھ سے بھی دوستانہ تعلقات تھے اور سردار سکندرحیات صاحب سے بھی 332
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم دوستانہ تعلقات تھے.انہوں نے لکھا کہ جن صاحب کے نام آپ ) از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 953 آئی تھی، انہوں نے کہا ہے کہ آپ کے مشورہ کے مطابق کام کر دیا جائے گا.بہر حال اس وقت گندم کی قیمت گر جانے کی وجہ سے یہاں سیک نوبت پہنچی تھی کہ ایک شخص ، جو آسودہ حال تھا، وہ ضلع لائل پور میں نہایت اعلیٰ سات آٹھ مربعوں کا مالک تھا لیکن گندم کی قیمت اتنی گر گئی تھی کہ ساری گندم کے دے دینے کے بعد بھی حالیہ رہ جاتا تھا اور وہ ادا نہیں کر سکتا تھا.بہر حال قبل از جنگ اوسط قیمت گندم کی تین ساڑھے تین روپے فی من تھی.اب حالت یہ ہے کہ میرا خیال ہے کہ 6-5 روپے فی من سے قیمت نہیں گرے گی.پس فصل کی قیمت بڑھانے کی بجائے ہمیں پیداوار کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ کام ہم نہیں کرتے.ہم فصل کی قیمت بڑھا کر اپنی آمد کو زیادہ کرتے ہیں.حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ ہم اپنی فصل بڑھا کر آمد بڑھاتے.مثلاً کپاس اور گڑ ہے.گڑ کی پیداوار ہمارے ملک میں پچاس سے سومن فی ایکڑ ہے لیکن یہ بھی خاص ضلعوں میں.لیکن ان ممالک میں 300 من فی ایکڑ پیداوار ہے.تم اسے مہنگا کر لو تو سارا ملک چیختا ر ہے گا.لیکن اگر اس کی مقدار زیادہ کر لوتو 1500 روپے فی ایکڑ آمد ہو سکتی ہے.یہ سب باتیں میں جانتا ہوں اور ان کے جواب بھی جانتا ہوں.بلکہ زمینداروں کو تو میں کہتا ہوں کہ جو تباہیاں تمہاری فصلوں پر آئی ہیں، وہ میری فصلوں پر بھی آئی ہیں.جن حالات سے تم گزرے ہو، انہی حالات سے میں بھی گزرا ہوں.اس لئے تم یہ نہ کہو کہ ہماری آمد کم ہو گئی ہے.میں جانتا ہوں کہ اگر تمہاری آمد ایک طرف سے کم ہو جاتی ہے تو دوسری طرف بڑھنے کے امکان بھی ہوتے ہیں.ہمیں زمین اور زمینی چیزوں سے صلح نہ رکھنی چاہئے.ہمیں اس ہستی سے صلح کرنی چاہئے ، جس نے زمین کو پیدا کیا ہے، جس نے طاقت پیدا کی ہے.اگر تم اس سے صلح کرو گے، اگر تم اسے اپنی قربانیوں سے خوش کرو گے تو وہ زمین سے سونا اگلوائے گی اور تمہارے گھروں کو آرام اور راحت سے بھر دے گی.خدا تعالیٰ جب کہتا ہے کہ جنت میں مومنوں کو ایسی نہریں ملتی ہیں، جن میں دودھ اور شہر چلتا ہے.خدا تعالیٰ جب کہتا ہے کہ مومنوں کو جنت میں صاف و شفاف محل ملتے ہیں.خدا تعالیٰ جب کہتا ہے کہ جنت میں مومن جو چیز مانگیں گے ، وہ انہیں میسر آ جائے گی.انہیں جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ غذا ئیں ملیں گی.تو ہمارا خدا صرف اگلے جہاں کا ہی خدا نہیں ، وہ اس جہاں کا بھی خدا ہے.اگر تم اس کے بتائے ہوئے طریق پر چلو اور محنت سے کام کرو تو اس دنیا میں بھی وہ تمہیں دودھ اور شہد کی نہریں دے گا.اس دنیا میں بھی وہ تمہارے لئے فراوانی کے سامان پیدا کر دے گا اور تم اس کی رحمتوں اور فضلوں کو دیکھ لو گے.لیکن اگر یہ ہو کہ جس دن تمہارے پاس روپیہ آئے ، 333
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اسی دن تم خدا تعالی کی نافرمانی کرنے لگو غریبوں پر ظلم کرنے لگو زمین پر اکڑ کر چلنے لگو، ہمسایوں سے میٹھے منہ بات بھی نہ کرو تو وہ تم پر کیوں فضل کرے گا ؟ وہ تمہیں اس دنیا میں جنت کیوں دے گا ؟ جب کہ تم نے خود دوزخ لے لیا.وہ کہے گا میں جنت تھا تم نے مجھے اپنے دلوں سے نکال دیا اور شیطان، جو دوزخ تھا، اسے اپنے دلوں میں جگہ دے دی.پیس اپنے عظیم الشان مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اور یہ یادرکھتے ہوئے کہ جس قدرتم قربانی کرتے ہو، اس قدر تم خدا تعالیٰ کے قریب ہو جاؤ گے.اور یہ جانتے ہوئے کہ تمہاری ان حقیر قربانیوں کی وجہ سے ہر جگہ مجھے نیچا دکھانے والے ناکام رہے، تم خوشی اور بشاشت سے آگے بڑھو اور پہلے سے بڑھ چڑھ کر وعدے لکھواؤ.تا دنیا میں اشاعت اسلام ہو سکے ور تمہارا نام مجاہدوں کی فہرست میں لکھا جائے“.مطبوع روز نامها صبح 11 دسمبر 1953ء) 334
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 04 دسمبر 1953ء ہر فرد کی زندگی کا سب سے اہم کام تبلیغ واشاعت اسلام ہونا چاہیے خطبہ جمعہ فرمودہ 04 دسمبر 1953ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گزشتہ جمعہ میں، میں نے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا تھا.اس وقت میں نے وقت کی تعیین نہیں کی تھی کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے وعدے کس تاریخ تک مرکز میں آجانے چاہیں؟ آج میں عارضی طور پر مغربی پاکستان کے لئے 15 فروری کی تاریخ مقرر کرتا ہوں اور مشرقی پاکستان کے لئے آخر مارچ کی تاریخ مقرر کرتا ہوں.یعنی ان تاریخوں تک ان علاقوں سے وعدے مرکز میں پہنچ جانے چاہیں.اگر بعد میں صیغہ کی سفارش کے مطابق اس میعاد کو بڑھانا پڑا تو بڑھادیا جائے گا.میں جیسا کہ پچھلے سال کہہ چکا ہوں اور اس سال بھی میں نے کہا ہے، تحریک اپنے نئے نام کی وجہ سے کوئی نئی چیز نہیں بن جاتی بلکہ یہ وہی چیز ہے، جس کے متعلق قرآن کریم نے ہر مسلمان کو توجہ دلائی ہے اور جو کام کرنا، خدا تعالیٰ نے ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے.قرآن کریم نے امت محمدیہ کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ اس کا ہر فرد دوسرے لوگوں کو خیر کی طرف بلاتا ہے.اور اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ سب سے بڑی خیر قرآن کریم اور اسلام ہے.لوگ تو محض اپنے تعلق کی وجہ سے ایک ناقص چیز کو بھی اچھا سمجھنے لگ جاتے ہیں.پھر کتنا افسوس ہوگا مسلمانوں پر کہ وہ اپنے تعلق کی بناء پر اچھی چیز کو بھی اچھانہ سمجھیں.ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے دربار کے ایک حبشی غلام کو ایک ٹوپی دی اور اسے ہدایت کی کہ تمہارے خیال میں جو سب سے زیادہ خوبصورت بچہ ہو، یہ ٹوپی اس کے سر پر رکھ دو.وہ غلام سیدھا اپنے بچہ کے پاس گیا اور اس نے وہ ٹوپی اس کے سر پر رکھ دی.اس پر سب لوگ ہنس پڑے.کیونکہ اس کا بیٹا کالے رنگ کا تھا، اس کی شکل بہت بدنما تھی، اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی تھیں ، بال چھوٹے اور کنڈلوں والے تھے.دوسرے بچے سفید رنگ کے تھے، ان کے نقش نازک اور خوبصورت تھے.لیکن اس غلام نے ٹوپی پہنائی تو اپنے بدشکل بچہ کو.بادشاہ نے کہا میں نے تو تمہیں کہا تھا کہ یہ ٹوپی اس بچہ کو پہناؤ ، جو تمہارے نزدیک سب سے زیادہ خوبصورت ہو.مگر تم نے یہ کیا کیا کہ ایک بد شکل کو یہ ٹوپی پہنا دی؟ اس 335
خطبہ جمعہ فرموده 04 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم غلام نے کہا بادشاہ سلامت! آپ نے ٹوپی میرے ہاتھ میں دی تھی اور کہا تھا کہ تمہارے نزدیک جو بچہ خوبصورت ہے، یہ ٹوپی اسے پہنا دو.اور مجھے یہی بچہ سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے.اس واقعہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تعلق کی وجہ سے بھی کسی چیز میں حسن پیدا ہو جاتا ہے.حسن دو قسم کے ہوتے ہیں.1.ذاتی 2.اضافی ایک حسن تو ایک پینٹر اور نقاش کے فقط نگاہ میں ہوتا ہے.وہ ایک چیز کو ایسا حسن دینا چاہتا ہے کہ دنیا کے اکثر افراد سے حسین سمجھ لیں.لیکن ایک حسن وہ ہے، جو تعلق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.مثلاً خاوند کے نزدیک سب سے زیادہ خوبصورت بیوی، اس کی اپنی بیوی ہوگی.اگر یہ جھگڑا چل پڑے کہ فلاں کی بیوی خوبصورت ہے اور میری بدصورت ہے تو دنیا سے امن اور تقوی اٹھ جائے.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت ایسی بنائی ہے کہ ایک حسن اس کی نظر میں اس کے تعلق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس سے دنیا کا امن قائم رہتا ہے.پس بیوی، جو خاوند کی خدمت کرتی ہے، اس کے گھر کو سنبھالتی ہے، اس کے بچہ کی ماں ہوتی ہے ، وہی اس کی نگاہ میں خوبصورت ہوتی ہے.خاوند مصوروں کے نقطہ خیال کو نہیں دیکھتا، وہ فطرت کو دیکھتا ہے اور فطرت اپنی بیوی کو ہی حسین دکھاتی ہے.پس حسن دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ذاتی اور دوسرا اضافی.یعنی وہ حسن ، جو تعلق کی وجہ سے نظر آجاتا ہے.مثلاً ایک بچہ ہو ، وہ چاہے کتنا ہی بدصورت ہو ، اس کی ماں اس سے پیار کرتی ہے اور کہتی ہے، واری جاؤں صدقے جاؤں، میں تیرے لیے اپنی جان قربان کر دوں.حالانکہ دوسرے لوگوں کو اسے دیکھ کر بعض دفعہ گھن آجاتی ہے.ایک بچہ رورہا ہوتا ہے، دوسرے لوگ چاہتے ہیں کہ اس کا سر پھاڑ دیں لیکن اس کی ماں یہی کہتی ہے، واری جاؤں ،صدقے جاؤں، آؤ میں تمہیں فلاں چیز دوں، فلاں چیز دوں.یہ حسن کیا ہے؟ یہ حسن اضافی ہے.یعنی اپنا بچہ ہونے کے احساس نے اسے خوبصورت کر کے دکھا دیا.زلزے کے ایام میں، جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عارضی طور پر باغ میں جا کر ٹھہرے تو اتفاقأمولوی عبدالکریم صاحب کی جو جھونپڑی بنائی گئی ، وہ پرافتخار احمد صاحب مرحوم کی جھونپڑی کے ساتھ تھی.اتفاق کی بات ہے کہ مولوی عبد الکریم صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب شہر میں بھی قریب قریب رہتے تھے.مولوی عبد الکریم صاحب مسجد مبارک کے اوپر والے کمروں میں رہتے تھے اور مسجد کے نیچے ایک، دو کوٹھڑیاں تھیں، جن میں پیر افتخار احمد صاحب رہتے تھے.لیکن بہر حال وہاں کچھ نہ کچھ فاصلہ تھا.لیکن باغ 336
خطبہ جمعہ فرموده 04 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم میں جا کر فاصلہ بالکل نہ رہا.پیر صاحب کے بچے عام طور پر زیادہ روتے تھے.لیکن پیر افتخار احمد صاحب بڑے مزے سے انہیں کھلاتے رہتے تھے.ہمارے ملک کے عام دستور کے خلاف پیر صاحب بچے خود کھلایا کرتے تھے اور ان کی بیوی بچوں کی طرف بہت کم توجہ دیا کرتی تھیں.ایک دفعہ پیر صاحب کے بچے رور ہے تھے اور پیر صاحب انہیں تھپکیاں دے کر چپ کرا رہے تھے کہ مولوی عبد الکریم صاحب نے کہا، پیر صاحب میرا تو جی چاہتا ہے کہ اس بچہ کو باپ سے چھین کر زمین پر بیچ دوں.یہ اتنا شور مچاتا ہے کہ میرا خون کھولنے لگ جاتا ہے اور میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ اس شور کو کس طرح برداشت کر لیتے ہیں؟ پیر صاحب نے کہا میری سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ بچہ میرا ہے، میں اسے کھلا رہا ہوں اور مجھے تو کوئی غصہ نہیں آرہا لیکن آپ کو غصہ کیوں آرہا ہے؟ اب وہ شور بھی انہیں اچھا لگتا تھا.کیونکہ وہ ان کا اپنا بچہ تھا.غرض اپنی چیز کا بھی ایک حسن ہوتا ہے.اور یہ حسن اضافی کہلاتا ہے.یعنی یہ حسن دوسروں کو نظر آئے یا نہ آئے تعلق رکھنے والوں کو نظر آتا ہے.اب ایک مسلمان کے لئے یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ اس کے مذہب کا حسن اضافی بھی ہے اور حسن حقیقی بھی ہے.یعنی وہ چیز دوسروں کو بھی اچھی نظر آتی ہے اور پھر وہ حسن اضافی بھی رکھتی ہے.یعنی ہر مسلمان کو اپنے تعلق کی وجہ سے وہ حسین نظر آنی چاہئے.گویا اس کے لئے کسی جد و جہد اور کوشش کی ضرورت نہیں.وہ چاروں طرف سے مذہب کے حسن میں لپٹا ہوا ہے.اگر غیر مذاہب والے اپنے مذہب کے لئے ، جو اپنے اندر خرابی رکھتا ہے اور اپنی ذات میں خوبصورت نہیں، صرف حسن اضافی کی وجہ سے قربانی کرتے ہیں تو کتنے تعجب کی بات ہوگی کہ مسلمان ، جس کا مذہب حسن اضافی بھی رکھتا ہے اور حسن ذاتی بھی ، وہ اس کے لئے قربانی نہ کرے؟ ایک شخص کی جیب میں رنگارنگ کے پتھر پڑے ہوتے ہیں اور وہ ان کو اپنا ہونے کی وجہ سے بچانا چاہتا ہے.جیسے بچے ہوتے ہیں ، وہ خوبصورت پتھروں کی وجہ سے آپس میں لڑ پڑتے ہیں.اور ایک شخص کی جیب میں ہیرے ہوتے ہیں، ان میں حسن ذاتی بھی ہے.کیونکہ ہیرے ہر ایک کو اچھے لگتے ہیں اور حسن اضافی بھی ہوتا ہے.یعنی اپنی ذات میں بھی وہ قیمتی ہوتے ہیں اور جس کی ملکیت میں وہ ہوں، اس کے لئے وہ حسن اضافی بھی رکھتے ہیں.وہ یونہی پڑے ہوں تب بھی وہ قیمتی ہیں اور کسی کے پاس ہوں تب بھی قیمتی ہیں.اب کیا کوئی عقلمند انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ اول الذکر تو پتھروں کی حفاظت کرے گا لیکن دوسرا شخص ہیروں کی حفاظت نہیں کرے گا ؟ پس مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ وہ مقام دوسروں کے مقام سے نرالا ہے.علاوہ اس کے کہ اسلام اس کا اپنا مذہب ہے اور اس کے لئے حسن اضافی رکھتا.اپنی ذات میں بھی ایک حسین چیز ہے اور دوسروں کے لئے بھی اس کا حسن اپنے اندر کشش رکھتا ہے.337
خطبہ جمعہ فرمودہ 04 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوی کیا تو مکہ والوں نے آپ کا مقابلہ کیا.ایسے لوگوں نے بھی اپنے وقت کے انبیاء کا مقابلہ کیا تھا.وہ لوگ کیوں مقابلہ کرتے تھے ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ کہتے تھے، کیا ہم اس مذہب کو چھوڑ دیں، جس پر ہمارے آباء واجداد قائم تھے ؟ گویاوہ ذاتی حسن کو نہیں دیکھتے تھے بلکہ صرف حسن اضافی ان کے پیش نظر تھا.اور حسن اضافی بھی اتنا پسندیدہ ہوتا ہے کہ باوجود اس مذہب کے خراب ہونے کے ان لوگوں نے اپنے مذہب کو چھوڑ نا نہ چاہا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر تمہارے آباء واجداد بے وقوف ہوں تو کیا پھر بھی تم اس مذہب کو نہیں چھوڑو گے ؟ غرض باوجود اس کے کہ وہ جاہلانہ باتیں تھیں.ان لوگوں نے ان کے لئے اپنا مال، وطن اور عزیز قربان کئے.تاوہ چیزیں، جو محض جاہلانہ ہیں لیکن ان کی ہیں، بچ جائیں.لیکن افسوس ہے ایک مسلمان پر کہ وہ اس چیز کے لئے بھی کوئی کوشش نہیں کر رہا، جو حسن اضافی بھی رکھتی ہے اور اپنی ذات میں بھی اچھی ہے.عیسائی لوگ عیسائیت کی تبلیغ کے لئے دنیا کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں.آج سے پچھیں، تمہیں سال پہلے میں نے ایک رسالہ میں پڑھا تھا کہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے پادری بشمولیت چھوٹے پادریوں کے یعنی ان لوگوں کے جو مدرس کے طور پر، ڈاکٹر کے طور پر یا نرسوں کی شکل میں مقرر کر دئیے جاتے ہیں ، 56 لاکھ ہیں.اب اس سے اندازہ لگا لو کہ اگر چرچ کے ساتھ تعلق رکھنے والا کام یعنی تبلیغ تصنیف، تدریس، ڈاکٹر اور نرسوں کا کام 56لاکھ آدمی کر رہا ہے تو ان پر کتناروپیہ خرچ ہو رہا ہوگا ؟ ہمارے ملک کے گزاروں اور تنخواہوں سے ان ملکوں کے گزارے اور تنخواہیں بہت زیادہ ہیں.ہمارے ملک میں پچاس، ساٹھ روپے ماہوار پر ایک آدمی رکھا جا سکتا ہے.لیکن امریکہ میں چھوٹی سے چھوٹی تنخواہ 120 ڈالر یعنی چار سو روپیہ ماہوار ہے.اگر اس سے کم تنخواہ دی جائے تو حکومت اس پر مواخذہ کرتی ہے.اسی طرح انگلستان میں ان سکیلڈ لیبر (Unskilledlabour) پر دو، تین پونڈ ہفتہ وارلگ جاتے ہیں.جو ہمارے ملک کے لحاظ سے سو ہوا سور پہیہ بنتا ہے.اور فنی مزدور پر تو سات آٹھ پونڈ ہفتہ وار خرچ آجاتا ہے.یعنی ان کی تنخواہ تین تین، چار چار سو روپیہ ماہوار ہوتی ہے.ہمارے ہاں ہائی سکول کے ایک ہیڈ ماسٹر کی تنخواہ تین یا چار سو روپیہ ماہوار ہوتی ہے لیکن ان کے ایک مزدور کی اس قدر تنخواہ ہوتی ہے.اور اگر ان ملکوں میں ایک مزدور کی تنخواہ اس قدر ہوتی ہے تو تم خود اندازہ لگالو کہ ان 56لاکھ مشنریوں ، مصنفوں، ڈاکٹروں، ٹیچروں اور نرسوں، خدمتگاروں پر کیا خرچ آتا ہوگا؟ اگر کم از کم ایک سو روپیہ ماہوار خرچ فی فرد بھی لگا لیا جائے تو 56 کروڑ روپیہ ماہوار خرچ آ جاتا ہے.لیکن ظاہر ہے کہ وہ خرچ اس سے کہیں زیادہ 338
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبه جمعه فرموده 04 دسمبر 1953ء ہے، جو عیسائیت کی ترقی کے لئے کام کر رہے ہیں.یہ تمام صیغے ، چاہے وہ ڈاکٹر ہوں، نرسیں ہوں ،سکول ہوں، کالج ہوں ، سوال و جواب لکھانے والے ہوں یا سبق یاد کرانے والے ہوں، مثلاً مسیح کون تھا اور وہ کیوں آیا ؟ جیسے ہم نے دیہاتی مبلغین رکھے تھے لٹر پر تقسیم کرنے والے ہوں ، جن کا کام پمفلٹ تقسیم کرنا ہوتا ہے، ان کا مقابلہ صرف ہماری جماعت کر رہی ہے.باقی سارے مسلمان حکومتوں ، بادشاہتوں اور وزارتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں.صرف ہماری جماعت ہے، جس کی بادشاہت صرف اسلام ہے، جس کی حکومت صرف اسلام ہے، جس کی عزت صرف اسلام ہے.تعجب کی بات ہے کہ وہ مسلمان، جو حکومتوں، بادشاہتوں اور وزارتوں کے متلاشی ہیں اور رات دن انہی کے پیچھے مارے مارے پھر رہے ہیں، ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ تم سیاسی انقلاب بر پا کرنا چاہتے ہو.حالانکہ جہاں تک یہ سوال ذہنیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، ہر ایک شخص انقلاب بر پا کرنا چاہتا ہے.کیا ایک مزدور نہیں چاہتا کہ اس کی حالت پہلے سے اچھی ہو؟ کیا اس خواہش اور جذبہ کی بنا پر اسے باغی قرار دیا جائے گا؟ کیا اسے حکومت کا تختہ الٹنے والا قرار دیا جائے گا؟ کیا ایک ڈسپنر نہیں چاہتا کہ اس کی تنخواہ بڑھ جائے اور ڈاکٹراس پر زیادہ بنتی نہ کرسکیں ؟ اس قسم کا ذہنی انقلاب ہر ایک شخص میں ہوتا ہے.پس ہمارا یہ خواہش کرنا کہ اسلام کی تعلیم دنیا میں پھیلے اور تمام ادیان پر غالب آ جائے ، سیاسی انقلاب نہیں.سیاسی انقلاب وہ ہوتا ہے، جس کے لئے سیاسی تراکیب استعمال کی جائیں.پس جہاں تک ہماری یہ خواہش ہے کہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم تمام دنیا پر غالب آ جائے، ہمیں اس کا انکار نہیں.لیکن ایک ادنی عقل والا بھی اسے سیاست نہیں کہہ سکتا.یہ ایک خالص مذہبی خواہش ہے.یہ خواہش سیاسی تب بنتی ہے، جب اس کے حاصل کرنے کے لئے سیاسی جتھے بنائے جائیں، سیاسی پارٹیاں بنائی جائیں تا حکومت پر قبضہ کیا جائے ، تب اس کا نام سیاست ہوگا.اس سے پہلے یہ صرف مذہب ہے.پھر صرف مذہب ہی نہیں چاہتا کہ وہ دوسروں پر غالب ہو، فلسفہ بھی یہی چاہتا ہے.جب کوئی افلسفہ پڑھتا ہے اور اقتصادی اور معاشی حالات کے ماتحت علم حاصل کرتا ہے تو وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ ان میں سے اچھی باتوں کو دنیا میں جاری کیا جائے.اسی خواہش کی بناء پر ہم اسے ایک فلسفی تو کہیں گے لیکن ایک انقلابی نہیں کہیں گے.جس طرح اسلام کے متعلق اس قسم کی خواہش رکھنے والے کو ہم مذہبی کہیں گے، انقلابی نہیں کہیں گے.اسی طرح فلسفیانہ تجربوں کے ماتحت اقتصادی اور معاشی تغیر کی خواہش رکھنے والے کو ہم صرف فلسفی کہیں گے.لیکن جب اس کے لئے جوڑ تو ڑ شروع ہوں گے اور اس کے لئے 339
خطبہ جمعہ فرموده 04 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک..آئینی طریقے استعمال کئے جائیں گے تو ہم کہیں گے، یہ آئینی سیاست ہے.اور جب یہ جوڑ تو ڑ غیر آئینی طریقوں سے ہوں گے تو ہم اسے غیر آئینی سیاست کہیں گے.لیکن منبع کے لحاظ سے وہ صرف فلسفہ ہوگایا صرف مذہب ہوگا.غرض دوسرے لوگ کچھ کہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہم دنیوی حکومت نہیں چاہتے.ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیاں تبلیغ اور اشاعت اسلام میں لگ جائیں.باقی یہ کہ کسی جگہ احمدی زیادہ ہو جائیں اور جمہوریت کے لحاظ سے وہ زیادہ نمائندگی کا حق رکھتے ہوں تو یہ ہماری تحریک کا حصہ نہیں.یہ ایک اتفاقی حادثہ ہو گا.ہماری دلچسپی صرف اس میں ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں اسلام کی تبلیغ پھیل جائے اور پھر اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے ، جس طرح کہ وہ قدیم ایام میں غالب تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.اور اسی کام کیلئے تحریک جدید کو جاری کیا گیا ہے اور یہی کام ہر مسلمان پر واجب قرار دیا گیا ہے.پس یہ تحریک کسی خاص گروہ سے مختص نہیں بلکہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس میں حصہ ہے.جو احمدی اس تحریک میں حصہ نہیں لے گا ، ہم اسے احمدیت اور اسلام میں کمزور سمجھیں گے.کیونکہ جس شخص کے دل میں یہ خواہش نہیں کہ وہ اسلام کی خدمت اور احمدیت کی اشاعت کے لئے کچھ خرچ کرے، اس کا اسلام لا نا یا احمدیت قبول کرنا محض بریکار ہے.میں نے جیسا کہ پہلے بھی بتایا ہے، پہلے دور والوں اور دوسرے دور والوں میں، میں نے فرق رکھا ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سابقون الاولون ہیں.19 سال کے بعد ان کے نام چھپوا کر لائبریریوں میں رکھے جائیں ، جماعتوں کے اندر پھیلائے جائیں، خودان کے پاس یادگار کے طور پر بھیجے جائیں.تا وہ انہیں اپنی اپنی زندگی میں بطور یادگار اپنے پاس رکھیں اور اپنے بعد اپنی نسلوں کے لئے یادگار کے طور پر چھوڑ جائیں.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ پہلے لوگوں نے انتہائی قسم کی قربانی کی ہے.مجھے معلوم ہے کہ جماعت کے بعض مردوں اور عورتوں نے اس تحریک میں اپنی پانچ پانچ چھ چھ ماہ کی آمد لکھوا دی تھی.اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تحریک پہلے محدود عرصہ کے لئے تھی اور انہوں نے خیال کیا کہ چلو اتنے سال ہم قربانی کر لیں.اب اسے ہمیشہ کے لئے کر دیا گیا ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ ان کے لئے اتنی قربانی کرنا، در حقیقت ایسا بوجھ ہے کہ اسے ہر شخص نہیں اٹھا سکتا.ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ بغیر اولاد کے ہوں یا وہ اپنے اخراجات بہت کفایت سے کرتے ہوں، ان کو منتقی سمجھا جاسکتا ہے.وہ اگر چاہیں تو اپنی قربانی کو اس معیار پر رکھیں.لیکن باقی لوگوں کے لئے ، جنہوں نے پہلے سالوں میں بہت زیادہ قربانی کی ، میری تجویز یہ ہے کہ وہ اپنے 340
خطبہ جمعہ فرمودہ 04 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم معیار قربانی کو گرا دیں.مگر یکدم گرانے سے چونکہ بجٹ کو نقصان پہنچے گا، اس لئے وہ یکدم نہ گرائیں بلکہ ہر سال دس، دس فی صدی کمی کرتے جائیں.میرے نزدیک موجودہ آمدنوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، اگر کوئی شخص اپنی ایک ماہ کی آمد کا پچاس فی صدی دے دیتا ہے تو یہ ایک اچھی قربانی ہے.کیونکہ اس کے ساتھ دوسرے چندے بھی ہیں، جو فرضا دینے پڑتے ہیں.پس اگر کوئی شخص اپنی ایک ماہ کی آمد کا نصف دے دیتا ہے.مثلاً اس کی سور و پیہ ماہوار آمد ہے تو وہ پچاس روپے وعدہ لکھوا دے تو سمجھا جائے گا کہ اس نے اچھی قربانی کی ہے.اور اگر وہ ایک ماہ کی پوری آمد یعنی سو کی سوروپے ہی بطور وعد ہ لکھوا دے تو ہم سمجھیں گے کہ اس نے تکلیف اٹھا کر قربانی کی ہے.لیکن جنہوں نے پانچ پانچ ، چھ چھ ماہ کی آمد نیاں چندہ میں لکھوا دی ہیں ، وہ اگر اپنی قربانی کو آئندہ بھی اسی معیار پر رکھیں تو وہ گھر کے نظام کو بگاڑنے والے ہوں گے.سوائے چند افراد کے کہ جن کے اخراجات محدود ہیں.عام حالات میں یہ اجازت ہے بلکہ میں یہ پسند کروں گا کہ ایسے لوگ ہر سال دس فی صدی کے حساب سے اپنا چندہ کم کرتے جائیں ، یہاں تک کہ چندہ ایک ماہ کی آمد کے برابر ہو جائے تا اتنے عرصہ میں دور دوم کو ترقی حاصل ہو جائے اور چندہ کی مقدار بڑھ جائے.پس ہر احمدی مرد اور ہر احمدی بالغ عورت کا فرض ہے کہ اس تحریک میں شامل ہو.بلکہ بچوں میں بھی تحریک کی جائے اور رسمی طور پر انہیں اپنے ساتھ شامل کیا جائے.مثلاً اپنے وعدہ کے ساتھ ان کی طرف سے بھی کچھ حصہ ڈال دیں، چاہے ایک پیسہ ہو ، دو پیسے ہوں یا ایک آنہ ہو.اس سے ان کے دلوں میں تحریک ہوگی.بلکہ بجائے بچہ کی طرف سے خود وعدہ لکھوانے کے اسے کہو کہ وہ خود وعدہ لکھوائے.اس سے اس کے اندر یہ احساس پیدا ہو گا کہ میں چندہ دے رہا ہوں.بعض لوگ بچوں کی طرف سے چندہ لکھوا دیتے ہیں لیکن انہیں بتاتے نہیں.اس سے پورا فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.بچے کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ سوال کرتا ہے.جب تم اس سے کہو گے کہ جاؤ تم اپنی طرف سے چندہ لکھواؤ تو وہ پوچھے گا، چندہ کیا ہوتا ہے؟ اور جب تم چندہ کی تشریح کرو گے تو وہ پوچھے گا ، یہ چندہ کیوں ہے؟ پھر تم اس کے سامنے اسلام کی مشکلات اور اس کی خوبیاں بیان کرو گے.پس بچہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سوال کرتا ہے.اگر تم ایسا کرو گے تو ان کے اندر نئی روح پیدا ہوگی اور بچپن سے ہی ان کے اندر اسلام کی خدمت کی رغبت پیدا ہوگی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، مغربی پاکستان کے لئے وعدوں کی آخری تاریخ 15 فروری ہوگی اور مشرقی پاکستان کے لئے میں آخر مارچ کی میعاد مقرر کرتا ہوں.ایسے غیر ممالک کے لئے، جن میں ہندوستانی بکثرت آباد ہیں، حسب دستور آخری اپریل تک کی میعاد ہے.اور جن ممالک میں ہندوستانی 341
خطبہ جمعہ فرمود و 04 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کثرت سے نہیں پائے جاتے ، ان کے لئے وعدوں کی آخری میعاد 15 جون ہوگی.ان تاریخوں تک وعدوں کی لسٹیں آ جانی چاہیں.مگر چونکہ بجٹ دسمبر میں بن جاتا ہے، اس لئے تمام جماعتوں کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے وعدے 21 دسمبر تک بھجوا دیں تا کہ اس پر آئندہ بجٹ کی بنیا د رکھی جا سکے.میں پہلے دور والوں سے یہ کہتا ہوں کہ وہ بجائے ستی کے ، کہ میں نے ان کے لئے نرمی پیدا کر دی ہے، اپنے اندر چستی پیدا کریں.اور ان میں سے ہر ایک، دو اور آدمیوں کو تحریک کر کے ان کے وعدے لکھوائے.اس طرح امید ہے کہ دور دوم کی اتنی رقم ہو جائے گی کہ اس سے تبلیغ وسیع کی جاسکے.سردست دفتر دوم والوں کی قربانی کا معیار بہت کم ہے اور وصولی بھی بہت کم ہے.پچھلے دو سالوں کا لحاظ رکھا جائے تو وصولی 95-94 ہزار کی ہوتی ہے اور وعدے سوا، ڈیڑھ لاکھ کے ہوتے ہیں.اب ظاہر ہے کہ 95-94 ہزار کے ساتھ دنیا میں تبلیغ نہیں ہو سکتی.تحریک جدید کا سالانہ بجٹ کم سے کم ساڑھے چار لاکھ کا بنتا ہے.اور صاف ظاہر ہے کہ یہ کام 95 ہزار روپے سے نہیں ہو سکتا.اور موجودہ بجٹ سے بھی جو کام ہوتا ہے، وہ بہت ناقص ہے.جب تک ہم اپنے مشنوں کا سائز کا بجٹ نہ بڑھائیں، انہیں کتابوں اور لٹریچر کی اشاعت کے لئے رقم نہ دیں، انہیں دوروں کے لئے خرچ نہ دیں تبلیغ وسیع نہیں ہو سکتی.ایک آدمی کو کسی غیر ملک میں بٹھا دینا اور اس کو ڈیڑھ ، دوسور و پیہ ماہوار دے دینا، اس سے تبلیغ وسیع نہیں ہو سکتی.اتنی رقم تو ان ملکوں کے لحاظ سے ایک مبلغ کی خوراک کے لئے بھی کافی نہیں.ہم نے اگر تبلیغ کو وسیع کرنا ہے تو آہستہ آہستہ ہمیں مبلغوں کے اخراجات کو کم از کم ان ملکوں کے مزدور کے برابر کرنا پڑے گا.اور انہیں کافی مقدار میں سائر اخراجات دینے پڑیں گے تاوہ ملک میں دورے کر سکیں ، لیکچر دے سمیں ، کتب اور پمفلٹ شائع کرسکیں.اگر موجودہ مشنوں پر ہی ہم آئندہ تبلیغ کی بنیاد رکھیں اور سائر کے اخراجات کافی مقدار میں دیں تو موجودہ اخراجات سے دوگنے اخراجات کم سے کم ہمیں برداشت کرنے ہوں گے.اس وقت ہمارا کل بجٹ ساڑھے چار لاکھ کا ہے.گویا ہم نو لاکھ روپے سے محدودطور پر تبلیغ کر سکتے ہیں.لیکن اگر ہم یورپین طریق پر چلیں تو ہم موجودہ مبلغوں سے 18 لاکھ روپیہ خرچ کر کے کام لے سکتے ہیں.اگر ہم 18لاکھ روپیہ تبلیغ کے لئے خرچ کریں تو ہمارے مبلغ دورے کر کے مختلف شہروں میں لیکچر دے سکتے ہیں، لیکچروں کے لئے ہال کرایہ پر لے سکتے ہیں، بڑے لوگوں سے مل سکتے ہیں، لٹریچر شائع کرنے اور اسے تقسیم کرنے کے ذریعہ تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں.لیکن ہمارے موجودہ مبلغین تو نہایت محدود تعداد میں ہیں.کجا 56 لاکھ اور کجا دو سو.گویا ہمارے مبلغین عیسائی مبلغین کا 28 ہزارواں حصہ ہیں.یعنی 28000 روپیہ کے مقابلہ میں تمہاری 342
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 04 ستمبر 1953ء حیثیت صرف ایک روپیہ کی ہے.لیکن پھر بھی اگر موجودہ مشنوں کو اعلی پیمانہ پر قائم کیا جائے ، اگر انہیں سائر اخراجات عمدگی سے دیئے جائیں تو وہ کئی گنا زیادہ کام کر سکتے ہیں.ہم عام طور پر ایک مبلغ کو چار، پانچ پونڈ ماہوار تبلیغ کے لئے دیتے ہیں.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ کیا وہ اس رقم میں ملک کے وسیع دورے کر سکتا ہے؟ وہ لٹریچر شائع کر سکتا ہے؟ وہاں تو ایک لیکچر کے لئے اتنی رقم میں ایک دفعہ ایک ہال ہی کرایہ پر لیا جا سکتا ہے.پھر وہ اس جگہ تک پہنچے گا کس طرح؟ پھر انٹرسٹ رکھنے والوں کولٹر پچر کیسے مہیا کرے گا ؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اپنے مبلغین کو کم از کم سو سو پونڈ ماہوار سائز کے لئے دیں تو انہیں کسی حد تک آزادی نصیب ہو سکتی ہے کہ وہ ملک کے دورے کریں ، لیکچر دیں اور لٹر پر تقسیم کر سکیں.اس دن کے لئے ہمیں تیار ہونا چاہئے.اور یہ تیاری تبھی ہو سکتی ہے، جب جماعت کا ہر فرد یہ محسوس کرے کہ اس کی زندگی کے تمام کاموں میں سے سب سے اہم کام تبلیغ اور اشاعت اسلام ہے.اس وقت ہمارے مشن زیادہ تر افریقن اور ایشیائی ممالک میں ہیں، کچھ مشن یورپین اور امریکن ممالک میں بھی ہیں.ہم نے ان مشوں کی تعداد کو بڑھانا ہے اور انہیں اس قدر مضبوط کرنا ہے کہ ہم اسلام کو پھیلا سکیں.اگر ہم ایسا نہ کریں تو جو بیج ہم نے پھینکا ہے ، وہ بھی رائیگاں جائے گا.تم جانتے ہو کہ جب تم کسی کھیت میں گندم بوتے ہو تو پھر اس کی نگہداشت کرتے ہو، اسے وقت پر پانی دیتے ہو، تب جا کر تم اس کھیت سے فصل حاصل کرتے ہو لیکن اگر تم ایک ایکٹر میں 25-20 سیر دانے پھینک دو اور پھر اس میں ایک لوٹا پانی کا گرا دو تو تمہارے 25-20 سیر دانے ، جو تم نے بیج کے طور پر پھینکے تھے، وہ بھی ضائع ہو جائیں گے اور کسی فصل کی بھی تم امید نہیں کر سکو گے.اس طرح اگر ہم نے تبلیغ کے اخراجات کو نہ بڑھایا تو موجودہ دوسو مبلغ بھی ضائع ہو جائیں گے، اگر ان مبلغین کے لئے سامان بہم نہ پہنچائے گئے تو ظاہر ہے کہ موجودہ حالت میں تو ہم ان کے لئے خوراک بھی مہیا نہیں کر رہے.پس چاہئے کہ جماعت قربانی کے لئے تیار ہو جائے.ہر احمدی فرد، ہر سیکرٹری اور ہر پریذیڈنٹ اور ہر بارسوخ آدمی کا فرض ہے کہ وہ جماعت کے تمام افراد میں تحریک کر کے ان سے تحریک جدید کے وعدے لے، ان وعدوں کی اطلاع مرکز کو دے اور پھر ان کی وصولی کے لئے پوری کوشش کرے.تا دور اول سے دور دوم کی طرف آنے کی وجہ سے تحریک جدید کو نقصان نہ پہنچے بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر جائے“.مطبوعه روز نامہ اصلح کراچی 13 دسمبر 1953ء ) روزنامہ 343
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرمود و 26 دسمبر 3 تبلیغ اسلام کے عظیم الشان کام کے لئے خصوصیت سے دعا ئیں کریں خطاب فرمود و 26 دسمبر 1953 ء بر موقع جلسہ سالانہ حضور نے مختلف ممالک مثلاً جرمنی، ملایا، انڈونیشیا وغیرہ کے مبلغین اور احباب کی طرف.آمدہ تاروں کا ذکر فرمایا.جس میں انہوں نے حضور کی خدمت میں اور جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے احباب سے دعا کی درخواست کی تھی.ان کے لئے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.""...دوست تبلیغ اسلام کے اس عظیم الشان کام کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں، جو ہم نے بیرونی ممالک میں جاری کر رکھا ہے.اسلام کے لئے یہ ایک بہت نازک زمانہ ہے.چاروں طرف.اسلام پر یورش ہو رہی ہے اور اسلام کے مورچے پر سوائے چند احمدی مبلغین کے اور کوئی بھی نہیں ہے.آپ لوگ، جو یہاں جمع ہیں، آپ کی حیثیت ایسی ہے ، جیسے فوج کے لئے اسلحہ کے کارخانے کی ہوتی ہے.جس طرح اگر فوج کے لئے اسلحہ مہیا نہ کیا جائے تو وہ بے کار ہو کر رہ جاتی ہے، اسی طرح اگر آپ اپنے مبلغین کی مدد نہ کریں گے تو ان کی زندگیاں بے کار ہو جائیں گی.ان میں سے ایک ایک لاکھوں آدمیوں کا کام کر رہا ہے.سامان، جو ہم نے ان کے لئے بہم پہنچایا ہے، وہ پہلے ہی نہایت قلیل ہے.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت کی طرف سے اب اس میں اور بھی کوتاہی ہو رہی ہے.چنانچہ اس دفعہ تحریک جدید کے وعدے پوری طرح نہیں پہنچ رہے، جو بہت تشویش کی بات ہے.میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تا ہم اپنے مبلغین کے لئے اخراجات مہیا کر سکیں.اس ضمن میں ، میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جو دوست یہاں آئے ہیں، وہ تحریک جدید کے دفتر میں جا کر یہ تسلی کر لیں کہ ان کے اور ان کی جماعتوں کے وعدے پہنچ گئے ہیں؟ اگر نہ پہنچے ہوں تو وہ دفتر میں اپنے وعدوں کا اندراج کرا دیں.تاکہ تبلیغ اسلام کا جو کام ہم نے شروع کر رکھا ہے، اس میں کوئی روک واقع نہ ہو.(مطبوعه روز نامه مصلح یکم جنوری 1954 ء) 345
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم تحریک...اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1953ء احباب جماعت خصوصاً خواتین سے چندا ہم تحریکات خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1953 ء بر موقع جلسہ سالانہ جو باتیں میں مردوں کو مخاطب کر کے کہوں گا، ان میں سے بیشتر کا تعلق عورتوں سے بھی ہوگا تاہم چند باتیں مخصوص طور پر میں ان کے لئے کہنا چاہتا ہوں.پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ میں نے احمدی خواتین کو تحریک کی تھی کہ وہ جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنے کے اخراجات اپنے ذمہ لیں تا کہ ان کے چندے سے یہ ترجمہ شائع ہو.اس سے پہلے عورتوں کے چندہ سے لندن میں ہم نے مسجد تعمیر کی تھی.اب یہ دوسرا کام ان کے ذمہ لگایا گیا ہے.سو میں ان کی اطلاع کے لئے اعلان کرتا ہوں کہ جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو چکا ہے، اس پر نظر ثانی بھی ہو چکی ہے اور اب وہ پریس میں جاچکا ہے.امید ہے کہ شاید تین، چار ماہ تک یہ شائع ہو جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ“ ایک اور تحریک میں نے عورتوں میں مسجد ہالینڈ کے لئے چندہ کی تھی.اس چندہ میں پہلے سال تو عورتیں مردوں سے بڑھ گئیں، بعد میں چونکہ مردوں والی تحریک کو ایک وسیع رنگ دے دیا گیا، اس وجہ سے عورتوں کے چندہ کی نسبت گر گئی.میں نے پہلے اس تحریک پر اس لئے زور نہ دیا کہ عورتوں نے اس اثناء میں اپنا ہال بھی بنایا ، جس کی مردوں کو اب تک توفیق نہیں ملی.میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں عورتوں کو ہالینڈ کی مسجد کے لئے چندہ کی پھر تحریک کروں.اس چندہ میں اس وقت تک 52 ہزار کے قریب روپیہ آچکا ہے اور اندازہ ایک لاکھ، پندرہ ہزار روپیہ کا ہے.گویا 63 ہزار روپیہ بھی باقی ہے.میں وو عورتوں میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ ہمت کر کے اسے بھی پورا کریں.مجھے امید ہے کہ وہ پورا کریں گی.عورت جب ارادہ کر لیتی ہے تو بسا اوقات اس کا عزم مردوں سے بڑھ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ ایسا ہی بنایا ہے کہ وہ باوجود بعض لحاظ سے کمزور ہونے کے متواتر اور مسلسل قربانی کے میدان میں مردوں سے آگے ہوتی ہے.پس مجھے امید ہے کہ وہ اپنے اس چندہ کو بھی پورا کریں گی.اس عرصہ میں اگر ضرورت ہوئی تو ہم تعمیر مسجد کا کام قرض لے کر پورا کریں گے.لجنہ اماءاللہ کا ہال بھی اسی طرح تعمیر ہوا تھا کہ اس کے چندہ میں جو کی تھی ، اسے ہم نے قرض لے کر پورا کیا اور بعد میں عورتوں نے اپنا چندہ پورا ادا کر 347
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کے اس قرض کو اتار دیا.در حقیقت قرض کو اتارنے کی یہ مثال بھی عورتوں ہی نے قائم کی ہے ، ورنہ مردوں میں اس کی مثال موجود نہیں.وو تیسری تحریک میں عورتوں میں بھی اور مردوں میں بھی یہ کرنی چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے کاروبار ملازمت اور روزگار کے کام کے علاوہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے کچھ زائد آمد پیدا کرنے کی کوشش کرے.اور یہ زائد آمدنی اگر غریب ہو تو اس کا ایک حصہ اور امیر ہونے کی صورت میں اس کی ساری کی ساری سلسلہ کو بطور چندہ پیش کر دے.مثلاً ہمارے ہاں ان پڑھ لوگوں کو خط لکھانے میں دقت پیش آیا کرتی ہے.ہمارا ایک لکھا پڑھا آدمی یہ کر سکتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو خط لکھ دے اور ان سے مثلاً پیسہ پیسہ وصول کرے اور پھر اس زائد آمدنی کو چندہ میں دے دے.اپنے مقررہ کا روبار کے علاوہ ہاتھ سے کام کر کے زائد آمدنی پیدا کرنے سے جہاں سلسلہ اور اسلام کو فائدہ ہوگا، وہاں اس غریب اور امیر میں امتیاز کم ہوگا.اور ان دونوں طبقوں میں جو بعد نظر آتا ہے، وہ دور ہوتا چلا جائے گا.مسلمانوں کے بڑے بڑے بزرگوں سے متعلق تاریخ میں کثرت سے ایسے تذکرے آتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے کمائی کیا کرتے تھے.دراصل وہ اسی حکمت کو مد نظر رکھ کر کیا کرتے تھے.عورتیں سوت کات کر یا پراندے اور ازار بند تیار کر کے میری اس تحریک پر عمل کر سکتی ہیں.غرض میں چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس تحریک پر عمل کرے اور اپنے ہاتھ سے کام کر کے کچھ آمد پیدا کرے اور پھر اسے چندہ میں دینے کی کوشش کرے.المصل (مطبوعہ اصلح 05 جنوری 1954 ء ) 348
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم وو اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1953ء تحریک جدید اب اپنے اہم ترین دور میں سے گزر رہی ہے خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1953ء بر موقع جلسہ سالانہ میں نے 39ء میں ان سات زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع کرنے کی تحریک کی تھی، جرمنی، ڈچ، فرانسیسی، سپینش ، اٹالین ، روسی اور پرتگیزی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سات زبانوں میں سے ایک یعنی ڈچ زبان کا ترجمہ تو شائع ہو گیا ہے اوروہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی طور پر مقبول ہورہا ہے.جرمن زبان میں ترجمہ پریس میں جاچکا ہے، امید ہے کہ عنقریب وہ بھی شائع ہو جائے گا.اس کے علاوہ چار اور تراجم بھی تیار ہیں، جو بہت جلد شائع ہو جائیں گے.علاوہ ازیں اس سال افریقہ کی سواحیلی زبان میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ شائع ہوا ہے.ملائی زبان میں بھی ترجمہ مکمل ہو چکا ہے، اب طبع کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے.گورکھی اور ہندی زبان میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو چکا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کی طرف سے دنیا کی چودہ مشہور زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوں گے.جن میں سے آٹھ قریباً تیار ہو گئے ہیں اور باقی عنقریب ہو جائیں گے.انشاء اللہ.لیکن اصل ضرورت اب اس بات کی ہے کہ ہماری جماعت محض انہیں شائع کرنے پر اکتفانہ کرے بلکہ انہیں ساری دنیا میں وسیع پیمانے پر پھیلانے کی کوشش کرے.اب تک ہم قرآن مجید کے مختلف حصے دنیا کے سامنے پیش کر کے اسلام کا حسن اسے دکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں.لیکن ظاہر ہے کہ کسی وجود کا محض ایک حصہ دکھانے سے عشق پیدا نہیں ہوا کرتا.بلکہ پورا وجود دکھانے سے حسن اور خوبصورتی کا اصل احساس پیدا ہوا کرتا ہے.اور چونکہ اسلام کی اصل خوبصورتی قرآن ہی سے ظاہر ہوتی ہے، اس لئے اب ہماری جماعت کے لئے موقع ہے کہ وہ قرآن مجید کے ان تراجم کی بہتر سے بہتر رنگ میں اور وسیع پیمانے پر اشاعت کرنے کی کوشش کرے تا دنیا قرآن کی صورت میں اسلام کے پورے حسن کو دیکھ سکے.میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے اردو ترجمے پر بھی ہمیں خاص زور دینے کی ضرورت ہے.اس کے بغیر قرآن مجید کی برکات کو اردو دان طبقہ پورے طور پر حاصل نہیں کر سکتا.قرآن مجید کی عربی عبارت بھی ضروری ہے اور بہت ضروری ہے.لیکن جو لوگ عربی زبان سے پورے طور پر واقف نہیں ، ان کے 349
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم لئے تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ پڑھنا اوراس پر غور کرنا بھی ضروری ہے.اب تک ہم ایک ضروری چیز پر زور دیتے رہے ہیں، یعنی عربی عبارت پڑھنے پر.لیکن دوسری ضروری چیز، یعنی اس کا ترجمہ پڑھنے کو چھوڑتے رہے ہیں.حالانکہ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی ضروری ہیں.اب میں دوستوں کو تحریک جدید کی طرف توجہ دلاتا ہوں.تحریک جدید اب اپنے اہم ترین دور میں سے گزر رہی ہے.اس کی عظمت اور اس کی اہمیت و ضرورت ہر احمدی کے ذہن نشین ہو جانی چاہئے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس دفعہ بجائے زیادہ وعدے آنے کے چالیس فی صدی کم وعدے اس وقت تک آئے ہیں.یہ ایک خطر ناک بات ہے، جس کا اگر فورا تدارک نہ کیا گیا تو ہو سکتا ہے، ہمیں بعض وہ بیرونی مشن بھی بند کرنے پڑیں، جو سالہا سال کی متواتر اور مسلسل قربانی کے بعد ہم نے قائم کئے ہیں.ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم اپنے مشنوں کو اور تبلیغ اسلام کی مساعی کو بڑھاتے چلے جائیں.نہ یہ کہ ہماری غفلت کی وجہ سے قائم شدہ مشن بھی بند ہونے لگیں."".اس بات کو اچھی طرح یادرکھ اور ہراحمدی کو یہ ذہن نشین کرادو کہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا عظیم الشان کام ہی تمہارادہ کارنامہ ہے، جو تمہیں دوسروں سے ممتاز کر دیتا ہے.یہی وہ کام ہے، جسے دیکھ کر مصر کے ایک اخبار الفتح کو بھی، جو احمدیت کا شدید مخالف ہے، یہ لکھنا پڑا کہ جو کام تیرہ سو سال میں مسلمانوں سے نہ ہو سکا، اسے یہ جماعت اکیلی سرانجام دے رہی ہے.پس یہ ایک ایسا فخر تمہیں حاصل ہے، جواور کوئی آج تک حاصل نہیں کر سکا.اور جس سے تمہارا مخالف سے مخالف بھی انکار کرنے کی جرات نہیں کر سکتا.اپنے اس فخر کونہ صرف قائم رکھو بلکہ اپنے اس کام کوتحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر بڑھاتے چلے جاؤ.دیکھو، یہ عیسائیوں کی طرف سے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے اور مسلمانوں کی غفلت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اسلام باوجود اپنے روشن اور واضح دلائل کے دنیا کی آبادی کے 1/4 حصہ کو مسلمان بنا سکا اور عیسائیت با وجود باطل پر ہونے اور دلائل سے تہی دست ہونے کے آج دنیا کی آبادی کے 1/3 حصہ کو اپنا حلقہ بگوش بنا چکی ہے.آج صرف تم ہی ہو، جنہوں نے مسلمانوں کی اس غفلت کا ازالہ کرنا ہے.تمہیں ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا چاہئے تا اسلام پھر دنیا پر غالب آجائے.اور دنیا کو معلوم ہو جائے کہ اس کی مشکلات کا حقیقی علاج صرف اسلام کے پاس ہے.یہ علاج نہ روس کے پاس ہے اور نہ امریکہ کے پاس.ان کے پاس جو کچھ ہے، وہ اندھیرا ہی اندھیرا ہے.سورج صرف اسلام ہے اور وہی ہے، جو اس تاریکی کو دور کر سکتا ہے." اس وقت تک تحریک جدید کے ذریعہ دنیا کے مختلف حصوں میں تمھیں، چالیس ہزار آدمی مسلمان ہو چکے ہیں.حالانکہ عیسائیت کے مقابل پر ہمارے پاس سامان نہ ہونے کے برابر ہے.اگر ہمارے پاس پورا 350
اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم سامان موجود ہوتو نتائج بہت زیادہ شاندار نکل سکتے ہیں.لیکن ہراحمدی کا بلکہ ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کے ان مبلغین کی ، جو اس تحریک کے ماتحت باہر بھیجے گئے ہیں، ہرممکن مدد کرے.وہ مدد اسی طرح ہو سکتی ہے کہ تحریک جدید کے چندہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے.تاہم ان مبلغین کے لئے اسلامی لٹریچر اور ان کے دوروں اور میٹنگز وغیرہ کے اخراجات مہیا کرسکیں.اس موقع پر میں مرکز کو بھی یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ مقامی خرچ کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرے.تا تبلیغی مشنوں پر ہم زیادہ خرچ کرسکیں.ہرانیس سال کے بعد ایک دور اس تحریک کا ختم ہوا کرے گا اور اس موقع پر باقاعدگی سے اس میں حصہ لینے والوں کی ایک فہرست کتابی صورت میں شائع ہوا کرے گی.تا آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے وہ مشعل راہ ہو اور وہ معلوم کر سکیں کہ ہمارے بزرگوں نے کس طرح اس تبلیغی جہاد میں حصہ لیا.چنانچہ پہلے انیس سالہ دور میں حصہ لینے والے دوستوں کی فہرست اپریل میں تیار کی جائے گی.ایسے دوست ، جن کے ذمے کچھ بقایا ہے، اس عرصہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بقائے کو صاف کر سکتے ہیں.تا ایسا نہ ہو کہ ان کی تھوڑی سی غفلت کی وجہ سے ان کے نام اس فہرست میں نہ آسکیں“.تحریک جدید اب جس نازک دور میں سے گزر رہی ہے، وہ اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر احمدی یہ فیصلہ کرے کہ اس نے بہر حال اس تحریک میں حصہ لیتا ہے حتی کہ کوئی جماعت بھی ایسی نہ ہو، جس کے سارے کے سارے افراد تحریک میں شامل نہ ہوں.اس موقع پر میں غیر ملکی جماعتوں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مرکز کا کام چونکہ اب وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے، اس لئے انہیں جلد سے جلد اپنا بوجھ خود اٹھانے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے.تا کہ مرکز جو خرچ ان پر کر رہا ہے، وہ نئے مشنوں پر کر سکے.محنت سے کام کرنے اور اپنی آمد کو امکانی حد تک بڑھانے کی کوشش کرو.اور یہ کوشش بجائے کسی دنیوی مقصد کو سامنے رکھنے کے اس نیت اور ارادے سے کرو کہ تا تم دین کی خدمت میں زیادہ حصہ لے سکو.اگر تم ایسا کرو گے تو یقیناً تمہاری زمینداری اور زیادہ آمد پیدا کرنے کی کوشش بھی ثواب کا موجب ہوگی.تمہیں چاہئے کہ پہلے اگر آٹھ ایکٹر میں کاشت کرتے ہو تو اب تحریک جدید میں حصہ لینے کی نیت اور ارادے سے نوا یکٹر زمین میں کاشت کرو.اور پھر اس ایکڑ کے ذریعے جو زائد آمد ہو، اسے تحریک جدید میں دے دو.اسی طرح ہمارے صناعوں کو چاہئے کہ وہ اپنی صنعت کو پہلے سے بہتر اور اچھا بنانے کی کوشش کریں.تاجروں کو چاہیے کہ تجارت میں ترقی کریں اور اس ترقی کے ذریعہ اللہ تعالی جو زائد آمد انہیں دے، اسے تحریک جدید میں دیں.ہمارے تاجروں میں عام طور پر یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مال کو اس 351
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خیال سے روک رکھتے ہیں کہ قیمت بڑھنے پر اسے فروخت کریں گے.حالانکہ مال کو اس خیال سے روک رکھنا، شریعت نے ممنوع قرار دیا ہے.اسلام ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ جو مال آئے ، اسے آگے بیچتے چلے جاؤ.تجارت میں ترقی کے لاکھوں راستے اور موجود ہیں.لہذا ہمارے تاجروں کو چاہئے کہ وہ بجائے اپنے مال کو روکنے کے دیگر ذرائع کے ذریعہ تجارت کو ترقی دیں.اگر وہ ایسا کریں گے اور تحریک میں زیادہ حصہ لینے کی نیت سے ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی ترقی کے راستے کھول دے گا.....وقف زندگی کی تحریک پر بہت سے نوجوان آگے آئے تھے.لیکن ان میں سے بعض نے کمزوری اور غداری دکھائی ہے، جس کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں.میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے مخلص نوجوان ایک پورے عزم اور ارادہ کے ساتھ آگے آئیں اور اپنی زندگیوں کو وقف کر کے آخر تک ثابت قدمی کا نمونہ دکھا ئیں.دوسری طرف جماعت کو بھی کہتا ہوں کہ وہ واقفین کی عظمت اور اہمیت کو سمجھے اور اسے وو محسوس کرے.ہماری جماعت میں واقفین کے لئے عزت اور احترام کا ایک خاص جذبہ ہونا چاہئے....اس تحریک کے لئے جو طریق مقرر کئے گئے تھے، وہ بہت ہی آسان تھے.اور دوست بغیر کسی بوجھ کے اس میں حصہ لے سکتے تھے.لیکن افسوس ہے کہ اب تک اس پر تمہیں فی صدی بھی عمل نہیں ہوا.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مساجد کی زمین کے لئے فوری طور پر جو قرض لیا گیا تھا، وہ بھی اب تک ادا نہیں ہو سکا.اس تحریک کی طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ مساجد ہی ہیں، جو بیرونی ممالک میں تبلیغ کے مراکز کا کام کر سکتی ہیں.جب تک ہم کثرت کے ساتھ بیرونی ممالک میں مساجد تعمیر نہ کریں گے، ہماری تبلیغ عام نہیں ہوسکتی“.(مطبوعہر روز نامہ الصلح 13 جنوری 1954 ء) 352
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 28 دسمبر 1953ء تحریک جدید کو جاری کرنے کی غرض خطاب فرمودہ 28 دسمبر 1953ء بر موقع جلسہ سالانہ حضرت مصلح موعودؓ نے یکم تا 29 اکتوبر 1938ء کو ایک رؤیا کی بناء پر قادیان سے حیدر آباد دکن کا سفر اختیار فرمایا.جس میں آپ نے سولہ ایسے قدیم اور عظیم تاریخی مقامات اور نظارے مشاہدہ کیے، جن سے مسلمانوں کی عظمت کا اظہار ہوتا تھا.اس دوران مسلمانوں کے روحانی اور ظاہری عروج وزوال کے تمام مناظر آپ کے سامنے آئے.یہاں تک کہ کشفی طور پر آپ کو الہی بشارات کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کی آسمانی بادشاہت کے دوبارہ قیام کی سکیم کا نقشہ بھی دیکھا دیا گیا.آپ نے 1938ءت1958ء کے جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر جماعت کو، اسلام اور بیت اللہ کی حفاظت اور اس کے مقاصد کے حصول کے لئے تیار کرنے کی غرض سے ”سیر روحانی“ کے نام سے بارہ عظیم الشان خطابات کے ذریعہ ظاہری نظاروں کے مقابل پر اسلام کے روحانی مناظر بیان فرمائے.1953 ء میں جب یہ سلسلہ خطابات اپنے عروج پر پہنچا تو حضور نے اسلامی نوبت خانوں (اذان) کی عظمت بیان فرمائی.اور توحید باری تعالیٰ کا قیام اور اشاعت اسلام کو ہی تحریک جدید کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے فرمایا:....اب خدا کی غیرت پھر جوش میں آئی ہے.وو اور خدا نے تم کو اور تم کو، ہاں تم کو اس نوبت خانے کی خدمت سپرد کی ہے.اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں! ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو ! 353
اقتباس از خطاب فرموده 28 دسمبر 1953ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو! کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں! اور آسمان کے فرشتے بھی کانپ اٹھیں! تا کہ تمہاری دردناک آوازوں اور نعرہ ہائے تکبیر وتشہید وتوحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ آسمان - زمین پر آجائے اور زمین پر پھر آسمانی بادشاہت قائم ہو جائے.اسی غرض کے لئے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے.اور اسی غرض کے لئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں کہ آؤ ! خدا کے سپاہیوں میں شامل ہو جاؤ.آج محمد رسول اللہ کا تخت مسیح نے چھینا ہوا ہے.تم نے وہ تخت مسیح سے چھین کر محمد رسول اللہ کو دینا ہے.اور محمد رسول اللہ نے اسے خدا کے سامنے پیش کرنا ہے.اور پھر دنیا میں آسمانی بادشاہت قائم ہونی ہے.پس میری سنو، میری بات کے پیچھے چلو.تم میری سنو، میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، خدا کہہ رہا ہے.یہ میری آواز نہیں ہے.میں تمہیں خدا کی آواز کی طرف بلاتا ہوں.354 تم میری مانو.خدا تمہارے ساتھ ہو، خدا تمہارے ساتھ ہو، خدا تمہارے ساتھ ہو، تا تم اس دنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ.( مطوعه روز نامہ الصلح مورخہ 15 جنور خہ 15 جنوری 1954ء )
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 01 جنوری 1954ء کوشش کی جائے کہ جماعت کا کوئی فرد تحریک جدید سے باہر نہ رہ جائے خطبه جمعه فرموده یکم جنوری 1954ء دوسری بات میں نے یہ پیش کی تھی کہ اس سال تمام جماعت میں تحریک جدید کو مضبوط کیا جائے.جماعت کا ہر فرد چھوٹا ہو یا بڑا، عورت ہو یا مردہ تحریک جدید میں حصہ لے.اور اس کی بھی جو صورت میں نے پیش کی ہے، اس میں کوئی مشکل نہیں.اور وہ صورت یہ ہے کہ تحریک جدید میں کم سے کم پانچ روپے دے کر ہر شخص شامل ہو سکتا ہے.اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر حصہ لینے والا پانچ روپے دے.بلکہ اگر کوئی ایک روپیہ دے سکے تو پانچ آدمی مل کر ایک آدمی کے وجود کے طور پر پانچ روپیہ لکھا دیں.اور اگر فرض کرو، وہ ایک، ایک روپیہ بھی نہیں دے سکتے ، آٹھ ، آٹھ آنہ دے سکتے ہیں تو دس آدمی مل کر ایک وجود کے طور پر پانچ روپیہ لکھا دیں.بہر حال ایک دفعہ کوشش کی جائے کہ جماعت کا کوئی فرد تحریک جدید سے باہر نہ رہ جائے.اگر ہم اس سال ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو میرا وسیع تجربہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص نیکی کی طرف کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اسے بعد میں اس کو پھیلانے کا موقع ملتا ہے.میں جانتا ہوں کہ جولوگ پانچ، پانچ روپے دے کر تحریک جدید میں شروع میں شامل ہوئے تھے ، انہوں نے اس دور کو چار چار، پانچ پانچ سوروپیہ پر ختم کیا ہے.میں جب کہتا ہوں کہ جماعت کا ہر فرد ایک، ایک روپیہ یا آٹھ ، آٹھ آنے دے کر تحریک جدید میں شامل ہو جائے تو میں جانتا ہوں کہ وہ ایک جگہ پر کھڑے نہیں ہوں گے.بلکہ یہ ایک روپیہ یا آٹھ آنے انہیں گھسیٹ کر آگے لے جائیں گے اور وہ اس ایک روپیہ یا آٹھ آنے سے سو، دوسو یا پانچ سو اور ہزار روپیہ تک چلے جائیں گے.تیسری تحریک، جو میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر کی ، پیتھی کہ ہر احمدی زمیندار، جو فصل عام طور پر کاشت کرتا ہے، وہ اس کا1/20 فیصدی زیادہ بوئے اور اس کی آمدنی تحریک جدید میں دے.مثلاً ایک شخص 20 کنال فصل ہوتا ہے تو وہ 21 کنال فصل ہوئے اور اس ایک کنال کی آمد محض خدا تعالی کے لئے وقف کرے.تا کہ اس سے غیر قوموں اور غیر مذاہب میں تبلیغ اسلام ہو.یہ بھی کوئی مشکل نہیں.5 فیصدی زیادہ کام کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہوتا.اگر کسی نے ایک کام میں 20 منٹ خرچ کرنے تھے اور وہ 21 منٹ 355
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 01 جنوری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم خرچ کرلے تو اس کے لئے یہ کون سی مشکل بات ہے؟ یا اگر کسی شخص نے ایک کام سومنٹ خرچ کرنے تھے.اور وہ اس میں 105 منٹ خرچ کرے تو یہ کون سی مشکل بات ہے؟ یا اگر کسی نے ایک جگہ 100 دن ٹھہر نا تھا اور وہ 105 دن ٹھہر جائے تو یہ کون سی مشکل بات ہے؟ اس چیز کا زائد فائدہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر پانچ فیصدی زیادہ محنت کرنے کی عادت پیدا ہو جائے گی.جو اس کے دوسرے کئی کاموں میں مفید ثابت ہوگی.اس تجویز پر عمل کرنے سے بھی سلسلہ کی آمد بڑھ سکتی ہے اور دوستوں کو سلسلہ کے کاموں میں شمولیت کا موقع مل سکتا ہے.پھر ایک تحریک میں نے یہ کی تھی کہ ہر آدمی اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ کام کرے اور اس سے جو آمد ہو، وہ اشاعت اسلام کے لئے دے.چنانچہ دو عورتوں کی طرف سے کچھ چندہ آ بھی چکا ہے.ایک عورت نے میری اس تقریر کے بعد کچھ کام کیا، اس سے دس آنہ کی آمد ہوئی ، جو اس نے تحریک جدید میں دی.اور دوسری عورت کا جلسہ پر میں اپنی تقریر میں ذکر کر چکا ہوں کہ اس نے میری اس تقریر کے بعد تین کا رڈلکھ کر دیئے اور اس کے بدلہ میں تین پیسے حاصل کئے اور یہ تین پیسے اس نے تحریک جدید میں دے دیئے.اگر ہر شخص کوئی نہ کوئی کام شروع کر دے اور اس کی آمد اشاعت اسلام کے لئے دے تو سلسلہ کی آمد میں کافی ترقی ہو سکتی ہے.مثلاً میں نے اچھے اچھے افسروں کے متعلق معلوم کیا ہے، انہوں نے میری اس تقریر کے بعد اپنے لئے بعض کام سوچے ہیں.مثلاً بعض افسروں نے یہ تجویز کیا ہے کہ وہ کسی دن اسٹیشن پر چلے جائیں گے اور مسافروں کا سامان گاڑی سے باہر نکال کر رکھ دیں گے اور اس طرح کچھ نہ کچھ آمد پیدا کریں گے.گویا کسی نے کوئی کام سوچا ہے اور کسی نے کوئی.اگر یہ روح جماعت میں پیدا ہو جائے تو چاہے اس کے نتیجہ میں کتنی کم آمد پیدا ہو، کم از کم اس کا اس قدر فائدہ تو ضرور ہو گا کہ جماعت کے اندر قربانی کی روح پیدا ہوگی.دوسرے غریب اور امیر میں جو فرق آجکل پایا جاتا ہے ، وہ دور ہو جائے گا.تیسرے ہر ایک شخص کی ذہنیت اس طرف مائل ہوگی کہ اسے اپنے مقررہ رستہ سے ہٹ کر بھی کوئی کام کرنا چاہئے.میں اپنے لئے بھی سوچ رہا ہوں کہ کوئی ایسا کام نکالوں کہ دوسرے کاموں میں فرق پڑے بغیر میں اس کے نتیجہ میں کچھ آمد پیدا کر کے سلسلہ کو دے سکوں.عام طور پر ایک زمیندار، ایک صناع یا ایک تاجر کوئی کام کرتا ہے تو وہ اپنے لئے کرتا ہے اور اس میں سے ایک حصہ خدا تعالیٰ کے لئے دے دیتا ہے.لیکن یہ کام خالص خدا تعالیٰ کے لئے ہوگا اور اس سے جو آمد ہوگی ، وہ خالص اشاعت اسلام کے لئے ہوگی.356
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 01 جنوری 1954ء یہ پروگرام میں نے جماعت کے لئے تجویز کیا تھا.اگر دوست اس طرف توجہ کریں ، سلسلہ کے اخبار بار بار جماعت کو اس کی طرف توجہ دلاتے رہیں ، سلسلہ کے مبلغ جس جگہ جائیں ، وہ لوگوں کو اس کی ترغیب دلائیں اور لوگوں سے سو فیصدی اس پروگرام پر عمل کرانے کی کوشش کریں ، جماعت کے سیکر یٹری اور پریزیڈنٹ صاحبان ذمہ داری سے کام لیں اور جماعت کے تمام افراد سے اس پر عمل کرائیں اور پھر ان رقوم کو پوری طرح ادا کر کے چھوڑیں تو ہمارا اگلا سال ہمارے سامنے نئی شکل میں ظاہر ہو گا.ہماری تبلیغ بڑھی ہوئی ہوگی ، ہماری جماعت میں پہلے سے زیادہ اخلاق پیدا ہو چکے ہوں گے، جماعت کی تعلیم پہلے سے اچھی ہو چکی ہوگی، دین کا جذبہ ترقی کر چکا ہوگا اور جماعت قربانی میں ترقی کرنے کے قابل ہو چکی ہوگی.پس میں اس نئے سال میں، جمعہ کے مبارک دن میں ، جو اس سال کا پہلا دن ہے، جماعت کو ان امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جماعت کے سارے احباب پختہ عزم اور ارادہ کے ساتھ ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گئے“.المصاء مطبوعه روزنامه اصبح 21 فروری 1954 ء ) 357
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده و 22 جنوری 1954ء خدا تعالیٰ کا فضل ہی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ تم تحریک جدید میں حصہ لو وو خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1954ء...اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں ، جو میں نے خطبہ میں بیان کرنا تھا.وہ مضمون میں تحریک جدید کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی جماعت کو بتایا تھا کہ تحریک کے دونوں دوروں کے جو وعدے آ رہے ہیں، وہ گزشتہ سالوں کی نسبت سے بہت کم ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عرصہ میں کچھ کمی پوری کی گئی ہے.یعنی جب میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی، اس وقت اس سال کے وعدوں اور گزشتہ سال کے وعدوں میں 33 34 فی صدی کا فرق تھا.یعنی سو کی بجائے 66 کے وعدے آئے تھے.لیکن اب فرق کم ہو گیا ہے.اب 66 کی بجائے قریباً 80 فیصدی وعدوں کی گزشتہ سال سے نسبت ہے.لیکن اب وعدوں کی تاریخ ختم ہو رہی ہے.پندرہ فروری آخری تاریخ ہے، جس تک وعدے مرکز میں پہنچ جانے ضروری ہیں.تین ، چار دن ڈاک پر لگ جائیں گے.گویا وعدے زیادہ سے زیادہ 20 فروری تک وصول ہوں گے.اور اس میں جتنے دن باقی رہ گئے ہیں، وہ اتنے تھوڑے ہیں کہ ان میں اس کسر کا پورا ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے.جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے جماعت کو بتایا تھا کہ ہمارے اہم ترین کاموں میں سے غیر ملکوں میں تبلیغ اسلام کرنا ہے.کیونکہ اسلام کی کمزوری اور ضعف کا موجب غیر مذاہب کا رویہ ہے.اگر ہم اسلام کی صحیح تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اگر ہم ان میں سے کچھ حصہ کو مسلمان بنادیں تو لازمی طور پر ان کی دشمنی اور عداوت کمزور پڑ جائے گی.اور آہستہ آہستہ ہوسکتا ہے کہ وہ سارے ہی ہمارے بھائی بن جائیں.مثلاً جب ملک تقسیم نہیں ہوا تھا ، ہم ہندوؤں میں تبلیغ کرتے تھے تو پیچھے پیچھے مولوی آجاتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ آریہ بنا احمدی ہونے سے بہتر ہے.اور زیادہ تر قریب رہنے والے چونکہ وہی لوگ ہوتے تھے، اس لئے ہمیں تبلیغ کرنے میں مشکل پیش آتی تھی.کیونکہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہی اسلام ہے، جو مولوی لوگ پیش کر رہے ہیں، احمدی تو تعداد میں بہت تھوڑے ہیں.لیکن دوسرے ممالک میں چلے جاؤ تو وہاں اگر ہمارا مبلغ ہے تو وہ جو صحیح اسلام پیش کرتا ہے، لوگ بھی اسی کو صحیح اسلام سمجھتے ہیں.صرف چند اور ٹینٹسٹ 359
اور تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1954ء ور مستشرقین کہتے ہیں کہ دوسرے مسلمان اور کہتے ہیں.لیکن ان کے اتباع بہت کم ہوتے ہیں، اس لئے ان کی بات کو صرف چند افراد قیمت دیتے ہیں، عوام نہیں.پس وہاں ہمارا نمائندہ جو کچھ کہتا ہے، لوگ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اور اگر وہ باتیں انہیں معقول نظر آتی ہیں تو وہ مان لیتے ہیں.اور وہی ممالک ہیں، جہاں تبلیغ اسلام مفید ہو سکتی ہے.کیونکہ ان ممالک میں ہمارے پیچھے مولوی نہیں ہوتے ، جو یہ کہیں کہ یہ صیح اسلام نہیں.بہر حال دوسرے ممالک میں ہمیں یہ سہولت میسر ہوتی ہے اور معقول طور پر قرآن کا پیش کردہ اسلام لوگوں تک پہنچانا آسان ہوتا ہے.بس ایک ہی طریق ، جو تبلیغ اور خدمت اسلام کا ہمارے پاس ہے، اگر اس کی طرف توجہ نہ کی جائے تو اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہوگی ؟ لیکن باوجود اس کے کہ یہی ایک طریق خدمت اسلام کا ہے محض اس لئے کہ میرے منہ سے 19 کا لفظ نکل گیا تھا، تحریک جدید کے وعدوں میں کمی واقع ہوگئی ہے.گویا 19 کالفظ کیا نکلا، قیامت آگئی ، اب اور کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں رہی.غرض یہ لفظ لوگوں کے اندر کمزوری پیدا کر رہا ہے.میں بتا چکا ہوں کہ در حقیقت 19 کا لفظ کوئی معنی نہیں رکھتا.یہ لفظ مصلحت کے ماتحت خدا تعالیٰ نے میرے منہ سے نکلوایا تھا.ورنہ خدمت دین اور تبلیغ اسلام کا کام وہ ہے، جو قیامت تک چلے گا.اور قرآن کریم سے بھی اس کا پتہ لگتا ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے منکر قیامت تک رہیں گے.اب صاف ظاہر ہے کہ ایک مسلمان تو مسیح علیہ السلام کا منکر نہیں ہو سکتا، غیر مسلم ہی ان کے منکر ہو سکتے ہیں.پس دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنی ہیں کہ غیر مسلم قیامت تک رہیں گے.اور اگر یہ بات صحیح ہے کہ غیر مسلم قیامت تک رہیں گے تو یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ تبلیغ اور خدمت اسلام بھی قیامت تک رہے گی اور درمیان میں کوئی شخص اسے ختم نہیں کر سکتا.ایک دفعہ قادیان میں ، میں نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو بعد میں کسی شخص نے کہا کہ ایک پیر صاحب آئے ہوئے ہیں، وہ آپ سے کوئی بات دریافت کرنا چاہتے ہیں.میں نے کہا، اچھا، پیر صاحب کو لے آئیں.چنانچہ میں مسجد میں ہی بیٹھ گیا اور وہ پیر صاحب آگئے.انہوں نے سوال کیا کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر کوئی شخص کشتی میں سوار ہو اور دریا کے دوسرے کنارے پر جانا چاہتا ہوتو جب کشتی کنارہ پر لگ جائے تو وہ کشتی میں ہی بیٹھار ہے یا دوسرے کنارہ پر پہنچ کر کشتی سے اتر جائے؟ میرے دل میں اللہ تعالٰی نے معالیہ بات ڈال دی کہ یہ پیرا باحتی فقیروں میں سے ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ نماز خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے ہوتی ہے، جب کسی کو خدا تعالیٰ مل جائے تو وہ نماز کیوں پڑھے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک نماز پڑھتے رہے ہیں، اس لئے ہم بھی اپنی وفات تک نماز پڑھتے رہیں گے.360
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 جنوری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم لیکن میں نے جو جواب دیا، وہ یہ تھا کہ پیر صاحب یہ بات تو دریا کی چوڑائی پر منحصر ہے.اگر دریا محدود ہے تو جب کنارہ آجائے گا، اس شخص کا کشتی میں بیٹھے رہنا بے وقوفی کی بات ہوگی.لیکن اگر وہ دریا غیر محدود ہے تو اگر ہم سمجھیں گے کہ دریا کا کنارہ آگیا تو یہ بے وقوفی ہوگی.پس جہاں ہم اترے، وہیں ڈوبے.اب آپ بتائیے کہ آپ محدود دریا کے متعلق پوچھ رہے ہیں یا غیر محدود دریا کے متعلق پوچھ رہے ہیں؟ اب یہاں سوال تو خدا تعالیٰ کا تھا، جو غیر محدود ہے.اسے وہ محدود کیسے کہتا ؟ اس لئے وہ کہنے لگا کہ بات ٹھیک ہے، میں سمجھ گیا ہوں کہ جب دور یا غیر محدود ہوتو جہاں ہم کشتی سے اتریں گے، وہیں ڈوبیں گے.وہی بات میں اب کہتا ہوں کہ تبلیغ اسلام کا کام قیامت تک ہے.جس نے یہ کام چھوڑ ا، مرا.کھانا چھوڑ دینے سے جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے اور تبلیغ اسلام کا فریضہ ترک کر دینے سے روحانی موت آجاتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے مومنوں کے ساتھ سودا کیا ہے کہ ان کی جانیں اور مال میں نے ان سے لے لئے ہیں اور اس کے بدلہ میں، میں نے انہیں جنت دے دی ہے.پس اللہ تعالیٰ بھی سودے کرتا ہے.اگر ہم اسے زندگی نہیں دیتے تو وہ ہمیں زندگی کیوں دے؟ خدا تعالیٰ کی زندگی کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دین کی تعلیم زندہ رہے.اگر ہم اسلام کی زندگی کو قائم رکھ کر خدا تعالیٰ کوزندگی نہیں دیتے تو خدا تعالیٰ بھی ہمیں زندگی نہیں دے گا.لیکن اگر ہم اس کو زندہ رکھتے ہیں تو خدا تعالیٰ قیامت کے دن ہمیں کہے گا کہ تم نے مجھے زندگی دینے کی کوشش کی ، اس لئے اب میں بھی تمہیں زندگی دوں گا.یہ مت سمجھو کہ خدا تعالیٰ کے لئے زندگی کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے؟ وہ تو جیبی و قیوم ہے، اس کے لئے زندگی کا لفظ استعمال نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب بعض لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو ہ کہے گا تم جنت میں داخل ہو جاؤ.کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا.میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا.میں بنگا تھا تم نے مجھے کپڑے پہنائے.وہ لوگ کہیں گے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تو تو رب العالمین ہے اور ہم تیرے بندے ہیں.تیری شان تو بہت ارفع ہے.تو کیسے بھوکا رہ سکتا ہے کہ ہم تجھے کھانا کھلا ئیں؟ تو کیسے پیاسا رہ سکتا ہے کہ ہم تجھے پانی پلائیں؟ تو کیسے نگارہ سکتا ہے کہ ہم تجھے کپڑے پہنا ئیں؟ اللہ تعالیٰ کہے گا، نہیں نہیں تم نے ایسا کیا ہے.میرا ایک ادنیٰ سے ادنی بندہ جب تمہارے پاس آیا اور وہ بھوکا تھا اور تم نے اسے کھانا کھلایا تو میں ہی بھوکا تھا، جس کو تم نے کھانا کھلایا.اور جب میرا ایک ادنیٰ سے ادنی بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ پیاسا تھا اور تم نے اسے پانی پلایا تو میں ہی پیا سا تھا، جس کو تم نے پانی پلایا.اور جب میرا ایک ادنیٰ سے ادنی بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ نگا تھا تو تم نے اسے کپڑے پہنائے تو میں ہی نگا تھا ، جسے تم نے وہ.361
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کپڑے پہنائے.اور اگر میرا ایک ادنیٰ سے ادنی بندہ بیمار ہوا اور تم نے اس کی عیادت کی تو تم نے میری ہی عیادت کی.پس چونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا.میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا.میں نگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا.میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی.اس لئے آج میں بھی تم کو ایسے گھر میں جگہ دوں گا ، جہاں تمہیں ہر قسم کا رزق اور آرام ملے گا.اور اگر خدا تعالیٰ کے کسی کمزور سے کمزور بندے کو رزق دینا ، خدا تعالی کو رزق دینا ہے.اگر اس کے کمزور سے کمزور بندے کو پانی پلانا، خد تعالی کو پانی پلانا ہے.اگر اس کے کمزور سے کمزور بندے کو کپڑے پہنانا ، خدا تعالیٰ کو کپڑے پہنانا ہے تو دین تو اس کی ساری صفات کا جامع ہے.دین اسلام کیا ہے؟ دین اسلام خدا تعالیٰ کی ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت کی صفات کو بیان کرنے والا ہے.جو شخص اس دین کی اشاعت کے لئے کوشش نہیں کرتا، وہ خدا تعالیٰ کو دنیا میں زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا.گویا خدا تعالیٰ کا وجود اسلام کے ذریعہ آتا ہے.جو شخص اسلام کو زندہ کرتا ہے، وہ دنیا کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کو زندہ کرتا ہے اور جو شخص اسلام کو زندہ نہیں کرتا ، وہ دنیا کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کو مارتا ہے.خدا تعالیٰ تو ہر وقت عرش پر موجود ہے اور وہ ہمیشہ زندہ رہے گا.لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے، وہ زندہ بھی ہوتا ہے اور مرتا بھی ہے.جب لوگوں کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہٹ جائے اور اس کی طرف ان کا دھیان نہ رہے تو ان کے لئے خدا تعالیٰ مرا ہوا ہو گا.اور جب لوگوں کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو تو ان کے لئے خدا تعالیٰ زندہ ہو گا.غرض اسلام کی اشاعت میں ہی خدا تعالیٰ کی زندگی ہے اور اس کی اشاعت کو ترک کرنا گویا خدا تعالیٰ کی موت ہے.پس جو شخص اسلام کی اشاعت میں حصہ لیتا ہے ، وہ خدا تعالیٰ کو زندہ کرتا ہے اور جو شخص اسلام کی اشاعت میں حصہ نہیں لیتا ، وہ خدا تعالیٰ کی زندگی سے لا پرواہ ہے.اور جو شخص خدا تعالیٰ کی زندگی سے لا پرواہ ہے، اس کا یہ امید رکھنا کہ خدا تعالیٰ اسے زندہ رکھے گا، بیوقوفی کی بات ہے.آخر یہ ایک سودا ہے، جو تم نے خدا تعالیٰ سے کیا ہے.اگر تم اپنا حصہ پورا ادا نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ اپنا حصہ کیوں پورا کرے؟ میں نے تم پر واضح کر دیا تھا کہ تبلیغ اسلام ہمیشہ کے لیے ہے، اس لئے اگر میرے منہ سے 19 کا لفظ نکل گیا تو کیا تم یہ کہو گے کہ اب تبلیغ اسلام نہیں کی جائے گی ؟ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو آپ نے بھی اسی قسم کی ایک بات کہی.مدینہ آنے سے قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ مکہ کے لوگ مدینہ پر حملہ کریں گے اور ان کی مسلمانوں سے لڑائیاں ہوں گی.اس لئے جب انصار مدینہ نے آپ کے سامنے یہ بات پیش کی کہ آپ مدینہ تشریف 362
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 22 جنوری 1954ء لے چلیں اور آپ نے وہاں جانا منظور کر لیا تو آپ نے فرمایا، میں جب مدینہ آجاؤں گا تو تمہارا کام ہوگا کہ اگر مدینہ پر حملہ ہو تو تم دشمن کا مقابلہ کرو اور اگر لڑائی مدینہ سے باہر ہو تو دشمن کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری تم پر عائد نہیں ہوگی.اب یہ ایک احتمالی بات تھی ، یقینی نہیں تھی.اور چونکہ یہ ایک دور کا خیال تھا، اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر کا خیال نہیں کیا اور مدینہ والوں نے بھی کہہ دیا کہ ہاں مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے لیکن باہر نہیں.ہجرت کے بعد ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ اسلام کو بچانے کی خاطر مسلمانوں کو مدینہ سے باہر جا کر بھی لڑنا پڑا.چنانچہ جنگ بدر ہی مدینہ سے باہر کئی منزلوں پر جا کر لڑی گئی.جب آپ جنگ کے لئے باہر نکلے تو پہلے یہ خیال تھا کہ ایک قافلہ سے مقابلہ ہوگا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ لڑائی مکہ سے آنے والے ایک باقاعدہ لشکر سے ہوگی.اس پر آپ نے خیال فرمایا کہ مدینہ والوں سے تو یہ معاہدہ تھا کہ انہیں مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کرنا ہوگا ، مدینہ سے باہر لڑائی کی صورت میں مقابلہ کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوگی.جب آپ لڑائی کے لئے باہر نکلے تو آپ کے ساتھ مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی.آپ نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا تم مجھے مشورہ دو کہ دشمن سے لڑائی کی جائے یا نہیں؟ آپ کا منشاء تھا کہ آپ کے سوال کے جواب میں انصار بولیں گے کہ معاہدہ کے وقت ہم سے یہ شرط کی گئی تھی کہ مدینہ پرحملہ ہونے کی صورت میں ہم مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں گے، مدینہ سے باہر لڑائی کی صورت میں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے پابند نہیں ہوں گے، اب آپ بغیر بتائے ہمیں یہاں لے آئے ہیں، یہ بات اس معاہدہ کے خلاف ہے.بہر حال آپ نے جب مشورہ پر زور دیا تو مہاجرین نے مشورہ دیا کہ اگر دشمن حملہ کرتا ہے تو ہمارے لئے اس کا مقابلہ کرنے کے سوا اور کیا چارہ ہے؟ انصار خاموش بیٹھے رہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کے بار بار کھڑا ہونے اور مشورہ دینے کے بعد فرماتے ، اے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ اب کیا کیا جائے؟ اس وقت ایک انصاری رئیس کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! لوگ آپ کو مشورہ تو دے رہے ہیں لیکن پھر بھی آپ یہی فرمارہے ہیں ، اے لوگو! مجھے مشورہ دو، اے لوگو مجھے مشورہ دو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ کی غرض یہ ہے کہ ہم بھی بولیں.یا رسول اللہ ! ہم اب تک اس لئے نہیں بولے کہ حملہ آور مہاجرین کے بھائی بند ہیں.ان میں کوئی تو مہاجرین کا بھائی ہے، کوئی چچا ہے اور کوئی بھتیجا ہے.ہمارا ان سے لڑائی کا مشورہ دینا خلاف اخلاق تھا.کیونکہ اگر ہم یہ مشورہ دیتے کہ ہم حملہ آوروں سے لڑیں گے تو مہاجرین کہتے ، یہ لوگ ہمارے بھائی بندوں کے قتل کے شوقین ہیں.اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ مہاجرین بول لیں.کیونکہ 363
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 22 جنوری 1954ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم وہ لوگ ان کے اپنے بھائی بند ہیں.لیکن یا رسول اللہ! آپ کے بار بار مشورہ پر زور دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انصار بھی بولیں.اور شاید حضور کا مشورہ طلب کرنے سے اس معاہدہ کی طرف اشارہ ہے، جو ہجرت سے قبل آپ کے اور انصار کے درمیان ہوا.آپ نے فرمایا، یہ درست ہے ، وہی معاہدہ میرے مدنظر تھا.اس پر اس انصاری رئیس نے کہا ، یا رسول اللہ ! جب ہم نے وہ شرط کی تھی کہ ہم مدینہ کے اندر رہ کر دشمن سے مقابلہ کریں گے ، مدینہ سے باہر لڑائی کی صورت میں ہم آپ کی مدد کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ، اس وقت ہمیں پتہ نہیں تھا کہ آپ ہیں کیا؟ آپ کی شان ہم پر واضح نہیں تھی.صرف بعض صداقتیں دیکھ کر ہم آپ پر ایمان لے آئے.آپ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ میں ہم آپ کی مجلسوں میں بیٹھے اور ہمیں پتہ لگا کہ آپ کی شان کیا ہے؟ اب وہ معاہدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اب آپ کی شان ہمیں معلوم ہو چکی ہے.اب یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے ، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آپ تک پہنچے تو پہنچے، اس سے پہلے نہیں پہنچ سکتا.پھر اس انصاری رئیس نے کہا، یا رسول اللہ ! سامنے ( دو تین منزل پر ) سمندر ہے.لڑائی تو الگ رہی ، آپ ہمیں حکم دیں کہ تم سب اس سمندر میں کو دجاؤ تو ہم بلا سوچے سمجھے اس میں اپنی سواریاں ڈال دیں گے.تو دیکھو وہ بھی ایک معاہدہ تھا، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے ہجرت سے قبل کیا تھا.میں نے تو تم سے کوئی معاہدہ نہیں کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انصار نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ مدینہ سے باہر جا کر دشمن کا مقابلہ نہیں کریں گے.خدا تعالیٰ نے سمجھا کہ اگر ابھی سے انہیں کہہ دیا گیا کہ تمہیں دشمن کا مقابلہ کرنا ہوگا تو یہ لوگ ڈر نہ جائیں.جب ان پر حقیقت کھل جائے گی تو یہ لوگ خود لڑیں گے.اسی طرح جب میں نے تحریک جدید کا اعلان کیا تھا تو وہ تمہاری کمزوری کا وقت تھا.اگر اس وقت میں یہ کہ دیتا کہ یہ تحریک قیامت تک کے لئے ہے تو شاید تم میں سے اکثر ہمت سے کام نہ لیتے اور اس میں حصہ لینے سے محروم رہتے.اس لئے خدا تعالیٰ نے میری زبان سے پہلے تین اور دس اور پھر انیس کا لفظ نکلوا دیا.خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ جب یہ لوگ 19 سال تک پہنچ جائیں گے تو وہ اس میں اس طرح پھنس جائیں گے کہ ان کا اس سے نکلنا مشکل ہوگا.اس وقت سارے اہم ممالک میں ہمارے مشن قائم ہیں اور ان میں ہماری تبلیغ ہورہی ہے.اب اگر تحریک جدید کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہمیں کسی مشن کو بند کرنا پڑا تو تمہاری ناک کٹ جائے گی.اب ناک کٹوانے سے محفوظ رہنے کے لئے تمہیں ساتھ ساتھ چلنا پڑے گا.تم اپنے آپ کو تبلیغ میں اس طرح 364
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 جنوری 1954ء پھنسا بیٹھے ہو کہ اب سوائے بے شرمی اور بے حیائی کے کوئی چیز نہیں، جو تمہیں اس کام سے ہٹا سکے.تبلیغ اسلام کے متعلق جوذ مہ داری تم پر عائد ہوتی ہے تم اس فرض کو جانے دو.تم اپنے ناک کی حفاظت کرو.اگر تم تحریک جدید سے ہٹ گئے تو تمہاری ناک کٹ جائے گی.اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ یہ طریق صرف اس لئے اختیار کیا تھا کہ تم کمزوری کا شکار نہ ہو جاؤ اور تمہیں مضبوط ہونے اور بہادری دکھانے کا موقع مل جائے.تم دس اور انیس کے پھیر میں نہ پڑو، یہ کام قیامت تک کے لئے ہے.یا یوں سمجھ لو کہ یہ کام اس وقت تک کے لئے ہے، جب تک تم زندہ رہو.جب تم مر جاؤ گے تو یہ کام تمہارے لئے بند ہو گا.اور جب یہ کام بند ہوگا تو تم مرجاؤ گے.اگر تبلیغ اسلام ختم ہوگی تو تمہاری روحانی زندگی ختم ہو جائے گی.اور اگر تم روحانی طور پر زندہ رہو گے تو تبلیغ اسلام بھی ختم نہیں ہوگی.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ تم نے بھی خدا تعالیٰ سے کچھ امید میں لگا رکھی ہیں ہم تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو اپنے اعمال کے زور سے جنت میں چلے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں عائشہ، میں بھی اللہ تعالٰی کے فضل سے ہی جنت میں جاؤں گا.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وجود بھی یہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی جنت میں جاؤں گا تو تم کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے ہو کہ تم اپنے اعمال کے زور سے جنت میں چلے جاؤ گے؟ آخر وہ کیا چیز ہے، جو تم خدا کے سامنے پیش کرو گے؟ اگر تم نماز پڑھتے ہو تو تم اپنے فائدہ کے لئے پڑھتے ہو، اگر تم روزے رکھتے ہو تو تم اپنے فائدہ کے لئے رکھتے ہو، اگر تم حج کرتے ہو تو تم اپنے فائدہ کے لئے کرتے ہو، اگر تم زکوۃ دیتے ہو تو تم اپنے بھائی بندوں کے فائدہ کے لئے دیتے ہو.صرف ایک چیز ہے، جس کو تم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکتے ہو اور کہہ سکتے ہو کہ اے خدا! ہم نے تیری خاطر یہ کام کیا.ہم پاکستان میں رہتے تھے ، نہ بند باندھتے تھے، پھٹی ہوئی پگڑیاں پہنتے تھے ، کھانے کو پیٹ بھر کر بھی نہیں ملتا تھا مگر باوجودان سب تکلیفوں کے ہم نے محض تیرے نام کو بلند کرنے کے لئے چندے دیئے.یہی وہ چیز ہے، جس کو قیامت کے دن اپنی نجات کی خاطر تم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکتے ہو.اور خدا تعالی ، جو عدل وانصاف کا منبع ہے، تمہیں یہی کہہ سکتا ہے کہ تم نے تکلیفیں اٹھا کر میرے نام کو بلند کیا تھا، اب میں اس جہاں میں تمہارے کام کو بلند کروں گا.پھر یہی وہ چیز ہے، جسے تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر سکتے ہو اور کہہ سکتے ہو کہ یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کے لائے ہوئے دین کی تبلیغ کی.365
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اس لئے آپ خدا تعالیٰ کے پاس ہماری شفاعت کریں.پس اللہ تعالیٰ کے فضل اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو کھینچنے کے لئے تبلیغ اسلام کے سوا اور کوئی چیز نہیں.اور دنیا میں سب سے مقدم یہی عمل ہے.اللہ تعالی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:.وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا کہ تم قرآن کریم کو لے کر جہاد کبیر کرو.پس سب سے بڑاعمل یہی ہے کہ تم قرآن کریم کے ساتھ جہاد کبیر کرو.اگر تم سمجھتے ہو کہ تم نماز اور روزہ سے جنت لے لو گے تو تمہاری مرضی.لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ جنت کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل کی ضرورت ہے تو اس کا فضل اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ تم تحریک جدید میں حصہ لو.تکالیف اور مشکلات آتی ہیں تو آنے دو لیکن تبلیغ کو نہ چھوڑوتا کہ نجات تمہارا دامن نہ چھوڑے.اور تا تم رسول کریم سے دعوئی سے کہہ سکو کہ ہم آپ کی شفاعت کے مستحق ہیں.ہم نے آپ کے لائے ہوئے دین کو جہنم سے نکالا ہے، کیا آپ ہمیں جہنم سے نہیں نکالیں گے؟ یا تم خدا تعالیٰ سے یہ کہ سکو کہ ہم نے تیرے نام کو دنیا میں روشن کرنے کے لئے فاقے بھی برداشت کئے ہیں لیکن تجھے فاقے برداشت کرنے کی ضرورت نہیں.ہم نے تکالیف برداشت کر کے تیرے دین کو زندہ کیا ہے، اب ہمیں زندگی دینے کے لئے تجھے تکالیف برداشت کرنے کی ضرورت نہیں.پھر کیا تو فاقے برداشت کئے بغیر اور تکالیف اٹھائے بغیر بھی ہمیں زندگی نہیں بخشے گا ؟ پس یہ دو دلیلیں ہیں، جن کے ساتھ تم خدا تعالیٰ کے فضل اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو حاصل کر سکتے ہو.ان کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں، جس کے ذریعہ تم خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکو یارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی امید رکھ سکو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر تمہاری سفارش کریں گے تو ان کے پاس کوئی نہ کوئی دلیل تو ہونی چاہئے ، جو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکیں.آپ یہ تو نہیں کہیں گے کہ میں پارٹی کا پنچ ہوں، اس لئے ان لوگوں کی شفاعت کرتا ہوں.آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی نہ کوئی چیز پیش کرنی ہوگی کہ یہ وجہ ہے، جس کی بناء پر میں ان کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا چاہتا ہوں.اور خدمت اسلام کے سوا مجھے کوئی اور چیز ایسی نظر نہیں آئی، جس کی بناء پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری شفاعت کریں.بے شک جنت میں جانے کے لئے طہارت نفس کی بھی ضرورت ہے، اس کے لئے ایمان کی بھی ضرورت ہے، اس کے لئے خدمت خلق کی بھی ضرورت ہے.لیکن باوجود اس کے ہماری کوششوں میں کمی رہ جاتی ہے، اس کمی کو پورا کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی ضرورت ہے.یہ 366
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 جنوری 1954ء ہیں کہ فلاں شخص نے نماز میں پڑھی یا ا نے کو نہیں دی اس لئے رسول کریم صلی الہ علیہ سلم اس کی سفارش کریں گے.آپ کی شفاعت اس لئے ہوگی کہ ان لوگوں نے سارا زور لگا کر نمازیں پڑھی ہیں ، سارا زور لگا کر روزے رکھے ہیں لیکن پھر بھی کچھ کر رہ گئی ہے.انہوں نے اچھی طرح حج کیا ہے لیکن پھر بھی اس میں کسر رہ گئی ہے.انہوں نے پورا زور لگا کر ز کوۃ دی ہے، لیکن پھر بھی اس میں کچھ کسر رہ گئی ہے.اس کسر کو پورا کرنے کے لئے میں ان کی سفارش کرتا ہوں.انہوں نے پورا زور لگا کر اعمال صالحہ کئے ہیں، لیکن پھر بھی کچھ کسر رہ گئی ہے.آپ رحیم و کریم ہیں ، آپ یہ کسر پوری کر دیں.پس خدا تعالیٰ سے شفاعت کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی چیز تو ہونی چاہئے کہ یہ شخص اخلاص سے کام کر رہا تھا لیکن اس کی کوششوں میں کمی رہ گئی ، آپ اس کمی کو پورا کر دیں.تم ب کسی سے کہتے ہو کہ میر افلاں کام کر دو.یا کسی سے سفارش کرواتے ہو تو ساتھ ہی یہ دلیل دیتے ہو کہ فلاں وجہ ہے، جس کی بناء پر مجھے یہ حق حاصل ہے.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے پاس شفاعت کے لئے جائیں گے تو آپ کے پاس کوئی نہ کوئی دلیل ہونی چاہئے ، جس کو پیش کر کے وہ خدا تعالیٰ سے شفاعت کر سکیں.اور وہ یہی ایک چیز ہے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کر کے اسے زندہ کیا تھا، اب وہ ہمیں زندہ کرے.ہم نے خدا تعالیٰ سے سودا کیا تھا، سو ہم نے اپنی شرط پوری کر دی، اب وہ اپنی شرط پوری کرے.یہی ایک دلیل ہے، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکتے ہیں اور اس کا فضل حاصل کر سکتے ہیں.پس مت سمجھو کہ یہ کوئی معمولی کام ہے.یہ مت سمجھو کہ اسے نظر انداز کر کے تم اپنی روحانیت کو سلامت رکھ سکتے ہو یا قیامت کو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا مطالبہ کر سکتے ہو.خدا تعالیٰ کے فضلوں کا مطالبہ کرنے کے لئے کسی غیر معمولی چیز کی ضرورت ہوتی ہے.اپنے رستہ سے ہٹ کر کوئی چیز ہے، جو انسان کو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنادیتی ہے.اور یہ کام یعنی خدمت اسلام رستہ سے ہٹ کر ہے.تم کہہ سکتے ہو کہ اے خدا ! باقی کام تو ہم اپنے نفسوں کے لئے کرتے رہے ہیں لیکن یہ کام ہم محض تیرے لئے کرتے رہے ہیں.اور ان لوگوں کے لئے کرتے رہے ہیں، جو دوسرے ممالک میں رہتے تھے.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھے.اسے کوشش کرنی چاہئے کہ قربانی کے لئے چھلانگیں مار کر آگے آئے تا کہ ہم جلد سے جلد اسلام کی اشاعت کر سکیں.اب دنیا کنارے پر لگ چکی ہے، اسے صرف ایک ٹھوکر کی ضرورت ہے.طبائع میں سلامت روی پیدا ہو چکی ہے.لوگ سمجھتے ہیں 367
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کہ دنیاد ہر بیت اور بے دینی کی طرف جارہی ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دنیاد ہر یت اور بے دینی کی طرف نہیں جارہی بلکہ عقل کی طرف جارہی ہے.پہلے لوگ مولویوں اور پنڈتوں سے سن کر مذہبی باتیں مان لیتے تھے.اگر پنڈت کہہ دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ دنیا میں آکر ہمارے کاموں میں شریک ہو جاتا ہے تو وہ امنا و صدقنا کہہ دیتے تھے.اگر پنڈت کہتے کہ خدا تعالیٰ بتوں میں آجاتا ہے اور ہم سے باتیں کرتا ہے تو وہ یہ باتیں مان لیتے تھے.اگر پنڈت کہتے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تم اس کے خاص لوگوں میں سے ہو، تم دوسرے لوگوں کو مارتے پھرو تو لوگ کہتے ، یہ ٹھیک ہے.لیکن اب ایسا نہیں.اب اگر کسی کو کوئی بات کہو تو وہ کہتا ہے، پہلے مجھے سمجھاؤ کہ یہ کس طرح درست ہے؟ لوگ اس کا نام بے دینی اور دہریت رکھتے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سچائی کی جستجو ہے، جو عیسائیوں اور دوسرے مذاہب والوں میں پیدا ہو گئی ہے.نئی پور کے ہر فرد میں یہ احساس پیدا ہو جانا کہ تم ہمیں سمجھاؤ تو ہم مانیں، یہ نہایت خوش قسمتی اور مفید احساس ہے.اب وہی مذہب غالب آ سکتا ہے، جس کی بنیاد عقل پر ہو.جس مذہب کی بنیاد عقل پر نہیں ، وہ مذہب ہارے گا.اور جس کی بنیاد عقل پر ہے، وہ جیتے گا.لوگ اسے دہریت اور بے دینی کہتے ہیں اور میں اسے دین کی جستجو اور اس کے لئے ایک تڑپ کہتا ہوں.اللہ تعالیٰ دماغوں کو اس طرف مائل کر رہا ہے کہ وہ معقول باتوں کو مانیں اور غیر معقول باتوں کو رد کریں.پس دنیا اسلام کے کنارے پر کھڑی ہے اور وہ زبان حال سے پکار رہی ہے کہ مجھے اسلام دو، مجھے صداقت دوتا میں اسے مان لوں.اس زریں موقع کو ہاتھ سے جانے دینا، بہت بڑی غفلت اور جرم ہے.اسی سلسلہ میں، میں جماعت میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ یکم فروری سے سات فروری تک تحریک جدید کا ہفتہ منایا جائے.ہر جگہ پر ایک بار یا دو دو، تین تین بار جلسے کئے جائیں اور جماعت کے ہر فرد کے پاس جماعت کے مخلصین پہنچیں اور اسے اس تحریک میں شامل کریں.میں نے مخلصین کا لفظ اس لئے کہا ہے کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ جماعت کا کچھ حصہ کمزور ہے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ مخلصین کمزوروں کے پاس پہنچیں تا ان میں سے بھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اسے تحریک جدید میں شامل کرنے کے لئے کوئی تحریک نہیں ہوئی.اور پھر جو شخص ایک دفعہ تحریک جدید میں حصہ لے گا اور یہ سمجھ کر حصہ لے گا کہ یہ تحریک قیامت تک چلنے والی ہے، وہ پیچھے نہیں ہٹے گا.اب بعض لوگ ایسے ہیں، جو پیچھے ہٹ گئے ہیں یا انہوں نے اپنے سابقہ وعدوں کے مقابل پر صرف پندرہواں ، سولہواں یا بیسواں حصہ چندہ لکھوایا ہے.لیکن وہ بھی ہیں، جنہوں نے پہلے سے بھی بڑھ کر اس میں حصہ لیا ہے.368
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 22 جنوری 1954ء ہمارے کارکن وعدوں میں کمی کرنے والوں پر چڑتے ہیں اور قربانی کرنے والوں کی طرف نہیں دیکھتے.جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں، جنہوں نے اپنے سابقہ وعدوں میں کافی اضافہ کیا ہے.مثلاً کچھ دن ہوئے ، میرے سامنے ایک فہرست وعدہ کنندگان کی پیش ہوئی تھی.اس میں سے ایک شخص کا چندہ پچھلے سال - 600 روپیہ تھا اور اس سال اس نے ایک ہزار کا وعدہ کیا ہے.پس کارکنوں کو چاہئے کہ وہ دونوں کو دیکھیں.کمزور پر چڑنے کی ضرورت نہیں.بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ استقلال اور قوی جد و جہد کے ساتھ کمزور کو طاقت دی جائے.یہ ایک موڑ ہے، جو انیس سال کے گزرنے کے بعد سامنے آ گیا ہے.جب یہ موڑ گزر جائے گا تو آگے کوئی موڑ نہیں آئے گا.اب موت ہی ہے، جو چندہ دینے سے کسی کو روکے.اور موت سے آگے تو ہم کسی سے چندہ لے بھی نہیں سکتے.یعنی اس کے آگے اور کوئی موڑ نہیں ، سوائے اس کے کوئی شخص زندگی کے موڑ سے ہی مڑ جائے.اور ایسے شخص کا واسطہ خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے.پس اس سال ہمیں خاص جد و جہد کی ضرورت ہے.اس کے لئے میں نے فروری کا پہلا ہفتہ مقرر کیا ہے.یکم فروری سے سات فروری تک ہفتہ تحریک جدید منایا جائے.ان دنوں جماعت میں جلسے کئے جائیں اور ہر شخص کے پاس جماعت کے سیکرٹری اور صدر صاحبان پہنچیں اور دیکھیں کہ کوئی شخص اس تحریک میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے.یا کون شخص ایسا ہے، جس نے اپنی حیثیت کے مطابق حصہ نہیں لیا ؟ اس کے متعلق میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی بتا دیا تھا کہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ماہوار آمدن کا چوتھا، نصف، تین چوتھائی یا اللہ تعالیٰ اسے توفیق دے تو ایک مہینہ کی ساری آمد تحریک جدید میں دے.یعنی جس شخص کی ماہوار آمد ایک سور و پیر ہے، وہ کم سے کم پچیس روپے اس تحریک میں دے.یا خدا تعالیٰ اسے توفیق دے تو پچاس پچھتر یا سوروپیہ اس تحریک میں دے.پس اس ہفتہ میں لوگوں میں اس کی تحریک کی جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے تحریک جدید میں حصہ لینے کے لئے کم از کم پانچ روپیہ کی شرط لگائی ہے.اگر کوئی شخص ایک ہزار روپیہ ماہوار والا بھی پانچ روپیہ دے کر اس تحریک میں شامل ہوتا ہے تو ہمیں اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے.ہاں اسے سمجھانا چاہئے کہ تم اپنی قربانی کا مقابلہ دوسروں کی قربانیوں سے کر کے دیکھ لو.کجاوہ لوگ تھے، جنہوں نے پانچ پانچ، چھ چھ ماہ کی آمد میں تحریک جدید میں دے دیں اور کجا تم ہو کہ تم اپنی ماہوار آمد سے، جو ایک ہزار روپیہ ہے،صرف پانچ روپیہ اس تحریک میں دیتے ہو.وہ تو پانچ ، پانچ ماہ کی آمد میں تحریک جدید میں دے دیتے تھے اور تم اپنی ماہوار آمد کا دوسواں 200 حصہ دیتے ہو.گویا 369
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود و 22 جنوری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم تم ان کی قربانی کا ہزارواں حصہ قربانی کرتے ہو.اور اس قربانی کا تو ہمیں مجلسوں میں اظہار کرنے سے بھی شرم آتی ہے.بہر حال تحریک کرنا تمہارا فرض ہے.اگر کوئی شخص اپنی حیثیت سے کم قربانی کرتا ہے تو اس سے انکار کرنا، ہمارا حق نہیں.چاہے کوئی لاکھوں روپے ماہوار آمد والا پانچ روپیہ لکھائے ہتم لکھ لو لیکن اسے یہ تحریک کرنی چاہئے کہ تمہاری قربانی پہلوں کی قربانی سے کوئی نسبت نہیں رکھتی.جماعت کے دوستوں سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو سمجھتے ہوئے بچے طور پر اور پورے اخلاص سے اس بات کے لئے زور لگا دیں گے کہ اس سال تحریک جدید کے وعدے پچھلے سال کے وعدوں سے کم نہ رہیں بلکہ ان سے بہت آگے نکل جائیں.( مطبوعه روزنامه الصلح مورخہ 28 جنوری 1954ء) 370
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبه جمعه فرموده 05 فروری 1954ء مبارک ہیں وہ ، جو ان دنوں سے فائدہ اٹھا ئیں اور اس خدمت کو انعام سمجھیں خطبہ جمعہ فرمودہ 05 فروری 1954ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:." آج فروری کے مہینہ کی پانچ تاریخ ہو چکی ہے اور تحریک جدید کے وعدوں کی آخری میعاد 15 فروری ہے.میں نے بائیس جنوری کو تحریک جدید کے متعلق ایک خطبہ بیان کیا تھا اور جماعت کو تحریک کی تھی کہ فروری کا پہلا ہفتہ تحریک جدید کے لئے وقف کیا جائے.اور تمام جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر تمام افراد سے وعدے لینے کی کوشش کریں کیونکہ اس سال وعدوں کی رفتار بہت کم ہے.میرا یہ خطبہ جنوری کے آخر میں شائع ہو گیا.لیکن مجھے صرف راولپنڈی کی جماعت کی طرف سے یہ اطلاع ملی ہے کہ ہفتہ تحریک جدید کے لئے ایک پروگرام مقرر کیا گیا ہے، الگ الگ حلقے تجویز کئے گئے ہیں اور چند آدمیوں پر مشتمل ایک وفد بنایا گیا ہے، جو جماعت کے تمام افراد تک جائے گا اور ان سے تحریک جدید کے وعدے لے گا.باقی جماعتوں کی طرف سے مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی.حتی کہ ربوہ کی جماعت کی طرف سے بھی مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی، جہاں کی جماعت نے میرا یہ خطبہ 22 جنوری کو سن لیا تھا.اور نہ اس نے اپنی کوششوں کے نتیجہ سے مجھے مطلع کیا ہے.اور عملاً میں دیکھتا ہوں کہ اس عرصہ میں بجائے اس کے کہ جو خلیج پچھلے سال کے وعدوں اور اس سال کے وعدوں میں تھی کم ہوتی ، وہ اور بھی بڑھ گئی ہے.میرے لاہور جانے سے قبل یہ خلیج آہستہ آہستہ دور ہورہی تھی اور دور دوم کے پچھلے سال کے وعدوں اور اس سال کے وعدوں میں صرف ایک ہزار کا فرق رہ گیا تھا.لیکن دفتر کی طرف سے جو کل رپورٹ ملی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرق اب بجائے اور کم ہونے کے بڑھ گیا ہے.اور اب پچھلے سال کے وعدوں اور اس سال کے وعدوں میں 9 ہزار کا فرق ہو گیا ہے.گویا بجائے ترقی کرنے کے آٹھ ہزار کے قریب جماعت اور نیچے گر گئی ہے.دور اول والے اس بات کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ جلد جلد مجھے وعدوں کی رفتار کے متعلق اطلاع بہم پہنچائیں ، وہ خاموشی کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں.پندرہ ، سولہ دن کے بعد مقابلہ کرتے ہیں اور مجھے اطلاع دیتے ہیں.لیکن دفتر دوم والے 371
خطبه جمعه فرموده 05 فروری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کچھ دنوں سے روزانہ پچھلے سال کے وعدوں اور اس سال کے وعدوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور مجھے اطلاع دیتے ہیں.جس وقت دور اول کے کارکنوں نے مجھے اطلاع دی تھی ، اس وقت دور اول کے پچھلے وعدوں اور اس سال کے وعدوں میں اکیس ہزار کا فرق تھا.اب یقینی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا کہ اب یہ فرق کس قدر ہے؟ لیکن اگر پچھلے دنوں دور اول کے وعدوں میں بھی اسی قدر فرق پڑا ہے، جس قدر فرق دور دوم کے وعدوں میں پڑا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں دوروں کے پچھلے سال کے وعدوں اور اس سال کے وعدوں میں قریباً چالیس ہزار کا فرق پڑ گیا ہے.یا یوں کہو کہ اس سال کے وعدے پچھلے سال سے میں فیصدی کم آئے ہیں.(اس کے بعد دور اول والوں نے رپورٹ کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت دور اول کے گزشتہ سال اور اس سال میں اکتالیس ہزار کا فرق ہے.) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی وعدوں کی میعاد میں دس دن اور ہیں.اور وعدوں کے آنے میں ابھی پندرہ دن باقی ہیں کیونکہ چار، پانچ دن ڈاک پر بھی لگ جاتے ہیں.مثلاً جنہوں نے پندرہ فروری کو وعدے لکھوائے ہیں ، وہ وعدے 16 فروری کو ڈاک میں پڑیں گے اور 17 18 یا 19 تاریخ کو یہاں پہنچیں گے.پھر بعض دیہات میں ہفتہ میں ایک دفعہ ڈاک جاتی ہے، اس لئے وہاں کی جماعتوں کے وعدے 22 یا 23 کو یہاں پہنچیں گے.گویا ابھی وعدوں کی میعاد میں پندرہ دن یقینی ہیں.لیکن پچھلے سال کے وعدوں کی رفتارا اگر قائم رہتی تو ہم سمجھتے باقی دنوں میں وعدے پچھلے سال تک پہنچ جائیں گے.لیکن پچھلے سال کے وعدوں کی رفتار کے لحاظ سے ابھی ایک لاکھ ، چالیس ہزار کے وعدے باقی ہیں.پچھلے سال ان دنوں میں تحریک جدید کے وعدے بڑی سرعت سے بڑھے تھے.پچھلے سال کی کاپی دیکھی گئی تو یکم فروری کو 9 ہزار، آٹھ سو کے وعدے آئے تھے.لیکن اس سال صرف 1300 کے وعدے آئے ہیں.گویا ایک ہی دن میں ساڑھے آٹھ ہزار کا فرق پڑ گیا.چونکہ مجھے دور اول کے وعدوں کی اطلاع ابھی نہیں آئی اور نہ آیا کرتی ہے، دور دوم کے وعدوں کی اطلاع آئی ہے اور پہلے بھی آیا کرتی تھی، اس لئے دور دوم کے وعدوں کی رفتار پر قیاس کرتے ہوئے میں کہوں گا کہ پچھلے سال اور اس سال کے وعدوں میں چالیس ہزار کا فرق پڑ گیا ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ باقی پندرہ دنوں میں اور کتنا فرق پڑے گا ؟ اس کے بعد کچھ وعدے امریکہ کی جماعتوں کے ہیں اور کچھ ویسٹ اور ایسٹ افریقہ کی جماعتوں کے.مگر ان کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اور ان وعدوں میں زیادہ فرق پیدا نہیں کرتی.کیونکہ ان ممالک میں جماعتیں ابھی بہت کم ہیں.سوائے انڈونیشیا کی جماعتوں کے کہ ان کے وعدوں کی تعداد 30 ہزار روپیہ 372
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 05 فروری 1954ء (پاکستانی) کے قریب سالانہ ہوتی ہے.لیکن ہم ان کو اپنے حساب میں شامل نہیں کرتے.کیونکہ وہاں کام بہت زیادہ ہے اور اس لحاظ سے اخراجات بھی زیادہ ہیں، اس لئے ہم وہاں سے روپیہ مرکز میں نہیں منگواتے بلکہ اسے وہیں خرچ کرتے ہیں.اسی طرح ایسٹ اور ویسٹ افریقہ کی جماعتوں کا چندہ بھی اچھا خاصہ ہوتا ہے.لیکن ان کے علاوہ باقی غیر ملکی جماعتوں کے چندے بہت کم ہوتے ہیں.بہت زور دینے کے بعد اب انگلستان کی جماعت میں چندہ کی طرف کچھ توجہ پیدا ہوئی ہے اور ایک، دو نئے احمدی ایسے ہوئے ہیں، جو چندہ دینے لگے ہیں.پہلے سارے نو مسلم چندہ دینے سے گریز کرتے تھے.جرمنی سے بھی خط آیا ہے کہ وہاں لوگ چندہ دینے لگ گئے ہیں.ان کی مالی حالت بہت خراب ہے لیکن بہر حال وہ چندے دے رہے ہیں.اگر چہ وہ چندہ ان کی آمد کے لحاظ سے بہت کم ہوتا ہے.اب ایک دوست نئے احمدی ہوئے ہیں، وہ اڑھائی پونڈ یعنی قریباً 25 روپے ماہوار چندہ دیتے ہیں.شام کی جماعتوں کے دوست بھی چندہ دیتے ہیں.لیکن اب وہاں ایسی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں کہ چندہ کی رقوم دوسرے ممالک میں نہیں جاسکتیں.حکومت کی طرف سے ایسے قواعد مقرر کر دیئے گئے ہیں کہ شاید ملک میں بھی چندہ کی رقوم جمع نہ ہوسکیں.باقی جماعتوں میں چندہ کی فراہمی قریباً صفر ہے.انڈونیشیا، امریکہ ، ایسٹ افریقہ، ویسٹ افریقہ اور ان سے اتر کر شام، یہ ممالک ہیں، جن کے اس وقت تک چندے آئے ہیں یا ہمارے حساب میں محسوب ہوتے ہیں.چھوٹی جماعتوں میں سے سیلون ، برما اور ملایا کی جماعتیں ہیں، جن کے افراد چندہ دیتے ہیں.لیکن چونکہ ان ممالک میں جماعتیں بہت کم تعداد میں ہیں، اس لئے چندے بھی کم مقدار میں آتے ہیں.فی الحال یہ سارا بوجھ پاکستان کی جماعتوں پر ہے.یا یوں کہہ لو کہ اشاعت اسلام کے لئے چندہ دینے کا فخر ابھی تک صرف پاکستان کی جماعتوں کو حاصل ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک صحابی سے کسی نے پوچھا کہ آپ صحابہ میں سے سب سے زیادہ بہادر کس کو سمجھا کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا، سب سے زیادہ بہادر ، وہ شخص ہوتا تھا، جولڑائی کی صفوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑا ہوتا تھا.اس نے کہا، کیوں؟ اس صحابی نے جواب دیا، اس لئے کہ کفار جب اسلامی لشکر پر حملہ کرتے تھے تو وہ جانتے تھے کہ اسلام کی روح رواں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہے.اگر ہم آپ کو مار دیں گے تو اسلام ختم ہو جائے گا.کفار اسلام کو خدا تعالیٰ مذہب نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ آپ ہی کی ذات کی طرف اسے منسوب کرتے تھے، اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم آپ کو ماریں گے تو اسلام باقی نہیں رہے گا.اس لئے وہ اپنا سا راز ور رسول کریم 373
خطبہ جمعہ فرمودہ 05 فروری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے میں خرچ کر دیتے تھے.پس جنگ کی صفوں میں خطر ناک ترین جگہ وہ ہوتی تھی ، جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تھے.چاروں طرف سے دشمن فوج کے بہادر اور جری لوگ اس جگہ کی طرف لپکتے تھے.جو لوگ آگے پیچھے ہوتے ، انہیں زیادہ برداشت نہیں کر نا پڑتا تھا.حملہ بار بارو ہیں ہوتا تھا، جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تھے.چنانچہ احد کی جنگ کے موقع پر جب دشمن لشکر کے تیر اندازوں نے اپنے تیروں کا رخ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر دیا تو حضرت طلحہ آپ کے آگے کھڑے ہو گئے.سارے تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آرہے تھے، حضرت طلحہ ان تیروں کو اپنے ہاتھوں پر لیتے رہے، یہاں تک کہ تیراتنی کثرت سے ان کے ہاتھ پر لگے کہ آپ کا ایک ہاتھ بالکل بے کار ہو گیا.جب حضرت علی اور حضرت عائشہؓ کے درمیان جنگ ہوئی تو حضرت عائشہ کے لشکر میں زیادہ کام کرنے والے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ہی تھے.خصوصاً حضرت طلحہ نے حضرت عائشہ " کو بچانے میں بہت زیادہ حصہ لیا.لیکن جب لشکر واپس آیا تو ایک صحابی نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، طلحہ “ آپ کو یاد ہے کہ ایک موقع پر آپ، میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ طلحہ تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا، جب تم علی کے مقابلہ میں لڑائی میں شامل ہو گے اور تم غلطی پر ہو گے ؟ حضرت طلحہ " کو بھی وہ واقعہ یاد آ گیا، آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، اچھا ہوا کہ آپ نے یہ بات مجھے یاد دلا دی، میں اب حضرت علی کے مقابلہ میں لڑائی میں حصہ نہیں لوں گا.چنانچہ وہ رات کو جنگی کیمپ سے چل پڑے تاصبح کے وقت لوگ انہیں لڑائی میں شامل ہونے کے لئے تنگ نہ کریں.کوئی بد بخت آدمی تھا، جو بظاہر حضرت علیؓ کے لشکر سے تعلق رکھتا تھا.اس نے حضرت طلحہ " کو کیلے جاتے دیکھا تو وہ آپ کے پیچھے پیچھے گیا.جب آپ لشکر سے دور پہنچے تو اس نے حملہ کر کے آپ کو قتل کر دیا.اس کے بعد وہ شخص حضرت علی کے پاس آیا اور کہا، آپ کو مبارک ہو، میں نے آپ کا دشمن مار دیا ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا، کون دشمن ؟ اس نے کہا، طلحہ.حضرت علیؓ نے فرمایا تم کو بھی مبارک ہو کہ خدا تعالیٰ تم کو دوزخ میں ڈالے گا.اس نے کہا، کیوں؟ میں نے تو طلحہ کو آپ کی خاطر مارا ہے.حضرت علی نے فرمایا ، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص طلحہ کو مارے گا، وہ دوزخی ہو گا.اسی طرح کسی مجلس میں کسی شخص نے حضرت طلحہ کے متعلق کہا ، وہ ٹنڈا ایسا ہے.اور یہ کلمہ اس نے حقارت سے کہا.اس مجلس میں ایک صحابی بیٹھے تھے، انہوں نے یہ بات سنی تو کہا، تجھے پتہ ہے کہ تو ٹنڈا کس 374
ریم خطبه جمعه فرموده 05 فروری 1954ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلدسوم - کو کہہ رہا ہے؟ اور تجھے پتہ ہے کہ وہ ٹنڈا کیسے بنا؟ جنگ احد میں ایک موقع پر اسلامی لشکر تر بتر ہوگیا، دشمن کے تیروں کا ساراز ور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا.کسی شخص کو جرات نہیں تھی کہ ان تیروں کے سامنے کھڑا ہوتا.لیکن حضرت طلحہ آگے آئے اور انہوں نے سارے تیر اپنے ہاتھوں پر لئے.اس کی وجہ سے ان کا ہاتھ ٹنڈا ہو گیا.آپ تیرانداز تھے، آپ دشمن پر تیر بھی چلاتے تھے اور جب دشمن کی طرف سے تیر آتے تو آپ انہیں اپنے ہاتھوں پر لیتے.اس لئے آپ کے اس ہاتھ کا گوشت اور ہڈیاں پچلی گئیں.اس صحابی نے کہا، اب تجھے پتہ لگ گیا کہ ان کا ہاتھ کس طرح ٹنڈا ہو گیا تھا؟ اور تو یہ بھی سن لے کہ جب دشمن کے تیرانداز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تیر پھینکتے تھے تو حضرت طلحہ انہیں اپنے ہاتھ پر روکتے تھے.اور جو تیر گرتے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اٹھاتے اور چونکہ اس وقت طلحہ یہی ایک شخص تھے، جو آپ کی حفاظت کر رہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیر اٹھاتے اور طلحہ سے مخاطب ہو کر فرماتے طلحہ تجھ پر میرے ماں باپ قربان ! یہ تیر لے اور دشمن پر چلا.جس شخص کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ تجھ پر میرے ماں باپ قربان ، اسے تو ٹنڈا کہ رہا ہے.غرض اس صحابی نے بتایا کہ جو شخص جنگ کی صفوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں کھڑا ہوتا ، وہ سب سے زیادہ بہادر کہلاتا تھا.اس لئے کہ وہ سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتا تھا.سو تم بھی کہہ سکتے ہو کہ اس وقت اسلام کی جنگ میں دوسرے ملک اور قو میں اس طرح مالی قربانی نہیں کرتیں ، جس طرح کی قربانی کے لئے ہمیں کہا جا رہا ہے.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ ان پر وہ بوجھ نہیں ، جو ہم پاکستانیوں پر ہے.لیکن تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی حفاظت کے لئے حضرت طلحہ کی طرح قربانی کرنے کا جو موقع ہمیں دیا گیا ہے، وہ دوسروں کو نہیں دیا گیا.تم ان دونوں تشریحوں میں سے ایک تشریح کر سکتے ہو.اگر تمہارا ایمان کمزور ہے تو تم کہہ سکتے ہو کہ ہم پر جتنا بوجھ ہے ، وہ دوسری قوموں پر نہیں.لیکن اگر تمہارا ایمان مضبوط ہے تو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ کئی قو میں بعد میں آئیں گی اور یہ بوجھ اٹھائیں گی لیکن آج ہم اکیلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے سامنے کھڑے ہو کر تیر کھا رہے ہیں.اور حقیقت یہی ہے کہ وہ شخص جو اس وقت اس قربانی میں حصہ لیتا ہے، وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسے ہی مقام پر کھڑا ہے، جس مقام پر حضرت طلحہ جنگ احد کے موقع پر کھڑے تھے.آج بھی اسلام پر دشمن کی طرف سے تیر پڑ رہے ہیں.جو شخص اشاعت اسلام میں حصہ لیتا ہے، وہ اپنی چھاتی پر تیر کھاتا ہے اور وہ اس مقام پر کھڑا ہوتا ہے، جس پر حضرت طلحہ کھڑے تھے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق 375
خطبه جمعه فرموده 05 فروری 1954ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک فرمارہے تھے کہ تجھ پر میرے ماں باپ قربان تو اور قربانی کر.یہ خوش قسمتی کے دن کبھی کبھی آتے ہیں اور و کسی کسی قوم کو ملتے ہیں.پس مبارک ہیں وہ لوگ جو ان دنوں سے فائدہ اٹھائیں.اور مبارک ہیں وہ لوگ، جو اس خدمت کو انعام سمجھیں ، نہ کہ بوجھ.چونکہ یہ خطبہ دیر سے شائع ہوگا اور وعدوں کی میعاد قریب الاختتام ہوگی ، اس لئے دوستوں کو کام کا مزید موقع دینے کے لئے میں وعدوں کی آخری میعاد 15 فروری کی جگہ 23 فروری مقرر کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ احباب کو توفیق بخشے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خدمت دین اور اشاعت اسلام میں حصہ لے سکیں.اللهم آمین.( مطبوعه روزنامه الصلح 09 فروری 1954 ء) 376
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 12 فروری 1954ء پس جماعت کو چاہئے کہ وہ تمام افراد کو کھینچ کر تحریک جدید میں شامل کرے خطبہ جمعہ فرمودہ 12 فروری 1954ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں پچھلے دو ہفتوں سے تحریک جدید کے متعلق خطبات دے رہا ہوں.اس جمعہ پر بھی میں اس سلسلہ میں کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں.پچھلے جمعہ میں، میں نے بتایا تھا کہ گزشتہ سال کے تحریک جدید کے وعدوں سے اس سال کے وعدوں کا فرق قریباً پچاس ہزار کا تھا.آخری ایام میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے اچھی کوشش کی ہے اور تحریک جدید کا جو ہفتہ منایا گیا تھا، اس میں جماعت کے دوستوں نے خوب سرگرمی سے کام کیا.چنانچہ جماعتوں کی طرف سے جو رپورٹیں آئی ہیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی جماعتوں میں بیداری پیدا ہورہی ہے اور اب کل فرق پچاس ہزار سے اتر کر تیس ہزار کا رہ گیا ہے.اور کل سے اس وقت تک جو وعدے وصول ہوئے ہیں، ان کا اندازہ کرتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ غالباً یہ فرق پچیس ہزار سے بھی کم رہ جائے گا.ابھی نئی مقرر کردہ تاریخ کے لحاظ سے وعدوں میں دس دن باقی ہیں اور وعدوں کے یہاں پہنچنے میں بھی پانچ ، دس دن لگ جائیں گے.اگر ان دنوں میں بھی جماعت کے احباب اسی طرح کوشش کرتے رہے، جس طرح وہ پہلے چند دن کرتے رہے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ نہ صرف وہ فرق دور ہو جائے گا، جو اس سال کے وعدوں میں اور پچھلے سال کے وعدوں میں ہے بلکہ اس سال کے وعدے پچھلے سال کے وعدوں سے بڑھ جائیں گے.( مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب جبکہ وعدے قریباً پورے ہو گئے ہیں ، سال اول کے وعدوں میں چھبیس ہزار کا فرق ہے.اگر سب دوست دس فیصدی کم کرتے ،تب بھی 23 ہزار کا فرق ہونا چاہئے تھا.مگر وعدے کم کرنے والے ہیں فیصدی بھی نہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دس فیصدی کے قریب لوگوں نے وعدہ کیا ہی نہیں.ایک اعلیٰ نیکی کے کام میں حصہ لینے کے بعد یہ غفلت قابل افسوس ہے، اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے.دفتر دوم کے وعدوں میں زیادتی ہے، گو امید کے مطابق نہیں مگر بہر حال زیادتی ہے.الحمد اللہ خدا کرے اب ادائیگی میں بھی چستی ہو.آمین ) میں دیکھتا ہوں کہ بیرون ممالک میں اسلام کی تڑپ پیدا ہورہی ہے اور یہ تڑپ نہ صرف غیر مسلم ممالک میں پیدا ہورہی ہے بلکہ مسلم ممالک میں بھی پیدا ہورہی ہے.اور ان میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے 377
خطبہ جمعہ فرمود و 12 فروری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کہ وہ اپنے بچے غیر مکوں میں بھیجیں تا کہ وہ دینی تعلیم حاصل کریں اور اس طرح وہ اپنے علاقوں میں اسلام کو مضبوط کر سکیں.چنانچہ پرسوں ہی مجھے سوڈان کی جماعت اسلامیہ کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ آپ اپنی جماعت کی طرف سے ہمارے کچھ لڑکوں کو وظیفے دیں تا کہ وہ دوسرے ممالک میں جا کر اسلام کی تعلیم حاصل کر سکیں.اور اس طرح نہ صرف ہر سال ہمارے ملک کی تعلیم ترقی کرے بلکہ اسلامی ممالک ہمارے تعلقات بھی مضبوط ہوں.سے ہر ملک میں کچھ خصلتیں ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے وہ اپنے قرب وجوار کے علاقہ میں ایک فضیلت حاصل کر لیتا ہے.مثلاً یورپ کے ملکوں میں ذاتی کریکٹر اور محنت کی عادت ایسی پائی جاتی ہے، جو ابھی تک ایشیائی ممالک میں پیدا نہیں ہوسکی.وہاں لوگ اس قدر محنت کرتے ہیں کہ ان کے آگے ہمارے ملک کے رہنے والوں کی محنت بالکل بیچ نظر آتی ہے.اگر ہمارے سامنے خدا تعالیٰ کے وعدے نہ ہوں تو انہیں دیکھ کر ہمیں مایوسی ہوتی ہے کہ ان حالات میں ہم ان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ ان کے عورت، مرد اور بچے سب کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے دلوں میں امنگیں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے کوئی شخص نہیں چاہتا کہ وہ اپنے مقام پر ہمیشہ کھڑا ر ہے.یا ہمارے ملک کے لوگوں کی طرح یہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اسے سہارا دے کر کھڑا کریں.ہمارے ملک میں اگر کوئی شخص ذراسی تکلیف میں بھی مبتلا ہو تو جاتا ہے تو وہ اپنے دائیں بائیں دیکھنے لگ جاتا ہے.اور پھر اسلامی تعلیم کی کمی کی وجہ سے چونکہ مذہب کا مادہ کم ہو گیا ہے، اس لئے وہ یہ نہیں کرتا کہ اپنے نمونہ سے لوگوں کے اندر مدد کی تڑپ پیدا کرے بلکہ لوگوں کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کر دیتا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کرتے.ہمارے ملک کی حالت ایسی ہو رہی ہے، جیسے لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی سپاہی کسی سڑک سے گزر رہا تھا کہ اس کے کان میں آواز آئی کہ میاں ادھر آؤ میاں ادھر آؤ.سڑک کے قریب ہی جنگل تھا، جس سے آواز آ رہی تھی.وہ سڑک چھوڑ کر جنگل کی طرف گیا اور اس نے دیکھا کہ دو آدمی لیٹے ہوئے ہیں.اس نے ان سے دریافت کیا کہ تم پر کیا مصیبت پڑی ہے، جس کی وجہ سے تم نے مجھے بلایا ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا، یہاں اوپر کی بیری سے ایک بیر گر کر میرے سینہ پر آپڑا ہے ہم یہ بیراٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو.سپاہی کو غصہ آیا کہ اتنی چھوٹی سی بات کے لئے اسے تکلیف دی گئی ہے اور اس کا سفر خراب کیا گیا ہے.چنانچہ سپاہی اس سے ترشی سے پیش آیا اور اس نے کہا تم بڑے بے حیا اور بے شرم ہو.کیا تم خود یہ پیر اٹھا کر منہ میں نہیں ڈال سکتے تھے ؟ اس پر دوسرا شخص کہنے لگا، میاں جانے دو، کیوں ناراض ہوتے ہو؟ اس شخص کی حالت ہی ایسی ہے، ساری 378
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبه جمعه فرموده 12 فروری 1954ء رات کتا میر امنہ چاہتا رہا لیکن اس کم بخت سے اتنا بھی نہیں ہوا کہ اسے ہشت کرتا.یہ بات سن کر سپاہی بالکل مایوس ہو گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ انہیں کچھ کہنا بے فائدہ ہے.چنانچہ وہ اپنے سفر پر چلا گیا.ہمارے سارے ملک کی یہی حالت ہے.ہر شخص یہ امید کرتا ہے کہ اسے دوسرے لوگ اٹھا ئیں.اور اگر دوسرے لوگ اسے نہیں اٹھاتے تو اسے ان سے شکوہ ہوتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.سینکڑوں آدمی ایسے ہیں، جو جماعت کے وظائف سے پڑھ کر انٹرنس تک تعلیم حاصل کر چکے ہیں یا وہ بی.اے یا ایم.اے ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی وہ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ جماعت نے ان کی پوری مدد نہیں کی.انہیں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ جن لوگوں نے انہیں مدد دی ہے ، ان کی حالت بھی ان جیسی ہی ہے.کئی لوگ ایسے ہیں، جنہوں نے چندے دیئے اور اس مالی بوجھ کو برداشت کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم خراب کر لی.اور پھر اگر وہ اپنے خرچ پر پڑھتا تو شاید انٹرنس پاس کر لیتا یا ایف اے کر لیتا.لیکن جماعت کی مدد سے اس نے بی.اے یا ایم.اے پاس کر لیا ہے.مگر بجائے اس کے کہ وہ احسان مند ہو اور یہ ارادہ کر لے کہ اب وہ دوسروں کو تعلیم کے سلسلہ میں مالی مدد دے گا، وہ جماعت سے اس بات کا شکوہ کرتا ہے کہ اس نے پوری طرح اس کی مدد نہیں کی.دوسرے ملکوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی.جماعتیں اور سوسائٹیاں تو الگ رہیں، وہ لوگ ماں باپ سے بھی مدد نہیں لیتے.ایک دفعہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے ایک قصہ سنایا.جب وہ پہلی دفعہ امریکہ گئے، اس وقت وہ وزیر نہیں ہوئے تھے.اب تو ان کی تقریروں اور خدمات کی وجہ سے ایک خاص اثر قائم ہو چکا ہے.لیکن جب وہ نئے نئے امریکہ گئے تھے تو اس وقت ہمارے مبلغوں کی امداد بھی ان کے لئے بڑی کار آمد ہوتی تھی.ایک دن انہوں نے سیر کے لئے باہر جانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے مبلغ سے کہا کہ وہ انہیں کوئی ایسا آدمی دے، جو سیر کرا دے.چنانچہ مبلغ نے انہیں چودہ پندرہ سال کا ایک لڑکا دیا اور کہا کہ یہ ہوشیارلڑکا ہے، یہ آپ کو سیر کرا دے گا.وہ لڑکا چودہ، پندرہ سال کا تھا یا سولہ سترہ سال کا ، بہر حال اس کی عمر تعلیمی تھی.چوہدری صاحب نے بتایا کہ اس لڑکے کی باتوں سے پتہ لگتا تھا کہ وہ نوکری کرتا ہے اور اس کی باتوں سے یہ بھی پتہ لگتا تھا کہ اس کا باپ اچھا مالدار ہے.چوہدری صاحب نے بتایا کہ میں نے اس لڑکے سے کہا، میاں تمہارا باپ مالدار ہے، وہ تمہیں تعلیم کیوں نہیں دلاتا ؟ اس پر مجھے یوں محسوس ہوا کہ گویا اس کی ہتک ہو گئی ہے اور وہ بڑے جوش سے کہنے لگا، میں کسی کی مدد کیوں لوں؟ میرا باپ اپنی محنت سے بڑا بنا ہے، میں بھی اپنی محنت سے بڑا بنوں گا.مجھے کسی سے مدد لینے کی ضرورت نہیں.379
خطبہ جمعہ فرموده 12 فروری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم (ادھر ہمارے بچوں کی یہ حالت ہے کہ تمیں تمہیں سال کے ہو کے ماں باپ کی امداد پر نظر لگی رہتی ہے.میرے اپنے بچوں کا یہی حال ہے اور مجھے ہمیشہ فکر رہتا ہے کہ اس ہمت کے ساتھ انہوں نے دنیا کی اصلاح کیا کرنی ہے؟) یہی وجہ ہے ، ان کے اس قدر ترقی کر جانے کی.ان کے بڑے آدمیوں کو دیکھ لو، ان میں سے اکثر ایک کنگال شخص کی حیثیت سے اٹھے ہیں.ہمارے بڑے بھائی میرزا سلطان احمد صاحب مرحوم، جو مرزا عزیز احمد صاحب کے والد تھے.ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے کہ وہ یورپ گئے ، انہوں نے بتایا کہ جب میں یورپ گیا تو ایک شہر میں چند دوستوں سے مل کر ایک مکان کرایہ پر لیا.ایک لڑکی اس مکان والوں کی خدمت کیا کرتی تھی.ایک دن انہوں نے دیکھا کہ لڑکی رو رہی ہے اور اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی ہیں.ہم نے سمجھا کہ شاید اس کا کوئی رشتہ دار مر گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ رو رہی ہے.چنانچہ ہم نے اس سے دریافت کیا کہ اس کے رونے کا کیا سبب ہے؟ تو اس نے بتایا کہ اسے جو تنخواہ ملتی تھی، وہ اس کی جیب سے گر گئی ہے.ہم جانتے تھے کہ اس لڑکی کے والدین کماتے تھے، بیکار نہیں تھے.چنانچہ ہم نے اس لڑکی سے کہا تم روتی کیوں ہو؟ تم لاوارث تو نہیں ہو تمہارے والدین زندہ موجود ہیں اور وہ کماتے ہیں.تمہیں رونے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس لڑکی نے ہمیں بتایا کہ میرے والدین مجھے ایک دن بھی روٹی نہیں دیتے.ہمارے ملک میں اس قسم کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی.ماں باپ خود فاقے کریں گے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالیں گے.لیکن یورپین ممالک میں بچوں میں حوصلہ پیدا کرنے کے لئے یہ طریق جاری ہے کہ جب بچے جوان ہو جاتے ہیں اور کام کاج کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو وہ ان سے کہتے ہیں جاؤ اور کما کر لاؤ.عام طور پر ماں باپ اپنے بچوں سے کھانے کا خرچ لیتے ہیں لیکن بعض لوگ بچوں سے مکان کا کرایہ تک بھی لیتے ہیں.وہ ان سے کہہ دیتے ہیں کہ مکان کے ایک کمرہ میں تمہاری چارپائی بچھی ہے، تم اس جگہ کا گراپہ دو لیکن ہمارے ہاں بچہ چھ سات سال کا ہوتا ہے تو پڑھنے کے لئے مدرسہ بھیجا جاتا ہے اور پھر وہ ہر سال فیل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات وہ ہیں ہیں، پچیس پچیس سال کی عمر کا ہو جاتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اس پر خرچ کرتے ہیں.اور اس بچے کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی تعلیم ہی مکمل کر لے.پھر اکثر بچے ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ کمانے لگتے ہیں تو والدین کی مددنہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ ان پر صرف اپنی اولاد کی خدمت کرنا فرض ہے اور بعض نوجوان تو ایسے ہوتے ہیں، جو سنیما دیکھتے ہیں ، عیاشیاں کرتے ہیں.لیکن جب کوئی ان سے کہے کہ میاں تم اپنے والدین کو بھی کچھ بھیجا کرو تو وہ کہہ دیتے ہیں، کوئی پیسہ بچے تو 380
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبه جمعه فرموده و 12 فروری 1954ء بھیجیں.کوئی پیسہ بچتاہی نہیں، والدین کو کہاں سے دیں ؟ غرض ان ممالک کے حالات اس قسم کے ہیں کہ ان کا لوگوں کی محنت کو دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ ایسے حالات میں ہم انہیں شکست کیسے دیں گے؟ لیکن پھر بھی ان کے اندر ایک احساس کمتری پیدا ہورہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسی چیز ہے، جوان کے پاس نہیں اور ایشیائیوں کے پاس ہے.یہ احساس کمتری ابھی زیادہ نمایاں نہیں کہ بڑے اور چھوٹے سب لوگوں میں پایا جائے.لیکن تاہم ایک طبقہ ان کے اندر ایسا پیدا ہو گیا ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ ان کے پاس دولت ہے، مال ہے لیکن انہیں دل کا چین نصیب نہیں.وہ لوگ شرابیں پیتے ہیں، سنیماد یکھتے ہیں، ناچ اور گانوں میں دن گزارتے ہیں لیکن جب نشہ اتر جاتا ہے اور وہ چار پائی پر جا کر لیٹتے ہیں تو انہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر کوئی خلاء پایا جاتا ہے.اور وہ خلاء سوائے تعلق باللہ اور دین کے اور کوئی چیز پر نہیں کر سکتی.دنیا کی ہر نعمت کو حاصل کر لینے کے بعد بھی ان کے اندر یہ حسرت ہوتی ہے کہ کوئی چیز ایسی ہے، جو انہیں حاصل نہیں.اور وہ حاصل ہونی چاہئیے.خدا تعالیٰ سے محبت ، ایک ایسی نعمت ہے کہ جب وہ کسی شخص کو مل جاتی ہے تو دنیا کے سارے غم مٹ جاتے ہیں اور اسے کوئی حسرت باقی نہیں رہتی ، اسے کسی چیز کی خواہش پیدا نہیں ہوتی.عارضی غم بے شک آتے ہیں ، مثلاً کسی کو کانٹا چبھ جائے تو اس کے نتیجہ میں اسے درد تو ہوتی ہے لیکن اسے کوئی شخص بیماری نہیں کہتا، اسی طرح عارضی تکلیفیں اور غم تو آتے ہیں لیکن یہ غیم ان کے رستہ میں روک نہیں بنتے.اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق انہیں امن اور آرام حاصل رہتا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح اول سنایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا تھی ، جو بہت نیک تھی.ایک دن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں کسی طرح اس کی مدد کروں.چنانچہ میں اس بڑھیا کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ مائی میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں کسی طرح تمہاری مددکروں.تمہیں کوئی خواہش ہو تو مجھے بتاؤ تا میں اسے پورا کر کے دل کی خوشی حاصل کروں.اس بڑھیا نے آپ کا نام لے کر کہا، نور الدین ! اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت کچھ دیا ہے، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں.آپ نے کہا، مائی پھر بھی تم غریب عورت ہو، اگر کسی طرح میں تمہاری مدد کر سکوں تو یہ بات میرے لئے بڑی خوشی کا موجب ہو گی.مگر اس بڑھیا نے پھر بھی یہی کہا، اللہ تعالیٰ نے مجھے سب کچھ دیا ہے، مجھے کسی اور چیز کی خواہش نہیں.فلاں شخص کے گھر سے دو روٹیاں آجاتی ہیں، ایک روٹی میں کھالیتی ہوں، ایک روٹی میرا بیٹا کھالیتا ہے.اور ایک لحاف ہمارے پاس ہے، جس میں ہم دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کر کے سورہتے ہیں.جب میرا بازو تھک جاتا ہے تو میں اپنے بیٹے سے کہہ دیتی ہوں ، بیٹا ذرا کروٹ بدل لو، تو وہ کروٹ کے 381
خطبہ جمعہ فرمود : 12 فروری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم بدل لیتا ہے اور اس طرح میں دوسرے پہلو پر سو جاتی ہوں.اور جب لڑکے کا بازو تھک جاتا ہے تو وہ مجھ سے کہہ دیتا ہے، ماں ذرا کروٹ بدل لو اور میں کروٹ بدل لیتی ہوں اور وہ دوسرے پہلو پر سو جاتا ہے.بیٹا بڑے مزے ہیں، مجھے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.حضرت خلیفة المسیح اول فرمایا کرتے تھے کہ یہ بات سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اس قسم کی غربت میں بھی وہ کتنی خوش ہے.اس کی وجہ یہی تھی کہ نیکی کی وجہ سے اسے کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی.حضرت خلیفة المسیح اوّل فرماتے تھے کہ میں نے پھر اصرار کیا کہ مائی پھر بھی تمہیں کوئی خواہش ہو تو مجھے بتاؤ، میں اسے پورا کر کے ثواب حاصل کر سکوں؟ اس عورت نے کہا عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے میری نظر کمزور ہوگئی ہے، میرے پاس جو قرآن کریم ہے، وہ باریک لفظوں والا ہے.میں تلاوت کرتی ہوں تو نظر تھک جاتی ہے.اگر تم موٹے الفاظ والا قرآن کریم لا دو تو میں اپنی خواہش کے مطابق زیادہ دیر تک تلاوت کر سکوں.یہ حالت جو اطمینان کی ہوتی ہے، دین کی وجہ سے نصیب ہوتی ہے.اور اس وجہ سے حاصل ہوتی ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نظر آجاتا ہے.جب اسے خدا تعالیٰ نظر آجاتا ہے تو دنیا کی سب چیزیں اس کے سامنے سے ہٹ جاتی ہیں.دنیا کی کوئی چیز اس کے اندر غم پیدا نہیں کرتی ہوئی چیز اس کے دل کی طاقتوں کو تو ڑتی نہیں.غرض یورپ کے لوگ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کے پاس بے شک دولت ہے لیکن پھر بھی انہیں دل کا چین نصیب نہیں.اور اسے حاصل کرنے کے لئے ان کے اندر خواہش پیدا ہورہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان تک خدا تعالیٰ کی آواز پہنچائی جائے تا وہ بھی اس پر غور کریں.اور غرباء میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو اسے قبول کر لیتے ہیں.اسی طرح تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی اس طرف توجہ ہورہی ہے.یہ چیز ، جو غیر ممالک میں پیدا ہو رہی ہے، اسے پورا کرنا، ہماری جماعت کے سوا اور کسی کا کام نہیں.ہم بے شک تھوڑے ہیں، غریب ہیں، کنگال ہیں.ہم میں سے بڑے سے بڑا دولت مند آدمی یورپ کے درمیانے درجہ کے لوگوں سے بھی نچلی حیثیت کا ہے.ان کے ہاں درمیانے درجے کا آدمی لاکھ پتی ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں صرف چند ایسے آدمی ہیں، جن کے پاس لاکھوں روپے ہیں.اور وہ بھی لاکھ پتی نہیں کہلا سکتے.لاکھ پتی وہ ہوتا ہے، جس کے پاس تھیں، چالیس لاکھ روپیہ ہو.پھر ان میں بہت سے کروڑ پتی اور ارب پتی بھی ہیں.اور ان کے پاس چھپیں چھپیں ہمیں تھیں ارب بلکہ اس سے بھی زیادہ روپیہ ہے.لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے ہماری ہی جماعت کو تو فیق دی ہے کہ اس کے قربانی کرنے والے افراد اس رنگ میں قربانی کرتے ہیں کہ حیرت آجاتی ہے.لیکن ان کی قربانی ہمارے لئے تسلی کا موجب 382
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود ه 12 فروری 1954ء نہیں ہوسکتی.کیونکہ جماعت کے بعض لوگ ایسے بھی ہیں، ان کے سامنے معجزات بھی ہیں، نشانات بھی ہیں، احمدیت کی تعلیم بھی ہے اور ہم نے خدا تعالیٰ کو کھینچ کر ان کے سامنے کر دیا ہے لیکن ان کے دل کی گر ہیں ابھی کھلی نہیں.جو وعدے آتے ہیں ، ان سے بھی یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے.دفتر والوں نے وعدوں کے فارموں پر ایک خانہ ماہوار آمد کا بھی بنایا ہوا ہے.اس خانہ کی وجہ سے قربانی کرنے والوں کی قربانی کا معیار واضح ہو جاتا ہے.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کے ناموں کے آگے لکھا ہوا ہوتا ہے،ماہوار آمد پچاس روپے، وعدہ تحریک جدید نمیں روپے، چالیس روپے یا پینتالیس روپے.اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جن کی آمد اڑھائی، تین سور و پیہ ماہوار ہوتی ہے اور وعدہ تحریک جدید پانچ روپے یا دس روپے ہوتا ہے.اس سے ان کی قربانی کے معیار کا پتہ لگتا ہے.اگر اڑھائی سو روپیہ ماہوار آمد والا شخص دس روپے وعدہ لکھاتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سال میں 160 آنے دیتا ہے.اور 160 آنوں کو سال پر تقسیم کیا جائے تو ماہوار تیرہ، چودہ آنہ کے درمیان پڑتا ہے.اور اگر ماہوار تنخواہ اڑھائی سو روپیہ ہو تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ چار، پانچ آنہ فی سینکڑہ قربانی کرتا ہے.لیکن میں نے دفتر والوں کو ہدایت دی ہوئی ہے کہ اگر بڑی آمد والا شخص بھی پانچ روپے وعدہ لکھا دیتا ہے تو تم اس کا انکار نہ کرو.بعض دفعہ وہ گھبراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اسے دوبارہ لکھتے ہیں.لیکن میں کہتا ہوں ، رہنے دو.اگر کوئی شخص نیکی کی طرف ایک قدم اٹھاتا ہے تو میرا تجربہ ہے کہ وہ ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا جاتا ہے.اور یہ تجربہ اتنا لمبا ہے کہ صرف پہلے پانچ روپیہ کے متعلق مجھے فکر ہوتی ہے.جب کوئی شخص پانچ روپیہ دے دیتا ہے تو میں سمجھتا ہوں، اب اس کے نکیل پڑ گئی ہے، اسے لذت محسوس ہوگی تو یہی پانچ روپے اگلے سال پھیس یا پچاس روپے بن جائیں گے.میں نے ایسے لوگ بھی دیکھتے ہیں کہ چندہ کے وقت انہوں نے کہا، ہم ایک پیسہ ماہوار چندہ دیں گے.اور میں نے کہا، ان سے ایک پیسہ ہی لے لو اور انہیں ثواب سے محروم نہ کرو.پھر انہی لوگوں کو میں نے تین تین، چار چار سو روپے ماہوار دیتے بھی دیکھا ہے.کیونکہ آہستہ آہستہ دلوں کی کیفیت بدل گئی.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اپنا پورا زور لگائیں گے کہ ہر احمدی تحریک جدید میں حصہ لے لے.میں نے جو یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ کم سے کم رقم وعدہ کی پانچ روپیہ ہو، اس میں بھی حکمت ہے.اگر چہ میں نے یہ اجازت دے دی ہے کہ اگر کوئی شخص پانچ روپے نہیں دے سکتا تو پانچ آدمی مل کر پانچ روپے دے دیں.اور اگر وہ آٹھ آنے دے سکتا ہے تو دس آدمی مل کر پانچ روپے دے دیں.بلکہ چاہے تو 80 آدمی ایک ایک آنہ دے کر پانچ روپیہ دے دیں.لیکن کم سے کم وعدہ، جو تحریک جدید میں لیا جائے، وہ پانچ روپیہ 383
خطبه جمعه فرمود و 12 فروری 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہو.کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ جب کسی کو لذت حاصل ہو جائے تو اس کے بعد وہ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھتا ہے.سوائے اس کے کہ کوئی بالکل مردہ ہو جائے اور ایسا شاذ ہوتا ہے.عام طور پر جب لذت پیدا ہو جاتی ہے تو انسان کے اندر یہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دوبارہ اس میں حصہ لے اور بڑھ چڑھ کر لے.میں ایک دفعہ دہلی گیا.چودھری ظفر اللہ خاں اس وقت تک وزیر نہیں بنے تھے.ویسے وہ ایک خاص مقدمہ کی پیروی کے لئے معمور تھے.ان دنوں ہندوستان کی حکومت نے انگلستان سے مالیات کے ایک ماہر کو منگوایا تھا تا کہ بعض اہم باتوں میں اس کا مشورہ ہے.چودھری صاحب نے اسے مجھ سے ملانے کے لئے دعوت دی.گلاب جامن یا رس گلے رکھے تھے.اس شخص کے لئے یہ ایک نئی چیز تھی ، وہ انہیں دیکھ کر گھبرایا.چودھری صاحب نے اسے کہا، کھا کر دیکھو.چنانچہ اس نے ایک گلاب جامن یا رس گلہ اٹھا کر کھایا.چودھری صاحب نے پھر ایک گلاب جامن یا رس گلہ اسے دیا تو اس نے پھر گریز کیا.تو چودھری صاحب نے اسے کہا تم نے پہلا گلاب جامن یا رس گلہ تو عجوبہ کے طور پر کھایا تھا، اب دوسرا گلاب جامن یا رس گلہ اس کے مزے کی وجہ سے کھاؤ.میں نے پوچھا، چودھری صاحب آپ نے یہ کیا کہا ؟ تو انہوں نے بتایا، انگریزی میں یہ محاورہ ہے کہ پہلی چیز تو عجوبہ کے لئے ہوتی ہے اور دوسری چیز اس کے مزے کی وجہ سے ہوتی ہے.یہ ایک ضرب المثل ہے لیکن میں نے روحانیات میں بھی دیکھا ہے کہ پہلے چسکالگانے کی ضرورت ہوتی ہے، پھر خود بخود عادت پڑ جاتی ہے.دنیا میں بھی دیکھ لو، لوگ شراب پیتے ہیں پنکچر ، جس کے استعمال سے تم گریز کرتے ہو، بچوں کو دیتے ہو تو وہ ناک، منہ چڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ کڑوی چیز ہے، ہم نہیں دیتے.اس میں الکوحل یعنی شراب ہی کا جزو ہوتا ہے.جوان لوگ بھی اس سے نفرت کرتے ہیں.لیکن یورپ میں لوگ شراب مزے لے لے کر پیتے ہیں اور روکنے کے بعد بھی اسے نہیں چھوڑتے.پس ہر چیز کے دو مزے ہوتے ہیں.ایک تو اس کا ذاتی مزا ہوتا ہے اور دوسرا مزا عادت کے نتیجہ میں ہوتا ہے.ہمارے ملک میں لوگ زردہ کا استعمال کرتے ہیں.لیکن جس نے پہلے زردہ استعمال نہ کیا ہو، وہ اگر زردہ کھالے تو اس کے سر میں چکر آنے لگتے ہیں.ایک دفعہ مجھے نقرس کی تکلیف ہوئی، ایک دوست ہندوستان کے تھے، انہوں نے کہا، آپ پان میں زردہ ڈال کر کھا ئیں، درد ہٹ جائے گی.میں نے کہا، میں نے تو زردہ کبھی کھایا نہیں، اس لئے اگر میں نے زردہ کھایا تو سر میں چکر آ جائے گا.انہوں نے کہا نہیں، آپ استعمال تو کریں.اس پر انہوں نے پان میں زردہ ڈال کر مجھے دیا.میں نے کھایا، اس سے درد میں کچھ کمی واقع ہو گئی.اس پر چند گھنٹوں کے 384
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبه جمعه فرموده 12 فروری 1954ء بعد پان میں زردہ ڈال کر مجھے دینے لگے.دو دن ہم سفر میں رہے اور اس سفر کے دوران میں وہ مجھے پان میں زردہ ڈال کر دیتے رہے.دو دن کے بعد میں نے دیکھا کہ زردہ کی تکلیف کم ہونے لگی.تب میں نے اسے چھوڑ دیا کہ کہیں عادت نہ پڑ جائے.غرض بڑی تکلیف دہ اور بدمزہ چیزیں بھی اگر علاج کے طور پر استعمال کی جائیں تو ان کی عادت پڑ جاتی ہے اور وہ اچھی معلوم ہونے لگتی ہیں.اور جب اونی چیزوں کی عادت پڑ جاتی ہے تو دین کی قربانی کی عادت کیوں نہیں پڑے گی ؟ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان کو ایک دفعہ قربانی کے لئے آگے لایا جائے.اس کے بعد خود بخود اس کے اندر ذوق پیدا ہو جاتا ہے، اس کے اندر ایک قسم کی تسلی پیدا ہو جاتی ہے.پہلے وہ اپنے آپ کو لاوارث سمجھتا ہے لیکن جب وہ خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر قربانی کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو لاوارث نہیں سمجھتا، وہ خدا تعالیٰ کو اپنا وارث سمجھنے لگ جاتا ہے.اور خدا تعالیٰ جب نظر آنے لگتا ہے تو اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے.پہلے وہ معمولی معمولی تکلیف کی وجہ سے گھبرا جاتا تھا.لیکن جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ میں گر جاتا ہے اور اس سے اسے تسلی ہو جاتی ہے.پس جماعت کو چاہئے کہ وہ تمام افراد کو بینچ کر تحریک جدید میں شامل کرے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر وہ پہلے اس میں تھوڑا حصہ بھی لے لیں گے تو بعد میں وہ زیادہ حصہ لینے لگ جائیں گے.اس وقت جماعت کی آمد 25 ، 26 لاکھ روپیہ ماہوار ہے اور تحریک جدید کے چندے کو ملا کر جماعت کا سالانہ چندہ 13 14 لاکھ روپیہ بنتا ہے.گویا جماعت کی موجودہ آمد میں بھی موجودہ چندہ کا نصف اور بڑھ سکتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھے گی تو آمد بھی زیادہ ہو جائے گی.اور اس کے نتیجہ میں چندہ بھی بڑھ جائے گا.اس میں لوگوں کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.لوگوں کی مخالفت کوئی چیز نہیں، جس سے ڈرا جائے.سینکڑوں لوگ بیعت کرنے کے لئے آتے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے بیعت کے لئے کہا ہے.اور جس شخص کو خدا تعالیٰ بیعت کے لئے کہہ دے، اس کو اگر کوئی رو کے بھی تو وہ رک نہیں سکتا.گزشتہ جلسہ سالانہ پر ایک نوجوان نے بیعت کی ، وہ ایک کڑا احراری خاندان میں سے تھا.پہلے تو میں نے خیال کیا کہ وہ جلسہ پر آ گیا ہے اور وقتی جوش کے نتیجہ میں وہ بیعت کرنے لگا ہے.لیکن پھر اس نے تفصیل بتائی کہ بعض احمد یوں نے مجھے سلسلہ کی کتابیں پڑھنے کے لئے دیں ، جس سے مجھے احمدیت کی طرف رغبت ہوئی اور میں نے خیال کیا کہ احمدی اتنے گندے نہیں، جتنا انہیں کہا جاتا ہے.اس کے بعد جب فتنہ کھڑا ہوا تو میری آنکھیں کھل گئیں اور میں نے خیال کیا کہ یہ کوئی اسلام نہیں ، جس کا غیر احمدی 385
خطبہ جمعہ فرمود : 12 فروری 1954ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم مظاہرہ کر رہے ہیں.اگر ان میں اسلام کی روح ہوتی تو وہ اخلاق سے پیش آتے اور اس قدر ظالمانہ فعل نہ کرتے.چنانچہ ان واقعات کا مجھ پر سخت اثر ہوا اور میں اپنے باپ کے پاس گیا، جو کٹر احراری تھے.میں نے ان سے کہا، عدل، انصاف اور شریعت ان حرکات کی اجازت نہیں دیتی ، جو آپ لوگ احمدیوں سے کر رہے ہیں.میری یہ بات سن کر انہوں نے کہا ، نکل جا گھر سے تو بے دین ہو گیا ہے.اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام صرف احمدیت میں ہے، اس لئے میرا باپ بھی کچی بات کو برا مناتا ہے.اس سے احمدیت کی صداقت مجھ پر کھل گئی اور میں نے بیعت کا پختہ ارادہ کر لیا.پس جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے نشانات دیکھ لے تو خدا تعالی کی طرف سے اسے ایک نور ملتا ہے، جس سے اس کا دل منور ہو جاتا ہے.بعض لوگوں کو یہ نور نشانات دیکھنے سے پہلے ہی مل جاتا ہے اور جس شخص کو یہ نور مل جائے ، وہ کسی کے گمراہ کرنے ، ورغلانے اور دکھ دینے سے پیچھے نہیں ہتا.پچھلی شورش میں بعض ایسے نو جوانوں نے بیعت کی ، جنہوں نے بتایا کہ ہم دیر سے اس سلسلہ کو اچھا سمجھتے تھے مگر بیعت نہیں کی تھی.لیکن اب جب ایک بڑا فتنہ احمدیت کے خلاف اٹھا تو ہم نے خیال کیا کہ امن کے دنوں میں تو شہادت کا موقع نہیں مل سکتا.اب ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے، اگر ہم احمدیت میں داخل ہو جائیں تو شہادت کا موقع مل جائے گا.ایک نوجوان نے مجھے لکھا کہ میں دل سے دس سال سے احمدی ہوں، اس فتنہ کے دوران میں نے خیال کیا کہ اب احمدیت کی خاطر جان دینے کا وقت آگیا ہے، اگر میں اب بیعت نہیں کروں گا تو کب کروں گا ؟ پس اصل چیز ایمان کا پیدا ہو جانا ہے.جب کسی کے اندر ایمان پیدا ہو جائے تو اس کو صداقت کی خاطر قربانیاں کرنے سے کوئی شخص روک نہیں سکتا.ایمان پیدا ہو جانے کے بعد سب گڑھے، کانٹے اور سمندر، جو بھی رستہ میں آئیں، آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں.پس ایک دفعہ تمام افراد کے اندر قربانی کا ذوق پیدا کرو.اور چھوٹے ، بڑوں کو تحریک جدید میں شامل کرو.چھوٹوں کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا کرو.چاہے تم ان کی طرف سے ایک، ایک پیسہ ہی دو لیکن ان کو تحریک جدید میں شریک ضرور کرو.یہ درست ہے کہ اگر وہ الگ طور پر حصہ لیتے تو ہم ان سے کہتے ، دوسروں سے مل کر پانچ روپیہ دے دو اور تحریک جدید میں شامل ہو جاؤ.لیکن جب ان کا باپ اور ماں اس میں شریک ہیں تو ان کے لئے کوئی مشکل نہیں.باپ یا ماں ان کی طرف سے اپنے چندہ کے ساتھ چار، چار آنہ دے کر ان کو ساتھ ملالیں.اور پھر ان کی طرف سے چندہ لکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں بتا ئیں کہ ان کے لئے اس قسم کے چندوں میں شامل ہونا ضروری ہے.پھر اب تو پندرہ میں والی روک بھی نہیں 386
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 12 فروری 1954ء رہی.اگر کوئی شخص اپنی طالب علمی میں چندہ دیتا ہے تو وہ چندہ اب آئندہ تحریک جدید میں حصہ لینے میں روک نہیں بنے گا.پہلے چھوٹے بچوں سے چندہ لینے سے دفتر والے گھبراتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے ان سے چندہ لے لیا تو تحریک جدید کی مقرر کردہ مدت دس سال یا انیس سال ان کی طالب علمی میں ہی گزر جائے گی.جب یہ جوان ہوں گے اور کمانے لگیں گے تو ہم ان سے چندہ نہیں لے سکیں گے.لیکن اب تو یہ روک بھی نہیں کیونکہ اب یہ چندہ ہمیشہ کے لئے ہے.دسویں سال کے بعد جب میں نے دوبارہ تحریک کی تو مجھے خیال تھا کہ چندہ میں کمی آجائے گی.اسی طرح دس سال کے ختم ہونے پر بھی میں سمجھتا ہوں کہ کچھ کمزوری پیدا ہوگی.مگر جو لوگ اس دفعہ شامل ہو گئے تو اس کے بعد کمزوری ایمان کی وجہ سے کوئی شخص پیچھے ہٹے تو ہٹے، ورنہ ہر احمدی آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا.کیونکہ جب وہ اپنی قربانیوں کے نتائج دیکھے گا تو اس کی ہمت بڑھ جائے گی اور وہ سمجھے گا کہ میرا روپیہ ضائع نہیں ہو رہا.پس سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہر شخص کو کھینچ کر تحریک جدید میں شامل کر دیا جائے.ممکن ہے، پھر بھی کوئی شخص رہ جائے ، وہ دوسرے سال شامل ہو جائے گا.جب سب کو عادت پڑ جائے گی تو میں سمجھتا ہوں ، ہمارا چندہ اس قدر بڑھ جائے گا کہ جماعت کے لئے اسلامی ممالک کے لڑکوں کو تعلیم دلانا بھی آسان ہو جائے گا اور غیر اسلامی ملکوں میں تبلیغ کا کام بھی وسیع ہو جائے گا.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر مسلموں کو گمراہی اور ضلالت سے بچانے کا سہرا صرف احمدیوں کے سر ہوگا“.مطبوعه روز نامه ا صح 11 مارچ 1954 ء ) 387
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اکتوبر 1954ء خدمت دین کا ثواب دائمی ہے اور دنیوی مال ایک عارضی اور فانی چیز ہے خطبہ جمعہ فرموده 08 اکتوبر 1954ء.اس کے بعد میں جماعت کے نوجوانوں کو بالخصوص اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جماعت میں کچھ عرصہ سے وقف کی طرف توجہ نہیں رہی.خصوصاً جب سے پاکستان بنا ہے، اس وقت سے لوگوں کی توجہ وقف کی طرف سے جاتی رہی ہے.اس سے پہلے نوکریوں کا جھگڑا ہوتا تھا، جو اچھی نوکریاں ہوتی تھیں ، وہ انگریز لے جاتے تھے، جو دوسرے درجے کی نوکریاں تھیں، وہ ہندو لے جاتے تھے اور جو درمیانی درجہ کی نوکریاں ہوتی تھیں، وہ سکھ لے جاتے تھے اور جو گند باقی رہتا تھا، وہ مسلمانوں کے حصہ میں آتا تھا.اس وقت مسلمان سمجھتا تھا کہ چلو نوکری نہ سہی ، خدمت دین ہی سہی.لیکن پاکستان بننے کے بعد ساری نوکریاں مسلمانوں کو ہی ملتی ہیں، اب ان کا انگریزوں، ہندؤوں اور سکھوں سے مقابلہ نہیں رہا.اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جب انہیں جیسے ایم.اے اور بی.اے وزیر ہیں ،سیکر یٹری ہیں، ڈائریکٹر ہیں اور انسپکٹر جنرل پولیس وغیرہ ہیں تو وہ بھی کیوں ویسے ہی نہ بنیں؟ پس وہ نوکریوں کے پیچھے پڑگئے ہیں اور خدمت دین کا خیال انہیں نہیں رہا.حالانکہ یہ ان کے دماغ کی کمزوری کی علامت ہے کہ انہوں نے اس بات کا اندازہ نہیں کیا کہ بڑے عہدے گنتی کے ہوتے ہیں اور وہ صرف گنتی کے چند افراد کو ہی مل سکتے ہیں.دوسرے لوگ تو پہلے کی طرح نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹیا تے پھریں گے.پھر انہوں نے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ وزارت ،سیکریٹری شپ یا ڈائریکٹر شپ انہیں ضرور ملے گی؟ اب بھی ملک میں دیکھ لو کہئی ایم.اے اور بی.اے پاس لوگ فارغ ہیں، انہیں نوکریاں نہیں مل رہیں.مگر یہ نقطہ نگاہ تو اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب خدا کے خانہ کو خالی چھوڑ دیا جائے.اگر خدا تعالیٰ کے خانہ کو خالی نہ چھوڑا جائے تو انہیں سمجھنا چاہئے کہ دین کی خدمت کا ثواب دائی ہے اور دنیوی مال ایک عارضی اور فانی چیز ہے.جو شخص تمہیں یا چالیس سالہ زندگی کے لئے اتنی محنت کرتا ہے اور تین کروڑ یا تین ارب سال کی آئندہ زندگی کو نظر انداز کر دیتا ہے، وہ کس طرح امید کر سکتا ہے کہ ہم اسے عقلمند سمجھ لیں ؟ اگر وہ خدمت دین کرتا ہے تو ایک نہ ختم ہونے والے عرصہ کے لئے انعام پاتا ہے.وہ انعام اور اجرتین کروڑ سال کے لئے نہیں، تین ارب سال 389
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اکتوبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم - کے لئے نہیں بلکہ ایسے زمانہ کے لئے ہے، جسے اسلام نے نہ ختم ہونے والا کہا ہے.اور جو زمانہ نہ ختم ہونے والا ہو ، وہ بہر حال تین کروڑ یا تین ارب یا تین کھرب سال سے زیادہ ہوگا.اور اتنے لمبے عرصہ کے فائدہ کو چند سالہ فائدہ کے لئے نظر انداز کر دینے والا عظمند نہیں کہلا سکتا.میں نے سنا ہے کہ اس سال مدرسہ احمدیہ میں صرف ایک طالب علم داخل ہوا ہے.اس میں کسی حد تک سکول والوں کی ناتجربہ کاری کا بھی دخل ہے.جب سید محمود اللہ شاہ صاحب " فوت ہوئے اور موجودہ ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے تو انہیں یہ خیال نہ آیا کہ سال بھر طلباء کو وقف کی طرف توجہ دلاتے رہیں.سید محمود اللہ شاہ صاحب اس کے لئے سال بھر کوشش کرتے رہتے تھے اور مجھے وقتا فوقتا بتاتے رہتے تھے کہ میں نے اتنے لڑکوں سے وقف کا وعدہ لیا ہے.اور اس طرح مدرسہ احمدیہ میں کچھ نہ کچھ طلباء آ جاتے تھے.لیکن اب جو نئے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے، انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ وقف کی تحریک تو جاری ہی ہے، طلبا ء خود بخود وقف کی طرف آجائیں گے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال طلباء کو اس کا احساس پیدا نہ ہوا.اگر وہ سال کے شروع سے ہی کوشش کرتے اور طلباء کو وقف کی طرف توجہ دلاتے رہتے تو کچھ نہ کچھ طلباء وقف میں آ جاتے.ایک کلاس پر کئی ہزار روپے سالانہ خرچ آتا ہے.اگر ایک طالب علم ہو تب بھی یہ خرچ آئے گا اور اگر پچاس طالب علم ہوں ، تب بھی یہ خرچ آئے گا.گویا اس سال ایک طالب علم پر پچاس گنا خرچ کرنا پڑے گا.اور اگر خدانخواستہ لڑکا امتحان میں فیل ہو گیا تو ایک سال خالی رہ جائے گا اور یا پھر اس کلاس میں صرف فیل شدہ لڑ کے داخل کرنے پڑیں گے.میں دیکھتا ہوں کہ بیرون ہندوستان کی جماعتوں میں وقف کی تحریک کی طرف اب زیادہ توجہ پیدا ہورہی ہے.اس سال امریکہ سے تین، چار نو جوانوں کی طرف سے درخواستیں وصول ہو چکی ہیں کہ ہم دینی تعلیم کے حصول کی خاطر پاکستان آنا چاہتے ہیں.یورپ سے دو، تین نو جوانوں کی درخواستیں آئی ہیں، وہ بھی دینی تعلیم کی خاطر مرکز میں آنا چاہتے ہیں.اسی طرح انڈونیشیا، سیلون اور افریقہ سے بھی بعض نو جوانوں کی درخواستیں وصول ہوئی ہیں.گویا جن ممالک میں آمد میں زیادہ ہیں، ان ممالک سے وقف کی درخواستیں آ رہی ہیں.یورپ میں معمولی سی تعلیم کے ساتھ لوگ جس قدر آمد پیدا کر لیتے ہیں، پاکستان کے رہنے والے نہیں کر سکتے.لیکن ان لوگوں کی طرف سے درخواستیں موصول ہورہی ہیں.ہم انہیں اس لئے نہیں بلاتے کہ پہلے جوطلباء آچکے ہیں، وہ ابھی تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے.غرض جہاں دفتر میں بیرونی ممالک کے احمدیوں کی بارہ، تیرہ درخواستیں پڑی ہوئی ہیں، وہاں پاکستان کے احمدیوں کی توجہ اس طرف بہت کم ہے.390
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ ہے حالانکہ پاکستان یا ہندوستان، جس میں پاکستان اور بھارت شامل تھے، وہ ملک تعالی نے چن لیا ہے.اگر خدا تعالیٰ کسی اور ملک کو زیادہ قابل سمجھتا تو وہ اپنا مسیح اس ملک میں مبعوث کرتا.لیکن اس نے اپنے مسیح کی بعثت کے لئے ہمارے ملک کو چن کر ایک تو ہم پر احسان کیا اور دوسرے ہم پر اعتماد کا اظہار کیا، جس کا بدلہ دینا ہم پر فرض ہے.حضرت ابن عباس سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ کسی شخص کے لئے اس قسم کی دعا بھی کرتے ہیں، جس قسم کی دعا آپ اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں؟ آپ نے کہا ، ہاں ، میں اس شخص کے لئے اس قسم کی دعا کرتا ہوں، جو مجھے آکر یہ کہتا ہے کہ مجھے آپ کے سوا اور کوئی دعا کرنے والا نظر نہیں آتا.ایسے شخص کے لیے میں اس قسم کی دعا کرتا ہوں ، جس قسم کی دعا میں اپنی ذات کے لئے کرتا ہوں.اس لئے کہ اس نے مجھ پر اعتماد کیا ہے.اور چونکہ اس نے مجھ پر اعتماد کیا ہے، اس لئے اب میرا فرض ہے کہ اس کے اعتماد کے مطابق اس سے سلوک کروں.اگر حضرت ابن عباس زید، بکر کے لئے اپنی جان لڑا دیتے تھے کہ اس نے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا تو پھر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس لئے چنا کہ ہم اس کے دین کا جھنڈا بلند کریں اور اسے ہر ملک میں گاڑ دیں لیکن ایک حقیر سی دولت کے لئے ہم اس کے کام کو نظر انداز کر رہے ہیں.آخر پاکستان کتنا بڑا ملک ہے؟ پاکستان کی حکومت چھوٹی سی حکومت ہے اور پھر اس میں جو حصہ تمہارا ہے، وہ کتنا ہے؟ اس میں تمہارا حصہ تو بہت ہی کم ہے.اس معمولی سی دولت کو خدا تعالیٰ کے انتخاب پر مقدم کر لینا، کتنے افسوس کی بات ہے.پس میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ تمہارا اندھا پن ہے، اسے دور کرو.یہ بیماری ہے، اس کا علاج کرو.اگر تمہاری آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہے، اگر تمہاری آنکھوں میں سگرے پڑتے ہیں، اگر تمہاری آنکھوں میں سفیدہ پڑتا ہے تو تم اس کا علاج کراتے ہو.اب اس سے زیادہ سفیدہ ، موتیا اور مکرے اور کیا ہوں گے کہ تم دنیوی مقاصد کو خدا تعالیٰ کے دین پر مقدم رکھتے ہو؟ یہ بڑا سخت سفیدہ ہے، یہ بڑے سخت لکرے ہیں، جو تمہاری روحانی بینائی کو تباہ کر رہے ہیں.پس میں سکول کے اساتذہ اور کالج کے پروفیسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس طرف توجہ کریں اور طلباء کو وقف کی طرف لائیں.میں نے لاہور میں ایک واقف زندگی پروفیسر سلطان محمود صاحب شاہد کو ایک دفعہ تحریک کی کہ تم طلبا کے رجحانات کا جائزہ لے کر وہ مضامین تجویز کرو، جوان کے لئے آئندہ زندگی میں مفید 391
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اکتوبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم ثابت ہوں.لیکن چار سال ہو گئے ، ان کی طرف سے کوئی رپورٹ نہیں آئی.دو، تین ماہ کے بعد میں نے انہیں پکڑا اور کہا کہ تم نے اب تک اس تحریک کے بارہ میں کیا کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں لڑکوں کو اکٹھا کر رہا ہوں، کچھ دنوں کے بعد اپنی رپورٹ پیش کر سکوں گا.لیکن چار سال کا عرصہ گذر گیا، اب تک انہوں نے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی.اس عرصہ میں کئی لڑکے بھاگ گئے اور باہر کاموں پر لگ گئے.جہاں پروفیسروں کی یہ حالت ہو، وہاں طالب علموں کی کیا حالت ہوگی؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے، جیسے کہتے ہیں کہ مردہ باد اے مرگ عیسی آپ ہی بیمار ہے، یعنی اے موت ! تجھے خوشخبری ہو کہ میسی خود بیمار ہو گیا ہے اور وہ کسی کو زندہ نہیں کر سکتا.جب پروفیسروں کی یہ حالت ہو کہ اگر ان کے سپر داتنا چھوٹا سا کام بھی کیا جائے ، جو اگر کسی چوڑھے کے سپر د بھی کیا جا تا تو وہ اسے کر لیتا لیکن وہ چار سال تک نہ کریں تو طلباء کا کیا حال ہوگا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر اساتذہ اور طالب علم اپنی اصلاح نہیں کریں گے اور خدمت دین سے غفلت کریں گے تو خدا تعالیٰ کا کام بہر حال ہوتا چلا جائے گا.لیکن یہ ضرور ہے کہ تم سے برکت چھین لی جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ میں تشریف لے گئے اور اس میں خدا تعالیٰ نے آپ کو فتح دی.اس وقت ملکہ نیا یا فتح ہوا تھا اور آپ کے ساتھ مکہ کے حدیث العہد لوگ بھی تھے.آپ نے انہیں حدیث العہد سمجھ کر مال غنیمت کا بہت سا حصہ دے دیا اور مدینہ کے مسلمانوں کو نہ دیا.اس پر ایک انصاری نوجوان نے کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال اپنے رشتہ داروں کو دے دیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی یہ خبر پہنچی.آپ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا، اے انصارا مجھے یہ خبر پہنچی ہے.انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ا یہ بات درست ہے.لیکن ہم میں سے ایک بد بخت نو جوان نے یہ بات کہی ہے، ہم اس سے کلی طور پر بیزار ہیں.آپ نے فرمایا، اے انصار! کہنے والے کے منہ سے بات نکل گئی اور دنیا کے سامنے آچکی.میں تمہارے سامنے اس کی اصل حیثیت رکھ دیتا ہوں کہ آج جو کچھ ہوا ہے، اس کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے ، ان کے اپنے رشتہ داران کے دشمن ہو گئے اور انہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو برا بھلا کہا، آپ پر مظالم کئے اور آخر اتنی سختیاں کیں کہ آپ کو مکہ سے نکلنا پڑا اور مدینہ تشریف لے آئے.وہاں ہم نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو پناہ دی، انہیں اپنی جائیدادیں پیش کر دیں، اپنے مکان خالی کر دئیے.غرض آپ کے لئے ہر ممکن قربانی کی اور اپنی جانوں کو آپ کی حفاظت کے لئے پیش کر دیا.لیکن جب مکہ فتح ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں محروم کر دیا اور اموال اپنے رشتہ داروں کو 392
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 اکتوبر 1954ء دے دیئے.انصار کے اندر ایمان تھا ، وہ اس قسم کی بے ایمانی والی بات نہیں کہہ سکتے تھے.انہوں نے روتے ہوئے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ بات ہماری قوم کے ایک بد بخت نوجوان کے منہ سے نکل گئی ہے، ہم اس سے کلی طور پر بیزار ہیں.آپ نے فرمایا، اے انصار! اس کا ایک اور رخ بھی ہے.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ نے اپنے ایک نبی کو مکہ میں پیدا کیا لیکن اس کی قوم نے اس کی قدر نہ کی ، اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کو اٹھا کر مدینہ بھیج دیا.پھر فرشتوں کی مدد اور خدا تعالیٰ کی برکات اور فضلوں کے نتیجہ میں وہ بڑھا، پھلا اور پھولا اور اس نے ترقی حاصل کی اور مکہ فتح کر لیا.جب اس کا مکہ پر قبضہ ہو گیا تو مکہ والوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ تو سچا رسول تھا، ہم نے اس کی ناقدری کی ہے.چنانچہ انہوں نے اسے قبول کیا اور پھر وہ خیال کرنے لگے کہ شاید ان کی کھوئی ہوئی دولت ان کو واپس مل جائے گی اور خدا کا رسول پھر مکہ میں آباد ہو جائے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے کہا، چونکہ تم نے میری نعمت کو رد کر دیا تھا ، اس لئے اب یہ عظیم الشان نعمت تمہیں واپس نہیں مل سکتی.چنانچہ اس نے مکہ والوں سے کہا کہ اونٹ اور بکریاں تم لے لو اور مدینہ والوں سے کہا کہ تم میرے رسول کو اپنے ساتھ لے جاؤ.فرمایا تم یہ بھی کہہ سکتے ہو.تمہاری بھی یہی مثال ہے.تم خدا تعالیٰ کو یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ پہلے نوکریاں نہیں ملتی تھیں، اب چونکہ پاکستان بن گیا ہے، اس لئے ہم نوکریاں کریں گے اور دنیوی راحت و آرام حاصل کریں گے.اور یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ اب اگر نوکریاں مل رہی ہیں تو کوئی بات نہیں، ہم پہلے بھی خدا تعالیٰ کے تھے اور اب بھی خدا تعالیٰ کے ہی رہیں گے اور اس کے دین کی خدمت کریں گے.تم خود سمجھ سکتے ہو کہ تم خدا تعالیٰ کو ان دونوں میں سے کون سا جواب دینا پسند کرو گے؟ کیا تم قیامت کے دن یہ کہہ کر اپنے ماں باپ کی ناک رکھو گے کہ جب تک پاکستان نہیں بنا تھا ، ہم نے اپنی زندگیاں وقف کیں لیکن جب پاکستان بن گیا تو ہم نے وقف توڑ دیئے؟ یاتم یہ کہو گے کہ جب تک پاکستان نہیں بنا تھا، ہم نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کی تھیں اور جب پاکستان بن گیا تب بھی ہم نے خدا تعالیٰ کو ہی مقدم رکھا ؟ تم سمجھ سکتے ہو کہ تم پہلا جواب دے کر اپنے ماں باپ کی طرف فخر کے ساتھ گردن اٹھا کر دیکھ سکو گے یا دوسرا جواب دے کر تم ان کی ناک کو محفوظ رکھ سکو گے؟ بہر حال فیصلہ تمہارے اختیار میں ہے اور ہر عظمند سمجھ سکتا ہے کہ اسے ان حالات میں کیا فیصلہ کرنا چاہئے؟" ( مطبوعه روزنامه الفضل 13 اکتوبر 1954ء ) 393
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1954ء اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اپنے اپنے خاندان کے نو جوانوں کو وقف کرو خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اکتوبر 1954ء اس کے بعد میں پھر اس مضمون کو لیتا ہوں، جو میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا.اور وہ مضمون یہ تھا کہ جماعت میں وقف کی طرف توجہ کم ہو گئی ہے اور اس کا احساس آہستہ آہستہ منتا جارہا ہے.وہ یہ ایہ بجھتی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے، وہ خود کرے گا.حالانکہ یہ نقطہ نگاہ بالکل غلط ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے.مگر وہ بے وقوفی کی حد تک اسے لمبا کر دیتے ہیں اور اس کا ایک غلط مفہوم لے لیتے ہیں.قرآن کریم میں لکھا ہے کہ رزق خدا تعالیٰ دیتا ہے.لیکن تم میں سے کوئی شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ رزق تو خدا تعالیٰ نے دینا ہے، اس لئے میں نوکری کیوں کروں؟ قرآن کریم میں یہ لکھا ہے کہ اولا واللہ تعالیٰ دیتا ہے.لیکن دنیا میں لوگ نکاح کرتے ہیں ، اگر اولاد نہ ہو تو بیویوں کا علاج کرواتے ہیں اور کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اولاد تو خدا نے دینی ہے، مجھے نکاح کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ ہر شخص نکاح کرتا ہے اور اولاد کے لئے علاج معالجہ میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا.پھر خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب کوئی شخص بیمار ہو تو وہی شفا دیتا ہے.لیکن تم یہ نہیں کہتے کہ جب شفا خدا تعالیٰ نے دینی ہے تو ہم اپنے بیمار بچہ کے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس کیوں جائیں؟ بلکہ تم ان ساری جگہوں پر یہ سمجھتے ہو کہ باوجوداس کے کہ سارے کام خدا تعالیٰ نے کرنے ہیں، پھر بھی انسان کو اس کے متعلق حسب استطاعت کوشش کرنی چاہئے.مگر جب وقف کا سوال آتا ہے تو تم اس کے لئے کوئی حرکت نہیں کرتے اور یہ کہہ دیتے ہو کہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.اگر یہ بات تمہارے دوسرے اعمال سے ملا کر دیکھی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمہارے نفس کا دھوکہ ہے.یا تم دوسروں کو دھوکہ دینا چاہتے ہواور یا پھر تمہاری عقل اتنی کمزور ہے کہ تم اس بات کا انکار کرتے ہو کہ جو تمہاری زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ دینی جماعتوں اور دینی کاموں کو چلانے کے لئے وقف کی ضرورت ہوتی ہے.اس کے بغیر دینی جماعتیں بھی زندہ نہیں رہ سکتیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ 395
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے کہ جس کا کام صرف قومی کام کرنا ہو اور یا پھر دوسرے کام وہ صرف ضمنی طور پر کرے، اصل کام، قومی کام ہو.آخر ہر آدمی ایک وقت میں تین ، چار کام کر لیتا ہے.مثلاً سکول ماسٹر ہے، وہ پرائیویٹ ٹیوشن بھی کر لیتا ہے.یاڈاکٹر ہے، اگر وہ ملازم ہو تو پرائیویٹ پریکٹس بھی کر لیتا ہے.لیکن جب سرکاری کام سامنے ہوتو وہ دوسرے کام کو نظر انداز کر دے گا اور پرائیویٹ پریکٹس یا پرائیویٹ ٹیوشن چھوڑ کر اپنے مفوضہ کام کی طرف متوجہ ہو جائے گا.پس قرآن کریم کہتا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ اس کا اصل کام، قومی کام ہو.وہ بے شک زراعت کرے، تجارت کرنے یا اور کوئی پیشہ کرے.لیکن اس کے اصل کام میں کوئی روک واقع نہ ہو.ہم نے بھی بعض واقفین کو اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ زائد کام کر لیں.بلکہ بعض دفعہ میں نے دفتر والوں کو ڈانٹا ہے کہ تم واقفین کوزائد کام کرنے سے کیوں روکتے ہو؟ ہاں ہم نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ ہمیں بتا دے کہ میں فلاں کام کرنے لگا ہوں.بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ واقفین کو زائد کام کرنے کی تحریک کرنی چاہئے.لیکن بغیر وقف کے دین کا کام کرنا مشکل ہے.جس جماعت میں وقف کا سلسلہ نہ ہو ، وہ اپنا کام کبھی مستقل طور پر جاری نہیں رکھ سکتی.ہم نے تو وقف کی ایک شکل بنادی ہے.ورنہ زندگی وقف کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھے.کیا تم سمجھتے ہو کہ صحابہ نے ولتكن منكم امة يدعون الى الخير ويامرون بالمعروف وينهون عن المنكر پر عمل نہیں کیا ؟ حضرت ابو ہریرۃ" کو دیکھ لو، انہوں نے آخری زمانہ میں اسلام قبول کیا.یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف اڑھائی سال پہلے مسلمان ہوئے.مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابوہریرة نے غور کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب آخری عمر میں ہیں اور میں بہت دیر بعد اسلام میں داخل ہوا ہوں، اس لئے اگر میں کچھ سیکھنا چاہتا ہوں تو اس کا طریق یہی ہے کہ میں اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کر دوں.چنانچہ وہ مسجد میں ہی رات دن بیٹھے رہتے شروع شروع میں ان کا بھائی گھر سے کھانا بھجوا دیتا تھا.لیکن جب اس نے دیکھا کہ یہ تو مستقل طور پر مسجد میں بیٹھ گئے ہیں تو اس نے کھانا بھجوانا بند کر دیا.اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہا کہ یا رسول اللہ! میرا بھائی تو مستقل طور پر مسجد میں بیٹھ گیا ہے، میں عیال دار شخص ہوں، میں نے بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے، میں اسے کب تک خرچ دے سکوں گا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے کہ حضرت ابوہریرۃ دین کی خدمت کر رہے ہیں، اس لئے آپ 396
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1954ء نے فرمایا، اللہ تعالی بعض دفعہ کسی کو دوسرے کی خاطر رزق دے دیتا ہے، تم ایسا نہ کرو ممکن ہے کہ ابو ہریرۃ کی خاطر ہی اللہ تعالیٰ تمہیں رزق دے رہا ہو.لیکن اس نے آپ کی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو ہریرۃ " خود فرماتے ہیں کہ بعض اوقات مجھے سات سات وقت فاقے آجاتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ مسجد سے نہ ہلتے بلکہ سارا سارا دن وہیں بیٹھے رہتے.اور اللہ تعالیٰ ان کے رزق کا سامان کر دیتا.اب تم اللہ تعالیٰ کے رزق کے اور معنی کرتے ہو اور صحابہ اس کے اور معنی سمجھتے تھے.وہ بے شک دنیا کے کام بھی کرتے تھے لیکن دین کو ہمیشہ مقدم رکھتے تھے.یہاں تو گزارہ بھی ملتا ہے، چاہے وہ گزارہ کم ہی ہو لیکن ان کو یہ گزارہ بھی نہیں ملتا تھا، وہ اپنا اپنا کام کرتے تھے اور پیٹ پالتے تھے.لیکن دینی کاموں کو نظر انداز نہیں کرتے تھے.بلکہ دینی کام کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیتے تھے.اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ تھے ، وہ بھی مسجد میں بیٹھے رہتے تھے.اسی طرح بعض اور صحابہ تھے.بعض کے نزدیک ان کی تعداد 300 تھی اور بعض کے نزدیک ان کی تعداد 80 کے قریب تھی.انہیں اصحاب الصفہ" کہا جاتا تھا اور ان کا کام یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں سنیں اور دوسرے صحابہ تک پہنچا دیا.ان کو کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا.اگر کسی کی طرف سے کھانا آجاتا تھا تو کھا لیتے تھے، ورنہ کسی سے مانگتے نہیں تھے.ایک عورت کے متعلق ذکر آتا ہے کہ وہ اصحاب الصفہ کو چقندر پکا کر بھیجا کرتی تھی اور وہ شوق سے انہیں کھاتے ہو تھے.بعض دفعہ لوگ دودھ بھیج دیتے تھے اور وہ اسے پی لیتے تھے.اب تو بہت زیادہ ترقی ہوگئی ہے، واقفین کے گزارے مقرر کر دیئے گئے ہیں، اس طرح کام بہت آسان ہو گیا ہے.بشرطیکہ انسان اپنا زاویہ نگاہ بدل لے.اگر جماعت کے لوگ اپنا زاویہ نگاہ صحابہ کی طرح بنالیں تو اب بھی ان کا ساطریق رائج کیا جا سکتا ہے.اور اگر صحابہ سے کمزور ہوں تو موجودہ طریق پر وہ کام کر سکتے ہیں کہ معاوضہ بھی ملے اور قربانی بھی کریں.پہلے لوگ مسجد میں بیٹھ جاتے تھے اور انہیں کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا.جو کچھ کسی کی طرف سے آجاتا، وہ کھالیتے.لیکن اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ وقف کر کے آئیں، انہیں کچھ نہ کچھ رقم بھی دے دی جایا کرے.لیکن باوجود اس کے کہ واقفین کے لئے گزارے مقرر کئے گئے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ اول تو لوگ وقف میں آتے ہی نہیں اور اگر آ جاتے ہیں تو شروع شروع میں وظیفے لیتے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جب تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو مختلف بہانے بنا کر وقف سے بھاگ جاتے ہیں.اور کہتے ہیں، ہمیں اب ہمارے حالات اجازت نہیں دیتے کہ وقف میں زیادہ عرصہ تک رہیں.میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے حالات پہلے کیوں اجازت دیتے تھے کہ وقف میں آئیں؟ اور بعد میں کیوں اجازت نہیں دیتے کہ وقف میں رہیں؟ 397
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم جب وہ ہمارے پاس آتے ہیں تو اگر وہ میٹرک پاس تھے تو زیادہ سے زیادہ انہیں 90،80 پے تنخو اہل سکتی تھی.لیکن جب وہ بی.اے یا ایم.اے ہو جاتے ہیں اور ان میں قابلیت پیدا ہو جاتی ہے تو انہیں کسی جگہ سے تین سو ، ساڑھے تین سو کی آفر (offer) آجاتی ہے.یہ آفر اس لئے آتی ہے کہ سلسلہ نے ان پر خرچ کیا ہوتا ہے.اس سے پہلے وہ عملاً یا عقلاً 80 یا100 روپیہ کما سکتے تھے.لیکن پھر وہ کہتے ہیں کہ ہمارے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم وقف میں رہیں.جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ قابل سمجھتے ہیں.حالانکہ یہ قابلیت صرف اس لئے پیدا ہوئی کہ سلسلہ نے ان پر روپیہ خرچ کیا اور ان کی مالی امداد کی.پھر جن کو ہم نے امداد نہیں دی بلکہ وہ اپنے اخراجات سے پڑھے ہیں، ان پر بھی ذمہ داری کم نہیں.وہ بھی اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے سے ہی پڑھے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں توفیق نہ دیتا تو وہ کیسے پڑھتے ؟ میرے اپنے بچے ہیں، میں نے انہیں خود پڑھایا ہے.اب ایک لڑکا تبلیغ کے لئے انڈونیشیا گیا ہے تو میں اسے اپنی جیب سے خرچ دیتا ہوں اور آئندہ بھی میرا ارادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے تو جو بچہ بھی تبلیغ کے لیے باہر جائے، میں اس کا خرچ خود ہی برداشت کروں لیکن سیدھی بات ہے کہ میرے بچے میرے سامنے تو بول نہیں سکتے.جب ہم بچے تھے تو ہماری جائیدادیں لا پرواہی کا شکار تھیں اور ہمیں اتنی بھی توفیق نہیں تھی کہ ان کی نگرانی کے لئے پندرہ ہیں روپے ماہوار پر کوئی آدمی ملازم رکھ لیں.جب زمین کے کاغذات مجھے دیئے گئے تو میں گھبرا گیا کہ ان کا انتظام کیسے کروں گا ؟ مجھے کام کا تجربہ نہیں تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ہمیں ایک آدمی مل گیا.اس نے کہا مجھے آپ دس روپیہ ماہوار دے دیا کریں، میں جائیداد کا انتظام کرتا ہوں.چنانچہ تھوڑے عرصہ کے بعد ہی وہ جائیداد ، جس کی آمد اس قدر بھی نہیں تھی کہ ہم پندرہ بیس روپے ماہوار پر کوئی آدمی ملازم رکھ لیں، اس سے آمد پیدا ہونے لگی.جب قرآن کریم کا پہلا پارہ شائع کرنے کا سوال پیدا ہوا تو میں نے اس وقت فیصلہ کیا کہ ہم اپنے خرچ پر اسے شائع کریں گے.چنانچہ میں نے اس شخص کو بلایا اور کہا کہ مجھے اشاعت قرآن کریم کے لئے کچھ رقم کی ضرورت ہے.وہ کہنے لگا، آپ کو اس رقم کی کب ضرورت ہے؟ میں نے کہا مہینہ، دومہینہ میں مل جائے.اس نے کہا، میرا یہ خیال تھا کہ آپ یہ کہیں گے کہ مجھے اس وقت رقم کی ضرورت ہے.میں آپ کو آج شام تک مطلوبہ رقم لا دوں گا.میں نے کہا تم شام تک رقم لاؤ گے؟ آخر کہاں سے لا دو گے، مجھے دو اڑھائی ہزار روپے کی ضرورت ہے؟ اس نے کہا، مجھے کچھ زمین بیچنے کی اجازت دے دیں.اور اس نے اس زمین کی طرف 398
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1954ء اشارہ کیا، جہاں آجکل قادیان میں محلہ دار الفضل آباد ہے.اس نے کہا میں 50 روپے فی کنال کے حساب سے زمین بیچ دوں گا.اور اس طرح قریباً چھ ایکڑ زمین کی فروخت سے دو، اڑھائی ہزار روپیل جائے گا.میں نے کہا، بہت اچھا تمہیں زمین فروخت کرنے کی اجازت ہے.لیکن کیا تمہیں کوئی شخص 50 روپے فی کنال کے حساب سے قیمت دے دے گا ؟ اس نے کہا، ہاں بہت سے لوگ موجود ہیں، جو اس بھاؤ پر زمین خریدنا چاہتے ہیں.چنانچہ ظہر کے وقت اس نے یہ بات کی اور عصر کے وقت اس نے روپیہ لا کر میرے سامنے رکھ دیا.اور کہا، ابھی بہت سے گاہک موجود ہیں، اگر آپ سور و پیہ فی کنال بھی قیمت کر دیں تو وہ خریدنے کے لئے تیار ہیں.پھر وہی زمین تھی ، جو دس، دس ہزار روپیہ فی کنال کے حساب سے ہم نے خود خریدی.جہاں میرا دفتر تھا، وہاں پر کچھ زمین ہم نے ہیں ہزار روپیہ کنال کے حساب سے خریدی.یہ سب خدا تعالی کی دی ہوئی چیز تھی، ورنہ ہم تو اپنی جائیداد سے اتنی آمد کی امید بھی نہیں رکھتے تھے کہ پندرہ، ہیں روپیہ پر کوئی آدمی ملازم رکھ لیں.بعد میں وہی جائیداد کروڑوں روپیہ کی ہوگئی.غرض ہر چیز خدا تعالیٰ نے دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.سب کچھ تری عطا ہے، گھر سے تو کچھ نہ لائے پس جو لوگ گھروں سے پڑھ کر آئے ہیں ، سلسلہ نے ان کی تعلیم پر کوئی خرچ نہیں کیا ، ان پر بھی کم ذمہ داری نہیں.انہیں بھی خدا تعالیٰ نے دیا تھا تو وہ پڑھے تھے.اگر خدا تعالیٰ انہیں توفیق نہ دیتا تو وہ کیسے تعلیم حاصل کر سکتے ؟ یہ صرف ایک پردہ ہے، ورنہ خدا تعالیٰ ہی سب کچھ کرتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں عام طور پر یہ شکوہ پایا جاتا ہے کہ علماء تو سب نائی ، موچی اور دھوبی ہیں.اور ایک حد تک ان کی یہ بات درست بھی ہے.لیکن آخر ایسا کیوں ہوا؟ یہ اسی لئے ہوا کہ بڑے تاجروں اور زمینداروں نے خدمت دین سے اپنا ہاتھ بیچ لیا.اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بڑے بڑے تاجر اور زمیندار خدمت دین نہ کریں تو خدا تعالیٰ اپنے دین کو مرنے دے اور نائیوں اور دھوبیوں اور موچیوں کو بھی اس کے زندہ رکھنے کی توفیق نہ دے؟ جب تم نے دین سے ہاتھ کھینچ لیا اور خدا تعالیٰ نے نائیوں اور موچیوں کو دین کی خدمت کی توفیق دے دی تو اب تم چڑتے کیوں ہو؟ اب وہی تمہارے سردار ہیں اور انہیں کے پیچھے تمہیں چلنا ہوگا.میں سمجھتا ہوں کہ جو آجکل مسلمانوں کا حال ہے ، وہی آئندہ تمہارا ہو گا.اگر تم نے بھی خدمت دین سے ہاتھ بھینچ لیا تو کچھ عرصہ کے بعد تمہاری نسلیں بھی یہی کہیں گی کہ نائیوں، دھوبیوں اور موچیوں نے علماء کی جگہ لے لی ہے.آجکل بھی دیہات اور قصبات میں زیادہ تر عالم بر والے 399
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم نائی، دھوبی یا موچی ہیں.اور یہ قابل اعتراض بات نہیں.اس کے یہ معنی ہیں کہ جب دین کا بیڑا غرق ہونے لگا تو اس وقت جو دین کی خدمت کے لئے آگے آگئے ، خدا تعالیٰ نے انہیں عزت دے دی.اسی طرح اگر اب تم آگے نہ آئے تو تمہارے ساتھ بھی یہی ہوگا.جب جماعت ترقی کرے گی تو انہیں لوگوں کو عزت حاصل ہوگی ، جو اس وقت دین کی خدمت کریں گے.پاکستان میں دیکھ لو، مولاناعبدالحامد بدایونی تقریر کرتے ہیں تو کبھی اس کی صدارت دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خان کرتے ہیں اور کبھی اس کی صدارت خود گورنر جنرل کرتے ہیں.حالانکہ پاکستان بننے سے قبل انہیں کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی نہیں بلاتا تھا.جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی توفیق دی تو اس نے علماء کو بھی عزت دے دی.پاکستان بننے کے بعد جب میں کراچی گیا تو اس وقت سندھ کے گورنرسر غلام حسین ہدایت اللہ تھے.میں جب واپس روانہ ہونے لگا تو ان کا سیکرٹری میرے پاس آیا اور اس نے کہا سر غلام حسین ہدایت اللہ نے سعودی عرب کے دو شہزادوں کی دعوت کی ہے اور انہوں نے اس موقع پر آپ کو بھی بلایا ہے.میں نے کہا میں تو آج چار بجے واپس جارہا ہوں.اس نے کہا ، ان کی خواہش ہے کہ آپ اس موقع پر ضرور تشریف لائیں.میں نے کہا، بہت اچھا.لیکن بعد میں خیال آیا کہ دعوت تو عین جمعہ کے وقت میں رکھی گئی ہے.میں نے کہا، آپ کی دعوت کا وقت وہی ہے، جو جمعہ کی نماز کا ہے.اگر دعوت کا وقت پہلے یا بعد میں کر دیا جائے تو میں آجاؤں گا.بعد میں سعودی عرب والوں نے بھی کہا کہ ہم بھی سوچ رہے تھے کہ یہ وقت تو جمعہ کی نماز کا ہے، ہم اس موقعہ پر کیسے آئیں گے؟ خیر انہوں نے دعوت کا وقت تبدیل کر دیا.میں نے دیکھا کہ اس دعوت میں مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی بھی مدعو تھے.اب پاکستان بننے سے پہلے عثمانی صاحب کی حیثیت ایسی نہ تھی کہ انہیں ڈپٹی کمشنر بھی کسی دعوت پر بلا تا لیکن یہاں گورنر سندھ نے انہیں بلایا تھا.پس جب کسی قوم پر خدا کا فضل نازل ہوتا ہے اور وہ ترقی کر جاتی ہے تو اس کے علماء کو بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہو جاتا ہے.اور در حقیقت ان کا آگے آنے کا حق ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ ان کاموں میں حصہ نہ لیں، جو ان سے تعلق نہیں رکھتے.جیسے پچھلے دنوں علماء نے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیا تو وہ ملامت کا ہدف بن گئے.اسی طرح اب بھی علماء اپنا کام چھوڑ کر سیاسیات میں حصہ لیں گے تو وہ لوگوں کی ملامت کا ہدف بن جائیں گے.لیکن علماء ایسی باتوں میں دخل نہ دیں تو اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ جب بھی کوئی قوم ترقی کرے گی تو علماء بہر حال زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے.400
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم - اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 اکتوبر 1954ء یورپ میں دیکھ لو کہ کنٹر بری کا پادری ایڈورڈ ہفتم کے خلاف ہو گیا تو اسے تخت سے دستبردار ہونا پڑا.اب یہ کتنی بڑی طاقت ہے کہ ایک پادری ناراض ہو جاتا ہے تو بادشاہ بھی اس کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا.پس یہ قدرتی بات ہے کہ جب کسی قوم کو عزت ملے گی تو اس کے علماء کو بھی عزت ملے گی.اسی طرح جب جماعت احمدیہ کو ترقی ملے گی تو تم اس وقت یہ کہو گے کہ نائی ، دھوبی اور موچی آگے آگئے ہیں.اس وقت ہر شخص تمہیں یہی کہے گا بلکہ میرا یہ خطبہ نکال کر تمہارے آگے رکھے گا کہ یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے دین کی گاڑی کو اس وقت دھکا دیا، جب تم لوگ اس سے لاپر واہ ہو گئے تھے.اب ان کا حق ہے کہ وہ آگے آئیں.ہماری واقفین کی لسٹ کو بھی دیکھا جائے تو اس میں بڑے بڑے لوگوں اور ان کے بچوں کے نام لکھے ہیں.لیکن جولوگ کام کر رہے ہیں، ان میں بڑے بڑے لوگوں کے بچے شامل نہیں.جب کسی بڑے شخص کے بچے پڑھ رہے ہوتے ہیں تو وہ کہتا ہے، میرا فلاں بچہ واقف زندگی ہے، فلاں بچہ واقف زندگی ہے.لیکن جب وہ پاس ہو جاتا ہے تو وقف میں آنے کا نام بھی نہیں لیتا.ان کی تعلیم مکمل ہونے سے پہلے وہ یہ لکھتا تھا کہ میرا فلاں لڑکا وقف ہے، میرے دولڑ کے وقف ہیں، میرے تین لڑکے وقف ہیں، آپ دعا کریں کہ اللہ تعالی انہیں کامیابی عطا کرے.لیکن تعلیم سے فارغ ہو جانے کے بعد ان کی بو بھی نہیں آتی.وہ سمجھتے ہیں کہ اب دعا کا وقت گذر گیا ہے.پھر اگر بعد میں کوئی لڑکا بیمار ہو جاتا ہے تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس کی نیت دوبارہ حاضر ہونے کی تھی ، ملازمت کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ کچھ تجربہ حاصل ہو جائے.دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے صحت عطا فرمائے تا کہ وہ دین کی خدمات بجالا سکے.لیکن تندرست ہو جانے کے بعد وہ حاضر ہونے کا نام بھی نہیں لیتا.گویا ان لوگوں نے وقف کو تجارت کا ذریعہ بنالیا ہے.غرباء نے اسے وظیفے لینے کا ذریعہ بنایا ہے اور امراء نے دعا کا ذریعہ بنایا ہے.اور کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ دین کی گاڑی چلے گی کیسے؟ اب یہ حالت ہے کہ ناظر بڑھے ہو گئے ہیں اور بعض کے تو اب جو اس بھی ایسے نہیں کہ وہ اس زیادہ دیر تک سلسلہ کا کام چلا سکیں.لیکن ایسے آدمی سلسلہ کے پاس موجود نہیں ، جو ان کی جگہ کام کر سکیں.آخر یہ تو ہو نہیں سکتا کہ نئے آدمیوں کو ان کی جگہ پر لگا دیا جائے.چند سال تک انہیں بہر حال کام کا تجربہ حاصل کرنا پڑے گا ، پھر وہ ان جگہوں پر کام کر سکیں گے.اس وقت بعض ناظر قبروں میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور ان کے حواس بھی بجا نہیں.نئے آدمی ہمارے پاس تیار نہیں اور سلسلہ کا کام نہایت خطرناک حالات میں سے گزر رہا ہے.اس کی ذمہ داری جماعت کے سب افراد پر ہے.خصوصا ایسے طبقہ پر ، جو اپنے آپ کو چودھری سمجھتا ہے.چودھری کے لفظ سے میری مرادزمیندار نہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں، جو اپنے آپ کو قانون سے بالا سمجھنے لگ جاتے ہیں.401
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم حضرت خلیفہ امسیح اول جب بیمار ہو گئے تو آپ بعض دفعہ باہر آ کر لیٹ جاتے اور لوگ آپ کے ارد گر دا کٹھے ہو جاتے.بیمار تھک بھی جاتا ہے.جب آپ تھک جاتے تو فرماتے ، دوست اب چلے جائیں.اس پر کچھ لوگ چلے جاتے اور کچھ بیٹھے رہتے.کچھ دیر کے بعد آپ فرماتے ، میں اب تھک گیا ہوں ، احباب اب تشریف لے جائیں.اس پر آٹھ ، دس آدمی اور چلے جاتے.مگر چند آدمی پھر بھی بیٹھے رہتے اور وہ سمجھتے کہ ہم اس حکم کے مخاطب نہیں ہیں.اس پر آپ تیسری بار فرماتے کہ اب چوہدری بھی چلے جائیں.یعنی جو لوگ اپنے آپ کو قانون سے بالا سمجھتے ہیں، وہ بھی چلے جائیں.مراد زمیندار اور جاٹ کی نہیں تھی.بلکہ وہ لوگ مراد تھے، جو اپنے آپ کو قانون کی اطاعت سے مستنی سمجھتے تھے.لیکن جب جماعت کو عزت ملے گی تو پھر یہی لوگ کہیں گے کہ نائی ، موچی اور دھوبی آگے آگئے ہیں.اور وہ کوشش کریں گے کہ خود عزت حاصل کریں.اس وقت جماعت کے اندر اگر غیرت پائی جاتی ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ انہیں پیچھے ہٹا دے اور کہے کہ جب ضرورت کے وقت تم نے خدمت نہیں کی تھی تو اب تمہیں آگے آنے کی اجازت نہیں.لیکن بد قسمتی سے جب قوم کو عزت ملتی ہے اور مال زیادہ ہو جاتا ہے تو وہی چوہدری آگے آ جاتے ہیں.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب مال غنیمت آتا ہے تو منافق بھی آگے آجاتے ہیں.اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اب تم کیوں آئے؟ تو کہتے ہیں تم ہم پر حسد کرتے ہو.ہر قوم میں یہی نظارہ نظر آتا ہے.جب جنگ ہوتی ہے اور جانی قربانی کا وقت آتا ہے تو اس ٹائپ کے لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں.لیکن جب فتح اور عزت ملتی ہے تو یہی لوگ آگے آجاتے ہیں اور بدقسمتی سے قوم انہیں دھتکارتی نہیں.وہ سمجھتی ہے کہ بڑے لوگ آگے آگئے ہیں.حالانکہ ان کی بڑائی اسی دن ختم ہو جاتی ہے، جب وہ دین کی خدمت سے اپنا پہلو بچالیتے ہیں.اگر قوم اس کریکٹر کو زندہ رکھے تو اس قسم کے لوگوں کی اصلاح ہو جائے.لیکن قوم اس کریکٹر کو زندہ نہیں رکھتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عمر کے زمانہ تک یہ کریکٹر مسلمان قوم میں زندہ رہا، اس کے بعد یہ کریکٹر مٹ گیا.ایک دفعہ حضرت عمر کے دربار میں مکہ کے رؤساء آئے.حضرت عمرؓ نے انہیں اعزاز سے بٹھایا.لیکن وہ رؤسا ابھی باتیں ہی کر رہے تھے کہ حضرت سہیل آ گئے.اس پر حضرت عمرؓ نے ان رؤسا سے کہا، آپ ذرا پیچھے ہٹ جائیں اور ان کے لئے جگہ چھوڑ دیں.اور آپ نے سہیل سے باتیں کرنی شروع کر دیں.اس کے بعد کچھ اور غلام صحابہ آئے تو آپ نے پھر ان سے فرمایا، آپ ذرا 402
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1954ء پیچھے ہٹ جائیں اور ان کے لئے جگہ چھوڑ دیں.اس پر وہ اور پیچھے ہٹ گئے.اتفاق سے اس دن سات آٹھ غلام صحابہ " آگئے.ان دنوں کمرے چھوٹے ہوتے تھے، اس لئے وہ ان کے لئے جگہ خالی کرتے کرتے جوتیوں میں آگئے.اور پھر انہیں وہاں سے بھی اٹھ کر باہر آنا پڑا.اس پر وہ ایک دوسرے سے مخاطب ہو کر کہنے لگے تم نے دیکھ لیا کہ آج عمرؓ نے ہمیں ان غلاموں کے سامنے کیسا ذلیل کیا ہے.ان میں سے ایک عقلمند تھا، اس نے کہا تم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ یہ کس کی کرتوتوں کا نتیجہ ہے؟ یہ سب کچھ ہمارے باپ دادا کی کرتوتوں کی وجہ سے ہوا ہے.یہ لوگ وہ تھے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی کیا تو انہوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا.ہمارے باپ دادوں نے انہیں مارا پیٹا اور طرح طرح کے دکھ دیئے لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر انہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کیں.اب جب اسلام نے ترقی کی ہے تو انہی لوگوں کا حق تھا کہ وہ عزت پاتے.ان کا حق انہیں مل رہا ہے اور تمہارا حق تمہیں مل رہا ہے.دوسروں نے کہا، پھر اس کا علاج کیا ہے؟ اس نے کہا، چلو، پھر عمر سے ہی اس کا علاج پوچھ لیں.چنانچہ وہ واپس آئے ، آواز دی، حضرت عمر نے انہیں اندر بلایا، آپ سمجھتے تھے کہ آج جو سلوک ان سے ہوا ہے، اسے انہوں نے محسوس کیا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا، آج جو کچھ آ لوگوں سے ہوا، میں اس کے متعلق مجبور تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں ان لوگوں کی عزت فرمایا کرتے تھے.اب عمر کی کیا حیثیت ہے کہ وہ ان کی عزت نہ کرے؟ انہوں نے کہا، ہم ساری بات سمجھ گئے ہیں اور ہم اس لئے دوبارہ آئے ہیں کہ آپ سے دریافت کریں کہ اس ذلت کو دور کیسے کیا جائے؟ حضرت عمر خود بھی ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور پھر دوسرے خاندانوں کے شجرہ نسب کو یاد رکھنا ، آپ کے خاندان کے ذمہ تھا.اس لئے آپ جانتے تھے کہ وہ لوگ کس قدر معزز خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے.ان کی کیفیت دیکھ کر آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں، آپ کی آواز بھرا گئی اور آپ منہ سے کوئی لفظ نہ نکال سکے.آپ نے صرف ہاتھ سے شام کی طرف اشارہ کیا.جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کا علاج شام میں ہے.شام میں ان دنوں جنگ ہو رہی تھی.ان لوگوں نے آپ کا مفہوم سمجھ لیا اور ورا اونٹ اور گھوڑے تیار کئے اور شام کی طرف روانہ ہو گئے.تاریخ میں لکھا ہے کہ ان میں سے پھر ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا اور سب کے سب وہیں شہید ہو گئے.گویا انہوں نے اپنی جان قربان کر کے اپنی ذلت کا داغ دھویا.لیکن حضرت عمرؓ کے بعد جو لوگ آئے ، انہوں نے اس قومی کیریکٹر کو قائم نہ رکھا.حضرت عثمان نے پرانے لوگوں کو مختلف کاموں کے لئے آگے بلایا مگر انہوں نے مدینہ چھوڑ نا پسند نہ کیا.جس پر لاز ما انہیں 403
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اکتوبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم نئے لوگ آگے لانے پڑے.صحابہ کو یہ بات بری لگی.لیکن حضرت عثمان نے فرمایا، میں مجبور ہوں.میں تمہیں ان جگہوں پر بلاتا ہوں لیکن تم مدینہ سے باہر جانے پر راضی نہیں ہوتے.لیکن حالت یہ تھی کہ اس وقت حکومت کے کام مصر، شام، فلسطین اور ایران تک پھیل چکے تھے اور پرانے لوگ یہ چاہتے تھے کہ وہ بڑے بھی بنے رہیں اور مدینہ سے بھی نہ نکلیں.اور یہ چیز مشکل تھی.نتیجہ یہ ہواکہ کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوگئیں.اور نہ یہ کی بہر حال یہ خرابی اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب بڑے لوگ، جنہوں نے دین کی خدمت نہیں کی ہوتی ، وہ آگے آجاتے ہیں.اور قوم انہیں یہ سمجھ کر سر پر اٹھا لیتی ہے کہ ہمارے بڑے لوگ آگے آگئے ہیں.اور اس طرح قوم پر تباہی آجاتی ہے.پس تم ضرورت وقت کو سمجھو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اپنے اپنے خاندان کے نوجوانوں کو وقف کرو.اور یہ وقف اتنی کثرت کے ساتھ ہونا چاہئے کہ اگر دس نو جوانوں کی ضرورت ہو تو جماعت سونو جوان پیش کرے.مگر اب واقفین ملتے بھی ہیں تو بعد میں بھاگ جاتے ہیں.اور ید ایسی شرمناک چیز ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی قوم شرفاء کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتی“.( مطبوعه روزنامه الفضل 20 اکتوبر 1954 ء ) 404
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 نومبر 1954ء ہر کسے در کار خود با دین احمد کا ر نیست خطبہ جمعہ فرمودہ 19 نومبر 1954ء.....دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کو پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں ، یہ ہے کہ جماعت کو کارکنوں کی ضرورت ہے، جو اس وقت مل نہیں رہے.جو لوگ پنشنز ہیں ، وہ اپنی عمر کا اکثر حصہ دنیا کمانے میں صرف کر دیتے ہیں اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ اپنی آخری عمر میں بھی روپیہ کمانے کے ثواب سے محروم نہ رہیں.پس ایک طرف پنشنروں میں دین کی خدمت کا احساس نہیں اور دوسری طرف نوجوان ہیں ، وہ اول تو اپنی زندگی وقف نہیں کرتے اور جو زندگی وقف کرتے ہیں، وہ مختلف بہانے بنا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں.بلکہ وقف اب ایک تجارت کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے.ماں باپ آتے ہیں اور کہتے ہیں، میرا فلاں بیٹا وقف ہے اور اس وقت تعلیم حاصل کر رہا ہے، کچھ روپیہ دے دیا جائے تو وہ اپنی تعلیم مکمل کرلے.لیکن جب تعلیم مکمل ہو جاتی ہے تو وہ وقف سے بھاگ جاتا ہے.یہ لوگ اول درجہ کے بے ایمان، مجرم اور خائن ہیں.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب میں انہیں چھوڑوں گا نہیں.باقی نو جوانوں میں بھی ایسی رو چل گئی ہے کہ وہ دین کی خدمت سے بھاگتے ہیں.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اس معاملہ میں تختی سے کام لیا جائے.یہ لوگ ایسے ہی ہیں، جیسے دینی جنگوں سے بھاگنے والے.ہماری جنگ تلوار کی جنگ نہیں بلکہ تبلیغ کی جنگ ہے.پس جو شخص دین کی خدمت سے بھاگتا ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے، جیسے بدر، احد یا دوسری جنگوں سے بھاگنے والے شخص کی.اور چونکہ وہ میدان جنگ سے گریز کرتا ہے، اس لئے اس بارہ میں اب بختی سے کام لوں گا.بعد میں اس کی تفصیل بھی شائع کر دی جائے گی تاکہ لوگوں کو وقف کی اہمیت کا احساس ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ وقف نا قابل برداشت ہو جاتا ہے اور اس سے خاندان کے دوسرے افراد کو بھی تکلیف ہوتی ہے.مثلاً خاندان بڑا ہے لیکن ایک ہی لڑکا ہے، جس کی زندگی ماں باپ نے وقف کر دی ہے.یا زیادہ لڑکے ہیں لیکن سب کی زندگیاں وقف ہیں یا ان میں سے اکثر کی زندگیاں وقف ہیں.اب جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو ہر ایک کی حالت ایک سی نہیں ہوتی.گھر کے کاموں کے لئے بھی ان میں سے کسی کی ضرورت ہوتی ہے.اس کے متعلق میں نے پہلے سے اعلان کیا ہوا ہے کہ اس صورت میں 405
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 19 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم ہم ان میں سے ایک حصہ کو فارغ کر دیں گے.ہم انہیں مجبور نہیں کریں گے کہ وہ ضرور وقف سے فارغ ہو جائیں.ہاں اگر وہ خود فراغت چاہیں گے تو انہیں فارغ کر دیا جائے گا.اس کے متعلق میرا خیال ہے کہ بعد میں بعض تفصیلی قواعد بیان کردوں.ویسے میں نے اعلان کر دیا ہوا ہے کہ اگر کسی کا ایک ہی بیٹا ہے اور اس کی زندگی وقف کی ہوئی ہے یا زیادہ بیٹے ہیں لیکن سب کی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں تو ہم اسے یا اگر زیادہ ہوں تو ان میں سے ایک حصہ کو وقف سے فارغ کر دیں گے.لیکن ایسے لوگ جن کے لئے سہولت ہے اور وہ اپنے سب لڑکے وقف کر سکتے ہیں، ان کو خود نہیں نکالیں گے.لیکن اگر کسی خاندان کے اکثر افراد نے زندگیاں وقف کر دی ہوں اور خاندان کو سنبھالنے میں دقت ہو تو ہم ان کے لئے یہ سہولت کر دیں گے کہ ان میں سے ایک حصہ لے لیں گے اور ایک حصہ کو اگر وہ چاہیں گے تو فارغ کر دیں گے.تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تاریخ کے لحاظ سے اگلا جمعہ ان دنوں میں واقع ہے، جس میں، میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا کرتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کروں گا.قرآن کریم کی سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ بڑے کاموں سے پہلے ان کے متعلق ایک تمہید بیان کیا کرتا ہے.جسے مستقل حکم سمجھ کر بعض لوگ قرآن کریم میں اختلاف پاتے اور اس کے حل کرنے میں مشکلات محسوس کرتے ہیں.حالانکہ وہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ کچھ آیات تمہید ہوتی ہیں، ایک بڑے کام کی.جس کی طرف طبائع کو متوجہ کیا جاتا ہے.گویاوہ ایک غیر معین اعلان ہوتا ہے، جسے مستقل حکم سمجھ کر قرآن کریم میں بیان کردہ اصل حکم سے اختلاف رکھنے والا قرار دیا جاتا ہے.اس حکمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پچھلے ایک، دوسالوں کے چندہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں تحریک جدید کی طرف وہ توجہ نہیں رہی ، جو اس سے پہلے سالوں میں تھی.یوں بھی جماعت میں بہت سے لوگ چندہ میں سست ہیں.اگر جماعت حقیقتا صحیح طور پر چندہ دے تو اس وقت کی تعداد کے لحاظ سے جماعت کا چندہ 30-25 لاکھ ہونا چاہئے.105 کھ تحریک جدید کا اور 25 لاکھ جماعت کے دوسرے چندے.لیکن اگر عملاً وصولی کو دیکھا جائے تو تحریک جدید کا چندہ دو لاکھ کے قریب ہے اور صدرانجمن احمدیہ کا چندہ 9-8لاکھ کے قریب.گویا صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کو مد نظر رکھتے ہوئے ، جماعت کا چندہ چالیس فی صدی کے قریب ہے.اس لئے جماعت کے کام، جس سہولت سے ہونے چاہئیں اور جس پیمانہ پر ہونے چاہیں نہیں ہو سکتے.خصوصاً تحریک جدید کے کاموں میں بہت سی مشکلات ہیں.تحریک جدید کا کام چونکہ دنیا میں پھیلتا جاتا ہے، اس لئے کئی ممالک کی طرف سے مشن.406
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 نومبر 1954ء کھولنے کی درخواستیں آرہی ہیں.اب ہمارے لئے یہ بڑی مشکل ہے کہ ہم انہیں کہہ دیں کہ چونکہ ہماری جماعت پر بہت زیادہ مالی بوجھ ہے، اس لئے ہم مشن نہیں کھول سکتے.یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اگر جماعت اتنا مالی بوجھ اٹھانے پر تیار ہو جائے تو پھر اس کے اوپر مشنوں کا بوجھ کس طرح اٹھایا جائے گا ؟ کیونکہ جب کوئی جماعت پورے طور پر کسی کام کے لئے تیار ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ خدا تعالی بھی شریک ہو جاتا ہے.اگر تمہیں خدا تعالیٰ نے انجمن کے 25لاکھ اور تحریک جدید کے 105 کھ چندے کی توفیق دے دی تو پھر یقیناً خدا تعالیٰ وہ جماعت بھیج دے گا، جو انجمن کا چندہ 25 لاکھ کی بجائے 35لاکھ اور تحریک جدید کا چندہ پانچ لاکھ کی بجائے سات ، آٹھ لاکھ ادا کرے گی.یہ جو میں نے کہا ہے کہ تحریک جدید کا چندہ دولاکھ کے قریب ہوتا ہے، یہ پاکستان اور ہندوستان کا چندہ ہے.بیرونی چندے ملا کر اب بھی پانچ لاکھ ہو جاتا ہے.لیکن چونکہ بیرونی جماعتیں تعداد میں کم ہیں، اس لئے ان کے چندوں سے ہمیں عالمگیر سکیم میں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.ہاں مقامی طور پر ان کا فائدہ پہنچ جاتا ہے.مثلاً انڈونیشیا کا مشن ہے، وہ اپنا سارا بوجھ خود برداشت کر رہا ہے.ایسٹ افریقہ کا مشن ہے، وہ اپنا بوجھ خود اٹھا رہا ہے.مغربی افریقہ کے تین مشن ہیں، وہ بھی اپنا بوجھ خود اٹھاتے ہیں.شام کا مشن ہے، وہ بھی قریباً اپنا سارا بوجھ خود برداشت کرتا ہے.اسی طرح اور کئی مشن ہیں، جو اپنا سارا بوجھ تو نہیں اٹھاتے لیکن ایک حصہ ضرور اٹھاتے ہیں.کوئی تین چوتھائی بوجھ اٹھا رہا ہے ، کوئی نصف بوجھ اٹھا رہا ہے، کوئی ایک تہائی بوجھ اٹھارہا ہے، کوئی ایک چوتھائی بوجھ اٹھارہا ہے.اس لئے ان پر مرکز کو زیادہ رقم خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.مرکز کو لازمی طور پر اس قسم کے مشنوں پر کم خرچ کرنا پڑتا ہے.لیکن جہاں جماعت کے افراد کی تعداد بہت کم ہے اور اخراجات زیادہ ہیں ، مثلاً ہالینڈ ہے، امریکہ ہے ، سوئٹزر لینڈ ہے، جرمنی ہے، وہاں زیادہ تر مرکز کو بوجھ اٹھانا پڑتا ہے.کیونکہ وہ جماعتیں بہت تھوڑا بوجھ خود اٹھا سکتی ہیں.یا مبلغ آتے جاتے ہیں تو ان کا کرایہ اور دوسرے مصارف مرکز کو برداشت کرنے پڑتے ہیں.یا طالب علم ، خصوصا بیرونی طالب علم ہیں، ان کے اخراجات مرکز کو برداشت کرنے پڑتے ہیں.اس وقت زیادہ تر انہیں مدات پر خرچ ہوتا ہے.اگر کسی جگہ نیا مشن کھولا جائے تو چونکہ ایک، دو سال تک وہاں جماعت اس قدر نہیں ہوتی کہ وہ کوئی مالی بوجھ اٹھا سکے، اس لئے سب اخراجات مرکز کو برداشت کرنے پڑیں گے.مثلاً جاپان میں اس وقت احمد یہ جماعت قائم نہیں ، اگر ہم اپنا مشن کھولیں تو اس وقت تک کہ وہاں جماعت قائم ہو جائے اور وہ 407
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اپنا سب بو جھ یا اس کا کسی قدر حصہ اٹھانے کے قابل ہو جائے ، سب بوجھ مرکز کو اٹھانا پڑے گا.جاپان میں لوگوں کو مذہب کی طرف توجہ ہے اور اچھے اچھے لوگوں نے خواہش کی ہے کہ انہیں احمدیت سے روشناس کیا جائے.لیکن چندہ کم آنے کی وجہ سے ہمیں تو شاید بعض پہلے مشن بھی بند کرنے پڑیں، اس لیے ہم وہاں نیا مشن نہیں کھول سکتے.اب دیکھو، جاپان کتنا عظیم الشان ملک ہے، اگر ہم وہاں مشن کھول دیں اور خدا کرے، وہاں ہماری جماعت قائم ہو جائے تو احمدیت کی آواز سارے مشرقی ایشیا میں گونجنے لگ جائے گی.لیکن ہماری موجودہ حیثیت ایسی نہیں کہ ہم کوئی نیا مالی بوجھ برداشت کر سکیں.پھر آسٹریلیا ہے.وسعت کے لحاظ سے وہ ہندوستان سے بڑا ہے اور آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے اس کی حیثیت بہت بڑھ جائے گی.وہاں پہلے ایشیائیوں کو نہیں آنے دیتے تھے لیکن اب یہ رو بدل گئی ہے.وہاں سے ایک نوجوان نے مجھے تحریک کی کہ یہاں کوئی مبلغ بھیجیں.میں نے اسے جواب دیا کہ اس وقت ہم کوئی نیا مالی بوجھ برداشت نہیں کر سکتے.یوں اگر ہو سکا تو ہم سروے کے لئے کسی شخص کو بھجوادیں گے.لیکن مشکل یہ ہے کہ آسٹریلیا میں کسی ایشیائی کو نہیں آنے دیتے.اس نوجوان نے جوش میں آکر گورنمنٹ کو خط لکھ دیا کہ ہمیں یہاں مبلغ بھجوانے کی اجازت دی جائے.اس پر حکومت نے ہمیں چٹھی لکھی کہ کیا آپ یہاں کوئی مبلغ بھیجنا چاہتے ہیں؟ ہم نے جواب دیا کہ موجودہ حالات میں تو ہمارا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ کے ملک میں کوئی مبلغ بھیجیں.لیکن آپ کے ہاں جو مشکلات ہیں، وہ اگر دور ہو جائیں تو شاید ہم کوئی مبلغ بھیج دیں.اس پر وہاں سے فوراً جواب آگیا کہ آپ بے شک اپنا مبلغ بھیج دیں.اب ہم چپ کر کے بیٹھے ہیں کیونکہ مزید مالی بوجھ کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں.گو یا چندہ کم آنے کی وجہ سے تبلیغ کے جو نئے رستے کھلتے ہیں، ان سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے.غرض ایک طرف تو جماعت میں جو جوش پیدا ہوا تھا، وہ اب ایک حد تک کم ہو گیا ہے.اور دوسری طرف تحریک جدید کے بیرونی مبلغ اپنا کام لوگوں کے سامنے نہیں لاتے اور اگر وہ کوئی کام لوگوں کے سامنے لائیں بھی تو اس طرح لاتے ہیں کہ سال کی رپورٹ اکٹھی شائع کر دیتے ہیں.اگر ہر ہفتہ یا پندرہ دن کے بعد لوگوں کے سامنے یہ بات لائی جاتی رہے کہ مثلاً امریکہ اور انگلینڈ کے مشنوں نے یہ کام کیا ہے، وہاں اس قدر لوگ احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں اور پھر وہاں کے بعض واقعات بھی بیان کئے جائیں تو چند دن کے اندر اندر جماعت میں اپنے فرض کو ادا کرنے کا احساس پیدا ہو جائے.لیکن اس وقت تک جو کچھ ہو رہا ہے، بعض اوقات تو مجھے اس پر ہنسی آتی ہے.مثلاً " الفضل میں چوہدری خلیل احمد 408
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 نومبر 1954ء صاحب ناصر مبلغ امریکہ کا زکوۃ پر مضمون شائع ہو رہا ہے.اب کوئی ان سے پوچھے کہ تم تو وہاں تبلیغ کے لئے گئے تھے ہم تبلیغ کی بات کرو.زکوۃ کے متعلق تو تم سے زیادہ بہتر لکھنے والے لوگ یہاں موجود ہیں، تمہیں ایسی مصیبت میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ تمہیں چاہئے تھا کہ اس قسم کا مضمون لکھتے ، جس سے لوگوں کو وہاں کے تبلیغی حالات سے واقفیت ہوتی یا پھر ز کوۃ کا مضمون شائع کرنا تھا تو امریکہ میں شائع کرتے تا انہیں اسلام کے اس رکن سے واقفیت ہو جاتی.یہاں کے لوگ تو زکوۃ دیتے بھی ہیں اور اس بارہ میں ان کا علم بھی زیادہ ہے.پھر الفضل میں اس قسم کے مضامین کا کیا فائدہ؟ پس میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کو تحریک جدید کی طرف توجہ نہیں رہی اور کام کرنے والے بھی جماعت کی توجہ صحیح طور پر اپنے کام کی طرف نہیں کھینچ رہے.پس چونکہ اس وقت جماعت پر ایک غفلت کی حالت طاری ہے اور اگلے جمعہ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرنے والا ہوں، اس لئے دوستوں کو خصوصیت کے ساتھ اس ہفتہ میں یہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو اس دلدل سے نکالے اور اس کی ترقی میں جو رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں، ان کو دور کرے.اگر تمہیں ابھی تک تحریک جدید میں حصہ لینے کی توفیق نہیں ملی تو اللہ تعالی تمہیں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے اور تمہارے دلوں کی گرہیں کھول دے.اور اگر تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس میں حصہ لینے کی توفیق تو دی ہے لیکن تم نے اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ نہیں لیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں بشاشت ایمان عطا فرمائے تا تم اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ لے سکو.اور اگر تم نے اس میں حصہ لیا تھا اور اپنی حیثیت کے مطابق لیا تھا لیکن اپنی کسی شامت اعمال کی وجہ یا کسی مجبوری کی وجہ سے تم اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے تو اللہ تعالیٰ تمہاری شامت اعمال اور مجبوریاں دور کر دے اور تمہیں اپنا وعدہ پورا کرنے کی توفیق بخشے.یہ تین چیزیں ہیں، ان کے متعلق تم اس ہفتہ میں دعا کرتے رہو.تا وقت آنے پر تم بشاشت ایمان، عزم اور ارادہ کے ساتھ تحریک جدید کے جہاد میں حصہ لے سکو.تم یہ جانتے ہو کہ اسلام کی خدمت کی طرف تمہارے سوا اور کسی کی توجہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ہر کے در کار خود با دین احمد کار نیست یعنی ہر شخص اپنے اپنے کام میں لگا ہوا ہے، اسلام کی خدمت کی طرف کسی کو توجہ نہیں.اگر تم بھی کارخود کو دین کے کاموں پر ترجیح دو اور انہیں کی طرف سے بے تو جہی اختیار کر لو تو دین کا خانہ بالکل خالی رہ جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت لاکھوں لاکھ غیر احمدی ایسا ہے کہ وہ اسلام کی خدمت کرنی چاہتا ہے.409
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم لیکن صرف اس وجہ سے کہ تم نے یہ بوجھ اٹھایا ہوا ہے ، وہ آگے نہیں آتے.اگر تم آگے نہ آئے ہوتے تو شاید وہ آگے آکر اسلام کی خدمت کا بوجھ اٹھا لیتے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی غیر احمدی ایسے ہیں، جو دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کام یہ جماعت کر رہی ہے، وہ بہت اچھا ہے.لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چونکہ جماعت احمد یہ اس بوجھ کو اٹھا رہی ہے، اس لئے انہیں اس بوجھ کے اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر تم نے یہ بوجھ نہ اٹھایا ہوتا تو وہ آگے آجاتے تو اس کام کو سرانجام دیتے.اگر تم بھی اس کام میں ست پڑ جاتے ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دوسروں کو بھی اسلام کی خدمت سے روک دیا اور خود بھی غافل ہو گئے.پس تم اس گناہ اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی حالت کو دور کرنے کی کوشش کرو.اور اس کو دور کرنے کا سب سے بہتر طریق یہ ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ تمہیں اس موت سے بچالے.اور وہ پنے فضل سے تمہیں زندگی کا پانی پلائے.تا تم اپنے فرائض کو ادا کر سکو اور خدمت اسلام کے اس بوجھ کو، جو تم پر ڈالا گیا ہے، صحیح طور پر اٹھا سکی.( مطبوعه روزنامه الفضل 23 نومبر 1954ء ) 410
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء تحریک جدید کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے زبردست کام کی بنیاد رکھی گئی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:." آج تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کا دن ہے.تحریک جدید کے پہلے سال کا اعلان 1934ء میں ہوا تھا اور اب 1954ء میں اس پر بیس سال گزر چکے ہیں.اور آج اکیسویں سال کا اعلان ہو رہا ہے.اکیسواں سال انسانی زندگی میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے.فقہا نے بھی اس سال کو خاص اہمیت دی ہے اور بہت سے دنیوی قانون بنانے والوں نے بھی اسے خاص اہمیت والا قرار دیا ہے.انہوں نے اسے بلوغت کی عمر قرار دیا ہے.گویا تحریک جدید اب بلوغت کو پہنچنے والی ہے.اور جہاں تک اس کے کام کا سوال ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالی کے فضل سے واقع میں اس کے ذریعہ تبلیغ اسلام کی زبر دست بنیاد رکھی گئی ہے.جب یہ تحریک شروع ہوئی ، اس وقت ہمارے مبلغین کی تعداد نہایت محدود تھی.چند مبلغ افریقہ میں تھے ، ایک مبلغ امریکہ میں تھا اور شاید تین مبلغ انڈونیشیا میں تھے.باقی ممالک مبلغین سے خالی تھے.لیکن اب مرکز کی طرف سے بھیجے گئے مبلغین اور بیرونی ممالک کے لوکل مبلغین کو ملایا جائے تو غالبا ان کی تعداد سو سے بھی بڑھ جائے گی.ملکوں اور شہروں کے لحاظ سے یہ ترقی اور بھی حیرت انگیز اور وسیع ہے.تحریک جدید سے پہلے یورپ میں صرف ایک مشن تھا لیکن اب پانچ مشن قائم ہیں.ایک مشن سپین میں ہے، ایک مشن سوئٹزر لینڈ میں ہے، ایک مشن جرمنی میں ہے، ایک مشن ہالینڈ میں ہے اور ایک مشن انگلینڈ میں ہے.اور اب ایسے سامان پیدا ہور ہے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو سویڈن میں بھی ایک مشن قائم کر دیا جائے گا.ہمارے ایک ڈچ نوجوان، جو کچھ عرصہ ہوا ، احمدی ہوئے تھے ، اس وقت سویڈن میں ہیں.انہوں نے اپنے آپ کو اس مقصد کے لئے پیش کیا ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ میں کچھ عرصہ تک مرکز میں رہ کر دینی تعلیم حاصل کروں گا اور اس کے بعد سویڈن میں احمدیت اور اسلام کی تبلیغ کروں گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آہستہ آہستہ یورپ کے بعض اور ممالک میں بھی مشن قائم ہو جائیں گے.فرانس بھی نہایت اہم ملک ہے لیکن ابھی وہ خالی پڑا ہے، وہاں کوئی مبلغ نہیں.اٹلی بھی نہایت اہم ملک ہے لیکن ابھی وہ بھی خالی پڑا ہے ، وہاں بھی ہمارا کوئی مبلغ نہیں.یہ دونوں ممالک مغربی یورپ کے نہایت اہم ممالک ہیں اور ان دونوں کے بغیر مغربی یورپ کی تبلیغ کو مکمل نہیں کہا جا سکتا.411
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم سویڈن میں نیا مشن قائم ہو جانے کے بعد ہم سمجھیں گے کہ سیکنڈے نیوین ممالک ، ڈنمارک، سویڈن اور ناروے، میں ایک حد تک تبلیغ کا کام کیا جاسکے گا.ان ممالک کے رہنے والے نیم جرمنی نسل سے ہیں.یہ بہت حد تک جرمن تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں.یورپ کے بعض ممالک کے باشندے اٹالین نسل سے ہیں، مثلاً اٹلی ہے، پین ہے، فرانس ہے.بعض ممالک کے باشندے جرمنی کی ابتدائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، مثلاً سویڈن ہے، ڈنمارک ہے، ناروے ہے، ہالینڈ ہے، بلجیم ہے، بلجیم کا آدھا حصہ جرمنی کے زیر اثر ہے اور آدھا حصہ فرانس کے زیر اثر ہے.مشرق میں جا کر سلیو (Slave) نسلوں کا زور ہے.ان میں مغل بھی ہیں، مثلاً ہنگری ہے، پولینڈ ہے، فن لینڈ ہے، ان ممالک میں مغل قوم کا کچھ حصہ بس گیا ہے.پھر یوگوسلاویہ، بلغاریہ، رومانیہ اور روس سب سلیو نسل سے ہیں.یونان بھی درحقیقت اٹلی کے اثر کے نیچے ہے.سینکڑوں سال تک انالین خاندان یونان پر حکمران رہے.قیصر، جس کی اسلام سے جنگ ہوئی ، اٹالین نسل سے ہی تھا.اس سے پہلے یونانی تہذیب الگ تھی لیکن بعد میں اٹلی کے اثر کے نیچے آگئی.غرض یورپ کی تین بڑی بڑی نسلوں میں سے دو نسلوں کی طرف ابھی ہم نے توجہ کی ہے.اگر چہ ان میں سے بھی ایک نسل کی طرف ہمارے توجہ نامکمل ہی ہے اور وہ اٹالین نسل ہے.اٹلی بھی خالی پڑا ہے، فرانس بھی خالی پڑا ہے، صرف پین میں ہمارا ایک مبلغ ہے.جرمن نسل سے جو ممالک ہیں، ان میں سوئٹزر لینڈ، جرمنی، ہالینڈ اور انگلینڈ بھی شامل ہیں.انگلینڈ کی نسل بھی زیادہ ناروے سے آئی ہے، جو جرمن نسل سے تعلق رکھتا ہے.اور پھر خدائی تصرف کے ماتحت انگلستان کا موجودہ حکمران خاندان بھی جرمن نسل.ہے.بلجیم کا نصف حصہ جرمنی کے زیر اثر ہے اور نصف حصہ فرانسیسی نسل کے زیر اثر ہے.بہر حال جب تحریک جدید شروع ہوئی تو یورپ میں ہمارا صرف ایک مشن تھا، جو انگلستان میں تھا.لیکن تحریک جدید کے ذریعہ اب پین، ہالینڈ، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں بھی مشن قائم ہو گئے ہیں.ہالینڈ میں مسجد بھی تعمیر ہورہی ہے.بعد میں جرمنی میں بھی مسجد تعمیر کی جائے گی.جرمنی میں جو نسل آباد ہے، وہی نسل سوئٹزر لینڈ کے ایک حصہ میں بھی آباد ہے اور زیادہ تر احمدی اسی حصہ میں ہورہے ہیں.سو اگر تحریک جدید کے کام کو دیکھا جائے تو تبلیغ کا کام اب پہلے سے پانچ گنا بڑھ گیا ہے.اگر ہم تین مشن اور کھوئیں تو کم از کم دو تہذیبوں کے ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو جائیں گے.سلیو (Slave) نسل روی اثر کے نیچے ہے اور فی الحال وہاں مشن قائم کرنا مشکل کام ہے.امریکہ میں ہمارا مشن تحریک جدید کے شروع ہونے سے پہلے کا ہے.لیکن تبلیغی کام اور وسیع ہو گیا ہے.پہلے صرف ایک جگہ پر مشن قائم تھا اور وہ بھی نہایت محدود حالت میں تھا.جماعت تو کسی زمانہ 412
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء میں موجودہ جماعت سے بھی کئی گنازیادہ تھی لیکن وہ زیادہ منظم نہیں تھی ، چندہ نہیں دیتی تھی اور اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل نہیں تھی.اب چار جگہوں پر ہمارے مشن ہیں اور ان میں پاکستانی مبلغ کام کر رہے ہیں.پھر کئی جگہوں پر بعض مقامی لوگ تبلیغ کا کام کر رہے ہیں اور ان میں سے بعض لوگ خوب جو شیلے ہیں.جن کے اخلاص اور جوش کو دیکھ کر طبیعت خوشی اور فرحت محسوس کرتی ہے.اس وقت تک زیادہ تر لوگ نیگر وز یعنی حبشی اقوام سے احمدی ہوئے ہیں.لیکن خدا کے نزدیک نیگروز اور وائٹ مین میں کوئی فرق نہیں.جب اس نے نیگروز بھی پیدا کئے ہیں تو گویاوہ نیگروز کوبھی چاہتا ہے اور وائٹ مین کو بھی چاہتا ہے.وہ کسی خاص رنگ سے محبت نہیں کرتا.وہ چاہتا ہے کہ ہر رنگ کے انسان پائے جائیں.نیگروز بھی ہوں ،سفید رنگ کے بھی ہوں اور درمیانہ رنگ کے بھی ہوں.اب سفید اقوام سے بھی بعض لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.اگر چہ وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں.لیکن بہر حال معلوم ہوتا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی رو چلائی جارہی ہے کہ کوئی تعجب نہیں کہ کچھ عرصہ تک ان اقوام میں بھی احمدیت پھیل جائے.اب امریکن احمدیوں میں تنظیم پہلے سے زیادہ ہے، وہ چندہ بھی دیتے ہیں، ان کی اپنی اپنی انجمنیں ہیں اور وہ تبلیغ کے سیکر یٹری بھی ہیں.غرض وہ آہستہ آہستہ اپنا کام سنبھالتے جارہے ہیں.وہاں لوکل اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں ، مثلاً کرایہ بہت زیادہ ہے.یہاں اگر ایک اچھا مکان 40 روپے ماہوار کرایہ پرہل جاتا ہے تو وہاں معمولی معمولی مکانات کا کرایہ پانچ پانچ ، چھ چھ سوروپیہ ہے.اور یہ سب اخراجات وہ خود اٹھاتے ہیں اور یہ ان کی بڑی بھاری قربانی ہوتی ہے.انڈونیشیا میں بھی ہماری تبلیغ تحریک جدید کے شروع ہونے سے پہلے جاری تھی.لیکن اس وقت وہاں صرف دو، تین مبلغ تھے، اب ایک درجن کے قریب مرکزی مبلغ وہاں کام کر رہے ہیں.اسی طرح پہلے وہاں جماعتی چندوں کا حساب نہیں رکھا جاتا تھا.لوگ چندہ دیتے تھے لیکن نظام کے ماتحت نہیں دیتے تھے.اب تحریک جدید کے ذریعہ جماعت نظام کے ماتحت آگئی ہے اور اس وقت ان کے چندے تحریک جدید اور عام چندوں کو ملا کر تین لاکھ روپیہ سالانہ کے قریب بن جاتے ہیں.گوان کا روپیہ پاکستان کے رو پیر کی نسبت بہت کم قیمت کا ہوتا ہے.پھر وہاں با قاعدہ سالانہ کا نفرنسیں ہوتی ہیں.اب ان کی توجہ سکول کھولنے کی طرف بھی پھری ہے.اب یہ تجویز کی گئی ہے کہ وہاں ایک تبلیغی مدرسہ قائم کیا جائے ،جس میں مبلغین تیار کئے جائیں.ان میں سے جو مبلغین اچھے ہوں، آئندہ صرف وہی یہاں آیا کریں، دوسرے نہ آیا کریں.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بیدار ہے اور پچھلی جنگ میں اس نے تحریک آزادی کے سلسلہ میں بہت عمدہ کام کیا ہے.ہمارے پاکستانی مبلغین نے بھی مقامی لوگوں کے ساتھ اس حد تک اتحادرکھا 413
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم کہ ان میں سے بعض کو کئی کئی ماہ تک قید رکھا گیا اور بعض مارے گئے.اس لئے انڈو نیشین لوگ پاکستانیوں کی طرح احمدیوں سے زیادہ تعصب نہیں رکھتے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تحریک آزادی کے سلسلہ میں جو کام دوسروں نے کیا ، وہی کام انہوں نے بھی کیا ہے.افریقہ میں بھی تحریک جدید شروع ہونے سے پہلے ہمارا مشن قائم تھا.لیکن اب وہاں مبلغین کی تعداد بہت زیادہ ہے.اس وقت وہاں ایک کالج بھی جاری کیا جا چکا ہے اور جماعت کی طرف سے مسلمانوں کا پہلا اور واحد اخبار ٹرتھ نکالا جا رہا ہے.اب گولڈ کوسٹ سے بھی ایک اخبار جاری کرنے کا ارادہ ہے.دو گریجوایٹ نوجوان جز لزم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس کے بعد وہ اپنے اپنے علاقہ میں اس کام کو سنبھال لیں گے تا اس کے ذریعہ وہاں کے مسلمانوں کے اندر بھی بیداری پیدا کی جائے.عجیب بات ہے کہ جہاں پاکستان میں ایک احمد کی، اس علاقہ سے بھی جہاں 40 فیصدی احمدی ووٹ ہیں، جیت نہیں سکتا کیونکہ دوسرے امیدوار اس کے مقابل پر اکٹھے ہو کر ایک کے ساتھ ہو جاتے تھے ، وہاں مغربی افریقہ میں، جہاں پاکستان کی نسبت احمدیوں کی تعداد بہت کم ہے، بعض احمدی مقامی لجسلیٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے ہیں.چنانچہ دو احمدی گولڈ کوسٹ کی کونسل میں منتخب ہو گئے ہیں اور ایک احمدی نائیجیریا میں منتخب ہوا ہے.گویا جہاں پاکستان میں ایک احمدی بھی اسمبلی میں نہیں جاسکتا، وہاں مغربی افریقہ میں ایک ملک میں ایک اور دوسرے ملک میں دو احمدی دوست اسمبلی میں چلے گئے ہیں.پھر یہاں یہ بات ہے کہ کوئی احمدی پہلے سے اتفاقی طور پر مسلم لیگ میں داخل ہو گیا ہو تو خیر ، ورنہ پوری کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی احمدی مسلم لیگ میں داخل نہ ہو.لیکن وہاں مرکزی کمیٹی میں بھی احمدی شامل ہیں اور جب گورنمنٹ کے پاس کوئی وفد بھیجا جاتاہے تو وہ اکثر کسی نہ کسی احمدی کو اپنا سپوکس میں مقرر کرتے ہیں.اب گورنمنٹ نے فلیمی لحاظ سے بعض علاقے مختلف انجمنوں کے سپرد کئے ہیں کہ اگر تم کام کرنا چاہتے ہو تو کرو.ایک علاقہ احمدیوں کے سپر د بھی کیا گیا ہے اور وہاں چھ سکول کھولنے کے سلسلے میں حکومت نے امداد دی ہے اور یہ کہا ہے کہ آئندہ بھی تعلیم کے سلسلہ میں مدددی جایا کرے گی.اللہ تعالیٰ چاہے اور وہاں جماعتی نظام مکمل ہو جائے تو کچھ عرصہ کے بعد اس میں اور بھی ترقی ہو جائے گی.کیونکہ وہاں کے مبلغین نے عقل سے کام لیا ہے اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملک کے فائدہ کو بھی مدنظر رکھا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ احمدی انگریزوں کے خوشامدی ہیں، اب مغربی افریقہ کے تینوں ممالک میں، جہاں ہمارے مشن قائم ہیں ، انگریزوں کی ہی حکومت ہے، لیکن وہاں قومی تحریک میں احمدی پیش پیش 414
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء ہیں.بلکہ ایک ملک میں تو قومی تحریک کی مرکزی کمیٹی میں ہمارے مبلغ کو سیکر یٹری بنا دیا گیا ہے اور ایک اجلاس میں اسے صدر مقرر کیا گیا ہے.حالانکہ وہ پنجابی ہے، افریقہ کا رہنے والا نہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم پر انگریزوں کے ایجنٹ ہونے کا جو الزام لگایا جاتا ہے، وہ بالکل غلط ہے.اگر اسے ان ممالک میں ہمیں ایجنٹ بنانے کی ضرورت نہیں تو اسے ہمیں یہاں ایجنٹ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہاں احمدی قومی تحریکوں میں شامل ہوئے ہیں اور انہوں نے ملک کی خاطر بہت کام کیا ہے.اور ملکی تحریکوں میں لیڈر بھی بنے ہیں اور مقامی لوگوں سے انہوں نے ہر قسم کی ہمدردی کی ہے.ابھی حال ہی میں عراق کے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے ایک مضمون شائع کیا ہے.اس میں اس نے لکھا ہے کہ کسی غیر ملکی سفارت خانے کی طرف سے اسے کہا گیا کہ وہ احمدیوں کے خلاف مضامین لکھے.اور یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب فلسطین کے بارہ میں امام جماعت احمدیہ کی طرف سے دو مضامین شائع ہوئے تھے.اس وقت میں نے کہا کہ میں یہ غداری نہیں کر سکتا.اس پر مجھے کہا گیا کہ تمہیں پیسے نہیں ملیں گے.میں نے کہا تم اپنے پیسے اپنے گھر رکھو، میں اس کام سے بیزار ہوں.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ہم انگریزوں کے ایجنٹ نہیں بلکہ وہ ہمیں پوری طرح کچلنے کے لئے تیار ہیں.یہ دو مثالیں نہایت واضح ہیں کہ مغربی افریقہ کے تین ممالک میں، جہاں انگریزوں کی حکومت ہے، احمدی تحریک آزادی میں پیش پیش ہیں.بلکہ ان میں ہمارے مبلغ بھی حصہ لے رہے ہیں اور وہ نہایت ذمہ داری کے عہدوں پر مقرر ہیں.اب بھی انگریزوں نے ایک علاقہ کے بادشاہ کو تحریک آزادی کی وجہ سے باہر نکال دیا تو اسے بحال کرنے کے لئے جو وفد حکومت سے ملنے کے لئے گیا، اس میں بھی ایک احمدی کو شامل کیا گیا.غرض یہ سب واقعات بتا رہے ہیں کہ مخالفین کی طرف سے جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہیں، بالکل غلط ہے.جہاں بھی ہمارے مبلغ گئے ہیں ، وہاں انہوں نے مقامی لوگوں کی خدمات کی ہیں اور وہ ان سے متاثر ہیں.مغربی افریقہ کے تین ممالک میں، جن میں ہمارے مشن قائم ہیں، ان کی ترقی اور بہبودی کے لئے احمدیوں نے بڑی کوشش کی ہے.پچھلے دنوں گولڈ کوسٹ کے وزیر اعظم نے ، جو احمد یہ مسجد کے افتتاح کے سلسلہ میں گیا اور پھر اس نے ہمارے کالج کا معائنہ بھی کیا ، کہا، مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ احمدی ہمارے ملک کی ترقی اور بہبودی کے لئے اس قدر کوشاں ہیں.مجھے پہلے شبہ تھا کہ شاید ان کے کام کے متعلق مبالغہ کیا جاتا ہے لیکن اپنی آنکھوں سے ان کا کام دیکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے ہمارے ملک کی ترقی کے لئے شاندار کام کیا ہے.ان ممالک میں 415
خطبہ جمعہ فرمود و 26 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم زبان اور تمدن اور ہونے کی وجہ سے مبلغین کو بہت سی مشکلات پیش آرہی ہیں.مسلمان بہت کمزور ہیں، پھر عیسائیوں کو حکومت مدد دے رہی ہے، اس قسم کے حالات میں مسلمانوں کو آگے لے جانا بڑا مشکل ہے.مشرقی افریقہ میں بھی نئے مشن قائم ہوئے ہیں.مجھے یقین نہیں کہ تحریک جدید کے شروع ہونے کے بعد وہاں مبلغ بھیجا گیا تھا یا اس کے شروع ہونے سے پہلے وہاں مشن قائم کیا جاچکا تھا.بہر حال اگر تھا بھی تو پہلے صرف ایک مبلغ وہاں کام کر رہا تھا اور اب نو ، دس مبلغ کام کر رہے ہیں اور مقامی لوگوں میں بھی احمدیت پھیل رہی ہے، مدارس کھولنے کی بھی تحریک ہو رہی ہے، جماعت کے کام کو دوسرے لوگ اچھی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں.مشرقی افریقہ کے پاس ایک جزیرہ زنجبار ہے، جس میں خوارج کی حکومت ہے لیکن زیادہ تر عرب آباد ہیں.کچھ متعصب مولوی بھی وہاں پائے جاتے ہیں.وہاں ریڈیو پر تقاریر کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا، جن میں احمدیت کی مخالفت کی جاتی تھی.اس پر ہمارے دوست حکومت کے ذمہ دار لوگوں کے پاس گئے ، انہوں نے ان کے سامنے قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ پیش کیا اور بتایا کہ ہم نے یہ کام کیا ہے.یہ مولوی جو ہمارے خلاف شور مچارے ہیں، بتائیں کہ انہوں نے گزشتہ پانچ سوسال میں اسلام کی کیا خدمت کی ہے؟ اس پر حکومت کے ان ذمہ دار لوگوں نے جماعت کی مساعی کی تعریف کی اور کہا، ہم ریڈیو والوں کو ہدایت کریں گے کہ وہ اس قسم کی تقاریر نشر نہ کریں، اچھا کام کرنے والوں کے خلاف کچھ کہنا، ہمارے اصول کے خلاف ہے.پھر افسروں نے پرائیویٹ طور پر اور ریڈیو پر بھی معذرت کا اظہار کیا.پھر سیلون، برما اور ملایا میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے نئے مشن کھولے گئے ہیں.اب کوشش کی جارہی ہے کہ فلپائن کے دار الحکومت منیلا میں بھی مشن قائم کیا جائے.وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت نے حکومت کو لکھا ہے کہ انہیں مبلغ کی ضرورت ہے، لہذا وہ احمدیوں کو اپنا مبلغ بھیجنے کی اجازت دے.پھر جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی نئے رستے کھلے ہیں.اور سوائے ان ممالک کے جو آئزن گرین کہلاتے ہیں، باقی ممالک میں تبلیغ کے نئے نئے رستے کھل رہے ہیں.جاپان والے بھی کہ رہے ہیں کہ تم اپنا مبلغ بھیجو.بلکہ وہ اس بات کے لئے بھی تیار ہیں کہ ان کا ایک پروفیسر یہاں تعلیم حاصل کرے اور اس کا خرچ ہم دیں اور ہمارا ایک آدمی جاپان میں تعلیم حاصل کرے اور اس کا خرچ وہ دیں تا کہ ایکھینچ کے حصول کی کوئی تکلیف نہ ہو.غرض تحریک جدید کے کام کو دیکھا جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے کام بہت وسیع ہو چکا ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ پہلے سے پندرہ ہیں گنا کام بڑھ گیا ہے.اور شہرت کو دیکھا جائے تو موجودہ شہرت پہلے 416
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود و 26 نومبر 1954ء سے سو گنا سے بھی زیادہ ہے.پہلے لوگ احمدیت سے واقف نہیں تھے لیکن اب لوگ احمدیت سے واقف ہو چکے ہیں.اور ان کی طرف سے جولٹریچر شائع کیا جاتا ہے، اس میں احمد بیت کا ذکر ہوتا ہے.میں افسوس سے کہتا ہوں کہ ایک کام میں ہم ابھی کامیاب نہیں ہوئے.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے مبلغین کی سستی کی وجہ سے ہے.لاہور والوں کا اس وقت کوئی مشن نہیں ، انگلینڈ کا مشن آزاد ہے، جرمن میں ایک مشن تھا لیکن وہاں کے مشنری نے استعفی دے دیا ہے، امریکہ میں ایک مشن قائم ہوا تھا ، لیکن مجھے پتہ نہیں کہ آزاد ہے یا نہیں.مشن ہمارے ہیں لیکن ہر کتاب کا مصنف جوان مشنوں کا ذکر کرتا ہے، سمجھتا ہے کہ احمدیوں سے مراد لا ہوری جماعت کے لوگ ہیں.ابھی تک ہم اس کا ازالہ نہیں کر سکے.ہمارے مبلغ بعد میں ان کے پاس جاتے ہیں.پچھلے دنوں ایک انگریز اور ٹینٹسٹ نے ہمارے سارے مشن لاہور والوں کی طرف منسوب کر دیئے.ہمارے مبلغ نے اسے توجہ دلائی تو اس نے کہا مجھے علم نہیں تھا، مجھے افسوس ہے کہ میں نے غلط طور پر ایک اور جماعت کی طرف منسوب کر دیا ہے.اگلے ایڈیشن میں ، میں اس کی اصلاح کردوں گا.لیکن تھپڑ لگ گیا تو بعد میں کلہ ملنے کا کیا فائدہ؟ کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ تھپڑ لگے ہی نہیں.خواجہ کمال الدین صاحب کے اندر میل ملاقات کا شوق پایا جا تا تھا، ہمارے مبلغین میں یہ بات نہیں پائی جاتی.اب میں نے انہیں جبراً اس طرف لگایا ہے.وہ صرف مسجد میں بیٹھے رہتے ہیں.ان کی مثال ایک مکھی کی سی تھی، جو اپنے چھتے پر بیٹھی رہتی ہے.خواجہ صاحب میں میل ملاقات کرنے ،سوشل تعلقات قائم کرنے اور دوسرے لوگوں کی خاطر مدارات کرنے کا شوق تھا.اور موجودہ شہرت ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے.انگلستان اب بھی مستشرقین کا سردار ہے، دنیا کے دوسرے مستشرقین بھی انگلستان کے ذریعہ ہی ترقی کرتے ہیں.جرمن کے مشہور مستشرق نولڈ کے کا نام بھی انگلستان کے ذریعہ ہی مشہور ہوا.اسی طرح فرانس کے مستشرقین ہیں، انہیں بھی جو ترقی نصیب ہوئی ، انگریزی زبان کے ذریعہ ہوئی.اور اس کی یہ وجہ ہے کہ سلطنت برطانیہ دنیا کے ایک وسیع حصہ میں پھیلی ہوئی ہے اور پھر امریکہ میں بھی انگریزی بولی جاتی ہے، اس لئے انگریزی لٹریچر صرف انگریزوں کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ امریکنوں کے ذریعہ بھی باہر جاتا ہے.گویا انگریزی زبان کو دوہری طاقت حاصل ہے.امریکہ کی قوت اور طاقت اور برطانیہ کی وسیع سلطنت کی امداد سے حاصل ہے، جو کسی اور زبان کو حاصل نہیں.ان مستشرقین سے خواجہ صاحب نے تعلقات پیدا کئے اور ان کے تعلقات اور ان کوششوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ وہ لوگ احمدیت اور خواجہ صاحب میں فرق نہیں کرتے.جیسے پہلے امریکنوں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ پاکستان اور انڈیا الگ الگ ممالک ہیں.وہ 417
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم پاکستان انڈیا لکھ دیتے تھے.گویا پاکستان، انڈیا کا ایک حصہ ہے.اسی طرح مستشرقین یہی سمجھتے ہیں کہ خواجہ صاحب اور احمدیت ایک ہی چیز ہیں، انہیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا.پھر خواجہ صاحب نے بڑی ہمت اور قربانی سے کام کیا ہے.انہوں نے متعدد ممالک کا دورہ کیا.اب ہمارے مبلغ ان لوگوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم خواجہ صاحب سے ملے تھے ہم بھی انہیں سے تعلق رکھتے ہو؟ بے شک خواجہ صاحب کو اس کام کے لئے ایک ذریعہ مل گیا تھا.لیکن انہوں نے اس کے لئے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑا ، اپنے وطن کو چھوڑا.اگر تم بھی باہر نکل جاؤ اور خواجہ صاحب جیسا کام کرو تو لوگ تمہاری بھی قدر کرنے لگ جائیں گے.اس کے لئے ضروری ہے کہ تم اپنا مطالعہ وسیع کرو.بہر حال تحریک جدید کی شہرت پہلے سے سینکڑوں گنے زیادہ ہے.اگر ہم اسے بڑھاتے گئے تو آئندہ پانچ ، چھ سال میں یہ شہرت ہزاروں گنا زیادہ ہو جائے گی.اگر جماعت چندوں پر قائم رہے تو یقیناً ہمارے مشن زیادہ ہو جائیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تحریک جدید کی جو نئی تنظیم کی گئی ہے، اس سے کئی بیرونی مشن اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں.سوائے انگلینڈ کے کہ وہ سب سے پرانا مشن ہے مگر ا بھی تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکا، اس میں ابھی تک بدنظمی پائی جاتی ہے.باقی یورپین مشن بھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوئے.ضرورت صرف یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.جہاں ان مشنوں میں کام کرنے والوں کا انتہاک قابل قدر ہے، وہاں یہ بات قابل اعتراض ہے کہ وہ چندہ کی اہمیت کو نومسلموں پر واضح نہیں کرتے اور مالی قربانی پر زور نہیں دیتے.وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے چندہ کا نام لیا تو شاید یہ لوگ مرتد ہو جائیں.اگر یہی صورت رہی تو قیامت تک بھی یہ مشن اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکیں گے.جس نے آنا ہے،وہ بہر حال آئے گا.اور جو چندہ کی وجہ سے جانا چاہتا ہے، اسے جانے دو ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں.بہر حال یورپ کے مشن ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں.حالانکہ اب تک انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جانا چاہئے تھا.غرض تحریک جدید کے ذریعہ ایک زبر دست کام کی بنیاد رکھی گئی ہے.اور یہ وہ کام ہے، جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم میں ایک پیشگوئی ہے کہ ایک زمانہ آئے گا کہ آپ کی قدسی تاثیر دنیا بھر میں اسلام کو پھیلا دے گی.اور پرانے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مسیح موعود کے وقت میں ہوگا.اب اگر بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود تھے اور تم ان کے ماننے والے ہو تو یہ کام تمہارے ذریعہ ہوگا.لیکن خدا تعالیٰ کی یہ سنت چلی آتی ہے کہ جو قوم اس کے دین کی 418
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود 260 نومبر 94 مدد کے لئے کھڑی ہوتی ہے، وہ اس سے مدد کے وعدے کرتا ہے.لیکن اس مدد سے پہلے اسے کام کرنا پڑتا ہے، قربانی کرنی پڑتی ہے.تب خدا تعالیٰ کی مدد سے حاصل ہوتی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف کام نہیں چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں نیکی پھیلے اور یہ کام بغیر قربانی کے نہیں ہوسکتا.دل، مال و جان قربان کئے بغیر صاف نہیں ہوتے.اگر تم نے انہیں صاف کرنا ہے تو جانی و مالی قربانی کرو.اگر تم جان و مال قربان نہیں کرو گے تو تمہارے دل بھی صاف نہیں ہوں گے اور تم مردہ کے مردہ خدا تعالیٰ کے پاس جاؤ گے.اس صورت میں وہ تمہیں جنت میں کیوں داخل کرے گا؟ یوں تو وہ اپنی ساری مخلوق سے محبت کرتا ہے لیکن انسان اسے تبھی زیادہ پیارا ہے کہ اس میں اسے اپنا چہرہ نظر آتا ہے.جس طرح ہم کسی کے پانی کی نالی میں چل رہے ہوں اور اتفاق سے کسی جگہ نیچے نظر پڑے اور پانی میں سے ہمیں اپنی شکل نظر آجائے تو ہم اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، اسی طرح انسان اگر چہ نہایت حقیر چیز ہے لیکن خدا تعالیٰ کو جب اس سے اپنا چہرہ نظر آتا ہے تو وہ اس کا پیارا اور محبوب ہو جاتا ہے.بچپن میں ، میں نے ایک رو یاد یکھا، یہ غالبا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے یا آپ کی وفات کے قریب کی.یعنی چار، پانچ ماہ کے عرصہ کے اندر کی.اس وقت حضرت خلیفہ اسی اول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکان میں رہا کرتے تھے.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کی طرف جو گلی جاتی ہے، اس کے اوپر جو کمرہ اور محن ہے، اس میں آپ کی رہائش تھی.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اس صحن میں ہوں اور اس کے جنوب مغرب کی طرف حکیم غلام محمد صاحب امرتسری، جو حضرت خلیفہ اسیح اوّل کے مکان میں مطب کیا کرتے تھے، کھڑے ہیں.ان کو میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت ایسے ہیں، جیسے فرشتہ ہوتا ہے.میں تقریر کر رہا ہوں اور وہ کھڑے ہیں.میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے، جسے میں سامعین کو دکھا تا ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اور لوگ بھی ہیں مگر نظر نہیں آتے.گویا ملائکہ یا اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں، جو نظروں سے غائب ہیں.میں انہیں وہ آئینہ دکھا کر کہتا ہوں کہ خدا کے نور اور انسان کی نسبت ایسی ہے، جیسے آئینہ کی اور انسان کی.آئینہ میں انسان اپنی شکل دیکھتا ہے اور اس میں اس کا حسن ظاہر ہوتا ہے اور وہ اس کی خوب قدر کرتا ہے اور سنبھال سنبھال کر اور گرد سے 419
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم بیچا کر رکھتا ہے.مگر جونہی وہ آئینہ خراب ہو جاتا ہے اور میلا ہو جاتا ہے اور اس میں اس کی شکل نظر نہیں آتی یا چہرہ خراب نظر آتا ہے تو وہ اسے اٹھا کر پھینک دیتا ہے.اور جب میں یہ کہ رہا ہوں تو رویاء میں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے اور ان الفاظ کے کہنے کے ساتھ ہی وہ میلا ہو جاتا ہے اور کام کا نہیں رہتا اور میں کہتا ہوں کہ انسان کا دل بھی خدا تعالیٰ کے مقابل پر آئینہ کی طرح ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس میں اپنے حسن کا جلوہ دیکھتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے.مگر جب وہ میلا ہو جاتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا حسن ظاہر نہیں ہوتا تو وہ اسے اس طرح اٹھا کر پھینک دیتا ہے، جس طرح خراب آئینہ کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے.اور یہ کہتے ہوئے ، میں نے اس آئینے کو جو میرے ہاتھ میں تھا، زور سے اٹھا کر پھینک دیا اور وہ چکنا چور ہو گیا.اس کے ٹوٹنے سے آواز پیدا ہوئی اور میں نے کہا، جس طرح خراب شدہ آئینے کو توڑ دینے سے انسان کے دل میں کوئی درد پیدا نہیں ہوتا، اسی طرح ایسے گندے دل کو توڑنے کی اللہ تعالیٰ کوئی پروا نہیں کرتا“.( مطبوعه افضل 03 دسمبر 35ء 02 مارچ 45 ) در حقیقت انسان کی پیدائش کی غرض خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے اور یہ چیز بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتی.لوگ کہتے ہیں کہ روحانی ترقی حاصل کرنی چاہئے.حالانکہ یہ اگلا قدم ہے.پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمیں قربانی کیوں نصیب نہیں؟ جو روحانی ترقی کے لئے ضروری چیز ہے.لیکن انسان کہتا ہے، یہ ایک بوجھ ہے اور وہ اس طرف متوجہ نہیں ہوتا.لیکن دوسری طرف وہ یہ کہتا ہے، مجھے روحانی ترقی نصیب ہو.اس کی مثال تو ایسی ہے کہ انسان روٹی نہ کھائے لیکن یہ کہے کہ میری بھوک مٹ جائے.پانی نہ پیئے لیکن یہ کہے کہ میری پیاس بجھ جائے.لیکن کیا روٹی کھانے کے بغیر بھوک مٹ سکتی ہے؟ اور کیا پانی پینے کے بغیر پیاس بجھ سکتی ہے؟ اسی طرح عقلی ، جانی، وطنی اور مالی قربانی کے بغیر روحانی ترقی بھی نہیں مل سکتی.انسان خدا تعالیٰ کا آئینہ تو ہوتا ہے، لیکن جس طرح شیشہ کے کارخانہ میں کوئی آئینہ اچھا بن جاتا ہے اور کوئی آئینہ ردی بن جاتا ہے، اسی طرح قانون قدرت کے کارخانہ میں کوئی انسان اچھا بن جاتا ہے اور کوئی خراب بن جاتا ہے.اگر تم اپنی ذمہ داری کو سمجھ جاؤ تو میں سمجھ لوں گا کہ تم قربانی کوظلم نہیں سمجھتے.بلکہ وہ تمہیں تمہاری نسل اور قوم کو زندہ رکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے.اگر تم قربانی کرنے لگ جاؤ تو تم تمہارا ملک اور تمہاری قوم محفوظ ہو جاتی ہے.420
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء اس تمہید کے بعد میں تحریک جدید کے اکیسویں اور گیارہویں سال کا اعلان کرتا ہوں.مجھے اس بات کی خوشی ہوئی ہے کہ تحریک جدید کے پہلے دور والوں نے ایک حد تک قربانی کی ہے.لیکن افسوس کہ دفتر دوم ابھی اس معیار تک نہیں پہنچا.اعداد وشمار سے میں ان کی نسبت بیان کرتا ہوں.دور اول کے بیسویں سال کے کل وعدے دولاکھ ، چار ہزار کے تھے.ایک وقت میں وہ دولاکھ، پچاس ہزار تک بھی پہنچ گئے تھے.فرق صرف اس وجہ سے پڑا ہے کہ پہلے ہندوستان اور پاکستان دونوں کا چندہ اس میں شامل تھا، لیکن اب ہندوستان کا چندہ الگ ہو گیا.30 ،35 ہزار کے قریب وعدے ہندوستان کی جماعتوں کے ہو جاتے ہیں.دوسرے کمی اس طرح واقع ہوئی کہ 19 سال ختم ہونے پر میں نے ایسے لوگوں کو ، جنہوں نے دور اول میں اپنے اوپر غیر معمولی مالی بوجھ ڈالا تھا، اجازت دی تھی کہ وہ اگر اپنے وعدوں کو کم کرنا چاہیں تو کر لیں.اس پر بعض لوگوں نے اپنے وعدے کم کر دیئے.لیکن اکثر حصہ نے باوجود اجازت کے وعدوں میں کمی نہیں کی بلکہ بعض نے حسب سابق اپنے وعدوں میں زیادتی کی تھی.بہر حال دفتر اول کے کل وعدے دو لاکھ، چار ہزار کے تھے.جن میں سے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے وعدے وصول ہوئے ہیں.باقی 80 ہزار کے وعدے وصول نہیں ہوئے.گویا 60 فی صدی کے قریب چندہ وصول ہوا ہے اور 40 فی صدی کے قریب بقایا ہے.لاہور شہر کی وصولی اور بقائے برابر ہیں.یعنی 50 فیصدی وعدے وصول ہوئے ہیں اور 50 فیصدی بقایا ہے.لاہور کو نکال کر باقی پنجاب نے 65 فیصدی وعدے ادا کر دیے ہیں.صوبہ سرحد نے بھی 65 فی صدی وعدے ادا کیے ہیں.ریاست بہاولپور نے 33 فیصد کی وعدے ادا کئے ہیں.کراچی شہر نے 80 فیصدی چندہ ادا کیا ہے.صوبہ سندھ نے 65 فیصدی ادا کیا ہے.بلوچستان نے پچاس فیصدی ادا کیا ہے.مشرقی پاکستان نے 33 فیصدی ادا کیا ہے.اور بیرون پاکستان نے 42 فیصدی ادا کیا ہے.لیکن بیرون پاکستان کے اعداد صحیح نہیں.کیونکہ ان کا چندہ جون تک جاتا ہے، اس لئے سات ماہ گزرنے کے بعد جور قم وصول ہوگی ، وہ موجودہ رقم کے مقابلہ میں دکھائی جائے گی.نتیجہ یہ ہے کہ کراچی شہر وعدوں کی ادائیگی کے لحاظ سے باقی سب شہروں اور صوبوں سے بڑھ گیا ہے.اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر صوبہ پنجاب صوبہ سندھ، صوبہ سرحد ہیں.تیسرے نمبر پر لا ہور شہر اور بلوچستان کا صوبہ ہے.اور چوتھے نمبر پر ریاست بہاولپور اور مشرقی پاکستان ہیں.لاہور شہر کی جماعت کی حالت اس وجہ سے کہ تعلیم زیادہ ہے، قابل افسوس ہے.پچھلے سال تو فسادات ہوئے تھے، اس لئے وصولی میں کمی کے متعلق یہ خیال کر لیا گیا تھا کہ وہ ان فسادات کی وجہ سے ہے.لیکن اس دفعہ تو فسادات بھی نہیں تھے.اگر جماعت کے دوست 421
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کوشش کرتے تو یہ کمی پوری ہو سکتی تھی.اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ دولاکھ، چار ہزار کے وعدوں میں سے 80 ہزار کے وعدے وصول نہ ہوں تو بجٹ میں کس قدر کمی واقع ہو جاتی ہے.نتیجہ یہ ہے کہ ابھی ساتواں مہینہ جا رہا ہے.اس کے ختم ہونے پر ایک پیسہ بھی تحریک جدید کے پاس نہیں ہوگا اور یہ کتنی خطرناک بات ہے.اصول تو یہ بنایا گیا تھا کہ دسویں سال کے وعدے سارے کے سارے ریز روفنڈ میں جائیں تا دس لاکھ کا قرضہ، جو تحریک جدید کے ذمہ ہے، اتر جائے.لیکن ہوا یہ ہے کہ دسویں سال کا چندہ ، جو وصول ہوا ، وہ بھی خرچ کرلیا گیا ہے.اور اس کے خرچ کر لینے کے بعد یہ حالت ہے کہ اگر 80 ہزار کے بقائے وصول ہو جائیں تو تب بمشکل تین ماہ کا خرچ چل سکے گا.لیکن ابھی باقی پانچ ماہ ہیں.دسویں سال کے وعدوں کی حالت یہ ہے کہ لا ہور شہر کی وصولی 40 فیصدی ہے.پنجاب کی وصولی بھی قریباً اتنی ہے بلکہ اس سے بھی کم ہے.صوبہ سرحد کی وصولی بھی قریباً اتنی ہی ہے.ریاست بہاولپور کی وصولی چالیس فی صد سے بھی کم ہے.کراچی شہر کی وصولی قریباً 55 فی صدی ہے.صوبہ سندھ کی وصولی 65 فی صدی ہے.بلوچستان کی وصولی اور بھی گر گئی ہے.یعنی کل 30 فی صدی وعدے وصول ہوئے ہیں.مشرقی پاکستان کی وصولی بھی قریباً 30 فیصدی ہے اور بیرون پاکستان کی وصولی اس میں بالکل ہی کم ہے.یعنی قریباً دس فیصدی وعدے وصول ہوئے ہیں.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ بیرون پاکستان کے وعدوں کے پورا ہونے میں ابھی کافی وقت باقی ہے.اور پھر یہاں پہنچنے میں بھی کچھ وقت لگ جاتا ہے.غرض دفتر دوم کے کل وعدے 1,92,346 کے تھے اور وصولی 88,116 کی ہوئی ہے.اگر دونوں دفتروں کے وعدے سو فیصدی وصول ہو جا ئیں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ 70 ہزار روپے کی رقم ریز روفنڈ کے لئے بچ جائے گی.بشرطیکہ دونوں کے وعدے سو فیصدی وصول کر لئے جائیں اور دونوں کو خرچ کر لیا جائے.حالانکہ دفتر دوم کے متعلق یہ خیال تھا کہ یہ سارے کا سارار یز روفنڈ میں جائے.اگر پہلے قرضے اتر جائیں تو نئے سرے سے قرض لیا جا سکتا ہے.لیکن اگر پہلے قرضے ہی باقی ہوں تو نیا قرض نہیں لیا جا سکتا.! پس میں نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ جماعت سستی دور کرے.یہ نہ کرے کہ چپ کر کے بیٹھ جائے بلکہ بقائے وصول کرنے کی پوری کوشش کرے.کراچی کو میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور جماعت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بقائے بھی وصول کرے گی اور اب بھی کوشش کر رہی ہے.چنانچہ انہوں نے اگلے سال کے بھی گیارہ ہزار روپے وصول کر لیے ہیں.جماعتوں کو چاہئے کہ وہ بڑھ چڑھ کر وعدے کریں اور پھر ان کی وصولی کی طرف بھی توجہ کریں.بالخصوص میں خدام کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ نئی پارٹی، جو آئی ہے، وہ ست ہے.اول تو نوجوان 422
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء وعدے کم کرتے ہیں اور پھر وصولی کی طرف توجہ نہیں کرتے.حالانکہ نو جوانوں کو زیادہ چست ہونا چاہئے تھا.نو جوانوں پر پژمردگی نہیں ہوتی اور نہ ان پر خاندان کا بوجھ ہوتا ہے.انہیں دلیری سے وعدے کرنے چاہیں.اور پھر انہیں پورا بھی دلیری سے کرنا چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ جوستی واقع ہو رہی ہے ، وہ اس وجہ سے ہے کہ نو جوانوں میں بعض نقائص پائے جاتے ہیں.مثلاً سنیماد یکھنا ہے، سگریٹ نوشی ہے اور چونکہ ان عادتوں پر خرچ زیادہ ہوتا ہے، اس لئے وہ ان تحریکوں میں بہت کم حصہ لیتے ہیں.اس لئے خدام کو اس طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.اور انہیں چاہئے کہ وہ اب کے بوجھ کو اٹھانے کی پوری کوشش کریں.اول تو وہ چندہ 1,92,000 کی بجائے اڑھائی لاکھ تک پہنچائیں اور پھر وصولی سو فیصدی نہیں بلکہ اس سے زیادہ کریں.پہلے دور میں اس قسم کی مثالیں موجود ہیں کہ مثلاً وعدہ دولاکھ کا تھا تو وصولی سواد ولا کچھ ہوئی.جب تک وہ اس روح کو پیدا نہیں کرتے اور جب تک اپنی ذمہ داریوں کوادا نہیں کرتے ، خالی نام کا کچھ فائدہ نہیں.دنیا میں وہ پہلے ہی بدنام ہیں.انہیں تسبیح وتحمید کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے لیکن مخالفین کہتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی جماعت ہے.گویا ایک طرف ان کے متعلق یہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور دوسری طرف انہیں خدا تعالیٰ بھی نہ ملے تو اس سے زیادہ بدبختی اور کیا ہوگی.پس میں خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ نیا دور خدام کا ہے، اس میں زیادہ تر حصہ لینے والے انہیں میں سے ہیں.اس لئے ان پر فرض ہے کہ وہ اپنا چندہ بڑھائیں اور کوئی احمدی ایسانہ رہے، جو تحریک جدید میں شامل نہ ہو.دوسری طرف یہ کوشش کریں کہ وصولی سو فیصدی سے زیادہ ہو، تا قرضے اتر کر ریز روفنڈ قائم کیا جا سکے.ہم نے اپنا کام وسیع کرنا ہے.پہلے تو ہم بیج بکھیر رہے تھے.اور کامیابی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ہم بے انتہا لٹریچر پیدا کریں، ایک، ایک مبلغ کے ساتھ دس، دس ہزار کا لٹریچر ہو.اب تو یہ حالت ہے کہ ہم نے مورچوں پر سپاہی بٹھا رکھے ہیں ، انہیں رائفلیں بھی دی ہیں، لیکن گولہ بارود مہیا نہیں کیا.اور گولہ بارود کے بغیر رائفل ایک ڈنڈا ہی ہے.میری اس مثال پر احراری کہہ دیں گے کہ دیکھ لیا ، احمدی مبلغین کو رائفلیں دی جاتی ہیں.گویا علم معانی اور علم بیان میں جو ادب کی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں ، ان سے بھی ہمیں محروم رکھا جاتا ہے.اگر وہ کہیں کہ فلاں شیر ہے تو کوئی نہیں کہتا، اس کے پنجے دکھاؤ.لیکن اگر ہم کہہ دیں کہ فلاں شیر ہے تو کہتے ہیں، اس کے پنجے کہاں ہیں؟ گویا ہمیں زبان کے تمام حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے.لیکن ہماری زبان میں جو محاورے ہیں، وہ ہمیں استعمال کرنے ہی پڑتے ہیں.اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں.غالب کہتا ہے:.بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر 423
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم یعنی بادہ و ساغر سے ظاہری تعلق ہو، نہ ہو، شاعری اس کے بغیر ٹھیک نہیں ہوتی.بہر حال اگر ہم نے تبلیغ کو وسیع کرنا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم مبلغین کو ضروری سامان مہیا کر کے دیں.سپاہی خندق پر بیٹھا ہو، راکفل بھی پاس ہو لیکن گولہ بارود نہ ہو تو وہ کیا کرے گا؟ وہ زیادہ سے زیادہ رائفل سے ڈنڈے کا کام لے سکتا ہے.تجربہ کیا گیا ہے کہ جب بڑے پیمانے پر جنگ ہو تو دوسوراؤنڈ فی سپاہی کا اندازہ ہو تو کام چل سکتا ہے، ورنہ نہیں.مثلاً دولاکھ سپاہی ہوں تو دو کروڑ راؤنڈ ہو تو موجودہ زمانہ کی کامیاب لڑائی لڑی جاسکتی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ دو، دو سوراؤنڈ ہر سپاہی چلائے.برین گن والے تو ایک، ایک منٹ میں اتنے راؤنڈ چلا لیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ فوج میں لڑنے والا حصہ فوج کا پینتیسویں فی صدی ہوتا ہے.فوج میں نائی بھی ہوتے ہیں ، دھوبی بھی ہوتے ہیں ، ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں، باور چی بھی ہوتے ہیں، موٹر چلانے والے بھی ہوتے ہیں.مغربی اقوام میں یہ لوگ ساری فوج کا 66 فیصدی حصہ ہوتے ہیں.لیکن روس میں یہ لوگ 66 فیصدی نہیں ہوتے بلکہ 54 فیصدی ہوتے ہیں.46 فیصدی لڑنے والے ہوتے ہیں لیکن مغربی اقوام کہتی ہیں، یہ غلط طریق ہے.لڑنے والے کو جب تک مکمل آرام نہ دیا جائے ، وہ لڑ نہیں سکتا.اس لئے 66 فیصدی حصہ فوج کا لڑنے والوں کی خدمت میں وقف ہونا چاہئے.پھر باقی چونتیس فیصدی بھی ایک ہی وقت میں لڑائی میں شامل نہیں ہوتا، آخر کچھ وقت آرام بھی کرنا ہوتا ہے.اس لئے 17 ہزار بیٹھیں گے اور 17 ہزار لڑیں گے.پھر 17 ہزار بھی سارا وقت نہیں لڑسکتا ، بعض لڑ رہے ہوں گے اور بعض لائن آف کمیونی کیشن کی حفاظت کر رہے ہوں گے.گویا ایک وقت میں ایک لاکھ فوج میں سے چودہ ہزار سے زیادہ سپاہی لڑائی نہیں کرتے.گویا اگر دو کروڑ گولیاں ہوں تو چودہ ہزارٹر نے والوں میں سے ہر ایک کو قریباً قریباً گیارہ سو گولی حصہ آئے گی.پھر راکفل والے کم گولی چلائیں گے اور برین والے زیادہ چلائیں گے.برین کا استعمال اب بڑھ گیا ہے.امریکہ میں ہر چوتھا آدمی برین سے مسلح ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں برین والوں کی تعداد کم ہوتی ہے.غرض سامان کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا.لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے سپاہیوں کو سامان مہیا نہیں کرتے ، کیونکہ اس کا زیادہ تر انحصار چندہ پر ہے.اور جماعت اس قدر روپیہ مہیا نہیں کر سکتی ، اس لئے ابھی ہمیں یہی ضرورت تھی کہ ہم ہر جگہ اسلام کی آواز پہنچا دیں.اگر ہم سامان جمع کرتے رہتے تو لوگ زیادہ دیر تک اسلام کی آواز سے محروم رہتے.اب ہم لٹریچر پہنچائیں گے تو مبلغین زیادہ کام کر سکیں گے اور یہ صحیح طریق بھی ہے.اگر ہمارا کام رک جائے تو یہ بات خطرناک ہوگی.اب ضرورت ہے کہ ہم کثرت سے لٹریچر شائع کریں اور اسے دنیا 424
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ، خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1954ء میں پھیلا ئیں.اور ہم لٹریچر زیادہ تعداد میں اس وقت تک شائع نہیں کر سکتے ، جب تک کہ ہمارے پاس ماہر مصنفین نہ ہوں اور پھر اعلیٰ زبان دان مترجم نہ ہوں اور جرمن فرانسیسی ، انگریزی ، اٹالین، سپینش ، جاپانی، چینی اور دوسری زبانوں کے جاننے والے موجود نہ ہوں.اور اس کے لئے ہمیں نیا عملہ تیار کرنا پڑے گا ، جو ان زبانوں کا ماہر ہو.اور اس پر کافی روپیہ اور وقت لگے گا.پھر مصنفین کے لئے ہر قسم کے علوم کی کتب کی ضرورت ہوگی، جن سے وہ اپنی کتب میں مدد لیں.اس کے لئے میں کئی سال سے لائبریری میں کتابیں مہیا کر رہا ہوں اور دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت کی ہوئی ہے کہ انہیں جو اچھی کتاب ملے ، اس کے متعلق ہمیں تحریر کریں کہ ہم اسے لائبریری کے لئے خرید لیں.یہ لائن آف ایکشن ہے، جو ہم نے قائم کی ہے.پہلے مبلغ جائیں گے اور وہ ایک اثر قائم کر دیں گے، پھر لٹریچر کی باری آئے اور اس لٹریچر کے تیار کرنے کے لئے دو طرح کے آدمی درکار ہیں، اول ، وہ جو لکھنا جانتے ہوں ، دوسرے، وہ جو مختلف زبانیں جانتے ہوں.تا کہ ان میں کتب کا ترجمہ کریں.کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر زبان جاننے والا اچھا لکھ بھی سکتا ہو.پھر ان کے لئے اسلام اور غیر مذاہب کی کتب کی ضرورت ہوگی، جن کا کئی سال سے ذخیرہ جمع کیا جارہا ہے.یہ لائن آف ایکشن تھی، جو میرے ذہن میں تھی.پہلا دور ختم ہو گیا ہے، دوسرا دور شروع ہے.اگر اس وقت تم ہمت نہیں کرو گے تو پہلا کام بھی بے کار جائے گا.اور اگر ہمت کرو گے تو مبلغ مسلح ہو کر باہر جائیں گے، ان کے ساتھ قرآنی تفسیر کے ذخائر ہوں گے، جن سے قلوب کو فتح کیا جاسکتا ہے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ قرآنی گولہ بارود کے سامنے کوئی قلعہ نہیں ٹھہر سکتا.ہمارا کام ہے کہ ہم یہ گولہ بارود مبلغین تک پہنچائیں اور تمہارا کام ہے کہ تم اس میں مدد دو.اگر تم اس وقت قربانی کرو گے اور سستیاں دور کر دو گے تو تم ہمیں اس قابل بنا دو گے کہ ہم مبلغین کو سامان کثرت سے دیں تا تبلیغ کا دائرہ وسیع کیا جا سکے.( مطبوعه روزنامه الفضل یکم دسمبر 1954 ء ) 425
تحریک جدید - ایک الہی تحر - جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء اگر تم قومی لحاظ سے جوان رہنا چاہتے ہو تو ہر روز اپنی قربانی بڑھانی پڑے گی خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے گزشتہ جمعہ تحریک جدید کے نئے سال کے متعلق اعلان کیا تھا.چونکہ وعدوں کی آخری تاریخیں مجھے یاد نہیں تھیں، اس لئے میں نے اعلان کیا تھا کہ وعدوں کی آخری تاریخیں پچھلے سال کی تاریخوں کے مطابق ہوں گی اور بعد میں شائع کر دی جائیں گی.لیکن افسوس ہے کہ محکمہ متعلقہ نے اس کی اہمیت کو نہ سمجھا.نہ اس نے خطبہ نویس کو تاریخیں لکھوائیں اور نہ بعد میں اخبار میں اعلان کرایا.مومن کو اپنے کاموں میں ہوشیار ہونا چاہئے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں جلدی اور احتیاط سے کام کرنا چاہیئے.احتیاط اس لئے کہ اگر ہم اپنے اندازے میں غلطی کر جائیں اور کام کے بعض پہلو ترک کر دیں تو ہمیں صحیح نتیجہ کی امید نہیں ہو سکتی اور جلدی اس لئے کہ یہ زمانہ جلدی کرنے کا ہے، دنیا دوڑ رہی ہے.جب تک ہم دنیا کے ساتھ ایسی رفتار کے ساتھ نہ دوڑیں کہ ہماری رفتار اس سے تیز ہو، اس وقت تک ہمیں کسی اچھے نتیجہ کی امید نہیں ہوسکتی.اب میں اعلان کرتا ہوں کہ مغربی پاکستان کے لئے آخری تاریخ وعدے بھجوانے کی 23 فروری ہوگی اور مشرقی پاکستان کے لئے آخری تاریخ 31 مارچ ہوگی.اور بیرونی ممالک، جہاں کی مقامی احمد یہ آبادی ہندوستانی یا پاکستانی ہے، ان کی آخری تاریخ 30 اپریل اور باقی بیرونی ممالک کے لئے 30 جون.میں نے گزشتہ جمعہ یہ اعلان تو کر دیا تھا کہ نئے سال میں احباب تحریک جدید کی طرف زیادہ توجہ کریں اور پہلے سالوں سے بڑھ چڑھ کر وعدے لکھوائیں.لیکن دو باتیں ایسی ہیں ، جن کی طرف میں آج جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ہے تو ہمارے کام نے ہر سال بڑھنا ہے.اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے گزشتہ ارادوں، امیدوں اور پروگراموں کو پورا نہ کیا تو آئندہ ان کے پورا کرنے کی امید کم ہی کی جاسکتی ہے.سب سے پہلے میں اس بات کو لیتا ہوں کہ ہمیں اپنے بڑھنے کا خیال رکھنا چاہئے.اور یہ بات کبھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ جو کام ہم نے شروع کیا ہے، اگر یہ ترقی کی طرف مائل ہے تو لاز مادہ بڑھے گا.اگر 427
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلدسوم ہم صرف اس بات پر کفایت کر لیں کہ جس طرح ہم پہلے تھے، آئندہ بھی ہم اسی طرح رہیں گے ، ہم بڑھیں گے نہیں تو یہ امر ہماری جماعت کے بڑھاپے پر تو دلالت کر سکتا ہے، اس کی جوانی پر دلالت نہیں کر سکتا.انسان کے اوپر تین قسم کے دور آتے ہیں.پہلا دور انسان کے پیدا ہونے اور اس کے ترقی کرنے کا دور ہوتا ہے.اس دور میں ہمیشہ آج کی حالت کل کی حالت سے بہتر ہوگی اور آج کی ذمہ داریاں کل سے زیادہ ہوتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج سے ہم جسمانی طور پر 24 گھنٹے مراد نہیں لے سکتے.انسانی زندگی کی بڑھوتی میں بعض دفعہ ایک دن، چھ ماہ کا ہوتا ہے، بعض دفعہ ایک سال کا ہوتا ہے اور بعض دفعہ پندرہ یا میں سال کا ہوتا ہے.اسی طرح انسانی زندگی میں بعض تغییرات ایسے ہوتے ہیں، جو تین ، چار ماہ کے عرصہ میں ہو جاتے ہیں.مثلاً بچپن کی عمر میں پہلا تغیر انسان کے اندر بولنے ، چلنے اور دانت نکالنے کا ہوتا ہے.ان سارے تغیرات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک محدود وقت میں ہونے لگ جاتے ہیں.اور بعض بچے ایسے ہوتے ہیں، جو پہلے بولنے لگ جاتے ہیں اور بعض بچے پہلے چلنے لگ جاتے ہیں.ایک غریب سے غریب گھر میں بھی، جو بچوں کے لئے گڑیاں بھی نہیں خرید سکتا ، بچہ غوں غوں کرتا ہے تو دوسرے بچے شور مچادیتے ہیں کہ ننھا غوں غوں کر رہا ہے.یاوہ سر اٹھانے لگ جاتا ہے تو دوسرے بچے شور مچادیتے ہیں کہ آج ننھا سر اٹھا رہا ہے.انہیں سارے تغیرات نظر آتے ہیں.لیکن ہمیں نظر نہیں آتے.ہم کہتے ہیں کہ فلاں پیدا ہوا اور جواں ہوا، درمیانی تغیرات کا علم ہمیں نہیں ہوتا.لیکن ارد گرد کے رہنے والے اس کے معمولی معمولی تغییرات کو بھی محسوس کرتے ہیں.مثلاً بچہ خوں خوں کرتا ہے تو ارد گر دوالے کہتے ہیں، نھا غوں غوں کر رہا ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کل تک اس نے غوں غوں نہیں کیا تھا.یا اگر بچہ منہ میں انگوٹھا ڈالتا ہے تو اس کے قریب رہنے والے کہتے ہیں، ننھے نے اپنا انگوٹھا منہ میں ڈالا ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ترقی اس نے آج کی ہے، کل تک اس نے منہ میں انگوٹھا نہیں ڈالا تھا.پھر ایک اور زمانہ آتا ہے، جب بچہ اپنا سر اٹھانے لگ جاتا ہے.ارد گر دوا لے اس کے اس تغیر کو بھی محسوس کرتے ہیں.جس وقت بچے کے اعصاب مضبوط ہو جاتے ہیں اور وہ لوگوں کو اردگرد چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ بھی اپنی گردن اونچی کرتا ہے اور قریب کھیلنے والے بچے شور مچاتے ہیں کہ آج ننھے نے گردن سیدھی کی ہے.اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ آج سے قبل اس نے ایسا نہیں کیا تھا، یہ ترقی اس نے آج کی ہے.پھر بچہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ بیٹھنے لگ جاتا ہے اور اپنی کمر ایک حد تک سیدھی کر لیتا ہے تو بچے شور مچاتے ہیں کہ ننھا بیٹھ گیا ہے.اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس نے یہ ترقی آج کی ہے.پھر ان تغیرات کے ساتھ 428
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء ساتھ حالات میں بھی تغیر ہوتا ہے.جب بچہ اتنی چھوٹی عمرکا ہوتا ہے کہ وہ صرف چار پائی پر لیٹار ہے تو ماں کو چوبیس گھنٹہ اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور یہ خیال بھی صرف اس حد تک ہوتا ہے، جس حد تک بچے کے لیٹنے کا سوال ہوتا ہے.پھر بچہ کچھ بڑا ہو جاتا ہے اور اپنے منہ میں انگوٹھا ڈالنے لگ جاتا ہے تو جن لوگوں کو توفیق ہوتی ہے، وہ اپنے بچوں کو چوسنی لے دیتے ہیں تا وہ اسے مسوڑھوں کے نیچے دبا تار ہے.انگوٹھا چوسنے کی خواہش طبعی ہوتی ہے کیونکہ اس وقت مسوڑھوں میں خراش پیدا ہوتی ہے اور انگوٹھا چوسنا یا چوسنی منہ میں رکھنا، دانتوں کے نکلنے اور ان کے بڑھنے میں مدد دیتا ہے.اب یہ چوسنی کا خرچ زائد ہو جاتا ہے، پہلے یہ خرچ نہیں ہوتا تھا.پھر بچہ اور بڑا ہوتا ہے، مثلاً وہ سر اٹھانے لگ جاتا ہے تو تکیوں کی ضرورت پیش آتی ہے تا اس کو سراٹھانے میں تکلیف نہ ہو، تکیہ رکھ کر اس کے سر کو بلند کر دیا جاتا ہے اور اس طرح سراٹھانے میں اسے سہولت ہو جاتی ہے.پھر اس سے بڑا ہوتا ہے تو گر میلوں اور تکیوں کی ضرورت ہوتی ہے تا بچہ بیٹھنے لگ جائے.اور جب بچہ اور بڑا ہوتا ہے تو گھر والے اسے ایک دو پیسے کی گاڑی بنوادیتے ہیں، جو بوجھ پڑنے پر آگے چلنے لگ جاتی ہے.تاکہ اس طرح اسے اپنے پاؤں ہلانے اور چلنے کی عادت پڑے.اس کے بعد وہ اور بڑا ہوتا ہے تو اس کے لباس کا خیال رکھا جاتا ہے.ماں باپ سمجھتے ہیں کہ اب اسے پاجامہ، سلوار یاتہ بند بنادینا چاہئے ، سردیوں میں جراب کا استعمال شروع کر دیا جاتا ہے.پھر ایک زمانہ بڑھنے کا ایسا آتا ہے، جب ہر چھ ماہ کے بعد پہلا لباس چھوٹا ہو جاتا ہے.جن گھروں میں بچے زیادہ ہوتے ہیں ، وہ ا عموما اس قسم کے کپڑے سنبھال کر رکھ لیتے ہیں تا دوسرے بچوں کے کام آئیں.قومی ترقیات بھی اسی طرح چلتی ہیں.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک قوم ایک دن میں ہی پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ہو.قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ نئی مذہبی قوم اس وقت کھڑی کی جاتی ہے، جب دنیا میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.جیسے فرمایا:.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس وقت بر و بحر میں فساد پیدا ہو گیا تھا اور یہی حالت ہمیشہ انبیاء کی بعثت کے وقت رہی ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيْهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوْا بِهِ يَسْتَهْزِءُوْنَ کہ جب بھی کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے تو اس کے خیالات چونکہ رائج الوقت خیالات سے مختلف ہوتے ہیں اور لوگوں کو مجنونانہ باتیں معلوم ہوتی ہیں، اس لئے لوگ ان پر مذاق اڑاتے ہیں.اور سمجھتے ہیں کہ 429
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم بھلا کوئی شخص اس کی باتوں کو معقول سمجھ سکتا ہے.غرض کوئی نئی جماعت، خصوصاً الہی جماعت ، اسی وقت بنتی ہے، جب زمانہ میں فساد اور خرابی پیدا ہو جائے.اور جب فساد اور خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو کوئی قوم یکدم نہیں بن سکتی بلکہ اس پر ایک وقت لگتا ہے.آخر جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی رسول ایسا نہیں آتا ، جس پر اس زمانہ کے لوگ استہزاء نہیں کرتے تو ظاہر ہے کہ مذاق کسی بڑی قوم کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دولاکھ میں سے لاکھ ، ڈیڑھ لاکھ ہو جا تا یا دوکروڑ میں سے ایک کروڑ یا ڈیڑھ کروڑ لوگ ہو جاتے تو باقی لوگوں میں اتنی ہمت ہی کہاں ہو سکتی تھی کہ وہ ان پر استہزاء کرتے ؟ مذاق اسی لئے کیا جاتا ہے کہ وہ قوم دوسروں سے چھوٹی ہوتی ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کولوگ شرذمة قلیلون کہتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چند لوگ ہیں، جو ترقی اور بیداری کی خواہیں دیکھ رہے ہیں.جن کے مقاصد کو یہ لوگ پیش کر رہے ہیں، ان کے لئے تو ایک مضبوط قوم کی ضرورت ہے.یہ چند آدمی اس کام کو کس طرح کر سکتے ہیں؟ غرض انبیاء کی جماعتیں ہمیشہ چھوٹی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تو ان کی تعداد اتنی قلیل ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض انبیاء کوصرف ایک ایک شخص نے مانا.اب اس ایک شخص کا دوسرے لوگوں پر کیا رعب پڑسکتا تھا؟ بعد میں یہ جماعتیں آہستہ آہستہ بڑھنا شروع کرتی ہیں اور ان کے افراد ایک سے دو، دو سے تین اور تین سے چار ہو جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ سے زیادہ محفوظ تاریخ اور کسی نبی کی نہیں.حضرت نوح، ابراھیم ہوئی اور عیسی علیهم السلام کی تاریخیں کسی حد تک محفوظ ہیں.لیکن زیادہ تر قابل اعتبار وہی حالات ہیں، جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں، باقی تاریخ زیادہ روشن نہیں.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایسی ہے، جو ایک کھلی کتابکی طرح ہے.جس طرح آپ کو سورۃ فاتحہ ملی ، جو کھلے مضامین رکھنے والی ہے، اسی طرح آپ کو زندگی بھی وہ ملی ، جو کھلی کتاب کے طور پر تھی.آپ نے بیویوں سے پیار کیا تو وہ بھی تاریخ میں موجود ہے.آپ نے تھو کا، نہایا، وضوکیا، پیشاب کیا، پانی پیا یا یا کھانا کھایا تو وہ بھی تاریخ میں محفوظ چلا آتا ہے.غرض آپ کی تاریخ بھی فاتحہ ہے اور آپ کی زندگی بھی فاتحہ ہے.دشمن اگر اعتراض کرتا ہے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ تم اس لئے اعتراض کرتے ہو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کھلی کتاب کے طور پر ہے.اگر آپ کی زندگی بھی حضرت موسیٰ یا حضرت عیسی علیهما السلام کی زندگی کی طرح بند کتاب کی طرح ہوتی تو تمہیں اعتراض کرنے کا موقع میسر نہ آتا.پس آپ کی زندگی پر اعتراضات کی کثرت اس بات کی علامت نہیں کہ آپ پر دوسرے انبیاء کی نسبت زیادہ اعتراضات 430
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء ہوئے ہیں بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب کے طور پر ہے.ایک عورت نے برقعہ پہنا ہو تو اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس چہرہ پر برص ہے یا نہیں ، یا وہ کیلوں سے بھرا ہوا ہے یا نہیں، اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی ایک آنکھ ہے یا نہیں ، یا وہ بھینگی ہے یا نہیں.لیکن اگر کسی کا چہرہ کھلا ہوا ہوتو لوگ اس پر کئی اعتراضات کر سکتے ہیں.لیکن ہم اس کا مقابلہ ایک برقع پوش عورت سے نہیں کر سکتے.یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں برقع پوش عورت کے مقابلہ میں اس غیر برقع پوش عورت پر زیادہ اعتراضات ہوئے ہیں.اگر کوئی غیر برقع پوش عورت کا مقابلہ برقع پوش عورت سے کرتا ہے تو وہ پاگل ہے.اسی طرح ہم کہیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے، جیسے ایک غیر برقع پوش عورت کی مثال، برقع پوش عورت کے مقابلہ میں ہوتی ہے.آپ کی زندگی سورج کی طرح ہے، اس کا ہر پہلو نظر آ سکتا ہے.لیکن دوسرے انبیاء کی زندگیاں بند کتاب کے طور پر ہیں.پس آپ کی زندگی ہمارے لئے ایک نمونہ ہے.جب آپ نے دعوئی فرمایا تو ابتداء میں صرف ایک شخص (یعنی حضرت ابو بکر ) آپ پر ایمان لایا.وہ لوگ جنہوں نے بعد میں اسلام میں بڑے بڑے درجات حاصل کئے ، ان میں بھی بعض ایسے تھے، جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں آپ کی سخت مخالفت کی.مثلاً خلافت کے زمانہ میں سب سے زیادہ روشن زمانہ حضرت عمر کی خلافت کا ہے.لیکن آپ بھی ایک عرصہ تک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے رہے ہیں.پھر آپ کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی بہترین اسلامی کمانڈر خالد بن ولید تھے.لیکن آپ بھی ہجرت کے بعد چھ سال تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرتے رہے.پھر جب خلافت میں تنزل آیا تو اس کی گری ہوئی عمارت کو سنبھالنے والے معاویہ تھے.لیکن آپ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں ایمان لائے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی زندگی میں صرف 80، 90 آدمی آپ پر ایمان لائے تھے.بعض کے نزدیک ان کی تعداد 200، 300 تک تھی.اب دیکھو، ایک شخص جو 13 سال تک یہ دعویٰ کرتارہا کہ وہ ساری دنیا کو فتح کرلے گا، وہ یہ اعلان کرتا رہا کہ اس کی جماعت آخر غالب آئے گی اور اس کی پیش کردہ تعلیم دوسری سب تعلیموں پر غالب آئے گی ، اس کی جماعت میں اگر 13 سال کے لیے عرصہ میں 200 یا 300 آدمی داخل ہو گئے تو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ یہ ایسی چیز نہیں، جس کے ذریعہ دنیا کو فتح کیا جا سکے.ہاں ایک چیز ضرور تھی اور یہی انبیاء کی سچائی کی علامت ہوا کرتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نصرت بالرعب مسيرة شهر یعنی جہاں ایک 431
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم مسافر ایک ماہ میں پہنچ سکتا ہے، وہاں تک خدا تعالیٰ نے میر ا رعب پہنچا دیا ہے.چنانچہ آپ کے ابتدائی 13 سالوں میں آپ کی آواز حبشہ نجد اور اردگرد کے علاقہ میں پہنچ گئی تھی.حضرت مسیح موعود کو بھی دیکھ لو، آپ کے ماننے والے بھی ابتداء میں 50 ، 60 ہی تھے.لیکن سارے ہندوستان میں ایک شور مچ گیا تھا، مکہ تک سے کفر کے فتوے آگئے تھے.حالانکہ " کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ.آپ کے ماننے والے پچاس، ساٹھ کی تعداد میں تھے، اس سے گھبرانے کی کون سی وجہ تھی ؟ اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ شیر کا بچہ ، پہلے دن بھی شیر کا بچہ ہوتا ہے اور بھیڑ کا بچہ سو سال کے بعد بھی بھیڑ کا ہی بچہ ہوتا ہے.وگوں کو اس قلیل جماعت میں بھی ایک شان نظر آتی تھی، اس لئے دوسرے لوگ اس کے مخالف ہو گئے.ایک دفعہ ایک مدعی نبوت نے مجھے لکھا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ میں نے آپ کو اتنے خطوط لکھے ہیں اور اتنے رسالے بھیجے ہیں لیکن آپ نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا، آپ کم سے کم ان کی نے تردید تو کر دیں.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ مجھے مان لیں لیکن اس قدر تو کریں کہ ان کی تردید کر دیں.میں نے سمجھا کہ اب اس خط کا جواب مجھے ضرور دینا چاہئے.چنانچہ میں نے اسے لکھا کہ یہ تردید بھی قسمت والوں کو میسر آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ لو، آپ نے دعوی کیا تو سارے لوگ آپ کے خلاف کھڑے ہو گئے.لیکن ہم تمہاری کتابوں اور رسالوں کی تردید بھی نہیں کرتے.یہ ثبوت ہے، اس بات کا کہ تمہارے ساتھ خدا تعالیٰ نہیں.لوگ کہتے ہیں، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات.جب کوئی تعلیم پھیلنے والی ہوتی ہے تو اس میں جامعیت پائی جاتی ہے اور لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اس تعلیم میں وہ خوبیاں موجود ہیں، جو دوسرے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیں گی.لیکن جس تعلیم میں یہ خوبیاں موجود نہ ہوں، اس میں جامعیت نہ پائی جاتی ہو تو لوگ سمجھتے ہیں، یہ ردی چیز ہے، اس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں.فرض کرو ایک آدمی ایک انچ کی دھجی اعلی قسم کی ریشم کی لے آئے تو کیا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ وہ اس سے قمیص تیار کر لے گا ؟ اس طرح اگر کوئی خاص مسئلہ لے کر کھڑا ہو جائے یا کسی اقتصادی نکتہ کے متعلق اپنی تعلیم پیش کرے تو چاہے وہ کتنا ہی اعلیٰ ہو ، وہ مذہب نہیں کہلا سکتا.اعلیٰ قسم کا مذہب وہی ہو سکتا ہے، جس سے زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایت ملتی ہو.اگر کوئی مذہب زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایت نہیں دے سکتا تو لوگ اسے قبول نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق لوگوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ آپ کی باتیں مولویوں والی نہیں.مولوی ایک بات کو لے لیتے ہیں اور اس پر سارا زور لگا دیتے ہیں.مثلاً بعض اس بات پر 432
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہی سارا زور لگا دیتے ہیں کہ کو احلال ہے یا نہیں؟ اب اگر کو احلال ثابت ہو جائے اور لوگ اسے کھانا شروع کر دیں، تب بھی اس سے کیا ہوگا؟ لیکن آپ نے وہ تعلیم پیش کی ، جس میں زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایت ملتی تھی.آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے پیش فرمودہ اصول کو دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کیا.اس لئے ہر شخص نے یہ سمجھ لیا کہ اب لوگ اس تعلیم کی طرف متوجہ ہو جائیں گے.پہلوں کے پاس نہ دونیاں ہیں، نہ چونیاں ہیں، نہ اٹھنیاں ہیں، نہ روپے اور نوٹ ہیں، پھر انہیں صراف کیسے کہا جا سکتا ہے؟ صراف کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس دونیاں، چونیاں، اٹھنیاں اور روپے وغیرہ موجود ہوں.اس کے پاس نوٹ ہوں، اشرفیاں ہوں ، صرف چند پیسے پاس ہونے سے اسے صراف نہیں کہا جا سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آئے تو ابتدائی 13 سالوں میں 80،90 یا بعض روایات کے مطابق 200 ، 300 لوگ آپ پر ایمان لائے لیکن آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی.حبشہ اور نجد تک آپ کی تعلیم پہنچ چکی تھی اور امراء، رؤساء، فقہاء اور بادشاہوں نے آپ کی طرف توجہ شروع کر دی تھی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ لو، آپ کے ماننے والوں کی تعداد ابتداء میں 60، 50 تھی لیکن آپ کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی.اس کے مقابلہ میں جن لوگوں نے دعوی کیا ، ان کو اپنے علاقہ سے باہر کوئی جانتا بھی نہیں تھا.اس قسم کے لوگوں کو خواہ پچاس، ساٹھ مان بھی لیں ، ان کے متعلق لوگ یہ احساس بھی نہیں کرتے کہ وہ دنیا میں کوئی تغیر پیدا کر لیں گے.یہ لوگ روزانہ لکھتے ہیں کہ اب قیامت آجائے گی.لیکن عملی طور پر ایک چار پائی بھی نہیں بلتی اور دنیا میں کوئی منفی یا مثبت تغیر پیدا نہیں ہوتا.یہی ثبوت ہے، اس بات کا کہ ان کی مثال بھیڑیے کے چمڑے میں بھیٹر کی سی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے اگر چہ تھوڑے تھے لیکن لوگوں میں ان کی وجہ سے گھبراہٹ بہت زیادہ تھی.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی تعلیم دنیا کو کھا جائے گی.اسی طرح ہماری جماعت کو دیکھ لو مخالف بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں عوام کو بھڑکاتے ہیں، فتوے دیتے ہیں لیکن دنیا ڈرتی ہم سے ہی ہے.اگر چہ ہم انہیں تسلیاں دیتے ہیں اور یہ کہتے کہتے تھک جاتے ہیں کہ ہم تمہارے دشمن نہیں تمہارے خیر خواہ ہیں.لیکن پھر بھی وہ تسلی اور اطمینان نہیں پکڑتے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ تعلیم اس قسم کی ہے کہ جہاں بھی جائے گی ، لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے اور اگر ہمارے ارد گرد کے لوگوں نے ان کی باتیں سن لیں تو وہ ہمیں چھوڑ کر اس تعلیم کو قبول کر لیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے پہلے اسلام پر ہر طرف سے اعتراضات ہو رہے تھے.کیا یہودیت اور عیسائیت اور کیا ہندو مذہب ہر ایک کے ماننے والے اسلام پر حملہ آور ہورہے تھے.433
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا مقابلہ کیا.مسلمانوں نے بھی آپ کی مخالفت کی اور یہ نہ سمجھا کہ آپ ان کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں.لیکن اب ہماری یہ حالت ہے کہ کوئی ماں کا بچہ ایسا نہیں ، جو اسلام پر کوئی اعتراض کر سکے اور پھر اس کا جواب نہ دیا جا سکے.پس تم نے ترقی کی طرف ایک قدم اٹھایا ہے.بیج تمہارے پاس ہے، جو بویا گیا ہے.اور پھر وہ زمانہ تمہیں ملا ہے، جس میں تمہاری ترقی لازمی ہے.جس طرح پانچ ، چھ سال کا بچہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے بڑھنا نہیں، باوجود اس کے کہ اس کا ارادہ شامل نہیں ہوتا، پھر بھی وہ بڑھتا جاتا ہے ، اسی طرح خدا تعالیٰ نے تمہارے اندر ایسی روح پیدا کر دی ہے کہ تم نے بہر حال بڑھنا ہے، چاہے تمہارا ارادہ اور عزم ساتھ شامل ہو یا نہ ہو.پھر جس طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ پانچ ، چھ سال کے بچہ کالباس 8،9 سال کی عمر کے بچہ کو پورا آسکے ، اسی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ تمہارے پچھلے سال کا چندہ اگلے سال کے لئے کافی ہو.جب تک تم پہلے سے زیادہ قربانی نہیں کرو گے، جب تک تم اپنے چندے کو پہلے سالوں سے زیادہ نہیں بڑھاؤ گے، جب تک تم چندہ دینے والوں کی تعداد ہر سال بڑھاتے نہیں جاؤ گے، تمہارا لباس تمہارے جسم پر بے جوڑ معلوم ہوگا.اگر کوئی لمبا شخص کسی چھوٹے بچے کا لباس پہننا چاہے تو اول تو وہ پہنتے پہنتے پھٹ جائے گا اور اگر وہ کسی طرح اس کو پہن بھی لے تو وہ صرف ناف تک یا اس کے اوپر تک آئے گا، باقی جسم نگارہ جائے گا ، اسی طرح تمہارے ساتھ ہو گا.اگر تمہاری شہرت کے مقابلہ میں تمہارا کام اور تمہارا چندہ کم ہو تو سب دیکھنے والوں کو تمہارا یہ عیب نظر آئے گا.تمہارا کام آج ہر قوم کے سامنے ہے.جس طرح ایک کرتا قد کے برابر نہ ہو تو وہ ہر شخص کو برا نظر آتا ہے، اسی طرح اگر تمہاری قربانی اور تمہارے چندے تمہارے کام کی نسبت سے تھوڑے ہوں گے تو تمہارا یہ عیب ہر شخص کو نظر آئے گا.کوئٹہ میں ایک فوجی افسر میرے پاس آیا اور اس نے کہا، میں ایک جگہ پر گیا ، وہاں آپ کی جماعت کا ایک مبلغ تھا اور وہ بہت اچھا کام کر رہا تھا.لیکن میں نے دیکھا ہے نہ اسے اچھا لباس میسر تھا اور نہ اچھا کھا نا ملتا تھا.اور اسے ہر بڑے شخص سے ملنا پڑتا تھا.اگر آپ اسے اچھا لباس مہیا نہیں کر سکتے اور اچھا کھانا نہیں دے سکتے تو وہ تبلیغ کا کام کیسے کرے گا؟ ایک شخص نے مجھے اس سے پہلے بھی مجھے لکھا تھا ( شاید یہ وہی شخص تھا، جو بعد میں مجھے کوئٹہ میں ملا.کہ میں سنگا پور سے آیا ہوں ، وہاں آپ کے مبلغ کام کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ انہیں اچھا کھانا اور اچھا لباس نہیں مل رہا، وہ فقیروں کی طرح رہتے ہیں.میں احمدی تو نہیں لیکن ان کی حالت دیکھ کر اس 434
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء قدر متاثر ہوا ہوں کہ آپ کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں.اگر آپ وہاں کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مبلغوں کو اچھا کھانا اور اچھا لباس تو مہیا کریں.اس شکایت کرنے والے دوست کو تو ہمارے مبلغین کا ظاہری لباس اور ظاہری کھانا نظر آیا.اور مجھے یہ فکر ہے کہ ہم اپنے مبلغین کو باطنی کھانا بھی مہیا نہیں کر رہے.ہمارے ہر مبلغ کے پاس سینکڑوں کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری ہونی چاہئے.تاکہ وہ ایک وقت میں سو، دوسو آدمیوں کو مطالعہ کے لئے کتب دے سکے.بلکہ پوری طرح توجہ دلانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس ایک، ایک کتاب کے دس دس، پندرہ پندرہ نسخے ہوں.تا ایک ہی وقت میں ایک کتاب سے ایک سے زیادہ آدمی فائدہ اٹھا سکیں.اگر ہر مشن میں سو کتا نہیں ہوں اور ان کے پندرہ، پندرہ نسخے ہوں تو پندرہ سو کتاب تو یہی بن جاتی ہے.پھر کئی لوگ ایسے آجاتے ہیں، جو تفسیر ، حدیث یا کسی اور مضمون کی کتاب لینا چاہتے ہیں.تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ہر مبلغ کے پاس دو، تین ہزار کتب کی لائبریری ہو.جو شخص ملنے کے لیے آتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے گا اور باتیں سنے گا اور پھر چلا جائے گا.لیکن اگر ہم اسے کوئی کتاب دے دیں تو وہ گھر میں بھی اسے پڑھتارہے گا اور اس طرح تبلیغ سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے گا.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ سرحد کے ایک رئیس خان فقیرمحمد خان صاحب آف چارسدہ مرحوم ایگزیکٹیو انجینیر (بعد میں وہ سپرنٹنڈنٹ انجینئر ہو گئے.ایک دفعہ مجھے دہلی میں ملے.انہوں نے مجھے سے ذکر کیا کہ میرے بھائی محمد اکرم خاں صاحب احمدی ہیں.میں سیر کے لئے انگلستان جارہا ہوں.انہوں نے چلتے چلتے بعض کتابیں میرے ٹرنک میں رکھ دی ہیں.میری ایک لڑکی کی منگنی ان کے لڑکے سے ہوئی ہے.ویسے بھی مجھے ان کا بڑا ادب ہے کہ وہ میرے بڑے بھائی ہیں.میں نے انہیں کہا، آپ نے کیا کیا ہے، میں تو سیر کے لئے جارہا ہوں، ان کتابوں کے پڑھنے کا کہاں موقع ہوگا ؟ مگر وہ مانے نہیں اور کہا، کہیں خیال آیا تو انہیں پڑھ لینا.میں نے کہا، اچھا رکھ دو.ولایت جا کر انہوں نے مجھے ایک چھٹی لکھی ، اس کے شروع میں یہ لکھا تھا کہ شاید آپ مجھے نہ پہچانیں، میں اپنی پہچان کے لئے لکھتا ہوں کہ میں وہ ہوں ، جو آج سے تین ماہ پہلے آپ سے دلی کے شاہی قلعہ میں ملا تھا اور میں نے آپ سے کہا تھا، ہماری دو والدہ تھیں اور ہر ایک والدہ سے ہم دو، دو بھائی ہیں.ان میں ایک، ایک ہم نے آپ کو دے دیا ہے اور ایک، ایک غیر احمدیوں کو دے دیا ہے.اس طرح ہم نے پورا پورا انصاف کیا ہے.روپیہ میں سے اٹھنی آپ کو دی ہے اور اٹھنی دوسرے مسلمانوں کو.اور آپ نے بھی غذا قاآیہ کہا تھا کہ ہم تو اٹھنی پر راضی نہیں ہوتے ، ہم تو پورا روپیہ لے کر چھوڑا کرتے ہیں.سو 435
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلدسوم اب ایک اور چونی آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور اپنے آپ کو آپ کی بیعت میں شامل کرتا ہوں.انہوں نے لکھا، میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میرے بھائی محمد اکرم خان صاحب نے کچھ کتابیں میرے ٹرنک میں رکھ دی تھیں، ہم پٹھان ہیں، ہم میں اسلام کی خدمت کا جوش ہوتا ہے.چاہے ہمیں کچھ آئے یا نہ آئے ، ہمارا ارادہ ضرور ہوتا ہے کہ ہم کسی کافر کو ماریں.وہی جوش مجھ میں بھی تھا.جب میں انگلستان پہنچا اور میں نے یہاں مختلف مقامات کی سیر کرنی شروع کی تو چونکہ میں گورنمنٹ کا ایک عہد یدار تھا، اس لئے مجھے بعض اداروں کے دیکھنے کا موقع بھی ملا.میں نے دیکھا کہ ہمارے ایک کارتوس کے مقابلہ میں ان کے پاس لاکھوں بلکہ کروڑوں کارتوس اور ایک بندوق کے مقابلہ میں لاکھوں بندوقیں ہیں اور طرح طرح کے ترقی یافتہ ہتھیار ہیں.ہمارے ہاں طیاروں کا نام و نشان نہیں لیکن ان کے پاس بڑی تعداد میں طیارے ہیں.پھر اس ملک کے کارخانوں کے مقابلہ میں ہمارے پاس کوئی چیز نہیں.یورپ کی اس ترقی کو دیکھ کر میرے دل میں مایوسی پیدا ہوئی اور یقین ہو گیا کہ اب اسلام دنیا پر غالب نہیں آسکتا.اپنی اس کمزوری اور مجبوری کے ہوتے ہوئے ، ہم اتنے بڑے ترقی یافتہ دشمن کا مقابلہ کس طرح کریں گے؟ تلوار سے مارنے کے لئے ضروری ہے کہ دوسرا شخص کمزور اور نہتا ہو.لیکن یہاں تو یہ ہے کہ ہم کمزور اور نہتے ہیں اور دشمن ہم سے کئی گنازیادہ طاقتور ہے.میری حالت پاگلوں کی سی ہوگئی.کل شام کو گھر آیا تو مایوسی کی حالت میں، میں نے گھر والوں سے کہا کہ محمد اکرم خاں نے بعض کتب میرے ٹرنک میں رکھی تھیں، وہ دو، شاید ان سے مجھے تسلی مل سکے.اتفاق سے آپ کی کتاب دعوۃ الا میر" میرے ہاتھ آئی.اس کے ابتداء میں اتفاقا یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اسلام جب شروع ہوا تو اس کے متعلق کوئی شخص یہ امید نہیں کر سکتا تھا کہ جیت سکے.لیکن ان مخالف حالات کے باوجود اسلام جیت گیا.پھر جب اسلام جیت گیا تو کوئی شخص یہ خیال نہیں کر سکتا تھا کہ یہ گرے گا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی پیشگوئیاں ایسی موجود تھیں کہ اسلام پر ایک وقت ایسا آئے گا، جب اس کے پاس مقابلہ کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی.چنانچہ وہی ہوا، جس کا پیشگوئیوں میں ذکر تھا.یعنی اسلام باوجود طاقتور ہونے کے تنزل پا گیا.اس کے بعد آپ نے اسلام کی ترقی کے متعلق بہت سی پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئیاں پوری ہو گئیں، جو اسلام کے تنزل کے متعلق تھیں تو وہ پیشگوئیاں کیوں پوری نہیں ہوں گی، جو اسلام کے دوبارہ غلبہ کے متعلق ہیں؟ جن سامانوں کو سو سال پیشتر خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر آج سے 1300 سال قبل کر دیا.جس مایوسی کا تم آج سے سوسال قبل اندازہ بھی نہیں کر سکتے تھے، آج سے 1300 سال قبل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس 436
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سو خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء سے ہوشیار کر دیا.آپ نے فرمایا، ایک شخص رات کو مومن سوئے گا، صبح کو کا فرا اٹھے گا.اور دن کو مومن ہوگا لیکن رات کو کافرسوئے گا.خاں فقیر محمد صاحب نے لکھا کہ میں جوں جوں اس کتاب کو پڑھتا جاتا تھا ، سارا نقشہ میرے سامنے آتا جاتا تھا.اور میں نے سمجھ لیا کہ میری مایوسی غلط تھی.میری بیوی نے کہا ، اب تم آرام کرلو، کہیں پاگل نہ ہو جانا.مگر میں نے کہا، اب میں کتاب ختم کر کے سوؤں گا.اور ارادہ کر لیا کہ میں اس وقت تک سونے کے لئے اپنے بستر پر نہیں جاؤں گا، جب تک کہ آپ کو اپنی بیعت کا خط نہ لکھ لوں.چنانچہ سونے سے پہلے میں آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں، میری بیعت کو قبول کیا جائے.غرض ضروری ہے کہ ہم اپنے مبلغین کو بڑی تعداد میں لٹریچر مہیا کریں.اور اس کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہے.اور میں نے بتایا ہے کہ ہم مالی لحاظ سے کمزور ہونے کی وجہ سے نئے مبلغ نہیں بھیج سکتے.اسی طرح پرانے مبلغین کے لئے لائبریری کا انتظام بھی نہیں کر سکتے.یہ کام ہم نے نئے سرے سے کرنا ہے.ہر ملک میں کم از کم ایک، ایک کتاب کے سو سو نسخے ہوں تا کہ ایک وقت میں لاکھ ، ڈیڑھ لاکھ آدمی ہماری کتب پڑھ رہا ہو.اگر ہم اس قسم کا انتظام کر لیں تو لازمی بات ہے کہ سمجھدار سنجیدہ، شریف اور خدا تعالیٰ سے محبت رکھنے والے لوگ آنے شروع ہو جائیں گے.اور یہ کام بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ ہمارا قربانی کا قدم ہمیشہ آگے رہے.اگر ہم ایک جگہ پر ٹک جاتے ہیں تو ہماری وہی مثال ہوگی ، جیسے ایک نوجوان کو پانچ ، چھ سال کے بچے کا لباس پہنا دیا جائے وہ لباس یا تو پھٹ جائے گا اور اگر وہ پہنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو ناف سے اوپر ہی رہے گا.اور یہ بے جوڑ لباس نہ تمہیں اپنوں میں عزت دے سکتا ہے، نہ غیروں میں عزت دے سکتا ہے.اگر تم اپنوں اور بیگانوں میں عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ تم حوصلہ اور ہمت سے کام کرو.اگر تم خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں اور دے گا.پس میں دونوں دفتر والوں سے کہتا ہوں کہ تم سب ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.دفتر دوم کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ اس کی حالت نہایت افسوسناک ہے.ان کا قدم پیچھے کی طرف جارہا ہے.نوجوانوں کو تو بوڑھوں سے زیادہ تیز ہونا چاہئے تھا اور ان کا قدم دلیری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے تھا.اگر کوئی شخص مالی لحاظ سے یا ایمان کے لحاظ سے کمزور بھی ہو تو اسے چاہئے کہ وہ بناوٹ سے ہی ساتھ چلتا چلا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرہ کے لئے مکہ تشریف لے گئے اور حدیبیہ کے مقام پر آپ کو روک لیا گیا تو اس وقت آپ کے اور مشرکین مکہ کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ مسلمان اگلے سال عمرہ 437
خطبہ جمعہ فرموده 03 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کے لئے آجائیں، اس موقع پر مشرکین مکہ قریب کی پہاڑیوں پر چلے جائیں گے.چنانچہ اگلے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سمیت عمرہ کے لئے آئے.وہ موسم ملیریا کا تھا.مدینہ سے مکہ آتے ہوئے راستہ میں ملیریا کا علاقہ تھا.اسلامی لشکر اس علاقہ سے گزرا تو اس کی اکثریت ملیریا کی وجہ سے بیمار ہو گئی.ملیریا نے مسلمانوں کی ہڈیوں کو کھوکھلا کر دیا.ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ملیریا کی وجہ سے ہماری کمریں کبڑی ہوگئی تھیں، ہم اپنی کمریں سیدھی نہیں کر سکتے تھے.جب ہم طواف کرنے لگے تو مشرکین مکہ جبل ابو القبیس پر چلے گئے تھے اور وہاں بیٹھ کر مسلمانوں کی حالت کو دیکھ رہے تھے.یہ لوگ مسلمانوں کے رشتہ دار تھے ، معاہدہ کی وجہ سے وہ قریب آکر تو مل نہیں سکتے تھے.انہوں نے سمجھا کہ چلو دور سے ہی ان کی شکلوں کو دیکھ لیا جائے.ادھر مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ ملیریا کی وجہ سے ان کی کمریں کبڑی ہو چکی تھیں اور ان کے قدم ڈگمگارہے تھے.وہ صحابی کہتے ہیں ، میں طواف کرتے ہوئے کبڑا ہو کر چلتا تھا.لیکن جو نہی جبل ابو تنیس کے سامنے آتا تھا، اپنی کمر سیدھی کر لیتا اور اکڑ کر چلنے لگتا ، جب اس جگہ سے ہٹ جاتا تو پھر کبڑا ہو کر چلنے لگتا.جب میں نے طواف ختم کر لیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور میرا نام لے کر پوچھا تم یہ کیا کر رہے تھے تم جو نہی جبل ابو القبیس کے سامنے آتے تھے، اکڑ کر چلنے لگتے تھے؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ملیریا نے ہماری ہڈیاں کھوکھلی کر دی ہیں، ہم سے سیدھی کمر کر کے چلا نہیں جاتا.کافر ہماری حالت دیکھ رہے تھے.میں نے خیال کیا کہ اگر میں نے طواف کرتے ہوئے کوئی کمزوری دکھلائی تو کافر خیال کریں گے کہ ملیریا کی وجہ سے مسلمانوں کی طاقت زائل ہو چکی ہے اور اب وہ ہمارا شکار ہیں.چنانچہ جب میں ان کے سامنے سے گزرتا تھا تو اپنی کمر سیدھی کر لیتا تھا اور اکڑ کر چلتا تھا اور جب اس جگہ سے ہٹ جاتا تو کبڑا ہوکر چلنے لگتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اکڑ کر چلنا، خدا تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے.لیکن اس شخص کا اکڑ کر چلنا، خدا تعالیٰ کو بہت ہی پیارا لگا ہے.غرض بعض اوقات انسان اپنی کمزوری کی حالت میں بھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا.اگر تم قربانی کے لحاظ سے کمزور ہو یا مالی لحاظ سے کمزور ہو یا سخاوت کے لحاظ سے کمزور ہو ، تب بھی یہ دیکھ کر کہ اس وقت اسلام اور احمدیت کو تمہاری قربانی کی ضرورت ہے تم بناوٹ کے طور پر اکٹڑ کر چلو.گوتم دلی طور پر اس قربانی پر نا خوش ہو گے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت ہے، اس لئے تمہارا قبض سے قربانی کرنا، جو بظاہر ایک گناہ ہے، تمہارے لئے نیکی سے بھی بڑھ کر ثواب کا موجب ہوگا.کیونکہ تم اس بات کی بنیا درکھ رہے ہو کہ جو کام آج تم نے قبض سے کیا ہے، آئندہ تم اسے بشاشت سے کرو گے.کیونکہ ہر نیکی 438
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 ستمبر 1954ء دوسری نیکی کا پیش خیمہ ہوتی ہے.جس کام سے نیکی کی توفیق نہ ملے ، اس کے متعلق یہ سمجھ لو کہ وہ در حقیقت نیک کام نہیں تھا.اس طرح ہر وہ کام جو بظاہر سی معلوم نہ ہو ، اگر اس سے کسی نیکی کی توفیق مل جائے تو وہ بھی ثواب کا موجب ہوتا ہے.پس میں جماعت کے احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور زیادہ سے زیادہ وعدے لکھا ئیں اور پھر انہیں جلد پورا کریں.اسی طرح نئے نئے لوگوں کو تحریک کر کے اس تحریک میں شامل کریں.تمہارا چندہ ہر سال پہلے سے زیادہ ہونا چاہئے، کیونکہ تمہارا کام ہر سال بڑھے گا.جیسے 6،5 سال کے لڑکے کا لباس بڑی عمر والے آدمی کو پورا نہیں آتا، اسی طرح تمہاری اس سال کی قربانی اگلے سال کام نہیں آسکتی.اللہ تعالیٰ تمہیں بڑھا رہا ہے، جس طرح ایک بچہ بڑھتا جاتا ہے اور اس کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ وہ بڑھنے کو روک سکے، اسی طرح تم پر بھی وہ دور آیا ہوا ہے.قانون قدرت تمہیں بڑھا رہا ہے.پس تمہاری آج کی قربانی کل کے کام نہیں آئے گی، کیونکہ تمہارا قدم لازماً آگے بڑھے گا اور تمہیں اپنی قربانی بھی لازماً بڑھانی پڑے گی.اگر تم اپنی قربانی بڑھاتے نہیں تو تمہاری حالت مضحکہ خیز بن جائے گی.اگر چھ سال کے بچے کا لباس بڑی عمر والا پہن لے تو کیا تم اس پر ہنسو گے یا نہیں؟ اگر تم یہ دیکھو کہ 18 سال کا نوجوان، جو کرکٹ کا کھلاڑی ہے، وہ چوسنی منہ میں لئے پھر رہا ہے تو تم اس پر ہنسو گے یا نہیں ؟ اگر تم دیکھ لو کہ ایک ٹیم کا کپتان جھنجھنا ہلانا شروع کر دیتا ہے تو تم اس پر ہنسو گے یا نہیں؟ اگر تم کسی استاد کو دیکھو کہ وہ گڑیا اٹھائے پھرتا ہے تو تم اس پر ہنسو گے یا نہیں ؟ اسی طرح اگر تمہیں دنیا دیکھے گی کہ تمہارا کام خدا تعالٰی نے بڑھا دیا ہے، لیکن قربانی تمہاری کل والی ہے تو وہ تم پر ہنسے گی یا نہیں ؟ تم اپنی حالت پر قیاس کرلو کہ تم دوسروں کو بے جوڑ لباس پہنے دیکھ کر ان کے متعلق کیا خیال کرتے ہو؟ پھر تمہارے متعلق دوسرے لوگ کیا خیال کریں گے؟ خدا تعالیٰ تمہارے متعلق کیا خیال کرے گا ؟ کیا تم دونوں کی نظروں میں بے جوڑ نہیں بن جاتے ؟ اور پھر یہ زمانہ تو تمہارے بڑھنے اور ترقی کرنے کا ہے.جسمانی طور پر اگر جوانی کا زمانہ آتا ہے تو لازماً اس کے بعد بڑھا پا آتا ہے.لیکن روحانی طور پر یہ زمانہ تمہارے لئے اس قدر مبارک ہے کہ اگر تم یہ دعائیں کرتے رہو کہ تم بوڑھے نہ ہو تو تمہارا جوانی کا زمانہ ہمیشہ قائم رہے گا.اگر جسمانی طور پر کوئی یہ کہے کہ میں جوان ہی رہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بوڑھا نہ ہو اور جوانی کی عمر میں ہی مرجائے.لیکن اگر کسی قوم کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ ہمیشہ جوان رہے تو اگر وہ کوئی کمزوری نہ دکھائے تو وہ فی الواقع جوان ہی رہتی ہے.لیکن انسانی زندگی کے متعلق یہ کہنا کہ کوئی جوان ہی رہے ، بددعا بن جاتی ہے.439
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ایک دفعہ اسی قسم کا ذکر چھڑ گیا تو میں نے بتایا کہ بلغاریہ کے لوگ بڑے تنومند اور مضبوط جسم والے ہوتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ وہ ایک قسم کی دہی تیار کرتے ہیں، اس دہی کا وہ کثرت سے استعمال کرتے ہیں، اس لئے وہ بڑے تنومند اور مضبوط ہوتے ہیں.پاس ہی ایک زمیندار دوست تھا، وہ بڑا خوش ہوا اور کہنے لگا، میرا بھی یہ تجربہ ہے کہ جو شخص التزاماً دہی استعمال کرے، وہ بوڑھا نہیں مرتا.اس پر دوسرے لوگوں نے اس سے مذاق کرنا شروع کر دیا کہ تمہارا یہ فقرہ کہنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ دہی کھانے والے جوانی کی عمر میں ہی مر جاتے ہیں، بوڑھا ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی.پس جسمانی زندگی میں ایک جوان کا بوڑھا ہونا ضروری ہے لیکن روحانی زندگی میں ضروری نہیں کہ کوئی قوم بوڑھی ہو.اگر کوئی قوم قربانی کرے اور اپنا معاملہ خدا تعالیٰ سے درست رکھے تو اس پر ہمیشہ جوانی کی عمر رہتی ہے، بڑھاپا محض اس کی کمزوری کی وجہ سے آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اِنَّ اللهَ لا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ.کہ ہم جسمانی بڑھاپا تو ضرور لاتے ہیں لیکن روحانی بڑھا پا کسی قوم پر صرف اس وقت لاتے ہیں، جب وہ خود بڑھا پا چاہتی ہے.پس روحانی جوانی کو تم سینکڑوں، لاکھوں بلکہ کروڑوں سال تک بھی قائم رکھ سکتے ہو اور اس کا نمونہ موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اگلے جہان میں جو جنت ملے گی ، اس میں کوئی بوڑھا نہیں ہوگا.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر کوئی قوم جوان رہنا چاہتی ہے تو اس پر بڑھا پا نہیں آتا.یا اگر تم جوان رہنا چاہتے ہو تو تمہیں ہر روز اپنی قربانی بڑھانی پڑے گی.اگر تمہیں ایسا کرتے ہوئے ، بشاشت محسوس نہیں ہوتی تو تم خدا تعالیٰ کی خاطر بناوٹ کے طور پر ہی اپنی قربانی کو بڑھاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو اگلے سال تمہیں بچے دل سے خدا کی خاطر قربانی کرنے کی توفیق مل جائے گی.اللہ تعالیٰ تمہیں تو فیق دے کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو مجھو.تا اس ترقی کے ساتھ ساتھ، جوخدا تعالیٰ تمہیں دے رہا ہے، تم خدا تعالیٰ اور دنیا کی نظروں میں فیل نہ ہو.تمہاری قربانی ہر روز بڑھتی چلی جائے.تا کہ تم اپنی ذمہ داریوں کی گاڑی کو برابر کھینچ سکوں.مطبوعه روزنامه الفضل 11 دسمبر 1954 ء) 440
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1954ء تحریک جدید معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی ایک زبردست کوشش ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 17 دسمبر 1954ء.اس کے بعد میں جماعت کو تحریک جدید کے وعدوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں تحریک جدید کے وعدوں میں اس سال کچھ ستی نظر آرہی ہے.تحریک جدید والوں نے جو رپورٹ میرے پاس بھیجی ہے، اس کے لحاظ سے تحریک جدید کے وعدوں میں گزشتہ سال کی نسبت 21 ہزار کی کمی ہے.حالانکہ اس سے قبل وعدوں میں ہر سال کچھ نہ کچھ زیادتی ہوتی تھی.اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وعدے اب کمی کی طرف جارہے ہیں.وعدوں میں یہ کمی زیادہ ترستی کی وجہ سے ہوئی ہے.شاید بعض جماعتوں کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی فہرستیں جلسہ سالانہ کے موقع پر ساتھ لاتی ہیں.ممکن ہے کہ اس وقت میں کمی کی جو شکایت ہے، وہ اس عادت کی بناء پر ہو.کیونکہ اس وقت تک جو وعدے میرے پاس پہنچے ہیں، ان میں گزشتہ سال کی نسبت کمی نہیں بلکہ زیادتی کی گئی ہے.سوائے ایک جماعت کے کہ اس کے نئے وعدے گزشتہ سال کے وعدوں کی نسبت کم ہیں.یا تو اس کے کچھ افراد بھی ایسے ہیں، جن سے وعدے نہیں لئے گئے یا اس کے کچھ افراد وہاں سے تبدیل ہو گئے ہیں.اس کے سوا جو وعدے میرے پاس آئے ہیں، ان میں گزشتہ سال کی نسبت زیادتی کی گئی ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ وعدوں میں کمی اس لحاظ سے نہیں کہ وعدہ کرنے والوں نے گزشتہ سال کی نسبت کم وعدے کئے ہیں.بلکہ یہ کمی اس وجہ سے ہے کہ وعدے لینے میں سستی کی گئی ہے.مثلاً جماعت احمدیہ کراچی ہے.ان کی طرف سے متواتر اس مضمون کی تاریں آتی رہی ہیں کہ وہ اگلے سال کے وعدے بطور پیشگی وصول کر رہے ہیں.لیکن ابھی تک ان کے اس سال کے وعدوں کی فہرست مرکز میں نہیں آئی.02 دسمبر کو ان کی طرف سے تار آئی تھی کہ ہم وعدوں کی فہرست بہت جلد بھجوار رہے ہیں.لیکن آج 17 تاریخ ہو چکی ہے اور ان کی طرف سے وہ فہرست ابھی تک وصول نہیں ہوئی.یا تو وہ رستہ میں ضائع ہو گئی ہے یا انہوں نے تار تو دے دی لیکن بعد میں یہ سمجھا کہ چلو، فہرست کو اور مکمل کر لیں.اس طرح انہوں نے فہرست بھجوانے میں ستی کر دی.بہر حال یہ وقت آئندہ سال کے وعدے بطور پیشگی وصول کرنے کا نہیں بلکہ وعدے لینے کا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی جماعت وعدے وصول نہ کرے.اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو پیشگی دینے کی توفیق دی ہے 441
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اور وہ خوشی سے دیتا ہے تو دے اور کارکن ضمنی طور پر ایسا کرنے کی تحریک کرتے رہیں.لیکن ان کی زیادہ تر توجہ وعدے لینے کی طرف ہونی چاہئے.جماعت جس کام میں لگی ہوئی ہو ، خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی اس کام میں مدد دیتے ہیں.اور لوگوں کے دلوں میں اس کی تحریک کرتے رہتے ہیں.جب امام کی طرف سے وعدے لینے کا اعلان ہوا ہو تو خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی دوسرے کاموں کی نسبت اسی کام میں زیادہ مدد کرتے ہیں.پس چاہئے کہ گزشتہ سال کے وعدے وصول کرنے اور آئندہ سال کے لئے وعدے لینے پر زور دیا جائے.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ گزشتہ سال کے وعدوں میں سے ابھی تک ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ کی وصولی باقی ہے.اگر یہ وعدے وقت پر وصول ہو جاتے تو اس وقت کام کرنے والوں کو جو تشویش ہے، وہ دور ہو جاتی.جہاں تک وعدوں کا سوال تھا، گزشتہ سال کے وعدے پورے سال کے بوجھ کو اٹھا سکتے تھے، جو روز بروز بڑھ رہا ہے.اور موجودہ تشویش باقی نہیں رہتی تھی.اب بھی دوستوں کو چاہئے کہ جو لوگ ابھی تک تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے ، انہیں زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے اور ان سے وعدے لے کر مرکز میں بھجوائیں.پھر ان کی وصولی پر زور دیں.یہ نہ ہو کہ سال ختم ہونے پر ہم کچھ مالی بوجھ اپنے ساتھ لے جائیں.تین، چار سال سے یہی ہورہا ہے کہ سال ختم ہونے ر کچھ نہ کچھ مالی بوجھ ساتھ جاتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے اخراجات کم تھے ، اب چونکہ ہمارے مشن بہت زیادہ وسیع ہو گئے ہیں، اس لئے اخراجات پہلے کی نسبت زیادہ ہیں اور ہمارا بجٹ ہر سال 40-30 ہزار روپے کے خسارہ سے شروع ہوتا ہے.یہ خسارہ وعدوں میں کمی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ وعدوں کی عدم وصولی کی وجہ سے ہوتا ہے.اگر دوست بقائے وصول کرنے کی کوشش کریں تو نہ صرف سالانہ بجٹ میں خسارہ نہ دکھایا جائے بلکہ ہر سال کچھ نہ کچھ رقم پس انداز ہوتی جائے.جیسا کہ میں نے پچھلے خطبات میں بتایا تھا، ہمارے نو جوانوں میں زیادہ کمزوری پائی جاتی ہے اور دفتر دوم کے وعدوں کی وصولی کی رفتار بہت کم ہے.میں نے آج اندازہ لگایا ہے کہ سال ختم ہو چکا ہے لیکن ابھی تک 50 فی صدی وعدے وصول نہیں ہوئے.حالانکہ اس سے پہلے دور اول میں یہ ہوتا تھا کہ اگر وعدے ایک لاکھ کے ہوئے ہیں تو سال کے اختتام سے پہلے ایک لاکھ سے زائد رقم وصول ہو جاتی تھی.پس نو جوانوں میں ہمت اور اخلاص پیدا کرنے کی ضرورت ہے.یہی وجہ ہے کہ میں نے اس کی طرف مجلس خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی.اس کا قیام اس بات کا موجب ہونا چاہئے کہ نو جوانوں میں اخلاص اور جوش زیادہ ہو.تو میں اگر ترقی کرتی ہیں تو انہی آئندہ نسلوں کے ذریعہ کرتی ہیں.اگر ایک نسل اپنا بوجھ اٹھا لیتی ہے تو وہ کام ایک حد تک ہو جاتا ہے.اگر وہ کام وقتی ہوتا ہے تو کوئی تشویش کی بات نہیں 442
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلدسوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 17 دسمبر 1954ء ہوتی.کیونکہ انہوں نے اپنا بوجھ اٹھالیا ہوتا ہے.لیکن ار وہ کام وقت نہیں ہوتا بلکہ اس نے قیامت تک جانا ہوتا ہے تو بہر حال وہ کام اگلی نسلوں کے ذریعہ پورا ہوگا.دنیا بھر کو اسلام سے روشناس کرانا معمولی امر نہیں.1300 سال میں مسلمانوں نے اس قدر کامیابی حاصل کی ہے کہ اس وقت ان کی آبادی، دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے.بلکہ اب تو اسلام کو دنیا میں آئے قریباً 1400 سال ہو چکے ہیں اور ان چودہ سو سالوں میں ابھی دنیا کی آبادی کا 1/4 حصہ مسلمان ہوا ہے ،3/4 حصہ ابھی باقی ہے.حالات کی تبدیلی اور مسلمانوں کی غفلت اور ستی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ایک نیا سلسلہ قائم کیا ہے.تا پرانے فرقوں سے جو سستی اور غفلت ہوئی ہے، اس کا ازالہ ہو جائے اور ان کی جگہ ایک نیا فرقہ لے لے.جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کی طرف پہلے فرقوں سے زیادہ توجہ دے.تا پہلی سستی اور غفلت کا ازالہ ہو اور دنیا کی آبادی کا بقیہ 3/4 حصہ بھی اسلام کے نور سے حصہ پائے.اور یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے لئے جتنی قربانی بھی کی جائے کم ہے.خصوصاً ہماری موجودہ تعداد کے لحاظ سے تو یہ کام بہت زیادہ ہے.ابھی تک دنیا میں ایک ارب 80 کروڑ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو یا تو اسلام سے متنفر ہیں یا اس کے دشمن ہیں.کم از کم ان میں سے ایک حصہ ایسا ہے کہ جن تک ابھی تک اسلام کے متعلق کوئی بات نہیں پہنچی.اب اس ایک ارب 80 کروڑ کو اسلام میں لانے کے لئے چار لاکھ کی جماعت کیا کرسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ بوجھ ہماری جماعت نہیں اٹھا سکتی.لیکن اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ کام آہستہ آہستہ ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے کام بھی تدریج چاہتے ہیں تو ہم اپنے اس کام کو اس قدر ممتد کر لیں گے کہ یہ دوصدیوں، تین صدیوں یا چار صدیوں میں مکمل ہو جائے.اور اگر ہم نے لازمی طور پر اس کام کو ممتد کرنا ہے اور اسے ہماری موجودہ نسل نے پورا نہیں کرنا تولازمی طور پر اسے ہماری آئندہ نسلوں نے کرنا ہے.اور اگر نو جوانوں میں اخلاص، قربانی اور ایثار کم ہو تو ہماری یہ امید بھی موہوم ہو جاتی ہے.میں موہوم کا لفظ بولنے سے ڈرتا ہوں.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس نے بہر حال ہونا ہے.لیکن چونکہ اس نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے، اس لئے ہمیں سوچنا پڑے گا کہ یہ کام ہم سے ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ اور چونکہ ہماری امیدیں موہوم ہیں اور بظاہر اس میں کامیاب ہونا مشکل نظر آتا ہے، اس لئے ہمارے لئے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ہم کہیں کہ اگر ہماری آئندہ نسلیں چست ہوں تو کام کی رفتار میں تیزی پیدا ہو سکتی ہے.پس جماعت کے نو جوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ، اپنے باپ دادوں سے زیادہ قربانی کریں.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ان کے وعدے اپنے باپ دادوں سے کم ہوں اور وصولی ان سے بھی کم ہو.443
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم میں نے اپنے ایک خطبہ میں یہ تحریک کی تھی کہ کوشش کی جائے کہ ہمارے وعدے دولاکھ سے چار لاکھ ہو جائیں.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دوست وصولی کا بھی خیال رکھیں.ابھی تک نئے دور کے وعدے بہت کم ہیں.حالانکہ نو جوانوں کی تعداد پہلے لوگوں سے بہت زیادہ ہو چکی ہے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک جدید کو عام نہیں کیا گیا.میں نے جماعت کے سامنے ایسی تجاویز رکھی تھیں کہ غریب سے غریب لوگ بھی اس میں شامل ہو سکتے تھے.مثلاً میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک شخص پانچ روپے دے کر تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکتا تو تین ، چار آدمی مل کر اس میں حصہ لے لیں.میرا تجربہ ہے کہ پہلے پہلے لوگ بہت کم حصہ لیتے ہیں لیکن بعد میں جا کر ان کا اخلاص قابل رشک ہو جاتا ہے.کیونکہ جب کوئی شخص نیکی کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں.میں نے کئی لوگ دیکھے ہیں کہ ابتدا میں انہیں ایک دھیلہ چندہ دینا بھی بوجھ نظر آیا لیکن بعد میں انہوں نے اتنی بھاری رقوم چندہ میں دیں کہ رشک پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے کس کس طرح اپنے پیٹ کاٹ کر چندے دیئے ہیں؟ پس اصل چیز یہ ہے کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے، جس نے تحریک جدید میں حصہ نہ لیا ہو.اگر ہماری نئی نسل میں کوئی عورت یا کوئی مرد ایسا نہ رہے، جس نے تحریک جدید میں حصہ نہ لیا ہو تو ہمیں بہت بڑی کامیابی ہو ہے.ہم نے یہ شرط رکھی ہے کہ تحریک جدید میں حصہ لینے والا کم از کم پانچ روپیہ چندہ دے.لیکن اگر کوئی ایک شخص پانچ روپیہ نہیں دے سکتا تو ایک خاندان پانچ روپیہ دے دے، ایک خاندان پانچ روپیہ نہیں دے سکتا تو دو خاندان پانچ روپیہ دے دیں، دو خاندان نہیں دے سکتے تو تین خاندان دے دیں.اگر جماعت کے سارے کے سارے افراد اس میں شامل ہو جائیں تو ہماری جماعت اتنی ہے کہ تحریک جدید کے وعدے موجودہ تعداد سے بہت زیادہ ہو سکتے ہیں.اگر پاکستان کی جماعت اڑھائی لاکھ کی بھی فرض کر لی جائے اور ہر ایک خاندان چار، چار افراد پرمشتمل سمجھ لیا جائے تو 62 ہزار کے قریب خاندان بن جاتے ہیں.اور چونکہ بعض لوگ کم چندہ دیتے ہیں اور بعض زیادہ ، اس لئے اگر ہم فرض کر لیں کہ ہر ایک خاندان دس روپیہ چندہ دے تو چھ لاکھ سے زائد روپیہ جمع ہو سکتا ہے.مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہر شخص تحریک جدید میں حصہ لے.اور ہم امید رکھتے ہیں کہ جو آج پانچ روپیہ دیں گے، وہ پانچ روپیہ پر ہی نہیں ٹھہرے رہیں گے.بلکہ ان میں سے بعض ایک وقت میں چالیس، پچاس روپیہ تک پہنچ جائیں گے.پس میں پھر تحریک کرتا ہوں ، جماعت وعدوں کو عام کرے.اور پھر یہ بھی تحریک کرے کہ ہر سال وعدوں میں زیادتی کی جائے ، کمی نہ کی جائے.444
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلدسوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1954ء اس وقت ایک بہت بڑا طوفان آیا ہوا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانیت پر پر دے ڈال دیئے گئے ہیں.اگر تمہارے سامنے وہ کتابیں رکھی جائیں یا تمہیں پڑھ کرسنائی جائیں، جو یورپ اور امریکہ میں اسلام کے خلاف لکھی گئی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک سنگدل سے سنگدل مسلمان کی بھی چھینیں نکل جائیں تم جس کی تعریف میں قصائد پڑھتے ہو، جس پر تم دن میں کئی بار درود بھیجتے ہو، اس کو نہایت حقیر رنگ میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.اسے اس قسم کی گالیاں دی جاتی ہیں کہ دنیا کے کسی ذلیل سے ذلیل انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی جاسکتیں.تم ایک معمولی آدمی کو گالیاں دیتے دیکھ کر غصہ میں آجاتے ہو.لیکن تم یہ خیال نہیں کرتے کہ اس شخص کے متعلق، جس تم اپنا ہادی، راہنما، آقا اور خدا کا فرستادہ سمجھتے ہو، لوگوں کو اتنی غلط فہمیاں ہیں کہ حد ہی نہیں.آخر سب لوگ پاگل تو نہیں ہو گئے کہ وہ خواہ نخواہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں.ان میں سے بھی اکثر میں حیا اور شرافت پائی جاتی ہے.لیکن بات یہ ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل حالات اور سوانح سے ناواقف ہیں.سینکڑوں سال مسلمان غافل رہے اور دشمن آپ کی شکل کولوگوں کے سامنے نہایت بھیانک صورت میں پیش کرتا رہا.اور اب ان کے دلوں میں یہ بات جاگزیں ہوگئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے شدید شمن ہیں.میں جب انگلستان گیا تو مجھے ایک ڈاکٹر کے متعلق بتایا گیا کہ وہ دہر یہ ہے اور مجھ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے.میں نے اسے ملاقات کا موقع دے دیا.اس نے دو، چار باتیں کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر نہایت گندے الفاظ میں کیا.چونکہ میں نے اس سے بات کرنے کا وعدہ کیا ہوا تھا، اس لئے میں اسے برداشت کر گیا.لیکن دو، چار فقروں کے بعد اس نے دوبارہ آپ کی ذات پر حملہ کیا.میں نے اسے توجہ دلائی کہ تم نے یہ کہ کر ملاقات کا وقت لیا تھا کہ تمہارا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تم صرف عقلی گفتگو کرنا چاہتے ہو لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ تم بلا وجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرتے ہو، یہ بات ٹھیک نہیں.اس شخص نے میری اس بات کا جواب نہ دیا.لیکن دو، چار باتوں کے بعد اس نے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا.میں یہ جانتا تھا کہ اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی نفرت نہیں لیکن آپ کے جو حالات اس نے پڑھے ہیں، ان سے اس نے سمجھ لیا ہے کہ آپ انسانیت کو گرانے والے ہیں.اس کے رویہ کو دیکھ کر مجھے بھی غصہ آگیا اور میں نے جوابی طور پر سیخ ناصری پر حملہ کیا.میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میں مسیح کے متعلق یہ باتیں نہیں سن سکتا.میں نے کہا تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہارا عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی تم مسیح کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے.تو کیا میں اتناہی بے 445
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم غیرت ہوں کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملے کرتے جاؤ اور میں خاموش رہوں؟ میں نے دو دفعہ تمہیں توجہ دلائی کہ تم مذہب کی ضرورت کے متعلق بات کرو، بار بار بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے نہ کرو.لیکن چونکہ تم حملہ کرنے سے باز نہیں آئے ، اس لئے میں نے سمجھ لیا کہ عیسائی مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد تم سمجھتے ہو کہ مسیح انسانیت کے ہمدرد تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نعوذ باللہ انسانیت کے بڑے دشمن ہیں.وہ کہنے لگا کچھ ہو، میں مسیح کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا.میں نے کہا، اگر تم دہر یہ ہو کر مسیح علیہ السلام کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے تو میں مسلمان ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف باتیں کیوں سنوں؟ اگر تم نے دوبارہ میرے آقا کی شان میں کوئی نازیبا لفظ استعمال کیا تو میں بڑی تختی سے تمہارے مسیح پر حملہ کروں گا.اس پر اس نے بات ختم کر دی اور چلا گیا.اس واقعہ سے تم یہ سمجھ سکتے ہو کہ وہ لوگ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی سے بھرے ہوئے ہیں، جنہیں عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں.وہ دہر یہ ہیں اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں رکھتے.وہ محض اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہیں کہ بچپن سے ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ نعوذ باللہ دنیا اور انسانیت کے بدترین دشمن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ اس نبغض کو نکالنا آسان بات نہیں.اس کے لئے بہت بڑی قربانی کی ضرورت ہے.جو یورپین لوگ مسلمان بھی ہو جاتے ہیں، ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسیح علیہ السلام سے افضل ہیں اور آپ کو خدا تعالیٰ نے جوشان عطا فرمائی ہے، وہ صبیح علیہ السلام کو عطا نہیں فرمائی.پتھر کی لکیر کا بدلنا آسان ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی کو ان کے ذہنوں سے نکالنا بہت مشکل ہے.اس کے لئے جتنی بھی قربانی کی جائے کم ہے.پس تم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو اور اپنی قربانی کو اس کے مطابق بناؤ تا تمہارے کاموں میں برکت ہو.جو مدعا اور مقصد تم نے اپنے سامنے رکھا ہے، وہ بہت بڑا ہے.تم سمجھتے ہو کہ کسی ملک میں مبلغ بھیج دیا تو کام ہو گیا.لیکن تم یہ نہیں سمجھتے کہ اس کے پاس تبلیغ کے لئے کتنا وقت ہے؟ اتنے وسیع ملک میں وہ اکیلا کیا کر سکتا ہے؟ مثلاً امریکہ کی آبادی سولہ کروڑ کی ہے اور وہاں پر ہمارے پاس صرف چار مبلغ ہیں.اب چار کروڑ میں ایک مبلغ کیا کر سکتا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گاؤں میں کوئی دیہاتی مبلغ بھیجا جاتا ہے اور پھر اسے کسی اور گاؤں میں بھیجا جاتا ہے تو گاؤں والے شور مچا دیتے ہیں کہ ہمیں مبلغ کی ضرورت تھی ، اسے واپس کیوں بلایا گیا ہے؟ حالانکہ اس گاؤں کی آبادی چار، پانچ سو ہوتی ہے.پھر تم چار کروڑ میں ایک مبلغ بھیج کر 446
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سو اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 17 دسمبر 24 کیسے خوش ہو جاتے ہو؟ چار کروڑ میں ایک مبلغ تب ہی کوئی مفید کام کرسکتا ہے، جب وہ ایک سے دو ہو جائیں، دو سے چار ہو جائیں، چار سے آٹھ ہو جائیں، آٹھ سے سولہ ہو جائیں ،سولہ سے بہتیں ہو جائیں، بتیس سے چونسٹھ ہو جائیں اور چونسٹھ سے سو ہو جائیں اور سو سے دو سو ہو جائیں.تب تو ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ اس ملک میں کوئی حرکت پیدا ہوگی.اور چاہے نتیجہ زیادہ شاندار نہ ہو لیکن لوگ یہ تو سمجھیں گے کہ جماعت اشاعت اور ترقی اسلام کے لئے قربانی کر رہی ہے.لیکن اصل کام ہم سبھی کر سکتے ہیں، جب ہمارے پاس کافی تعداد میں لٹریچر ہو، ہمارے ایک مبلغ کے پاس سینکڑوں کتابیں ہوں تا لوگ وہ کتابیں اپنے گھروں میں لے جا کر پڑھ سکیں.کوئی انسان چاہے کتنا ہی مصروف ہو، گھر میں اسے کچھ نہ کچھ فارغ وقت مل سکتا ہے.لیکن ایسی فراغت کی گھڑیاں بہت کم ملتی ہیں کہ وہ کسی مبلغ کے پاس جا کر گھنٹہ، دو گھنٹے تک اس کی باتیں سن سکے.پس ہمارے مبلغ تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں، جب ہم انہیں کافی تعداد میں لٹریچر دیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لٹریچر کے مطالعہ سے بعض نئے شبہات پیدا ہو سکتے ہیں، جن کا ازالہ ضروری ہوتا ہے.اس کے لئے مبلغ کی موجودگی ضروری ہوتی ہے، جو زبانی مل کر ان اعتراضات کے جوابات دے.اگر کوئی قوم صرف لٹریچر پر ہی اپنی بنیا درکھ لیتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہوتی ہے.مشنری کا ہر ملک میں ہونا ضروری ہے.لیکن جب تک لٹریچر نہ ہو، وہ مشنری اپنا کام وسیع نہیں کر سکتا.وہ دس ہیں آدمی اپنے گردا کٹھے کرلے گا لیکن کروڑوں کی اصلاح اس سے نہیں ہو سکے گی.کروڑوں کی اصلاح اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ لٹریچر بڑی تعداد میں شائع کیا جائے اور اسے ملکوں میں پھیلا دیا جائے اور پھر ہر ملک میں مشنری موجود ہوں، جوان لوگوں کے شبہات کا ازالہ کریں اور اسلام کے مسائل انہیں سمجھا ئیں.امریکہ کی آبادی 16 کروڑ کی ہے.فرض کرو، وہاں ایک لاکھ شہر اور قصبات ہیں تو اب اگر ہر شہر اور قصبے میں ہمارا ایک آدمی ہو تب تو کوئی حرکت پیدا ہو سکتی ہے.اگر چہ مبلغین کی یہ تعداد بھی کافی نہیں.لیکن اگر دو، دو ہزار میل پر مبلغ بیٹھا ہوا اور اس کے پاس لٹریچر بھی نہ ہو تو لوگوں کی توجہ اس کی طرف کیسے ہو سکتی ہے؟ ہم تو ابھی تک ابتدائی کام بھی نہیں کر سکے.لیکن اصل کام یہ ہے کہ ہم لٹریچر کو تمام دنیا میں پھیلا دیں تاکہ مخالفین کے حملوں کا جواب دیا جا سکے.لٹریچر کا اس قدراثر ہوتا ہے کہ ہمارے ایک مبلغ ابھی سوئٹزر لینڈ سے آئے ہیں، وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ ان کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ انہوں نے کہا، آدمی تو بہت تھوڑے ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں.یعنی ابھی تک صرف دس بارہ آدمی اسلام میں داخل ہوئے 447
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم ہیں.مگر ہم اصل کام اس کو نہیں سمجھتے.بلکہ اصل کام ہم اس کو سمجھتے ہیں کہ پہلے یورپین لٹریچر میں خلاف اسلام باتیں شائع ہو جاتی تھیں تو ان کا کوئی جواب دینے والا نہیں ہوتا تھا.پھر ایک وقت آیا کہ ہم ان باتوں کی اصلاح کرنے لگے.لیکن کوئی اخبار ہمارا مضمون شائع نہیں کرتا تھا.لیکن اس اخبار تک یہ خبر ضرور پہنچ جاتی تھی کہ اس ملک میں اسلام کے حق میں لکھنے والے بھی موجود ہیں.لیکن اب اس حد تک کامیابی ہو چکی ہے کہ اخبارات ہمارے جوابات بھی شائع کر دیتے ہیں اور یہ اخبار لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں.اسی طرح ہماری آواز لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے.بلکہ اب اخبارات اسلام سے تعلق رکھنے والے مضامین اشاعت سے پہلے ہمارے پاس بھیج دیتے ہیں کہ آپ اگر کوئی رائے دینا چاہیں تو دے دیں.غرض دس بارہ آدمیوں کا مسلمان ہو جانا تو کوئی بڑی کامیابی نہیں.اصل کامیابی یہ ہے کہ ملک کے رہنے والوں کو یہ پتہ لگ گیا ہے کہ اگر یہاں اسلام کے مخالف موجود ہیں تو اس کے موید بھی، چاہے وہ کتنی کم تعداد میں ہیں، موجود ہیں.لیکن اگر لٹریچر پھیل جائے تو اس سے بھی زیادہ اثر ہو.پس تحریک جدید کوئی معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی کوششوں میں سے ایک زبردست کوشش ہے.اس میں شبہ نہیں کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور یہ ہمیشہ زندہ رہے گا.جب تک قرآن کریم موجود ہے، اس وقت تک اسلام بھی باقی رہے گا.کیونکہ قرآن ، اسلام ہے اور اسلام، قرآن ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ یہ چیز ، جو ظاہر میں موجود ہے، لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے.دلوں میں جو تعلیم موجود ہو، وہ بہت زیادہ اثر کرنے والی ہوتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ ) کہ جب کفار قرآن کریم کی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو چاہتے ہیں، ی تعلیم ان کے ہاں بھی ہوتی.اور وہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے اور یہ خیالات ان کے بھی ہوتے.گویا قرآن کریم کے دوست کفار میں بھی تھے اور وہ دوست ان کے دماغ تھے.وہ قومی تنافر اور بغض کی وجہ سے مسلمانوں سے لڑتے تو تھے لیکن ان کے دماغ کہتے تھے کہ بات وہی کچی ہے، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں.پس قرآن کریم ظاہر میں تو اب بھی زندہ موجود ہے.لیکن جو قرآن لوگوں کے دماغ میں تھا، وہ اب موجود نہیں.اب دماغوں میں غلط خیالات بس گئے ہیں.اگر ہم لٹریچر زیادہ تعداد میں شائع کریں تو چاہے اسلام آہستہ آہستہ پھیلے لیکن اس کا یہ نتیجہ ضرور نکلے گا کہ چاہے ملک میں سولہ کروڑ دشمن موجود ہوں لیکن جب بھی ہمارا مبلغ آواز اٹھائے گا تو بوجہ اس کے کہ لٹریچر کے ذریعہ ان کے 448
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1954ء اعتراضات اور شبہات دور ہو چکے ہوں گے ، وہ یہ کہیں گے کہ بات وہی ٹھیک ہے، جو مسلمان کہتے ہیں.پس جو چیز ظاہر میں ناممکن ہے، قانون قدرت کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ممکن ہے.کیونکہ اس کے ذرائع موجود ہیں.ہم نے ان ذرائع کو استعمال کرنا ہے.اگر ہم ایسا کرنے میں غفلت سے کام لیتے ہیں تو یہ غفلت ہمارے ذمہ لگے گی ، خدا تعالیٰ کے ذمہ نہیں لگے گی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کے سامان پیدا کر دیئے ہیں لیکن ہم اپنی سنتی اور غفلت کی وجہ سے انہیں استعمال نہیں کرتے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 22 دسمبر 1954 ء) 449
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1954ء " ہالینڈ کی مسجد کا بنانا، عورتوں کے ذمہ لگایا گیا ہے خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1954 ء بر موقع جلسہ سالانہ...اس کے بعد اور کسی دوسرے مضمون کے شروع کرنے سے پہلے میں عورتوں سے خطاب کرتا ہوں.کیونکہ اس دفعہ پھر عورتوں کے لئے تقریر کا الگ انتظام نہیں ہو سکا.عورتوں کے لئے جو ان کا خصوصی فرض مقرر کیا گیا ہے، میں اس کی طرف انہیں توجہ دلاتا ہوں.اور وہ مسجد ہالینڈ ہے.ہالینڈ کی مسجد کا بنانا ، عورتوں کے ذمہ لگایا گیا ہے.مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس فرض کو عورتوں نے اس تن دہی سے ادا نہیں کیا ، جس طرح کہ وہ پہلے ادا کیا کرتی تھیں.مسجد ہالینڈ کا سارا چندہ اس وقت تک غالباً ساٹھ ، پینسٹھ ہزار کے قریب ہوا ہے.لیکن اس کے اوپر جو خرچ کا اندازہ ہے، وہ جیسا کہ میں نے پچھلے سال بیان کیا تھا، قریباً ایک لاکھ، دس ہزار روپے کا ہے.بلکہ اب تو کچھ اور وقتیں پیدا ہوگئی ہیں.یعنی جو آرکیٹیکٹ تھا، اس نے اپنا نقشہ دیتے ہوئے لکھ دیا کہ ساٹھ ہزار میں مسجد بنے گی.جب دوسرے ماہرین سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ نوے ہزار لگے گا.اب اگر ان کا اندازہ صحیح ہو تو نوے ہزار یہ اور تمیں ہزار کی زمین ہے، ایک لاکھ ، ہیں ہزار ہوا.پھر جونگرانی وغیرہ پر خرچ ہوگا، پانچ، چھ ہزار اور اس کا بھی اندازہ لگالو.پانچ، چھ ہزار فرنیچر کا لگا لو تو ایک لاکھ ہمیں ہزار بن گیا.اس لحاظ سے بھی قریبا ستر ہزار کی رقم کی ضرورت ہے.مجھے ابھی چلتے وقت دفتر نے رپورٹ بھجوائی ہے کہ سارے سال میں عورتوں سے اکیس ہزار روپیہ مانگا گیا تھا اور انہوں نے نو ہزار جمع کر کے دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ تحریک کے منتظمین میں بھی کسی قدرستی پائی جاتی ہے.یا یہ کہو کہ ان کو کام کرنے کا طریقہ نہیں آتا.جو ان سے پہلے لوگ گزرے ہیں، وہ کام کروا لیتے تھے.لیکن موجودہ عہدہ دار، جو پچھلے سال سے بدلے ہیں، کام کروا نہیں سکتے.لیکن ہانپتے ضرور ہیں کہ ہم نے اتنا کام کیا اور یوں لوگوں میں شور مچایا.لیکن بہر حال شور مچانا وہی کارآمد ہوسکتا ہے، جس کا نتیجہ بھی نکلے.اگر نتیجہ نہیں نکلتا تو ہم یہ سمجھیں گے کہ کام کرنے والے کے طریق کار میں کوئی نقص ہے.مثلاً لجنہ ہے.لجنہ نے اپنا ہال وغیرہ بنالیا ہے اور اس پر انہوں نے پچاس ہزار کے قریب روپیہ لگایا ہے.وہ آخر جمع ہو گیا کہ نہیں؟ اور وہ روپیہ انہوں نے اس صورت میں اکٹھا کیا ہے، جبکہ ابھی مسجد ہالینڈ کا 451
اقتباس از خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم چندہ عورتیں دے رہی تھیں.جب وہ ان سے ایک مقامی ہال کے لئے اتنی رقم جمع کر سکتی تھیں تو وہ مسجد ، جو کہ نسلوں تک عورتوں کا نام بلند کرنے اور ان کے ثواب کو زیادہ کرنے کا موجب ہو سکتی تھی ، اس کے چندہ کے جمع کرنے میں وہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکتیں ؟ یقینا کام کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے اور کم سے کم مجھ پر یہی اثر ہے.بڑا ذریعہ ہمارے ہاں اشتہارات کا اور لوگوں کو توجہ دلانے کا اخبار الفضل“ ہوتا.مگر میں نے تو " الفضل میں کبھی ایسی شکل میں اس کے متعلق کوئی اعلان نہیں پڑھا کہ جس سے مجھ پر یہ اثر ہوا ہو کہ صحیح کوشش کی جارہی ہے.پس میں عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی ان کے ذمہ اس ہزار روپیہ پورا کرنا ہے.اور اب تو مسجد کے نقشے وغیرہ بن گئے ہیں اور کچھ مقدمہ بازی بھی شروع ہو گئی ہے.کیونکہ آرکیٹیکٹ نے کہا ہے کہ تم نے کئی نقشہ بنوائے تھے ، سب کی قیمت دو.اور ہمارے آدمی کہہ رہے ہیں کہ جو نقشے کام نہیں آئے ، ان کی قیمت کیوں دیں؟ اب اس نے نالش کر دی ہے اور اس نے وہاں کی عدالت کے سمن ربوہ میں بھجوائے ہیں.حالانکہ اس سے معاہدہ تو مقامی امیر یا امام نے کیا تھا.اس کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ نہ تحریک وہاں پہنچے گی اور نہ عدالت میں اپنا جواب دے گی اور یک طرفہ ڈگری ہو جائے گی.اگر وہ مسجد جلدی سے بنی شروع ہو جائے تو پھر سوال حل ہو جاتا ہے.دراصل وہاں قاعدہ یہ ہے کہ آرکیٹیکٹ کا نقشہ اگر رد کر دیا.جائے تو اس کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس زمین کو، جس پر مکان بنوایا جاتا ہے، نیلام کروا کے اپنی قیمت وصول کرلے.اور یہی اس کی غرض ہے.اگر اس پر مسجد کی بنیا د رکھی جاتی تو پھر کسی کو جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ اس کے نیلام کا سوال اٹھائے.کیونکہ وہ تو خدا کا گھر ہو گیا.اور وہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ساری دنیائے اسلام میں شور مچ جائے گا.پس اس جگہ پر مسجد کی تعمیر کا جلد ہونا نہایت ضروری ہے.تا کہ وہ جگہ محفوظ ہو جائے اور آئندہ کسی کو شرارت کرنے کا موقع نہ ملئے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 15 فروری 1955ء) 452
یک جدید - ایک الہی تحریک جلد وو جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 27 نومبر 1954ء بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد کی تحریک خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1954 ء بر موقع جلسہ سالانہ میں نے عورتوں کے حصہ کی مسجد کے متعلق ابھی توجہ دلائی تھی کہ اس مسجد کے لئے اب تک رقم جمع نہیں ہوئی.لیکن مردوں کے ذمہ جو مسجد لگائی گئی ہے یا بہت سی مساجد لگائی ہوئی ہیں، ان کی حالت اس سے بھی بدتر ہے.عورتوں کی مسجد کے لئے زمین خریدی جا چکی ہے اور اس پر جو مسجد بنی ہے، اس کی بھی قریباً ایک تہائی رقم جمع ہے.لیکن مرد بیچارے ایسے کم ہمت ثابت ہوئے ہیں کہ ان کی طرف سے ابھی زمین کی قیمت بھی ادا نہیں ہوئی.حالانکہ میں نے اس کے لئے نہایت آسان راہیں بتائی تھیں.لیکن تعجب ہے کہ ان پر عمل نہیں ہوا.ان آسان راہوں کے متعلق ہمارا یہ اندازہ تھا کہ اسی ہزار سے ایک لاکھ روپیہ تک سالانہ جمع ہوسکتا ہے.لیکن مجھے رپورٹ یہ کی گئی ہے کہ کل چودہ ہزار روپیہ سال میں چندہ آیا ہے.میں نے بتایا تھا کہ جس کی مثلاً شادی ہو، وہ اس خوشی میں کچھ نہ کچھ رقم مسجد فنڈ میں بھی دے دیا کرے.ہماری جماعت دو، تین لاکھ کی ہے.اور ہزار، دو ہزار کی شادی ہوتی رہتی ہے.پس وہ جو سو ، دو سو، پانچ سو، ہزار، دو ہزار، پانچ ہزار روپیہ شادی پر خرچ کرتا ہے، اگر پانچ ، دس ہیں، پچاس روپیہ تک مساجد کے لئے بھی اس وقت دے دے تو کون سی بات ہے.فرض کرو اگر ہزار شادی ہو اور پانچ روپیہ اوسط لگالو.کسی نے ایک روپیہ دیا، کسی نے دو دیئے، کسی نے نہیں یا پچاس بھی دیئے لیکن اوسط پانچ روپیہ رکھو تو پانچ ہزار تو شادیوں کا آجاتا ہے.اسی طرح میں نے کہا تھا کہ جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو تم تھوڑا بہت تو خرچ کرتے ہو.اگر مسجد کے لئے کچھ دے دیا کرو تو یہ بھی خدا تعالیٰ کے حضور تمہاری اولاد کے لئے برکت کا موجب ہو جائے گا.فرض کرو اگر ہمارے ہاں سال میں دو ہزار یا تین ہزار بچہ پیدا ہوتا ہے اور دوروپے اوسط آتی ہے تو پانچ ہزار یہ بھی ہو جاتا ہے.گویا دس ہزار تو صرف شادیوں اور بچوں سے ہو جاتا ہے.پھر میں نے کہا تھا، جس کسی شخص کی ترقی ہو ، وہ پہلے مہینہ کی ترقی دے دیا کرے.ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دو، تین ہزار ملازم ہیں.اور ان کی اوسط تنخواہ میرے نزدیک تین ، چار 453
اقتباس از خطاب فرموده 27 نومبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم سور و پیہ ہوتی ہے.اور ہر سال انہیں ترقی ملتی ہے.اگر ان میں سے آدھوں کی ترقی بھی فرض کر لی جائے ، کیونکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جیسے فوجی ملازم ہیں، ان کی سالانہ ترقی نہیں ہوتی ، کچھ وقفے کے بعد ہوتی ہے.بہر حال اگر ہزار آدمی بھی سمجھ لیا جائے تو بارہ، چودہ ، پندرہ یا بیس رو پیدان کی ترقی کی اوسط نکل آئے گی.اگر پندرہ روپیہ بھی ترقی کی اوسط رکھی جائے تو پندرہ ہزار تو یہ آ جاتا ہے.پچیس ہزار ہو گئے.پھر میں نے یہ کہا تھا کہ ڈاکٹر اور وکیل ( بلکہ خود ڈاکٹروں اور وکیلوں کے مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا) اپنی سابق آمد کی تعیین کر کے ہر سال اس میں جو زیادتی ہو، اس زیادتی کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دیا کریں.اسی طرح بجٹ کے سال کے پہلے مہینہ یعنی ما مٹی کی آمد کا پانچ فی صدی ہر سال ادا کیا کریں.یہ بھی کوئی ایسا بوجھ نہیں، جو لوگوں کے لئے مشکل ہو.میرے نزدیک کئی ہزار کی رقم اس طرح نکل سکتی ہے.اسی طرح ایک یہ تجویز تھی کہ جو چھوٹے تاجر ہیں، وہ ہر ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دے دیا کریں اور جو بڑے تاجر ہیں، وہ ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کے پہلے سودے کا منافع دے دیا کریں.پھر زمینداروں کے متعلق یہ تھا کہ جو دس ایکڑ سے کم زمین کے مالک ہیں، وہ ایک آنہ فی ایکٹر کے حساب سے اور جو دس ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالک ہیں، خواہ بارانی ہو یا نہری ، وہ دو آنے فی ایکڑ کے حساب سے دے دیا کریں.یہ بھی کوئی ایسا چندہ نہیں ہے، جو کسی زمیندار پر دوبھر ہو.مثلاً اگر دو آنے مقرر ہیں اور 125 ایکٹر یعنی ایک مربع اس کے پاس ہے تو مربع والے کے لئے تین روپے مسجد کے لئے چندہ دینا کوئی بڑی بات نہیں.پھر پیشہ وروں کے لئے یہ قاعدہ تھا کہ وہ ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو یا مہینہ کا کوئی اور دن مقرر کر کے اس دن ، جو انہیں مزدوری مل جائے ، اس کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دے دیا کریں.بہر حال یہ سارے کے سارے ذرائع آمدن ایسے تھے، جو کسی پر بوجھ نہیں بنتے تھے اور آمدن اسی ہزار یا لاکھ کے قریب بنتی ہے.لیکن ہوئی چودہ ہزار ہے.اور اس چودہ ہزار میں سے دو، تین ہزار ایسے بھی نکلیں گے، جنہوں نے اپنے اخلاص میں اپنی طاقت سے بہت زیادہ دے دیا ہے.اصل چندہ، جو قاعدہ کے مطابق دیکھا جائے گا، وہ دس گیارہ ہزار نکلے گا.یعنی متوقع آمد کا دسواں حصہ.گویا یہ چندہ ایسا ہے، جو جماعت میں سے 1/10 حصہ نے ادا کیا ہے،9/10 نے ادا نہیں کیا.454
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 27 نومبر 1954ء نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ابھی ہمیں امریکہ سے مشن ہاؤس والوں نے لکھا کہ ہمارے مشن ہاؤس کے ساتھ ایک زمین ہے، جس میں اچھے پیمانہ پر مسجد بنائی جاسکتی ہے.یہ زمین اگر اس وقت لے لی جائے تو سات ہزارڈالر میں حاصل ہو سکتی ہے.کیونکہ مالک کو ضرورت ہے اور وہ ستا د ینے کو تیار ہے.لیکن ہم نے مجبوراً ان کو یہی لکھا کہ ہمارے پاس اتنا روپیہ ہی نہیں ، ہم کہاں سے دیں؟ اب اس کے نتیجہ میں یا تو سابق جگہ میں بہت چھوٹا سا کمرہ مسجد کا بنے گا یا پھر ہمیں کوئی نئی زمین مسجد کے لئے خریدنی پڑے گی اور نئی جگہ پر انتظام کرنا پڑے گا.مطبوعه روزنامه الفضل 25 اکتوبر 1955 ء ) 455
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1954ء تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے شاندار تبلیغی نتائج خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1954 ء بر موقع جلسہ سالانہ.اس کے بعد میں تحریک جدید کی طرف توجہ دلاتا ہوں.بات یہ ہے کہ جوں جوں کام بڑھتا چلا جاتا ہے، اس کے مطابق تدبیر بھی بڑھتی چلی جانی چاہئے.تمہارے ذمہ جو کام ہیں، وہ اتنے عظیم الشان ہیں کہ دنیا کے پردہ پر اس زمانہ میں کسی کے ذمہ وہ کام نہیں.ایک زمانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تھا.بڑا بوجھ تھا صحابہ پر چند صحابہ تھے ، جن پر دنیا کی اصلاح فرض تھی.پر اب تو وہ صحابہ زندہ نہیں.اگر آج وہ صحابہ زندہ ہوتے تو میں تمہیں کہتا کہ دیکھو، یہ تم سے زیادہ بوجھ اٹھارہے ہیں.مگر وہ تو فوت ہو چکے، اب تمہارا زمانہ ہے.تم یہ بتاؤ، اس وقت بھی دنیا میں کوئی جماعت ہے، جس پر اتنا بوجھ ہو، جتنا تم پر ہے.آج تمہیں دنیا کے پردہ پر کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آئے گی ، جس پر اتنا بوجھ ہو ، جتنا تم پر ہے.اور تمہارا کام ایسا ہے، جو روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے.جتنا تم چندہ دیتے ہو، اتنا ہی تم اگلے چندہ کے لئے اپنے آپ کو مجبور کرتے ہو.کیونکہ جب تم چندہ دیتے ہو ، ہم کہتے ہیں، بھئی یہ روپیہ ضائع نہ ہو، ایک مشن اور کھول دو.جب ہم وہ مشن کھولتے ہیں تو اب اس مشن کو چلانے کے لئے پھر روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے، پھر تمہیں کہتے ہیں اور دو.ہم دو یا چار یا پانچ مشن کھول کر بند کر دیتے تو خرچ نہ بڑھتا.مگر جوں جوں تم چندہ دیتے چلے جاتے ہو، ہم کام بڑھاتے چلے جاتے ہیں.اور جوں جوں کام بڑھتا چلا جاتا ہے، پھر ہم کو اور روپیہ مانگنا پڑتا ہے.گویا ہماری مثال بالکل اسی قسم کی ہوگئی ہے، جیسے کہتے ہیں کسی چیتے نے کوئی سل پڑی ہوئی دیکھی تو وہ سل کو چاٹنے لگا.سل چونکہ کھردری ہوتی ہے، اس سے خون بہا، جسے کھا کر اسے مزہ آیا.پھر اس نے اور چائی.اس نے سمجھا شاید میں سل کھا رہا ہوں.حالانکہ اصل میں وہ اپنی زبان ہی کھا رہا تھا.ہوتے ہوتے اس کی ساری زبان گھس گئی.اسی طرح تم بھی گویا اپنی زبان کھا رہے ہو.لیکن فرق یہ ہے کہ چیتے نے تو زبان کھائی تھی، اپنے مزہ کے لئے.اور تم زبان کھا رہے ہو، خدا کے لئے.اس کو تو اس کی زبان کا بدلہ نہیں ملتا.مگر تم جس کے لئے زبان گھسا رہے ہو ، وہ زبان پیدا کرنے والا ہے.بلکہ سارا وجود ہی پیدا کرنے والا ہے.اس لئے تمہارے لئے یہ خطرہ نہیں ہو سکتا کہ تمہاری زبان گھس جائے تو پھر کیا ہوگا؟ اس لئے کہ پھر دوسری زبان تم کومل جائے گی.پھر تیسری زبان مل جائے گی.پھر چوتھی زبان مل جائے گی.457
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں اور بعض دفعہ تو کہہ بھی دیتے ہیں کہ یہ بوجھ زیادہ بڑھایا جارہا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.تو میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ خلیفہ کوئی بات ایسی نہیں کر سکتا، جس کو کہ بعد میں پورا نہ کیا جاسکے.کوئی اس کو مبالغہ کہہ لے، کوئی اس کو خود پسندی کہہ لے، کوئی کچھ کہہ لے مگر میرا یہ یقین ہے اور میں سمجھتا ہوں، یہ لازمی نتیجہ ہے، اس بات کا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے کہ جو بھی خلیفہ کام شروع کرے گا ، وہ اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہوگا.اور جب وہ ضروری ہوگا تو جماعت کے اندر ضرور اس کی طاقت ہو گی.وہ اپنی غفلت سے اس کو پورا کر سکے یا نہ کر سکے، یہ اور بات ہے.لیکن جہاں تک امکان کا تعلق ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نا ممکن تھا، اس جماعت کے لئے.اور میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تبلیغ ایسے رنگ میں آچکی ہے اور مشن ایسی طرز پر قائم ہو چکے ہیں کہ شاید چند مشن اور قائم ہونے کے بعد ہم ساری دنیا میں شور مچاسکیں.اگر اس وقت صرف چھ سات مشن اور دنیا میں قائم ہو جائیں تو ایک وقت میں ساری دنیا میں آواز بلند ہوسکتی ہے.اور ایسی طرز پر آواز اٹھ سکتی ہے کہ لوگوں کو اسلام کی طرف لازماً توجہ کرنی پڑے.اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان موجودہ مشنوں کو قائم رکھا جائے اور چھ ، سات مشن اور قائم کر دئیے جائیں اور مساجد بنائی جائیں اور لٹریچر شائع کیا جائے.یہ ساری چیزیں ہو جائیں تو دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام اب دنیا میں سنجیدگی کے ساتھ عیسائیت کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا ہے.تم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ ہو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا، مردم شماری کرو، مدینہ میں کتنے مسلمان ہیں؟ تو ان کے دلوں میں شبہ پیدا ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوں فرماتے ہیں؟ بہر حال چونکہ آپ کا حکم تھا، وہ گئے اور انہوں نے مردم شماری کی.اور اس وقت سات سو مسلمان نکلے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آ کر کہا یا رسول اللہ ! ہم سات سو نکلے ہیں.مگر آپ نے کیوں مردم شماری کرائی تھی؟ کیا آپ کو یہ وہم تھا کہ اب مسلمان تباہ نہ ہو جائیں ؟ وہ زمانہ جب ہم تباہ ہو سکتے تھے، وہ گزر گیا.اب تو ہم دنیا میں سات سو ہیں، اب ہمیں کون تباہ کر سکتا ہے.دیکھو، کس قدر یقین اور ایمان ان کے اندر تھا.یہی حال تم اپنا سمجھ لو.ایک زمانہ وہ تھا ، جب اسلام کی آواز اٹھانے والا دنیا میں کوئی نہیں تھا.اب تمہارے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ برکت پیدا کی ہے اور تم کو اس برکت کا حاصل کرنے والا بنایا ہے.امریکہ میں تمہارے مشن ہیں، اسی طرح تمہارا مشن انگلینڈ 458
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1954ء میں ہے، ہالینڈ میں ہے، جرمنی میں ہے، سوئٹزر لینڈ میں ہے، یورپ میں اہم ملکوں کے لحاظ سے اٹلی، فرانس اور چین میں اور مشن ہونے چاہئیں.ایشیا میں تمہارا جاپان میں اور آسٹریلیا اور ایک تھائی لینڈ وغیرہ کے علاقے میں ہونا چاہئے ، جو چین وغیرہ میں تبلیغ کو وسیع کر سکے.امریکہ میں اگر ہمارے دو مشنری اور ہو جائیں یعنی ایک کینیڈا میں اور ایک جنوبی امریکہ کے کسی علاقہ میں تو پھر اس طرح تمہاری تنظیم ہوسکتی ہے کہ تم ایک دم ساری دنیا میں اسلام کی آواز کو بلند کر سکتے ہو.اگر اس کے ساتھ لٹریچر مہیا ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآن شریف سے زیادہ اعلیٰ لٹریچر کیا ہوگا، قرآن شریف شائع ہو گیا ہے اور کئی کتابیں ، جو ضروری ہیں، وہ ہمارے زیر نظر ہیں، تو اور بھی آسانی ہو سکتی ہے.جوں جوں چھپوانے کی توفیق ہو گی ، وہ چھپنی شروع ہو جائیں گی.اگر جماعت کے مخلص لوگ حصہ لے کر اور نینٹل پبلشنگ کمپنی کو کھڑا کر دیں اور پریس جاری ہو جائے تو پھر انشاء اللہ جلدی جلدی اور لٹریچر بھی شائع ہونا شروع ہو جائے گا.میں نے ایسے لٹریچر مد نظر رکھ لئے ہیں، جن کو فورا ہی لکھوا کر وسیع کیا جا سکتا ہے.بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ تنظیم ہو جائے تو یہ عیسائیت پر ایک ایسا حملہ ہو جائے گا، جس کو رد کرنے کے لئے دشمن کے لئے مشکل پیش آئے گی.مثلاً دیکھو، میرا قرآن شریف کا دیباچہ شائع ہوا ہے، اس کے متعلق متواتر جور پورٹیں آ رہی ہیں، جرمن سے، ہالینڈ سے اور دوسرے کئی ممالک سے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مصنفوں نے اس کے متعلق لکھا ہے.بعض نے گالیاں بھی دی ہیں اور بعضوں نے کہا ہے کہ عیسائیت کے ساتھ بڑی سختی کی گئی ہے.مگر تمام کا خلاصہ یہ آجاتا ہے کہ یہ اسلام کا ایسا حملہ ہے، جس کو رڈ کئے بغیر ہم چپ نہیں رہ سکتے.مگر یہ دیکھ لو کہ آج تم بہت زیادہ ہو، ( میں نے وہ مثال اسی لئے مدینہ کی دی تھی کہ آج تو تم بہت زیادہ ہو.) جب تم ابھی تھوڑے تھے اور جب قرآن شریف سارا نہیں نکلا تھا ، صرف پہلا سپارہ شائع ہوا تھا.اس وقت فورمن کرسچن کالج لاہور کا پرنسپل اور اس کے دو ساتھی ، جن میں سے ایک عالمگیر محکمہ بینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن کا اشاعت کتب کا سیکرٹری تھا اور ایک جنرل سیکرٹری تھا، یہ تینوں مجھے قادیان ملنے آئے ، باتیں ہوئیں، باتیں ہونے کے بعد ( وہ لوگ اس وقت امریکہ جا رہے تھے.امریکہ چلے گئے.چند دنوں کے بعد سیلون سے وہاں کی جماعت نے مجھے ان کا ایک کٹنگ بھجوایا، جس میں ذکر تھا کہ سیلون میں فورمن کرسچن کالج کا جو پر نسپل تھا، اس نے تقریر کی اور اس نے کہا کہ عیسائیت کے لئے اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ اس کو اسلام کے ساتھ آخری جنگ لڑنی پڑے گی.اور اس نے کہا یہ احساس عیسائیوں میں عام ہے کہ اب عیسائیت 459
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کو ایک آخری جنگ اسلام کے ساتھ لڑنی پڑے گی.لیکن کسی کا تو یہ حساس ہے کہ یہ مصر میں لڑائی ہوگی کسی کا یہ احساس ہے کہ کسی اور بڑے میں مرکز میں ہوگی ، یورپ میں ہوگی یا امریکہ میں ہوگی مگر میں ایک دورہ سے جو ابھی آیا ہوں، میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسلام اور عیسائیت کی یہ جنگ کسی اور بڑے مقام پر نہیں لڑی جائے گی ، ایک چھوٹا سا قصبہ قادیان ہے، وہاں لڑی جائے گی.دیکھو، یہ 1917ء کی بات ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ سینتیس سال اس کے اوپر گزر گئے.سینتیس سال ہوئے ، جب ہماری طاقت بالکل کم تھی ، جب ابھی تحریک جدید کا نام بھی نہیں تھا.اس وقت اس شخص کی ذہانت نے بتایا کہ آئندہ اسلام اور عیسائیت کی جنگ قادیان میں ہونی ہے.مگر اب تو تمہارے نام سے سارے کے سارے واقف ہیں.دیکھو، ٹائن بی ، جو اس وقت سب سے بڑا مؤرخ مانا جاتا ہے اور قریباً گن کی پوزیشن اس کو ملنے لگ گئی ہے بلکہ بعض تو اس سے بھی بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسا مورخ کبھی نہیں گزرا، اس نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ دنیا میں جو رد و بدل ہوا کرتے ہیں اور تغیر آیا کرتے ہیں، وہ اخلاقی اقدار سے آتے ہیں.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کوئی بڑی چیز ہو یا بڑی طاقت ہو تو اس سے تغیرات ہوتے ہیں، یہ غلط بات ہے.پھر اس نے مثال دی ہے اور اس نے لکھا ہے کہ عیسائیت کے ساتھ اب اسلام کی ٹکر ہوگی ، جس کے سامان نظر آرہے ہیں.آگے اس کے مطالعہ کی غلطی ہے.اس نے سمجھا ہے کہ شاید یہ جو بہائی ہیں، یہ بھی مسلمان ہی ہیں.حالانکہ وہ تو کہتے ہیں ہم مسلمان نہیں ہیں.بہر حال وہ کہتا ہے کہ بہائی ازم اور احمدی ازم یہ دو چیزیں نظر آ رہی ہیں، جن میں مجھے آئندہ لڑائی والی جھلک نظر آ رہی ہے.ان کے ساتھ ٹکر کے بعد یہ فیصلہ ہوگا کہ آئندہ تہذیب کی بنیاد اگلی صدیوں میں اسلام پر قائم ہوگی یا عیسائیت پر قائم ہوگی.پھر اس نے مثال دی ہے، کہتا ہے، ہم تو گھوڑ دوڑ کے شوقین ہیں، ہمارے ہاں عام گھوڑ دوڑ ہوتی ہے.ہم گھوڑ دوڑ والے جانتے ہیں کہ نہیں کہ بسا اوقات جو گھوڑ ا سب سے پیچھے سمجھا جاتا ہے، وہ آگے نکل جاتا ہے.تو وہ کہتا ہے کہ یہ مت خیال کرو کہ احمدی اس وقت کمزور ہیں.کیونکہ بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ پچھلا گھوڑا آگے نکل جاتا ہے.اسی طرح اب تم کو یہ کمزور نظر آتے ہیں لیکن مجھے ان میں وہ ترقی کا بیج نظر آرہا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی وقت عیسائیت کے ساتھ ٹکرلیں گے اور شاید یہی جیت جائیں.دیکھو، اتنا بڑا شخص ، جس کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے بڑا مؤرخ ہے، اس کو بھی مانا پڑا کہ احمدیت کے اندروہ بیج موجود ہے، جس نے عیسائیت سے ٹکر لینی ہے.اور پھر ممکن ہے، یہی جیت جائیں.وہ تو آخر مخالف ہے، اس نے ممکن ہی کہنا تھا، یہ تو نہیں کہنا تھا کہ یقینی امر ہے کہ جیت جائیں.460
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1954ء تو اتنے مقام پر پہنچنے کے بعد کتنی شرم کی بات ہے، اگر تم اپنے قدم پیچھے ہٹا لو تم وہ تو نہ کرو، جیسے کہتے ہیں کہ کوئی مغرور شخص تھا، اس کو یہ خیال ہو گیا کہ میں بڑا بہادر ہوں اور بہادری کی علامت اس نے یہ مقرر کی ہوئی تھی کہ وہ خوب چربی لگا لگا کے اپنی مونچھیں موٹی کرتا رہتا تھا.چنانچہ اس نے خوب مونچھیں یال لیں.کوئی انچ بھر وہ موٹی ہو گئیں اور پھر اس نے ان کو مروڑ مروڑ کر آنکھوں تک پہنچا دیا.اور پھر اس نے یہ اصرار کرنا شروع کیا کہ چونکہ مونچھیں بہادری کی علامت ہیں ، اس لئے خبر دار اس علاقہ میں میرے سوا کوئی مونچھ نہ رکھے.لوگوں میں مونچھیں رکھنے کا عام رواج تھا کیونکہ اس زمانہ میں جنگی کیر کٹ یہ سمجھا جاتا تھا کہ مونچھیں چڑھائی ہوئی ہوں.مگر اس نے جس کی مونچھ دیکھنی پکڑ لینی اور قیچی سے کاٹ ڈالنی اور کہنا، خبر دار آئندہ جو یہ حرکت کی ، میرے مقابلے میں کوئی شخص مونچھیں نہیں رکھ سکتا.سارے علاقے میں شور پڑ گیا.آخر لوگوں نے کہا، ذلیل کیوں ہونا ہے؟ مونچھیں کٹوا ڈالو، ورنہ اس نے تو زبردستی کاٹ ڈالنی ہیں.کئی بے چاروں نے گاؤں چھوڑ کر بھاگ جانا اور کسی نے چپ کر کے نائی سے کٹوا دینی.نہیں کٹوانی تو اس نے جاتے ہی بازار میں مونچھ پکڑ لینی اور قیچی مارنی اور کاٹ ڈالتی.اس سے لوگوں کی بڑی ذلتیں ہوئیں.آخر ایک شخص کوئی عقلمند تھا، یوں تھا غریب سا.اس نے جو دیکھا کہ روز روز یہ مذاق ہو رہا ہے اور اس طرح لوگوں کی ذلت ہوتی ہے تو اس نے کیا کیا کہ وہ بھی گھر میں بیٹھ گیا اور اس نے مونچھیں بڑھانی شروع کر دیں.یہاں تک کہ اس نے اس سے بھی زیادہ بڑی مونچھیں بنالیں.جب مونچھیں خوب ہو گئیں تو آکر بازار میں ٹہلنے لگ گیا اور ایک تلوار لٹکالی.حالانکہ تلوار چلانی بیچارے کو آتی ہی نہیں تھی.اب اس پٹھان کو لوگوں نے اطلاع دی کہ خان صاحب چلئے کوئی مونچھوں والا شخص آ گیا ہے.کہنے لگا، کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا، فلاں بازار میں ہے.خیر دوڑے دوڑے وہاں آئے ، دیکھا تو بڑے جوش سے کہا تم کو پتہ نہیں، مونچھیں رکھنا صرف بہادر کا کام ہے اور میرے مقابل میں کوئی مونچھیں نہیں رکھ سکتا.وہ کہنے لگا ، جاؤ جاؤ بڑے بہادر بنے پھرتے ہو.تم سمجھتے ہو تم ہی بڑے بہادر ہو، میں تم سے بھی زیادہ بہادر ہوں.اس نے کہا، پھر یہ تو تلوار کے ساتھ فیصلہ ہوگا.وہ کہنے لگا اور کس کے ساتھ ہو گا ؟ بہادروں کا فیصلہ ہوتا ہی تلوار کے ساتھ ہے.اس نے کہا، پھر نکالو تلوار.چنانچہ اس نے بھی تلوار نکال لی.حالانکہ اس بے چارے کو تلوار چلانی ہی نہیں آتی تھی.جب وہ تلوار نکال کر کھڑا ہو گیا تو یہ کہنے لگا، دیکھو، بھٹی خان صاحب ایک بات ہے اور یہ کہ میرا اور آپ کا فیصلہ ہونا ہے کہ ہم میں سے کون بہادر ہے؟ لیکن ہمارے بیوی بچوں کا تو کوئی قصور نہیں.فرض کرو، میں مارا جاؤں تو میری بیوی کا کیا قصور ہے کہ بیچاری بیوہ بنے اور میرے بچے یتیم 461
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1954ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم بنیں؟ اور تم مارے جاؤ تو تمہاری بیوی بچوں کا کیا قصور ہے، خواہ مخواہ ظلم بن جاتا ہے؟ اس نے کہا پھر کیا علاج ہے؟ کہنے لگا ، علاج یہی ہے کہ میں جاکے اپنے بیوی بچوں کو مار آتا ہوں اور تم جاکے اپنے بیوی اور بچوں کو مار آؤ.پھر ہم آپس میں آکر لڑیں گے.پھر تو ٹھیک ہوئی بات ، اب خواہ مخواہ اپنی اس لڑائی کے ساتھ دوسروں کو کیوں تکلیف دینی ہے؟ یہ بات بیچارے خان صاحب کی سمجھ میں آگئی.انہوں نے کہا ٹھیک ہے.چنانچہ وہ گئے اور اپنے بیوی بچوں کو مار کے آگے اور یہ وہیں بیٹھا ر ہا.جس وقت وہ واپس پہنچا تو کہنے لگا، نکالوتلوار اس نے کہا، نہیں، میری رائے بدل گئی ہے اور یہ کہہ کر اس نے اپنی مونچھیں نیچی کر لیں.تو کیا اب تم وہی کرنا چاہتے ہو؟ تم تھوڑے سے تھے، جب تم دنیا میں نکلے اور تم نے نکل کر دنیا سے یہ منوالیا کہ اگر اسلام کی عزت رکھنے والی کوئی قوم ہے تو صرف احمدی ہیں.تم نے دنیا سے منوالیا کہ اگر عیسائیت کا جھنڈ از پر کرنے والی کوئی چیز ہے تو وہی دلیلیں ہیں، جو مرزا صاحب نے پیش کی ہیں.جب عیسائیت کا پینے لگی ، جب وہ تھر تھرانے لگی، جب اس نے سمجھا کہ میراند ہی تخت مجھ سے چھینا جا رہاہے اور یہ تخت چھین کرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جارہا ہے تو تم نے کہا ہم اپنی مونچھیں نیچی کرتے ہیں.کیسی افسوس کی بات ہے.یہی تو وقت ہے، تمہارے لئے قربانیوں کا.یہی تو وقت ہے، تمہارے لئے آگے بڑھنے کا.اب جبکہ میدان تمہارے ہاتھ میں آ رہا ہے تم میں سے کئی ہیں، جو پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں.لیکن یاد رکھو، اس قسم کی عزت کا موقع اور اس قسم کی برکت کا موقع اور اس قسم کی رحمت کا موقع اور اس قسم کے خدا تعالیٰ کے قرب کے موقعے ہمیشہ نہیں ملا کرتے سینکڑوں سال میں کبھی یہ موقعے آتے ہیں.اور خوش قسمت ہوتی ہیں ، وہ قومیں ، جن کو وہ موقعے مل جائیں اور وہ اس میں برکتیں حاصل کر لیں.نوجوانوں کو میں خصوصاً توجہ دلاتا ہوں کہ خدام کے ذریعہ سے تم نے بڑے بڑے اچھے کام کرنے شروع کئے ہیں.خدمت خلق کا تم نے ایسا عمدہ لاہور میں مظاہرہ کیا ہے کہ اس کے اوپر غیر بھی عش عش کرتا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ تم روزانہ اپنی زندگیوں کو اس طرح سنوارتے چلے جاؤ گے کہ تمہارا خدمت خلق کا کام بڑھتا چلا جائے.لیکن یہ کام سب سے مقدم ہے.کیونکہ اسلام کی خدمت کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو.اور اسلام کی تبلیغ کا دنیا میں پھیلانا، یہ ناممکن کام اگر تم کر دو گے تو دیکھو آئندہ آنے والی نسلیں تمہاری اس خدمت کو دیکھ کر کس طرح تم پر اپنی جانیں نچھاور کریں گی.کیا آج تم میں سے کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا آج ایشیا میں کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا آج افریقہ کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا 462
تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1954ء آج امریکہ کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا آج چین اور جاپان کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے یا شمالی علاقوں کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ اسلام غالب آ جائے گا اور عیسائیت شکست کھا جائے گی ؟ کیا کوئی شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ ربوہ ، جو ایک کوردہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، ایک شور زمین والا ، جس میں اچھی طرح فصل بھی نہیں ہوتی، جس میں پانی بھی کوئی نہیں، اس ربوہ میں سے وہ لوگ نکلیں گے، جو واشنگٹن اور نیو یارک اور لندن اور پیرس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے؟ تو یہ تمہاری حیثیت ہے کہ کوئی شخص ، نہ دشمن، نہ دوست، یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا کہ تم دنیا میں یہ کام کر سکتے ہو.مگر تمہارے اندر خدا تعالیٰ نے یہ قابلیت پیدا کر دی ہے.تمہارے لئے خدا تعالیٰ نے یہ وعدے کر دیتے ہیں ، بشرطیکہ تم استقلال کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ اسلام کی خدمت کے لئے تیار رہو.اگر تم اپنے وعدوں پر پورے رہو، اگر تم اپنی بیعت پر قائم رہو تو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تاج تم چھین کے لاؤ گے اور تم پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر رکھو گے.تم تو چند پیسوں کے اوپر ہچکچاتے ہو، مگر خدا کی قسم ، اگر اپنے ہاتھوں سے اپنی اولادوں اور اپنی بیویوں کو ذبح کرنا پڑے تو یہ کام پھر بھی سستا ہے.پس نو جوانوں کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ ان کے آباء نے قربانیاں کیں اور خدا کے فضل سے وہ اس مقام پر پہنچے.کچھ ان میں سے فوت ہو گئے اور کچھ اپنا بوجھ اٹھائے چلے جارہے ہیں.میں نو جوانوں سے کہتا ہوں کہ اب وہ آگے بڑھیں اور اپنی قربانیوں سے یہ ثابت کر دیں کہ آج کی نسل پہلی نسل سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہے.جس قوم کا قدم آگے کی طرف بڑھتا ہے، وہ قوم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتی ہے اور جس قوم کی اگلی نسل پیچھے بہتی ہے، وہ قوم بھی پیچھے بٹنی شروع ہو جاتی ہے.کچھ عرصہ تک تمہارے بوجھ بڑھتے چلے جائیں گے، کچھ عرصہ تک تمہاری مصیبتیں بھیانک ہوتی چلی جائیں گے، کچھ عرصہ تک تمہارے لئے ناکامیاں ہرقسم کی شکلیں بنا بنا کر تمہارے سامنے آئیں گی.لیکن پھر وہ وقت آئے گا ، جب آسمان کے فرشتے اتریں گے اور وہ کہیں گے، بس ہم نے ان کا دل جتنا دیکھا تھا، دیکھ لیا.جتنا امتحان لینا تھا، لے لیا.خدا کی مرضی تو پہلے سے یہی تھی کہ ان کو فتح دے دی جائے.جاؤ، ان کو فتح دے دو.اور تم فاتحانہ طور پر اسلام کی خدمت کرنے والے اور اس کے نشان کو پھر دنیا میں قائم کرنے والے قرار پاؤ گے.پس بڑوں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت کریں اور بچوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت میں حصہ لیں اور وقف زندگی کریں.تاکہ تمہاری قربانیوں کے ذریعہ سے پھر اسلام طاقت اور قوت پکڑے“.مطبوعه روزنامه الفضل 28 اکتوبر 1955ء) 463
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خلاصہ انہ خطاب فرمودہ 28 دسمبر 1954ء ہماری ساری عزتیں اسلام ہی سے وابستہ ہیں خطاب فرموده 28 دسمبر 1954 ء بر موقع جلسہ سالانہ مرکز سلسلہ میں ذمہ دار کارکنوں کمی کی وجہ سے سلسلہ کے انتظامی کاموں میں کمزوری پیدا ہورہی ہے.یہ ذہنیت دور ہونی چاہئے کہ ہر چھوٹا بڑا کام خلیفہ ہی کرے.جہاں تک انتظامی کاموں کا تعلق ہے، وہ بہر حال متعلقہ شعبوں کے کارکنوں نے ہی کرنے ہوتے ہیں.اور اس کے لئے موزوں کا رکن مہیا کرنا بھی جماعت کا فرض ہے.نوجوانوں کو خدمت دین کے لئے آگے آنا چاہیے.اسی طرح پنشنز ا حباب کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو پیش کریں.تا کہ جب تک نو جوانوں کوٹرینگ نہ دی جاسکے سلسلہ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکے.اس موقع پر اسلامی ممالک کے لئے خصوصیت سے دعائیں کرو.اس وقت قریباً سارے ہی اسلامی ممالک اندرونی اور بیرونی طور پر خطرات میں گھرے ہوئے ہیں.ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو انہیں ایک مدت کی غلامی کے بعد آزادی عطا فرمائی ہے تو اب اس آزادی کی نعمت سے پوری طرح متمتع ہونے کی بھی انہیں توفیق دے.در حقیقت اس زمانہ میں سب سے زیادہ مصیبت زدہ تو خود اسلام ہے.دعائیں کرد کہ اللہ تعالیٰ پھر اسے عزت کا وہی مقام عطا فرمائے ، جو پہلے اسے حاصل تھا.دراصل ہماری ساری عزتیں اسلام ہی سے وابستہ ہیں.اگر دنیا میں اسلام کو عزت حاصل نہیں تو ہماری بھی کوئی عزت نہیں.پھر مبلغین کے لئے دعائیں کرو، جو مختلف ممالک میں اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہیں کہ اللہ تعالٰی ان کی اور ان کے اہل وعیال کی حفاظت فرمائے.اور جس مقصد کے لئے وہ گئے ہوئے ہیں ، اس میں انہیں کامیابی حاصل ہو.پھر یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے تئیں دین کی خدمت کے لئے پیش کرنے اور پھر اچھے سے اچھے رنگ میں اپنے عہدوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.جن کارکنوں نے جلسے کے موقع پر کام کیا ہے، انہوں نے یہ کام محض اللہ تعالیٰ کی خاطر کیا ہے، پس وہ بھی ہم سب کی دعاؤں کے مستحق ہیں.پھر یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھانے کے سامان پیدا فرمائے ، ہمارے خلاف لوگوں کے قلوب میں نفرت اور بغض کے جو جذبات پیدا کر دیئے گئے ہیں، انہیں دور فرمائے.ہمیں صحیح طور پر کام کرنے اور دوسروں کو نیک کام کو نیک رنگ میں دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے.( مطبوعه روزنامه الفضل 07 جنوری 1955ء) 465
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطاب فرمودہ 24 جنوری 1955ء مبلغین کو غیر ممالک میں اشاعت اسلام کے متعلق بعض اہم ہدایات خطاب فرمودہ 24 جنوری 1955ء پس میں ایک تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم ایسا طریق تبلیغ اختیار کرو کہ افریقہ میں لوگ قوم وار احمدیت میں داخل ہوں اور تم لوگوں سے خطاب بھی قوم وار کرو.اب تو تمدن میں زیادہ ترقی ہو گئی ہے لیکن بہر حال ایک ایک گاؤں میں کئی کئی قو میں آباد ہوتی ہیں.فرض کرو تم ایک گاؤں میں جاتے ہو اور وہاں ایک قوم آباد ہے اور اس کے علاوہ وہاں ب، ج اور 9 قو میں بھی آباد ہیں.تمہیں معلوم ہوا ہے کہ ( والے احمدیت میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیں.تو تم ان سے دریافت کرو کہ تمہاری قوم کہاں کہاں آباد ہے؟ اور پھر جہاں جہاں ان کی قوم آباد ہو، وہاں انہیں بھیجو تا کہ وہ انہیں تبلیغ کریں اور احمدیت میں داخل کریں.پھر تم ب ، ج ، 9 میں سے کسی قوم کی طرف توجہ کرو اور انہیں تبلیغ کرو.اگر ان میں سے کچھ افراد تیار ہو جائیں تو انہیں اپنی اپنی قوم کے پاس بھیجو اور انہیں تاکید کرو کہ وہ اپنی قوم کو اپنے ساتھ لائیں.ورنہ ان میں سے کسی کا ذاتی طور پر احمدیت میں داخل ہو جانا، زیادہ مفید نہیں ہوسکتا.پھر ہمارے ہاں مسائل پر زیادہ بحث کی جاتی ہے لیکن ان کے ہاں مسائل کی بحث زیادہ نہیں.کوئی ایک مسئلہ لے لو اور انہیں سمجھا دو تو وہ سب مسائل کو درست ماننے لگ جائیں گے.یہاں تو پہلے وفات مسیح پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے اور اس کے بعد نبوت پر بحث ہوتی ہے اور پھر صداقت مسیح موعود پر جھگڑا شروع ہو جاتا ہے، پھر کفر و اسلام کا مسئلہ آجاتا ہے، پھر حشر اجساد پر بحث شروع ہوتی ہے.غرض جب تک ایک شخص ساری انسائیکلو پیڈیا نہ پڑھ لے، وہ اٹھتا نہیں.اس کے مقابلہ میں پہلے مسلمانوں کو دیکھ لو، ان میں اس قدر مسائل کہاں تھے؟ ان کے پاس صرف لا اله الا اللہ تھا اور اس میں زیادہ بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی.پس تم ان اقوام کی سٹڈی کرو اور کوئی ایک بات ایسی لے لو، جس کے متعلق قومی احساس زیادہ ہو.مثلاً اس طرف زیادہ تر مالکی آباد ہیں، مالکی نماز میں ہماری طرح ہاتھ باندھتے نہیں ، وہ ہاتھ چھوڑتے ہیں.تم اس مسئلہ کو لے لو اور انہیں کہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ہاتھ باندھتے تھے اور اس امر کو 467
خطاب فرموده 24 جنوری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم احادیث اور فقہ کی کتابوں سے ثابت کرو.جب اس قسم کی ایک روچل جائے گی تو وہ اپنا مذ ہب ترک کر کے اس رو کے پیچھے چل پڑیں گے.اور جب وہ یہ سمجھ لیں گے کہ ان کے علماء اس مسئلہ میں صحیح راستہ پر نہیں تو وہ دوسرے مسائل میں بھی ان پر اعتبار کر نا ترک کر دیں گے.یہ بات میں نے مثال کے طور پر بیان کی ہے.ویسے تم اپنی اپنی جگہ جا کر ان لوگوں کی سٹڈی کرو اور جس بات کے متعلق تمہیں معلوم ہو کہ ان میں اس کے متعلق زیادہ احساس ہے، تم اسے لے لو.اس طریق میں کامیابی کے لئے تین باتوں کا ہونا ضروری ہے.اول یہ کہ کون سے مسئلہ میں قومی احساس زیادہ ہے؟ دوسرے یہ کہ ہم کس پہلو کو زیادہ آسانی سے ثابت کر سکتے ہیں؟ مثلاً ہو سکتا ہے کہ دو باتوں میں قومی احساس زیادہ ہو لیکن ایک بات کو ثابت کرنا مشکل ہو اور دوسری بات فطرت کو زیادہ اپیل کرتی ہو.تیسرے جس مسئلہ کو تم اختیار کرو، اپنی جماعت کو مجبور کرو کہ وہ اس کی پابندی کرے.چاہے اس کا دوسرا پہلو بھی جائز ہو.میں نے ہاتھ باندھنے کی مثال اس لئے دی ہے کہ بعض مبلغین نے لکھا ہے کہ بعض اوقات لوگوں سے ہاتھ باندھنے پر بحث ہو جاتی ہے اور جب حوالے دکھا کر اپنا مسلک ثابت کیا جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں، ہمارے علماء تو غلط بات پیش کر رہے ہیں.پس اس قسم کا کوئی مسئلہ لے کر تم اس قوم کے لئے چڑ بنادو.اور پھر اسی مسئلہ پر بحث کرو اور ان پر ثابت کرو کہ تم جس طریق پر عمل کر رہے ہو، وہ درست نہیں.اور جب یہ بات ان پر ثابت ہو جائے تو اس مثال کو پیش کر کے تم ان سے کہو کہ علماء نے اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی تمہیں غلط باتیں بتائی ہیں.تم جب کوئی مسئلہ لو گے، مخالف علماء اس پر زیادہ زور دیں گے اور اپنے طریق کو درست ثابت کرنے کی کوشش کریں گے.اور جب اس پر کسی قوم میں زیادہ زور دیا جائے گا تو تمہارے لئے رستہ زیادہ آسان ہو جائے گا.تم حوالے پیش کر کے قرآن اور حدیث اور سنت سے اپنے طریق کو ثابت کرو.اور جب وہ بات ان لوگوں پر واضح ہو جائے گی تو وہ علماء کو خود بخود غلطی خوردہ خیال کرنے لگ جائیں گے.تمہاری بات زیادہ توجہ سے سنیں گے.پس تم افریقہ میں قوم وار چلو، گاؤں وار تبلیغ کرو اور قبائل اور جتھوں کو خطاب کرو.پھر اگر کسی قوم میں سے کچھ لوگ تمہاری بات مان لیں اور بیعت کے لئے تیار ہو جا ئیں تو انہیں کہو تم اپنی قوم کے پاس 468
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطاب فرمودہ 24 جنوری 1955ء جاؤ اور انہیں تبلیغ کر کے ساتھ ملا ؤ اور پھر بیعت کرو.ورنہ تمہیں ایک دو افراد کی بیعت کا کیا فائدہ؟ چھوٹے چھوٹے قبائل کو بے شک علیحدہ علیحدہ بھی مخاطب کر لو.میں اس سے منع نہیں کرتا لیکن بڑے قبائل اور بڑی اقوام کو ہمیشہ قوم وار مخاطب کرو.ایک بات میں نے ان سے یہ بھی کہی ہے کہ دوسرے لوگ باہر جاتے ہیں، وہ اپنے وقار کا خاص خیال رکھتے ہیں.لیکن ہمارے مبلغین کی اس طرف توجہ نہیں.مبلغین کو یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ غیر ملکوں میں ان کی عزت زیادہ ہوتی ہے.مثلا تم میرے سامنے آتے ہو تو میں تمہیں تم تم کہہ کر مخاطب کرتا ہوں.اس کے علاوہ اگر گوئی تمہارا استاد سامنے آجاتا ہے تو اس کے سامنے بھی تم اس کے شاگرد ہوتے ہو.لیکن باہر تم استاد ہوتے ہو اور دوسرے لوگ تمہارے شاگرد ہوتے ہیں.تمہیں باہر جا کر اس قسم کی ذہنیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ محض جی حضور یے بن کر نہ رہ جاؤ تم کمشنروں اور گورنروں سے بے دھڑک ملوں.یہاں تو تم ایک تحصیلدار سے بھی نہیں مل سکتے.لیکن وہاں تمہاری پوزیشن اس قسم کی ہوتی ہے کہ تم بے دھڑک کمشنروں اور گورنروں سے مل سکتے ہو.انہیں کیا پتہ ہے کہ کس کے شاگرد ہو؟ تمہاری پوزیشن وہاں ایک سفیر کی ہوتی ہے.تم وہاں جا کر اپنی ذہنیت کو بدل لو اور ڈر اور خوف کو اپنے پاس نہ آنے دو.یہاں تم ما تحت ہوا اور درجہ میں دوسروں سے نیچے ہو.اگر ہماری عمریں ایک ہزار سال کی بھی ہوں اور تمہاری عمر 900 سال کی ہو جائے ، تب بھی تم ماتحت رہو گے اور تمہاری گردنیں ہمارے سامنے جھکی ہوں گی.لیکن جب تم باہر جاؤ گے تو تم ایک بڑی جماعت کے لیڈر اور نمائندہ ہو گے اور دوسرے لوگ تمہاری اس پوزیشن کا لحاظ رکھیں گے.اس لئے جب تم باہر جاؤ تو کسی بڑے عہدیدار سے ڈرو نہیں.تم ان سے مساوی رنگ میں گفتگو کرو.تم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کو ہی دیکھ لو، انہوں نے گولڈ کوسٹ میں ایک مسجد بنائی اور اس موقع پر ملک کے وزیر اعظم کو بھی بلایا.اور وہ آ گیا اور پھر وہ صرف مسجد کے احترام کی وجہ سے آ گیا.گیسٹ آف آنر کے طور پر اس قسم کے لوگ بے شک آجاتے ہیں لیکن عام مہمان کی حیثیت سے ان کا آنا مشکل ہوتا ہے.لیکن وہاں یہ حالت تھی کہ وزیراعظم کو اس موقع پر صرف شمولیت کے لئے بلایا گیا اور وہ آگیا.لیکن یہاں مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی پوزیشن ایک ماتحت کی ہے.اور میرے سامنے تو ان کی پوزیشن ایک بچہ کی سی ہے.اور پھر ان کے یہاں استاد بھی ہیں.لیکن وہاں وہ کسی کے پاس جائیں تو وہ یہ سمجھے گا کہ ایک بڑی جماعت کا ہیڈ مشنری میرے پاس آیا ہے.469
خطاب فرموده 24 جنوری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم پس باہر جا کر تمہاری پوزیشن ایک ایمبسیڈر کی ہوتی ہے اور تمہیں اس پوزیشن کو برقرار رکھنا چاہئے.یہاں تو اپنے آپ کو ماتحت خیال کرو اور باہر جاؤ تو اپنے آپ کو ایمبسیڈ رخیال کرو.اور اسی پوزیشن سے افسران کے ساتھ گفتگو کرو.یہاں جولوگ ایمبسیڈر بن کر آتے ہیں، اپنے ملک میں ان کی پوزیشن زیادہ نہیں ہوتی.ان میں سے بعض معمولی تاجر ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے ملک کی طرف سے سفیر ہوتے ہیں.اور بعض اوقات اس بات کا اقرار بھی کر لیتے ہیں.مثلاً شامی سفیر مجھے ملا تو اس نے مجھے علیحدہ ہو کر کہا کہ میں آپ کا بہت ممنون ہوں.میں نے اپنے ملک میں آپ کا لٹریچر پڑھا تھا اور اس کا مجھ پر بڑا اثر ہے.لیکن اب وہ یہاں سفیر بن کر آیا ہوا تھا.تمہاری حیثیت بھی بیرونی ممالک میں سفیروں کی سی ہے.اس لئے تمہیں اس بات کو بھولنا نہیں چاہئے.پھر زبان دانی کی طرف سے بھی خاص توجہ کرو.اس وقت ہمارے مبلغ جہاں بھی گئے ہیں، وہاں انگریزی غالب ہے.اگر ہمارے مبلغ انگریزی جانتے ہوں تو انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی.کیونکہ ہمارا کوئی مبلغ ایسا نہیں ، جس کی انگریزی کی بنیاد اتنی نہ ہو کہ وہ کچھ عرصہ کے بعد انگریزی زبان میں اپنے مانی الضمیر کو ادا نہ کر سکے.پس تم جہاں جہاں جاؤ، انگریزی زبان کو دھڑلے سے استعمال کرو.چاہے تم غلط سلط انگریزی بولو لیکن دھڑلے سے بولو.اس طرح آہستہ آہستہ زبان خود بخود آ جائے گی.یہاں جو لوگ دوسرے ممالک سے آتے ہیں، انہیں میں نے دیکھا ہے کہ وہ بے دھڑک انگریزی بولتے ہیں اور گرامر کی غلطیوں کی پروا نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ جس بے تکلفی سے وہ انگریزی بولتے ہیں، ہمارے گریجوایٹ بھی نہیں بول سکتے.پس مبلغین کو چاہئے کہ وہ جو جوز بائیں جانتے ہیں، انہیں وسعت دیں.مثلاً مغربی افریقہ میں بعض شامی تاجر آباد ہیں، جو عربی زبان جانتے ہیں.اگر تم ان سے عربی زبان میں گفتگو کرنے کی عادت ڈال لو تو تمہاری زبان صاف ہو سکتی ہے.اسی طرح انگریزی زبان بھی مغربی افریقہ میں ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے.اس میں بھی ترقی کی جاسکتی ہے.پھر میں نے مبلغین میں ایک نقص یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ ہمیشہ رپورٹ بھیجنے میں کوتاہی کرتے ہیں.اور یہ چیز درست نہیں.جب انہیں ڈانٹا جاتا ہے تو کہتے ہیں، ہمیں اور بہت سے کام ہیں.دنیا میں حکومتوں نے ایڈمنسٹریشن کے لئے مختلف قانون بنائے ہیں.اور یہ قانون بڑی بڑی ایمپائرز نے بڑے بڑے تجربہ کے بعد بنائے ہیں.ان قوانین میں سے ایک اہم قانون یہ ہے کہ کارکن اپنے کام کی رپورٹ 470
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطاب فرمودہ 24 جنوری 1955ء ضرور دے.وہ کام بے شک چھوڑ دے لیکن رپورٹ بھیجنے میں کوتاہی نہ کرے.کام مقدم نہیں ، رپورٹ بھیجنا مقدم ہے.اگر تم رپورٹ بھیجتے ہو اور کام کچھ نہیں کرتے تو ہم تم سے جواب طلبی کریں گے.اور اگر رپورٹ نہیں بھیجو گے تو تم کام چاہے کتنا بھی کرو، وہ کام ہماری نظروں میں بیکار ہوگا.اگر مرکز کو علم ہی نہیں کہ تم کیا کام کر رہے ہو تو وہ ہدایت کیسے بھیج سکتا ہے؟ رپورٹ بھیجو گے تو وہ تمہارے کاموں کا جائزہ لے سکے گا.اور اگر تم کوئی غلط کام کر رہے ہو تو وہ تمہاری اصلاح کر سکے گا.پاس تمہارا کام بھی تبھی مفید ہوسکتا ہے، جب تم جہاں جاؤ، اپنے کام کی رپورٹ باقاعدہ بھیجتے رہو.پھر رپورٹ اس قسم کی نہ ہو کہ میں فلاں سے ملا، فلاں سے یہ گفتگو کی، فلاں کو میں نے اپنے پاس بلایا.بلکہ اپنی رپورٹ میں ملک کا جغرافیہ اور تاریخ لکھو، اس کے سیاسی حالات لکھو، پھر لکھو کہ ان حالات میں تبلیغ کا کام کیسے ہو رہا ہے؟ یہ نہیں کہ میں فلاں گاؤں گیا، وہاں ایک دن ٹھہرا، تقریر کی اور واپس آگیا.بلکہ تمہاری رپورٹ میں مذکورہ بالا تمام پوائنٹس آنے چاہئیں کہ فلاں جگہ اس رنگ میں تقریر کی گئی اور فلاں پوائنٹ کی وضاحت کی گئی.اس طرح مضامین لکھو اور ملک میں شور مچادو.قوم وار تبلیغ کرو اور اپنے کام کی باقاعدہ رپورٹ بھیجتے رہو.تا مرکز تمہاری رپورٹ کے مطابق تمہیں اپنی ہدایات بھیج سکے.( مطبوعه روزنامه الفضل 05 فروری 1961 ء ) 471
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1955ء مرکز بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے اور جماعت بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1955ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کئے ہوئے دوماہ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ گو وعدوں کا وقت ختم ہونے کے قریب آرہا ہے، پھر بھی وعدوں کی رفتارست ہے.ابھی تک اس دو ماہ سے زائد عرصہ میں جو زائد وعدے وصول ہوئے ہیں، وہ گذشتہ سال کے وعدوں کی نسبت ساٹھ فیصدی ہیں، بلکہ اس سے بھی کم ہیں.پھر سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض جماعتیں، جو گزشتہ سالوں میں ہمیشہ اول رہی ہیں، وہ بھی اس دفعہ بہت ست چل رہی ہیں.میرے نزدیک اس کی زیادہ تر ذمہ داری تحریک جدید کے دفتر پر ہے.دفتر کا تمام عملہ نیا ہے، پرانے لوگوں کو ادھر ادھر کر دیا گیا ہے،اس لئے وہ جماعتوں کی صحیح طور پر رہنمائی نہیں کرتے.اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں پوچھتا کچھ ہوں اور جواب کچھ ہوتا ہے.یا میرے سوال کے جواب میں وہ بالکل چپ ہو جاتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کام کی وہ قابلیت نہیں ، جو ہونی چاہئے.مگر بہر حال باہر کی جماعتوں پر بھی اس کی بہت سی ذمہ داری ہے.اس لئے کہ وعدوں کے بھیجوانے کا وقت ختم ہونے کے قریب آ گیا ہے.پس میں پھر ایک بار جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد سے جلد وعدے لے کر مرکز میں بھجوائیں.بعض جماعتوں کے متعلق تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ان کی سستی اور غفلت کی وجہ کیا ہے؟ مثلاً کراچی کی جماعت ہے، پہلے وہ ہمیشہ وعدے بھجوانے میں چست رہی ہے، اس سال اعلان کے بعد بھی وہ وعدے لینے کی کوشش کرتی رہی ہے اور یہاں جلسہ سالانہ پر آ کر بھی انہوں نے کافی تگ و دو کی.اور ملاقات کے موقع پر انہوں نے بتایا، بارہ ہزار روپیہ کے مزید وعدے لئے گئے ہیں.لیکن دفتر بتاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ انہیں خط بھی لکھا گیا ہے، انہوں نے ایک مہینہ سے فہرست نہیں بھجوائی.جماعت کا خیال تھا کہ جماعت کراچی کے اس سال کے وعدے گذشتہ سال سے زیادہ ہوں گے، لیکن ابھی وہ گذشتہ سال کے نصف پر رکے ہوئے ہیں.اور اتنی دیر کے بعد بھی انہوں نے کوئی اطلاع نہیں 473
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1955ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم دی.ان کا انتظام بھی نیا ہے، پرانے سیکرٹری ریٹائر ہو چکے ہیں اور نئے سیکرٹری صاحب معلوم ہوتا ہے، پورے تجربہ کار نہیں.نہ دفتر کی خط و کتابت کا کوئی اثر ہوتا ہے، نہ وقت کی نزاکت کا.انسانی طبائع دو قسم کی ہوتی ہیں.بعض لوگ چھوٹی سی تنبیہ پر ہوشیار ہو جاتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں ، کہنے دو ہم نے تو اپنی مرضی کے مطابق ہی کام کرنا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کراچی کے نئے سیکرٹری صاحب انہی لوگوں میں سے ہیں، جن میں یہ جس ہی نہیں کہ ان سے کیا مانگا جاتا ہے یا ان سے کیا سوال کیا جاتا ہے اور انہیں کیا جواب دینا چاہیے؟ چونکہ جماعت کراچی گذشتہ سالوں میں ایک نمونہ رہی ہے، اس لئے میں نے خاص طور پر اس کا ذکر کیا ہے.ورنہ لاہور باوجود اپنے جواں سال امیر کے بہت ہی پیچھے ہے.اسی طرح اور کئی جماعتیں ہیں.بہر حال اس سال جماعت نے وعدے بھجوانے میں بہت سستی سے کام لیا ہے.لیکن جہاں تک ہم دیکھتے ہیں، جماعت کے اخلاص میں کوئی کمی نہیں ہوئی.بلکہ جماعت اخلاص میں روز بروز ترقی کر رہی ہے.اور جب بھی اسے کسی کام کے لئے بیدار کیا جائے ، اس کے افراد بیدار ہو جاتے ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ جو بھی خرابی ہوتی ہے، وہ یا تو مرکزی دفتر کے عملہ سے ہوتی ہے اور یا مقامی جماعت کے عملہ سے ہوتی ہے.مجھے بتایا گیا ہے اور میں نہیں جانتا کہ یہ بات ٹھیک ہے یا غلط.مجھے ان دنوں تحریک کے مرکزی دفتر پر زیادہ اعتبار نہیں کہ زیادہ کمزوری بڑے شہروں کی جماعتوں میں ہے.ان میں تحریک جدید کے وعدوں کی طرف توجہ کم ہے.شاید انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم سارے وقت میں وعدے اکٹھا کرتے رہیں گے اور پھر آخر میں مرکز میں بھیج دیں گے.حالانکہ وقت کے آخر میں آکر کام اس قدرا کٹھا ہو جاتا ہے کہ اسے وقت مقررہ میں پورا کرنا قریباً ناممکن ہو جاتا ہے.اگر جماعتیں کام کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے سرانجام دیں تو ان کے لئے کام میں بہت سہولت پیدا ہو جاتی ہے.ان کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور ذمہ داری مرکز پر آپڑتی ہے.مثلاً اگر کسی جماعت نے ساٹھ ہزار کا وعدہ کیا ہے تو وہ تھوڑے سے تھوڑے وقفہ کے بعد دس دس ہیں ہیں ہزار روپیہ کے وعدے بھجواتے جائیں.اس طرح کام ہلکا ہوتا چلا جائے گا.لیکن اگر جماعت خیال کرے کہ میعاد کے آخر میں وہ تمام وعدے اکٹھے کر کے مرکز کو بھجوا دے گی تو میعاد کے آخری دنوں میں کام اس قدر زیادہ ہو گا کہ اس کا ترتیب دینا مشکل ہوگا.ادھر تبلیغ کا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے.اور نئے نئے علاقوں سے مبلغین کی مانگ آرہی ہے.لوگ اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس مبلغ بھیجے جائیں.اور اس طرح اسلام کی آواز ان تک پہنچائی جائے.ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ تبلیغ کی سکیم میں اس قسم کی 474
خطبہ جمعہ فرمود و 28 جنوری 1955ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد سوم تبدیلی کی جائے کہ موجودہ خرچ میں ہی کام کو آگے پھیلایا جا سکے.اس وقت تک ہماری یہ رائے ہے کہ نئے مشن کھولنے کی بجائے پرانے مشنوں کو زیادہ مضبوط کیا جائے ، ان کے کام کو صحیح طریق پر ڈھالا جائے اور انہیں پہلے سے زیادہ مالی مدد دی جائے.جب وہ مشن اپنا بوجھ اٹھا لیں تو نئے مشن کھولے جائیں.پچھلے دور میں یہ ہوتا تھا کہ جو نہی کسی ملک سے مبلغ کے لئے آواز آتی ، ہماری کوشش یہ ہوتی تھی کہ ہم اس کی آواز کو سنیں اور اس کا جواب دیں.اس کے نتیجہ میں بعض مشنوں نے تو اپنا بوجھ آپ اٹھالیا لیکن بعض مشن ایسے تھے ، جو اپنا بو جھ آپ نہیں اٹھا سکے اور ان کا بوجھ روز بروز بڑھتا جارہا ہے.پھر انسانی طبائع مختلف ہوتی ہیں.بعض مبلغ ایسے ہوتے ہیں، جو نظم کے عادی ہوتے ہیں.وہ مرکز کی ہدایات کے مطابق کام کرتے ہیں.اور بعض مبلغ ایسے ہوتے ہیں، جو مرکز کو ڈراتے رہتے ہیں کہ ہمیں یہ دے دو، وہ دے دو.ہمیں فلاں چیز بھیج دو.اور اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ مرکز گھبراہٹ میں ان کے حسب منشاء کام کر دے گا.جو مبلغ نظم کے عادی ہوتے ہیں اور نظام سلسلہ کے پابند ہوتے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ وہی مبلغ اپنے کام میں کامیاب ہوتے ہیں.اور جن کو یہ اصرار ہوتا ہے کہ ان کی ہر بات کو مان لیا جائے ، میں نے دیکھا ہے کہ وہ سالہا سال تک ایک ملک میں رہ کر آ جاتے ہیں لیکن ڈھاک کے وہی تین پات والا معاملہ ہوتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ تبلیغ کے نظام میں اس قسم کی مناسب تبدیلی کر دی جائے ، جس سے موجودہ خرچ میں ہی کام وسیع کیا جا سکے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ چندہ میں ہر سال زیادتی نہ ہو.اس طرح تو ہمارا قدم رک جائے گا اور جماعت کی ترقی رک جائے گی.گو ہماری کوشش ہوگی کہ بجٹ کو اس طور پر نہ بڑھایا جائے کہ وہ جماعت کی طاقت سے باہر ہو جائے.لیکن اس تبدیلی میں کچھ دن لگیں گے.اول تو یہ بات لازمی ہوگی کہ پہلے مشن کو قائم رکھا جائے اور اسے پہلے سے زیادہ مضبوط کیا جائے اور اس سے بہر حال اخراجات میں زیادتی ہوگی.لیکن یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ اخراجات میں پہلے کی رفتار سے زیادتی نہ ہو.پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایک سو کی آمد ہوئی تو اگلے سال کے خرچ کا اندازہ - 175 یا.200 تک ہو گیا.لیکن اب ہماری یہ سکیم ہے کہ اخراجات بے شک بڑھیں، لیکن یہ بڑھوتی اس طرح کی ہو کہ گذشتہ سال مثلاً آمد ایک سو ہے تو اگلے سال اخراجات کا اندازہ-/105 ہو جائے.بڑھوتی بہر حال ہو گی.پھر اس کے مقابلہ میں یقینا ہماری آمد بھی زیادہ ہوگی.اگر جماعت ہر سال بڑھتی رہے، اگر اس کی اقتصادی حالت ہر سال اچھی ہوتی رہے اور اگر جماعت کا زمیندار اور صناع پہلے کی نسبت زیادہ ہوشیار ہوتا 475
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم جائے تو آمد بہر حال بڑھے گی.اور اگر جماعت کے ہر سال بڑھنے کے باوجود ہمارا چندہ نہ بڑھے، اگر باوجود اس کے کہ ملازمتوں میں ہر سال ترقی ہو ، صناع اور زمیندار ہر سال اپنی حالت کو بہتر بناتے جائیں ، ہماری چندہ کی حالت پہلے کی طرح رہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ جماعت کا نظم کمزور ہے اور اس کی ذہنیت گر گئی ہے.پس چندہ بھی ہر سال بڑھتا رہے گا اور اخراجات بھی بڑھتے رہیں گے.لیکن ہم ایسا انتظام کرنے کی فکر میں ہیں کہ اخراجات میں یکدم ایسی زیادتی نہ ہو، جونا قابل برداشت ہو حتی الوسع نے مشن اس وقت تک نہ کھولے جائیں ، جب تک کہ پہلے مشن اپنا بوجھ خود ہ اٹھالیں.ہم نے ابھی اس قسم کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا کہ ہم بالکل نیا مشن نہیں کھولیں گے.لیکن یہ ضرور ہوگا کہ اگر پہلے ہم نے سات مشن کھولے تھے تو اب ایک کھول لیں گے.اور یہ طریق اس وقت تک جاری رہے گا ، جب تک پہلے مشن مضبوط نہ ہو جائیں اور جماعت کی مالی حالت بہت بہتر نہ ہو جائے.لیکن بعض اخراجات میں کمی نہیں کی جاسکتی.اور اگر ہم ان میں کوئی کمی کریں گے تو ہمارا کام پندرہ بیس سال دور جا پڑے گا اور اس طرح جماعت کو بہت زیادہ نقصان ہوگا.مثلاً نئے مشنری تیار کرنے پر جو خرچ ہوتا ہے، اس میں کمی نہیں کی جاسکتی.اگر ہم اس میں کمی کریں تو اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ جب جماعتیں بڑھیں گی اور آدمی مانگیں گی تو ہم انہیں وقت پر آدمی مہیا نہیں کر سکیں گے.ہماری مالی حالت بے شک اچھی ہوگی لیکن ہمارے پاس نفری نہیں ہوگی.کیونکہ اخراجات میں کمی کرنے کی وجہ سے مبلغین کی تیاری میں ایک لمبا وقفہ پڑ گیا ہوگا.پڑھائی کے لحاظ سے دیکھ لو، اس پر سات سال کا عرصہ لگ جاتا ہے.پھر ہم نے پڑھائی کے عرصہ کو ہی نہیں دیکھنا، بلکہ جماعت میں نئی روح پیدا کر کے طلبا مہیا کرنا ہے.اور نئی روح پیدا کرنے پر بھی چھ سات سال لگ جاتے ہیں.اور اس طرح وقفہ کے بعد پہلے نئے مبلغ کے تیار ہونے میں تیرہ، چودہ سال کا وقفہ پڑ جاتا ہے.اس لئے مبلغ ہمیں بہر حال تیار کرتے رہنا ہوگا، اس میں کمی نہیں کی جاسکتی، یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا.صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید سے جو غلطی ہوئی ہے ، وہ یہی ہے کہ وہ مبلغ تو بناتے ہیں لیکن جب ان کو وقفہ میں نہیں کھپاسکتے تو مبلغ پیدا کرنے میں سستی کرنے لگ جاتے ہیں.لیکن میری تجویز یہ ہے کہ جو طالب علم مبلغین کلاس پاس کر لیں انہیں تبلیغ کے کام پر لگانے سے پہلے تین تین ماہ کے لئے کم سے کم چار دفاتر میں کام کرنے کا موقع دیا جائے.مثلاً تین ماہ وہ بیت المال میں کام کریں ، تین ماہ نظارت امور عامہ میں کام کریں ، تین ماہ دعوت و تبلیغ میں کام کریں، تین ماہ کسی اور دفتر میں کام کریں.اگر آدمی زیادہ ہو جائیں تو اس ایک سال کے عرصہ کو دو سال تک بڑھا دیا جائے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا ذہن صرف 476
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1955ء مولویت تک محدود نہیں رہے گا.بلکہ صحابہ کرام کی طرح ان کے اندر دفتری کاموں، تجارت ، صنعت اور زراعت، سیاست، اقتصاد، معاشرت پر غور کرنے کی عادت بھی پیدا ہو جائے گی.ان کے اندر مال کے انتظام اور اس میں ترقی دینے ، جماعت کی حالت کو سدھارنے اور تعلیم وغیرہ کی قابلیت بھی پیدا ہو جائے گی.انہیں مختلف محکموں کے کام کا پتہ لگ جائے گا اور ضرورت پڑنے پر وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے.اگر ہمارے پاس اس قسم کے مبلغ تیار ہو جائیں تو جب تک ہم نیا مشن نہیں کھولتے ، ہم ان سے دوسرے محکموں میں کام لے سکتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ ہم انہیں امور عامہ، زراعت ، تجارت یا کسی اور محکمہ میں نائب ناظر لگا دیں یا نا ئب ناظر نہیں تو سپریٹنڈنٹ ہی لگا دیں اور وقت پر وکالت اور نظارت ان کے سپرد کر دیں.اس سے ہمارا خرچ بہت حد تک کم ہو جائے گا.ایک شخص جس نے زراعت کے محکمہ میں کام کیا ہو، وہ اگر کسی ایسے ملک میں بھیجا جاتا ہے، جہاں لوگوں کا زیادہ تر گزارہ زراعت پر ہے تو وہ بوجہ اپنے تجربہ کے تبلیغ کے علاوہ جماعت کی زرعی حالت کو بھی درست کرے گا.بہت سے ممالک ایسے ہیں، جو زراعت ، صنعت اور تجارت میں ابھی پاکستان سے بہت پیچھے ہیں.یورپ اور امریکہ تو بہت آگے جاچکے ہیں لیکن ایشیا اور افریقہ میں بہت سے ایسے ممالک ہیں، جن کی حالت پاکستان کی نسبت بہت خراب ہے.اگر ہمارے مبلغ اس قسم کے کام سیکھ کر وہاں جائیں تو دوسرے ممالک میں جا کر نہ صرف وہ جماعت کے لئے مفید وجود ثابت ہوں گے بلکہ گورنمنٹ کی نظر میں بھی اور پبلک کی نظر میں بھی وہ ملک کے لئے مفید ہوں گے.اور وہ سمجھے گی کہ یہ لوگ صرف مولوی نہیں بلکہ ایک زمیندار، صناع اور تاجر بھی ہیں.اور اگر یہ طریق اختیار کر لیا جائے کہ فارغ وقت میں مبلغین کو کسی اور کام پر لگا دیا جائے تو یہ خطرہ نہیں ہوگا کہ زیادہ آدمیوں کو کہاں لگائیں؟ پھر یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ مبلغین کو بی.اے کرا کے جرنلسٹ یا استاد بنادیا جائے.لیکن صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی اس طرف توجہ نہیں.پھر میں نے بارہا اس طرف توجہ دلائی کہ مبلغین کو طب سکھائی جائے، اگر ایسا انتظام کیا جائے تو بہت تھوڑی سی توجہ سے وہ طبیب بن جائیں گے.ہماری طب کے ایسے اصول ہیں کہ انسان ذاتی مطالعہ کی وجہ سے اس میں ترقی کر سکتا ہے.انگریزی طب کے ایسے اصول نہیں.ان میں سرجری کا کام زیادہ ہوتا ہے.اور پھر افعال اور اعضاء کے مختلف نتائج کو کمیاوی طور پر یا خورد مین اور ایکسرے کے ذریعہ دیکھنا ہوتا ہے، جن کو ذاتی مطالعہ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا.غرض انگریزی طب کو ایسے کاموں سے وابستہ کر دیا گیا ہے کہ اس کے سیکھنے کے لئے کالج میں داخل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن ہماری طب ایسی ہے کہ اگر پرائیویٹ طور پر مطالعہ کیا جائے تو ذہین اور 477
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم سمجھدار آدمی اس میں انتہائی ترقی کر سکتا ہے.ایک کمپونڈ اعلیٰ درجہ کا ڈاکٹر نہیں بن سکتا لیکن ایک معمولی طبیب ذاتی مطالعہ سے اعلیٰ درجہ کا طبیب بن سکتا ہے.کیونکہ اس میں تدبیر اور فکر سے ترقی کی جاسکتی ہے.اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ہماری طب کی بنیاد کلیات پر ہے لیکن انگریزی طب کی بنیاد جزئیات پر ہے.اس لئے اس میں فلسفہ کم ہوتا ہے اور آلات اور عملی تدابیر زیادہ ہوتی ہیں.اس لئے اس میں درس و تعلیم کا دخل زیادہ ہے.لیکن طب یونانی کی بنیا د فلسفہ پر ہے.پس جو شخص سوچنے کا عادی ہوگا ، وہ طب میں بہت آگے نکل جائے گا.میں نے کئی دفعہ سمجھایا ہے کہ مبلغین کو طب سکھاؤ لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی.ابھی تک دنیا میں کئی ایسے علاقے ہیں، جہاں کوئی طبیب نہیں ملتا.اگر ہمارے مبلغ طبیب بھی ہوں تو وہ اس قسم کے علاقوں میں بہت اچھا کام کر سکتے ہیں.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ طلباء اور دفتر کے عملہ پر انگریزی طلب نے اس قسم کا تسلط کیا ہوا ہے کہ وہ ادھر جاتے ہی نہیں.روزانہ تجربہ میں یہ بات آتی ہے کہ بعض جگہوں پر ڈاکٹر فیل ہو جاتا ہے لیکن یونانی طبیب کامیاب ہو جاتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے حصے، جن سے جزئیات کا زیادہ تعلق ہوتا ہے، ان میں انگریزی طب زیادہ کامیاب ہوتی ہے.کیونکہ اس کی بنیاد جزئیات پر ہے.لیکن جب یہ دونوں علم متوازی صورت میں ہیں تو کیا وجہ ہے کہ طب سے فائدہ نہ اٹھایا جائے؟ پھر ہومیو پیتھک ہے یا بایو کیمک ہے.یہ اور بھی آسان ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض ممالک میں اس قسم کا قانون بنا دیا گیا ہے کہ جس شخص کے پاس با قاعدہ سند نہ ہو یا اسے دس سال کا تجربہ نہ ہو، وہ طبابت کا پیشہ اختیار نہیں کر سکتا.لیکن اس وقت بھی بعض ممالک ایسے ہیں، جن میں پاکستان جتنے ڈاکٹر بھی نہیں پائے جاتے.ایک دفعہ ایک ملک سے ایک دوست نے لکھا کہ مجھے ایک ڈاکٹر بھجوا دیں، میں اسے اپنے پاس سے روپیہ خرچ کر کے دکان کھول دوں گا، وہ یہاں اپنی پریکٹس کرتار ہے.میں نے اسے لکھا کہ کوئی ڈاکٹر اس کام کے لئے تیار نہیں.تو اس نے کہا، میری مراد سند یافتہ ڈاکٹر سے نہیں بلکہ کمیونڈر سے ہے.مجھے کوئی کمپونڈ رہی بھجوادیں، میں اپنے پاس سے خرچ کر کے اس کے لئے دکان کا انتظام کر دوں گا.غرض ابھی آدھی دنیا ایسی ہے، جس میں ڈاکٹر نہیں.امریکہ کی طرف دیکھتے ہوئے ، پاکستان نے بھی ایسے خواب دیکھنے شروع کر دیئے ہیں کہ طبیبوں پر پابندی لگادی جائے اور سوائے با قاعدہ سند یافتہ ڈاکٹروں کے کوئی علاج نہ کر سکے.لیکن حالت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بعض حصوں میں ابھی دس دس ہیں ہیں میل تک ڈاکٹر نہیں ملتا.اگر ہمارے ملک میں اس قسم کا قانون پاس کر دیا گیا تو ہم امریکہ کی نظر میں مہذب تو بن جائیں گے لیکن ہمارے افراد بیماری اور مصیبت کا شکار ہو جائیں گے.اور ایسے علاقوں کے رہنے والے لوگ علاج کے بغیر ہی مر جائیں گے.پاکستان تو ایشیا اور افریقہ کے کئی 478
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1955ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلدسوم - ممالک کے مقابلہ میں ترقی یافتہ ہے.وہ ممالک اس سے بہت پیچھے ہیں اور ان میں ڈاکٹروں کا نام ونشان بھی نہیں.اگر مبلغین کو طب پڑھائی جائے تو اس قسم کے علاقوں میں وہ بہت مفید کام کر سکتے ہیں.بہر حال اگر طلباء کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو ایسے طریق موجود ہیں، جن کے ذریعہ انہیں مفید وجود بنایا جا سکتا ہے.بشر طیکہ عملہ ایسا کرنے کے لئے تیار ہو.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے، اس قسم کے اخراجات کم نہیں کئے جا سکتے ، یہ بہر حال ہر سال بڑھتے جائیں گے.میں نے دونوں انجمنوں صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کو ہدایت دی ہے کہ وہ مبلغین کی تعداد زیادہ نہ کریں بلکہ جو پہلے مبلغ ہیں، ان کو زیادہ سہولتیں پہنچا ئیں، انہیں اخراجات زیادہ دیں تا وہ اپنے علاقہ میں دورے کر سکیں اور تبلیغ کے کام کو منظم کر سکیں.یہ نہ ہو کہ ایک مبلغ کو کسی علاقے میں بھیج دیا گیا ہولیکن اس کے پاس اتنے اخراجات بھی نہ ہوں کہ وہ دس میل کا سفر کر سکے.اگر ایک آدمی کو بھی پورا سامان بہم پہنچایا جائے تو وہ دس مبلغوں جتنا کام کر سکتا ہے.پھر مبلغین کی ٹرینگ کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے.اس وقت یہ حالت ہے کہ نئے مبلغین کو کچھ حوالے سکھا کر کسی علاقہ میں بھیج دیا جاتا ہے.حالانکہ صرف حوالوں سے کامیابی نہیں ہو سکتی.تبلیغ میں نفسیات سے واقفیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے.صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب مکہ کا سفیر آیا.تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنی سب قربانیاں باہر نکال کر صفوں میں کھڑی کر دو.آپ انسانی کریکٹر کو پہچانتے تھے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے.آپ نے سمجھا، اسے زیادہ تبلیغ کی ضرورت نہیں.یہ پرانی طرز کا مذہبی آدمی ہے، اس کے نزدیک جو شخص خانہ کعبہ میں آکر قربانی کرے، وہ بڑا نیک آدمی ہوتا ہے.ہمارے ہاں بھی یہی ہوتا ہے.بعض لوگوں کے نزدیک اگر کوئی شخص جمعرات کی روٹی کسی ملا کو دے دیا کرے یا فاتحہ خوانی کروا دیا کرے تو وہ اچھا سمجھا جائے گا، چاہے وہ اور کوئی نیک کام نہ کرے.پھر بعض لوگ ایسے ملیں گے، جو حج کو بہت اچھا عمل سمجھتے ہیں.اگر کوئی حج کر آئے تو وہ سمجھیں گے، یہ بہت اچھا آدمی ہے.بعض طبائع تسبیح کو اچھا بجھتی ہیں.تم اپنے ہاتھ میں ایک تسبیح پکڑ لوتو تمہارے متعلق کوئی برا خیال دل میں نہیں لائیں گے.رسول کریم نے دیکھا کہ اس شخص پر قربانی کا بہت اثر ہے، اس لئے آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ سب قربانیاں باہر نکال کر صفوں میں کھڑی کر دی جائیں.جب وہ شخص آیا اور اس نے قربانی کے جانوروں 479
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کو دیکھا تو بہت متاثر ہوا اور اس نے اہل مکہ کو جا کر کہا، میں نے مسلمانوں کو جا کر دیکھا ہے، وہ بے شمار جانور اپنے ساتھ لائے ہیں تا کہ یہاں آکر قربانی کریں.اگر تم نے انہیں کچھ کہا تو تم تباہ ہو جاؤ گے.اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے متعلق مشرکین مکہ کے دلوں میں جو بغض تھا، وہ کم ہو گیا.اسی طرح تبلیغ میں بھی صرف جوانوں کی ضرورت نہیں ہوتی.بلکہ مبلغ کو لوگوں کے حالات کا مطالعہ کر کے ان کے مطابق تبلیغی کام سرانجام دینا چاہئے.مگر ہمارے ہاں بھیڑ چال سی پائی جاتی ہے.نفسیات کے ماہرین نے تجربہ کیا ہے کہ بھیڑیں ایک دوسرے کی نقل کرتی ہیں.انہوں نے ایک گلہ بھیٹروں کا لیا اور ایک جگہ پر ایک رسی باندھ دی اور ان بھیڑوں کو پیچھے سے دھکیلا اور اس رسی پر سے گزارنا چاہا.جب پہلی بھیٹر رسی کے پاس پہنچی تو وہ ری دیکھ کر اس پر سے کود گئی.پھر دوسری آئی ، وہ بھی کو گئی.پھر انہوں نے رسی اتار دی.لیکن گلہ کی پانچ ، چھ سو بھیٹرمیں باری باری اس جگہ پہنچ کرکو د ہیں.گویا ان کے آگے رسی بندھی ہوئی ہے.حالانکہ وہاں رسی نہیں تھی صرف پہلی بھیڑ کی نقل میں دوسری بھیڑیں باری باری اس جگہ سے کو درہی تھیں.نہیں سے بھیٹر چال کا محاورہ بن گیا ہے.اگر کسی جماعت میں اس قسم کی بھیڑ چال پیدا ہو جائے تو وہ تباہ ہو جاتی ہے.ہمارے ہاں بھی بھیڑ چال پائی جاتی ہے.ذمہ دار کارکن سوچتے نہیں ، وہ غور و فکر نہیں کرتے اور نہ کوئی نیا مسئلہ نکالتے ہیں ، وہ صرف پہلوں کی نقل کرتے چلے جاتے ہیں.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ زمانہ کے حالات متغیر ہو چکے ہیں، زمانہ بدل گیا ہے، تمدن پہلے کی نسبت ترقی کر چکا ہے.اب ہمیں بدلے ہوئے حالات کے مطابق چلنا چاہئے.یہ سب باتیں ٹریننگ سے آسکتی ہیں.جب کوئی نو جوان مبلغین کلاس پاس کر کے کالج سے نکلتا ہے تو سے سمجھایا جائے کہ اس نے تبلیغ کے سلسلہ میں کس طرح مختلف رہتے بدلتے ہیں؟ پس مرکز والوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کریں اور جماعت کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اس کے مطابق حرکت کرے.اب بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں، وعدوں کی میعاد ختم ہونے والی ہے.ان چند دنوں کے گزر جانے کے بعد جماعت کے لوگ شرمندہ ہوں گے کہ ان کی مالی قربانی گذشتہ سال سے کمزور رہی.جماعت بہر حال گزشتہ سال سے بڑھی ہے.اس کے کئی نوجوان، جو پہلے ملازم نہیں تھے ، اس سال ملازم ہوئے ہیں.کئی نوجوان، جو پہلے بیکار تھے، اس سال انہوں نے کوئی نہ کوئی کام شروع کیا ہے.اور اس طرح چندوں کی مقدار بڑھنی بھی ضروری ہے.اگر جماعت میں نئے داخل ہونے والوں کو لیا جائے ، جماعت کے ایسے نوجوانوں کو لیا جائے ، جو پہلے ملازم نہیں تھے ، اس سال ملازم ہوئے ہیں یا پہلے بیکار تھے ، اب انہیں روز گار مل گیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جماعت کے چندہ میں زیادتی نہ ہو.480
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1955ء پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہر جماعت جلد سے جلد دعدوں کی فہرست مکمل کر کے دفتر میں بھیجوائے.یہ یادر ہے کہ وعدوں میں کچھ نہ کچھ زیادتی ضرور ہونی چاہیے تا کہ جماعت کا قدم آگے بڑھے، پیچھے نہ ہے.یہ فہرستیں جلد سے جلد مرکز میں بھجوائی جائیں تا وہ اپنار ریکارڈ مکمل کر سکیں اور آئندہ سال کا بجٹ بنانے میں جو دقت پیش آرہی ہے، وہ دور ہو جائے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 03 فروری 1955ء) 481
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلدسوم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 فروری 1955ء جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرانا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 04 فروری 1955ء جماعت احمدیہ کے قیام کی اصل غرض اللہ تعالیٰ نے یہی بتائی ہے کہ اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے.جو لوگ مسلمان کہلاتے ہیں اور اسلامی تعلیم کو بھول گئے ہیں ، ان کو دوبارہ اسلامی تعلیم سے واقف کیا جائے اور جو لوگ ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے اور انہیں اسلامی تعلیم کی خبر نہیں، ان کو اسلامی تعلیم سے باخبر کیا جائے.یہ کام بہت اہم ہے.لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک روحانی کام ہے اور جب بھی دنیوی ترقیات کی رو چلے گی ، اس کی کشش کم ہو جائے گی“.وو پس جو اتنا مشکل کام ہے، اس میں کامیابی کا طریق یہی ہے کہ لوگوں کو اس کی طرف مائل کیا جائے.اور انہیں مائل اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ انہیں اس سے آگاہ کیا جائے اور واقفیت بہم پہنچائی جائے ، اس سے پہلے کوئی شخص ہمارے دلائل سننے کے لئے تیار نہیں ہوگا.مگر ہر ایک کو یہ دلائل سنانے کون جائے گا؟ ہم ربوہ میں بیٹھے ہیں اور ہماری زبان اردو ہے.چین ہم سے بہت دور ہے اور وہاں اردو زبان نہیں بولی جاتی.اب ہم اس ملک کے رہنے والوں کو اپنے دلائل کس طرح سمجھا سکتے ہیں؟ انڈونیشا ہم سے بہت دور ہے، وہاں کے رہنے والے نہ ہماری زبان جانتے ہیں اور نہ ہم ان کی زبان جانتے ہیں، پھر ہم ربوہ میں بیٹھ کر انہیں اپنے دلائل کا قائل کس طرح کر سکتے ہیں؟ پھر جاپانی لوگ ہیں، وہ ہم سے ہزاروں میل دور ہیں اور جاپانی زبان ہمیں آتی نہیں ، ہماری زبان انہیں نہیں آتی ، پھر ہم انہیں اپنے دلائل کیسے سناسکتے ہیں؟ لیکن لڑ پچر کے ذریعہ یہ کام کیا جاسکتا ہے.ایک چینی یا ایک جاپانی کو حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں، ہم اس کے ذریعہ اپنے لٹریچر کا ترجمہ چینی یا جاپانی میں کرا کے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اپنے دلائل سنا سکتے ہیں.ہم خود تو وہاں نہیں جاسکتے لیکن ہماری کتابیں وہاں جاسکتی ہیں.ہم خود تو ان کی زبان نہیں جانتے لیکن ہماری کتابوں کا ترجمہ چینی اور جاپانی میں کیا جاسکتا ہے.اور اسی طرح لٹریچر کو دوسرے لوگوں میں پھیلایا جا سکتا ہے.ماننایا نہ مانا، ان لوگوں کا کام ہے، ہمارا نہیں.لیکن اس ذریعہ سے دروازہ کھل جاتا ہے اور دروازہ کھلنے سے اس بات کا امکان ہو جاتا ہے کہ وہ ہمارے دلائل کو تسلیم کر لیں.اس لئے میں نے 483
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 فروری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم جلسہ سالانہ کے موقع پرتحریک کی تھی کہ جماعت میں لائبریریاں قائم کی جائیں اور ان میں ہر طرح کا لٹر بیچر رکھا.جائے.پھر لٹریچر اس رنگ میں شائع کیا جائے کہ وہ زمانہ کی ضرورت کے مطابق ہو“.وو پس میں علماء کو کہتا ہوں کہ وہ نئے طریق کلام کو جاری کریں اور سائنس، اقتصادیات اور سیاسی ترقی کے نتیجہ میں جو وساوس لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گئے ہیں، ان کو مد نظر رکھ کر لٹریچر تیار کریں اور پھر اسے شائع کرا کے لائبریریوں میں رکھوائیں.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد پورا ہو سکتا ہے.اگر ہم موجودہ وساوس کو دور نہ کریں اور اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے ان کا ازالہ نہ کریں تو ہمارا لٹریچر مفید نہیں ہوسکتا.کیونکہ اب زبان بدل چکی ہے“.وو 66 پس لوگوں کی زبانوں میں فرق ہے، لہجوں میں فرق ہے، طریق نصیحت میں فرق ہے، اخلاق میں فرق ہے اور ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسروں کو سمجھانا پڑتا ہے.جو شخص اس بات کو مد نظر نہیں رکھتا اور علم النفس کا ماہر نہیں ہوتا ، وہ صحیح مبلغ نہیں بن سکتا.وو وو پس مبلغین اور دوسرے علماء کا کام ہے کہ وہ اس قسم کا لٹریچر تیار کریں ، جس کی اس زمانہ میں ضرورت ہے.وہ اس طرز پر تصنیف نہ کریں، جس طرز پر پچھلے علماء تصنیف کرتے چلے آئے ہیں..پس تم اس رنگ میں لڑ پچر تیار کرو.پھر جب لٹریچر تیار ہو جائے تو جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس لڑر پیر کو پھیلائے.اگر جماعت لٹریچر کو پھیلائے گی نہیں تو تمام کوششیں بریکار رہ جائیں گی.اسی لئے میں نے کہا ہے کہ جماعت ہر جگہ پر لائبریری قائم کرے.چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی لائبریری قائم کرسکتی ہیں.بلکہ ان پڑھ لوگ بھی کتابوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.قبولیت کا سوال الگ ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو آزاد بنایا ہے، اسے مجبور کرنے کا ہمیں حق حاصل نہیں.اگر سچائی سن لینے کے بعد کوئی ہمیں جھوٹا سمجھتا ہے تو یہ اس کا حق ہے.وہ ایسا کر سکتا ہے.لیکن حق کو جاننے کے بغیر کوئی ہمیں جھوٹا کہے تو اس کی غلط فہمی کا ازالہ کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.ورنہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم ہوں گے.لیکن بات سمجھا دینے کے باوجود کوئی ہمیں جھوٹا کہے تو کوئی ہرج نہیں ، وہ ہمیں جھوٹا کہنے کے باوجود ہمارا بھائی ہے، وہ اپنے عقیدہ پرعمل کرتا ہے اور ہم اپنے عقائد کے مطابق چلتے ہیں.( مطبوعه روزنامه الفضل 17 فروری 1955ء) 484
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 فروری 1955ء قابلیت ہے تبھی خدا نے آپ کو چنا ہے، پس اپنی طاقت کو ضائع مت کرو " خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1955ء میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ جمعہ تحریک جدید کے وعدوں کے لحاظ سے آخری جمعہ ہے.تحریک جدید کے وعدوں کی آخری تاریخ 23 فروری ہے اور آج 18 فروری ہے.گویا اگلا جمعہ 25 فروری کو آئے گا اور 25 فروری تک تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد گزرچکی ہوگی.اس وقت تک جتنے وعدے آنے چاہیے تھے، ابھی تک ان میں سوالاکھ کی کمی ہے.اور روزانہ وعدوں کی آمد بھی ہزار، دو ہزار سے زیادہ نہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ جماعت کے افراد نے اپنے فرائض کو سمجھنے میں کوتاہی کی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور یہ ضرور ہو گا.لیکن اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے مجھ پر بھی یہ ذمہ داری عائد کی ہوئی ہے کہ میں تم سے کام کراؤں.اس لئے مجھے یقین ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ اپنے کام کے چلانے کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ کھول دے گا ، وہاں میں محسوس کرتا ہوں کہ چاہے مجھے تختی کرنی پڑے یا کوئی اور طریق اختیار کرنا پڑے، بہر حال میں تم کو اس ذریعہ سے توجہ دلاتا رہوں گا.تا کہ تم اپنے فرائض کو سمجھ جاؤ.میرے لئے یہ بات تلخ ہے یا شیریں، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں.بہر حال میں نے خدا تعالیٰ کے سامنے یہ بات پیش کرنی ہے کہ جن لوگوں سے کام لینے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی تھی ، ان سے میں نے کام لیا ہے یا نہیں؟ اور جو لوگ میری ہدایت کے مطابق کام نہیں کر سکے، انہیں میں نے اپنی جماعت سے الگ کر دیا ہے یا نہیں؟ میں آخری دفعہ جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھے.ابھی وعدوں کی میعاد میں چند دن باقی ہیں.ممکن ہے، ان چنددنوں میں وعدوں کے بھیجنے میں زور پیدا ہو جائے.عام طور پر ان آخری دنوں میں وعدوں میں زور نہیں ہوتا بلکہ وعدوں کی آمد میں کمی پیدا ہو جاتی ہے.اور پھر جو وعدے اس وقت آرہے ہیں، ان سے پتہ لگتا ہے کہ وعدوں کے زور میں کمی آچکی ہے.پچھلے پانچ دنوں میں دس ہزار کی جو زیادتی تھی ، وہ یکدم 26 ہزار کی کمی میں تبدیل ہو گئی ، اس پر تم آئندہ کا بھی قیاس کرلو.بہر حال میں جماعت کے افراد کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تم نے احمدیت میں داخل ہوتے وقت اس بات کا اقرار.485
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 فروری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کیا تھا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے.لیکن اس دفعہ ایسے آثار پیدا ہور رہے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے میں کوتاہی کی ہے اور اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا.ابھی چند دن باقی ہیں تم ان میں اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرو اور ساتھ دعا بھی کرو.کیونکہ یہ بات ناممکن نہیں کہ ان چند دنوں میں جماعت میں ایسا جوش پیدا ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی اس کو تا ہی کو دور کر دے، جو اس نے اس وقت تک کی ہے.لیکن اگر اس نے پھر بھی کوتاہی کی تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اگر کسی نے سمندر طے کرنا ہو اور اس کی گردن پر بوجھ ہو تو اس بوجھ کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جاسکتا.نجات اس بوجھ کو اتارنے میں ہی ہوتی ہے.اگر کسی بڑے سمندر کو طے کرنا ہو یا کسی بڑے دریا کے پاٹ میں سے گزرنا ہو اور پھر گلے کے ساتھ بندھا ہوا ہوتو وہ شخص احمق ہوگا، جو اس پتھر کو اتارے نہیں.جو اس پتھر کو نہیں اتارے گا ، وہ سمندر کو طے کرتے ہوئے ڈوب جائے گا.اس لئے میں جماعت کو آخری دفعہ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اب ایسا قدم اٹھائے ، جس سے پہلی شرمندگی دور ہو سکے.لیکن اس کے ساتھ ہی میں اس بات کے بیان کرنے سے بھی باز نہیں رہ سکتا کہ اس بارہ میں مرکزی دفتر نے بھی غفلت سے کام لیا ہے.میں ایک ماہ سے کہ رہا ہوں کہ کسی نہ کسی جگہ غلطی ہے.کیونکہ جن لوگوں کے خطوط میرے پاس آرہے ہیں، ان میں سے 99 فیصدی نے یا تو وعدوں میں اضافہ کیا ہے یا کم سے کم پہلے سال جتنے وعدے کئے ہیں.صرف چند جماعتیں ہیں، جن سے اس بارہ میں سنتی واقع ہوئی ہے.اب عقلمند کا یہ کام ہے کہ وہ بیماری تلاش کرے اور پھر اس کا علاج کرے.میں نے مرکزی دفتر سے کہا کہ مجھے ایسی جماعتوں کی لسٹ بھجوا ؤ، جنہوں نے وعدے بھجوانے میں سستی سے کام لیا ہے.تا ان پر زور دیا جاسکے.یا تم اپنے انسپکٹروں کو بھجواؤ اور ان سے کہو کہ اگر وعدے بھجوانے ہیں تو جلدی بھجواؤ.دفتر والوں نے کہا ، جی حضور، اور پھر آٹھ دن گزر گئے.پھر میں نے کہا، مجھے سست جماعتوں کی لسٹ بھیجواؤ تو دفتر والوں نے کہا، جی حضور، اور پھر آٹھ دن گزر گئے اور ابھی تک ان کی طرف سے لسٹ نہیں آئی.پھر میں نے اختر صاحب سے کہا کہ ان لوگوں سے ست جماعتوں کی لسٹ بنواؤ اور مجھے بھجواؤ.میں سمجھتا تھا کہ وہ باہر سے آئے ہیں، وہ کام کریں گے.لیکن انہوں نے بھی باتوں کی عادت ڈالی ہوئی ہے، کام کرنے کا نام، وہ بھی نہیں لیتے.میں نے انہیں سمجھایا تھا کہ بعض لوگ کام کرتے وقت پچھلی تین پشتوں سے کام شروع کرتے ہیں اور اس طرح ان کے کاموں میں دیر ہو جاتی ہے.مگر انہوں نے میری اس نصیحت پر عمل کرنے کی بجائے یہ خیال کر لیا کہ تین پشتیں بھی تھوڑی ہیں، اصل میں چھ پشتوں سے کام شروع کرنا چاہئے.چنانچہ وہ بھی کوئی کام نہیں کر رہے.پھر میں نے وکلاء کو بلاکر کہا کہ تم وکیل المال سے روزانہ رپورٹ لیا کرو لیکن انہوں نے 486
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 فروری 1955ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم بھی اس کام کی طرف توجہ نہیں کی.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے دونوں فریق پرستی کرنی پڑے گی.وکلاء کو بھی میں نے کہا کہ جماعت واروعدے چیک کرو اور دوکالت مال سے روزانہ رپورٹ لے کر مجھے بھجواؤ.لیکن انہوں نے نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا.میں نے انہیں طریق علاج بھی بتا دیا تھا لیکن انہوں نے میری ہدایت کے مطابق کام نہیں کیا.اختر صاحب سے کہا کہ تم ان سے کام کراؤ اور انہیں کہو تم مرض کو پکڑ اور اس کا علاج کرو لیکن انہوں نے بھی اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا.حالانکہ یہ ایک معمولی بات ہے.جماعتوں کے دعدوں کا جائزہ لینے سے فورا معلوم ہو جاتا ہے کہ کس جماعت نے ستی سے کام لیا ہے یا ان کے وعدوں میں پچھلے سال کی نسبت کمی آئی ہے؟ میرے پاس جن جماعتوں کے وعدے آئے ہیں، ان میں صرف ایک جماعت ایسی ہے، جس کے اس سال کے وعدے پچھلے سال کے وعدوں کی نسبت کم ہیں.اور اس کی وجہ انہوں نے لکھی ہے کہ ان کے کچھ آدمی تبدیل ہو کر دوسری جگہ چلے گئے ہیں.اس کے علاوہ کوئی ایسی جماعت نہیں، جس کے وعدے پچھلے سال کی نسبت کم ہوں.بلکہ انہوں نے پچھلے سال کی نسبت وعدے بڑھا کر پیش کئے ہیں.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ دفتر نے مقابلہ کر کے دیکھا نہیں کہ کون سی جماعت نے وعدے بھیجوانے میں سستی کی ہے؟ جتنی جماعتوں نے اس وقت تک وعدے بھجوائے ہیں، انہوں نے پچھلے سال کی نسبت وعدے بڑھا کر پیش کئے ہیں.اس لئے لازما جن جماعتوں کی طرف سے ابھی تک وعدوں کی لسٹ نہیں آئی ، ان میں سے بعض کی طرف سے کوتاہی ہوئی ہوگی.پس بجائے اس کے کہ میرے پرانے خطبوں کے بعض حوالے نکال نکال کر الفضل میں شائع کئے جائیں اور اس طرح لوگوں پر یہ اثر ڈالا جائے کہ دوسری جماعتوں نے بھی وعدے بھجوانے میں سستی سے کام لیا ہے، یہ ضروری تھا کہ جن جماعتوں کی طرف سے ابھی تک وعدے نہیں آئے ، ان پر زور دیا جاتا.پس یہ بات مشکل ہے کہ میں اس بستی کی ذمہ داری صرف جماعتوں پر ڈالوں.مرکزی دفتر والوں نے بھی سستی اور غفلت سے کام لیا ہے.پس ضروری ہے کہ میں جماعت پر بھی اور مرکزی دفتر والوں پر بھی سختی کروں.یہ ایک تلخ گھونٹ ہے، جو مجھے پینا پڑے گا.لیکن اپنے فرائض کی ادائیگی میں اس قسم کے تلخ گھونٹ پینے ہی پڑتے ہیں.چاہے بعد میں یا ساتھ ہی میرے دل پر یہ بات گراں گزرے.لیکن خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہونے کے لئے اس قسم کے تلخ گھونٹ پیئے بغیر چارہ نہیں ہوتا.لیکن اس سے قبل میں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور سستیوں کو دور کرے اور ان چند دنوں میں، جو باقی رہ گئے ہیں، وعدوں کی موجودہ کمی کو دور کرے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، میں نے وکلاء کو اپنے پاس بلایا اور اپنے سامنے بٹھا کر کہا کہ تم جماعت وار وعدے چیک کرو اور 487
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 18 فروری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک وکالت مال سے روزانہ کام کی رپورٹ لو.پھر اختر صاحب کو بلا کر کہا کہ دفتر کے کام میں فلاں نقص ہے، ان سے وہ نقص دور کراؤ اور مجھے ست جماعتوں کی لسٹ بھجواؤ.لیکن وہ ہر دفعہ جی حضور ہی کرتے رہے ہیں اور ابھی تک ان جماعتوں کی لسٹ پیش نہیں کی.یہ ایک حسابی کمزوری تھی کوئی اخلاقی کمزوری نہیں تھی ، جس کے دور کرنے میں دقت پیش آتی.صرف حساب کی بات ہے، کاپی پر پچھلے سالوں کے وعدے بھی لکھے ہیں اور اس سال جو وعدے آئے ہیں، وہ بھی لکھے ہیں، ان کا مقابلہ کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ایک جماعت کا پچھلے سال اتناوعدہ تھا اور اس سال اتنا وعدہ ہے یا اس سال اس نے اپنے وعدے نہیں بھجوائے.پھر بجائے اس کے کہ الفضل میں میرے خطبات کے حوالے شائع کئے جائیں، کیوں نہ ان 25 یا 30 جماعتوں پر زور دیا جائے کہ وہ اپنے نقص کو دور کریں؟ ساری جماعتوں کو کیوں بدنام کیا جائے؟ بہر حال اس وقت تک جو وعدے آئے ہیں ، وہ قریبا 2/3 ہیں.اس سے پتہ لگتا ہے کہ 2/3 جماعتوں نے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کیا ہے.پھر ان 2/3 جماعتوں کو کیوں بدنام کیا جائے ؟ باقی 1/3 جماعتوں پر کیوں زور نہ دیا جائے؟ بلکہ ان 1/3 جماعتوں میں سے بھی بعض جماعتوں نے وعدے بھیج دیئے ہوں گے یا ان کے وعدے آنے والے ہوں گے.بہر حال جن جماعتوں نے وعدے نہیں بھجوائے ، ان سے کہو کہ یا وعدے بھجوا دیا جواب دو.یا تم اپنا انسپکٹر وہاں بھیج کر ان سے وعدے لیتے.لیکن تم ہر دفعہ جی حضور کہہ چلے جاتے ہو.وکالت مال میں جو نیا عملہ لگا ہے، وہ ایسا غیر مبارک ثابت ہوا ہے کہ وہ جی حضور سے آگے نہیں جاتا.ویسے وہ مخلص ہیں، لیکن ان میں کام کرنے کی قابلیت نہیں.جی حضور پر بات ختم کر دیتے ہیں.حالانکہ بجائے اس کے کہ وہ ساری جماعتوں کو مخاطب کریں، انہیں صرف ان جماعتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے تھی ، جنہوں نے اس وقت تک سستی سے کام لیا ہے.ساری جماعت کو مخاطب کرنا ، اسے ست کر دیتا ہے.ایک شخص نہ صرف روزانہ پانچ نمازیں پڑھتا ہے بلکہ روزانہ نماز تجھ بھی ادا کرتا ہے، اسے اگر یہ کہا جائے کہ تم پانچ وقت نماز پڑھا کرو تو یہ کتنی بے وقوفی کی بات ہے.وہ تو پانچ نمازوں کے علاوہ تہجد بھی ادا کر رہا ہے.تم ان لوگوں کے پاس جاؤ، جونماز نہیں پڑھتے.اسی طرح الفضل میں نوٹس شائع کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ساری جماعت نے وعدے بھجوانے میں سستی سے کام لیا ہے.حالانکہ ایسا کہنا، درست نہیں.اکثر جماعتوں نے اخلاص کا پورانمونہ دکھایا ہے.الفضل میں اس قسم کے مضامین پڑھ کے ہر ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرے سوا باقی سب سست ہیں.مثلاً کراچی والے اخبار پڑھتے ہیں تو سمجھتے ہیں، کراچی والوں نے تو وعدے بھجوا دئیے ہیں ، اس کا ہمیں علم ہے، معلوم ہوتا ہے، باقی سب جماعتیں بددیانت ہیں.لاہور 488
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 1955ء والے سمجھتے ہیں کہ ہماری جماعت کے وعدے تو مرکز میں جاچکے ہیں اور اس کا ہمیں علم ہے، معلوم ہوتا ہے، باقی سب جماعتیں بددیانت ہیں.راولپنڈی والے احمدی اخبار پڑھتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں، ہمارے وعدے تو جاچکے ہیں اور اس کا ہمیں علم ہے، معلوم ہوتا ہے، ہماری جماعت کے سوا باقی سب جماعتیں بددیانت ہیں.گویا بجائے اس کے کہ ان مضامین سے کوئی فائدہ ہو، لوگوں کے ایمان میں خرابی پیدا ہوتی ہے.میں نے کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ تم واقعات نکال کر توجہ دلا یا کرو، ساری جماعت کو بدنام نہ کیا کرو.جب کوئی بات کرو، اس بات کی وضاحت کر دیا کرو کہ فلاں فلاں جماعت نے اس کام میں سستی دکھائی ہے.مثلاً اب میں جماعت کی سستی کا ذکر کر رہا ہوں تو میں یہ بھی واضح کر رہا ہوں کہ 2/3 جماعت اپنے وعدے بھیج چکی ہے بلکہ باقی 1/3 میں بھی کچھ کمی ہو جائے گی.بعض جماعتوں کے وعدے بھجوائے جاچکے ہوں گے اور بعض کے وعدے چند دن کے باقی ماندہ مدت میں آجائیں گے.پھر میں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ساری ذمہ داری جماعت پر ہی نہیں، کچھ ذمہ داری دفتر پر بھی ہے.میں نے دفتر والوں کو ان کے اس نقص کی طرف بار ہا توجہ دلائی ہے لیکن انہوں نے اپنے نقص کو دور نہیں کیا.اس کے معنی یہ ہوئے کہ جماعت کا صرف ساتواں یا اٹھواں حصہ ایسا ہے، جس نے اس بارہ میں سستی سے کام لیا ہے.اب یہ نہیں ہوگا کہ کراچی والے کہیں کہ ہمارے سوا باقی سب بے ایمان ہو چکے ہیں، راولپنڈی والے کہیں کہ ہمارے سوا باقی سب بے ایمان ہو چکے ہیں یا حیدر آباد والے کہیں کہ ہمارے سوا باقی سب بے ایمان ہو چکے ہیں.لیکن وکالت مال کے اعلانات سے ہر جماعت یہی بجھتی ہے کہ اس کے سوا باقی سب جماعتیں بے ایمان ہیں.حالانکہ یہ جھوٹ ہے.اگر ہم یہ کہیں کہ فلاں فلاں جماعت میں نقص ہے تو جن جماعتوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کیا ہے اور اپنے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے، ان کے حوصلے بڑھیں گے، ان کے ایمان میں زیادتی ہوگی.مگر اب یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ جماعتیں ، جن کی طرف سے وعدے آچکے ہیں، وکالت مال والوں کو کذاب کہتی ہوں گی یا پھر ہر شخص اپنے سوا سب کو بے ایمان کہتا ہوگا اور یہ دونوں باتیں خطرناک ہیں لیکن دفتر والے سمجھتے نہیں.اگر اسی طرح کام ہوتارہا تو غلط فہمیاں بڑھتی جائیں گی.پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں اور بتا دیتا ہوں کہ ابھی چند دن باقی ہیں، اگر وکالت مال کے عملہ میں ایمان ہے تو وہ اب بھی ایسی جماعتوں کی لسٹ بھجوا دے، جنہوں نے اس وقت تک وعدوں کے بارہ میں ستی سے کام لیا ہے.وکلاء سے میں نے کہا تھا کہ وکالت مال کی نگرانی کرو اور اس سے رپورٹ لے کر مجھے روزانہ اطلاع دیا کرو.وہ مجھے بتائیں کہ کیا انہوں نے کبھی ایسی اطلاع بھجوائی ؟ میں نے انہیں نقص بتا 489
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 فروری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم دیا تھا، کیا انہوں نے وہ نقص دور کر دیا؟ کیا انہوں نے اٹھارہ دنوں میں ایک دن بھی میری ہدایت کے مطابق کام کیا؟ پھر اختر صاحب بتادیں کہ انہوں نے اٹھارہ دنوں میں ایک دن بھی میری ہدایت پر عمل کیا ؟ میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ فلاں جگہ نقص ہے اور وکیل نے جی حضور کہہ کر ٹال دیا.اگر ہمیں ایسی جماعتوں کا پتہ لگ جائے ، جنہوں نے وعدے بھجوانے میں سستی کی ہے تو ہم ان کے امیر بدل دیں ، ان کے سیکرٹری بدل دیں.باقی جماعتوں کو کیوں بد نام کریں؟ بہر حال یہ طریق اصلاح کے قابل ہے.جن جماعتوں نے دوسرے لوگوں کی اصلاح کرنی ہے، انہیں پہلے گھر کی اصلاح کرنی چاہیے.اگر کسی کے اپنے گھر میں گند پڑا ہے تو اس نے گلی میں کیا صفائی کرنی ہے؟ اگر ان لوگوں میں ہی کمزوری پائی جائے، جو نمبر دار کہلاتے ہیں تو اور لوگوں کی اصلاح تو ہو چکی ، دوسرے لوگ تو کمزور ہوں گے ہی.اگر تم پاکستان کے علاوہ دوسری جماعتوں میں جاؤ تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ہر جماعت میں یہ احساس ہے کہ ہما را چندہ باہر کیوں جائے؟ بلکہ بعض جماعتیں یہاں تک کہہ دیتی ہیں کہ ہمارا روپیہ پاکستانی مبلغ پر کیوں خرچ ہو؟ حالانکہ انہیں یہ کم نہیں کہ جب پہلی دفعہ ان کے پاس مبلغ بھیجا گیا تھا تو اسے پاکستانی جماعت نے ہی کرایہ دے کر بھیجا تھا.پھر دو، چار سال جب تک وہاں جماعت قائم نہیں ہوئی تھی ، سارا خرچ پاکستان کی جماعت نے دیا تھا.اب بھی اکثر جگہوں پر پاکستان ہی کی جماعت خرچ کرتی ہے.مگر بیرونی جماعتیں ایک ایک پیسہ پر بحث شروع کر دیتی ہیں اور کہنے لگ جاتی ہیں کہ ہمارا چندہ باہر کیوں جائے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کا ذمہ دار صرف پاکستان ہے، باقی لوگوں پر تبلیغ کی ذمہ داری نہیں.امریکہ کی جماعت چاہتی ہے کہ امریکہ کا چندہ امریکہ میں ہی خرچ ہو، جاپان چاہتا ہے کہ اس کا چندہ جاپان میں خرچ ہو، انڈونیشیا چاہتا ہے کہ اس کا چندہ انڈونیشا میں ہی خرچ ہو، ملایا چاہتا ہے کہ اس کا چندہ ملایا میں ہی خرچ ہو، عرب چاہتا ہے کہ اس کا چندہ عرب میں ہی خرچ ہو، افریقہ چاہتا ہے کہ اس کا چندہ افریقہ میں ہی خرچ ہو.باقی دنیا میں تبلیغ پر جو خرچ ہو، وہ پاکستان برداشت کرے.لیکن یہ احمقانہ خیال ہے.پس یہ مرض باہر کی جماعتوں میں پائی جاتی ہے.اور جب یہ مرض باہر کی جماعتوں میں اس وقت بھی پائی جاتی ہے، جب پاکستان کی جماعت نے اکثر حصہ بوجھ کا اٹھایا ہوا ہے.تو جب مرکز میں ہی خرابی پیدا ہو جائے تو ہم انہیں کیا کہیں گے؟ جب ذمہ دار لوگ معمولی عقل کی بات بھی نہ کریں تو دوسروں کا کیا شکوہ ہے؟ وہ امریکہ، جرمنی، ہالینڈ اور دوسرے ممالک کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، لیکن اپنی اصلاح نہیں کر سکتے.یہ تو ایسی ہی بات ہے، جیسے کہتے ہیں.مژده باد اے مرگ ! عیسی آپ ہی بیمار ہے یعنی اے موت ! تجھے مبارک ہو کہ میسی، جو مردے زندہ کیا کرتا تھا ، وہ آپ ہی بیمار ہے.490
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 فروری 1955ء پس مرکز کے رہنے والوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے.انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور پھر اصلاح کرتے رہنا چاہئے.انہیں اپنی معقل تنظیم اور قربانی سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ محض اتفاقی طور پر ہی لیڈر نہیں بنے ، بلکہ خدا تعالیٰ نے انہیں لیڈر بنایا ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اس ملک میں پیدا کیا تھا تو یہ دیکھ کر کیا تھا کہ ہم لوگوں میں قابلیت پائی جاتی ہے.اگر ہم اپنی قابلیت کو ظاہر نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ جھوٹا نہیں، ہم خود جھوٹے ہیں.اگر ہم اپنی قابلیت کو ظاہر نہیں کرتے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم اپنی طاقت کو ضائع کر رہے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا ، اس نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میرے بھائی کو دست آرہے ہیں.آپ نے فرمایا، اسے شہد پلاؤ.چنانچہ وہ واپس گھر گیا اور اس نے اپنے بھائی کو شہد پلایا لیکن دست اور زیادہ ہو گئے.وہ دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، یارسول اللہ ! میں نے اپنے بھائی کو شہد پلایا تھا، لیکن اس کے دست اور زیادہ ہو گئے ہیں.آپ نے فرمایا ، اسے اور شہد پلاؤ.چنانچہ اس نے اور شہد پلایا لیکن دست اور زیادہ ہو گئے.وہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا، یا رسول اللہ ! دست تو اور زیادہ ہو گئے ہیں.آپ نے فرمایا، اسے اور شہد پلاؤ.اللہ تعالیٰ سچا ہے، تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے.جب خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ شہد میں شفا ہے تو اس کے پینے سے یقیناً شفا ہو گئی.خدا تعالی کی بات جھوٹی نہیں ہوسکتی.میں کس طرح مانوں کہ تمہارے بھائی کے دست شہد پینے سے ٹھیک نہیں ہوئے؟ معلوم ہوتا ہے تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے.بات بھی ٹھیک ہے.یہ بات طب سے ثابت ہے کہ جس شخص کو بد ہضمی کی وجہ سے اسہال ہوں ، اسے جلاب آور دوا دینی چاہیے تا کہ تمام فاسد مواد اندر سے نکل جائے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ جھوٹا نہیں، اس نے شہد میں شفار کھی ہے تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے.پس اگر تم اپنی قابلیت کو ظاہر نہیں کرتے تو تم جھوٹے ہو، خدا تعالیٰ سچا ہے.خدا تعالیٰ نے تمہیں لیڈر اس لئے بنایا تھا کہ تم میں قابلیت پائی جاتی ہے.اگر تمہارے دماغ اور دوسرے قومی دوسرے لوگوں سے بہتر نہ ہوتے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس ملک میں نہ بھیجتا.میرے پاس ایک دفعہ امریکہ کا قونصل جنرل آیا ، میں نے اسے کہا تم امریکہ والے پاکستان کے معاملات میں دخل دیتے ہو، یہ امر پسندیدہ نہیں.تو وہ اس بات سے چڑ گیا.میں نے اسے کہا، کیا تمہارے دماغ ، ہمارے دماغوں سے زیادہ اچھے ہیں؟ اسے یہ بات بری لگی ہوگی.لیکن آخر ان کی کون سی چیز ایسی ہے، جو تم سے اچھی ہے؟ وہ تو 491
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 18 فروری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اتنے سادہ عقل کے ہیں کہ ایک انسان کو خدامان رہے ہیں.ایسے لوگوں نے ہمارے دماغوں کا کہاں مقابلہ کرنا ہے؟ ہمارے پاس خدا ہے، اس کا سچا رسول ہے، کچی کتاب ہے.ہم نے خدا تعالیٰ کو مانا ہے اور وہ اس کا انکار کر رہے ہیں، اس لئے ان کی غلطی پر ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے اور ہمارے عقلمند ہونے میں کیا شبہ ہے؟ لیکن اگر ہم اپنی عقل اور دماغ کو استعمال نہیں کرتے تو یہ ہماری کمزوری ہے.ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم دوسروں سے زیادہ اچھے ہیں، کوئی اور قوم ہم سے اچھی نہیں ہو سکتی.تم اس وقت پہلی صف میں ہو ، بعد میں تم دوسری صف میں چلے جاؤ تو اور بات ہے.کیونکہ ایسے زمانے بھی آتے ہیں کہ پچھلی صفیں آگے آجاتی ہیں.تم نے دیکھا نہیں کہ بنو امیہ کی حکومت خالص عرب حکومت تھی.پھر بغداد میں جو حکومت قائم ہوئی ، وہ عرب اور ایرانی ملی جلی تھی.پھر بعد میں حکومت دوسری اقوام میں چلی گئی.پس یہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان ہمیشہ کے لئے لیڈر بنار ہے.لیکن اس وقت وہ بہر حال لیڈر ہے اور خدا تعالیٰ نے اسے لیڈر بنایا ہے.خواہ کوئی چیں کرے یا پیں کرے، اسے اچھا لگے یا برا لگے ، بہر حال الہی فیصلہ نے اسے قابل ترین بنایا ہے.اب اگر وہ اپنے آپ کو نا قابل ترین ثابت کرے تو یہ اس کی اپنی حماقت ہے.پس اگر تم اپنے آپ کو نا قابل ظاہر کر رہے ہو تو ہم یہ تو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ تم نا قابل ہو.لیکن یہ واقعہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ تم نا قابل بن رہے ہو“.مطبوعه روزنامه الفضل 22 فروری 1955ء) 492
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم...خطبہ جمعہ فرمود و 25 فروری 1955ء ہم نے ساری دنیا میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1955ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.”میں نے گذشتہ خطبہ میں جماعت کے دوستوں سے کہا تھا کہ تحریک جدید کے وعدوں میں ابھی 23 ہزار روپے کی کمی ہے، جسے انہیں بہت جلد پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.مجھے خوشی ہے کہ میرے اس اعلان کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کمی 23 ہزار سے گر کر 7 ہزار پر آگئی ہے.اور امید ہے کہ یہ تھوڑی کمی بھی چند دنوں میں دور ہو جائے گی.لیکن اس دوران میں جو حیرت انگیز بات معلوم ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کمی کا بہت بڑا باعث خودر بوہ کی جماعت تھی.جس نے تحریک جدید کے وعدوں کی طرف پوری توجہ نہ کی اور ستی سے کام لیا.معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگ صرف یہاں باتیں سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں اور پھر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں.گویا آپ لوگوں کی مثال اس ہندو کی سی ہے، جو سردی کے موسم میں پانی کی گڑوی بھر کر اپنے جسم پر ڈالتا تھا تو خود کود کر آگے چلا جاتا تھا اور پانی پیچھے گر جاتا تھا.بہر حال یہ چیزیں ہماری آنکھیں کھولنے والی بن گئی اور افسوس پیدا کرنے والی بھی.آنکھیں کھولنے والی اس طرح کہ جب ہمارے قریب کے رہنے والوں کی یہ حالت ہے تو باہر والوں کی طرف ہمیں کتنی توجہ کی ضرورت ہے؟ اور افسوس پیدا کرنے والی اس طرح کہ جنہیں دوسروں کا لیڈر ہونا چاہیے تھا اور ہر بات میں انہیں آگے نکلنا چاہیے تھا ، وہی پیچھے رہ گئے.جو ایک افسوس ناک امر ہے.بہر حال یہ بات واضح ہے کہ ہمارا کام بہت وسیع ہے اور ہم نے ساری دنیا میں اسلام اور احمدیت کو پھیلا نا ہے.اور یہ کام تقاضا کرتا ہے کہ ہم تحریک جدید کی مضبوطی کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کریں.اور بیرونی مبلغین کو اتناروپیہ بھجوائیں کہ وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنی تبلیغی مہمات کو جاری رکھ سکیں.بیرونی ممالک کے جو حالات مبلغین کی رپورٹوں کے ذریعہ ہمارے علم میں آتے رہتے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشیا، ملایا، ایسٹ افریقہ، ویسٹ افریقہ اور مصر وغیرہ ممالک میں بالخصوص ضرورت ہے کہ ہم اپنی تبلیغی مساعی کو پہلے سے زیادہ تیز کر دیں.اور اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ہمارے مشن مضبوط ہوں اور ان کہ پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ بغیر کسی روک کہ اپنی تبلیغ کو وسیع کرتے چلیں جائیں.493
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم مجھے افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بعض بیرونی مشن بھی اپنا فرض صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے اور ان پر ایک جمود کی سی کیفیت طاری ہے.میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے تو میں انہیں جھنجوڑوں اور انہیں بیدار کرنے کی کوشش کروں.بے شک بعض مشن ایسے بھی ہیں، جنہوں نے اچھا کام کیا ہے.مثلاً نائیجریا کا مشن ہے، اس نے نہایت عمدہ کام کیا ہے.اسی طرح فری ٹاؤن کے مشن نے بھی اچھا کام کیا ہے.لیکن بعض مشن سست ہیں اور انہوں نے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو سمجھا ہی نہیں.پھر نہیں آئندہ کے لئے نئے مبلغوں کی بھی ضرورت ہے.اگر نئے مبلغین نہیں آئیں گے تو ہم اپنے کام کو ترقی کس طرح دے سکیں گے؟ پھر اگر مبلغ آ بھی گئے لیکن روپیہ نہ آئے تو انہیں باہر بھیجنا مشکل ہو گا.بہر حال جو مشن اس وقت تک قائم کئے جاچکے ہیں، انہیں ایک حد تک بڑھانا ہمارے لئے ضروری ہے.اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے مبلغین کولٹریچر مہیا کرنا چاہیے، اسی طرح انہیں سفر خرچ اور جلسے وغیرہ منعقد کرنے کے لئے اخراجات مہیا کرنے چاہیں.در حقیقت اب تک ہم اپنے مبلغین کو صرف کھانے پینے کے اخراجات ہی دیتے ہیں، سفر خرچ نہیں دیتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مبلغین اپنے مشن ہاؤس میں ہی بیٹھے رہتے ہیں.اتفاقا کوئی شخص ان کے پاس آ جائے تو آ جائے.گویا ان کی مثال پرانے زمانے کے زاویہ نشین اور صوفیوں کی سی ہے کہ کوئی آدمی ان کے پاس آ جائے تو وہ اس سے بات کر لیتے ہیں، ورنہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں.ہم انہیں اخراجات مہیا کریں گئے تو وہ باہر نکلیں گے.اخراجات کے بغیر وہ ادھر ادھر کس طرح پھر سکتے ہیں؟ اگر ہم انہیں سفر خرچ کے لئے روپیہ نہیں دیتے صرف روٹی کا خرچ دیتے ہیں تو وہ اپنی روٹی کھا لیا کریں گئے اور سارا دن اس انتظار میں بیٹھے رہیں گئے کہ کوئی شخص ان کے پاس آئے اور وہ اسے تبلیغ کریں.گویا ان کی مثال ایک مکڑی کی سی ہوگی.جو اپنا جالا بن کر اس انتظار میں رہتی ہے کہ کوئی اس کے جالے میں پھنسے اور وہ اس کا شکار کرے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم انہیں سفر کے لئے خرچ دیں، لیکچروں کے لئے خرچ دیں.اسی طرح لٹریچر دیں تا کہ وہ اسے لوگوں میں تقسیم کر سکیں.جہاں جماعت قائم ہو چکی ہے، وہاں تو مبلغین کچھ نہ کچھ کام کرتے رہتے ہیں.لیکن جہاں جماعت قائم نہیں ہوئی.وہاں یہی حالت ہے کہ مبلغ سارا دن اس انتظار میں رہتا ہے، کوئی شخص خود چل کر اس کے پاس آئے اور وہ اسے تبلیغ کرے یا پھر وہ دعا کرتا رہتا ہے کہ یا الہی کوئی شکار بھیج.صاف بات ہے کہ اصل شکاری وہی ہے، جو شکار کی جگہ پر خود پہنچے.اگر کسی کے پاس اتفاقی طور پر خود شکار آجاتا ہے تو وہ کوئی شکاری نہیں.جو شکاری کسی درخت کے نیچے بیٹھ جائے اور اس انتظار میں رہے کہ کوئی نیل گائے یا ہرن راستہ بھٹک کر اس کہ پاس آجائے تو وہ شکاری نہیں کہلا سکتا.494
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 25 فروری 1955ء غرض ہمارے مشنوں کے لئے مزید سرمایہ کی ضرورت ہے اور اس لئے جماعت کو کسی وقت بھی اپنے فرائض نہیں بھولنے چاہئیں.ان کے سپر د ایک بہت بڑا کام ہے.اگر ہم مبلغین کو اخراجات نہیں دیتے تو ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا.پچھلے دنوں انڈونیشیا سے ہمیں اطلاع آئی کہ وہاں اگر چہ آبادی زیادہ تر مسلمانوں کی ہے لیکن تعلیم میں عیسائیوں کو زیادہ دخل حاصل ہے.جس کی وجہ سے طلباء عیسائیت کی طرف مائل ہورہے ہیں.بعض طلباء نے میٹنگ کی اور اس میں ان سوالات پر غور کیا، جو وقتا فوقتا ان پر ہوتے رہے ہیں.اس پر ہمارے مبلغ وہاں گئے اور طلبا نے چاہا کہ انہیں عیسائیت کے خلاف منظم کیا جائے.لیکن یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم مبلغین کولٹریچر مہیا کریں، سفر کے لئے اخراجات دیں تا کہ وہ طلبہ کو منظم کرسکیں.عیسائیت کا حملہ صرف غیر مسلم ممالک میں ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک پر بھی عیسائیت کا شدید حملہ ہے اور وہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کر رہی ہے.اس لئے صرف یورپ اور امریکہ میں ہی عیسائیت کے مقابلہ کی ضرورت نہیں بلکہ مسلم ممالک میں بھی عیسائیت کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے.بعض نادان کہہ دیتے ہیں کہ مسلم ممالک میں مبلغین بھیجنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے باشندے تو پہلے ہی اسلام کے پیرو ہیں.لیکن وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ مسلمان کہلانا اور بات ہے اور اسلام کی تعلیم پر عمل کرنا اور بات ہے.مسلمانوں نے گزشتہ زمانہ میں اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے میں سخت کو تا ہی سے کام لیا ہے.اس لئے اگر چہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے لیکن ان کے اندر اسلام کے لئے غیرت موجود نہیں تھی.پس اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر عیسائیت ترقی کرتی گئی اور اس نے مسلم ممالک میں بھی اپنا جال پھیلا دیا.مسلمان محض نام کے رہ گئے اور تعلیم یافتہ اور جاہل دونوں عیسائیت کا شکار ہو گئے.تعلیم یافتہ اس لئے کہ ان کے افکار پر عیسائیت غالب تھی اور جاہل اس لئے کہ ان کے اقتصاد پر عیسائیت غالب تھی.اس وجہ سے اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے.اور اس کے لئے نہ صرف ہمیں غیر مسلم ممالک میں جانا پڑے گا بلکہ مسلم ممالک میں بھی جانا پڑے گا.اور لوگوں کے سامنے صحیح اسلامی تعلیم رکھنی پڑے گی.پس جماعت کو اپنی ذمہ داریاں نہیں بھلانی چاہئیں.جب بھی جماعت غفلت سے کام لے گئی ، وہ ریلہ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روکا تھا اور وہ سیلاب، جو آرہا تھا اور اس کے آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بند باندھا تھا، ٹوٹ جائے گا اور سیلاب آگے بڑھنا شروع ہو جائے گا.اس سیلاب کو روکنا اور اس سے ہوشیار رہنا، ہماری جماعت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے.66 ( مطبوعه بروزنامه الفضل 104اکتوبر 1961) 495
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از پیغام فرموده 11 مارچ 1955ء میری نگرانی میں فتح کا دن دیکھنا چاہتے ہو تو دعاؤں اور قربانیوں میں لگ جاؤ پیغام فرمودہ 11 مارچ 1955ء.اس موقع پر میں یہ کہنے میں بھی فخر محسوس کرتا ہوں کہ مجھے جوشکوہ پیدا ہوا تھا کہ اس سال تحریک کے وعدے پورے نہیں آرہے ، خدا تعالیٰ نے جماعت کو اس شکوہ کے دور کرنے کی توفیق بخش دی ہے.اور اب خدتعالیٰ کے فضل سے آج کی تاریخ تک قریباً چھ ہزار کے وعدے زائد آ چکے ہیں.اور موجودہ رفتار پر قیاس رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ معیاد کی آخر تک اللہ تعالیٰ کی مدداور نصرت سے چالیس، پچاس ہزار روپے کے وعدے بڑھ جائیں گے.دنیا کی نظروں میں یہ بات عجیب ہے، مگر خدائے عجیب کی نظر میں یہ بات عجیب نہیں.کیونکہ اس کے مخلص بندوں کے ہاتھوں سے ایسے معجزے ہمیشہ ہی ظاہر ہوتے چلے آئے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے چلے جائیں گئے.پہلے بھی خدا تعالیٰ ایسے ہی بندوں کے چہروں سے نظر آتا رہا ہے اور اب ہمارے زمانے میں بھی ایسے ہی انسانوں کے چہروں سے نظر آئے گا.اور ان کے دلوں اور ایمانوں سے ایسے معجزے ظاہر نہیں ہوں گے بلکہ برسیں گئے.منکر انکار کرتے چلے جائیں گئے ، جبرئیل کا قافلہ بڑھتا جائے گا اور آخر عرش تک پہنچ کر دم لے گا.عرش کا راستہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اپنی امت کے لئے کھول دیا ہوا ہے.اب کوئی ماں ایسا بیٹا نہیں بنے گی، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھولا ہوا راستہ بند کر سکے.شیطان حسد سے مرجائے گا مگر خدا تعالیٰ کی مددمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطانی حسد کی آگ سے بچالے گی.دوزخ چاہے گندھک کی آگ کی بنی ہوئی ہو یا حسد کی آگ سے ، صاحب الخلق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محفوظ کیا گیا ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا.دوزخ کے شرارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے لئے ہیں.اس کے دوستوں کے لئے کوثر کا خوشگوار پانی اور جنت کے ٹھنڈے سائے ہیں.صرف اتنی ضرورت ہے کہ وہ ہمت کر کے ان سایوں کہ نیچے جا بیٹھیں اور آگے بڑھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے کوثر کا پانی لے لیں.لوگ اپنے باپ کی زمینوں اور مکانوں کو نہیں چھوڑتے اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں تک جاتے ہیں کہ ہمار اور نہ ہمیں دلوایا جائے.اگر مسلمانوں میں سے کوئی بدبخت 497
اقتباس از پیغام فرموده 11 مارچ 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم - اپنے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثہ کو نظر انداز کرتا ہے تو اس پر افسوس ہے.اس کو تو فیڈرل کورٹ تک نہیں بلکہ عرش کی عدالت تک اپنے مقدمہ کو لے جانا چاہیے اور اپنا ورثہ لے کر چھوڑنا چاہیے.اگر وہ ہمت نہ ہارے گا، اگر وہ دل نہ چھوڑے گا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ اس کو ملے گا اور ضرور ملے گا.صاحب العرش کی عدالت کسی کو اس کے حق سے محروم نہیں کرتی.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی باپ، دنیا کے ظالم دادوں کی طرح اپنے پوتوں کو طبعی حق سے محروم نہیں کرتا.بلکہ جب وہ اس سے اپیل کرتے ہیں ، وہ ان کے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ورشان کو دیتا ہے.بلکہ ورثہ کے حصہ سے بھی بڑھ کر دیتا ہے، کیونکہ وہ رحیم، کریم ہے.اور وہ رحیم ، کریم یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی روحانی اولاد اپنے ورثہ سے محروم ہو جائے.سود وستو ابر ھو کہ تمہیں ترقی دی جائے گی ، قربانی کرو کہ تمہیں دائمی زندگی عطا کی جائے گی ، اپنے فرض کو پہچانو کہ خدا تعالیٰ اس سے بڑھ کہ اپنے فرض کو پہچانے گا.اور جب وہ وقت آئے گا تو نہ صرف تمہارے گھر برکتوں سے بھر جائیں گئے بلکہ ہر وہ گوشت کا لوتھڑا، جو تمہارے جسم سے نکلے گا، اس کو بھی برکتوں کی چادر میں لپیٹ کر بھیجا جائے گا.اور جو تمہارے ہمسائے میں رہے گا، اس پر بھی برکتیں نازل ہوں گی.جو تم سے محبت کرے گا، اس سے خدا تعالیٰ محبت کرے گا.اور جو تم سے دشمنی کرے گا ، اس سے خدا تعالی دشمنی کرے گا“."...دوستوں کو میں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ قادیان میں ایک امانت فنڈ کی ، میں نے تجویز کی تھی.اور وہ یہ تھی کہ قادیان کی ترقی کے لئے احباب کثرت سے امانتیں قادیان میں جمع کروا ئیں.خاص خاص وقت پر اپنی اغراض کے لئے خلیفہ وقت سے جماعت بوقت ضروت کچھ قرض لے لیا کرے گی.اس سے احباب کا روپیہ بھی محفوظ رہے گا اور بغیر ایک پیسہ چندہ لئے جماعت کے کام ترقی کرتے رہیں گئے.قادیان میں اس تحریک کے مطابق ترقی کرتے کرتے ستائیس لاکھ روپیہ اس امانت میں پہنچ گیا تھا.اور بغیر ایک پیسہ کی مدد کے احباب کرام سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق پا جاتے تھے.چنانچہ اس تحریک کا نتیجہ تھا کہ پارٹیشن کے بعد جب سارا پنجاب لٹ گیا تو جماعت احمدیہ کے افراد محفوظ رہے.اور ان کو اس امانت کے ذریعے دوبارہ پاکستان میں پاؤں جمانے کا موقع مل گیا.اس کی تفصیل کہ کس کس طرح اس روپیہ کو نکالا اور خرچ کیا اور پھر احباب کو واپس کیا ؟ یہ تو جب اس زمانہ کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں تفصیلاً آئے گا.مگر بہر حال جس طرح جماعت کے افراد اپنے پاؤں پر کھڑے رہے، وہ ظاہر 498
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم اقتباس از پیغام فرموده 11 مارچ 1955 ہے.اگر اب بھی دوست میری بات کو مانیں گئے تو انشاء اللہ بڑی بڑی برکتیں حاصل کریں گے.انہی اغراض کے ماتحت روپیہ جمع کرانا ہوگا، جو میں نے اوپر بیان کی ہیں تحریک ،صدر انجمن احمد یہ اور میں انشاء اللہ ذاتی طور پر امانتوں کے واپس کر نے ذمہ دار ہوں گئے.جس طرح پہلے دور میں ذمہ دار تھے.اور ایک، ایک پیسہ احباب کو ادا کر دیا تھا.روپیہ کا گھر میں پڑے رہنا یا سونے کی صورت میں عورتوں کے پاس رہنا، قومی ترقی کے لئے روک ہے.اس لئے اپنی اولادوں کی ترقی کی خاطر، ان کی تعلیم اور پیشوں کی ترقی کی خاطر، اپنی آمدن میں سے تھوڑی ہو یا بہت، پس انداز کرنے کی عادت ڈالیں اور امانت کے طور پر تحریک جدید یا صدرانجمن کے خزانہ میں جمع کراتے رہیں اور اس کا نام امانت خاص رکھیں.یہ امانت اوپر کے بیان کردہ اغراض کے لئے ہو گئی.صرف اتنا فرق ہوگا کہ جو شخص اپنی امانت میں سے دس ہزار روپے یا اس سے زائد لینا چاہے، اسے عام طور پر سات دن کا نوٹس دینا ہو گا.مگر یہ ضروری نہیں ، امانت داروں کی ضرورت کے مطابق فوری روپیہ بھی ادا کر دیا جائے گا.مگر جو لوگ چند سو یا ہزار لینا چاہیں ، ان کو بغیر کسی نوٹس کے فوری طور پر رو پیدا دا ہو جائے گا.میں امید رکھتا ہوں کہ سلسلہ کی تمام خواتین اور مرد میری اس تحریک پر لبیک کہیں گئے اور بغیر پیسہ خرچ کرنے کے دین و دنیا کے لئے ثواب عظیم کمائیں گئے.اور انشاء اللہ یہ امانت ان کی مالی ترقی کا بھی موجب بنے گی اور اس کے لئے سکیم آئندہ بنائی جائی گی.چونکہ یہ ایک مؤقت امانت ہوگی، جس کے لئے آٹھ دن کے نوٹس کی شرط ہوگی.یہ قرضہ بن جائے گا اور زکوۃ سے آزاد ہو جائے گا اور ان کے کام میں کوئی نقص نہیں ہوگا.اگر جماعت کے مرد اور عورتیں اس طرف توجہ کریں تو پندرہ ، ہمیں لاکھ روپیہ چند روز میں جمع ہونا مشکل نہیں.یسواگر چاہتے ہو کہ میری نگرانی میں اسلام کی فتح کا دن دیکھو تو دعاؤں اور قربانیوں میں لگ جاؤ.تا کہ خدا تمہاری مدد کرے اور جو کام ہم نے مل کے شروع کیا تھا، وہ ہم اپنی آنکھوں سے کامیاب طور پر پورا ہوتا دیکھیں.میں امید کرتا ہوں کہ اس امانت کی تحریک کے متعلق مجھے بار بارتحریک کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی.بلکہ احباب جماعت اور خواتین خود ہی یہ تحریک اپنے دوستوں میں کرتے رہیں گئے.اور اس کو زندہ رکھیں گئے“.(مطبوعہ روزنامہ الفضل 126 اپریل 1955ء) 499
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خلاصہ تقریر فرموده 29 جون 1955ء ہمارے خدا نے ہمارا یہ فرض قرار دیا ہے کہ ہم دنیا بھر میں اسلام کو پھیلائیں تقریر فرمودہ 29 جون 1955ء ہالینڈ کی جماعت نے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا ، جس میں تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب مقامی معززین کو بھی مدعو کیا گیا تھا.اس تقریب میں حضور نے انگریزی میں ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی ، جس کے ترجمہ کا خلاصہ درج ذیل ہے.فرمایا:.....ہم سب ایک ہی خدا کے بندے ہیں.اس لئے جو نیک کام ہمارے دوسرے بھائی کرتے ہیں، وہ ہم بھی کر سکتے ہیں.ہالینڈ کے احمدیوں کو اس بات کا حریص ہونا چاہیے کہ وہ اخلاص اور قربانی میں کسی لحاظ سے بھی اپنے پاکستانی بھائیوں سے پیچھے نہ رہیں.یہ مسجد پاکستان کی احمدی مستورات کے چندہ سے بنائی گئی ہے.شاید یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ میں اللہ تعالیٰ نے متعدد خواتین کو بھی قبول اسلام کی تو فیق عطا فرمائی ہے اور وہ سب بہت مخلص ہیں.ہمیں محض اس بات پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ ہم نے ڈچ زبان میں یا بعض اور زبانوں میں قرآن پاک کے تراجم شائع کئے ہیں اور ہیگ میں مسجد تعمیر کی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اپنی ان ذمہ داریوں پر نظر ڈالیں، جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہیں تو ہمیں اپنی ان حقیر کوششوں پر شرم محسوس ہوتی ہے.ہمارے خدا نے ہمارا یہ فرض قرار دیا ہے کہ ہم دنیا بھر میں اسلام کو پھیلائیں.دنیا کی سب زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع کریں اور ہر ملک اور ہر علاقہ میں جگہ جگہ مساجد تعمیر کریں.اگر ہم عیسائیوں کی ان کوششوں کو دیکھیں، جو وہ انجیل اور بائبل کی اشاعت کے متعلق کر رہے ہیں تو ہمیں محسوس ہو گا کہ ان کے مقابلہ میں ہماری کوششوں اور قربانیوں کی مقدار بہت کم ہے.ہر سچے مسلمان اور احمدی کا فرض ہے کہ وہ دنیا میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے ہر ممکن کوشش کرے.اور اس امر کو ہمیشہ مد نظر رکھے کہ خدائے واحد کے پیغام کو دنیا کے سب لوگوں تک پہنچانا، اس کا مقصد اور نصب العین ہے“.مطبوعه روز نامہ الفضل 10 جولائی 1955 ء ) 501
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 ستمبر 1955ء آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج خطبہ جمعہ فرمودہ 09 ستمبر 1955ء آج میں سب سے پہلے اپنے ان تجارب سے جو مجھے یورپ کے سفر میں ہوئے ہیں، ایک بات کا خصوصیت سے ذکر کرنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے غالباً 1904ء یا 1905ء میں کہا تھا کہ آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج می وہ زمانہ تھا، جب دنیا کے کسی انسان کے واہمہ اور خیال میں بھی تبلیغ اسلام نہیں تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس وقت کچھ اشتہار لکھ کر بھیجے اور بعض نے وہ اشتہار پڑھے بھی.لیکن اس سے زیادہ اس وقت کوئی تبلیغ نہیں تھی.بعد میں ہمارے مشن بیرونی ممالک میں قائم ہوئے اور کچھ لوگوں نے اسلام قبول کیا.مگر یہ بات بھی ایسی ہی تھی ، جیسے پہاڑ کھود نے کے لئے ہتھوڑ امارا جاتا ہے.ہتھوڑا مارنے کا سے دو، تین انچ پہاڑ تو کھر سکتا ہے، مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہاڑ کھودا گیا ہے.بے شک ہم اس بات پر خوش ہو سکتے ہیں کہ پہاڑ کھودنے کا کام شروع ہو گیا ہے.مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کھو دا بھی گیا ہے.لیکن اس سفر میں، میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب نشان دیکھا کہ یورپ کے بعض اچھے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں وہی باتیں، جو پہلے اسلام کے خلاف سمجھی جاتی تھیں، اب اس کی صداقت کا ثبوت سمجھی جانے لگی ہیں.چنانچہ میرے لندن پہنچنے سے چند دن پہلے ہی وہاں کا ایک مشہور میوزیشن (musician ) جو لندن کے ایک اہم ترین اوپرا میں کام کرتا ہے اور پیانو وغیرہ بجاتا ہے، اس کے دل میں اسلام کی رغبت پیدا ہوئی.اس کی ماہوار تنخواہ 105 پونڈ ہے.گویا آج کل کے ریٹ کے مطابق چودہ سو روپیہ.لیکن اس کے علاوہ وہ زائد رقم بھی کمالیتا ہے.اس کی بیوی نے بتایا کہ وہ قریباً سترہ اٹھارہ سو پونڈ سالانہ کماتا ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی دو ہزار کے قریب ماہوار آمد ہے.مجھے ایک دفعہ لندن میں بڑے بڑے تاجر ملنے کے لئے آئے ، میں نے ان کے سامنے اس کا نام لیا تو ایک شخص کی بیوی نے فوراً پہچان لیا اور کہا، ہاں میں اس کو جانتی ہوں.اس نے بڑی سی داڑھی رکھی ہوئی ہے.اتنی بڑی داڑھی کہ آپ ) 503
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم لوگ، جو میرے سامنے بیٹھے ہیں، آپ میں سے شاید ایک فی صدی کی بھی اتنی بڑی داڑھی نہیں.مجھے جب وہ ملا تو کہنے لگا کہ میرے دوست جب مجھے دیکھتے ہیں تو مجھے پاگل کہتے ہیں.میں نے کہا، اگر آپ کی داڑھی نہ ہوتی تو میں آپ کو پاگل سمجھتا.ان کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ داڑھی رکھنے والا پاگل ہے اور میرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ داڑھی نہ رکھنے والا پاگل ہے.جو لوگ داڑھی نہیں رکھتے ، وہ داڑھی رکھنے والے کو پاگل سمجھتے ہیں اور جو داڑھی رکھتے ہیں، وہ داڑھی نہ رکھنے والوں کو پاگل سمجھتے ہیں.بہر حال جب تک دنیا میں اختلاف رہے گا، دنیا میں یہ فتوے جاری رہیں گے.مجھے وہاں کے مبلغین نے بتایا کہ اس شخص کی اسلام کی طرف رغبت ایک عجیب وجہ ہے، جو عام وجوہات سے بالکل الٹ ہے.اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کے دماغوں میں تغیر پیدا کر رہا ہے.کوئی زمانہ ایسا تھا کہ اسلام کے رستہ میں سب سے زیادہ روک تعدد ازدواج کی روک سمجھی جاتی تھی.یورپ کے لوگ اصرار کرتے تھے کہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنا بخت ظلم ہے.مگر اب یہ حالت ہے کہ وہ پہلے بعض اور مسلمانوں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ اسلام کا تعددازدواج کے متعلق کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا، تو بہ تو بہ، یہ بات تو دشمنوں کی طرف سے سخت بگاڑ کر پیش کی جاتی ہے، اسلام میں کوئی ایسا حکم نہیں.یہ تو خاص خاص مجبوریوں اور شرطوں اور قیدوں کے ساتھ اجازت دی گئی ہے.وہ کہنے لگا کہ انہوں نے جب مجھے یہ جواب دیا تو میں جھٹ کھڑا ہو گیا اور میں نے کہا، مجھے تو اسلام میں یہی ایک خوبی نظر آئی تھی اور تم کہتے ہو کہ اس کے ساتھ کئی قسم کی شرطیں اور قیدیں ہیں.میں تو وہاں جانا چاہتا ہوں، جہاں مجھے سیدھی طرح بتایا جائے کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے.چنانچہ اس کے بعد وہ ہمارے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ اس بارہ میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ ہمارے مبلغین نے بتایا کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے.مگر اس نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ تم انصاف کے ساتھ کام لو اور ہر بیوی کا حق ادا کرو.وہ کہنے لگا یہ بات درست ہے اور میری عقل اسے تسلیم کرتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یورپ نے اس تعلیم کو چھوڑ کر بہت کچھ کھویا ہے اور ہم نے اپنے اخلاق بگاڑ لئے ہیں.اس لئے اب میں آپ کے پاس ہی آیا کروں گا.چنانچہ وہ مجھے بھی ملا اور اپنے بیوی اور بچوں کو بھی ہمارے گھر لایا.پھر اس نے مجھ سے جو باتیں کیں، ان سے پتہ لگتا ہے کہ اس نے کس طرح اسلامی تعلیم پر گہرا غور کیا ہے.اس نے قرآن کریم کا انگریزی دیباچہ نکالا اور کہا کہ آپ نے اس کتاب میں ایک بات ایسی لکھی ہے، جس سے میرے دل میں شبہ پیدا ہوا ہے.اس نے کہا، میرا طریق یہ ہے کہ میں کتاب کو پڑھتا جاتا ہوں اور جو شبہات میرے دل میں پیدا ہوں، ان کو میں نوٹ کرتا جاتا ہوں.اس کتاب کے مطالعہ 504
اقتباس از خطبه جمعه فرمود :09 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم کے دوران میں میرے دل میں ایک شبہ پیدا ہوا ہے.میں نے کہا، فرمائیے ، وہ کیا شبہ ہے؟ کہنے لگا، اس کتاب میں آپ نے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک دفعہ مسجد میں عبادت کے لئے بیٹھے تھے کہ آپ کی ایک بیوی آپ سے ملنے کے لئے آ گئیں.چونکہ واپسی کے وقت رات ہوگئی تھی ، اس لئے آپ اپنی بیوی کو گھر پہنچانے کے لئے ساتھ چل پڑے.راستہ میں آپ کو ایک صحابی ملا.اسے دیکھ کر آپ کو شبہ پڑا کہ کہیں اسے ٹھوکر نہ لگ جائے اور یہ خیال نہ کرے کہ میں کسی اور کو ساتھ لئے جار ہا ہوں.چنانچہ آپ نے اپنی بیوی کے منہ پر سے نقاب اٹھادی اور اسے کہا کہ دیکھ لو، یہ میری بیوی ہے.( مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 156 و 285 و بخاری ابواب الاعتکاف ) جب میں نے یہ واقعہ پڑھا تو مجھے سخت اعتراض پیدا ہوا اور میں نے کہا کہ پردہ تو اسلام کے نہایت اعلیٰ درجہ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے.اور یہ مذہب اور پاکیزگی کی جان ہے.اگر کوئی بد بخت شخص ایسا تھا ، جس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پچاس، ساٹھ سالہ زندگی کو دیکھ کر بھی شبہ پیدا ہوا تو وہ بے شک جہنم میں جاتا، اس کی کیا حیثیت تھی کہ محض اس کا ایمان بچانے کے لئے اپنی ایک بیوی کے منہ سے پردہ اٹھا دیا جاتا؟ جس شخص نے اتنی مدت دراز تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات کو دیکھا، آپ کی قربانیوں کو دیکھا، آپ کے ایمان کو دیکھا، آپ کے اخلاص کو دیکھا، آپ کی محبت الہی کو دیکھا اور پھر بھی اس کے دل میں شبہ پیدا ہوا، وہ کمبخت اگر مرتا تھا تو بے شک مرتا، اس کے لئے کیا ضرورت تھی کہ اپنی کسی بیوی کے منہ پر سے نقاب اٹھا دیا جاتا؟ چونکہ مجھ پر اس وقت بیماری کا نیانیا حملہ ہوا تھا، اس لئے میرے دل میں اس سوال سے تھوڑی سی گھبراہٹ پیدا ہوئی اور میں نے سوچا کہ یہ ایک نیا سوال ہے اور آدمی بڑا پڑھا ہوا اور زیرک ہے.معلوم نہیں ، میں اس کا جواب بھی دے سکوں گا یا نہیں.یوں تو اللہ تعالیٰ کی میرے ساتھ یہ سنت ہے کہ اگر کسی سوال کا جواب مجھے نہ آتا ہو تو ادھر سوال کرنے والا سوال کرتا ہے اور ادھر بجلی کی طرح میرے دل میں اس کا جواب آجاتا ہے.مگر چونکہ میں اس وقت بیمار تھا، اس لئے میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الہی میں تو بیمار ہوں تو تو بیمار نہیں.تو مجھے اس سوال کا جواب سمجھا دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فوراً مجھے جواب سمجھا دیا، جس سے اس کی زبان بند ہوگئی.میں نے کہا، آخر آپ کو یہی اعتراض ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹی چیز کے لئے بڑی چیز کو کیوں قربان کر دیا ؟ بے شک اس کا ایمان بھی ایک قیمتی چیز تھی مگر بہر حال وہ ایک کمزور انسان کا ایمان تھا کیونکہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزگی پر شک کیا.اس شخص کے ایمان کے بچانے کے لئے اپنی ایک بیوی کا پردہ اٹھادینا، 505
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ایک بڑی چیز کو چھوٹی چیز کے لئے قربان کر دینا ہے.کہنے لگا، ہاں ، میرے دل میں یہی شبہ پیدا ہوا ہے.میں نے کہا تو پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز کے لئے قربان کر دینا چاہئے.اس اصول کر مد نظر رکھتے ہوئے ، اگر اس مخصوس واقعہ کودیکھا جائے تو اس میں اس شخص کا ایمان بچانا بڑا کام تھا اور بیوی کے منہ پر سے نقاب الٹ دینا چھوٹی بات تھی.کہنے لگا، یہ کس طرح؟ میں نے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ پردہ کا حکم پہلی شریعتوں میں نہیں تھا اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ پردہ کا حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سالوں میں نازل ہوا ہے.یعنی مدینہ میں ہجرت کرنے کے بعد پردہ کا حکم نازل ہوا ہے.تیرہ سال تک رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ میں رہے اور پردہ کا حکم نازل نہ ہوا.پھر مدینہ تشریف لائے تو وہاں بھی چار، پانچ سال تک پردہ کا حکم نہیں اترا.تو گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعویٰ نبوت کے بعد جو تئیس سالہ زندگی گزری ہے، اس میں سے سترہ اٹھارہ سال تک آپ کسی بیویوں نے پردہ نہیں کیا.اور جب پردہ کا حکم مدینہ آنے کے بھی چار، پانچ سال بعد نازل ہوا ہے تو تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہر بیوی کو ہر صحابی نے دیکھا ہوا تھا.اب بتاؤ کہ جس بیوی کو وہ سو دفعہ پہلے دیکھ چکا تھا، اگر ایک موقع پر اس کا ایمان بچانے کے لئے آپ نے اپنی اس بیوی کا نقاب اٹھادیا تو اس میں حرج کیا ہوا؟ وہ آپ کی بیویوں کو جوانی کی حالت میں دیکھ چکا تھا اور اب تو وہ بڑی عمر کی ہو چکی تھیں.اس عمر میں اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کے منہ سے نقاب الٹ دیا تو چاہے وہ کتناہی کمزور ایمان والا شخص ہو، اس کے ایمان کو بچانے کے لئے آپ گا نقاب الٹ دینا بالکل بے حقیقت بات تھی.کیونکہ اس بیوی کو اس نے جوانی کے دنوں میں بھی دیکھا ہوا تھا اور اب تو وہ بڑی عمر کی ہو چکی تھیں.جوانی میں سو دفعہ دیکھنے والے شخص کے سامنے اگر آپ نے بڑھاپے میں اپنی ایک بیوی کے منہ سے اس کا ایمان بچانے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے پردہ اٹھا دیا تو آپ نے بڑی چیز کو چھوٹی چیز پر قربان نہیں کیا بلکہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز کے لئے قربان کیا.اس جواب سے وہ خوش ہو گیا اور کہنے لگا کہ اب میری سمجھ میں یہ بات آگئی ہے.غور کرو، یہ کتنا بڑا تغیر ہے کہ یا تو یہ کہا جاتا تھا کہ چونکہ اسلام پردہ کا حکم دیتا ہے، اس لئے جھوٹا ہے.اور یا یہ کہا جاتا ہے کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رات کے وقت ایک شخص کا ایمان بچانے کے لئے اپنی بیوی کے منہ سے ایک منٹ کے لئے بھی نقاب کیوں اتارا؟ اسی طرح ایک ڈچ عورت ، جو ایک مصری سے بیاہی ہوئی ہے، ہالینڈ میں مجھے ملی.اس نے بتایا کہ جب پادری اعتراض کرتے ہیں کہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنا سخت ظلم ہے تو میں انہیں کہا کرتی ہوں 506
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 ستمبر 1955ء کہ بے شرموں تم نے تو بیوی نہیں بنا، بیوی تو ہم نے بنا ہے.تم کون ہوتے ہو، اعتراض کرنے والے؟ اگر یہ ظلم ہے تو اس کی شکایت ہمیں ہونی چاہئے.تم تو مرد ہو، تمہیں کیوں شکایت ہے؟ پھر میں کہتی ہوں کہ اسلام میں تو یہ بھی حکم ہے کہ انصاف سے کام لو.اگر مرد انصاف کریں تو مجھے یاکسی اور عورت کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ وہ دو چھوڑ ، دس عورتیں کر لیں.تمہارا کیا حق ہے کہ تم اس پر شور مچاؤ ؟ میں نے یہی واقعہ اس کو سنایا تو وہ کہنے لگا، آپ ہالینڈ کی بات کرتے ہیں، میں لنڈن میں سے دس ہزار عورت ایسی دیکھا سکتا ہوں ، جو اس بات کے لئے تیار ہے کہ مرد اگر انصاف سے کام لیں تو بے شک وہ کئی شادیاں کر لیں.لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اخلاق اتنے بگڑ چکے ہیں کہ اچھے خاوند میسر ہی نہیں آتے.اب دیکھو، یہ کتنا بڑا اتغیر ہے، جو ان میں پیدا ہو رہا ہے.اسی طرح کئی لوگ مجھے ملے ، جنہوں نے کہا کہ ہم نے ہیں ہیں ہمیں تھیں سال سے شراب نہیں پی.یہ کتنا عظیم الشان انقلاب ہے، جو ان میں پیدا ہوا ہے.پہلے کثرت ازدواج پر اعتراض کیا جاتا تھا اور اب کہتے ہیں کہ یہی اسلام کی بڑی خوبی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ شادیوں کی تعلیم دیتا ہے.پہلے اس پر اعتراض تھا کہ پردہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اور اب اس پر اعتراض ہے کہ ساری عمر نہیں بلکہ ایک منٹ کے لئے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا پردہ کیوں اتارا؟ غرض وہی چیزیں ، جو پہلے اعتراض کا موجب بھی جاتی تھیں، اب خوبی کا موجب سمجھی جانے لگی ہیں.اور ان میں ایسے لوگ پیدا ہور ہے ہیں، جو ان کی تائید کرتے ہیں.جرمنی میں جب گورنمنٹ نے مجھے ریسپشن دیا تو ہمارے ساتھیوں کے ساتھ ایک ایک وزیر بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا.ان کے ملک میں یہ دستور ہے کہ جو کام سب سے زیادہ اہم ہو ، وہ جس وزیر کے سپرد ہو، اسی کو پرائم منسٹر سمجھا جاتا ہے.چونکہ یہ ریسپشین میری خاطر تھا، اس لئے انہوں نے جس وزیر کو میرے ساتھ بیٹھایا، وہ وزیر تعمیرات تھا.پہلے تو مجھے اس پر تعجب ہوا، مگر پھر انہوں نے بتایا کہ چونکہ آج کل ہم سب سے زیادہ زور تعمیر پر خرچ کر رہے ہیں اور ہمارے ملک کی طاقت کا بیشتر حصہ تعمیرات پر صرف ہو رہا ہے، اس لئے اب وزیر تعمیرات ہی ہم میں سے سب سے بڑا اور یہ سمجھا جاتا ہے.وہ باتوں باتوں میں پوچھنے لگے، جماعت کی کتنی تعداد ہے اور آپ کے کتنے مشن اس وقت قائم ہیں؟ جب انہیں بتایا گیا کہ ہماری اتنی تعداد ہے اور اس قدر مشن ہیں.تو انہوں نے تعجب کے ساتھ کہا کہ جماعت اس سے زیادہ مشن کیوں نہیں کھولتی ؟ میں نے انہیں بتایا کہ اب ہمارا ارادہ ہے کہ اپنے مشنوں کو بڑھائیں اور اس بارہ میں جلد کوئی قدم اٹھایا جائے گا.غرض جرمنی میں اسلام کی اشاعت کا ایک وسیع میدان پایا جاتا ہے اور ان میں اسلام کی طرف رغبت اور شوق کا احساس نظر آتا ہے.507
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم سپین کا مبلغ جب تبلیغی کا نفرنس میں شامل ہونے لندن آیا تو اس نے بتایا کہ پین سے آتے وقت جرمنی کے ایمبیسڈر (Ambassador) سے میں ملنے گیا تھا.وہ جرمن بادشاہ ول ہلم (Wilhelm) کے خاندان میں سے ہے.میں نے اسے بتایا کہ ہماری جماعت کے ہیڈ انگلستان آئے ہوئے ہیں اور وہاں ایک تبلیغی کا نفرنس منعقد ہورہی ہے، جس میں شمولیت کے لئے میں جارہا ہوں.وہ کہنے لگا کہ میرا بھی ایک پیغام ان کے نام لیتے جاؤ.میری طرف سے انہیں کہنا کہ جرمن لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے بالکل تیار ہیں ، آپ جلدی کیوں نہیں کرتے ؟ وہاں اپنا تبلیغی مشن کھولیں.ہمارا ملک اس وقت روحانی لحاظ سے پیاسا ہے.مگر اسے کوئی رستہ نظر نہیں آتا.آپ وہاں جائیں اور اپنی باتیں پہنچا ئیں.ہمارا ملک آپ کی باتیں ماننے کے لئے تیار ہے.غرض لوگوں کے اندر سچائی کو قبول کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ دوست قربانی کریں اور اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں.جرمنی کے ایک شہر کی جماعت نے کہا کہ اگر ہمیں مبلغ مل جائے اور مسجد کے لئے زمین خرید کر دے دی جائے تو ہم امید کرتے ہیں کہ اگلے چھ ماہ میں کئی سواحدی مسلمان اس شہر میں پیدا ہو جائیں گے.اور ایک، دو سال میں ہزار، دو ہزار ہو جائیں گے.وہاں ایک احمدی عرب موجود تھا، انہوں نے کہا کہ فی الحال اس کو یہاں مقرر کر دیا جائے.چنانچہ میں نے اس کو وہاں مقرر کر دیا.پھر میں نے پوچھا کہ زمین کے لئے کتنی رقم کی ضرورت ہے؟ میں اپنے ملک پر قیاس کر کے سمجھتا تھا کہ وہ پچاس، ساٹھ ہزار روپیہ مانگیں گے.مگر انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف دو ہزار مارک دے دیں.میں نے کہا کہ یہ دو ہزار مارک تو میں اپنی جیب سے بھی دے دوں گا تم اس کے متعلق تسلی رکھو.مجھے صرف یہ بتا دو کہ عمارت کے لئے کتنا روپیہ لو گے؟ وہ فورا بول اٹھے عمارت کے لئے ہم آپ سے ایک پیسہ بھی نہیں لیں گے.سارا کام ہم اپنے ہاتھ سے کریں گے.آپ ہمیں صرف دو ہزار مارک دے دیں تا کہ ہم زمین خرید لیں.اس کے بعد اس پر عمارت ہم خود بنائیں گے.یہ چیز ایسی ہے، جو سارے جرمنی میں پائی جاتی ہے.قاضی فیملی کے ایک نوجوان، جو قاضی محمد اسلم صاحب کے بھتیجے ہیں، وہاں تعلیم کے لئے گئے ہوئے ہیں.میں نے ان کے پاس جرمن قوم کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ بڑے محنتی ہیں.وہ کہنے لگا، میں ابھی جرمنی سے آرہا ہوں.وہاں میں جس مکان میں رہتا تھا، اس کی کھڑکی سے میں روزانہ یہ نظارہ دیکھتا تھا کہ سامنے ایک بلڈنگ گری پڑی ہے، وہ اسے بنانے کے لئے اکٹھے ہو جاتے اور دوسرے دن شام کو میں دیکھتا تو وہ چھتوں تک پہنچی ہوئی ہوتی.اور یہ سارا کام محلے والے بغیر ایک پیسہ مزدوری لئے کرتے تھے.508
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 ستمبر 1955ء میں نے خود ہمبرگ کو دیکھا، وہاں چودہ لاکھ کی آبادی ہے اور امیرانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہنے والے لوگ ہیں.مگر ایک عمارت بھی مجھے ٹوٹی ہوئی نظر نہیں آئی.اس کے مقابلہ میں انگلستان میں بمباری سے صرف چند ہزار مکان ٹوٹا تھا مگر اب بھی وہ اسی طرح گرا پڑا ہے.پھر ان کی ہمتیں ایسی بلند ہیں کہ ایک جرمن ڈاکٹر سے میں نے وقت مقرر کیا.جب میں وہاں پہنچا تو وہ جگہ، جو ہسپتال کی یونیورسٹی تھی ، وہاں بم گرنے کی وجہ سے اس مسجد کے برابر برابر شگاف پڑے ہوئے تھے اور اندر صرف دو، تین ٹوٹی ہوئی کرسیاں اور ایک ردی کی چار پائی رکھی تھی.اور انہی ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر کام کر رہے تھے.میں جب گیا تو ایک ادنی سی کرسی پر انہوں نے مجھے بھی بٹھا دیا.مگر ان کے چہروں پر اس قدر بشاشت تھی کہ وہ رپورٹ پڑھتے جاتے اور ہنستے جاتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے ہاں کوئی شادی کی تقریب ہے.جس ڈاکٹر نے میرا امعائنہ کرنا تھا، وہ اس وقت ایک 135 میل دور کسی اور مقام پر کسی ضروری آپریشن کے لئے گیا ہوا تھا اور چونکہ میرے ساتھ وقت مقرر تھا، اس لئے وہ وہاں سے موٹر دوڑاتے ہوئے پہنچا اور کمرہ میں آتے ہی بغیر سانس لئے میرا معائنہ شروع کر دیا.اگر کوئی ہمارا آدمی ایسے موقعے پر آتا تو وہ پہلے یہی کہتا کہ (ساہ تے لین دیو) یعنی پہلے مجھے سانس تو لینے دو، پھر میں معائنہ بھی کرتا ہوں.مگر اس نے بغیر سانس لئے میرا معائنہ شروع کر دیا.اور پھر جب ہم نے اسے فیس دینا چاہی تو اس نے فیس لینے سے انکار کر دیا.دوسری دفعہ ہم نے اس کے سیکرٹری سے کہا کہ فیس لے لی جائے.اس نے فون کیا تو جرمن ڈاکٹر نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ میں ایک دفعہ جو کہ چکا ہوں کہ میں نے فیس نہیں لینی.اس کے بعد ہم نے اپنے جرمنی مبلغ سے کہا کہ تم اس سے جا کر کہو کہ ہم اتنی دور سے یہاں علاج کرانے کے لئے ہی آئے ہیں، اس لئے آپ اپنی فیس لے لیں.مگر اس نے پھر یہی کہا کہ یہ مذہبی آدمی ہیں، اس لئے میں نے ان سے فیس نہیں لینی.پندرہ بیس منٹ اس کے ساتھ جھگڑار ہا مگر اس نے فیس نہیں لی.غرض ان کے اندر اس قدر جوش پایا جاتا ہے اور اس قدر ہمت اور کام کرنے کی روح پائی جاتی ہے کہ ہر شخص کی حالت کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے وہ یہ ارادہ کر کے بیٹھا ہے کہ وہ دنیا میں کوئی نہ کوئی کام ضرور کر کے رہے گا.ان کے مقابلہ میں ہمیں اپنے ملک کی حالت قیاس کرتے ہوئے شرم آتی ہے کہ وہ بھی ہمارے جیسے آدمی ہیں مگر ہماری محنت اور ان کی محنت اور ہمارے کام اور ان کے کام میں آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں.انگلستان ان کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے، جیسے کسی زمانہ میں ہندوستانی انگریزوں کے 509
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم مقابلہ میں تھے.انگلستان کے لوگ بالکل سست اور نکھے ہیں.کام کریں گے تو ہاتھ پیچھے ڈالیں گے اور مزدوری پہلے مانگیں گے.ان کی حالت بالکل پرانے زمانے کے کشمیریوں کی سی ہوگئی ہے.ایک دفعہ ہم کشمیر گئے اور اسباب اتارا تو ہم نے ایک مزدور کو بلایا کہ یہ سامان اٹھا کر ایک سرائے میں رکھ دو.اس نے کہا، میں دو پیسے فی تنگ لوں گا؟ ہم نے کہا، بہت اچھا نگ اٹھاؤ اور رکھ دو.ہم تمہیں اجرت دے دیں گے.مگر اس کے لالچ کی یہ کیفیت تھی کہ وہ ہرنگ کے اٹھانے سے پہلے کہتا کہ لاؤ پونسہ.اور جب تک اسے دو پیسے نہ دے دیئے جاتے ، وہ نگ نہ اٹھاتا.میری اس وقت چھوٹی عمر تھی اور میر محمد الحق صاحب بھی میرے ساتھ تھے.ہم نے اس کے ساتھ مذاق شروع کر دیا.ایک ایک چیز پر ہم اسے پیسے دیتے اور وہ اٹھا کر اندر رکھ دیتا.جب ہم سرائے کے برآمدہ میں داخل ہوئے تو برآمدہ کے ساتھ ہم نے اپنی چھتری رکھ دی.اس کے بعد ہمیں مذاق سوجھا اور ہم نے کہا کہ اب اسے کہتے ہیں کہ یہ چھتری اٹھا کر دے دو.دیکھیں، اب بھی یہ کچھ مانگتا ہے یا نہیں ؟ چنانچہ ہم نے اسے کہا کہ یہ چھتری ہمیں پکڑا دو.اس پر وہ جھٹ کہنے لگا "لا و پونسہ.یہی انگریزوں کا حال ہے.ان کا اپنا ملک گزشتہ جنگ کے نتیجہ میں تباہ پڑا ہے مگر وہ گرے ہوئے مکانوں کو بنا نہیں سکے.اور جرمنی کی یہ حالت ہے کہ وہ لوگ صبح سے شام تک کام کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی ساری عمارتیں دوبارہ کھڑی کر لیں ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان ملکوں میں اسلام کی طرف رغبت پیدا کر دی ہے، اب ہمیں ان کی اس رغبت سے فائدہ اٹھانا چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ فصل تو تیار ہے ، صرف اس کے کاٹنے والے چاہئیں.اگر تم اس فصل کے کاٹنے والے بن جاؤ تو تم دیکھو گے کہ سارا یورپ ایک دن اسلام کی آغوش میں آجائے گا.اس وقت مشکل یہ ہے کہ غلہ کو سنبھالنے والا کوئی نہیں.مگر بہر حال اللہ تعالیٰ نے یہ غلہ تمہارے لئے ہی رکھا ہوا ہے اور تم ہی اس فصل کے کاٹنے والے ہو.جو مسائل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں پیش کئے تھے، آج یورپین دنیا انہیں مسائل کی طرف آرہی ہے اور وہ اسلام کی فوقیت اور اس کی برتری کو تسلیم کر رہی ہے.ڈسمنڈ شا (Desmend Shaw) انگلستان کے بہترین مصنفوں میں سے ہے.کم از کم وہ خود اپنے آپ کو ایچ.جی.ویلز سے بھی بڑا سمجھتا ہے.وہ مجھے ملا تو کہنے لگا، سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ امن پھیلانے والا جو نبی آیا تھا، اسی کو لڑائی کرنے والا نبی کہا جاتا ہے.اور پادری اس کو 510
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 ستمبر 1955ء پر اعتراض کرتے ہیں.میں نے کہا، تمہیں یہ نظر نہیں آتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہم لوگ ہی یورپ میں پھیلا رہے ہیں اور ہمیں ہی مسلمانوں کے نزدیک واجب القتل سمجھا جاتا ہے.وہ کہنے لگا، مجھے ایک معزز مسلمان ملا تھا، میں نے اس سے یہی کہا کہ اسلام پھیلانے والے تو یہی لوگ ہیں اور ہم تک اگر اسلام پہنچا ہے تو انہی کے ذریعہ تم ان لوگوں کی مخالفت کر کے اپنا بیڑا کیوں غرق کر رہے ہو؟ ان پر ہماری اسلامی خدمات کا اتنا گہرا اثر ہے کہ یہی ڈسمنڈ شا( Desmend Shaw) دعوت استقبالیہ میں مجھے ملا اور چلا گیا.پھر ظفر اللہ خان سے ملا اور کہنے لگا کہ میں حضرت صاحب سے ابھی نہیں ملا اور یہ کہہ کر وہ پھر میرے ملنے کے لئے آگیا.اسی طرح تین، چار دفعہ ہوا.وہ بار بار میرے ملنے کے لئے آ جاتا.آخر جب میں اٹھا تو اس وقت بھی وہ میرے سامنے والی میز پر بیٹھا ہوا تھا.وہ بار بار یہی کہتا کہ میں بچپن سے محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا قائل ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا نی ہوا ہے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے میں ہی برکت ہے.غرض یورپ کا مزاج اب اسلام کی طرف آرہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی ان میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو پدرم سلطان بود کے مطابق سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہیں اور یہ ایشائی چھوٹے ہیں.لیکن ان کے اعلیٰ درجہ کے طبقہ میں اب وہ لوگ بھی پیدا ہور ہے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نہ ماننا، بے وقوفی ہے.آپ دنیا کی طرف ایک نور اور رحمت لائے ہیں اور آپ کی پیروی میں ہی امن اور سلامتی ہے.مجھ سے ہمبرگ میں ایک مودودی طرز کا آدمی ملا.وہ اپنے آپ کو عراقی کہتا تھا.لیکن لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک معجون مرکب کی قسم کا آدمی ہے.کبھی یہ اپنے آپ کو بہائی کہتا ہے اور کبھی مودودی.اس نے ہمیں دھوکا دیا.جب اسے بتایا گیا کہ میں بیماری کی وجہ سے مل نہیں سکتا تو وہ کہنے لگا کہ میں صرف مصافحہ کرنا چاہتا ہوں.مگر پھر اس نے بحث شروع کر دی.آخر جر من لوگ اسے اٹھا کر لے گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ ہماری دعوت تھی، اس میں تم بغیر ہماری اجازت کے کیوں آئے ؟ ہم ابھی پولیس کو اطلاع دیتے ہیں.دوسرے دن وہاں کے ایک نو مسلم مجھ سے معافی مانگنے آئے اور انہوں نے کہا کہ اس شخص کی وجہ سے آپ جرمن قوم کو برا نہ سمجھ لیں.یہ ایشائی تھا، اس لئے اس نے غلطی کی ہے.اس وقت میری بھی ایشائی رگ بھڑک اٹھی اور میں نے کہا کہ برے آدمی ایشیا میں ہی نہیں ہوتے ، یورپ میں بھی موجود ہیں.وہ کہنے لگے، بے شک موجود ہیں.میں صرف یہ کہنے آیا تھا کہ آپ کے دل میں ہمارے متعلق ناراضگی پیدا نہ ہو.511
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہم آپ کو اپنا معزر مہمان سمجھتے ہیں اور یہ شخص ، جس نے غلطی کی ایشیائی تھا.میں نے کہا، ایشیائی تو تھا مگر اس کو کی اپنی حرکات اسلامی تعلیم کے خلاف تھیں.مودودی لوگ ہم کو مسلمان نہیں سمجھتے.مگر اس نے خود قرآن کے خلاف عمل کیا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم سے ان کے مخالف بحث کر رہے تھے کہ انہوں نے ستاروں میں دیکھا اور کہا کہ میں بیمار ہوں اور یہاں مجھے دس ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ میں بیمار ہوں.مگر ابراہیم کے مخالف تو اتنے شریف تھے کہ اٹھ کر چلے گئے اور اس شخص کو ڈاکٹری گواہی بھی بتائی گئی مگر پھر بھی اس نے کہا کہ میں مسئلہ حل کئے بغیر واپس نہیں جاسکتا.پس اس شخص نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ مسلمان نہیں.ورنہ قرآن تو کہتا ہے.فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ فَقَالَ إِنِّي سَقِيمُ ابراہیم نے ستاروں کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں بیمار ہوں اور وہ لوگ چلے گئے.اور یہاں دس ڈاکٹر اعلان کرتے ہیں کہ آپ کو زیادہ بولنا نہیں چاہئے اور پھر بھی وہ بحث کرتا چلا گیا.پس اس نے اپنے دعوی اسلام کے باوجود خود اس کے خلاف عمل کیا ہے.ایسے شخص کے کسی فعل کی وجہ سے میں آپ پر کس طرح ناراض ہوسکتا ہوں.چونکہ جس جگہ میں ٹھہرا ہوا ہوں، اس کے پاس اور بھی مکان بن رہے ہیں، جن کی وجہ سے شور رہتا ہے.اس لئے آج صبح سے میرے دماغ پر اس کا اثر ہے اور زیادہ بولنا میرے لئے مشکل ہے.میں اس پر اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہوں.صرف اس قدر کہ دینا چاہتا ہوں کہ شروع میں، میں نماز زیادہ بھول جایا کرتا تھا مگر آہستہ آہستہ یہ نقص جاتا رہا.لندن میں بھی یاداشت ٹھیک رہی مگر شور کی وجہ سے آج چونکہ دماغی پریشانی زیادہ ہے، اس لئے اگر میں بھول جاؤں تو میرے پیچھے نماز پڑھنے والے مجھے یاد دلا دیں.(مطبوعه روزنامه الفضل 08اکتوبر 1955ء) 512
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 16 ستمبر 1955ء وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لئے ایک عظیم الشان تحریک ہے " خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 1955ء میں آج دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ تو ہر احمدی کہتا ہے کہ اسلام دنیا میں غالب آئے گا.چنانچہ اگر کسی دوسرے وقت آپ لوگ میرے پاس بیٹھے ہوتے اور میں آپ سے سوال کرتا کہ کیا اسلام دنیا میں غالب آئے گا؟ تو آپ اس کا یہی جواب دیتے کہ کیوں نہیں؟ خدا نے کہا ہے کہ اسلام غالب آئے گا، حضرت مسیح موعود کے الہامات ہیں کہ اسلام غالب آئے گا، قرآن کریم میں خبر موجود ہے کہ اسلام غالب آئے گا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پیشگوئیاں فرمائی ہیں کہ اسلام غالب آئے گا، پس اسلام کیوں غالب نہیں آئے گا؟ لیکن اگر دوستوں کے جواب سے شور پیدا ہونے کا ڈرنہ ہوتا تو میں سوال کرتا کہ کس طرح غالب آئے گا؟ آخر خدا تعالیٰ نے ہر کام کے لئے کوئی نہ کوئی طریق مقرر کیا ہے.بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک عورت بنائی ہے اور ایک مرد بنایا ہے.مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں قرار پاتا ہے تو کچھ عرصہ کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے.اسی طرح ہر کام کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک معین طریق رکھا ہوا ہے.پس اگر آپ لوگ کسی اور وقت میرے پاس ہوتے تو میں آپ سے پوچھتا کہ اسلام دنیا میں کس طرح غالب آئے گا؟ اس وقت سارا امریکہ اسلام کے خلاف ہے، سارا یورپ اسلام کے خلاف ہے، سارا افریقہ اسلام کے خلاف ہے، آپ کس طرح کہتے ہیں ، اسلام دنیا پر غالب آجائے گا ؟ آخر اسلام کے غالب آنے کا یہی طریق ہو سکتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو قائل کریں، انہیں سمجھائیں اور ان سے اسلامی تعلیم کی فوقیت منوا لیں.جب یہی طریق ہو سکتا ہے تو بتائیے ، ان سے اسلام منوانے کے لئے آپ کیا کوشش کر رہے ہیں؟ شاید آپ یہ جواب دیں کہ ہم چندہ دے رہے ہیں اور ہم مالی لحاظ سے اتنا بوجھ اٹھا رہے ہیں کہ شاید کوئی اور جماعت اتنا بوجھ نہیں اٹھا رہی.میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہماری جماعت مالی قربانی کر رہی ہے.اور یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے، جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.دشمن بھی اقرار کرتا ہے کہ یہ جماعت بڑا بھاری بوجھ اپنے اوپر اٹھا رہی ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی اور ربوہ میں چندہ 513
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم دینے سے امریکہ اور انگلینڈ کے کسی آدمی کا دماغ کس طرح ٹھیک ہوسکتا ہے؟ اس کا دماغ تو اسی طرح درست ہو سکتا ہے کہ اسے سمجھایا جائے کہ تیری رائے غلط ہے، تیرے عقائد غلط ہیں اور صحیح رستہ وہی ہے، جو اسلام نے پیش کیا ہے.اور یہ بات آپ لوگوں کے چندوں سے نہیں ہو سکتی.آپ خود وہاں جائیں یا آپ کے نمائندے اور قائم مقام وہاں جائیں ، تب یہ کام ہو سکتا ہے، اس کے بغیر نہیں.شاید آپ کہیں کہ اسی لئے تو تبلیغی کالج مقرر کیا گیا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ تبلیغی کالج میں کتنے بچے جارہے ہیں؟ جہاں تک میراعلم ہے، تبلیغی کالج میں تھیں، پینتیس طالب علم ہیں.اور دنیا کی آبادی دو ارب ، تمہیں کروڑ ہے.دوارب ہیں کروڑ کی آبادی کو 35 آدمی کس طرح سمجھا سکتے ہیں؟ یہ 35 آدمی تو ان کو دیکھ بھی نہیں سکتے.پاس جانا اور سمجھانا تو دور کی بات ہے، خالی ان کو دیکھ لینے کی بھی ان 35 آدمیوں میں طاقت نہیں ہو سکتی.پس اسلام اگر غالب آ سکتا ہے تو اسی طرح کہ ہماری جماعت کوئی ایسا طریق اختیار کرے، جس کے نتیجہ میں ان لوگوں تک پہنچا جا سکے.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وقف کی تحریک کو کامیاب بنایا جائے.مگر میرے نزدیک ہماری جماعت میں جیسے چندہ کی تحریک کامیاب رہی ہے، ویسے ہی وقف کی تحریک ناکام رہی ہے.میں نے دوستوں میں وقف اولاد کی تحریک کی تھی مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کا وقف ہے اور یا پھر میری اولاد کا وقف ہے، باقی خانہ ، سب خالی ہے.مگر نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولا دسب جگہ پہنچ سکتی ہے اور نہ میری اولا دس جگہ پہنچ سکتی ہے.بلکہ اس تصور سے بعض دفعہ دل کانپ جاتا ہے کہ باقی احمد یوں کو دیکھ کر کہیں میری اولاد کے دل میں بھی بے ایمانی پیدا نہ ہو جائے اور وہ یہ خیال نہ کرے کہ ہم ہی قربانی کے بکرے کیوں بنیں؟ جب باقی احمدی اس طرف توجہ نہیں کرتے تو ہم بھی اس کام کو کیوں اختیار کریں؟ میں اللہ تعالیٰ سے امید تو نہیں کرتا کہ میری اولاد میں یہ خیالات پیدا ہو جائیں ، مگر ڈر آتا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، ایسا نہ ہو کہ میری اولاد کے دل میں بھی کسی وقت خیال آجائے کہ اگر اور کوئی احمدی اپنے آپ کو وقف نہیں کرتا تو ہم بھی کیوں کریں؟ آخر اسلام پر ضعف آیا تو اسی وجہ سے کہ مسلمانوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کئی مسلمان ہیں، جو نمازیں نہیں پڑھتے ،کئی مسلمان ہیں، جو روزے نہیں رکھتے.مطلب یہ تھا کہ اگر دوسرا ان احکام کو چھوڑ سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں چھوڑ سکتے ؟ نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ انہوں نے بھی نماز روزہ کو ترک کر دیا.پس جب تک جماعت میں وقف کی تحریک مضبوط نہ ہو، اس وقت تک ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ناممکن ہے.اس کے لئے اول تو جماعت کے ہر فرد کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ 514
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 ستمبر 1955ء میں نے ایک سے دو بننا ہے، دو سے چار بننا ہے، چار سے آٹھ بننا ہے، آٹھ سے سولہ بننا ہے ، سولہ سے بتیں بنا ہے، بتیس سے چونسٹھ بننا ہے اور چونسٹھ سے 128 بننا ہے.ہماری جماعت ، آخر لاکھوں کی جماعت ہے.اگر ہر دس سال کے اندر ایک، ایک شخص کے ذریعہ دو، چار احمدی بھی پیدا ہو جائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اگلے دس سال میں پندرہ بیس لاکھ ہو جائیں گے.اس سے اگلے دس سال میں اسی لاکھ ہو جائیں گے اور اس سے اگلے دس سال میں ڈیڑھ کروڑ تک ان کی تعداد پہنچ جائے گی.اگر ایسا ہو جائے تو ہم امید کر سکتے ہیں کہ یہ ڈیڑھ کروڑ ، دوارب تک اسلام کا پیغام پہنچا سکتا ہے.لیکن اگر یہ نہ ہو اور ہر شخص سمجھ لے کہ میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ میں نے چندہ دے دیا ہے.تو یورپ اور امریکہ کو اسلام کون سمجھائے گا؟ اور اگر سمجھانے والا کوئی نہیں ہوگا تو مانے گا کون؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے دل اس وقت اسلام کی طرف مائل ہیں.....اب خدا تعالی کے فضل سے چونکہ قرآن کریم کے تراجم یورپ میں شائع ہو چکے ہیں، اس لئے لوگ جب ان کو پڑھتے ہیں تو بڑے متاثر ہوتے ہیں.ہمارا ڈرائیور ایک جرمن مسٹر سٹوڈر تھا.اس نے بھی قرآن کا ترجمہ پڑھا.ایک دن ہم ڈاکٹر کے ہاں جا رہے تھے کہ وہ کہنے لگا، حضرت صاحب میں نے آپ سے کچھ باتیں پوچھنی ہیں؟ میں نے کہا، پوچھو.کہنے لگا، میں نے قرآن پڑھا ہے، اس میں بڑی اچھی باتیں ہیں.لیکن آپ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت بہت تھوڑی ہے.اب آپ مجھے بتائیں کہ اگر اسلام میری سمجھ میں آجائے تو میں دنیا کے لئے مفید وجود کس طرح بن سکتا ہوں، آیا اس طرح کہ اکثریت کے ساتھ شامل ہو جاؤں یا اس طرح کہ اقلیت کے ساتھ شامل ہو جاؤں؟ چھوٹی جماعت میں مل جاؤں تو میں کیا کام کر سکتا ہوں؟ میں تو اسی صورت میں مفید کام کر سکتا ہوں، جب میں ایک بڑی جماعت میں ہوں.بات اس کی معقول تھی اور اس کا مطلب یہ تھا کہ احمدی بننے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ جبکہ احمدی بننے سے ماریں کھانی پڑتی ہیں، لوگوں کی گالیاں سننی پڑتی ہیں.میں نے کہا، مسٹرسٹوڈر ایک بات آپ نے نہیں سوچی اور وہ یہ کہ اکثریت کی موجودگی میں اقلیت کی ضرورت کیا تھی ؟ اگر اقلیت کی ضرورت تھی اور اگر اقلیت کے پاس کوئی اچھی چیز ہے تو پھر اس میں شامل ہونا چاہئے.اور اگر اس کے پاس کوئی اچھی چیز نہیں تو آپ دوسروں سے مل کر اقلیت کو ختم کر دیں.آخر اس نے جھگڑا کیوں ڈالا ہے اور کیوں وہ اکثریت کے مقابلہ میں کھڑی ہے؟ اور اگر اقلیت میں واقع میں کوئی اچھی بات ہے تو تم بتاؤ کہ اکثریت میں مل کر اچھی بات کو ختم کر دینا اچھا ہے یا اچھی بات کو قائم رکھنے کے لئے اقلیت کے ساتھ مل کر کام کرنا اچھا ہے ؟ اگر اس 515
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم کے پاس کوئی اچھی بات نہیں تو اسے ختم کر دینا چاہئے اور اگر اس کے پاس کوئی اچھی بات ہے تو اسے قائم رکھنا چاہئے تا کہ دنیا نیکی سے محروم نہ ہو.غرض یورپ کے لوگ اب اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں.لیکن بڑی چیز ، جو ان کے رستہ میں حائل ہے ، وہ یہی ہے کہ یورپین لوگ ہر چیز کو سیاسی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں.ان کے بڑے بڑے لوگ یہ خوب سمجھتے ہیں کہ اسلام اگر ہم تک پہنچا ہے تو احمدیوں کے ذریعہ سے.لیکن مسلمان ، جن کی اکثریت ہے، وہ احمدیوں کے ہی مخالف ہیں.ایسی صورت میں اقلیت کے ساتھ ملنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا.ہاں اگر اکثریت کے ساتھ ملیں گے تو مفید کام کرسکیں گے.اس قسم کے وساوس کا بھی ازالہ ہوسکتا ہے، جب ہمارے مبلغ ان تک پہنچیں اور ان کے شبہات دور کریں.یہ ظاہر ہے کہ ایک آدھ دفعہ ملنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.اس کے لئے متواتر اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا اور کون ہو سکتا ہے؟ مگر آپ نے بھی سالہا سال تبلیغ کی اور پھر آپ کے صحابہ نے تبلیغ کی تب جا کر لاکھوں لوگ اسلام میں شامل ہوئے.مگر کچھ عرصہ کے بعد جب انہوں نے اسلام کی اشاعت کی طرف سے توجہ ہٹالی تو وہی لاکھوں خراب ہو گئے.اس طرح اگر ہمارے نمائندے اور ہمارے قائمقام ان ممالک میں موجود ہوں اور پھر یہ کام صرف انہی تک محدود نہ ہو بلکہ ان کی آئندہ نسل بھی اس کام میں مشغول رہے تو سینکڑوں سال تک دنیا اسلام کے نور سے مستفیض ہوتی رہے گی.پس وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لئے ایک عظیم الشان تحریک ہے.اگر وقف کی تحریک مضبوط ہو جائے اور نسلا بعد نسل ہماری جماعت کے نوجوان خدمت دین کے لئے آگے بڑھتے رہیں تو سینکڑوں نہیں ، ہزاروں سال تک تبلیغ اسلام کا سلسلہ قائم رہ سکتا ہے.اس غرض کے لئے میں نے متواتر جماعت پر وقف کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے.مگر اب میرا ارادہ ہے کہ جماعت سے خاندانی طور پر وقف اولاد کا مطالبہ کروں.یعنی ہر خاندان کے افراد اپنی طرف سے ایک، ایک نوجوان کو اسلام کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہوئے عہد کریں کہ ہم ہمیشہ اپنے خاندان میں سے کوئی نہ کوئی فرد دین کی خدمت کے لئے وقف رکھیں گے اور اس میں کبھی کوئی کوتا ہی نہیں کریں گے.جب خاندانی وقف کی تحریک مضبوط ہو جائے تو پھر اس کو وسیع کر کے ہم وقف کرنے والوں کو تحریک کر سکیں گے کہ وہ اپنے اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں سے ایک ایک، دو دو، تین تین، چار چار کو وقف کرنے کی کوشش کریں.اس طرح یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ممتد ہوتا چلا جائے گا اور قیامت تک جاری رہے گا.جیسا کہ میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا ، اب فصل تیار 516
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 ستمبر 1955ء ہے،صرف اس کے کاٹنے والوں کی ضرورت ہے.اور یہ مبالغہ نہیں واقعہ ہے کہ مغربی لوگوں میں اسلام کی طرف زبر دست میلان پایا جاتا ہے.وو "" بہر حال یہ تحریک ہے، جو میں جماعت میں کرتا ہوں.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر ہم اسلام کی اشاعت میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.آخر اپنے دلوں میں سوچو اور غور کرو کہ اگر وقف کا سلسلہ جاری نہ رہے تو تمہارا یہ دعویٰ کہ اسلام دنیا پر غالب آجائے گا، کس طرح سچا سمجھا جا سکتا ہے؟ یہ تو ہو گا نہیں کہ ایک دن صبح اٹھ کر م تسبیح پر تین دفعہ سبحان الله سبحان اللہ کہو گے اور امریکہ کا پریذیڈنٹ اور کونسل آف سٹیٹ کے سب ممبر مسلمان ہو جائیں گے اور وہ اعلان کر دیں گے کہ ہم عیسائیت کو ترک کرتے ہیں.اگر ہم نے واقعہ میں اسلام پھیلانا ہے تو بہر حال ہمیں جدو جہد کرنی پڑے گی اور چھری سے چھری رگڑنی پڑے گی.تو حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لئے جب تک صحیح رنگ میں کوشش نہ کی ہو ، اس وقت تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا.اگر ہم اسلام کو پھیلانا چاہتے ہیں تو ہم میں سے ہر احمدی کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ میں اپنے کسی نہ کسی عزیز یا رشتہ دار یا ساتھی کو اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دوں گا.پھر وہ آگے اپنے ساتھیوں کو اسلام کی خدمت کے لئے تیار کریں اور یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری رہے.رفتہ رفتہ اتنے لوگ ہمارے پاس جمع ہو جائیں گے کہ ہم انہیں آسانی کے ساتھ مختلف ممالک میں پھیلا سکیں گے اور ان سے دین کی اشاعت کا کام لے سکیں گے.جب یہ لوگ اسلام کی اشاعت کے لئے ہر شخص تک پہنچیں گے تو چونکہ ان کے دل اسلام کی طرف پہلے ہی مائل ہیں، اس لئے اسلام کی فتح کا دروازہ کھل جائے گا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاجھنڈا دنیا میں عزت کے ساتھ قائم ہو جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی یہ مقام دور نظر آتا ہے.لیکن جب رو پیدا ہوئی تو کامیابی اتنی سرعت کے ساتھ ہوگی کہ ہمیں خود بھی اس پر حیرت ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھ لو، تیرہ سال آپ مکہ میں رہے اور تبلیغ کرتے رہے مگر اس تبلیغ کے نتیجہ میں صرف اسی آدمی آپ پر ایمان لائے.اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لے گئے تو تھوڑے عرصہ کے بعد ہی ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہونے شروع ہو گئے.جس طرح بند ٹوٹنے کے بعد سیلاب کا پانی رک نہیں سکتا، اسی طرح جب لوگوں میں ایک روچل جائے تو پھر گروہ در گروہ لوگ سچائی کو قبول کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی مخالفت ان کو پیچھے نہیں ہٹا سکتی.آج ہمیں اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والوں کی ضرورت ہے.مگر پھر وہ 517
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم وقت آئے گا کہ وقف کرنے والے اتنی کثرت سے آئیں گے کہ سوال پیدا ہوگا کہ ان واقفین کو سنبھالے کون؟ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا؟ مجھے یہ فکر ہے کہ رو پید کو سنبھالنے والے کہاں سے آئیں گے؟ اسی طرح مجھے بھی یہ فکر نہیں کہ اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے والے کہاں سے آئیں گے؟ مجھے یہ فکر ہے کہ وقف کرنے والے اس کثرت سے آئیں گے کہ ان کو سنبھالے گا کون؟ دل خدا کے قبضہ قدرت میں ہے، جن دلوں کو وہ آپ صاف کر دے گا، وہ دین کی خدمت کے لئے آگے آجائیں گے.پھر ان کو دیکھ کر سینکڑوں لوگ پیدا ہو جائیں گے، جو اپنے آپ کو وقف کرنے کے لئے پیش کر دیں گے اور ان سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں پیدا ہو جائیں گے.ہم بچے تھے تو ہم کتابوں میں ایک کہانی پڑھا کرتے تھے کہ جب بادل آتا ہے تو قطرے آپس میں جھگڑتے ہیں.ایک کہتا ہے، میں زمین پر گر کر کیوں جان دوں؟ دوسرا کہتا ہے، میں کیوں جان دوں؟ آخر ایک قطرہ آگے بڑھتا اور زمین پر گرتا ہے، اس کے بعد دوسرا گرتا ہے، پھر تیسرا گرتا ہے، پھر چوتھا گرتا ہے اور پھر موسلا دھار بارش شروع ہو جاتی ہے.یہی حال دین کی قربانی کا ہے.پہلے قربانی کرنے والے جب قربانی کرتے ہیں تو ان کو دیکھ کر دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ انہیں تو کچھ بھی نہیں ہوا.ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ تباہ ہو جائیں گے مگر ان کی تو ہم سے بھی زیادہ عزت ہوئی اور ہم سے بھی زیادہ انہوں نے کامیابی حاصل کی.آؤ ہم بھی انہی کے پیچھے چلیں.چنانچہ وہ بھی اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیتے ہیں.اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ زمانہ آجاتا ہے کہ انسان کہتا ہے، میں کس کو رکھوں اور کس کو رد کروں ؟ کس کو چنوں اور کس کو نہ چنوں؟ اس زمانے کے آنے سے پہلے پہلے جولوگ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے پیش کریں گے، وہ خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہوں گے اور اس کی برکتوں سے اتنا حصہ پائیں گے کہ بعد میں آنے والے ان برکات کا عشر عشیر بھی نہیں لے سکیں گے.کیونکہ الفضل للمتقدم فضیلت انہی کوملتی ہے، جو نیکی اور قربانی کی راہوں میں سبقت اختیار کرتے ہیں.مجھے شکوہ ہے کہ کراچی والے اب تک دگنے کیوں نہیں ہو گئے ؟ میں کئی سال سے انہیں توجہ دلا رہا ہوں ،مگر ابھی تک وہ دگنے نہیں ہوئے.لیکن سچی بات یہ ہے کہ انہیں دگنا ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے بھی مجھے شرم آتی ہے.اصل بات تو یہ ہے، اصل بات یہ ہے کہ انہیں موجودہ تعداد سے دو سو گنے زیادہ ہونا چاہئے.اگر وہ سچے دل سے کوشش کریں اور اپنی جدو جہد کو تیز کر دیں تو وہ دیکھیں گے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی مدداور اس کی نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے اور انہیں ان کے مقصد میں کامیاب کرتی ہے.518
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 16 ستمبر 1955ء پس اپنے اندر دین کی خدمت کا احساس پیدا کرو اور سمجھ لو کہ دنیا کی اصلاح تمہارے ساتھ وابستہ ہے.تمہیں اس وقت چین اور آرام سے نہیں بیٹھنا چاہئے ، جب تک دنیا کو تم ہدایت کی طرف نہ لے آؤ.اگر تم دنیا کی ہدایت کے لئے بے چین رہو گے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو بھی اس وقت تک چین نہیں آئے گا ، جب تک وہ تمہاری بے چینی کو دور نہ کرے.تمہاری بے چینی بے کار جاسکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی بے چینی کبھی بے کار نہیں جاسکتی.وہ جب بھی بے چین ہوگا، اپنے کام کو کر کے رہے گا“.( مطبوعه روزنامه الفضل 16 اکتوبر 1955ء) 519
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء جو شخص سچا اور حقیقی مبلغ ہوتا ہے، وہ دنیا میں خدا کا نمائندہ ہوتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1955ء دیکھو، خدا جس طرح صحابہ کا تھا، اسی طرح تمہارا ہے.اس نے جب دیکھا کہ بعد میں آنے والوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہوں گے، جن کے دلوں میں ایمان ہوگا اور وہ چاہیں گے کہ ان کے لئے بھی صحابیت کا رستہ کھولا جائے تو اس نے ان کے دلوں کا بھی خیال رکھا اور فرمایا:.وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَيكَ مِنْكُمْ کہ وہ لوگ جو ان کے بعد ایمان لائیں گے اور ہجرت کریں گے اور اسلام کی خدمت کے لئے جہاد کریں گے، وہ بھی تم میں ہی شامل ہوں گے.دیکھو، اللہ تعالیٰ نے کس طرح تمہارے صحابی ہونے کا رستہ کھول دیا ہے.ضرورت یہ ہے کہ تم اپنے اندر پختہ ایمان پیدا کرو.خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اپنے وطنوں کو چھوڑنے کے لئے تیار رہو اور جہاد پر کمر بستہ رہوں.مگر یہ یا درکھو کہ ہر زمانہ میں جہاد کے طریق الگ الگ ہوتے ہیں.جو شخص اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق دین کے جہاد میں حصہ لیتا ہے، وہ انہی برکتوں سے حصہ پاتا ہے ، جن برکتوں سے پہلے لوگوں نے حصہ پایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی دیکھ لو، آپ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ جہاد کے منکر ہیں اور اپنا مقام بہت بڑا بتاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس الزام کے جواب میں یہی لکھا ہے کہ میں جہاد کا منکر نہیں.صرف اتنی بات ہے کہ میں اس وقت تلوار سے نہیں بلکہ قلم کی نوک سے جہاد کر رہا ہوں.جہاد کی غرض یہی ہے کہ اسلام دنیا پر غالب آجائے.اگر کسی وقت قلم سے اسلام غالب آ جاتا ہے تو قلم چلانے والا ہی مجاہد ہے.چونکہ اس زمانہ میں دشمنان اسلام کی طرف سے تلوار سے نہیں بلکہ قلم سے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لئے میں بھی تلوار سے نہیں بلکہ قلم کی نوک سے جہاد کر رہا ہوں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہی کچھ قلم سے دے دیا، جو پہلوں کو تلوار کے نتیجہ میں ملا تھا.جیسا کہ میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا، اب اسلام کی بنیاد کو دوبارہ استوار کیا جارہا ہے.کیونکہ بارشوں اور طوفانوں کی کثرت کی وجہ سے اسلام کی عمارت میں کمزوری پیدا ہو چکی تھی ، اس کی دیواروں میں 521
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم رخنے پڑ گئے تھے، اس کی سفیدی اتر چکی تھی، اس کی اینٹیں اپنی جگہ چھوڑ چکی تھیں اور اس کی چھت میں بڑے بڑے سوراخ ہو چکے تھے.خدا تعالیٰ نے اسلام کی عظیم الشان عمارت کی مرمت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو اس قلعہ کا پاسبان مقر فر مایا.تا کہ اسلام کی یہ گرتی ہوئی عمارت پھر اپنی بنیادوں پر استوار ہو جائے اور دشمن کے حملے ناکام ہو جائیں.چنانچہ آپ آئے اور آپ نے نئے سرے سے اس عمارت کے فرش اور دیواروں پر سیمنٹ کر دیا ، اس کے اندر دوبارہ سفیدی کر دی، اس کے تمام سوراخ بند کر دئیے اور اسے پھر ایک مضبوط قلعہ کی شکل میں تبدیل کر دیا.اب کسی کی طاقت نہیں کہ اسلام کی دیوار کو گرا سکے.پھر خدا نے اس عمارت کی صرف مرمت ہی نہیں کی بلکہ ایک نئی فوج بھی تیار کر دی، جو قلعہ کی حفاظت کے لئے اس کے سامنے کھڑی ہے.اب دشمن کی مجال نہیں کہ وہ اس قلعہ کی طرف بڑھے اور اس پر حملہ کر سکے.کیونکہ اس قلعہ کے محافظین کے دلوں میں خدا اور اس کے رسول کی محبت ہے، وہ اس کی رضا کے لئے اپنے وطنوں کو چھوڑتے ہیں اور غیر ملکوں میں سالہا سال تک رہ کر دین کی اشاعت کے لئے جدو جہد کرتے ہیں.ہمارے مبلغین میں ایسی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ انہوں نے اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی وقف کی اور شادی کے چند ہفتہ بعد ہی غیر ممالک میں چلے گئے.چونکہ میاں بیوی اگر ایک دن بھی اکٹھے رہیں تو حمل ہو جاتا ہے، اس لئے ان کے پیچھے ہی بچے پیدا ہوئے اور وہ سالہا سال تک اپنے باپ کی شکل دیکھنے کو ترستے رہے.ایک مبلغ، جو شادی کے معابعد تبلیغ اسلام کے لئے چلے گئے تھے، ان کا بچہ ان کے جانے بعد پیدا ہوا اور پھر بڑے ہو کر سکول میں تعلیم حاصل کرنے لگا.جب وہ دس سال کا تھا تو ایک دن وہ سکول سے اپنے گھر آیا اور اپنی ماں سے کہنے لگا کہ اماں لڑکے جب سکول میں آتے ہیں تو کہتے ہیں، ہمارا ابا یہ لایا، ہمارا ابا وہ لایا، میرا بھی کوئی اہا ہے یا نہیں؟ اس طرح حکیم فضل الرحمان ، جو حال ہی میں میرے پیچھے فوت ہوئے ہیں، وہ شادی کے تھوڑی عرصہ بعد ہی مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے چلے گئے اور تیرہ چودہ سال تک باہر رہے، جب وہ واپس آئے تو ان کی بیوی کے بال سفید ہو چکے تھے اور ان کے بچے جوان ہو چکے تھے.میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ آج جمعہ کے بعد میں حکیم فضل الرحمان صاحب ، مولوی عبد المغنی خان صاحب اور ماسٹر محمد حسن صاحب آسان کی نماز جنازہ پڑھوں گا.مولوی عبد المغنی خان صاحب بھی ان لوگوں میں سے تھے، جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں اپنی زندگی وقف کی.وہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قادیان میں ہجرت کر کے آگئے اور پھر 522
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 23 ستمبر 1955ء وفات تک مرکز میں ہی رہے.اور سلسلہ کے مختلف عہدوں پر نہایت اخلاص اور محبت کے ساتھ کام کرتے رہے.پھر ماسٹر محمد حسن صاحب آسان بھی میرے پیچھے فوت ہوئے ہیں.ان کا ایک بیٹا مولو د احمد اس وقت لندن مشن کا انچارج ہے.میں نے جب وقف کی تحریک کی تو گوسینکڑوں مالدار ہماری جماعت میں موجود تھے مگر ان کو یہ توفیق نہ ملی کہ وہ اپنی اولا د کو خدمت دین کے لئے وقف کریں.لیکن ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے اپنے چارلڑ کے اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دئیے.جن میں سے دو بیٹے ان کی وفات کے وقت پاکستان سے باہر تھے.ان میں سے ایک ویسٹ افریقہ میں وائس پرنسپل ہے اور ایک لندن مشن کا انچارج اور انگلستان میں ہمارا مبلغ ہے.ان کے سات بچے تھے اور وہ غریب آدمی تھے.انہوں نے اپنے خرچ پر انہیں گریجوایٹ کرایا اور پھر سات میں سے چار کو وقف کر دیا.ان میں سے ایک الفضل کا ایڈیٹر ہے، ایک لندن مشن کا انچارج ہے، ایک ویسٹ افریقہ میں وائس پرنسپل ہے اور ایک کراچی میں تحریک جدید کی تجارت کا انچارج ہے.ان سارے لڑکوں کو انہوں نے بی اے یا ایم اے اپنے خرچ پر کرایا، سلسلہ سے انہوں نے کوئی رقم نہیں لی.انہیں یہ کبھی خیال نہ آیا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں، اگر میرے بیٹے پڑھ کر اعلیٰ ملازمتیں حاصل کر لیں تو ہمارے خاندان کا نام روشن ہو جائے گا.انہوں نے روشنی صرف اسلام میں دیکھی اور اپنے لڑکوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا.غرض ہماری جماعت میں ایسی مثالیں تو موجود ہیں، جو جماعت کی عزت کو قائم رکھنے والی ہیں.لیکن اب یہ حالت ہے کہ سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کے اور یا پھر میری اولاد کے اور کسی جگہ سے ہمیں واقفین زندگی نہیں مل رہے.کبھی کبھی تو جب میں اس حالت کود یکھتا ہوں اور مجھے ڈر آتا ہے کہ کہیں میری اولاد بھی کسی وقت دوسروں کو دیکھ کر دین کی خدمت سے منہ نہ پھیر لے تو میرے دل میں جوش آتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں کہ الہی مجھے صرف ایسی اولاد کی ضرورت ہے، جو تیرے دین کی خدمت گزار ہو.تو مجھے ایسا دن نہ دکھا ئیو کہ تیرے دین کو قربانی کی ضرورت ہو اور میرے بیٹے اس کے لئے تیار نہ ہوں.اور اگر کوئی ایسا دن آنے والا ہو تو تو بڑی خوشی سے مجھے بے اولا د کر دے.کیونکہ میرا نام تو نے روشن کرنا ہے، میری اولاد نے نہیں.میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میری ساری اولا د دین کی خدمت کرنے والی ہو.دیکھو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بیٹا نہیں تھا مگر کیا دنیا میں کوئی شخص ہے، جو آپ کا نام عزت سے نہیں لیتا.آپ کا خدا سے تعلق ہو گیا اور خدا نے آپ کے نام کو ابدی طور پر زندہ کر دیا.پس جس کا خدا سے تعلق ہو جائے ، اسے ڈر ہی کس بات کا ہو سکتا ہے؟ حضرت مسیح ناصری کو 523
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم دیکھ لو، آپ کی کوئی جسمانی اولاد نہ تھی، جو آپ کے نام کو زندہ رکھتی.مگر آج ساری دنیا کے عیسائی گواپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے انہیں خدائی کا رتبہ دیتے ہیں مگر وہ آپ پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.وہ کام خود اچھا کرتے ہیں مگر ہر اچھا کام کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ کرسچن سویلزیشن ہے.چونکہ ان کی قوم میں رحم کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے، اس لئے اگر وہ کسی موقع پر رحم سے کام لیتے ہیں تو ساتھ ہی کہہ دیتے ہیں، یہ کرسچین سویلیزیشن ہے، یہ میسج کی تعلیم کا نتیجہ ہے.اگر مسیح کے اپنے بیٹے ہوتے تو کیا بن جاتا اور ان کا نام کتنے عرصہ تک باقی رہتا؟ لیکن چونکہ انہوں نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دی، اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کو وہ عظمت دی کہ آج سارا یورپ اور سارا امریکہ ان کی عزت کر رہا ہے.بلکہ یورپ کے ایک چھوٹے سے چھوٹے ملک کے عیسائی ، جس طرح حضرت مسیح کو یا در رکھتے ہیں، اگر ان کے اپنے بیٹے بھی موجود ہوتے تو اس طرح ان کو یاد نہیں رکھ سکتے تھے.اسی طرح میں سمجھتا ہوں، ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے بھی ایسا نمونہ دکھایا، جو قابل تعریف ہے.وہ ایک معمولی مدرس تھے اور غریب آدمی تھے.انہوں نے فاقے کر کر کے اپنی اولاد کو پڑھایا اور اسے گریجوایٹ کرایا.اور پھر سات لڑکوں میں سے چار کو سلسلہ کے سپر د کر دیا.اب وہ چاروں خدمت دین کر رہے ہیں اور قریباً سارے ہی ایسے اخلاص سے خدمت کر رہے ہیں، جو وقف کا حق ہوتا ہے.اگر یہ بچے وقف نہ ہوتے تو ساتوں مل کر شاید دس ہیں سال تک اپنے باپ کا نام روشن رکھتے اور کہتے کہ ہمارے ابا جان بڑے اچھے آدمی تھے.مگر جب میرا یہ خطبہ چھپے گا تولا کھوں احمدی محمد حسن صاحب آسان کا نام لے کر ان کی تعریف کریں گے اور کہیں گے کہ دیکھو، یہ کیسا با ہمت احمدی تھا کہ اس نے غریب ہوتے ہوئے اپنے سات بچوں کو اعلی تعلیم دلائی اور پھر ان میں سے چار کو سلسلہ کے سپر د کر دیا.اور پھر وہ بچے بھی ایسے نیک ثابت ہوئے کہ انہوں نے خوشی سے اپنے باپ کی قربانی کو قبول کیا اور اپنی طرف سے بھی ان کے فیصلہ پر صاد کر دیا.میں نے پچھلے جمعہ میں جماعت کے دوستوں کو تحریک کی تھی کہ وہ اپنی زندگیاں اسلام کی خدمہ کے لئے وقف کریں.اور میں نے بتایا تھا کہ اسلام کے غلبہ کی یہی صورت ہے کہ ہم میں نسلاً بعد نسل ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں، جو اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں.میں نے یہ تحریک کی اور اس پر ایک ہفتہ گزر گیا.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک جماعت نے اس تحریک کی طرف پوری توجہ نہیں کی.ایک زمانہ وہ ہوا کرتا تھا کہ نارمل حالت میں جب میں تقریر کرتا تھا تو میں سمجھتا تھا کہ میں سامعین کے دل ہلا سکتا ہوں اور اگر ابنارمل (Abnormal) اور غیر معمولی حالت پیدا ہو جاتی تھی اور خدا تعالیٰ کا نور 524
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء مجھ پر نازل ہوتا اور اس کا تصرف میری زبان پر ہوتا تو میں سمجھتا تھا کہ اگر ساتھ ہزار آدمی بھی میرے سامنے ہوتاتو سجھتاتھا ہوں اور میں انہیں پہاڑ سے چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تو وہ پہاڑ سے چھلانگ لگا دے گا.اور اگر میں انہیں سمندر میں کودنے کے لئے کہوں تو وہ سمندر میں کو دجائے گا.لیکن اس بیماری کے بعد مجھے یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ میری وہ قوت بیا نیہ اب مجھ میں موجود ہے یا نہیں؟ بہر حال میرے اس خطبہ کے بعد ایک احمدی نے مجھے خط لکھا کہ میرے دل میں وقف کی تحریک ہوئی ہے.جب خدا مجھے توفیق دے گا، میں اپنی زندگی اسلام کی خدمت کے لئے وقف کردوں گا.سر دست میں دعائیں کر رہا ہوں اور دوستوں سے مشورہ لینے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں.اس لئے نہیں کہ وقف اچھی چیز ہے یا نہیں؟ بلکہ اس لئے کہ میں ذاتی طور پر وقف کو نباہ سکتا ہوں یا نہیں؟ اور یہ بات درست ہے.اچھے سے اچھا کام بھی ہو تو اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ مشورہ دینے والے بھی مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک مخلص احمدی، جو اپنی قربانیوں کے لحاظ سے ہمیشہ صف اول میں شریک رہے ہیں.ان کے سامنے ایک دفعہ جبکہ میں کھانا کھا رہا تھا، میرے ایک بیٹے کا ذکر آیا.انہوں نے کہا کہ اس کی خواہش اعلیٰ تعلیم پانے کی ہے.لیکن میں نے اسے مشورہ دیا ہے کہ چونکہ تمہارے باپ بیمار ہیں اور ابھی ان پر بہت بوجھ ہے، اس لئے سر دست تم وہیں اپنی تعلیم مکمل کرو، پھر یہاں آکر بیرسٹری کر لینا.میں نے کہا بیرسٹری ؟ میں تو اپنے کسی ایسے لڑکے کو دیکھ ہی نہیں سکتا، جو واقف زندگی نہ ہو.کہنے لگے، روپے کی بھی تو ضرورت ہوتی ہے.یہ روپیہ کمائے گا اور سلسلہ کی خدمت کرے گا.میں اس دوست کو سلسلہ کا چوٹی کا خدمت گزار سمجھتا ہوں.مگر جب اس نے یہ فقرہ کہا تو مجھے یوں محسوس ہوا ، جیسے اس نے میرے دل میں خنجر مار دیا ہے.اگر اس دوست کا مشورہ صحیح ہے تو پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ، مرزا غلام احمد، نعوذ باللہ بالکل بے وقوف اور جاہل تھے اور میں، جو ان کا خلیفہ ثانی ہوں، بڑا گدھا اور بے وقوف ہوں کیونکہ ہم نے اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دیں.آخر دنیا کمانا مجھے بھی آتا ہے.مجھے خدا نے وہ دماغ دیا ہے کہ بڑے سے بڑے دماغ والے اس بیماری میں بھی میرا مقابلہ نہیں کر سکتے.اور پھر خدا نے ہمیں سامان بھی دیئے.ہمارے باپ دادا اپنے علاقے کے حاکم تھے اور انہوں نے ایک بہت بڑی جائیداد اپنے پیچھے چھوڑی.وہ جائیداد جو تباہ ہونے کے بعد ہم تک پنچی، وہ بھی اتنی قیمتی تھی کہ اگر ہم اسے بیچنے کا موقع پاتے تو ہم تین بھائیوں کو تین ، تین کروڑ رو پیدل جاتا.گویا ہم سارے بھائیوں کی جائیداد مجموعی طور 525
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک البی تحریک..پر نو کروڑ روپیہ کی تھی.اگر یہ نو کروڑ روپیہ ہم تجارت پر لگا دیتے تو اس سے کئی گنے زیادہ روپیہ ہم کما لیتے.کیونکہ اصل چیز دماغ ہے، جس سے روپیہ کمایا جاتا ہے.اور دماغی قابلیتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں پیدا کی ہیں.لیکن اگر فرض کرو میں یہ نو کروڑ کی جائیداد سلسلہ کو دے دیتا اور وہ کام نہ کرتا ، جو میں نے کیا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ نو کروڑ اس کام کے برابر ہو سکتے تھے؟ یا کیا وہ نو کروڑ کی جائیداد میری لکھی ہوئی تفسیر کے ایک صفحہ کے برابر بھی ہو سکتی تھی؟ میری تفسیر قرآن کا ایک صفحہ اس کروڑ سے ہزاروں گنا زیادہ قیمتی ہے اور ہزاروں گنے زیادہ فائدہ مند ہے.پس مجھے تعجب ہوا کہ اس دوست نے یہ کیا بات کہی ہے؟ وہ دوست نہایت مخلص ہیں اور ساری عمر انہوں نے خدمت سلسلہ میں گزاری ہے.مگر پھر وہ اس وہم میں مبتلا ہو گئے کہ روپیہ دینا بھی خدمت ہے.بے شک ہماری جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں، جنہوں نے مالی لحاظ سے سلسلہ کی بہت بڑی خدمت کی ہے اور ہم ان کی قدر کرتے ہیں.لیکن جن لوگوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے لئے وقف کر دیں اور رات اور دن وہ خدمت سلسلہ میں مصروف رہے، ان کے وجود سے ہمارے سلسلہ کو جو فائدہ پہنچا ہے، وہ روپیہ کے ذریعہ خدمت کرنے والوں سے بہت زیادہ ہے.مجھے یاد ہے، میری پندرہ سال کی عمر تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ بیمار ہو گئے.ان دنوں جو ڈاک آیا کرتی تھی ، وہ آپ کی بیماری کی وجہ سے میں ہی آپ کو پڑھ کر سنایا کرتا تھا.ایک دفعہ ایک منی آرڈر آپ کے نام آیا، جو - 180 روپیہ کا تھا.اور ساتھ ہی خط تھا، جس میں لکھا تھا کہ یہ روپیہ چندے کا نہیں بلکہ حضور کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش ہے.اس میں سے اسی روپے تو وہ ہیں ، جو ہمیشہ ماہوار حضور کو بھیجا کرتا ہوں اور سو روپیہ زائد اس لئے ہے کہ پہلے میری تنخواہ - 180 روپیہ تھی جس میں سے اسی روپے میں حضور کو نذرانہ بھجوادیا کرتا تھا.اب مجھے یکدم سب انسپکٹر پولیس سے ترقی دے کر پراسیکیوٹنگ انسپکٹر بنادیا گیا ہے اور - 2801 روپے تنخواہ مقرر کی گئی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مجھے یکدم یہ سو روپیہ جو ترقی ملی ہے محض حضور کے لئے ملی ہے.اس لئے سوروپے، وہ جواب بڑھے ہیں اور اسی روپے وہ جو میں ہمیشہ بھیجا کرتا ہوں، حضور کی خدمت میں نذرانہ کے طور پر بھجوا رہا ہوں.اور چونکہ خدا نے مجھے -180 سے -/280 روپیہ تک یکدم پہنچایا ہے اور یہ سو روپیہ کی زیادتی میرے لئے نہیں بلکہ حضور کے لئے ہے، اس لئے میں آئندہ بھی ہمیشہ - 180 روپیہ حضور کی خدمت میں بھجوایا کروں گا.میں نے جب یہ خط پڑھا تو بڑا متاثر ہوا کہ ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے مخلص وجود پیدا کئے ہیں.یہ چوہدری رستم علی صاحب تھے ، جو محکمہ پولیس میں ملازم تھے.اسی طرح میں نے کئی دفعہ 526
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء سیٹھ عبد اللہ بھائی کی خدمات کا ذکر کیا ہے.اب تو پارٹیشن اور ہندوستانی گورنمنٹ کے مظالم کی وجہ سے ان کی تجارت ویسی نہیں رہی لیکن ساری عمران کی یہی کیفیت رہی کہ جو روپیہ بھی ان کے پاس آتا ، وہ اسے سلسلہ پر خرچ کر دیا کرتے اور ابھی بھی اسی رنگ میں قربانی کرتے جارہے ہیں.پس بے شک ہماری جماعت میں ایسے افراد ہیں، جو مالی لحاظ سے سلسلہ کے کاموں میں غیر معمولی حصہ لیتے ہیں.لیکن ان افراد سے جو سلسلہ کو فائدہ پہنچا ہے، کیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی ایک تصنیف کے بھی برابر ہے؟ یا سلسلہ کے قائم کرنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو وقت صرف کیا، اگر اس وقت کو سلسلہ کے لئے صرف کرنے کی بجائے آپ اپنے زمیندارہ کام میں لگ جاتے تو کیا سلسلہ کو اتنا ہی فائدہ پہنچتا، جتنا اب پہنچا ہے؟ یا میں ہی اگر اپنے زمیندارہ کام میں مشغول ہو جاتا تو میرے ذریعہ سلسلہ کو وہ فائدہ پہنچ سکتا تھا ، جواب پہنچا ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں نے زمیندارہ کام بھی کیا ہے.لیکن جب زمینوں کا کام اتنا بڑھا کہ میں نے سمجھا ، اب اگر میں نے اس کی طرف توجہ کی تو سلسلہ کے کام کو نقصان پہنچے گا تو میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو بلوایا اور زمین کے کاغذات ان کے سپر د کر دیئے اور خود میرے پاس جتنا وقت تھا، وہ سارے کا سارا میں نے سلسلہ کے لئے وقف کر دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں یہ کام خود بھی چلا سکتا تھا.مگر ان کے سپرد کرنے سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں زمینوں کے کام سے فارغ ہو کر سلسلہ کے کاموں میں زیادہ تن دہی سے مصروف ہو گیا.پھر سندھ کی زمینیں ملیں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ملازموں سے کام لینے کی توفیق عطا فرما دی.بے شک ملازموں پر کام کا انحصار رکھنے کی وجہ سے مجھے نقصان بھی ہوتا تھا.لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ زیادہ وقت ادھر صرف کروں.کیونکہ میں جانتا تھا کہ سلسلہ کو میرے وقت کی زیادہ ضرورت ہے.لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مجھے مالی لحاظ سے بھی سلسلہ کی خدمت کی توفیق عطا فرما دی.میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح سیٹھ عبد اللہ بھائی اور بعض دوسرے دوستوں نے قربانی کی ہے اور سلسلہ کی غیر معمولی خدمت کی ہے، اسی طرح میں نے بھی کی ہے.چنانچہ اب تک تحریک جدید میں، میں نے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ چندہ دیا ہے.لیکن اگر وہ خطبات جو تحریک جدید کے لئے میں نے پڑھے ہیں، نہ پڑھتا اور صرف ساڑھے تین لاکھ روپیہ چندہ دے دیتا تو ساڑھے تین لاکھ سے ساری دنیا میں تبلیغ اسلام نہیں ہو سکتی تھی؟ یہ تبلیغ اسلام تو میرے وقف کی وجہ سے ہوئی ہے.پس بے شک روپیہ بھی ایک قیمتی چیز ہے لیکن روپیہ کے باوجود پھر بھی وقف کی ضرورت ہوتی ہے.پس وہ دوست جن کے دلوں میں میرے خطبہ کی وجہ سے وقف کی تحریک ہوئی ہے، ان سے میں کہتا ہوں کہ تم سوچو اور مشورہ لو.مگر صرف انہی لوگوں سے مشورہ لو، جو تمہیں مشورہ دینے کے اہل ہوں.527
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم بلکہ اگر تم صحیح مشورہ لینا چاہتے ہوتو مجھ سے لو.دوسروں کو کیا پتہ ہے کہ سلسلہ کوکس قسم کے واقفین کی ضرورت ہے؟ کس قسم کا علم رکھنے والوں کی ضرورت ہے؟ کس قسم کا تجربہ رکھنے والوں کی ضرورت ہے؟ اور پھر ان کے کتنے وقت کی سلسلہ کو ضرورت ہے؟ مجھے پتہ ہے کہ سلسلہ کے لئے کس قسم کے کام کا تجربہ رکھنے والوں کی ضرورت ہے؟ کس قسم کے علم والوں کی ضرورت ہے؟ اور کتنا وقت دے کر وہ سلسلہ کی خدمت کر سکتے ہیں؟ اس بارہ میں صحیح مشورہ انہیں مجھ سے ہی مل سکتا ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر صحیح طریق پر کام کیا جائے تو ایک وکیل وکالت کرتے ہوئے بھی سلسلہ کی خدمت کر سکتا ہے.اور ایک زمیندار زمیندارہ کرتے ہوئے بھی سلسلہ کی خدمت کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ مشورہ صحیح آدمی سے لے.جب تک میرے دم میں دم ہے، میں تمہیں صحیح مشورہ دینے کے لئے ہر وقت تیار ہوں.پس مجھ سے مشورہ لو اور کوشش کرو کہ تم اپنے آپ کو ان لوگوں کی صف میں لے آؤ.جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَكَ مِنْكُمْ یعنی وہ لوگ جو ایمان تو بعد میں لائے اور انہوں نے ہجرت بھی بعد میں کی اور جہاد بھی بعد میں کیا لیکن پھر بھی وہ صحابہ میں شامل ہوں گے.پس صحابہ میں ملنا تمہارے لئے مشکل نہیں.اگر تم کوشش نہ کرو تو اور بات ہے، ورنہ خدا نے تمہارے اندر وہ قابلیت رکھ دی ہے، جس سے اگر تم کام لوتو تم صحابہ میں شامل ہو سکتے ہو.میں چھوٹا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وفات پاگئے.آپ کی وفات کے بعد والدہ مجھے بیت الدعاء میں لے گئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں والی کاپی میرے سامنے رکھ دی.اور کہا کہ میں سمجھتی ہوں ، یہی تمہارا سب سے بڑا ورثہ ہے.میں نے ان الہامات کو دیکھا تو ان میں ایک الہام آپ کی اولاد کے متعلق یہ درج تھا کہ حق اولا د ور اولاد اسی طرح ایک اور الہام درج تھا، جو مندر تھا.اور اس کے نیچے لکھا تھا کہ جب میں نے یہ الہام محمود کی والدہ کو سنایا تو وہ رونے لگ گئیں.میں نے کہا کہ تم یہ الہام مولوی نور الدین صاحب کے پاس جا کر بیان کرو.انہوں نے محمود کی والدہ کو تسلی دی اور کہا کہ یہ الہام منذر نہیں بلکہ مبشر ہے.حق اولاد در اولاد کے معنی در حقیقت یہی تھے کہ وہ حق، جو باہر سے تعلق رکھتا ہے یعنی زمینوں اور جائیدادوں وغیرہ میں حصہ، یہ کوئی زیادہ قیمتی نہیں.زیادہ قیمتی یہ چیز ہے کہ میں نے تمہاری اولاد کے دماغوں میں وہ قابلیت رکھ دی ہے کہ جب بھی یہ اس قابلیت سے کام لیں گے، دنیا کے لیڈر ہی بنیں گے.باقی ورثہ ضائع ہو جاتا ہے مگر یہ وہ ورثہ ہے، جو کبھی 528
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء ضائع نہیں ہوسکتا.اور یہ وہ ورثہ ہے، جو ہم نے تمہاری اولاد کے دماغوں میں مستقل طور پر رکھ دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بعد میں جو کچھ بھی ملا حق اولاد در اولاد کی وجہ سے ہی ملا.اور میں نے جتنے کام کئے ، اپنی دماغی اور دینی قابلیت کی وجہ سے ہی کئے.ورنہ مجھ سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے.اگر ان کے دماغوں میں بھی وہی قابلیت ہوتی ، جو مجھ میں ہے تو دنیا میں دس ہزار محمود اور بھی ہوتا.لیکن اگر ساری دنیا میں صرف ایک ہی محمود ہے تو اس کی وجہ وہی حق اولاد در اولاد ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمار اور نہ ہمارے دماغوں کے اندر رکھ دیا ہے اور یہ وہ دولت ہے، جسے کوئی شخص چرا نہیں سکتا.جیسے حضرت مسیح نے کہا کہ جو کچھ تم زمین میں جمع کرو گے، اسے کیڑا کھا جائے گا.لیکن اگر تم آسمان پر جمع کرو تو وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ رہے گا اور کوئی کیڑا اسے نہیں کھا سکے گا.اسی طرح جائیداد میں تباہ کی جاسکتی ہیں، زمینیں چھینی جاسکتی ہیں لیکن ترقی کی وہ قابلیت ، جو دماغوں کے اندر ودیعت کر دی گئی ہو، اسے کوئی شخص چھین نہیں سکتا.چنا نچہ دیکھ لو، وہی جائیداد، جس کا حساب میں نے کروڑوں میں لگایا ہے اور جو شاید چند سالوں بعدار بوں کی جائداد بن جاتی.وہی ہمارے شریک بھائیوں کے سپرد تھی مگر اس کی کوئی قیمت نہ تھی.اور ہم اس سے اس قدر نا واقف تھے کہ مجھے یاد ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ایک دن ہمارے نانا جان والدہ صاحبہ کے پاس آئے اور انہوں نے غصہ میں رجسٹر زمین پر پھینک دیا اور کہا کہ میں کب تک بڑھا ہو کر بھی تمہاری خدمت کرتا رہوں؟ اب تمہاری اولاد جوان ہے، اس سے کام لو اور زمینوں کی نگرانی ان کے سپر د کرو.والدہ نے مجھے بلایا اور رجسٹر مجھے دے دیئے اور کہا کہ تم کام کرو.تمہارے نانا یہ رجسٹر پھینک کر چلے گئے ہیں.میں ان دنوں قرآن وحدیث کے مطالعہ میں ایسا مشغول تھا کہ جب زمینوں کا کام مجھے کرنے کے لئے کہا گیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے کسی نے مجھے قتل کر دیا ہے.مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جائیداد ہے کیا بلا اور وہ کس سمت میں ہے؟ مغرب میں ہے یا مشرق میں؟ شمال میں ہے یا جنوب میں؟ میں نے زمینوں کی لسٹیں اپنے ہاتھ میں لے لیں اور افسردہ شکل بنائے گھر سے باہر نکلا.مجھے اس وقت یہ علم نہیں تھا کہ حق اولاد در اولاد کا الہام کیا کام کر رہا ہے؟ میں جونہی باہر نکلا، ایک صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے، میاں صاحب میں نے سنا ہے کہ آپ کو زمینوں کے لئے کسی نوکر کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا، آج نانا جان غصہ میں آکر والدہ کے سامنے رجسٹر پھینک کر چلے گئے ہیں اور میں حیران ہوں کہ یہ کام کس طرح کروں؟ کہنے لگے، میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں.میں نے کہا، آپ شوق سے یہ کام سنبھالیں.در حقیقت یہ آپ کا ہی حق ہے، مگر آپ لیں گے کیا ؟ کہنے لگے ، آپ مجھے 529
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک صرف دس روپے دے دیجئے.میں نے کہا، دس روپے ؟ میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں.کہنے لگے ، آپ فکر نہ کریں، بڑی بھاری جائیداد ہے اور میری تنخواہ اس میں سے بڑی آسانی کے ساتھ نکل آئے گی.میں نے اسی وقت بغیر پڑھے رجسٹر ان کے حوالے کر دیئے اور کہا کہ اگر آپ دس روپے پیدا کر سکیں تو لے یجئے ، ورنہ میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں.انہی دنوں قرآن کریم کے پہلے انگریزی پارہ کی اشاعت کا سوال پیدا ہوا.اس پارہ کے لئے میں اردو میں مضمون لکھتا تھا اور ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم ، اس کا انگریزی میں ترجمہ کرتے جاتے تھے.وہ اتنا اعلیٰ ترجمہ کرنے والے تھے کہ آج تک یورپ سے خطوط آتے رہتے ہیں کہ آپ کے پہلے پارہ کی زبان نہایت شاندار ہے.اور پھر وہ اتنی جلدی ترجمہ کرتے تھے کہ میں پیچھے رہ جاتا تھا اور وہ مضمون کا ترجمہ کر کے لے آتے.حالانکہ میں خود استاز ودنو لیس تھا کہ بعض دفعہ ایک، ایک دن میں پوری کتاب لکھ دیتا تھا.ان دنوں مسجد مبارک کے نچلے کمرہ میں بیٹھ کر میں کام کیا کرتا تھا.ایک دن میں بیٹھا مضمون لکھ رہا تھا کہ کسی نے دروازہ پر دستک دی.میں نے پوچھا تو پتہ لگا کہ ماسٹر عبدالحق صاحب آئے ہیں.میں نے کہا، آپ کس طرح آئے ہیں؟ کہنے لگے مضمون دیجئے ؟ میں نے کہا، ابھی تھوڑی دیر ہوئی ، میں آپ کو مضمون بھجوا چکا ہوں.کہنے لگے، اس کا ترجمہ تو میں ختم بھی کر چکا ہوں، اب مجھے آگے مضمون دیجئے.میں نے کہا، میرے پاس تو ابھی مضمون تیار نہیں.کہنے لگے، خیر میں اپنا کام ختم کر چکا ہوں.آپ مضمون لکھ لیں تو مجھے بھجوا دیں.بہر حال جب مضمون تیار ہو گیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ پارہ ہم اپنے خاندان کی طرف سے چھپوا دیں.مگر اس کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی.ہمارا اندازہ یہ تھا کہ اس کے لئے چار ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی.آخر سوچ سوچ کر میں نے یہ تجویز نکالی کہ ہم اپنی جائیداد کا کچھ حصہ بیچ دیتے ہیں.اس ذریعہ سے جو آمد ہوگی ، وہ قرآن کریم کے چھپوانے پر خرچ کر دی جائے گی.میں نے اپنے بھائیوں سے مشورہ لیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری طرف سے زمین بیچنے کی اجازت ہے.مگر اب میں ڈروں کہ چار ہزار روپیہ آ بھی سکتا ہے یا نہیں؟ میں نے اسی دوست کو بلوایا اور کہا کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ قرآن کریم، ہمارے خاندان کے خرچ پر شائع ہو.کیا اس کے لئے چار ہزار رو پید اکٹھا ہو سکتا ہے؟ کہنے لگے ، آپ کہیں تو ہیں ہزار بھی اکٹھا ہوسکتا ہے؟ میں نے کہا، ہمیں ہزار نہیں ، صرف چار ہزار روپیہ چاہئے.جب میں نے یہ بات کہی ، اس وقت کوئی گیارہ بجے ہوں گے.میں نے ان سے پوچھا کہ یہ روپیہ کب تک اکٹھا ہو سکتا ہے؟ کہنے لگے، ظہر تک لا دوں گا.یہ کہہ کر وہ چلے گئے.ظہر کی نماز پڑھا کر میں الفضل کے دفتر گیا تو انہوں نے چار ہزار 530
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء روپیہ کی تھیلی میرے سامنے لاکر رکھ دی اور کہا کہ ابھی اور بہت سے گاہک موجود ہیں، اگر آپ کہیں تو ہیں، چھپیں ہزار روپی بھی آسکتا ہے؟ غرض اللہ تعالیٰ دینے پر آتا ہے تو اس طرح دیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.پس مت سوچو کہ تمہاری اولادیں کیا کھائیں گی اور کہاں سے ان کے لئے رزق آئے گا؟ ہمیں تو یہ فکر رہتی ہے کہ ہمیں جو کچھ خدا نے دیا ہے، یہ ہماری اولادوں کی تباہی کا موجب نہ ہو جائے.ہمیں یہ فکر نہیں کہ وہ کھائیں گے کہاں سے؟ ہمیں تو یہ فکر ہے کہ وہ کہیں اپنے کھانے پینے میں ہی نہ لگ جائیں اور خدا اور اس کے دین کو بھلا نہ بیٹھیں.میں نے بتایا ہے کہ شروع میں میری یہ حالت تھی کہ میں دس روپیہ کا نوکر بھی نہیں رکھ سکتا تھا.مگر اب سندھ کی زمینوں پر جو میرے ملازم کام کر رہے ہیں، ان کی چار ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ہے.کجا یہ کہ دس روپیہ کے نوکر پر میری جان نکلتی تھی اور کجا یہ کہ اب چار ہزار روپیہ ماہوار میں انہیں دیتا ہوں.یہ روپیہ آخر کہاں سے آیا؟ خدا نے ہی دیا، ورنہ میرے پاس تو کچھ نہ تھا.جب ہم قادیان سے آئے ہیں، اس وقت ہیں ہیں ہزار روپیہ پر ایک، ایک کنال فروخت ہورہی تھی.اور اگر ساری جائیداد فروخت کرنے کا ہمیں موقع ملتا تو وہ کروڑوں روپیہ کی مالیت کی تھی.پس اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو ایسے ایسے رستوں سے دیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی میں اپنے سب بچوں سے کہا کرتا ہوں کہ تم اس روپیہ کو دیکھ کر بھی یہ دھوکہ نہ کھاؤ کہ یہ تمہاری کوشش اور جدوجہد کے نتیجہ میں تمہیں حاصل ہو رہا ہے.تمہیں جو کچھ مل رہا ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل مل رہا ہے.اگر آپ کا یہ دعوی نہ ہوتا کہ میں مامور ہوں اور آپ کی وجہ سے قادیان کو تقدس حاصل نہ ہوتا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ پھر بھی وہاں ہیں ، ہیں اور چھپیں، چھپیس ہزار کو ایک، ایک کنال فروخت ہوا کرتی ؟ یہ قیمت اس لئے بڑھی کہ لاہور اور سیالکوٹ اور گجرات اور بمبئی اور کلکتہ سے لوگ آئے اور وہاں انہوں نے اپنی رہائش کے لئے زمینیں خریدنی شروع کر دیں.اور وہ اگر وہاں آکر آباد ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی وجہ سے.پس کبھی یہ خیال نہ کرو کہ تم اپنے روپیہ سے بڑھ رہے ہو.تمہیں خدا اپنے پاس سے رزق دے رہا ہے.پس تم خدا کا شکر ادا کرو اور اس بات کو یا درکھو کہ دنیا نے تم کو نہیں پالنا ، خدا نے تم کو پالنا ہے.تم اپنے اندر دین کی خدمت کا احساس پیدا کرو اور سمجھ لو کہ ہر دنیوی پیشہ کے ساتھ تم دین کی بھی خدمت کر سکتے ہو، بشر طیکہ تم مشورہ کے لئے صحیح آدمی کا انتخاب کرو.531
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو ہی دیکھ لو، وہ ایسی دھواں دار تقریر کرتے ہیں کہ ساری دنیا میں شور بچ جاتا ہے.لیکن مذہبی معاملات پر انہوں نے جب بھی کوئی تقریر کرنی ہوتی تھی ، ہمیشہ میرے پاس آتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے نوٹ لکھواد یجئے.چنانچہ سالہا سال تک میں انہیں نوٹ لکھوا تارہا اور وہ میرے نوٹوں کو بڑھا کر تقریر کر دیا کرتے.اب بھی گو میں بیمار تھا اور ڈاکٹروں کی ہدایت تھی کہ میں سیر و تفریح میں اپنا وقت گزاروں.مگر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب موٹر کی انگلی سیٹ پر بیٹھے، میری طرف منہ پھیر کر کہتے ، حضور! فلاں آیت کا کیا مطلب ہے؟ اور میں اس کا مفہوم بیان کرنا شروع کر دیتا.میں سمجھتا کہ میرا بھی شغل ہو رہا ہے اور انہیں بھی فائدہ پہنچ رہا ہے، اس میں حرج کیا ہے؟ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا کہ موٹر میں بیٹھے ہوئے سفر بھی ہورہا ہوتا اور وہ مجھ سے مختلف امور کے متعلق استفادہ بھی کر رہے ہوتے.جس طرح چوہدری ظفر اللہ خان صاحب دین کی خدمت کر رہے ہیں، اسی طرح ہر شخص کر سکتا ہے.صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ عقل سے کام لے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب صرف اس لئے ترقی کر گئے کہ انہیں دین کا شوق ہے اور وہ اسلامی مسائل کے متعلق سوچتے اور تدبر کرتے رہتے ہیں.اور جن باتوں کا انہیں خود پتہ نہ لگے، وہ مجھ سے پوچھتے ہیں اور پھر اس کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں.ساتھ ہی خدا نے انہیں ایسا ملکہ دیا ہے کہ وہ تقریر کرتے ہیں تو شور مچ جاتا ہے کہ بڑی اعلیٰ تقریر کی ہے.جس طرح وہ کر رہے ہیں، اس طرح تم میں سے ہر شخص دین کی خدمت کر سکتا ہے، بشرطیکہ تم کرنا چاہو اور اپنے اپنے کاموں کے ساتھ دین کی خدمت کے لئے بھی کچھ وقت نکالو.اور پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالی توفیق دے تو اس وقف کو مستقل کیا جا سکتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہئیں، جو اپنے تمام کاموں سے الگ ہو کر خالص دینی خدمت میں مشغول رہیں.مگر ہر آدمی ایسا نہیں کر سکتا.ان کے لئے یہی طریق ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا کا بھی کام کریں اور اس کے ساتھ دین کو بھی نظر انداز نہ کریں.یاد رکھو، جب تک جماعت میں نسلاً بعد نسل ایسے لوگ پیدا نہ ہوتے رہیں گے، جو دین کی اشاعت کے لئے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جائیں اور اسلام کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار ہوں ، اس وقت تک اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا.میں چھوٹا تھا کہ میں نے بچپن کے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک انجمن بنائی اور رسالہ تشحیذ الا ذہان ہم نے جاری کیا.میرے اس وقت کے دوستوں میں سے ایک چوہدری فتح محمد صاحب ہیں.جن کی لڑکی چوہدری عبداللہ خان صاحب کے گھر ہے.ایک دفعہ چوہدری عبداللہ خان صاحب کی بیوی مجھے 532
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء کہنے لگیں کہ ابا جی کو جب آپ نے ناظر اعلی بنادیا تو وہ گھر میں بڑا افسوس کیا کرتے تھے کہ ہم نے تو اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کیا تھا اور انہوں نے کرسیوں پر لا کر بیٹھا دیا ہے.دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں، جو مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ واقف زندگی کی قدر ہونی چاہئے.باہر سے آنے والوں میں سے کوئی وکیل اعلیٰ ہو جاتا ہے اور کوئی ناظر اعلیٰ ہو جاتا ہے اور ہم مبلغ کے مبلغ ہی رہتے ہیں.حالانکہ یہ ایسی ہی بات ہے، جیسے خدا کہے کہ بندوں میں سے تو کوئی ترقی کر کے ہٹلر بن گیا اور کوئی نپولین بن گیا اور میں خدا کا خدا ہی رہا.بھلا مبلغ سے بڑا اور کون سا مقام ہو سکتا ہے، جو تم حاصل کرنا چاہتے ہو.جو شخص سچا اور حقیقی مبلغ ہوتا ہے، وہ دنیا میں خدا کا نمائندہ ہوتا ہے.جیسے ایمبیسیڈ راپنی اپنی حکومتوں کے نمائندے ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ حکومت کے وزراء ہز ایکسی لینسی نہیں کہلا سکتے لیکن ایمبیسیڈر هز ایکسی لینسی کہلاتے ہیں.کیونکہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کے نمائندے ہوتے ہیں.اسی سفر میں ایک دن چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کہنے لگے کہ میں جب تک وزارت خارجہ میں تھا ، ہز ایکسی لینسی نہیں کہلا سکا.لیکن اب انٹر نیشنل کورٹ کا حج ہونے کی وجہ سے بائی رائٹ اپنے آپ کو ہز ایکسی لینسی لکھ سکتا ہوں.جس طرح دنیا میں بعض لوگ حکومتوں کے نمائندہ ہونے کی وجہ سے خاص عزت کے مستحق سمجھے تو جاتے ہیں ،اسی طرح مبلغ ہونا بھی ایک بہت بڑی عزت کا مقام ہے.مبلغ سے کسی اور کو اونچا سمجھنا، ایسی ہی بے وقوفی کی بات ہے، جیسے کسی جج نے ایک شخص کو پھانسی کی سزادی تو وہ چیخ مار کر کہنے لگا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ مجھے موت کی سزا دے دیتے.جیسے اس کا قول احمقانہ تھا، اسی طرح یہ بھی بے وقوفی کی بات ہے کہ مبلغ سے کسی اور کا مقام اونچا سمجھا جائے.غرض خدا نے تمہارے لئے بڑی بڑی عزتیں رکھی ہیں.تم خدا پر توکل کرو اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرو.وہ دینے پر آتا ہے تو وہ کچھ دے دیتا ہے کہ انسان اسے دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے.ہم نے ساری عمر میں دنیوی قابلیتوں کے بغیر وہ کچھ علم حاصل کیا ہے، جو بڑی سے بڑی ڈگریاں رکھنے والوں کو بھی نہیں ملا.اسی طرح مالی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ہماری ایسے ایسے رستوں سے مدد کی ، جو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے.پس خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے تم اس کی طرف قدم اٹھاؤ.اگر تم اس پر تو کل رکھتے ہوئے ، اس کی طرف اپنا قدم بڑھاؤ گے تو یقینا تمہارا خدا تم کو ضائع نہیں کرے گا.وہ تمہارا ہاتھ پکڑلے گا اور تم محسوس کرو گے کہ تمہارا خدا تمہارے سامنے کھڑا ہے.533
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم میرے پاس اس سفر میں ایک نو مسلم انگریز آیا اور اس نے کہا کہ میں بڑی کوشش کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کروں ، مگر مجھے پتہ نہیں لگتا کہ میں اس کے قریب ہو گیا ہوں یا نہیں؟ میں نے کہا، تمہاری اس خواہش کا انحصار تمہارے اس ایمان اور یقین پر ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کا دروازہ تمہارے لئے بند نہیں.بلکہ تم بھی اس کے انعامات کو اسی طرح حاصل کر سکتے ہو، جس طرح پہلے لوگوں نے حاصل کئے.اگر تم سچے دل سے یہ یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ کے انعامات کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں اور ہر ترقی تمہارے لئے ممکن ہے تو یہ ہوہی نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ تمہارے قریب نہ آئے.وہ یقینا تمہارے لئے اپنے قرب کے دروازے کھول دے گا اور تم محسوس کرو گے کہ وہ تمہارے قریب آ گیا ہے.جیسے تمہارے کمرہ میں اگر آگ جل رہی ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ تم اس آگ کے وجود سے انکار کر سکو.کیونکہ اس کی گرمی تمہیں محسوس ہونے لگتی ہے.اسی طرح اگر تم یقین رکھو کہ تمہارے لئے لامتناہی ترقیات کے دروازے کھلے ہیں اور تمہارا خدا بخیل نہیں تو یقیناً اس کا قرب تمہیں محسوس ہی نہیں ہوگا بلکہ تم اپنی روحانی آنکھوں سے اس کو دیکھنا شروع کر دو گے.میرے اس جواب کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ نماز کے بعد کئی گھنٹے تک مسجد میں بیٹھا رہا اور اس نے کہا کہ مجھے اپنی ساری زندگی میں آج پہلی دفعہ یہ محسوس ہوا ہے کہ میرے لئے بھی ترقی کا راستہ کھلا ہے اور مجھے جو روحانی سرور اس سے حاصل ہوا ہے، وہ پہلے بھی حاصل نہیں ہوا.اسی طرح تم بھی خدا تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا کرو اور اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرو.یہ مت خیال کرو کہ اس کے تمام انعامات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئے ہیں یا مسیح موعود علیہ السلام پر ختم ہو گئے ہیں یا مجھ پر ختم ہو گئے ہیں.اس کے انعامات کے دروازے تم سب کے لئے کھلے ہیں.اگر تم ان دروازوں میں داخل ہو کر اس کے انعامات کو حاصل نہیں کرتے تو تم سے زیادہ بد قسمت اور کوئی نہیں.لیکن اگر تم کوشش کرتے رہو اور اس کے انعامات پر یقین رکھو تو تم وہی کچھ حاصل کر سکتے ہو، جو سید عبدالقادر جیلانی اور شبلی اور معین الدین چشتی نے حاصل کیا.تمہارا خدا بخیل نہیں اور نہ اس کی جیب میں کمی ہے.اس کی جیب میں سارے درجے پڑے ہوئے ہیں.اگر تم یقین اور ایمان کے ساتھ اس کی طرف بڑھو تو وہ معین الدین چشتی والا انعام اپنی جیب سے نکالے گا اور تمہاری جیب میں ڈال دے گا.وہ محی الدین صاحب ابن عربی والا انعام اپنی جیب سے نکالے گا اور تمہاری جیب میں ڈال دے گا.وہ ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی والا انعام نکالے گا اور تمہاری جیب میں ڈال دے گا.( مطبوعه روزنامه الفضل 22 اکتوبر 1955ء) 534
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلدسوم - اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 ستمبر 1955ء جب تک واقفین زندگی پیدا نہ ہوں، اسلام کبھی غالب نہیں آسکتا خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 1955ء میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ ہمیشہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے اور آپ اسلام کی اشاعت کے لئے تشریف لائے.اگر آپ لوگوں کا یہ دعوی صحیح ہے تو آپ کو اس کام کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے ، جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں بھیجے گئے تھے.دنیا میں اس وقت اڑھائی ارب کی آبادی ہے لیکن ہمارا صرف سو، ڈیڑھ سو مبلغ باہر کام کر رہا ہے اور تئیں، چالیس یہاں تیار ہورہے ہیں.گویا ابھی کام کی ابتداء ہے.شروع شروع میں جو وقف کرنے والے تھے ، ان کی اولاد میں سے کوئی بھی وقف کی طرف نہیں آیا.اگر تم ان لوگوں کی ایک لسٹ بناؤ تو ایک تماشہ بن جائے.سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی وقف کی تھی لیکن آپ کے خاندان میں سے اب صرف میری اولا د واقف زندگی ہے، باقی سب نو سو اور ہزار روپیہ ماہوار کے پھیر میں پڑے ہوئے ہیں.گویا چشمہ سرے سے ہی گدلا ہو گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے بیعت کے وقت ہر شخص سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھے گا.اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے یہی معنی تھے کہ اگر مجھے یہاں پچاس روپیہ ماہوار ملیں گے اور باہر مجھے پانچ سو روپے ملیں گے تو میں پچاس کو پانچ سوپر ترجیح دوں گا.لیکن اب اس عہد لینے والے کی اپنی اولا د کیا کر رہی ہے؟ ان میں سے کوئی پندرہ سو اور دو ہزار کے پھیر میں پڑے ہوئے ہیں.پھر باقی لوگوں کا کیا قصور ہے؟ وہ تو کہیں گے کہ جب عہد لینے والے کی اپنی اولا د پندرہ سو اور دو ہزار کے پھیر میں پڑی ہوئی ہے تو ہم کیوں پندرہ سو اور دو ہزار کے پھیر میں نہ پڑیں؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب نے اس روپیہ سے پرورش پائی ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے دیا تھا اور الہاما بتایا تھا کہ یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ درویشوں کے لئے ہے.اس نے یہ کبھی نہیں کہا کہ یہ تیرے لئے اور تیری اولاد میں سے حکومت سے پندرہ سو یا دو ہزار لینے والوں کے لئے ہے.یہ خدا تعالیٰ کے عطیہ کی بداستعمال نہیں تو اور کیا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ آپ کی اولاد آئندہ 535
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہزار سال تک اپنی اولاد در اولاد کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرتی چلی جاتی اور دنیا کمانے کی طرف کبھی توجہ نہ کرتی.اگر باقی لوگوں کو لاکھ ، لاکھ روپیہ ماہوار بھی مل رہا ہوتا تو وہ اس کی طرف منہ نہ کرتے اور دین کی خدمت کرتے ہوئے، اگر انہیں پچاس روپیہ ماہوار بھی ملتا تو اسے خوشی سے قبول کر لیتے.مگر یاد رکھو، یہ ضروری نہیں کہ جسمانی اولا دہی وفادار ہو.بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ روحانی اولا دو فادار ثابت ہوتی ہے اور جسمانی اولاد بعض دفعہ بے وفائی کر جاتی ہے.اس لئے اگر آپ لوگ دیکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جسمانی اولادغدار ثابت ہو رہی ہے تو آپ یہ نہ کہیں کہ آپ کی جسمانی اولا د جب اچھا نمونہ نہیں دکھارہی تو ہم کیوں دکھائیں؟ یاد رکھیں ، آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہی ہیں.وہ جسمانی اولاد ہیں اور آپ روحانی اولاد ہیں.اگر آپ لوگ انہیں دین سے لا پرواہی کرتا دیکھیں تو بائیں طرف تھوک کر اور یہ سمجھ کر کہ وہ شیطان کے قبضہ میں آگئے ہیں، دین کی خدمت میں مشغول ہو جائیں.ساری دنیا ابھی اسلام سے بیگانہ ہے اور اڑھائی ارب کی آبادی کو ہم نے اسلام کی طرف لانا ہے.پس اڑھائی ارب کی آبادی کو اسلام کی طرف لانے کی تیاری کریں اور شروع دن سے ہی اپنا یہ مقصد بنالیں اور اپنی اولا د کو بھی تاکید کریں کہ ان کا کام ساری دنیا کو کلمہ پڑھانا ہے.جب تم لوگ ساری دنیا کو کلمہ پڑھا لو گے تو تمہاری دنیا اور عاقبت دونوں سنور جائیں گی.ایک پاگل سے پاگل انسان بھی سمجھ سکتا ہے ہے کہ جب ساری دنیا کلمہ پڑھ لے گی تو انگریز کی دنیا کی ساری قو میں تمہاری غلامی کریں گی.کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر امریکہ کے سارے لوگ مسلمان ہو جائیں تو آج ہمارا جو مبلغ وہاں کے مزدورں سے بھی کم گزارہ لے کر کام کر رہا ہے، اسی حالت میں رہے گا ؟ اور کیا وہ لوگ اپنی دوستیں اس کی طرف نہیں پھینکیں گے؟ پس بے شک آپ لوگوں کو دنیا بھی ملے گی نیکن میں اس پر زور اس لئے نہیں دیتا کہ تا تمہارا نظر یہ دنیاوی نہ ہو جائے.ورنہ یہ حقیقت ہے کہ آج جو دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرے گا اور دنیا کی پرواہ نہیں کرے گا، ایک وقت آئے گا کہ دنیا اس کے طرف دوڑتی ہوئی آئے گی.لیکن اس وقت تم صرف دین کو سامنے رکھو اور ہزار، دو ہزار یا دس ہزار کے چکر میں نہ پڑو.صرف اس بات کو اپنے سامنے رکھو کہ چاہے فاقے آئیں، ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ساری دنیا کو پڑھا کر رہیں گے.مجھے یاد ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک میراشن آئی ، اس کا لڑ کا عیسائی ہو گیا تھا اور وہ سل کا مریض بھی تھا.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی کہ میرا یہ اکلوتا لڑ کا عیسائی ہو گیا ہے اور ساتھ ہی سل کی بیماری میں مبتلا ہے.آپ اسے تبلیغ بھی کریں تا یہ دوبارہ اسلام قبول کرلے اور علاج بھی کریں.آپ نے حضرت خلیفة المسیح اول رضی الله عنه کو 536
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 ستمبر 1955ء اس کے علاج کے لئے ہدایت فرمائی اور خود اسے تبلیغ کرتے رہے.لیکن وہ اس قدر کثر عیسائی تھا کہ آپ جتنی تبلیغ کرتے وہ اتنا ہی عیسائیت پر پکا ہوتا.ایک رات جبکہ اس کی حالت زیادہ خراب تھی ، وہ آدھی رات کو بھا گا اور بٹالہ کی طرف چل پڑا.وہاں عیسائیوں کا مشن تھا.اس کی ماں کو پتہ لگ گیا ، وہ رات کو گیارہ میل کے سفر پر چل پڑی اور قادیان سے 8،9 میل کا فاصلہ پر دوانیوال کے تکیہ کے پاس اسے جالیا.مجھے یاد ہے، جب وہ قادیان واپس آئی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاؤں پر روتی ہوئی گرگئی اور کہنے لگی، میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ ایک دفعہ اسے کلمہ پڑھادیں، پھر بے شک یہ مر جائے ، مجھے اس کی پرواہ نہیں.لیکن میں یہ نہیں چاہتی کہ یہ عیسائی ہونے کی حالت میں مرے.دیکھو، اس مراشن میں کتنا ایمان تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی اور جسمانی اولاد میں کم از کم اس میراثن جتنا ایمان تو ضرور ہونا چاہئے.اس میراشن کا بیٹا عیسائی ہو گیا تھا، مگر وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ عیسائی ہونے کی حالت میں مرے.اس کی خواہش تھی کہ وہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے، پھر بے شک مرجائے.تم لوگ تو مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو تمہارے لئے تو اور بھی ضروری ہے کہ تم ایک دفعہ دوسروں کو کلمہ پڑھا لو، پھر بے شک مرجاؤ.تم وقف در وقف کی تحریک کرتے چلے جاؤ.اور پھر ہر واقف یہ سوچے کہ آگے اس کی اولاد میں خدمت دین کے لئے کتنا جوش ہے؟ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں ، ان میں سے کئی ہیں، جن کی اولاد نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف نہیں کیں.صرف میری اولا د نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں.خدا کرے کہ ان کا دین کی خدمت کے لئے یہ جوش قائم رہے اور آگے ان کی اولا در اولاد اپنی زندگیاں دین کی خدمت کی لئے وقف کرتی چلی جائے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باقی اولاد کو بھی یہ سمجھ آجائے کہ پندرہ سویا دو ہزار روپیہ ماہوار کمانا کوئی چیز نہیں.اصل چیز یہ ہے کہ انسان دین کی خدمت میں اپنی زندگی گزارے.باقی میرے ساتھ وقف کرنے والوں میں سے ایک چوہدری فتح صاحب سیال تھے.چوہدری صاحب کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ انہوں نے اپنے ایک لڑکے کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے بعد دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا.دوسرے درد صاحب تھے.اگر ان کی اولاد میں سے کوئی لڑکا اچھا پڑھ جاتا تو وہ اسے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیتے.مگر کچھ ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ ابھی تک ان کی اولاد میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں ہوا کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف کر سکے.باقی سب لوگوں کے خانے خالی ہیں.حالانکہ اسلام دنیا میں اس وقت تک کبھی غالب نہیں آ سکتا، جب تک مسلسل اور متواتر ہم میں زندگیاں وقف کرنے والے لوگ پیدا نہ ہوں.537
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 ستمبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم دیکھ لو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریباً پانچ سو سال بعد ایک بزرگ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی ” ہوئے اور انہوں نے ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کی.ان کے بعد ان کے خلفاء ہوئے ، جنہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں اسلام کی اشاعت کی.مثلاً حضرت خواجہ فرید الدین صاحب نے سارے پنجاب میں اسلام پھیلایا.پھر آپ کے کچھ شاگردوں نے جنوبی ہندوستان میں لاکھوں لوگوں کو اسلام میں داخل کیا.جب آپ ہندوستان میں تشریف لائے تھے، اس وقت ہندوستان کی آبادی صرف ایک کروڑ تھی.لیکن تمہارے مقابلہ میں اب اڑھائی ارب لوگ ہیں، جن کو تم نے ہدایت کی طرف لانا ہے.اگر ہندوستان کے ایک کروڑ لوگوں کے لئے پانچویں، چھٹی صدی میں ایک معین الدین چشتی کی ضرورت تھی تو اب اڑھائی ارب لوگوں کے لئے دو سو سال تک بیسیوں معین الدین چشتی جیسے وجودوں کی ضرورت ہے.اور یہ بیسیوں معین الدین چشتی پیدا کرنے مشکل نہیں.بشرطیکہ تم اس کے لئے کوشش کرو اور تمہارا اپنا وقف ہی نہ ہو بلکہ تمہاری اولاد در اولاد میں وقف کا سلسلہ چلتا چلا جائے.تم اس وقت اپنی غربت کی طرف نہ دیکھو تم خدا تعالیٰ کی طرف دیکھو اور یا درکھو، وہ وقت آنے والا ہے، جب یہی غریب دنیا کے بادشاہ ہوں گے اور وقف نہ کرنے والوں کی آئندہ نسلیں ان پر لعنتیں بھیجیں گی اور کہیں گی ، خدا تعالیٰ ان کے باپ دادوں کا بیڑا غرق کرے کہ انہوں نے اپنی اولاد کو وقف نہ کیا.بلکہ وہ دعا کریں گے کہ خدا تعالیٰ ان کے باپ دادوں کو جہنم کے سب سے نچلے حصہ میں لے جائے کہ انہوں نے اپنی اولادکو دین کی خدمت میں نہ لگایا، بلکہ دنیا کمانے کی طرف لگا دیا.تم میری آواز سے سمجھ سکتے ہو کہ مجھے جوش آ گیا ہے اور جوش میں آنا میرے لئے مضر ہے.اس لئے میں انہی الفاظ پر اپنا خطبہ ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں خدمت دین کا جوش پیدا کرے.اور ان کا جوش قیامت تک بڑھتا چلا جائے.اور وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں، جب تک کہ وہ موجودہ اڑھائی ارب لوگوں کو اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو مسلمان نہ کر لیں.اور اس وقت تک سانس نہ لیں ، جب تک کہ دنیا کا ایک ایک آدمی کلمہ نہ پڑھ لے.اور ایک ایک آدمی محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجنے لگ جائے“.مطبوعه روزنامه الفضل 29 اکتوبر 1955 ء ) 538
تحریک جدید - ایک الہی تحر جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 07 اکتوبر 1955ء سلسلہ احمدیہ کا کام روپیہ سے بھی زیادہ انسانوں سے وابستہ ہے خطبہ جمعہ فرموده 07 اکتوبر 1955ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تحریک جدید کے لئے جماعت جتنار و پیہ دیتی ہے ، ضرورت تو اس سے بھی زیادہ روپیہ کی ہے، مگر پھر بھی کیا امیر اور کیا غریب سب لوگ اس کے لئے قربانی کر رہے ہیں.لیکن سلسلہ احمدیہ کا کام روپیہ سے بھی زیادہ انسانوں سے وابستہ ہے.اور انسان بھی ایسے، جو نیک اور صالح اور مخلص ہوں.دنیا میں جب کبھی خدا تعالٰی نے کوئی سلسلہ قائم کیا ہے، اس نے اسے انسانوں سے ہی چلایا ہے اور انسانوں کے ذریعہ ہی اسے ترقی دی ہے.چنا نچہ دیکھ لو، حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر انیس سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن آپ کے ماننے والوں میں اب بھی ایسے انسان پائے جاتے ہیں، جو آپ کے لائے ہوئے دین کی خاطر قربانیاں کرتے اور اس کی اشاعت کے لئے جوش رکھتے ہیں.اس وقت صرف ایک فرقہ کی طرف سے 56000 پادری کام کر رہا ہے.باقی فرقوں کے پادریوں کو ملائیں تو ان کی تعداد اس سے بہت زیادہ بن جاتی ہے.اور یہ پادری بھی صرف وہی ہیں، جو غیر ممالک میں کام کر رہے ہیں.اپنے اپنے ملک میں کام کرنے والے پادریوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے.اتنے آدمیوں میں جو جوش اور اخلاص پایا جاتا ہے ، وہ صرف حضرت مسیح علیہ السلام کے لائے ہوئے ، پیغام کی اشاعت کے لئے ہے.اسی طرح اسلام کی تبلیغ کے لئے ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے، جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل جائیں اور اسلام کی اشاعت کریں.پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ اخلاص، دیانت اور تقویٰ والے لوگ مرکز میں جمع ہوں اور انہیں مرکزی کاموں پر لگایا جائے.جو کام اس وقت ہمارے سامنے ہیں، وہ اتنا اہم اور اتنا عظیم الشان ہے کہ اگر ہزاروں سال تک اتقیاء صلحاء اور علماء ایک بہت بڑی تعداد میں اس کا بوجھ اٹھانے کے لئے اپنے کندھے اس کے نیچے نہیں رکھیں گے تو یہ کام پوری طرح سرانجام نہیں دیا جا سکے گا.اگر چند آدمی سلسلہ کی خدمت بجالانے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں تو یہ کام ممتد نہیں ہوگا اور 539
خطبه جمعه فرموده 07 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم ہماری جماعت بھی ایک انجمن بن کر رہ جائے گی.حالانکہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلوں کے کام انجمنوں کے ساتھ نہیں چلتے بلکہ خلفاء اور اس کے ساتھ کام کرنے والے اتقیاء صلحاء اور علماء کے ساتھ چلتے ہیں.وہ کام ایک ایسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، جو قیامت تک چلتی چلی جاتی ہے اور اس کے ہر فرد کے اندر نہ صرف یہ آگ لگی ہوئی ہوتی ہے کہ اس نے خود دین کی خدمت کرنی ہے بلکہ وہ مزید خدمت کرنے والے لوگ تیار کرتا ہے.ہمارے واقفین کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جس طرح ہر چندہ دینے والے کے لئے صرف خود چندہ دینا کافی نہیں بلکہ مزید چندے دینے والے تیار کرنے بھی ضروری ہیں.اس طرح ہر ایک واقف زندگی کے لئے مزید واقف زندگی تیار کرنے ضروری ہیں.اگر ہم ایسا کر سکیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اشاعت اسلام کا یہ اہم کام قیامت تک جاری رہ سکتا ہے.پھر یہ ضروری ہے کہ ان میں ہر ایک صلحاء اور اتقیاء کا طریق اختیار کرے اور دعاؤں میں لگ جائے.اور نہ صرف خود دعاؤں کی عادت ڈالے بلکہ یہ احساس دوسروں کے اندر بھی پیدا کرنے کی کوشش کرے.آج وہ لوگ بہت کم ہیں، جنہیں دعا ئیں کرنے کی عادت ہے.ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد ایسا ہو، جو راتوں کو جاگے اور خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ میں گر کر روئے اور سلسلہ کے لئے دعائیں کرے اور دن کے وقت استغفار اور ذکر الہی کرے.اور یہ عادت اس حد تک اپنے اندر پیدا کرے کہ خدا تعالیٰ کا الہام اور اس کا کلام اس پر نازل ہونے لگ جائے.دیکھو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جتنا تغیر دنیا میں پیدا کیا ہے ، وہ صرف کتابوں کے ذریعہ نہیں کیا بلکہ وہ تغیر اس طرح پیدا ہوا ہے کہ آپ نے رات دن اس کے لئے دعائیں کیں.جن کی وجہ سے آپ کے اندر خدا تعالیٰ کا نور پیدا ہو گیا.جو شخص اس نور کو دیکھتا تھا، اس کے اندرا شاعت اسلام کی آگ لگ جاتی تھی اور پھر وہ آگ آگے پھیلتی جاتی تھی.پس تم اس بات پر ہی خوش نہ ہو جاؤ کہ تم نے مولوی فاضل پاس کر لیا ہے یا شاہد کا امتحان پاس کر لیا ہے.بلکہ دعاؤں کی عادت ڈالو اور اتنی دعائیں کرو کہ رات اور دن تمہارا شیوہ ہی دعائیں کرنا ہو تم اٹھتے بیٹھتے ہوتے جاگتے ، چلتے پھرتے دعاؤں میں لگ جاؤ.اگر تمہارے کسی ساتھی کی طرف سے کوئی خرابی بھی پیدا ہوگی تو تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی دعا ئیں ، اس کا ازالہ کر دیں گی.جیسا کہ احباب کو معلوم ہے، کراچی سے ربوہ آکر میری طبیعت زیادہ کمزور ہوگئی ہے.کراچی میں طبیعت اچھی ہوگئی تھی.ویسے یورپ میں بھی گھبراہٹ اور بے چینی کے حملے ہوتے تھے مگر وہ حملے جلد 540
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبه جمعه فرموده 07 اکتوبر 1955ء دور ہو جاتے تھے.گھنٹے ، دو گھنٹے کے بعد ان حملوں کا اثر زائل ہو جاتا تھا.لیکن یہاں دن کے بعد دن ایسا گزرتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا سر میں ہتھوڑے چل رہے ہیں.صرف کل کا دن ایسا آیا ہے، جس میں، میں نے کسی قدر آرام محسوس کیا ہے، لیکن شام کے بعد طبیعت پھر خراب ہو گئی.تم نے دعاؤں اور گریہ وزاری کے ساتھ میری جان بچانے کی کوشش کی اور خدا تعالیٰ نے میری جان بچالی.مگر جب تک میری طبیعت بالکل درست نہ ہو جائے ، میرے لئے کام کرنا مشکل ہے.کیونکہ محض سانس لینے والا انسان کام نہیں کر سکتا.کام وہی کر سکتا ہے، جس کے دل کو اطمینان اور سکون نصیب ہو.پس دعائیں کرو، بلکہ دعاؤں کی اس طرح عادت ڈالو کہ تمہاری دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے عرش کے پائے بھی ہل جائیں.اور وہ اپنی رحمانیت کے ماتحت اپنے بنائے ہوئے قانون وسعت رحمتی کل شی کی وجہ سے تمہاری دعاؤں کو سنے اور دنیا میں اسلام کی اشاعت کی داغ بیل ڈالے.خلیل احمد ناصر مبلغ امریکہ، جو آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں، انہیں میں نے ایک دن پہلے بھی کہا تھا اور آج بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سفید لوگوں میں تبلیغ کی طرف زیادہ توجہ کریں.آج ہی مولوی نور الحق صاحب انور کا امریکہ سے خط آیا ہے کہ آپ نے تحریک فرمائی تھی کہ سفید لوگوں میں تبلیغ پر زور دیا جائے.خدا تعالی نے آپ کی اس توجہ کو قبول فرمایا اور اس نے ہماری مددفرمائی.چنانچہ آج میں کینیڈا کے ایک دوست کی بیعت کا خط بھیجتا ہوں.یہ دوست فوج میں ملازم ہیں اور سفید رنگ کے ہیں.مولوی نور الحق صاحب نے اس دوست کا فوٹو بھی ساتھ بھیجا ہے.غرض ان کے امریکہ واپس جانے سے پہلے ہی خدا تعالیٰ نے سفید لوگوں میں تبلیغ کے رستے کھول دیئے ہیں.اس نو مسلم دوست نے مولوی صاحب کو لکھا ہے کہ میں نے ابھی نماز کو ملی طور پر سیکھنا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ کسی معلم کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے.مگر آپ ابھی تک مجھ سے ملے نہیں کہ میں آپ سے نماز پڑھنا سیکھوں.مولوی صاحب نے اسے لکھا ہے کہ جب آپ کو فوج سے چھٹی ملے تو مجھے اطلاع دیں، میں فوراً آ جاؤں گا اور نماز کا طریق آپ کو بتا دوں گا.سودعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ پہلے تمہارے دل میں اسلام کو قائم کرے اور پھر تمہارے ذریعہ دوسرے لوگوں کے دلوں میں اسلام قائم کرے.تم اس وقت تک دم نہ لو، جب تک کہ تم میں سے ہر ایک واقف زندگی ہیں، ہیں اور واقف زندگی تیار نہ کرلے.اور پھر وہ ہیں ، ہیں واقف زندگی اس وقت تک دم نہ لیں ، جب تک کہ وہ آگے ہیں، ہیں واقف زندگی تیار نہ کریں.اسلام کی اشاعت کے لئے ہزاروں بلکہ لاکھوں مبلغوں کی ضرورت ہے.جب وہ لوگ تقویٰ اور اخلاص سے باہر نکلیں اور اسلام کی اشاعت کریں 541
خطبہ جمعہ فرموده 107اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم گے تو ساری دنیا اسلام کو قبول کرلے گی.اور دنیا سے کینہ، گپت اور شرارت کا بیج دور ہو جائے گا اور امن قائم ہو جائے گا.خدا تعالیٰ اس بارہ میں تمہاری مددفرمائے.یادرکھو چندے تبھی بڑھیں گے ، جب آدمیوں کی تعداد زیادہ ہو جائے.اور آدمیوں کی تعداد بھی زیادہ ہوگی، جب واقفین کی تعداد بڑھے اور ان کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ لوگ سلسلہ میں داخل ہوں.جب زیادہ سے زیادہ لوگ مسلمان ہو جا ئیں گے تو وہ چندے بھی دیں گے اور اس طرح اسلام کی اشاعت کا کام بڑھتا چلا جائے گا.اور آخر خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ دن بھی آجائے گا، جب ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام ہو گا “.( مطبوعه روزنامه الفضل 20 نومبر 1955 ء ) 542
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1955ء خاندانی طور پر اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرو خطبہ جمعہ فرمودہ 14اکتوبر 1955ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کام ہمارے سپرد کیا ہے یا یوں کہو کہ جو کام خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمارے سپرد کیا ہے، وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کا تصور کر کے بھی دل کانپ جاتا ہے.دنیا میں اس وقت دوارب غیر مسلم پائے جاتے ہیں اور ہمارے سپرد یہ کام ہے کہ ان دو ارب غیر مسلموں کو مسلمان بنادیں.گزشتہ تیرہ سوسال میں صرف پچاس کروڑ مسلمان ہوئے ہیں.گویا اس وقت چار غیر مسلم ایک مسلمان کے مقابل پر موجود ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کام 1300 سال میں ہمارے آباء و اجداد نے کیا ہے، اس سے چار گنا کام کی ہم سے امید کی گئی ہے.لیکن اس کے لئے وقت کا لحاظ رکھنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے.ورنہ غیر معین عرصہ میں تو بڑے بڑے مٹھن کام بھی ہو جاتے ہیں.مثلاً دریاؤں کا پانی ہی جب ایک لمبے عرصہ تک پہاڑوں پر گرتا رہتا ہے تو اس کی وجہ سے بڑی بڑی غاریں بن جاتی ہیں.اور جیالوجی والے کہتے ہیں کہ چونکہ دس دس ہیں ہمیں لاکھ سال بلکہ کروڑوں سال سے یہ پانی گرتا رہا ہے، اس لئے اب پہاڑوں میں بڑی بڑی غاریں بن گئی ہیں.مگر انسانی زندگی اور انسانی سکیمیں اتنی لمبی نہیں چلیں.یا کم از کم تاریخ ہمیں کسی اتنی لمبی زندگی یا اتنے لمبے عرصہ تک چلنے والی سکیم کا پتہ نہیں دیتی.دنیا میں لمبی سے لمبی تاریخ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دکھائی دیتی ہے.جن کے زمانہ پر قریباً چار ہزار کا عرصہ گزر چکا ہے.کیونکہ حضرت موسی علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام سے تیرہ سو سال قبل مبعوث ہوئے تھے.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوئی چھ ، سات سو سال قبل گزرے ہیں.گویا دو ہزار سال تو یہ ہو گئے ، پھر حضرت مسیح علیہ السلام سے اب تک قریباً دو ہزار سال اور گزرچکے ہیں.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ پر قریباً چار ہزار سال گزر جانے کے باوجود آپ کے ماننے والے اب تک دنیا میں موجود ہیں، جو آپ کے لائے ہوئے پیغام کو پھیلا رہے ہیں.بے شک وہ دنیوی لوگوں کی نگاہ میں پاگل ہوں لیکن ہماری نظر میں وہ بڑے مستقل مزاج ہیں.کیونکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چار ہزار سال قبل کے لائے ہوئے پیغام کو اب بھی پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں.543
خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم دوسرالمبا سلسلہ، جس کا تاریخ سے ہمیں پتہ لگتا ہے، حضرت مسیح علیہ السلام کا ہے.اس پر 1900 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.لیکن آپ کے ماننے والوں میں آج تک ایسے خدا کے بندے موجود ہیں، جو حضرت مسیح علیہ السلام کے لائے ہوئے دین کی تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے رہتے ہیں.اگر چہ ان میں جہالت کے ایسے زمانے بھی آئے ، جب وہ ننگے پھرتے تھے.اور پھر ایسے زمانے بھی آئے ، جب ان کے پاس بڑی مقدار میں دولت جمع ہوگئی.جیسے آج کل یورپ اور امریکہ کی حالت ہے.لیکن انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے لائے ہوئے پیغام کو پھیلانے کا کام ہر زمانہ میں جاری رکھا.نہ غربت میں انہوں نے تبلیغ کو چھوڑا اور نہ امارت میں تبلیغ سے عدم توجہی کی.نہ ماتحتی کے زمانہ میں انہوں نے اس کام کو ترک کیا اور نہ حکومت کے زمانہ میں وہ اس سے غافل ہوئے.یہی وجہ ہے کہ 1900 سال کے عرصہ میں انہوں نے مسلمانوں سے دگنے سے بھی زیادہ عیسائی بنالئے ہیں.اور اب بھی وہ اس کام میں برابر لگے ہوئے ہیں.حالانکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے با قاعدہ وقف کی تحریک جاری نہیں کی صرف اس قدر کہا تھا کہ تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو“.اور یہ کہ (مرقس باب 16 ، آیت 15 ) اپنی جان کا فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے اور نہ اپنے بدن کا کہ کیا پہنیں گے؟ (متی باب 6 آیت 25) عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے اس حکم کو نا اور انہوں نے ساری عمر دنیا میں تبلیغ شروع کر دی.اس کے مقابلہ میں ہمارے ہاں وقف پر خصوصیت کے ساتھ زور دیا گیا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اگر کسی شخص کو پچاس روپے بھی باہر زیادہ ملتے ہوں تو وہ دنیا کی طرف جھک جاتا ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے پوتے موجود ہیں، جو آٹھ آٹھ ، نو نو سو روپیہ کی خاطر وقف سے بھاگ گئے ہیں.پھر دوسرے لوگوں پر کوئی کیا گلا کر سکتا ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ احمدیت کو دنیا میں ضرور پھیلائے گا.اور اگر آپ کی اپنی نسل وقف سے بھاگے گی تو خدا تعالیٰ باہر والوں کو اس کی توفیق عطا فرمادے گا.اور وہ آپ کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیں گے.لیکن بد قسمت ہیں، وہ لوگ جو گھر میں آئی ہوئی برکت کو چھوڑتے ہیں.اور بدقسمت ہیں، وہ ماں باپ، جو اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کالڑ کا آٹھ سو یا نوسور و پیہ ماہوار کمارہا ہے.اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ دین سے بھاگ گیا ہے.کیا عیسائی 544
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1955ء مشنریوں میں ایسے لوگ موجود نہیں تھے، جو اگر دین کو چھوڑ کر دنیا کمانے لگ جاتے تو آٹھ ، نوسور و پیر ماہوار کی آمد پیدا کر لیتے.پادری قریباً سارے کے سارے ایسے خاندانوں میں سے ہیں کہ اگر وہ دنیاوی کاموں میں لگتے تو ہزاروں روپے ماہوار تنخواہ پاتے.لیکن انہوں نے دنیا کی بجائے دین کو تر جیح دی اور عیسائیت کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی بسر کر دی.ہماری جماعت کے افراد کو بھی غور کرنا چاہئے کہ وہ احمدیت کی اشاعت کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین سو سال میں احمد بیت ساری دنیا میں پھیل جائے گی.اگر ایک نسل کے ہیں سال بھی فرض کر لئے جائیں تو تم سمجھ سکتے ہو کہ 300 سال میں پوری پندرہ نسلیں آ جاتی ہیں.گویا اگر ہماری پندرہ نسلیں یکے بعد دیگرے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرتی چلی جائیں ، تب وہ کام پورا ہو سکتا ہے، جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے.مگر کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا یہ منشا تھا کہ اور لوگوں کی نسلیں تو اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور میری اپنی نسل وقف نہ کرے.آخر جو شخص دوسروں سے کوئی مطالبہ کرتا ہے، اس کی اپنی نسل سب سے پہلے اس مطالبہ کی مخاطب ہوتی ہے.لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی نسل بد عہدی کرے گی تو یقیناً خدا تعالیٰ دوسرے لوگوں میں سے اسلام کے بہادر ر اور جانثار سپاہی کھڑے کر دے گا.چنانچہ دیکھ لو، جب ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایسے مشرک پیدا ہوئے ، جنہوں نے کعبہ میں بھی سینکڑوں بت رکھ دیئے تو دوسرے طرف عراق کے علاقہ میں حضرت امام ابوحنیفہ اور جنید بغدادی جیسے بزرگ پیدا ہوئے، جنہوں نے دین کی بڑی خدمت کی.اسی طرح ایک دوسرے ملک سے حضرت معین الدین صاحب چشتی آگئے اور انہوں نے اسلام پھیلا دیا.پس جہاں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کو توجہ دلاتا ہوں ، وہاں میں جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ تمہیں یکے بعد دیگر ے کم از کم اپنی پندرہ نسلوں کو وقف کرنا ہو گا.لیکن تم تو ابھی سے گھبرا گئے ہو اور ابھی سے تمہارا یہ حال ہے کہ جو شخص دین کی خدمت کے لئے آتا ہے، اس کو یہ خیال آتا ہے کہ اس کا گزارہ کیسے ہوگا ؟ سیدھی بات ہے کہ روپیہ ہوگا تو گزارہ ملے گا.اور روپیہ اسی وقت آئے گا، جب نئے احمدی بنیں گے.تم پچاس لاکھ احمدی لے آؤ تو تمہارے گزارے خود بخود بڑھ جائیں گے.بہرحال دنیا اس وقت اسلام کی آواز سننے کی منتظر ہے.اور اس کے لئے ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے، جو دین کی خدمت کے لئے آئیں اور اپنی زندگیاں اس کام کے لئے وقف کریں.اسی طرح 545
خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اس کے لئے مرکز کی مضبوطی کی بھی ضرورت ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہمارا مرکز ابھی تک ان اصول پر آباد نہیں ، جن اصول پر دوسرے شہر آباد ہوتے ہیں.دوسرے شہر خود اپنی ذات میں قائم ہوتے ہیں، مثلاً لائل پور ہے، سرگودھا ہے، ان شہروں میں کچھ کا رخانے ہیں اور کچھ بڑی زمینداریاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ اپنی ذات میں قائم ہیں.لیکن ربوہ میں نہ کارخانے ہیں اور نہ زمینداریاں ہیں.جتنی دیر تک جماعت چندہ دیتی چلی جائے گی ، یہاں انسٹی ٹیوشنز چلتی رہیں گی ، سکول اور کالج قائم رہیں گے اور اگر خدانخواستہ جماعت چنده دینے میں سستی دکھائے تو یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی.ابھی ہماری جماعت میں حضرت معین الدین صاحب چشتی جیسے لوگ پیدا نہیں ہوئے ، جو کہیں چلو فاقہ ہے تو فاقہ ہی سہی.اور نہ ہی جماعت میں ایسی عورتیں ہیں، جو فاقہ زدہ مردوں کے ساتھ نباہ کر سکیں.بلکہ اگر کوئی مرد دین کے لئے فاقہ پر آمادہ بھی ہو جائے تو اس کی عورت فوراً کہہ اٹھے گی تو احمق ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے بعض افراد نوکریوں کے پیچھے پھر رہے ہیں تو تو کیوں یہاں بیٹھا ہے؟ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتوں سے بھی زیادہ عقلمند ہے؟ بے شک ہماری جماعت میں ایسے بھی نوجوان ہیں، جو اس قسم کی بیویوں کو جواب دیں گے کہ تو شیطان ہے، جو مجھے دین کی خدمت سے روک رہی ہے.کیا تو مجھ کوبھی جہنم میں گرانا چاہتی ہے؟ لیکن اس قسم کے نوجوان اور اس قسم کی عورتیں جماعت میں کتنی ہیں؟ اگر جماعت میں حضرت خدیجہ جیسی عورتیں ہوں، جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کہا تھا کہ كلا والله ما يخزیک الله ابداً.انک لتصل الرحم وتحمل الكل و تكسب المعدوم تقرى الضيف وتعين على نوائب الحق.( بخاری باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) یعنی آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، خدا تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.آپ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں، بے کس و بے مددگار لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، وہ اخلاق، جو دنیا سے مٹ چکے ہیں ، وہ آپ کی ذات کے ذریعہ دوبارہ قائم ہورہے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں.تو یہ عارضی مصائب یقیناً دور ہو جائیں.اور جماعت کی قربانیوں کا معیار بہت بڑھ جائے.پچھلے دنوں مجھے ایک بڑی خوشکن خبر معلوم ہوئی ، ہمارے دفتر والے بعض دفعہ بیرونی مبلغین کو خرچ بھیجنے میں ستی کر جاتے ہیں اور باہر کام کرنے والوں پر ظلم کرتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض 546
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 14 اکتوبر 1955ء اوقات ایچینج نہیں ملتا.لیکن اگر باہر کی جماعتیں کوشش کریں تو ایھینچ حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی.بہر حال ہمارے باہر کام کرنے والے مبلغین کو بعض اوقات کئی کئی ماہ تک خرچ نہیں جاتا.ہمارا اس وقت جرمنی کا جو مبلغ ہے، وہ تو اپنے آپ کو ولی اللہ نہیں سمجھتا لیکن میں اسے ولی اللہ سمجھتا ہوں.اس کی صحت خراب ہے، انتڑیاں کمزور ہیں اور ذرا سے صدمہ سے اس کی بھوک بند ہو جاتی ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جرمنی میں جو احمدی ہو رہے ہیں ، وہ خدا تعالیٰ خود اس کی طرف لا رہا ہے.ورنہ اس کے جسم میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ زیادہ کام کر سکے.ایک دفعہ دفتر والوں نے اسے خرچ نہ بھیجا، جس کی وجہ سے وہ مکان کا کرایہ ادا نہ کر سکا.گورنمنٹ نے اسے مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا.جرمنی میں مکانوں کی بہت کمی ہے، کیونکہ پچھلی جنگ میں اکثر مکانات گر گئے تھے.گورنمنٹ کی طرف سے نوٹس ملنے کی وجہ سے ہمارا مبلغ بہت غمگین ہوا، اس کی بھوک بند ہوگئی، انتڑیاں پہلے ہی خراب تھیں، اس لئے فاقہ کی وجہ سے اس کی صحت اور کمزور ہوگئی.اس کی بیوی جو قریب عرصہ میں غیر احمدی تھی لیکن اب نہایت اخلاص رکھتی ہے، اس کے پاس گئی اور کہنے لگی ، جب تم نے وقف کیا تھا تو ان سب مصائب اور مشکلات کو سامنے رکھ کر کیا تھا، پھر اب گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ باہر جاؤ اور کسی دوست سے کچھ دنوں کے وعدہ پر رقم لے آؤ اتنے میں خرچ بھی آجائے گا.اس پر اسے کچھ تسلی ہوئی.کھانا کھایا اور پھر کسی دوست سے قرض کے حصول کی کوشش کے لئے باہر چلا گیا.ان ممالک میں قرض ملنا مشکل ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ایک جرمن دوست نے مکان کا کرایہ دے دیا اور تین دن کے بعد مرکز سے بھی خرچ پہنچ گیا اور کرایہ کی رقم اس جرمن دوست کو واپس کر دی گئی.جرمن میں ایک ہندو ڈاکٹر مجھے ایک اور ڈاکٹر کے پاس معائنہ کے لئے لے جا رہا تھا ، وہ 26 سال سے وہاں رہتا ہے.اس نے مجھے کہا کہ میں پہلے دہریہ تھا، اب میں اسلام کی طرف مائل ہوں.میں نے کہا، میں تو تب مانوں، جب تم پورے مسلمان ہو جاؤ.وہ کہنے لگا ، اگر ان مولوی صاحب کی صحبت میں رہا تو پورا مسلمان بھی ہو جاؤں تو کوئی تعجب کی بات نہیں.انہی سے مل کر میرے خیالات تبدیل ہوئے ہیں.بہر حال جرمنی کے مبلغ گو جسمانی لحاظ سے کمزور ہیں، مگر نہایت مخلص ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت پیدا کر رہا ہے.ہالینڈ میں مولوی غلام احمد صاحب بشیر ہیں، ان کی یہ حالت ہے کہ ہمیں سفر یورپ میں ایک ڈرائیور کی ضرورت تھی، چنانچہ ہم نے ہالینڈ سے چند ہفتوں کے لئے ایک نو مسلم ڈرائیور منگوایا ، وہ ڈچ کہلاتا تھا، لیکن دراصل انڈونیشیا کا رہنے والا تھا.وہ کہنے لگا، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم اسلام کی تبلیغ کرتے 547
خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1955ء دوسر.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہیں، لیکن پھر بھی 1953ء میں پاکستانی مسلمان ہمیں مارتے تھے.میں نے کہا، دراصل احمدیوں کی تعداد ے مسلمانوں کی نسبت بہت تھوڑی ہے، لیکن چونکہ ہماری جماعت روز بروز ترقی کر رہی ہے، اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ ہم ابھی سے ان کو ختم کر دیں.ورنہ جب ان کی تعداد زیادہ ہو جائے گی تو انہیں ختم کرنا مشکل ہو گا.تمہارے ہاں بھی اگر جماعت کچھ زیادہ ہوگئی اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ یہاں بڑھتے چلے جائیں گے تو وہ مولوی غلام احمد بشیر کو مار دیں گے.اس پر اس نے بڑے جوش سے کہا، مولوی غلام احمد بشیر کو کون مارسکتا ہے؟ وہ تو محبت کے قابل ہے، کوئی شخص اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا.میں نے کہا، انسان جب غصہ میں آتا ہے تو محبت اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے.پس میں جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چندے وسیع کرو، تا تبلیغ کو وسیع کیا جاسکے.اسی طرح ربوہ کو آباد کرنے کی کوشش کرو.میں دیکھتا ہوں کہ کئی مکانوں کی جگہیں ابھی خالی پڑی ہیں اور کئی تعمیر شدہ مکان ایسے ہیں ، جن میں اس وقت کوئی نہیں بستا.اس کے علاوہ ربوہ کو شہریت دینے کی کوشش کرو.اب تو جو لوگ یہاں آباد ہیں، وہ مجاور قسم کے ہیں.یعنی یہاں بسنے والے زیادہ تر سلسلہ کے کارکن ہیں، جن کا گزارہ چندوں پر ہے.شہروہ ہوتا ہے، جس کے اکثر رہنے والے خود کمائی کرتے ہوں اور چندوں پر ان کا انحصار نہ ہو.ورنہ اگر کسی حادثہ کی وجہ سے خدانخواستہ رستے رک جائیں گے اور چندوں کی آمد میں کمی واقع ہو جائے تو آبادی کے گزارہ کی کوئی صورت نہ رہے.مثلاً ابھی سیلاب آیا ہے، اس کی وجہ سے اگر خدانخواستہ چندوں کی آمد میں کمی واقع ہو جائے تو مرکزی ادارے اپنے کارکنوں کو تنخواہیں بھی نہیں دے سکتے.لیکن اگر ربوہ میں رہنے والوں میں سے اکثر لوگ ایسے ہوں، جو مختلف کام کرنے والے ہوں اور وہ اپنی کمائی خود کرتے ہوں تو ایسی مشکلات کا وقت بھی آسانی سے گزرسکتا ہے.لائل پور اور سرگودھا وغیرہ شہروں کے رہنے والوں کا گزارہ منی آرڈروں پر نہیں بلکہ وہاں رہنے والے افراد کی تجارتوں اور کارخانوں وغیرہ پر ہے.لیکن ربوہ میں رہنے والوں کا گزارہ منی آرڈروں پر ہے.باہر سے روپیہ آتا ہے تو ہم اپنے کارکنوں کو تخوا ہیں دیتے ہیں.پس جہاں میں ایک طرف جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ چندوں کو بڑھائے ، چندے بڑھیں گے تو سلسلہ کا کام بڑھے گا ، وہاں میں باہر کے دوستوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مرکز میں آئیں اور یہاں مختلف صنعتیں جاری کرنے کی کوشش کریں.اسی طرح میں بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مبلغین سے کہتا ہوں کہ وہ بھی چندہ بڑھانے کی کوشش کریں.یہی غلام احمد بشیر ( مبلغ ہالینڈ ، جس کی میں نے ابھی تعریف کی ہے، اس کے متعلق چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے بتایا ہے کہ وہ نومسلموں سے 548
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود و 14 اکتوبر 1955ء چندہ نہیں لیتا.چودھری صاحب نے کہا کہ میں نے اس سے کہا ہے کہ میں تو ان نو مسلموں کو اس وقت احمدی سمجھوں گا ، جب وہ با قاعدہ چندہ دیں گے.لیکن وہ ہر دفعہ یہ عذر کر دیتا ہے کہ یہ لوگ مالی لحاظ سے کمزور ہیں اور چندہ دینے کے قابل نہیں.میرے نزدیک چودھری صاحب کی بات بالکل درست ہے.ہمارے مبلغین کو نو مسلموں سے چندہ لینے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے جرمنوں کو دیکھا ہے کہ وہ چندے دیتے ہیں.ایک شخص میری آمد کے متعلق خبر پاکر دو سو میل سے چل کر مجھے ملنے آیا.چودھری عبداللطیف صاحب مبلغ جرمنی نے مجھے بتایا کہ وہ جب سے احمدی ہوا ہے، اڑھائی پونڈ ماہوار با قاعدہ چندہ دیتا ہے.پس اگر ہمارے مبلغین نو مسلموں کو چندہ دینے کی عادت ڈالیں گے تو انہیں عادت پڑ جائے لی.چاہے ابتدا میں وہ ایک ایک آنہ ہی چندہ کیوں نہ دیں؟ اگر وہ ایک ایک آنہ بھی چندہ دینا شروع کر دیں گے تو آہستہ آہستہ انہیں اس کی عادت پڑ جائے گی.اور پھر زیادہ مقدار میں چندہ دینا ، انہیں دو بھر معلوم نہیں ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات اور کتا بیں نکال کر دیکھ لو تمہیں ان میں یہ الفاظ دکھائی دیں گے کہ فلاں دوست بڑے مخلص ہیں، انہوں نے ایک آنہ یا دو آنہ ماہوار چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے.لیکن پھر وہی لوگ بڑی بڑی مقدار میں چندے دینے لگ گئے تھے.ہمارے ے مبلغین کو بھی چاہئے کہ وہ بھی نو مسلموں سے چندہ لینے کی کوشش کریں.مشرقی افریقہ اور مغربی افریقہ اور دمشق والے احمدیوں کی حالت نسبتاً اچھی ہے.دمشق کی جماعت بڑے اخلاص اور ہمت سے کام کر رہی ہے.پھر جماعتوں کو چاہئے کہ وہ نو جوانوں کو یہاں بھجوائیں، جو یہاں رہ کر تعلیم حاصل کریں اور مرکزی اداروں میں کام کریں.دیکھ لو، بیماری سے پہلے مجھ میں کس قدر ہمت ہوا کرتی تھی.میں اکیلا دس آدمیوں سے بھی زیادہ کام کر سکتا تھا.لیکن اب ایک آدمی کے چوتھائی کام کے برابر بھی نہیں کر سکتا.اسی طرح یہ ناظر بھی انسان ہی ہیں، ان کو بھی بیماری لگ سکتی ہے اور کام کے ناقابل ہو سکتے ہیں.پس باہر سے نو جوانوں کو یہاں آنے کی کوشش کرنی چاہئے.بلکہ بہتر ہوگا کہ مختلف ممالک کے لوگ یہاں آئیں اور انجمن کا کام سنبھالیں.تا ہماری مرکزی انجمن، انٹرنیشنل انجمن بن جائے ، صرف پاکستانی نہ رہے.دینی لحاظ سے بے شک پاکستان کے لوگ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں لیکن اگر ان کے ساتھ ایک، ایک ممبر نائیجیریا، گولڈ کوسٹ، امریکہ، مشرقی افریقہ، ہالینڈ، جرمنی اور انگلینڈ وغیرہ ممالک کا بھی ہو تو کام زیادہ بہتر رنگ میں چل سکتا ہے.جب یہ لوگ یہاں آکر کام کریں گے تو باہر کی جماعتوں کو اس طرف زیادہ توجہ ہوگی.اور وہ سمجھیں گی کہ مرکز میں جو انجمن کام کر رہی ہے، وہ صرف پاکستان کی جماعتوں کی انجمن نہیں بلکہ ہماری بھی انجمن ہے.549
خطبہ جمعہ فرمود و 14 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم پس چندوں کو زیادہ کرو اور ان طوفانوں سے مایوس نہ ہو.بلکہ پہلوانوں کی طرح کام میں لگ جاؤ.اور جہاں جہاں پانی خشک ہوتا ہے، وہاں فورا کھیتوں میں ہل چلا دو.تا تمہاری آئندہ آمد نہیں پہلے سے بھی بڑھ جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ چندے بھی بڑھ جائیں.جب مرکز مضبوط ہوگا اور بیرونی مبلغین کو بھی خدا تعالیٰ اس بات کی توفیق دے دے گا کہ وہ نو مسلموں سے چندے لیں تو سلسلہ تبلیغ وسیع ہو جائے گا.جب بھی دنیا میں کوئی مذہبی تحریک چلی ہے، اس کے ابتدائی مبلغ اسی ملک کے ہوتے ہیں، جس میں وہ تحریک ابتداء شروع ہوتی ہے.چنانچہ دیکھ لو، اسلام کے پہلے مبلغ عرب ہی تھے.لیکن اس کے بعد ایرانی اور عراقی آگئے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت شروع کی.حضرت معین الدین صاحب چشتی ، شہاب الدین صاحب سہروردی، بہاؤ الدین صاحب نقشبندی ، سب دوسرے ممالک کے تھے ، جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اسلام کی بڑی خدمت کی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد بھی پچاس، ساٹھ سال تک عیسائیت کو پھیلانے والے ان کے اپنے علاقہ کے ہی مبلغ تھے.لیکن بعد میں اور علاقوں میں بھی مبلغ پیدا ہو گئے اور آپ کے سو سال کے بعد تو سارے مبلغ اٹلی کے ہی تھے.پھر جرمنی اور انگلینڈ سے بھی کئی مبلغین اشاعت عیسائیت کے لئے آگے آگئے.پس جب تک مبلغین نومسلموں کو چندہ دینے اور وقف کرنے کی عادت نہیں ڈالیں گے ، یہ کام کر لمبے عرصہ تک نہیں چل سکتا، جو کام ہمارے سپرد ہے.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر بتایا ہے کہ تین سو سال کے اندر اندر مکمل ہو جائے گا.لیکن ایسا تبھی ہو سکتا ہے، جب ہم اولا و در اولاد کو وقف کریں اور اولا دور اولاد کو اسلام کی اشاعت کا فرض یاد دلاتے جائیں.اگر یہ روح ہمارے اندر پیدا ہو جائے تو ہمارے لئے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.لیکن اگر ہمیں یہ نظر آئے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے بعض افراد دنیا کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں تو طبیعت بے چین ہو جاتی ہے.آخر دین کو نظر انداز کر کے دنیا کے پیچھے لگ جانا کون سی عقلمندی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ہمارے لئے ایک طیب غذا لے کر آئے تھے لیکن آپ کی اپنی نسل میں سے کچھ لوگ اس روحانی غذا کو چھوڑ کر مادی لذائذ کی طرف مائل ہورہے ہیں.اگر دنیا کمانا ہی ضروری ہے تو جس شخص کو یہاں آٹھ ، نوسوروپے ماہوارمل رہا ہے، وہ اگر امریکہ چلا جائے تو اسے وہاں اڑھائی ، تین ہزار ما ہوا مل سکتا ہے.لیکن اگر یہاں رہ کر اسے دو اڑھائی سو روپیہ ماہوار بھی ملتا تو کم از کم وہ روحانی طور پر اپنے دادا کا پوتا تو ہوتا.مگر اب تو وہ آپ کی روحانی نسل سے منقطع ہو گیا ہے.اور جو بھی خدا تعالیٰ کے دین 550
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 1955ء کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی وقف نہیں کرے گا، وہ آپ کی نسل میں سے ہوتے ہوئے بھی روحانی طور پر آپ کی طرف منسوب نہیں ہو سکے گا.اسی طرح میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ربوہ کو آباد کرنے کی کوشش کرو.اس وقت ہمارے سامنے دو کام ہیں.اگر ایک طرف ہم نے ربوہ کو آباد کرتا ہے تو دوسرے طرف ہم نے قادیان کو آباد کرنا ہے.میں نے اپنے ایک لڑکے کو قادیان میں چھوڑا تھا اور اس نے بہت اخلاص بھی دکھایا.جب دوسرے لوگ قادیان سے بھاگ آئے تو وہ وہیں رہا.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس میں ایسی ہمت نہیں کہ وہ فاقہ میں رہ کر بھی کام کرنے کے لئے تیار ہو.اگر وہ فاقہ میں رہ کر کام کرنے کے لئے تیار ہوتا یا روزی کمانے کی کوئی صورت نکال لیتا تو میں سمجھتا کام چلتا چلا جائے گا.لیکن مجھے یہ دونوں چیزیں نظر نہیں آتیں.نہ مجھے یہ نظر آتا ہے کہ وہ فاقہ میں رہ سکتا ہے اور نہ وہ اپنی آمد پیدا کرنے کی کوئی کوشش کر رہا ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی وقت بھی اسے اخراجات کے لئے روپیہ نہ ملے تو اس کا وہاں قیام مشکل ہو جائے گا.حالانکہ ہم نے اسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح وہاں اس لئے رکھا ہے تا کہ وہ قادیان کو آباد کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیش گوئیاں اس کے ذریعہ پوری ہوں.ہم جور بوہ کو آباد کر رہے ہیں، ہمارا یہ کام مظلی ہے حقیقی کام اسی کا ہے، بشرطیکہ وہ سلسلہ کی خدمت کرتے ہوئے ہر مشکل برداشت کرنے کے لئے تیار ہو.میں جماعت کو ایک یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ پرانے زمانہ میں تنخواہ دار مبلغ نہیں ہوتے تھے بلکہ لوگ خود ان کی ضروریات کا فکر رکھتے تھے.اس زمانہ میں ہمارے سب مبلغ تنخواہ دار ہیں.لیکن صرف تنخواہ دار مبلغوں کے ذریعہ تبلیغ کو ساری دنیا میں وسیع نہیں کیا جاسکتا.ساری دنیا میں تبلیغ اسی صورت میں ہو سکتی ہے، جب جماعت خودان کا خیال رکھے.عیسائی اب تک اپنے پادریوں کی خدمت کرتے چلے آتے ہیں.آپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ ان کی خدمت کریں.میں سمجھتا ہوں اگر ہر کمانے والا احمدی ربوہ میں رہنے والے کارکنوں یا باہر کام کرنے والے مبلغوں کے لئے اپنی آمد کا ایک فی صدی بھی ریز رو کر دے تو ہر سو آدمی ، ربوہ میں بسنے والے، ایک کارکن یا با ہر کام کرنے والے ایک مبلغ کا گزارہ چلا سکتے ہیں.اور پھر جوں جوں جماعت بڑھتی چلی جائے گی، بوجھ اٹھانے والے بھی زیادہ ہوتے جائیں گے اور اس طرح زیادہ کارکنوں کا بوجھ اٹھایا جا سکے گا.اگر ایک لاکھ احمدی کمانے والے ہوں تو ایک ہزار مبلغوں اور کارکنوں کا گزارہ چلایا جاسکتا ہے.پرانے زمانہ میں لوگ اسی طرح کرتے تھے اور وہ سمجھتے تھے ، ہم ان کی خدمت کریں گے تو خدا تعالیٰ ہماری آمد میں برکت پیدا کرے گا اور ہماری مشکلات کو دور کرے گا.اگر جماعت 551
خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم کے دوست اس طرف توجہ کریں تو ہماری تمام مشکلیں دور ہو سکتی ہیں.مثلاً ایک لاکھ کمانے والے ہوں تو ایک ہزار مبلغ کا گزارہ چل سکتا ہے.اور لاکھ سے تو اب بھی ہماری جماعت کے دوست بہت زیادہ ہیں.اگر دس لاکھ احمدی ہوں تو دس ہزار مبلغوں اور کارکنوں کا گزارہ چل سکتا ہے، بشرطیکہ ہر کمانے والا 99 فیصدی آمد اپنے گزارے اور چندوں کے لئے رکھے اور ایک فی صد سلسلہ کے کارکنوں اور مبلغوں کے لئے ریز رو کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ایسے لوگوں کا نام اصحاب الصفہ“ رکھا ہے.یعنی وہ لوگ ، جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر ڈال دیا.ایسے لوگوں کی خدمت خود اپنی ذات میں بہت بڑے ثواب کا موجب ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے، چونکہ میں بیمار ہوں، اس لئے بعض دفعہ کوئی غریب بیوہ عورت ایک چوزہ ہی لے آتی ہے اور کہتی ہے ، حضور ! اسے قبول فرمائیں.اور وہ اس خدمت سے خوشی محسوس کرتی ہے.اسی طرح اگر جماعت کے اندر یہ روح پیدا ہو جائے کہ ان کے اموال میں دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرنے والوں کا بھی حق ہے تو ہماری بہت سے مشکلات آپ ہی آپ حل ہو جا ئیں اور تبلیغ کا دائرہ پہلے سے بہت زیادہ وسیع ہو جائے.پس تم اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرو اور پھر نسلا بعد نسل وقف کرتے چلے جاؤ.میں نے کراچی میں تحریک کی تھی کہ دوست خاندانی طور پر اپنی زندگیاں وقف کریں.یعنی ہر شخص یہ اقرار کرے کہ میں اپنے خاندان میں سے کسی نہ کسی فرد کو دین کی خدمت کے لئے ہمیشہ وقف رکھوں گا.وہی تحریک میں اب بھی کرتا ہوں اور جماعت سے خاندانی طور پر کسی نہ کسی فرد کو وقف کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں.اگر جماعت اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو اللہ کے فضل سے وقف کی ایک رو پیدا ہو جائے گی.اور ہمیں کثرت سے واقفین ملنے لگ جائیں گے.اب تو یہ حالت ہے کہ اگر ایک نوجوان اپنی زندگی وقف کرتا ہے تو دوسرا اپنی حماقت سے اسے روکنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.اگر خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو زیادہ کر دے تو ان واقفین کا گزارہ چلانا مشکل نہیں ہوگا.کیا تم جانتے ہو کہ عیسائیوں نے پوپ کے گزارہ کے لئے کیا انتظام کر رکھا ہے؟ انہوں نے اس کے لئے ایک عجیب انتظام کیا ہوا ہے.مسلمانوں میں تو نذرانہ اور تحفہ کا رواج ہے.اور اسلام کی یہی تعلیم ہے کہ اگر بغیر سوال کرنے کے کوئی شخص ہدیہ یا نذارنہ دے تو اسے قبول کر لینا چاہئے ، اس میں برکت ہوتی ہے.لیکن عیسائیوں نے پوپ کے لئے یہ طریق جاری کیا ہوا ہے کہ ہر عیسائی سال میں ایک پینی (Penny) پوپ کو دیا کرے.پادری سب کو بلاتا ہے اور ان سے پوپ کی ایک پینی مانگتا ہے اور اس طرح ایک بہت بڑی رقم 552
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اکتوبر 1955ء جمع ہو جاتی ہے.اس وقت دنیا میں قریباً 33 کروڑ کیتھولک ہیں.اگر وہ سب ایک، ایک پینی دیں تو قریباً چودہ لاکھ پونڈ رقم بن جاتی ہے، جو پوپ کو پیش کی جاتی ہے اور وہ بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے.پس خاندانی طور پر اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرو اور عہد کرو کہ تم اپنی اولا دور اولاد کو وقف کرتے چلے جاؤ گے.پہلے تم خود اپنے کسی بچے کو وقف کرو، پھر اپنے سب بچوں سے عہد لو کہ وہ اپنے بچوں میں سے کسی نہ کسی کو خدمت دین کے لئے وقف کریں گے.اور پھر ان سے یہ عہد بھی لو کہ وہ اپنے بچوں سے عہد لیں گے کہ وہ بھی اپنی آئندہ نسل سے یہی مطالبہ کریں گے.چونکہ اگلی نسل کا وقف تمہارے اختیار میں نہیں ، اس لئے صرف تحریک کرنا تمہارا کام ہو گا.اگر وہ نہیں مانیں گے تو یہ ان کا قصور ہو گا، تم اپنے فرض سے سبکدوش سمجھے جاؤ گے.اگر تم یہ کام کرو گے اور یہ روح جماعت میں نسلاً بعد نسل پیدا ہوتی چلی جائے گی اور ہر فرد یہ کوشش کرے گا کہ اس کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں واقف زندگی دین کی خدمت کے لئے مہیا ہو جائیں گے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کی تحریک فرمائی ہے.تمہیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ تم میں ہر شخص وصیت کرے اور پھر اپنی اولاد کے متعلق بھی کوشش کرے کہ وہ بھی وصیت کرے اور وہ اولاد اپنی اگلی نسل کو وصیت کی تحریک کرے.یہ بھی دین کی خدمت کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہے.اگر ہم ایسا کر لیں تو قیامت تک تبلیغ اور اشاعت کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے.پھر جتنی تدبیریں ہم کرتے ہیں، ان میں کوئی نہ کوئی رخنہ باقی رہ جاتا ہے لیکن خدا تعالی کی تدبیر میں کوئی رخنہ نہیں ہوتا.اس لئے اصل چیز یہ ہے کہ تم دعائیں کرو اور اس خطبہ کو بار بار پڑھو.اور اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں، انہیں یا درکھو.اور اگر چہ یہ مختصر سا خطبہ ہے، لیکن اگر چاہو تو اس میں سے بھی جو بات تمہیں زائد معلوم ہو، اسے کاٹ دو اور باقی مختصر حصہ کو چھپوا کر جماعت میں کثرت سے پھیلاؤ.تا کہ ہر فرد کے اندر بیداری پیدا ہو.میں نے جماعت کے اندر جو وقف کی تحریک شروع کی ہے، اس کے بعد میرے پاس تین درخواستیں آئی ہیں.ایک تو میرے پوتے مرزا انس احمد کی ہے، جو عزیزم مرزا ناصر احمد کا لڑکا ہے.اللہ تعالیٰ اسے اپنی نیت کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.انس احمد نے لکھا ہے کہ میرا ارادہ تھا کہ میں قانون پڑھ کر اپنی زندگی وقف کروں لیکن اب آپ جہاں چاہیں مجھے لگا دیں، میں ہر طرح تیار ہوں.ایک درخواست ماسٹر سعد اللہ صاحب کی آئی ہے.انہوں نے کہا کہ میں نے ایم.اے کا امتحان دیا ہوا ہے، اس میں کامیاب 553
خطبه جمعه فرمود و 14 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم ہونے کے بعد آپ جہاں چاہیں مجھے لگا دیں.میری درخواست باہر کے ایک لڑکے کی ہے، جو بھی چھوٹی جماعت کا طالب علم ہے.میں نے اسے کہا ہے کہ وہ میٹرک پاس کر کے جامعہ میں داخلہ لے.کیونکہ جب تک جامعہ میں زیادہ طالب علم نہیں آئیں گے، اس وقت تک شاہد بھی زیادہ تعداد میں نہیں نکل سکتے.ہمارے سکول کے اساتذہ کو چاہئے کہ وہ لڑکوں میں وقف کی تحریک کریں اور انہیں سمجھائیں کہ تمہارا اعلی گزارہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے.اگر تم باہر جاؤ گے اور تبلیغ کرو گے تو تمہاری تبلیغ کے نتیجہ میں جماعت بڑھے گی.اور جماعت کے بڑھنے سے چندے زیادہ ہوں گے.اور چندے زیادہ آئیں گے تو تمہارے گزارے بھی زیادہ اعلیٰ ہوں گے.اگر یورپ کا کوئی حصہ ہی احمدی ہو جائے تو جماعت کے چندے کئی گنا بڑھ سکتے ہیں.پس سکول کے اساتذہ اپنے سکول کے لڑکوں کو سمجھائیں اور پروفیسر کالج کے لڑکوں کو سمجھا ئیں.اور باہر کے مبلغ اپنی اپنی جماعتوں میں چندہ دینے اور زندگی وقف کرنے کی تحریک کریں.اس طرح چند مہینوں میں ہی کام کی رفتار تیز ہوسکتی ہے اور یہ صدی ہر قسم کے شیطانی حملوں سے محفوظ ہو سکتی ہے.پھر جوں جوں جماعت بڑھے گی ، خدا تعالیٰ اپنے فضل سے آئندہ بھی اس میں جوش پیدا کرتا چلا جائے گا“.( مطبوعه روز نامه الفضل 25 نومبر 1955ء) 554
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 1955ء ينصرك رجال نوحى اليهم من السماء خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1955 سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں دوستوں کو آج پھر وقف دائگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.جن لوگوں کے بچے اعلیٰ تعلیم پا جاتے ہیں، ان کو تو باہر کی نوکریوں کی سوجھتی ہے اور جن لوگوں کے بچے تعلیم نہیں پاسکتے ، وہ عصمت بی بی از بے چارگی کے مطابق سلسلہ کی خدمت کے لئے آجاتے ہیں.مگر ہر شخص کی قابلیت الگ الگ ہوتی ہے.بے شک ان لوگوں میں سے بھی ایسے افراد نکلتے ہیں، جو نہایت چوٹی کے عالم ہوتے ہیں اور ہم ان سے بجا طور پر یہ امید رکھتے ہیں کہ جب بھی سلسلہ کے لئے قربانی اور نقطه مرکزیہ کی ضرورت ہوگی ، وہ اپنے آپ کو آگے لے آئیں گے.اور جماعت کو اکٹھا کرنے اور اسے انشقاق سے بچانے کی پوری کوشش کریں گے.لیکن اگر وہ لوگ بھی آگے آتے، جن پر اللہ تعالیٰ نے دوہرا احسان کیا ہے، اس نے انہیں کھانے پینے کے لئے وافر دیا ہے تو نور علی نور ہو جاتا ہے.کیونکہ ایسے لوگ اپنے ارد گرد کے دوسرے لوگوں پر بھی اچھا اثر ڈال سکتے تھے.مگر میں یہ کہہ کر اس طبقہ کی ہتک نہیں کر رہا، جو غرباء میں سے ہے.بلکہ وہ زیادہ تعریف کے مستحق ہیں.کیونکہ وہ اپنی تنگی کی وجہ سے کہہ سکتے تھے کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے سے معذور ہیں.لیکن وہ تنگ دستی کے باوجود آگے آئے اور سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنی جانیں پیش کر دیں.گویا ایک وہ ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ نے دوہرا احسان کیا لیکن انہوں نے اس احسان کی ناقدری کی.اور ایک وہ ہیں، جو غریب تھے، تنگ دست تھے اور خدا تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن یہ کہہ سکتے تھے کہ اے اللہ ہم خالی ہاتھ تھے لیکن جب بھی تیرے دین کو ہماری خدمات کی ضرورت پیش آئی ، ہم نے خوشی سے اپنے آپ کو پیش کر دیا.اور ان کی یہ بات خدا تعالیٰ کو یقیناً پیاری لگے گی اور وہ کہے گا تم سچ کہتے ہو.ان غداروں پر میں نے بہت بڑا احسان کیا تھا، مگر انہوں نے میرے دیئے ہوئے اموال سے فائدہ بھی اٹھایا اور پھر وہ ان اموال کی وجہ سے اتنے غافل ہو گئے کہ انہوں نے میرا خیال چھوڑ دیا اور تن پروری شروع کر دی.تم یقینا ان لوگوں سے ہزار گنا بہتر ہو اور میرے مقرب ہو.بے شک تم دنیا کی نظر میں ذلیل 555
خطبہ جمعہ فرمودہ 21 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم تھے لیکن میری نظر میں تم معزز ہو.کہ باوجود مخالف حالات کے اور باوجود اس کے کہ شیطان تمہیں ورغلاتا تھا کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے کیا دیا ہے کہ تمہیں اس کے دین کی فکر پڑی ہوئی ہے تم نے اپنے آپ کو سلسلہ کی خدمت کے لئے پیش کر دیا.میں جانتا ہوں کہ ان لوگوں پر ، جنہوں نے خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے اموال سے فائدہ اٹھا کر اس سے غداری کی ہے اور پھر اس سے بڑھ کر وہ لوگ جنہوں نے جماعت کے روپیہ سے تعلیم حاصل کی اور پھر اس سے غداری کی ، ان پر میرے ان خطبوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا.کیونکہ وہ مردہ دل ہیں اور مردوں کو کوئی انسان اپنی بات نہیں سنا سکتا.خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُورِ ( سورة فاطر: 23) تو مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے تھے تو پھر میں کیسے سنا سکتا ہوں؟ پس جن لوگوں کے دل مردہ ہو گئے ہیں، انہیں میں نے کیا سنانا ہے؟ مگر جو لوگ زندہ دل تھے، وہ بغیر میرے کہنے کے آپ ہی آپ خدمت دین کے لئے جمع ہو گئے اور آئندہ بھی جمع ہوتے چلے جائیں گے.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دل میں اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے کی روح کو تازہ رکھیں اور اس کے لئے آدمی مہیا کرتے رہیں.دیکھو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں اسلام کی خدمت کی کتنی سچی روح تھی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اسلام کا خادم اور اس کا بوجھ اٹھانے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ آپ کی وفات پر اگر صحابہ مایوس ہو جاتے اور خیال کرتے کہ آپ کے بعد اسلام کا بوجھ اب کون اٹھائے گا اور منتشر لوگوں کو کون اکٹھا کرے گا ، اب تو نقطۂ مرکز یہ ہی ختم ہو گیا ہے؟ ابھی اسلام کا بیج ہی ڈالا گیا تھا اور اس کی کو نیل بھی نہیں نکلی تھی کہ مالی اٹھ گیا تو اسلام کا کیا بنا؟ لیکن خدا تعالیٰ کی ان گنت رحمتیں اور برکتیں ہوں ، حضرت ابو بکر پر کہ وہ اس وقت مسجد میں آکر مایوس دلوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور آپ نے ان کے سامنے ایک نکتہ پیش کیا، جو مسلمانوں کو قیامت تک یادرکھنا چاہئے.اور وہ نکتہ یہ تھا کہ من كان يعبد محمداً فان محمدا قد مات.ومن كان يعبد الله فان الله حتى لا يموت (ابن ہشام) کہ تم میں سے جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ آپ کی زندگی تک ہی اس سلسلہ نے جاری رہنا تھا، اب انہوں نے کس کو خوش کرنا ؟ اب کس کی مجلسوں میں لوگ بیٹھیں گے؟ کس کی زیارت اور ملاقات کے لئے انہوں نے یہاں آنا ہے؟ تو ایسے شخص کو پتہ لگ جانا 556
تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 1955ء چاہئے کہ حمد رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور کچھ وقت کے بعد آپ کی نعش مبارک کو دفن کر دیا رسول الی اللہ ہوگئے ہیں دیا جائے گا.لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتا تھا، اسے یادرکھنا چاہئے کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا.کیونکہ منتشر مسلمانوں کو جمع کر نیوالا انہیں دین کی طرف واپس لانے والا اور تا ابد زندہ رہنے والا ہمارا خدا اب بھی موجود ہے، اس لئے انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اب 1300 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.لیکن اب بھی اللہ تعالیٰ دنیا میں ایسے لوگ کھڑے کرتارہتا ہے، جو منتشر مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرتے اور انہیں یہ نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ من كان يعبد محمداً فان محمد اقدمات ومن كان يعبد الله فان الله حتى لا يموت.اس آواز پر لوگ پھر جمع ہو جاتے اور اسلام کی خدمت میں لگ جاتے ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابو بکر کھڑے ہوئے اور انہوں نے منتشر لوگوں کو اکٹھا کیا، پھر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے، اس کے بعد حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور ان کے بعد حضرت علی کھڑے ہوئے.ان کے بعد متعدد بزرگ آئے اور انہوں نے اسلام کی خدمت کی روح کو تازہ رکھا.مثلاً حضرت امام ابو حنیفہ کھڑے ہوئے ، حضرت امام شافعی کھڑے ہوئے ، حضرت جنید بغدادی کھڑے ہوئے شیلٹی کھڑے ہوئے حسن بصری گھڑے ہوئے، خواجہ معین الدین صاحب چشتی کھڑے ہوئے، سید عبدالقادر جیلانی صاحب کھڑے ہوئے ، شہاب الدین صاحب سہروردی کھڑے ہوئے، بہاء الدین صاحب نقشبندی گکھڑے ہوئے ، شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کھڑے ہوئے ، نظام الدین صاحب اولیاء کھڑے ہوئے ، قطب الدین صاحب بختیار کا کی گھڑے ہوئے، شیخ فرید الدین صاحب شکر بیج کھڑے ہوئے.ان کے علاوہ اور ہزاروں بزرگ دنیا کے مختلف علاقوں میں کھڑے ہوئے، جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو اسلام میں داخل کیا اور ان کی بدولت آج کروڑوں مسلمان صغیر ہستی پر موجود ہیں.یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے حضرت ابو بکر کی نقل میں یہ کہا کہ من كان يعبد محمداً فان محمد اقدمات ومن كان يعبد الله فان الله حی لایموت.انہوں نے حضرت ابو بکر کے منہ سے نکلے ہوئے ، اس اہم نکتہ کو یا درکھا.باوجود یکہ ان میں سے کسی کے زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات پائے ، ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور کسی کے زمانہ میں اس پر گیارہ سو سال گزر چکے تھے.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے گا لیکن دنیا میں ابھی تھوڑے ہی مسلمان تھے کہ آپ فوت ہو گئے.بلکہ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان تھوڑے سے نہ ہوتے تو ہمیں خدمت کا موقع 557
خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کیسے ملتا؟ وہ لوگ اسلام سے بدظن نہ ہوئے بلکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ابھی اسلام کا کام باقی ہے، جسے ہم پورا کریں گے.چنانچہ وہ دین کی خدمت میں مشغول ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ مجھ سے پہلے مختلف لوگوں کے سامنے خدا تعالیٰ نے پیالے رکھے اور اب آخر میں وہ پیالہ میرے سامنے رکھا گیا ہے.آپ کسی بڑے پیر کے مرید نہیں تھے اور نہ ہی آپ نے مروجہ دنیوی علوم حاصل کئے.لیکن آپ ہی کی وجہ سے اب ساری دنیا میں تبلیغ ہورہی ہے اور سینکڑوں لوگ اسلام کو قبول کر رہے ہیں.اگر تمہیں بھی یہ خیال آتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دنیا میں آئے اور گزر گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی دنیا میں آئے اور گزر گئے لیکن اسلام کو ماننے والے ابھی دنیا میں تھوڑے ہی ہیں تو میں تمہیں کہوں گا کہ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ اگر دنیا کے بسنے والے سب مسلمان ہوتے تو ہمیں اسلام کی خدمت کا موقع کیسے ملتا؟ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ابھی دنیا میں ایسے لوگ باقی ہیں، جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ، اب ہم انہیں مسلمان بنا ئیں گے.پس گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.لوگ آتے ہیں اور مرتے ہیں.لیکن مومن اپنے ایمان کی وجہ سے ہمیشہ اسلام کی زندگی اور اس کے دوبارہ عروج کا باعث بنتے رہتے ہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ قدرت ثانیہ دائگی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.اس کے معنی یہی ہیں کہ جو لوگ حقیقی ایمان اپنے اندر رکھتے ہوں گے، وہ کسی مرحلہ پر بھی مایوس نہیں ہوں گے.بلکہ کہیں گے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے تو کیا ہوا ؟ ہم دنیا میں موجود ہیں، جو منتشر لوگوں کو دوبارہ اکٹھا کرنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے تو بعض پرانے احمدیوں کے دلوں میں بھی شبہات پیدا ہو گئے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے.میری عمر اس وقت 19 سال کی تھی.اللہ تعالیٰ نے معا میرے دل میں ایک بات ڈالی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا جسد مبارک سامنے پڑا تھا، میں دوڑ کر اس کے پاس گیا اور آپ کے سرہانے کھڑا ہو کر میں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا! تیرا یہ مامور دنیا میں آیا تھا.تو نے اس سے بہت بڑے بڑے وعدے کئے تھے کہ اسلام ساری دنیا میں پھیلے گا.لیکن ہوا یہ کہ ابھی اسلام کی دوبارہ اشاعت پوری طرح شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ فوت ہو گیا ہے.اور بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.اے میرے خدا! میں تیرے مامور کے سرہانے کھڑے ہو کر تیری ہی قسم کھا کر یہ عہد کرتا ہوں کہ چاہے سارے لوگ مرتد ہو جائیں، میں اسلام کو نہیں چھوڑوں گا.اور جب تک میں 558
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1955ء اسے دوبارہ دنیا میں قائم نہ کرلوں ، سانس نہیں لوں گا.اب دیکھو، خدا تعالیٰ نے مجھ سے کتنا بڑا کام لیا ہے.اگر یہ تحریک دنیا میں جاری رہے اور ایسے مومن پیدا ہوتے رہیں، جو ہر خطرہ اور ہر مصیبت کے وقت کہیں کہ اے خدا ! اس زلزلہ اور مصیبت کی وجہ سے خواہ ساری جماعت مرتد ہو جائے ، میں تیرے دین کے لئے اپنی جان پیش کروں گا اور اس وقت تک سانس نہیں لوں گا ، جب تک کہ اسلام کو پھر دوبارہ دنیا میں قائم نہ کر لوں تو اسلام کی اشاعت بہت جلد ہو سکتی ہے.یہ ایک اخلاص سے نکلا ہوا فقرہ تھا، جو مجھ جیسے انسان کے منہ سے نکلا.جس کے پاس دنیا کی کوئی ڈگری نہ تھی.لیکن یہ فقرہ کتنا برکت والا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسے لفظ بلفظ پورا کر دیا.اور اب غیر ممالک میں جو اسلام کا نام لیا جاتا ہے، وہ صرف میری وجہ سے ہی لیا جاتا ہے.لیکن یہ میرا خاصہ نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ تم میں سے ہر شخص چاہے وہ کتنا کمزور ہو ، وہی کام کر سکتا ہے، جو خدا تعالیٰ نے مجھ سے لیا.بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ کام کر سکتا ہے.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ یہ جوش دائماً قائم رکھا جائے.جیسے میں بار بار تم سے کہتا ہوں کہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں پیش کرو، تم بھی یہ بات دوسروں سے کہتے چلے جاؤ.اور رات کو علیحدگی میں اللہ تعالیٰ سے یہ اقرار کرو کہ اے خدا! اسلام پر ایک نازک وقت آیا ہوا ہے اور مصیبت کا دورا بھی ختم نہیں ہوا.اے خدا! ہم تیری ہی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے، ہم تیرا نام بلند رکھیں گے اور اسلام کی اشاعت سے کبھی غافل نہیں ہوں گے.پھر تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر کس طرح نازل ہوتی ہیں؟ میرے زمانہ میں جماعت میں اختلاف بھی ہوا اور مختلف اوقات میں جماعت میں عہدے تقسیم کرنے کے مواقع بھی آئے.لیکن میں نے کبھی بھی جنبہ داری سے کام نہیں لیا.اور میں نے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ میرے خاندان کو کوئی نقصان پہنچتا ہے یا فائدہ؟ بلکہ میں نے صرف ایک ہی چیز دیکھی کہ کسی نہ کسی طرح جماعت اکٹھی رہے.یہی جذبہ تم اپنے اندر پیدا کرو اور دنیا پر نگاہ نہ رکھو.بلکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ دیتا ہے، وہ لے لو.دیکھو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اسلام کی اشاعت کا کام شروع کیا تو اس بات کا خیال نہیں کیا کہ آپ کھا ئیں گے کہاں سے؟ اللہ تعالیٰ نے خود بخو دلوگوں کے دلوں میں تحریک کی کہ وہ جائیں اور آپ کی خدمت میں نذرانے پیش کریں.اس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاتا بھی دے دی تھی.چنانچہ اس نے فرمایا کہ ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء (حقیقۃ الوحی صفحہ 77 روحانی خزائن جلد 22) 559
خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے ، جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے.پھر تم کیوں ڈرتے ہو کہ جماعت کا خزانہ کمزور ہے ، ہم کھائیں گے کہاں سے؟ تم بھی اپنے اندروہ روح پیدا کرو، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیدا کی تھی ، اس کے بعد تمہیں مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی.اللہ تعالی آپ ہی آپ ایسے لوگوں کو کھڑا کر دے گا، جو تمہارے سامنے اپنی کمائی پیش کریں گے.اور وہ بھی اس طرح پیش نہیں کریں گے کہ وہ تم پر کوئی احسان کر رہے ہیں.بلکہ وہ عاجزانہ نگاہوں سے تمہاری طرف دیکھیں گے اور درخواست کریں گے کہ تم ان نذرانوں کو قبول کر لو تا کہ ان کی اور ان کے خاندان کی نجات ہو جائے اور ان کے اموال میں برکت ہو.پس اگر انجمن کا خزانہ کمزور ہے تو گھبراؤ نہیں ، خدا تعالیٰ تمہیں آسمان سے تنخواہ دے گا.بالکل اسی طرح جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تنخواہ دی اور ان کے طفیل ہمیں بھی پالا.اور آئندہ کے لئے بھی ہماری اسی پر نگاہ ہے.میں نے آج تک کسی سے نہیں مانگا.کئی دفعہ دوستوں نے نہایت اخلاص سے کہا بھی کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنی مرضی کی کوئی چیز بتا ئیں، جو ہم آپ کو بطور نذرانہ پیش کریں.لیکن میں نے ہمیشہ انکار کیا اور کہا کہ یہ تو مانگتا ہے، میں ایسا نہیں کر سکتا.ہاں، جو کچھ تم خود بخو دلاؤ گے، اسے میں قبول کرلوں گا.تم بھی اگر اخلاص سے کام لوتو تمہارے لئے بھی خدا تعالیٰ اسی قسم کے سامان پیدا کر دے گا.تم اس بات سے مت گھبراؤ کہ لوگ دنیا دار ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی بہت سے لوگ دنیا دار تھے.لیکن آخر جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے ، جن کے اندر یہ جوش پایا جاتا تھا کہ وہ آپ کی خدمت میں نذرانے پیش کریں اور درخواست کریں کہ آپ ان کے لئے دعا فرمائیں تا ان پر خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوں.میں نے پچھلے خطبات جمعہ میں جو وقف کی تحریک کی تھی، میں خوش ہوں کہ اس پر جماعت کے مختلف نوجوانوں کی طرف سے، جن میں سے بعض چھوٹی تعلیم والے ہیں اور بعض بڑی تعلیم والے ہیں، درخواستیں آنی شروع ہو گئی ہیں.میں نے جو خاندانی طور پر وقف کرنے کی تحریک کی تھی ، اس سلسلہ میں ایک درخواست مولوی ابوالعطاء صاحب کی طرف سے آئی ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ میں کوشش کروں گا کہ ہمارے خاندان میں سے کوئی نہ کوئی نوجوان وقف زندگی کے لئے آگے آتا ہے.ذاتی طور پر وقف کے سلسلہ میں بھی بہت سے نوجوانوں کی طرف سے درخواستیں آئی ہیں.ان میں سے ایک درخواست چوہدری فرزند علی صاحب ( جو یہاں کے جنرل پریذیڈنٹ ہیں ) کے ایک لڑکے کی طرف سے ہے.جو اس وقت ایم.اے کی کلاس میں تعلیم حاصل کر رہا ہے.ایک درخواست صالح الشبیبی انڈونیشین کی 560
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 121 تومی ہے، جو یہاں ایک عرصہ تک تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں.انہوں نے واپس جا کر ملازمت اختیار کر لی تھی.انہوں نے لکھا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے، اب میں اپنی زندگی اسلام کی خدمت کے لئے وقف کرتا ہوں.باقی لوگوں میں سے بھی جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے، انہیں اپنی زندگیاں پیش کرنی چاہئیں.پھر جو لوگ سلسلہ کے لئے زندگی وقف کرنے کے قابل نہیں ، وہ ایسے لوگوں کو وقف میں حصہ لینے کی تحریک کریں، جو سلسلہ کے کام سرانجام دے سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حجتہ الوداع میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ فليبلغ الشاهد الغائب کہ جو حاضر ہیں، وہ ان لوگوں تک یہ باتیں پہنچا دیں، جو یہاں موجود نہیں.فرب مبلغ اوعى من سامع کیونکہ بسا اوقات جو لوگ موجود نہیں ہوتے ، وہ سننے والے کی نسبت بات کو زیادہ یادر کھتے ہیں.المواہب اللہ نیہ جلد 2 صفحہ 343) پس جو لوگ تجارتوں اور کارخانوں وغیرہ کے کام کا تجربہ رکھتے ہوں یا گورنمنٹ کے دفاتر میں کام کرتے رہے ہوں، ان کو تحریک کریں کہ وہ اپنے کاروبار اپنے بیٹوں کے سپرد کر دیں اور سلسلہ کی خدمت کریں.اسی طرح میں نے اعلان کیا تھا کہ احباب ربوہ میں انڈسٹری شروع کریں تا کہ یہاں آکر غریب لوگ بھی بس سکیں.پہلے میں نے سلسلہ کو کہا تھا کہ وہ انڈسٹری اپنے ہاتھ میں رکھے لیکن چونکہ ہمارے کارکنوں کو تجربہ نہیں اور وہ اس کام کو سنبھال نہیں سکتے ، اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو مخلص دوست یہاں کام کرنا چاہیں، انہیں کام کرنے کی اجازت دے دی جائے.ایک بات میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم یورپ میں ایک نیا مشن کھولنا چاہتے ہیں.ہمیں ایک نئے علاقے کا پتہ لگا ہے، جس کی وجہ سے تین ، چار اور ملکوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے.اور وہ ناروے، سویڈن اور فن لینڈ ہیں.آگے ان کا اثر ڈنمارک اور جرمنی پر پڑتا ہے اور پھر آگے ہالینڈ پر اثر پڑتا ہے.ہمارا ارادہ ہے کہ وہاں مشن کھولا جائے.اس دفعہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ مشن ان جماعتوں کے نام پر کھولا جائے ، جو اس کو چلانے کے اخراجات ادا کریں.اس مشن پر 19- 20 ہزار روپیہ سالانہ خرچ کا اندازہ ہے.میں نے تجویز کی ہے کہ چندہ تحریک جدید کے علاوہ جماعتہائے امریکہ کوشش کریں کہ اس مشن کے لئے تین ہزار روپیہ دیں.تین ہزار روپے جماعتہائے افریقہ، شام اور عدن دیں.تین ہزار روپیہ لجنہ اماءاللہ دے.561
خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم سات ہزار روپیہ پنجاب کی جماعتیں دیں، جن کے صدر مرزا عبدالحق صاحب ہیں.اس میں سے ضلع راولپنڈی کو میں نکال لیتا ہوں.تین ہزار روپیہ کی رقم بلوچستان ، سرحد اور ضلع راولپنڈی کی جماعتیں دیں.تین ہزار روپیہ کی رقم متفرق احباب دیں، جو مرکز میں براہ راست چندہ بھجواتے ہیں.اس طرح امید ہے کہ ہیں، اکیس ہزار کی رقم اکٹھی ہو جائے گی.اس مشن کے ہیڈ کوارٹر پر جو بورڈ لگایا جائے گا ، اس پر یہ لکھ دیا جائے گا کہ اس مشن کو جماعتہائے احمدیہ امریکہ، افریقہ ، شام، عدن، لجنہ اماء اللہ ، پنجاب، سرحد، بلوچستان ضلع راولپنڈی اور متفرق احباب چلا رہے ہیں.اسی طرح آئندہ بھی جتنے نئے مشن کھولے جائیں گے، انہیں علاقہ وار تقسیم کر دیا جائے گا.اور ان پر اس علاقہ کا نام لکھا جائے گا، جو اسے چلا رہا ہوگا.تا کہ دوستوں کو دعاؤں کی تحریک ہوتی رہے.یہ رقم جو میں نے مقرر کی ہے، ابھی تھوڑی ہے.لیکن مجھے یقین ہے کہ جب دوست اس نیک کام میں حصہ لیں گے تو خدا تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت دے گا اور جماعت کو بڑھانا شروع کر دے گا اور اس کے نتیجہ میں چندہ بھی بڑھ جائے گا.اگر خدا تعالی امریکہ کی جماعت کو بڑھانا شروع کر دے تو وہ بہت سا بوجھ اٹھا سکتی ہے.اگر وہاں جماعت بڑھ جائے اور اس کی تعداد دو ہزار ہو جائے تو اس کا چندہ دولاکھ ڈالر یعنی دس لاکھ روپے تک پہنچ سکتا ہے اور وہ بڑی آسانی سے دو، تین مشنوں کا بوجھ اٹھاسکتی ہے.اور اگر خدا تعالی اس کی تعداد پانچ چھ ہزار کر دے تو صرف امریکہ کی جماعت یورپ کے سارے مشنوں کو چلا سکتی ہے.میں نے امریکہ کے مبلغ خلیل احمد صاحب ناصر، جو آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں، پہلے بھی کہا ہے اور آج پھر انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ امریکہ کی جماعت کا چندہ بڑھانے کی کوشش کریں.انڈونیشیا میں بھی ہماری بڑی جماعت ہے.میں نے اپنے ایک لڑکے کو وہاں بھیجا تھا اور میری غرض یہ تھی کہ وہ جماعت جلد جلد ترقی کرے.لیکن اس کی تعداد میں ابھی توقع کے مطابق زیادتی نہیں ہوئی.جماعت بے شک بڑھی ہے لیکن بہت تھوڑی بڑھی ہے.جماعت انڈو نیشیا کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرے.اب میں تحریک جدید کے چندہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.چونکہ میں کمزور ہوں ، اس لئے میں اس چندہ کے متعلق کوئی لمبی تقریر نہیں کر سکتا.اس چندہ کی تحریک ہر سال نومبر کے آخر میں کی جاتی ہے.لیکن اس دفعہ نومبر کی بجائے میں آج ہی اس کی تحریک کر دیتا ہوں.میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ تحریک جدید کے وعدے لینے کے ذمہ دار ہر جماعت کے امیر اور صوبائی امیر ہیں.مجھ میں زیادہ بولنے اور لمبی 562
خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 1955ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد سوم تقریر کرنے کی ہمت نہیں.یہ خدا تعالیٰ فضل ہے کہ میں کچھ بول لیتا ہوں.ورنہ جب مجھ پر فالج کا حملہ ہوا تھا ، میں کھڑا بھی نہیں ہو سکتا تھا.اس کے بعد میں دوسوٹیوں کے سہارے چل سکتا تھا.لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے سوئی کے بغیر ہی میں چل لیتا ہوں.بہر حال میری صحت ابھی اس قابل نہیں کہ میں لمبی تقریر کر سکوں.میں ہر جماعت کے امیر کے ذمہ یہ بات لگا تا ہوں کہ وہ دفتر سے اپنی جماعت کے پچھلے سال کے وعدوں کی لسٹ لے لے.اور کوشش کرے کہ اس سال کے وعدے پچھلے سال سے زیادہ ہوں.اور مجھے اطلاع بھجوائے کہ انہوں نے پچھلے سال کے وعدوں پر کس قدر زیادتی سے نئے سال کے وعدے لکھوائے ہیں؟ کام چونکہ وسیع ہوتا جارہا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اس سال چندہ تحریک جدید پچھلے سال سے ڈیوڑھا ہو.تم کہو گے کہ ڈیوڑھا چندہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ میں کہوں گا کہ تم ڈیوڑھے ہو جاؤ تو چندہ بھی ڈیوڑھا ہو سکتا ہے.بلکہ اگر تم ڈیڑھ ہزار گنا ہو جاؤ تو پھر کوئی مشکل ہی نہیں رہتی ، صرف ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ جہاں تم خود اس تحریک میں حصہ لو، وہاں اپنے بیوی بچوں کو بھی اس خدمت میں شامل کرو.بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ وہ لوگ جو جماعت میں باقاعدہ شامل نہیں ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ وہ بھی تبلیغ اسلام کے کام میں شریک ہوں.تم ان کے پاس بھی جاؤ اور ان سے چندہ لوتا کہ تحریک جدید کی مشکلات دور ہوں.آج ہی مجھے پتہ لگا ہے کہ اس سال تحریک جدید کا چندہ پچھلے سال سے کم آیا ہے اور دفتر اس قابل نہیں کہ وہ اپنے کارکنوں کو گزشتہ ماہ کی تنخواہیں بھی دے سکے.حالانکہ یہ کام تو اس طرح ہونا چاہئے کہ ہر سال دفتر تبشیر اپنے مشنوں کی تعداد میں اضافہ کرتا جائے لیکن چندہ پوری مقدار میں جمع نہیں ہوتا ، جس کی وجہ سے مجھے ٹی سکیم بنانی پڑی ہے.امریکہ والے اگر کوشش کریں تو ان کے چندوں میں کافی زیادتی ہوسکتی ہے ، ضرورت صرف جنون کی ہے.اگر تمہارے اندر کام کرنے کا جنون پیدا ہو جائے تو یہ مشکلات آپ ہی آپ دور ہو جائیں گی.لندن میں بھی ہمارا مشن بہت پرانا ہے لیکن ابھی تک وہ اپنا بوجھ خود نہیں اٹھا سکا.اب وہ اس بارے میں کوشش کرنے لگے ہیں.آج کل لندن مسجد کے امام مولود احمد صاحب ہیں، جو بہت نیک نوجوان ہیں.خدا تعالیٰ انہیں اس کام کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہالینڈ مشن کے مبلغ کو بھی چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے کہا تھا کہ تم نو مسلموں سے چندے لو، میں انہیں اسی وقت احمدی سمجھوں گا، جب وہ چندہ دینا شروع کر دیں گے.اور یہ بات بالکل درست ہے.مبلغوں کو یا درکھنا چاہئے کہ ہم ان کے کام کو اس وقت تک نہیں مانیں گے، جب تک کہ ان کے نو مسلم چندہ بھی نہ دینے لگیں.563
خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم مجھے یاد ہے کہ ایک شخص کو شروع زمانہ خلافت میں ایک شخص نے چندہ کی تحریک کی تو اس نے کہا، میں چندہ نہیں دے سکتا.میں نے سنا تو اس کا رکن کو ہدایت دی کہ تم اس سے کہو کہ تم صرف آٹھ آنے ہی دے دیا کرو لیکن کچھ نہ کچھ ضرور دیا کرو، آہستہ آہستہ اسے چندہ دینے کی عادت پڑ جائے گی.چنانچہ اس نے آٹھ آنے چندہ دینا شروع کیا.مگر پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے ہزاروں روپے چندہ دیا.اسی طرح جماعت میں اور بہت سے ایسے لوگ ہیں ، جنہوں نے وصیت کی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے درخواست کی کہ ہمیں پندرہویں یا سولہویں حصہ کی وصیت کی اجازت دے دی جائے اور ہم نے انہیں اجازت بھی دے دی.لیکن بعد میں انہوں نے لکھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے.اور اس کی تلافی کے لئے اب ہماری نویں حصہ کی وصیت قبول کی جائے.پس جو خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے، اس کا قدم قربانیوں کے میدان میں بڑھتا چلا جاتا ہے.تم بھی دوسروں میں اس چندہ کی تحریک کرو تا کہ مشنوں کو اور زیادہ ترقی دی جا سکے.اس وقت بیرونی ممالک کی جماعتوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو بڑے شوق سے چندہ دیتے ہیں.مثلاً امریکہ والے ہیں، یہ لوگ دیر سے آگے آئے ہیں لیکن چندہ دیتے ہیں.اگر وہاں جماعت زیادہ پھیل جائے تو وہ یورپ کے مشنوں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں.لیکن اس کے لئے صحیح رنگ میں جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے..پس تم اپنے چندوں کو بڑھاؤ، لوگوں کے پاس جا جا کر ان سے وعدے لکھواؤ.اور بغیر میری تحریک کے نومبر کے آنے سے پہلے اپنے چندے پچھلے سال سے زیادہ کر لو.پھر بقائے بھی ادا کرو.اگر تم یہ کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا فضل تم پر نازل ہوگا اور میری دعا ئیں بھی تمہیں ملیں گی.پھر جب جماعت کا بوجھ دور ہوگا تو مجھے بھی راحت ہوگی.ڈاکٹروں نے مجھے بار بار کہا ہے کہ کوئی گھبراہٹ والی بات آپ کے پاس نہیں آنی چاہئے.لیکن اگر تم خود ہی گھبراہٹ والی باتیں میرے پاس لے آؤ تو میں کیا کروں؟ کیا میں اسلام کی محبت کو نظر انداز کر سکتا ہوں؟ کیا میں اس کی اشاعت کے فرض سے غافل ہو سکتا ہوں؟ غالب نے کہا ہے.ے گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے (دیوان غالب) پس بے شک میں کمزور ہوں لیکن جب تک میرا دماغ کام کرتا ہے، اسلام کے غلبہ کے خیالات میرے دماغ سے نہیں جا سکتے.چندہ زیادہ آئے گا تو میری تشویش بھی کم ہوگی اور تشویش کم ہوگی تو بیماری کم 564
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 21 اکتوبر 1955ء ہوگی.اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے، جب اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے سلسلہ میں مجھے راحت میسر آ جائے.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر کوئی گھبراہٹ والی بات نہ ہو تو آپ کو پوری صحت ہو جائے گی اور گھبراہٹ مجھے اس وقت ہوتی ہے، جب مجھے اسلام کے راستہ میں مشکلات نظر آتی ہوں.پس میری صحت تمہاری جد و جہد اور تمہارے ایمان سے تعلق رکھتی ہے.اگر تم اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ایمان کو مضبوط کر لو اور اسلام کی اشاعت کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہو تو میری صحت بھی ترقی کر سکتی ہے.گوڈاکٹروں نے مجھے کہا ہے کہ میں اب سات ، سات گھنٹے بھی تقریر کر سکتا ہوں لیکن میری اپنی حالت یہ ہے کہ میں جمعہ کا خطبہ دیتا ہوں تو اس کا بھی میری طبیعت پر اثر پڑتا ہے.پھر جب میں دیکھتا ہوں کہ اسلام خطرہ میں ہے اور جماعت میں اس کے لئے قربانی کی ابھی پوری روح پیدا نہیں ہوئی تو میرا دل بیٹھ جاتا ہے اور مجھے گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے.پس میری یہ گھبراہٹ اپنے لئے نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول کے لئے ہے.اور میں اسے اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں ، اس لئے میں اسے کیسے دور کروں؟ اور میں اپنے ایمان کو ڈاکٹروں کی خاطر کس طرح قربان کردوں؟“ ( مطبوعه روزنامه الفضل 26 اکتوبر 1955ء) 565
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 اکتوبر 1955ء واقفین زندگی دعاؤں کی عادت ڈالیں خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1955ء سب سے پہلے تو میں واقفین زندگی کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ دعاؤں کی عادت ڈالیں.وہ آئندہ جماعت کے مبلغ بننے والے ہیں اور دعا کے بغیر کوئی مبلغ کامیاب نہیں ہوسکتا.اور چونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس زمانہ میں ان کے لئے راہبر بنایا ہے اور راہبری کے لئے ضروری ہے کہ راہبر تندرست ہو، اس لئے تم خصوصیت سے میرے لئے دعائیں کرو.اور اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی کو کوئی بشارت ملے تو وہ مجھے بھی اس سے اطلاع دے.اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ تمہاری دعاؤں سے مجھے صحت ہوگی اور میں تمہارے کام کی نگرانی صحیح طور پر کر سکوں گا.اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ خود تمہاری روحانیت ترقی کرے گی.گویا ایک تیر سے دو شکار ہوں گے.ایک طرف تمہارا خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھتا جائے گا اور دوسری طرف تم سے کام لینے کا فرض جس انسان کے سپر د کیا گیا ہے، اس کی طاقت ، قوت اور عقل میں ترقی ہوگی اور وہ مناسب طور پر تمہارے کام کی نگرانی کر سکے گا.یا درکھو، جو شخص روحانیت میں ترقی کرتا ہے، وہی دنیا کا سردار ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام فرمایا تھا کہ " الارض والسماء معك كما هو معي 66 (حقیقۃ الوحی صفحہ 78 رونی خزائن جلد 22) یعنی زمین اور آسمان اسی طرح تمہارے ساتھ ہیں، جس طرح وہ میرے ساتھ ہیں.اسی طرح اگر تم دعا ئیں کرو گے تو تمہیں بھی آسمان اور زمین مل جائیں گے.جو کتابیں تم سکول میں پڑھتے ہو، ان سے آسمان اور زمین نہیں مل سکتے.صرف و نحو اور منطق پڑھنے سے تمہیں آسمان اور زمین نہیں ملیں گے.ہاں، اگر تم دعائیں کرو اور خدا تعالی کی طرف جھکو گے تو تمہیں آسمان اور زمین مل جائیں گے.اور اگران دعاؤں میں تم مجھے بھی شامل کرو گے تو خدا تعالیٰ کہے گا کہ یہ لوگ اب کام کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر کوئی شخص کام لینے والے کے لئے دعا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ خود کام کرنا چاہتا ہے.تم دیکھ لو میٹ مزدوروں کی نگرانی کرتا ہے، مزدور چاہتا ہے کہ میٹ کہیں چلا جائے تاوہ آرام کر سکے.لیکن اگر 567
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم مزدور خود میٹ کو آواز دیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ کام کے لئے تیار ہے.پس تم میں سے ہر ایک کو ایسے حالات پیدا کرنے چاہیں کہ وہ کام کرے.یا درکھو، ایک، ایک مبلغ کے ذریعہ سینکڑوں اور ہزاروں لوگ احمدیت میں داخل ہونے چاہیں.لیکن اس وقت کئی مبلغ ایسے ہیں، جو نہایت بے حیا منہ سے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سال میں دو افراد احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.اگر سال میں ایک مبلغ کے ذریعہ دو افراد ہی احمدیت میں داخل ہوں تو کسی ملک میں پھیلنے کے لئے پچاس ہزار سال چاہئیں.لیکن حالت یہ ہے کہ تمہاری کمریں ابھی سے ٹیڑھی ہوتی جا رہی ہیں، ابھی سے جماعت کے کھاتے پیتے لوگ اپنے بچوں کو دنیا کی طرف دھکیلنے لگ گئے ہیں.پچاس ہزار سال کے بعد تو تم مردار کتے کی طرح ہو جاؤ گے.یادرکھو، جو مبلغ سال میں ہزاروں احمدی نہیں بنا تا ، وہ مغضوب علیہ ہے، واقف زندگی نہیں.اس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے اور وہ شیطان کا واقف زندگی ہے، خدا کا واقف زندگی نہیں.اگر خدا تعالیٰ کا واقف زندگی ہوتا تو وہ دو آدمیوں کے آنے پر کیوں خوش ہو جاتا ؟ اسے تو چاہئے تھا کہ ہزاروں ہزار افراد اس کے ذریعہ سے سلسلہ میں داخل ہوتے.پس علاوہ اپنے مفوضہ کام کے تم میرے لئے بھی دعائیں کرو اور اپنے لئے بھی دعاؤں میں لگے رہو.تم دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دماغوں میں اثر پیدا کرے تمہیں بلند حوصلے بخشے تمہیں قوی اور شجاع بنائے، تمہیں وہ طریق سکھائے ، جس کے نتیجہ میں لوگ تمہاری بات مان لیں.دیکھو، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی دعا کی تھی.وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي (28,29b) اے خدا ! جو کام تو نے میرے سپرد کیا ہے، میں اسے ادا کرنے کی پوری کوشش کروں گا.لیکن تو جانتا ہے کہ میری کوشش سے کچھ نہیں بنے گا.اس لئے تو آپ میری زبان کی گرہیں کھول تا کہ لوگ میری بات سمجھنے لگ جائیں.کیونکہ جو لوگ میری بات سمجھنے لگ جائیں گے، وہ آہستہ آہستہ میری بات ماننے کے لئے بھی تیار ہو جائیں گے.پس یا درکھو کہ جس مبلغ کے ذریعہ ہزاروں لوگ جماعت میں داخل نہیں ہوتے ، وہ مغضوب علیہ ہے.وہ واقف للہ نہیں بلکہ واقف للشیطان ہے.پس تم دعاؤں میں لگ جاؤ اور ظاہری علوم بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو.کیونکہ ظاہری علوم بھی بڑے کام کی چیز ہیں.لیکن اس کے ساتھ تمہاری راتیں 568
تحریک جدید - ایک ابھی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28اکتوبر 1955ء اور تمہارے دن دعاؤں میں صرف ہونے چاہیں.تا کہ جو فقرہ بھی تمہارے منہ سے نکلے، وہ اپنے اندر اثر رکھتا ہو.اور اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ تمہارے پیچھے چلے آئیں اور دین کے فوارے تمہارے منہ سے نکل پڑیں اور تم اللہ تعالیٰ کی بشارتیں اپنے کانوں سے سنو.دیکھو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کواللہ تعالی کی طرف سے کیا کیا بشارتیں ملی تھیں.آج یہ حالت ہے کہ بیماری کی وجہ سے میرے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے.حالانکہ تم اتنی بڑی تعداد میں میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابھی اکیلے تھے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا:.میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.اسی طرح اس نے آپ کو بشارت دی کہ وو میں تجھے بہت برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.(حقیقۃ الوحی صفحہ 96 روحانی خزائن جلد 22) اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچادیا.یہ سب کچھ آپ کی انابت اور توجہ الی اللہ کی وجہ سے ہوا.اگر تمہارے اندر بھی اس قسم کا یقین پیدا ہو جائے اور تم بھی خدا تعالی کی طرف جھکو تو اسی طرح خدا تعالی کی تائید تم میں سے بھی ہر ایک کو حاصل ہوگی اور دنیا بھی تمہیں ملے گی اور دین بھی تمہیں ملے گا.میں نے ایک دفعہ جماعت کو توجہ دلائی کہ ہر احمدی کو سال میں کم از کم ایک احمدی بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اس پر مولوی محمد عبد اللہ صاحب، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے، کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، میں سال میں ایک احمدی نہیں ،سو احمد کی بناؤں گا.چنانچہ جب وہ اگلے جلسہ پر آئے تو اس وقت ایک آدمی ان کے ساتھ تھا ، جسے وہ بیعت کرانے کے لئے ساتھ لائے تھے.انہوں نے کہا، آپ دفتر سے معلوم کرلیں، میں 199افراد کی بیعت پہلے کرا چکا ہوں اور اب یہ سوال آدمی ہے، جسے میں بیعت کرانے کے لئے لایا ہوں.میرا وعدہ پورا ہو گیا ہے.مولوی محمد عبد اللہ صاحب بے شک مولوی کہلاتے تھے لیکن تھے، وہ ایک عام زمیندار.ویسے انہیں تبلیغ کا بہت شوق تھا.اب دیکھو، اگر ایک زمیندار سال میں ایک سو آدمی احمدیت میں داخل کر اسکتا ہے تو ایک مبلغ کو تو سال میں سواحمدی بنا کر بھی شرم محسوس کرنی چاہئے.پس تم ایک یا دو آدمیوں کو احمدی بنالینے پر خوش نہ ہو.احادیث میں آتا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے، انا عند ظن عبدی بی (کنز العمال جلد 1 صفحہ 57) 569
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم کہ میرا بندہ جس طرح کا گمان مجھ پر کرتا ہے، میں اس کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کرتا ہوں.اگر تم ایک آدمی پر خوش ہو گے تو اللہ تمہیں ایک آدمی دے گا، دو پر خوش ہو گے تو وہ تمہیں دودے دے گا.لیکن اگر تم ایک کروڑ پر بھی راضی نہ ہو اور یہ دعا کرو کہ اے خدا! میں تو تبھی خوش ہوں گا ، جب تو مجھے پچاس کروڑ دے.تو خدا تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ اس کے مطابق سلوک کرے گا.پس تم اس بات پر فخر نہ کرو کہ تمہارے ذریعہ ایک یا دو آدمی احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں بلکہ تم اس وقت تک خوشی محسوس نہ کرو، جب تک کہ تم ہزاروں بلکہ لاکھوں اور کروڑوں افراد کو احمدیت میں داخل نہ کر لو.وو "" پھر تم یہ دعا بھی کرو کہ اللہ تعالی آئندہ ہمارے ملک کو ایسے عذابوں سے محفوظ رکھے اور وہ اسے تباہ کرنے کی بجائے ترقی عطا فرمائے.کیونکہ جوذات تباہ کرسکتی ہے، وہ اسے بچا بھی سکتی ہے.تم دعا ئیں کرو کہ اے خدا! ہم تیری قدرتوں کو مانتے ہیں اور ان پر یقین رکھتے ہیں.لیکن تو عذابوں کے ذریعہ نہیں بلکہ اپنی رحمت کے ذریعہ اپنا چہرہ دکھا.بجائے اس کے کہ تو ہمیں گناہ کرنے دے اور پھر پکڑے، تجھے یہ بھی طاقت حاصل ہے کہ تو ہمیں گناہ کرنے ہی نہ دے.اور سارے ملک پر اپنے فضلوں کی بارش نازل کرے“.....بہر حال دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے لوگوں پر رحم فرمائے.اور وہ بارشوں کو رحمت والی بارشیں بنائے.بارش رحمت والی بھی ہوتی ہے اور عذاب والی بھی.تم دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ بارش کو رحمت والی بارش بنائے اور لوگوں کے دلوں کی گرہیں کھول دے.سب سے زیادہ وہ خود تمہارے دلوں کی گرہوں کو کھولے تا کہ تم ایک ایک ہزار بلکہ ایک ایک لاکھ افراد کو احمدیت کی طرف لاؤ.تم صرف ایک احمدی بنا لینے پر خوش نہ ہو جاؤ.بلکہ اگر تم ایک احمدی بناؤ تو تم استغفار کرو کہ یہ میرے کسی گناہ کی وجہ سے ہوا ہے، مجھے تو سینکڑوں اور ہزاروں افراد کو احمدی بنانا چاہئے تھا.اس کے بعد میں جماعت کو پھر تحریک جدید کی طرف توجہ دلاتا ہوں.میں نے پچھلے خطبہ میں ایک نئے مشن کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی.مگر ابھی تک صرف امریکہ والوں کی طرف سے جواب آیا ہے کہ ہم نے مشن کے لئے اپنے حصہ کا تین ہزار روپیہ جلد پورا کرنے کی کوشش کریں گے.اسی طرح لجنہ اماء اللہ نے بھی کہا ہے کہ ہم اپنے حصہ کا روپیہ ادا کر دیں گی.ان دو کے علاوہ اور کسی کی طرف سے مجھے جواب موصول نہیں ہوا.پھر میں نے تحریک جدید کے متعلق کہا تھا کہ اب نئے سال کی تحریک کے لئے کسی لمبے خطبہ کی ضرورت نہیں.میں بیماری کی وجہ سے لمبا خطبہ نہیں دے سکتا، اس لئے جماعت کے دوست نومبر کے آخر تک کہ جن دنوں میں، میں نئے سال کی تحریک کیا کرتا تھا، انتظار نہ کریں بلکہ آج سے ہی اپنے 570
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28اکتوبر 1955ء وعدے لکھوانا شروع کر دیں.میرا یہ خطبہ الفضل میں شائع ہو چکا ہے لیکن اس لئے کہ دوستوں کو غلط نہیں نہ ہو، میں اس امر کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ تحریک نہیں کی کہ اس سال ہر شخص لازما ڈیوڑھا چندہ ادا کرے.جو شخص ایک روپیہ بھی ادا نہیں کر سکتا، میں اسے ڈیڑھ روپیہ دینے کی تحریک کیسے کر سکتا ہوں؟ میں جو کچھ کہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے پچھلے سال مثلاً ایک سور و پیہ چندہ دیا تھا لیکن وہ اس سال 80 روپے دے سکتا ہے تو وہ بے شک 80 روپے ہی ادا کرے، ہم اس پر ایسا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے ، جس کو وہ برداشت نہ کر سکے.لیکن اس کا کوئی نہ کوئی دوست تو ہوگا، کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا ملنے جلنے والا تو ہوگا اور اگر وہ مومن ہے تو اس کا اپنے دوست یا رشتہ دار پر ضرور نیک اثر بھی ہوگا ، وہ اس دوست یا رشتہ دار کو تحریک جدید میں شامل کرے.اگر وہ خود سوروپیہ کی بجائے 80 روپے ادا کرتا ہے تو 70 روپیہ کا وعدہ اس سے لکھوا دے.اس طرح یہ رقم خود بخود ڈیوڑھی ہو جائے گی.اگر ساری جماعت اس طرح کرے تو چندہ تحریک پچھلے سال کی نسبت یقین ڈیوڑھا ہو سکتا ہے.اور اگر جماعت کی تعداد دگنی ہو جائے تو چندہ تحریک جدید پچھلے سال کی نسبت تکنا ہو جائے گا.بہر حال جماعت کے دوستوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اس تحریک میں پہلے سے زیادہ حصہ لیں.وو جیسا کہ میں بتا چکا ہوں تبلیغ بھی اسی وقت مؤثر ہوگی ، جب تم دعاؤں سے کام لو گے اور اپنے اندر ایک نیک اور پاک تبدیلی پیدا کرو گے.پس اپنے اندر تغیر پیدا کر و اور مالی اور جانی قربانی کی عادت ڈالو.کئی لوگ اس خیال میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم دنیوی ملازمتیں کریں گے تو آمد زیادہ ہوگی اور اس طرح ہم چندہ بھی زیادہ مقدار میں دے سکیں گے.جن لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں دین کی خدمت کی توفیق ہی نہیں ملتی.احمدیت کے ایک فدائی خاندان کا ایک نوجوان واقف زندگی تھا، اس نے یہ کہہ کر چھٹی لی کہ وہ باہر جا کر اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے بعد وہ پھر دین کی خدمت کے لئے آگے آجائے گا.میں جانتا تھا کہ یہ شخص وقف سے بھاگ رہا ہے.لیکن جھوٹے کو گھر تک پہنچانے کے لئے میں نے اسے رخصت دے دی.جب میں انگلستان گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دنیا کمانے کے سوا اس کی اور کوئی غرض ہی نہیں.انگلستان کے مبلغ نے مجھ سے شکایت کی کہ وہ چندہ ادا نہیں کرتا.جب میں نے اسے ملامت کی تو اس نے کہا، پچھلی غلطی معاف کر دیں، آئندہ کے لئے میں با قاعدہ چندہ ادا کروں گا.اور بقایا کی ادائیگی کے لئے اس نے فوراً ایک چیک لکھ کر دے دیا.اب ہمارے مبلغ کا خط آیا ہے کہ جب ہم بنک کے پاس وہ چیک لے کر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ اپنا سارا روپیہ نکلوا کر خرچ کر چکا ہے.571
اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 28 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک اب تم دیکھ لو کہ اس شخص کا یہ خیال کس قدر جھوٹا تھا کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کی خدمت کے لئے آجائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کا ہر لمحہ اسلام کی خدمت کے لئے وقف تھا.آپ نے یہ بھی نہیں کہا کہ میں فلاں تعلیم حاصل کرلوں ، تب میں اسلام کی خدمت کروں گا.پھر میں کیسے مان لوں کہ کوئی شخص اپنے اس قول میں سچا ہے کہ میں پہلے بیرسٹر بن لوں ، تب دین کی خدمت کروں گا ؟ وہ شخص اپنے قول میں یقیناً جھوٹا ہے.مگر یا درکھو، یہ چیز بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، اپنے زور سے حاصل نہیں ہوسکتی.میں اپنے گھر میں دیکھتا ہوں کہ میاں بشیر احمد صاحب نے شروع سے ہی اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہوئی ہے.ایم.اے کرنے کے بعد وہ اب تک دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور شروع دن سے ہی انہوں نے میرے ساتھ کام کیا ہے.میاں شریف احمد صاحب بھی میرے بھائی ہیں لیکن انہوں نے دین کی خدمت کی طرف کم توجہ کی ہے.وہ دین کی خدمت سے بھاگے تو نہیں ، جو کام انہیں دیا گیا ، وہ سرانجام دیتے رہے.لیکن میاں بشیر احمد صاحب کی طرح انہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے وقف نہیں کی.لیکن خدا تعالیٰ کا فعل دیکھو، جہاں میاں بشیر احمد صاحب کی اولاد کو دین کی طرف توجہ نہیں ، وہاں میاں شریف صاحب کی اولاد میں دین کی خدمت کا جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ احمدیت کے لئے ایک نگی تلوار ہیں.ان کے لڑکوں میں سے ایک تو تجارتی کمپنی میں کام کرتا ہے اور باقی لڑکے دوسرے کام کرتے ہیں.لیکن جہاں تک میر اعلم ہے، وہ جس جس جگہ بھی کام کرتے ہیں، محبت اور پیار سے دوسروں کو حق پہنچاتے ہیں.اور جہاں قانون کی اجازت کے ماتحت وہ مقامی انجمنوں کی امداد کر سکتے ہیں، وہاں ان کے ساتھ شامل ہو کر انہیں صحیح طور پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور فتنوں کو دور کرنے میں حصہ لیتے ہیں.میاں بشیر احمد صاحب کا صرف ایک بیٹا تبلیغ کی طرف توجہ رکھتا ہے اور وہ منیر احمد ہے.بچپن میں تو ہم اسے کمزور خیال کرتے تھے لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ وہ احمدیت کی تبلیغ کرنے والا نوجوان ہے.پس دین کی خدمت کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے، ورنہ نہیں.اسی لئے میں نے واقفین زندگی کو تحریک کی ہے کہ وہ رات دن دعاؤں میں لگے رہیں.کیونکہ جب تک عمل کی توفیق نہ ملے ، خالی قول مفید نہیں ہوتا.ہم دیکھتے ہیں، کئی واقفین زندگی وقف سے بھاگ جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ، ہمیں معاف کر دیں، اب ہم دین کی خدمت سے نہیں بھاگیں گے.لیکن کچھ دیر خدمت کرنے کے بعد وہ پھر بھاگ جاتے ہیں.بے شک تو بہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے اور کوئی شخص کسی کو تو بہ کرنے سے نہیں 572
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلدسوم روک سکتا.مگر دنیا کی محبت انسان کو بعض دفعہ تو بہ کا موقع بھی نہیں دیتی.قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ توبہ کا.انسان کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے.اگر کوئی شخص کسی نبی کو گالیاں دیتا ہے لیکن پھر تو بہ کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے بھی معاف کر دیتا ہے.پھر وقف تو ڑنا کون سا ایسا گناہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ معاف نہیں کر سکتا؟ یقینا وہ یہ گناہ بھی معاف کر سکتا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ گوتو بہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے، لیکن جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے لئے تو بہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے.اسی لئے میں نے واقفین زندگی سے کہا ہے، وہ دعاؤں کی عادت ڈالیں.اور جماعت سے میں کہتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہوں پر تحریک جدید کے نئے سال کے وعدے لکھوائیں.کراچی کی جماعت اول تو ایک ایک ماہ تک وعدوں کے متعلق کوئی اطلاع ہی نہیں بھیجتی اور اگر ایک ماہ کے بعد ان کا کوئی خط آتا ہے تو یہ کہ وہ اگلے سال کا چندہ وصول کر رہے ہیں.حالانکہ امام کی اطاعت ہی اصل چیز ہے.امام اگر وعدے لکھوانے کے لئے کہتا ہے تو چندہ کی وصولی بھی بے شک کرو، لیکن زیادہ زور وعدوں کے لکھانے پر دو.ویسے جماعت کراچی مخلصین کی جماعت ہے.جماعت کے امیر چودھری عبد اللہ خان صاحب کو خدا تعالیٰ نے احمدیت کے لئے اخلاص بخشا ہے اور ان پر مزید فضل یہ کیا ہے کہ انہیں عمدہ نائبین عطا کئے ہیں.جب بھی ہمیں جماعت احمد یہ کراچی سے کوئی کام ہوتا ہے، انہیں صرف تار یا چٹھی بھیج دینا ہی کافی ہوتا ہے.تاریا چٹھی کے پہنچتے ہی وہ دیوانہ وار اس کام میں لگ جاتے ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس سال پچھلے سال کی طرح غلطی نہیں کریں گے.وہ وعدوں کی وصولی بے شک کریں لیکن زیادہ زور پہلے وعدے لکھوانے پر دیں.میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہمیشہ نومبر کے آخر میں کیا کرتا تھا.لیکن اس دفعہ میں نے اس کا ابھی سے اعلان کر دیا ہے.جماعتیں کوشش کریں کہ نومبر کے آخر تک اکثر دوستوں سے وعدے لکھوائیں.گزشتہ سالوں میں چونکہ یہ طریق رائج رہا ہے کہ وعدے مارچ کے مہینہ تک قبول کئے جاسکتے تھے، اس لئے جو کمی رہ جائے گی ، وہ دسمبر کے مہینہ یا اس کے بعد بھی پوری ہو جائے گی.مگر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وعدے ڈیوڑھے، دگنے، چار گنے بلکہ پانچ گئے ہو جائیں.اگر ہر سال جماعت بڑھتی چلی جائے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں.میں سمجھتا ہوں، دوست اگر ایمان اور اخلاص سے وعدے لکھوائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے وعدوں کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمادے گا.بلکہ دوسرے لوگ بھی اس کام میں جماعت کی مدد کریں گے.میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ بعض غیر احمدی بھی اسلام کی خدمت کے لئے بڑی لجاجت سے چندہ دیتے ہیں.ان کے دلوں میں بھی ایمان ہوتا ہے، اس لئے جب وہ اسلام کی خدمت کے متعلق کوئی 573
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 اکتوبر 1955ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اسکیم سنتے ہیں تو وہ اس میں مدد دینے کے لئے فورا تیار ہو جاتے ہیں.پس دوسرے لوگوں میں بھی اس چندہ کی تحریک کرو اور پھر دعائیں کرو.خصوصاً واقفین زندگی دعاؤں کی عادت ڈالیں تا خدا تعالیٰ انہیں بھی ایمان دے اور باقی لوگوں کا بھی حوصلہ بڑھائے.پھر ہر ایک مبلغ یہ عہد کرے کہ وہ سال میں ایک احمدی بنالینے پر فخر نہیں کرے گا، بلکہ وہ کوشش کرے گا کہ سینکڑوں نہیں، ہزاروں افراد احمدیت میں داخل ہوں.اگر وہ ایک احمدی بنا لینے پر فخر کرے گا تو وہ بے ایمان ہوگا.میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے، جب بھی مجھے کوئی ضرورت پیش آئی ہے، اس نے اسے غیب سے پورا کیا ہے.میں نے کسی سے کبھی مانگا نہیں.ہاں اگر کوئی خوشی سے کوئی چیز پیش کرتا ہے تو میں اسے لے لیتا ہوں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بچپن میں، میں گھر سے باہر نکلا تو ایک دوست نے میرے ساتھ مصافحہ کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا.میں نے بھی اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا.اس نے میرے ہاتھ پر ایک چوٹی رکھ دی.میں نے اس میں بڑی ذلت محسوس کی اور میں نے بڑبڑا کر کہا کہ میں یہ چوٹی نہیں لیتا.اور گھر کی طرف بھاگ گیا.گھر جا کر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیان کیا.آپ نے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک حدیث سنائی کہ ما اعطیت بغیر استشراف نفسک فخذه بارک اللہ لک.یعنی جو کوئی تجھے بغیر سوال کرنے کے کچھ دے تو اسے قبول کرلے، اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا.اور فرمایا یہاں چونی کا سوال نہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاما بتایا کہ وہ لوگوں کو وحی کرے گا کہ وہ میری مددکریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہی اس شخص کو وحی کی تھی اور وہ یہاں آیا تھا.اس لئے تم نے اس چونی کے لینے سے کیوں انکار کیا ؟ تم کو تو اس چوٹی کی قدر کرنی چاہئے تھی.پس جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اور اس سے رات دن دعائیں مانگتا ہے تو خدا تعالیٰ دلوں کی کھڑکیاں کھول دیتا ہے.پس تم دعائیں مانگو، لوگوں کے دلوں کی کھڑکیاں خود بخود کھل جائیں گی.پھر سینکڑوں نہیں ، لاکھوں اور کروڑوں افراد ہر سال احمدیت میں داخل ہوں گے.یوں تو دوسرے لوگ ہم پر اعتراض کرتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم افریقہ، امریکہ اور دوسرے تمام ممالک میں غیر مسلموں کو مسلمان بنا رہے ہیں اور انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت میں شامل کر رہے ہیں.اس کے بعد جو شخص احمدیت کو سمجھ لیتا ہے، وہ ہمارے عقائد بھی اختیار کر لیتا ہے.ورنہ جو شخص یہ کہتا 574
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 اکتوبر 1955ء ہے کہ اسے احمدیت کی تو سمجھ نہیں آئی ، ہاں اسلام کی سمجھ آگئی ہے از خیلیه یہی کہتے مسلمان ہو جاؤ، پھر احمدیت سمجھ آجائے تو اسے قبول کر لینا اور اگر سمجھ نہ آئے تو بے شک اسے قبول نہ کرنا.ہماری غرض تو صرف یہی ہے کہ لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں.بعض دفعہ پاکستان اور ہندوستان سے بھی اس قسم کے خطوط آ جاتے ہیں کہ ہمیں احمدیت کی سمجھ نہیں آئی، ہاں اسلام کی سمجھ آگئی ہے.کیا آپ ہمیں اسلام میں داخل کر سکتے ہیں ؟ اور ہم انہیں یہی لکھتے ہیں کہ آپ بڑی خوشی سے اسلام قبول کر لیں ، احمدیت کا قبول کرنا ایک ضمنی بات ہے، اصل چیز اسلام ہے.اگر لاکھوں اور کروڑوں اشخاص اسلام میں داخل ہو جائیں تو وہی لوگ احمدیت کے بھی دست و باز و ثابت ہو سکتے ہیں.پس تبلیغ کو وسیع کرو اور لاکھوں لاکھ افراد کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کرو.یہی مقصد ہے، جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہے.مطبوعه روز نامه الفضل (04 نومبر 1955ء) 575
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 26 دسمبر 1955ء تم اپنی نسلوں میں وقف کی عظمت اور اہمیت کا احساس پیدا کرو خطاب فرمودہ 26 دسمبر 1955ء بر موقع جلسہ سالانہ....ہماری آئندہ نسلوں کو یہ عہد اور عزم کر لینا چاہئے کہ وہ یکے بعد دیگرے دین کا بوجھ اٹھاتی چلی جائیں گی اور اسلام کی تبلیغ واشاعت میں کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں گی.ہمارے نو جوانوں کو خصوصیت کے ساتھ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ نہ صرف اپنے ایمان کو قائم رکھیں گے بلکہ اس ایمان کے تسلسل کو نسل در نسل وقف کے سلسلہ کو قائم کر کے ترقی دیتے چلے جائیں گے.تم اپنی نسلوں میں وقف کی عظمت اور اہمیت کا احساس پیدا کرو.تا اگر وہ خود وقف نہ کر سکیں تو کم از کم وقف کرنے والوں کی خدمت کا جذبہ ان میں ضرور قائم رہے.تم یہ نہ سمجھو کہ اگر تمہارا بھائی خدمت دین کے لئے زندگی وقف نہ کرتا تو وہ زیادہ کما تا.بلکہ یہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے شاید اس واقف زندگی بھائی کے طفیل ہی تمہیں رزق کی فراوانی عطا فرمائی ہے.سب سے بڑھ کر یہ کہ تم قرآن مجید، احادیث، کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور سلسلہ کے دیگر لٹریچر کا مطالعہ کر کے اپنی دینی تعلیم کو مکمل کرو.تا تم میں دین کے ساتھ سچی محبت پیدا ہو.یا درکھو، دین کی تعلیم بڑی اہم چیز ہے.اس کے ذریعہ تم اپنے اور اپنی اولاد کے اندر دین کی عظمت کا احساس پیدا کر سکتے ہو.وو 25 اگر تم میں سے ہر ایک یہ عہد کرلے تو ایسا ہو جانا، کوئی بڑی بات نہیں.صرف ارادہ اور عزم کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ابراہیمی ایمان عطا فرما سکتا ہے.ایسا ایمان کہ اگر دنیا تم سے ٹکرائے تو وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے اور خود پاش پاش ہو جائے.مگر یہ کام دعاؤں سے ہی ہو سکتا ہے.آؤ، آج ہم سب مل کر یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا ہی ایمان بخشے.اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو اور پھر آگے ان کی اولا دوں کو پشت ہا پشت تک دین کا بوجھ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.اور ان میں ہمیشہ ایسے وجود پیدا ہوتے رہیں، جو اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھیں اور اس کے دین کو پھیلانے والے ہوں.تاہم اپنے خدا کے سامنے سرخرو ہو جائیں.لیکن یہ سب کچھ محض اسی کے فضل سے ہو سکتا ہے.اس لئے آؤ، ہم اس کے سامنے جھکیں اور اسی کے آگے ہی اپنی التجائیں پیش کریں.مطبوعه روزنامه الفضل 31 دسمبر 1955 ء ) | 577
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 10 فروری 1956ء کوئی دینی جماعت بغیر علماء کے نہیں چل سکتی کیونکہ وہ ان کی فوج ہیں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 10 فروری 1956ء میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جس طرح کوئی دنیوی حکومت بغیر فوج کے نہیں چل سکتی، اسی طرح کوئی دینی جماعت بغیر علماء کے نہیں چل سکتی.دیکھو، دنیا کی اکثر حکومتیں فوج کی جبری بھرتی کی قائل ہیں.اور وہ یہی کہتی ہیں کہ اگر قوم کے نوجوان یہ کہیں کہ فوج میں چونکہ زیادہ تنخواہ نہیں ملتی ، اس لئے ہم فوج میں نہیں جاتے تو ملک کیسے بچ سکتا ہے؟ ملک صرف اسی طرح بیچ سکتا ہے کہ اگر نو جوان والنٹیئر کے طور پر فوج میں شامل نہ ہوں تو انہیں جبری طور پر اس میں بھرتی کر لیا جائے.اس اصول کے مطابق اکثر دنیوی حکومتوں نے ضرورت کے وقت جبری بھرتی کا قانون تسلیم کیا ہے.دینی جماعتوں کی فوج ان کے علماء ہیں.اگر کسی دینی جماعت کے علماء شوق سے دین کی خدمت کے لئے آگے نہیں آتے اور اگر وہ شوق سے دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف نہیں کرتے تو اس جماعت کا حق ہے کہ وہ اپنے افراد سے کہے کہ اگر تم اس جماعت میں رہنا چاہتے ہو تو تمہیں لازماً اپنی زندگی وقف کرنی پڑے گی.اور اس بات کو کوئی شخص ظلم نہیں کہہ سکتا.دنیا میں ہر ملک کی حکومت ضرورت کے وقت جبری بھرتی کرتی ہے.امریکہ میں بھی جبری بھرتی ہو رہی ہے، فرانس میں بھی جبری بھرتی ہو رہی ہے، جرمنی میں بھی جبری بھرتی ہو رہی ہے، روس اور دوسرے اکثر ممالک میں بھی جبری بھرتی ہورہی ہے.انگلستان میں پہلے جبری بھرتی کا قانون نہیں تھا لیکن اب اس میں بھی جبری بھرتی درست تسلیم کی جاتی ہے.کیونکہ وہ کہتے ہیں ، ملک کے بچاؤ کے لئے فوج کا ہونا ضروری ہے.اگر ملک کے نوجوان اس وجہ سے کہ فوج میں تنخواہیں کم ہیں، فوج کی ملازمت کے لئے آگے نہیں آتے تو ملک کی حفاظت کیسے ہوگی؟ اور حکومت کے پاس اس کے بغیر اور کیا چارہ ہے کہ وہ انہیں جبری طور پر فوج میں بھرتی کرے اور جو شخص فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرے، اسے جیل خانہ میں ڈال دے؟ ہماری جماعت کو بھی فوج کی ضرورت ہے اور وہ فوج علماء اور مبلغین ہیں.اگر ہماری جماعت کے نو جوان دینی علوم کے حصول کے لئے اور پھر اس کے بعد دینی خدمت کے لئے آگے نہیں آتے تو مجبوراً 579
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 فروری 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہمیں بھی انہیں جبر سے اس طرف لانا پڑے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے پاس دنیوی جیل خانے نہیں اور نہ ہمارے پاس حکومت ہے کہ ہم انہیں اس قسم کی کوئی سزا دے سکیں.لیکن محبت اور تعلق کا جیل خانہ تو ہمارے پاس موجود ہے، اگر کوئی شخص وقف میں نہیں آئے گا تو ہم کہیں گے اچھا آئندہ ہم تم سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے.آخر جو شخص مسلمان ہوتا ہے ، وہ کسی جبر کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوتا ، وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوتا ہے، وہ اپنی مرضی سے احمدی ہوتا ہے.اور جو شخص اپنی مرضی سے احمدیت کو قبول کرتا اور جماعت کا ایک فرد بن جاتا ہے، اس کی نظر میں جماعت کے تعلق کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے.اس لئے ہم اسے کہہ سکتے ہیں کہ اگر تمہارے خیال میں جماعتی تعلق کی کوئی قیمت ہے تو تم اس کی خدمت کے لئے اپنی زندگی پیش کرو.اور اگر تم اس کی خدمت کے لئے آگے نہیں آؤ گے تو ہم تم سے اپنی محبت کے تعلق کو توڑ دیں گے.اگر دنیوی حکومتوں نے اپنی ضروریات کے وقت جبری بھرتی کا قانون جائز رکھا ہے تو ہم اپنے نو جوانوں کو وقف کے لئے کیوں مجبور نہیں کر سکتے ؟ آخر تمہاری امنگیں اور تمہارے جذبات امریکہ کے نوجوانوں کی امنگوں اور جذبات سے زیادہ نہیں.تمہاری امنگیں اور جذبات انگلستان کے نو جوانوں کی امنگوں اور جذبات سے زیادہ نہیں.تمہاری امنگیں اور جذبات یورپ کے نوجوانوں کی امنگوں اور جذبات سے زیادہ نہیں.اگر ان ممالک کے نوجوان کم گزارہ پر ملک کی خدمت کے لئے آگے آجاتے ہیں اور اگر وہ آگے نہیں آتے تو انہیں جبراً آگے لایا جاتا ہے تو دین کی خدمت کے لئے زندگی وقف کرانے کے لئے جماعت کے نوجوانوں پر روحانی دباؤ سے کام کیوں نہیں لیا جاسکتا ؟ انگلستان میں فوجی سپاہیوں کو کھانے کے علاوہ جو رقم دی جاتی ہے، اس سے زیادہ رقم وہ اپنے چوڑھوں کو دے دیتے ہیں.اور اس قدر رقم بھی تھوڑے عرصہ سے ملنی شروع ہوئی ہے، ورنہ ایک زمانہ ایسا تھا، جب وہاں ایک سپاہی کو اس کے کھانے کے اخراجات کے علاوہ صرف دو شلنگ یعنی ڈیڑھ روپیہ ماہوار دیا.جاتا تھا.گویا ایک سپاہی کی تنخواہ 6 روپے ماہوار تھی.اب اس تنخواہ کو بڑھا دیا گیا ہے.لیکن پھر بھی وہ تنخواہ ایسی زیادہ نہیں.پس اگر دنیوی حکومت فوجی بھرتی کے لئے جبر کا استعمال کرتی ہے اور کوئی شخص اس پر اعتراض نہیں کرتا تو دینی سلسلہ علماء تیار کرنے کے لئے اپنے نو جوانوں کو روحانی دباؤ ڈال کر کیوں آگے نہیں لاسکتا؟ اور حکومتوں کو جانے دو، پاکستان کی حکومت کو ہی لے لو.اگر اسے ملک کی حفاظت کے لئے کافی نوجوان فوج میں بھرتی کرنے کے لئے نہ ملیں تو لازما وہ اس بات پر مجبور ہوگی کہ اس کے لئے جبری بھرتی کرے اور کسی شخص کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہوگا.اور پھر ملک جو تنخواہ بھی ان نو جوانوں کو دے گا ،وہ 580
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 فروری 1956ء انہیں منظور کرنی پڑے گی.اس وقت بھی جبکہ ہماری حکومت فوجی بھرتی کے لئے جر کا استعمال نہیں کرتی ایک سپاہیکی تنخواہ علاوہ راشن کے بتیس تینتیس روپے سے زیادہ نہیں.لیکن ایک معمولی چپڑاسی کی تنخواہ اس سے کہیں زیادہ ہے.حالانکہ سپاہی ملک کے لئے اپنی جان پیش کرتا ہے اور اس پر بہت کچھ پابندیاں عائد ہوتی ہیں.لیکن چپڑ اس کو نہ اپنی جان پیش کرنا پڑتی ہے اور نہ اس پر اتنی پابندیاں عائد ہوتی ہیں.گویا تنخواہ کے لحاظ سے فوج کا سپاہی معمولی چپڑاسی سے کم ہے.لیکن محض اس لئے کہ اس کے وجود کی ملک کو ضرورت ہوتی ہے، اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا.انگلستان میں ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ بعض لوگوں نے جبری بھرتی پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ ایسا کرنا آزادی ضمیر کے خلاف ہے.لیکن جب جرمنی کے مقابلہ میں انگلستان کولڑنا پڑا تو حکومت نے ملک میں جبری بھرتی کا قانون پاس کر دیا.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے، امریکہ میں بھی جبری بھرتی کا قانون نافذ ہے.حال ہی میں مجھے ایک امریکن احمدی نوجوان نے لکھا ہے کہ میں دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہوں.لیکن میں فوری طور پر اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتا.کیونکہ جبری بھرتی کے قانون کے ماتحت میں آئندہ پانچ سال تک فارغ نہیں ہو سکتا.چونکہ اس عرصہ کے ختم ہونے سے پہلے حکومت مجھے آنے نہیں دے گی ، اس لئے جب یہ مدت ختم ہو جائے گی تو پھر میں کام کے لئے آجاؤں گا.پس جماعت کے نوجوانوں کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ سلسلہ کا کام علماء نے کرنا ہے.اور اگر علماء کی صف میں رخنہ پیدا ہوا تو سلسلہ ختم ہو جائے گا.پس تم اس نقطہ نگاہ سے نہ سوچا کرو کہ ہمیں کیا گزارہ ملتا ہے؟ بلکہ تم اس نقطہ نگاہ سے سوچا کرو کہ کیا تمہارے بغیر دین باقی رہ سکتا ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سلسلہ احمدیہ روحانی طور پر ہمیشہ قائم رہے گا.اگر تم اپنے آپ کو آگے نہیں لاؤ گے تو خدا تعالیٰ دوسرے نو جوانوں کو اس کام کے لئے کھڑا کر دے گا.لیکن یہ تو روحانی مسئلہ ہے، اگر جسمانی طور پر دیکھا جائے تو جس طرح فوج کے بغیر کسی دنیوی حکومت کا برقرار بناممکن نہیں ، اسی طرح علماء نہ ہوں تو دین قائم نہیں رہ سکتا.دینی جماعت کی فوج اس کے علماء ہیں.اگر علماء ہی نہ ہوں گے تو تبلیغ کیسے وسیع ہوگی؟ اسلام کی اشاعت کیسے ہوگی؟ اس وقت حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس جو مبلغ ہیں، وہ بہت تھوڑے ہیں.اور دنیا ہم سے مبلغین مانگ رہی ہے.امریکہ والے مبلغ مانگ رہے ہیں ، یورپ والے مبلغ مانگ رہے ہیں، ویسٹ افریقہ والے مبلغ مانگ رہے ہیں، ایسٹ افریقہ والے مبلغ مانگ رہے ہیں.لیکن مالی لحاظ سے ہماری یہ حالت ہے کہ ہم ان مبلغین کو بھی، جو اس وقت ہمارے پاس ہیں اور ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے، گزارہ نہایت قلیل مقدار میں دے رہے ہیں.بلکہ جو گزارہ ہم دے رہے ہیں، بعض اوقات اس کی ادائیگی بھی مشکل ہو جاتی ہے.کیونکہ خزانہ میں روپیہ نہیں ہوتا.581
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 فروری 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم مثلاً پچھلے سال میرے یورپ جانے پر جماعت نے بہت بڑی قربانی کی.لیکن پھر بھی ہماری یہ حالت تھی کہ تحریک جدید کے کارکنوں کو دو ماہ تک گزارہ نہیں مل سکا.اور اس کی وجہ یہی تھی کہ چندہ نہیں آیا تھا اور خزانہ میں روپیہ نہیں تھا.اب اگر نے علماء پیدا ہوتے رہیں تو ہم مبلغین کی تعداد بھی بڑھا سکیں گے اور مبلغین کی تعداد بڑھے گی تو وہ جماعت میں بھی بیداری پیدا کریں گے ، ان میں اخلاص پیدا کریں گے اور والدین کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ بڑے ہو کر اچھے کام کر سکیں، زراعت اچھی کر سکیں ، تجارت اچھی کر سکیں، صنعت و حرفت میں ترقی کریں.اس طرح جماعت کی آمدنی بڑھے گی اور جب جماعت کی آمدنی بڑھے گی تو چندہ بھی زیادہ آئے گا اور اس طرح نہ صرف مبلغین کے گزارے بڑھائے جاسکیں گے بلکہ مبلغین کی تعداد بڑھانے سے جماعت کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا.بلکہ ایک وقت وہ بھی آئے گا، جب تمہیں لاکھوں مبلغ پیدا کرنے ہوں گے.اور اگر تم لاکھوں مبلغ پیدا نہیں کرو گے تو تم دنیا کو مسلمان کیسے بنا سکو گے؟“ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ تمہارے ساتھ وابستہ ہے.اس لئے تم اس کام کو خدا تعالیٰ کی خاطر کرو اور دوطرف سے بدلہ لینے کی کوشش نہ کرو.یعنی ایک طرف تو تم تحریک جدید سے اعلیٰ سے اعلیٰ گزارے مانگو اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے بھی ثواب اور برکت کی امید رکھو.اگر تمہیں تحریک جدید سے خواہش اپنا بدلہ مل گیا تو خدا تعالیٰ سے تم کسی ثواب کے امیدوار ہو گے؟ بہر حال تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت تمہارے ہاتھ میں ہے.اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو سدھارتے چلے جاؤ تا کہ دین کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ آدمی آگے آئیں.اگر تم دین کی خدمت کے لئے آگے نہیں آؤ گے اور اپنی نسلوں کو اس کام کے لئے تیار نہیں کرو گے تو خدا تعالیٰ اس کام کے لئے اور لوگ کھڑے کر دے گا.کیونکہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے، کسی انسان کا قائم کردہ نہیں.....دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج ہی ایک خبر آئی ہے، جس سے پتہ لگتا ہے کہ اب یورپ کی حکومتیں براہ راست اسلام کی اشاعت میں دخل دے رہی ہیں.آج ہی پین کے مبلغ کا خط آیا ہے، جس میں اس نے لکھا ہے کہ پانچ ، سات نئے احمدی میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ خفیہ پولیس آگئی اور اس نے ان احمدی دوستوں سے کہا کہ تم حکومت کے باغی ہو.کیونکہ حکومت کا مذہب تو رومن کیتھولک ہے لیکن تم نے اسلام قبول کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان احمدیوں کو ثابت قدمی دکھانے کی توفیق دی.انہوں 582
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 فروری 1956ء نے کہا، ہم حکومت کے باغی نہیں.ہم حکومت کے فرمانبردار ہیں بلکہ تم سے زیادہ فرمانبردار ہیں.لیکن اس بات کا مذہب کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ جہاں تک حکومت کے قانون کا سوال ہے، ہم اس کی پابندی کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں.لیکن جہاں تک مذہب کا سوال ہے ، حکومت کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.جب ہمیں یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اسلام سچامذ ہب ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں تو تم اس کے روکنے والے کون ہوتے ہیں؟ چنانچہ وہ لوگ واپس چلے گئے.لیکن اس سے پتہ لگتا ہے کہ اب بعض جگہوں پر حکومتوں میں بھی یہ احساس پیدا ہونے لگ گیا ہے کہ اسلام پھیل رہا ہے، اسے کسی نہ کسی طرح روکنا چاہئے.اور جہاں بھی اسلام پھیلے گا، یہ احساس ضرور پیدا ہوگا کیونکہ ملا ہر جگہ موجود ہیں.صرف فرق یہ ہے کہ کسی جگہ اسلام کے ماننے والے ملا ہیں اور کسی جگہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا تعالی کا بیٹا ماننے والے ملا ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سارے ملا برے نہیں ہوتے.عیسائیوں میں بھی کئی نیک فطرت پادری ہیں، جولوگوں کی اصلاح اور خدمت خلق کا کام کرتے ہیں اور ہم انہیں برانہیں کہتے بلکہ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اسی طرح مسلمانوں کے علماء میں سے بھی وہ لوگ، جو دوسروں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہیں اور خدمت خلق کا کام کرتے ہیں، ہم ان کی عزت کرتے ہیں.بلکہ ہمیں تو اس بات پر حیرت آتی ہے کہ مسلمان ملا کے لفظ سے چڑتے کیوں ہیں؟ حالانکہ یہ لفظ تعظیم کے لئے بنایا گیا تھا اور ہمارے کئی بزرگوں کے ناموں سے پہلے ملا کا لفظ آتا ہے.در حقیقت یہ لفظ مولائی کا مخفف ہے، جس کے معنی ہیں ، میرے آقایا میرے سردار.اسی کے خلاصہ کے طور پر ملا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور بعض جگہ مولوی کے لفظ سے اس کا مفہوم ادا کیا جاتا ہے.بہر حال اگر کسی عالم دین کو اصلاح اخلاق اور خدمت خلق کی توفیق ہے تو چاہے وہ مسلمان ہو، پادری ہو، پنڈت ہو ، ہمارے نزدیک وہ بزرگ ہے.کیونکہ وہ مذہب کا اصل کام کر رہا ہے.مگر باوجود یہ تسلیم کرنے کے کہ دنیا کے ہر مذہب میں نیک اور صالح علماء پائے جاتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ جب عام لوگ دیکھتے ہیں کہ اب ہمارے ہاتھ سے رسہ نکل رہا ہے تو وہ مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، پین میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کی وجہ سے اب وقت آگیا ہے کہ اسے پوری طاقت کے ساتھ دبا دیا جائے.اس کا یہی علاج ہے کہ ہمارے پاس زیادہ مبلغ ہوں تا کہ وہ بڑی تعداد میں وہاں جائیں اور اسلام کی اشاعت کریں اور لوگوں کے شکوک و شبہات کو دور کریں.دوسری صورت اس کے علاج کی یہ ہے کہ اس ملک میں کثرت سے دینی لٹریچر بھیجا جائے تا کہ اس کا مطالعہ کرنے کے بعد وہاں کے لوگ حق و باطل میں امتیاز کر سکیں.سپین کو ہی لے لو.583
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 فروری 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم وہاں ہماری بعض کتابوں کا ترجمہ شائع کیا جارہاتھا، لیکن حکومت نے اس کی اشاعت روک دی تھی.اور جو کتابیں چھپ چکی تھیں، ان کے متعلق حکم دے دیا کہ انہیں ملک میں تقسیم نہ کیا جائے.لیکن خدا تعالیٰ نے اور رستے کھول دیئے.اب وہی تراجم انگلستان میں شائع کرنے کے بعد وہاں پہنچ رہے ہیں.اور جو کتا ہیں وہاں براہ راست فروخت نہیں ہو سکتی تھیں، انہیں انگلستان کی جماعت منگواتی ہے اور پھر ڈاک کے ذریعہ سپین میں بھیج دیتی ہے.اس طرح وہاں اشاعت اسلام کا کام ہو رہا ہے.( مطبوعه روزنامه الفضل 26 فروری 1956ء) 584
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 مارچ 1956ء دعائیں کرتے ہوئے تحریک جدید کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 02 مارچ 1956ء اس کے بعد میں اختصار کے ساتھ دوستوں کو ایک واقعہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں، جو مجھے لاہور میں پیش آیا.میں ایک دوست کو ملنے کے لئے اس کے مکان پر گیا تو اتفاقاً وہاں حکومت مغربی پاکستان کے ایک ذمہ دار افسر بھی بیٹھے ہوئے تھے.وہ میرے پرانے واقف تھے، اس لئے جب میں وہاں گیا تو وہ کھڑے ہو گئے اور بڑی محبت سے ملے.اس کے بعد بیٹھے تو انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران میں بتایا کہ میں چند دن ہوئے ، حکومت مغربی پاکستان کے ایک ذمہ دار افسر کو ملنے کے لئے گیا تھا.انہوں نے باتوں باتوں میں اس بات کا ذکر کیا کہ مرزائی بھی آرام سے نہیں بیٹھتے.وہ روزانہ نئی نئی باتیں نکالتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کو اشتعال آجاتا ہے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ اب مرزائیوں نے ایک نئی تحریک شروع کر دی ہے ، جس کی وجہ سے دوسرے مسلمان چڑتے ہیں.آپ بتائیں کہ یہ کیا بات ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے کوئی نئی تحریک شروع نہیں کی.ہاں 1934ء میں ایک تحریک جاری کی گئی تھی، جس پر بائیس سال گزر چکے ہیں.چونکہ اس کا نام تحریک جدید ہے ، اس لئے مخالفوں کو موقع مل گیا ہے کہ وہ بالا افسران سے کہیں کہ ہم نے اب ایک نئی تحریک شروع کر دی ہے.اس پر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے 1934 ء والی تحریک کا تو مجھے علم ہے.میں بھی اسی سال مذہبی جوش میں احرار کے جلسے میں شمولیت کے لئے قادیان گیا تھا.اور مجھے یاد ہے کہ آپ نے ان دنوں ایک نئی تحریک جاری کی تھی.پھر میں نے انہیں بتایا کہ اول تو جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں، یہ تحریک نئی نہیں بلکہ 1934 ء سے جاری ہے اور اس پر بائیس سال کا گزر چکا ہے.دوسرے اگر یہ تحریک نئی بھی ہو، تب بھی مسلمانوں کے لئے اس پر چڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.کیونکہ اس تحریک کا مقصد یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام کرنا ہے.اور اگر یورپ اور امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کی جائے تو اس میں پاکستانی مسلمانوں کو چڑنے کی کیا ضرورت ہے.اس پر انہوں نے بتایا کہ وہ کئی دفعہ حکومت کی طرف سے غیر ممالک کے دورہ پر گئے ہیں اور وہاں انہوں نے ہمارے مبلغوں کو دیکھا ہے اور ان کا تاثریہ ہے کہ وہ بہت عمدہ کام کر رہے ہیں.585
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 02 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم بہر حال میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے کوئی نئی تحریک جاری نہیں کی.بلکہ یہ تحریک 1934 ء سے جاری ہے.اور پھر آپ خود بھی بتا رہے ہیں کہ جب یہ تحریک جاری کی گئی تھی تو آپ احراریوں کے جلسہ میں شمولیت کے لئے قادیان گئے تھے اور آپ کو علم ہے کہ اس وقت یہ تحریک جاری کی گئی تھی.پھر اس تحریک کا مقصد امریکہ اور یورپ میں اسلام کی اشاعت ہے.اور آپ نے اپنے سرکاری دوروں میں بھی دیکھا ہے کہ ہمارے مبلغ باہر کام کر رہے ہیں.اور اگر امریکہ اور یورپ کے لوگوں کو کلمہ پڑھایا جائے تو اس میں دوسرے مسلمانوں کو غصہ دلانے والی کون سی بات ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ در اصل بات یہ ہے کہ پہلے جماعت کے دوست صرف اپنے ملک میں اسلام کی اشاعت کے لئے چندہ دیتے تھے بالنگر خانہ سکول اور جماعت کے دوسرے اداروں کے لئے چندہ دیتے تھے.1934ء میں جماعت سے ایک نیا چندہ طلب کیا گیا تا کہ اس کے ذریعہ دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی اشاعت کی جائے.اور چونکہ یہ چندہ پہلے چندوں کے علاوہ تھا اور نیا تھا، اس لئے اس کا نام تحریک جدید رکھا دیا گیا.اب آپ دیکھ لیجیے کہ صرف تحریک جدید نام کی وجہ سے یہ کہنا کہ ہم نے کوئی نئی تحریک جاری کی ہے اور یورپ اور امریکہ میں اسلام کی اشاعت کے متعلق یہ کہنا کہ ہم نے اسے دوسرے مسلمانوں کو چڑانے کے لئے شروع کیا ہے، کتنا بڑ اظلم ہے.اگر وہ احمدی ہوتے تو دوسرے ذمہ دار افسرکو یہ جواب دے سکتے تھے.لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ وہ احمدی نہیں ہیں بلکہ بعض امور میں انہیں ہم سے سخت اختلاف ہے.لیکن وہ ایک شریف انسان ہیں اور ہر بات کو مسیح نقطہ نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں اور انہیں مجھ سے تعلق بھی ہے.ان کے سامنے جب دوسرے ذمہ دار افسر نے یہ بیان کیا کہ احمدیوں نے ایک نئی تحریک جاری کر دی ہے تو انہیں بھی غلطی لگ گئی.لیکن چونکہ انہیں یہ خیال تھا کہ ممکن ہے کہ ان افسر صاحب کو غلطی لگ گئی ہو، انہوں نے ملاقات کے موقع پر اس بات کا مجھ سے بھی ذکر کیا اور میں نے انہیں بتا دیا کہ یہ بات غلط ہے.بہر حال ہمارے مخالفوں نے تحریک جدید کے نام سے فائدہ اٹھا کر بالا افسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے.اور ان میں سے بعض کو اس نام سے غلطی لگ گئی ہے.اور پھر یہ غلطی اس طرح پھیلتی چلی پھر جاتی ہے کہ ہمارے ایک دوست نے تحریک جدید کے چندے کی لسٹ بھیجی تو معلوم ہوا کہ ان کا وہ لفافہ ضبط ہو گیا ہے اور سی آئی ڈی کے پاس پہنچا دیا گیا ہے.سی آئی ڈی کا ایک افسران کے پاس آیا اور اس نے دریافت کیا کہ یہ کیا تحریک ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ اور پھر یہ روپیہ کہاں سے آئے گا؟ وہ دوست کہتے ہیں کہ اس افسر کے سوالات سے مجھے محسوس ہوا ہے کہ انہیں میری ارسال کردہ لسٹ سے شبہ ہوا ہے کہ کوئی 586
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 مارچ 1956ء نئی تحریک جاری کی گئی ہے، جو ممکن ہے ، حکومت اور ملک کے مفاد کے لئے مضر ہو.چنانچہ میں نے اسے تحریک جدید کے متعلق پوری معلومات مہیا کیں، جن کی وجہ سے اسے تسلی ہو گئی اور وہ واپس چلا گیا.وہ لسٹ چونکہ دفتر میں پہنچ گئی ہے، اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ سی آئی ڈی نے اسے ضبط نہیں کیا بلکہ آگے روانہ کر دیا ہے.ہاں شبہ کو دور کرنے کے لئے اس کا ایک افسر لسٹ بھیجنے والے دوست کے پاس گیا اور اس سے متعددسوالات کئے.معلوم ہوتا ہے کہ سی آئی ڈی ک یہ شبہ ہوا کہ کوئی ذمہ دار افسر اپنے ماتحتوں سے جبری چندہ لے رہا ہے.ورنہ پولیس اس غلطی کا ارتکاب نہیں کر سکتی کہ کسی جماعت کا ممبر جماعتی کاموں کے لئے چندہ دیں اور وہ ان کی نگرانی کرنے لگ جائے.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ تحریک جدید کے نام کی وجہ سے بالا افسروں کو دھو کہ میں ڈالا جا رہا ہے.حالانکہ یہ تحریک بائیس سال سے جاری ہے اور اگر دو ہزار سال تک بھی یہ تحریک جاری رہی ، تب بھی اس کا نام تحریک جدید ہی رہے گا.افسروں کو محض دھو کہ دیا جا رہا ہے کہ ہم دوسرے مسلمانوں کو چڑانے کے لئے نئی نئی باتیں نکالتے ہیں.انہوں نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ یہ تحر یک صرف نام کی وجہ سے نئی ہے، ورنہ اور کوئی بات نہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے، جیسی ہمارے ملک میں ایک گاؤں کو آباد ہوئے بعض دفعہ سینکڑوں سال کا عرصہ گزر چکا ہوتا ہے لیکن اس کا نام نواں پنڈ ہی ہوتا ہے.اب نواں پینڈ ہونے کی وجہ سے کوئی شخص یہ شکایت نہیں کرتا کہ حکومت کی زمین پر فلاں شخص نے ایک نیا گاؤں آباد کر لیا ہے.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سکھوں اور مغلوں کے عہد حکومت میں بھی اس کا نام نواں پنڈ ہی تھا، انگریز آئے ، تب بھی اس کا نام نواں پنڈ ہی تھا، پاکستان بنا تب بھی اس کا نام نواں پنڈ ہی ہے اور اگر پاکستان ہزار سال تک بھی چلا جائے تب بھی اس کا نام نواں پینڈ ہی رہے گا.قادیان کے پاس بھی ایک گاؤں نواں پنڈ تھا ، وہ گاؤں ہمارے دادا نے بسایا تھا.اس پر 80,90 سال کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن ابھی تک اس کا نام نواں پنڈ ہی ہے.پھر لاہور کے ضلع میں بھی ایک گاؤں نواں پنڈ ہے.اگر محض نواں نام ہونے کی وجہ سے کوئی یہ شکایت کرے کہ کسی نے سرکاری زمین پر نیا گاؤں آباد کر لیا ہے تو اس سے زیادہ احمق کون ہوگا ؟ ہمارے ہاں ایک بچہ تھا، جس کی والدہ فوت ہو چکی تھی.اس نے غور کرنے کے بعد سمجھا کہ گھر کی آبادی کے لئے ضروری ہے کہ میرا والد دوسرا نکاح کرے.مگر اسے یہ بھی نظر آتا تھا کہ لوگ اس کے والد کی عمر بڑی بتلاتے ہیں.اس نے دوسروں سے کہیں نوجوان کا لفظ سنا ہوا تھا.مگر غلطی سے وہ اصل لفظ صرف جوان سمجھتا تھا، نو کو 09 کا ہندسہ قرار دیتا تھا.ایک دن کہنے لگا لوگ کہتے ہیں کہ میرے باپ کی عمر بڑی ہے.587
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 02 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم حالانکہ وہ ابھی آٹھ جوان ہے.جس طرح اسے نو کے لفظ سے غلطی لگ گئی اور اس نے اسے نو کا ہندسہ قرار دے دیا تھا، اسی طرح جدید کے لفظ سے ہمارے مخالف بھی اس تحریک کو کوئی نئی تحریک سمجھنے لگ گئے ہیں.عربی میں بھی ایک لطیفہ مشہور ہے.ایک بادشاہ دورہ کرتے ہوئے ، ایک گاؤں کے پاس سے گزرا.اس نے پوچھا کہ اس گاؤں کا کیا نام ہے؟ اسے بتایا گیا کہ اس کا نام قسم“ ہے.اور عربی زبان میں 'ق م“ کے معنی ہوتے ہیں، کھڑا ہو جا.اسے یہ نام بہت پسند آیا.اس نے فوراً ایک کاغذ پر یہ حکم لکھ کر شہر کے قاضی کو بھیج دیا کہ یا قاضی القم عزلتك فقم یعنی اے قم کے قاضی تو کھڑا ہو جا اور یہاں سے نکل جا.میں نے تجھے معزول کر دیا ہے.جب اس کی معزولی کی خبر لوگوں میں مشہور ہوئی تو انہوں نے دریافت کی کیا کہ یہ حکم کس قصور کی بناء پر نافذ ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ میرا قصور تو کوئی نہیں.صرف اتنی سی بات ہے کہ بادشاہ کو یہ قافیہ پسند آ گیا ہے، اس نے یہ حکم لکھ کر مجھے بھیج دیا.تو بعض نام بھی اپنے اندر ایک بجو بہ رکھنے والے ہوتے ہیں.یہی حال تحریک جدید کا ہے.اگر اس پر دو ہزار سال بھی گزر جائیں تب بھی اس کا نام تحریک جدید ہی رہے گا.حالانکہ یہ پرانی چیز ہو گی.پس اس نام سے دوسرے مسلمانوں کو چڑنے کی ضرورت نہیں.اور پھر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ، اس کا مقصد یورپ اور امریکہ میں اسلام کی اشاعت کرنا ہے.اگر یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو کلمہ پڑھایا جائے تو اس میں مسلمانوں کے لئے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں ہوسکتی.بہر حال جماعت کے دوستوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کریں.اور ساتھ ہی دعاؤں سے بھی کام لیں.کیونکہ ہمیں کیا پتہ ہے کہ دوسروں کے دلوں میں کیاز ہر بھرا ہوا ہے اور انہیں کیا کچھ دھو کہ دیا گیا ہے؟ مثلاً اسی واقعہ کو ہی ہے لو.اس کا مجھے اتفاقا پتہ لگ گیا.اور پتہ بھی ایک ایسے شخص سے لگا، جو جماعت کا نمبر نہیں.ہاں، وہ منصف مزاج ہے اور ہر بات کو صیح نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے.اگر میں وہاں نہ جاتا اور وہ افسر مجھے نہ ملتے تو اس بات کا مجھے علم نہ ہوتا.پس جوز ہر دوسروں کے دلوں میں بھرا ہوا ہے، اس کا علاج سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں کر سکتا.اس لئے آپ لوگ دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ آپ کے راستہ سے ہر قسم کی روکوں کو دور کرے.اور وہ آپ کو اس طرح کام کرنے کی توفیق دے کہ آپ کسی کا دل دکھانے کا موجب نہ بنیں بلکہ لوگوں کی دلجوئی اور دنیا میں امن قائم کرنے کا موجب بنیں.اور یہ بات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے، آپ کے اختیار میں نہیں.کیونکہ وہی دلوں کے بھید جانتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 15 مارچ 1956ء ) 588
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ 1956ء وقف زندگی کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے بعض اہم تجاویز خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ 1956ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.وقف زندگی کے متعلق جو مطالبات میں نے پڑھے ہیں، وہ بدر اخبار میں شائع ہوئے ہیں.ان پر باہر کے لوگوں کو بھی غور کرنے کا موقع ملا ہے.چنانچہ متعدد دوستوں کی طرف سے مجھے خطوط آئے ہیں، جن میں انہوں نے بعض تجاویز لکھی ہیں.ان تجاویز میں سے بعض تو معقول ہیں اور بعض ایسی ہیں، جن کا ذکر میرے گذشتہ خطبات میں بھی آچکا ہے اور بعض ایسی ہیں ، جو اظہار جوش اور فکر پر تو دلالت کرتی ہیں لیکن وہ قابل عمل نہیں ہیں.اور بعض ہیں، جو درست ہی نہیں.بہر حال ان خطوط میں سے میں نے بعض امور نوٹ کئے ہیں تاکہ دوستوں کے سامنے ان کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دوں.اب میں اختصاراً اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں.ایک دوست نے لکھا ہے کہ بچوں کو بچپن سے ہی اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہئے کہ انہوں نے بڑے ہو کر دین کی خدمت کرنی ہے اور اس غرض کے لئے ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے رہیں کہ بڑے ہو کر انہوں نے دین کا خادم بنتا ہے.میرے نزدیک ان کی یہ بات بالکل درست ہے اور اس پر دوستوں کو عمل کرنا چاہئے.اس نوجوان نے اپنا تجربہ لکھا ہے کہ میں چھوٹا تھا تو میرے ماں باپ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم اس انتظار میں ہیں کہ تو پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنے.میرے کان میں متواتر یہ بات پڑتی رہی.چنانچہ ایسا ہی ہوا، میں بڑا ہوا، اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور میں ملازمت کے لئے کراچی پہنچ گیا.اب دین کی خدمت کا خیال آتا ہے تو ساتھ ہی افسوس ہوتا ہے کہ یہ خیال اس وقت کیوں نہ آیا، جب میں دین کی خدمت کے لئے مفید وجود ہو سکتا تھا ؟ مگر یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ میرے والدین نے بچپن سے ہی میرے کانوں میں یہ بات ڈالی تھی کہ میں نے بڑے ہو کر افسر بننا ہے.انہوں نے یہ بات میرے کانوں میں نہ ڈالی کہ میں نے بڑے ہو کر دین کی خدمت کرنی ہے.589
خطبه جمعه فرموده 09 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم تحت یہ ہے کہ ماں باپ کی تعلیم بڑے بھاری نتائج پیدا کرتی ہے.مثل مشہور ہے کہ کوئی چور تھا، وہ چوری کے لئے کسی گھر میں گیا.اتفاقاً گھر والے جاگ رہے تھے ، انہوں نے اس چور کو گھیر لیا.چور کو ڈر پیدا ہوا کہ اگر میں پکڑا گیا تو مجھے جیل خانہ بھیج دیا جائے گا اور عدالت سے مجھے سزا ملے گی ، اس لئے بہتر ہے کہ محفوظ نکل جانے کی کوئی صورت پیدا کروں.چنانچہ اس نے گھر والوں سے لڑائی شروع کر دی، جس میں ایک آدمی مارا گیا.آخر وہ پکڑ لیا گیا اور عدالت سے اسے پھانسی کی سزا ملی.عام طور پر مشہور ہے، معلوم نہیں ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں کہ جیل خانہ کا یہ قاعدہ ہے یا کسی زمانہ میں قاعدہ ہوا کرتا تھا کہ جب کسی کی پھانسی کا وقت قریب آئے تو جیل کے ملازم اس سے دریافت کرتے ہیں کہ اگر کوئی خواہش ہو تو وہ بیان کر دے.اگر وہ خواہش قانون کے لحاظ سے جائز ہوتی تو وہ اسے پورا کر دیتے.اس دستور کے ماتحت اس چور سے بھی دریافت کیا گیا کہ اس کی کوئی خواہش ہو تو بیان کر دے.اس نے کہا، میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں.جیل خانہ والوں نے اس کی ماں کو بلایا اور اس کی ملاقات کا انتظام کر دیا.اس نے کہا، میں نے اپنی ماں کو علیحدگی میں ملنا ہے.چنانچہ پردہ ڈال دیا گیا تا وہ اپنی ماں سے علیحدگی میں بات کرے.جب اس کی ماں علیحدگی میں ملنے کے لئے گئی تو اس نے کہا، میں تمہارے کان میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.چنانچہ اس نے اپنا کان اس کی طرف کر دیا.اس کا اس طرف کان جھکا نہ تھا کہ یکدم وہ چیخنے لگ گئی اور اس نے کہنا شروع کر دیا، ہائے میں مرگئی ، ہائے میں مرگئی.پولیس نے آواز سنی تو وہ دوڑ کر اندر آئی اور اس نے دیکھا کہ اس نے اپنی ماں کا کان دانتوں سے کاٹ لیا ہے اور اس کا تمام جسم اور کپڑے خون سے لت پت ہیں.یہ نظارہ دیکھ کر پولیس کے آدمیوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ تجھ سے بڑا ظالم اور کون ہوگا کہ تو نے موت کے وقت اپنی والدہ سے اتنی ظالمانہ حرکت کی.پھر اگر پھانسی سے بڑھ کر کوئی اور سزا ہوتی تو تم اس کے قابل تھے.اس پر اس نے کہا، تمہیں کیا پتہ پھانسی کی سزا در اصل مجھے میری والدہ نے ہی دلائی ہے.بچپن میں مجھے عادت تھی کہ میں سکول جاتا تو کسی لڑکے کی پنسل یا دوات چرا لاتا اور گھر آکر والدہ کو دے دیتا.جب پنسل اور دوات کے مالک گھر آتے تو بجائے اس کے کہ وہ مجھے ڈانتی، الٹا آنے والوں سے لڑنا شروع کر دیتی اور کہتی کہ میرا بچہ چور نہیں، حالانکہ اسے علم ہوتا تھا کہ میں وہ چیزیں چرا کر لایا ہوں.اس پر میں دلیر ہو گیا اور بڑی بڑی چوریاں شروع کر دیں.لیکن میری والدہ ان پر بھی پردہ ڈالتی رہی.پھر میں نے چوروں کی صحبت اختیار کی اور گھروں کو لوٹنا شروع کیا.لیکن اس وقت بھی میری والدہ کو خیال نہ آیا کہ وہ مجھے منع کرے.وہ ہر دفعہ میرے قصور کو چھپانے کی کوشش کرتی اور اگر کوئی شخص آکر پوچھتا تو اس سے لڑتی اور کہتی کہ میرالڑ کا چور نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ ایک 590
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ1956ء چوری کے دوران لڑائی ہوگئی اور مجھ سے ایک شخص قتل ہو گیا ، جس کی پاداش میں آج مجھے پھانسی پر لٹکایا جارہا ہے.اگر میری والدہ شروع میں ہی مجھے چوری سے باز رکھتی اور میری چوریوں پر پردہ نہ ڈالتی تو مجھے بڑی چوریوں کے لئے دلیری نہ ہوتی اور مجھے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.پس حقیقت یہی ہے کہ کہ ماں باپ کی تربیت بچوں پر بڑا گہرا اثر ڈالتی ہے.جن بچوں کے والدین بچپن سے ہی ان کے کانوں میں یہ بات ڈالتے رہتے ہیں کہ انہوں نے بڑے ہو کر دین کی خدمت کرنی ہے، وہ دینی ماحول سے الگ ہو کر بھی اس بات کو بھلاتے نہیں بلکہ اسے ہمیشہ یادر کھتے ہیں.چند دن ہوئے، شیخو پورہ کے ایک افسر نے جنہوں نے بی سی جی کا کورس مکمل کیا ہوا ہے، مجھے خط لکھا کہ میں دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا، بہت اچھا ہم غور کریں گے کہ آپ کی خدمات سے سلسلہ کس رنگ میں فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ لیکن آپ یہ بتائیں کہ آپ کا کس خاندان سے تعلق ہے؟ انہوں نے کہا، آپ نے صوفی عبد الخالق صاحب جالندھر والوں کا نام سنا ہو گا.میں نے کہا، میں خوب جانتا ہوں ، وہ جالندھر کے مشہور پیر تھے اور ان کی ایک بیٹی قادیان آیا کرتی تھی.انہوں نے کہا، وہ میری والدہ ہی تھیں.میرے نانا تو احمدیت کے سخت مخالف تھے لیکن میری والدہ نے آخری عمر میں احمدیت قبول کر لی تھی اور فوت ہونے کے بعد وہ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئی ہیں.پھر انہوں نے لکھا، مجھے زندگی وقف کرنے کی تحریک اس لئے ہوئی ہے کہ جب میں پیدا ہوا تھا، اسی وقت سے میری والدہ نے میرے کانوں میں یہ بات ڈالنی شروع کی تھی کہ میں نے تمہاری زندگی خدمت دین کے لئے وقف کرنی ہے.میں چار، پانچ سال کا ہی تھا کہ وہ فوت ہو گئیں لیکن ان کی وہ بات میرے دل میں ایسی گڑی ہے کہ اب جبکہ میں بڑا ہو گیا ہوں، میں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرلی ہے اور بی سی جی کا ڈپلومہ بھی حاصل کر لیا ہے، میرے دل میں ہمیشہ یہ خلش رہتی ہے کہ میری والدہ نے تو یہ خواہش کی تھی کہ میں دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کروں لیکن میں دنیا کے کاموں میں مشغول ہوں.انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اس بات کا ذکر اپنے والد سے بھی کیا تھا.انہوں نے بھی کہا تھا کہ جب تمہاری والدہ کی یہ خواہش تھی کہ تم دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرو تو تم زندگی وقف کر دو.اب دیکھو ماں فوت ہوگئی ، اس کا بیٹا دوسرے ماحول میں چلا گیا ، اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ، بی سی جی کا ڈپلومہ حاصل کیا اور اب اسے ایک اچھی ملازمت ملی ہوئی ہے.لیکن پھر بھی اس کے دل میں یہ جلن رہتی ہے کہ میری ماں کہتی تھی کہ میں نے تمہیں دین کی خدمت کے لئے وقف کرنا ہے لیکن میں دنیا 591
خطبه جمعه فرموده 09 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کمانے میں لگا ہوا ہوں.پس ماں باپ کی باتیں بڑا اثر پیدا کرتی ہیں اور ان کی عدم توجہی کے نتیجہ میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.لیکن توجہ بھی اسی وقت اثر کرتی ہے، جب ماں باپ کو کسی عارضی جوش کے نتیجہ میں دین کی خدمت کا احساس نہ ہوا ہو بلکہ مستقل طور پر یہ فرض انہیں بے چین رکھتا ہو اور وہ ہمیشہ اپنی اولا د کو اس طرف توجہ دلاتے رہتے ہوں.اور جو ماں باپ صرف وقتی جوش کے نتیجہ میں اس طرف توجہ کرتے ہیں، وہ بعد میں نہ صرف اپنے عہد پر قائم نہیں رہتے بلکہ ان کی اولاد میں بھی دین کی خدمت کا احساس نہیں رہتا.میں نے عموماً دیکھا ہے کہ جب کسی کا چھوٹا بچہ شدید بیمار ہوجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے اللہ! تو اسے شفا دے دے.اگر تو اپنے فضل سے اسے شفا دے دے گا تو میں اسے دین کی خدمت کے لئے وقف کردوں گا.مگر جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے کیا عہد کیا تھا ؟ اور وہ اسے دنیا کے کاموں پر لگا دیتے ہیں.اسی طرح بعض والدین مجھے ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہمارے سب بچے دین کے لئے وقف ہیں.مگر جب وہ بچے جوان ہو جاتے ہیں تو انہیں دنیوی کاموں پر لگا دیتے ہیں.میں شمار کرنے لگوں تو باوجود اس کے کہ بیماری کی وجہ سے میرا حافظہ کمزور ہو گیا ہے، اب بھی میں ہیں، پچھیں آدمیوں کا نام لے سکتا ہوں ، جنہوں نے اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا لیکن اب وہ سب کے سب دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں.اور انہیں یاد ہی نہیں آتا کہ کسی وقت انہوں نے اپنے سب بچوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا.پھر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں، جو کہتے ہیں ، حضور ! ہمارے دو بچے ہیں اور وہ دونوں وقف ہیں.لیکن جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں اور دین کی خدمت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو ان کا خط آ جاتا ہے کہ ہم نے اپنے دو بچوں کو وقف کیا تھا لیکن ان میں سے جو کچھ ہوشیار ہے، وہ تو ہماری بات ہی نہیں مانتا اور جو ہوشیار نہیں، وہ ہماری بات تو مانتا ہے لیکن چونکہ اس کی صحت کمزور ہے، اس لئے اس کی زندگی وقف کرنے کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں.پھر سالہا سال گزر جاتے ہیں، نہ ان کا ہوشیارلڑ کا دین کی خدمت کے لئے آگے آتا ہے اور نہ کمزور کو دین کی خدمت میں لگایا جاتا ہے.ان کا یہ طریق عمل ایسا ہی ہوتا ہے، جیسے لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی پٹھان تھا، وہ ایک کھجور کے درخت پر چڑھ گیا.کھجور کا درخت ستر ، اسی فٹ اونچا ہوتا ہے اور پھر اس کی کوئی شاخ بھی نہیں ہوتی کہ اس کا سہارا لے کر اس پر چڑھا جا سکے یا اس سے اترا جا سکے.وہ کسی نہ کسی طرح اس پر چڑھ تو گیا.لیکن جب اس نے نیچے دیکھا تو ڈر گیا اور اس نے سمجھا کہ اگر میں گر گیا تو میری ہڈی پسلی ٹوٹ جائے گی.اس پر کہنے لگا کہ 592
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ 1956ء اے خدا! اگر تو مجھے بحفاظت نیچے اترنے کی توفیق دے دے تو میں ایک اونٹ کی قربانی کروں گا.اور یہ کہہ کر اس نے نیچے اترنا شروع کیا.جب وہ ایک تہائی کے قریب نیچے اتر آیا تو اتفاقا وہاں کوئی چھوٹی سی شاخ تھی ، اس پر سہارا لے کر پھر اس نے نیچے کی طرف دیکھا تو زمین اب قریب تھی اور اسے پہلے کی طرح بھیا تک دکھائی نہیں دیتی تھی.اس کا ڈر کچھ کم ہوا تو کہنے لگا ، اتنے فاصلہ کے لئے اونٹ کی قربانی تو بہت زیادہ ہے، اگر میں نیچے چلا گیا تو بطور شکرانہ ایک گائے ضرور قربان کروں گا.اور پھر اترنا شروع کیا.جب وہ ایک تہائی فاصلہ اور نیچے آ گیا تو اس نے زمین کی طرف دیکھا.اب زمین اسے پہلے سے بھی زیادہ قریب دکھائی دی اور اس نے خیال کیا کہ گائے کی قربانی تو بہت زیادہ ہے، اگر میں نیچے پہنچ جاؤں تو ایک بکری کی قربانی تو ضرور کروں گا.اور پھر اترنا شروع کیا.جب وہ زمین سے صرف تین چار گز کے فاصلہ پر آگیا تو کہنے لگا، اتنے فاصلہ کے لئے ایک بکری کی قربانی بھی بہت زیادہ ہے، اگر نیچے پہنچ گیا تو ایک مرغی کی قربانی ضرور کروں گا.جب وہ ایک دوگز اور نیچے آ گیا تو اسے مرغی کی قربانی بھی بڑی معلوم ہوئی.اور کہنے لگا، مرغی نہ سہی ، ایک انڈا تو خدا تعالیٰ کی راہ میں دے ہی دوں گا.جب وہ زمین پر پہنچ گیا تو اس نے اپنی شلوار میں سے ایک جوں نکالی اور اسے مار کر کہنے لگا، جان کے بدلے جان، چلو قربانی ہوگئی.یہی حال ان لوگوں کا ہے، جو اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں تو وقف کر دیتے ہیں لیکن اگر ان میں کو سے کوئی ہوشیار ہو تو کہہ دیتے ہیں یہ تو ہماری بات نہیں مانتا، دوسرے بچہ کو وقف کر دیں گے.لیکن پھر دوسرے کے متعلق خط آجاتا ہے کہ اس کی صحت کمزور ہے، اس کے وقف کا کوئی فائدہ نہیں.کئی لوگ ایسے ہیں، جن کے چھ، چھ بچے تھے اور انہوں نے کہا کہ یہ چھ کے چھ بچے دین کی خدمت کے لئے وقف ہیں.لیکن اب وہ چھ کے چھ دنیا کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں.پس اس دوست کی یہ بات بالکل درست ہے کہ والدین کو چاہئے کہ وہ بچپن سے ہی اپنے بچوں کے دلوں میں یہ بات ڈالنا شروع کر دیں کہ بڑے ہو کر انہوں نے دین کی خدمت کرنی ہے.اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کام میں عورتیں بہت مدد دے سکتی ہیں.اس وقت مسجد میں عورتیں بھی بیٹھی ہیں.میں انہیں بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں اور بچپن سے ہی بچوں کے کانوں میں یہ ڈالنا شروع کر دیں کہ بڑے ہو کر انہوں نے دین کی خدمت کرنی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بڑے ہوکر انہیں دین کی خدمت کا احساس رہے گا.کچھ عرصہ ہوا کالج کی ایک سٹوڈنٹ ہمارے گھر آئی اور اس نے مجھے ایک رقعہ دیا، جس میں لکھا تھا کہ میں دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتی ہوں.میں نے کہا، بی بی لڑکیاں زندگی 593
خطبه جمعه فرموده 09 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم وقف نہیں کر سکتیں.کیونکہ واقف زندگی کو تبلیغ کے لئے گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے بلکہ بعض دفعہ اسے ملک سے بھی باہر جانا پڑتا ہے اور لڑکیاں اکیلی باہر نہیں جاسکتیں.ہاں اگر تم زندگی وقف کرنا چاہتی ہو تو کسی واقف زندگی نوجوان سے شادی کر لو.وہ خاموش ہو کر چلی گئی.میری بیوی کی ایک ہم جماعت کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگی، میں نے اس سے پہلے کی نیت کی ہوئی تھی کہ میں اپنی زندگی دین کے لئے وقف کروں گی لیکن اس نے پہل کرلی.پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ اس کی شادی ایک غیر ملکی واقف زندگی نوجوان سے ہوگئی.اب دیکھو، نیک نیتی کیسے اچھے پھل لاتی ہے؟ پھر ایک دن ایک اور لڑکی روتی ہوئی میرے پاس آئی اور اس نے کہا کہ میں کسی واقف زندگی نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہوں لیکن میرے والد اس میں روک بنتے ہیں اور وہ میری شادی واقف زندگی سے نہیں کرنا چاہتے.میں حیران ہوا کہ اس کے اندر کس قسم کا اخلاص پایا جاتا ہے؟ میں نے مولوی ابوالعطاء صاحب کو کہا کہ وہ اس کے والد کو سمجھا ئیں.آخر چنددنوں کے بعد وہ پھر آئی اور اس نے کہا کہ میرا والد ایک واقف زندگی سے میری شادی کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے.چنانچہ اس کی شادی ہوگئی.شادی کے بعد وہ پھر ایک دن روتی ہوئی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرا باپ کہتا ہے کہ اگر تو اپنے خاوند کے ساتھ ملک سے باہر گئی تو میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھوں گا.میں نے کہا، میں بیمار ہوں تمہارے رونے کی وجہ سے میرا دل گھبراتا ہے، اس لئے تم ہو خود ہی کچھ کرو اور اپنے والد کو کسی نہ کسی طرح راضی کر لو.بعد میں ، میں نے پھر مولوی ابوالعطاء صاحب سے کہا اور انہوں نے کوشش کر کے سمجھوتہ کرا دیا.اب دیکھو وقف زندگی ایک جہاد ہے اور جہاد کا عورتوں کو حکم نہیں.واقف زندگی نو جوانوں کو بیرون ممالک جانا پڑتا ہے اور لڑکیاں اکیلی باہر نہیں جاسکتیں، اس لئے اس قسم کی قربانی کا انہیں براہ راست حکم نہیں.لیکن جب لڑکیوں میں دین کی خدمت کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ ان کی خواہش پوری ہو جاتی ہے.پس ضروری ہے کہ ماں باپ بچپن سے ہی اپنی اولاد کے کانوں میں یہ بات ڈالنی شروع کر دیں کہ انہوں نے بڑے ہو کر دین کی خدمت کرنی ہے.اور پھر اگر اپنے بچوں کو وقف کرنے کا عہد کریں تو ان لوگوں کی طرح نہ بنیں، جو شروع شروع میں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سب بچے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیئے ہیں لیکن جب عملی طور پر وقف کا سوال پیدا ہوتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھی انہوں نے وقف کا نام ہی نہیں لیا تھا.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ جماعت کے احباب کو توجہ دلائی جائے کہ وہ واقفین زندگی کی قدر کیا کریں.اور یہ سمجھیں کہ دین کا خادم ہونا ، نہایت اعلیٰ اور قابل قدر مقام ہے اور اس کی جتنی بھی 594
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبه جمعه فرمودہ 09 مارچ1956ء عزت کی جائے کم ہے.میرے نزدیک یہ ایک نہایت ضروری امر ہے اور جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.اس غرض کے لئے جماعت میں یہ طریق جاری کیا گیا ہے کہ جو واقف زندگی تبلیغ کے لئے باہر جاتا ہے یا ایک وقت تک کام کرنے کے بعد واپس آتا ہے، اسے الوداع یا خوش آمدید کہنے کے لئے کثرت سے لوگ سٹیشن پر جاتے ہیں اور اس کا اعزاز کرتے ہیں.لیکن اس طرف بھی پوری توجہ نہیں.میرے نزدیک واقفین زندگی کے اعزاز کو بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ باہر جائیں تو ہزاروں کی تعداد میں جماعت کے دوست انہیں الوداع کہنے جائیں.اور جب وہ واپس آئیں تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ انہیں خوش آمدید کہنے جائیں.ایک طرف مردوں کا ہجوم ہو اور دوسری طرف عورتیں گروہ در گروہ کھڑی ہوں.تاکہ دوسروں کو بھی خیال آئے کہ کاش ان کے بچے بھی تبلیغ کے لئے باہر جاتے اور وہ بھی اس قسم کی خوشی کا دن دیکھتے.اسی طرح دوسری جماعتوں کو بھی اس کام میں حصہ لینا چاہئے.مثلاً لاہور، شیخو پورہ، لائل پور یا کسی دوسرے سٹیشن پر گاڑی پہنچے تو وہاں کی جماعتیں الوداع یا خوش آمدید کہنے کے لئے بڑی بھاری تعداد میں اسٹیشن پر پہنچا کریں.بلکہ جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ایسے موقعوں پر اپنے غیر احمدی دوستوں کو بھی ساتھ لایا کریں کیونکہ اس طرح بھی انہیں تبلیغ ہو جاتی ہے.اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر جماعت واقفین کی قدر نہیں کرتی تو اس میں ایک حد تک نقص واقفین زندگی کا بھی ہے.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ سارے کام صرف مسائل دینیہ سیکھ لینے سے ہی نہیں ہوتے بلکہ انہیں اپنے اندر کچھ نہ کچھ انتظامی قابلیت بھی پیدا کرنی چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو، جب آپ کسی صحابی کو کسی کام کے لئے مقرر فرماتے تھے تو آپ اس کی انتظامی قابلیت کو بھی دیکھتے تھے.آپ کے پاس بڑے بڑے عالم صحابہ بھی ہوتے لیکن آپ اس عہدہ پر اسی شخص کو مقرر فرماتے ، جو چاہے علمی قابلیت کے لحاظ سے دوسروں سے کم ہی ہو لیکن اس میں انتظامی قابلیت پائی جاتی ہو.ہمارے مبلغین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اندر انتظامی قابلیت پیدا کریں تا انہیں ضرورت کے وقت ان کاموں پر بھی لگایا جا سکے.سلسلہ کو صرف مبلغین کی ہی ضرورت نہیں بلکہ ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے، جو انتظامی کام سنبھال سکیں.مثلاً اس وقت نو کے قریب ناظر ہیں، نو کے قریب وکیل ہیں اور اٹھارہ کے قریب نائب ناظر اور نائب وکیل ہیں، چھتیں تو یہی بن گئے.اگر انتظامی قابلیت رکھنے والے لوگ ہمیں میسر نہ آئیں تو اس تعداد کو کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے؟ لیکن اگر واقفین علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر انتظامی قابلیت بھی پیدا کریں، غیر ملکی زبانیں سیکھیں، ان میں مختلف مضامین پر لکھی 595
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الهی تحریک...جلد سوم ہوئی کتابوں کا مطالعہ کریں اور اچھی اور مفید باتوں کو اخذ کرنے کی کوشش کریں تو مرکز کے انتظامی عہدوں پر بھی انہیں لگایا جاسکتا ہے.عیسائیوں کو دیکھ لو، ان میں اکثر انتظامی عہدے پادریوں کے ہی سپر د ہوتے ہیں.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی تعلیم کا معیار بھی وہی ہوتا ہے، جو انتظامی محکموں میں کام کرنے والے عہد یداروں کا ہوتا ہے.یورپ کی تاریخ پڑھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ پرانی حکومتوں میں وزیر اعظم ، وزیر جنگ اور وزیر خزانہ کے عہدوں پر پادری ہی مقرر کئے جاتے تھے.جب فرانس کی طاقت پورے جو بن پر تھی ، اس کا وزیر خزانہ ایک پادری تھا.جب بھی مالی لحاظ سے بادشاہ کو کوئی دقت پیش آئی، وزیر خزانہ اسے دور کرتا تھا اور مشکلات کو دور کرنے کی وہ کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتا تھا.اسی طرح اور بھی کئی بادشاہ گزرے ہیں، جن کی حکومتوں کے نظم و نسق میں پادریوں کو خاص دخل حاصل تھا.جب انتظامی محکموں کے افسر فیل ہو جاتے تھے تو پادری حکومت کو قائم رکھنے میں مدد دیتے تھے.پس اگر واقفین اپنے اندرا نتظامی قابلیت پیدا کرلیں تو اس کی وجہ سے جماعت میں ان کا اعزاز خود بخود بڑھ جائے گا.انگلستان کے عیسائی اگر چہ پروٹسٹنٹ ہیں، کیتھولک نہیں لیکن پھر بھی وہاں پادریوں کے اثر کی یہ کیفیت ہے کہ ایڈورڈ ہشتم نے جب ایک مطلقہ عورت سے شادی کا ارادہ کیا تو گوہ عورت پہلے بھی شاہی دعوتوں میں شریک ہوا کرتی تھی اور سب کو اس کا علم تھا.لیکن پادریوں نے اس پر اعتراض کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ یہ بات چرچ کے دستور کے خلاف ہے.ان پادریوں کا اتنا اثر تھا کہ باوجود اس کے کہ مسٹر چرچل بادشاہ کی تائید میں تھے، تمام وزراء نے یہ نوٹس دے دیا کہ اگر بادشاہ نے اس عورت سے شادی کی تو ہم استعفیٰ دے دیں گے.نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ اس بات پر مجبور ہو گیا کہ تخت کو چھوڑ دے.حالانکہ وہ اپنی رعایا کو انتہائی محبوب تھا.پس ہمارے مبلغین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اندر انتظامی قابلیت پیدا کریں تا کہ انہیں مرکزی عہدوں پر لگایا جا سکے.اگر ان میں قابلیت پیدا ہو جائے تو جب انہیں ناظر یا نائب ناظر کے عہدہ پر مقرر کیا جائے گا تو وہ بڑے بڑے وزراء کو بھی بے دھڑک مل سکیں گے.اسی طرح انہیں اخبارات کا بھی مطالعہ کرنا چاہیئے.لیکن دوسروں سے خریدے ہوئے اخبارات نہ ہوں بلکہ قربانی کر کے خود اخبارات خریدا کریں اور ان کا مطالعہ کیا کریں.یہ نہیں کہ دفتر گئے اور وہاں اخبار پڑی دیکھی تو اس کو پڑھنا شروع کر دیا.انہیں چاہئے کہ خواہ کتنا ہی تنگ گذارہ کیوں نہ کرنا پڑے، اخبار خود خرید کر پڑھیں.میں اپنے بچپن کے زمانہ میں بھی اخبار خود خریدا کرتا تھا.حالانکہ اس وقت مجھے صرف تین روپیہ ماہوار جیب خرچ ملا کرتا تھا.مجھے انگریزی زبان سے دلچسپی بھی انہیں اخبارات کے مطالعہ کی وجہ سے 596
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ 1956ء ہوئی.میں اپنا سارا جیب خرچ اخبارات خریدنے میں لگا دیتا تھا.کیونکہ مجھے اپنے معلومات کو وسیع کرنے شوق تھا.ان دنوں سکول میں اخبارات آتے تھے اور میرے لئے ممکن تھا کہ میں وہاں جا کر ان کا مطالعہ کر سکوں.لیکن میری غیرت برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ میں دوسری جگہ سے اخبارات لے کر پڑھوں.پس واقفین کو چاہئے کہ وہ خود اخبارات خریدیں اور ان کا مطالعہ کریں.تاکہ ان کی معلومات وسیع ہوں.انہیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ اخراجات کہاں سے لائیں گے، انہیں معمولی گزارہ ملتا ہے؟ بلکہ انہیں کسی نہ کسی طرح اخبارات کے لئے اخراجات مہیا کرنے چاہئیں.مثلاً یہ ہوسکتا ہے کہ وہ کپڑے دھوبی سے نہ دھلوائیں بلکہ خود دھولیں اور جو تم بچے اس سے کوئی اخبار خرید لیں.اسی طرح انہیں انتظامی کاموں کی اہلیت پیدا کرنی چاہئے تا کہ جب انہیں ایسے عہدوں پر مقرر کیا جائے ، وہ اپنے کام کو خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکیں.درد صاحب کو دیکھ لو، جب وہ مرکز میں خدمت کے لئے آئے تو ان کی عمر 18، 19 سال کی تھی، مگر اس وقت بھی وہ سلسلہ کے کاموں کے لئے بڑے بڑے سرکاری افسروں حتی کہ وزراء کو بھی ہے دھڑک مل لیتے تھے.اور اب بعض لوگ ایسے ہیں، جو 45، 45 سال کے ہیں اور دردصاحب سے تعلیم میں بھی زیادہ ہیں لیکن انہیں کسی افسر سے ملنے کے لئے بھیجا جائے تو اول تو وہ افسر کی ملاقات سے پہلے ہی کا نچنے لگ جاتے ہیں اور پھر اوٹ پٹانگ باتیں کر کے آجاتے ہیں.حالانکہ احراری علما ء نے بھی اس قسم کی قابلیت اپنے اندر پیدا کر لی تھی کہ خواجہ ناظم الدین صاحب ان سے ملا کرتے تھے.نہیں کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے واقفین اپنے اندر قابلیت پیدا نہ کریں.اگر واقفین اپنے اندر یہ قابلیت پیدا کرلیں تو جماعت کے دوست خود بخود ان کا اعزاز کرنے لگ جائیں گے.پس اگر واقفین چاہتے ہیں کہ ان کا جماعت میں اعزاز ہو تو انہیں بھی اس کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے.انہیں موجودہ سیاست اور تنظیم سے واقفیت پیدا کرنی چاہئے.پچھلے سال جو مجھے بیماری کا حملہ ہوا، وہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ میں نے بجٹ کی تیاری کے سلسلہ میں بہت زیادہ محنت کی تھی.اس دفعہ پھر تحریک جدید کے وکیل اعلیٰ میرے پاس آئے اور کہا کہ بحث کی تیاری کے سلسلہ میں جو مشکلات ہیں، ان کو دور کرنے میں ہماری راہنمائی فرمائیں.حالانکہ وہ خود مالیات کے ماہر ہیں اور گورنمنٹ کے سیکرٹری رہے ہیں.میں نے انہیں کہا کہ میں بیماری کی وجہ سے مجبور ہوں.میں آپ کی کوئی مد نہیں کر سکتا، آپ قریشی عبدالرشید صاحب کو ساتھ لے لیں اور بجٹ پر غور کر کے ان مشکلات کا حل تلاش کر لیں.چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور قریشی عبدالرشید صاحب سے مل کر انہوں نے 597
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم بجٹ پر غور کیا اور آخر تمام مشکلات حل ہو گئیں.اسی طرح صدر انجمن احمدیہ کے اختر صاحب نے انہیں سرکاری ملازمت کا تجربہ تھا، انہوں نے چند نو جوانوں سے مل کر عملہ میں کانٹ چھانٹ شروع کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے اخراجات کم ہو گئے.پس اگر نو جوان اپنے اندر انتظامی قابلیت پیدا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کا جماعت میں اعزاز نہ ہو اور انہیں مرکز میں اہم عہدوں پر نہ لگایا جائے.اس کے علاوہ خود واقفین کو بھی اپنے اندر وقار اور عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئے.مجھے ایک دوست نے بتایا کہ میں کسی دوسرے ملک میں جار ہا تھا کہ مجھے ایک عالم نے کہا کہ مانگا تو بری بات ہے لیکن اگر آپ میرے لے کوئی تحفہ ا نا چاہیں تو فلاں چیزلے آئیں.حالانکہ میں تو لانا غیرت کا ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ اگر کسی وقت ہمارے منہ سے غلطی سے ایسی بات نکل ہی جائے اور دوسرا ہمارے لئے کوئی چیز لے آئے ،تب بھی ہم وہ چیز قبول نہ کریں.اور کہیں کہ مجھ سے غلطی ہوئی تھی کہ میں نے آپ سے اس کا ذکر کر دیا.اب آپ یہ چیز کسی دوسرے کو دے دیں، میں یہ لینے کے لئے تیار نہیں اور اگر پھر بھی وہ دینے پر اصرار کرے تو اسے اس کی قیمت ادا کر دی جائے.میرے ساتھ حال ہی میں یہ واقعہ ہوا کہ ہمارے ایک دوست بجلی کا پنکھا لینے کے لئے گئے.وہاں کوئی شخص ایک خاص قسم کے سیکھے کا آرڈر دے رہا تھا.ہمارے اس دوست کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ میں یہ پنکھا، اپنے پیر کے لئے بنوا رہا ہوں.انہوں نے کہا، میرے پیر کے لئے بھی ایک پنکھا بنوادیں.چنانچہ وہ ایک پنکھا بنوا کر میرے پاس لے آئے.میں نے انہیں کہا، اسے فور اواپس کر دو کیونکہ تم نے خود مانگا ہے اور سوال کر کے میری بے عزتی کی ہے.میں اسے ہرگز قبول نہیں کر سکتا.پس اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی کپڑا نہیں، کوٹ نہیں اور کسی دوست سے بات کرتے ہوئے تمہارے منہ سے نکل جاتا ہے کہ میرے لئے فلاں چیز لیتے آنا اور وہ لے آئے تو تم اسے کہو کہ کسی اور کو دے دو کیونکہ میرے منہ سے غلطی سے ایسی بات نکل گئی تھی.یہ سوال ہے اور سوال کرنا منع ہے.اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یقینا اس کی عزت بڑھے گی اور لوگ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیں گے.اس دوست نے اس بات کی کہ واقفین کو جماعت میں بنظر استحسان نہیں دیکھا جاتا ، ایک مثال یہ دی ہے کہ انہیں کوئی لڑکی نہیں دیتا.مگر یہ بات بالکل غلط ہے.میری یہ عادت نہیں کہ میں کسی کا نام لے کر بات کروں ، لیکن جہاں اس کے بغیر چارہ نہ ہو، وہاں مجبوری ہوتی ہے.میرے نزدیک ہمارے 598
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ1956ء جماعت میں ایسی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ معززین جماعت نے واقفین کو اپنی لڑکیاں دیں.مثلا ہمارے ایک مبلغ عبدالحئی صاحب ہیں، وہ صرف میٹرک پاس ہیں.انہیں جماعت کے ایک ڈاکٹر نے ، جن کی پریکٹس ڈیڑھ، دو ہزار روپیہ ماہوار کی ہے، اپنی لڑکی کا رشتہ دے دیا.لیکن عبدالحئی صاحب نے اسے طلاق دے دی.پھر ہم نے وہاں ایک اور مبلغ بھیجا تو با وجود اس کے کہ ڈاکٹر صاحب کو اس لڑکی کی وجہ سے صدمہ پہنچ چکا تھا، انہوں نے اس لڑکی کا نکاح پھر نئے مبلغ سے کر دیا.گویا انہوں نے اپنی لڑکی کی دو دفعہ شادی کی اور دونوں دفعہ واقفین زندگی سے کی.حالانکہ ان کے پہلے داماد نے اس بات کا خیال تک نہ کیا کہ اگر میں واقف زندگی ہوں اور مجھ میں کوئی خوبی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں ہے.یہ شخص دنیوی لحاظ سے نہایت معزز ہے اور ڈیڑھ، دو ہزار روپیہ ماہوار پریکٹس کے ذریعہ کما لیتا ہے.اس نے اگر مجھے محض واقف زندگی ہونے کی وجہ سے لڑکی دے دی ہے تو مجھے اس کی قدر کرنی چاہئے.پھر ایک اور واقف زندگی ہے، اس کے لئے پانچ ، سات رشتے تلاش کئے گئے لیکن اس نے ہر دفعہ انکار کر دیا.اور کہا کہ میری بہن جہاں چاہے گی، میرا رشتہ کرے گی.اور اس کی بہن بھی وہی رشتے لاتی ہے، جن کے متعلق ہمیں علم ہے کہ اس نے پسند نہیں کرنے.پس واقفین زندگی کو بھی اپنی حیثیت دیکھنی چاہیئے.بے شک ان میں دینی قابلیت پائی جاتی ہے لیکن انہیں اپنا معیار اتنا بلند بھی نہیں کر لینا چاہئے کہ کوئی کمشنر اپنی لڑکی انہیں دے تو وہ قبول کریں گے ورنہ نہیں.آخر وہ ایسا رنگ اپنے اندر کیوں پیدا نہیں کرتے ، جو خدا تعالیٰ کو بھی پسند ہو ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مثال ہمارے سامنے ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت ابو بکر مالدار شخص تھے اور انہوں نے اپنی لڑکی آپ کی خدمت میں پیش کر دی تھی.لیکن آپ کی دوسری بیویاں اکثر ایسی ہی تھیں کہ ان میں سے کوئی مطلقہ تھی اور کوئی بیوہ تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کو برداشت کیا ہے یا نہیں؟ پھر واقفین کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ انہیں کسی بڑے رئیس کی لڑکی ملے تو وہ شادی کریں گے، ورنہ نہیں؟ اگر تم اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہو تو لڑکی والے اپنے آپ کو کیوں بڑا نہ سمجھیں؟ پس واقفین کو چاہئے کہ وہ ان باتوں کو ترک کر دیں اور جو چیز بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے ، اس کی قدر کریں.بہر حال یہ بات بالکل غلط ہے کہ واقفین کو رشتے نہیں ملتے.میرے باڈی گارڈوں کی تنخواہ - /65 روپے ماہوار ہے.لیکن پچھلے چند دنوں میں ان میں سے پانچ کی شادیاں ہوئی ہیں.واقفین کو ان سے زیادہ تنخواہ ملتی ہے.مثلاً مبلغین کی تنخواہ-/75 روپے سے ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار ہے.اگر - 65 روپے ماہوار لینے 599
خطبه جمعه فرمودہ 09 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم والے کو رشتہ مل جاتا ہے تو انہیں کیوں نہیں مل سکتا ؟ وجہ صرف یہی ہے کہ باڈی گارڈ تو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں کسی شریف گھرانے کی لڑکی مل جائے تو کافی ہے.لیکن واقف زندگی کہتا ہے کہ مجھے کوئی جرنیل یا گورنر جنرل لڑکی دے ، تب میں شادی کروں گا، ورنہ نہیں.اور جب وہ اپنی قیمت حد سے زیادہ لگاتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے نا کام کرتا ہے.پس جب باڈی گارڈوں کو بھی رشتے مل جاتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ واقفین کو رشتے نہ ملیں.کیونکہ ایک واقف کی حیثیت باڈی گارڈ سے بہت زیادہ ہے.وہ عربی کا گریجوایٹ ہوتا ہے اور اس کا اعزاز باڈی گارڈ سے سو گنے زیادہ ہوتا ہے.پھر اس کی آمد بھی زیادہ ہوتی ہے.باڈی گارڈ کی تنخواہ میں ترقی بھی ہوگی تو وہ - 751 روپے سے زیادہ نہیں بڑھے گی.لیکن واقفین کی تنخواہیں ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار تک جاسکتی ہے.پھر اگر ان میں سے کسی کا بیرونی مبلغ کے طور پر انتخاب ہو گیا یا مرکز میں ناظر یا نائب ناظر کے عہدہ پر تقرر ہو گیا تو ان کی تنخواہ تین تین، چار چار سو روپیہ تک بھی جاسکتی ہے.پس حقیقت یہی ہے کہ واقفین کو رشتے ملتے ہیں لیکن بعض اوقات وہ اپنی نادانی کی وجہ سے خود انہیں رد کر دیتے ہیں.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ جماعت کے امراء کو تحریک کی جائے کہ وہ اپنے ایک، ایک لڑکے کی زندگی دین کی خدمت کے لئے وقف کریں.اس سے بھی جماعت میں واقفین کا اعزاز بڑھے گا اور نو جوانوں کو وقف کی تحریک ہوگی.اس بات کا جواب میں پہلے بھی دے چکا ہوں کہ یہ بالکل غلط ہے.جماعت میں مجھ سے زیادہ ادب اور کس شخص کا ہے؟ میں نے اپنے سب بیٹوں کی زندگیاں وقف کر دیں ہیں.اگر اس سے واقفین کا اعزاز نہیں بڑھا اور جماعت کو وقف کی طرف توجہ نہیں ہوئی تو اور کون سا احمدی ہے، جو اپنا لڑ کا دین کی خدمت کے لئے وقف کر دے تو جماعت میں واقفین کا اعزاز بڑھ جائے گا اور لوگوں کو وقف کی طرف توجہ پیدا ہو جائے گی ؟ پھر ایک شخص نے اس بات کی تحریک کی ہے کہ عیسائیوں کی طرح تبلیغ کی خاطر ایسے نوجوانوں کو لیا جائے ، جو مجردانہ زندگی بسر کرنے کے لئے تیار ہوں.مگر یہ جائز نہیں.اس لئے ہم اسے اختیار نہیں کر سکتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شادی کے بعد عورتیں بعض اوقات ایسے مطالبات کر دیتی ہیں، جو مبلغ پورا نہیں کر سکتے اور اس کے نتیجہ میں ازدواجی زندگی تلخ ہو جاتی ہے.لیکن ہم اس تجویز پر عمل نہیں کر سکتے.اسلام نے تجرد کی زندگی بسر کرنے سے منع کیا ہے.اور جس کام کو اسلام نے جائز قرار نہیں دیا، اسے ہم اسلام کی خدمت کے لئے کس طرح جاری کر سکتے ہیں؟ پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ واقفین کو کوئی نہ کوئی فن سکھانا چاہئے.یہ بات نہایت معقول ہے.میں نے بعض واقفین کو زمیندارہ کام سکھانے کی ہدایت دی ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اچھا کام 600
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ 1956ء کر رہے ہیں.اگر انہوں نے اپنے اندر قابلیت پیدا کر لی تو نہ صرف جماعت میں ان کا وقار بڑھے گا بلکہ یہ فن بھی ترقی کرے گا.جب انہیں جماعتوں میں بھیجا جائے گا تو وہ تبلیغ کے ساتھ جماعت کے زمینداروں کی اقتصادی حالت کو بھی بہتر بناسکیں گے.اسی طرح ڈرائیونگ کا پیشہ بہت مفید ہے.کالج والوں کو چاہئے کہ وہ ہر واقف کو ڈرائیونگ کا کام سکھا دیں.جن لوگوں کو شوق ہوتا ہے، وہ بڑی آسانی سے یہ فن سیکھ لیتے ہیں.پھر ڈرائیونگ کا کام سکھانے کے بعد انہیں موٹر مکینک کا کام سکھانا چاہئے.غیر ملکوں میں ڈرائیونگ کا کام جاننے والے کی بہت قدر ہوتی ہے.وہاں ڈرائیور ملنا مشکل ہوتا ہے.اس لئے اگر کوئی خود ڈرائیونگ جانتا ہو تو اسے کوئی مشکل پیش نہیں آتی.یورپ کے سفر کے دوران میں ، میں نے ایک موٹر ڈرائیور سے دریافت کیا کہ یہاں گھروں میں کام کرنے والے ڈرائیوروں کی کیا تنخواہ ہے؟ تو اس نے بتایا کہ یہاں ان کی تنخوا ہیں./900 روپیہ ماہوار ستک ہیں.پھر میں نے دریافت کیا کہ ٹیکسی ڈرائیوروں کی کیا تنخواہ ہے؟ تو اس نے بتایا ٹیکسی ڈرائیوروں کی تنخواہ 500 روپے ماہوار تک ہے.میں نے کہا، گھر کے ڈرائیور کو تو دن میں کسی وقت ڈرائیونگ کرنی پڑتی ہے اور تمہیں سارا دن ڈرائیونگ کرنی پڑتی ہے، پھر تمہاری اور گھر کے ڈرائیوروں کی تنخواہوں میں اس قدر فرق کیوں ہے؟ تو اس نے بتایا کہ ہمیں وقتاً فوقتاً انعام بھی ملتے رہتے ہیں اور انعاموں کو ملا کر ہماری تنخواہ ہزار روپیہ ماہوار سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے لیکن گھر کے ڈرائیور کو کوئی انعام نہیں ملتا، اس لئے اس کی تنخواہ ٹیکسی ڈرائیور سے زیادہ ہوتی ہے.پس ڈرائیونگ اور مستری کا کام بہت مفید پیشہ ہے اور کالج والوں کو چاہئے کہ وہ اپنے طلباء کو ان پیشوں کی تعلیم دیں.ہمارے علماء نے پچھلے بزرگوں کی کتابیں پڑھی ہیں، ان میں عموماً یہ لکھا ہوتا ہے کہ فلاں بزرگ، جو بہت بڑے عالم تھے اور دنیا کے کناروں سے لوگ ان کے پاس آتے تھے ، موزوں کی مرمت کیا کرتے تھے یا جوتیاں گانٹھ کر روزی کمایا کرتے تھے.فلاں بزرگ ٹوکریاں بنایا کرتے تھے.غرض ہر شخص کوئی نہ کوئی پیشہ جانتا تھا.اس چیز کا اہل عرب پر اتنا اثر ہوا کہ آج تک وہ اپنے پیشے گناتے ہیں.ان میں چاہے کوئی وزیر اعظم ہو تب بھی وہ اپنے نام کے ساتھ اپنا پیشہ لگائے گا اور اسے وہ بالکل برا نہیں سمجھے گا.پس طلباء کو مختلف ہنر سیکھنے چاہئیں ، اسی طرح اگر علماء مختلف پیشے سیکھ لیں تو جماعت میں بھی ان پیشوں کی قدر ہو جائے گی.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ عورتوں کو ڈاکٹری پڑھا کر ان کی واقفین زندگی سے شادی کر دینی چاہئے.مگر یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ واقفین زندگی کو جماعت بنظر استحسان نہیں 601
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم دیکھا جاتا اور دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ عورتوں کو ڈاکٹری پڑھا کر ان کی واقفین زندگی سے شادی کر دینی چاہئے.اگر جماعت کے لوگ اپنی ان پڑھ یا عام تعلیم یافتہ لڑکیاں ، بعض دوستوں کے خیال کے مطابق، واقفین زندگی کو دینے پر تیار نہیں تو وہ ڈاکٹری پاس لڑکیاں ان کے نکاح میں کیسے دے دیں گے؟ لیکن میں پھر کہوں گا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے.جہاں جماعت کا فرض ہے کہ وہ واقفین زندگی کا اعزاز کرے، وہاں واقفین کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے حالات کو دیکھیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ انہیں دے، اس پر قناعت کریں.یہ نہ سمجھیں کہ کسی جرنیل یا وزیر کی بیٹی ہی انہیں ملے گی تو شادی کریں گے، ورنہ نہیں.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ جماعت کے نوجوان مولوی کہلانے سے ڈرتے ہیں، اس لئے وہ اس طرف نہیں آتے.اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ظاہر کا تعلق ہے، ہم نے اس کا علاج کر دیا ہے.چنانچہ ہم نے ان کی ڈگری کا نام شاہد رکھ دیا ہے.وہ مولوی نہ کہلائیں ، شاہد کہلا ئیں.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگوں کو مولوی کہنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اور اب اس عادت کو دور کرنا بہت مشکل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اگر مولوی کہا جاتا تو آپ چڑ جایا کرتے تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی آپ کو چڑانے کے لئے ہمیشہ مولوی غلام احمد کہا کرتا تھا ، جس پر آپ کو غصہ آجاتا تھا.اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کئی بارا سے کہا ہے کہ مجھے مولوی نہ لکھا کرو لیکن یہ مجھے چڑانے کے لئے ہے ہمیشہ یہی لکھتا ہے کہ مولوی غلام احمد کی یہ بات ہے.مگر مولوی کہنے کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں.کیونکہ دینی علوم کی طرف توجہ دلانے کے لئے مولوی کے سوا ہمارے پاس اور کوئی لفظ نہیں.بہر حال ہم نے علماء کی ڈگری کا نام شاہد رکھا ہوا ہے.اس سے بھی کسی حد تک مولویت پر پردہ پڑ جاتا ہے.پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ ایسے واقفین زندگی کو منتخب کیا جائے، جو ساری عمر کے لئے باہر رہیں اور نہ صرف ساری عمر کے لئے باہر رہیں بلکہ اپنی جائیداد بھی جماعت کو دے دیں.یہ بات بھی قابل عمل نہیں.کیونکہ جو شخص اپنی زندگی وقف کرنے کے لئے تیار نہیں، اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اپنی جائیداد بھی وقف کر دے، کہاں تک درست ہوسکتا ہے؟ پھر ایک دوست نے لکھا ہے کہ کچھ عرصہ کے وقف کا دستور رائج کیا جائے.مگر یہ بات بھی قابل عمل نہیں.کیونکہ ایک واقف زندگی کے تیار کرنے پر بڑی بھاری رقم خرچ ہو جاتی ہے.اگر تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کسی واقف زندگی کو صرف تین، چار سال کے لئے ہی رکھا جائے اور پھر اسے فارغ کر دیا جائے تو اس سے جماعت کو مالی نقصان پہنچے گا.اور نہ صرف جماعت کو مالی نقصان پہنچے گا بلکہ اس واقف زندگی کو بھی نقصان 602
تحریک جدید - ایک الجی تحریک...جلد سوم - خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ1956ء پہنچے گا.کیونکہ جب وہ تبلیغ سے واپس آئے گا تو اس کی ملازمت والی عمر نہیں رہے گی.گویا کچھ عرصہ کے وقف کا طریق رائج کرنے سے نہ صرف سلسلہ کا روپیہ ضائع ہوگا بلکہ واقف زندگی بھی کسی سرکاری ملازمت کے حصول کے قابل نہیں رہے گا.پس یہ تجویز گو بظاہر ٹھیک نظر آتی ہے لیکن در حقیقت معقول نہیں.غرض یہ مختلف تجاویز ہیں، جو میرے خطبات کے بعد باہر کے بعض احمدی دوستوں نے لکھی ہیں اور ان کے متعلق میں نے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جس شخص کی قسمت میں یہ لکھا ہو کہ وہ دین کی خدمت کرے گا، اسے اس کی توفیق مل جاتی ہے.اور اگر اس خدمت میں اس کی جان بھی چلی جائے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا.اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ حنین کے موقع پر جب ہزاروں تیراندازوں نے تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی تو مسلمانوں کی سواریاں بدک کر میدان جنگ سے بھاگ پڑیں.درحقیقت اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب اسلامی لشکر روانہ ہوا تو مکہ والوں نے خواہش کی کہ چونکہ ہم حدیث العہد ہیں اور اس سے قبل کسی لڑائی میں شامل نہیں ہوئے ، اس لئے اس موقع پر ہمیں بھی قربانی پیش کرنے کی اجازت دی جائے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور دو ہزار نو مسلم بھی اسلامی لشکر کے ساتھ پڑے.یہ لوگ کفار کے اچانک اور دوطرفہ حملہ کی برداشت نہ کر سکے اور واپس مکہ کی طرف بھاگے.صحابہ گو اس قسم کی تکالیف اٹھانے کے عادی تھے مگر جب دو ہزار گھوڑے اور اونٹ ان کی صفوں میں سے بے تحاشا بھاگتے ہوئے نکلے تو ان کے گھوڑے اور اونٹ بھی ڈر گئے اور سارے کا سارا لشکر بے تحاشا پیچھے کی طرف دوڑ پڑا.یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگر دصرف بارہ صحابی رہ گئے.اور تین اطراف سے قریباً چار ہزار تیرانداز تیر برسا رہے تھے.ایک صحابی کہتے ہیں کہ ہماری سواریاں اس قدر ڈر گئی تھیں کہ ہمارے ہاتھ باگیں موڑ تے موڑتے زخمی ہو گئے لیکن اونٹ اور گھوڑے واپس مڑنے کا نام نہیں لیتے تھے.بعض دفعہ ہم باگیں اس زور سے کھینچتے تھے کہ اونٹ یا گھوڑے کا سراس کی پیٹھ کو لگ جاتا مگر پھر جب ہم اسے پیچھے کی طرف موڑتے تو وہ بجائے پیچھے مڑنے کے اور بھی تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بھاگ پڑتا.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو بلایا اور ان سے فرمایا، عباس ! بلند آواز سے کہو کہ اسے وہ لوگو، جنہوں نے حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان کی تھی اور اسے وہ لوگو، جوسورۃ بقرۃ کے زمانہ کے مسلمان ہو، خدا تعالیٰ کا رسول تمہیں بلاتا ہے.حضرت عباس نے جب یہ آواز دی تو وہ صحابی کہتے ہیں کہ ہمیں یوں محسوس ہوا کہ گویا ہم مر چکے ہیں، قیامت کا دن آگیا ہے اور اسرافیل بگل بجا کر ہمیں 603
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم بلا رہا ہے.تب ہم میں سے جو اپنی سواریاں موڑ سکے، انہوں نے اپنی سواریاں موڑ لیں اور جوسواریاں موڑ نہ سکے، انہوں نے تلواروں سے اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کی گردنیں کاٹ دیں اور خود دوڑتے ہوئے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ لبیک یار رسول اللہ ! لبیک یا رسول اللہ! اے رسول اللہ ! ہم حاضر ہیں.اے رسول اللہ ! ہم حاضر ہیں.اور چند منٹ میں ہزاروں کا لشکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع ہو گیا.دیکھو، صحابہ میں کس قدر جوش اور ایمان پایا جاتا تھا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز پر کہ خدا تعالیٰ کا رسول تمہیں بلاتا ہے، اپنی سواریوں کی گردنیں کاٹ دیں اور دوڑتے ہوئے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے.اور انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! ہم اسلام کی خدمت کے لئے حاضر ہیں.پس جن لوگوں کی قسمت میں دین کی خدمت کرنا ہوتا ہے، وہ خود بخود اس کے لئے آگے آجاتے ہیں.لیکن جن لوگوں کی قسمت میں نیکی نہیں، انہیں نہ میرے خطبات کام دے سکتے ہیں، نہ دوسروں کی مثالیں انہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں انہیں دین کی خدمت کے لئے آگے لا سکتی ہیں اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی باتیں انہیں اس طرف توجہ دلا سکتی ہیں.وہ ازلی محروم ہیں.ان کو برکت کون دے؟ برکت اسی کو ملے گی ، جس کی قسمت میں وہ پہلے سے لکھی ہوئی ہے.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ مرزا غالب کو آم بہت پسند تھے.ایک دن وہ بادشاہ کو ملنے گئے تو وہ انہیں اپنے باغ میں لے گیا.پرانے زمانہ میں درباریوں کو یہ ادب سکھایا جا تا تھا کہ وہ ہمیشہ بادشاہ کی طرف اپنا منہ رکھا کریں.لیکن مرزا غالب بار بار آموں کی طرف دیکھتے.بادشاہ نے کہا، مرزا غالب یہ کیا بات ہے؟ تم بار بارا دھر کیوں دیکھتے ہو؟ انہوں نے کہا، حضور میں نے سنا ہوا ہے کہ جب خدا تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اس دنیا میں بھیجتا ہے تو وہ رزق پر اس کا نام لکھ دیتا ہے.میں دیکھ رہا ہوں کہ شاید کسی ام پر میر ایا میرے باپ دادا کا بھی نام لکھا ہوا ہو.بادشاہ ہنس پڑا اور اس نے اپنے ایک نوکر کو حکم دیا کہ وہ مرزا غالب کے گھر آم دے آئے.پس جس کی قسمت میں خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت لکھی ہے، اس کے راستہ میں خواہ دس میل تک زہریلے سانپ ہوں، وہ انہیں کچلتا ہوا آگے آجائے گا اور خواہ جنگی تلواریں کھڑی ہوں اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ آگے بڑھا تو اس کی گردن کٹ جائے گی ،تب بھی وہ دین کی خدمت کے لئے آجائے گا.بلکہ دین کی خدمت تو بڑی چیز ہے ہم دیکھتے ہیں کہ باطل کے ساتھ محبت رکھنے والے بھی کسی مصیبت کی پرواہ نہیں کرتے.604
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مارچ 1956ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے.ایک میراثی کا لڑکاسل کی مرض میں مبتلا ہو گیا.اس کی ماں اسے علاج کے لئے قادیان لائی.وہ لڑکا عیسائی ہو چکا تھا اور اس کی والدہ کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح دوبارہ اسلام قبول کر لے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی کہ آپ نہ صرف اس کا علاج کریں بلکہ اسے تبلیغ بھی کریں تاکہ یہ دوبارہ اسلام میں داخل ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھا.آخر ایک رات بیماری کی حالت میں ہی وہ بٹالہ کی طرف بھاگ نکلا تا کہ وہاں عیسائیوں کے مرکز میں چلا جائے.اس کی ماں کی آنکھ کھلی اور اس نے چار پائی خالی دیکھی تو وہ رات کے اندھیرے میں اکیلی بٹالہ کی طرف دوڑ پڑی اور کئی میل کے فاصلہ سے اسے پکڑ کر لے آئی.پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور روتی ہوئی کہنے لگی ، حضور میرا یہ اکلوتا بیٹا ہے، اگر یہ مرجائے تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں.لیکن میری صرف اتنی خواہش ہے کہ جس طرح بھی ہو، یہ مرنے سے پہلے دوبارہ کلمہ پڑھ لے.اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے اخلاص کو دیکھ کر یہ فضل کیا کہ دو، تین دن کے بعد اس نے اسلام قبول کر لیا اور پھر وہ فوت ہو گیا.پس اگر باطل کے ساتھ محبت کرنے والے بھی بڑی بڑی قربانیاں کر سکتے ہیں تو دین کے ساتھ سچی محبت رکھنے والے کسی قسم کی قربانی سے کس طرح دریغ کر سکتے ہیں؟ بہر حال دوستوں نے جو باتیں لکھی ہیں، ان میں سے بعض بہت اچھی ہیں.مثلاً یہ کہ واقفین کو کوئی نہ کوئی پیشہ سکھانا چاہئے.اور پھر یہ کہ جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ واقفین کا اعزاز کریں.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خود واقفین کے اندر انتظامی قابلیت ہونی چاہئے.اگر ان میں انتظامی قابلیت ہوگی تو انہیں مرکز میں ذمہ داری کے عہدے مل سکیں گے.انگریزی دانوں سے ہماری کوئی دوستی نہیں اور نہ عربی والوں سے ہماری کوئی دشمنی ہے.اگر واقفین انتظامی قابلیت پیدا کر لیں تو در حقیقت مرکز کے سارے اہم عہدے انہی کے لئے ہیں اور وہی اس کے اصل حق دار ہیں.پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ لوگ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو سچا ایمان بخشے ، آپ کے اندر دین کی خدمت کی خواہش پیدا کرے.تا آپ اپنی جان اور مال سب کچھ اپنے خدا کے سامنے پیش کر دیں.اور جب مریں تو ایسی حالت میں مریں کہ آپ کے دلوں میں یہ حسرت نہ ہو کہ کاش ہم دین کی خدمت کرتے.اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں کو دور فرمائے اور ہماری خدمات کو قبول کرے.اور حضرت ابو بکر کی طرح ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ تھوڑایا بہت جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے، وہ ہم اس کی راہ میں قربان کر دیں.605
خطبه جمعه فرمودہ 09 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی قربانی کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر اپنا سارا اثاث حتی کہ لحاف اور چار پائیاں بھی اٹھا کر لے آئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامان کو دیکھ کر فرمایا، ابوبکر ! کچھ گھر میں بھی چھوڑا ہے؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں نے گھر میں صرف خدا اور اس کے رسول کا نام چھوڑا ہے.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے ہمیشہ یہ تڑپ رہتی تھی کہ میں کسی نہ کسی طرح مالی قربانی میں حضرت ابوبکر سے بڑھ جاؤں مگر میں اس میں کامیاب نہ ہو سکا تھا.اس موقع پر میرے پاس اتفاقا زیادہ مال تھا، میں نے کہا، چلو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ پر میں اس مال کا نصف حصہ دے دیتا ہوں.چنانچہ میں نصف مال لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.جب میں وہاں پہنچا تو میں نے سنا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر سے دریافت فرمار ہے تھے کہ ابو بکر !تم نے اپنے گھر میں بھی کچھ چھوڑا ہے؟ اور حضرت ابوبکر جواب دے رہے تھے کہ یا رسول اللہ ! میں گھر میں خدا اور اس کے رسول کا نام چھوڑ کر آیا ہوں.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں، جب میں نے یہ الفاظ سنے تو میں نے کہا، یہ بڑھا نہیں ہارتا.میں کتنی قربانی بھی کروں، یہ مجھ سے آگے نکل جاتا ہے؟ پس اپنے لئے بھی اور باقی احمدیوں کے لئے بھی یہ دعا کرو کہ جب بھی دنیا چھوڑنے کا وقت آئے تم کہہ سکو کہ اے خدا تو نے ہمیں جو مال دیا تھا یا جان دی تھی، ہم نے اسے تیرے رستہ میں قربان کر دیا ہے اور تیرے نام کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں رہا.اب تو اپنے نام کی عزت کی وجہ سے ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں اپنا قرب نصیب فرما.مطبوعه روزنامه الفضل 25 مارچ 1956 ء ) 606
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1956ء ہمارا خدا، ایک زندہ خدا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1956ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:." آج میں اس مضمون پر خطبہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا خدا، ایک زندہ خدا ہے.یہ در حقیقت سورہ فاتحہ کا ایک حصہ ہے مگر مسلمانوں کی توجہ اس کی طرف نہیں پھری.مثلاً جب ہم الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ مضمون کہتے ہیں تو پرانے مفسرین بھی اس تفسیر میں لگ جاتے ہیں اور ہم بھی یہی تفسیر شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارا خدا، انسانوں کا بھی خدا ہے اور جانوروں کا بھی خدا ہے اور کیڑوں مکوڑوں کا بھی خدا ہے.اسی طرح وہ ہندوستانیوں کا بھی خدا ہے اور ایرانیوں کا بھی خدا ہے اور امریکینوں کا بھی خدا ہے.اور ہمیں یہ بھول جاتا ہے کہ رب العالمین میں جن جہانوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ زمانہ کے لحاظ سے بھی ہو سکتے ہیں.پس اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ خدا آدم علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا.اور وہ خدا نوح علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا.اور وہ خدا ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا.اور وہ خدا موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا.اور وہ خدا عیسی علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا.اور وہ خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا.اور وہ خدا ہمارے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا ہے.اور وہ خدا بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی خدا ہوگا.اور جو خدا آدم علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور ہمارے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا ہے اور بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی خدا ہوگا، صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک زندہ خدا ہے.اگر وہ زندہ خدا نہ ہوتا تو آدم سے لے کر اب تک ہر زمانہ کے لوگوں کا وہ کس طرح خدا ہو سکتا ؟ پر الحمد لله رب العالمین میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ قرآن ، جو خدا کو پیش کرتا ہے ، وہ ایک زندہ خدا ہے.اور ہر زمانہ کے لوگ اس سے ویسا ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، جیسے پہلے لوگ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں.607
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم چنانچہ اس ہفتہ میں مجھے ایک مبلغ کی طرف سے ایک چٹھی آئی ہے، جس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح ہمارا خدا، ایک زندہ خدا ہے.اس کے بعد اپنا ایک ذاتی واقعہ اس کے ثبوت کے طور پر بیان کروں گا.وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے یہاں اخبار جاری کیا اور چونکہ ہمارے پاس کوئی پر لیس نہیں تھا ، اس لئے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا.دو چار پر چوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کر رہے ہو، جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے.چنانچہ اسے غیرت آئی اور اس نے کہہ دیا کہ آئندہ میں تمہار اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا کیونکہ پادری اس پر برا مناتے ہیں.جب اخبار چھپنا بند ہو گیا تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے.اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا ان کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے؟ یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پر لیس میں چھپ جایا کرتا تھا، اب چونکہ ہم نے انکار کر دیا ہے اور ان کے پاس اپنا پر لیس کوئی نہیں، اس لئے اب ہم دیکھیں گے کہ یہ جو سیح کے مقابلہ میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں ، اس کی کیا طاقت ہے؟ اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کرے.وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی اور میں نے سمجھا کہ گو ہماری یہاں تھوڑی سی جماعت ہے، لیکن بہر حال میں انہی کے پاس جا سکتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ اس موقع پر وہ ہماری مدد کریں تا کہ ہم اپنا پریس خرید سکیں.چنانچہ وہ کہتے ہیں، میں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سو میل پر ایک احمدی کے پاس گیا تا کہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے.یہ شخص ، جس کے پاس ہمارا مبلغ گیا، کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا.اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جارہا تھا کہ اس احمدی نے اسے تبلیغ شروع کر دی.وہ دریا کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ دیکھو، یہ دریا ادھر سے ادھر بہ رہا ہے.اگر یہ دریا یک دم اپنا رخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف الٹا بہنا شروع کر دے تو یہ ممکن ہے لیکن میرا احمدی ہونا ناممکن ہے.مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقن احمدی اس سے ملا اور چند دن اس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہو گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہوگئی.وہ افریقن اپنے گاؤں کا چیف رئیس ہے.مگر ہمارے ملک کے رئیسوں اور ان کے رئیسوں میں فرق ہوتا ہے.ان کے رئیس اور چیف عموماً ایسے ہی ہوتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں نمبر دار اور سفید پوش ہوتے 608
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1956ء ہیں.گو بعض چیف بڑے بڑے بھی ہوتے ہیں.مثلاً لنڈن میں میری ریسپشن کے موقع پر جو افریقن چیف آیا، اس کے ماتحت تین لاکھ آدمی تھا.گو یاریاست پٹیالہ سے بھی بڑی ریاست اس کے ماتحت تھی.پس ہے شک بعض بڑے بڑے چیف بھی ہوتے ہیں لیکن عموماً وہ ایسے ہی ہوتے ہیں، جیسے نمبر دار سفید پوش ہوتے ہیں.جب ہم ان کے متعلق چیف کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو بعض احمدی اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی بہت بڑار میں مراد ہے.حالانکہ اس کے معنی صرف ایک چھوٹے نمبردار کے ہوتے ہیں.وہاں قاعدہ یہ ہے کہ لوگ اپنے چیف کا خود انتخاب کرتے ہیں.گاؤں والے اپنے چیف کا انتخاب کرتے ہیں اور شہروں والے اپنے چیف کا انتخاب کرتے ہیں.گاؤں کا چیف، چھوٹا چیف ہوتا ہے.قصبہ کا چیف، اس سے بڑا چیف ہوتا ہے اور شہروں کے چیف ان سے بڑے ہوتے ہیں.پھر ہر ضلع کے الگ الگ چیف ہوتے ہیں، جنہیں پیرا ماؤنٹ چیف کہتے ہیں.یعنی راجوں کا راجہ.بہر حال وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ میں اس چیف کی طرف گیا، جوا بھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا، احمدیت میں داخل ہوا تھا اور جو کسی زمانہ میں احمدیت کا اتنا مخالف ہوا کرتا تھا کہ اس نے یہ کہا تھا کہ دریا اپنا رخ بدل سکتا ہے اور وہ نیچے سے اوپر کی طرف بہہ سکتا ہے لیکن میں احمدی نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو کہ جونہی وہ احمدی ہوا ، اس کی زمین میں سے ہیروں کی کان نکل آئی.اور گو قانون کے مطابق گورنمنٹ نے اس پر قبضہ کرو لیا مگر اسے کچھ رائلٹی وغیرہ دینی پڑی، جس سے یکدم اس کی مالی حالت اچھی ہونی شروع ہوگئی اور جماعتی کاموں میں بھی اس نے شوق سے حصہ لینا شروع کر دیا.بہر حال وہ لکھتے ہیں کہ میں اس کی طرف جارہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آ گیا اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا.اس وقت وہ اپنے کسی کام کے سلسلہ میں کہیں جارہا تھا.وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اتر پڑا اور کہنے لگا کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ میں نے کہا کہ اس اس طرح ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے، اگر مسیح کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا دے.وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہو کر آتا ہوں.چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے پانچ سو پاؤنڈ لا کر ہمارے مبلغ کو دے دیا.پانچ سو پاؤنڈ وہ اس سے پہلے دے چکا تھا.گویا تیرہ ہزار کے قریب روپیہ اس نے دے دیا اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپ پریس کا جلدی انتظام کریں.تاکہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پر لیس دے دیا ہے.ایک ہزار پاؤنڈ ہمارے ملک کی قیمت کے لحاظ سے تیرہ ہزار روپیہ کا بنتا ہے.اور یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ بڑے بڑے تاجر بھی اتنا روپیہ دینے کی اپنے 609
خطبہ جمعہ فرموده 29 جون 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اندر توفیق نہیں پاتے.وہ بڑے مالدار ہوتے ہیں مگر اتنا چندہ دینے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی.انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس سے پہلے جب اس چیف نے پانچ سو پاؤنڈ چندہ دیا تھا تو میں ایک شامی تاجر سے بھی ملا تھا.میں نے اسے تحریک کی کہ وہ بھی اس کام میں حصہ لے اور میں نے اسے کہا کہ فلاں گاؤں کا جور ٹیکس ہے ، اس نے پانچ سو پاؤنڈ چندہ دیا ہے.وہ کہنے لگا کہ میری طرف سے بھی آپ پانچ سو پاؤنڈلکھ لیں اور پھر کہا کہ میں اس وقت پانچ سو پاؤنڈ لکھواتا ہوں مگر میں دوں گا، اس چیف سے زیادہ.یہ کتنا بڑا ثبوت ہے، اس بات کا کہ ہمارا خدا، ایک زندہ خدا ہے.ایک معمولی گاؤں کا چیف ہے اور پھر احمدیت کا اتنا مخالف ہے کہ کہتا ہے، اگر در یا الٹا چلنے لگے تو یہ مکن ہے لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ میں احمدی ہو سکوں.مگر پھر خدا تعالیٰ اسے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطافرماتا ہے اور نہ صرف احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے بلکہ یکدم اسے ہزاروں روپیہ سلسلہ کو پیش کرنے کی توفیق مل جاتی ہے.یہ تو ایک بیرونی ملک کی مثال ہے، جو بتاتی ہے کہ ہمارا خدا کس طرح ایک زندہ خدا ہے؟ اور وہ اپنے بندوں کی کیسے معجزانہ رنگ میں تائید اور نصرت فرماتا ہے؟ اب میں اپنی مثال بیان کرتا ہوں، میں نے پچھلے دنوں تحریک جدید کے بیرونی مشنوں کے متعلق ایک خطبہ پڑھا تھا، جس میں ، میں نے ذکر کیا تھا کہ تحریک جدید کے پاس بیرونی مشنوں کے لئے اتنا کم روپیہ رہ گیا ہے کہ شاید اب ہمیں اپنے مشن بند کرنے پڑیں.مگر ادھر میں نے یہ خطبہ پڑھا اور ادھر اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھو کہ ایک دن میں نے ڈاک کھولی تو اس میں ہمارے ایک مبلغ کا خط نکلا، جس میں اس نے لکھا کہ ایک جرمن ڈاکٹر نے احمدیت کے متعلق کچھ لٹریچر پڑھا اور اس نے ہمیں لکھا کہ مجھے اور لٹریچر بھجواؤ.چنانچہ اس پر میں نے آپ کا لکھا ہوا، دیباچہ قرآن اسے بھجوا دیا.دیباچہ پڑھ کر اس نے لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس کو اپنے ملک پر چھاپا جائے اور بڑی کثرت سے یہاں پھیلایا جائے.اور میں اس بارہ میں آپ کی ہر طرح مدد کرنے کے لئے تیار ہوں.پھر اس نے لکھا کہ یہاں ہیں لاکھ جرمن نسل کے مسلمان پائے جاتے ہیں، اگر دیباچہ کا یہاں کی زبان میں ترجمہ ہو جائے تو ہیں لاکھ مسلمان عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے سے بچ جائے گا اور وہ احمدیت کو قبول کر لے گا.گویا ہم تو یہ ڈر رہے تھے کہ کہیں خدانخواستہ ہمارے پہلے مشن بھی بند نہ ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ نے ہماری تبلیغ کے لئے نئے راستے کھول دیئے.پھر جب خطبہ شائع ہوا تو باہر سے بھی اور اندر سے بھی ہمارے خدا کے زندہ ہونے کی کثرت سے مثالیں ملنی شروع ہو گئیں.ایک غیر احمدی کا خط آیا کہ میں نے آپ کا خطبہ پڑھا تو میرا دل کانپ گیا.610
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1956ء کہ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی تکلیف کی وجہ سے کس قدر دکھا ہوا ہے.میں سوروپیہ کا چیک آپ کو بھجوار ہا ہوں ، آپ اس روپیہ کو، جس طرح چاہیں، خرچ کریں.پھر ایک اور خط کھولا تو وہ ایک احمدی کا تھا اور اس میں یہ لکھا تھا کہ میں سور و پریہ بھجوا رہا ہوں تا کہ بیرونی مشنوں کے اخراجات میں جو کمی آئی ہے، وہ اس سے پوری ہو سکے.پھر ایک عورت کا خط آیا کہ میں پچاس روپے بھجوار ہی ہوں تا کہ جو نقصان ہوا ہے، اس کا ازالہ ہو سکے.پھر چوتھا خط میں نے کھولا تو اس میں ایک ترکی پروفیسر کا ذکر تھا.ہمارا ایک احمدی ان دنوں ایک ترکی پروفیسر سے ترکی زبان سیکھ رہا ہے اور ایک سو ہیں روپیہ ماہوارا اسے ٹیوشن دیتا ہے.وہ ترکی پروفیسر اسلام کا دشمن تھا اور رات دن اسلام اور ہستی باری تعالیٰ پر اعتراض کرتا رہتا تھا.وہ احمدی لکھتا ہے کہ میں نے ایک دن فیصلہ کیا کہ چاہے میری پڑھائی ضائع ہو جائے ، میں نے آج اس سے مذہبی بحث کرنی ہے.چنانچہ میں اس سے مذہبی بحث کرتا رہا اور پھر میں نے اسے آپ کا لکھا ہوادیباچہ قرآن دیا کہ وہ اسے پڑھے.وہ دیا چہ لے گیا اور پڑھنے کے بعد مجھے کہنے لگا کہ میں آج سے پھر مسلمان ہو گیا ہوں.پھر جب مہینہ ختم ہوا اور میں اسے روپیہ دینے کے لئے گیا تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ پر یہ مہربانی کرو کہ یہ روپیہ میری طرف سے اپنے امام کو بھجوادو اور انہیں کہو کہ وہ جس طرح چاہیں ، اس روپیہ کو خرچ کریں.اب دیکھو، ایک دہر یہ انسان ہے، خدا تعالیٰ پر رات دن ہنسی اڑاتارہتا ہے، اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، لیکن اس پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ جب اسے ٹیوشن کی فیس پیش کی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہ روپیہ مجھے نہ دو بلکہ اپنے امام کے پاس بھیج دو اور انہیں کہو کہ وہ اسے جس طرح چاہیں، خرچ کریں.اس کے بعد میں نے جو پانچواں خط کھولا ، وہ ایک احمدی دوست کا تھا.جو انڈونیشیا سے بھی پرے رہتے ہیں.انہوں نے لکھا کہ یہ اطلاع ملتے ہی کہ بیرونی مشنوں کو جو روپیہ بھجوایا جاتا تھا، اس میں کمی آگئی ہے، میں نے اڑھائی سوپاؤنڈ لندن بینک میں تحریک جدید کے حساب میں جمع کروا دیا ہے.میری خواہش تھی کہ میں چھ سو پاؤنڈ جمع کراؤں.مگر سر دست فوری طور پر میں نے اڑھائی سو پاؤنڈ بینک میں جمع کروا دیا ہے.پھر چھٹا خط میں نے کھولا تو وہ ایک ایسے دوست کی طرف سے تھا، جو پاکستان سے باہر کے رہنے والے ہیں.انہوں نے لکھا کہ آپ اس فکر میں اپنی صحت کیوں برباد کر رہے ہیں؟ ہماری جائیدادیں اور ہمارے بیوی بچے کس غرض کے لئے ہیں؟ ہم ان سب کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.آپ پونڈوں کا فکر نہ کریں.آپ جتنے پونڈ چاہیں، ہم جمع کر دیں گے.اور اس بارہ میں آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیں گے.611
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم غرض اس طرح متواتر خطوط آنے شروع ہو گئے ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبہ کے پہنچتے ہی تمام جماعتوں میں ایک آگ سی لگ گئی ہے اور لوگ انتہائی بے تابی کے ساتھ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں.اسی طرح پشاور سے ایک دوست کا خط آیا ، جس میں انہوں نے لکھا کہ یہ خطبہ پڑھ کر مجھے سخت تکلیف ہوئی ہے.اگر تمام احمدی کوشش کریں تو کیا وہ سات ہزار دوسو پونڈ بھی جمع نہیں کر سکتے ؟ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کام کے لئے پوری طرح تیار ہیں اور ہم خود اس روپیہ کو جمع کریں گے.آپ اس بارہ میں کسی قسم کی تشویش سے کام نہ لیں.یہ توکل اور پرسوں کی ڈاک کا ذکر تھا، آج ڈاک آئی اور میں نے اسے کھولا تو اس میں ایک شہر کی خدام الاحمدیہ کی مجلس کی طرف سے خط نکالا.جس میں لکھا تھا کہ ہم نے آپ کا خطبہ تمام خدام کر پڑھ کر سنایا، جس پر فوراً مقامی خدام نے دوسو روپیہ چندہ کے وعدے لکھوا دیئے.اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یہ روپیہ وصول کر کے بہت جلد مرکز میں بھجوا دیں.انہوں نے یہ چندہ گو ہیمبرگ کی مسجد کے لئے جمع کیا ہے مگر بہر حال وہ بھی اسی کام میں شامل ہے.غرض دیکھو، ہمارا خدا کیسا زندہ خدا ہے کہ جو کام ہم نہیں کر سکتے تھے، اس کے لئے وہ آپ سامان کے مہیا کر رہا اور خود لوگوں کے دلوں میں تحریک کر رہا ہے.چنانچہ ایک طرف ایک ترکی پروفیسر کے دل میں تحریک پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمائی کارو پیا اپنی ذات پر خرچ کرنے کی بجائے تبلیغ اسلام کے لئے بھجوادے تو دوسری طرف ایک جرمن ڈاکٹر کے دل میں تحریک پیدا ہوتی ہے کہ ہم خود اسلام کی اشاعت میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں.آپ دیباچہ کا ترجمہ ہماری ملکی زبان میں کروا دیں تو لاکھوں لوگ احمدی ہونے کے لئے تیار ہیں.اسی طرح جو پاکستان سے باہر احمدی رہتے ہیں، ان کے دل میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ آپ کیوں فکر کرتے ہیں؟ آپ ہمیں حکم دیں تو ہم اپنے بیوی بچے بھی اس راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اور جتنے پونڈ چاہیں گے، ہم جمع کر دیں گے.مگر ہم سے یہ تکلیف نہیں دیکھی جاتی کہ آپ فکر اور تشویش سے اپنی صحت کو بھی برباد کر لیں.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے زندہ اور قادر ہونے کا ایک نمایاں ثبوت ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ وہ کتنی بڑی طاقتیں رکھنے والا خدا ہے.پھر دیکھو، ایک عیسائی اخبار نے چیلنج دیا کہ تم نے عیسائیت کا مقابلہ شروع کر رکھا تھا، اب جبکہ عیسائی پریس نے تمہارا اخبار شائع کرنے سے انکار کر دیا ہے، ہم دیکھیں گے کہ تمہارا خدا تمہاری کیا مددکرتا ہے؟ ادھر اس نے یہ چیلنج دیا اور ادھر فورا اللہ تعالیٰ نے ایک معمولی درجہ کے رئیس کے دل میں غیرت پیدا کر دی اور اس نے تیرہ ہزار اسلامی پریس 612
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود: 29 جون 1956ء کے لئے چندہ دے دیا.یہ اللہ تعالیٰ کے بڑے بھاری نشانات ہیں، جن سے اس کی ہستی کا ثبوت ملتا ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ جہاں چاہتا ہے ، لوگوں کے دلوں میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کر دیتا ہے.جس کے نتیجہ میں وہ ایسی ایسی قربانیوں کے لئے تیار ہو جاتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت آتی ہے.پس ہماری جماعت کو ہمیشہ وہ سبق یا درکھنا چاہئے ، جو الحمد لله رب العالمین میں دیا گیا ہے.اور اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی تعریف اسی وجہ سے ہے کہ وہ ہر زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک زندہ خدا ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو ہم الحمد لله رب العالمین کس طرح کہہ سکتے تھے ؟ اگر وہ صرف آدم کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو نوح کے زمانہ میں لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے ؟ اور اگر وہ صرف نوح کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو ابراہیم کے زمانہ میں لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے ؟ اور اگر وہ صرف ابراہیم کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو موسیٰ کے زمانہ میں لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے ؟ اور اگر وہ صرف موسی" کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو عیسی کے زمانہ میں لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے ؟ اور اگر وہ صرف عیسی کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے ؟ اور اگر وہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں زندہ خدا تھا تو آج کے زمانہ کے لوگ اس کی کیوں تعریف کرتے ؟ وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا اور ہر زمانہ کے لوگ اس کی تعریف کرتے چلے جائیں گے.اور اس کے نشانات سے اپنے ایمانوں کو تازہ کرتے رہیں گے اور جب بھی اس کے بندے مشکلات میں پھنسیں گے اور اس کے دین پر تکلیف کا زمانہ آئے گا، وہ اپنے مخفی الہام سے انسانوں کے دلوں میں تحریک کرے گا کہ اٹھو اور میرے دین کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جاؤ.اور بچے مومن لبیک کہتے ہوئے ، اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائیں گے اور دین کو مشکلات سے نکال لیں گے.یہاں تک کہ دنیا حیران ہو جائے گا اور شیطان مایوسی سے مر جائے گا.جب 53ء میں فسادات ہوئے تو اس وقت میں نے بڑے زور سے اعلان کیا کہ اے احمد یو! تم گھبراؤ نہیں ، میں دیکھتا ہوں کہ خدا ہماری مدد کے لئے دوڑا چلا آ رہا ہے.اور میرے اس اعلان کے معاً بعد لاہور میں مارشل لاء نافذ ہو گیا.اس وقت بعض افسروں نے کہا کہ آپ کے اس فقرہ سے اشتعال پیدا ہوتا ہے.میں نے ان کو جواب دیا کہ جب مجھے خدا آتا ہوا نظر آتا ہے تو کیا میں جھوٹ بولوں؟ خدا تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے بچے بندوں کی مدد کے لئے آیا کرتا ہے اور اب بھی آئے گا اور ہمیشہ ہی آتار ہے گا.اگر یہ سلسلہ جاری نہ ہو تو خدا تعالیٰ کے دین کے خادم تباہ ہو جائیں اور ان کے دل غم سے ٹوٹ جائیں.غرض اللہ تعالیٰ اپنی قدرت 613
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کے نشانات ہمیشہ دکھاتا چلا آیا ہے اور دکھاتا چلا جائے گا.اور جب وہ دکھاتا ہے تو بڑے بڑے سخت دل لوگوں کو بھی اقرار کر نا پڑ تا ہے کہ ہمارا خدا، ایک زندہ خدا ہے.بیبیوں نہیں سینکڑوں غیر احمدی ایسے ہیں، جو فسادات کے بعد مجھے ملے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں آپ کا وہ فقرہ اب تک یاد ہے کہ تم مت گھبراؤ، میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا ہماری مدد کے لئے دوڑا چلا آ رہا ہے.جب مارشل لاء نافذ ہوا اور فوجیں لاہور میں داخل ہو گئیں تو ہم نے سمجھ لیا کہ آپ کی وہ پیشگوئی پوری ہوگئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کو لفظاً لفظاً سچا ثابت کر دیا ہے.غرض ہمارا خدا، ایک زندہ خدا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا.وہ آدم کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، وہ نوح کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، وہ ابراہیم کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، وہ موسیٰ کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، وہ عیسی کے زمانہ میں بھی زندہ تھا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی زندہ تھا اور وہ آج بھی زندہ ہے.اور اگر دنیا اور ہزار سال تک قائم رہے گی تو ہزار سال تک اور اگر ایک کروڑ سال تک قائم رہے گی تو کروڑ سال تک اور اگر ایک ارب سال تک قائم رہے گی تو ایک ارب سال تک وہ اپنی زندگی کے نشانات دکھاتا چلا جائے گا.کیونکہ وہ جی و قیوم خدا ہے اور وہ لاتاخذه سنة ولا نوم کا مصداق ہے.اس پر جب اونگھ اور نیند بھی نہیں آتی تو اس کے زندہ نشانات کا سلسلہ کس طرح ختم ہو سکتا ہے؟ جب ایسے خدا سے انسان اپنا تعلق پیدا کر لیتا ہے تو اس کی ساری ضرورتوں کا وہ آپ کفیل ہو جاتا ہے اور ہمیشہ اس کی تائید نا لیتا کے لئے اپنے غیر معمولی نشانات ظاہر کرتا ہے.ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ عنہ کے پاس اکثر لوگ اپنی امانتیں رکھواتے تھے اور آپ اس میں سے ضرورت پر خرچ کرتے رہتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرح رزق دیتا رہتا ہے.بعض دفعہ ہم نے دیکھا کہ امانت رکھوانے والا آپ کے پاس آتا اور کہتا کہ مجھے روپیہ کی ضرورت ہے، میری امانت مجھے واپس دے دی جائے.آپ کی طبیعت بڑی سادہ تھی اور معمولی سے معمولی کاغذ کو بھی آپ ضائع کرنا پسند نہیں فرماتے تھے.جب کسی نے مطالبہ کرنا تو آپ نے ردی سا کاغذ اٹھانا اور اسی پر اپنی بیوی کو لکھ دینا کہ امانت میں سے دوسور و پی بھجوا دیا جائے.اندر سے بعض دفعہ جواب آتا کہ روپیہ تو خرچ ہو چکا ہے یا اتنے روپے ہیں اور اتنے روپوں کی کمی ہے.آپ نے اسے فرمانا کہ ذرا ٹھہرو، ابھی روپیہ آ جاتا ہے.اتنے میں ہم نے دیکھنا کہ کوئی شخص دھوتی باندھے ہوئے ، جونا گڑھ یا بمینی کا رہنے والا، چلا آرہا ہے اور اس نے آکر اتنا ہی روپیہ آپ کو پیش کر دیا ہے.ایک دن لطیفہ ہوا.کسی نے اپنا روپیہ مانگا، اس دن آپ کے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.مگر اسی وقت ایک شخص علاج کے لئے آگیا اور اس نے ایک پڑیہ میں کچھ رقم لپیٹ کر آپ کے سامنے رکھ دی.614
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1956ء حافظ روشن علی صاحب کو علم تھا کہ روپیہ مانگنے والا کتنا روپیہ مانگتا ہے؟ آپ نے حافظ صاحب سے فرمایا کہ دیکھو، اس میں کتنی رقم ہے؟ انہوں نے گنا تو کہنے لگے، بس اتنی ہی رقم ہے، جتنی رقم کی آپ کو ضرورت تھی.آپ نے فرمایا، یہ اس قارض کو دے دو.اسی طرح آپ ایک پرانے بزرگ کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک قرض خواہ ان کے پاس آ گیا اور اس نے کہا کہ آپ نے میری اتنی رقم دینی ہے اور اس پر اتنا عرصہ گزر چکا ہے، اب آپ میرا رو پیادا کریں؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو ہے نہیں، جب آئے گا تمہیں دے دوں گا.وہ کہنے لگا تم بڑے بزرگ بنے پھرتے ہو اور قرض لے کر ادا نہیں کرتے ، یہ کہاں کی شرافت ہے؟ اتنے میں وہاں ایک حلوا بیچنے والالڑ کا آ گیا.انہوں نے اسے کہا کہ آٹھ آنے کا حلوادے دو.لڑکے نے حلوادے دیا اور انہوں نے وہ حلوا اس قارض کو کھلا دیا.لڑکا کہنے لگا کہ میرے پیسے میرے حوالے کیجئے.وہ کہنے لگے کہ تم آٹھ آنے مانگتے ہو اور میرے پاس تو دو آنے بھی نہیں.وہ لڑ کا شور مچانے لگ گیا.یہ دیکھ کر وہ قرض خواہ کہنے لگا کہ یہ کیسی بے حیائی ہے کہ میری رقم تو ماری ہی تھی، اس غریب کی اٹھنی بھی ہضم کرلی ہے.غرض وہ دونوں شور مچاتے رہے اور وہ بزرگ اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھے رہے.اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے اپنی جیب میں سے ایک پڑیہ نکال کر انہیں پیش کی اور کہا کہ یہ فلاں امیر نے آپ کو نذرانہ بھیجا ہے.انہوں نے اسے کھولا تو اس میں روپے تو اتنے ہی تھے، جتنے قرض خواہ مانگتا تھا مگر اس میں اٹھنی نہیں تھی.کہنے لگے ، یہ میری پڑیہ نہیں ، اسے واپس لے جاؤ.یہ سنتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا اور اس نے جھٹ اپنی جیب سے ایک دوسری پڑیہ نکالی اور کہنے لگا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، آپ کی پڑیہ یہ ہے.انہوں نے اسے کھولا تو اس میں اتنے ہی روپے تھے، جو قارض مانگ رہا تھا اور ایک اٹھنی بھی تھی.انہوں نے دونوں کو بلایا اور وہ روپے انہیں دے دیئے.غرض زندہ خدا اپنے بندوں کی تائید میں ہمیشہ اپنے نشانات دکھاتا ہے.انسان بعض دفعہ اپنی بیماری یا کمزوری ایمان کی وجہ سے گھبرا جاتا ہے.لیکن جس کے ساتھ خدا ہوتا ہے، وہ اس کی غیب سے مدد کرتا ہے.میرے لئے یہ سخت صدمہ اور رنج کی بات تھی کہ تحریک جدید کے بیرونی مشنوں کے لئے ہمارے پاس کوئی خرچ نہیں رہا.چنانچہ کچھ دن میں خطر ناک طور پر بیمار رہا بلکہ ابھی تک طبیعت پوری طرح سنبھلی نہیں.لیکن نشان الہی دیکھو کہ ادھر مجھے فکر پیدا ہوا اور ادھر اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کرنی شروع کر دی.جن میں احمدی بھی تھے اور غیر احمدی بھی تھے.اور پاکستانی بھی تھے اور غیر پاکستانی بھی تھے.کسی نے سو پیش کیا، کسی نے سواسو، کسی نے ڈیڑھ سو کسی نے اڑھائی سو پونڈ 615
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1956ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم اور کسی نے غیر معین طور پر لکھ دیا کہ جتنے پونڈ آپ کہیں گے، ہم جمع کر دیں گے، آپ فکر نہ کریں.دیکھو، یہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا کیسا عظیم الشان ثبوت ہے کہ اس نے آپ ہی آپ سامان پیدا کرنے شروع کر دیئے اور لوگوں کے دلوں میں اخلاص اور محبت کی ایک لہر پیدا کر دی.ورنہ انسان کے اندر کیا طاقت ہے کہ وہ کچھ کر سکے.ہمارے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ایک زندہ اور قادر خدا کا دامن پکڑنے کی توفیق مل گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک قصہ سنایا کرتے تھے.میاں بدرمحی الدین صاحب، جو بٹالہ کے رہنے والے تھے.ان کے والد ، جن کا نام غالبا پیر غلام محی الدین تھا، ہمارے دادا کے بڑے دوست تھے.اس زمانہ میں کمشنر موجودہ زمانہ کے گورنر کی طرح سمجھا جاتا تھا اور وہ امرتسر میں اپنا دربار لگایا کرتا تھا.جس میں علاقہ کے تمام بڑے بڑے رؤسا شامل ہوا کرتے تھے.ایک دفعہ امرتسر میں دربار لگا تو ہمارے دادا کو بھی دعوت آئی.اور چونکہ انہیں معلوم تھا کہ پیر غلام محی الدین صاحب اس دربار میں شامل ہوں گے، اس لئے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بٹالہ میں ان کے مکان پر پہنچے.وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک غریب آدمی پیر غلام محی الدین صاحب کے پاس کھڑا ہے اور وہ اس سے کسی بات پر بحث کر رہے ہیں.جب انہوں نے دادا صاحب کو دیکھا تو کہنے لگے ، مرزا صاحب دیکھئے، یہ میراثی کیسا بے وقوف ہے؟ کمشنر صاحب کا دربار منعقد ہورہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ وہاں جا کر کمشنر صاحب سے کہا جائے کہ گورنمنٹ نے اس کی 125 سیکٹر زمین ضبط کر لی ہے، یہ زمین اسے واپس دی جائے.بھلا یہ کوئی بات ہے کہ دربار کا موقع ہو اور کمشنر صاحب تشریف لائے ہوئے ہوں اور ایک میراثی کو ان کے سامنے پیش کر دیا جائے اور کہا جائے کہ اس کی 125 سیکٹر زمین ضبط ہو گئی ہے، وہ اسے واپس دلا دی جائے.چونکہ وہ پیر تھے، گو در باری بھی تھے، اس لئے انہیں یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی.دادا صاحب اس میراثی سے کہنے لگے کہ تم میرے ساتھ چلو.چنانچہ وہ اسے ساتھ لے کر امرتسر پہنچے.جب دربار لگا اور کمشنر صاحب آگئے تو ہمارے دادا اٹھ کر کمشنر کے پاس چلے گئے اور اپنے ساتھ اس میراثی کو بھی لے لیا اور کمشنر سے کہنے لگے کہ کمشنر صاحب ذرا اس کی بانہہ پکڑ لیں.وہ کہنے لگا، مرزا صاحب اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے کہا، مطلب میں پھر بتاؤں گا، پہلے آپ اس کی بانہ پکڑ لیں.چنانچہ ان کے کہنے پر اس نے میراثی کی بانہہ پکڑلی.اس پر ہمارے دادا صاحب کہنے لگے، ہماری پنجابی زبان میں ایک مثال ہے کہ بانہہ پھڑے دی لاج رکھنا“.کمشنر پھر حیران ہوا اور کہنے لگا، اس کا کیا مطلب؟ وہ کہنے لگے، اس کا 616
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 29 جون 1956ء مطلب یہ ہے کہ جب آپ نے ایک شخص کا بازو پکڑا ہے تو پھر اس بازو پکڑنے کی لاج بھی رکھنا اور اسے چھوڑ نا نہیں.وہ کہنے لگا، مرزا صاحب آپ یہ بتائیں کہ آپ کا اس سے مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا، اس کی 125 ایکڑ زمین تھی ، جو گورنمنٹ نے ضبط کرلی ہے.آپ لوگ مغل بادشاہوں کے قائم مقام ہیں اور مغل بادشاہوں کا یہ طریق تھا کہ وہ ہزاروں ایکڑ زمین لوگوں کو انعام کے طور پر دے دیا کرتے تھے.اب یہ غریب حیران ہے کہ ہم پر عجیب لوگ حاکم بن کر آگئے ہیں کہ میرے پاس جو پہلے 125 ایکڑ زمین تھی، و بھی انہوں نے ضبط کرلی ہے.اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے اسی وقت اپنے میر نشی کو بلایا اور اسے کہا کہ ابھی یہ بات نوٹ کر لو اور آرڈر دے دو کہ اس شخص کو زمین واپس دے دی جائے.036 اسی طرح خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنا بھی ہاتھ پھڑے دی لاج رکھنے والی بات ہوتی ہے.جس طرح کمشنر نے اس میراثی کی بانہہ پکڑنے کے بعد اس کی لاج رکھی، اسی طرح خدا، جس کی بانہ پکڑے، اس کی بھی وہ لاج رکھ لیتا ہے.صرف اتنی بات ہے کہ انسان اپنی کم حوصلگی کی وجہ سے بعض دفعہ گھبرا جاتا ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو ایسے ایسے رستوں سے دیتا ہے کہ حیرت آتی ہے.اب تو ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی ترقی کر گئی ہے اور ہماری مثال حضرت عائشہ | والی ہوگئی ہے.جب مدینہ میں پہلی دفعہ ہوائی چکیاں آئیں اور باریک آٹا پسنے لگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ازواج مطہرات میں سے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ آنا تحفہ پیش کیا جائے.چنانچہ مدینہ میں سب سے پہلے یہ آٹا، حضرت عائشہ کے گھر بھجوایا گیا اور اس کے پھلکے تیار کئے گئے.حدیثوں میں آتا ہے کہ اس سے پہلے پتھر پر دانے کوٹ کر دلیہ سا بنالیا جاتا تھا اور اس کی روٹی تیار کی جاتی تھی.جب پہلی دفعہ نرم اور ملائم آٹے کی روٹی پکا کر حضرت عائشہ کے سامنے پیش کی گئی تو آپ نے اس میں سے ایک لقمہ تو ڑ کر اپنے منہ میں ڈالا اور پھر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگ گئے.ایک عورت ، جو پاس بیٹھی ہوئی تھی ، وہ کہنے لگی ، بی بی آپ روتی کیوں ہیں؟ روٹی تو بڑی ملائم اور نرم ہے اور ہم نے اس آٹے کی بڑی تعریف سنی ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، میں اس لئے نہیں روئی کہ آٹا خراب ہے.بلکہ مجھے اس روٹی کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد آ گیا ہے.ہم اس زمانہ میں دانوں کو پتھروں سے کچل کر دلیہ سا بنا لیتی تھیں اور اس کی روٹیاں رسول کریم صلی اللہ وسلم کوکھلایا کرتی تھیں.آخری عمر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضعیف ہو گئے تو آپ کے لئے روٹی چبانا بڑا مشکل ہو گیا تھا.پس مجھے اس روٹی کو دیکھ کر رونا آ گیا اور مجھے خیال آیا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہ چکیاں ہوتیں تو میں آپ کو اس آٹے کی روٹی پکا کر کھلاتی.617
خطبہ جمعہ فرموده 29 جون 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہمارا بھی یہی حال ہے.اب تو ہمارا صدرانجمن احمدیہ کا بجٹ چودہ ، پندرہ لاکھ کا ہے اور تحریک جدید کا بجٹ بھی بارہ، تیرہ لاکھ کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یہ کیفیت تھی کہ کئی مقامات پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ہے کہ اب تو ہم پر اتنا بوجھ ہے کہ پندرہ سو روپیہ ایک مہینہ کا خرچ ہے.گویا اس زمانہ میں اٹھارہ ہزار روپیہ کا سالانہ خرچ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے بڑا بوجھ قرار دیتے تھے.لیکن اس زمانہ میں بعض ایسے احمدی ہیں کہ ان میں سے ایک ایک اس بوجھ کو آسانی کے ساتھ اٹھا سکتا ہے.اس وقت بعض دفعہ ایسی حالت ہوتی تھی کہ لنگر میں آٹار کھا ہوتا تھا اور منتظمین کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں روپیہ کی درخواست کرنی پڑتی تھی.1905ء میں جب زلزلہ آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کچھ عرصہ کے لئے باغ میں تشریف لے گئے تو مجھے خوب یاد ہے، ایک دن آپ باہر سے آئے تو اللہ تعالی کی بڑی حمد وثنا کر رہے تھے.اس وقت آپ نے حضرت اماں جان کو بلایا اور فرمایا، یہ گھڑی لے لو اور دیکھو کہ اس میں کتنی رقم ہے؟ حضرت ام المومنین نے کمرہ سے باہر نکل کر بتایا کہ اس کپڑے میں چار سویا پانچ سو کی رقم ہے.آپ نے فرمایا، آج ہی لنگر والے آٹے کے لئے روپیہ مانگ رہے تھے اور میرے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا اور میں حیران تھا کہ اس کا کیا انتظام ہو گا؟ اتنے میں، میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک غریب آدمی، جس نے میلے سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، آیا اور اس نے یہ گٹھڑی مجھے دے دی.میں نے سمجھا کہ اس میں پیسے ہی ہوں گے لیکن اب معلوم ہوا کہ روپے تھے.اس پر آپ دیر تک اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتے رہے کہ اس نے کیسا افضل نازل فرمایا ہے.بیشک اس وقت ہماری نگاہ میں چار سو روپیہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.لیکن اس وقت ہم ان چیزوں کو دیکھتے تو ہمارا ایمان تازہ ہوتا تھا.اور اب ہمیں اس سے سینکڑوں گنے زیادہ روپیہ ملتا ہے اور وہ روپیہ ہمارے ایمانوں کو بڑھاتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ مجھے اپنی عمر میں بعض غیر احمدیوں نے دو دو، تین تین ، چار چار ہزار روپیہ نذرانہ کے طور پر دیا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ آپ کو چار سو روپیہ ملا تو آپ نے سمجھا کہ شاید اس میں پیسے ہی ہوں گے ورنہ اتنا روپیہ کون دے سکتا ہے؟ آج اگر وہی زمانہ ہوتا تو وہ لوگ جو اس وقت افسوس کر رہے ہیں، ان کو بھی قربانی کا موقع مل جاتا.اور ہر شخص قربانی کر کے سمجھتا کہ مجھے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کا موقع عطا فرما کر مجھ پر احسان فرمایا ہے.لیکن وہ زمانہ تو گزر گیا، اب پھر ایک دوسرا زمانہ آگیا ہے.جس میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے دین کی خدمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر رہا ہے.618
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جون 1956ء بہر حال ہر زمانہ کے لحاظ سے خدا اپنی زندگی کا ثبوت دیتا چلا آیا ہے.اس زمانہ میں چار سو روپیہ کامل جانا ، خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ایک ثبوت تھا.اور اس زمانہ میں کبھی کبھی چالیس ، پچاس ہزار روپے دے کر اس نے اپنی زندگی کا ثبوت دیا ہے.اور آج خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت، وہ اڑھائی سو پونڈ ہیں ، جو ایک دوست نے اطلاع ملتے ہی لنڈن بینک میں جمع کروادئیے.اسی طرح اس ترکی پروفیسر کا وہ روپیہ بھی زندہ خدا کا ایک نشان ہے، جو اس نے اپنے اوپر خرچ کرنے کی بجائے مجھے دین پر خرچ کرنے کے لئے بھجوا دیا.اور یا پھر خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت، اس حبشی چیف کا واقعہ ہے، جس نے احمدیہ پریس کے لئے ایک ہزار پونڈ ، دو قسطوں میں دے دیا.اور یا پھر خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کو ثبوت افریقہ کے اس دوست کا خط ہے، جنہوں نے یہ لکھا کہ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ آپ روپیہ کے متعلق کسی قسم کا فکر نہ کریں.بیرونی مشنوں کے لئے جتنے پونڈوں کی ضرورت ہو، ہمیں لکھیں، ہم کسی نہ کسی طرح جمع کر دیں گے.غرض خدا تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت مہیا کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے مومن بندوں کے ایمانوں کو بڑھاتا رہتا ہے.مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جب اشتہار چھپوانے کے لئے بھی ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں ہوتا تھا.میں جب خلیفہ ہوا اور غیر مبائعین کے مقابلہ میں، میں نے پہلا اشتہار لکھا تو اس وقت ہماری مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ اس اشتہار کے چھپوانے کے لئے بھی ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم کو اس کا علم ہوا تو اس وقت ہسپتال اور مسجد کے لئے چندہ جمع کر رہے تھے.انہوں نے اڑھائی سوروپیہ کی پوٹلی لا کر میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ آپ اس رو پیر کو استعمال کر لیں.جب آپ کے پاس روپیہ آئے گا تو وہ مجھے دے دیں.چنانچہ پہلا اشتہار ہم نے انہی کے روپیہ سے شائع کیا.پھر اللہ تعالیٰ نے وہ دن دکھایا کہ یا تو دوسو اور اڑھائی سو کے لئے ہمارے کام رکے ہوئے تھے اور یا اب ایک، ایک شخص ہی ہیں، ہیں ہزار روپیہ دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.مثلاً پچھلے سال میں بیمار ہوا تو ڈاکٹروں نے مجھے ولایت جانے کا مشورہ دیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ اس نے ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اس غرض کے لئے جمع کر دیا.غرض زمانے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے چلے جائیں گے.ایک زمانہ میں لوگ اربوں ارب روپیہ دیں گے اور انہیں پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ان کے مال میں سے کچھ کم ہوا ہے.کیونکہ دینے والے کھرب پتی ہوں گے.اور جیساوہ ہیں باتیں یا پچاس ارب روپیہ دیں گے تو انہیں پتہ بھی نہیں لگے گا کہ 619
خطبہ جمعہ فرموده 29 جون 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ان کے خزانہ میں کوئی کمی آئی ہے.اس وقت انہیں یاد بھی نہیں رہے گا کہ کسی زمانہ میں پچاس روپیہ کی بھی ضرورت ہوتی تھی تو اس کے لئے بھی دعائیں کرنی پڑتی تھیں.تم تذکرہ پڑھو تو تمہیں اس میں یہ لکھا ہوا دکھائی دے گا کہ ایک دفعہ ہمیں پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل اللہ پر کبھی کبھی ایسی حالت گزرتی ہے، اس وقت ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا.تب ہم نے وضو کیا اور جنگل میں جا کر دعا کی.اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام نازل ہوا کہ دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں“ اس کے بعد ہم واپس آئے تو بازار سے گزرے اور ڈاکخانہ والوں سے پوچھا کہ کیا ہمارے نام کوئی منی آرڈر آیا ہے یا نہیں ؟ انہوں نے ایک خط دیا، جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپے آپ کے نام بھجوا دیئے گئے ہیں.چنانچہ اسی دن یا دوسرے دن وہ روپیہ ہمیں مل گیا.غرض ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پچاس روپوں کے لئے بھی فکر ہوتا تھا کہ وہ کہاں سے آئیں گے اور یا اب یہ حالت ہے کہ سندھ میں جو میری اور سلسلہ کی زمینیں ہیں ، ان پر تین ہزار روپیہ ماہوار تک تنخواہوں کا ہی دینا پڑتا ہے.گویا کجاتو یہ حالت تھی کہ پندرہ سور و پیہ ماہوار کا خرچ ساری جماعت کے لئے بوجھ سمجھا جاتا تھا اور پچاس روپیہ کی ضرورت کو اتنا شدید سمجھا جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے لئے خاص طور پر علیحدگی میں دعا کرنا ضروری سمجھا.اور کجا یہ حالت ہے کهہ اسی شخص کا بٹا سینکڑوں روپیہ ماہوار اپنے کارکنوں کو تخوا میں دیتا ہے اور انجمن کے افسروں کو ملا کروہ رقم ہزاروں روپیہ کی بن جاتی ہے اور بوہ کے دفتروں کو ملا کر کوئی نوے ہزار ماہوار کی رقم بن جاتی ہے.یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے، جو ہر شخص کو دکھائی دے سکتا ہے.مگر ابھی کیا ہے؟ ابھی تو صرف ہزاروں روپیہ خرچ ہو رہا ہے.پھر کوئی وقت ایسا آئے گا کہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی تین ، تین ارب کا بجٹ ہوگا.پھر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کے تین تین کھرب کا بجٹ ہوگا.یعنی صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کا سالانہ بجٹ 72 کھرب کا ہوگا.پھر یہ بجٹ پدم پر جاپہنچے گا.کیونکہ دنیا کی ساری دولت احمدیت کے قدموں میں جمع ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر لکھا ہے کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا؟ مجھے یہ فکر ہے کہ اس روپیہ کو دیانت داری کے ساتھ خرچ کرنے والے کہاں سے آئیں گے؟ چنانچہ دیکھ لو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت کا نظام جاری فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت رکھ 620
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 29 جون 1956ء دی کہ باوجود اس کے کہ انجمن کے کام ایسے ہیں، جو دلوں میں جوش پیدا کرنے والے نہیں، پھر بھی صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید کے بجٹ سے ہمیشہ بڑھا رہتا ہے کیونکہ وصیت ان کے پاس ہے.اس سال کا بجٹ بھی تحریک جدید کے بجٹ سے دو، تین لاکھ روپیہ زیادہ ہے.حالانکہ تحریک جدید کے پاس اتنی بڑی جائیداد ہے کہ اگر وہ جرمنی میں ہوتی یا یورپ کے کسی اور ملک میں ہوتی تو ڈیڑھ ڈیڑھ، دودو کروڑ روپیہ سالانہ ان کی آمد ہوتی.مگر اتنی بڑی جائیداد اور بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کرنے کی جوش دلانے والی صورت کے باوجود محض وصیت کے طفیل صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید سے بڑھا رہتا ہے.اسی لئے اب وصیت کا نظام میں نے امریکہ اور انڈونیشیا میں بھی جاری کر دیا ہے اور وہاں سے اطلاعات آرہی ہیں کہ لوگ بڑے شوق سے اس میں حصہ لے رہے ہیں.گوامریکہ کے مبلغ اس معاملہ میں بہت سستی سے کام لے رہے ہیں.میں نے سمجھا کہ چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ایک نظام ہے، اگر اس نظام کو بیرونی ملکوں میں بھی جاری کر دیا جائے تو وہاں کے مبلغوں کے لئے اور مشنوں کے لئے اور مسجدوں کی تعمیر کے لئے بہت بڑی سہولت پیدا ہو جائے گی.غرض یہ خدا کا ایک بہت بڑا نشان ہے، جو اس نے اپنے زندہ ہونے کے ثبوت کے طور پر تمہارے سامنے ظاہر کیا ہے.اب تمہارا کام ہے کہ تم ان نشانات سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا تعالیٰ کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑ لو کہ وہ تم سے کبھی جدا نہ ہو.تمہیں اگر ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مل جائے تو تم اسے ضائع کرنا کبھی پسند نہیں کرتے.اگر تمہیں دو آ نے مل جائیں تو تم ان دو آنوں کا ضائع ہونا بھی برداشت نہیں کر سکتے.اگر تمہیں کہیں سے ایک روپیل جائے تو تم اس ایک روپیہ کا ضیاع بھی برداشت نہیں کر سکتے.اگر تمہارے پاس ایک زئیل اور مریل گھوڑا ہو تو تم اس مریل گھوڑے کو ضائع کرنا بھی پسند نہیں کرتے.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہارے پاس ایک زندہ خدا ہو اور تم اس سے غافل ہو ؟ جب تم اس کا ہاتھ پکڑ لو گے تو وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.بلکہ ہر موقع پر تمہاری غیر معمولی نشانات سے تائید فرمائے گا.اگر تمہارے جاہل باپ دادا نے یہ ضرب المثل بنائی ہوئی تھی کہ ہتھ پھڑے دی لاج رکھنا اور وہ جس کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے، اسے کبھی نہیں چھوڑتے تھے.تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر تم نے مضبوطی کے ساتھ اپنے خدا کے دامن کو پکڑ لیا تو وہ تمہاری لاج نہیں رکھے گا؟ وہ ایسی لاج رکھے گا کہ دنیا میں کسی نے ایسی لاج نہ رکھی ہو گی.اور وہ تمہارا اس طرح ساتھ دے گا کہ تمہارے ماں باپ نے بھی تمہارا اس طرح کبھی ساتھ نہیں دیا ہوگا“.( مطبوعه روز نامہ الفضل 10 جولائی 1956ء) 621
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1956ء اللہ تعالیٰ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتا چلا آیا ہے اور دیتا چلا جائے گا خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1956ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے پچھلے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ ہمارا خدا اپنے زندہ ہونے کے ثبوت دیتا چلا جاتا ہے.چنانچہ اس ہفتہ بھی برابر اس کی تائید میں خطوط آتے رہے.ایک تو پھر اس غیر ملک سے ، جس کا میں نے پچھلے خطبہ میں ذکر کیا تھا، خط آیا ہے کہ ہم ایک اور احمدی کے پاس گئے اور اس نے پریس کے لئے سو پونڈ دے دیا.اس طرح اور لوگ بھی چندہ دے رہے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پریس کا معاملہ اب جلدی سلجھ جائے گا.اسی طرح پاکستان سے بھی غیر ملکی مشنوں کے متعلق امدادی خطوط آتے رہے.ایک خط باہر سے آیا ہے، جس میں ایک دوست نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے پانچ سو پونڈ غیر ملکی مشنوں کی امداد کے لئے بنک میں جمع کرا دیئے ہیں.گویا اس وقت تک بیرون ملکوں سے قریب بارہ سو پونڈ تک بیرونی مشنوں کے لئے آچکا ہے.اور اطلاعیں آرہی ہیں کہ دوست کوشش کر رہے ہیں کہ اس فنڈ کو مضبوط کر کے سال بھر کے اخراجات پورے کر دیں.پس اللہ تعالیٰ خود ہی اپنے سلسلہ کا حافظ ہوتا ہے اور جہاں سے بظاہر کوئی امداد کی امید نہیں ہوتی ، وہیں سے اللہ تعالٰی امداد کی صورت پیدا کر دیتا ہے.مثلاً یہی اطلاع ملنے پر کہ بیرونی مشنوں کا روپیہ خرچ ہو چکا ہے، اب تک کوئی ساڑھے گیارہ سو پونڈ باہر کی جماعتوں نے جمع کئے ہیں.اور کچھ پاکستان کی جماعتوں نے بھی دیا ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ قریباً سولہ ہزار روپیہ چند دنوں میں جمع ہو گیا ہے.آج کل پونڈ کی قیمت تیرہ روپے سے اوپر ہے.پس ایک ہزار پونڈ کے معنی کم سے کم سوا تیرہ ہزار روپیہ کے ہیں.اور ڈیڑھ سو پونڈ ، جو اس سے اوپر ہے، اس کا کوئی دو ہزار روپیہ بن جاتا ہے.پھر کچھ رقوم پاکستانی جماعتوں کی طرف سے بھی خزانہ میں آئی ہیں.مگر وہ اسی وقت استعمال ہوسکیں گی، جب گورنمنٹ ان کے بدلہ میں ہمیں پونڈ دے گی.بہر حال ایک رقم تو جمع ہوگئی ہے، جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت ہمیشہ دیتا چلا آیا ہے اور قیامت تک دیتا چلا جائے گا.اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا ، جب تک ہماری جماعت میں مخلصوں کا گر وہ موجود رہے گا.623
خطبہ جمعہ فرمودہ 06 جولائی 1956ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم اللہ تعالیٰ کے فضل دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ فضل ہوتے ہیں، جو جماعتی طور پر نازل ہوتے ہیں اور ایک وہ فضل ہوتے ہیں، جو افراد پر نازل ہوتے ہیں.افراد کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل اس وقت تک نازل ہوتے رہتے ہیں، جب تک مخلص وجود دنیا میں قائم رہتے ہیں.اور جماعتی طور پر اس کے فضل اس وقت تک نازل ہوتے رہتے ہیں، جب تک افراد کی اکثریت کم سے کم ادنی درجہ اخلاص کا قائم رکھتی ہے.جب کسی جماعت کی اکثریت اخلاص کا ادنی درجہ قائم رکھتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل اس پر نازل کرتارہتا ہے.اور جب بعض افراد اپنے اخلاص کی وجہ سے خاص درجہ حاصل کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر بھی فضل نازل کرتا ہے اور ان کی خاطر ساری جماعت پر بھی فضل نازل کرتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے.مطبوعه روز نامہ الفضل 13 جولائی 1956ء) 624
تحریک جدید - ایک اپنی تحریک...جلد سوم - خطبہ جمعہ فرموده 26 اکتوبر 1956ء ہمت کر کے آگے بڑھو اور اپنی جانوں اور مالوں کو اسلام کی خاطر قربان کر دو خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اکتوبر 1956ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَوْا مَنَ اَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ (ال عمران: آیت 111) میں نے گذشتہ خطبہ جمعہ میں بھی قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی تھی اور اس کا ایک پہلو بیان کیا تھا.آج میں اس کا ایک دوسرا پہلو بیان کرنا چاہتا ہوں.اس دن چونکہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع تھا، اس لئے میں نے اخرجت للناس پر زیادہ زور دیا تھا.آج میں تامرون بالمعروف وتنهون عن المنكر پرزور دینا چاہتا ہوں.کیونکہ میر انشاء ہے کہ آج میں تحریک جدید کے نئے سال کے چندہ کی تحریک کروں.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے پہلے تو مسلمانوں کو کہا ہے کہ کنتم خير امة اخرجت للناس.یعنی تم بہترین امت ہو، جو ساری دنیا کے لئے نکالی گئی ہو.اور اس کے بعد فرمایا، تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنکر تم ساری دنیا کے لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو.یوں تو ہر مومن اگر وہ سچا مومن ہے تو اپنے گردو پیش میں اپنے ہمسائیوں اور ملنے والوں کو امر بالمعروف بھی کرتا ہے اور نھی عن المنکر بھی کرتا ہے.لیکن اگر ہم اس آیت پر غور کریں تو اس میں ایک عجیب نکتہ بیان کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ان دو چیزوں کو اخرجت للناس کے بعد بیان کیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم صحیح معنوں میں اس آیت کے اسی وقت مصداق ہو سکتے ہیں، جب ہم تامرون الناس بالمعروف اور تنهون الناس عن المنكر پر عمل کریں.یعنی ہم ساری دنیا کے لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیں اور ساری دنیا کے لوگوں کو برائی سے روکیں.لیکن ظاہر ہے کہ ہر مومن نہ ساری دنیا میں تامرون بالمعروف پر عمل کر سکتا ہے اور نہ ساری دنیا میں تنھون عن المنکر پر عمل کر سکتا ہے.یہ کام تنظیم کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے.اور تنظیم بھی ایسی ہو کہ 625
خطبہ جمعہ فرمود و 26 اکتوبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم جماعت کے افراد دنیا کے کناروں پر جائیں اور ساری دنیا کے لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں.لیکن اگر کوئی تنظیم نہ ہو اور یہ نہ ہو کہ اس تنظیم کے ماتحت کوئی شخص امریکہ میں بیٹھا ہوا تبلیغ اسلام کا کام کر رہا ہو، کوئی ملایا میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی تھائی لینڈ میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی بور نیو میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہوں، کوئی انڈونیشیا میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی ہندوستان میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی فلپائن میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی جاپان میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی چین میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو، کوئی یورپ کے مختلف ممالک یعنی انگلینڈ سکینڈے نیویا، ہالینڈ پیجم ، پین ، فرانس، سوئٹزر لینڈ، جرمنی ، آسٹریا، پولینڈ، ہنگری اور روس میں بیٹھا ہوا یہ کام کر رہا ہو تو اس وقت تک اس آیت پر پوری طرح عمل نہیں ہو سکتا.پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اے مسلمانو ! تم سب سے بہتر قوم ہو، جسے ساری دنیا کے لئے نکالا گیا ہے.مگر پھر یہ بھی بتایا کہ تمہیں کس کام کے لئے نکالا گیا ہے.وہ کام یہ ہے کہ تم ساری دنیا کو نیک کاموں کی تعلیم دیتے ہو اور ساری دنیا کو برائی سے روکتے ہو.اور ساری دنیا کو نیکی کی تعلیم دینا اور ساری دنیا کو برائی سے روکنا بھی ممکن ہوسکتا ہے، جب جماعت میں تنظیم ہو اور اس تنظیم کے ماتحت وہ ساری دنیا میں اپنے مبلغ بھیجتی رہے.پرانے زمانہ میں اسلام میں یہ طریق تھا کہ لوگ آپ ہی آپ دوسرے ممالک میں چلے جاتے تھے اور اشاعت اسلام کا کام کرتے تھے.اس زمانہ میں بادبانی جہاز ہوتے تھے اور لوگ معمولی کرایہ خرچ کر کے فلپائن، انڈونیشیا، ملایا اور ہندوستان پہنچ جاتے تھے.لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے اور سفر پر بڑے بھاری اخراجات ہوتے ہیں.پھر پہلے زمانہ میں لوگ اپنے مکانات کو آباد کرنے کے لئے بھی آدمی ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ کوئی مناسب آدمی مل جائے تو اسے اپنا ایک مکان، جو مثلاً دو کمروں پر مشتمل ہو دے دیں تا کہ وہ اس کی حفاظت کرے.لیکن اب یہ حالت ہے کہ بعض ممالک میں ایک غسل خانہ بھی کرایہ پر لیا جائے تو اس کا ڈیڑھ ، دوسوروپیہ ماہوار کرایہ دینا پڑتا ہے.اس لئے اب ہر ایک شخص میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اس حکم پر عمل کر سکے.پرانے زمانہ میں ہر آدمی اس قابل تھا کہ وہ انڈونیشیا، ملایا، چین یا جاپان چلا جائے.کیونکہ سفر پر اخراجات بہت کم ہوتے تھے اور پھر چونکہ سفر بھی کم ہوتا تھا، اس لئے جب سیاح آتے تو لوگ شوق سے انہیں اپنے گھروں میں ٹھہراتے تھے اور ان کی خاطر مدارات کرتے تھے.انڈونیشیا میں کسی زمانہ میں عملاً عربوں کی حکومت تھی.کیونکہ لوگ انہیں شوق سے اپنے گھروں میں لے جاتے اور انہیں استاد اور پیر سمجھتے اور ان کی خاطر مدارات کرتے.لیکن اب انہیں عربوں سے نفرت ہوگئی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں استاد اور 626
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ پیر کہلانے کی عادت ہوگئی ہے.حالانکہ انہی کے سلوک اور خاطر مدارا تو فرمود : 126 اکتوبر 1956 وجہ سے انہیں استاد اور پیر کہلانے کی عادت پیدا ہو گئی تھی.اسی طرح اس علاقہ میں پہلے طبیب نہیں تھے.ہندوستان کے راول وہاں جاتے اور پانچ ، پانچ ہزار روپیہ ماہوار کماتے تھے.لیکن اب یہ حالت ہے کہ وہاں ماہر طبیب بھی چلا جائے تو وہ اسے فقیر اور سپیرا سمجھتے ہیں اور اس سے نفرت کرتے ہیں.غرض زمانہ کے حالات بدلنے کی وجہ سے اشاعت اسلام کا طریق بھی بدل گیا ہے.اب تامرون بالمعروف وتنهون عن المنكر كا كام وہی شخص کر سکتا ہے، جس کو جماعت کی طرف سے خرچ ملتا ہو.کا ہی کرسکتی جماعت سے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے جبکہ وہ جماعت منظم ہو.کیونکہ جماعت کا ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کسی بیٹے کو اس کام کے لئے بھیجے اور اس کا سارا خرج خود برداشت کرے.ہماری ساری جماعت جو دس لاکھ کے قریب ہے، اس میں سے اگر کوئی ایسی مثال ملتی ہے تو وہ صرف میری ہے.میں نے اپنے ایک بیٹے کو انڈو نیشیا تبلیغ کے لئے بھیجا تھا اور جتنی دیر وہ وہاں رہا اس کا سب خرچ میں ہی بھیجوا تارہا.اب بھی میرا ارادہ ہے کہ اگر آئندہ کسی ملک میں اپنا بیٹا اشاعت اسلام کے لئے بھیجوں تو اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کے سارے اخراجات بھی میں خود ہی ادا کروں.لیکن ہر کوئی ایسا نہیں کر سکتا.کیونکہ دوسرے ممالک میں رہائش اور خور دو نوش کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور پاکستانی چونکہ غریب ہیں، اس لئے وہ اس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے.چار، پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والا شخص بھی اگر چاہے تو پچاس روپیہ ماہوار تک ہی دے سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں.لیکن دوسرے ممالک میں اخراجات دو، اڑھائی سو روپیہ ماہوار سے کم نہیں ہوتے اور اتنی رقم وہ اپنی تنخواہ سے نہیں بچا سکتا.پھر جتنی زیادہ کسی کی تنخواہ ہوگی ، اتنے ہی اس کے اخراجات بھی زیادہ ہوں گے.ای.اے.سی اور دوسرے بڑے عہدیداروں کے اخراجات بھی بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں.بلکہ ہمارے ہاں تو یہ کیفیت ہے کہ عام طور پر جب بیٹا بڑا ہو جائے تو خیال کیا جاتا ہے کہ اب وہ کمائے اور ہماری امداد کرے.غرض پرانے زمانہ اور موجودہ زمانہ میں بہت فرق ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کو تشریف لے جارہے تھے، نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم بھی ساتھ تھے.آپ نے بڑے تعجب سے فرمایا، نواب صاحب یہ کتنا اندھیر ہے کہ پہلے جو چوڑھا ہمارے ہاں کام کرتا تھا، اسے ہم چار آنہ ماہوار دیا کرتے تھے اور وہ خود اور اس کا سارا ٹبر ہماری خدمت کیا کرتا تھا.لیکن اب اس کی بیوی کو ہم دوروپے ماہوار دیتے ہیں اور وہ پھر بھی کام سے جی چراتی ہے.اس پر نواب صاحب کہنے لگے ، حضور ! آپ تو دور و پیہ دیتے ہیں، ہم چودہ روپے ماہوار دیتے ہیں اور پھر بھی چوڑھا راضی نہیں.627
خطبہ جمعہ فرمودہ 26اکتوبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم غرض اس زمانہ میں اور پرانے زمانہ میں بڑا بھاری فرق ہے.اب بیرونی ممالک میں جانے پر اتنا خرچ ہوتا ہے کہ اسے کوئی فرد آسانی سے برداشت نہیں کر سکتا.ہاں ایک قوم مل کر کسی کو باہر بھیج سکتی ہے.فرد چاہے 400 یا 500 روپے ماہوار تنخواہ پانے والا ہو، تب بھی ایسا نہیں کر سکتا.ڈپٹی کمشنروں کی تنخواہیں قریباً بارہ سو روپیہ ماہوار ہوتی ہیں مگر وہ بھی تین، چار سور و پیہ ماہوار خرچ نہیں دے سکتے.کیونکہ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کی خوراک اور لباس کا بھی انتظام کرنا ہوتا ہے، بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنا ہوتا ہے، پھر دعوتوں کا خرچ ہوتا ہے، کوٹھی کی حفاظت کا کام ہوتا ہے، پھر بالا حکام آتے ہیں تو ان کے استقبال اور پارٹیوں پر خرچ ہوتا ہے.غرض وہ بھی اپنی تنخواہوں میں سے زیادہ رقم نہیں بچا سکتے اور اپنے کسی بیٹے کو اشاعت اسلام کے لئے باہر نہیں بھجوا سکتے.ڈپٹی کمشنروں سے بڑے رینک کے افسر تو بہت تھوڑے ہیں.وزیروں کو لے لو، وہ بھی گنتی کے ہوتے ہیں اور وزیر اعظم تو پاکستان میں ایک ہی ہے، وزیر اعلیٰ دو ہیں.ایک مغربی پاکستان کا اور ایک مشرقی پاکستان کا.پھر بڑی مصیبت یہ ہے کہ جن لوگوں کو مالی وسعت نصیب ہوتی ہے، انہیں اشاعت اسلام کا احساس نہیں ہوتا.اور جنہیں اس کام کا کچھ احساس ہوتا ہے، وہ مالی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں.غرض یہ کام تبھی ہو سکتا ہے، جب ایک منظم جماعت موجود ہو.پھر چاہے اس کے افراد غریب بھی ہوں ، وہ اس کام کو کر سکتے ہیں.دیکھو، شروع شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دھیلہ چندہ کی شرح مقرر کی تھی اور وہ بھی سال میں ایک دفعہ اور اس وقت اتنی رقم میں گزارہ ہو جاتا تھا.لیکن اب یہ حال ہے کہ جماعت کا ہر کمانے والا اپنی کمائی میں سے ایک آنہ فی روپیہ دیتا ہے اور پھر تحریک جدید بھی جاری ہے.لیکن پھر بھی خزانہ مقروض رہتا ہے.کیونکہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام کرنا پڑتا ہے اور اس پر چھپیں ہمیں لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہو جاتا ہے.پھر کوئی زمانہ ایسا تھا کہ ایک مسجد بنانے پر پانچ ، چھ ہزار روپیہ تک خرچ آتا تھا.لیکن اب.حالت ہے کہ ہالینڈ میں جو مسجد ہم نے بنائی ہے، وہ میں نے عورتوں کے ذمہ لگائی تھی.میں نے انہیں کہا تھا کہ تم 90 ہزار روپیہ دے دو تو یہ مسجد تمہارے روپے سے بن جائے گی.لیکن اس مسجد پر ایک لاکھ 85 ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے.اب عورتیں پریشان ہیں کہ ہم کیا کریں؟ انہوں نے 77 ہزار روپیہ تو جمع کر لیا تھا مگر اب ایک لاکھ ، آٹھ ہزار رو پیدا اور چاہیئے.یہی ضروریات ہیں، جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تمہیں ساری دنیا کے فائدہ کے لئے بنایا گیا ہے.اس لئے تامرون بالمعروف 628
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اکتوبر 1956ء اور تنهون عن المنکر کا کام بھی ساری دنیا کے لئے ہوگا.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ اپنی زندگیاں اس کا کام کے لئے وقف کریں.اور ایک جماعتی تنظیم موجود ہو، جس کے ماتحت لوگوں سے روپیہ لیا جائے اور اشاعت اسلام کے کام پر خرچ کیا جائے.اگر ایسا نہ ہو تو یہ کام نہیں ہو سکتا.پھر مسلمانوں کے لئے مسجد بھی ایک ضروری چیز ہے.لیکن اگر کسی ملک میں صرف دس ہیں مسلمان ہو جائیں تو وہ مسجد کا بوجھ کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ ایک، ایک مسجد پر لاکھوں روپیہ خرچ آتا ہے اور دس، بیس نومسلموں کے لئے اتنی بھاری رقم جمع کرنا بہت مشکل ہے.اس لئے وہ بوجھ بھی ہمیں ہی اٹھانا پڑے گا.میں نے اندازہ لگایاہے کہ فی الحال ہمیں مہینے ممالک میں چالیس مساجد کی ضرورت ہے.اور اگر ایک مسجد کی تعمیر کے اخراجات کا اندازہ دولاکھ روپیہ لگایا جائے تو ان چالیس مساجد کے لئے 80 لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے.پھر صرف مساجد کا تیار کرنا ہی کافی نہیں.ان ممالک میں ہمیں اپنے مبلغ بھی رکھنے پڑیں گے اور پھر لٹریچر کی اشاعت بھی کرنی پڑے گی.اور یہ بہت بڑا بوجھ ہے، جو جماعت کو برداشت کرنا پڑے گا.شاید تم یہ ن کر گھبرا جاؤ اور کہو کہ ہم اتنا بوجھ کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ سوتمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب بیعت لینی شروع کی تو اس وقت آپ نے چندوں کی بھی تحریک فرمائی تھی.لیکن اس وقت کسی کو یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ اتنا بوجھ اٹھایا جا سکتا ہے، جتنا اس وقت کو ہماری جماعت اٹھا رہی ہے.جب حضرت خلیفة المسیح اول رضی اللہ عنہ فوت ہوئے ہیں تو اس وقت بیرونی ممالک میں سے کسی ملک میں بھی ہمارا کوئی مبلغ نہیں تھا.گواب پیغامیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ دو کنگ مسلم مشن آپ نے ہی قائم کیا تھا.حالانکہ خواجہ کمال الدین صاحب، جو دو کنگ مسلم مشن کے بانی ہیں، ان کا اپنا بیان اخبار مدینہ بجنور میں چھپ چکا ہے کہ وو یہ مسلم مشن دو کنگ اپنی بناء، اپنے وجود، اپنے قیام کے لئے میری ذات کے سوا ا کسی اور جماعت یا شخصیت یا کسی انجمن کا مرہون احسان نہیں ہے.میں نے اپنے ہی سرمایہ سے، جو وکالت کے ذریعہ مجھے حاصل ہوا ، اس مشن کو قائم کیا.اس کے متعلق نہ میں نے کسی سے مشورہ حاصل کیا، نہ کسی نے مجھے مشورہ دیا.اخبار مدینہ بجنور 21 جون 1928 ء ) یہ بیان میں نے الفضل میں بھی شائع کرا دیا تھا اور بتایا تھا کہ خواجہ صاحب کا اپنا بیان یہ ہے کہ میں اپنی مرضی سے اور اپنے روپیہ سے وہاں گیا اور اشاعت اسلام کا کام کرتارہا، اس میں کسی جماعت انجمن یا شخصیت کا احسان نہیں ہے.629
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اکتوبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اصل بات یہ ہے کہ نواب رضوی صاحب نے ، جو ان دنوں بمبئی میں رہتے تھے، انہیں ایک سال کا خرچ دیا تھا کہ وہ انگلستان جائیں اور ان کے مقدمہ کی پیروی کریں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہ دیا تھا.کہ اگر وہ چاہیں تو اسلام کی تبلیغ بھی کریں.نواب رضوی کو اتفاقیہ طور پر دولت ہاتھ آگئی تھی.کیونکہ ان کی شادی نظام حیدرآباد عثمان علی صاحب کی پھوپھی زاد بہن سے ہوئی تھی اور شادی بھی خفیہ طور پر ہوئی.نواب رضوی چونکہ صرف ایک وکیل تھے، اس لئے نظام حیدر آباد یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی پھوپھی زاد بہن کی ان سے شادی ہو.وہ چونکہ بادشاہ تھے، اس لئے اسے اپنی ہتک خیال کرتے تھے.اور بیگم کے باپ کی چالیس، پچاس لاکھ روپیہ سالانہ کی جائیداد تھی اور اس نے اس جائیداد کا ایک بڑا حصہ نواب رضوی کو دے دیا تھا.نواب رضوی بمبئی آگئے اور نظام حیدر آباد سے انہیں عدالت میں نالش کرنے کی دھمکی دی.اس پر انہوں نے خواجہ کمال الدین صاحب کو سفر کے اخراجات کے علاوہ سال بھر کے قیام کے اخراجات بھی دیئے تا کہ وہ انگلستان میں جاکر ان کا مقدمہ بھی لڑیں اور اپنی خواہش کے مطابق تبلیغ بھی کریں.گویا خواجہ صاحب کو اتفاقی طور پر ایک ایسا آدمی مل گیا تھا، جس نے انہیں ایک سال کا خرچ دے دیا تھا.مگر اب یہ تو امید نہیں کی جاسکتی کہ روز روز نظام حیدر آباد پیدا ہوں اور وقار الملک ان کے پھوپھا ہوں ، جنہیں چالیس، پچاس لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو.پھر ان کی بیٹی بیوہ رہ جائے اور پھر نواب رضوی پیدا ہوں، جن سے اس کی لڑکی شادی کرلے اور اپنی جائیداد کا ایک حصہ انہیں دے دے.اور وہ اس جائیداد کی آمد میں سے کچھ رقم ایک مبلغ کو دے دیں تا کہ وہ انگلستان جا کر تبلیغ کرے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے کہ کوئی لونڈی ایک دن او پہلے جمع کرنے کے لئے جنگل میں گئی.جن کو پنجابی میں گو ہے" کہتے ہیں.سردی کا موسم تھا، ایک خرگوش سردی کی شدت کی وجہ سے ٹھٹھر کر کسی جھاڑی کے قریب بے ہوش پڑا تھا.وہ لونڈی او پلے جمع کرتی ہوئی وہاں پہنچی تو خرگوش دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اسے اٹھا کر گھر لے آئی.گھر میں ہر فرد نے اس کی تعریف کی اور کہا تم بڑی ہوشیار ہو ، جو خر گوش اٹھا لائی ہو.اس تعریف کی وجہ سے اس کا دماغ خراب ہو گیا اور دوسرے دن صبح کو جب وہ پھر او پہلے جمع کرنے کے لئے جنگل میں جانے لگی تو کہنے لگی ، بی بی میں گوہیاں نوں جاواں یا سٹیاں نوں جاواں.یعنی بی بی میں اوپلے اکٹھے کرنے جاؤں یا خرگوش اٹھانے کے لئے جاؤں.گویا اسے امید پیدا ہوگئی کہ اب ہر روز اسے خرگوش مل جایا کریں گے.یہی مثال ہماری ہوگی، اگر ہم یہ کہیں کہ چلو کوئی نواب رضوی تلاش کریں، جو کوئی مبلغ باہر بھیج دے.نہ نظام حیدر آباد کی ریاست قائم کی جاسکتی ہے، نہ نظام کی بہن کو بیوہ کیا جاسکتا ہے اور نہ اس بیوہ کی 630
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم خطبہ جمعہ فرموده 26 اکتوبر 1956ء بیٹی کوکسی احمدی وکیل سے بیاہا جاسکتا ہے اور نہ ہر روز نواب رضوی پیدا ہو سکتا ہے، جس سے اس کی خفیہ طور پر شادی ہو جائے اور وہ اسے اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ دے دے.اور نہ نظام حیدر آباد سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ نواب رضوی کو نالش کی دھمکی دے اور پھر نواب رضوی کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب جیسا آدمی مل جائے اور وہ اسے انگلستان بھجوا دے اور اسے ایک سال کے قیام کا خرچ اور سفر کے اخراجات بھی دے دے.یہ بہت دور کا اتفاق ہے، جو ہزاروں سال کے بعد ہی میسر آسکتا ہے.لیکن یہاں تو روزانہ مبلغ بھیجوانے ہوں گے اور روزانہ مبلغ بھجوانے کے لئے تحریک جدید ہی کام دے سکتی ہے.وہی تحریک جدید جس نے ساری دنیا کی تبلیغ کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تحریک جدید کے دفاتر کے کام پر میں خوش ہوں.ہالینڈ کی مسجد کو ہی لے لو، میرے نزدیک اگر تحریک جدید کے افسر احتیاط سے کام لیتے تو ایک لاکھ، پندرہ ہزار روپے میں مسجد بن جاتی اور عورتوں پر زیادہ بوجھ نہ پڑتا.لیکن بہر حال تحریک جدید کے ذریعہ ایک نہایت اہم اور قابل تعریف کام ہورہا ہے اور جماعت کو اسے ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس میں حصہ لینا چاہئے تا کہ وہ تبلیغ اسلام کو ساری دنیا میں پھیلا سکے.اس سال سیکنڈے نیویا میں ایک نیا مشن کھولا گیا ہے.اور ایسے سامان پیدا ہورہے ہیں کہ شاید ہمیں اپنے خرچ پر کچھ اور مبلغ بھی امریکہ بھجوانے پڑیں.کیونکہ امریکہ میں مبلغوں کی بڑی مانگ ہے.لیکن امریکن احمدی ان کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے.بلکہ امریکن جماعت کا چندہ امریکہ کے موجودہ مبلغوں کا خرچ بھی برداشت نہیں کر سکتا.اگر چہ مغربی ممالک میں سے امریکہ ہی ایک ایسا ملک ہے، جو ایک حد تک تبلیغ کا بوجھ اٹھا رہا ہے.وہاں کے مشن کا خرچ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کے قریب ہے لیکن وہ قریباً دو تہائی بوجھ اٹھا رہا ہے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں جماعت تھوڑی ہے.امریکہ کی جماعت کے کل 500 افراد ہیں اور ظاہر ہے کہ 500 افراد کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کا بوجھ برداشت کرنا مشکل ہے.اس لئے لازمی طور پر ہمیں بھی ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے.اگر اور مبلغ گئے تو اور خرچ ہوگا.پھر ایک اور علاقہ میں بھی تبلیغ کے رستے کھل رہے ہیں اور کچھ وقت کے بعد وہاں با قاعدہ مشن قائم کیا جا سکے گا.اسی طرح چین سے ایک بڑے عالم کا عربی اور انگریزی میں خط آیا ہے، جس میں اس نے اپنے ملک میں احمدیت کی اشاعت کی طرف توجہ دلائی ہے.فلپائن میں بھی بعض نوجوان لٹریچر کے ذریعہ احمدی ہوئے ہیں اور تازہ اطلاع آئی ہے کہ وہاں طلباء کی ایک انجمن ہے، جس کے آٹھ ممبر لٹر پیچر کے ذریعہ احمدی ہو گئے ہیں.اور ان میں سے بعض نے دین کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی بھی وقف کی ہے اور وہ ربوہ آکر تعلیم 631
خطبہ جمعہ فرموده 26 اکتوبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم حاصل کرنا چاہتے ہیں.اب اگر وہ ربوہ آکر تعلیم حاصل کریں گے تو ان کے یہاں قیام کے اخراجات بھی دینے پڑیں گے اور ایک طرف کا کرایہ بھی دینا پڑے گا.اس طرح 30-25 ہزار روپیہ کا خرچ اور بڑھ جائے گا.غرض ہمارا اشاعت اسلام کا کام ہر روز بڑھے گا اور اخراجات بھی بڑھیں گے.جو آپ کو بہر حال برداشت کرنے پڑیں گے.ہمارے ملک میں ایک مثال ہے اور وہ بڑی کچی ہے کہ اونٹ شور مچاتے ہی لا دے جاتے ہیں.اسی طرح تم بھی چاہے کس قدر شور مچاؤ تمہیں تبلیغ کا کام بہر حال کرنا پڑے گا.اس سے تمہارا پیچھا نہیں چھوٹے گا.کیونکہ جب تم احمدی ہوئے تھے تو تم نے مان لیا تھا کہ نحن خيرامة ہم بہترین امت ہیں.اور اگرتم بہترین امت ہو تو تمہیں وہ کام کرنا پڑے گا، جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہترین امت کا بیان کیا ہے.یا تو تم کہ دو کہ ہم اچھے نہیں، ہم سے عیسائی اور یہودی اچھے ہیں.اور یا یہ کہو کہ ہم اچھے ہیں.اور اگر تم اچھے ہو تو تمہیں اشاعت اسلام کا کام بھی کرنا پڑے گا.اس تمہید کے بعد میں تحریک جدید کے نئے سال کے چندہ کا اعلان کرتا ہوں اور تحریک کرتا ہوں کہ دوست زیادہ سے زیادہ اس میں چندہ لکھوائیں.اور پھر اسے جلد ادا کرنے کی کوشش کریں تا کہ پچھلا بوجھ بھی اترے اور آئندہ سال تبلیغ کا کام بہتر طور پر ہو سکے اور خدام اور انصار کے ذمہ لگا تا ہوں کہ وہ سارے دوستوں میں تحریک کر کے زیادہ سے زیادہ وعدے جلد سے جلد بھجوائیں.اور خدا کرے کہ نومبر کے آخر تک ان کو وعدوں کی لسٹیں پورا کرنے کی توفیق مل جائے اور دسمبر کے آخر میں تحریک جدید یہ اعلان کر سکے کہ اس کی ضرورتیں پوری ہو گئی ہیں.پچھلے سال میں نے تحریک جدید کا بجٹ بڑی احتیاط سے بنوایا تھا.لیکن پھر بھی پتہ لگا ہے کہ تحریک جدید پر صیغہ امانت اور بعض دوسری مدات کا دولاکھ ، چالیس ہزار روپیہ قرض ہے.اس لئے قربانی اور ہمت کی ضرورت ہے، مگر گھبراؤ نہیں.خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی مالی حالت بہتر بنائے اور تمہیں مزید لاکھوں بھائی عطا فرمائے ، جن کے ساتھ مل کر تم اس بوجھ کو آسانی کے ساتھ اٹھا سکو.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے زمیندار ہی یورپ کے زمینداروں کی طرح محنت کریں تو ہماری آمد میں سو گنا اضافہ ہو سکتا ہے.یورپ کے بعض ممالک میں فی ایکٹر تین، تین ہزار روپیہ آمد ہے.اور ہماری جماعت کے پاس ڈیڑھ لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین ہے.اگر ہمارے زمینداروں کی آمد بھی تین تین ہزار 632
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلدسوم - خطبہ جمعہ فرموده 26 اکتوبر 1956ء روپیہ فی ایکڑ ہو تو ان کی آمد ساڑھے پینتالیس کروڑ روپیہ سالانہ ہو جاتی ہے.اگر وہ اس کا چھ فی صدی چندہ دیں تو جماعت کا چندہ دو کروڑ ستر لاکھ بن جاتا ہے.اور اگر دس فی صدی دیں تو جماعت کا چندہ چار کروڑ ، پچاس لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت روز بروز بڑھ رہی ہے.گو جماعت کے دوست تبلیغ میں سستی کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے لوگوں کے کانوں میں احمدیت کی تعلیم ڈالتے رہتے ہیں اور وہ کھنچے ہوئے احمدیت کی طرف آ جاتے ہیں.اگر ہمارے زمیندار محنت کریں تو خود بھی انہیں فائدہ ہوگا، یعنی ان کی مالی حالت بہتر ہوگی اور ان کے بچے تعلیم پائیں گے اور ساتھ ہی تبلیغ بھی ہوگی.اور وہ کنتم خیرامۃ میں داخل ہو جائیں گے اور ان کا نام خدا تعالیٰ کے حضور پہلے نمبر پر لکھا جائے گا.دیکھو، اگر تم زیادہ نمازیں پڑھو گے تو اس کا ثواب صرف تمہارے حساب میں لکھا جائے گا.لیکن اگر تم زیادہ تبلیغ کرو گے تو ساری دنیا اس سے فائدہ اٹھائے گی.اور ساری دنیا کے ثواب میں تم شریک ہو جاؤ گے.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے بعض دوست ایسے ہیں، جو شاید دوروپیہ چندہ دیتے ہیں.لیکن جب کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخر سے سینہ پر ہاتھ مار کر کہتے ہیں کہ ہم امریکہ میں تبلیغ کر رہے ہیں، جرمنی میں تبلیغ کر رہے ہیں، انگلینڈ میں تبلیغ کر رہے ہیں، سوئٹزر لینڈ میں تبلیغ کر رہے ہیں، انڈونیشیا میں تبلیغ کر رہے ہیں.ان کی مثال ویسی ہی ہوتی ہے، جیسے کہتے ہیں کہ کسی زمیندار کے ہاں شادی تھی.ہمارے ہاں رواج ہے کہ شادیوں پر لوگ نیو تا دیتے ہیں.اس شادی پر ایک نند اور ایک بھا وجہ دو عورتیں گئیں.نند غریب تھی، اس نے ایک روپیہ نیوتا دیا.لیکن بھاوجہ امیر تھی ، اس نے ہمیں روپے نیو تا دیا.کسی نے نند سے پوچھا، بہن تم نے کتنا نیو تا دیا؟ تو اس نے بڑے فخر سے کہا، میں نے بھابی، اکیس.اسی طرح ان لوگوں کی مثال ہے.مجالس میں بیٹھ کر وہ بڑے فخر سے کہیں گے کہ ہم فلاں فلاں ملک میں تبلیغ کر رہے ہیں.لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ تم نے اس کام کے لئے کتنا چندہ دیا ہے؟ تو بعض دفعہ وہ کہیں گے، ہم نے آٹھ آنے دیئے تھے.وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تبلیغ ان لوگوں کے ذریعہ ہورہی ہے، جو ہزاروں روپیہ اس کام کے لئے دے رہے ہیں.شادیاں ہوتی ہیں، عقیقے ہوتے ہیں تو لوگ بڑے شوق سے روپیہ خرچ کرتے ہیں، اسی طرح اگر وہ اپنے دلوں میں اشاعت اسلام کی سچی تڑپ رکھیں تو تبلیغ کے لئے کیوں نہیں دے سکتے ؟ ابھی تھوڑے دن ہوئے ، مجھے افریقہ کے ایک احمدی دوست ملے.انہوں نے کہا، آپ نے رخصتانہ کے موقعہ پرلڑکی والوں کو کھانا کھلانے کی بالکل ممانعت کر دی ہے.حالانکہ ہمارا وہاں بہت اثر ہے 633
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اکتوبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اور گورنر اور بڑے بڑے عہدہ دار ہمیں اپنے ہاں بلاتے ہیں.اگر ہم انہیں اپنے ہاں نہ بلائیں تو وہ ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ تم لوگ ہماری دعوتیں تو کھا جاتے ہو اور اپنی باری آئے تو ہمیں نہیں کھلاتے.ہماری مالی حیثیت پاکستانیوں سے بہت اچھی ہے، آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم ایسے موقعوں پر گورنروں اور دوسرے عہد یداروں کو اپنے ہاں دعوتوں میں بلا لیا کریں تا کہ وہ ہمیں طعنہ نہ دے سکیں کہ ہم ان کو اپنے ہاں نہیں بلاتے.پھر ہمارے ہاں چار چار، پانچ پانچ میل پر مکانات ہوتے ہیں، اگر اس قسم کے مواقع پر آنے والوں کو کھانا نہ کھلایا جائے تو بڑی عجیب بات معلوم ہوتی ہے.میں نے انہیں کہا کہ وہ اپنے ملک کے حالات لکھ کر بھیج دیں توان پر غور کر لیا جائے گا.یورپ میں بھی پانچ پانچ سات سات میل پر کوٹھیاں ہوتی ہیں.اگر اس قسم کے مواقع پر کوئی شخص ایک لمبافاصلہ طے کر کے کسی کے گھر جائے تو اسے کھانا نہ کھلایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اس دن فاقہ سے رہے.میں نے اس واقعہ کا سید عبدالرزاق شاہ صاحب سے ذکر کیا ، جو کہ نیروبی رہ چکے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ اس دوست کی بیٹی کی شادی تھی تو انہوں نے جو دعوت کے خرچ کا اندازہ لگایا تھا ، وہ سات ہزار روپیہ تھا.میں نے وہ خرچ اڑا دیا اور اس طرح ان کی شادی بغیر خرچ کے کروا دی.بہر حال افریقہ میں امارت ہے اور لوگوں کے پاس روپیہ ہے اور پھر وہ لوگ قربانی بھی کرتے ہیں.اگر اس علاقہ میں ہماری جماعت موجودہ جماعت سے دس گنا ہو جائے تو صرف افریقہ کی جماعت کا چندہ ہیں، پچیس لاکھ روپیہ سالانہ ہو جاتا ہے.اور اگر امریکہ میں بھی موجودہ جماعت دس گنا ہو جائے تو اس کا چندہ بھی ہیں، پچیس لاکھ سالانہ ہو جاتا ہے اور وہ تبلیغ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں.لیکن یا درکھو، ایک وقت تک یہ بوجھ صرف تمہیں ہی برداشت کرنا ہوگا.کیونکہ اس ملک میں خدا تعالیٰ نے اپناما مور بھیجا ہے اور خدا تعالیٰ اس ملک کو عزت دینا چاہتا ہے.لوگ چاہے کتنا شور کریں اور کہیں کہ ہم اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے.لیکن بہر حال انہیں یہ بوجھ اٹھانا پڑے گا کیونکہ خدا تعالیٰ اس ملک کو عزت دینا چاہتا ہے.اور اس نے اس ملک کو اپنے لئے چن لیا ہے.تمہارے پیچھے جو لوگ آئیں گے، وہ کہیں گے کہ کاش یہ کام ہمارے زمانہ میں ہوتا تو ہم اسے سرانجام دیتے.معلوم نہیں کہ تمہیں پرانے واقعات کو پڑھ کر ایسی تحریک ہوتی ہے یا نہیں، لیکن میں تو جب بھی پرانے واقعات پڑھتا ہوں تو میرے دل میں جوش پیدا ہوتا ہے کہ کاش میں اس وقت ہوتا اور قربانی کرتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو کوئی بے عزتی نہیں کر سکتا کیونکہ آپ خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نبی تھے.لیکن تاہم کفار نے آپ کو اذیت پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی ہے.میں تو جب بھی ان واقعات کو پڑھتا ہوں، میرا دل چاہتا ہے کہ کاش میں اس وقت ہوتا اور وہ 634
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود : 26اکتوبر 1956ء ماریں، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑیں، مجھے پڑتیں.اسی طرح تمہاری انگلی نسل آئے گی تو وہ لوگ بھی کہیں گے کہ کاش وہ اس وقت ہوتے اور جوقربانیاں تم کر رہے ہو، وہ کرتے.لیکن اس وقت وہ تو موجود نہیں تحریک تمہارے سامنے کی جاتی ہے، مگر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ تمہارے پوتے اور پڑپوتے اور ہمسائے حسرت سے کہیں گے کہ ہمارے باپ دادوں نے اسلام کے لئے وہ قربانیاں نہیں کیں، جو کرنی چاہئے تھیں.اگر ہم اس وقت ہوتے تو ہم ان سے بڑھ کر قربانیاں کرتے.بالعموم یہ فقرہ جھوٹا ہوتا ہے.کیونکہ کہنے کوتو یہ فقرہ انسان کہ دیتا ہے لیکن وقت آنے پر اس پر عمل نہیں کرتا.تاریخ میں ہمیں صرف ایک مثال ایسی ملتی ہے کہ ایک شخص نے یہ فقرہ کہا اور پھر وقت آنے پر اسے سچا کر دکھایا.اور وہ حضرت مالک تھے.جنگ احد میں ایک موقعہ پر صحابہ کی غلطی کی وجہ سے دشمن آگے بڑھ آیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آکر پتھر پھینکنے لگا.آپ کے پاس 20 کے قریب مسلمان کھڑے تھے، انہوں نے وہ پتھر اپنی چھاتیوں پر کھانے شروع کئے.لیکن پھر بھی کچھ پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جالگے.آپ اس وقت حفاظت کی غرض سے خود پہنے ہوئے تھے.ایک پتھر اس خود پر لگا اور خود کا کیل آپ کے سر میں گھس گیا.آپ بے ہوش ہو کر ان صحابہ کی لاشوں پر جاپڑے، جو آپ کے ارد گر دلڑتے ہوئے شہید ہو چکے تھے.اس کے بعد کچھ اور صحابہ آپ کے جسم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے اور ان کی لاشیں آپ کے جسم پر جا گریں.مسلمانوں نے آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے دبا ہوا دیکھ کر خیال کیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.اور یہ خبر آنا فانا تمام مسلمانوں میں پھیل گئی اور وہ اس شہادت کی خبر اپنے اردگرد کے صحابہ کو پہنچانے کے لئے ادھر ادھر بھاگ پڑے.جب یہ خبر مدینہ میں پہنچی تو شہر کے مرد اور عورتیں اور بچے سب پاگلوں کی طرح شہر سے باہر نکل آئے اور احد کے میدان کی طرف دوڑ پڑے.اس وقتی شکست کے وقت جو صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے اور جنہیں کفار کے لشکر کا ریلا دھکیل کر پیچھے لے آیا تھا، ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے.ان کے کانوں میں بھی یہ خبر پہنچی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور وہ شخص جس نے بعد میں قیصر وکسرٹی کی حکومتوں کو تہ و بالا کر دیا تھا ، ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگ گیا.اتنے میں حضرت مالک ان کے پاس گئے.حضرت مالک جنگ بدر میں شامل نہیں ہو سکے تھے اور جب کبھی صحابہ اس بات کا ذکر کرتے کہ ہم نے اس جنگ میں یہ یہ قربانی کی ہے تو حضرت مالک شخصہ میں آجاتے اور جوش کی حالت میں ٹہلنے لگ جاتے اور کہتے تم نے کیا قربانی کی ہے.اگر میں اس وقت ہوتا تو تمہیں دکھاتا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں؟ دنیا میں عام قاعدہ یہ 635
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اکتوبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک ہے کہ بظاہر ایسا دعویٰ کرنے والے اپنے دعوے کو پورا نہیں کرتے.لیکن جنگ احد میں جب وقتی طور پر مسلمانوں کو شکست ہوئی تو اس کا حضرت مالک کو پتہ نہیں لگا.وہ اسلامی لشکر کی فتح کے وقت ہی پیچھے ہٹ گئے تھے اور چونکہ رات سے انہوں نے کچھ کھایا نہیں تھا، جب فتح ہو گئی تو وہ چند کھجوریں لے کر پیچھے کی طرف چلے گئے تا کہ انہیں کھا کر اپنی بھوک دور کریں.وہ فتح کی خوشی میں ٹہل رہے تھے اور کھجوریں کھا رہے تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے وہ حضرت عمرؓ کے پاس جا پہنچے اور حضرت عمرؓ کو بچوں کی طرح روتے دیکھ کر کہا، عمر! اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی ہے اور تم اور ہے ہو؟ حضرت عمر نے کہا، مالک ! تم شاید پہلے میدان سے ہٹ آئے ہو.بے شک دشمن بھاگ گیا تھا اور مسلمانوں نے فتح پائی تھی لیکن بعد میں دشمن نے اچانک مسلمانوں پر حملہ کیا ، جس کے نتیجہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.اس پر مالک نے کہا ، عمر! اگر یہ واقعہ ٹھیک ہے تو پھر بھی یہ رونے کا وقت نہیں.جہاں ہمارا آقا گیا، ہمیں بھی وہیں جانا چاہئے.ان کے ہاتھ میں اس وقت آخری کھجور تھی.اسے نیچے پھینکتے ہوئے ، آپ نے کہا، مجھ میں اور جنت میں اس کھجور کے سوا اور کون سی چیز حائل ہے؟ یہ کہہ کر آپ نے تلوار سونت لی اور دشمن کی صفوں میں گھس گئے.دشمن کا لشکر تین ہزار کی تعداد میں تھا.لیکن حضرت مالک اکیلے ہی اس پر حملہ آور ہوئے اور اس کی صفوں کو چیرتے ہوئے چلے گئے ، آپ زخمی ہو کر گرتے مگر پھر کھڑے ہو جاتے اور دشمن پر حملہ کرتے.یہاں تک کہ اس لڑائی میں آپ شہید ہو گئے.بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ مالک کی لاش تلاش کریں.لیکن باوجود تلاش کے لاش نہ ملی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ہدایت کی کہ جاؤ اور مالک کی لاش تلاش کرو.وہ گئے لیکن پھر بھی لاش نہ ملی.آخر تیسری دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر تلاش کا حکم دیا.صحابہ نے کہا، یا رسول اللہ ! ہمیں ایک لاش ملی ہے، جس کے ستر ٹکڑے ہیں.لیکن ہمیں کوئی ایسی علامت نہیں ملی، جس کی وجہ سے ہم پہچان سکیں کہ وہ لاش کس کی ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مالک کی بہن کو ساتھ لے جاؤ.چنانچہ صحابہ مالک کی بہن کو ساتھ لے گئے اور اس نے ایک کٹی ہوئی انگلی کے ایک نشان سے مالک کی لاش کو پہچانا اور کہا، یہ میرے بھائی کی لاش ہے.تو دیکھو، اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مسلمانوں نے قربانیاں کیں تو مالک نے کہا ، اگر میں اس وقت ہوتا تو تم سے بڑھ کر قربانی کرتا.اور پھر بعد میں جب وقت آیا تو انہوں نے اپنے اس دعوئی کو پورا کر دکھایا.تمہارے دل میں بھی یہ خیال آتا ہوگا کہ اگر ہم فلاں موقع پر ہوتے تو یوں قربانی کرتے.مگر اللہ تعالی نے تمہیں وہ موقع دے دیا ہے، جو دوسروں کو نہیں ملا.اگر غیر احمدی ایسا کہیں تو وہ معذور ہیں کیونکہ 636
خطبہ جمعہ فرموده 26 اکتوبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم انہیں موقع نہیں ملا لیکن تم نہیں کہہ سکتے کیونکہ تمہیں خدا تعالیٰ نے اس بات کا موقع دے دیا ہے کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی سی قربانیاں کرو.اس وقت تلوار کا جہاد تھا اور اب تبلیغ اسلام کا جہاد ہے.اس وقت عیسائیت نے اسلام کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ جب تک ہم پاگلوں کی طرح باہر نہ نکلیں ، اسلام غالب نہیں آسکتا.پھر عیسائی تعداد کے لحاظ سے بھی ہم سے دگنے ہیں ، روپیہ کے لحاظ سے وہ مسلمانوں سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں، سیاست کے لحاظ سے بھی وہ مسلمانوں سے زیادہ طاقت ور ہیں.پس جب تک نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے باہر نہ نکلیں اور وہ دین کی خدمت کے لئے تیار نہ ہوں، اس وقت تک یہ کام نہیں ہو سکتا.جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث نہیں ہوئے تھے، ہمارے پاس کوئی ایسا رستہ نہیں تھا، جس پر چل کر ہم صحابہ کیسی قربانیاں کرسکیں.مگر اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہمیں وہ رستہ مل چکا ہے اور آپ نے تبلیغ اسلام کا ایک سلسلہ قائم کر دیا ہے.اب اس ذریعہ سے ہر احمدی کو موقع مل گیا ہے کہ وہ صحابہ " کی طرح کہہ سکے کہ اگر میں فلاں موقع پر ہوتا تو اس اس طرح اپنی جان اور مال کی قربانی پیش کرتا.آخر مال کی قربانی یہ تو نہیں کہ کوئی شخص اپنی دولت لے کر گٹھڑی میں باندھے اور کنوئیں میں ڈال دے.یا جان کی قربانی کا یہ مطلب تو نہیں کہ گلے میں رسہ ڈال کر خود کشی کر لے.بلکہ مال کی قربانی یہ ہے کہ وہ اپنا مال اشاعت اسلام کرنے والوں کو دے.اس طرح اس کا مال خدا تعالی کی راہ میں خرچ ہوگا اور سلسلہ کو بھی اس کا فائدہ ہوگا.اور جان کی قربانی یہ ہے کہ وہ غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے نکل جائے اور اپنی ساری زندگی اسی کام میں صرف کر دے.اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی برکتوں کا وارث ہو جاتا ہے.پس تمہیں خدا تعالیٰ نے جان اور مالی قربانی کرنے کا موقع بہم پہنچادیا ہے.بعض پچھلے علماء نے غلط فہمی سے یہ کہا ہے کہ جان کی قربانی صرف یہ ہے کہ تلوار سے جہاد کیا جائے.حالانکہ چاہے کوئی اپنی جان کو چھری سے ذبح کرے، چاہے اسے وطن چھوڑنے کی صورت میں قربان کرے اور چاہے وہ دشمن کی گالیاں سنے اور اس کی اذیتیں برداشت کرے، یہ سب چیزیں جان کی قربانی میں شامل ہیں.بہر حال اس وقت جو تمہیں جان اور مال قربان کرنے کا موقع ملا ہے، اس کی نظیر پچھلے زمانہ میں نہیں ملتی.صحابہ کے زمانہ میں اس کی بے شک نظیر ملتی ہے لیکن اس کے بعد کے زمانہ میں لوگوں کو بہت کم موقع جان اور مال کو قربان کرنے کا ملا ہے.اب پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے صحابہ کی طرح جان اور مال کو قربان کرنے کا موقع پیدا کیا ہے.تاکہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کر کے تامرون بالمعروف وتنهون عن المنکر والے حکم کو پورا کیا جاسکے.637
خطبہ جمعہ فرموده 26 اکتوبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم پس میں تمام دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے نئے سال میں بڑھ چڑھ کر وعدے لکھوائیں اور پھر انہیں سو فیصدی پورا کریں.مجھے پچھلے ہفتہ میں خدام میں بھی تقریریں کرنی پڑی ہیں اور اب انصار اللہ کے اجتماع میں بھی جانا ہے، اس لئے میں کوئی لمبی تقریر نہیں کر سکتا.مختصر طور پر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ثواب حاصل کرنے کے دن ہیں.تم ثواب حاصل کر لو اور پھر یہ ایسے دن ہیں کہ تمہارے بعد میں آنے والے نسل در نسل اس پر فخر کریں گے.اور خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی.اگر آج تم اسلام کی خاطر قربانی کرتے ہو تو تم اپنی آئندہ نسل کے لئے قربانی کا رستہ کھولتے ہو اور پھر اس کی نسل کے لئے اور پھر اس نسل کی نسل کے لئے رستہ کھولتے ہو.اور اس طرح سو پشت تک تمہاری نسل خدا تعالی کی برکات کی وارث ہوتی چلی جائے گی.اس تمہید کے ساتھ میں خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.تم یہ مت خیال کرو کہ یہ بوجھ تمہاری طاقت سے بالا ہے.تم ہمت کر کے آگے آؤ اور بے دریغ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کرو.اللہ تعالیٰ تمہاری محنتوں کے نتائج میں برکت دے گا اور تمہیں اپنے انعامات سے حصہ دے گا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائے تمہارے حوصلوں کو بلند کرے اور جماعت کی تعداد کو بھی زیادہ کرے تا تمہارے اور بھائی بھی آگے آئیں اور اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہوں.اس وقت ہمارے صرف چالیس پچاس مبلغ غیر ممالک میں کام کر رہے ہیں.خدا کرے تم اپنی زندگیوں میں دیکھ لو کہ ان کی تعداد لاکھوں تک ہوگئی ہے اور کروڑوں کروڑ عیسائی احمدیت میں داخل ہورہے ہیں اور اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہورہی ہے.مطبوعه روزنامه الفضل 06 نومبر 1956 ء ) 638
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 نومبر 1956ء تحریک جدید کی ذمہ واری بہت بڑی ذمہ واری ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1956ء پچھلے خطبہ جمعہ میں، میں نے تحریک جدید کے نئے سال کے چندہ کا اعلان کیا تھا اور آج پھر میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کی ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری ہے.اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے لکھوائیں تا کہ تحریک جدید کے دفتر کو اس بات کا اطمینان ہو جائے کہ اگلے سال ان کا کام آسانی سے چل سکے گا“.وو جماعتوں میں جونہی میرا یہ خطبہ پہنچے، وہ فوری طور پر اپنا اجلاس بلائیں اور خدام اور انصار کو اس بات کا ذمہ وار قرار دیں کہ وہ گھر بہ گھر پھریں اور ہر احمدی سے تحریک جدید کا وعدہ لیں.یہ کام پہلے ہی بہت اہم تھا، مگر جیسا کہ میں نے خطبہ میں بیان کیا تھا، گزشتہ سال تحریک جدید پر اڑھائی لاکھ روپیہ کا قرض ہو گیا.اس قرض کو اتارنے اور بعض نئے مشن قائم کرنے کے لئے ضرورت ہے کہ دوست پہلے سے بھی زیادہ جوش اور اخلاص اور قربانی سے کام لیں.اس سال ایک پروفیسر جرمنی سے یہاں آ رہے ہیں اور وہ کچھ عرصہ ربوہ میں قیام کریں گے اور دینی تعلیم حاصل کریں گے، ان کے لئے بھی اخراجات کی ضرورت ہے.پھر دو طالب علم فلپائن سے دینی تعلیم کے لئے یہاں آرہے ہیں، ان کے اخراجات بھی ادا کرنے ہوں گے.اس کے علاوہ ایک اور جرمن پادری، جو نئے مسلمان ہوئے ہیں اور جنہوں نے اپنی زندگی وقف کی ہے تا کہ وہ ربوہ میں تعلیم حاصل کریں اور پھر جرمنی میں تبلیغ اسلام کریں ، ان کے انتظام کے لئے بھی روپیہ کی ضرورت ہوگی.پھر جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا، فلپائن یونیورسٹی کے طلباء کی جو انجمن ہے، اس کے آٹھ نو جوانوں نے بیعت کر لی ہے اور انہیں یقین ہے کہ باقی طلباء میں بھی بہت جلد احمدیت پھیل جائے گی.اسی طرح کولون جرمنی میں ایک احمدی تھے ، جن کا نام مبارک احمد شولر تھا، وہ اس سال فوت ہو گئے ہیں.ان کی وفات کی وجہ سے وہاں کی جماعت ختم ہوگئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلہ میں اور کچھ اس فتنہ کے بدلہ میں جواب کھڑا کیا گیا ہے، ہمیں بعض نئی جماعتیں عطا فرمائی ہیں.کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ اگر تم واقعہ میں مومن ہو گے اور پھر تم میں سے کوئی شخص تمہارے نظام دینی 639
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم سے الگ ہو جائے گا تو ہم اس کے بدلہ میں کفار میں سے ایک قوم تمہیں دیں گے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کو پورا کیا اور ان کے بدلہ میں ہمیں کئی نئی جماعتیں عطا فرما دیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، فلپائن میں 8 طلباء نے بیعت کی ہے اور اس طرح وہاں ایک نئی جماعت قائم ہوگئی ہے.اسی طرح جرمنی میں ایک جگہ گو پنجن (Goppingen) ہے، وہاں بھی ایک نئی جماعت قائم ہوئی ہے.پھر جرمن سے ایک ایسے شخص کا، جس کا ہمارے مبلغ سے کوئی تعلق نہیں تھا، میرے نام ایک خط آیا.وہ چونکہ جرمن زبان میں تھا، اس لئے میں نے وہ خط چودھری عبد اللطیف صاحب مبلغ جر منی کو بھیج دیا تا کہ وہ اس کا ترجمہ کر کے مجھے بھیجیں.انہوں نے اس خط کا ترجمہ کر کے مجھے بھیج دیا ہے.جس سے معلوم ہوا ہے کہ خط لکھنے والا ایک فوجی افسر ہے، اس نے لکھا ہے کہ میں نے آپ کا انگریزی ترجمۃ القرآن پڑھا ہے اور اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں اور میں آپ کی جماعت میں داخل ہوتا ہوں.جب فرصت ہوئی، میں ہمبرگ جاؤں گا اور احمد یہ شن سے تعلقات قائم کروں گا.اگر اس شخص کے ذریعہ اس علاقہ میں تبلیغ شروع ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بھی احمدیت پھیل سکتی ہے.اور اگر اسے بھی ایک جماعت شمار کر لیا جائے تو یہ دوسری جماعت ہے، جو اس فتنہ کے بعد جرمنی میں قائم ہوتی ہے.پھر ایک جماعت سیکنڈے نیویا میں قائم ہوئی ہے.گویا یہ چار نئی جماعتیں ہیں، جو اس تھوڑے سے عرصہ میں غیر ممالک میں قائم ہوئی ہیں.جیسا کہ میں نے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے نظام دینی سے الگ ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں تمہیں ایک قوم دے گا، جو مومنوں کے ساتھ نہایت انکسار رکھنے والی اور کفار کی شرارتوں کا دلیری سے مقابلہ کرنے والی ہوگی.گویا اس نے یہ اعلان کیا کہ اگر تم واقعہ میں مومن ہو تو جو تمہارے نظام کو چھوڑے گا ، اس کے متعلق تم کو کچھ کرنے کا حکم نہیں.بلکہ اس کے متعلق ہم اپنے اوپر ذمہ داری لیتے ہیں اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ ایک، ایک شخص کے بدلہ میں ہم ایک، ایک قوم کفار میں سے لا کر تمہارے اندر داخل کریں گے.چنانچہ اس فتنہ کے بعد ہی کئی سو افراد تو اس ملک میں احمدیت میں داخل ہوئے.اور دوسرا فضل اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ غیر ممالک میں چارنٹی جماعتیں قائم کر دیں.جن میں سے دو جرمنی میں قائم ہوئی ہیں، ایک فلپائن میں قائم ہوئی ہے اور ایک سیکنڈے نیویا میں نئی جماعت بنی ہے.سوئٹزرلینڈ سے بھی جو خبریں آرہی ہیں ، وہ خوش کن ہیں.ہمارے مبلغ کی آسٹریا کی ایک یونیورسٹی میں بڑی کامیاب تقریر ہوئی.وقت اگر چہ ختم ہو گیا تھا مگر پھر بھی سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا اور ان لوگوں نے خواہش کی کہ اس قسم کی اور تقاریر بھی ہونی چاہئیں.640
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم غرض اللہ تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں وعدہ فرمایا تھا کہ اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 نومبر 1956ء يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَ کہ اے مومنوں ! اگر تم میں سے کوئی شخص تمہارے نظام دینی کو چھوڑ دے تو اگر تم سچے مومن ہو تو تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.اگر وہ شخص جو تم سے الگ ہوا ہے، وہ واقعہ میں تمہارے نظام سے جدا ہو گیا ہے تو ہم اس کی جگہ پر تمہارے غیروں میں سے تمہیں ایک قوم دیں گے.وہ وعدہ بڑی شان سے پورا ہوا ہے اور اس طرح سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ تم واقعہ میں مومن ہو اور تم سے الگ ہونے والے واقعہ میں ایک بچے دینی نظام سے الگ ہوئے ہیں.کیونکہ وہ ان کی جگہ ایک قوم لے آیا ہے اور پھر یہ قوم بڑھتی چلی جائے گی اور اتنی بڑھے گی کہ احمدیت دنیا کے کناروں تک پھیل جائے گی اور جوں جوں خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہوں گے تمہیں اس کی برکتیں نصیب ہوں گی.پس تمہیں چاہئے کہ تحریک جدید کے نئے سال میں زیادہ سے زیادہ وعدے لکھواؤ تا کہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہو“.( مطبوعه روز نامہ الفضل 16 نومبر 1956ء) 641
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1956ء فتح کے دن کو جلد لانے کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرو خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1956ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قریباً ایک ماہ ہوا، میں نے تحریک جدید کے چندہ کے لئے جماعت کے دوستوں کو تحریک کی تھی.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سال وعدوں کی آمداتی نہیں، جتنی گذشتہ سال تھی.مثلاً گذشتہ سال تحریک جدید کے چندہ کے سارے وعدے تو چار لاکھ روپیہ کے تھے، لیکن آج کی تاریخ تک ایک لاکھ تئیس ہزار کے وعدے آچکے تھے.اس کے مقابلہ میں اس سال آج کی تاریخ تک ایک لاکھ تیرہ ہزار کے وعدے آئے ہیں.اس کے بعد خطبہ دیکھنے سے پہلے تک معلوم ہوا کہ اس سال ایک لاکھ ستاون ہزار کے وعدے آئے ہیں، جو گذشتہ سال ایک لاکھ، چورانوے ہزار کے تھے.گویا فرق بہت بڑھ گیا ہے اور دفتر نے شکایت کی ہے کہ دفتر دوم والے لوگ صحیح طور پر وعدے نہیں لکھا رہے.مثلاً میرا اعلان یہ تھا کہ گو پانچ روپے دے کر بھی انسان اس میں شامل ہو سکتا ہے.مگر ماہوار آمدن کے ہیں فیصدی تک چندہ دینا مناسب ہو گا.لیکن اس کے مقابل میں دفتر کی اطلاع یہ ہے کہ سینکڑوں روپیہ ماہوار کمانے والے لوگ بھی پانچ، پانچ روپے کا وعدہ کر کے اس دفتر میں شامل ہو رہے ہیں.جس کے برخلاف ایک باڈی گارڈ ، جس کی تنخواہ غالباً 5 8 یا 95 روپے ہے، اس نے 103 کا وعدہ لکھوایا ہے.یہ بہت بڑا فرق ہے.دوستوں کو اخلاص بڑھانا چاہئے اور کم سے کم اپنی ماہوار آمدن کی بیس فیصدی رقم وعدے میں لکھوانی چاہئے.گوا بھی تحریک جدید کے وعدے آنے میں بہت سا وقت باقی ہے لیکن پھر بھی چونکہ دفتر روزانہ وصول ہونے والے وعدوں کا پچھلے سال کی تاریخوں سے موازنہ کیا کرتا ہے تا کہ جماعت کی روز کی ترقی یا کمزوری کا پتہ لگتار ہے، اس لئے ضروری ہے کہ دوست اپنے وعدے بھجوانے میں سستی سے کام نہ لیں.جماعت کو یا درکھنا چاہئے کہ آنے والا سال ہمارے لئے ایک نہایت ہی اہم سال ہے.کیونکہ دشمن نے یہ پروپیگینڈا شروع کیا ہوا ہے کہ اب جماعت احمدیہ میں بغاوت پیدا ہوگئی ہے اور جماعت کے نوجوان ، خلیفہ وقت سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں.اگر چہ یہ بالکل جھوٹ بات ہے.لیکن بہر حال 643
خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اگر ایک چھوٹا بہانہ بھی مخالف کو مل جائے تو وہ اس کو بھی بہت بڑھا دیا کرتا ہے.مثلاً ہم یہاں ربوہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، ہمیں قطعاً کسی منافقت کا علم نہیں.لیکن غیر احمدی اخباروں میں روزانہ چھپتا ہے کہ اتنے آدمی خلیفہ کے مخالف ہو گئے ہیں.جب عبدالمنان امریکہ سے آیا ہے تو صرف تین عیسائی چوڑھے اس کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے.یہ چوڑھے اس کے گھر کے پاس رہتے تھے ، اس لئے ان کے اس سے تعلقات تھے.چنانچہ وہ تینوں اس کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر آئے.لیکن اخباروں میں تاریں چھپیں کہ عبد المنان کاربوہ میں عظیم الشان استقبال ہوا اور فضا نعروں سے گونج اٹھی.حالانکہ بات یہ تھی کہ اس کے ہمسائے میں بھی کسی کو علم نہیں تھا کہ عبد المنان آیا ہے.تو چاہے سال کے آخر میں چندے کی مقدار میں ایک پیسہ بھی کمی ہو، دشمن کو شور مچانے کا موقع ملے گا اور وہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ اس نے جو کہا تھا کہ جماعت میں بغاوت پیدا ہورہی ہے، وہ ٹھیک ثابت ہوا ہے.لیکن بات وہی ٹھیک نکلے گی، جو میں نے قرآن کریم سے بیان کی تھی کہ جب واقعی طور پر سچی جماعتوں میں سے کوئی شخص نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اور بہت سے آدمی دے دیتا ہے.چنانچہ آج ہی مجھے پاکستان کے ایک اہم شہر سے چٹھی آئی ہے کہ وہاں بہت سے لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف پھر رہی ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ میں سے بھی کچھ لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.چنانچہ ایک بیعت تو مجھے آج ہی آئی ہے اور دو، تین بیعتیں میں پہلے بھی دفتر کو بھیج چکا ہوں اور بہت سے لوگ احمدیت کے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.پھر مجھے امریکہ کے قریب کے ایک علاقہ سے تار آئی ہے کہ وہاں دوسو آدمی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.گو ساتھ ہی یہ خبر تھی کہ مقابلہ بھی سخت کرنا پڑ رہا ہے اور مخالفت شروع ہوگئی ہے.لیکن امریکہ جیسے علاقہ میں ایک ہی دن میں دو سو آدمیوں کا احمدیت میں داخل ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں.اسی طرح اور کئی جگہوں سے اطلاعیں آرہی ہیں کہ وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے تعلیم یافتہ اور بڑے لوگ احمدیت کی طرف متوجہ ہورہے ہیں.اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ میں نے جو کہا تھا کہ اگر تم سچے مومن ہو اور نکلنے والا واقعی طور پر تمہارے نظام سے کسی دشمن کی وجہ سے الگ ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کی جگہ پر تمہیں ایک قوم دے دے گا، وہ بالکل درست ہے.اب دیکھ لو، جماعت سے نکلنے والے تو زیادہ سے زیادہ آٹھ ، نو آدمی تھے لیکن ان کے نکلنے کے بعد کئی ہزار لوگ جماعت میں داخل ہوئے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے امریکہ جیسے علاقہ میں ایک دن میں دو سو آدمی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.اور وہاں کا دو سو آدمی ہمارے علاقہ کے بیس ہزار آدمیوں کے برابر ہے.کیونکہ ان کی 644
خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم آمدن ہمارے ملک کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے.اسی طرح بعض اور جگہوں سے بھی ایسی اطلاعات آرہی ہیں ، جس سے پتہ لگتا ہے کہ شاید تھوڑے ہی عرصہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ احمدیت میں داخل ہو جائیں.پس بات تو وہی پوری ہو رہی ہے، جو قرآن کریم نے کہی ہے اور جس کا ترجمہ کر کے میں نے آپ لوگوں کوسنایا تھا.لیکن ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دشمن کو کوئی خوشی کا موقع نہ ملے اور اپنی قربانیوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو اور زیادہ کھینچتے رہیں.تاکہ اللہ تعالیٰ یاتِ الله بقوم کی بجائے بات اللہ باقوام کر دے اور ایک فرد کے بدلہ میں ایک ایک قوم کی بجائے ، کئی کئی اقوام کو ہماری طرف لے آئے.غرض یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دن ہیں، ان کو وسیع کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کرو تا اللہ تعالیٰ تمہاری حقیر کوششوں کو قبول کرلے اور اپنے وسیع انعاموں کو وسیع تر کرتا جائے.یا درکھو، ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق ہی دیا کرتا ہے.تم غریب اور کمزور ہو تم نے اپنی غربت اور کمزوری کے مطابق ہی قربانی کرنی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ واسع ہے اور رزاق ہے، اس نے اپنے واسع ہونے اور رزاق ہونے کے لحاظ سے انعام دینا ہے.تم اگر اپنی غربت میں پانچ روپے دے سکتے ہو اور چھ دے دیتے ہو تو وہ اگر ایسے مواقع پر دس کروڑ دیا کرتا ہے تو دس ارب دے دے گا.کیونکہ وہ واقع ہے اور رزاق ہے، تم غریب اور مسکین ہو.اگر غریب اور مسکین اپنی طاقت سے زیادہ دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے لئے تو اپنی طاقت سے زائد دینے کا سوال ہی نہیں.وہ اپنے ادنیٰ سے ادنی آدمی کو بھی اتنا دے سکتا ہے، جو دنیا کے بادشاہ اپنی انتہائی خوشنودی کے وقت بھی نہیں دیتے.پس خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور اس کی توجہ کو اپنی طرف رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرو.پچھلے دنوں میں نے اپنے ایک خطبہ میں کہا تھا کہ ہندوستان میں جو کسی امریکن کتاب کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بہتک کی گئی ہے، اس کا مقابلہ کرنے کا اصل طریق یہ تھا کہ اس کتاب کا جواب دیا جاتا اور خصوصاً امریکہ اور ہندوستان میں شائع کیا جاتا.اس کا ایک حصہ تو تحقیقی جواب پر مشتمل ہوتا اور ایک حصہ الزامی جواب پر مشتمل ہوتا.اللہ تعالیٰ نے ہمارے مبلغوں کو بہت حوصلہ اور ہمت دی ہوئی ہے.میر اوہ خطبہ چھپا تو دیر سے ہے لیکن وہ کسی طرح امریکہ پہنچ گیا.معلوم ہوتا ہے، کسی نے تار کے ذریعہ یا ہوائی ڈاک کے ذریعہ اطلاع دے دی.وہاں سے تار بھی آئی ہے اور آج خط بھی آگیا ہے کہ ہم اس کتاب کا جواب لکھ رہے ہیں، جس میں سے عیسائیوں کا حصہ مکمل کیا جا رہا ہے.چونکہ ہندو یہاں نہیں ہیں، اس لئے اگر ان کو ہم جواب دیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.میں نے کہا ہے کہ تم 645
خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم ہندوؤں کے لئے الگ کتاب لکھو اور عیسائیوں کے لئے الگ لکھو.عیسائیوں کے لئے اس لئے لکھو کہ کتاب کا اصل لکھنے والا امریکہ کا رہنے والا تھا.اور ہندوؤں کے لئے اس لئے لکھو کہ اس کا اردو میں ترجمہ کر کے شائع کرنے والا ہندو ہے.اور ضروری ہے کہ ہندوؤں میں اس کے پھیلائے ہوئے زہر کا ازالہ کیا جائے.پس میں نے انہیں ہدایت دی ہے کہ تم ایک کتاب ایسی لکھو، جس کے ایک حصہ میں اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کا تحقیقی جواب ہو اور دوسرے حصہ میں عیسائیت کے متعلق الزامی جواب ہو.اسی طرح ایک دوسری کتاب لکھو، جس کے ایک حصہ میں اعتراضات کے تحقیقی جوابات ہوں اور دوسرے حصہ میں ہندو مذہب کو مخاطب کر کے ان کے الزامی جوابات ہوں.سوتار بھی آئی ہے اور خط بھی آگیا ہے کہ کتاب لکھی جارہی ہے، جو عنقریب شائع ہو جائے گی اور پھر اس کا ترجمہ اردو زبان میں شائع کر دیا جائے گا.یہ جواب گالیاں دینے اور شور مچانے سے زیادہ مؤثر ہوگا.جب یہ جواب امریکہ میں شائع ہوگا اور جب اس کا ترجمہ ہندوستان میں شائع ہو گا تو عیسائیوں کو بھی پتہ لگ جائے گا اور ہندوؤں کو بھی پتہ لگ جائے گا کہ شیش محل میں بیٹھ کر پتھر مارنا بڑا نقصان دہ ہوتا ہے.دیکھو، انگریزوں اور فرانسیسیوں نے سمجھا کہ مصر ہم سے چھوٹا ہے، اس لئے وہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا.چنانچہ انہوں نے اسرائیل سے مل کر مصر پر حملہ کر دیا.اپنے خیال میں تو انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ مصر ہمارا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ لیکن ان کے حملہ کرنے کی وجہ سے امریکہ نے جوان کا پرانا دوست ہے، ساتھ چھوڑ دیا اور دوسری طرف روس نے کہا کہ اگر تم نے مصر سے اپنی فوجیں نہ نکالیں تو ہم بھی اپنی فوجیں مصر میں داخل کر دیں گے.ادھر روس نے شام میں ہوائی جہازوں سے اپنی فوجیں اتارنی شروع کیں اور ادھر انگریز بھاگنے شروع ہوئے.گویا ان کی مثال بالکل اس چور کی سی ہوئی ، جو کسی گھر میں چوری کر رہا ہولیکن جب پولیس آئے تو وہ بھاگنا شروع کر دے.انگریز اور فرانسیسی بڑے غرور کے ساتھ مصر میں داخل ہوئے اور امریکنوں کو انہوں نے دھمکی دی کہ ہم نے مصر میں بہر حال لڑنا ہے.ہمارے حقوق ہیں، جن کی ہم نے حفاظت کرنی ہے.اس لئے ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے.لیکن جونہی چند روسی جہاز شام میں اترے، وہ وہاں سے بھاگنا شروع ہوئے.پھر ادھر امریکہ کی ہمدردی بھی جاتی رہی، پاکستان بھی مخالف ہو گیا اور دوسرے اسلامی ممالک بھی مخالف ہو گئے.غرض ادھر روس کے چند جہاز اترے تو وہ فرانسیسی اور انگریز ، جو ڈھول بجاتے ہوئے مصر میں داخل ہوئے تھے، وہ نقارے بجاتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے.اور سارا رعب جوان کا دنیا پر چھایا ہوا تھا ، مٹ گیا.اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ روس کے چند جہازوں سے انگریز 646
خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سو اور فرانسیسی فوج کے حواس باطل ہو جاتے ہیں.دراصل یہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی بڑی گہری چال تھی کہ پہلے پولینڈ اور جنگری میں فساد کرایا تا کہ روس وہاں مشغول ہو جائے.پھر اسرائیل کو مصر پر حملہ کا اشارہ کر دیا اور پھر اس علاقے میں انگریزی اور فرانسیسی فوجیں اتار دیں.مصر نے عارضی طور پر یہ ذلت برداشت کرلی کہ اپنی فوج کو واپس بلا لیا.لوگوں نے شور مچادیا کہ مصری فوج مقابلہ نہیں کر سکی اور بھاگ گئی ہے.لیکن در اصل مصر کا یہ اقدام اپنی فوج کو دشمن کے نرغہ سے بچانے کے لئے تھا.تا کہ پہلے سویز پر انگریزوں اور فرانسیسیوں سے لڑائی کرے اور پھر اسرائیل سے نپٹ لے.لیکن ادھر روس نے اپنے چند ہوائی جہاز بھیج دیئے.روس کے ان جہازوں کا اتر نا تھا کہ انگریز بھی بھاگے، فرانسیسی بھی بھاگے اور اسرائیل بھی بھاگا.غرض جو لوگ بڑی شان اور غرور کے ساتھ مصر میں داخل ہوئے تھے ، وہ کالے منہ والے بھگوڑوں کی شکل میں وہاں سے بھاگ گئے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام ارادوں کو نا کام کر دیا.اسی طرح اگر تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو چاہو تو تمہیں ایسی فتح نصیب ہوگی کہ جیسے روسی جہازوں کے اترنے کی وجہ سے انگریز ، اسرائیل اور فرانسیسی مصر سے بھاگے تھے.اسی طرح پادری ، جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں، اپنے کانوں پر ہاتھ رکھیں گے اور کہیں گے کہ خدا کے لئے ہمیں اس دفعہ معاف کر دو، ہم آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے.ایک دفعہ میرے پاس ایک انگریز آیا اور اس نے کہا، میں آپ سے اسلام کے متعلق کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کوئی الزامی جواب نہ دیں.میں نے کہا، اگر تم اسلام پر حملہ نہیں کرو گے تو میں بھی الزامی جواب نہیں دوں گا.لیکن جب باتیں شروع ہوئیں تو تھوڑی دیر بعد ہی اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنا شروع کر دیا.میں نے بھی جواب میں حضرت عیسی علیہ السلام پر حملہ کر دیا.اس سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگا، میں حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا.میں نے کہا، دیکھو، میرا تم سے وعدہ تھا کہ اگر تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ نہیں کرو گے تو میں بھی حضرت عیسی علیہ السلام پر حملہ نہیں کروں گا.چنانچہ میں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف کوئی بات نہیں کی.لیکن تم نے اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کیا ہے.اگر تم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے غیرت ہے تو کیا میں ہی بے غیرت ہوں کہ مجھے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت پر حملہ دیکھ کر غیرت نہ آئے ؟ اگر تم حضرت عیسی علیہ السلام کی تائید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک حملہ کرو گے تو میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید 647
خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم میں حضرت عیسی علیہ السلام پر میں حملے کروں گا.چنانچہ وہ اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا، میں حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا.تو یہ لوگ اس وقت تک فراتے ہیں، جب تک ان کے سامنے تلوار نہیں اٹھائی جاتی.یعنی ان کے مذہب پر حملہ کیا جائے اور اس کے پول کھولے جائیں تو یہ لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے اور بھاگ جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے پادریوں کی مجالس نے حکم دیا ہوا ہے کہ عیسائی مشنری احمدیوں سے بات نہ کیا کریں.کیونکہ احمدی الزامی جواب دیتے ہیں اور ہمارے لئے مشکل پیش آجاتی ہے.گرمیوں میں جب میں مری تھا تو وہاں پادری آئے اور انہوں نے اسلام پر اعتراضات شروع کر دیئے.میرا ایک لڑکا ان سے بحث کے لئے چلا گیا اور ہمارا مبلغ بھی وہاں پہنچ گیا.چند دن کی گفتگو کے بعد ہی پادریوں نے کہ دیا، ہم آئندہ آپ سے کوئی بحث نہیں کریں گے.غرض احمدیوں کے پہنچتے ہی انہیں چھٹی کا دودھ یاد آ گیا.پس انشاء اللہ تعالیٰ جب یہ کتاب نکل آئے گی تو پھر پتہ لگے گا کہ اسلام کا حملہ صرف سویز میں ہی نہیں بلکہ ہر ملک میں غالب ہوتا ہے.اور عیسائیوں، پنڈتوں اور اسلام کے دوسرے دشمنوں کی مجال نہیں کہ وہ اسلام پر حملہ کریں اور پھر اس میں فتح حاصل کریں.اگر وہ اسلام پر حملہ کریں گے تو ان کے گھر کے پول ایسے کھولے جائیں گے کہ وہ اپنے گھروں میں گھس کر بھی بیٹھ نہیں سکیں گے.بلکہ انہیں اپنے گھروں کے دروازے بند کرنے پڑیں گے.ان کی تمام بہادری رفو چکر ہو جائے گی اور ان کی شان و شوکت ذلت اور رسوائی سے بدل جائے گی.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ کام بھی ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ چاہے گا تو جلد پورا ہو جائے گا.خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے خوشیوں کے دن مقدر کر رکھے ہیں.لیکن ان خوشیوں کے دنوں کو زیادہ قریب لانے کے لئے تمہیں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہئے.تا کہ جلد سے جلد ہماری فتح کے دن آئیں اور دشمن روسیاہ ہو اور اسلام کے مقابلہ میں وہ اس طرح دم دبا کر بھاگے، جیسے گدھا شیر کے آگے بھاگتا ہے.اسلام شیر ہے اور عیسائیت اور دوسرے مذاہب کی مثال گدھے کی سی ہے.جس طرح وہ شخص، جو شیر پرحملہ کرتا ہے، وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو لیتا ہے، اسی طرح جو مذہب اسلام پر حملہ کرے گا، اس پر اسلام شیر کی طرح حملہ کرے گا اور وہ گدھوں کی طرح بھاگ جائے گا.شیر کی یہ عادت ہے کہ وہ خود حملہ نہیں کرتا.مشہور ہے کہ شیر کے سامنے کوئی آدمی آجائے اور وہ لیٹ جائے تو شیر آگے گزر جاتا ہے اور اسے کچھ 648
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1956ء نہیں کہتا.اسلام کی مثال بھی ایسی ہی ہے.وہ اپنے دشمن کو دیکھتا ہے تو خاموشی سے آگے گزر جاتا ہے.کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں طاقتور ہوں، مجھے غریب پر حملہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر جب دوسرا فریق با وجود کمزور ہونے کے حملہ پر آمادہ ہو تو پھر شیر ایک ہی دفعہ ایسا نعرہ لگاتا ہے کہ دشمن کے حواس باختہ ہو جاتے ہیں.پس فتح کے دن کو جلد لانے کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرو.خدا کرے، وہ دن جلد آ جائیں اور فتح اور با مرادی تمہارے حصہ میں ہو.اور نا کامی اور نا مرادی تمہارے دشمن کے حصہ میں ہو“.( مطبوعه روزنامه الفضل یکم دسمبر 1956ء) 649
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلدسوم اقتباس از تقریر فرموده 29 مارچ 1956ء وہ دن قریب آرہے ہیں، جب خدا تعالی کامیابی کے راستے کھول دے گا تقریر فرمود و 29 مارچ 1956ء بر موقع مجلس شوری اب شوری کا ایجنڈا پیش ہو گا.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید دونوں کے بجٹ 25, 25 لاکھ روپیہ تک پہنچ جائیں.جب تک ان دونوں اداروں کے بجٹ 25, 25 لاکھ تک نہیں پہنچ جاتے ،اس وقت تک نہ تو پاکستان میں صحیح طور پر کام ہو سکتا ہے اور نہ ہی بیرونی ممالک میں صحیح طور پر کام کیا جا سکتا ہے.اور اگر کوشش کی جائے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں.میں نے بتایا تھا کہ اگر باہر کے ممالک کے زمیندار زیادہ آمد پیدا کرتے ہیں تو کیوں ہمارے زمیندار بھی اپنے بچوں کے لئے نہیں، اپنی آسائش اور سہولت کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی خاطر زیادہ آمد پیدا نہ کریں؟ اس وقت ہماری جماعت کے پاس کم سے کم ایک لاکھ ایکڑ زمین ہے.اگر ہماری زمین کی سالانہ آمد فی ایکڑ سات سورو پیر تک پہنچ جائے ، جو ہالینڈ کی آمد کا چوتھا حصہ اور اٹلی کی آمد سے نصف سے بھی کم ہے تو جماعت کی کل آمد سات کروڑ روپیہ بن جاتی ہے.اس سات کروڑ میں سے ایک آنہ فی رو پیر کے حساب سے بھی احمدی زمیندار چندہ دیں تو 44لاکھ کے قریب روپیہ آجاتا ہے.اور اگر سلسلہ کی زمینوں کی آمد کو اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ رقم بڑی آسانی سے پچاس لاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ جاتی ہے.اب تم اندازہ لگا لو کہ اگر ہماری جماعت کا سالانہ بجٹ پچاس لاکھ روپیہ تک پہنچ جائے تو ہمارے پھیلنے کی رفتار کتنی تیز ہو جائے گی.اس وقت باہر سے جو خبریں آرہی ہیں، وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی خوشکن اور حوصلہ افزاء ہیں.چنانچہ جب بھی ڈاک میرے پاس آئی ہے، وہ کوئی نہ کوئی خوشخبری اپنے ساتھ لائی ہے.ملایا سے خبر آئی ہے کہ وہاں ایک بڑے افسر نے احمدیت قبول کرلی ہے.مگر ساتھ ہی اس نے کہا ہے کہ میری بیعت کو فی الحال مخفی رکھا جائے.کیونکہ مجھے امید ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں میں ملک میں کوئی اہم پوزیشن حاصل کرلوں گا.اس طرح جرمن میں ہمبرگ یونیورسٹی کے ایک مشہور پروفیسر ہیں، جو مشرقی زبانوں کے ماہر ہیں.یونیورسٹی نے انہیں اسلام پر ایک کتاب لکھنے کے لئے بھی مقرر کیا ہے.انہوں نے ایک جرمن رسالہ 651
اقتباس از تقریر فرموده 29 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم میں ایک اہم مضمون لکھا تھا، جس پر امریکہ کی ایک یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ نے انہیں مبارکباد دی اور لکھا کہ میں نے اب تک جرمن کے کسی رسالہ میں اتنا قیمتی مضمون نہیں پڑھا.وہ پروفیسر جرمن میں میری آمد کی خبرسن کر مجھے ملنے کے لئے آ گیا اور کہنے لگا، میں نے آپ سے بعض مخفی با تیں کرنی ہیں ، آپ اپنے سیکرٹری اور دوسرے ساتھیوں کو ذرا کمرہ سے باہر بھیج دیں.چنانچہ میں نے اپنے سیکرٹری اور دوسرے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کچھ دیر کے لئے کمرہ سے باہر چلے جائیں.جب وہ کمرہ سے باہر چلے گئے تو اس نے کہا، میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ اسے فی الحال مخفی رکھا جائے.میں نے کہا کہ بہت اچھا، بیعت کے مخفی رکھنے میں کوئی حرج نہیں.چنانچہ اس نے بیعت کر لی.جب نماز کا وقت آیا تو میں اس کمرہ میں گیا، جو نماز کے لئے مخصوص کیا گیا تھا.جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ وہ پروفیسر بھی مقتدیوں میں بیٹھا ہوا ہے.میں نے اپنے مبلغ کو پاس بلایا اور اس سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ تم نے تو اپنی بیعت کو مخفی رکھنے کے لئے کہا تھا اور اب خود ہی نماز میں شامل ہو گئے ہو.اب تمہاری بیعت مخفی کس طرح رہ سکتی ہے؟ مبلغ نے دریافت کیا تو وہ کہنے لگا کہ بے شک میں نے اپنی بیعت مخفی رکھنے کی درخواست کی تھی لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ شاید خدا تعالیٰ انہیں میری خاطر ہی جرمن میں لایا ہے ، پھر نہ معلوم یہ موقع نصیب ہو یا نہ ہو.اس لئے میں نے کہا کہ آپ کی اقتداء میں چند نمازیں تو پڑھ لوں.اب خط آیا ہے کہ وہ دو، تین ماہ کے لئے ربوہ آکر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے.اس طرح انگلینڈ سے بھی خوش کن خبریں آرہی ہیں.وہاں ہمارا مشن دیر سے قائم ہے لیکن اب وہاں کی یونیورسٹیاں بھی ہمارے مبلغ کو اپنے ہاں بلاتی اور اسلام پر لیکچر کراتی ہیں.وہاں کے مبلغ نے اطلاع دی ہے کہ اب وہ لیکچر کے لئے گلاسکو جار ہے ہیں.اس طرح انہوں نے لکھا ہے کہ میں ایک اور یونیورسٹی میں لیکچر دینے گیا، اس یونیورسٹی میں ہماری بہت مخالفت کی جاتی تھی لیکن جب میں وہاں گیا تو ہال بھرا ہوا تھا.بعض لوگوں نے مجھے بتایا کہ جب لیکچر کا اعلان ہوا تو یہودیوں نے بڑی مخالفت کی اور اعلان کیا کہ اس لیکچر میں کوئی نہ جائے.ہم نے کہا کہ اگر یہودی اس لیکچر کی مخالفت کرتے ہیں تو ہم ضرور جائیں گے.اب اطلاع آئی ہے کہ کسی اور یونیورسٹی نے بھی انہیں اپنے ہاں لیکچر کے لئے بلایا ہے.غرض وہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اب ایک رو پیدا ہوگئی ہے اور اچھے اچھے خاندانوں میں احمدیت کی تبلیغ ہورہی ہے.احمدیت کے غلبہ کا وقت جب آئے گا، آئے گا.لیکن اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.دیکھ لو، یہاں الیکشن میں کوئی احمدی کھڑا ہوتا ہے تو وہ ہار جاتا 652
اقتباس از تقریر فرموده 29 مارچ 1956ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہے.پچھلے الیکشن میں احرار نے اعلان کیا تھا کہ ہماری مخالفت کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ انتخاب میں ایک بھی احمدی کامیاب نہیں ہو سکا.لیکن چند دن ہوئے میرے پاس ایک ایم.ایل.اے آئے.میں نے ان کے نام کے آگے ایم.ایل.اے کا لفظ دیکھ کر دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے بتایا، میں اسمبلی کا ممبر ہوں.میں نے کہا، الیکشن تو شورش میں ہوئے تھے ، پھر آپ کیسے ایم.ایل.اے بن گئے؟ کیا آپ کے علاقہ میں مولوی نہیں گئے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں بھی مولوی گئے تھے اور انہوں نے میرے خلاف پروپیگنڈا بھی کیا تھا لیکن میری قوم کے لوگ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ شخص کا فر ہے تو کافر ہی سہی، ہماری قوم کا فرد تو ہے، ہم بہر حال اسے ووٹ دیں گے.سیلون سے بھی خط آیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ایسے طبقہ سے بھی بعض لوگ احمدیت قبول کر رہے ہیں، جن کے متعلق امید ہے کہ وہ اپنے ملک کی اسمبلی کے الیکشن میں کامیاب ہو جائیں گے.مغربی افریقہ میں بھی ہمارے چار دوست وہاں کی اسمبلی کے ممبر ہیں.بہر حال اگر پاکستان میں ہماری جماعت کے دوستوں کے لئے مشکلات ہیں اور وہ اسمبلی کے انتخاب میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو باہر کے ممالک میں ہمارے غلبہ کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ تم اپنے کام کو دیانت داری سے کرو اور اپنی زمینوں کی پیداوار بڑھانے کی کوشش کرو.وہ دن قریب آرہے ہیں، جب خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے لئے کامیابی کے راستے کھول دے گا“.رپورٹ مجلس شور می منعقدہ 29 تا 31 مارچ 1956ء) 653
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اپریل 1957ء خدا نے اس غریب جماعت کو قبول کیا اور اسلام کی خدمت اس کے ذمہ لگادی خطبہ جمعہ فرمود و 19 اپریل 1957ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.پچھلے ہفتہ میں نے پھر رویا میں اپنے آپ کو قادیان میں دیکھا ہے اور آج رات بھی میں نے ایسا ہی نظارہ دیکھا.آج رات جو نظارہ میں نے دیکھا ہے، اس میں کچھ انذار کا بھی پہلو تھا.لیکن وہ انذار کا پہلو احمد یوں اور دوسرے مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ وہ انذار کا پہلو غیر مسلموں کے لئے تھا.مگر چونکہ اس کے بیان کرنے سے بات لمبی ہو جاتی ہے، اس لئے میں اس بات کو آج بیان نہیں کرتا.کیونکہ رمضان کی وجہ سے کچھ تو سارا دن قرآن کریم کی تلاوت کرنی پڑتی ہے اور جمعہ کے سوا باقی دنوں میں دوسرے کاموں کے علاوہ قرآن کریم کے ترجمہ پر نظر ثانی کرنے کا کام بھی ہوتا ہے، اس سے بہت کوفت ہو جاتی ہے.پھر آج جمعہ پر آنے سے تھوڑی دیر قبل ہی ایک خاتون نے اپنی مصیبتوں کا ذکر شروع کر دیا.چونکہ اس خاتون کا ہمارے خاندان سے پرانا تعلق ہے، اس لئے مجھے اس کی باتیں سنی پڑیں.جس کی وجہ سے طبیعت میں اور بھی کوفت پیدا ہوئی.اس لئے آج میں مختصر ا ہی بتاتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں کہا تھا کہ تم بعض لوگوں کے مرتد ہو جانے سے گھبراؤ نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالٰی صاف فرماتا ہے کہ اگر تم سچے مومن ہو اور تم سے نکلنے والا واقعی مرتد ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں تمہیں ایک جماعت دے گا.اور میں نے بتایا تھا کہ چندلوگوں کے مرتد ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت کو خاص طور پر ترقی دینی شروع کی ہے.چنانچہ فلپائن سے بہت سی بیعتیں آئی ہیں.اس وقت میں نے بتایا تھا کہ 72 بیعتیں آچکی ہیں.اس کے بعد اور بیعتیں آئیں اور پھر نئی جگہوں سے آئیں.چنانچہ اب ان کی تعداد 78 ہو چکی ہے.اسی طرح ڈچ گیانا سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں ایک نئے شہر میں احمدی جماعت قائم ہوگئی ہے.اور ان لوگوں میں اسلام اور احمدیت کے متعلق تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے.پھر آج کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ) سے ایک انگریز عورت کی بیعت کا خط آیا ہے، جو بہت لائق عورت ہے اور کئی کالجوں میں پڑھاتی رہی ہے.وہ 655
خطبہ جمعہ فرموده 19 اپریل 1957ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم لکھتی ہے کہ میں دیر سے اسلام لائی ہوئی تھی لیکن اس کے اظہار کا مجھے موقع نہیں ملا تھا.اب میں نے لوگوں کو بتا دیا ہے کہ میں مسلمان ہوگئی ہوں اور میں نے اسلام کی تبلیغ بھی شروع کر دی ہے.اسی طرح و یا نا سے ایک تعلیم یافتہ عورت کا خط آیا ہے کہ وہ اسلام کی تحقیق کر رہی ہے، وہ عورت غالبا ڈاکٹر ہے.اسی طرح اور مختلف ممالک سے خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت اور اسلام کی ترقی کی خبریں آرہی ہیں.پچھلے ہفتہ کوئی آٹھ ، دس بیعتیں امریکہ سے بھی آئی ہیں اور لکھا تھا کہ ایک نئی جگہ سے بھی بعض بیعتیں آئی ہیں، جہاں حال ہی میں جماعت قائم ہوئی ہے.لیکن ہم ابھی تک امریکہ سے خوش نہیں.کیونکہ گو وہاں نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں، لیکن نئے مبلغ نہیں جارہے.اور وہاں کا رئیس التبلیغ یہ شکوہ کرتا رہتا ہے کہ ہمیں کوئی چندہ نہیں آتا.حالانکہ ان سے پہلے اس چندے سے دگنا چندہ آتا تھا ، جواب آتا ہے.یہ نئے رئیس التبلیغ 1944ء میں گئے تھے اور جب سے یہ گئے ہیں، کچھ ایسی نحوست پڑی ہے کہ وہاں کے مشن کے چندے کم ہو گئے ہیں اور احمدیوں کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے.جب مفتی محمد صادق صاحب مرحوم امریکہ گئے تھے تو اس وقت سات ہزار سے زیادہ احمدی ہوئے تھے.پھر ان کے بعد ماسٹر محمد دین صاحب کے زمانہ کے بعض مخلص احمدی اب بھی شکاگو میں موجود ہیں.اب کچھ دنوں سے پھر کچھ حبشی نو مسلموں کے خطوط آنے شروع ہوئے ہیں کہ ان کے علاقہ میں احمدیت کی ترقی ہورہی ہے.لیکن میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ امریکہ اتنا بڑا ملک ہے کہ کوئی انچارج مبلغ ایک جگہ بیٹھ کر تمام مشنوں پر کنٹرول نہیں کر سکتا.اس لئے اس ملک کے سب مشنوں کو الگ الگ کر دیا جائے اور رئیس التبلیغ کا جھگڑا ختم کر دیا جائے.رئیس التبلیغ صاحب اپنے علاقہ میں تبلیغ کریں اور بتائیں کہ ان کی تبلیغ کی وجہ سے کتنے نئے احمدی ہوئے ہیں اور کتنا چندہ آیا ہے؟ اس سے پتہ لگ جائے گا کہ ان کا مشن چلنے لگ گیا ہے یا نہیں؟ اس وقت کام دوسرے مبلغ کرتے ہیں اور ان کے مشنوں کی آمد رئیس التبلیغ صاحب پر خرچ ہو جاتی ہے.پس میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر مشن اپنے چندے سے اپنا کام چلائے.وہ اپنا چندہ اپنے علاقہ سے باہر نہیں بھیجے گا اور براہ راست ہم سے تعلق رکھے گا، ہم اس کی نگرانی کریں گے.تا ہمیں ہرمشن کے متعلق پتہ لگتا ہے کہ کہ وہ کیا کام کر رہا ہے؟ اور براہ راست مرکز سے تعلق کی وجہ سے مشنوں کو بھی احساس ہو کہ ان کے کام کی نگرانی ہو رہی ہے.آخر امریکہ ہندوستان سے تین گنا وسیع ملک ہے اور اتنے بڑے ملک میں ایک جگہ بیٹھ کر سارے ملک پر نگرانی نہیں ہو سکتی.اور اگر ان کے لئے سارے ملک پر نگرانی کرنا مشکل ہے اور ہمارے لئے بھی نگرانی کرنا مشکل ہے تو پھر ہم خود کیوں نگرانی نہ کریں؟ 656
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اپریل 1957ء کیوں مبلغین میں سے ایک کا نام رئیس التبلیغ رکھ کر دوسرے کے اندر رقابت کا جذبہ پیدا کریں.وہ اپنی جگہ کا انچارج مشنری رہے.ہاں اگر ہمیں موجودہ انچارج مشنری یا کسی دوسرے مشنری کو اس کے علاقہ سے باہر بھیجنا پڑے تو وہ چلا جائے ، ورنہ ہر شخص اپنی اپنی جگہ کام کرے.بہر حال مختصر میں نے بتایا ہے کہ بیرونی ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی ترقی کے آثار پیدا ہور ہے ہیں.اور اب کیپ ٹاؤن میں بھی ایک عورت نئی احمدی ہوئی ہے.ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہاں یہ پہلی عورت احمد ی ہوئی ہے.کیونکہ اس سے پہلے بھی وہاں دو بھائی احمدی ہوئے تھے.ان میں سے ایک تو چند سال ہوئے فوت ہو گیا ہے اور دوسرا ابھی زندہ ہے اور مجھے سفر یورپ میں لنڈن میں ملا تھا.ان میں سے ایک کا نام یوسف سلیمان تھا اور دوسرے کا نام عمر سلیمان ہے.یوسف سلیمان، جو پرانے احمدی تھے، وہ فوت ہو گئے ہیں.عمر سلیمان ابھی زندہ ہیں.جب میں انگلستان گیا تو مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے پاس سے خرچ دے کر اپنے مرحوم بھائی کی یادگار میں ہماری لنڈن مسجد کی ایک دیوار بنوائی ہے اور اس پر جلی حروف میں یہ لکھوا دیا ہوا ہے کہ یوسف سلیمان کی یاد میں یہ کتبہ لگایا جاتا ہے.یوسف سلیمان بہت مخلص تھے.عمر سلیمان استے مخلص نہیں تھے لیکن اب وہ زیادہ تعلق رکھنے لگ گئے ہیں اور مخلص احمدی ہیں.غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے، یہ دو بھائی کیپ ٹاؤن کے پرانے احمدی تھے.ان کے والد احمدی نہیں تھے، مگر یہ دونوں انگلستان میں احمدی ہوئے تھے.اب ایک انگریز عورت احمدی ہوئی ہے.اسے گویا تیسرا احمدی کہنا چاہئے ، لیکن چونکہ اب وہاں کوئی اور احمدی نہیں ہے، اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پہلی احمدی عورت ہے.یوسف سلیمان صاحب 1946ء میں قادیان میں میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ میں کلکتہ سے ہو کر ساؤتھ افریقہ جاؤں گا.وہاں ہماری جائیداد ہمارے غیر احمدی رشتہ داروں کے قبضہ میں ہے، اس کی بھی نگرانی کروں گا اور تبلیغ بھی کروں گا.مگر وہ جاتے ہی فوت ہو گئے اور تبلیغ نہ کر سکے.یہ ساؤتھ افریقہ کے اس خاندان سے تھے، جس نے سب سے پہلے وہاں آزادی کی تحریک چلائی تھی.عمر سلیمان نے مجھے بتایا تھا کہ جب گاندھی جی ساؤتھ افریقہ گئے اور پہلی دفعہ انہیں سیاسی کام کرنا پڑا تو وہ میرے باپ کے پاس ہی ٹھہرے تھے اور انہی سے مل کر انہوں نے ایک انجمن بنائی تھی.اس کے بعد وہ ہندوستان آگئے اور یہاں آکر وہ ایک بڑے لیڈر بن گئے.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے، وہاں اب ایک انگریز عورت احمدی ہوئی ہے اور اس نے لکھا ہے کہ میں نے تبلیغ شروع کر دی ہے.خدا کرے کہ اس کے ذریعہ وہاں ایک بڑی جماعت پیدا ہو جائے.وہاں ہندوستانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.اگر وہ 657
خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اپریل 1957ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم عورت ہندوستانیوں میں تبلیغ کرے تو اسے زیادہ کامیابی ہو سکتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کی حقارت پائی جاتی ہے اور انگریزوں کے دلوں میں ہندوستانیوں کی حقارت پائی جاتی ہے.مگر انگریزوں کا ہندوستانیوں پر ابھی تک رعب قائم ہے.اگر کوئی انگریز ہندوستانیوں میں تبلیغ کرے تو وہ فوراما ننے کو تیار ہو جائیں گے.پس اگر وہ عورت ہندوستانیوں میں تبلیغ کرے تو ممکن ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے.مغربی افریقہ سے ایک اور خوشکن اطلاع یہ آئی ہے کہ وہاں کے ایک احمدی دوست ، جو بڑے رئیس ہیں، اسمبلی کی ممبری کے لئے کھڑا ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، پہلے بھی وہ اسمبلی کے ممبر تھے مگر اب وہ اسمبلی ٹوٹ گئی ہے، نئے انتخاب ہونے والے ہیں، اس دفعہ ان کی پارٹی کو ان پر اتنا اعتبار ہے کہ وہ یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ شاید وہ وزیر ہو جائیں.دوست ان کے لئے دعا کریں کہ وہ اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہو جائیں.یہاں پاکستان میں تو ہمیں خالی ممبریاں ملنی بھی مشکل ہیں ،مگر ان علاقوں میں ہمارے دوست اگر چه تعداد میں تھوڑے ہیں، مگر وہ وزارتوں پر بھی ہاتھ مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں.اگر وزارت میں ہمارا کوئی آدمی آجائے تو وہ بڑا مفید ہوسکتا ہے.مثلاً آج ہی شائع ہوا ہے کہ غانا کی حکومت نے ساری افریقی حکومتوں کو دعوت دی ہے کہ ہم سب ایک مشترکہ اجلاس کریں.اگر ہمارا کوئی آدمی وزارت میں آجائے تو دوسرے ممالک سے تعلقات پیدا کرنے کا موقع نکل سکتا ہے.اور بالکل ممکن.کہ ہمارے تعلقات سوڈان کے وزراء سے بھی ہو جائیں، لیبیا کے وزراء سے بھی ہو جائیں، حبشہ کے وزراء سے بھی ہو جائیں، لائبیریا کے وزراء سے بھی ہو جائیں اور ان سارے علاقوں میں تبلیغ کے نئے رستے کھل جائیں.وہ لوگ ہیں تو بہت وسیع الخیال مگر لوگوں سے ڈرتے ہیں.مثلاً لیبیا کے بادشاہ نے ہے وعدہ کیا تھا کہ میں اپنے ملک میں آپ لوگوں کا مبلغ آنے دوں گا، لیکن بعد میں لوگوں سے ڈر گیا.پس دعا کرو کہ تبلیغ کے جو نئے رستے کھل رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان میں ہمیں کامیابی بخشے اور ان کے علاوہ اور بھی نئے راستے کھولے.پھر دوست یہ بھی دعا کریں کہ ہمارا اردوترجمة القرآن عمدگی کے ساتھ شائع ہو جائے اور پھر تفسیر بھی لکھی جائے.قرآن کریم کے تراجم میں سے روسی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اب امریکہ میں اس پر نظر ثانی ہورہی ہے.انگریزی میں بھی ترجمہ شائع ہو چکا ہے.ڈچ زبان میں بھی ترجمہ شائع ہو چکا ہے.جرمنی میں بھی شائع ہو چکا ہے.سپینش زبان میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے.یہ پانچ تراجم ہو گئے.ان کے علاوہ پرتگیزی اور اٹالین زبانوں میں بھی تراجم ہورہے ہیں.یہ دونوں ملا کر سات تراجم ہیں، جو ہماری طرف سے یوروپین زبانوں میں ہو چکے ہیں یا ہورہے ہیں.پھر ہندی اور گورکھی 658
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اپریل 1957ء زبانوں میں بھی تراجم ہورہے ہیں.اردو ترجمہ مکمل ہو جائے تو یہ دس تراجم ہو جائیں گے.انڈو نیشین زبان میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ ہورہا ہے.سواحیلی زبان میں بھی ترجمہ شائع ہو چکا ہے.یوگنڈ از بان میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے.اسی طرح اب مشرقی افریقہ سے یہ اطلاع آئی ہے کہ ٹانگا نیکا کے علاقہ کی زبان چونکہ دوسرے علاقوں سے مختلف ہے، اس لئے وہاں کی زبان میں بھی ترجمہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.یہ سارے تراجم شائع ہو گئے تو پندرہ، میں تراجم ایسے ہوں گے، جو ہماری جماعت کی طرف سے شائع ہوں گے اور ان کے ذریعہ سے جو لوگ مسلمان ہوں گے ، ان کا ثواب ساری جماعت کو پہنچے گا.کیونکہ یہ کام اسی طرح ممکن ہوا ہے کہ ہمارے ایک غریب سے غریب آدمی نے بھی اپنی تھوڑی بہت پوچھی لا کے دے دی.ہماری جماعت کی حالت اس بڑھیا عورت کی سی ہے، جو سوت کی دوائیاں لے کر حضرت یوسف کو خریدنے کے لئے آئی تھی.قصہ مشہور ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام بازار میں فروخت ہونے کے لئے آئے تو ایک بڑھیا بھی آئی اور اس نے کہا، میں نے بھی بولی دینی ہے.کسی نے کہا، بی بی بولی دینے کے لئے تیرے پاس روپیہ بھی ہے.اس نے کہا، روپیہ تو میرے پاس موجود نہیں ، یہ دوسوت کی اٹیاں ہیں.اس نے کہا، جب تیرے پاس روپیہ ہی نہیں ہے تو تو بولی دینے کے لئے کیوں آئی ہے؟ اس نے جواب دیا، میں نے یہ سمجھا تھا کہ شاید اور کوئی بولی دینے والا نہ ہو اور مجھے ان دوسوت کی اٹیوں کے بدلہ میں ہی یوسف مل جائے.ہماری مثال بھی اس عورت کی سی ہے.تم نے بھی اپنی سوت کی اشیاں پیش کر دی ہیں.مگر یوسف کی خریدار بڑھیا عورت تو اپنی دوائیاں لے کر واپس چلی گئی تھی، اسے یوسف نہیں ملا تھا.مگر خدا نے تمہاری انیوں کو قبول کر لیا ہے اور تم کو یوسف قرآن مل گیا ہے.گوتمہارے چندے اور تمہاری قربانیاں یوسف کو خریدنے والی بڑھیا کی طرح ہی تھیں.مگر خدا تعالیٰ نے تمہاری اٹیوں کو قبول کر لیا اور قرآن کریم کا یوسف تمہیں مل گیا.لیکن اس بڑھیا کی اٹیوں کو قبول نہ کیا گیا اور یوسف بادشاہ کے ایک وزیر کے گھر میں پہنچ گئے.مگر تمہارا یوسف تمہیں ایسا ملا ہے کہ مصر کے ایک شدید مخالف اخبار نے بھی لکھا کہ گذشتہ تیرہ سوسال سے مسلمان بادشاہ بھی موجود تھے، اسلامی حکومتیں بھی تھیں، مگر ان میں سے کسی کو اسلام پھیلانے کی وہ توفیق نہ ملی، جو اس غریب جماعت کو ملی ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے ، ورنہ من آنم کہ من دانم 659
خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اپریل 1957ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم ہم اپنی حقیقت اور اپنی کمزوریوں کو خوب جانتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ: پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار ہم ایک ذلیل مٹی کی طرح ہوتے یا کوڑا کرکٹ کی طرح ہوتے.جس کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا.مگر اللہ تعالیٰ نے اس مٹی اور کوڑا کرکٹ کو قبول کر لیا اور اسلام کی خدمت کی ذمہ داری اس غریب جماعت پر ڈال دی.اور پھر اس کو اس کام کی توفیق دی اور اسے کامیاب بھی کر دیا اور پھر بڑے بڑے شدید دشمنوں سے یہ اقرار بھی کرالیا کہ در حقیقت اسلام کی خدمت کرنے والے یہی لوگ ہیں.مجھے ایک اور بات بھی یاد آگئی ہے کہ امریکہ سے وہ کتاب بھی آگئی ہے، جس کا ذکر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی جلسہ سالانہ کی تقریر میں کیا تھا کہ ایک انالین عورت نے اسلام کے متعلق ایسی کتاب لکھی ہے کہ کسی مسلمان نے بھی ویسی کتاب نہیں لکھی.اب اس کا ترجمہ انگریزی زبان میں ہوا ہے اور وہ چھپ کر آٹھ ، دس دن ہوئے یہاں پہنچ گیا ہے.ابھی اس کی ایک ہی جلد آئی ہے.اگر وہ لائبریریوں میں رکھی جائے اور انگریزی دان لوگ اسے پڑھیں تو ہو سکتا ہے کہ اور کتا بیں بھی منگوالی جائیں اور پھر پاکستان میں اس کی اشاعت کی صورت نکل آئے.( مطبوعه روزنامه الفضل 127 اپریل 1957 ء ) 660
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 مئی 1957ء نئی مساجد کی تعمیر اور ان کی اہمیت خطبہ جمعہ فرمودہ 03 مئی 1957ء.اس ہفتہ جو خبریں باہر سے آئی ہیں، ان میں سے بعض تو ابھی ایسی حالت میں ہیں کہ ان کے ذکر کرنے کا ابھی موقع نہیں آیا.لیکن خوشخبریاں ایسی ہیں کہ ان کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں.مشرقی افریقہ میں ہماری کچھ مساجد بنی ہیں.میں نے شیخ مبارک احمد صاحب، رئیس التبلیغ کو ان کے فوٹو بھیجنے کے لئے لکھا تھا.چنانچہ انہوں نے ان مساجد کے فو ٹو بھیج دیتے ہیں.ان میں سے ایک مسجد ایسی ہے، جس کے متعلق مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ ساٹھ سال کی بنی ہوئی ہے.جبکہ سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم وہاں رہتے تھے.مگر معلوم نہیں، شیخ مبارک احمد صاحب کو کیا ہوا کہ اب تک انہوں نے اس کا فوٹو نہیں بھیجا تھا ؟ لکھنے پر انہوں نے اس کا فوٹو بھیجا ہے.مساجد کے جو فوٹو مشرقی افریقہ سے آئے ہیں، ان میں سے ایک نیروبی کی مسجد کا ہے.ایک مسجد ممباسہ میں بنی ہے، جس کا فوٹو ہے.یہ مسجد ایک عورت نے بنوائی ہے، جو بیوہ ہے.اس نے 60 ہزار روپیہ اس کی تعمیر کے لئے دیا ہے.یہ عورت ہمارے سابق امیر کی ، جواب فوت ہو چکے ہیں، بیوہ ہے.اس نے اپنی ساری پونچھی، جو اس کے خاوند نے اپنے بعد چھوڑی تھی ، اس سے ممباسہ میں مسجد بنوادی ہے.چونکہ مسجد پر اس سے زیادہ رقم خرچ ہوئی تھی، اس لئے بعض اور احمدیوں نے بھی اپنا چندہ اس کی مد میں جمع کرایا اور بعض لوگوں نے قرضہ دے دیا.اس طرح ممباسہ میں ایک بڑی عالی شان مسجد بن گئی.پھر ان میں دار السلام کی مسجد کا فوٹو بھی ہے، جو نئی بنی ہے.یہ مسجد بھی لوکل احمدیوں نے مقامی طور پر چندہ جمع کر کے بنوائی ہے.یہ بہت ہی شاندار مسجد ہے.فوٹو تا تا ہے کہ مسجد کے افتتاح کے موقع پر انگریز ، سکھ ، ہندو اور عیسائی لوگ اس کے صحن میں بیٹھے، شیخ مبارک احمد صاحب کی تقریرین رہے ہیں.جس میں انہوں نے بتایا کہ ہم اس مسجد کا افتتاح کرتے ہیں تا کہ اس میں خدا تعالیٰ کا نام لیا جائے.ہمارے مبلغ امری عبیدی، جو یہاں سے پڑھ کر گئے ہیں، وہ بھی وہاں موجود ہیں.شیخ مبارک احمد صاحب بھی فوٹو میں ہیں.مولوی محمد منور صاحب، مولوی محمد ابراہیم صاحب کمپالہ والے بھی ہیں.غرض سارے مبلغ نظر آرہے ہیں.جو 661
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 مئی 1957ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم لوگ صحن میں بیٹھے ہوئے ہیں، فوٹو سے ان کی تعداد سینٹروں کی معلوم ہوتی ہے.بہت سے لوگ تو کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور بعض آدمی شوق سے زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں اور مسجد کی عمارت بڑی عالی شان نظر آرہی ہے.کل ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ کمپالہ میں بھی ایک مسجد تیار کی جارہی ہے.اس مسجد کے بننے میں دیر ہوئی تو میں نے مبلغ انچارج سے دریافت کیا تھا کہ یہ بنتی کیوں نہیں ؟ جس کے جواب میں انہوں نے یہ اطلاع بھجوائی ہے، وہاں گورنمنٹ نے ایک قطعہ زمین مسجد کی تعمیر کے لئے احمدیوں کو دیا تھا اور حسب قاعدہ گورنمنٹ نے رسمی طور پر اس کی قیمت بھی طلب کی تھی.وہ قیمت احمدیوں نے ادا کر دی تھی.لیکن اس کے بنانے میں دیر ہو گئی تو جماعت کے دوستوں نے مجھے لکھا کہ یہ ٹکڑ از مین کا اچھی قیمت پر بک سکتا ہے، اگر اجازت دیں تو اس کو بیچ کر کوئی اور قطعہ زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.میں نے کہا، فروخت کر دو اور اس کی قیمت سے اور زمین لے کر مسجد بنالو.اب انہوں نے اطلاع دی ہے کہ مسجد کے لئے زمین مل گئی ہے اور نقشہ بنا کر پیش کر دیا گیا ہے.منظوری کے بعد مسجد کی تعمیر شروع کر دی جائے گی.یہ مسجد ملا کر مشرقی افریقہ میں چار مشہور شہروں میں چار بڑی مساجد ہو جاتی ہیں.نیروبی میں ایک ممباسہ میں ایک، دار السلام میں ایک کمپالہ میں ایک ، ان کے علاوہ کئی اور چھوٹی چھوٹی مساجد بھی ہیں.ویسٹ افریقہ میں بھی ہماری کئی مساجد ہیں.مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہاں شاندار مساجد بنانے کا رواج نہیں.البتہ سالٹ پانڈ میں جہاں ہمارا گولڈ کوسٹ کا انچارج مبلغ رہتا ہے، ہماری جو مسجد ہے، وہ بہت بڑی اور شاندار ہے.ملک کا وزیر اعظم اس کے افتتاح کی تقریب میں آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ جس قلیل رقم میں احمدیوں نے یہ مسجد بنالی ہے ، گورنمنٹ بھی نہیں بنا سکتی.اور ایسی شاندار مسجد ہمارے سارے ملک میں کوئی نہیں.اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے مبلغوں نے خود پاس کھڑے ہو کر کام کی نگرانی کی تھی اور مزدوروں کے ساتھ مل کر کام کیا تھا اور ان سے کام کروایا تھا.جس کی وجہ سے وہ مسجد بہت تھوڑی رقم میں بن گئی.اب بعض اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ سیرالیون میں بھی بعض جگہوں پر مساجد بن رہی ہیں.امریکہ سے بھی اطلاع آئی ہے کہ وہاں غالباً ڈیٹرائٹ میں ایک مسجد بن رہی ہے.وہاں کوئی نو مسلم جوڑا تھا، انہوں نے اس مسجد کے لئے اپنی زمین دی تھی اور کچھ جائیداد بھی دی تھی کہ اسے فروخت کر کے مسجد کی تعمیر کر لی جائے.کل اطلاع آئی ہے کہ یہ مسجد تکمیل کو پہنچنے والی ہے.وو بہر حال جماعتوں میں مسجدیں بنانے کی طرف توجہ ہورہی ہے اور غیر ملک تو بڑی جلدی جلدی آگے بڑھ رہے ہیں.لیکن پاکستان اس کام میں ذرا پیچھے ہے.پاکستان بیرونی ممالک میں تو بعض 662
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 مئی 1957ء بڑی بڑی مساجد بنا چکا ہے، لیکن اپنے ملک میں مساجد بنانے کی طرف اس کی توجہ بہت کم ہے.بیرونی ممالک میں مساجد بنانے میں بڑی دقت ہے کہ ہمیں ایکسچینج نہیں ملتا.اگر ایکسچینج مل جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اور بھی مسجدیں بنا سکتے ہیں.اس وقت ہیمبرگ میں مسجد بن چکی ہے ، لنڈن میں بن چکی ہے، ہیگ میں بن چکی ہے.اب نیورمبرگ میں بنانے کی تجویز ہے.ایکسچینج کے متعلق گورنمنٹ کو مولویوں کا کچھ ایسا ڈ رہے کہ اس نے ہمارے لئے کچھ چھین منظورکیا تھا.ہمارا آدمی ان کے پاس پہنچا اور اس نے کہا کہ ہمیں جو اسکیچ آپ دیتے ہیں ، وہ بہت تھوڑ ا ہوتا ہے.ہمارے مبلغ بہت زیادہ ہیں اور دوسری انجمنوں کے مبلغ بہت کم ہیں.ہمارے مبلغ اس وقت یورپ میں ہیں کے قریب ہیں اور ان کے صرف تین مبلغ ہیں.آپ مبلغوں کے اعتبار سے ایکھینچ تقسیم کریں.ان کے تین مبلغ ہیں، انہیں تین مبلغوں کا حصہ دیا جائے اور ہمارے ہیں مبلغ ہیں، ہمیں ہیں مبلغوں کا حصہ دیا جائے.انہوں نے کہا ہم ایسا نہیں کر سکتے.اگر ہم کریں تو ملک میں شور پڑ جائے گا.ہم آپ کو صرف تیسرا حصہ ہی دیں گے، چاہے آپ کے میں مبلغ ہوں اور ان کے تین مبلغ ہوں.اگر ایکھینچ آسانی سے مل جائے تو میں سمجھتا ہوں، اس ملک میں مسجد میں بنانے کے علاوہ ہمارے امراء کو باہر کے ممالک میں بھی مسجدیں بنانے کی توفیق مل جائے گی.اس طرح میرے خیال میں باہر کے ممالک میں بھی ہیں، پچیس مسجدیں بن سکتی ہیں.ایچینج کی وقتیں دور ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں.ایک تو یہ کہ گورنمنٹ کے افسران کے دلوں میں مولویوں کا ڈر جا تا ر ہے اور وہ ہمیں ایچینج میں سے ہمارا مناسب حصہ دیں.دوسرے خدا تعالی ہمارے ملک کی اپیچینج کی حالت کو درست کر دے.یعنی اس وقت ، جودہ دوسرے ممالک کا مقروض ہے، وہ حالت جاتی رہے اور اس کا غیر ممالک میں پونڈ کا ذخیرہ زیادہ ہو جائے اور اس طرح وہ ہمیں بافراط اپھینج دے سکے.اگر یہ آسانی پیدا ہو جائے تو میرا اپنا خیال ہے کہ بارہ مساجد تو جرمنی میں ہی بننی چاہئیں.ہیمبرگ میں بن گئی ہے، پھر جب خدا تعالیٰ ایچینج دے گا تو نیورمبرگ میں بن جائے گی.پھر جب خدا تعالیٰ اور ایکھینچ دے گا تو فرینکفورٹ میں یاڈ وسل ڈورف میں بن جائے گی، یہ تین ہو جائیں گی.پھر خدا تعالی توفیق دے گا تو ہینوور میں بن جائے گی.پھر خدا تعالیٰ توفیق دے گا تو انز بروک میں بھی بن جائے گی.پھر توفیق دے گا تو ایک منشن میں، جسے میونخ بھی کہتے ہیں ، بن جائے گی ، جہاں سے ہٹلر نکلا تھا.یہ چھ ہو جائیں گی.پھر توفیق دے گا تو کیل میں بن جائے گی، جو جرمن کا بڑا بھاری پورٹ ہے.یہ سات ہو جائیں گی.ان کے علاوہ بون بڑا شہر ہے، جو جرمنی کا دارالخلافہ ہے.پھر کولون بڑا شہر ہے.انہیں ملا کر 9 663
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 03 مئی 1957ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم مساجد بن جاتی ہیں.میں نے ایک دن گنا تھا کہ صرف جرمنی میں دس، بارہ مساجد کی ضرورت ہے.اگر اتنی مساجد وہاں بن جائیں تو تھوڑے ہی عرصہ میں وہاں کئی ہزار مسلمان ہو جائیں.جرمنی میں انگلستان اور دوسرے یوروپین ممالک کے مقابلہ میں ، میں نے یہ خوبی دیکھی ہے کہ وہاں جو احمدی ہوتا ہے ، وہ چندہ بھی دیتا ہے.یہ بات دوسرے ملکوں میں نہیں.مثلاً سویٹزرلینڈ میں دس، دس سال سے بعض احمدی ہوئے ہیں لیکن وہ چندے نہیں دیتے.لیکن جرمنی میں جب میں گیا تو ایک شخص مجھے ملنے آیا، اب وہ فوت ہو گیا ہے، اس کے پاس شراب کا ایک بڑا کارخانہ تھا، جو اسے باپ کی طرف سے ورثہ میں ملا تھا.اس نے مجھ سے فتویٰ پوچھا کہ میرے پاس شراب کا ایک کارخانہ ہے، کیا میں اسے چھوڑ دوں؟ میں نے کہا، وہ کارخانہ تم نے تو نہیں بنایا، تمہارے باپ کی طرف سے ورثہ میں تم کو ملا ہے.تم آہستہ آہستہ اس سے اپنا روپیہ نکالو اور اسے کسی اور کارخانہ میں لگاتے جاؤ، فورا نہ چھوڑو.ہمارے مبلغ نے اس کے متعلق بتایا کہ وہ دو پونڈ ماہوار با قاعدہ چندہ دیتا ہے.اب وہ فوت ہو گیا ہے تو خدا تعالیٰ نے وہاں پھر ایک نیا احمدی بنایا.اس کے متعلق بھی اطلاع آئی ہے کہ وہ ایک پونڈ ماہوار چندہ دیتا ہے.اب وہ یہاں اپنی بیوی سمیت آ رہا ہے اور اس نے لکھا ہے کہ وہ ایک اور احمدی دوست کے ساتھ ترکی اور ایران سے ہوتا ہوا، پاکستان آئے گا.شاید تمبر میں وہ یہاں پہنچ جائے.کہتے ہیں کہ اس کے اندر اتنا اخلاص ہے کہ آنے سے پہلے اس نے اپنی جگہ پر انتظام کر دیا ہے کہ اس کے دوست اور رشتہ دار اس کا با قاعدہ چندہ دیتے رہیں.گویا وہ چھ ماہ کا عرصہ جو باہر رہے گا، اس میں اس نے انتظام کر دیا ہے کہ ایک پونڈ ماہوار چندہ با قاعدہ جماعت کو ملتا ہے.ایک پونڈ ماہوار کی بظاہر کوئی حیثیت نہیں مگر دس ہیں ہزار احمدی ہو جائیں اور اس طرح دس ہیں ہزار پونڈ ماہوار چندہ آ جائے تو اس سے ہر ماہ ایک مسجد بن سکتی ہے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 11 مئی 1957 ء ) 664
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطبہ جمعہ فرمود و 10 مئی 1957ء وہ وقت دور نہیں ، جب ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا خطبہ جمعہ فرمودہ 10 مئی 1957ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.رمضان کے آخری دنوں میں میری طبیعت خراب ہو گئی تھی.چونکہ اس ماہ تلاوت قرآن کریم پر زیادہ زور دینا پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے اردو ترجمہ کا کام بھی کرنا پڑا ، اس وجہ سے طبیعت میں جو ضعف پیدا ہوا تھا ، وہ اور بھی بڑھ گیا.طبیعت اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ یہاں کی گرمی اب مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی.19 اپریل کے خطبہ میں، میں نے ذکر کیا تھا کہ امریکہ سے وہ کتاب آگئی ہے، جو ایک اٹالین عورت نے اسلام کے متعلق لکھی تھی.اس کے انگریزی ترجمہ میں کچھ مضمون چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بھی لکھا تھا اور چوہدری صاحب نے بتایا تھا کہ یہ کتاب نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے.بلکہ ان کا خیال تھا کہ اس قسم کی اعلیٰ کتاب اسلام کے متعلق اب تک کسی مسلمان نے بھی نہیں لکھی.میں نے گھر سے اس کتاب کے متعلق دریافت کیا کہ کہاں ہے؟ تو بتایا گیا کہ یہ کتاب گھر میں نہیں آئی.دفتر سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ دفتر میں یہ کتاب موجود نہیں.لائبریری سے پتہ کیا تو انہوں نے بھی بتایا کہ یہ کتاب ابھی تک لائبریری میں نہیں آئی.آج اتفاقا میں اپنے دفتر میں کوئی چیز تلاش کرنے گیا تو اس کتاب کا ایک نسخہ، جو امریکہ سے آیا تھا اور جس کا میں نے خطبہ میں ذکر کیا تھا ، وہاں پڑا تھا.گھر والوں کو جب میں نے بتایا تو انہوں نے کہا، میرا خیال تھا کہ شاید اس کتاب کا مسودہ یہاں آیا ہے.حالانکہ مسودہ تو اس کتاب کا آیا تھا، جو امریکہ کے مشن کی طرف سے لکھی جارہی ہے.میں نے ایک خطبہ میں بتایا تھا کہ امریکہ میں ایک کتاب ایسی چھپی ہے، جس میں اسلام کی ہتک کی گئی ہے اور میں نے کہا تھا کہ امریکہ کی جماعت اس کتاب کا جواب لکھے.چنانچہ امریکہ کے ایک احمدی مبلغ نے اس کتاب کا جواب لکھا ہے اور اس کا مسودہ ہمارے پاس پہنچ چکا ہے.اب ہمیں اس کی اس طرح اصلاح کرنی ہے کہ اس میں اس کتاب کا نام نہ آئے.کیونکہ اس سے فتنہ اور زیادہ بڑھ جائے گا.اور پھر اس کتاب کے شائع کرنے والوں نے معافی بھی مانگ لی ہے.665
خطبہ جمعہ فرموده 10 مئی 1957ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم یہ کتاب ، جو ایک اٹالین عورت نے لکھی ہے ، بڑی اعلیٰ ہے.میں نے ساری تو نہیں پڑھی.اس کی تمہید کی چند سطروں پر نظر پڑی تو وہاں لکھا تھا کہ قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے، جواب تک اسی طرح موجود ہے، جس طرح نازل ہونے کے وقت تھی.اب تک اسلام کے دشمن عیسائی، یہودی اور دوسرے مذاہب والے بھی اسے اسی طرح لیتے آئے ہیں اور مسلمان بھی اسے اسی طرح لیتے آئے ہیں.یہی ایک کتاب ہے، جس میں نہ غیروں کو کوئی تبدیلی کرنے کا موقع ملا ہے اور نہ اپنوں کو.یہ چند تمہیدی سطور پڑھنے سے معلوم ہوا کہ کتاب کی مصنف قرآن کریم کی صداقت کی قائل ہے.اس کتاب کو چھپوا کر دو، تین لاکھ کی تعداد میں امریکہ کے رؤساء اور بڑے بڑے عہد یداروں میں تقسیم کیا جائے تو اس کا بہت فائدہ ہو سکتا ہے.اگر اسے شروع شروع میں ایک ہزار کی تعداد میں بھی تقسیم کیا جائے تو اس پر قریباً پانچ ہزار ڈالر خرچ آئے گا.مجھے اس کی صحیح قیمت کا تو علم نہیں.میں نے خود ہی اندازہ لگایا ہے.ویسے ہم امریکہ سے پتہ کریں گے کہ اس کی قیمت کیا ہے؟ اور اس کی اشاعت پر کیا خرچ آئے گا ؟ اگر اس کتاب کی اشاعت کی جائے تو عیسائیوں کو پتہ لگ جائے گا کہ ان کی اپنی ایک عورت، جو نہایت قابل اور تعلیم یافتہ تھی اور کالج میں پروفیسر تھی ، اسلام کے متعلق کیا خیال رکھتی ہے.مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کتاب کے مترجم نے یا کسی اور نے اس عورت کو خط لکھا کہ اگر تمہارے اسلام کے متعلق ، وہ خیالات درست ہیں، جو اس کتاب میں لکھے گئے ہیں تو تم ابھی تک مسلمان کیوں نہیں ہوئیں؟ تو اس عورت نے جواب دیا کہ اگر میں مسلمان ہو جاتی تو میری اس کتاب کا عیسائیوں پر زیادہ اثر نہ ہوتا.اب تو وہ سمجھتے ہیں کہ میں انہی میں سے ایک ہوں اور اسلام کا مجھ پر اتنا اثر ہے کہ میں یہ خیالات ظاہر کرنے پر مجبور ہوگئی ہوں.یہ کتاب 1925ء میں لکھی گئی تھی.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس کتاب کی خوب اشاعت کی جائے تو امریکہ میں اسلام کا اچھا اثر پڑے گا.بلکہ امریکہ تو الگ رہا، میں سمجھتا ہوں ، وہ وقت دور نہیں ، جب ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا اور وہ اسلام کی سچائی اور عظمت کی قائل ہو جائے گی“.مطبوعه روزنامه الفضل 18 مئی 1957 ء ) 666
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطاب فرموده 26 اکتوبر 1957ء غیر ممالک میں اسلام کی اشاعت کا واحد ذریعہ ہمارے پاس تحریک جدید ہی ہے خطاب فرمودہ 26اکتوبر 1957ء تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت بعد فرمایا:.وَالتَّزِعَتِ غَرْقَالَ وَالنَّشِطَتِ نَشَطَان وَالشَّبِحَتِ سَبْحَانَ فَالشَّقَتِ سَبْقَان فَالْمُدَبَّرَاتِ أَمْرَاهُ يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ قُلُوبٌ يَوْمَبِذٍ وَاجِفَةٌ أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ یہ آیات جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے، ہم اب تک ان کے صرف ایک ہی مفہوم پرزور دیتے رہے ہیں.حالانکہ ان کے اندر بعض اور مضامین بھی پائے جاتے ہیں.گزشتہ مفسرین تو ان آیات کے یہ معنی کرتے رہے ہیں کہ اس جگہ فرشتوں کا ذکر ہے کیونکہ فرشتہ کے لیے مؤنث کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور یہاں چونکہ سارے صیغے مؤنث کے استعمال کیے گئے ہیں، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں فرشتوں کا ذکر ہے.لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ آیات فرشتوں پر چسپاں ہی نہیں ہو سکتیں.اس لئے کہ والنازعات غرقًا، ان میں ہے ہی نہیں.غرفا کے معنی، اگر جسمانی غرق کے سمجھیں تو فرشتے کون سے تالاب میں غوطہ مارا کرتے ہیں؟ اور اگر اس کے معنی روحانی سمجھیں تو غرقا کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ علوم میں محو ہو کر نئے نئے نکتے نکالتے ہیں.اور فرشتوں کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہیں جن باتوں کا علم دیا جانا ضروری تھا، اس کا انہیں شروع سے علم دے دیا گیا ہے.اور جنہیں شروع سے علم دیا گیا ہو، انہوں نے محو کیا ہوتا ہے؟ ان کو محو ہونے کے بغیر ہی علم مل چکا ہے.چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ میں خود فرشتے کہتے ہیں کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں، جتنا آپ نے ہمیں سکھایا ہے.اور جو اتنا ہی جانتے ہیں، جتنا انہیں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے.انہیں فقہ اور دوسرے مسائل اور علوم میں غرق ہو کر نئے نئے نکتے نکالنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہیں تو خود خدا تعالیٰ نے سب کچھ سکھا دیا ہے.پس یہ آیات فرشتوں پر صادق آہی نہیں سکتیں.ہمارے نزدیک اس جگہ صحابہ کی جماعت کا ذکر ہے.اور چونکہ جماعت کے لئے بھی مؤنث کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے، اس لئے والنازعات غرقاً کے معنی یہ ہوئے کہ ہم شہادت کے طور پر صحابہ کی 667
خطاب فرمودہ 26 اکتوبر 1957ء تحریک جدید - ایک البی تحریک..ان جماعتوں کو پیش کرتے ہیں، جو اسلام کی تعلیم میں موہو کر وہ وہ مسائل نکالتی ہے، جو اسلام کی سچائی کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیتے ہیں.مگر چند دن ہوئے ہیں، مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا ہے کہ ان آیات کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ ہم ان عورتوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو و النازعات غرفاً کی مصداق ہیں اور اسلام کی تعلیم پر غور کر کے ان سے نئے نئے نکتے نکالتی ہیں اور اسلام کی تعلیم میں انہماک پیدا کرتی ہیں.اس لئے کہ اسلام نے ان پر رحم کیا ہے.اور اسلام ہی وہ مذہب ہے، جس میں عورتوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ عورت کے ماں ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں؟ بیٹی ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں ؟ بیوی ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں؟ ترکہ میں اس کے کیا حقوق ہیں؟ اور اس طرح تمدنی زندگی میں اس کے کیا حقوق ہیں؟ اسی وجہ سے احمدیت میں شامل ہو کر عورتیں، جس قدر قربانی اور ایثار سے کام لے رہی ہیں، اس کی مثال کسی قوم میں نہیں ملتی.چنانچہ دیکھ لو مسجد ہیگ (ہالینڈ) صرف عورتوں نے بنائی ہے.اگر چہ ہیمبرگ (جرمنی) کی مسجد مردوں نے اپنے روپیہ سے بنائی ہے مگر اس کا پورا چندہ ابھی تک وہ ادا نہیں کر سکے.لیکن ہیگ کی مسجد کا تمام چندہ عورتیں ادا کر چکی ہیں، صرف اس کا تھوڑا سا حصہ باقی ہے.یہ قربانی صرف احمدی عورتوں میں پائی جاتی ہے.مسلمانوں کا اور کوئی فرقہ نہیں، جس کی عورتیں اس طرح اشاعت اسلام کا کام کر رہی ہوں.اہلحدیث کو لے لو حنفیوں کو لے لو، جنبلیوں کو لے لو، مالکیوں کو لے لو، ان میں کہیں ایسی عورتیں نظر نہیں آتیں، جو اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر اور اسلام کی محبت میں غرق ہو کر اس کی اشاعت کے لئے کوشش کر رہی ہوں.صرف احمدیوں میں ہی یہ بات نظر آتی ہے کہ ان کی عورتیں غیر ملکوں میں تبلیغ کے لئے چندے دیتی ہیں.اور بعض دفعہ تو اتنی غریب عورتیں چندہ دیتی ہیں کہ ہمیں لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.مجھے یاد ہے، پچھلے سال میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک سنارلڑ کا، جو چنیوٹ میں رہتا ہے، آیا اور اس نے سونے کے کڑے میرے ہاتھ میں لاکر رکھ دیئے.اور کہا کہ میری ماں کہتی ہے کہ یہ کپڑے میں نے کسی خاص مقصد کے لئے رکھے ہوئے تھے.اب میں چاہتی ہوں کہ آپ انہیں بیچ کر کسی دینی کام میں لگالیں.چنانچہ میں نے انہیں بیچ کر رقم مسجد ہیگ میں دے دی.میرا خیال ہے کہ وہ چار پانچ سو کے ہوں گے.یہ چیز ہے، جو صرف احمدی عورتوں میں پائی جاتی ہے.اس کی مثال نہ حنفیوں میں پائی جاتی ہے، نہ مالکیوں میں پائی جاتی ہے، نہ حنبلیوں میں پائی جاتی ہے، نہ شافیوں میں پائی جاتی ہے.اسی طرح روحانی 668
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلدسوم - خطاب فرمودہ 26 اکتوبر 1957 ء فرقوں کو لے لوتو نہ چشتیوں میں پائی جاتی ہے، نہ سہروردیوں میں پائی جاتی ہے اور نہ قادریوں میں پائی جاتی ہے.صرف احمدیوں میں پائی جاتی ہے.غرض روحانی فرقوں کے لحاظ سے بھی احمدی عورتیں تمام روحانی فرقوں کی عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں اور دوسرے فرقوں کے لحاظ سے بھی ، جو فقہی اختلاف کی وجہ سے قائم ہوئے ہیں، احمدی عورتیں سب سے مقدم ہیں.ہاں اگر غیروں کو لیا جائے تو ہم ان کے مقابلے میں ابھی کمزور ہیں.یعنی عیسائیوں کی عورتوں نے عیسائیت کی خاطر بہت زیادہ قربانی کی ہے.بے شک ہماری عورتوں نے بھی قربانی کی ہے اور وہ تبلیغ کا کام کرتی ہیں مگر قربانی کے لحاظ سے ابھی وہ ان سے کم ہیں.مثلاً چین میں ایک دفعہ عیسائیوں کے خلاف بغاوت ہوئی.وہاں ان دنوں ایک عورت تبلیغ کا کام کر رہی تھی، چینیوں نے حملہ کر کے اس عورت کو مارڈالا اور اس کے گوشت کے کباب کھائے.جب یہ خبر انگلستان پہنچی تو انگلستان میں اعلان کیا گیا کہ چین میں ہماری ایک عورت مبلغ تھی، چینیوں نے اسے مار دیا ہے اور اس کے گوشت کے کباب بنا کر کھائے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ اس کی جگہ کام کرنے کے لئے کوئی اور عورت اپنا نام پیش کرے.شام تک 20 ہزار عورتوں کی طرف سے تار آ گئے کہ ہم وہاں جانے کے لئے تیار ہیں، ہمیں وہاں بھجوادیا جائے.یہ نمونہ تو ہم میں ابھی نظر نہیں آتا بلکہ ہمیں شرم آتی ہے کہ اس کام میں عیسائی ہم پر فوقیت رکھتے ہیں.شاید اس لئے کہ ان کو انہیں سو سال ہو گئے ہیں اور ہمیں ابھی اتنے سال نہیں ہوئے.مگر بہر حال جوانی میں زیادہ جوش ہونا چاہئے.ہم امید کرتے ہیں کہ عنقریب ہماری عورتیں ان سے بھی زیادہ جوش دکھلائیں گی.بعض مثالیں بیشک ہماری جماعت میں اچھی ملتی ہیں.مثلاً ایک دفعہ ایک غیر ملکی طالب علم یہاں آیا.اس نے کہا کہ میری شادی یہاں کرا دیں.میں نے کسی خطبہ یا مجلس میں ذکر کیا کہ اس طرح ایک غیر ملکی کی خواہش ہے.تو ایک لڑکی آئی اور اس نے کہا کہ میں تیار ہوں ، آپ میرا نکاح اس غیر ملکی سے کر دیں.اس کے بعد اس کی ایک بہن آئی اور میری بیوی سے کہنے لگی کہ میری بہن تو منہ پھٹ ہے ، وہ خود آکر کہہ گئی ہے.لیکن میں نے ابھی تک اس کا اظہار نہیں کیا تھا.حالانکہ میں تین ، چار سال سے اس بات کے لئے تیار ہوں کہ میری کسی غیر ملکی سے شادی کر کے مجھے باہر بھیج دیا جائے.آخران میں سے ایک بہن کی شادی ان سے ہوگئی اور اب وہ دلی میں ہے.ابھی کل ہی اس کے ہاں لڑکی پیدا ہونے کی خبر چھپی ہے.صالح الشبیبی ، ہمارے ایک غیر ملکی احمدی نوجوان ہیں.پچھلے سال ان سے اس کی شادی ہوئی اور اب ان کے ہاں دلی میں ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے.669
خطاب فرمودہ 26اکتوبر 1957ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم تو اس قسم کی مثالیں تو احمد یوں میں پائی جاتیں ہیں لیکن یہ زیادہ شاندار مثال ہے کہ ایک عورت ماری گئی اور اس کے کباب کھالئے گئے اور جب اخباروں میں اعلان کیا گیا کہ اس کی جگہ لینے کے لئے اور عورتیں اپنے آپ کو پیش کریں تو شام تک 20 ہزار عورتوں کی تاریں آگئیں کہ ہم وہاں جانے کے لئے تیار ہیں.بہر حال اس سے ملتی جلتی بعض کمزور مثالیں تو ہم میں پائی جاتی ہیں لیکن زیادہ شاندار اور اچھی مثالیں ان میں پائی جاتی ہیں.اسی طرح ہمارا ایک مبلغ افریقہ گیا تھا.واپس آکر ایک لڑکی سے اس نے شادی کرنی چاہی.اس کی پہلے ایک شادی ویسٹ افریقہ میں ہو چکی تھی.اب ایک غیر ملکی مبلغ سے شادی کرنا جبکہ اس کی ایک بیوی پہلے موجود ہو اور جبکہ اس ملک میں اتنا رواج ہو کہ لوگ ڈیڑھ، ڈیڑھ سو بیویاں کرتے ہوں، بڑی قربانی چاہتا ہے.مگر وہ لڑکی راضی ہوگئی.چنانچہ وہ افریقہ پہنچ چکی ہے.اس نے بڑی محبت سے اپنی سوکن کے بچوں کو یہاں پالا.وہ مبلغ افریقہ سے یہاں آیا تھا اور اپنی ایک پہلی بیوی کو بھی یہاں لایا تھا اور دو بچے بھی ساتھ تھے.وہ لڑکی اپنے خاوند کی پہلی بیوی کا بھی خیال رکھتی اور اپنے بچوں کا بھی خیال رکھتی رہی.گوان میں سے ایک بچہ بعد میں بھاگ گیا.اب وہ میرے ایک بھتیجے کی بیوی کے ساتھ مل کر انگلستان کے رستہ سے اپنے خاوند کے پاس پہنچ گئی ہے.تو اس قسم کی مثالیں تو ہم میں موجود ہیں مگر اس شان کی نہیں، جو عیسائیوں میں پائی جاتی ہیں.مجھے چاہیے تھا کہ میں عورتوں کے جلسہ میں یہ تقریر کرتا.مگر اتفاقاً مردوں کا جلسہ آ گیا ، اس لئے میں مردوں کے جلسہ میں یہ تقریر کرتے ہوئے، انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی عورتوں کو سمجھاؤ اور انہیں کہو کہ تم کو بھی عیسائی عورتوں کی طرح قربانی پیش کرنی چاہیے، جیسا کہ میں نے مثال دی ہے کہ ایک عورت کو مار دیا گیا اور اس کے گوشت کے کباب بنا کر کھائے گئے مگر اس کے قائم مقام کے لئے اعلان کیا گیا تو شام تک ہیں ہزار عورتوں نے اپنا نام پیش کر دیا، کہ وہ اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو سمجھائیں کہ تم بھی اپنے اندر اسی قسم کا اخلاص اور ایمان پیدا کرو.کل بیماری کی وجہ سے مجھ سے ایک غلطی ہوگئی اور وہ یہ کہ مجھے کل کے خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے نئے سال کی مالی قربانیوں کا اعلان کرنا چاہیے تھا مگر اس کا اعلان کرنا بھول گیا.سو آج میں نئے سال کے چندہ تحریک جدید کا اعلان کرتا ہوں.اور دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ غیر ممالک میں اسلام کی اشاعت کا واحد ذریعہ ہمارے پاس تحریک جدید ہی ہے.میں نو جوانوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور اپنی 670
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطاب فرمودہ 26اکتوبر 1957ء زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کریں اور اپنے آپ کو دینی تعلیم حاصل کر کے اس قابل بنائیں کہ انہیں غیر ملکوں میں بھیجا جا سکے.اور جماعت کو میں تحریک کرتا ہوں کہ اگر ہمارے مبلغ بڑھتے گئے اور مسجد میں بڑھتی گئیں تو ہمارا خرچ بھی بڑھتا چلا جائے گا.ایک مسجد پر دولاکھ روپیہ خرچ آتا ہے.اور میری سکیم 50 ہزار مسجد بنانے کی ہے.گویا ایک کروڑ روپیہ کی صرف غیر ملکی مساجد کے لئے ضرورت ہے.تم یہ نہ سمجھو کہ ہماری جماعت غریب ہے.میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے، جس سے خدا تعالیٰ نے مجھے تسلی دلائی ہے کہ یہ غربت عارضی ہے اور ایسے سامان پیدا ہونے والے ہیں ، جن کے نتیجہ میں جماعت کو خدا تعالیٰ بہت کچھ مال دے گا.میں نے خواب میں دیکھا کہ زمینداروں کا ایک بہت بڑا گروہ ہے.وہ زمیندار ایسے ہیں، جو مربعوں کے مالک ہیں.وہ راجہ علی محمد صاحب کے پاس آئے اور ان سے انہوں نے مصافحہ کیا اور پھر ایک طرف چلے گئے.میں ان کو دیکھ کر کہتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ 60 ہزار ہو جائیں گے اور ان میں سے ہر شخص سال میں ایک ایک سور و پیہ بھی مساجد کے لئے دے تو 160 کھ روپیہ ہو جائے گا اور ساٹھ لاکھ سے ہیں مساجد بن سکتی ہیں.اس رڈیا سے میں نے سمجھ لیا کہ اب خدا تعالیٰ اپنے فضل سے زمینداروں میں ہماری جماعت پھیلانا چاہتا ہے.اور وہ بھی ایسے زمینداروں میں، جو کم سے کم ایک سو روپیہ سالانہ مساجد کے لئے دے سکیں.مثلاً ہمارے ہاں مربعوں کے ٹھیکوں کی آمد تین تین، چار چار ہزار روپیہ ہے اور زمینداروں کا خرچ بہت کم ہوتا ہے.اگر وہ خود کام کریں تو تین، چار ہزار کی بجائے وہ چھ ، سات ہزار روپیہ کما سکتے ہیں.اور اس میں سے ایک سو روپیہ مساجد کے لئے دینا کوئی بڑی بات نہیں.چنانچہ میں خواب میں کہتا ہوں کہ اب یہ لوگ 60 ہزار ہو جائیں گے.اور اگر ایک ایک سورو پی بھی یہ لوگ مساجد کے لئے دیں تو ساٹھ لاکھ ہو جائے گا.اس کے بعد یک دم وہ آدمی تو میری نظروں سے غائب ہو گئے لیکن جانوروں کا ایک جھنڈ اڑتا ہوا میرے سر پر سے گزرا، وہ جانور موسمی معلوم ہوتے ہیں، جیسے مرغابیاں ہوتی ہیں.یہ جانور ایک خاص ترتیب کے ساتھ چلتے ہیں.میری نظر ان جانوروں پر پڑی اور میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بھی کیسی قدرتوں والا ہے.اس نے ایسے جانور پیدا کئے ہیں کہ وہ ہیں تو انسانوں سے ادنی مگر ان کی تنظیم انسانوں سے اعلیٰ ہے.اگر کوئی ایسا ذریعہ نکلے کہ ہم انسانوں میں بھی ان مرغابیوں والی تنظیم پیدا کرسکیں تو دنیا کو فتح کرنا، ہمارے لئے کتنا آسان ہو جائے.گویا اس خواب کے دو حصے تھے.پہلا حصہ زمینداروں والا تھا اور دوسرا حصہ جانوروں والا ہے.وہ مرغابیاں ہیں یا کوئی اور جانور ہیں، میں نہیں جانتا مگر ہیں، فصلی جانور.وہ اس ترتیب سے اڑتے جارہے ہیں 671
خطاب فرمودہ 26 اکتوبر 1957ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم کہ ایک آگے ہے اور دوسرے پیچھے ہیں.یہ بات عام طور پر مکھوں ،سرخابوں، کونجوں اور مرغابیوں میں پائی جاتی ہے.میں نے انہیں دیکھ کر کہا کہ کیسا قادر خدا ہے کہ ہم تو آج پیدا ہوئے ہیں لیکن یہ خصلت اور صفت ان میں آدم کے زمانہ سے پائی جاتی ہے اور ابتدا سے اس نے جانوروں کے دماغ میں ایسا علم بھر دیا ہے کہ جس کے ماتحت وہ ہمیشہ ایک تنظیم کے ساتھ اڑتے ہیں.اگر انسانوں کے اندر بھی ہم یہ تنظیم پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو جماعت احمد یہ باوجود تھوڑے ہونے کے ساری دنیا پر غالب آسکتی ہے.اس وقت بھی ہماری تنظیم ہی ہے، جس کی وجہ سے گو ہماری جماعت بالکل غریب ہے مگر پھر بھی اس کا سالانہ چندہ تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کو ملا کر پچھلے سال پچاس لاکھ کے قریب تھا اور ہمیں امید ہے کہ یہ چندہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتا چلا جائے گا.تھوڑے عرصہ میں ہی تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ چندہ 65لاکھ روپیہ ہو جائے گا.میں تو اپنے ذہن میں یہ سوچا کرتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کا سالانہ چندہ تین کروڑ ہو جائے تو ہم پاکستان کے گوشہ گوشہ میں اپنے مبلغ پھیلا سکتے ہیں.کیونکہ 3 کروڑ سے 25 لاکھ روپیہ ماہوار بنتا ہے اور 25 لاکھ ماہوار روپیہ کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہر مبلغ کی ماہوار تنخواہ ایک سو رو پی بھی ہو تو ہم 25 ہزار مبلغ رکھ سکتے ہیں اور 25 ہزار مبلغ پاکستان کے گوشہ گوشہ میں پھیلایا جا سکتا ہے.غرض آج میں تحریک جدید کے نئے سال کے لئے جماعت سے مالی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہوں.اب الفضل اور تحریک جدید کے کارکنوں کا فرض ہے کہ وہ اس اعلان کو بار بار پھیلائیں اور اس کی اشاعت کریں.ہر دوست کو چاہیے کہ وہ کوشش کرے کہ پچھلے سال اس نے جو کچھ چندہ دیا تھا، اس سال اس سے کچھ نہ کچھ بڑھا کر دے.پچھلے سالوں میں چونکہ چندے تھوڑے تھے، میں نے زیادہ خی کی تھی اور کہا تھا کہ ہر شخص اپنے گذشتہ سال کے چندہ سے ڈیوڑھادے.مگر اب میں اس قید کو ہٹا تا ہوں کیونکہ لوگوں نے خود اپنی مرضی سے چندوں کو زیادہ کر دیا ہے.اب میں یہ کہتا ہوں کہ کوئی شخص اپنے پچھلے سال کے چندہ سے کم نہ دے.اور اگر زیادہ دے سکے ، مثلاً دس فیصدی زیادہ دے سکے یا پندرہ فی صدی زیادہ دے سکے یا بیس فیصدی زیادہ دے سکے تو یہ اس کی مرضی ہے.اور اس کا یہ فعل اسے مزید ثواب کا مستحق بنا دے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے.کیونکہ نفل انسان اپنی مرضی سے ادا کرتا ہے اور فرض حکم کے ماتحت ادا کرتا ہے.ابھی ہماری شوری کے آنے میں، جب نئے سال کا بجٹ تیار ہوتا ہے، پانچ ماہ باقی ہیں.پانچ ماہ تک یہ چندہ جمع کرتے چلے جائیں اور اس کی تحریک دوستوں کو بار بار کریں تا کہ پانچ ماہ کے بعد اس سال 672
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد سوم خطاب فرموده 26 اکتوبر 1957ء سیکھ کا چندہ پچھلے سال کے چندہ سے بھی زیادہ ہو جائے.اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے سارے یورپ میں مساجد بناسکیں اور افریقہ اور انڈونیشیا وغیرہ میں بھی اپنے مبلغ بڑھا سکیں.یہی ذریعہ ہماری کامیابی کا ہے.اس وقت غیر فرقوں پر اگر ہمیں کوئی فضیلت حاصل ہے تو یہی ہے کہ ہمارے مبلغ غیر ملکوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کے نہیں پائے جاتے.اس کا اتنا اثر ہے کہ پرسوں مجھے کو یت سے ایک جرمن کا خط ملا.اس نے لکھا ہے کہ میں دیر سے اسلام کی طرف مائل ہوں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اسلام کی تعلیم کہاں سے حاصل کروں؟ یہاں ایک موسیٰ نامی شخص ہیں.(ابو موسیٰ کوئی غیر احمدی ہیں، غالباً بمبئی کی طرف کے ہیں، کیونکہ اس علاقہ میں ایسے نام رکھے جاتے ہیں.) ان کو پتہ لگا کہ مجھے اسلام کی طرف رغبت ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر تو اسلام سیکھنا چاہتا ہے تو ربوہ چلا جا.اور تو کہیں نہیں سیکھ سکتا.پس میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے لئے کوئی انتظام کریں.مجھ سے موسیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ خرچ میں دوں گا.میں نے اسے لکھا ہے کہ خرچ کا سوال نہیں.ہمیں صرف یہ ضرورت ہے کہ تم اپنی طبیعت کو کم خرچ کرنے کی عادت ڈالو.کیونکہ وہی مبلغ کامیاب ہو سکتا ہے، جسے کم خرچ کرنے کی عادت ہو.مسٹر کنزے یہاں سے تعلیم حاصل کر کے گئے ہیں.اور اب وہ شکا گوامریکہ میں ہمارے مبلغ ہیں.ان کو ہم جو گزارہ دیتے تھے، تم بھی اگر آؤ تو وہی وظیفہ ہم تمہیں دے دیں گے.اپنے لڑکوں کو ہم چالیس روپے دیتے ہیں اور دوسروں کو ساٹھ.اسی طریق کے مطابق اگر تم گزارہ کر سکوتو یہاں آ جاؤ تعلیم حاصل کر کے چلے جانا اور اپنے ملک میں تبلیغ کرنا.ہمیں موسیٰ کے روپیہ کی ضرورت نہیں ، ہم خود تم کو وظیفہ دینے کے لئے تیار ہیں.لیکن اگر تم یہ کہو کہ میرا چھ ہزار روپیہ میں گزارہ ہوتا ہے تو اس کی ہمیں توفیق نہیں.کیونکہ ہم نے تو باہر سے کئی لوگوں کو بلوا کر انہیں تعلیم دلانی ہے.اگر ہم پچاس آدمی بھی منگوائیں اور چھ ہزار روپیہ ماہوار ہر ایک کا خرچ دیں تو تین لاکھ روپیہ بن جاتا ہے اور اس کی ہمیں توفیق نہیں.ابھی اس کا جواب تو نہیں آیا لیکن اگر وہ یہاں آگیا اور پھر جرمن سے بھی ایک پادری آرہا ہے تو یہ دو ہو جائیں گے.پھر ایک اور نو جوان آسٹریلیا کا ہے، اسے کچھ عربی بھی آتی ہے.وہ بچپن میں ٹیونس چلا گیا تھا اور مدت تک وہیں رہا.کوئی پندرہ ہیں سال وہاں رہ کر آسٹر یلیا واپس آیا ہے.اس نے بھی لکھا ہے کہ میں اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہوں.اگر وہ بھی آگیا تو تین بن جائیں گے.پھر ایک شخص فلپائن سے آرہا ہے.وہاں کی گورنمنٹ اس کے رستہ میں روکیں ڈال رہی ہے.اس لئے وہ ابھی تک نہیں آسکا.لیکن اگر وہ آگیا تو چار ہو جائیں گے.نیو یارک سے اطلاع آئی ہے کہ ایک 673
خطاب فرمودہ 26 اکتوبر 1957ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم حبشی، جو پہلے پادری تھا، وہ بھی آنا چاہتا ہے.اگر وہ آگیا تو پانچ ہو جائیں گے.غرض اس وقت تک ہمارے پاس قریبا دس ممالک کے لوگوں کی درخواستیں پڑی ہوئی ہیں کہ ہم یہاں آنا چاہتے ہیں.بلکہ اب تو بھارت بھی غیر ملک ہی ہے، بھارت سے بھی درخواستیں آتی رہتی ہیں.تھوڑے دن ہوئے، ایک سکھ کی چھٹی آئی تھی کہ میں دین سیکھنا چاہتا ہوں ، اس کا انتظام کر دیں.غرض اللہ تعالیٰ دنیا میں چاروں طرف اسلام کی اشاعت کے لئے رستے کھول رہا ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جماعت قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ آگے ہی آگے اپنا قدم بڑھاتی چلی جائے تا کہ ہر جگہ اسلام کو کامیابی کے ساتھ پھیلایا جا سکے.بے شک دنیا ہماری مخالف ہے مگر کامیابی الہی سلسلہ کے لئے ہی مقدر ہوتی ہے.مخالفانہ تدبیریں سب خاک میں مل جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر دنیا میں غالب آکر رہتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ کہ انسانوں نے بھی اسلام کو شکست دینے کی بڑی تدبیریں کیں اور ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی اسلام کو فتح دینے کی تدبیریں کیں لیکن واللہ خیر الماکرین اللہ تعالیٰ کو بڑی تدبیریں کرنی آتی ہیں اور آخر اللہ تعالی کی تدبیریں ہی جیتی ہیں.دیکھ لو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دشمن نے کتنی تدابیر کیں.لیکن بالآخر اسلام فاتح ہوا، مکہ فتح ہو گیا، سارا عرب فتح ہو گیا اور کفار کی تدابیر کسی کام نہ آئیں.کیونکہ وہ انسانی تدبیریں تھیں.بے شک کفار نے مسلمانوں پر بیسیوں حملے کئے ، مدینہ کے دائیں بھی اور اس کے بائیں بھی.خود پر بھی اور ان مسلمانوں پر بھی ، جو مدینہ کے رستہ میں آباد ہو گئے تھے.مگر کفار کی ساری کوششیں بریکار ہو گئیں اور آخر حضرت عثمان کے زمانہ میں کسری اور قیصر دونوں کی حکومتیں ٹوٹ کر چور چور ہوگئیں.پھر ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں اسلامی جرنیل طارق نے سپین کو فتح کیا اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے زیادہ دور کی بات نہیں بلکہ اس وقت ابھی بعض صحابہ زندہ موجود تھے.پھر معاویہ بن یزید کے ایک لڑکے عبدالرحمن نے دمشق میں جا کر اندلس میں اموی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اس کے بعد گیارہ سو سال تک مسلمان اندلس پر حکمران رہے.تو جس خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نشان دکھلائے تھے، وہ خدا ہمارے زمانہ میں بھی موجود ہے.وہ بڑھا نہیں ہو گیا ، وہ ویسا ہی جوان اور طاقتور ہے، جیسے پہلے تھا.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر ایمان ہو.674
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم خطاب فرمودہ 26 اکتوبر 1957 ء ہم نے بھی پین کو نظر انداز نہیں کیا.چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے معا بعد ہم نے اپنے مبلغ کرم الہی ظفر کو سپین بھجوادیا تھا.میرے بچے طاہر اور محمود، جو ولایت گئے ہوئے تھے، واپس آتے ہوئے ، سپین بھی گئے تھے.انہوں نے مجھے بتایا کہ پین کے نو مسلم بہت زیادہ مخلص ہیں ، وہ خوب سوچ سمجھ اسلام قبول کرتے ہیں اور پھر اس پر اپنی جانیں فدا کرتے ہیں.مجھے بھی اس کا ایک نمونہ لنڈن میں نظر آیا تھا.1954 ء سے قبل کا ایک سپینش نومسلم ڈاکٹر لنڈن کے قیام کے دوران مجھے ملا.وہ اس وقت لنڈن میں سو میل کے فاصلے پر کسی جگہ پریکٹس کرتا ہے.اس نے جب سنا کہ میں لنڈن میں آیا ہوں تو وہ مجھے ملنے کے لئے وہاں آیا.اس نے مجھے بتایا کہ کرم الہی ظفر نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسی نعمت دی.پھر میں نے وہاں چھوٹے درجہ کی ڈاکٹری پاس کی تھی.اس نے مجھے تحریک کی کہ میں لنڈن چلا جاؤں اور وہاں اپنی تعلیم کومکمل کروں.چنانچہ میں اس کی تحریک کے مطابق لنڈن آ گیا ، یہاں آکر میں نے اپنی تعلیم کی تکمیل کی اور اس وقت میری پریکٹس بڑی اچھی ہے.میں لنڈن سے سومیل کے فاصلہ پر کام کرتا ہوں، اس لئے میں روزانہ لنڈن نہیں آسکتا.اس سے بھی پتا لگتا ہے کہ ان لوگوں میں اخلاص پایا جاتا ہے اور وہ قربانی کرنے والے ہیں.میرا تو یہ ارادہ تھا کہ کرم الہی ظفر کو روم بھجوادیا جائے.اب بچوں کی شہادت کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ کرم الہی ظفر کو سپین میں ہی رہنے دیں اور روم میں کسی اور مبلغ کو بھجوادیں.پہلے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی یہ تجویز تھی کہ میڈرڈ والے روم کی زبان کو خوب سمجھتے ہیں اگر کرم الہی ظفر مرکز پر بوجھ ہوں تو انہیں روم بھجوا دیا جائے ، یہ وہاں جا کر بھی سپین والوں کو تبلیغ کر سکیں گے.لیکن اب چونکہ پتہ لگا ہے کہ پین والے نو مسلم بڑے مخلص اور ترقی کرنے والے ہیں، اس لئے اب یہی ارادہ ہے کہ کرم الہی ظفر کو وہیں رہنے دیں اور روم میں کسی اور مبلغ کو بھجوا دیا جائے.صرف اخراجات میں تخفیف کر دی جائے.لیکن ہم پہلے بھی اپنے مبلغوں کو بہت کم خرچ دیتے ہیں.چنانچہ ملایا سے مجھے ایک غیر احمدی دوست نے ایک دفعہ خط لکھا کہ آپ اپنے مبلغوں کو اتنا خرچ تو دیں کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر کھانا کھا سکیں اور اچھا لباس پہن سکیں.بعد میں وہ مجھے کوئٹہ میں ملا تو اس نے کہا ، کیا آپ کو میرا خط مل گیا تھا؟ میں نے کہا مل گیا تھا.پھر اس نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے میرے اس خط پر عمل بھی کیا؟ میں نے کہا ہم غریب لوگ ہیں، ہم اس پر کیا عمل کریں ؟ اس نے کہا، میں نے ملایا سے خطا تو لکھا دیا تھا.لیکن میں نے نیت کر لی تھی کہ میں واپس جاؤں گا تو ذاتی طور پر بھی آپ سے ملوں گا اور زبانی عرض کروں گا کہ آپ کے مبلغ بڑی جانفشانی سے کام کر رہے ہیں.لیکن آپ انہیں کھانے 675
خطاب فرمودہ 26 اکتوبر 1957ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم پینے اور رہائش کے لئے اتنے اخراجات تو دیں، جن سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کر سکیں.میں نے دیکھا ہے کہ وہ فقیروں کی طرح رہتے ہیں، ان کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ معمولی تنوروں سے روٹی لے کر کھاتے ہیں.جن کا دیکھنے والوں پر اچھا اثر نہیں ہوتا.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کے باوجود ہمیں روم اور پین میں اخراجات پر کنٹرول کرنا پڑے گا.لیکن اگر اس سال تحریک جدید کا چندہ بڑھ جائے تو ہو سکتا ہے کہ بعد میں ہم مبلغوں کے اخراجات کو بڑھا دیں تا کہ وہ زیادہ عمدگی کے ساتھ کام کر سکیں.اب میں تقریر کوختم کرتا ہوں اور دعا کر دیتا ہوں.دعا کے بعد میں چلا جاؤں گا تا کہ دوسرا پروگرام شروع کیا جا سکے.اس کے بعد حضور نے فرمایا:.میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ دوست اپنے بچوں کا بھی چندہ لکھوایا کریں اور ساتھ ہی انہیں بتا دیا کریں کہ یہ تحریک جدید کا چندہ ہے.تا کہ انہیں ساری عمر یا در ہے اور وہ اپنی اولادوں کو بھی اس کی نصیحت کرتے رہیں.چاہے وہ چندہ دو آنے ہی کیوں نہ ہو یا ایک آنہ ہی کیوں نہ ہو؟ مگر بہر حال انہیں بتا دیا کریں کہ ہم نے تمہاری طرف سے بھی تحریک جدید کا چندہ لکھوا دیا ہے.اب تم بھی اس تحریک کے ایک مجاہد ہو.اس موقع پر ایک دوست کے سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ پانچ روپیہ چندہ کی شرط تو اس شخص کے لئے ہے، جو منفرد ہو.جس کا کوئی بچہ نہیں ، وہ اگر پانچ روپے سے کم دے تو ہم نہیں لیں گے.لیکن اگر اپنے چندہ کے ساتھ بچوں کی طرف سے بھی کچھ چندہ لکھوا دیا جائے تو چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا ہو، ہم اسے منظور کر لیں گے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 07 نومبر 1957 ء ) 676
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 10 جنوری 1958ء مجھے یقین ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آسمان سے اترے گی " خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جنوری 1958ء ہماری جماعت کی حالت کا نقشہ سورۃ انفال رکوع 2 میں کھینچا گیا ہے اور اس نقشہ کو شیخ سعدی نے ایک حکایت کے رنگ میں اپنی کتاب ” گلستان میں بیان کیا ہے.ہم بچپن میں وہ شعر پڑھا کرتے تھے تو بہت مزہ آیا کرتا تھا.یوں تو جب ہم بڑے ہوئے تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ہمیں مثنوی مولا نا روم بھی پڑھائی تھی.مگر وہ زمانہ جب ہمیں مثنوی مولانا روم پڑھائی گئی ، 11 ء یا 12 ء کا زمانہ تھا.اور گلستان اور بوستان اس سے پہلے زمانہ میں ہمیں شروع کرائی گئی تھیں.شیخ سعدی نے گلستان میں ایک کہانی لکھی ہے کہ ایک بادشاہ تھا، جس کے کئی بیٹے تھے.اس کے اور تو سب بیٹے نہایت خوبصورت تھے اور بادشاہ ان سے بہت محبت کیا کرتا تھا لیکن ایک لڑکا بہت چھوٹے قد کا تھا اور اس کی شکل بھی نہایت مکروہ تھی، اس سے وہ سخت نفرت کیا کرتا تھا.ایک دفعہ ایک بادشاہ جو اس سے دشمنی رکھتا تھا اور جس کی طاقت بہت زیادہ تھی، اس پر حملہ آور ہوا.جب اس کی فوج نے اس بادشاہ کے دائیں اور بائیں بڑے زور سے حملہ کیا تو اس کی ساری فوج بھاگ گئی اور میدان جنگ میں صرف چند آدمی بادشاہ کے ساتھ رہ گئے.جب بادشاہ نے دیکھا کہ اب دشمن مجھے بھی حملہ کر کے قید کر لے گا تو یکدم صفوں کو چیرتا ہوا ایک سوار نکلا ، جس نے اپنے ہاتھ میں نیزہ پکڑا ہوا تھا.وہ پوری ہمت کے ساتھ اپنے دائیں اور بائیں نیزہ چلاتا ہوا آ رہا تھا.جس کی وجہ سے دشمن کی فوج تتر بتر ہوگئی.پھر اس نے بادشاہ کی بچی کچھی فوج کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن فوج بھاگ گئی.وہ شخص حملہ کرتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا، آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من اں منم کاندرمیان خاک و خوں بینی سرے یعنی میں وہ نہیں ہوں کہ جنگ کے دن تو میری پیٹھ دیکھے.بلکہ جنگ کے دن تو صرف میرا منہ دیکھے گا، میری پیٹھ نہیں دیکھے گا.اور اگر کوئی شخص مجھ سے میرا حال پوچھنا چاہے تو میں اسے یہ بتا تا ہوں کہ سب میں لڑائی میں آؤں گا تو وہ میرے سر کو خاک اور خون میں لتھڑا ہوا پائے گا.یعنی میں قتل ہو جاؤں گا، لیکن 677
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 10 جنوری 1958ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم بھاگوں گا نہیں.جب فتح ہوئی تو بادشاہ نے پہچان لیا کہ وہ اس کا وہی بیٹا ہے، جس سے وہ نفرت کیا کرتا تھا.بادشاہ نے اسے بلایا ، اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا میں نے تم پر بڑا ظلم کیا ہے اور تمہاری بڑی بے قدری کی ہے.جن کی میں قدر کیا کرتا تھا اور جن سے محبت کیا کرتا تھا وہ تو پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے.لیکن تم میدان میں رہے اور میری جان کی حفاظت کرنے کے لئے آگے آئے.اس پر اس لڑکے نے کہا، اے باپ! هر چه بقامت کہتر بقیمت بہتر جو شخص قد و قامت اور صورت کے لحاظ سے ذلیل نظر آتا تھا ، وہ قیمت کے لحاظ سے بہت بہتر تھا.یعنی آپ تو مجھے چھوٹے قد کا آدمی سمجھ کر نفرت سے دیکھا کرتے تھے.لیکن آپ کو معلوم ہو گیا کہ جو قدو قامت اور صورت میں ذلیل نظر آتا تھا، قیمت کے لحاظ سے وہی بہتر تھا.یہ تو ایک آدمی کا قصہ ہے.لیکن ہماری جماعت بھی گو تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑی ہے اور بقامت کہتر کی مصداق ہے، لیکن بقیمت بہتر ہے.امریکہ یورپ اور باقی ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈ اوہی گاڑ رہی ہے.اور باقی مسلمان ، جن کو علماء نے اپنے سروں پر اٹھا رکھا ہے، انہوں نے بیرونی ممالک میں کسی مسجد کی ایک اینٹ بھی نہیں لگوائی.اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یورپ میں ہماری تین مسجدیں بن چکی ہیں.اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہمارا منشا ہے کہ تھوڑے عرصہ میں ہی ایک اور مسجد بھی بنادی جائے.ایک مسجد امریکہ میں بنانے کا میں نے آرڈر دے دیا ہے.ایک مسجد لنڈن میں بنی ہے، ایک مسجد ہیگ میں بنی ہے، ایک مسجد ہمبرگ (جرمنی) میں بنی ہے، ایک فرینک فورٹ (جرمنی) میں بن رہی ہے.جب یہ مسجد بن گئی تو انشاء اللہ ایک مسجد ہنوور ( جرمنی ) میں بنائی جائے گی.پھر ایک زیورچ میں بنے گی ، پھر ایک روم میں بنے گی ، پھر ایک نیپلز میں بنے گی، پھر ایک جنیوا میں بنے گی اور پھر ایک وینس میں بنے گی اور اس طرح یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جائے گا.بہر حال ہماری جماعت اس وقت بقامت کہتر اور بقیمت بہتر کی مصداق ہے، جو ہر جگہ مسجد میں بنارہی ہے.مسلمان ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم ان کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.مولوی ظفر علی خان صاحب اب تو فوت ہو گئے ہیں اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے، جب وہ زندہ تھے تو بڑی حقارت سے لکھا کرتے تھے کہ یہ لوگ مسلمانوں میں سو میں سے ایک بھی نہیں.وو...ہالینڈ میں، میں نے دریافت کیا تھا، وہاں تین ہزار روپیہ فی ایکٹر آمد ہوتی ہے.اگر تین ہزار فی ایکٹر آمد ہو تو دس ایکڑ سے تمہیں ہزار آمد ہوسکتی ہے.اگر سو مربع ہمیں اس سکیم میں مل جائے تو 75 678
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 10 جنوری 1958ء لاکھ سالانہ آمد ہو جاتی ہے اور اس سے ہم سارے مشنوں کا خرچ چلا سکتے ہیں.طریق ہم بتائیں گے، کام کرنا ہمارے مبلغوں کا کام ہے.اگر ان کو خدا تعالیٰ اسلام کی خدمت کا جوش دے اور وہ شیخ سعدی کے بیان کردہ واقعہ کو یادرکھیں تو یہ سکیم بہت اچھی طرح چلائی جاسکتی ہے.کیونکہ جن لوگوں میں کام کرنے کی روح پائی جاتی ہو، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم حقیر اور ذلیل ہیں.وہ صرف یہ بات جانتے ہیں کہ آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من آں منم کا ندرمیان خاک و خوں بینی سرے میں وہ نہیں ہوں کہ جس کی پیٹھ تو جنگ میں دیکھے.بلکہ تو میرے سر کو میدان جنگ میں خاک و خون سے لتھڑا ہوا پائے گا.ہماری جنگ تلوار کی جنگ نہیں بلکہ دلائل کی جنگ ہے.اور دلائل کی جنگ میں جس شخص میں کام کرنے کی روح پائی جاتی ہو ، وہ یہی کہتا ہے کہ میں وہ نہیں ، جو دلائل کے میدان میں اپنی پیٹھ دکھاؤں بلکہ اگر مقابلہ کی صورت پیدا ہوئی تو میں سب سے آگے ہوں گا اور جب تک میری جان نہ چلی جائے ، میں قربانی کا عہد نہیں چھوڑوں گا“.22 جب میں نے تحریک جدید کا اعلان کیا تو جماعت کے لوگوں نے مجھے لکھا تھا کہ ہم نے تو آپ کی تحریک کا یہ مطلب سمجھا تھا کہ سات ہزار روپیہ جمع کرنا ہے ،مگر اب وہ کام لاکھوں تک پہنچ گیا ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دوست نے مجھے لکھا کہ میں نے آپ کی تحریک پر بہت سا چندہ لکھوا دیا تھا اور یہ سمجھا تھا کہ آپ نے صرف ایک ہی دفعہ چندہ مانگا ہے.لیکن اب میں اپنا چندہ کم نہیں کروں گا بلکہ اپنے وعدہ کے مطابق دینے کی کوشش کروں گا.اس کے علاوہ اور بھی کئی لوگ تھے ، جنہوں نے اس وقت سوسو، دود دوسو روپیہ چندہ لکھوا دیا تھا.مگر بعد میں انہوں نے اس چندہ کو کم نہ کیا اور بڑھتے بڑھتے وہ سولہ سو، دو ہزار یا اڑھائی ہزار چندہ دینے لگ گئے.وو پس ہمت کر کے آگے بڑھو اور وہی نمونہ دکھلاؤ کہ آں نہ من باشم که روز جنگ بینی پشت من اں منم کاندرمیان خاک و خوں بینی سرے دشمن تمہارے مقابلہ میں کھڑا ہے اور یہ جنگ روحانی ہے، جسمانی نہیں.اس جنگ میں دلائل اور دعاؤں سے کام لینا، اصل کام ہے.صحابہ " کو دیکھ لو، وہ تلواروں سے لڑتے تھے اور میدان جنگ میں ان کی گردنیں کٹتی تھیں مگر وہ اس سے ذرا بھی نہیں گھبراتے تھے.679
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 جنوری 1958ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جنگ احد کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے متعلق ہدایت فرمائی کہ اسے تلاش کرو، وہ کہاں ہے؟ صحابہ نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی لاش دوسری لاشوں کے نیچے دبی پڑی ہوئی ہے، اس لئے وہ کہیں ملی نہیں.آپ نے فرمایا جاؤ اور پھر تلاش کرو.چنانچہ بہت تلاش کے بعد وہ صحابی ملے، وہ نظمی تھے اور پیٹ پھٹا ہوا تھا.تلاش کرنے والے صحابی نے کہا، اپنے رشتہ داروں کو کوئی پیغام پہنچانا ہے تو دے دو، ہم پہنچادیں گے.وہ کہنے لگے اور تو کوئی پیغام نہیں، میرے عزیزوں تک صرف اتنا پیغام پہنچا دینا کہ جب تک ہم زندہ رہے، ہم نے اپنی جانیں قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی.اب یہ فرض تم پر ہے اور میری آخری خواہش یہ ہے کہ میرے خاندان کے سارے افرا در سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے، اپنی جانیں قربان کر دیں.اگر تم ایسا کرو تو میری یہ موت خوشی کی موت ہوگی.تو دیکھو، صحابہ نے تو عملی طور پر قربانیاں کی تھیں.اور تمہاری مثال ایسی ہی ہے، جیسے کہتے ہیں، تھوک میں بڑے پکائے.دلیلیں دینا کون سی بڑی بات ہے؟ دلیلیں دے کر گھر آگئے.لیکن وہاں یہ ہوتا تھا کہ صحابہ میدان جنگ میں جاتے تھے اور پھر بسا اوقات انہیں اپنی بیوی بچوں کی شکل دیکھنی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی.ایک عورت کے متعلق تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لئے تشریف لے گئے تو اس کے خاوند کو آپ نے کسی کام کے لئے باہر بھیجا ہوا تھا.جب وہ صحابی مدینہ واپس آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی طرف تشریف لے جاچکے تھے اور اس صحابی کو اس کا علم نہیں تھا.وہ صحابی سیدھے گھر آئے.اپنی بیوی سے انہیں محبت تھی.وہ گھر میں گھسے اور بیوی انہیں نظر آئی تو انہوں نے آگے بڑھ کر اپنے جسم سے چمٹا لیا.لیکن اس زمانہ کی عورتیں بھی اس زمانہ کے مردوں سے زیادہ مخلص ہوتی تھیں.اس عورت نے خاوند کو دھکا دیا اور کہنے لگی، تجھے شرم نہیں آتی کہ خدا تعالیٰ کا رسول تو جان دینے کے لئے رومیوں کے مقابلہ کے لئے گیا ہوا ہے اور تجھے اپنی بیوی سے پیار کرنا سوجھتا ہے.اس بات کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ اسی وقت اس نے اپنا گھوڑا پکڑا اور سوار ہو کر تبوک کی طرف چلا گیا.اور کئی منزلوں پر جا کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل گیا.تو اس قسم کی ہمت، اگر تم بھی اپنے اندر پیدا کر لو تو دین کی اشاعت کوئی مشکل امر نہیں.چند دنوں کی بات ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت اترنے والی ہے.اب یہ ناممکن بات ہے کہ زیادہ عرصہ تک آسمان اپنی مددکورو کے رکھے.کوئی 26, 25 سال تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دشمنوں کی گالیاں سنیں، ان سے پتھر کھائے، اینٹیں کھائیں ، ماریں کھائیں لیکن تبلیغ جاری رکھی.اس کے بعد قریباً پچاس 680
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 جنوری 1958ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم سال تک یہ کام ہم نے کیا.یہ سارا زمانہ مل کر 75 سال کا ہو جاتا ہے.آخر اللہ تعالیٰ ایسا تو نہیں کہ 75 سال تک ایک قوم کو گالیاں دلوائے ، مارے کھلائے ، پتھر مروائے اور پھر چپ کر کے بیٹھا ر ہے.اب میں سمجھتا ہوں بلکہ مجھے یقین ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آسمان سے اترے گی اور گو ساری دنیا میں احمدیت پھیل جانے میں ابھی دو سو سال باقی ہیں لیکن ساری دنیا میں پھیلنے کے تو یہ معنی ہیں کہ امریکہ میں بھی پھیل جائے ، انڈونیشیا میں بھی پھیل جائے، کینیڈا میں بھی پھیل جائے ، چین میں بھی پھیل جائے ، اٹلی میں بھی پھیل جائے ، جرمنی اور فرانس میں بھی پھیل جائے ، ایسا بھی ایک دن ضرور ہوگا لیکن ابھی ہمیں صرف اپنے ملک میں پھیلنے کی ضرورت ہے اور اتنی ترقی میں سمجھتا ہوں کہ 80 سال کے اندر اندر ہو جانی چاہیے اور اس میں اب صرف چند سال باقی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1882ء میں دعوی کیا اور 1908ء میں آپ فوت ہوئے.یہ 26 سال کا عرصہ ہو گیا.26 سال کے بعد پھر پچاس سال اب تک کے ملائے جائیں تو 76 سال بن جاتے ہیں.اور اگر ہم یہ عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش سے لیں.تو 1835ء میں آپ پیدا ہوئے اور 1935ء میں آپ پر سو سال ہو گئے.ہمارا فرض تھا کہ 1935 ء میں ہم ایک بہت بڑی جوبلی مناتے لیکن ہماری جماعت نے 1939ء میں خلافت جوبلی منائی لیکن 1935 ء ) میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صد سالہ جو بلی بھول گئی.اب بھی وقت ہے کہ جماعت اس طرف توجہ کرے.100 سال کی جو بلی ، بڑی جو بلی ہوتی ہے.جب جماعت کو وہ دن دیکھنے کا موقع ملے تو اس کا فرض ہے کہ وہ یہ جوبلی منائے.اب تک انہوں نے 76 سال کا عرصہ دیکھا ہے تو اور 24 سال کے بعد سو سال کا زمانہ پورا ہو جائے گا.اس وقت جماعت کا فرض ہوگا کہ ایک عظیم الشان جوبلی منائے.اس سو سال کے عرصہ میں سارے پاکستان کو خواہ وہ مغربی ہو یا مشرقی ، ہم نے احمدی بنانا ہے.اس کے بعد جو لوگ زندہ رہیں گے، وہ انشاء اللہ وہ دن بھی دیکھ لیں گے، جب ساری دنیا میں احمدی ہی احمدی ہوں گے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ لوگ ، جو اس جماعت سے باہر ہیں، وہ رفتہ رفتہ اس قدر کم ہو جائیں گے کہ ان کی حیثیت بالکل ادنی اقوام کی سی ہو جائے گی.پس ہمت سے آگے بڑھو، زیادہ سے زیادہ چندے لکھواؤ“.(مطبوعه روز نامه الفضل 16 جنوری 1958ء) 681
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 جولائی 1958ء جب انسان دین کی تائید کے لئے کھڑا ہو تو خدا خود اس کی مدد فرماتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 1958ء ہماری جماعت کے نوجوانوں کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں بار ہا تحریر فرمایا ہے کہ مجھے خدا نے عیسائیت کے استیصال کے لئے مبعوث فرمایا ہے.اور یہ کام صرف آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص نہیں تھا.بلکہ آپ کے سپر د اس عظیم الشان کام کے کرنے کے یہ معنی تھے کہ آپ کے بعد آپ کی جماعت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اس کام کو سنبھالے اور عیسائیت کو مٹانے کی کوشش کرے.چنانچہ آپ لوگوں میں سے ہی کچھ نو جوان افریقہ گئے اور وہاں انہوں نے عیسائیت کے خلاف ایسی جدوجہد کی کہ یا تو ایک زمانہ ایسا تھا، جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ سارا افریقہ عیسائی ہو جائے گا اور یا آج ہی ایک اخبار میں ، میں نے ایک انگریز خاتون کا مضمون پڑھا، جس میں اس نے لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام افریقہ میں بڑی سرعت سے پھیل رہا ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت، جو پہلے پہل تانگانیکا میں پھیلنی شروع ہوئی تھی ، اب مشرقی افریقہ کے اکثر علاقوں میں پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہے.(سنڈے ٹائمنر لنڈن 25 مئی 1958 ء) اسلام کی یہ تبلیغ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغوں کی وجہ سے ہی ہو رہی ہے.1927ء میں ہم نے وہاں مشن قائم کئے تھے.جن پر اب اکتیس سال کا عرصہ گزررہا ہے.اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کی کوششوں میں ایسی برکت ڈالی کہ اب خود اس انگریز نے تسلیم کیا ہے کہ چار سال کے عرصہ سے پہلے سے دس گنا لوگ مسلمان ہو چکے ہیں.اگر ہمارے نوجوان یورپ اور افریقہ کے عیسائیوں میں تہلکہ مچاسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر یہاں کوشش کی جائے تو اس جگہ کے عیسائی بھی اسلام کے مقابلہ سے مایوس نہ ہو جائیں.لارڈ ہیڈ نے ، جو کسی زمانہ میں پنجاب کے گورنر بھی رہ چکے ہیں، جب واپس گئے تو افریقہ میں سے ہوتے ہوئے لندن گئے ، وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک تقریر کی ، جس میں کہا کہ میں افریقہ میں اتنا بڑا تغیر دیکھ کر آیا ہوں کہ اب میں نہیں کہہ سکتا کہ مسلمان عیسائیت کا شکار ہیں یا عیسائی اسلام کا شکار ہیں.683
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جولائی 1958ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم ہمارے وہ مبلغ، جنہوں نے ان علاقوں میں کام کیا، کوئی بڑے تعلیم یافتہ نہیں تھے.مگر جب وہ خدا تعالیٰ کا نام پھیلانے کے لئے نکل گئے تو خدا نے ان کے کام میں برکت ڈالی.اور اکیلے اکیلے آدمی نے بڑے بڑے علاقوں پر اثر پیدا کر لیا اور انہیں اسلام کی خوبیوں کا قائل کر لیا.مگر اب وہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ اور آدمی بھی آئیں ، جو ان علاقوں میں تبلیغ اسلام کا کام سنبھالیں.تا کہ اسلام سارے افریقہ میں پھیل جائے.اور یہ کام ان نوجوانوں کا ہے، جو ابھی وہاں نہیں گئے.شروع شروع میں تو ایسے نو جوان بھجوائے گئے تھے، جنہیں عربی بھی اچھی طرح نہیں آتی تھی.مگر رفتہ رفتہ انہوں نے اچھی خاصی عربی سیکھ لی.مولوی نذیر احمد صاحب، جنہوں نے وہیں وفات پائی ہے، نیر صاحب کے بعد بھجوائے گئے تھے اور بی ایس سی فیل تھے اور عربی بہت کم جانتے تھے.مگر پھر انہیں ایسی مشق ہو گئی کہ وہ عربی زبان میں گفتگو بھی کر لیتے تھے اور بڑی بڑی کتابوں کا بھی مطالعہ کر لیتے تھے.بلکہ آخر میں تو انہوں نے عربی کی اتنی کتا ہیں جمع کر لی تھیں کہ جو اعتراض ہوتا، اس کا جواب وہ فوراً ان کتابوں میں سے نکال کر پیش کر دیتے.وہاں مالکیوں کا زور ہے اور وہ لوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں.انہوں نے کتابوں میں سے نکال کر دکھا دیا کہ امام مالک بھی یہی کہتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنے چاہئیں.جس پر وہ لوگ بڑے حیران ہوئے اور انہیں یہ بات تسلیم کرنی پڑی کہ آپ کی بات درست ہے.اب بھی وہاں سے خط آیا ہے کہ ہمارا ایک مبلغ ، جو مولوی فاضل ہے، اس سے وہاں کے مولویوں نے بحث کی.وہاں کے علماء عربی زبان خوب جانتے ہیں اور ہمارا یہ مبلغ زیادہ عربی نہیں جانتا تھا.مگر چونکہ دل میں ایمان تھا، اس لئے مقابلہ کے لئے تیار ہو گیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ عربی میں مباحثہ ہو.چنانچہ عربی زبان میں مباحثہ ہو اور نتیجہ یہ ہوا کہ مخالف مولوی سب بھاگ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم احمدیوں سے بحث نہیں کر سکتے.یہ لوگ تو پاگل ہیں، جنہیں ہر وقت مذہبی باتیں کرنے کا ہی جنون رہتا ہے.تو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمیں کچھ آتا نہیں.جب انسان خدا تعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ خود اس کی مددفرماتا ہے اور اس کی مشکلات کو دور فرما دیتا ہے.خواجہ کمال الدین صاحب کو ہی دیکھ لو، انہیں نماز پڑھانی بھی نہیں آتی تھی.مگر رفتہ رفتہ انہوں نے ایسی قابلیت پیدا کر لی کہ مشہور لیکچرار بن گئے.مولوی محمد علی صاحب بھی گوایم اے ایل ایل بی تھے اور کالج کے پروفیسر تھے ،مگر عربی سے انہیں زیادہ میں نہیں تھا.لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے ایسی ترقی کی کہ قرآن 684
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم جدید -.اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 11 جولائی 1958ء کی تفسیر لکھ ڈالی.تو جب انسان کو کسی کام کی دھت لگ جائے ، وہ اس میں ترقی حاصل کر لیتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے بعض مولوی بھی اپنی مدد کے لئے رکھے ہوئے تھے.مگر ان کی باتوں کو استعمال کرنے کے لئے بھی تو لیاقت کی ضرورت ہوتی ہے.ورنہ ہمارے ملک میں سینکڑوں مولوی پھرتے ہیں، وہ کیوں کوئی تفسیر نہیں لکھ سکتے ؟ ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی نے بھی اسی شوق کی وجہ سے ترقی کی اور اس نے قرآن کی تفسیر لکھ دی.اس نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے قرآن سیکھا اور آپ کے درسوں میں شامل ہوتا رہا.پھر خود بھی کتابوں کو مطالعہ کرتا رہا اور آخر اتنی ترقی کر لی کہ مفسر بن گیا.پس جماعت کے سب دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی کوشش اور جد و جہد اور نیک نمونہ کے ذریعہ سے عیسائیت کو شکست دینے کی کوشش کریں.یہ مت سمجھو کہ عیسائیت تو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے، ہم اس کو شکست دینے میں کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں؟ آج ہی میں قرآن پڑھ رہاتھا کہ مجھے اس میں یہ پیشگوئی نظر آئی کہ عیسائیت آخر شکست کھائے گی اور وہ دنیا سے مٹا دی جائے گی.پس عیسائیت کی ظاہری ترقی کو دیکھ کر مت گھبراؤ.اللہ تعالی اسلام کی ترقی کے سامان پیدا فرمائے گا اور کفر کو شکست دے گا.ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے اندر ایمان پیدا کرو اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ، جس کے لئے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے.مطبوعه روزنامه الفضل 25 جولائی 1958 ء ) 685
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلدسوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اگست 1958ء اسلام کی تبلیغ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ ساری جماعت کا فرض ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اگست 1958ء " قرآن کریم میں بعض ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں کہ اگر ان کی صحیح تو جیبہ مد نظر نہ رکھی جائے تو دشمنوں کے لئے اعتراض کا موقع پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً یہی آیت، جس کی میں نے تلاوت کی ہے.اس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم سب مشرکوں سے قتال کرو.جیسا کہ وہ سب کے سب تم سے قتال کر رہے ہیں.اب اس جگہ قبال کے یہ معنی نہیں لئے جاسکتے کہ تلوار لے کر دشمنوں کا مقابلہ کرو.کیونکہ اول تو آج کل تلوار کی جنگ کا زمانہ ہی نہیں ، اب تو ہوائی جہازوں اور ایٹم بموں کا زمانہ ہے.اور پھر آج کل کفار مسلمانوں سے تلوار کی کوئی لڑائی نہیں لڑرہے کہ مسلمانوں کے لئے بھی ان سے جنگ کرنا ضروری ہو.پس اس جگہ قتال کے معنی ظاہری جنگ کے نہیں بلکہ مذہبی مقابلہ اور اسلام کی اشاعت کے ہیں.اور یہ بات ظاہر ہے کہ مخالفین اسلام ہمیشہ مذہبی وسو سے پیدا کر کے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.پس قَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً کے معنی یہ ہوئے کہ تم غیر مسلموں میں تبلیغ اسلام کرو.اور یا درکھو کہ یہ تم میں سے صرف چند افراد کا فرض نہیں بلکہ ساری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس کام میں حصہ لے.کافہ کے یہی معنی ہیں کہ کوئی شخص بھی اس حکم کی تعمیل سے باہر نہ رہے.اگر دس لاکھ احمدی ہیں اور ان میں سے 9لاکھ، ننانوے ہزار نو سو ننانوے آدمی اس فرض کو ادا کرتے ہیں اور صرف ایک شخص تبلیغ نہیں کرتا ، تب بھی جماعت کے لوگ بہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سارے کے سارے تبلیغ اسلام کر رہے ہیں.وہ اسی وقت اپنے فرض سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں، جب وہ اس ایک شخص کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں.کیونکہ قرآن کریم کی ہدایت یہ ہے کہ مشرکوں کے مقابلہ میں ساری کی ساری جماعت کو کھڑا ہونا چاہئے اور ہر فرد کوان میں تبلیغ کرنی چاہئے.میں نے آج سے 25 سال پہلے ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ساری جماعت سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو تبلیغ کریں گے اور ان کو احمدی بنانے کی کوشش کریں گے.مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت نے ابھی تک اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی.وہ لوگ ، جنہوں نے 687
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اگست 1958ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اس پر عمل کیا تھا، انہوں نے تو فائدہ اٹھا لیا اور وہ کامیاب ہو گئے.مگر جنہوں نے عمل نہ کیا، ان کے رشتہ دار اب تک غیر احمدی چلے آرہے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب ہماری جماعت اس وقت سے بہت بڑھ چکی ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر میری اس ہدایت پر عمل کیا جاتا اور ہر احمدی اپنے غیر احمدی رشتہ داروں میں تبلیغ پر زور دیتا تو اب تک ہر طرف احمدی ہی احمدی نظر آتے.مثلاً انڈونیشیا ہے، وہاں 33 سال سے تبلیغ ہورہی ہے.1925 ء سے وہاں تبلیغ شروع ہوئی تھی اور اب 1958ء ہے.گویا 33 سال وہاں تبلیغی مشن کے قائم ہونے پر گزر چکے ہیں.لیکن وہاں کے احمدیوں کی تعداد کے متعلق میں نے اپنے لڑکے مرزا رفیع احمد سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ انڈونیشیا میں چندہ دینے والے تو صرف بارہ ہزار ہیں لیکن اگر ان لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے، جو ہماری جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں تو 24 ہزار سمجھے جاسکتے ہیں.حالانکہ اس ملک کی آبائی آٹھ کروڑ ہے اور 33 سال سے وہاں تبلیغ ہورہی ہے.اگر صحیح معنوں میں وہاں تبلیغ کی جاتی تو میں سمجھتا ہوں کہ وہاں چھ سات کروڑ احمدی ہونے چاہئے تھے.مگر اب تک وہاں صرف بارہ ہزار احمدی ہوئے ہیں.پھر وہاں کی جماعت نے قطع نظر اس کے کہ میں بیمار ہوں اور میرے لئے لمبا سفر کرنا مشکل ہے، یہ ریزولیوشن پاس کر کے مجھے بھجوا دیا کہ آپ انڈو نیشیا تشریف لائیں.حالانکہ میری یہ حالت ہے کہ باوجود اس کے کہ ڈاکٹر مجھے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ پھر علاج کے لئے یورپ جائیں، میں یورپ کا سفر بھی اختیار نہیں کرتا.پھر میں انڈونیشیا کس طرح جا سکتا ہوں؟ لیکن بعض دفعہ انسان موت کے منہ میں بھی اپنے آپ کو ڈالنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے، بشرطیکہ وہ خوش ہو.مگر میں ایسی جماعت سے کیا خوش ہو سکتا ہوں، جس نے 33 سال کے عرصہ میں صرف بارہ ہزار احمدی بنائے“.بہر حال قرآن کریم نے تبلیغ کرنا، ہر شخص کا فرض قرار دیا ہے.اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ دو طرح ہوتی ہے.ایک تو اس طرح کہ بعض خاص خاص لوگ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کر دیتے ہیں، جن کے لئے قرآن کریم میں عاکفین اور مہاجرین کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور ایک تبلیغ اس رنگ میں ہوتی ہے کہ ساری جماعت، جب بھی اسے موقع ملے تبلیغ میں حصہ لینے کے لئے تیار رہتی ہے.گویا ایک خاص لوگوں کی جماعت ہوتی ہے اور ایک عام لوگوں کی جماعت ہوتی ہے.عام جماعت کے افراد کو بھی قرآن کریم کہتا ہے کہ تم صرف واقفین پر انحصار نہ رکھو بلکہ ساری جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کرے اور بغیر استثناء کے ان کا ہر فرد اس میں حصہ لے.اگر ہماری جماعت کے افراد صرف اپنے رشتہ داروں کو ہی تبلیغ کریں اور ایک، ایک شخص کے ہیں، ہمیں رشتہ دار بھی سمجھے جائیں ، تب بھی 688
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اگست 1958ء تھوڑے عرصہ میں ہی ہماری جماعت کی تعداد دو کروڑ تک پہنچ سکتی ہے.بے شک لوگ تمہیں غیروں کو تبلیغ کرنے سے روک سکتے ہیں.لیکن کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اپنی بیوی کو یا اپنے خسر کو یا اپنے سالے کو تبلیغ نہ کر و؟ اگر تم کسی غیر کوتبلیغ کرو تو ممکن ہے کہ وہ تمہیں مارنے پیٹنے لگ جائے لیکن تمہارا اپنا باپ تمہیں نہیں مارے گا، تمہارا بیٹا تمہیں نہیں مارے گا، تمہارا خسر تمہیں نہیں مارے گا اور تم میں سے ایک، ایک شخص شخص کے پچاس پچاس رشتہ دار ہوں اور ہماری جماعت دس لاکھ ہو تو پھر تو تھوڑے عرصہ کی جدو جہد کے نتیجہ میں ہی ہماری جماعت کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ کروڑ تک پہنچ سکتی ہے.اور اگر ہم پانچ کروڑ ہو جائیں تو پھر مخالفت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.لوگ خود بخود ہماری طاقت کو تسلیم کرنے لگ جائیں گے.اور پھر دوسرے ملکوں پر اثر ڈال کر پانچ کروڑ سے دس کروڑ تک تعداد پہنچ سکتی ہے.اور ملایا اور انڈونیشیا وغیرہ پر اثر ڈال کر تو یہ تعداد اور بھی بڑھ سکتی ہے.اب بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری جماعت کی ترقی کے سامان پیدا کر رہا ہے.چنانچہ فلپائن میں، ڈچ گیانا میں، فرنچ گیا نا میں اور برٹش گیا تا میں ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے سرعت سے پھیل رہی ہے اور وہاں ہماری تبلیغ پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا.یہ مخالفت کا جوش صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے ، ورنہ امریکہ میں یا انگلینڈ میں یا جرمنی میں یا سوئٹزرلینڈ میں یا فرانس میں یا سپین میں یا ٹرینی ڈاڈ میں یا ڈچ گیانا میں یا برٹش گیانا میں یا فرنچ گیا نا میں جب ہم غیر مسلموں کو تبلیغ کرتے ہیں تو وہاں کے مسلمان اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم ان کے ملک میں اسلام پھیلا رہے ہیں.بلکہ انڈونیشیا کے لوگوں کی تو یہ حالت ہے کہ 53ء میں جب ہماری جماعت کے خلاف یہاں فسادات ہوئے تو انڈونیشیا نے اس کے خلاف حکومت پاکستان کے پاس احتجاج کیا.جس کے متعلق انکوائری کمیشن کے موقع پر مولویوں نے کہا کہ اصل میں وہ ایک احمدی ایمبیسیڈرتھا ، جس نے حکومت پاکستان کے پاس پروٹسٹ کیا تھا.لیکن خواجہ ناظم الدین صاحب نے اپنی گواہی کو تسلیم کیا کہ وہاں کی ایک مشہور سیاسی پارٹی کے لیڈر نے اس بارہ میں ہمارے پاس احتجاج کیا تھا.اور گو وہ متعصب آدمی ہے لیکن جب وہاں ان فسادات کی خبریں پہنچیں تو اس نے حکومت پاکستان کو لکھا کہ مذہب کے معاملہ میں لوگوں کو جبر سے کام نہیں لینا چاہئے.اسی طرح ہماری جماعت کے دوست اس سے ملنے گئے تو وہ کہنے لگا کہ میرے پاس تو آپ کی جماعت کا سارا لٹریچر موجود ہے.ڈاکٹر سکار نو نے بھی احمدیوں کی تعریف کی اور جب مولویوں نے اس پر اعتراض کیا تو اس نے کہا کہ میں تو سمجھتا ہوں کہ میں کسی اسلامی حکومت کا پریذیڈنٹ رہنے کے قابل ہی نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ میں جماعت احمدیہ کا لٹریچر نہ پڑھ لوں.کیونکہ اسلام کی خوبیاں مجھے صرف اس جماعت کے 689
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اگست 1958ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم لٹریچر سے معلوم ہوتی ہیں.اسی طرح جب اسے قرآن دیا گیا تو اس نے شکریہ کے ساتھ لیا اور کہا کہ اس کو کے ساتھ انڈیکس بھی ہونا چاہئے تا کہ اس کے مضامین کی تلاش میں آسانی ہو.غرض ہماری جماعت کے افراد کو اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی تبلیغ پر زور دینا چاہئے.اس وقت ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے دس لاکھ سے بہت اوپر نکل چکی ہے.لیکن اگر دس لاکھ بھی ہو، تب بھی اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کر کے تھوڑے عرصہ میں ہی ہماری تعداد کہیں سے کہیں پہنچ سکتی ہے.وو...پس ہماری جماعت کو تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ئیں کرنی چاہئیں کہ وہ ان کی زبانوں میں اثر پیدا کرے.اسی طرح مبلغوں کے لئے بھی دعائیں کرو.کیونکہ وہ ساری جماعت کا کام کر رہے ہیں اور ان کے کارناموں کو ہماری جماعت کا ہر فرد اپنی طرف منسوب کرتا ہے.وہ بسا اوقات غیروں کے سامنے بڑے فخر کے ساتھ کہتا ہے کہ ہم غیر ممالک میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں، ہم غیر ممالک میں مساجد بنا رہے ہیں.لیکن اس کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ وہ چندوں میں بھی پورا حصہ نہیں لے رہا ہوتا.یا اگر چندہ دیتا ہے تو اپنے آپ کو اسلام کی تبلیغ کے لئے وقف نہیں کرتا.حالانکہ ہمارے باہر کے مبلغ اب شور مچارہے ہیں کہ ان کی مدد کے لئے اور آدمی بھجوائے جائیں.اس وقت سب سے زیادہ ترقی کے آثار جرمنی میں نظر آ رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر پندرہ ، میں اور مبلغ یورپ میں چلے جائیں اور دس پندرہ مسجدیں بن جائیں تو بڑی تعداد میں وہاں کے لوگ احمدی ہو سکتے ہیں.انگلینڈ کے لوگ تو اب عیاش ہو گئے ہیں لیکن جرمن سائنس کی تحقیقات پر جان دیتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ احمدیت بڑا اچھا کام کر رہی ہے.جب ہیمبرگ میں ہماری مسجد بنی اور اخبارات میں اس کی خبریں شائع ہوئیں تو عراق میں ایک جرمن انجینئر تھا، اس نے ہمیں خط لکھا کہ ہیمبرگ میں مسجد کی تعمیر اور اس کے افتتاح کی خبریں تو ہم نے سن لی ہیں مگر آپ نے اپنے مبلغ کا پتہ نہیں لکھا.آپ مجھے اس کا پتہ بھجوائیں کیونکہ میں اسے چندہ بھجوانا چاہتا ہوں.اب یہاں تو یہ کیفیت ہے کہ بعض دفعہ پیچھے پڑ کر بھی لوگوں سے چندہ مانگا جائے تو وہ نہیں دیتے.اور اس کی یہ حالت ہے کہ وہ عراق سے خط لکھتا ہے کہ مجھے اپنے مبلغ کا پتہ بھجوائیں، میں اسے چندہ بھجوانا چاہتا ہوں.تو ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اسلامی ترقی کے لئے اپنا پورا زور لگا دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا (312) (تذکرۃ صفحہ 312) 690
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 اگست 1958ء چنانچہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچ چکی ہے.مگر ہمیں صرف اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ چکی ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری جماعت کو اس قدر ترقی عطا فرمائے گا کہ دوسرے مذاہب کے پیرو اس جماعت کے مقابلہ میں ایسے ہی بے حیثیت ہو کر رہ جائیں گے، جیسے آج کل کی ادنی اقوام بے حیثیت ہیں.پس ہماری خواہش یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ زمانہ بھی دکھا دے، جب ہماری جماعت ساری دنیا پر غالب آ جائے.بلکہ اس سے بڑھ کر ہماری یہ دعا ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو غلبہ بھی عطا فرمائے اور دوستوں کو اپنے ایمانوں پر بھی قائم رکھے“.مطبوعه روزنامه الفضل (27 اگست 1958 ء ) 691
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 01 نومبر 1958ء تحریک جدید غیر ملکوں میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے ہے خطاب فرمودہ 01 نومبر 1958ء...دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اب تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کا وقت آ گیا ہے.ہمارے ذمہ بہت بڑا کام ہے اور ہم نے تمام غیر ممالک میں مساجد بنانی ہیں.اس وقت ہمارے ملک کی ایکسچینج کی حالت پوری طرح مضبوط نہیں.مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ فضل کرتا رہا ہے اور ہمارے کام چلتے رہے ہیں.کیونکہ ہماری باہر کی بعض جماعتیں اب مضبوط ہوگئی ہیں، مثلاً افریقہ کی جماعتیں وغیرہ اور وہ پاکستان کے قوانین کے ماتحت نہیں.اس لئے ان لوگوں نے مساجد کی خاطر جو جماعت کو پونڈ اور ڈالر دیئے ہیں، ان سے کسی حد تک کام چلتا رہا ہے.مگر وہ جماعتیں ابھی کم ہیں ، وہ زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتیں.ان کا بوجھ بٹانے کا طریقہ یہی ہے کہ یہاں کا بوجھ، یہاں کی جماعتیں اٹھا دیں اور ان کو بوجھ سے فارغ کر دیا جائے تا کہ وہ غیر ملکوں میں مسجدیں بنائیں.امریکہ میں عام طور پر جشی لوگ مسلمان ہیں.اور حبشیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی سمجھ کم ہوتی ہے.لیکن امریکہ میں ایک مسجد بنی ہے، جس کے لئے ایک حبشی مرد اور اس کی بیوی نے اپنا مکان اور جائیداد وقف کر دی تھی.اور پھر انہوں نے کچھ اور روپیہ بھی دیا.اسی طرح کچھ چندہ دوسرے لوگوں نے بھی دیا.بہر حال وہ مسجد بن گئی ہے.اگر امریکہ کے حبشی لوگ ، جو اسلام سے بہت دور رہے ہیں اور اب قریب عرصہ میں اسلام میں داخل ہوئے ہیں، انہیں اتنی توفیق مل گئی ہے کہ وہ مساجد کے لئے اپنی جائیدادیں وقف کر دیں تو کیا وجہ ہے کہ جو پرانے مسلمان چلے آتے ہیں ، وہ یہ کام نہ کریں؟ مغربی افریقہ میں بھی روپیہ بہت ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ہمارے کچھ چیف ایسے ہیں، جن کی زمینوں میں ہیروں اور سونے کی کانیں نکل آئیں ہیں اور ہزاروں ہزار پونڈ نہیں بطور نفع مل جاتا ہے.اگر ہمارے مبلغ ان میں تحریک جاری رکھیں اور وہ مساجد بنانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیں یا کم سے کم دو دو، تین تین مسجدیں مشرقی اور مغربی افریقہ والے بنا دیں تو پاکستان کی پونڈ جمع کرنے کی دقت دور ہو جاتی ہے.کیونکہ ان ملکوں میں پونڈ کثرت سے پایا جاتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں پونڈ کثرت سے نہیں 693
اقتباس از خطاب فرموده 01 نومبر 1958ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم پایا جاتا.ہمارے ملک کی جو چیزیں ہیں، ان کے بیچنے کے لئے انہیں دوسری قوموں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے.مگر بعض غیر ملکوں میں جن میں پونڈ پایا جاتا ہے، ایسی چیزیں ہیں، جن کا کوئی مقابلہ نہیں.مثلاً مغربی افریقہ میں سارا پونڈ ہیروں اور سونے کے ذریعہ سے آتا ہے.اور ہیروں اور سونے میں کوئی اور پونڈ ان کا مقابلہ نہیں کرتی.اس لئے لازما ان کے پاس بہت سا پونڈ بچ جاتا ہے اور اس سے ہمیں مد دل سکتی ہے.پھر ہماری جماعت فلپائن میں بھی پیدا ہوگئی ہے اور ترقی کر رہی ہے.اگر چہ وہ ترقی آہستہ آہستہ ہورہی ہے، لیکن بہر حال ہو رہی ہے.پچھلے سال وہاں سے بیعت کا خط آیا.مجھے افسوس ہے کہ وہ گھر میں پڑا رہا.میں تو بیماری کی وجہ سے خط نہیں پڑھ سکتا، اس لئے وہ کہیں پڑا رہا.اب کے وہ خط نکلا تو معلوم ہوا کہ وہ بیعت ایک گورنر کی تھی.مگر ادھر خط ملا اور ادھر معلوم ہوا کہ وہ بچار اقتل بھی ہو گیا ہے.اب اس کے خط کے ملنے کا یہی فائدہ ہوا ہے کہ وکیل التبشیر نے کہا ہے کہ ہم اس کے بیوی بچوں کو ہمدردی کا خط لکھ دیتے ہیں.پہلے ہم سمجھتے تھے کہ گورنر کہاں سے آگیا، کوئی ڈپٹی کمشنر ہو گا ؟ مگر اب وہاں سے جو طالب علم آیا ہوا ہے، اس نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے جزیرے ہیں، ان جزیروں پر گورنر مقرر ہوتا ہے ، ڈپٹی کمشنر نہیں ہوتا.اس نے بتایا کہ بیعت کا خط لکھنے والا گورنر ہی تھا مگر وہ تو اب شہید ہو گیا ہے.اب اس کی جگہ ایک نائب گورنر نے بیعت کر لی ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقہ میں بھی ترقی ہوئی ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو امریکہ اور فلپائن وغیرہ علاقوں میں جماعت کو اور بھی ترقی ہو جائے گی.اور اس طرح ڈالر کی آسانی ہو جائے گی.امریکہ میں تبلیغ کا یہ اثر بھی ہے کہ دوسرے کئی ملکوں میں بھی ہماری تبلیغ کا اچھا اثر پڑ رہا ہے.چنانچه مولوی نورالحق صاحب انور ، جو حال ہی میں امریکہ سے آئے ہیں، انہوں نے بتایا ہے کہ مصر کا جو وائس قونصل تھا، اس کے جبڑے میں دردتھی ، اس نے آپ کو دعا کے لئے خط لکھا تھا لیکن اس کو آپ کا جواب نہیں پہنچا.میں نے دفتر والوں سے خط نکالنے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں وہ خط نہیں ملا.لیکن اب پرسوں یا ترسوں اس کا دوسرا خط آیا ہے.اس میں لکھا ہے کہ غالباً میرا پہلا خط نہیں پہنچا، اب میں دوسر اخط لکھ رہا ہوں.میرے جبڑے میں درد ہے، آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت دے.(انصار الله کے جلسہ کے بعد مولوی نور الحق صاحب انور ملے تو انہوں نے بتایا کہ اب اس کے جبڑے کو آرام آچکا ہے.بلکہ میرے یہاں آنے سے پہلے اسے آرام آچکا تھا.اس لیے یہ خط پہلے کا لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے.انور صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہ کرنل ناصر صاحب کا بچپن کا دوست ہے اور اس پر بہت اثر رکھتا ہے.یہ امریکہ میں تبلیغ کا ہی اثر ہے.694
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 01 نومبر 1958ء ہم امریکہ میں تبلیغ کرتے ہیں تو مصری اور شامی بھی متاثر ہوتے ہیں.اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہی جماعت ہے، جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے.اور اس طرح قدرتی طور پر انہیں ہماری جماعت کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے.پہلی شامی حکومت کی سختیوں کی وجہ سے ہمارے مبلغ منیر الحصنی صاحب کا خط آیا تھا کہ اس نے ہماری جماعت کے بعض اوقاف میں دخل اندازی کی تھی.لیکن اب انہوں نے لکھا ہے کہ جو نئے قوانین بنائے گئے ہیں ، ان میں کچھ گنجائش معلوم ہوتی ہے.ان کے مطابق میں دوبارہ نالش کرنے لگا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے:.يدعون لك ابدال الشام ابدال الشام تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ شام میں جماعت پھیلے گی.پس دوستوں کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ وہاں جماعت کے لئے سہولت پیدا کرے اور وہاں جماعت کو کثرت کے ساتھ پھیلائے تا ابدال الشام پیدا ہوں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ہیں نہیں.یدعون لک کے یہی معنی ہیں کہ وہ جماعت کے لئے دعائیں کریں گے.اور ابدال نام بتاتا ہے کہ ان کی دعائیں سنی جائیں گی.ابدال کے معنی ہیں، ان کے اندر بڑی عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ کے مقرب پیدا ہو جائیں گے.پس اس کے لئے بھی دعاؤں میں لگے رہنا چاہیے کہ شام میں جو مشکلات ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں دور کرے اور وہاں مضبوط جماعت پیدا ہو.اور ایسے ابدال پیدا ہوں، جو رات دن اسلام اور احمدیت کے لئے دعائیں کرتے رہیں.ہمیں پونڈ مہیا کرنے میں شام کا بھی بڑا دخل ہے.شام میں بھی ڈالر اور پونڈ کا زیادہ رواج ہے اور وہاں سے ہمیں کچھ مددل جاتی ہے.بہر حال اگر سعودی عرب میں جماعت پھیلے، اسی طرح امریکہ اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور فلپائن میں ہماری جماعت پھیلے تو ڈالرمل سکتا ہے.اسی طرح اگر مشرقی اور مغربی افریقہ اور انگلینڈ میں جماعت پھیلے تو پونڈ جمع ہو جاتا ہے.اور یہ پونڈ اور ڈالر ہمیں اپنے لئے نہیں چاہئیں، خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی گھر کی تعمیر کے لئے ہمیں ان کی ضرورت ہے.پس دعائیں کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ان ممالک میں جماعتیں قائم کرے اور ان میں ایسا اخلاص پیدا کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے گھر سارے ممالک میں بنائیں.یہاں تک کہ دنیا کے چپہ چپہ سے اللہ اکبر کی آواز آنے لگ جائے اور جو ملک اب تک تثلیث کے پھیلانے تک دنیا چپ چپ سے کی آواز آنے اور جو کی وجہ سے بدنام تھا، وہ اب اپنے گوشہ گوشہ سے یہ آواز بلند کرے کہ مسیح تو کچھ بھی نہیں تھا، اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے.اگر ایسا ہو جائے تو یہ دین اسلام کی بڑی بھاری فتح ہو اور ہمارے لئے بھی یہ اللہ تعالیٰ 695
اقتباس از خطاب فرموده 01 نومبر 1958ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم کے فضلوں کے حصول کا بڑاذریعہ بن سکتا ہے.ہم میں سے ہر شخص تو وہاں تبلیغ کے لئے جانہیں سکتا، چند مبلغ گئے ہوئے ہیں، باقی لوگ یہ کر سکتے ہیں کہ ان کی روپے سے مدد کریں اور دعاؤں کے ذریعے خدا تعالیٰ کا فضل چاہیں.تا کہ وہ ان پر اپنے فرشتے اتارے اور ان کی باتوں میں اثر پیدا کرے.ہمارا ایک طالب علم جرمن گیا ہوا تھا.اس کا کل ہی ایک خط آیا ہے کہ ایک پادری کی بیٹی میرے زیر تبلیغ تھی ، جو بہت حد تک احمدیت کی طرف مائل ہو گئی ہے.لیکن اسے باپ سے ڈر ہے کہ وہ اس کی مخالفت نہ کرے.کیونکہ وہ پادری ہے، میں نے لکھا ہے کہ پادری تو بہت مسلمان ہو چکے ہیں.اس لڑکی کو سمجھاؤ کہ وہ ہماری کتابیں پڑھے اور اپنے باپ کو بھی سمجھائے ، وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ مسلمان ہو جائے گا.اس وقت تک یورپ میں دو پادری مسلمان ہو چکے ہیں، اب اگر یہ احمدی ہو گیا تو تین ہو جائیں گے.ایک شخص جو باقاعدہ پادری تو نہیں لیکن اس نے پادری کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے، وہ انگلینڈ میں احمدیت میں داخل ہوا ہے.اس کا باپ یہودی مذہب کا عالم تھا.جب اس نے اپنے باپ سے ذکر کیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے تو اسلام سچا نظر نہیں آتا لیکن اگر تمہیں سچا نظر آئے تو میں تمہیں روکتا نہیں تم بے شک اسلام قبول کر لو.جن لوگوں کے دلوں میں سچائی کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے، اگر وہ خود اسلام قبول نہ کریں تو اپنی اولادوں کو اس کے قبول کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ رستہ کھول دیتا ہے.پس آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ یورپ اور امریکہ میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے رستہ کھولے.اور ہماری جو سکیم ہے کہ یورپ میں ہماری کئی مساجد ہوں، امریکہ کی ہر ریاست میں کئی مساجد ہوں، اس کو خدا تعالیٰ جلد سے جلد پورا کرے.اسی طرح سپین کے لئے بھی دعائیں کریں کہ وہ اسلام کی ابتدائی فتوحات میں شامل تھا، مگر اب وہاں جبری طور پر عیسائیت کو پھیلا دیا گیا ہے، اللہ تعالی اس علاقہ میں اسلام کی نصرت کے سامان پیدا کرے.تا بنوامیہ کے زمانہ میں جو اسلام وہاں داخل ہوا تھا اور پھر وہاں سے نکال دیا گیا تھا، خدا تعالیٰ اسے احمدیت کے ذریعہ پھر وہاں دوبارہ قائم کر دے.باقی دعائیں تو میں نے آپ لوگوں کے لئے بھی کر دیں ہیں اور سلسلہ کے لئے بھی کر دیں ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے اور آپ لوگ خیر و عافیت سے گھر جائیں.اور اسلام اور احمد بیت کی ترقی کے لئے دلیرانہ کوشش کریں.تا کہ خدا تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت ڈالے اور سلسلہ کی مالی حالت اور تحریک جدید، جو غیر ملکوں میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے ہے، اس کی مالی حالتوں میں زیادہ سے زیادہ ترقی ہو.پھر اللہ تعالٰی ہماری جماعت کے لوگوں کو پہلے سے زیادہ قربانی کرنے کی توفیق دے اور پچھلے سال 696
اقتباس از خطاب فرموده 01 نومبر 1958ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم ہمارے ملک میں فصل ربیع کی جوتاہی آئی تھی، آئندہ اس سے خداتعالی محفوظ رکھے.پھرنی فصلوں میں بھی برکت دے.تا کہ زمینداروں کے پچھلے نقصان دور ہو جائیں اور آئندہ کے لئے وہ اور قربانی کے لئے تیار ہو جائیں.ہماری جماعت میں زمیندار ہی زیادہ ہیں اور ان کی مالی کمزوری کا بجٹ پر اثر پڑتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان پر اپنے فضلوں کی بارش نازل کرے اور اپنی تازہ بشارتوں میں یعنی الہاموں اور کشوف اور خوابوں کے ذریعے سے ان کے ایمانوں کو تقویت دے.تا کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کوزیادہ مضبوط بناسکیں“.مطبوعه روزنامه الفضل 02 نومبر 1958ء ) 697
تحریک - یک جدید - ایک الہی تحریک جلد جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1958ء اشاعت اسلام کے کام کو جماعت کی خاص توجہ کے بغیر چلانا مشکل ہے " خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1958 ء بر موقع جلسہ سالانہ میں ہر سال جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں کے کچھ نہ کچھ واقعات بیان کیا کرتا ہوں.اس سال فلپائن میں خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک جماعت دے دی ہے.یہ وہ علاقہ ہے، جس میں حضرت عثمان کے زمانہ میں مسلمان پہنچے.بعد میں جب اسے پین اور پرتگال نے فتح کیا تو انہوں نے ملک کو جبراً عیسائی بنالیا اور تلوار میں گردنوں پر رکھ کر کہا کہ جو شخص بپتسمہ نہیں لے گا، ہم اسے قتل کر دیں گے.چنانچہ لوگ ڈر گئے اور انہوں نے عیسایت اختیار کر لی.اب سارا ملک عیسائی ہے.سپین اور پرتگال کی طرح فلپائن کے عیسائی بھی رومن کیتھولک ہیں ، جو بہت متعصب ہوتے ہیں.میری خواہش تھی کہ سپین اور فلپائن میں دوبارہ اسلام کی اشاعت کی جائے.میں نے تحریک جدید کو، جس کے سپر دغیر ملکوں میں تبلیغ کا کام ہے، توجہ دلائی اور انہوں نے پچھلے سال کے شروع سے ہی فلپائن میں تبلیغ شروع کر دی.فلپائن کی گورنمنٹ چونکہ رومن کیتھولک پادریوں کے ماتحت ہے، اس لیے اس کی طرف سے تبلیغ میں روکیں ڈالی گئیں اور ہمارے مبلغ کو وہاں جانے کی اجازت نہ دی گئی.قاعدہ یہ ہے کہ جس حکومت سے کوئی شخص باہر جائے ، پاسپورٹ وہ دیتی ہے اور جس حکومت میں جانا ہو ، اگر اس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہو کہ اس ملک میں ویزہ کی ضرورت نہیں تو جانے والے کو علاوہ اپنے ملک سے پاسپورٹ لینے کے اس ملک کا ویزہ بھی لینا پڑتا ہے، لیکن فلپائن گورنمنٹ ویزہ دینے سے انکار کر دیتی تھی.نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ہمارے آدمی وہاں نہیں پہنچ سکتے تھے.چونکہ بیرونی ممالک کی تبلیغ کا کام تحریک جدید کے سپرد ہے، اس لیے انہوں نے اس طرف توجہ کی اور فلپائن میں لٹریچر بھیجنا شروع کر دیا اور اس کے ذریعہ بعض لوگوں کے دلوں میں احمدیت سے دلچسپی پیدا ہو گئی.جب اس طرح میدان کچھ ہموار ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور سامان پیدا کر دیا.اور وہ یہ کہ برٹش بور نیو میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست ڈاکٹر بدرالدین صاحب کام کر رہے ہیں، وہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے بڑے لڑکے ہیں اور احمدیت کے عاشق صادق ہیں، چندہ بھی بڑا دیتے ہیں اور تبلیغ بھی بڑی کرتے ہیں، ان میں قربانی کا بڑا جوش ہے.وہ اب بھی یورپ کے ملکوں کو سو، سو پونڈ بھجوا دیتے 699
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1958ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم ہیں تا کہ وہاں مساجد تعمیر کی جائیں اور مبلغوں کو اخراجات مہیا کیے جائیں.باوجود اس کے کہ وہاں کے انگریز گورنر نے علماء سے مل کر احمدیوں کے خلاف ایک بڑا محاذ کھڑا کر دیا تھا، ڈاکٹر صاحب نے دلیری سے گورنر اور دوسرے لوگوں کا مقابلہ کیا اور اس علاقہ کے بعض لوگوں کو جہاں گورنر چاہتا تھا کہ احمدیت نہ پھیلے، اپنے پاس بلا کر تبلیغ کی.خدا تعالیٰ نے ان کی تبلیغ میں برکت ڈالی اور اس کے نتیجہ میں وہاں کے کچھ لوگ احمدی ہو گئے ، جن کی معرفت انہوں نے اس علاقہ میں مسجد اور جماعت بنانے کی کوشش کی.ایک علاقہ کے ڈپٹی کمشنر نے ہمارے ایک مبلغ محمد سعید انصاری کو جو یہاں سے گئے ہوئے ہیں، اپنے علاقہ میں تبلیغ سے باز رکھنے کی کوشش کی اور انہیں دھمکی دی کہ میں تمہیں گرفتار کرلوں گا.ہم نے انگلستان کی حکومت سے احتجاج کیا.چونکہ اس ملک میں ظاہری طور پر رواداری بہت ہے، اس لیے وہاں کی حکومت نے گورنر سے جواب طلب کیا اور دریافت کیا کہ احمدی مبلغ کے رستہ میں کیوں روکیں پیدا کی جا رہی ہیں؟ گورنر نے عام قاعدہ کے مطابق ڈپٹی کمشنر سے رپورٹ مانگی اور چونکہ اس نے خود غلطی کی تھی، اس لیے لازماً اس نے اپنے بچاؤ کے لئے جھوٹ بولا.کہہ دیا کہ میں نے انصاری صاحب کو تبلیغ سے نہیں روکا بلکہ انصاری صاحب نے ملک میں بغاوت پھیلانے کی کوشش کی تھی اور میری ہتک کی تھی ، اس لیے میں نے انہیں تنبیہ کی ہے.انگریزی دستور کے مطابق گورنر نے اس جواب کو صحیح تسلیم کیا اور وہ جواب انگلستان کی حکومت کو بھجوا دیا.اس پر حکومت انگلستان نے ہمارے پاس معذرت کر دی.ہم نے اپنے مبلغ کو سمجھا دیا کہ حکومت کے افسروں سے نرمی سے برتاؤ کرنا چاہیے، کیونکہ آخر اختیار ان کے پاس ہے.اس وجہ سے اس علاقہ میں کچھ نرمی تو ہوئی مگر ہمارے مبلغ کو تبلیغ میں بہت سی وقتیں پیش آگئیں.لیکن ہم نے صبر سے کام لیا اور آہستہ آہستہ اپنی تبلیغ کو جاری رکھا ، جس میں ڈاکٹر بدرالدین صاحب کا بہت کچھ دخل تھا.چنانچہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس علاقہ میں ایک جماعت ، گو بڑی نہیں، قائم ہوگئی ہے.فلپائن جو بہت سے جزیروں کو مجموعہ ہے، اس کا ایک جزیرہ برٹش بور نیو کے بالکل قریب ہے، جہاں ڈاکٹر بدرالدین صاحب رہتے ہیں.ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ فلپائن والے ربوہ سے تو مبلغ آنے نہیں دیتے لیکن میں، جو یہاں ایک ڈاکٹر کی حیثیت رکھتا ہوں، اگر وہاں چلا جاؤں تو شاید میرے رستہ میں کوئی روک نہ ڈالی جائے.چنانچہ وہ اپنی پریکٹس کا نقصان کر کے وہاں گئے اور کچھ مہینے فلپائن میں تبلیغ کے لیے وقف کیے.کچھ لوگ تو پہلے ہی لٹریچر کے ذریعہ احمدیت کی طرف مائل ہو چکے تھے اور کچھ لوگوں کو ڈاکٹر بدرالدین صاحب نے احمدی کیا اور اس کے نتیجہ میں وہاں کی جماعت تین سو سے زیادہ ہوگئی.اس جماعت کو 700
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1958ء کے پریذیڈنٹ وہاں کے ہی ایک دوست ہیں، جن کا نام حاجی ابا ہے.جو بڑی قربانی اور تبلیغ کرنے والے ہیں، ان کے ذریعہ وہاں اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں تبلیغ ہورہی ہے.پچھلے سال وہاں ایک جزیرہ کا گورنر احمدی ہو گیا تھا.مگر چونکہ اس علاقہ میں شورش بہت ہے، اس لیے چند ماہ ہوئے، اسے قتل کر دیا گیا.انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.مگر اللہ تعالیٰ نے کچھ دنوں کے بعد ایک ڈپٹی کمشنر کو احمدی کر دیا.اب ڈاکٹر بدرالدین صاحب نے لکھا ہے کہ حاجی ابا صاحب کور بوہ بلوا کر کچھ مدت دینی تعلیم دی جائے تا کہ وہ واپس آکر اس ملک میں تبلیغ کو زیادہ وسیع کر سکیں.چنانچہ میں نے تحریک جدید کو ہدایت دے دی کہ ان کے یہاں بلانے کا انتظام کیا جائے.مگر تحریک جدید والوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ حاجی ابا صاحب نے لکھا ہے کہ چونکہ میں سرکاری ملازم ہوں، میں ربوہ نہیں آسکتا.میں ایک اور نو جوان کو تیار کر کے بھجوا رہا ہوں.جونہی اس کا پاسپورٹ بن گیا ، میں اسے پاکستان بھجوادوں گا.اس عرصہ میں فلپائن کا ایک مخلص احمدی اسامہ نامی ( با وجود گورنمنٹ کی روکوں کے ) فلپائن سے بھاگ کر برطانوی بور نیو میں آگیا اور وہاں سے ملایا ہوتا ہوا ربوہ پہنچ گیا اور اب یہاں تعلیم حاصل کر ر ہے.اس کی صحت کچھ خراب ہے، تحریک جدید اس کا علاج لاہور میں کروارہی ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے شفا بھی دے اور پھر اپنے ملک میں کام کرنے کی توفیق بھی دے.(بعد کی اطلاع ہے کہ لاہور کے ڈاکٹروں نے اس کی مرض کو تشخیص نہیں کیا.اور چونکہ وہ بیماری فلپائن میں بہت ہوتی ہے، اس لیے اسے واپس فلپائن بھجوادیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اسے کیا مرض ہے؟ اور اس کا صحیح علاج ہو سکے.) بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ وہاں کے زنانہ کالج کی کئی لڑکیاں بھی احمدی ہو گئی ہیں.اور جو نوجوان احمدی ہوئے ہیں، ان کا بیشتر حصہ یونیورسٹی کے طالب علموں کا ہے.اور ان میں سے ایک اور نوجوان جیسا کہ حاجی ابا صاحب نے لکھا ہے، ربوہ آنے کی کوشش کر رہا ہے.لیکن حکومت روک پیدا کر رہی ہے.خدا کرے کہ وہ یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو جائے اور یہاں پہنچ کر اپنے ملک میں تبلیغ کرنے کے لئے کامیاب مبلغ بن جائے.اس وقت تک وہاں احمدیوں کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے 351 تک پہنچ گئی ہے اور اس سال 54 افراد کی نئی بیعت آئی ہے.امریکہ میں زیادہ تر حبشی لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اور ان میں سے بعض نہایت ہی مخلص ثابت ہوئے ہیں.انہوں سے اس سال اپنی سالانہ کانفرنس میں تبلیغ کرنے اور وصیت کی تحریک کو ہر احمدی تک پہنچانے کا اقرار کیا ہے.خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو اور احمدیت کو جلد تر اس ملک میں پھیلائے.اس وقت 701
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1958ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد سوم تک کچھ سفید آدمی بھی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں، جن کی تعداد تیرہ ہے.ان میں سے ایک کینیڈا کا ریٹائرڈ فوجی افسر ہے.کینیڈا، امریکہ کا وہ حصہ ہے، جو انگریزوں سے وابستہ ہے.ایک عورت ، جو سفید فام لوگوں میں سے احمدی ہوئی ہے اور نہایت مخلص اور تبلیغ کا جنون رکھتی ہے، اس نے ہمارے مبلغ شکر الہی صاحب سے شادی کر لی ہے.اس کے والدین ابھی احمدی نہیں ہوئے.دوست دعا کریں کہ وہ بھی احمدی ہو جائیں اور اس کے خاندان میں امن قائم ہو جائے.ایک جہازوں کا کمانڈر بھی احمدی ہوا ہے.اس طرح آہستہ آہستہ سفید فام لوگوں میں بھی احمدیت پھیلنے لگ گئی ہے.ایک حبشی نو جوان وہاں کی ایک اعلیٰ یو نیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، امید ہے کہ جب وہ تعلیم سے فارغ ہو گا تو اپنے ملک میں تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوگا.انگلستان میں گو سب سے پہلے تبلیغ شروع ہوئی تھی مگر وہاں بہت کم لوگ احمدی ہوئے ہیں.اب موجودہ امام مسجد لنڈن مولود احمد خان صاحب کے ذریعہ سے تعلیم یافتہ طبقہ میں تبلیغ شروع ہو گئی ہے اور چند بیعتیں بھی آئی ہیں.اب تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ ایک نو جوان، جو پچھلے سفر میں مجھے بھی ملا تھا، ایک پاکستانی احمدی مرتد نے اسے ورغلانے کی کوشش کی ، اس نے مرکز انگلستان میں خط لکھا کہ فلاں پاکستانی نوجوان نے مجھے ورغلانے کی کوشش کی تھی ، اگر میں نے سوچ سمجھ کر احمدیت قبول نہ کی ہوتی تو یہ شخص مجھے ورغلانے میں ضرور کامیاب ہو جاتا لیکن میں اس کی تمام باتوں کو لغو مجھتا ہوں.اب ایک نیا مبلغ بھی انگلستان بھیج دیا گیا ہے، جو امید ہے ، پہنچ چکا ہوگا.میر انشاء ہے کہ انگلستان میں دو اور مقامات پر جن کے جنوباً اور شمالاً ہر جگہ اسلام کا اثر ہو، مساجد تعمیر کی جائیں.میں نے اس کے متعلق مولود احمد صاحب کو ہدایت بھجوادی ہے.مگر مولود صاحب جہاں تبلیغ میں نہایت ہی اعلیٰ ثابت ہوئے ہیں، وہاں مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں ان کی ذہانت بالکل ناکام رہی ہے.چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی وہ بہت دیر لگا دیتے ہیں.ان کے مقابلہ میں جرمنی کے مبلغ چوہدری عبدالطیف صاحب نہایت کامیاب ثابت ہوئے ہیں.انہوں نے نہ صرف ہمبرگ میں مسجد بنائی ہے بلکہ فرنیکفورٹ میں بھی ، جو جرمنی کا بڑا شہر ہے ،مسجد کے لئے زمین خرید لی ہے.اور ان کا جو تازہ خط آیا ہے، اس میں لکھا ہے کہ میں یہاں سے مسجد بنوانے کے لئے فرنیکفورٹ جارہا ہوں.سوئٹزر لینڈ میں شیخ ناصر احمد صاحب کام کر رہے ہیں.انتظامی لحاظ سے وہ بھی مولود صاحب کی طرح بہت کمزور ہیں لیکن تبلیغی لحاظ سے بڑے اعلیٰ درجہ کے ہیں.ان کے ذریعہ سوئٹزر لینڈ کے ساتھ ملتے ہوئے ، جزیرہ اور آسٹرین علاقہ میں اسلام کی تبلیغ ہورہی ہے اور کئی لوگ اسلامی تعلیم سے دلچسپی لے رہے ہیں.مسٹر کنزے نے ، جو جرمنی کے سب سے پہلے مسلمان ہیں، لکھا ہے کہ وہ اس سال جلسہ سالانہ پر آنا چاہتے ہیں.مجھے بتایا 702
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1958ء گیا ہے کہ وہ یہاں پہنچ گئے ہیں اور جلسہ میں موجود ہیں.لطیف صاحب نے ان کی تعریف کی ہے اور لکھائو ہے کہ تبلیغ میں یہ بہت اچھے ہیں.مگر جرمن لوگوں کی درخواست آئی ہے کہ ہمیں پاکستانی مبلغ بھیجیں.چنانچہ لطیف صاحب کی مدد کے لئے ہم ایک نیا مبلغ بھجوار ہے ہیں.سیکنڈے نیویا ، جو روس سے ملتا ہوا ، یورپین علاقہ ہے.جرمنی ، ہالینڈ اور بیلجئم کے شمالی ، شمال مشرق میں واقع ہے.اور انگلستان کے شمال مشرق میں اس علاقہ کی ایک حکومت فن لینڈ کہلاتی ہے.کئی لاکھ ترک اس علاقہ میں سینکڑوں سال سے بس رہا ہے.یہ لوگ گو احمدی نہیں ہوئے مگر انہوں نے احمدی مبلغ کو بلا کر تقریریں کرائی ہیں.دوسری حکومت اس علاقہ کی سویڈن کہلاتی ہے.چونکہ یہ لوگ مالدار ہیں اور متعصب عیسائی ہیں ، اس لئے وہاں کی رہائش بڑی مہنگی ہے.ہمارا ارادہ تھا کہ سویڈن میں مسجد بنائیں.لیکن ایک جرمن نو مسلم نے لکھا ہے کہ میں نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایک جگہ تجویز کی ہے، بہتر ہوگا کہ وہاں مسجد بنائی جائے.اس کے متعلق ہم نے وہاں کے مبلغ کمال یوسف ساحب کو ، جو میرے سالے کے لڑکے ہیں، ہدایت کر دی ہے کہ وہ اسے دیکھ کر رپورٹ کریں.اگر وہ مناسب جگہ ہو تو اسے خرید لیا جائے اور مغربی افریقہ کی جماعت کو مسجد کی تعمیر کے لئے تحریک کی جائے.چونکہ ہمارے ملک کی اپیھنچ کی حالت اچھی نہیں اور حکومت پونڈ باہر نہیں جانے دیتی ، اس لئے مسجدوں کی تعمیر میں دقت پیش آسکتی تھی.لیکن اللہ تعالٰی نے ہم پر یہ فضل کیا کہ اس نے ہمیں مشرقی اور مغربی افریقہ میں ایسی جماعتیں دے دی ہیں، جن میں سے بعض بہت مالدار ہیں.مغربی افریقہ میں بعض چیف ایسے ہیں، جن کی زمینوں میں سے ہیرے کی کانیں نکلی ہیں.اور مشرقی افریقہ میں احمدیت کی مدد کی تحریک اللہ تعالیٰ نے بعض سکھوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے.چنانچہ یوگنڈا کے علاقہ میں ایک بڑا شہر ججہ ہے.وہاں ایک مسجد کی تعمیر کے لیے ایک سکھ تاجر نے بہت سا سامان دیا ہے اور ساتھ ہی اس نے وعدہ کیا ہے کہ یوگنڈا میں جتنی مساجد بھی بنائی جائیں گی، میں ان کے لئے لو ہا لکڑی اور سیمنٹ مہیا کرنے میں پوری مدددوں گا.یہ نو جوان سکھ گل قوم میں سے ہے، جو قادیان کے گرد بستی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ وہ بیرونی ملکوں میں مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں غیر مسلموں کے دلوں میں بھی امداد کی تحریک کر رہا ہے.گو وہ جماعتیں امیر ہیں لیکن اتنی امیر نہیں کہ سارے علاقوں میں مساجد تعمیر کرسکیں.ایک نوجوان مشرقی افریقہ سے آیا تھا.اس نے کہا، اس سکھ نوجوان نے اتنی مدد کی ہے کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ مسجد کا افتتاح اس سے کروایا جائے.میں نے اس کے متعلق شیخ مبارک احمد صاحب سے جو وہاں کے رئیس التبلیغ ہیں، پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہاں غیر مسلموں کے متعلق اتنا تعصب ہے کہ اگر ہم 703
اقتباس از خطاب فرموده 27 دسمبر 1958ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم نے ایسا کیا تو ہماری تبلیغ کے رستہ میں بڑی مشکلات پیش آجائیں گی.چنانچہ سوچ کر ہم نے یہ تجویز نکالی کہ مسجد کا افتتاح تو احمدی مبلغ کرے مگر افتتاحی تقریب کا صدر اس سکھ کو بنایا جائے.تاکہ وہ اسلام کے اور زیادہ قریب آجائے اور اس کا دل بھی خوش ہو جائے کہ اس کی قدر کی گئی ہے.اس جلسہ کے موقع پر ماریشس کی جماعت کا ایک نمائندہ بھی آیا ہوا ہے، جس نے ابھی میری اجازت سے اپنی جماعت کی طرف سے ایڈریس پڑھا ہے.یہ جماعت میری خلافت کے ابتداء میں قائم ہوئی تھی.اب وہاں کئی فتنے پیدا ہور ہے ہیں اور ماریشس کے احمدی ان کا مقابلہ کر رہے ہیں.مگر چونکہ حکومت بھی مخالف ہے، اس لیے کچھ دقتیں پیدا ہورہی ہیں.( بعد میں وہاں ایک گورنر کی چٹھی دفتر تبشیر میں آئی، جس میں خود اس نے ایسی تدابیر بتائی ہیں، جن سے ان کی مشکلات بھی دور ہو جائیں اور قانون کے اعتراضات بھی نہ رہیں.ماریشس سے پہلے سیلون میں جماعت قائم ہوئی تھی.اور سیلون کے مبلغ یعنی حافظ صوفی غلام محمد صاحب کو ہی میں نے ماریشس بھجوایا تھا.سیلون میں بھی بعض فتنے پیدا ہورہے ہیں اور تامل بولنے والے ہندوستانی بڑی مخالفت کر رہے ہیں، جو وہاں کثرت سے ہیں.گو ملک کے اصلی باشندوں کی زبان سنہا لیز ہے.مجھے ایک خواب میں بتایا گیا تھا کہ سنہالیز زبان کی طرف توجہ کرو.چنانچہ اس زبان میں ہمارے مبلغ نے وہاں لٹریچر شائع کیا.پہلے یہ خیال کیا گیا تھا کہ زبان کا نام سنگھالی ہے.مگر بعد میں پتہ لگا کہ اس کا نام جیسا کہ خواب میں بتایا گیا تھا سنگھالی نہیں، سنہا لیز ہے.وہاں کے اصلی باشندے بھی یہی زبان بولتے ہیں اور چونکہ ہماری پالیسی یہ ہے کہ اصل باشندوں کی تربیت کی جائے ، اس لیے میں نے مبلغ کو تاکید کی تھی کہ سنہا لیز زبان میں لٹریچر شائع کیا جائے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصل باشندے تو ہماری تائید میں ہو گئے مگر تامل بولنے ہندوستانی، جو اکثریت میں ہیں، ہمارے خلاف ہو گئے.اب پیغام آیا ہے کہ دوست دعا کریں اللہ تعالیٰ یہاں کی مشکلات دور کرے اور جماعت کو مسجد بنانے کی توفیق دے..اس طرح جماعت کو تحریک جدید کی طرف بھی خاص توجہ کرنی چاہیے.اگر اس کا چندہ بڑھ جائے تو ہمیں دنیا کے ہر ملک میں مسجد بنانے کی توفیق مل جائے گی.اور اس طرح ہم اسلام کا جھنڈا دنیا کے ہر کو نہ میں گاڑ سکیں گے.غیر ممالک میں اشاعت اسلام کا کام تحریک جدید کے سپرد ہے اور یہ کام اتنا وسیع ہے کہ جماعت کی خاص توجہ کے بغیر اسے کامیابی سے چلانا مشکل ہے.اسلام کو دنیا میں پھر سے غالب کرنے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے.اس لئے اسے اس سلسلہ میں ہمیشہ مالی اور جانی قربانیوں میں پورے جوش سے حصہ لینا چاہیے.تا کہ ہم اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہوسکیں.( مطبوعه روزنامه الفضل 103 اپریل 1959ء) 704
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 فروری 1959ء مبلغ ہی ہیں، جن کے کام پر ہماری جماعت فخر کرتی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 13 فروری 1959ء....دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دفتر تحریک جدید والوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وعدوں کی آخری تاریخ اس دفعہ 28 فروری مقرر ہے.مگر اس وقت تک وعدے بہت کم آئے ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد تحریک جدید کے وعدے بھجوائیں اور 28 فروری سے پہلے پہلے ان وعدوں کی مقدار کو پچھلے سالوں سے بڑھانے کی کوشش کریں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تحریک جدید کا کام زیادہ تر پاکستان سے باہر ہے اور چونکہ اس کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے ایچینج ملنے میں دقتیں ہیں، اس لئے شاید دوستوں کا یہ خیال ہو کہ ابھی وعدے بھیجنے کی ضرورت نہیں.مگر ان کا یہ خیال درست نہیں.گورنمنٹ کے حالات بدلتے رہتے ہیں.اگر کل کو گورنمنٹ کے حالات سدھر جائیں اور وہ اچھینچ دینے کے لئے تیار ہو جائے تو اگر تحریک جدید کے پاس روپیہ ہی نہ ہو تو وہ ایکھینچ حاصل کر کے باہر روپیہ کس طرح بھیجے گی ؟ اس لیئے وعدے بہر حال آنے چاہئیں اور چندہ کی وصولی بھی باقاعدہ ہونی چاہئے.تا کہ جب بھی گورنمنٹ اسکیچ دے تحریک جدید روپیہ باہر بھیج سکے.اگر گورنمنٹ نے ایچینج منظور کر لیا اور تحریک جدید رو پیہ باہر نہ بھیج سکی تو گورنمنٹ کی نظروں میں بھی ہماری سبکی ہوگی اور مبلغ بھی روپیہ نہ ملنے کی وجہ سے تکلیف اٹھا ئیں گے.یہی مبلغ ہیں، جن کے کام پر ہماری جماعت فخر کرتی ہے.کل کسی نے اخبار ” صدق جدید کا ایک کٹنگ مجھے بھجوایا تھا کہ احمد یہ جماعت میں لاکھ برائیاں ہوں، لیکن گزشتہ جلسہ پر انہوں نے اکیاون زبانوں میں جو تقریریں کروائی ہیں اور غیر ممالک میں وہ اشاعت اسلام کے لئے جو جد و جہد کر رہے ہیں، ان کا یہی کام اگر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ان کی برائیوں کو ، جولوگ بیان کرتے ہیں، دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو ان کے اچھے کام والا پلڑا بوجھل ہوگا اور ان کی برائیوں کا پلڑا کمزور ثابت ہو کر اوپر اٹھ جائے گا.اب دیکھو، یہ ہماری تبلیغ کا ہی اثر ہے.پاکستان کے وزراء اور سفراء باہر جاتے ہیں تو وہ بھی واپس آکر ہمارے مبلغین کے کام کی تعریف کرتے ہیں.پچھلے دنوں ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ربوہ ڈپٹی 705
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 13 فروری 1959ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک دفعہ ٹرینی ڈاڈ گئے تھے.انہوں نے دیکھا کہ احمدیت کے مبلغ کی وجہ سے وہاں پاکستان کی لوگوں میں زیادہ شہرت ہے.اسی طرح پرسوں ایک خط آیا کہ کسی عیسائی نے اسلام کے خلاف اعتراضات کئے تو ہمارے مبلغ شکر الہی صاحب نے اس کا جواب شائع کیا.اسے پڑھ کر شاہ فاروق کی والدہ ، ملکہ نازلی نے کہا کہ اشاعت اسلام کا کام صرف احمدی مبلغین ہی کر رہے ہیں.ان کے سوا اور کوئی یہ کام نہیں کر رہا.ان لوگوں نے ہی اس ملک میں اسلام کی عزت کو قائم رکھا ہوا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مبلغین کے ذریعہ غیر ممالک میں اسلام کو عظمت حاصل ہوتی ہے.غیر ملکوں ، مثلاً مشرقی افریقہ، مغربی افریقہ، جرمنی ، سیکنڈے نیویا، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، امریکہ اور انگلینڈ میں ہمارے مبلغ اسلام کی اشاعت کرتے ہیں.اور جب ان کے ذریعہ سے غیر ممالک میں اسلام کی عزت بڑھتی ہے تو ان کے کام پر جہاں احمدی فخر کر سکتے ہیں، وہاں غیر احمدی بھی فخر کر سکتے ہیں.پچھلے دنوں انڈونیشیا سے ایک چینی لڑکا آیا تھا.(انڈونیشیا میں چینی لوگ بھی آباد ہیں.) اس لڑکے نے بتایا کہ مجھے احمدی مبلغوں کے ذریعہ ہی تبلیغ ہوئی تھی اور اسی کے نتیجہ میں ، میں مسلمان ہوا.وہ لڑکا بڑا مخلص تھا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیرونی ممالک میں ہر جگہ اسلام احمدی مبلغین کے ذریعہ سے تقویت پا رہا ہے.اور ان کے لئے چندہ کے وعدے بھجوانا، چاہے وہ فوری طور پر ادا نہ کئے جائیں، ایک بڑی دینی خدمت ہے اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو موجب ہے.اگر گورنمنٹ کی مالی حالت اچھی ہوگئی اور اس کے پاس اچینج جمع ہو گیا تو وہ اس نے بہر حال تقسیم کرنا ہے.اگر انہوں نے کسی وقت ایکسچینج دے دیا لیکن تحریک جدید روپیہ باہر نہ بھیج سکی تو گورنمنٹ کے نزدیک بھی محکمہ کی سبکی ہوگی اور مبلغ بھی الگ تکلیف اٹھا ئیں گئے.میں نے تحریک جدید کے متعلق اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا ہے کہ چونکہ ایکھن نہیں ملتا، اس لئے تحریک جدید کے وعدے کرنے اور پھر ان کی وصولی میں کچھ دیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں.میں نے بتایا ہے کہ اس میں بڑا سخت حرج ہے.علاوہ اس کے کہ ہماری گورنمنٹ میں سبکی ہوگی ، ہمارے مبلغ بھی ہے بس ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ آج دھوپ نکل آئی ہے.اگر یہ دھوپ کچھ دن اور بھی نکلی رہی تو امید ہے، فصلیں اچھی ہو جائیں گی.دوست خدا تعالیٰ کے اس فضل کا شکر یہ بھی ادا کریں اور دعائیں بھی کریں کہ خدا تعالیٰ اپنے اس فضل کو جاری رکھے اور اسلام کی اشاعت کے لئے مالی امداد کے وعدے کر کے اس فضل کو جذب کرنے کی کوشش کریں.تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس سال کو پچھلے سال سے ہزاروں گنا اچھا کر دے.امید ہے کہ دوست ان باتوں کا خیال رکھیں گے اور اپنے وعدوں کو بڑھا کر اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کریں گے.( مطبوعه روزنامه الفضل 19 فروری 1959ء) | 706
تحریک جدید - ایک ابی تحریک....جلد سوم ر پیغام فرمودہ یکم نومبر 1959ء پھیر دے میری طرف اے ساریاں جنگ کی مہار پیغام فرموده یکم نومبر 1959ء مجلس انصار اللہ کے پانچویں سالانہ اجتماع کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی نے اپنے ایک خصوصی پیغام میں تحریک جدید دفتر اول کے چھبیسویں اور دفتر دوم کے سولہویں سال کے آغاز کا اعلان فرمایا.حضور کا یہ روح پرور اور بصیرت افروز پیغام محترم صاحبزادہ مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے پڑھ کر سنایا.بسم اعوذ بالله من الشيطان الرجيم الله الرحمن الرحيم برادران نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اب تحریک جدید کے نئے سال کا وقت آ گیا ہے، ہماری جماعت کا چندہ پہلے سے ہزاروں گنا بڑھ جانا چاہیے.اور اگر آپ ہمت کریں اور تبلیغ کریں تو یقینا بڑھ جائے گا.اگر پہلے ایک لاکھ ہوتا تھا تو اب ایک کروڑ ہونا چاہیے.پس میں تحریک کرتا ہوں کہ آپ آئندہ سال تحریک کے لئے اپنے وعدے لکھوائیں اور اپنے شہروں میں جا کر تمام احمدیوں سے لکھوائیں.تاکہ تحریک جدید کا چندہ نہ صرف کروڑ بلکہ کروڑوں ہو کا جائے.خدا تعالیٰ آپ کے مالوں میں برکت دے گا اور جماعت کو بھی بڑھائے گا.کیونکہ روپیہ بھی خدا تعالی کے پاس ہے اور طاقتیں بھی خدا تعالیٰ کے پاس ہیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاعْلَمُوا اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ یعنی وہ انسان کے خیال سے بھی زیادہ قریب ہے.آپ جانتے ہیں کہ خیال انسان کے کتنا قریب ہے.مگر خدا تعالیٰ اس سے بھی زیادہ قریب ہے.پس خدا تعالیٰ سے دعائیں بھی کیجیے کہ خدا ساری دنیا کے دلوں کو احمد بیت کی طرف پھیر دے.707
پیغام فرموده یکم نومبر 1959ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم پھیر دے میری طرف اے ساریاں جنگ کی مہار عیسائیت کو 1959 سال ہو گئے مسیح محمدی کا زمانہ اس سے بڑا ہوگا.آپ کی جماعت میں انشاء اللہ کئی گنا زیادہ آدمی ہو گا.اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت تک زندگی دے گا ، جب تک احمدیت دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل چکی ہوگی اور دنیا کے تمام اموال احمدیت پر قربان ہورہے ہوں گے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا ہزاروں گنا زیادہ شان و شوکت سے پوری ہوگی کہ پھیر دے میری طرف اے ساریاں جنگ کی مہار پس اپنے چندوں کو بڑھاؤ اور خدا کی رحمت کو کھینچو.کیونکہ جتنا تم چندہ دو گے، اس سے ہزاروں گنے زیادہ تمہیں ملے گا.اور دنیا کی ساری دولت کھینچ کر تمہارے قدموں میں ڈال دی جائے گی ، جس کے متعلق تمہارا فرض ہوگا کہ سلسلہ احمدیہ کے لئے خرچ کرو.تا کہ دنیا کے چپہ چپہ پر مبلغ بھیجے جاسکیں اور ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے اور دنیا کی ساری حکومتیں اسلام میں داخل ہو جائیں.آپ کو یہ بات بڑی معلوم ہوتی ہوگی مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑی نہیں.پس میں اس اعلان کے ذریعے تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز کرتا ہوں.مرزا محمود احمد خليفة المسيم الثاني 01/11/59 ( مطبوعه روزنامه الفضل 03 نومبر 1959 ء ) 708
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم الہی اقتباس از خطاب فرمودہ 24 جنوری 1960ء دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے ، ہماری جماعت کو قائم کیا گیا ہے وو خطاب فرمود 240 جنوری 1960 ء بر موقع جلسہ سالانہ میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اس غرض کے لئے قائم کیا ہے کہ دنیا میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کی جائے.اور دنیا کے چپہ چپہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کی جائے.یہی ہمارے تمام کاموں کا نقطہ مرکزی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کو ہمیشہ جاری رکھیں.یہاں تک کہ دنیا کا کوئی ملک اور کوئی گوشہ ایسا نہ ہو، جہاں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہ پہنچ جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 610ء میں دعوی نبوت فرمایا تھا اور 632ء میں آپ نے وفات پائی.گویا آپ نے دعوی نبوت کے بعد صرف 23 سال کی عمر پائی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس قلیل مدت میں ہی آپ کے کام اور کلام میں عظیم الشان برکت ڈالی.اور جو غیر معمولی کامیابی اس نے آپ کو بخشی ، وہ کسی اور نبی کو میسر نہیں آئی.احادیث میں لکھا ہے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر جب مدینہ کی حفاظت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودوانی شروی کی تو اچانک ایک پتھر ایسا آ گیا، جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہیں آتا تھا.صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی تو آپ خود وہاں تشریف لے گئے اور کدال پکڑ کر زور سے اسے پتھر پر مارا.اس کے نتیجہ میں اس پتھر میں سے ایک روشنی نمودار ہوئی اور آپ نے فرمایا، اللہ اکبر اور صحابہ نے بھی بلند آواز سے آپ کے ساتھ نعرہ تکبیر بلند کیا.پھر دوبارہ آپ نے کدال مارا اور پھر ایک روشنی نمودار ہوئی اور آپ نے فرمایا ، اللہ اکبر.اس پر صحابہ نے پھر بڑے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا.اس کے بعد آپ نے تیسری مرتبہ کدال مارا اور پھر اس پتھر میں سے روشنی نکلی اور آپ نے فرمایا ، اللہ اکبر اور ساتھ ہی صحابہ نے بھی نعرہ تکبیر بلند کیا اور پھر ریزہ ریزہ ہو گیا.جب پتھر ٹوٹ چکا تھا تو صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! آپ نے تین دفعہ اللہ اکبر کیوں کہا؟ آپ نے فرمایا ، جب پہلی مرتبہ میں نے کدال مارا اور پتھر میں سے روشنی نکلی تو مجھے قیصر روم کے محلات دکھائے گئے اور ان کی کنجیاں میرے سپرد کی گئیں.709
اقتباس از خطاب فرمودہ 24 جنوری 1960ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم پھر دوسری دفعه کدال مارا اور روشنی نکلی تو مجھے مدائن کے سفید محلات دکھائے گئے اور مملکت فارس کی کنجیاں مجھے دی گئیں.پھر تیسری دفعہ کدال مارا اور اس میں سے روشنی نمودار ہوئی تو مجھے صنعاء کے دروازے دکھائے گئے اور مملکت یمن کی کنجیاں میرے سپرد کی گئیں.چنانچہ انہی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ خلفائے راشدین کے زمانے میں قیصر و کسری کو زبر دست شکست دی اور شام اور ایران اور یمن کی سرزمین پر اسلام کا جھنڈ الہرانے لگا.مگر افسوس کے بعد میں مسلمانوں نے تبلیغ اور آپ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے میں کوتاہی سے کام لیا اور اسلام کی اشاعت رک گئی.ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ آج دنیا بھر میں مسلمان، عیسائیوں ، ہندؤں اور بدھوں وغیرہ سے بہت زیادہ نہ ہوتے.فطرت صحیحہ کے مطابق تعلیم کی اشاعت اگر زور سے کی جاتی تو یقینا وہ انسانوں کو کھینچ لیتی.مگر افسوس کہ تبلیغ اسلام کو انہوں نے فراموش کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دنیا میں کمزور ہوتے چلے گئے.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس غفلت کا ازالہ کریں اور ساری دنیا کو اسلام کی طرف کھینچ کر لے آئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر قریباً چودہ سو سال گزر چکے ہیں مگر ابھی تک اسلام دنیا میں اقلیت ہے.عیسائیت کو 1959 سال گزر گئے مگر دنیا میں جتنی عیسائیت پھیلی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑا ہے کہ عیسائیوں نے زیادہ وفاداری سے کام لیا ہے.مسلمان اب تک بھی صرف عرب ، شام اور ایران میں ہی زیادہ ہیں.ورنہ ہندوستان میں وہ کم ہیں، روس میں وہ کم ہیں، جاپان میں وہ کم ہیں، آسٹریلیا میں وہ کم ہیں، تھائی لینڈ میں وہ کم ہیں، جرمنی میں وہ کم ہیں ، ناروے اور سویڈن میں وہ کم ہیں ، فرانس میں وہ کم ہیں، سپین میں وہ کم ہیں ، امریکہ میں وہ کم ہیں، فلپائن میں وہ کم ہیں.حالانکہ فلپائن میں اسلام بڑی دیر سے قائم ہو چکا ہے.اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اس غفلت کا علاج کریں.اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو برتری بخشی ہے، ہم اسے دنیا میں بھی برتر کر کے چھوڑیں.یہاں تک کہ تمام مذاہب یہ اقرار کر نے پر مجبور ہوں کہ اسلام کا مقابلہ ہم نہیں کر سکتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا نور ساری دنیا میں پھیل جائے.اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانے میں تبلیغ اسلام کی آگ لوگوں کے دلوں میں پھر بھڑکائی اور آپ نے اپنے انفاس قدسیہ سے ایک ایسی جماعت پیدا کردی، جو اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے.مگر اس کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے.ابھی سارا ہندوستان باقی ہے، سارا انگلستان باقی ہے، سارا روس باقی ہے، سارا فرانس باقی ہے، سارا سیکنڈے نیویا باقی ہے، سارا جرمنی باقی ہے، سارا آسٹریلیا باقی ہے.اس کو تا ہی کا علاج ہم 710
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 24 جنوری 1960ء نے کرنا ہے اور ہم نے ہی ساری دنیا کو حلقہ بگوش اسلام بنانا ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو تیز سے تیز کرتے چلے جائیں اور اسلام کے غلبہ کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے اپنی تمام شان سے بڑھ کر ہے.پس اگر مسیح موسوی کی امت 1959 سال سے دنیا پر غالب چلی آرہی ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ مسیح محمدی کے ماننے والوں کو کم از کم چار ہزار سال تک دنیا میں غلبہ حاصل رہے گا.اگر اللہ تعالی اس سے بھی زیادہ غلبہ عطا کر دے تو یہ اس کا احسان ہے.بہر حال تبلیغ اسلام کا کام ہماری زندگیوں تک محدود نہیں بلکہ ہم سب کے مرنے کے بعد بھی ہزاروں سال تک جاری رہے گا.اس عرصہ میں ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت باقی تمام فرقوں اور مذہبوں پر چھا جائے گی اور اسلام دنیا میں کامل طور پر غالب آجائے گا.میں اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام اولا دخواہ وہ آپ کے بیٹے ہیں یا پوتے اور نواسے ، یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میرے سامنے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو خدمت دین میں لگائے رکھیں گے اور اپنی آئندہ نسلوں کو احمدیت کی تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے رہیں گے.اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رکھیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر سچے دل سے ایمان لانے والے تمام احمدی بھی خواہ کسی جگہ کے رہنے والے ہوں ، آپ کے روحانی بیٹے ہیں، اس لئے جماعت احمدیہ کے تمام دوستوں کو چاہیے کہ وہ بھی اس عہد میں شامل ہوں.میں اس وقت عہد کے الفاظ دہراؤں گا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے تمام افراد اور آپ کے روحانی بیٹے کھڑے ہو جائیں اور اس عہد کو دہرائیں.اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهدان محمدا عبده ورسوله ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے.اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے.اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچارکھیں گے.711
اقتباس از خطاب فرموده 24 جنوری 1960ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے.اور اپنی اولا در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے.تا کہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے.اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللهم آمين.اللهم آمين.اللهم آمين.یہ اقرار جو اس وقت آپ لوگوں نے کیا ہے، اگر اس کے مطابق قیامت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جسمانی اور روحانی اولا دا شاعت اسلام کے کام میں مشغول رہے تو یقیناً احمدیت تمام دنیا پر چھا جائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے گا.پس آپ لوگوں کو ہمت دکھانی چاہیے اور پھر دعا میں بھی کرنی چاہیں.کیونکہ محض ہمت سے کچھ نہیں بنتا.اصل چیز دعا ہی ہے.پس دعائیں کرو اور پھر دعائیں کرو اور پھر دعا ئیں کرو.یہاں تک کہ اللہ تعالی دنیا کے چپہ چپہ پر احمدیت پھیلا دئے.( مطبوعه روز نامه افضل 16 فروری 1960ء ) 712
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 24 جنوری 1960ء آئندہ خلفاء اور اپنی اولاد کو وصیت خطاب فرمود و 24 جنوری 1960ء بر موقع جلسہ سالانہ ނ...اسی طرح آئندہ خلفاء کو میں وصیت کرتا ہوں کہ جب تک دنیا کہ چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کر لیں، اس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتا ہی.کام نہ لیں.خصوصا اپنی اولادکو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں.اور اپنی اولا در اولا دو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو بھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنا ہے.اس مقصد کو پورا کرنے اور اسلام کو پھیلانے کے لئے میں نے تحریک جدید جاری کی ہے، جو پچیس سال سے جاری ہے، جس کے ماتحت آج دنیا بھر کے تمام اہم ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل.ہمارے تبلیغی مشن قائم ہیں اور لاکھوں لوگوں تک خدا اور اس کے رسول کا نام پہنچایا جارہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغی مراکز کو وسیع کرنے اور مبلغین کا جال پھیلانے میں ہمیں خدا تعالیٰ نے بڑی بھاری کامیابی عطا کی ہے.مگر ابھی اس میں مزید ترقی کی بڑی گنجائش ہے.اور ابھی ہمیں ہزاروں واقفین زندگی کی ضرورت ہے، جو دنیا کے چپہ چپہ پر اسلام کی تبلیغ کریں.ہماری جماعت اب خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں ساٹھ ہزار واقفین زندگی کا میسر آنا مشکل امر نہیں.اور اگر ایک آدمی ، سواحمدی بنائے تو ساٹھ ہزار واقفین زندگی کے ذریعے ساٹھ لاکھ احمدی ہو سکتا ہے.پھر ساٹھ لاکھ میں سے چار، پانچ لاکھ مبلغ بن سکتا ہے اور چار، پانچ لاکھ مبلغ چار، پانچ کروڑ احمدی بنا سکتا ہے.اور چار، پانچ کروڑ احمدی اگر زور لگائے تو وہ اپنی تعداد کو چار، پانچ ارب تک پہنچا سکتا ہے، جو ساری دنیا کی آبادی سے بھی زیادہ ہے.مطبوعه روزنامه افضل 17 فروری 1960ء) 713
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم پیغام فرموده فرموده 30 اکتوبر 1960ء تحریک جدید کوئی نئی یا عارضی چیز نہیں بلکہ قیامت تک قائم رہنے والی چیز ہے پیغام فرمودہ 30اکتوبر 1960ء رض انصار اللہ کے چھٹے سالانہ اجتماع کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی نے اپنے ایک خصوصی پیغام میں تحریک جدید دفتر اول کے ستائیسویں اور دفتر دوم کے سترھویں سال کے آغاز کا اعلان فرمایا.حضور کا یہ روح پرور اور بصیرت افروز پیغام محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے پڑھ کر سنایا.اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم برادران جماعت احمدیہ! خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں تحریک جدید کے نئے مالی سال کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے ، دوستوں کو اس تحریک میں زیادہ سے زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ حصہ لینے اور اپنے وعدوں کو پچھلے سالوں سے بڑھا کر پیش کرنے کی طرف توجہ دلاؤں.تحریک جدید کوئی نئی یا عارضی چیز نہیں بلکہ قیامت تک قائم رہنے والی چیز ہے.اس لئے مجھے ہر سال اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.لیکن چونکہ مجھے کہا گیا ہے کہ میں اس بارہ میں اعلان کروں، اس لئے میں تحریک جدید کے نئے مالی سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کا نمونہ دکھائیں.تا کہ تبلیغ کا کام قیامت تک جاری رہے.یہ امر یا درکھو کہ ہماری جماعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ہے.اور محمد رسول اللہ کا کام قیامت تک جاری رہے گا.پس ہمیں بھی سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے سپر د اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشاعت 715
پیغام فرموده فرموده 30 اکتوبر 1960ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اسلام کا ، جو کام کیا گیا ہے، وہ قیامت تک جاری رہنے والا ہے.اور ہمیں قیامت تک آپ کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینا پڑے گا.بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت اشرار الناس پر آئے گی.لیکن اگر لوگ نیکی پر قائم رہیں تو خدا تعالیٰ اس کو بدل بھی سکتا ہے.اور بالکل ممکن ہے کہ قیامت اشرار الناس پر نہیں بلکہ اختیار الناس پر آئے.یہ تو امت کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسا اچھا بنائے کہ خدا تعالیٰ اپنی تقدیر کو بدل دے اور قیامت آنے کے وقت بھی دنیا میں اچھے لوگ ہی ہوں، برے نہ ہوں.اور چونکہ اس زمانہ میں دنیا کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو کھڑا کیا ہے اور ہماری جماعت نے قیامت تک اسلام اور احمد بیت کو پھیلاتے چلے جانا ہے، اس لئے ہماری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرے کہ قیامت اچھے لوگوں پر ہی آئے اور ہماری جماعت کے افراد کبھی بگڑیں نہیں.بلکہ ہمیشہ نیکی اور تقویٰ پر قائم رہیں ، سلسلہ سے پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رہیں، اسلام اور احمد بیت کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرتے رہیں اور اپنے نیک نمونہ سے دوسروں کی ہدایت کا موجب بنیں.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ لوگ بھی اپنا اچھا نمونہ دکھائیں اور دوسروں کو بھی اپنے عملی نمونہ اور جد و جہد سے نیک بنانے کی کوشش کریں.تاکہ قیامت اشرار الناس پر نہیں بلکہ اخیار الناس.آئے.اور ہمیشہ آپ لوگ دین کی خدمت میں لگے رہیں.جو خدا تقدیریں بناتا ہے، وہ اپنی تقدیروں کو بدل بھی سکتا ہے.اگر آپ لوگ اپنے اندر ہمیشہ نیکی کی روح قائم رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے فعل کے ساتھ اپنی تقدیر کو بھی بدل دے گا اور قیامت تک نیک لوگ دنیا میں قائم رہیں گے، جو خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرتے رہیں گے.پس کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو قیامت تک لئے چلا جائے.اور اخیار کی صورت میں لے جائے ، نہ کہ اشرار کی صورت میں.اور ہر سال جو ہماری جماعت پر آئے ، وہ زیادہ سے زیادہ نیک لوگوں کی تعداد ہمارے اندر پیدا کرے اور ہماری قربانیوں کے معیار کو اور بھی اونچا کر دے.اللہ تعالی آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ آپ کو اس تحریک میں پورے جوش اور اخلاص کے ساتھ حصہ لینے کی توفیق بخشے اور ہمیشہ آپ کو خدمت دین کی توفیق عطا فرما تار ہے.اللهم ( مطبوعه روز نامه الفضل تیکم نومبر 1960ء) 716
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 28 دسمبر 1960ء ہمارے سپر د جو کام ہے، وہ بغیر مستقل جد و جہد کے سرانجام نہیں دیا جا سکتا "" خطاب فرمود و 28 دسمبر 1960ء بر موقع جلسہ سالانہ....یہ امریا درکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے سپر د ایک بہت بڑا کام کیا ہے.ہم نے ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کرنی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پھیلانی ہے اور ہم نے ساری دنیا میں اور ہمیشہ کے لئے نیکی اور تقویٰ کی روح کو قائم کرنا ہے.اور یہ کام بغیر ایک لمبی اور مستقل جدو جہد کے سرانجام نہیں دیا جا سکتا.پس ضروری ہے کہ ہمارا ہر فرد اپنی ان ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ، جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اس پر عائد ہیں، ان سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے اور اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت میں صرف کرے.تا کہ جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو اس کا سرا اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کی بناء پر ندامت اور شرمندگی سے نیچانہ ہو بلکہ وہ فخر کے ساتھ کہہ سکے کہ میں نے اپنے اس فرض کو ادا کر دیا ہے، جو مجھ پر اپنے رب کی طرف سے عائد کیا گیا تھا“...اسی طرح جو لوگ خدا تعالیٰ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں اور اس کے احکام کی بجا آوری کے لئے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے متعلق بھی اپنی غیرت کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے ، اے غریبو! کمزورو! اور مفلسو! تم نے چونکہ میری خاطر ماریں کھائی تھیں اور میری خاطر صعوبتیں برداشت کی تھیں، اس لئے اب میں بھی تمہیں دنیا پر غلبہ دوں گا اور تمہیں ان انعامات سے حصہ دوں گا، جو تمہارے وہم اور گمان میں بھی نہیں آسکتے.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اپنے اندر ایمان اور اخلاص پیدا کیا جائے.جب کسی جماعت کے قلوب میں حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو دنیا کی کوئی مخالفت ان کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی.وہ بے شک دنیوی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں مگر انہیں آسمان سے ایک بہت بڑی طاقت عطا کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان کے روحانی مقاصد میں کامیاب کر دیتا ہے.ہماری جماعت کے افراد کو بھی یہ عہد کر لینا چاہیے کہ خواہ ہم پر کتنی بڑی مشکلات آئیں اور خواہ ہمیں مالی اور جانی لحاظ سے کتنی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں، پھر بھی جو کام ہمارے آسمانی آقا نے ہمارے سپرد کیا ہے، ہم اس کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کریں گے اور خدائی امانت میں کوئی خیانت نہیں کریں گے.717
اقتباس از خطاب فرموده 28 دسمبر 1960ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم ہمارے سپرد اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہے کہ ہم اس کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کریں.اور یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے ، ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ، اسے عاجزانہ طور پر عرض کریں کہ اے ہمارے آقا! دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ موجود تھے ، بڑے بڑے سیاست دان موجود تھے، بڑے بڑے مد بر موجود تھے، بڑے بڑے نواب اور رؤسا موجود تھے، بڑے بڑے فلاسفر اور بڑے بڑے حکماء اور علماء موجود تھے مگر تو نے ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے ، ہم غریبوں اور بے کسوں کو چنا اور اپنی بیش بہا امانت ہمارے سپرد کر دی.اے ہمارے آقا! ہم تیرے اس احسان کو کبھی بھلا نہیں سکتے اور تیری اس امانت میں کبھی خیانت نہیں کر سکتے.ہم تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے شہروں اور ویرانوں میں پھریں گے، ہم تیرے نام کو بلند کرنے کے لئے دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے اور ہر دکھ اور مصیبت کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جائیں گے.اگر ہم یہ عزم کرلیں اور دین کے لئے متواتر قربانیاں کرتے چلے جائیں تو یقینا اللہ تعالیٰ ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور اسلام اور احمدیت کو دنیا میں غالب کر دے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم سخت کمزور اور ناطاقت ہیں مگر ہمارے خدا میں بہت بڑی طاقت ہے.اور خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب اس کے بندے اس کی راہ میں خوشی سے موت قبول کر لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ انہیں دائمی حیات عطا کر دیتا ہے اور لوگوں کے قلوب ان کی قربانیوں کو دیکھ کر صاف ہونا شروع ہو جاتے ہیں.گویا ان کا خون جماعت کی روئیدگی کے لئے کھا د کا کام دیتا ہے، جس سے وہ بڑھتی اور ترقی کرتی ہے.پس ہماری جماعت کے ہر بچے، ہر نو جوان، ہر عورت اور ہر مرد کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے سپر داللہ تعالی نے اپنی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کا جو اہم کام کیا ہے، اس سے بڑھ کر دنیا کی اور کوئی امانت نہیں ہو سکتی.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے گھروں کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں ، بعض لوگ بھیڑوں، بکریوں کے گلے کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں بعض لوگ گورنمنٹ کے خزانہ کا پہرہ دیتے ہوئے مارے جاتے ہیں اور بعض لوگ فوجوں میں بھرتی ہو کر اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں.لیکن جو چیز اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کی ہے، اس کے مقابلہ میں دنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی.بلکہ ان کو اس سے اتنی بھی نسبت نہیں جتنی ایک معمولی کنکر کو ہیرے سے ہوسکتی ہے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں سرگرمی سے حصہ لو.اس غرض کے لیے زیادہ سے زیادہ نو جوانوں کو خدمت دین کے لئے وقف کرو تا کہ ایک کے بعد دوسری نسل 718
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 28 دسمبر 1960ء اور دوسری کے بعد تیسری نسل اس بوجھ کو اٹھاتی چلی جائے اور قیامت تک اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا ہرا تار ہے.اس عظیم الشان مقصد کی سرانجام دہی کے لیے میں نے بیرونی ممالک کے لئے تحریک جدید اور اندرون ملک کے لئے صدر انجمن احمد یہ اور وقف جدید کے ادارے قائم کیے ہوئے ہیں.دوستوں کو ان اداروں کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنا چاہیے اور نو جوانوں کو سلسلہ کی خدمت کے لئے آگے آنے کی تحریک کرنی چاہیے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں سادھو اور بھکاری تک بھی اپنی ساتھی تلاش کر لیتے ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر تم اس عظیم الشان کام کے لئے دوسروں کو تحریک کرو تو تمہارا کوئی اثر نہ ہو.اس وقت اسلام کی کشتی بھنور میں ہے اور اس کو سلامتی کے ساتھ کنارے تک پہنچانا، ہمارا کام ہے.اگر ہم اس کی اہمیت کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں تو ہزاروں نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آسکتے ہیں.ہمیں اس وقت ہر قسم کے واقفین کی ضرورت ہے.ہمیں گریجوایٹوں کی بھی ضرورت ہے اور کم تعلیم دانوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہم ہر طبقہ تک اسلام کی آواز پہنچا سکیں.اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ لو گے تو یقینا اس کشتی کو سلامتی کے ساتھ نکال کر لے جاؤ گئے اور اللہ تعالیٰ تمہیں ابدی حیات عطا فرمائے گا.تمہارے بعد بڑے بڑے فلاسفر پیدا ہوں گے، بڑے بڑے علماء پیدا ہوں گے، بڑے بڑے صوفیاء پیدا ہوں گے، بڑے بڑے بادشاہ آئیں گے مگر یا درکھو، خدا تعالیٰ نے جو شرف تمہیں عطا فرمایا ہے، بعد میں آنے والوں کو وہ میسر نہیں آسکتا.جیسا عالم اسلام میں بڑے بڑے بادشاہ گذرے ہیں مگر جو مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک چھوٹے سے چھوٹے صحابی کو ملا، وہ ان بادشاہوں کو نصیب نہیں ہوا.ان بادشاہوں اور نو جوانوں کو بیشک دنیوی دولت ملی مگر اصل چیز تو صحابہ ہی کے حصہ میں آئی ، باقی لوگوں کو تو صرف چھلکا ہی ملا.وو بیشک صحابہ کے بعد آنے والوں کو بڑی بڑی دولتیں ملیں ، حکومتوں پر انہیں قبضہ ملا مگر جو روحانی دولت صحابہ کے حصہ میں آئی ، وہ بعد میں آنیوالوں کو نہیں ملی.پس خدمت دین کے اس اہم موقع کو، جو تمہیں صدیوں کے بعد نصیب ہوا ہے، ضائع مت کرو اور اپنے گھروں کو خدا تعالیٰ کی برکتوں سے بھر لو.میں نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں جب کام شروع کیا تھا تو میرے ساتھ صرف چند ہی نو جوان رہ گئے تھے اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو قابل اور ہوشیار سمجھتے تھے، سب لاہور چلے گئے تھے اور ہمارے متعلق خیال کرتے تھے، یہ کم علم اور ناتجربہ کار لوگ ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ وہی لوگ ، جن کو وہ نا تجربہ کار سمجھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہی سے ایسا کام لیا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے.اس وقت میری عمر چھیں 719
اقتباس از خطاب فرموده 28 دسمبر 1960ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم سال تھی ، میاں بشیر احمد صاحب کی عمر اکیس ، ساڑھے اکیس سال تھی.اسی طرح ہمارے سارے آدمی ہیں اور تمیں سال کے درمیان تھے.مگر ہم سب نے کوشش کی اور محنت سے کام کیا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے جماعت کے کام کو سنبھال لیا.اسی طرح اب بھی نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ سلسلہ کی خدمت کا تہیہ کر لیں اور دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کریں.اگر کسی نے صرف بی.اے اور ایم.اے کر لیا اور دینی تعلیم سے کو رار رہا تو ہمیں اس کی دنیوی تعلیم کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ غیر مبائعین کے الگ ہونے کے بعد میرے ساتھ جتنے نو جوان رہ گئے تھے، وہ کالجوں میں بھی پڑھتے تھے مگر وقت نکال کر دینی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے.چنانچہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور صوفی غلام محمد صاحب اپنے پرائیویٹ اوقات میں دینی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ایم.اے اور بی.اے بھی کرلیا اور دینی تعلیم بھی مکمل کرلی.میں سمجھتا ہوں، اگر اب بھی ہم پوری طرح اس طرف توجہ دیں تو چند سال کے بعد ہی ہمیں ایسے مخلص نوجوان ملنے شروع ہو جائیں گے، جو انجمن اور تحریک کے کاموں کو سنبھال سکیں گے.پس سلسلہ کی ضروریات اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے حوصلوں کو بلند کرو.اگر انسان کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے ہی اپنے حوصلہ کو گرا دے اور سمجھے کے میں کچھ نہیں کر سکتا تو یہ اس کی غلطی ہوتی ہے.بیشک ایک انسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ دنیا کو ہلا سکے.لیکن وہ دنیا کو ہلانے کا ارادہ تو کر اگر تم اپنے حوصلوں کو بلند کرو گے اور سنتی اور غفلت کو چھوڑ کر اپنے اندر چستی پیدا کرو گے تو تھوڑے عرصہ میں ہی تم میں سے کئی نوجوان ایسے نکلیں گے، جو پہلوں کی جگہ لے سکیں گے.میں نے تحریک جدید میں نو جوانوں کو لگا کر دیکھا ہے، وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں.بلکہ شروع میں، میں جن کے متعلق سمجھتا تھا کہ ممکن ہے کہ وہ اس کام کے اہل ثابت نہ ہو سکیں ، انہوں نے بھی جب محنت کی تو اپنے کام کو سنبھال لیا اور اب وہ خوب کام کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر عزم تھا اور انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہر ممکن کوشش کے ساتھ دین کی خدمت کریں گے.آئندہ بھی ہماری جماعت کے نو جوانوں کو اپنی زندگیاں وقف کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے.کیونکہ ہمیں اب سلسلہ کی ضروریات کے لئے بہت سے نئے آدمیوں کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے.اس وقت ہمیں ایسے نوجوان درکار ہیں، جن کو ہم انگلستان، امریکہ اور دوسرے یورپین ممالک میں بھیج سکیں.اس طرح افریقہ وغیرہ کے لئے ہمیں سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت ہے.اس کے بعد ان کی جگہ نئے آدمی بھیجنے اور انہیں واپس بلانے کے لئے ہمیں اور آدمیوں کی ضرورت ہوگی اور یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتا چلا جائے گا.720
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم اقتباس از خطاب فرموده 28 دسمبر 1960ء پس نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ خدمت دین کے لئے آگے آئیں اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں بھی وقف کی تحریک کو مضبوط کریں.ہمارے کاموں نے بہر حال بڑھنا ہے.لیکن انہیں تکمیل تک اسی صورت میں پہنچایا جا سکتا ہے، جب زیادہ سے زیادہ نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آئیں.ان نصائح کے ساتھ میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے ہمارے کاموں میں برکت ڈالے اور وہ بوجھ ، جسے ہمارے کمزور اور نا تواں کندھے نہیں اٹھا سکتے ، اسے خود اٹھالے اور ہمیں اپنی موت تک اسلام اور احمدیت کی خدمت کی توفیق عطا کرتا چلا جائے.ہم کمزور اور بے بس ہیں لیکن ہمارا خدا بڑا طاقتور ہے.اس کے صرف کن کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ زمین و آسمان میں تغیرات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اس لئے آؤ، ہم اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کریں کہ وہ ہم پر اپنا فضل نازل فرمائے ہمیں اپنی رضا اور محبت کی راہوں پر چلائے اور ہمارے مردوں اور عورتوں اور بچوں کو اس امر کی توفیق بخشے کہ وہ دین کی خدمت کے لئے زیاد سے زیادہ قربانیوں سے کام لیں اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ انہیں منافقت سے بچائے ، ان کے ایمانوں کو مضبوط کرے، ان کے دلوں میں اپنا سچا عشق پیدا کرے اور انہیں دین کی بے لوث خدمت کی اس رنگ میں توفیق بخشے ، جس رنگ میں صحابہ کرام کو ملی.اور اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو بھی دین کا سچا خادم اور اسلام کا بہادر سپاہی بنائے اور انہیں ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اور (مطبوعه روز نامه الفضل 07 جنوری 1961ء) 721
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم پیغام فرمودہ 28 نومبر 1961ء اپنے بچے غلام ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے خدا کی آواز کو دنیا میں پھیلا دو پیغام فرمودہ 28 نومبر 1961ء اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمان الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود برادران خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اپنے روحانی مرکز سے جدا ہوئے اتنی دیر ہو گئی ہے کہ اب طبیعت بہت گھبراتی ہے.مگر ہم خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک دن ہمیں اپنا روحانی مرکز دلوا دے گا.مگر ہمیں خود بھی جد و جہد کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.دنیا کفر کے اندھیروں میں پڑی ہوئی ہے اور ہمیں خدا کا نور ملا ہے.ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ دنیا کو خدا کے نور کی طرف لائیں اور جو خدا نے ہم کو دیا ہے، اسے دنیا تک پہنچا ئیں.دنیا خدا سے دور ہوتی جارہی ہے اور پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ میری مدد کے لئے آؤ.اب یہ ہمارا فرض ہے کہ خدا تعالٰی کے اچھے خادموں کی طرح اس کی آواز کوسنیں اور اس تک خدا کا پیغام پہنچائیں.سو آگے آؤ اور لوگوں کو دین کی طرف لاؤ کہ اس سے بہتر موقع پھر کبھی نہیں ملے گا مسیح نے جو تعلیم دی تھی ، اسلام کی تعلیم کے آگے عشر عشیر بھی نہ تھی.مگر عیسائیوں نے اپنی جدو جہد سے اسے دنیا میں پھیلا دیا.اگر ہم اس سے ہزارواں حصہ بھی کوشش کریں تو دنیا کے چپہ چپہ پر اسلام کا چشمہ پھوٹ پڑے.اور الست بربکم کے مقابلہ میں بلی کی آوازیں آنے لگیں.سو اٹھو اور کمر ہمت کس لو ! عیسائی جھوٹ کے لئے اتنا زور لگا رہے ہیں، کیا تم سچائی کے لئے زور نہیں لگا سکتے ؟ 723
پیغام فرمودہ 28 نومبر 1961ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم خدا تعالٰی اپنی نصرت کے سامان پیدا کر رہا ہے.ضرورت یہ ہے تم بھی بچے خادموں کی طرح آگے آؤ اور اپنے ایمان کو اپنے عمل سے ثابت کرو.دنیا ہزاروں سال سے پیاسی بیٹھی ہے اور اس کے پیاس بجھانے والے چشمہ کی نگرانی تمہارے سپرد ہے.کیا تم آگے نہیں بڑھو گے اور دنیا کی پیاس نہیں بجھاؤ گے ؟ اٹھو اور آگے آؤ اور خدا تعالیٰ کے ثواب کے مستحق بنو.دنیا میں پھیل جاؤ اور اسلام کی تعلیم کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا دو.خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے اور دنیا کی آنکھیں کھولے اور انہیں اسلام کی طرف لائے.اسلام ہی سارے نوروں کا جامع اور ساری صداقتوں کا سر چشمہ ہے.اس سر چشمہ کے پاس خاموش نہ بیٹھو.بلکہ دنیا میں اس کا پانی تقسیم کرو.جس کے پاس چھوٹی سی چیز بھی ہوتی ہے ، وہ اسے دنیا کو دکھاتا پھرتا ہے.تمہارے پاس تو ایک خزانہ ہے.ایک بڑھیا کے متعلق مشہور ہے کہ اس کے پاس ایک انگوٹھی تھی ، اسے لے کر کھڑی ہو جاتی اور ہر ایک کو دکھاتی.تمہارے پاس تو خدا تعالیٰ کا نور ہے.تم کیوں نہیں اسے ساری دنیا کو دکھاتے اور دنیا کے سامنے پیش کرتے ؟ جاؤ اور دنیا کو اسلام کی طرف پھیر کے لاؤ.اور اسلام کی صداقت کو دنیا پر ظاہر کرو.خدا تمہاری مدد کرے اور ہر میدان میں تمہیں فتح دے.اگر تم خدا کے لئے نکلو گے تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں دنیا کا بادشاہ اور امام بنادے گا.یہ خدا کا کام ہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ تم خدا کے کمزور بندے ہو کر اس کا کام کرو اور وہ قادر مطلق ہو کر اپنا کام نہ کرے؟ پس خدا کا نام لے کر کھڑے ہو جاؤ اور دنیا کو خدا کے نور سے منور کر دو.یقینا وہ تمہاری مدد کرے گا اور دنیا کو تمہارے قدموں میں لا کر ڈال دے گا.تم تو مفت کا ثواب کماؤ گے اور کام سارا خدا کرے گا.صرف اتنی ضرورت ہے کہ ایک دفعہ ہمت کر کے کھڑے ہو جاؤ اور اپنے بچے غلام ہونے کا ثبوت دو.خدا تمہارے ساتھ ہو اور تمہیں خدمت اسلام کی توفیق دے.میں تو بیمار ہوں دعا ہی کر سکتا ہوں.دنیا سچائی کی پیاسی ہے، اگر تم جاؤ گے تو یقینا کامیاب ہو جاؤ گے.ایک پیاسے کو اگر کوئی پانی کا پیالہ دے تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اس کو رد کر دے؟ پس اپنے بھائیوں کی پیاس بجھانے کے لئے تیار ہو جاؤ.تمہارا کچھ نہیں بگڑتا، ان کو سب کچھ مل جاتا ہے.خدا تمہارے ساتھ ہو اور تمہیں نیکی کی توفیق دے.اور ہم ایک دن دیکھ لیں کہ ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کا نور پھیل گیا ہے.مجھے اپنی جوانی میں ایک دفعہ ایک پادری سے تثلیث کے متعلق بات کرنے کا موقع ملا.میں نے اسے کہا، آپ کی میز پر یہ پنسل پڑی ہے، اگر میں آپ کو اسے اٹھانے کو کہوں اور آپ اپنے نوکروں کو 724
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم پیغام فرمودہ 28 نومبر 1961ء آواز میں دینے لگ جائیں کہ آؤ ہم مل کر یہ پنسل اٹھا ئیں.اس نے کہا ، ہم پاگل تھوڑی ہیں.میں نے کہا، آپ کی جو باتیں ہیں، ان سے تو پتہ لگتا ہے کہ پاگل ہیں.جو کام خدا کیلا کر سکتا ہے، اس کے لئے تین خداؤں کی کیا ضرورت ہے؟ وہ اکیلا سارا کام کرے گا.تمہاری تکلیف بہت چھوٹی ہے، خدا کا انعام بہت بڑا ہے.تم تو اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو تھوڑے دنوں کے لئے چھوڑو گے مگر خدا تمہیں وادی جنت دے گا.پس اٹھو اور ہمت کرو، خدا تمہارے ساتھ ہو اور دنیا کے ہر میدان میں تمہیں فتح دے.آمین ثم آمین.بکوشید اے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا خاکسار مرز امحمود احمد 28/11/61 مطبوعه روزنامه الفضل 30 نومبر 1961 ء ) 725
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم پیغام فرمودہ 28 اکتوبر 1962ء تبلیغ کریں تبلیغ کریں تبلیغ کریں پیغام فرمودہ 28 اکتوبر 1962ء سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی نے انصار اللہ کے آٹھویں سالانہ اجتماع کے آخری روز مورخہ 28 اکتوبر 1962ء کو ایک خصوصی پیغام میں تحریک جدید کے دفتر اول کے انتیسویں اور دفتر دوم کے انیسویں سال کا اعلان فرمایا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ روح پرور پیغام املا کرانے کے بعد اس پر اپنے قلم سے دستخط سے فرما کر ارسال فرمایا تھا اور ساتھ ہی ٹیپ پر اسے خود اپنی آواز میں ریکارڈ بھی کرا دیا تھا.چنانچہ اجتماع کے اختتامی اجلاس میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے پہلے حضور کا پیغام پڑھ کر سنایا اور پھر یہی پیغام خود حضور کی آواز میں سنایا گیا.اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم انصار الله ! الله الرحمان الرحيم السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے افسوس ہے کہ میں بیماری کی وجہ سے آپ کے جلسہ میں شرکت نہیں کر سکتا.لیکن آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.تبلیغ کریں تبلیغ کریں تبلیغ کریں.یہاں تک کہ حق آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے.اور اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے اور دنیا میں صرف محمد رسول اللہ کی حکومت ہو.اس کام کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں.اب دیکھنا ہے کہ من انصاری الی اللہ تحریک جدید کے نئے سال کا بھی اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو قربانیوں کی توفیق دے.امین اللهم مین.خاکسار مرز امحمود احمد خليفة المسيح الثاني (مطبوعہ الفضل 30 اکتوبر 1962ء) 727
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم - اقتباس از پیغام فرموده 13 دسمبر 1962ء آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی اسلام اور احمدیت کی کامیابی کی بشارت لکھ چکی ہے پیغام فرموده 13 دسمبر 1962 ء بر موقع جلسہ سالانہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت آپ لوگوں کے سپر د اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عظیم الشان کام سپر د کیا گیا ہے، وہ اسی صورت میں سرانجام دیا جا سکتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت شامل حال ہو.ورنہ اس کے انجام پانے کی اور کوئی صورت نہیں.پس اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق بڑھاؤ اور دعاؤں اور ذکر الہی پر خصوصیت سے زوردو.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اسلام اور احمد بیت کو ساری دنیا میں پھیلائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام ممالک میں بڑی شان اور عظمت سے لہرائے.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن ایسا ہی ہوگا.بے شک دنیا ان باتوں کونا ممکن مجھتی ہے لیکن ہم نے خدا تعالیٰ کے نشانات کو بارش کی طرح برستے دیکھا ہے اور ہم نے اس کی قدرتوں اور جلال کا بار ہا مشاہدہ کیا ہے.اس لئے ہمیں یہ یقین ہے کہ احمدیت اور اسلام بڑھیں گے اور پھلیں گے اور پھولیں گے.اور ایک دفعہ پھر ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بڑی شان کے ساتھ گاڑا جائے گا.یہ آسمانی فیصلہ ہے، جسے کوئی روک نہیں سکتا.آسمان پر خدا تعالی کی انگلی اسلام اور احمدیت کی کامیابی کی بشارت لکھ چکی ہے.اور جو فیصلہ آسمان پر ہو جائے ، زمین اسے بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی.پس اس مقصد کے حصول کے لئے پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور زیادہ استقلال اور زیادہ چستی کے ساتھ دین اسلام کی خدمت میں لگ جاؤ.اور اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا کرو.نمازوں میں خشوع و خضوع کی عادت ڈالو، دعاؤں اور ذکر الہی پر زور دو، صدقہ و خیرات کی طرف توجہ رکھو، سچائی سے کام لو، دیانت اور امانت میں اپنا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ اور عدل اور انصاف اپنا شیوہ بناؤ.یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لوتو تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور اس کی معجزانہ تائید تمہاری طرف دوڑتی چلی آئے گی.اور خدا تعالیٰ ایک دن ساری دنیا کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دے گا.مطبوعه روزنامه افضل 10 جنوری 1963 ء) 729
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلدسوم - ارشاد فرمودہ حضرت مصلح موعود جو احمدی اس تحریک میں حصہ نہیں لے گا ، ہم اسے کمزور سمجھیں گے ارشاد فرموده حضرت مصلح موعود رض مورخہ 3 نومبر 1963ء کو انصار اللہ کے نویں سالانہ اجتماع کے عظیم الشان اجلاس میں سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی کی اجازت سے محترم صاحبزادہ مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وكيل التبشير تحریک جدید نے تحریک جدید کے دفتر اول کے تیسویں اور دفتر دوم کے بیسویں سال کے آغاز کا اعلان کیا.آپ نے تحریک جدید کی عظمت و اہمیت سے متعلق حضرت خلیفة المسیح الثاني کے درج ذیل دو نہایت ہی اہم ارشادات سنا کر تحریک جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کیا.یہ تحریک کسی خاص گروہ سے مختص نہیں.بلکہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس میں حصہ لے.جو احمدی اس تحریک میں حصہ نہیں لے گا ، ہم اسے احمدیت اور اسلام میں کمزور سمجھیں گے.کیونکہ جس شخص کے دل میں یہ خواہش نہیں کہ اسلام کی خدمت اور احمدیت کی اشاعت کے لئے کچھ خرچ کرے، اس کا اسلام لانا یا احمدیت کا قبول کرنا محض بیکار ہے.میں نے اس چندہ کو لازمی کر دیا ہے.جماعت کے ہر مرد اور عورت کا فرض ہے کہ وہ اس میں حصہ لئے“.( مطبوعه روزنامه الفضل 05 نومبر 1963ء) 731
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم نام فرمودہ 28 دسمبر 1963ء اپنی آئندہ نسلوں کو اسلام کا بہادر سپاہی بنانے کی کوشش کرو پیغام فرمودہ 28 دسمبر 1963ء جلسہ سالانہ 1963ء کے اختتامی اجلاس میں سیدنا حضرت خليفة المسيح الثاني مندرجہ ذیل پیغام حضور کے ارشاد کے مطابق مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھ کر سنایا.بسم الله الرحمان الرحيم اعوذ بالله من الشيطان الرجيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادران جماعت احمدیہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو اپنے خاص فضل سے یہاں تین دن دعاؤں اور ذکر الہی میں بسر کرنے اور خدا اور اس کے رسول کی باتیں سننے کی جو تو فیق عطا فرمائی ہے، اس کا یہ احسان ، تقاضہ کرتا ہے کہ اب آپ پہلے سے بھی زیادہ دعاؤں اور انابت الی اللہ پر زور دیں.اور سلسلہ کی اشاعت اور اسلام کی ترقی کے لئے والہا نہ جد و جہد سے کام لیں اور اس بارہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں.یہ امر یاد رکھیں کہ وہی شاخ سرسبز رہ سکتی ہے، جس کا اپنے درخت کے ساتھ پیوند ہو.ورنہ اگر ایک تازہ شاخ کو درخت سے کاٹ کر پانی کے تالاب میں بھی ڈال دیا جائے تو وہ کبھی سرسبز نہیں رہ سکتی.پس مرکز کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار رکھو اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت پر بہت زور دو اور اپنی آئندہ نسل کی درستی کا فکر کرو.مجھے نظر آرہا ہے کہ جماعت کو اپنی آئندہ نسل کی درستی کا خاص فکر نہیں.اور یہ ایک نہایت ہی خطرناک بات ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ تحریک جدید کے دور اول میں تو بڑی کثرت کے ساتھ لوگوں نے حصہ لیا، مگر نئے دور میں شامل ہونے والوں کی تعداد ان کی نسبت کے لحاظ سے بہت کم ہے.اور پھر جولوگ 733
پیغام فرمودہ 28 دسمبر 1963ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم وعدہ کرتے ہیں، وہ وقت کے اندر اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی کوششیں نہیں کرتے.حالانکہ اشاعت اسلام کا کام کسی ایک نسل کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ قیامت تک اس نے جاری رہنا ہے.پس اپنے اندر صحیح معرفت پیدا کرو اور اپنی آئندہ نسلوں کو اسلام کا بہادر سپاہی بنانے کی کوشش کرو.اور اس نکتہ کو بھی مت بھولو کہ قربانی اپنا پھل تو ضرور لاتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر قربانی کا پھل قربانی کرنے والا ہی کھائے.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ساری قربانیوں کا پھل وہ خود ہی کھائے ، اس سے زیادہ نادان اور کوئی نہیں ہوسکتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک وادی غیر ذی زرع میں رکھا.مگر اس کا پھل ایک مدت دراز کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ظاہر ہوا اور دنیا اس پھل کو دیکھ کر حیران رہ گئی.پھر تم کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری قربانیوں کا بدلہ تمہیں آج ہی ملنا چاہیے؟ اگر تمہاری نسل کسی وقت بھی تمہاری قربانیوں سے فائدہ اٹھالے تو حقیقتا تمہاری قربانیوں کا پھل تمہیں مل گیا.پس اپنے ذہنوں میں جلا اور اپنے فکر میں بلندی پیدا کرو اور قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ آگے کی طرف قدم بڑھاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو خدا تعالیٰ اپنی تائیدات سے تمہیں اس طرح نوازے گا کہ تم دنیا کے میدان میں ایک فٹ بال کی حیثیت نہیں رکھو گے.بلکہ تم اس برگزیدہ انسان کاظل بن جاؤ گے ، جس کے متعلق آسمانی نوشتوں میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ کونے کا پتھر ہو گا.جس پر وہ گرے گا ، وہ بھی چکنا چور ہوگا اور جو اس پر آگرا، وہ بھی چکنا چور ہو گا.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے مردوں اور ان کی عورتوں اور ان کے بچوں اور ان کے بوڑھوں کو اپنے فرائض کے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں اپنے فضل سے وہ طاقت بخشے، جس سے وہ اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کر دیں.اے خدا!! تو ایسا ہی کر.آمین یارب العالمین.خاکسار مرز امحمود احمد خليفة المسيح الثاني 28/12/63 ( مطبوعه روزنامه الفضل 02 جنوری 1964ء) 734
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اشاریہ 1- آیات قرآنیہ 2.احادیث مبارکہ 3.کلید مضامین -4 اسماء 5- مقامات 6.کتابیات اشاریہ 739
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم آیات قرآنیہ اشاریہ ، آیات قرآنید الفاتحة 01,63,79,101,111,225,267,305,311, 335,371,377,411,427,430,473,493, 538,543,555,589,607,623,625,643, الانفال واعلموا ان الله يحول 707( 25 )........والذين امنوا من بعد وهاجر وا...( 76 ) 521,528 التوبة 655,665,667 الحمد لله.اسب العالمين ( 02 ) 607,613 البقرة كلما أضاء لهم مشوافيه.........آل عمران 225(21)..ومكر و او مكر الله...................( 55 )674 ولتكن منكم امة......( 105 ) 298,395,396 كنتم خير امة اخرجت للناس..........قاتلوا المشركين كافة( 36 )687 الرعد ان الله لا يغير ما بقوم..................( 12 )440 ابر القيم انی اسکنت من ذریتی بواد..الحجر ربمايود الذين كفروا.بنی اسرائیل 59(38).448(03).625,627,637 المائدة فاذهب انت وربك فقاتلا...............( 25 ) كلا نمد هولاء وهو لاء ( 21 )86 ان العهد كان مسئولا ( 35 )189 192,195,209,214 يا ايها الذين امنوا من يرتد..........( 55 )641 طط واحلل عقدة من لساني..........( 28,29 )568 الفرقان الاعراف وجاهد هم به.ووعد ناموسي ثلثين ليلة.......( 143 )244 323,325,366 ( 53 )..741
اشاریہ ، آیات قرآنید الروم ظهر الفساد في البر والبحر ( 42 )429 السجدة تتجافى جنوبهم.المضاجع ( 17 )141 عن فاطر ما انت بمسمع من في القبور ( 23 )556 یس ياحسرة على العباد....الصافات فنظر نظرة في النجوم.185,429 (31 512(89,90 الزمر لا يخلف الله الميعاد ( 21 )223 الحجرات لا تمنوا على اسلام كم ( 18 ) 233 الواقعة السابقون السابقون.......( 11,12 )150,152 الصيف لم تقولون مالا تفعلون (21903 هو الذي ارسل رسوله.........( 10 )43,44 النازعات والنازعات غرقاً................( 10-02 )667 742 تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد سوم
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اذ فسدت فسد الجسد كله 203 نصرت بالرعب مسيرة شهر 431 احادیث اشاریہ، احادیث مبارکہ ایک یہودی اور مسلمان کا جھگڑے کے فیصلہ کیلئے پہلے رسول کریم اور پھر حضرت عمر کے پاس آنا 117 جنگ تبوک کے موقع پر ایک صحابی کا پیچھے رہ جانا اور ان کی بیوی کا كلا والله ما يخزیک الله ابداً.انک لتصل ناراض ہونا 119 الرحم وتحمل الكل وتكسب المعدوم عبد اللہ بن ابی بن سلول کا یہ کہنا کہ مدینہ پہنچ کرنعوذ باللہ سب سے تقرى الضيف وتعين على نوائب الحق546 معزز آدمی سب سے ذلیل آدمی کو مدینہ سے نکال دے گا 1200 119 اگر تمہیں برف کے میدانوں میں گھٹنوں کے بل بھی چل کر جانا فليبلغ الشاهد الغائب 561 قرب مبلغ اوعى من سامع 561 انا عند ظن عبدی بی569 ما اعطيت بغير استشراف نفسک فخذه بارک الله لک 574 احادیث بالمعنى ایک منافق کے سینے پر ہاتھ پھیرنا 15-13 ایک امام جس کے پاس پورے کپڑے نہ تھے 30 آپ کے پاس ایک خاص جبہ تھا 30 آپ کے پاس گھوڑا ، اونٹ اور خچر بھی تھے 30 جہاد میں شامل ہونے والوں کے جوتے بھی نہ تھے 30 جس کے پاس جتنا غلہ ہے وہ لے آئے 31 آپ سواری استعمال کیا کرتے تھے 33 32 پڑے تو اس کے پاس پہنچو اور اسے میر اسلام بھی پہنچا ؤ130 میں سوتے ہوئے بھی جاگتا ہوں 137 فتح مکہ کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم پر ایک نو جوان انصاری کا 150, 151, 152 دنیا میں ایک لاکھ بیس ہزار مامور من اللہ گزرے ہیں 161 جنگ بدر کا واقعہ 196 195 1194 دشمن سے لڑائی کی کبھی خواہش نہ کرو 205 منافق کی یہ علامت 206 جنگ تبوک میں تین صحابہ کے پیچھے رہ جانے کا واقعہ 210 جنگ حنین میں آنحضور کے پاس صرف ایک شخص کے رہ جانے کا واقعہ 215 ہجرت مدینہ سے پہلے انصار سے معاہدہ اور نصائح 236 235 جنگ بدر کا واقعہ 237238 ایک صحابی کا عورتوں سے زیورا کٹھا کرنے کا واقعہ 253 ایک صحابی کو بکرا خریدنے کے لئے ایک دینار دے کر بھیجنا 34,35 لوگ رات کو مسلمان سوئیں گے اور صبح کا فرانٹھیں گے.لوگ صبح کو قیامت کے دن خدا تعالیٰ کہے گا کہ روزہ کا معاوضہ میں ہوں 309 مسلمان اٹھیں گے اور رات کو کا فرسوئیں گے 105 ایک شخص کاز کو ۃ دینے سے انکار کا واقعہ 311 743
اشاریہ، احادیث مبارکہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم حضرت عبد اللہ بن مسعود کا گلی میں ہی بیٹھ جانا اور گھسٹ کر مسجد آنحضور کا ایک شخص کے لئے شہد تجویز فرمانا 491 رات کو بعض لوگوں کو ٹھوکر سے بچانے کے لئے آنحضور کا اپنی 314, 317 شراب کی مناہی پر صحابہ کا مکے توڑنے کا واقعہ 316 315 بیوی کا نقاب اٹھانے کا واقعہ 505 کسی کے ذریعہ ایک انسان کا ہدایت پا جانا اس کے لئے بہتر ہے آنحضور کی ازواج کا ذکر 599 بنسبت اس کے کہ اسے اونٹوں اور گھوڑوں کی ایک بھری وادی مل جنگ حنین کا واقعہ 603,604 جائے 326 حضرت ابوبکر کا اپنے گھر کا تمام سامان لے آنے کا واقعہ 606 فتح مکہ کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم پر ایک انصاری نوجوان کا حضرت مالک کی شہادت کا واقعہ 636-635 اعتراض 327 326 میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا کھلایا 361,362 جنگ احد کے موقع پر ایک صحابی کا آخری سانسوں میں اپنے خاندان کے لئے پیغام (68 ہجرت مدینہ کا معاہدہ اور جنگ بدر کا واقعہ 364 363 3362 جنگ تبوک میں ایک صحابی کا پیچھے رہ جانا اور ان کی بیوی کا ناراض میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی جنت میں جاؤں گا 365 ہونا 680 کسی کا ایک صحافی سے پوچھنا کہ آپ صحابہ میں سے سب سے غزوہ احزاب میں آنحضور کا خندق کی کھدائی میں پتھر توڑنے کا زیادہ بہادر کس کو سمجھا کرتے تھے ؟ 375 374 373 واقعہ 710-709 حضرت طلحہ کے ہاتھ شل ہونے کا واقعہ 376 375 374 قیامت اشرار الناس پر آئے گی 716 کسی کا حضرت طلحہ سے متعلق بد تمیزانہ رویہ 375 3374 فتح مکہ کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم پر ایک نو جوان انصاری کا اعتراض 393 392 حضرت ابو ہریرہ کا ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہنا 397 396 آثار حضرت عمر کا اپنے زمانے میں قحط پڑنے پر دعا کرنا 126 أصلى واجهز الجيوش 138 حضرت عائشہ فرماتی ہیں.لوگ کہتے ہیں، نماز قصر ہو گئی ، وہ قصر حضرت عبد اللہ بن عمر کا ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہنا 397 حضرت عمر کے دربار میں مکہ کے رؤسا کی موجودگی میں بعض غلام صحابہ کے آنے کا واقعہ 403 402 نہیں ہوئی.بات یہ ہے کہ حضر میں نماز دگنی ہوگئی ہے 190 حضرت عمر فرماتے ہیں.نیة المؤمن خير من عمله 205 آنحضور کے زندگی کے تمام چھوٹے چھوٹے واقعات اور روزمرہ حضرت ابن عباس سے کسی کا پوچھنا کہ آپ کسی کے لئے ایسی دعا کی عادات تک محفوظ ہیں 430 عمرہ کے دوران ایک صحابی کا اکڑ کر چلنے کا واقعہ 437,438 مدینہ میں مردم شماری 458 صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے سفیر کی آمد پر حضور کا فرمانا کہ اپنی قربانیوں کو باہر لے آؤ480 479 بھی کرتے ہیں جیسی اپنے لئے 391 من كان يعبد محمداً فان محمدا قد مات.ومن كان يعبد الله فان الله حي لا يموت 556,557 حضرت عائشہ کا پہلی بار ہوائی چکی کا آٹا کھا کر آنحضور کو یاد کرنے کا واقعہ 617 744
تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد سوم کلید مضامین آریہ 359 الله خدا تعالی آ 2,4-8,11-19,21,22, 30-32,34,35,37,39,41-43,46-51,57,59-66, 70,72,73,75,77,79,81-90,92,93,101,104 109,113-115,117,118,120-122,124-131, 135-137,142,143,149-153,156,161-163, 165,167,168,170-172,175,176,178-184, 186,187,189-192,194-200,202,205-208, 210,212,213,215,217,220-223,227,228, 230,231,233,235-245,247,249,250,253, 254,267,269,270,277,285,289-295,297, 299,300,303,307,309-311,313-316,320, 321,323,324,326-328,330,333-336,338, 339,347,349,351,353-356,359-369,372- 378,381-383,385,386,391-393,395-403, 407,409-411,413,414,416,418-420,429- 434,436–440,442,443,445,446,448,449, 453,457-459,462,463,465,467,474,479, 480,483-487,491,492,497-499,501,503- اشاریہ، کلید مضامین 507,510,511,513,515-519,521-524,528, 529,531-536,538-544,546,547,550,552- 561,563,567-574,577,582-584,588,592, 593,595,599,600,602-607,609,611-614, 616-621,623-625,632-638,640,641,645, 647,648,651-653,656,658-660,663,668, 671-674,677,678,680,681,683-685,689, 690,691,693-697,700,701,703,706-713, 715-721,723,724,727,729,733,734,737 ممکن نہیں کہ خدا کا بنایا ہوا سلسلہ دور ہم برہم ہو جائے 6 غالب ہم ہیں، جن کے ساتھ غالب خدا ہے 135 اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو ایسے ایسے رستوں سے دیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے 531 دین کی خدمت کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے، ور نہ نہیں 572 ہمارا خدا، ایک زندہ خدا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا 621-607 اللہ تعالیٰ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتا چلا آیا ہے اور دیتا چلا جائے گا 623 اللہ تعالی کے فضلوں کی اقسام 624 جب انسان خدا تعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ خود اس کی مددفرماتا ہے اور اس کی مشکلات کو دور فرما دیتا ہے 684 اللہ تعالیٰ کے فضل 22,347, 349,365,366,572,624,645,647,672,711 745
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم 551-554,556,559,560,562-564,567-575, 579-582,584,586-588,591,594-596,599- 602,605,608-610,613,617,619,620,623, 624,626-629,631-634,638-640,643-645, 651-653,655-657,659,660,664,665,667- 669,671,672,674,677,678,681,683,685, 687-691,694-697,699,700,702-705,707- 711,713,715-718,720,729,731,733,734 یہ زمانہ ہماری جماعت کے لئے خاص قربانیوں کا ہے 2 ممکن نہیں کہ خدا کا بنایا ہوا سلسلہ درہم برہم ہو جائے 6 یہ زمانہ ہماری جماعت کے لئے نہایت ہی نازک ہے 7 اسلام کی کشتی کو پار لگانا ہمارے ذمہ ہے 8 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس چیز کے لئے آئے تھے؟ 9 جس قسم کے حالات جماعت کو پیش آنے والے ہیں ، وہ نہایت خطرناک ہیں 10 ہم پھولوں کی سیج پر چل کر دلوں کو فتح نہیں کر سکتے 19 جماعت کا ہر فرد وصیت کرے 39,553 خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایک خاص مقصد کے لئے قائم کیا ہے 43 ہم نے اسلام کو دنیا کے باقی ادیان پر غالب کرنا ہے 44 جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر ایک خاص قسم کی تبدیلی پیدا کرے 51 جماعت جانی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور نمایاں حصہ لے.جانی قربانی ہی ہے، جس سے گزشتہ خدائی سلسلے مضبوط ہوتے آتے ہیں 53 ہماری آخری جنگ کے دن قریب ہیں 57 جب تک ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کریں گے، ہم فتح حاصل اشاریہ، کلید مضامین تعلق باللہ 381 ابتلاح اجتماعیت 298 احرار / احراری 142,239,299,503,597 احسان 49,233,245 270,277,379,555,560,629,718,733 احمدیت / جماعت احمدیہ 1-8,10,11,13,15,16,18,21,23,31,33,37- 40,42-44,46-49,51,53,54,56-58,60-65,67- 69,72,77,85,91-98,101-106,108,109,111, 113,115,118,119,123,125-129,131,133- 139,141,146-148,152,153,155-158,161- 173,175,177-184,186-190,194,198,201, 203,205,208,209,212,213,217-219,222, 223,225-227,229,230,233,235,247-250, 252,254,255,258,261-263,265,267,269- 276,281,286-290,292,293,297-299,302, 305,307,308,310-312,314,316-320,323, 339,340,343,345,347,349-352,355-357, 359,368-371,373,377-379,382,383,385- 387,389,395,396,400-402,405-410,412, 413,415-417,421-423,427,428,430-434, 441-444,447,453,457-460,465,468,469, 473-477,480,481,483-490,493-495,497- 499,501,507,508,513-516,523,524,526, 527,532,533,538-540,544-546,548,549, 746
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم نہیں کر سکتے 77 نہیں بھولنی چاہئے 229 اشاریہ ، کلید مضامین 34 ء کا نومبر ایک نشان تھا، سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں کے لئے 101 تحریک جدید میں حصہ لینا، احمدیت کے قیام کی غرض کو پورا کرنا احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہوسکتی 123 ہے 261 غالب ہم ہیں، جن کے ساتھ غالب خدا ہے 135 زندہ قوموں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے افراد کے اندر حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض 142,143 اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو 316 ہمیں بھی آگ اور خون کی ندیوں میں سے گزرنا پڑے گا 161 ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ غیر ممالک میں مساجد جماعت اور مرکزی انجمنوں کی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف کے قیام کی اہمیت کو سمجھے 317 توجہ 140-137 ہم بھی انہی حالات سے گزریں گے، جن سے گزشتہ انبیاء کی کام آئیں 321 ہماری جائیدادیں تبھی فخر کا موجب ہو سکتی ہیں، جب وہ خدا کے خدا تعالیٰ نے ہمیں اس لئے چنا کہ ہم اس کے دین کا جھنڈا بلند ہماری جنگ تلوار کی جنگ نہیں بلکہ تبلیغ کی جنگ ہے 405 جماعتیں گزریں 165 یہ سلسلہ بہر حال ترقی کرتا چلا جائے گا.کیونکہ یہ کسی انسان کا نہیں کریں اور اسے ہر ملک میں گاڑ دیں 1 39 بلکہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے 175 زمین مل جائے ، آسمان ٹل جائے ، آخر احمدیت نے دنیا میں قائم جماعت احمدیہ کے قیام کی اصل غرض اللہ تعالیٰ نے یہی بتائی ہے ہونا ہے اور یہ خدا تعالی کی ایک اہل تقدیر ہے 175 کہ اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے 483 گھر کی اصلاح کرنی چاہیے 490 ہماری جماعت کا قیام اسلام کے دوبارہ احیاء اور اس کو دنیا میں جماعت میں لائیبر سریاں قائم کی جائیں 484 شوکت و عظمت کے ساتھ قائم کرنے کے لئے ہوا ہے.181 جن جماعتوں نے دوسرے لوگوں کی اصلاح کرنی ہے، انہیں پہلے احمدیت کا وہی مقصد ہے، جو اسلام کا تھا 182 احمدیت کوئی نئی چیز پیش کرنے کے لئے نہیں آئی.وہ اس لئے آئی سلسلہ احمدیہ کا کام روپیہ سے بھی زیادہ انسانوں سے وابستہ ہے 539 ہے کہ تا زندہ خدا کولوگوں کے سامنے کھڑا کرے 182 اسلام اور احمدیت کی تبلیغ تمہارے ساتھ وابستہ ہے 582 دوسرے ممالک میں احمدیت کے مراکز قائم کرنے کی ضرورت 1935 ء میں حضرت مسیح موعود کی بھی جو بلی منانی چاہیے تھی 681 اسلام کی تبلیغ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ ساری جماعت کا فرض ہے 188 ہم اس بات مدعی ہیں کہ ہم نے تمام دنیا پر غالب آتا ہے تو ضروری ہے 687 ہے کہ ہم تمام ممالک میں اپنے مراکز بنا ئیں 188 اسلام کو دنیا میں پھر سے غالب کرنے کا جو کام جماعت احمدیہ کے ہمارے رستہ میں کانٹے ہی کانٹے اور قربانیاں ہی قربانیاں ہیں 205 سپرد ہے وہ اتنا وسیع ہے کہ جماعت کی خاص توجہ کے بغیر اسے جماعت میں شامل ہونا پھولوں کی سیج پر چلتا نہیں بلکہ کانٹوں پر چلنا کامیابی سے چلانا مشکل ہے.704 ہے 205 جماعت کے قائم کرنے کی جو غرض ہے، ہماری جماعت کو وہ کبھی مبلغ ہی ہیں، جن کے کام پر ہماری جماعت فخر کرتی ہے 705-706 747
اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے ، ہماری جماعت کو قائم 66,68,74,75,90,97,98,102,105,106,119 کیا گیا ہے 709 ہماری جماعت محمد رسول اللہ ﷺ کی جماعت ہے 715 135,136,155,158,163,165,171,173,181, 183,184,186,187,191,194,196,199,200, ہمارے سپر د جو کام ہے، وہ بغیر مستقل جد و جہد کے سر انجام نہیں دیا 203,208,209,215,223,225,227,228,233 جا سکتا 717 ہمارے سپر اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہے کہ ہم اس کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کریں 718 جس شخص کے دل میں یہ خواہش نہیں کہ اسلام کی خدمت اور احمدیت کی اشاعت کے لئے کچھ خرچ کرے ، اس کا اسلام لانا یا احمدیت کا قبول کرنا محض بریکار ہے 731 اخلاص, 62,128,138,167 ,3,21,22,38,58,61 235,240,241,243-245,257,261-263,265, 270,285-287,289,291-293,297,298,300, 303,306,309,316-318,320,321,323,324, 326,334,335,337,339-341,343,345,349- 353,355,356,359-363,365-368,373,375, 376,385,386,390,403,409-412,424,425, 433,436,438,441,443,446-448,452,458- 460,462,463,465,467,474,483,495,501, 169,170,177,180,193,228,234,286,287, 503,504,506-508,510-518,521-525,527, 294,307,319,367,370,413,442,454,474, 532,535-537,539-542,545,547, 550,556- 488,489,501,505,523,524,539,547,549, 559,561,563-565,572,573,575,581-586, 551,559,560,573,605,624,643,670,716 600,604,605,608,611,612,621,626-629, اخلاق اخلاق فاضله 631-633,635-639,647-649,655,656,660, 665,666,668,673-675,679,683-685,687- 53,57,111,113,116,117,118,122, 181,270,357,363,386,484,504,546,583 689,695,696,699,702,704-706,709-713, ادب 600,604 اذان 303,353 اساتذہ 117,118,122,146,391,554 استقلال 67,369,463,729 اسراف 35 اسلام 716,718,719,721,723,724,729,731,734 اسلام کی کشتی کو پارلگا نا ہمارے ذمہ ہے 8 اب اسلام کو تمہاری جان کی ضرورت ہے 23 ہم نے اسلام کو دنیا کے باقی ادیان پر غالب کرنا ہے 44 اسلام جبر کو جائز نہیں سمجھتا 163 ہماری جماعت کا قیام اسلام کے دوبارہ احیاء اور اس کو دنیا میں شوکت و عظمت کے ساتھ قائم کرنے کے لئے ہوا ہے.181 احمدیت کا وہی مقصد ہے، جو اسلام کا تھا.182 7,8,9,12,15,21-23, 43,44,51,57,61, 748
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اشاریہ، کلید مضامین ایسے لوگ تلاش کرنے ہوں گے جو اسلام کی خاطر ہر قربانی کے کہ اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے 483 لئے تیار ہوں 265 ہمارے خدا نے ہمارا یہ فرض قرار دیا ہے کہ ہم دنیا بھر میں اسلام کو ہر فرد کی زندگی کا سب سے اہم کام تبلیغ و اشاعت اسلام ہونا پھیلائیں 501 چاہیے 335 وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لئے ایک عظیم الشان تحریک اسلام دنیا میں کس طرح غالب آئے گا ؟ 513 مسلمانوں کے لئے اسلام حسن اضافی بھی رکھتا ہے اور حسن ذاتی ہے 513 بھی 337 تبلیغ اسلام کے اس عظیم الشان کام کے لئے خصوصیت سے جب تک جماعت میں وقف کی تحریک مضبوط نہ ہو، اس وقت تک دعائیں کریں، جو ہم نے بیرونی ممالک میں جاری کر رکھا ہے.ساری دنیا میں اسلام غالب کرنا ناممکن ہے 514 اسلام کے لئے یہ ایک بہت نازک زمانہ ہے چاروں طرف سے وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لئے ایک عظیم الشان تحریک اسلام پر یورش ہو رہی ہے اور اسلام کے مورچے پر سوائے چند ہے 516 اب اسلام کی بنیاد کو دوبارہ استوار کیا جارہا ہے 521 احمدی مبلغین کے اور کوئی بھی نہیں ہے.345 ہر آدمی اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ کام کرے اور اس سے جو آمد ہو، وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ تمہارے ساتھ وابستہ ہے 582 وہ وقت دور نہیں ، جب ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا666 اشاعت اسلام کے لئے دے 356 ہمارے اہم ترین کاموں میں سے غیر ملکوں میں تبلیغ اسلام کرنا ہے اسلام کی تبلیغ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ ساری جماعت کا فرض 359 ہے 687 اسلام کی کمزوری اور ضعف کا موجب غیر مذاہب کا رویہ ہے 35 یہ کام اتنا وسیع ہے کہ جماعت کی خاص توجہ کے بغیر اسے کامیابی دین اسلام کیا ہے 362 سے چلانا مشکل ہے.اسلام کو دنیا میں پھر سے غالب کرنے کا کام تحریک جدید کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے زبر دست کام کی بنیاد رکھی جماعت احمدیہ کے سپر د ہے.اس لئے اسے اس سلسلہ میں ہمیشہ گئی ہے 411 مالی اور جانی قربانیوں میں پورے جوش سے حصہ لینا چاہیے 704 تحریک جدید کوئی معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے ، ہماری جماعت کو قائم کوششوں میں سے ایک زبردست کوشش ہے 448 اسلام اور عیسائیت کی آخری جنگ کے متعلق دو اہم عیسائی آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی اسلام اور احمدیت کی کامیابی کی بشارت کیا گیا ہے 709 لکھ چکی ہے 729 عہد یداروں کا بیان 459,460 اسلام اور عیسائیت کی آخری جنگ کے متعلق مشہور مؤرخ ٹائن بی اس مقصد کے حصول کے لئے پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور زیادہ استقلال اور زیادہ چستی کے ساتھ دین اسلام کی خدمت میں لگ کا بیان 460 ہماری ساری عزتیں اسلام ہی سے وابستہ ہیں 465 جاؤ 729 جماعت احمد یہ کے قیام کی اصل غرض اللہ تعالیٰ نے یہی بتائی ہے جس شخص کے دل میں یہ خواہش نہیں کہ اسلام کی خدمت 749
اشاریہ، کلید مضامین اور احمدیت کی اشاعت کے لئے کچھ خرچ کرے، اس کا اسلام لانا یا احمدیت کا قبول کرنا محض بیکار ہے 731 اپنی آئندہ نسلوں کو اسلام کا بہادر سپاہی بنانے کی کوشش کر و 734 تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم ہر چہ اقامت کہتر بقیمت بہتر 678 پھیر دے میری طرف اے ساریاں جنگ کی مہار 708 بکوشیداے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا 725 اصلاح 2,12 15,36,77,89,116,117,119,120,137,250, 251,262,271,275-277,380,392,402,417, 447,448,457,471,490,491,519,583,665 اطاعت 39,62,111,113,293,402,573 اعتراض / اعتراضار 17,25,26, 28-34,36,39,87,97,103,157,168,169, 174,189,193,208,244,267,268,400,418, 430,431,433,434,447,449,505,506,507, 580,581,596,646,647,687,689,704,706 اعمال 8,11,77 اشاعت 9,22,61,66,69,81,98,155,158,171,180, 184,186,191,197,227,229,240,241,243, 262,263,275,286,287,289,303,306-308, 316,319,324,340),342,349,356,362,367, 373,375,398,443,447,448,501,507,516, 517,522,524,530,532,533,535,538-542, 545,550,551,558,559,564,565,581-584, 586,588,612,627-629,631,637,641,660, 666,668,670,672,674,680,687,696,699, 705,706,709-712,715-718,731,733,734 اشعار و مصرعے 88,111,113,173,365,367,395,409,721 جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور 175 افسر / افسران 114,115,470,586,631,663 ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے 223 دیکھئے سرکار اس میں شرط یکھی نہیں 235 مردہ باداے مرگ عیسی آپ ہی بیمار ہے 392,490 سب کچھ تری عطا ہے، گھر سے تو کچھ نہ لائے 399 ہر کسے در کار خود با دین احمد کار نیست 409 بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر 423 آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج 503 گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے 564 من آنم کہ من دانم 659 پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار 660 آن نه من باشم که روز جنگ بینی پشت من 677,679 اقتصادیات 484 اقوام 208,413,424,467,469,492,645,681,691 قانون قدرت اور قوموں کی حالتیں 1 الهام / الہامات / وحی 11,37,82,84,143,172,182,237, 315,513,528,531,552,560,613,620,695 الہامات روز جزا قریب ہے اور رہ بعید 37 يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّام 64,695 750
تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد سوم اشاریہ، کلید مضامین میں تجھے بہت برکت دوں گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں 447,477,484,492,503-420,428,438,445 سے برکت ڈھونڈیں گے 176,569 حق اولاد در اولاد 52829550 یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ درویشوں کے لئے ہے 535 اصحاب الصفہ 552 ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء 559 الارض والسماء معك كماهو معى 567 میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا569,690 دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں 620 518,531,533,536,537,539,548,549,556, 559,567,573,574,582,586,611,614-617, 635,643,672,684,685,688,707,720,734 انصار 14,151,195,243,326,327,392,393 انعام,50,51,145,311 320,324,325328,389,601,645 امام 318,442,545,557,563,573,611,684,702 امانت 206,498,499,614,632,717,718,735 امانت فنڈ 498,735 امت محمد یہ 335 امن 133,262,325,336,386,510,511,580 انابت 88,569 انجام 5,155,255,729 انسان / بنی نوع انسان / انسانیت اولاد 7,11,59,200,275,324,514,536,545 اولاد کی قربانی 60,61 ایثار 53,101 ایفائے عہد 152 ایمان 8,11 23,37,38,40,41,48,53,57,86,88,90,105, 106,108,114,119,120,169,170,172,177, 178,188,189,191,194,196,202,205,226, 227,233,236,242,245,250,282,285,290, 293,294,305-307,309,311,323,366,386, 387,405,409,489,505,506,521,534,558, 565,573,574,577,615,697,711,717,724 1,7,11,15,16, ایمان کی اقسام 23 42,43,55,59,62,75,84-86,88,89,111,121, 130,138,140-142,148,159,164,167,171, 174,175,177,185,205,208,211-213,221, 51,84,172,176,324, olĜo! 235,244,249,282,289,294,300,301,307, 325,335,415,508,538,569,588,596, 312-314,326,382,385,395,397,413,419, 751
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد سوم 2,101,247,256,263,297,300,305,335,341, 348,359,371,372,377,403,406,427,430, 441,454,460,485,543,596,603,635,643 اشاریہ، کلید مضامین 604,630,645,658,659,677,678,718,719 بادشاہت 19,43,50,77,115,199,339,353,354,718 تبلیغ 9,12,13,15,22,48,49,53- 57,63-68,74,75,91,92,95-99,102,113, 114,134,135,138,139,145-148,152,156, 161,162,167,169,171-173,184,188,192, بپتسمہ 212,699 بد 60 بدظنی 86 بدی 22 برکت / برکات 197,200-202,208,211,220,239-242,251, 257,262,263,265,271-274,276,286,287, 15,35,62,85,176,213,245,257, 292,294,297-299,316,318,324-326,335, 263,349,392,393,453,458,462,511,518, 338,340,342,343,345,350,352,357,360- 544,569,604,620,638,683,697,709,712 362,364-366,398,405,408,409,411-413, بنی اسرائیل 85 424,434,435,446,458,462,465,474,475, بیعت 14,172,173,178 477-480,490,501,503,516-518,527,536, 191,199,220,385,386,436,437,463,535, 537,539,544,547,550,551,553,554,563, 541,569,629,644,651,652,655,694,701 569,571,572,575,577,582,585,595,600, 601,603,605,608,610,612,630-634,637, 652,656-658,669,683,687-691,694,696, پادری 43,338,401,506,539,545,552 583,596,608,639,647,673,674,696,724 پیشگوئی پیشگوئیاں 2,37,45,63 75,94,151,418,436,614,685 تابعی 126 319,356.7 تاریخ 699,700,702-704,710,711,713,715,727 تبلیغ کرو اور دعائیں مانگو 161 تبلیغ کے بغیر ہمیں چارہ نہیں 161 تبلیغ بغیر نیک نمونہ کے نہیں ہوسکتی 173 تبلیغ ہی بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کا ایک طبعی ذریعہ 2714 تبلیغ اسلام کے اس عظیم الشان کام کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں، جو ہم نے بیرونی ممالک میں جاری کر رکھا ہے.752
تحریک جدید - ایک الهی تحریک...جلد سوم اسلام کے لئے یہ ایک بہت نازک زمانہ ہے چاروں طرف سے اسلام پر یورش ہو رہی ہے اور اسلام کے مورچے پر سوائے چند احمدی مبلغین کے اور کوئی بھی نہیں ہے.345 اشاریہ، کلید مضامین 676,693,696,699,701,704,705,707,708, 713,715,719,720,727,731,733,735,737 تحریک جدید کی اصل بنیا د وقف زندگی پر ہے 81 ہمارے اہم ترین کاموں میں سے غیر ملکوں میں تبلیغ اسلام کرنا ہے تحریک جدید کے آغاز پر جماعتی جذ بہ اور کم مائیگی دونوں ایمانی 359 تبلیغ کریں تبلیغ کریں تبلیغ کریں 727 تثلیث 695,724 تجارت 35,46-48,63,87,156,214,248,312,318, 351,352,396,405,477,523,526,527,582 تاریخ میں زندہ مثال ہیں 101 تحریک جدید کے متعلق جلسے کئے جائیں 131 تحریک جدید وہ محکمہ ہے، جس کے سپر د ہندوستان اور پاکستان سے باہر کی تبلیغ ہے 145 تحریک جدید کے اعلان کی غرض 184 تحریک جدید کے قیام کی دوو جنہیں 188 تحریک جدید سے متعلق جلسوں اور تقریروں کا اصل مقصد اور تحریک جدید اغراض و مقاصد ، ضرورت و اہمیت ، مطالبات انتائج ، برکات وثمرات ) 217, 218, 219, 220, 221, 222 ✪ تحریک جدید کے جلسوں کی اصل غرض 220 219 اس غلط فہمی کا ازالہ کہ تحریک جدید چند سال کے لئے ہے 233 234, 239, 240-245, 360, 362, 364 ہے 261 تحریک جدید کے کام کی اہمیت 257,258 تحریک جدید میں حصہ لیتا، احمد بیت کے قیام کی غرض کو پورا کرنا تحریک جدید کا کام نہ چند سال کا ہے نہ چند افراد کا ہے 261 ہر ایک احمدی کو بتاؤ کہ اس کا تحریک جدید میں حصہ لینا، احمدیت کے قیام کی غرض کو پورا کرنا ہے.اگر کوئی شخص تحریک جدید میں حصہ نہیں لیتا تو اس کے احمدیت میں داخل ہونے کا کیا فائده؟ 263 تحریک جدید کی بنیاد در حقیقیت انہی اصول پر ہے، جن پر اسلام کی بنیا د رکھی گئی ہے.285 تحریک جدید ایک دن کی نہیں، وہ دو دن کی نہیں بلکہ ہر مومن کے لئے ہمیشہ کے لئے ہے 293 3,4,21,26, 39-41,57,63-65,67,70,71,75,79,81,97, 101,102,107-109,111,127,129,131,133, 134,137-139,141,143,145-147,149,152, 167,169,177,179,184,187,188,193,194, 201-203,208-211,215,217,218,221,222, 225,228,229,244,247-251,256,257,259, 261-263,271-274,279,285-290,293,297- 299,301,303,305,322,323,325,328,329, 335,340,342,343,345,349-351,353-356, 359,360,364-366,368-371,377,383,387, 406-409,411-414,416,418,421,422,427, 441,442,444,448,457,460,473,485,527, 539,561-563,570,571,582,585-588,610, 753 615,620,621,631,632,638,643,670,672,
اشاریہ ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد سوم کوشش کی جائے کہ جماعت کا کوئی فرد تحریک جدید سے باہر نہ رہ تحریک جدید کے کارکنوں کو بھی اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں تحریک جدید کو جاری کرنے کی غرض 354 کہ وہ اپنے اندر ایمان پیدا کریں 294 تحریک جدید ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ادارہ ہے 297 جائے 355 بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد اور چندہ تحریک جدید کی اہمیت 303 تحریک جدید کا ہفتہ منایا جائے.ہر جگہ پر ایک بار یا دو دو، تین تین یہ چند ہ عمر بھر کے لئے ہے اور یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے گی 306 بار جلسے کئے جائیں 368 ہر 19 سال کے اختتام پر ایک رسالہ یا کتاب کی اشاعت جس جماعت کے دوست اپنا پور از ارلگائیں گے کہ ہر احمدی تحریک میں شاملین تحریک جدید کے نام ہوں 30632840 جدید میں حصہ لے لے 383,385 ہمارے ایمان اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ جاری تحریک جدید کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے زبردست کام کی بنیا د رکھی رہے 307 گئی ہے 411 اس غلط فہمی کا ازالہ کریں کہ تحریک جدید چند سال کے لئے تحریک جدید اب بلوغت کو پہنچے والی ہے 411 223, 224, 2274 تحریک جدید کے ذریعہ ایک زبردست کام کی بنیاد رکھی گئی ہے.ہر احمدی مرد اور ہر احمدی بالغ عورت کا فرض ہے کہ اس تحریک میں اور یہ وہ کام ہے، جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا شامل ہو.بلکہ بچوں میں بھی تحریک کی جائے اور کسی طور پر انہیں ہے 418 اپنے ساتھ شامل کیا جائے 341 تحریک جدید کوئی معمولی ادارہ نہیں بلکہ اسلام کے احیاء کی احمدی فرد، ہر سیکرٹری اور ہر پریذیڈنٹ اور ہر بارسوخ آدمی کا کوششوں میں سے ایک زبر دست کوشش ہے 448 فرض ہے کہ وہ جماعت کے تمام افراد میں تحریک کر کے ان سے تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے شاندار تبلیغی نتائج 463-457 تحریک جدید کے وعدے لے، ان وعدوں کی اطلاع مرکز کو دے ہمارا کام بہت وسیع ہے اور ہم نے ساری دنیا میں اسلام اور اور پھر ان کی وصولی کے لئے پوری کوشش کرے.344 احمدیت کو پھیلانا ہے.اور یہ کام تقاضا کرتا ہے کہ ہم تحریک جدید تحریک جدید اب اپنے اہم ترین دور میں سے گزر رہی ہے.اس کی مضبوطی کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کریں 493 کی عظمت اور اس کی اہمت وضرورت ہر احمدی کے ذہن نشین دعائیں کرتے ہوئے تحریک جدید کے بارے میں غلط فہمیوں کو ہو جانی چاہئے 350 دور کریں 585 ہر احمدی کا بلکہ ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کے ان مبلغین تحریک جدید کے نام سے دھوکہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کی ، جو اس تحریک کے ماتحت باہر بھیجے گئے ہیں، ہر ممکن مدد کوئی نئی تحریک جاری کی جارہی ہے 588-585 کرے351 تحریک جدید کی ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری ہے 639 تحریک جدید اب جس نازک دور میں سے گزر رہی ہے، وہ اس جماعتوں میں جونہی میرا یہ خطبہ پہنچے ، وہ فوری طور پر اپنا اجلاس امر کی متقضی ہے کہ ہر احمدی یہ فیصلہ کرے کہ اس نے بہر حال اس بلائیں اور خدام اور انصار کو اس بات کا ذمہ وار قرار دیں کہ وہ گھر یہ تحریک میں حصہ لینا ہے 1 35 گھر پھریں اور ہر احمدی سے تحریک جدید کا وعدہ لیں 639 754
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اشاریہ، کلید مضامین غیر ممالک میں اسلام کی اشاعت کا واحد ذریعہ ہمارے پاس تحریک 696,701,702,710,717,719,720,723,724 جدید ہی ہے 670 تفسیر 526 بیرونی ممالک کی تبلیغ کا کام تحریک جدید کے سپرد ہے 699 تقوی 541 غیر ممالک میں اشاعت اسلام کا کام تحر یک جدید کے سپرد ہے تکالیف 140,300,366,603,717 704 تحریک جدید کوئی نئی یا عارضی چیز نہیں بلکہ قیامت تک قائم رہنے والی چیز ہے 715 تحریک جدید کی غرض 353 تحریکات 312,656 تحقیق 312,656 115,139,156,204,276,289, 418,459,491,625,626,629,671,672 تو بہ 115,504,572,573 تو کل 84,87,141,291,612 تہذیب 36,96,155,156,412,460 ثواب 2,8,12,38,227,289,292,310,351,382, 405,439,452,499,552,582,633,638,724 ج جائیداد 398,525,529,602 جامعہ احمد یہ 146 جتھہ 209 111,114,162,350-íz جرم 324 جلسہ سالانہ 21,39,71,128,301,303,308,345, 347,349,353,355,359,369,385,451,453, 457,465,484,577,651,660,687,702,733 755 تربیت 1,138,148,241,463,582,591,704 تصوف 291 تعاون 65,289,301,332 9,12,22,33,45,48,56,57,61,64-66,68,69, 80,87,91,92,95,98,111,113,116,123,125, 138,146,157,161,162,168,175,181,192, 200,203,227,230,241,267,275,282,286, 287,292,295,318,323,329,339,352,354, 357,359,361,378-380,382,383,390,397, 399,401,405,411,414,421,431-433,448, 478,483,503,504,507,511-513,524,525, 537,552,555,556,560,561,571,577,589- 591,596,597,601,602,625,626,628,633, 644,652,655,656,668,671,673,675,684,
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم 328,341,347,348,351,356,368,369,373, 383,385-387,406,408,413,418,421,423, 424,434,444,452,454,457,475,476,480, 490,498,501,513-515,527,546,548,549, 561-564,570,571,573,574,582,586,587, 612,613,619,623,625,628,632,633,639, 643,656,661,664,668,670,672,673,676, 679,688,690,693,699,706,708,731,735 ادائیگی چنده 7,133,149,210,212,217,218,220-222, 257,285,316,377,421,427,487,571,581 وصولی 57,70 74,103-105,108,149,168,169,177,203, 212,218,225,229,232,256,257,328,329, 343,406,421-423,442,444,573,705,706 وعده چنده 39,41,48,51,71,74,103,104, 131,149,150,152,162,167,179,189,191- 194,206,208-212,214,215,218-222,230, 231,240,243,244,249,258,301,302,341, 369,377,383,409,422,423,441,547,549, 571,640,641,647,658,673,679,703,734 235,306,365,367,479 حدیث ,9,12,14,15,150 161,205,206,392,435,574,603 اشاریہ، کلید مضامین جنت 63,75,150,153,179 244,309,310,333,361,365,366,497,725 جنگ 10,13,14,26,31 44,57,58,67,81,120,130,195,196,210, 215,237,243,244,262,332,363,374,375, 392,402,405,412,413,431,459,460,510, 547,603,635,636,675,677,679,680,687 جنگ احد 375,635,636,680 جنگ احزاب 709 جنگ بدر 363,635 جنگ تبوک 120,210,680 جنگ حنین 215,603 جھوٹ 77,134,173,212,222 267,299,423,489,643,700,723 جہاد 30,74 240,241,262,263,293,294,298,303,307, 323-326,351,366,409,521,528,594,637 چ چنده 21,23,26,30-32,38-42,46,57, 70,71,82,103,108,109,131,148,152,155, 158,168,170,178,179,188-191,193,194, 196,203,206,212,217,234,239,245,247, 252,254-256,261,263,272-276,279,292, 299,301,303,306,307,311,313,318-320, 756
اشاریہ، کلید مضامین 410,416,424,436,462,463,465,491,498, 516-519,521,523-529,531,532,536-540, 543,545,546,550-553,555-561,563,571- 573,577,579,580,582,583,589,591-594, 599,600,603-606,618,627,637,660,671, 679,695,706,716,717,719-721,729,731 تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد سوم حرام 61,113,245,315 حسن سلوک 174 حقوق 173,423,646,668 حکومت 16,36,45,61,79,92 106,107,113,142,149,150,156,171,176, 187,214,231,239,241,248,263,282,303, 332,339,340,373,384,391,404,414-416, 492,533,535,544,579-585,587,596,626, 658,689,695,699-701,703,704,709,727 خلافت 79,114,115,122,125 251,311,431,564,704,712,719 خلافت جو بلی 251 خلافت جو بلی فنڈ 1 25 خ خلیفہ وقت 79 خاندان ( خاندان حضرت اقدس مسیح موعود ) 89 خواب 83,219,419,478,671,704 خوشی 3857 59,108,119,136,217,220,235,244,249, 299,301,315,319,321,334,337,381,413, 421,442,453,493,523,524,536,552,555, 570,574,575,595,608,636,645,680,701 خیر خواہی 235 دعا 50,126,179,180,231,401,538,729 تبلیغ کرو اور دعائیں مانگو 161 دعاؤں سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل 757 ہوتی ہے 162 دعاؤں کی طرف توجہ کرنے سے صحیح قربانی کا احساس ہوتا 11-13,15,17,25,31-33,35,60,63,64,83,87, 203,283,331,385,395,403-406,412,444, 508,516,523,530,535,546,550,552,553, 559,560,571,591,655,657,680,702,711 خدام الاحمدیہ 107,108,129,131,442,612,625 خدمت اخدمت دین اخدمت خلق 10,11,14,15,17,18, 22,32,44-46,48,53,55,56,59,67,68,74, 80-82,84,87,88,95,98,122,175,208,227, 233-235,242,245,257,268-270,286,295, 299,300,308-312,318,320,336,340,341, 345,351,353,360,366,367,371,376,380, 389,393,396,399,400,402,404,405,409,
اشاریہ، کلید مضامین ہے 162 تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم رحمت 67,88,89,92,130 لوگ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں، اپنے دلوں کو بدلیں اور دعاؤں | 277,327,328,462,570,680,708 پر زوردین 179 روزے 325,365-23,152,323 تبلیغ اسلام کے اس عظیم الشان کام کے لئے خصوصیت سے ریز روفنڈ 39,171 دعائیں کریں، جو ہم نے بیرونی ممالک میں جاری کر رکھا ہے.ریڈیو 416 اسلام کے لئے یہ ایک بہت نازک زمانہ ہے چاروں طرف سے اسلام پر یورش ہورہی ہے اور اسلام کے مورچے پر سوائے چند احمدی مبلغین کے اور کوئی بھی نہیں ہے.345 مبلغین کے لئے دعائیں کرو 465 واقفین زندگی دعاؤں کی عادت ڈالیں 567 ز زبانیں 425 زراعت 46,331,396,477,582 زكوة 326,365,367,409-306,311,323 محض ہمت سے کچھ نہیں بنتا.اصل چیز دعا ہی ہے 712 دعا ئیں کرو اور پھر دعائیں کرو اور پھر دعائیں کرو 712 زمانه دنیا 15,16,37,85 128,129,155,175,198,212,242,282,300, 1, 2, 7,10-12,43,50,51,54-56,61,68, 70,74,81,82,94,98,105,106,126,129,130, 135,155,165,170,178,190,191,207,212, 424,478,510,529,539,558,604,626,734 217,226,227,230,231,234,240,243,255, دولت 261,281,290,294,295,297,307,311,320, 44,48,50,113,140,156,226,312,321,326, 324,331,345,390,396,402,412,418,419, 381,382,391,393,529,620,637,708,719 424,427,429-431,434,439,457-459,461, دھوکہ ,173,186-7,9,171 465,480,484,495,498,503,504,509,518, 187,191,269,273,531,587,588 521,522,524,543,544,551,557,559,560, وہر بیت 18,368 564,567,580,590,596,603-605,607-609, 613,614,616-620,626-628,634-637,656, 220,445,446,547,611 672,674,677,680,683,691,696,699,716 دیانت 72,88,136,152,306,539,729 زمیندار 312,319,355,356,477,569 زندگی 3,17,18,22,25,37,44,59- 332,513, 758
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم 61,65,66,79-81,84-88,93,97-99,122,140, 141,150,159,163,168,175,179,188,189, 197,210,215,221,248,257,270,271,281, 286,288,290,294,307,325,328,335,340, 343,361,362,365,369,389,391,395,396, 401,403,405,406,411,428,430-432,439, 440,498,505,506,517,522-525,534-537, 540,541,543,545,551-553,556,558,561, 567,568,572,577,579-581,591-595,599- 602,614,619,631,637,639,668,708,713 اصل زندگی 17 اشاریہ، کلید مضامین 416,418,465,475,476,480,498,499,516- 518,523,525-528,539,542,551,555,556, 560,561,565,568,577,580-582,591,595, 597,603,608-610,613,623,624,637,674, 678,702-704,708,711,712,716,720,735 سیاسیات 236,400 ش شرک 125 شریعت 98,111,181,252,352 شہادت 101,215,635,667,675 زندگی سانس لینے کا نام نہیں، زندگی نام ہے کسی کام کا140 شہید 197 انسانی زندگی کے ابتدائی ادوار کا ذکر 428 شیطان س 180,198,199,243,269,536,556,568 سائنس690 سادہ زندگی صالح 560,669 سچائی 202, 25-32,34,61,202,288,289 142,184-188,202, 218,231,368,431,517,666,668,723,729 سلسلہ اسلسلہ عالیہ احمدیہ 12-10-5-3 مبر 700 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم 13,35,46,51,81,120, 121,125,195,210,227,237,238,242,294, 16,35,39,40,42,47,49,53,56,60,66,80, 82,93,94,98,101,111,113,114,116,117, 120,123,129,136,145,168,170,174,175, 183,200,220,222,225,241,245,249,251, 254,268,295,298,301,329,348,356,357, 368,377,379,385,386,398,399,401,413- 298,300,315,363,373,396,397,402-404 صحابی 1435 51,77,120,121,125,126,239,253,315, 373-375,438,505,521,595,603,680,719 صداقت 143,162,173,181,186 759
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم 390,392,407,417,476,490,493,528,529, 533,554,585,588,590,639,667,694,719 227,425,558,568,579,602,667 8,12,30,117,124,181,192, 202,205-207,220,270,288,303,314,352, 366,512,572,589,592,602,626,688,724 عورت، عورتیں 5,25,26,29,32-34,41,43,56, 95-98,120,151,157,200,252-254,275, 341,347,355,356,378,381,382,397,431, 444,506,513,546,552,595,596,605,611, 617,655-661,665,666,668-670,680,702 اشاریہ، کلید مضامین 195,239,265,321,368,386,503,666,724 صدر انجمن احمدیہ 147,477,621 صدقہ 567 صرف و نحو 356,476,477 صناع 356,476,477 صنعت 48,63,156,351,477,582 b طالب علم 287-146,285 387,390,407,514,554,669,696,701 طب 87,477,478,491 ظ عیسائی 1944 47,65,317,321,338,342,350,446,524, 537,544,551,596,600,608,609,612,632, 644,648,666,669,670,683,699,703,723 عیسائیت 43,44,61,338,350,458-460,462,517,537, 545,550,612,637,669,683,685,708,710 غربت غریب 111,185,255,382,538,544,645,671 3,31,51,55,69,72,84,92,102,203, 223,272,312,320,348,356,381,382,428, ظلم,121 94, 121, 163,169,188,245,462,504,506,507,579 عبادات 155 عبادت 58,135,245,316,556,557 عذاب 12,277,570 عزت 11,74 116,169,269,270,310,327,339,352,354, 400,401,403,462,465,469,518,523,524, 533,583,595,598,606,634,638,647,706 45,56,58,83, 119,138,139,200,237,257,286,287,339, 760
اشاریہ، کلید مضامین 75,111,125,150,161,183-185,189,199, 219,225,227,233,237,244,291,293,298, 325,326,335,338,349,361,366,395,396, 398,402,406,416,418,429,430,448,491, 504,512,513,515,530,532,573,625,632, 644,655,658,659,665,666,674,687,688 قرب 375,378,462,534 قربانی، قربانیاں 1-4,11,15,18,29,31,37,38,42-44, تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم 444,523,524,538,552,561,615-618,627, 633,645,649,659,660,668,671,672,675 غلام 123,200,335,336,403 419,547,548,602,704,720,724 غلامی 465,536 13,43,50,162,163,171,183, 196,261,436,524,564,652,653,711 غیرت 9,120 185,197,353,446,597,598,608,647,717 48,49,51,53-61,73-75,81,91,94,108,109, 126,141,145,148-150,153,156,162,167, 169,177,178,183,184,190-192,194,201 فاسق 50 203-212,215,221,223,225-228,233-235, 13,17, 239,240,242-245,252-254,262,265,270), 53-55,57,58,77,105,106,113,123,150, 279,282,289,294,299,300,307,316,320, 151,163,165,183,200,215,230,241,242, 328,334,337,340-343,347,350,356,357, 303,326,327,392,393,402,499,517,532, 367,369,370,375,382,383,385,392,402, 537,636,647-649,674,678,695,699,720 413,418-421,425,427,434,437-440,443, 704 446,447,479,480,498,501,508,513,514, 518,524,527,539,555,565,571,582,593, 594,596,603,605,606,613,618,632,634, 635,637,638,645,648,668-670,675,684, 696,701,704,711,715,716,733,734,737 یہ زمانہ ہماری جماعت کے لئے خاص قربانیوں کا ہے 2 مجھے ڈر ہے کہ قربانیوں اور چندوں میں ستی دکھانے والے دیوالیہ جماعت جانی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور نمایاں حصہ لے.فرشتے 696 فرمانبرداری 62,119,293 فریب 269 فقہ 206,291 فلسفہ 339,340,478 ق نہ ہو جا ئیں 3 قرآن کریم 8,12,43,48 761
اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد سوم جانی قربانی ہی ہے، جس سے گزشتہ خدائی سلسلے مضبوط ہوتے خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے خوشیوں کے دن مقدر کر رکھے ہیں.لیکن ان خوشیوں کے دنوں کو زیادہ قریب لانے کے لئے آئے ہیں 53 جس قوم کی نسل ایمان، ایثار اور قربانی میں پہلوں سے آگے نہیں تمہیں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہئے.تا کہ جلد سے بڑھتی ، وہ قوم جیتا نہیں کرتی 57 جلد ہماری فتح کے دن آئیں 648 کوئی نسل اور کوئی قوم اور کوئی خاندان اس وقت تک ترقی نہیں کر فتح کے دن کو جلد لانے کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرو 649 سکتا، جب تک وہ اپنی اولاد کی قربانی پیش نہ کرے 61 ,60 جب انسان خدا تعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے مذہب کی ترقی قربانی سے وابستہ ہے، روپیہ ایک عارضی چیز اور وہ کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ خود اس کی مددفرماتا ہے اور اس کی مشکلات کو دور فرما دیتا ہے 684 ہے 81 ہے 162 دعاؤں کی طرف توجہ کرنے سے صحیح قربانی کا احساس ہوتا یہ کام اتنا وسیع ہے کہ جماعت کی خاص توجہ کے بغیر اسے کامیابی سے چلانا مشکل ہے.اسلام کو دنیا میں پھر سے غالب کرنے کا کام ہمارے رستہ میں کانٹے ہی کانٹے اور قربانیاں ہی قربانیاں جماعت احمدیہ کے سپرد ہے.اس لئے اسے اس سلسلہ میں ہمیشہ مالی اور جانی قربانیوں میں پورے جوش سے حصہ لینا چاہیے 704 ہیں 205 جماعت میں شامل ہونا پھولوں کی سیج پر چلنا نہیں بلکہ کانٹوں پر چلنا قناعت ہے 205 ایسے لوگ تلاش کرنے ہوں گے جو اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہوں 265 پس اصل چیز ایمان کا پیدا ہو جانا ہے.جب کسی کے اندر ایمان پیدا ہو جائے تو اس کو صداقت کی خاطر قربانیاں کرنے کوئی شخص روک نہیں سکتا 386 در حقیقت انسان کی پیدائش کی غرض خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے اور یہ چیز بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہوسکتی 420 یا اگر تم جو ان رہنا چاہتے ہو تو تمہیں ہر روز اپنی قربانی بڑھانی پڑے گی 440 قربانی کرو تمہیں دائمی زندگی عطا کی جائے گی 498 اسلام اور احمدیت کی تبلیغ تمہارے ساتھ وابستہ ہے 582 تم ہمت کر کے آگے آؤ اور بے دریغ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو 37,46-48,53,57,60,75,98,107, 111,113,119,136,137,139,142,151,166, 169,185,186,209,223,229,231,242,255, 268-271,274,292,293,297,327,376,393, 400-402,404,412,420,429,430,439,440, 447,462,463,467-469,471,508,511,524, 628,640,641,644,645,653,668,681,703 قیامت 181,242,262,292,293,309, 360,361,364,365,368,393,433,443,538, 540,555,558,603,711-713,715,716,734 قربان کرو 638 762 کارکنان 10
اشاریہ، کلید مضامین 155,213,295,306,327,351,352,381,389, 392,402,419,487-489,606,619,637,671 مبلغ مبلغین 21,22,43,44,49, تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کافر 15,17 کفار 687 کفر و اسلام، مسئلہ 262 کلام ( علم کلام ) 141,285,323,484 53,54,56,63-69,75,92,93,102,107,113, 114,116,117,120,123,128,139,145-148, 157,167,168,177,179,184,188,189,192, گناه 198,199,200,212,213,243,244,251,257, 222,410,438,564,570,573,606 265,271,281,285-287,291,294,297,299, 303,317,331,339,342,343,345,351,357, گورنمنٹ 379,408,411-418,423-425,434,435,437, 21,44,79,142,149,174,175,214,230, 446,447,467,470,474-480,484,490,494, 267,332,408,414,477,507,527,547,609, 495,504,509,516,521,522,533,546-551, 616,623,662,663,673,699,705,706,718 554,561-563,567-569,571,574,581-583, 586,595,596,599,600,608-610,621,626, 629-631,638,640,652,656,661-665,669- 673,675,684,690,693,695,699-706,713 لالچ 17,18,510 لجنہ اماء الله ہمارے مبلغوں کو ، جب بھی کسی ملک میں تبلیغ اسلام کے لئے جائیں، اپنی اس حیثیت کو سمجھ کر جانا چاہئے کہ وہ ایک نئے آدم ہیں 199 ہر احمدی کا بلکہ ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کے ان مبلغین کی ، جو اس تحریک کے ماتحت باہر بھیجے گئے ہیں، ہرممکن مدد کرے351 مبلغین کے لئے دعائیں کرو 465 مبلغین کو غیر ممالک میں اشاعت اسلام کے متعلق بعض اہم ہدایات اور نصائح 471-467 مبلغین کو مختلف ماموں پر لگایا جائے 477-474 763 26,97,289,347,561,562,570 لٹریچر 447,483,583 لڑائی 93, 94,151,185,194,195,205, 237,241-243,271,275,319,326,363,364, 424,460,462,590,591,603,636,647,687 مال 48,53,59,63,72,75,111,113,150,151,
اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم مبلغین کو مختلف علوم وفنون اور پیشے سکھائے جائیں 477,478 | مجلس شوری 257,271,653 480 محاورے / ضرب المثل / روز مرہ/اقوال مبلغ سے بڑا اور کون سا مقام ہو سکتا ہے، جو تم حاصل کرنا چاہتے جب تو روٹیاں پکاتی ہے تو تیری کہنیاں کیوں ہلتی ہیں 33 ہو.جو شخص سچا اور حقیقی مبلغ ہوتا ہے، وہ دنیا میں خدا کا نمائندہ ہوتا ہے 533 مبلغین اور واقفین کو نصیحت 534-521 جب تک مبلغین نو مسلموں کو چندہ دینے اور وقف کرنے کی عادت نہیں ڈالیں گے ، یہ کام لمبے عرصہ تک نہیں چل سکتا، جو کام ہمارے سپرد ہے 550 مبلغین کو تنبیہ 568,569 ناخنوں تک زور لگا دیں 104 جتنا گڑ ڈالو گے، اتنا ہی میٹھا ہو گا 191 کہونگا گے شہیدوں میں شامل ہو گیا 196 عرق ندامت سے بھیگ گئے 219 کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ 235 چڑھیا سوتے لتھا ھو 269 پھیتیاں اڑانے 270 کوئی دینی جماعت بغیر علماء کے نہیں چل سکتی کیونکہ وہ ان کی فوج یا توں اس دے لڑ لگ جایا اس دے لڑ لگ جا282 ہیں 579 پس جماعت کے نوجوانوں کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ سلسلہ کا کام علماء خدا گنجے کو ناخن نہ دے 299 دور کے ڈھول سہانے 318 نے کرنا ہے.اور اگر علماء کی صف میں رخنہ پیدا ہوا تو سلسلہ ختم پہلی چیز تو عجوبہ کے لئے ہوتی ہے اور دوسری چیز اس کے مزے کی ہو جائے گا 581 وجہ سے ہوتی ہے 384 مبلغ کو الوداع اور خوش آمدید کہنے کے لئے مرد اور عورتیں ہجوم اور مژده باداے مرگ ایسی آپ ہی پیار ہے 392,490 گروہ در گروہ آیا کریں 595 پس جماعت کے نو جوانوں کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ سلسلہ کا کام علماء نے کرنا ہے.اور اگر علماء کی صف میں رخنہ پیدا ہوا تو سلسلہ ختم ہو جائے گا 595 ہمارے مبلغین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اندرا نتظامی قابلیت پیدا کریں تا انہیں ضرورت کے وقت ان کاموں پر بھی لگایا جا سکے 595 ہمارے مبلغین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اندر انتظامی قابلیت پیدا کریں تا کہ انہیں مرکزی عہدوں پر لگایا جا سکے 596 مبلغ ہی ہیں، جن کے کام پر ہماری جماعت فخر کرتی ہے 705-706 کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ 432 ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات 432 بھیڑ چال 480 ساہ تے لین دیو 509 پدرم سلطان بود 511 خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے 514 الفضل للمتقدم 518 عصمت بی بی از بے چارگی 555 با شمہ پھڑے دی لاج رکھنا 616 ہتھ پھڑے کی لاج رکھنا 621 اونٹ شور مچاتے ہی لا دے جاتے ہیں 632 764
اشاریہ، کلید مضامین 240-242,261,262,269,297-299,316,317, 320,324,326,337-339,350,360,389,396, 416,437,443,445,446,448,449,458,460, 483,495,501,508,512,514,516,536,542, 543,547,548,557,558,575,580,583,585, 603,610,629,635,639,659,660,665,666, 674,678,683,689,693,696,701,702,710 125,480,545 2,5,10,66,82,91,92,95, 97,98,101,135,177,217,271,288,312, 329,341,350,352,373,406,416,548,551, 552,563,596-598,613,653,684,704,717 مشن ہاؤس 455,494 مشنری 43,64,251,287,417,447,476,648,657 مصائب 5,205,289,290,293,299,300,546,547 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم من آنم که من دائم 659 ہر چہ بقامت کہتر بقیمت بہتر 678 تھوک میں بڑے پکائے 680 محبت 5,9,15,49,75,115,135,164,192,197,207, 233,235,262,281,299,300,309,310,381, 413,419,437,498,505,522,564,572,573, 577,580,585,604,605,668,670,677,678 محبت الہی 505 محنت ,2,85,174,177,331,351,356 378,379,381,389,509,597,632,720 مدرسہ احمدیہ 69,390 مذہب امذاہب 44-46,81,96,155,187,227,270, 337-340,350,368,373,378,432,446,448, 505,583,648,666,668,689,691,696,710 60,129,158,198,411,473,733 مساوات 29,32 مسجد / مساجد 79,80 303,347,412,452,629,661,662,678 مسلم لیگ 187,269,270,414 مسلمان مصنف 666 مطالبات 96,600,735 معاملات 35,491,532 معاہدہ,92,124,194,195,236,238 239,241-244,363,364,437,438,452,699 765 معجزه معجزات 215,609 مغل بادشاہ 617 7,12-14,43,50,60,61,65,77, 96,105,118,142,152,156,157,171,172, 183,184,186,215,220,223,228,234,236,
اشاریہ، کلید مضامین مقرب 300,555,695 من و سلوی 85 منافق 50 115,117,118,121,122,173,205,206,215 منافقت 119,122,205,644-117 موت 42,46,59,61,84,88,108,117,125,128,134, 135,191,197,198,282,293,361,362,369, 392,410,490,533,590,680,688,718,721 مولوی 4,54 67,72,73,92,117-119,123,213,269,287, 308,336,337,359,360,416,432,469,477, 522,528,540,541,547,548,560,569,583, 594,602,653,661,678,684,685,694,699 تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم نشان / نشانات 37,42,84 101,123,124,130,182,195,316,383,386, 436,463,503,613-615,619,621,636,729 نصیحت انصائح 147,107,114,220,276 345,422,484,486,518,551,557,676,721 جماعت کا ہر فر دوصیت کرے 39,553 جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر ایک خاص قسم کی تبدیلی پیدا کرے51 جماعت جانی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور نمایاں حصہ لے.جانی قربانی ہی ہے، جس سے گزشتہ خدائی سلسلے مضبوط ہوتے آئے ہیں 53 ہر شخص کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ساری اولا د اور خاندان کو دین کی راہ پر چلائے 88 87 احمدی مستورات خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں 98*95 مومن,17,18,38,42,84,101, 109,117,150,153,173,198,205,206,207, 210,215,217,223,228,244,289,293,327, 427,558,559,571,613,619,641,644,655 مہاجرین 14,120,195,222,238,363 مہمان نوازی 55,546 2,46,161,165,209,215, 239,312,327,393,429,430,573,634 نجات 9,40,62,199,294,365,366,486,560 766 مرکزی کارکنوں، افسروں اور عہدیداروں کو نصائح 114 1113 تحریک جدید کے متعلق جلسے کئے جائیں 131 اپنے اندر اخلاص پیدا کرو.تم روحانی سلسلہ کے افراد بنو.نمازوں کے پابند بنو.ذکر الہی پر زوردو.اسلام کے شعائر کوزندہ رکھنے کی کوشش کرو.اپنے اندر طہارت پاکیزگی اور تقویٰ پیدا کرو.نہ تم کسی کی تعریف سے خوشی محسوس کرو اور نہ کسی کی مذمت سے ڈرو 136 جماعت اور مرکزی انجمنوں کی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف 137, 138, 139, 140 زندگی سانس لینے کا نام نہیں ، زندگی نام ہے کسی کام کا 140 اپنے حوصلے بلند، افکار بلند اور خیالات بلند بناؤ اور سوچنے کی عادت ڈالو، نیک جذبات کی عادت ڈالو.ان کے بغیر دشمن کا
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم مقابلہ مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے 143 اشاریہ، کلید مضامین نو جوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ وقت کی قدر کو سمجھیں 294 بوجھ سے مت ڈرو بلکہ یہ دیکھو کہ تمہاری زندگیوں میں کتنے بڑے وقف کی عظمت کو سمجھو.295 کام سرانجام پا جاتے ہیں 159 تبلیغ کر داور دعائیں مانگو 161 تبلیغ بغیر نیک نمونہ کے نہیں ہو سکتی 173 ہر 19 سال کے اختتام پر ایک رسالہ یا کتاب کی اشاعت جس میں شاملین تحریک جدید کے نام ہوں 306328340 زندہ قوموں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے افراد کے اندر لوگ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں، اپنے دلوں کو بدلیں اور دعاؤں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو 316 پر زور دیں 179 ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ غیر ممالک میں مساجد ہم اس بات مدعی ہیں کہ ہم نے تمام دنیا پر غالب آتا ہے تو ضروری کے قیام کی اہمیت کو سمجھے 317 ہے کہ ہم تمام ممالک میں اپنے مراکز بنا ئیں 188 ہماری جائیدادیں تبھی فخر کا موجب ہوسکتی ہیں، جب وہ خدا کے مبلغوں کو ، جب بھی کسی ملک میں تبلیغ اسلام کے لئے جائیں، اپنی کام آئیں 321 اس حیثیت کو سمجھ کر جانا چاہئے کہ وہ ایک نئے آدم ہیں 199 ہر فرد کی زندگی کا سب سے اہم کا م تبلیغ واشاعت اسلام ہونا تم لغو باتوں سے الگ ہو جاؤ 203 وکلاء کو تنبيه 214 213 اپنی زندگی سادہ بناؤ 215 چاہیے 335 ہر احمدی مرد اور ہر احمد کی بالغ عورت کا فرض ہے کہ اس تحریک میں شامل ہو.بلکہ بچوں میں بھی تحریک کی جائے اور رسمی طور پر انہیں یہی مومن کا کام ہونا چاہئے کہ وہ جو کہے، اسے پورا کرے 223 اپنے ساتھ شامل کیا جائے 341 جماعت کے قائم کرنے کی جو غرض ہے، ہماری جماعت کو وہ کبھی احمدی فرد، ہر سیکر ٹری اور ہر پریذیڈنٹ اور ہر بارسوخ آدمی کا نہیں بھولنی چاہئے 229 فرض ہے کہ وہ جماعت کے تمام افراد میں تحریک کر کے ان سے ہجرت مدینہ سے پہلے انصار سے معاہدہ اور نصائح 236 235 تحریک جدید کے وعدے لے، ان وعدوں کی اطلاع مرکز کو دے ہر محکمہ کی ایک پلین ہونی چاہیے اور پھر وقت مقرر ہونا چاہیے 259 اور پھر ان کی وصولی کے لئے پوری کوشش کرے.344 ناظران اور وکلاء کو تنبیہ اور ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ تبلیغ اسلام کے اس عظیم الشان کام کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں، جو ہم نے بیرونی ممالک میں جاری کر رکھا ہے.نوجوان اپنے فرائض منصبی اور قومی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کریں اسلام کے لئے یہ ایک بہت نازک زمانہ ہے چاروں طرف سے اسلام پر یورش ہورہی ہے اور اسلام کے مورچے پر سوائے چند 268, 269, 270 281 تحریک جدید اب اپنے اہم ترین دور میں سے گزر رہی ہے.اس نو جوانوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی تعلیم کی طرف توجہ کریں 282 احمدی مبلغین کے اور کوئی بھی نہیں ہے.345 نو جوانوں کو محنت کی عادت پیدا کرنی چاہیے 282 تحریک جدید کے کارکنوں کو بھی اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کی عظمت اور اس کی اہمیت وضرورت ہر احمدی کے ذہن نشین کہ وہ اپنے اندر ایمان پیدا کریں 294 ہو جانی چاہئے 350 767
اشاریہ، کلید مضامین کرے 351 تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد سوم ہر احمدی کا بلکہ ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کے ان مبلغین جماعت کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے 480 کی، جو اس تحریک کے ماتحت باہر بھیجے گئے ہیں، ہر ممکن مدد جماعت میں لائیبر یریاں قائم کی جائیں 484 علماء کو کہتا ہوں کہ وہ نئے طریق کلام کو جاری کریں 484 تحریک جدید اب جس نازک دور میں سے گزررہی ہے، وہ اس سائنس، اقتصادیات اور سیاسی ترقی کے نتیجہ میں جو وساوس لوگوں امر کی متقضی ہے کہ ہر احمدی یہ فیصلہ کرے کہ اس نے بہر حال اس کے دلوں میں پیدا ہو گئے ہیں، ان کو مد نظر رکھ کر لٹریچر تیار کریں 484 تحریک میں حصہ لینا ہے 351 مخلص نوجوان ایک پورے عزم اور ارادہ کے ساتھ آگے آئیں اور وہ اس قسم کا لٹریچر تیار کریں ، جس کی اس زمانہ میں ضرورت اپنی زندگیوں کو وقف کر کے آخر تک ثابت قدمی کا نمونہ ہے 484 دکھا ئیں.352 قابلیت ہے تبھی خدا نے آپ کو چنا ہے، پس اپنی طاقت کو ضائع جماعت کو بھی کہتا ہوں کہ وہ واقفین کی عظمت اور اہمیت کو سمجھے اور مت کرو 485,491 محسوس کرے.ہماری جماعت میں واقفین کے لئے عزت اور وکلاء، عہدیداروں اور جماعت کو تنبیہ 488 487 احترام کا ایک خاص جذبہ ہونا چاہئے 352 کوشش کی جائے کہ جماعت کا کوئی فرد تحریک جدید سے باہر نہ رہ گھر کی اصلاح کرنی چاہیے 490 جائے 355 جن جماعتوں نے دوسرے لوگوں کی اصلاح کرنی ہے، انہیں پہلے مرکز کے رہنے والوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے.انہیں اپنی ہمارا کام بہت وسیع ہے اور ہم نے ساری دنیا میں اسلام اور ہر آدمی اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ کام کرے اور اس سے جو آمد ہو، وہ اصلاح کرنی چاہیے 491 اشاعت اسلام کے لئے دے 356 ہمارے اہم ترین کاموں میں سے غیر ملکوں میں تبلیغ اسلام کرنا ہے احمدیت کو پھیلانا ہے.اور یہ کام تقاضا کرتا ہے کہ ہم تحریک جدید 359 تحریک جدید کا ہفتہ منایا جائے.ہر جگہ پر ایک بار یا دو دو، تین تین مبلغین اور واقفین کو نصیحت 534-521 بار جلسے کئے جائیں 368 کی مضبوطی کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کریں 493 جب تک واقفین زندگی پیدا نہ ہوں، اسلام کبھی غالب نہیں تم وقف در وقف کی تحریک کرتے چلے جاؤ 537 خاندانی طور پر اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف جماعت کے دوست اپنا پور از ارلگائیں گے کہ ہر احمدی تحریک آسکتا 535 جدید میں حصہ لے لے 1383385 مبلغین کے لئے دعائیں کرو 465 مبلغین کو مختلف ماموں پر لگایا جائے 477-474 543, 552, 553, مبلغین کو مختلف علوم وفنون اور پیشے سکھائے جائیں 477 جب تک مبلغین نو مسلموں کو چندہ دینے اور وقف کرنے کی 478, 480 عادت نہیں ڈالیں گے، یہ کام لمبے عرصہ تک نہیں چل سکتا، جو کام مرکز والوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کریں اور ہمارے سپرد ہے 550 768
تحریک جدید- ایک الہی تحریک.....جلد سوم واقفین زندگی دعاؤں کی عادت ڈالیں 567 مبلغین کو تنبیہ 568569 اشاریہ، کلید مضامین سے چلانا مشکل ہے.اسلام کو دنیا میں پھر سے غالب کرنے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے.اس لئے اسے اس سلسلہ میں ہمیشہ تم اپنی نسلوں میں وقف کی عظمت اور اہمیت کا احساس پیدا مالی اور جانی قربانیوں میں پورے جوش سے حصہ لینا چاہیے 704 دعائیں کرو اور پھر دعا ئیں کرو اور پھر دعائیں کرو 712 کرو 577 پس جماعت کے نو جوانوں کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ سلسلہ کا کام علماء آئندہ خلفاء اور اپنی اولاد کو وصیت 713 نے کرنا ہے.اور اگر علماء کی صف میں رخنہ پیدا ہوا تو سلسلہ ختم اپنے سچے غلام ہونے کا ثبوت دینے ہوئے خدا کی آواز کو دنیا میں ہو جائے گا 581 پھیلا دو 723 اسلام اور احمدیت کی تبلیغ تمہارے ساتھ وابستہ ہے 582 تبلیغ کریں تبلیغ کریں تبلیغ کریں 727 وقف زندگی کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے بعض اہم تجاویز اور اس مقصد کے حصول کے لئے پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور زیادہ استقلال اور زیادہ چستی کے ساتھ دین اسلام کی خدمت میں لگ مبلیقین کو نصائح 589 ہمارے مبلغین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اندر انتظامی قابلیت جاؤ 729 پیدا کریں تا انہیں ضرورت کے وقت ان کاموں پر بھی اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا کرو.نمازوں میں خشوع و خضوع کی عادت ڈالو، دعاؤں اور ذکر الہی پر زور دو، صدقہ لگایا جا سکے 595 خود واقفین کو بھی اپنے اندر وقار اور عزت نفس کا خیال رکھنا و خیرات کی طرف توجہ رکھو، سچائی سے کام لو 729 چاہئے 598 واقفین کو کوئی نہ کوئی فن سکھانا چاہئے 600 دیانت اور امانت میں اپنا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ اور عدل اور انصاف اپنا شیوہ بنا ؤ 729 جماعتوں میں جو نہی میرا یہ خطبہ پہنچے ، وہ فوری طور پر اپنا اجلاس اپنی آئندہ نسلوں کو اسلام کا بہادر سپاہی بنانے کی کوشش کر و 734 بلائیں اور خدام اور انصار کو اس بات کا ذمہ دار قرار دیں کہ وہ گھر یہ نظام 41,66,89,90,97 گھر پھریں اور ہر احمدی سے تحریک جدید کا وعدہ لیں 639 خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے خوشیوں کے دن مقدر کر رکھے 99,163,235,267,269,270,341,413,414, 475,557,621,630,631,639-641,644,712 ہیں.لیکن ان خوشیوں کے دنوں کو زیادہ قریب لانے کے لئے نماز 205,262,324,325 تمہیں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہئے.تاکہ جلد سے نوجوان جلد ہماری فتح کے دن آئیں 648 فتح کے دن کو جلد لانے کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرو 649 اسلام کی تبلیغ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ ساری جماعت کا فرض ہے 687 یہ کام اتنا وسیع ہے کہ جماعت کی خاص توجہ کے بغیر اسے کامیابی 10,21,57,74,91-94,98,105, 108,109,127,129,141,151,157,169,203, 213,230,267,281,286,287,289,290,326, 328,352,380,385,386,392,393,405,408, 411,414,437,480,508,516,546,552,560, 769
اشاریہ، کلید مضامین 563,571,572,579-581,589,594,602,631, 637,643,669,683,684,701-703,719-721 نیت 14,15,74,85,87,199,206 207,351,352,401,553,594,675 نیک 1,31,92,143,168,175,189,205,381,439, 479,524,546,562,563,571,583,594,716 نیکی 8,189 355,377,382,383,438,439,444,716,717 واقعات و تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد سوم مختلف انبیاء سے خدا تعالی کے سلوک سے مختصر واقعات 82 خدا تعالیٰ کا حضرت خلیفہ اسح اول کو رزق دینے کا واقعہ 82 خدا تعالی کے حضرت مصلح موعود رزق دینے کے واقعات 83 حضرت مسیح موعود کے توکل علی اللہ کا ایک واقعہ 84 مبلغین کے بہترین نمونہ کے واقعات 93 92 91 بعض مبلغین کے باہمی اختلافات کے واقعات 112,113 ایک غیر ملکی سے ملاقات کا واقعہ 115 ایک یہودی اور مسلمان کا جھگڑے کے فیصلہ کیلئے پہلے رسول کریم اور پھر حضرت عمر کے پاس آنا 117 جنگ تبوک کے موقع پر ایک صحابی کا پیچھے رہ جانا اور ان کی بیوی کا ناراض ہونا 119 عبد اللہ بن ابی بن سلول کا یہ کہنا کہ مدینہ پہنچ کر نعوذ باللہ سب سے معزز آدمی سب سے ذلیل آدمی کو مدینہ سے نکال دے گا 119 ایک عورت کی مثال جس کی ایک بیٹی مالیوں اور دوسری کمہاروں کے گھر بیاہی گئی 5 رسول کریم ﷺ کا ایک منافق کے سینے پر ہاتھ پھیرنا 1314 15 اچانک مہمانوں کی آمد کا ایک واقعہ 28 120 حافظ جمال احمد کو ماریشس بھجوانے اور ان کے وہاں رہنے کا واقعہ 123, 124 حضرت عمر کا اپنے زمانے میں قحط پڑنے پر دعا کرنا 126 من كان يعبد محمدًا فان محمد اقدامات ومن كان ایک صحابی کو بکر اخریدنے کے لئے ایک دینار دے کر بھیجنا 34 يعبد الله فن الله حي لا يموت 35 ایک لڑکے کا وظیفے کے لئے حضور کے پاس آنا 143 ایک مشہور عیسائی ڈاکٹر کا اپنی ساری آمد گرجے کو دینا 44 ہندو سادھووں کے کام کا ایک واقعہ 45 ہلاکو خان کے بغداد پر حملہ اور ایک بزرگ کا واقعہ 50 ایک فوجی افسر کا مبلغین کے متعلق حضور کو خط لکھنا 5556 چین کے ایک مبلغ کا واقعہ 66 فرانس کے ایک مبلغ کا واقعہ 66 تقسیم ہند کے بعد لوگوں کی مالی حالت کی تبدیلی کے واقعات فتح مکہ کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم پر ایک نو جوان انصاری کا 150, 151, 152 شملہ میں ایک شخص کا حقیقۃ الوحی کے حوالے پر بحث کا واقعہ 172 الفضل میں اعلانات چھپوانے کا واقعہ 179 1178 ایک ڈپٹی کمشنر اور اس کے بہرے کی لڑائی کا واقعہ 185 ایک شخص کا گرمی میں دھوپ میں بیٹھنے کا واقعہ 189 جنگ بدر کا واقعہ 196 195 1194 72, 73 770
تحریک جدید- ایک الہی تحریک.....جلد سوم خواب میں آگ لگنے اور اسے بجھانے کا واقعہ 197 اشاریہ، کلید مضامین ایک غریب احمدی سقہ کا ہر تحریک پر لبیک کہنے کا واقعہ 320 حافظ بشیر الدین صاحب کی حضور سے ملاقات اور ماریشس جانے ایک بوڑھے کے درخت لگانے اور بادشاہ کے زہ کہنے کا واقعہ کا واقعہ 199,200 207, 208 324, 325 ایک پٹھان کا کہنا کہ خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا 207 206 آنحضور کا حضرت علی اکو فرما نا کہ کسی کے ذریعہ ایک انسان کا حضرت منشی اروڑے خاں صاحب کا سونا پیش کرنے کا واقعہ ہدایت پا جانا اس کے لئے بہتر ہے بنسبت اس کے کہ اسے اونٹوں اور گھوڑوں کی ایک بھری وادی مل جائے 326 جنگ تبوک میں تین صحابہ کے پیچھے رہ جانے کا واقعہ 210 فتح مکہ کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم پر ایک انصاری نوجوان کا ایک مبلغ کو چھ ماہ تک خرچ نہ ملنے کا واقعہ 213 212 اعتراض 327 326 یہودیوں کا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو یہ کہنا کہ جا تو اور لائل پور کے ایک زمیندار کی حضور سے سفارش کی درخواست تیرا رب لڑتے پھر و215 214 332, 333 جنگ حنین میں آنحضور کے پاس صرف ایک شخص کے رہ جانے کا ایک بادشاہ کا حبشی غلام کو ٹو پی دے کر یہ کہنا کہ دربار میں موجود سب سے خوبصورت بچے کو پہنا دو 336 335 واقعہ 215 ایک جانور کا رات کو ٹانگیں اوپر کر کے سونے کا واقعہ 235 234 حضرت پیر افتخار احمد کے بیچے کے رونے پر حضرت مولوی ہجرت مدینہ سے پہلے انصار سے معاہدہ اور نصائح 236 235 عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے ناراض ہونے کا واقعہ 336 جنگ بدر کا واقعہ 23738 کا واقعہ 253 337 آنحضور کی ہدایت پر ایک صحابی کا عورتوں سے زیورا کٹھا کرنے ایک پیر کا حضور سے سوال کرنا کہ جب کشتی دریا کے کنارے لگ جائے تو اتر جانا چاہیے پاکشتی میں ہی بیٹھے رہنا چاہیے 360 آکسفورڈ یونیورسٹی کے لئے لوگوں کا چندہ دینے کا واقعہ 255 ہجرت مدینہ کا معاہدہ اور جنگ بدر کا واقعہ 364 363 3362 کسی کا حضرت ابراہیم ادھم سے جنت اور دوزخ کے متعلق سوال کسی کا ایک صحابی سے پوچھنا کہ آپ صحابہ میں سے سب سے زیادہ بہادر کس کو سمجھا کرتے تھے ؟375 374 373 کرنے کا واقعہ 309 رسول کریم کے زمانہ میں ایک شخص کا زکوۃ دینے سے انکار کا واقعہ حضرت طلحہ کے ہاتھ شل ہونے کا واقعہ 376 375 3374 کسی کا حضرت طلحہ سے متعلق بد تمیز اندروید 375 374 311 حضرت خلیفہ اسی اول امامی فرمانا کہ اب چوہدری بھی چلے جائیں دو کاہلوںکا واقعہ 379 378 313, 402 امریکہ کے ایک لڑکے کا واقعہ جو اپنی محنت سے بڑا بننا چاہتا آنحضور کے ارشاد پر حضرت عبداللہ بن مسعود کا گلی میں ہی بیٹھ تھا 379 جاتا اور گھسٹ کر مسجد آنا 315 314 یورپ کی ایک لڑکی کا واقعہ جو کسی گھر میں کام کیا کرتی تھی 380 شراب کی مناہی پر صحابہ تھا مٹکے ٹوڑنے کا واقعہ 316 315 حضرت خلیفہ اول کی خواہش کہ ایک نیک بڑھیا کی خدمت 771
اشاریہ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم کریں 381,382 ایک انگریز کا گلاب جامن یا رس گلہ کھانے کا واقعہ 384 ایک ملاقات کے دوران ایک دہریہ ڈاکٹر کا آنحضور پر اعتراض 445, 446 ایک شخص کا مونچھیں بڑھانے کا واقعہ 461 حضور کو نقرس کی تکلیف اور کسی کا پان میں زرودہ ڈال کر کھانے کا مدینہ میں مردم شماری 458 مشوره 1384385 احراری خاندان کے ایک لڑکے کے بیعت کرنے کا وقعہ 385 صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے سفیر کی آمد پر حضور کا فرمانا کہ اپنی قربانیوں کو باہر لے آؤ480 479 386 حضرت ابن عباس سے کسی کا پوچھتا کہ آپ کسی کے لئے ایسی دعا بھیڑوں کے ایک دوسرے کی نقل کرنے کا واقعہ 480 بھی کرتے ہیں جیسی اپنے لئے 391 آنحضور کا ایک شخص کے لئے شہد تجویز فرمانا 491 فتح مکہ کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم پر ایک نوجوان انصاری کا امریکہ کے ایک قونصل جنرل کا حضور سے ملاقات کا ایک واقعہ 491,492 اعتراض 392,393 حضرت ابو ہریرۃ" کا ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہنا 397 396 بعض انگریزوں کے اسلام میں دلچسپی کے واقعات 512-503 حضرت عبد اللہ بن عمر کا ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہنا 397 رات کو بعض لوگوں کو ٹھوکر سے بچانے کے لئے آنحضور کا اپنی حضور کا پہلی دفعہ اپنی جائیداد کا انتظام سنبھالنے کا واقعہ 397 بیوی کا نقاب اٹھانے کا واقعہ 505 ایک کشمیری کا سامان اُٹھانے کا واقعہ 510 گورنرسندھ کا دو سعودی شہزادوں کی دعوت پر حضور کو بلانا 400 جرمنی میں ایک شخص کا حضور سے ملاقات کے لئے اصرار 511 ایک پادری کا ایڈورڈ ہفتم کے خلاف ہونے کا واقعہ 401,596 حضرت عمر کے دربار میں مکہ کے رؤسا کی موجودگی میں بعض غلام ایک جرمن ڈرائیور کر حضور سوال کرنا 516 ,515 398, 529-531 صحابہ کے آنے کا واقعہ 403 402 512 بادل کے قطرہ کی کہانی 518 خواب میں تقریر کرتے ہوئے حضور کا ایک آئینہ دکھانا ار اس کے مبلغین کی قربانیوں کے واقعات 524-522 خراب ہونے پر اسے توڑ دینے کا واقعہ 420 419 حضرت مسیح موعود کو ایک نذرانہ آنے کا واقعہ 526 ایک مدعی نبوت کے حضور کو خط لکھنے کا واقعہ 432 حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد حضور کے بچپن کا ایک ایک فوجی افسر کا مبلغین کے متعلق حضور کو خط اور پھر ملاقات کرنے واقعہ 29 528 کا واقعہ 434 ایک میراشن کے لڑکے کے عیسائی ہونے کا واقعہ 537-536 605 سرحد کے ایک رئیس کا حضور کی کتاب پڑھنے کا واقعہ 437-435 عمرہ کے دوران ایک صحابی کا اکڑ کر چلنے کا واقعہ 437,438 من كان يعبد محمداً فإن محمدا قد مات.ومن كان يعبد الله فان ایک دوست کا یہ کہنا کہ جو دہی استعمال کرے وہ بوڑھا نہیں الله حي لا يموت 556,557 مرتا440 حضرت مسیح موعود کی وفات پر حضور کے عہد کرنے کا واقعہ 558 772
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم 559 اشاریہ، کلید مضامین حضرت ابو بکر کا اپنے گھر کا تمام سامان لے آنے کا واقعہ 606 افریقہ میں عیسائیوں کا اپنے پریس میں احمد ہی اخبار چھاپنے سے ایک شخص کو معمولی چندہ دینے کی تحریک 564 حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب کا ایک سال میں سو بیعتیں انکار 610-608 کروانا 569 فدائی خاندان کے ایک نوجوان کا افسوسناک واقعہ 571,572 کرنا 610 حضور کے بچپن کا ایک واقعہ 574 یورپ کی حکومتوں کا اشاعت اسلام میں دخل دینے کا واقعہ 584-582 ایک جرمن ڈاکٹر کا دیا چ تفسیر القرآن چھاپنے کی خواہش ایک غیر احمدی کا حضور کو 100 روپیہ بھیجنا 611-610 ایک عورت کا 50 روپے اور ایک احمدی کا سوروپیہ بھیجنا 611 ترکی کے ایک پروفیسر کا اپنی ماہوار ٹیوشن حضور کو بھجوانا 611 مغربی پاکستان کے ایک ذمہ دار حکومتی افسر سے ملاقات 585 ایک احمدی کا اڑھائی سو پاؤنڈ لندن بنگ میں تحریک جدید کے ایک بچے کا واقعہ جس کی والدہ فوت ہو چکی تھی 587,588 لئے جمع کروانا 611 ایک بادشاہ کو ایک قافیہ پسند آنے پر قاضی کو معزول کرنے کا ایک دوست کا لکھنا کہ آپ فکر نہ کریں ہم سب کچھ قربان کر دیں واقعہ 588 گے 611 ایک نو جوان کا واقعہ جسے بچپن سے ماں باپ کہتے تھے کہ تو پڑھ لکھ کر ایک دوست کا لکھا کہ فکر نہ کریں ہم خود سارا رو پیدا کٹھا کر لیں 612 بڑا افسر بنے گا589 ایک چور کے پھانسی سے پہلے اپنی ماں کے کان کو کاٹ کھانے کا ایک مجلس خدام الاحمدیہ کا دوسور و سپید دین 612 واقعہ 591-590 حضرت خلیفہ اول کے پاس لوگوں کا امانتیں رکھوانا اور پھر مطالبہ پر ایک بزرگ کا قصہ جس کے پاس اچانک قرض خواہ آ گیا 615 ایک افسر کا واقعہ جسے بچپن میں والدہ کہتی تھی کہ دین کی خدمت کے خدا کا دینا 614,615 لئے زندگی وقف کرنا 591,592 ایک پٹھان کے درخت پر چڑھنے کا واقعہ کہ اگر بحفاظت اتر گیا تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ کا کمشنر سے ایک میراثی کی سفارش کرنا 617-616 قربانی کروں گا 592,593 ایک لڑکی کا وقف کی درخواست دینے کا واقعہ 593,594 حضرت عائشہ کا پہلی بار ہوائی چکی کا آٹا کھا کر آنحضور گویاد حضور کا بچپن سے اخبار خرید کر پڑھنے کا واقعہ 596,597 کرنے کا واقعہ 617 ایک دوست کا کسی سے حضور کے لئے پنکھ مانگنا 598 ایک غریب آدمی کا حضرت مسیح موعود کوروپوں کی ایک گٹھڑی بعض مبلغین کے رشتوں کے متعلق واقعات 599 حضرت مسیح موعود کا لفظ مولوی سے چڑنے کا واقعہ 602 غیر مبائعین کے مقابلہ میں پہلا اشتہار چھپوانے کے لئے پیسوں کا جنگ حنین کا واقعہ 603,604 مرزا غالب کا آم کی پسندیدگی کا ایک واقعہ 604 دینے کا واقعہ 618 نہ ہونا 619 حضرت مسیح موعود کا نواب محمد علی خاں صاحب سے مہنگائی پر تعجب 773
اشاریہ، کلید مضامین کے اظہار کا واقعہ 627 خواجہ کمال الدین کے لندن جانے کا اصل واقعہ 630 تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد سوم خاندان کے لئے پیغام 680 جنگ تبوک میں ایک صحابی کا پیچھے رہ جانا اور ان کی بیوی کا ناراض ایک لونڈی کا واقعہ جوا و پلے لینے گئی اور خرگوش مل گیا 630 ہونا 680 ایک نند اور بھاوج کے شادی پر جانے کا واقعہ 633 حضرت مالک کی شہادت کا واقعہ 636-635 حصول تعلیم کے لئے بعض لوگوں کی مرکز آمد کے واقعات 640-639 لارڈ ہیڈ کا یہ کہنا کہ اب عیسائی اسلام کا شکار ہیں 683 1953ء کے فسادات کے حوالے سے ایک واقعہ 689 عراق سے ایک جرمن کا خط کہ اپنے مبلغ کا پتہ دیں میں نے چندہ بھجوانا ہے 690 جماعت کے خلاف پروپیگنڈا کے واقعات 644-643 امریکہ کی مسجد کے لئے ایک حبشی میاں بیوی کا اپنا مکان دینا 693 انگریزوں اور فرانسیسیوں کے مصر پر حملے کا واقعہ 647-646 فلپائن کے ایک گورنر کی بیعت کا خط اور اس کا قتل 694 ایک انگریز کا حضور سے ملاقات کے دوران آنحضور کی ذات پر مصر کے وائس کو فصل کا دعا کے لئے حضور کو خط 694 ایک پادری کی لڑکی کا اسلام سے متاثر ہونے کا واقعہ 696 حملہ کرنے کا واقعہ 647 ایک جرمن پروفیسر کی بیعت کا واقعہ 652-651 ڈاکٹر بدرالدین صاحب کی تبلیغی مساعی کے واقعات 701-699 ایک بڑھیا کا واقعہ جوسوت کی دوائیاں لے کر حضرت یوسف کو ایک علاقہ میں مبلغ کی حکومتی مخالفت کا واقعہ 700 ایک سفید فارم عورت کی ایک مبلغ سے شادی کا واقعہ 702 خرید نے چلی تھی 659 ایک جرمن شخص کا حضور سے فتویٰ پوچھنا جس کے مرحوم باپ کا مسجد کی تعمیر کے لئے ایک سکھ کی غیر معمولی امداد کا واقعہ 703,704 شراب کا کارخانہ تھا 664 ایک انالین عورت کا اسلام کے حق میں کتاب لکھنا 666-665 تعریف کرنے کا واقعہ 705,706 ایک عورت کے کڑے پیش کرنے کا واقعہ 668 چین میں ایک عورت کو کھانے کا واقعہ 669 ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے ربوہ آنے اور مبلغین کے کام کی ملکہ نازلی کا مبلغین کے کام کی تعریف کرنا 706 غزوہ احزاب میں آنحضور کا خندق کی کھدائی میں پتھر توڑنے کا ایک لڑکی کے ایک غیر ملکی طالب علم سے شادی کا واقعہ 670-669 | واقعہ 710-709 ایک عورت کے ایک غیر ملکی مبلغ سے شادی کا واقعہ 670 ایک بڑھیا کا واقعہ جس کے پاس ایک انگوٹھی تھی اور وہ سب کو دکھاتی بعض غیر ملکیوں کا حصول تعلیم کے لئے مرکز آنے کی خواہش کرنے تھی 724 کے واقعات 673,674,701 حضور کا ایک پادری سے مباحثہ کا واقعہ 725-724 ایک فوجی افسر کا مبلغین کے متعلق حضور کو خط لکھنا 676-675 واقف زندگی واقفین, 65.97 ایک بادشاہ کا واقعہ جو اپنے سب خوبصورت بیٹوں کو پیار کرتا مگر ایک کو نہ کرتا جو بدصورت تھا 677 98,146,179,286,391,401,533,540,541, 568,571-574,577,594,595,599-603,713 جنگ احد کے موقع پر ایک صحابی کا آخری سانسوں میں اپنے ورثہ 498,528,529,664 774
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم وصیت 26,39-42,190,301,553,564,620,621,713 وفاداری 710 وقت، وقت کی قربانی 206 وقف (زندگی ، اولاد، جائیداد، آمد) ,9,11 17,18,22,43,44,46,56,66-68,80-82,84, 86,88,97,99,113,126,168,200,257,270, 281,290,294,295,352,355,371,389,390, 393,395-398,401,404,405,406,463,514, 516-518,522-527,532,533,535-537,543- 545,547,551-554,560,561,571,572,577, 579-581,589,591-594,600,602,603,629, 631,639,671,688,690,700,711,718,721 اشاریہ، کلید مضامین وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لئے ایک عظیم الشان تحریک ہے 513 جماعت میں وقف کی تحریک مضبوط نہ ہو، اس وقت تک ساری دنیا میں اسلام غالب کرنا ناممکن ہے 514 وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لئے ایک عظیم الشان تحریک ہے 516 جماعت سے خاندانی طور پر وقف اولا د کا مطالبہ 516 تم وقف در وقف کی تحریک کرتے چلے جاؤ 537 سلسلہ احمدیہ کا کام روپیہ سے بھی زیادہ انسانوں سے وابستہ ہے 539 خاندانی طور پر اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف 543,552, 553, جب تک مبلغین نو مسلموں کو چندہ دینے اور وقف کرنے کی عادت نہیں ڈالیں گے، یہ کام لمبے عرصہ تک نہیں چل سکتا، جو کام کوئی نسل اور کوئی قوم اور کوئی خاندان اس وقت تک ترقی نہیں کر ہمارے سپرد ہے 550 سکتا ، جب تک وہ اپنی اولاد کی قربانی پیش نہ کرے 61 ,60 تم اپنی نسلوں میں وقف کی عظمت اور اہمیت کا احساس پیدا ہر تحریک جدید کی اصل بنیا دوقف زندگی پر ہے 81 کرو 577 شخص کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ساری اولاد اور خاندان کو وقفہ زندگی کی تحریک کو کا میاب بنانے کے لئے بعض اہم تجاویز اور دین کی راہ پر چلائے 88 87 مبلغین کو نصائح 589 احمدی مستورات خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں وقف زندگی ایک جہاد ہے 594 98095 احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہو سکتی 123 وقف کی عظمت کو سمجھو.وقف کا بدلہ پیسوں اور عہدوں سے نہیں ملتا، وقف کا بدلہ خدا تعالٰی سے ملتا ہے 295 دینی جماعتوں اور دینی کاموں کو چلانے کے لئے وقف کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بغیر دینی جماعتیں کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں 395 وکیل وکلاء تحریک جدید, 158,213,268,486 528,533,595,597,630,631,694,707,731 ولایت / ولی 32,35,88,299,435,534,547,557,619 65,85,165,186,195,363,364,431,528 775
اشاریہ، کلید مضامین ہدایت ہدایات 42 64,71,185,259,326,335,351,383,400, 425,433,467,475,485,487,490,519,532, 537,538,600,636,687,688,703,711,716 ہمدردی 146,415 ہمسائے / ہمسایوں 60,149,150,498,635,644 776 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم اسماء اشاریہ، اسماء آدم، حضرت علیہ السلام 199 ابا، حاجی 701 ابراہیم، حضرت علیہ السلام 59,60,61,85,90,151,309, 512,543,545,613,614,734 ابراہیم ادھم 309 ابن عباس ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 391 ابو العطاء ، مولوی 560,594 ابوبکر صدیق ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اختر ، غلام محمد 486,487 اروڑے خاں ، حضرت منشی، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 207,208 اسامه 701 اسرافیل، فرشته 603 اسماعیل ، حضرت علیہ السلام 59,60,62,85,545,551,734 افتخار احمد ، حضرت پیر ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 336,337 اکبر، بادشاہ 51 امتہ ائی ، سیدہ بیگم، اہلیہ حضرت مصلح موعودؓ 28 امرمی عبیدی 661 انس احمد ، صاحبزادہ مرزا 553 ایچ.جی.ویلز ، مصنف 510 14,117,125,135,227,311,431,556, 557,599,605,606 ابو جہل 171,227,237 ایڈورڈ ہشتم ، بادشاہ 596 ایڈورڈ ہفتم ، بادشاہ 401 ابوحنیفہ، حضرت امام، رحمة الله عليه 545 ابوسفیان 237 بابر، بادشاہ 51 ابوموسى 673 بدرالدین، ڈاکٹر 699,700 ابن سعود 125 بدرمحی الدین ، میاں 616 ابو ہریرة ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 396,397 برکت علی، چوہدری 213 ابی ابن سلول 50,120,121 بشیر احمد ، حضرت مرزا ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 572 777
اشاریہ، اسماء بشیر الدین ، حافظ 199 بشیر الدین محمود احمد،مرزا،حضرت خلیفة المسيح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ المصلح الموعود 2-5,9,15,17,21,25-30,32-35, 37,38,41,45,55,62,66,68-71,72,75, 80-84,86,93,101,103,108,114,115, 116,118,122-129,131,133,134,135, تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد سوم 582,585,588,589,591-600,603,604, 608,613,614,618,619,625,627,631, 633-635,638,640,643-645,647,648, 651-653,655,657,660-664,666,668 670,671,673,675,679,681,688,690, 694,701-705,707,708,711,715,719, 720,724,725,727,731,733,734,737 ,143,157,158,167,169-175, 1,138,139 بہاؤالدین نقشبندی،حضرت، رحمة الله عليه 550,557 177-179,189-191,195,197,201-203, ,211,213,214,217,218,220, 207-209 | تمیز الدین خان، مولوی، صدر دستور ساز اسمبلی 400 221,225,230,234,237-242,247,251, 252,254,255,258,267,268,275,276, 281,282,286,288,289,291,292,294, 306,312-314,320,324-327,329,333, 340,341,345,347,350,353,355,360, 362,366,369,371,372,377-380,383- تیمور، امیر 51 ٹائن بی ، مورخ 460 ٹیلر، ڈاکٹر 44 ج -385,387,398-401,408,416,417,419 | جبرئیل ، فرشته 497 ,421,425,427,432,434-436,440,441 | جعفر برمکی 50 444-446,447,451,453,454,458,459, 470,473,474,485-489,491,493,494, جلال الدین شمس ، مولانا 733 جمال احمد ، حافظ 123,125 -497,499,503-516,518,522-534,536 جنید بغدادی،حضرت، رحمة الله عليه 130,545 538,541,546,547,549,551,553,556, 558,559,562-565,567-572,574,581, 778 چ چرچل ،مسٹر 596
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد سوم ز حسن بصری، حضرت رحمة الله عليه 557 زبیر، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 374 حصہ ،ڈاکٹر 92 خ زرتشت، حضرت علیہ السلام 46 خالد بن ولید ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 431 سٹوڈر مسٹر ، جرمن ڈرائیور 515 خدیجہ، حضرت ام المؤمنین ، رضی اللہ تعالیٰ عنہا 546 سفیان ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 14 خلیل احمد ناصر 92,102,541 و داؤد، حضرت علیہ السلام 82 ڈسمنڈشا، برطانوی مصنف 510,511 راک فیلر را شیلڈ 255 رام ، حضرت علیہ السلام 46 سکارنو ، ڈاکٹر 689 سعد اللہ ، ماسٹر 553 سعدی، شیخ، رحمة الله عليه 677,679 سکندرحیات ، سر سردار 332 سلطان احمد ، حضرت مرزا 380,419 سلطان محمود شاہد، پروفیسر 391 سلیمان، حضرت علیہ السلام 198 سہیل ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 402 رحمت علی ، مولوی 6792 سید احمد علی گڑھی ، سر 269 رستم علی ، حضرت چوہدری ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 526 سیف الرحمان، ملک 27 رشید احمد 257 رشید احمد ، مسٹر 157 رشیدالدین، خلیفہ 28 رضوی، نواب 630,631 ش شافعی، حضرت امام رحمة الله عليه 557 شاہ جہاں ، بادشاہ 51 اشاریہ، اسماء شبیر احمد عثمانی ، مولوی 400 رفع احمد ، صاحبزادہ مرزا 398,627,688 شبلی، حضرت، رحمة الله عليه 130,557 روشن علی ، حضرت حافظ ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 615 شریف احمد ، حضرت مرزا، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 572 روم، مولانا 677 779
اشاریہ، اسماء شکر الہی 702,706 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد سوم عبدالرحمان انور ، مولوی 213 شہاب الدین سہروردی، حضرت، رحمة الله عليه 130 عبدالرحیم درد، مولانا 537 شیبه 227 صالح الحسيمي 560,669 طارق بن زیاد 674 b عبدالرحیم نیر ،مولانا684 عبدالرزاق شاہ ، سید 634 عبدالرشید، قریشی 213 عبد الشکور کنزے، مسٹر 21,22,286,673,702 عبدالطیف، چوہدری 702 طاہر احمد، مرزا ، حضرت خلیفة المسیح الرابع 675 عبدالقادر جیلانی، حضرت سید، رحمة الله علیه طلحہ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 374,375 50,534,557 عبدالکریم سیالکوٹی ، حضرت مولوی ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظ ظفر علی خان، مولوی 678 ع 336,337 عبد اللہ بن مسعود ، حضرت رضی اللہ عنہ 315 314 عبداللہ بھائی ، حضرت سیٹھ ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 527 عائشہ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہا 190,365,374,617 | عبد اللہ بن عمر 397 عالمگیر، بادشاہ 51 عباس ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 14,126,194,236,391,603 عبدالحامد بدایونی ،مولانا400 عبدالحکیم پٹیالوی، ڈاکٹر 685 عبدالحق ، ماسٹر 530 عبد الحق ، مرزا 562 عبدالحئی 599 عبد الخالق ، صوفی 591 عبدالرحمان 674 عبداللہ خان، چوہدری 532 عبداللہ خان، چوہدری، امیر کراچی 573 عبد المغنی ، مولوی 522 عبدالمنان عمر ، مولوی 644 227 عثمان غنی ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 227,403,404,557,674,699 عثمان علی ، نظام حیدرآباد 630 عزیز احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 380 780
اشاریہ، اسماء 208,210,241,262,313,336,353,399, 409,418,419,432-434,484,491,503, 510,513,514,518,521-523,526-529, 531,535-537,540,543-546,549-553, 558-560,567,569,574,575,577,602, 604,605,616,618,620,627-629,637, 660,683,685,690,691,695,708,710- 781 712 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم عطا الرحمان، ملک 91 عکرمہ ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 171 علی ، حضرت، کرم اللہ وجہہ 227,326,374,557 علی محمد ، راجہ 671 عمر فاروق،حضرت، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 117,125,126,137,138,205,227, 402,403,431,557,606,635,636 عمر سلیمان 657 عیسی ، حضرت علیہ السلام غلام حسین ہدایت اللہ سر، گورنرسندھ 400 31,46,48,82,90,98,106,107, 115,162,170,183,188,198,202,212, غلام محمد، حضرت حافظ صوفی ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 123,200,704,720 ,227,339,354,360,391,392,430,445 غلام محمد ، حکیم، امرتسری 419 446,490,523,524,529,539,543,544, 550,583,613,614,647,648,711,723 غلام محی الدین، پیر 616 غلام مرتضی ، حضرت مرزا 616,617 غ ف غالب، مرزا اسد اللہ خاں 423,564,604 فاروق ، شاہ 706 غلام احمد بشیر ، مولوی 548 فتح الدین، مولوی 123 غلام احمد قادیانی مرزا، حضرت مسیح موعود و مہدی موعود فتح محمد سیال، چوہدری 532,537 عليه الصلوة والسلام فرزند علی ، چوہدری 560 ,2,7-12,15,17,31,37,43,47,63,64,77 فرزند علی خان، مولوی 699 82,84,89,98,106,115,123,126,129, فرعون 227 ,1,130,142,157,168,170,172,175,176 فرید الدین شکر گنج، حضرت خواجہ ، رحمة الله عليه 12,538,557 182,183,190,191,197,203,205,207,
اشماریہ، اسماء فضل الرحمان، حکیم 522 فضل حسین ، میاں 269 فقیر محمد خان 435 ق قدرت اللہ ، حافظ 92 تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد سوم مالک، حضرت امام ، رحمة الله.عليه 684 مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا 707,731 مبارک احمد، شیخ 265,661,703 مبارک احمد مشوار 639 محمد مصطفیٰ، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قطب الدین بختیار کا کی ، حضرت خواجہ ، رحمة الله علیه 15,30,31,32,34,35,47,81,105-8,13 15,557 قیصر روم 635,674 کرشن ، حضرت علیہ السلام 46 کرم الہی ظفر ، مولوی 91,675 کسری 635,674 کمال الدین ، خواجہ 417,418,629-631,684 کمال یوسف 703 گ گاندھی جی ، رام چند موہن داس 45,657 گین ، مورخ 460 ل لوط، حضرت علیہ السلام 87 106,114,115,117,118,120,121,125, 129,137,150-152,165,170,178,181, 184,186,192,194,195,206,207,210, 212,215,217,227,235-239,241,243, 253,293,297,300,303,309,311,314- 316,323,326,327,338,360,362-367, 373-375,392,3393,96,397,402,403, 418,429-431,433,436-438,445,446, 448,457,458,463,479,480,491,497, 498,505,506,517,523,534-536,538, 546,556,557,561,569,572,574,583, 595,599,603,604,606,617,634-637, 647,672,674,680,709-711,716,717, 719,727,729,733 محمد ابراہیم ، مولوی 661 مارلین ،مسٹر 255 محمد اسحاق ، حضرت میر ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 510 مالک، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 635,636 محمد اسلم ، قاضی 508 782
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم محمد اقبال، سر علامہ 269 محمد اکرم خان 436 محمد حسن آسان، ماسٹر 524 محمد حسین بٹالوی ، مولوی 602 محمد دین ، ماسٹر 656 محمد سعید انصاری 700 محمد شریف، چوہدری 64 معاویہ بن یزید 674 اشاریہ، اسماء معین الدین چشتی ، حضرت خواجہ پیر، رحمة الله علیه 12,130,534,538 منیر احمد ، صاحبزادہ مرزا 572 منیر الحصنی 64,695 موسیٰ ، حضرت علیہ السلام 2,16,31,46,48,90,98, محمد صادق ، حضرت مفتی ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 113,656 ,107,115,162,170,195,202,209,227 محمد ظفر اللہ خان ، حضرت چوہدری سر، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 244,245,430,543,568,613,614,673 128,134,158,532,533,665,675 محمد عبد اللہ، حضرت مولوی ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 569 محمد علی جناح، قائد اعظم 269 محمد علی جو ہر ، مولانا 269 مولو د احمد 523,563,702 نازلی، ملکہ 706 ناصر احمد، شیخ 92 محمد علی خاں ، حضرت نواب، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 627 ناصر احمد ، مرزا، حضرت خليفة المسيح الثالث محمد علی ، مولوی 684 محمد ممتاز دولتانہ، میاں 332 محمد منور ، مولوی 661 محمود احمد ، سید میر 675 محمود اللہ شاہ ، سید 390,661 553,715,727 ناصر ، کرنل 694 ناصر نواب ، حضرت میر رضی اللہ تعالیٰ عنہ 82,619 ناصرہ بیگم سیدہ، بنت حضرت مصلح موعودؓ 29 ناظم الدین، خواجہ 597,689 محی الدین ابن عربی، حضرت، رحمة الله عليه 130 نانک ، حضرت با وام رحمة الله عليه 12 مشتاق احمد باجوہ 92 مطیع الرحمان ، صوفی 102 نپولین بونا پاٹ 533 نذیر احمد ، مولوی 684 معاویہ، حضرت امیر رضی اللہ تعالٰی عنہ 431 نذیر احمد مبشر ، مولوی 469 783
اشاریہ، اسماء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم نصرت جہاں بیگم ، حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا ہیڈ ، لارڈ ، گورنر پنجاب 683 29,84,528,618 نظام الدین اولیاء، حضرت ، رحمة الله علیه 557 یزید 50 نوح، حضرت علیہ السلام 16,87,90,430,607,613,614 نوراحمد، شیخ 64 نور الحق انور ، مولوی 541,694 نورالدین، الحاج حکیم مولانا، حضرت خليفة المسيح الاول، رضی اللہ تعالیٰ عنہ ی یوسف، حضرت علیہ السلام 90659 یوسف سلیمان 657 یوشع ، حضرت علیہ السلام 02 82,83,87,126,207,208,313,381,382, 402,419,522,528,536,614,629,685 نولڈ کے، جرمن مستشرق 417 وسیم احمد ، صاحبزادہ مرزا 551 وقار الملک 630 ول ہلم ، جرمن بادشاہ 508 ولی اللہ شاہ سید، دہلوی 50,534,557 ولید بن عبد الملک 674 ہارون ، حضرت علیہ السلام 214,215 ہٹلر 533,663 ہلاکو خان 50 ہمایوں، بادشاہ 51 784
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم مقامات آسٹریا 626 آسٹریلیا 163,408,416,459,673,695,710 ابوالقیس، پہاڑ 438 ابى سينيا 65,163,286 66,163,411,412,459,550,681 ارجنٹائن 67,145 اردن، شرق 64,163 اسرائیل 85,646,647 اشاریہ، مقامات 146,148,163,202,256,373,407,581 افریقہ، جنوبی 655 افریقہ، مشرقی 65,265,416,549,659,661,683,703 افریقہ ، مغربی 65,202,407 414,415,522,653,658,693,694,703 افریقہ، ویسٹ 1,145,148,163 256,305,373,523,581,662,670 افغانستان 145,163,298 امرتسر 184,616 امریکہ ایونائیٹڈ اسٹیٹس 21,22,44,48,54,67,68,89,102,107, 128,134,139,140,142,145,148,152, 156-158,163,168,183,202,257,271, اسکندریہ 188 افریقہ,43,54,113 285,286,289,305,319,332,338,350, 114,119,145,146,148,152,156,157, 372,373,379,390,407-409,411,412, 168,265,285,297,298,349,372,373, 417,424,446,447,455,458,459,463, 411,414,415,416,463,490,523,549, 477,478,490,491,514,541,549,561- 561,562,574,619,633,634,657,661, 564,570,574,579-581,621,626,631, 662,670,683,684,693,695,703,720 633,644-646,656,658,660,662,665, افریقہ، ایسٹ,145 785
اشاریہ، مقامات 666,689,693-696,701,702,710,720 امریکہ ، جنوبی 459 تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد سوم برازیل 145 برلش گیانا 689 برلن 66 اندلس 674 انز بروک 663 انگلستان / انگلینڈ برطانیہ اولایت برما 145 21,22,32,35,65,117,140, 142,145,152,163,183,202,251,256, 271,338,373,384,411,412,417,435, 445,458,509,510,571,579-581,584, 596,619,626,630,631,700,702,720 انڈ و چائنا 145,155 انڈونیشیا 145,163,305,372,373,390,626,688 بغداد 50,492 بلغاریہ 412,440 بلوچستان 421,422,562 بمبئی 53,54,67,614,630 بنگال 288 بور نیو 202 بون 663 بٹالہ 184,605 بہار 725 اوسلو 703 بہاولپور، ریاست 274,421,422 ایران 63,145,152,163,243 بہشتی مقبره 39,40,41,591 ایشیا 3,62,152 بيلجيم 145,626 155,156,408,459,463,477,478,511 ایشیا، جنوب مشرقی 155 پاکستان 22,62 بالی 68 بجنور 629 بخارا 63 بدر 405 786 66,92,102,108,140,148,149,156, 169,184,192,193,202,214,228,256, 300,305,335,365,373,389-391,393, 400,407,413,414,417,418,421,422, 427,477,478,490-492,498,523,549,
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد سوم 575,580,585,587,623,644,646,651, 662,664,672,681,689,693,701,705 پاکستان ہمشرقی 341,421,422,628 پاکستان، ایسٹ 256 پاکستان، مغربی / غربی 73,192,228,341,427,585,628 پٹیالہ ریاست 609 پرتگال 699 اشاریہ ، مقامات ٹرینی ڈاڈ 689 ٹھیکری والا 45 ٹیونس 673 ج جاپان 145,271 298,331,407,408,416,490,626,710 جالندھر 184,591 جاوا 67,202 پشاور 612 پنجاب 4,12,33,44,64,66,72,104,134,228, 241,242,321,322,421,422,538,562 پنجاب، مشرقی 64,7296,134,241 پولینڈ 626 پهیرو چیچی 72 پیرس 463 تبوک 120,210,680 ترکی اٹرکی 188,611,612,619,664 تھائی لینڈ 145,459,626,710 جرمنی / جرمن 21 22,62,66,92,145,163,168,187,202, 285,286,345,347,349,373,407,411, 412,459,490,507-509,511,515,547, 549,579,581,610,612,621,626,633, 639,640,651,652,658,664,668,673, 678,681,690,696,702,703,706,710 جنیوا 678 جھڈو، سندھ 313 چارسده 435 ٹانگانیکا 65,202,659,683 چنیوٹ 668 چیکوسلواکیہ 67 چین 13 787
اشاریہ ، مقامات 145,155,163,242,258,286,298,463, 483,519,538,550,592,626,631,669 تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد سوم ڈوسل ڈورف 663 ڈیٹرائٹ 662 حبشہ 186,433,658 حدیبیه 437,603 حیدرآباد 489,630,631 حیدر آباد دکن 353 حفہ 64 راجپوره 28 راولپنڈی 222,371,489,562 ربوه,79,140,171,179 201,202,221,225,257,275,276,286, خانہ کعبہ 13,479,545 خیر پور، ریاست 274 371,452,463,483,540,546,548,551, 561,631,632,639,652,700,701,705 خ رتن باغ 32 روس دار السلام 662 دار الضعفاء 82 دار الفضل، قادیان 399 دمشق 64,549,674 دوانیوال ( قادیان کے پاس ایک تکیہ (537 دہلی دلی 29,50,384,435,438,669 142,350,424,579,646,647,710 روم روما 106,128,188,675,678 رومانیہ 142,412 ریونین 200 ز زنجبار، جزیره 416 زیورچ 678 ڈچ گیانا 655,689 ڈنمارک 145,412,561 ساؤتھ افریقہ 145,657 سالٹ پانڈ 662 پین / ہسپانیہ 66,74,91 788
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک.....جلد سوم 92,145,163,168,285,411,412,508, 582-584,626,674,675,696,699,710 شام 62,64,145 اشماریہ ، مقامات سرحد 562 سرگودھا 546,548 157,163,202,212,237,238,243,285, 286,373,398,403,404,407,436,508, 510,541,561,562,646,669,695,710 سعودی عربیہ 62 شاہی قلعہ، دلی 435 سکینڈے نیویا 626 سليس 202 سمالی لینڈ 286 سماٹرا 202 سنده 313,400,421,422,527,531,620 656.673, شملہ 172 شیخوپوره 591 صنعاء 710 سنگاپور 68,434 سوڈان 145,286,378,658 طائف 13,326 سوئٹزرلینڈ 22,66,145,163,168,202 285,411,412,459,626,633,689,702 سویڈن 411,412,561,703 سیالکوٹ 184 سیام 155 سیرالیون 662 سیلون عدن 562 b عراق 62,163,202,212,545,690 عرب 62,145,151,155 145,202,286,373,390,459,653,704 سینٹ لوئیس 157 157,163,166,196,202,237,316,400, 416,490,492,508,550,601,695,710 عرب، ویسٹ 145 غانا 658 789
اشاریہ ، مقامات فارس 710 588 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم فرانس 64,66,145,163,168,183,285, 411,412,417,459,579,596,626,710 فرنچ گیا نا689 کابل 68 کالونی 202 کپورتھلہ 207 کراچی فری ٹاؤن 494 فرینکفورٹ 663,678 169,421,422,441,473,474,488, 489,513,518,523,540,552,573,589 فلپائن کشمیر 22,134,510 145,416,626,631,639,640, 655,673,689,694,695,699-701,710 کلکتہ 274 فلسطين 63,64 98,157,163,188,202,212,404,415 کمپالہ 661,662 کنٹربری 401 کنری 312,313 فن لینڈ 412,703 کوئٹہ 47,95,434,675 ق كولون 639 قادیان دارالامان, 10,21,27 کوہ ہمالیہ 180 32-34,39,40,45,56,64,65,70,72,83- 85,109,119,125,135,157,165,184, 191,192,201,202,207,360,399,459, 460,531,537,551,585-587,591,605 کویت 673 کیپ ٹاؤن 655,657 کیل 663 کینیا 65,202 قاہر 640 قصر خلافت ، ریوه 79 کینیڈا 145,702 790
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم گجرات 531 گلاسکو 652 گو پنجن 640 مدینه منوره 35,85 اشاریہ ، مقامات 121,151,165,186,194,195,235-238, 241-243,327,362-364,403,404,438, 458,459,506,517,617,629,674,709 گوجرانوالہ 222 مڈغاسکر 200 گورداسپور 134,184 گولڈ کوسٹ 202 مری 648 لائبیریا 658 لائل پور (فیصل آباد ) 332,333,546,548,595 لاہور 488,595,701 لبنان 163 لندن النڈن 347,503,508,512 523,563,609,619,657,663,675,683 ليبيا 658 ماریشس 123,125,126,145,199,200,331,704 مالیر کوٹلہ 274 مبارک ، مسجد، قادیان 80,336 مدائن 710 مدراس 331 62,64,145,163,404,460,646,** مکه مکرمه 13,14,85, 105,150-152,165,194,195,235-237, 242,243,326,327,363,392,393,432, 437,438,479,480,506,517,603,674 145,155,163,202,345,626⑈ ممباسہ 661,662 منشن / میونخ 663 فيلا 416 میڈرڈ 675 نائیجیر یا 549 ناروے 412,561,703,710 نبی سر، روڈ ، سندھ 312,313 نجد 432,433 نواں پنڈ ( قادیان کے پاس ایک گاؤں )587 نواں پنڈ (ضلع لاہور میں ایک گاؤں )587 791
اشاریہ ، مقامات نور، مسجد، قادیان 82 نیپلز 678 نیروبی 634,661,662 نیورمبرگ 663 نیوزی لینڈ 695 نیو یارک 463,673 تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد سوم ہنگری 67,142,412,626 ہوشیار پور 184 بیگ 663,668 بیندور 663,678 واشنگٹن 157,158,252 و یا نا 656 ویسٹ انڈیز 68 ومینیس 678 من 710 و یوپی / اتر پردیش 241 یورپ,3,43,45,61,64 168,183,184,265,317,331,378,380, 382,384,390,401,411,412,418,436, 445,459,460,477,503,504,511,515, 516,524,530,540,544,561,562,564, 580-582,596,601,626,632,634,661, 663,673,674,683,688,690,696,699 ہالینڈ ,21,92,145,163 202,285,412,490,548,549,626,668 ہمبرگ 21,66,509,511 612,640,651,663,668,678,690,702 ہندوستان / ہند / بھارت انڈیا یورپ، مغربی 411 یوگنڈا 65,202 یو کو سلاویہ 67,142,412 12,13,21,33,45,46,49,55,62,63,68, 104,107,108,109,134,140,155-157, 192,193,202,232,241,256,299,305, 321,384,390,408,417,418,421,432, 538,626,627,645,646,656,657,710 792 یونان 67,188,412
تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد سوم کتابیات اشاریہ ، کتابیات ابن ہشام (سيرة النبي كامل لابن هشام)556 انجیل (انجیل مقدس )307,501,544 بائبل 161 بخاری 200,505,546 بوستان 677 دیوان غالب 564 قدوری 206 کلیله دمنه (کلیله و دمنه ) 234 کنز ( کنز الدقائق) 206 دعوة الامير 436 دیباچہ تفسیر القرآن 459,504,610,611,612 رپورٹ مجلس شوری (رپورٹ مجلس مشاورت ) 653 سیر روحانی 353 اخبارات ورسائل 152,153,350 الفضل 6,16,19,22 كنز العمال (كنز العمال في منن الأقوال والافعال) 569 گلستان ( گلستان سعدی) 677 متی 544 مثنوی رومی (مثنوی مولوی معنوی) 234 مرقس 544 مسند احمد بن حنبل (مسند امام احمد بن جنبل ) 505 مواهب اللدنيه المواهب اللدنية بالمنح المحمديه) 561 کتب سلسله اسلام کا اقتصادی نظام 66 اسلامی اصول کی فلاسفی 91 تذکرہ 620,690 حقيقة الوحي 172,559,567,569 23,36,42,51,55,58,62,68,75,77,90, 94,99,109,122,126,130,131,133,136, 143,153,159,164,166,176,178,179, 180,196,200,204,215,223,245,256, 258,259,263,265,268,270,277,279, 283,295,302,303,310,312,393,404, 408,409,410,420,425,440,449,452, 455,463,465,471,481,484,487,488, 492,495,499,501,512,519,523,530, 534,538,542,554,565,571,575,577, 584,588,606,621,624,629,638,641, 649,660,664,666,672,676,681,685, 691,697,704,706,708,712,713,716, 793
اشاریہ 721,725,727,729,731,734,735,737 المصلح 320,322,334,343,345,348, 352,354,357,370,376,387 بدر 589 تشحيد الاذهان 532 414 (The Truth) ریویو آف ریلیجنز 178 سن رائز (The Sunrise)178 سنڈے ٹائمنر، لنڈن 683 صدق جدید 705 بینه 629 مصباح 178 794 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد سوم